Silsila Ahmadiyya Vol 2

Silsila Ahmadiyya Vol 2

سلسلہ احمدیہ

جلد دوم 1939 تا 1965
Author: Other Authors

Language: UR

UR
احمدیت یعنی حقیقی اسلام
متفرق کتب

Book Content

Page 1

•**** **· سلسلہ احمدیہ ١٩٣٩ء جلد دوم ۱۹۶۵ء *********

Page 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے خلافت ثانیہ کے چھپیں سال گزرنے پر جماعت احمدیہ کی پچاس سالہ تاریخ کے علاوہ سلسلہ کے مخصوص عقاید.سلسلہ کے قیام کے غرض و غایت اور سلسلہ کے مستقبل کے سیر کن بحث سلسلہ احمدیہ تصنیف فرمائی.اس کتاب کے عرض حال میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں.ایک عرصہ سے میری یہ خواہش تھی کہ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ اور سلسلہ کے مخصوص عقائد اور سلسلہ کی غرض و غایت اور سلسلہ کے مستقبل کے متعلق ایک مختصر مگر جامع رسالہ تصنیف کر کے ہدیہ ناظرین کروں تا کہ یہ رسالہ ان اصحاب کے کام آسکے جو سلسلہ احمدیہ کے متعلق علمی بحثوں میں پڑنے کے بغیر اس کے متعلق عام مگر مستند معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ کیا ہے اور کس غرض و غایت کے ماتحت قائم ہوا ہے اور اس کے مستقبل کے متعلق کیا کیا اُمیدیں وابستہ ہیں.اب جب حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خلافت جو بلی کی خوشی کا موقعہ آیا تو میرے دل کی یہ پرانی آرزو پھر تازہ ہوگئی اور میں نے خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے پورا کرنے کا تہیہ کر لیا.اس عرصہ میں مجھے یہ معلوم کر کے اور بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ خود حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا بھی ارادہ تھا جیسا کہ آپ نے سیرت مسیح موعودؓ کی تمہید میں لکھا ہے کہ اس قسم کا رسالہ تصنیف کر کے شائع فرما ئیں مگر دوسری اہم مصروفیتوں کی وجہ سے حضور کو فرصت

Page 3

نہیں مل سکی گویا میری یہ ناچیز کوشش حضور کے اس مبارک ارادہ کو بھی ایک حد تک 66 پورا کرنے والی ہے.“ اس کتاب کی اشاعت کے 69 سال بعد سال 2008ء میں خلافت احمدیہ پر پورے ایک سوسال ہو رہے ہیں (1908--2008) اس مبارک موقعہ پر جماعت احمد یہ عالمگیر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے ساری دنیا میں خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی منارہی ہے.مرکزی کمیٹی نے یہ طے کیا ہے کہ اس موقعہ کی مناسبت سے سلسلہ احمدیہ کی طرز پر اگلے 69 سال کی جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ اور دنیا کے مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی تبلیغی مہمات مساجد کی تعمیر.قرآن کریم کے تراجم اور نسبتاً پس ماندہ ممالک میں تعلیمی اور طبی مراکز کے قیام کی مختصر تاریخ مرتب کی جائے.مئی ۲۰۰۸ء

Page 4

صفحه ۳۹ ۴۱ 3 ۴۲ ۴۳ ۴۵ ۴۶ R ۴۷ ۵۵ ۵۶ ۶۱ ۶۶ ۶۸ اے ۷۲ ۷۴ فہرست مضامین سلسلہ احمدیہ جلد دوم صفحہ مضمون سیلون (سری لنکا) جاپان ہانگ کانگ اور سنگا پورمشن عالمی منظر میں تبدیلیاں اور دوسری جنگ عظیم البانیہ پر قبضہ دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہندوستان میں فوجی بھرتی اور حضور کا ارشاد مستقبل کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کا بیان فرموده تجزیه سوویت یونین کا پولینڈ پر حملہ اور حضرت مصلح موعودؓ کا تجزیہ جلسہ یوم پیشوایان مذاہب کا آغاز خلافت جو بلی ۱۹۳۹ء لوائے احمدیت کی تیاری انعقاد جلسہ خلافت جو بلی جوبلی تقریبات تیسرے اور چوتھے روز مسئلہ خلافت پر حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر منفی رجحانات سے بچنے کی تلقین 1 ۱۵ ۱۵ ۱۷ ۱۹ ۲۰ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۶ ۲۶ ۲۹ ۳۱ ۳۴ ۳۵ ۳۷ ۳۸ مضمون حرف آغاز برطانوی مشرقی افریقہ میں جماعت کا قیام ۱۹۳۹ء میں جماعت احمدیہ کی ترقی کا عالمی منظر برطانیہ ہنگری پولینڈ البانيه یوگوسلاویہ اٹلی امریکہ ارجنٹائن نائیجیریا سیرالیون غانا ( گولڈ کوسٹ ) ماریشس بلاد عربیه انڈونیشیا برما

Page 5

صفحہ ۱۲۷ ۱۱۳ ۱۱۳ ۱۳۸ ۱۳۸ ۱۴۰ مضمون مجلس انصار اللہ کا قیام جماعت کا نظام افتاء تفسیر کبیر کی اشاعت دعوی مصلح موعود ہوشیار پور لاہور لدھیانہ اور دہلی میں حضرت مصلح موعودؓ کے جلسے صفحہ ۸۰ ۸۵ ۹۴ مضمون ہیروشیما اور ناگا سا کی کی تباہی پر حضور کی طرف سے اس کی مذمت ہندوستان میں انتخابات کا اعلان اور مسلم لیگ کی حمایت کا فیصلہ بنیادی سوالات سے گریز کا انجام برصغیر میں انتخابات، ہندوستان کی آزادی دعوی مصلح موعود کے بعد مختلف تحاریک ۱۰۹ اور خاندان حضرت مسیح موعود کو وقف کی تحریک وقف جائیداد کی تحریک وقف زندگی کی تحریک 1+9 اور تقسیم، داغ ہجرت پنجاب میں انتخابات کے متعلق حضرت مصلح موعود کا فیصلہ کرپس (Crips) مشن کی ناکامی فسادات کا آغا ز اور جماعت احمدیہ کی خدمات ۱۴۵ حضور کا سفر دہلی اور مفاہمت کی کوششیں ۱۴۷ کشیدگی میں اضافہ ۱۵۰ تقسیم پنجاب کی تجویز ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۱۵ ۱۱۵ ۱۱۵ ۱۵۹ 170 ہندو اور مسلمانوں کے درمیان صلح کی خواہش ممکنہ بحران کی تیاری پنجاب کی تقسیم پر احتجاج ہندوؤں اور سکھوں کی حفاظت کرنے ۱۱۲ ۱۱۴ ۱۱۴ ۱۱۴ 117 // ۱۱۷ ۱۱۸ ۱۱۹ کمیونسٹ نظریات کے مطالعہ کی تحریک نئے مشنوں کا قیام فرانس بور مینو سپین سوئٹزرلینڈ ہالینڈ عدن ترجمہ و تفسیر قرآن انگریزی کی اشاعت دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ اور ہندوستان میں کا اعلان انتخابات کی تیاری ویول سکیم اور حضور کی نصیحت ۱۲۳ ۱۲۵ باؤنڈری کمیشن کی تشکیل باؤنڈری کمیشن کے لئے تیاری

Page 6

مضمون جماعتی عہد یداروں کی گرفتاریاں قادیان کا محاصرہ حکومتی اداروں سے اپیل صفحه ٢٠٣ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۰۸ ۲۱۱ MM ۲۱۶ ۲۱۷ ۲۱۹ ۲۲۲ ۲۲۳ ۲۲۵ ۲۲۶ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۳۴ قادیان پر بڑے حملے کی تیاری قادیان پر بڑا حملہ حکومت کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے قادیان کے مسلمانوں کی حفاظت، پنڈت نہرو کا برقیہ حالات بدلنا شروع ہوتے ہیں صفحہ ۱۶۲ ܬܪܙ ۱۶۷ ۱۷۲ ۱۷۴ 127 ۱۸۰ ۱۸۱ مضمون باؤنڈری کمیشن کی کاروائی شروع ہوتی ہے کا روائی محض ڈھونگ ثابت ہوئی کمیشن میں جماعت کا اصولی موقف تشویشناک اطلاعات باؤنڈری کمیشن کے فیصلے کا اعلان، ایک عظیم ابتلاء فسادات کی آگ اخلاقی قدروں کی حفاظت قادیان سے حضرت مصلح موعودؓ کی ہجرت قیام لاہور، آزمائشوں کا طوفان ۱۸۵ | قادیان میں دور درویشی کا آغاز قیام لاہور کے ابتدائی ایام، نظام جماعت تقسیم ملک کے بعد پہلا جلسہ سالانہ کا احیاء ۱۸۶ قادیان میں محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی خدمات کا آغاز مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے قانونی کوششیں قادیان کے گھر آباد ہوتے ہیں IAZ ۱۸۸ ۱۸۹ لاہور میں پہلی مجلس مشاورت لا ہور کی جماعت کو نصیحت الفضل کا اجراء اور مہاجرین کی امداد کے اقدامات پاکستان میں جماعت کے تعلیمی اداروں کا اجراء پاکستان کا پہلا جلسہ سالانہ ۱۹۲ ۱۹۴ قادیان میں ۱۹۴۹ء کا جلسہ سالانہ ہندوستان میں الفضل پر پابندی اور دونوں ممالک کے لئے حضور کا پیغام قادیان خطرات کے گھیرے میں ۱۹۷ ربوہ آباد کیا جاتا ہے نیا مرکز آباد کرنے کا فیصلہ چک ڈھگیاں کی زمین کی تجویز ۱۹۸ ۲۰۰ پناہ گزینوں کا ہجوم بچوں اور عورتوں کا انخلاء

Page 7

زمین کا حصول مخالفین کا شور مضمون نئے مرکز کی منصوبہ بندی نئے مرکز کا نام ربوہ کا افتتاح صفحہ ۲۳۵ ۲۳۶ ۲۳۹ ۲۴۱ ۲۴۲ مضمون دوسری جنگ عظیم سے قبل کے حالات صفحه ٢٨٢ فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش ہوتا ہے ۲۸۵ ایڈ ہاک کمیٹی کام شروع کرتی ہے ایڈ ہاک کمیٹی میں رائے شماری ہوتی ہے ۲۸۶ ۲۹۱ ۲۹۴ ۲۹۹ ۳۰۴ قرار داد جنرل اسمبلی میں پیش ہوتی ہے جنرل اسمبلی میں رائے شماری ملتوی کرائی جاتی ہے ۲۸ نومبر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان ۲۴۳ ۲۴۴ ۲۴۶ دفاتر کی منتقلی ربوہ کا پہلا جلسہ سالانہ کچے مکانات کی تعمیر حضرت مصلح موعود کی مستقل تشریف آوری ۲۴۷ صاحب کا خطاب مخالفین کا حسد تبلیغ اسلام کے نئے میدان جرمنی سکاٹ لینڈ اردن مسقط ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹو بیگو ۲۴۸ ۲۵۱ ۲۵۲ رائے شماری ہوتی ہے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب عرب ۳۱۳ حکومتوں کو صورتِ حال سے مطلع کرتے ہیں ۲۱۳ حضرت مصلح موعوددؓ کا تجزیہ ۲۵۳ ریاستوں کا الحاق اور کشمیر کا المیہ // ۲۵۴ کشمیر کی متوازی حکومت ریاستوں کے مسئلے پر حضرت مصلح موعود حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ۲۵۶ کا بیان قیام پاکستان کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے لیکچر ۲۵۹ مہا راجہ ہندوستان سے الحاق کا اعلان غیر ملکی قرضے نہ لینے کی نصیحت پاکستان میں اسلامی آئین فلسطین کا المیہ اور جماعت احمدیہ تاریخی پس منظر ۲۵۹ ۲۶۱ ۲۷۹ ง : ۲۸۰ کرتا ہے جونا گڑھ پر ہندوستان کا حملہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پاکستانی خارجہ پالیسی کی زبوں حالی ۳۱۶ ۳۲۴ ۳۲ ۳۳۱ ۳۳۳ ۳۳۵ ٣٣٣ ۳۳۸

Page 8

مضمون حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ بنتے ہیں صفحہ ۳۳۹ مضمون کراچی میں جماعت احمدیہ کا جلسہ اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب صفحہ ۳۹۲ ۳۹ ۳۹ ۳۹۵ ۳۹۸ ۴۰۰ ۴۰۲ ۴۰۳ ۴۰۵ ۴۰۶ ۴۰۸ ۴۱۴ ۴۱۷ ۴۱۹ ۴۲۱ ۴۲۴ ۴۲۵ ۴۲۷ سلامتی کونسل کے اجلاس کا آغاز فرقان بٹالین ۳۴۰ ۳۵۲ اقوام متحدہ کے مستقبل کے متعلق حضور کا ارشاد ۳۵۸ ۱۹۵۳ء کے فسادات اور اُن کا پس منظر مولویوں اور مسلم لیگ کا تنازع ٣٦٦ مسلم لیگ کی کامیابی مولویوں کا نصب العین سیاسی اقتدار احرار رنگ بدلتے ہیں ۳۷ ง ง کی تقریر بیرونی ہاتھ بہتر فرقے اکٹھے ہوتے ہیں پنجاب حکومت مفسدوں کی اعانت کرتی ہے بعض لیڈروں کی شرافت، وزیر اعظم کی ۱۴ اگست کی تقریر دولتانہ صاحب کی بیان بازی مخالفت کا رخ وزیر اعظم کی طرف ہوتا ہے جماعت احمدیہ کے خلاف زہرا گلا جاتا ہے ۳۷۵ ڈائرکٹ ایکشن کی دھمکی احمدیوں کو قتل کرنے کی تحریک ٣٧٨ الفضل پر پابندی اور حضور کا پیغام خواجہ حسن نظامی کا انتباہ اپنی کامیابیوں کے جھوٹے دعوے اور سیاست میں واپسی احمدیوں کی تبلیغ پر پابندی لگانے کا مطالبہ دعاؤں کی تحریک پنجاب مسلم لیگ کے اراکین کی مخالفت احرار کا جھوٹا پروپیگنڈا مخالفت کے لئے اخبارا اور علماء خریدے ۳۸۰ ۳۸۱ ۳۸۲ ۳۸۷ مفسدین کی گرفتاریاں پنجاب میں شدید فسادات کا آغاز ۵/ مارچ کا المناک دن ۶ / مارچ کا فیصلہ کن دن مارشل لاء کے نفاذ کے بعد حضور کا اہم پیغام ۳۸۸ فسادت دشمن کی مدد سے بر پاکئے گئے، وزیر اعظم کا اعلان حکومت کی طرف سے احمدیوں پر مظالم فساد شروع کرنے والوں کا انجام ۳۸۹ ۳۹۰ جاتے ہیں فرقہ واریت کا دائرہ پھیلنا شروع ہوتا ہے

Page 9

مضمون پاکستان پرشورش کے اثرات صفحہ ۴۲۸ مضمون فتنے کے المناک نتائج صفحه ۴۹۱ ہمیں کچھ کہیں نہیں بھا ئیو نصیحت ہے غریبانہ ۴۳۰ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور مزید فتنوں کی پیشگوئی ۴۹۲ سواحیلی ترجمه قرآن حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ حملہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی پر بیماری کا حملہ ۴۳۵ ۴۳۹ ۴۹۴ ۴۹۹ ۵۰۲ ۱۹۵۶ء کے فتنہ کا پس منظر فتنہ سراٹھاتا ہے فتنہ بے نقاب کیا جاتا ہے بیرونی مددگاروں میں سے کچھ سامنے آتے ہیں ۵۱۰ مفسدین کی مایوسی ، ایک اور زہریلا وار ۵۲۳ قواعد انتخاب خلافت ۵۳۰ دونئے مشنوں کا قیام لائبیریا میں مشن کا قیام ۵۴۰ ۵۴۰ سکینڈے نیویا میں مشن کا قیام ۵۴ وقف جدید کا آغاز ۵۴۸ تفسیر صغیر کی اشاعت ۵۵ حضرت مصلح موعود کی بیماری میں شدت ۵۵۸ گیمبیا مشن کا قیام ۵۶۲ فنی میں مشن کا قیام ۵۷۰ ۵۷۲ ۵۷۴ ۵۷۸ ۴۵۷ ۴۵۹ ۴۶۰ ۴۶۲ ۴۶۶ ۴۶۸ ۴۷۲ ۴۷۴ اور دورہ یورپ ربوہ سے روانگی بنگال میں چند معترضین کی طرف سے فتنہ مخالف اخبارات کی فتنہ پردازی کراچی سے یورپ کے لیے روانگی شام میں قیام سوئٹزرلینڈ میں ورود مسعود کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق خطبات یورپ کے دیگر مقامات کا سفر حضور کی انگلستان آمد مخالفین کی مایوسی خطبہ عیدا ورلندن میں آخری ایام وطن واپسی ایک فتنہ کی ناکامی نظام خلافت کے خلاف فتنوں کا تاریخی پس منظر ۴۸۰ ۴۸۱ ۴۸۴ ۴۸۶ افریقہ میں جماعت کی طبی اور تعلیمی خدمات کا آغاز آئیوری کوسٹ میں جماعت کا قیام فرنچ گنی میں مشن کھولنے کی کوشش ۴۸۷ | ٹوگو میں جماعت کا قیام

Page 10

صفحه ۶۶۸ ۶۷۰ ۶۷۳ ۶۷۵ ۶۸۲ L مضمون نگران بورڈ کا قیام صفحہ ۵۷۹ سپین مضمون ماریشس برما انڈونیشیا ملائیشیا سیلون (سری لنکا) ΟΛΙ ۵۸۷ وفات حضرت مرزا شریف احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب پر پابندی اور ان احکامات کی منسوخی وفات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ۵۹۵ ۶۸۴ مکرم عمری عبیدی صاحب کی وفات ۶۰۱ ۱۹۴۰ء اور ۱۹۶۵ء کے درمیان مصر جماعت کے مشنوں کی تاریخ سیرالیون بلا دعر بیه فلسطین وشام سور بینام ۶۸۵ ۶۸۸ ۶۸۹ ۲۰۵ وفات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۶۹۱ گولڈ کوسٹ (غانا) ۶۱۹ انتخاب خلافت ثالثه ۶۹۶ نائیجیریا ۶۲۸ خوف کی حالت امن میں بدلی جاتی ہے ۴۹۶ مشرقی افریقہ جنوبی افریقہ ۶۳۷ غسل، تجہیز وتکفین اور چہرہ مبارک کی ۶۴۷ آخری زیارت ۶۹۹ 2+9 ۶۴۸ ۶۵۲ اجلاس مجلس انتخاب خلافت جنازہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ۶۶۳ | حضرت خلیفہ امسح الثالث کا پہلا خطبہ جمعہ امریکہ انگلستان مشن جرمنی

Page 11

1 بدالله الحالي اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ الہی سلسلوں کی مخالفت ضرور ہوتی ہے اور بدخواہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں مگر بالآخر وہ نا کام ہوتے ہیں.چنانچہ جماعت کی مخالفت میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا.کفر کے فتوے تیار کئے گئے.استہزاء کیا گیا.جب اس سے بھی کچھ نہ بنا تو جھوٹے مقدمات بنائے گئے مگر اللہ تعالیٰ کا قوی ہاتھ اپنے مامور کی حفاظت کرتا رہا.سب معاندین نے آپس میں اختلافات بھلا کر مشتر کہ زور لگایا مگر پھر بھی ناکام رہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو اس ناکام گروہ نے سکھ کا سانس لیا کہ اب تو اس سلسلے کا خاتمہ ہونا یقینی ہے مگراللہ تعالیٰ کے وعدے بچے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو دوام بخشنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جماعت میں خلافت کا نظام قائم فرمایا اور خدا نے قدرتِ ثانیہ کے ذریعہ اپنے لگائے ہوئے پودے کی حفاظت فرمائی.بہت سے اندرونی فتنے طوفان کی طرح اٹھے اور گرد کی طرح بیٹھ گئے وہ خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کا کچھ نہ بگاڑ سکے.پھر احرار نے ایک طوفانِ بدتمیزی اٹھایا.کچھ انگریز افسران کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے.مگر ۱۹۳۹ء میں وہ بھی جھاگ کی طرح بیٹھتے نظر آرہے تھے.ان کا زور ٹوٹ چکا تھا.دوسری طرف جماعت نہ صرف ہندوستان میں ترقی کر رہی تھی بلکہ اب برصغیر سے باہر بھی بہت سے ممالک میں ہزاروں سعید روحیں احمدیت کے دامن میں پناہ لے رہی تھیں.انگلستان اور یورپ میں مشن قائم ہو چکے تھے.امریکہ میں جماعت قائم ہو گئی تھی.مغربی افریقہ میں احمدیت تیزی سے پھیل رہی تھی.جاوا اور سماٹرا میں بہت سے لوگ صداقت کو قبول کر چکے تھے.نامساعد حالات کے باوجود مبلغین جنوبی امریکہ ، چین ، سنگا پور

Page 12

2 اور مشرقی یورپ میں اپنے فرائض ادا کر رہے تھے.یقیناً دنیا کی نظریں آج بھی جماعت احمد یہ کو حقیر سمجھ رہی تھیں اور وہ اسے ایک کمزور گروہ خیال کر رہے تھے.مگر خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا بڑھ رہا تھا اور مضبوط ہو رہا تھا.اس کی شاخیں ہر طرف پھیل رہی تھیں.۱۹۳۹ء کا سال جماعت احمد یہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس سال جماعت کے قیام پر پچاس سال مکمل ہو رہے تھے.نیز حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خلافت کے چھپیں سال مکمل ہونے پر خلافت جو بلی منانے کے ایام قریب آرہے تھے.اسی سال حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جماعتی تاریخ کی مختصر کتاب کو تحریر فرمایا اور اس میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندانی پس منظر، دعاوی اور تعلیمات کا مختصر ذکر کرنے کے بعد ۱۹۳۹ ء تک جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ رقم فرمائی.اس سال جو بلی جلسے سے قبل یہ کتاب شائع ہو کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی.ہم اس مضمون کو وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ختم فرمایا تھا.سب سے پہلے ہم ایک نئے خطے یعنی مشرقی افریقہ میں جماعت کے آغاز اور مشن کے قیام اور تبلیغی مساعی کا جائزہ لیتے ہیں.اور اس کے بعد دنیا بھر میں جاری تبلیغی مساعی اور ان کے ثمرات کا مختصراً جائزہ لیں گے.

Page 13

3 برطانوی مشرقی افریقہ میں جماعت کا قیام اس خطے میں کینیا ، یوگنڈا اور تنزانیہ کے ممالک آتے ہیں.ہم جس دور کا ذکر کر رہے ہیں ،اس میں آج کا تنزانیہ، زنجبار کی سلطنت اور ٹانگا نیکا کے علاقے میں منقسم تھا جو بعد میں مل کر ایک ملک بن گیا.اس دور میں یہ علاقہ برطانیہ کے زیر تسلط ہونے کی وجہ سے برطانوی مشرقی افریقہ کہلاتا تھا.ابتداء میں اس علاقے میں مختلف قبائل آباد تھے اور یہ قبائل مختلف دیوتاؤں کو مانتے تھے.(۱) پہلی صدی ہجری میں مسلمان یہاں کے ساحلی علاقوں میں آباد ہونا شروع ہو گئے.سب سے پہلے عمان سے ایک قبیلہ کے لوگ یہاں آئے ، جن کا تعلق ابازی فرقہ سے تھا جو خوارج کی ایک شاخ ہے.پھر عمان سے ہی شافعی مسلک کے کچھ لوگ مشرقی افریقہ آئے اور اندرونی علاقے میں آباد ہوئے.اور اس کے بعد شیراز کے شاہی خاندان کے ایک فردحسن بن علی کی قیادت میں ایک گروہ سات جہازوں کے بیڑے میں یہاں آیا.یہ لوگ شیعہ تھے.انہوں نے ساحل کے ساتھ چھوٹے چھوٹے جزائر میں رہائش اختیار کی.ان لوگوں نے مقامی لوگوں میں شادیاں کیں اور ان کی اولا دکو سواحیلی کہا جانے لگا.پھر مقامی لوگ بھی مسلمان ہونے لگے اور مشرقی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں اسلام پھیلنے لگا.عرب نسل کے لوگوں کی بڑی تعدا دا بازی فرقے سے وابستہ تھی.زنجبارا بازیوں کا بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا اور ان کا سلطان بھی ابازی تھا.مگر مقامی مسلمانوں کی اکثریت شافعی تھی.مسلمانوں نے چار پانچ سوسال مشرقی افریقہ کے ساحلی علاقوں پر حکومت کی مگر اندرونی علاقوں کی آبادی کو اسلام کی تبلیغ کرنے کی کوئی خاص کوشش نہ کی.اور یہ وسیع علاقہ اسلام کی نعمت سے محروم رہا (۲).انیسویں صدی کے آغاز اور وسط میں زنجبار کے شاہی خاندان کے کاروباری روابط یوگنڈا، روانڈا اور برونڈی تک تھے.انہوں نے اسلام کی تعلیم کے خلاف غلاموں کی تجارت تو کی مگر اسلام کی تبلیغ پر کوئی توجہ نہ دی.انیسویں صدی کے پہلے پچاس سال میں ابازی حکمران سعید بن سلطان مسقط اور زنجبار دونوں پر حکومت کر رہے تھے.مگر اس خطے میں یوروپی اقوام کا تسلط شروع ہو چکا تھا.اس پس منظر میں 1844ء میں چرچ مشنری سوسائیٹی نے اپنے مشنری Dr.Krapf کومشرقی

Page 14

4 افریقہ بھجوایا.اس علاقے کے با اثر مسلمانوں اور زنجبار کے بادشاہ سعید بن سلطان نے اسلام کی تبلیغ کے لئے تو کچھ نہیں کیا تھا البتہ عیسائی مشنری سے بھر پور تعاون کیا.اس بادشاہ نے گورنروں کے نام ایک فرمان جاری کیا کہ یہ مشنری ایک اچھا شخص ہے اور لوگوں کو خدا کی طرف بلا رہا ہے.اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور ہر ممکن سہولت مہیا کی جائے.اس طرح ممباسہ کے قریب رہائی (Rabai) کے مقام پر پہلا عیسائی مشن قائم ہوا اور بعد میں وہاں سکول بھی کھولا گیا.اس کے بعد یوروپی اقوام کا تسلط بڑھتا رہا اور مسلمانوں کی سیاسی قوت سکڑتی رہی.مختلف عیسائی مشنری اداروں کے بہت سے مشنری مشرقی افریقہ آنا شروع ہوئے.انہوں نے یوگنڈا اور دوسرے اندرونی علاقوں میں یہ پروپیگینڈا شروع کر دیا کہ اسلام آزاد انسانوں کو پکڑ کر غلام بنانے کو جائز قرار دیتا ہے اور ہم سب انسانوں کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں.مسلمان اپنی کم علمی اور زبوں حالی کے باعث اس یلغار کا مقابلہ نہ کر سکے.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی رو سے ایک آزاد شخص کو پکڑ کر غلام بنانا اتنا بڑا گناہ ہے کہ حدیث کی رو سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے ظالم سے جنگ کرے گا اور وہ اگر نمازیں بھی پڑھے گا تو اس کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی (۴۳).اور اگر غلام چاہے تو مکاتبت کے ذریعہ اپنی آزادی حاصل کر سکتا ہے اور زکوۃ کے مال سے اس کی مدد کی جائے گی (۲۵).نبی اکرم ﷺ نے تو صرف ایک طمانچہ مارنے پر غلام کو آزاد کرنے کا حکم جاری فرما دیا تھا (۷).جبکہ بائیل کے قانون کی رو سے کوئی اپنے غلام کو مارے اور ان چوٹوں سے دو تین دن بعد اگر اس غلام کی موت ہو جائے تو اس قاتل مالک پر کوئی گرفت نہیں ہوگی کیونکہ وہ غلام اس کی ملکیت تھا (۹،۸).اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یورپ کی عیسائی اقوام نے جتنی بڑی تعداد میں افریقہ کے آزاد باشندوں کو پکڑ کر غلام بنایا ہے، کسی اور قوم میں اس کی مثال نہیں ملتی ۱۶۰۰ ء تک نو لاکھ غلام صرف امریکہ پہنچائے جاچکے تھے.سترہویں صدی میں یہ تعداد ستر لاکھ ہوگئی اور اٹھارہویں صدی کے دوران چالیس لاکھ اشخاص کو غلام بنا کر امریکہ بھجوایا گیا.ان اعداد وشمار میں وہ تعدا شامل نہیں جو دوسرے علاقوں کی طرف بھیجے گئے تھے (۱۰) مگر اسلام کے خلاف غلط پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا اور اندرونی علاقوں کے بہت سے قبائل مکمل حقائق نہیں جانتے تھے، اس لیے اس پرا پیگنڈا سے متاثر ہو جاتے تھے.ان عیسائی مشنریوں کا طریق یہ تھا کہ کچھ غلاموں کو آزاد کرتے اور اپنا مبلغ بنا کر بھجواتے.وہ

Page 15

5 قبائل جو ابھی تک اپنے قبائلی عقائد کے پیروکار تھے بڑی تعداد میں عیسائی ہو گئے.اور مشرقی افریقہ میں عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں سے بہت بڑھ گئی.لیکن اس کے باوجود یہ بات دلچسپ ہے کہ مغربی مصنفین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یوروپی اقوام کے تسلط کے دوران بھی باوجود اس کے کہ اس وقت اسلام کی تبلیغ کی کوئی منظم کوشش نہیں ہو رہی تھی ، ایک معقول تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا اور بعض عیسائی بھی مسلمان ہوئے.(۱۲۱۱) مگر مجموعی طور پر عیسائیوں کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی اور وہ اثر ورسوخ اور تعلیم میں بھی آگے نکلتے جارہے تھے اور ان کے مقابل پر مسلمان دن بدن کمزور ہوتے جا رہے تھے.اور اس وقت تمام دنیا کی طرح مشرقی افریقہ میں بھی اسلام طرح طرح کے خطرات میں گھرا ہوا تھا.یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے روحانی فرزند کا ظہور ہوا اور تبلیغ اسلام کے جہاد کا نئے سرے سے آغاز ہوا.اس خطے میں احمدیت کا پیغام حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی پہنچ گیا تھا.سب سے پہلے احمدی جنہوں نے مشرقی افریقہ کے ساحل پر قدم رکھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں محمد افضل صاحب تھے.آپ ایک بحری جہاز SS Sindhia کے ذریعے ۱۸۹۶ء کے شروع میں ممباسہ پہنچے اور تقریباً تین برس مشرقی افریقہ میں قیام کیا اور پھر ہندوستان واپس آکر اخبار بدر جاری کیا.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی آمد سے پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور سلسلے کے بعض اخبارات اس علاقے میں پہنچ چکے تھے.ان دنوں کینیا یوگنڈا ریلوے کا کام شروع تھا اور ہندوستان سے بہت سے مزدور کلرک ڈاکٹر اور دوکاندار یہاں روزگار کے لئے آرہے تھے.حضرت میاں محمد افضل صاحب نے ہندوستانیوں میں تبلیغ کا کام شروع کیا.ان کی تبلیغی کاوش کو پھل لگنے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب جو حضرت حافظ روشن علی صاحب کے بڑے بھائی تھے احمدی ہو گئے.ڈاکٹر صاحب بہت پر جوش داعی الی اللہ تھے.آپ جس دن تبلیغ نہ کرتے آپ کو چین نہ آتا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی کوششوں کو ثمر آور کیا اور کئی پنجابی اور ہندوستانی احباب جماعت میں شامل ہونے لگے.ان کے علاوہ بعض اور احمدی احباب بھی ہندوستان سے اس علاقے میں آگئے.اس طرح حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی ممباسہ اور نیروبی

Page 16

6 میں جماعتیں قائم ہو گئیں.یہاں جماعت کی پہلی مسجد ممباسہ میں کلنڈنی کے مقام پر چھپروں کی بنائی گئی تھی.یوگنڈا کے علاقے میں سب سے پہلے جہلم کے رہنے والے دو اشخاص احمدی ہوئے تھے، پھر وہ یہاں سے بجین کونگو چلے گئے.اس کے بعد ان کے حالات کا علم نہیں ہوا.پھر خلافت اولیٰ کے اواخر میں یا خلافت ثانیہ کے شروع میں یہاں ہندوستان سے آئے ہوئے کچھ احمدی آباد ہوئے.ٹانگا نیکا کا علاقہ ۱۹۱۹ء تک جرمنی کے تسلط میں تھا اور پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد یہ علاقہ برطانیہ کے تسلط میں آ گیا.اس کے بعد خلافت ثانیہ میں یہاں جماعت کا قیام عمل میں آیا.اور دار السلام ہو را اور دوسرے مقامات پر ہندوستانی احمدیوں کی جماعتیں قائم ہوئیں.(۱۵،۱۴،۱۳) مگر اب تک اس علاقے کی جماعتیں ہندوستان سے آئے ہوئے احمدیوں پر مشتمل تھیں اور مقامی لوگ جماعت میں شامل ہونا شروع نہیں ہوئے تھے.گو اس وقت یہاں پر با قاعدہ مشن قائم نہیں ہوا تھا ، تاہم باقاعدہ نظام جماعت جاری ہو گیا تھا اور احمدی احباب احمدیت کی تبلیغ کے لئے کوششیں کرنے کے علاوہ مالی قربانیوں میں بھی حصہ لے رہے تھے.۱۹۲۳ء میں جماعت احمد یہ نیروبی نے پندرہ روزہ البلاغ جاری کیا (۱۶).نیروبی کے مقام پر احمدیوں نے خوبصورت مسجد تعمیر کی جو ۱۹۳۱ء میں مکمل ہوئی.اس کے بعد نیروبی سے دو سو میل ایک قصبہ میرو میں ایک مخلص احمدی کے چندے سے احمدیہ مسجد تعمیر کی گئی.(۱۷).غیر احمدیوں کی طرف سے جماعت کے خلاف گندے اشتہارات شائع کئے جاتے تھے.ان کا جواب دینے کے لئے نیروبی جماعت نے ایک پرانی لیتھو ہینڈ مشین کو قابلِ استعمال بنا کر اشتہارات شائع کرنے شروع کئے.جب تبلیغ احمدیت کا دائرہ وسیع ہوا تو مخالفین احمدیت نے اشتعال میں آکر انجمن حمایت اسلام کے نام سے اپنی انجمن بنائی اور مشرقی افریقہ کے مختلف مقامات پر اس کی شاخیں قائم کیں اور جماعت کے خلاف گندہ ۹ پروپیگنڈا شروع کر دیا.اس انجمن کا بانی مبانی اور پریذیڈنٹ سید احمد الحداد نام کا ایک با اثر اور امیر شخص تھا.۱۹۳۴ء کے وسط میں مخالفین نے جماعت احمد یہ نیروبی کو مباہلہ کا چیلنج دیا.جماعت کے نمائیندگان مباہلہ کی شرائط طے کرنے کے لئے گئے اور واضح کیا کہ وہ اپنے امام کی اجازت ملنے ا پر مباہلہ کے لئے تیار ہیں.غیر احمدیوں نے یہ سن کر کہ احمدی اپنے امام کی اجازت کے بغیر مباہلہ

Page 17

7 کے لئے تیار نہیں ہوں گے، یہ اشتہار بازی شروع کر دی کہ احمدی مباہلہ سے فرار ہو گئے ہیں.ابھی یہ شور شرابہ جاری تھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی طرف سے اجازت کی تار آ گئی.جماعت نیروبی نے مباہلہ کے نام سے اشتہار شائع کر کے شہر کی تمام مساجد میں تقسیم کر دیا کہ مخالف مقابل پر آئیں اور مباہلہ کر لیں.یہ سن کر معاندینِ احمدیت کو سانپ سونگھ گیا اور کسی کو سامنے آنے کی جرات نہیں ہوئی.جماعت نے ایک اشتہار آسمانی نصرت کا تازہ نشان شائع کر کے اس روحانی معر کے میں جماعت کی فتح کا اعلان کیا (۱۸) مگر نیروبی میں مخالفین کی طرف سے مخالفت کا طوفان جاری رہا.جماعت کی طرف سے مناظرے کا چیلنج دیا گیا.اس پر انجمن حمایت اسلام نے احمدیت کی مخالفت کے لئے ہندوستان سے مناظر منگوانے کا فیصلہ کیا.اور ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار کی وساطت سے جماعت کے ایک دریدہ دہن مخالف لال حسین اختر کو مشرقی افریقہ بلا یا گیا.(۲۰،۱۹) اس صورتِ حال میں جماعت نیروبی نے حضرت خلیفہ اُسیح الثانی کی خدمت میں مبلغ بھیجوانے کی درخواست بھجوائی.حضور نے اسے قبول فرماتے ہوئے مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کو مشرقی افریقہ بھجوایا تا کہ اس خطے میں با قاعدہ دار التبلیغ قائم کیا جائے.چنانچہ شیخ صاحب ۲۳ نومبر ۱۹۳۵ء کو ممباسہ پہنچ گئے.غیر مسلم مؤرخین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس خطے میں مسلمانوں کا پہلا تبلیغی مشن جماعت احمدیہ کی طرف سے قائم کیا گیا تھا ورنہ اس سے قبل اس طرز پر صرف عیسائی مبلغین ہی کام کر رہے تھے.(۲۱) انجمن حمایت اسلام تو پادریوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے صرف احمدیت کے خلاف دریدہ دینی میں مصروف تھی.مشرقی افریقہ میں دار التبلیغ کے قیام کا مقصد صرف اس مخالف انجمن کا مقابلہ کرنا نہیں تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے بعض اور اہم ہدایات کے ساتھ شیخ مبارک احمد صاحب کو مشرقی افریقہ روانہ فرمایا تھا.اب تک یہاں کی جماعت صرف ہندوستان سے آئے ہوئے افراد پر مشتمل تھی.یہاں کے اصل باشندوں میں ابھی احمدیت پھیلنی شروع نہیں ہوئی تھی.حضور کی ہدایت تھی کہ یہاں کے اصل باشندوں میں کام شروع کیا جائے کیونکہ یہاں جماعت کو حقیقی استحکام تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب یہاں کے اصل باشندوں پر مشتمل جماعت تیار ہو جائے..(۲۲) بہر حال شیخ صاحب کی آمد کے بعد فوری مسئلہ اس فتنے کا سدِ باب کرنا تھا

Page 18

جوانجمن حمایت اسلام کی طرف سے برپا کیا جارہا تھا.مولوی لال حسین اختر صاحب نے نیروبی میں جماعت کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا.۱۹۳۵ء کے شروع میں سر علی مسلم کلب کے میدان میں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اور لال حسین اختر صاحب کے درمیان مناظرہ ہوا.غیر احمدیوں کے مناظر کی علمی سطح اسی سے ظاہر ہوتی ہے کہ مناظرہ سے قبل جب شرائط طے ہو رہی تھیں تو مولوی لال حسین اختر صاحب نے یہ شرط پیش کی کہ مناظرہ میں ہر پیش کردہ اقتباس کا حوالہ دینا ضروری نہیں ہونا چاہیے (۲۳) مسلم اور غیر مسلم احباب کی ایک بڑی تعدا داس کو سننے آئی ہوئی تھی.نقض امن کے اندیشے کے پیش نظر پولیس کے اہلکار، افسران اور گھوڑ سوار پولیس ارد گرد چکر لگا رہی تھی.مناظرہ حیات و وفات مسیح کی بحث سے شروع ہوا.غیر احمدی مناظر کی افتاد طبع کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حیات مسیح کی پہلی دلیل انہوں نے یہ دی کہ چونکہ محمدی بیگم سے نکاح نہیں ہوا لہذا ثابت ہوا کہ آنے والا آسمان پر زندہ موجود ہے.وفات مسیح کے بعد اجرائے نبوت اور صداقت حضرت مسیح موعود کے موضوعات پر مناظرہ ہوا.اس دوران لال حسین اختر صاحب نے اعجاز اسی میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر پر اعتراض کرنے کی جسارت کی تو احمدی مناظر نے حضرت مسیح موعود کے خادم ہونے کے ناطے چیلنج دیا کہ وہ اپنی مرضی کا رکوع چن لیں اور موجود تمام غیر احمدی علماء اس کی تفسیر لکھیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر احمدی مناظر بھی اسی رکوع کی تفسیر لکھے اور دنیا دیکھ لے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت کس کے ساتھ ہوتی ہے مگر لال حسین اختر صاحب نے اس کا یہ نامعقول جواب دیا، "تم کیا ہستی رکھتے ہو لاؤ میرے مقابل پر مرزا صاحب کو (۲۴).دوران مناظرہ وہ کوئی بھی معقول دلائل پیش نہیں کر سکے.محض ادھر ادھر کی باتیں کر کے کج بحثی کرتے رہے جبکہ احمدی مناظر نے قرآن اور حدیث سے اپنے دلائل پیش کئے.حاضرین پر کھل گیا کہ لال حسین اختر صاحب کا دامن دلائل سے خالی ہے.اس مناظرے میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی دور دور سے آکر شریک ہوئے اور جماعت کی غیر معمولی کامیابی کو مشاہدہ کیا.(۲۵) اس کے بعد دوسرے مقامات پر بھی مناظرے ہوئے.جب مخالفین نے محسوس کیا کہ احمدیت کی فتح ظاہر ہوتی جا رہی تو مار پیٹ کا راستہ اپنایا.Nyeri کے مقام پر جب احمدی مناظرے کے لئے پہنچے تو مخالفین نے احمدیوں پر حملہ کر دیا.جس کے نتیجے میں شیخ صاحب اور دوسرے احمدی زخمی ہو گئے.

Page 19

ایک احمدی سیٹھ عثمان یعقوب صاحب نے پندرہ ہزار شلنگ کا انعام اس شخص کے لئے رکھا ہوا تھا جو قرآنِ مجید سے حیات مسیح کی تائید میں ایک آیت ہی پیش کر سکے.لال حسین اختر صاحب کے پہنچنے پر مخالفین نے جوش میں آکر اشتہار دیا کہ پندرہ ہزار شلنگ کا چیک پیش کرو اور آیت دیکھ لو.جماعت نے اپنے دو نمائیندوں کو جامع مسجد ان کے جلسے میں چیک دے کر بھجوا دیا.انہوں نے وہاں اعلان کیا کہ یہ پندرہ ہزار کا چیک ہے آیت دکھا کر یہ چیک وصول کر لو.لوگ ہکا بکا رہ گئے کہ مولوی کوئی آیت پیش نہ کر سکے.اور حاضرین پر ظاہر ہو گیا کہ قرآنِ مجید میں حیات مسیح کا کوئی ذکر نہیں.(۱۸) مخالفین کے لئے یہ صورت حال پریشان کن تھی.دلائل اور مناظروں سے ان کی دال گلتی نظر نہیں آرہی تھی.احمدیت کے خلاف گندی تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور ایسے غلیظ اشتہارات شائع کئے گئے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ذاتِ اقدس کے خلاف گند اچھالا گیا..اس سے بھی دل نہیں بھرا تو احمدیوں کا بائیکاٹ کرنے کی مہم شروع کر دی اور کینیا کے بہت سے شہروں میں احمدیوں کا بائیکاٹ کر دیا گیا (۲۶).ان اوچھے ہتھکنڈوں سے لیس ہو کر لال حسین اختر صاحب یوگنڈا پہنچے.جنـجـہ میں انجمن حمایت اسلام کے مقامی سیکریٹری عبدالغفور صاحب انہیں وہاں بلانے کے محرک تھے.مگر انہوں نے بائیکاٹ کی مخالفت کی.اس پر لال حسین اختر صاحب ان کے خلاف بھی بھڑک اٹھے.عبدالغفور صاحب نے جب ان کے اخلاق دیکھے اور جماعت کے عقائد کا مطالعہ کیا تو وہ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئے (۲۷).مخالفین ابھی اس خفت سے سنبھلنے نہیں پائے تھے کہ ۱۹۳۶ء کے آخر میں اس فتنے کے بانی مبانی اور انجمن حمایت اسلام کے پریزیڈینٹ سید احمد الحاد خدا تعالیٰ کی گرفت میں آکر ایک حادثہ کا شکار ہو گئے.ان کی ہلاکت سے انجمن کی مخالفانہ کوششوں میں نمایاں کمی آگئی اور لال حسین اختر صاحب نے بھی بوریا بستر لپیٹا اور ہندوستان واپس آگئے.(۲۸،۲۶) اس کے بعد مخالفت کی لہر نے ایک اور رنگ اختیار کیا اور اب جماعت کے مقابل پر دیگر مذاہب کے مخالفین بھی میدان میں اتر آئے.اب اس کا مرکز ٹانگا نیکا میں ٹبورا کا شہر تھا.یہاں پر مقیم چند پنجابیوں نے ایک با اثر نیم عرب کے ساتھ مل کر شرارت کرنی شروع کی.مساجد میں خطبات کے ذریعہ اور فتووں کے ذریعہ لوگوں کو روکنا شروع کیا کہ وہ احمدیوں کی کوئی بات نہ سنیں..

Page 20

10 مکرم شیخ مبارک صاحب کچھ ماہ کے لیے ٹورا میں مقیم تھے.ان مخالفین نے مکرم شیخ صاحب اور دیگر احمدیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے شروع کر دیے.پولیس کا ماتحت عملہ جس میں غیر احمدی پنجابی اور بنگالی ہندو بھی شامل تھے شرارت کرنے والوں سے مل گیا.مقامی افسران نے بھی مخالفانہ رویہ اختیار کر لیا.نتیجہ یہ نکلا کہ ماتحت عدالتوں نے احمدیوں کے خلاف فیصلے کیے.مفسدوں نے اس عارضی کامیابی پر بغلیں بجانی شروع کیں.راہ چلتے احمدیوں پر استہزاء کیا جاتا اور انہیں گالیاں دی جاتیں.احمدیوں کی نعشوں کو قبرستانوں میں دفن کرنے سے انکار کیا جانے لگا.کئی احمدی والدین کی اولا د نے ان سے ترک تعلق کر لیا.بہت سے افسران ان مخالفین کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے حتی کہ کچھ بے قصور احمدیوں کو پولیس نے زدو کوب کیا.اس ماحول میں عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی گئی.اعلیٰ عدالتوں نے ماتحت عدالتوں کی کارروائی کو غیر مناسب قرار دیتے ہوئے ان کے اکثر فیصلوں کو منسوخ کر دیا، جس سے معاندین کا غیظ و غضب کچھ سرد ہو گیا.جہاں اس فتنہ پردازی سے بہت سے لوگ اس بات سے ڈر گئے کہ وہ احمدیوں سے کسی قسم کا رابطہ رکھیں.وہاں رفتہ رفتہ مقامی لوگوں میں سعید روحوں پر حقیقت آشکار ہونی شروع ہوئی اور مشرقی افریقہ میں یہ اعزاز سب سے ٹیو را کو ہی حاصل ہوا کہ وہاں پر رفتہ رفتہ مقامی افراد جماعت میں داخل ہونے لگے.اور اردگرد کے دیہات میں بھی ایک ایک کر کے متعدد افراد نے احمدیت قبول کی.انہی عوامل کی وجہ سے پہلا با قاعدہ دار التبلیغ شورا میں ہی قائم کیا گیا.احمدیت قبول کرنے والے ان احباب میں سے بعض بزرگان ایسے تھے جنہوں نے تمام دنیاوی کام چھوڑ کر کل وقتی طور پر خدمت دین شروع کر دی.تمام علاقہ مخالفت پر کمر بستہ تھا مگر وہ استقلال سے اپنے کام میں منہمک رہے.جماعتی حالات کی وجہ سے ان مخلصین کو قلیل سا گزارا ملتا مگر وہ قناعت اور شکر سے گذارا کرتے.یہ بزرگان احمد یہ سکول میں پڑھاتے.اپنے احمدی بھائیوں کو دینی تعلیم دیتے اور ان کی تربیت کرتے.اور نا مساعد حالات کے باوجود علاقہ میں تبلیغ کرتے.شیخ صالح صاحب کی اہلیہ ڈچ نسل کی تھیں اور جنوبی افریقہ سے آئی ہوئی تھیں.انہوں نے بھی وقف کی روح کے ساتھ آنریری طور پر کام شروع کیا.اور اس طرح عورتوں میں تبلیغ اور تربیت کا کام بہتر طریق پر ہونے لگا اور کافی تعداد میں عورتیں بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئیں.۱۹۳۶ء میں ناجم ابن سالم اسی مجاہدانہ حالت میں اپنے مولا کے حضور حاضر ہو

Page 21

11 گئے.اور ۱۹۳۹ء میں شیخ صالح صاحب کی اہلیہ کی ملیریا سے وفات ہو گئی.اس طرح یہ وجود فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ (۲۹) کے مصداق ٹھہرے.خواہ زندگی عسر سے گذرے یا آسانی سے بسر ہو.ایک دن تو اس دنیا سے جانا پڑتا ہے.لیکن مشرقی افریقہ کے ان ابتدائی بے نفس مجاہدین نے آنے والی نسلوں کے لئے ایک پیارا نمونہ چھوڑا ہے جو بعد میں آنے والوں کے لئے مشعلِ راہ رہے گا.(۳۰ تا ۳۳) سواحیلی زبان مشرقی افریقہ میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے.کینیا تنزانیہ ، یوگنڈا اور کونگو کے باشندوں کی بڑی تعداد اپنے اپنے قبائل کی زبانوں کے علاوہ سواحیلی زبان کو استعمال کرتی ہے.عربوں سے اختلاط کی وجہ سے اس زبان پر عربی کا اثر نمایاں ہے.باوجود اس کے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس زبان کو استعمال کرتی تھی لیکن اب تک افادہ عام کے لئے اس زبان میں اسلامی لٹریچر شائع کرنے کے لئے کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی تھی اور مسلمانوں کی بھاری اکثریت اسلامی تعلیمات سے بالکل بے خبر تھی.جبکہ دوسری طرف عیسائی مشنری بڑے پیمانے پر اس زبان میں اپنا لٹریچر شائع کر رہے تھے اور اس سے ان کی تبلیغی مساعی کو بہت فائدہ پہنچ رہا تھا.ان عوامل کی وجہ سے جماعت نے سواحیلی میں اپنا لٹریچر شائع کرنا شروع کیا.اور جنوری ۱۹۳۶ء سے اس زبان میں Mapenzi Ya Mungu کے نام سے ایک رسالہ کا اجراء کیا.جب اس جریدے کے ذریعہ صحیح اسلامی تعلیمات عوام الناس تک پہنچنا شروع ہوئیں اور عیسائی مشنریوں کے اعتراضات کا مدلل جواب شائع ہونا شروع ہوا تو یہ صورتِ حال عیسائی مشنریوں کے لئے بہت پریشان کن تھی.اب تک وہ ایسی جنگ لڑ رہے تھے جس میں عملاً ان کے مد مقابل کوئی نہیں تھا.لیکن اب علمی دلائل سے ان کا مقابلہ کیا جارہا تھا.چنانچہ اس موقع پر رومن کیتھولک چرچ کی طرف سے کھل کر مخالفت کا آغاز ہو گیا.پہلے تو ان کے رسالے Rafiki Yetu نے یہ کہہ کر عیسائیوں کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کی کہ احمدیوں کے رسالے میں ان کے مذہب کو برا کہا جاتا ہے تا کہ عیسائی اس کو پڑھنے سے گریز کریں.لیکن ایک سال تک اس رسالے میں کفارہ، واقعہ صلیب، الوہیت مسیح، قبر مسیح جیسے موضوعات پر علمی مضامین شائع ہوتے رہے ،رسالے کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا اور جب ایک عیسائی نے حضرت عیسی کی فضیلت کے متعلق کتاب ”نبی معصوم“ شائع

Page 22

12 کی اور ماپنزی یا منگو میں اس کا جواب شائع کیا گیا تو صورتِ حال چرچ کے عمائدین کے لئے نا قابل برداشت ہو گئی.بجائے دلائل سے مقابلہ کرنے کے انہوں نے اعلان کیا کہ کیتھولک عیسائیوں کے لئے اس رسالے کا پڑھنا حکماً ممنوع کیا جاتا ہے.جو بھی یہ رسالہ پڑھے گا گنہگار ہو جائے گا.اور مختلف چرچوں میں بھی اس قسم کے اعلانات کرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا.چرچ کی بوکھلاہٹ اتنی بڑھ گئی تھی کہ ان کے ترجمان Rafiki Yatu کے اگست ۱۹۳۷ء کے شمارے میں یہ اعلان شائع کیا گیا کہ جس کیتھولک عیسائی کے ہاتھ میں یہ رسالہ آئے وہ اسے آگ میں ڈال کر جالا دے.یہ صورتِ حال افسوسناک تھی.دلائل کا مقابلہ دلائل کے ساتھ ہی کرنا چاہئیے نہ کہ اس طرز عمل سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صدِقِينَ (۳۴) یعنی تو کہہ دے کہ اگر تم سچے ہو تو اپنے دلائل لاؤ.بہر حال جماعت کا یہ رسالہ جاری رہا اور اب تک عظیم الشان خدمات سرانجام دے رہا ہے.(۳۵.۳۶) پورے مشرقی افریقہ میں مخالفت کا جو طوفان مخالفین کی طرف سے اٹھایا جا رہا تھا، اس کے اثرات یوگنڈا کے علاقہ تک بھی پہنچے.وہاں کے سب سے بڑے قبیلے بوگانڈا کے شاہی خاندان کے ایک با اثر مسلمان پرنس بدرو نے ایک اشتہار شائع کیا کہ احمدیوں کا مبلغ لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے لوگ اس سے بچیں اور اس کی باتوں کو نہ سنیں اور وہاں کی مسلم ایسوسی ایشن نے بھی جماعت کے خلاف پرو پیگنڈا شروع کر دیا.یوگنڈا پولیس میں موجود پنجابیوں نے افسروں کو جماعت کے خلاف کرنے کے لئے پولیس میں جماعت کے خلاف غلط ریکارڈ جمع کرنا شروع کر دیا تا کہ امن پسند احمدیوں کو فساد کا ذمہ وار قرار دیا جائے.اور اس مخالفانہ فضا میں یوگنڈا میں بھی تبلیغ کا کام نئے عزم کے ساتھ شروع کیا گیا.خدائی سلسلوں کی مخالفت لازماً ہوتی ہے اور بڑی شدید مخالفت ہوتی ہے.سارے گروہ اسے اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں.اور اس کو مٹانے کے لئے آپس میں اتحاد کر لیتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ اپنے پیاروں کی حفاظت کرتا ہے.اور اس کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاتا ہے.لیکن اس معجزے کو مشاہدہ کرنے کے لئے صبر سے ،استقامت سے اور دعاؤں سے کام لینا پڑتا ہے.مشرقی افریقہ میں جماعت کے پہلے دار التبلیغ کا آغاز مخالفت کے ان طوفانوں

Page 23

13 کے درمیان ہوا تھا.اس خطے میں آزمائشوں کا سلسلہ یہیں پر ہی ختم نہیں ہو جاتا.اس کے بعد بھی یہاں کی جماعت کو ابتلاؤں کے بہت سے دور دیکھنے پڑے.یہ تو صرف ایک آغاز تھا.مگر جماعت کا قدم رکا نہیں بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہی رہا.مخالفتوں کے طوفان میں ہی بیچے اور کھرے افراد نکھر کر سامنے آتے ہیں.چنانچہ ہم نے جس دور کا ذکر ابھی کیا ہے ، اسی دور میں مکرم امری عبیدی صاحب جیسا جو ہر قابل بھی جماعت کو عطا ہوا.جو ایک کم عمر طالب علم کی حیثیت سے ٹبورا میں آئے اور پھر اپنے علاقے بکوبا میں احمدیت کی تبلیغ میں مشغول ہو گئے.پہلے پولیس میں سب انسپکٹر بننے کے لئے ٹر میٹنگ شروع کی.جب حضرت مصلح موعود نے وقف زندگی کی تحریک فرمائی تو آپ نے وہ خطبہ پڑھتے ہی حضور کی خدمت میں خط لکھا اور اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کر دی اور پھر جامعہ احمد یہ ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے.آپ نے بہت سے دنیاوی اعزازات بھی حاصل کئے حتی کہ اپنے ملک کے وزیر بھی بنے لیکن جس چیز کی وجہ سے آپ کو رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا وہ آپ کا اخلاص اور خدمت دین کا جذبہ ہے.ہم آگے جا کر آپ کے کارناموں کا تفصیل سے جائزہ لیں گے.(۳۷) (۱،۲) An Introduction to the History of East Africa by Z.A.Marsh, G.W.Kingsnorh, Third Edition,Cambridge at The University Press 1965, page 72.74 (۳) بخاری کتاب البیع (۴) ابوداؤد بروایت فتح الباری جلد ۴ ص ۳۴۶ (۵) سورۃ نور ۳۴ (1) سورۃ توبہ ۶۰ (۷) خروج باب ۲۱ آیت ۸،۷ (۸) مسلم کتاب الایمان (۹) خروج باب ۲۱ آیت ۲۰-۲۱ (۱۱) ریویو آف ریلیچنز اردو فروری ۱۹۳۹ ء ص ۳۷ تا ۴۱ (۱۰) A short History of Africa by Roland Oliver &J.D.Fage,Penguin Books page120 (۱۲)An Introduction to The History of East Africa by Z.A.Marsh, G.W.Kingsnorth, Third Edition, Cambridge at The University press, 1965 page74-77

Page 24

14 (۱۳) رپورٹ صدر انجمن احمد یه ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء ص ۵۶، ۵۷ (۱۴) روزنامه الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۴۰ء ص ۵،۴ (۱۵) رپورٹ صدرانجمن احمد یه ۱۹۳۶- ۱۹۳۷ ء ص ۴۵ تا ۴۷ (۱۶) الفضل ۱۶ اکتوبر۱۹۲۳ء، الحکم ۲۱ ستمبر ۱۹۲۳ء (۱۷) الفضل ۲۸ فروری ۱۹۳۵ء (۱۸) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء ص ۰ ۷ تا ۷۲ (۱۹) الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۴۰ء ص ۶ (۲۰) تاریخ احمدیت جلد هفتم ص ۲۶۵ (۲۱) An introduction to the history of East Africa,third edition, Z.A.Marsh & G.W.Kingswoth, Cambridge at the University Press 1965 page 73 (۲۲) الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۴۰ء ص ۶ (۲۳) کیفیات زندگی مصنفہ شیخ مبارک صاحب ص ۶۸ (۲۴) مباحثه نیروبی ص ۱۱۰ (۲۵) مباحثات نیروبی ، پبلشر محمد یا مین بار دوم ۱۹۶۳ء صا (۲۶) رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدرانجمن ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء (۲۷) تاریخ احمدیت جلد ہفتم ص ۲۶۸-۲۶۹ (۲۸) کیفیات زندگی مصنفہ شیخ مبارک صاحب ص ۶۶ تا ۷۷.(۲۹) الاحزاب: ۲۴ (۳۰) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۳۶ء.۱۹۳۷ ء ص ۱۰۵_۱۰۶ (۳۱) رپورٹ سالانہ ۱۹۳۶ء.۱۹۳۷ء صدر انجمن احمد سید ص ۱۰۳ (۳۲) الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۳۷ء ص ۷ (۳۳) الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۳۷ء ص ۴ (۳۴) النمل: ۶۵ (۳۵) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۶ء.۱۹۳۷ ص ۷۹-۸۲ (۳۶) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یه ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء ص ۹۱ تا ۹۵ (۳۷) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد بی ۱۹۳۶ء.۱۹۳۷ء ص ۱۰۲

Page 25

15 ۱۹۳۹ء میں جماعت احمدیہ کی ترقی کا عالمی منظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دی گئی تھی کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اور جب آپ کو ایک عظیم الشان موعود بیٹے کی خوش خبری عطا ہوئی تو الہاماً بتایا گیا کہ قومیں اس سے برکت پائیں گی.جب جماعت کے قیام کو پچاس سال پورے ہو رہے تھے تو دنیا ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے نظارے دیکھ رہی تھی.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اُس وقت مختلف ممالک میں جماعت کی ترقی کا سفر کن مراحل سے گذر رہا تھا.برطانیہ: لندن مشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے صحابہ کو خدمات کا موقع ملا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب میں سے حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب، حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب، حضرت ملک غلام فرید صاحب اور حضرت مولانا عبد الرحیم در د صاحب نے بطور مبلغ اس مشن میں کام کیا.ان کے علاوہ حضرت مولانا شیر علی صاحب بھی انگریزی ترجمہ قرآن کے سلسلے میں لندن مشن میں مقیم رہے اور تبلیغی سرگرمیوں میں فعال حصہ لیتے رہے.۱۹۲۶ء میں مسجد فضل لندن کی تکمیل کے ساتھ اس مشن کا ایک نیا دور شروع ہو چکا تھا.جس شہر میں لا تعداد گر جے موجود تھے ، وہاں یہ چھوٹی سی مسجد ایک انفرادی شان رکھتی تھی.نہ صرف مقامی شہریوں اور برطانیہ کے دوسرے مقامات سے آنے والوں کے لئے اس کا وجود کشش کا باعث تھا بلکہ جولوگ بیرونی ممالک سے یہاں سیر و سیاحت کے لئے آتے ان میں سے بہت سے مسجد کو دیکھنے کے لیئے بھی آجاتے اور اسلام کی تبلیغ سے مستفید ہوتے.مختلف سوسائیٹیوں اور کلبوں کے ممبر بھی گروپوں کی صورت میں یہاں آتے اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ سلسلہ کی تاریخ اور عقائد کا ذکر سنتے.(۱) جب یہاں سے ایک انگریز احمدی بلال مثل (Nattal) کی آواز میں اللهُ أَكْبَرُ اللهُ

Page 26

16 أَكْبَرُ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله، اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ کی صدائیں بلند ہوتیں تو سننے والے حیران ہوتے کہ ایک انگریز عیسائیت کے ایک بڑے مرکز میں حضرت محمد مصطف یہ کی رسالت کا اعلان کر رہا ہے.(۲-۳) گویا اس مسجد کا وجود مجسم تبلیغ بن چکا تھا.۱۹۳۹ء میں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب اس مشن کے انچارج تھے اور تبلیغ کا کام پوری جانفشانی سے جاری تھا.انفرادی ملاقاتوں اور تبلیغی خطوط کے علاوہ ایک اہم ذریعہ تبلیغ وہ لیکچر تھے جو مبلغ سلسلہ اور دیگر احمدی مختلف مقامات پر دیا کرتے تھے.مشن ہاؤس میں تبلیغی تقاریر کا اہتمام کیا جاتا.اس کے علاوہ لندن میں اور لندن سے باہر بہت سے کلبوں سوسائیٹیوں اور درسگاہوں میں جا کر لیکچر دیئے جاتے.لندن میں ایسے مقامات مخصوص ہیں جہاں ہر آدمی جا کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے.اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہائیڈ پارک اور تیسہم کا من پارک میں تبلیغی لیکچروں کا اہتمام کیا جاتا اور لوگوں کے سوالوں کے جوابات دیئے جاتے.اُس دور میں انگریزوں کو حضرت محمد مصطفے ﷺ کی ذات اقدس کے متعلق انہی نظریات کا علم ہوتا تھا جو چند مغربی مصنفین نے اپنی کتب میں تحریر کئے تھے.ان میں سے بہت سی تحریریں تعصب سے آلودہ تھیں.ان کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیئے سیرت النبی عملے کے جلسوں کا سلسلہ شروع کیا گیا.ان جلسوں میں صرف مسلمان مقررین ہی نہیں بلکہ کئی عیسائی اہلِ علم بھی نبی اکرم ﷺ کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے.(۵۴) لٹریچر کی اشاعت ہمیشہ سے جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ رہی ہے.اس وقت صرف لندن شہر میں چار سو سے زائد کثیر الاشاعت اخبارات کے دفاتر تھے اور دنیا کا ایک بڑا حصہ ان کی تحریروں کے زیر اثر تھا.مگر انگلستان میں مسلمانوں کا ایک بھی اخبار شائع نہیں ہو رہا تھا.باوجود تمام مشکلات اور مالی تنگی کے لندن مشن نے ۱۹۳۵ء میں دی مسلم ٹائمنر کے نام سے ایک پندرہ روزہ اخبار شائع کرنا شروع کیا تا کہ مغربی دنیا کے سامنے اسلامی نقطہ نگاہ کو پیش کیا جا سکے (۶).اس کے علاوہ مختلف تبلیغی موضوعات اور سیرت النبی ﷺ پر کتا بچوں کی اشاعت سے تبلیغ کو وسعت دی گئی.برطانوی وزراء اور دیگر اہم شخصیات مشن میں مختلف تقریبات میں شرکت کے لیے آتیں.اور بہت سے مسلمان لیڈر جب لندن آتے تو انہیں مسجد فضل میں مدعو کیا جاتا.سعودی سلطنت کے شہزادہ

Page 27

17 سعود اور شہزادہ فیصل ،عراق کے وزیر خارجہ توفیق بک السوید اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسی شخصیات مشن کی مختلف تقاریب میں شرکت کرتیں تو اس کا چرچا بڑے پیمانے پر انگلستان کے پریس میں ہوتا اور یہ بھی ایک رنگ میں ذریعہ تبلیغ بن جاتا.(۸۷) اگر چه تبلیغی سرگرمیاں زیادہ تر لندن پر مرکوز تھیں مگر پورے ملک میں رفتہ رفتہ کچھ انگریز احمدیت کا پیغام قبول کر رہے تھے.ان میں آرنلڈ (Arnold) گھرانے کے افراد اور بینکس (Banks) گھرانے کی خواتین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں.۱۹۳۹ء میں برطانیہ میں ۱۶ مختلف مقامات پر احمدی موجود تھے جن میں اکثریت انگریزوں کی تھی.(۹ تا ۱۳) (۱) الفضل ۲۸ اگست ۱۹۳۷ء ص ۲ (۲) الفضل ۱۲۸ اپریل ۱۹۳۹ء ص ۴ The Sunrise April 1 1939 page 5(μ) (۴) الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۳۷، ص۲ (۵)الفضل ۵ جنوری ۱۹۳۹ء ص ۷ (۶) الفضل ۴ جون ۱۹۳۵، ص ۳ The Sunrise March 25, 1939 page 8(2) (۸) الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۳۵ ء ص ۱ (۹) سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یه ۱۹۳۴ء ۱۹۳۵، ص ۴۰ ۴۴ (۱۰) سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یه ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء ص ۲۶-۳۳ (۱۱) سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۳۸ء.۱۹۳۹ء ص۵۳_۶۲ (۱۲) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد بی ص ۸۸-۹۱ The Sunrise December 23,1939 page 22(1) ہنگری: ہنگری وسطی یورپ کا ایک ملک ہے جس کی دو تہائی آبادی رومن کیتھولک ہے.کہا جاتا ہے کہ تیرہویں صدی سے بہت قبل یہاں پر بلغاریہ سے سات مسلمان آکر آباد ہوئے تھے.ان کی تبلیغ سے یہاں مسلمانوں کی ایک جماعت بن گئی تھی جو ہنگری کی سرحد پر آباد تھی.یہ خفی مسلک سے تعلق

Page 28

18 رکھتے تھے اور بسا اوقات دینی علوم حاصل کرنے کے لیئے مسلمان ممالک کا سفر بھی کرتے تھے.یہ جماعت وہاں پر ۱۳۴۰ء عیسوی تک موجود رہی پھر ایک عیسائی بادشاہ چارلس رابرٹ نے فرمان جاری کیا کہ عیسائیت کے علاوہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے جو لوگ اس کی سلطنت میں رہتے ہیں وہ یا تو عیسائی ہو جائیں یا پھر اس کے ملک سے نکل جائیں.(۱) اس کے علاوہ گیارہویں صدی اور چودہویں صدی کے درمیان اسماعیلی بھی یہاں آکر آباد ہوتے رہے.پھر اس کے بعد ایک عرصہ تک یہ ملک ترکوں کی سلطنت کے ماتحت رہا اور اس دور میں بھی یہاں کے لوگوں کا اسلام سے تعارف بڑھا.پہلے مرکز سلسلہ کی ہنگری میں گل بابا کمیٹی ، بیرن سیگمنڈ ( Baron Zsigmond) اور دیگر لوگوں سے خط و کتابت ہوئی (۲).یہ گل بابا ایک بزرگ تھے جن کا مزار ہنگری میں موجود ہے.اور ہنگری میں آباد ماجر قوم ان سے کافی عقیدت رکھتی ہے.ان کا حوصلہ افزا رویہ دیکھ کر ۱۹۳۶ء میں چوہدری احمد خان صاحب ایاز کو بطور مبلغ ہنگری بھجوایا گیا.انہوں نے دارالحکومت بوڈا پیسٹ (Budapest) میں تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا.انفرادی تبلیغ کے علاوہ مختلف سوسائیٹیوں میں تقاریر کے ذریعہ دعوت الی اللہ کے کام کو آگے بڑہانا شروع کیا.اخبارات میں احمدیت کا چرچا ہونے لگا.اور آہستہ آہستہ سعید روحیں احمدیت میں داخل ہونے لگیں.اور ان نو احمدیوں کی تعلیم و تربیت کے کام کا آغاز ہوا.ان ابتدائی احمدیوں میں مصطفے اربان (Orban) صاحب اور اینگل (Engel) اختر صاحب کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں.بیعت کرنے والوں میں ڈاکٹر ، فوجی افسر اور وکیل بھی شامل تھے.ایک ڈیڑھ سال میں ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہوگئی.ان میں سے زیادہ تعداد پہلے عیسائیت سے وابستہ تھی.اس وقت ہنگری میں کچھ مسلمان موجود تھے مگر ان کی دینی حالت ابتر تھی.ان کا مذہبی سربراہ مفتی کہلاتا تھا.اپنا اثر و رسوخ زائل ہوتا دیکھ کر ان مفتی صاحب نے جماعت کی مخالفت شروع کی مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نائب مفتی محمد اسماعیل صاحب بھی احمدی ہوکر تبلیغ کرنے لگ گئے.۱۹۳۷ء میں ایاز صاحب نا موافق آب و ہوا کی وجہ سے بیمار ہو گئے اس لیئے حضور کی طرف سے انہیں پولینڈ جانے کا ارشاد ہوا.مکرم محمد ابراہیم ناصر صاحب کو امریکہ بھجوایا گیا تھا مگر جب انہیں وہاں داخلے کی اجازت نہ ملی تو انہیں ہنگری جانے کا ارشاد ہوا.

Page 29

19 محمد ابراہیم ناصر صاحب بوڈا پسٹ پہنچ کر مصروف تبلیغ ہو گئے.اس کے بعد دوسری جنگِ عظیم کے آغاز اور پھر ہنگری کے کمیونسٹ بلاک میں چلے جانے کی وجہ سے وہاں پر جماعت کی تبلیغی سرگرمیاں روکنی پڑیں.(۱۳۳) (1) The Preaching Of Islam by T.W.Arnold, published by Low Price Publication Delhi 2001.page 193-194 (r) The Sunrise May 22, 1937 page 8(M) The Sunrise March 20,1937 Page 6 (۴)The Sunrise ,March 27,1937 page 6(۵)The Sunrise April 24,1937 page 8 (1) The Sunrise May 22, 1937 page 8(4) The Sunrise May 29 1937, page 7 ( ۸ ) الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۳۷ ء ص ۶ (۹) الفضل ۱۲مئی ۱۹۳۷ ء ص ۷ (۱۰) الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۷ ء ص ۷ (۱۱) افضل ۱۹ مئی ۱۹۳۷، ص ۴ ( ۱۲ ) الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۳۷ء ص ۶ (۱۳) الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۳۷ء ص ۶ (۱۴) مجاہد ہنگری مصنفہ حاجی احمد خان ایازص۲۴.۲۵ پولینڈ: پولینڈ میں اسلام کی آمد چودہویں صدی عیسوی میں ہوئی جب اپنے وطن میں خانہ جنگی کی وجہ سے بہت سے تاتار مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے.گرینڈ ڈیوک وائیٹولڈ ( Grand Duke Witold) نے ان کو ولنو (Wilno) شہر کے قریب زمینیں عطا کیں اور اس کی گارد عموماً انہی تاتاریوں پر مشتمل ہوتی تھی.پھر سولہویں اور ستر ہویں صدی عیسوی میں کریمیا (Crimea) کے علاقے سے کچھ مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے.(۲۱) پولینڈ کی اکثریت رومن کیتھولک ہے.وقت کے ساتھ مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ تہذیب اور مذہب کے اعتبار سے مقامی آبادی میں جذب ہوتا گیا اور ان میں اسلامی تعلیمات کا اثر بہت کم ہو گیا.۱۹۳۷ء میں اس ملک میں بارہ ہزار مسلمان آباد تھے.ولنو کے علاوہ لیتھوانیا (Lithuania) کی سرحد کے قریب مسلمانوں کے کئی دیہات آباد تھے.(۳) پولینڈ میں مسلمانوں کے مذہبی لیڈر مفتی کہلاتے تھے.اس وقت حکومت مسلمانوں سے رواداری کا سلوک کر رہی تھی اور حکومت کی طرف سے مختلف جگہوں پر ائمہ صلوۃ اور موذنوں کو وظیفہ

Page 30

20 20 بھی ملتا تھا مگر مسلمانوں کے اماموں اور مفتی صاحب کو دینی امور میں کم ہی دلچسپی تھی.(۴) پولینڈ کے مفتی صاحب یعقوب سلیمان سینکیویز ( Szynkiewicz) صاحب نے ۱۹۳۷ء میں ہندوستان کا دورہ کیا اور مارچ کے مہینے میں قادیان آ کر حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے ملاقات کی.اس ملاقات کے بعد حضور نے احمد خان ایاز صاحب کو پولینڈ جا کر تبلیغ کا آغاز کرنے کا ارشاد فرمایا.ان مفتی صاحب کے غیر ملکی دوروں کا مقصد مالی مدد کا حصول تھا کیونکہ ۱۹۳۹ء میں انہوں نے مصر جا کر شاہ فواد سے ملاقات کی تھی اور شاہ فواد نے انہیں آرڈر آف نائیل سے نوازنے کے علاوہ مساجد کی تعمیر کے نام پر پانچ سو پونڈ کی مدد بھی دی تھی.(۴-۵) احمد خان ایاز صاحب ۱۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء کو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا پہنچ گئے.وارسا میں مناسب جگہ نہ ملی تو شہر سے میل پر ایک نئی بستی Boernerowo میں کمرہ حاصل کر کے کام کا آغاز کیا.جلد ہی الجیریا سے تعلق رکھنے والے عربی کے ایک لیکچرار احمد خاربی صاحب نے احمدیت قبول کر لی.(۴) احمد خان ایاز صاحب کی کاوشیں جلد ہی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے لگیں.اخبارات میں ان کے انٹرویو اور جماعت کا تعارف شائع ہونے لگا.مگر اتنی ہی جلدی مخالفین کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا اور ۱۳ جنوری ۱۹۳۷ء کو حکومت پولینڈ نے انہیں عیسائیوں اور بعض مسلمانوں کی شکایت پر پولینڈ سے نکل جانے کا حکم دے دیا.اس طرح پولینڈ میں تبلیغ کی پہلی کوشش ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد بند کرنی پڑی.(۹،۸،۷،۶) (۱)Glimpses of Islamic World by S.Ganjoo,published by Anmol publications Pvt.Ltd New Dehli, 2004, page 107 (۲) افضل ۱۲ دسمبر ۱۹۳۷ء ص ۵ (۳) الفضل (۲۹ جون ۱۹۳۷ء ص ۵ (۴) افضل ۱۶ مئی ۱۹۳۷ ء ص ۶ (a)Polish-Egyptian Relations XV-XXc by Prof.Jozef Wojcicki(on internet) (۶) الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۳۷ء ص ۵ (۷) الفضل ۱۲۶ اکتوبر ۱۹۳۷ء ص ۷ ( ۸ ) الفضل ۲۹ جون ۱۹۳۷ء ص ۵ البانية: (4) The Sunrise September 11,1937 page 9 اس دور میں البانیہ یورپ میں اسلام کا ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا.پہلے یہ علاقہ ایک عرصہ تک رومی اور بازیطانی سلطنتوں کے ماتحت رہا.اور ان کے علاوہ بھی بہت سے حملہ آور اسے اپنا نشانہ

Page 31

21 بناتے رہے.پندرہویں صدی میں اس پر ترکی کی سلطنت عثمانیہ کا قبضہ ہو گیا اور وہ صدیوں تک اس ملک پر حکمران رہے.یہاں کی اکثریت عیسائی مذہب سے وابستہ تھی.سلطنت عثمانیہ کا حصہ بننے کے سوسال بعد تک تو بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا مگر اس کے بعد یہاں کی آبادی تیزی سے مسلمان ہونے لگی.مؤرخین کے مطابق اس وقت البانیہ کے پادریوں کی اکثریت نہ صرف مذہبی علم سے بے بہرا تھی بلکہ ان میں سے بہت سے صحیح طرح لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے.ان کی زبوں حالی سے چرچ کمزور ہونے لگا اور لوگوں کی بڑی تعداد نے عیسائیت کو الوداع کہنا شروع کر دیا.(۱) بیسویں صدی کے آغاز میں یہاں کے اکثر مسلمان حنفی فرقہ سے وابسطہ تھے اور طریقت کے مختلف فرقوں کے پیروکار تھے.ان کے علاوہ مختلف فرقوں کے عیسائی بھی موجود تھے اور کیتھولک اور امریکن مشن بھی کام کر رہے تھے.تعلیم اور ملک کی ترقی کے لحاظ سے یہ یورپ کا پسماندہ ترین ملک تھا.حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر اپریل ۱۹۳۶ء میں مولوی محمد دین صاحب البانیہ کے لئے روانہ ہوئے اور دو ماہ کے سفر کے بعد وہاں پہنچے.آپ کی آمد سے قبل ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام وہاں تک پہنچ چکا تھا.ابھی آپ کو مقامی زبان نہیں آتی تھی مگر محدود پیمانے پر تبلیغ کا کام شروع ہو اور ایک خاندان احمدیت میں داخل ہو گیا.اس کے علاوہ کچھ لوگ زبانی طور پر احمدیت کی تصدیق کرنے لگے.اس دوران ایک عالم سے مناظرہ ہوا، جس کے نتیجے میں مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا.علماء نے مبلغ احمدیت کے خلاف اشتعال انگیز خطبات دینے شروع کئے اور اس کے نتیجے میں مولوی محمد دین صاحب کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.مخالفت کی وجہ سے تین ماہ کے مختصر عرصہ کے بعد ہی آپ کو البانیہ چھوڑنا پڑا.آپ پہلے ہنگری اور پھر وہاں سے یوگوسلاویا چلے گئے.دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ ملک کمیونسٹ بلاک میں چلا گیا.اور ۱۹۶۷ء میں حکومت نے البانیہ کو دہریہ ریاست قرار دے کر تمام مساجد اور گرجے بند کر دیئے اور تمام مذہبی سرگرمیوں پر پابندی لگادی.(۲-۳) - (۱)The Preaching of Islam ,by T.W.Lawrence,published by Low Price Publication Delhi 2001,177-192 (۳)The Sunrise December 23, 1939,page 43 (۲) ریویو آف ریلیجنز اردو جولائی ۱۹۴۱ء ص ۴۶.۵۰

Page 32

22 22 یوگوسلاویا: ۱۳۸۹ میں کوسووو ( Kosovo) کے مقام پر سر بیا اور ترکی کی فوجوں میں ایک خوفناک جنگ ہوئی.اس معرکے میں ترکی اور سر بیا کے بادشاہ مارے گئے.ان دونوں کے جانشینوں نے جنگ کی بجائے صلح کا راستہ اختیار کیا اور سر بیا نے اپنے علاقے پر ترکی کی محدود حکمرانی قبول کر لی اور سر بیا کے بادشاہ نے اپنی بہن کی شادی ترکی کے نئے سلطان سے کر دی.اس واقعے کے بعد رفتہ رفتہ اس علاقے میں اسلام پھیلنے لگا.اس علاقے کے لوگ زیادہ تر آرتھوڈوکس(Orthodox) چرچ سے تعلق رکھتے تھے.کیتھولک سلطنتیں چاہتی تھیں کہ ان کو رومن کیتھولک بنا دیں.کہا جاتا ہے کہ ایک موقع پر اس علاقے میں ہنگری اور ترکی کے درمیان خوفناک جنگ ہو رہی تھی.سر بیا کے حاکم نے ہنگری کے بادشاہ سے پوچھا کہ اگر تمہاری فتح ہوئی تو کیا کرو گے،اس نے جواب دیا کہ میں سر بیا میں رومن کیتھولک چرچ کو مستحکم کروں گا.اس نے یہ سوال ترکی کے سلطان کو بھجوایا تو اس نے جواب دیا کہ ہر مسجد کے ساتھ چرچ بھی بنایا جائے گا اور ہر شخص کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کر کرنے کی اجازت ہو گی.نہ صرف سربیا کے باشندوں نے بلکہ ان کے پادریوں نے بھی ترکی کا ساتھ دیا اور ترکی کو فتح ہوئی.یوگوسلاویا کے جنوب میں کوسووو کے علاقے میں البانیہ سے رومن کیتھولک بڑی تعداد میں آکر آباد ہوئے تھے.ان کی اکثریت مذہب تبدیل کر کے اسلام میں داخل ہو گئی تھی.(۱) جماعت احمدیہ نے یوگوسلاویا میں تبلیغی مساعی کا آغاز ۱۹۳۶ء کے آخر میں کیا.اس وقت یوگوسلاویا کی چوتھائی آبادی مسلمان تھی اور ملک کی اکثریت عیسائی تھی.مسلمانوں کی اکثریت پسماندہ تھی اور ان کے امام حکومت سے تنخواہ پاتے تھے..جب مولوی محمد دین صاحب البانیہ سے یہاں پر پہنچے.اس سے قبل مصر سے آنے والے بعض اخبارات کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کا ذکر یہاں تک پہنچ چکا تھا.بلغراد میں تبلیغ کا آغاز کیا گیا اور جلد ہی دو نفوس جماعت میں داخل ہوئے.کوسووو کے علاقے میں ایک البانین احمدی شریف و وتسا (Votsa) صاحب سات گاؤں پر انسپکٹر تھے.مولوی محمد دین صاحب ان کے ساتھ کوسووو گئے اور تبلیغ شروع کی

Page 33

23 جس کے نتیجے میں ایک امام مسجد ابراہیم صاحب سمیت تقریباً ۲۳ افراد احمدیت میں داخل ہوئے.مخالفین نے مصر سے جماعت کے خلاف کتب منگوا ئیں اور مبلغ سلسلہ کے خلاف قتل کا فتویٰ بھی جاری کیا گیا.یہاں پر مولوی محمد دین صاحب کا قیام ڈیڑھ سال تک رہا جس کے بعد حکومت کی مداخلت کی وجہ سے آپ کو مجبوراً یہاں سے رخصت ہونا پڑا.(۲ تا ۵) (1) The Preaching of Islam, by T.W.Arnold, Low Price Publication Delhi 2001, 192-197 (۲) الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۷ء ص ۲ (۳) الفضل ۲ ستمبر ۱۹۳۷ء ص ۸ (۴) ۲۲ جنوری ۱۹۳۸ء ص ۷ اٹلی: (a) The Sunrise 23 December 1939, page 43 کیتھولک عیسائیوں کا مرکز ویٹیکن روم کے اندر واقع ہے اور صدیوں سے یہیں پر ان کے مذہبی پیشوا پوپ کی رہائش ہے.اس وجہ سے مذہبی دنیا میں اٹلی کی اپنی ایک اہمیت ہے.۱۹۱۴ء کے آخر میں ایک اطالوی باشندے کو ریو ( Corio) نے برطانیہ میں بیعت کی (۱).حضور نے ۱۹۲۴ء میں یورپ کے سفر کے دوران اٹلی کا دورہ بھی فرمایا.اور وہاں کے وزیر اعظم مسولینی سے ملاقات فرمائی.اس ملاقات کی غرض یہ تھی کہ انہیں سلسلے کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا جائے تا کہ اٹلی کے لئے مبلغین بھیجنے میں آسانی ہو اور بعد میں کسی قسم کی غلط نہی پیدا نہ ہو.اس ملاقات میں مسولینی نے خود حضور سے کہا کہ آپ اپنا مبلغ اٹلی بھیج سکتے ہیں (۳۲).اس کے نو برس بعد حضور کے ارشاد پر ملک محمد شریف صاحب سپین گئے مگر وہاں پر خانہ جنگی کی وجہ سے آپ کے قیام کی راہ میں دشواریاں پیدا ہوئیں تو حضور کے ارشاد پر آپ جنوری ۱۹۳۷ء میں اٹلی چلے گئے.وہاں جا کر آپ نے اطالوی زبان سیکھنی شروع کی اور روم میں تبلیغ کا آغاز کیا.اس کے نتیجے میں سب سے پہلے احمد کار بون (Carbone) صاحب نے احمدیت قبول کی.اگلے دو تین برس میں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمیں افراد جماعت میں شامل ہوئے.اگست ۱۹۳۹ء میں ملک محمد شریف صاحب کو اٹلی چھوڑنے کا حکم دیا گیا.مگر پھر وزیر ہند لارڈ زیٹلینڈ (Zetland) کی کوششوں کی وجہ سے حکم منسوخ

Page 34

24 کر دیا گیا.دوسری جنگِ عظم کے شروع ہونے کے بعد ۶ جولائی ۴۰ ۱۹ء کو آپ کو گرفتار کر لیا گیا.آپ کو مارچ ۱۹۴۱ء تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں.مگر آپ نے جیل کے اندر بھی دعوت الی اللہ کا کام جاری رکھا اور اس دوران بھی کچھ نفوس بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.(۴ تا ۹ ) (1) الفضل ۳ جنوری ۱۹۱۴ ء ص ۵ (۲) الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۲۴ء ص ۴ (۳) الفضل ۹ ستمبر ص ۷ (۴) الفضل ۱۲ اپریل ۱۹۳۷ء ص ۷ ( ۵ ) الفضل ۱۲۵ اپریل ۱۹۳۷ ء ص ۸ (۶) الفضل ۱۳ جون ۱۹۳۷ء ص ۶ The Sunrise March 27 1937, page8 (2) The Sunrise September 25, 1937, page 8(^) The Sunrise December 4,1937 page 6(4) امریکہ: امریکہ میں سب سے پہلے آنے والے مسلمان وہ مظلوم تھے جنہیں مغربی افریقہ بالخصوص سینیگال اور گیمبیا کے علاقوں سے زبر دستی غلام بنا کر یہاں لایا گیا تھا.ایک اندازے کے مطابق یہاں لائے جانے والے غلاموں میں سے دس سے پندرہ فیصد مسلمان تھے.مذہبی آزادی تو دور کی بات ہے ان پر اتنے وحشیانہ مظالم کئے جاتے تھے جیسا کہ انہیں انسان ہی نہ سمجھا جاتا ہو.اس کے نتیجے میں ان کا اسلامی تشخص ایک دو نسلوں سے زیادہ برقرار نہ رہ سکا.حصہ اول میں یہ ذکر آچکا ہے کہ ۱۹۱۹ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ذریعہ امریکہ میں جماعت کا پہلا مشن قائم ہو اتھا.جب آپ فلاڈلفیا کی بندرگاہ پر پہنچے تو محکمہ امیگریشن نے یہ کہہ کر آپ کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا کہ آپ کے مذہب میں تعددِ ازدواج جائز ہے اس لئے آپ اس ملک میں داخل نہیں ہو سکتے.آپ کو سمندر کے کنارے ایک مکان میں نظر بند کر دیا گیا.کچھ یوروپی نوجوان بھی آپ کے ساتھ نظر بند تھے.آپ نے انہیں تبلیغ شروع کی ، جس کے نتیجے میں ان میں سے قریباً پندرہ افراد نے اسلام قبول کر لیا.قریباً تین ماہ کے بعد آپ کو رہا کر دیا گیا.پہلے آپ کا قیام نیو یارک میں رہا، پھر ستمبر ۱۹۲۰ء میں اس دار التبلیغ کو شکاگو منتقل کر دیا گیا.اگست ۱۹۲۱ء میں یہاں پر جماعت کے سہ ماہی رسالے مسلم سن رائز کی اشاعت

Page 35

25 شروع ہوئی.رفتہ رفتہ سینکڑوں امریکن احمدیت میں داخل ہو گئے.ان میں زیادہ تر تعداد سیاہ فام امریکن باشندوں کی تھی.جولائی ۱۹۲۲ء میں شکاگو میں ایک مکان خرید کر اسے مسجد کی شکل دے دی گئی.حضرت مفتی صاحب کے زمانے میں آٹھ مقامات پر جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے بعد حضرت مولوی محمد الدین صاحب کو امریکہ بھجوایا گیا.۱۹۲۶ء میں آپ ہندوستان واپس آئے اور پھر دو برس تک امریکہ میں کوئی مرکزی مبلغ موجود نہیں تھا.۱۹۲۸ء میں صوفی مطیع الرحمن بنگالی صاحب بطور مبلغ امریکہ تشریف لے گئے.درمیان کے دوسالوں میں مرکزی مبلغ نہ ہونے کی وجہ سے مختلف جماعتوں میں مسائل اور فتنے نمودار ہوئے.اور پٹس برگ کی جماعت میں انتشار پیدا ہوا.کمزور لوگ اس ابتلاء میں علیحدہ ہو گئے اور بنگالی صاحب کی آمد پر از سر نو کام شروع کیا گیا.اب تک احمدی مالی قربانیوں میں حصہ تو لیتے تھے مگر با قاعدہ ماہانہ چندہ لینے کا نظام موجود نہیں تھا.۱۹۳۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے ماتحت امریکہ میں نظام کے تحت ماہانہ چندہ جمع کرنے کا نظام رائج کیا گیا.۱۹۳۵ء میں امریکہ میں لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا.اور ابتداء میں شکاگو، پٹس برگ کلیولینڈ اور انڈیانو پولس میں لجنہ کی تنظیم قائم کی گئی.امریکہ کی لجنات بسا اوقات اخلاص اور خدمت میں مردوں پر سبقت لے جاتی تھیں.۱۹۳۸ء میں امریکہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی گئی.اس دور میں باقاعدگی سے مشن میں ، درس گاہوں میں کلبوں میں اور گرجوں میں تبلیغی لیکچر ہوتے.سیرت النبی ﷺ کے جلسے منعقد کر کے اہل امریکہ کو حسنِ انسانیت کی سیرت سے روشناس کرایا جاتا.انفرادی تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا جاتا.لٹریچر کے ذریعہ اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا جاتا.اس طرح اس ملک میں احمدیت کا کارواں آگے بڑھ رہا تھا.(۱ تا ۵) (۱) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد به ۱۹۳۴ء ۱۹۳۵ء ص ۴۴-۵۱ (۲) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء ص ۲۱.۲۷ (۳) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۳۸ء.۱۹۳۹ء ص ۶۲ - ۶۹ (۴) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یه ۱۹۳۹ء - ۱۹۴۰ء ص ۹۴-۹۵ ( ۵ ) الفضل ۲۸ جون ۱۹۲۰ ء ص ۱ تا ۳

Page 36

26 26 ارجنٹائن:.۱۹۳۶ء میں ارجنٹائن کا مشن قائم ہوا.مولوی رمضان علی صاحب یہاں پر اشاعتِ اسلام کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے.ملک کا دار الحکومت بونس آئرس ان تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز تھا.بہت سے عرب آباد کار بالخصوص شام اور لبنان سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے.اور یہاں پر ان مسلمانوں نے اپنی تنظیمیں قائم کی تھیں.ان میں خاص طور پر تبلیغی کوششیں کی جارہی تھیں.۱۹۳۹ء تک بونس آئرس میں جماعت قائم ہو چکی تھی اور نظام جماعت بھی قائم ہو چکا تھا.نو احمدیوں کی تربیت کے لئے ہر ہفتہ تربیتی مجالس منعقد کی جاتیں جن میں بسا اوقات غیر احمدی بھی شرکت کرتے.اب تک بیعت کرنے والوں میں اکثریت عربوں کی تھی (۱ تا ۹) (۱) فاروق کے جون ۱۹۳۹ء ص ۶ (۲) فاروق ۱۴ جون ۱۹۳۹ء ص ۸ (۳) فاروق ۲۱ جون ۱۹۳۹ء ص ۸ (۴) فاروق ۱۴ اگست ۱۹۳۹ء ص ۶ (۵) فاروق ۱۲۸ اگست ۱۹۳۹ ء ص ۲ (۶) فاروق سے ستمبر ۱۹۳۹ ء ص ۷ (۷) فاروق ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۹ء ص ۲ (۸) فاروق ۲۱ نومبر ۱۹۳۹ء ص ۱۰ (۹) فاروق ۱۴دسمبر ۱۹۳۹ء ص ۹ نائیجیریا: نائیجیر یا براعظم افریقہ کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے.یہاں پر ۴۰۰ سے زیادہ مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے باشندے بستے ہیں.لیکن شمال میں فولانی اور ہاؤ سا قبائل ، جنوب مغرب میں یوروبا اور جنوب مشرق میں اگبو قبیلہ، یہاں کے بڑے قبائل ہیں.مغربی افریقہ میں اسلام صحارا کے تجارتی راستوں کے ذریعہ نویں صدی میں پہنچا اور گیارہویں صدی عیسوی میں نائجیریا کے علاقے میں بربر اور عرب مسلمانوں کے ذریعہ پہنچا اور شمال مشرق میں واقعہ کانم بورنو سلطنت میں اسلام کا نفوذ شروع ہوا.اس سلطنت میں سب سے پہلے تریپولی سے مسلمان تاجر پہنچے تھے.اور چودہویں صدی کے آخر میں مسلمان تاجروں کی تبلیغ سے ہاؤ سا قوم کے لوگوں میں اسلام پھیلنا شروع ہوا.سولہویں صدی کے آخر میں اور ستر ہویں صدی کے شروع میں نائجیریا کے شمال میں حضرت عثمان فود یو جیسی بزرگ مسلمان ہستی گذری.حضرت خلیفۃ مسیح الثالث آپ کو مجددین میں شمار فرماتے تھے.حضرت عثمان فودیو نے تبلیغ اور مسلمانوں کی تعلیم

Page 37

27 کے کام سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا رفتہ رفتہ آپ کی بزرگی کی شہرت پورے علاقے میں پھیل گئی.گوبر ( Gobir) کے بادشاہ مسلمان تھے لیکن آپ کی تبلیغی مہم سے خوفزدہ تھے.انہوں نے یہ پابندی لگا دی کہ حضرت عثمان فود یو کے علاوہ کوئی تبلیغ نہیں کرسکتا اور کسی کو اپنے آبائی مذہب کو تبدیل کر نیکی اجازت نہیں ہو گی.اور پگڑی اور نقاب پر بھی پابندی لگا دی.اس پر آپ کے گروہ اور مقامی بادشاہوں میں اختلافات شدید ہو گئے اور پھر بادشاہوں نے حملہ کر کے مسلمانوں کو غلام بنایا تو آپ کے پیروکاروں نے حملہ کر کے انہیں رہا کرا لیا اور اس کے ساتھ حکومت پر اُن کا قبضہ شروع ہو گیا.آپ کی حکومت پھیلتے پھیلتے نائیجیریا کے شمال اور نائیجر اور کیمرون کے ملحقہ علاقوں تک پھیل گئی.سلطنت کے قیام کے کچھ عرصہ کے بعد آپ نے عملی طور پر اپنے آپ کو امور سلطنت علیحدہ کر لیا اور ایک بار پھر تعلیم وتربیت میں مشغول ہو گئے.بہت سے لوگوں نے آپ کی بزرگی سے متاثر ہو کر آپ کو مہدی کہنا شروع کر دیا.مگر آپ نے اس کی تردید فرمائی اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کو خوشخبری دی کہ اب مہدی کا ظہور قریب ہے (۸).چنانچہ ۱۸۱۷ء میں آپ کا وصال ہوا اور ۱۸۳۵ء میں حضرت مسیح موعود کی پیدائش ہوئی.اس طرح آپ کا زمانہ اور مہدی آخر الزمان کا زمانہ آپس میں ملا ہوا ہے.پھر نائیجیریا میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی اور پادریوں کو یہاں پر عیسائیت پھیلانے کے مواقع ملے.بہت سے لوگوں کا خام خیال تھا کہ اب یہاں پر اسلام کا زوال شروع ہو جائے گا.مگر David Westerlund اور Ingvar Svanberg جیسے مغربی مصنفین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ خیالات غلط ثابت ہوئے اور انگریزوں کی حکومت میں اسلام پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے پھیلتا رہا.باوجود غلامی کے اسلام کی حقانیت لوگوں کے دلوں میں گھر کرتی رہی.(۲۱) نائیجیریا میں سب سے پہلی جماعت دارالحکومت لیگوس میں قائم ہوئی تھی.ابتداء میں یہاں پر ریویو آف ریلجز کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچا.اور قادیان سے خط و کتابت کرنے کے بعد ۱۹۱۶ء میں بعض افراد نے بیعت کے خطوط لکھے.پھر ۱۹۲۱ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب بطور مبلغ یہاں آئے.اس وقت نائیجیریا کے علاوہ گولڈ کوسٹ ( غانا) کا علاقہ بھی ان کے سپرد تھا..حضرت نیر صاحب کو قریباً ڈیڑھ سال یہاں رہ کر جماعت کی تربیت کا موقع ملا.اس کے بعد

Page 38

28 انہیں خرابی صحت کے باعث واپس جانا پڑا.۱۹۲۲ء سے لے کر ۱۹۳۴ء تک نائیجیریا میں کوئی مرکزی مبلغ موجود نہیں تھا.۱۹۳۴ء میں حضرت مصلح موعوددؓ کے حکم پر مکرم فضل الرحمن حکیم صاحب کو نائیجیریا بھجوایا گیا.آپ نے لیگوس پہنچ کر از سر نو جماعت کی تربیت کا کام شروع کیا.نائیجیریا کے تین اسٹنٹ مبلغین آپ کے ماتحت کام کر رہے تھے.مکرم فضل الرحمن حکیم صاحب کی آمد پر یہ افسوسناک صورتِ حال پیدا ہوئی کہ نائیجیریا کی جماعت کے ایک حصے نے مرکزی نظام کے تحت کام کرنے سے انکار کر دیا.اس منحرف گروہ کی طرف سے فضل الرحمن حکیم صاحب اور دیگر احمد یوں پر مقدمات دائر کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور مطالبہ کیا کہ عدالت مرکز سے وابستہ احمدیوں کو احمدیت سے مرتد قرار دے اور جماعت کی تمام املاک کا مالک ان منحرفین کو قرار دیا جائے.کچھ مقدمات تو خارج کئے گئے اور کچھ میں عدالتوں نے منحرفین کے حق میں فیصلہ دے دیا.اس ابتلاء کے علاوہ اندرونی فتنے بھی مشکلات میں اضافہ کر رہے تھے.مگر اس ماحول میں بھی محدود پیمانے پر تبلیغ کا کام شروع کر دیا گیا تھا.انفرادی ملاقاتوں، لیکچروں،اشاعت لٹریچر اور تربیتی کلاسوں کے ذریعہ تبلیغ و تربیت کا کام ہو رہا تھا.جماعت کا ایک اسکول بھی کام کر رہا تھا.مگر مذکورہ ابتلاؤں اور مالی دشواریوں کے باعث زیادہ تر کوششیں لیگوس تک محدود تھیں.یہ صورتِ حال اس وقت بدلنی شروع ہوئی جب دسمبر ۱۹۳۸ء میں فضل الرحمن حکیم صاحب نے نائیجیریا کے مختلف مقامات کا تفصیلی دورہ کیا.اس دورہ میں آپ ابادان، ایفے (lfe) ، اوو (Owo)،انڈ و(Ondo) کے شہروں میں گئے.یہاں پر آپ کے بہت سے تبلیغی لیکچر ہوئے.یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان شہروں کے چیف صاحبان نے عقائد کے اختلافات کے باوجود عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مبلغ سلسلہ سے ہر قسم کا تعاون کیا.اور ایفے ، انڈو اور اوو کے چیف صاحبان نے جماعت کے لئے زمین کے قطعات کا تحفہ بھی پیش کیا.صرف اس دورے کے دوران جتنی بیعتیں ہوئیں وہ گذشتہ پانچ سال میں بھی نہیں ہوئیں تھیں.۱۹۴۰ء کے آغاز تک مرکز سے منحرفین کے جس حصے نے علیحدہ ہونا تھا وہ علیحدہ ہو گئے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ نیا نظام قائم کر کے کام شروع کیا جائے.چنانچہ اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نائیجیریا کی جماعت کا ایک نیا دور شروع ہوا.(۳ تا ۸)

Page 39

29 29 (D)Islam Outside Arab World, by David Westerlund & Ingvar Svanberg, Curzon Press 1999, p61 (r) Encyclopedia Britannica, Under Usman dan Fodio (۳) سالانہ رپورٹ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۶ء.۱۹۳۷ء ص ۳۴-۴۱ (۴) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء ص ۲۷-۳۳ (۵) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۸ء.۱۹۳۹ء ص ۷۸-۸۶ (۶) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۹ء.۱۹۴۰ء ص ۹۹ The Sunrise June 3 1939, page6-7 (4) (۸) مجددین امت محمدیہ اور ان کے تجدیدی کارنامے ص۳۰۲،۲۹۴ سیرالیون: ا سیرالیون افریقہ کے مغربی ساحل پر ایک چھوٹا سا ملک ہے.اس وقت اس کی چالیس فیصد آبادی مسلمان اور ۳۵ فیصد آبادی عیسائی ہے.دیگر لوگ بت پرست ہیں.یہاں پر سب سے پہلے پہنچنے والے یوروپی پرتگال سے تعلق رکھتے تھے.انہوں نے ۱۴۶۰ ء میں یہاں کے ساحل پر قدم رکھا.پھر وقت کے ساتھ اس علاقے سے یوروپی اقوام کے تجارتی روابط بڑھتے گئے.وہ یہاں پر کپڑا اور دھات سے بنی ہوئی اشیاء لے کر آتے اور یہاں سے ہاتھی دانت لکڑی اور غلام لے کر جاتے.اٹھارہویں صدی کے آغاز میں Mande اور فولانی بولنے والے مسلمان تاجر اُس علاقے سے یہاں پر آئے ، جہاں آج کل گنی کا ملک واقع ہے.ان کی تبلیغ کے نتیجے میں Temne قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ مسلمان ہونا شروع ہوئے.اٹھارہویں صدی کے آخر میں جب مغربی ممالک میں غلامی پر پابندیاں لگنی شروع ہوئیں تو ، وہاں سے آزاد کردہ غلاموں کو اس علاقے میں بسانے کا کام شروع ہوا.اس طرح فری ٹاؤن کی بستی آباد ہونی شروع ہوئی جو اب اس ملک کا دارالحکومت ہے.اس علاقے میں انگریزوں نے پہلے کالج کی داغ بیل ڈالی اور کچھ سکول بھی شروع کیے گئے.اس کے ساتھ ہی مختلف چرچوں نے یہاں کے لوگوں ، بالخصوص آزاد کردہ غلاموں کو عیسائی بنانا شروع کیا.ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں اس میں فری ٹاؤن کا شہر برطانیہ کی کالونی تھی اور اردگرد کے

Page 40

30 50 علاقے کو Protectorate کا درجہ حاصل تھا.سیرالیون میں احمدیت کی ابتداء ۱۹۱۵ء میں ہوئی جب فری ٹاؤن کے ایک باشندے مکرم موسیٰ کے.گا با صاحب ( Musa K.Gerber) نے جماعت کے شائع کردہ، پہلے پارے کا ترجمہ قرآن پڑھ کر بیعت کی.ان کے بعد کچھ اور احباب نے کی.ان بھی بیعت کی سعادت حاصل کی اور بذریعہ خط و کتابت جماعت سے رابطہ رکھنا شروع کیا.جب ۱۹۲۱ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کو گولڈ کوسٹ ( غانا ) اور نائیجیریا کے لئے بھجوایا گیا تو راستے میں ان کا بحری جہاز کچھ روز کے لئے سیرالیون رکا.آپ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں پر احمدیت کی تبلیغ کی اور کچھ لوگ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.۱۹۲۹ء میں جب فضل الرحمن صاحب حکیم نائجیریا سے واپس قادیان جا رہے تھے تو آپ نے تین ماہ کے لئے سیرالیون میں قیام کر کے تبلیغ و تربیت کا فریضہ سرانجام دیا.اسی دور میں پیغامیوں نے سیرالیون کے کچھ لوگوں سے رابطہ کر کے اپنا لٹریچر بھیجوانا شروع کیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد احمدیت سے بدظن ہو گئی.۱۹۳۷ء میں حضور نے گولڈ کوسٹ (غانا) کے مشن کو ارشاد فرمایا کہ مغربی افریقہ کے دیگر علاقوں میں بھی مشن کھولے جائیں اور سالٹ پانڈ سے ان کی نگرانی کی جائے.چنانچہ اس سال کے وسط میں مولانا نذیر احمد صاحب علی سیرالیون پہنچے.اس وقت تک پرانے احمدیوں میں سے کچھ فوت ہو چکے تھے، کچھ پیچھے ہٹ چکے تھے اور کچھ نقل مکانی کر کے نائیجیریا جاچکے تھے.صرف دو پرانے احمدیوں سے رابطہ ہو سکا.احمدی مبلغ کی آمد کا سن کر غیر احمدیوں نے اپنے خرچ پر ہندوستان سے پیغامیوں کے مبلغ کو بلوایا.اور ان کے ذریعہ مخالفت کا طوفان اٹھایا گیا مگر معاندین کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.کچھ عرصہ کے بعد پیغامی مبلغ بد دل ہو کر واپس چلے گئے.مولانا نذیر احمد صاحب علی کی کاوشوں سے پہلے فری ٹاؤن میں جماعت بنی اور پھر انہوں نے دیگر علاقوں کا دورہ کیا.ان دوروں کے نتیجے میں چھ مقامات پر لوگ بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے.سب سے زیادہ تعداد میں روکو پور کے رہنے والوں نے احمدیت کے پیغام کو قبول کیا.یہاں کے چیف اور امام دونوں بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے اور سکول کے لئے عمارت بھی بنائی گئی.اس طرح ان حالات میں یہاں پر رفتہ رفتہ احمدیت کا نفوذ شروع ہوا.اس وقت کوئی دیکھنے والا یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ جلد.

Page 41

31 ہی یہ پودا ایک تناور درخت بن جائے گا.(۱تا۳) (۱) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء ص۵۲ - ۵۵ (۲) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۸ء ۱۹۳۹ ، ص ۹۶ ۱۰۰ (۳) الفضل ۱۱۳ کتوبر ۱۹۴۸ء ص ۵ غانا ( گولڈ کوسٹ ) غانا بھی افریقہ کے مغربی ساحل پر واقع ہے.۱۹۳۹ء میں یہ ملک برطانیہ کے قبضے میں تھا اور گولڈ کوسٹ کہلاتا تھا.اسلام کے آغاز کے بعد یہاں سب سے پہلے خوارج پہنچے.خوارج کے ایک فرقہ ابازی کے کچھ تاجر ۲۷۲ ھ میں یہاں آئے اور مقامی آبادی میں سے کچھ لوگوں نے اُن کے عقائد کی پیروی شروع کر دی.اس کے علاوہ صحارا سے کچھ مسلمان تاجر جو مالکی مسلک سے تعلق رکھتے تھے یہاں کا روباری سفر پر آئے اور ان کی تبلیغ کے نتیجے میں یہاں کے باشندوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا.مگر مغربی طاقتوں کے غلبہ کے ساتھ یہ علاقہ تقریباً سارے کا سارا عیسائی ہو گیا اور وہ تعلیم ، عہدوں اور تنظیم میں بھی مسلمانوں سے کہیں آگے نکل گئے.جیسا کہ کتاب کے حصہ اول میں ذکر آچکا ہے یہاں پر حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کے ذریعہ احمدیت کا پیغام ۱۹۲۱ء میں پہنچا تھا.گولڈ کوسٹ میں سالٹ پانڈ کے قریب فینٹی لوگوں میں چار ہزار مسلمان موجود تھے.ان کے امیر مہدی نام کے ایک چیف تھے.انہیں اسلام سے محبت تو تھی لیکن دینی علم نہ ہونے کے برابر تھا.امیر مہدی کو خدشہ تھا کہ ان کے بعد ان کی قوم اسلام سے پیچھے نہ ہٹ جائے کیونکہ اس دور میں ہر طرف عیسائی مشنری پورے زور وشور سے اپنے مذہب کی تبلیغ کر رہے تھے.ایک شامی تاجر نے انہیں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا پتہ دیا جو اس وقت لندن میں مقیم تھے.چیف مہدی نے رقم جمع کر کے جماعت کے لندن مشن کو بھجوائی تا کہ ایک مبلغ اس علاقے میں اسلام کی تبلیغ کے لیے بھجوایا جائے.دو برس کی تاخیر کے بعد جب حضرت مولا نانیر صاحب یہاں پہنچے اور امیر مہدی کے گاؤں اکر افول گئے تو بوڑھے امیر نے کہا خدا کا شکر ہے کہ آپ میری زندگی میں آگئے ، اب یہ مسلمان آپ کے سپرد ہیں.اس طرح آمد کے فوراً بعد ہی حضرت مولا نا نیر

Page 42

32 32 صاحب کو چار ہزار کے قریب مسلمانوں کی تربیت کا کام شروع کرنا پڑا.ایک طرف ان کے اخلاص کو دیکھ کر ان کا دل خوشی سے بھر جاتا تھا اور دوسری طرف ان میں اسلامی تربیت کا فقدان مشاہدہ کر کے ان کا دل رونے لگتا تھا.بنیادی تربیت سے کام کا آغاز ہوا.انہیں تلقین کی گئی کہ ستر ڈھانپ کر رکھیں اور اپنے بچوں کے چہروں کو روایت کے مطابق داغنے سے گریز کریں اور کسی کو گھٹنوں کے بل جھک کر سلام نہ کیا جائے.یہ تھا وہ نقطہ آغاز جس سے گولڈ کوسٹ میں تبلیغ اور تربیت کے کام کا آغاز ہوا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے اندر اتنی اعلی صلاحیتیں رکھی ہوئی تھیں کہ جلد ہی یہاں کی جماعت دوسری جماعتوں کے لیئے ایک نمونہ بن گئی.(۱) دسمبر ۱۹۲۲ء میں نیر صاحب نائیجیریا کے لیئے روانہ ہوئے.اس مختصر قیام کے دوران مختلف مقامات پر جماعتیں قائم ہو چکی تھیں اور ان جماعتوں کا مرکز سالٹ پانڈ تھا.جنوری ۱۹۲۲ء میں مکرم فضل الرحمن صاحب حکیم کو گولڈ کوسٹ کے لئے مبلغ بنا کر بھیجا گیا.آپ نے سات سال گھانا میں فریضہ تبلیغ سرانجام دیا.آپ کی کاوشوں.مقامی معلمین تیار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا.سالٹ پانڈ کے مقام پر جماعت کا سکول کھلا اور اشانٹی کے علاقے میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.مولانافضل الرحمن صاحب حکیم کے بعد مولانا نذیر احمد صاحب علی کو مبلغ بنا کر گولڈ کوسٹ بھیجا گیا.آپ نے اخبارات میں احمدیت کے متعلق مضامین چھپوانے کا سلسلہ شروع کیا اور اس طرح تبلیغ کا ایک نیا راستہ کھلا.اس ملک کے معاشرے میں بہت سی مشرکانہ رسوم پائی جاتی تھیں جو احمدیوں کی تربیت میں بھی روک بنتی تھیں.مولانا نذیر احمد صاحب علی نے ان کے خلاف ایک منظم جہاد شروع کیا.اس دور میں گولڈ کوسٹ کے تمام تعلیمی ادارے عیسائیوں کے تسلط میں تھے اور اکثر میں بائیبل کی تعلیم دی جاتی تھی.مولانا نذیر احمد علی صاحب نے جماعت کے مزید چار سکول کھولے اور اس طرح ان کی مجموعی تعداد پانچ ہوگئی.ان سکولوں میں دنیاوی تعلیم کے علاوہ قرآن مجید اور دینی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی.چار سال کے بعد مولانا نذیر احمد صاحب علی کو واپس قادیان بلا لیا گیا اور ۱۹۳۳ء میں ایک مرتبہ پھر فضل الرحمن صاحب حکیم کو گولڈ کوسٹ میں مبلغ مقرر کیا گیا.آپ نے اس دور میں اشانٹی کے کچھ احمدی مخلصین کے ساتھ کو اؤ ( Kwaw) کے علاقے کی طرف تبلیغی سفر کیا.بعض مخلصین تو ایک ہفتہ پیدل سفر کر کے اس علاقے میں پہنچے.ایک مجاہد یعقوب صاحب راستے میں نمونیہ ہو جانے کے

Page 43

33 33 باعث شہید ہو گئے.اس دورے میں ہزاروں لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا اور اس طرح کو اؤ کے علاقے میں جماعت قائم ہوئی.۱۹۳۴ء میں حکیم فضل الرحمن صاحب کو نا یجیر یا بھجوا دیا گیا.اور گولڈ کوسٹ کے لئے ایک بار پھر مولانا نذیر احمد صاحب علی اور سیالکوٹ کے ایک نوجوان مولانا نذیر احمد صاحب مبشر بھجوائے گئے.یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اس ملک میں بیک وقت دو مرکزی مبلغین کام کر رہے تھے.ایک طرف تو تبلیغ کا دائرہ بڑھ رہا تھا اور دوسری طرف جماعت کی تربیت کی ضروریات میں دن بدن اضافہ ہور ہا تھا.چناچہ اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ بڑی تعداد میں مقامی مبلغین تیار کیئے جائیں.مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے مقامی مبلغین کی تیاری کا کام شروع کیا.احمدی ہونے والوں میں جب مثبت تبدیلیاں پیدا ہونے لگیں تو یہ بات بعض چیف صاحبان کو ناگوار گزری.کیونکہ ان کی احمدی رعایا شریعت کی پابندی کرتے ہوئے نہ تو ان چیف صاحبان کے لیئے شراب اٹھاتی تھی اور نہ ہی خلاف شریعت دیگر رسومات میں شامل ہوتی تھی.چنانچہ ابا کرامیہ کے چیف نے قسم کھائی کہ وہ اب اپنے علاقے میں احمدیت کی تبلیغ کی اجازت نہیں دے گا.جب کچھ افسران کا دباؤ پڑا تو ان کو یہ قسم توڑنی پڑی.لیکن پھر چیفس کی کونسل میں احمدیت کی تبلیغ کا مسئلہ دوبارہ اٹھایا گیا.جب جماعت کے مبلغ نے جماعت کی تعلیمات وہاں پر بیان کیں تو ان کے تمام شبہات دور ہو گئے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ اب احمد یوں کو تنگ نہیں کیا جائے گا.۱۹۳۹ء میں بیرونِ ہند کی جماعتوں میں کئی لحاظ سے گولڈ کوسٹ کی جماعت کو ایک انفرادی مقام حاصل تھا.یہاں پر جماعت کے سکولوں کی تعداد ے تھی.اس وقت ہندوستان سے باہر کسی اور ملک میں جماعت کے اتنے تعلیمی ادارے کام نہیں کر رہے تھے.ایگزیکٹیو کمیٹی کے نام سے مختلف سیکریٹریان کی ایک کمیٹی کام کر رہی تھی جو اپنے فرائض لگن سے ادا کر رہے تھے.مقامی مبلغین کی ایک خاطر خواہ تعداد تیار ہو چکی تھی.ان میں سے بہت سے کل وقتی طور پر جماعت کا مبلغ بن کر کام کر رہے تھے.اور بسا اوقات پیدل لمبے لمبے سفر کر کے مختلف علاقوں میں پہنچ کر احمدیت کا پیغام پہنچاتے.بعض سالوں میں ان کی تعدا دسترہ تک بھی پہنچ جاتی تھی.اس کے علاوہ یہاں پر لجنہ کی تن کا آغاز ہو چکا تھا اور اس تنظیم کے ذریعہ احمدی عورتوں کی تربیت کا اہم کام کیا جا رہا تھا.ایک تعلیم یافتہ احمدی خاتون سعیدہ بنت جمال خصوصیت سے احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت میں فعال کردار ادا

Page 44

34 == کر رہی تھیں.یہ کاوشیں اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوئیں اور اس ملک میں جماعت تیزی سے ترقی کرنے لگی.(اتا۴) (۱) الفضل ۱۹مئی ۱۹۲۱ء ص ۳-۵ (۲) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء ص ۳۴ -۵۲ (۳) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۸ء ۱۹۳۹ء ص ۸۷ - ۹۵ (۴) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۳۶ء.۱۹۳۷ء ص ۴۱ ۴۴۰ ماریشس ماریشس بحیرہ ہند میں واقعہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے.آبادی کی اکثریت ہندو ہے.ملک کی تیرہ فیصد آبادی مسلمان ہے.یہاں پر بسنے والوں کی اکثریت ان لوگوں کی اولاد سے ہے جو ہندوستان سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے.اس مشن کے قیام کا تذکرہ کتاب کے حصہ اول میں آچکا ہے.ماریشس میں پہلی بیعت ۱۹۱۲ء میں ہوئی تھی.یہ خوش نصیب محترم نور محمد نور و یا صاحب تھے جو مسلمانوں کے ایک دینی جریدے کے ایڈیٹر تھے.آپ تک احمدیت کا پیغام ریویو آف ریلجز کے ذریعہ پہنچا تھا.۱۹۱۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے پہلا مبلغ ماریشس بھجوایا.یہ مبلغ حضرت مسیح موعود کے صحابی حضرت صوفی غلام محمد صاحب تھے.جب کام میں اضافہ ہوا تو مرکز کی طرف سے مکرم مولوی عبید اللہ صاحب کو بھی بھجوایا گیا.آپ نے چھ سال جانفشانی سے وہاں پر فریضہ تبلیغ ادا کیا اور پھر ماریشس میں ہی آپ کا انتقال ہوا.۱۹۳۹ء میں مکرم حافظ جمال احمد صاحب یہاں پر جماعت کی طرف سے مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے.حضرت مصلح موعودؓ نے ماریشس میں آپ کی تقرری ۱۹۲۸ء میں فرمائی تھی.جب آپ نے بیوی بچوں کو ساتھ لے جانے کی اجازت طلب کی تو حضور نے اس شرط پر اجازت مرحمت فرمائی کہ ساری زندگی ماریشس میں گزارنی ہوگی اور واپسی کی اجازت نہیں ہوگی.آپ ایک اچھے مضمون نگار

Page 45

35 تھے چنانچہ آپ نے احمدیت کی تبلیغ کے لیے بہت سے پمفلٹس شائع کیئے.آپ کے دور میں ماریشس میں جلسہ سیرت النبی ﷺ کا آغاز ہوا.ماریشس میں آریوں نے اسلام کے خلاف مہم چلائی ہوئی تھی.آپ نے کامیابی کے ساتھ آریوں کا مقابلہ کیا.۱۹۳۹ء میں ماریشس میں ۱۸ جماعتیں قائم تھیں.جماعت کا ملکی مرکز روز بل کے مقام پر تھا.جماعت کی طرف سے تبلیغی مساعی جاری تھی اور اردو انگریزی اور فرانسیسی زبان میں اشتہارات بھی شائع کیئے جاتے تھے (۱تا۳) (۱) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یه ۱۹۳۶ء.۱۹۳۷، ص ۱۴۴-۱۴۵ (۲) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸، ص ۱۳۲ ۱۳۵ (۳) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ص ۱۹۳۹ء.۱۹۴۰ء ص ۹۸ بلاد عربیه بلاد عربیہ بالخصوص حیفا و کبابیر ( فلسطین) میں جماعت کے قیام اور ابتدائی ترقی کا ذکر کتاب کے حصہ اول میں گذر چکا ہے.جب ۱۹۳۱ء میں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کو واپس قادیان بلایا گیا تو مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب کو حیفا میں مبلغ مقرر کیا گیا.اللہ تعالیٰ نے انہیں ساڑھے چارسال نہایت کامیاب خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی.۱۹۳۹ء میں یہاں پر مکرم چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے.بلا دعر بیہ میں جماعت کا مرکز حیفا ( فلسطین) میں تھا.یہ علاقہ برطانیہ کے زیر تسلط تھا.اس دور میں فلسطین میں سیاسی مسائل کی وجہ سے امن عامہ کے حالات دگرگوں تھے.ہر روز بیسیوں آدمی قتل ہو جاتے اور سینکڑوں کو جیل خانے میں ٹھونس دیا جاتا.روزانہ کم و بیش دو تین کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا.آنے جانے پر طرح طرح کی پابندیاں لگی ہوئی تھیں.ان دشواریوں کی وجہ سے تبلیغ کا کام بہت محدود پیمانے پر ہی ہوسکتا تھا.جماعت کبابیر اس وقت ایک نہایت خطرناک دور سے گذر رہی تھی.ان ایام میں دہشت گردوں نے جماعت احمدیہ کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا چاہا.شام سے فتوے بھجوائے گئے کہ احمدی مبلغ کو قتل کر دیا جائے اور جس مکان میں وہ رہتا ہے اسے ڈائنامائٹ سے اڑا دیا جائے.اور دوسرے سرکردہ احمدیوں کو بھی قتل کر دیا جائے.چنانچہ ایک دن کہا بیر کے احمدیوں کو پیغام ملا کہ پانچ سو پونڈ دوورنہ

Page 46

36 ہم تمہیں خوارج قرار دے کر قتل کر دیں گے.یہ غریب جماعت اتنی رقم کا انتظام کہاں سے کرتی.جس وقت عشاء کی نماز ہو رہی تھی دس مسلح آدمیوں نے مسجد کا محاصرہ کر لیا اور دس آدمیوں کو قتل کرنے کے لئے لے گئے.پھر پاس کے گاؤں کے بااثر آدمیوں کی مداخلت پر انہیں چھوڑا اور یہ حملہ آور پچاس پونڈ کی رقم لے کر فرار ہو گئے.ابھی چند ہی روز گذرے تھے کے شر پسندوں کا یہ گروہ خدا تعالیٰ کی گرفت میں آ گیا.ان کے بہت سے ساتھی قتل ہوئے اور پھر ان کا سرغنہ بھی پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گیا.پھر دہشتگردوں کا یہ گروہ ختم ہو گیا.علاقہ میں مشہور ہو گیا کہ ان کو احمد یوں پر ظلم کرنے کی سزا ملی ہے.جنوری ۱۹۳۹ء میں حضرت منیر الحصنی صاحب کا روبار کے سلسلے میں دمشق منتقل ہوئے.ان کی کاوشوں سے دمشق کی جماعت منظم ہونا شروع ہوئی.ایک مکان کرایہ پر لے کر اجتماعات کا سلسلہ شروع کیا گیا تبلیغ کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ مخالفت زور پکڑ گئی.مشائخ دمشق نے منیر الحصنی صاحب کے قتل کا ارادہ کیا.اور کہلا بھیجا کہ جس گھر میں احمدی جمع ہوتے ہیں اس کو آگ لگا دی جائے گی.چناچہ مجبوراً یہ سلسلہ روکنا پڑا.لیکن انفرادی تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا.فروری ۱۹۴۰ء میں ایک بڑے عالم نے احمدیوں کے ساتھ مباہلہ کا ارادہ کیا.مگر اس نے کچھ منذ ر خوا ہیں دیکھیں تو مباہلے سے انکار کر دیا.اس امر کا زیر تبلیغ احباب پر بہت اچھا اثر ہوا.حضور کے ارشاد کے تحت مولوی محمد دین صاحب پہلے اسکندریہ اور پھر قاہرہ میں مقیم رہ کر جماعت کی تربیت اور تبلیغ کے لئے سعی کر رہے تھے.اور مصر کی جماعت میں بیداری پیدا ہو رہی تھی.یہ دور بغداد کی جماعت کے لئے بھی آزمائش کا دور تھا.حکومت عراق نے ارادہ کیا تھا کہ احمدیوں کو عراق سے نکال دے اور اس کے لئے تحقیقات بھی شروع کی گئیں مگر پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ عمل رک گیا.مگر حکومت کا معاندانہ رویہ جاری رہا.اس کے با وجود وہاں کے احمدی تبلیغی کوششیں کرتے رہے.(۲۱) (۱) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۸ء.۱۹۳۹ء ص ۶۹-۷۴ (۲) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۹ء.۱۹۴۰، ص ۹۹ - ۱۰۷

Page 47

انڈونیشیا: 37 سے اس وقت یہ علاقہ ہالینڈ کے زیر تسلط تھا.اور جاوا اور سماٹرا میں جماعت کے مشن کامیابی.کام کر رہے تھے.ان کے آغاز اور ابتدائی حالات کی کچھ تفاصیل کتاب کے حصہ اول میں آ چکی ہیں.دونوں مقامات پر ہونے والی جدوجہد کا ایک خاکہ پیش ہے سماٹرا میں اس وقت مولوی محمد صادق صاحب بطور مبلغ کام کر رہے تھے اور ان کے ساتھ یہاں کے فدائی احمدی مکرم ابو بکر ایوب صاحب تبلیغ احمدیت کے لئے کوشاں تھے.یہاں پر جماعت کا مرکز یہاں کے ایک شہر میدان میں تھا.جماعت کی طرف سے البشریٰ اور سینار اسلام کے جریدے بھی قدرے بے قاعدگی سے شائع ہو رہے تھے.انفرادی ملاقاتوں تبلیغی لیکچروں اور ملایا اور ڈچ زبان میں لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ ہو رہی تھی.۱۹۳۵ء تک تو عیسائیوں اور غیر احمدیوں سے بڑے بڑے مناظرے ہوئے ، جن میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی مگر جب مخالفین کو خفت اٹھانی پڑی تو انہوں نے مناظروں اور مباحثوں سے کترانا شروع کر دیا.مگر مخالفانہ روش میں پہلے سے بھی بڑھ گئے.تعصب اتنا بڑھ گیا کہ اگر کوئی شخص احمد یہ مشن کا راستہ بھی پوچھتا تو اسے یہی کہا جاتا کہ اب یہاں پر کوئی احمدی نہیں رہتا.ہالینڈ کی حکومت کے ماتحت بہت سے علاقائی سلاطین اپنے اپنے علاقے میں اثر و رسوخ رکھتے تھے اور مذہبی معاملات ان کی وساطت سے ہی طے ہوتے تھے اور حکومت ان میں کم ہی مداخلت کرتی تھی.ان سلاطین نے اپنے اپنے قاضی اور علماء مقرر کئے ہوئے ا تھے.ان علماء اور سلاطین کی طرف سے احمدیت کی سخت مخالفت ہو رہی تھی.یہ جماعت کی تبلیغ کو روکنے کی کوشش کرتے.مقرر شدہ قاضی کی توثیق کے بغیر کوئی نکاح رجسٹر نہیں ہو سکتا تھا.ان قاضیوں نے احمدیوں کے نکاح کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا.حکومت نے بھی شروع میں مدد نہ کی.مگر پھر احمد یوں کی ہمت اور ثبات قدم سے احمدیوں کو اپنے علیحدہ نکاح پڑھنے کی اجازت مل گئی.علماء کی طرف سے قبرستانوں میں احمدیوں کی تدفین پر بھی پابندی لگا دی گئی اور انہیں یہ کہہ کر مرتد کرنے کی کوشش کی گئی کہ اگر تم مر گئے تو کسی قبرستان میں قبر کی جگہ بھی نہ مل سکے گی.احمدیوں نے اپنا علیحدہ قبرستان لے لیا اور اس طرح یہ شور و غوغا بھی تھم گیا.

Page 48

38 جاوا میں احمدیہ مشن ۱۹۳۰ء میں کھولا گیا اور ابتدائی سالوں میں یہاں چھ جماعتیں قائم ہو گئیں.مشن ہاؤس کرائے کی عمارت میں شروع کیا گیا اور گاروت میں زمین خرید کر مسجد کی تعمیر شروع کر دی گئی.تبلیغی مجالس میں غیر احمدی مسلمانوں اور عیسائیوں سے دلائل کا تبادلہ ہوتا اور اس طرح لوگ احمدیت کی صداقت کے دلائل سنتے.اور سونڈی اور ملا یا زبان میں لٹریچر شائع کر کے تبلیغ کے کام کو اور وسعت دی گئی.مولوی رحمت علی صاحب اور مولوی عبدالواحد صاحب کے سمیت یہاں پر پانچ مبلغین مصروف تبلیغ تھے.مسلمانوں کی تنظیمیں مخالفت میں پیش پیش تھیں اور ایک تنظیم Party Anti Ahmaddiyyah خالصتاً احمدیت کی مخالفت کے لئے بنائی گئی تھی.ان عوامل کے باوجود جماعت ترقی کر رہی تھی اور تبلیغی لٹریچر شائع کرنے کے لئے ایک چھوٹا سا پر لیس بھی خریدا گیا تھا.جاوا میں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم بھی قائم ہوگئی تھی اور ایو کرسینہ صاحبہ اس کی پہلی صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کر رہی تھیں.مکرم مولوی رحمت اللہ صاحب جو ستمبر ۱۹۳۷ء میں تیسری دفعہ جاوا بھیجے گئے تھے سوا دوسال کے بعد دسمبر ۱۹۳۹ء کو قادیان واپس تشریف لے آئے.(۱ تا ۵) (۱) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد به ۱۹۳۴ء.۱۹۳۵، ص۹۰ ۱۰۰ (۲) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۳۵ء.۱۹۳۶ ء ص ۱۲۱.۱۴۱ (۳) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء ص ۱۳۹-۱۴۲ (۴) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۸ء.۱۹۳۹ ص ۱۴۱-۱۵۰ (۵) الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۰ء ص ۷ پرما برما کی اکثر آبادی بدھ مذہب سے وابستہ ہے.کچھ مسلمان شاہ شجاع کے زمانے میں وہاں جا کر آباد ہوئے تھے.ان کو زیر آبادی کہا جاتا تھا.لیکن یہ اپنے ماحول میں بھی پسماندہ سمجھے جاتے تھے.یہاں پر مختلف مقامات پر احمدی تو پہلے سے موجود تھے اور ۱۹۳۷ء میں ایک دوست احسان اللہ سکدار پیدل برما سے قادیان بھی آئے تھے.اپریل ۱۹۳۸ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے

Page 49

39 مکرم مولانا احمد خان نسیم صاحب کو برما میں تبلیغ کے لئے بھجوایا اور ہدایت دی کہ زیادہ تر تبلیغی کوششیں زیر آبادی کے لوگوں میں کی جائیں.زیر آبادی کے لوگ ہندوستان کے ان باشندوں کی اولا د سے تھے جو شاہ شجاع کے زمانے میں ہندوستان سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے.مکرم احمد خان صاحب نسیم نے یہاں پر رہنے والے احمدیوں کے ساتھ مل کر تبلیغ شروع کی اور جلد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا.زیادہ تر نواحمدی زیر آبادی سے تعلق رکھتے تھے.(۱) (۱) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۸ء.۱۹۳۹ء ص ۱۵۱_۱۵۵ سیلون (موجودہ سری لنکا) سیلون ان خوش قسمت ممالک میں سے ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی احمدیت کا پودا لگ گیا تھا.اور آپ کی مبارک زندگی میں سیلون کے بعض افراد کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام جماعت کے انگریزی رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ذریعہ سیلون میں پہنچا.اور اسی دور میں ایک احمدی محترم منشی محمد حیدر خان صاحب سیلون میں وارد ہوئے اور اپنے طور پر احمدیت کا پیغام یہاں رہنے والوں کو پہنچانا شروع کیا.ان کی تبلیغ سے سیلون کے شہر کینڈی میں مکرم غوث محمد اکبر صاحب اور پھر مسلمانوں کی ایک انجمن کے صدر مکرم عبد العزیز صاحب تحریری بیعت کر کے میں داخل ہوئے.آپ نے احمدیت کے متعلق ایک ٹریکٹ بھی شائع کیا.۱۹۱۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت صوفی غلام محمد صاحب بطور مبلغ ماریشس جا رہے تھے.آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد پر تین ماہ کے لئے سیلیون رکے.آپ نے کولمبو اور کینڈی میں تبلیغ کی اور اس کے نتیجے میں تمہیں افراد بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.آپ نے یہاں پر متعد د تبلیغی لیکچر بھی دیئے اور آپ کے ایک لیکچر کو ایک مقامی اخبار نے شائع کیا.ان کاوشوں کے ساتھ ہی مخالفت کا آغاز ہو گیا.اور جماعت کے مخالف مولویوں نے حکومت کو درخواست دی کہ سیلون میں احمدیوں کے مبلغ کے داخلے پر پابندی لگائی جائے (۱).اور اُس وقت حکومت نے سیلون میں احمدی مبلغین کی آمد پر پابندی لگا دی جو بعد میں اُٹھالی گئی.۱۹۱۶ء کی عید کے موقع پر عبدالعزیز صاحب کے ٹریکٹ کا تامل

Page 50

40 40 ترجمہ شائع کیا گیا.۱۹۱۶ء میں جماعت احمد یہ سیلون نے مرکز کولکھا 'جب سے مسٹر عبد العزیز مرحوم کی کتاب احمد علیہ السلام کے مشن کے متعلق شائع ہوئی ہے ہم پر ہر طرف سے سوالات کا زور ہے، جن کا جواب دیا جانا نہایت ضروری ہے.اکثر تحقیق حق کے لئے سوالات کرتے ہیں جن سے امید ہے کہ جواب ملنے پر داخل سلسلہ حقہ ہو جا ئینگے.ملا ئیں لوگ ہم کو جگہ سے بے دخل کرنے کی سخت کوشش کر رہے ہیں.اور اگر ہمارے پاس جلدی ہی کوئی ایسا مبلغ جو انگریزی و عربی دان ہو نہ بھیجا جائے گا تو ہمیں ڈر ہے.جلد ہی ہماری مددفرماویں.موجودہ وقت ہم پر نہایت سخت گذر رہا ہے.وہ ہماری نسبت طاقتور ہیں.اور ہمارے خلاف ایسی باتیں پیش کرتے رہتے ہیں.جن سے لوگوں کو اشتعال پیدا ہوتا ہے.(۲) مولوی محمد ابراہیم صاحب جو مالا بار (ہندوستان ) میں ماہی کے رہنے والے تھے ، تلاشِ حق کرتے ہوئے قادیان آئے اور احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ کچھ عرصہ قادیان میں رہے.پھر ۱۹۱۷ء میں آپ کو مبلغ بنا کر سیلون بھجوا دیا گیا.آپ کی آمد کے بعد تبلیغ کا کام از سر نو شروع کیا گیا اور سیلون سے ایک طالب علم مکرم ابوالحسن صاحب نے قادیان آکر کچھ عرصہ دینی تعلیم حاصل کی اور پھر سیلیون جا کر تبلیغ کے کام میں مکرم مولوی ابراہیم صاحب کا ہاتھ بٹانے لگے.۱۹۲۰ء میں کولمبو میں ایک عمارت حاصل کی گئی جو مشن ہاؤس اور مسجد کا کام دینے لگی.۱۹۲۰ میں احمدیت کی مخالفت نے نئے سرے سے زور پکڑا اور احمد یوں پر جھوٹے مقدمات بھی بنائے گئے.۱۹۲۱ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت سردار عبد الرحمن صاحب کو دورہ پر سیلون بھجوایا.آپ نے کولمبو اور کینڈی کے مقامات کے دورے کئے اور متعددلیکچر دیئے.آپ نے عیسائی پادریوں کو اور مسلمان علماء کو وفات مسیح پر مباحثے کے لئے تحریری چیلنج دیئے لیکن انہیں کسی نے قبول نہیں کیا.آپ کے دورہ کی خبر میں سیلون کے اخبارات میں شائع ہوتی رہیں.

Page 51

41 ۱۹۲۲ء میں سیلون کی جماعت نے اپنی سالانہ میٹنگ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اس ملک میں جماعت کے مبلغ کی آمد پر پابندی لگا دی گئی ہے اور بدھ اور عیسائی مبلغین کو سڑکوں اور گلیوں پر تبلیغ کرنے کی اجازت ہے مگر دوسری طرف اسلام کے مبلغین پر پابندی ہے کہ وہ سڑکوں پر تبلیغ نہ کریں.اُس وقت مولوی ابراہیم صاحب سیلون جماعت کے صدر تھے.(۳) ۱۹۲۷ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے سیلیون کا دورہ فرمایا.اور عیسائی ، بدھ اور مسلمان علماء سے مناظرے ہوئے.۱۹۳۱ء میں مولوی عبد اللہ مالا باری صاحب نے اس ملک میں با قاعده دارالتبلیغ قائم کیا.نیگومبو میں جماعت تو پہلے ہی قائم ہو چکی تھی ۱۹۳۱ء میں اس شہر میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا.مولوی عبداللہ صاحب نے سیلون میں ۱۹۵۱ ء تک خدمات سرانجام دیں.آپ چھ ماہ سیلون میں کام کرتے اور مالا بار واپس چلے جاتے.اور یہ سلسلہ ۱۹۵۱ء تک اسی طرح جاری رہا.(۴) Review of Religions, December 1916 p 477-478(1) (۲) الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۱۶ ء ص ۱ Review of Religions, march, April, May 1922p 195-196(μ) (۴) تاریخ سیلون مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۱ تا ۱۳ جاپان اس ملک میں پہلے مبلغ مکرم عبد القدیر صاحب نیاز تھے.جنہوں نے کوبے میں مشن قائم کیا.ان کو ایک مرحلے پر حکومت جاپان نے بعض شکوک وشبہات کی بناء پر حراست میں لے لیا مگر پھر تین ماہ کے بعد معصوم پا کر رہا کر دیا.ان کے قیام کا زیادہ عرصہ زبان سیکھنے میں صرف ہوا.آپ ۱۰ جنوری ۱۹۳۵ء کو جاپان پہنچے اور ۲ اگست ۱۹۳۸ء کو واپس تشریف لے آئے.ان کے بعد صوفی عبدالغفور جالندھری صاحب جاپان میں مبلغ مقرر ہوئے.آپ مارچ ۱۹۳۵ء کو جاپان پہنچے اور جنوری ۱۹۳۷ء کو واپس تشریف لے آئے.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۳۷ء.۱۹۳۸ء ص ۱۴۵- ۱۴۷)

Page 52

42 ہانگ کانگ اور سنگا پور مشن : ۱۹۳۵ء میں مشرق بعید میں احمدیت کی تبلیغ کا آغاز ہوا.جاپان مبلغین بھجوانے کے علاوہ ،ہانگ کانگ کے لئے صوفی عبدالغفور صاحب کو بھیجو یا گیا.انہوں نے ۱۹۳۵ء میں ہانگ کانگ مشن کا اجراء فرمایا.آپ ایک عمدہ مقرر تھے.آپ نے سوسائیٹیوں اور جلسوں میں تقاریر کر کے اہلِ ہانگ کانگ تک احمدیت کا پیغام پہنچانا شروع کیا.آپ نے تین سال تک وہاں پر فریضہ تبلیغ ادا کیا.۱۹۳۶ء میں یہاں پر اسلامی اصول کی فلاسفی کا چینی ترجمہ شائع کیا گیا اور پھر متعدد تبلیغی ٹریکٹ شائع کئے گئے.وسط ۱۹۳۷ء میں مولوی عبد الواحد صاحب ہانگ کانگ میں تشریف لائے.اس سے قبل آپ کنٹن ( چین ) میں زبان سیکھتے رہے تھے.آپ نے ڈھائی سال تک یہاں پر قیام کیا اور لوگوں تک اسلام کے پیغام کو پہنچایا.اکتوبر ۱۹۳۷ء میں مکرم محمد اسحاق صاحب مبلغ بن کر ہانگ کانگ تشریف لے گئے.اور تبلیغ کا کام جاری رکھا.۱۹۳۹ء میں سنگا پور میں مکرم غلام حسین صاحب ایاز مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے.سنگاپور میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے.ان کی طرف سے شدید مخالفانہ ردعمل دکھایا گیا.جمیعۃ دعوۃ اسلامیہ نے جلسوں میں احمدیوں پر کفر کے فتوے لگائے اور لوگوں کو اکسایا کہ ان کا قتل کرنا جائز ہے.کچھ احمد یوں کو مارا پیٹا گیا.راہ چلتے احمدیوں کو گالیاں دے کر تنگ بھی کیا گیا.لیکن ان نامساعد حالات کے باوجود سنگاپور کے باشندوں کو پیغام حق پہنچایا جا رہا تھا اور ایک ایک کر کے سعید وجود احمدیت میں داخل ہورہے تھے.یہ ایک مختصر خاکہ ہے کہ ۱۹۳۹ء میں اکناف عالم میں احمدیت کا پیغام کس طرح پہنچایا جا رہا تھا اور کس طرح مختلف مقامات پر احمدیت کے چھوٹے چھوٹے جزیرے بنے شروع ہوئے تھے.تاریخ کے اس موڑ پر دنیا ایک ایسی تباہی کے کنارے پر کھڑی تھی جس کی نظیر اس سے قبل کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی.دنیا کو ایسا دھکا لگنے والا تھا جس سے تمام عالم کا سیاسی منظر ، پوری دنیا کی اقتصادیات اور معاشی قدریں سب کچھ تبدیل ہو کر رہ جانا تھا.یا دوسرے لفظوں میں اس واقعہ نے بیسویں صدی کو دو موٹے حصوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا.اور اس سے وقتی طور پر جماعت کی عالمگیر تبلیغ کی مہم بھی متاثر ہوئی.

Page 53

43 عالمی منظر پر تبدیلیاں اور دوسری جنگ عظیم کا آغاز جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو سعادت مندا سے قبول کر کے انعامات کے حقدار بنتے ہیں..اور جو بدنصیب اس کے مقابل پر شوخی اور استہزاء سے کام لیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے حصہ پاتے ہیں.اگر اس اتمام حجت کے بعد بھی دنیا گناہوں میں ترقی کرتی جائے تو یہ بد اعمالیاں خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے کا باعث بنتی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وما کنا معذ بین حتی نبعث رسولا (1) یعنی ہم ہرگز عذاب نہیں دیتے یہاں تک کہ کوئی رسول بھیج دیں.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں ”خدا فرماتا ہے کہ محض اس عاجز کی سچائی پر گواہی دینے کے لئے اور محض اس غرض سے کہ تا لوگ سمجھ لیں کہ میں اس کی طرف سے ہوں پانچ دہشتناک زلزلے ایک دوسرے کے بعد کچھ کچھ فاصلہ سے آئیں گے تا وہ میری سچائی کی گواہی دیں.اور ہر ایک میں ان میں سے ایک ایسی چمک ہوگی کہ اس کے دیکھنے سے خدا یاد آجائیگا اور دلوں پر ان کا ایک خوفناک اثر پڑے گا اور وہ اپنی قوت اور شدت اور نقصان رسانی میں غیر معمولی ہوں گے جن کے دیکھنے سے انسانوں کے ہوش جاتے رہیں گے.یہ سب کچھ خدا کی غیرت کرے گی کیونکہ لوگوں نے وقت کو شناخت نہیں کیا.‘(۲) اپریل ۱۹۳۸ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو رویا و کشوف کے ذریعہ ایک ایسی خوفناک تباہی کی خبر دی گئی جس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لینا تھا.پہلے حضور نے نیم غنودگی میں نظارا دیکھا کہ آپ نے سورۃ نوح کی تلاوت کی ہے.اس سورۃ میں حضرت نوح کی تبلیغ ، ان کی قوم کے انکار اور اس کے نتیجے میں آنے والے عذاب کا ذکر ہے.اس کے ایک ہفتہ کے بعد آپ نے رویا دیکھا کہ حضور اٹلی اور برطانیہ کے درمیان سمندر میں ایک کشتی میں ہیں اور شدید گولہ باری شروع ہو جاتی ہے حتی کہ معلوم ہوتا ہے کہ فضا گولوں سے بھر گئی ہے.اسی اثناء میں یکدم آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ایک زبر دست طوفان آیا ہے اور دنیا میں پانی ہی پانی ہو گیا ہے.اس رویا میں اٹلی کو مغرب میں

Page 54

44 اور انگریز علاقے کو مشرق میں دکھایا گیا تھا جب کہ اصل میں برطانیہ اٹلی کے مغرب میں ہے.دراصل اس میں جنگ کے انجام کی طرف اشارہ تھا کیونکہ علم العبیر کی رو سے مشرق اقبال پر دلالت کرتا ہے اور مغرب بدبختی اور عاجزی کو ظاہر کرتا ہے.(۳) آپ کی طبیعت پر اس رویا کا اتنا اثر تھا کہ آپ نے اس وقت بیدار ہو کر تلاوت شروع کر دی.آپ کی حرم حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ تحریر فرماتی ہیں کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ اس تڑپ سے تلاوت کر رہے تھے کہ لگتا تھا کہ آپ کا دل پھٹ جائے گا اور آپ کی فریاد عرشِ الہی کو ہلا دے گی.(۴) آپ نے ۱۹۳۸ء کی مجلس شوریٰ میں یہ رویا بیان فرما کر جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دلائی.اب ہم ذرا ٹھہر کر جائزہ لیتے ہیں کہ جس وقت حضور نے یہ رویا بیان فرمائی اور یہ رویا مشاورت کی رپورٹ میں شائع بھی ہوئی اس وقت بین الاقوامی حالات کیا منظر پیش کر رہے تھے.کیا اس وقت حالات کا رخ دیکھنے سے اس بات کے کوئی امکانات نظر آرہے تھے کہ جلد دنیا ایسی خوفناک جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی جس کی نظیر تاریخ میں نہ ملتی ہو.یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت جرمنی کی فوجی قوت میں اضافے کی وجہ سے یورپ کے سیاسی افق پر تناؤ کی کیفیت تھی اور ۱۹۳۸ء کے آغاز میں آسٹریا پر جرمنی کے قبضے کی وجہ سے اس تناؤ میں اضافہ ہو گیا تھا.اس وقت برطانیہ اور فرانس یہ تو محسوس کر رہے تھے کہ جرمنی کی طاقت میں اضافہ کوئی خوشکن پیش رفت نہیں ہے.لیکن اس بات کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے تھے کہ دوسری جنگِ عظیم جیسی آفت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی.انہی دنوں میں برطانوی وزیر اعظم چیمبر لین اس امید کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ ابھی جرمنی سے معاہدہ ہونے کی امید رکھتے ہیں.اور اس کے کئی ماہ کے بعد انہوں نے جرمنی جا کر چیکوسلاویکا کے مسئلے پر ہٹلر سے مذاکرات بھی کئے تھے اور بظاہر مفاہمت کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے.جولائی ۱۹۳۸ء میں برطانوی وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ یورپ کی کوئی بھی حکومت جنگ کی خواہاں نہیں ہے.بلکہ اگلے سال مارچ تک بھی برطانیہ کے ہوم سیکر یٹری یہ تقریر کر رہے تھے کہ وہ پر امید ہیں کہ امن کے پانچ سالہ منصوبے کے بعد ایک سنہرے دور کا آغاز ہوگا.اور جرمنی سے ایک تجارتی معاہدے کی باتیں ہو رہی تھیں.برطانیہ اور فرانس کی حکومتیں اس وقت جنگ کے امکانات کو زیر غور لانے کو بھی تیار نہیں تھیں اور امریکا کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا

Page 55

45 کہ وہ اس تنازعہ کا فریق بن جائے گا.(۵) اس رؤیا سے معلوم ہوتا تھا کہ اٹلی اور برطانیہ ایک دوسرے کے مقابل پر آئیں گے.جبکہ اسی ماہ اٹلی اور برطانیہ کی حکومتوں نے آپس میں معاہدہ کیا تھا.اور برطانیہ کی حکومت نے ایسے سینیا پر اٹلی کے تسلط اور سپین میں اٹلی کے عمل دخل کو قبول کر لیا تھا.اور اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے چرچل جیسے ذہین سیاستدان اس معاہدے سے پوری طرح متفق تو نہیں تھے مگر کھلم کھلا اس کی مخالفت کرنے سے بھی گریز کر رہے تھے کیونکہ ان کو امید تھی کہ اس معاہدے سے اٹلی کی طرف سے تنازع کے بگڑنے کے امکانات کم ہو جائیں گے اور اٹلی جرمنی پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ اپنی جارحانہ پالیسی ترک کر دے.(۵) مختصراً یہ کہ اس بات کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے تھے کہ پوری دنیا جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آجائے گی اور کروڑوں انسان اس کا شکار ہو جائیں گے.البانیہ پر قبضہ: ۱۹۳۹ء کے شروع ہونے کے بعد یورپ میں حالات مزید تیزی سے تبدیل ہونے لگے.جرمنی نے چیکوسلاویکا پر قبضہ کر لیا.اور ۲۵ مارچ کو اٹلی نے البانیہ کوالٹی میٹم دیا اور ۷ را پریل ۱۹۳۹ء کی صبح کو اطالوی فوجیں البانیہ میں داخل ہونا شروع ہوئیں اور کچھ جھڑپوں کے بعد البانیہ پر قبضہ ہو گیا.اس سے قبل بھی البانیہ کو اٹلی کی زیر حفاظت ریاست (protectorate) کی حیثیت حاصل تھی مگر اب یہ رہی سہی آزادی بھی ختم ہو گئی.البانیہ کے بادشاہ کو فرار ہوکر لندن میں پناہ لینی پڑی.البانیہ کی ستر فیصد آبادی مسلمان ہے اور اس وقت ترکی کے علاوہ البانیہ یورپ کی واحد مسلم ریاست تھی.اس دور میں گنتی کے مسلم ممالک آزاد رہ گئے تھے اور اب ان میں سے ایک اور کی آزادی کا سورج غروب ہو گیا تھا.یہ صورت حال کسی المیہ سے کم نہیں تھی.(۶) اس قبضے کے دو روز بعد حضور نے مجلس مشاورت سے اختتامی خطاب میں جرمنی کی نازی اور اٹلی کی فاشسٹ حکومت کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا آج حالات دنیا میں اس قدر سرعت سے تبدیل ہورہے ہیں کہ ہمارا آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانا بے وقوفی ہے.ہر طرف سے مسلمانوں کو پیسا جارہا ہے اور ان پر عرصہ حیات

Page 56

46 تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اگر ہماری جماعت ان حالات میں بھی اپنی آنکھیں نہیں کھولے گی.اور جماعت کی مضبوطی کے لئے کوشش نہیں کرے گی.تو اس کے لئے زمانہ کی رفتار کا مقابلہ کرتے ہوئے ترقی کرنا بالکل ناممکن ہو جائے گا.یورپین طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے کے لئے بڑھتی چلی آرہی ہیں.اور ہم جنہیں خدا تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کے لئے کھڑا کیا ہے.اس بات پر مجبور ہیں کہ.اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے اپنی جماعت کو مضبوط کریں.یہ خطرات کوئی خیالی نہیں.حال میں البانیہ پر اٹلی نے جو قبضہ کیا ہے.اس کا صاف یہ مطلب ہے کہ اس کی پالیسی یہ ہے کہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کو بالکل ختم کر دیا جائے اور ان کی کوئی حکومت باقی نہ رہے.اور یہ قطعی اور یقینی بات ہے.میں نے اکثر کتابیں پڑھیں ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ اٹلی یقینی طور پر ٹر کی فلسطین اور سیر یا کو لینا چاہتا ہے.اور اگر شام اور فلسطین وغیرہ اس کے قبضے میں آجائیں تو عرب کے لئے کون سی حفاظت رہ سکتی ہے.‘‘ (۷) اس زمانے میں گو بظاہر آزاد مسلمان ریاستیں تھوڑی رہ گئی تھیں اور مسلمانوں کی سیاسی حالت دگر گوں نظر آ رہی تھی مگر ۱۹۳۶ء میں ہی حضرت مصلح موعودؓ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر مسلمانوں کو یہ بشارت دے دی تھی اسلامی حکومت کے قیام کے سب سے زیادہ خواب ہمیں ہی آتے ہیں اور خواب آنا تو لوگ وہم سمجھتے ہیں ہمیں تو الہام ہوتے ہیں کہ اسلامی حکومتیں دنیا میں قائم کی جائیں گی.(۸) دوسری جنگ عظیم کا آغاز البانیہ کی آزادی سلب ہونے پر تو یورپی طاقتوں نے کوئی خاص ردعمل نہیں دکھایا ، انہیں البانیہ کے سانحے سے کم ہی دلچسپی تھی.اس صورت حال میں جارحیت کرنے والوں کے حوصلے بڑھتے جا رہے تھے.ایسے سینیا، آسٹریا، چیکو سلاویکیا اور البانیہ کے بعد پولینڈ کی باری آتی نظر آ رہی تھی.اس بات کے آثار ظاہر ہو رہے تھے کہ اب نازی حکومت پولینڈ پر حملہ کر دے گی.برطانیہ اور فرانس کی اتحادی طاقتیں سر جوڑ کر بیٹھیں کہ اس بڑھتے ہوئے سیلاب کا کیا حل کیا جائے.پہلے روس کو ساتھ

Page 57

47 ملانے کی کوششیں ہوئیں کیونکہ اس وقت روس اور جرمنی کے باہمی تعلقات بہت خراب تھے.بظاہر کچھ پیش رفت ہوتی دکھائی دی اور بہت سے اصولی معاملات پر اتفاق رائے بھی ہوا لیکن کوئی حتمی معاہدہ نہ ہو سکا.روس کا اصرار تھا کہ جرمنی کے حملے کی صورت میں اسے اس بات کی اجازت ہونی چاہئیے کہ وہ پولینڈ میں اپنی فوجیں اتار سکے مگر پولینڈ کی حکومت روس سے بھی اتنا ہی خائف تھی جتنا جرمنی سے تھی.اس لئے وہ اس شرط پر رضامند نہیں ہورہی تھی.اس دوران سیاست کی بساط پر ایک اور حیران کن تبدیلی آنی شروع ہوئی اور با وجود تمام تر با ہمی نفرتوں کے روس اور جرمنی نے آپس میں مذاکرات شروع کر دئے.اور ۲۳ اگست ۱۹۳۹ء کو سوویت تاس ایجنسی نے اس خبر کا اعلان کیا کہ سوویت یونین اور جرمنی نے آپس میں اس بات پر معاہدہ کر لیا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے.اس کے ردعمل میں برطانیہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پولینڈ پر حملہ کی صورت میں وہ پولینڈ کی مدد کو آئے گا.یکم ستمبر ۱۹۳۹ء کی صبح کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا.اس پر برطانیہ نے جرمنی کوالٹی میٹم دے دیا.اب جنگ ناگزیر نظر آ رہی تھی.صرف اتحادیوں کی طرف سے رسمی اعلانِ جنگ باقی تھا.بالآخر ۳ ستمبر کو برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا.ہندوستان میں فوجی بھرتی اور حضور کا ارشاد: ادھر یورپ میں جنگ کے شعلے بھڑکنے شروع ہوئے جنہوں نے کچھ عرصے میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لینا تھا اور ا دہر ہندوستان میں ایک بحث شروع ہو گئی کہ اس جنگ میں ہندوستانیوں کو انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیئے کہ نہیں اور یہ بحث جنگ کے آخری ایام تک جاری رہی.اس بات کے آثار واضح نظر آرہے تھے کہ پہلی جنگ عظیم کی طرح اب بھی جنگی تقاضے پورے کرنے کے لئے انگریز حکومت کو ہندوستان سے وسیع پیمانے پر فوجی بھرتی کرنی پڑے گی.اور اس بات کے خطرات بھی نظر آرہے تھے کہ یہ جنگ ہندوستان تک بھی پہنچ سکتی ہے.اس لئے ہندوستان کا تعاون سلطنت برطانیہ کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتا تھا.انگریز ہندوستان پر ایک غیر ملکی حکمران کی حیثیت سے قابض تھے.اور بہت سے ہندوستانیوں کے دلوں میں ان کے خلاف جذبات پیدا ہونا قدرتی بات تھی.اس لئے ایک طبقے کا خیال تھا کہ انگریزوں سے بالکل کوئی تعاون

Page 58

48 نہیں کرنا چاہئیے ، ان کی شکست کی صورت میں ہی آزادی مل سکتی ہے.اس لئے ان کے دشمنوں سے تعاون کر کے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے.چنانچہ کانگرس کے سابق صدر سبھاس چندرا بوس ( Subha Chandra Bose) بھی ایسے ہی خیالات رکھتے تھے.وہ ۱۹۴۰ء میں ہندوستان سے فرار ہوئے اور برما میں جاپانیوں کے تعاون سے انڈین نیشنل آرمی کی تشکیل کرنی شروع کی.اس کا مقصد جاپانیوں کے ساتھ ہندوستان پر حملہ کر کے اسے آزادی دلانا تھا.ایک اور گروہ کا خیال تھا کہ اس وقت انگریزوں کو ہندوستان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے.اس لئے وہ زیادہ سے زیادہ مطالبات ماننے پر مجبور ہوں گے.اس لئے ہندوستانیوں کو اس وقت تک برطانوی فوج میں شامل نہیں ہونا چاہئیے جب تک انہیں فوری طور پر آزادی نہ مل جائے.چنانچہ کانگرس کے سیاستدانوں کا نقطہ نظر تھا کہ فی الفور ہندوستانیوں پر مشتمل ایک مرکزی عبوری حکومت قائم کرنی چاہئیے اور ہندوستان کو ایک آزاد ریاست کا درجہ ملنا چاہئیے تب کانگرس جنگ کی تیاریوں اور فوجیوں کی بھرتی کے معاملے میں حکومت سے تعاون کرے گی.برطانوی حکومت حالتِ جنگ میں یہ مطالبات مانے کو تیار نہیں تھی البتہ فوری طور پر ہندوستان کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے اور جنگ کے بعد آزادی دینے کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھانے کا اعلان کیا گیا اور یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ جنگ کے اختتام پر ایک آئین ساز اسمبلی منتخب کی جائے گی جو اقلیتوں کے حقوق کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے آئین سازی کرے گی.مگر کانگرس نے جنگی تیاریوں اور فوجی بھرتی کے معاملے میں حکومت کی مخالفت اور مظاہرے شروع کر دیئے.اور نومبر ۱۹۳۹ء میں کانگرس کی صوبائی حکومتوں نے استعفیٰ دے دیا.مسلمانوں میں سے احرار بھی حسب سابق کانگرس کے ساتھ تھے اور وہ بھی اس موقع پر فوجیوں کی بھرتی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے.اور انہوں نے گرفتاریاں پیش کرنی شروع کیں.احرار کے لیڈر حبیب الرحمن صاحب نے وائسرائے پر تنقید کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ اس مرحلہ پر کانگرس ملک کی صحیح راہنمائی کرے گی (۹).سکریٹری جنرل مجلس احرار داؤد غزنوی صاحب نے اعلان کیا کہ مجلس احرار کی بنیا د ر کھنے والے اور اسے چلانے والے قائدین کی ایک بڑی تعداد نے انفرادی حیثیت میں اپنے آپ کو کانگرس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے (۱۰).جب کچھ احرار کو حکومت نے گرفتار کیا تو اس پر مسلم لیگ کے حامی اخبار احسان نے یہ تبصرہ کیا

Page 59

49 مسلمان احرار کی حالت پر کڑھتا ہے.لیکن ہندو ہنستا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ اس کی چال دونوں طرح کارگر ہے.اگر احرار میدان میں ہوں تو مسلمانوں کے خلاف ان کی پیٹھ ٹھونکی جائے.اگر وہ جیل میں ہوں تو انہیں مطلب براری کا طعنہ دیا جائے کہ یہ سب کچھ الیکشن کے لئے ہو رہا ہے اور اسی طرح اگر عام مسلمانوں میں افتراق پیدا ہوتو بھی ان کے لئے مفید اور اگر احرار پر مصیبت نازل ہو تو بھی ان کے لئے وجہ مسرت کہ مسلمانوں کے ساتھ یہی کچھ ہونا چاہئیے.کاش بزرگانِ احرار آج بھی سوچیں اور سمجھیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی صحیح سیاسی ضروریات کیا ہیں اور وہ ہندوؤں کے چکر میں آکر جیل خانے یا مصیبتیں برداشت کرنے کی جگہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ کام کریں! (۱۱) گاندھی جی ایک اور نظریہ پیش کر رہے تھے.ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو اس جنگ میں عدم تشدد کا راستہ اپنانا چاہئیے.ہٹلر اور مسولینی اگر برطانیہ پر قبضہ کرتے ہیں تو وہ ان کا مقابلہ نہ کریں اور انہیں قبضہ کرنے دیں اور انہوں نے وائسرائے لارڈ پینلیتھگو سے ملاقات کر کے انہیں مشورہ دیا کہ برطانیہ کو چاہیے کہ ہتھیار رکھ دے اور روحانی طاقت سے ہٹلر کا مقابلہ کرے.بہت سے کانگریسی لیڈر بھی ان نظریات سے متفق نہیں تھے.بعد میں گاندھی جی نے انگریز حکومت کے خلاف تحریک چلا دی.ان کا مطالبہ تھا کہ انگریز حکومت کو چاہیے کہ فوراً ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں.اگر وہ ہندوستان چھوڑ دیں گے تو پھر جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے اور یہ مسئلہ حل ہو جائے گا.مسلم لیگ نے گو وار (War) کمیٹیوں میں شمولیت نہیں کی مگر جنگ کے لئے تیاریوں میں حکومت کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی پیدا نہیں کی.اور نہ ہی اس مطالبے سے اتفاق کیا کہ فوری طور پر دورانِ جنگ ہی ہندوستان کو آزاد کر دینا چاہئیے.وہ اب مسلمان اکثریتی علاقوں کے لئے ایک آزاد ملک کا مطالبہ کر رہے تھے.اور آزادی سے قبل اس بات کا تصفیہ چاہتے تھے.مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے ایک ریزولیشن کے ذریعہ مذاکرات کی دعوت دینے پر وائسرائے کا شکریہ ادا کیا.اور پولینڈ ،روس اور برطانیہ سے ہمدردی کا اظہار کیا.اس کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کی مکمل حمایت سے مستفید ہونا چاہتی ہے تو اسے چاہئیے کہ مسلمانوں کے مطالبات منظور کرے اور جن

Page 60

50 50 صوبوں میں کانگرس کی حکومت ہے وہاں کے مسلمانوں کو اُن کے حقوق دلائے (۱۲).پنجاب اور بنگال کے مسلمان وزراء اعظم اور ان کی حکومتیں جنگی تیاریوں میں حکومت سے تعاون کر رہی تھیں.مسلمانوں کے کچھ چھوٹے گروہ مثلاً خاکسار تحریک بھی حکومت سے تعاون کرنے پر آمادہ تھی اور اس کے لیڈر علامہ مشرقی نے اپنے سب اراکین کو فوج میں شامل کرنے کی پیشکش کی تھی.(۱۳ تا ۱۶) بہت سے سجادہ نشین بھی انگریز حکومت سے وفاداری کا اعلان کر رہے تھے.مثلاً پیر صاحب مکھڈ نے برطانیہ کے بادشاہ کے نام یہ پیغام بھجوایا دمیں اور میرے دربار کے تمام مرید اپنی حقیر خدمات اعلیٰ حضرت ملک معظم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں.ہم اپنے آپ کو جناب والا کے سپرد کرتے ہیں میں حضور کو یقین دلاتا ہوں.کہ دربار اور اس کے مرید ہزامپریل مجسٹی شہنشاہ معظم اور ان کی حکومت کے ساتھ وفاداری کی روایت کو جاری رکھیں گے.(۱۷) دوسری ریاستوں کی طرح ہندوستان کی مسلمان ریاستیں بھی انگریز حکومت کی حمایت کا اعلان کر رہی تھیں.نواب بھوپال نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ تمام ممالک اسلامیہ نے برطانیہ کو امداد دینے کا فیصلہ کر لیا ہے.لہذا ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی ممالک اسلامیہ کی تقلید میں برطانیہ کی امداد کرنی چاہئیے.ممکن ہے کہ مسلمانوں کو برطانیہ سے بعض شکایات بھی ہوں.لہذا موجودہ نازک وقت میں ان شکایات کو بالکل بھول جانا چاہئے.اور برطانیہ کی فراخدالی سے امداد دینی چاہیے.(۱۸).قبائلی علاقہ میں بھی فوج میں بھرتی کے متعلق ملے جلے خیالات کا اظہار کیا جا رہا تھا.مہمند قبیلہ نے پہلے جنگ کے آغاز میں اعلان کیا کہ وہ برطانیہ کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور قبائلی اس جنگ میں برطانیہ کی کوئی مدد نہیں کریں گے بلکہ برطانیہ کو فوجی مدد کی روک تھام کے لئے ایک خفیہ تنظیم قائم کی جائے گی.لیکن پھر کچھ ہی عرصہ میں انہوں نے رنگ بدلا اور نہ صرف سلطنت برطانیہ سے وفاداری کا اعلان کیا اور جب گورنر نے اُن کے علاقے کا دورہ کیا تو اُن کا پُر جوش خیر مقدم کیا گیا.(۲۰،۱۹) اسی طرح مسعودی قبیلہ نے نہ صرف انگریز حکومت سے وفاداری کا اعلان کیا بلکہ جنگ میں انگریزوں کی مدد کرنے کے لئے فراخدلی سے ۲۱ ہزار روپے کا چندہ بھی جمع کیا گیا.(۲۱) یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسی سال مسلم لیگ کو ایک سال میں پورے ہندوستان کے

Page 61

51 مسلمانوں سے صرف چودہ ہزار روپے کا چندہ وصول ہو ا تھا.(۲۲) بہر حال اس صورتِ حال میں افراد جماعت راہنمائی کے لئے اپنے امام کی طرف دیکھ رہے تھے.یہ سوال اس لئے بھی اہم تھا کہ کچھ عرصہ سے بعض انگریز افسران جماعت کے متعلق شدید مخالفانہ رویہ دکھا رہے تھے اور احمدیوں کے ذہنوں پر ان واقعات کا گہرا اثر تھا.حضور نے ایک خطبہ میں یہ صورتِ حال ان الفاظ میں بیان فرمائی گذشتہ پانچ سال سے انگریزوں کے لوکل نمائیند وں نے بلکہ ایک زمانہ میں حکومتِ پنجاب کے نمائندوں نے بھی جماعت سے جس قسم کا سلوک کیا وہ نہایت ہی ظالمانہ اور غیر منصفانہ تھا.بلکہ یہ حقیقت ہے کہ اپنی طرف سے انہوں نے جماعت کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی.انہوں نے اس کی عزت پر حملہ کیا.اس کے مال پر حملہ کیا.اس کی جائدادوں پر حملہ کیا.اس کے نظام پر حملہ کیا.اسی طرح انہوں نے ہمارے نظام کو توڑنے کے لئے مختلف قسم کی سازشیں کیں.(۲۳) لیکن بڑے فیصلے صرف چند تلخ واقعات یا وقتی جذبات کو مد نظر رکھ کر نہیں کئے جاتے.جیسا کہ اسی خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا ” میرے نزدیک ہرا ہم قدم جو انسان اٹھاتا ہے.اس سے پہلے اسے اپنے مختلف مصالح اور اپنے جذبات کے درمیان ایک فیصلہ کرنا پڑتا ہے..عظمند انسان ایسے مواقع پر اس مصلحت کے مطابق جو سب سے اہم ہو اور ان جذبات کے مطابق جو سب سے مقدس ہوں فیصلہ کر دیتا ہے.اور دوسری مصلحتوں اور دوسرے جذبات کو نظر انداز کر دیتا ہے.“ جنگ کے آغاز کے بعد حضور نے خطبات کے ایک سلسلے میں مختلف عوامل کا جائزہ اور موازنہ بیان فرمایا.اور فرمایا کہ اس جنگ میں اہلِ ہند کا انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے.کیونکہ اب یہ بات واضح ہے کہ انگریز اس ملک کو آزادی دیتے جائیں گے لیکن اگر ان کے دشمن غالب آگئے تو ایک تو مظالم کا دور شروع ہو جائے گا اور دوسرے آزادی کا عمل بھی تاخیر کا شکار ہو جائے گا.(۲۴) اور یہ کہ انگریز اپنی مخالف اقوام کی نسبت محکوم اقوام سے بہتر سلوک کرتے ہیں.اور ان کے تحت علاقوں میں تبلیغ کی آزادی زیادہ ملتی ہے اور یہ مذہبی معاملات میں کم سے کم مداخلت کرتے ہیں.(۲۵) ہندوستان میں حکومت کی طرف سے جبری بھرتی نہیں کی جا رہی تھی.جو فوج میں بھرتی ہوتا تھا

Page 62

52 اپنی مرضی سے ہوتا تھا.مختلف لیڈروں کا نقطہ نظر لوگوں کے سامنے آچکا تھا اور اب فیصلہ ان کے ہاتھ میں تھا.جنگ سے قبل فوج میں شامل ہندوستانیوں کی تعداد ۶۰۰۰۰ تھی.اب جب حکومت کی طرف سے بھرتی کا اعلان کیا گیا تو لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی فوج میں بھرتی ہوئے اور یہ تعداد پچیس لاکھ سے تجاوز کر گئی.اور بڑی تعداد میں ہندوستانیوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا.حکومت کو ہندوستان کے دفاع اور دوسرے مقامات پر فوج کے لئے ہندوستان سے جتنی تعداد در کارتھی وہ انہیں مل گئی.اگر چہ بہت سے بااثر سیاستدانوں کی طرف سے فوج میں بھرتی کی مخالفت کی گئی تھی مگر عوامی سطح پر اس نقطہ نظر کو زیادہ قبولیت حاصل نہیں ہوئی.(۲۶) آج جب ان واقعات کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے اور تمام حقائق ہمارے سامنے ہیں.ہم زیادہ بہتر انداز میں ان سب آراء کا تجزیہ کر سکتے ہیں جو دوسری جنگِ عظیم کے آغاز میں مختلف اطراف سے پیش کی جارہی تھیں.ایک رائے تو یہ تھی کہ اس موقع پر انگریزوں کے مخالفین یعنی جرمنی، اٹلی اور جاپان کا ساتھ دینا چاہیئے تاکہ ان کی مدد سے آزادی حاصل کی جائے.تاریخی حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو عقل اس خیال کو زیادہ وقعت نہیں دے سکتی.دوسری جنگ عظیم سے قبل بھی یہ طاقتیں ایک کے بعد دوسرے ملک کی آزادی سلب کرتی جارہی تھیں کسی ملک کو ان کے قبضے کے نتیجے میں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا.جرمنی تو آسٹریا اور چیکو سلاویکیا کو ہڑپ کر چکا تھا.اور اٹلی نے البانیہ اور ایسے سینیا کی آزادی غصب کر لی تھی ، اور جاپان نے کوریا کو غلام بنا کر اس کا وہ حشر کیا تھا کہ ان کے مظالم کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے.اب یہ خیال کہ ان کی افواج آئیں گی اور ہمیں آزادی کا تحفہ تھما کر رخصت ہو جائیں گی محض ایک خوش فہمی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا.دوسرا نظریہ یہ تھا کہ ہٹلر اور مسولینی تو قابلِ مذمت ہیں مگر اب موقع ہے کہ انگریزوں پر دباؤ ڈال کر آزادی حاصل کی جائے ورنہ انگریز ہندوستان کو آزاد نہیں کریں گے.پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی اور حکومت کو ہندوستان سے مطلوبہ افواج نہ مانتیں تو ظاہری بات ہے کہ اس سے جرمنی، اٹلی اور جاپان کو فائدہ پہنچتا.اور ایک مرحلے پر تو جاپانی افواج رنگون کو فتح کر کے ہندوستان کے دروازے پر پہنچ چکی تھیں.اگر ہندوستان کی حفاظت کے لئے خاطر خواہ فوج نہ موجود ہوتی تو لازماً کوریا ، سنگاپور، انڈونیشیا اور برما کی طرح ہندوستان پر بھی جاپانی افواج کا قبضہ ہو

Page 63

53 جا تا.اب تک اس وقت کی جاپانی حکومت محکوم اقوام سے جو سلوک کر رہی تھی وہ اتنا بہیمانہ تھا کہ اس کے پڑھنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.۱۹۳۲ء سے ان کا طریق تھا کہ وہ مفتوح اقوام سے اغوا کر کے یا دوسرے ذرائع سے عورتیں حاصل کر کے انہیں محاذ جنگ سے قریب comfort houses میں رکھتے.جہاں ان کے فوجی ان مظلوم عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے.اس دور میں ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ عورتوں کو ان comfort houses میں قید رکھا گیا تھا.ان میں سب سے زیادہ تعداد کو ریا کی خواتین کی تھی.ان کے علاوہ فلپائن ، چین ،انڈونیشیا اور برما سے بھی عورتوں کو اغوا کر کے بہیمانہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا.جاپان نے کوریا پر قبضہ کیا تو وہاں کے لوگوں کی صرف سیاسی آزادی ہی نہیں مذہبی آزادی بھی سلب کر لی ، زبر دستی جاپانی نام اور جاپانی زبان اپنانے پر مجبور کیا.ان حقائق کو دیکھتے ہوئے ایسے حالات پیدا کرنا جس کے نتیجے میں ہندوستان جاپانی تسلط میں چلا جائے کوئی دانشمندی نہ ہوتی.یہ بات بھی اہم ہے کہ جنگ جیتنے کے جلد بعد ہندوستان کو ویسے ہی آزاد کر دیا گیا تھا.بلکہ یہ عمل اتنی جلدی مکمل ہوا تھا کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا.یہ خیال بھی صحیح ثابت نہیں ہوا کہ اگر دورانِ جنگ انگریزوں کی مجبوری کا فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر آزادی کا عمل تاخیر کا شکار ہو جائے گا.حقیقت یہی ہے کہ قومی امور کے فیصلے صرف جذبات کی رو میں بہہ کے یا انتقام کے جذبے کے تحت نہیں کئے جاتے بلکہ توازن اور عقل کے ساتھ فیصلہ کرنا پڑتا ہے.اور اسوقت ہندوستان کے مفادات کا تقاضہ یہی تھا کہ ایسے حالات نہ پیدا کئے جائیں جن سے محوری طاقتوں کو فائدہ پہنچے، جس کے نتیجے میں وہ ہندوستان پر قبضہ کر لیں اور ہندوستان پہلے سے بھی گری ہوئی حالت میں چلا جائے.جہاں تک گاندھی جی کے اس نظریہ کا تعلق ہے کہ اگر انگریز ہندوستان چھوڑ دیں تو پھر جاپان حملہ نہیں کرے گا اور مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا تو اس ضمن میں پہلے یہ دیکھنا چاہئیے کہ اب تک جرمنی، اٹلی اور جاپان نے جن ممالک پر قبضہ کیا تھا ، کیا وہاں انگریزوں کی حکومت تھی.جرمنی نے آسٹریا اور چیکو سلاویکا پر قبضہ کیا تو وہ آزاد تھے.اٹلی نے جب ایسے سینیا اور البانیہ پر قبضہ کیا تو وہاں انگریز موجود نہیں تھے، یہ ممالک اس وقت تک آزاد تھے.جاپان نے جب کوریا کو اپنے ملک میں ضم کر لیا یا جب چین پر حملہ کیا تو یہاں بھی انگریزوں کی حکومت نہیں تھی.تو یہ کلیہ تو کسی طرح صحیح تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ طاقتیں صرف اس وقت حملہ کرتی ہیں جب کسی جگہ

Page 64

54 پر انگریزوں کی حکومت ہو.حقیقت یہ ہے کہ محوری طاقتیں اس وقت اپنی نو آبادیاں بنانے کی فکر میں تھیں اگر ہندوستان میں انگریز حکومت نہ ہوتی تو یہ فوراً اس کو ایک تر نوالہ سمجھ کر اس پر قبضہ کر لیتے.جیسا کہ ذکر آچکا ہے کہ جنگ کے آغاز میں گاندھی جی نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ محوری طاقتوں کے حملے کا جواب عدم تشدد سے دینا چاہئیے اور کسی قیمت میں جنگ کے عمل میں شامل نہیں ہونا چاہئیے.لیکن جنگ کے آغاز میں ہی اُن کو احساس ہو گیا تھا کہ خود اُن کی جماعت ،آل انڈیا نیشنل کانگرس کی اکثریت اس معاملے میں اُن سے متفق نہیں ہے.چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں ہی انہوں نے یہ اعتراف کیا.صورتِ حال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اگر کانگرس ان لوگوں کے ساتھ شریک ہوگئی جو ہندوستان کی مسلح حفاظت میں یقین رکھتے ہیں تو مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ کانگریسی گذشتہ میں سال مسلح جنگ کی سائنس کو سیکھنے کے اہم فرض میں کوتاہی کرتے رہے ہیں.اور مجھے خدشہ ہے کہ تاریخ میں مجھے لڑائی کا ایک ایسا جرنیل کہا جائے گا.جو اس افسوسناک غلطی کا ذمہ دار ہے.مستقبل کا مؤرخ کہے گا کہ مجھے یہ دیکھنا چاہئیے تھا کہ قوم طاقتوروں کے عدم تشدد پر نہیں بلکہ وہ کمزوروں کے عدم تشدد پر عمل پیرا ہے.اس لئے مجھے کانگرسیوں کے لئے فوجی تربیت کا انتظام کرنا چاہئیے تھا.میرے دماغ میں یہ خیال بڑی شدت سے موجود تھا کہ کسی نہ کسی طرح ہندوستان حقیقی عدم تشد دسکھ لے گا.اس لئے مجھے اپنے ساتھیوں کو مسلح حفاظت کی ٹریننگ کی دعوت دینے کا خیال پیدا نہ ہوا.(۲۷) با وجود اس کے کہ کانگرس کے اکثر قائدین گاندھی جی کے زیر اثر تھے لیکن اس معاملے میں وہ علی الاعلان اُن سے اپنے اختلاف کا اظہار کر رہے تھے.پنڈت جواہر لال نہرو نے بیان دیا کہ اگر محوری طاقتوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تو ہندوستان ہتھیار نہیں ڈالے گا بلکہ ان کا پورا مقابلہ کرے گا.مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا کہ ہم آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں خواہ کسی قیمت پر ہو.گاندھی جی تشدد کے استعمال کے خلاف ہیں مگر دنیا میں ہمیشہ منطق سے کام نہیں چلتے.ہمارے ملک کی اکثریت نہ عدم تشد دسیکھ سکتی ہے اور نہ وہ اس معیار پر پورا اترتے ہیں.(۲۹،۲۸) انجام یہ ہوا کہ جب کچھ سال بعد ۱۹۴۵ء میں انگریز حکومت نے پیشکش کی کہ اگر جاپان کے خلاف جنگ میں حکومت کی اعانت کی جائے تو وہ کانگرس کو شامل کر کے ہندوستان کے باشندوں پر

Page 65

55 مشتمل ایک عبوری حکومت بنائیں گے.تو ابولکلام آزاد صاحب جو اس وقت کانگرس کے صدر تھے بیان کرتے ہیں کہ اس وقت گاندھی جی اور ان کے ہم نوا جو پہلے مکمل عدم تشدد کے قائل تھے محض خاموش رہے اور اس تجویز کی کوئی مخالفت نہیں کی.(۳۰) مستقبل کے متعلق حضور کا بیان فرمودہ تجزیہ: اس جنگ کے آغاز میں ابھی کسی پر بھی صورت حال پوری طرح واضح نہیں تھی.ہر طرف سے قسم قسم کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں اور مختلف تجزیئے پیش کئے جا رہے تھے.جو سیاستدان تمام معلومات سے باخبر بھی تھے وہ بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے.ستمبر ۱۹۳۹ء میں حضور نے رؤیا اور خدا داد فراست کی بنیاد پر صورت حال کا تجزیہ بیان فرمایا کہ آئیندہ حالات کیا رخ اختیار کر سکتے ہیں.یکم ستمبر کے خطبے میں جبکہ ابھی صرف برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کوالٹی میٹم ہی دیا تھا اور با قاعدہ اعلانِ جنگ بھی نہیں ہوا تھا اور دیگر ممالک تو ابھی تنازع میں شامل بھی نہیں ہوئے تھے، حضور نے فرمایا تھا کہ یہ ایام بہت نازک ہیں اور دنیا بالکل تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے.(۲۴،۲۶) پھر ۲۲ ستمبر کے خطبہ جمعہ میں آپ نے ایک پرانی رؤیا کو بیان کر کے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بہت بڑی تباہی آنے والی ہے اور فرمایا کہ اس وقت کئی حکومتیں ہیں جنہیں معلوم ہے کہ انہوں نے کس طرف جانا ہے مگر وہ ابھی اپنا ارادے ظاہر نہیں کر رہیں.جو قو میں اس وقت اپنے آپ کو غیر جانبدار کہہ رہی ہیں وہ بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آجائیں گی اور کوئی تعجب نہیں کہ ہندوستان تک بھی اس جنگ کا اثر پہنچے.(۳۱) چنانچہ وقت نے ثابت کیا کہ جیسا کہ حضور نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا.اس خطبے کے وقت تو ایک طرف جرمنی تھا اور دوسری طرف برطانیہ اور فرانس تھے.روس نے پولینڈ کے ایک حصے کو ہتھیانے کے لئے اپنی فوجیں اتاری تھیں لیکن اس کا اس جنگ میں شرکت کا کوئی ارادہ نہیں تھا.لیکن بعد میں روس اتحادیوں کی طرف سے شامل ہوا اور اٹلی اور جاپان نے جرمنی کے ساتھ مل کر اعلانِ جنگ کر دیا.امریکہ بھی بالآخر اتحادیوں کی طرف سے اس تنازع میں کود پڑا.بعد میں ان ممالک کے علاوہ چین ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برازیل، کینیڈا، ہالینڈ،

Page 66

56 ڈنمارک بیلجیم، ناروے، یونان، یوگوسلاویا ، تھائی لینڈ اور فلپائن بھی جنگ میں شامل ہو گئے.ہر راعظم کے فوجی اس جنگ میں شامل ہوئے اور ان میں سے بہت اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے.اس سے زیادہ خون ریزی دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی.مجموعی طور پر کروڑوں آدمی اس جنگ میں ہلاک ہوئے.اس وقت تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ ہندوستان پر ہوائی حملے ہوں گے مگر صورت حال اس وقت یکسر بدل گئی جب جاپان کی افواج کو مشرقی بعید میں کامیابیاں ملنی شروع ہوئیں اور آخر کار اس کی افواج نے رنگون فتح کیا اور جنگ ہندوستان کے دروازے پر آن پہنچی.ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ حکومت کو کراچی اور مدراس کے اُن شہریوں کو جو کوئی کام نہیں کرتے تھے اور آسانی سے شہر چھوڑ سکتے تھے ، اپنے شہر چھوڑ کر وقتی طور پر کہیں اور جانے کا مشورہ دینا پڑا.(۳۳۳۲) سوویت یونین کا پولینڈ پر حملہ اور حضور کا تجزیہ: جنگ سے قبل سوویت یونین اور اتحادیوں کے درمیان ممکنہ اتحاد پر مذاکرات ہوتے رہے لیکن کوئی معین معاہدہ نہ ہو سکا.سوویت یونین کا کہنا تھا کہ وہ اسی صورت میں جرمنی کے حملے کو روک سکتا ہے جب پولینڈ کی حکومت اسے اپنی افواج پولینڈ میں اتارنے کی اجازت دے.دوسری طرف پولینڈ اس کے لئے تیار نہیں تھا، مگر نچلی سطح پر روس اور اتحادیوں کے درمیان مذاکرات جاری تھے..اسی دوران یہ حیران کن تبدیلی آئی کہ ۲۳ اگست ۱۹۳۹ء کوسوویت یونین اور جرمنی نے آپس میں عدم جارحیت کا معاہدہ کر لیا جبکہ اس سے قبل ان کے باہمی تعلقات نہایت خراب تھے.یکم ستمبر کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا اور پولینڈ کی تمام افواج اس کی مغربی سرحد پر اپنے سے کہیں برتر جرمن افواج سے مقابلہ کر رہی تھیں اور اس کی مشرقی سرحد پر کوئی حفاظتی انتظامات موجود نہیں تھے.اپنے سے برتر جرمن افواج کے سامنے پولینڈ کی افواج مسلسل پسپا ہورہی تھیں.اس ماحول میں ۷ ستمبر ۱۹۳۹ء کو یہ خبر پوری دنیا میں حیرت سے سنی گئی کہ روس نے پولینڈ کی مشرقی سرحد پر حملہ کر دیا اور اس کے مشرقی حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا.اس کے ساتھ ہی پولینڈ کے دفاع میں رہی سہی رمق بھی دم توڑ گئی.اور پولینڈ ، سوویت یونین اور جرمنی کے درمیان تقسیم ہو گیا.ہر ذہن اپنے اپنے طور پر اس

Page 67

57 پیش رفت کا تجزیہ کر رہا تھا کہ یہ کیسے ہوا؟.پولینڈ پر روس کے حملے کی دو ہی ممکنہ وجوہات ہوسکتی تھیں.کیا یہ حملہ سوویت یونین اور جرمنی کے درمیان کسی خفیہ معاہدے کے نتیجے میں ہو ا تھا.یا پھر سوویت یونین نے پولینڈ میں افواج اتارنے کا مقصد یہ تھا کہ کہیں جرمنی پورے پولینڈ پر قبضہ کر کے اس کی سالمیت کے لئے خطرہ نہ بن جائے.کیونکہ اس کی مغربی سرحد پر دفاعی نقطہ نگاہ سے کوئی قدرتی سرحد نہیں تھی اور پولینڈ کے دریاؤں تک اپنی افواج لے جانے کی صورت میں وہ جرمنی کے ممکنہ حملے کی صورت میں بہتر دفاعی پوزیشن میں آ جاتا تھا.۱۸ اور ۱۹ستمبر کو ڈیلی ٹیلیگراف نے پولینڈ پر سوویت حملے کا تجزیہ کیا اور ان دونوں امکانی وجوہات کا جائزہ شائع کیا.اس جریدے نے بھی یہی بات زور دے کر لکھی کہ سٹالن کے ذہن میں کیا ہے؟ اور اُس کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ اور آخر میں اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ دنیا ان سوالات پر صرف قیاس آرائی ہی کر سکتی ہے اور آمروں کے نظریاتی کرتبوں نے دنیا کو ایک ذہنی الجھن میں ڈال رکھا ہے.لیکن ایک معمہ حل ہو جاتا ہے.اور اس سے روسی حملے کا اصل مقصد ظاہر ہو جاتا ہے.روس کے آقا اس بات کا تہیہ کئے ہوئے ہیں کہ سارا پولینڈ جرمنی کے تسلط میں نہ جائے.اور روس کے مفادات کی حفاظت کے لئے وہ اپنے نئے دوستوں ( یعنی جرمنوں ) سے ٹکراؤ کا خطرہ مول لینے کے لئے بھی تیار ہیں.اس وقت کئی انگریز مد برین اور اخبارات اس خیال اظہار کر رہے تھے کہ غالباً روس پولینڈ میں اس لئے داخل ہوا ہے کہ جرمنی سارے پولینڈ میں اقتدار قائم کر کے روسی مفادات کے لئے خطرہ نہ بن جائے.اگر چہ اس بات کی مذمت بھی کی جارہی تھی کہ روس نے اپنے مفادات کے لئے ایک آزاد ملک میں اپنی افواج اتاری ہیں.چرچل جیسے ذہین سیاستدان نے بھی اکتوبر ۱۹۳۹ء میں ریڈیو پر اپنی تقریر میں یہ تجزیہ پیش کیا.میں روس کے طرز عمل کے متعلق کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا.یہ ایک پہیلی کے اندر ملفوف معمہ ہے.لیکن شاید اس کی ایک چابی ہے اور وہ چابی روس کے مفادات ہیں.اگر جرمنی بحیرہ اسود کے ساحل تک پہنچ جاتا یا بلقان کی ریاستوں پر قبضہ کر لیتا یا جنوب مشرقی یورپ میں سلا و اقوام کو اپنے قبضے میں لے لیتا تو یہ روس کے مفادات کے خلاف ہوتا.“ اور اس وقت برطانیہ کے وزیر اعظم چیمبر لین نے بھی اس تجزیئے سے اتفاق کیا تھا.(۳۴)

Page 68

58 اس پس منظر میں جب کہ مشہور مبصرین، اخبارات اور چرچل جیسے ذہین سیاستدان اس حملے کی وجوہات کو ایک معمہ قرار دے رہے تھے اور اس بات کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ اغلباً سوویت یونین نے یہ حملہ اپنے دفاع کے لئے اور پورے پولینڈ کو سوویت یونین کے تسلط سے بچانے کے لئے کیا ہے، ۲۱ ستمبر کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے الفضل میں ایک مضمون کے ذریعہ اس صورتِ حال کا تجزیہ شائع فرمایا.اور یہ ایک صاف اور واضح تجزیہ تھا.اس نظریے کا ذکر فرماتے ہوئے کہ سوویت یونین نے یہ حملہ اس لئے کیا ہے کہ کہیں پورا پولینڈ جرمنی کے قبضے میں چلا جائے گا اور اس طرح جرمنی سوویت یونین کے لئے خطرہ بن جائے گا، حضور نے فرمایا میرے نزدیک یہ رائے درست نہیں ہے اور مدبرین انگلستان جتنی جلدی اس رائے کو ترک کر دیں، اتنا ہی ان کے لئے سیاسی طور پر مفید ہو گا.آپ نے تحریر فرمایا کہ روس جب اتحادیوں سے مذاکرات کر رہا تھا اس کی نیت صاف نہیں تھی اور اس کی غرض صرف برطانوی سکیم کو معلوم کرنے کی تھی.اصل میں روس اور جرمنی میں خفیہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ جرمنی پولینڈ پر حملہ کرے گا تو اگر مغربی اقوام دخل نہ دیں تو فبہا ، اور اگر وہ دخل دیں تو بغیر دوسری اقوام سے اعلانِ جنگ کئے روس اپنی افواج پولینڈ میں داخل کر دے گا اور اسے حسب معاہدہ تقسیم کر دیا جائے گا.(۳۵) اُس وقت تو حقائق دنیا کی نگاہوں سے اوجھل تھے مگر جنگ کے ختم ہونے کے بعد جب جرمنی کے خفیہ کا غذات منظر عام پر آگئے تو ان دستاویزات سے معلوم ہوا کہ جب اگست کے آخر میں روس اور جرمنی کے درمیان عدم جارحیت کا معاہدہ ہوا تھا تو اس کی کچھ خفیہ شقیں بھی تھیں، جن کو باہمی مرضی سے اس وقت خفیہ رکھا گیا تھا.ان میں سے دوسری شق کی رو سے یہ اسی وقت طے ہو گیا تھا کہ سوویت یونین اور جرمنی ، پولینڈ کے ملک کو بانٹ لیں گے اور موٹے طور پر تین دریا, Narew Vistula اور San ، پولینڈ میں جرمنی اور روس کے دائرہ اثر کی سرحد بنا ئیں گے.اور اس طرح پولینڈ کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے گا.حقیقت یہ تھی کہ اس واقعہ سے کچھ ماہ قبل پولینڈ کے مسئلے پر سوویت یونین اور جرمنی کی حکومتوں کے درمیان بات چیت ہورہی تھی اور سوویت یونین ساتھ کے ساتھ اتحادیوں سے بھی رابطہ رکھے ہوئے تھا.اس وقت روسی سفارتکار Astakhov برلن میں جرمن وزیر خارجہ Ribbentrop سے مذاکرات کرتے تھے.اور ماسکو میں جرمن سفیر سوویت وزیر

Page 69

59 خارجہ سے رابطہ رکھے ہوئے تھے.اور جرمنی نے اس وقت ہی بار بار سوویت حکومت پر واضح کیا تھا کہ پولینڈ کے معاملے میں سوویت یونین سے مفاہمت ہوسکتی ہے.پولینڈ پر حملہ کرنے کے بعد بھی جرمن حکومت سوویت حکومت سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے تھی.اور انہیں پولینڈ کی فوج کی صورتِ حال کے متعلق اطلاعات بہم پہنچارہی تھی اور سوویت حکومت جرمنی کو اپنی عسکری تیاریوں اور پولینڈ پر حملے کے منصوبے کے متعلق باقاعدگی سے اطلاعات دے رہی تھی.چنانچہ جیسا کہ حضور نے تحریر فرمایا تھا روس نے یہ قدم جرمنی کے تسلط کو روکنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ یہ حملہ جرمنی سے معاہدے کے نتیجے میں ہوا تھا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی پیدائش سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خوش خبری دے دی تھی کہ وہ موعود بیٹا سخت ذکی اور فہیم ہو گا.اور حضور کی یہ غیر معمولی ذہانت دینی امور میں ہی نہیں بلکہ ان دنیاوی امور میں بھی ظاہر ہو کر نشان بنتی رہی جن کا تجزیہ کرتے ہوئے چوٹی کے ذہن بھی عاجز رہ جاتے تھے.تاکہ محض دنیاوی ذہن رکھنے والوں پر بھی اتمام حجت ہو جائے.اس طرح دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا.ایک ایسی آفت نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کا اثر ہر بر اعظم تک پہنچا.قریباً چھ سال تک اس کے شعلے بھڑکتے رہے اور کروڑوں آدمی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے.جب پوری دنیا اس کے اثر سے تہ و بالا ہورہی تھی تو جماعت کی تبلیغی مساعی بھی متاثر ہوئی.نا مساعد حالات کے باعث مبلغین کی تبلیغی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور بہت سے مبلغین کو اپنے ممالک چھوڑنے پڑے.لیکن تمام مشکلات کے باوجود تبلیغ اسلام کا جہاد جاری تھا اور اس پس منظر میں جماعت کی تاریخ کے پچاس سال مکمل ہو رہے تھے اور جماعت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی.جہاں دنیا میں ہر طرف نفرتوں کے طوفان اٹھ رہے تھے وہاں جماعتی روایات میں ایک نیا خوبصورت اضافہ ہو رہا تھا.اس روایت کے ذریعہ نفرتوں کے اس دور میں دنیا کو محبتوں اور صلح و آشتی کا پیغام دیا جارہا تھا.یہ نئی روایت جلسہ یوم پیشوایان مذاہب کا آغاز تھا.(۱) بنی اسرائیل (۱۶ (۲) روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۹۵ (۳) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ص ۱۲۵ تا ۱۲۹ (۴) الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ ء ص ۴

Page 70

60 60 (a) The Gathring Storm by Winston Churchill, Houghton Miflon Company Boston 1948 page291,342,279-321,283-284 (1) The Gathering Storm by Winston Churchill, Houghton Miflon Company Boston 1948 page 350-354 (۷) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ ص ۱۵۶ تا ۱۵۷ (۸) الفضل ۱۴اپریل ۱۹۳۶، ص ۴ (۹) پرتاپ ۱۲۱ کتوبر ۱۹۳۹ء ص ۴ (۱۰) زمیندار اجنوری ۱۹۴۰ء (۱۱) احسان ۳۰ ستمبر ۱۹۳۹ ء اداریہ (۱۲) احسان ۲۰ ستمبر ۱۹۳۹ ء ص ۵ (I)The Emergence of Pakistan by Chaudri Muhammad Ali, Research Society of Pakistan, Oct 2003 page 33-34,42-47 (۱۴) book of Readings on the History of the Punjab 1799-1947 by Ikram Ali Malik,Rsearch Society of Pakistan 1985, page 538-539,526_528 (۱۵)The British Raj In India an historiacal review, by S.M.Burke,Salim al Din Quraishi 341,357 (1)A History of India from earliest times to the present day by Michael Edwardes ,Asia publishing House page 329 (۱۷) احسان ۱۳ ستمبر ۱۹۳۹ء ص ۲ (۱۸) احسان ۱۸ ستمبر ۱۹۳۹ء ص ۱۰ (۱۹) پرتاب ۹ جون ۱۹۳۹ ء ص۳ (۲۰) احسان ۱۵ جنوری ۱۹۴۲ء (۲۱) احسان ۲ جنوری ۱۹۴۲ء (۲۲) احسان ۲۴ فروری ۱۹۴۲ ء ص ۲ (۲۳) الفضل ۴ استمبر ۱۹۳۹ء ص ۱ (۲۴) الفضل ۹ ستمبر ۱۹۳۹ء ص ۳ (۲۵) الفضل ۱۶اکتوبر ۱۹۳۹ء ص ۱ تا ۹ (M)The Second Great War, a standard history vol 4, by Sir John Hammerton,The Waverley Book company Itd.page 1417 (۲۶) الفضل یکم ستمبر ۱۹۳۹ ص ۱ (۲۷) پرتاب ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۹ ء ص ۵ (۲۸) احسان ۱۷فروری ۱۹۴۲ء ص ۲ (۲۹) احسان ۱۶ جنوری ۱۹۴۲ ء ص ۲ (۳۰)India Wins Freedom by Abul Kalam Azad,published by Orient Longman,page115 (۳۱) الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۳۹ء ص ۵ (۳۲) احسان ۲۳ فروری ۱۹۴۲ ء ص ۵ (۳۳) احسان ۲۲ فروری ۱۹۴۲ء ص ۳ (۳۴)The Gathering Storm by Winston S.Churchill ,Houghton Miflon Company Boston 1948 page 448-449 (۳۵) الفضل ۲۱ ستنبر ۱۹۳۹ء ص ۱ تا ۴

Page 71

61 جلسه یوم پیشوایان مذاہب کا آغاز اسلام یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول گذرے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (۱) یعنی کوئی امت نہیں مگر ضرور اس میں کوئی ڈرانے والا گزرا ہے.اور پھر قرآنِ کریم میں تمام انبیاء کا احترام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور ان سب کے قابل احترام ہونے کی بابت یہ اعلان کیا گیا ہے لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمُ (۲) ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے.لیکن یہ بہت بڑی بدنصیبی ہے کہ دنیا میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص بعض حلقوں کی طرف سے ایسا لٹریچر شائع کیا گیا جس میں مختلف انبیاء کی دل آزار طریق پر توہین کی گئی اور بعض تو اس حد تک گر گئے کہ انہوں نے ان مقدس ہستیوں کو گالیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کیا.اس کے نتیجے میں مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہونا ایک قدرتی بات تھی.ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہونے کی وجہ سے اس صورت حال نے فضا میں زہر گھول دیا تھا.مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں فاصلے بڑھنے لگے اور خونریز فسادات کی نوبت بھی آئی.حضرت مسیح موعود نے تمام انبیاء کے احترام کے متعلق قرآنی صداقت کو نئے سرے نکھار کر دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور یہ اعلان کیا کہ جیسے حضرت عیسی علیہ اسلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اسی طرح حضرت کرشن بھی اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول تھے.اور باوا نانک صاحب بھی اللہ تعالیٰ کے نیک اور چنیدہ بزرگ تھے.1900ء میں حضرت مسیح موعود نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ ایسے جلسے منعقد کیے جائیں جس میں ہر مذہب کے لوگ اپنے مذاہب اور پیشوایان مذاہب کی خوبیاں بیان کریں.چنانچہ حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں ”ہمارا ارادہ ہے کہ سال میں ایک یا دو دفعہ قادیان میں مذہبی تقریروں کا ایک جلسہ ہوا کرے اور اس جلسہ میں ہر ایک شخص مسلمانوں اور ہندوؤں اور آریوں اور عیسائیوں اور

Page 72

62 سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے گا.مگر یہ شرط ہوگی کہ دوسرے مذہب پر کسی قسم کا حملہ نہ کرے.فقط اپنے مذہب اور اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہے تہذیب , سے کہے.(۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش آپ کی زندگی میں پوری نہ ہو سکی.لیکن آپ کے اس اعلان کو ملک میں بے یقینی کی نظر سے دیکھا گیا.اگر چہ اس سے کچھ عرصہ قبل امریکہ کے شہر شکاگو میں مذاہب کی ایک عالمی پارلیمنٹ منعقد ہوئی تھی.اس کو منعقد کرانے والے بہت سے منتظمین عیسائیت کی تبلیغ کے لئے عالمی سطح پر کوشاں تھے.چنانچہ لد ہیانہ کے سول اینڈ ملٹری نیوز نے اس پر یہ تبصرہ کیا مرزا غلام احمد قادیانی موضع قادیان میں مثل شکاگو کے ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کرنا چاہتے ہیں.یہودی ، عیسائی.پارسی.برہمو جینی.بدھ.آریہ.سناتن دھرمی اور ملحد ہر مذہب وملت کے قائمقاموں کو مدعو کیا گیا ہے.اور ہر ایک مذہب کے ایک ایک قائمقام کا سفر خرچ مرزا صاحب اپنی جیب سے دینگے.ایک ماہ تک یہ جلسہ منعقد ر ہیگا اور جملہ قائمقامانِ ملل مختلفہ کے اخراجات خوردونوش کے بھی خود مرزا صاحب متحمل ہوں گے.جو صاحب کسی مذہب کے ریپریزنٹیو کی حیثیت سے شامل ہونا چاہیں وہ مرزا صاحب کو ماہِ مئی ۱۸۹۶ء کے آخر تک مطلع کریں.مرزا صاحب کا مقصد اس کا نفرنس کے انعقاد سے یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے اختلافات دور کئے جائیں اور ایک ہی خدا کی پرستش کرنے والے ایک ہی حلقے میں لائے جائیں.ہماری رائے میں یہ منشا نہ کبھی پورا ہوا ہے اور نہ ہو گا.البتہ چند روز واسطے اچھی دل لگی ہے.مگر بجائے اس کے کہ مرزا صاحب موضع قادیان میں کانفرنس قائم کرنا چاہتے ہیں اگر کسی بڑے شہر مثلاً امرتسر لا ہور میں منعقد کرتے اور عام لوگوں کے لئے ٹکٹ لگا دیتے تو کانفرنس ایک بڑے سکیل پر ہوسکتی ہے اور آمدنی بھی معقول ہو.(۴) حضور کی اس خواہش کے پیشِ نظر ۱۹۳۹ء کی مجلس مشاورت میں یہ تجویز منظور کی گئی کہ اس سال ہونے والے جو بلی کے جلسے کے موقع پر مختلف مذاہب کے مقررین کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے پیشوایان مذہب کی سیرت پر تقاریر کریں.اس تجویز پر حضرت خلیفتہ اسیح ثانی نے فیصلہ فرمایا کہ

Page 73

63 جلسہ سالانہ کی بجائے ایک ایسا دن مقرر کیا جائے جس میں ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے بانی کی خوبیاں بیان کریں.(۶،۵) آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں پہلے یومِ سیرت پیشوایان مذاہب کے لیے ۳ دسمبر ۱۹۳۹ء کی تاریخ مقرر کی گئی.چنانچہ اس سال ہندوستان میں قادیان، دہلی ، ڈھاکہ، سکندرآباد، جبل پور اور سیالکوٹ کے شہروں کے علاوہ بعض دیہات میں بھی یہ جلسے منعقد کیے گئے جہاں جماعت کے مقررین نے آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود کی سیرت پر تقاریر کیں وہاں عیسائی، یہودی، پارسی ہندو اور سکھ مقررین نے حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت زرتشت ، حضرت رائم ، حضرت کرشن اور حضرت باوا نانک کی سیرت پر تقاریر کیں.ان کے علاوہ بہت سے احمدی مقررین نے دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کی سیرت پر تقاریر کیں.مختلف زبان بولنے والے سامعین کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تقاریر اردو، ہندی، پنجابی اور انگریزی زبان میں کی گئیں.تقاریر کے علاوہ کچھ محققین نے اپنے مضامین پڑ ہے اور شاعروں نے اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا.کچھ مقامات پر جلسوں کی صدارت بھی غیر مسلم حضرات نے کی.یہ جلسے خاص طور پر پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کرنے کا باعث بنے اور انہوں نے جماعت کی اس کاوش کو سراہا.کئی معززین نے اس بات کا اظہار کیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا جلسہ دیکھا ہے.(۷ تا ۱۲) ہندوستان سے باہر نیروبی (مشرقی افریقہ ) میں بھی یہ جلسہ کامیابی سے منعقد ہوا.اس کا پروگرام پانچ مختلف مذاہب کے نمائیندوں کی طرف سے مشترکہ طور پر شائع کیا گیا تھا.اس وقت مشرقی افریقہ میں ہندوستان کی طرح مختلف مذاہب کے لوگ کثرت سے آباد تھے.اس لیے آپس میں رواداری اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی اس کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا.(۱۳) جماعت کی یہ مساعی صرف جلسوں اور تقاریر تک محدود نہ تھی.جماعتی تعلیمات اور حضرت مصلح موعود کے ارشادات کی روشنی میں ریویو آف ریلیجنز نے پیشوایان مذاہب نمبر نکالا اور ان کی مقدس زندگیوں اور پاکیزہ تعلیمات پر محققانہ مضامین شائع کیے.ہندوستان کے اس ماحول میں ب مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تناؤ کی کیفیت اپنے عروج پر تھی ، جماعت احمدیہ کی یہ کوشش تازہ ہوا کا جھونک تھی.ملک کی سرکردہ شخصیات بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں.چنانچہ ملک کے مشہور سیاسی لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو صاحب نے جو بعد میں آزاد بھارت کے پہلے

Page 74

64 وزیر اعظم بنے ، ریویو کے اس نمبر پر مندرجہ ذیل تبصرہ کیا.وو ہر ایسی کوشش جو مختلف مذاہب کی اخلاقی تعلیمات کے اتحاد پر زور دینے اور ان کے پیروؤں کی موجودہ باہمی کشمکش کو دور کرنے کے لئے کی جائے، تمام بھلے آدمیوں کی ہمدردی کی مستحق ہے.اور اس ضمن میں آپ کی کوشش پر میں آپ کو نیک آرزؤں کا تحفہ پیش کرتا ہوں.(۱۴) (۱) فاطر ۲۵ (۲) ال عمران ۸۵ (۳) روحانی خزائن ج ۶ اص۳۰ (۴) سول اینڈ ملٹری نیوز لد ہیا نہا اپریل ۱۸۹۶ص۴ (۵) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء ص ۷ ۷ تا ۷۹، ۱۰۰ تا ۱۰۱ (۶) الحکم ۲۸ نومبر ۱۹۴۰ء ص ۵ (۷) الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۹ءص۲ (۸) الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۳۹ء ص ۵ (۹) الفضل ۵ دسمبر ۱۹۳۹ء ص ۹ (۱۰) الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۳۹ء ص ۲ (۱۱) الفضل ۱۶دسمبر ۱۹۳۹ء ص ۶ (۱۲) الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۴۰ء ص ۷ (۱۳) الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۳۹ء ص۳ (۱۴) ریویو آف ریلیجز جنوری ۱۹۴۰ء ص ۶۰

Page 75

65 خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء ۱۹۳۹ء کا سال اس لحاظ سے ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے کہ اس سال جماعت کی تاریخ کی پہلی جوبلی منائی گئی تھی.دنیا میں مختلف وجوہات کی بناء پر جشن منائے جاتے ہیں ، جو بلیاں منعقد کی جاتی ہیں اور اپنی خوشی کے اظہار کے رنگارنگ طریق اختیار کئے جاتے ہیں.ان کا مقصد یا تو اپنی برتری اور دولت کا اظہار کرنا ہوتا ہے یا پھر وقتی کھیل تماشے اور تقریبات سے اپنی تفریح کا سامان پیدا کرنا ہوتا ہے اور پھر اس موقع کو فراموش کر دیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے نام پر کھڑی ہونی والی جماعتیں بھی خوشی کے مواقع مناتی ہیں لیکن ان کی خوشی کا اظہار، ان کی تقریبات کا وقار اور ان کو منانے کے مقاصد دنیا سے بالکل مختلف ہوتے ہیں.وہ صرف اپنی خوشی کا اظہار نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہے ہوتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے رب کا وعدہ ہے لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (۱) یعنی اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا.یہ خدائی جماعتیں ان مواقع کو منا کر طاق نسیاں پر نہیں رکھ دیتیں بلکہ ایک نئے ولولے سے خدا تعالیٰ کے مزید فضلوں کو سمیٹنے کے لیے اپنے سفر کانٹے سرے سے آغاز کرتی ہیں.۱۹۳۹ء کا سال جماعت کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس سال جماعت کے قیام کو پچاس سال پورے ہو رہے تھے.اور اسی سال حضرت مصلح موعود کی خلافت کو پچیس برس پورے ہو رہے تھے.آپ کی خلافت کا آغا ز ایسے حالات میں ہوا تھا جب ایک طبقہ ،حضرت خلیفۃ امسیح اول کی وفات کے بعد خلافت سے منکر ہو کر علیحدہ ہو گیا تھا.اور ہر طرف سے مخالفت کی آندھیاں اٹھ رہی تھیں.آج آپ کی منظفر و منصور خلافت کو پچیس برس مکمل ہورہے تھے.آپ کے دور خلافت کی ترقیات پکار پکار کر کہ رہی تھیں کہ پیشگوئی مصلح موعود میں موجود خوش خبری ” وہ جلد جلد بڑھے گا بڑی شان سے پوری ہوئی.ایک کے بعد دوسرے اندرونی اور بیرونی فتنے اٹھے اور خطر ناک مصائب آئے لیکن دنیا نے دیکھا کہ ہر مرتبہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اور آپ کی خلافت کی برکت سے ہر خوف کی حالت امن میں بدل گئی.اسی سال جماعت کے قیام کو بھی پچاس برس

Page 76

99 66 پورے ہورہے تھے.یقیناً یہ اپنے رب کے حضور شکر کرنے اور خوشیاں منانے کا موقع تھا.سب سے پہلے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ اس سال کو جماعت جو بلی کے سال کے طور پر منائے اور آپ نے حضرت مصلح موعود کی اجازت سے جلسہ سلانہ ۱۹۳۷ء کے موقع پر احباب جماعت کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ ہمارے کامیاب دینی نظام پر یہ عرصہ گذرنے پر جماعت اللہ تعالیٰ کے شکر کا اظہار کرے اور اس خوشی کے موقع پر حضور اقدس کی خدمت میں ایک ایسی رقم کا نذرانہ پیش کیا جائے جو اس سے قبل کی جماعت کی تاریخ میں جمع نہ کی گئی ہو.اور حضور سے یہ درخواست کی جائے کہ حضور اس رقم کو جس طرح پسند فرما ئیں خرچ کریں.اس کے بعد ۱۹۳۹ء کی مجلس مشاورت میں اس ضمن میں سفارشات حضور کی خدمت میں پیش کی گئیں کہ خلافت جو بلی کو کس طرز پر منایا جائے.حضور کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ جلسہ سالانہ ۱۹۳۹ء کو جوبلی کے جلسے کے طور پر منایا جائے اور اس موقع پر جو بلی کی تقریبات منعقد کی جائیں.ایک اہم فیصلہ یہ بھی کیا گیا کہ اس مبارک موقع پر جماعت احمدیہ کا ایک جھنڈ ا مقرر کیا جائے جسے جوبلی جلسہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود اپنے دست مبارک سے نصب فرما ئیں.ان تقریبات کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس کے صدر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تھے اور آپ کے بیرونِ ہند جانے کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اجلاسات کی صدارت کرتے رہے اور حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد اس کے سیکریٹری کے فرائض سر انجام دیتے رہے.(۲) لوائے احمدیت کی تیاری: قوموں کی زندگی میں ان کا جھنڈا ان کی امنگوں اور ولولوں کی ایک علامت ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ نے بھی بہت سی مہمات میں صحابہ کو جھنڈا عنایت فرمایا تھا.خیبر کے موقع پر آپ نے فرمایا تھا کہ میں آج اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس کو دوست رکھتے ہیں اور پھر آپ نے حضرت علی کو جھنڈا عنایت فرمایا (۳).جب

Page 77

67 حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس مشاورت کی یہ سفارش منظور فرمائی کہ جماعت احمدیہ کا ایک جھنڈا تجویز ہونا چاہئیے تو سب سے پہلے تو اس جھنڈے کے ڈیزائن کی تیاری کا مرحلہ تھا.اس کام کے لیے ایک کمیٹی مقرر ہوئی جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب شامل تھے.اس کمیٹی نے اپنی سفارشات مرتب کیں اور پھر حضور کی راہنمائی میں مختلف نمونے کاغذ پر تیار کیے گئے.حضور نے ان کو ملاحظہ فرمایا اور پھر لوائے احمدیت کی ایک معین شکل کی منظوری عطا فرمائی.احادیث میں رسول کریم ماہ کے مختلف جھنڈوں کے رنگ سیاہ اور سفید بیان ہوئے ہیں (۴).اس لئے لوائے احمدیت کا رنگ بھی سیاہ اور سفید رکھا گیا.اس میں سیاہ رنگ کے پس منظر میں سفید رنگ میں مینارہ اسیح بنا ہوا جس کی ایک جانب ہلال اور ستارہ کے اور دوسری جانب مکمل چاند کے نقوش ہیں.لوائے احمدیت کی تیاری ایک خاص جذباتی اور تاریخی اہمیت رکھتی تھی.اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کی تیاری کے لیے صرف صحابہ حضرت مسیح موعود سے چندہ لیا جائے خواہ وہ ایک پیسہ یا ایک دھیلہ دے سکیں اور اس کی تیاری کے مراحل بھی صحابہ اور صحابیات کے ہاتھوں سے طے ہوں.اس کو تیار کرنے کے لیے جو روئی استعمال کی گئی اس کا بیج ونجواں کے ایک صحابی حضرت میاں فقیر محمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے بویا اور خود سے پانی دیتے رہے اور خود ہی اسے چنا.پھر صحابہ سے اسے دھنوایا گیا.وہ روئی قادیان لائی گئی اور حضرت سیدہ ام المومنین حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ حضرت بیگم صاحبہ حضرت خلیفہ اسیح الاول ، حضرت مصلح موعودؓ کی بیگمات اور صحابیات نے اس روئی سے سوت کا تا (۱۹).اس کے بعد اس سوت سے بعض صحابہ نے جو یہ کام جانتے تھے قادیان اور تلونڈی میں کپڑا بنا.اور کچھ درزی صحابہ نے اس کپڑے میں جوڑ ڈال کر مطلوبہ سائز تیار کیا.پھر شاہدرہ لاہور سے اس کپڑے کے اوپر جھنڈے کی شکل نقش کروائی گئی.دنیا میں عام طور پر جھنڈوں کا کپڑا پتلا اور ہلکا ہوتا ہے مگر لوائے احمدیت موٹے اور بھاری کپڑے سے بنایا گیا تھا.(۵) ان سب مراحل سے گذر کر لوائے احمدیت کی تیاری جوبلی جلسہ سے چند روز پہلے مکمل ہوئی (1)

Page 78

68 880 انعقاد جلسه خلافت جویلی جوں جوں جلسے کے دن قریب آرہے تھے قادیان میں اس تاریخی موقع کی تیاریاں ایک خاص جوش سے مکمل کی جا رہی تھیں.۲۲ دسمبر کی صبح کو حضرت خلیفۃ امسیح الثانی نے مختلف انتظامات کا معائنہ فرمایا.جلسہ گاہ کے سٹیج کو دیکھ کر حضور نے اظہار مسرت کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کے فضل سے اب تو ہمارا سٹیج ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت کی جلسہ گاہ کے برابر ہے.ابھی جلسے کے آغاز میں کچھ روز باقی تھے مگر ہزاروں کی تعداد میں مہمان قادیان پہنچنا شروع ہو گئے تھے.اس روز جب مسجد نور میں نماز جمعہ ادا کی گئی تو ساتھ کے میدان میں نمازی دور تک پھیلے ہوئے نظر آرہے تھے.(۷) ۲۵ دسمبر کو مجلس خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع جو اسوقت خدام الاحمدیہ کا سالانہ جلسہ کہلاتا تھا منعقد ہوا.حضور نے خدام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آئیندہ سے خدام کو اپنے جلسے کے لیے کوئی اور تاریخیں مقرر کرنی ہوں گی کیونکہ جلسے کے ساتھ اس کے انعقاد سے انتظامی مسائل پیدا ہوتے ہیں.(۸) آخر تمام تیاریوں ، دعاؤں اور انتظار کے بعد ۲۶ دسمبر کی صبح کو وہ گھڑیاں آن پہنچیں جب اس تاریخی جلسے کا آغاز ہونا تھا.جوبلی تقریبات کی اہمیت کی وجہ سے جلسہ تین کی بجائے چار روز کا رکھا گیا تھا.مختلف جگہوں سے مہمان قادیان پہنچ چکے تھے اور ہر طرف رونق اور چہل پہل نظر آ رہی تھی.(۹) شرکاء میں بہت سے ایسے لوگ بھی موجود تھے، جنہوں نے اسی قادیان میں وہ دن بھی دیکھا تھا جب حضرت خلیفہ ایسی اول کا انتقال ہوا تھا اور جماعت پر ابتلاؤں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے.ایک طرف تو اپنے پیارے امام کی وفات کا صدمہ تھا اور دوسری طرف یہ دیکھ کر کہ ایک گروہ خلافت کو مٹانے کے درپے تھا ، لوگوں کے دل بیٹھے جارہے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی یہ تحریر اس وقت کے خطرناک حالات اور لوگوں کی کیفیت کا نقشہ کھینچتی ہے.”وہ رونا چاہتے تھے مگر افکار کے ہجوم سے رونا نہیں آتا تھا اور دیوانوں کی طرح ادھرا دھر نظر اٹھائے پھرتے تھے تا کہ کسی کے منہ سے تسلی کا لفظ سن کر اپنے ڈوبتے ہوئے دل کو سہارا دیں.غم یہ نہیں تھا کہ منکرین خلافت تعداد میں زیادہ ہیں یا یہ کہ ان کے پاس

Page 79

69 69 حق ہے کیونکہ نہ تو وہ تعداد میں زیادہ تھے اور نہ ان کے پاس حق تھا.بلکہ غم یہ تھا کہ باوجود تعداد میں قلیل ہونے کے اور با وجود حق سے دور ہونے کے ان کی سازشوں کا جال نہایت وسیع طور پر پھیلا ہوا تھا......اور دوسری طرف جماعت کا یہ حال تھا کہ ایک بیوہ کی طرح بغیر کسی خبر گیر کے پڑی تھی.گویا ایک ریوڑ تھا جس پر کوئی گلہ بان نہیں تھا اور چاروں طرف بھیڑئیے تاک لگائے بیٹھے تھے.(۱۰) اور آج قادیان میں جمع ہونے والی سعید روحوں کو سب سے زیادہ اس بات کی خوشی نہیں تھی کہ ان کی تعداد پہلے سے بہت بڑھ چکی ہے یا پچیس سال پہلے کی نسبت ان کی مالی حالت میں نمایاں بہتری آچکی ہے بلکہ ان کو سب سے زیادہ اس امر کی خوشی تھی کہ انہوں نے اپنے رب کے وعدوں کو خود پورا ہوتا دیکھا تھا کہ خلافت کی برکت سے ان کے دین کو تمنت عطا ہو گی اور ان کے خوف کی حالت امن میں بدل دی جائے گی.اور آج اس جو بلی کے موقع پر وہ اپنے امام کے منتظر تھے.ابج کر ۴۵ منٹ پر جب حضور تشریف لائے تو اللہ اکبر اور حضرت امیرالمؤمنین زندہ باد کے نعرے لگائے گئے.حضور نے تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا.د میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کر رہا تھا اور ابھی پہلی ہی آیت میں نے پڑھی تھی کہ میری نگاہ سامنے تعلیم الاسلام ہائی سکول پر پڑی.اور مجھے وہ نظارہ یاد آ گیا.جو آج سے پچپیس سال پہلے اس وقت رونما ہوا تھا، جب جماعت میں اختلاف پیدا ہوا تھا.اور عمائد کہلانے والے احمدی جن کے ہاتھوں میں سلسلہ کا نظم ونسق تھا ، انہوں نے اپنے تعلقات ہم سے قطع کر لئے.اور گویا اس طرح خفگی کا اظہار کیا، کہ اگر تم ہمارے منشاء کے ماتحت نہیں چلتے تو لو کام کو خود سنبھال لو.ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جو اب فوت ہو چکے ہیں ، اس مدرسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جاتے ہیں اور تم دیکھ لو گے، کہ اس جگہ پر دس سال کے اندراندراحمدیت نابود ہو کر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا.اس کے وہ دس سال گزرے.پھر ان کے اوپر دس سال اور گزر گئے.اور پھر ان پر چھ سال اور گزر گئے لیکن اگر اس وقت چند سو آدمی احمدیت کا

Page 80

70 نام لینے والے یہاں جمع ہوتے تھے.تو آج یہاں ہزاروں جمع ہیں.اور ان سے بھی زیادہ جمع ہیں جو اس وقت ہمارے رجسٹروں میں لکھے ہوئے تھے.اور اس لئے جمع ہیں تا کہ خدائے واحد کی تسبیح وتحمید کریں اور اس کے نام کو بلند کریں.یہاں عیسائیت کا قبضہ بتانے والا مر گیا اور اس کے ساتھی بھی مر گئے.ان کا واسطہ خدا تعالیٰ سے جا پڑا.مگر احمدیت زندہ رہی.زندہ ہے اور زندہ رہے گی.دنیا کی کوئی طاقت اسے مثانہ کی اور نہ مٹا سکے گی.‘ (۱۱) حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے اس خطاب کے ساتھ اس تاریخی جلسے کا افتتاح ہوا.موقع کی مناسبت سے اس جلسے پر زیادہ تر تقاریر برکات خلافت، پچاس سالہ جماعتی ترقی اور حضرت خلیفہ امسیح کے دور کی برکات اور اس کی نمایاں شان پر تھیں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں رسول مقبول ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے ” قل یا ایها الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا یعنی تو کہہ دے اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں“.آپ دنیا کے ہر شخص کے لیے مبعوث ہوئے تھے خواہ اس کا تعلق دنیا کی کسی قوم سے ہو.آپ کی غلامی میں جماعت احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ آپ کے پیغام کو دنیا کے ہر خطے ہر کونے تک پہنچا ئیں.اس تعظیم کام کے لیے لازماً مبلغین کی بڑی تعداد درکار ہے.حضرت مصلح موعود کی خواہش تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں مبلغین تیار ہوں تا کہ جماعت یہ فرض ادا کر سکے.حضور نے جلسے کے دوسرے روز تقریر کے دوران اپنی اس خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہوئے جماعت کو اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کرنے کی تحریک فرمائی.” میری یہ خواہش ہے کہ حضرت مسیح موعود کا یہ رویا کہ آپ کو پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا ایک تو تحریک جدید میں چندہ دینے والوں کے ذریعہ پورا ہو اور دوسرا اس رنگ میں پورا ہو کہ ہم پانچ ہزار تحریک جدید کے ماتحت مبلغ تیار کر دیں جو اپنی تمام زندگی اعلاء کلمہ اسلام کے لئے وقف کئے ہوں.(۱۲)

Page 81

71 جو ملی تقریبات ۲۸ سمبر کا دن جو بلی کی تقریبات کے لیے مخصوص کیا گیا تھا.مختلف جماعتیں سادہ اسلامی طرز کے جلوسوں کی صورت میں اپنی قیام گاہوں سے جلسہ گاہ کے لیے صبح 9 بجے روانہ ہوئیں.ہر جماعت کے جلوس کے آگے ایک بینر تھا جس پر حضرت مسیح موعود کا ایک شعر اور جماعت کا نام لکھا ہوا تھا.قادیان کی فضا حمد کے ترانوں سے گونج اٹھی.ایک گھنٹے کے اندر اندر جلسہ گاہ کھچا کھچ بھر گئی.حضور کی آمد پر سات مرتبہ اھلاً و سھلاً و مرحبا کے نعرے بلند کیے گئے.(۱۲) تلاوت اور نظم کے بعد مختلف جماعتوں کی طرف سے سپاس نامے پیش ہوئے.سب سے پہلے صدر انجمن احمد یہ کی طرف سے ناظر اعلیٰ حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب نے سپاس نامہ پیش کیا.ان کے بعد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے جماعت ہندوستان کی جانب سے اور پھر ہندوستان کی مختلف جماعتوں کے سپاس نامے پیش ہوئے.آخر پر بلاد عربیہ ہمشرقی افریقہ، سنگا پور اور ملایا اور جزائر شرق الہند کے نمائیندوں نے اپنی اپنی زبانوں میں اظہار عقیدت کیا.برطانیہ کے احمدیوں کی طرف سے ایک انگریز نومسلم خاتوں سلیمہ بینک صاحبہ اور لجنہ کی جانب سے سیدہ حضرت ام طاہر صاحبہ ایک روز قبل خواتین کے جلسے میں ایڈریس پیش کر چکی تھیں.ایڈریسوں کے اختتام پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جماعت احمدیہ عالمگیر کی طرف سے حضور کو ایک حقیر رقم کا نذرانہ پیش کیا.حضرت مصلح موعود نے اسے قبول کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اسے استحکامِ جماعت، جماعت کی تعلیمی ترقی اور تبلیغ کے لیے خرچ کیا جائے گا.اس کے بعد پروگرام کا وہ حصہ شروع ہوا جو تاریخ احمدیت میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ، پہلی مرتبہ لوائے احمدیت بلند کرنے کے لیے سٹیج سے اتر کر شمال مشرق میں ایک چبوترے پر تشریف لائے.دنیا کی تاریخ میں کتنے ہی جھنڈے لہرائے گئے ہیں.اکثر کی تو یادیں بھی محو ہو چکی ہیں.۱۹۳۹ء میں سلطنت برطانیہ کا جھنڈا ایسا تھا جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ اس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا.لیکن اب اس کی یہ کیفیت نہیں رہی.اکثر جھنڈوں کو بینڈ اور بنگل کے شور میں یا سلامی کی توپوں کی گھن گرج میں بلند کیا جاتا تھا تا کہ اپنی شان وشوکت کا

Page 82

72 اظہار کیا جائے.لیکن رسول مقبول ﷺ کی اتباع میں اس مقدس جھنڈے کو ایک نرالی شان سے لہرایا جار ہا تھا.حضور نے ارشاد فرمایا کہ تمام احباب ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم کی دعا پڑہتے رہیں.حضور نے خود پر جوش اور رقت انگیز آواز میں یہ دعا پڑہتے ہوئے لوائے احمدیت کو بلند کرنا شروع کیا.دعا پڑھتے ہوئے سب مجمع پر ایک خاص کیفیت طاری تھی ، بہت سی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے تھے.پھریرے کے کھلنے پر اللہ اکبر کے نعرے بلند ہونے لگے.اور نعرہ ہائے تکبیر کے دوران لوائے احمدیت پوری بلندی پر پہنچ کر لہرانے لگا.دنیا میں جھنڈا قوموں کے وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے.تاریخ میں ایسے بہت سے مواقع کا ذکر ملتا ہے کہ دنیا وی جھنڈوں کی حفاظت کے لیے بھی ایک کے بعد دوسرے سپاہی اپنی جان قربان کرتے گئے.لوائے احمدیت کے ساتھ وابستہ فرائض تو اس سے بہت زیادہ اور وسیع تھے.چنانچہ اس کے لہرائے جانے کے بعد حضور نے ان الفاظ میں جماعت سے عہد لیا.حضور اس عہد کے الفاظ پڑہتے اور موجود احباب ان الفاظ کو دہراتے.اس تاریخی عہد کے الفاظ یہ تھے.میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اسلام اور احمدیت کے قیام اس کی مضبوطی اور اس کی اشاعت کے لئے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس امر کے لئے ہر ممکن قربانی پیش کروں گا.کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسرے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے.اور اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اونچا اڑتا رہے.اللهم امين.اللهم امين اللهم امين.ربنا تقبل منا انک انت السميع العليم (۱۳) تیسرے اور چوتھے روز مسئلہ خلافت پر حضرت مصلح موعود کی تقریر: تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمانوں نے خلافت کی اہمیت نہ سمجھنے اور اس کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے.وہ کون سا مسلمان ہو گا جو حضرت عثمان اور حضرت علی کے ادوار میں اٹھنے والے فتنوں کا حال پڑھے اور اس کا دل خون کے آنسو نہ روئے.جب اللہ تعالیٰ سے اپنے وصال کی خبر پا کر حضرت مسیح موعود نے رسالہ الوصیت شائع فرمایا تو اس کے ساتھ ہی یہ خوش خبری

Page 83

73 بھی سنا دی اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.(۱۴) آئیندہ آنے والی نسلوں پر حضرت مصلح موعود کا ایک عظیم الشان احسان یہ بھی ہے کہ آپ نے خلافت کے مسئلے کو ہر پہلو سے واضح کر کے بیان فرمایا اور اس کے خلاف ہر فتنے کی سرکوبی فرمائی اور اپنی جماعت کے ذہنوں میں مسئلہ خلافت کا صحیح اور اسلامی تصور اچھی طرح جما دیا.جلسہ خلافت جو بلی پر ۲۸ اور ۲۹ تاریخ کو حضور نے مسئلہ خلافت پر ایک علمی تقریر فرمائی.اور اس تقریر میں بہت سے اہم امور کی وضاحت فرمائی.اس کے آخر میں آپ نے ان الفاظ میں جماعت کو ایک عظیم نصیحت فرمائی.پس اے مومنوں کی جماعت ! اور اے عملِ صالح کرنے والو! خلافت خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے.جب تک آپ لوگوں کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے گی ، خدا اس نعمت کو نازل کرتا جائے گا.پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی سوال نہیں.خلافت اس وقت چھینی جائے گی جب تم بگڑ جاؤ گے.پس اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری مت کرو.بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے تم دعاؤں میں لگے رہوتا کہ قدرت ثانیہ کا پے در پے تم میں ظہور ہوتا رہے....پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مشغول رہو.اور اس امر کو اچھی طرح یا درکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی.اور ہر میدان میں تم مظفر و منصور رہو گے.کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے جو اس نے اس آیت میں کیا وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا (۱۵)

Page 84

74 منفی رحجانات سے بچنے کی تلقین: ۱۹۳۹ء کا سال وہ سال تھا جب مختلف اقوام کے درمیان کشیدگی اور ایک دوسرے کے لیے نفرت کے جذبات پوری دنیا میں عروج پر تھے.دوسری جنگِ عظیم شروع ہو چکی تھی اور دنیا کی بڑی طاقتیں ایک دوسرے کا خون بے دریغ بہا رہی تھیں.کچھ ممالک میں نسلی برتری کا بے جا احساس پیدا کیا جا رہا تھا اور وہ دوسری اقوام کو حقیر سمجھ رہے تھے.ایشیا اور افریقہ کی جو اقوام یورپی اقوام کی محکوم تھیں ان میں آزادی کی تحریکات چل رہی تھیں اور ان تحریکوں کو اپنی منزل زیادہ دور نہیں لگ رہی تھی لیکن اس کے ساتھ ان اقوام کے لیے جو ان پر حکمران تھیں نفرت بھی سلگ رہی تھی.اور ہندوستان میں تو مذہبی اور سیاسی اختلافات کی بناء پر آپس میں مخالفانہ جذبات بھی عروج پر تھے.ایسے جذبات رکھنے والوں کی دور کی نظر کمزور ہوتی ہے.اسلام کا پیغام تو پوری دنیا کے لیے ہے.اس میں کسی قوم کے لئے نفرت کی کوئی گنجائش نہیں.وہ وجود جن کی تربیت آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی ان کی تو یہ کیفیت تھی کہ اپنے بدخواہوں اور دشمنوں کے متعلق ان کے جذبات کے متعلق خود اللہ تعالیٰ ے یہ گواہی دی ہے کہ انتُمْ أُولَاء تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ (۱۶) تم ایسے ہو کہ ان سے محبت کرتے ہو جبکہ وہ تم سے محبت نہیں کرتے.اس تعلیم کی روشنی میں حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے اختتامی خطاب میں جو آخری نصیحت فرمائی وہ یہ تھی پھر غیروں کے لیے بھی دعائیں کرو.ان کے لیے اپنے دلوں میں غصہ نہیں بلکہ رحم پیدا کرو.خدا تعالیٰ کو بھی اس شخص پر رحم آتا ہے جو اپنے دشمن پر رحم کرتا ہے.پس تم اپنے دلوں میں ہر ایک کے متعلق خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرو.انہی دنوں ایک وزیری پٹھان آئے اور کہنے لگے.دعا کریں انگریز دفع ہو جائیں.میں نے کہا.ہم بددعا نہیں کرتے.یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے ہو جائیں.پس کسی کے لیے بد دعا نہ کرو.کسی کے متعلق دل میں غصہ نہ رکھو.بلکہ دعائیں کرو.اور کوشش کرو کہ اسلام کی شان و شوکت بڑھے اور ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے.‘ (۱۷) یقیناً امام وقت کی خواہش صرف یہاں تک محدود نہیں ہوسکتی تھی کہ ایک قوم ایک ملک سے نکل

Page 85

75 جائے، بلکہ حقیقی خوشی کا دن تو وہی ہو گا جب ساری دنیا رسولِ کریم ہو کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائے گی.اس طرح خلافت جوبلی کا جلسہ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.تقریباً چالیس ہزار سے زائد لوگ اس بابرکت جلسے میں شریک ہوئے.(۱۸) جماعت احمدیہ کے ابتدائی پچاس سال مکمل ہو چکے تھے.اب اس الہی جماعت کی تاریخ کا ایک اور درخشندہ باب شروع ہورہا تھا.اگلے چند برسوں میں جماعتی نظام میں مجلس انصار اللہ کا اضافہ ہوا اور تفسیر کبیر کی اشاعت کے آغاز کے ساتھ علمی افق پر ایک نیا سورج طلوع ہوا.(!) ابراهیم ۸ (۲) روئیداد جلسه خلافت جو بلی مصنفہ حضرت عبدالرحیم صاحب درڈ ص ا ب (۳) جامع ترمذی باب مناقب علی بن طالب (۴) الوفا با حوال المصطفے از علامہ محمد بن علی جوزی باب فی ذکر را بیڈ ولواۃ حدیث ۱۳۶۰ تا ۱۳۶۴ (۵) روئیداد جلسہ خلافت جوبلی مصنفہ حضرت عبدالرحیم صاحب درد ص ب تاھ (۶) الفضل ۱۹دسمبر ۱۹۳۹ء ص ۲ (۷) الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۳۹ء ص ۲ (۸) الفضل ۲۷ دسمبر ۱۹۳۹ ء ص ۲۰۱ (۹) روئیداد جلسه خلافت جوبلی مصنفہ حضرت عبدالرحیم صاحب در ڈص ف (۱۰) مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ص ۳۲۷ (۱۱) الفضل ۴ جنوری ۱۹۴۰ء ص ۳ ( الفضل ۳ جنوری ۱۹۴۰ء ص ۶ (۱۲) روئیداد جلسه خلافت جوبلی مصنفہ حضرت عبدالرحیم صاحب در خص زح (۱۳) الفضل ۳ جنوری ۱۹۴۰ء ص ۸، ۹ و روئیداد جلسه خلافت جوبلی در ز (۱۴) روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۵ (۱۵) الفضل ۴ جنوری ۱۹۴۰ء ص ۴۰۳ (۱۶) ال عمران ۱۲۰ (۱۷) الفضل ۴ جنوری ۱۹۴۰ءص (۱۸) الفضل ۳ جنوری ص ۲ (۱۹) تاریخ لجنہ جلد اول، دسمبر ۱۹۷۰ء ، ص ۴۵۰-۴۵۱

Page 86

76 مجلس انصار اللہ کا قیام حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک اہم کارنامہ نظامِ جماعت کو ہر جہت سے مضبوط بنانا ہے.سب سے پہلے تو آپ نے صدرانجمن احمدیہ کے انتظام میں بہتری پیدا کرنے کے لئے نظارتوں کا نظام جاری فرمایا.اس طرح صدر انجمن احمد یہ میں کام مختلف شعبوں میں تقسیم ہو کر سہولت سے چلنے لگا.اس کے بعد مجلس مشاورت کی داغ بیل ڈالی گئی اور قرآنِ مجید کے حکم کے مطابق اہم امور کے متعلق سفارشات مرتب کرتے ہوئے مختلف جماعتوں کے مشورے بھی شامل ہونے لگے.پھر عورتوں کی تربیت اور ان سے خدمت دین کا کام لینے کے لئے لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا.اور لجنہ اماء اللہ کے تحت بچیوں کی تربیت کے لئے ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم شروع کی گئی.نو جوانوں اور بچوں کی تربیت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں.نوجوانوں کو منظم کرنے کے لئے حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کا آغاز فرمایا.اور اس مجلس خدام الاحمدیہ کے تحت اطفال الاحمدیہ کی مجلس نے کام شروع کیا تا کہ پندرہ سال سے کم عمر بچوں کی تربیت منظم طور پر کی جا سکے.اگر لوگوں کو عمر کے حساب سے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جائے تو ابھی تک ایک گروہ تھا جو کسی بھی ذیلی تنظیم میں شامل نہیں تھا.چالیس سال سے اوپر کے مردوں کے لئے جماعت میں کوئی بھی ذیلی تنظیم موجود نہیں تھی.اس عمر کے بعد رفتہ رفتہ جسمانی قوی میں تو کمی آنی شروع ہوتی ہے لیکن علم اور تجربے کی بنیاد پر اس عمر کے لوگ بہت سے کاموں کو جوانوں کی نسبت بہتر انداز میں کر سکتے ہیں.قرآن مجید میں بھی چالیس سال کی عمر کو پختگی کی عمر قرار دیا گیا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةٌ ،، یعنی یہاں تک جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا.(۱).اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اس عمر کے مردوں کی ایک اپنی تنظیم ہوتا کہ وہ بھی ذیلی تنظیموں کے نظام کا حصہ بن جائیں.چنانچہ ۲۶ جولائی ۱۹۴۰ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خطبہ جمعہ میں چالیس سال سے زیادہ عمر کے احمدیوں کی ایک علیحدہ تنظیم بنانے کا اعلان فرمایا.حضور نے اس نئی تنظیم کو انصار اللہ کا نام عطا فرمایا.جماعت احمدیہ میں تین ذیلی تنظیموں کا جو نظام آج موجود

Page 87

77 ہے، یہ سب تنظیمیں حضرت مصلح موعودؓ نے قائم فرمائی تھیں.لیکن ان سب کو یکلخت یا ایک مختصر مدت میں شروع نہیں کیا گیا تھا.بلکہ سترہ سال کے طویل عرصہ میں ایک ایک کر کے ان کی بنیاد ڈالی گئی تھی مجلس انصار اللہ کا قیام اس سلسلے کی آخری کڑی تھی.ابتداء میں صرف قادیان میں رہنے والوں کے لئے اس کا ممبر بننالازمی تھا.قادیان سے باہر رہنے والوں کے لئے اس کا ممبر بننالازمی نہیں تھا البتہ جماعتی عہد یداروں کے لئے اگر وہ چالیس سال سے زیادہ عمر کے ہوں ضروری تھا کہ وہ اس کے ممبر بنیں.بعد میں قادیان سے باہر رہنے والوں کے لئے بھی اس کا ممبر بننا لازمی کر دیا گیا.حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اس نئی تنظیم کا پہلا صدر مقرر کیا گیا.اور اسی خطبہ میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ تمام ممبران روزانہ آدھا گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں اور اس امر کی نگرانی کریں کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو نماز با جماعت کا پابند نہ ہو.(۲) حضرت مصلح موعود کے ہر انتظامی فیصلے کے پیچھے گہری حکمت ہوتی تھی اور آپ جماعت کی راہنمائی کے لئے اس حکمت کو بیان بھی فرماتے تھے.انصار اللہ کے قیام کے وقت آپ نے ان الفاظ میں جماعت کے نظام کی موجودہ ہیئت کی حکمت بیان فرمائی.اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کی قائم مقام ہیں عوام کو بیدار کرتی رہیں.اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ جو عوام کے قائم مقام ہیں نظام کو بیدار کرتے رہیں.تو کوئی وجہ نہیں نظر آتی کہ کسی وقت جماعت کلی طور پر گر جائے.اور اس کا قدم ترقی کی طرف اٹھنے سے رک جائے.جب بھی ایک غافل ہوگا دوسرا اسے جگانے کے لئے تیار ہو گا.جب بھی ایک سست ہوگا دوسرا اسے ہوشیار کرنے کے لئے آگے نکل آئے گا.‘ (۳) آپ نے صرف مجلس انصار اللہ کا آغاز ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کی تدریجی ترقی بھی آپ کی مسلسل نگرانی اور راہنمائی کی مرہونِ منت ہے.دو سال کے بعد جب آپ نے محسوس فرمایا کہ مجلس انصار اللہ کی ترقی کی رفتار تسلی بخش نہیں ہے تو آپ نے توجہ دلائی کہ بڑی عمر کے تجربے سے فائدہ اُٹھانے کے علاوہ چالیس اور پچپن سال کے درمیان عمر کے انصار کی خدمات سے بھی زیادہ استفادہ کیا جائے.کیونکہ اس عمر کے لوگ بھاگ دوڑ کا کام زیادہ آسانی سے کر سکتے ہیں.اور ارشاد فرمایا کہ

Page 88

78 خدام الاحمدیہ کی طرح انصار اللہ بھی سال میں ایک مرتبہ اپنا مرکزی جلسہ کیا کرے تاکہ ممبران ایک دوسرے سے مل کر پہلے سے زیادہ ترقی کی طرف قدم اُٹھا سکیں.(۴) حضور کی منظوری سے دسمبر ۱۹۴۳ء میں انصار اللہ کے دستور اساسی کا اعلان کیا گیا.(۵) حضور کے ارشاد کی تعمیل میں ۲۵ دسمبر ۱۹۴۴ء کو انصار اللہ کا پہلا اجتماع منعقد ہوا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان الفاظ میں انصار کو توجہ دلائی مجلس کے قیام کو کئی سال گذر چکے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب تک اس مجلس میں زندگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے.زندگی کے آثار پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اول تنظیم کامل ہو جائے.دوسرے متواتر حرکت عمل شروع ہو جائے اور تیسرے اس کے کوئی اچھے نتائج نکلنے شروع ہو جائیں.میں ان تینوں باتوں میں مجلس انصاراللہ کو ابھی بہت پیچھے پاتا ہوں.(۶) ۱۹۴۷ء کے پُر آشوب دور میں مجلس انصار اللہ کی ترقی بھی متاثر ہوئی.اپریل ۱۹۴۸ء میں پاکستان میں اس مجلس کا دوبارہ آغاز ہوا.حضرت مولانا شیر علی صاحب نومبر ۱۹۴۷ء میں انتقال فرما گئے تھے.حضور نے حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب کو مجلس انصار اللہ کا صدر مقرر فرمایا.اور نومبر ۱۹۴۰ء میں حضرت مرزا عزیز احمد صاحب وصدر مجلس انصاراللہ مقر رکیا گیا.اور آپ نے چار برس تک یہ خدمات سرانجام دیں.نومبر ۱۹۵۴ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو مجلس انصاراللہ کا صدر مقررفرمایا.اور آپ کی فعال قیادت میں یہ مجلس تیزی سے ترقی کی نئی منازل طے کرنے لگی.(۷) کوئی بھی نظام اُس وقت تک کامیابی سے نہیں چل سکتا جب تک اس کے مختلف حصوں میں ہم آہنگی نہ ہو.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک طرف تو مختلف ذیلی تنظیموں کا آغاز فرمایا اور دوسری طرف ان کے باہمی تعاون کے متعلق بھی راہنمائی فرمائی.۲۰ جولائی کے خطبہ جمعہ میں آپ کا یہ ارشاد اس ضمن میں مشعل راہ ہے ”میری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ چار دیواروں کو میں مکمل کر دوں.ایک دیوار انصار اللہ ہیں.دوسری دیوار خدام الاحمدیہ ہیں اور تیسری دیوار

Page 89

79 ނ اطفال الاحمدیہ ہیں اور چوتھی دیوار لجنات اماءاللہ ہیں.اگر یہ چار دیوار میں ایک دوسرے ، علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکے گی.عمارت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کی چار دیوار میں آپس میں جڑی ہوں.اگر وہ علیحدہ علیحدہ ہوں تو وہ چار دیوار میں ایک دیوار جتنی قیمت بھی نہیں رکھتیں.‘ (۸) (۱) الاحقاف ۱۶ (۲) الفضل یکم اگست ۱۹۴۰ء (۳) الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۴۳ء ص ۳ (۴) الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۴۳ء ص ۶،۵ (۵) الفضل ۲ دسمبر ۱۹۴۳ء ص ۳ (۶) الفضل ۱۶ اگست ۱۹۴۵ء ص ۱ (۷) تاریخ احمدیت جلد نهم ص ۹۹ (۸) الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۴۵ء ص ۵

Page 90

80 60 جماعت کا نظام افتاء اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری راہنمائی کرتی ہیں.جس طرح انسان عقائد اور عبادات کے معاملے میں راہنمائی کا محتاج ہے اسی طرح وہ آسمانی روشنی کے بغیر جسمانی صفائی ، گھریلو زندگی ، کاروباری معاملات، معاشرتی مسائل ، اخلاقیات اور بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں بھی سنگین غلطیوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا.یہ پابندی نہیں بلکہ رحمت ہے.آغاز اسلام میں جب آنحضرت ﷺ کا با برکت وجود سامنے موجود تھا، تو صحابہ براہ راست آپ سے قرآنی آیات کا مطلب سمجھ لیتے اور آپ کا ہر عمل، ہر ارشاد اور حتی کہ آپ کے چہرے کے تاثرات اور آپ کا سکوت بھی لوگوں کے لئے مشعلِ راہ بن جاتا.جب دور کے علاقوں میں بھی اسلام پھیلنے لگا تو بہت سے لوگ آپ سے دین سیکھ کر جاتے اور اپنے اپنے علاقوں میں جاکر دوسروں کی راہنمائی کرتے.صحابہ کا یہ گروہ کس بنیاد پر لوگوں کی تربیت کرتا اور ان کے درمیان فیصلے کرتا اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے.آنحضرت ﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بھجوایا تو آپ نے دریافت فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی معاملہ فیصلے کے لئے لایا جائے گا تو تم کس طرح فیصلہ کرو گے، حضرت معادؓ نے عرض کی کہ میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا.پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اگر اس کا فیصلہ تمہیں کتاب اللہ سے نہ ملے.حضرت معاذ نے عرض کی کہ پھر میں سنت رسول ﷺ کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہیں سنت سے بھی راہنمائی نہ ملے.اس پر حضرت معادؓ نے کہا اس صورت میں میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا.اس پر رسول کریم ﷺ نے آپ کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے ایچی کو اللہ کے رسول کی مرضی کے موافق کر دیا.(۱) یہ اسلامی شریعت کی بنیاد ہے.اور اس کے راہنما اصول یہ بیان کئے گئے تھے کہ اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے لوگوں کے لئے آسانی پیدا کی جائے مشکلات نہ پیدا کی جائیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ (۲) یعنی اللہ تمہارے لئے آسانی

Page 91

81 چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا.اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے نصیحت فرمائی تھی کہ آسانی پیدا کرو اور سختی نہ کرو.اور لوگوں کو خوشخبری سناؤ اور متنفر نہ کرو.(۳) ان مضبوط بنیادوں پر اسلامی شریعت کو استوار کیا گیا تھا.لیکن جب صحابہ گذر گئے اور تابعین کا دور بھی ختم ہو گیا تو افراط و تفریط کا دور شروع ہوا.جو خوبصورت تعلیم امت کو متحد کرنے کا باعث تھی.روزمرہ کے مسائل فقہ میں اختلافات کو آڑ بنا کرامت مسلمہ میں انتشار پیدا کیا گیا.کبھی خلق قرآن کے مسئلے پر خون ریزی کی گئی تو کبھی رفع یدین پر تنازع اتنا بڑھا کہ لوگوں نے مساجد میں آنا ہی ترک کر دیا.جس تعلیم کی بنیاد ہی نرمی پر تھی اور جس کا مقصد لوگوں کو خوش خبری دینا تھا، اسے سختی کرنے اور لوگوں کو متنفر کرنے کا ذریعہ بنالیا گیا.یہ فتنہ اتنا شدید تھا کہ چاروں ائمہ فقہ، یعنی حضرت امام مالک ، حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام احمد بن حنبل اور حضرت امام شافعی کو اختلافات کی بنیاد پر اسیری کی سختیاں جھیلنی پڑیں.اور امام مالک، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل کو تو کوڑے بھی لگوائے گئے.ان آئمہ کا دور ختم ہوا تو آہستہ آہستہ ان نام نہاد علماء کا دور دورہ شروع ہوا جن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ جب علماء اٹھ جائیں گے تو پھر لوگ نا اہل لوگوں کو اپنا سردار بنالیں گے.ان سے سوال پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے.خود بھی گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے (۴) کسی نے صرف کتاب اللہ کی پیروی کا نام لے کر احادیث نبویہ کو بیکار قرار دیا.اور کسی نے قرآنِ کریم کو نظر انداز کر کے ضعیف احادیث کو قرآنی آیات پر فوقیت دینی شروع کر دی.ایک گروہ مغربی فلسفے سے اتنا مرعوب ہوا کہ عقل بلکہ ناقص عقل کو دین پر حاکم بنا دیا.اور علماء کے ایک بڑے طبقے نے فقہی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے پر تکفیر کا وہ بازار گرم کیا کہ کسی کو دائرہ اسلام کے اندر باقی نہ چھوڑا.آخر وہ وقت آیا کہ ایک تو اسلام ہر طرف سے صلیبی حملوں میں گھرا ہوا تھا اور دوسری طرف آپس کے تنازعات عالم اسلام کو اندر سے کھا رہے تھے..اس حال میں ہر دردمند مسلمان یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ دین کو صلیبی یورشوں سے کون بچائے گا ، ان اندرونی جھگڑوں کا فیصلہ کون کرے گا.مگر رسول کریم ﷺ نے صرف آنے والے فتنوں کی خبر نہیں دی تھی بلکہ یہ بھی پیشگوئی فرما دی تھی کہ ان اندھیروں سے نکلنے کی صورت کیا ہوگی.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ تمہارے درمیان ابنِ مریم اترے گا جو

Page 92

82 حَكَمًا عَدَلًا (انصاف سے فیصلہ کرنے والا) ہوگا اور وہ کسر صلیب کرے گا.(۵) بالآخر اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوئے اور حضرت مسیح موعود کا ظہور ہو ا.اور آپ نے اسلامی شریعت کے اصل چہرے کو دنیا کے سامنے پیش فرمایا.اور اس کے وہی ماخذ بیان فرمائے جو آنحضرت ﷺ نے مقرر فرمائے تھے.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں صلى الله ”ہمارے نزدیک تین چیزیں ہیں ایک کتاب اللہ دوسرے سنت یعنی رسول اللہ ہے کا عمل اور تیسرے حدیث‘(۶) اور قرآن مجید پر عمل کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.(۷) پھر آپ فرماتے ہیں.”ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجے کی حدیث ہوا سپر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں.اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کر لیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اس سلسلے کے اپنے خدا داداجتہاد سے کام لیں‘ (۸) حضرت مسیح موعود کی زندگی میں لوگ حضور کی خدمت میں اپنے سولات پیش کرتے.آپ یا تو خود جواب مرحمت فرماتے یا پھر ارشاد فرماتے کہ مولوی صاحب ( یعنی حضرت خلیفۃ اسیح اول) سے پوچھ لو.آپ کی خواہش تھی کہ جماعت کے علماء ایک کتاب فقہ کی سلیس اردو میں لکھیں تا کہ خاص و عام اس سے یکساں مستفید ہوں.(۹) شرعی معاملات میں فتویٰ دینا ہر ایک کا کام نہیں.ایک تو ہر شخص اس بات کی اہلیت بھی نہیں رکھتا کہ یہ نازک کام کرے اور دوسرے یہ کہ اگر ہر شخص یا مختلف

Page 93

83 اشخاص جماعت میں از خود فتوی دینا شروع کر دیں تو اس سے وحدت بھی قائم نہیں رہ سکتی اور بالآخر تفرقہ پیدا ہوتا ہے.جب حضرت خلیفہ اُسیح الثانی نے ۱۹۱۹ء میں صدر انجمن احمدیہ میں اہم انتظامی تبدیلیاں کیں اور نظارتوں کا قیام عمل میں آیا، تو اس کے ساتھ ہی جماعت کی ضروریات افتاء کو مد نظر رکھتے ہوئے ، اس کام کے لئے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب، حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ، اور حضرت حافظ روشن علی صاحب مقرر کئے گئے.اور اس کے ساتھ حضور نے هدایت جاری فرمائی کہ ان کے علاوہ اور کوئی فتویٰ نہیں دے سکے گا.(۱۰.۱۱) تاہم افتاء کے زیادہ تر فرائض حضرت حافظ روشن علی صاحب سرانجام دیتے رہے اور آپ نے ۱۹۲۳ء میں فقہ احمدیہ کے نام سے ایک مختصر کتاب بھی تحریر فرمائی جس میں روز مرہ کے اہم فقہی مسائل آسان فہم انداز میں بیان کئے گئے.جون ۱۹۲۹ء میں آپ کے انتقال کے بعد افتاء کی یہ ذمہ واری حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ادا کرتے رہے.(۱۲) ۱۹۴۳ء کے آخر میں افتاء کمیٹی کے نام سے ایک نیا ادارہ وجود میں آیا.جس میں حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کو مفتی سلسلہ اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور مولانا ابوالعطاء صاحب کو ممبر مقرر کیا گیا.جون ۱۹۴۷ء میں حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے انتقال کے بعد مکرم ملک سیف الرحمن صاحب کو مفتی سلسلہ مقرر کیا گیا.تقسیم ہند کے معاً بعد ،نومبر ۱۹۴۸ء میں ، دفتر افتاء کی رپورٹ پر حضور نے مجلسِ افتاء کو قائم فرمایا.(۱۳) مفتی سلسلہ کے علاوہ اس کے چھ اور اراکین مقرر کئے گئے.اس کے فرائض میں افتاء کے معاملے میں مفتی سلسلہ کو مشورہ دینا، فقہ اسلامیہ بالخصوص اختلافی مسائل کے بارے میں اپنے مطالعے کو وسیع کرنا اور علم الخلاف کا مطالعہ کرنا شامل تھے.دفتر افتاء کے لئے ضروری تھا کہ وہ ہراہم مسئلے پر کم از کم تین ممبران سے مشورہ لے لیکن مفتی سلسلہ کے لئے یہ مشورہ قبول کرنا ضروری نہیں تھا.البتہ اگر تمام ممبران متفق الرائے ہوں اور مفتی سلسلہ کو پھر بھی اس رائے سے اختلاف ہو تو اس معاملے کو آخری فیصلے کے لئے حضرت خلفہ اسیح کی خدمت میں پیش کرنا ضروری تھا.(۱۴)۱۹۵۲ء کے آغاز میں مجلس افتاء میں مزید توسیع کی گئی.اب تک سلسلے کے علماء اس کے ممبر ہوتے تھے.اس توسیع کے بعد سے دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم بھی اس کے رکن بننے شروع ہوئے.۱۹۵۲ء میں دو وکلاء کو اس کا ممبر بنایا گیا.(۱۵) اب ہر سال اس کے اراکین کا اعلان

Page 94

84 حضرت خلیفہ اسی کی طرف سے ہوتا ہے.جو امور قرآن وسنت و حدیث سے ثابت ہوں یا جن کے متعلق حضرت مسیح موعود کا فیصلہ موجود ہو ان کے متعلق استفتاء پر مفتی سلسلہ فتویٰ دیتا ہے.جس امر میں اجتہاد کی ضرورت ہو ایسے امور کے متعلق مجلس افتاء اجتماعی غور کے بعد فتوی تیار کرتی ہے.مجلسِ افتاء جو تو کی تیار کرتی ہے اس کا اجراء حضرت خلیفہ اسیح کی توثیق کے بعد ہوتا ہے.نیز مجلس افتاء ان امور پر تحقیق کرتی ہے جن کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح کی طرف سے تحقیق کرنے کا ارشاد ہو (۱۶).اس کے ممبران میں علماء کے علاوہ دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے احباب بھی شامل ہوتے ہیں.(۱) مسند امام احمد بن حنبل، مسند معاذ بن جبل جلد ۵ ص ۲۳۰ (۲) البقرة ۱۸۶ (۳) صحیح بخاری کتاب العلم (۴) صحیح بخاری کتاب العلم (۵) جامع ترمذی، ابواب الفتن ، باب ما جاء فی نزول عیسی ابن مریم (۶) ملفوظات جلد ۲ ص ۴۴۵ (۷) روحانی خزائن جلد ۱۹ ص ۱۳ (۸) روحانی خزائن جلد ۱۹ص۲۱۲ (۹) فقہ احمد یہ مصنفہ حافظ روشن علی صاحب صا (۱۰) الفضل ۴ جنوری ۱۹۱۹ ء ص ۱ (11) الفضل یکم اپریل ۱۹۱۹ء ص ۷ (۱۲) تاریخ احمدیت جلد ششم ص (۱۳) تاریخ احمدیت جلد نهم ص ۴۵۴-۴۵۵ (۱۴) الفضل ۷ نومبر ۱۹۴۸ء ص ۲ (۱۵)الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۵۲ء (۱۲) قواعد وضوابط صدرانجمن احمد یہ پاکستان ص ۵۲۵۱

Page 95

85 تفسیر کبیر کی اشاعت قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جو مسلمانوں کو دی گئی اور دوسرے کسی مذہب کی مقدس کتاب اس کے معارف کے قریب بھی نہیں پہنچتی.قرآن ہی وہ ہتھیار ہے جس سے ہر مخالفانہ حملے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے " فَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ) (۱) یعنی ”پس کافروں کی پیروی نہ کر اور اس (قرآن) کے ذریعہ ان سے ایک بڑا جہاد کر (۱).جب فتنوں کے اندھیرے چاروں طرف پھیل رہے ہوں تو قرآن کریم کے نور سے ہی راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے.حضرت علی سے صلى الله روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے برپا ہونے والے فتنے کا ذکر کیا.حضرت علی نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہوگا.آپ ﷺ نے فرمایا' کتاب اللہ.اور پھر قرآن کریم کے فضائل بیان کر کے فرمایا کہ اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے.(۲) لیکن افسوس مسلمانوں نے اس عظیم الشان نعمت کی قدر نہیں کی.خیر القرون کے بعد ا کثر عوام الناس کا کتاب اللہ سے بس اتنا تعلق تھا کہ خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر کسی طاق پر سجا دیا یا بہت ہوا تو چوم کر ماتھے سے لگا لیا.بہت سے مفسرین نے قرآنِ کریم کی قابلِ قدر خدمات کیں لیکن ابتدائی صدیوں کے بعد قرآنِ کریم کی جو تفاسیر لکھی گئیں ان میں بعض میں ایسی غلط اور خلاف عقل روایات بھی شامل کر دی گئیں جو آنحضرت ﷺ اور دیگر انبیاء کی شان کے خلاف تھیں.بائبل کے بیانات اور یہودیوں کی غیر مصدقہ اور ضعیف روایات کو اپنی تفاسیر میں نمایاں جگہ دی ، جن کی وجہ سے کئی تفاسیر قصے اور کہانیوں کا رنگ اختیار کر گئیں.اس کے علاوہ نا سمجھی کی وجہ سے بعض آیات کو منسوخ قرار دے دیا گیا.قرآنی علوم کی طرف بے تو جہی اور ان عوامل کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت وقت کے ساتھ قرآنی علوم کی روشنی سے محروم ہوتی چلی گئی.جب دنیا میں یوروپی اقوام بالخصوص انگلستان کا غلبہ شروع ہوا تو ان کے سیاسی اور عسکری تسلط کے ساتھ عیسائی پادری عیسائیت کی تبلیغ کے لیئے پوری دنیا میں پھیل گئے.چونکہ اسلام کی تعلیم

Page 96

86 عالمگیر ہے اس لئے یہ پادری اسلام کو اپنی راہ میں سب سے بڑی روک سمجھتے تھے.اس وجہ سے ان کے شدید ترین حملوں کا رخ آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس اور قرآن کریم کی طرف تھا.تمام طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآن کریم پر ہر قسم کے حملے کئے گئے.اس ضمن میں پہلا المیہ تو یہ تھا کہ عوام تو عوام عیسائی دنیا کے اہلِ علم حضرات اعتراضات کا انبار تو لگا دیتے لیکن قرآنِ مجید کے متعلق بنیادی علم سے بھی بے خبر ہوتے تھے.اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ قرآن کریم کے بارے میں ان کے علم کا ماخذ خود عیسائیوں کے کیے ہوئے تراجم تھے.اگر انگریزی زبان کے حوالے سے دیکھا جائے تو قرآن کریم کا پہلا انگریزی ترجمہ الیگزینڈر راس (Alexander Ross) نے ۱۶۴۹ء میں کیا تھا.موصوف عربی زبان جانتے ہی نہیں تھے.انہوں نے قرآن کریم کا ایک فرانسیسی ترجمہ لے کر اس سے اپنا انگریزی ترجمہ تیار کیا تھا.اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کو فرانسیسی زبان پر بھی مطلوبہ عبور حاصل نہیں تھا.نتیجہ یہ نکلا کہ ترجمہ نہایت غیر معیاری تھا.اس ترجمے کے دیباچے میں راس کوئی علمی بحث تو نہیں اٹھا سکے البتہ قرآن کریم کے متعلق اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا.(۳) ۱۷۳۴ء میں جارج سیل (George Sale) کا ترجمہ شائع ہوا.اس ترجمے کے ساتھ Preliminary Discourse کے نام سے ایک طویل دیباچہ بھی شامل تھا.اس کا سرسری مطالعہ ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ مترجم مخالفانہ ذہنیت کے ساتھ لکھ رہا ہے.سیل صاحب نے دعوئی تو یہ پیش کیا کہ انہوں نے براہ راست عربی سے انگریزی میں یہ ترجمہ کیا ہے اور اس ضمن میں انہوں نے بہت سی عربی کتب کے حوالے بھی دیئے جن سے انہوں نے استفادہ کیا تھا مگر بعد میں انگریز محققین نے ہی یہ ثابت کیا کہ سوائے بیضاوی کے انہوں نے بقیہ عربی کتب دیکھی ہی نہیں تھیں.دراصل انہوں نے قرآنِ کریم کے ایک لاطینی ترجمے سے انگریزی میں ترجمہ کیا تھا اور اسی مترجم کے مختصر نوٹس سے استفادہ کر کے اپنے نوٹس تیار کیئے تھے (۴).اگر بجائے عربی سے براہ راست ترجمہ کرنے کے ، کوئی ترجمہ لاطینی جیسی مردہ زبان کے ترجمے سے کیا جائے گا تو وہ بہر حال درست نہیں ہو سکتا.لیکن اس سرقہ کے باوجود سیل کے ترجمے کو مغربی دنیا میں بہت وقعت دی جاتی ہے اور اس پر بنیا د رکھ کر اپنی تحقیق کو اٹھایا جاتا ہے.اسی ترجمے پر ریورنڈ وہیری (Reverend Wherry) نے ۱۸۸۱ء میں اپنی تفسیر لکھی.وہ پنجاب میں

Page 97

87 پریسبیٹیرین (presbyterian) پادری تھے ، اپنے دیباچے میں وہ واضح کر دیتے ہیں کہ اس تفسیر کے لکھنے کا مقصد ان عیسائی مشنریوں کی علمی مدد کرنا ہے جو ان کی طرح مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں.ان کی تفسیر کی بنیاد غلط ترجمے پر تو تھی ہی ،اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کی جن تفاسیر سے استفادہ کرنے کا حوالہ دیا ہے وہ بھی اکثر غیر معروف اور دوسرے درجے کی تفاسیر ہیں.اپنی تفسیر میں انہوں نے تقریباً ہر صفحے پر قرآن کریم پر اعتراضات کیئے ہیں.الغرض اس دور میں ہر طرف سے قرآنِ مجید پر اعتراضات کا طوفان اٹھایا جا رہا تھا.قرآن کریم کے منجاب اللہ ہونے پر تمسخر کیا جاتا.قرآنِ کریم کی اخلاقی تعلیم پر اعتراضات کیئے جاتے.قرآن کریم کے بیان کردہ تاریخی واقعات کو بائیبل کا سرقہ قرار دیا جاتا.واعظوں کے ذریعے ، کتب کے ذریعے ، رسائل کے ذریعے ، غرض ہر ممکنہ راستے سے قرآن شریف پر حملے کیئے جارہے تھے.عوام الناس کی طرف سے ہی نہیں بلکہ سکالرز کی طرف سے بھی جو اعتراضات اٹھائے جارہے تھے ان کی بنیاد علم پر نہیں کم علمی پر تھی.لیکن اس وقت عیسائی اقوام کی دنیا پر حکومت تھی اور پادری حضرات اس دبدبے سے بھر پور فائیدہ اٹھا رہے تھے.ان حملہ آوروں کو ہر قسم کے وسائل حاصل تھے اور مسلمانوں کی طرف سے کوئی خاطر خواہ دفاع نہیں کیا جا رہا تھا اور ان کی اپنی تفاسیر میں ایسی باتیں داخل ہو چکی تھیں جن کی وجہ سے مخالفین کو طرح طرح کے اعتراضات کا موقع مل رہا تھا.عیسائیوں کے علاوہ آریوں نے بھی قرآن شریف کے متعلق دریدہ دینی شروع کر دی اور بد زبانی میں سب کو پیچھے چھوڑ گئے.یہ خوفناک صورت حال دیکھ کر مسلمانوں کے دل بیٹھے جا رہے تھے لیکن قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، ” إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ (۵) یعنی یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.یہ وعدہ صرف ظاہری الفاظ کی حفاظت تک محدود نہیں بلکہ معنوی حفاظت کی خوش خبری بھی دیتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اور ۱۸۸۰ء میں حضرت مسیح موعود نے براہینِ احمدیہ کی پہلی جلد کو شائع فرمایا اور تمام مذاہب کو چیلنج دیا کہ اس کتاب میں حقیقت فرقان مجید کے بارے میں قرآنِ مجید سے ہی جو دلائل دیئے گئے ہیں اگر کوئی صاحب اپنی الہامی کتاب میں سے ان کا پانچواں حصہ بھی نکال کر دکھا دیں تو ان کو ایک کثیر رقم بطور انعام دی جائے گی ، اور اگر اس کی توفیق نہیں تو کم از کم ان دلائل کو ہی

Page 98

88 تو ڑ کر دکھا دیں.یہ اعلان سن کر مخالفین کی زبانیں گنگ ہو گئیں اور قلم خشک ہو گئے.وہ جو اسی دور میں قرآنِ مجید کی مخالفت میں ضخیم کتابیں تحریر کر رہے تھے ان میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اپنی مقدس کتاب کی کچھ خوبیاں بیان کرتا یا کم از کم حضرت مسیح موعود کے دلائل کا رد کر کے دکھاتا.اللہ تعالیٰ کا مامور قریباً تمیں برس قرآن کریم کی فضیلت کے دلائل پیش کر کے چیلنج دیتا رہا لیکن کوئی مرد میدان بن کر سامنے نہیں آیا.قرآنی معارف کے ساتھ اس جہاد کا سلسلہ حضرت مسیح موعود کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جانا تھا.جب حضرت مسیح موعود کو ایک عظیم بیٹے کی بشارت دی گئی تو اس موعود بیٹے کی آمد کا ایک عظیم مقصد یہ بیان کیا گیا کہ ” تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتہہ بھاگ جائے.یہ واضح خوش خبری تھی کہ پسر موعود کے ذریعے سے دنیا پر قرآن کریم کی عظمت ظاہر ہوگی.حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کو زمانہ طالب علمی میں ہی رؤیا کے ذریعے یہ خوش خبری دے دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خدمت قرآن کا عظیم الشان کام لے گا.آپ نے رویا میں دیکھا کہ ایک فرشتے نے آپ سے کہا کہ آگے آؤ، جب آپ اس فرشتے کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں.اسپر آپ نے فرمایا کہ سکھاؤ.چنانچہ اس نے تفسیر سکھانی شروع کی.سکھاتے سکھاتے جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک پہنچا تو کہنے لگا کہ تمام مصنفین میں سے کسی نے اس سے آگے کی تفسیر نہیں لکھی.سارے کے سارے یہاں آکر رہ گئے لیکن میں تمہیں انگلی تفسیر بھی سکھاتا ہوں چنانچہ اس نے ساری سکھائی.(۶) یوں تو حضور آغاز خلافت سے ہی درس قرآن دے رہے تھے ،مگر ۱۹۲۸ء میں آپ نے دو ماہ کے لئے قرآن کریم کے ایک خاص درس کا اہتمام فرمایا.اس تاریخی درس میں شمولیت کے لیے بہت سے احباب رخصت لے کر قادیان میں جمع ہو گئے.یہ درس روزانہ چار پانچ گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ جاری رہتا تھا اور سورۃ یونس سے لے کر سورۃ کہف تک پانچ پاروں پر مشتمل تھا.ایک ٹیم نے اس درس کے نوٹس قلمبند کیئے.ان میں سے دو سورتوں کے نوٹس طبع ہوئے مگر پھر یہ کام ایک عرصہ تک ملتوی رہا.۱۹۴۰ء کے آغاز میں حضور نے سورۃ یونس تا سورۃ کہف کی تفسیر تحریر کرنے کا کام دوبارہ شروع فرمایا.آغاز میں مولوی محمد اسماعیل صاحب حلال پوری اس عظیم کام میں حضور کی

Page 99

89 معاونت کرتے رہے، ان کی وفات کے بعد یہ سعادت مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کو اور ان کے ساتھ کچھ اور اصحاب کو حاصل ہوئی.حضور نے ۱۹۴۰ء کے جلسے سے قبل تفسیر کی پہلی جلد کی طباعت مکمل کرنے کا ارادہ فرمایا.وقت بہت کم تھا اور کام کا بہت سا حصہ ابھی باقی تھا.دن کا بہت سا حصہ تو دیگر اہم جماعتی مصروفیات میں صرف ہوتا.اکثر اوقات حضور عشاء کے بعد تفسیر کا کام کرنا شروع فرماتے تو ۲ یا ۳ بجے تک کام کرنا پڑتا.بعد میں جب کام کا دباؤ بڑھا تو بسا اوقات ایسا ہوا کہ عشاء کے بعد تفسیر لکھنے بیٹھے تو کام کرتے کرتے فجر کا وقت ہو گیا.حضور کے ساتھ کام کرنے والے دیگر اصحاب بھی رات کے دو تین بجے تک کام کرتے رہتے اور بسا اوقات آدھی رات کے بعد بھی حضور کی خدمت میں راہنمائی کے لیئے حاضر ہوتے.آخری دو ماہ میں تو بارہا ایسا ہوا کہ ساری رات میں آرام کے واسطے صرف کچھ لمحوں کے لئے کرسی پر اونگھنے کی فرصت ہی میسر ہوتی.کثرت کار کی وجہ سے حضور کی طبیعت زیادہ علیل رہنے لگی لیکن خدمت قرآن کا یہ جہاد کبیر ایک عزم صمیم کے ساتھ آگے بڑھتا رہا.۱۳ دسمبر کو حضور نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ ابھی تفسیر کا کافی کام پڑا ہے اور جلسے میں تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں، اس کے بعد حضور نے ان الفاظ میں دعا کی تحریک فرمائی وپس بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اس کام کی وجہ سے دوماہ سے انتہائی بوجھ مجھ پر اور ایک ماہ سے میرے ساتھ دوسرے کام کرنے والوں پر پڑا ہوا ہے.یہ بوجھ عام انسانی طاقت سے بڑھا ہوا ہے اور زیادہ دیر تک برداشت کرنا مشکل ہے.جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اور نصرت نہ ہو...میں اس سے زیادہ اس وقت کچھ نہیں کہہ سکتا.کیونکہ اس وقت میری یہ حالت ہے کہ مجھے متلی ہو رہی ہے.منہ کڑوا ہے.سردی لگ رہی ہے.اور اتنا بولنا بھی دوبھر ہے.پھر میں ان دونوں باتوں کے لئے دعا کی تحریک کرتا ہوں یعنی خدا تعالیٰ جلسہ سالانہ تک مجھے تفسیر القرآن کے کام کو خیر و خوبی اور صحت کے ساتھ ختم کرنے کی توفیق دے.اور جو میرے ساتھ کام کر رہے ہیں، انہیں اپنے فضل اور رحم سے اپنے پاس سے اجر عطا فرمائے.(۷) اس سے اگلے خطبے میں آپ نے جماعت کو خوش خبری سنائی کہ جلد ہی تفسیر کی پہلی جلد لوگوں

Page 100

00 90 تک پہنچ جائے گی اور تفسیر قرآن اور قرآنی معارف کے متعلق ایک پر معرفت خطبہ ارشاد فرمایا.ایک عارف باللہ اللہ تعالی کی سب سے زیادہ خشیت رکھتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعَلَمو ا (۸) یعنی یقینا اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں.حضور نے اس خطبے کا آغاز اسی مضمون سے کرتے ہوئے فرمایا تفسیر کا کام بہت بڑی ذمہ واری ہے.واقعہ یہ ہے کہ اگر اس میں دیر ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ فطرتاً میں اس سے بہت گھبرا تا ہوں.اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی ٹڑا ہمالیہ پہاڑ کو اٹھانے کی کوشش کرے.اور میں نے مجبوراً اور جماعت کے اندر اس کی شدید خواہش کو دیکھتے ہوئے اس میں ہاتھ ڈالنے کی جرات کی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ اس کے لئے مجبور ہوا ہوں ورنہ قرآن کریم کی تفسیر ایسا کام نہیں جسے مومن دلیری سے اختیار کر سکے.(۹) بدقسمتی سے مسلمانوں نے قرآن مجید پر تدبر کو ترک کر دیا ورنہ قرآن مبین ہر شخص کو دعوت فکر دیتا ہے اور ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق اس سے معارف حاصل کر سکتا ہے.تمام جماعت کو کتاب اللہ پر تدبر کی نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ”ہر انسان خود قرآن کو پڑھے سوچے سمجھے تو صحیح علم حاصل کر سکتا ہے باقی تفاسیر تو ایسی ہی ہیں جیسی کسی جگہ پر پہنچنے کے لئے سواری پر چڑھ جاتا ہے....فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مومن ان ذرائع کو تقریب سے زیادہ اہمیت نہ دے بلکہ خود آگے بڑھے اور سوچے سمجھے.“ حضرت مسیح موعود کی آمد سے قبل مسلمانوں سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی تھی کہ انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ قرآن کریم میں جتنے معارف تھے وہ اس وقت تک کی لکھی ہوئی تفاسیر میں بیان ہو چکے ہیں اور اب مزید غور اور تحقیق کی ضرورت نہیں.اس طرح انہوں نے اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی اس جاری نعمت کے دروازے خود ہی بند کر دیئے.حضرت مصلح موعودؓ نے سختی سے اس رجحان کو رد کرتے ہوئے فرمایا وو مجھے اس خیال سے شدید ترین نفرت ہے کہ تفاسیر میں سب کچھ بیان ہو چکا ہے.

Page 101

91 ایسے خیال رکھنے والوں کو میں اسلام کا بدترین دشمن خیال کرتا ہوں.اور احمق سمجھتا ہوں.گو وہ کتنے بڑے بڑے جسے اور پگڑیوں والے کیوں نہ ہوں.اور جب میرا دوسری تفسیروں کے متعلق یہ خیال ہے تو میں اپنی تفسیر کے متعلق یہ کیونکر کہہ سکتا ہوں....قرآن کریم کے نئے نئے معارف ہمیشہ کھلتے رہیں گے.آج سے سو سال کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ ایسے معارف بیان کر سکتے ہیں جو آج ہمارے ذہن میں بھی نہیں آسکتے.“ اس خطبے کے چند روز بعد تفسیر کبیر کی شائع ہونے والی پہلی جلد لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی.یہ جلد سورۃ یونس سے لے کر سورۃ کہف تک کی تفسیر پر مشتمل تھی.اس کے بعد وقفوں سے ایک کے بعد دوسری جلد منظر عام پر آتی رہی.گو پورے قرآنِ مجید کی تفسیر مکمل نہیں ہو سکی مگر تیار ہونے والی یہ دس جلدیں پڑھنے والوں کے لئے ایک عظیم خزانہ ہیں.تفاسیر کی دنیا میں اس کا ایک منفرد مقام ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ کی خاص تائید کے تحت تحریر کیا گیا تھا.حضور کی تفسیر کا یہ بنیادی اصول تھا کہ قرآن کریم کا ایک حصہ دوسرے حصوں کی تشریح کرتا ہے.جب ایک آیت کو سمجھنا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مضمون کی دوسری آیات پر غور کیا جائے.اس طریق پر صحیح مطلب واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے.اس کے بعد ارشادات نبوی ﷺ پر غور و فکر آیات کے مطالب کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے.پھر حکم و عدل حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں آیات کو دیکھنے سے قرآنی معارف کا ایک خزانہ حاصل ہوتا ہے.بہت سی تفاسیر میں بائیبل اور ضعیف روایات کے زیر اثر انبیاء کے متعلق ایسی باتیں داخل ہوگئی تھیں جو ان مقدس وجودوں کے بلند مقام کے منافی تھیں.حضرت مصلح موعودؓ نے تاریخی تجزیے اور عقلی دلائل سے ان کو غلط ثابت فرمایا.سائنس کی ترقی کے ساتھ ایسے بہت سے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے قرآنی آیات کی صداقت روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتی ہے.حضور نے تفسیر کبیر میں ان معارف کو بیان فرمایا.ان کا مطالعہ سائنسی ذوق رکھنے والوں کو صداقتِ قرآن پر ایک تازہ ایمان بخشتا ہے.اسی طرح جب وقت کے ساتھ آثار قدیمہ کے علم نے ترقی کی تو ان بستیوں کے آثار بھی دریافت ہونے لگے جن کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے.حضور نے اس علم کی روشنی میں متعلقہ

Page 102

92 آیات کی تفسیر فرمائی.دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ قصص کہانیوں کے طور پر نہیں تھے بلکہ عالم الغیب خدا کی طرف سے اترے ہوئے معارف تھے ، جن کی صداقت وقت کے ساتھ ثابت ہوتی گئی.مستشرقین نے قرآن حکیم پر بائیبل کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اور قرآن میں بیان کردہ واقعات کو بائیل کی خوشہ چینی قرار دیا ہے.آپ نے تفسیر کبیر میں عقلی دلائل اور تاریخی شواہد سے ان اعتراضات کا بطلان ظاہر کیا.بہت سے مفسرین نے ہر پیشگوئی کو روز قیامت پر چسپاں کر دیا تھا.جبکہ نئے دور میں ایک کے بعد دوسری قرآنی پیشگوئی پوری ہوتی جا رہی تھی.حضور نے حضرت مسیح موعود کے علم کلام کی روشنی میں قرآن کریم کے اس زندہ معجزے کو دنیا کے سامنے پیش فرمایا.اکثر مستشرقین نے قرآنی آیات سے غلط استدلال کر کے سیرت النبی ہے پر اعتراضات اٹھائے ہیں.آپ نے دلائل کے ساتھ ان اعتراضات کو غلط ثابت فرمایا.اس دور میں ترتیب قرآن پر بہت شد ومد سے اعتراضات کئے گئے ہیں.مغربی مصنفین نے یہ اعتراض بار باراٹھایا ہے کہ قرآن کریم میں ایک موضوع چل رہا ہوتا ہے، پھر یکلخت بالکل مختلف موضوع پر آیات شروع ہو جاتی ہیں اور اس کے بعد کسی اور مضمون کا آغاز ہو جاتا ہے.مثلاً مشہور مصنف کا رلائل نے اپنی کتاب میں بہت سے پہلوں سے آنحضرت ﷺ کی عظمت کا اعتراف تو کیا ہے بلکہ انبیاء میں سے صرف آنحضرت ﷺ کو ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے مگر ترتیب قرآن کے موضوع پر پہنچ کر انہوں نے بھی دوسرے مستشرقین کی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے.اور نعوذ باللہ قرآن کریم کو confused ferment قرار دیا ہے.(۱۰) روڈ ویل (Rodwell) نے جب اپنا ترجمہ قرآن شائع کیا تو یہ مسئلہ اٹھایا کہ قرآن کریم کی موجودہ ترتیب نا قابلِ فہم ہے اس لئے اس نے ترتیب نزول کے اعتبار سے قرآنِ کریم کو شائع کیا.مسلمان یہ اعتقاد تو رکھتے تھے کہ قرآنِ مجید کی موجودہ ترتیب وحی الہی کے ماتحت رکھی گئی تھی مگر وہ اعتراضات کے اس طوفان کا مقابلہ نہیں کر پا رہے تھے.حضور نے دلائل سے ثابت فرمایا کہ تمام آیات اور سورتوں کی ترتیب میں گہری حکمت اور ربط ہے.اور ترتیب قرآن کے متعلق یہ دلائل تفصیل سے تحریر فرمائے.اگر مستشرقین یہ حکمت دیکھ نہیں پا رہے تھے تو اس کی وجہ صرف قلت تذ برتھی.تفسیر کبیر سے صرف ایک نئی تفسیر کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ تفسیر اور موازنہ مذہب کے علم کو ایک

Page 103

93 نیا انداز فکر ملا اور تحقیق کے نئے میدان دنیا کے سامنے آئے.قرآنی حسن کے بہت سے پہلو جو دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے سورج کی طرح روشن نظر آنے لگے.حضور کی یہ عظیم الشان خدمات زبانِ حال سے اس بات کا اعلان کر رہی ہیں ، کہ آپ کے بابرکت وجود سے کلام اللہ کا مرتبہ دنیا پر ظاہر ہوا اور خدا کے پاک مسیح کی پیش گوئی پوری شان سے پوری ہوئی.(۱) الفرقان ۵۳ (۲) جامع ترمذی باب ماجاء فی فضل القرآن (۳)Muhammad and the religion of Islam by john Gilchrist page 215 -224 ()Introduction to George Sales translation of The Koran bySir Edward Denison Ross page viii -ix, published byLondon Frederick Warne co.ltd (۵) الحجر ۱۰ (۶) الفضل یکم فروری ۱۹۳۷ء ص ۶،۵ (۷) الفضل ۱۷ دسمبر ۱۹۴۰ء ص ۲ (۸) فاطر ۲۹ (۹) الفضل ۲۷ دسمبر ۱۹۴۰ء ص ۱ (1)Sartor resartus on Heroes and Hero Worship by Thomas Carlyle page 298-300

Page 104

94 دعوی مصلح موعود اب ہم احمدیت کی تاریخ کے اس موڑ پر پہنچ چکے ہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہو کر تمام دنیا کے لئے نشان بنی اور اس کے ساتھ ہی سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی مظفر و منصور خلافت کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے.اس نشان کی عظمت کو سمجھنے کے لئے ہم پہلے اس کے پس منظر کا جائزہ لیں گے.اور اس دور سے گذریں کے جب خدا کا پیارا مسیح تن تنہا پوری دنیا تک خدا کا پیغام پہنچا رہا تھا.اسلام کی صداقت کو ظاہر کرنے اور دنیا کو زندہ خدا کا چہرا دکھانے کے لئے حضرت مسیح موعود نے پوری دنیا کو دعوت دی کے اگر کوئی طالب صادق بن کر ، ایک سال کے لئے قادیان میں آکر رہے تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خارق عادت نشان دیکھ لے گا.اس کے جواب میں ۱۸۸۵ء میں قادیان کے دس ہندو ساہوکاروں نے آپ کی خدمت میں لکھا کہ ، ہمسایہ ہونے کے ناطے ان کا اولین حق ہے کہ ان کو نشان دکھایا جائے.اور ایک سال کے عرے کے اندر ان کو کسی ایسی پیشگوئی کا گواہ بنایا جائے جو بعد میں خارق عادت طریق پر پورا ہو کر ان کے لئے نشان بن جائے.حضرت مسیح موعود نے اس بات کو خوشی سے قبول کر لیا.اس وقت تک پنڈت لیکھرام کی کوششوں سے قادیان میں آریہ سماج قائم ہو چکی تھی (۱).اس خط و کتابت کو قادیان کے ایک آریہ لالہ شرمیت نے خود شائع کروایا اور لکھا کہ وہ خود بھی اس کے گواہ بنیں گے اور اگر کوئی نشان ظاہر ہوا تو اس کو شائع کریں گے تاکہ حق کے طالب اس سے فائیدہ اٹھائیں اور روز کے جھگڑوں کا فیصلہ ہو.چنانچہ اس کے معاً بعد ہی ان کو حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی کہ اکتیس ماہ کے اندر اندر حضرت مسیح موعود کے چچا زاد بھائیوں یعنی مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین پر ایک سخت مصیبت پڑے گی اور ان کے اہل وعیال و اولاد میں سے کسی مرد یا عورت کا انتقال ہو جائے گا.اس پیشگوئی پر نشان نمائی کی دعوت قبول کرنے والوں کے دستخط کرا لئے گئے.(۱۲) اس نشان نمائی کی دعوت کو قبول کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی.خدا کے شیر کو للکارا گیا تھا.اب

Page 105

95 اللہ تعالیٰ کی حکمت ایک ایسے عظیم الشان نشان ظاہر کرنا چاہتی تھی جو تمام دنیا کے لئے رحمت کا نشان ہو.چنانچہ ۱۸۸۶ء کے شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوشیار پور تشریف لے گئے اور آپ نے خلوت میں چالیس روز عبادت اور ذکر الہی کرتے ہوئے گزارے.ان ایام میں آپ پر بہت سے انکشافات ہوئے.اور ان انکشافات کے علاوہ آپ کو ایک عظیم الشان بیٹے کی خوشخبری بھی دی گئی.اس پیشگوئی کے الفاظ یہ تھے میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق.جو تو نے مجھ سے مانگا...سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تالوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا اُنھیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اسکی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفے کو انکار اور تکذیب کی راہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو مجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائیگا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہو گا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اسکا نام عنمو ائیل اور بشیر بہی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے.وہ نوراللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اسکے ساتھ فضل ہے جو اسکے آنے کے ساتھ آئیگا وہ صاحب شکوہ وعظمت و دولت ہو گا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت اور غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے ).

Page 106

96 96 دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الاوّل والآخر مظهر الحق والعلاء كان الله نزل من السماء - جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کنارون تک شہرت پائیگا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا و کــــان امـــرا مقضيا.(۲) اس کے بعد آپ نے ۱۸ پریل ۱۸۸۶ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں پسر موعود کی پیدائش کے وقت کا تعین فرماتے ہوئے اعلان فرمایا کہ یہ وہ نو برس کے اندر پیدا ہوگا.(۳).اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں ایک لڑکے کی ولادت ہوئی جن کا نام بشیر احمد رکھا گیا.یہ بچہ کم سنی میں فوت ہو گیا.جب بشیر اول کی وفات ہوئی تو مخالفین کی طرف سے استہزاء کا ایک طوفان اٹھایا گیا ، جس کے جواب میں حضور نے سبز اشتہار میں تحریر فرمایا کہ دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگر چہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی معیاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا.زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں.‘ (۴) ۲۰ فروری ۱۸۸۶ سکے اشتہار میں ہی آریوں کے لیڈر اندر من مراد آبادی اور لیکھرام کو اس بات کی دعوت دی گئی تھی کہ اگر وہ خواہش مند ہوں تو ان کی قضا و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں.اندرمن نے تو اعراض کیا لیکن لیکھرام نے بہت بے باکی سے سے لکھا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کرو.چنانچہ جب اس کی نسبت حضرت مسیح موعود نے توجہ کی تو الہام ہوا عجل جسد له خوار له نصب و عذاب (۵) یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکر وہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لیے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر

Page 107

40 97 ہے جو اس کو ضرور مل کر رہے گا.پسر موعود کی پیشگوئی پر سب سے زیادہ ردعمل آریوں کی طرف سے دکھایا گیا.نہ صرف بڑی تعلی سے اس بات کا اعلان کیا گیا کہ یہ پیشگوئی جھوٹی نکلے گی بلکہ اس کے مقابل پر اپنی طرف سے کچھ اور پیشگوئیاں بھی اس دعوے کے ساتھ شائع کی گئیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں.چنانچہ ۱۸۸۷ء میں آریوں کے لیڈر پنڈت لیکھرام نے تکذیب براہین احمدیہ لکھی تو اس پیشگوئی پر کئی صفحات کا تبصرہ بھی تحریر کیا اور مقابل پر اپنی پیشگوئیاں شائع کیں.ان میں سے چند مثالیں درج ہیں (۱) حضرت مسیح موعود نے پسر موعود کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی کہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.اس کے مقابل لیکھرام نے پیشگوئی کی 'اب خدا کہتا ہے کہ محض خلاف ہے.اس رذیل کا نام قادیان میں بھی بہت سے نہ جانیں گے.“ (۲) حضور نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر اعلان فرمایا کہ خدا نے خوش خبری دی ہے ” میں تیری ذریت کو بہت بڑہاؤ نگا اور برکت دونگا اور پھر یہ پیشگوئی بھی شائع فرمائی " تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.اس کے جواب میں لیکھرام نے لکھا ”آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائیگی.غایت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی.پھر یہ دعوی کیا کہ نعوذ باللہ خدا نے حضرت مسیح موعود کے متعلق اسے بتایا ہے کہ ”ابھی اسکے پچھلے اعمال کا بدلہ باقی ہے تین سال میں سزاد یجاد یگی.اور یہ بھی لکھا، ”ہمارا الہام تو تین سال کے اندر اندر آپ سب کا خاتمہ بتلاتا ہے“ ) اور یہ دعوی بھی شائع کیا ، " آج کل کی کیا خصوصیت ہے بلکہ ابد تک آپ کے کوئی لڑکا پیدا نہ ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی تمام بد زبانیوں اور لایعنی بیانات کے بعد یہ دعوی کیا ”مرزا صاحب ! اس اشتہار میں جو کچھ احقر نے عرض کیا ہے حرف بحرف خدائے تعالیٰ کے حکم سے لکھا گیا ہے.(۶) اس کتاب میں بار بار حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں پر تمسخر کیا گیا تھا اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ آپ کی کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.خدا کی شان کہ اس کتاب کی اشاعت پر ابھی ایک سال ہی گذرا تھا کہ مرزا نظام الدین کی بیٹی ، ایک چھوٹا بچہ چھوڑ کر انتقال کر گئی.اس طرح حضرت مسیح موعود

Page 108

98 کی وہ پیش گوئی مقرر کردہ مدت کے اندر اندر پوری ہو گئی جس کے گواہ خود آریہ بنے تھے.حضرت مسیح موعود نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کو شائع فرما دیا اور آریوں کو چیلنج دیا کہ قادیان کے آریوں سے دریافت کریں کہ انہیں قبل از وقت یہ پیشگوئی بتا کر ان کے دستخط لئے گئے تھے یا نہیں.مگر اس کے جواب میں حق کے نام نہاد طالبوں کو سانپ سونگھ گیا اور وہ حسب وعدہ اپنی گواہی مشتہر کرنے سے قاصر رہے.(۷) اس کے بعد اس گروہ کو یہ ذلت بھی دیکھنی پڑی کہ تین سال گذر گئے اور ان کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود اور آپ کے سلسلے کا خاتمہ نہ ہوا، بلکہ خارق عادت ترقی کا دور شروع ہو گیا.اب یہ ظاہر ہو چکا تھا کہ خدا کس کے ساتھ ہے.شرافت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ نشان دیکھنے کے بعد لیکھرام اور دوسرے آریہ کم از کم خاموش ہی ہو جاتے مگر ان کی بدزبانی اور زیادہ بڑھ گئی.چنانچہ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ نکو حضرت مسیح موعود نے اللہ تعالیٰ کے حضور لیکھرام کے لیے مقدر عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لیے توجہ کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منکشف ہوا کہ اس پر چھ سال کے اندر ایک سخت عذاب آئے گا.حضور نے اس پیشگوئی کو شائع فرما دیا (۸) ۲ مارچ ۱۸۹۷ء کولیکھرام خدا کے غضب کا نشانہ بن کر ایک ایسے شخص کی چھری کا شکار ہو گیا، جو شدھ ہونے کے لئے پنڈت لیکھرام کے پاس آیا تھا.خدا کے حضور شوخی اور بیبا کی سے بھی جلد عذاب آتا ہے.مگر لیکھرام کا جرم صرف اتنا ہی نہ تھا.اس نے خدا پر جھوٹ باندھا تھا اور الہام کا جھوٹا وعدہ کیا تھا.اس کی پاداش میں قرآنی وعدے کے مطابق اسے قطع ورید کی سزا ملی اور اسے لمبی مہلت نہ دی گئی.اور اس کی پیشگوئیوں کا آج تک جو حشر ہو رہا ہے ہم اس کا ذرا ٹھہر کر جائزہ لیتے ہیں.خدا کے وعدے سچے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ۱۲ جنوری ۱۹۸۹ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی پیدائش ہوئی اور آپ منصب خلافت پر فائز ہوئے اور وقت کے ساتھ پیشگوئی مصلح موعود میں درج تمام علامات ایک ایک کر کے آپ کی ذات میں پوری ہوتی گئیں.آپ کی بیعت میں داخل احباب کو تو یہ نظر آ ہی رہا تھا ، خدا کی یہ فعلی شہادت اتنی واضح تھی کہ حضرت مولوی غلام حسن صاحب جیسے بہت سے احباب جو ابتداء میں غیر مبائعین میں شامل تھے اور ان کے اکابرین میں سے تھے ، اس نشان کو دیکھ کر آپ کے حلقہ بیعت میں شامل ہو گئے.لیکن

Page 109

99 99 ابھی آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر با قاعدہ اس پیشگوئی کا مصداق ہونے کا حتمی دعوی نہیں فرمایا تھا.اس بناء پر مکرم خواجہ کمال الدین صاحب اور دوسرے غیر مبائعین احباب اس بات کا برملا اظہار کرتے رہے کہ اگر آپ ہی مصلح موعود ہیں تو آپ حلفاً بیان کر دیں کہ آپ کو الہاما بتایا گیا ہے کہ آپ ہی اس پیشگوئی کا مصداق ہیں، اس کے بعد وہ یا آپ کو قبول کر لیں گے یا محض خاموش ہو کر دعاؤں میں لگ جائیں گے.(۹) آغاز ۱۹۴۴ء میں حضور لا ہور تشریف لے گئے اور ٹمپل روڈ پر مکرم شیخ بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر قیام فرمایا.پانچ اور چھ جنوری کی درمیانی شب میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک طویل رویا دکھایا گیا جس کے آخر میں آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوۓ وَ أَنَا المَسِيحَ المَوعودُ مَثِيلُه وَ خَلِیفَته، یعنی اور میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اس کا مثیل اور خلیفہ ہوں.اس پر خواب میں ہی آپ پر رعشہ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ یہ زبان پر کیا جاری ہؤا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں.اس پر خواب میں ہی آپ کے ذہن میں ڈالا گیا کہ آگے کے الفاظ اس کے مطلب کو حل کر دیتے ہیں یعنی آپ حضرت مسیح موعود کے خلیفہ اور مثیل ہیں.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موعودہ بیٹے کے متعلق بتایا گیا تھا کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.اس الہام کو پورا کرنے کے لئے آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے ہیں.حضور نے قادیان واپس تشریف لا کر ۲۸ جنوری کو جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں اس خواب کو بیان فرمایا.اس خطبہ کے آغاز میں آپ نے فرمایا کہ " آج میں ایک ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جس کا بیان کرنا میری طبیعت کے لحاظ سے مجھ پر گراں گذرتا ہے لیکن چونکہ بعض نبوتیں اور الہی تقدیریں اس کے بیان کرنے کے ساتھ وابستہ ہیں.اس لئے میں اس کے بیان کرنے سے باوجود اپنی طبیعت کے انقباض کے رک نہیں سکتا.“ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ بات بیان کرنے سے پہلے حضور نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا بھی کی اور استخارہ بھی کیا تا کہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف نہ ہو.پھر آپ نے وہ رویاء بیان فرمائی اور پسر موعود کی پیشگوئی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی.آپ نے فرمایا کہ پیشگوئی

Page 110

100 میں درج ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا، چنانچہ اس کے مطابق آپ حضرت مسیح موعود کے چوتھے بیٹے تھے.اور آپ کی خلافت کے دور میں حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو قبولِ احمدیت کی توفیق ملی اور اس طرح حضرت مسیح موعود کے چار بیٹے ہو گئے جو آپ کی روحانی اولاد میں بھی شامل تھے ( حضرت مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی شادی سے، سب سے بڑے صاحبزادے تھے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بیعت نہیں کی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دور خلافت میں آپ با قاعدہ بیعت کر کے میں داخل ہوئے).اسی طرح دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ کے الفاظ کی رو سے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے خلیفہ بنے.اور آپ کے عہد میں ان اقوام میں تبلیغ کا آغاز ہوا جن تک ابھی تک پیغام حق نہیں پہنچا تھا.اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے یہ تاریخی اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود نے جو پسر موعود کے متعلق پیشگوئیاں فرمائی تھیں ان کی مصداق حضور کی ذات ہی ہے.یہ جماعت کی تاریخ کا ایک اہم دن تھا اور ان کے لئے ایک بہت بڑی خوشی کا موقع تھا.اس خطبہ کے بعد لوگوں نے مسرت سے ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیں.(۱۱،۱۰) ۲۹ جنوری کو قادیان میں یو م مصلح موعود منایا گیا اور بعد نماز ظہر مسجد اقصی میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی صدارت میں جلسہ منعقد ہوا جس میں مقررین نے اس پیشگوئی کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی.اس طرح وہ اعتراض جو کچھ مخالفین کی طرف سے پیش کیا جاتا تھا کہ حضور نے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر پا کر اپنے آپ کو پسر موعود کی پیشگوئی کا مصداق نہیں قرار دیا، دور ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کی صداقت واضح ہو کر سامنے آگئی.اس تاریخی اعلان کے ساتھ حضرت مصلح موعود کی با برکت خلافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا.اب پسر موعود کی اس عظیم الشان پیشگوئی کو سوسال سے بھی زائد عرصہ گذر چکا ہے اورلیکھرام کی کی گئی پیشگوئیوں پر بھی ایک صدی بیت گئی.ہر طالب حق کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کس کی پیش گوئی درست نکلی اور کس کے دعوے غلط ثابت ہوئے لیکھرام نے تو اپنے الہام کی بناء پر دعویٰ کیا تھا کہ اب حضرت مسیح موعود کے کوئی بیٹا پیدا نہیں ہو گا اور آپ کی ذریت جلد منقطع ہو جائے گی.لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا.صرف حضرت مصلح موعود ہی نہیں بلکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور

Page 111

101 حضرت مرزا شریف احمد صاحب بھی اس پیشگوئی کے بعد پیدا ہوئے تھے.آج حضرت مسیح موعود کی اولا دسینکڑوں کی تعداد میں دنیا کے تین بر اعظموں میں موجود ہے.اور پسر موعود کے متعلق اس نے پیشگوئی کی تھی کہ اسے قادیان میں بھی زیادہ لوگ نہیں جانتے ہوں گے.کوئی مخالف بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ پیشگوئی صحیح نکلی.آج دنیا کے ایک سو پچاسی ممالک میں آپ کے خدام موجود ہیں.پنڈت لیکھرام کے خدا نے تو کہا تھا کہ تین سال میں یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا.اس وقت تو محض چند خدام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھے اور اور بیعت لینے کا سلسلہ بھی ابھی شروع نہیں ہوا تھا.مگر آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ دنیا بھر میں جماعت موجود ہے.ایک ایک ملک میں لاکھوں احمدی موجود ہیں اور خدا کا لگایا ہوا یہ پودا ایک تناور درخت بن چکا ہے.پسر موعود کی پیشگوئی میں حضور کا یہ الہام بھی تھا کہ خدا آپ کی دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.اس وقت تو ہندوستان سے باہر آپ کو کوئی نہیں جانتا تھا.کیا آج کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی ؟ ہندو ا حباب کو اس بات پر توجہ کرنی چاہئیے کہ ان کے نمائیندے نے خدا سے الہام پانے کا دعویٰ کر کے جو پیشگوئیاں کی تھیں ان میں سے تو ایک بھی ٹھیک نہ نکلی لیکھرام کا خدا، آخر کیسا خدا تھا؟ نہ تو اسے بچا سکا اور نہ ہی اپنے کسی قول کو پورا کر سکا.انتظار کرتے کرتے سو سال سے بھی زائد عرصہ گذر گیا مگر وقت کے ساتھ اس کی پیشگوئیوں کا بطلان اور زیادہ ظاہر ہوتا گیا.دوسری طرف حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پوری شان سے پوری ہوئی اور ایک عالم اس کی صداقت کا گواہ بن گیا.اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دی تھی حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ گیا اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ گیا.(1) Arya Dharam by Kenneth Jones, University of California Press, 1976 page 148 (۲) روحانی خزائن جلد ۵ ص ۶۴۷ (۳) مجموعه اشتہارات جلد اول بار دوم ص ۹۸ (۴) مجموعہ اشتہارات جلد اول بار دوم ص ۱۴۶ (۵) روحانی خزائن ج ۵ ص ۶۵۰ (۶) کلیات آریہ مسافرص ۴۹۳ ۵۰۰ مطبوعه ۱۹۰۴ء ( ۷ ) مجموعہ اشتہارات جلد اول بار دوم ص ۱۲۴-۱۲۵ (۸) مجموعہ اشتہارات جلد اول بار دوم ص ۳۰۴-۳۰۵ (۹) اندرونی اختلافات کے اسباب ناشر انجمن اشاعت اسلام لا ہور دسمبر ۱۹۱۴ء ص ۷۲.۷۳ (۱۰) الفضل یکم فروری ۱۹۴۴ ص ۱ تا ۸ (۱۱) الفضل ۳۰ جنوری ص ۱ (۱۲) روحانی خزائن جلد ۱۸ ص ۵۸۹

Page 112

102 ہوشیار پور، لاہور، لدھیانہ اور دہلی میں حضرت مصلح موعودؓ کے جلسے پسر موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کا پورا ہونا اور اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا یہ اعلان فرمانا کہ یہ پیشگوئی آپ کی ذات میں پوری ہوئی ہے، جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا.چنانچہ تحدیث نعمت اور اتمام حجت کے لئے مختلف مقامات پر جلسوں کا فیصلہ کیا گیا تا کہ پوری دنیا کے سامنے اس پیشگوئی کے پورے ہونے کا اعلان کیا جائے.یہ جلسے ہوشیار پور، لاہور، لدھیانہ اور دہلی میں منعقد کئے گئے.اس سلسلے کا پہلا جلسہ ۲۰ فروری ۱۹۴۴ء کو ہوشیار پور میں منعقد ہوا.ہوشیار پور ہی وہ مقام تھا جہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلہ کشی فرمائی تھی اور جہاں آپ کو پسر موعود کے وعدے سے نوازا گیا تھا.یہ جلسے عام دنیاوی جلسوں کی طرز پر نہیں کئے جارہے تھے.ان کے مقاصد بہت اعلیٰ اور سراسر روحانی تھے.چناچہ اس جلسہ سے چار روز قبل حضرت خلیفہ اسیح ثانی نے الفضل میں یہ اعلان شائع فرمایا پس یہ موقع خشیت اور تقوے اللہ کے اظہار کا ہے...صرف وہی لوگ اس جلسے میں شامل ہوں جو دعائیں کر نیوالے استغفار کرنے والے.حمد کرنے والے اور ذکر کرنے والے ہیں.اور اس جگہ پر جب تک رہیں.اس امر کا تعہد کریں.کہ نہ بلا وجہ بات کریں.نہ ہنسی مذاق کریں.نہ بنسی تمسخر سے کام لیں.بلکہ تمام وقت سنجیدہ رہیں.اور دعاؤں اور استغفار میں مشغول رہیں.پس اس بات کا خیال رہے کہ لڑکے اور چھوٹی عمر کے نوجوان وہاں نہ جائیں.نہ وہ جو اپنی طبیعتوں پر قابو نہیں رکھ سکتے.اگر آپ نے میری نصیحت پر عمل کیا.تو یہ عمل آپ کا مقبول بارگاہِ الہی ہو گا.ورنہ آپ اپنے عمل کو ضائع کر لینگے.اور شاید بعض غضب الہی کو بھڑ کا لیں.‘(۱) ہوشیار پور کے جلسے کا انتظام ایک ایسے میدان میں کیا گیا تھا جو اس مکان کے قریب تھا جس

Page 113

103 میں حضرت مسیح موعود نے چلہ کشی فرمائی تھی.(۲) جلسے کے روز ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس میدان میں پہنچ چکے تھے.مجمع میں سینکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم بھی شامل تھے.حضور پونے دو بجے لاہور سے جلسہ گاہ میں تشریف لائے.ظہر اور عصر کی نمازیں جلسہ گاہ میں پڑھائی گئیں.جلسے کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد حضرت مولانا عبدالرحیم در ڈ صاحب نے مختصر تقریر فرمائی اور ہوشیار پور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چلہ کشی کے حالات بیان کئے.پھر حضور کا خطاب شروع ہوا.سورۃ فاتحہ کے بعد آپ نے قرآنی دعاؤں کی تلاوت فرمائی.یہ دعائیں کچھ ایسے سوز سے ادا کی گئیں کہ دل اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت سے بھر گئے.آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور ہر طرف سے آہ و بکا کی آوازیں سنائی دینے لگیں.مجمع میں موجود کئی ہندؤں کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو گئے.حضور نے اپنے خطاب میں پیشگوئی مصلح موعود کی تفاصیل بیان فرمائیں.اور اس بات کا حلفیہ اعلان فرمایا کہ آپ ہی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں.اس کے بعد مختلف مبلغین نے مختصر تقاریر میں بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے جو پیشگوئی شائع فرمائی تھی کہ مصلح موعودؓ کے ذریعے احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک روشن ہوگا ، وہ کس شان سے پوری ہوئی.آخر میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے یہ پر شوکت اعلان فرمایا د میں آسمان کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں.ہوشیار پور کی ایک ایک اینٹ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں.کہ یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا.حکومتیں اگر اس کے مقابلہ پر کھڑی ہوں گی تو مٹ جائیں گی.بادشاہتیں کھڑی ہوگی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائینگی.لوگوں کے دل سخت ہوں گے تو فرشتے ان کو اپنے ہاتھ سے ملیں گے یہاں تک کہ وہ نرم ہو جائیں گے.اور ان کے لئے احمدیت میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا.(۳) جلسے کے بعد حضور اور کچھ اور احباب اس مکان میں تشریف لے گئے جہاں پر حضرت مسیح موعود نے چلہ کشی فرمائی تھی اور شوکتِ اسلام کے لئے دعائیں کیں.اس سلسلے کا دوسرا جلسہ ۱۲ مارچ ۱۹۴۴ئکو لاہور میں منعقد کیا گیا.ایک بڑا شہر ہونے کے علاوہ لاہور کی ایک اہمیت یہ بھی تھی کہ یہی وہ مقام تھا جہاں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر یہ انکشاف ہوا

Page 114

104 تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس عظیم پیشگوئی کا مصداق آپ کی ذات ہے.جلسے کا انتظام پٹیالہ ہاؤس کے ساتھ میدان میں کیا گیا تھا.اس میں نہ صرف احمدی احباب بڑی تعداد میں شامل ہوئے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہندؤں سکھوں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے احباب نے بھی شرکت کی اور آخر تک تمام جلسے کی کاروائی سنی.حضور کی آمد سے قبل آپ کا یہ ارشاد بار بار لاؤڈ سپیکر پر سنایا جاتا رہا کہ درود اور ذکر الہی میں وقت گزاریں.لغو بات کوئی نہ کرے.دعائیں کثرت سے کریں.نعرہ کوئی نہ لگائے.جلسے کے آغاز پر تلاوت قرآنِ کریم کے بعد حسب سابق حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درڈ نے ہوشیار پور میں حضرت مسیح موعود کی چلہ کشی کے حالات سنائے.اس کے بعد حضرت مصلح موعود کا خطاب شروع ہوا.یہ تقریر منکرین خلافت کے لئے حجت تھی ،مخالفین جماعت کے لئے حجت تھی ، اور اسلام کے دشمنوں کے لئے حجت تھی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو پسر موعود کے متعلق خوشخبری دی تھی کہ كـأن الـلـه نـزل من السماء گویا خدا آسمان سے اتر آیا ہے.جلسے میں موجود لوگ ایسا ہی نظارہ اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے.ایک موقع پر تو حضور کی زبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ اس وقت میں نہیں بول رہا.بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے.(۴) حضور کے خطاب کے بعد دوسرے مقررین نے دنیا کے مختلف مقامات پر احمدیت کا پیغام پہنچنے کے موضوع پر تقاریر کیں.آخر میں حضور نے فرمایا: میں اسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں.جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتوں کا کام ہے اور جس پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بیچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں ۱۳ ٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان پر یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں.اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور تو حید دنیا میں قائم ہوگی.‘ (۵) دنیا میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشان ظاہر ہوتا ہے تو بدنصیبوں کی طرف سے اس کی مخالفت کی جاتی ہے ،استہزاء کیا جاتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و اذا راوا آية يستسخرون (۶) اور جب بھی وہ کوئی نشان دیکھیں تو مذاق اڑانے لگتے ہیں.اس نشان کے ظہور

Page 115

105 پر بھی ایسا ہی ہوا.لدھیانہ وہ مقام تھا جہاں حضرت مسیح موعود نے پہلی بیعت لی تھی.اس کے پورے پچپن سال کے بعد ، حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۳ مارچ کو وہاں جلسہ کرنے کا فیصلہ فرمایا.اس کی اطلاع ملتے ہی احراری مولویوں نے اس کی مخالفت شروع کر دی اور اسی تاریخ کو لدھیانہ میں اپنا جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کر دیا.پہلے حکومت کو درخواست دی کہ احمدیوں کے جلسے پر پابندی لگائی جائے.جب اس میں ناکامی ہوئی تو اخباروں میں شور مچانا شروع کیا اور غیر اخلاقی حرکتوں پر اتر آئے.عوام کو مشتعل کرنے کی کوششیں کی گئیں اور دھمکیاں دی گئیں کہ اگر احمدیوں نے اپنا جلسہ منعقد کیا تو احرار سخت فساد برپا کریں گے.۲۳ مارچ کو ان کا اندرونہ خوب اچھی طرح ظاہر ہو رہا تھا.اپنے میں سے ایک لڑکے کا منہ کالا کر کے اسے گدھے پر سوار کر کے جلوس نکالا اور ایک مصنوعی جنازہ بنا کر سینہ کوبی کی گئی.سڑک پر جاتے ہوئے احمدیوں پر جوتے اور پتھر پھینکے.اس سے دل نہ بھرا تو گالیاں نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا.حضرت مصلح موعودؓ ” جب دار البیعت میں دعا کرنے کے بعد بھدوڑ ہاؤس کے وسیع میدان میں نماز پڑھانے کے لئے تشریف لائے تو ان اوباشوں کا مجمع جلسہ گاہ کے قریب کھڑا گالیاں نکال رہا تھا.عین اس وقت بارش شروع ہو گئی.موسلا دھار بارش میں ظہر وعصر کی نمازیں نہایت اطمینان اور خشوع و خضوع سے ادا کی گئیں.نمازوں کے بعد حضور نے فرمایا دوست اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں اب جلسہ شروع ہوتا ہے.مخالفین کا ہجوم جو کچھ دیر پہلے تک خوفناک دھمکیاں دے رہا تھا ،صرف بارش سے ہی تر بتر ہو گیا.مگر نہ صرف احمدی شرکاء بلکہ دیگر مسلم و غیر مسلم شرفانے بھی موسلا دھار بارش کے باوجود اطمینان سے جلسے کے اختتام تک ساری کارروائی میں شرکت کی.جب حضور نے قرآنی دعاؤں کی تلاوت کی تو شدت جذبات سے بہت سے احباب کی چیخیں نکل گئیں.حضور نے پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق ہونے کا اعلان فرمایا اور ان لوگوں کے لئے بھی دعا کی جنہوں نے ہر قسم کی غیر اخلاقی حرکات کر کے جماعت کے جلسے کو روکنے کی کوشش کی تھی..حضور کے خطاب کے بعد مبلغین سلسلہ نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر تقاریر کیں اور ان کے بعد حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بھی ایک مختصر تقریر فرمائی.دیکھنے والوں نے دیکھا محسوس کرنے والوں نے محسوس کیا کہ اس موقع پر احمدی اپنے محبوب امام کی قیادت میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کر رہے تھے، اپنے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے.اور مخالفین گالیاں دے

Page 116

106 رہے تھے ، بھانڈوں کی طرح گری ہوئی حرکتیں کر رہے تھے.آخر ہر برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے.(۷ تا ۱۰) لدھیانہ کے جلسے کے ساتھ مخالفت کا جوش وحشیانہ جنون میں تبدیل ہو چکا تھا.اسی ماحول میں جماعت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ۱۶ اپریل ۱۹۴۴ء کو جماعت اللہ تعالیٰ کے اس نشان کے ظاہر ہونے کی خوشی میں دہلی میں جلسہ کرے گی.دہلی میں جماعت کی مخالفت کی ایک پرانی تاریخ ہے.جب ۱۸۹۱ء میں حضرت مسیح موعود دیلی تشریف لے گئے تو اہلِ دہلی کی طرف سے گرے ہوئے انداز میں حضور کی مخالفت کی گئی تھی.جس مکان میں آپ رونق افروز تھے اس پر کئی مرتبہ پتھراؤ بھی کیا گیا تھا.دعویٰ مصلح موعود کے بعد جب جماعت کی طرف سے دہلی میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا گیا تو مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا.مخالف مولویوں کی طرف سے اشتعال انگیز تقریروں کا سلسلہ شروع کیا گیا، جماعت کے اشتہارات اتار کر مخالفانہ اشتہارات لگائے گئے ، حکومت کو درخواستیں دی گئیں کہ جماعت کے جلسے کو روکا جائے.اور یہ دھمکیاں بھی دی گئیں کہ خون کی ندیاں بہہ جائیں گی مگر اس جلسے کا انعقاد نہیں ہونے دیا جائے گا.بہر حال مقررہ تاریخ کو چار پانچ ہزار کی تعداد میں احمدی دہلی کے جلسے میں شرکت کے لئے پہنچ گئے.جلسے کے لئے ہارڈ نگ لائیبریری سے متصلہ میدان کا انتخاب کیا گیا تھا.بہت سے غیر از جماعت احباب بھی جلسے میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے.بہت سے مخالفین فساد کی نیت سے مجمع کے اندر بیٹھے ہوئے تھے اور ہزاروں مخالفین کے ہجوم نے جلسہ گاہ کو گھیرا ہوا تھا.جلسہ کی کاروائی تلاوت قرآنِ کریم سے شروع ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد تلاوت کر رہے تھے.ایک مقام پر انہوں نے زبر کی جگہ زیر پڑھ دی.مخالفین تو کسی موقع کی تاک میں تھے.یہ سن کر انہوں نے شور مچا دیا کہ قرآن غلط پڑھا جا رہا ہے.اور ایک گروہ گالیاں دیتا ہو اسٹیج کی طرف بڑھا.جماعت کے کچھ افراد نے ان کو روک کر جلسہ گاہ سے باہر نکال دیا.اس دوران ہزاروں کا مجمع جلسہ گاہ کے باہر کھڑا گالیاں نکال رہا تھا اور جلسہ گاہ پر پتھر برسائے جا رہے تھے.جب کارکنان ان مفسدوں کو جلسہ گاہ سے باہر نکال رہے تھے تو ان شورش پسندوں نے کارکنان کو مارنا شروع کر دیا.اس پر جب بعض احمد یوں نے جواب دینا شروع کیا تو حضور نے ہدایت دی کہ ان سے تعرض نہ کرو اور واپس آجاؤ اور اگر مار پڑے تو برداشت کرو.ان خطرناک

Page 117

107 حالات میں حضور نے تقریر شروع فرمائی جو باوجود مخالفین کی تمام کوششوں کے ساڑھے تین گھنٹے جاری رہی.حضور نے فرمایا کہ پیشگوئی میں مصلح موعود کی ایک علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علومِ ظاہری و باطنی علوم سے پر کیا جائے گا.اور یہ ایسی صاف اور واضح علامت ہے کہ اسے با آسانی معلوم کیا جاسکتا ہے.حضور نے فرمایا کہ میں تمام علماء کو چیلنج دیتا ہوں کہ میرے مقابل پر قرآن کریم کی تفسیر لکھیں.اور جتنے لوگوں سے اور جتنی تفسیروں سے چاہیں مدد لے لیں.مگر خدا کے فضل سے پھر بھی مجھے فتح حاصل ہو گی.اس تقریر کے دوران وہ ہزاروں مفسدین جو جلسہ درہم برہم کرنے آئے تھے اردگرد شور مچاتے رہے اور گالیاں دیتے رہے.آخر جب یہ گروہ خواتین کے مجمع کی طرف بڑھا اور سخت خطرہ پیدا ہوا تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ سو آدمی عورتوں کی حفاظت کیلئے چلے جائیں.باقی سب بیٹھے رہیں.یہ شور مچانے والے اگر عورتوں پر حملہ کریں تو ان کو دکھا دو کہ احمدی اس طرح مقابلہ کرتے ہیں.اگر تم میں سے کوئی کمزور دل ہو تو وہ نہ جائے اس کی جگہ میں جانے کو تیار ہوں.صرف سواحمد یوں نے اپنے سے کئی گنا بڑے مجمع کو پسپا کر دیا جو خون کی ندیاں بہانے آئے تھے.اس وقت مخالفین نے یہ سمجھتے ہوئے کہ اب ان کی تعداد زیادہ ہو چکی ہے ایک بار پھر جلسہ گاہ پر حملہ کر دیا اور جو احمدی نوجوان پہرے پر کھڑے تھے ان پر پتھر برسانے شروع کر دئے.ان میں سے کئی نوجوان زخمی ہو گئے.جلسہ کے بعد سب سے پہلے خواتین کو لاریوں میں بھجوایا گیا.حفاظت کے لئے کچھ نوجوان بھی ان لاریوں کے ساتھ تھے.ان بد باطن مخالفین نے ان لاریوں پر حملہ کر کے اپنے گرے ہوئے اخلاق کا مزید ثبوت مہیا کیا.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان احمدیوں نے ان کا مقابلہ کیا اور یہ حملہ آور باوجود کئی گنا تعداد کے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گئے.اس سنگباری سے چالیس پچاس احمدی زخمی ہوئے.حضور کے داماد میاں عبدالرحیم احمد صاحب بھی شدید زخمی ہو گئے اور ایکسرے پر معلوم ہوا کہ سر کی ہڈی تین جگہ سے فریکچر ہو گئی ہے.بعض نوجوانوں پر اتنے پتھر بر سے کہ جب وہ واپس آئے تو سر سے پاؤں تک خون میں نہائے ہوئے تھے.جلسے کے بعد کچھ احباب نے بیعت کی.اس طرح باوجود مخالفین کی تمام مذموم حرکات کے جماعت کا جلسہ مکمل ہوا.احمدیوں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے اپنی جھولیاں بھریں اور مولویوں اور ان کی پیروی کرنے والوں نے اوباشانہ حرکات کر کے اپنا نامہ اعمال سیاہ کیا.یہ واقعہ جماعتی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے.

Page 118

108 اس واقعہ کو پڑھنے والے خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا گروہ سنتِ انبیاء پر عمل کر رہا تھا اور کون سا گروہ زبانِ حال سے یہود سے اپنی مماثلت ثابت کر رہا تھا.(۱۱ تا ۱۵) (۱) الفضل ۱۶ فروری ۱۹۴۴ء (۲) تاریخ احمدیت جلد نهم ص۵۸۲-۵۸۳ (۳) الفضل ۲۴ فروری ۱۹۴۴ء ص ۱-۲ ( ۴ ) الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۴۴ء (۵) الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۴۴ء ص ۲ (۶) الصفت ۱۵ ( ۷ ) الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۴۴ء ص ۱ تا ۲ (۸) الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۴۴ء ص ۲ (۹) الفضل یکم اپریل ۱۹۴۴ء ص ۳ (۱۰) الفضل ۴ اپریل ۱۹۴۴ء ص ۱ تا ۲ (۱۱) الفضل ۱۱۹ پریل ۱۹۴۴ء ص ۸ (۱۲) الفضل ۱۲۰ اپریل ۱۹۴۴ء ص ۵-۶ (۱۳) الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۴۴ء ص ۱-۲ (۱۴) الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۴۴ ء ص ۲ (۱۵) الفضل ۳ مئی ۱۹۴۴ء ص ۱ تا ۵

Page 119

109 دعوی مصلح موعود کے بعد مختلف تحاریک خاندان حضرت مسیح موعود کو وقف کی تحریک: دعوی مصلح موعود کے بعد اب حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کی خلافت کا نیا دور شروع ہو رہا تھا.اور جماعت کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ چکی تھیں.اس پس منظر میں اس بات کی ضرورت تھی کہ خدمت اور قربانی کی نئی منازل کی طرف بڑھا جائے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے سب سے پہلے حضرت مسیح موعود کے خاندان کو تحریک فرمائی کہ وہ آگے آئیں اور اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں.چناچہ ار مارچ ۱۹۴۴ء کو حضور نے خطبہ جمعہ میں فرمایا..میں ان باتوں کو جلدی جلدی اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نہیں جانتا میری کتنی زندگی ہے.میں اس مقام پر سب سے پہلے اپنے خاندان کو نصیحت کرتا ہوں کہ دیکھو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات ہیں کہ اگر سجدوں میں ہمارے ناک گھس جائیں، ہمارے ماتھوں کی ہڈیاں گھس جائیں تب بھی ہم اس کے احسانات کا شکر ادا نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں ہمیں پیدا کیا ہے.اور اس فخر کے لئے اس نے اپنے فضل سے ہمیں چن لیا ہے.پس ہم پر اک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے.دنیا کے لوگوں کے لئے دنیا کے اور بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں.مگر ہماری زندگی تو کلیتاً دین کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لئے وقف ہونی چاہئیے.مگر میں دیکھتا ہوں ہمارے خاندان کے کچھ افراد دنیا کے کام میں مشغول ہو گئے ہیں.بے شک وہ چندے بھی دیتے ہیں.بے شک وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں.بے شک وہ اور دینی کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں.مگر یہ وہ چیز ہے جس کی اللہ تعالیٰ ہر مومن سے امید کرتا ہے.ہر مومن سے وہ توقع کرتا ہے.کہ وہ جہاں دنیا کے کام کرے وہاں چندے بھی دے.وہاں نمازیں بھی پڑھے.وہاں دین کے اور کاموں بھی حصہ لے.پس اس لحاظ سے ان میں

Page 120

110 اور عام مومنوں میں کوئی امتیاز نہیں ہوسکتا.حالانکہ خدا ہم سے دوسروں کی نسبت زیادہ امید کرتا ہے.خدا ہم سے یہ نہیں چاہتا کہ ہم کچھ وقت دین کو دیں اور باقی وقت دنیا پر صرف کریں.بلکہ خدا ہم سے یہ چاہتا ہے.کہ ہم اپنی تمام زندگی خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیں...اگر وہ دنیا کے کام چھوڑ دیں.تو اس کے نتیجہ میں فرض کرو ان کو فاقے آنے لگ جاتے ہیں.تو پھر کیا ہوا.سب کچھ خدا کی مشیت کے ماتحت ہوتا ہے.اگر اس رنگ میں ہی کسی وقت اللہ تعالیٰ ان کا امتحان لینا چاہے.اور انہیں فاقے آنے شروع ہو جائیں.تب بھی اس میں کون سی بڑی بات ہے.(۱) اس ضمن میں سب سے پہلے تو حضور نے اپنی اولا د کوقربانیوں کے لئے پیش کیا.خلافت ثانیہ میں ایک مرتبہ یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ نئے واقفین بہت کم تعداد میں سامنے آرہے ہیں.اس مجلس مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے فرمایا.چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول کی اپنے فعل سے تائید فرمائی.اور اپنے سارے لڑکے اور لڑکیاں خدمتِ دین کے لیے وقف کر دیئے.اور جوں جوں آپ کے بچے جوان ہوتے گئے.آپ انہیں بلا کر ، ان پر واضح کرتے رہے کہ انہیں وقف کیلئے آگے آنا پڑے گا.اور اگر وہ آگے نہ آئے تو آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا.(۲) آپ کے دل میں اس بات کی تڑپ کہ حضرت مسیح موعود کی اولا دا اپنی زندگیاں خدمت دین میں صرف کرے اتنی شدید تھی کہ آپ نے یہ عہد اپنی اس نوٹ بک میں جو یا داشتوں کو درج کرنے کے لئے آپ کے کوٹ کی اندرونی جیب میں رہتی تھی لکھ کر رکھا ہو ا تھا " آج چودہ تاریخ (مئی ۳۹ ء) کو میں مرزا بشیر الدین محمود احمد اللہ تعالیٰ کی قسم اس پر کھاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل سیدہ سے جو بھی اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت میں خرچ نہیں کر رہا میں اس کے گھر کا کھانا نہیں کھاؤں گا اور اگر مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے مجھے ایسا کرنا پڑے تو میں ایک روزہ بطور کفارہ رکھوں گا یا پانچ روپے بطور صدقہ ادا کروں گا یہ عہد سر دست ایک سال کے لئے ہوگا.مرزا محمود احمد (۳)

Page 121

111 وقف جائیداد کی تحریک: ۱۰ مارچ ۱۹۴۴ء کے خطبہ جمعہ میں ہی حضرت مصلح موعود نے جائداد کو وقف کرنے کی تحریک فرمائی.اور فرمایا کہ جائیدادوں کو اس صورت میں وقف کیا جائے گا کہ یہ جائیداد فی الحال تو مالکان کے تصرف میں رہے گی لیکن جب سلسلے کی طرف سے ان سے مطالبہ کیا جائے گا تو انہیں وہ جائیداد اسلام کی اشاعت کے لئے پیش کرنے میں قطعاً کوئی عذر نہیں ہو گا.اس تحریک میں سب سے پہلے حضور نے خود اپنی جائیداد وقف کی.اس کے بعد حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور پھر نواب مسعود احمد خان صاحب نے اپنی جائیداد پیش کی.حضور نے فرمایا کہ اس وقف کی صورت یہ ہوگی کہ ایک کمیٹی بنادی جائے گی.اور جب اشاعت اسلام کے لئے کسی رقم کی ضرورت پڑے گی تو پہلے عام چندے کی تحریک کی جائے گی پھر جو کمی رہ جائے گی وہ نسبتی طور پر ان لوگوں میں تقسیم کی جائے گی جنہوں نے اپنی جائدادوں کو وقف کیا ہے.اور ان کا اختیار ہو گا چاہے تو وہ نقد رقم دے دیں اور اگر چاہیں تو اپنی جائیداد فروخت یا گرو رکھ کر یہ رقم ادا کریں.جن لوگوں کی کوئی جائیداد نہیں ہے لیکن وہ اس ثواب میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو وہ اپنی ایک یا دو یا تین ماہ کی آمد وقف کریں.اور یہ عہد کریں کہ جب بھی سلسلے کی طرف سے مطالبہ ہوگا وہ یہ آمد پیش کریں گے خواہ ان کے بیوی بچوں کو کتنی ہی تنگی سے کیوں نہ گذرنا پڑے.اس اعلان کے چند گھنٹوں کے اندراندر جماعت نے چالیس لاکھ روپے کی جائیدادیں حضور کی خدمت میں پیش کر دیں (۴).قادیان کی جماعت نے اس سلسلے میں شاندار نمونہ دکھایا.دو ہزار سے زائد ا حباب نے اس تحریک میں حصہ لیا اور کروڑوں کی جائیداد کو حضور کی خدمت میں پیش کیا.وقف زندگی کی تحریک جماعت کے نئے دور کی ضروریات کے پیش نظر اس بات کی ضرورت تھی کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں احمدی اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں وقف کریں.چنانچہ حضور نے خطبہ جمعہ میں اس بارے میں تحریک کرتے ہوئے فرمایا ”ہماری ذمہ واریاں بے انتہا ہیں اور مشکلات کا کوئی اندازہ نہیں اور آخر جس طرح

Page 122

112 بھی ہو.گرتے پڑتے ہمت سے کام کرنا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے ہی چونکہ وہ کام کرنا ہے.اس لئے ہماری کوشش کتنی کم کیوں نہ ہو.یہ یقین ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ ہمیں اس کام کو پورا کرنے کی توفیق دے گا...لیکن یہ سکیم پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ایسے افراد زیادہ تعداد میں نہ ہوں جو دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.جسمانی کام ایک ایک آدمی سے بھی چل سکتے ہیں.کیونکہ جسم کا فتح کرنا آسان ہے.مگر روحانی کاموں کے لئے بہت آدمیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے کیونکہ دلوں کا فتح کرنا بہت مشکل کام ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اتنے معلم ہوں کہ ہم انہیں تمام جماعت میں پھیلا سکیں..دنیوی علوم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اگر اپنے نام پیش کریں تو ان کو بھی ایسی تعلیم دی جاسکتی ہے کہ دین کا کام ان سے لیا جا سکے....ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.ادنی اقوام میں تبلیغ کے لئے ڈاکٹر بہت زیادہ مفید ہو سکتے ہیں بلکہ ان کے لئے ان سے زیادہ بہتر مبلغ کوئی نہیں ہوسکتا.(۵) حضور کے اس ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر بسنے والے بہت سے احمدیوں نے وقف کرنے کی سعادت حاصل کی.کمیونسٹ نظریات کے مطالعے کی تحریک: ۱۹۴۴ء میں جوں جوں جنگِ عظیم کا خاتمہ نزدیک نظر آرہا تھا، اس بات کے آثار واضح ہوتے جا رہے تھے کہ دنیا کے کئی ممالک کمیونسٹ بلاک کے زیر اثر چلے جائیں گے.سوویٹ یونین کی افواج کے آگے بڑھنے کے ساتھ مشرقی یورپ کے ممالک اس کے تسلط میں آرہے تھے اور ایشیا میں چین جیسے اہم ملک میں ان نظریات کے حامیوں کا زور بڑھ رہا تھا.کمیونسٹ نظریات کے حامی دینی نظریات کی تحقیر میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے.یہاں تک کہ ڈراموں اور فلموں میں ہستی باری تعالٰی پر تمسخر کیا جاتا.جہاں ان کی حکومت قائم ہوتی وہاں مذہبی آزادی پر قدغن لگا دی جاتی اور لوگوں کو مذہب سے بیزار اور دہریت کی طرف مائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی.البتہ اب تک ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کو کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تھی.اس پس منظر میں پہلے کشمیر

Page 123

113 اور دوسرے بعض مقامات سے یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ کمیونسٹ گروہ کا ارادہ ہے کہ وہ ہندوستان کے مختلف مذہبی مراکز میں اپنی جماعت قائم کریں گے اور قادیان میں بھی وہ اپنا مرکز بنانا چاہتے ہیں.پھر گورنمنٹ کے ذریعہ معلوم ہوا کہ کمیونسٹوں کا ارادہ ہے کہ وہ قادیان میں اپنا مرکز بنائیں.۱۹۲۰ء کے لگ بھگ جبکہ ابھی یورپ میں بھی کمیونسٹ خیالات معروف نہیں تھے،حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کو رویا دکھائی گئی تھی کہ قادیان کے بعض لوگ کمیونسٹ خیالات کے ہو گئے ہیں گو وہ حسب سابق بظاہر حضور کا احترام کر رہے ہیں مگر وہ اندر سے کمیونسٹ خیالات رکھتے ہیں.جماعتِ احمدیہ کی روایت یہ ہے کہ وہ ہر نظریے کا مقابلہ دلائل اور دعاؤں کے ذریعہ کرتی ہے.چنانچہ حضور نے ۲۱ دسمبر ۱۹۴۴ء ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا ”پس جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے وہ ان کی اپنی چیز ہے.ہم کسی کو اس کے عقیدہ سے نہیں روکتے.بشرطیکہ وہ رخنہ اندازی کا موجب نہ ہو.اگر ایک شخص علی الا علان اس قسم کے خیالات رکھتا ہے کہ میں نے غور کیا ہے.مگر مجھے خدا تعالیٰ کی ہستی کا کوئی ثبوت نہیں ملا.تو اس کے خیالات خدا کے سامنے ہیں.وہی اس کا فیصلہ کرے گا.ہمیں اس کی باتیں سن کر جہاں تک اس کے خیالات کا سوال ہے اس پر کوئی غصہ نہیں ہوگا.مگر مخفی طور جماعت کے اندر رہ کر دھوکہ اور فریب سے لوگوں کو اپنے خیالات میں مبتلا کرنے کی کوشش کرنا یہ منافقت ہے.اندر ہی اندر بچوں اور نو جوانوں کو ورغلانے کی کوشش کرنا یہ دھوکہ اور فریب ہے.جماعت کے علماء اور واقفین اور مدرسہ اور جامعہ کے طلباء بھی اچھی طرح کمیونسٹ تحریک کا مطالعہ کریں.اور ان کے جوابات سوچ چھوڑیں.اور اگر کسی امر کے متعلق تسلی نہ ہو تو میرے ساتھ بات کر لیں.اسی طرح کالج کے پروفیسروں اور سکولوں کے اساتذہ کو چاہئیے کہ کمیونسٹ تحریک کے متعلق اپنا مطالعہ وسیع کریں.اور کوئی کمی رہ جائے.تو مجھ سے مل کر ہدایت لے لیں.اور اس رنگ میں اس تحریک کے متعلق جواب سوچ رکھیں کہ ان کا پوری طرح سے رد کر سکیں.‘ (1) (۱) الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۴۴ء ص ۱۱ (۲) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۱ ص۸۲ (۳) الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۶۶، ص ۷ (۴) الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۴۴ء ص ۱۲ ۱۳ (۵) الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۴۴ء ص ۴۰۳۰۱ (۶) الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۴۴ء ص ۳

Page 124

114 نئے مشنوں کا قیام اب ہم ۱۹۴۰ء کی دہائی کے واقعات کا ذکر کر رہے ہیں.اس دہائی کے دوران ہندوستان آزاد ہوا اور پاکستان اور ہندوستان کی علیحدہ مملکتیں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئیں.اور اسی عمل کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام داغ ہجرت پورا ہوا اور مرکز سلسلہ قادیان سے پاکستان میں منتقل ہوا.ان واقعات کے تسلسل کا آغاز کرنے سے قبل ہم چند نئے ممالک میں تبلیغی جہاد کے آغاز کا جائزہ لیتے ہیں.ان مشنوں کے قیام کے ساتھ تبلیغ کے کام میں نئی وسعت پیدا ہوئی.فرانس: اس دور میں یہ ملک ایک بہت بڑی طاقت تھا.اور افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک اس کی نو آبادیوں میں شامل تھے.فرانس میں اسلام کا اثر پہلی مرتبہ طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کے حملوں کے ساتھ پہنچا تھا.یورپ کے دورے کے دوران ۱۹۲۴ء میں حضرت مصلح موعود فرانس بھی تشریف لے گئے.حضور کے ارشاد پر تحریک جدید کے دو مجاہدین مکرم ملک عطاء الرحمن صاحب اور مولوی عطاء اللہ صاحب مئی ۱۹۴۶ء میں فرانس بھجوائے گئے.۲۲ جون ۱۹۴۸ء کو فرانس کی انتظامیہ کی طرف سے تبلیغ کی اجازت ملنے پر باقاعدہ طور پر تبلیغ کا آغاز ہوا.فرانس میں پہلی روح جسے اسلام اور احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی وہ ایک تعلیم یافتہ خاتون Madame Margaepite Demagany تھیں، جو ۲۳ مئی ۱۹۴۹ء کو بیعت کر کے میں داخل ہوئیں.(۱) (۱) الفضل ۹ اگست ۱۹۴۹ء بور نیو اسلام کا پیغام سب سے پہلے یہاں کے مغربی ساحل پر پہنچا تھا.جہاں پر عرب مسلمانوں کی تبلیغ کے نتیجے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا.۱۶۰۰ء میں یہاں کا راجہ بھی مسلمان ہو گیا.

Page 125

115 یہاں پر احمدیت کا پیغام سب سے پہلے مالا بار کے ایک مخلص تاجر مکرم عبد القادر صاحب کے ذریعہ پہنچا جو ۱۹۳۱ء میں کاروبار کے لئے تشریف لائے اور یہاں کے جزیرے لا بوان میں آباد ہو گئے.دوسری جنگِ عظیم کے آخری سال میں ایک پر جوش داعی الی اللہ مکرم ڈاکٹر بدر الدین صاحب شمالی بورنیو میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے.پھر حضور کے ارشاد پر ملازمت سے سبکدوش ہو کر آپ اپریل ۱۹۴۷ء میں دوبارہ بور نیو آئے اور آنریری مبلغ کی حیثیت سے کام کیا.شمالی بور نیو میں مستقل مشن کا قیام مولوی محمد زہدی صاحب آف ملایا کے ذریعہ ہوا جنہوں نے جون ۱۹۴۷ء میں یہاں آکر تبلیغ کا آغاز کیا.سپین چین وہ ملک ہے جس میں مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی مگر پھر متعصب عیسائی بادشا ہوں نے جبراً اسلام کو وہاں سے مٹا دیا.جس ملک کے ہر شہر میں بیسیوں مساجد تھیں وہاں اب اسلام کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں تھا.بہت سی قدیم مساجد اب تک گرجوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں.سپین کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کے یہ الفاظ ہر احمدی کے جذبات کی صحیح تر جمانی کرتے ہیں کیا چین سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اسے بھول گئے ہیں؟ ہم یقیناً اسے نہیں بھولے.ہم یقیناً ایک دفعہ پھر پین کو لیں گے...ہماری تلوار میں جس مقام پر جا کر کند ہو گئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہوگا اور اسلام کے خوبصورت اصولوں کو پیش کر کے ہم اپنے...بھائیوں کو خود اپنا جز و بنالیں گے.“ سپین میں پہلا مشن قائم کرنے کی کوشش مکرم محمد شریف صاحب گجراتی کے ذریعہ ۱۹۳۶ء میں ہوئی تھی مگر انہیں خانہ جنگی کی وجہ سے پین چھوڑنا پڑا.پھر تحریک جدید کے مجاہد مولا نا کرم الہی صاحب ظفر اور مولوی محمد الحق صاحب ۱۰ جون ۱۹۴۶ء کو سپین کے شہر میڈرڈ پہنچے.پین کی اکثریت کیتھولک عیسائی ہے اور اس دور میں اس ملک پر پادریوں کی گرفت بہت مضبوط تھی.دوسرے مذاہب تو ایک طرف رہے ، پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو بھی مذہبی تبلیغ کی آزادی نہیں تھی.دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو اپنی عبادت گاہ کے باہر بورڈ آویزاں کرنے کی بھی ممانعت

Page 126

116 تھی.مکرم کرم الہی ظفر صاحب نے زبان سیکھنی شروع کی.مبلغین ستے مکان کی تلاش میں تھے کہ ایک ایجنسی نے ان کے ساتھ ایک روسی نوجوان کو کر دیا.یہ ترجمان خود پر یشانیوں میں مبتلا تھا مگر مبلغین سے بہت ہمدردی سے پیش آیا.اس کے اخلاق کی وجہ سے انہوں نے حضور کی خدمت میں اس نوجوان کے لئے دعا کی درخواست کی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس کی پریشانیاں دور ہوگئیں.دعا کی قبولیت دیکھ کر اس سعید نوجوان نے اسلام قبول کر لیا.یہ پہلا پھل تھا جو اس ملک میں احمدیت کو عطا ہوا.اگلے برس دو ہسپانوی باشندوں کو بھی اسلام قبول کرنے کی سعادت ملی.(۲۱) (۱) تاریخ احمدیت جلد ۲ ص ۲۶ تا ۴۱ (۲) الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۴۶ء ص ۳ سویٹزرلینڈ : وسطی یورپ کے اس ملک میں جماعت کا مشن ۱۹۴۶ء میں قائم ہو ا تھا.کچھ مبلغین کو جرمنی تبلیغ کیلئے بھجوایا گیا تھا.لیکن انہیں وہاں جانے کی اجازت نہیں ملی.پھر ہالینڈ بھجوانے کی کوششیں ہوئیں مگر اس میں بھی کامیابی نہیں ہوئی.چنانچہ حضور نے ان کو سویٹزرلینڈ جانے کا ارشاد فرمایا.۱۳ /اکتوبر ۱۹۴۶ء کو مکرم عبد اللطیف صاحب ، مولوی غلام احمد بشیر صاحب اور شیخ ناصر احمد صاحب زیورچ پہنچے.اکثر مقامی باشندوں کو یہ سن کر حیرت زدہ ہو جاتے کہ کوئی مسلمان اپنا دین پھیلانے کے لئے یہاں پر آسکتا ہے.بلکہ بہت سے مقامی لوگ یہ سن کر بے یقینی سے ہنس دیتے.مبلغین نے جرمن زبان سیکھنی شروع کی.۱۹۴۷ء میں مشن نے یہاں پر قبر مسیح کے متعلق ایک ٹریکٹ شائع کیا.اس ٹریکٹ کے شائع ہونے کی دیر تھی کہ حقارت غیظ و غضب میں بدل گئی.لوگوں نے مبلغین کو سخت کلامی سے لبریز خطوط لکھے، اخبارات نے اپنے کالموں میں دلائل کی بجائے استہزاء کا سہارا لیا، اور چرچ کے عمائدین نے فیصلہ کیا کہ بہتر ہوگا کہ احمدی مبلغین کو مزید ویزا نہ ملنے دیا جائے.اور جس جگہ پر مبلغین کی رہائش تھی اس مکان کی مالکن کو پادریوں نے پیغام بھجوایا کہ اس نے ان مسلمان مبلغوں کو رہنے کی جگہ کیوں دی ہوئی ہے.اور تو اور پولیس والوں نے بھی مخالفت شروع کر دی.مگر اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچایا جا رہا تھا اور تبلیغی میٹنگوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ

Page 127

117 رہی تھی.یہاں پر سب سے پہلے ایک خاتون نے احمدیت کو قبول کیا اور ان کا اسلامی نام محمودہ رکھا گیا.(۲۱) (۱) تاریخ احمدیت جلد ۲ ص ۷۶ تا ۸۶ (۲) الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۴۸ء ہالینڈ: ہالینڈ میں مشن کا قیام ۱۹۴۷ء میں آیا.لیکن اس سے پہلے ایک ڈچ احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت حاصل کر چکے تھے.یہ ڈچ ظفر اللہ کاخ صاحب تھے جنہوں نے لندن میں مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب کے ذریعہ احمدیت قبول کی تھی.دوسری جنگ عظیم کے دوران جب مختلف یوروپی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کا کام شروع ہو ا تو ڈچ زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا.یہ کام ایک ترجمہ کرنے والے بیورو کے سپرد کیا گیا.اس بیورو نے ایک ڈچ خاتون مسر زمر مین (Zimmerman) سے بھی ترجمے کے لئے رابطہ کیا.یہ خاتون جب اس ترجمے کے ابتدائی تھیں چالیس صفحے مکمل کر کے اس بیورو کے دفتر گئیں تو وہاں کے ڈائیرکٹر سے طویل گفتگو ہوئی.اس ڈائرکٹر نے بار بار قرآنِ کریم کے متعلق توہین آمیز الفاظ استعمال کئے.اور اس کے ٹائپسٹ نے بھی اس توہین آمیز اور مضحکہ خیز گفتگو میں حصہ لیا.چند دن کے بعد وہ ڈائرکٹر بیمار ہوکر اس دنیا سے کوچ کر گیا اور تین ہفتے کے بعد ٹائپسٹ کی بھی موت واقع ہو گئی.مسز زمر مین پر اس نشان کا گہرا اثر ہوا.اور اسلام میں ان کی دلچسپی بڑھنی شروع ہوئی.(۱) جولائی ۱۹۴۷ء میں جماعت کے مبلغ حافظ قدرت اللہ صاحب کچھ عرصہ لندن میں کام کر کے ہالینڈ پہنچے اور ہیگ کی کولمبس سٹریٹ میں ایک کمرہ کرایہ پر لے کر تبلیغ کا کام شروع کر دیا.اس دور میں یوروپی اقوام کا پوری دنیا پر غلبہ تھا اور یہاں سے پوری دنیا میں مشنری عیسائیت کی تبلیغ کے لئے جاتے تھے.ہالینڈ ایک طویل عرصہ تک انڈونیشیا کے علاقے پر قابض رہا اور اس طرح یہاں کے لوگوں کو اسلام سے کچھ تعارف حاصل ہوا.ان دنوں میں ہالینڈ میں صوفی موومنٹ کا بھی اثر تھا.مگر جب جماعت نے یہاں پر اپنے مشن کا با قاعدہ آغاز کیا تو یہ امر بہت سے لوگوں کے لئے حیرت کا باعث ہوا کہ اب مسلمان انہیں اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کریں گے.چنانچہ ایک مجلس

Page 128

118 میں ہالینڈ کے وزیر اعظم نے بھی کہا کہ یہاں ان لوگوں کو وقت ضائع کر کے کیا ملے گا.ان لوگوں کو چاہئیے کہ کسی اور جگہ اپنے وقت کو صرف کریں.(۲).بہت سے اخبارات نے بھی مشن کے قیام کا تعجب کے ساتھ ذکر کیا اور بعض نے تو اس بات کا برملا اظہار بھی کیا کہ یہاں پر احمدیوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا.(۳) بہر حال انفرادی ملاقاتوں، ٹریکٹوں کی اشاعت اور لیکچروں کے ذریعہ تبلیغ شروع کی گئی اور کچھ بیعتوں کا سلسلہ شروع ہوا.سب سے پہلے ایک خاتون نے بیعت کی ، جن کا اسلامی نام رضیہ رکھا گیا.پھر مسٹر کو پے نام کے ایک ڈچ نے جو علوی فرقہ کے زیر اثر مسلمان ہو چکے تھے بھی بیعت کر لی.اس کے بعد ڈچ مترجم قرآن مسز زمر مین نے بھی احمدیت قبول کر لی.حضور نے ہدایت فرمائی کہ ڈچ ترجمہ قرآن کی اشاعت کا انتظام کیا جائے چنانچہ تمام مراحل سے گذر کر ۱۹۵۳ء میں یہ ترجمہ شائع ہو گیا.(۱) الفضل ۶ استمبر ۱۹۴۸ء ص ۵ (۲) افضل ۲۸ جولائی ۱۹۴۸ء ص ۶ (۳) خالد امان ۱۳۴۸حش عدن: عدن میں سب سے پہلے احمدیت کا نام احمدی ڈاکٹروں کے ذریعہ پہنچا.۱۹۴۶ء میں پانچ احمدی ڈاکٹر عدن میں کام کر رہے تھے.انہوں نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں گذارش کی کہ جماعت عدن میں اپنا مشن کھولے ، اس کے اخراجات اٹھانے میں وہ مدد کریں گے.چنانچہ مولوی غلام احمد صاحب مبشر کو بطور مبلغ عدن بھجوایا گیا.انہوں نے تبلیغ کیلئے انتھک کوششیں شروع کیں.انفرادی تبلیغ کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور سلسلہ کا دیگر لٹریچر تقسیم کرنا شروع کیا.غیر احمدی مسلمانوں اور عیسائیوں، دونوں کی طرف سے مخالفت کا طوفان کھڑا گیا.علماء اور پادریوں نے حکام سے شکایتیں کر کے تبلیغ رکوانے کی سر توڑ کوششیں شروع کیں.ایک ایک کر کے سعید روحیں بیعت کر کے جماعت میں داخل ہونے لگیں.شیخ عثمان کے مقام پر جماعت کا دار التبلیغ قائم کیا گیا.۱۹۴۹ء میں مولوی غلام احمد صاحب مبشر بیماری کی وجہ سے وطن واپس آگئے.(۱) (۱) تاریخ احمدیت جلد ۲ ص ۲۴۳ تا ۲۵۳

Page 129

119 ترجمه و تفسیر قرآن انگریزی کی اشاعت جیسا کہ تفسیر کبیر کی اشاعت کا ذکر کرتے ہوئے ہم یہ جائزہ لے چکے ہیں کہ انگریزی زبان بولنے والی اقوام اور دیگر مغربی اقوام تک جو قرآن کریم کے تراجم پہنچے وہ زیادہ تر پادریوں نے یا ایسے اشخاص نے کئے تھے جو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے کوشاں تھے.اور اسلام کو اپنے مقاصد کی راہ میں ایک رکاوٹ سمجھتے تھے.اس کے علاوہ انہیں عربی زبان کا زیادہ علم بھی نہیں تھا.ان وجوہات نے ان کے تراجم کو غیر معیاری بنا دیا تھا.بہت سے مقامات پر ترجمہ اصل متن سے زیادہ مترجم کی مخالفت کی عکاسی کر رہا ہوتا تھا.اس پر مستزاد یہ کہ ان تراجم کے ساتھ ان مصنفین کے تشریحی نوٹس بھی شامل تھے.ان نوٹس کا مقصد اسلام ، رسول کریم ﷺ اور قرآنی تعلیمات پر حملہ کرنا ہوتا تھا.اس طرح ان اقوام تک اسلام کی غلط تصویر پہنچی اور ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق منفی جذبات راسخ ہو گئے.ان تراجم کے متعلق حضرت مصلح موعود تحریر فرماتے ہیں.(1) اس وقت تک قرآنِ کریم کے جس قدر انگریزی تراجم غیر مسلموں نے کیے ہیں وہ سب کے سب ایسے لوگوں نے کیے ہیں جو عربی زبان سے یا تو بالکل ناواقف تھے یا بہت ہی کم علم عربی زبان کا رکھتے تھے.اس وجہ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنا تو الگ رہا وہ اس کا مفہوم بھی اچھی طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے.اور بعض نے تو کسی اور زبان کے ترجمہ سے اپنی زبان میں ترجمہ کر دیا تھا.جس کی وجہ سے مفہوم اور بھی حقیقت سے دور جا پڑا تھا.(۲) مزید خرابی اُن تراجم میں یہ تھی کہ ان تراجم کی بنیاد عربی لغت پر نہیں تھی بلکہ تفسیروں پر تھی.اور تفسیر ایک شخص کی رائے ہوتی ہے.جس کا کوئی حصہ کسی کے نزدیک قابلِ قبول ہوتا ہے اور کوئی حصہ کسی کے نزدیک.اور کوئی حصہ مصنف کے سوا کسی کے نزدیک بھی قابلِ قبول نہیں ہوتا.اس قسم کا ترجمہ ایک رائے کا اظہار تو کہلاسکتا ہے حقیقت کا آئینہ دار نہیں کہلا سکتا.(۱) اس سے قبل قرآن کریم کے متعدد انگریزی تراجم موجود تھے.ایک انگریز جارج سیل نے

Page 130

120 ۱۷۳۴ میں قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ شائع کیا تھا.سیل نے اس ترجمے کے ساتھ ایک طویل دیباچہ بھی لکھا تھا جس میں اُس نے قرآنِ کریم میں منقول تاریخی واقعات کو بائیبل اور یہودی روایات کی خوشہ چینی قرار دیا ہے.وہ لکھتا ہے کہ یقیناً قرآن کریم آنحضرت ﷺ کی تصنیف ہے جس میں کچھ بیرونی ہاتھوں نے آپ کی اعانت کی تھی.اس طرح انہوں نے مطالعہ سے قبل ہی پڑھنے والے کے خیالات کو قرآن کریم کے خلاف کرنے کی کوشش ہے.یہی ترجمہ انگریزی بولنے والی اقوام میں رائج رہا.۱۸۶۱ء میں پادری راڈویل نے ترتیب نزول کے حساب سے اپنا ترجمہ شائع کیا.۱۸۸۰ء میں پامر (Henry Palmer) نے اپنا ترجمہ شائع کیا.پھر ۱۹۳۰ء میں ایک انگریز نو مسلم پکتھال (Pickathal) نے.ان کے بعد کچھ اور انگریزوں نے بھی قرآنِ کریم کے تراجم کئے.خود ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے بھی قرآنِ کریم کے کئی تراجم شائع ہو چکے تھے.۱۹۰۰ ء میں مرزا ابوالفضل نے الہ آباد سے اور ۱۹۰۵ء میں ڈاکٹر عبد الحکیم نے اپنا ترجمہ شائع کیا.یہ صاحب پہلے حضرت مسیح موعود کی بیعت میں تھے ، مگر بعد میں اُنہوں نے اس قسم کے عقائد کا اظہار شروع کر دیا کہ نجات کے لئے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے.فقط تو حید پر ایمان کافی ہے.ان ملحدانہ عقائد کی وجہ سے حضرت مسیح موعود نے اُن کا اخراج از جماعت کر دیا تھا.ظاہر ہے جس کے عقائد کا یہ عالم ہو اُس کا ترجمہ قابلِ اعتبار نہیں ہو سکتا.حضرت خلیفہ اسیج الاول کے عہد میں قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کا کام شروع ہو گیا تھا.اور مولوی محمد علی صاحب اس کام کے نگران تھے.جب خلافتِ ثانیہ کے آغاز میں منکرین خلافت مولوی محمد علی صاحب کی سرکردگی میں علیحدہ ہوئے تو وہ قادیان سے جاتے ہوئے اس ترجمے کا مسودہ بھی ساتھ لے گئے.حالانکہ یہ ترجمه صدر انجمن احمد یہ قادیان کے خرچ پر کیا جا رہا تھا اور انجمن کی ملکیت تھا.۱۹۱۷ء میں مولوی محمد علی صاحب کا ترجمہ قرآن مجید انجمن اشاعت اسلام لاہور نے شائع کیا.ان کے بعد مرزا حیرت دہلوی، حافظ غلام سرور صاحب اور عبد الماجد دریا آبادی صاحب کے کئے ہوئے تراجم شائع ہوئے.مگر حضرت مسیح موعود کے ظہور کے ساتھ فہم قرآن اور علوم قرآن کی ایک نئی دنیا جو عرصہ سے دنیا کی آنکھوں سے اوجھل تھی دوبارہ ظاہر ہوئی تھی.اب اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ ان محروم اقوام تک اسلام اور قرآن کریم کی اصل تصویر پہنچائی جائے.اور اُن غلط نظریات کا دلائل سے رد کیا

Page 131

121 جائے جو مغربی اقوام میں اسلام کے بارے میں رائج ہو چکے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اس کام کے لئے مقرر فرمایا اور اور ہدایت فرمائی کہ قرآن مجید کا ترجمہ بمع تفسیری نوٹس کے مرتب کیا جائے.وہیری جیسے مصنفین نے قرآن کریم کے تراجم اپنے تفسیری نوٹس کے ساتھ شائع کئے تھے اور ان نوٹس کا واحد مقصد لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا تھا.ان وجوہات کی بنا پر مغربی ممالک میں قرآن کریم کے متعلق جو غلط خیالات رواج پاچکے تھے ان کی تردید کے لئے اور اسلام کا حقیقی حسن دکھانے کے لئے ان تفسیری نوٹس کی شدید ضرورت تھی.مگر اس کے ساتھ ہی ان کی تیاری گہری تحقیق اور طویل جد و جہد کا تقاضہ بھی کرتی تھی.۱۹۳۳ء میں حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی اس کام میں شامل فرمایا.اس کام کے لئے جو بلند پایہ تحقیق ہو رہی تھی اُس کے لئے کئی ایسی کتب کی ضرورت تھی جو ہندوستان میں دستیاب نہیں تھیں.چنانچہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کو حضور کے ارشاد کے ماتحت انگلستان بھجوایا گیا.جہاں کی لائیبریریوں میں مطلوبہ کتب با آسانی دستیاب ہو سکتی تھیں.آپ ۱۹۳۶ء میں انگلستان تشریف لے گئے جہاں آپ نے تین سال قیام فرمایا.اس دوران آپ نے بے شمار نوٹس ترجمۃ القرآن کے لئے تحریر کئے جو بعد میں انگریزی کی تفسیر میں شامل کر دیئے گئے.حضرت مولوی شیر علی صاحب کے واپس آنے کے بعد ۱۹۴۲ء میں ، کام کی رفتار کو تیز کرنے کے لئے حضور نے علماء کا بورڈ مقرر فرمایا.اس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت ملک غلام فرید صاحب شامل تھے.ان بزرگان نے کام کو آگے بڑھانا شروع کیا.اکثر اوقات بورڈ کے ممبران ایک میز پرا کھٹے ہوتے اور ایک ایک لفظ پر بحث ہوتی.ایک ایک فقرہ بڑی احتیاط اور باہمی مشورے کے بعد لکھا جاتا.تشریح کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتا کہ پرانے مفسرین نے اس آیت کی کیا تشریح کی ہے؟ احادیث میں کیا لکھا ہے؟ حضرت مسیح موعودؓ ، حضرت خلیفہ اسی الاول اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس کے کیا مطالب بیان فرمائے ہیں؟ لغات کی اچھی طرح چھان بین کی جاتی.مخالفین کے اعتراضات کو مد نظر رکھا جاتا.ان کے جوابات تیار کئے جاتے.بعض اوقات چھپے چھپائے فرمے بھی رد کر کے نئے سرے سے مواد لکھنا پڑا.اس دوران چوہدری ابوالہاشم صاحب مرحوم کو بھی خدمت کی توفیق ملی.

Page 132

122 مشتمل ایک طویل اور صبر آزما جد و جہد کے بعد فروری ۱۹۴۷ء میں پہلے دس سپاروں پر انگریزی تفسیر کی پہلی جلد تیار ہوئی.اس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے اس کے لئے ایک مقدمہ تحریر فرمایا جو ۶ ۲۷ صفحات پر مشتمل تھا اور اپنی ذات میں خود ایک قابلِ قدر تصنیف کی حیثیت رکھتا ہے.یہ دیباچہ حضور نے اردو زبان میں ڈکٹیٹ فرمایا تھا اور حضور کا ارادہ تھا کہ اس کی طباعت سے پہلے اس کی نظر ثانی فرمائیں گے مگر ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۸ء کے پُر آشوب دور میں حضور کی گوناں گوں مصروفیات کی وجہ سے اسے بغیر نظر ثانی کے شائع کرنا پڑا.اس دیباچہ میں ضرورت قرآن مجید اور تمام بنی نوع انسان کے لئے اسلام کی ضرورت ، پرانی کتب میں تحریف کی وجہ سے پیدا ہونے والی خامیوں اور متضاد باتوں، ظہور آنحضرت ﷺ کی بابت پیشگوئیوں آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی اور آپ کی پاکیزہ سیرت ، قرآنِ کریم کی پیشگوئیوں اور معجزات جیسے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے.اس دیباچے کا ترجمہ پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب اور حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کیا.اب تک دیباچہ تفسیر قرآن کا انگریزی ، فرنچ ، رشین اور انڈونیشین کی زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے تھے.ابھی پہلی جلد کے فرمے تیار ہوئے تھے کہ تقسیم ملک کی وجہ سے پنجاب کے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے اور یہ فرمے لا ہور منتقل کئے گئے.۱۹۴۸ء کے آغاز میں یہ جلد پڑھنے والوں کے ہاتھ میں پہنچی.صلى الله آزادی کے معا بعد ترجمہ کرنے والے بورڈ کے انچارج حضرت مولوی شیر علی صاحب انتقال فرما گئے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب پر بہت کی انتظامی ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑا.اب باقی ماندہ سارے کام کا بوجھ حضرت ملک غلام فرید صاحب کے کندھوں پر تھا گو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مشورہ میں شامل ہوتے تھے.۱۹۶۰ء میں قرآنِ کریم کی انگریزی تفسیر کی دوسری جلد شائع ہوئی.اس کے بعد اشاعت اور تقسیم کے انتظامی کام اور پیٹنٹل اینڈ ریجس پبلشنگ کارپوریشن ربوہ کے سپرد ہو گیا تو حضرت ملک غلام فرید صاحب اپنی تمام توجہ تصنیف اور تحقیق پر مرکوز کر سکے.چنانچہ تیسری جلد صرف تین سال میں تیار ہوکر ۱۹۶۳ء میں شائع ہوگئی.(۱) دیباچہ تفسیر القرآن مصنفہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ص ۱و۲

Page 133

123 دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ اور ہندوستان میں انتخابات کی تیاری ۱۹۴۵ء کے آغاز میں دوسری جنگِ عظیم کے ختم ہونے کے آثار تو نظر آرہے تھے لیکن ہندوستان کے افق پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے.برطانوی حکومت نے ابھی ہندوستان کو آزادی دینے کے کسی معین پروگرام کا اعلان نہیں کیا تھا.پنڈت جواہر لال نہرو، ابولکلام آزاد، ولجھ بھائی پٹیل اور کانگرس کے کئی اور لیڈ ر ا بھی جیلوں میں تھے اور اس وجہ سے کانگرس اور حکومت کے درمیان تناؤ کی کیفیت تھی.مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی تھی.اسی طرح مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے اختلافات بھی منظرِ عام پر آ رہے تھے.اور یہ خدشات ابھر رہے تھے کہ یہ صورت حال نئے مسائل اور فتنوں کو جنم نہ دے دے.اس پس منظر میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے سال کے آغاز میں تمام گروہوں کو اپیل کی کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں.آپ نے فرمایا کہ گو جماعت احمدیہ کی تعداد قلیل ہے اور بہت سے حلقے اس اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے لیکن اگر تمام مبلغین اور مختلف ممالک میں قائم جماعتیں اپنا فرض ادا کریں اور اسے اپنے حلقہ میں پھیلائیں تو یہ آواز کروڑوں انسانوں تک پہنچائی جا سکتی ہے.آپ نے واضح فرمایا کہ ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے اور ہم سیاسیات میں ہرگز دخل نہیں دینا چاہتے لیکن یہ اختلافات ہم پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں.پورے ملک میں احمد یوں پر مختلف گروہوں کا دباؤ پڑتا ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں.اور جب وہ ان کی طرف نہیں جاتے تو وہ ناراض ہوتے ہیں اور انہیں باغی قرار دیتے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ہر ایک کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے.اس صورتِ حال میں احمدی راہنمائی کے لئے اپنے امام کی طرف دیکھتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ یہ اپیل سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی ہے اور دنیا میں صلح اور امن کو قائم کرنے کے لئے ہے.آپ نے انگلستان کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہندوستان سے صلح کر لے اور اس میں انگلستان کا ہی فائدہ ہے.کیونکہ اب ہندوستان کو وہ مرتبہ اور عزت ملنے والی ہے جو اس سے پہلے ان کو خواب میں

Page 134

124 بھی نصیب نہیں ہوئی.انگلستان کے لئے ہندوستان میں ایسی وسیع منڈیاں ہیں جو اسے کہیں اور نہیں مل سکتیں.اور فرمایا کہ ہندوستان کو بھی یہی نصیحت ہے کہ وہ انگلستان کے ساتھ پرانے اختلافات بھلا دے تا کہ دونوں آپس میں جلد از جلد صلح کریں.حقیقت یہ ہے کہ کچھ دہائیوں تک ہندوستان کو ایک زبردست طاقت کی مدد کی ضرورت ہو گی.اور یہ ضروری ہے کہ مسلمان ، ہندو، کانگرس اور مسلم لیگ اور دوسری سیاسی پارٹیاں پہلے آپس میں صلح کریں.موجودہ حالات میں ہندوستان کی قوموں کے آپس میں اختلافات ایسی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ جب صلح کے سوال پر غور کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں تو غصے میں آجاتے ہیں اور صلح کی بجائے طعن و تشنیع پر اتر آتے ہیں.زمانہ تو یہ تھا کہ ہندو مسلمان اور دوسری قومیں بھی ایک دوسرے سے صلح کر لیتیں مگر ہو یہ رہا ہے کہ مسلمان بھی آپس میں لڑ رہے ہیں اور خواہ اوپر سے نظر نہ آئے ہندو بھی آپس میں پھٹ رہے ہیں.اس صورتِ حال میں آپ نے ان الفاظ میں جماعت کو اپنا فرض یاد دلایا.پس یہ نیا سال جو شروع ہوا ہے اس میں میں نے صلح کی آواز بلند کی ہے.ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسے ہر ملک ہر شہر ہر گاؤں ہر گھر بلکہ ہر ایک کمرہ اور ہر ایک آدمی تک پہنچائے.تا یہ دنیا کے کونہ کونہ تک پہنچ جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صلح کا شہزادہ قرار دیا ہے.اور ہم بھی جو آپ کی روحانی اولاد ہیں صلح کے شہزادے ہیں....پس ہر احمدی جو صلح کا شہزادہ بنے کی کوشش نہیں کرتا وہ حضرت مسیح موعود کا سچا خادم نہیں.(۱) لندن میں مولانا جلال الدین شمس صاحب نے صلح کے اس پیغام کی اشاعت کے لئے بہت کوششیں کیں.مشہور جریدے ٹائمنر میں اسے ایک مکتوب کی صورت میں شائع کروایا اور ایک دو ورقہ کی صورت میں شائع کروا کر اسے وزراء کے علاوہ چھ صدا راکین پارلیمنٹ کو بھی بھجوایا.ان میں سے کئی اکابرین نے جواب میں شکریے کے خطوط لکھے اور ان خیالات سے اتفاق کیا.(۲) کینیا کالونی کے گورنر نے جب اس کا مطالعہ کیا تو اتنا متاثر ہوئے کہ ان کے حکم پر اس خطبہ کا مفہوم نیروبی ریڈیو سے براڈ کاسٹ کیا گیا.(۳)

Page 135

125 دیول سکیم اور حضور کی نصیحت : ۱۹۴۵ء کے آغاز میں جمود ٹوٹنا شروع ہوا.پہلے کانگرس کے لیڈر بھولا بھائی ڈیسائی صاحب اور مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے.دونوں نے اس بات پر اتفاق رائے کیا کہ مرکز میں ایسی کا بینہ تشکیل کی جائے جس میں کانگرس اور مسلم لیگ دونوں کے پاس چالیس چالیس فیصد وزارتیں ہوں اور بیس فیصد وزارتیں سکھ اور اچھوت اقوام سے تعلق رکھنے والوں کے لئے مخصوص کی جائیں.برطانوی وائسرائے اور کمانڈر انچیف بدستور کابینہ میں شامل رہیں.یہ طے کیا گیا کہ جب یہ عارضی حکومت بن جائے تو اس کا پہلا قدم کانگرس کے گرفتار لیڈروں کو رہا کرانا ہو گا.اس کے بعد مارچ ۱۹۴۵ء میں وائسرائے لارڈ ویول(Wavell) برطانوی وزیر اعظم سے مشورہ کرنے کے لئے لندن چلے گئے.ہندوستان واپس آنے پر انہوں نے مرکز میں عبوری حکومت قائم کرنے کے لئے اپنی تجاویز پیش کیں.یہ تجاویز تاریخ میں ویول سکیم کے نام سے معروف ہیں.اس سکیم میں تجویز کیا گیا تھا مرکز میں ایک ایسی وزارت قائم کی جائے جس میں وائسرائے اور وزیر جنگ کے علاوہ تمام وزیر ہندوستان کے ہوں.مسلمانوں اور اعلی ذات کے ہندؤں کے پانچ پانچ اراکین کا بینہ میں شامل ہوں.ان کے علاوہ سکھوں اور اچھوت اقوام سے تعلق رکھنے والوں کو بھی نمایندگی دی جائے اور یہ کا بینہ جاپان کی مکمل شکست تک جنگ جاری رکھے اور اس وقت تک حکومت کو چلائے گی جب تک ایک جدید دستور پر اتفاق نہ ہو جائے.(۵۴) اس طرح ایک عرصہ کے بعد ہندوستانیوں کے لئے آزادی کی امید پیدا ہوئی مگر اس کے ساتھ ہی مختلف سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات بھی زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آنے لگے.حضور نے ۲۲ جون کے خطبہ جمعہ میں اس پیش کش کو ایک مثبت قدم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس پیش کش کورد کر دینا ہندوستان کی بدقسمتی ہوگی کیونکہ اگر انگریزوں کے ہاتھ میں سو فیصد اختیارات کے ہوتے ہوئے ہندوستان آزادی کی امید رکھ سکتا ہے تو نوے فیصد اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لے کر آزادی کی امید کیوں نہیں رکھ سکتا.حضور نے ہندوستان میں پیدا ہونے والی غلامانہ ذہنیت کا تجزیہ کرتے

Page 136

126 ہوئے فرمایا کہ صرف گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو کو دیکھ کر یہ خیال کر لینا کہ ہندوستان ترقی کر رہا ہے محض حماقت ہے اور چند بڑے لیڈروں کی وجہ سے یہ سمجھ لینا کہ ہندوستان میں آزادی کی روح پیدا ہوگئی ہے ایک جہالت کی بات ہے.یہ دور اس وقت تک نہیں بدلے گا جب تک ان کے ذہنوں سے یہ نکل نہ جائے کہ ہم غلام ہیں.آپ نے ان الفاظ میں سیاسی لیڈروں کو یکجہتی سے کام لینے کی اپیل فرمائی چالیس کروڑ انسانوں کی ذہنیت نہایت خطرناک حالت میں بدل چکی ہے.نسلاً بعد نسل وہ ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں.وہ انگریز جس نے ہندوستان پر قبضہ کیا ہوا ہے.وہ ہندوستان کو آزادی دینے کا اعلان کر رہا ہے.لیکن سیاسی لیڈر آپس میں لڑ رہے ہیں.کہ تمہارے اتنے ممبر ہونے چاہئیں اور ہمارے اتنے.اگر ہندوستان کی سچی محبت ان کے دلوں میں ہوتی تو میں سمجھتا ہوں ان میں سے ہر شخص کہتا کہ کسی طرح ہندوستان آزاد ہو جائے.کسی طرح چالیس کروڑ انسان غلامی کے گڑھے سے نکل آئے.چلو تم ہی سب کچھ لے لو مگر ہندوستان کی آزادی کی راہ میں روڑے مت اٹکاؤ.(۶) وائسرائے نے اس سکیم پر مذاکرات کے لئے اہم سیاسی لیڈروں کو شملہ مدعو کیا اور بہت سی امیدوں اور خدشات کے درمیان ۲۵ جون ۱۹۴۵ء کو وائسرائے لاج کے بال روم میں اس کا نفرنس کا آغاز ہوا.ہندوستان کے بائیں چیدہ چیدہ لیڈر اس میں شرکت کر رہے تھے.کانگرس کی نمایندگی ابوالکلام آزاد کر رہے تھے اور گاندھی جی بھی مذاکرات میں شرکت کے لئے شملہ آئے ہوئے تھے.مسلم لیگ کی نمایندگی قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کر رہے تھے.تمام پیش رفت ایک ہی اختلافی نقطے پر آکر رک جاتی تھی.مسلم لیگ کا دعوی تھا کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے اور نئی کابینہ میں مسلمانوں کی تمام نشستوں پر اس کے مقرر کردہ وزراء مقرر ہونے چاہئیں.جبکہ ہندوؤں کے لئے مخصوص نشستوں پر کانگرس کے نامزد کردہ وزراء مقرر ہوں.لیکن کانگرس کا اصرار تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتی.اس لئے تمام مسلمان وزراء مسلم لیگ سے نہیں لئے جا سکتے.اور بہت سے علماء بھی کانگرس کے موقف کی حمایت کر رہے تھے.آخر میں وائسرائے ویول کی رائے تھی کہ پانچ مجوزہ مسلمان وزراء میں سے چار مسلم لیگ کے ہوں اور ایک

Page 137

127 مسلمان وزیر مسلم لیگ سے باہر سے لیا جائے.مگر مسلم لیگ کو یہ منظور نہیں تھا.تمام بحث و تحیث کے بعد جولائی کے وسط میں یہ کانفرنس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئی.اس طرح باہمی تعاون اور افہام و تفہیم سے آزادی کی منزل کی طرف بڑھنے کا یہ سنہرا موقع ہاتھ سے نکل گیا.وزیر ہند ایمرے نے وائسرائے ویول کے نام مراسلے میں لکھا کہ اب یا تو کانگرس کو پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑے گا یا پھر انہیں جناح کے مقابل پر مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنی ہوگی.کانگرس میں شامل مسلمانوں کے نمائشی چہرے سے کام نہیں چلے گا.یہ ضروری نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلمان اکثریت کے صوبوں میں جناح کو کو مکمل کامیابی حاصل ہو لیکن اگر ایسا ہو گیا تو پھر اس دعوے کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ تمام مسلمان نمائندے مسلم لیگ سے ہی ہونے چاہئیں.(۷) اس کا نفرنس کے اختتام کے معاً بعد وائسرائے نے تمام ہندوستان کے گورنروں کی میٹنگ طلب کی.جب سیاسی اختلافات ایک بند راستے کے اختتام پر پہنچ جائیں تو پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ انتخابات کرا کے عوام کی رائے معلوم کر لی جائے.اس میٹنگ میں بھی یہ تجویز زیر غور تھی.پنجاب کے گورنر گلانسی کا خیال تھا کہ فوری انتخابات نہیں کرانے چاہئیں.بلکہ ایک اقتصادی منصو بہ بندی کا نفرنس منعقد کرنی چاہئیے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ پر نظریہ پاکستان کے سقم واضح ہو جائیں گے.بنگال کے گورنر کا کہنا تھا کہ سوائے مسٹر جناح کے کسی کو علم ہی نہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے.(۷) ابھی ہندوستان میں سیاسی منظر افراتفری کا شکار تھا کہ برطانیہ کے سیاسی پس منظر پر بھی ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی.جب لیبر پارٹی نے متحدہ حکومت سے علیحدگی اختیار کی تو وزیر اعظم چرچل کی حکومت نے نئے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا.جولائی ۱۹۴۵ء کے آخر میں نئے انتخابات ہوئے اور غیر متوقع طور پر لیبر پارٹی انتخابات جیت گئی اب چرچل.ا ڈاؤننگ سٹریٹ سے رخصت ہورہے تھے اور ایٹلے نئے وزیر اعظم کی حیثیت سے ذمہ واریاں سنبھالنے کی تیاریاں کر رہے تھے.ہیروشیما اور ناگا ساکی کی تباہی اور حضور کی طرف سے اس کی شدید مذمت انہی دنوں میں پس پردہ خطرات کا ایک عفریت دبے پاؤں انسانیت کی طرف بڑھ رہا تھا.

Page 138

128 پوسٹ ڈیم (Postdam) کے مقام پر امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین کے لیڈروں کی ایک اہم کانفرنس ہو رہی تھی.اور ہزاروں میل دور نیو میکسیکو کے مقام پر تاریخ انسانی کے خوفناک ترین ہتھیار کے پہلے تجربے کی تیاریاں ہو رہی تھیں، جس کی تباہ کاری کے سامنے تمام سابقہ ہتھیار کھلونوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے.۱۶ جولائی ۱۹۴۵ء کو امریکی صدر ٹرومین کو پیغام ملا کہ نیو میکسیکو میں ہونے والا ایٹم بم کا تجربہ کامیاب رہا ہے.اگلے روز ہی صدر ٹرومین نے اعلیٰ سطح کی میٹنگ طلب کی.اس وقت فوجی جنرلوں نے صدر کو یہی مشورہ دیا کہ اس بم کو استعمال کرنے کی بجائے ، جاپان پر طے شدہ پروگرام کے مطابق حملہ کیا جائے.صدر ٹرومین کے بعض مشیر اس کے استعمال کی حمایت کر رہے تھے، آخری فیصلہ صدر کے ہاتھ میں تھا.ٹرومین نے ایٹم بم کو استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا.ان کا موقف تھا کہ یہ بم استعمال نہ کرنے کی صورت میں جنگ اور طویل ہو جائے گی اور امریکی فوج اور مخالفین کا مزید جانی نقصان ہو گا.۲۴ جولائی کو ایئر فورس کے متعلقہ افسر کو ہدایت دی گئی کہ ۳ اگست کے بعد کے موسم کو مد نظر رکھتے ہوئے جاپان کے ان تین شہروں میں سے کسی ایک پر ایک سپیشل بم گرانے کی تیاریاں کی جائیں.اس کے ساتھ ہی جاپان کو ایک ایلٹی میٹم جاری کیا گیا.۲۸ جولائی کو جاپان ریڈیو نے اعلان کیا کہ جاپان جنگ جاری رکھے گا.بالآخر ۶ / اگست کو وہ دن آ گیا جو دنیا کی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک ہے.ایئر فورس کا ایک 29.B جہاز ایٹم بم کو لے کر ہیروشیما کی طرف جا رہا تھا.کرنل پال ٹیٹس (Paul Tibbets) اس جہاز کی کمان کر رہے تھے.ستم ظریفی یہ کہ اس ایٹم بم کا نام نھا لڑکا (little boy) رکھا گیا تھا.شہر کے وسط میں پہنچ کر بم کو گرا دیا گیا.زمین کی سطح سے قریباً ۶۰۰ میٹر کے فاصلے پر بم پھٹ گیا.ایک عظیم شعلہ تھا جس نے سارے شہر کو جھلس کر رکھ دیا.ایک عظیم دھما کا تھا جس کے آگے ہر چیز خاک کے ذروں کی طرح بکھرتی گئی.ایک موت کا پیغام تھا جس کے نتیجے میں اسی ہزار انسان تو فوراً مر گئے اور ایک لاکھ سے زائد بعد میں ریڈیائی شعاؤں کے اثر اور دیگر عوارض سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے.صدر ٹرومین بحری جہاز Augusta میں امریکہ واپس آرہے تھے کہ انہیں اس تباہی کی خبر دی گئی.ان کے پاس اس بھیانک تباہی پر غمزدہ ہونے کا وقت نہیں تھا یا اس کی صلاحیت نہیں تھی.اس بم کے استعمال کے مستقبل میں کیا مضمرات ہو سکتے ہیں اس کی انہیں کوئی فکر نہیں تھی.وہ

Page 139

129 خود تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے اس وقت جہاز کے عملے کو مخاطب کر کے کہا " This is the greatest thing in history یعنی یہ تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہے.حیرت ہے کہ وہ عظیم ترین واقعے اور بھیانک ترین واقعے میں فرق نہیں کر پارہے تھے.اس کے بعد صدر امریکہ نے خود جہاز کے عملے کو اور وہاں پر موجود فوجی افسران کو یہ خبر سنائی.پھر جہاز پر ہی ایک پریس کا نفرنس منعقد کی گئی جس میں صدر ٹرومین نے اس کامیابی کا اعلان کیا.جب فتح کے شادیانے بجائے جارہے ہوں تو بسا اوقات لاکھوں انسانوں کی چیخ و پکار بھی سنائی نہیں دیتی.(۸) جب تین دن گذر گئے اور جاپان نے ہتھیار نہیں ڈالے تو پھر دوسرے بم کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا.اب کے پائیلٹ کو ہدایت تھی کہ وہ جاپان کے شہر Kokura پر یہ بم گرائے.جہاز شہر کے اوپر پہنچ گیا تو شہر بادلوں میں چھپا ہوا تھا.تین مرتبہ شہر پر سے گذرنے کے باوجود پائیلٹ کو موقع نہ ملا ، جہاز کا ایندھن ختم ہو رہا تھا.مجبوراً جہاز کا رخ ثانوی ٹارگٹ ناگاسا کی کی طرف کر دیا گیا.یہاں بھی بادل چھائے ہوئے تھے.مگر پائیلٹ کو ان بادلوں میں ایک سوراخ نظر آیا اور جہاز نے نیچے آکر بم کو ناگا ساکی پر گرا دیا.ناگاساکی کا بھی وہی حشر ہوا جو ہیروشیما کا ہو چکا تھا.چند ہی لمحوں میں ۷۵۰۰۰ افراد لقمہ اجل بن گئے.بعد میں تقریباً اتنے ہی زخموں سے اور ریڈیائی شعاؤں سے ہلاک ہوئے.اب یہ واضح نظر آرہا تھا کہ اگر جاپان نے ہتھیار نہ ڈالے تو ایک ایک کر کے اس کے تمام شہر تباہ کر دیئے جائیں گے.ناگا ساکی کے سانحے کے معاً بعد جاپان کی حکومت نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا.تاریخ عالم کی سب سے خوفناک جنگ ختم ہو رہی تھی.لیکن اس کے آخری دنوں میں خون کی وہ ہولی کھیلی گئی کہ جس کے داغ آج تک انسانیت کے دامن کو بدنما بنارہے ہیں.ایٹم بم کو استعمال کرنے کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط.اس وقت بھی اس مسئلے پر متضاد آراء سامنے آرہی تھیں اور آج تک اس پر بحث مباحثے ہوتے رہتے ہیں.سانحہ ناگاساکی کےاگلے روز حضور نے خطبہ جمعہ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا یہ ایک ایسی تباہی ہے جو جنگی نقطہ گاہ سے خواہ تسلی کے قابل سمجھی جائے لیکن جہاں تک انسانیت کا سوال ہے اس قسم کی بمباری کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا.ہمیشہ سے جنگیں ہوتی چلی آئی ہیں.اور ہمیشہ سے عداوتیں بھی رہی ہیں.لیکن باوجود ان جنگوں

Page 140

130 کے اور باوجود ان عداوتوں کے ایک حد بندی بھی مقرر کی گئی تھی جس کو تجاوز نہیں کیا جاتا تھا.لیکن اب کوئی حد بندی نہیں رہی.کون کہہ سکتا ہے کہ وہ شہر جس پر اس قسم کی بمباری کی گئی ہے وہاں عورتیں اور بچے نہیں رہتے تھے اور کون کہہ سکتا ہے کہ لڑائی کی ذمہ داری میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں.اگر جوان عورتوں کو شامل بھی سمجھا جائے تو کم از کم بلوغت سے پہلے کے لڑکے اور لڑکیاں لڑائی کے کبھی بھی ذمہ دار نہیں سمجھے جا سکتے.پس گو ہماری آواز بالکل بیکار ہو لیکن ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خون ریزی کو جائز نہیں سمجھتے.خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان برا لگے یا اچھا.‘ (۹) پھر حضور نے فرمایا اور جب دنیا کے خیالات اس طرف مائل ہوں گے کہ جتنے زیادہ خطر ناک ہتھیار ملتے جائیں.ان کو استعمال کرو.تو لازماً دنیا میں فساد جنگ اور خون ریزی بڑھے گی.پس میرا یہ مذہبی فرض ہے کہ میں اس کے متعلق اعلان کر دوں.گو حکومت اسے برا سمجھے گی.لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ امن کے رستے میں یہ خطرناک روک ہے.اس لیئے میں نے یہ بیان کر دیا ہے کہ ہمیں دشمن کے خلاف ایسے مہلک حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جو اس قسم کی تباہی لانے والے ہوں.ہمیں صرف وہی حربے استعمال کرنے چاہئیں جو جنگ کے لیے ضروری ہوں.‘ (۱۰) ہندوستان میں انتخابات کا اعلان اور مسلم لیگ کی حمایت کا فیصلہ: اس تباہی کے ساتھ دوسری جنگِ عظیم کا اختتام ہو گیا.اور اب تاریخ کا ایک اہم باب شروع ہو رہا تھا.اس وقت ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک یوروپی طاقتوں کے تسلط میں تھے.اب ان کی آزادی کے دن قریب آرہے تھے.ستمبر ۱۹۴۵ء میں وائسرائے ہند نے اعلان کیا کہ اس سال کے آخر اور اگلے سال کے آغاز پر ہندوستان میں انتخابات کرائے جائیں گے.اس وقت کے قانون کے مطابق ہر مذہب کے لوگ علیحدہ علیحدہ اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتے تھے.یہ بات تو واضح تھی کہ ہندوسیٹوں پر کانگرس بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائے گی لیکن ویول سکیم کے نتیجے میں پیدا

Page 141

131 ہونے والی بحث اس سوال کے گرد گھوم رہی تھی کہ مسلمانوں کی نمائندگی کا حق کس جماعت کو حاصل ہے.مسلم لیگ کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور کانگرس اس بات کو تسلیم کرنے کے لیئے تیار نہیں تھی.چنانچہ اس انتخاب میں زیادہ دلچسپی اس بات میں لی جارہی تھی کہ مسلمانوں کی سیٹوں پر کون سی پارٹی کامیابی حاصل کرتی ہے.ہر پارٹی کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کا ساتھ دیں اور یہ کوشش کئی سالوں سے چل رہی تھی.ہندوستان کے باقی باشندوں کی طرح احمدیوں سے بھی رابطہ کیا جارہا تھا.اور د وسرے رائے دہندگان کی طرح انہیں بھی اس بارے میں ایک فیصلہ کرنا تھا.ایک طرف کانگرس مسلمانوں کو اپنے اندر شامل ہونے کی دعوت دے رہی تھی اور دوسری طرف مسلم لیگ کی کوشش تھی کہ مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے.اکتوبر ۱۹۳۷ء میں اس مسئلے پر جماعت احمدیہ کی شوریٰ کا خاص اجلاس بلایا گیا.اس میں فیصلہ ہوا کہ ناظر امورِ خارجہ دونوں جماعتوں سے خط و کتابت کر کے اگلی مجلس شوری میں نتائج کو پیش کریں.اس ضمن میں جماعت کے سامنے پہلا سوال مذہبی آزادی اور تبلیغ کی آزادی کا تھا.چنانچہ کانگرس سے استفسار کیا گیا کہ تبلیغ اور مذہب تبدیل کرنے کی مکمل آزادی کے بارے میں اس کا موقف کیا ہے؟ کیا وہ اس بات پر تیار ہیں کہ اپنے دستور اساسی میں اس کا واضح الفاظ میں اعلان کریں کہ ہندوستان میں ہر فریق کو مذہب اور تبلیغ کی آزادی ہوگی.اس استفسار کا پس منظر یہ تھا کہ برطانیہ کے زیر تسلط ہندوستان میں تو تبلیغ کرنے اور اپنا مذہب تبدیل کرنے کی قانونی آزادی تھی لیکن ہندوستان کی بہت سی ریاستوں میں تبدیلی مذہب پر قانونی قدغن لگائی گئی تھی.سب سے پہلے ۱۹۳۶ء میں رائے گڑھ میں مذہب تبدیل کرنے کے خلاف قانون سازی کی گئی.اس کے بعد پٹنہ، اودے پور، بیکانیر، جودھ پور اور دوسری ریاستوں میں ایسے قانون بنائے گئے جس کے نتیجے میں اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنے کا بنیادی حق متاثر ہوتا تھا (۱۱).گاندھی جی کا نظریہ تھا کہ جس طرز پر آج کل ہندوستان میں تبلیغ کر کے لوگوں کا مذہب تبدیل کیا جارہا ہے وہ شاید دنیا میں امن قائم کرنے اور دنیا کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے.ایک عیسائی اس بات کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ ایک ہندو عیسائی ہو جائے وہ اس بات پر مطمئن کیوں نہیں ہوتا کہ ایک ہندو ہندو رہتے ہوئے اچھا اور خدا رسیدہ انسان بن جائے.(۱۲) وہ اس

Page 142

132 بات کے قائل نہیں تھے کہ ایک انسان دوسرے انسان کا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کرے.(۱۳) ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے بس میں ہو تو ایسی تبلیغ کے خلاف قانون سازی کر دیں جس کا مقصد لوگوں کا مذہب تبدیل کرنا ہو.ان دنوں میں عیسائی مشنریوں نے بڑے پیمانے پر اچھوت اقوام میں تبلیغ کا کام شروع کیا تھا.گاندھی جی اس مہم کے سخت مخالف تھے.ان کا موقف تھا کہ یہ لوگ پسماندگی اور تعلیم کی کمی کے باعث مذہبی معاملات میں ایک گائے سے زیادہ فہم نہیں رکھتے.لہذان کو تبلیغ کرنے کا کیا فائدہ؟ یہ اتنی سمجھ نہیں رکھتے کہ اپنا مذہب تبدیل کرنے کا صحیح فیصلہ کرسکیں.(۱۳) دوسری طرف جماعت احمدیہ کا ہمیشہ سے یہ موقف ہے کہ ہر شخص کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی آزادی ہونی چاہئیے.ہر شخص اگر چاہے تو اپنا مذہب تبدیل کر سکتا ہے.اگر ایک شخص کم علم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے کا حق حاصل نہیں.وہ اس بارے میں جو فیصلہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط.یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے.سٹیٹ کو، قانون کو یا کسی سیاسی پارٹی کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس پر کوئی پاپندی لگائے.اسی طرح جماعت کی طرف سے پیرا کبر علی صاحب نے مسلم لیگ کے ساتھ خط و کتابت شروع کی اور ناظر صاحب امور خارجہ بھی پنجاب مسلم لیگ کے صدر سے ملے.پنجاب مسلم لیگ کا ایک طبقہ جماعت کو اپنے ساتھ شامل کرنے پر تیار نہیں تھا.ان میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو اپنی پارٹی کے قانون میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ان پر مسلم لیگ کی رکنیت کے دروازے بند کرنا چاہتے تھے.پنجاب مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر بعض علماء اس بات کا اعلان کر رہے تھے کہ جب تک انگریز اور ہندوؤں کی سیاست کا سامنا ہے اس کے مقابلے کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح بہترین رہنما اور ترجمان ہیں.جب پاکستان قائم ہو جائے گا اس وقت علماء کے مشورے سے طر ز حکومت قائم کی جائے گی.اور علماء کہلانے والے اس گروہ کے جماعت احمدیہ کے متعلق کیا عزائم تھے؟ اس سوال کا جواب بالکل واضح تھا.(۱۴) دوسری طرف مرکزی مسلم لیگ کا رویہ اس کے بالکل برعکس تھا.وہ احمد یوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے تھے.بلکہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب مسلم لیگ کے صدر بھی رہ چکے تھے.جماعت احمدیہ مسلم لیگ کی قیادت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر

Page 143

133 رہی تھی کہ ان کی پارٹی کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ واضح طور پر اپنے قواعد اساسی میں یہ قاعدہ شامل کریں کہ ہر وہ جماعت جو اپنے آپ کو مسلمان کہے ،مسلم لیگ کی اغراض کے لیئے مسلمان تصور ہوگی اور جماعت کے مخالفین اس کے برعکس کوششیں کر رہے تھے.۱۹۳۸ء کی مجلس مشاورت میں یہ معاملہ دوبارہ پیش ہوا.حضور نے ارشاد فرمایا کہ چونکہ مسلم لیگ اور کانگرس کی طرف سے کو ئی قطعی جواب نہیں آیا.اس صورت میں ہمیں جلدی کی کوئی ضرورت نہیں.اس لئے میرے نزدیک اس معاملہ کے متعلق یہی بہتر ہے کہ اسے ملتوی کر دیا جائے.دورانِ سال میں محکمہ خط و کتابت کرتا رہے.اور اگر ضرورت محسوس ہو.تو اس کے لئے خاص میٹنگ کرلی جائے.اگست ۱۹۳۹ء میں کانگرس کی طرف سے واضح جواب موصول ہو ا.کانگرس تبلیغ اور تبدیلی مذہب کے حوالے سے اپنے قواعد اساسی میں تبدیلی کرنے پر تیار نہیں تھی.قواعد اساسی کی جو کاپی جماعت کو بھجوائی گئی وہ اس بارے میں مہم تھی.اس جواب کے پیش نظر کانگرس کے ساتھ خط و کتابت بند کرنی پڑی.مسلم لیگ کے ساتھ خط و کتابت بھی مکمل طور پر نتیجہ خیز نہیں رہی.ان کی طرف سے یہ عذر پیش کیا گیا کہ عملاً ہر فرقہ کے مسلمان آل انڈیا مسلم لیگ کے ممبر ہیں اس لئے اگر قواعد اساسی میں یہ قاعدہ داخل کیا گیا کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہے وہ مسلم لیگ کی اغراض کے لئے مسلمان سمجھا جائے گا تو اس سے بہت سے جھگڑوں کا دروازہ کھل جائے گا.لیکن حقائق سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتی تھیں.کچھ عرصہ قبل ہی پنجاب پارلیمینٹری بورڈ میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ احمدی مسلمان ہیں کہ نہیں اور اس سوال پر احمدی ممبران کو خارج کر دیا گیا تھا.گو وہ بورڈ خود کالعدم ہو گیا اور آل انڈیا مسلم لیگ نے اس کی تصدیق نہیں کی لیکن اس کی تردید بھی نہیں کی.مگر تکفیر کا یہ شوق پنجاب مسلم لیگ تک ہی محدود تھا.مرکز اور باقی صوبوں کی مسلم لیگ کا رویہ اس کے برعکس تھا.اس صورتِ حال میں ۱۹۴۰ء کی مجلس مشاورت میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ مسلم لیگ سے خط و کتابت جاری رکھی جائے.(۱۵.۱۸) تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب ایک طبقہ جماعت احمدیہ کی ناجائز مخالفت پر کمر بستہ ہوتا ہے تو پھر یہ طبقہ محض منفی سرگرمیوں میں ہی ترقی کرتا ہے.رفتہ رفتہ اس طبقہ میں مثبت رحجانات کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے.یہی حال اُس وقت پنجاب مسلم لیگ کے اس گروہ کا تھا.ایک طرف تو یہ گروہ احمدیوں کے خلاف کفر کے فتوے دینے میں پیش پیش تھا اور دوسری طرف پنجاب کی مسلم لیگ

Page 144

134 اپنے بنیادی فرائض بھی ادا نہیں کر پا رہی تھی اور ان نازک حالات میں اس پر سکوت مرگ کی کیفیت طاری تھی.چنانچہ اس صورتِ حال کا ماتم کرتے ہوئے اخبار زمیندار نے ،جس کے ایڈیٹر ظفر علی خان صاحب تھے، جو پنجاب مسلم لیگ کے لیڈر ہونے کے علاوہ ، جماعت احمدیہ کی مخالفت میں بھی پیش پیش تھے، اپنے اداریے میں لکھا دلیکن افسوس حالات کی یہ نزاکت اور ماحول کی یہ فتنہ سامانی بھی مسلمانوں کو خود غرضیوں سے باز نہ رکھ سکی.آج ہمیں سب سے زیادہ شکوہ پنجاب مسلم لیگ سے ہے...لیکن جہاں اغیار اس قد رسرگرم عمل ہیں وہاں پنجاب پراونشل مسلم لیگ پر سکوتِ مرگ طاری ہے.یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ پنجاب مسلم لیگ آج جن ہاتھوں میں ہے اور جن خاص مقاصد کے پیش نظر انہوں نے اس ادارہ پر قبضہ کیا ہے ان کی مصلحتیں اس ادارہ سے ذاتی اغراض حاصل کرنا تو چاہتی ہیں لیکن اسے برکار نہیں دیکھ سکتیں.لیکن کیا ان کی اغراض کے مقابلے میں اسلامی مفاد کوئی وقعت نہیں رکھتے.کیا وہ وقتی طور پر بھی اس ادارہ کی زندگی گوارا نہیں کر سکتے.اسی لاہور میں اینٹی پاکستان کا نفرنس منعقد کی گئی لیکن پنجاب مسلم لیگ ٹیپ روڈ اور ایمپرس روڈ سے یہ تماشہ دیکھتی رہی.اسے یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ بھی پاکستان کا نفرنس منعقد کر کے بڑھتے ہوئے فتنہ کا سدِ باب کرتی.آج مردم شماری کا مسئلہ تمام قوموں کی خصوصی تو جہات کا مرکز بنا ہوا ہے.اور ان کی سرگرمیوں کا مرکز بھی پنجاب ہی ہے.کہیں مردم شماری کا ہفتہ منایا جارہا ہے.کہیں کا نفرنسیں منعقد کر کے مسلمانوں کی مردم شماری کے راستے میں کانٹے بکھیرنے کا سامان کیا جا رہا ہے.لیکن پنجاب مسلم لیگ کے بڑے آدمیوں کو اس مردم شماری کے نتائج کی کوئی پروا ہی نہیں ہے....پنجاب مسلم لیگ جو زندہ دلوں کے صوبہ کی جماعت ہے جس مردہ دلی کا ثبوت دے رہی ہے اس سے مسلم لیگ کے ہر بہی خواہ کی گردن شرم سے جھک جاتی ہے.(۱۹) بعد میں بعض مولویوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ۱۹۴۴ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں کوشش کی تھی کہ یہ قانون بن جائے کہ کوئی احمدی مسلم لیگ کا ممبر نہیں بن سکتا.کافی حمایت بھی حاصل کر لی گئی تھی لیکن خود قائد اعظم نے مداخلت کر کے یہ قرارداد واپس لینے پر آمادہ کر لیا.(۲۰)

Page 145

135 بنیادی سوالات سے گریز کا انجام : بسا اوقات اگر کسی بنیادی اہمیت کے مسئلے پر دوٹوک مؤقف اختیار نہ کیا جائے تو یا تو بعد میں اس کے بھیانک نتائج نکلتے ہیں یا پھر مدتوں تک اس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں.اس وقت مرکزی مسلم لیگ نے مسلمان کی تعریف والے مسئلے پر مخالفانہ رویہ تو نہیں دکھایا مگر اس کو اصولی طور پر اپنے دستور اساسی میں وضاحت کے ذریعہ طے بھی نہیں کیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں اس بنیاد پر پاکستان میں فرقہ وارانہ تعصب کا دروازہ کھلتا گیا.اور اس تعصب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا رحجان بھی بڑھتا گیا.بالآخر ۱۹۷۴ء میں آئین میں ترمیم کے ذریعہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا اور ۱۹۸۴ء میں جماعت کے خلاف آرڈینینس جاری کر کے تعصب اور تنگ نظری کا ایک اور سیاہ باب رقم کیا گیا.نفرت کا یہ طوفان صرف احمد یوں تک محدود نہ رہا بلکہ فرقہ وارانہ اختلافات نے وہ خونی شکل اختیار کی کہ ملک کا امن برباد ہو کر رہ گیا.دوسری طرف بھارت میں مذہبی تعصب کو قانونی شکل دینے کے عمل نے یہ انتہائی شکل تو اختیار نہ کی مگر ۱۹۵۴ء اور ۱۹۶۰ء میں ہندوستان کی پارلیمنٹ میں ایسے بل پاس کرانے کی ناکام کوشش ہوئی جس کے نتیجے میں تبلیغ اور تبدیلی مذہب کی آزادی متاثر ہو سکتی تھی.پھر ۱۹۶۷ء کے بعد پہلے اڑیسہ اور مدھیا پردیش کی ریاستوں نے ،ان کے بعد اروناچل پردیش اور آخر میں تامل ناڈو کی حکومتوں نے ایسے قوانین کی منظوری دی جس کے ذریعہ تبلیغ اور تبدیلی مذہب پر حکومت کو کنٹرول کا اختیار مل گیا اور ان بنیادی حقوق کی مکمل آزادی متاثر ہوئی.(۱۱) بہر حال اب ۱۹۴۵ء کے تاریخی الیکشن قریب تھے.ہندوستان کے احمدی راہنمائی کے لئے اپنے امام کی طرف دیکھ رہے تھے.۲۲ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو الفضل میں حضور کی طرف سے ایک تفصیلی اعلان شائع ہوا.اس میں حضور نے تحریر فرمایا ” میری اور جماعت احمدیہ کی پالیسی شروع سے یہ رہی ہے.کہ مسلمان ہندوؤں اور سکھوں اور دوسری اقوام میں کوئی با عزت سمجھوتہ ہو جائے.اور ملک میں محبت اور پیار اور

Page 146

136 تعاون کی روح کام کرنے لگے.مگر افسوس کہ اس وقت تک ہم اس غرض میں کامیاب نہیں ہو سکے.اگر کسی طرح ہندو اور مسلمان قریب لائے جاسکیں.تو پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کا آپس میں قریب لانا بھی مشکل نہ ہو گا.ورنہ پاکستان یا اکھنڈ ہندوستان ہوں یا نہ ہوں.پاکھنڈ ہندوستان بننے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں.“ کانگرس نے شملہ کا نفرنس کی ناکامی سے بددل ہو کر اعلان کیا تھا کہ وہ اب مسلم لیگ سے گفتگو نہیں کرے گی بلکہ براہ راست مسلمانوں کو مخاطب کرے گی.حضور نے واضح فرمایا کہ اگر شروع سے کانگرس کا یہ نظریہ ہوتا تو میں اسے حق بجانب سمجھتا مگر اب جب کہ مسلمان ایک متحدہ محاذ قائم کر چکے ہیں ان کا یہ فیصلہ ان کے لئے بھی تکلیف کا باعث ہوا ہے جو کانگرس سے ہمدردی رکھتے ہیں.گو ہم دل سے پہلے بھی ایسے اکھنڈ ہندوستان کے ہی قائل تھے جس میں مسلمان کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان برضا و رغبت شامل ہوں.ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک حکومت قائم ہوتا انسانیت بھی اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہومگر ہم اس کو آزاد قوموں کی آزاد رائے کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں جبر اور زور سے کمزور کو اپنے ساتھ ملانے سے یہ مقصد نہ دنیا کے بارہ میں پورا ہو سکتا ہے.اور نہ ہندوستان اس طرح اکھنڈ ہندوستان بن سکتا ہے.اس تجزیے کے بعد حضور نے تحریر فرمایا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں.کہ آئیندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئیے.تا انتخابات کے بعد مسلم لیگ بلا خوف تردید کانگرس سے یہ کہہ سکے.کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے.اگر ہم اور دوسری مسلمان جماعتیں ایسا نہ کرینگی.تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائیگی.اور ہندوستان کے آئیندہ نظام میں ان کی آواز بے اثر ثابت ہوگی...پس میں اس اعلان کے ذریعہ سے پنجاب کے سوا ( جس کی نسبت میں آخر میں کچھ بیان کرونگا ) تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مشورہ دیتا ہوں.کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر پورے زور اور قوت کے ساتھ آئیندہ انتخابات میں مسلم لیگ کی مدد کریں.“

Page 147

137 (۱) الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۴۵ء ص ۱ تا ۶ (۲) الفضل ۹ جون ۱۹۴۵ء ص ۵ (۳) الفضل ۶ ستمبر ۱۹۴۵ء ص ۲ (۴) قائد اعظم اور ان کا عہد، حیات محمد علی جناح ، مصنفہ رئیس احمد جعفری، ناشر مقبول اکیڈمی ص ۴۴۵ - ۴۴۷ (a)Jinnah of Pakistan by Stanley Wolpert, published by Oxford University Press Karacho 1989 page 239_243 (۶) الفضل ۲۳ جون ۱۹۴۵ء ص ۶ (4)Jinnah of Pakistan by Stanley Wolpert, Oxford University Press Karachi 1989, page 243_247 (A) Year of deciasions 1945 by Harry S.Truman, page345_357 (۹) الفضل ۱۶ اگست ۱۹۴۵ ء ص ۲ (۱۰) الفضل ۱۶ اگست ص ۳ (1)The Hindu 17 Dec 2002, open page on internet.(I)Harijan January 30 1937 (internet) (I) Young India April 23 1931 (internet) (IM)A Book of Reading on the History of The Punjab1799-1947, by Ikram Ali Malik, published bt Research Society Of Pakistan, University of Punjab, April 1985 page 578.(۱۵) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ص ۱۸۳ء (۱۶) سالانہ رپورٹ صد را مجمن احمد یہ ۱۹۳۸ء.۱۹۳۹ء ص ۲۳۶.۲۳۸ (۱۷) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یه ۱۹۴۰ء.۱۹۴۱ء ص ۱۵۶ ۱۵۷ (۱۸) رپورٹ مجلس شوری ۱۹۴۰ ص ۱۵۱ - ۱۵۲ (۱۹) زمیندار ۱۲ جنوری ۱۹۴۰ ء ایڈیٹوریل (۲۰) نوائے وقت ۱۱۰ کتوبر ۱۹۵۳ء ص ۱

Page 148

138 برصغیر میں انتخابات، ہندوستان کی آزادی اور تقسیم، داغ ہجرت پنجاب میں انتخابات کے متعلق حضرت مصلح موعود کا فیصلہ: پنجاب کی صورتِ حال کے متعلق حضور نے وضاحت فرمائی میں نے پنجاب کو مستثنیٰ رکھا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسجگہ مسلم لیگ کے بعض کارکن بلا وجہ ہماری مخالفت کر رہے ہیں.مسلم لیگ ایک سیاسی انجمن ہے اور اسے اپنے دائرہ عمل کے لحاظ سے ہر مسلمان کہلانے والے کو مسلمان سمجھ کر اپنے ساتھ شریک کرنا چاہئے.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہماری جماعت تو ہر جگہ مسلم لیگ کا پروپیگنڈا کرتی رہی ہے مگر لاہور کے مسلم لیگ کے ایک جلسہ میں جماعت احمد یہ کو خوب خوب گالیاں دی گئیں.حالانکہ گالیاں دینا تو دشمن کے حق میں بھی روا نہیں.کجا یہ کہ ایک ایسی جماعت کو گالیاں دی جائیں جو مسلم لیگ کے بارے میں بے تعلق بھی نہیں بلکہ اس کے حق میں ہے.ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ گالیاں دینے والے تو چند افراد ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ جو جماعت چند افراد کا منہ بند نہیں کر سکتی وہ عام جوش کے وقت کسی اقلیت کی حفاظت کس طرح کر سکے گی.جماعت احمدیہ نے اپنا معاملہ مسٹر جناح کی خدمت میں پیش کیا تھا انہوں نے جواب دیا ہے کہ صوبہ جاتی سوال کو صوبہ کی کونسل ہی حل کر سکتی ہے.مگر جہانتک میں نے غور کیا ہے صوبہ جاتی کونسل ابھی اس سوال کو حل کرنیکے اپنے آپ کو قابل نہیں پاتی.دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ یونینسٹ پارٹی نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ مرکزی نمائندگی میں مسلم لیگ کے نمائندوں کا مقابلہ نہیں کرے گی یہ ایک نیک اقدام ہے......مگر یونینسٹ لیڈر جو فیصلہ کرینگے اس کا علم مجھے اس وقت نہیں اس لئے بادلِ نا خواستہ میں پنجاب کے متعلق یہ اعلان کرتا ہوں کہ پنجاب کے بارے میں ہم کوئی اصولی مرکزی پالیسی سر دست اختیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے.‘‘ (۱)

Page 149

139 چنانچہ حضور کی ہدایت کے مطابق احمدیوں نے مرکزی اسمبلی کی سیٹوں پر مسلم لگے امیدواروں کی حمایت کی اور پنجاب کے علاوہ باقی صوبائی اسمبلیوں کے لئے بھی مسلم لیگ کے امیدواروں کی حمایت کا فیصلہ کیا.پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے متعلق حضور کی ہدایت تھی کہ جو احمدی الیکشن میں کھڑے ہونا چاہیں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ کے لئے کوشش کریں.مگر اگر وہ سمجھیں کہ اسے اس کا جائز حق دینے سے انکار کیا جا رہا ہے تو وہ یہ اعلان کر کے ممبری کے لئے کھڑا ہوسکتا ہے کہ میں مسلم لیگ کی پالیسی سے متفق ہوں مگر چونکہ میرا حق نہیں دیا جارہا اس لئے میں مجبوراً انڈیپنڈنٹ کھڑا ہورہا ہوں.چنانچہ حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب قادیان والے حلقہ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہوئے.پنجاب کی مسلم لیگ کے ساتھ رابطہ کر کے یہ پیشکش کی گئی کہ اگر وہ یہ قطعی فیصلہ کر دیں کہ مسلم لیگ میں احمدی شامل ہو سکتے ہیں اور ان کے حقوق دوسروں کے برابر ہوں گے تو پنجاب اسمبلی میں ان کے مقابل پر سب احمدی امیدوار بیٹھ جائیں گے مگر انہوں نے احرار وغیرہ کے ڈر سے اس کی جراءت نہ کی.پنجاب کے بعض لوکل حلقوں میں مسلم لیگ جماعت کی مخالفت کر رہی تھی اور بعض حلقوں میں ان کے ساتھ تعاون کر رہی تھی.پنجاب اسمبلی کی ایک نشست پر ایک احمدی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے بھی ہو رہے تھے.اس وجہ سے پنجاب اسمبلی کے کچھ حلقوں پر جماعت مسلم لیگ کے امیدواروں سے تعاون کر رہی تھی اور بعض حلقوں میں یونینسٹ پارٹی یا آزاد امیدواروں سے تعاون کیا جارہا تھا.آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کا رویہ اس کے برعکس تھا.قائد اعظم محمد علی جناح نے قادیان اپنے نمایندے سردار شوکت حیات صاحب کو خود بھجوایا.اس کی روئیدادسردار صاحب نے اپنی کتاب میں یوں بیان کی ہے.ایک دن مجھے قائدِ اعظم کی طرف سے پیغام ملا شوکت مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم بٹالہ جا رہے ہو جو قادیان سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے تم وہاں جاؤ اور حضرت صاحب کو میری درخواست پہنچاؤ کہ وہ پاکستان کے حصول کے لئے اپنی نیک دعاؤں اور حمایت سے نوازیں.جلسے کے اختتام کے بعد میں نصف شب تقریباً بارہ بجے قادیان پہنچا تو حضرت صاحب آرام فرما رہے تھے.میں نے ان تک پیغام پہنچایا کہ میں قائد اعظم کا پیغام لے کر حاضر ہو ا ہوں وہ اسی وقت نیچے تشریف لائے اور استفسار کیا کہ قائد اعظم کے کیا احکامات

Page 150

140 ہیں میں نے کہا کہ وہ آپ کی دعا اور معاونت کے طلب گار ہیں.انہوں نے جواباً کہا کہ وہ شروع ہی سے ان کے مشن کے لئے دعا گو ہیں اور جہاں تک ان کے پیروکاروں کا تعلق ہے.کوئی احمدی مسلم لیگ کے خلاف انتخاب میں کھڑا نہ ہوگا اور اگر کوئی اس سے غداری کرے گا تو ان کی جماعت کی حمایت سے محروم رہے گا.‘ (۲) پھر سردار شوکت حیات صاحب بیان کرتے ہیں کہ قائد اعظم نے انہیں مودودی صاحب کی طرف بھجوایا.مودودی صاحب سے ملنے کے لیے سردار شوکت حیات صاحب پٹھانکوٹ پہنچے ، جس کے قریب ایک زمیندار چوہدری نیاز صاحب کے گاؤں میں مودودی صاحب مقیم تھے.جب انہیں قائد اعظم کا پیغام دیا گیا کہ وہ پاکستان کے قیام کی حمایت کریں اور اس کے لئے دعا بھی کریں تو مود و دوی صاحب نے جواب دیا کہ میں نا پاکستان کے لیے کیسے دعا کرسکتا ہوں اور پاکستان کیسے بن سکتا ہے جب تک پورا ہندوستان مسلمان نہیں ہو جاتا.جب آزادی کے معاً بعد فسادات کا آغاز ہوا تو مودودی صاحب نے سردار شوکت حیات صاحب سے مدد طلب کی کہ انہیں ان فسادات میں وہاں سے نکال کر پاکستان پہنچایا جائے اور یہاں آکر انہوں نے بیان دیا کہ جو کشمیر کی جنگ میں مسلمان مارے جا رہے ہیں وہ شہید نہیں ہوں گے بلکہ کتے کی موت مریں گے(۲) بہر حال الیکشن کا عمل شروع ہوا.پورے ملک کی مجموعی نشستوں میں کانگرس کو باقی پارٹیوں سے زیادہ نشستیں ملیں.اور مرکزی اسمبلی کی تہیں کی تھیں مسلم نشستوں پر مسلم لیگ کے امیدوار جیت گئے.صوبائی اسمبلی کی مسلم نشستوں پر بھی مسلم لیگ کو بھاری اکثریت سے کامیابی ہوئی.چوہدری فتح محمد سیال صاحب بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے.کامیابی کے معاً بعد انہوں نے اپنے آپ کو مسلم لیگ کی ممبری کے لئے پیش کر دیا.اب کم از کم اس بحث کا فیصلہ ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کی نمائندگی کون سی سیاسی جماعت کرتی ہے.(۳ تا ۶) کر پس مشن کی ناکامی : اب وزیر اعظم ایٹلے کی حکومت ہندوستان کو آزادی دینے کی تیاریاں کر رہی تھی.۱۹ فروری

Page 151

141 ۱۹۴۶ء کو برطانوی حکومت نے ایک وزارتی مشن ہندوستان بھجوانے کا اعلان کیا.لارڈ پیتھک لارنس (Pethick-Lawence)، سرسٹیفرڈ کرپس (Stafford Cripp)، اور اے وی الیگزینڈر (A.V.Alexander) اس کے ممبران تھے.اس مشن کا کام وائسرائے لارڈ ویول کے ساتھ مل کر ہندوستان کی سیاسی راہنماؤں سے مذاکرات کرنا اور ہندوستان کے لئے ایک قابل عمل سیاسی ڈھانچہ تیار کرنا تھا.۱۵ مارچ کو پارلیمنٹ میں بحث کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں احساس ہے کہ ہندوستان میں مختلف نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ بستے ہیں.اور اس وجہ سے بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی.لیکن ہندوستانیوں کو خودان مشکلات کا حل نکالنا ہوگا.ہمیں اقلیتوں کے حقوق کا احساس ہے مگر اقلیتوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اکثریت کے آگے بڑھنے پر ویٹو کا حق استعمال کریں.(۷) ۲۳ مارچ ۱۹۴۶ء کو کیبنٹ مشن دہلی پہنچ گیا.4 اپریل کو حضور کا ایک مضمون 'پارلیمینٹری مشن اور ہندوستانیوں کا فرض کے نام سے شائع ہوا.حضور نے اس کا آغاز ان الفاظ سے فرمایا پارلیمینٹری وفد ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے ہندوستان میں وارد ہو چکا ہے.مجھ سے کئی احمدیوں نے پوچھا ہے کہ احمدیوں کو ان کے خیالات کے اظہار کا موقع کیوں نہیں دیا گیا.میں نے اس کا جواب ان احمدیوں کو یہ دیا.کہ اول تو ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے.( گومسیحوں کی انجمن کو کمیشن نے اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی ہے) دوسرے جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے.جو حال دوسرے مسلمانوں کا ہوگا وہی ہمارا ہوگا.تیسرے ہم ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں.اور پارلیمینٹری وفد اس وقت ان سے بات کر رہا ہے.جو ہندوستان کے مستقبل کو بنایا بگاڑ سکتے ہیں.دنیوی نقطہ نگاہ سے ہم ان جماعتوں میں سے نہیں ہیں.“ پھر حضرت مصلح موعودؓ نے مشن کے ممبران کو نصیحت فرمائی کہ سیاسی معاملات میں بھی اخلاقی اصولوں کی پیروی کرنا ضروری ہے.اور اگر موجودہ حکومت سابقہ حکومت کے وعدوں کو درست نہیں سمجھتی تو پھر گول مول بات کرنے کی بجائے واضح اعلان کرنا چاہئیے.اگر ایسی حالت پیدا کی گئی جس کے نتیجے میں ایک اقلیت اپنے حقوق لینے سے محروم رہ جائے تو یہ صورتِ حال خود انگلستان کو مجرم

Page 152

142 بنائے گی.اگر مشن کے ممبران انصاف کو قائم رکھیں گے تو یقیناً وہ ہندومسلم سمجھوتا کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے.ہندوستان کے حالات انگلستان سے مختلف ہیں.انگلستان کے تجربے کو ہندوستان پر ٹھونسنا غلطی ہو گی.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کے نمایندوں کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان ہمارا بھی اسی طرح ہے جس طرح ہندؤوں کا ہے.ہمیں بعض زیادتی کرنے والوں کی وجہ سے اپنے ملک کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئیے.اور ہندو بھائیوں خصوصاً کانگرس والوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ایک طرف تو آپ لوگ عدم تشدد کے قائل ہیں اور دوسری طرف ان کے لیڈر دھمکیاں دے رہے ہیں کہ مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں ملک میں فساد ہو گا.مذہبی آزادی کے حوالے سے حضور نے کانگرس کو یہ نصیحت فرمائی ایک نصیحت میں کانگرس کو خصوصاً اور عام ہندوؤں کو عموماً کرنا چاہتا ہوں کہ تبلیغ مذہب اور تبدیلی مذہب کے متعلق وہ اپنا رویہ بدل لیں.مذہب کے معاملے میں دست اندازی کبھی نیک نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی.وہ مذہب کو سیاست سے بدل کر کبھی چین نہیں پا سکتے تبلیغ مذہب اور مذہب بدلنے کی آزادی انہیں ہندوستان کے اساس میں شامل کر لینی چاہئیے.اور اس طرح اس تنگ ظرفی کا خاتمہ کر دینا چاہئیے.جو ان کی سیاست پر ایک داغ ہے.‘ (۸) وزارتی مشن نے کام شروع کیا.پہلے مختلف لیڈروں سے مذاکرات ہوئے، پھر دونوں سیاسی پارٹیوں کے اہم لیڈروں کی کانفرنس منعقد کی گئی.کانگرس کی تجویز تھی کہ ہندوستان کی ایک مشترکہ آئین ساز اسمبلی ہو جو نئی مملکت کا آئین تیار کرے.کچھ اختیارات صوبائی حکومتوں کو دیئے جائیں یا پھر صوبوں کے گروپ بنا کر انہیں مقامی ذمہ داریاں سونپی جائیں.مسلم لیگ کا موقف تھا کہ بنگال، آسام پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے صوبوں پر مشتمل ایک آزاد مملکت تشکیل دی جائے ، جس کی اپنی آئین ساز اسمبلی ہو.اور باقی ہندوستان کی علیحدہ آئین ساز اسمبلی ہو.مسلم لیگ مفاہمت کی غرض سے یہ تجویز ماننے کے لیئے تیار تھی کہ ان دونوں مملکتوں کی آئین ساز اسمبلی کا مشترکہ اجلاس ہو سکتا ہے جس میں دونوں طرف کے برابر کے نمایندے شامل ہوں اور تمام اہم فیصلے تین چوتھائی کی اکثریت سے کیئے جائیں.

Page 153

143 ۶ امئی کو وزارتی مشن اور وائسرائے نے اپنی سکیم کا اعلان کیا.اس منصوبے میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ منظور نہیں کیا گیا تھا.اس سکیم کے خدو خال یہ تھے کہ تمام ہندوستان ایک مرکزی حکومت اور ایک آئین ساز اسمبلی کے ماتحت رہے گا.مرکزی حکومت کے ماتحت امور خارجہ ، دفاع ، رابطہ اور وسائل آمد و رفت کے شعبے کام کریں گے.ہندوستان کو تین یونٹوں میں تقسیم کیا جائے گا.یونٹ اے ہندو اکثریت کے چھ صوبوں پر مشتمل ہوگا.یونٹ بی میں پنجاب ،سندھ ،سرحد اور بلوچستان کے صوبے ہوں گے.اور بنگال اور آسام مل کر یونٹ سی بنائیں گے.ان یونٹوں کے ماتحت صوبوں کی حکومتیں ، اپنے اختیارات کے ساتھ کام کریں گی.ہر یونٹ کے ممبران اسمبلی اگر چاہیں تو اپنے صوبوں کے لیئے مشترکہ قانونی ڈھانچہ بنا سکتے ہیں.مگر آزادی کے بعد پہلے الیکشن ہونے پر صوبوں کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ اگر پسند کریں تو اپنے یونٹ سے علیحدگی اختیار کر لیں.اس سکیم میں فوری طور پر عبوری حکومت بنانے کا منصوبہ بھی شامل تھا جس کی کابینہ کے تمام اراکین ہندوستانی ہوں گے.اس کا اعلان ہونے کے بعد گاندھی جی نے اس کی بعض قانونی تشریحات پر مشتمل بیانات دیئے.مثلاً مرکزی آئین ساز اسمبلی کو اختیار ہو گا کہ وہ مرکزی حکومت کے اختیارات میں حسب ضرورت اضافہ کرلے اور صوبوں کو یہ اختیار ہوگا کہ اگر وہ چاہیں تو شروع میں ہی اپنے یونٹ سے علیحدگی اختیار کر لیں.چناچہ کمشن کو اس بارے میں وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا، جس کا مقصد ان شبہات کا ازالہ کرنا تھا.اس سکیم پر غور کرنے کے لیئے جون کے آغاز میں مسلم لیگ کی کونسل کا اجلاس شروع ہوا.اس سکیم میں مسلمانوں کے لیئے ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا.اس وجہ سے ممبران پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے.تمام بحث و تمحیث کے بعد 4 جون ۱۹۴۶ء کو مسلم لیگ کی کونسل نے اس منصوبے کو منظور کرنے کا اعلان کر دیا.جون میں ہی کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا اور ۲۶ جون کو کانگرس نے طویل المیعاد منصوبے کو منظور کر لیا مگر عبوری کابینہ کے متعلق تجاویز کی منظوری نہیں دی.عبوری کابینہ کی تشکیل کے بارے میں اختلافات دور کرنے کے لیئے مذاکرات شروع ہوئے.مگر ان کا سلسلہ طویل ہوتا گیا.مفاہمت کی صورت پیدا ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی.جولائی ۱۹۴۶ء میں ابو الکلام آزاد صاحب کی جگہ پنڈت جواہر لال نہرو

Page 154

144 کانگرس کے صدر منتخب ہوئے.ابوالکلام آزاد اس سکیم کی حمایت کر رہے تھے.کانگرس کا سوشلسٹ گروہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ تھا.۱۰ جولائی ۱۹۴۶ء کو کانگرس کے نئے صدر نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ کانگرس آئین ساز اسمبلی میں کسی معاہدے کی شرائط میں جکڑی ہوئی داخل نہیں ہو رہی.اور اس بات کا حق محفوظ رکھتی ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعہ وزارتی مشن کے منصوبے کو تبدیل کر دے.اور وضاحت کی کہ ان کے خیال میں اس بات کا امکان ہے کہ اس منصوبے میں تجویز کردہ یونٹوں کے قیام کو منظور نہیں کیا جائے گا.اور مرکزی حکومت اپنے اختیارات میں اضافہ بھی کر سکتی ہے.ابوالکلام آزاد صاحب بیان کرتے ہیں کہ مسلم لیگ کے قائدین کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا کہ انہوں نے کمشن کے منصوبے کو منظور کر کے پاکستان کے مطالبے کو ترک کر دیا ہے.ان پر یہ اعلان بم کی طرح گرا.کانگرس کے سابقہ اعلان کے برعکس اب خود کانگرس کے صدر ہی اس منصوبے کو قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے.اس پس منظر میں مسلم لیگ کی کونسل کا اجلاس بلایا گیا اور لیگ نے اعلان کیا کہ اگر کانگرس حکومت ملنے سے قبل ہی کئے ہوئے وعدے سے پھر رہی ہے تو اس کے وعدے کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا چنانچہ اب مسلم لیگ کو یہ منصوبہ منظور نہیں ہے.اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ نے راست اقدام کا اعلان کر دیا.وہ ایک بار پھر مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ملک کا مطالبہ کر رہے تھے.جواہر لال نہرو نے یہ بیان دینے سے قبل کانگرس کی ورکنگ کمیٹی سے مشورہ نہیں لیا تھا.ورکنگ کمیٹی نے مبہم الفاظ میں دوبارہ مشن کے پلان کو منظور کرنے کا اعلان کیا لیکن اپنے صدر کے بیان کی تردید بھی نہ کی.اس تردیدی بیان میں بھی یونٹوں کے قیام کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا ، بلکہ صوبوں کی خود مختاری پر زور دیا گیا تھا.اور اس بات کو بھی واضح نہیں کیا گیا تھا کہ کانگرس آئین ساز اسمبلی میں اس منصوبے کے بنیادی خدو خال کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گی.اب شکوک و شبہات کے بادل گہرے ہو چکے تھے.دونوں پارٹیوں میں اور ان کے حامیوں میں خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی تھی.مفاہمت کا ایک اور موقع ہاتھ سے نکل چکا تھا.(۱۰۹) مسلم لیگ کے راست قدم کے اعلان کے متعلق جب حضور سے دریافت فرمایا گیا کہ اس کے متعلق احمدیوں کا مسلک کیا ہونا چاہیے تو حضور نے ارشاد فرمایا

Page 155

145 د مسلم لیگ نے ہمیں بحیثیت جماعت اپنے ساتھ شامل ہی نہیں کیا.اس لئے اس کی طرف سے تو کسی ہدایت کے ہم پابند نہیں ہو سکتے.پس جہاں تک مسلم لیگ کے نقطہ نگاہ کا سوال ہے.اگر ہم اس کے احکام کی پابندی نہ کریں تو اسے کوئی شکوہ نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ وہ ہمیں اپنا حصہ ہی قرار نہیں دیتی.اور جہاں تک ہمارے نقطہ نگاہ کا تعلق ہے ہم جس حد تک جائز اور مناسب سمجھیں گے لیگ کی مدد کریں گے.اگر لیگ ہمیں اپنے ساتھ شامل کرے تو اس صورت میں بھی یہ سمجھوتہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہم سے کوئی ایسا مطالبہ نہ کرے جسے ہم مذہباً نا جائز سمجھتے ہوں.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اس وقت راست اقدام کی تفصیلات پر بحث کرنا مناسب نہیں.اگر اس موقع پر خاموشی اختیار کی جائے اور ذمہ دار لوگوں کو موقع دیا جائے کہ وہ تمام نشیب و فراز دیکھ کر مناسب فیصلہ کریں تو مسلم لیگ کے لئے زیادہ بہتر ہوگا.(۱۱) فسادات کا آغاز اور جماعت احمدیہ کی خدمات: ۱۲ اگست ۱۹۴۶ء کو وائسرائے نے پنڈت جواہر لال نہرو کو عبوری حکومت بنانے کی دعوت دی.انہوں نے مسلم لیگ کو کابینہ میں شامل ہونے کی دعوت دی مگر مسلم لیگ نے اسے فوراً ہی مسترد کر دیا.۱۶ اگست کو کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے.کلکتہ میں ہندو اکثریت میں تھے.۱۶ راگست کو مسلمانوں کے ایک گروہ نے ہندوؤں پر حملہ کر دیا.جواب میں ہندوؤں نے مضافات میں مسلم آبادیوں پر ہلہ بول دیا.اگلے روز سکھ بھی ہندوؤں کے ساتھ مل گئے.کلکتہ کی تاریخ میں اتنی بہیمانہ قتل و غارت کبھی نہیں ہوئی تھی.جلد ہی اس آگ نے بنگال کی حدود سے نکل کر بہار اور یوپی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا.بہار میں مسلمان اقلیت میں تھے.ان پر قیامت ٹوٹ پڑی.ہزاروں مسلمان موت کے گھاٹ اتار دئے گئے.بنگال کے ایک گاؤں نواکھلی میں مسلمان اکثریت میں تھے.ان کے ایک گروہ نے ہندؤں کی قتل و غارت شروع کر دی.ہر طرف نفرت کا آسیب رقص کر رہا تھا.اب یہ فقط ایک سیاسی تنازع نہیں تھا.ہندوستان کے معاشرے کا تانا بانا ٹوٹ رہا تھا.لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے تھے.حالانکہ احمدی ہر لحاظ سے پرامن

Page 156

146 تھے اور اس قتل و غارت سے ان کا دور کا بھی تعلق نہ تھا مگر پھر بھی کلکتہ میں احمدیوں کی دکانیں لوٹی گئیں اور بعض زخمی ہوئے.لیکن کلکتہ کے احمدیوں نے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی توفیق کے مطابق بعض ہندؤوں اور سکھوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی.(۱۲).حضور نے انہیں پیغام بھجوایا کہ اگر وہ بچے صبر اور تو کل علی اللہ سے کام لیں گے تو یہ نقصان عارضی ہوگا اور وہ جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے.ڈھا کہ میں جماعت احمدیہ کے دار التبلیغ کو پہلے ہندو بلوائیوں نے لوٹا اور پھر آگ لگا دی.اور مسجد احمدیہ کو جلا کر بالکل خاکستر کر دیا گیا.قرآنِ کریم کے نسخوں، لٹریچر اور دفتر کے ریکارڈ کو آگ لگا دی گئی.مجبوراً صوبائی جماعت کا دفتر برہمن بڑ یہ منتقل کرنا پڑا (۱۳).بہار میں ایک احمدی ڈاکٹر طبی خدمات کے لئے ایک میلے میں گئے تھے.ہندو بلوائیوں نے انہیں بے دردی سے شہید کر دیا اور ان کی بیوی کو دریا میں پھینک دیا.بہار میں بھاگلپور کی جماعت نے حضور کی خدمت میں پیغام بھجوایا ” مسلمانانِ بہار پر مظالم کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے.مظالم توڑنے میں عورت مرد اور بچے بوڑھے کا کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا.اصل حالات کو مخفی رکھا جا رہا ہے....مہربانی فرما کر دعا فرماویں.اور مرکزی حکومت کے ذریعہ اور پبلک میں اصل حققیت کے اظہار کے ذریعہ امداد فرماویں.ہماری جانوں کی حفاظت کے لئے یہ ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کی صدا سمجھیں‘‘ (۱۴).اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیشہ سے جماعت احمد یہ بلا امتیاز ہر ظلم کی مذمت کرتی رہی ہے اور ہر مذہب اور قوم کے مصیبت زدگان کی خدمت میں پیش پیش رہی ہے.گاندھی جی بنگال میں فسادات رکوانے کے لئے بنگال کا دورہ کر رہے تھے اور نو اکھلی کے ہندو مظلومان کی مدد کے لئے بھی کوششیں کر رہے تھے.جماعت کی طرف سے گاندھی جی کو نو کھلی کے متاثرین کی مدد کے لئے عطیہ بھجوایا گیا.اور قائد اعظم کو بہار کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے رقم بھجوائی گئی.جواب میں ان کی طرف سے شکریے کا یہ پیغام موصول ہوا آپ کا خط اور چیک مل گیا.آپ کی امداد کے لئے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں.میں بہار کی امداد کے لئے حتی الوسع کوشش کر رہا ہوں.ہر طرف سے امداد کی سخت ضرورت ہے.صورتِ حال بڑی نازک ہے.بہت بڑی مہم درپیش ہے.(۱۶،۱۵) بعد میں بہار کے حالات مزید بگڑ گئے تو حضور نے جماعت کے ڈاکٹروں کو حکم فرمایا کہ وہ بہار

Page 157

147 میں ریلیف کیمپ قائم کریں.چنانچہ حضور کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے متعدد احمدی ڈاکٹروں، طالبعلموں اور دیگر رضا کاروں نے بہار میں امدادی کیمپ قائم کئے اور بہت سے مظلوموں کی خدمت کی توفیق پائی.صوبائی حکومت کے تعاون کا عالم یہ تھا کہ جب ایک موقع پر مسلم لیگ کے خواجہ ناظم الدین صاحب اور ان کے ساتھیوں نے کیمپ کا دورہ کرنا چاہا تو صوبائی حکومت نے اس کی اجازت نہ دی.غازی پور میں چار امن پسند اور معزز احمدی مظلوم مسلمانوں کی مدد میں پیش پیش تھے اور ان کی جائز شکایات حکام بالا تک پہنچاتے تھے.حکومت نے ان کی خدمت کا یہ اجر دیا کہ پولیس نے ان پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں گرفتار کر لیا.(۱۷ تا ۲۰) حضور کا سفر دہلی اور مفاہمت کی کوششیں: دانشمندی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ مسلمان اور ہندو سیاستدان مل کر بیٹھیں اور ہندوستان کو اس بحران سے نکالنے کی کوشش کریں.مگر ان کے باہمی تنازعات ختم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے تھے.وہ ایک دوسرے سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہورہے تھے.یہ نظر آرہا تھا کہ اگر کسی طرح مسلم لیگ کانگرس کے ساتھ عبوری حکومت میں شامل ہو جائے تو فاصلے کم ہونے کی صورت نکل سکتی ہے.ستمبر میں حضور حالات کا جائزہ لینے کی غرض سے دہلی تشریف لے گئے تا کہ ملک کی صورتِ حال کے پس منظر میں جماعت احمدیہ کی پالیسی کے متعلق فیصلہ کیا جا سکے.اس وقت دہلی میں اکثر سیاسی قائدین بھی موجود تھے.۲ ستمبر کو پنڈت جواہر لال نہرو اور کانگرس کے مقرر کردہ دیگر وزراء حلف اٹھا چکے تھے.اب کابینہ میں مسلم لیگ کے شامل ہونے یا نہ ہونے پر بات چیت چل رہی تھی.۲۴ ستمبر کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور صدر مسلم لیگ قائد اعظم محمد علی جناح کے درمیان ملاقات ہوئی.۲۷ ستمبر کو حضور گاندھی جی سے ملے.گاندھی جی اس وقت ہندوستان کے سب سے با اثر سیاسی قائد تھے.حضور نے ان سے فرمایا کہ آپ اور دوسرے سیاسی قائدین آپس میں لڑتے ہیں مگر اس کا وبال آپ لوگوں کی جان پر نہیں بلکہ ان ہزاروں لوگوں کی جان پر پڑتا ہے جو قصبوں اور دیہات میں رہتے ہیں اور تہذیب اور شائستگی نہیں سمجھتے.وہ ایک دوسرے کو ماریں گے، ایک دوسرے کو لوٹیں گے اور ایک دوسرے کے گھروں کو جلائیں گے.اس لئے اب آپ کو صلح کے لئے

Page 158

148 کچھ کرنا چاہئیے.گاندھی جی نے جواب دیا کہ یہ کام آپ ہی کر سکتے ہیں میں نہیں کر سکتا.آپ ایک جماعت کے لیڈر ہیں اور میں تو صرف ایک گاندھی ہوں.حضور نے فرمایا کہ میں تو صرف پانچ سات لاکھ کا لیڈر ہوں اور ہندوستان میں پانچ سات لاکھ کیا کر سکتا ہے.مگر انہوں نے یہی اصرار کیا کہ جو کچھ کر سکتے ہیں آپ ہی کر سکتے ہیں میں نہیں کر سکتا.ان کے علاوہ کانگرس کے لیڈروں میں سے حضور نے دو مرتبہ ابوالکلام آزاد صاحب اور پھر پنڈت جواہر لال نہرو صاحب سے ملاقات فرمائی.سروجنی نائیڈ و صاحبہ کو دو مرتبہ تار دی گئی مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ صلح کی اس مساعی میں حصہ نہیں لینا چاہتیں.حضور نے ایک خط وائسرائے ہند کے نام بھجوایا کہ گو جماعت احمدیہ مذہبی جماعت ہونے کے ناطے سے من حیث الجماعت مسلم لیگ میں شامل نہیں ہے مگر موجودہ سیاسی بحران میں اس کی تمام تر اصولی ہمدردی مسلم لیگ کے ساتھ ہے.اگر موجوده گفت وشنید ناکام ہو جائے تو اسے ناکامی قرار دینے کی بجائے التواء کی صورت قرار دیا جائے مگر جس نقطہ پر ناکامی ہوا سے پبلک کے علم کے لئے ظاہر کر دیا جائے..جماعت کا ایک وفد لیاقت علی خان صاحب ، سر سلطان احمد نواب صاحب چھتاری اور سر فیروز خان نون صاحب سے ملا.بعد میں فیروز خان نون صاحب اور نواب صاحب چھتاری حضور سے ملاقات کرنے کے لئے آئے.ایک دعوت میں خواجہ ناظم الدین صاحب اور سردار عبدالرب نشتر صاحب نے بھی حضور سے ملاقات کی.اسماعیلیوں کے پیشوا سر آغا خان صاحب نے لندن سے تار کے ذریعہ حضور کی کوششوں کے بارے میں نیک تمناؤں کا اظہار کیا.ان کے علاوہ حضور کی ایک اہم ملاقات نواب صاحب بھوپال سے ہوئی.نواب صاحب بھوپال کے گاندھی جی سے دوستانہ مراسم تھے.انہوں نے گاندھی جی اور صدر مسلم لیگ محمد علی جناح صاحب کی ملاقات کروائی.دونوں نے اس ملاقات میں ایک تحریری بیان پر دستخط کر دیئے جس کی رو سے انہوں نے تسلیم کر لیا کہ چونکہ اس وقت مسلم لیگ مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندگی کر رہی ہے اس لئے جمہوری روایات کی رو سے صرف اسے مسلمانوں کا نمایندہ کہلانے کا حق ہے.مگر کانگرس اس بات کا اختیار رکھتی ہے کہ اگر چاہے تو کسی مسلمان کو اپنی طرف سے وزارت کے لئے نامزد کرے.مگر پنڈت جواہر لال نہر وسمیت کانگرس کی قیادت نے گاندھی جی کے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.اس طرح گاندھی جی اسی طرح

Page 159

149 اکیلے گاندھی رہ گئے جس طرح انہوں نے حضور سے ملاقات میں اپنے آپ کو ظاہر کیا تھا.بہر حال بہت سے لوگوں کی مخلصانہ کوششیں رنگ لائیں اور ایک کے بعد دوسری رکاوٹ دور ہوتی گئی.بالآخر مسلم لیگ نے عبوری حکومت میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا.اور لیاقت علی خان صاحب، آئی آئی چندریگر ، راجہ غضنفر علی صاحب اور سردار عبدالرب نشتر صاحب کے علاوہ ہریجن قوم سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو سیاستدان جوگندرا ناتھ منڈل صاحب مسلم لیگ کے نمایندے کے طور پر کابینہ میں شامل کئے گئے.(۲۱ تا۲۹) مگر صرف کابینہ کے اجلاس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے سے فاصلے کم نہیں ہو سکتے تھے.اس کے لئے باہمی اعتماد بحال کرنا ضروری تھا.آپس میں تعاون کرنے کی ضرورت تھی.مگر عملاً کدورتوں کے بادل وقت کے ساتھ اور گہرے ہوتے جارہے تھے.وائسرائے ویول نے فیصلہ کیا کہ ایک اہم وزارت مسلم لیگ کو دی جائے گی.کانگرس نے مسلم لیگ کو وزارت خزانہ کی پیشکش کی.ابوالکلام آزاد صاحب لکھتے ہیں کہ کانگرس کے بہت سے لیڈروں کا خیال تھا کہ مسلم لیگ کے پاس اس اہلیت کا آدمی موجود نہیں جو یہ وزارت چلا سکے.اگر مسلم لیگ اس پیشکش کو خود مستر د کرتی ہے تو کانگرس بری الذمہ ہو جائے گی اور اگر قبول کرتی ہے تو اس وزارت کو چلا نہیں پائے گی اور اس کو خفت اٹھانی پڑے گی.صدر مسلم لیگ نے فوری طور پر اس پیشکش کو قبول نہیں کیا.مگر چوہدری محمد علی صاحب اور دیگر مسلمان سرکاری افسران نے مشورہ دیا کہ فوراً اس وزارت کو قبول کر لینا چاہئیے.کیونکہ یہ وزارت سب سے بااثر وزارت ثابت ہوگی.یہ کانگرس کی ایک بڑی غلطی تھی.وزارتِ خزانہ کا عملاً حکومت کے ہر شعبے میں عمل دخل ہوتا ہے.جلد ہی کانگرس کے وزراء کو شکایت پیدا ہونے لگی کہ ان کی راہ میں بے جا روڑے اٹکائے جا رہے ہیں.جب بجٹ پیش ہوا تو اختلافات میں اور اضافہ ہو گیا.اس بجٹ میں تجویز کیا گیا تھا کہ جنگ کے دوران بڑے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں نے بے تحاشہ مالی فوائد حاصل کئے ہیں مگر انکم ٹیکس نہیں دیا ، ان سے انکم ٹیکس کے بقایا جات وصول کرنے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے کی ضرورت ہے.اور بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لئے زیادہ ٹیکس امراء پر لگانے کی تجویز دی گئی..ان سرمایہ کاروں کی اکثریت ہندو تھی.اور ان میں سے بہت سے کانگرس کی مالی اعانت کرتے رہے تھے.کانگرس میں ایک گروہ کا

Page 160

150 خیال تھا کہ یہ اقدامات محض انتقامی کاروائی کے طور پر کئے جارہے ہیں اور ان سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچے گا.مسلم لیگ کا مؤقف تھا کہ بجٹ کا خسارا پورا کرنے کے لئے یہ اقدامات ضروری تھے اور یہ بوجھ سرمایہ داروں کو ہی اٹھانا پڑے گا.غریب طبقہ پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا.آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ۱۱ دسمبر ۱۹۴۶ء کو طلب کیا گیا.مسلم لیگ نے اعلان کیا کہ وہ اس وقت تک آئین ساز اسمبلی میں شریک نہیں ہوگی جب تک کانگرس کی طرف سے وزارتی مشن کے منصوبے کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا جاتا.اور اس بات کا اعلان نہیں کیا جاتا کہ آئین ساز اسمبلی میں اس منصوبے میں طے شدہ امور کو تبدیل نہیں کیا جائے گا.مگر کانگرس اس پر آمادہ نہیں تھی.چنانچہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس شروع ہو گیا اور مسلم لیگ کے ممبران کی نشستیں خالی رہیں.آئین ساز اسمبلی نے جب اپنے مقاصد کے بارے میں قرارداد پاس کی تو مسلم لیگ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یہ قرارداد وزارتی مشن کی ان تجاویز کے برخلاف ہے جن پر دونوں پارٹیوں نے اتفاق کیا تھا ، اس لئے اس اسمبلی کو برطرف کر دینا چاہئیے.اس کے جواب میں پنڈت جواہر لال نہرو نے مطالبہ کیا کہ چونکہ مسلم لیگ آئین ساز اسمبلی میں شرکت نہیں کر رہی اس لئے اس کے وزراء کو برطرف کر دینا چاہئیے.اب صلح اور مفاہمت کی امیدوں کا چراغ ٹمٹماتا نظر آ رہا تھا.کشیدگی میں اضافہ: دوسری طرف ہندوستان بھر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی.جگہ جگہ فسادات ہو رہے تھے اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو رہی تھیں.بنگال، بہار، یوپی، پنجاب اور بمبئی میں تو خون خرابہ ہو ہی رہا تھا، اب دہلی میں بھی چھرا گھونپنے کی وارداتیں روز کا معمول بن چکی تھیں.سرحد وہ واحد مسلمان اکثریت کا صوبہ تھا جس کی صوبائی اسمبلی میں کانگرس نے مسلم لیگ سے زائد نشستیں حاصل کی تھیں اور وہاں پر ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں کانگرس کی وزارت بنی تھی.مگر اس صوبے میں بھی تیزی سے رائے عامہ مسلم لیگ کے حق میں ہونے لگی حتی کہ جب پنڈت جواہر لال نہرو نے سرحد کا دورہ کیا تو ان کا استقبال سیاہ جھنڈوں اور مخالفانہ نعروں سے کیا گیا.ایک مشتعل ہجوم نے ان کی گاڑی پر پتھراؤ شروع کر دیا.ایک مرحلے پر ان شورش

Page 161

151 پسندوں کے حملے سے خطرہ اتنا بڑھا کہ خود وزیر اعلیٰ کو پستول نکال کر دھمکی دینی پڑی کہ اگر حملہ آور آگے بڑھے تو وہ گولی چلا دیں گے.حالات کا سیلاب ہر چیز کو اپنے ساتھ بہائے لے جارہا تھا.ان بگڑتے ہوئے حالات میں برطانوی حکومت سے امید کی جاسکتی تھی کہ وہ امن عامہ کو بحال کرنے کی کوشش کرے مگر اس راہ میں بہت سی دشواریاں حائل تھیں.گورنمنٹ سروس میں موجود مقامی لوگوں کی وابستگیاں اب برطانوی حکومت کی بجائے کسی نہ کسی سیاسی گروہ کے ساتھ ہو چکی تھیں.سول سروس اور فوج میں انگریزوں کی تعداد پہلے کی نسبت بہت کم تھی.پہلے ہندوستان میں موجود فوج میں گیارہ ہزار انگریز افسر تھے.اب یہ تعداد کم ہو کر چار ہزار رہ گئی تھی.اب انگریز اپنے طور پر ہندوستان کا نظم ونسق چلانے کے قابل نہیں تھے.اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد اب برطانوی حکومت یا برطانوی عوام مزید انگریزوں کو ہندوستان بھجوانے پر آمادہ نہیں تھے.ظاہر ہے کہ اپنے ملک کی تعمیر نو ان کی اولین ترجیح تھی.وائسرائے لارڈ ویول کا خیال تھا کہ ابھی وزارتی مشن کے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے اور اس مرحلے پر ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کا اعلان کرنے سے پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور اس کے نتیجے میں خوفناک فسادات ہو سکتے ہیں جس کی ذمہ داری برطانوی حکومت پر عائد ہوگی.مگر وزیر اعظم ایٹلے اس سے متفق نہیں تھے ان کا مؤقف تھا کہ اگر ہندوستان کی آزادی کی معین تاریخ کا اعلان کر دیا گیا تو اس مسئلے کو حل کرنا مقامی سیاستدانوں کی ذمہ داری بن جائے گی.اس کے بغیر کوئی حل ممکن نہیں.برطانیہ زیادہ دیر تک یہ بوجھ برداشت نہیں کرسکتا.بالآخر لارڈ ویول نے استعفیٰ دے دیا.اور ۲۰ فروری ۱۹۴۷ء کو وزیر اعظم نے برطانوی دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جون ۱۹۴۸ء تک اقتدار ہندوستان کے نمایندوں کے حوالے کر دیا جائے گا.اور یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ویول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے وائسرائے کا عہدہ سنبھالیں گے.کانگرس کے اکثر قائدین لارڈ ویول سے خوش نہیں تھے.ماؤنٹ بیٹن دوسری جنگ عظیم کے دوران جنوب مشرقی ایشیا میں اتحادی افواج کے کمانڈر رہ چکے تھے.جنگ کے خاتمے کے معاً بعد جب نہر وسیر کے لئے سنگاپور گئے تو وہاں ان کی ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات ہوئی.اور یہیں سے دونوں کے درمیان دوستانہ مراسم کا آغاز ہوا.

Page 162

152 رخصت ہونے سے قبل لارڈ ویول نے کابینہ کی آخری میٹنگ بلائی.زیر غور امور کے بعد انہوں نے وزراء کو مخاطب کر کے کہا میں نے ایک مشکل دور میں وائسرائے کا عہدہ سنبھالا تھا.میں نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے.ایسے حالات پیدا ہو گئے جس کے نتیجے میں مجھے استعفیٰ دینا پڑا.اس مسئلے پر استعفیٰ دینے کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی.بہر حال میری آپ لوگوں سے اپیل ہے کہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں.آپ لوگوں سے مجھے جو تعاون ملا ، اس کے لئے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.“ پیشتر اس کے کہ جواب میں کوئی کچھ کہتا.انہوں نے اپنے کاغذات اٹھائے اور تیزی سے باہر نکل گئے.اگلے روز لارڈ ویول ہمیشہ کے لئے دہلی سے رخصت ہو گئے.(۲۲،۲۱) مارچ ۱۹۴۷ء میں پنجاب بھی ہندو مسلم فسادات کی زد میں آگیا.۴ مارچ کو لاہور سے ان فسادات کی ابتدء ہوئی اور جلد ہی امرت سر راولپنڈی ، ملتان اور گوجرانوالہ بھی اس آگ کی لپیٹ میں آگئے.یہ خونریزی صرف شہروں تک محدود نہیں تھی.بہت سے دیہات میں بھی فسادات شروع ہو گئے.بہت سے مقامات پر فوج کو بلوائیوں پر گولی چلانی پڑی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی اس وقت سندھ میں تشریف فرما تھے.اِن دنوں میں قادیان بیرونی علاقوں سے بالکل کٹ گیا تھا.نہ ریل کی آمد ورفت باقی رہی تھی اور نہ ڈاک ٹیلیفوں یا تار سے کہیں رابطہ کیا جا سکتا تھا.اُس وقت قادیان میں احمدیوں کی بھاری اکثریت تھی.یہاں پر امن و آشتی کی فضا قائم رکھنے کے لئے ایک امن کمیٹی بنا دی گئی جس میں ہندو سکھ اور غیر احمدی مسلمان بھی شامل تھے.اس کمیٹی کے قیام سے کم از کم وقتی طور پر قادیان اور اس کے نواح پر اچھا اثر پڑا.(۳۰ تا ۳۳) اس وقت امریکی حکومت ایسے چھوٹے جہاز فروخت کر رہی تھی جو دوسری جنگِ عظیم میں استعمال ہوئے تھے.بمبئی کی ایک کمپنی نے ان میں سے کچھ جہاز خریدے اور ایک احمدی پائلٹ لطیف صاحب کو ان جہازوں کو بمبئی لانے پر مقرر کیا.وہ ایک جہاز حضور کی خدمت میں دکھانے کی غرض سے لے کر آئے.اور حضور کے ارشاد پر یہ جہاز پانچ ہزار روپے میں خرید لیا گیا.اور اسے والٹن ایئر پورٹ لاہور کے فلائنگ کلب میں رکھوا دیا گیا.ممکن ہے اس وقت بہت سے احباب کو جہاز خریدنے کی اہمیت صحیح طرح سمجھ نہ آئی ہو مگر آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ ان جہازوں کو خریدنا ایک بروقت اقدام تھا.بعد میں یہ جہاز فسادات کے

Page 163

153 دوران بہت کارآمد ثابت ہوئے.تقسیم پنجاب کی تجویز: ابھی نئے وائسرائے نے ہندوستان میں قدم نہیں رکھا تھا کہ ۸ مارچ ۱۹۴۷ء کو کانگریس نے ایک قرارداد پاس کی کہ گذشتہ سات ماہ میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں کانگرس مجبوراً اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اب پنجاب اور بنگال کی تقسیم ناگزیر ہوچکی ہے.جبراً ایک حصے کو دوسرے حصے کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا.لہذا ان صوبوں کے جو اضلاع مسلم اکثریت کے علاقوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے انہیں ان صوبوں سے علیحدہ کر دینا چاہئیے.اگر چہ مجموعی طور پر بنگال اور پنجاب میں مسلمان اکثریت میں تھے مگر مشرقی پنجاب اور مغربی بنگال کے بہت سے اضلاع میں غیر مسلموں کی اکثریت تھی..اس مرحلے پر ہندوستان کی تقسیم ناگزیر نظر آ رہی تھی.مگر جب ۲۲ مارچ ۱۹۴۷ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن دہلی پہنچے تو ان کو برطانوی حکوت کی طرف سے یہی ہدایت دی گئی تھی کہ ان کی حکومت کی پہلی ترجیح یہی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم نہ ہو اور انگریز اپنے پیچھے ایک متحدہ ہندوستان چھوڑ کر جائیں.نئے وائسرائے نے سیاسی لیڈروں سے انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا.حالات کا رخ دیکھتے ہوئے جلد ہی نہرو اور پٹیل جیسے لیڈروں نے عندیہ ظاہر کر دیا کہ وہ مسئلہ حل کرنے کے لئے ہندوستان کی تقسیم پر تیار ہیں.گاندھی جی نے شروع میں اس کی مخالفت کی مگر وہ بھی جلد متفق ہو گئے کہ ان حالات میں ملک کی تقسیم ناگزیر ہوچکی ہے.قائد اعظم سے ملاقات میں وائسرائے نے اس بات کا اظہار واضح الفاظ میں کر دیا کہ ملک کی تقسیم ہوئی تو پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو بھی تقسیم کیا جائے گا اور ہندو اکثریت کے اضلاع پاکستان میں شامل نہیں کئے جائیں گے.کانگرس کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان اس شرط پر بن سکتا ہے مگر ملک کا جو حصہ پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتا اسے زبردستی پاکستان میں شامل نہ کیا جائے.(۲۱ تا۲۹) یہ سوال جماعت احمدیہ کے لئے اک خاص اہمیت رکھتا تھا کیونکہ ہندوستان کی اکثر جماعتیں صوبہ پنجاب میں شامل تھیں.جماعت احمدیہ کا مؤقف یہ تھا کہ پنجاب ہر لحاظ سے ایک یونٹ ہے،اس لئے جس طرح

Page 164

154 ہندوستان کی تقسیم کے وقت دیگر صوبوں کو تقسیم نہیں کیا جار ہا اسی طرح پنجاب کو بھی تقسیم نہیں کیا جانا چاہئیے.چنانچہ حضور کی طرف سے وائسرائے کو مندرجہ ذیل تار دی گئی.آل انڈیا ریڈیو میں آج رات ( یعنی مورخہ ۱۵ اپریل سے قبل کی رات ) اعلان ہوا ہے.کہ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز زیر غور ہے.میں اور میری جماعت تقسیم پنجاب کی تجویز کے خلاف پر زور احتجاج کرتے ہیں.اور خصوصاً اس تجویز کے خلاف کہ وسطی پنجاب کو مغربی پنجاب سے علیحدہ کر دیا جائے.ہم مسلمان پنجاب کے وسطی حصوں میں کامل اکثریت رکھتے ہیں.اور ہمیں ایسے ہی انسانی حقوق حاصل ہیں.جو دنیا کے کسی حصے میں کسی بھی قوم کو حاصل ہو سکتے ہیں.یقیناً ہمارے ساتھ ان تجارتی اموال کا سا سلوک نہیں ہونا چاہیئے جو فروخت کے لئے منڈیوں میں بھجوائے جاتے ہیں.(۳۴) لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظر آرہا تھا کہ حکومت پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا پختہ ارادہ کئے ہوئے ہے.اور کانگرس کی طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا جارہا تھا کہ تقسیم کرتے ہوئے صرف یہ نہ دیکھا جائے ان اضلاع کی اکثریت کس طرف جانا چاہتی ہے بلکہ ان اضلاع کو بھی ہندوستان میں شامل کیا جائے جہاں کی آبادی کی اکثریت تو مسلمان ہے مگر زرعی زمینوں، جائدادوں اور صنعتوں کا بیشتر حصہ ہندوؤں اور سکھوں کی ملکیت میں ہے.جماعت کا موقف یہ تھا کہ یہ فیصلہ اس بنیاد پر ہونا چاہئیے کہ متنازع علاقے کی اکثریت تقسیم ہند کے بعد کس ملک میں شامل ہونا چاہتی ہے.اور یہ فیصلہ اس بنیاد پر نہ کیا جائے کہ کسی ضلع کے مالدار لوگوں کا رحجان کس ملک کی طرف ہے.ہندو اور مسلمانوں کے درمیان صلح کی خواہش: اس صورتِ حال میں جبکہ ہر طرف نفرت کی آندھیاں چل رہی تھیں حضرت مصلح موعود مسلسل اس خواہش کا اظہار فرما رہے تھے کہ ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان صلح کی کوئی صورت نکلے اور سب معاملات باہمی مفاہمت سے طے ہوں.۳ اپریل کو اپنی ایک رؤیا بیان فرما کر حضور نے ارشاد فرمایا بہر حال ابھی ایسا وقت نہیں آیا کہ صلح کے امکانات ہی نہیں رہے.ہمیں اس طرف سے توجہ

Page 165

155.نہیں اُٹھانی چاہئیے.لوگوں کا یہ خیال کہ صلح نہیں ہو سکتی غلط ہے....میں نے جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے تعلق رکھنے والے امور پر غور کیا ہے میرا خیال یہی ہے کہ اگر مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہو جائیں.تو ہم سب کو مل کر رہنے میں ہی فائدہ ہے.پھر حضور نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں ہندوستان کو اسلام کی تبلیغ کے لئے Base بنانا چاہئیے اور جس طرح صبح کے وقت شمع کے گرد پروانوں کا ڈھیر ہوتا ہے اسی طرح ہمیں بھی شمع اسلام کے گرد قربان ہونا پڑے گا.آپ نے فرمایا: بعض احمدی مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ غیر احمدیوں نے ہم پر یہ یہ ظلم کئے ہیں.مگر میں ہمیشہ ان کو یہی جواب دیتا ہوں کہ اس میں شک نہیں ہمیں غیر احمدی مسلمانوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً تکالیف پہنچتی ہیں.مگر یہ تو بتاؤ کہ ہماری جماعت کے اندر ہندوؤں میں سے زیادہ لوگ آئے ہیں یا مسلمانوں میں سے؟ وہ ظلم بھی کرتے ہیں مگر آتے بھی تو وہی ہیں...یہ سب حالات بتاتے ہیں کہ ہمارے اور ان کے درمیان ایک قدرتی اتحاد ہے.اور ہم جسم کے ٹکڑوں کی طرح ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے.(۳۵) مئی ۱۹۴۷ء کے آغاز میں جماعت احمدیہ کی طرف سے قائد اعظم محمد علی جناح کو ان تجاویز پر مشتمل تار دی گئی.اول تو جماعت احمدیہ تقسیم پنجاب کے خلاف ہے لیکن اگر یہ تقسیم ناگزیر ہو تو اسے ان شرائط سے مشروط کرنا ضروری ہے.تمام ان علاقوں کو پاکستان میں شامل کیا جائے جہاں پر مسلمان اکثریت میں ہوں.جن علاقوں میں کسی ایک گروہ کی واضح اکثریت نہیں وہاں پر مسلمان، ہندوؤں اور سکھوں کی رائے تو معلوم ہو چکی ہے، البتہ اچھوت اقوام اور عیسائیوں کی رائے ریفرنڈم کے ذریعہ معلوم کی جائے.نہروں کے ہیڈ ،بجلی کے پاورسٹیشنوں اور پہاڑی مقامات کو پندرہ برس کے لئے اُن مقامات سے وابستہ رکھا جائے جن کو وہ اس وقت فائدہ پہنچا رہے ہیں.(۳۶) ابھی سیاسی افق پر تو مہم مناظر آرہے تھے لیکن حضرت خلیفتہ اسیح الثانی جماعت احمدیہ کو ہرممکن حالات کے لئے تیار فرما رہے تھے.پنجاب مسلم لیگ نے تو آخر تک پیش آمدہ مسائل سے نمٹنے کی تیاری نہیں کی تھی مگر مئی کے آغاز میں ہی جماعت نے متعلقہ اعداد و شمار جمع کرنے شروع کر دیئے تھے.(۳۷) اور جماعت کی طرف سے سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے نام اپیلیں شائع ہو رہی

Page 166

156 تھیں کہ وہ پنجاب کی تقسیم پر اصرار نہ کریں.اس پس منظر میں بعض اخبارات نے لکھنا شروع کیا کہ اس وقت تو احمدی پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں مگر جب پاکستان بن جائے گا تو ان کے ساتھ مسلمان پھر وہی سلوک کریں گے جو کابل میں کیا گیا تھا.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا قطع نظر اس کے کہ مسلم لیگ والے پاکستان بننے کے بعد ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے.وہ ہمارے ساتھ وہی کا بل والا سلوک کریں گے یا اس سے بھی بدتر معاملہ کریں گے.اس وقت سوال یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے جھگڑے میں حق پر کون ہے اور ناحق پر کون....ہم نے بار بار ہندوؤں کو توجہ دلائی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کر رہے ہیں.یہ امر ٹھیک نہیں.ہم نے بار بار ہندوؤں کو متنبہ کیا کہ مسلمانوں کے حقوق کو اس طرح نظر انداز کر دینا بعید از انصاف ہے.اور ہم نے بار بار ہندو لیڈروں کو آگاہ کیا کہ یہ حق تلفی اور یہ نا انصافی آخر رنگ لائے گی.مگر افسوس کہ ہمارے توجہ دلانے ہمارے انتباہ اور ہمارے ان کو آگاہ کرنے کا نتیجہ کبھی کچھ نہ نکلا.(۳۸) حضور نے فرمایا کہ خواہ ملازمتوں کا معاملہ ہو یا تجارتوں کا، ہر معاملے میں ہندوؤں نے مسلمانوں سے نا انصافی کی.یہاں تک کہ جب احرار نے جماعت احمدیہ کی مخالفت شروع کی تو ہندوؤں نے احرار کی پیٹھ ٹھونکی اور ان کی مدد کرتے رہے.ان سے کوئی پوچھے کہ ان کا وفات مسیح یا ختم نبوت کے مسائل سے کیا تعلق تھا؟ احرار کی طرف سے ہندو وکلاء مفت پیش ہوتے تھے.حضور نے فرمایا کہ میں نے اس بارہ میں پنڈت نہرو کے پاس اپنا آدمی بھیجا کہ آپ لوگوں کی احرار کے ساتھ ہمدردی کس بناء پر ہے.اور یہ طرفداری کیوں کی جارہی ہے.انہوں نے ہنس کر کہا سیاسیات میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے.یہ جو کچھ آج کل ہو رہا ہے.یہ سب گاندھی جی ، پنڈت نہرو اور مسٹر بٹیل کے ہاتھوں سے رکھی ہوئی بنیادوں پر ہورہا ہے اور انگریزوں کا بھی اس میں ہاتھ تھا.(۳۸) ممکنہ بحران کی تیاری: افق پر مستقبل میں پیش آنے والے حالات کے آثار نظر آرہے تھے.چنانچہ حضور نے جماعت کو روزوں اور دعاؤں کی تلقین فرمائی.آنے والے وقت میں جماعت کو قادیان کی حفاظت اور دیگر

Page 167

157 اہم ضروریات کے لئے مالی وسائل کی ضرورت تھی.ایک عام آدمی اس کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتا تھا لیکن حضور کی دور بین نگاہ آنے والے خطرات کو واضح طور پر دیکھ رہی تھی.پہلے فروری میں آپ نے حفاظت مرکز کے لئے چندہ جمع کرنے کی تحریک فرمائی اور پھر مئی میں حضور نے تحریک فرمائی کہ زیادہ سے زیادہ احباب وقف جائیداد اور وقف آمد کی تحریک میں حصہ لیں اور ۲۰ مئی تک وقف جائیداد کرنے والوں کی فہرستیں تیار ہو کر قادیان پہنچا دی گئی تھیں.ان تحاریک کی وجہ سے وہ مالی وسائل پیدا ہوئے جن کی ضرورت مستقبل قریب میں پڑنے والی تھی.آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ ان بروقت اقدامات کی وجہ سے جماعت احمدیہ اُن خطرناک حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئی جن کے سامنے حکومتی ادارے بھی بے بس اور لاچار نظر آتے تھے.(۳۹) اس کے علاوہ قادیان میں گندم اور دیگر ضروریات زندگی بڑی مقدار میں خرید کر محفوظ کر دی گئیں.جب کچھ ماہ کے بعد مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تو ان تیاریوں سے نہ صرف قادیان میں محصور احمدیوں کی جانیں بچیں بلکہ ان ہزاروں مسلمانوں کی خدمت بھی کی گئی جو دشمن کی چیرہ دستیوں سے مجبور ہو کر قادیان میں پناہ گزیں ہوئے تھے.اور دوسری طرف جب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اُس وقت مسلمانانِ پنجاب کے لیڈر کیا تیاریاں کر رہے تھے تو یہ افسوسناک حقیقت نظر آتی ہے کہ آنے والے بحران کی تیاری کرنا تو درکنار، وہ نوشتہ دیوار پڑھنے سے بھی قاصر تھے.اس غفلت کا نتیجہ کیا نکلا؟ جب پنجاب میں خون کی ہولی کھیلی گئی تو مشرقی پنجاب کے مسلمان وحشیوں کے سامنے بے یار و مددگار کھڑے تھے.ہزاروں قتل ہو گئے.اکثریت کی تمام املاک لٹ گئیں کتنی ہی مسلمان عورتیں اغوا کر لی گئیں.پنجاب کی تقسیم پر احتجاج گو کہ وقت کے ساتھ یہ ظاہر ہوتا جا رہا تھا کہ پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ کیا جا چکا ہے مگر جماعت اس تقسیم کے خلاف اپنا موقف ہر سطح پر پیش کر رہی تھی.چناچہ مئی کے آخر پر ناظر اعلیٰ کی طرف سے برطانیہ کے وزیر اعظم کو یہ تار دی گئی.احمد یہ جماعت پنجاب کی تقسیم کے سخت خلاف ہے.کیونکہ وہ جغرافیائی اور اقتصادی

Page 168

158 لحاظ سے ایک قدرتی یونٹ ہے.اور اسے ہندوستان کی تقسیم پر قیاس کرنا اور اس کا طبعی نتیجہ قرار دینا بالکل خلاف انصاف اور خلاف عقل ہے.اگر صوبوں یعنی قدرتی یونٹوں کو اس لئے تقسیم کیا جا رہا ہے کہ اقلیتوں کے لئے حفاظت کا سامان مہیا کیا جائے.تو اس صورت میں یوپی کے ۸۴ لاکھ اور بہار کے ۴۷ لاکھ اور مدراس کے ۳۹لاکھ مسلمان زیادہ حفاظت کے مستحق ہیں.....مید ادعا کہ پنجاب کی تقسیم آبادی کی بجائے جائیداد کی بناء پر ہونی چاہئیے.نہ صرف جمہوریت کے تمام مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے.بلکہ اس سے مادی اموال کو انسانی جانوں پر فوقیت بھی حاصل ہوتی ہے.جو ایک بالکل ظالمانہ نظریہ ہے.(۴۰) ہندوؤں اور سکھوں کی حفاظت کرنے کا اعلان : جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ اس وقت قادیان کی ۸۵ فیصد آبادی احمدی تھی اور ویسے بھی ضلع گورداسپور میں مسلمان اکثریت میں تھے.ان وجوہات کی بنا پر قادیان میں رہنے والے ہندوؤں اور سکھوں کے دلوں میں اپنی حفاظت کے بارے میں خدشات پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا.اس پس منظر میں حضور نے ۲۳ مئی کے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان فرمایا ” میں قادیان کے ہندوؤں اور سکھوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان کی اپنے عزیزوں سے بڑھ کر حفاظت کریں گے اور اپنی طاقت کے مطابق ہر ممکن ذریعہ سے ان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے.قادیان کے ہندو اور سکھ کم سے کم یہ تو ضرور جانتے ہیں کہ میں جھوٹ نہیں بولتا....اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ میرے اس اعلان کوسن کر وہ ضرور مطمئن ہو جائیں گے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جو بات میں کہوں گا اس میں کسی قسم کا دہوکا نہیں ہوگا.پس میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ نہیں کہ صرف کمینگی اور ذلت کا سلوک ان سے نہیں کیا جائے گا.بلکہ خطرے کی صورت میں ہم اپنے عزیزوں سے بڑھ کر ان کی حفاظت کریں گے.‘ (۴۱)

Page 169

159 باؤنڈری کمیشن کی تشکیل: جون ۱۹۴۷ء کو حکومت نے اعلان کیا جونہی اس صوبے ( پنجاب ) کی تقسیم کا فیصلہ ہوا ، وائسرائے کی طرف سے ایک باؤنڈری کمیشن کی تشکیل کی جائے گی.متعلقہ فریقوں کے مشورے سے قواعد مقرر کیئے جائیں گے.اس کے سپرد پنجاب کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کی اکثریت کے متصل علاقوں کے درمیان کی سرحد متعین کرنے کا کام ہو گا.اس کو یہ بھی ہدایت دی جائے گی کہ دیگر عوامل کو بھی پیش نظر رکھے...جب تک کہ یہ کمیشن رپورٹ نہیں پیش کرتا ، اس وقت تک ضمیمہ میں دکھائی گئی سرحد لا گو ہوگی.“ اس کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ بنگال کو تقسیم کرنے کے لیئے بھی ایسا ہی کمیشن قائم کیا جائے گا.اس اعلان میں موجود دیگر عوامل کے ذکر نے کمیشن کے چیئر مین کے لئے من مانی کرنے کے دروازے کھول دیئے.دیگر عوامل کا ذکر تو کر دیا گیا لیکن یہ وضاحت نہ کی گئی کہ اس سے کیا مراد ہے اور یہ عوامل کس حد تک حد بندی کو تبدیل کرنے کا باعث بن سکتے ہیں.کمیشن کی تشکیل کے لئے دو تجاویز پیش ہوئیں.پہلی یہ کہ دونوں کمشنوں میں اقوامِ متحدہ کے توسط سے تین غیر جانبدار حج مقرر کئے جائیں اور طرفین کے تین تین نمایندے بھی شامل ہوں.دوسری تجویز یہ تھی کہ دونوں کمیشنوں میں مسلم لیگ اور کانگرس کے نامزد کردہ دو دو جج شامل ہوں اور ان کا سر براہ ایک غیر جانبدار شخص کو مقرر کیا جائے.مسلم لیگ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ ممبران کمیشن کو ترجیح دے رہی تھی مگر پنڈت جواہر لال نہرو کا کہنا تھا کہ اس طرح کمیشن کی تشکیل کا عمل غیر معمولی تاخیر کا شکار ہو جائے گا.مسلم لیگ کی طرف سے جسٹس محمد منیر اور جسٹس دین محمد صاحب کے نام پیش کئے گئے اور کانگرس کی طرف سے جسٹس مہر چند مہاجن اور جسٹس تیجا سنگھ کو نامزد کیا گیا.کمیشن کے غیر جانبدار ممبر کا تقرر باقی تھا.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اس وقت بعض ریاستوں سے متعلقہ بعض

Page 170

160 معاملات برطانوی حکومت کے سامنے پیش کرنے کے لئے ملک سے باہر جانے والے تھے.قائد اعظم نے انہیں بلایا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ چوہدری صاحب پنجاب کے کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کریں.جب انہیں بتایا گیا کہ چوہدری صاحب برطانیہ جانے والے ہیں تو قائد اعظم نے کہا کہ تمام کیس تو لاہور کے وکلاء نے تیار کر کے رکھا ہوگا ، چوہدری صاحب کو صرف بنا بنایا کیس کمیشن کے سامنے پیش کرنا ہو گا.حضرت چوہدری صاحب نے مشورہ دیا کہ برطانیہ کے لارڈ ز آف اپیل اچھی شہرت رکھتے ہیں اس لئے انہیں غیر جانبدار امپائر کے طور پر مقرر کرنا مناسب ہوگا.جب یہ تجویز لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سامنے پیش کی گئی تو انہوں نے یہ بود اعذ ررکھ کر ٹال دیا کہ وہ تو بڑی عمر کے لوگ ہیں ہندوستان کا گرم موسم برداشت نہیں کر سکیں گے.جب کمیشن کے چیئر مین کے نام پر اتفاق نہ ہو سکا تو یہ معاملہ برطانوی حکومت پر چھوڑنا پڑا.چوہدری صاحب لندن میں تھے کہ انہیں خبر ملی کہ سیرل ریڈ کلف کو بنگال اور پنجاب ، دونوں کے کمشن کا پانچواں ممبر اور چیئر مین مقرر کیا گیا ہے.آپ کے لیئے یہ خبر باعث تشویش تھی کیونکہ ریڈ کلف ابھی پریکٹس کر رہے تھے اور عملی سیاست میں حصہ بھی لے رہے تھے.اس طرح ان پر کئی طرح کے اثر ڈالے جانے کا امکان تھا.وقت نے ثابت کیا کہ یہ تشویش بے جانہیں تھی.ایک گہری سازش کا تانا بانا بنا جا رہا تھا.اس سازش کا خمیازہ یہ خطہ آج تک بھگت رہا ہے.باؤنڈری کمیشن کے لئے تیاری: متحدہ پنجاب کے ۲۹ اضلاع تھے.جن میں سے ۷ ا میں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے زائد تھی.۱۲ اضلاع میں ہندو اور سکھ آبادی ملا کر پچاس فیصد سے زائد تھی.حکومت نے پندرہ اضلاع کو متنازع قرار دے دیا.ان میں بعض مسلم اکثریت کے اضلاع بھی شامل تھے.گورداسپور ضلع میں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے زائد تھی.اس کی چار میں سے تین تحصیلوں میں مسلمان اکثریت میں تھے.صرف پٹھانکوٹ کی اکثریت ہندو تھی.لیکن اس ضلع کو بھی متنازع اضلاع میں شامل کر دیا گیا.چونکہ قادیان ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ میں واقع تھا.اب یہ مسئلہ جماعتی طور پر نہایت اہم ہو چکا تھا.

Page 171

161 حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بعض ریاستوں کی نمائندگی کرنے کے لئے لندن گئے ہوئے تھے اور قائد اعظم اور چوہدری صاحب دونوں کا خیال تھا کہ باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش کرنے کے لئے پنجاب مسلم لیگ اور لاہور کے وکلاء کیس تیار کر رہے ہوں گے اور چوہدری صاحب کو یہ کیس صرف پیش کرنا ہو گا.جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس اہم قومی معاملے میں خوفناک غفلت برتی جارہی تھی.نہ تو پنجاب مسلم لیگ نے اس کمیشن میں پیش ہونے کے لئے تیاری کی تھی اور نہ ہی کسی وکیل سے اس کیس کی کوئی تیاری کروائی گئی تھی.صرف حضرت مصلح موعود کی خداداد فراست ہی صورت حال کا صحیح تجزیہ کر رہی تھی.اور قادیان میں آنے والی آزمائش کے لئے بھر پور تیاریاں کی جارہی تھیں تفصیلی اعداد و شمار جمع ہو رہے تھے.جماعتی دفاتر کے کارکنان، مختلف رضا کار اور تعلیم الاسلام کالج اور تعلیم الاسلام سکول کے اساتذہ دن رات مختلف جگہوں کا سفر کر کے یہ اعدادوشمار جمع کر رہے تھے.حضور کے ساتھ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور دیگر بزرگان دن رات اس اہم ملی کام میں مصروف تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے تعلیم الاسلام کالج کے اساتذہ اور طلباء کو اس کام پر لگا دیا تھا.وہ سرکاری دفاتر سے اعداد و شمار جمع کر کے لاتے اور مختلف دیہات ،قصبات ،تحصیلوں اور ضلعوں کی مسلم اور غیر مسلم آبادی نوٹ کرتے.قادیان میں کچھ راتیں ایسی بھی آئیں کہ کارکنان تمام رات جاگ کر کام کرتے رہے.باؤنڈری کمیشن میں لازماً بہت سے اہم قانونی نکات اٹھنے تھے.بہت سا متعلقہ قانونی لٹریچر ہندوستان میں دستیاب ہی نہیں تھا.حضور نے اس بات کا انتظام فرمایا کہ بیرونی ممالک سے یہ لٹریچر منگوایا جائے.اس تنازعہ میں بہت سے جغرافیائی امور پیش ہونے تھے اور پاکستان اور ہندوستان کے دفاع سے متعلقہ امور پر بحث بھی ہونی تھی.اس کی تیاری کے لئے حضور نے انگلستان سے ایک چوٹی کے ماہر جغرافیہ دان پروفیسر آسکرسپیٹ (Oskar Spate) کو بلوایا تا کہ وہ اس کیس کی تیاری میں ماہرانہ مدد دیں.پروفیسر سپیٹ اس وقت لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ تھے.لیکن ان کی پیشہ وارانہ زندگی کا بیشتر حصہ جنوبی ایشیا میں بسر ہوا تھا.کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد وہ رنگون یونیورسٹی میں پڑھانے لگے.یہاں پر انہیں جنوبی ایشیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں میں دلچسپی پیدا ہوئی.دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو سپیٹ

Page 172

162 بطور رضا کار بھرتی ہوئے.ایک جاپانی حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد انہیں علاج کے لیئے ہندوستان لایا گیا.صحت یاب ہو کر انہوں نے Interservices Topographical Department میں کام شروع کیا.اس کے بعد پہلے سری لنکا اور پھر ۱۹۴۷ء میں انگلستان چلے گئے.بعد میں انہوں نے ایک جریدے Geographical Journal میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ یہ جماعت احمدیہ کی لیاقت اور ذہانت کی دلیل ہے کہ اس قسم کے تنازع میں جغرافیہ دان کی ماہرانہ مدد لینے کا خیال سوائے جماعت احمدیہ کے کسی اور کو نہیں آیا تھا.(۴۲-۴۴) باؤنڈری کمیشن کی کاروائی شروع ہوتی ہے: بہر حال ۱۵ جولائی ۱۹۴۷ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کام ختم کر کے اپنے اندازے سے ایک دن قبل لاہور پہنچ گئے (۴۵) سٹیشن پر پنجاب مسلم لیگ کے صدر نواب افتخار حسین صاحب ممدوٹ اور دوسرے احباب استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے.ان کی زبانی معلوم ہوا کہ ریڈ کلف لاہور پہنچ چکے ہیں اور کل گیارہ بجے فریقین کے وکلاء کو میٹنگ کے لیے بلایا ہے.نواب صاحب ممدوٹ نے چوہدری صاحب سے کہا کہ کل ڈھائی بجے دوپہر ان کی میٹنگ لاہور کے وکلاء سے کرائی جائے گی.اس سے چوہدری صاحب کو مزید اطمینان ہو گیا کہ وکلاء کیس کی تیاری کر چکے ہیں.ان کے ساتھ بیٹھ کر اب صرف یہ طے کرنا ہو گا کہ کیس کو پیش کس طرح کیا جائے.اگلے روز منگل کا دن تھا.ریڈ کلف کی میٹنگ وکلاء سے ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ جمعہ کے روز دو پہر تک فریقین کو اپنے تحریری بیانات داخل کرنے ہوں گے.سوموار سے کمیشن وکلاء کی بحث کی سماعت شروع کرے گا.ریڈکلف نے یہ عجیب انکشاف بھی کیا کہ وہ خود اس سماعت میں شریک نہیں ہوں گے بلکہ کمیشن کی کاروائی کی رپورٹ انہیں روزانہ بھیج دی جائے گی.اتنے اہم مقدمہ میں صدرِ عدالت کا غیر حاضر رہنا یقیناً ایک عجیب بات تھی اور یہ امر بھی چوہدری صاحب کی پریشانی میں اضافہ کرنے کا باعث بنا.بہر حال اب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب پنجاب مسلم لیگ سے ہونے والی میٹنگ کا انتظار کر رہے تھے.اللہ اللہ کر کے اس میٹنگ کا وقت ہوا.پھر کیا ہوا.اس کے متعلق حضرت چوہدری صاحب تحدیث نعمت میں تحریر فرماتے ہیں.

Page 173

163 میں وقتِ مقررہ پر ممدوٹ ولا پہنچ گیا وہاں بہت سے وکلاء اصحاب موجود تھے....مجھے کسی قدر حیرت ہوئی کہ اتنے قانون دان اصحاب کو کیوں جمع کیا گیا ہے.میں نے وکلاء صاحبان سے دریافت کیا کہ آپ میں سے کون کون صاحب اس کیس میں میرے رفیق کار ہیں؟ اس پر ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب نے فرمایا کہ کس کیس میں؟ میں نے کہا اسی حد بندی کے کیس میں جس کیلئے میں حاضر ہوا ہوں ! خلیفہ شجاع الدین صاحب نے فرمایا کہ ہمیں تو کسی کیس کا کوئی علم نہیں.ہم سے تو صرف یہ کہا گیا تھا کہ تم کیس کی پیروی کیلئے آئے ہو اور اس کمیشن کے رو بر مسلم لیگ کا کیس تم پیش کرو گے اور تمہیں ملنے کیلئے ہمیں اس وقت یہاں آنے کی دعوت دیگئی تھی.میں نے نواب صاحب کی طرف استفساراً دیکھا تو وہ صرف مسکرا دیئے.میں نہایت سراسیمگی کی حالت میں اٹھ کھڑا ہوا وکلاء صاحبان سے معذرت خواہ ہوا کہ وقت بہت کم ہے اور مجھے کیس کی تیاری کرنی ہے.اسلئے رخصت چاہتا ہوں.“ اس مرحلے پر بحث مباحثہ یا الزام تراشی بے کار تھی.قائد اعظم اس وقت دہلی میں تھے.ان سے فون پر رابطہ کرنا مناسب نہ تھا اور یہ ذمہ داری پنجاب مسلم لیگ کی تھی.اس مرحلے پر ان کی کوتاہی کی شکایت محض قائد اعظم کی پریشانی میں اضافہ ہی کر سکتی تھی.چوہدری صاحب نے نواب صاحب ممدوٹ سے صرف یہ عرض کی کہ دو تیز سٹینو گرافر بمع دفتری سامان کے ان کی طرف بھیجوا دیں.نواب صاحب نے وعدہ کیا کہ صبح سات بجے یہ سامان پہنچا دیا جائے گا.کمیشن کی کاروائی شروع ہوئی اور ختم بھی ہوگئی مگر نواب صاحب کے سٹینو گرافر نہ پہنچے.پنجاب مسلم لیگ کی مستعدی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۸ جولائی کو سب فریقوں نے میمورنڈم بھجوانے تھے اور ۱۷ جولائی کے نوائے وقت میں پنجاب کے ایک مبر اسمبلی کی طرف سے اپیل شائع کی گئی کہ ، گو کمیشن کے روبرو پیش کرنے کے لئے اعداد و شمار اکھٹے کرنے کا کام پنجاب مسلم لیگ کا تھا لیکن وہ دیگر مصروفیات کی وجہ سے یہ کام نہیں کر سکے اس لئے مسلمانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے علاقوں کے اعداد و شمار بھجوائیں.یہ بات قابل توجہ ہے کہ اُس وقت کانگرس لاہور.لائل پور اور منٹگمری کے اضلاع پر بھی دعوی کر رہی تھی ، پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا، اس سے زیادہ اہم کام کیا ہوسکتا تھا

Page 174

164 اور اگر ایک روز پہلے اعدادو شمار کے جمع کرنے کی اپیل کی جارہی تھی تو ان اعداد وشمار نے کب اکھٹا ہونا تھا اور کب اس کا تجزیہ ہوکر دلائل تیار کئے جانے تھے.اس کے برعکس حضرت مصلح موعودؓ کی دور اندیشی ہر کام کے لئے وقت پر تیاری کرا رہی تھی.جماعت احمد یہ ان ضروری اعداد و شمار کو جمع کرنے کا کام کب کا مکمل کر چکی تھی.اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مئی ۱۹۴۷ء کے آغاز ہی میں یہ کام کافی حد تک ہو چکا تھا اور ے مئی کے الفضل میں یہ اعلان شائع ہوا تھا کہ مردم شماری کی ایک جلد دستیاب نہیں ، جس احمدی کو یہ جلد ملے اسے فوراً قادیان پہنچا دے.اس نازک صورت حال میں چوہدری صاحب نے وہی کیا جو ایسے مرحلے پر ایک احمدی کر سکتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے کہ میں بے یار و مددگار ہوں تو اپنی قدرت اور فضل ورحم سے میری مددفرما.نماز سے فارغ ہوئے تھے تو اطلاع ملی کہ کمشنر راولپنڈی خواجہ عبد الرحیم ملنے کو آئے ہیں.خواجہ صاحب کہنے لگے کہ میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا.میں یہ کچھ کا غذات لایا ہوں.میں نے اپنے طور پر سرکاری ریکارڈ سے پنجاب کے دیہات، تھانہ جات تحصیل اور اضلاع کے فرقہ وارانہ اعداد و شمار جمع کرائے ہیں.یہ سارے صوبے کی آبادی کے نقشہ جات ہیں.ممکن ہے تمہیں کیس کی تیاری میں ان سے کچھ مددمل سکے.اس کے علاوہ کوئی مدد درکار ہو تو میں حاضر ہوں.چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ میرا دل اللہ تعالیٰ کے شکر سے بھر گیا.خواجہ صاحب کے جاتے ہی چار مسلمان وکلاء آئے اور کہا کہ ہم اس کیس میں تمہارے ساتھ شریک ہونا چاہتے ہیں.اوران بے لوث خادمانِ قوم نے دن رات چوہدری صاحب کے ساتھ کام کیا.حضرت خلیفۃ اسح الثانی ان دنوں لاہور میں ہی تشریف فرما تھے.بدھ کے روز حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد آئے اور چوہدری صاحب سے کہا کہ حضرت صاحب نے یہ دریافت کرنے کے لئے مجھے بھیجا ہے کہ حضور کس وقت تشریف لا کر آپ کو تقسیم کے متعلق بعض پہلوؤں کے متعلق معلومات بہم پہنچا دیں.چوہدری صاحب نے کہا کہ جس وقت حضور کا ارشاد ہو خاکسار حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا.درد صاحب نے کہا کہ حضور کا ارشاد ہے کہ تم نہایت اہم قومی فرض کی سرانجام دہی میں مصروف ہو تمہارا وقت بہت قیمتی ہے تم اپنے کام میں لگے رہو ہم وہیں آئیں گے.چنانچہ حضور خود چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے ملنے آئے اور بٹوارے کے اصولوں کے متعلق بعض نہایت مفید

Page 175

165 حوالے چوہدری صاحب کو عطا فرمائے اور فرمایا کہ اصل کتب انگلستان سے منگوائی گئی ہیں ، اگر وہ بر وقت پہنچ گئیں تو وہ بھی بھجوا دی جائیں گی.نیز ارشاد فرمایا کہ جماعت نے اپنے خرچ پر پروفیسر سپیٹ کی خدمات حاصل کی ہیں.وہ لاہور پہنچ چکے ہیں اور نقشہ جات تیار کرنے میں مصروف ہیں یتم تحریری بیان تیار کرنے کے بعد ان سے مشورے کے لئے وقت نکال لینا.وہ آکر تمہیں بعض پہلو سمجھا دیں گے.چنانچہ متعلقہ کتب انگلستان سے قادیان پہنچیں اور وہاں سے انہیں بذریعہ موٹر سائیکل لاہور لایا گیا اور ان سے دور ان بحث بہت مدد ملی.پروفیسر سپیٹ نے چوہدری صاحب سے مل کر انہیں دفاعی پہلو کے متعلق نکات سمجھا دئیے.چنانچہ جب کانگرس کے وکیل مسٹر ستیلو اڈ کی طرف سے دفاعی پہلوؤں کو بنیاد بنا کر دریائے جہلم تک کے علاقے کو ہندوستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تو حضرت چوہدری صاحب نے پروفیسر سپیٹ کے بنائے ہوئے نقشے اور بیان کردہ نکات کمیشن کے رو برو پیش کئے.کانگرس کے وکیل کی طرف سے ان کا کوئی معقول جواب نہ دیا گیا.ان واقعات پر سرسری نظر ڈالنے والا یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ پنجاب مسلم لیگ کا ایک طبقہ احمدیوں پر کفر کے فتوے لگانے اور ان پر مسلم لیگ کے دروازے بند کرنے کے لئے تو بہت زور لگا تا رہا تھا لیکن جب قوم پر اتنی بڑی آزمائش کا وقت آیا تو ان میں سے کوئی بھی خدمت کے لئے سامنے نہ آیا.اور اس وقت خدمت کے لئے اگر کوئی جماعت پیش پیش تھی تو وہ جماعت احمد یہ تھی.قوم پر آئے ہوئے بحران کا سامنا صرف جلسے جلوسوں اور اخباری بیانات سے نہیں کیا جاتا ، اس کے لئے بہت سی ٹھوس خدمات کرنی پڑتی ہیں.کا روائی محض ڈھونگ ثابت ہوئی: حضور کے تشریف لے جانے کے بعد کمیشن میں مسلم لیگ کے نامزد کردہ حج جسٹس دین محمد صاحب آئے.وہ بہت پریشان تھے.اور کہنے لگے تم اپنی طرف سے تحریری بیان تیار کرو اور جیسے بن پڑے بحث بھی کرنا لیکن میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ یہ سب کا روائی محض کھیل ہے.حد بندی کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اسی کے مطابق حد بندی ہوگی.پھر انہوں نے وضاحت کی کہ ریڈ کلف نے جہاز پر علاقے کا معائینہ کرنے جانا تھا.صبح سات بجے والٹن ایئر پورٹ سے فلائیٹ تھی مگر گرد کی وجہ سے

Page 176

166 ممکن نہ ہوا.پائیلٹ کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں ایک نقشہ بھی تھا اور اس پر ایک لائن بھی تھی ہوئی تھی جس پر جہاز نے پرواز کرنی تھی.ریڈ کلف ابھی ہندوستان میں آیا ہی ہے اور ابھی فریقین کا مؤقف بھی اس کے سامنے پیش نہیں ہوا.ایسی صورت میں ایک مخصوص لائن پر پرواز کرنے اور اس کے نقشے پر حد بندی کی لائن کھینچنے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حد بندی کے متعلق انہیں بریف کیا جا چکا ہے اور حد بندی کی لائن بھی ان کو دی جا چکی ہے جس کے متعلق انہیں فیصلہ کرنا ہے.اور اس طے شدہ فیصلے میں مسلم اکثریت کے بعض علاقے ہندوستان کے حوالے کر دئے جائیں گے اور ضلع گورداسپور اور تحصیل بٹالہ بھی ہندوستان کو دے دیئے جائیں گے.چوہدری صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد جسٹس دین محمد صاحب دہلی قائد اعظم کے پاس گئے اور ان کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ اس صورتِ حال میں بہتر ہوگا کہ وہ اور جسٹس منیر استعفیٰ دے دیں کیونکہ غیر جانبدار امپائر طے شدہ فیصلہ ہی کرے گا.لیکن اس صورتِ حال میں قائد اعظم نے یہ تجویز منظور نہیں کی اور کہا کہ اپنی پوری کوشش کرو.سب ٹھیک ہو جائے گا.(۴۶) یہ صرف جسٹس دین محمد صاحب کا وہم ہی نہیں تھا.جلد ہی یہ خبر پھیلنی شروع ہوگئی کہ باؤنڈری کمیشن صرف ڈھونگ ہے.بہت سے مسلم اکثریت کے علاقے ہندوستان کو دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے.چنانچہ 19 جولائی ۱۹۴۷ء کو نوائے وقت میں شائع ہونے والی اس خبر نے مسلمانوں میں تشویش کی ایک لہر دوڑا دی ’ پنجاب حد بندی کمیشن کی تمام کاروائی ایک فراڈ ثابت ہوگی“ کمیشن کے چیئر مین نے دوسرے عوامل کی خود بھی تشریح نہیں کی لاہور ۱۸ جولائی.پنجاب حد بندی کمیشن کے چیئر مین سرسیرل ریڈ کلف کے درودِ لاہور کے بعد باخبر سیاسی اور سرکاری حلقوں کی رائے یہ ہے کہ اس صوبائی کمیشن کی تمام کاروائی محض ایک مذاق ثابت ہوگی کمیشن کے نہایت ہی اہم فرائض کے باوجود کمیشن کی کاروائی سے اس کے چیئر مین کی مسلسل علیحدگی کمیشن کے حق میں فال بد دکھائی دیتی ہے...اور ۱۳ اگست کو سرکاری طور پر اس ایوارڈ کا اعلان کر دیا جائے گا.سب سے حیران کن

Page 177

167 امر یہ ہے کہ ارکان کمیشن کو غیر مبہم الفاظ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ تقسیم پنجاب کے سلسلہ میں انہوں نے کون کون سے اصول پیشِ نظر رکھنے ہیں.اس طرح جہاں ارکان کمیشن کے لئے کئی مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں وہاں مختلف پارٹیاں' دوسرے عوامل کی مختلف تاویلات پیش کریں گی اور کمیشن کی تمام کاروائی ایک مذاق بن جائے گی.یوں معلوم ہوتا ہے کہ دیدہ دانستہ ایسی صورتِ حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں ارکانِ کمیشن متنازعہ فیہ علاقوں کے بارے میں باہمی مفاہمت سے کچھ طے نہ کرسکیں.اور ایوارڈ کا ٹھونسنا ناگزیر ہو جائے.“ یہ خبر پھیلنے کی دیر تھی کہ حکومت کی مشینری تیزی سے حرکت میں آگئی.۱۹ جولائی کو حکومتِ پنجاب نے اخبارات کے نام یہ حکم جاری کیا کہ وہ حد بندی کے کمیشن کی کاروائی کے متعلق کوئی خبر کوئی تبصرہ کوئی مضمون اور کوئی تصویر سوائے سرکاری اعلان کے،حکومت پنجاب سے سینسر کرائے بغیر شائع نہ کریں.(۴۷) اب صورت حال واضح ہوتی جارہی تھی.تعصب اور جانبداری کی دیوی کے چرنوں پر انصاف کی قربانی دی جارہی تھی.کمیشن میں بحث شروع ہوتی ہے، جماعت کا اصولی موقف: جمعہ کے روز تحریری بیانات جمع ہوئے.اور سوموار کو کمیشن کے سامنے بحث شروع ہوئی.کانگرس کی طرف سے یہ مؤقف پیش کیا گیا کہ ایک علاقے کے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے صرف یہ نہیں دیکھنا چاہئیے کہ اس علاقے کی اکثریت کس ملک کے ساتھ شامل ہونا چاہتی ہے بلکہ حکومت کے اعلان میں مذکور دیگر عوامل کو مد نظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے.اور کانگرس کے پیش کردہ بعض اہم امور یہ تھے.لائکپور منٹگمری اور شیخو پورہ کے اضلاع میں سکھ کافی تعداد میں ہیں اس لئے ان اضلاع کو ہندوستان میں شامل کرنا چاہئیے تا کہ سکھ قوم کی وحدت برقرار رہ سکے.حقیقت یہ تھی کہ ان تینوں اضلاع میں مسلمان ساٹھ فیصد سے زائد تھے اور پاکستان کے حق میں واضح رائے دے چکے تھے.گویا ان کا مطالبہ یہ تھا کہ اکثریت کے فیصلے کو نظر انداز کر دینا چاہئیے اور صرف سکھ قوم کی وحدت کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئیے.پھر ان کی طرف سے یہ درخواست پیش کی گئی کہ چونکہ شیخو پورہ ، گورداسپور اور لاہور

Page 178

168 کے اضلاع میں سکھوں کے مقدس مقامات ہیں اس لئے اگر ان اضلاع کو ہندوستان میں شامل نہ کیا گیا تو یہ بہت بڑی نا انصافی ہوگی.اول تو یہ تینوں اضلاع مسلم اکثریت رکھتے تھے.دوسرے یہ کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا تھا کہ گورداسپور میں قادیان ہے جو احمد یوں کا مقدس مقام ہے اور احمدی پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے اور اس طرح تو دہلی میں بہت سے مسلمان بزرگوں کے مزار ہیں.اس کلیے کی رو سے تو دہلی پاکستان کو ملنا چاہیے تھا.لاہور میں ساٹھ فیصد آبادی مسلمان تھی.لیکن لا ہور کے متعلق کانگرس کی طرف سے یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ اگر چہ اکثر آبادی تو مسلمان ہے لیکن یہ بات پیش نظر رکھ کر لاہور کی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہئیے کہ غیر مسلم لاہور کی ۶۷ فیصد زمین کے مالک ہیں ، اور مسلم آبادی غیر مسلموں کی نسبت نصف ٹیکس دیتی ہے.نہ صرف لا ہور بلکہ لائلپور اور منٹگمری کی اکثر فیکٹریوں کے مالک غیر مسلم ہیں اور لاہور کے اکثر بینک غیر مسلم چلا رہے ہیں اور مسلمانوں کا ادا کردہ سیلز ٹیکس غیر مسلموں سے بہت کم بنتا ہے.گویا کانگرس کے دلائل کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ نہیں دیکھنا چاہئیے کہ متنازع اضلاع کی اکثریت کسی مک کے ساتھ ملنا چاہتی ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہئیے کہ زیادہ زمینیں کس کی ملکیت ہیں، بینک کون چلا رہا ہے، زیادہ مالدار کون ہے.عدالتی کاروائی میں مسلم لیگ کی قیادت کے کہنے پر مسلم لیگ کے وقت میں ، جماعت کا میمورنڈم بھی کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا.جماعت احمدیہ کا اصولی موقف تھا کہ ایک علاقے کو اسی ملک میں شامل کرنا چاہئیے جس ملک میں اس علاقے کی اکثریت شامل ہونا چاہتی ہے.اگر ایک علاقے کو اس کی اکثریت کی مرضی کے خلاف دوسرے ملک میں صرف اس لئے دھکیل دیا جائے ، کہ اس علاقے میں بسنے والی اقلیت کے پاس زیادہ جائیدادیں ہیں، اموال زیادہ ہیں، وہ زیادہ ٹیکس دینے کی اہلیت رکھتے ہیں اور زیادہ کالجوں کے مالک ہیں تو یہ اس دور میں غلاموں کی تجارت کی بدترین مثال ہو گی.اموال اور جائیدادوں کا حساب تو پیش کیا گیا ہے لیکن یہ بتایا جائے کہ اگر کانگرس کا مؤقف مان لیا جائے تو کتنے مسلمان اس بناء پر آزادی کے بنیادی حق سے محروم کر دیئے جائیں گے.ان بنیادوں پر تقسیم عقل اور ضمیر کے تقاضوں کے خلاف ہوگی.اور یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ہند و تجارت اور اموال کی دوڑ میں آخر کس طرح آگے نکلے.چونکہ انگریزوں کے آنے سے قبل مسلمان ہندوستان پر حکومت کر رہے تھے.اس لئے لارڈ کرزن سے قبل حکومت کی پالیسی

Page 179

169 یہی رہی کہ ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو مسلمانوں پر ترجیح دی جائے.اس ظلم کی وجہ سے مسلمان اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے.ایک تو پہلے یہ ظلم کیا گیا اور اب اس کو بنیاد بنا کر یہ دوسرا ظلم کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو اس لیئے اپنے حق سے محروم کر دو کیونکہ وہ جائیدادوں اور اموال اور تجارتوں میں دوسری اقوام سے پیچھے ہیں.اس میمورنڈم میں اس امر کی نشاندہی بھی کی گئی کہ کانگرس اس مفروضے پر چل کر اپنا کیس پیش کر رہی ہے کہ ہر جگہ عیسائی ہندوستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں.جب کہ حقیقت یہ ہے کہ گورداسپور کے عیسائی لیڈر ایس پی سنگھا نے پاکستان میں شامل ہونے کی حمایت کی ہے.اور اس کے بعد سنٹرل کر کیچن ایسوسی ایشن نے اُن پر اظہار اعتماد بھی کیا ہے.اس طرح اس ضلع میں پاکستان کے حامیوں کی تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے.قادیان کی پوزیشن اور اس کے متعلق جماعتی مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا گیا کہ قادیان گورداسپور کے ضلع میں ہے اور اس ضلع میں مسلمان اکثریت میں ہیں.قادیان کی تحصیل بٹالہ ہے اور اس تحصیل میں بھی مسلمان اکثریت میں ہیں.قادیان کی ذیل، قانون گو حلقہ اور تھانہ میں بھی مسلمان اکثریت میں ہیں اور خود قادیان کی بستی میں اکثریت مسلمانوں کی ہے.اور یہ سب یونٹ مغربی پنجاب سے متصل ہیں.اور ان کی حیثیت مشرقی پنجاب کے اندر ایک کٹے ہوئے جزیرے کی نہیں ہے.یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ وائسرائے نے ایک پریس کا نفرنس میں ضلع گورداسپور میں مختلف مذاہب سے وابستہ آبادی کا جو تناسب بیان کیا تھا وہ پوری طرح صحیح نہیں تھا.چونکہ کانگرس کی طرف سے سکھوں کے مقدس مقامات کا سوال بڑے زور سے پیش کیا گیا تھا ،اس لیئے جماعت احمدیہ کا بھی حق تھا کہ اپنے مقدس مقامات کا سوال اٹھائے.پھر اس میمورنڈم میں جماعت احمدیہ کا مختصر تعارف پیش کیا گیا اور واضح کیا گیا کہ عالمگیر جماعت احمدیہ کی نظروں میں قادیان کا ایک مقدس مقام ہے.اور جماعت احمدیہ کی ۷۴ فیصد جماعتیں مغربی پنجاب میں ہیں.اور اگر سکھوں کا یہ حق پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک ملک میں ہوں تو ہماری جماعتوں کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے مرکز سے وابستہ رہیں.حکومتی اعلان میں مذکور دیگر عوامل (Other Factors) کے متعلق جماعت نے اس

Page 180

170 مؤقف کو پیش کیا کہ ان کو حد بندی میں خفیف ردو بدل کے لیئے ہی زیر غور لانا چاہئیے.اصل بنیاد یہ ہونی چاہئیے کہ ایک علاقے میں اکثریت کسی گروہ کی ہے.اگر دیگر عوامل کو ہی بنیاد بنایا گیا تو بہت سے ہندو اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہونے چاہئیں.جیسا کہ پٹھانکوٹ کی تحصیل میں ہندو اکثریت میں ہیں مگر دریاؤں کی کیفیت کی وجہ سے اسے مغربی پنجاب میں شامل کرنا چاہئیے.۲۵ اور ۲۶ جولائی کو مکرم شیخ بشیر احمد صاحب جماعت کا مؤقف پیش کرنے کے لئے باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور خصوصیت کے ساتھ قادیان کے مقدس مقامات کی اہمیت کو واضح کیا.نقشہ کے ذریعہ واضح کیا کہ قادیان اور ارد گرد کا علاقہ مسلمان اکثریت کے علاقے سے متصل ہے.قادیان ایک عالمگیر جماعت کا مرکز ہے اور دنیا بھر سے طالب علم یہاں پر دینی علوم سیکھنے کے لئے آتے ہیں.اس مقام سے احمدیوں کی والہانہ وابستگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس بڑی تعداد میں احمدی جلسہ کے موقع پر یہاں آتے ہیں اتنا بڑا مجمع ہندستان کے کسی اور مذہبی مقام پر جمع نہیں ہوتا.دور دور سے لوگ یہاں آکر مستقل طور پر آباد ہو جاتے ہیں.جب کہ سکھوں کے جن مقامات کا حوالہ کانگرس کے بیان میں دیا گیا ہے ان میں آباد سکھوں کی تعداد قادیان میں موجود احمدیوں کی تعداد سے کم ہے.مجلس احرار کانگرس کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے تھی اور احمدیوں پر کفر کے فتوے لگانے میں پیش پیش تھی.مسلم لیگ کے حامیوں میں پھوٹ ڈلوانے کے لئے یہ فتوے بہت مفید نسخہ تھے.گورداسپور کے ضلعے میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن احمدیوں کو نکالنے سے یہ اکثریت اقلیت میں بھی بدل سکتی تھی.چنانچہ اس کا روائی کے دوران مسلم لیگ کے کیس کو کمزور کرنے کے لئے یہ ہتھیار کانگرس کے نامزد حج تیجا سنگھ صاحب نے استعمال کیا اور شیخ بشیر صاحب سے سوال کیا کہ احمدیت کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟ اس کے جواب شیخ صاحب نے صاف جواب دیا کہ احمدی ہر لحاظ سے مسلمانوں میں شامل ہوتے ہیں.یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس نازک موڑ پر مسلم لیگ احمدیوں کو مسلم آبادی میں شامل کر رہی تھی اور اس وجہ سے ہی کم از کم گورداسپور کے بارے میں کیس مضبوط بنایا گیا تھا.

Page 181

171 ایک مرحلے پر کانگرس کے وکیلوں نے یہ مسئلہ اٹھا دیا کہ اگر چہ گورداسپور میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے لیکن بالغ آبادی میں ہندوؤں کی تعداد زیادہ ہے.چونکہ ووٹ کا حق بالغ آبادی کو ہوتا ہے اس لئے اس ضلع کا الحاق ہندوستان کے ساتھ ہونا چاہئیے.یہ امر احمدیوں کے لئے بہت پریشان کن تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو خیال آیا کہ اگر ۱۹۳۵ء کی مردم شماری کی رپورٹ اور ایک کیلکولیٹنگ مشین مل جائے تو یہ حساب لگایا جاسکتا ہے.حضور کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی گئی تو حضور نے مطلوبہ انتظام فرما دیا.رات بھر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے ہزاروں مرتبہ ضر ہیں اور تقسیمیں دے کر حساب تیار کر لیا اور معلوم ہوا کہ بالغ آبادی میں بھی مسلمان اکثریت میں ہیں.اگلے روز حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کانگرس کی دلیل کے رد میں صحیح حساب پیش کیا تو ہندو بہت گھبرائے کیونکہ وہ اپنے آپ کو حساب کا ماہر سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا.(۴۸) یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس دن احمدیوں کے وکیل محترم شیخ بشیر احمد صاحب نے کمیشن کے رو برو دلائل پیش کرنے شروع کئے ، اسی دن قادیان کے نواح میں سکھوں کے مسلح جتھے نے حملے شروع کر دیئے.۲۵ جولائی کی رات کو جب ٹرین بٹالہ سے قادیان آرہی تھی تو وڈالہ گرنتھیاں ریلوے سٹیشن کے قریب چھپیں تھیں سکھوں نے گاڑی روک کر اس پر حملہ کر دیا.ڈرائیور سمیت پانچ اشخاص زخمی ہو گئے.لیکن فائر مین نے ہوشیاری سے گاڑی چلا دی اور مزید نقصان نہیں چھ ہوا.(۴۹) کمیشن کی کاروائی جاری رہی.کانگرس اور مسلم لیگ نے اپنا اپنا موقف پیش کیا.مسلم لیگ کی طرف سے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اور کانگرس کی جانب سے مسٹر موتی لعل ستیلو اڈ نے بحث کی مختلف وکلاء مسٹر ستیلواڈ کی اعانت کر رہے تھے جن میں بخشی ٹیک چند صاحب زیادہ نمایاں تھے.بحث ختم ہونے کے بعد مسٹر ستیلو اڈ کو شیخ عبدالحق صاحب نے کھانے پر مدعو کیا تھا.اس دعوت میں ستیلو اڈ صاحب کہنے لگے کہ اگر پیش کردہ دلائل پر فیصلہ ہوا تو تم لوگ بازی لے جاؤ گے (۵۰).باوجود تمام نا مساعد حالات کے چوہدری صاحب نے جس عمدہ طریق پر بحث کی اور مضبوط دلائل پیش فرمائے وہ اپنی مثال آپ ہے.خواہ اپنے ہوں یا پرائے سب نے اس کو خراج

Page 182

172 تحسین پیش کیا.جب ۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران بعض فتنہ پروروں نے باؤنڈری کمیشن کے حوالے سے چوہدری صاحب پر اعتراضات کئے تو جسٹس منیر نے ، جو باؤنڈری کمیشن کے رکن تھے اور ۱۹۵۳ء میں ہونے والے فسادت پر قائم ہونے والی تحقیقاتی عدالت کے رکن بھی تھے ،لکھا کہ عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا.اس بہادرانہ جد و جہد پر تشکر وامتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خان نے گورداسپور کے معاملے میں کی تھی.یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلہ سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خان نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں.ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالتی تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ قابلِ شرم ناشکرے پن کا ثبوت ہے.بحث ختم ہونے کے بعد کمیشن کے اراکین لاہور سے شملہ چلے گئے.۷ اگست کو کمیشن کا کام ختم ہو گیا.ریڈ کلف وائسرائے کو رپورٹ دینے کے لئے دہلی چلے گئے.انہوں نے روانہ ہونے سے قبل کمیشن کے اراکین کو استفسار کے باوجود یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کا حتمی فیصلہ کیا ہوگا.چوہدری صاحب ابھی لاہور میں تھے کہ انہیں قائد اعظم کی طرف سے پیغام ملا کہ انہیں دہلی میں مل کر واپس بھوپال جائیں.چوہدری صاحب جب شام کے کھانے پر قائد اعظم سے ملے تو قائد اعظم نے ان سے معانقہ کیا اور کہا کہ میں تم سے بہت خوش ہوں اور تمہارا نہایت ممنون ہوں کہ تمہارے سپر د جو کام ہوا تھا تم نے اسے اعلیٰ قابلیت اور احسن طریق پر کیا ہے.پھر چوہدری صاحب نے قائد اعظم کو کاروائی کی تفصیلات سے آگاہ کیا.(۵۰) تشویشناک اطلاعات: 9 اگست کو چوہدری محمد علی صاحب ، جو بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے ایک مالی مسئلے پر قائد اعظم سے ملنے کے لئے دہلی سے کراچی آئے.لیاقت علی خان صاحب نے چوہدری محمد علی صاحب کو کہا کہ قائد اعظم کو باؤنڈری کمیشن کے فیصلے کے بارے میں اور خاص طور پر ضلع گورداسپور کی بابت بہت تشویشناک اطلاعات مل رہی ہیں.اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جالند ہر اور امرتسر کے

Page 183

173 اضلاع کے مسلم اکثریت کے علاقے بھی ہندوستان کو دینے کی تیاری ہورہی ہے.انہیں ہدایت دی گئی کہ دہلی جا کر لارڈ اسے (Ismay) سے ملیں اور انہیں قائد اعظم کا یہ پیغام دیں کہ اگر انصاف سے فیصلہ نہ کیا گیا تو اس سے پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات پر برا اثر پڑے گا.اور یہ برطانیہ کے انصاف اور عزت کا بھی سوال ہے.جب چوہدری محمد علی صاحب لارڈ اسمے سے ملنے ان کے دفتر گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ ریڈ کلف سے میٹنگ کر رہے ہیں.ایک گھنٹے کے بعد میٹنگ ختم ہوئی تو چوہدری محمدعلی صاحب نے انہیں قائد اعظم کا پیغام دیا.لارڈ ا سمے نے کہا کہ انہیں تو یہ علم ہی نہیں کہ ریڈ کلف کیا فیصلہ کریں گے اور جو فیصلہ بھی ہو گا وہ لارڈ ریڈ کلف کا ہو گا.ہم اس پر اثر انداز نہیں ہوں گے.جب چوہدری صاحب انہیں اڑنے والی خبروں کی تفصیلات سمجھانے کے لئے دیوار پر لگے ہوئے نقشے کی طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ نقشے پر ایک جگہ پر لائن لگی ہوئی تھی.جس حد کے مقرر ہونے کی خبریں مل رہی تھیں یہ لائن بہت معمولی فرق سے عین اسی جگہ پر لگی ہوئی تھی.چوہدری محمد علی صاحب نے اس سے کہا کہ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ، آپ کے اپنے نقشے پر عین اسی مقام پر یہ لائن کس طرح نمودار ہوگئی.لارڈ ا سمے کا رنگ زرد ہو گیا.کہنے لگے یہ کون بیوقوف میرے نقشے کو خراب کرتا رہا ہے.(۵۱) اگست کو حضور نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ موجودہ ایام میں ہماری جماعت ایسے خطرات میں سے گذر رہی ہے.کہ اگر تمہیں ان خطرات کا پوری طرح علم ہو اور اگر تمہیں پوری طرح اسکی اہمیت معلوم ہو.تو شاید تم میں سے بہت سے کمزور دلوں کی جان نکل جائے.حضور نے ارشاد فرمایا کہ دعائیں کرو دعائیں کرو اور دعائیں کرو کیونکہ اس سے زیادہ دنیوی طور پر نازک وقت ہماری جماعت پر کبھی نہیں آیا.خدا ہی ہے جو اس گھڑی کو ٹلا دے.ہر ایک کی پشت پر کوئی نہ کوئی سفارش کرنے والا موجود ہے مگر ہماری پشت پر سوائے خدا کے کوئی نہیں.آپ نے عمومی خیالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عقلی طور پر ہماری بات معقول ہے اس لئے ہمیں امید رکھنی چاہئیے کہ ہماری بات مانی جائے گی.لیکن اس دھینگا مشتی کے دور میں عقل کو کون پوچھتا ہے.(۵۲) جو بات بظاہر بہتر نظر آ رہی تھی اس کے لئے دن رات دعائیں کی جا رہی تھیں.لیکن اس کے ساتھ حضور کی راہنمائی میں ، ہر ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیئے تمام ظاہری تدابیر کا سلسلہ بھی جاری

Page 184

174 تھا.خدا کا مقرر کردہ خلیفہ ایک ڈھال کی طرح جماعت کی حفاظت کر رہا تھا.چنانچہ دس اگست ۱۹۴۷ء کو لائیڈ ز بینک (Lioyds Bank) امرتسر میں جماعت کے اکا ؤنٹ سے چار لاکھ اکیس ہزار روپے کی رقم بذریعہ تار کراچی کے لائیڈ ز بینک میں منتقل کر دی گئی اور اس کے ساتھ صدر انجمن احمدیہ کے خزانے کا ایک حصہ لاہور منتقل کر دیا گیا تا کہ وہاں سے کراچی منتقل کر دیا جائے.جب پاکستان میں جماعت کا انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنے ، نیا مرکز بنانے سلسلے کی روز مرہ اخراجات اور مہاجرین کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مالی وسائل کی اشد ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان اقدامات کے تحت منتقل کی گئی رقوم سے یہ سب کام چلائے گئے.(۵۳) سید محمد احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت ایئر فورس میں پائیلٹ تھے اور ان کی تقرری دہلی میں تھی.انہیں رمضان میں ایک رات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا خط ملا کہ جماعت کے جہاز کو لاہور سے لے کر فوراً قادیان پہنچ جائیں.انہوں نے چھٹی کی درخواست بھجوائی اور جواب کا انتظار کئے بغیر لاہور روانہ ہو گئے.چنانچہ یہ جہاز قادیان پہنچ گیا.اردگر دمختلف مقامات پر سکھوں کے جتھے جمع ہورہے تھے تاکہ مسلمانوں کی آبادیوں پر حملہ کیا جائے.اس جہاز کے ذریعہ علاقے کا جائزہ لیا جاتا ، تا کہ معلوم ہو سکے کہ کس طرف سے خطرہ ہے.اس پر خطر دور میں سڑک کے ذریعہ سفر دن بدن زیادہ غیر محفوظ ہوتا جا رہا تھا.لہذا صدرانجمن احمد یہ کے خزانے کی رقوم ،ضروری دستاویزات ،اہم ڈاک اور بسا اوقات سلسلے کے کارکنان کو جہاز پر لاہور لے جایا جاتا.حضور کی بصیرت نے اس خطرناک وقت کے لئے وہ تیاریاں کروائی تھیں جس کا کسی اور شخص کو خیال تک نہیں آسکتا تھا.پھر جماعت نے ایک اور جہاز بھی خرید لیا اور ایک اور احمدی پائیلٹ لطیف صاحب بھی مرکز کی حفاظت کے لئے حاضر ہو گئے.باؤنڈری کمیشن کے فیصلے کا اعلان ، ایک عظیم ابتلاء پہلے اطلاعات تھیں کہ پنجاب کے باؤنڈری کمیشن کا اعلان ۱۲ اگست تک ہو جائے گا لیکن اس اعلان کو مؤخر کر دیا گیا.اسی روز عصر کے بعد حضور کو الہام ہوا أَيْنَمَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا، یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اکٹھا کر کے لے آئے گا.حضور نے فرمایا کہ اس

Page 185

175 الہام میں تبشیر کا پہلو بھی ہے اور انذار کا پہلو بھی تفرقہ تو ایک رنگ میں پہلے ہو گیا ہے یعنی ہماری کچھ جماعتیں پاکستان کی طرف چلی گئی ہیں اور کچھ ہندوستان کی طرف ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کے اکٹھا ہونے کی کوئی صورت پیدا کر دے اگر ہمارا مرکز قادیان ہندوستان کی طرف چلا جاوے تو اکثر جماعتیں ہم سے کٹ جاتی ہیں کیونکہ ہماری اکثر جماعتیں مغربی پنجاب میں ہیں.(۵۴) عارضی تقسیم کے مطابق قادیان پاکستان کا حصہ تھا.اس لئے یوم آزادی کے موقع پر قادیان پر پاکستان کا پرچم لہرایا گیا.بالآخر ۱۷ اگست کو ریڈکلف ایوارڈ کا اعلان ہو گیا.بدترین خدشات صحیح ثابت ہوئے.بہت سے مسلم اکثریت کے علاقے ہندوستان میں شامل کر دیئے گئے اور شکر گڑھ کے علاوہ بٹالہ سمیت گورداسپور کی مسلم اکثریت رکھنے والی تحصیلیں بھی ہندوستان میں شامل کر دی گئیں.یعنی قادیان ہندوستان میں شامل ہو گیا.یہ خبر سن کر احمد یوں پر ایک قیامت گزر گئی.ہر دل غمزدہ تھا اور ہر ذہن میں سینکڑوں خدشات اٹھ رہے تھے.خدا تعالیٰ کے پیاروں کی اس جماعت پر ابتلاؤں کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا.حضور نے نماز مغرب ادا فرمائی اور پھر مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے.آپ نے فرمایا ہم نہیں جانتے آئیندہ کیا نتائج نکلنے والے ہیں اور ہم میں سے کون زندہ رہ کر دیکھے گا اور کون مرجائے گا لیکن فتح بہر حال احمدیت کی ہوگی.پس خدا تعالیٰ کے اس فعل کو اپنے لئے مضر نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کوئی فعل ہمارے لئے مضر نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ہماری ترقیات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور اللہ تعالیٰ مخالف حالات میں ہماری تائید اور نصرت فرما کر یہ بات واضح کر دے گا کہ وہ ہماری جماعت کیساتھ ہے.“ اگلے روز عید الفطر تھی.خوشیوں کا یہ دن ایسے حالات میں آرہا تھا جب ہر طرف سے مصائب کے طوفان امڈ ر ہے تھے.حضور نے خطبہ میں فرمایا وو ” جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے.اور جب سے اللہ تعالیٰ کے رسول دنیا میں آنے شروع ہوئے ہیں.یہ الہی سنت چلی آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے درخت ہمیشہ آندھیوں اور طوفانوں کے اندر ہی ترقی کیا کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی جماعت کا فرض ہوتا ہے.کہ وہ ان آندھیوں اور طوفانوں کو صبر سے برداشت کرے.اور کبھی ہمت نہ

Page 186

176 ہارے.جس کام کے لئے الہی جماعت کھڑی ہوتی ہے.وہ کام خدا تعالیٰ کا ہوتا ہے بندوں کا نہیں ہوتا.پس وہ آندھیاں اور طوفان جو بظاہر اس کام پر چلتے نظر آتے ہیں.در حقیقت وہ بندوں پر چل رہے ہوتے ہیں...جب ہم اپنے توازن کو درست کر لیں گے.اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کر لیں گے.تو وه حوادث خود بخود دور ہوتے چلے جائیں گے.بلکہ وہ حوادث ہمارے لئے رحمت اور برکت کا موجب بن جائیں گے.رسول کریم ہے نے جب مکہ سے ہجرت کی.تو لوگوں نے سمجھا کہ ہم نے ان کے کام کا خاتمہ کر دیا ہے.اور یہ حادثہ محمدیہ اور اس کے ساتھیوں کے لئے زبردست حادثہ ہے.لیکن جس کو لوگ حادثہ سمجھتے تھے.کیا وہ حادثہ ثابت ہوا ایا برکت؟ دنیا جانتی ہے کہ وہ حادثہ ثابت نہ ہوا.بلکہ وہ الہی برکت بن گیا.اور اسلام کی ترقیات کی بنیاد اس پر پڑی.(۵۵) فسادات کی آگ : باؤنڈری کمیشن کا اعلان ہوتے ہی پنجاب بھر میں امن عامہ کی حالت مزید ابتر ہو گئی قتل و غارت ، لوٹ مار ، اغوا اور آتشزدگی کی وارداتیں روز کا معمول بن گئیں.سکھوں کے مسلح جتھوں نے مسلمان دیہات پر حملے شروع کر دیئے.جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی بڑی تعداد مشرقی پنجاب چھوڑ کر مغربی پنجاب جانا شروع ہو گئی.دیکھتے دیکھتے ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں بدلنے لگی.آہستہ آہستہ علاقے میں قادیان مسلمانوں کی آخری جائے پناہ رہ گئی.جو مسلمان مغربی پنجاب نہیں جا سکتے تھے وہ قادیان میں پناہ لینے لگ گئے.۱۹ اگست سے سکھوں کے جتھوں نے قادیان کے سب راستے اور نہروں کے پل بند کرنے کی کوششیں شروع کر دیں.جس سے حالات مزید مخدوش ہو گئے.۲۱ اگست کو قادیان کے مغرب میں واقع احمدی گاؤں ونجواں پر حملہ ہوا اور ۵۰ کے قریب آدمی شہید ہوئے اس طرح گاؤں خالی کرالیا گیا.ہر نئے دن کے ساتھ بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا تھا.(۵۶) بگڑتے ہوئے ان حالات میں ۲۱ اگست کو حضور اقدس نے ناظر صاحب اعلیٰ کی یہ تجویز منظور

Page 187

177 فرمائی کہ محاسب صدر انجمن احمدیہ کی ایک شاخ لاہور میں کھولی جائے تاکہ مغربی پنجاب، سندھ اور سرحد کی جماعتیں لاہور کی شاخ میں اپنا چندہ جمع کراسکیں.طے کیا گیا کہ مرزا عبدالغنی صاحب ایک دو کارکنوں کے ساتھ لاہور چلے جائیں اور ۳ ٹمپل روڈ لاہور پر دفتر قائم کریں.اس طرح یہ صدر انجمن احمدیہ کا پہلا دفتر تھا جو پاکستان میں قائم کیا گیا.(۵۷) ۲۲ اگست کو حضور نے عالمگیر جماعت احمدیہ کے نام پہلا پیغام بھجوایا.یہ پیغام بذریعہ جہاز مکرم شیخ بشیر صاحب کو بھجوایا گیا اور پھر شائع کرا کے پاکستان اور دوسرے ممالک کی جماعتوں کو ارسال کیا گیا.اس میں حضور نے تحریر فرمایا فسادات بڑھ رہے ہیں.قادیان کے گرد و شمن گھیرا ڈال رہا ہے.آج سنا گیا ہے.ایک احمدی گاؤں پوری طرح تباہ کر دیا گیا ہے.اس گاؤں کی آبادی چھ سو سے اوپر تھی.ریل تار ڈاک بند ہے.ہم وقت پر نہ آپ کو اطلاع دے سکتے ہیں اور نہ جو لوگ قادیان سے باہر ہوں اپنے مرکز کے لئے کوئی قربانی کر سکتے ہیں.....آخر میں میں جماعت کو محبت بھرا سلام بھجواتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.اگر ابھی میرے ساتھ مل کر کام کرنے کا وقت ہوتو آپ کو وفاداری سے اور مجھے دیانتداری سے کام کرنے کی توفیق ملے اور اگر ہمارے تعاون کا وقت ختم ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے قدم کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے.سلسلہ کا جھنڈا نیچے نہ ہو.اسلام کی آواز پست نہ ہو.خدا تعالیٰ کا نام ماند نہ پڑے.قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ اور خود عمل کرو اور دوسروں سے عمل کراؤ.زندگیاں وقف کرنے والے ہمیشہ تم میں سے ہوتے رہیں....(۵۸) حکومت مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو تو نہ روک سکی لیکن ۲۲ اگست کو قادیان میں ایک مبلغ سلسلہ چوہدری شریف احمد صاحب کو سیفٹی آرڈینینس کے تحت گرفتار کر لیا گیا.تمام دنیا کے احمدی اپنے پیارے امام اور قادیان کی حفاظت کے لئے پریشان تھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کر رہے تھے.اس وقت عملاً قادیان باقی دنیا سے کٹ چکا تھا.ایک کے بعد دوسرا مسلمان گاؤں خالی ہو رہا تھا.قادیان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا تھا.ان حالات میں حضور نے

Page 188

178 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا.۲۳ اگست کو ۲۴ صحابہ جمع ہوئے اور باہمی مشورے کے بعد حضور سے عرض کی کہ ان حالات میں یہی مناسب ہے کہ حضرت اماں جان اور خاندان حضرت مسیح موعود کی دوسری خواتین کو کسی محفوظ مقام پر پہنچا دیا جائے.اور اس معاملے میں حضور ہدایت جاری فرمائیں ، مزید مشورہ نہ لیا جائے.اس پیغام کے اگلے ہی روز قادیان کے قریب شمال مغرب میں ایک احمدی گاؤں فیض اللہ چک پر ہزاروں سکھوں نے حملہ کر دیا.گاؤں کے لوگوں نے بہادری سے مقابلہ شروع کیا اور دو مرتبہ ان وحشیوں کو پسپا کر دیا.مگر جب بھی حملہ آور کمزور پڑتے تو فوج اور پولیس ان کی مدد کو آ جاتی.آخر سارا قصبہ تباہ کر دیا گیا.بہت سے احمدی شہید ہو گئے.اب اس علاقے میں قادیان مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ رہ گیا تھا.ہزاروں کی تعدد میں مسلمان یہاں پر پناہ لے رہے تھے.فوج، پولیس اور حکومتی مشینری بلوائیوں کا ساتھ دے رہے تھے.اس سانحے کے بعد حضور نے مکرم شیخ بشیر احمد صاحب کو تحریر فرمایا کہ کنوائیز کا انتظام کیا جائے تاکہ عورتوں اور بچوں کو قادیان سے حفاظت کے ساتھ باہر نکالا جائے.۲۵ اگست کو قادیان سے پہلا قافلہ روانہ ہوا.اس میں حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خاندان حضرت مسیح موعود کی خواتین سفر کر رہی تھیں.حضرت مصلح موعودؓ کی اہلیہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب قادیان میں ہی شہری رہیں.صبح کے وقت چند بسوں پر مشتمل یہ قافلہ قادیان سے روانہ ہوا.حضرت نواب عبداللہ خان صاحب قافلے کے امیر تھے.قافلے کے آگے حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی جیپ جارہی تھی.اور راستے کا جائزہ لینے کے لئے اور حفاظت کی غرض سے جماعت کا جہاز قافلے کے اوپر پرواز کر رہا تھا.قافلہ تھوڑی دیر کے لئے بٹالہ رکا اور پھر لاہور کے لئے روانہ ہو گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اماں جان اور تمام قافلہ بخیر و عافیت لاہور پہنچ گیا.گو اس وقت یہی خیال تھا کہ کچھ ہی عرصہ بعد قادیان واپسی ہو جائے گی لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر کچھ اور ہی ظاہر کرنے والی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام داغ ہجرت کے پورا ہونے کا وقت آچکا تھا.مشرقی پنجاب میں صرف قادیان ہی ایسا مقام تھا جہاں پر ڈٹ کر ان دہشتگردوں کا مقابلہ کیا جا

Page 189

179 رہا تھا.ان کی کوشش تھی کہ کم از کم یہاں سے اسلام کا نام ہی مٹا دیا جائے.اور یہ ظالم بڑی حد تک اس مقصد میں کامیاب ہو چکے تھے.ہندوستان کی فوج اور پولیس بلوائیوں کا ساتھ دے رہی تھی.وہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی مدد تو کرتے مگر جو اپنا علاقہ چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوتے ان کی حفاظت نہ کی جاتی بلکہ بسا اوقات پولیس اور فوج حملہ آوروں کی مدد کرتی نظر آتی.نہ صرف صوبائی حکومت مسلمانوں کی داد رسی نہیں کر رہی تھی بلکہ مرکزی حکومت نے بھی آنکھیں بند رکھنے کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی.پنڈت جواہر لال نہرو پریس کانفرنسوں میں اخبار نویسوں کو یقین دہانی کراتے کہ حکومت مسلمانوں کی حفاظت کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے.ایک پریس کا نفرنس میں ایک احمدی صحافیہ محترمہ بیگم شفیع صاحبہ نے قادیان کی حفاظت کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ فوج کو مختلف جگہوں پر بھجوایا جا چکا ہے، مسلمانوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کے احکامات جاری کئے جاچکے ہیں اور قادیان میں ہر طرح امن ہے.جب کہ حقیقت یہ تھی کہ قادیان ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا تھا.اس کے مضافات میں مسلمان دیہات تباہ کئے جارہے تھے اور یہاں پر رہنے والوں کو نکلنے پر مجبور کیا جا رہا تھا.جس فوج کو بھجوانے کا حوالہ دیا جارہا تھا وہ بجائے مظلوموں کی حفاظت کرنے کے حملہ آوروں سے تعاون کر رہی تھی.جب حضور کو فون پر وزیر اعظم کے اس بیان کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ نہرو سے کہو جیسا امن قادیان میں ہے ایسا امن تمہارے گھر میں ہو (۵۸).ان حالات میں جبکہ قادیان کے رہنے والے اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کر رہے تھے، اور مضافات میں بہت سے احمدی شہید ہو چکے تھے، فوج نے مزاحمت کو توڑنے کے لئے ایک اور قدم اٹھایا.۲۵ اگست کو میجر جنرل تھمایا (Thimmaya) قادیان کے معائنے کے لئے آئے اور کہا کہ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ جماعت کے جہازوں سے سکھ آبادی پر حملہ کیا جاتا ہے اور اس بناء پر ان کی پرواز کو ممنوع قرار دے دیا گیا.حالانکہ یہ جہاز بمباری کرنے کے قابل ہی نہیں تھے.ان سے صرف علاقے کا جائزہ لیا جا سکتا تھا، ایک دوسواریوں کے سفر کرنے کے کام آسکتے تھے اور کچھ اشیاء کی ٹرانسپورٹ کا کام لیا جا سکتا تھا.ایسی حالت میں جبکہ قادیان اکثر اوقات باقی دنیا سے منقطع رہتا تھا، یہ جہاز رابطے کا واحد ذریعہ تھے.سید محمد احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جہاز کے ذریعہ اکثر اوقات رقوم یا قیمتی اشیاء حفاظت سے لاہور پہنچائی جاتی تھیں.یا ضروری کا غذات لے

Page 190

180 جائے جاتے تھے.ایک مرتبہ حضور نے ارشاد فرمایا کہ آج میں اپنی سب سے قیمتی چیز لے جانے کے لئے دوں گا اور تم نے انہیں انہی الفاظ کے ساتھ شیخ بشیر صاحب کے حوالے کرنا ہے.سیدہ حضرت مریم صدیقہ صاحبہ ایک چھوٹا سوٹ کیس لے کر آئیں.اس کو کھولا تو اس کے اندر مختلف قسم کے کاغذ تھے.حضور نے فرمایا یہ تفسیری نوٹ ہیں جو میں نے مختلف وقتوں میں لکھے ہیں.اور آج تم نے انہیں لاہور پہنچانا ہے.۲۷ اگست کو مینیجر صاحب روز نامہ الفضل نے رپورٹ دی کہ ان حالات میں جبکہ قادیان کا رابطہ بیرونی دنیا سے منقطع ہو چکا ہے.ڈاک بھی نہیں بھجوائی جاسکتی تو یہاں سے شائع ہو کر الفضل باہر کی جماعتوں تک نہیں پہنچایا جا سکتا.چنانچہ اسے کسی باہر کے مقام سے شائع کرنے کا انتظام ہونا چاہئیے.حضور کی منظوری سے فیصلہ ہوا کہ جتنی جلدی ممکن ہو اخبار لاہور سے جدید ڈیکلریشن لے کر شائع کیا جائے.اور قادیان میں مقامی ضرورتوں کے مطابق دو چار صفحے کا اخبار شائع کیا جائے.اخلاقی قدروں کی حفاظت : جہاں اس پر آشوب دور میں یہ ضروری تھا کہ انسانی جانوں اور مقدس مقامات کی حفاظت کی جائے ، وہاں ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حفاظت بھی ضروری تھی جنہیں حضرت محمد مصطفے ﷺ نے قائم فرمایا تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۹ اگست ۱۹۴۷ء کو جمعہ پڑھایا اور اس میں ارشاد فرمایا کہ حالات خواہ کچھ ہوں مومن کو بہر حال انصاف محبت، شفقت اور رحم پر قائم رہنا چاہئیے اور اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک رکھنا چاہئیے کہ نیک نمونہ دشمن کو بھی خیر خواہ بنا سکتا ہے.ہمیں ہر ہندو اور سکھ عورت اور بچے کی اپنی بہن اور بچے کی طرح حفاظت کرنی چاہئیے.اس وقت قادیان میں کثرت سے مسلمان پناہ گزین آرہے تھے اس لئے حضور نے فرمایا کہ قادیان میں پناہ گزینوں کی کثرت ہے.اس لئے ضروریات زندگی گندم لکڑی اور مٹی کے تیل کو چاندی کی طرح استعمال کرنا چاہئیے اور کم سے کم استعمال کرنا چاہیئے.آخر میں حضور نے فرمایا کہ دعاؤں میں کمی نہیں آنے دینی چاہئیے.حالات خواہ کچھ ہوں لیکن بندے کا کام یہی ہے کہ وہ دعا مانگتا چلا جائے اور پھر خدا تعالیٰ جو کچھ کرے اس پر راضی رہے.یہ آخری جمعہ تھا جو حضور نے قادیان میں پڑھایا تھا.

Page 191

181 حضور کی ہجرت : ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء کو حضور نے بیرونی جماعتوں کے نام ایک پیغام بھجوایا.اس میں حضور نے تاکید فرمائی کہ اگر قادیان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو جماعت کا پہلا فرض یہ ہوگا کہ شیخو پورہ یا سیالکوٹ میں ریل کے قریب لیکن نہایت سستی زمین لے کر ایک مرکز بنایا جائے.عمارات سادہ ہوں اور فوراً کالج سکول ، مدرسہ احمدیہ اور جامعہ کی تعلیم کو جاری کیا جائے.کوشش کی جائے کہ بڑے بڑے علماء پیدا ہوں.اگر میں مارا جاؤں یا اور کسی طرح جماعت سے علیحدہ ہو جاؤں تو پہلی صورت میں فوراً خلیفہ کا انتخاب ہو اور دوسری صورت میں ایک نائب خلیفہ منتخب کیا جائے.جماعت با وجود ان تلخ تجربات کے قانون شکنی سے بچتی رہے اور اپنی نیک نامی کے ورثے کو ضائع نہ کرے.ان مصائب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر بدظنی نہ کرنا.اللہ تعالیٰ جماعت کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.(۵۹) ۳۱ راگست کو حضور کے ارشاد کے ماتحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اہلِ قادیان کے لئے یہ ہدایت جاری فرمائی.جو احمدی عورتیں اور بچے ان حالات میں پاکستان جانا چاہیں انہیں اجازت ہے.لیکن کوئی مرد بغیر اجازت کے نہیں جائے گا.سلسلہ کی طرف سے کنوائیز کا انتظام کیا جارہا ہے جس میں حسب گنجائش عورتوں، بچوں اور اجازت لے کر جانے والے مردوں کو موقع دیا جائے گا.صحیح تاریخ ایک عمدہ معلم ہے.تاریخ اسلام اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی خلیفہ وقت کی حفاظت میں کسی قسم کی کوتاہی کی گئی یا دشمن کو ایسا موقع دیا گیا کہ وہ خلیفہ پر حملہ آور ہوسکیں تو اس سے بھیانک فتنوں کے دروازے کھل گئے.حضرت عثمان کی شہادت ایک ایسا واقع ہے جسے پڑھ کر آج تک مسلمانوں کی آنکھیں بھر آتی ہیں.اسی طرح حضرت عمرؓ اور حضرت علی کی شہادتیں ایسے واقعات نہیں جنہیں فراموش کیا جا سکے.نظام صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب اس کی قیادت امام وقت کے ہاتھ میں ہو.ان حالات میں جب کہ قادیان باقی دنیا سے منقطع ہو چکا تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے لئے جماعت سے رابطہ رکھنا بھی ممکن نہیں رہا تھا اور مسلسل یہ اطلاعات مل رہی تھیں کہ فساد کر نیوالوں کا ارادہ ہے کہ ۳۱ اگست کے بعد مسلمانوں پر پہلے سے بھی زیادہ مظالم کئے

Page 192

182 جائیں کیونکہ اس تاریخ کے بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتیں اپنے علاقہ کی حفاظت کی مکمل طور پر ذمہ ار ہوں گی.ایک انگریز فوجی افسر جو بٹالہ میں لگا ہوا تھا ، حضور کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ مجھے علم ہے کہ ۳۱ اگست کے بعد ان کے کیا منصوبے ہیں.اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.یہ کہتے ہوئے اس پر خود بھی رقت طاری ہو گئی.اب سب کا مشورہ یہی تھا کہ ان حالات میں یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ حضور قادیان سے باہر کسی محفوظ مقام پر تشریف لے جائیں.اب قادیان میں رہتے ہوئے قادیان کی حفاظت کے لئے کوشش کرنا بھی ممکن نہیں رہا تھا کیونکہ بیرونی دنیا سے روابط منقطع ہو چکے تھے.لیکن ان حالات میں تمام راستوں پر حالات مخدوش تھے.مقامی حکومت اور فوج کے ارادے خطرناک نظر آرہے تھے.ایسی حالت میں حضور کے قافلے کی حفاظت کا انتظام کرنا ایک نہایت نازک کام تھا.بہت سی جگہوں پر رابطہ کر کے انتظامات کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہیں ہوئی.آخر کار یہ سعادت ایک احمدی کیپٹن مکرم عطاء اللہ صاحب کے حصے میں آئی.انہوں نے تین گاڑیوں اور ان کی حفاظت کے انتظامات کئے اور انہیں لے کر قادیان پہنچ گئے.حضور ۳ اگست کو سوا بجے بعد دو پہر قادیان سے روانہ ہوئے اور کیپٹن ملک عطاء اللہ صاحب کی اسکورٹ میں شام کے قریب لاہور پہنچ گئے.اس قافلے میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہمراہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اور سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ بھی سفر کر رہی تھیں.حضور فر ماتے ہیں کہ یہاں پہنچ کر میں نے پوری طرح محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگا نا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے.(۶۰.(۶) اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتا دیا تھا کہ آپ کی جماعت کو ہجرت کی آزمائش سے گذرنا پڑے گا.۱۸ ستمبر ۱۸۹۴ء کو آپ کو الہام ہوا داغ ہجرت (۶۲) اس کے علاوہ آپ کا ایک الہام ہے یاتی علیک زمن کمثل زمن موسی ، یعنی تیرے پر ایک ایسا زانہ آئے گا جیسا کہ موسیٰ پر زمانہ آیا تھا.(۶۳) اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ہجرت نہایت بے بسی اور خطرے کی حالت میں ہو گی.۱۹۳۸ء میں جب کہ ابھی آنے والے امتحان کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی خدمت میں تحریر کیا ”آج کل میں تذکرہ کا کسی قدر بغور مطالعہ کر رہا ہوں.مجھے بعض الہامات وغیرہ سے یہ محسوس ہوتا ہے.کہ شائد

Page 193

183 جماعت احمدیہ پر یہ وقت آنے والا ہے.کہ اسے عارضی طور پر مرکز سلسلہ سے نکلنا پڑے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورتِ حال غالباً گورنمنٹ کی طرف سے پیدا کی جائے گی....‘اس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا ”میں تو ہمیں سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں حق یہ ہے کہ جماعت اب تک اپنی پوزیشن کو نہیں سمجھی.ابھی ایک ماہ ہوا میں اس سوال پر غور کر رہا تھا.کہ مسجد اقصیٰ وغیرہ کے لئے گہرے زمین دوز نشان لگائے جائیں.جن سے دوبارہ مسجد تعمیر ہو سکے.اسی طرح چاروں کونوں پر دور دور مقامات پر زمین دوز نشانات رکھے جائیں.جن کا راز مختلف ممالک میں محفوظ کر دیا جائے.تا کہ اگر ان مقامات پر دشمن حملہ کرے.تو ان کو از سر نو اپنی اصل جگہ پر تعمیر کیا جا سکے.پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا.(حضور نے ہدایت فرمائی تھی کہ خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد اور سلسلہ کے اہم کارکنان کو اپنے پاسپورٹ تیار رکھنے چاہئیں.) (۶۴) (۱) الفضل ۲۲ اکتو بر ۱۹۴۵ ء ص ۱ تا ۶ (۲) گم گشته قوم مصنفہ سردار شوکت حیات ص ۱۹۵ء (۳) الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۴۶ء ص ۱۰ (۴) ۱ لفضل ۲۸ جنوری ۱۹۴۶ء ص ۵ (۵) الفضل یکم فروری ۴۶ ص ۲ (۶) الفضل ۲۷ فروری ۱۹۴۶ء ص ۲ (۷) The Emergence of Pkistan,by Chaudri Muhammad Ali ,Research Society of Pakistan, Oct 2003 page 52 (۸) الفضل ۶ اپریل ۱۹۴۶ء ص اتا۷ (4) The Emergence of Pakistan, by Chaudri Muhammad Ali, Research Society of Pakistan Oct 2003,page52-82 (1)India Wins Freedom, by Maulana Abul Kalam Azad, Orient Langman,June 1988 page 145 -.174 (۱۱) الفضل ۹ استمبر ۱۹۴۶ء ص ۲ (۱۲) الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۴۶ء ص ۱ (۱۳) الفضل یکم اکتوبر ۱۹۴۶ء ص ۲ (۱۴) الفضل ۹ نومبر ۱۹۴۶ ء ص ۲ (۱۵) الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۴۶ء ص ۱۰ (۱۶) الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۴۶ء ص ۲ (۱۷) الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۴۶ء ص ۱ (۱۸) الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۴۶ ء ص ۱ (۱۹) الفضل ۱۲ فروری ۱۹۴۷ ء ص ۸ (۲۰) الفضل ۱۲ فروری ۱۹۴۷ء (۲۱)The emergence of Pakistan,by Chaudri Muhammad Ali, Research Society of Pakistan Oct 2003 page 80-114

Page 194

184 (۲۲)India Wins Freedom,by Maulana Abul Kalam Azad,Orient Langman June 1988 page 175-195 (۲۳) الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۴۶ء ص ۲ (۲۴) الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۴۶ ص ۲ (۲۵) الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۴۶ء ص ۲ (۲۶) الفضل ۱۳ اکتوبر ۱۹۴۶ء ص ۲ (۲۷) الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۶ ص ۲ (۲۸) الفضل ۱۱ اکتوبر ۱۹۴۶ء ص ۲ (۲۹) الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۴۶ء ص ۴-۶ (۳۰) الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۴۷ء ص ۶ (۳۱) الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۴۷ء ص۳ (۳۲) الفضل ۷ مارچ ۱۹۴۷ء ص ۸ (۳۳) الفضل ۷ ۱ مارچ ۱۹۴۷ء ص ۴ (۳۴) الفضل ۱۷ اپریل ۱۹۴۷ء ص ۲ (۳۵) الفضل ۱۲ اپریل ۱۹۴۷ء ص ۳ (۳۶) الفضل ۶ مئی ۱۹۴۷ ء ص ۵ (۳۷) الفضل سے مئی ۱۹۴۷ء (۳۸) الفضل ۲۱ مئی ۱۹۴۷ء ص ۱ تا ۲ (۳۹) الفضل ۲۲ مئی ۱۹۴۷ ص ۱ ( ۴۰ ) الفضل ۲۴ مئی ۱۹۴۷، ص ۳ ( ۴۱ ) الفضل ۲۹ مئی ۱۹۴۷ء ص ۵ (۴۲)Dawn 16 March 2003, Unknown Articles -2,Partiton of Punjab and of Bengal (۴۳)The Partition of The Punjab 1947,Vol 1,compiled by Mian Muhammad Saudullah, publised by National Documentation Centre Lahore,page VII_XIV (۴۴) تحدیث نعمت مصنفہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، ناشر ڈھا کہ بینولنٹ ایسوسی ایشن ڈھاکہ، دسمبر ۱۹۷۱ء ص ۴۹۸.۵۰۰ (۴۵) نوائے وقت ، ۱۶ جولائی ۱۹۴۷ء ص۳ (۴۶) تحدیث نعمت مصنفہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، ناشر ڈھا کہ بینولنٹ ایسوسی ایشن ڈھا کہ دسمبر ۱۹۷۱ءص ۵۰۸_۵۰۰ ( ۴۷ ) نوائے وقت ۲۰ جولائی ۱۹۴۷ء (۴۸) الفضل ۶ نومبر ۱۹۶۹ء ص ۶ (۴۹) الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۴۷ء ص ۸ (۵۰) تحدیث نعمت مصنفہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب، ناشر ڈھا کہ بینولنٹ ایسوسی ایشن ڈھا کہ دسمبر ۱۹۷۱ء ص ۵۰۹ (۵۱)The Emergence of Pakistan ,by Chaudri Muhammad Ali,published by Research Society of Pakistan Oct 2003, page 218-219 (۵۲) الفضل ۱۱ اگست ۱۹۴۷ ص ۱ تا ۳ (۵۳) رجسٹر ریز ولیشنز صدر انجمن احمد بی قادیان (۵۴) الفضل ۱۸ اگست ۱۹۴۷ء ص ۲ (۵۵) الفضل ۲۵ اگست ۱۹۴۷ء ص ۱-۲ (۵۲) تاریخ احمدیت جلده اص ۷۱۹ - ۷۲۰ (۵۷) رجسٹر ریزولیشن صدر انجمن احمد یہ قادیان ۱۹۴۷ء (۵۸) تاریخ احمدیت جلد ۱ ص ۷۲۲-۷۲۳(۵۹) سوانح بیگم شفیع مصنفہ سیده نیم سعید ناشر لجنہ اماء اللہ لا ہور ۷۷.۷۸ (۵۹) تاریخ احمدیت جلده اص۷۳۴ - ۷۳۵ (۶۰) الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۹ء ص ۵-۶ (۶۱) مظالم قادیان کا خونی روز نامچہ ، مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ص ۸ (۶۲) تفخیذ الاذہان جو وجولائی ۱۹۰۸ء ص ۱۴ (۶۳) تذکرۃ الشہا دتین ص ۳ تا ۷ (۶۴) الفضل ۲۵ مئی ۱۹۴۸ء

Page 195

185 قیام لاہور، آزمائشوں کا طوفان الہبی جماعتوں پر ابتلاء آتے ہیں.اس لئے نہیں کہ وہ نابود ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ وہ امتحانات سے سرخرو ہو کر نکلیں اور ان کا رب انہیں مزید انعامات سے نوازے.انبیاء، خلفاء اور اولیاء پر بھی آزمائشیں آتی ہیں اور ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جب تمام دنیاوی امیدیں منقطع ہو جاتی ہیں.لیکن وہ سب سے بڑھ کر صبر اور حوصلہ دکھاتے ہیں اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ ان کا خدا انہیں اپنی پناہ میں لے کر ہر خطرے سے بچاتا ہے اور پہلے سے بڑھ کر ترقیات اور انعامات سے نوازتا ہے.تا کہ سب جان لیں کہ ان کو بچانے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور باقی دنیا ان کے نزدیک محض ایک مرے ہوئے کیڑے کی حیثیت رکھتی ہے.ان حالات میں جماعت احمدیہ کو بیک وقت بہت سے چیلنجوں کا سامنا تھا.قادیان کی پیاری بستی جس کی خاک نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدم چومے تھے ہر طرف سے خوفناک خطرات میں گھری ہوئی تھی.دشمن قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کوشش کر رہا تھا.حکومتِ.وقت بلوائیوں کی پشت پناہی کر رہی تھی.چودہ پندرہ ہزار احمدی تو صرف قادیان میں محصور تھے.ان میں کمزور بچے عورتیں اور بوڑھے بھی شامل تھے.عورتوں اور بچوں کو ان حالات میں وہاں سے نکالنا اپنی ذات میں ایک بہت بڑا مسئلہ تھا.پورے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی ، ان کے اموال لوٹے جا رہے تھے، عورتوں کو اغوا کیا جا رہا تھا.اور جو احمدی پناہ گزیں مشرقی پنجاب سے پاکستان پہنچ رہے تھے، ان میں سے اکثریت کے پاس نہ کھانے کو روٹی تھی ، نہ کپڑے تھے اور نہ سروں کے اوپر چھت رہی تھی.ان کو بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنا اور ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ایک طویل جدو جہد کا تقاضا کرتا تھا.قادیان تو باقی دنیا سے منقطع تھا اور حضور لاہور تشریف لا چکے تھے.ایسی صورت میں حالات کا تقاضہ تھا کہ پاکستان میں کم از کم وقتی طور پر جماعت کا مرکزی نظام قائم کیا جائے.سب سے پہلے ہم لاہور اور پاکستان میں نظامِ جماعت کے قیام کے عمل کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کے بعد یہ دیکھیں گے کہ اگلے چند ماہ میں تمام خطرات کے باوجود

Page 196

186 اللہ تعالیٰ کے فضل سے کس طرح قادیان کے مقامات مقدسہ محفوظ رہے اور بلوائیوں کے تمام بد ارادوں کے باوجود کیسے قادیان میں محصور ہزاروں عورتوں اور بچوں کو بحفاظت وہاں سے نکالا گیا.قیام لاہور کے ابتدائی دن ، نظام جماعت کا احیاء : حضور کی آمد سے قبل ہی لاہور کی جماعت نے رہائش اور جماعتی دفاتر کی ضروریات کے پیش نظر میوہسپتال کے قریب چار کوٹھیوں کا انتظام کر دیا تھا.دفاتر کے قیام اور کارکنوں کی رہائش کے لئے جودھامل بلڈنگ کا انتخاب کیا گیا اور حضور اور خاندانِ حضرت مسیح موعود کے افراد کی رہائش رتن باغ میں تھی اور جسونت بلڈنگ اور سیمنٹ بلڈنگ میں دیگر احباب کی رہائش تھی.حضور ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء کو لا ہور تشریف لائے اور اگلے ہی روز نظام جماعت قائم کرنے کا کام شروع کر دیا گیا.یکم ستمبر کو جودھامل بلڈنگ کے صحن میں حضور کی صدارت میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی (۱).اگر چہ ابھی لاہور میں بہت تھوڑے کارکنان پہنچے تھے لیکن یہ فیصلہ کیا گیا کہ صدر انجمن احمدیہ کے تمام دفاتر لاہور میں قائم کر دیئے جائیں.یہ ستمبر کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشاد کے ماتحت لاہور کی صدر انجمن احمدیہ کے مندرجہ ذیل عہدیداران کی تقرری صدرانجمن احمدیہ قادیان کے ریزولیشن میں بھی ریکارڈ کی گئی.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ناظر اعلیٰ مقرر ہوئے.میاں عبد الباری صاحب ناظر بیت المال ( مگر جب خان صاحب برکت علی لاہور پہنچ جائیں گے تو وہ ناظر بیت المال ہوں گے ) ،مولانا عبدالرحیم صاحب درد ناظر تعلیم ، ناظر امور عامہ اور ناظر امور خارجہ، نواب محمد الدین صاحب ناظر دعوت و تبلیغ و جوائنٹ ناظر امور خارجہ مقرر کئے گئے.ناظر تنظیم کے نام سے ایک نیا عہدہ بنایا گیا اور اس پر مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب نے کام شروع کیا.اور مرزا عبد الغنی صاحب پہلے ہی لاہور میں بطور محاسب کام کر رہے تھے.پھر جلد ہی نئے اراکین شامل کر کے دس ممبران پر مشتمل انجمن تشکیل دی گئی اور اس کا اعلان ۱۸ ستمبر کے الفضل میں کیا گیا.اس میں حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب ، حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحب ، اور مکرم نواب محمد دین صاحب انہی عہدوں پر کام کر رہے تھے.اور مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب ناظر انخلاء آبادی و نو آبادی اور مکرم ملک سیف الرحمن صاحب ناظر ضیافت مقرر ہوئے.ان کے علاوہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب،

Page 197

187 مکرم شیخ بشیر احمد صاحب، مکرم صوفی عبد القدیر صاحب نیاز اور مولوی محمد صدیق صاحب کو بھی صدر انجمن احمد یہ پاکستان کا ممبر مقرر کیا گیا.حضور نے ہدایت فرمائی کہ انجمن کے اراکین روزانہ دس سے بارہ بجے تک رتن باغ میں میٹنگ کے لئے آئیں اور اپنی رپورٹیں پیش کریں.اور یہ فیصلہ ہوا کہ مہاجر احمدی افراد اور جماعتوں کی نسبت معلوم کیا جائے کہ وہ کہاں ہیں اور انہیں ایک خاص نظام کے تحت بسایا جائے.صدرانجمن احمد یہ اور حضور کی ان زمینوں کو جور ہن تھیں آزاد کرایا جائے.اور جو دھامل کی بلڈنگ کے ماحول میں مزید کوٹھیاں حاصل کی جائیں.حضور کی لاہور آمد کے فوراً بعد ہی یکم ستمبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان میں مجلس تحریک جدید کے 4 نئے ممبران کا تقرر کیا گیا.یہ نمبر ان مکرم مولوی ابوالمنیر مولوی نورالحق صاحب، مکرم چوہدری محمد شریف صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب، مکرم مولا نا ملک سیف الرحمن صاحب، مکرم مولوی محمد صدیق صاحب اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب تھے.حضور نے ارشاد فرمایا کہ ان کے اختیارات باقی ممبران کے برابر ہوں گے.ان کا کورم حقیقی کورم سمجھا جائے گا اور حسب ضرورت یہ ممبران قادیان سے باہر لاہور یا کسی اور مقام پر اجلاس کر سکتے ہیں.اور اس غرض کے لئے صدر اور سیکر یٹری کا انتخاب بھی کیا جا سکتا ہے.(۱۲) لاہور میں پہلی مشاورت : اس پس منظر میں سے ستمبر کو لاہور میں ایک مجلس مشاورت منعقد کی گئی.اب تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ فوج اور پولیس بھی بلوائیوں کی پشت پناہی کر رہی تھی اور اس وجہ سے قادیان کے محصورین کی جانیں شدید خطرے میں تھیں اور دوسری طرف قادیان کو آباد رکھنا اور وہاں کے مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کا انتظام کرنا بھی نہایت ضروری تھا چنانچہ اس مجلس مشاورت میں حضور کی منظوری سے فیصلہ کیا گیا کہ مشرقی پنجاب کے احمدی اپنی جگہوں پر رہیں ، البتہ عورتوں اور بچوں کو حفاظت کی غرض سے پاکستان بھجوا دیا جائے.اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ تمام جماعتیں ۱۸ سال سے لے کر ۵۵ سال کے افراد کی فہرستیں بنا کر قرعہ ڈالیں اور ان میں سے 1/8 حصہ قادیان کی حفاظت کے لئے

Page 198

188 وہاں جائے گا.قادیان سے دفاتر کے کارکنوں کا ایک بڑا حصہ وہاں سے نکلوانا ضروری ہے کیونکہ انہوں نے گزشتہ تین ماہ میں دن رات کام کیا ہے.اور علماء اور اکابر سلسلہ جو کئی دہائیوں کی مساعی کا نتیجہ ہیں اگر ان کو ضائع ہونے دیا گیا تو سلسلہ کی ترقی ایک لمبا عرصہ پیچھے جا پڑے گی.اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ جن کے سپر داہم جماعتی کام ہیں انہیں قادیان سے باہر نکال لیا جائے.قادیان کے رہنے والوں کے متعلق فیصلہ ہوا کہ ان میں سے جن کی عمر ۱۸ اور ۵۵ سال کے درمیان ہے اُن کا تیسرا حصہ قادیان میں ٹہرے گا.حضور کی خدمت میں مشورہ پیش کیا گیا کہ خاندان حضرت مسیح موعودؓ کے افراد کو قادیان سے باہر نکال لیا جائے لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے ارشاد فرمایا کہ ان میں سے بھی ایک مقررہ حصہ قادیان میں رہنا چاہئیے.یہ سوال بھی زیر غور آیا کہ پاکستان میں نیا مرکز کہاں قائم کیا جائے ، حضور نے ارشاد فرمایا کہ اس غرض کے لئے ضلع شیخو پورہ میں کسی مناسب جگہ کا انتخاب کیا جائے.فیصلہ ہوا کہ نئے مرکز کے لئے جماعتیں پانچ لاکھ روپے کا چندہ جمع کریں.(۳) لاہور کی جماعت کو نصیحت : جب جماعت ابتلاء کے دور سے گذر رہی ہو تو یہ وقت تقاضہ کرتا ہے کہ سب احمدی دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے خدمت پر کمر بستہ ہو جائیں.خاص طور پر جو مقام اس وقت جماعتی سرگرمیوں کا مرکز ہو یا جہاں پر خلیفہ وقت موجود ہو وہاں کے احمدیوں کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہیں.ایسے مواقع پر کسی قسم کی کوتاہی کے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں.جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے محسوس فرمایا کہ لاہور کی جماعت کے بہت سے احباب وہ نمونہ نہیں دکھا رہے جس کا تقاضا یہ نازک حالات کر رہے تھے تو آپ نے اس امر کی اصلاح کے لئے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ قادیان کے احمدی تو جان ہتھیلی پر رکھ کر شعائر اللہ کی حفاظت کر رہے ہیں اور ان کو بائیس بائیس گھنٹے بھی کام کرنا پڑتا ہے.اور جو پندرہ ہمیں آدمی قادیان سے آئے ہیں انہیں دفتری کاموں سے کوئی فرصت نہیں کیونکہ بیس ہیں آدمیوں کی جگہ ایک آدمی کو کام کرنا پڑ رہا ہے.حضور نے اس بات پر اظہار ناراضگی فرمایا کہ جب کہ خلیفہ وقت یہاں پر موجود تھا لا ہور کے اکثر احباب دن میں ایک نماز

Page 199

189 بھی خلیفہ وقت کے پیچھے پڑھنے کے لئے نہیں آتے اور نہ ہی انہوں نے شدید ضروریات کے باوجود اپنی خدمات جماعت کو پیش کیں.ایک طرف تو اکثر جماعتوں نے حفاظت مرکز کے وعدے پورے " بھی کر دئے مگر لاہور سے ابھی تک پورے وعدے بھی نہیں لکھوائے گئے.حضور نے فرمایا ” جب اس جگہ مرکز کا ایک حصہ آچکا تھا آپ لوگوں کو اسے خدا تعالیٰ کا فضل سمجھنا چاہئیے تھا.لیکن آپ لوگوں نے کوئی توجہ ہی نہیں کی.چاہیئے تھا کہ سینکڑوں آدمی اپنے آپ کو خدمات کے لئے پیش کر دیتے اور اگر ان کی ملازمتیں بھی جاتیں تو اس کی پروا نہ کرتے.جیسے کراچی کے دوستوں نے نمونہ دکھایا.انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم قادیان جائیں گے اور چونکہ وہاں سرکاری محکموں میں احمدی زیادہ ہیں دفاتر والوں نے سمجھا کہ اگر سب احمدی چلے گئے تو کام بند ہو جائے گا.اس لئے انہوں نے چھٹی دینے سے انکار کر دیا.اس پر کئی احمدیوں نے اپنے استعفے نکال کر رکھ دیئے.کہ اگر یہ بات ہے تو ہم اپنی ملازمتوں سے مستعفی ہونے کے لئے تیار ہیں.ایک اخبار جواحدیت کا شدید ترین دشمن تھا.میں نے خود اس کا ایک تراشہ پڑھا ہے جس میں وہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ہوتا ہے ایمان.‘ (۴) لاہور میں الفضل کا اجراء اور مہاجرین کی مدد کے لئے اقدامات: ان ایام میں جماعت کو ہر قسم کی مالی اور عملی مشکلات کا سامنا تھا مگر اس بات کی فوری ضرورت تھی کہ ان خطر ناک حالات میں احباب جماعت سے رابطے اور ان تک حضور کے ارشادات پہنچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے.اس غرض کے لئے فوری اقدامات کر کے ۵ ستمبر ۱۹۴۷ء کو مکرم روشن دین تنویر صاحب کی ادارت میں لاہور سے روز نامہ الفضل کی اشاعت شروع کر دی گئی.اس میں چھپنے والے مضامین صرف احمدیوں کے لئے نہیں تھے بلکہ عظیم مشکلات کے اس دور میں تمام اہلِ وطن کی ڈھارس بندھانے اور ان کی راہنمائی کے لئے بھی مضامین شائع ہوتے تھے.تاریخ میں چند ماہ کے اندر اتنی بڑی نقل مکانی شاید ہی کبھی ہوئی ہو، جتنی اس وقت مشرقی اور مغربی پنجاب کی سرحد پر ہو رہی تھی.ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں مغربی پنجاب کو چھوڑ کر مشرقی

Page 200

190 پنجاب میں داخل ہو رہے تھے اور مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب منتقل ہورہے تھے.ایک محتاط اندازے کے مطابق ستمبر کے آخر تک سترہ لاکھ پچاس ہزار افراد پنجاب کی سرحد پر نقل مکانی کر چکے تھے (۵).مگر اب یہ صورت حال واضح نظر آ رہی تھی کہ اکثر اضلاع میں پاکستان چھوڑنے والوں کی نسبت پاکستان میں آنے والوں کی تعداد کافی زیادہ تھی.اس وجہ سے ان مہاجرین کے مسائل اور بھی بڑھ گئے تھے.فوری طور پر انہیں رہائش اور خوراک کے مسائل در پیش تھے، انہیں کپڑوں کی ضرورت تھی اور آنے والے موسم سرما کے لئے مناسب بستروں کی ضرورت تھی.دوسرے مسلمانوں کی طرح احمدیوں کی ایک بڑی تعداد بھی مجبوراً ہجرت کر کے بے سروسامانی کے عالم میں مغربی پنجاب پہنچ رہی تھی.ان میں سے اکثر کے پاس نہ تو رہنے کی جگہ تھی اور نہ کھانے کو روٹی تھی.مہاجرین کی ایک بڑی تعداد محض تن پر موجود کپڑے اور اپنی جان ہی بچا کر پاکستان آنے میں کامیاب ہوئے تھے.چنانچہ حضور کے ارشاد کے تحت جودھامل بلڈنگ سے متصل میدان میں سائبان لگا دیئے گئے اور وہاں پر آنے والے مہاجرین کے لئے خوراک اور عارضی رہائش کا انتظام کیا گیا.خاندانِ حضرت مسیح موعود کے افراد کے کھانے کا انتظام حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے ہو رہا تھا.حضور اور آپ کے اہل خانہ بھی ایک وقت کے کھانے میں صرف ایک روٹی کھاتے تا کہ آنے والے مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جا سکے.جن کے رشتہ دار مغربی پنجاب میں موجود تھے، انہیں ان کے رشتہ داروں کے پاس پہنچایا گیا.جب موسم سرما شروع ہوا تو مہاجرین کے پاس نہ تو مناسب بستر موجود تھے اور نہ ہی مالی وسائل تھے کہ وہ خود لحافوں کا انتظام کر سکیں.حضور نے جماعت کو بالخصوص سیالکوٹ کی جماعت کو مہاجرین کے لئے گرم کپڑے اور بستر مہیا کرنے کی تحریک فرمائی.اور فرمایا کہ ہر احمدی گھرانا اپنی بنیادی ضرورت سے زائد کپڑے، بستر خصوصاً کمبل بلحاف اور تو شک وغیرہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی خدمت میں پیش کرے.اور ارشاد فرمایا کہ کسیر، گنوں کی کھوری اور دھان کے چھلکے جمع کر کے بھجوائے جائیں تا کہ ان کو بطور بستر استعمال کیا جا سکے.ان مہاجرین کے ذرائع معاش ختم ہو چکے تھے.فوری ضروریات پوری کرنے کے علاوہ اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ مہاجرین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے.اس غرض کے لئے فوراً

Page 201

191 جو دھامل بلڈنگ میں نظامت تجارت کا دفتر قائم کیا گیا.مغربی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والوں کے کاروبار حکومت کی طرف سے آنے والے مہاجرین کو الاٹ کئے جا رہے تھے.یہ دفتر اس ضمن میں آنے والے احمدیوں کی راہنمائی کرتا اور ان کی مدد کرتا تا کہ وہ مناسب کا روبار شروع کر کے اپنے باعزت گذارے کی صورت پیدا کر سکیں.حضرت امیر المومنین کی ہدایت کے مطابق تین وفود نے ڈیڑھ ماہ کے لئے مختلف علاقوں کے دورے کئے.ان دوروں کی غرض یہ تھی کہ وہ احباب جماعت جو اس وقت پراگندہ حالت میں مختلف مقامات میں اپنے لئے معاشی وسائل کی تلاش کر رہے تھے انہیں امداد بہم پہنچائی جائے.اور جماعتوں کو توجہ دلائی جائے کہ وہ ان احباب کی ہر ممکن امداد کریں.یہ دورے بہت کامیاب رہے اور سال کے اندر اندر قریباً نوے فیصدی احباب ہجرت کے بعد آباد ہو چکے تھے (۹).الفضل میں اعلانات کرا کے اور دیگر ذرائع استعمال کر کے مشرقی پنجاب سے آنے والی مختلف جماعتوں کے متعلق معلومات اکھٹی کی گئیں کہ وہ کہاں کہاں پر موجود ہیں تاکہ ان کی مناسب مدد اور راہنمائی کی جاسکے.بہت سے احمدیوں نے حضور کی تحریک کے مطابق اپنی پس انداز کی ہوئی رقوم جماعت کے امانت فنڈ میں جمع کرائی تھیں.ان کی رقوم نہ صرف محفوظ رہیں بلکہ ان کو فوری طور پر لا ہور بھی منتقل کر دیا گیا اور جو اپنی امانت کو لاہور میں لینا چاہتا تھا ، اس کو وہیں اس کی ادئیگی کر دی گئی.اس پر آشوب دور میں جہاں لاکھوں لوگ اپنی جمع پونجی سے محروم ہو گئے وہاں ان مخلصین کی امانتیں محفوظ رہیں اور انہوں نے ان سے اپنے کاروبار شروع کر دیئے.وہ مصنفین جنہوں نے جماعت کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے کہ اس حکمت عملی کی برکت سے احمدی سب سے پہلے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے.چنانچہ ہفت روزہ المنیر ، جو فیصل آباد سے شائع ہوتا تھا ، میں جماعت کے خلاف معاندانہ مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا مگر مصنف یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکا.دو تقسیم ملک کے وقت مشرقی پنجاب کی یہ واحد جماعت تھی.جس کے سرکاری خزانہ میں اپنے معتقدین کے لاکھوں روپے جمع تھے اور جب یہاں مہاجرین کی اکثریت بے سہارا ہو کر آئی.تو قادیانیوں کا یہ سرمایہ جوں کا توں محفوظ پہنچ چکا تھا.اور اس سے ہزاروں

Page 202

192 قادیانی بغیر کسی کاوش کے از سر نو بحال ہو گئے پھر یہ بات بھی مستحق توجہ ہے کہ یہ وہ واحد جماعت ہے کہ جس کے ۳۱۳ افراد تقسیم کے لحہ سے آج تک قادیان میں موجود ہیں.اور وہاں اپنے مشن کے لئے کوشاں بھی ہیں اور منتظم بھی.‘ (۶) ان بروقت کوششوں کے نتیجے میں ہجرت کرنے والے وہ احمدی جن کی سب املاک لٹ چکی تھیں ، بہت کم مدت میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر باعزت طریق پر زندگی گذارنے لگے.پنجاب کی آبادی کے ایک بڑے حصے پر قیامت گزر گئی تھی لیکن فرق یہ تھا کہ احمدی اپنے امام کی ڈھال کے پیچھے کھڑے ہو کر ان مشکلات کا سامنا کر رہے تھے.اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ان کے لئے دن رات دعائیں بھی کر رہا تھا اور ان کی مشکلات دور کرنے کے لئے ہر قسم کی تدابیر بھی کی جا رہی تھیں.ہزاروں مرد عورتیں اور بچے بے سروسامانی کے عالم میں لاہور آکر آستانہ خلافت پر پڑے تھے.ان کا ہمدرد امام ان کے لئے خوردونوش کا انتظام بھی کر رہا تھا ، ان کی تن پوشی کے لئے کوششیں ہو رہی تھیں اور ان کو باعزت روزگار مہیا کرنے کا انتظام بھی کیا جا رہا تھا.ان میں سے بہت سے صدمات سے نڈھال ہو رہے تھے.ان کا امام اپنے روح پرور کلمات سے ان کے حوصلے بڑھا رہا تھا اور ان کی دلجوئی کے سامان کر رہا تھا.اس عظیم ابتلاء کے دور میں احمدی ایک مرتبہ پھر خدا تعالیٰ کا یہ اٹل وعدہ پورا ہوتا دیکھ رہے تھے کہ خلافت کی برکت سے ان کی خوف کی حالت امن سے بدل دی جائے گی.پاکستان میں تعلیمی اداروں کا اجراء: قادیان میں جماعت کے تعلیمی ادارے مستحکم ہو چکے تھے.یہاں پر لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکول تھے، کالج کا آغاز ہو چکا تھا.مبلغین کی تیاری کے لئے مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمد یہ کام کر رہے تھے.ہجرت کے ابتلاء میں ان اداروں پر غاصبانہ قبضہ کر لیا گیا.اور احمدیوں کی اکثریت پاکستان منتقل ہو گئی.اب حالات کا تقاضہ تھا کہ یہاں پر جماعت نئے سرے سے سے تعلیمی ادارے بنائے.لیکن تعلیمی اداروں کا آغاز کر کے ان کو ترقی دینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا.اور ان حالات میں جماعت کو مالی وسائل کی شدید کمی کا سامنا تھا.جب اس مسئلہ پر غور کرنے کے لئے میٹنگ ہوئی

Page 203

193 تو تمام احباب نے یہی عرض کی کہ ابھی جماعت پر کالج کا بوجھ نہ ڈالا جائے.حضور نے یہ آراء سن کر ایک جوش سے فرمایا ' آپ کو پیسوں کی کیوں فکر پڑی ہے.کالج چلے گا اور کبھی بند نہیں ہوگا' اور پھر کالج کے پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب کو ارشاد فرمایا، آسمان کے نیچے پاکستان کی سرزمین میں جہاں کہیں بھی جگہ ملتی ہے لے لو اور کالج شروع کر دو.چنانچہ جماعت نے شروع ہی سے مرکزی تعلیمی اداروں کو جلد از جلد دو بارہ قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی.۳۱ اکتوبر کو تعلیم الاسلام ہائی اسکول کا سٹاف لاہور پہنچا.جیسا کہ ہم بعد میں جائزہ لیں گے اس وقت تک جماعت نئے مرکز کے لئے ، چنیوٹ سے قریب دریائے چناب کے کنارے چک ڈھگیاں کا انتخاب کر چکی تھی اور اس زمین کے حصول کے لئے کوششیں ہو رہی تھیں.چنانچہ نومبر کے آغاز میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ارشاد کے مطابق سکول کا عملہ چنیوٹ منتقل ہوا.یہاں پر گورنمنٹ نے اسکول کے لئے بھگوانداس کی بلڈنگ جماعت کو دی.اس بلڈنگ میں پہلے ہندو پناہ گزیں ٹھہرے ہوئے تھے جو جاتے ہوئے اس عمارت کی کھڑکیاں دروازے اور دیگر سامان نذر آتش کر گئے تھے.بہر حال ۲۵ طلباء کے ساتھ اس کسمپرسی کے عالم میں اسکول کا آغاز کیا گیا.جلد ہی طلباء کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور حکومت کی طرف سے دیگر عمارات الاٹ ہونے کے علاوہ گرانٹ بھی ملنے لگی.جلد ہی اسکول کے عمدہ نتائج نے اس کی نیک شہرت میں اضافہ کر دیا.نومبر کے آغاز میں مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے اساتذہ پاکستان پہنچے.تین روز کے بعد دونوں ادارے لاہور میں شروع کر دیئے گئے.مگر جگہ کی تنگی اور ہوسٹل نہ ہونے کے باعث ان کو بھی چنیوٹ منتقل کر دیا گیا.دو ماہ کے بعد ہی چک ڈھکیاں کے بالکل قریب احمد نگر میں ایک حویلی اس غرض کے لئے حاصل کر لی گئی اور یہ دونوں ادارے وہاں پر منتقل ہو گئے اور دونوں کو مدغم کر کے ایک ادارہ بنا دیا گیا اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اس کے پرنسپل مقرر ہوئے.جامعہ احمد یہ میں نہ صرف کلاسوں کا اجراء ہوا بلکہ چند ماہ ہی میں اس عظیم ادارے میں تحقیق کا کام بھی شروع کر دیا گیا اور ایک سہ ماہی علمی مجلہ المنشور کی اشاعت بھی شروع کر دی گئی (۱۰).اسی طرح رتن باغ کے پچھلے احاطہ میں لڑکیوں کے اسکول کا آغاز کر دیا گیا.یہاں پر دھوپ اور بارش سے بچنے کا انتظام بھی نہیں

Page 204

194 تھا اور طالبات کو بیٹھنے کے لیے فقط ایک ایک اینٹ ہی میسر تھی.اس نا گفتہ بہ حالت کی وجہ سے داخل ہونے والی طالبات کی تعداد بہت کم تھی.اس لئے جنوری ۱۹۴۸ء میں حضور کی منظوری سے فیصلہ کیا گیا کہ لڑکیوں کے ہائی اسکول کو بھی چنیوٹ منتقل کر دیا جائے اور مڈل اسکول لاہور میں ہی جاری رہے.(۱۱) جس دوران جماعت نئے مرکز کے لئے زمین کے حصول کی کوششیں کر رہی تھی، مجوزہ مقام کے قریب جماعت کے تعلیمی ادارے قائم ہو چکے تھے.اس طرح اس علاقہ میں ان اداروں کی حیثیت جماعت کے ہراول دستے کی تھی.پاکستان میں پہلا جلسہ سالانہ : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ روایات میں جلسہ سالانہ ایک اہم جماعتی روایت ہے.لیکن اس سال پورا بر صغیر شدید بحران سے دو چار تھا.خاص طور پر ہجرت کی وجہ سے جماعت کے پاس نہ تو مناسب جگہ تھی جہاں پر جلسہ کا انعقاد کیا جا سکے اور مالی مشکلات اس کے علاوہ تھیں.مشرقی پنجاب سے آئی ہوئی جماعتیں ابھی مختلف مقامات پر منتشر تھیں اور آباد کاری کے تکلیف دہ مراحل سے گذر رہی تھیں.پہلے تو خیال کیا جارہا تھا کہ اس سال جلسہ منعقد نہیں کیا جاسکے گالیکن وسط دسمبر میں حضور نے اعلان فرمایا کہ ۲۶ دسمبر کو جماعت کی مجلس مشاورت ہوگی اور ۲۶ اور ۲۷ کو محدود پیمانے پر جلسہ سالانہ منعقد ہو گا.اس جلسہ میں مختلف جماعتوں کے دو ہزار احباب کو لاہور آنے کی دعوت دی گئی اور فیصلہ ہوا کہ جو احباب اپنے قیام کا خود انتظام کر سکتے ہیں وہ بھی شامل ہو سکتے ہیں.چنانچہ مذکورہ تاریخ کو رتن باغ کے ہال میں مشاورت کا اجلاس ہوا.جس میں موجودہ صورتِ حال میں مالی وسائل پیدا کرنے ، ذرائع تبلیغ ، جماعتی تنظیم اور قادیان کی حفاظت کے مسائل کا جائزہ لیا گیا.اس مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے اس اصول کو تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ جہاں پاکستان کے احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ حکومت پاکستان کے وفادار ر ہیں اور اس کی مضبوطی اور ترقی کے لئے کوشش کریں.وہاں انڈین یونین میں رہنے والے احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ انڈین یونین کے وفادار رہیں.اگلے دو روز حسب پروگرام جلسہ کی کاروائی ہوئی.اس کے افتتاحی خطاب میں حضرت مصلح موعودؓ نے ارشاد فرمایا.

Page 205

195 66 پس ہمارے دل غمگین نہ ہوں تم پر افسردگی طاری نہ ہو کہ یہ کام کا وقت ہے اور کام کے وقت میں افسردگی اچھی نہیں ہوتی.بلکہ کام کے وقت میں ہم میں نئی زندگی اور نئی روح پیدا ہو جانی چاہئیے..ہمارے بوڑھے جوان ہو جانے چاہئیں اور ہمارے جوان پہلے سے بہت زیادہ طاقتور ہو جانے چاہئیں.ہم مذہبی لوگ ہیں.حکومتوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں.ہمارا کام دلوں کو فتح کرنا ہے نہ کہ زمینوں کو.“ مغربی پنجاب کے احباب کثرت سے جلسہ سالانہ لاہور میں شامل ہوئے.اکثر احباب نے اپنے خوردونوش اور قیام کا انتظام خود کیا تھا.اس طرح پاکستان کی زمین پر با وجود تمام نا مساعد حالات کے جلسہ سالانہ کی اہم روایت کا آغاز ہوا.(۷.۸) قیام لاہور کے پر آشوب دور سے گذرتے ہوئے جب ہم ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ اگر چہ اس وقت ہر قسم کے ابتلاؤں کا سامنا تھا.مالی وسائل کی شدید کمی تھی.اس وقت کیفیت یہ تھی کہ رتن باغ کی نچلی منزل کے ہال میں حضور ایک چٹائی کے اوپر تشریف فرما ہوتے اور یہاں ڈاک ملاحظہ فرماتے ، وہیں پر احباب ملاقات کرتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو یہیں پر نماز ادا کر لی جاتی.تجربہ کار کارکنان کی بھاری اکثریت قادیان میں محصور تھی.جو ہجرت کر کے آچکے تھے، انہیں پیٹ بھر کے روٹی بھی میسر نہیں تھی.اگر کسی کو سر چھپانے کو فقط چھت ہی مل جائے تو یہ بھی غنیمت تھا.قریب ہی احمدی پناہ گزینوں کے خیمے نصب تھے.ایک مرتبہ جمعداروں نے ہڑتال کر دی.اگر صفائی نہ ہوتی تو وبا پھوٹنے کا اندیشہ تھا.چنانچہ حضور نے ارشاد فرمایا کہ خدام نجاست صاف کریں.اس ارشاد کی تعمیل میں باقی خدام کے ساتھ صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بھی صفائی کر رہے تھے کہ ایک راہ چلتی بڑھیا نے پنجابی میں کہا کہ لڑکے تم تو کسی بہت اچھے خاندان کے لگتے ہو تم پر کیا بیتا پڑی ہے جو یہ کام کر رہے ہو (۱۳).ان مشکلات کے علاوہ دل صدمات سے نڈھال تھے.قادیان پر منڈلانے والے خطرات ہر وقت ہر احمدی کو بے چین کر رہے تھے اور وہاں پر محصورین کا انخلاء ایک صبر آزما جد و جہد کا تقاضہ کرتا تھا.لیکن ان مشکلات کے باوجود حضرت مصلح موعودؓ کی اولوالعزم قیادت میں ایک دن کے اندر اندر لاہور میں نظام جماعت جاری کر دیا گیا.ہجرت کرنے والے بے سروسامان احمدیوں کی مدد

Page 206

196 اور ان کی بحالی کا کام بغیر کسی تاخیر کے شروع ہو گیا.منتشر جماعتوں کی شیرازہ بندی حیران کن سرعت کے ساتھ مکمل کی گئی.ایک دن کی تاخیر کے بغیر امانت فنڈ میں جمع کی گئی امانتیں لوگوں کو واپس کرنے کا عمل شروع ہو گیا.اخبار اور رسائل جاری کئے گئے اور تعلیمی اداروں کو نئے سرے سے زندہ کیا گیا.اس وقت ہر ممکن کوشش اور تمام دعائیں قادیان واپس جانے کے لئے کی جا رہی تھیں ،مگر اس کے با وجود وقت ضائع کئے بغیر پاکستان میں نئے مرکز کے حصول کی جدوجہد شروع کر دی گئی.حتی کہ ان حالات میں مجلس مشاورت اور جلسہ جیسی اہم جماعتی روایات کو بھی جاری رکھا گیا.اور ابھی چند برس نہیں گزرے تھے کہ تمام جماعتی ادارے اپنی پرانی حالت سے بھی بہتر حالت میں آگئے.یہ سب اس لئے ممکن ہوا کہ حضرت مصلح موعوددؓ کی دعا ئیں اللہ تعالی کے فضل کو جذب کر رہی تھیں اور جماعت ان دعاؤں کے حصار میں آگے بڑھ رہی تھی.اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ خلیفہ کی اولوالعزم قیادت میں جماعت ہر افسردگی اور مایوسی کے خیال کو ذہنوں سے جھٹکتے ہوئی ایک عزم کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی.(۱) تاریخ احمدیت جلدا اص۱۰ (۲) رجسٹر ریزولیشن صدرانجمن احمدیہ قادیان (۳) تاریخ احمدیت جلد ا ا ص ۴۸ - ۵۱ (۴) الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۴۷ء ص ۱-۲ (۵)The partition of India and prospects of Pakistan by O.K.H.Spate, The Geographocal Review XXXVIII 1948, page 18 (۲) مفت روزه المنیر ۱۲ارچ ۱۹۵۶ء ص ۱۰ (۷) تاریخ احمدیت جلدا اص ۴۴۵-۴۶۱ (۸) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۴۸.۴۷ ص ۳۶ (۹) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۴۸ - ۴۷ ص ۱۲ (۱۰) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۴۷ - ۴۸ ص ۱۴ - ۱۷ (۱۱) رجسٹر ریزولیشن صدر انجمن احمدیہ پاکستان جنوری ۱۹۴۸ء (۱۲) رجسٹر ریزولشن تحریک جدید ۱۹۴۷ء (۱۳) روایت صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ بنت حضرت مصلح موعود

Page 207

197 قادیان خطرات کے گھیرے میں جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے حضور نے ۳۱ اگست کو قادیان سے ہجرت فرمائی.اس وقت حالات کے پیش نظر اس امر کو ظاہر نہیں کیا گیا تھا.اگلے روز دو پہر کو حضور کا خط احباب کو سنایا گیا اور احباب نے حضور کے بخیر و عافیت لاہور پہنچنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.طے شدہ پروگرام کے مطابق یکم ستمبر کو مسلمان ملٹری ضلع گورداسپور سے پاکستان جانی شروع ہوئی.اب یہاں پر تقریباً مکمل طور پر ہندو اور سکھ ملٹری اور پولیس مقرر ہو چکی تھی.اس کے ساتھ علاقے میں سکھوں کی نقل و حرکت میں اضافہ ہو گیا.۲ ستمبر کو قادیان کے شمال میں ایک گاؤں سٹھیالی پر حملے کا آغاز ہوا.اس گاؤں میں احمدی اور دوسرے مسلمان رہتے تھے اور اس وقت ارد گرد کے دیہات کے مسلمان بھی وہاں پر جمع تھے.سٹھیالی کے باشندوں نے مقابلہ شروع کیا.سکھ جتھوں نے دو دفعہ حملہ کیا مگر منہ کی کھانی پڑی.یہ دیکھ کر وہاں پر متعین فوج اور پولیس نے اس گاؤں کے مسلمان زمینداروں کو پکڑ کر زدوکوب کرنا شروع کیا.حکومتی اداروں کے یہ تیور دیکھ کر سٹھیالی والوں کو اپنا گاؤں خالی کرنا پڑا اور وہ قادیان منتقل ہو گئے.پھر قادیان کے نواح میں ایک گاؤں عالمے کو نذر آتش کر دیا گیا.(۱) ستمبر کے پہلے ہفتے میں قادیان کے ارد گرد دیہات میں آٹھ احمدی شہید اور کچھ گرفتار ہوئے.(۲) اس وقت مسلمان لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کر کے مغربی پنجاب جا رہے تھے یا کیمپوں میں منتقل ہو رہے تھے.اسی طرح مغربی پنجاب سے ہندؤں اور سکھوں کی ایک بڑی تعداد مغربی پنجاب چھوڑ کر ہندوستان جا رہی تھی.تاریخ میں اتنے کم وقت میں اتنی بڑی نقل مکانی کبھی نہیں ہوئی تھی.ہر طرف افراتفری کا دور دورہ تھا.اکثر مقامات پر بلوائیوں کا مقابلہ کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی جارہی تھی.اس کے نتیجے میں ہر طرح کے المیے جنم لے رہے تھے.لوگوں کے اموال لوٹے جارہے تھے.عورتیں اغوا ہو رہی تھیں.جائدادوں پر زبر دتی قبضہ کیا جا رہا تھا.ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم تھا.اس پس منظر میں سے ستمبر کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے مشرقی پنجاب کی جماعتوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنی جگہوں کو نہ چھوڑیں.عورتوں اور بچوں کو حفاظت کی غرض سے مغربی پنجاب

Page 208

198 بھجوا دیا جائے.حالات ٹھیک ہونے پر انہیں واپس بلایا جا سکتا ہے (۴۳).حضور کی ہدایت پاکستان ریڈیو سے بھی نشر کی گئی.بظاہر دونوں حکومتیں بھی یہی اعلان کر رہی تھیں کہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر نہ جائیں.کسی کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور نہیں کیا جائے گا.دوسروں لوگوں کے برعکس قادیان کے احمدی منظم طریق پر اپنا جائز دفاع کر رہے تھے.قادیان کے نواح میں بہت سے دیہات میں احمدیوں کی بڑی تعداد موجود تھی.ان سے رابطہ رکھنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے قادیان سے مختلف احباب جیپوں میں جا کر ان سے مل کر ان کا حوصلہ بڑھاتے اور ان کی مشکلات کا جائزہ لیتے.حضور کی طرف سے اس اعلان کے فوراً بعد 9 ستمبر کو مقامی افسران نے یہ الزام لگایا کہ احمدی جیپوں میں علاقے کا دورہ کر کے مسلمانوں کو اس بات پر اکسا رہے ہیں کہ وہ سکھوں پر حملے کریں.اس بودے الزام کو بنیاد بنا کر ان افسران نے علاقے میں جیپوں کی نقل وحرکت پر پابندی لگا دی.حقیقت یہ تھی اس علاقے میں سکھوں پر کوئی حملے ہو ہی نہیں رہے تھے.بلکہ ایک کے بعد دوسرا مسلمان گاؤں تباہ کیا جا رہا تھا.قادیان میں پناہ گزینوں کا ہجوم: اس پابندی کی وجہ سے قادیان اور نواحی جماعتوں کے درمیان رابطہ تقریباً منقطع ہو گیا.اس کے ساتھ ہی نواحی دیہات میں سکھ بلوائیوں نے اپنے حملے شدید تر کر دئیے.زندہ بچ جانے والے مسلمانوں نے پناہ لینے کے لئے قادیان کا رخ کیا.۱۱ اور ۱۲ ستمبر کو ماحول قادیان کے دیہات میں رہنے والے ہزاروں مسلمان اپنے گاؤں خالی کر کے قادیان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے.جلد ہی ان لئے ہوئے پناہ گزینوں کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کرگئی.ان پناہ گزیں مسلمانوں کی بھاری اکثریت جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتی تھی.قادیان کے محصور احمدی خود ہر طرح کے مصائب سے نبرد آزما تھے مگر اس کے باوجود ان مسلمان پناہ گزینوں کو کھلے دل کے ساتھ ہر قسم کی مدد پہنچائی گئی.قادیان کے دفاتر سکولوں، کالج اور ان کے ہاسٹلوں اور احمدیوں کے مکانات میں ان پناہ گزینوں کو ٹھہرایا گیا.مگر یہ جگہ کافی نہیں تھی.بالآخر ہر باغ ، ہر میدان اور ہر راستہ پناہ گزینوں کا کیمپ بن گیا.اکثر کو تو درخت کا سایہ بھی میسر نہیں تھا.سردی کا موسم شروع ہورہا تھا.اکثر پناہ گزینوں کے

Page 209

199 کھانے کا انتظام جماعت کے لنگر کی طرف سے ہوتا رہا.کچھ ماہ قبل حضور کے ارشاد کے ماتحت قادیان میں بڑے پیمانے پر خوراک کے ذخائر جمع کر لئے گئے تھے.ان مشکل ایام میں یہ ذخائر احمدیوں کے کام آنے کے علاوہ ان پناہ گزینوں کو بھی فاقوں سے بچارہے تھے.مہمانوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ لنگر خانے میں ان سب کے لئے روٹیاں پکا ناممکن نہ رہا.چنانچہ انہیں کچی رسد ، آٹا اور دال کی شکل میں دی جانے لگی (۵.۷).عربی کی ایک ضرب المثل ہے کہ الْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الأعْدَاءُ یعنی کسی کے حق میں سب سے افضل شہادت وہ ہے جو دشمن کے منہ سے نکلے.ان خطر ناک حالات میں احمدیوں نے بے کس مسلمانوں کی ایسی عظیم اور بے لوث خدمت کی کہ مخالفین بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے.زمیندار اخبار کے ایڈیٹر ، ظفر علی خان صاحب جماعت کی مخالفت میں پیش پیش رہے تھے.لیکن جب ان حالات میں ان کے اخبار نے ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کے پناہ گزین کیمپوں کا تجزیہ کیا تو یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے تیسرا کیمپ قادیان میں ہے اس میں شک نہیں مرزائیوں نے مسلمانوں کی خدمت قابل شکریہ طریق پر کی لیکن اب حالات بدل رہے ہیں جوانوں کے سوا تمام مرزائیوں کو قادیان سے نکالا جا رہا ہے.‘ (۸) کتاب کاروانِ سخت جان جسے اداره رابطه قرآن، دفتر محاسب دفاع پاکستان نے شائع کیا تھا اس کے مصنف نے قادیان کے حالات کے متعلق تحریر کیا بٹالہ کو چھوڑ کر دوسرے نمبر پر قادیان ایک بڑا قصبہ ہے.جہاں کی آبادی اٹھارہ ہزار نفوس پر مشتمل تھی.یہ مقام علاوہ اپنی صنعتی اور تجارتی شہرت کے جماعت احمدیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے مشہور ہے.اس کے گردونواح میں تمام تر سکھوں کی آبادی ہے.چنانچہ فسادات کے ایام میں ہیں ہیں میل دور کے مسلمان بھی قادیان شریف میں پناہ لینے کے لئے آگئے.یہ تعداد بڑھتے بڑھتے ۷۵ ہزار نفوس تک پہنچ گئی.چونکہ ان پناہ گزینوں کو ظالم اور سفاک سکھوں نے بالکل مفلس اور قلاش کر دیا تھا.لہذا قادیان کے باشندگان نے ان بیچاروں کی کفالت کا بیڑا اٹھایا.ظاہر ہے اتنی بڑی جمیعت کے کیلئے خوراک اور رہائش کا بار اٹھانا کوئی معمولی کام نہیں ہے.اور خصوصاً ایسے ایام میں جبکہ ضروریات زندگی کی اتنی

Page 210

200 گرانی ہو....قادیان سے واقف احباب اس کی صفائی اور نفاست تعمیر سے کما حقہ آگاہ ہوں گے.لیکن پناہ گزینوں کی کثرت سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے میدانِ حشر ہے.‘‘(۹) قادیان سے بچوں اور عورتوں کا انخلاء: اب یہ صاف طور پر نظر آرہا تھا کہ فوج اور پولیس بلوائیوں کی کھلم کھلا مد دکر رہی ہے.قادیان کے ارد گرد دیہات میں چھ سو کے قریب مسلمان عورتوں کو اغوا کیا جا چکا تھا.عورتوں اور بچوں کو پاکستان منتقل کرنے کا فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا تھا اور اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی کیا جا چکا تھا.اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اس عمل کو جلد از جلد مکمل کیا جائے.چنانچہ حضور نے ۱۲ستمبر کے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ قادیان میں آٹھ نو ہزار کے قریب عورتیں اور بچے محصور ہیں.جن کو جلد وہاں سے نکالنے کی ضرورت ہے.ان کو وہاں پر غذا کی قلت کا سامنا ہے.اور بعض عورتیں تو ایسی دلیر ہیں کہ وہاں سے نکلنے سے انکار کر دیتی ہیں مگر چونکہ کئی عورتیں قادیان سے نکل چکی ہیں ، یہ دیکھ کر بہت سی عورتیں گبھرا رہی ہیں.اس وقت ان کو وہاں سے نکالنے کے لئے کم از کم دوسوٹرکوں کی ضرورت ہے.حضور نے تحریک فرمائی کہ سب احمدی اپنے طور پر ٹرکوں کے حصول کی کوشش کریں.چونکہ فوج کے افسران کو با آسانی حکومت کی طرف سے اس غرض کے لئے ٹرک مل جاتے ہیں، اس لئے وہ اس غرض کے لئے خاص طور پر کوشش کریں.اور ٹرک ملنے کی صورت میں جماعت سے رابطہ کریں تا کہ ان عورتوں اور بچوں کو بحافظت قادیان سے پاکستان منتقل کیا جا سکے.ان ہزاروں عورتوں اور بچوں کو بحافظت نکال کر لے آنا کوئی معمولی کام نہ تھا.تمام راستوں پر بلوائیوں کا راج تھا.ایک ایک قافلے میں ہزار سے زائد افراد کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتارا جا رہا تھا.اس قیامت میں قادیان سے آٹھ ہزار عورتوں اور بچوں کا بحفاظت لاہور منتقل کیا جانا، حضرت مصلح موعود کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے.سب سے پہلے تو اس مقصد کے لئے ٹرکوں کا انتظام کرنے کا عمل شروع کیا گیا.احباب جماعت نے حضور کی تحریک کے مطابق اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اور پھر ان قافلوں کے لئے مسلمان ملٹری کی حفاظت کے انتظامات کئے گئے ، ان میں احمدی جوان اور افسران بھی شامل ہوتے.جماعت کی طرف سے حفاظت کے انتظامات اس کے علاوہ تھے.اس کے علاوہ ان قافلوں کو راستے کے تمام

Page 211

201 خطرات اور سازشوں سے بچانا ایک پر حکمت منصوبہ بندی کا تقاضہ کرتا تھا.یہ عمل نومبر کے آغاز تک جاری رہا.جب قافلوں میں عورتیں اور بچے سوار ہو چکتے تو چلنے کے لئے ملٹری کے احکامات کے لئے انتظار کرنا پڑتا.پھر ملٹری ریلوے لائن کے قریب ان ٹرکوں کو رکوا کر ان کی تلاشی لینا شروع کر دیتی اور زبر دستی بعض یا تمام سواریوں کو اتار کر ان کی جگہ ان پناہ گزینوں کو بٹھانے نے کی کوشش کرتی جو اپنی رہی سہی جمع پونجی ان کی نذر کر چکے ہوتے تھے.بعض دفعہ اس عمل میں اتنی تاخیر ہو جاتی کہ قافلے کو رات کے وقت اس غیر محفوظ مقام پر ہی رکھنا پڑتا.ان مسائل کی وجہ سے منتظمین کو جن میں سے اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے نوجوان تھے ، بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا.قادیان سے چلنے والے یہ قافلے جس طرح بخیر و عافیت اپنی منزل کو پہنچے اس کی مثال مشرقی باب سے چلنے والے قافلوں میں کہیں نہیں ملتی.دنیا کی آنکھوں نے تو ظاہری انتظامات کو سراہا.لیکن ان دنوں رتن باغ میں رہنے والوں نے یہ منظر بارہا دیکھا کہ جب کسی قافلے کے پہنچنے کا انتظار ہو رہا ہوتا تو حضرت مصلح موعود ہاتھ میں قرآن شریف لے کر بے چینی سے چلتے ہوئے تلاوت کر رہے ہیں اور جب قافلے کے خیریت کے ساتھ پہنچنے کی اطلاع آئی تو آپ وہیں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے.آپ کی ایک صاحبزادی بیان فرماتی ہیں کہ اس وقت آپ جس جائے نماز پر نوافل ادا کرتے تھے اکثر اس کی سجدہ والی جگہ آنسوؤں سے تر ہو جاتی.(۱۰) جب تک یہ قافلے پہنچتے رہے حضور روزانہ صدقہ دیتے رہے.سید محمد احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ قافلے کے پہنچنے میں غیر معمولی تاریخ ہوگئی اور رات پڑ گئی.حضور نے انہیں طلب فرمایا اور فرمایا کہ وہ جماعت کا ہوائی جہاز لے کر جائیں اور راستہ کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ گمشدہ قافلہ کہاں ہے؟ سید محمد احمد صاحب نے عرض کی اس جہاز پر روشنی کا ایسا انتظام موجود نہیں کہ رات کو زمین پر جائزہ لیا جاسکے.لیکن حضور کی پریشانی کے پیش نظر مولا نا عبد الرحیم صاحب درد نے کہا کہ ٹارچ سے دیکھنے کی کوشش کرو.رات کو ایئر پورٹ پر مکمل اندھیرا تھا.جہاز اڑانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اندھیرے میں ایک گائے سے ٹکرا کر بیکار ہو گیا مگر جہاز پر سوار دو افراد کی جانیں بچ گئیں.لیکن فوراً ہی حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے حضور کی خدمت میں اطلاع بھجوائی کہ قافلہ بخیر و عافیت گورداسپور

Page 212

202 سے روانہ ہو گیا ہے.شاید کوئی تعجب کرے کہ جہاز سے ٹارچ کے ذریعہ زمین پر کسی قافلے کو کیسے ڈھونڈا جا سکتا ہے.یہاں یہ سوال نہیں کہ ایسا کرناممکن ہے کہ نہیں.اصل قابل توجہ امر یہ ہے کہ ایک شفیق باپ احمدیوں کی حفاظت کے لئے دن رات بے قرار تھا.اس کے لئے ہر قسم کی کوششیں بھی کر رہا تھا اور ہر لمحہ ان کے لئے دعائیں بھی کر رہا تھا.اور اصل میں ان دعاؤں کا حصار تھا جس کی حفاظت میں یہ سب قافلے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیر و عافیت اپنی منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے.جماعتی عہدیداروں کی گرفتاریاں: یہ سب کو نظر آرہا تھا کہ مشرقی پنجاب میں کہیں پر بھی مسلمان منظم ہو کر اپنا قانونی دفاع نہیں کر رہے.ضلع گورداسپور میں بھی جہاں پہلے مسلمانوں کی اکثریت تھی مسلمان سراسیمگی کے عالم میں اپنی جانیں بچا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے.صرف قادیان اور اس کے نواح میں احمدی منظم ہو کر بلوائیوں کے ارادوں کو جزوی طور پر ناکام بنا رہے تھے.اور اس آڑے وقت میں یہاں پر بغیر کسی حکومتی مدد کے پناہ گزینوں کی مدد بھی کی جا رہی تھی.اس مرحلے پر فوج اور پولیس نے قادیان میں مقیم جماعتی عہدیداروں پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا.۱۳ اور ۴ استمبر کو حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ مقامی کو ، جو پنجاب اسمبلی کے ممبر بھی تھے، اور مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ کو قتل کا بے بنیاد الزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا.پولیس کا یہ اقدام صرف ظالمانہ ہی نہیں تھا بلکہ خلاف عقل بھی تھا.یہ بزرگ نہ صرف شریف اور معزز شہری تھے بلکہ عمر اور صحت کے اعتبار سے بھی اس حالت میں نہ تھے کہ ان سے قتل کروائے جاتے.اور مکرم شاہ صاحب ضعیف اور بوڑھا ہونے کے علاوہ ایک ٹانگ میں لنگ بھی رکھتے تھے (۱۱) اس کے بعد بھی جماعت کے عہد یداروں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا.اور جب مولوی عبد العزیز صاحب اور مکرم مولانا احمد خان نسیم صاحب کو گرفتار کیا گیا تو ان کا منہ کالا کر کے دہاریوال کے بازاروں میں پھرایا اور لوگوں سے پٹوایا گیا.مولوی احمد خان نیم صاحب کو ہی قریباً ایک ہزار جوتے مارے گئے.اور یہ اذیت دے کر بار بار پوچھا جاتا کہ بتاؤ ناظر امور عامہ کے اسلحہ کے ذخائر کہاں ہیں؟ ان بزرگوں نے نہایت صبر و شکر سے یہ ابتلاء برداشت کئے.(۱۲)

Page 213

203 اس مرحلے پر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے جماعت کے نام ایک اہم پیغام شائع فرمایا.اس میں حضور نے اس ابتلاء کے موقع پر نمازوں اور روزوں کی طرف توجہ دلائی.حضور نے فرمایا کہ آج ہی اپنے دل میں عہد کر لیں کہ قادیان کی حفاظت کرتے چلے جانا ہے اور اگر ہندوستانی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے ہمیں اگر قادیان خدا نخواستہ خالی کرنا پڑے تو ہر ایک احمدی قسم کھالے کہ وہ اسے واپس لے کر چھوڑے گا.اس مصیبت کے وقت احمدی زیادہ سے زیادہ کمائیں ، کم سے کم خرچ کریں اور زیادہ سے زیادہ چندہ دیں.اس وقت ہر مسلمان سے ہمدردی کرنا ہمارا نصب العین ہونا چاہئیے.اب اختلافات پر زور دینا اور احمدی اور غیر احمدی پر زور دینا ایک قومی غداری ہوگی.حضور نے تاکید فرمائی کہ کبھی کسی غریب اور بے کس پر ظلم نہ کرو.ہر ہندو اور سکھ بھی خدا تعالیٰ کا بندہ ہے.پس ان تمام اختلافات کے باوجود ایک ہندو بھی ہمارا بھائی ہے اور ایک سکھ بھی ہمارا بھائی ہے.ہم اس کو ظلم نہیں کرنے دیں گے مگر ہم اس پر ظلم ہونے بھی نہیں دیں گے.یہ بھی سوچو کسی دن یہ لوگ اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی ترقی کا موجب ہوں گے.کل جس باغ کے پھل ہمیں ملنے والے ہیں.ہم اسے کیوں اجاڑیں.(۱۳) قادیان کے گرد گھیراتنگ ہوتا ہے: یہ گرفتاریاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھیں کیونکہ ان کے ساتھ ہی قادیان اور اسر بالکل متصل احمدی دیہات پر حملے شروع ہو گئے.اب تک جو گاؤں ان حملوں کا نشانہ بنے تھے وہ قادیان سے کچھ فاصلے پر تھے.۶ استمبر کو قادیان کے شمال مغربی محلے اسلام آباد پر سکھوں کا حملہ ہوا.۸ استمبر کو شمال میں قادیان سے ملحقہ گاؤں موضع کھارا پر ہزاروں سکھوں نے ہندوستانی ملٹری کی موجودگی میں حملہ کیا اور اگلے روز یہ گاؤں خالی کرا لیا گیا.اس کے ایک دن بعد قادیان کے شمالی محلے دار السعہ پر سکھ جتھوں نے پولیس کی مدد سے حملہ کیا اور اسے بھی زبردستی خالی کرالیا گیا.9 ستمبر کو قادیان کے جنوب پر حملے شروع ہوئے اور بہشتی مقبرہ سے ملحقہ گاؤں منگل باغبان کو سکھ جتھوں نے پولیس کی مدد سے حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا.اور اس کے اگلے روز حسب سابق پولیس نے بلوائیوں کی مدد کی اور قادیان سے متصل گاؤں قادر آباد کو بھی خالی کرالیا گیا.(۱۴)

Page 214

204 مغربی پنجاب سے روزانہ ہزاروں ہندو اور سکھ مجبوری کی حالت میں مشرقی پنجاب پہنچ رہے تھے.ہندوستان کی حکومت ان کو وہ جائیدادیں اور مکانات الاٹ کر رہی تھی جن سے مسلمانوں کو زبر دستی بے دخل کیا گیا تھا اور اس بات کا انتظار نہیں کیا جا رہا تھا کہ مسلمان حالات ٹھیک ہونے پر اپنی جگہوں پر واپس آجائیں.اگر چہ دونوں حکومتیں اعلانات کر رہی تھیں کہ کسی کو زبردستی اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا.اگر یہ لوگ واپس آتے تو جاتے کہاں ان کا سب کچھ لٹ چکا تھا اور جائیداد میں دوسروں کو دے دی گئی تھیں.چنانچہ ستمبر کے وسط تک صرف ضلع امرتسر میں نقلِ مکانی کرنے والے ۲۵ ہزار ہندؤں اور سکھوں کو وہ زرعی زمینیں الاٹ کر دی گئی تھیں جن سے مسلمانوں کو بے دخل کیا گیا تھا.اور اسی طرح اس وقت تک اسی فیصد مکانوں اور دوکانوں پر بھی قبضہ ہو چکا تھا.(۱۵-۱۶) اس منحوس چکر کو روکنے کے لئے دونوں حکومتوں میں مفاہمت بھی ہوئی مگر نتیجہ صفر نکلا.۱۵ ستمبر کو وزیر اعظم پاکستان نے ہندوستان کی حکومت پر اس کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا اور واضح کیا کہ ان کے نزدیک مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام ایک ناپاک سازش ہے جس کا مقصد پاکستان کی ریاست کو اس کے آغاز سے ہی ناکام بنا دینا ہے.(۱۷) جواب میں وزیر اعظم ہندوستان پنڈت جواہر لال نہرو نے اس الزام کی تردید کی کہ پاکستان کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور کہا کہ ہندوستان کی فوج مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے ہر پناہ گزیں کیمپ اور نقلِ مکانی کرنے والے تمام قافلوں کی حفاظت کر رہی ہے.(۱۸) گومشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو رہا تھا لیکن فساد کرنے والوں کو قادیان میں بالکل علیحدہ صورتِ حال نظر آرہی تھی.قادیان کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا تھا.ملحقہ دیہات پر اور بعض مضافات پر فوج اور پولیس کی مدد سے بلوائی قبضہ کر چکے تھے.دار مسیح کے بالکل ساتھ ہندؤں کا محلہ تھا.گو قادیان میں اب تک احمدیوں کی اکثریت تھی لیکن اتنے سالوں میں کبھی کسی ہندو یا سکھ کا بال بھی بیکا نہیں ہوا تھا.مگر اب یہی لوگ جماعت کے خلاف زہر اگل رہے تھے اور سازشوں میں شریک تھے.اس صورت حال میں عورتوں اور بچوں کو وہاں سے نکالا جا رہا تھا اور سلسلے کے اہم کارکنان اور بعض دیگر افراد بھی وہاں سے منتقل ہو رہے تھے.لیکن اس کے ساتھ باہر سے احمدی قادیان کی حفاظت کے لئے وہاں پہنچ رہے تھے اور اس بات کے کوئی آثار نہیں تھے کہ دوسری جگہوں

Page 215

205 کی طرح قادیان بھی مکمل طور پر خالی کر دیا جائے گا اور قادیان کے مقدس مقامات ان مفسدوں کے حوالے کر دیئے جائیں گے.چنانچہ احمدیوں کی قوت مدافعت توڑنے کے لئے ایک علیحدہ طریقہ کار اپنایا گیا.ایک طرف تو فوج نے خواتین اور بچوں کے قافلے بھجوانے کے راستے میں بے جا روکیں ڈالنی شروع کیں اور دوسری طرف ۲۱ ستمبر کو قادیان میں کرفیو گا دیا گیا.شروع میں یہ کرفیو شام سے صبح تک تھا مگر پھر اس کا دورانیہ بڑھا دیا گیا.کرفیو کا اطلاق صرف مسلمانوں پر تھا.اردگرد دیہات کے سکھ غنڈے کرفیو کے دوران آزادانہ طور پر قادیان کی گلیوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے.ہزاروں مسلمان پناہ گزیں اردگرد کے دیہات سے آکر کھلے آسمان کے نیچے پڑے تھے یہ ظالم موقع ملنے پر ان کے اموال لوٹ لیتے اور ان کی عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے.جب تشدد کا کوئی نیا کارنامہ سرانجام دینا ہوتا تو کرفیو کی گھنٹی بجادی جاتی تاکہ کوئی جوابی کا روائی بھی نہ ہو سکے.(۱۹) حکومتی اداروں سے اپیل: جماعت کی طرف سے حکومتی اداروں کو اس ظلم کی طرف توجہ دلانے کی ہر ممکنہ کوشش کی جارہی تھی.ڈپٹی کمشنر اور ہوم منسٹر کو سارے حالات لکھے گئے لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا ( ۲۰ ).جماعت کا وفد صوبے کے وزیر اعظم اور ہوم منسٹر سے ملا انہوں نے بجائے بلوائیوں کو قابو کرنے کے الزام لگایا کہ احمدیوں نے قادیان کے قریب مہارا نامی گاؤں پر حملہ کر کے کچھ سکھوں کو مار ڈالا ہے.حالانکہ اس نام کا گاؤں اس علاقے میں تھا ہی نہیں.اور نہ ہی احمدیوں نے کہیں حملہ کیا تھا.وہ تو صرف اپنا جائز دفاع کر رہے تھے (۲۱ تا ۲۳) گاندھی جی کی طرف سے بیانات شائع ہو رہے تھے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کو نہیں جانا چاہئیے.جماعت نے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپیل کی کہ مشرقی پنجاب میں رہنے والے احمدی اپنی جگہوں پر رہنا چاہتے ہیں اور گاندھی جی کی توجہ قادیان میں محصور احمدیوں اور دیگر مسلمانوں کی حالت کی طرف مبذول کرائی جن کی زندگیاں خطرے میں تھیں.اور انہیں تفصیلی رپورٹ بھی بھجوائی گئی.گاندھی جی کے نام یہ اپیل غیر از جماعت اخبارات نے بھی شائع کی.لیکن حسب سابق مصلحت آمیز خاموشی کے علاوہ کوئی جواب نہ ملا.(۲۲)

Page 216

206 قادیان پر بڑے حملے کی تیاری: اب یہ نظر آ رہا تھا کہ مفسدوں کی طرف سے کسی بڑے حملے کے لئے تیاری کی جارہی ہے.فوج نے بجائے بلوائیوں کو لگام دینے کے احمدیوں کو ہی جائز اسلحہ سے محروم کرنا شروع کر دیا.۲۲ ستمبر کو فوج نے حضور کے مکانات ، دفاتر ، دارا اسی کے دیگر مکانات اور دوسرے دفاتر کی تلاشی لی اور جو لائسنس والا اسلحہ ملا اسے بھی اپنے قبضہ میں لے لیا.ٹرنکوں کے قفل تو ڑ کر اور فرش کھود کر بھی تسلی کی کہ یہاں کچھ چھپایا تو نہیں گیا.اس دن یہ خبر بھی ملی کہ امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو گرفتار کرنے کا منصوبہ ہے.۲۳ ستمبر کو حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو لاہور بلالیا اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحب امیر مقامی مقرر ہوئے.اگلے چند روز پولیس نے قادیان کے ایسے کئی مکانات کی تلاشی لی جن میں پناہ گزیں ٹہرے ہوئے تھے اور ان کی بہت سی قیمتی اشیاء غصب کرلیں اور فوج نے یہ کارنامہ کیا کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی پر قبضہ کر لیا.چوہدری صاحب اس وقت اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائیندگی کر رہے تھے ، جب یہ خبر وہاں پہنچی تو اس سے ہندوستانی حکومت کی بہت بدنامی ہوئی.اس پر پنڈت جواہر لال نہرو صاحب کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے بھی اپنے بھائی کو احتجاجی تار دی.۲۷ ستمبر کا دن مویشیوں کی لوٹ کے لئے مخصوص کیا گیا.اس روز سکھ جتھوں نے پولیس کی مدد سے پناہ گزینوں اور قادیان کے احمدیوں کے تقریباً ۲۵ ہزار مویشی لوٹے.۲۹ ستمبر کو قادیان کے مشرقی محلہ دارالا نوار کے بہت سے مکانات سے سامان لوٹا گیا.پھر فوج نے حضور کا ایک گھر دار الحمد خالی کرالیا ، اگر چہ حضور کے بیٹے اس وقت قادیان میں موجود تھے.اب تقریباً سارا علاقہ مسلمانوں سے خالی ہو چکا تھا جو مسلمان پاکستان نہیں جا سکے تھے وہ پناہ گزیں کیمپوں میں پڑے ہر قسم کے مظالم کا نشانہ بن رہے تھے.ایسی صورت میں باوجود فوج اور پولیس کے مظالم کے اور بے سروسامانی کے ایک قادیان میں ہی احمدی اپنے مقدس مقامات کا دفاع کر رہے تھے.اس موقع پر غیر از جماعت اخبار بھی جماعت کی ہمت کی داد تو دے رہے تھے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لکھ رہے تھے کہ یہ جد و جہد لا حاصل ہے.دشمن اب قادیان کو تباہ کر کے ہی رہے گا، ان حالات میں قادیان کا دفاع نہیں کیا جا سکتا.اس لئے احمدیوں کو وہاں سے

Page 217

207 اپنی جانیں بچا کر نکل آنا چاہئیے.روزنامہ احسان نے اپنی ۲۵ستمبر کی اشاعت میں قادیان کے حالات کا تفصیلی تجزیہ کیا اور اس کی سرخی یہ تھی قادیان کے باشندوں پر سکھ فوج اور پولیس کے بے پناہ مظالم ان لوگوں نے آخری وقت تک مقابلہ کرنے کی ٹھان لی اس تجزیے میں اخبار نے لکھا " آخر قادیان کے متعلق ہندوؤں اور سکھوں کی سازشیں بروئے کار آئیں.۲۱ ستمبر سے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے.تازہ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ سکھ پولیس اور ہندو ملٹری کی مدد سے قادیان میں تباہی مچانا چاہتے ہیں.اس وقت قادیان میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ پناہ گزیں جمع ہیں.ہند و ملٹری اور سکھ پولیس کے ظلم وستم اور آئین سوز حرکات کے باوجود قادیان کے نو جوان ہراساں نہیں ہوئے.وہ خندہ پیشانی کے ساتھ موت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں....قادیان کے نوجوان ملٹری کے جبر و تشدد سے بالکل خوف زدہ نہیں.وہ صرف اس بات کے خواہشمند ہیں.کہ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو یہاں سے نکال دیا جائے.وہ خوب جانتے ہیں.کہ اب وہ آہستہ آہستہ موت کے گھیرے میں آتے جاتے ہیں...محکمہ حفاظت قادیان کے ماتحت کام کرنے والے نو جوان بعض اوقات چوبیس چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی ادا کرتے اور رات دن پہرا دیتے ہیں گو نیند اور بے آرامی کی وجہ سے ان کی صحت کمزور ہو چکی ہے مگر وہ موت کے ڈر سے بھاگنے کی بجائے موت سے مقابلہ کرنے پر آمادہ ہیں.“ روز نامه احسان میں ہی اسی روز حضور کے نام یہ اپیل شائع ہوئی کہ وہ اب قادیان کو تباہی سے بچانے کا خیال ترک کر دیں.اس میں لکھا خلیفہ صاحب قادیان میں اپنی جماعت کو یہی مشورہ دے رہے ہیں.کہ وہ قادیان کی حفاظت کے لئے آخری دم تک وہیں رہے.خلیفہ صاحب کی یہ ہمت قابل دادضرور ہے...لیکن حالات سے بے نیاز ہو کر کام کرنا اور ہزار ہا نہتے لوگوں کو اتنی آزمائش میں

Page 218

208 ڈالنا مناسب نہیں....یہ محض خام خیالی ہے کہ وہاں بہت دیر تک مقابلے میں جسے رہنے سے اس بات کو اس قدر شہرت ملے گی.کہ ہندوستان کی حکومت مرعوب ہو کر قادیان کو تباہ کرنے سے اپنا ہاتھ کھینچ لے گی.“ اب دشمن اس بات کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک آخری حملہ کر کے قادیان کو مکمل طور پر خالی کرالیا جائے اور مقدس مقامات کو تہس نہیں کر دیا جائے.کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے ایک اور قدم یہ اٹھایا گیا کہ بجلی کی رو بند کر دی گئی.پولیس نے حکماً آٹا پینے والی برقی چکیاں بند کر دیں.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محصورین کو گندم ابال کر کھانی پڑی اور ان میں پیچش کے امراض پھیل گئے.اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ پولیس نے حکم دیا کہ کسی کے گھر میں دو بوری سے زیادہ گندم نہیں ہونی چاہئیے.بقیہ غلہ پولیس نے ضبط کر لیا.یہ سب مظالم احمدیوں کی قوت مدافعت توڑنے کے لئے کئے جارہے تھے.۲ اکتوبر کو فوج نے زبر دستی احمدیوں اور دیگر پناہ گزینوں کو تعلیم الاسلام کالج سے بے دخل کر دیا.حالانکہ اس کی مالک صدرانجمن احمد یہ قادیان میں قائم تھی.۲ اکتوبر کو حضور نے بتیس لاریوں کا ایک قافلہ قادیان کے لئے روانہ فرمایا.اس میں کچھ خدام قادیان کی حفاظت کے لئے جا رہے تھے اور یہ لاریاں قادیان کے پناہ گزینوں کو لانے کے لئے بھجوائی جا رہی تھیں.حضور نے انہیں رخصت کرتے وقت فرمایا کہ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس قافلے کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آنے والا ہے.جب قافلہ بٹالہ سے آگے نکلنے لگا تو فوج نے یہ بہانہ کر کے اسے روک دیا کہ آگے بارش کی وجہ سے راستہ خراب ہے.یہ صرف بہانہ تھا ، حقیقت یہ تھی کہ اب قادیان پر ایک بڑا حملہ کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا.بعد میں اس کنوائے پر حملہ بھی ہو ا.۲ اکتوبر کو سکھوں نے دارالراحت محلہ پر حملہ کیا مگر انہیں واپس جانا پڑا.قادیان پر بڑا حملہ: ۲ اور ۳ اکتوبر کی درمیانی رات کو دار اسی میں موجود لوگوں نے مشرق کی طرف سے گولیاں چلنے کی آواز میں سنیں.اس کے ساتھ نعروں کی آوازیں بھی بلند ہوئیں.جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ مشرق میں قادیان سے متصل موضع بھینی پر سکھوں کا حملہ ہو گیا ہے.آدھی رات کو مسجد اقصیٰ میں ایک نہایت

Page 219

209 خوفناک دھما کہ ہوا.معلوم ہوا کہ مسجد اقصیٰ میں بم پھینکا گیا ہے.لیکن کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا.ساری رات فضا گولیوں کی آوازوں اور زخمیوں کی آہ و بکا سے گونجتی رہی.صبح کو مکانوں کی چھتوں سے دیکھا گیا کہ محلہ دارالرحمت کے قریب کھیتوں میں سکھوں کا جتھہ جمع ہو رہا ہے.جلد ہی ان کی تعداد سینکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں تک پہنچ گئی.پولیس اور فوج بھی وہاں موجود تھی مگر ان کو روکنے کی بجائے انہیں کچھ ہدایات دیتی نظر آ رہی تھی.جلد ہی ان بلوائیوں نے محلہ دارالرحمت پر حملہ کیا مگر جب حفاظت پر مقرر خدام سامنے آئے تو یہ ہجوم بھاگنے پر مجبور ہو گیا.یہ پسپائی دیکھ کر ایک مرتبہ پھر فوج اور پولیس کو بلوائیوں کی مدد کو آنا پڑا.پولیس اور ملٹری دوسری طرف سے محلہ میں داخل ہوئے اور گولیاں چلانی شروع کر دیں اور اس کے ساتھ سکھ جتھوں نے قطاریں بنا کر ایک بار پھر محلہ کی طرف بڑھنا شروع کیا.فوجی اور سپاہی ہر دروازے پر جا کر کہتے کہ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ گولی چلا دیں گے اور یہ حملہ آور تمہیں مار دیں گے.ایسی صورت میں سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی تھی کہ عورتوں کو یہاں سے نکال کر حفاظت کے مقام پر پہنچایا جائے.احمدی عورتوں کو بورڈ نگ تحریک جدید میں منتقل کرنے کا کام شروع ہوامگر سامنے تقریباً دو ہزار سکھ اور پولیس والے حملہ کر رہے تھے.چنانچہ احمدی نوجوانوں نے مورچہ بنا کر بہادری سے حملہ آوروں کا مقابل کرنا شروع کیا.اور یہ نوجوان چار بجے تک اپنے مورچے سے فائرنگ کر کے حملہ آوروں کو روکتے رہے.میں چالیس حملہ اور مارے گئے.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام عورتوں کو بورڈنگ میں پہنچا دیا.آخر کار فوج اور پولیس نے محلہ دارالرحمت کو بھی خالی کرالیا.ایک طرف تو محلہ دارالرحمت میں یہ قیامت بپا کی جارہی تھی اور دوسری طرف مسجد اقصیٰ کے مغرب میں پولیس کے سپاہی اور سکھ حملہ آور ، احمدیوں کے محلہ میں چھتیں پھلانگ کر داخل ہو گئے اور احمدیوں کا قتلِ عام شروع کر دیا.اسی وقت مسجد مبارک میں بندوق بردار لوگوں کی ڈیوٹی لگا دی گئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب جائزہ لینے کے لئے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوئے.سب سے پہلے تو عورتوں کو ایک کھڑکی کے ذریعہ مسجد اقصیٰ میں لایا گیا.با وجود تمام مظالم کے اب تک احمدی اس بات سے احتراز کرتے رہے تھے کہ فوج یا پولیس سے مقابلہ کریں.گو کہ ان کی چیرہ دستیوں سے اکثریت کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے تھے.لیکن اب فوج اور پولیس کے آدمی قانون نافذ کرنے کی بجائے خود قتل عام کر رہے تھے.اور اب یہ جنگ

Page 220

210 مقامات مقدسہ تک پہنچ چکی تھی.ان وحشیوں سے عورتوں کو بھی بچانا ضروری تھا.چنانچہ اب یہ فیصلہ کیا گیا کہ مینارہ اسیح سے بگل بجا دیا جائے.یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب ہر حملہ آور سے مقابلے کی اجازت ہے.چونکہ حلقہ مسجد مبارک میں دارالرحمت کے حالات کا صحیح اندازہ نہیں تھا، اس لئے یہ اشارہ بھی تاخیر سے دیا جا رہا تھا.جو نہی مینارہ سے بگل کی آواز بلند ہوئی احمدیوں نے فائر کھول دیا اور با قاعدہ مقابلہ شروع ہو گیا.ابھی بگل کی آواز کو زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ حملہ آور سر پر پاؤں رکھ کے بھاگے اور دیکھتے دیکھتے غائب ہو گئے.ظالموں کی حرص بہت زیادہ مگر ہمت بہت تھوڑی ہوتی ہے.۳ اکتوبر کے المناک دن تقریباً دو سو احمدیوں نے جام شہادت نوش کیا.ظالموں نے بہت سی لاشیں بھی احمدیوں کو نہیں دیں.حضور نے 10 اکتوبر کو ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور شہداء کے متعلق فرمایا اب وہ ہماری یادگار اور ہماری تاریخ کی امانت ہیں اور ہماری جماعت ان کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے گی.اگر وہ بے نام ہیں تب بھی وہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں زندہ رہیں گے (۲۴).اکثر محلوں میں رہنے والے بورڈنگ اور دارا مسیح میں محصور ہو گئے.لیکن قادیان کے مقامات مقدسہ کو تباہ کرنے اور تمام احمدیوں کو یہاں سے نکالنے کی ناپاک کوشش ناکام ہو گئی.باوجود اس کے کہ فوج اور پولیس نے آٹھ نو ہزار حملہ آوروں کی معیت میں حملہ کیا تھا.اور اپنی طرف سے ان ارادوں کو کامیاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی.(۲۵ تا ۲۷) اس خون آلود پس منظر میں یہ تشویشناک خبریں موصول ہونے لگیں کہ ہندوستان کی حکومت اس تجویز پر غور کر رہی ہے کہ قادیان کو چھاؤنی بنا دیا جائے اور ضلع کے دوسرے دفاتر بھی گورداسپور کی بجائے قادیان منتقل کر دیئے جائیں.روزنامہ احسان نے اس خبر کو شائع بھی کیا.اب حکومت کے پاس تو قادیان میں ان مقاصد کے لیئے عمارات موجود نہیں تھیں.اس سے صرف یہ مطلب نکلتا تھا کہ جماعتی عمارات اور احمدیوں کے نجی مکانات پر زبردستی قبضہ کر کے ان میں چھاؤنی اور دوسرے دفاتر قائم کیئے جائیں گے.(۲۸) بڑے حملے کے وقت قادیان کے محلے خالی کر کے ، عورتیں، بچے اور مرد بورڈنگ میں جمع ہو گئے تھے.مگر یہ بورڈنگ تو صرف چند سولڑکوں کی رہائش کے لئے بنائی گئی تھی.اس میں ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزینوں کے لئے جگہ کہاں تھی.عمارت کے اندر عورتوں اور بچوں کے ہجوم کی وجہ سے تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی.مرد باہر شیڈ کے یا درختوں کے نیچے یا پھر کھلے آسمان کے تلے رہنے پر مجبور

Page 221

211 تھے.بارشیں بہت ہوئی تھیں.زمین گیلی تھی اور جگہ جگہ نشیبی زمین میں پانی جمع تھا.یہ جگہ گذشتہ تین ماہ سے پناہ گزینوں کے کیمپ کے طور پر استعمال ہو رہی تھی.اور یہاں پر حوائج ضروریہ کے لئے کوئی انتظام نہ تھا.کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہوئے لوگ رات کے اندھیرے میں جہاں موقع ملتا حوائج ضروریہ سے فراغت پالیتے.زمین گندگی سے اتنی اٹی ہوئی تھی کہ لیٹ کر سونا بھی محال تھا.اب جبکہ ہزاروں احمدی بھی یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تو کھانے کے لئے فقط ابلی ہوئی گندم ہی مل سکتی تھی.پانی کے لئے ایک کنواں تھا اور ایک نلکہ.باہر جا کر پانی تک لانا ناممکن نظر آرہا تھا.کنویں پر پانی پینے والوں کا ہجوم ہوا تو اسی تگا پو میں ڈول کنویں کے اندر گر گیا.بازار بند اور کرفیو نافذ.اب نیا ڈول اور رسی کہاں سے آتی.اب ان ہزاروں مظلوموں کو پانی مہیا کرنے کے لئے اب ایک نلکہ ہی رہ گیا تھا.اسی بے بسی کے عالم میں ۱۵ اور ۱۶ اکتوبر کی درمیانی رات میں بارش ہو گئی.درختوں پر جو پانی گرتا.وہ ایک پتے سے دوسرے پتے پر منتقل ہوتا ہوا ایک دھار کی صورت میں گرتا.کئی لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اوک بنا کر سیر ہو کر پانی پیا.یہ لوگ اسی حالت میں وہاں ٹھہرے رہے.جب عورتیں اور بچے اور بہت سے مرد بھی مختلف کنوائے کی صورت میں پاکستان روانہ ہو گئے اور صرف تین سو کے قریب افراد بورڈنگ میں رہ گئے تو یہ لوگ یہاں سے حلقہ مسجد مبارک منتقل ہوئے.(۲۹) حکومت کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے: یوں تو پورے پنجاب میں قیامت برپاتھی.مشرقی پنجاب سے تمام مسلمان افراتفری کی حالت میں نکلنے پر مجبور تھے، اس دور ابتلاء میں ان کی جانیں ، اموال اور عورتوں کی عزتیں محفوظ نہیں تھیں.ہر طرف بھگدڑ مچی ہوئی تھی.صرف قادیان کی چھوٹی سی بستی ایسی جگہ تھی جہاں پر جرات مندانہ مزاحمت کی جارہی تھی اور عورتوں اور بچوں کا منظم انخلاء کامیابی سے جاری تھا.اس وقت غیر بھی اس بہادری کو سرا ہے بغیر نہ رہ سکے.حکومت کی طرف سے کنوائے کی حفاظت کے لئے کچھ فوج کے افسران بھی مقرر کئے جاتے تھے.ایک مرتبہ ان کے ساتھ ایک یوروپی میجر بھی آئے جو مذہبا یہودی تھے.وہ قادیان کے نوجوانوں کا جذ بہر دیکھ کر بہت متاثر ہوئے.جب ہندوستانی حکام نے قافلے کی تلاشی لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر تلاشی سے انکار کر دیا کہ دونوں حکومتوں کا معاہدہ ہے

Page 222

212 کہ تلاشی نہیں ہوگی.تکرار بڑھی تو انہوں نے کہا کہ مجھے گولی مار دو مگر تلاشی نہیں ہو گی.بعد میں یہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اعتراف کیا کہ میں نے قادیان میں جو نو جوان دیکھے ہیں وہ ان یہودی نوجوانوں سے بھی زیادہ بہادر ہیں جنہیں فوجی طور پر ٹرین کیا گیا ہے اور جو ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ہیں.آپ کے نوجوانوں نے اگر اپنی جانیں دے دیں تو بے شک ان کی موت شاندار موت ہوگی.لیکن میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ انہیں مرنے نہ دیں کیونکہ اگر وہ زندہ رہے تو ان کی زندگی ان کی موت سے بھی زیادہ شاندار ہوگی.(۲۶ و ۳۰) اب قادیان کے حالات غیر از جماعت حلقوں میں بھی ایک اہمیت اختیار کر چکے تھے.چنانچہ پاکستان ٹائمنز نے ۴ اکتوبر ۱۹۴۷ کو قادیان کے عنوان سے اداریہ تحریر کیا.اس وقت فیض احمد فیض پاکستان ٹائمنر کے ایڈیٹر تھے.ابھی اس بڑے حملے کی اطلاع پاکستان نہیں ملی تھی.اس اداریے میں تحریر کیا گیا کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر لوگ اپنے گھروں میں رہ کر بہادری سے خطرات کا مقابلہ کرتے تو اتنے وسیع پیمانے پر تباہیوں سے بچ جاتے اور اتنے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت نہ کرنی پڑتی.قادیان کے باشندوں نے اس سلسلے میں ایک آزمائشی مثال قائم کی ہے اور یہ لوگ وہیں پر ٹھہرے رہے ہیں.اور یہ بات مشرقی پنجاب کی حکومت کے لئے ایک امتحان کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ اس امتحان میں بری طرح ناکام رہے ہیں.اگر احمدی اب تک بچے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ ان کی اعلیٰ درجے کی تنظیم ہے.وہ پچاس ہزار مسلمانوں کو وہاں پر پناہ دے رہے ہیں اور انہیں خوراک بھی مہیا کر رہے ہیں.اگر چہ احمدی ہمیشہ ملکی حکومت کے وفادار رہے ہیں مگر اب حکومتی ادارے ہی ان پر ظلم کر رہے ہیں.ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہاں سے عورتوں اور بچوں کو نکالنے کا انتظام کرے.قادیان کے مرد وہیں پر ٹھہر نا چاہتے ہیں.(۳۱) جب قادیان پر ۳ اکتوبر کا بڑا حملہ ہوا تو اس وقت قادیان کے احمدیوں کا لاہور سے رابطہ بالکل منقطع ہو چکا تھا.دس روز سے نہ کوئی کنوائے آیا تھا اور نہ ہی فون پر حضور گو اس کی اطلاع کی جا سکی تھی.قادیان میں موجود آبادی صرف حلقہ مسجد مبارک ، بورڈ نگ تحریک جدید اور دارالانوار کے کچھ گھروں تک مقید ہو کر رہ گئی تھی.اس ابتلاء کے وقت ۶ اکتوبر کو قادیان والوں نے ریڈیو پاکستان پر حضرت مصلح موعود کا اہلِ قادیان کے نام پیغام سنا.اپنے امام کا پیغام سن کر سب کے دلوں کو

Page 223

213 ڈھارس ہوئی.شروع میں حکومت نے یہ خبر چھپانے کی کوشش کی.لیکن اس نے تو بہر حال ظاہر ہونا تھا.اس سے حکومتِ ہندوستان کی بہت بدنامی ہوئی کیونکہ قادیان میں حکومتی اداروں نے مرکزی حکومت کے دعووں کے بالکل برعکس رویہ دکھایا تھا.حکومتِ پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر غضنفر علی خان صاحب نے قادیان پر اس وحشیانہ حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر ہونے والے حملوں میں سے یہ حملہ سب سے زیادہ بزدلانہ تھا.قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سازش میں شریک تھے.مشرقی پنجاب کی حکومت کا فرض ہے کہ اس سانحے کی وضاحت پیش کرے (۳۲).۷ اکتوبر کو ڈپٹی کمشنر اور ایس پی قادیان کا جائزہ لینے آئے.امیر مقامی حضرت مرزا عزیز احمد صاحب نے سارے حالات انہیں سنائے اور کھول کر بیان کیا کہ تمہارے لوگوں کی طرف سے یہاں پر یہ ظلم کیا گیا ہے.انہوں نے بظاہر انکار کیا کہ یہ ان کے حکم پر ہوا ہے لیکن ساتھ احمدیوں کو ہراساں کرنے کے لئے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان اور ہندوستان میں جنگ چھڑی تو آپ لوگوں کو دشمن تصور کیا جائے گا اور ختم کر دیا جائے گا.اس سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہاں سے ہر قیمت پر احمدیوں کو نکالنا چاہتے ہیں.اگلے روز بھارتی فوج کے جی اوسی میجر جنرل تھمایا بھی قادیان کا جائزہ لینے آئے ( جنرل تھمایا بعد میں ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف بنے تھے ).ان کے ساتھ پاکستانی فوج کے احمدی افسران برگیڈیئر افتخار جنجوعہ، برگیڈیئر نذیر صاحب اور حضرت مولانا عبد الرحیم در دصاحب بھی تھے.جنرل تھمایا نے حالات کا جائزہ لیا اور اسوقت اعتراف کیا کہ قادیان پر ایک بڑا حملہ کرایا گیا ہے اور مظالم کئے گئے ہیں.اور یہ کہ کرفیو لگانا قطعاً غلط تھا.یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ واپس جا کر مسلمان ملٹری قادیان بھجوائیں گے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ لوگوں کی حفاظت کرنا مشکل ہو گا.حالانکہ یہ حفاظت مہیا کرنا ان کا فرض تھا اس بات کا مقصد صرف احمدیوں کو ہراساں کر کے قادیان چھوڑنے پر آمادہ کرنا تھا.لیکن دو روز بعد ہندوستان ریڈیو نے یہ خبر نشر کی کہ قادیان پر حملے کی اطلاع ملتے ہی جنرل تھمایا نے پاکستانی افسران اور جماعت احمدیہ کے نمائندے کے ہمراہ قادیان کا دورہ کیا اور ان تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ قادیان پر سرے سے کوئی حملہ ہوا ہی نہیں.ایسی صورت میں جب یہ خبر اچھی طرح مشتہر ہو چکی تھی یہ سفید جھوٹ حقائق کو چھپانے کی ایک بھونڈی کوشش تھی.جماعت کی طرف سے فوراً حقائق پر مشتمل بیان جاری کیا گیا اور ناظر امورِ

Page 224

214 خارجہ حضرت مولانا عبدالرحیم در دصاحب نے ، جو اس دورے پر جنرل تھمایا کے ہمراہ تھے، اس خبر کی تردید میں ایک تفصیلی پریس سٹیٹمنٹ جاری کی.اس طرح یہ خبر حکومت کے لئے خفت کا باعث بنی.ابھی یہ معاملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ وزیر اعظم ہندوستان پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک بیان جاری کیا کہ قادیان میں احمدیوں کو نہ تو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ہراساں کیا گیا ہے اور ہندوستان کی ملٹری ان کی حفاظت کر رہی ہے.اس پر ایک بار پھر جماعت نے حقائق پر مشتمل تردیدی بیان جاری کیا اور وزیر اعظم کو تار بھی بھجوائی اور اس میں حقائق پیش کرنے کے علاوہ لکھا کہ یہ ویسی ہی پرانی کہانی دہرائی جا رہی ہے جیسا کہ برٹش دور میں حکومت کانگرس کے لیڈروں کو ہراساں کرتی تھی اور پھر اس کی تردید بھی کر دیتی تھی.اور کانگرس اس پرا پیگینڈا کے سامنے بے بس ہوتی تھی.تشدد کے خوف سے نقل مکانی کو روکنے کے لئے دونوں ممالک کی طرف سے بیانات تو دیئے جا رہے تھے لیکن صورت حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی.۷ اکتوبر کو پاکستان میں بسنے والے ہندؤں اور سکھوں کے نام قائد اعظم کا ایک پیغام گورنرسندھ نے پر لیس کو پہنچایا.اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ سندھ میں بسنے والے ہندو اور سکھوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں ہی شہر میں.اور انہیں یاد دلایا کہ گاندھی جی نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ لوگ اپنی اپنی جگہ جگہ پر ٹہرے رہیں.اور نقلِ مکانی نہ کریں.(۳۳) لیکن عملاً صورتِ حال یہ تھی کہ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے تیسرے ہفتے میں یہ اعلان کیا گیا کہ صرف امرتسر سے موصول شدہ اطلاعات کے مطابق گذشتہ ایک ہفتہ میں ہی ساڑھے سولہ لاکھ سے زائد افراد نے نقل مکانی کی ہے.ان میں سے دس لاکھ مسلمان تھے اور ساڑھے چھ لاکھ سے کچھ اوپر غیر مسلم تھے.چار لاکھ پنتیس ہزار غیر مسلموں اور چار لاکھ اکیانوے ہزار مسلمانوں کو تو صرف اس ہفتہ کے دوران پیدل چل کر نقل مکانی کرنی پڑی تھی.(۳۴) ۱۱۴ کتوبر کو حضور کے حکم پر حضرت مرزا عزیز احمد صاحب لاہور کے لئے روانہ ہوئے اور مولانا جلال الدین صاحب شمس امیر مقامی مقرر ہوئے.قادیان پر ہونے والے مظالم کو چھپانا ممکن نہیں رہا تھا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اقوام متحدہ میں موجود تھے اس داستان کی بازگشت وہاں بھی سنائی دی.برطانیہ کے بہت سے اخبارات نے قادیان پر ہونے والے مظالم شائع کئے.تنزانیہ کی جماعت کی طرف سے بھی

Page 225

215 ہندوستان کی حکومت کو لکھا گیا کہ وہ ان مظالم کو بند کرائے ، بلجین کونگو سے بھی تاریں دی گئیں.برما، ارجنٹائن اور ایران کے اخباروں میں بھی ان مظالم کا چرچا ہو ا ( ۳۵.۳۹).انہی دنوں میں Relief and Rehabilitation کے وزیر Mr.K.C.Neogy نے بھی قادیان کا دورہ کیا اور کالج میں موجود مسلمان پناہ گزینوں سے گفتگو کی.( ۴۰ ).قادیان کا معرکہ بر صغیر کے اخبارات کی توجہ کا مرکز بھی بن رہا تھا.چنانچہ ہندوستان کے کثیر الاشاعت اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر ایف ڈبلیوبسٹن (F.W.Buston) نے ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو Qadian a Test Case کے عنوان سے اداریہ لکھا.اس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا تھا کہ اب ، دنیا کی نظروں میں قادیان ہندوستان کی حکومت کے لئے ایک زندہ امتحان بن چکا ہے اور اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ ہندوستان کی حکومت اقلیتوں سے کیسا سلوک کرنا چاہتی ہے.پھر قادیان میں ہونے والے مظالم کا ذکر کر کے لکھا کہ جب یہ لوگ اپنے دفاع کے لئے کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو اسے جارحیت قرار دے دیا جاتا ہے.پھر پنڈت نہرو کے بیان پر حیرت کا اظہار کیا کہ انہوں نے قادیان میں گرفتاریوں اور اہلِ قادیان کو ہراساں کرنے کی تردید کی ہے جب کہ آزاد مبصرین ان باتوں کی تصدیق کر چکے ہیں.پھر وزیر اعظم ہندوستان سے اپیل کی کہ اب تردیدی بیان جاری کرنے کی بجائے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ مثبت اقدامات اٹھائیں.تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ ہندوستان کے ترجمان کے بیانات محض الفاظ نہیں ہوتے.اگر چہ اُس وقت پورا بر صغیر ان حالات سے گذر رہا تھا مگر احمد یوں نے جس بہادری سے اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کی ، برطانیہ کے اخبارات بھی اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے.ڈیلی گرافک (Daily Graphic) کے نمائیندے Jossleyn Hennessy نے فساد زدہ پنجاب کا دورہ کیا اور اپنے اخبار کو قادیان کے متعلق رپورٹ بھجوائی جو اس سرخی کے ساتھ شائع ہوئی Moslems Trapped in Mosque Choose Death مسجد میں محصور مسلمانوں نے اپنے لئے موت کا انتخاب کرلیا.اس رپورٹ میں اس صحافی نے لکھا ۳۵۰۰ کے قریب گمشدہ احمدی مسلمان قادیان کے مقدس شہر میں محصور ہیں.قادیان امرتسر کے شمال مشرق میں ۳۵ میل کے فاصلے پر ہے.احمدیوں کا فرقہ

Page 226

216 Quakers کی طرح عدم تشدد کا قائل ہے.ان کی مسجد کے ارد گرد کا علاقہ ان سے بھرا ہوا ہے.اور انہوں نے اس بات کا تہیہ کیا ہوا ہے کہ یہ لوگ بغیر جنگ کئے مر جائیں گے مگر اپنے نبی کے مزار کو نہیں چھوڑیں گے.انہوں نے سکھوں کے محاصرے کے امکان کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا اور ایک سال کے لئے خواراک کا ذخیرہ کرلیا تھا....جب میں اُس طرف سڑک پر گاڑی میں جا رہا تھا تو لاشوں کی بد بو میری ناک میں بسی ہوئی تھی.ایک ہفتے سے اس قصبے پر سکھ حملہ کر رہے ہیں.اور اردگر دصرف سکھ ہی آزادانہ طور پر گھومتے نظر آتے ہیں.اس شہر کی ۸۸ فیصد آبادی مسلمان تھی مگر اب سکھوں نے زیادہ تر گھروں پر قبضہ کر لیا ہے." (۴۱) ان حالات میں جب کہ فوج اور پولیس نے بلوائیوں کے ساتھ مل کر قادیان میں مظالم کی انتہا کر دی تھی.خود وزیر اعظم ہندوستان کے نمائیندہ نے بھی حالات ملاحظہ کر لئے تھے اور پوری دنیا کو اس کی خبر ہو چکی تھی.بہت سے احمدیوں نے جب ۱۲۴ کتوبر کا اخبار دیکھا تو یہ خبر پڑھ کر حیران رہ گئے قادیان کے مسلمانوں کی حفاظت پنڈت نہرو کا برقیہ معلوم ہوا ہے کہ پنڈت نہرو نے وزیر اعظم پاکستان کو ایک تار کے ذریعہ مطلع کیا ہے کہ یہ خبر بالکل غلط ہے کہ قادیان کے مسلمانوں کو گرفتار کر کے ان پر ظلم وستم کیا جارہا ہے.پنڈت نہرو نے لکھا ہے کہ قادیان کے احمدیوں کی پوری حفاظت کی جارہی ہے.اور اس کے لئے ایک مجسٹریٹ مقرر کر دیا گیا ہے.(۴۲) اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے.

Page 227

217 حالات بدلنا شروع ہوتے ہیں: اب حکومتی اداروں کو بھی احساس ہوتا جا رہا تھا کہ قادیان پر ہاتھ ڈال کر وہ خود بدنام ہو رہے ہیں.اکتوبر کے شروع میں گاندھی جی ، وزیر اعظم پنڈت نہرو اور وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل کو قادیان کے حالات کے متعلق رپورٹیں بھجوائی گئی تھیں مگر ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا.حضور نے گاندھی جی سے اپیل کی کہ دہلی میں فسادات رکوانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں.لیکن دہلی تو سب کی نظروں میں ہے اس لئے اگر وہ مشرقی پنجاب آ کر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے فسادات رکوانے کی کوشش کریں تو زیادہ بہتر ہو گا.اس کے جواب میں گاندھی جی نے لکھا کہ جو کام میں پنجاب میں کر سکتا ہوں وہی یہاں کر رہا ہوں.اگر کر سکا تب ہی آگے بڑھنے کی بات ہوگی.اب قادیان کے حالات کا نوٹس لینا ضروری ہو گیا تھا.۲۱ اکتوبر کو مردولا سارا بھائی Mircula Sarahbhai) جو پنڈت نہرو کی نمائیندہ کی حیثیت سے پناہ گزینوں اور نقل مکانی کرنے والوں کے لئے کام کر رہی تھیں، کرشنا مورتی کے ہمراہ قادیان آئیں.اور حالات کا جائزہ لیا.پھر ۱۲۳ اکتوبر کو جنرل تھمایا ایک بار پھر قادیان آئے.اس مرتبہ ان کے ہمراہ بنگال کے مشہور مسلم لیگی لیڈر حسین شہید سہر وردی ( جو بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے ) اور گاندھی جی کے نمائیندے ڈاکٹر ڈنشا مہتا بھی تھے.انہوں نے ایک بار پھر قادیان میں ہونے والے مظالم کا جائزہ لیا.آخر میں جنرل تھمایا نے ہنس کر کہا میں تو اب Fed up ہو چکا ہوں اور قادیان کے معاملے میں تو اب گھبرا گیا ہوں.I want to wash my hands off Qadian میں قادیان کے معاملے سے اپنے ہاتھ دھونا چاہتا ہوں ).حسین شہید سہروردی صاحب نے ہنس کر کہا No they wont let you, They will Cling to you( نہیں یہ تمہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے، یہ تم سے چھٹے رہیں گے ).اس وفد نے وعدہ کیا کہ سارے حقائق وزیر اعظم کو بتائے جائیں گے اور تجویز کیا کہ قادیان میں ڈھائی تین سو آدمیوں کو رہنے دیا جائے ان کی حفاظت کا انتظام کر دیا جائے گا.اس کے بعد مقامی حکام کا یہی اصرار رہا کہ مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے یہاں تین سو کے قریب احمدی رہ جائیں اور باقی پاکستان منتقل ہو جائیں.

Page 228

218 بڑے حملے کی ناکامی کے بعد بلوائیوں کو اس طرح کی جسارت تو نہیں ہوئی.البتہ اکتوبر کے شروع میں مظالم کا سلسلہ حسب سابق جاری رہا.جو احمدی کر فیوختم ہونے کے بعد اپنے گھروں کی حالت دیکھنے جا رہے ہوتے.قانون نافذ کرنے والے ادارے ان پر گولیاں چلانا شروع کر دیتے.اور چن کر احمد یوں کو نشانہ بنایا جاتا، تا کہ کوئی مزاحمت کرنے والا نہ رہے.سات سے زائد احمدیوں کو اس طرح شہید کر دیا گیا.دوکا نہیں لوٹی گئیں ،احمدیوں سے بیگار لیا گیا، اسکول اور نور ہسپتال پر جبراً قبضہ کر لیا گیا.جماعت کی لائیبریری سر بمہر کر دی گئی اور بعض مساجد کے مینار منہدم کر دئے گئے.۱۰ اکتوبر کو مسلمان ملٹری بھی قادیان پہنچ گئی اور کشمیر کی جنگ کی وجہ سے قادیان کے قریب متعین ملٹری کی بھاری اکثریت بھی وہاں سے منتقل ہو گئی.اس کے بعد بلوائیوں کو پہلے کی طرح کا حوصلہ نہیں ہوا.اور جانے والے قافلوں کی تلاشی کا ظالمانہ سلسلہ بھی بند ہو گیا.(۳۱،۲۷،۲۶، ۳۵ تا ۴۳،۳۹) جماعت احمدیہ کا مؤقف یہی تھا کہ قادیان کی تمام احمدی آبادی کو وہیں پر رہنا چاہیئے لیکن حکومتی افسران کا کہنا تھا کہ تین سو کے قریب احمدی مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے وہاں پر ٹھہرے رہیں اور باقی نقل مکانی کر کے پاکستان چلے جائیں.چنانچہ جماعت کے تین سو کے قریب مرد وہاں پر حفاظت کے فرائض سر انجام دینے کے لئے موجود رہے اور باقی قافلوں کی صورت میں پاکستان منتقل ہو گئے.حفاظت مرکز کی ڈیوٹی بدلتی رہتی تھی.نومبر اور دسمبر میں بھی مقامی افسران کی طرف سے ہراساں کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں.مگر اب بلوائیوں کے زور میں کمی آتی چلی جا رہی تھی.اور اکثر احمدی آبادی کو ویسے ہی پاکستان بھجوا دیا گیا تھا.اس سلسلے میں آخری قافلہ ۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء کو قادیان سے روانہ ہوا.اس قافلے میں مکرم مولانا جلال الدین صاحب سے شمس اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی شامل تھے.اس قافلے کی روانگی کے وقت جو ضبط کر سکتے تھے وہ ضبط کر رہے تھے مگر ان کی سرخ آنکھیں ان کے راز کو فاش کر رہی تھیں.جن کو ضبط کی طاقت نہ تھی وہ اس طرح بلک بلک کر روتے تھے جس طرح کوئی بچہ اپنی ماں سے جدا ہوتے وقت روتا ہے.رخصت ہوتے وقت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے نہایت درد بھرے الفاظ میں کہا اے قادیان کی مقدس سرزمین ! تو ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ

Page 229

219 پیاری ہے.لیکن حالات کے تقاضہ سے ہم یہاں سے نکلنے پر مجبور ہیں.اس لئے ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں.اس کے بعد اس کرب والحاح سے دعا مانگی گئی.دعا کے شروع ہوتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر پڑھا یا الہی فضل کر اسلام پر اور خود بیچا اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن لے پکار یہ شعر سنا تھا کہ دعا میں ایک خاص رفت اور سوز پیدا ہو گیا.شدت گریہ سے کئی افراد کی چینیں نکل رہی تھیں.وہاں پر موجود غیر احمدی اور غیر مسلم ملٹری کے لوگ حیرت زدہ تھے کہ چار ماہ موت کے منہ میں رہنے کے بعد بھی رخصت ہوتے ہوئے ان کی یہ حالت ہو رہی ہے.پرسوز لمبی دعا کے بعد قافلہ روانہ ہوا اور درویشان قادیان مخالفین کی قہر آلود نظروں میں اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوئے.( ۴۴ ، ۱۰ ، ۲۸، ۴۵، ۴۲،۴۱، ۲۹) قادیان میں دور درویشی کا آغاز یہاں سے قادیان کے دور درویشی کا آغاز ہوتا ہے.جو خوش نصیب قادیان میں رہ گئے ، ان کے اندر ایک عظیم روحانی تغیر پیدا ہونا شروع ہوا.ان کے ایام خدمت دین ،نمازوں، نوافل ، تلاوت اور ذکر الہی سے معمور تھے.رات کو روزانہ مغرب سے فجر تک کر فیور ہتا تھا اور یہ سلسلہ مارچ ۱۹۴۸ء تک جاری رہا.ان یام میں نماز فجر اور عشاء بارہ مقامات پر ہوتی تھی.اور ان سب مقامات پر اذان بھی ہوتی تھی تاکہ معلوم ہوتا رہے کہ خیریت ہے.احمدیوں کے قبضے میں باقی علاقے کو چھ حصوں میں تقسیم کر کے جو مکانات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے ، ان کی دیواروں میں سوراخ کر دیئے گئے تھے تا کہ اگر رات کو کسی مقام پر نا خوشگوار واقعہ ہوتو وہاں پر گلیوں اور بازاروں سے گذرے بغیر مدد پہنچائی جاسکے.مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے اور قادیان میں موجود درویشوں کی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے لئے فوری طور پر کچھ کام شروع کئے گئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے تحت قادیان کے اردگرد ایک کچی دیوار بنائی گئی.جو گلیاں کھلی تھیں، انہیں اس دیوار کے ذریعہ بند کیا گیا.یہ دیوار دو فٹ چوڑی اور آٹھ فٹ لمبی تھی.موجودہ

Page 230

220 صورتِ حال کے پیش نظر بہشتی مقبرہ کے ارد گرد دیوار بنانا اب ناگزیر ہو گیا تھا.اس لئے درویشوں کی اکثریت اس کام پر جت گئی.سورج کی روشنی ظاہر ہونے سے لے کر غروب آفتاب تک یہ کام جاری رہتا تھا.خاص طور پر جنوبی دیوار کو بہت مضبوط رکھا گیا.جنوب مغربی اور جنوب مشرقی کونوں پر حفاظتی عملہ کے قیام کے لئے دو منزلہ کمرے بھی بنائے گئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار اور قریب کی قبروں کے ارد گرد جو چار دیواری پہلے سے موجود تھی اس کے شمال مشرقی کونہ پر بھی دو منزلہ حفاظتی کمرے تعمیر کیے گئے.جو مکانات جماعت کے قبضہ میں تھے اس کے سامان کو مستقبل کی ضروریات کے لئے محفوظ کرنے کا اہم کام فوری توجہ کا تقاضہ کرتا تھا.اس سامان میں کھانے پینے کی اشیاء مثلاً آٹا ، چاول، گھی، اور تیل وغیرہ بھی شامل تھے.جلسہ سالانہ کے لئے ذخیرہ کی گئی گندم کی پانچ ہزار بوری بھی موجود تھی اور مختلف گھروں سے ایک ہزار بوری بھی جمع کی گئی.گندم کے ذخیرے کو دوائی ڈال کر محفوظ کیا گیا.گندم اور دیگر اشیاء خورد و نوش مرزا گل محمد صاحب کے مکان میں جمع کی گئیں.جو مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکانات کے بالکل قریب تھا.ادویات وغیرہ مرزا رشید احمد صاحب کے مکان میں سٹور کی گئیں.اور گھروں کا دیگر سامان فہرستیں بنا کر مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ میں جمع کر دیا گیا.بارشوں کی کثرت اور دیکھ بھال کی کمی کے باعث بعض مکانات گر گئے تھے اور جن کی حفاظت نہیں کی جاسکتی تھی وہ مکانات از خود گرا دئے گئے اور تعمیر کا جو سامان کارآمد ہوسکتا تھا اسے مستقبل کے لئے محفوظ کر لیا گیا.اس کام پر بھی جو عملہ مقرر تھا اُس نے یہ مشکل کام دو ماہ کے اندر مکمل کر دیا.ایک طرف درویش ان کاموں میں مصروف تھے اور دوسری طرف مخالفین اپنے طور پر ان کوششوں میں لگے ہوئے تھے کہ یہ چند لوگ بھی یہاں سے بھاگ جائیں.جب ۱۶ نومبر کو آخری کنوائے بھی روانہ ہو گیا تو ان کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی.جو ہندو اور سکھ پاکستان سے نقل مکانی کر کے یہاں آئے تھے انہیں احمدیوں کے خلاف بھڑکایا گیا کہ وہ بھی احمدیوں کے خلاف حملے کرنے میں اُن کا ساتھ دیں.اور مضافات کے لوگوں کو بھی اس سکیم میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی.اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جب ایک رات اُن کی میٹنگ ہوئی تو ان میں

Page 231

221 سے ایک جہاندیدہ شخص نے انہیں سمجھایا کہ تشدد کا راستہ نہ اختیار کرو.یہ چند لوگ جو یہاں ٹہرے ہیں وہ بھی تو کچھ کر گزرنے کا عزم لے کر ٹھہرے ہیں.ایسا نہ ہو کہ تم چند سو کو مارنے کے لئے نکلو اور اپنے دو چار ہزار آدمی مروا کر تمہیں پتہ چلے غلطی کر بیٹھے ہو.اور یہ لوگ سرکار کی اجازت سے شہرے ہیں.ایسی صورت میں سرکار کا عتاب بھی تم لوگوں پر پڑے گا.یہ سن کر سب سوچ میں پڑ گئے.بالآخر یہ طے ہوا کہ ایک تو ان لوگوں کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے.جب ان کو ضروریات زندگی نہیں ملیں گی تو خود ہی بھاگ جائیں گے.دوسرے حکومت کے پاس ان کی شکایتیں کی جائیں کہ ان لوگوں نے بہت سا اسلحہ چھپا رکھا ہے.چنانچہ قادیان کے سب باشندوں نے مظلوم درویشوں کا بائیکاٹ کر دیا.اور یہ افواہیں بھی پھیلائی گئیں کہ ننکانہ صاحب میں مقیم سارے سکھوں کوموت کی گھاٹ اُتار دیا گیا تا کہ قادیان میں آباد سکھوں میں احمدیوں کے خلاف اشتعال پھیلے.کوئی دوکاندار کھانے پینے کی اشیاء درویشوں کے ہاتھ فروخت نہیں کرتا تھا.حتی کہ خاکروب بھی صفائی کے لئے نہیں آتے تھے.نہ ہی چکیاں آٹا پیس کر دیتی تھیں.پسا ہوا آٹا چند روز میں ختم ہو گیا.پھر وہی گندم ابال کر کھانے کا نسخہ کام آیا.بس فرق یہ تھا کہ اس مرتبہ اس میں ڈالنے کے لئے نمک مرچ میسر تھا.چار پانچ بھینسیں احمدیوں کی چھوڑی ہوئی موجود تھیں.ان کا دودھ پینے کے کام آتا تھا.قادیان میں احمدیوں کے خلاف اس قدر تعصب پھیلایا گیا تھا کہ ایک مرتبہ صوبائی وزیر سردار ایشر سنگھ قادیان آئے اور اُنہوں نے سکھوں اور ہندؤں کے مجمع سے خطاب کیا.اس موقع پر ایک مقرر نے کہا کہ ہندوستان کے ساڑھے چار کروڑ مسلمانوں کا تو ہم بندوبست کر لیں گے آپ مہربانی کر کے ان تین سو تیرہ سے ہمیں نجات دلا دیں.ایک طرف تو بائیکاٹ سے درویشوں کے لئے مسائل پیدا کئے جارہے تھے اور دوسری طرف حکومت کے پاس مسلسل احمدیوں کے خلاف شکایتیں کی جا رہی تھیں.پہلے گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر اور قادیان کے مجسٹریٹ کے پاس شکایت کی کہ ان لوگوں کے پاس اسلحہ ہے اس لئے ہمیں ان سے شدید خطرہ ہے.ان الزامات کی بازگشت دہلی تک سنائی دی.آخر مرکزی حکومت نے اپنے ایک مرکزی وزیر گیانی کرتار سنگھ صاحب کو تحقیقات کے لئے قادیان بھجوایا.وہ ایک وفد کے ساتھ قادیان آئے شہر والوں سے بھی ملے اور جماعت کے افسران سے بھی ملاقات کی.اور بعض مقامات مثلاً

Page 232

222 مسجد اقصیٰ کے سٹور بھی دیکھے.پھر شہر والوں کو کہا کہ آپ لوگ خواہ مخواہ شور کرتے ہیں.آپ کی شکایت میں کوئی وزن نہیں ہے.بھلا ان چند افراد سے بھارت جیسے بڑے ملک کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے.اگر ان کے پاس ایک ایک توپ بھی ہو تو بھی یہ لوگ بھارت کی لاکھوں کی فوج کے لئے کوئی خطرہ نہیں بن سکتے.گیانی کرتار سنگھ صاحب نے یہ شرافت بھی دکھائی کہ احمدیوں کے حالات سن کر انہیں ایک آٹا پینے والی چکی بھی الاٹ کر دی.اس طرح آٹے کا مسئلہ تو حل ہو ا.جلد ہی بائیکاٹ کی مہم بھی بعض شریف ہندؤں کی مداخلت کی وجہ سے دم توڑ گئی.نور ہسپتال تو جماعت کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا.کسمپرسی کے حال میں ایک احمد یہ شفا خانہ قادیان میں کام کر رہا تھا.جس میں پہلے ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب اور ان کے پاکستان جانے کے بعد مکرم ڈاکٹر کیپٹن بشیر احمد صاحب کام کرتے رہے.(۲۹) تقسیم ملک کے بعد پہلا جلسہ سالانہ اس پس منظر میں، دسمبر کے آخر میں جلسہ سالانہ کے ایام آگئے.جب حضرت مسیح موعود نے جلسہ سالانہ کا آغا ز فرمایا تو جلسہ مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوتا تھا.پھر جب آنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی تو جلسہ باہر منتقل کرنا پڑا.ہجرت سے معاً پہلے جلسے دارالعلوم میں منعقد ہو رہے تھے.اس جلسے کے موقع پر نہ صرف قادیان بلکہ مشرقی پنجاب کی اکثر جماعتیں پاکستان ہجرت کر چکی تھیں.اور اتنے خراب حالات میں ہندوستان کی باقی جماعتوں کے لئے جلسے کے لئے قادیان آنا ممکن نہیں تھا.اب ایک بار پھر یہ جلسہ مسجد قصیٰ میں منعقد کیا جا رہا تھا.اور اس میں صرف ۳۱۵ نفوس شامل تھے.ان میں ۲۵۳ درویش اور ۶۲ ہندو اور سکھ مہمانوں کے علاوہ سات خواتین اور ایک بچی نے اس جلسہ میں شرکت کی.اس کے آغاز پر حضور کا پیغام امیر مقامی حضرت مولوی عبدالرحمن جٹ صاحب نے پڑھ کر سنایا.اس میں حضور نے درویشان قادیان کو ارشاد فرمایا جو لوگ اس وقت ہمارے مکانوں اور ہماری جائداد پر قابض ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کا قبضہ قبضہ مخالفانہ ہے.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ مجبور اور معذور ہیں.وہ لوگ بھی اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں اور ان کی جائدادوں سے انہیں

Page 233

223 بیدخل کیا گیا ہے...آپ لوگ بھی انہیں اپنا مہمان سمجھیں.ان سے بھی اور تمام ان شریف لوگوں سے بھی جنھوں نے ان فتنہ کے ایام میں شرافت کا معاملہ کیا ہے محبت اور در گذر کا سلوک کریں اور جو شریر ہیں اور انہوں نے ہمارے احسانوں کو بھلا کر ان فتنے کے ایام میں ڈاکوؤں اور چوروں کا ساتھ دیا ہے.آپ لوگ ان کے افعال سے بھی چشم پوشی کریں کیونکہ سزا دینا یا خدا تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے یا حکومت کے سپرد کیا ہے..حضور نے صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ جس حکومت میں رہو اس کے فرمانبردار بن کر رہو.اپنی آنکھیں نیچی رکھو مگر نگاہ آسمان کی طرف بلند کرو.اس جلسہ کے افتتاح پر ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ قادیان مکرم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے جان نثار درویشوں کے ہمراہ دعا کرائی اور اس کے اختتام پر مکرم صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ابن حضرت خلیفہ اسی الثانی نے امیر صاحب مقامی کے ارشاد پر دعا کرائی.(۴۶) قادیان میں محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی خدمات کا آغاز: قادیان میں ٹھہر نے والوں کے لئے ابتدائی طور پر یہ سکیم تھی کہ ہر دو مہینہ کے بعد تبادلہ ہوا کرے گا اور پرانے رضا کاروں کی جگہ لینے کے لئے نئے رضا کاربھجوائے جائیں گے.مئی ۱۹۴۸ء تک تین مرتبہ اس کے لئے کوششیں کی گئیں.لیکن ہر مرتبہ دس پندرہ سے زیادہ لوگوں کا تبادلہ نہ ہو سکا.کیونکہ اب دونوں حکومتیں مستحکم ہو رہی تھیں، اس لئے عارضی بنیادوں پر آنے والے افراد کو ہندوستان کے مستقل شہریوں کا درجہ نہیں مل سکتا تھا.حضرت مصلح موعود کا فیصلہ تھا کہ خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہ ایک فرد اور خود حضور کے بیٹوں میں سے ایک قادیان میں موجود رہے گا.پہلے صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود اور صاحبزادہ مرز اظفر احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب قادیان میں مقیم رہے.مگر جب جنوری ۱۹۴۸ میں یہ دونوں حضرات پاکستان واپس گئے تو کچھ عرصہ کے لئے تبادلہ میں حائل دشواریوں کی وجہ سے خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی فرد قادیان میں موجود نہیں تھا.ایک درویش مکرم بدرالدین عامل

Page 234

224 صاحب ان دنوں کے متعلق اپنی یاداشت میں تحریر فرماتے ہیں.اگلے دو ماہ مارچ کی ۱۳ تاریخ تک خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی فرد درویشان قادیان میں نہیں رہا.یہ دن بھی عجیب اداسی کے دن تھے ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے بارات بغیر دولہا کے ہو.بڑی دعائیں کرتے ہوئے یہ وقت گزرا اور وہ روز سعید آیا کہ ایک بس میں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ اور پندرہ مزید افراد درویشان میں شامل ہونے کے لئے آن پہنچے.یہ دن بڑی خوشی کا دن تھا گویا عید آ گئی ہو.(۲۹، ۴۷) اس طرح مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے قادیان میں اپنی خدمات کا آغاز فرمایا.اُس وقت تک ابھی آپ زیر تعلیم تھے اور ابھی آپ کی شادی نہیں ہوئی تھی.پہلے یہی فیصلہ تھا کہ آپ عارضی طور پر قادیان میں رہیں گے اور کچھ ماہ کے بعد خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی اور فرد آپ کی جگہ قادیان ڈیوٹی کے لئے آئے گا.لیکن جب واپسی کا مقررہ وقت آیا تو تبادلہ میں بہت سی مشکلات حائل تھیں اور اس کے بعد جب واپس جانے کا موقع آیا تو آپ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمرے میں ایک لمبی دعا کے بعد رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو مستقل طور پر قادیان میں رہنے کے لئے پیش کیا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی یہ درخواست قبول فرمالی.آپ نے حضرت عبد الرحمن جٹ صاحب کی وفات کے بعد ایک طویل عرصہ صدر انجمن احمدیہ کے ناظرِ اعلیٰ اور قادیان کے امیر مقامی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں.افسوس کہ اس کتاب کی تالیف کے دوران آپ کا انتقال ہوگیا.انا لله و انا اليه راجعون.ایک بار رسول کریم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کن لوگوں پر سب سے زیادہ آزمائشیں آتی ہیں.آپ ﷺ نے فرمایا کہ انبیاء پر ، پھر صالحین پر اور پھر ان کی طرح کے لوگوں پر.ہر شخص کو اس کے دین کی مضبوطی کے حساب سے آزمایا جاتا ہے.جس کا دین مضبوط ہو اس پر زیادہ آزمائشیں آتی ہیں اور جس کے دین میں کمزوری ہو اس پر کم آزمائشیں آتی ہیں.اور یہ آزمائشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا یہاں تک کہ بندہ اس حالت میں زمین پر چلتا ہے کہ اس کی کوئی خطا باقی نہیں رہتی.(۴۵) الہی جماعتوں پر ابتلاء اس لئے آتے ہیں تا کہ وہ ان سے سرخرو ہو کر نکلیں اور پہلے سے زیادہ رفعتوں کی

Page 235

225 طرف اپنا سفر شروع کریں.۱۹۴۷ء کا ابتلاء ایسا ہی ایک مرحلہ تھا.اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ جماعت اس شان سے امتحان میں کامیاب ہوئی کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے.اور بعد کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ابتلاء کے بعد کسی بھی لحاظ سے جماعت کا قدم پیچھے نہیں ہٹا ، جماعت کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ ترقی کا سفر پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے جاری رہا.مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے قانونی کوششیں: فسادات کے باعث اور مناسب نگہداشت نہ ہونے کے باعث قادیان کی بہت سی مساجد کو مرمت کی ضرورت تھی.درویشان قادیان نے خود محنت کر کے اور وقار عمل کر کے ان مساجد کو صاف کیا اور ان کی مرمت کر کے ان کو اپنی اصلی حالت میں بحال کیا.غیر مسلموں کا ایک شریر گروہ ان مساجد پر قبضہ کر کے ان مقدس مقامات کی توہین کر رہا تھا.درویشان قادیان حکومتی افسران سے مل کر اس ضمن میں مسلسل قانونی کوششیں کر رہے تھے.مئی ۱۹۴۸ء میں ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے یہ حکم جاری کیا کہ قادیان کی مساجد شر نارتھیوں سے خالی کرائی جائیں اور آئندہ بھی ان میں کسی کو آباد نہ کیا جائے.مقدس عمارات کے حوالے سے اور صدر انجمن احمد یہ کی مملوکہ عمارات کے حوالے سے بہت سی مشکلات کا سامنا تھا.دار اسیح جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مبارک زندگی کے ایام گزارے، جہاں پر بیت الدعا اور بیت الفکر کے مقدس مقامات موجود تھے ،اسے بعض حکومتی اداروں نے متروکہ جائیداد قرار دے دیا تھا.اس کا نتیجہ یہ ہوسکتا تھا کہ یہ مقدس مقامات نقل مکانی کرنے والے کسی ہندو یا سکھ کو الاٹ کر دئیے جاتے.حالانکہ ان کی حیثیت ایک عام مقام کی نہیں تھی بلکہ ایک ایسے مقدس مقام کی تھی جن سے لاکھوں احمدی والہانہ عقیدت رکھتے تھے.چنانچہ جماعتِ احمد یہ بھارت کا ایک وفد جس میں مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب بھی شامل تھے وزیر اعظم بھارت پنڈت جواہر لال نہر وصاحب سے ملا اور ساری حقیقت ان کے سامنے پیش کی.انہوں نے اظہار ہمدردی کیا اور کہا کہ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں لیکن انہیں بھی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے.اس لئے یہ انتظام کیا جا سکتا ہے کہ ان مقامات کی نیلامی نہ کی جائے ورنہ یہ خدشہ ہو سکتا تھا کہ کوئی از راہ شرارت زیادہ بولی لگائے جو جماعت کیلئے ادا کرناممکن نہ ہو.بلکہ حساب فہمی کر کے

Page 236

226 جماعت سے ان کی قیمت وصول کر لی جائے.جماعت کے وفد کے ایک رکن نے وزیر اعظم صاحب سے عرض کی کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ چند لوگ آپ سے ملنے آئے ہیں.ساری دنیا کے احمدیوں کی نظریں اس بات پر ہیں کہ آپ کی حکومت اس ضمن میں کیا فیصلہ کرتی ہے.وزیر اعظم صاحب نے بھی جواب میں اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں.چنانچہ کچھ اونچ نیچ بعد ان عمارات کی اُس وقت کی قیمت طے کی گئی اور صدر انجمن احمدیہ نے قسطیں ادا کر کے ان کے مالکانہ حقوق حاصل کر لئے.اسی طرح حکومتی اداروں نے صدر انجمن احمدیہ کی جائیداد کو بھی متروکہ جائیداد قرار دے دیا تھا.حالانکہ صدر انجمن احمد یہ بدستور قادیان میں قائم تھی اور اس نے ایک روز کے لئے بھی کام بند نہیں کیا تھا.چنانچہ صدر انجمن احمدیہ نے ایک طویل جد و جہد کا آغاز کیا کہ یہ جائیداد مترو کہ جائیداد نہیں ہے اور ان کی مالک تنظیم قادیان میں کام کر رہی ہے.کئی سال کی کاوشوں کے بعد حکومت نے یہ موقف تسلیم کر لیا کہ صدر انجمن احمد یہ تارکین وطن میں شامل نہیں ہے اور وہ اپنی جائیداد پر قبضہ کا حق رکھتی ہے.(۴۸) قادیان کے گھر آباد ہوتے ہیں: ملک کے بعد شروع کے تین سال قادیان میں صرف مرد آباد تھے.سارے ماحول میں بچے کے رونے کی آواز تک سنائی نہیں دیتی تھی.درویشان قادیان میں سے جو شادی شدہ تھے ان کے اہل وعیال پاکستان تھے.جو غیر شادی شدہ تھے اُن کی شادی کا سوال پیدا ہونا تو ایک طرف رہا شروع شروع میں ان کے لئے بازار جانا بھی ایک ایسا مرحلہ تھا جس کے لئے حفاظتی نقطہ نگاہ سے یہ طریقہ کار مقرر تھا کہ چار پانچ درویش مل کر بازار جاتے تھے اور جانے سے پہلے ایک دفتر میں اپنے ناموں کا اندراج کراتے تا کہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جائے تو باقیوں کو ڈھونڈنے میں آسانی رہے.جب ماحول بہتر ہونے لگا تو یہی مناسب معلوم ہوتا تھا کہ کچھ گھرانے بھی قادیان آباد ہوں تا کہ زندگی کسی قدر معمول پر آئے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک فرمائی کہ بھارت کے کچھ گھرانے قادیان میں آباد ہوں.۱۹۵۰ء کے نصف آخر میں امروہہ،شاہجہانپور اور ضلع بریلی سے کچھ گھرانے ہجرت کر کے قادیان میں آباد ہوئے.اور ان کی گہما گہمی محلہ احمدیہ کے کو چوں

Page 237

227 میں نظر آنے لگی.ان خاندانوں کی چند نو جوان لڑکیوں سے غیر شادی شدہ درویشوں کے رشتے طے ہوئے اور ان کی شادی کی تقریب نہایت سادگی سے قادیان میں منائی گئی.لنگر خانہ سے جو کھانا ملتا وہی سب مل کر کھا لیتے ، ایک میٹھا اس تقریب کی وجہ سے زائد پکا لیا جاتا.بس اس طرح دعوتِ ولیمہ ہو جاتی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے یہ ارشاد بھی موصول ہوا کہ غیر شادی شدہ در ولیش ہندوستان میں شادی کریں.ان درویشوں کے ساتھ تو ان کے بزرگ بھی نہیں تھے.آخر سلسلہ جنبانی شروع ہو تو کس طرح.آخر ایک بزرگ حضور کے خط کی مصدقہ نقل لے کر نکلے اور پنجاب سے نکل کر قریب کی جماعتوں میں گئے اور وہاں حضور کا خط دکھا کر تحریک کی یہ گھرانے اپنی بیٹیوں کے رشتے درویشوں میں کریں.یہ درویش تو محض مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے دھونی رما کر بیٹھے ہوئے تھے.نہ کوئی ذریعہ آمد ، نہ کوئی جائیداد، نہ اس بات کا کوئی امکان کہ یہ دنیا میں نکل کر اپنی حالت بہتر کریں گے.اس پر مستزاد یہ کہ ہر وقت خطرات میں گھری ہوئی زندگی گزار رہے تھے.اس کے باوجود بہت سے احمدی گھرانوں نے اپنی بچیوں کے رشتے قادیان کے درویشوں سے کر دیئے.اور اس طریق پر بہت سے درویشوں کے گھر آباد ہوئے.اس کے علاوہ کچھ درویشوں کے اہل وعیال پاکستان سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہو گئے.اب رفتہ رفتہ قادیان کی رونقیں کسی حد تک بحال ہورہی تھیں.قادیان میں ۱۹۴۹ء کا جلسہ سالانہ : ان حالات کے ذکر کے بعد ہم ۱۹۴۹ء کے آخر کی طرف واپس آتے ہیں.وقت آہستہ آہستہ گذر رہا تھا.دسمبر میں ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ کے دن آگئے.اس جلسے میں ساڑھے تین سو کے قریب درویشوں کے علاوہ پاکستان سے آئے ۹۷ افراد نے بھی شرکت کی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے پیغام میں ہندوستان کی جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کے دل بے شک اس صدمہ سے چور ہوں گے کہ ایک بڑی جماعت کٹ کر ٹکڑے ہو گئی ہے.اور آپ ہندوستان جیسے وسیع ملک میں تھوڑے سے رہ گئے ہیں لیکن آپ کی تعداد ان لوگوں سے زیادہ ہے جو حضرت مسیح موعود کے زمانے میں ابتدائی جلسوں میں شریک ہوئے تھے.لیکن ان شروع کے سالوں میں قادیان میں جمع

Page 238

228 ہونے والے لوگ ہر سال اس یقین سے معمور ہوتے چلے جاتے تھے کہ ہم دنیا پر غالب آنے والے ہیں.آپ کی مالی حیثیت بھی ان سے زیادہ ہے.آپ کی دنیاوی تعلیم بھی ان سے زیادہ ہے.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ لوگ ان لوگوں جیسا ایمان پیدا کریں.حضور نے فرمایا کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارا خدا سب دنیا کو پیدا کرنے والا خدا ہے.کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کا ذرہ ذرہ اس کا مملوک اور غلام ہے.کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کی تمام بادشاہتیں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتیں جتنا ایک مچھر ایک ہاتھی کے مقابلہ میں حیثیت رکھتا ہے.پھر آپ کے حوصلوں کو پست کرنے والی کیا چیز ہے؟ صرف ارادے کی کمی ہے ورنہ نشانوں کی کوئی کمی آپ کے پاس نہیں ہے.آج آپ لوگ یہ عہد کر لیں کہ ہم احمدیت کو نئے سرے سے پھر ہندوستان میں قائم کریں گے.اس کے گوشے گوشے میں احمدیت کا پیغام پہنچادیں گے.اس کے خاندان خاندان سے احمدیت کے سپاہی نکال کر لائیں گے.اس کی قوم قوم کو احمدیت کا غلام بنا کر چھوڑیں گے اور یہ کام مشکل نہیں ہے.حق ہمیشہ غالب ہوتا ہے اور ناراستی ہمیشہ مغلوب ہوتی ہے.اُس دور میں جب قادیان کے گرد کئی سو میل تک کوئی جماعت نہیں تھی.احمدی بڑی تعداد میں ہجرت کر کے پاکستان جاچکے تھے.دور دور کی جماعتوں کے لئے قادیان آنا جانا تو ایک طرف رہا رابطہ رکھنا بھی مشکل تھا.یہ بات ناممکن نظر آرہی تھی کہ ایک مرتبہ پھر ہندوستان کی جماعت ایک نئی شان سے اُٹھے گی.ہم اپنے وقت پر جائزہ لیں گے کہ وقت آنے پر یہ انہونی ہو کر رہی.اور دنیا نے خدا تعالیٰ کے فضلوں سے یہ نظارہ دیکھا کہ حضور کی خواہش کے مطابق ہندوستان کی مختلف اقوام سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ احمدیت کی آغوش میں پناہ لیتے چلے گئے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کا یہ سفر جاری ہے.ہندوستان میں انفضل پر پابندی اور دونوں ممالک کے لئے حضور کا پیغام: نومبر ۱۹۴۷ء میں ہندوستان کے کئی صوبوں میں الفضل کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی.آخر میں یہ صورتِ حال ہو گئی کہ سوائے دارالحکومت دہلی باقی کے باقی سارے ہندوستان میں الفضل کے

Page 239

229 داخلے پر پابندی لگ گئی.جب ہندوستان کی مرکزی حکومت سے اس بارے میں احتجاج کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ مرکزی حکومت نے الفضل کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا، جہاں تک صوبائی حکومتوں کا تعلق ہے تو وہ ان معاملات میں خود مختار ہیں.جب ہندوستان کے صوبوں نے یہ پابندی لگانی شروع کی تو جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ الفضل میں کسی سیاسی موضوع پر مضمون شائع نہ کیا جائے لیکن اس کے باوجود دوسرے صوبوں میں بھی الفضل پر پابندیاں لگتی رہیں.چنانچہ جماعت نے الرحمت کے نام سے ایک اور اخبار جاری کیا جائے تا کہ ہندوستان میں رہنے والی جماعتوں کی تربیت اور تنظیم میں کوئی روک نہ پیدا ہو.اس کے پہلے شمارے میں حضور کا پیغام شائع ہوا.اس پیغام میں حضور نے تحریر فرمایا د ہمیں نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی ہندوستانیوں نے مسٹر گاندھی کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر ہندو اور سکھ اور غیر مسلم کو جو پاکستان میں رہتا ہے پاکستان کا مخلص اور وفادار شہری ہو کر رہنا چاہیے اور کئی مسلمانوں نے قائد اعظم کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر مسلمان کو جو ہندوستان میں رہتا ہے ہندوستانی حکومت کا مخلص اور وفا دار شہری ہو کر رہنا چاہئیے.ان لیڈروں کے منشا کے خلاف کچھ لوگ ایسے پیدا ہو گئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی غیر مسلم کو پاکستان میں رہنا ہی نہیں چاہئیے یا یہ کہ کسی مسلمان کو ہندوستان میں رہنا ہی نہیں چاہئیے.....اگر گاندھی جی اور قائد اعظم کے بیانات نہ بھی ہوتے تب بھی یہ جذ بہ اور روح نہایت افسوسناک اور مذہب اور اخلاق کے خلاف تھی.مگران دوز بر دست ہستیوں کے اعلانات کے خلاف اس قسم کے جذ بہ کا پیدا ہونا نہایت ہی تعجب انگیز اور افسوسناک ہے.ہندوستان کی موجودہ دو علاقوں میں تقسیم بعض مصلحتوں کے ماتحت ہوئی تھی.ان مصلحتوں کو زیادہ کھینچ تان کر اس مسئلہ کو کوئی اور شکل دینا کسی صورت مین جائز نہیں ہو سکتا.جب تقسیم اٹل ہوگئی تھی تو میں نے اُس وقت یہ اعلان کیا تھا کہ اگر ی تقسیم ہونی ہی ہے تو پھر کوشش کرنی چاہئیے کہ پاکستان اور ہندوستان کا دفاع ایک ہو.ہر پاکستانی کو ہندوستانی شہریت کے حقوق حاصل ہوں اور ہر ہندوستانی کو پاکستانی شہریت کے حقوق حاصل ہوں.دونوں ملکوں کے باشندوں کو ایک دوسرے کے ملک میں

Page 240

230 بغیر پاسپورٹ کے آنے جانے کی اجازت ہو.تجارت پر کسی قسم کی کوئی پابندیاں نہ ہوں.لیکن افسوس اُس وقت میری آواز صدا بصحراء ثابت ہوئی.اور شاید آج بھی یہ آواز صدا بصحراء ثابت ہوگی.اگر میری بات کو مان لیا جاتا تو وہ خون ریزی جو مشرقی پنجاب اور کشمیر میں ہوئی ہے ہرگز نہ ہوتی.ہم کلی طور پر آزاد بھی ہوتے مگر ہماری حیثیت ان دو بھائیوں سے مختلف نہ ہوتی جو اپنے والدین کی جائیداد تقسیم کر کے اپنے چولہے الگ کر لیتے ہیں.....میں چاہتا تھا کہ اس غلط روح کو کچل دیا جائے اور بھائیوں بھائیوں کی طرح مسلمان اور ہندو اپنی آبائی جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ کرلیں مگر میری اس آواز کو اُس وقت نہ سنا گیا.میری اس آواز کو بعد میں بھی نہ سنا گیا.پاکستان کے ایک متعصب عصر نے میرے ان خیالات کی وجہ سے مجھے پاکستان کا ففتھ کالمسٹ قرار دیا اور انہوں نے یہ نہ سوچا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جس کا اعلان بار بار قائد اعظم نے کیا تھا.صرف فرق یہ تھا کہ قائد اعظم نے ایک مجمل اصل بیان کیا تھا اور میں شروع سے ان تفاصیل کو بیان کر رہا تھا جن تفاصیل کے ذریعہ سے ہی قائد اعظم کا بیان کردہ اصل عملی صورت اختیار کر سکتا تھا.میرے ان خیالات کی وجہ سے ہندوستان کے احمدیوں کو بھی ہندوستان میں کشتنی و گردن زدنی سمجھا گیا.شاید کسی اور مسلمان فرقہ کو اس قدر نقصان ہندوستان میں نہیں پہنچا.جس قدر کہ احمدی جماعت کو پہنچا ہے اور اسکی وجہ صرف تھی کہ ان کا امام گاندھی جی کے بیان کردہ اصل کی ترجمانی کے صحیح طریق ان کے سامنے پیش کر رہا تھا.ہم نے ایک سچائی کے لئے دونوں ملکوں میں تکلیف اُٹھائی اور شاید لوگوں کے ہاتھوں سے آئندہ بھی ہم دونوں ملکوں میں تکلیف اُٹھا ئیں.لیکن ہم اس دائی سچائی کو جو قر آن کریم میں بار بار بیان کی گئی ہے کبھی نہیں چھوڑ سکتے.(۴۹) افسوس کہ وقت پر ان نصائح کی قدر نہیں کی گئی اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی مخالفت میں بڑھتے ہی گئے.علماء کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو ان خیالات کا اظہار کر رہا تھا کہ کسی دیانتدار مسلمان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ بطور مسلمان ہندوستان میں زندگی بسر کر سکے (۵۰).ان لغو خیالات کی

Page 241

231 تشہیر سے قبل وہ یہ بھی نہیں سوچ رہے تھے کہ ان لغو نظریات سے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں پر کیا بیتے گی.یہ ایک مسلمہ بات ہے ایک خطہ کا امن و سلامتی اور ترقی اس بات سے وابستہ ہوتی ہے کہ اس خطے کے ممالک ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھتے ہوں.اقتصادی معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہوں.اور آزاد تجارت کے باہمی معاہدے رکھتے ہوں.اس دور میں جب یورپین یونین، آسیان (ASEAN) اور سارک کی تنظیمیں بنا کر ان مقاصد کے حصول کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں تو اس امر کی اہمیت کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں.لیکن برصغیر میں بہت سی دہائیاں باہمی جنگوں اسلحے کی دوڑ اور نفرتوں کی نذر ہو چکی ہیں.اب بھی دونوں ممالک میں معمول کے تعلقات بھی قائم نہیں کئے جا سکے.ابھی تک پاکستان اور ہندوستان بداعتمادی کی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں.(۱) تاریخ احمدیت جلدا ا ص ۱۵۱ (۲) مظالم قادیان کا خونی روز نامچہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ص ۸ (۳) الفضل ۸ ستمبر ۱۹۴۷ء ص ۴ (۴) الفضل ۱۲ستمبر ۱۹۴۷ء ص ۳ (۵) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۴۷ - ۲۸ ص۳۴- ۳۵ (۶) الفضل ۶ نومبر ۱۹۴۷ء ص۳ (۷) مظالم قادیان کا خونی روز نامچہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ص ۹ (۸) زمیندار ۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء زیر عنوان ضلع گورداسپور کے پناہ گزیں (۹) کاروان سخت جان ، ناشر اداره رابطه قرآن، ص ۱۴۳-۱۴۴ (۱۰) انٹر ویو صا حبزادی امتہ الباسط صاحبہ (۱۱) الفضل ۱۸ ستمبر ص ۴ (۱۲) ر پورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ص ۴۵ (۱۳) الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۴۷ء ص ۱ (۱۴) مظالم قادیان کا خونی روز ناچہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ص ۱۰.۱۱ The Civil and Military Gazette 17 Sept.1947 page 1(10) The Civil and Military Gazette 19 Sept.1947(11) The Civil and Military Gazette, 16 Sept.1947, page 1(12) The Civil and Military Gazette, 18 Sept.1947 page 1(IA) (۱۹) روز نامه احسان ۲۴ ستمبر ۱۹۴۷ء زیر عنوان قادیان پر حملہ وقادیان میں کرفیو

Page 242

232 Qadian A Test Case, by Hazat Mirza Bashir Ahmad page,13-24(r) (۲۱) الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۴۷ء The Civil and Military Gazette, 20 Sept.1947 page 5(rr) (۲۳) روزنامه احسان ۲۵ستمبر ۱۹۴۷ء (۲۴) الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص ۲ (۲۵) مظالم قادیان کا خونی روز نامچہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ص ۱۷-۱۹ (۲۶) غیر مطبوعہ ڈائری مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب (۲۷) تاریخ احمدیت جلد ا ا ص ۲۰۳-۲۰۹ (۲۸) احسان ۱۲۵ کتوبر ۱۹۴۷ء ص ۱ (۲۹) غیر مطبوعہ ڈائری بدرالدین عامل صاحب ، درویش قادیان (۳۰) الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۷، ص ۳ Pakistan Times 4 Oct 1947 page 4(M) The Civil and Military Gazette 9 Oct.1947 page 4(mr) Statesman, October 8, 1947p5(MM) The Statesman,18 October, 1947,p1(۳۴) (۳۵) تاریخ احمدیت جلدا اص ۲۵۹-۲۶۵ (۳۶) الفضل ۱ ستمبر ۱۹۴۷ء ص ۳ (۳۷) الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۷ء (۳۸) الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۷، ص ۴ (۳۹) الفضل ۱۲۲ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص ۵ Statesman, 18 October 1947p 1() Daily Graphic, October 13, 1947 page 2,column 2,3 (M) (۴۲) احسان ۱۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص ۵ Qadian a test case, by Hazrat Mirza Bashir Ahmad, page 5 -81(r) (۴۴) تاریخ احمدیت جلد ا ا ص ۳۶۷ (۴۵) مسند امام احمد بن حنبل، مسند سعد بن ابی وقاص ، جلد اص۱۷۲، المکتب الاسلامی للطباعة والنشر بيروت ۱۹۷۸ء (۴۶) تاریخ احمدیت جلدا اص ۴۳۷ تا ۴۴۵ (۴۷) تاریخ احمدیت جلد ۳ ص ۷۲ پر محترم صاحبزادہ صاحب کی آمد کی تاریخ ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ لکھی ہے (۴۸) تاریخ احمدیت جلد ۳ ص ۷۰ تا ۸۰ (۴۹) الرحمت ۲۱ نومبر ۱۹۴۹ء ص ۴۰۳ (۵۰) نوائے وقت ۱۰ اکتوبر ۱۹۵۳ء، بیان مولوی عبدالحامد بدایونی (۲۲) الفرقان ستمبر ۱۹۶۴ء ص ۳۴۲۵

Page 243

233 نیا مرکز آباد کرنے کا فیصلہ: رض ربوہ آباد کیا جاتا ہے حضور نے قادیان سے لاہور ہجرت فرمانے سے قبل ہی ہدایت فرما دی تھی کہ اگر قادیان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو پاکستان میں ایک نہایت سستا قطعہ زمین لے کر اس پر جماعت کا نیا مرکز آباد کیا جائے.بعد میں حالات نے ایسا رخ اختیار کر لیا کہ اس صورتِ حال میں قادیان میں جماعت کا مرکز رکھناممکن نہیں نظر آ رہا تھا.اس لئے پاکستان میں مطلوبہ زمین کی تلاش شروع کی گئی.اس سلسلے میں بہت سی جگہیں زیر غور آئیں.یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ لاہور ، شیخو پورہ ،سیالکوٹ یا پسرور کے شہروں میں زمین لے کر وہاں پر مرکز آباد کیا جائے (۱).اس وقت پاکستان کی حکومت ان مہاجرین کو جو اپنی جائیداد میں ہندوستان میں چھوڑ کر آئے تھے ان ضائع شدہ جائیدادوں کے عوض وہ جائیدادیں الاٹ کر رہی تھی جو پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کی نقل مکانی کی وجہ سے خالی ہوئی تھیں.حضور کی ہدایت تھی کہ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے اور ہم اس پر اپنے حق سے کسی طرح دستبردار نہیں ہونا چاہتے ، اس لئے کوئی احمدی قادیان کی جائیداد کے بدلے کسی اور جائیداد کا مطالبہ نہیں کرے گا.اس طرح قادیان سے اپنی وابستگی کی وجہ سے احمدی بہت بڑا مالی نقصان برداشت کر بڑا رہے تھے اور اپنا قانونی حق چھوڑ رہے تھے.لاہور، کراچی اور کوئٹہ کے بعض چوٹی کے آدمیوں نے حضور کی خدمت میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضور ان کے شہروں میں رہائش اختیار کریں.اور جماعت کو شہروں میں بھی زمین مل سکتی تھی.مگر حضور نے ارشاد فرمایا کہ جماعت کی تعلیم و تربیت اور تنظیم کے جو تقاضے ہیں وہ بڑے شہروں میں پورے نہیں ہو سکتے.اس لئے کسی الگ جگہ کی تلاش شروع کی گئی.(۲) ۱۹۴۱ء میں حضور کو رویا میں دکھایا گیا تھا کہ حضور کے مکان پر ایک غنیم نے حملہ کر دیا ہے اور دشمن غالب آ گیا ہے.اور یہ تباہی صرف قادیان تک محدود نہیں بلکہ بہت بڑی تباہی ہے.اور

Page 244

234 جالندھر میں بھی تباہی آئی ہے.مگر مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے.اس پر حضور تفر ماتے ہیں کہ اگر مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے تب تو کامیابی کی امید ہے.حضور کو وہاں سے نکلنا پڑا ہے.وہاں سے نکل کر سب سوچ رہے تھے کہ اب کہاں جائیں کہ حضور کو ایک ایسی جگہ لے جایا جاتا ہے جہاں پہاڑیاں ہیں اور ان پہاڑیوں پر ایک ہموار میدان ہے.حضور کو یہ جگہ بہت پسند آتی ہے اور اسے نئے مرکز کے لئے منتخب کر لیا جاتا ہے.مگر خواب میں ہی حضور گو احساس ہوتا ہے کہ یہ جگہ بھی محفوظ نہیں ہے.یہ خواب ۱۹۴۱ء میں شائع بھی ہو گئی تھی (۳).اس خواب کا ایک حصہ پورا ہو چکا تھا.ایسے خطرناک حالات میں قادیان سے نکلنا پڑا تھا کہ جالندھر سمیت مشرقی پنجاب اور ہندوستان کے دیگر علاقوں پر بھی بہت بڑی تباہی آئی تھی.اور عملاً قادیان کے تمام احمدی محلے خالی کرالئے گئے تھے اور احمدی صرف حلقہ مسجد مبارک میں محصور ہو کر اپنا دفاع کر رہے تھے.اب اس خواب کا دوسرا حصہ یعنی نئے مرکز کی تلاش والا حصہ پورا ہونا باقی تھا.ابتداء میں شیخو پورہ اور ننکانہ صاحب کا علاقہ زیر غور تھا.چک ڈھگیاں کی زمین کی تجویز: نئے مرکز کے لئے زمین کی تلاش کی جا رہی تھی.ایک مخلص احمدی مکرم چوہدری عزیز احمد باجوہ صاحب، جو اس وقت سرگودھا میں سب جج کے عہدے پر کام کر رہے تھے، نے حضور کی خدمت میں ضلع جھنگ میں ایک زمین کی نشاندہی کی.یہ زمین چنیوٹ کے قریب دریا کے پارتھی اور بنجر ہونے کے باعث خالی پڑی تھی.(۴).اس وقت گورنمنٹ کے کاغذوں میں یہ قطعہ زمین چک ڈھکیاں کے نام سے درج تھا.اس جگہ کے علاوہ سرگودھا کو جانے والی سڑک پر ہی کڑانہ کی پہاڑیوں کا علاقہ بھی نئے مرکز کے لئے زیر غور آیا.قادیان کے محصور احمدیوں کا انخلاء اب بڑی حد تک مکمل ہو چکا تھا.ان دنوں حضور گودن رات ایک ہی فکر اور بے قراری تھی کہ کسی جگہ زمین لیکر دوسرا مرکز جلد از جلد قائم کیا جائے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی روزانہ صبح کے وقت مرکزی عہدیداران کی میٹنگ طلب فرماتے تھے.اس میں چک ڈھگیاں کی تجویز کا ذکر آیا.اس مجلس میں راجہ علی محمد صاحب ، ناظر بیت المال بھی موجود تھے.انہوں نے عرض کی کہ یہ رقبہ میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہوا ہے.یہ قطعہ

Page 245

235 زمین تھوہر اور کلر سے بری طرح متاثر ہے اور زراعت کے قابل نہیں ہے.اس پر صرف ایک بوٹی لانی اگتی ہے جو خود زمین کے ناقابل زراعت ہونے کا ثبوت ہوتی ہے.(۵) بہر حال اس کے بعد جائزہ لینے کا کام شروع ہوا تو پہلے حضور کے ارشاد پر چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ نے اس جگہ کا جائزہ لیا.حضور نے اس جگہ کا خود معائنہ فرمانے کا فیصلہ فرمایا.۱۷ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حضور نے کچھ اور بزرگان کے ہمراہ چک ڈھگیاں تشریف لے گئے اور دو گھنٹے تک اس رقبے کا جائزہ لیا اور قریبی گاؤں احمد نگر تشریف لے جا کر سیلاب کے دنوں میں پانی کی صورتِ حال اور دیگر امور کے متعلق مقامی زمینداروں سے معلومات حاصل فرمائیں.اس کے بعد حضور نے کڑانہ کی پہاڑیوں کے دامن میں موجود خالی قطعہ زمین کا بھی معائنہ فرمایا.شام کو آپ واپس لا ہور تشریف لے آئے.اسی روز آپ نے یہ فیصلہ فرمالیا کہ حکومت سے چک ڈھگیاں کی زمین خریدنے کی درخواست کی جائے.(۶) اگلے روز حضور نے حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر سے فرمایا کہ ”کل میں وہ جگہ دیکھ کر آیا ہوں جو پہاڑیوں کے درمیان ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے رویا میں دکھائی تھی.‘ (۷) یہ وہ زمین تھی جو بالکل بنجر اور نا قابل زراعت تھی.جس کے ساتھ کوئی نہر نہیں لگتی تھی.اس زمین کو بعض سرمایہ داروں نے گورنمنٹ سے پٹے پر لے کر آباد کرنے کی کوشش کی تھی مگر بھاری نقصان اٹھا کر نا کام ہو چکے تھے.لیکن یہ رقبہ ان خامیوں کی وجہ سے سستے داموں مل سکتا تھا.ان حالات میں اچھی اور مہنگی زمین لینا جماعت کی استطاعت سے باہر تھا.زمین کا حصول : حضور کے ارشاد پر زمین کے حصول کی کاروائی شروع کی گئی.چنانچہ ناظر اعلیٰ حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب نے ڈپٹی کمشنر صاحب کو درخواست دی کہ جماعت احمدیہ قادیان نہیں چھوڑنا چاہتی تھی لیکن بلوائیوں کے مسلسل حملوں اور ان حملوں میں ہندوستانی پولیس اور فوج کی مدد کی وجہ سے قادیان کی اکثریت کو جبراً اپنے گھر چھوڑنے پڑے ہیں اور اب انہیں بسانے کے لئے کسی جگہ کی ضرورت ہے.اس غرض کے لئے چک ڈھگیاں کا قطعہ اراضی جماعت کو فروخت کر دیا جائے.(۸) ابتدائی مراحل تو تیزی سے طے ہو گئے مگر بعد میں قدرے سست روی کے ساتھ حکومت

Page 246

236 نے اس اراضی کی فروخت کی کاروائی مکمل کی.اس مقصد کے لئے مکرم نواب محمد دین باجوہ صاحب نے انتھک محنت کی.ان کی وفات کے چند روز کے بعد حضور نے ان کی کاوشوں کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا 'جماعت ہمیشہ ان کی قربانیوں کو یاد رکھے اور اس بات کو مت بھولے کہ کس طرح ایک اسی سالہ بوڑھے نے جو محنت اور جفاکشی کا عادی نہیں تھا....۴۷ سے ۴۹ تک باوجود اس کے کہ اس کی طبیعت اتنی مضمحل ہو چکی تھی کہ وہ طاقت کا کوئی کام نہیں کر سکتا تھا.اپنی صحت اور آرام کو نظر انداز کرتے ہوئے رات اور دن ایک کر دیا اس لئے کہ کسی طرح جماعت کا نیا مرکز قائم کر دیا جائے.سینکڑوں دفعہ افسروں سے ملے ،ان سے جھگڑے کئے لڑائیاں کیں منتیں اور خوشامدیں کیں اور پھر مرکز کی تلاش کے لئے بھی پھرتے رہے.(۹) بالآخراا جون ۱۹۴۸ء کو حکومت نے اس زمین کی فروخت کی منظوری دے دی.منظوری دینے سے قبل حکومت نے اس اراضی کی فروخت کے متعلق اخبار میں اشتہار بھی دیا.لیکن اس کا کوئی اور خریدار سامنے نہ آیا.یہ زمین اتنی بنجر تھی کہ کوئی اسے برائے نام قیمت پر لے کر بھی آباد کرنے کو تیار نہیں تھا.چند دن میں ہی جماعت نے ۱۰۳۴ ایکٹر کی مطلوبہ قیمت اور اخراجات رجسٹری بارہ ہزار روپے جمع کرا کے زمین کی رجسٹری کی کاروائی مکمل کرالی.مخالفین کا شور : قبضہ لینے کی کاروائی ہو رہی تھی کہ احراریوں اور جماعت کے دیگر مخالفین نے شور مچا دیا کہ احمدیوں کو یہ زمین کوڑیوں کے مول دے دی گئی ہے.احراریوں کے اخبار آزاد نے اور زمیندار نے اپنی یکم اگست ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں دعویٰ کیا کہ اس اراضی کو تو بعض لوگ پندرہ سو روپے ایکٹر پر لینے کو تیار تھے.اور بعض دیگر اخبارات اور حلقے بھی اس مخالفت میں شامل ہو گئے.جہاں تک احرار یا جماعت کے مخالف علماء کا تعلق ہے تو اب انہیں اپنی سیاسی موت نظر آرہی تھی.کیونکہ تقسیم سے قبل ان میں سے اکثر مسلمانوں کا حقیقی نمائیندہ ہونے کا دعوی کر رہے تھے اور ان کی سیاسی ہمدردیاں

Page 247

237 کانگرس کے ساتھ تھیں.اور مولویوں کا یہ گروہ مسلم لیگ کی مخالفت میں پیش پیش تھا.جیسا کہ احراری لیڈر عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے ۱۹۳۹ء میں ، سندھ پراونشل احرار کا نفرنس کے موقع پر واضح الفاظ میں کہا تھا د مسلم لیگیوں میں خود داری کا ذرا مادہ نہیں ہے.وہ برطانوی گورنمنٹ کے اشارے پر ناچتے ہیں اور ہندوستان کو ہمیشہ غلام رکھنا چاہتے ہیں.یہ امر افسوسناک ہے کہ مسلم لیگی مہاتما گاندھی کے ممنون ہونے کی بجائے اپنی ذاتی اغراض کیلئے کانگرس سے جھگڑ رہے ہیں.اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ کانگرس میں شامل ہوں.(۱۰) جمیعۃ العلماء اور احرار واضح طور پر اس موقف کا اظہار کرتے رہے تھے کہ مسلم لیگ ایک رجعت پسند جماعت ہے جو ملک و ملت کی ترقی کی راہ میں بھاری رکاوٹ ہے.اور ان کے یہ بیانات ہندو اخبارات بڑے فخریہ انداز میں شائع کرتے تھے.(۱۱) دوسری طرف جماعت احمدیہ نے انتخابات میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا.انتخابات میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے مسلم لیگ کے حق میں فیصلہ دے دیا اور مولویوں کے اس گروہ کو بھاری ندامت اٹھانی پڑی.آزادی کے معاً بعد فسادات کے نتیجے میں بھی عوام الناس میں پاکستان کی مخالفت کرنے والے گروہوں کے خلاف جذبات اور بھی انگیخت ہو گئے اور ان فسادات میں علماء کے گروہ نہ تو مسلمانوں کی کوئی خدمت کر سکے اور نہ ہی ان خطرناک حالات میں ان کے دفاع کے لئے کسی جراءت کا مظاہرہ کرنا انہیں نصیب ہوا.جماعت اسلامی کا مرکز بھی مشرقی پنجاب میں پٹھانکوٹ کے مقام میں تھا.پہلے تو ان کے سربراہ پاکستان کو نا پاکستان قرار دیتے رہے اور جب قائد اعظم کا پیغام لے کر سردار شوکت حیات پہنچے تو مودودی صاحب نے پاکستان کی جد وجہد میں عملی حصہ لینا تو درکنار ، اس کے لئے دعا کرنے سے بھی انکار کر دیا.پھر جب فسادات شروع ہوئے تو جماعت اسلامی نے مشرقی پنجاب کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے کچھ بھی نہ کیا اور صرف اپنی جانیں بچانے کی فکر کی.مودودی صاحب بالآخر اسی پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جسے کل تک وہ نا پاکستان کہہ رہے تھے.دوسری طرف جماعت احمدیہ نے فسادات میں مسلمانوں کی ایسی نمایاں

Page 248

238 خدمت کی کہ غیر بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے.پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے وزارت خارجہ کا قلمدان حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے سپر د کر دیا اور جلد ہی کشمیر، فلسطین اور عالم اسلام کے دیگر مسائل پر حضرت چوہدری صاحب نے ایسی نمایاں خدمات سرانجام دیں کہ سارے عالم اسلام نے ان کا اعتراف کیا.اس پس منظر میں علماء کی جماعتوں کو اپنی سیاسی موت نظر آرہی تھی.اس سیاسی موت سے بچنے کے لئے ان جماعتوں کو یہی راستہ نظر آیا کہ فرقہ واریت کو ہوا دے کر اپنا سیاسی الوسیدھا کیا جائے.اور یوں پاکستان میں احمدیت کی مخالفت کا آغاز ہوا.ہم ۱۹۵۳ء کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان عوامل کا تفصیلی جائزہ لیں گے.ربوہ کی زمین خریدنے کے ساتھ ہی اس مخالفت میں ایک نیا جوش پیدا ہوا.اور یہ واویلا شروع کیا گیا کہ اتنی قیمتی زمین احمدیوں کو برائے نام قیمت پر دی جارہی ہے اور پاکستان کا نقصان ہو رہا ہے.ان الزامات کے جواب میں اگست ۱۹۴۸ء کے آغاز میں ناظر صاحب امور خارجہ نے اس زمین کی فرضی قیمت کے متعلق اخباری دعووں کا حوالہ دے کر الفضل میں مندرجہ ذیل اعلان شائع کروایا.اس اراضی کو پندرہ سورو پید فی ایکڑ کے حساب سے خریدنے کے لئے تیار تھے.سو اگر یہ درست ہے تو واقعی حکومت کو سخت نقصان پہنچا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی امام جماعت احمد یہ گورنمنٹ کے اس نقصان کو قطعاً برداشت نہیں کر سکتے.اس لئے حضور نے مجھے ہدایت فرمائی کہ میں یہ پریس جاری کروں کہ ہم یہ رقبہ جو ۱۰۳۴ ایکڑ ہے مندرجہ بالا پیش کردہ قیمت پر فروخت کرنے کو تیار ہیں.اور علاوہ ازیں ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اس رقم کا( جو پندرہ لاکھ اور اکاون ہزار بنتی ہے ) وصول ہوتے ہی ایک ایک روپیہ فوراً حکومتِ پاکستان کے خزانے میں داخل کرا دیں گے.اخیر میں ہم پاکستان کے شہریوں کو یقین دلاتے ہیں کہ اس معاملہ کے متعلق اخبار ”آزاد“ کا لفظ لفظ کذب بیانی پر مشتمل ہے (۱۲) چونکہ یہ پراپیگنڈ اوسیع پیمانے پر کیا جا رہا تھا اس لئے حکومت کو بھی اس کا جواب دینا پڑا اگست ۱۹۴۸ء میں حکومت کی طرف سے یہ اعلان شائع کیا گیا...الزام یہ ہے کہ تقسیم کے بعد بعض مسلم انجمنیں اس زمین کو پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ

Page 249

239 کے حساب سے خریدنا چاہتی تھیں.یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ جب ضلع وار آباد کاری کی تجویز کو منظور نہیں کیا گیا تو جماعت احمدیہ کو یہ موقع کیوں دیا گیا ہے کہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی کالونی بنائے.یہ رپورٹ گمراہ کن اور اصلیت سے دور ہے.جس زمین کے متعلق یہ اعتراض کیا گیا ہے وہ بنجر ہے اور عرصہ سے اسے زراعت کے ناقابل سمجھا گیا ہے.اسے جماعت احمد یہ کے ہاتھ فروخت کرنے سے پہلے حکومت نے اس کا اشتہار اخبارات میں دے دیا تھا.اور پورے ایک مہینہ کسی شخص نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا.جہاں تک قیمت کا تعلق ہے حکومت کو آج تک پندرہ سو روپے فی ایکڑ اس زمین کی قیمت کسی فرد یا کسی جماعت کی طرف سے پیش نہیں کی گئی...جماعت احمد یہ اس علاقے میں ایک نئی بستی آباد کرنا چاہتی ہے جس میں قادیان کے اجڑے ہوئے لوگ آباد ہوں گے.(۱۳) نئے مرکز کی منصوبہ بندی: اس اعلان کے جواب میں پندرہ لاکھ تو در کنار کسی کو پندرہ ہزار کی پیشکش کرنے کی توفیق بھی نہ ہوئی.حقیقت یہ تھی کہ اس کلر والی زمین کو تو کوئی مفت لے کر بھی آباد کرنے کو تیار نہیں تھا.ابھی جماعت کو زمین کا قبضہ بھی نہیں ملا تھا کہ حضور کے حکم کے تحت نئے مرکز کو آباد کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی گئی.حضور نے ارشاد فرمایا کہ نئے مرکز کو آباد کرنے اور بنیادی ضروریات کو مہیا کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے جو جائزہ لے کہ مرکزی دفاتر اور ادارے کہاں پر بنائے جائیں گے.پانی لگانے اور ٹیوب ویل لگانے کا کام فوراً شروع کیا جائے ہمٹی کے تیل کا کوٹہ منظور کرایا جائے ،سال کی ضروریات کے لئے پانچ چھ ہزار من غلہ جمع کیا جائے ، ربوہ سے قریب احمد نگر میں دودھ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھینسیں خرید کر رکھی جائیں، پانی کا انتظام ہونے پر پھلدار اور دیگر درخت لگانے کی منصوبہ بندی کی جائے ،شہر بنانے کے لئے فوراً وہاں پر کچھ آبادی کی ضرورت ہوگی غور کیا جائے یہ آبادی کس طرح ہو گی.حضور نے فرمایا کہ سب سے پہلے مسجد کی بنیاد

Page 250

240 رکھی جائے مگر فیصلہ کیا جائے کہ باقی مکانات کس ترتیب سے بنائے جائیں.جولوگ زمین خریدنا چاہیں ان کو ایک ماہ تک پچاس روپیہ کنال کے حساب سے زمین ملے گی مگر قبضہ مکان بناتے ہوئے دیا جائے گا.ایک ماہ کے بعد نئی قیمت کا اعلان کیا جائے گا.قادیان کے احمدی باشندوں کو اور قادیان کے ان غیر احمدی باشندوں کو جو ہماری مخالفت نہ کرتے ہوں دس مرلہ زمین مفت دی جاے گی.مگر چھ ماہ کے اندر مکان کی تعمیر شروع کرنی ہوگی.زمین کی دو تہائی قیمت انجمن اور ایک تہائی قیمت تحریک ادا کرے گی.اس نسبت سے دونوں انجمنیں علاقے کی مالک ہوں گی.میاں عبدالرشید صاحب نے مرکز کا نقشہ تیار کر چکے تھے، حضرت مصلح موعودؓ نے ارشاد فرمایا کہ اس پر تفصیلی غور کے لئے اس کو بڑے سکیل پر تیار کرایا جائے.ان خطوط پر سرعت سے بنیادی کام کا آغاز کیا گیا.حسب ارشاد نئے مرکز کے قیام کے لئے کمیٹی بنائی گئی.ابتدائی دنوں میں اس کے ممبر تبدیل ہوتے رہے اور ستمبر اکتوبر ۱۹۴۷ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی صدارت میں کمیٹی اپنے فرائض ادا کر رہی تھی اور مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اس کے سیکریٹری تھے.(۱۴) حکومت کی طرف سے اس زمین کا با ضابطہ قبضہ دینے میں تاخیر کی گئی لیکن کافی دوڑ دھوپ کے بعد بالآخر ۸ اگست ۱۹۴۸ء کو صدر انجمن احمدیہ کو قبضہ دے دیا گیا.جماعت کی طرف سے قبضہ لیتے ہی تیرہ افراد کا وفد چک ڈھگیاں روانہ کر دیا گیا.اس وفد میں عبدالرزاق خان صاحب اور ایک استاد مولوی ابوالفاروق ممتاز علی بنگالی صاحب بھی شامل تھے.دریائے چناب کے کنارے کچھ فوجی ایک بنگلے میں رہ رہے تھے اور قریب ایک طیارہ شکن توپ نصب تھی.ایک اور بنگلہ تقسیم ملک کے بعد خالی پڑا تھا.اس گروپ کو یہیں پر سر چھپانے کی جگہ مل گئی.کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ سونے کے لئے بستر تو در کنار چار پائی تک میسر نہیں تھی.فرش پر چادر بچھا کر سو جاتے اور تکیے کی جگہ پتھر رکھ لیتے.پینے کے لئے دریا کا پانی ہی مل سکتا تھا جسے پھٹکڑی ڈال کر صاف کر لیا جاتا.تنگدستی کی وجہ سے صابن نہ مل سکتا تو کلر سے ہی کپڑے دھو لیے جاتے.غلہ خرید کر احمد نگر میں جمع کرنا شروع کیا گیا.اس خطہ بے آب و گیاہ میں سانپوں اور بھیڑیوں سے خطرہ بھی تھا چنانچہ ایک ماہ کے اندر ہی پہلے وفد کے رکن عبد الرزاق خان صاحب کو زہریلے سانپ نے کاٹ لیا.حالت بگڑی تو انہیں لا ہور کے ایک ہسپتال میں داخل ہونا پڑا.(۱۵)

Page 251

241 نئے مرکز کا نام: نئے مرکز کے لئے بہت سے نام تجویز کئے گئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس کا تجویز کردہ نام ”ربوہ“ منظور فرمایا.اس کے لغوی معانی بلند جگہ یا ٹیلے کے ہیں.یہ لفظ قرآنِ کریم کی اس آیت میں استعمال ہوا ہے جس میں حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ کے پناہ لینے کا ذکر ہے.وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّةً أَيَةً وَ أَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِيْنِ یعنی اور ابن مریم کو اور اس کی ماں کو بھی ہم نے ایک نشان بنایا تھا اور ان دونوں کو ہم نے ایک مرتفع مقام کی طرف پناہ دی جو پر امن اور چشموں والا تھا.(۱۶) چونکہ یہاں کی زمین اردگرد کی زمین سے قدرے بلند تھی اس لئے بھی یہ نام موزوں تھا.ربوہ کے افتتاح کے لئے ۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کی تاریخ مقرر ہوئی.ایک روز قبل مولوی محمد صدیق صاحب اور عبد السلام اختر صاحب کو کچھ خیمے، چھولداریاں اور سائبان دے کر ایک ٹرک پر روانہ کیا گیا.سیلاب کی وجہ سے راستے کٹے ہوئے تھے اس لئے لمبے راستے سے آنا پڑا.اس وقت تعلیم الاسلام اسکول چنیوٹ میں کام کر رہا تھا.یہ دونوں احباب چنیوٹ میں ہیڈ ماسٹر سیدمحموداللہ شاہ صاحب کو کہتے آئے کہ کچھ لڑکوں کو لالٹین دے کر بھجوا دیں.جب ربوہ کی جگہ پر پہنچے تو سورج ڈوب رہا تھا.اندازہ کیا کہ اراضی کا وسط کہاں پر بنے گا اور وہاں پر سامان اتارنا شروع کیا.چند را بگیر حیران ہو کر دیکھ رہے تھے کہ اس بے آب و گیاہ ویرانے میں یہ لوگ کیا کر رہے ہیں.سامان اتار کر مزدور اور ڈرائیور رخصت ہو گئے.رات پڑ رہی تھی، خیمے لگائے گئے.سنسان وادی میں دونوں ساتھی تنہا تھے.ہر طرف خاموشی تھی.مولوی صدیق صاحب نے کہا اختر بھائی کچھ سناؤ.اختر صاحب نے حضرت مسیح موعود کے کچھ اشعار بآواز بلند سنانے شروع کئے.آواز پہاڑیوں سے ٹکرا کر گونج پیدا کرر ہی تھی.اتنے میں دور سے ہلکی سی روشنی دکھائی دی.اسکول کے تین بچے چھ میل دور چنیوٹ سے لالٹین دینے آئے تھے.ان میں سے دو بچے بنگال کے اور ایک بچہ سیلون کا تھا.اپنے وطن سے.

Page 252

242 ہزاروں میل دور یہ بچے اپنے احمدی بھائیوں کو لالٹین دینے آئے تھے.نصف شب کے قریب احمد نگر سے کھانا بھی آ گیا اور اسے کھا کر دونوں ساتھی سو گئے.اس وادي غیر ذی زرع کی ویرانی جلد ہجوم خلائق میں تبدیل ہونے والی تھی.(۱۷) ربوہ کا افتتاح اگلے روز حضور ایک قافلے کے ہمراہ ایک بج کر بیس منٹ پر ربوہ پہنچے.اردگرد کے اضلاع سے ۶۱۹ احباب ربوہ کے افتتاح کی بابرکت تقریب میں شرکت کے لئے پہنچ چکے تھے.حضور کی امامت میں نماز ظہر ادا کی گئی.نماز کے بعد حضرت مصلح موعود کا خطاب شروع ہوا.پہلے آپ نے وہ قرآنی دعائیں پڑھیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو آباد کرتے ہوئے پڑھی تھیں.حضور نے فرمایا آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.جو بھی اٹھتا ہے مصنف کیا اور فلسفی کیا اور مؤرخ کیا وہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے...اگر ہمارے دلوں میں اسلام کی کوئی بھی غیرت باقی ہے اگر ہمارے دلوں میں محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی کوئی بھی محبت باقی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے آقا کی کھوئی ہوئی عزت کو پھر دوبارہ قائم کریں.اس میں ہماری جانیں ، ہماری بیویوں کی جانیں، ہمارے بچوں کی جانیں بلکہ ہماری ہزار ہا پشتیں بھی اگر قربان ہو جائیں تو یہ ہمارے لئے عزت کا موجب ہوگا.ہم نے یہ کام قادیان میں شروع کیا تھا مگر خدائی خبروں اور اس کی بتائی ہوئی پیشگوئیوں کے مطابق ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا اب انہی خبروں اور پیشگوئیوں کے ماتحت ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے اس وادی غیر ذی زرع میں بسا رہے ہیں.ہم چیونٹی کی طرح کمزور اور نا طاقت سہی مگر چیونٹی بھی جب دانہ اٹھا کر دیوار پر چڑھتے ہوئے گرتی ہے تو وہ اس دانے کو چھوڑتی نہیں بلکہ دوبارہ اسے اٹھا کر منزل مقصود پر لے جاتی ہے.اسی طرح ہمارا وہ مرکز جوحقیقی اور دائگی مرکز ہے دشمن نے ہم سے چھینا ہوا ہے لیکن ہمارے ارادے اور عزم میں کوئی تزلزل واقع نہیں ہوا.دنیا ہم کو ہزاروں جگہ

Page 253

243 پھینکتی چلی جائے وہ فٹ بال کی طرح ہمیں لڑھکاتی چلی جائے ، ہم کوئی نہ کوئی ایسی جگہ ضرور نکال لیں گے جہاں کھڑے ہو کر ہم پھر دوبارہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کر دیں.‘(۱۸) اس کے بعد حضور نے ایک پر سوز دعا کرائی اور پھر اس اراضی کے چاروں کونوں اور وسط میں پانچ بکروں کی قربانی دی گئی.اس بابرکت تقریب کے بعد چنیوٹ کے احمدیوں کی طرف سے دعوتِ طعام دی گئی اور شام کے وقت حضور واپس لا ہور تشریف لے گئے.دفاتر کی منتقلی اب جماعتی دفاتر کو ربوہ منتقل کرنے کا مرحلہ شروع ہوا.اور سب سے پہلے نظارت تعلیم و تربیت کے فعال دفتر نے یہاں پر کام شروع کیا.اس سے قبل ہی جامعہ احمدیہ کا آغاز احمد نگر میں ہو چکا تھا اور چنیوٹ میں تعلیم الاسلام ہائی اسکول نہ صرف کام کر رہا تھا بلکہ میٹرک میں پاس ہونے والے طلبہ کے تناسب کے لحاظ سے پورے صوبے میں اول بھی رہا تھا.ان کے علاوہ بیت المال، بہشتی مقبره ، امور عامه، ضیافت کی نظارتوں اور دارالقضاء کے شعبے کو بھی ستمبر ۱۹۴۸ء میں ہی ربوہ منتقل کر دیا گیا.یہ تبدیلی اس طرح کی نہیں تھی جیسے ایک عمارت یا ایک شہر سے کوئی دفتر دوسری عمارت یا دوسرے شہر میں منتقل ہو جاتا ہے.ابتداء میں دفاتر کے لئے کچی کو ٹھریاں تک میسر نہیں تھیں، خیموں اور چھولداریوں میں دفاتر شروع کئے گئے.ان میں بھی جگہ کی تنگی کا سامنا تھا.تقریباً بارہ ماہ کے عرصے میں تیسری جگہ پر دفاتر کومنتقل کیا جارہا تھا.مالی تنگی کی وجہ سے ہر شعبے میں عملے کو کم کرنا پڑا تھا.ریکارڈ رکھنے کی جگہ بھی مشکل سے ملتی تھی.اس بے آب و گیاہ وادی میں کارکنان کو رہائش کی گوناں گوں تکالیف ان کے علاوہ تھیں.چھ ماہ کے بعد دفاتر کو کچی بیر کیں مل سکیں.شروع شروع میں ان میں بھی جگہ کی قلت تھی.بجلی جیسی بنیادی سہولت کا بھی نام ونشان نہیں تھا.ان تمام تکالیف کے باوجود کارکنان نے لگن اور استقلال سے کام کو جاری رکھا.(۱۹) حضرت خلیفہ المسیح الثانی بھی کام کا جائزہ لینے اور کارکنان کی حوصلہ افزائی کے لئے کچھ عرصہ بعد ربوہ تشریف لاتے.اس وقت عمارات تو بنی نہیں تھیں.ایک خیمے میں دری بچھا دی جاتی، جس پر آپ رونق افروز

Page 254

244 ہوتے.وہیں پر آپ مختلف صیغہ جات کے کارکنان سے میٹنگ کر کے کام کا جائزہ لیتے اور ربوہ کی منصوبہ بندی کے متعلق ہدایات دیتے.(۲۰) پہلے یہ منصوبہ تھا کہ حضور دفاتر کی منتقلی کے کچھ ہی عرصہ بعد ربوہ منتقل ہو جائیں گے مگر پھر مختلف وجوہات کی بنا پر اسے کچھ ماہ کے لئے مؤخر کرنا پڑا.(۲۱) ربوہ کا پہلا جلسہ سالانہ : جلسہ سالانہ دسمبر میں ہوتا ہے لیکن اس سال فیصلہ کیا گیا کہ اپریل ۴۹ میں جلسہ سالانہ نئے مرکز میں منعقد کیا جائے.لیکن اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ ربوہ میں بنیادی سہولیات کا مکمل فقدان تھا.نہ رہائش کے لئے گھر تھے، اور نہ ہی پانی اور بجلی کی سہولیات مہیا تھیں.یہاں پر ہزاروں مہمانوں کے کھانے کا انتظام کرنا بھی مشکل نظر آ رہا تھا.لیکن ایک عزم کے ساتھ جلسے کی تیاریاں شروع کی گئیں.بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ نا مساعد حالات کی وجہ سے یہ جلسہ منعقد نہیں ہو سکے گا.رہائش کے لئے فیصلہ کیا گیا کہ پچاس عدد کچی بیرکیں تعمیر کی جائیں.چوہدری عبدالطیف اوورسیئر صاحب اس تعمیر کے نگران تھے.پہاڑی کے دامن میں گودام بنائے گئے.اور کچی اینٹیں بنانے کا کام شروع ہوا.روزانہ پچاس ساٹھ ہزار کچی اینٹ بنتی تھی.فیملیوں کو ایک ساتھ ٹہرانا تو ممکن نہیں تھا.لہذا عورتوں اور مردوں کی علیحدہ بیرکیں ریلوے سٹیشن کے قریب تعمیر کی گئیں.ان بیرکوں کی چھتیں سرکنڈوں کی بنائی گئی تھیں.خیموں کا انتظام اس کے علاوہ تھا.حضور کی رہائش کے لئے کچا مکان بھی بنایا گیا.پانی کے لئے کوششیں بھی ہو رہی تھیں مگر اب تک جو پانی ملا تھا وہ پینے کے قابل نہیں تھا اور اس کا کڑ وہ ذائقہ دیر تک منہ میں رہتا تھا.مہمانوں کو پانی مہیا کرنے کے لئے گورنمنٹ نے ٹینکر مہیا کئے.روٹی پکانے کے لئے چالیس تندور لگائے گئے.(۲۲ ۲۳) ۱۵ اپریل ۱۹۴۹ء کو اس تاریخی جلسے کا افتتاح ہوا.افتتاحی تقریر کے آغاز میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ یہ جلسہ محض تقریروں کا جلسہ نہیں ہے یہ دعاؤں کا جلسہ ہے.اس جلسہ میں شامل ہونے والے افراد محض ایک جلسہ میں شامل نہیں ہو رہے بلکہ وہ ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنانے میں حصہ لے رہے ہیں.اس کے بعد حضور نے کچھ قرآنی دعائیں پڑھیں اور ارشاد فرمایا کہ تمام شرکاء ان کو دہرائیں.تقریر کے بعد آپ نے پہلے ہاتھ اٹھا کر ایک لمبی دعا کرائی اور پھر کچھ ہدایات دینے کے

Page 255

245 بعد فرمایا ، سجدے میں گر کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اپنے اندر مخصوص برکات رکھتا ہے.لہذا اب میں سجدے میں گر کر دعا کروں گا.احباب بھی میرے ساتھ سجدہ کریں.چنانچہ خلیفہ وقت کے آستانہ الوہیت پر گرتے ہی تمام جبینیں سجدہ ریز ہو گئیں.اور فضا میں دردوکرب سے بھری ہوئی صداؤں سے کہرام مچ گیا.(۲۴) جلسے کے دوسرے روز حضور نے قادیان سے نکلنے کے پس منظر اور قادیان کی واپسی کے متعلق خدائی وعدوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہمارے اصل مرکز قادیان سے دائمی طور پر جدا نہیں رکھ سکتی.ہم نے خدائی ہاتھ دیکھے ہیں اور آسمانی فوجوں کو اترتے دیکھا ہے.اگر ساری طاقتیں بھی خدائی تقدیر کا مقابلہ کرنا چاہیں.تو وہ یقیناً نا کام رہیں گی.اور وہ وقت ضرور آئے گا جب قادیان پہلے کی طرح جماعت احمدیہ کا مرکز بنے گا.پھر آپ نے وقف زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سلسلہ کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک وقف زندگی کی تحریک ہے.کچھ عرصہ سے اس اہم تحریک کی طرف سے احباب جماعت کی توجہ ہٹ گئی ہے.لوگ زمینیں خرید نے اور تجارتوں کو وسیع کرنے میں لگے ہوئے ہیں.حالانکہ بغیر وقف زندگی کے جماعت کے کام نہیں چل سکتے.اس لئے نو جوانوں کو چاہیے کہ وہ خدمت اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.(۲۵) اس تاریخی جلسے میں سترہ ہزار افراد شامل ہوئے.انتظامات ناکافی ثابت ہوئے اور بہت سے مہمانوں کو تاخیر سے کھانا ملنے کی وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑی ، رہائش کے مسائل اس کے علاوہ تھے.مشکلات کا اندازہ اس سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے ہی دن نو باور چی بیہوش ہو گئے.لیکن کسی مہمان کے لبوں پر حرف شکایت نہ آیا.ربوہ کو آباد کرنے کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ پیش آرہی تھی کہ اب تک پینے کے قابل پانی نہیں نکلا تھا.ربوہ سے لاہور واپسی سے ذرا قبل حضرت مصلح موعوددؓ کو الہام ہوا جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا حضور نے ۱۲۲ اپریل ۱۹۴۹ نکے خطبہ میں اس الہام کو بیان فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ الہام کس رنگ میں پورا ہو.ممکن ہے کہ ہمیں نہر سے پانی

Page 256

246 مل جائے یا دریا سے پانی لے لیا جائے..بہر حال یہ ایک نہایت خوشکن الہام ہے.(۲۶) اس الہام کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب بور کیا گیا اور ربوہ میں ایسا پانی مل گیا جو پینے کے قابل تھا.اس طرح یہ بابرکت جلسہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اس خوش خبری پر اختتام پذیر ہوا.کچے مکانات کی تعمیر : اس جلسے کے بعد جلسے کے لئے بنائی گئی بیرکوں کو تقسیم کر کے چھوٹی چھوٹی رہائش گاہیں بنائی گئیں.اور کچے مکانات اور دفاتر کی تعمیر شروع کر دی گئی.(۲۲) ایک ایک کر کے کارکنان ربوہ منتقل ہونا شروع ہوئے.ان کے اہلِ خانہ بھی نئے مرکز میں منتقل ہونے لگے.جب نئے آنے والے ربوہ پہنچتے تو انہیں سنگلاخ پہاڑیوں میں گھری ہوئی ایسی وادی نظر آتی جس میں دور دور تک کسی درخت یا سبزے کا نام و نشان تک نہیں تھا.ایک چٹیل میدان تھا جس کی سطح پر کلر کی وافر مقدار اس کے نا قابل زراعت ہونے کا یقین دلا رہی ہوتی.ایک جگہ پر چند کچے مکانوں کی موجودگی سے معلوم ہوتا تھا کہ کچھ لوگ اس بے آب و گیاہ وادی کو بسانے کی کوشش کر رہے ہیں.ان کچے مکانوں کے اندر اس دور کی بنیادی ضروریات بھی موجود نہیں تھیں.باہر تو دروازے لگے ہوئے تھے مگر گھروں کے اندر کمروں کے درمیان دروازے تک موجود نہیں تھے.اکثر گھروں میں بیٹھنے کے لئے ایک کرسی بھی موجود نہیں تھی.کھانے کا وقت آتا تو زمین پر چٹائی بچھا کر کھانا کھا لیا جاتا.سقہ دور سے پانی کی مشکیں بھر کر لاتا جسے مٹکوں میں استعمال کے لئے محفوظ کر لیا جاتا.عام دنوں میں جب لوگ کچے راستوں پر نکلتے تو پاؤں مٹی میں پھنس رہے ہوتے.اگر بارش ہو جاتی تو کیچڑ جوتوں سے چمٹ کر چلنا دو بھر کر دیتا.یہاں پر نہ درخت تھے اور نہ ابھی عمارتیں بنی تھیں.ایسی حالت میں آندھیاں بہت آتی تھیں.جب آندھی آتی تو سب گھروں کے اندر جانے کی کرتے.بسا اوقات آندھی اتنی شدید ہوتی کہ صحنوں میں پڑی ہوئی چار پائیوں اور بستروں کو اڑا کر لے جاتی.بعد میں یہ اشیاء کافی فاصلے پر پڑی ہوئی ملتیں.شام پڑتے ہی لوگ اپنے گھر کی لالٹینوں کو درست کرنے لگتے تاکہ رات کو روشنی کا انتظام ہو سکے.لڑکوں کا اسکول چنیوٹ میں تھا.اور لڑکیوں کے لئے اسکول کی ایک کچی

Page 257

247 عمارت بنائی گئی تھی.ربوہ میں آباد ہونے والوں میں ایسے بھی تھے جو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہ چکے تھے، انگلستان اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں رہ چکے تھے، جواب بھی وسیع جائیدادیں رکھتے تھے اور بڑے شہروں میں مکانات کے مالک تھے.وہ اس سے پہلے اس قسم کی زندگی کے عادی نہیں تھے اور اب بھی اگر چاہتے تو کسی بڑے شہر میں آرام کی زندگی گزار سکتے تھے.ان میں سے اکثر اس بات کا قانونی حق رکھتے تھے کہ مشرقی پنجاب میں چھوڑے ہوئے مکانات کے بدلے پاکستان میں کوئی مناسب مکان حاصل کر لیں.لیکن وہ اپنی مرضی اور خوشی سے اس زندگی کو اختیار کر رہے تھے تا کہ ان کے امام کی خواہش کے مطابق جماعت کا نیا مرکز جلد آباد ہو.وہ ان حالات میں بھی مطمئن اور مسرور تھے.حضرت مصلح موعود کی مستقل تشریف آوری جماعت کی تاریخ میں ۱۹ ستمبر ۱۹۴۹ء کا دن ایک خاص اہمیت رکھتا ہے.اس سے قبل حضور کئی مرتبہ ربوہ تشریف لے جاچکے تھے لیکن ابھی تک حضور کی سکونت رتن باغ لاہور میں ہی تھی.اس تاریخ کو حضور مستقل رہائش کے لئے ربوہ تشریف لے آئے.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی حضور کے ساتھ ہی ربوہ تشریف لائیں.چناب کا پل اتر کر حضور نے گاڑیاں رکوا دیں اور قافلے کے شرکاء کے ہمراہ قبلہ کی طرف منہ کر کے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا دہرائی.رَبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ و أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَل لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا.یہ دعا کئی دفعہ نہایت سوز اور رقت سے دہرائی گئی.اس کے بعد سب دوبارہ موٹروں میں سوار ہو کر ربوہ میں اس وقت بنے ہوئے مکانات کی طرف روانہ ہوئے.اہل ربوہ اور ارد گرد سے آئے ہوئے سینکڑوں احمدی ایک شامیانہ کے نیچے حضور کا استقبال کرنے کے لئے جمع تھے.ناظر اعلیٰ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب اور دیگر بزرگان نے حضور کا استقبال کیا.اس وقت حضور وہی دعا دہرا رہے تھے.نماز ظہر کے بعد حضور نے فرمایا کہ میں امید رکھتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی ہجرت کی سنت کو سامنے رکھ کر آپ لوگ رستہ تک آگے آکر استقبال کریں گے.تا کہ ہم متحدہ دعاؤں کے ساتھ ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے.مگر آپ نے ایسا نہیں کیا.اس لئے اب میں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے پھر اس

Page 258

248 دعا کو دہراتا ہوں.اور سب دوست بلند آواز سے میرے پیچھے اس دعا کو دہراتے جائیں.چنانچہ سب احباب نے حضور کی اتباع میں یہ دعا د ہرائی.حضور کے لئے ایک دو منزلہ کچا مکان تیار کیا گیا تھا اور اس کے قریب ہی ایک کھلے چھپر کی صورت میں نماز پڑھنے کے لئے جگہ تیار کی گئی تھی.اب ربوہ کی آبادی ایک ہزار نفوس تک پہنچ چکی تھی.حضرت مصلح موعودؓ کی با برکت آمد کے ساتھ ہی اب ربوہ با قاعدہ طور پر جماعت کا مرکز بن گیا تھا.آہستہ آہستہ ربوہ کا منظر بدلنا شروع ہوا.سب سے پہلے بننے والی پکی عمارت مسجد مبارک تھی.پھر ایک ایک کر کے کچی عمارتوں کی جگہ پکی عمارتیں نظر آنے لگیں.محلے آباد ہونے لگے.ربوہ پھیلنے لگا.۱۹۵۴ء میں ربوہ میں بجلی کی سہولت بھی مہیا ہو گئی.دفاتر کی وسیع عمارتیں تعمیر ہوئیں.ایک کے بعد دوسری مسجد بنے لگی.لق و دق زمین کی جگہ کہیں کہیں سبزہ نظر آنے لگا.پھر اس زمین پر جسے سائنسی طور پر کچھ بھی اگانے کے قابل نہیں سمجھا گیا تھا، طرح طرح کے درخت اگنے لگے.اب ربوہ کا منظر بدل رہا تھا.حضرت مصلح موعود کی پیدائش سے قبل حضرت مسیح موعود کو الہاماً بتایا گیا تھا کہ پیدا ہونے والا موعود بیٹا اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا.یہ وصف پورے طور پر ظاہر نہیں ہوسکتا تھا جب تک ایسے حالات پیدا نہ ہوں جن میں ہر طرف مایوسی کے بادل چھا رہے ہوں اور تمام دنیاوی اسباب منقطع ہو چکے ہوں.تقسیم ملک کے وقت پیدا ہونے والے حالات اور پھر ہجرت کے واقعات اور اہلِ قادیان کا بخیر و عافیت وہاں سے نکل آنا اور پھر بغیر کسی تاخیر کے نظام جماعت کا ایک بار پھر جاری ہو جانا.اور باوجود تمام مشکلات کے نئے مرکز کا آباد ہونا ، یہ سب واقعات گواہی دے رہے ہیں کہ خدا کے پاک مسیح کی پیشگوئی سچی نکلی.وہ موعود بیٹا یقیناً اولوالعزم تھا.مخالفین کا حسد : جماعت کے مخالفین کو خود تو توفیق نہ ہوئی کہ وہ آنے والے مہاجرین کے لئے کوئی بستی آباد کرتے.البتہ جب ربوہ آباد ہونا شروع ہوا تو یہ امران کے حسد میں اضافے کا باعث ضرور بن گیا.اور جماعت کے مخالف اخبارات نے ربوہ کے متعلق بہت کچھ لکھنا شروع کیا.اخبار آزاد نے اپنی ۲۰ نومبر ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں ربوہ کے نام سے ایک مضمون شائع کیا.اس کے آغاز پر اپنے

Page 259

249 اعتراضات کا یہ خلاصہ جلی حروف میں شائع کیا لوگ حیران ہیں کہ انگریز گورنرکو قادیانیوں سے کیا انس تھا.اور اسے کیا ضرورت تھی کہ حکومت کی پالیسی پریس کی رائے اور عوام کے فائدے کے خلاف انہیں برائے نام قیمت پر زمین دے کر جدا شہر آباد کروایا.اور چند دنوں کے اندر ہی سڑک سٹیشن اور دیگر تمام ضرورت کے اہتمام کا انتظام کیا.فرانس مودی کے اس عمل اور قادیانی جماعت کی گذشتہ تاریخ کی روشنی میں اگر ہم یہ کہیں کہ ربوہ پاکستان میں انگریز کا کھونٹا ہے تو بے جا نہ ہوگا (۲۷) اول تو انگریز گورنر کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہ تھا.زمین کی فروخت کی کاروائی ڈپٹی کمشنر کی سطح سے شروع ہوتی تھی اور وہ مسلمان تھے.پنجاب میں مسلم لیگ کی وزارت قائم تھی اور زمین اس حکومت کی طرف سے فروخت کی گئی تھی.یہ الزام کہ یہ زمین حکومت کی پالیسی کے برخلاف فروخت کی گئی تھی مضحکہ خیز ہے کیونکہ حکومت ہی نے تو یہ زمین فروخت کی تھی.اور اس کا اعلان اپنے گزٹ میں شائع کیا تھا.یہ موشگافی بھی خوب ہے کہ ربوہ کو چند دن کے اندر سڑک مہیا کی گئی تھی کیونکہ ربوہ کو سڑک مہیا نہیں کی گئی تھی، بلکہ ربوہ کو ایک سڑک کے اوپر بنایا گیا تھا.یہ سڑک تو ربوہ کے بننے سے کئی دہائیاں قبل ہی بن چکی تھی.اور رہی ربوہ کی اندرونی سڑکیں تو وہ تو اس معرکۃ الآراء مضمون کی اشاعت کے بیس سال بعد بنی تھیں.اس مضمون میں دعوی کیا گیا ہے کہ ربوہ کے لئے تمام ضروریات کا اہتمام چند روز میں کر دیا گیا تھا.جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک تو ربوہ میں بجلی کی سہولت بھی موجود نہیں تھی.اور رہا یہ الزام کہ ربوہ پاکستان میں انگریزوں کا کھونٹا ہے اور احمدی انگریزوں کے ایجنٹ ہیں تو ہم اس کا جائزہ ذرا ٹھہر کر لیں گے لیکن یہ یاد کراتے جائیں کہ چند برس قبل احراری یہی الزام مسلم لیگ کے لیڈروں کے متعلق لگا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ کے لیڈرانگریزوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں.(۱) تاریخ احمدیت جلدا اص۲۸۱ تا ۲۸۶ (۲) الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء ص ۸ (۳) الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۴۱ ء ص ۳ (۴) الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء

Page 260

250 (۵) الفضل ۷ جون ص ۵ (۶) با جوہ خاندان ص ۷۷ ( ۷ ) الفضل ۱۸ صلح ۱۳۴۸ هش ص ۲ (۸) تاریخ احمدیت جلدا اص۲۹۰.۲۹۱ (۹)الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۹ء ص ۳ (۱۰) روز نامه پرتاب ۱۸ جون ۱۹۳۹ء ص ۹ (۱۱) روزنامه پرتاب ۹ جون ۱۹۳۹ء ص ۷ (۱۲) الفضل ۴ اگست ۱۹۴۸ء ص ۱ (۱۳) انقلاب ۳۱ اگست ۱۹۴۸ء (۱۴) رجسٹر ریزولیشن صدرانجمن احمدیہ پاکستان (۱۵) تعمیر مرکز ربوہ کے ابتدائی حالات اور ایمان افروز واقعات مصنفہ خان عبدالرزاق مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ ص ۲۴ تا ۲۸ (۱۶) سورۃ المومنون آیت ۵۱ (۱۷) الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۴۸ء ص ۵ (۱۸) الفضل سالانہ نمبر ۱۹۶۴ ء ص ۶ (۱۹) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۴۸ء.۱۹۴۹ء (۲۰) الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۸ء ص ۴ (۲۱) رجسٹر کاروائی مجلس ناظران و وکلاء رجسٹر ۲ص۴۲ ، تاریخ ۴۹-۱-۱۵ (۲۲) انٹر ویولطیف اوورسیئر صاحب ، یہ انٹرو یو ایم ٹی اے پاکستان سٹوڈیو نے ریکارڈ کیا (۲۳) روزنامه الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۴۹ء ص ۴ (۲۴) الفضل ۱۲۰ اپریل ۱۹۴۹ء ص ۳ (۲۵) الفضل ۱۲۰ اپریل ۱۹۴۹ء ص ۴ (۲۶) الفضل ۱۸ اگست ۱۹۴۹ء ص ۵ (۲۷) آزاد۲۰ نومبر ۱۹۵۰ء ص ۲

Page 261

251 تبلیغ اسلام کے نئے میدان حضرت خلیفة المسیح الثانی کی مشہور نظم تو نبال ان جماعت سے خطاب کا ایک شعر ہے عسر ہو یسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو کچھ بھی ہو بند مگر دعوتِ اسلام نہ ہو یہ صرف ایک شعر یا جذبات کا اظہار نہیں تھا.حضور نے خطرناک ترین حالات میں اس پر عمل کر کے دکھایا اور آپ کی قیادت میں جماعت نے اس کو اپنا لائحہ عمل بنایا.تقسیم ملک کے معاً بعد جماعت کو ہر قسم کی مشکلات کا سامنا تھا.قادیان میں محصور احمدیوں کی جانیں خطرے میں تھیں.بہت سے شہید ہو چکے تھے.نئی جگہ پر نظام جماعت کو پھر سے قائم کرنا ایک طویل جد و جہد کا تقاضا کر رہا تھا.نئے مرکز کو آباد کرنے کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی ہو رہی تھیں.مالی وسائل کی شدید کمی کا سامنا تھا.یہاں تک کہ ایک وقت میں یہ پابندی بھی لگانی پڑی کہ کوئی ایک روٹی سے زیادہ نہ کھائے.ربوہ بنا تو خلیفہ وقت کی رہائش بھی کچے مکان میں تھی.قادیان کی جدائی کے زخم ابھی بالکل تازہ تھے.دل زخموں سے چور سہی ، سب مشکلات اپنی جگہ پر لیکن ایک فرض تھا جس سے جماعت کسی قیمت پر غافل نہیں ہو سکتی تھی.اور وہ فرض پوری دنیا میں حضرت محمد مصطف عملہ کا پیغام الله پہنچانے کا فرض تھا.چنانچہ ان حالات میں بھی صرف اگست ۱۹۴۷ء سے لے کر ۱۹۴۸ء کے آخر تک دس مبلغین بر صغیر سے باہر روانہ کئے گئے.اور ان مبلغین نے اٹلی ، برطانیہ ، ارجنٹائن، نائیجیریا، سیرالیون ، غانا اور مشرقی افریقہ پہنچ کر تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا.اس کے علاوہ نئے ممالک اور علاقوں میں مشنوں کا قیام عمل میں آیا.ہم مختصراً ان نئے مشنوں کے قیام کا جائزہ لیتے ہیں.جرمنی جرمنی میں پہلی مرتبہ جماعت کا مشن دسمبر ۱۹۲۳ء میں مولوی مبارک علی صاحب بنگالی اور ملک

Page 262

252 غلام فرید صاحب کے ذریعہ قائم ہوا تھا مگر مئی ۱۹۲۴ء میں اسے بند کرنا پڑا تھا.دوسری جنگِ عظیم کے معاً بعد جرمنی جنگ کی تباہ کاریوں سے سنبھل رہا تھا.جنوری ۱۹۴۹ء میں جماعت کے مبلغ مکرم چوہدری عبدالطیف صاحب مشن قائم کرنے کے لیے جرمنی میں پہنچے اور ہمبرگ میں جماعت کا مشن قائم کیا.چند جرمن باشندوں نے سویٹزرلینڈ میں احمدیت کو قبول کیا تھا.ان میں سے ایک نومسلم عبدالکریم ڈنکر صاحب نے اخلاص و وفا کے ساتھ تبلیغی کوششوں میں چوہدری عبدالطیف صاحب کا ہاتھ بٹانا شروع کیا.پہلے سال میں چند آدمیوں کی ایک مختصر جماعت قائم ہوئی.چوہدری صاحب کا قیام ایک نو احمدی کے گھر میں تھا ، اس شخص نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر کے ملک میں آپ کا رہنا دو بھر کر دیا.اس کے بعد آپ کو رہائش کی شدید مشکلات سے دو چار ہونا پڑا.۱۹۵۲ء تک صرف ہمبرگ میں جماعت تھی ،۱۹۵۲ء میں نیورمبرگ میں بھی تین نفوس پر مشتمل جماعت بنی.اور ایک نو مسلم عمر ہوفر (Hoffer) صاحب وہاں پر آنریری مبلغ مقرر ہوئے.سکاٹ لینڈ : یہ برطانیہ عظمیٰ کا سب سے شمالی حصہ ہے.نسلی طور پر اس کے لوگوں میں سیلٹک سکاٹ (Celtic Scots) اور اینگلو سیکسن (Anglo Saxon) کے خون کی آمیزش ہے.یہاں کی اکثریت عیسائی ہے اور سکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا چرچ، چرچ آف سکاٹ لینڈ ہے.اس کے علاوہ رومن کیتھولک چرچ اور Scottish Episcopal Church کا بھی اثر و رسوخ ہے.دوسری جنگِ عظیم کے دوران، جن دنوں میں لندن پر شدید بمباری ہو رہی تھی ، دو سکائش باشندوں مس وائٹ لو (Whitelow) اور مسٹر فیر شا (Fareshaw) نے لندن میں بیعت کی تھی.سکاٹ لینڈ میں با قاعدہ مشن کے قیام کی سعادت انگریز احمدی مبلغ مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب کو حاصل ہوئی.آپ نے ۱۹۴۹ء میں سکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے شہر گلاسکو میں جماعت کا مشن قائم کیا.ابتدائی دنوں میں وہاں پر مقیم کچھ پاکستانی احمدیوں اور چند افریقی طالب علموں کو تبلیغ کی گئی اور یو نیٹر بین چرچ میں آنحضرت ﷺ کی تعلیمات پر لیکچر دینے کا موقع ملا.(۱) شروع کے مہینوں میں آرچرڈ صاحب کی تبلیغی سرگرمیاں گلاسکو تک محدود تھیں یہاں پر تبلیغی

Page 263

253 میٹنگوں کا سلسلہ شروع ہوا.اور پہلے دو ماہ میں ایک پاکستانی کے علاوہ ایک سکاٹش عبدالحق پنڈر (Pinder) جماعت میں داخل ہوئے.(۳۲) آپ نے گلاسکو میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت شروع کی اور سائیکلو سٹائل مشین پر ایک رسالہ مسلم ہیرلڈ بھی نکالنا شروع کیا.کئی لوگ آپ کے دیئے ہوئے اشتہار دیکھ کر سخت برہم ہوتے اور بعض تو ان کو پھاڑ کر پھینک دیتے.آپ نے استقلال سے تبلیغ کو جاری رکھا.ساڑھے تین سال بعد آپ کو مبلغ بنا کر ٹرینیڈاڈ بھجوا دیا گیا.(۴) اردن اردن کا ملک دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہو گیا تھا.اور عبد اللہ بن حسین اس کے بادشاہ مقرر ہوئے تھے.یہاں پر پہنچنے والے پہلے مبلغ مکرم رشید احمد صاحب چغتائی تھے جو پہلے فلسطین میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے اور پھر حیفا سے اردن آگئے.اس وقت فلسطین کے حالات خراب تھے اور حیفا سے کچھ احمدی بھی ہجرت کر کے اردن میں غریب الوطنی کے دن گزار رہے تھے.چغتائی صاحب کو بھی ایک احمدی کے ساتھ مل کر ایک کرایہ کا کمرہ لے کر تنگی سے گذارا کرنا پڑا.اردن میں آپ کا قیام سوا سال رہا.اس دوران آپ نے اردن کے بادشاہ سے ملاقات کر کے انہیں حضور کا پیغام پہنچایا اور کئی بااثر شخصیات سے بھی ملاقات کی.بعض اخبارات اور جرائد نے بھی آپ کی تبلیغی مساعی کا ذکر کیا.اردن کے پہلے احمدی الکرک شہر کے عبد اللہ محمد المعایطہ اور ان کے اہل خانہ تھے.مسقط مسقط میں جانے والے پہلے مبلغ مکرم مولوی روشن دین صاحب تھے.جو ایک پاکستانی احمدی کے ساتھ فروری ۱۹۴۹ء میں مسقط گئے.یہ پاکستانی احمدی وہاں پر فوڈ آفیسر تھے.مولوی روشن دین صاحب کو مرکز کی طرف سے خرچ نہیں ملتا تھا.وہ ملازمت کر کے اخراجات برداشت کرتے.مگر تبلیغ کی پاداش میں انہیں کئی دفعہ ملازمت سے برخواست کیا گیا.آپ ۱۹۶۱ ء تک وہاں پر اس طرح خدمات بجالاتے رہے.(۱) الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۴۹ ء ص ۴ (۲) الفضل ۱۹ مئی ۱۹۴۹ء ص ۵ (۳) الفضل ۱۲ جون ۱۹۴۹ء ص ۲ (۴) الفضل ۱۲۲ کتوبر ۱۹۵۲ء ص ۱

Page 264

254 ٹرنیڈاڈ اینڈ ٹو بیگو یہ دو جزائر جنوبی امریکہ کے انتہائی شمالی ساحل کے قریب واقع ہیں.۱۸۹۷ء سے ان دونوں پر برطانیہ کا قبضہ تھا اور ا۳ اگست ۱۹۶۲ء کو یہ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوئے.اس چھوٹے سے ملک کا کل رقبہ ۱۹۸۰ء مربع میل ہے اور یہاں کی اکثریت افریقی باشندوں کی ہے.اور ان کے علاوہ ہندو، یورپین چینی بھی یہاں آباد ہیں.یہاں پر بسنے والوں کی اکثریت عیسائی ہے.یہاں پر سب سے پہلے احمدیت کا پیغام ۱۹۲۴ء میں پہنچا.وہاں ایک احمدی دوست مکرم شیخ ابراہیم منڈیزی (Mandazi) مقیم تھے جو اپنے طور پر تبلیغ کرتے رہتے تھے.اور قادیان سے خط و کتابت سے رابطہ بھی رکھتے تھے.اُس وقت ان کے علاوہ بعض اور احمدی مثلاً داراب خان صاحب ہمسٹر ولیم بار کر اور مسٹر سٹوارٹ عبد الصادق بھی وہاں پر مقیم تھے.اور اسی وقت سے وہاں پر احمدیت کی مخالفت بھی شروع ہوگئی تھی.یہاں پر باقاعدہ مشن کا آغاز مکرم محمد الحق صاحب ساقی کے ذریعہ ہوا، جو ے مئی ۱۹۵۲ء کو ٹرینیڈاڈ پہنچے.اور وہاں پر انفرادی رابطوں اور پبلک لیکچروں کے ذریعہ کچھ عرصہ تبلیغ کی.نومبر ۱۹۵۲ء میں مکرم بشیر آرچرڈ صاحب ، جو اس سے پہلے سکاٹ لینڈ میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے ٹرینیڈاڈ میں پہنچے.مکرم محمد الحق صاحب کے زمانے میں زیادہ تر تبلیغ مسلمانوں میں کی جا رہی تھی مگر مکرم بشیر آرچرڈ صاحب نے عیسائیوں میں بھی اسلام کی تبلیغ کا کام زیادہ مؤثر انداز میں شروع کیا.اور ۱۹۵۳ء میں ایک رسالہ احمدیت کے نام سے جاری کیا گیا.اور جنوری ۱۹۵۳ء میں حضور کی منظوری سے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا اور اس طرح نظام جماعت قائم کیا گیا.اس ملک میں احمدیت کے فروغ کے لئے ضروری تھا کہ وہاں کے مقامی احمدی مرکز آکر دینی تعلیم حاصل کریں اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد احمدیت کی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیں.چنانچہ دسمبر ۱۹۵۴ء میں وہاں سے مکرم محمد حنیف یعقوب صاحب ربوہ آئے اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا.اور ۱۹۵۸ء میں وطن واپس جا کر اپنی عملی خدمات کا آغاز کیا.

Page 265

255 ۱۹۶۰ء کے آغاز پر ٹرینیڈاڈ میں لکڑی اور ٹین کی ایک چھوٹی سی مسجد بنائی گئی، جس کا نام مسجد احمد یہ رکھا گیا.۱۹۶۰ء میں مکرم بشیر آرچرڈ صاحب کو برٹش گیا نا میں مبلغ مقرر کیا گیا اور مکرم محمد حنیف صاحب ٹرینیڈاڈ کے مشنری انچارج مقرر ہوئے.

Page 266

256 حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال حضرت اماں جان کا وجود جماعت کے لئے بہت سی برکات کا باعث تھا.آپ حضرت مسیح موعود اور جماعت کے درمیان ایک زندہ واسطہ تھیں.آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفاقت کے لئے منتخب فرمایا تھا.اور آپ سے شادی سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہو ا تھا اُشْكُرُ نِعْمَتِي رَتَيْتَ خَدِيجَتِی ، میرا شکر کر تو نے میری خدیجہ کو پالیا.(۱) ۱۹۴۷ء کے حالات اور قادیان سے جدائی پوری جماعت کی طرح آپ کے لئے بھی صدمے کا باعث تھی لیکن آپ نے اس ابتلاء کو بلند حوصلے کے ساتھ برداشت کیا.ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا آپ کی عظیم شخصیت کا ایک نمایاں وصف تھا.جب حضرت مسیح موعود کا وصال ہوا تو آپ نے إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہا اور خاموش ہو گئیں.بعض مستورات نے رونا شروع کیا ، تو آپ نے انہیں ڈانٹ کر فرمایا کہ میرے تو خاوند تھے میں نہیں روتی تم رونے والی کون ہو.بچوں کی وفات اکثر ماؤں کے صبر کا امتحان بن جاتی ہے.جب آپ کا پہلا بیٹا بشیر اول فوت ہونے لگا تو اس وقت نماز کا وقت آگیا.تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنی نماز کیوں قضاء کروں اور نماز پڑھنی شروع کر دی.اسی دوران بچے کی وفات ہو گئی.جب صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی وفات ہوئی اور حضرت مسیح موعود نے آپ کو فرمایا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے تو آپ نے شکر و رضا کا اظہار کیا اور کہا الحمد للہ میں تیری رضا پر راضی ہوں.آپ کے اس صبر پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظریں پڑتی تھیں.چنانچہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود کو رویا میں دکھایا گیا کہ حضرت اماں جان کہتی ہیں کہ میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے.اس پر حضرت مسیح موعود جواب میں فرماتے ہیں کہ اسی سے تو تم پر حسن چڑھا ہے.جب قادیان سے ہجرت کرنی پڑی تو آپ کی عمر اسی سال سے زیادہ تھی.یہ صرف جذباتی آزمائش نہیں تھی بلکہ اس صبر آزما دور میں ہر قسم کی مشکلات سے گذرنا پڑ رہا تھا.آپ کی طبیعت نڈھال رہتی تھی مگر ہمت اور حوصلہ برقرار تھا.جب حضرت مصلح موعود مستقل سکونت کے لئے ربوہ تشریف لائے تو اس وقت کچے گھروں میں قیام تھا اور آپ کی وفات

Page 267

257 تک ربوہ میں بجلی بھی نہیں تھی.لیکن با وجود اس عمر کے آپ حضور کے ہمراہ ربوہ تشریف لے آئیں.اور باقی احباب کی طرح چند کمروں کے کچے گھر میں قیام فرمایا.کمزوری بڑھ رہی تھی لیکن ابھی بھی آپ فجر کے بعد سیر کے لئے تشریف لے جاتیں اور آکر ناشتہ کر کے لیٹ جاتیں.جن دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ربوہ تشریف لاتے وہ آپ کو جیپ پر ربوہ سے قریب احمد نگر لے جاتے اور آپ وہاں پر چہل قدمی فرماتیں.اکثر شام کو آپ گھر کے لڑکوں سے قرآن شریف یا حدیث نبوی یہ سنتیں.(۳۲) حضرت مصلح موعودؓ ۲۶ فروری ۱۹۵۲ء کو سندھ تشریف لے جا رہے تھے.ایک روز قبل آپ حضرت اماں جان سے ملنے کے لئے تشریف لائے تو آپ کو احساس ہوا کہ حضرت اماں جان کو بخار ہے.آپ نے صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو کہلا بھجوایا کہ آکر حضرت اماں جان کو دیکھ جائیں.معائنے پر معلوم ہوا کہ آپ کو بخار ہے.علاج شروع کیا گیا.مگر وقفے سے بخار ہوتا رہا.گردوں میں انفکشن کی تشخیص کی گئی.لاہور سے کچھ اور ڈاکٹروں کو بھی بلا کر دکھایا گیا مگر بیماری بڑھتی گئی اور کمزوری میں بھی بہت اضافہ ہو گیا.آپ کی علالت کے پیش نظر ۲۶ مارچ کو حضور سندھ میں اپنا قیام مختصر کر کے واپس ربوہ پہنچے.حضور کی طرف سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو ہدایت تھی کہ راستے کے سٹیشنوں پر فون کر کے حضرت اماں جان کی طبیعت کے متعلق اطلاع دیتے رہیں.ہر اسٹیشن پر حضور پیغام کے متعلق دریافت فرماتے.اور راستے میں بیقراری سے ٹہل کر قرآن شریف کی تلاوت فرماتے رہے.اسٹیشن پر حضور نے کسی سے ملاقات نہیں فرمائی اور تیزی سے چلتے ہوئے حضرت اماں جان کے گھر پہنچے اور آپ کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دعا ئیں شروع کر دیں.(۴) علاج جاری تھا مگر بیماری کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا.دل میں کمزوری کی علامات ظاہر ہورہی تھیں اور گردے کام کرنا چھوڑ رہے تھے.آخر میں بار بار غنودگی رہنے لگ گئی.لیکن شدید بیماری کے ایام میں بھی آپ نے کئی مرتبہ خود کہہ کر قرآن مجید کی تلاوت سنی.جب کسی نے طبیعت پوچھی تو جواب میں یہی کہا کہ اچھی ہوں.۲۰ اپریل ۱۹۵۲ء کی رات کو آپ کی طبیعت یکدم بہت خراب ہوگئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی اپنی عظیم والدہ کے سرہانے بیٹھے دعائیں فرمارہے تھے.اسی دوران حضرت اماں جان نے آنکھیں کھول کر آپ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر اشارے سے دعا

Page 268

258 کے لئے کہا.حضرت صاحب بڑے سوز اور رقت سے دعائیں کرتے جاتے تھے اور کبھی آپ کی آواز بلند بھی ہو جاتی تھی.مگر خالق حقیقی کا بلاوا آ چکا تھا.رات قریباً ساڑھے گیارہ بجے آپ کی روح اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئی (۵).حضرت مسیح موعود کا ایک الہام ہے یا احمد اسکن انت و زوجك الجنة یعنی اے احمد تو اور تیری رفیق جنت میں رہو.اب اس الہام کے ایک نئے رنگ میں پوارا ہونے کا وقت آگیا تھا.(۱) تذکرہ ،ایڈیشن چهارم ۲۰۰۴ ص ۲۹ (۲) سیرت حضرت اماں جان مرتبه شیخ محمود احمد عرفانی و شیخ یعقوب علی عرفانی مطبوعه انتظامی پریس حیدر آباد دکن، یکم دسمبر ۱۹۴۳ء ص ۱۹۴۸ء (۳) نصرت الحق مصنف حکیم محمد عبد الطیف صاحب ص۱۳۱۰ (۴) انٹرویو صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ بنت حضرت خلیفہ اسیح الثانی (۵) مصباح مئی جون ۱۹۵۲ء ص ۱۲-۱۷

Page 269

259 قیام پاکستان کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے لیکچر آزادی کے معاً بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے پاکستان کے مختلف مقامات پر کچھ اہم موضوعات پر لیکچر دیئے.ایک نئی مملکت ہونے کی وجہ سے اُس وقت پاکستان طرح طرح کے مسائل اور چیلنجوں میں گھرا ہوا تھا.حضور نے ان لیکچروں میں انہی مسائل کو موضوع بنایا.ہم ان میں سے دوا ہم لیکچروں کا مختصراً ذکر کریں گے.غیر ملکی قرضے نہ لینے کی نصیحت: قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک کو شدید مالی بحران کا سامنا تھا.تقسیم کی طے شدہ تفصیلات کے مطابق جو ملک کو اثاثے ملنے چاہیئے تھے وہ ابھی تک نہیں ملے تھے.اس صورت حال میں فوری طور پر اس بحران سے نمٹنے کے لئے امریکہ سے قرضہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں.آزادی کے پندرہ روز کے بعد ہی وزیر خزانہ غلام محمد صاحب نے کراچی میں امریکی ناظم الامور سے غیر رسمی بات چیت میں عندیہ دے دیا تھا کہ پاکستان امریکہ سے قرضہ حاصل کرنا چاہتا ہے.اس کے بعد پہلے خصوصی ایلچی اور پھر امریکہ میں پاکستان کے سفیر اصفہانی صاحب نے امریکی بینک اور وزارتِ خارجہ میں اس قرضے کے حصول کے لئے کوششوں کا آغاز کیا.ابتداء میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی.پاکستانی حکومت کی کوشش تھی کہ ایک مالی مشن امریکہ کا دورہ کر کے قرضے کے حصول کے لئے بات چیت کرے.مجوزہ قرضے کی رقم کچھ تھوڑی نہیں تھی بلکہ یہ تجویز کیا جا رہا تھا کہ ہیں کروڑ سے لے کر ساٹھ کروڑ ڈالر تک کی رقم کا قرضہ لیا جائے.اخباروں میں بھی اس کی بابت خبریں شائع ہورہی تھیں.(۱) حضرت مصلح موعودؓ نے کے اگست ۱۹۴۷ء کو لاہور میں ایک لیکچر دیا.اور اس لیکچر میں حضور نے ملک کو در پیش مالی مسائل کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا لیکن بیرونی سلطنتوں خصوصاً امریکہ سے قرضہ لینا ہماری آزادی کے لئے زبردست خطرے کا باعث ہوگا لہذا اس کا علاج صرف یہ ہے کہ بیرونی

Page 270

260 کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے کی مشروط اجازت دی جائے.ان فرموں کو چالیس فیصد حصے دیئے جائیں اور چالیس فیصدی حکومت پاکستان دے.باقی ہیں فیصدی حصوں کے مالک پاکستان کے عوام ہوں.اس سلسلے میں فرموں سے یہ شرط بھی کی جائے.کہ وہ ہمارے حصے داروں کو ساتھ کے ساتھ ٹریننگ دیں گے، یہ لیکچر فیروز خان نون صاحب کی صدارت میں ہوا.جو بعد میں ملک کے وزیر اعظم بھی بنے.زمیندار جیسے مخالف اخبار نے اس لیکچر کی خبر اس سرخی کے ساتھ شائع کی امریکہ سے قرضہ لینا پاکستان کی آزادی کو خطرے میں ڈالنا ہے.اور اپنی رپورٹ میں اس لیکچر کو پاکستان کی زراعت ، اقتصادیات اور معاشیات پر ایک فصیح و بلیغ لیکچر قرار دیا.اگلے لیکچر میں حضور نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ قرضے کی وہ شکل نہیں ہوگی جو اخبارات میں شائع ہوئی ہے.تاہم میرے نزدیک اس تجویز پرعمل کرنے سے قبل متعدد اہم امور پر غور کرنا ضروری ہے.اور ان امور کی وضاحت کرتے ہوئے اس امر پر بھی زور دیا کہ اس تجویز کے متعلق ملک کی اسمبلی کی منظوری حاصل کر لینی چاہئیے.(۲-۳) واضح رہے کہ یہ انتباہ اس وقت کیا گیا تھا جب کہ ابھی پاکستان نے امریکہ یا کسی اور جگہ سے ایک قرضہ بھی حاصل نہیں کیا تھا.اس لیکچر کے کچھ دن کے بعد ۷ دسمبر کو امریکہ نے پاکستان کو قرضہ دینے سے حتمی انکار کر دیا.لیکن افسوس حکومت پاکستان کی ترجیحات میں قرضوں کا حصول بدستور شامل رہا.اور بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ جب قرضے ملنے لگے تو بغیر کسی منصوبہ بندی کے ملک پر اتنے قرضوں کا بوجھ ڈال دیا گیا کہ وہ تمام خدشات درست ثابت ہوئے جن کا اظہار حضور نے اپنے لیکچر میں فرمایا تھا.اور اس وقت کوئی آواز قرضہ لینے کے خلاف نہیں اٹھ رہی تھی.قرضوں کا بوجھ تیزی کے ساتھ بڑھتا گیا.۱۹۸۰ء میں بیرونی قرضوں کا بوجھ دس ارب ڈالر تھا.۱۹۹۰ء تک یہ بوجھ بڑھ کر ہیں ارب ڈالر ہو چکا تھا.اور مئی ۱۹۹۸ ء تک پاکستان ۴۲ ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کے بوجھ کے نیچے دبا ہوا تھا.ملک کی برآمدات سے کمائے گئے زرمبادلہ کا دو تہائی تو محض قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کی نذر ہوتا رہا ہے (۴).بجٹ کا سب سے بڑا حصہ قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے.۰۵ ۲۰۰۴ کے مالی سال میں ۲۶۵۳۳۰ ملین روپے debt servicing پر خرچ ہوئے جبکہ ترقیاتی اخراجات پر اس سے تقریباً نصف رقم خرچ

Page 271

261 کی گئی.اس صورتِ حال کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کی ترقی بری طرح متاثر ہوئی کیونکہ بجٹ کا بڑا حصہ تو قرضوں اور سود کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے (۵).اور جو قرضے لئے گئے تھے وہ بھی صحیح طور پر استعمال نہیں کئے گئے.اور پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینے پڑے.جس کے نتیجے میں بوجھ بڑھتا ہی گیا.اور جیسا کہ حضور نے انتباہ فرمایا تھا ، اس کے نتیجے میں ملک کی حقیقی آزادی بھی گروی رکھنی پڑی.جب ایک مقروض حکومت اپنی پالیسی بنانے کے لئے بیٹھتی ہے تو اسے ان ممالک اور عالمی اداروں کی ہدایات کی پیروی کرنی پڑتی ہے جن کے دیئے گئے قرضوں کے تل ملکی معیشت کی کمر دوہری ہو رہی ہے.پاکستان میں اسلامی آئین: پاکستان کی آزادی کے بعد جب آئین سازی کا سوال اٹھا تو خاص طور پر مذہبی جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبہ زور سے پیش کیا گیا کہ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ، اس لئے یہاں پر ایک اسلامی آئین نافذ ہونا چاہئیے.یہ جماعتیں انتخابات میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھیں اور انہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت بھی کی تھی.ان وجوہات پر انہیں عوام کی اکثریت کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہو رہی تھی.بہر حال ۱۹۴۷ء کے آخر تک یہ سوال ایک اہمیت اختیار کر چکا تھا اور بہت سے ذہنوں میں اس بابت سوال اُٹھ رہے تھے.حضور نے دسمبر ۱۹۴۷ء میں ایک مجلس عرفان میں اس سوال پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ، اسلامی احکام یہ ہیں کہ ہر قوم کو اپنے مذہب کی ہدایات پر چلنے کی اجازت ہے.قرآن مجید میں صاف طور آتا ہے کہ مذہب سے تعلق رکھنے والے امور کے متعلق اہلِ انجیل کو انجیل کی تعلیم کے مطابق اور اہلِ تو رات کو تو رات کی تعلیم کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں.یہ اصول تمام دیگر مذاہب کے متعلق چسپاں ہو گا.پس جہاں تک اپنے اپنے مذہب کے طریق پر چلنے اور اس کے مطابق فیصلہ کرنے کا سوال ہے.اسلام کسی مذہب میں بھی دخل اندازی نہیں کرتا.اس کا تو صاف حکم ہے کہ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ

Page 272

262 کہ ہر شخص کو اپنے اپنے طریق پر چلنے کی اجازت ہے.(۱) بدقسمتی سے مذہبی جماعتوں کے ذہنوں میں یہ بات بری طرح چھائی ہوئی تھی کہ دینِ اسلام کے مقاصد صرف ایک مذہبی حکومت کے قیام سے ہی پورے ہو سکتے ہیں.لیکن اسلامی حکومت میں قانون سازی کے بنیادی اصول کیا ہوں گے، اس بنیادی سوال پر بہت کم توجہ کی جاتی تھی.اسی طرح یہ حقیقت بھی فراموش کر دی جاتی تھی کہ اکثر قرآنی احکامات تو انفرادی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں.جب تک معاشرے کا ایک بڑا حصہ ان احکامات کی پیروی نہ کر رہا ہو اس وقت تک محض قانون سازی سے یا ایک حکومت کا نام اسلامی حکومت رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.جنوری ۱۹۴۷ء میں حضور نے لاہور میں ایک لیکچر دیا جس کا عنوان تھا 'پاکستان کا آئین.اس میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کے بیان کردہ قوانین کا ایک حصہ غیر متبدل ہے اور ایک حصہ ایسا ہے جس میں زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق مناسب تغیر و تبدل کی اجازت دی گئی ہے.حضور نے قرآنِ کریم سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام نے قانون سازی کے یہ بنیادی اصول مقرر کئے ہیں (۱) ہر قانون حکمت اور دلائل پر مبنی ہونا چاہئیے (۲) ہر نہی کسی نقصان کو دور کرنے کے لئے ہونی چاہئیے (۳) کوئی قانون کسی فرد یا کسی پارٹی کو نقصان پہنچانے یا کسی خاص طبقہ کی ترقی میں روک ڈالنے کے لئے وضع نہ کیا جائے (۴) اس بات کو بھی مدِ نظر رکھا جائے کہ ایک قوم کو دوسری قوم پر ناجائز دباؤ ڈالنے کا موقع نہ ملے.حضور نے فرمایا کہ اس سلسلے میں اسلام نے سب سے زیادہ زور انفرادی اصلاح پر دیا ہے کیونکہ کوئی قانون قلبی اصلاح کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا.جب تک ایک ملک کے باشندے خود اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ڈھالتے ،اس ملک میں اسلامی آئین جاری نہیں ہو سکتا.اگر افراد اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو پھر اسلامی آئین نافذ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی آپ ہی آپ اسلامی آئین نافذ ہو جائے گا.چونکہ اسلامی آئین کے نفاذ کا مطلب ہی یہ ہے کہ مسلمانوں سے اسلامی احکامات پر عمل کرایا جائے نہ کہ غیر مسلموں سے بھی اسلئے ہمیں بار بار یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ ہم ملک میں اسلامی حکومت قائم کریں گے کیونکہ اس طرح غیر مسلم سمجھتے ہیں کہ شاید ہم سے بھی جبراً اسلام پر عمل کرایا جائے گا.اس خیال سے انڈین یونین کے ہندوؤں میں بھی یہ روچل پڑے گی کہ ہم بھی مسلمان کو ہندو

Page 273

263 مذہب جبراً عمل کرانے کی کوشش کریں.یہ چیز یقیناً وہاں کے مسلمانوں کے لئے تباہ کن ثابت ہو گی.اقتصادی پہلو کے متعلق حضور نے ارشاد فرمایا کہ اسلام نے حکومت کا فرض قرار دیا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے روٹی پانی کپڑا اور رہائش کا انتظام کرے.(۳) اس موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مارچ ۱۹۴۸ء میں کراچی میں ایک لیکچر میں دوبارہ اس موضوع کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی.حضور نے مختلف اسلامی احکامات کا ذکر کر کے فرمایا کہ اگر مسلمان ان احکامات کا جو بھی مفہوم سمجھتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں.اگر وہ ان احکام پر اپنی اپنی جگہ پر عمل کرتے ہیں تو پھر تو بے شک وہ اسلامی حکومت کے مطالبے میں سنجیدہ سمجھے جا سکتے ہیں لیکن اگر وہ ان احکامات پر عمل نہیں کرتے تو وہ اسلامی حکومت کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے.اگر آپ لوگ یہاں سے اٹھنے سے پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ اسلام کے جن احکامات پر عمل کرنا آپ کے اپنے بس میں ہے اور جن پر عمل کرنے کے لئے کسی حکومت کسی قانون اور کسی طاقت کی ضرورت نہیں ، ان پر عمل کرنا شروع کر دیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ شام سے پہلے پہلے اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی.(۶) جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں وہ جماعتیں جنہیں عرف عام میں مذہبی جماعتیں کہا جاتا ہے، ان کا اصرار تھا کہ پاکستان کا آئین ایک اسلامی آئین ہونا چاہئیے.اور اسلامی آئین سے مراد یہ تھی کہ جو اسلامی احکامات کی تشریح وہ کرتے ہیں، اس آئین کی تشکیل کی بنیاد ان تشریحات پر رکھی جائے.اور جیسا کہ بعد میں ذکر آئے گا اسلامی آئین کے مطالبے سے اصل غرض یہ تھی کہ ہمارے ہاتھوں میں عنانِ اقتدار آ جائے.پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ جس وقت پاکستان کے حصول کے لئے تحریک چل رہی تھی ، اُس وقت علماء کی اکثریت تو مطالبہ پاکستان اور مسلم لیگ اور بانی پاکستان کی مخالفت کر رہی تھی.جو چند علماء مسلم لیگ کا ساتھ دے رہے تھے ان کے ارادے بھی اس مثال سے واضح ہو جاتے ہیں.۱۹۴۵ء میں قصور میں مسلم لیگ کا ایک جلسہ ہوا.ایک مولوی بشیر احمد نگر صاحب نے بھی اس میں تقریر کی.تقریر کے دوران انہوں نے اعلان کیا دو جب تک انگریز اور ہندو کی سیاست اس ملک میں موجود ہے اس کے مقابلہ کے

Page 274

264 لئے قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانانِ ہند کے بہترین رہنما اور ترجمان ہیں.جب پاکستان قائم ہو جائے گا.اس وقت علماء دین کے مشورہ سے طرز حکومت قائم کی جائے گی.(۷) اصل اغراض ابھی سے سامنے آ رہی تھیں.جب تک تو تحریک چل رہی ہے، قربانیاں دینے کا وقت ہے اُس وقت تک تو قائد اعظم بہترین لیڈر ہیں.گویا بعد میں ان کی ضرورت نہیں ہوگی.جب ملک مل جائے گا اور حکومت کرنے کا وقت آئے گا تو جس طرح علماء کہیں گے اسی طرح حکومت چلائی جائے گی.لیکن خود قائد اعظم کا اس بارے میں کیا خیال تھا ؟ ۱۹۴۴ء میں ایک صحافی نے آپ سے سوال کیا.جب آپ اسلامی اصول کے تصور اور طریق دونوں میں بہترین اور برترین حکومت یقین فرماتے ہیں.اور اجمالاً بھی کہتے ہیں کہ وہاں وہ اپنے ذہنی میلان اور حیات کے تصورات کو ممانعت کے بغیر رو بہ کار اور رو به تر قی لاسکیں تو پھر اس میں کون امر مانع ہے کہ زیادہ تفصیل اور توضیح کے ساتھ مسلم لیگ اپنی جد و جہد کی مذہبی تعبیر اور تشریح کرے؟ اس کا جواب قائد اعظم نے یہ دیا مذہبی تعبیر کے ساتھ ہی کام کی نوعیت ،اس کی حقیقی تقسیم عمل اور اس کے اصلی حدود کو سمجھے بغیر ہمارے علماء کی ایک جماعت ان خدمات کو صرف چند مولویوں کی اجارہ داری خیال کرتی ہے.باوجود اہلیت اور مستعدی کے آپ کے یا میرے جذ بہ خدمت پورا کرنے کی کوئی صورت نہیں پاتی.پھر اس منصب کی بجا آوری کے لئے جن اجتہادی صلاحیتوں کی ضرورت ہے ان کو میں الا ما شاء اللہ ان مولویوں میں نہیں پاتا.وہ اس مشن کی تکمیل میں دوسروں کی صلاحیتوں سے کام لینے کا سلیقہ بھی نہیں جانتے.(۸) اس جواب سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ قائد اعظم کو اس بات کا احساس تھا کہ مولویوں کا ایک طبقہ اس بات کے لئے کوشاں ہوگا کہ قانون سازی کے کام پر اُن کی اجارہ داری ہو اور بانی پاکستان یہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ یہ گروہ اس کام کا اہل نہیں ہے.مجلس احرار جیسی جماعتیں کس طرح کانگرس کی حمایت اور مسلم لیگ کی مخالفت کر رہی تھیں اس کا جائزہ ہم ۱۹۵۳ء کے فسادات کے پس منظر میں لیں گے.لیکن اس وقت ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ

Page 275

265 اُس وقت علماء کا یہ گروہ اُن لوگوں کے متعلق کن خیالات کا اظہار کر رہا تھا جو پاکستان کے حصول کے لئے جد و جہد کر رہے تھے.یہاں پر ہم مودودی صاحب اور ان کی پارٹی جماعتِ اسلامی کے خیالات کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیں گے کیونکہ گذشتہ ساٹھ برس میں پاکستان کے اندر ان کی پارٹی نے سیاسی اقتدار کی دوڑ میں اسلامی نظام کے نام کو سب سے زیادہ استعمال کیا ہے.مودودی صاحب مسلم لیگ کے قائدین کی کاوشوں کا جائزہ لے کر لکھتے ہیں یہ اپنی قومی اور دنیوی لڑائی میں بار بار اسلام اور مسلم کا نام لیتے ہیں جس کی وجہ سے اسلام خواہ مخواہ ایک فریق جنگ بن کر رہ گیا ہے اور غیر مسلم قومیں اس کو اپنا سیاسی اور معاشی حریف سمجھنے لگیں ہیں.اس طرح انھوں نے نہ صرف اپنے آپ کو اسلام کی دعوت کے قابل نہیں رکھا ہے بلکہ اسلام کی اشاعت کے لئے اتنی بڑی رکاوٹ پیدا کر دی ہے کہ اگر دوسرے مسلمان بھی یہ کام کرنا چاہیں گے تو غیر مسلموں کے دلوں کو اسلام کے لئے مقفل پائیں گے.(۹) تو گویا جب برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں نے اپنے سیاسی حقوق کے نام پر تحریک چلائی تو مودودی صاحب کا خیال تھا کہ یہ اسلام کی ترقی کی راہ میں خواہ مخواہ کی ایک روک پیدا کی جارہی ہے.پھر تحریک پاکستان کا جائزہ اپنی مرصع اردو میں یوں لیتے ہیں اس میں شک نہیں کہ اس قوم پرستانہ دعوت کے ساتھ یہ لوگ کبھی کبھی اسلام کی خوبیاں اور اس کے اصولوں کی فضیلت بھی بیان کیا کرتے ہیں.مگر اول تو قوم پرستی کے پس منظر میں یہ چیز ایک اصولی دعوت کے بجائے محض ایک قومی تفاخر بن کر رہ جاتی ہے اور مزید برآں دعوتِ اسلام کے ساتھ جن دوسری باتوں کی یہ آمیزش کرتے ہیں وہ بالکل اس دعوت کی ضد ہیں.ایک طرف اسلامی نظام حکومت کی تبلیغ اور دوسری طرف اُن مسلمان ریاستوں اور حکومتوں کی حمایت جن کا نظام بالکل غیر اسلامی ہے.ایک طرف اسلامی نظام معاشی کی تشریح اور دوسری طرف خود اپنی قوم کے قارونوں کی تائید اور مدافعت...ایک طرف بے غرضانہ حق پرستی کا دعویٰ اور دوسری طرف شب و روز اپنی دنیوی مفاد کا ماتم.ایک طرف اسلامی تہذیب و تمدن پر فخر و ناز اور اس کی حفاظت کے لیے

Page 276

266 پرشور لام بندی اور دوسری طرف اسی تہذیب و تمدن کے باغیوں اور قاتلوں کی سرداری اور پیشوائی.یہ دونوں چیزیں آخر کس طرح ایک ساتھ نبھ سکتی ہیں؟ (۱۰) تو مودودی صاحب کا نظریہ تھا کہ پاکستان کی تحریک چلانے والے خود اسلامی تہذیب و تمدن کے باغی اور قاتل ہیں.اور قارون طبع لوگوں کی تائید کر رہے تھے.مودودی صاحب کو مسلم لیگ کی ایک اور پالیسی پر شدید اعتراض تھا.مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے نام پر وجود میں آئی تھی اور کم از کم مرکزی مسلم لیگ کی پالیسی یہ تھی کہ اس کے دروازے ہر اُس شخص کے لئے کھلے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے.اس اصول پر نکتہ چینی کرتے ہوئے مودودی صاحب لکھتے ہیں اب دیکھیے کہ یہ اپنی جماعت کی تشکیل کس ڈھنگ پر کرتے ہیں.ان کا قاعدہ یہ ہے کہ یہ اُن سب لوگوں کو جواز روئے پیدائش مسلمان مسلمان قوم سے تعلق رکھتے ہیں اپنی جماعت کی رکنیت کا بلا وا دیتے ہیں اور جو اسے قبول کرے اسے ابتدائی رکن بنا لیتے ہیں...یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے، اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں ، نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں ، نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے.باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے اس لیے یہ مسلمان ہیں.نہ انھوں نے حق کو حق جان کر اسے قبول کیا ہے ، نہ باطل کو باطل جان کر اسے ترک کیا ہے.ان کی کثرت رائے کے ہاتھ میں باگیں دے کر اگر کوئی شخص یہ امید رکھتا ہے کہ گاڑی اسلام کے راستے پر چلے گی اس کی خوش فہمی قابل دید ہے.(۱۱) تو مودودی صاحب لکھ رہے ہیں مسلمانوں کی اکثریت اصل میں مسلمان ہے ہی نہیں.بس مسلمان کا نام اُن کے ساتھ لگا ہوا ہے کیونکہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے.اور اگر ان کی رائے پر چلا گیا تو نظام اسلامی کبھی قائم نہیں ہوسکتا.اس سوچ کے پیچھے اصل میں علماء کی ایک مخصوص سوچ کارفرما ہے اور وہ یہ کہ اصل میں صرف ہم ہی اس بات کے حقدار ہیں کہ ہماری رائے کو وقعت دی جائے.اور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلامی نظام لانا ہے تو ہماری آمریت قائم ہونی چاہئیے.پھر مسلم لیگ کے قائدین پر ایک اور وار ان الفاظ میں کرتے ہیں اس موقع پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسلم لیگ کے کسی ریزولیشن اور لیگ کے

Page 277

267 ذمہ دار لیڈروں میں سے کسی کی تقریر میں آج تک یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ ان کا آخری صحیح نظر پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنا ہے.برعکس اس کے ان کی طرف سے بصراحت اور جتکرار جس چیز کا اظہار کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے پیش نظر ایک ایسی جمہوری حکومت ہے جس میں دوسری غیر مسلم قو میں بھی حصہ دار ہوں.(۱۲) اب یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ مودودی صاحب کے نزدیک مسلم لیگ اور اس کے ذمہ دار لیڈروں نے کبھی اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ کیا ہی نہیں تھا.اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مودودی صاحب کے نزدیک کسی ملک میں اگر جمہوریت ہو یا وہاں پر حکومت میں غیر مسلم بھی شامل ہوں تو وہاں اسلامی نظام قائم نہیں ہوسکتا.اب تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے.اور پاکستان وجود میں آتا ہے.قائد اعظم پاکستان کے گورنر جنرل بنتے ہیں اور وہی ہوتا ہے جس کا ان علماء کو ڈر تھا.اور روزِ اول سے ہی وہ اس نئی مملکت کے لئے جو راہنما اصول بیان کرتے ہیں وہ مولویانہ خیالات کے لئے زہر ہلاہل سے زیادہ خطرناک ہیں.یہ اصول ایک جدید مملکت کے لئے آب حیات تو ہو سکتے ہیں لیکن مولوی صاحبان ان اصولوں سے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا ایک Rabies کا مریض پانی کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتا.اور اُس کا سانس رکنے لگتا ہے.۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس قانون سے خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان نے اعلان کیا د میں اس چیز پر جتنا بھی زور دوں کم ہے.ہم کام کا آغاز اس جذبے سے کر رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ اقلیتی اور اکثریتی فرقوں کا فرق ہندو اور مسلمان فرقوں کا فرق مٹ جائے گا.کیونکہ مسلمانوں میں بھی پٹھان پنجابی ، شیعہ سنی موجود ہیں اور ہندوؤں میں بھی برہمن ، وشناواس کھتری اور بنگالی اور مدراسی وغیرہ موجود ہیں.اگر آپ مجھ سے پوچھتے ہیں تو یہ چیز ہماری آزادی کے حصول میں سب سے زیادہ رکاوٹ بنی رہی ہے...آپ آزاد ہیں.آپ اپنے گر جاؤں میں جانے کے لئے آزاد ہیں ، آپ اپنی مساجد میں جانے کے لئے آزاد ہیں، یا جو بھی آپ کی عبادت کی جگہ ہو آپ پاکستان کی ریاست میں وہاں جانے کے لئے آزاد ہیں.آپ کسی بھی ذات یا کسی بھی عقیدہ سے تعلق رکھتے

Page 278

268 ہوں.حکومت کے کام کا اس سے کوئی تعلق نہیں.میرا خیال ہے اب ہمیں اس چیز کو اپنے مح نظر کے طور پر اپنے سامنے رکھنا چاہئیے.آپ دیکھیں گے کہ وقت کے ساتھ ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا.ایسا مذہبی طور پر نہیں ہو گا ، کیونکہ وہ ہر فرد کے ذاتی ایمان کا معاملہ ہے.مگر ایسا سیاسی طور پر پاکستان کے شہری کی حیثیت سے ہوگا.(۱۳) اگر پہلے کسی کے دل میں کوئی شک بھی تھا تو اس تقریر کے بعد دور ہو گیا کہ قائد اعظم پاکستان میں مولوی خیالات کے لوگوں کا تسلط کبھی برداشت نہیں کریں گے.اور آپ کی سربراہی میں پاکستان کی ریاست میں ، حکومت کا مذہبی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہو گا.یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہو گا.پھر ڈھا کہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ آپ جو کچھ بھی ہیں آپ مسلمان ہیں اور ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ ملک پنجابی ،سندھی ، پٹھان یا بنگالی کا نہیں ، یہ آپ کا ملک ہے.آپ نے واضح کیا کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں.پاکستان کوئی مذہبی ریاست یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز ہے.اسلام ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم دوسروں کے عقائد کو برداشت کریں.اور ہم ہر اُس شخص کو جو پاکستان کے بیچے اور وفادار شہری کے طور پر ہمارے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہے اپنے قریب ترین ساتھی کے طور پر خوش آمدید کہتے ہیں.(۱۴) فروری ۱۹۴۸ء میں امریکہ کے لوگوں کو اپنا خطاب ریکارڈ کراتے ہوئے آپ نے فرمایا اسلام اور اس کے نظریات ہمیں جمہوریت سکھاتے ہیں.اور اسی نے ہمیں انسانوں میں مساوات عدل اور ہر ایک سے انصاف کا برتاؤ سکھایا ہے..ہم ایک عظیم روایت کے وارث ہیں اور پاکستان کے آئین کو بنانے والوں کی حیثیت سے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس ہے.بہر حال پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بنایا جائے گا.جس پر پجاری کسی آسمانی مشن کے ساتھ حکومت کر رہے ہوں.ہمارے پاس غیر مسلم ، ہندو ، عیسائی اور پارسی بھی ہیں.مگر وہ سب پاکستانی ہیں.ان کو پاکستان کے باقی شہریوں کی طرح تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گی اور وہ پاکستان کے معاملات میں اپنا استحقاق استعمال

Page 279

269 کشمکش کریں گے.(۱۵) قائد اعظم کے نظریات اور مودودی صاحب اور ان جیسے دوسرے علماء کے خیالات کے درمیان ایک خلیج ہی نہیں بلکہ ایک وسیع سمند ر نظر آتا ہے.مودودی صاحب تو جس حکومت کے قائل ہیں اُس میں غیر مسلم تو در کنار مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی حیثیت صرف ایک ایسے مرید کی سی ہے جو اپنے لب سی کر ایک مختصر سے گروہ صالحین کے منہ کی طرف تک رہا ہے کہ وہ کیا ارشادفرماتے ہیں اور مودودی صاحب کے نزدیک یہ گروہ صالحین ان کی اپنی جماعت تھی.کیونکہ ان کے نزدیک ہزار میں سے ۹۹۹ مسلمان تو صرف نام کے مسلمان تھے.مودودی صاحب صرف ایک مذہبی ریاست کے ہی نہیں بلکہ ایک Oligarchy کے قائل تھے ، جس میں حکومت ایک مختصر سے گروہ کے ہاتھ میں ہو جو باقی ساری قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہو.وہ اپنی کتاب ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کے صفحہ ۹۳ پر یہ اعلان بڑی وضاحت سے کر چکے تھے کہ اگر مغرب کی نقل میں جمہوری طرز حکومت اپنایا گیا تو پاکستان نہیں بلکہ نا پاکستان وجود میں آئے گا اور قائد اعظم مسلسل ایک جمہوری مملکت کا خاکہ پیش کر رہے تھے جس میں ہر عقیدہ کے لوگ نہ صرف برابر کے حقوق رکھیں گے بلکہ امور مملکت چلانے میں غیر مسلم بھی مسلمانوں جتنا ہی حق رکھیں گے.بلکہ حکومت کا لوگوں کے مذہبی خیالات سے کوئی سروکار نہیں ہوگا.یہ تقاریر تو بجلی بن کر بہت سے علماء کی خواہشوں پر برس رہی تھیں لیکن اس کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ مودودی صاحب اور بہت سے علماء جو پاکستان کے مخالف تھے انہیں حالات سے مجبور ہو کر پاکستان میں پناہ لینی پڑی.لیکن اس نقل مکانی کے ساتھ انہیں اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لئے ایک ممکنہ راستہ نظر آنے لگا.پاکستان تو اب بن چکا تھا.ابھی تو اس کی حکومت تو مسلم لیگ کے ہاتھ میں تھی لیکن اس کے اقتدار کے حصول کے لئے طبع آزمائی تو کی جاسکتی تھی.حصول اقتدار کے لئے آسان ترین طریقہ یہ تھا کہ اس نئی مملکت میں نظام اسلامی کا نعرہ لگایا جائے.پاکستان کی بدنصیبیوں کا آغاز ہو چکا تھا.مودودی صاحب اور اُن جیسے دوسرے علماء اگر اپنے خیالات پر قائم رہتے تو ایک لحاظ سے یہ قابل قدر بات ہوتی کہ انہوں نے جو سمجھا اُس پر اصول پسندی کے ساتھ ڈٹے رہے.جیسا کہ ان کی تحریروں سے صاف نظر آتا ہے کہ اُن کے نزدیک اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ پاکستان بننے

Page 280

270 کے بعد اس میں اسلامی نظام نافذ ہوگا بلکہ وہ اسے اس مقصد کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے.اب انہوں نے اور ان جیسے علماء نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان تو بنا ہی اس لئے تھا کہ یہاں پر نظام اسلامی کا نفاذ کیا جا سکے.جب کہ آزادی سے پہلے وہ اس بات کا ماتم کر رہے تھے کہ تحریک پاکستان کے ذمہ دار قائدین نے تو کبھی یہ کہا ہی نہیں کہ نئی مملکت میں اسلام کا نظام نافذ کیا جائے گا.یہ بات قابل توجہ ہے اور مندرجہ بالا حوالوں سے واضح ہو جاتی ہے کہ جب بانی پاکستان کہتے تھے کہ پاکستان کی قانون سازی اسلامی اصولوں پر کی جائے گی اور جب مودودی صاحب نظام اسلامی کی اصطلاح استعمال کرتے تھے تو دونوں کے مطالب میں بہت فرق ہوتا تھا.بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ سوائے ظاہری الفاظ کے ہمیں ان میں کوئی چیز قد رمشترک نہیں نظر آتی.چنانچہ پاکستان کے قیام کے معاً بعد جماعت اسلامی نے پاکستان میں اسلامی دستور کا نام لے کر اپنی سیاسی طبع آزمائی کا آغاز کیا.اور دستور بنانے کے مسئلہ پر ریڈیو پر مذاکرے ہو رہے تھے تو مودودی صاحب کو بھی اس میں اظہار خیال کی دعوت دی گئی.پھر لاء کالج میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ جب پاکستان اسلام کے نام سے اور اسلام کے لئے مانگا گیا ہے اور اسی بنا پر ہماری یہ یہ مستقل ریاست قائم ہوئی ہے تو ہماری اس ریاست ہی کو وہ معمار طاقت بننا چاہیے جو اسلامی زندگی کی تعمیر کرے.اور جب کہ یہ ریاست ہماری اپنی ریاست ہے اور ہم اپنے تمام قومی ذرائع وسائل اس کے سپر د کر رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس تعمیر کے لئے کہیں اور سے معمار فراہم کریں.(۱۶) اس طرح روز اول سے مودودی صاحب کے خیالات ان نظریات کے بالکل برعکس تھے جو حضرت مصلح موعودؓ نے پیش فرمائے تھے.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ اسلام نے سب سے زیادہ زور قلبی اصلاح اور انفرادی اصلاح پر دیا ہے.جب تک کسی ملک کے لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں اسلامی احکامات پر عمل شروع نہیں کرتے اسلامی آئین کا مطالبہ ایک سنجیدہ مطالبہ نہیں کہلا سکتا اور ظاہر ہے کہ یہ مقصد حکومت کی کاوشوں سے حاصل نہیں ہوسکتا.اس کے لئے وعظ ونصیحت اور دلوں کی تطہیر ضروری ہے.اور اگر لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں انقلاب لا کر اسلامی احکامات پر عمل شروع کر دیں تو پھر حقیقی طور پر اسلامی آئین نافذ ہوگا.دوسری طرف

Page 281

271 موودی صاحب اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ ہزار میں سے ۹۹۹ مسلمان صرف نام کے مسلمان ہیں.ان کی زندگیوں میں اسلام کا کوئی دخل نہیں اب پاکستان بن جانے کے بعد مودودی صاحب یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ مسلمانوں میں اسلامی زندگی رائج کرنے کے لئے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے حکومت اپنے وسائل اور اپنی طاقت استعمال کرے.اور مودودی صاحب کو اس کی کوئی وجہ نہیں نظر آتی تھی کہ یہ کام ریاست اور حکومت کے علاوہ اور کوئی کرے.اور اسی تقریر میں انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اسلامی زندگی کی تعمیر میں پہلا قدم یہ ہونا چاہیے دستور ساز اسمبلی اس ضمن میں قانون سازی کرے کہ ملک میں شریعت خداوندی نافذ ہوگی.اور دوسری طرف قائد اعظم یہ اعلان کر رہے تھے کہ آپ کا جو بھی عقیدہ ہے یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا.شروع سے آخر تک قرآن کریم پڑھ جائیں سب سے زیادہ زور ایمان اور تقویٰ پر ملے گا.اور عقل بھی یہی تجویز کرتی ہے کہ جب تک لوگوں کی دلوں میں ایمان اور تقویٰ نہیں ہوگا ، اگر اُن سے زبر دستی زکوۃ لے لی بھی جائے یا اسلامی تعزیرات نافذ کر دی جائیں تو بھی اسلامی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا.اگر مودودی صاحب کی بات مان بھی لی جائے تو کیا حکومت یا ریاست اپنے وسائل اور اس کی طاقت استعمال کر کے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کریں گے؟.کیا حکومت کا یہ کام ہوگا کہ لوگوں کی ذاتی زندگیوں پر نظر رکھ کر اسے اپنے زعم میں اسلامی نظریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے.ان کے دلوں میں ایمان اور تقویٰ پیدا کرے.اگر ایسا ہے اور مودودی صاحب کی تحریروں اور تقریروں سے ایسا ہی لگتا ہے تو مودودی صاحب کی اسلامی ریاست کا نظریہ ریاست کے اُس نظریے سے ملتا ہے جو مشہور مصنف جارج آرول (George Orwell) نے اپنے ناول 1984 میں ایک تمثیلی ناول کی صورت میں پیش کیا تھا.اس ناول میں ایک ایسی حکومت دکھائی گئی ہے جو ایک مخصوص گروہ کے ہاتھوں میں ہے.یہ حکومت صرف لوگوں کے جسموں پر اپنا تسلط قائم نہیں کرتی اور ان کی زندگی کے معلومات کو اپنے کنٹرول میں نہیں رکھتی بلکہ جبراً ، تشدد کے ذریعہ، مسلسل جھوٹ بول کر ان کے ذہنوں کو بھی ماؤف کر دیتی ہے اور انہیں اپنا ہم نوا بنا لیتی ہے.اگر کوئی ڈکشنری بنتی ہے تو حکومت کی پالیسی کے مطابق ،شادی ہوتی ہے تو حکومت کی رضا سے جنتی کہ چوبیس گھنٹے لوگوں کے گھروں میں بھی ایک کیمرہ کے ذریعہ اُن کی نگرانی ہوتی ہے.اس حکومت

Page 282

272 کا سر براہ Big Brother کے نام سے موسوم ہے اور ایک جملہ اس کتاب میں بار بار دہرایا جاتا ہے Big Brother is watching you یعنی بڑا بھائی تمہیں دیکھ رہا ہے.مودودی صاحب چاہے اس نظریے سے متاثر ہو گئے ہوں لیکن قرآن کریم بہر حال اس قسم کے نظریات کو رد کرتا ہے.قرآنِ کریم تو اعلان کرتا ہے لَا إِكْرَاهَ في الدين دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں.قرآنِ کریم تو ہر شخص کو اختیار دیتا ہے کہ وہ اگر پسند کرے تو اس آسمانی حق کو قبول کرے اور اگر وہ اس کو اپنے لئے نہیں پسند کرتا تو اسے اس دنیا میں انکار کا اختیار دیا گیا ہے.اگلے جہاں وہ آپ ہی اپنے کئے کی سزا پائے گا.سورۃ کہف میں اللہ تعالیٰ نبی اکرم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنُ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الكهف: ٣٠) ترجمہ: اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے ہو.پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے سو انکار کر دے.لیکن یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اگر مودودی صاحب ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جس کا نقشہ 1984 میں کھینچا گیا ہے تو اس ریاست کا Big Brother کون ہوگا.لوگوں کی زندگیوں میں مداخلت کر کے انہیں سنوارنے کا اختیار کسے حاصل ہو گا.اس سوال کا جواب مودودی صاحب کی اس تحریر میں مل جاتا ہے.زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت میں چل رہا ہے اور معاملات دنیا کی زمام کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری و عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین و صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو.(۱۷) پہلے انہوں نے ” مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم “ ایک آخری حصہ میں یہ تمہید باندھی کہ ایک صالح جماعت ہونی بہت ضروری ہے ، پھر اس کتاب میں لکھا کہ ابھی مسلمانوں کی کوئی جماعت اس معیار پر پوری نہیں اترتی اس لئے میں جماعتِ اسلامی کے نام سے ایک نئی جماعت بنا

Page 283

273 رہا ہوں تاکہ مسلمانوں میں صالحین کی ایک جماعت تو ہو.اور پھر اعلان کیا کہ معاملات دنیا کی زمام کار صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہونی ضروری ہے.قصہ مختصر یہ کہ صرف ہم ہی اقتدار کے حقدار ہیں.کچھ دیر ٹھہر کر دیکھتے ہیں علماء کی اس خیالی مملکت کے نمایاں خدوخال کیا تھے.پہلی بات یہ ہے که مودودی صاحب کے نزدیک حکومتی معاملات میں جمہوریت لا دینیت کے ہم معنی تھی اور اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے.جیسا کہ آزادی سے معاً قبل انہوں نے اعلان کیا تھا دمسلمانوں سے میں صاف صاف کہتا ہوں کہ موجودہ زمانے کی بے دین قومی جمہوریت (Secular National Democracy) تمہارے دین و ایمان کے قطعاً خلاف ہے.تم اس کے آگے سرتسلیم خم کرو گے تو قرآن سے پیٹھ پھیرو گے،اس کے صلى الله قیام و بقا میں حصہ لو گے تو اپنے رسول مہ سے غداری کرو گے اور اس کا جھنڈا اڑانے کے لئے اٹھو گے تو اپنے خدا کے خلاف علم بغاوت بلند کرو گے.جس اسلام کے نام پر تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو اس کی روح اس ناپاک ( سیکولر نظام کی روح سے اس کے بنیادی اصولوں سے اور اس کا ہر جز اس کے ہر جز سے برسرِ جنگ ہے.(۱۸) بعد میں جب ۱۹۵۳ء میں فسادات پنجاب پر تحقیقات ہوئیں تو تحقیقاتی عدالت میں علماء نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ اگر پاکستان میں اصول اسلامی کے مطابق حکومت قائم کی گئی تو اس کی شکل جمہوری نہیں ہوگی.(۱۹) اور بعض علماء تو اس معاملے مین اس قدر انتہا پسند تھے کہ ان کے نزدیک اب کوئی نئی قانون سازی کرنا بھی نا قابل معافی جرم تھا.مثلا عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کا نظریہ تھا، ہمارا دین کامل و مکمل ہے اور مزید قوانین وضع کرنا کفر کے برابر ہے.(۲۰) مطلب بالکل واضح ہے اس نام نہاد اسلامی مملکت میں صرف نام نہاد علماء کو ہی اختیار ہوگا کہ وہ لوگوں کے لئے جو چاہیں اسلامی قوانین کے نام پر قوانین نافذ کریں.اگر کسی اور نے قانون سازی کی جسارت کی تو فوراً اسے کا فرقرار دے کر زندگی کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے گا.اس فرضی سلطنت کو سمجھنے کے لئے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ جو حکومت لوگوں کی دینی حالت سدھارنے کے لئے کوشاں ہوگی اس کے زیر سایہ لوگوں کو اپنے ضمیر کے مطابق مذہب اختیار کرنے

Page 284

274 کی کس قد ر ا جازت ہوگی.چنانچہ مودودی صاحب اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ممثلاً اسلام اپنی مملکت کے کسی مسلم شہری کو یہ آزادی نہیں دیتا کہ وہ اس ملک کے اندر رہتے ہوئے اپنا دین تبدیل کرلے، یا ارکانِ دین کی بجا آوری سے انکار کرے...لہذا شخصی آزادی کی یہ تعبیر دوسرے دستوروں میں چاہے جیسی کچھ بھی پائی جاتی ہو ، ہم کو اپنے دستور میں صاف صاف اس آزادی کی نفی کرنی پڑے گی.(۲۱) قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں لیکن مودودی صاحب خدا تعالیٰ کے ارشاد کی نفی کر کے نام نہاد اسلامی مملکت کی بنیاد ہی جبر پر رکھ رہے ہیں.اور نہ صرف یہ بلکہ اس ملک کی حکومت اس ملک کے باشندوں کو ارکانِ دین کی پابندی بھی کرائے گی.اور وہ خواہ اسے پسند نہ کریں حکومت کی خواہش کے مطابق ارکانِ دین کی پابندی کرنے پر مجبور ہوں گے.اس سے تو یہی لگتا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے لوگوں کو زبردستی نمازیں پڑھا رہے ہوں گے، ان کے گھروں میں جا جا کے دیکھیں گے کہ لوگ روزے بھی رکھ رہے ہیں کہ نہیں.اگر کسی نے حج نہیں کیا تو اسے پہلے حبس بیجا میں رکھا جائے گا اور پھر زبر دستی حج کرنے کے لئے لے جایا جائے گا.ظاہر ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر انتظامات کرنے کے لئے پولیس کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ کرنا پڑے گا اور مودودی صاحب کے مطابق ہزار میں صرف ایک مسلمان اس قابل ہے کہ اسے مسلمان کہا جا سکے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ صالحین کی یہ پولیس آئے گی کہاں سے؟ اور مودودی صاحب حکومت کا فرض یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اس ملک میں اقامت صلوۃ اور ایتائے زکوۃ کا انتظام کرے.حج کی تنظیم کرے اور مسلمانوں کو احکام اسلامی کا پابند بنائے.وہ مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو ان برائیوں سے پاک کرنے کا انتظام کرے جو قرآن وسنت میں ممنوع ہیں.(۲۱) اب یہ بھی ظاہر ہے کہ حکومت لوگوں کو نیکیوں پر کار بند کرے گی اور ان کی زندگیوں کو برائیوں سے پاک کرے گی ، تو یہ حق بھی حکومت کو ہی حاصل ہو گا کہ وہ فیصلہ کرے کہ نیکی کسے کہتے ہیں اور ان سب نیکیوں کو بجالانے کا صحیح طریق کیا ہے.اور وہ ان بنیادی مسائل کو طے کر کے نیکی نافذ

Page 285

275 کرنے والے ادارے تشکیل دے گی جو لوگوں کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوں گے.یہ سہ سلوک تو مسلمانوں سے ہو رہا ہو گا لیکن اس ملک میں جو غیر مسلم ہوں گے ، ان کی حیثیت کیا ہوگی؟ جب اس کے متعلق ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت میں ابوالحسنات صاحب سے سوال کیا گیا تو مولوی صاحب نے جواب دیا ان کی وضع قانون میں کوئی آواز نہیں ہوگی.قانون کی تنفیذ میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا.اور سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کا کوئی حق نہ ہو گا.(۲۲) مولوی احمد علی صاحب نے اس استفسار کا یہ جواب دیا وضع قانون میں انکی کوئی آواز نہ ہوگی.نہ تنفیذ قانون کا حق ہوگا.البتہ حکومت ان کو کسی سرکاری عہدے پر فائز ہونے کی اجازت دے سکتی ہے.(۲۳) مودودی صاحب سے پوچھا گیا گیا کہ حکومت کے اصولوں کو تسلیم کرنے کے بعد کیا ایک ہندو بھی امور مملکت میں شامل ہوسکتا ہے تو انہوں نے جواب دیا شاید آپ نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اسلامی حکومت کے اصولوں پر ایمان لے آنے کے بعد ہندو ہندو کب رہے گا ، وہ تو مسلم ہو جائے گا.(۲۴) مودودی صاحب اور ان جیسے دیگر علماء کی رائے تھی ایک اسلامی حکومت میں ارتداد کی سزا موت ہے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب کی اعلانیہ تبلیغ کی اجازت نہیں ہوگی (۲۵) اور صرف غیر مسلم ہی نہیں اس حکومت میں عورتوں کو بھی کوئی ذمہ داری کا منصب سونپا نہیں جاسکتا (۲۶) اگر ان خلاف اسلام عقائد کو ایک اسلامی ملک میں رائج کر دیا جائے تو لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اُن ممالک میں جہاں پر مسلمان اقلیت میں ہیں مسلمانوں کے حقوق متاثر ہوں گے.۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت نے یہ سوال ان علماء کے سامنے رکھا.ابوالحسنات صاحب صدر جمیعت علماء پاکستان کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا کہ اگر ان کی اس فرضی حکومت کے نتیجے میں ہندوستان کے ہندو ہندوستان میں ہندو دہرم نافذ کریں اور مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں جیسا سلوک کریں تو کیا اُن کو کوئی اعتراض ہو گا.ان کا سفا کا نہ جواب تھا جی نہیں.

Page 286

276 مودودی صاحب سے جب یہ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا 'یقیناً مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا کہ حکومت کے اس نظام میں مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں کا سا سلوک کیا جائے.(۲۷) مطر غازی سراج الدین صاحب سے جب یہ سوال ہوا تو انہوں نے یہ لا یعنی جواب دیا کہ ہم اس ، پہلے یہ کوشش کریں گے کہ ان کی سیاسی حاکمیت ختم کر دی جائے.یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ ان جیسے علماء کو اگر غرض ہے تو یہ کہ ان کو اقتدارمل جائے.اگر اس کے نتیجے میں کروڑوں مسلمانوں کے سر پر قیامت بھی گذر جائے تو انہیں کوئی پرواہ نہیں.ان کی ہوس اور خود غرضی قابلِ دید ہے.اس کے بر عکس حضرت مصلح موعود شروع ہی سے اس بات پر زور دے رہے تھے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے.آپ نے دسمبر ۱۹۴۷ء میں ایک انٹرویو میں فرمایا د مسلم لیگ کے شیح نظر کی از سرنو توضیح کرنا ہندوستان میں بسنے والے ساڑھے چار کروڑ مسلمانوں کی حفاظت کے لئے نہایت ضروری ہے جنہوں نے پاکستان کے قیام کے لئے غیر معمولی قربانیاں کی ہیں..اگر ہم پاکستان کے غیر مسلموں کو گلے لگالیں.تو لازمی طور پر ہندوستان کے ہندو مسلمانوں سے اپنی عداوت ترک کر دیں گے.اور یہ ظاہر ہے کہ ہم ان مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے.(۲۸) یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں کا حقیقی در دکس کے دل میں تھا اور کون صرف حصول اقتدار کے لئے کوشاں تھا.ستمبر ۱۹۴۸ء میں جب قائد اعظم کی علالت دن بدن تشویشناک ہوتی جا رہی تھی.ایک سوال کے جواب میں مودودی صاحب نے لکھا ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمام کار ہے وہ اسلام کے معاملہ میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انہوں نے اپنی قوم سے کئے تھے اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے اسے خود محسوس کرلیں اور ایمانداری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام کی تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس

Page 287

277 کے اہل ہوں.(۲۹) مودودی صاحب بڑی وضاحت سے یہ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت ، جس کے سر براہ اُس وقت قائد اعظم تھے، اس اہل نہیں کہ اسلامی حکومت کو چلا سکے.جب تک قربانیاں دینے اور جد و جہد کا وقت تھا تو مودودی صاحب اور ان جیسے علماء تو پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے.مگر اب جب کہ حکومت کرنے کا وقت ہے تو ان کے خیال میں یہی مناسب تھا کہ عوام کے منتخب کردہ نمائیندے رخصت ہو جائیں اور اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے.بہر حال اس رسالہ کی اشاعت کے چند روز بعد قائد اعظم محمد علی جناح انتقال کر گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.ایک با اصول سر براہ مملکت رخصت ہو گیا تھا.اب مولویوں کے لئے میدان خالی تھا.(۱) الفضل ۱۹دسمبر ، ۱۹۴۷ء ص ۴ (۱) پاکستان میں امریکہ کا کردار ، مصنف ایم.ایس.وینکٹ رامانی ، ترجمہ قاضی جاوید ص ۳۵۱ (۲) زمیندار ، ۱۰ دسمبر ۱۹۴۷ ء ص ۵ (۳) تاریخ احمدیت جلد ص ۴۲۰ - ۲۱ م (۳) الفضل ، ۱۸ جنوری ۱۹۴۷ء ص ۱-۲ (۴)Economic Management In Pakistan 1999_2002,byIshrat Hussain,Oxsford Universit Press,page 6 (۵)Economic Survey 2004_2005,Table 4.1 (۶) الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۴۸ء (4) A Book of Reading on the History of Punjab 1799_ 1947 P578 (۸) احسان ۷ جنوری ۱۹۴۲ء ص ۶ (۹) مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم، شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام ، جمال پور پٹھانکوٹ ص ۱۲۸ (۱۰) مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم ، شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام، جمال پور پٹھانکوٹ ص ۱۲۸_۱۲۹ (۱۱) مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم، شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام، جمال پور پٹھانکوٹ ص ۱۳۰ (۱۲) مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم ، شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی دار الاسلام ، جمال پور پٹھانکوٹ ص ۱۳۰ (I) Quaid e Azam Speeches p 9 (۱۴)From Jinnah To Zia,by Justice Munir, Vanguard Books1980p.32 (10) Quaid e Azam Speeches, p 67 (۱۶) جماعت اسلامی کی دستوری جد و جہد ، مصنفہ میاں طفیل محمد ، اداره معارف اسلامی ص ۳۴ ص ۳۵

Page 288

278 (۱۷) دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات، ابولاعلیٰ مودودی، امین اصلاحی الفیل، محمد، اسلامک پبلیکیشنز ۱۹۶۴ء ص ۱۴۰۱۳ (۱۸) جماعت اسلامی کی دستوری جد و جہد ، مصنفہ میاں طفیل محمد، ادارہ معارف اسلامی ص ۱۴ (۱۹) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۲۲۶ (۲۰) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۲۲۸ (۲۱) رسائل و مسائل حصہ دوئم ، مصنفہ ابولاعلیٰ مودودی، اسلامک پبلیکیشنز ، اگست ۱۹۹۷ء ص ۳۱۷-۳۱۸ (۲۲) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳، ص ۲۲۹ (۲۳) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۳۳۰ (۲۴) رسائل و مسائل حصہ اول، مصنفہ ابولاعلیٰ مودودی، اسلامک پبلیکیشنز ، اگست ۱۹۹۸ء ص ۲۶۹ (۲۵) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۲۳۸ (۲۶) جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد ، مصنفہ میاں طفیل محمد ، ادارہ معارف اسلامی ص ۴۷ (۲۷) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۲۴۵.۲۴۷ (۲۸) الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۴۷ء ص ۱ (۲۹) رسائل و مسائل حصہ اول ، مصنفہ ابولاعلیٰ مودودی، اسلامک پبلیکیشنز ، اگست ۱۹۹۸ء ص ۱۳۳۴ ۳۳۵

Page 289

279 فلسطین کا المیہ اور جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے عذابوں کے ذکر کے بعد فرماتا ہے وَقَطَعْنُهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمَّا مِنْهُمُ الصَّلِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذلِكَ وَبَلَوْنُهُمْ بِالْحَسَنَتِ وَالسَّيَّاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (الاعراف: ١٦٩) ترجمہ : اور ہم نے انہیں زمین میں قوم در قوم بانٹ دیا.ان میں نیک لوگ بھی تھے اور انہی میں اس کے علاوہ بھی تھے.اور ہم نے ان کو اچھی اور بری حالتوں سے آزمایا تا کہ وہ ( ہدایت کی طرف لوٹ آئیں.اور پھر قرآن کریم ان کے مستقبل کے بارے میں یہ پیشگوئی کرتا ہے و قُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَاعِيْلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيقًا (بنی اسرائیل : ۱۰۵) ترجمہ : اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ موعودہ سرزمین میں سکونت اختیار کرو.پس جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو ہم تمہیں پھر اکٹھا کر کے لے آئیں گے.یہاں پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وعد الآخرة آئے گا تو ہم تمہیں یعنی بنی اسرائیل کو پھر اکھٹا کر کے لے آئیں گے.یہاں پر مفسرین نے یہ بحث اُٹھائی ہے کہ وعد الآخرۃ سے کیا مراد ہے ؟ جس کے ظہور کے ساتھ بنی اسرائیل کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کر کے ارض موعود یعنی فلسطین میں جمع کیا جائے گا.بہت سے مفسرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وعد الآخرة سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہے.چنانچہ تفسیر فتح البیان فی مقاصد القرآن میں لکھا ہے کہ وعد الآخـرة سے حضرت عیسی کا آسمان سے نزول کرنا بھی لیا گیا.اور پرانے علماء کی پیروی کرتے ہوئے بعد کے علماء بھی یہ لکھتے آئے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسی کا ظہور ہے.چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی تفسیر ترجمان القرآن بلطائف البیان میں لکھتے ہیں، اب تم زمین شام و مصر میں جہان وہ تمہارا نکالنا چاہتا تہا اچھی طرح سے رہو پہر جب وعدہ آخرت کا آئیگا یعنے قیامت آئیگی یا نوبت دیگر

Page 290

280 یا ساعت دیگر جس سے تختہ ثانیہ مراد ہے یا نزول عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر سے تو ہم تم سب کو موقف قیامت میں جمع کریں گے.(۱) اسی طرح علامہ ثناء اللہ عثمانی اپنی تفسیر ، تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں، کلبی کے نزدیک وعدہ آخرت آنے سے مراد ہے حضرت عیسی کا آسمان سے آنا اور جئنا بکم لفیفا کا یہ مطلب ہے کہ ادھر ادھر ہر طرف سے مختلف اقوام آئیں گی.(۲) اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی تحریر فرماتے ہیں اور تفسیر کبیر کا یہ حصہ پہلی مرتبہ ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا.پھر جس طرح موسی سے تیرہ سو سال بعد حضرت مسیح کے صلیب کے واقعہ کے بعد جب کہ گویا وہ بظاہر اس ملک کے لوگوں کے لئے مر گئے تھے بنی اسرائیل کو ارض مقدس سے دوبارہ بیدخل کر دیا گیا.اسی طرح اس زمانہ میں جبکہ رسول کریم ﷺ کی وفات پر اتنا ہی عرصہ گذرا ہے مسلمانوں کی حکومت پھر ارضِ مقدس سے جاتی رہی ہے.اور جیسا کہ قرآنِ کریم نے فرمایا تھا مسلمانوں کا یہ دوسرا الله عذاب یہود کے لئے ارضِ مقدس میں واپس آنے کا ذریعہ بن گیا ہے.(۳) تاریخی پس منظر : چنانچہ قرآنِ کریم میں مذکور پیشگوئی کے مطابق جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کا وقت آیا تو یہودیوں کے دلوں میں اس خواہش نے شدت سے اُٹھنا شروع کیا کہ وہ دوبارہ ارضِ موعود میں آباد ہونے کی کوشش شروع کریں.۱۸۹۶ء میں آسٹریا کے یہودی لیڈر تھیوڈر ہرل (Theodre Herzl) نے اپنی کتاب یہودی ریاست (Jewish State) شائع کی جس میں فلسطین میں یہودیوں کی ریاست قائم کرنے کا نظریہ پیش کیا گیا تھا.اور اس میں لکھا گیا تھا کہ اس ریاست کے قیام سے پوری دنیا میں یہودیوں کو پیش آنے والے مصائب ختم ہو جائیں گے.۱۸۹۷ء میں پہلی عالمی صیہونی کانگرس منعقد کی گئی جس میں فلسطین میں یہودیوں کے لئے ایک وطن بنانے کے عزم کا اعلان کیا گیا.یہ علاقہ اُس وقت ترکی کے سلطان کے ماتحت تھا.پہلے یہودیوں نے ترکی کے سلطان سے رابطہ کر کے فلسطین میں آباد کاری کی اجازت مانگی اور ایک مرحلہ پر یہ پیشکش بھی کی کہ اگر اس کی اجازت دے دی جائے تو ترکی کے قرضہ کا ایک حصہ یہودی ادا

Page 291

281 کریں گے، ترکی کی بحریہ کو بنانے میں مدد کرنے کے علاوہ ترکی کے سلطان کی عالمی سطح پر مدد کی جائے گی.لیکن اس کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی اور انہیں یہ جواب ملا کہ یہودی کو صرف اس صورت میں فلسطین ملے گا جب ترکی سلطنت عثمانیہ ٹوٹ جائے گی.صیہونی شروع ہی سے سلطنت برطانیہ کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کر رہے تھے.۱۹۰۲ء میں تھیوڈر ہرل نے برطانیہ کے لارڈ رانتھس چائیلڈ (Rothschild) کو اپنا ہم نوا بنانے کی کامیاب کوشش کی.اس دوران بینک بنا کر ، فر میں بنا کر اور فلسطین میں کچھ زمین لے کر ابتدائی کام کا آغاز بھی کر دیا گیا تھا.پہلی جنگِ عظیم میں ترکی کی سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا اور شکست کے بعد فاتح طاقتوں نے اس سلطنت کے حصے بخرے کر دئیے.۱۹۱۷ء میں سلطنتِ برطانیہ نے ایک اعلانیہ جاری کیا جو Lord Rothschild کے نام ، جو صیہونی لیڈروں کے عزائم کی حمایت کر رہے تھے ، ایک خط کی صورت میں تھا.اس کے الفاظ یہ تھے His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people, and will use their best endeavours to facilitate the achievement of this object, it being clearly understood that nothing shall be done which may prejudice the civil and religious rights of existing non-Jewish communities in Palestine, or the rights and political status enjoyed by Jews in any other country.یعنی برطانیہ کے بادشاہ کی حکومت اس بات کی حمایت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کے رہنے کے لئے ایک وطن بنایا جائے اور حکومت اس مقصد کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی.اور یہ بات واضح ہے کہ ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھایا جائے گا جس سے فلسطین میں آباد غیر یہودی گروہوں کے شہری یا مذہبی حقوق متاثر ہوں.یا دوسرے ممالک میں موجود یہودیوں کے حقوق یا سیاسی حیثیت متاثر ہو.صیہونیوں کے لئے یہ ایک بڑی کامیابی تھی.اس اعلان کا یہ نقطہ نا قابل فہم ہے کہ کوئی طاقت

Page 292

282 زبر دستی کسی قوم کے ملک میں کسی اور قوم کو آباد کر دے اور پھر اُس قوم کے حقوق بھی پامال نہ ہوں.فلسطین میں رہنے والوں کے حقوق تو بہر حال پامال ہونے تھے اور ایسا ہی ہوا.پھر جب ۱۹۲۲ء میں لیگ آف نیشنز نے فلسطین کے علاقہ پر برطانیہ کو مینڈیٹ دیا تو اس کے ساتھ جو ہدایات اس بین الاقوامی تنظیم نے دی تھیں اس کے آرٹیکل ۲ میں لکھا ہو ا تھا کہ برطانیہ فلسطین میں ایسے سیاسی ، اقتصادی اور انتظامی حالات پیدا کرے گا کہ یہاں پر یہودیوں کا وطن قائم ہو جائے.آرٹیکل ۴ میں لکھا ہوا تھا کہ برطانیہ اس مقصد کے لئے Zionist Organization سے تعاون کرے گا.اور آرٹیکل ے میں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ برطانیہ ایسی قانون سازی کرے گا جس کے نتیجے میں جو یہودی فلسطین میں آکر آباد ہوں انہیں یہاں کی شہریت مل جائے.ان مینڈیٹ میں ساتھ یہ راگ بھی الا پا گیا تھا کہ یہ سب کچھ ایسے طریق پر کیا جائے کہ مقامی لوگوں کے حقوق متاثر نہ ہوں.گویا ایک ملک پر قبضہ کر کے وہاں پر آزادی دینے کی بجائے ،لاکھوں غیر ملکیوں کو بھجوا دو اور انہیں وہاں کی شہریت بھی دے دو اور ان کا ملک بھی وہیں بنا دو اور وہاں کے اصل باشندوں کے حقوق متاثر بھی نہ ہوں.لیکن یہ کہیں نہیں ہدایت دی گئی تھی کہ یہود کو یہاں پر آباد کرنے سے قبل فلسطین کے مقامی لوگوں سے بھی مشورہ کر لیا جائے کہ انہیں یہ منظور ہے بھی کہ نہیں.دوسری جنگ عظیم سے قبل کے حالات: بہر حال یہودی دنیا بھر سے آکر فلسطین میں آباد ہونے لگے.ان کی بستیاں بنے لگیں.ان کے پاس مال و دولت تو فلسطین کے باشندوں کی نسبت بہت زیادہ تھا.وہ زرخیز زمینوں کے مالک بننے لگے.ان کا سیاسی رسوخ بڑھتا رہا اور فلسطین کے باشندوں کو یہ صاف نظر آنے لگا کہ اب یہ نووار داس ملک کے مالک بنے کی تیاری کر رہے ہیں.پورے فلسطین میں یہودیوں کی دہشت گرد تنظیمیں تیزی سے اپنا جال پھیلا رہی تھیں.فلسطین کے نہتے باشندوں نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے کوششیں شروع کیں مگر ان میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ صیہونی سازشوں اور برطانوی حکومت کی جانبداری کا مقابلہ کر سکتے اور نہ ہی عرب اس قابل یا اتنے چوکنا تھے کہ وہ عالمی سطح پر اس سازش کا تدارک کرنے کے قابل ہوتے.بہت سے عرب لیڈروں کی باگ ڈور بھی مغربی طاقتوں

Page 293

283 کے ہاتھوں میں تھی.فلسطین کا علاقہ دیکھتے دیکھتے عربوں کے ہاتھوں سے نکل رہا تھا.ان سب واقعات کی تفاصیل کو چھوڑتے ہوئے ہم ۱۹۴۷ء میں تاریخ کے اس اہم موڑ پر آتے ہیں.جب صیہونی تنظیم اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے اب فلسطین کے علاقہ کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی تا کہ وہ اس کے ایک حصہ پر اپنی ریاست بنائیں اور پھر پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت اس کو وسیع کرنے کا مرحلہ شروع ہو.اس مرحلے کا جماعت کی تاریخ سے دو طرح کا تعلق ہے.اُن دنوں حضرت مصلح موعودؓ نے بارہا ان حالات کا تجزیہ ، مضامین کی صورت میں شائع فرمایا تاکہ مسلمان عوام اور ان کی حکومتوں کو میں یہ احساس پیدا کیا جا سکے کہ ان کے ارد گرد ایک خوفناک سازش کا جال بچھایا جا رہا ہے.اور بعد کے واقعات نے حضور کے خدشات کی تصدیق کی.جس وقت یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کیا جا رہا تھا اُس وقت حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا نمائیندہ مقرر کیا گیا تھا.ابھی پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کی حیثیت سے آپ کا تقررنہیں ہوا تھا.آپ نے عالمی سطح پر فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق کے لئے جو جد و جہد کی ، غیر بھی اُس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے.یہاں پر ہم حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات کا تفصیل سے جائزہ لیں گے کیونکہ مخالفین نے اس حوالے سے جماعت پر اور حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی شخصیت پر بار بار اعتراضات کیسے ہیں اور یہ عمل اب تک جاری ہے.اس مقصد کے لیے ان مخالفین نے بہت سی غلط بیانیوں سے کام لیا ہے اور بہت سے حقائق کو چھپایا ہے.اس لئے قدرے تفصیل کے ساتھ صحیح حقائق کا ذکر ضروری ہے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو پہلے ہی سے مسئلہ فلسطین میں بہت دلچسپی تھی.۱۹۳۴ء تک صیہونیت فلسطین میں اپنا قدم جما چکی تھی اور اس کا اقتدار بڑھ رہا تھا.اس سال حضرت چوہدری صاحب لندن گئے تو انہوں نے وزیر ہند سے اپنے خدشات کا ذکر کیا کہ اور کہا کہ اس صورتِ حال کی ذمہ داری برطانوی حکومت پر عائد ہوتی ہے ،اس لئے حکومت کو لازم ہے کہ وہ کوئی مؤثر اصلاحی اقدام کرے.مثلاً عرب زرعی اراضیات کا انتقال غیر عرب خریداروں کے نام قانوناً روکا جائے.وزیر ہند نے کہا کہ مجھے ان تفصیلات کا علم نہیں لیکن میں نو آبادیات کے وزیر سر فلپ کنلف لسٹر سے یہ ذکر کروں گا اور انہیں کہوں گا کہ تمہیں بلا کر تمہارا نقطہ نظر معلوم کریں

Page 294

284 اور ان خدشات کے تدارک کی کوشش کریں.دو تین دن بعد نو آبادیات کے وزیر نے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو ملاقات کے لئے بلایا اور کہا کہ خوش قسمتی سے سر آرتھر وانچوپ ، ہائی کمشنر فلسطین بھی لندن آئے ہوئے ہیں.میں نے انہیں بھی بلایا ہے تا کہ وہ بھی تمہارے خیالات سے واقف ہو جائیں.حضرت چوہدری صاحب نے ان دونوں کے سامنے اپنے خدشات کا اظہار کیا.اس پر وزیر موصوف نے کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ آہستہ آہستہ عرب اراضی غیر عربوں کے قبضے ہے.میں جا رہی ہے لیکن اس کا تدارک تو عرب ہی کر سکتے ہیں ، حکومت اس سلسلے میں کیا کر سکتی.چوہدری صاحب نے فرمایا کہ حکومت اس انتقال اراضی کو قانونا روک سکتی ہے.وزیر صاحب نے کہا کہ میرے علم میں تو ایسا قانون کہیں پر رائج نہیں.میں اپنے رفقاء کو اس پر کیسے آمادہ کرلوں؟ اس کے جواب میں چوہدری صاحب نے فرمایا کہ قانون کی ضرورت مسلم ہو تو پھر نظائر کی ضرورت نہیں رہتی.لیکن اس قسم کے قانون کی مثال ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں موجود ہے.جہاں پر پنجاب انتقال اراضی ایکٹ کے تحت زرعی اراضی کا انتقال ایک غیر زراعت پیشہ مشتری کے حق میں نہیں ہو سکتا.اس کے بعد آپ نے اس قانون کے عملی حصہ کی کیفیات مختصر طور پر بیان فرمائیں.اور مسئلہ فلسطین کے بعض پہلؤوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن وزیر موصوف کے رویہ پر چوہدری صاحب کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ یہ نظر آ رہا تھا کہ انہیں عربوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں.(۴) حالات بگڑتے رہے.پورے فلسطین میں خون ریز فسادات ہو رہے تھے.صورتِ حال حکومت کے ہاتھوں سے نکل رہی تھی.آخر کار ۱۹۳۹ء میں برطانوی حکومت کو وہی اقدامات اُٹھانے پڑے جن کا مشورہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ۱۹۳۴ء میں دیا تھا.حکومت کی طرف سے ایک قرطاس ابیض شائع کیا گیا.اس میں یہ واضح کیا گیا کہ برطانوی حکومت کو لیگ آف نیشنز کی طرف سے جو مینڈیٹ ملا تھا اور بالفور اعلانیہ (Balfour Decleration) میں فلسطین کے اندر ایک Jewish Home بنانے کا ذکر تھا.اس سے مراد صرف یہ تھی کہ یہودیوں کو فلسطین میں نقل مکانی کرنے اور وہاں پر آباد ہونے کی سہولیات مہیا کی جائیں گی.لیکن بعض حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اس سے مراد یہ تھی کہ فلسطین میں یہودیوں کی ایک علیحدہ ریاست قائم کی جائے گی.یہ

Page 295

285 تاثر غلط ہے.فلسطین کو تقسیم کرنے کی تجویز نا قابل عمل ہے.برطانوی حکومت کا منصوبہ ہے کہ دس سال کے اندر فلسطین کو خود مختاری دے دی جائے اور ایک ایسی ریاست قائم کی جائے ،جس کی حکومت میں یہودی اور مسلمان دونوں شرکت کریں.اور اب فلسطین میں مزید یہودیوں کی آمد سے فلسطین کے مقامی لوگوں کے حقوق پر اثر پڑتا ہے.اس لئے آئیندہ پانچ سال میں صرف ۷۵۰۰۰ ہزار یہودیوں کو یہاں آنے کی اجازت دی جائے گی.اور اس کے بعد مزید یہودیوں کو صرف اُس صورت میں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت ہو گی اگر مقامی عرب آبادی کو اس پر اعتراض نہ ہو.اور عربوں کی زرعی زمین کو غیر عربوں کے نام منتقل ہونے پر کنٹرول کیا جائے گا اور فلسطین میں مقیم ہائی کمشنر اس ممانعت کی نگرانی کرے گا اور اسے کنٹرول کرے گا.اس اعلان کی اشاعت کے کچھ ہی عرصہ کے بعد دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہو گیا اور تمام دنیا اور برطانوی حکومت کی توجہ دوسرے امور کی طرف ہوگئی.فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش ہوتا ہے: دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی صورت حال بالکل بدل چکی تھی.اور اب فلسطین کا مسئلہ ایک بار پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن رہا تھا.۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دو اجلاسوں میں فلسطین کا مسئلہ پیش ہوا.ستمبر ۱۹۴۷ء میں منعقد ہونے والے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک ایڈ ہاک کمیٹی قائم کی گئی.اس کمیٹی کو فلسطین کے مسئلہ پر تجاویز مرتب کرنے کا کام سونپا گیا.اب تک یہ بات تو واضح ہو چکی تھی کہ امریکہ نہ صرف مکمل طور پر یہودیوں کی تجویز کی حمایت کر رہا ہے کہ فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ایک حصہ یہودیوں کو دیا جائے اور دوسرا حصہ فلسطین کے مقامی لوگوں کے سپرد کیا جائے، بلکہ وہ دیگر ممالک پر بھی ہر قسم کا دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اس تجویز کی حمایت کریں.لیکن اس کے ساتھ سوویت یونین کے رویہ میں بھی ایک پر اسرار تبدیلی آئی.اب سے پہلے تو وہ عربوں کی حمایت کا دم بھر رہا تھا لیکن اچانک اس نے اپنے تیور بدلے اور یہودیوں کی علیحدہ ریاست کی بھر پور حمایت شروع کر دی.اب صورت حال یہ تھی کہ دنیا کی دوسب سے بڑی طاقتیں یہودی ریاست کی حمایت بھی کر رہی تھیں اور دوسرے ملکوں پر بھی دباؤ ڈال رہی تھیں کہ وہ بھی فلسطین

Page 296

286 کو تقسیم کر دینے کیسے حق میں ووٹ دیں.اُس وقت تک چند مسلمان ممالک آزادی حاصل کر کے اقوام متحدہ کے ممبر بنے تھے.ان کو کسی قسم کی طاقت بھی حاصل نہیں تھی.اور وہ میدان میں تقریباً مکمل طور پر تنہا نظر آ رہے تھے.ایڈ ہاک کمیٹی کام شروع کرتی ہے.۲۵ ستمبر کو اس ایڈ ہاک کمیٹی کا اجلاس ہوا اور آسٹریلیا کے مندوب مسٹر یوٹ (H.V.Evatt) کو اس کمیٹی کا صدر سیام ( موجودہ تھائی لینڈ) کے مندوب پرنس سبھا سواستی (Subha Svasti) کو نائب صدر اور آئس لینڈ کے نمائندے کو کمیٹی کا Rapporteur منتخب کیا گیا.اب تک یہ صورت حال تھی کہ دو تجاویز سامنے آ رہی تھیں پہلی تجویز جس کی حمایت سوویت یونین ، امریکہ اور یہودیوں کی تنظیم کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے.ایک حصہ میں یہودیوں کی ریاست بنے اور دوسرے حصہ میں فلسطین کی ریاست ہو.دونوں حصے آزاد ہوں اور ان کے درمیان اقتصادی اتحاد ہو.چند سال قبل حکومت برطانیہ نے تقسیم کی تجویز کو نا قابل عمل قرار دیا تھا.بلکہ یہودیوں کی فلسطین آمد پر پابندیاں لگانے کا اعلان بھی کیا تھا.کیونکہ اس سارے عمل سے فلسطین کے مقامی باشندوں کے حقوق بری طرح متاثر ہوتے تھے.لیکن آج اسی تجویز کو نوزائدہ اقوام متحدہ سے منظور کرانے کے لئے ہر قسم کا نا جائز دباؤ ڈالا جا رہا تھا.اور دوسری تجویز مسلمان ممالک سعودی عرب اور عراق کی طرف سے پیش کی گئی تھی کہ فلسطین پر برطانوی اقتدار ختم کر کے اسے ایک آزاد مملکت کا درجہ دیا جائے اور اس کی وحدت برقرار رکھی جائے.ابھی پاکستان کو معرض وجود میں آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور خود عرب ممالک بھی پاکستان کی پالیسی کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اُس وقت کے ماحول کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے.جب پاکستان کی طرف سے میں نے پہلی بار تقریر شروع کی تو عرب نمائندگان کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ میری تقریر کا رخ کس طرف ہوگا.پاکستان ایک دو دن قبل ہی اقوام متحدہ کا رکن منتخب ہوا تھا.عرب ممالک کے مندوبین ہمیں خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے

Page 297

287 اور ہماری طرف سے بالکل بے نیاز تھے.میری تقریر کا پہلا حصہ تو تاریخی اور واقعاتی تھا جس کے بعض حصوں سے بعض عرب مندوبین بھی ناواقف تھے.جب میں نے تقسیم کے منصوبے کا تجزیہ شروع کیا اور اس کے ہر حصہ کی نا انصافی کی وضاحت شروع کی تو عرب نمائیندگان نے توجہ سے سننا شروع کیا.تقریر کے اختتام پر ان کے چہرے خوشی اور طمانیت سے چمک رہے تھے.اس کے بعد اس معاملہ میں عرب موقف کا دفاع زیادہ تر پاکستان کا فرض قرار دے دیا گیا.‘ (۵) اگر چه عرب نمائیندگان میں سے بعض کی تقاریر بھوس آراء سے مرصع تھی مگر چونکہ انہوں نے اُس وقت تک کسی مرکزی ہدایت کے تحت اپنی تقاریر کو اور دلائل کو ترتیب نہیں دیا تھا اس لئے بہت سا وقت غیر متعلقہ دلائل میں صرف ہو گیا.اُن کا موقف ہر لحاظ سے اتنا مضبوط اور قرین انصاف تھا کہ غیر متعلقہ دلائل کی طرف رجوع کرنا مؤقف کو کمزور کرنے کے مترداف تھا.شروع سے ہی یہ بات ظاہر و باہر تھی کہ کمیٹی میں فیصلہ دلائل کی بنیاد پر نہیں ہوگا.نیوزی لینڈ کی نمائیندگی سر کارل کر رہے تھے.چوہدری صاحب کی ایک تقریر کے بعد کمیٹی سے نکلتے ہوئے انہوں نے حضرت چوہدری صاحب سے کہا کیسی اچھی تقریر تھی ، صاف، واضح ، دلائل سے پر اور نہایت مؤثر.چونکہ وہ خود نہایت اچھے مقرر تھے اس لئے چوہدری صاحب کو اُن کے تبصرے سے خوشی ہوئی.اُن کا شکر یہ اد کیا اور دریافت کیا سر کارل پھر آپ کی رائے کس طرف ہو گی.وہ خوب ہنسے اور کہا ” ظفر اللہ رائے بالکل اور معاملہ ہے.‘(۵) ایڈ ہاک کمیٹی کے صدر نے دو سب کمیٹیاں تشکیل دیں.پہلی سب کمیٹی میں وہ ممالک شامل تھے جو فلسطین کی تقسیم کی حمایت کر رہے تھے.اس میں امریکہ سوویت یونین اور جنوبی امریکہ سمیت دس ممالک شامل تھے.دوسری سب کمیٹی میں وہ ممالک شامل کئے گئے جو عربوں کے موقف کی حمایت کر رہے تھے اور تقسیم کے خلاف تھے.اس میں مصر ،شام ،سعودی عرب ،عراق ، یمن ، پاکستان، افغانستان، کولمبیا اور لبنان شامل تھے.ان دوسب کمیٹیوں کے سپرد یہ کام تھا کہ وہ اپنی آراء کو حتمی شکل دے کر ایڈ ہاک کمیٹی میں رائے شماری کے لئے پیش کریں.پہلے کولمبیا کو دوسری کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا اور پاکستان کے نمائندے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو کمیٹی کا

Page 298

288 Rapporteur بنایا گیا.۱۲۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو ان سب کمیٹیوں کے اجلاس شروع ہوئے.کچھ ہی دیر میں کولمبیا کے مندوب نے اسی میں عافیت سمجھی کہ وہ سب کمیٹی کی صدارت سے معذرت کر لیں.آخری رائے شماری میں بھی کولمبیا غیر جانبدار رہا.کمیٹیوں میں کمیٹی کا صدر ایک مندوب اور اس کا Rapporteur دوسرے ملک کا سفارتکار ہوتا ہے.کولمبیا کے میدان چھوڑنے کے بعد سب کمیٹی کے اراکین نے جن کی اکثریت عرب ممالک پر مشتمل تھی یہی فیصلہ کیا کہ پاکستان کے نمایندے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کمیٹی کے صدر اور Rapporteur دونوں کے فرائض سرانجام دیں.دونوں سب کمیٹیوں نے جو تجاویز مرتب کرنی تھیں ان کے لئے کافی وقت درکار تھا.اس لئے دونوں سب کمیٹیوں نے تیاری کے لئے کچھ اور وقت مانگا.جس کمیٹی میں امریکہ اور روس شامل تھے.اس میں کچھ اختلافات امریکہ اور روس کے مؤقفوں میں بھی ظاہر ہورہے تھے.گو دونوں ممالک فلسطین کی تقسیم کی پر زور حمایت کر رہے تھے لیکن اس بات پر اختلاف ہورہا تھا کہ یروشلم کی تقسیم کی جائے یا اسے بین الاقوامی نگرانی میں رکھا جائے اور جب اقوام متحدہ تقسیم کی منظوری دے دے تو پھر اس کی تنفیذ کس طرح کی جائے.امریکہ کا کہنا تھا کہ عبوری دور میں جنرل اسمبلی فلسطین کی نگرانی کرے.مگر روس کا اصرار تھا کہ جنرل اسمبلی نگرانی کا کمیشن منتخب کرے مگر یہ کمیشن سیکیورٹی کونسل کو جواب دہ ہو (۴).حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی سب کمیٹی نے پہلے کام مکمل کرلیا مگر درخواست کی کہ دونوں تجاویز ایک ساتھ ہی ایڈ ہاک کمیٹی میں پیش کی جائیں.بالآخر ۱۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو ایڈ ہاک کمیٹی کے اجلاس میں دونوں سب کمیٹیوں کی تجاویز پیش کی گئیں.جب سب کمیٹیاں اپنی تجاویز کو مرتب کرنے کا کام کر رہی تھیں.اُس دوران ۸ نومبر ۱۹۴۷ء کو سیام (موجودہ تھائی لینڈ ) میں فوجی بغاوت ہوئی اور حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا.سیام ایڈ ہاک کمیٹی کا نائب صدر تھا اور اُس وقت تک یہ ملک تقسیم فلسطین کی مخالفت کر رہا تھا.بہر حال کمیٹی کی کاروائی شروع ہوئی اور پہلی سب کمیٹی نے فلسطین کی تقسیم کی تجویز پیش کی.دوسری سب کمیٹی جس میں عرب ممالک اور پاکستان شامل تھے ، کی طرف سے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے تین قراردادوں میں تجاویز پیش کیں.اور ان میں سے پہلی قرار داد نے معاملے کو بالکل نیا رخ دے

Page 299

289 دیا.پہلی قرار داد یہ تھی کہ اس معاملے میں جنرل اسمبلی پہلے بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے رائے لے کہ آیا اقوام متحدہ کو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ فلسطین کے عوام کی اکثریت کی مرضی کے خلاف کوئی حل اُن پر مسلط کرے.اور دیگر قانونی پہلوں پر عالمی عدالت سے استفسار کیا جائے.حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت بھی اس بین الاقوامی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ایک خطے کو اُس کے باشندوں کی اکثریت کی مرضی کے خلاف کسی اور قوم کے حوالے کر دے یا کسی ملک کو از خود تقسیم کرنے کا اعلان کر دے.صیہونی دباؤ اور سازشوں نے اقوام متحدہ کو اُس راستے پر ڈال دیا تھا جس پر چل کر اس کی ابتداء ہی ایک ظالمانہ اور غیر قانونی فیصلے سے ہو رہی تھی.دوسری قرار داد یہ تھی کہ جو یہودی گذشتہ سالوں میں مختلف جگہوں سے نکالے گئے ہیں انہیں اقوام متحدہ کے ممبران کے تعاون سے مختلف مقامات پر آباد کیا جائے.تیسری قرارداد یہ تھی کہ فلسطین پر برطانوی اقتدار ختم کر کے اسے فلسطینیوں کی ایک عبوری حکومت کے حوالے کیا جائے جو ایک قانون ساز اسمبلی کا انتخاب کرائے.اور فلسطینیوں کی منتخب کی ہوئی یہ قانون ساز اسمبلی ملک کا آئین تیار کرے.اب ایڈ ہاک کمیٹی میں ان آراء پر بحث شروع ہوئی.صیہونی منصوبے کی تائید کرنے والا گروہ اپنے منصوبے کو منظور کرانے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے جس بے تکلفی سے استعمال کر رہا تھا ، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے.۲۲ نومبر کو جب اجلاس شروع ہوا تو پہلی سب کمیٹی نے ، جس کے ممبروں میں امریکہ اور روس بھی شامل تھے تقسیم کی تجویز کے ساتھ ایک نقشہ بھی پیش کیا جس میں مجوزہ تقسیم کو ظاہر کیا گیا تھا.اس تقسیم کے مطابق نجف کا علاقہ یہودیوں کی ریاست کو دینے کی تجویز تھی.جب اس نقشے کی نقول ممبران کو دی گئیں تو اچانک حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے نشاندہی کی کہ نقشہ غلط بنا ہوا ہے.سارا نقشہ ایک سکیل پر بنایا گیا تھا اور نجف کا حصہ چار گنا چھوٹے سکیل پر بنایا گیا تھا.سرسری نظر سے دیکھنے پر یہ تاثر ملتا تھا کہ یہ ایک چھوٹا سا علاقہ یہودی ریاست کو دیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ علاقہ کافی زیادہ تھا.اس نشاندہی پر ایڈ ہاک کمیٹی میں ایک کھلبلی پیدا ہوگئی.(۶) بہت سے ممالک بڑی طاقتوں کے دباؤ کے تحت تقسیم کے حق میں ووٹ تو دینے کو تیار ہو گئے تھے لیکن خود ان کے نمائندے محسوس کر رہے تھے کہ یہ زیادتی ہو رہی ہے اور دباؤ میں آکر ایک قوم

Page 300

290 پر ظلم کیا جا رہا ہے.جب تقسیم کے منصوبے کے تفصیلی حصہ پر بحث شروع ہوئی تو ڈنمارک کے مندوب حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ واقعات اور تمہارے دلائل سے یہ صاف ظاہر ہے کہ تقسیم کا منصوبہ بالکل غیر منصفانہ ہے اور اس سے عربوں کے حقوق پر نہایت نہایت مضر اثر پڑے گا.سکینڈے نیویا کے تمام ممالک کے نمائیندوں کی یہی رائے ہے.معلوم ہوتا ہے تقسیم کی تجویز ضرور منظور ہو جائے گی کیونکہ امریکہ کی طرف سے ہم پر زور ڈالا جا رہا ہے.میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ کمیٹی میں عام طور پر یہ احساس ہے کہ ہم امریکہ کے دباؤ کے ماتحت ایک بے انصافی کا فیصلہ کرنے والے ہیں.اس احساس کا تمہیں فائدہ اُٹھانا چاہیئے.تم نے اپنی تقریروں میں یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اس کی بعض تجاویز ظاہراً طور پر عرب کے حقوق کو غصب کرنے والی ہیں مثلاً یا فہ کا شہر جس کی اکثر آبادی عرب ہے اسے اسرائیل میں شامل کیا گیا ہے.اسی طرح اور بہت سی ایسی خلاف انصاف تجاویز ہیں.اس وقت کمیٹی کی کاروائی بڑی جلدی میں ہو رہی ہے.اگر تم ان تجاویز کے متعلق ترامیم پیش کرتے جاؤ اور مختصر سی تقریر ہر ترمیم کی تائید میں کر دو تو ہم سکنڈے نیویا کے پانچوں ممالک کے نمائندے تمہاری تائید میں رائے دیں گے اور کمیٹی کی موجودہ فضا میں تمہاری تمام ترمیمیں منظور ہو جائیں گی.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر تقسیم منظور بھی ہوگئی تو بہت سے امور میں عربوں کی اشک شوئی ہو جائے گی.چوہدری صاحب کو یہ تجویز پسند آئی اور انہوں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ ان کا اندازہ درست بھی ہے کہ نہیں ایک معمولی سی ترمیم پیش کی.اس پر فوری رائے شماری ہوئی اور تجویز منظور ہو گئی.اس پر فلسطین کے نمائندے نے حیران ہو کر اس کی وجہ پوچھی.اس پر چوہدری صاحب نے انہیں ڈینش مندوب کی بات بتائی اور کہا کہ ہم رائے تقسیم کے خلاف دیں گے لیکن اس طرح تقسیم کا منصوبہ کمزور ہو جائے گا اور اگر تجویز منظور بھی ہوگئی تو اتنا زیادہ نقصان نہیں ہوگا.لیکن اس پر فلسطینیوں کے نمائندے السید جمال الحسینی نے کہا کہ مشکل یہ ہے کہ اگر تقسیم واضح طور پر ہمارے حقوق کو غصب کرنے والی نہ ہوئی تو ہمارے لوگ اس کے خلاف جنگ پر آمادہ نہیں ہوں گے اور ہمیں سخت نقصان پہنچے گا.اس لئے تم مہربانی کر کے کوئی اور ترمیم نہ پیش کرو.اس پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو خاموش ہونا پڑا.لیکن یہ فلسطینی راہنماؤں کی سخت غلطی تھی وہ جنگ کے لئے تیار نہیں تھے اور بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ جب جنگ شروع

Page 301

291 ہوئی تو رہے سہے علاقے بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گئے اور اس کا فائدہ یہودیوں کو ہی پہنچا.(۷) معلوم ہوتا ہے کہ حضرت چوہدری صاحب نے نجف کے علاقے کے متعلق نقشہ میں جس نقص کی نشاندہی کی تھی، اس سے تقسیم کی حمایت کرنے والوں نے کچھ خجالت ضرور محسوس کی تھی کیونکہ کمیٹی کے اٹھائیسویں اجلاس میں یہودیوں کی نمائندے نے یہ پیشکش کی کہ تقسیم کی تجویز میں یہ ترمیم کر دی جائے کہ مصر کے ساتھ نجف کا کچھ علاقہ اور بیر شیبا کو عربوں کی ریاست میں شامل کر دیا جائے.بہر حال اب تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ بڑی طاقتیں تقسیم فلسطین کی تجاویز منظور کرا کر رہیں گی.ایڈ ہاک کمیٹی میں رائے شماری ہوتی ہے.جب ۲۴ نومبر ۱۹۴۷ء کو ایڈ ہاک کمیٹی میں رائے شماری کا وقت آیا تو اُس دوسری سب کمیٹی کی آراء پر رائے شماری شروع ہوئی، جس کی اراکین میں پاکستان اور عرب ممالک شامل تھے.پہلا مسئلہ اُن قانونی مسائل کا تھا جن کی نشاندہی حضرت چوہدری صاحب نے فرمائی تھی.یہ کل آٹھ نکات تھے جن کو ایک سوال کی صورت میں عالمی عدالت انصاف کی طرف بھیجوانے کی سفارش کی جا رہی تھی.فرانس کے نمائندے نے تجویز دی کہ پہلے سات نکات کے متعلق ایک ساتھ رائے شماری کی جائے اور آٹھویں نکتہ کے بارے میں علیحدہ رائے شماری ہو.آٹھواں نکتہ یہ تھا کہ کیا اقوام متحدہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ فلسطین کی عوام کی منظوری کے بغیر اُس کی مستقبل کی حکومت کے متعلق یا اُس کی تقسیم کے متعلق کسی تجویز کو منظور کر کے فلسطین کے لوگوں پر اسے نافذ کرے؟ اور یہ بڑا اہم سوال تھا.اگر اقوام متحدہ کو یہ اختیار ہی نہیں تھا تو پھر کسی تجویز کی منظور ہونے یا نا منظور ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا تھا.پہلے آٹھ سوالوں کے بارے میں رائے شماری ہوئی تو اس بات کے حق میں کہ ان سوالات کے بارے میں عالمی عدالت انصاف سے استفسار کیا جائے اٹھارا ، اس کے خلاف پچپیں ووٹ ڈالے گئے اور گیارہ ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا اور غیر جانبدار رہے.جب سب سے اہم آٹھویں سوال پر رائے شماری ہوئی تو میں ممالک نے یہ رائے دی کہ اقوام متحدہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے اور اس بارے میں عالمی عدالت انصاف سے استفسار کرنا چاہیے.اکیس ممالک نے یہ رائے دی کہ اقوام متحدہ یہ قدم اُٹھا سکتی ہے اور تیرہ ممالک غیر جانبدار رہے.تمام تر دباؤ کے

Page 302

292 باوجود اس بنیادی مسئلہ پر ابھی تک پچاس فیصد اراکین بھی بڑی طاقتوں کے ہمنوا نہیں بنائے جاسکے تھے اور ایک بڑی تعداد غیر جانبدار رہنے پر مجبور تھی.سب سی بڑی بات یہ تھی کہ بعض ممالک جو دباؤ کے تحت امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہو چکے تھے اس نکتے پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تجویز کی حمایت کر رہے تھے کہ پہلے عالمی عدالت انصاف سے استفسار کرنا چاہئیے کہ آیا جنرل اسمبلی قانونی طور پر اس فیصلہ کی مجاز بھی ہے کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے.چنانچہ فرانس، یونان، برازیل اور ایل سیلواڈور نے بھی اس تجویز کی حمایت میں ووٹ دیا اور برازیل کے پاس اُس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدارت بھی تھی.غالباً اس طرح یہ ممالک اپنے ضمیر کا بوجھ بھی ہلکا کرنا چاہتے تھے اور عالمی عدالت انصاف کی طرف بھجوا کر اس مسئلہ سے اپنی جان بھی چھڑانا چاہتے تھے.لیکن چونکہ کمیٹی کے اندر جس رائے کی طرف زیادہ اراکین کی آراء ہوں وہ منظور ہو جاتی ہے.اس لئے یہ تجویز منظور نہ ہو سکی کہ یہ سوال عالمی عدالت انصاف کی طرف بھیجوایا جائے.فلسطینیوں کی حمایت میں اچانک اس طرح کا قانونی سوال اُٹھ جانا اور اس کی تائید میں اچھے خاصے اراکین کا رائے دینا اُن بڑی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا جو تقسیم کی حمایت میں مہم چلا رہی تھیں.اور یہ امر اُن کی لئے خاصی پریشانی کا باعث تھا.۲۵ نومبر کے اجلاس میں سوویت یونین کے نمائندے نے جھنجلائے ہوئے انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال Mandatory Power یعنی برطانیہ کی طرف سے پہلے نہیں اُٹھایا گیا تھا.پہلے یہ سوال جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نہیں اُٹھایا گیا تھا.پہلے یہ سوال فلسطین پر سپیشل کمیٹی میں نہیں اُٹھایا گیا تھا.اب اچانک کچھ لوگ سامنے آکر کہہ رہے ہیں کہ جنرل اسمبلی کو یہ اختیار ہی نہیں ہے.اسی کارروائی میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ تقسیم فلسطین کی تجویز کو چار سوالوں کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئیے.پہلے یہ کہ قانونی طور پر اس فیصلے کو کرنے کا اختیار بھی ہے کہ نہیں؟ دوسرے یہ کہ کیا یہ فیصلہ قابل عمل بھی ہے کہ نہیں؟ تیسرے یہ کہ کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟ چوتھے یہ کہ کیا اس سے یہ مسئلہ حل ہو گا ؟ ان سب سوالات کے جواب میں اقوام متحدہ صرف نفی میں ہی دے سکتی ہے.حضرت چوہدری صاحب نے نمائیندگان کی توجہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی طرف مبذول کرائی اور فرمایا کہ اس چارٹر کی رو سے جنرل اسمبلی کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار

Page 303

293 حاصل ہی نہیں.مصر کے نمائندے نے انتباہ کیا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف فلسطین میں بلکہ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی یہودیوں کی جانوں کو خطرہ ہو جائے گا.(۸) جب یہ تجویز پیش کی گئی کہ فلسطین کو ایک متحدہ اور جمہوری ریاست کی شکل دینی چاہئیے جس میں اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے.اس تجویز کے حق میں صرف بارہ ،اس کے خلاف انتیس ووٹ ملے اور چودہ اراکین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا.اس طرح یہ تجویز نا منظور ہوگئی.اب وہ ترمیم شدہ تجویز پیش کی گئی جو اس سب کمیٹی نے تیار کی جس کے ممبروں میں امریکہ اور سوویت یونین بھی شامل تھے.اس تجویز میں فلسطین کو تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا اور ایک یہودی ریاست کی تجویز پیش کی گئی تھی.اس تجویز کی تائید میں بچھپیں ووٹ آئے.اس کے خلاف تیرہ ووٹ اور سترہ اراکین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا.کمیٹی کے اندر یہ تجویز منظور تو ہو گئی لیکن یہ امر ظاہر تھا کہ ابھی اس تجویز کو پچاس فیصد اراکین کی حمایت بھی حاصل نہیں اور ایک بڑی تعداد غیر جانبدار رہنے میں عافیت سمجھ رہی ہے.اب یہ تجویز جنرل اسمبلی میں پیش ہوئی تھی.بڑی طاقتوں کو یہ مشکل در پیش تھی کہ جنرل اسمبلی کے اندر قرارداد کو منظور کرانے کے لئے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے.اور اس تناسب کے ساتھ یہ قرارداد وہاں منظور نہیں ہو سکتی تھی.ابھی مختلف ممالک پر مزید دباؤ ڈالنے کی ضرورت تھی تا کہ وہ بھی بڑی طاقتوں کی پیش کردہ تجویز کی حمایت پر آمادہ ہو جائیں.وہ تیرہ ممالک جواب تک اس قرارداد کی مخالفت پر قائم تھے وہ افغانستان، کیوبا،عراق ،مصر، بھارت، ایران، لبنان، پاکستان ، سعودی عرب ، سیام، شام ، ترکی اور یمن تھے.اس طرح عرب ممالک اور مسلمان ممالک کے علاوہ صرف بھارت، کیوبا اور سیام ہی اس قرارداد کی مخالفت کر رہے تھے.اور ان میں سے ایک ملک یعنی سیام کی حکومت اس کا روائی کے دوران تبدیل ہو چکی تھی.عرب ممالک کی طرف سے شدید جذبات کا اظہار ہو رہا تھا.سعودی عرب کے نمائندے شہزادہ فیصل (جو بعد میں سعودی عرب کے بادشاہ بنے ) نے بیان دیا کہ اگر جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کی قرارداد منظور کی تو سعودی عرب جنرل اسمبلی سے علیحدہ ہو جائے گا.اس کی تائید میں یہ بیانات آنے شروع ہوئے کہ اگر یہ قرارداد منظور ہوئی تو عرب ممالک کو اقوام متحدہ کی رکینیت چھوڑ دینی چاہئیے.(۹)

Page 304

294 قرار داد جنرل اسمبلی میں پیش ہوتی ہے: مگر صرف بیانات سے عالمی سازشوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا.اب اس قرار داد کو جنرل اسمبلی میں پیش کرنے کا وقت آ رہا تھا.جنرل اسمبلی میں ہرا ہم قرارداد کی منظوری کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل ہونا ضروری ہوتی ہے.ابھی تک تقسیم فلسطین کے حامیوں کو واضح طور پر یہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی تھی.لیکن دوسری جنگ عظیم کے معا بعد غریب ممالک تو ایک طرف رہے خود یورپ کے ترقی یافتہ ممالک بھی انتہائی کمزوری کی حالت میں تھے اور بہت سے امور میں امریکہ کے مرہونِ منت تھے یا پھر باقی ممالک سوویت یونین کے زیر اثر تھے.اس لئے ان طاقتوں کا دباؤ رائے کو بدلنے کا باعث بن رہا تھا.بعض ممالک کے متعلق ابھی پختہ علم نہیں تھا کہ وہ کس طرف رائے دیں گے ان میں سے ایک لائیپیر یا بھی تھا.لائیپیر یا ایڈ ہاک کمیٹی میں تقسیم فلسطین کی تجویز پر غیر جانبدار رہا تھا لیکن جب حضرت چوہدری صاحب کی تجویز پیش ہوئی کہ پہلے عالمی عدلات سے یہ استفسار کرنا چاہیے کہ جنرل اسمبلی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز بھی ہے کہ نہیں تو اس نے اس تجویز کی حمایت میں ووٹ دیا تھا.اور ابھی اس کی طرف سے اظہار رائے نہیں ہوا تھا.جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے پہلے حضرت چوہدری صاحب لائیبیریا کے مندوب مسٹر ڈینس سے ملنے اُن کے ہوٹل گئے.اور ان کی رائے کے متعلق استفسار کیا.انہوں نے کہا کہ میری ذاتی ہمدردی تو عربوں کے ساتھ ہے اور اب تک ہماری حکومت کی ہدایت بھی یہی ہے کہ تقسیم کے خلاف رائے دی جائے.لیکن ہم پر امریکہ کا دباؤ بڑھ رہا ہے.تم کوشش کرو کہ آج رائے شماری ہو جائے.اس صورت میں ہم تقسیم کے خلاف رائے دیں گے.لیکن اگر آج رائے شماری نہ ہوئی تو معلوم نہیں کیا صورت ہو.پھر حضرت چوہدری صاحب کی موجودگی میں اپنی سیکریٹری کو کہا کہ میں اسمبلی کے اجلاس کے لئے جا رہا ہوں اگر میرے نام کوئی پیغام آئے تو مجھے مت بھجوانا.پھر چوہدری صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھ لیں میں نے آج کا تو انتظام کر دیا ہے.اس سے یہی لگتا ہے کہ انہیں بھی خدشہ تھا کہ اگر دباؤ جاری رہا تو جلد ان کی حکومت و گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے.لیکن اپنی ذاتی شرافت کی وجہ سے وہ یہی چاہتے تھے کہ وہ تقسیم کی قرارداد کی

Page 305

295 مخالفت میں ووٹ دیں.سیام ایڈ ہاک کمیٹی کا نائب صدر تھا لیکن اسی دوران سیام ( موجودہ تھائی لینڈ ) میں بغاوت ہو گئی اور حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا یا تختہ الٹوا دیا گیا.اس کے بعد اُن کے نمائندے نے خود ہی ایڈ ہاک کمیٹی کے اجلاسات میں شرکت بند کر دی.ان کی ہمدردیاں عربوں کے ساتھ تھیں.حضرت چوہدری صاحب اُن کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کے ملک میں ایک حکومت قائم ہے اور اس حکومت نے آپ کی نامزدگی کو منسوخ نہیں کیا.اس لئے آپ کو اجلاسات میں شرکت سے صرف مفروضوں کی بنا پر نہیں رکھنا چاہئیے.اس پر وہ ایڈ ہاک کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے اور انہوں نے تقسیم کے خلاف ووٹ دیا.لیکن جب وہ جنرل اسمبلی میں پہنچے تو اس وقت جنرل اسمبلی کے صدر کو تار موصول ہوئی کہ سیام نے اپنے وفد کی نامزدگی کو منسوخ کر دیا ہے.یہ بات قابل غور ہے کہ حکومت تبدیل ہونے کے بعد تقریبا سولہ دن تک سیام کی حکومت نے اپنے مندوب کی نامزدگی کو منسوخ نہیں کیا تھا لیکن جہاں سیام کا مندوب تقسیم کی تجویز کے خلاف ووٹ دیتا ہے اور جنرل اسمبلی میں معاملہ پہنچتا ہے ، اسی وقت ایک تار موصول ہوتی ہے کہ ہم اپنے نمائندے کی نامزدگی منسوخ کرتے ہیں، چنانچہ سیام نے جنرل اسمبلی کے اندر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا.اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی تھی کہ بڑی طاقتیں ہر قیمت پر تقسیم کی قرار داد منظور کرانا چاہتی ہیں.چاہے اُس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے.ان کے دباؤ کے تحت ایک کے بعد دوسرا ملک ان کے کیمپ میں منتقل ہو رہا تھا.۲۶ نومبر کو صبح گیارہ بجے جنرل سمبلی کا اجلاس شروع ہوا.برازیل کے آرانا (Aranha) جنرل اسمبلی کی صدارت کر رہے تھے.پھر آئس لینڈ کے مندوب نے ایڈہاک کمیٹی کے Reporter کی حیثیت سے ایک مختصر رپورٹ پڑھی.اس کے بعد مختلف ممالک کے مندوبین نے اس مسئلہ پر تقاریر کرنی تھیں.سب سے پہلے سویڈن کے نمائندے نے تقریر کی.سویڈن پہلے ہی تقسیم کے حق میں رائے دے چکا تھا اور اس تقریر میں بھی انہی خیالات کو دہرایا گیا.اس کے بعد فلپائن کے نمائندے کی باری تھی.فلپائن کی طرف سے ابھی اظہارِ رائے نہیں ہوا تھا.اس لئے سب کو دلچسپی تھی کہ فلپائن کا ووٹ کس طرف جائے گا.فلپائن کی طرف سے جنرل رومیلو (Romulo) نے تقریر شروع کی.جنرل رو میلو ایک فصیح البیان مقرر تھے.ان کی تقریر کا پہلا جملہ ہی چونکا دینے

Page 306

296 والا تھا.انہوں نے نے کہا کہ ہمارا وفد اس بحث کے آخری مرحلہ میں بہت سے شکوک وشبہات کے ساتھ شامل ہو رہا ہے.اس کے بعد انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ تمام کارروائی کے سنے اور رپورٹ کے مطالعہ کے بعد ان کی حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ تقسیم فلسطین کی تجویز کی حمایت نہیں کر سکتی.اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام قانونی آراء کا مطالعہ کیا ہے، خواہ Mandatory Power کو بین الاقوامی معاہدے کے نتیجے میں اختیار ملا ہو، فلسطین کے باشندوں کو اس بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے وطن کی وحدت کو برقرار رکھیں.ماضی قریب میں ہمارے ملک کو بھی ایک طاقت نے اس قسم کی وجوہات کا سہارا لے کر تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن فلپائن کے لوگوں نے بڑی قوت سے اس کوشش کا مقابلہ کیا تھا.اور یونائیٹڈ اسٹیٹس کی کانگرس میں اپنے مؤقف کو بڑے زور سے پیش کیا تھا.اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج فلپائن کی وحدت قائم ہے اور وہ اقوام متحدہ میں فلسطین کے متعلق اس تجویز کی مخالفت کر رہا ہے.مسٹر رومیلو نے کہا کہ ہم اُن مظالم سے غافل نہیں ہیں جو یہودیوں پر ہوئے ہیں.جب ہٹلر کے جرمنی میں یہودیوں پر مظالم ہو رہے تھے تو فلپائن اُن چند ممالک میں سے تھا جس نے اپنے دروازے اُن کے لئے کھول دیئے تھے.لیکن اگر یہودیوں کو کچھ ممالک سے نکلنے پر مجبور کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُن کی ایک علیحدہ ریاست قائم کر دی جائے.اپنی تقریر کے آخر میں انہوں نے کہا اس مختصر تبصرے کے آخر پر میں اپنی حکومت کی طرف سے یہ بیان دینا چاہتا ہوں کہ ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم نہ ہی کسی ایسے منصوبے کی تائید کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایسے منصوبے میں حصہ لے سکتے ہیں جس میں فلسطین کی سیاسی تقسیم کی گئی ہو یا ایسے عمل کی حوصلہ افزائی کی گئی ہو جس کے نتیجے میں اس مقدس سرزمین کی قطع و برید کی جائے.“ فلپائن کا دوٹوک اظہار ان طاقتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی تھا جو فلسطین کی تقسیم پر تلی بیٹھی تھیں.اس کے بعد یمن کے مندوب نے تقسیم کی تجویز کے خلاف تقریر کی اور کہا کہ فلسطین کے عرب باوجود اس حقیقت کے کہ فلسطین کے اکثر یہودی کچھ عرصہ قبل نقل مکانی کر کے فلسطین میں آئے ہیں، ان یہودیوں کو اپنے ملک میں برابر کے حقوق دینے کو تیار تھے مگر اس کے باوجود فلسطین کو دو

Page 307

297 حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز جنرل اسمبلی کے سامنے پیش کی گئی ہے.اس کے علاوہ انہوں نے اس تجویز کو غیر قانونی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف قرار دیا.کینیڈا کے سفیر نے تقسیم کی تجویز کی حمایت کی اور اس کی دو اہم وجوہات یہ بیان فرمائیں کہ اگر چہ برطانوی مینڈیٹ کے خاتمہ پر ایک متحدہ فلسطین ریاست کو اقتدار منتقل ہونا چاہیے تھا لیکن اس راستے میں مشکل یہ حائل ہے کہ بالفور اعلانیہ اور لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ کے نتیجے میں لاکھوں یہودی فلسطین منتقل ہو گئے ہیں اور فلسطین میں چھ سوملین کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں اس لئے یہ حل قابلِ قبول نہیں ہوسکتا.اور دوسری دلیل انہوں نے یہ بیان فرمائی کہ ابھی تو یہودیوں اور فلسطینیوں میں اس بارے میں بہت اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن اگر تقسیم کی تجویز کو قبول کر لیا جائے تو دونوں گروہوں کے لیڈروں کے دل بدلنے کے امکانات زیادہ ہوں گے کیونکہ دونوں عظیم ترین طاقتیں اس تجویز کی حمایت کر رہی ہیں.اس تقریر کی منطق بھی خوب تھی.یعنی وہ یہ کہہ رہے تھے کہ بڑی طاقتوں نے پہلا ظلم یہ کیا تھا کہ فلسطین کے باشندوں کی مرضی کے خلاف یہودیوں کو وہاں آباد کرنا شروع کیا.جب وہ وہاں پہنچ گئے تو پہلے ظلم کو دوسرے ظلم کی دلیل بنالیا کہ اب کیونکہ یہ یہودی یہاں آگئے ہیں اور یہ تم سے امیر بھی زیادہ ہیں اور انہوں نے اس امارت کی بنا پر اتنے ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے ، اس لئے اب ہمیں یہ اختیار ہے کہ تماری مرضی کے خلاف تمہارے ملک کے دو ٹکڑے کریں اور اچھا ٹکڑا یہودیوں کو دے دیں، اور کیونکہ بڑی طاقتیں تقسیم کی حمایت کر رہی ہیں اس لئے کوئی مسئلہ نہیں ہم بعد میں تمہارے لیڈروں کے خیالات کو بھی بدل دیں گے.اور پھر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے کینیڈا کے مندوب نے یہ موشگافی کی کہ آخر کار یہودی پہلے اس ملک کے باشندے تھے.زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں خود کینیڈا کے باشندے اور امریکہ اور آسٹریلیا کے باشندے پہلے یورپ میں آباد تھے.لیکن اب اس بنا پر وہ یورپ کی حکومتوں سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کیونکہ پہلے ہمارے آباؤ اجداد یہاں سے گئے تھے اس لئے تم پابند ہو کہ اگر تمہارے ملک کے باشندے اسے نہ بھی پسند کریں تو بھی ہمیں اپنے ملک کی شہریت کے حقوق دو.اور جب ہم یہاں آجائیں گے تو تمہیں چاہئیے کہ اپنے ملک کا ایک حصہ ہمیں اس لئے دے دو تا کہ ہم اس میں اپنے لئے ایک علیحدہ ریاست بنا ئیں.باوجود تمام طاقت کے یہ ممالک یورپ کے کسی ملک سے یہ مطالبہ کرنے کی جراء ت نہیں

Page 308

298 کر سکتے.مگر فلسطین کے عربوں کے حقوق پامال کرتے ہوئے ہر بے سروپا بات کو دلیل بنالیا گیا تھا.کینیڈا کے بعد یونان کے مندوب کو تقریر کے لئے بلایا گیا.یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب حضرت چوہدری صاحب کی مرتب کردہ تجویز ایڈ ہاک کمیٹی میں پیش ہوئی کہ یہ سوال کہ اقوام متحدہ یہ فیصلہ کرنے کی مجاز بھی ہے کہ نہیں ، عالمی عدالت انصاف کی طرف بھجوانا چاہیئے تو یونان نے بھی اس کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اس کے بعد جب یہ تجویز پیش ہوئی کہ فلسطین کو ایک ملک رہنا چاہئیے اور جب امریکہ اور روس کی تجویز پیش ہوئی کہ فلسطین کو دو آزا دریاستوں میں تقسیم کر دینا چاہئیے تو یونان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا.اس لئے اب سب منتظر تھے کہ یونان اب کس طرح اپنے ووٹ کا استعمال کرے گا.یونان کے نمائندے نے ایک بہت مختصر تقریر کی.اور کہا کہ یونان کو یہ امید تھی کہ دونوں فریق کسی مفاہمت پر پہنچ جائیں گے اور اسی لئے اُس نے پہلے پیشل کمیٹی کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن اب یہ واضح ہے کہ دونوں فریق کسی مفاہمت پر نہیں پہنچ سکے اور عرب تقسیم فلسطین کی اس تجویز پر راضی نہیں ہیں اور یہ واضح ہے کہ اس کو منظور کرنے کے نتیجے میں بہت سے مسائل پیدا ہوں گے اور خون ریزی ہوگی.اس لئے یونان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ تقسیم کی تجویز کی مخالفت میں ووٹ دے گا.یونانی مندوب کا بیان تقسیم کی حامیوں کے لئے سخت دھچکا تھا.اب یہ محسوس ہو رہا تھا کہ تمام تر دباؤ کے باوجود ان کی تجویز دو تہائی حمایت حاصل کرتی نہیں نظر آ رہی.جبکہ فریقین کے دلائل تفصیل سے سامنے آچکے تھے جنرل اسمبلی میں اُن کی بازی الٹتی نظر آ رہی تھی.پھر برازیل نے حسب سابق تقسیم کی حمایت کرنے کا اعلان کیا.زیادہ تر رائے شماری میں برطانیہ غیر جانبدار رہا تھا.ابھی بھی اُس کے نمائندے نے یہی اظہار کیا کہ یہودیوں اور عربوں کے درمیان مفاہمت نہیں ہو سکی.اور زبردستی کوئی حل مسلط نہیں کیا جا سکتا.اس کے بعد تقسیم کے ایک مجوز امریکہ کے نمائندے کھڑے ہوئے اور اپنی تجویز کے حق میں دلائل پیش کئے.ان کا موقف تھا کہ یہ ساری تجویز اقوام متحدہ کے عمل کے نتیجے میں تیار ہوئی ہے.اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ اس مسئلہ پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کیونکہ جنرل اسمبلی اس بات کی مجاز ہے کہ وہ کسی مسئلہ کا پُر امن حل تجویز کرے.اور فلسطین ایک ایسا علاقہ تھا جو زیر انتظام (Mandatory) تھا.( مراد یہ تھی کہ لیگ آف نیشنز نے اسے اپنے زیر انتظام لیا تھا).اور یہ معاملہ بین الاقوامی نوعیت کا ہے داخلی معاملہ نہیں

Page 309

299 ہے.کیونکہ اس کے نتیجے میں مختلف ممالک میں تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں.گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ پہلے بڑی طاقتوں نے وہاں پر ، وہاں کے باشندوں کی مرضی کے خلاف یہودیوں کو آباد کیا اور اس کے نتیجے میں یہ معاملہ بین الاقوامی نوعیت کا ہو گیا ہے، اس لئے اب دوسرے ممالک کو یہ اختیار بھی مل گیا ہے کہ وہ فلسطین کو وہاں کی اکثریت کی مرضی کے خلاف اپنی خواہشات کے مطابق تقسیم ریں.یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اختیارات کی اس عجیب و غریب تقسیم میں اختیارات سارے دوسرے ممالک کے حصے میں آتے تھے اور اُس ملک کے باشندوں کو صرف کامل فرمانبرداری کی نصیحت کی جارہی تھی.دوپہر کے وقفے سے پہلے ایران کے نمائندے نے مختصر تقریر میں اس تجویز کو غیر قانونی قرار دیا اور پھر مصر کے نمائندے نے اپنی تقریر میں یہ واضح کیا کہ اگر یہ تجویز منظور بھی ہو گئی تو مصر کے نزدیک اس کی حیثیت صرف ایک سفارش کی ہوگی اور مصر کے لئے اس کا تسلیم کرنا ضروری نہیں ہوگا.اس کے بعد بارہ بج کر پچاس منٹ پر جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں وقفے کا اعلان کیا گیا.جنرل اسمبلی میں رائے شماری ملتوی کرائی جاتی ہے: اب تک جن آراء کا اظہار ہوا تھا ، اس سے یہ صاف نظر آرہا تھا کہ ابھی تک امریکہ اور روس کی تجویز کو دو تہائی کی اکثریت حاصل نہیں ہے اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ آج ہی رائے شماری کرائے جائے گی.لیکن اس کے ساتھ اس بات کا برملا اظہار کیا جا رہا تھا کہ بڑی طاقتیں دوسرے ممالک پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ اس تجویز کے حق میں رائے دیں اور لائیپیر یا کے نمائندے نے تو حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے سامنے کہ بھی دیا تھا کہ اب تک تو یہی ہدایت ہے کہ اس تجویز کے خلاف ووٹ دینا ہے ، مگر دباؤ بڑھ رہا ہے ، کل تک پتہ نہیں کیا ہو جائے.سہ پہر کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے عراق کے وزیر خارجہ پریشانی کی حالت میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آج کا اجلاس بغیر رائے شماری کے ملتوی ہو رہا ہے.یہ دونوں مل کر جنرل اسمبلی کے صدر مسٹر رانیا کے پاس گئے.صدر جنرل اسمبلی نے کہا کہ کل Thanks giving Day کی وجہ سے تعطیل ہے اور سیکریٹری جنرل کہتے ہیں کہ اسمبلی کا سٹاف

Page 310

300 آج دیر تک کام کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا.یہ صرف عذر لنگ تھا ،اگر اقوام متحدہ کا سٹاف اتنا ہی گیا گذرا تھا کہ دنیا کے اتنے اہم مسئلے کی بابت فیصلہ ہونا تھا اور وہ چند گھنٹے زائد کام کرنے پر آمادہ بھی نہیں ہوسکتا تھا تو پھر اس کی حالت کسی تیسرے درجے کی کمپنی سے بھی گئی گذری تھی.مگر حقیقت یہ تھی کہ انہوں نے زائد کام کرنے سے انکار کیا ہی نہیں تھا اور صرف دوروز قبل جب ایڈ ہاک کمیٹی کا اجلاس ہور ہا تھا جس میں چند کے علاوہ باقی سب ممبرانِ جنرل اسمبلی شریک ہوئے تھے اور یہ نظر آرہا تھا کہ ایڈ ہاک کمیٹی میں تقسیم کی تجویز مطلوبہ سادہ اکثریت حاصل کر لے گی تو یہ اجلاس رات کو سوا گیارہ بجے تک جاری رہا تھا.اُس وقت تو عملے کے فرضی اراکین نے زائد کام کرنے سے انکار نہیں کیا تھا اور دوپہر کے وقفے کے وقت تک ابھی صرف ایک گھنٹہ پچاس منٹ اجلاس کی کارروائی ہوئی تھی اور ابھی سے اتنی تھکاوٹ شروع ہو گئی تھی کہ اس روز رائے شماری محال نظر آ رہی تھی.جب جنرل اسمبلی کے صدر صاحب سے کہا گیا کہا کہ آج کے اجلاس کے اختتام پر رائے شماری ہو جانی چاہئیے.وہ فرمانے لگے کہ اس کے لئے وقت نہیں ہو گا.ابھی پانچ تقریریں باقی ہیں اور ممکن ہے بعض مند و بین رائے شماری سے پہلے اپنی رائے کی وضاحت کرنا چاہیں.اس پر چوہدری صاحب نے کہا کہ پانچ میں سے دو تو ہم ہیں.آپ بیشک ہمارے نام اس فہرست سے کاٹ دیں.اور جہاں تک آراء کی وضاحت کا تعلق ہے تو وہ رائے شماری کے بعد پیش کی جاسکتی ہے.مگر صدر صاحب آمادہ نہ ہوئے.اُن پر دباؤ بھی نہیں ڈالا جا سکتا تھا کیونکہ اگر وہ مان بھی جاتے تو کثرتِ رائے سے رائے شماری ملتوی کرائی جا سکتی تھی.لیکن اس میں شک نہیں کہ جنرل اسمبلی کے صدر صاحب اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل صاحب دباؤ کے تحت یا ذاتی رحجانات کی وجہ سے صیہونیوں کی تائید کر رہے تھے.اور اگر التوا کی تجویز پیش ہوتی تو اس کی منظوری کے لئے صرف سادہ اکثریت درکار ہوئی تھی اور اب تک اتنے ممالک امریکہ اور سوویت یونین کے ساتھ مل چکے تھے.اُس وقت امریکہ کے صدر ٹرومین کو انتخابات میں یہودی ووٹوں کی اشد ضرورت تھی.اور وہ اس مقصد کے لئے امن عالم کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کر رہے تھے.جس طرح طاقت کا نشہ اندھا اور بہرہ بنادیتا ہے اسی طرح حکومت کی خواہش بھی اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے.بہر حال تین بجے اجلاس دوبارہ شروع ہوا.پہلے پولینڈ کے نمائندے نے تقسیم کی حمایت میں

Page 311

301 تقریر کی.اور اس کے بعد صدر جنرل اسمبلی نے اعلان کیا کہ اور ممالک کے نمائیندوں نے اظہارِ رائے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور اب ان کی تعداد بڑھ کر تیرہ ہو چکی ہے.اس کے بعد سعودی عرب کے مندوب شہزادہ فیصل کی تقریر شروع ہوئی.(شہزادہ فیصل بعد میں سعودی عرب کے بادشاہ بنے تھے ).انہوں نے ایک مختصر خطاب میں کہا کہ آج فلسطین کا نہیں اقوام متحدہ کا دن ہے اگر تقسیم کو منظور کیا گیا تو یہ ایک جارح کو ملک کا ایک حصہ دینے کے مترادف ہوگا.انہوں نے جذباتی الفاظ میں ممبران سے اپیل کی کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق تقسیم کے خلاف ووٹ دیں.اب تک مسلمان ممالک تجویز کی مخالفت میں اظہار تو کر رہے تھے لیکن ان بیانات میں ٹھوس دلائل ، اور اعداد و شمار اور حقائق کی بجائے ایک جذباتی رنگ زیادہ نمایاں تھا.وہ اس تقسیم کے خلاف مضبوط قانونی دلائل نہیں پیش کر رہے تھے اور اس تقسیم کی تفاصیل میں بھی جو عرب آبادی کے ساتھ واضح مظالم روا ر کھے گئے تھے ، اُن کا منظم طریق پر تجزیہ بھی نہیں کر رہے تھے.شہزادہ فیصل نے اپنی تقریر میں کوئی خاص دلیل پیش ہی نہیں کی تھی ، صرف جذبات کا اظہار کیا تھا.ان کے بعد شام کے سفیر نے تقریر کی تو غیر متعلقہ دلائل میں الجھ گئے اور اس رو میں بہت آگے نکل گئے.انہوں نے Jewish Encyclopedia اور امریکہ کے ایک مصنف اور کولمبیا یونیورسٹی کے دو پروفیسروں کے حوالے دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یورپ کے یہودی اصل میں تو روس کے ایک قبیلے خازار سے تعلق رکھتے ہیں اور حضرت ابراہیم کی نسل سے نہیں ہیں.اس بحث سے فارغ ہوئے تو انہوں نے پولینڈ کے نمائیندے کو یاد کرایا کہ جب ان کے ملک کو تقسیم کرنے کی سازش ہو رہی تھی تو سلطنت عثمانیہ کی سلطنت نے اس کی مخالفت کی تھی.پھر وہ امریکہ کے نمائندے کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں باور کرایا کہ وہ دنیا میں ہر جگہ کمیونزم کے خلاف مالی وسائل خرچ کر رہا ہے تو پھر وہ اس بات کو برداشت کیوں کر رہا ہے کہ سوویت یونین سے اتنی بڑی تعداد میں یہودی نقل مکانی کر کے فلسطین منتقل ہورہے ہیں.عربوں کا مؤقف سراسر انصاف اور قانون کے مطابق تھا.اور تقسیم کی تجویز ہر لحاظ سے خلاف انصاف تھی.اتنے مضبوط مؤقف کے ہوتے ہوئے کمزور دلائل کی طرف رجوع کرنا صرف اپنے آپ کو کمزور کرنے کے مترادف تھا.ایڈ ہاک کمیٹی میں تو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ہی تقریباً تمام ترامیم اور دلائل پیش کئے تھے.لیکن جنرل اسمبلی میں ہر مندوب کو اپنے

Page 312

302 خیالات کا اظہار خود کرنا تھا تو ان تقاریر میں منصوبہ بندی اور ربط کا فقدان صاف ظاہر ہو رہا تھا.یہ کاروائی اور تقاریر انٹرنیٹ پر اقوام متحدہ کی سائٹ پر موجود ہیں.ہر کوئی انہیں پڑھ کر ان حقائق کو پرکھ سکتا ہے.شام کے بعد لبنان کے مندوب کی تقریر ایک خوشگوار تبدیلی تھی.لبنان بھی تقسیم کی تجویز کی مخالفت کر رہا تھا.انہوں نے بھی جذبات کا اظہار کیا لیکن ساتھ اپنے بیان کے حق میں ٹھوس دلائل بھی پیش کئے.آغاز میں ہی انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ مختلف ممالک پر ووٹ حاصل کرنے کے لئے ناجائز دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مختلف ممالک کے نمائیندوں کو اُن کے بستروں کے اندر بھی Tackle کیا جا رہا ہے.ان کو اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں.پھر انہوں نے کہا کہ ایڈ ہاک کمیٹی میں کینیڈا کے مندوب نے سوال اُٹھایا کہ کس قانونی اصول کی بنیاد پر فلسطین ایک متحدہ ریاست کا سوال اُٹھایا جا رہا ہے.تو پاکستان کے مندوب نے فوراً جواب دیا کہ چارٹر کی بنیاد ہی حق خود اختیاری پر ہے.انہوں نے کہا کہ میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ فلسطین کی ایک متحدہ ریاست کی بنیاد اسی دلیل پر ہے، جس دلیل پر کینیڈا کی ایک متحدہ ریاست قائم ہے.اس کے بعد انہوں نے سوویت یونین کی طرف سے پیش کئے گئے بعض دلائل کا رد کیا.اور سویڈن کے مندوب کے بیان کا حوالہ دیا کہ اگر چہ یہ پلان بہت مناسب نہیں ہے لیکن ہم اسے اس لئے قبول کر رہے ہیں کیونکہ اس کا متبادل سامنے نظر نہیں آ رہا.انہوں نے کہا کہ ہمارے ضمیروں کو کیا ہو گیا ہے کہ ہم ایسے منصوبے کو منظور کرنے کی بات کر رہے ہیں ، جس پر ہمیں خود اطمینان نہیں ہے.اگر یہ منصوبہ مسترد بھی ہو جائے تو دوبارہ ایڈ ہاک کمیٹی کام شروع کر سکتی ہے اور ایک اور بہتر منصوبہ بنایا جا سکتا ہے.لبنان کے مندوب کی تقریر کے بعد یوراگوئے کے سفیر نے تقسیم کی حمایت میں ایک طویل تقریر کی.بیٹی کے ملک کی طرف سے بھی ابھی واضح اظہار نہیں ہوا تھا کہ اس کی رائے کس طرف جائے گی.اس لئے اس کے نمائندے کی تقریر کا بیتابی سے انتظار کیا جا رہا تھا.بیٹی کے نمائندے نے آغاز میں کہا کہ میں اپنے ووٹ کی وضاحت کرنے کے لئے ایک مختصر بیان دوں گا.اور کچھ تمہید بیان کرنے کے بعد واضح طور پر اعلان کیا کہ میری حکومت کے نزدیک سب کمیٹی کی تجویز تسلی بخش نہیں ہے اور اس لئے بیٹی کا نمائندہ اپنی حکومت کے نظریے کے مطابق فلسطین کی تقسیم کے خلاف ووٹ دے گا.یہ اعلان بڑی طاقتوں کے کیمپ میں کھلبلی مچانے کے لئے

Page 313

303 کافی تھا.اگر انہیں حالات میں رائے شماری ہوئی تو دو تہائی ووٹ حاصل کرنا ناممکن نظر آ رہا تھا.ہالینڈ کے نمائندے نے کہا کہ اُن کے نزدیک متحدہ فلسطین کی تجویز نا قابل عمل ہے.پھر نیوزی لینڈ اور ہالینڈ کے سفیروں نے تقسیم کی حمایت میں تقریریں کیں.اس کے بعد سوویت یونین کی طرف سے گرو میکو اپنی رائے کی وضاحت کے لئے آئے.گرومیکو ایک بہت طویل عرصہ سوویت یونین کے وزیر خارجہ رہے اور ان کے گھاگ سیاستدانوں میں سے سمجھے جاتے تھے.انہوں نے تقسیم کے حق میں ایک طویل تقریر کی اور ابتداء ہی میں کہا کہ ہم نے پہلے بھی نشاندہی کی تھی کہ فلسطین کو ایک متحدہ ریاست کی شکل دی جاسکتی ہے اگر یہودی اور عرب آپس میں مل کر رہنے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن یہودی اور عرب دونوں ہی اس کے لئے تیار نہیں ہوئے.یہ اُن کی غلط بیانی تھی کیونکہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی صدارت میں جو کمیٹی کام کر رہی تھی اور جس کی تجویز کو تمام عرب نمائندگان کی حمایت حاصل تھی اس نے تو یہی تجویز دی تھی کہ متحدہ فلسطین کی ریاست میں یہودی اور عرب برابر کے شہریوں کی حیثیت سے رہیں.اور قانون میں اقلیت کے حقوق کی ضمانت دی جائے.اس کے بعد گرومیکو نے اُن عرب ممالک پر شدید نکتہ چینی کی جنہوں نے اس مرحلہ پر سوویت خارجہ پالیسی پر تنقید کی تھی.اور برطانیہ پر تنقید کی کہ وہ اپنی تمام ذمہ داریاں نہیں ادا کر رہا.انہوں نے کہا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران یورپ میں یہودیوں پر بہت مظالم ہوئے ہیں.یہ بھی خوب دلیل تھی کہ یورپی ممالک میں یہودیوں پر مظالم کئے اور اس کی سز افلسطین کے باشندوں کو دی جارہی تھی.گرومیکو کی تقریر کے بعد صدر نے رائے شماری کرائی کہ کیا مند و بین چاہتے ہیں کہ رات کو اجلاس کرایا جائے یا نہیں.اور ساتھ یہ بھی بیان دیا کہ ابھی گیارہ مندوبین کی تقاریر باقی ہیں.اور رائے شماری بھی ہوتی ہے.اور Credential committe کی رپورٹ بھی پڑھی جانے ہے اور آخر میں سیکریٹری جنرل اور ان کی تقریر بھی ہونی ہے.اکیس نمائیندوں نے کہا کہ رات کا اجلاس ہونا چاہیے اور چوبیس نمائیندوں نے کہا کہ اسے پرسوں صبح تک ملتوی کر دینا چاہئیے.اس طرح رائے شماری ملتوی کر دی گئی.اور بڑی طاقتوں کو کچھ اور ممالک کی رائے میں تبدیلی کے لئے ایک پورا دن مل گیا.اس فیصلہ کے بعد بلجیم کے نمائندے نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ ہمیں اس تجویز کے متعلق بہت سے شبہات ہیں.اور ہم یقین سے

Page 314

304 نہیں کہہ سکتے کہ یہ منصفانہ ہے.اور اس کے نتیجے میں بہت سے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں.اور مجوزہ نقشے پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی ان خدشات کی تصدیق ہو جاتی ہے.لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں اس لئے ہم اس کے حق میں رائے دیں گے.ان کے خطاب کے بعد یہ اجلاس برخواست ہو گیا اور اقوام متحدہ میں اگلا دن تعطیل کا دن تھا.اس ایک دن کے دواران کیا ہوا.اس کا اندازہ ۲۸ اور ۲۹ نومبر کی کاروائی سے بخوبی ہو جاتا ہے.۲۸ نومبر کا اجلاس شروع ہوتا ہے اور حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا خطاب: ۲۸ نومبر کی صبح تک یہ بات صاف نظر آ رہی تھی کہ بڑی طاقتیں ہر قیمت پر دو تہائی اکثریت حاصل کر کے رہیں گی.خواہ اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے صبح گیارہ بجے اجلاس شروع ہوا.جنرل اسمبلی کے صدر نے سب سے پہلے یہ اعلان کیا کہ چونکہ ممبران کی تمام تر توجہ اس مسئلہ پر غور و فکر کی طرف ہونی چاہئیے اس لئے تقریر کے دوران کسی قسم کا اظہار تحسین(Applause) نہیں ہونا چاہئیے.صدر اسمبلی نے اجلاس اس کا روائی کے دوران کسی اور موقع پر نہیں کیا تھا.اس احتیاطی تدبیر کے بعد انہوں نے کہا کہ اب میں پاکستان کے نمائندے کو تقریر کی دعوت دیتا ہوں.اس پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب تشریف لائے اور آپ نے اپنی تقریر شروع کی.گذشتہ کچھ ہفتوں سے اقوام متحدہ طرح طرح کی سازشوں کا مرکز بنی ہوئی تھی.بڑی طاقتوں نے ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ اکثر ممالک ووٹ دیتے ہوئے اپنی ضمیر کی آواز نہ سنیں ، یہ نہ دیکھیں کہ انصاف کے تقاضے کیا ہیں بلکہ جس طرف ووٹ ڈالنے کے لئے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا اسی طرف ووٹ ڈالیں.اُس وقت اقوام متحدہ اپنی زندگی کا آغاز کر رہی تھی اور یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر یہی رنگ ڈھنگ رہا تو اس عالمی ادارے سے کسی خیر کی امید رکھنا عبث ہو گا.بہت سے ممالک تو دباؤ میں آکر اپنی رائے بدل رہے تھے یا پھر خاموش رہنے میں عافیت سمجھ رہے تھے لیکن حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کسی لمبی چوڑی تمہید کے بیان پر وقت ضائع کئے بغیر اسی اہم نکتے سے اپنی تقریر کا آغاز

Page 315

305 فرمایا.آپ نے فرمایا جناب صدر یہ امر قابل اطمینان ہے کہ آپ اس کے مقصد لئے کوشاں ہیں کہ کم از کم یہاں پر اس سوال کے متعلق بغیر کسی خلل یا اثر اندازی کے بحث ہو.کیا رائے شماری بھی اسی طرح آزادانہ اور بغیر کسی اثر اندازی کے ہوگی.اب اس بارے میں کوئی اطمینان نہیں پایا جا تا.میں اس پر زیادہ وقت نہیں لوں گا.وہ لوگ بھی جو اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ پس پردہ کیا ہورہا ہے ، پریس کے ذریعہ بہت کچھ جان چکے ہیں.یہ تو صرف ایک مسئلہ ہے اب تو یہ اندیشہ جنم لے رہا ہے کہ جو عظیم ادارہ دنیا کے مستقبل کے لئے امیدوں کا مرکز بنا ہوا ہے ، اس عظیم ادارے میں جب بھی کوئی اہم مسئلہ پیش ہوگا اور اس پر سوچ بچار ہو گی تو اس عمل کو آزاد نہیں چھوڑا جائے.یہ ایک اہم لمحہ ہے.دنیا کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے.اور اس عظیم..کم از کم ہمیں اس معاملے میں پر امید رہنے دیں کہ یہ ایک عظیم ادارہ ہے ، اس عظیم ادارے کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے.آج اقوام متحدہ کٹہرے میں کھڑی ہے.اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ کیا یہ سرخرو ہو کر نکلتی ہے کہ نہیں.شاید یہ پہلو اتنا اہم نہیں ہے کہ تقسیم منظور ہوتی ہے یا اس تجویز کو مسترد کیا جاتا ہے.زیادہ اہم یہ سوال ہے کہ آیا اہم مسائل پر اپنے ضمیر کے مطابق دیانتدارانہ اور منصفانہ فیصلے کرنے کا کوئی امکان باقی رہا ہے کہ نہیں.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے فرمایا کہ عموماً ہم تاریخ کو ماضی میں پیچھے جاتے ہوئے پڑھتے ہیں.یہ ایک غلط طریق ہے.تاریخ کو ماضی سے حال کی طرف آتے ہوئے پڑھنا چاہئیے.اس کے بعد آپ نے گذشتہ بیس سال کے حقائق کا مختصر جائزہ پیش فرمایا کہ کس طرح جب پہلی جنگِ عظیم کے دوران اتحادی ایک گھمسان کی جنگ میں الجھے ہوئے تھے ،انہوں نے عربوں کی مدد حاصل کرنے کے لئے کوششیں شروع کیں اور ان سے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد وہ اپنے اپنے ملکوں میں آزاد ہوں گے.اور معاہدے کی رو سے عربوں کا جو فرض تھا انہوں نے ادا کر دیا.اس کے بعد مغربی طاقتوں کے ایفائے عہد کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا

Page 316

306 اُن سے کئے گئے وعدے کس طرح پورے کئے گئے؟ ہمیں اکثر یاد دلایا جاتا ہے کہ ان وعدوں کے دس حصوں میں سے نو حصے تو پورے کر دیئے گئے.اور اسے کافی سمجھنا چاہیے.اگر ایسا ہی ہے تو ذرا ٹھہریں اور سوچیں کہ کیا اس کے بعد کسی عہد و پیمان بالخصوص مغربی طاقتوں کے عہد و پیمان پر بھروسہ کیا جائے گا؟ اے مغربی اقوام یا د رکھو ! شاید کل تمہیں دوستوں کی ضرورت پڑے.شاید تمہیں مشرق وسطی میں اتحادیوں کی ضرورت پڑے.میں تم سے درخواست کرتا ہوں کے اُن ممالک میں اپنے اعتماد کو برباد نہ کرو، اسے خاک میں نہ ملاؤ اس کے بعد آپ نے فریق مخالف کے دلائل کو ایک ایک کر کے لیا اور قانونی اور عقلی دلائل سے ان کا رد فر مایا.آپ نے فرمایا کہ اس بات کو بہت زور دے کر بیان کیا گیا ہے کہ اس مسئلے کو انسانی ہمدردی کے پہلو سے دیکھنا چاہئیے.یہ صرف یہودی پناہ گزینوں تک محدود نہیں جو شخص بھی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو اس کی تکالیف کا ازالہ کرنا چاہئیے.لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس مقصد کے لئے فلسطین نے اب تک کیا کیا ہے؟ پہلی جنگِ عظیم کے بعد چار لاکھ یہودی فلسطین میں پناہ لے چکے تھے اور جب نازیوں نے جرمن یہودیوں پر مظالم شروع کئے تو مزید تین لاکھ یہودی فلسطین منتقل ہو گئے.اور ان اعداد و شمار میں وہ یہودی شامل نہیں جو غیر قانونی طور پر فلسطین میں داخل ہوئے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو ممالک انسان دوستی کے اصولوں کی باتیں کر رہے ہیں اور اُن کی مالی حیثیت سب سے بڑھ کر ہے انہوں نے اس مسئلہ کے حل کے لئے اپنی جیب سے سب سے کم حصہ ڈالا ہے.مگر جب عربوں کے کھاتے سے حل تجویز کرنے کی بات ہو تو وہ نہ صرف اس کے لئے تیار ہیں بلکہ مشتاق نظر آتے ہیں.ہمیں تاریخ میں ایسے بہت کم دور نظر آتے ہیں جب یورپ کے کسی نہ کسی حصہ میں یہودیوں پر مظالم نہ کئے گئے ہوں.انگریز بادشاہ اور نواب اگر کبھی اُن سے نرم سلوک کرتے تھے تو یہودی تاجروں اور ساہوکاروں کے دانت نکلوایا کرتے تھے تا کہ اُن کو اقتصادی مدد دینے کے لئے آمادہ کیا جا سکے.اور اُس وقت یہ یہودی عرب سپین میں آ کر پناہ لیا کرتے تھے.اور عربوں کی یہ سلطنت اُن کے لئے پناہ گاہ تھی.اور آج یہ کہا جا رہا ہے کہ بیچارے یہودیوں پر یورپ میں بڑے مظالم ہوئے ہیں، اس لئے فلسطین کے عربوں کو چاہئیے کہ سپین کے عربوں کی طرح نہ

Page 317

307 صرف انہیں ٹھکانا مہیا کریں ، انہیں پناہ دیں بلکہ ایک ریاست بھی دیں تا کہ وہ عربوں پر حکومت کر سکیں.کیا ہی سخاوت ہے.کیا ہی انسانیت ہے.جب دوسری سب کمیٹی نے یہ تجویز پیش کی کہ یہودی پناہ گزینوں کو ان کے اپنے ممالک میں رہنے کی جگہ دی جائے تو آسٹریلیا نے انکار کر دیا، کینیڈا نے انکار کر دیا ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے انکار کر دیا.ایک پہلو سے یہ بات حوصلہ افزا تھی کہ شاید یہ پناہ گزین سابقہ خوفناک تجربات کی بنا پر انہی ممالک میں جانا پسند نہ کریں جہاں سے وہ نکلے تھے.جب یہ تجویز کیا گیا کہ سب ممبر ممالک اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان پناہ گزینوں کو جگہ دیں تو کیا ہوا؟ کیا آسٹریلیا کوئی چھوٹا ملک تھا؟ کثرت آبادی کا شکار تھا ؟ اس نے کہا نہیں ! نہیں !نہیں! کیا کینیڈا میں بھی آبادی بہت زیادہ ہو گئی تھی ؟ اس نے بھی کہا کہ نہیں ! اور امریکہ ایک عظیم انسانیت دوست ملک، اس کا رقبہ بھی چھوٹا ہو گیا ، اس کے پاس وسائل نہیں تھے.اس نے بھی کہا کہ نہیں! کیا یہ ممالک انسان دوستی کے اصولوں کے لئے یہی کچھ کر سکتے ہیں.مگر پھر یہی ممالک کہتے ہیں کہ ان یہودیوں کو فلسطین جانے دو وہاں تو بہت زیادہ علاقہ پڑا ہے،فلسطین کے پاس بہت زیادہ اقتصادی وسائل ہیں.اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا.ایک طرف تو مغربی حکومتیں جمہوریت کی علمبر دار بن رہی تھیں اور دوسری طرف وہ فلسطین کے عوام کو یہ حق دینے پر تیار نہیں تھیں کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں.جیسا کہ مغربی ممالک میں عوام کو حق ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں لیکن ان کی حکومتیں فلسطین کے عوام کو یہ حق دینے کو تیار نہیں تھیں.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی حکومتیں عملاً اس بات کا اعلان کر رہی ہیں دہم فلسطین کو آزاد اور خود مختار کہیں گے لیکن عملاً یہ ہماری ملکیت ہوگا.پہلے ہم فلسطین کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کریں گے.تین ٹکڑے یہودی ٹکڑے ہوں گے اور تین ٹکڑے عرب ٹکڑے ہوں گے.پھر ہم جافا کے حصے کو کاٹ کر علیحدہ کریں گے.اور فلسطین کا دل، یروشلم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک بین الاقوامی شہر رہے گا.یہ آغاز ہے اُس صورت کا جو فلسطین کو دی جائے گی.جب فلسطین کے جسم کو اس طرز پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا تو پھر ہم اس جسم کو جس سے خون رس رہا ہو گا ہمیشہ کے لئے صلیب پر کھینچ دیں گے.اور یہ

Page 318

308 عارضی نہیں ہوگا.یہ صورت حال مستقل رہے گی.فلسطین کبھی بھی اپنے باشندوں کی ملکیت نہیں بن سکے گا.یہ ہمیشہ کے لئے مصلوب رہے گا.اقوام متحدہ کو یہ قدم اُٹھانے کا کیا حق حاصل ہے.کون سا جائز حق ؟ کون سا قانونی حق حاصل ہے؟ کہ ایک آزاد ملک کو ہمیشہ کے لئے اقوام متحدہ کا غلام بنا دیا جائے؟“ امریکہ کے نمائندے کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا یونائیٹڈ اسٹیٹس کے نمائندے نے کہا ہے کہ اس مسئلہ کی کوئی نظیر نہیں موجود.ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اس کا پہلے سے اندازہ نہیں تھا اس لئے چارٹر میں اس کی گنجائش نہیں رکھی گئی.مگر کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر اٹھتیں ممالک اس تقسیم کو تسلیم کر لیں تو یہ از خود ایک قانون بن جائے گا.یونائیٹڈ اسٹیٹس کے اس بیان کی جو پہلے کمیٹی میں اور پھر پریس کو دیا گیا کیا اہمیت ہے؟ کیا اس کی یہ اہمیت نہیں ہے کہ یہ سکیم اپنے اندر کوئی قانونی ، منصفانہ اور آئینی جواز نہیں رکھتی.اور آپ کو اس سکیم کو ایک سکیم کے طور پر منظور کرنا ہوگا.آپ نے اس سکیم کی انتظامی تفصیلات کا جائزہ بیان کر کے اُن پر تنقید کی اور ان کا نا قابلِ عمل اور غیر منصفانہ ہونا ثابت فرمایا.اس کے بعد آپ نے فرمایا د فلسطین میں تیرہ لاکھ عرب اور ساڑھے چھ لاکھ یہودی موجود ہیں.اور مزید یہودیوں کے لئے جگہ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے.اس مسئلہ کا حل نظر نہیں آرہا تو کہا جا رہا ہے کہ ہمیں فلسطین کی تقسیم کرنے دو کیونکہ یہ انصاف سے بعید ہو گا اگر تنیس فیصد یہودیوں کو، جو آج فلسطین میں یہود کی آبادی ہے، ایک متحدہ ریاست میں ایک اقلیت کی حیثیت سے رہنا پڑے.تو اب ہم ایک منصفانہ حل بتاتے ہیں.عربوں کو اُن کی ریاست ملے گی اور یہودیوں کو اُن کی ریاست ملے گی.اور اس کے مطابق سرحد کھینچی جائے گی.عرب ریاست تو ان معنوں میں عرب ریاست ہوگی کہ اس میں صرف دس ہزار یہودی اور تقریباً دس لاکھ عرب ہوں گے.بہت خوب اب دیکھتے ہیں کہ یہودی ریاست کیسی ہوگی؟ اس میں ۴۶۵۰۰۰ یہودی اور ۴۳۵۰۰۰ عرب ہوں گے.یہودیوں کو عرب ریاست میں

Page 319

309 اقلیت بن کر نہیں رہنا ہو گا مگر عربوں کو یہودی ریاست میں اقلیت بن کر رہنا ہوگا.اگر ان میں سے ایک حل انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے تو دوسرا حل بھی انصاف کے مطابق نہیں ہے.اگر ان میں سے ایک مسئلے کا حل نہیں کہلا سکتا تو پھر دوسرا بھی مسئلے کا حل نہیں کہلا سکتا.اب ہمیں ایک لمحے کے لئے متعین سرحدوں کا جائزہ لینے دیں.یہودیوں کی آبادی ۳۳ فیصد اور عربوں کی آبادی ۶۷ فیصد ہے مگر فلسطین کا ۶۰ فیصد رقبہ یہودیوں کی ریاست میں شامل کیا جائے گا.اس علاقے کی کیفیت کیا ہے.ایک لمحے کے لئے ہم صحراء کو جس کا ذکر میں بعد میں کروں گا، نظر انداز کرتے ہیں.قابل کاشت اراضی میں سے موٹے طور پر میدانی علاقہ یہودیوں کو پہاڑی علاقہ عربوں کو دیا گیا ہے.برطانیہ کے نمائندے کی طرف سے نمائندگان کمیٹی کو ایک دستاویز بھجوائی گئی تھی.اس کے مطابق جس زمین کو پانی مہیا ہے اور جو قابل کاشت ہے اس کا ۸۴ فیصد یہودیوں کی ریاست کو جائے گا اور ۱۶ فیصد عربوں کی ریاست کو جائے گا.کیا ہی منصفانہ تقسیم ہے ایک تہائی آبادی کو ۸۶ فیصد رقبہ ملے گا اور دو تہائی آبادی کو ۱۶ فیصد رقبہ ملے گا.اس کے بعد چوہدری صاحب نے زراعتی درآمدات اور دیگر حقائق بیان کر کے ثابت کیا کہ کس طرح یہ تقسیم نہ صرف غیر قانونی بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی نہایت غیر مصنفانہ ہے.آپ نے صنعتی اعداد و شمار بیان فرمائے کہ کس طرح مجوزہ تقسیم میں جن صنعتوں کے مالک یہودی ہیں تقریباً ساری کی ساری یہودیوں کی ریاست میں شامل کی گئی ہیں، جبکہ عربوں کی صنعتوں میں سے بھی چالیس فیصد حصہ یہودیوں کی ریاست میں شامل کر دیا گیا ہے.اپنی اس معرکۃ الآراء تقریر کے اختتام پر آپ نے فرمایا آج اگر ہم اپنے ووٹوں سے تقسیم کی تائید نہ کریں تو اس مسئلے کو حل کرنے کے باقی راستے بند نہیں ہو جاتے.لیکن اگر آج ہم اپنے ووٹوں سے تقسیم کو منظور کر لیں تو پر امن حل کی تمام امیدیں ختم ہو جاتی ہیں.جو اس کی ذمہ داری لینا چاہتا ہے اسے ایسا کرنے دیں.میری آپ سے یہ اپیل ہے کہ اس امید کو ختم نہ کریں.اقوام متحدہ کو تو چاہیے کہ

Page 320

310 لوگوں کو متحد کرنے اور یکجا کرنے کے کے راستے ڈھونڈے ، نہ کہ ان کو تقسیم کر کے علیحدہ کرے.یونائیٹڈ اسٹیٹس کے نمائندے نے میری اُس دعا اور خواہش کا ذکر کیا تھا جس کا اظہار میں نے ایڈ ہاک کمیٹی میں اپنی تقریر کے اختتام پر کیا تھا.میں اب پھر اس دعا کو عاجزی، خلوص اور آرزو سے دہراتا ہوں.وہ جو سب دلوں پر اختیار رکھتا ہے، وہ جو دلوں کے پوشیدہ خیالات اور منصوبوں کو جانتا ہے.وہی ہے جو ہر چیز کی صحیح قدرو قیمت کو جانتا اور انسانوں کے اعمال کے نتائج سے باخبر ہے.ہمیں اپنے فضل سے آج ایسا فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے امن اور خوشحالی پیدا ہو.اس کی سب مخلوق کا بھلا ہو.اسرائیلی ،عرب، غیر اسرائیلی سب اس کی شانِ کبریائی سے فیض پاتے رہیں.آخر دعــونــا الحمد لله رب العلمين - یہ تو خلاصہ ہے.اور بہر حال ترجمہ میں اصل تقریر کی شوکت پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی.لیکن یہ خطاب ایک تقریر سے زیادہ ایک تازیانہ تھا.اس کے دلائل، اس کا زور دار انداز بیان، اس کا ربط اور اس میں بیان کردہ بے باک تجزیہ ایسے نہیں تھے جنہیں نظر انداز کر دیا جاتا.اور جس طرح چند سال بعد ہی پاکستان میں حضرت چوہدری صاحب کے خلاف تحریک چلائی گئی یا چلوائی گئی ، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس تازیانے کو بھلایا نہیں گیا تھا.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بعد چین کے نمائندے نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا اور پھر گوئٹے مالا کے مندوب نے تقسیم کی حمایت کا اعلان کیا.اور عربوں کو الزام دیا کہ ان کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف بہت نفرت پیدا ہو چکی ہے اور مسلسل پروپیگینڈا کے نتیجے میں وہ اب یہودیوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں.اس کے بعد کیوبا کے نمائندے کو بلایا گیا.کیوبا کے نمائندے نے تقسیم کی تجویز کے خلاف ایک جاندار تقریر کی اور کہا کہ ان کی حکومت اس لئے اس تجویز کی مخالفت کر رہی ہے کیونکہ یہ نہ قانونی تقاضوں کے مطابق ہے اور نہ ہی منصفانہ ہے.بالفور اعلانیہ اور لیگ آف نیشنز کے اعلانات تقسیم کی دلیل نہیں بن سکتے.کیونکہ حکومت برطانیہ یا لیگ آف نیشنز فلسطین کے مالک نہیں تھے کہ ان کا فیصلہ قبول کیا جائے.فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ فلسطین کے

Page 321

311 عوام کی خواہشوں کے مطابق ہونا چاہئیے اور ان کی رائے معلوم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی.آخر میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ، باوجود اس کے کہ ہم پر بہت دباؤ ڈالا گیا ہے کہ ہم اس کی تائید کریں ہم تقسیم کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں.لبنان کی نمائندے نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ دباؤ ڈال کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہاں تک کہہ گئے کہ دباؤ ڈالنے والے مندوبین کی خواب گاہوں تک ہی نہیں ان کے بستروں میں بھی پہنچ گئے ہیں.حضرت چوہدری صاحب نے واضح طور پر کہا کہ یہ رائے شماری آزادانہ نہیں ہو رہی اور یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اقوام متحدہ میں اب کبھی بھی آزادانہ رائے شماری نہیں ہوگی.یہی الزام کیوبا کہ مندوب نے بھی لگایا کہ ہم پر دباؤ ڈال کر تقسیم کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے.اگر ایک میونسپل انتخاب میں بھی ناجائز دباؤ ڈال کر ووٹ لینے کا الزام لگایا جائے تو اس کا نوٹس لیا جاتا ہے، تحقیقات کرائی جاتی ہیں.لیکن تین ممالک کھلم کھلا یہ الزام لگا چکے تھے.نہ صاحب صدر نے نہ کسی اور ذمہ دار آدمی نے یہ تکلف کیا کہ اسکا کوئی نوٹس لیا جائے یا کچھ نہیں تو اس کی تردید کی جائے.سب کچھ کھلم کھلا ہو رہا تھا اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی.پھر عراق کے مندوب نے آکر تقسیم کے خلاف دلائل دیئے اور اس کے ساتھ یہی الزام بھی دہرایا کہ کہ بڑی طاقتیں تقسیم کی منظوری کے لئے دباؤ ڈال رہی ہیں.دو پہر کے وقفے کے بعد کولمبیا کے مندوب نے اپنی تقریر میں یہ تجویز پیش کی کہ ایڈ ہاک کمیٹی کو یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کرانے کے لئے مزید وقت ملنا چاہئیے اور تجویز کیا کہ فروری کی ۲۹ تاریخ تک کا وقت دینا مناسب ہو گا.اس مرحلے پر فرانس کے نمائندے نے اظہارِ رائے شروع کیا اور ایڈ ہاک کمیٹی کے طریقہ کار پر تنقید کی اور کہا کہ جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا اس کے نتیجے میں دونوں فریق اور دور ہو گئے ہیں اور کہا کہ کیونکہ آج صبح کچھ مفاہمت کی فضا بنتی نظر آ رہی ہے ،اس لئے صلح کی کوششوں کو کچھ اور وقت ملنا چاہیے اور ووٹنگ چوبیس گھنٹے ملتوی ہو جانی چاہئیے.پھر ایتھوپیا کے نمائندے نے اپنے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا.معلوم ہوتا ہے کہ اب تک تقسیم کے حامیوں کو یقین ہو چکا تھا کہ انہیں مطلوبہ ووٹ حاصل ہو جائیں گے کیونکہ جب صدر نے فرانس کی تجویز پیش کی کہ چوبیس گھنٹے کے لئے ووٹنگ ملتوی کر دی جائے تو تقسیم کے حامی پولینڈ نے بڑی شد و مد سے اس کی مخالفت شروع کر

Page 322

312 دی اور کہا کہ کافی عرصہ سے یہ مسئلہ زیر بحث ہے ، اب مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا.اس لئے رائے شماری ابھی ہونی چاہئیے.لیکن ڈنمارک اور لکسمبرگ نے فرانس کی تجویز کی حمایت کی اور جب ووٹنگ کرائی گئی تو اکثریت نے چوبیس گھنٹے التواء کی حمایت کی لیکن اب سوویت یونین اور امریکہ ووٹنگ میں التواء کی مخالفت کر رہے تھے.رائے شماری اُس وقت ملتوی کی گئی جب بڑی طاقتوں کو اپنی کامیابی کا یقین ہو گیا تھا.۲۹ نومبر کو ووٹنگ کرانے کے اعلان پر اجلاس ختم کر دیا گیا.فرانس کے مندوب کی غیر متوقع تجویز پر ایک بار پھر ووٹنگ ملتوی کر دی گئی تھی.لیکن چوبیس گھنٹے کے اندر تو اس مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا تھا.اس کے لئے تو جس طرح کولمبیا کے مندوب نے تجویز دی تھی کچھ عرصہ درکار تھا.اُس وقت جنرل اسمبلی میں کیا ہو رہا تھا اس کے متعلق اُس وقت کی ایک اخباری رپورٹ کا ایک حصہ درج کیا جاتا ہے سر ظفر اللہ خان ( پاکستان ) ، جن کا تقسیم کی تجویز کے خلاف جد و جہد میں ایک بڑا حصہ ہے کل رات کے ڈرامائی التواء سے یقینی طور پر خوش نظر آرہے تھے.جو نہی انہوں نے لابی میں سعودی عرب کے امیر فیصل اور عرب ہائر کمیٹی کے جمال حسینی سے گفتگو ختم کی انہوں نے پریس کو بیان دیا کہ میرے خیال میں اس التواء کے دوران کوشش ضرور کرنی چاہئیے.ممکن ہے کہ کولمبیا کے مندوب کی تجویز کہ یہ معاملہ فلسطین کمیٹی میں واپس بھجوایا جائے، پر پھر غور ہو.ہم یقینی طور پر کولمبیا کے وفد کی تجویز کی حمایت کریں گے..اس تناؤ کو مدھم پڑنے کے لئے کچھ وقت دینا چاہیئے.اور پھر کمیٹی دوبارہ مل کر مفاہمت کی کوشش کر سکتی ہے.مزید التواء بہتر ہوگا کیونکہ اس وقت عربوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہوئی ہے.اور جو کچھ گذشتہ چند دنوں میں ہوا ہے اس کے نتیجے میں یہودی محسوس کریں کہ ہاتھ میں آئی کامیابی کو اُن سے چھین لیا گیا ہے.جب اُن سے پوچھا گیا کہ یہودی اور عربوں کے درمیان مفاہمت کی بنیاد کیا ہوسکتی ہے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر وہ مجھے ثالث مقرر کر دیں تو میں انہیں ایک حل دے سکتا ہوں.(۱۰)

Page 323

313 رائے شماری ہوتی ہے.لیکن تقسیم کے حامی بڑی مشکل سے دباؤ ڈال کر مطلوبہ ووٹوں کے قریب پہنچے تھے.وہ کسی قیمت پر اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ صلح اور مفاہمت کے نام پر مزید وقت لیا جائے اور اُن کا منصوبہ ناکام ہو جائے.اس دوران بیٹی کے نمائندے حضرت چوہدری صاحب سے ملے اور ان کی آنکھوں میں آنسو تھے.انہوں نے کہا کہ میری رائے تو آپ سن چکے ہیں لیکن اب میری حکومت نے مجھے ہدایت دی ہے کہ ہم تقسیم کے حق میں رائے دیں.۲۹ نومبر کی شام کو دوبارہ اجلاس شروع ہوا..لبنان نے ممکنہ مفاہمت کے کچھ خدو خال بیان کئے.ایران اور شام نے کوشش کی کہ دوبارہ معاملہ ایڈ ہاک کمیٹی کی طرف بھیجوایا جائے تاکہ غور کر کے مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے.لیکن امریکہ اور سوویت یونین کا اصرار تھا کہ ابھی رائے شماری کرائی جائے.جنرل اسمبلی کے صدر نے رائے شماری کرائی تقسیم کے حق میں ۳۳ ووٹ آئے ، خلاف ۱۳ ووٹ ملے اور دس ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا.اس طرح تقسیم کی قرار داد منظور ہوگئی اور دنیا کی سیاست میں ایک اور سیاہ باب کا آغاز ہوا.فلپائن اور بیٹی جنہوں نے دو روز قبل واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ اس تجویز کے خلاف ووٹ دیں گے انہوں نے بھی اس کی تائید میں ووٹ دیا.اگر ان کے ووٹ شامل نہ ہوتے تو یہ قرارداد مطلوبہ حمایت حاصل نہیں کر سکتی تھی.لائیبیریا نے بھی تقسیم کے حق میں رائے دی.ناجائز دباؤ کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا تھا کہ دو دن میں کچھ ممالک کی آراء بالکل بدل گئیں.کیا اس دوران فلسطین کے عربوں کی تعداد کم ہو گئی تھی یا یہودیوں کی تعددا زیادہ ہوگئی تھی یا فلسطین کا جغرافیہ تبدیل ہو گیا تھا.آخر کیا ہوا تھا کہ ان کی رائے تبدیل ہوگئی؟ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب عرب حکومتوں کو صورتِ حال سے مطلع کرتے ہیں: جنرل اسمبلی کے برخواست ہونے کا وقت قریب آ رہا تھا.اور یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ فیصلہ کیا ہو گا.اب حسب ہدایت حضرت چوہدری صاحب نے بہت جلد وطن واپس جانا تھا.متوقع فیصلہ کے

Page 324

314 پیش نظر شام کے صدر نے آزاد عرب ریاستوں کے سیکریٹریان خارجہ کی میٹنگ دمشق میں بلائی ہوئی تھی تا کہ صورت حال پر غور کر کے فیصلہ کیا جا سکے کہ آئیندہ کیالائحہ عمل اپنانا مناسب ہو گا؟.یہ میٹنگ بہت اہمیت کی حامل تھی اور یہ ضروری تھا کہ اس میٹنگ کے شرکا ء اقوام متحدہ کے اندر ہونے والی کاروائی سے صحیح طرح مطلع ہوں.فارس خوری نے جو اقوام متحدہ میں شام کے نمائندے تھے، حضرت چوہدری ظفر اللہ خانصاحب سے درخواست کی کہ وہ واپسی پر دمشق میں کچھ دیر ٹھہر کر اس میٹنگ کے شرکاء کو صورتِ حال سے خود مطلع کریں.چنانچہ جس روز ووٹنگ ہوئی اسی روز حضرت چوہدری صاحب دمشق کے لئے روانہ ہو گئے.و فیصلہ کے بعد مختلف ممالک کی طرف سے مختصر بیانات دیئے گئے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اپنا بیان تحریر کر کے پاکستانی وفد کے محمد ایوب صاحب کو دیا تھا تا کہ وہ اسے اُن کی طرف سے اقوام متحدہ میں پڑھ دیں.چنانچہ محمد ایوب صاحب نے حضرت چوہدری صاحب کا یہ پیغام جنرل اسمبلی میں پڑھ کر سنایا.ایک ایسا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے خوفناک نتائج نکلیں گے.اور اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے.امریکہ کے عظیم ترین شخص کے الفاظ میں خدا ہمیں جو حق دکھا رہا تھا ہم نے اسی کے لئے جد و جہد کی.ہم اس کوشش میں کامیاب ہو گئے تھے کہ ہم جس حق کو دیکھ رہے ہیں ، ہمارے ساتھی مندوبین کی کافی تعداد بھی اُسے تسلیم کرلے.لیکن انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اُس فیصلہ کا ساتھ دیں جسے وہ صحیح سمجھ رہے تھے.ہمارے دل غمگین ہیں لیکن ہمارا ضمیر مطمئن ہے.ہمیں کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا.سلطنتیں عروج پاتی ہیں اور ان کا زوال بھی ہوتا ہے.ہمیں تاریخ میں اہل بابل، مصریوں اور رومیوں اور عربوں اور اہل فارس اور ہسپانیہ کی سلطنتوں کا ذکر ملتا ہے.آج کل زیادہ تر ذکر امریکیوں اور روسیوں کا ہو رہا ہے.قرآنِ مجید کہتا ہے ہم اقوام کے درمیان ترقی اور تنزل کے ادوار کو دیکھیں گے.اور یہ گردش ہماری توجہ اس آفاقی قانون کی طرف متوجہ کراتی ہے کہ زمین پر اسی کو ثبات بخشا جاتا ہے جو خدا کی مخلوق کے لئے فائندہ مند ہو....

Page 325

315 ہمیں اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ اگر اس تجویز سے کوئی فائدہ ہو ابھی تو وہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فساد کی نسبت بہت تھوڑا ہوگا.یہ کلیتاً قانونی جواز سے عاری ہے.ہمیں ان دوستوں اور ساتھی مندوبین سے کوئی گلہ نہیں جنہیں شدید دباؤ کے تحت مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی رائے بدلیں اور ایسی تجویز کے حق میں ووٹ دیں جو عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں تھی.ہمیں تو ان سے ہمدردی ہے کہ انہیں اس شرمندگی سے دو چار ہونا پڑا کہ ایک طرف ان کی اپنی رائے اور ان کا ضمیر تھا اور دوسری طرف وہ دباؤ تھا جو اُن کی حکومتوں پر ڈالا جا رہا تھا.جو فیصلہ ابھی کیا گیا ہے پاکستان اس کی ذمہ داری سے اپنے ہاتھ دھونا چاہتا ہے.اس لئے اقوام متحدہ کا جو کمیشن اس فیصلہ پر عمل درآمد کرانے کے لئے قائم کیا جائے گا پاکستان اس کی تشکیل میں کوئی حصہ نہیں لے گا.امریکہ سے واپس آتے ہوئے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب شام ٹھہرے جہاں عرب ممالک کا اجلاس ہورہا تھا.آپ نے شام کے صدر صاحب المعالی شکری القوتلی کو تمام تفاصیل سے آگاہ کر دیا.اس دواران انہوں نے حضرت چوہدری صاحب سے مشورہ لیا کہ ہم اسرائیل کے قیام کے خلاف جنگ کریں یا نہ کریں؟ اس کے جواب میں حضرت چوہدری صاحب نے فرمایا کہ اس معاملے میں میری رائے کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ مجھے آپ کی جنگی طاقت کا کوئی علم نہیں البتہ میں اس قدر عرض کر دیتا ہوں کہ اس سوال پر غور کرتے ہوئے آپ صاحبان یہ امر ضرور ذہن میں رکھیں کہ اسرائیل کے لئے سمندر کھلا ہوگا.امریکہ کے یہودی طبقہ کی طرف سے جو بہت مالدار ہے اسرائیل کو ہر قسم کی مدد پہنچنے کی توقع ہو سکتی ہے اور اسرائیل کی جنگی تیاری اور تربیت آپ کے اندازے سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے.(۱۱) وقت نے ثابت کیا کہ چوہدری صاحب کا خدشہ بالکل درست تھا.عرب ممالک کو اسرائیل کی تیاری کا صحیح اندازہ نہیں تھا.جب جنگ شروع ہوئی تو اس کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ فلسطین کے مظلوم عرب باشندوں کے ہاتھ سے رہے سہے علاقے بھی نکل گئے.اور اسرائیل نے ان پر غاصبانہ قبضہ کر کے ان کو اپنے وطن سے باہر دکھیل دیا.

Page 326

316 حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ۵ دسمبر کو کراچی پہنچے.آپ نے اخباری نمائیندوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی اخلاقی عزت کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے.اس سے پوری دنیا پر ظاہر ہو گیا ہے کہ اس میدان میں طاقت کی سیاست ہی چلتی ہے صرف طریقے اور ہتھیار تبدیل ہو گئے ہیں.انہوں نے کہا کہ مشرقی ممالک کو یقین ہو گیا ہے کہ ابھی اس بات کی امید نہیں کی جاسکتی کہ انہیں بین الاقوامی معاملات میں بیرونی اثر اندازی کے بغیر انصاف ملے گا.اسی شام کو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے قائد اعظم سے ملاقات کی.اب قائد اعظم آپ کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کرنے کا اظہار وزیر اعظم کے سامنے کر چکے تھے.حضرت مصلح موعودؓ کا تجزیہ: اقوام متحدہ میں جس طرح فلسطین کے مسلمانوں کی حق تلفی ہوئی تھی ، اور جس طرح بڑی طاقتوں نے ناجائز دباؤ ڈال کر حق و انصاف کا خون کیا تھا، اس صورتِ حال نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں کئی اندیشوں کو جنم دیا تھا.فلسطین کے مسلمانوں کو ان کے وطن سے محروم کیا جا رہا تھا اور بڑی طاقتیں اس خطے میں اپنا رسوخ بڑھانے کے لئے فلسطین کے علاقے کو ایک اڈہ بنانے کے لئے کھیل کھیل رہی تھیں.یہ صورتِ حال اپنے اندر مسلمانوں کے لئے بہت سے خطرات لئے ہوئے تھی.اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ وہ صرف جذباتی نعروں پر اکتفا کرنے کی بجائے سب سے پہلے حالات کا صحیح تجزیہ کریں.دسمبر ۱۹۴۷ء کو حضرت مصلح موعود نے الفضل میں فلسطین کا فیصلہ کے نام سے ایک مضمون شائع فرمایا.اس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ جس طرح فلسطین کے مختصر سے علاقے کو اتنے بہت سے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اس میں ایک پائیدار حکومت کیسے قائم ہو سکتی ہے، یہ معمہ صرف یو این او کے تجربہ کار لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں.وقت کے ساتھ جب صحیح صورت حال سامنے آئی تو یہ ثابت ہو گیا کہ یہ تو صرف ابتدا تھی اصل منصوبہ یہ تھا کہ فلسطین کے عربوں سے اُن کے حصے کا علاقہ بھی چھین کر انہیں باہر نکال دیا جائے.) اس کے بعد حضور نے تحریر فرمایا ہمارے نزدیک جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ اس انتظام کی

Page 327

317 تائید میں اس لئے ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کی تحریک کے چلانے میں امریکن یہودیوں کا بہت حصہ ہے اسوجہ سے یہودیوں کے زور پکڑنے پر فلسطین میں یوایس اے کا دخل سب سے زیادہ رہیگا.اس کے بر خلاف روس یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے مشرقی یورپ سے بھاگنے والے یہودیوں کے پردے میں بہت سے ایجنٹ فلسطین میں آباد کر دئے ہیں.اور ان کے علاوہ ایک اچھی خاصی کھیپ روی کارخانوں میں طیار شدہ یہودیوں کی فلسطین میں آنے کے لئے تیار کھڑی ہے.اس لئے اس کا پلہ امریکہ سے بھاری ہو گا...انگریز عجیب مشکل میں ہیں.وہ ایک طرف تو اس بات کے شاکی ہیں کہ انہیں فلسطین میں با امن حکومت کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا.بلکہ امریکن ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ہمیشہ وہاں فساد پیدا کیا جاتا رہا ہے.دوسری طرف انہیں یہ بھی خطرہ ہے کہ اگر روس نے فلسطین میں قدم جما لئے تو سب سے زیادہ نقصان انگریزوں کو پہنچے گا.لیکن ساتھ ہی وہ نہ عربوں سے بگاڑ کرنا چاہتے ہیں.نہ یہودیوں سے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ جلد جلد فلسطین کے خالی کر دینے کا اعلان کر رہے ہیں.جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ تقسیم فلسطین کے فیصلے پر ناراض ہیں لیکن دوسری طرف وہ یہودیوں کو خوش کرنے کی بھی کوشش میں ہیں.اور یہ کام پھر اسد فعہ جنرل سمٹس کے سپرد کیا گیا جو ہمیشہ ایسے موقع پر برطانوی گورنمنٹ کے کام آیا کرتا ہے.(۱۲) حضور نے جنرل سمٹس کے بعض بیانات کا حوالہ دے کر تحریر فرمایا کہ ان کا اشارہ کسی ایسے معاہدے کی طرف ہے جو ابھی دنیا پر ظاہر نہیں ہوا.برطانیہ اقوام متحدہ میں رائے شماری کے وقت غیر جانبدار رہا تھا لیکن اب یہ شبہ پیدا ہو رہا ہے کہ اس غیر جانبداری کے پیچھے کچھ اور سکیمیں پوشیدہ تھیں.ایک پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نے تحریر فرمایا کہ یہ خبر دی گئی ہے کہ دسمبر تک انگریزی فوجیں بعض عرب اور یہودی علاقوں سے نکل جائیں گی.ان فوجوں نے جن یہودی علاقوں سے نکل جانا ہے ان کے نام ظاہر کر دیئے گئے ہیں مگر جن عرب علاقوں کو خالی کرنا ہے ان کے نام ظاہر نہیں کئے گئے.صرف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں.یہودی مخفی فو جیں دیر سے تیار کی جا

Page 328

318 رہی تھیں جبکہ عرب فوجیں اب تیار ہونی شروع ہوئی ہیں.عربوں کو بندر گاہ مل جانے کا ان کو اتنا فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ عرب سمندر کی طرف سے نہیں آرہے لیکن یہودی سمندر کی طرف سے آ رہے ہیں.پس قبل از وقت ان علاقوں کو چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی زیادہ سے زیادہ اور یہودیوں کو اپنے علاقے میں داخل کر سکیں اور ان کی طاقت مضبوط ہو.پس تل عودد کا چھوڑ دینا یہودیوں کی طاقت بڑھانے کا باعث ہوگا لیکن یافہ کو چھوڑنے سے صرف عربوں کی تجارت کو فائدہ ہوسکتا ہے.برطانیہ کی اس سکیم میں یہودیوں کو فائدہ ہے.(۱۳) حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بروقت انتباہ فرمایا تھا کہ تقسیم کے فیصلے کے بعد بھی فلسطین میں عربوں کے اردگرد ایک خوفناک سازش کا جال بنا جا رہا تھا.کچھ علاقہ اقوام متحدہ کے ذریعہ متھا یا گیا تھا اور کچھ جنگ کر کے ہتھیانے کی تیاری ہو رہی تھی.لیکن بدقسمتی سے عرب نہ تو یہودیوں کی تیاری کا صحیح اندازہ لگا پارہے تھے اور نہ انہیں آنے والے خطرات کا کوئی اندازہ تھا.تقسیم کے اس منصوبے نے نہ قابل عمل بننا تھا اور نہ بنا.دسمبر ۱۹۴۷ء میں پورا فلسطین خونریز فسادات کی زد میں آچکا تھا.اور ۱۹۴۸ء کے آغاز میں جگہ جگہ پر مسلح تصادم ہو رہے تھے.نتیجہ یہ نکلا کہ یہ مسئلہ اب اقوام متحدہ کی سیکیو رٹی کونسل کے سامنے پیش ہوا.اب امریکہ کے مندوب سیکیورٹی کونسل میں یہ تجویز پیش کر رہے تھے کہ ان حالات میں فلسطین میں اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ قائم کر دی جائے.اور فلسطین پر ایک گورنر جنرل مقرر کیا جائے.اور اپریل میں بھی جو جنرل اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا اس میں بھی امریکہ کی طرف سے ٹرسٹی شپ کی تجویز پیش کی گئی.ابھی سیاسی منظر پر یہ لے دے جاری تھی کہ برطانیہ نے ایک اور قدم اُٹھایا.قانوناً فلسطین پر برطانیہ کا مینڈیٹ یکم اگست تک جاری رہ سکتا تھا لیکن ۴ امئی کو برطانیہ نے فلسطین پر اپنا مینڈیٹ ختم کرنے کا اعلان کر دیا.اور فوراً ہی یہودیوں کی کونسل نے فلسطین میں اسرائیل کے نام سے یہودی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا.جب اس کی اطلاع صدر ٹرومین کو ملی تو انہوں نے پانچ منٹ کے اندر اس نئی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا.یہ سب کچھ اتنی عجلت میں کیا گیا کہ خود اقوام متحدہ میں امریکی سفیر بھی حیران رہ گئے.وہ بیچارے ابھی تک نیو یارک میں ٹرسٹی شپ کی تجویز کے لئے تگ و دو کر رہے تھے.جلد ہی روس اور دیگر ممالک نے بھی اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنا شروع کر دیا.اور فوراً ہی

Page 329

319 یہودی فوج اور عرب ممالک میں جنگی تصادم شروع ہو گیا (۱۳) لیکن بدقسمتی سے جیسے پہلے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور حضرت مصلح موعودؓ نے متنبہ فرمایا تھا، مسلمان اور عرب نہ تو اُن بھیانک خطرات کو سمجھ پارہے تھے جو ان کی طرف بڑھ رہے تھے.نہ انہوں نے ان حالات سے عملنے کے لئے کوئی منظم تیاری کی ہوئی تھی اور نہ ہی انہیں دشمن کی تیاری اور قوت اور عزائم کا صحیح اندازہ تھا.اس نازک موڑ پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے الـكـفـر مـلة واحدة کے نام سے ایک تاریخی مضمون تحریر فرمایا.اس میں آپ نے تحریر فرمایا وہ دن جس کی خبر قرآن کریم اور احادیث میں سینکڑوں سال پہلے سے دی گئی تھی ، وہ دن جس کی خبر تو رات اور انجیل میں بھی دی گئی تھی.وہ دن جو مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ اور اندیشناک بتایا جاتا تھا.معلوم ہوتا ہے کہ آن پہنچا ہے.فلسطین میں یہودیوں کو پھر بسایا جا رہا ہے.امریکہ اور روس جو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر آمادہ ہو رہے ہیں.اس مسئلہ میں ایک بستر کے دو ساتھی نظر آتے ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے میں بھی یہ دونوں متحد تھے.دونوں ہی انڈین یونین کی تائید میں تھے.اور اب دونوں ہی فلسطین کے مسئلہ میں یہودیوں کی تائید میں ہیں.آخر یہ اتحاد کیوں ہے.یہ دونوں دشمن مسلمانوں کے خلاف اکھٹے کیوں ہو جاتے ہیں.اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں...شاید یہ دونوں ہی اپنی دور بین نگاہ سے اسلام کی ترقی کے آثار دیکھ رہے ہیں.شاید اسلام کا شیر جوابھی ہمیں سوتا نظر آتا ہے بیداری کی طرف مائل ہے.شاید اس کے جسم پر ایک خفیف سی کپکپی وارد ہو رہی ہے.جو ابھی دوستوں کو تو نظر نہیں آتی مگر دشمن اس کو دیکھ چکا ہے.آپ نے یہودیوں کی نئی سازش کے بھیانک پہلؤوں کی طرف مسلمانوں کی توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا دیہی دشمن ایک مقتد رحکومت کی صورت میں مدینہ کے پاس سراٹھانا چاہتا ہے.شاید اس نیت سے کہ اپنے قدم مضبوط کر لینے کے بعد وہ مدینہ کی طرف بڑھے گا.جو مسلمان یہ

Page 330

320 خیال کرتا ہے کہ اس بات کے امکانات بہت کمزور ہیں.اس کا دماغ خود کمزور ہے.عرب اس حقیقت کو سمجھتا ہے.عرب جانتا ہے کہ اب یہودی عرب میں سے عربوں کو نکالنے کی فکر میں ہیں.اس لئے وہ اپنے جھگڑے اور اختلاف کو بھول کر یہودیوں کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا ہے.مگر کیا عربوں میں یہ طاقت ہے؟ کیا یہ معاملہ صرف عرب سے تعلق رکھتا ہے.ظاہر ہے کہ نہ عربوں میں اس معاملہ کی طاقت ہے اور نہ یہ معاملہ صرف عربوں سے تعلق رکھتا ہے.سوال فلسطین کا نہیں سوال مدینہ کا ہے.سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے.سوال زید اور بکر کا نہیں.سوال محمد رسول اللہ علیہ کی عزت کا ہے.دشمن با وجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہو گیا ہے.کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکٹھا نہیں ہوگا.امریکہ کا روپیہ اور روس کے منصوبے اور ہتھکنڈے، دونوں ہی غریب عربوں کے مقابل پر جمع ہیں.جن طاقتوں کا مقابلہ جرمنی نہیں کر سکا.عرب قبائل کیا کر سکتے ہیں.ہمارے لئے یہ سوچنے کا موقعہ آ گیا ہے کہ کیا ہم کو الگ الگ اور باری باری مرنا چاہئیے یا اکٹھے ہو کر فتح کے لئے کافی جدوجہد صلى الله کرنی چاہئے....مصر شام اور عراق کا ہوائی بیڑہ سو ہوائی جہازوں سے زیادہ نہیں لیکن یہودی اس سے دس گنا بیڑہ نہایت آسانی سے جمع کر سکتے ہیں.اور شاید روس تو ان کو اپنا بیڑہ نذر کے طور پر پیش بھی کر دے.بعض مسلمانوں میں یہ عادت ہے کہ جب ان کا ایک دشمن سے واسطہ پڑے تو اس کے مخالف کو خواہ مخواہ اپنی امیدوں کا مرکز بنا لیتے ہیں.خواہ عالم اسلام کے متعلق اُس کے ارادے نہایت برے ہی کیوں نہ ہوں.حضور نے ان الفاظ میں اس غلطی کی طرف توجہ دلائی.میں نے متواتر اور بار بار مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے.کہ روس مسلمانوں کا شدید دشمن ہے.لیکن مسلمانوں نے سمجھا نہیں.جو بھی اُٹھتا ہے نہایت محبت بھری نگاہوں سے روس کی طرف دیکھنے لگ جاتا ہے.اور روس کو اپنی امیدوں کی آماجگاہ بنا لیتا ہے.حالانکہ حق یہی ہے کہ سب سے بڑا دشمن مسلمانوں کا روس ہے....

Page 331

321 یقیناً روس کے عمل کا محرک امریکہ کے عمل کے محرک سے زیادہ خطرناک ہے.لیکن چونکہ عمل دونوں کا ایک ہے.اس لئے بہر حال عالم اسلامی کو روس اور امریکہ دونوں کا مقابلہ کرنا ہوگا.مگر عقل اور تدبیر سے.اتحاد اور یک جہتی سے.اس کے بعد حضور نے اس طرف توجہ دلائی کہ جب مسلمانوں پر حملہ ہو تو انہیں متحد ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئیے.اور خواہ انہیں اپنی جائیدادوں کا ایک ایک فیصد بھی فلسطین کے مسلمانوں کو دینا پڑے انہیں ایسا کرنا چاہئیے.اس طرز پر ایک خاطر خواہ رقم جمع ہوسکتی ہے.اور یورپ کی منڈی سے ہر چیز مل سکتی ہے.مگر زیادہ بولی لگانی پڑے گی.جیب بھری ہوئی ہونی چاہئیے.جب ساری طاقتیں مل کر مسلمانوں پر حملہ کر رہی ہیں تو مسلمانوں کو بھی چاہئیے کہ وہ متحد ہو کر اپنا دفاع کریں.اور اس طرح اسلام کے خلاف جو رو چل رہی ہے وہ الٹ جائے گی.اور مسلمان ایک دفعہ پھر بلندی اور رفعت کی طرف قدم بڑھانے لگیں گے.(۱۴) لیکن عرب ابھی اتنی منظم سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھے.اس جنگ کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ کہ جیسا کہ پہلے ہی سے منصوبہ تھا فلسطینیوں کو اس تھوڑے سے علاقے سے بھی محروم کر دیا گیا جو کہ اقوام متحدہ میں ہونے والی بندر بانٹ کے نتیجے میں انہیں دیا گیا تھا.لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھروں اپنے علاقوں سے نکل کر وطن بدر ہونا پڑا.وہ گھر سے بے گھر ہوئے اپنی جائیدادوں سے محروم ہوئے.ان کی املاک ان کی نہ رہیں.ان کی جگہ اب یہودیوں کو آباد کیا جا رہا تھا.یہ سب تاریخ کے معروف حقائق ہیں.آج تک عالمی منظر پر فلسطین ایک رستا ہوا زخم ہے.لیکن یہ سازش صرف فلسطین کے اُن علاقوں تک محدود نہیں تھی جن پر اب تک قبضہ کیا جا چکا تھا.بڑی طاقتوں کے عزائم بہت گہرے تھے.۱۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خطبہ جمعہ میں مسلمانوں کو خبر دار فرمایا کہ مسلمانوں کو اب فیصلہ کر لینا چاہئیے کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہر حال بہتر ہے حضور نے فرمایا کہ اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو چکی ہے.لیکن یہ بیداری جس رنگ میں ہو رہی ہے مستقبل قریب میں اس سے مثبت نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی.حضور نے قومی اخلاق کی ترقی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت نہ مسلمانوں کے قومی اخلاق اعلیٰ ہیں اور نہ ہی انفرادی اخلاق اعلیٰ ہیں.اور انفرادی اخلاق کے بغیر روحانی فتح نہیں

Page 332

322 ہوسکتی اور قومی اخلاق کے بغیر جسمانی اور مادی ترقی نہیں ہوسکتی.سب سے پہلے لیڈروں اور راہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر خاص تبدیلی پیدا کریں مگر اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی.اگر وہ شان و شوکت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں انفرادی اخلاق کو بدلنا پڑے گا.سچ، محنت ، حسنِ سلوک حسنِ ،معامله، دیانت، امانت و غیره ان سب اخلاق کو پیدا کرنا پڑے گا.جہاں تک قومی اخلاق کا تعلق ہے مسلمان ترقی کی طرف جا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنی جلدی ترقی حاصل کر لیں گے جتنی جلدی لڑائی شروع ہو رہی ہے بظاہر یہ ممکن نہیں.اب تو ایک ہی چارہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان متحد ہو جائیں کیونکہ اب کسی بھی ملک کے مسلمان محفوظ نہیں.حضور نے تحریر فرمایا کہ منصوبہ یہ ہے کہ ایک زبر دست یہودی سلطنت قائم کی جائے.کیونکہ یہودیوں کا خیال ہے کہ وہ اس کے بغیر عزت کی زندگی نہیں گزار سکتے.وہ صرف اس حصہ کو نہیں لینا چاہتے جو ابھی انہیں دیا گیا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اس حصہ کو لے لیا تو وہ آسانی سے باقی حصہ پر بھی قبضہ کر لیں گے.اس لئے انہوں نے یہ تجویز کی ہے کہ پہلے فلسطین کے ایک حصہ پر قبضہ کر لو پھر آہستہ آہستہ باقی فلسطین پر قبضہ کر لیا جائے.پھر اردن ، شام، لبنان اور مصر کے علاقوں پر قبضہ کرلیا جائے.وقت نے ثابت کیا کہ حضور کا اندیشہ بالکل درست تھا.۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے اپنے اس منصوبہ کے ایک حصہ کو عملی جامہ پہنا بھی دیا اور شام، اردن اور مصر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا.اور اس بنا پر یہ خطہ اب تک ایک آتش فشاں کی صورت اختیار کر چکا ہے.باوجود کئی دہائیوں کی مصالحتی کوششوں کے اب تک یہ مسئلے حل نہیں ہو سکے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے افغانستان کے متعلق روس کے عزائم کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا اب روس سمجھتا ہے کہ انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کی وجہ سے اُس کے لئے موقع ہے اس لئے روس کی طرف سے کوشش کی جارہی ہے اور یہ روسی ایجنٹ ہی ہیں جو افغانستان کو پاکستان کی حکومت کے خلاف بھڑکا رہے ہیں کیونکہ اگر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب ہو جائیں تو جب وہ افغانستان میں داخل ہوگا تو افغانستان

Page 333

323 کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا.اب روسیوں نے افغانستان کے شمالی علاقوں کے متعلق دعوے کرنے شروع کر دئے ہیں.جس کی وجہ سے ملک میں ایک گبھراہٹ سی پیدا ہوگئی ہے.اور پاکستان کی مخالفت اب دب رہی ہے کیونکہ انہیں یہ نظر آ رہا ہے کہ انہیں ہڑپ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.(۱۴) اُس وقت افغانستان پاکستان کے کچھ علاقوں پر دعوے کر رہا تھا.لیکن یہ امر قابل توجہ ہے کہ حضور نے ۱۹۴۸ء میں یہ انتباہ فرمایا تھا اور ۱۹۷۰ء کی دہائی میں یہ خدشات سو فیصد درست ثابت ہوئے اور روس نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں.اور افغانستان میں ایک طویل خانہ جنگی کا آغاز ہو ا جس کے دوران مسلمان ممالک بڑی طاقتوں کا آلہ کار بن گئے.اور بجائے اپنے ملک یا عالم اسلام کے مفادات مد نظر رکھنے کے کسی نہ کسی بڑی طاقت کی خوشنودی اُن کا صحیح نظر بن کر رہ گئی.خدا کرے کہ مسلمان ممالک کی آنکھیں کھلیں اور وہ بڑی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اترنے کی بجائے ایک دوسری کی حقیقی مدد کرنے والے ہوں.(۱) ترجمان القرآن بلطائف البیان مصنفہ نواب صدیق حسن خان ص۱۸۴ (۲) تفسیر مظہری جلد ہفتم ص ۱۶۰ (۳) تفسیر کبیر جلد چہارم ص ۸۳۹ (۴) تحدیث نعمت ، مصنفہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ، ص ۴۹۸ (۴) تحدیث نعمت، مصنفہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ص ۵۳۳-۵۳۴ The Civil & Military Gazette, Nov 11 1947p 7(0) The Civil & Military Gazette, November 23,p1(1) (۷) تحدیث نعمت مصنفہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ص ۵۳۴ - ۵۳۵ The Civil & Military Gazette, November 26, 1947(^) The Civil & Military Gazette, November 12, 1947 (9) The Civil & Military Gazette, November 30, 1947 p(1.) (۱۱) تحدیث نعمت مصنفہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نص ۵۳۳تا۵۳۹ (۱۲) الفضل ۱۱ دسمبر ۱۹۴۷ء ص ۳ The State of Israel by ,Galina Nikitina, Progress Publishers Moscow,50_56(۱۳) (۱۴) الفضل ۲۱ مئی ۱۹۴۸ء

Page 334

324 ریاستوں کا الحاق اور کشمیر کا المیہ ہندوستان میں ۵۶۲ ریاستیں موجود تھیں.ہندوستان کی ایک چوتھائی آبادی ان ریاستوں میں رہتی تھی اور ملک کا ایک تہائی رقبہ ان کے زیر نگیں تھا.اکثر ریاستوں کا رقبہ ہمیں مربع میل سے بھی کم تھا.مگر حیدر آباد، کشمیر اور میسور جیسی ریاستیں بھی موجود تھیں جو بہت سے آزاد ملکوں سے بڑی تھیں.گو یہ ریاستیں برطانوی سلطنت کے ماتحت تھیں لیکن اندرونی طور پر ان پر نوابوں اور راجوں کی حکومت تھی.ان کے محلات ، ان کی شان و شوکت، ان کا رعب و دبدبہ، ان کے دربار ، بیتے زمانوں کی یاد دلاتے تھے.مگر وقت کے تقاضے تیزی سے بدل رہے تھے.ان میں سے زیادہ تر ریاستیں برطانوی ہندوستان کی نسبت بہت زیادہ پسماندہ تھیں.اور اکثر والیان ریاست کو اپنی رعایا کا اعتماد حاصل نہیں تھا.ان ریاستوں کے برطانوی سلطنت کے ساتھ مختلف قسم کے معاہدے تھے، جن کے مطابق ان کا نظم ونسق چلایا جاتا تھا.اب ہندوستان آزاد ہو رہا تھا اور برطانوی حکومت یہاں سے رخصت ہو رہی تھی.اس کے ساتھ یہ معاہدے بھی ختم ہو رہے تھے.قانونی طور پر تو یہ ریاستیں آزاد تھیں.لیکن ان کی جغرافیائی پوزیشن ، اقتصادی حالات یا انتظامی اور سیاسی صورت حال ایسی تھی کہ عملاً یہ ریاستیں اس قابل نظر نہیں آرہی تھیں کہ علیحدہ اور آزاد ممالک کی حیثیت برقرار رکھ سکیں.اس صورتِ حال میں برطانوی حکوت نے اعلان کیا کہ ان ریاستوں کو اختیار ہے کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ملک سے الحاق کر لیں یا ان میں سے کسی ملک کے ساتھ باہمی رضامندی سے کوئی معاہدہ کر لیں.ریاستوں کا مسئلہ زیادہ تر ہندوستان سے تعلق رکھتا تھا.کیونکہ ۵۶۲ میں سے صرف ۱۴ ریاستیں پاکستان کے علاقے میں آ رہی تھیں اور باقی ہندوستان کی سرحدوں کے اندر واقع تھیں.لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس معاملے میں ہندوستان کی کافی مدد کی اور آزادی کا سورج طلوع ہونے سے قبل جو ریاستیں ہندوستان میں آ رہی تھیں ان میں حیدر آباد اور جونا گڑھ کے سوا ہندو اکثریت والی تمام ریاستیں ہندوستان سے الحاق کا اعلان کر چکی تھیں.حیدر آباد اور جونا گڑھ کے حکمران مسلمان تھے اور ان کے باشندوں کی اکثریت ہندو تھی.اپنی وسعت کی وجہ سے حیدر آباد کا

Page 335

325 مسئلہ ایک خاص اہمیت رکھتا تھا.ان کے علاوہ کپورتھلہ نے بھی ہندوستان سے الحاق کر لیا تھا.اگر چہ اس کی ۶۴ فیصد آبادی مسلمان تھی اور یہ ریاست مسلم اکثریت والے علاقوں کے ذریعہ پاکستان سے ملحق بھی تھی مگر اس کے حکمران مسلمان نہیں تھے.یہ ظلم صرف یہاں تک محدود نہیں رہا بلکہ جلد ہی انتہا پسند سکھوں اور ھندوؤں کے مسلح جتھے ، ریاستی حکمرانوں کے تعاون سے ریاست میں داخل ہونا شروع ہوئے اور مسلمانوں کے خون کی ہولی شروع ہو گئی.دیکھتے دیکھتے مشرقی پنجاب کی طرح کپورتھلہ سے بھی مسلمانوں کی صف لپیٹ دی گئی.جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں اب دیکھنے کو بھی مسلمان نہیں ملتا تھا.دیگر مسلمانوں کی طرح کپورتھلہ کے احمدیوں کو بھی اس قیامت کا سامنا کرنا پڑا.کشمیر کی ریاست کی اکثریت بھی مسلمان تھی مگر اس کے راجہ ہندو تھے.کشمیر کا علاقہ پاکستان سے ملحق تھا مگر جب باؤنڈری کمیشن نے ضلع گورداسپور کے مسلم اکثریت والے علاقے ہندوستان کے حوالے کئے تو ہندوستان کو بھی کشمیر تک رسائی حاصل ہوگئی.اس کے برعکس آزادی کے دن تک پاکستان کے علاقے میں واقع مسلم اکثریت والی ۱۴ ریاستوں میں سے کسی ایک نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان نہیں کیا تھا.(۱) قوموں کی تاریخ میں بسا اوقات ایک غلطی دوسری غلطی کو جنم دیتی ہے اور ایک ظلم دوسرے ظلم کا پیش خیمہ بن جاتا ہے.کشمیر کا المیہ ایک ایسی ہی کہانی ہے.مارچ ۱۸۴۶ء سے قبل ،کشمیر سکھوں کی سلطنت کا ایک صوبہ تھا.جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کو شکست دی تو باقی علاقے کو تو اپنے انتظام میں لے لیا لیکن کشمیر کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا.آج یہ بات نا قابل یقین لگتی ہے لیکن اس وقت حقیقت میں کشمیر کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا تھا.ہندو ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ سکھ سلطنت کے ایک اہم ستون تھے.اور کشمیر پر بطور گورنر کام کر رہے تھے.انگریزوں نے ڈیڑھ لاکھ پونڈ کے عوض کشمیر اور گلگت کا علاقہ ان کے ہاتھ فروخت کر دیا.اور اس طرح سلطنت برطانیہ کی سر پرستی میں رہتے ہوئے راجہ گلاب سنگھ کو کشمیر کا حکمران تسلیم کر لیا گیا.کمپنی بہادر کو ڈیڑھ لاکھ پونڈ ملے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ کشمیر کی حکومت آئی اور کشمیر کے عوام آج تک اس سودے بازی کی قیمت چکا رہے ہیں.کشمیر کی اکثریت مسلمان ہے.ان کے حکمران نسلاً اور مذہباً کشمیریوں سے بالکل مختلف تھے.کشمیر کے نئے حکمرانوں کی ترجیحات میں رعایا کے فلاح و بہبود کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی.نتیجہ یہ نکلا

Page 336

326 کہ کشمیر کے مسلمان ایک دبی ہوئی غلامانہ حیثیت میں زندگی گزارنے لگے.ان کی مدد کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی بے لوث کا وشوں کا ذکر کتاب کے حصہ اول میں آچکا ہے.جب ہندوستان کی آزادی کا دن قریب آیا تو بہت سی ریاستوں کی طرح کشمیر بھی ایک دورا ہے پر کھڑا تھا.ہندوستان کی خواہش تھی کہ کشمیر ہندوستان سے الحاق کا اعلان کرے اور پاکستان کا مؤقف تھا کہ کیونکہ کشمیر کی اکثریت مسلمان ہے اس لئے اسے پاکستان کا حصہ بننا چاہئیے.مہاراجہ ہری سنگھ سے یہ امید کم ہی تھی کہ وہ کشمیریوں کی خواہش کو پیش نظر رکھ کر کوئی فیصلہ کریں گے.انہوں نے فوری طور پر کسی فیصلے کا اعلان نہیں کیا.لیکن اگست ۱۹۴۷ء کے شروع ہی سے کشمیر کے سیاسی منظر پر ہلچل نظر آنے لگی تھی.یکم اگست سے گاندھی جی نے کشمیر کا تین روزہ دورہ شروع کیا.اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ تمہیں سال قبل انہوں نے کشمیر کے مہاراجہ آنجہانی پرتاپ سنگھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر آئیں گے.اس وعدے کو پورا کرنے کے لئے وہ کشمیر جارہے ہیں.اس کے معا بعد کشمیر کے وزیر اعظم رام چند کاک کو برطرف کر دیا گیا.رام چند کاک پاکستان سے کشمیر کے الحاق کے لئے مسلم لیگ سے بات چیت کر رہے تھے.ان کی جگہ جنگ سنگھ کو کشمیر کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا.جنگ سنگھ نسلاً کشمیری نہیں تھے ان کا تعلق ڈوگرہ راجپوتوں کے ہندو گھرانے سے تھا.اُس وقت شیخ عبداللہ اور کشمیر نیشنل کانفرنس کے دیگر راہنما مہاراجہ کے خلاف تحریک چلانے کی پاداش میں جیل میں تھے.نیشنل کانفرنس کا نگرس کی حامی تھی.مہاراجہ کے حکم پر ان راہنماؤں کو رہا کر دیا گیا.کشمیر مسلم کانفرنس کے راہنما ہندوستان سے الحاق کے مخالف تھے.ان کی سزاؤں میں کسی تخفیف کا اعلان نہیں کیا گیا.کل تک نیشنل کانفرنس والے مہاراجہ کو کشمیر سے نکالنے کی تحریک چلا رہے تھے.اب وہ مہاراجہ بہادر کی جے اور جنرل جنگ سنگھ زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے.لیکن بات سیاست کی بساط پر مہروں کو آگے پیچھے کرنے تک محدود نہ رہی.ریاست میں متعصب ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے مسلح گروہ اور مسلح سکھ جتھوں کی سرگرمیاں واضح طور پر نظر آنے لگیں.ریاست میں موجود مسلمان فوجیوں کو غیر مسلح کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا.عام شہریوں کا اسلحہ ضبط کرلیا گیا.مہاراجہ نے اپنے افسر نیپال تک بھجوا دیئے تا کہ وہاں سے گورکھا سپاہی بھرتی کئے جائیں.مہاراجہ کشمیر نے ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے دورے شروع کئے.اور مہاراجہ کے لئے جلسوں کا

Page 337

327 اہتمام کیا گیا.پونچھ کے علاقے میں جلسہ ہوا تو وہاں کے مسلمانوں نے مہاراجہ کی خدمت میں درخواست کی کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے کر دیا جائے.اب یہ آوازیں ریاست کے مختلف مقامات سے اٹھ رہی تھیں.ان کو دبانے کے لئے فوجی قوت کا سہارا لیا گیا.ڈوگرہ فوجیوں اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے کارکنوں اور سکھ جتھوں نے ریاست میں داخل ہونا شروع کیا.مغربی پاکستان سے جو سکھ اور ہندو پناہ گزیں کشمیر میں داخل ہو رہے تھے انہیں مسلح کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا گیا.اور اس کے برعکس حکومت کشمیر نے کئی علاقوں میں مسلمانوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنا لائسنس والا اسلحہ بھی حکومت کے پاس جمع کرا دیں.اور اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ کشمیر کی فوج کے مسلمانوں کو بھی غیر مسلح کر دیا گیا (۲).پونچھ ، میر پور اور دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی قتل و غارت شروع کر دی.بے قصور مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا گیا.عورتوں کی عصمت دری کی گئی مسلمانوں کے گھر نذر آتش کئے گئے.بہت سے مسلمان دیہات کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا.جو مسلمان پاکستان جانا چاہتے ان کو بحافظت پاکستان جانے دیا جاتا لیکن جو اپنے گھروں میں رہنا چاہتے ان کو ہر قسم کے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا.پاکستان کے علاقے سے جلنے والے دیہات نظر آ رہے تھے.تحصیل باغ میں ایک جگہ مسلمان جلسے کے لئے جمع ہوئے تو ڈوگرہ فوج نے نہتے شہریوں پر فائر کھول دیا.دیکھتے دیکھتے بے شمار شہریوں کو اپنے خون میں نہلا دیا گیا.پاکستان کی سرحد پر دیہات کو جبراً خالی کرانے کا عمل شروع کیا گیا.کشمیر میں بہت سے مقامات پر احمدی آباد تھے.جب کشمیر پر یہ قیامت گزر رہی تھی تو یہ امرسب احمدیوں کے لئے تشویش کا باعث بن رہا تھا.پونچھ کے علاقے میں پچاس ہزار سے زائد مسلمان دوسری جنگِ عظیم کے دوران فوج میں کام کر چکے تھے.انہوں نے عورتوں اور بچوں کو پاکستان بھجوایا اور خود قبائلی علاقے سے اسلحہ حاصل کر کے اپنا مسلح دفاع شروع کر دیا.اور دیکھتے دیکھتے پونچھ اور میر پور کے اکثر علاقے ریاستی حکومت کے ہاتھ سے نکل گئے.(۳ تا ۶ ) دوسری طرف جونا گڑھ کی ریاست میں بھی حالات تیزی سے بدل رہے تھے.جونا گڑھ کے نواب مسلمان تھے اور یہاں کے لوگوں کی اکثریت ہندو تھی.جونا گڑھ ایک ساحلی ریاست تھی جس کے اردگرد ہندوستان کا علاقہ تھا.اور پاکستان سے اس کا رابطہ سمندر کے ذریعہ ہی ہوسکتا تھا.آزادی

Page 338

328 کے فوراً بعد نواب جونا گڑھ نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا.کچھ تاخیر کے بعد پاکستان نے اس الحاق کو منظور کر لیا.ہندوستان کی حکومت نے اس الحاق پر حکومت پاکستان سے احتجاج کیا اور اس الحاق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.کاٹھیا وارڈیفنس فورس کے نام سے ایک فوج تیار کی گئی.اور ہندوستان کی فوج اور ملحقہ ہندو ریاستوں کی فوجیں جونا گڑھ کی سرحدوں پر جمع ہونا شروع ہو گئیں.اور یکم اکتوبر ۱۹۴۷ء کو گاندھی جی کے ایک قریبی رشتہ دار سملد اس گاندھی کی صدارت میں بمبئی میں جونا گڑھ کی ایک متوازی حکومت قائم کر دی گئی.اس کے بعد ریاستوں کا مسئلہ بالکل ایک نیا رخ اختیار کر گیا.اگر راجہ سے اختلاف کی وجہ سے جونا گڑھ کے لوگوں کا حق تھا کہ وہ اپنی حکومت کا اعلان کر دیں تو پھر یہ حق کشمیر کے لوگوں کو بھی حاصل تھا.اور کشمیر میں تو مسلمان قتل و غارت کا نشانہ بنے ہوئے تھے.ان کے دیہات جلائے جا رہے تھے.ان کو اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا جا رہا تھا.جبکہ جونا گڑھ میں یہ صورتِ حال نہیں تھی.اگر ہندوستان کو یہ حق حاصل تھا کہ مطالبہ کرے کہ جونا گڑھ کا الحاق صرف حکمران کی مرضی کی مطابق نہیں بلکہ عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے تو یہ حق پاکستان کو بھی تھا کہ یہ مطالبہ کرے کہ کشمیر کا الحاق وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہو ، صرف کشمیر کے راجہ کو فیصلے کا حق نہیں ہونا چاہئیے.مگر دوسری طرف یہ واضح نظر آرہا تھا کہ کشمیر کا راجہ پاکستان سے الحاق نہیں کرے گا.کشمیر کی متوازی حکومت: اس سے پہلے بھی وزیر اعظم پاکستان کی صدارت میں ایک اجلاس ہو چکا تھا، جس میں کشمیری لیڈر بھی شامل ہوئے تھے اور اس اجلاس میں کشمیر میں متوازی حکومت بنانے کے سوال کو زیر غور لایا گیا تھا.کشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد یوسف صراف صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے علاوہ ،میاں افتخار الدین صاحب، فیض احمد فیض اور چوہدری حمید اللہ صاحب بھی شامل تھے.اس کمیٹی کے سپر د کشمیر کا اعلان آزادی تیار کرنا تھا (۷) کشمیر کی مسلم کانفرنس کے بہت سے لیڈر پاکستان میں پناہ لئے ہوئے تھے.انہوں نے یکم اکتو بر کو اس بات کا اعلان کر دیا کہ اب کشمیر کے عوام کشمیر کی ایک عبوری حکومت

Page 339

329 تشکیل دیں گے.(۲) حضرت مصلح موعودؓ بہت سے مواقع پر کشمیر کے بے کس اور مظلوم مسلمانوں کی راہنمائی اور مددفرما چکے تھے.اس نازک موڑ پر بھی آپ نے ان کی مددفرمائی.پاکستان میں کشمیری لیڈروں کی ایک میٹنگ بلائی گئی، جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.اس میں فیصلہ کیا گیا کہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ایک عبوری حکومت قائم کی جائے.تاکہ کشمیر کے مسلمانوں کو مہاراجہ کے مظالم سے نجات دلانے کی کوئی صورت بنے.جیسا کہ بعد میں ذکر آئے گا کہ ابتداء میں اس عبوری حکومت کے صدر نے ایک نہایت اہم اور خطرناک فریضہ سر انجام دینا تھا.اس لئے اس منصب کو قبول کرنا جان جوکھوں کا کام تھا.سب سے پہلے مفتی ضیاء الدین صاحب کو صدارت سنبھالنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے معذرت کر لی ، پھر محمد عبد اللہ قادری صاحب کو صدر بنانے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے بھی اس کی حامی نہیں بھری.بالآخر ایک احمدی لیڈر غلام نبی گل کار صاحب یہ فریضہ ادا کرنے پر آمادہ ہوئے.اور سردار ابراہیم صاحب کشمیر کے عبوری وزیر اعظم مقرر ہوئے.چونکہ ابھی ان میں سے بعض احباب نے سری نگر جا کر کشمیری عوام کا متحدہ محاذ قائم کرنے کی کوشش کرنی تھی ، اس لئے اس حکومت کا اعلان کرتے ہوئے اصلی ناموں کی بجائے کوڈ نام استعمال کئے گئے.گل کار صاحب کا کوڈ نام انور رکھا گیا.۴/اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اس حکومت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا.اور اس کے پہلے پریس ریلیز میں اعلان کیا گیا کہ چونکہ ہندوستان میں سلطنت برطانیہ کا خاتمہ ہو چکا ہے، اس لئے مہاراجہ گلاب سنگھ اور انگریزوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ اب کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اس لئے اس اعلان کے بعد کشمیر کے عوام نے حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے اور مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے.اب سے جو شخص مہاراجہ ہری سنگھ یا اُس کے کسی رشتہ دار کے احکامات کی تعمیل کرے گا اسے سزا دی جائے گی.اس حکومت کا صدر مقام مظفر آباد ہو گا ( ۸ تا ۱۰).مسٹر انور کو اس حکومت کا صدرمقرر کیا گیا ہے.۴ اور ۵ اکتوبر کو اس حکومت کے قیام کا اعلان بار بار ریڈیو پر کیا گیا.اس وقت کشمیر کے المناک حالات کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید اضطراب پایا جاتا تھا.اس اعلان سے ان میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوا.افق پر امید کی ایک نئی کرن نظر آئی.اس کا اندازہ اُس وقت پاکستان کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اردو اخبار احسان کے صفحہ اول کی سب سے بڑی سرخی سے لگایا جا سکتا ہے.

Page 340

330 اس کے الفاظ یہ تھے زنده باد مسلمانان کشمیر کشمیر کے غیور مسلمانوں نے مہاراجہ کی حکومت کے مقابلے پر اپنی متوازی حکومت قائم کر لی.عارضی جمہوری حکومت کا ہیڈ کوارٹر مظفر آباد قرار پایا ہے.اس حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ ہری سنگھ کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں رہا.ریاست کشمیر کے تمام باشندوں کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ آج سے ہری سنگھ یا ان کے رشتہ داروں یا مقرر کردہ افسروں کا کوئی حکم نہ مانیں مسٹر انور عارضی جمہوری حکومت کے صدر منتخب ہوئے ہیں کشمیر میں مہاراجہ کی حکومت نے ان اخبارات اور رسائل کے خلاف سخت کاروائی شروع کر دی جو پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمائت کر رہے تھے.(۱۱) یہ تو نظر آ رہا تھا کہ مہاراجہ کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ کر دے گا.مگر اس راستے میں یہ مسئلہ در پیش تھا کہ کشمیر کا بیرونی دنیا سے رابطہ پاکستان سے گذر کر تھا.باؤنڈری کمیشن نے مسلم اکثریت کا ضلع گورداسپور ہندوستان کے حوالے کر کے ہندوستان کو کشمیر سے متصل علاقہ تو مہیا کر دیا تھا لیکن ضلع گورداسپور کی تحصیل پٹھانکوٹ اور کشمیر کے درمیان کوئی پل موجود نہیں تھا.ان مخدوش حالات میں یہ اطلاع موصول ہوئی کہ راوی کے اوپر پل بنا کر مشرقی پنجاب اور کشمیر کے درمیان رستہ بنایا جا رہا ہے.اور اس کے ساتھ ہی اخبارات میں یہ خبریں شائع ہونے لگ گئیں کہ اس راستے کے قابل استعمال ہوتے ہی کشمیر ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دے گا.(۱۲) مسلمانانِ کشمیر کی تحریک کے ایک اہم کارکن کیانی صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ سے جماعت کا ہوائی جہاز لے کر اس پل کی تعمیر کا معائنہ کیا تو انکشاف ہوا کہ راوی پر کشتیوں کا پل تعمیر کیا جا چکا ہے.(۱۳) طے شدہ پروگرام کے بعد غلام نبی گل کار صاحب تمام خطرات کے باوجودسرینگر چلے گئے.ان حالات میں یہ بہت جراءت مندانہ قدم تھا.کیونکہ مہاراجہ کی حکومت ہر مخالف پر ہاتھ ڈال رہی تھی.بہت سے علاقوں میں تو خون ریزی کا بازار گرم تھا.یہاں تک کہ مشہور کشمیری لیڈر پریم ناتھ بزاز صاحب نے اپنی کتاب میں اس قدم کو بچگانہ اور عجیب و غریب قرار دیا ہے(۹) کیونکہ کچھ عرصہ بعد غلام نبی گل کار صاحب کو گرفتار کر لیا گیا تھا.لیکن گل کار صاحب کے وہاں جانے کا مقصد یہ نہیں تھا

Page 341

331 کہ وہ تن تنہا جا کر مہا راجہ کوگرفتار کر لیں گے جیسا کہ بزاز صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے.اُس وقت کشمیری لیڈر دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے تھے.ضرورت اس بات کی تھی کہ کشمیری اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں.اور جمہوری طرز پر کشمیری عوام کی رائے معلوم کی جائے.مہاراجہ اور ہندوستان کی حکومت اپنے مقاصد کے لئے شیخ عبداللہ صاحب پر انحصار کر رہے تھے.گل کار صاحب کے شیخ عبداللہ صاحب سے قریبی تعلقات تھے.شیخ عبداللہ صاحب کے دور حکومت میں گل کار صاحب کو قید تو رکھا گیا لیکن وہ گل کار صاحب سے بہت زیادہ متاثر بھی تھے.یہاں تک کہ برسوں بعد جب اُنہوں نے اپنی سوانح حیات آتشِ چنار تحریر کی تو اس میں گل کار صاحب کے متعلق تحریر کیا.خواجہ غلام نبی گلکار کی علیحدگی تو ذاتی طور پر میرے لئے بے حد تکلیف دہ ثابت ہوئی.وہ میرے ہم سن تھے اور میرے اولین رفیقوں میں سے ایک.پڑھے لکھے بھی تھے لیکن اس سے بڑھ کر یہ کہ بڑے با ہمت حوصلہ مند اور جری تھے.تھے تو بڑے پر خلوص لیکن قادیانی عقیدے کی وجہ سے سیاسی مسائل پر ان کی ہی رہنمائی قبول کرتے تھے ان کو قوم کی زبوں حالی کا بڑا ہی احساس تھا.ان کا زرخیز دماغ لمبی چوڑی اور دور دراز کا رسکیموں کا تانا بانا بنتا رہتا تھا.....مجھے یقین ہے کہ ان کا جسد خا کی لحد میں بھی مادر کشمیر کے آنچل میں پہونچنے کے لئے بے قرار ہوگا.(۱۴) گل کار صاحب کی شیخ صاحب سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور وقتی طور پر شیخ صاحب اس بات پر آمادہ بھی ہو گئے تھے کہ وہ قائد اعظم سے ملاقات کریں گے.اگر اُس وقت کشمیری لیڈر آپس میں متحد ہو جاتے تو اُن کی قوم کو ان المیوں کا شکار نہ ہونا پڑتا جن سے وہ گذشتہ پچاس برسوں سے نشانہ بن رہے ہیں.وہ وقت یہ سوچنے کا نہیں تھا کہ مجھے کیا خطرہ ہے.وہ وقت سب کچھ قربان کر کے قوم کو بچانے کا تھا.اور گل کار صاحب نے یہ قربانی دی.اگر سب لیڈر اسی جذبے سے اپنے مفادات کی قربانی پیش کرتے تو آج کشمیر کا یہ حال نہ ہوتا.ریاستوں کے مسئلے پر حضرت مصلح موعود کا بیان: ۱۵ اکتوبر کو مہاراجہ نے مہر چند مہا جن صاحب کو کشمیر کا نیا وزیر اعظم مقرر کر دیا.یہ وہی مہر چند

Page 342

332 مہاجن صاحب تھے جنہیں کانگرس کی طرف سے باؤنڈری کمیشن میں حج نامزد کیا گیا تھا اور جنہوں نے کمیشن میں ضلع گورداسپور کے مسلم اکثریت کے علاقے ہندوستان کو دلوانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی تھی.اور جب اس فیصلے سے ہندوستان کو کشمیر تک رسائی مل گئی تو انہیں کشمیر کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا.ان کا تعلق کشمیر سے نہیں تھا.انہوں نے وزیر اعظم بنتے ہی بیان دیا کہ جو لوگ موجودہ حکومت کے مقابل پر متوازی حکومت بنا رہے ہیں ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جیسا سلوک باغیوں سے کیا جاتا ہے.انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان کشمیر میں مسلح باغی بھجوا رہا ہے اور تعاون کرنے پر حکومت ہندوستان کا شکریہ ادا کیا.( ۱۵ ) مہاجن صاحب کا اگلا قدم یہ تھا کہ انہوں نے کشمیری پنڈت راہنماؤں کو بلا کر انہیں مسلح کرنے کی پیشکش کی مگر شیخ عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس میں انہیں خاص کامیابی نہیں ہوئی.ریاست کی افواج کو اب متوقع جنگ کے لئے مختلف مقامات پر بالخصوص پاکستان کے ساتھ سرحد پر بھجوانے کا عمل شروع کر دیا گیا.ڈوگرہ فوج نے سرحد کی خلاف ورزی کر کے پاکستان کے دیہات پر حملہ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا.اور اس وقت پاکستان کی حکومت اس حالت میں نہیں تھی کہ اپنی ساری سرحد کی حفاظت کر سکے، البتہ اس پر کشمیر کی حکومت سے احتجاج کیا گیا (۱۶ تا ۱۸).ایک دوسرے پر اعتماد کے فقدان کے باعث مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی.اب باہمی تناؤ کی کیفیت سے لگ رہا تھا کہ اس مسئلے پر دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے.اس مرحلے پر صورت حال یہ تھی کہ کشمیر کا راجہ ہندو تھا اور رعایا کی اکثریت مسلمان تھی اور ابھی کشمیر نے کسی ملک کے ساتھ الحاق کا اعلان نہیں کیا تھا مگر آثار واضح تھے کہ جلد ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا جائے گا.پاکستان کا مؤقف تھا کہ کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہئیے.حیدر آباد کا حکمران مسلمان تھا اور رعایا کی اکثریت ہند و تھی حیدر آباد کی ریاست نے بھی ابھی کسی ملک کے ساتھ الحاق کا اعلان نہیں کیا تھا مگر ہندوستان کی حکومت کا اصرار تھا کہ حیدر آباد کا الحاق ہندوستان کے ساتھ ہونا چاہئیے.جونا گڑھ کے مسلمان نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا لیکن ہندو آبادی کی اکثریت ہندوستان کے ساتھ الحاق کی خواہاں تھی اور ہندوستان کا مؤقف تھا کہ جونا گڑھ کا الحاق عوام کی مرضی کے مطابق ہندوستان کے ساتھ ہونا چاہئیے اور اس الحاق کو حکومت ہندوستان نے تسلیم نہیں کیا تھا.اس مرحلے پر حضرت

Page 343

333 مصلح موعودؓ نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بنیادی اصول بیان فرمایا.پاکستان یا ہندوستان میں ریاستہائے کشمیر و حیدر آباد کی شمولیت کا فیصلہ بیک وقت ہونا چاہئیے.خواہ حکمران یا خواہ عوام کو شمولیت کے فیصلے کا مجاز قرار دیا جائے لیکن دونوں ریاستوں کے فیصلہ کا معیار ایک ہی ہونا چاہئیے.ساتھ ہی حضور نے ارشاد فر مایا کہ کشمیر کا پاکستان میں شامل ہونا اشد ضروری ہے.کیونکہ اگر کشمیر ہندوستان میں شامل ہو گیا تو پاکستان کی سرحد پانچ سومیل لمبی ہو جائے گی.اور حملے کا خطرہ بڑھ جائے گا.(۱۹) حقیقت یہی تھی کہ ریاستوں کے معاملے میں بنیادی اصول طے کئے بغیر اس تنازع کوحل کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی تھی.اگر صحیح وقت پر ایک اصول وضع کر کے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو یہ خطہ بہت سے مصائب سے بچ سکتا تھا.مہا راجہ ہندوستان سے الحاق کا اعلان کرتا ہے: لیکن اب حالات کو سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں تھا.ایک طرف تو کشمیری مسلمانوں کی آزاد فوج جسے اس وقت عوامی فوج کہا جاتا تھا ضلع پونچھ کے بیشتر علاقے پر قابض ہو چکی تھی اور یہاں پر صرف پونچھ شہر پر ڈوگرہ فوج کا قبضہ تھا.اس کے علاوہ اکھنور تک راجوری اور میر پور کے اضلاع پر بھی آزاد افواج کا قبضہ تھا.یہاں پر مہاراجہ کی فوج نوشہرہ کی مضبوط چھاؤنی میں اپنے قدم جمائے ہوئے تھی.مظفر آباد کے محاذ پر بھی عوامی فوج سری نگر کی طرف بڑھ رہی تھی.(۲۰) ۲۰ اکتوبر کو سرحد کے گورنر کو اطلاع ملی کہ محسود قبیلے کے نوسو افراد لاریوں میں کشمیر کی طرف روانہ ہوئے ہیں.ان کو ایک مقام پر روکنے کا حکم دیا گیا مگر یہ قافلہ پہلے ہی اس مقام سے نکل چکا تھا.ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا.دو ہزار کے قریب قبائلی ایبٹ آباد سے ہوتے ہوئے ۱۲۲ اکتوبر کو کشمیر میں داخل ہو گئے.محسود کے علاوہ آفریدی اور وزیر قبیلے کے بہت سے مسلح افراد کشمیر میں داخل ہو رہے تھے.سرحد پر ریاست کشمیر کی فوج ایسی پوزیشن میں موجود تھی کہ وہ ان غیر منظم حملہ آوروں کو روک سکتے تھے مگر ان کے مسلمان دستوں نے اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کر

Page 344

334 دی.جس کے نتیجے میں ڈوگرہ فوج کوئی خاص مزاحمت نہ کر سکی.اور قبائلی حملہ آور تیزی سے آگے بڑھنے لگے.اور جب قبائلی دستے دو میل اور مظفر آباد سے آگے نکلے تو ان شہروں سے شعلے بلند ہو رہے تھے.آزاد کشمیر کی عبوری حکومت نے الزام لگایا کہ مہاراجہ کی فوج کی فورتھ ڈوگرہ رائفل نے پسپا ہوتے ہوئے آگ لگائی تھی اور ہندوستان نے الزام لگایا کہ یہ آگ قبائلی حملہ آوروں نے لگائی تھی.وجہ کچھ بھی ہو اب اس علاقے کے عوام کو نئے مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا.(۲۱) بہت سے مقامات پر مسلمانوں اور ھندوؤں کو بھی مختلف گروہوں کی طرف سے لوٹ مار قبل و غارت اور انسانیت سوز مظالم کا سامنا کرنا پڑا.اس وقت تک گل کار صاحب تو گرفتار ہو چکے تھے.پونچھ میں پلندری کے مقام پر کشمیر کی عبوری حکومت کی تشکیل نو کا اعلان کیا گیا.اور سردار ابراہیم جو گذشتہ اعلان میں وزیر اعظم تھے ، نئے صدر مقرر ہوئے.سردار ابراہیم نے اعلان کیا کہ اب سے اس حکومت کا صدر مقام پلندری ہو گا.اب کشمیر کا بہت سا حصہ اس عبوری حکومت کے قبضے میں آچکا تھا (۲۲) دوسری طرف ۲۵ اکتوبر کو قبائلی حملہ آور وادی جہلم میں آگے بڑھتے ہوئے اُوڑی کے مقام تک جا پہنچے.مہاراجہ اپنے محل میں دسہرہ کی تقریبات منا رہے تھے کہ یکلخت بجلی کی رو منقطع ہو گئی.جلد انکشاف ہوا کہ قبائلی فوجیوں نے اُس بجلی گھر پر حملہ کر دیا ہے.یہ خبر مہاراجہ کے اوسان خطا کرنے کے لئے کافی تھی.بجائے دارالحکومت سری نگر میں رہ کر دفاع کرنے کے مہاراجہ کشمیر اور ان کے وزیر اعظم مہاجن صاحب سری نگر سے عجلت میں فرار ہو کر جموں چلے گئے ، جو ہندو اکثریت کا علاقہ تھا.اب مہا راجہ کوجلد فیصلہ کرنا تھا.اس پس منظر میں بھارتی سیاستدان وی پی مین مذاکرات کے لئے کشمیر پہنچے.انہوں نے ۲۶ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور ایمر جنسی حکومت قائم کر کے شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم کا معاون مقرر کیا گیا.ہندوستان نے یہ الحاق قبول کرتے ہوئے کشمیر میں فوجیں اُتارنی شروع کر دیں.اگلے چار پانچ روز میں ۵۰ ڈکوٹا جہازوں کے ذریعہ ۶ بٹالین فوج کشمیر بھجوائی گئی اور اس کے ساتھ پٹھانکوٹ سے مزید فوج جموں کے لئے روانہ کی گئی (۲۳).ہندوستان کے گورنر جنرل نے الحاق کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے لکھا کہ بعد میں ان کی حکومت کی پالیسی کے مطابق کشمیر کے مستقبل کے متعلق وہاں کے عوام کی مرضی معلوم کی جائے گی اور اس

Page 345

335 کے مطابق کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا.(۲۴) اب قبائلی لشکروں اور عوامی فوجوں کا ٹکراؤ مہا راجہ کی ڈوگرہ فوج سے نہیں بلکہ اپنے سے کہیں زیادہ مسلح اور تربیت یافتہ ہندوستانی فوج سے تھا.قائد اعظم کو ہندوستانی فوج کے کشمیر میں داخل ہونے کی اطلاع لاہور میں ملی.آپ نے پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وادی جہلم کے راستے پاکستانی افواج کشمیر میں داخل کر لی جائیں.اس عذر کی بنا پر اس حکم کی تعمیل نہ ہوسکی کہ پاکستان کی فوج ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ یہ ہم شروع کی جا سکے.یکم نومبر ۱۹۴۷ء کوریاست کشمیر کے صوبے گلگت میں بغاوت ہو گئی.اس علاقہ کی اکثریت مسلمان تھی اور مسلمانوں پر مشتمل گلگت سکاؤٹ نے وہاں پر ڈوگرہ فوج کا صفایا کر دیا.اس بغاوت کا دائرہ تیزی سے پھیلنے لگا اور جلد بلتستان ، ہنزہ اور نگر جیسے شمالی علاقوں نے مشترکہ طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا.سردار ابراہیم کی عبوری حکومت نے پاکستان سے فوجی مدد کی درخواست کی اور ساتھ ہی اقوام متحدہ میں درخواست دی کہ ڈوگرہ فوج کے ظلموں سے ایک لاکھ شہری مارے جاچکے ہیں، اس لئے اقوام متحدہ مظلوم کشمیریوں کی مدد کو آئے.(۲۶،۲۵) ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے اس موقف کا اعادہ کیا کہ امن قائم ہوتے ہی کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جائے گا کہ وہاں کے عوام کس ملک کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں.اور اس کے ساتھ پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ قبائلی حملہ آوروں کی مدد کر رہا ہے.(۲۷) جونا گڑھ پر ہندوستان کا قبضہ: اسی وقت کشمیر سے بہت دور جنوب میں جونا گڑھ کی ریاست میں بھی حالات تیزی سے تبدیل ہور ہے تھے.جب ریاست کے ارد گرد کاٹھیا وار کے لوگوں کی آزاد فوج کے علاوہ ہندوستان کی فوج کو جمع ہوتا دیکھا تو جونا گڑھ کے مسلمان نواب اکتوبر کے آخر میں ریاست چھوڑ کر کراچی آگئے.اس آزاد فوج کو ہندوستان کی حکومت کی حمایت حاصل تھی اور یہ ریاست کی سرحدوں پر ہندوستان کے علاقے میں مسلح اور منظم ہو رہی تھی.پہلے مناودر پر قبضہ کیا گیا اور پھرے نومبر کو یہ فوج جونا گڑھ میں داخل ہو گئی.اور پھر ہندوستان نے اس ریاست کا نظم و نسق سنبھال لیا.پاکستان کی حکومت اس

Page 346

336 پوزیشن میں نہیں تھی کہ جونا گڑھ میں اپنی فوجیں بھجوا سکتی.ہندوستان کی حکومت نے پاکستان کی حکومت کو تار کے ذریعہ اطلاع دی کہ جونا گڑھ کے دیوان (وزیر اعظم شاہنواز بھٹو کی درخواست پر ہندوستان کی حکومت نے جونا گڑھ کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے.حکومت پاکستان نے اس پر احتجاج کیا کہ جونا گڑھ اب پاکستان کا حصہ بن چکا تھا.اب قانونی طور پر دیوان یا کسی اور اس شخص کو یہ اختیار نہ تھا کہ اس معاملے میں مذاکرات کرتا.اس لئے ہندوستان اس ریاست سے نکل جائے.معاملہ اقوام متحدہ کی طرف بھجوایا گیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہؤا.(۲۸) دوسری طرف یہ اشارے ملنے لگ گئے کہ ہندوستان کی حکومت حالات ٹھیک ہونے کے بعد کشمیر میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لئے کوئی رائے شماری کرانے کا رادہ نہیں رکھتی.چنانچہ شیخ عبداللہ صاحب نے جو اُس وقت کشمیری حکومت کے سب سے با اثر رکن تھے سری نگر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ شاید اگلی بہار تک کشمیر میں ریفرنڈم نہ کرایا جائے.اور جو کہ اب تک ہو چکا ہے اُس کی روشنی میں شاید یہاں پر سرے سے کوئی رائے شماری نہ کرائی جائے.اور نہ یہاں کے لوگ ایسی رائے شماری کی کوئی پرواہ کرتے ہیں.اس بیان سے ان کے ارادے واضح ہو گئے.(۲۹) مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں : اب کشمیر میں جنگ کی آگ پوری طرح بھڑک اٹھی تھی.ہندوستان کی باقاعدہ افواج کو اپنے مد مقابل پر برتری حاصل تھی.مظفر آباد کے محاذ پر آزاد فوج جو سری نگر کی طرف پیش قدمی کر رہی تھی اسے چکوٹھی تک پسپائی اختیار کرنی پڑی.اور گلگت سے آزاد فوج نے سری نگر سے تمہیں میل تک لداخ کا تمام علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا.اس برفانی علاقے میں بنیادی سہولیات سے محروم ہونے کے با وجود یه پیش رفت حیران کن تھی.بعد میں جنرل تھمایا نے (جن کا ذکر قادیان کے حالات میں آچکا ہے ) لداخ پر ہندوستانی قبضے کو بحال کرایا.اور قبائلی حملہ آور بالکل غیر منظم تھے.دوسرے وہ اپنے علاقے سے اتنا دور کبھی نہیں لڑے تھے اور اس مرحلے پر اپنا عقب محفوظ کئے بغیر آگے نکلتے گئے.ان میں کچھ جاسوسوں نے افواہ مشہور کر دی کہ ان کے مقابل دشمن ٹینک لے کر آ رہا ہے.ان میں سے بہت سے چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں محاذ سے غائب ہو گئے اور اس وجہ سے ساتھ کے

Page 347

337 علاقے میں لڑنے والے مشکلات میں مبتلاء ہو گئے.لیکن ان کامیابیوں کے باوجود ہندوستان کی فوج کو محاذ پر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا.اور جنگ طول پکڑتی جا رہی تھی.اور انہیں مقامی آبادی کی اکثریت کی مخالفت کا بھی سامنا تھا.دونوں ممالک کے گورنر جنرلوں اور پھر دونوں کے وزراء اعظم کے درمیان مذاکرات ہوئے مگر بات صرف دلائل کے تبادلے تک ہی محدود رہی.اب اطلاعات مل رہی تھیں کہ ہندوستان یہ قضیہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانا چاہتا ہے.آزادی کے معاً بعد دونوں ممالک کے درمیان یہ تنازعات انتہائی افسوسناک تھے.اور ان کی وجہ سے اس خطے کے لوگ طرح طرح کے مصائب میں مبتلاء ہورہے تھے.لیکن بااثر لوگوں کا ایک طبقہ امن کی کوششوں کی بجائے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی باتیں کر رہا تھا.اخباروں میں شائع ہونے والی یہ خبر سب کے لئے تشویش کا باعث بنی کہ ہندوستان کے جنرل کرائپا (Cariapa) نے لندن میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کی افواج چار پانچ سال میں پھر سے پاکستان اور ہندوستان کو متحد کر دیں گی (۳۰).اس صورتِ حال میں جلتی پر تیل چھڑ کنے کے لئے مشہور سکھ لیڈر تاراسنگھ صاحب نے بیان دیا کہ اب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ ناگزیر ہو چکی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس کے جواب میں ایک پریس کانفرنس میں فرمایا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہونے کی صورت میں اس خطے میں ایک تیسری طاقت کو پاؤں جمانے کا موقع مل جائے گا اور غیر ملکی زنجیروں سے آزادی کے معا بعد کوئی بھی دوبارہ اپنی گردن پر ایک نیا جوا پسند نہیں کرے گا.حضور نے تجویز پیش فرمائی کہ دونوں ممالک جنگ کرنے کی بجائے مل کر مشترکہ دفاع تیار کریں.(۳۱) افسوس اس بر وقت نصیحت کی قدر نہیں کی گئی.اور وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں اختلافات گہرے ہوتے گئے.اور یہاں کے لوگوں کو ایک طویل عرصہ اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور یہ المیہ اب تک جاری ہے.حضور نے دسمبر ۱۹۴۷ء میں الفضل میں ایک مضمون میں تحریر فرمایا کہ تقسیم ہند کے المیے میں لاکھوں آدمیوں کے ہلاک ہونے کے بعد بھی ہندوستان اور پاکستان میں کچھ لوگ ایک دوسرے کے علاقہ کو فتح کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں.اور چونکہ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے اس لئے ایسے لوگ ہندوستان میں زیادہ ہیں.آپ نے دونوں ممالک کے درمیان صلح کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تحریر فرمایا،

Page 348

338 اس حالت کے بدل جانے پر اور مسلمانوں کا ایک علیحدہ وجود بن جانے پر اگر کوئی ایسی صورت نکل سکے کہ پاکستان اور ہندوستان اپنی آزادیوں کو قائم رکھتے ہوئے پھر متحد ہو جائیں تو اس سے زیادہ اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے.ایسا متحدہ ہندوستان یقیناً ایشیا میں ایک بہت بڑا درجہ حاصل کر سکتا ہے...ہندوستان اور پاکستان کے اتحاد کے ہرگز یہ معنے نہیں کہ دونوں طاقتوں میں سے کوئی بھی اپنی آزادی کو کھو دے.ان آزادیوں کو قائم رکھتے ہوئے بھی یہ دونوں ملک ایک ہو سکتے ہیں.اس سے بھی زیادہ ایک جتنا کہ وہ ایک ہندوستان کے وقت میں تھے.اور پھر یہی قدم مزید اتحاد کے لئے رستہ کھول سکتا ہے.ہمیں جذبات کی رو میں نہیں بہنا چاہئیے.ہمیں موجودہ صورتِ حال کو تسلیم کرتے ہوئے اختلافات کی جھیل کو پاٹنے کی کوشش کرنی چاہئیے.(۳۲) لیکن افسوس اُس وقت کے ماحول میں بہت کم لوگ صلح کا پیغام سننے پر آمادہ تھے.پاکستانی خارجہ پالیسی کی زبوں حالی: دسمبر کے آخر تک ابھی کسی کو پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا گیا تھا.اس وزارت کا قلمدان ابھی تک وزیر اعظم کے پاس تھا.اور ان خطر ناک حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی طرح طرح کی مشکلات میں گھری ہوئی تھی.اور خود ملکی اخبارات بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بے بسی پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر رہے تھے.چنانچہ ۱۹ نومبر ۱۹۴۷ء کے اداریے میں اخبار احسان نے اپنے اداریے میں ان امور کے بارے میں وزیر اعظم کے بیانات کو محض اپنی بے بسی اور بے کسی کا ڈھنڈورا پیٹنا قرار دیتے ہوئے لکھا علاوہ ازیں یو این او پر ہم بھروسہ بھی کیا کر سکتے ہیں.خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ ہندوستان کے بین الاقوامی گھاگوں کے مقابلے میں ہمارے وکیل اصفہانی اور بیگم تصدق حسین قسم کے افراد ہیں.آخر وہ کون سی تیاری ہے جس کے بل پر ہم یقین کریں کہ یو این او کی بین الاقوامی عدالت ہمارے معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے گی؟ ہم تو آجنگ ان اسلامی ممالک کو بھی اپنا ہمنوا نہ بنا

Page 349

339 سکے جو بغیر کسی جد و جہد کے محض اسلامی تڑپ کی بنا پر ہماری آواز میں آواز ملانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.کشمیر پر اغیار کا قبضہ ہو گیا.جونا گڑھ چھین لیا گیا.منادر کو ہڑپ کرلیا گیا مگر دنیا کی حکومتوں کو چھوڑئیے کیا کسی ایک اسلامی حکومت کو بھی ہم نے ان حالات کے متعلق کوئی ایسی واقفیت بہم پہنچائی جس کے نتیجے میں ہمارے بین الاقوامی ہمدردوں کا دائرہ وسیع ہو سکتا؟ پھر کیا ہم انہی تیاریوں کے ساتھ یو این او میں جائیں گے؟ اور پھر وزیر اعظم کے بیان کے متعلق لکھا کہ اس میں ہم وفاداروں کے لئے کوئی پیامِ امید نہیں صرف پیام بدحواسی ہے اس طرح انہوں نے قوم کے حو صلے کو بلند نہیں کیا الٹا پست کیا ہے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ بنتے ہیں: اب اس بات کی ضرورت تھی کہ ایسے شخص کو پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کیا جائے جو ان نامساعد حالات میں عالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو.اس وقت بین الاقوامی سیج پر ہندوستان کا طوطی بول رہا تھا.اور اسی بھروسے پر ہندوستان کی حکومت کشمیر کا مسئلہ یو این او میں لے جانے کی تیاری کر رہی تھی.جب حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اقوام متحدہ سے پاکستان واپس آئے تو قائد اعظم نے انہیں کہا تھا کہ اب انہیں نواب بھوپال کی ملازمت ترک کر کے پاکستان کے لئے خدمات سرانجام دینی چاہئیں.اور وزیر اعظم نے کہا تھا کہ قائد اعظم کی خواہش ہے کہ حضرت چوہدری صاحب پاکستان کے وزیر خارجہ کا منصب سنبھالیں.۲۵ دسمبر ۱۹۴۷ء کو قائد اعظم کا یوم پیدائش تھا.ان کے اعزاز میں کراچی میں ایک تقریب منعقد کی گئی.ان کی آمد پر وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب نے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو اشارہ کیا کہ وہ قائد اعظم کی بائیں طرف بیٹھ جائیں.قائد اعظم نے بیٹھتے ہی کہا ظفر اللہ خان وزارتِ خارجہ کے منصب کا حلف لے گا.اور حضرت چوہدری صاحب نے اس منصب کا حلف اٹھایا.اسی مجلس میں قائد اعظم نے چوہدری صاحب کو برما کے یومِ آزادی کے موقع پر برما جانے کا کہا.یکم جنوری کو چوہدری صاحب رنگون کے لئے روانہ ہوئے.اسی دن ہندوستان نے کشمیر کا

Page 350

340 معاملہ سلامتی کونسل میں پیش کر دیا.اور اس درخواست کی سماعت کے لئے ۱۲ جنوری کی تاریخ مقرر ہوئی.چوہدری صاحب کے جنوری کو کراچی پہنچے تو ڈپٹی سیکریٹری نے انہیں بتایا کہ انہیں سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے کل ہی نیو یارک کے لئے روانہ ہونا پڑے گا.ایک بار پھر چوہدری صاحب کو کیس کی تیاری کے لئے مناسب وقت نہیں مل سکا تھا.جلدی میں کاغذات سمیٹے گئے.بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ ان کے لئے بکس تک میسر نہیں تھا.چنانچہ ان کو بوریوں میں بند کیا گیا.خوش قسمتی سے چوہدری محمد علی صاحب ( جو بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے ) وفد میں شامل تھے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے الفاظ میں ان کی لیاقت ، تدبر اور تبحر علمی سے پورا پاکستان واقف ہے.اور ان کی موجودگی باعث اطمینان تھی.طیارے میں خرابی کی وجہ سے راستے میں لندن رکنا پڑا.اسی ایک دن میں وہاں پاکستانی ہائی کمیشن میں تیاری شروع کی.اور پاکستان کا بیان تیار کیا گیا.اس وقت کے ہوائی سفر بھی بہت طویل ہوتے تھے.جب گینڈر کے ہوائی اڈے پر رکے تو برفانی طوفان جاری تھا.رات کو ایئر پورٹ میں ہی قیام کیا اور وہیں پر سٹینوگرافر نے مسودہ ٹائپ کیا اور بیچ میں صرف لکڑی کی دیوار تھی.ٹائپ رائیٹر کے شور نے وفد کو صحیح سے سونے بھی نہ دیا.اگلی صبح جب جہاز نیو یارک پہنچا تو پاکستان کے سفیر نے بتایا کہ جہاز لیٹ ہونے کی وجہ سے سلامتی کونسل کا اجلاس ۱۵ تک ملتوی کر دیا گیا.اسطرح مزید دوروز تیاری کے لئے مل گئے.وفد نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا.اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ جب حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے وزارت خارجہ کا منصب سنبھالا تو یہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں تھی.غیر تو غیر اپنے بھی کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سفارتکار ہندوستان کے کہنہ مشق سیاستدانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اور جن سہولیات کے ساتھ یہ کام شروع کیا گیا تو اس کا اندازہ تو مندرجہ بالا حقائق سے بخوبی ہو جاتا ہے.سلامتی کونسل کے اجلاس کا آغاز : ۱۵ جنوری کو اس تاریخی اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی.قاعدے کے لحاظ سے ہندوستان اس قضیہ میں مستغیث تھا.ان کے وفد کے سربراہ آئینگر تھے اور ان کے ہمراہ ستیلواڈ صاحب (جو باؤنڈری کمیشن میں کانگرس کے وکیل تھے ) اور گر جاشنکر باجپائی اور شیخ عبداللہ صاحب بھی ہندوستان

Page 351

341 کے وفد میں شامل تھے.پہلے آئینگر صاحب نے تقریر شروع کی، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مہاراجہ کشمیر نے خود کشمیر کا الحاق پاکستان سے کیا تھا.اور پاکستان نے قبائلیوں سے حملہ کرا کے خون خرابہ کیا اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی.چنانچہ پاکستان کو چاہئیے کہ حملہ آوروں کو فوری طور پر واپس بلائے اور الحاق کے متعلق ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ جہاں راجہ ایک مذہب کا ہو اور رعایا کی اکثریت دوسرے مذہب کی ہوایسی ریاست میں حکومت ہندوستان امن قائم ہونے کے بعد اس کا فیصلہ رعایا کی اکثریت کی رائے کے مطابق کرے گی.بعد میں دوسرے سفارتکاروں نے اعتراف کیا کہ اس تقریر کے بعد اراکین کی اکثریت کا تاثر تھا کہ پاکستان نے آزادی کے فوراً بعد فساد کا راستہ اختیار کیا ہے اور اس طرح عالمی امن کے لئے ایک خطرہ پیدا کر دیا ہے.اس کے بعد حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جواب دینا شروع کیا.تقریر کے آغاز میں آپ نے فرمایا کہ میری تقریر طویل ہو گی لیکن سلامتی کونسل کے اراکین کو تقسیم ہند کے تمام پس منظر سے آگاہ کرنا ضروری ہے.یہ تقریر تین اجلاسوں میں جاری رہی.چوہدری صاحب نے پوری تفاصیل بیان فرمائیں کہ ہندوستانی نمائیندے نے عمداً اس قضیہ کے بہت سے پہلوؤں کو پس پردہ رہنے دیا ہے.اور نہ صرف کشمیر بلکہ پنجاب اور کپورتھلہ میں ہونے والے اندوہناک واقعات بیان فرمائے.اور پھر پورا پس منظر بیان فرمایا کہ کس طرح کشمیر میں بھی مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کیا گیا اور پھر وہاں کے حالات بگڑتے بگڑتے یہاں تک پہنچے.اور ان پیچیدہ تفاصیل سے ظاہر کیا کہ اس جھگڑے میں قصور حکومت ہندوستان کا بنتا ہے.تقریر کے اختتام پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے فرمایا ' مجھے احساس ہے کہ میں نے اس مسئلہ پر سیکورٹی کونسل کا کافی شاید بہت زیادہ وقت لیا ہے.مجھے کوئی شک نہیں کہ آپ یہ جان چکے ہیں کہ یہ ایک نہایت اہم مسئلہ ہے.جس کا تعلق لاکھوں افراد کی زندگیوں سے ہے.اس کے علاوہ اس کے بہت سے عواقب ہو سکتے ہیں.سیکیورٹی کونسل ، پاکستان اور ہندوستان کے کندھوں پر ایک اہم اور سنگین ذمہ داری کا بوجھ ڈالا گیا ہے.اگر میں نے ایک طویل سہ پہر کو ایک روز دو پہر سے پہلے اس ادارے کا وقت اس لئے لیا ہے تا کہ اس معاملے کے بارے میں اپنا نقطہ نظر

Page 352

342.بیان کرسکوں، تو مجھے یقین ہے کہ مجھے قابلِ معافی سمجھا جائے گا.اگر میں اکتاہٹ کا باعث بنا ہوں یا بعض مواقع پر ان تفاصیل میں گیا ہوں جو ممبران کونسل کے نزدیک اہم نہیں تھے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ میں نے ایسا آپ کی معاونت کی روح کے ساتھ کیا ہے تا کہ اس صورتِ حال کے تمام عوامل سامنے آسکیں.چوہدری صاحب کی تقریر کے بعد سیکیورٹی کونسل کے صدر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بہت اہم فوری نوعیت کا اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس پر فیصلہ کرتے ہوئے کچھ وقت لگ سکتا ، ہے.اور دونوں حکومتوں سے اپیل کی کہ اگر صورتِ حال میں کوئی تبدیلی ہو تو کونسل کو مطلع کیا جائے.اس کے بعد صدر سیکیورٹی کونسل نے ممبران کو تبصرہ کرنے کی دعوت دی.اس کے جواب میں سب سے پہلے سوویت یونین کے نمائندے گرومیکو نے یہ عجیب تجویز پیش کی کہ اب اس معاملے کو اگلے اجلاس تک ملتوی کر دیا جائے.جب صدر کونسل نے اس تجویز پر رائے شماری کرائی تو اس کے حق میں صرف سوویت یونین اور یوکرین کے ووٹ آئے.اور اس طرح یہ تجویز مستر د ہو گئی.یوکرین بھی عملاً سوویت یونین کا حصہ تھا.سوویت یونین اس مسئلہ پر بھارت کا ساتھ دے رہا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ تجویز اس کی ہمدردی میں اور اس کی مرضی کے مطابق پیش کی جارہی تھی.یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب بھارت کے نمائندے مسٹر آئینگر کی تقریر کے اختام پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے فرمایا تھا کہ اس تقریر میں اتنے مختلف نکات اٹھائے گئے ہیں کہ ان کا جواب دینے کے لئے انہیں کچھ وقت درکار ہوگا.تو اس پر آئینگر صاحب نے کہا تھا کہ یہ معاملہ تو فوری نوعیت کا ہے اور کسی قسم کی تاخیر مناسب نہیں ہوگی.اور اب چوہدری صاحب کی تقریر کے بعد اب بھارت کے اتحادی کوشش کر رہے تھے کہ فوری طور پر بحث شروع نہ کی جائے.اگلے روز سلامتی کونسل کا اجلاس پیجیئم کے مندوب Langehove کی صدارت میں شروع ہوا اور انہوں نے ایک قرارداد کا مسودہ پیش کیا.اس قرارداد میں ایک سہ رکنی کمیشن قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی جو سلامتی کونسل کی ہدایات کے تحت کشمیر جا کر تحقیقات کرے اور مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کرے اور سلامتی کونسل کو صحیح صورت حال سے مطلع کرے.اور جب سلامتی کونسل یہ ہدایت دے تو یہ کمیشن پاکستان اور ہندوستان کے مابین دیگر اختلافات کے بارے

Page 353

343 میں مفاہمت کے لیے کام کرے گا.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک مسودہ سلامتی کونسل میں پیش کیا تھا جو ان دیگر شکایات پر مشتمل تھا جو پاکستان کو بھارت سے تھیں.آئینگر کا اصرار تھا کہ یہ دیگر اختلافات آپس میں بات چیت کے ذریعہ طے کر لیے جائیں گے، اس وقت سلامتی کونسل کشمیر کے قضیہ کا فیصلہ کرے.یہ قرارداد ان توقعات کے مطابق نہیں تھی جن کو لے کر ہندوستان سلامتی کونسل میں آیا تھا.ان کو امید تھی کہ با آسانی پاکستان کو جارح قرار دے کر ایک قرارداد کے ذریعہ پاکستان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ کشمیر میں مداخلت بند کرے.اس پر مزید یہ کہ اس کمیشن کے دائرہ اختیار میں پاکستان اور ہندوستان کے مابین دیگر اختلافات کو بھی داخل کر دیا گیا تھا.اس کے نتیجے میں جونا گڑھ جیسے مسائل بھی زیر غور آ سکتے تھے اور بھارت کے مندوب آئینگر اس امر پر بھی خوش نہیں تھے.برطانیہ کے وزیر نوئل بیکر نے قرار داد پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ کشمیر کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر جلد حل ہوا چاہیے اور پاکستان کی حکومت کا یہ حق ہے کہ وہ دیگر معاملات کو سلامتی کونسل کے رو برو پیش کرے.۲۳ جنوری کو بھارتی مندوب مسٹر سٹیلواڈ نے سیکیورٹی کونسل سے خطاب کیا.اب تک یہ بحث ایک المیہ کے واقعات کے ارد گرد گھوم رہی تھی.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اب تک جو ہوا وہ ہندوستان کے لیے غیر متوقع تھا.انہیں اس معاملہ میں اپنی فتح کا یقین تھا.لیکن اب معاملات ان کے نقطہ نظر سے الجھ گئے تھے.مسٹر سٹیلواڈ نے اپنی تقریر کا آغاز ہی حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر ذاتی حملہ سے کیا.اور تمام تقریر میں وہ حضرت چوہدری صاحب پر اپنا غصہ نکالتے رہے اور الزامات لگاتے رہے.انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ پاکستان کے مندوب نے سکیورٹی کونسل میں پانچ گھنٹہ طویل تقریر کر کے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے.مجھے ان کی تقریر کی طوالت سے کوئی اختلاف نہیں.لیکن اس تقریر نے ہندوستان کے سوچے سمجھے زہر کے اگلنے کا بھی ریکارڈ قائم کیا ہے.پاکستان کے مندوب نے بہت سے غیر متعلقہ حقائق بیان کیے ہیں (ان کے نزدیک مشرقی پنجاب اور کپورتھلہ میں مسلمانوں کا قتلِ عام اور جونا گڑھ پر قبضہ غیر متعلقہ امور تھے ) ، بہت سے متعلقہ حقائق کو چھپایا ہے اور بہت سے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا ہے.ہندوستان کی حکومت پر غلط اور جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں.انہوں نے تقریر کے درمیان میں بھی بہت غم وغصہ کا اظہار

Page 354

344 کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری صاحب نے عمداً حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا ہے اور وہ یہ بات بار بار دہراتے رہے ،جس سے یہ تقریر ذاتی حملوں سے بھر پور ایک شاہکار کی صورت اختیار کر گئی.چوہدری صاحب نے مغربی پنجاب میں مسلمانوں کے گھروں کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا بھی ایک گھر تھا.اب میرا وہ گھر نہیں رہا ( یعنی قادیان میں چوہدری صاحب کی کوٹھی ).مسٹر سٹیلواڈ نے طنزاً کہا کہ پاکستان کے مندوب نے بڑا نقشہ کھینچا ہے کہ کبھی میرا ایک گھر تھا اب وہ نہیں رہا.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا گھر سلامت ہے اور گو اس کا کچھ سامان لوٹا گیا تھا لیکن اکثر سامان محافظت لاہور منتقل کر دیا گیا ہے.(جیسا کہ چوہدری صاحب نے جواب میں فرمایا کہ حقیقت یہ تھی کہ خود فوج اور پولیس نے کئی روز تفصیل کے ساتھ لوٹا تھا).مسٹرسٹیلواڈ نے کہا کہ صرف انہی کا نقصان نہیں ہوا بلکہ ہمارے وفد کے اراکین کا بھی نقصان ہوا ہے.اس کے علاوہ مسٹر سٹیلواڈ نے قادیان کا ذکر بھی بڑی برہمی سے کرتے ہوئے کہا کہ کہ انہوں نے اپنے قصبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ قادیان میں ۱۳۰۰۰ مسلمان تھے اور اب صرف دوسوتین سولوگ اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے رہ گئے ہیں.اس کے جواب میں مسٹر سٹیلواڈ نے کہا کہ قادیان کا نقصان اس نقصان کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا جو مغربی پنجاب میں ہندوؤں اور سکھوں کو اٹھانا پڑا ہے.یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ انہیں بہت سی تفصیلات کا علم بھی نہیں تھا اور چوہدری صاحب کے بیان کے بہت سے حصے ان کے لئے حیران کن اور نا قابل یقین تھے.لیکن اس دباؤ نے ہندوستانی وفد کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ اس بات کو غیر مبہم انداز میں دہرائیں کہ کشمیر کا الحاق مستقل تب ہی ہو گا جب وہاں کی اکثریت اس کے حق میں اظہارِ رائے کرے گی.جب اگلے روز حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اس کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو بہت سے اراکین کا خیال تھا کہ اب درشت کلامی کا جواب درشت کلامی سے دیا جائے گا.چوہدری صاحب نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ میرے فاضل دوست جنہوں نے کل بھارت کی طرف سے سلامتی کونسل میں تقریر کی تھی، ایک بہت قابل وکیل ہیں اور میرے نزدیک وہ ہندوستان میں وکالت کرنے والوں میں قابل ترین وکیل ہیں.میں ہمیشہ سے انہیں نہ صرف ایک قابل بلکہ ایک انصاف پسند وکیل بھی سمجھتا

Page 355

345 ہوں.کل انہوں نے مجھے قائل کرنے کی بہت کوشش کی ہے کہ میں ان کی دیانت کے متعلق اپنی رائے بدل لوں.لیکن میرے خیال میں یہ ایک استثنائی صورت تھی.انہوں نے میرے متعلق بہت سخت الفاظ استعمال کرنا پسند کیا ہے لیکن میں ان کے متعلق اپنی پرانی رائے پر قائم ہوں.اور اس کے بعد چوہدری صاحب نے ان کے دلائل کا موثر رد پیش کیا.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کہا کہ بھارتی مندوب نے کلکتہ کی قتل و غارت کی تمام ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی ہے اور کہا ہے کہ ان فسادات کی عدالتی تحقیق ہو رہی تھی اور اب وہ تحقیق ۱۵ اگست کے بعد روک دی گئی ہے لیکن بھارتی مندوب نے یہ نہیں بتایا کہ جس صوبہ میں یہ عدالتی تحقیق روکی گئی ہے وہاں پر خود کانگرس کی حکومت ہے.اور کلکتہ کے بعد نواکھلی میں فسادات کا افسوسناک اور قبل مذمت واقع ہوا اور وہاں کے گورنر Mr.Burrows کا اندازہ ہے کہ اس میں ۲۰۰ ہندو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے.اس کے بعد بہار کے فسادات میں ۳۰ ہزار مسلمانوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا.اور اس واقعہ میں پورے کے پورے دیہات کو نذر آتش کر دیئے گئے.چوہدری صاحب نے دیگر واقعات بیان کر کے فرمایا کہ بھارتی مندوب نے کپورتھلہ کے متعلق ایک لفظ نہیں کہا ، جہاں پر مسلمانوں کی آبادی اب صفر رہ گئی ہے.چوہدری صاحب نے پنجاب کے بعض سکھ لیڈروں کی تقاریر کا حوالہ دیا جن میں انہوں نے کہا تھا کہ سکھ اور ہندومسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلیں گے اور ایسے بیانات کے بعد پنجاب میں فسادات شروع ہوئے.پھر آپ نے کراچی اور دہلی کے حالات کا موازنہ بیان کیا اور کراچی کے غیر مسلموں کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے صوبہ سندھ کے حکام کی تعریف کی تھی کہ انہوں نے بہت مستعدی سے فسادت پر قابو پایا اور دہلی میں اگر چہ گاندھی جی نے موت تک بھو کے رہنے کا اعلان کیا مگر پھر بھی حالات قابو میں نہ آئے.اس کے بعد آپ نے کشمیر میں رونما ہونے والے حالات بیان کیے کہ کس طرح وہاں پر مہاراجہ کی فوج نے مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کر دیا تھا اور اس کے بعد کس طرح مسلمانوں کا جائز رد عمل ظاہر ہوا.تقریر کے اختتام پر آپ نے یقین دلایا کہ پاکستان اس مسئلہ کے حل کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گا.اب سلامتی کونسل میں دونوں طرف سے کافی دلائل کا تبادلہ ہو چکا تھا اور پچھلے چند ماہ میں

Page 356

346 برصغیر میں جو افسوسناک فسادات ہوتے رہے تھے ان کے متعلق بھی فریقین کا نقطہ نظر سلامتی کونسل کے سامنے آچکا تھا.کشمیر کے بارے میں بھی طویل تقاریر ہوگئی تھیں.اب سلامتی کونسل کو کوئی راستہ نکالنا تھا کہ جنگ کی بجائے مفاہمت کے ذریعہ اس مسئلہ کا حل نکالا جائے.سب سے پہلے برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا کے مندوبین نے اپنی مختصر تقاریر میں اس بات پر زور دیا کہ سلامتی کونسل کے صدر دونوں ممالک کے نمائندوں کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کا حل نکالیں.اس کے بعد فرانس کے مندوب نے اپنی تقریر کے آخر میں تین تجاویز پیش کیں.پہلی یہ کہ کشمیر سے تمام باہر سے آئی ہوئی افواج نکل جائیں.کشمیر کے وہ رہنے والے خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان جو فسادات کی وجہ سے وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے ، انہیں واپس اپنے گھروں میں آباد کیا جائے.اور ایک آزاد انتظامیہ قائم کی جائے جو کشمیر کے لوگوں پر کوئی دباؤ ڈالے بغیر وہاں پر آزادانہ رائے شماری کرائے.شام کے سفیر نے بھی اس بات کی حمایت کی کہ وہاں سے تمام افواج اور آئے ہوئے قبائلی بھی نکل جائیں اور پھر کشمیر کے عوام آزادی سے اپنا حق خود ارادیت استعمال کریں.یہ صورتِ حال ہندوستان کی امیدوں کے خلاف تھی.ان کا مطالبہ تھا کہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق ہو چکا ہے اور پاکستان نے کشمیر پر حملہ کیا ہے.پاکستان اپنے بھجوائے ہوئے قبائلی واپس بلائے اور پھر ہندوستان کی حکومت خود وہاں پر رائے شماری کرائے گی.لیکن اب سلامتی کونسل کا یہ رحجان نظر آ رہا تھا کہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ نہ صرف قبائلی وہاں سے نکلے بلکہ ہندوستان بھی اپنی بھجوائی ہوئی افواج واپس بلائے اور ایک آزاد انتظامیہ وہاں پر رائے شماری کرائے.۲۸ جنوری کو جب سلامتی کونسل کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو پاکستان اور ہندوستان کا موقف زیادہ واضح طور پر سامنے آیا.ہندوستان کا اصرار تھا کہ شیخ عبد اللہ کے تحت ایک حکومت کشمیر میں کام کرے اور پاکستان قبائلیوں کو واپس بلائے.پہلے کشمیر میں لڑائی کو روکا جائے.پھر اقوام متحدہ کے تحت رائے شماری کرائی جائے لیکن سب سے پہلی ترجیح یہ ہے کہ لڑائی کو روکا جائے رائے شماری کا معاملہ بعد میں دیکھا جائے گا.بھارتی مندوب آئینگر کا گلا بیٹھ چکا تھا.پاکستان کا موقف تھا کہ سلامتی کونسل کا مقرر کردہ کمیشن ایک غیر جانبدار حکومت قائم کرے اور پھر رائے شماری کرائی جائے.اور سلامتی کونسل رائے شماری کا معاملہ ابھی طے کرے تا کہ یہ اطمینان ہو کہ کشمیر کے لوگوں کو

Page 357

347 اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا اختیار ملے.۲۸ جنوری کو جب حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر ختم ہوئی تو کاروائی ختم ہونے سے قبل برطانیہ کے وزیر نوئل بیکر اظہارِ رائے کے لیے کھڑے ہوئے.ان کی رائے ایک خاص اہمیت رکھتی تھی.انہوں نے بڑے نپے تلے انداز میں اس بات کا اظہار کیا کہ سلامتی کونسل کو پہلے کشمیر میں رائے شماری کے متعلق فیصلہ کرنا چاہیے تا کہ کشمیر کے عوام خود فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں.کیونکہ قوت کے ذریعہ اس جنگ کو ختم نہیں کیا جاسکتا جو اس وقت کشمیر میں جاری ہے.اگر اہلِ کشمیر کو یقین ہو جائے کہ انہیں جمہوری طریق پر اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع ملے گا تو جنگ کی کیفیت خود ہی ختم ہونا شروع ہو جائے گی.اور یہ رائے شماری اقوام متحدہ کی زیر نگرانی مکمل غیر جانبداری سے کرائی جائے.اب اس بات کے امکان ختم ہوتے جارہے تھے کہ سلامتی کونسل کا فیصلہ بھارت کی حکومت کی امیدوں اور خواہش کے مطابق ہوگا.اگلے روز ۲۹ جولائی کو جب کاروائی شروع ہوئی تو صدر کونسل بلجیئم کے مندوب نے دو قرار دادیں پیش کیں.ایک میں کہا گیا تھا کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کے تحت مکمل غیر جانبدار رائے شماری کرائی جائے.اور دوسری قرار داد یہ تھی کہ سلامتی کونسل کے قائم کردہ کمیشن کا فرض ہوگا کہ وہ کشمیر میں جنگ کی حالت کو ختم کرنے کے لیے کاوشیں کرے.اس کے بعد امریکہ، کینیڈا، چین، فرانس، شام اور برطانیہ کے مندوبین نے مختصر تقاریر کیں اور سب نے ان قرار دادوں کی حمایت کی.اب صورتِ حال بالکل بھارتی حکومت کی خواہش کے برعکس رخ اختیار کر رہی تھی.بھارت کی حکومت اس لیے اس معاملہ کو سلامتی کونسل میں لے کر گئی تھی کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور پاکستان نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر میں جارحیت کی ہے.اس لیے پاکستان کو جارح قرار دے کر مجبور کیا جائے کہ وہ پاکستان کی طرف سے کشمیر میں داخل ہونے والے قبائلیوں کو کشمیر سے نکالے.لیکن اب یہ قرار داد پیش کی جارہی تھی کہ اقوام متحدہ خود کشمیر میں رائے شماری کرائے گی کہ وہ کس ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں.اور اقوام متحدہ کا مقرر کردہ کمیشن کشمیر میں جنگ کی حالت ختم کرانے کی کوشش کرے گا.اور اب تمام ممالک کے نمائندے ایک ایک کر کے اس قرارداد کی حمایت کر رہے تھے.اب یہ صورتِ حال بھارتی مندوب آئینگر کے لیے نا قابل برداشت ہو چکی تھی.اب وہ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے.اور کہا کہ یہ

Page 358

348 قرار داد شاید پاکستان کے مندوب کے لیے قابل قبول ہو لیکن میری حکومت کے لئے ان قرار دادوں کے ایک بڑے حصہ کو قبول کرنا ممکن نہیں.انہوں نے بڑا زور دے کر کہا کہ میری حکومت کا موقف ہے کہ کشمیر جل رہا ہے اور ہم یہاں سارنگی بجا رہے ہیں.ان کا تمام زور اس بات پر تھا کہ پہلے کشمیر میں جنگ بند کرائی جائے ، باقی معاملات بعد میں دیکھے جائیں گے.انہوں نے کہا کہ یہ ایک بالکل بے ضررسی قرار داد ہے پاکستان کشمیر پر حملہ کرنے والوں کو مددفراہم کر رہا ہے اور اسے روکنا چاہیے.ابھی ان کی تقریر جاری تھی کہ صدر کونسل نے اجلاس کے ختم کرنے کا اعلان کیا.اس مسئلہ پر اگلا اجلاس ۳ فروری ۱۹۴۸ء کو کینیڈا کے مندوب کی صدارت میں شروع ہوا اور ایک بار پھر بھارت کے مندوب نے اپنی تقریر شروع کی.انہوں نے کہا کہ قرارداد میں یہ تبدیلی کی جائے کہ کہ اس میں یہ الفاظ ہوں کہ سلامتی کونسل یہ Recommend کرتی ہے کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے.اور یہ اقوام متحدہ کے تحت نہ کرائی جائے بلکہ اس کی حیثیت ایک مبصر کی ہو اور کشمیر کی موجودہ حکومت اس رائے شماری کا انتظام کرے.جو قرارداد سلامتی کونسل میں پیش ہوئی تھی اس کے الفاظ یہ تھے The security council is of the opinion that such a plebiscite must be organized, held and supervised under its authority.اور یہ الفاظ بھارت کی حکومت کو منظور نہیں تھے.اب فریقین میں ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی.حضرت چوہدری صاحب نے جواب میں یاد دلایا کہ کشمیر کی زمین سے افواج پاکستان کے اندر حملے کر رہی ہیں.اور جموں کے ساتھ پاکستانی علاقہ پر بھارتی ہوائی جہازوں نے پاکستان کی ہوائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے.آپ نے بھارتی مندوب کے لگائے گئے الزامات کا ایک ایک کر کے جواب دیا اور پاکستان کا موقف مؤثر طریق پر پیش کیا.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر ۴ فروری کو بھی جاری رہی.آپ نے بھارت کے وزیر اعظم کی تقریر کا حوالہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بھارت اقوام متحدہ کے تحت کشمیر میں رائے شماری کرانے پر تیار ہے.سلامتی کونسل میں ایک بار پھر دونوں فریقوں نے بھر پورانداز میں اپنا موقف پیش کیا تھا.صدر نے ایک بار پھر سلامتی کونسل کے ممبران کو اظہارِ خیال

Page 359

349 کی دعوت دی.سب سے پہلے ارجنٹائن کے مندوب نے تقریر کی اور کہا کہ ان کی حکومت کسی ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کرے گی جس میں اقوام متحدہ کے تحت رائے شماری کرانے کا حصہ شامل نہ ہو.کسی جگہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار وہاں کے عوام کو ہونا چاہیے نہ کہ کسی راجہ کو.اس کے بعد بحث اور مذاکرات کا سلسلہ چلا.ہندوستان اس بات پر زور دے رہا تھا کہ سلامتی کونسل صرف یہ کرے کہ قبائلیوں اور رضا کاروں کو کشمیر سے واپس کرائے اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو لڑائی سے ہاتھ روکنے کا انتظام کر دے باقی سب ہندوستان پر چھوڑ دیا جائے.مگر سلامتی کونسل کی بھاری اکثریت نے یہ قرارداد تیار کی کہ ہندوستان اور پاکستان کی افواج مل کر امن قائم کریں.تمام irregular forces ریاست سے نکل جائیں.سیاسی قیدی رہا کئے جائیں.امن قائم ہونے پر باقاعدہ افواج بھی کشمیر سے نکل جائیں.ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جس پر عوام اعتماد کرتے ہوں.اور سلامتی کونسل کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے کہ کشمیر کے لوگ کس ملک کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں.یہ نتیجہ ہندوستان کی امیدوں کے برعکس تھا.ہندوستانی وفد نے اس قرارداد پر شدید نکتہ چینی کی.برطانیہ کے کامن ویلتھ کے وزیر نوئل بیکر اس قرارداد کی بہت حمایت کر رہے تھے اور کشمیر میں قیام امن کے لئے نمایاں کاوشیں کرتے نظر آرہے تھے.جب رائے شماری کا وقت آیا تو ہندوستانی وفد نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ اس کی حکومت نے اسے مشورے کیلئے ہندوستان طلب کیا ہے لہذا اس قرارداد پر ووٹنگ کو ان کی واپسی تک ملتوی کر دیا جائے.بہت سے نمائندوں نے اس پر احتجاج کیا اور کولمبیا کے سفیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ ہندوستان کے نمائندے نے شکوے کے طور پر کہا تھا کہ کشمیر جل رہا ہے اور سلامتی کونسل ستار بجا رہی ہے.کیا میں یہ دریافت کرنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ اب کیا کشمیر کو جلانے والی آگ ٹھنڈی ہوچکی ہے؟ اور اگر نہیں تو اب کون ستار بجا رہا ہے؟ مگر سب بے سود.ووٹنگ کو ملتوی کرنا پڑا.یہ تو سب نے سمجھ لیا کہ نیت بخیر نہیں.اب پس پردہ سیاسی چالوں کا سلسلہ شروع ہوگا.جب التواء کچھ طویل ہونے لگا تو خدشات پیدا ہوئے کہ یہ التواء مستقل صورت اختیار کر جائے گا.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا اندازہ تھا کہ یہ قرارداد اب لندن اور دلی کے درمیان زیر بحث ہے.چنانچہ لندن پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ بدترین خدشات درست تھے اور اس معاملے میں

Page 360

350 لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور کرپس وزیر اعظم پر دباؤ ڈال رہے ہیں.وزیر خارجہ ارنسٹ بیون صاف گو انسان تھے انہوں نے چوہدری صاحب سے ملاقات میں اس بات کا خود اقرار کیا.وزیر اعظم ایٹلے سے ملنے پر ان خدشات کی مزید تصدیق ہو گئی.وہ نظر ملانے سے بھی گریز کر رہے تھے.اور پیش کردہ قرارداد کی بجائے دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں.کامن ویلتھ کے وزیر نوئیل بیکر امن کے لئے مؤثر راستہ تلاش کرنے کے لئے کوشاں تھے مگر اب اس معاملے میں وزیر اعظم اور ان کے اختلافات بڑھ چکے تھے.چوہدری صاحب کی تقریر کے بعد جس طرح انہوں نے پاکستان کی حمایت شروع کر دی تھی، یہ بات ماؤنٹ بیٹن اور وزیر اعظم ایٹلے کو بہت ناگوار گزری تھی.شیخ عبداللہ صاحب نے تو اپنی کتاب میں اس بات کا بہت شکوہ کیا ہے کہ نوئل بیکر نے ہندوستانی وفد کے اراکین سے سخت رویہ اختیار کر کے پاکستان کی حمایت شروع کر دی تھی (۳۳).چنانچہ جب سلامتی کونسل کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی تو پہلی قرارداد کی بجائے ایک اور قرار داد پیش کی گئی.یہ قرارداد ان تجاویز کے مطابق تھی جو حضرت چوہدری صاحب سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم ایٹلے نے پیش کی تھیں.ایٹلے شروع ہی سے تحریک پاکستان کے حق میں نہیں تھے.اس نئی قرارداد میں اس قضیئے کے لئے ایک تین رکنی کمیشن قائم کیا گیا جو کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام کرائے اور طے پایا کہ اس رائے شماری کو امن قائم ہونے پر کرایا جائے گا اور اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل اس کام کے لئے ایک ایڈ منسٹریٹر مقرر کرے گا جو ریاست کے ایک افسر کی حیثیت سے کام کرے گا.لیکن اس قرارداد میں کشمیر سے مختلف افواج کی واپسی کا پلان نہیں دیا گیا تھا.یہ قرارداد گذشتہ قرار داد سے کمزور تھی.اب حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور آپ کے ساتھیوں نے اسے مضبوط بنانے کی کاوشیں شروع کیں.اور کچھ ترامیم منظور بھی کی گئیں لیکن اس کا ڈھانچہ وہی رہا جو ایٹلے نے تجویز کیا تھا.باوجود اس کے کہ اب ہندوستان سے رعایت بھی کی گئی تھی.جب قرار داد پیش کی گئی تو پاکستان نے اس پر تنقید کرنے کے باوجود اسے تسلیم کر لیا.لیکن ہندوستان نے ایک بار پھر اس پر احتجاج کیا کیونکہ یه قراردادان سابقہ امیدوں کے بالکل برعکس تھی کہ سلامتی کونسل صرف قبائلی لشکروں اور رضا کاروں کو نکالے اور باقی معاملہ ہندوستان پر چھوڑ دیا جائے.اور اس کے منظور ہونے سے رائے شماری کرانا ایک قانونی تقاضہ بن جاتا تھا.لیکن بہر کیف یہ قرارداد منظور کر لی گئی.اور آج تک جب بھی پاکستان کی

Page 361

351 طرف سے کشمیر پر اپنا موقف پیش کیا جاتا ہے تو یہ قرارداد اس مؤقف کی بنیاد ہوتی ہے.باوجود تمام ترامیم کے اس کا منظور ہو جانا ہندوستان کے لئے ایک ناکامی تھی.وہ مدعی بن کر گئے تھے لیکن ان کو مدعا علیہ بن کر باہر آنا پڑا.آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار ابراہیم وہاں پر موجود تھے وہ لکھتے ہیں کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں ناکامی کے بعد بھارتی مندوب سر گوپال سوامی آئینگر اور شیخ عبداللہ کے درمیان آپس میں تلخ کلامی بھی ہوتی رہی.کیونکہ شیخ عبد اللہ صاحب سر آئینگر پر الزام لگاتے تھے کہ وہ پاکستانی مندوب اور وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے.لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ اب اقوام متحدہ میں صحیح فورم پر کیس پیش کرنے کی بجائے پس پردہ سیاسی چالوں کا دور شروع ہو رہا تھا.آہستہ آہستہ سلامتی کونسل میں ہونے والی تقریریں مختصر اور پھپھی ہونے لگیں اور اس نے کٹھ پتلی کے تماشے کی شکل اختیار کر لی.برطانوی وزیر نوئیل بیکر کو کامن ویلتھ کی وزارت سے علیحدہ کر کے ایندھن کا وزیر بنا دیا گیا اور پھر انہیں کا بینہ سے باہر نکلنا پڑا.البتہ انہیں امن کے نوبل پرائز سے ضرور نوازا گیا جوان کی کاوشوں کے شایانِ شان تھا.سلامتی کونسل میں اس معرکے سے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی قابلیتیں عالمی منظر پر نمایاں ہو کر سامنے آئیں جس کا سب نے اعتراف کیا.چنانچہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی صاحب جو اس وفد میں شامل تھے لکھتے ہیں "Zafarullah Khan's masterly exposition of the case convinced the security council that the problem was not simply one of expelling so called raiders from Kashmir".ظفر اللہ خان نے اس ماہرانہ انداز میں واقعات پیش کئے کہ سلامتی کونسل کو یقین ہو گیا کہ یہ معاملہ فقط کشمیر سے نام نہاد حملہ آوروں کو باہر نکالنے کا نہیں ہے.(۳۴) آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار ابراہیم جو اس موقع پر موجود تھے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں پاکستان کے وزیر خارجہ نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں جو بھارت کی شکایت پر بلایا گیا تھا.بھارت کے ایک ایک الزام کو غلط اور بے بنیاد ثابت کر دیا.(۳۵)

Page 362

352 چوہدری صاحب نے اس بحث میں دوسرے فریق کے بیانات کو اس مہارت سے استعمال کیا کہ اس کا اعتراف ان کے مصنفین بھی کرتے ہیں چنانچہ بال راج مدھک سلامتی کونسل میں ہونے والی بحث کے متعلق لکھتے ہیں انہوں نے (یعنی شیخ عبد اللہ نے ) مختلف مواقع پر جو بیانات دیئے تھے اور جو تقریریں کی تھیں اور اسی طرح پنڈت نہرو کی تقریروں نے ظفر اللہ کے ہاتھ میں ایسی چھڑی پکڑا دی تھی جس سے وہ ہندوستان کی پٹائی کرتے رہے.(Kashmir Storm center of the world, chapter8, by Bal Raj Madhok) شیخ عبداللہ صاحب ہندوستان کے وفد میں شامل تھے اور انہوں نے اپنے مؤقف کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنی کتاب میں بہت کچھ لکھا ہے.لیکن چوہدری صاحب کے کامیاب انداز کے متعلق وہ لکھتے ہیں.پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ چودھری سرظفر اللہ خان کر رہے تھے.مجھے بھی ہندوستان کے وفد میں شامل کیا گیا...سر ظفر اللہ ایک ہوشیار بیرسٹر تھے.انھوں نے بڑی ذہانت اور چالاکی کا مظاہرہ کر کے ہماری محدودسی شکایت کو ایک وسیع مسئلے کا روپ دے دیا اور ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے سارے پر آشوب پس منظر کو اس کے ساتھ جوڑ دیا.ہندوستان پر لازم تھا کہ وہ اپنی شکایت کا دائرہ کشمیر تک محدود رکھتا.لیکن وہ سرظفر اللہ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گیا اور اس طرح یہ معاملہ طول پکڑ گیا.بحثا بحثی کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا.ہمارے کان پک گئے اور قافیہ تنگ ہونے لگا.ہم چلے تو تھے مستغیث بن کر لیکن ایک ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑے کر دیئے گئے.(۳۶) فرقان بٹالین : اقوام متحدہ کی طرف سے اس مسئلہ کے حل کرنے کے لئے ایک کمیشن قائم کر دیا گیا.لیکن ابھی کشمیر میں جنگ جاری تھی.سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد پاکستانی فوج بھی کشمیر میں داخل

Page 363

353 ہوگئی.اور ان علاقوں میں اپنی پوزیشن سنبھالنی شروع کر دی جن پر آزاد فوج اور قبائلی لشکروں نے قبضہ کیا تھا.جس طرح ہر ملک میں رہنے والا احمدی اپنے ملک کا وفادار ہوتا ہے، پاکستان میں بسنے والے احمدی پاکستان کے وفادار شہری تھے.اور اس موقع پر جب مختلف رضا کا ر اس جنگ میں حصہ لے رہے تھے، احمدی رضا کاروں نے بھی اپنے ملک کی عسکری خدمات سرانجام دیں.یہ سلسلہ ضلع سیالکوٹ سے شروع ہوا.بھمبر میں متعیین ڈوگرہ فوج نے پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع کر دیا.ان کے دستے سیالکوٹ اور گجرات کے دیہات پر حملے کر کے لوٹ مار کرتے اور فوراً کشمیر کے علاقے میں واپس چلے جاتے.یہ حملے وقت کے ساتھ بڑھتے رہے اور دسمبر ۱۹۴۷ء میں ان کی وجہ سے ایک تشویش ناک صورتِ حال پیدا ہوگئی.ان اضلاع میں کشمیر سے آئے ہوئے بہت سے مہاجرین بھی پناہ گزین تھے.پاکستانی فوج ابھی اتنی وسیع سرحد سنبھالنے کے قابل نہیں تھی.جموں سے آئے ہوئے کچھ مہاجرین نے سرحد کی نگہبانی کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور پھر کچھ قبائلی بھی ان کے ساتھ مل گئے اور یہ مشترکہ فورس برق فورس کہلانے لگی.ضلع سیالکوٹ میں بہت سے احمدی دیہات کو بھی ان خطرات سے گذرنا پڑ رہا تھا اور ان کی حفاظت کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کی ضرورت تھی.چنانچہ حضور کے ارشاد پر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی قیادت میں چالیس احمدی رضا کاروں کا ایک دستہ ،سیالکوٹ اور جموں کی سرحد پر واقع گاؤں معراجکے بھجوایا گیا.اس دستے نے وہاں پر پاکستانی علاقے کی حفاظت کے فرائض سرانجام دیئے اور دو احمد یوں نے وہاں پر جامِ شہادت نوش کیا.ابھی یہ دستہ معراجکے میں مصروف خدمت تھا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے منشا ظاہر ہونے پر احمدی رضا کاروں کی ایک بٹالین تشکیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو کشمیر میں خدمات سرانجام دے سکے.اس کے لئے حضور کی تحریک پر رضا کاروں نے اپنے آپ کو عسکری خدمات کے لئے پیش کیا.یہ لوگ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے تھے.سب سے پہلا مرحلہ ان کی ٹریننگ کا تھا.ان کے لئے سرائے عالمگیر کے قریب ایک گاؤں سوہن میں کیمپ لگایا گیا.معراجکے کے رضا کار بھی اس کیمپ میں شامل ہو گئے.ایک مہینہ ان افراد کی عسکری تربیت کی گئی.کم وقت کے پیش نظر یہ ٹریننگ رات کے اوقات میں بھی جاری رہتی.اس مختصر ٹریننگ کے بعد جولائی ۱۹۴۸ء میں اس بٹالین کو محاذ جنگ بھجوا دیا گیا.اور اسے برگیڈیئر کے ایم

Page 364

354 شیخ کے زیر قیادت ۱۰۰ برگیڈ کا حصہ بنا دیا گیا.ایک مخلص احمدی کرنل محمد حیات قیصرانی اس بٹالین کی قیادت کر رہے تھے.باوجود اس کے کہ ان رضا کاروں کی ٹریننگ نہ ہونے کے برابر تھی انہیں بھمبر جیسے اہم سیکٹر میں ،سعد آباد وادی کے محاذ پر خدمات سپرد کی گئیں.اس سے قبل آزاد فوج اور قبائلی دستے سعد آباد وادی میں موجود تھے اور مئی ۱۹۴۸ء میں پاکستانی فوج بھی اس سیکٹر میں ان کی مدد کو آگئی تھی.بھمبر کے شمال مشرق میں سعد آباد وادی تھی اور سعد آباد وادی کے شمال مشرق میں نوشہرہ کے مقام پر ہندوستانی فوج کا ایک اہم مرکز تھا.یہ وادی چھ میل لمبی اور ہم میل چوڑی ہے.اس وادی میں فرقان بٹالین سے قبل آزاد فوج کرنل اعظم صاحب کی قیادت میں خدمات سرانجام دے رہی تھی.مدِ مقابل فوج کو ہتھیاروں کی نمایاں برتری حاصل تھی.اس کی طرف سے فضائی حملے بھی ہورہے تھے.کرنل اعظم کی بٹالین کو سعد آباد وادی خالی کرنی پڑی تھی.جون ۱۹۴۸ء کے آغاز تک سعد آباد وادی کے شمال میں عسکری لحاظ سے دو اہم مقامات جنہیں مینڈک فارمیشن اور ریچھ فارمیشن کہا جاتا تھا ، آزاد افواج اور قبائلیوں کے قبضے میں تھے.مگر ۲ جون کو ہندوستانی افواج کے تو پخانے نے اور ہوائی جہازوں نے ان مقامات پر شدید بمباری شروع کر دی.اس بمباری کو ایک بڑے حملے کا پیش خیمہ خیال کیا گیا اور اعظم بٹالین ، شاہین آزاد بٹالین اور خان کشمیرا خان کی فورس نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یہ علاقہ بغیر مقابلے کے خالی کر دیا.چار روز کے بعد ہندوستانی افواج نے ان مقامات پر اپنے مورچے قائم کر لئے.آزاد فوج نے اب باغسر کی تنگ پہاڑی گزرگاہ میں مورچے سنبھالے ہوئے تھے.اب یہ خدشہ تھا کہ اگر ہندوستانی فوج نے باغسر پر بھی تسلط حاصل کر لیا تو وہ کشمیر کے علاقے سے نکل کر پاکستان کی سرحدوں میں داخل ہو جائے گا.اس لئے کہ اب قدرتی سرحد ختم ہو چکی تھی.اب فرقان بٹالین نے کرنل اعظم کی بٹالین کی جگہ فرائض سنبھالنے تھے.اس وقت ہندوستانی فوج کے گشتی حصے شب خون مارا کرتے تھے ، جس وجہ سے حالات مخدوش تھے.۱۰ جولائی کو فرقان بٹالین محاذ کی طرف روانہ ہوئی.موسلا دھار بارشوں کیوجہ سے راستے معدوم ہو گئے تھے، اس لئے رات کو ادیالا گالا کے قریب سیکٹر ہیڈ کوارٹر میں قیام کرنا پڑا.نصف شب کے

Page 365

355 قریب ہندوستانی فوج کی طرف سے شدید گولہ باری شروع ہو گئی اور فضا دھماکوں سے گونج اُٹھی.اگلے روز معلوم ہوا کہ جاسوسوں نے مد مقابل فوج کو نئی بٹالین کے بڑھنے کی اطلاع کر دی تھی اور یہ اہتمام ان کے استقبال کے لئے کیا گیا تھا.نہ صرف رات کو مدِ مقابل فوج کے دستے اگلے مورچوں تک بلا روک ٹوک پہنچتے تھے بلکہ ان کے جاسوس بھی مورچوں کے عقب میں کثرت سے پھیلے ہوئے تھے.فرقان بٹالین نے اپنی جد و جہد کا آغاز کیا.اور شب و روز کی محنت سے سعد آباد وادی پر دوبارہ قبضہ کرلیا.اور ان کے دستے دشمن کے عقب میں جا کر جائزہ بھی لے آتے.اس کے علاوہ عقب میں مخالف جاسوسوں کا جال بھی ختم کر دیا گیا.آگے حملہ کرنے کا منصوبہ بھی بنالیا گیا تھا مگر اوپر سے کسی مصلحت کی بنا پر اجازت نہیں ملی.یہ صورت مخالف فوج کے لئے پریشان کن تھی.انہوں نے فرقان بٹالین کی چوکیوں پر توپوں اور ہوائی جہازوں سے شدید بمباری شروع کر دی.رسد کی مشکلات کی وجہ سے راشن کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا.ہندوستانی جہاز سارا دن چکر لگاتے اور جہاں پر بار برداری کے جانور دیکھتے بمباری شروع کر دیتے.مگر اپنا کھویا ہوا علاقہ واپس نہیں لے سکے.بلکہ وہ اپنے مورچوں پر فرقان بٹالین کے حملوں سے اتنا تنگ آئے کہ انہوں نے اپنے مورچوں کے آگے بارودی سرنگیں بچھانی شروع کیں..اس محاذ پر آزاد افواج اور پاکستانی افواج نے Little Venus کے نام سے ایک حملے کا پلان بنایا تھا.اور فرقان بٹالین بھی آگے بڑھنے کے لئے تیار تھی مگر اسوقت کے حالات کیوجہ سے اس کی اجازت نہ مل سکی حتی کہ سیز فائر کا معاہدہ ہو گیا.سردار محمد حیات قیصرانی کے بعد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اس بٹالین کی قیادت کرتے رہے.اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بھی اس مہم میں نمایاں حصہ لیا.رضا کاروں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی تھیں.مجموعی طور پر 4 ہزار کے قریب رضا کاروں نے مختلف اوقات میں یہاں پر فرائض ادا کئے.اس بٹالین کی تاریخ کا اہم تریں دن وہ تھا جس دن حضرت خلیفہ اسیح الثانی از راه شفقت خود حوصلہ بڑھانے کے لئے محاذ پر تشریف لائے.حضور دریافت فرماتے رہے کہ جو ان کہاں سوتے ہیں،کہاں رہتے ہیں.جب آپ کو وہ پتھر دکھایا گیا جہاں پر بیٹھ کر عموماً مشورے کئے جاتے تھے اور کوائف جمع کئے جاتے تھے تو آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھالئے.یکم جنوری ۱۹۴۹ء کو سیز فائر کا معاہدہ عمل میں آیا.حکومت نے فیصلہ کیا کہ سب رضا کار محاذ سے واپس بلا لئے جائیں اور

Page 366

356 ۷ ارجون ۱۹۵۰ء کو اس بٹالین کی سبکدوشی عمل میں آئی.اس طرح یہ بہادر رضا کار محاذ سے سرخرو واپس آئے.ان میں سے بعض مقامِ شہادت پر سرفراز ہوئے.ان کی سبکدوشی کے وقت پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف نے اپنے پیغام میں لکھا کہ کشمیر میں محاذ کا ایک اہم حصہ آپ کے سپرد کیا گیا.اور آپ نے ان تمام توقعات کو پورا کر دکھایا جو اس ضمن میں آپ سے کی گئی تھیں.دشمن نے ہوا سے اور زمین سے آپ پر شدید حملے کئے لیکن آپ نے ثابت قدمی اور اولوالعزمی سے اس کا مقابلہ کیا اور ایک انچ زمین بھی اپنے قبضہ سے نہ جانے دی.(۳۷) کشمیر کا المیہ جاری رہا.دونوں ممالک کی حکومتیں ایک دوسرے پر الزامات تو لگاتی رہیں لیکن کشمیر میں رائے شماری نہ ہوئی.یہ واقعات تاریخ کا حصہ ہیں لیکن ہم یہاں ان تفصیلات میں نہیں جائیں گے.ستمبر ۱۹۴۸ء میں بھارتی افواج نے حیدر آباد پر بھی قبضہ کر لیا اور اس کی آزاد حیثیت ختم ہوگی.باہمی کدورتیں بڑھتی رہیں اور شکوک کے بادل گہرے ہوتے گئے.تین جنگوں کے بعد انجام یہ ہوا کہ دونوں ممالک ہتھیاروں کی دوڑ سے بڑھ کر اب جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس ہو چکے ہیں.اگر ابتداء میں افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کیا جاتا اور جیسا کہ حضور نے ارشاد فرمایا تھا پہلے یہ طے کیا جاتا کہ کن اصولوں کے مطابق ان تنازعات کا فیصلہ کیا جائے گا تو آج یہ خطہ امن کا گہوارہ بھی ہوسکتا تھا مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا.(1) The Emergence of Pakistan,by Chaudri Muhammad Ali,published by Research Society of Pakistan, Oct 2003, page222-236 (۲) زمیندار ۱۳ کتوبر ۱۹۴۷ء ص ۲ (3) The Emergence of Pakistan,by Chaudri Muhammad Ali,published by Research Society Of Pakistan, Oct 2003p287-290 (4) The History of Struggle for freedom in Kashmir,by Prem Nath azaz, published by Kashmir Publishing Comopany, New Dehli, 1954, page317-322 (۵) آتشِ چنار، مصنفہ شیخ عبداللہ مطبع جے کے آفسٹ پریس ، جامع مسجد دہلی ، ۱۹۸۶ء ص ۳۹۹ (۶) زمیندار ۲۵ ستمبر ۱۹۴۷ء ص ۲ (4)Kashmir Fights For Freedom, VI 2, by Muhammad Yusuf Saraf, Ferozsons Ltd., 1979,p859 (۸) تاریخ احمدیت جلد ۶ ص ۶۵۵-۶۶۰

Page 367

357 (4) The History of struggle for freedom in Kashmir, by Prem Nath Bazaz, Kashmir Publishing Company New Dehli, 1954, page621 (1) Two Nations and Kashmir, by Lord Birdwood, published by Robert Hale Ltd.London, 1956, page 81 (۱۱) احسان ۶ اکتوبر ۱۹۴۷ ء ص ۱ (Ir)The Pakistan Times, October 17, 1947p5 (I)Kasmiris Fight For Freedom, byMuhammad Yusuf Saraf, Ferozsons Ltd Lahore, 1979,p885 (14) Pakistan Times, October21, 1947, page 4 (۱۴) آتش چنار مصنفہ شیخ عبد اللہ مطبع جے کے آفسٹ پر لیں، جامع مسجد دہلی ، ۱۹۸۶ء ص ۱۴۶ (۱۶) احسان ۱۲۳ اکتوبر ۱۹۴۷ ، ص ۱ (۱۷) احسان ۱۲۵ اکتوبر ۱۹۴۷ ء ص ۱ (۱۹) زمیندار ۱۹ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص ۵ (۲۰) کشمیر کی جنگ آزادی ، مصنفه سردار محمد ابراہیم خان، دین محمد پر یسلا ہور ، ۱۹۶۶ء ص ۱۱۸ (IA) The Civil and Military Gazette, Oct 26p1 (۲۱)Pakistan Times, Oct 29,1947p1 (۲۲)Pakistan Times, Oct 25,1947p1 (۲۳)Pakistan Times, November 2,1947p1 (۲۴)Pakistan Times Oct 28,1947,p1&12 (۲۵) زمیندار ۳ نومبر ۱۹۴۷ء ص ۱ (۲۶)Pakistan Times, Nov 4,1947,p1 (۲۷)Pakistan Times Nov.4,1947p5 (۲۸)The Emergence of Pakistan,by Chaudri Muhamad Ali, Researc h Society of Pakstan, Oct 2003p278 (ra) The Civl&military Gazette, Nov.12, 1947, p1 (۳۰)Pakistan Times,Nov.6,1947,p5 (M)The Pakistan Times, Dec 21,1947 (۳۲) افضل ۴ دسمبر ، ۱۹۴۷، ص ۳ ۴ (۳۳) آتش چنار، مصنفہ شیخ عبداللہ، جے کے آفسٹ پر نظر، جامع مسجد دہلی ۱۹۸۶ ء ص ۴۷۹ The Emergence of Pakistan, by Chaudri Muhammad Ali, research Society of Pakistan, Oct.2003,p301 (۳۵) کشمیر کی جنگ آزادی، مصنفہ سرادار محمد ابراہیم ، طابع دین محمدی پریس لاہور ۱۹۶۶ء ص ۱۲۶ (۳۶) آتش چنار، مصنفہ شیخ محمد عبد اللہ مطبع جے کے آفسٹ پرنٹرز ، جامع مسجد دہلی.۱۹۸۶ء ص ۴۷۳ (۳۷) الفضل ۲۳ جون ۱۹۵۰ء ص ۸

Page 368

358 اقوام متحدہ کے مستقبل کے متعلق حضور کا ارشاد بیسویں صدی کا سورج طلوع ہوا تو پوری دنیا میں اس بات کی ضرورت محسوس ہونے لگی کہ کوئی ایسی تنظیم ہو جس میں دنیا کے تمام ممالک شامل ہوں.اور یہ تنظیم دنیا میں امن قائم کرے اور جب مختلف ممالک میں اختلافات پیدا ہوں تو یہ تنظیم ان میں صلح کرائے اور اس طرح اس کے ذریعہ دنیا کو خوفناک جنگوں کی تباہ کاری سے بچایا جائے.پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی.یہ تنظیم نا کام ہوئی تو دنیا کو دوسری جنگِ عظیم کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا.اور جب دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں ختم ہوئیں تو اقوام متحدہ کی داغ بیل ڈالی گئی.ہم جس دور کا ذکر کر رہے ہیں اس وقت اقوام متحدہ نئی نئی قائم ہوئی تھی اور اس سے بہت سی توقعات وابستہ کی جا رہی تھیں.یہ جائزہ لینے سے پہلے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے اقوام متحدہ کے مستقبل کے متعلق کیا ارشاد فرمایا تھے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب لیگ آف نیشنز قائم کی گئی تھی تو اس وقت حضور نے اس کی کامیابی کے امکانات کے متعلق کیا فرمایا تھا.جب پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو 1919ء میں لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں آیا.۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ویمبلے کا نفرنس میں شرکت کے لیے لندن تشریف لے گئے اور اس کا نفرنس کے لیے جو مضمون آپ نے تحریر فرمایا اس میں آپ مختلف اقوام کے درمیان جھگڑے مٹانے کے متعلق تحریر فرماتے ہیں د جھگڑوں کو مٹانے کے لیے ایک عجیب حکم دیا ہے جسے آج ہم لیگ آف نیشنز کی شکل میں دیکھتے ہیں لیکن ابھی تک یہ لیگ ویسی مکمل نہیں ہوئی جس حد تک اسلام اس کو لے جانا چاہتا ہے اسلام یہ حکم دیتا ہے وَاِنْ طَابِفَتْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا ج فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدُهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِى حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الحجرات:١٠) یعنی اگر دو قو میں مسلمانوں میں سے آپس میں لڑ پڑیں تو ان کی آپس میں صلح کرا دو.یعنی دوسری

Page 369

359 قوموں کو چاہیے کہ بیچ میں پڑ کر ان کو جنگ سے روکیں اور جو وجہ جنگ کی ہے اس کو مٹائیں اور ہر ایک کو اس کا حق دلائیں لیکن اگر باوجود اس کے ایک قوم باز نہ آئے اور دوسری قوم پر حملہ کر دے اور مشتر کہ انجمن کا فیصلہ نہ مانے تو اس قوم سے جو زیادتی کرتی ہے سب قومیں مل کر لڑو یہاں تک کہ خدا کے حکم کی طرف وہ لوٹ آئے یعنی ظلم کا خیال چھوڑ دے.پس اگر وہ اس امر کی طرف مائل ہو جائے تو ان دونوں قوموں میں پھر صلح کرا دو مگر انصاف اور عدل اور مروت سے کام لو.اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.اس آیت میں بین الاقوامی صلح کے قیام کے لئے مندرجہ ذیل لطیف گر بتائے گئے ہیں.سب سے اول جب دو قوموں میں لڑائی اور فساد کے آثار ہوں معاً دوسری قومیں بجائے ایک یا دوسری کی طرف داری کرنے کے ان دونوں کو نوٹس دیں کہ وہ قوموں کی پنچایت سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرائیں.اگر وہ منظور کر لیں تو جھگڑا مٹ جائے گا.لیکن اگر ان میں سے ایک نہ مانے اور لڑائی پر تیار ہو جائے تو دوسرا قدم یہ اٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام اس کے ساتھ مل کر لڑیں.اور یہ ظاہر ہے کہ سب اقوام کا مقابلہ ایک قوم نہیں کر سکتی ضرور ہے کہ جلد اس کو ہوش آ جائے اور وہ صلح پر آمادہ ہو جائے.پس جب وہ صلح کے لئے تیار ہو تو تیسرا قدم یہ اُٹھائیں کہ ان دونوں قوموں میں جن کے جھگڑے کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی تھی صلح کرا د ہیں.یعنی اس وقت اپنے آپ کو فریق مخالف بنا کر خود اس سے معاہدات کرنے نہ بیٹھیں بلکہ اپنے معاہدات جو پہلے تھے وہی رہنے دیں.صرف اسی پہلے جھگڑے کا فیصلہ کریں جس کے سبب سے جنگ ہوئی تھی اس جنگ کی وجہ سے نئے مطالبات قائم کر کے ہمیشہ کے فساد کی بنیاد نہ ڈالیں.چوتھے یہ امر مد نظر رکھیں کہ معاہدہ انصاف پر مبنی ہو یہ نہ ہو چونکہ ایک فریق مخالفت کر چکا ہے اس لئے اس کے خلاف فیصلہ کر دو بلکہ باوجود جنگ کے اپنے آپ کو ثالثوں کی ہی صف میں رکھو فریق مخالف نہ بن جاؤ.ان امور کو مد نظر رکھ کر اگر کوئی انجمن بنائی جائے تو دیکھو کہ کس طرح دنیا میں بین الاقوامی صلح ہو جاتی ہے..اب رہا یہ سوال کہ جو اخراجات جنگ پر ہوں گے وہ کس طرح برداشت کئے جاویں؟

Page 370

360 تو اس کا جواب یہ ہے کہ اخراجات جنگ سب قوموں کو خود برداشت کرنے چاہئیں اور یہ بوجھ ہر گز زیادہ نہیں ہوگا.اول تو اس وجہ سے کہ مذکورہ بالا انتظام کی صورت میں جنگیں کم ہو جائیں گی اور کسی قوم کو جنگ کرنے کی جراءت نہ ہوگی.دوسرے چونکہ اس انتظام میں خود غرضی اور بوالہوس کا دخل نہ ہوگا سب اقوام اس کی طرف مائل ہو جائیں گی اور مصارف جنگ اس قدر تقسیم ہو جائیں گے کہ ان کا بوجھ محسوس نہ ہوگا.تیسرے چونکہ اس انتظام کا فائدہ ہر اک قوم کو پہنچے گا کیونکہ کوئی قوم نہیں جو جنگ میں مبتلا ہونے کے خطرہ سے محفوظ ہو اس لئے انجام کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ خرچ موجودہ اخراجات سے جو تیاری جنگ کی نیت سے حکومتوں کو کرنے پڑتے ہیں کم ہوں گے اور اگر بفرضِ محال کوئی زائد خرچ کرنا بھی پڑے تو جس طرح افراد کا فرض ہے کہ امنِ عامہ کے قیام کی خاطر قربانی کریں اقوام کا بھی فرض ہے کہ قربانی کر کے امن کو قائم رکھیں.وہ اخلاق کی حکومت سے بالا نہیں ہیں بلکہ اس کے ماتحت ہیں.میرے نزدیک سب فساد اسی اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو قرآنِ کریم کی پیش کرده تجویز سے کیا جاتا ہے.(۱) یعنی آپس کے انفرادی سمجھوتوں کی وجہ سے جو پہلے سے کئے ہوتے ہیں.حالانکہ ان کی بجائے سب اقوام کا ایک معاہدہ ہونا چاہئے.(۲) جھگڑے کو بڑھنے دینے کے سبب سے.(۳) حکومتوں کے جنبہ داری کو اختیار کر کے ایک فریق کی حمایت میں دخل دینے کے (۴) شکست کے بعد اس قوم کے حصے بخرے کرنے اور ذاتی فوائد اٹھانے کی خواہش کے پیدا ہو جانے کے سبب سے.(۵) امن عامہ کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہونے کے سبب سے.ان پانچوں نقائص کو دو کر دیا جائے تو قرآنِ کریم کی بتائی ہوئی لیگ آف نیشنز بنتی ہے اور اصل میں ایسی ہی لیگ کوئی فائدہ بھی دے سکتی ہے نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مہربانی کی جستجو میں بیٹھی رہے.(۱)

Page 371

361 بہر حال ایک اور عالمگیر جنگ کے خطرات دنیا کی طرف بڑھتے رہے اور لیگ آف نیشنز بے بس تماشائی بنی رہی اور یہ تنظیم دنیا کو دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاری سے بچانے میں ناکام رہی.دوسری جنگ عظیم کے آغاز نے اس تنظیم کے وجود کو بے معنی بنادیا تھا.دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہی ایک نئی عالمی تنظیم کے قیام کی جد و جہد شروع ہوگئی تھی.اور جرمنی اور جاپان سے نبرد آزما بڑی طاقتیں اپنے زاویہ نگاہ سے ایک نئی عالمی تنظیم کے بارے میں سوچ رہی تھیں اور ایک دوسرے سے مذاکرات کر رہی تھیں.۱۹۴۵ء میں ۵۰ ممالک امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں ایک کانفرنس میں شریک ہوئے تا کہ اس نئی عالمی تنظیم کا چارٹر تیار کیا جائے.پہلے امریکہ، روس، برطانیہ اور چین نے اس ضمن میں تجاویز تیار کی تھیں.اس کانفرنس میں ان تجاویز پر غور وفکر کیا گیا.۲۶ جون ۱۹۴۵ء کو ان پچاس ممالک نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر دیے اور باقاعدہ طور پر ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو اقوام متحدہ وجود میں آگئی.اُس وقت اقوام متحدہ کے قیام سے جو امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں، اس کا اندازہ امریکی صدر ٹرومین کی اُس تقریر کے ابتدائی الفاظ سے ہوتا ہے جو انہوں نے ۲۵ اپریل ۱۹۴۵ء کو یونائیٹڈ نیشن کا نفرنس کے سامنے کی.انہوں نے اس تقریر کے آغاز میں کہا "The world has experienced a revival of an old faith in the everlasting moral force of justice.At no time in history has there been a more important conference, nor a more necessory meeting, than this one in San Fransisco, which you are opening today." دنیا میں دائمی انصاف کی اخلاقی قوت کا احیاء ہو رہا ہے.آج ہم سان فرانسسکو میں منعقد ہونے والی جس کا نفرنس کا افتتاح کر رہے ہیں ،اس سے زیادہ اہم کا نفرنس دنیا کی تاریخ میں کبھی منعقد نہیں ہوئی اور نہ ہی اس سے زیادہ ضروری مجلس کبھی منعقد ہوئی ہے.یہ الفاظ کا ہیر پھیر تھا، ملمع سازی تھی یا انتہائی خوش فہمی.کچھ بھی تھا لیکن آج کوئی بھی اس میں شک نہیں کر سکتا کہ نئی عالمی تنظیم سے وابستہ یہ امیدیں بہر حال صحیح ثابت نہیں ہوئیں.حضرت مصلح موعودؓ نے اقوام متحدہ کی ناکامی کے متعلق اسی وقت اپنے تجزیہ بیان فرما دیا تھا.

Page 372

362 ۹ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے دہلی میں ایک لیکچر دیا جس کا عنوان تھا دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے.اس میں حضور نے اقوام متحدہ کی کامیابی کے امکانات پر بھی روشنی ڈالی.حضور نے فرمایا د پس سارے جھگڑے پارٹی بازی کی وجہ سے ہیں مختلف حکومتوں کو یہ یقین ہے کہ ان کی قومیں صرف اس خیال سے کہ وہ ان کی حکومتیں ہیں ان کا ساتھ دینے کو تیار ہیں اس لئے وہ بے خوف ہو کر دوسری حکومتوں پر حملہ کر دیتی ہیں.اس وقت قومی تعصب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اپنی قوم کا سوال پیدا ہوتا ہے تو سب لوگ بلاغور کرنے کے ایک آواز پر جمع ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہماری حکومت کی غلطی ہے تو ہم اسے سمجھا دیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زیادتی کرنے والی حکومت کو زیادتی سے روکو اور ان حکومتوں کی آپس میں صلح کرا دو اور کوئی نئی شرائط پیش نہ کرو اور نہ ہی تم اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرو لیکن موجودہ جنگ کا ہی حال دیکھ لو کہ حکومتیں طاقت کے زور پر اپنے حصے مانگ رہی ہیں اور چھوٹی چھوٹی حکومتوں کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے.اس طریق کو اختیار کرنے سے کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا جیسی آزادی کی ضرورت روس کو ہے یا جیسی آزادی کی ضرورت برطانیہ کو ہے یا جیسی آزادی کی ضرورت امریکہ کو ہے اسی طرح آزادی کی ضرورت چھوٹی حکومتوں کو بھی ہے.آزادی کے لحاظ سے یونٹ سب کے لئے ایک جیسا ہے.یہ نہیں کہ ان بڑی حکومتوں کے دماغ تو انسانوں کے دماغ ہیں لیکن چھوٹی حکومتوں کے دماغ جانوروں کے دماغ ہیں.جیسے وہ انسان ہیں ویسے ہی یہ انسان ہیں اور آزادی کا جیسا احساس ان بڑی حکومتوں کو ہے ویسا ہی ان چھوٹی حکومتوں کو ہے.کیا ہالینڈ کا ایک آدمی ویسے ہی احساسات نہیں رکھتا جیسے احساسات برطانیہ کا آدمی رکھتا ہے.جب احساسات ایک جیسے ہیں تو تو پھر بڑی حکومت کا چھوٹی حکومت پر دباؤ ڈالنا انصاف پرمبنی نہیں ہوسکتا.اگر ایک شخص چارفٹ کا ہو اور دوسرا شخص سات فٹ کا ہو اور سات فٹ کا آدمی چارفٹ والے کو کہے کہ میرا حق ہے کہ میں تمہیں گالیاں دے لوں یا تمہارے منہ تھپڑ مارلوں کیونکہ میں سات فٹ کا ہوں اور تم چارفٹ کے ہو تو کیا کوئی حکومت اسے

Page 373

363 جائز سمجھے گی؟ وہ کہے گی کہ جیسا دماغ سات فٹ والے کا ہے ویسا ہی دماغ چارفٹ والے کا ہے اور جو حقوق سات فٹ والے کے ہیں وہی حقوق چارفٹ والے کے ہیں لیکن جب آزادی اور حریت کا سوال آتا ہے تو چھوٹے ملکوں اور بڑے ملکوں میں امتیاز کیا جاتا ہے اور چھوٹے ملکوں کے لیے حریت ضروری نہیں خیال کی جاتی حالانکہ آزادی کی ضرورت جیسے بڑی حکومتوں کو ہے ویسی ہی ضرورت چھوٹی حکومتوں کو ہے.....پس اسلام کہتا ہے کہ ان چار چیزوں کے بغیر امن نہیں ہوسکتا اول لیگ کے پاس فوجی طاقت ہو دوم عدل اور انصاف کے ساتھ آپس میں صلح کرائی جائے.سوم جو نہ مانے اس کے خلاف سارے مل کر لڑائی کریں چہارم اور جب صلح ہو جائے تو صلح کرانے والے ذاتی فائدہ نہ اٹھا ئیں یہ چار اصول لیگ آف نیشنز کے قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں جب تک ان پر عمل نہیں ہو گا حقیقی امن پیدا نہیں ہوسکتا.پہلی لیگ آف نیشنز بھی ناکام رہی اور اب دوسری لیگ آف نیشنز بھی ناکام رہے گی.پس ضروری ہے کہ دنیا اسلام کے اصولوں کو اپنائے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے کیونکہ جب تک یہ پارٹی سسٹم جاری ہے اور جب تک یہ امتیاز باقی ہے کہ یہ چھوٹی قوم ہے اور وہ بڑی قوم ہے اور یہ کمزور حکومت ہے اور وہ طاقتور حکومت ہے اس وقت تک دنیا کے امن کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے.پس ضروری ہے کہ اس امتیاز کو دلوں سے مٹایا جائے جب تک یہ چیز باقی رہے گی کہ یہ بڑی جان ہے اور یہ چھوٹی جان ہے اس وقت تک دنیا امن اور چین کا سانس نہیں لے سکتی.(۲) پھر حضور نے جدید دنیا میں بین الاقوامی تعلقات کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا پس لیگ آف نیشنز تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق بنائی جائے اور اسلام کے حکموں کے مطابق کام کرے.لیگ آف نیشنز کے بعد اگر دنیا امن حاصل کرنا چاہے تو اسے مندرجہ ذیل چار چیزوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے

Page 374

364 اگر یہ چیزیں اکھٹی کر دی جائیں تو وہ دنیا میں ایک حکومت کے قائم مقام ہوسکتی ہے.(۱) سکہ اور ایچ (۲) تجارتی تعلقات (۳) بین الاقوامی قضاء (۴) ذرائع آمد و رفت یعنی ہر انسان کو سفر کی سہولتیں میسر ہونی چاہئیں تا کہ وہ آزادی سے ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاسکے.(۳) اب اکیسویں صدی کے آغاز میں بہت محدود پیمانے پر مندرجہ بالا اقدامات کے ذریعہ کچھ خطوں کے ممالک آپس میں معاہدے کر کے ترقی اور تعاون کے لیے سازگار فضا پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یوروپی یونین جیسی تنظیمیں آپس میں تعاون کو ان خطوط پر بڑھا رہی ہیں لیکن پوری دنیا میں یہ نظام جاری کرنے سے جو عالمی فوائد حاصل ہو سکتے تھے ،محدود پیمانے پر یہ اقدامات اُٹھانے سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے.(۱) انوار العلوم جلد ۸ ص ۳۱۱ تا ۳۱۶ (۲) انوار العلوم جلد ۱۸ ص ۴۳۱ تا ۴۳۴ (۳) انوار العلوم جلد ۱۸ ص ۴۳۴۴۳۳

Page 375

365 ۱۹۵۳ء کے فسادات اور اُن کا پس منظر جیسا کہ کتاب کے حصہ اول میں ذکر آچکا ہے کہ جب جماعت احمدیہ نے کشمیر کے مسلمانوں کی بے مثال خدمت شروع کی اور ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی تو جہاں انصاف پسند گروہ نے اسے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا وہاں یہ امر ایک گروہ کے حسد کو بھڑ کانے کا باعث بھی بن گیا.مجلس احرار احمدیوں کے خلاف آگ بھڑکانے میں پیش پیش تھی.اصول پسندی اس نیم مذہبی اور سیاسی تنظیم کا شعار نہیں تھی.۱۹۳۹ء کی آل انڈیا احرار کا نفرنس کے خطبہ صدارت میں افضل حق صاحب نے بڑے اعتماد سے احمدیت کو ختم کرنے کا دعوئی ان الفاظ میں کیا تھا، احرار کا وسیع نظام باوجود مالی مشکلات کے دس برس کے اندر اندر اس فتنے کوختم کر کے چھوڑے گا.باخبر لوگ جانتے ہیں کہ جانباز احرار نے کس طرح مرزائیت کو نیم جان کر دیا ہے.(۱) اس اعتماد کی وجہ یہ تھی کہ کچھ انگریز عہدیدار بھی ان کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے.حضرت خلیفۃ ا رت خلیفة المسیح الثانی نے اس سازش کا تفصیلی ذکر کر کے فرمایا تھا کہ اگر حکومت نے آزاد کمیشن بٹھایا تو ہم ان افسران کے نام اور حالات ظاہر کر دیں گے.مگر حکومت نے ایسا نہیں کیا.(۲).جب احرار جماعت احمدیہ کے خلاف اپنی مہم چلا رہے تھے تو انہیں کانگرس کی حمایت بھی حاصل تھی.ہندو وکلاء احرار کی طرف سے مفت پیش ہوتے تھے.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنا نمائیندہ پنڈت نہرو کی طرف بھیجا کہ آپ لوگوں کی ہمدردی احرار کے ساتھ کس بناء پر ہے اور یہ طرفداری کیوں کی جا رہی ہے.انہوں نے ہنس کر کہا کہ سیاسیات میں ایسا کرنا پڑتا ہے(۳).احرار نے تو آگ بھڑ کانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مگر ان کی تحریک کا انجام اس آیت کریمہ کے مطابق ہوا مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلمت لا يُبْصِرُونَ ) (البقرة: ۱۸) ترجمہ: ان کی مثال اس شخص کی حالت کی مانند ہے جس نے آگ بھڑکائی.پس جب

Page 376

366 اس (آگ) نے اس کے ماحول کو روشن کر دیا.اللہ ان ( بھڑ کانے والوں ) کا نور لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے تھے.(البقرۃ ۱۸) آزادی کے بعد یہی احرار ایک بار پھر جماعت کے خلاف آگ بھڑ کانے کا محرک بنے.ان کے کردار اور طریقہ واردات کا تجزیہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بعد میں عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کے خلاف جتنی بھی تحریکیں اٹھیں ، وہ کسی حد تک ۱۹۵۳ء کی شورش کا رنگ لئے ہوئے تھیں.گو وقت کے ساتھ انداز میں کچھ نہ کچھ تبدیلی تو آتی رہی مگر تمام مخالفین بنیادی امور میں اُنہی کی پیروی کرتے رہے.اس لئے اگر ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کر لیا جائے تو اکثر مخالفین کی نفسیات اور اُن کے کردار کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے.اسی طرح اگر ۱۹۵۳ء کے فسادات کے محرکات کو سمجھ لیا جائے اور یہ جائزہ لیا جائے کہ اس شرارت نے کس طرح سر اٹھانا شروع کیا اور کس طرح حکومت نے اپنے مقاصد کے لئے اس فتنہ کو بھڑ کا یا اور بالآخر کس طرح یہ فتنہ خود حکومت اور ملک کے امن وامان کو برباد کرنے کا باعث بنا تو اس کے بعد جماعت کی مخالفت کی تاریخ کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا.مولویوں اور مسلم لیگ کا تنازع: مجلس احرار نے جماعت کے خلاف اپنی ناکامی کی خفت تو اٹھائی ہی تھی لیکن اس کے بعد انہیں ایک اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا.انہیں یہ دوسری نا کامی سیاست کے میدان میں اٹھانی پڑی.آزادی سے معاً قبل مسلمانوں کی اکثریت تو مسلم لیگ کا ساتھ دے رہی تھی لیکن علماء کی اکثر تنظیمیں کانگرس کے ساتھ تھیں.مجلس احرار اور جمیعتہ العلماء جیسی جماعتیں نہ صرف کانگرس کے ساتھ تھیں بلکہ انہیں مسلم لیگ کے ساتھ سخت بغض تھا.پرتاب جیسے کانگرس کے حامی اخبارات ان کے ایسے بیانات بہت نمایاں کر کے چھاپتے تھے کہ مسلم لیگ ایک رجعت پسند جماعت ہے جو ملک وقوم کی ترقی کی راہ میں بھاری رکاوٹ ہے.(۴) احمدیت کی مخالفت کی طرح اس سوقیانہ بیان بازی میں احراریوں کے لیڈر اور ان کے امیر شریعت ، عطاء اللہ شاہ بخاری سب سے نمایاں تھے.۱۹۳۹ء کے سال میں جب ہندوستان کے

Page 377

367 سیاسی منظر پر ہلچل مچی ہوئی تھی تو ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے کہا کہ د مسلم لیگیوں میں خودداری کا ذرا مادہ نہیں.وہ برطانوی گورنمنٹ کے اشارے پر ناچتے ہیں اور ہندوستان کو ہمیشہ غلام رکھنا چاہتے ہیں.یہ امر افسوسناک ہے کہ مسلم لیگی مہاتما گاندھی کے ممنون ہونے کی بجائے اپنے ذاتی اغراض کیلئے کانگرس سے جھگڑا کر رہے ہیں.اسی جلسے میں اُنہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ کانگرس میں شامل ہوں.(۵) عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب صرف مسلم لیگ ہی سے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں سے بھی بہت نالاں تھے.چنانچہ جون ۱۹۳۹ء میں انہوں نے سندھ کا دورہ کیا تا کہ وہاں پر مسلم لیگ کے مقابل پر احرار کی تنظیمیں قائم کریں.اسی ضمن میں ایک پولیٹیکل کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا، ہندوستان کے مسلمانوں کو شرم آنی چاہئیے.کہ ان کے ہندو بھائی تو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں.اور اسلام کے نام لیوا جن کا مسلک ہی آزادی ہے.ان کے راستے میں رخنے ڈال رہے ہیں.یہاں پر بھی انہوں نے ایک بار پھر مسلمانوں سے کانگرس میں شامل ہونے کی اپیل کی.اور اسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک اور احراری لیڈر مظہر علی اظہر صاحب نے انتباہ کیا کہ کانگرس سے علیحدہ رہ کر مسلمان کہیں کے نہ رہیں گے.(۶) رفتہ رفتہ یہ نوبت آئی کہ احرار نے کانگرس اور سکھوں کی اکالی پارٹی کے ساتھ یوم آزادی کے مشترکہ جلسوں کا انعقاد شروع کر دیا.(۷) جب کیبنٹ مشن ہندوستان پہنچا تو اس اہم موقع پر مجلس احرار کی مجلس عاملہ نے یہ قرارداد منظور کی جہاں تک مسلم لیگ کے نظریہ پاکستان کا تعلق ہے مجلس عاملہ کسی صورت میں بھی اس سے اتفاق نہیں کر سکتی...مسلم لیگ کی قیادت مسلمانوں کو ایک غیر منظم قوم اور بے ہنگام گروہ کی حیثیت دینا چاہتی ہے.لہذا یہ اجلاس ایک بار پھر اعلان کرتا ہے، کہ مسلم لیگ کی

Page 378

368 قیادت قطعی غیر اسلامی ہے.اس کا عمل آج تک ملتِ اسلامیہ کے مفاد کے منافی رہا ہے.مرکزی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں اسلامی قوانین کی مخالفت اس کا مستقل شعار ہے.اس لئے مسلمان سیاسی ، مذہبی ،تمدنی راہنمائی کی توقع مسلم لیگ کی غیر اسلامی قیادت سے نہیں کر سکتے ، اور مسلم لیگ کے کسی فیصلے کو اسلامی ہند کا فیصلہ نہیں قرار دیا جاسکتا.(۸) احرار اور اُن جیسے دوسرے مولویوں کا یہ خاص طریقہ ہوتا ہے کہ وہ مخالف پر ذاتی حملے کرتے ہیں، دشنام طرازی سے بڑھ کر گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں.اُس کے ہر فعل پر خلاف اسلام ہونے کا فتویٰ جڑ دیتے ہیں.چنانچہ ۱۹۳۹ء کی آل انڈیا احرار کا نفرنس کے خطبہ صدارت میں افضل حق صاحب نے کہا، لیگ کے ارباب اقتدار جو عیش کی آغوش میں پہلے ہیں.اسلام جیسے بے خوف مذہب اور مسلمانوں جیسے مجاہد گروہ کے سردار نہیں ہو سکتے.مردوں سے مرادیں مانگنا اتنا بے سود نہیں جتنا لیگ کی موجودہ جماعت سے کسی بہادرانہ اقدام کی توقع کرنا.اسی تقریر میں انہوں نے مسلمانوں کو انتباہ کیا ، سوچ لو پاکستان کی تحریک بھی برطانوی جھانسہ نہ ہو.(۹) اپریل ۱۹۴۶ء میں دہلی کے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے کہا تحریک پاکستان کی قیادت کرنے والوں کے قول وفعل میں بنیادی تضاد ہے....یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ جو لوگ اپنی اڑھائی من کی لاش اور چھ فٹ قد پر اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکتے ، جن کا اٹھنا بیٹھنا ، جن کا سونا جاگنا، جن کی وضع قطع ، رہن سہن ، بول چال، زبان لباس غرض کوئی چیز اسلام کے مطابق نہ ہو، وہ ایک قطعہ زمین پر اسلامی قوانین کیسے نافذ کریں گے.(۱۰) عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے بہت مرتبہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ صدر مسلم لیگ قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کر کے پاکستان کے متعلق اپنے شکوک و شبہات دور کرنا چاہتے ہیں.لیکن اغلباً ان کی مشکوک شہرت کی وجہ سے قائد اعظم کبھی بھی ان سے ملاقات پر آمادہ نہیں ہوئے.(۱۱) جوں جوں قائد اعظم کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا، ان کے خلاف احرار کا غیض وغضب بھی بڑھتا

Page 379

369 گیا.وہ اب بازاری انداز میں مخالفت پر اتر آئے تھے.احراری لیڈروں نے پاکستان کو پلیدستان قرار دیا اور قائد اعظم کو کافر کہنا شروع کر دیا.ایک مشہور احراری لیڈ ر مظہر علی اظہر کا یہ شعر ان کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے اک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا یہ قائد اعظم ہے کہ ہے کافر اعظم (۱۲) یہ دشنام طرازی صرف احرار تک محدود نہیں تھی.مولویوں کے دوسرے گروہ بھی اس میں پیش پیش تھے.اور ان کے نزدیک مسلم لیگ ایک غیر اسلامی تنظیم تھی.جماعت اسلامی کے بانی مودودی صاحب نے اپنی کتاب 'مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش، میں قائد اعظم پر ان الفاظ میں طعن و تشنیع کی دمگر افسوس کہ لیگ کے قائد اعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرز فکر رکھتا ہو اور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہو.یہ لوگ مسلمان کے معنی و مفہوم اور اس کی مخصوص حیثیت کو بالکل نہیں جانتے.(۱۳) یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ مودودی صاحب نے کس دھڑلے سے تمام اراکین لیگ پر فتویٰ جڑ دیا ہے جب کہ ان میں سے اکثریت کو وہ جانتے بھی نہیں تھے.جس طرح وہ ہر ایک کے دل میں جھانک کے آئے ہیں.اور اُن کی دور بین نگاہ نے ہر ممبر مسلم لیگ کے کردار کو خوب اچھی طرح پر کچھ لیا ہے کہ بالکل غیر اسلامی ہے.اسی کتاب میں مودودی صاحب پاکستان بنانے کی تجویز کے متعلق تحریر کرتے ہیں پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں اور یہاں جمہوری نظام قائم ہو جائے تو اس طرح حکومتِ الہی قائم ہو جائے گی ، ان کا گمان غلط ہے.دراصل اس کے نتیجے میں جو کچھ حاصل ہو گا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی.(۱۴) یہ صورت حال مسلم لیگ کے لئے پریشانی کا باعث تھی.اس پس منظر میں اخبارات میں بیہ خبریں بھی چھنے لگیں کہ مسلم لیگ کے بعض قائدین کا خیال ہے کہ علماء روپے کے لالچ کی بناء پر

Page 380

370 کانگرس کا پر چار کرتے ہیں اس لئے مناسب ہوگا کہ ان کے لئے روزگار کا کوئی مناسب انتظام کر دیا جائے.(۱۵) مسلم لیگ کے قائدین اب بر ملا علماء پر غداری کا الزام لگا رہے تھے.چنانچہ ظفر علی خان صاحب نے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا اگر مسلمانوں میں سے علماء کرام مولانا حسین احمد مدنی، مولانا کفایت اللہ ، مولانا احمد سعید اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کٹ کر ہندوؤں سے نہ ملتے تو آج کانگرس مسلمانوں سے مصالحت کر لیتی.مگر یہ علماء خدا کو چھوڑ کر جواہر لال نہرو کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں.(۱۶) قائد اعظم نے عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب جیسے لوگوں کی سطح پر اتر کر جواب تو نہیں دیا لیکن وہ ایک قانون دان تھے.اور ان کی نظریں مستقبل میں پیدا ہونے والے خطرات کو دیکھ رہی تھیں.چنانچہ ایک انٹرویو میں انہوں نے علماء کے متعلق کہا مذہبی تعبیر کے ساتھ ہی کام کی نوعیت اس کی حقیقی تقسیم عمل اور اس کی اصل حدود کو سمجھے بغیر ہمارے علماء کی ایک جماعت ان خدمات کو صرف چند مولویوں کا ایک اجارہ خیال کرتی ہے.باوجود اہلیت اور مستعدی کے ، آپ کے یا میرے جذ بہ خدمت کو پورا کرنے کی کوئی صورت نہیں پاتی.پھر اس منصب کی بجا آوری کے لئے جن اجتہادی صلاحیتوں کی ضرورت ہے ان کو میں الا ما شاء اللہ ان مولویوں میں نہیں پاتا.وہ اس مشن کی تکمیل میں دوسروں سے کام لینے کا سلیقہ بھی نہیں جانتے.(۱۷) اس سے ظاہر ہے کہ قائد اعظم کے نزدیک مولوی طبقہ اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا تھا کہ وہ مذہب کو بنیاد بنا کر قانون سازی کا کام کریں یا سیاست میں دخل دیں.اگر چہ یہ طبقہ یہی سمجھ رہا تھا که ان امور پر صرف اُنہی کی اجارہ داری ہونی چاہئیے.مسلم لیگ کی کامیابی اور مولویوں کی زبوں حالی: بہر حال اس تناظر میں ہندوستان میں انتخابات ہوئے اور مسلم سیٹوں پر مسلم لیگ کو تقریباً مکمل کامیابی ملی اور دوسری طرف احرار جیسے گروہوں کو مسلمان عوام نے مکمل طور پر مستر دکر دیا.احرار کا زیادہ تر اثر پنجاب میں تھا.آزادی کے بعد ہونے والے فسادات کی وجہ سے مشرقی پنجاب میں بسنے

Page 381

371 والے احراریوں کو بھی پاکستان میں پناہ لینی پڑی.اُن کے لئے یہ صورتِ حال کئی وجوہات کی بناء پر مایوس کن تھی.کل تک جس ملک کو وہ پلیدستان کہہ رہے تھے ، آج وہ اُسی ملک میں پناہ لینے پر مجبور تھے.کل تک جن کی ہر بات کو خلاف اسلام قرار دیا جارہا تھا ، وہ آج قوم کے ہیرو اور حکمران بن چکے تھے.جس شخصیت کو احرار کافر اعظم کہتے رہے تھے آج اُس شخصیت کو پوری قوم قائد اعظم کہہ رہی تھی.یہ علماء کل تک جن لوگوں کے متعلق کہہ رہے تھے کہ وہ ہندوستان کو ہمیشہ غلام رکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے ہی قوم کو آزادی دلائی تھی.اور اُس پر آشوب دور میں پاکستان میں احرارا یوں کو کیا سمجھا جارہا تھا اور پاکستان میں اُن کا کس طرح استقبال کیا گیا تھا، اس کا اندازہ ایک مشہور احراری لیڈر تاج الدین انصاری صاحب کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے "غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں تو ہمیں ماضی کی تلخیاں بھول گئیں.کیا آپ ہماری اس وقت کی خوشیوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں ذرا تصور تو کیجئے کہ کن امنگوں اور ولولوں سے ہم نے واہگہ ( ہندوستان کی سرحد پر پاکستان کا پہلا مقام ) کے اس پار قدم رکھا ہوگا.مگر جونہی ہم نے آزادی کے دروازہ میں قدم رکھا چاروں طرف سے اپنوں نے بیگانہ وار چلانا شروع کیا غدار غدار.جب اس طرح ہمارا استقبال ہوا تو ہم ٹھٹھک کر رہ گئے.ہمارا دل بیٹھنے لگا.ہم نے حسرت بھری نگاہوں اور دکھ بھرے دل سے مالک حقیقی کو پکارا.خدایا ہماری قوم کو کیا ہو گیا ہے؟ (۱۸) جب سیاسی عزائم رکھنے والے کسی گروہ کو نہ صرف انتخابات میں مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑے بلکہ چاروں طرف سے غدار غدار کی آوازیں بھی بلند ہو رہی ہوں تو اس گروہ کو یہ صورتِ حال موت سے بھی بد تر معلوم ہوتی ہے.اس وقت احراریوں کے سب سے نمایاں لیڈر عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی کیا کیفیت تھی، اپریل ۱۹۴۸ء میں وہ خود اس کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں.دلیکن میری تو کوئی سنتا ہی نہیں.میرا تو شکاری کتے کا سا حال ہے جو شکار کو دیکھ کر بھونکتا ہے، وہ جو کچھ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اُسی کی آواز لگاتا ہے.وہ دوڑتا ہے کودتا ہے، پھدکتا ہے پھڑکتا ہے کہ شکار سے لپٹ جاؤں، اور بھونکتا ہے کہ اپنے مالک سے اس کی خبر کر دوں.اسی طرح میں دیکھ رہا تھا شکار کو ، اور تمہارے دروازے پر بھونکا.جس

Page 382

372 دروازے پر گیا اُسی نے لاٹھی رسید کی بے ایمان سونے نہیں دیتا.‘(۱۹) آزادی کے معاً بعد احرار کی حالت کیا تھی ، اس کے متعلق ۱۹۵۳ء کے فسادات پر تحقیق کے لیے قائم ہونے والی تحقیقاتی عدالت کا تبصرہ یہ تھا ۱۹۴۷ء کی تقسیم اور پاکستان کا قیام احرار کے لئے بہت بڑی مایوسی کا پیغام تھا.کیونکہ اس سے ہر قسم کا اقتدار کانگرس یا مسلم لیگ کی طرف منتقل ہو گیا.اور احرار کے لئے ہندوستان یا پاکستان میں سیاسی سرگرمی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی.پاکستان کی نئی مسلم مملکت کے قیام سے انہیں شدید صدمہ ہوا.ان کے نظام عقاید کی عمارت متزلزل ہوگئی.وہ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے بالکل ختم ہو گئے.کچھ مدت تک وہ اسی نا کامی اور مایوسی کی حالت میں رہے.انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ نہ سوجھتا تھا.(۲۰) اس کے برعکس سب جانتے تھے کہ جماعت احمدیہ نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا.جب قادیان پر ہر طرف سے حملے ہورہے تھے تو احمدیوں نے بہادری سے نہ صرف اپنا دفاع کیا تھا بلکہ ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کی مدد بھی کی تھی.حتی کہ مخالفین بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے.باوجود سخت مشکل حالات کے جماعت نے نہ صرف فوری طور پر پاکستان میں نظام جماعت کو قائم کیا بلکہ نئے مرکز کی تعمیر بھی شروع کر دی.اور پوری دنیا میں تبلیغ اسلام کے کام کو بھی پہلے سے زیادہ وسعت دینے کا کام شروع کر دیا تھا.جماعت کے اشد مخالفین یوں تو گلے پھاڑ پھاڑ کے جماعت پر یہ الزام لگاتے تھے کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں.مگر جب پاکستان کو عسکری خدمات کی ضرورت پڑی تو یہ گروہ اپنے ملک کی کوئی خدمت نہ کر سکا بلکہ مودودی صاحب نے تو کشمیر میں اُس وقت کی جانے والی جدو جہد کو نا جائز قرار دے دیا.اور ان کے اس فتوے کو ہندوستانی ریڈیو اور شیخ عبد اللہ صاحب کی حکومت نے بہت اچھالا (۲۱).مگر پاکستانی احمدیوں نے فرقان بٹالین کے ذریعہ اپنے ملک کے دفاع میں بہت کامیابی کے ساتھ حصہ لیا.مخالفین کے حسد کی اُس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو ملک کا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا.اور دیکھتے دیکھتے حضرت چوہدری صاحب نے نہ صرف پاکستان کی نمایاں خدمت کی بلکہ اقوام متحدہ میں اسلامی ممالک کے حقوق کے لئے اس کامیابی سے آواز بلند کی کہ اپنے پرائے سب عش عش کر اٹھے.اب جماعت

Page 383

373 کے مثبت کام سب کو نظر آرہے تھے اور احرار کے دامن میں منفی نعروں کے سوا کچھ نہ تھا.مولویوں کا نصب العین: سیاسی اقتدار اگر چہ احرار دعوی کرتے تھے کہ وہ مذہبی مقاصد رکھتے ہیں لیکن وہ مذہب کا نام صرف سیاست کی دوکان چمکانے کے لئے استعمال کرتے تھے.ان کا عقیدہ تھا کہ سیاسی رسوخ حاصل کرنا ہی اصل مذہبی مقصد ہے.یہ پوچ نظریہ اُن کے ذہنوں میں بری طرح رچ بس گیا تھا.۱۹۳۹ء کی آل انڈیا احرار کا نفرنس کے خطبہ صدارت میں افضل حق صاحب نے یہ پالیسی ان الفاظ میں بیان کی.احرار اس یقین پر قائم ہیں کہ نیکی بغیر قوت کے زندہ نہیں رہ سکتی.مذہب صرف اس کا زندہ ہے جس کی سیاست زندہ ہے.اگر چہ بعض تبلیغی اور اصلاحی امور بھی احرار سے متعلق ہیں.تاہم سیاسی قوت حاصل کرنا ہمارا نصب العین ہے جس کے بغیر ہر اصلاحی تحریک تضیع اوقات ہے.(۲۲) مگر اب ان کا سیاسی اثر صفر ہو چکا تھا.ان کا دعوی تھا کہ دس برس میں وہ احمدیت کو ختم کر دیں گے.مگر جب یہ مدت پوری ہونے کو آئی تو احمدیت تو ترقی کر رہی تھی لیکن خود مجلس احرار کی بقا خطرے میں پڑی ہوئی تھی.اب اپنی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے انہیں کچھ نہ کچھ کرنا تھا.احرار رنگ بدلتے ہیں: مئی ۱۹۴۸ء میں احرار کی ایک کانفرنس لائل پور میں منعقد ہوئی اُس میں احمدیوں کے خلاف اشارے کئے گئے اور پاکستان سے اظہارِ وفاداری کیا گیا.کل تک جسے وہ پلیدستان کہہ رہے تھے، آج وہ اسی سے اظہار وفاداری کرنے پر مجبور تھے.پھر جون میں لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا اور اس میں پاکستان کی حمایت میں زیادہ وضاحت سے اظہارِ جذبات کیا گیا اور اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی کیا گیا کہ احرار مسلم لیگ میں اس لئے شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ اس میں چوہدری ظفر اللہ خان اور میاں افتخار الدین جیسے لوگ شامل ہیں جن کے عقائد اسلام کے خلاف ہیں.گویا کل تک یہی لوگ کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ والے تو انگریز کے اشارے پر ناچتے ہیں اور ان میں

Page 384

374 خود داری کا مادہ بالکل نہیں ہے اور آج یہ لوگ صرف اس لئے مسلم لیگ میں شامل نہیں ہو رہے تھے کہ اس میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جیسے عقائد رکھنے والے لوگ شامل ہیں.اور کوئی مسئلہ نہیں.احرار نے جنوری ۱۹۴۹ء میں لاہور کے مقام پر اپنی کا نفرنس منعقد کی اور اعلان کیا کہ اب مجلس احرار کی سیاسی حیثیت ختم کر دی گئی ہے.اب نہ صرف اس بات پر آمادگی ظاہر کی جا رہی تھی کہ سیاسی محاذ پر احراری مسلم لیگ کی پیروی کریں گے بلکہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ آزادی سے پہلے بھی احرار اور مسلم لیگ کے درمیان کوئی خاص اختلافات موجود نہیں تھے.اس موقع پر عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے کہا مسلم لیگ سے ہمارا اختلاف صرف یہ تھا کہ ملک کا نقشہ کس طرح بنے.یہ نہیں کہ ملک نہ بنے بلکہ یہ کہ اس کا نقشہ کیونکر ہو..یہ کوئی بنیادی اختلاف نہیں تھا، نہ حلال حرام کا، نہ گناہ و ثواب کا ، اور نہ مذہب کا ، وہ تو ایک نظریے کا اختلاف تھا....پس اب ہمارا مسلم لیگ سے کوئی اختلاف نہیں ، نہ پہلے ہمارے اور اُن کے درمیان مذہبی اختلاف تھا نہ خدا نہ رسول کا ، نہ ہم ولی ہیں نہ لیگ والے قطب.(۲۳) اس بیان کا سابقہ بیانات سے موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ احرار اصول پسندی کے مفہوم سے نا آشنا تھے.وہ سفید جھوٹ بول کر مستقبل کی چالوں کی راہ ہموار کر رہے تھے.ان کے پیروکاروں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی تھی جو زیادہ علم نہیں رکھتے اور نہ ہی تحقیق کر کے حقیقت کو جان سکتے ہیں.اب احرار مسلم لیگ کے خلاف تو کچھ کر نہیں سکتے تھے لیکن انہیں ایک ایسشو درکار تھا جس کے چور دروازے کو استعمال کر کے وہ ایک بار پھر لوگوں کی نظر میں آسکیں.چنانچہ انہوں نے ایک بار پھر احمدیت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور اسی جلسے میں بخاری صاحب نے کہا دمجلس احرار اب مذہبی اور اصلاحی کاموں میں سرگرم رہے گی.مسئلہ ختم نبوت اس کا بنیادی مسئلہ ہے.سیاسیات اب ہماری منزل نہیں ، وہ جانے اور مسلم لیگ.(۲۴) اس کے ساتھ احرار نے جماعت کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا.جیسا کہ ہم بعد میں وضاحت کریں گے احرار گوشہ گمنامی سے خود باہر نہیں آرہے تھے بلکہ کچھ ہاتھ اپنے مقاصد کے لئے انہیں

Page 385

375 باہر نکال کر لا رہے تھے.اس تحریک میں شروع ہی سے اُن کا طریق تھا کہ جو عیب خود اُن میں تھے انہیں جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کرنا شروع کر دیا تا کہ لوگوں کی مخالفت اور شکوک کا رخ جماعت احمدیہ کی طرف ہو جائے.اور ان کا اصول تھا کہ جھوٹ بولو اور مسلسل بولتے جاؤ.یہ گروہ اخلاقی قیود جیسی چیزوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا تھا.احرار کو گوشہ گمنامی سے نکالنے والے ہاتھ کون تھے، اس کا ذکر تو بعد میں آئے گا مگر اب مسلم لیگ کا ایک گروہ بھی ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا.اب تک مسلم لیگ کے اراکین پر پابندی تھی کہ وہ مسلم لیگ کے رکن ہوتے ہوئے مجلس احرار کے رکن نہیں بن سکتے.مگر دسمبر ۱۹۴۹ء میں یہ پابندی اٹھالی گئی.اس کے ساتھ جماعت احمدیہ کے خلاف احرار کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گیا.(۲۵) آزادی سے قبل بھی احرار دو مرتبہ کوشش کر چکے تھے کہ مسلم لیگ میں شامل ہو کر اس پر قبضہ کریں چنانچہ یکم دسمبر ۱۹۴۱ء کو احراری لیڈر افضل حق صاحب نے قصور میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا، ہم نے لیگ میں دو دفعہ گھس کر کوشش کی تا کہ اس پر قبضہ جمائیں.دونوں دفعہ قاعدے اور قانون نئے بنادئے گئے تا کہ ہم بیکار ہو جائیں.(۲۶) اب قائد اعظم کی وفات کے بعد یہ رکاوٹ اُٹھا دی گئی تھی.اور پنجاب مسلم لیگ کی ناعاقبت اندیشی نے احرار کے لئے راہ ہموار کرنی شروع کر دی تھی.جماعت احمدیہ کے خلاف زہرا گلا جاتا ہے: کہنے کو تو احرار اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کر رہے تھے لیکن وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو سوشلزم کے زیادہ قریب محسوس کرتے تھے.اور اپنے خام خیال میں وہ سوشلزم یا کمیونزم کا جو بھی سمجھ پائے تھے اُسی کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے.یہ بات پیش نظر رہنی چاہئیے کہ اس وقت سرخ دنیا پر سٹالن کی شخصیت چھائی ہوئی تھی.چنانچہ ۱۹۳۹ء کے تاریخی سال ان کے اجلاس میں یہ واضح اعلان کیا گیا تھا، سوشلسٹ ذہن کے اعتبار سے بین الاقوامی اور دل میں مساوات کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے احرار کے قریب ہے.ان دو راہروانِ ترقی کو ایک اکیلا رہنے کی بجائے دشمنوں کو ایک

Page 386

376 اور ایک گیارہ دکھائی دینا چاہئیے.(۲۷) آہستہ آہستہ یہ واضح ہوتا جائے گا کہ احرار اپنے دشمنوں کے خلاف ویسی ترکیبیں لڑاتے تھے جیسا کہ اپنے ناقص مطالعہ کی وجہ سے وہ خیال کرتے تھے کہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ انقلاب لانے کے لئے استعمال کرنا ضروری ہیں.اب احرار مطالبہ کر رہے تھے کہ قانونی طور پر جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیا جائے.وہ غلط عقائد جماعت کی طرف منسوب کر کے لوگوں کے جذبات کو انگیخت کر رہے تھے.چونکہ پاکستان میں خود اُن پر غداری کا الزام لگایا گیا تھا ، اس لئے ان حقائق سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے وہ پرو پیگنڈا کر رہے تھے کہ اصل میں پاکستان میں بسنے والے احمدی پاکستان کے وفادار نہیں ہیں اور ملک سے غداری کر رہے ہیں.اور در حقیقت پاکستان کی حقیقی تمنا کرنے والے تو احرار تھے.چنانچہ جب احرار نے کینچلی بدلنی شروع کی تو اُن کے اخبار آزاد نے لکھا:.تیسری قسم کے لوگ جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ پاکستان تو ضرور بنے لیکن کچھ عرصہ کے لئے پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ضرور قائم رہیں.یہ وہ لوگ تھے جو مجلس احرار سے تعلق رکھتے تھے...غور طلب امر یہ ہے کہ مرزائی جو پاکستان کے سرے ہی سے مخالف اور اس کی کامیابی میں روڑے اٹکانے والے تھے آج سب کچھ حاصل کرنے کے بعد ظاہرہ طور پر اپنے کو پاکستانی کہتے ہیں.مگر احرار جن کی حقیقی تمنا پاکستان تھی جو اس میں اپنے عقیدہ حکومت الہیہ کی عملی تصویر دیکھنا چاہتے تھے.ان کو یہ مرزائی اچھل اچھل کر غیر پاکستانی کہہ کر اپنے جرم کر چھپانا چاہتے ہیں.(۲۸) ان کے علاوہ اب بعض اور اخبارات بھی جماعت کے خلاف زہر اگلنے میں پیش پیش تھے.جن میں زمیندار بھی شامل تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی کاروائیوں کا بر وقت نوٹس لیتے ہوئے جنوری ۱۹۴۹ء کی ایک میٹنگ میں ارشاد فرمایا تھا کہ زمیندار میں شائع ہونے والے مضامین کی تردید کے لئے مکمل تحقیق کی جائے اور یہ تجویز بھی زیر غور آئی تھی کہ ایک علیحدہ روزنامہ کراچی سے نکالا جائے جس میں اپنے سیاسی نظریات پیش کئے جائیں.(۲۹) اگر آدمی حقائق کا علم رکھتا ہوتو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر احرار پاکستان بنانے کے اتنے

Page 387

377 ہی حامی تھے تو ان کی مجلس عاملہ نے یہ قرارداد کیوں منظور کی تھی کہ ہم کسی صورت میں نظریہ پاکستان کو قبول نہیں کر سکتے.مسلم لیگ کے لیڈروں کو برا بھلا کیوں کہتے رہے.مسلمانوں کو یہ ترغیب کیوں دلاتے رہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کانگرس میں شامل ہوں.اور اگر احمدی ہی پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکا رہے تھے تو انہوں نے الیکشن میں مسلم لیگ کو ووٹ کیوں دیئے تھے.احرار کا طریقہ کار یہی تھا کہ اگر ایک جھوٹ کا ثبوت دینے کی ضرورت پیش آئے تو اُس سے بڑا جھوٹ بول دو.پھر بھی بات نہ بنے تو تیسرا جھوٹ گھڑ لو.البتہ اُن کے لیڈر عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ محب وطن کون ہے اور غدار کون ہے ایک طریقہ بھی تجویز کیا تھا جو یہ تھا میں اپنی حکومت سے اپنے وزراء سے سردار عبدالرب نشتر سے بصد احترام درخواست کرتا ہوں کہ خدا را آپ اس جھگڑے کو ختم کر دیجیے.آپ مجھے اور مرزا بشیر الدین محمود امیر جماعت احمد یہ دونوں کو بیک وقت گرفتار کر لیجیئے.دونوں کو اکھٹی ہتھکڑی لگائیے اور اکھٹے ہی سات دن کے لئے حوالات میں رکھئے.کھانے کو پانی اور نمک کے سوا کچھ نہ دیکھیئے اور پھر آپ سات دن تک تحقیقات کیجئے اور ہم دونوں کو عدالت میں پیش کر دیجئے.(۳۰) اس معرکة الآراء بیان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی بیان بازی کے مخاطب زیادہ تر وہی لوگ ہوتے تھے جنہیں علم اور عقل کی تقسیم میں کم حصہ ملا ہوتا ہے.احراری مولوی بھانڈوں کی طرح ان لوگوں کو ہنسا کر مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے.اب وہ اپنے جلسوں میں جماعت کے خلاف ہر قسم کے الزامات لگا کر نفرت کے طوفان اُٹھا رہے تھے.وہ لوگوں کو اکسا رہے تھے کہ احمدیوں کا بائیکاٹ کریں.وہ الزام لگا رہے تھے کہ احمدی نا جائز الاٹمنٹیں کرا کے فائدہ اُٹھا رہے ہیں.احمدیوں نے کشمیر میں خدمات سرانجام دیں تو اُس کے جواب میں احرار نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ در اصل احمدی کشمیری مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوا ر ہے ہیں.اور فرقان فورس در اصل اپنے آپ کو مسلح کرنے کا ایک بہانہ ہے.ان کا اخبار آزاد خاص طور پر تمام اخلاقی قیود سے آزاد ہو چکا تھا.اس میں ایسے بیانات دیئے جا رہے تھے جن میں بزرگانِ سلسلہ کو گالیاں دی ہوتی تھیں.اور احمدی فوجی افسران کی لٹیں شائع کی جاتی تھیں اور اس خدشے کا اظہار کیا جاتا تھا کہ یہ احمدی ایک دن ملک میں فوجی انقلاب لانے کا باعث بنیں گے (۳۰).

Page 388

378 حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اپنی خدمات کی وجہ سے عالم اسلام میں ایک نمایاں مقام حاصل کر چکے تھے.اس لئے اس ٹولے کی دل آزاری اور الزامات کا سب سے زیادہ نشانہ بھی چوہدری صاحب ہی بنے.احرار بر ملا کہہ رہے تھے کہ چوہدری ظفر اللہ خان غدار ہے اور اسے فوری طور پر برطرف کرنا چاہئیے.صرف اس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا.چوہدری صاحب کے استعفے کو نصف صدی سے زاید عرصہ گذر چکا ہے.کشمیر کا مسئلہ حل ہونا تو درکنار، آپ کے بعد اس مسئلے پر ایک انچ کی پیش رفت بھی نہیں ہوئی.جو پیش رفت ہوئی آپ کے دور وزارت میں ہوئی.) یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ احمدیوں کو تمام کلیدی اسامیوں سے برطرف کیا جائے.احرار اپنے جلسوں میں احمدیوں کے بزرگوں کو نخش گالیاں نکال رہے تھے.لیکن حکومت پنجاب نے اس عذر کی بناء پر کوئی کاروائی نہیں کی کہ اس طرح احرار کو اور مقبولیت حاصل ہو جائے گی.احمدیوں کو قتل کرنے کی تحریک: لیکن یہ سب کافی نہیں تھا.ابھی ان مخالفین کا صحیح چہرہ ظاہر ہونا باقی تھا.اب اُن کی حکمت عملی ی تھی کہ لوگوں کو احمدیوں کی قتل و غارت پر اکسایا جائے.چنانچہ ان لوگوں نے ایک پرانا کتابچہ شائع کرایا جو مسلم لیگ کے ایک مولوی شبیر احمد عثمانی صاحب کا لکھا ہوا تھا.اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے اور احمدی مرتد ہیں اس لئے احمدی واجب القتل ہیں.احراری اپنے جلسوں میں اس کا حوالہ بکثرت دینے لگے.اور اپریل ۱۹۵۰ء میں راولپنڈی میں ہونے والے جلسے میں ہر مقرر نے اپیل کی کہ لوگ یہ کتابچہ ضرور پڑھیں.اشتعال دلانے کیلئے ان کے جلسوں میں یہ اعلان بھی کئے جاتے کہ جو لوگ احمدیوں کو قتل کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کرنا چاہتے ہیں وہ ہاتھ کھڑے کریں.نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے جلسوں میں لوگ کھڑے ہو کر اپنے آپ کو پیش کرنے لگے کہ وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو قتل کرنے کو تیار ہیں.عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے بارہا اپنے جلسوں میں کھڑے ہو کر کہا کہ اگر بانی سلسلہ احمد یہ اُن کی زندگی میں دعوی کرتے تو وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیتے.اس نفرت انگیز مہم کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب کے مختلف مقامات پر معصوم اور بے قصور احمدیوں کو شہید کرنے کا سلسلسہ شروع ہو

Page 389

379 گیا.احراریوں کی سازشوں کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا.(۳۱) دوسری جنگِ عظیم کے آغاز پر جب احرار نے کانگرس کے ساتھ مل کر فوجی بھرتی کے خلاف مظاہرے شروع کئے تو انگریز حکومت نے انہیں گرفتار کرنا شروع کر دیا اور سخت رویہ اپنالیا.جب احراریوں نے حکومت کے یہ تیور دیکھے تو بہت سے احراریوں نے اپنی روایتی لال قمیصیں جلانی شروع کر دیں اور حکومت سے معافی مانگی کہ ہم آئندہ ایسی تحریک میں حصہ نہیں لیں گے.اور تو اور جب عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ سرکاری رپورٹ بالکل غلط ہے.میں تو عدم تشدد پر قائم رہنے کا عہد کر چکا ہوں اور کسی متشدد جماعت سے تعلق نہیں رکھتا.(۳۳۳۲) جو شخص انگریز حکومت کے سامنے عدم تشدد کا پرچار کر رہا تھا ، آج معصوم احمدیوں کے قتل وغارت پر لوگوں کو اکسا رہا تھا.وقت کے ساتھ یہ بات بھی ظاہر ہوتی جارہی تھی کہ یہ ہم صرف احراری نہیں چلا رہے.کچھ اور ہاتھ بھی اُن کی پشت پناہی کر رہے ہیں.گورنمنٹ کی مشینری کا ایک حصہ اس وسیع سازش میں شامل تھا.کئی حکومتی کارندے جب احراریوں کے جلسوں کی رپورٹ دیتے تو اس میں احراریوں کی طرف سے دی جانے والی قتل کی دھمکیاں اور دیگر خلاف قانون حرکات کا ذکر حذف کر دیا جاتا.اور جب حضرت مصلح موعود کی تقریروں کی رپورٹیں بھجوائی جاتیں تو اُس میں خلاف واقعہ باتیں شامل کردی جاتیں.ان حرکات کا مقصد یہی تھا کہ حکومتی عہد یدار مکمل طور پر جماعت احمدیہ کے خلاف ہو جائیں اور جب یہ ٹولہ جماعت کے خلاف ایک آخری ضرب لگائے تو کوئی اُن کی راہ میں حائل نہ ہو.مگر بعض شریف افسران ایسے بھی تھے جنہوں نے جراءت کر کے اس تضاد کی نشاندہی کرنی شروع کر دی.حضور نے ۲۳ جون ۱۹۵۰ء کے خطبے میں ان امور کا ذکر فرمانے کے بعد جماعت کو دعاؤں اور زیادہ تندہی سے تبلیغ کرنے کی تلقین فرمائی.حضور نے تقسیم ہند کے پُر آشوب دور کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا اس واقعہ کے بعد ہمیں سمجھ لینا چاہیئے تھا کہ ہمارا یہ خیال کہ ہم صاحبزادوں کی طرح اپنی زندگیاں گزار دیں گے.اور گذشتہ نبیوں کی جماعتوں کے سے حالات میں سے نہیں گزریں گے محض ایک دھوکہ ہے.مگر یہ نہایت ہی حیرت انگیز اور قابلِ افسوس بات ہے کہ میں اب بھی دیکھتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ ہم میں اب یہ احساس پیدا ہو جاتا کہ

Page 390

380 ہمیں بھی آگ اور خون کی ندیوں میں سے گزرنا پڑے گا ہم اس واقعہ کو بھول گئے.اور ، ہماری جماعت نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا....کس طرح پاکستان میں ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور مجلسوں میں لوگوں کو اکسایا جاتا ہے کہ وہ ہمارے آدمیوں کو قتل کر دیں اور ہماری جائیدادوں کو لوٹ لیں.اور دوسرے لوگوں کو یہ تحریک کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مکانات پر نشانات لگالیں تا قتلِ عام کے وقت انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے.سارے پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے مگر کیا کسی نے اس پر نوٹس لیا ہے.کیا تم اتنے بیوقوف ہو کہ ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتے.کہ کسی وقت بھی ایسا ہو سکتا ہے.اور تمہیں ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئیے.گورنمنٹ بھی افراد سے بنتی ہے اور جو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں ان میں سے بعض گورنمنٹ کے رکن ہیں.گورنمنٹ کا کام امن قائم کرنا ہے.گورنمنٹ کا کام اس قسم کے فتنوں کو دبانا ہے.مگر وہ دیکھ رہی ہے اور اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی.(۳۴) خواجہ حسن نظامی کا انتباہ : ان دنوں میں خواجہ حسن نظامی جو دہلی کے مسلمانوں میں ایک معتبر ہستی سمجھے جاتے تھے اور حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ سے وابستہ تھے پاکستان آئے.اور انہوں نے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے یہ معنی خیز بیان دیا مسلمانوں میں اتحاد کی سخت ضرورت ہے.اس وقت مسلمانوں کے فرقوں شیعہ سنی حنفی وہابی مقلد غیر مقلد دیوبندی بریلوی قادیانی غیر قادیانی کا الجھاؤ پاکستان کے استحکام کے سخت خلاف ہے.اور جو لوگ اس وقت مسلمان فرقوں اور خصوصاً قادیانیوں کے خلاف تقریریں کرتے پھرتے ہیں.وہ بھارت کے ایجنٹ اور ہندوؤں کے تنخواہ دار ہیں.بھارت کے ایک مسلمان لیڈر کی زبان سے یہ بیان ایک خاص اہمیت رکھتا تھا.ظاہر ہے یہ سن کر مخالفین جماعت کے تن بدن میں آگ لگ گئی.انہوں نے اپنے اخبار میں شائع کیا کہ اصل میں خواجہ حسن نظامی کو قادیانیوں کے عقائد کی خبر ہی نہیں تھی.جب انہیں اُن کے عقائد بتائے گے تو

Page 391

381 انہوں نے قادیانیوں کو بہت برا بھلا کہا.یہ بات ہی خلاف عقل تھی.خواجہ صاحب عرصہ پچاس سال سے جماعت کو جانتے تھے بلکہ حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعودؓ سے ذاتی تعارف رکھتے تھے.یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں جماعت کے عقائد کا ہی علم نہ ہو.(۳۵) اپنی کامیابیوں کے جھوٹے دعوے اور سیاست میں واپسی : اب احراریوں نے اپنی تحریک کے کچھ نتائج بھی دنیا کے سامنے پیش کرنے تھے.یہ بھی دکھانا تھا کہ اب تک ہماری تحریک نے احمدیت کی ترقی پر کیا اثرات ڈالے ہیں.اس کے لئے بھی انہوں نے اپنے پرانے اور آزمودہ ہتھیار جھوٹ کا سہارا لیا.چنانچہ 4 جولائی ۱۹۵۰ء کو ان کے اخبار آزاد نے بڑے فخر سے یہ خبر شائع کی کہ احراریوں کی چھ ماہ کی سرگرمیوں نے ساٹھ سالہ قادیانی قصر کو سر سے جڑ تک ہلا دیا ہے اور اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مرزائیوں نے ربوہ کی تعمیر بالکل بند کردی ہے.(۳۶) ایک تو یہ جھوٹ بولا اور پھر یہ بھول بھی گئے کہ ہم یہ جھوٹ بول چکے ہیں.اس کے چار روز بعد ہی اسی اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ قادیانیوں کا عظیم الشان نیا مرکز بجلی کی رفتار سے تیار ہو رہا ہے.اور تو اور اس خبر میں ربوہ کا رقبہ بھی دس ہزار ایکٹر بیان کیا گیا جب کہ اصل میں یہ رقبہ ایک ہزارا یکڑ تھا.(۳۷) اس کے علاوہ بعض احمدیوں کے ارتداد کی غلط خبریں بھی شائع کی گئیں تا کہ عوام الناس پر یہ تاثر ڈالا جا سکے کہ احرار کی شورش کو بہت کامیابی مل رہی ہے.لیکن جماعتی جرائد بالخصوص الفضل میں ان خرافات کا موثر جواب شائع ہوتا رہا.جس سے کم از کم انصاف پسند طبقے پر حقیقت آشکار ہوتی رہی.الفضل نے اس پر آشوب دور میں جس دلیری کے ساتھ مخالفین کے تمام اعتراضات کا جواب دیا اور ان کا تعاقب کیا ، وہ تاریخ احمدیت کا ایک درخشندہ باب ہے.(۳۸) جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد، اپنی ناکامیوں کے پیش نظر احرار نے اعلان کیا تھا کہ اب وہ سیاست سے دستبردار ہو رہے ہیں.اب اُن کی جماعت صرف ایک مذہبی جماعت کی حیثیت سے کام کرے گی.لیکن یہ صرف ملمع سازی تھی.انتخابات میں مسترد ہونے کے بعد وہ چور دروازے سے مذہب کا نام لے کر سیاسی دنیا میں داخل ہونا چاہتے تھے اور اس غرض کے لئے جماعت کے خلاف یہ مہم چلائی جارہی تھی.مگر حقیقت زیادہ دیر چھپی نہیں رہسکتی تھی.چنانچہ دسمبر

Page 392

382 ۱۹۵۰ء میں ملتان میں انہوں نے ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کیا.جب احراریوں کے امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب اس کا نفرنس میں آئے تو لوگوں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اُنہوں نے لال قمیص پہنی ہوئی تھی جو اُن کی سیاسی سرگرمیوں کی علامت تھی.لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ نے تو سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا تھا.اس پر بخاری صاحب نے مسکرا کر کہا کہ ا بھی تو میں زندہ ہوں اور یہ قمیص میری سیاسی زندگی کا نشان ہے.سیاست مذہب کا جزو ہے اور ہم نے تو صرف الیکشنوں سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا.(۳۹) احمدیوں کی تبلیغ پر پابندی لگانے کا مطالبہ: مخالفین سلسلسہ بالعموم دلائل سے مقابلہ کرنے سے کتراتے ہیں.کیونکہ اُن کے پاس جماعت کے دلائل کا جواب نہیں ہوتا.اس لئے اُن کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی طرح جماعت احمدیہ کی تبلیغ پر پابندی لگ جائے.یعنی وہ تو جتنا چاہیں زہر انگلیس لیکن احمدیوں کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہئیے کہ وہ اُن کا جواب دیں.یا اپنے عقائد کے حق میں دلائل دیں.چنانچہ اسی کا نفرنس میں بڑے زور سے یہ مطالبہ پیش کیا گیا گورنمنٹ کے بعض افسر اور بعض تعلیمیافتہ حضرات کو اکثر یہ کہتے سنا گیا ہے کہ آخر مسلمانوں کی طرح مرزائیوں کو بھی تبلیغ کا حق حاصل ہے.میں ان لوگوں کی توجہ کے لئے پوری ذمہ داری سے علی الاعلان کہتا ہوں انہیں غور سے سن لینا چاہئیے کہ مسلمانوں کی سلطنت میں یہودی اور عیسائی اپنے خیالات کی تبلیغ کر سکتا ہے.اور دوسرے کا فروں کو بھی اجازت دی جا سکتی ہے.مگر یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اسلامی سلطنت میں ایک مرتد کو بھی کفر وارتداد کی تبلیغ کی اجازت دی جائے.“ اس جلسے میں شرکاء سے کہا گیا کہ وہ کسی مقام پر بھی احمدیوں کا جلسہ نہ ہونے دیں.(۴۰) گویا ان کے نزدیک یہودی اور عیسائی تو پاکستان میں مسلمانوں کو یہودی یا عیسائی بنا سکتے ہیں.لیکن احمدی تبلیغ نہیں کر سکتے کیونکہ اگر لوگ احمدی ہوں گے تو یہ کفر وارتداد ہو گا ، جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی.لیکن یہ بات نا قابل فہم ہے کہ اگر مسلمان اپنا مذہب تبدیل کر کے عیسائی یا یہودی بن جائیں

Page 393

383 گے تو یہ احرار کے نزدیک کیا ارتداد نہیں ہوگا بلکہ عین اسلام کے مطابق ہوگا.اور اس کے نتیجے میں اُن کے کان پر جوں بھی نہیں رینگے گی.جب جماعت کے خلاف اس قسم کی تحریک کا آغاز ہوتا ہے تو جلد دوسرے گروہ بھی اس میں شامل ہونے لگتے ہیں اور احمدیت کے خلاف اپنی سرگرمیاں تیز کر دیتے ہیں.اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ تا کہ وہ بھی اس آڑ میں اپنے سیاسی مقاصد حاصل کریں.چنانچہ ۱۹۵۱ء میں بھی یہی تاریخ دہرائی جا رہی تھی.جماعتِ اسلامی کا جماعت احمدیہ سے ایک بنیادی نظریاتی اختلاف تھا.جماعت احمدیہ کا پختہ ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مہدی کی آمد کے متعلق جو پیشگوئیاں فرمائیں وہ برحق ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں وہ پیشگوئیاں پوری ہو کر ایک نشان بن گئیں.مہدی کی آمد کے متعلق پیشگوئیوں کے بارے میں جماعت اسلامی کے بانی مودودی صاحب ایک مخمصے میں مبتلا رہے.اپنی تحریروں میں ایک طرف تو وہ ان پیشگوئیوں کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں اور ان پیشگوئیوں کے مسلمانوں کے نظریات کے متعلق تمسخر کرتے ہیں.اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں چونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نہیں اس لئے قابلِ اعتبار نہیں اور دوسری طرف اس خیال کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ آنے والا مہدی اپنی طرز کا جدید ترین لیڈر ہو گا.وقت کے تمام علوم جدیدہ پر اسے مجتہدانہ بصیرت حاصل ہوگی.جنگی مہارت ایسی حاصل ہوگی کہ وہ اپنی جنگی مہارت کا تمام دنیا پر سکہ بیٹھا دے گا.بہت جدید خیالات کا حامل ہوگا.آمد مہدی کے متعلق مسلمانوں میں رائج خیالات پر طنز کرتے ہوئے اور ان خیالات کا مذاق اُڑاتے ہوئے مودودی صاحب مہدی کے متعلق لکھتے ہیں د تلوار تو محض شرط پوری کرنے کے لیے برائے نام چلانی پڑے گی.اصل میں سارا کام برکت اور روحانی تصرف سے ہوگا پھونکوں اور وظیفوں سے میدان جیتے جائیں گے.“ گویا مودودی صاحب کے نزدیک اصل مقصد تو تلوار چلانا ہے.اور پھر لکھتے ہیں مہدی کے کام کی نوعیت کا تصور جو میرے ذہن میں ہے وہ بھی ان حضرات کے تصور سے بالکل مختلف ہے مجھے اس کے کام میں کرامات وخوارق کشوف والہامات اور چلوں اور مجاہدوں کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی.میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک انقلابی لیڈر کو دنیا میں

Page 394

384 جس طرح شدید جد و جہد اور کشمکش کے مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے انہی مرحلوں سے مہدی کو بھی گذرنا پڑے گا.“ یہ بات واضح ہے کہ مودودی صاحب کے ذہن میں یہ تصور بیٹھا ہوا ہے کہ آنے والا مہدی کشوف والہامات کی نعمت سے نا آشنا ہو گا اور تلوار تو خوب چلائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے مجاہدوں کی تکلیف کبھی گوارا نہیں کرے گا.گویا نہ رسول کریم ﷺ کی اتباع کرے گا اور نہ ان نعمتوں سے کوئی حصہ پائے گا جو آپ ﷺ کو عطا ہوئی تھیں.وہ یہ ذکر نہیں کرتے کہ وہ لوگوں کا تزکیہ نفس بھی کرے گا کہ نہیں یا اسلام کی تبلیغ کی طرف بھی کچھ توجہ ہوگی کہ نہیں.قرآنی معارف اور علوم سے انسانیت کو بہرہ ور کرے گا کہ نہیں.ان کے ذہن میں تو صرف یہ خیال بسا ہوا ہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر ہوگا اور اپنی عسکری صلاحیتوں کا سکہ بٹھا دے گا اور بس.لیکن مودودی صاحب کا خیال تھا کہ نہ صرف کہ وہ اپنے مہدی ہونے کا اعلان نہیں کرے گا بلکہ اسے اپنے مہدی ہونے کی کوئی خبر نہ ہوگی.دنیا اس کی موت کے بعد خود ہی اس راز سے پردہ ہٹائے گی کہ یہ مہدی تھے.یہ بات نا قابل فہم ہے کہ دنیا کو اُس کی موت کے بعد تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ مہدی تھے ، اس کی زندگی میں جب کہ اس کے تمام کارنامے سامنے نظر آرہے ہوں گے،اس وقت دنیا اس بات سے کیوں بے خبر رہے گی کہ مہدی ان کی نظروں کے سامنے موجود ہے.اور یہ بھی ایک معمہ ہے کہ وہ جنگی مہارت میں تو بے نظیر ہوگا مگر کیا اسے رسول کریم ﷺ کی پیشگوئیوں کی کچھ خبر نہ ہوگی.دنیا کو تو علامات سے پتہ چل جائے گا کہ ان پیشگوئیوں کا مصداق یہ شخص ہے لیکن وہ تمام عمر اس سے بے خبر رہے گا اور اسی عالم میں اُس کا انتقال ہو جائے گا (۴۱).ان کے بہت سے ہم عصر علماء نے مودودی صاحب کے ان خیالات سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مودودی صاحب خود مہدی بننے کے لئے راستہ ہموار کر رہے ہیں.مثلاً محمد ذکریا صاحب لکھتے ہیں.مودودی صاحب دل سے مہدی بننا چاہتے ہیں اور مقتد یا نہ سیرت سے اپنی لیڈری کی وجہ سے عاجز ہیں.(۴۲) یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ان خیالات کی وجہ سے مودودی صاحب اور ان کے ہمنوا جماعت احمدیہ سے شدید بغض رکھتے تھے.جماعت احمد یہ تو ایسے مہدی اور مسیح پر ایمان لاتی ہے جس نے دعاؤں

Page 395

385 اور مجاہدوں کے ذریعہ ایک ایسا جہاد کرنے کی تلقین کی جس میں غیروں کو قرآنی معارف اور دلائل سے قائل کیا جائے.اور انہی دلائل اور خوارق کے ہتھیاروں سے باطل کا استیصال کیا جائے.اور یہ تبلیغ بھی نرمی اور عاجزی سے کی جائے.پاکستان بننے سے قبل وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی حکومت ایک کافرانہ حکومت ہی ہوسکتی ہے.پاکستان بننے کے بعد انہوں نے حصولِ اقتدار کے لئے اعلان کیا کہ جماعت اسلامی پاکستان میں حکومتِ الہی قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے.اس بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیا تو ایک نشست بھی نہ ملی.پہلے جماعت اسلامی کے دستوری مطالبات کے آٹھ نکات تھے.ابھی انہوں نے جماعت کے خلاف اپنے عزائم کھلم کھلا ظاہر نہیں کئے تھے.جب انہیں نظر آیا کہ جماعت کی مخالفت کا طوفان اُٹھ رہا ہے اور اب وقت ہے کہ مسئلہ ختم نبوت کی آڑ لے کر سیاسی فوائد حاصل کئے جائیں تو ان مطالبات میں ایک اور کا اضافہ کر کے جماعت کے مخالف شق بھی اپنے مطالبات میں شامل کر لی.اور احرار کے شانہ بشانہ جماعت کے خلاف شورش بر پا کرنے لگے.خاص طور پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی شخصیت ان کے حملوں کا نشانہ بن رہی تھی.جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو وزارتِ خارجہ سے ہٹایا جائے اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ ملک کی بڑی اکثریت کو ان پر اعتماد نہیں (۴۳).یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اُن کے نزدیک حضرت چوہدری صاحب کو تو اس لئے برطرف کر دینا چاہئیے تھا کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ ملک کی اکثریت کو ان پر اعتماد نہیں ہے.لیکن جماعت اسلامی کی اپنی مقبولیت کا یہ حال تھا کہ انتخابات میں انہیں ایک بھی نشست نہیں ملی تھی.مگر عوامی حمایت سے محروم ہونے کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں اختیار ہے کہ ملک کے متعلق ہر فیصلہ وہ کریں اور حکومت انہیں تسلیم نہ کرے تو پھر شورش کا راستہ اختیار کریں.بہر حال مصلحت وقت ہمیشہ جماعت اسلامی کے اصولوں کو بدلتی رہی ہے.۱۹۵۲ء میں انہوں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اسلامی قانون پہلے نافذ ہونا چاہئیے اور اس کے ساتھ ہی احمدیوں کو ذمی اقلیت قرار دینا چاہیے.لیکن ۱۹۷۴ء میں انہوں نے اس اصول کو بھی الوداع کہہ دیا اور جبکہ اس وقت ان کے نزدیک اسلامی قانون نافذ نہیں ہوا تھا بلکہ اس پارٹی کی حکومت تھی جن کے لیڈروں کے متعلق جماعت اسلامی کا دعویٰ تھا کہ وہ اسلام سے بالکل لاتعلق

Page 396

386 ہیں.لیکن اس حالت میں انہوں نے اسلامی قانون کے مطالبے پر زور دینے کی بجائے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی حمایت کی.جولائی ۱۹۵۲ء میں جماعت اسلامی کی مجلس شوری میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں احمدیوں کو ایک ذمی اقلیت قرار دینے کی حمایت کی گئی.اور ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ خالص اسلامی دستور نافذ کیا جائے اور اس میں مسلم اور ذمی کی تعریف کی جائے.اس طرح قادیانیوں کی جدا گانہ حیثیت واضح ہو جائے گی.اسی قرار داد میں یہ الزام لگایا گیا کہ مسلم لیگ قادیانیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے (۴۳).مسلم لیگ پر نیش زنی کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کے خلاف شورش برپا کرنے کا اصل مقصد حصول اقتدار تھا.اگر ان کے مطالبات تسلیم کر لئے جاتے لیکن ایوانِ اقتدار پر قبضہ نہ ہوتا تو ان کے اصل مقاصد حاصل نہ ہوتے.اس لئے احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے علاوہ برسر اقتدار پارٹی پر الزام تراشی کرنا بھی ضروری تھا.دعاؤں کی تحریک: اس مرحلے پر جماعت احمد یہ ہر ممکن طریق پر دلائل سے مخالفین کی نیش زنی کا جواب دے رہی تھی تا کہ کم از کم شرفاء کا طبقہ ان کی افترا پردازیوں سے متاثر نہ ہو.حکومت کو بھی ان کی شرارتوں سے مطلع رکھا جا رہا تھا.لیکن یہ تو ظاہری تدابیر تھیں.ہر ابتلاء میں جماعت کا سب سے اہم ہتھیار دعا ہی رہا ہے.چنانچہ حضور نے جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.ہماری جماعت پر بھی یہ مصائب مختلف رنگوں اور مختلف زمانوں میں آئے ہیں.ہم پر وہ وقت بھی آیا جب ہماری مخالفت اتنی شدید ہوگئی کہ اس کا مقابلہ ہماری طاقت سے بالا تھا.ایسے موقع پر ہم نے ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اسی سے مدد مانگی.اور جب ہماری دعائیں اور گریہ وزاری اس مقام پر پہنچ گئی.جب عرش بھی ہل جایا کرتا ہے تو وہ سنی گئیں اور مخالفت هَبَاء مُنبٹا ہو کر رہ گئی.یہ زمانہ بھی ہم پر ایسا آ رہا ہے.جب اندونی اور بیرونی طور پر اور نیز بعض حکام کی طرف سے بھی اور رعایا کی طرف سے بھی.علماء کی طرف سے بھی اور امراء کی طرف سے بھی غرض ہر جتھہ اور ہر گروہ میں ایک حصہ ایسا

Page 397

387 ہے جو احمدیت کی مخالفت پر تلا ہوا ہے.بہت سی باتیں تم جانتے بھی نہیں اور بہت سی باتیں ہم تمہیں بتانا بھی نہیں چاہتے.اس لئے اگر ان باتوں کو ظاہر کیا جائے تو ہمارے مقابلہ کی طاقت کمزور پڑ جائے گی...اس قسم کے نازک مواقع پر میں جماعت کو اتنے حصہ میں شریک کرتا رہا ہوں.کہ میں انہیں دعا کی طرف تحریک کیا کرتا ہوں.اور مخلصین نے ہمیشہ میری اس تحریک کو قبول کیا ہے.“ اس کے بعد حضور نے جماعت کو چالیس روز کے لئے خاص دعاؤں کی تحریک فرمائی اور فرمایا کہ اس دوران احمدی سات روزے رکھیں.اور نوافل اور تہجد میں خاص طور پر سلسلے کے لئے دعائیں کریں.(۴۴) پنجاب مسلم لیگ کے اراکین کی مخالفت: مارچ ۱۹۵۱ء میں پنجاب میں انتخابات کا عمل مکمل ہوا اور ممتاز دولتانہ صاحب پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے.۶ اکتو بر ۱۹۵۱ء کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب ایک قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئے اور خواجہ ناظم الدین صاحب کو ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا.لیکن دولتانہ صاحب کے سیاسی عزائم بلند تھے.اب اُن کی نظریں ملک کے سب سے بڑے عہدے پر تھیں.لیکن یہ خواہش اُس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی تھی جب تک مرکز میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب کی حکومت مستحکم تھی.دولتانہ صاحب نے سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ابھی یہ حقائق پر دے میں تھے.البتہ اُن کے منتخب ہونے کے ساتھ یہ تبدیلی ضرور نظر آنے لگی کہ مسلم لیگ کے ممبران صوبائی اسمبلی اب احرار کے جلسے جلوسوں میں بینڈ باجوں کے ساتھ شرکت کر رہے تھے.پنجاب کے اعلیٰ سرکاری افسران بھی جماعت کے خلاف ہونے والے جلسوں کی صدارت کرنے لگے.ایک سے زیادہ مرتبہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے ان جلسوں کی صدارت کی اور ان جلسوں میں یہاں تک الزامات لگائے گئے کہ احمدیوں نے وزیر اعظم کا قتل کرایا ہے.اب احرار کے مطالبات میں بھی شدت آتی جارہی تھی.وہ یہ مطالبہ تو کر رہے تھے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے لیکن اس کے ساتھ یہ راگ بھی الاپنے لگے تھے کہ احمدیوں کو ملک

Page 398

388 چھوڑنے پر مجبور کر دینا چاہئیے.اب احراری دفاع پاکستان کے نام پر جلسے کر کے چندے جمع کر رہے تھے اور ان جلسوں میں بھی اصل موضوع جماعت احمدیہ کی مخالفت ہی ہوتا تھا.(۴۵) تشدد کے اس پر چار کا یہ اثر ہوا کہ سمندری میں جماعت کی ایک چھوٹی سی مسجد پر احراریوں نے حملہ کیا اور وہاں پر موجود احمدیوں کو زدوکوب کرنے کے بعد مسجد کو آگ لگا دی.(۴۶) ظاہری طور پر پنجاب مسلم لیگ کے اراکین کو اس سے روکنے کے لئے ایک دوسر کلر بھی کئے گئے مگر در پردہ ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی تھی.احرار کا جھوٹا پروپیگنڈا: جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ مخالفین سلسلہ کے نزدیک جھوٹ بولنا کوئی مسئلہ نہیں تھا.اور نہ ہی اس سے اُن کے ضمیر پر کوئی بوجھ پڑتا تھا.وہ اپنے جلسوں میں حضرت مسیح موعود کی کتاب کا صفحہ نمبر سمیت حوالہ پڑھتے اور اُس صفحے پر وہ فقرات تو در کنار اس موضوع کا بھی نام ونشان نہ ہوتا.اور یہی تقریریں اُن کے اخبارات بھی اسی طرح شائع کر دیتے.یا پھر اس طرح کی تحریف کرتے جیسا کہ ملتان کا نفرنس میں اُن کے ایک مولوی نے بڑے زور سے دعوی کیا کہ مرزا صاحب نے اپنی کتاب نورالحق کے صفحہ ۱۲۱ پر کہا ہے کہ جو شخص میری تحقیر کرے اُس پر ہزار بار لعنت.جب کہ اس مقام پر حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا تھا کہ جو دشمنانِ اسلام ان دلائل کا رد نہ لکھ سکیں اور پھر بھی تو ہین قرآن کریم کی عادت کو نہ چھوڑیں اور نہ رسول اللہ ﷺ کی دشنام دہی سے باز آئیں اور نہ اس بیہودگی سے اپنے تئیں روکیں کہ قرآن کریم فصیح نہیں ہے اور نہ تو ہین اور تحقیر کے طریق کو چھوڑیں ان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہزار لعنت ہے.صاف ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے.نہ معلوم کہ جب اُن لوگوں پر لعنت کی گئی جو رسول کریم ﷺ کے متعلق دشنام دہی سے کام لیتے ہیں تو احراری کیوں سیخ پا ہو گئے.اسی جلسے میں ایک مقرر نے حوالہ پیش کیا کہ مرزا صاحب نے انوار الاسلام کے صفحہ ۳۳ پر لکھا ہے کہ جو شخص میری صداقت کا قائل نہیں ہے تو اسے صاف سمجھ لینا چاہئیے کہ وہ ولد الحرام ہے.پھر اس کے بعد حاضرین کو اشتعال دلایا کہ مرزا صاحب نے تمہیں ولد الحرام لکھا ہے.حالانکہ مذکورہ صفحے پر اس جملے کا نام ونشان تک نہیں.(۴۷) اب انہوں نے

Page 399

389 جعلی اشتہارات شائع کرنا شروع کر دیے.ظاہر کیا جاتا تھا کہ یہ اشتہار کسی احمدی نے لکھا ہے اور اصل میں ان کو احراری لکھتے تھے اور وہی تقسیم کرتے تھے.ان میں جماعت کے عقائد کو غلط رنگ میں پیش کیا جاتا تھا اور ایسی باتیں درج کر دی جاتی تھیں جن سے لوگوں میں احمدیوں کے خلاف اشتعال پھیلے.الفضل میں ان کے فریب کی حقیقت شائع کی گئی مگر یہ لوگ اُس مٹی سے نہیں بنے ہوئے تھے جو اپنا جھوٹ کھلنے پر شرمندگی محسوس کرتے.(۴۹،۴۸) مخالفت کے لئے اخبار اور علماء خریدے جاتے ہیں: اُس دور میں ریڈیو اور ٹی وی جیسے ذرئع تو ابھی عام نہیں ہوئے تھے.پرو پیگنڈا کا بہترین ذریعہ اخبار ہوا کرتے تھے.احراریوں کا سہ روزہ آزاد تو مخالفت میں مادر پدر آزاد ہونے کا ثبوت دے رہا تھا.لیکن اس کے ساتھ بعض دوسرے اخبارات بھی احمدیت کے خلاف شر انگیزی میں شامل ہو گئے.یہ صرف کسی نظریاتی یا مذہبی اختلاف کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ حکومت پنجاب ان اخبارات کو اس کام کے عوض خاطر خواہ مدد مہیا کر رہی تھی.اور یہ مدد راز داری کے ساتھ تعلیم بالغاں کے فنڈ سے نکال کر ان اخبارات کو دی جا رہی تھی.اور بعد میں تحقیقاتی عدالت نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اخبارات میں سے زمیندار، احسان مغربی پاکستان اور آفاق نے خطیر رقوم وصول کیں اور یہی اخبارات اس شورش کو سب سے زیادہ ہوا دے رہے تھے.اور آفاق اخبار نے تو جون ۵۲ میں لکھا کہ ہمارا اخبار فرقہ واریت کے خلاف ہے اور پھر گورنمنٹ سے رقم وصول کر کے ایک ماہ کے بعد ہی جماعت احمدیہ کے خلاف لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا.اور اس کی کاپیاں مساجد میں مفت تقسیم کی گئیں.زمیندار کے ایڈیٹر اختر علی خان صاحب احمدیت کے پرانے دشمن ظفر علی خان صاحب کے بیٹے تھے.وہ اس رشوت کے حصول سے اتنے خوش ہوئے کہ اپنے اخبار میں یہ اعلان نکلوا دیا، کوئی مانے یا نہ مانے مگر ہے یہ حقیقت کہ جب سے مرزا بشیرالدین نے اپنی بددعاؤں کا سلسلہ اخبار زمیندار کے خلاف جاری کر رکھا ہے، تب سے خدائے محمد مصطفیٰ و احمد مجتبی صلعم کی غیرت جوش میں آچکی ہے.آج زمیندر کے وارے نیارے ہیں.وہ لاکھوں میں کھیلتا ہے اور ہزاروں کی خیرات کرتا ہے.اس کے خزانہ میں روز افزوں اضافہ

Page 400

390 ہو رہا ہے.(۵۰) یہ وارے نیارے کس طرح ہو رہے تھے اس کا عقدہ تو تحقیقاتی عدالت میں کھلا.البتہ پاکستان ٹائمنر ،سول اینڈ ملٹری گزٹ، ڈان، نوائے وقت اور امروز نے اُس وقت جماعت کے خلاف مہم میں حصہ نہیں لیا.یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے اخبار نویسوں نے شرافت کا ثبوت دیتے ہوئے کھلم کھلا احراریوں کی مذمت کی اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا.اس کے علاوہ دولتانہ صاحب کی حکومت نے محکمہ اسلامیات کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا.اور اس کے تحت کچھ علماء کو بظاہر اس غرض کے لئے معاوضے پیش کئے کہ ان سے کالجوں اور جیلوں میں لیکچر دلوائے جائیں گے.تحقیقاتی عدالت میں یہ بات ثابت ہوئی کہ جن علماء کو نوازا گیا تھا ان کی اکثریت نے جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک میں سرگرمی کے ساتھ کام کیا.ایک طرف تو دولتانہ صاحب یہ اظہار کر رہے تھے کہ احرار پر نظر رکھی جائے گی اور دوسری طرف وہ حکومت کی رقم جماعت کے خلاف مخالفت کی آگ بھڑ کانے کے لئے بے دریغ خرچ کر رہے تھے.دولتانہ صاحب ان چالوں سے اپنا سیاسی قد بڑھانا چاہ رہے تھے.یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ اہلِ پاکستان کے ٹیکس کی رقوم کو ان ہی کے ملک میں منافرت اور فساد پھیلانے کے لئے استعمال کیا گیا.(۵۱) فرقہ واریت کا دائرہ پھیلنا شروع ہوتا ہے: ایک طرف تو جماعت احمدیہ کے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا ، دوسری طرف پوری کوشش کی جا رہی تھی کہ احمدیوں کی آواز کو دبا دیا جائے.جب بھی جماعت کی طرف سے کوئی جلسہ منعقد کیا جاتا ہخالفین اِس کو رکوانے کی ہر ممکن کوشش کرتے.چنانچہ جب فروری ۱۹۵۲ء میں سیالکوٹ کی جماعت نے اپنا جلسہ منعقد کیا تو مخالفین لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کرتے ہوئے آئے کہ وہ یہ جلسہ نہیں ہونے دیں گے.اور جلسہ گاہ پر حملہ آور ہوتے رہے.پولیس نے حملہ آوروں کو روکا.ان کے پتھراؤ سے چالیس پچاس آدمی زخمی ہو گئے.پھر بلوائیوں نے شہر میں ہلڑ بازی کی اور جلسے سے لوٹنے والے احمدیوں پر پتھراؤ کر دیا.

Page 401

391 جب گھر کے ایک حصے کو آگ لگے تو یہ آگ وہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ دوسرے حصوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے.اب یہ واقعات احمد یوں تک محدود نہیں رہے تھے.بلکہ دوسرے فرقے بھی اس قسم کے واقعات کا نشانہ بن رہے تھے.اسی طرح کے حملے شیعہ مجالس پر بھی شروع ہو گئے تھے.(۵۲) اس معاملے میں پہلے ہی سی آئی ڈی حکومت کو رپورٹ دے چکی تھی کہ بات صرف احمدیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ شیعہ سنی اور وہابی سنی اختلافات بھی بڑھ کر امن کے لئے خطرہ بن رہے ہیں.اور مختلف فرقوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے پنجاب میں اضطراب بڑھ رہا ہے.(۵۳) افسوس کہ وقت پر ان خطرات کو محسوس نہیں کیا گیا.جماعت احمد یہ تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں تھی لیکن احمدیت کی مخالفت کی آڑ میں فرقہ واریت اور تعصب کے ایسے خطرناک بیج بوئے گئے ، جن کا نتیجہ پاکستان کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں.اس ماحول میں جب مخالفین احمدیوں کے ارتداد کی جھوٹی خبریں شائع کر رہے تھے.سعید روحیں احمدیت کی آغوش میں پناہ لے رہی تھیں اور احراریوں میں سے بھی کچھ لوگ جب اُن کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں دیکھتے تو بیزار ہو کر ان کا ساتھ چھوڑتے اور احمدیت میں داخل ہو جاتے.(۵۴) کئی ایسے محب وطن افسران بھی تھے جو اس سازش کی تہہ تک پہنچ کر حکومت کو خبر دار کر رہے تھے.اُن کی رائے تھی کہ احمدیوں کے خلاف تحریک چلانے والے بیرونِ ملک عناصر سے ساز باز رکھتے ہیں.جب احراریوں کے ایک جریدے شعلہ نے احمدیوں کے خلاف زہر چکانی کی تو ایک ڈی آئی جی نے حکام بالا کو یہ رپورٹ بھجوائی دسی آئی ڈی اس اخبار کے ایڈیٹر عبد الرشید اشک سے واقف ہے.بہت سے دوسرے احراریوں کی طرح یہ بھی کانگرسی ہے.۱۹۴۷ء میں یہ شخص پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے ماتحت نظر بند کر دیا گیا تھا کیونکہ یہ بھارت کے سیاسی ورکروں کے ساتھ ساز باز رکھتا تھا....احراریوں کو یہ احساس ہے کہ مسلم لیگ اُن کی پشت پر ہے.ورنہ ان کا ماضی استقدر تاریک ہے کہ انہیں کبھی سیاسی میدان میں داخل ہونے کی جرات نہیں ہو سکتی تھی.یہ کانگرس کے پٹھو تھے اور ان میں سے بعض اب بھی کانگرس کے ہی وفادار ہیں.مشہور احراری حبیب الرحمن تقسیم کے بعد اس صوبے کو چھوڑ کر بھارت چلا گیا.بعض

Page 402

392 احراری اپنے دلوں کی گہرائیوں میں اب تک پاکستان کے غدار ہیں.(۵۵) کراچی میں جماعت احمدیہ کا جلسہ اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر: مئی ۱۹۵۲ء میں کراچی میں جماعت احمدیہ کا جلسہ تھا.اور اس میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بھی اسلام زندہ مذہب ہے' کے عنوان پر تقریر کرنی تھی.ایک بار پھر مخالفین نے طوفان اُٹھا دیا کہ پاکستان کا وزیر خارجہ جماعت احمدیہ کے جلسے پر تقریر کیسے کر سکتا ہے.وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ حضرت چوہدری صاحب جماعت کے جلسے پر تقریر کریں.یہ بات قابل توجہ ہے کہ اُس وقت بھی حکومتی پارٹی کے اہم اراکین جماعت کے خلاف ہونے والے جلسوں کی صدارت کر چکے تھے.اُن کی طرف سے جماعت کے عقائد کے خلاف بیان بازی اس کے بعد بھی شدت سے جاری رہی.اور تو اور ایک طبقہ جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب سب سے پیش پیش تھے، سرکاری اموال کو جماعت کے خلاف تحریک چلانے والوں کی اعانت کے لئے بھی خرچ کر رہا تھا.لیکن اگر اعتراض تھا تو چوہدری صاحب کی تقریر پر تھا.حضرت چوہدری صاحب نے وزیر اعظم صاحب کو جواب دیا کہ اب تو میں تقریر کرنے کا وعدہ کر چکا ہوں لیکن اگر آپ کو یہ بات نا پسند ہے تو میرا استعفیٰ حاضر ہے.اس تقریر میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بیان فرمایا کہ قرآن آخری الہامی کتاب ہے اور یہ عالم انسانیت کے لئے آخری ضابطہ حیات مہیا کرتا ہے.اور اسلام کی ختمیت اور برتری بیان فرمائی.اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے وعدے کے مطابق ایسے اشخاص آتے رہیں گے جو تجدید دین پر مامور ہوں.اور تقریر کے آخر میں کہا کہ احمدیت ایک ایسا پودا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود لگایا ہے، اگر یہ پودا اکھیڑ دیا گیا تو اسلام ایک زندہ مذہب کی حیثیت سے باقی نہ رہے گا اور دوسرے مذاہب پر اپنی برتری کے ثبوت مہیا نہ کر سکے گا.(۵۶) جیسا کہ توقع تھی مخالفین نے اس جلسے کے موقع پر بھی فتنہ وفساد بر پا کرنے کی کوشش کی.جلسے کے ارد گرد بلوائیوں کا ایک ہجوم جمع ہو گیا.اُنہوں نے آوازے کسے، گندی اور مخش گالیاں دیں، اشتعال انگیز نعرے لگائے ، تالیاں پیٹیں اور سیٹیاں بجائیں.اس کے علاوہ ناچنے کودنے کے مناظر

Page 403

393 بھی نظر آئے.جب اس پر بھی دل نہیں بھرا تو جلسہ گاہ میں داخل ہو کر فساد کی کوشش کی اور بجلی کے تار کاٹ دیئے.اس پر پولیس نے انہیں جلسہ گاہ سے باہر نکال دیا تو پتھراؤ کا آغاز کر دیا گیا.جب مقررین ، اسلام اور قرآن کریم کے فضائل بیان کر رہے تھے تو باہر ان اخلاق کا مظاہرہ ہو رہا تھا.دوسرے روز جب پھر فسادات شروع ہوئے تو پولیس کو اشک آور گیس استعمال کرنی پڑی.کراچی شہر میں بھی احمدیوں کی املاک پر کئی حملے کئے گئے اور بعض عمارات کو آگ لگا دی گئی.(۵۷) جماعت کے خلاف شورش کا اصل چہرا اب واضح نظر آ رہا تھا.بیرونی ہاتھ : اس واقعے کے بعد کراچی کے کمشنر نقوی صاحب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ احمدی بھی پاکستانی ہیں اور جب تک وہ قانون کی پابندی کرتے ہیں انہیں جلسے کرنے کا پورا حق ہے.کراچی میں کسی آدمی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر امن شکنی کرے.(۵۸) سول اینڈ ملٹری گزٹ اور ڈان جیسے اخبارات نے فساد کرنے والوں کی شدید مذمت کی اور حضرت چوہدری صاحب کی ذات پر حملوں کو شرمناک قرار دیا.کراچی کے ایک ہفت روزہ سٹار نے ۲۴ مئی کی اشاعت میں.ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا.غیر ملکی ہاتھ ، کراچی کا بلوہ کس نے کرایا.اس اشارے کا مطلب تھا کہ ان فسادات کے پیچھے کسی بیرونی طاقت کی سازش کارفرما ہے.مئی ۱۹۵۲ء میں ہی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے ایک یادداشت بھجوائی جس میں اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ احرار آزادی کے معا بعد ایسے شخص سے ساز باز کر رہے تھے جو بعد میں بھارت چلا گیا.اور اُس وقت بعض احراریوں کو کانگرس کے نمایاں سیاستدانوں نے جائیددا کی صورت میں فوائد بھی پہنچائے تھے.(۵۹) بہتر فرقے اکھٹے ہوتے ہیں: ان واقعات کے بعد احرار نے اپنی کاوشوں کو مزید تیز کر دیا.مخالفین نے مختلف فرقوں کے مولویوں اور مختلف مذہبی جماعتوں کے لیڈروں اور پیروں اور سجادہ نشینوں کے نام دعوت نامے جاری کئے کہ وہ ۱۳ جولائی ۱۹۵۲ء کو لاہور میں ایک کنونشن میں شرکت کریں تا کہ عقیدہ ختم نبوت کے

Page 404

394 لئے لائحہ عمل تیار کیا جائے.جب یہ کنونشن منعقد کیا گیا تو لاہور میں دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کی وجہ سے جلسوں کی ممانعت تھی مگر حکام نے عمداً اس کنونشن کو نہ روکنے کا فیصلہ کیا.اس کنونشن کے شرکاء ایک دوسرے پر بھی کفر والحاد کے فتوے لگاتے رہے تھے لیکن اب وہ اس لئے جمع ہوئے تھے کہ سب مل کر احمدیوں کے خلاف فتوی لگائیں.چناچہ ایک مجلس عمل کا قیام عمل میں آیا تا کہ آئیند ولائحہ عمل کا فیصلہ کیا جا سکے.اس مرحلے پر ایک اعلیٰ افسر مسٹر قربان علی نے حکام کو لکھا:.یہ سب حلقوں میں تسلیم کیا جا رہا ہے کہ احرار کو کسی نہ کسی سے مدد مل رہی ہے.ان میں سے یا ان کی پشت پناہی کرنے والوں میں سے بعض لوگوں نے اپنی چالا کی کی وجہ سے یہ اندازہ کر رکھا ہے کہ وہ جماعتیں جو مذہبی کہلاتی ہیں ان میں سے کوئی ایسی احمق نہ ہوگی کہ جس مسئلے پر ہر مسلمان احمدیوں کے خلاف شدید ترین جذبات رکھتا ہے اس میں کسی سے پیچھے رہ جائیں....اب وقت بالکل ضائع نہ کرنا چاہئیے.یہ ایک دوڑ ہے جس میں حکومت کو سر توڑ مقابلہ کرنا ہے.اس لئے اسے فی الفور آمادہ عمل ہونا چاہئیے.اور حالات کو بگڑنے کا موقع نہ دینا چاہئیے.(۶۰) اس مرحلے پر جب حکومت نے دفعہ ۱۴۴ کے ذریعہ جلسوں کو روکنے کی کوشش کی تو ان مفسدوں نے نماز جمعہ کے بعد مساجد میں اپنے جلسے کرنے شروع کر دیے تا کہ جب اُن کے خلاف کاروائی ہوتو اس بناء پر وہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں کہ حکومت قادیانیوں کی خاطر مسلمانوں کو مساجد کے اندر واعظ سے روک رہی ہے.اب مساجد کے اندر اشتعال انگیز تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیا گیا.اور مساجد کے اندر جماعت کے خلاف نعرہ بازی کی جاتی اور لوگوں کو فساد پر آمادہ کیا جاتا.اس طرح پاکستان میں مساجد کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا افسوسناک سلسلہ شروع ہوا جو بد قسمتی سے اب تک جاری ہے.اب اس سازش کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا.ہر کوئی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا.(۶۱) ان دنوں مخالفین یہ الزام لگا رہے تھے کہ احمدی ملک میں سیاسی غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ، جبکہ اس شورش کی آڑ میں وہ خود سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے.جولائی ۱۹۵۲ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے لندن کے ڈیلی میل کے نمائیندے کو انٹرویو دیتے ہوئے

Page 405

395 فرمایا کہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے سیاسی جماعت نہیں ہے.حضور نے ارشاد فرمایا کہ احمدی عددی لحاظ سے ملک کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں.اور اگر بالفرض ان حالات میں یہ اقتدار حاصل کر لیں تو اگلے ہی روز معاند اکثریت کے ہاتھوں اُن کا خاتمہ ہو جائے گا.اور ان حالات میں تو کوئی پاگل ہی اس کا سوچ سکتا ہے.حضور نے فرمایا کہ میں اس تحریک کو اس لئے نا پسند نہیں کرتا کہ اس سے جماعت کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس لئے نا پسند کرتا ہوں کہ اس سے اسلام کا نام بدنام ہو رہا ہے.حضور نے فرمایا کہ ہم سے کچھ لوگوں نے رابطہ کیا ہے کہ اُن کے پاس ایسے ثبوت ہیں کہ احرار کو سرحد پار سے مددمل رہی ہے اور ہمیں بھی ایسے شواہد ملے ہیں کہ بعض احراریوں کو ہندوستان کے بعض گر وہ مدد دے رہے ہیں.ہم ان شواہد پر تحقیق کر رہے ہیں.(۶۲ ۶۳) پنجاب حکومت مفسدوں کی اعانت کرتی ہے: جب ان میں سے کچھ لیڈروں پر دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی پر مقدمات چلائے گئے اور عدالت سے سزائیں سنائی گئیں تو ان کے لیڈروں نے یہ اعلان کیا کہ انہوں نے اب تک کوئی خلاف قانون حرکت نہیں کی اور وہ حکومت پنجاب کو اپنی حکومت سمجھتے ہیں.اگر گرفتار شدگان کو رہا کر دیا جائے تو وہ ایسی تقریریں بھی نہیں کریں گے جس سے امن عامہ میں خلل پڑے.اُن کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ محض ایک جھوٹ ہے لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب دولتانہ صاحب نے یہ مقدمات واپس لینے کا فیصلہ کیا اور بڑی عجلت میں یہ فیصلہ ڈپٹی کمشنروں تک پہنچایا گیا.اور گرفتار شدہ احراریوں کو رہا کر دیا گیا.اس سے فساد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور معاشرے پر قانون کی گرفت کمزور پڑ گئی.اور اب انہیں یہ جرات بھی ہونے لگی تھی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مراکز کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا ئیں.جس روز یہ فیصلہ ہوا کہ یہ مقدمات واپس لے لئے جائیں گے اسی روز گپ ضلع ملتان کے سب انسپکٹر نے دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کرنے پر ایک جلسہ عام اور جلوس کو بزور منتشر کرا دیا.اس پر مفسدوں نے اس سب انسپکٹر پر الزام لگائے کہ یہ شخص نہایت گستاخ اور بے ادب ہے اور اس نے رسول کریم ﷺ کی توہین کی ہے.اگلے روز پانچ ہزار کے غضبناک ہجوم نے اس تھانے کو گھیرے میں لے لیا اور تھانے میں داخل ہو گئے.

Page 406

396 باوجود سمجھانے کے ہجوم نے پتھراؤ کیا اور عمارت کو آگ لگانے کی کوشش کی.پولیس نے اپنے دفاع میں گولی چلادی جس کے نتیجے میں چھ شخص ہلاک اور تیرہ زخمی ہو گئے.مرنے والوں کی ہمدردی کے لئے متعدد مقامات پر جلسے منعقد ہوئے.عدالت نے تحقیقات کیں تو اس نتیجے پر پہنچے کہ گولی چلا نا حق بجانب تھا.اب جن بوتل سے باہر آچکا تھا.اور ملک کے قانون کو اپنے ہاتھوں میں کھلونا سمجھ رہا تھا.اب ان کے جلسے جلوسوں اور گالیوں میں شدت آگئی تھی.سر عام احمدیوں کو ،اُن کے بزرگوں کو اور حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو نخش گالیاں دی جاتی تھیں.عوام الناس کو ہر ممکن طریق سے احمدیوں کے خلاف اکسایا جا رہا تھا.چنانچہ لائکپور کے ایک جلسے میں ایک مقرر نے ان کے مطالبات کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا، مرزائیو ہمارا احسان مانو کہ ہم تمہیں اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں.ورنہ قرآن کی زبان سے پوچھا جائے تو وہ کہتا ہے کہ تمہیں انسانیت کے دائرے سے خارج کر دیا جائے.(۶۴) اب وہ بر ملا کہہ رہے تھے کہ اگر وزراء نے ہمارے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا تو انہیں حکومت چھوڑنی پڑے گی.(۶۵) لیکن بہت سے ارباب اقتدار ابھی بھی سمجھ رہے تھے کہ وہ اس صورتِ حال کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر کے اس جن کو قابو کر لیں گے.مگر تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا.اب دہشت کی ایسی فضا قائم کی جا رہی تھی کہ جو شریف آدمی ان کی حرکات سے اختلاف کرے اور انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھے وہ بھی خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھے.چنانچہ جب جولائی ۱۹۵۲ء میں ہوم سیکریٹری نے پنجاب کے صوبے میں بگڑتی ہوئی صورتِ حال دیکھی تو انہوں نے اختر علی خان ایڈیٹر زمیندار اور دیگر ایسے اخبارات کے ایڈیٹروں سے بات چیت کی اور اُن کو صورتِ حال سمجھائی.وہ اپنے طور پر کوششیں کر رہے تھے کہ صورت حال سنبھل جائے.اُس وقت یہ لوگ مطمئن ہو کر واپس گئے لیکن سوائے ایک کے کسی اور نے اپنے اخبار میں کوئی کلمہ خیر لکھنے کی تکلیف گوارا نہ کی.بلکہ اپنے اخبارات میں احرار کے اقوال و دعاوی کی تائید کو جاری رکھا.پھر ہوم سیکریٹری نے حمید نظامی ایڈیٹر نوائے وقت اور مظہر علی خان صاحب کو بلایا اور اُن پر واضح کیا کہ ان کو بلانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہیں پوری پوزیشن سمجھا دیں.اس کے بعد وہ آزاد ہیں کہ جو چاہیں

Page 407

397 تاویل کریں.مسٹر حمید نظامی نے کہا کہ اگر وہ اپنے اخبار میں صحیح خیالات کی ترجمانی شروع کر دیں تو سب سے پہلے حکومت کے منظور نظر اور مسلم لیگی اخبارات ہی مجھے احمدی قرار دے دیں گے تا کہ اپنی اشاعت میں اضافہ کر لیں.انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ احرار کے انسداد کے لئے کوئی قدم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اخبارات اِس کام میں تعاون نہ کریں.اور اپنے کالموں کے ذریعہ زہر پھیلانا بند نہ کریں.مسٹر مظہر علی خان نے صاف کہا کہ اس تمام مصیبت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے خود مذہب کو اپنے نعروں کا موضوع اور اپنی قوت کا سرچشمہ بنا رکھا ہے اور اگر ایک گروہ اپنے مقاصد کے لئے مذہب کو استعمال کر سکتا ہے تو دوسرے کو کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی خاطر مذہب کو آلہ کار نہ بنائیں.(۶۶) لیکن اصل مقصد صرف صحافیوں کو دہشت زدہ کرنا نہیں تھا.ان کی اصل منزل تو اقتدار کے اعلیٰ ایوان تھے.سکیم یہ تھی کہ برسر اقتدار طبقے کو یہ باور کرا دو کہ اگر تم نے ہماری ہاں میں ہاں نہ ملائی تو تمہارا سیاسی مستقبل ختم ہو جائے گا.ہم تمہیں قادیانی اور قادیانی نواز قرار دے کر تمہیں کہیں کا نہ چھوڑیں گے.تب سے اب تک بلیک میلنگ کا یہ آلہ مولویوں کے ہاتھ میں موجود رہا ہے.اور جتنا ہی کوئی اس سے خوف زدہ ہو یہ آلہ اتنی ہی فراوانی سے استعمال کیا جاتا ہے.اب اس بلیک میلنگ سے مرعوب ہوکر اور اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لئے پنجاب میں برسر اقتدار مسلم لیگ کے کئی اراکین اور کئی شاخیں جماعت احمدیہ کے خلاف قراردادیں پاس کر رہے تھے.مطالبے کر رہے تھے کہ ان کو اقلیت قرار دو ، چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو برطرف کرو، احمد یوں کو کلیدی اسامیوں سے ہٹاؤ.مختصر یہ کہ احمدیوں کے سب حقوق سلب کردو.(۶۷) دشمن تشدد، جھوٹ اور بلیک میلنگ کے ہتھیار بے دریغ استعمال کر رہا تھا.اور اس نازک موڑ پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے احمدیوں کو ان کے ہتھیاروں کی طرف متوجہ فرمایا.آپ نے ۴ جولائی ۱۹۵۲ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا ابتلاءصبر وصلوۃ کے ساتھ دور ہو سکتے ہیں.اور خوفِ خدا رکھنے والوں پر یہ بات مشکل نہیں.امن کی گھڑیوں میں انسان کبر و نخوت کا شکار ہو جاتا ہے.مگر مصائب و آلام اسے آستانہ رب العزت پر جھکانے کے لئے مد ہوتے ہیں.پس ہماری جماعت کو بھی

Page 408

398 اس وقت صبر دعا اور نماز کی طرف توجہ کرنی چاہئیے.....اللہ سے استمد اد کر نے والا بہر حال غالب ہو گا.اگر خدا ہے تو سیدھی بات ہے کہ اس سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں.اس لئے چاہے جتنی مخالفتیں ہوں.جلسے جلوس ہوں قتل و غارت ہو بلعنت ملامت ہو جیتے گا وہی جس کے ساتھ خدا ہے.(۶۸) ۲ اگست کو جماعت کے نام حضور نے اپنے پیغام میں ارشاد فرمایا کوئی بات ایسی نہ کرو جس سے دوسرے کو اشتعال آئے.دنیا پر ثابت کر دو کہ اشتعال تمہارا دشمن دلاتا ہے.اور تم صبر اور عفو کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہو.اور ساتھ ہی بہادری کا بھی.کیونکہ مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا.ایمان اور بزدلی کبھی جمع نہیں ہوتے.پس ڈر کو دل سے نکال دو.اور دنیا پر ثابت کر دو کہ دنیا کا کوئی ظلم دنیا کا کوئی ستم، دنیا کا کوئی جبر تم کو صداقت سے پھر انہیں سکتا.محمد رسول اللہ ﷺ کی روح اپنے متبعین سے ایک دفعہ پھر ایثار اور قربانی کا مطالبہ کر رہی ہے.پس تم اس ایثار اور اس قربانی کا نمونہ پیش کرو جو تمہیں صحابہ کا مثیل بنادے.تا رسول کریم ﷺ کی روح خوش ہو جائے.(۶۹) بعض لیڈروں کی شرافت ، وزیر اعظم کی ۱۴ اگست کی تقریر: کشمکشوں سے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس موقع پر بہت سے لیڈروں نے شرافت اور اصول پسندی کا مظاہرہ کیا.صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ خان عبد القیوم خان صاحب نے واضح اعلان کیا کہ ان کے صوبے میں احرار احمدی تنازع موجود نہیں ہے اور اگر کسی نے صوبے کی پر امن فضا کو اس قسم کی کشتی خراب کرنے کی کوشش کی تو وہ ایسے عناصر کو سختی سے دبا دیں گے.مسلم لیگ ایک سیاسی جماعت ہے اس میں جماعت احمدیہ کے متعلق قرار داد زیر بحث لانا مناسب نہیں تھا.(۷۰) بعض کشمیری لیڈر تو جماعت کے خلاف بیان بازی میں شامل ہو گئے لیکن کچھ شریف النفس لیڈروں نے مشترکہ بیان میں جماعت کے خلاف تحریک کی مذمت کی اور اندیشہ ظاہر کیا کہ اس قسم کے جھگڑے بہت زیادہ اہم مسائل سے قوم کی توجہ ہٹادیں گے اور قومی اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا.اور کشمیر کو آزاد کرانے کا قومی عزم کمزور ہو جائے گا.(اے)

Page 409

399 ۱۹۵۲ء مخالفین میں سے اختر علی خان صاحب نے خواجہ ناظم الدین صاحب وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کی.وہ اس ملاقات کے بعد بہت پُر امید تھے اور یہ اعلان شائع بھی کر دیا گیا کہ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو وزیر اعظم علماء کی خواہش کے مطابق احمدیوں کے متعلق اعلان کریں گے.پھر ۱۳ اگست کو مولویوں کا ایک وفد وزیر اعظم سے ملا اور مطالبات پیش کئے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے ، وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو برطرف کیا جائے.اور احمد یوں کو تمام کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے.اب مخالفین کے کان وزیر اعظم کی اُس تقریر پر لگے ہوئے تھے جو یوم آزادی کو ہوئی تھی.اپنی کامیابی کو یقینی بنانے اور حکام اور عوام کو احمد یوں سے بدظن کرنے کے لئے ۱۴ اگست 19ء سے چند روز قبل مخالفین جماعت نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ احمدی ملک میں مسلح بغاوت کی تیاری کر رہے ہیں اور ربوہ میں خوفناک اسلحہ اس بڑی تعداد میں جمع کر لیا گیا ہے کہ شاید حکومت کے لئے بھی اُس کا مقابلہ کرنا دشوار ہو (۷۲).جیسا کہ بعد میں حالات نے ظاہر کیا، حقیقت یہ تھی کہ یہ لوگ خود ملک میں بغاوت کرنے کی تیاری کر رہے تھے اور شکوک کا رخ پھیر نے کے لئے جماعت احمدیہ پر بغاوت کا الزام لگا رہے تھے.جب یہ تقریر شروع ہوئی تو اُن کی امیدوں پر پانی پھر گیا.اس میں مولویوں کے مطالبات منظور کرنے کا ذکر تک نہ تھا.اس کی بجائے اُنہوں نے کہا کہ فرقہ واریت کے نام پر لاقانونیت کو ہوا دینے والے اور اخباروں کے ذریعہ جھوٹی خبریں پھیلانے والے قوم و ملک کے دشمن ہیں.میں ایسے لوگوں کو کہوں گا لا تفسدوا فی الارض کی آیت یادرکھو اور جولانی طبع کی خاطر پاکستان کو خطرے میں نہ ڈالو.اگر قائد اعظم کے ذریعہ قائم ہونے والے اتحاد کی رسی ہاتھوں سے چھوٹ گئی تو پھر پاکستان کا قائم رہنا مشکل ہے.(۷۳) تاہم اسی روز مرکزی حکومت کی طرف سے یہ پُر اسرار ران شائع کیا گیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبائی یا مرکزی وزارتوں کا کوئی رکن اُن اشخاص میں جن کے ساتھ اس کا واسطہ پڑتا ہے کسی فرقہ وار عقیدے کی تبلیغ کے لئے اپنی سرکاری پوزیشن کو استعمال نہیں کرے گا.اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے گا تو اُس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی.گو یہ اعلان عمومی نوعیت کا تھا مگر سمجھا جا رہا تھا کہ اس کا روئے سخن حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور دیگر احمدیوں کی طرف ہے اس لئے حضرت چوہدری

Page 410

400 ظفر اللہ خان صاحب نے ایک بیان جاری فرمایا ، جس میں آپ نے فرمایا....میں اس امر کو خلاف دیانت اور خلاف تعلیماتِ اسلامی سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص اپنے سرکاری عہدہ و اختیار کو بالواسطہ یا بلا واسطہ استعمال کر کے اپنے مذہبی عقائد کو زبر دستی دوسروں پر منڈھ دے.یا اسی قسم کے اثر و نفوذ سے کام لے کر کسی شخص کو اس کے حقیقی عقائد ترک کرنے پر مجبور کرے.میں جس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں اس میں اس اصول کی وسیع تعلیم دی جاتی ہے.اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ اس جماعت کا کوئی فرداس صحیح اور مفید اصول کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو یقیناً مجھے بے حد حیرت اور اذیت ہوگی....اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے.جس جماعت کے خلاف بعض حلقے جو عظیم اکثریت ہونے کے دعویدار ہیں برابر غلط بیانی اور جبر وظلم میں مصروف ہیں.اس جماعت کے ارکان اس قسم کے طور طریقے اختیار کر ہی نہیں سکتے.مجلس عمل کے اراکین دوبارہ وزیر اعظم سے ملے.اب وزیر اعظم نے ان کے مطالبات تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا.اس دوران حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے وزیر اعظم کو ایک سے زائد مرتبہ اپنے استعفے کی پیش کش کی لیکن وزیر اعظم نے کہا کہ اس سے حالات اور بگڑ جائیں گے.(۷۴) دولتانہ صاحب کی بیان بازی مخالفین کی خام خیالی علماء تو وزیر اعظم صاحب کے خلاف بھڑک اُٹھے لیکن اس صورتِ حال نے دولتانہ صاحب کو ایک موقع فراہم کر دیا کہ وہ ایوان وزیر اعظم کی طرف اپنے قدم بڑھا ئیں.جیسا کہ تحقیقاتی عدالت نے اپنی رپورٹ میں لکھا انہوں نے حضوری باغ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا آج دنیا بھر میں پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو اسلامی حکومت قائم کرنے کا دعویدار ہے.تمام دنیا ہمارے اس تجربے کو غور سے دیکھ رہی ہے.اور اگر ہم اس ذمہ داری کی تکمیل میں ناکام رہ گئے تو دنیا کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ دنیا میں حکومت کی اسلامی ہیئت کے لیے کوئی گنجائش نہیں.ختم نبوت کے مسئلے میں میرا وہی عقیدہ ہے جو ایک

Page 411

401 مسلمان کا ہونا چاہئیے.میرے نزدیک وہ تمام لوگ خارج از اسلام ہیں.جو رسول کریم صلعم کو آخری نبی نہیں مانتے.اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ عقیدہ ختم نبوت پر کوئی بحث اُٹھانا کفر کے برابر ہے.کیونکہ بحث کی گنجائش صرف اس مسئلے میں ممکن ہے جس میں کسی قسم کا شبہ وارد ہوتا ہو.عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا جزو ہے.اس لئے ہر بحث اور منطق سے بالا تر ہے.مرزائیوں کے خلاف جو نفرت پیدا کی گئی ہے اس کی ذمہ داری خود انہی پر ہے کیونکہ ان کے رحجانات علیحدگی پسندانہ ہیں.(۷۵) مخالفین سلسلہ کی سطحی سوچ اُن کو سبز باغ دکھا رہی تھی.وہ اِن خیالوں میں تھے کہ اگر کسی طرح چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو وزارتِ خارجہ سے ہٹا دیا جائے اور احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا جائے تو اُن کے خلاف نفرت کی ایسی فضا قائم ہو چکی ہے کہ پھر احمدیت کا خاتمہ یقینی ہے.اکتوبر ۱۹۵۲ء میں لائکپور میں ایک کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس احرار کے مرکزی صدر تاج الدین انصاری صاحب نے بڑے اعتماد سے اعلان کیا دسنو میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں.جس دن ظفر اللہ وزارتِ خارجہ سے علیحدہ ہو گیا.تو اس روز آدھے مرزائی مسلمان ہو جائیں گے اور جس روز ان کو اقلیت قرار دے دیا گیا.اس روز مرزا بشیر الدین محمود ڈھونڈتے پھریں گے کہ میرے ابا کی امت کہاں گئی ہے.(۷۶) اسی طرح جب شیعہ سنی بریلوی، اہلِ حدیث وغیرہ سب نے مل کر جماعت احمدیہ کے خلاف آل پارٹیز مسلم کا نفرنس قائم کی تو اس کا ایک اجتماع راولپنڈی میں بھی منعقد کیا گیا.اس میں بڑے طمطراق سے یہ اعلان کیا گیا د تم دیکھو کہ جس روز اعلان ہوا کہ سر ظفر اللہ گئے.اسی روز پچاس فیصدی مرزائی ادھر آجائیں گے.اور باقی ادھر آنا شروع ہو جائیں گے.مرزائی مذہبی جماعت نہیں ہے.سیاسی ٹولی ہے.یہ سائیکولوجی ہے.سیاسی ٹولی کا ذہن منفعت کی طرف جاتا ہے.(۷۷) آج چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو مستعفی ہوئے پچاس برس سے زائد عرصہ گذر چکا ہے.آدھی جماعت تو ایک طرف رہی ، ایک احمدی نے بھی اس وجہ سے ارتداد کی لعنت کو قبول نہیں کیا.اور

Page 412

402 احمدیوں کو اقلیت قرار دیئے ہوئے بھی تیس برس سے اوپر کا عرصہ بیت گیا جماعت ختم ہونے کی بجائے ترقی پر ترقی کرتی گئی.اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی کوئی حسرت باقی نہیں چھوڑی کہ وہ یہ سوچیں کہ اگر یہ ہو جاتا تو احمدیت ختم ہو جاتی ، اگر وہ ہو جاتا تو احمدیت ختم ہو جاتی.کیونکہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا تھا.دنیا کا کوئی ہاتھ اسے تباہ نہیں کرسکتا.مخالفت کا رخ وزیر اعظم کی طرف ہوتا ہے: بہر حال اُس وقت یہ ٹولہ یہی سوچ رہا تھا کہ راستے میں صرف خواجہ ناظم الدین حائل ہیں.اگر اُن کی جگہ ہمارا کوئی آدمی ہوتا تو خوب تھا.چنانچہ اب اُن کے خلاف پرانے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے.بہاولپور میں منعقدہ تحفظ ختم نبوت کنونشن میں ایک مقرر نے کہا د تم ظفر اللہ کو کہتے ہو مگر ناظم الدین کو نہیں کہتے ہو جس نے ظفر اللہ کو گود میں جگہ دے رکھی ہے...جب تک مرزائیت کو ختم نہ کیا گیا تو یہ ملک ہرگز ہرگز نہیں محفوظ رہ سکتا.جب تک ناظم الدین ہے مرزائیت کا استیصال ناممکن ہے.مرزائیت کے استیصال کے لئے پہلے ناظم الدین کو نکالنا ضروری ہے.(۷۸) اب دل کی بات منہ پر آرہی تھی.اصل مقصد تو اقتدار اعلیٰ پر قبضہ تھا.وٹوں سے نہ مل سکا تو چور دروازے کا راستہ اختیار کیا گیا.یہ علیحدہ بات ہے کہ خواجہ ناظم الدین کو وزارت عظمی سے علیحدہ ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت گیا مگر ان کے من کی مراد پھر بھی نہ پوری ہوئی.وزیر اعظم کو جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور کرنے کے لئے احرار اپنے پرانے ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے.کراچی میں تقریر کرتے ہوئے ،عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے کہا مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا خواجہ ناظم الدین بھی مرزا بشیر الدین محمود کے ہاتھ پر بیعت کر کے مرزائی ہو گئے ہیں.مجھے خصوصی حلقوں سے معلوم ہوا ہے کہ خواجہ ناظم الدین اور مرزائیوں کے درمیان کوئی رشتے ناطے بھی ہو چکے ہیں.اگر یہ صحیح ہے تو مسلمان اسے کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کریں گے.(۷۹) اب یہ لوگ وزیر اعظم کی تحقیر و تضحیک کے لئے ، اپنی تقریروں میں بھوکا بنگالی ، چٹو وٹا،

Page 413

403 تیل کا کیا، کچھو کمہ، بدھو لعین ، احمق جیسے الفاظ استعمال کر رہے تھے.(۸۰) بد قسمتی سے اُس وقت آئین سازی کا مسئلہ بھی چل رہا تھا اور پنجاب کے لیڈروں اور بنگال کے لیڈروں میں پاکستان کے دونوں حصوں میں نمائیندگی کے تناسب کے بارے میں اختلافات بھی سامنے آچکے تھے.خود دولتانہ صاحب اور وزیر اعظم کے درمیان شدید اختلاف موجود تھا.دولتانہ صاحب اس قسم کے بیانات دے رہے تھے کہ پنجاب ایک اکائی کا دوسرے اکائیوں پر تسلط برداشت نہیں کرے گا.(۸۱) اس پس منظر میں پنجاب میں بنگالی وزیر اعظم کی اس طرح تذلیل مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان فاصلے بڑھانے کا باعث بن رہی تھی.بدقسمتی سے یہ سلسلہ بعد میں جاری رہا اور فاصلے بڑھتے رہے، جس کے نتیجے میں آخر کار ملک دو ٹکڑے ہو گیا.ڈائرکٹ ایکشن کی دھمکی: مخالفین کی بنائی ہوئی مجلس عمل کا ایک وفد ۲۲ جنوری ۱۹۵۳ء کو وزیر اعظم سے ملا اور احمد یوں کے بارے میں اپنے مطالبات پیش کئے اور ایک مہینے کا نوٹس دیا.وزیر اعظم نے اُن سے اظہارِ ہمدردی تو کیا لیکن کہا کہ میں مطالبات تسلیم کرنے سے قاصر ہوں.اور علماء سے کہا کہ وہ ان کی مشکلات کو نہیں سمجھتے ، مسئلہ کشمیر اور دیگر بین الاقوامی تنازعات کی وجہ سے چوہدری صاحب کو ہٹانا ممکن نہیں.علماء نے جواب میں کہا کہ اگر چوہدری صاحب کے بغیر کام نہیں چل سکتا تو احمد یوں کو اقلیت قرار دے دیا جائے (۸۲).اس تحریک کے قائدین اب حکومت کو ڈائرکٹ ایکشن کی دھمکیاں دے رہے تھے.جب حکومت نے گرفت کی تو اُس وقت جماعت اسلامی نے دعوی کیا کہ وہ ڈائرکٹ ایکشن کی حمایت نہیں کر رہے تھے.اور یہ موقف تحقیقاتی عدالت میں بھی پیش کیا گیا.لیکن عدالت میں جو شواہد پیش کئے گئے ان سے عدالت نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ جماعت اسلامی کا یہ عذر صحیح نہیں تھا.ڈائرکٹ ایشن کی دھمکی سے فسادات کے آغاز تک جماعتِ اسلامی نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا تھا کہ وہ اس دھمکی کی حمایت نہیں کرتے.اور اس تحریک میں شامل دیگر علماء نے بھی یہی گواہی دی کہ جب ڈائرکٹ ایکشن کی قرارداد منظور کی گئی تو مودودی صاحب نے اس کی کوئی مخالفت نہیں کی تھی.یہ بات اُس وقت بنائی گئی جب حکومت نے گرفت شروع کر دی (۸۴،۸۳)

Page 414

404 اس کے بعد مولویوں کے وفود نے لا ہور اور کراچی میں وزیر اعظم سے ملاقاتیں کیں.اب وزیر اعظم پر دباؤ بڑھ رہا تھا.جیسا کہ انہوں نے بعد میں تحقیقاتی عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ اُس وقت اُنہیں برابر اطلاعات مل رہی تھیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب دولتانہ صاحب خود اس تحریک کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق انہیں بعض لوگوں نے شکایت کی کہ وہ احمدیوں کی اعانت کرتے ہیں اور دوسرے فرقے کے لوگوں کو احمدی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب وزیر اعظم نے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس شکایت پیش کرنے کو کہا تو خواجہ ناظم الدین صاحب نے اعتراف کیا کہ یہ گروہ ایسی شکایت پیش کرنے سے قاصر رہا.(۸۵) اوپر سے احرار اور اُن کے ہمنوا مولویوں نے دھمکی دے دی کہ اگر فوراً اُن کے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو وہ ڈائرکٹ ایکشن کا قدم اُٹھائیں گے.اب احراریوں کو اتنی جراءت ہو گئی تھی کہ وہ ہڑتال کی اپیل کرتے تھے اور اگر کوئی حصہ نہ لے تو زبر دستی دوکانیں بند کرائی جاتی تھیں.جو دوکان بند نہ کرے اس کا منہ کالا کر دیا جاتا.وہ لوگوں کو اکسا رہے تھے کہ احمدیوں سے اچھوتوں والا سلوک کیا جائے.دوکانوں میں ان کے برتن علیحدہ کر دئیے جائیں مجلسی مقاطعہ کیا جائے ، ان کی دوکانوں پر پکٹنگ کر دی جائے.شورش کا لہجہ نہایت پست اور بازاری صورت اختیار کر گیا تھا.وزیر اعظم اب دباؤ میں آکر یہ تجویز بھی پیش کر رہے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ کو یہ بیان جاری کرنے کو کہا جائے کہ وہ اور ان کے مقلد پاکستان کے مسلمانوں کو احمدی نہیں بنائیں گے تاکہ یہ تحریک ختم ہو جائے (۸۵) یہ تجویز سراسر ظالمانہ تھی.احمدیوں پر ارتداد کے لئے تو ہر قسم کا دباؤ ڈالا جا رہا تھا، ان کے خلاف اور اُن کے عقائد کے خلاف تو ہر قسم کا زہریلا پراپیگینڈا کیا جا رہا تھا، اُن کو اور اُن کے بزرگان کو تو گالیاں نکالی جارہی تھیں، ان کے جائز حقوق تلف کرنے کے لئے تو تحریک چلائی جارہی تھی اور ہر قسم کے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے تھے لیکن حکومت نے اب تک اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا تھا اور اب اگر کچھ کرنے کا خیال آیا تو یہ کہ احمدی یک طرفہ طور پر تبلیغ بند کر دیں.جب وزیر اعظم پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ صورت حال روز بروز نازک ہوتی جا رہی ہے تو ۲۶ فروری ۱۹۵۳ء کو کابینہ کا ایک اجلاس بلایا گیا جس میں پنجاب اور سرحد کے نمائیند وں کو بھی مدعو کیا گیا.یہ معنی خیز بات تھی کہ گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب دولتانہ صاحب مدعو تھے لیکن انہوں نے

Page 415

405 نامعلوم مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہیں کی.مگر ساتھ ہی اپنے نمائندے اس رائے کے ساتھ بھجوا دیئے کہ حکومت پنجاب کی رائے میں مطالبات نامعقول ہیں اور بختی ہونی چاہئیے.اس کا نفرنس میں یہ تجاویز منظور کی گئیں کہ اس شورش کے نمایاں لیڈروں کو گرفتار کر لیا جائے.اخبارات میں سے آزاد اور زمیندار کی اور اس کے ساتھ ہی الفضل کی اشاعت بھی روک دی جائے.تحریک کے رضا کاروں کو کراچی آنے سے روکا جائے.اور حضرت مصلح موعود و تنبیہ کی جائے کہ وہ ربوہ سے باہر نہ جائیں اور نہ ہی کوئی ایسی بات کریں جس سے اشتعال پھیلے.(اب تک صرف احمدیوں کے خلاف ہی اشتعال پھیلایا جا رہا تھا، اُن پر مظالم ہو رہے تھے، اُن کے اشتعال پھیلانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا).اس کے ساتھ ہی حکومت پنجاب کو پیغام بھجوایا گیا کہ احمدی ہوں یا کوئی اور طبقہ ہو انہیں زبردستی اقلیت بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور نہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کسی گروہ کو زبردستی اقلیت بنائے.نہ ہی مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو کلیدی اسامیوں سے ہٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی وزیر خارجہ کو اس لئے برطرف کیا جاسکتا ہے کہ ایک طبقہ ڈائریکٹ ایکشن کی دھمکی دے رہا ہے.(۸۶) الفضل پر پابندی اور حضور کا پیغام: جب الفضل پر پابندی لگائی گئی تو اس موقع پر حضور نے جماعت کے نام یہ پیغام شائع فرمایا الفضل کو ایک سال کے لئے بند کر دیا گیا ہے.احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہ لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے.پس دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اس میں سب طاقت ہے.ہم مختلف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے.اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے.آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں انشاء اللہ فتح ہماری ہے.کیا آپ نے گذشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا کہ خدا نے مجھے چھوڑ دیا ؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا ؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑیگا.سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے.وہ میرے پاس ہے ، وہ مجھ میں ہے.خطرات ہیں اور بہت

Page 416

406 ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے.تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا.پنجاب کی حکومت تمام فسادات میں تو خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی بلکہ مفسدوں کی پشت پناہی کرتی رہی مگر اس پیغام پر تڑپ اُٹھی اور حضور کے نام نوٹس جاری کر دیا کہ آپ احراریوں اور احمدیوں کے تنازع کے متعلق کچھ نہ کہیں.بعض افسروں نے کہا کہ آپ کے اس فقرے سے اشتعال پیدا ہوتا ہے کہ خدا میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے تو آپ نے فرمایا کہ جب مجھے خدا آتا ہوا نظر آتا ہے تو کیا میں جھوٹ بولوں؟ مفسدین کی گرفتاریاں: اس شورش کے لیڈروں نے فیصلہ کیا کہ پنجاب سے دارالحکومت جتھے بھیجے جائیں جو کہ پانچ پانچ کے گروہوں کی صورت میں وزیر اعظم اور گورنر جنرل کی رہائش گاہوں کے سامنے جائیں اور اپنے مطالبات پیش کریں.اور وہاں پر دھر نا مار کر بیٹھیں.اس تحریک کے لئے قربانی کی کھالوں کے حصول کے ذریعہ تحریک ختم نبوت کے نوٹ چھاپ کر اور انہیں فروخت کر کے اور چندے جمع کر کے کافی رقم جمع کی گئی تھی جو ایڈیٹر زمیندار اختر علی خان صاحب کے پاس جمع تھی مگر جب ان رضا کاروں کو کراچی بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا تو اختر علی خان صاحب نے اصرار کیا کہ ان رضا کاروں کو بغیر ٹکٹ کے ریل گاڑی کے ذریعہ کراچی بھجوایا جائے مگر دوسروں نے اعتراض کیا تو وہ کچھ رقم دینے پر آمادہ ہوئے.کچھ باہمی اختلافات کے بعد کچھ رضا کار کراچی روانہ کئے گئے.(۸۷) حسب فیصلہ اس شورش کے لیڈروں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں.لاہور سے کراچی جو جتھے فساد کرانے آرہے تھے راستے میں ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.پہلے راست اقدام کرنے والوں کا خیال تھا کہ کراچی سے فسادات کی ابتداء کی جائے گی لیکن ان گرفتاریوں سے ملک کے دارالحکومت میں بڑے پیمانے پر فساد برپا کرنیکا منصوبہ ناکام ہو گیا.اس کے علاوہ بنگال اور بلوچستان میں یہ شورش کوئی خاص حمایت نہ حاصل کر سکی تھی اور سرحد میں بھی وہاں کی حکومت کے دوٹوک اعلان کے باعث انہیں وہاں پر فساد کرنے کی جراءت نہیں ہوئی.اب پنجاب ان کی توجہ کا

Page 417

407 مرکز تھا.یہاں پر صوبائی حکومت اپنے عزائم کے لئے ان کی پشت پناہی کر رہی تھی.حکمران مسلم لیگ کے بہت سے سیاستدان اس سازش میں شامل تھے اور سرکاری مشینری کے بہت سے کل پرزے بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے تھے.چنانچہ لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، راولپنڈی، لائل پور اور منٹگمری کے شہروں میں فسادات اور لاقانونیت کا ایک طوفان برپا ہو گیا.اب فساد کرنے والوں کے قدم ایوانِ اقتدار کی طرف بڑھ رہے تھے اور حکومت کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ بالآخر پاکستانی عوام کے سامنے حقائق کو رکھے.چنانچہ ۲۷ فروری کو پاکستان کی مرکزی حکومت نے ایک اعلان جاری کیا کہ یہ شورش پاکستان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے اور ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے شروع کی گئی ہے.اس فتنے کے بانی مبانی اصل میں احرار تھے اور بعد میں دوسرے گروہ اس میں شامل ہوتے گئے.احرار شروع ہی سے قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے مخالف تھے اور حکومت کے پاس باوثوق شواہد موجود ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد بھی انہوں نے اس کے قیام کو تسلیم نہیں کیا اور اس تحریک کو چلانے کے لئے پاکستان کے دشمن اُن کی مدد کر رہے ہیں تا کہ مسلمانوں میں اختلافات پیدا کئے جائیں اور ملک کے استحکام کو نقصان پہنچایا جائے (۸۸، ۸۹).اس اعلان سے پڑھے لکھے طبقے کی اکثریت پر حقیقت آشکار ہوگئی کہ یہ فساد بیرونی ہاتھ کی مدد سے پیدا کیا جا رہا ہے.لیکن افسوس حکومت نے ان شواہد کے معاملے میں عوام کو اُس وقت تک اعتماد میں نہیں لیا جب تک فسادات شدت نہیں اختیار کر گئے.اس مصلحت آمیز خاموشی سے مفسد گروہ کو تقویت ملی.اس شورش کے کئی ایسے قائدین بھی تھے جو پہلے تو بہت بلند و بانگ دعوے کر رہے تھے مگر جب انہیں گرفتاری سامنے نظر آنے لگی تو ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی.اختر علی خان صاحب نے جو ظفر علی خان صاحب کے بیٹے اور اخبار زمیندار کے ایڈیٹر تھے ایک ختم نبوت کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے احمدیت کے خلاف اپنے عزائم کا ذکر کر کے کہا تھا اگر اس نصب العین کی خاطر مجھے تختہ دار پر بھی لٹکا دیا جائے تو میں اس سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں، (۹۰).مگر جب ۲۷ فروری کو انہیں گرفتاری کا وارنٹ دکھایا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے گرفتار نہ کیا جائے تو میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ میرا اس شورش سے کوئی تعلق نہیں.چنانچہ تحقیقاتی عدالت کے تبصرے کے مطابق انہوں

Page 418

408 نے ایک ذلت آمیز معافی نامے پر دستخط کئے جس میں انہوں نے تحریک ختم نبوت کی موجودہ روش کے خلاف بہت کچھ لکھا.تب جا کر ان کی جان بخشی ہوئی اور ان کے اخبار کو جاری رہنے دیا گیا.اور وہ اپنے گاؤں کرم آباد چلے گئے.(۹۱) پنجاب میں شدید فسادات کا آغاز : اب حکومت اور بلوائیوں کی ٹکر نا گزیر ہو چکی تھی.۲۸ فروری کو لاہور میں پانچ چھ ہزار کا جلوس نکلا اور چونتیس رضا کاروں نے گرفتاریاں پیش کیں اور مقامی افسران نے فیصلہ کیا کہ جلسے جلوسوں پر پابندی لگا دی جائے.اسی روز پنجاب میں جہلم، راولپنڈی، لائل پور، منٹگمری اور شیخو پورہ کے شہروں میں گرفتاریوں کے خلاف ہڑتال ہوئی (۹۲) ۲۸ فروری کو حضور نے جماعت احمدیہ کے نام ایک پیغام بھجوایا اور اس میں احراری لیڈروں کی گرفتاری کا ذکر فرما کے جماعت کو ارشاد فرمایا دممکن ہے بعض کمزور طبع احمدی ان خبروں کو سن کر مجالس یا ریلوے سفروں میں یا لاری کے سفروں میں یا تحریر یا تقریر کے ذریعہ سے ایسی لاف زنی کریں جس میں کہ ان واقعات پر خوشی کا اظہار ہو.اور بعض طبائع میں اس کے خلاف غم وغصہ پیدا ہو.اس لئے ہو.اس میں تمام احباب کو ان کے اخلاقی اور مذہبی فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے دن جب آتے ہیں تو مومن خوشی اور لاف و گزاف سے کام نہیں لیتے بلکہ دعاؤں اور استغفار سے کام لیتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے گند بھی صاف کرے اور اور ان کے مخالفین کو بھی سمجھ دے کہ آخر وہ بھی ان کے بھائی ہیں...اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو آزادی اور حکومت بخشی ہے.ہماری کوشش ہونی چاہئیے کہ حکومت کو ضعف نہ پہنچے.اور خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئیے کہ ہمیں اور دوسرے پاکستانی مسلمانوں کو وہ ایسے اعمال کی توفیق دے کہ جس سے پاکستان مضبوط ہو.(۹۳) اس ابتلاء کے دوران جماعت احمد یہ دن رات کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح سچائی لوگوں کے علم میں آتی رہے اور ملک دشمن عناصر اپنی مذموم سازش میں کامیاب نہ ہوں.مخالفین کے پراپیگنڈا اور سازشوں کا رد کیا جا رہا تھا.ان دنوں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی با وجود بیماری اور کمزور صحت کے دن

Page 419

409 رات مصروف رہتے تھے.کام کا بوجھ اتنا تھا کہ آپ کو روزانہ رات دو دو تین تین بجے تک کام کرنا پڑتا تھا.چھ ماہ تک یہ حالت رہی کہ کوئی ہی رات ایسی آتی تھی کہ آپ چند گھنٹے کے لئے سوتے ہوں.اکثر راتیں جاگتے ہوئے کٹ جاتی تھیں.(۹۴) حکومت نے جب اعلان کیا کہ اس تحریک کو شروع کرنے والے احراریوں کو اس کام کے لئے پاکستان کے دشمنوں کی طرف سے مددمل رہی ہے تو اس سے شورش کر نے والوں کے کیمپ میں کھلبلی پیدا ہوئی.اگلے ہی روز ان کی طرف سے بیان جاری ہوا کہ تحریک ختم نبوت کو مجلس احرار کی تحریک کہنا سراسر بہتان طرازی ہے.اس میں مسلمانوں کے تمام فرقے شامل ہیں.(۹۵) یکم مارچ کا دن جلوسوں اور گرفتاریوں کا دن تھا.جب لوگوں کو یہ خبر ملی کہ اُن کو اکسانے والے اختر علی خان خود معافی مانگ کر اپنے گاؤں چلے گئے ہیں تو وہ غضبناک ہو گئے اور ایک ہجوم اُن کے گھر کے گرد جمع ہو گیا مگر وہ وہاں پر نہیں تھے.لاہور میں تین بڑے جلوس نکلے جنہیں پولیس نے روکا اور ہجوم نے پولیس پر پتھراؤ کیا.متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا.اب احمدیوں کے گرد خطرات کا گھیرا تنگ ہو رہا تھا.احمدیوں کی دوکانوں پر پکٹنگ کی جا رہی تھی اور کسی کو اُن سے سودا نہیں لینے دیا جا تا تھا.لاہور ، لائل پور، منٹگمری، سیالکوٹ ، راولپنڈی ، اوکاڑہ وغیرہ میں احمدیوں کو دھمکیاں مل رہی تھیں کہ یا تو تم احمدیت چھوڑ دو یا ہم تمہیں قتل کر دیں گے تمہاری عورتوں کو اغوا کرلیں گے اور تمہارا گھر بار لوٹ لیں گے.مولوی مختلف مقامات پر اشتعال انگیز تقاریر کر رہے تھے کہ احمدی کتوں سے بدتر ہیں ان کا مکمل بائیکاٹ کر دینا چاہئیے.بہت سے غیر احمدی دوست احباب یا تو نظریں چرا رہے تھے یا نظریں بدل رہے تھے.مشہور کیا جا رہا تھا کہ جس طرح پہلے ہندوؤں اور سکھوں کو ملٹری یہاں سے لے گئی تھی اسی طرح یا تو احمد یوں کو قتل کر دیا جائے گا اور یا انہیں ملٹری لے جائے گی.۲ مارچ کولوگ اختر علی خان صاحب کو لعنت ملامت کر کے واپس لاہور لائے اور انہوں نے دس ہزار کے جلوس کے ہمراہ گرفتاری پیش کی.دوسرے لیڈروں کو بھی گرفتار کیا گیا.اچانک ایک ہزار کے ہجوم نے اینٹوں ، ڈبوں اور بوتلوں سے پولیس پر حملہ کر دیا.ایک سو بلوائیوں کو گرفتار کیا گیا.اس نام نہاد تحریک ختم نبوت والوں کی اخلاقی حالت کا یہ عالم تھا کہ اس دن لاہور کی سڑکوں پر ان لوگوں نے ٹریفک روک کر بھنگڑے ڈالے بخش گالیاں دیں، ہلڑ بازی کی اور اپنے میں سے کچھ لوگوں کا منہ کالا کر کے بھانڈوں جیسی

Page 420

410 حرکتیں کیں (۹۶).حالات کے پیش نظر پولیس نے فوج کی مدد طلب کر لی.گوجرانوالہ احراریوں کا ایک گڑھ تھا یہاں پر خود حکمران مسلم لیگ کے عہدے داروں نے حکومت سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور بلوائیوں کو اتنی جراءت ہو گئی کہ انہوں نے ٹرین کو زبر دستی روک لیا.پولیس نے ہوا میں فائرنگ کر کے ہجوم منتشر کیا.سیالکوٹ میں جلوس نے ایک ممبر صوبائی اسمبلی کو اس کے دفتر سے نکالا اور اُس کا منہ کالا کر کے بازار میں اسے پھرایا.اب یہ حالت ہوگئی تھی کہ بہت سے لوگ جو اس شورش کی مذمت کر رہے تھے انہیں بھی عملاً اس کے خلاف کچھ عملی قدم اُٹھانے کی جرات نہیں ہو رہی تھی مبادا انہیں بھی مرزائی قرار دے دیا جائے.ختم نبوت کے نام پر مولوی اس قسم کی بازاری حرکات کر رہے تھے کہ جنہیں دیکھ کر کسی بھی شریف آدمی کا سر شرم سے جھک جائے.چنانچہ ۲ مارچ کو لاہور کے پانچ جرائد کے ایڈیٹروں نے یہ مشترکہ بیان جاری کیا.ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان کا جزو ہے لیکن اس مقدس نام پر بھنگڑے سوانگ رچانا، مغلظ گالیاں بکنا، اور اخلاق سوز حرکات کرنا مسلمانوں کے لئے باعث شرم ہے.(۹۷) مارچ کو فوج نے لاہور کا راؤنڈ کیا تو نسبتاً خاموشی رہی.چھوٹے چھوٹے جلوس نکلے.بعض مقامات پر پولیس نے راؤنڈ چلائے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا.اب پنجاب میں یہ عالم ہو چکا تھا کہ احمدیوں کے گھروں پر تو حملے اور پتھراؤ کئے جارہے تھے اور انہیں ارتداد نہ کرنے کی صورت میں جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں مگر جو ان مفسدوں کو خوف خدا دلا تا اسے بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا.سیالکوٹ میں ایک غیر احمدی کا مکان صرف اس لئے لوٹ لیا گیا کہ اس نے تشدد سے روکا تھا.۴ مارچ کو ایک منظم سازش کے تحت لاہور میں شدید اشتعال پھیلایا گیا.افواہ پھیلائی گئی کہ پولیس والوں نے قرآنِ کریم کو ٹھوکریں مار کر کلام اللہ کی توہین کی ہے.اس مضمون کے جھوٹے اشتہارات شائع کئے گئے کہ سرگودھا اور جھنگ میں ایک ہزار افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ہے، حالانکہ تحقیقاتی عدالت میں ثابت ہوا کہ اس دن ان دو شہروں میں ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی تھی.یہ جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ احمدی موٹر کاروں میں سوار ہو کر اندھا دھند گولیاں چلا رہے ہیں.یہ خبر بھی

Page 421

411 پھیلائی کہ ضلع پولیس اور سرکاری دفاتر کے ملازمین بلوائیوں کے ساتھ مل گئے ہیں.مسجد وزیر خان کے قریب پولیس نے جلوس کو روکا تو دو پولیس افسران کو اغوا کر لیا گیا.جب ڈی ایس پی ان کو لینے کے لئے گیا تو اُس کو چھرے مار کر ہلاک کر دیا اور ان کی لاش پر ۵۲ زخموں کے نشانات تھے.مولوی عبدالستار نیازی کو گرفتار کرنے کا فیصلہ ہوا مگر وہ مسجد وزیر خان میں چھپے ہوئے تھے اور اب وہاں پر پولیس جانے کی جراءت نہیں کر سکتی تھی.شہر میں کرفیو لگایا گیا اور پولیس نے بلوائیوں پر فائز کیا جس سے کچھ جانی نقصان ہوا.پورا شہر ایک ہنگامہ زار بنا ہوا تھا.رات گئے تک مہیب اور ہولناک شور کی آواز آتی تھی.اس روز بلوائیوں کے دستے تیزی سے شہر میں داخل ہورہے تھے تاکہ تشدد کی اس مہم کو اور تیز کر سکیں.لاہور میں ایک ہفتے کے لئے کرفیوں گا دیا گیا.صوبے بھر میں جگہ جگہ احمدیوں پر حملے ہورہے تھے.سیالکوٹ میں شورش کے چھ لیڈروں کو گرفتار کیا گیا تو بلوائیوں نے دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کی اور پولیس پر حملہ کر دیا.جواب میں فائرنگ ہوئی اور جلوس کے چار شرکاء ہلاک ہو گئے.یہاں پر بھی حالات خراب کرنے کے لئے تحریک ختم نبوت والوں نے لاہور والے ہتھکنڈوں سے کام لیا.مولویوں نے تقریریں کیں کہ پولیس نے قرآنِ کریم کی توہین کی ہے اور یہ جھوٹ بھی بولا کہ ایک مسجد پر پولیس نے ساڑھے تین گھنٹے فائرنگ کی ہے ، نہ معلوم کتنے مسلمان مارے گئے ہیں.اس اشتعال انگیزی کی وجہ سے سیالکوٹ میں دو احمد یوں کو شہید کر دیا گیا.سیالکوٹ میں بھی فوج کو امن قائم کرنے کے لئے بلا لیا گیا.لائل پور میں بھی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا.اب صورتِ حال یہ ہوگئی تھی کہ جو لیڈر اس وقت خاموش رہنا چاہتا تھا ، اس پر بھی دباؤ ڈالا جاتا کہ وہ اس فتنے کے حق میں بیان بازی کرے.چنانچہ مشہور سیاسی لیڈر حسین شہید سہر وردی اُس وقت ٹرین پر جا رہے تھے تو ان کے ڈبے کو گھیر کر مظاہرہ کیا گیا کہ ان کی خاموشی کی وجہ کیا ہے.اس پر انہوں نے بلوائیوں کی رضا جوئی کے لئے بیان دیا کہ ختم نبوت کے مقدس عقیدے پر کسی مسلمان کو اختلاف نہیں ہو سکتا اور ان کی پارٹی کی میٹنگ میں اس تحریک کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا.(۹۹،۹۸) یہاں پر ضمناً یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ جب یہ تحریک ناکام ہوگئی تو اس شورش کو بر پا کرنے والوں نے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا.مثلاً مودودی صاحب سے جب اس شورش کی بابت سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا

Page 422

412 ر ہے وہ فسادات جو مارچ ۵۳ میں ہوئے تھے تو یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے کہ وہ قادیانیوں کے خلاف تھے.ان کو قادیانیوں کے خلاف ہنگاموں ( Anti Qadiani Disturbances) کا نام بالکل غلط دیا گیا ہے، جس سے نا واقف حال لوگوں کو خواہ مخواہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ یہاں کے عام مسلمان شاید قادیانیوں کو قتل و غارت کرنے پر تل گئے ہوں گے.حقیقت یہ ہے کہ وہ فسادات حکومت اور اور عوام کے درمیان اس کشمکش کی وجہ سے برپا ہوئے تھے کہ ایک طرف عوام قادیانیوں کے بارے میں مذکورہ بالا مطالبہ تسلیم کرانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے اور دوسری طرف حکومت ان کے اس ایجی ٹیشن کو طاقت سے دبا دینا چاہتی تھی.پس تصادم در اصل حکومت اور عوام کے درمیان ہوا تھا نہ کہ قادیانیوں اور عوام کے درمیان.قادیانیوں کی جان و مال پر عوام نے صرف اس وقت حملہ کیا جب انہیں یقین ہو گیا ( اور اس پر یقین کے لئے اچھے خاصے وزنی وجوہ تھے ) کہ فسادات کے دوران میں پولیس اور فوج کی وردیاں پہن کر بعض قادیانی مسلمانوں کو قتل کرتے پھر رہے ہیں.(ملاحظہ ہو تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ (۱۰۰) (۱۵۶ اب تو حقائق پیش کئے جاچکے ہیں ان کی روشنی میں مودودی صاحب کی اس غلط بیانی کی لمبی چوڑی تردید کی ضرورت نہیں.لیکن مندرجہ ذیل امور قابل توجہ ہیں (۱) جس دن شورش پھیلانے والوں نے یہ افواہ پھیلائی کہ احمدی فوجیوں اور پولیس کی وردی پہن کر گولیاں چلا رہے ہیں، وہ ۴ مارچ ۱۹۵۳ء کا دن تھا.تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے پہلے ڈیڑھ سو صفحے اس بات پر گواہ ہیں کہ اس سے بہت پہلے احمدیوں کو شہید کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا.ان کے گھروں پر اور ان کی دوکانوں پر حملے کئے جا رہے تھے.ان پر ارتداد کے لئے ہر قسم کا نا جائز دباؤ ڈالا جا رہا تھا.اب مودودی صاحب کا یہ کہنا کہ اس سے قبل یہ فسادصرف حکومت اور ان جیسی جماعتوں (جن کو وہ عوام کا نام دے رہے ہیں ) تھا بالکل غلط ہے.۲) تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کا حوالہ دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے عدالت میں اس بات کو ثابت کر دیا گیا تھا کہ احمدیوں نے یہ وردیاں پہن کر لوگوں پر فائرنگ کر

Page 423

413 رہے تھے.تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے صفحہ نمبر ۱۵۶ کا حوالہ دیا گیا ہے.اس صفحہ پر اس بات کا کوئی ذکر نہیں.البتہ صفحہ نمبر ۱۵۹ پر جو ذکر ہے وہ من و عن درج کیا جاتا ہے.اس رپورٹ میں لکھا ہے:.شورش پسندوں نے حکام کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے جو دوسری چالیں اختیار کیں وہ حسب ذیل تھیں 1) اس مضمون کے اشتہار شائع کئے گئے کہ جھنگ اور سرگودھا میں ایک ہزار سے زائد اشخاص گولیاں مار مار کر ہلاک کر دئیے گئے ہیں.حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس دن ان مقامات پر ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی تھی.۲) یہ افواہ پھیلائی گئی کہ احمدی موٹر کاروں میں سوار ہو کر اندھا دھند لوگوں پر گولیاں چلا رہے ہیں.۳) مسجد وزیر خان سے یہ اعلان کیا گیا کہ سرکاری ملازموں نے ہڑتال کر دی ہے اور تحریک میں شامل ہوئے ہیں (۴) یہ خبریں پھیلائی گئیں کہ ضلع کی پولیس نے گولی چلانے سے انکار کر دیا ہے اور اب صرف بارڈر پولیس اور کنسٹیبلر کی پولیس گولیاں چلا رہی ہے.یہ بیان کہ بعض احمدی فوجی وردیاں پہنے ایک جیپ میں سوار ہو کر لوگوں کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنارہے تھے..ہمارے سامنے موضوع ثبوت بنایا گیا.اور اس کی تائید میں متعدد گواہ پیش کئے گئے.اگر چہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک پر اسرار گاڑی میں بعض نا معلوم آدمی اس دن شہر میں گھومتے رہے.لیکن ہمارے سامنے اس امر کی کوئی شہادت نہیں کہ اس گاڑی میں احمدی سوار تھے یاوہ گاڑی کسی احمدی کی ملکیت تھی.(۱۰۱) یہ بات واضح ہے کہ اس دن فسادات کے کرتا دھرتا جن میں مودودی صاحب کی پارٹی بھی شامل تھی جھوٹی افواہیں پھیلا کر لوگوں کو بھڑکا رہے تھے.ایک افواہ یہ بھی پھیلائی جارہی تھی کہ احمدی فوجی وردیاں پہن کر گولیاں چلا رہے ہیں.زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت ہوا تھا کہ اس دن ایک گاڑی شہر کا چکر لگاتی رہی تھی.اس میں احمدیوں کی موجودگی یا اس گاڑی سے اندھا دھند گولیوں کے

Page 424

414 چلنے کے حق میں شواہد موجود نہیں تھے.اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جھوٹی افواہ بھی ان فسادات کو بر پا کرنے والوں نے پھیلا کی تھی تا کہ جب فوج یا پولیس فسادات کو قابو کرنے کے لئے نکلے تو لوگ مقابلہ کریں اور ملک میں بغاوت کا ماحول پیدا ہو جائے.اور مودودی صاحب قول سدید سے کام لینے کی بجائے غلط بیانی سے کام لے کر تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے تھے.اس دن احمدیوں کو قتل کیا جا رہا تھا، ان کے مکانات جلائے جا رہے تھے، ان کی املاک لوٹی جارہی تھیں.اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی.اگر احمدیوں نے کہیں گولیاں چلانی تھیں تو اپنی جانوں اپنی املاک کی جائز حفاظت میں چلاتے.نہ کہ ادھر اُدھر اندھا دھند فائرنگ کرتے پھریں.عقل ہی اس الزام کو رد کر دیتی ہے.۵ مارچ کا المناک دن: ۵ مارچ اور چھ مارچ کو احمدیوں کے خلاف تشد د اپنے عروج پر اور شورش کی اخلاقی حالت پستی کی انتہا کو پہنچ گئی.دشمن اس خیال میں تھا کہ پنجاب کی حکومت کو کچھ اپنا ہم نوا بنا کر اور کچھ بے بس کر کے اور معاشرے میں احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلا کر اب وہ اپنی منزل کے قریب پہنچ چکا ہے.وہ اس خیال میں تھے کہ چند روز میں وہ جبر و تشدد کا ایسا طوفان اُٹھا ئیں گے کہ یا تو احمدیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا یا پھر انہیں ارتداد پر مجبور کر دیا جائے گا.مخالفین یہ خیال کر رہے تھے کہ احمدی بھی اُن جیسی فطرت رکھتے ہیں.یہ اُن کی سب سے بڑی بھول تھی.اب صوبہ پنجاب کے اکثر مقامات پر روزانہ جلوس نکل رہے تھے جو احمدیوں کے گھروں کا محاصرہ کر لیتے.احمدیوں کو مخش گالیاں نکالی جاتیں، ان کے خلاف نعرے لگائے جاتے اور ارتداد نہ کرنے کی صورت میں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جاتیں.اپنی فطرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسخروں جیسی حرکات کی جاتیں تا کہ احمدیوں کو زیادہ سے زیادہ اذیت پہنچے.یہ سب کچھ تو صرف آغاز میں ہوتا.پھر اکثر مقامات پر پتھراؤ شروع کر دیا جاتا کھڑکیاں دروازے توڑ دیئے جاتے تاکہ گھروں کا مال واسباب لوٹنے میں آسانی ہو اور بہت سی جگہوں میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ مچائی جاتی یا سامان نذر آتش کیا جاتا یا گھر کو آگ لگائی جاتی.اہل خانہ کو زدوکوب کیا جاتا.بہت سے بلوائی نام نہاد ہمدرد بن کر آتے اور کہتے کہ

Page 425

415 جان سے مارے جاؤ گے احمدیت سے انکار کر دو اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے ہے جھوٹ بھی بولتے کہ فلاں فلاں اہم احمدی مرتد ہو گیا ہے.لیکن جب بلوائیوں نے احمدیوں کو صبر و استقلال پر قائم دیکھا تو ان کی جھنجلا ہٹ میں اضافہ ہو گیا.اب وہ احمدیوں کے خون کے پیا سے ہو کر چاقو چھریاں لے کر پھر رہے تھے کہ جہاں احمدی نظر آئے تو اسے قتل کر دیا جائے یا پھر احمدیوں کو اغوا کر کے لے جاتے تا کہ ان سے کلمہ پڑھوائیں.یہ بد نصیب بلوائی اتنا نہیں سمجھتے تھے کہ یہ احمدی ہی تھے جو پوری دنیا کو دلائل سے قائل کر کے کلمہ پڑھوانے کے لئے دن رات کام کر رہے تھے ورنہ ان کے قائدین کو کبھی توفیق نہیں ہوئی تھی کہ دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بھی کچھ کوشش کرتے.بعض جگہ پر لوگوں نے قسمیں کھائیں کہ ان میں سے ہر ایک، ایک احمدی کو قتل کرے گا.جب جلوس کسی جگہ پر پہنچتا تو بسا اوقات ارد گرد کے لوگ اُن کی راہنمائی کرتے تا کہ انہیں احمدیوں کا گھر ڈھونڈنے میں کوئی دشواری نہ ہو.یہ تھی ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی.کئی غیر احمدی رشتہ دار آتے تو بجائے ہمدردی کرنے کے دھمکیاں دے کر رخصت ہوتے.اُن دنوں میں پنجاب کا معاشرہ عمومی طور پستی کی اس حالت کو پہنچ چکا تھا کہ سکول کے بچے بھی اس غلاظت میں دھنسنا شروع ہو گئے اور ایسے نظارے بھی دیکھے گئے کہ سکول کے بچوں نے معصوم احمدی بچوں کو مار پیٹ کر زخمی کر دیاحتی کہ بچیوں نے بھی احمدی بچیوں کو مارا پیٹا اور گالیاں دیں.جب بلوائی احمد یوں کے گھروں یا دیگر عمارات پر حملہ آور ہوتے تو اکثر اوقات پولیس کے چند سپاہی جو وہاں پر کھڑے ہوتے وہاں سے غائب ہو جاتے اور پولیس با وجود ر پورٹ کرنے کے مدد کو نہ آتی.ایسا بھی ہوا کہ جب احمدی رپورٹ کرنے کے لئے پولیس اسٹیشن پہنچے تو دیکھا کہ پولیس والے فون پر فخر سے احمدیوں پر ہونے والے مظالم چسکے لے لے کر سنا رہے ہیں.اور مولوی دن رات لوگوں کو اکسا رہے تھے کہ قتل وغارت باعث ثواب ہے.(۱۰۲) ہر صاحب شعور کو یہ نظر آ رہا تھا کہ اسلام کے نام پر چلائی جانے والی اس تحریک میں شامل ہونے والے گرے ہوئے اخلاق کا مظاہرہ کر رہے ہیں.چنانچہ ۵ مارچ کو روز نامہ مغربی پاکستان نے لکھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تحریک غلط ہاتھوں میں جا کر خوفناک صورت اختیار کرے.

Page 426

416 وزیروں کو گالیاں دینا، سوانگ رچانا، بھنگڑا ناچ کرنا کیا ان سب کا تعلق ختم نبوت سے ہے...اور پھر آقائے نامدار کے ساتھ اس تحریک کو وابستہ کر کے جس طرح گالی گلوچ، بیہودہ گوئی اور شرانگیزی سے کام لے رہے ہیں، یقیناً اس سے مذہب کے نام پر بٹہ لگ رہا ہے.(۱۰۳) مارچ کو لاہور بلوائیوں کی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا.سارا دن شہر میں حکومت اور احمدیوں کی املاک کو لوٹنے اور آگ لگانے کا سلسلہ جاری رہا.دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ کیا گیا تھا اور ایک مقام پر پانچ سے زیادہ افراد کے جمع ہونے کی ممانعت تھی مگر فساد کرنے والے اس حکم کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے.حکومت کی مشینری جو پہلے بے بس بنی رہی اب حقیقت میں بے بس ہو چکی تھی.دو ڈاک خانوں کو پہلے لوٹا گیا اور پھر آگ لگا دی گئی، حکومت کی اومنی بسیں اور گاڑیاں جلا دی گئیں، بہت سے کاروباری مراکز لوٹ لئے گئے.باغبانپورہ میں ایک احمدی مدرس منظور احمد صاحب کو شہید کر دیا گیا.اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا تھا.دیواروں پر اشتہار لگائے گئے جن میں پولیس کو کہا گیا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دے کیونکہ یہ جہاد ہو رہا ہے.پنجاب کی حکومت اس صورتِ حال میں اجلاسات منعقد کرنے پر ہی اکتفا کر رہی تھی.مودودی صاحب کو بلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے.مگر شام تک پنجاب حکومت نے مظلوم احمدیوں کی حفاظت کے لئے تو کوئی عملی قدم نہ اٹھایا مگر بلوائیوں کی سہولت کے لئے یہ ہدایت جاری کی کہ گولی نہ چلائی جائے اور کرفیو کی معمولی خلاف ورزی پر توجہ نہ دی جائے.پولیس کے جو اہلکار صورتِ حال کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے تھے ان کے حوصلے بھی پست ہو گئے.اس روز شورش کرنے والوں کی تمام توجہ صوبائی دارالحکومت پنجاب پر تھی باقی جگہوں پر نسبتاً کم واقعات ہوئے.۵ مارچ کو پنجاب حکومت نے یہ پر اسرار بیان جاری کیا کہ حالات ابھی اتنے خراب نہیں ہوئے کہ لاہور کا نظم ونسق فوج کے حوالے کیا جائے.(۱۰۴) بلوائیوں کے لئے یہ واضح اشارہ تھا کہ اب انہیں کھلی چھٹی دی جا رہی ہے.2 مارچ کو حضرت مصلح موعودؓ کا ایک پیغام جماعت میں تقسیم کیا گیا.اس میں حضور نے فرمایا کہ سرحد ، سندھ، بلوچستان اور بنگال میں مخالفین کی شورش نا کام ہوچکی ہے.بنگال میں بااثر علماء بھی

Page 427

417 اچھا نمونہ دکھا رہے ہیں.البتہ پنجاب کے بعض مقامات پر افسران بزدلی دکھا رہے ہیں اور لاہور سیالکوٹ اور لائل پور میں شورش زیادہ ہے.حضور نے فرمایا ' آپ لوگ صبر سے کام لیں.دعاؤں میں لگے رہیں.فتنہ کی جگہوں سے بچیں.ایک دوسرے کی خبر لیتے رہیں.مرکز سے تعلق بڑھانا چاہئیے.افسروں سے تعاون کریں.اور خدا پر پورا تو کل کریں کہ جو آخر تک صبر سے کام لے گا اور ایمان پر قائم رہے گا ، وہی دائمی جنت کا وارث ہو گا.اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے گا...خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے لیے اُتر رہے ہیں اور اس کی نصرت بارش کی طرح برس رہی ہے.جس کی آنکھیں ہیں وہ دیکھتا ہے اور جو اندھا ہے اسے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا.(۱۰۵) مارچ کا فیصلہ کن دن : آخر چھ مارچ کا فیصلہ کن دن آ گیا.اب تک تحریک چلانے والوں کی ذہنیت کھل کر سامنے آتی جا رہی تھی.روزنامہ احسان اس تحریک کی پشت پناہی کرتا رہا تھا لیکن 4 مارچ کے اداریے میں وہ بھی جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک چلانے والوں کے متعلق یہ لکھنے پر مجبور تھا.ہم صاف صاف بتا دیں کہ یہ عناصر ہمارے ملک کے دشمن اور ہمارے دشمنوں کے دوست ہیں اور انہی کے اشارے پر یہ خونیں کھیل کھیل رہے ہیں.(۱۰۶) سچ تو بولا گیا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی.حالات قابو سے باہر نکل چکے تھے.یہ جمعہ کا روز تھا.مسجد وزیر خان فساد کا مرکز بنی ہوئی تھی.صبح سویرے تمام اطراف سے جلوس مسجد وزیر خان پہنچ رہے تھے.حکومت کے دفاتر میں کام بند ہو گیا.مزدور کام چھوڑ کر اس فتنے سے ہمدردی کرنے کے لئے باہر نکل آئے.بلوائیوں نے کوتوالی کا محاصرہ کر کے مطالبہ شروع کر دیا کہ جن پولیس افسران نے گولی چلائی تھی انہیں ان کے حوالے کیا جائے.پولیس نے اس بات کا اظہار شروع کر دیا کہ حکومت کی کمزور پالیسی پولیس کے حوصلوں کو پست کر رہی ہے.صوبائی سیکریٹریٹ میں بھی ملازمین نے کام بند کر کے مطالبات کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیئے.گورنر ہاؤس کی بجلی کاٹ دی گئی.ریلوے کی پٹڑی توڑ دی گئی اور انجن شیڈ پر بلوائیوں نے قبضہ کر کے انجنوں کو

Page 428

418 نکلنے سے روک دیا.تین احمدیوں کو شہید کیا جا چکا تھا اور ان میں سے ایک کی لاش کو نذر آتش کر دیا گیا تھا.احمدیوں کی دوکانیں لوٹی جا رہی تھیں.پنجاب کے گورنر اور وزیر اعلیٰ بجائے حالات سنبھالنے کے کراچی فون کر کے وزیر اعظم کو یہ اطلاع دے رہے تھے کہ حالات بہت خراب ہو چکے ہیں اور یہ اد فون کاٹے جا رہے ہیں.اب شاید ہم بھی فون پر بات نہ کر سکیں.اب لاہور کو بچانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ فسادیوں کے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں.یعنی معصوم احمدیوں کو قتل کیا جا رہا تھا ، ان کی املاک کو لوٹا جا رہا تھا، ان کو مرتذ کرنے کے لئے وحشیانہ مظالم کئے جا رہے تھے اور بجائے ان کی حفاظت کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب وزیر اعظم کو مشورہ دے رہے تھے کہ احمدیوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر دینا چاہئیے.اس کے ساتھ انہوں نے اپنی مرکزی حکومت کی اعلان کردہ پالیسی کے خلاف اعلان جاری کیا کہ انہوں نے احمدیوں کے خلاف مطالبات کو اپنی تائید کے ساتھ مرکزی حکومت کو بھجوایا ہے کہ کیونکہ یہ قوم کے متفقہ مطالبات ہیں.اور یہ پر زور سفارش کی جا رہی ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خان کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے.وزیر اعلیٰ دولتانہ صاحب کی چال یہ تھی کہ اس طرح وہ تحریک ختم نبوت کے ہیرو کے طور پر سامنے آئیں گے.اور لوگوں کو یہ نظر آئے گا کہ ان کے دباؤ کے آگے مرکزی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں.اور اس کے نتیجے میں وہ آسانی سے وزیر اعظم بن سکیں گے.جیسا کہ انہوں نے تحقیقاتی عدالت کے روبرو اعتراف کیا کہ اس وقت وزیر اعظم سے ان کے تعلقات سخت کشیدہ ہو چکے تھے.اور یہ مطالبہ بھی خوب تھا کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے.گویا اگر وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے صوبے کے حالات کو قابو کرنے کے اہل نہیں ہے تو اس کی پاداش میں وزیر خارجہ کو مستعفی ہو جانا چاہیئے.لیکن ان کے اندازے غلط نکلے.جس وقت انہوں نے وزیر اعظم سے فون پر بات کی ،اس وقت مرکزی کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا.وزیر اعظم نے سراسیمگی کے عالم میں اپنے وزراء سے پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہئیے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے تو اس موقع پر کچھ کہنا نہیں تھا.مگر کا بینہ کے دیگر اراکین نے سخت رد عمل دکھایا.اور کہا کہ یہ کیسی حکومت ہے کہ جو ملک میں امن قائم رکھنے کے بھی قابل نہیں.اور بجائے مطالبات تسلیم کرنے کے مضبوط اقدامات کے حق میں رائے دی.اتنے میں گورنر پنجاب نے دباؤ ڈالنے کے لئے دوبارہ فون کیا کہ فوراً مطالبات تسلیم کئے جائیں ورنہ لا ہور

Page 429

419 راکھ کا ڈھیر بن جائے گا.حقیقت یہ تھی کہ وہاں پر احمدیوں کے گھر اور دو کا نہیں جلائی جا رہی تھیں.یہ صرف ملک کے ایک حصے کو یر غمال بنا کر اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کی کوشش تھی.وزیر اعظم نے دفاع کے سیکریٹری کو ہدایت دی کہ لاہور میں جنرل اعظم صاحب سے رابطہ کر کے حالات معلوم کئے جائیں.جنرل صاحب نے جواب دیا کہ حالات تو خراب ہیں لیکن اگر حکومت ہدایت دے تو فوج ایک گھنٹے میں حالات کو قابو کر سکتی ہے.چنانچہ مرکزی حکومت کی ہدایت پر لاہور کے علاقے میں مارشل لاء کا نفاذ کر دیا گیا اور حالات تیزی سے معمول پر آنا شروع ہو گئے.(۱۰۷) مارشل لاء کے نفاذ کے بعد : اس سے قبل تو شورش بر پا کرنے والے کہہ رہے تھے کہ وہ خون کے آخری قطرے تک جدو جہد کریں گے لیکن جب قانون نافذ کرنے والوں نے فساد کرنے والوں سے رورعایت بند کر دی تو لاہور میں جلد ہی ان کے حوصلے پست ہو گئے.دوسرے انہیں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ اب عوام ان کی حمایت نہیں کر رہے.ایجی ٹیشن کرنے والوں نے مساجد سے نکل کر گرفتاریاں دینی شروع کر دیں اور ۸ مارچ تک تو لاہور میں امن وسکون بحال ہو گیا.(۱۰۸) مسجد وزیر خان اس فساد کو بر پا کرنے والوں کا سب سے بڑا مرکز تھا.اور ادھر عبد الستار نیازی صاحب اشتعال انگیز کاروائیوں میں پیش پیش تھے.جب انہیں یہ خطرہ دکھائی دیا کہ شاید انہیں گرفتار کر لیا جائے تو انہوں نے ایک استرے کی مدد حاصل کی.کسی پر حملہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی داڑھی سے نجات حاصل کرنے کے لئے.اس طرح وہ بھیس بدل کر کے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے مگر کچھ روز کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا.اور سول اینڈ ملٹری گزٹ کی رگِ ظرافت پھڑ کی تو ان کی دو تصویریں Before اور After‘ کے عنوان کے ساتھ شائع کر دیں.ایک میں موصوف ایک ضخیم داڑھی کے ساتھ تھے اور دوسری میں داڑھی غائب تھی.(۱۰۹) مارچ کے بعد لاہور کے علاوہ پنجاب کے دوسرے مقامات پر کچھ روز تک فسادات ہوتے رہے.مارچ کو جب دولتانہ صاحب کی اپیل ریڈیو پر نشر ہوئی تو اس سے پورے پنجاب میں یہ تاثر لیا گیا کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں، اور فسادات بالکل قابو سے باہر ہو گئے.سیالکوٹ

Page 430

420 میں جلسے جلوس دوبارہ شروع ہو گئے اور ے مارچ کو جماعت کے مخالف مقررین پولیس اور فوج سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں.۱۰ مارچ تک سیالکوٹ میں فسادات پر قابو پالیا گیا.گوجرانوالہ کی صورت حال یہ تھی کہ ۸ مارچ کو جب فوج گوجرانوالہ میں داخل ہوئی تو ان کی آمد پر نعرے لگائے گئے پاکستانی فوج نے گولی چلانے سے انکار کر دیا، پاکستانی فوج زندہ باد اور ایسے پوسٹر لگائے گئے جن میں فوج اور پولیس سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور بلوائیوں کے ساتھ شامل ہو جائیں.یہاں احمدیوں پر تشدد کیا جارہا تھا کہ وہ احمدیت چھوڑ دیں.پولیس نے پر احمدیوں کی مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا.۱۱ اور ۱۲ مارچ کو یہاں پر بھی حالات قابو میں آگئے.راولپنڈی میں بھی فوج کو طلب کرنا پڑا.جب ۶ مارچ کو راولپنڈی میں یہ اطلاع ملی کہ حکومت پنجاب نے مطالبات تسلیم کر لئے ہیں تو حالات اور بھی نازک ہو گئے.اور احمدیوں کی ایک مسجد کو آگ لگا دی گئی.انتظامیہ نے ۷ مارچ کو فوج طلب کر لی.۸ مارچ کو بھی جلوس نکالے گئے اور پولیس پر خشت باری کی گئی.فائرنگ سے ایک آدمی ہلاک ہو گیا.شورش کے ایک ہزار سے زائد رضا کاروں نے گرفتاریاں دیں.یہاں پر مسلم لیگ کے عہدیدار دوغلی پالیسی کا مظاہرہ کر رہے تھے.وہ بظاہر حکام کے حامی تھے مگر در پردہ شورش کی مدد کر رہے تھے.مارچ کے تیسرے ہفتے میں راولپنڈی میں بھی حالات قابو میں آگئے.اب لائکپور کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں.یہاں پر جب دولتانہ صاحب کا اعلان پہنچا تو یہ تاثر لیا گیا کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں.اس سے فسادات میں اور تیزی آگئی.بعض مسلم لیگی ممبرانِ اسمبلی اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کر رہے تھے.مارچ غنڈے پن کا دن تھا.دس ہزار کے مجمع نے کچہریوں پر حملہ کر دیا.دوکانوں کی لوٹ مار کی گئی.ٹرینیں روک کر مسافر عورتوں کی عصمت دری کی گئی.اور ستم یہ کہ پنجاب مسلم لیگ کے بعض ممبرانِ اسمبلی خود جلوسوں کی قیادت کر رہے تھے.• امارچ کو تحریک ٹھنڈی پڑ گئی.مارچ کو مظاہرین نے اوکاڑہ میں ٹرین کو روک لیا اور مسافر عورتوں کی عصمت دری کی گئی.یہ تھی اس تحریک کے چلانے والوں کی اخلاقی حالت.ٹیلیگرام کے تارکاٹ دیئے گئے تاکہ یہاں سے کہیں پر رابطہ کر ناممکن نہ ہو.اور احمدیوں کو اغوا کر کے زبردستی ارتداد کرانے کی کوشش کی گئی.دولتانہ

Page 431

421 صاحب کے بیان سے جو صورتِ حال پیدا ہوئی تھی، اکثر مقامات پر چند روز میں اُس پر قابو پالیا گیا.(۱۱۱۱۱۰).بعد میں قائم ہونے والی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں شورش کی یہ تفاصیل شواہد کے ساتھ جمع کر کے شائع کی گئیں.ی طوفان بد تمیزی صرف پنجاب تک محدود تھا.پاکستان کے دوسرے صوبوں میں ایسی صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی تھی.لاہور میں مارشل لاء لگنے کے اگلے ہی روز یعنی سے مارچ کو سرحد کی صوبائی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں سرحد کے عوام کو خراج تحسین پیش کیا کہا نہوں نے حالیہ فسادات سے دور رہ کر سیاسی تدبر کا ثبوت دیا ہے.سرحد کے وزیر اعلیٰ خان عبد القیوم خان نے کہا ہمارے ملک میں ایسے سیاسی کھلاڑی موجود ہیں جو اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی ہوشیاری سے علماء کرام کو استعمال کر رہے ہیں.جن لوگوں کو سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی فکر ہے وہ راہنمایانِ دین کو اپنا آلہ کار بنارہے ہیں.(۱۱۲) حضور کا اہم پیغام : حضور نے ۸ مارچ کو جماعت کے نام اپنے پیغام میں فرمایا ریلوے اور لاریوں میں احمدیوں پر حملے کئے جا رہے ہیں.لیکن اصل خطر ناک بات یہ ہے کہ اب یہ لوگ اپنے اصل مقاصد کی طرف آ رہے ہیں.سرکاری عمارتوں پر اور سرکاری مال پر حملہ کیا جا رہا ہے.سرگودھا اور جھنگ کے بعض مقامات پر ہندوستان زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے سکھیکی پر ایک ٹرین میں چڑھے ہوئے افراد نے پاکستانی فوج مردہ باد کے نعرے لگائے.اس سے ملک دشمنی اور غداری کی روح کا صاف پتہ چلتا ہے....خدائی جماعتوں پر یہ دن آیا کرتے ہیں پس گھرانے کی بات نہیں.اپنے لیے اور اپنے ملک اور حکومت کے لئے دعا کرتے رہو.اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ ہو.(۱۱۳) جب اس شورش کے کرتا دھرتا لوگوں نے دیکھا کہ اب وہ بازی ہار رہے ہیں تو ایک اور چال چلی.انہوں نے ایسے بیانات دیئے کہ اب دولتانہ صاحب اس تحریک کی قیادت خود سنبھال لیں.مگر

Page 432

422 اب دولتانہ صاحب اس پوزیشن میں نہیں رہے تھے کہ مزید سیاسی چالیں چلتے.چنانچہ یہ کوشش بھی نا کام ہوگئی.(۱۱۴) دولتانہ صاحب اب اپنے آپ کو بچانے کے لئے رنگ بدل رہے تھے.انہوں نے اپنے ۶ مارچ کے اعلان کو منسوخ قرار دیتے ہوئے بیان دیا کہ اب تحریک ختم نبوت کے رہنماؤں سے بات چیت اور ان کے مطالبات پر غور کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.(۱۱۵) ۲۷ مارچ ۱۹۵۳ء کو حکومت پنجاب نے پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کی دفعہ پانچ کے تحت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام حکم جاری کیا کہ وہ احرار اور احمدیوں کے اختلافات یا احمدیوں کے خلاف تحریک کے متعلق کسی قسم کا بیان نہ دیں ، نہ تقریر کریں اور نہ کوئی ایسی اطلاع یا مواد شائع کریں جس سے مختلف طبقوں میں نفرت یا دشمنی کے جذبات پیدا ہونے کا اندیشہ ہو (۱۱۶).حالانکہ اب تک ساری اشتعال انگیزی اور ظلم جماعت کے مخالفین کی طرف سے ہوا تھا اور پنجاب حکومت بمع اپنے گورنر صاحب کے نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی تھی بلکہ مفسدین کی اعانت بھی کرتی رہی تھی.جیسا کہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا بزرگانِ سلسلہ کو ایسی فحش گالیاں دی گئیں تھیں جن کے نتیجے میں اشتعال پھیلنا ایک قدرتی بات تھی.احمدیوں کو شہید کیا گیا ، ان کی املاک لوٹی گئیں.اس وقت پنجاب حکومت کو صوبے میں قیام امن کا خیال نہ آیا اور اب جماعت احمدیہ کے امام پر یہ پابندی لگا دی گئی کہ وہ جماعت کے دفاع میں کچھ نہ کہیں کیونکہ اس سے اشتعال پھیلتا ہے.حضور نے نوٹس لانے والے پولیس افسر سے فرمایا ”بے شک میری گردن آپ کے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے.آپ کے گورنر نے میرے ساتھ جو کرنا تھا وہ کر لیا اب میرا خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا.بہر حال حقیقت کا جزوی اعتراف خود گورنر صاحب نے ۲۱ مارچ کو ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں کیا 'پنجاب کے لوگ ہمیشہ اپنی حب الوطنی کے لئے مشہور رہے ہیں.اور انہیں بجاطور پر فخر رہا ہے کہ کڑی سے کڑی آزمائش میں بھی انہوں نے اپنے شعور اور نیک و بد میں تمیز کرنے کی صلاحیت کو قائم رکھا لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے دنوں ان میں

Page 433

423 سے بعض نے ملک کے دشمنوں کے فریب میں آکر ایسی مذموم حرکات کیں جن سے پنجاب کے نام کو ایک بدنما دھبہ لگ گیا.خدا کا شکر ہے کہ بدامنی کی جو لہر پھیل گئی تھی اس پر قابو پالیا گیا ہے اور صوبہ میں تقریباً ہر جگہ پھر امن وسکون کی فضا پیدا ہوگئی ہے.بدامنی کی یہ تحریک بظاہر ختم نبوت کے تحفظ کے لئے شروع کی گئی لیکن جو مطالبات اس تحریک کے نام پر پیش کئے گئے وہ سراسر سیاسی تھے.عوام کو دھوکا دینے کے لئے انہیں مذہبی رنگ دیا گیا.یہ پراپیگنڈ اغلط ہے کہ حکومت یا اس کے وزراء ختم نبوت کو نہیں مانتے.لیکن اس مسئلہ کو بدامنی یا قانون شکنی کی دلیل بنانا اور ڈائرکٹ ایکشن کی ابتداء کرنا ایک خطرناک سازش تھی جس کی بیشتر ذمہ داری جماعت احرار پر عائد ہوتی ہے.یہ وہ جماعت ہے جو شروع سے پاکستان کی دشمن رہی.اور قیام پاکستان سے اب تک شاید ہی کوئی ایسا حربہ ہو جو اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہ کیا ہو.یہاں تک کہ احراریوں نے بانی پاکستان کی محترم ذات پر بھی حملے کرنے سے دریغ نہیں کیا.اس تحریک کا اصل مقصد ملک میں انتشار اور بدامنی پھیلانا تھا.اس لئے اس غدارانہ سازش میں بعض اور جماعتیں بھی شامل ہو گئیں جن کا مدعا ان ذرائع سے سیاسی اقتدار حاصل کرنا تھا.سادہ لوح پنجابیوں کو غلط راستہ پر ڈالنے کے لئے ان کی آنکھوں پر مذہب کی پٹی باندھ دی گئی اور ان کے جذبات کو اشتعال انگیز تقریروں سے بھڑ کا یا گیا.اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ حکومت کا نظام معطل ہو جائے....ان کے علاوہ ہمارے یہاں باشعور اور سمجھ دار لوگوں کا ایک طبقہ ایسا بھی موجود تھا جو حالات کو اچھی طرح سمجھتا تھا.اور جانتا تھا کہ فسادی عناصر کی منزل کیا ہے.مگر ان میں سے اکثر خوف و ہراس کی وجہ سے خاموش رہے بلکہ کچھ لوگ تو تشدد کے ذریعے ہڑتالوں اور جلوسوں میں بھی شامل ہوتے رہے.چنانچہ جہاں کہیں شرفا کی پگڑی اچھالی گئی یا عورتوں کی بے عزتی ہوئی کسی نے بھی اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہ کیا.حالانکہ ان مہذب شہریوں کا فرض تھا کہ آگے بڑھ کر ہمت سے ان اخلاق سوز حرکات کو روکتے.اس اخلاقی جرات کی کمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ غنڈا گردی اندھا دھند پھیلنے لگی اور اس کی زد سے وہ لوگ بھی

Page 434

424 نہ بچ سکے جنہوں نے اس طوفانِ بدتمیزی سے الگ رہنے کی کوشش کی تھی.(۱۱۷) اس تقریر کوسن کر یا پڑھ کر پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چندریگر صاحب عوام کو تو کوس رہے ہیں لیکن جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو وہ اس وقت صوبے کے گورنر تھے.وہ خود اُس وقت کہاں پر غفلت کی نیند سورہے تھے؟ انہوں نے تو اس شورش کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا تھا.بلکہ جب غریب احمدیوں کو قتل کیا جا رہا تھا ، ان کی املاک کو لوٹا جا رہا تھا، ان کے گھروں کو نذر آتش کیا جا رہا تھا ، اس وقت چندریگر صاحب اور وزیر اعلیٰ دولتانہ صاحب وزیر اعظم کو فون کر کے دباؤ ڈال رہے تھے کہ فسادیوں کے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں.اُس وقت ان کی اپنی اخلاقی جرات کہاں تھی؟ فسادات دشمن کی مدد سے برپا کئے گئے ، وزیر اعظم کا اعلان: 19 مارچ کو ملک کی پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس تھا.اس میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس تحریک میں مذہب کے نام پر وحشیانہ حرکات کی گئی ہیں.احرار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ علماء قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے تھے اور پاکستان کو پلیدستان کے نام سے پکارتے تھے.انہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی.آج تک انہوں نے ملک سے باہر روابط رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے سیاسی دنیا میں واپس آنے کے لئے یہ طریقہ استعمال کیا ہے.(۱۱۸).۲۴ مارچ کو وزیر اعظم کے دباؤ کے نتیجے میں دولتانہ صاحب کو مستعفی ہونا پڑا.فسادات کے دنوں میں ان کی حکومت نے جو کارگزاری دکھائی تھی وہ سب کے سامنے تھی.ایک صحافی نے اس استعفے پر اپنے مضمون کا آغاز ان الفاظ سے کیا "Only a crocodile would shed tears on the fall of Daultana Ministry" دولتانہ وزارت کے استعفے پر صرف ایک مگر مچھ ہی آنسو بہا سکتا ہے.(۱۱۹) دولتانہ صاحب ختم نبوت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے.لیکن ان چالبازیوں کے نتیجے میں ان کے حصے میں صرف سیاسی زوال ہی آیا.بعد میں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بھی بنائی مگر انتخابات میں عبرتناک شکست سے دوچار ہوئے اور یہ جماعت اپنی موت آپ مرگئی.ایک مرحلے پر ان کو پاکستان کا سفیر بنایا گیا.ان کی زندگی کے آخری ایام میں ان کی سیاسی

Page 435

425 حیثیت بالکل ختم ہو چکی تھی اور اسی ناکامی کی حالت میں وہ اس عالم فانی سے رخصت ہو گئے.فاعتبروا یا اولی الابصار حکومت کی طرف سے احمدیوں پر مظالم : اب تک جماعت کے مخالف مولویوں کے خلاف کاروائی ہو رہی تھی ، ان کی گرفتاریاں ہو رہی تھیں اور ان کو سزائیں مل رہی تھیں کیونکہ یہی لوگ ملک میں فساد برپا کرنے والے تھے.لیکن اب حکام کو یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ اس طرح کہیں اُن پر مرزائی نواز ہونے کا الزام نہ آجائے.جب کہ دوسری طرف اُن کے علم میں تھا کہ جماعت احمد یہ ایک امن پسند جماعت ہے اور فتنہ وفساد سے اُن کا دور کا تعلق بھی نہیں.چنانچہ تحقیقاتی عدالت میں پولیس افسران نے یہ اعتراف کیا، اگر احمدیوں نے کچھ کیا ہے تو وہ صرف زبانی الفاظ یا اخباروں میں مقالات کی اشاعت تک محدود تھا.اس کے برعکس احرار کچھ ایسے کام کر رہے تھے جو قانون شکنی اور تشدد کی طرف لے جانے والے تھے.(۱۲۰) سردار عبدالرب نشتر اُس وقت مرکزی کابینہ میں وزیر تھے اور عمومی طور پر جماعت کے مخالف سمجھے جاتے تھے لیکن انہوں نے بھی عدالت کے روبرو اقرار کیا، مجھے جماعت احمدیہ سے کسی بدامنی کا خدشہ نہیں تھا.(۱۲۱) لیکن کاروائی میں نام نہاد توازن پیدا کرنے کے لئے احمدیوں کے خلاف بھی کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا.یکم اپریل کو فجر کے وقت فوجیوں نے رتن باغ لاہور کا محاصرہ کرلیا.جہاں اُس وقت خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ گھرانے مقیم تھے.اور تلاشی لینے کا عمل شروع ہوا.لیکن جب کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں ملی تو پھر دن چڑھنے کے بعد دوبارہ تلاشی لی گئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو گرفتار کر لیا گیا.اور ان دونوں مقدس وجودوں کو جن الزامات کی بنا پر گرفتار کیا گیا ، وہ حکام کے ذہنی عدم توازن کا منہ بولتا ثبوت تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی بیگم صاحبہ مالیر کوٹلہ کے نواب

Page 436

426 خاندان سے تھیں.اور وہاں کے رواج کے مطابق انہیں بھی جہیز میں ایک ایسا سجانے والا چھ سات انچ کا خنجر دیا گیا تھا جس کی دونوں اطراف کند بنائی جاتی ہیں اور وہ صرف سجانے کے ہی کام آ سکتا ہے.راقم الحروف نے وہ نام نہاد خنجر خود دیکھا ہے اور اس کی دونوں اطراف پر ہاتھ پھیر کر بھی دیکھا.اس خنجر سے تو کوئی بینگن یا آلو بھی نہیں کاٹ سکتا کجا یہ کہ امن عامہ کا کوئی مسئلہ پیدا ہو.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو اس سے بھی عجیب و غریب الزام لگا کر گرفتار کیا گیا.آپ کا بندوق بنانے کا کارخانہ تھا.پاکستانی فوج آپ سے کچھ سنگینیں تیار کروانا چاہتی تھی.جیسا کہ ایسی خریداری میں معمول کی بات ہوتی ہے ان کو نمونے کی سنگین تیار کر کے بھجوائی گئی اور ان کی طرف سے جواب بھی موصول ہوا کہ اس آرڈر کے لئے سنگینیں اس طرز پر بنائی جائیں.اور پاکستانی فوج کی طرف سے ملنے والے خطوط بھی آرمی کے حکام کو دکھائے گئے.لیکن حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو فوجی حکام نے اُس نمونے کی سنگین کی بنا پر گرفتار کر لیا جو خود پاکستانی فوج نے ہی تیار کروائی تھی.گرفتار کرنے والوں نے تو ان الزامات کے تحت ان دونوں بزرگان کو گرفتار کیا تھا، فوجی عدالت اُن سے بھی بڑھ کر نکلی.ان نام نہاد جرائم کی پاداش میں، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کو ایک سال قید با مشقت اور پانچ ہزار روپیہ جرمانہ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو پانچ سال قید با مشقت نیز پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا سنائی گئی.ان کے ساتھ بعض اور احمدیوں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا.ان بزرگان اور ان کے ہمراہ گرفتار شدہ احمدیوں نے اسیری کے یہ دن نہایت صبر ورضا کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے بسر کئے.باوجود اس کے کہ مارشل لاء کے تحت سخت ترین سزائیں دی جا رہی تھیں اور کئی لوگوں کو سزائے موت بھی سنائی گئی تھی لیکن اس کے باوجود یہ دونوں مقدس وجود احمدی گرفتار شدگان کو یہی تلقین کرتے رہے کہ کسی صورت میں سچائی کا دامن نہیں چھوڑنا اور ہر حال میں سچی بات ہی کہنی ہے.مگر خدا کا شکر ہے کہ دو ماہ کے بعد ان دونوں بزرگان کو رہا کر دیا گیا.اور باقی احمدی اسیران بھی جلد رہا کر دیے گئے.یکم اپریل کو ہی ربوہ میں ایس پی صاحب پولیس ضلع جھنگ پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ قصر خلافت میں آگئے.انہیں یہ حکم ملا تھا کہ وہ قصر خلافت کی تلاشی لیں.انہوں نے کہا کہ وہ حضور سے ملنا چاہتے ہیں.مگر انہوں نے شریفانہ رویہ دکھایا اور عرض کی کہ ہم تلاشی نہیں لیں گے اور

Page 437

427 رپورٹ دے دیں گے کہ تلاشی لی گئی تھی لیکن کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ملی لیکن حضور نے ارشاد فرمایا کہ آپ احکامات کی پیروی کریں اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو میں اخبار میں اعلان کرا دوں گا کہ یہ بالکل غلط ہے انہوں نے تلاشی نہیں لی.چنانچہ انہوں نے حضور کے گھر کی تلاشی لی اور اسی روز صدرانجمن احمدیہ کے دفاتر کی تلاشی بھی لی گئی اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو خبر ناموں کی بناء پر گرفتار کیا مگر پھر ضمانت لے کر رہا کر دیا.دولتانہ صاحب تو مستعفی ہو چکے تھے.اپنی تقریر میں سارا الزام عوام پر لگا کر گورنر چندریگر صاحب نے اپنی کرسی بچانے کی کوشش کی تھی لیکن ۲۲ اپریل کو گورنر جنرل پاکستان نے انہیں بر طرف کر کے امین الدین صاحب کو پنجاب کا گورنر مقرر کر دیا.اور نئے گورنر صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے نام نوٹس واپس لینے کا اعلان کر دیا.(۱۲۲-۱۲۳) فساد شروع کرنے والوں کا انجام: ۱۹۵۳ء کے فسادات کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ تو پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرتی رہی مگر اس شورش کو شروع کرنے والے عبرتناک انجام کو پہنچے مجلس احرار کا شیرازہ بکھر نے لگا.اس کے لیڈر اپنے امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کو چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے لگے.جب عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کو خبر ملی کہ اُن کے رفقاء اُن کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور بار بار پنجابی کے دو ہے پڑھتے تھے جس کا مطلب تھا کہ جن کا دعویٰ تھا کہ ہم تیرے ساتھ مریں گے وہ لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے.(۲۷) و ما يعدهم الشيطن الا غرورا (بنی اسرائیل (۶۵) شیطان جو وعدے بھی کرتا ہے فریب کی نیت سے ہی کرتا ہے.عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کو آخری عمر میں جب سب چھوڑ چھاڑ گئے تو وہ اکثر اپنی عبرتناک حالت کا ذکر بڑی حسرت سے کرتے تھے.آخری عمر میں ایک بار ایک صحافی آپ کے پاس آیا تو دیکھا کہ ملتان میں ایک کچے سے مکان میں آپ کی رہائش ہے.اُس نے پوچھا کہ اب جب کہ آپ اتنے بیمار ہیں، کیا کبھی آپ کو کبھی کوئی پوچھنے بھی آیا ہے؟ انہوں نے بڑی حسرت سے کہا، بیٹا جب تک یہ کتیا ( زبان ) بھونکتی تھی ،سارا برصغیر ہند و پاک ارادت مند تھا.اس

Page 438

428 نے بھونکنا چھوڑ دیا ہے تو کسی کو پتا ہی نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں.(۱۲۶) خدا کی شان ہے کہ اسی زبان نے ہزار ہا مرتبہ حضرت مسیح موعود کی شانِ اقدس میں گستاخی کی تھی.اور اب شاہ جی خودا سے کتیا کا نام دے رہے تھے.مودودی صاحب اور ان کی جماعت اسلامی نے پہلے تو یہ موقف اختیار کئے رکھا کہ قادیانیوں کی مخالفت جس طرز پر ہو رہی ہے وہ ان کو کوئی نقصان پہنچانے کی بجائے ان کی تقویت کا موجب ہو رہی ہے.اگر ان کا ابطال کرنا ہی ہے تو چاہئیے کہ سنجیدہ علمی اور سائینٹیفیک طریقے پر ان کی تنقید کی جائے.لیکن جب انہیں یہ نظر آیا کہ وہ اس طرح سیاسی فوائد اُٹھا سکتے ہیں تو وہ بھی اس شورش میں شامل ہو گئے.ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جو اُس وقت جماعت اسلامی میں شامل تھے مگر پھر یہ دوغلی پالیسی دیکھ کر علیحدہ ہو گئے لکھتے ہیں اس داستان کا المناک ترین باب مسئلہ قادیانیت میں جماعتِ اسلامی کا طرز عمل ہے! اس کے دوران جماعت اور اس کے قائدین نے جس طرح اپنے اصولوں کی بجائے عوام کے چشم و ابرو کے اشاروں پر حرکت کی ہے.اسے دیکھ کر انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اتنی قلیل مدت میں ایک جماعت کا مزاج اس درجہ بھی بدل سکتا ہے؟ (۱۲۴) آخر میں مودودی صاحب کے ساتھیوں کو اعتراف کرنا پڑا کہ یہ تحریک سیاسی مقاصد کے تحت چلائی گئی تھی.جیسا کہ مودودی صاحب کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے اسعد گیلانی صاحب لکھتے ہیں، پنجاب کی حکومت نے بیورو کریسی کے ساتھ مل کر اپنی ہی مرکزی حکومت کے خلاف مورچہ لگایا.قادیانی مسئلہ خود اُٹھایا تا کہ مذہبی عناصر کو بد نام کر کے کچلا جا سکے.اس طرح نظریہ پاکستان اسلام کے لیے پاکستان میں ہی سارے دروازے بند کر دیے گئے (۱۲۵) پاکستان پر شورش کے اثرات: ۱۹۵۳ء کے فسادات صرف جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کا بھی

Page 439

429 ایک اہم سنگ میل ہیں.حکومت کی طرف سے ان فسادات پر تحقیق کے لئے تحقیقاتی عدالت بھی قائم کی گئی جس نے اپنے طور پر ان واقعات کی تحقیق کی.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے تو جماعت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرتی رہی اور اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلی.لیکن اس شورش نے پاکستان کی مملکت کو جڑوں سے ہلا دیا اور کئی پہلوؤں سے نا قابل تلافی نقصان پہنچایا.ہم مختصراً ان میں سے چند پہلوں کا ذکر کریں گے.(۱) پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر فسادات بر پا کرنے کا آغاز ہوا.جو آگ جماعت احمدیہ کے خلاف بھڑکائی گئی تھی اس سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو تو سلامتی کے ساتھ نکال لیا مگر پاکستان میں مذہب کے نام پر منافرت کا سیاہ باب شروع ہو گیا.پچاس سال سے زیادہ عرصہ گذر گیا شیعہ سنی فسادات جیسی لعنت نے ملک کا امن برباد کیا ہوا ہے قتل و غارت ، فسادات، نمازیوں کو گولیوں سے چھلنی کر دینا، دھما کے، یہ سب کچھ آج مذہب کے نام پر کیا جا رہا ہے.(۲) ملک میں مذہب کا نام استعمال کر کے سیاسی فوائد حاصل کرنے کا آغاز ہوا.افسوس سیاستدانوں نے دولتانہ صاحب کے انجام سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور مسلسل مذہبی منافرت پھیلا کر سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.جس سے ملک کا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ بری طرح تباہ ہوا ہے.۳) ان فسادات کے ساتھ مساجد کو دہشت گردی کے اڈوں میں تبدیل کرنے کے مذموم عمل کا آغاز ہوا.حکومت کی غفلت کی وجہ سے یہ عمل اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ پاکستانی حکومت اب اس کے ہاتھوں عاجز آ چکی ہے.ملک کا امن علیحدہ برباد ہوا ہے اور بہت دفعہ اس طریق کار کو حکومتِ پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا ہے.اس وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان بدنام ہو چکا ہے.۴) یہ پہلی مرتبہ تھا کہ پاکستان میں انتخابات کی بجائے سڑکوں پر فسادات کرا کے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی.اور مطالبات منوانے کے لئے بلوے کرائے گئے.اس مثال کے قائم ہونے کے بعد ہر چند سالوں کے بعد ملک میں یہ عمل دہرایا جاتا رہا اور اس طرح بار بار ملک کی معاشی زندگی مفلوج ہوتی رہی.

Page 440

430 ۵) اس شورش نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ملک میں پہلی مرتبہ مارشل لاء لگانا پڑا.گو یہ محدود جگہ پر اور محدود وقت کیلئے لگایا گیا تھا.مگر اس کے بعد پاکستان کی تاریخ میں بار بار مارشل لاء لگتے رہے.نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں سیاسی عمل کا تسلسل ختم ہو گیا.۶) ان فسادات نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد گورنر جنرل نے ۱۷ ، اپریل ۱۹۵۳ء کو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب کی حکومت کو برطرف کر دیا.یہ پہلی مرتبہ تھا کہ سر براہ مملکت نے سر براہ حکومت کو برطرف کیا.اُس وقت سے یہ عمل شروع ہوا اور اب تک اس پر قابو نہیں پایا جا سکا.ملک کی تاریخ میں بار بارحکومتوں کو برطرف کیا گیا،جس سے مسائل بڑھتے گئے.۱۹۵۳ء کے فسادات کے سیاسی نتائج کے متعلق ڈاکٹر صفدر محمود صاحب اپنی کتاب مسلم لیگ کا دورِحکومت میں لکھتے ہیں 'بہر حال اس سے دولتانہ صاحب اور خواجہ صاحب میں ٹھن گئی.چنانچہ دولتانہ صاحب خواجہ صاحب کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کی ترکیبیں سوچنے لگے تا کہ خود قبضہ کر سکیں...چنانچہ دولتانہ صاحب نے اینٹی قادیانی تحریک کو غنیمت جانا اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کا منصوبہ بنالیا.اس تحریک کو احرار نے جنم دیا ، علماء نے پروان چڑھایا، خواجہ ناظم الدین کے مذہبی جھکاؤ ، کاہلی، علماء سے خوف اور نا اہلی نے پھلنے پھولنے کا موقع بہم پہنچایا اور جب اس تحریک کی لگائی ہوئی آگ بھڑک اُٹھی تو دولتانہ صاحب نے اس کا رخ مرکزی حکومت کی طرف پھیر دیا حتی کہ اس آگ نے جہاں خواجہ صاحب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.وہاں دولتانہ صاحب کا سیاسی آشیاں بھی جلا کر راکھ کر دیا.غلام محمد نے سیاسی راہنماؤں کے نفاق سے فائیدہ اٹھا کر خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا.ہمیں کچھ کیں نہیں بھا ئیو نصیحت ہے غریبانہ : مخالفین جماعت نے پاکستان کے بعد بہت سے ممالک میں ایسی ہی طرز پر تحریکیں اٹھانے

Page 441

431 کی کوششیں کی ہیں.اور بہت سے ممالک میں تو پاکستان سے گئے ہوئے علماء فساد کرانے میں پیش پیش رہے ہیں.ان علماء نے پہلے پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ میں آلہ کار بن کر پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا.اور اب یہ دوسرے ممالک میں فتنے اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں.ان ممالک کی حکومتوں اور عوام کو پاکستان کی مثال سے سبق حاصل کرنا چاہیئے.اپنے ملک سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کا بغور جائزہ لیں کہ ان علماء نے پاکستان کو کیا کیا نقصانات پہنچائے ہیں.اور پھر دیکھیں کہ جب کسی حکومت نے ان سے رو رعایت کرنا شروع کی اور ان کی قانون شکنی اور اشتعال انگیزیوں کا بر وقت نوٹس نہیں لیا تو اس حکومت کا کیا انجام ہوا.اور عالم اسلام کے سیاستدانوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئیے کہ جماعت کی مخالفت کر کے اور ختم نبوت کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر کے آج تک کوئی سیاستدان کامیاب نہیں ہو سکا.جہاں بھی ملا کو اس بات کی اجازت دی جائے گی کہ وہ احمدیوں کے خلاف فسادات بر پا کرے، یہ آکاس بیل اس ملک کا خون چوس کر اس کو معاشی ، مذہبی اور سیاسی طور پر تباہ کر دے گی.احمدیوں کو اپنے مستقبل کے متعلق کوئی خوف نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا پیار کرنے والا خدا ہمیشہ اُن کی حفاظت کرتا رہا ہے لیکن یہ خوف ضرور ہے کہ کہیں ملا کے پیچھے لگ کر بہت سے مسلمان ممالک اپنی دنیا اور عاقبت تباہ نہ کرلیں.(۱) خطبات احرار جلد اول ، مرتبه شورش کا شمیری ، مکتبہ احرار لاہور ، مارچ ۱۹۴۴ء ص ۳۷ (۲) خطبات محمود جلد ص ۴۳۶ - ۴۵۷ (۳) الفضل ۲۱ مئی ۱۹۴۷ء ص ۲ (۴) پرتاب ۹ جون ۱۹۳۹ ء ص ۹ (۵) پرتاب ۱۸ جون ص ۹ (۶) پرتاب ۱۶ جون ۱۹۳۹ء ص ۵ (۷) زمیندار ۲۸ جنوری ۱۹۴۰ء (۸) حیات امیر شریعت ، مصنفہ جانباز مرزا ، ثنائی پریس لاہور نومبر ۱۹۶۹ء ص ۳۵۲-۳۵۶ (۹) حیات امیر شریعت جلد اول، مرتبه شورش کاشمیری ، مکتبہ احرار لا ہور، مارچ ۱۹۴۴ء ص ۲۱ ۲۲ ص ۴۲ (۱۰) حیات امیر شریعت ، مصنفہ جانباز مرزا ، ثنائی پریس لاہور، نومبر ۱۹۶۹ ء ص۳۲۳_۳۲۴ (۱۱) حیات امیر شریعت ، مصنفہ جانباز مرزا، ثنائی پریس لاہور نومبر ۱۹۶۹ء ص ۳۵۲ (۱۲) رپورٹ تحقیقاتی عدالت ،فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۱ (۱۳) مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ، حصہ سوم، مصنفہ سیدابوالاعلیٰ مودودی ص ۳۰

Page 442

432 (۱۴) مسلمان اور موجودہ سیاسی تہ ی کشمکش، مصنفه سید ابوالاعلیٰ مودودی، مکتبہ جماعت اسلامی ، دارالاسلام.جمال پور پٹھانکوٹ ص ۱۳۶ (۱۵) پرتاب ۱۴کتوبر ۱۹۳۹ء زیر عنوان مسلمانوں کی اقتصادی اور سیاسی بہبود کیلئے ایک اور پاکستانی سکیم (۱۶) پرتاب ۱۵ جنوری ۱۹۳۹ء ص ۳۲ (۱۷) احسان کے جنوری ۱۹۴۲ ء ص ۶ (۱۸) آزاد ، ۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ء ص ۴ (۱۹) حیات امیر شریعت ، مصنفہ جانباز مرزا ، ثنائی پر لیس لاہور، نومبر ۱۹۶۹ء ص ۳۹۱-۳۹۲ (۲۰) رپورٹ تحقیقاتی عدالت، فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۲ (۲۱) جماعت اسلامی کا رخ کردار، مرتبہ چوہدری حبیب احمد ، پاکستان ٹائمز پریس لاہور ، دوسرا ایڈیشن، ص۹۶، مکتبہ جماعت اسلامی ، دارالاسلام.جمال پور.پٹھانکوٹ ،ص ۳۷ (۲۲) خطبات احرار جلد اول، مرتبه شورش کا شمیری، مکتبہ احرار لا ہور ، مارچ ۱۹۴۴ء ،ص۱۷.۱۸ (۲۳) حیات امیر شریعت ، مصنفہ جانباز مرزا ، ثنائی پریس لاہور نومبر ۱۹۶۹ء ص ۴۰۲ ۴۰۳ (۲۴) حیات امیر شریعت ، مصنفہ جانباز مرزا ، ثنائی پر لیس لاہور نومبر ۱۹۹۹ ء ص ۴۰۶ (۲۵) رپورٹ تحقیقاتی عدالت ، فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص۱۳ (۲۶) خطبات احرار جلد اول، مرتبه شورش کا شمیری، مکتبہ احرار لاہور ، مارچ ۱۹۴۴ء ص ۹۵ (۲۷) خطبات احرار جداول مرتبه شورش کا شمیری، مکتبہ احرار لاہور، مارچ ۱۹۴۴ء ص ۳۲ (۲۸) آزاد ۴ دسمبر ۱۹۵۰ء ص ۲ (۲۹) رجسٹر کا روائی مجلس ناظران و وکلاء رجسر ۲ ص ۴۲ ، تاریخ ۱۵۱۴۹ (۳۰) آزاد ۳۰ اپریل ۱۹۵۰ء ص ۵ (۳۱) تحقیقاتی رپورٹ فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۸.۲۸ (۳۲) احسان ۶ اکتوبر ۱۹۳۹ء (۳۳) پرتاب یکم اکتوبر ۱۹۳۹ء (۳۴) الفضل ۵ جولائی ۱۹۵۰ء ص ۳- ۵ (۳۵) آزاد، ۲۸ جون ۱۹۵۰ء صحفه آخر (۳۶) آزاد ، ۶ جولائی ۱۹۵۰ء ص ۵ (۳۷) آزاده ۱ جولائی ۱۹۵۰ء ص ۷ (۳۸) الفضل ۱۵ جون ۱۹۵۱ء ص ۱ (۳۹) آزاد ۲ دسمبر ۱۹۵۰ء ۵ - ۶ (۴۰) آزاد ، کانفرس نمبر ، ۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ ء ص ۱۴۱۲۱ (۴۱) تجدید و احیائے دین، مصنفہ مودودی صاحب ، ناشر اسلامک پبلیکشنز ، مارچ ۱۹۶۱ء ص ۵۳ تا ۵۸ (۴۲) مودودی صاحب اور ان کی تحریروں کے متعلق چند اہم مضامین ، مصنفہ سید حسین احمد مدنی محمد ذکریا صاحب ، مفتی محمد شفیع صاحب وغیره، ناشر دارالاشاعت کراچی ص ۲۶۳ (۴۳) جنگ کراچی ، ۱۱ جولائی ۱۹۵۲ء (۴۴) الفضل ۱۱ فروری ۱۹۵۱ء ص ۱-۲ (۴۵) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۲۹_۳۰_۳۹ (۴۶) تحقیقاتی رپورٹ فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۳۰ (۴۷) آزاد ۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ء ص (۴۸) الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۵۱ء (۴۹) الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۱ء ص ۶ (۵۰) زمیندار ۲ جنوری ۱۹۵۳ء، گولڈن جوبلی نمبر، ص۳۴ (۵۱) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۸۳-۸۸ (۵۲) الفضل ۱۹ فروری ۱۹۵۲ء ص او ۳ (۵۳) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۳۴- ۳۵

Page 443

433 (۵۴) الفضل ۲۴ فروری ۱۹۵۲ ص ۷ (۵۵) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۴۹ (۵۶) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۷۷ ( ۵۷ ) الفضل ۲۸ مئی ۱۹۵۳ء ص ۵ (۵۸) الفضل ۲۱ مئی ۱۹۵۲ء ص ۱ (۵۹) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ ص ۵۷ (۲۰) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ ص۸۲ (۶۱) رپورٹ تحقیقاتی عدلت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۶۳-۷۱ The Civil & Military Gazette, 22 July, 1952, p1(1) The Civil & Military Gazette, 25 July 1952 p3(чr) (۶۴) آزاد، ۱۵ اکتوبر ۱۹۵۲ء ص ۱ (۶۵) آزاد ۳ جون ۱۹۵۲ء ص ۱ (۶۶) اپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۶۵ -۶۶ (۶۷) رپورٹ تحقیقاتی عدالت ، فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۹۳ - ۹۸ (۶۸) الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۵۲ء ص ۱ (۶۹) الفضل ۲ اگست ۱۹۵۲ء ص ۲ ( ۷۰ ) الفضل ۳ اگست ۱۹۵۲ء ص ۸ (۷۱ ) الفضل ۸ اگست ۱۹۵۲ء ص ۱ (۷۲) آزاد ۱۳ اگست ۱۹۵۲ء ص او ۶ (۷۳) الفضل ۱۶ اگست ۱۹۵۲ء ص ۱ (۷۴) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۲۷.۱۳۱ (۷۵) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۹۷ - ۹۸ (۷۶) آزاد،۱۵ اکتوبر ۱۹۵۲ء ص ۲ (۷۷) آزاد، ۲۸ ستمبر ۱۹۵۲ ء ص ۱ (۷۸) آزاد، ۷ دسمبر ۱۹۵۲ء ص ۱ (۷۹) حکومت ۱۴ فروری ۱۹۵۳ ء ص ۱ (۸۰) ملت ۱۸ دسمبر ۱۹۵۳ء ص ۶ (۸۱) زمیندار ۱۷ جنوری ۱۹۵۳ء ص ۱ (۸۲) نوائے وقت ۱۰ اکتوبر ۱۹۵۳ء (۸۳) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۶۱ ۲ تا ۲۷۲ (۸۴) نوائے وقت ۱۰ اکتوبر ۱۹۵۳ء (۸۵) ملت ۲ دسمبر ۱۹۵۳ء ص ۱۹۵۳ء ص ۱ (۸۶) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۳۴-۱۵۲ (۸۷) نوائے وقت ۱۰ اکتوبر ۱۹۵۳ء The Civil & Military Gazette, 28 Feb, 1952, (^^) The Sind Observer, 28 Feb 1952, p1(19) (۹۰) آزاد ۵ نومبر ۱۹۵۲ء ص ۳ (۹۱) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۵۳ ۱۵۴ (۹۲) آفاق یکم مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱ (۹۳) تاریخ احمدیت جلد ۶ اص ۲۰۶ - ۲۰۷ (۹۴) الفضل ۹ فروری ۱۹۵۵ ص ۵ (۹۵) آفاق ۲ مارچ ۱۹۵۳ ص ۱ (۹۶) آفاق ۴ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱ (۹۷) احسان ۴ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱ The Civil & Military Gazette 5 March 1953 p1&5(91) (۹۹) آفاق ، ۶ مارچ ۱۹۵۳ء ص او آخر (۱۰۰) رسائل و مسائل حصہ سوئم ، ابولاعلیٰ مودودی ، اسلامک پبلیکیشنز، ص۲۰ (۱۰۱) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۵۹ (۱۰۲) تاریخ احمدیت جلد ۲ ص ۲۳ - ۲۰۲

Page 444

434 (۱۰۳) مغربی پاکستان ۵ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۳ (۱۰۴) احسان کے مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱ (۱۰۵) تاریخ احمدیت جلد ۶ اص۲۱۰ (۱۰۶) احسان ، ۶ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۳ (۱۰۷) تحدیث نعمت ، مصنفہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، ناشر بینیولنٹ ایسوسی ایشن ڈھاکہ، دسمبر ۱۹۷۱ء ص ۵۷۵ (۱۰۸) آفاق ، ۰ ۱ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱ (۱۰۹), 24,1953 The Civil&Military gazette, March (۱۱۰) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص۱۵۳.۱۹۱ء (۱۱۱) تحدیث نعمت ، مصنفہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، ڈھا کہ بینیویلنٹ ایسوسی ایشن ، دسمبر ۱۹۷۱ء ص ۵۸۲ - ۵۸۶ (۱۱۲) شهباز ، ۹ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱ (۱۱۳) تاریخ احمدیت جلد ۱۶ ص ۲۱۳ (۱۱۴) تعمیر ۱۳ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱ (۱۱۵) آفاق ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱ (۱۱۶) نوائے وقت ۲۹ مارچ ۱۹۵۳ ء ص ۱ (۱۱۷) نوائے وقت ۲۳ مارچ ۱۹۵۳ء The Civil&Military Gazette, 20March, 1953 P1 (IA) The civil & Military Gazette 27 March, 1953 p2(119) (۱۲۰) ملت لاہور ۱۵ دسمبر ۱۹۵۳ء ص ۷ (۱۲۱) ملت ۲۸ نومبر ۱۹۵۳ء (۱۲۲) تاریخ احمدیت جلد ۶ اص ۲۳۹ - ۲۴۹ (۱۲۳) نوائے وقت ۲۲ اپریل ۱۹۵۳ء ص ۱ (۱۲۴) تحریک جماعت اسلامی ایک تحقیقی مطالعہ، مصنفہ ڈاکٹر اسرار احمد ، دارالاشاعت اسلامیہ لاہور، مارچ ۱۹۶۶ء ص ۱۸۸.۱۹۰ء (۱۲۵) سید مودودی دعوت و تحریک ، مصنفہ سید اسعد گیلانی، اسلامک پبلیکیشنز ، مارچ ۱۹۸۰ء، ص ۱۹۵ (۱۲۶) حیات امیر شریعت از جانباز مرزا ص ۵۴۶

Page 445

435 سواحیلی ترجمه قرآن جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے سواحیلی زبان مشرقی افریقہ کے ایک وسیع علاقہ میں بولی جاتی ہے.عیسائی مشنری اس زبان میں کثرت سے اپنا لٹریچر شائع کر چکے تھے.لیکن سواحیلی میں اسلامی لٹریچر بہت کم موجود تھا.سواحیلی میں قرآنِ کریم کا ایک ہی ترجمہ موجود تھا اور وہ بھی ایک پادری گاڈفری ڈیل (Godfrey Dale) صاحب نے کیا تھا.یہ ترجمہ ناقص تھا اور اس کے حواشی میں اسلامی تعلیمات پر اپنے نقطہ نگاہ سے حملے کئے گئے تھے.بعض آیات کا ترجمہ چھوڑ دیا گیا تھا اور بعض آیات کا ترجمہ اس انداز سے کیا گیا تھا کہ قرآنی تعلیمات پر اعتراضات وارد ہوں (۱).اس پس منظر میں اس بات کی ضرورت تھی کہ مسلمانوں کا کیا ہوا ایک ترجمہ شائع کیا جائے.چنانچہ مشرقی افریقہ میں جماعت کے مشن کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد مکرم شیخ مبارک صاحب نے اس کام کا آغا ز کر دیا.اس سے قبل بھی کچھ مسلمان اس کام کو سر انجام دینے کی کوشش کر چکے تھے.چنانچہ سب سے پہلے میرٹھ کے مولوی عبد العلیم صاحب نے نیروبی کے ایک عالم مولوی سید عبداللہ شاہ صاحب کی وفات پر ان کی نعش کے سامنے مسلمانوں سے عہد لیا تھا کہ وہ سواحیلی میں قرآنِ کریم کا ترجمہ کریں گے.ایک کثیر رقم بھی جمع کی گئی مگر ابتدائی جد وجہد کے بعد یہ معاملہ جلد ختم ہو گیا.پھر ایک کوشش مسلم ویلفیئر سوسائٹی کی طرف سے کی گئی.اس تنظیم کو سر آغا خان نے قائم کیا تھا.مگر چونکہ ترجمہ کرنے والے مخلصین مہیا نہیں ہو سکے تھے اس لئے یہ منصوبہ بھی جلد ختم ہو گیا.مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے ۱۷ نومبر ۱۹۳۶ء کو ، جو رمضان المبارک کا پہلا دن تھا ، اس اہم کام کا آغاز کیا.اس وقت شیخ صاحب ٹورا، تنزانیہ میں مقیم تھے.(۲) اس کام میں کچھ مقامی احمدی اسا تذہ مکرم شیخ صاحب کی اعانت کر رہے تھے.اور مسودہ ساتھ کے ساتھ ٹائپ بھی کیا جا رہا تھا.(۱) ۱۹۴۳ء میں ابتدائی مسودہ مکمل ہو گیا.اور اسے رائے کے لئے Inter-territorial Languages Committe for Swahili کو بھجوایا گیا.ان کے ماہرین نے اس ترجمہ کا تفصیلی جائزہ لیا اور ان کے ماہرین نے کئی صفحات پر مشتمل آراء بھجوائیں.انہوں نے اس ترجمے

Page 446

436 کے معیار کی تعریف کی اور بعض مقامات پر تبدیلیوں کے متعلق آراء دیں.ان میں سے بعض تجاویز کو قبول کیا گیا.اس بات کی ضرورت تھی کہ اہل زبان میں سے کوئی موزوں شخص اس ترجمہ کا بغور جائزہ لے کر اسے خوب سے خوب تر بنائے.۱۹۴۵ء میں مکرم امری عبیدی صاحب نے اس اہم پراجیکٹ پر کام شروع کیا.ان کے علاوہ مکرم مولا نا محمد منور صاحب، مبلغ سلسلہ نے بھی ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کو مکمل کرنے اور ان پر نظر ثانی کرنے پر انتھک محنت کی.مکرم امری عبیدی صاحب سواحیلی زبان کے بلند پایہ شاعر تھے اور انہوں نے اس فن کے اصولوں کے متعلق ایک کتاب بھی تحریر کی تھی (۳) دیگر خوبیوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زبان دانی کا بھی ملکہ عطا فرمایا تھا.ان کی عرقریزی نے اس ترجمہ کا معیار بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا.جب ترجمہ کی اشاعت کا وقت قریب آرہا تھا تو انہیں اس میں اتنا انہماک تھا کہ دن اور رات کا فرق مٹ گیا تھا.کثرت کار کی وجہ سے ان کی نیندار گئی تھی.نہ دن کو سو سکتے تھے ، نہ رات کو.اور روزانہ سولہ سترہ گھنٹے کام کرنے کے عادی تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس ترجمہ کے لئے دیباچہ تحریر فرمایا.حضور نے رسول کریم مے کے مبارک زمانہ میں نجاشی کے اُس انصاف کا ذکر فرمایا جو اس نے مسلمانوں سے کیا تھا.اور مشرقی افریقہ کے باشندوں کو مخاطب کر کے فرمایا ”اے اہلِ افریقہ ! ایک دفعہ پھر اپنے اپنے عدل اور انصاف کا ثبوت دو اور پھر ایک سچائی کے قائم کرنے میں مدد دو جو سچائی تمہارے پیدا کرنے والے خدا نے بھیجی ہے.جس سچائی کو قبول کرنے کے بغیر غلام تو میں آزاد نہیں ہوسکتیں.مظلوم ظلم سے چھٹکارا نہیں پاسکتے.قیدی قید خانوں سے چھوٹ نہیں سکتے.امن، رفاہیت اور ترقی کا پیغام میں تمہیں پہنچا تا ہوں.پیغام میرا نہیں بلکہ تمہارے اور میرے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے.“ تمام تر تحقیق اور نظر ثانی کے بعد ۱۹۵۳ء میں ایسٹ افریقہ سٹینڈرڈ کے پریس میں اس ترجمہ کی دس ہزار کا پیاں شائع کی گئیں.اس وقت کینیا میں آزادی کے لئے ماؤ ماؤ کی تحریک چل رہی تھی اور اس وجہ سے کینیا کے بہت سے باشندے حالت اسیری میں تھے.اُن کیمپوں میں یہ ترجمہ بہت مقبول ہوا.اور اس کے مطالعہ کے بعد بہت سے تعلیم یافتہ قیدیوں نے اسلام قبول کیا.مسٹر جومو کینیاٹا ، جو بعد میں کینیا کے پہلے صدر بنے ، اس وقت قید میں تھے.انہوں نے قید کی حالت میں چار

Page 447

437 مرتبہ اس ترجمہ کا مطالعہ کیا.(۴) اس ترجمہ کی اشاعت مشرقی افریقہ کی اسلامی تاریخ کا اہم سنگ میل ہے.جہاں اس ترجمہ کی اشاعت پر بہت سے غیر احمدیوں نے جماعت کی اس مساعی کی برملا تعریف کی وہاں جماعت کی یہ کامیابی کچھ لوگوں کے حسد کو بھڑ کانے کا باعث بھی بن گئی.زنجبار کے ایک عالم شیخ عبداللہ صالح تھے.وہ اس بات کا برملا اظہار کرتے تھے کہ میں جماعت احمدیہ کے عقائد سے اختلاف رکھتا ہوں مگر احمدی اس بات کو قطعاً برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام کے خلاف کچھ لکھا جائے.جب تک وہ اس کا جواب دے کر دشمن اسلام کو خاموش نہ کرا لیں اُس وقت تک دم نہیں لیتے.(۵) لیکن اس ترجمہ کی اشاعت کے ساتھ انہیں بھی مقابلہ پر اپنا ترجمہ شائع کرنے کا خیال آیا.اور انہوں نے اپنا ترجمہ شائع کرنا شروع کیا.مگر حالت یہ تھی کہ ترجمہ کا ایک بڑا حصہ حرف بحرف نقل کیا گیا تھا، مگر حواشی میں جماعتی عقائد کی مخالفت کی گئی.کہیں کہیں جماعت کے شائع کردہ ترجمہ سے مختلف ترجمہ پیش کیا جاتا ورنہ ان کی کاوش جماعت کے شائع کردہ ترجمہ کو نقل کرنے تک محدود تھی.اس ترجمہ کو نیروبی کی اسلامک فاؤنڈیشن نے شائع کیا مگر خود جماعت کے مخالفین نے شور مچایا کہ شیخ عبداللہ صالح تو جماعت احمدیہ کے ترجمہ کی نقل کر رہے ہیں.(۶) یوں تو ترجمہ کے بیشتر حصہ میں اس بات کے شواہد صاف نظر آتے ہیں کہ یہ ترجمہ جماعت کے ترجمہ کی نقل کر کے لکھا گیا ہے.لیکن اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ یوں تو جہاں جہاں سورتوں کے آغاز پر بسم اللہ الرحمن الرحیم آتی ہے وہاں پر دکھانے کے لئے شیخ عبداللہ صالح صاحب نے جماعت کے ترجمہ سے مختلف ترجمہ کیا ہے لیکن جہاں پر سورۃ نمل میں سورۃ کے درمیان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم آتی ہے وہاں اس کا ترجمہ حرف بحرف وہی لکھا ہے جو جماعت کے ترجمہ میں لکھا گیا ہے اور اپنے ترجمہ کو ترک کر دیا گیا ہے.اس ترجمہ میں خواہ آغاز میں سورۃ آل عمران یا سورۃ النسا کو دیکھیں یا قرآن کریم کے آخر میں سورۃ الناس ،سورۃ الفلق ، سورة الاخلاص ،سورۃ الکافرون کو دیکھیں یا درمیان میں سورۃ طہ' پر نظر ڈالیں شیخ عبداللہ صالح کا ترجمہ جماعت کے ترجمہ سے نقل کر لکھا گیا ہے.کہیں کہیں ایک دو لفظ تبدیل کر دیئے گئے یا شاذ کے طور پر کسی آیت کا ترجمہ جماعت کے ترجمہ سے مختلف کر دیا گیا.ورنہ نقل صاف نظر آتی ہے اور یہ ترجمہ اب تک اسی طرح شائع کیا جا رہا ہے.اب جماعت کا ترجمہ تو ان کے ترجمہ سے کافی پہلے

Page 448

438 شائع کیا گیا تھا.اس لئے یہی ممکن ہے کہ شیخ عبداللہ صالح صاحب نے جماعت کے ترجمہ سے نقل کی ہے.دلچسپ بات یہ کہ مودودی صاحب اور ان کے ہم نوا بھی عالمی سطح پر خدمت قرآن کا دعویٰ کرتے ہیں.جب ان کے مداح عالمی سطح پر ان کے بڑے بڑے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں شیخ عبداللہ صالح کے ترجمہ قرآن کا ذکر ضرور کرتے ہیں.اور یہ حقیقت ظاہر و باہر ہے کہ اس ترجمہ کا اکثر حصہ اس ترجمہ کی نقل ہے جو جماعت احمدیہ نے شائع کیا تھا.چنانچہ خلیل احمد الحامدی صاحب اپنی کتاب ' تحریک اسلامی کے عالمی اثرات کے صفحہ ۱۹۴ء پر لکھتے ہیں.اسلامک فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام سب سے زیادہ عظیم الشان کام جو سر انجام دیا گیا ہے، وہ سواحیلی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہے ، یہ سواحیلی زبان کا پہلا قابل اعتماد ترجمہ ہے.اس سے پہلے قادیانیوں اور مستشرقین کے تراجم رائج ہیں.یہ ترجمہ ایک لاکھ کے قریب تقسیم ہو چکا ہے اور ابھی تک یہ کارِ خیر جاری ہے.“ یہ تھا مودودی صاحب کا عالمی کارنامہ یعنی احمدیوں کا کیا ہوا ترجمہ تو نا قابل اعتبار تھا ،اس لئے انہوں نے احمدیوں کے کئے ہوئے ترجمہ کو ایک اور نام سے شائع کر کے قابلِ اعتبار کا نام دے دیا.اس طرح اس ترجمہ کی اشاعت سے مشرقی افریقہ میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا.(1) الفضل، ۸ خاء، ۱۳۱۹ هش ص ۵ (۲) کیفیات زندگی ، مصنفہ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ،ص۸۳ (۳) الفضل ۱۲۷ اکتوبر ۱۹۶۴ء ص ۳ (۴) الفضل ،۲۶ اگست ۱۹۶۲ء ص۳ (۵) الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۵۰ء ص ۵ (۲) کیفیات زندگی ، مصنفہ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ، ص ۱۱۱۱۱۰

Page 449

439 حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ حملہ ۱۹۳۰ء کی دہائی میں احراریوں کے فتنے کے دوران، ۱۹۴۷ء کے پُر آشوب دور میں اور پھر ۱۹۵۳ء کے فسادات کے نتیجے میں جماعتِ احمد یہ اوپر تلے بہت سے ابتلاؤں سے گذری.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اولو العزم امام کی قیادت میں جماعت ہر ابتلاء سے سرخرو ہو کر نکلتی رہی.یہ ادوار جماعت کے لئے بہت سی مشکلات لائے لیکن جماعت کو ایک نئی تیز رفتاری سے منزل کی طرف بڑھا کر رخصت ہوتے رہے.اب مخالفین کے دل غیظ وغضب سے بھرے ہوئے تھے.ان کا چلایا ہوا ہر تیر پلٹ کر ان ہی کے سینے میں پیوست ہو چکا تھا.وہ یہ خیال کرتے تھے کہ ہر مشکل میں جماعت احمدیہ کا امام انہیں بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے.ان کے دل معرفت سے خالی تھے اس لئے تائید الہی کا مضمون سمجھنا ان کے بس کی بات نہیں تھی.اور نہ ہی وہ ایسی روحانیت رکھتے تھے کہ یہ سمجھ پاتے کہ خلافت تو ایک جاری امر ہے.وہ تو صرف یہی سوچ سکتے تھے کہ اگر ایک مرزا بشیر الدین محمود احمد کو راستے سے ہٹا دیا جائے تو پھر جماعت احمدیہ کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا.پھر اس مقصد کے لئے اتنے پاپڑ بیلنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی.حضرت مصلح موعوددؓ کو شہید کرنے کی پہلے بھی کئی کوششیں ہو چکی تھیں.ایک بار۱۹۴۳ء کے جلسے کی تقریر کے دوران ایک نامعلوم شخص نے ملائی کی پیالی ایک اور آدمی کو دی کہ حضور کو ضعف ہو رہا ہے یہ پیالی آپ کو پیش کر دی جائے اور بعد میں دریافت ہوا کہ اس میں زہر ملا ہوا تھا.ایک مرتبہ ایک دیسی پادری جے میتھیوز نے اپنی بیوی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا بعد میں اُس نے عدالت میں اعتراف کیا کہ اصل میں میں مرزا صاحب کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن اس دوران میرا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا اور میں نے اسے قتل کر دیا.ایک بار ایک پٹھان حضرت مصلح موعودؓ کو قتل کرنے کے لئے قادیان میں حضور کے ایک گھر دارالحمد کے دروازے تک چاقو لے کر آیا مگر ایک احمدی کو شک ہوا تو اسے پکڑ لیا گیا.اس کے علاوہ بھی ایسے ہی کچھ اور واقعات ہوئے مگر اللہ تعالیٰ کی خاص تائید نے حضور کی حفاظت کی.۱۹۵۳ء کے فسادات میں احراری مسلسل لوگوں کو اس بات پر اکساتے رہے تھے کہ امام جماعت احمدیہ کوقتل کر دینا نہ صرف

Page 450

440 کوئی غلط بات نہیں بلکہ موجب ثواب ہو گا.۱۹۵۳ء کی شورش کی ناکامی کے بعد اب بعض مخالفین نے زیادہ منظم طریق پر حضور کے قتل کی سازش تیار کی.(۱) مارچ ۱۹۵۴ء کے شروع میں ایک سولہ سترہ سال کا نوجوان ربوہ آیا جس کا نام عبدالحمید تھا.عبد الحمید چک ۲۲۰ گ ب ضلع لائکپور کا رہنے والا تھا.تقسیم سے قبل اس کے گھرانے کی رہائش جمال پور ضلع جالندھر میں تھی.چونکہ وہ حضرت مصلح موعودؓ کے ایک پہریدار نورمحمد کے علاقے کا رہنے والا تھا ، اس لئے اُس کے ہاں ربوہ کے قریب ایک گاؤں احمد نگر میں ٹھہر نے میں کامیاب ہو گیا.کچھ دن اس نے ربوہ کے حالات دیکھے.پہلے تو اُس نے حضور سے ملاقات کرنے کی کوشش کی مگر جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ احمدی ہونا چاہتا ہے.اس امید پر کہ اس طرح اسے علیحدگی میں ملاقات کرنے کا موقع مل جائے گا، اس نے بیعت فارم بھی پر کر دیا.لیکن جب اس کے بعد بھی اُسے حضور سے ملاقات کا موقع نہیں ملا تو اس نے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے ایک راستہ تلاش کیا.۱۰ مارچ کو وہ مسجد مبارک میں عصر کی نماز میں شامل ہوا.جب حضرت مصلح موعود نماز کے بعد مسجد سے باہر تشریف لے جارہے تھے اور پہریدار کا منہ بھی دوسری طرف تھا تو اُس نے آگے بڑھ کر حضور کے بائیں کندھے کو زور سے پکڑا.اس سے غرض غالباً ی تھی کہ حضور بائیں طرف دیکھیں تو وہ دائیں طرف سے آپ کی شہ رگ پر حملہ کر دے.مگر اس متوقع رد عمل کی بجائے حضور نے اپنے کندھے کو زور سے جھٹکا دیا تو اُس نے پیچھے ہی سے دائیں طرف حضور کی گردن میں چاقو گھونپ دیا.یہ وار اس زور سے کیا گیا تھا کہ چاقو کا پھل ٹیڑھا ہو گیا اور تین انچ چوڑا اور سوا دو انچ گہرا زخم آیا جو شہ رگ کے بالکل قریب تھا.حضور حملے کی شدت سے لڑکھڑا کر گرنے لگے پہریدار نے حضور کو سنبھالا.حملہ آور نے ایک اور وار کیا مگر حضور کے پہریدار محمد اقبال صاحب بیچ میں آگئے اور یہ وار اُن کو لگا.اتنے میں کچھ احباب نے حملہ آور کو پکڑا.اُس وقت حملہ آور یا علی کے نعرے لگا رہا تھا.اس کو قابو کرتے ہوئے اور احباب بھی زخمی ہوئے.حضور نے زخم پر ہاتھ رکھ لیا.زخم سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا.حضور کے تمام کپڑے خون سے تر بتر ہو گئے.حضور کے ساتھ چلنے والوں کے کپڑوں پر بھی خون کے قطرات گرے اور راستے میں زمین پر بھی خون گرتا رہا.حضور نے بعد میں بیان فرمایا کہ اُس وقت حضور کو احساس نہیں ہوا تھا کہ

Page 451

441 آپ پر کسی نے حملہ کیا ہے بلکہ یہ احساس ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی بڑی سل آپ کی گردن پر گری ہے.اور آپ کو اس وقت پوری طرح نظر نہیں آرہا تھا.قریب کھڑے لوگوں کے چہرے بھی دھندلے نظر آ رہے تھے.حضور کو مسجد سے باہر لے جایا گیا.جب حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نظر آئے تو حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا ہوا ہے؟ اس پر عرض کی گئی کہ آپ پر کسی شخص نے حملہ کیا ہے.اس پر حضور کو خون کے نکلنے کا احساس ہوا.اس حالت میں بھی حضور نے تاکید فرمائی کہ حملہ آور کو مارا نہ جائے.آپ کی زبان پر تسبیح و تحمید کے کلمات تھے.حملہ آور کو بڑی مشکل سے قابو کر کے پولیس کو اطلاع دی گئی.حملہ کی اطلاع ہونے پر مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے آکر زخم کو صاف کر کے ٹانکے لگائے.(۲ تا ۵) یہ خبر ایک بجلی بن کر ہر احمدی کے دل پر گری.جس احمدی کو اس حملے کی خبر ملی وہ بیتاب ہو کر دعاؤں میں لگ گیا.ربوہ میں لوگ بڑی تعداد میں قصرِ خلافت میں جمع ہونے لگے.حضور نے مرہم پٹی کے بعد جماعت احمدیہ کے نام یہ پیغام اپنے دست مبارک سے لکھا.اس پیغام کو بذریعہ تار پوری دنیا کی جماعتوں میں بھجوایا گیا.ย برادران! آپ نے مجھ پر ایک نادان دشمن کے حملہ کرنے کے بارے میں سن لیا ہے.خدا تعالیٰ ان لوگوں کو آنکھیں کھولنے اور انہیں اسلام اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اپنے فرائض سمجھنے کی توفیق دے.میرے بھائیو! دعا کرواگر میرا وقت آپہنچا ہے.تو اللہ تعالیٰ میری روح کو اطمینان بخشے اور اپنے فضل نازل فرمائے.اور یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے آپ کو ایسا راہنما دے جو اس کام کے لئے مجھ سے زیادہ اہل ہو.میں ہمیشہ آپ لوگوں سے اپنی بیویوں اور بچوں سے بھی زیادہ محبت کرتا رہا ہوں.اور اسلام واحمدیت کے لئے ہر پیاری سے پیاری چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہا ہوں.میں آپ سے اور آپ کی آئندہ آنے والی نسلوں سے یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ آپ بھی ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے.خدا آپ کے ساتھ ہو.(۶) صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے مشہور سرجن ڈاکٹر امیر الدین صاحب سے کہا کہ وہ ربوہ

Page 452

442 جا کر حضور کا معائنہ کریں.مگر یونیورسٹی امتحانات کی وجہ سے انہوں نے معذرت کی.پھر امیر الدین صاحب کے کہنے پر سرجن ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب ربوہ جا کر حضور کا معائنہ کرنے پر تیار ہوئے.رات کو لاہور سے بھی ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب اور دوسرے ڈاکٹر صاحبان جن میں احمدی ڈاکٹر صاحبان بھی شامل تھے ربوہ پہنچ گئے.جب زخم کا معائنہ کیا گیا تو ڈاکٹروں نے رائے قائم کی کہ اندر خون بہہ رہا ہے اور کوئی رگ پھٹی ہوئی ہے.اس لئے دوبارہ آپریشن کرنا پڑے گا.حضور نے فرمایا کہ رات کے ایک بجنے والے ہیں اور مجھے اتنی کوفت ہو چکی ہے، اس لئے اگر صبح تک انتظار کر لیا جائے تو کیا حرج ہے.جب ڈاکٹروں نے اس بارے میں مشورہ کیا تو ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب نے تشویش کا اظہار کیا کہ انتظار خطرناک ہو سکتا ہے اس لئے ابھی آپریشن کرنا پڑے گا.انیستھیزیا کے ڈاکٹر صاحب کلوروفورم دینے کے لئے موجود تھے لیکن حضور نے ارشاد فرمایا کہ مجھے بیہوش نہ کیا جائے.خدا تعالیٰ توفیق دے میں اسے برداشت کرلوں گا.چنانچہ Local Anaesthesia دیا گیا اور ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب نے آپریشن شروع کیا.اُس وقت بجلی بھی نہیں تھی روشنی کے لئے مٹی کے تیل سے جلنے والے گیس لیمپ جلائے جاتے تھے.اس لئے رات کے وقت آپریشن کے لئے ناکافی روشنی میں سرجنوں نے اپنا کام کیا.آپریشن تقریباً سوا گھنٹا جاری رہا.اور معلوم ہوا کہ زخم ابتدائی اندازے سے زیادہ گہرا تھا اور ایک بڑا عصبہ (Nerve)، دوخون کی درمیانی سائز کی رگیں اور سوا دو انچ لمبا عضلہ (Muscle) کا حصہ کٹ گیا ہے.اور ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کا کہنا تھا کہ چاقو کی نوک بالکل دماغ کی بڑی وین (Jugular vein) کے بالکل قریب پہنچ گئی تھی.اس کے بعد کئی دن حضور کو بخار، زخم میں در داور نقرس کی تکلیف رہی.لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے کمال حو صلے سے اس تکلیف کو برداشت کیا.دور دور سے احمدی بے قرار ہوکر ربوہ پہنچ رہے تھے تا کہ آپ کی خیریت معلوم کریں.حضور نے ان احباب کو ملاقات سے روکا نہیں.وہ کمرے میں آتے اور حضور کی زیارت کر کے رخصت ہو جاتے.(۷) اس تکلیف کے باوجود حضور ضروری جماعتی کام سرانجام دیتے رہے.اس قاتلانہ حملے کے کئی پہلو قابل توجہ تھے.حملہ آور ایک کم عمر نوجوان تھا اور سکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا.اس کی عمر سولہ سترہ برس ظاہر کی گئی تھی.اور یہ حملہ چاقو سے کیا گیا تھا ، پستول

Page 453

443 جیسا ہتھیار استعمال نہیں کیا گیا تھا.سرسری طور پر ان حقائق کو دیکھنے پر کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ حملہ کسی وسیع سازش کا حصہ نہیں تھا اور فقط ایک جنونی کا فعل تھا.لیکن دوسرے حقائق بالکل برعکس نتیجہ ظاہر کر رہے تھے.حملے کے لئے ایسی عمر کے شخص کا انتخاب کیا گیا تھا جو کہ کامیابی سے قتل بھی کر سکے اور پکڑے جانے کی صورت میں عمر کی بناء پر کم از کم سزا کا فیصلہ کرانا آسان ہو.حملہ آور ایک تنومند نوجوان تھا.اور اخبارات کی ابتدائی رپورٹوں میں بھی اس کی غیر معمولی صحت کا ذکر کیا گیا تھا ( ۸ تا ۱۰).مجرم پہلے حضور کے ایک پہریدار کے ہاں ٹھہرا کیونکہ وہ اُس کے علاقے کا رہنے والا تھا اور ایک سوچے سمجھے انداز میں حضور سے ملاقات کی کوشش کرتا رہا اور اس طرح اُس نے اپنے آپ کو پہریداروں کے لئے ایک مانوس وجود بھی بنا لیا تا کہ بغیر اس کے کہ کوئی اُس پر شک کرے وہ آسانی سے حملہ کر سکے.یہ منصوبہ بندی ایک کم عمر کا دیہاتی لڑکا نہیں کر سکتا.اس کا وار کرنے کا طریقہ ظاہر کرتا تھا کہ اسے اس کام کے لئے تربیت دی گئی ہے.اس نے ایک پیشہ ور قاتل کی طرح پیچھے سے آکر شہ رگ پر وار کیا تھا.صرف اللہ تعالیٰ کی حفاظت نے بچایا ورنہ وہ ایک ہی وار میں اپنے مقصد میں تقریباً کامیاب ہو گیا تھا.یہ حقائق الفضل میں شائع کر دئیے گئے.مختلف اخبارات حضور پر قاتلانہ حملے کی پر زور مذمت کر رہے تھے.کچھ سرکاری افسران حضور کی عیادت کے لئے ربوہ آئے.گورنر اور وزیر اعظم صاحب نے فون پر عیادت کی مجلس احرار کے لیڈر اپنے جلسوں میں لوگوں کو اکساتے رہے تھے کہ وہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو قتل کر کے ثواب کمائیں ، مگر اب وہ اس حملے کی مذمت میں بیان دے رہے تھے.حملہ آور عبد الحمید کو جب پولیس کی تحویل میں دیا گیا تو پہلے تو اُس نے اپنے آپ کو گونگا ظاہر کیا.(۸) پھر اُس نے اپنا غلط نام بتایا اور بدل بدل کر مختلف نام پولیس کو بتا تا رہا.(۹) اس حرکت کا مقصد صرف یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی وجہ سے اپنی شناخت اور پولیس کی تفتیش کو مؤخر کرنا چاہتا تھا.پھر اُس نے ایک اور رنگ بدلا اور کہا کہ میں مرزا صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا تھا لیکن جب اس میں ناکام رہا تو میں نے اُن پر چاقو سے حملہ کر دیا.اس تفتیش کی نگرانی ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ملتان ڈویژن کر رہے تھے.صرف ایک سال پہلے ہی احمدیوں کے خلاف ایک شورش برپا کی گئی تھی اس لئے اس حملے کے بعد پورے صوبے کی پولیس کو چوکنا کر دیا گیا.(۱۱،۱۰) ان دنوں میں

Page 454

444 جب مجرم حوالات کے اندر اپنے بیانات بدل کر اور دوسرے حیلوں سے تفتیش کے عمل کو مؤخر کر رہا تھا،حوالات سے باہر جماعت کے مخالفین اپنے پرانے ہتھیار استعمال کر کے ایک اور کھیل کھیل رہے تھے.احرار سے تعلق رکھنے والے اور دیگر مخالفین اس قاتلانہ حملے کی مذمت میں بیانات دے رہے تھے.پہلے انہی کے جلسوں میں لوگوں کو اشتعال دے کر احمد یوں بالخصوص حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے قتل پر اُکسایا جاتا تھا.(۱۳،۱۲) وہ یہ افواہیں اڑا رہے تھے کہ حملہ آور ایک احمدی تھا.اور یہ قاتلانہ حملہ جماعت کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ ہے.چنانچہ داؤ دغزنوی صاحب نے بیان جاری کیا کہ انہیں شبہ ہے کہ یہ حملہ قادیانیوں کے باہمی اختلافات کا نتیجہ ہے.(۱۴) غازی سراج الدین صاحب امیر تحریک اسلام و مجاهدین المسلمین نے ایک بیان میں جماعت کی طرف سے جاری کردہ بیانات کو گمراہ کن پروپیگینڈا قرار دیا اور کہا کہ مرزا بشیر الدین محمود پر حملہ کا تعلق ربوہ کے اندرونی خلفشار اور اختلاف سے ہے...ربوہ میں بسنے والے قادیانیوں کی ایک زبردست اقلیت مرزا بشیر الدین صاحب سے شدید اختلاف رکھتی ہے.اور اُنہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نہ صرف اس واقعہ کی تحقیقات کرائی جائیں بلکہ ربوہ میں موجود اندرونی نظام اور متوازی حکومت کے متعلق بھی تحقیقات کرائی جائیں.مرزا صاحب پر جس کسی نے بھی حملہ کیا ہو وہ بہر حال مرزائی ہے اور اس کا تعلق ربوہ کی اس قادیانی جماعت سے ہے جو قادیانی خلافت کی باغی ہے.(۱۵) اخبار الاعتصام نے احمدیوں سے کچھ ہمدردی کا اظہار کر کے لکھا اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس امر کی خصوصیت سے سرکاری طور سے تحقیقات کرائی جائے کہ آخر ایک احمدی یا کم از کم نیم احمدی نے ہی مرزا صاحب پر کیوں قاتلانہ حملہ کیا؟ اس نے ربوہ پہنچ کر ایسی کون سی شے دیکھ لی جس نے اس کو اتنے بڑے فعل کے ارتکاب پر مجبور کر دیا.کیا اس کا یہی ایک سبب ہے کہ مرزا صاحب نے اسے ملاقات کرنے اور بیعت ہونے کا وقت نہیں دیا.یا اس میں کوئی اور بھید بھی ہے.(۱۴) اسی طرح سے اخبار کو ہستان نے جس کے مدیر مشہور مصنف نسیم حجازی تھے نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حملہ آور قادیانی تھا.(۱۶) ہندوستان کے ہندو اخبارات میں -

Page 455

445 پرتاب، آزادی سے قبل احرار کی سرگرمیوں اور بیانات کو اپنے صفحات میں نمایاں جگہ دے رہا تھا اور اُن کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا.اس موقع پر اس اخبار نے خبر شائع کی ، احمدی جماعت کے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد پر جبکہ وہ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکل رہے تھے چاقو کے تین وار کئے.ان کی گردن پر زخم تو آئے لیکن نہ ایسے کہ تشویش پیدا ہو.....احمدیوں کے خلاف پاکستانیوں کے جو جذبات بھڑکائے گئے اس کے پیش نظر یہ وار تعجب خیز نہیں.تعجب ہے تو یہ کہ یہ وار اس سے پہلے کیوں نہ ہوا.احمدیوں کو شکایت نہیں ہو سکتی.کیونکہ وہ خود بھی تشدد سے کام لیتے ہیں.متحدہ پنجاب میں ایک احمدی نے ایک ایسے مسلمان کو جو احمدی جماعت کے خلاف لکھتا اور بولتا رہتا تھا بس میں قتل کر دیا تھا.(۱۷).گویا چند برس پہلے قادیان میں جو سینکڑوں احمدی شہید ہوئے تھے وہ پر تاب کو یاد نہیں رہے.گذشتہ سال پاکستان میں جو احمدیوں پر مظالم ہوئے تھے ان کو بھی قابلِ توجہ نہیں سمجھا گیا.ان سب حقائق کو نظر انداز کر کے اس موقع پر جب احمدیوں کے امام پر قاتلانہ حملہ کر کے احمدیوں کے دلوں کو زخمی کیا گیا تو پرتاب نے جماعت احمدیہ پر ہی تشدد کا الزام لگا دیا.مگر ہندوستان کے مسلمان اخبارات میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے شریفانہ رویہ دکھایا.مدراس کے ہفتہ وار دلچسپ نے اپنے اداریہ میں لکھا، اس ملک میں جہاں اسلامی قوانین کے لئے رات دن چیخ و پکار ہوتی رہتی ہے.اس اسلامی قانون ہی کی خلاف ورزی عمل میں آرہی ہے.یہ مسلم قوم کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف تو بلند و بانگ اسلامی دعوے ہوں اور دوسری طرف ان دعووں کا رد عمل شروع ہو جائے.اس سلسلے میں حال کی افسوسناک اطلاع سے بخوبی ظاہر ہوسکتا ہے کہ لاہور سے سو میل کے فاصلے پر ربوہ نامی مقام پر مولانا بشیر الدین محمود احمد امام جماعتِ احمدیہ پر دن دھاڑے حملہ ہوا اور وہ بھی کسی غیر قوم کے فرد سے نہیں بلکہ ایک مسلمان ہی کے ہاتھوں.....احمدی سوائے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے اور کسی چیز کو اپنا مقصد نہیں بتاتے.ہاں یہ سچ ہے کہ وہ حضرت مسیح ناصری کے متعلق اپنے عقائد ہم سے کچھ جدا گانہ رکھتے ہیں لیکن اس بناء پر تو کوئی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا اور نہ اس سے اسلام کے بنیادی اصولوں میں کوئی اختلاف پیدا ہوتا ہے.اس سے جدا ہو کر اگر دیکھا

Page 456

446 جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ ہم سے کہیں زیادہ مذہب وملت کے قائل ہیں اور اپنا جینا اور مرنا بھی تو اس کے لئے ہی بتاتے ہیں.اور بات ہے بھی کچھ ایسی ہی کہ ان احمدیوں کے اشاعت اسلام والے کارنامے بہت شاندار ہیں.جن کا ہم اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے (۱۸) اسی طرح پاکستان کے بعض اخبارات بھی اس حملے کی شدید مذمت کر رہے تھے.آزاد کشمیر کے ہفت روزه آواز حق نے اپنے اداریے میں لکھا، اگر اس قسم کی حرکتوں کو کچل کر نہ رکھ دیا گیا تو پاکستان میں کسی کی بھی جان محفوظ نہیں ہے.بڑے سے بڑے حکمران، سیاسی تا مذہبی لیڈر کا روباری آدمی کو ایک بزدل کرائے کا ٹوموت کی گھاٹ اُتار سکتا ہے.(۱۹) پشاور کے اخبارت تنظیم نے اس حملے کی مذمت کرنے کے بعد لکھا، ہم اس حادثہ میں مرزا صاحب اور ان کے تمام مریدوں سے دلی طور پر ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں.اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیک مقاصد کے لئے مسلمانوں کی خدمت کے لئے دینِ اسلام کی تقویت کے لئے حضرت مرزا صاحب کو صحت اور شفائے کلی عطا فرمائے.(۲۰) چند دنوں میں یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ یہ شخص غیر احمدی تھا اور حضور پر قاتلانہ حملے کی نیت سے ہی ربوہ میں آیا تھا.الفضل میں ان افواہوں کی تردید شائع کی گئی کہ یہ شخص احمدی تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اس امر کی تحقیق کرے کہ یہ غلط افواہیں کس غرض کے لئے پھیلائی جا رہی ہیں.(۲۱ ۲۲) مخالفین نے ایک مرتبہ پھر اوچھا وار کیا تھا اور نا کام رہے تھے.قاتلانہ حملے میں ناکامی کے بعد ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح جماعت میں فتنہ پیدا کیا جائے اور یہ ظاہر کیا جائے کہ احمدیوں میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں.اس طرح ایک طرف تو جماعت میں فتنہ پیدا کیا جائے اور دوسرے اپنے اوپر شبہ نہ آنے دیا جائے.مگر ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی وہ ناکام رہے.جب حملہ کرنے والے پر مقدمہ چلنے کا مرحلہ آیا تو مقامی انتظامیہ نے ایسا رویہ اپنایا جیسا کہ وہ اس معاملے کو رفع دفع کرنا چاہتے ہیں.ایسے فوجداری مقدمات میں گورنمنٹ خود مدعی ہوتی ہے.

Page 457

447 خود مضروب کا بھی حق نہیں ہوتا کہ وہ مدعی بن جائے.پہلے پولیس نے خود خون آلود کپڑے مانگے کیونکہ ایسے مقدمات میں خون آلود کپڑے بھی ایک شہادت ہوتے ہیں تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ زخم شدید تھا اور جان لیوا بھی ہوسکتا تھا.لیکن اس کے بعد پیشی سے قبل اُن کا آدمی کپڑے نہیں لینے آیا.جب پیغام بھجوایا گیا کہ کپڑے منگوالئے جائیں تو اُنہوں نے کہا کہ چونکہ زخم واضح ہیں اس لئے کپڑوں کی ضرورت نہیں پڑے گی.وکیل مہر فلک شیر بھروانہ بطور وکیل پیش ہوئے.یہ صاحب پہلے پولیس میں ملازم تھے پھر برخواست ہو کر ایل ایل بی کیا.۲۶ مارچ کی پیشی میں عدالت نے حکم دیا کہ ۳۱ مارچ تک چالان مکمل کر کے پیش کیا جائے، پھر ۲ اپریل کو ملزم کو پیش کیا جائے اور دوسرے گواہان پیش کئے جائیں.۲ اپریل کو پیشی ملتوی ہو کرنئی تاریخ سے اپریل کی مقرر ہوئی.وکیل مہر فلک شیر نے کہا کہ ہم بار والے ملزم کی طرف سے پیش ہورہے ہیں.اس پر دوسرے وکیلوں نے کہا کہ تمہیں یہ کہنے کا حق نہیں یہ حق بار کے صدر کو ہے.اس پر مہر فلک شیر نے کہا کہ اچھا میں خود ملزم کی طرف سے پیش ہو رہا ہوں.۲ اپریل کی پیشی میں مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر عدالت میں جماعت کی طرف سے پیش ہوئے.ے اپریل کی پیشی میں جماعت کی طرف سے مکرم مرزا عبدالحق صاحب پیش ہوئے اور ان کے ساتھ مکرم چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ بھی پیش ہوئے.۷ اپریل کو پیشی ملتوی ہوئی اور اگلی تاریخ ۱۵ اپریل کو مقرر ہوئی.۷ اپریل کو حج کے بیمار ہونے کی وجہ سے پیشی ملتوی کی گئی تھی.۱۵ را پریل کی پیشی میں ملزم حاضر نہیں ہوا اور یہ سرٹیفیکیٹ پیش کیا گیا کہ ملزم بیمار ہے.تو اگلی تاریخ ۱۹ را اپریل کی مقرر کی گئی.کچھ تاخیر کے بعد مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی.جب ۲ مئی ۱۹۵۴ء کو عدالت میں ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کا بیان لیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب دس مارچ ۱۹۵۴ء کو رات کے سوا گیارہ بجے انہوں نے زخم کا معائنہ کیا تو دائیں کان کے پیچھے سوا دو انچ چوڑا ایک زخم تھا جس پر ٹانکے لگے ہوئے تھے اور اس کے اوپر ساڑھے تین انچ کے قطر کی ورم تھی اور اور مجھے بتایا گیا کہ کہ ٹانکے لگنے کے بعد سوج میں اضافہ ہو گیا ہے.اس سے مجھے شبہ ہوا کہ ابھی اندر خون بہہ رہا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ زخم کو دوبارہ کھولنا پڑے گا.مناسب تیاری کے بعد سوا تین بجے رات کے زخم کو دوبارہ کھولا

Page 458

448 سے اور گیا.زخم کے کھولنے پر معلوم ہوا کہ تمام زخم خون کے لوتھڑے سے بھرا ہوا تھا اور درمیانے سائز کی ایک رگ (Artery) سے ابھی تک خون بہہ رہا تھا اور زخم کی گہرائی Sternocleidomastoid پٹھے کے کٹے ہوئے حصے سے بھی ابھی تک خون رس رہا تھا.زخم سوا دو انچ گہرا تھا.پھر آپریشن کی تفصیلات بتانے کے بعد ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب نے یہ حیران کن بیان دیا کہ قانونی طور پر زخم Simple تھا اور اس سے حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی کو خطرہ نہیں تھا.یہ بات قابلِ ذکر ہے جس دن حضور پر حملہ ہوا ہے اُس دن سب سے زیادہ ریاض قدیر صاحب تشویش کا اظہار کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ انتظار خطرناک ہوسکتا ہے، آپریشن ابھی کرنا پڑے گا.اور اگر زخم خفیف تھا تو ان جیسے ماہر سرجن کو زخم کا آپریشن کرنے میں سوا گھنٹہ کیوں لگا تھا.(ریاض قدیر صاحب منشی غلام قادر فصیح صاحب کے بیٹے تھے جنہوں نے پہلے حضرت مسیح موعود کی بیعت کی تھی مگر کچھ عرصہ کے بعد پیچھے ہٹ گئے تھے.ریاض قدیر صاحب کو بعد میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا پرنسپل بنایا گیا اور پھر وہ مودودی صاحب کے سمدھی بھی بنے).اس کے بعد صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ زخم سے حضور کی زندگی کو خطرہ تھا.یہاں پر ہم ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کے بیان کا قانونی طور پر جائزہ لیتے ہیں.اس وقت کے رائج Pakistan Penal Code کے 16 Chapter کی شق نمبر 320 کے مطابق ہر زخم جس کے نتیجے میں ہیں روز یا اُس سے زیادہ عرصہ تک درد ہوتی رہے یا اس کے نتیجے میں اس عرصہ تک آدمی اپنی معمول کی زندگی دوبارہ شروع نہ کر سکے ، وہ زخم شدید نوعیت کا زخم ( Grievous Hurt) کہلاتا ہے اور ہر وہ زخم جس سے مضروب کی زندگی کو خطرہ ہو وہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے.اور اس حملے پر ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ گذر جانے کے بعد بھی حضور نہ تو معمول کے مطابق مسجد میں نماز باجماعت پڑھانے کے لئے تشریف لا رہے تھے اور نہ ہی حضور کی صحت اس قابل تھی کہ وہ خطبہ جمعہ پڑھا سکیں.اور خود حکومت کے ڈاکٹر نے یہ سرٹیفیکیٹ دیا تھا کہ عدالت میں پیشی کے وقت حضور کی صحت اس قابل بھی نہیں تھی کہ وہ جھنگ کا سفر بھی کرسکیں جہاں پر اس عدالت نے منعقد ہونا تھا.حالانکہ جھنگ ربوہ سے اتنا دور بھی نہیں ہے.اور عدالت نے اس رائے کو تسلیم کرتے ہوئے کاروائی لالیاں میں منعقد کی تھی.اور ہر زخم جس کے نتیجے میں زندگی خطرے میں پڑے وہ بھی

Page 459

449 اسی زمرے میں آتا ہے (۲۳).یہ تو طب کا معمولی علم رکھنے والا بھی بتا سکتا ہے کہ گردن میں جو زخم شہ رگ کے قریب تین انچ چوڑا اور سوا دو انچ گہرا ہو اور ہڈی تک پہنچا ہو اس سے تو یقیناً جان کو خطرہ ہوسکتا ہے.اور خود ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب یہ گواہی بھی دے رہے تھے کہ زخم کے لگنے کے گیارہ گھنٹے کے بعد بھی ابھی درمیانے سائز کی Artery سے خون بہہ رہا تھا.اتنی دیر ایک درمیانے سائز کی Artery سے خون بہنے سے تو ویسے ہی مریض Shock میں جاسکتا ہے اور اس کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے.جب ملزم کو پیش کیا گیا تو اُس نے اقرار کیا کہ میں نے جان بوجھ کر نیت قبل سے حملہ کیا کیونکہ اس نے میرے محبوب نبی کریم علیہ کی توہین کی تھی.کس طرح اور کب یہ فرضی تو ہین کی گئی تھی اس کے متعلق مجرم نے کچھ نہیں کہا.عدالت میں اپنی روحانیت کا رعب جمانے کے لئے مجرم نے کچھ ڈرامائی حرکات بھی کیں.ایک موقع پر اپنی تسبیح کا امام حضور کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس میں سب کچھ نظر آتا ہے اس میں دیکھ کر آپ سب کچھ مان جائیں گے.اس میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی شبیہ نظر آتی ہے.جب حضور نے فرمایا کہ میں نے نعروں کی آواز نہیں سنی تو مجرم نے اونچی آواز میں حق کا نعرہ لگایا.قرائن ظاہر کر رہے تھے کہ مجرم کو سزا سے بچانا تو ممکن نہیں تھا ، اس کی سزا میں تخفیف کے لئے اہتمام کیا جا رہا تھا.بهر حال ۲۶ مئی ۱۹۵۴ء کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ چوہدری محمد اسحاق صاحب نے مقدمے کا فیصلہ سنایا.عدالتی فیصلے میں ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کے بیان کو باوجود اس بیان کے اندرونی تضادات کے بہت نمایاں کر کے بیان کیا گیا.اور یہ نتیجہ نکالا گیا کہ چونکہ ڈاکٹر مرزا منور احمد نے زخم کا تفصیل سے جائزہ نہیں لیا تھا اور صرف اوپر سے ٹانکے لگائے تھے اس لئے ان کا بیان صحیح تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ زخم سے زندگی خطرہ میں پڑ سکتی تھی.اور ہمیں ڈاکٹر ریاض قدیر کا بیان صحیح تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ زخم خفیف تھا اور اس سے زندگی کو خطرہ نہیں پیدا ہوا تھا.عدالت نے اپنے فیصلہ میں چاقو کو ایک قلم تراش قرار دیا بلکہ ایک مقام پر یہ بھی لکھا کہ زخم خفیف تھا اور ملزم کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ وہ باجماعت نماز میں قتل نہیں کر سکتا.عقل اس نتیجہ کو بھی قبول نہیں کر سکتی کیونکہ دنیا کی تاریخ میں بہت سے قتل بھرے مجمع میں اور شدید ترین حفاظتی انتظامات کے باوجود بھی ہوئے ہیں اور

Page 460

450 چند ہی سطروں کے بات حج کو یہ لکھنا پڑا کہ ملزم کے دوسرے وار سے قتل کرنے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملزم خود یہ اقرار کر رہا ہے کہ اس نے قتل کرنے کے ارادہ سے وار کیا تھا.اس کے بعد ارادہ قتل پر شک کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا.عبد الحمید کو پانچ سال قید با مشقت سنائی گئی.اگر چہ جج نے مجرم کو سزا سنائی لیکن فیصلے کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جج نے یہ سزا صرف مجرم کے اقبالِ جرم کی وجہ سے صرف مجبوری میں دی تھی اور نہ بیج اس کے فعل کو ایک طرح حق بجانب سمجھتا تھا.جیسا کہ حج نے اپنے فیصلے میں لکھا.چونکہ ملزم نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ اس کا ارادہ قتل کرنے کا تھا لہذا میرے لئے اس کے سوا چارہ کار نہیں کہ میں ملزم کو ۳۰۷ تعزیرات پاکستان کا مجرم قرار دوں.“ اور سزا دیتے ہوئے جج نے ملزم پر نرمی کرنے کا ہر ممکن جواز پیدا کرنے کی کوشش کی اور فیصلہ کے آخر پر لکھا اب میں سزا سنانے کے مشکل سوال کی طرف آتا ہوں ملزم ابھی چھوٹی عمر سے تعلق رکھتا ہے.اور اقدام قتل کا مقصد نہ تو سیاسی ہے اور نہ مالی لالچ کی وجہ ہی ایسا کیا گیا ہے اور نہ ہی ذاتی انتقام کی خاطر یہ قدم اُٹھایا گیا ہے بلکہ اس کا مقصد خالصتاً مذہبی تھا اور یہ ایک مذہبی جنونی کی روح کی پکار ہے اور ایک عادی قاتل کا اقدام نہیں ہے.اس لئے میرے خیال میں انتہائی سزا دینے کی ضرورت نہیں ہے.اس کا اقرار جرم اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مجرم شہید بننا چاہتا ہے.اس فیصلہ سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت کے نزدیک اگر مذہبی اختلاف کی بنیاد پر قاتلانہ حملہ کیا جائے تو مجرم سے نرمی کا سلوک کرنا چاہئیے.یہ رویہ تو مذہبی قتل و غارت کو ہوا دینے کے مترادف ہے.اور اسی رویہ کی وجہ سے پاکستان میں مذہب کے نام پر قتل و غارت کا وہ طوفان برپا کیا گیا کہ پورے ملک کا امن برباد ہو گیا.اکثر قاتل کوئی عادی قاتل نہیں ہوتے.یہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری قتل ہوتا ہے لیکن مندرجہ بالا حوالے سے تو یہ لگتا ہے جیسے اگر کوئی پہلی مرتبہ اقدام قتل کرے تو اسے معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کر دینا چاہیئے.عدالتوں کے ذریعہ دی جانے والی سزاؤں کا سب سے بڑا مقصد جرائم کی روک تھام ہوتا ہے

Page 461

451 مگر اس فیصلے میں تو اقدام قتل کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی.اور کہا گیا تھا کہ اس کا اقرار جرم اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مجرم شہید بنا چاہتا ہے.مگر یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اگر مجرم شہادت کے لئے اتناہی بے قرار تھا تو وہ گرفتاری کے معاً بعد گونگا کیوں بنا رہا.اپنی شناخت چھپانے کے لئے جھوٹ کیوں بولتا رہا.اسے تو فوراً اقبالِ جرم کر کے سزائے موت کی درخواست کرنی چاہئیے تھی.مگر اس کی طرف سے پیش ہونے والے وکلاء تو اس کی سزا میں تخفیف کے لئے کوشاں رہے.اگر اس فیصلے کی منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ اگر کوئی شخص مذہبی جنون یا جذبات کی وجہ سے قتل کرتا ہے تو اس کی سزا میں کمی کر دینی چاہئیے ، خواہ اس نے جرم با قاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعہ کیا ہو.اقبال جرم اس بات کا جواز نہیں بن سکتا کہ مجرم کے جرم کی نوعیت کو کم درجہ کے جرم میں تبدیل کر دیا جائے.مختصر یہ کہ خفیف سزا دینے کے باوجود یہ فیصلہ مذہبی جنون کی آڑ میں قتل و غارت کی حوصلہ افزائی کے مترادف تھا اور اس کے بعد پاکستان میں یہ تاریخ بار بار دہرائی گئی.اس کے نتیجے میں یہ قتل و غارت صرف احمد یوں تک محدود نہ رہی بلکہ پورے ملک میں رواداری اور امن و امان کا جنازہ نکل گیا.اور اس المیہ میں عدلیہ کا وقار بھی محفوظ نہ رہا.ہم بعد میں اس عمل کا تفصیل سے جائزہ لیں گے.(۲۵،۲۴) اس فیصلہ میں ایک سے زیادہ جگہ جج نے مجرم کے اس فعل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی.جیسا کہ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے.ملزم نے دل کی گہرائیوں سے سوچا کہ یہ تو ہین ہے ( یعنی تو ہین رسالت ہے ہے ) اور اس کی مناسب سزا ما سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوسکتی کہ تو ہین کرنے والے کا خاتمہ کر دیا جائے.اور پھر لکھا کہ ملزم کی بے پایاں محبت جو کہ اُس کو حضور اکرم ﷺ کے ساتھ ہے اور جو کہ اسے قدرت نے عطا کی اسی عقیدت نے اس اقدام کے لئے اس کی راہنمائی کی.ان سطور میں مجرم کی مدح سرائی تو کی گئی ہے لیکن اس اہم امر کی وضاحت نہیں کی گئی کہ مجرم نے یا عدالت نے یہ نتیجہ کس طرح اخذ کر لیا کہ جس پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے اس نے رسول کریم ﷺ کی تو ہین کی تھی.اگر جرم کا محرک یہی امر تھا تو مجرم کو بتانا چاہیئے تھا کہ اس نے اس موقع پر دیکھا یا سنا تھا کہ توہین رسالت کی جا رہی ہے.اور اس بات کو ثابت کرنا چاہیے تھا.اس طرح ایک مفروضہ قائم کر کے جرم کو برحق قرار دینے کی کوشش کی جا رہی تھی.اور سب سے بڑا ظلم یہ کہ جو اُس دور میں

Page 462

452 رسول کریم ﷺ کا سب سے بڑا عاشق تھا اسی پر توہین رسالت کا الزام لگایا جارہا تھا.حج نے ایک سال قبل احمدیوں کے خلاف بر پا ہونے والی شورش کا مختصر ذکر کر کے لکھا کہ ملزم کا ذہن اس سے متاثر ہو ا تھا اور پھر یہ رائے دی یہ پس منظر جرم کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے اور خاص طور پر جس غیر پیشہ وارانہ انداز میں مجرم نے وار کیا اور جس صفائی سے اُس نے اقرار جرم کیا جسے اس اقرار کے بغیر ثابت کرنا مشکل تھا.حقیقت یہ تھی کہ یہ وار انتہائی پیشہ وارانہ انداز میں کیا گیا تھا.ایک ہی وار میں حملہ آور تقریبا شہ رگ تک پہنچ گیا تھا.اور گردن پر شہ رگ کے قریب اتنے گہرے زخم سے صرف یہ ہی نتیجہ نکالا جا سکتا تھا کہ مجرم کا رادہ قتل کا تھا.اور یہ بات نا قابل فہم ہے کہ اگر کسی شورش سے متاثر ہو کر اقدام مقتل کیا جائے تو اس کی بنا پر مجرم رحم کا مستحق کس طرح ہو جاتا ہے.فیصلہ کے اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جج کو حملہ آور سے پوری ہمدردی تھی.اس ہمدردی کی وجہ بھی عیاں ہے.حج نہ صرف جماعت احمدیہ کے عقائد سے اختلاف رکھتا ہے بلکہ اس اختلاف کو وہ اپنے عدالتی فرائض پر بھی اثر انداز ہونے کا موقع دے رہا ہے.جیسا کہ فیصلہ میں لکھا گیا ، عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کے ایمان میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور حضور اکرم ﷺ کے بعد ہر وہ شخص جس نے حضور کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اسے ہر ملک اور ہر دور میں مسلمانوں نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا.اسے نظر انداز کیا اور اس کے دعوے کا مضحکہ اڑایا.حالانکہ پوری دنیا میں یہ ایک مسلمہ بات سمجھی جاتی ہے کہ عدالت کو غیر جانبدار ہونا چاہیے اور حج کے ذاتی خیالات، نظریات اور پسند اور نا پسند کو عدالتی فیصلہ یا عدالتی کاروائی پر اثر انداز نہیں ہونا چاہئیے.اور آئین پاکستان میں اعلیٰ عدالتوں کے لئے جو حلف رکھا گیا ہے اُس میں یہ عہد بھی شامل ہے کہ حج کے ذاتی موافقانہ یا مخالفانہ خیالات اس کے فرائض منصبی کی ادائیگی کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے.فاضل جج نے اپنے فیصلے میں نہ صرف جماعت احمدیہ اور حضرت بانی سلسلسہ احمدیہ کے عقائد سے اختلاف کیا بلکہ انہیں مضحکہ خیز بھی قرار دیا.ایسی صورتِ حال میں حج کو غیر جانبدار نہیں قرار دیا جاسکتا.

Page 463

453 سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا کہ اس گھناؤنے جرم کو رسول کریم ﷺ کی محبت کا نتیجہ بیان کیا گیا.حالانکہ آنحضرت ﷺ تو تمام عمر اپنے جانی دشمنوں کی بھی خیر خواہی کرتے رہے تھے.ایسا مجرم ابو جہل کے نقش قدم پر چلنے والا تو کہلا سکتا ہے، عاشق رسول ہر گز نہیں کہلا سکتا.اور سیشن عدالت کا کام صرف یہ تھا کہ اس قاتلانہ حملے کے مقدمے کا فیصلہ کرے.ختم نبوت کے مسئلے پر اپنی ذاتی رائے کے اظہار کا یہ موقع نہیں تھا.اور یہ تمہید اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کا حصہ تھی کہ یہ حملہ کسی سازش کا حصہ نہیں تھا بلکہ انفرادی فعل تھا.جج نے اپنے فیصلہ میں بہت زور دے کر لکھا اس بات کا ذرہ بھر بھی ثبوت نہیں ملتا کہ یہ اقدام کسی سازش کا حصہ تھا.یا یہ لڑکا کسی کے ہاتھ میں ہتھیار بنا ہو ا تھا.اب ہم حملہ آور کے حالات اور پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ایک انفرادی فعل تھا یا یہ لڑکا کچھ ہاتھوں میں آلہ کار بنا ہوا تھا.مجرم چک ۲۲۰ حج والا کا رہنے والا تھا جو لائکپور سے دو میل دور جھنگ کی سڑک پر تھا.اس کا باپ منصب دار ساٹھ ستر سال کا معمر شخص اور جوڑوں کے درد میں مبتلا تھا.اور تقسیم ہند سے قبل جمال پور گاؤں ضلع جالندھر میں رہتا تھا.یہ گاؤں جالندھر سے سترہ اٹھارہ میل کے فاصلے پر تھا.گذارہ تنگی سے ہوتا تھا.چار بھائی تھے.بڑے بھائی معمولی ملازمت کرتے تھے یا ایک بھائی قلیل اراضی پر کاشتکاری کا کام کرتا تھا.چک ۲۲۰ حج والا میں جماعت کی کوئی خاص مخالفت نہیں تھی اور نہ ہی ۱۹۵۳ء کے فسادات میں یہاں جماعت کے خلاف شورش میں کوئی خاطر خواہ حصہ لیا گیا تھا.مجرم عبد الحمید لائکپور کے سٹی مسلم ہائی اسکول میں پڑھتا تھا اور پڑھائی میں نالائق طالب علم سمجھا جاتا تھا.البتہ مذہبی مسئلے مسائل پر بہت گفتگو کیا کرتا تھا.جامع مسجد لائلپور میں مولوی محمد یونس صاحب نام کا مولوی ہوتا تھا جو خطرناک احراری اور جماعت احمدیہ کے بہت خلاف تھا.اس مولوی نے ۱۹۵۳ء کی شورش میں حصہ لیا تھا.اور جب پنجاب سے جتھے دارالحکومت کراچی بھجوائے گئے تو یہ بھی جتھہ لے کر کراچی گیا تھا مگر خود گرفتار نہیں ہوا تھا اور حالات کے پرسکون ہونے کے بہت بعد واپس لائکپور آیا تھا.عبدالحمید کا اس مولوی کے پاس کافی آنا جانا تھا اور اس سے کافی مراسم تھے.یہ مولوی ۱۹۵۳ء میں لائکپور میں فسادات کی آگ بھڑ کانے میں پیش پیش

Page 464

454 تھا.مگر اس واقعہ سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل یہ مولوی اس دنیا سے کوچ کر گیا تھا.اور اس کی جگہ جو مولوی صاحب مقرر ہوئے وہ جامع مسجد کی خطیب ہونے کے علاوہ سٹی مسلم ہائی سکول میں پڑھاتے بھی تھے.اور ان کا نام مولوی شبیر تھا.اور مودودی صاحب کے پیروکار تھے.فسادات کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی کے لئے گواہی بھی دی تھی.ان سے بھی عبدالحمید کے تعلقات تھے.اور عبد الحمید کا ان کے پاس آنا جانا تھا.مسلم سٹی ہائی سکول میں آنے سے پہلے عبد الحمید ایم بی ہائی سکول میں پڑھا کرتا تھا.اس سکول میں ماسٹر تاج محمود نام کے ایک استاد پڑھاتا تھا.جن کا تعلق مجلس احرار سے تھا جماعت کے شدید مخالف تھا.۱۹۵۳ء میں جب پولیس نے ان کو گرفتار کرنے کے لئے چھاپے مارنے شروع کئے تو یہ مجرم عبد الحمید کے گاؤں چک ۲۲۰ حج والا کے قریب کے ایک گاؤں میں روپوش ہو گیا اور وہاں پولیس نے انہیں پاتھیوں میں چھپا ہوا پکڑ کر گرفتار کیا.اور حضور پر حملہ سے کچھ ہی عرصہ قبل یہ شخص رہا ہو کر واپس آیا تھا اور اس کا سکول کے طلبا نے استقبال بھی کیا تھا.عبدالحمید کے مولوی تاج محمود سے بھی قریبی تعلقات تھے.اور جماعت کے مخالف ایک مولوی محمد اسلم نام کا بھی اس وقت سٹی مسلم ہائی سکول میں پڑھاتا تھا اور یہاں پر آنے سے پہلے وہ ایم بی ہائی سکول میں پڑھایا کرتا تھا.( یہ وہی سکول ہے جہاں پر پہلے عبد الحمید پڑھا کرتا تھا.).یہی شخص جماعت کا شدید مخالف تھا اور کلاس میں کھلے بندوں جماعت احمدیہ کے خلاف بولا کرتا تھا.اور اس نے ۱۹۵۳ء کی شورش میں اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے بھی پیش کیا تھا.گو کہ مجرم کے گھر یلو حالات اچھے نہ تھے لیکن خاندانی طور پر اس کا تعلق عزیز دین نام کے ایک ایم ایل اے کے سسرال سے تھا جو دولتانہ صاحب کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے.قاتلانہ حملہ سے قبل عبدالحمید نے کئی ساتھیوں سے کہا کہ اب میں نے چلے جانا ہے اور پھر نہیں آنا.اور اپنی یہ خواب بھی سنائی کہ میں نے مرزا محمود کو چاقو مارا ہے اور پھر خود کو مارا ہے مگر میں بیچ گیا ہوں.عبد الحمید سکول میں صرف حاضری لگایا کرتا تھا اور اس کا زیادہ تر وقت سکول سے باہر ہی گذرتا تھا.اس کے سکول یعنی سٹی مسلم ہائی سکول میں طلبہ میں نظم و ضبط بالکل نہیں تھا اور ماحول ایسا تھا کہ اس قاتلانہ حملہ سے چار پانچ ماہ قبل ایک طالب علم نے ایک اور طالب علم کو چاقو مار کر تل کر دیا تھا.

Page 465

455 اور اسی سال جنوری میں ایک طالب علم نے مفلر سے ایک اور طالب علم کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی تھی مگر بر وقت امداد سے اُس لڑکے کی جان بچ گئی.مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ عبد الحمید ایک کم عمر نوجوان تھا اور اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی.مگر اس کے جماعت احمدیہ کے نمایاں مخالفین سے قریبی تعلقات تھے اور ان کے پاس آنا جانا تھا.اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اس کے اردگرد جماعت کے مخالف اور تشدد پسند مولویوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا.اور اس کے ذہن کو انتہائی اقدامات کے لئے تیار کیا گیا تھا تا کہ اس آلہ کار کے ذریعہ اپنے مقاصد حاصل کئے جا سکیں.حتی کہ مجرم کو اس طرح کی خواہیں بھی آنی شروع ہو گئی تھیں.یہ سب حقائق یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ایک منظم سازش کے تحت اس لڑکے کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی پر قاتلانہ حملہ کے لئے تیار کیا گیا تھا.اور اب جب کہ اس واقعہ کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے ، شدت پسند مولوی حضرات اس قسم کے طریقہ کار کو بہت بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں اور اسی انداز میں کم علم اور کچے ذہن کے نوجوانوں کے ذہنوں کو تیار کیا جاتا ہے کہ اس قسم کے قاتلانہ حملے کرنا عین نیکی ہے اور پھر ان سے مختلف وارداتیں کرائی جاتی ہیں.اس بہیمانہ اور خلاف اسلام طریق سے پورے ملک کا امن برباد ہو چکا ہے.جب حضرت مصلح موعود پر اس طرز کا قاتلانہ حملہ کرایا گیا تھا تو اسے اس بنیاد پر نظر انداز کر دیا گیا تھا کہ یہ تو احمدیوں کے خلاف ہے اس پر کیا توجہ دینی.احمدیوں کی حفاظت تو اللہ تعالیٰ کر رہا ہے لیکن اس خوفناک غلطی کا خمیازہ پاکستان اب تک بھگت رہا ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرے نہ معلوم کب تک اہل پاکستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا.لیکن اس قسم کی سازشوں کا تدارک کرنے کی بجائے سیشن عدالت کے فیصلے میں شدت پسندی کی حوصلہ شکنی کی بجائے جماعت احمدیہ کے عقائد پر نکتہ چینی کی گئی تھی.بہر حال جماعت کی درخواست پر جولائی ۱۹۵۵ء میں ہائی کورٹ نے ، جماعت احمدیہ کے خلاف ریمارکس عدالتی فیصلے سے حذف قرار دے دیئے.(۲۶) (1) الموعود، تقریر حضرت مصلح موعودؓ ، جلسہ سالانه ۲۸ دسمبر ۱۹۴۴ء ص ۱۷۸ تا ۱۸۲ (۲) الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۳

Page 466

(۳) الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱ (۴) الفضل ۱۲۷ کتوبر ۱۹۵۵ء ص۳ (۵) بدر ۱۶ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱ (1) ا صبح ۱۲ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۲۱ ( ۷ ) الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۵ء ص ۴ (۸) ملت ۱۳ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱ (۹) زمیندار ۱۲ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱ (۱۰) جنگ ۱۳ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱ و ۶ (۱۱) نوائے پاکستان ۱۳ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱ (۱۲) نوائے وقت ۱۴ مارچ ۱۹۵۴ ء ص ۵ (۱۳) نوائے وقت ۱۶ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۶ (۱۴) الاعتصام ۱۹ مارچ ۱۹۵۴ ء ص ۲ (۱۵) آفاق ۲۲ مارچ ص ۶ (۱۶) کوہستان ۱۲ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱ (۱۷) پرتاب ۱۵ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۲ (۱۸) دلچسپ ۲۰ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱ (۱۹) آواز حق ۲۱ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱ (۲۰) تنظیم ۲۱ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۲ (۲۱) الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱ (۲۲) ا صبح ۱۹ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱ 456 Pakistan Penal Code, chapter XVI, 320(rr) (۲۴) ملت ۱۵مئی ۱۹۵۴ء ص ۲ (۲۵) ملت ۲۸ مئی ۱۹۵۴ء ص ۲ (۲۶) الفضل ۶ جولائی ۱۹۵۵ء ص ۱

Page 467

457 حضرت خلیفہ اسیح الثانی پر بیماری کا حملہ اور دورہ یورپ قاتلانہ حملے کے بعد حضور کی صحت کمزور رہنے لگی تھی.کمزور صحت اور ۶۶ برس کی عمر کے باوجود حضور کو جماعتی امور کی ادائیگی کے لئے دن رات مصروف رہنا پڑتا تھا.۲۶ فروری ۱۹۵۵ء کو حضور نے حسب پروگرام عورتوں میں قرآن کریم کا درس دیا.مغرب کی نماز کے بعد حضور لیٹے ہوئے تھے، جب حضور نے اٹھنا چاہا تو حضور گر پڑے اور بیہوشی طاری ہوگئی.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اس وقت آپ کے پاس تھیں.انہوں نے بمشکل آپ کو سہارا دے کر چار پائی پر لیٹا یا.اسوقت آپ کے جسم مبارک کا بایاں حصہ فالج کی حالت میں تھا اور زبان پر بھی کسی قدر اثر تھا.معائنہ ہونے پر معلوم ہوا کہ آپ کا بلڈ پریشر زیادہ ہے.مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے حضور کا علاج شروع کیا اور لاہور سے ماہر ڈاکٹروں کو بھی بلایا گیا.جب مساجد میں دعاؤں کے لئے اعلان کرایا گیا تو بے شمار احباب بے قراری کی حالت میں قصر خلافت پہنچنا شروع ہو گئے.وہ رات اہلِ ربوہ نے دعاؤں اور نوافل میں مشغول گذاری اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلد ہی جسم سے فالج کا اثر ختم ہونا شروع ہوا اور حس واپس آنی شروع ہوئی.اور حضور جلد ہوش میں آگئے.اگلے روز تک صرف بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر اور کسی قدر زبان پر اثر تھا.باقی حصے سے بیماری کا اثر غائب ہو چکا تھا.بعض ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ حضور کو Cerebral Thrombosis کا حملہ ہوا ہے اور بعض کی رائے تھی کہ یہ حملہ دماغ کی رگوں کے Vasospasm کی وجہ سے تھا.پوری جماعت صدقات اور دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا فضل طلب کر رہی تھی.4 مارچ تک حالت بہتر ہو رہی تھی لیکن ابھی بائیں حصے کی حرکت مکمل نہیں تھی اور کسی قدر اثر حافظہ اور زبان پر تھا.ے مارچ کو ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق چند قدم چلایا گیا اور آپ آدھے گھنٹے کے لئے کرسی پر رونق افروز رہے.اس سے آپ کی طبیعت میں بشاشت پیدا ہوئی.9 مارچ کو حضور علاج کے لئے لاہور تشریف لے گئے.حضرت مصلح موعودؓ کی صحت کے پیش نظر ڈاکٹر صاحبان مشورہ دے رہے تھے کہ آپ مکمل طور پر آرام فرما ئیں اور آپ کو ہر قسم کے تفکرات اور پریشانیوں سے دور رکھا جائے.اس کے ساتھ یہ

Page 468

458 رائے بھی دی جا رہی تھی کہ بیشتر اس کے کہ بیماری کا اثر بڑھے بہتر ہوگا کہ آپ علاج کے لئے بیرون ملک تشریف لے جائیں.امریکہ جانے کی تجویز تھی مگر وہاں کے لئے زر مبادلہ حاصل کرنا مشکل نظر آ رہا تھا.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تار مشورہ دیا کہ اب یورپ میں علاج کی بہت سی سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں اس لئے مناسب ہوگا اگر حضور علاج کے لئے یورپ تشریف لے آئیں.(۷۱) حضور نے اا مارچ کو جماعت کے نام ایک پیغام میں اپنی علالت کی تفصیلات بیان فرمائیں اور اس پیغام کے آخر میں آپ نے تحریر فرمایا اپنے پرانے حق کی بناء پر جو پچاس سال سے زیادہ عرصہ کا ہے.تمام بہنوں اور بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بے عملی کی زندگی سے بچائے.کیونکہ اگر یہ زندگی خدانخواستہ لمبی ہونی ہے تو مجھے اپنی زندگی سے موت بھلی معلوم ہو گی.سو میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے خدا جب میرا وجود اس دنیا کے لئے بیکار ہے.تو تو مجھے اپنے پاس جگہ دے.جہاں میں کام کر سکوں.سو اگر چاہتے ہو کہ میری نگرانی میں اسلام کی فتح کا دن دیکھو تو دعاؤں اور قربانیوں میں لگ جاؤ.تا کہ خدا تمہاری مدد کرے اور جو کام ہم نے مل کر شروع کیا تھا.وہ ہم اپنی آنکھوں سے کامیاب طور پر پورا ہوتا دیکھیں.(۸) یورپ جانے کا فیصلہ ہوتا ہے: اس سے قبل ۱۹۵۴ء کی مجلس مشاورت میں حضور کی خدمت میں عرض کی گئی تھی کہ حضور علاج کے لئے امریکہ تشریف لے جائیں.مگر اُس وقت حضور نے مختلف وجوہات کی بنا پر یہ مشورہ قبول نہیں فرمایا تھا.اور یہ بھی فرمایا تھا کہ میری صحت اس سفر کی اجازت نہیں دیتی.مگر اب طبی ضروریات کی بنا پر یہ سفر ضروری ہو گیا تھا.علاوہ ازیں یورپ کے ممالک میں جماعت کے مشن بھی ایک طویل عرصہ سے اس بات سے محروم تھے کہ خلیفہ وقت خود وہاں رونق افروز ہوں اور ان کی براہ راست راہنمائی فرمائیں.اس بات کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا تھا کہ یورپ میں جماعت کے مبلغین کی ایک

Page 469

459 کا نفرنس منعقد کی جائے اور حضور اس میں بنفس نفیس شامل ہوں.(۹) جب یہ طے ہو گیا کہ حضور ۲۳ مارچ کو ربوہ سے لاہور تشریف لے جائیں گے تاکہ وہاں سے پہلے کراچی اور پھر یورپ تشریف لے جاسکیں تو آپ نے ان حالات میں جماعت کے نام ایک پیغام میں منافقین کی طرف سے ممکنہ فتنہ سے خبر دار کرتے ہوئے تحریر فرمایا احباب کو چاہیے کہ دعاؤں میں لگے رہیں.تا کہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو.میں بھی انشاء اللہ جس حد تک مجھے توفیق ملی.دعائیں کرتا جاؤں گا...احباب کو خوب یاد رکھنا چاہیے کہ جب کبھی ذمہ دار افسر ادھر اُدھر ہوتا ہے.تو شریر لوگ فتنہ پیدا کرتے ہیں.ہماری جماعت بھی ایسے شریروں سے خالی نہیں.بعض لوگ اپنے لئے درجہ چاہتے ہیں.بعض لوگ اپنے لئے شہرت چاہتے ہیں.ایسا کوئی شخص بھی پیدا ہو یا کوئی بھی آواز اُٹھائے خواہ کسی گاؤں میں یا شہر میں یا علاقہ میں تو اس بات کو کبھی برداشت نہ کریں.کبھی یہ نہ سمجھیں کہ یہ معمولی بات ہے.فساد کوئی بھی معمولی نہیں ہوتا.حدیثیں اس پر شاہد ہیں.جب کوئی شخص اختلافی آواز اٹھائے فوراً لاحول اور استغفار پڑھیں.(10) حضور نے اپنی عدم موجودگی میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو امیر مقامی اور مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر کو ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا.(۱۱) ربوہ سے روانگی: ۲۳ مارچ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ربوہ سے لاہور روانہ ہوئے.تقریباً نو بجے آپ قصر خلافت کے اُس دروازے سے باہر تشریف لائے جو مسجد مبارک کے عقب کی جانب ہے.آپ نے اپنے داماد مکرم سید داؤ د احمد صاحب کے کندھے کا سہارا لیا ہوا تھا.حضور نے گاڑی میں بیٹھ کر اجتمائی دعا کرائی.احباب اس عاجزی اور الحاج سے دعائیں کر رہے تھے کہ مسجد مبارک اور قصر خلافت سے ملحقہ سارا علاقہ ہچکیوں اور سکیوں کی درد انگیز آوازوں سے گونج رہا تھا.جب حضور کی موٹر حرکت میں آئی تو فضا فی امان اللہ اور بسلامت روی و باز آئی کی آوازوں سے گونج

Page 470

460 اُٹھی.اسی وقت صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی طرف سے بکروں کی قربانی کی گئی اور جب حضور کی کار احاطہ مسجد مبارک کے گیٹ سے باہر نکلی ربوہ کی مقامی جماعت کی طرف سے بکروں کی قربانی کی گئی.تمام راستوں پر خدام اپنے آقا کو الوداع کہنے کے لئے کھڑے تھے.حضور قصر خلافت سے حضرت اماں جان کے مزار پر تشریف لے گئے اور کار میں بیٹھے ہوئے حضور نے دعا کی.جب حضور کی گاڑی لاہور جانے والی پختہ سڑک پر پہنچی تو بہت سے احباب دوڑ کر اس سڑک کے کنارے جمع ہو چکے تھے..اس کے بعد قافلہ لاہور کے لئے روانہ ہو گیا.جب تک حضور کی کار نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی احباب پختہ سڑک کے کنارے کھڑے حضور کی کارکو دیکھتے رہے اور پھر دعائیں کرتے ہوئے واپس اپنے گھروں کولوٹے.(۱۲) کچھ عرصہ لا ہور میں قیام کے بعد حضور کراچی تشریف لے گئے.کراچی جا کر حضور کی خدمت میں ڈاکٹروں نے عرض کی کہ اگر حضور نماز جمعہ کے لئے مسجد تشریف لے جائیں لیکن خطبہ مختصر ارشاد فرما ئیں تو یہ حضور کی طبیعت کے لئے بہتر ہو گا.چنانچہ حضور نے ۱۵ اپریل ۱۹۵۵ء کو جمعہ پڑھایا اور ایک مختصر خطبہ ارشادفرمایا.اس میں آپ نے فرمایا چند دنوں کے اندر اندر ہم انشاء اللہ چلے جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون ملے گا اور کون نہیں.میں جاتے ہوئے جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس ایک ایسا خزانہ ہے.جو کسی کے پاس نہیں ہے اور وہ خزانہ دعا کا ہے.ہم نے ہمیشہ اس سے پہاڑ اُڑتے اور سمندر خشک ہوتے دیکھے ہیں.اس خزانہ کو مضبوطی سے پکڑو اور ہاتھ سے جانے نہ دو.(۱۳) بنگال میں چند معترضین کی طرف سے فتنہ : جب کراچی میں حضور اور آپ کے قافلے میں شامل احباب یورپ جانے کے لئے تیاری کر رہے تھے اور مخلصین جماعت دن رات اس سفر کی کامیابی اور حضور کی کامل شفا کے لئے دعا گو تھے تو منافقین کا ایک مختصر ٹولہ اس وقت اپنی ریشہ دوانیوں میں مشغول تھا.اور حضور کی بیماری اور دورے کو اپنے لئے ایک نادر موقع خیال کر رہا تھا.بنگال میں چند معترضین نے یہ پراپیگنڈا شروع

Page 471

461 کر دیا کہ خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے اور جب خلیفہ غلطی کر سکتا ہے تو پھر اس کے حکم کی اطاعت ضروری ں ہے.جب حضور کو اس فتنہ کی اطلاع ملی تو آپ نے مشرقی بنگال کے احمدیوں کے نام ایک خط تحریر فرمایا جو الفضل میں بھی شائع کیا گیا.اس میں حضور نے تحریر فرمایا د مجھے حال ہی میں ایک رپورٹ ملی ہے کہ برہمن بڑیہ کے دولت احمد خان اور ڈھا کہ کے شاہجہان صاحب چند دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اس خیال کو ہوا دے رہے ہیں.چونکہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اس کی اطاعت لازمی حکم کا درجہ نہیں رکھتی.اگر یہ صحیح ہے تو پھر یہ بھی صحیح ہے کہ صوبائی امیر محمد صاحب ڈھاکہ کے شاہجہان صاحب اور برہمن بڑیہ کے دولت احمد صاحب بھی غلطی کر سکتے ہیں.سو برادران جب صورت یہ ہے کہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے، صوبائی امیر غلطی کر سکتا ہے ،شاہجہان صاحب غلطی کر سکتے ہیں.دولت احمد صاحب غلطی کر سکتے ہیں تو پھر اس صورت میں خلیفہ کی آواز کو لازماً فوقیت دینی پڑے گی کیونکہ وہی ایک ایسا شخص ہے کہ جسے ساری جماعت منتخب کرتی ہے.کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ یہ مذکورہ بالا حضرات ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلیفہ غلطی کر ہے.اس لئے وہ جماعت کے افراد سے یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں.لیکن دوسری طرف وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر چند کہ وہ خود بھی غلطی کر سکتے ہیں تاہم ان کی رائے خلیفہ اور اسکے مشیروں پر فائق سمجھی جانی چاہئیے.اس لئے ان کے اپنے خیال میں انہیں اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ خلیفہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں کہ چونکہ وہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اسے جماعت سے اطاعت کی توقع رکھنے کا حق حاصل نہیں.اور یہ کہ جہاں تک اطاعت کی توقع رکھنے کا سوال ہے.یہ صرف بنگال کے صوبائی امیر کا حق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے.یاد رکھو کہ یہ لوگ تمہارے ایمانوں پر ڈاکہ ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں اور تمہیں صدیوں تک کے لئے اس طرح تباہ کرنا چاہتے ہیں جس طرح کہ ماضی میں مسلمان تباہی سے دوچار ہوئے.(۱۴) اس خط میں حضور نے بنگال کے احمدیوں کو تلقین فرمائی کہ اگر وہ اپنے مرکز اور خلیفہ سے محبت رکھتے ہیں تو وہ حتمی طور پر ان معترضین سے اپنا تعلق ختم کر لیں اور ان سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہ سکتا.

Page 472

462 رکھیں.آخر میں حضور نے تحریر فرمایا، د میں تم سے صرف یہ کہتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے.اور جو کوئی بھی میرے خلاف اُٹھتا ہے وہ یقیناً خدا کی طرف سے سزا پائے گا.اور اس کا اور اس کی پارٹی کا اثر ورسوخ اسے خدا کے غضب سے نہیں بچا سکے گا.مخالف اخبارات کی فتنہ پردازی: جماعت کے مخالفین اس موقع پر بھی اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آئے.پہلے ۱۹۵۳ء میں جماعت کے خلاف فسادات بر پاکئے گئے.جب اس سے مقاصد حاصل نہیں ہوئے تو اگلے برس ۱۹۵۴ء میں حضور پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا.اس کے ساتھ یہ افواہ پھیلائی گئی کہ جماعت احمدیہ میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور یہ قاتلانہ حملہ بھی ایک احمدی نے کیا تھا.جب دونوں سازشوں میں ناکامی ہو گئی تو اب حضور کی بیماری کو اپنے لئے ایک موقع سمجھتے ہوئے اس گروہ نے ایک بار پھر اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں.اس بار بھی کچھ اخبارات کو اپنا آلہ کار بنایا گیا.اس سے پہلے بھی تحقیقاتی عدالت میں یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ جماعت کے مخالفین نے کئی اخبارات کو خرید کر انہیں جماعت کی مخالفت کی آگ بھڑ کانے کے لئے استعمال کیا تھا.اب بھی کچھ اخبارات فتنہ انگیزی کی اس مہم میں پیش پیش تھے.اور اس قسم کی خبریں شائع کر رہے تھے کہ امام جماعت احمد یہ اپنے تمام خاندان سمیت یورپ جا رہے ہیں.اور اس وجہ سے احمدیوں میں شدید بد دلی اور مایوسی پھیل گئی ہے.اور جماعت احمدیہ میں سازشوں کا جال بچھ گیا ہے اور مختلف گروہ جانشینی کے مسئلہ پر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں اور جماعت احمدیہ میں ایک مضبوط گروہ متوازی جماعت بنانے کی کوششیں کر رہا ہے جو اپنا ایک علیحدہ امیر منتخب کرے گا.وغیرہ وغیرہ چنانچہ اخبار مغربی پاکستان نے یہ خبر شائع کی وو چنانچہ مرزا بشیر الدین محمود کے اپنے خاندان سمیت کراچی پہنچنے کے بعد ربوہ میں مرزائیوں میں ایک عام مایوسی ، بد دلی اور ہیجان اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی.اور سازشوں کا جال بچھ گیا.اور مرزائیوں کی مختلف پارٹیاں اور افراد مرزا بشیر الدین محمود کی

Page 473

463 جانشینی کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگے.چنانچہ مستند اور باخبر حلقوں کا بیان ہے.کہ اس وقت ربوہ کی آبادی میں بہت ہیجان اور اضطراب بر پا ہے.اور ہر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ جماعت کی عنانِ اقتدار اس کے ہاتھ میں آجائے.مضبوط عنصر اس کوشش میں ہے کہ جماعت کی امارت پر قبضہ کر لیا جائے.یا متوازی جماعت جنم دے کر نیا امیر منتخب کر لیا جائے.‘ (۱۵) افواہیں اڑانے کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح جماعت میں انتشار اور مایوسی پیدا کی جائے.اور اس طریق پر منافقین کے اُس گروہ کو بھی شہ دی جائے جن کی پرورش وہی ہاتھ کر رہے ہوتے ہیں جو ان اخبارات کو غیبی مدد دے کر جماعت کی مخالفت پر آمادہ کرتے ہیں.چنانچہ ان اخبارات نے جن میں زمیندار اور مغربی پاکستان بھی شامل تھے یہ خبریں شائع کرنا شروع کر دیں کہ اب جماعت کا مرکز ربوہ سے انڈونیشیا میں منتقل کیا جا رہا ہے.اور زمیندار نے تو پوری کہانی بنا کر شائع کی کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے احمدیوں کو یہ ڈھارس تھی کہ حکومت میں ہمارا نمائندہ ہے مگر ان کے استعفیٰ کے ساتھ اب احمدی اپنے تبلیغی ذرائع کو محدود پاتے ہیں.اس لئے وہ اب اپنا مرکز انڈونیشیا منتقل کر رہے ہیں.اور اس غرض کے لئے مرزا ناصر احمد صاحب نے انڈونیشیا کا دورہ بھی کیا ہے.حالانکہ آپ تمام عمر کبھی انڈو نیشیا نہیں گئے تھے.) (۱۷،۱۶) ایسے اخبارات جب مستند اور باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہیں تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک ایڈیٹر یا صحافی نے دفتر کی کرسی پر بیٹھے بیٹھے ایک خبر گھڑی اور کا تب یا سٹینو گرافر کو لکھنے کے لئے دے دی.ان کے باخبر ہونے کا عالم یہ تھا کہ یہ خبر چھاپتے ہوئے زمیندار نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا نام تک غلط لکھا ہوا تھا اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو حضور کا ایک قریبی عزیز لکھا ہوا تھا.جب کہ وہ صرف آپ کے عزیز نہیں بیٹے تھے لیکن جماعت کی تاریخ میں بارہا اس انداز میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.خاص طور پر جب بھی خلیفہ وقت علیل ہوں تو اس انداز میں فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سازش ہمیشہ ناکام ہوتی رہی ہے مگر سورۃ الناس کی روشنی میں مومنوں کی جماعت کو ہمیشہ ان وسوسہ اندازوں سے ہوشیار رہنا چاہئیے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنی چاہئیے.اور قرآنِ کریم کا حکم ہے کہ جب مومنوں کے

Page 474

464.پاس مختلف قسم کی افواہیں پہنچتی ہیں تو چاہیے کہ وہ انہیں رسول اور اولی الامر کے پاس پہنچائیں تا کہ وہ ان سے حقیقت معلوم کر لیں جب کہ منافقین کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خبروں کو مشہور کر دیتے ہیں.( النساء ۸۴).بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ اخبارات ایک منظم سازش کا حصہ بن کر یہ خبریں شائع کر رہے تھے.اس صورتِ حال میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل میں ایک نوٹ شائع فرمایا جس کا عنوان تھا.ربوہ کے متعلق ایک مفتر یانہ پراپیگنڈا کی تردید.جماعت کوفتنہ انگیزوں کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئیے.اس میں آپ نے تحریر فرمایا 'پنجاب اور کراچی کے بعض اخباروں میں اس قسم کے فتنہ انگیز نوٹ شائع ہوئے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کے ربوہ سے تشریف لے جانے کے بعد ربوہ میں نعوذ بااللہ پارٹی بازی اور سازشوں کا بازار گرم ہے اور مختلف پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور نو جوان سروں پر کفن باند ھے پھرتے ہیں اور ہر لحظہ خونریزی کا خطرہ ہے.جماعت کے احباب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ رپورٹیں از سرتا پا افترا اور سو فیصدی جھوٹ ہیں جو ہمارے ایسے مخالفین نے جنہیں جھوٹ سے کوئی پر ہیز نہیں اپنے قدیم طریق کے مطابق حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی غیر حاضری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے مشہور کرنی شروع کی ہیں تا کہ ایک طرف تو جماعت کے مخالف عناصر کو جماعت کے خلاف یہ خیال پیدا کر کے اکسایا جائے کہ اب یہ جماعت کمزور ہورہی ہے اور دوسری طرف خود جماعت کے سادہ لوح اور نا واقف طبقہ کے دلوں میں یہ گبھراہٹ اور بے چینی پیدا کی جائے کہ نامعلوم جماعت کے مرکز میں کیا ہو رہا ہے جس سے ہم دور افتادہ لوگ بالکل بے خبر ہیں.....باقی رہا جماعت کا سوال سو علاقہ وارامراء اور صدر صاحبان کو میری یہ نصیحت ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقہ میں نا واقف اور دور افتادہ دوستوں کو اس قسم کے فتنوں کے متعلق باخبر اور ہوشیار رکھیں اور انہیں بتا دیں کہ یہ سب جھوٹا اور مفتر یانہ پراپیگنڈا ہے جو بعض مخالفین کی طرف سے جماعت اور مرکز کی طرف سے کیا جا رہا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ یہ پراپیگنڈا

Page 475

465 ان خدشات کی عملی تصدیق ہے جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے سفر پر جانے سے قبل جماعت پر ظاہر کر کے اسے متنبہ کیا تھا کہ امام کی غیر حاضری میں اس قسم کے فتنے اُٹھ سکتے ہیں.جماعت کو اس خطرہ کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیئے...پس دوستوں کو چاہیے کہ ان ایام میں خاص طور پر دعاؤں اور صدقہ و خیرات سے کام لیں اور اپنے اندر تقویٰ اور طہارت نفس پیدا کریں...(۱۸) کراچی سے یورپ کے لیے روانگی: یورپ جانے کے لئے حضور کے قافلہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا.پہلا قافلہ مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی زیر نگرانی ۱۲۶ اپریل کو کراچی سے لنڈن کے لئے روانہ ہوا.اس میں حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ ، حضرت سیده ام وسیم صاحبہ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ اور بیٹی اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور حضرت مصلح موعودؓ کے چار اور بیٹے ، حضور کے داماد مکرم میر داؤ د احمد اپنی بیگم صاحبہ اور دو بچوں کے ہمراہ ، اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب شامل تھے.حضور کے ہمراہ حضور کی بیگمات حضرت سیدہ ام متین صاحبہ اور حضرت سیدہ مہر آپا، حضور کی دو صاحبزادیاں محترمہ امتہ المتین صاحبہ اور محترمہ امتہ الجمیل صاحبہ، مکرم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے روانہ ہونا تھا.اور حضور کے ساتھ روانہ ہونے والے قافلہ نے عرب ممالک سے ہو کر یورپ جانا تھا.اور تیسرے قافلے میں مکرم شریف اشرف صاحب، مکرم قریشی عبد الرشید صاحب، ملک مبارک احمد صاحب، کیپٹن محمد حسین چیمہ صاحب اور عبد اللطیف صاحب شامل تھے.تیسرا قافلہ عملہ کے اراکین پر مشتمل تھا اور اس نے ۳ مئی کو کراچی سے لنڈن روانہ ہونا تھا.۲۹ اور ۱۳۰ اپریل کی درمیانی شب کو حضرت مصلح موعودؓ کراچی سے یورپ جانے کے لئے روانہ ہوئے.سفر کے پہلے مرحلے میں آپ نے کراچی سے دمشق جانا تھا.رات کو حضور کو رخصت کرنے کے لئے احباب جماعت حضور کی قیام گاہ کوئٹہ والا بلڈنگ مالیر میں جمع ہو چکے تھے.حضور کے ارشاد کے ماتحت مکرم مولانا عبدالمالک صاحب نے لاؤڈ سپیکر پر مسنون دعائیں پڑھیں اور احباب کو ان کو

Page 476

466 دہرانے کی تلقین کی.رات سوا نو بجے حضور باہر تشریف لائے اور کرسی پر تشریف فرما ہو کر لمبی اور پرسوز دعا کرائی.حضور نے کے ایل ایم کی فلائیٹ میں نصف شب کے بعد روانہ ہونا تھا.حضور کو رخصت کرنے کے لئے بہت سے خدام ایئر پورٹ پر صفیں بنا کر موجود تھے.دو تین صفوں نے حضور سے شرف مصافحہ حاصل کیا اس کے بعد حضور کی کمزوری طبیعت کی بنا پر باقی لوگ حضور کے سامنے سے ہدیہ سلام پیش کر کے گذرتے رہے.رات کے سوا ایک بجے حضور سیدہ ام متین اور سیدہ مہر آپا صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ، اپنی دو صاحبزادیوں اور مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ہمراہ ہوائی جہاز کے اندر تشریف لے گئے.پونے دو بجے شب جہاز دمشق کے لئے روانہ ہو گیا.جب تک جہاز کی سرخ بتیاں آسمان پر نظر آتی رہی کراچی ایئر پورٹ پر موجود خدام جو مختلف مقامات سے آئے ہوئے تھے، پر نم آنکھوں کے ساتھ جہاز کو دیکھتے رہے.عین اس وقت ربوہ میں احباب مسجد مبارک میں جمع ہو کر اجتماعی دعا میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کر رہے تھے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تجویز تھی کہ حضور راستے میں عرب ممالک کے کچھ مقامات پر بھی قیام فرمائیں.حضور نے یہ تجویز قبول فرمائی تھی.سفر میں حضور کا پہلا قیام دمشق میں ہونا تھا.شام میں قیام : سفر میں سردی کی وجہ سے حضور کی تکلیف میں اضافہ ہو گیا.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ساری رات حضور کو آرام پہنچانے کی کوششیں کرتے رہے.حتی کہ حضور کو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا نڈھال چہرہ دیکھ کر وہم ہو گیا کہ آپ بھی بیمار ہو گئے ہیں.جب صبح ہوئی تو جہاز ریگستان پر پرواز کر رہا تھا.آٹھ بجے حضور نے ناشتہ فرمایا.جب دمشق قریب آیا تو نیچے سبزہ نظر آنے لگا اور پھر باغات اور نہریں دکھائی دینے لگیں.دس بجے کے قریب جہاز دمشق کے ہوائی اڈے پر اترا.مکرم منیر احصنی صاحب اور دمشق کی جماعت کے دیگر احباب نے حضور کا استقبال کیا.جماعت کے مبلغ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ جو دو دن قبل یورپ سے دمشق پہنچے تھے اور پاکستانی سنٹر کے لال شاہ بخاری صاحب بھی بمعہ اپنے عملہ کے حضور کے استقبال کے لئے موجود تھے.حضور کا قیام مکرم بدر الدین صاحب صنی کے گھر میں

Page 477

467 تھا.یہ خاندان کافی امیر تاجر تھا مگر اپنا تمام گھر حضور اور آپ کے قافلے کے لئے خالی کر کے اخلاص سے خدمت کر رہا تھا.بیروت سے جماعت کے مبلغ مکرم شیخ نوراحمد منیر صاحب بھی دمشق میں حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے.حضور نے ایک ہفتہ دمشق میں قیام فرمایا.یہاں آکر حضور کو وطن کی یاد آ رہی تھی اور حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا کہ اس وقت دل چاہتا تھا کہ اُڑ کر اپنے وطن چلا جاؤں مگر مجبوری اور معذوری تھی.(۱۹) مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب حضور کی طبیعت بہتر ہو رہی تھی.اور وہاں سے اپنی طبیعت کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو تار بھجوائی Improving - حضور شام کے احمدیوں کے ہمراہ مجلس عرفان میں بھی رونق افروز ہوتے اور عموماً ظہر اور عصر کی نماز احباب جماعت کے ساتھ ادا کرتے.حضور نے ایک مجلس میں بہائیوں کے حالات بھی دریافت فرمائے ( ۲۰ ).دمشق میں اپنے قیام کے دوران حضور یہاں پر تبلیغ کو وسیع کرنے اور ایک اسکول قائم کرنے کے منصوبے پر غور فرماتے رہے.ایک روز حضرت مصلح موعودؓ دمشق سے پانچ میل کے فاصلے پر ایک مقام دمر تشریف لے گئے.وہاں نہر کے کنارے ایک کیفے میں تشریف فرما ر ہے.۶ مئی کو حضور کے اعزاز میں دمشق کے احمدی احباب کی طرف سے جماعت کے مرکز زاویہ اکھنی میں دعوت تھی.لیکن اس ایک روز بعض احباب کو ایسی خوا میں آئیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ حضور کو خطرہ در پیش ہے لیکن انجام بخیر ہے.ظاہری تدبیر کے طور پر یہ قدم اٹھایا گیا کہ حضور زاویۃ الحصنی نہ تشریف لائیں بلکہ احباب کھانے کے بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائیں (۲۱).ے مئی کو حضرت مصلح موعود دمشق سے بیروت کے لئے روانہ ہوئے.ایک روز قبل جمعہ کا دن تھا.حضور نے بدر الدین حصنی صاحب کے مکان میں فصیح و بلیغ عربی زبان میں ایک مختصر خطبہ پڑھا.جس کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے تقریباً نصف صدی قبل جب کہ آپ میں سے اکثر بھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام فرمایا تھا يدعون لك ابدال الشام وصلحاء العرب یعنی تیرے لئے شام کے ابدال اور عرب کے نیک بندے دعائیں کرتے ہیں.آج تمہارے وجود میں یہ نشان پورا ہو رہا ہے.نماز جمعہ کے بعد حضور کافی دیر احباب میں رونق افروز رہے.اگلے روز صبح حضور جمع قافلہ بیروت کے لئے روانہ ہو گئے.دمشق کے کچھ مخلصین بھی حضور کے ہمراہ بیروت روانہ ہوئے.(۲۲)

Page 478

468 راستے میں حضور نے بعلبک کے آثار قدیمہ کی دلچسپی سے سیر کی.جماعت کے ایک وفد نے بیروت سے بارہ میل باہر آکر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا استقبال کیا.ان میں مقامی احباب کے علاوہ جماعت کے مبلغ مکرم شیخ نور احمد منیر صاحب بھی شامل تھے.بیروت میں حضور کا قیام برج اجی حیدر محلہ میں ایک احمدی دوست السید محمد در خبانی کے مکان میں تھا.مقامی جماعت کی طرف سے سیکریٹری جنرل مکرم محمد توفیق الصفدی نے ایڈریس پیش کیا.اس موقع پر طرابلس اور بر جا سے بھی احمدی احباب اپنے امام کی زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے.حضورں نے بیروت میں گاڑی میں ساحلِ سمندر کی سیر کی.اگلے روز ۸ مئی کی صبح کو حضور اپنے قافلے سمیت سویٹزرلینڈ کے لئے روانہ ہو گئے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب روم تک حضور کے ساتھ آئے اور پھر ہالینڈ روانہ ہو گئے.روم سے فلائیٹ تبدیل کر کے حضور TWA کے جہاز میں جنیوا روانہ ہوئے.(۲۳) سویٹزرلینڈ میں ورود مسعود : حضور کا طیارہ جنیوا پہنچا.سویٹزرلینڈ میں مبلغ سلسلہ مکرم شیخ ناصر احمد صاحب نے جہاز تک آکر حضور کا استقبال کیا.حضور کی علالت کے پیش نظر وسیع پیمانے پر پریس کو حضور کی آمد کی اطلاع نہیں دی گئی تھی.تاہم رائٹر کا نمائیندہ اس موقع پر موجود تھا (۲۴).قافلہ رات کو جنیوا لیک کے کنارے ایک ہوٹل میں ٹھہرا.جنیوا سے اگلے روز حضور بذریعہ ریل گاڑی زیورک روانہ ہو گئے جہاں پر حضور کے طبی معائنوں کا آغاز ہونا تھا.زیورک میں حضور کے قیام کا انتظام نمبر ۲ Bagonien Strasse پر ایک مکان میں کیا گیا تھا.اسی شام کو مکرم مشتاق باجوہ صاحب بھی جنیوا سے زیورک پہنچ گئے.اگلے روز ۱۰ مئی ۱۹۵۵ء کو پروفیسر روسیو (Rossier) نے حضور کا معائنہ کیا اور یہاں پر حضور کا علاج بنیادی طور پر انہی کی زیر نگرانی ہوا.پروفیسر روسیو نے مختلف ٹسٹ تجویز کئے.اور اسی روز حضور کا خون کا ٹسٹ اور ای سی جی ہوئی.امئی کو حضور کے تفصیلی ایکسرے ہوئے.اس روز حضور کی طبیعت میں بہت گبھراہٹ تھی.۲ مئی کو حضور نے ایک ہومیو پیتھ ڈاکٹر کو دکھایا.اور اس روز مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بھی انگلستان سے زیورک پہنچ گئے.اس روز حضور کی طبیعت بشاش تھی.اگلے روز حضور نے جمعہ خود پڑھایا اور خطبہ میں دوستوں کو اس سفر کے بابرکت

Page 479

469 ہونے کے لئے دعا کی تحریک فرمائی اور پھر زیورک سے باہر کھیتوں میں سیر کے لئے تشریف لے گئے.۴ امئی کو دانتوں کے ڈاکٹر نے حضور کا معائنہ کیا اور Gold Filling کی.اگلے روز اتوار کو ایک انگریز نو مسلم مسٹر لاسن ( Lowson) جو مشرقی افریقہ میں کام کرتے تھے لندن سے حضور سے ملاقات کے لئے تشریف لائے.مسٹر لاسن نے شام کی چائے اور رات کا کھانا حضور کے ساتھ کھایا اور کچھ روز زیورک میں ہی ٹھہرے.۱۸ مئی کو ڈاکٹر ہیس (Hess) نے حضور کے تفصیلی ٹسٹ کئے.19 کو حضرت مصلح موعودؓ ہو میو پیتھ ڈاکٹر Gisel کو دکھانے گئے.یہ ڈاکٹر صاحب بہت خوش مزاج آدمی تھے اور حضور کی بہت عزت کرتے تھے.ان کو دکھانے کے بعد حضور کی طبیعت میں بشاشت پیدا ہو جاتی تھی.اسی روز حضور ظہر اور عصر کی نماز کے بعد زیورک کی جھیل میں کشتی کی سیر کے لئے تشریف لے گئے.۲۰ مئی کو حضور نے پندرہ منٹ تک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور پھر ڈاکٹر روسیو سے مشورہ کے لئے تشریف لے گئے.ڈاکٹر روسیو نے رائے دی کہ ٹسٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ دائیں طرف دماغ کے پچھلے حصہ میں خون کی رگوں میں بیماری کا حملہ ہوا تھا اور اب آپ کی صحت بالکل ٹھیک ہے.اس وقت آپ کو جو تکلیف معلوم ہوتی ہے اس کے لئے میں آپ کو ادویات لکھ دیتا ہوں.البتہ انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ حضور کو قاتلانہ حملہ میں جو زخم لگا تھا وہ خطرناک تھا اور پاکستان میں ڈاکٹر کی رائے درست نہیں تھی کہ یہ زخم خطر ناک نہیں تھا.چاقو کی نوک اندر ہی رہ گئی تھی اور ایکسرے میں ریڑھ کی ہڈی کے قریب نظر آ رہی ہے (۲۵).۲۱ مئی کو حضرت سیدہ ام وسیم صاحبہ اور حضرت سیدہ امِ ناصر صاحبہ اور محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کچھ عرصہ کے لئے لندن سے زیورک آگئے.۲۲ مئی کو حضور نے پھر ہو میو پیتھ ڈاکٹر Gisel کو دکھایا.۲۴ مئی کو عید تھی.اس دن حضور کی طبیعت خراب تھی اس لئے آپ نے عید کی نماز نہیں پڑھائی.مگر عید کے بعد حضور نے یورپ کے کچھ نو مسلمین کو شرف ملاقات بخشا.۲۸ مئی کو۲ حضور نے ایک چوٹی کے Neurologist کو دکھایا انہوں نے مشورہ دیا کہ حضور کی طبیعت اب بہتر ہے اور اگر مزید احتیاط کی جائے تو بیماری کے مزید حملے کا خطرہ نہیں ہے.تین ماہ آرام کیا جائے اور پھر ہلکا ہلکا کام شروع کر دیا جائے اور یہ احتیاط کی جائے کہ کوفت نہ ہو.ان دنوں میں پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد صاحب علاج کی غرض سے زیورک آئے ہوئے تھے.حضرت مصلح موعود ، حضرت چوہدری ظفر اللہ ย

Page 480

470 خان صاحب کے ہمراہ ان سے ملاقات کے لئے گئے اور ان کی صحت کے لئے دعا کی.غلام محمد صاحب نے اس پر حضور کا شکریہ ادا کیا.۳۰ مئی کو حضرت مصلح موعودؓ نے جنیوا میں ایک مشہور ہو میو پیتھ ڈاکٹر Smicht کو دکھانے کی غرض سے جنیوا روانہ ہو گئے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس روز ہیگ واپس جانا تھا لیکن آپ حضور کی معیت میں لیک لوسرن تک آئے اور وہاں سے شیخ ناصر احمد صاحب کے ہمراہ واپس چلے گئے.مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، مکرم مشتاق باجوہ صاحب اور حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی قافلے میں شامل تھے.راستے میں دوسری گاڑی حضور کی گاڑی سے بچھڑ گئی.اس وجہ سے حضور کو بہت پریشانی ہوئی اور حضور کی طبیعت خراب ہوگئی.رات کو جنیوا کے ایک ہوٹل میں قیام کیا.اگلے روز صبح کو حضور اُس ہو میو پیتھ ڈاکٹر صاحب کو دکھانے گئے.اس ڈاکٹر نے حضور کے ہاتھ دیکھ کر کہا کہ آپ کی انگلیوں کی ساخت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کام کو فوری سرانجام دینا پسند کرتے ہیں.اگلے روز حضرت خلیفہ مسیح الثانی واپس زیورک تشریف لے آئے.۵ جون ۱۹۵۵ء کو حضرت مصلح موعود نے سوئٹزرلینڈ کے مقامی نومسلم احباب کو ہوٹل Belvoir Park میں چائے کی دعوت پر مدعو کیا.حضور نے انہیں انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج سے تمہیں سال قبل جب میں آپ کے ملک میں سے گزرا تھا تو اس کے قدرتی مناظر مجھے بہت اچھے لگے تھے.مگر آج میں آپ لوگوں کو پا کر اس سے بھی زیادہ خوش ہوا ہوں.آپ میرے روحانی بیٹے ہیں اور روحانی بیٹوں کو پانے کی خوشی اس سے کہیں زیادہ ہے جو ایک باپ کو اپنے جسمانی بیٹوں سے ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنا قرب عطا فرمائے اور آپ کو دینِ اسلام کو اپنے ملک میں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے.جواب میں نو مسلم حضرات نے اپنے اخلاص اور جذبات کا اظہار کیا.واپس اپنی رہائش گاہ آتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک میں ایسا اخلاص پیدا ہونا ایک عجیب نشان معلوم ہوتا ہے.4 جولائی کو ایک مقامی اخبار Neue Zurcher Zeitung کے بیرونی ایڈیٹر ڈاکٹر سٹرائف (Streiff) نے حضور سے ملاقات کی.9 جولائی کو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب زیورک آگئے تا کہ حضور کے ساتھ اس سفر میں شامل ہوسکیں.اس موقع پر سولیس ٹی وی نے حضور کا انٹرویو نشر کرنے کا پروگرام بنایا.پہلے اُن کا پروگرام تھا

Page 481

471 کہ یہ انٹرویو عید کے موقع پر ریکارڈ کیا جائے گا مگر چند دقتوں کے باعث ایسا نہیں ہوسکا.پھر براه راست انٹر ویو نشر کرنے کا پروگرام بنا.۸ جون ۱۹۵۵ء کو حضور رات نو بجے سے قبل ٹی وی سٹیشن تشریف لے گئے اور پہلے سٹودیو کے دفتر میں ٹیلی ویژن کے پروگرام ملاحظہ فرماتے رہے.Dr.Tilgenkamp حضور کا انٹرویو کر رہے تھے.انہوں نے پہلے حضور کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے تعارف کرایا.حضور نے جواب میں اُن کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ میں سولیس لوگوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اتنا شاندار ہسپتال بنایا ہے جہاں انسان اُن بیماریوں کا علاج بھی کرا سکتا ہے جن کے علاج کے لئے اُس کے اپنے ملک میں سہولتیں مہیا نہیں ہیں.ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ رمضان ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ بڑائی حاصل کرنے سے پہلے ہمیں قربانی کرنی چاہیئے.یورپ میں اپنے دورہ کے پروگرام کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ آپ یورپ میں اپنے مشنوں کا دورہ بھی فرمائیں گے اور مزید نئی جگہوں مثلاً اٹلی اور فرانس میں بھی مشن کھولنے کا ارادہ ہے.آپ نے فرمایا کہ احمدیت اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے اور اسلام کی صحیح شکل دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے وجود میں آئی ہے.یہ پہلا موقع تھا کہ خلیفہ وقت کا انٹرویوٹی وی پر نشر ہوا تھا اور یہ اعزاز سولیس ٹی وی کے حصے میں آیا.(۲۴) اس دوران بھی حضور ضروری ڈاک ملاحظہ فرماتے رہے اور یورپ میں تبلیغ اسلام کو وسیع کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور رہا.حضور نے ہدایت فرمائی کہ امریکہ کے دو پرانے مبلغین اور یورپ کے مبلغین کو اطلاع دے دی جائے کہ وہ تیار رہیں انہیں تار دے کر یورپ میں ہونے والی مبلغین کی کانفرنس کے لئے بلا لیا جائے گا (۲۶).اس وقت حضرت چوہدری صاحب عالمی عدالت انصاف کے جج تھے اور ہالینڈ میں مقیم تھے.اور اس سفر میں حضور کے آرام کی خاطر حضور کے ہمراہ رہتے اور سیر کے دوران بھی حضور کی گاڑی میں اگلی سیٹ میں بیٹھتے.ڈاکٹر نے حضور کو دیہی علاقے میں سیر کا مشورہ دیا تھا.اس لئے چوہدری صاحب خود حضور کے سفر کے لئے ایسے راستے کا انتخاب کرتے جو پر فضا دیہاتی علاقے سے گذرتا ہو.حضور بھی حضرت چوہدری صاحب پر بہت شفقت فرماتے.ذیا بیطیس کی وجہ سے حضرت چوہدری صاحب کو راستے میں کچھ کھانے کی ضرورت پڑتی تھی.حضور روانہ ہونے سے قبل

Page 482

472 از راه شفقت خود چوہدری صاحب کے لئے گاڑی میں مالٹے رکھنے کی ہدایت فرماتے.حضور نے جماعت کے نام اپنے ایک پیغام میں حضرت چوہدری صاحب کی ان خدمات کے متعلق تحریر فرمایا عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ساری عمر دین کی خدمت میں لگائی ہے.اور اس طرح میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا....کیا کسی ایسے مولوی اور پیر کی خدمت کا موقع خدا تعالے نے کسی ایسے شخص کو دیا جو چوہدری ظفر اللہ خانصاحب کی پوزیشن رکھتا تھا.اللہ تعالیٰ ان کی خدمت کو بغیر معاوضہ کے نہیں چھوڑیگا.اور ان کی محبت کو قبول کریگا.اور اس دنیا اور اگلی دنیا میں اس کا ایسا معاوضہ دیگا کہ پچھلے ہزار سال کے بڑے آدمی اس پر رشک کریں گے.(۲۷) جب حضور زیورک تشریف لائے تو رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا تھا.عید کے موقع پر حضور نے دنیا بھر کی جماعتوں کے نام یہ پیغام بھجوایا.پاکستان ، ہندوستان اور دنیا کے تمام احمدی بھائیوں کو عید مبارک ہو.میں ان کی مشکلات اور تکالیف کے دور ہونے اور روحانی ترقی کے لئے دعا کرتا ہوں.(۲۸) کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق خطبات: دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا میں ایک نئی طرز کی تقسیم سامنے آرہی تھی.پہلے تو صرف سوویت یونین میں کمیونسٹ حکومت برسر اقتدار تھی.مگر جب سوویت یونین کی افواج نے مشرقی یورپ کے ان ممالک پر قبضہ کیا جو پہلے نازی جرمنی کے تسلط میں تھے تو ان ممالک میں بھی کمیونسٹ حکومتیں قائم کر دی گئیں.اس طرح بلغاریہ، چیکوسلو یکیا، مشرقی جرمنی، ہنگری، پولینڈ ، رومانیہ، یوگوسلاویہ اور البانیہ کمیونسٹ بلاک میں چلے گئے.اسی طرح ایشیا میں شمالی کوریا ،شمالی ویت نام اور چین میں کمیونسٹ حکومتیں قائم ہو گئیں.دوسری طرف امریکہ ، انگلستان اور دیگر مغربی ممالک کیپیٹلسٹ بلاک کی قیادت کر رہے تھے.دونوں گروہوں کا دعویٰ تھا کہ وہ بہتر نظام حکومت مہیا کرتے ہیں.اور دونوں گروہوں میں تناؤ اور دنیا پر تسلط کے لئے دوڑ نے امنِ عالم کے لئے ایک خطرناک صورت پیدا کر رکھی تھی.اور اسلحے کی دوڑ میں جوہری ہتھیاروں کے اضافے نے انسانیت کے لئے خطرات

Page 483

473 میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا..کمیونسٹ دنیا میں تو مذہب کو ایک شجر ممنوعہ قرار دیا جاتا تھا مگر اس کے ساتھ مغربی دنیا کے کیپیٹلسٹ بلاک میں بھی اکثریت رفتہ رفتہ دہریت کی طرف جھک رہی تھی.اور مذہبی خیالات پر دقیانوسیت اور تنگ نظری کا لیبل لگا کر ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا.اور یہ سوال اُٹھایا جاتا تھا کہ آخر معاشرے کو مذہب کی ضرورت ہی کیا ہے.بغیر کسی آسمانی راہنمائی کے ہمارے نظام میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پوری دنیا کو ترقی، امن اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر سکے.چند سال قبل حضور ڈلہوزی گئے تو وہاں ایک روز حضور دو پہر کے وقت آپ کو الہام ہوا کہ دنیا میں امن کے قیام اور کمیونزم کے مقابلہ کے لئے سارے گر سورہ فاتحہ میں موجود ہیں.پھر آپ کو عرفانی طور پر اس کی تفسیر سمجھائی گئی.پہلے حضور کا ارادہ تھا کہ اس کے متعلق تفصیلی رسالہ تحریر فرمائیں گے.مگر بیماری کے آغاز کے بعد حضور نے مناسب خیال فرمایا کہ خطبات کے ایک سلسلے میں یہ تفسیر بیان فرما ئیں.چنانچہ اس دورے کے دوران مئی اور جون میں حضور نے چار خطبات میں یہ تفسیر مختصراً بیان فرمائی.حضور نے فرمایا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ دنیا میں امن اور کمیونزم اور کیپیٹلزم کے جھگڑے کے استیصال کے گر سورہ فاتحہ میں موجود ہیں.حضور نے فرمایا کہ الحمد للہ رب العلمین میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی مدح کا وہی مستحق ہوتا ہے جس کی ربوبیت کسی خاص قوم اور فرقہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ وسیع ہوتی ہے.امریکہ اپنے آپ کو ڈیما کرسی کا لیڈر سمجھتا ہے اور روس اپنے آپ کو عوامی تحریکوں کا لیڈر سمجھتا ہے.لیکن اگر دونوں کو دیکھا جائے تو امریکنوں کی ساری طاقت امریکنوں کی ترقی پر خرچ ہوتی ہے اور روس کی ساری طاقت روسیوں کی ترقی پر خرچ ہوتی ہے.روس اگر کرتا ہے تو یہ کہ اپنے خیالات دوسرے لوگوں میں پھیلا دیتا ہے تا وہ لوگ اپنی حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں.اسی طرح اگر امریکن دوسرے لوگوں کو امداد دیتے ہیں تو اس میں بھی اپنے فوائد مد نظر ہوتے ہیں.دونوں گروہ دوسرے ممالک کو مدد دیتے ہوئے اپنے فوائد کو مد نظر رکھتے ہیں نہ کہ عوام الناس کے فوائد کو حقیقی مدح اسی وقت ہوتی ہے جب بغیر غرض کے لوگوں کو اونچا کیا جائے حقیقی تعریف کی مستحق وہی حکومت ہوگی جو اس آیت کے ماتحت کام چلائے گی.اور وہی ٹھیک امن قائم کر سکے گی.پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اگلی آیت الرحمن الرحیم کی تفسیر میں فرمایا کہ جو رحمن اور رحیم

Page 484

474 ہوگا وہ ساری قوموں کی تعریف کا مستحق ہوگا.رحمن کے معنی قرآنِ کریم سے یہ معلوم ہوتے ہیں کہ جس نے کوئی نیک کام اور کوئی خدمت نہ کی ہو اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنے والا اور جس کے پاس کچھ نہ ہوا سے وہ ذرائع مہیا کر دینے والا ہو جن ذرائع کی وجہ سے وہ اعلیٰ ترقی حاصل کر سکے.اور رحیم کہ معنی یہ ہیں کہ ہر شخص جو کام کرتا ہے اس کام کا بدلہ متواتر جاری رہے.اگر دنیوی حکومتیں ان اصولوں کو قبول کر لیں تو وہ بھی الحمد کی مستحق ہو جائیں گی اور ان میں لڑائی جھگڑے اور فساد بند ہو جائیں گے.اگر دنیا اس اصول پر عمل کرے تو سارے جھگڑے کمپیٹلزم اور کمیونزم کے ختم ہو جاتے ہیں.ملک یوم الدین والے حصے کے متعلق حضور نے فرمایا کہ دنیا میں حکومت کی بڑی غرض یہی سمجھی جاتی ہے کہ ہنگامی حالات emergencies میں کام آئے.عام حالات میں افراد خود اپنا انتظام کر لیتے ہیں.حکومت کا کام یہی ہوتا ہے کہ جب ایک جتھہ اور گروہ یا ایک قوم کوئی شرارت کرے تو اس وقت اس کو سنبھال لے لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ حکومت ایسے کام سے عہد ا بر آنہیں ہوتی.اصل مطلب یہ ہے کہ قومی یا مجموعی خرابی یا مجموعی طور پر اچھے کام کے اجزاء اور فیصلہ کے وقت بعض دفعہ گورنمنٹ ڈر جاتی ہے.کہ پبلک ہم سے کل پوچھے گی.یا بعض دفعہ وہ جزا دینے میں کوتاہی کر جاتی ہے کیونکہ جزا اس کی طاقت سے بڑھ جاتی ہے.تو ملک یوم الدین میں بتایا کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے جس سے حمد حاصل ہوتی ہے اگر کوئی حکومت ملک یوم الدین بن کر رہے تو پھر عوام الناس اور اردگرد کے لوگوں میں بغض کبھی پیدا نہیں ہوسکتا بلکہ تعریف ہی ہوتی ہے.ان چار خطبات میں حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے گر بیان فرمائے ہیں.اور وہ تعلیم اور حکومت کے وہ اصول بیان فرمائے ہیں جن پر عمل کر کے اشتراکیت اور سرمایہ داری نظام کے جھگڑے کا خاتمہ ہوسکتا ہے.(۲۹ تا۳۲) یورپ کے دیگر مقامات کا سفر: ۱۰ جولائی کو حضرت خلیفہ مسیح الثانی' زیورک سے روانہ ہوئے اور رات کولو گانو کے پارک ہوٹل میں ٹہرے.اور اگلے روز لوگانو سے اٹلی کے شہر وینس پہنچے.۱۲ جولائی کو حضور نے گنڈ ولا قسم کی کشتی میں وینس کی سیر کی.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان

Page 485

475 صاحب اور صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب حضور کے ساتھ کشتی میں سوار تھے.۱۴ جولائی کو حضرت مصلح موعود وینس سے آسٹریا کے لئے روانہ ہوئے.رات کو حضور نے آسٹریا کے شہر انز برک کے ہوٹل Kreid میں قیام فرمایا.صبح سویرے قافلہ جرمنی کے شہر نیورمبرگ کے لئے روانہ ہوا.شام کو چھ بجے نیورمبرگ پہنچ گئے.جماعت کے مبلغ مکرم عبد اللطیف صاحب نے حضور کا استقبال کیا اور یہاں کے نو مسلم جرمن دوستوں نے حضور کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل کیا.یہاں پر حضور اور آپ کے قافلے کا قیام ہوٹل کیسر ہاف (Keiserhof) میں تھا.۱۶ جولائی کو حضرت مصلح موعود نے آرلینگن یونیورسٹی کے ایک Neurologist کو دکھانے کے لئے تشریف لے گئے.اور حضور نے مقامی احمدیوں کے ساتھ ایک میٹنگ میں شرکت فرمائی اور یہاں پر تبلیغ کا کام وسیع کرنے اور مسجد کی تعمیر کے معاملات پر غور ہوا.اور اسی روز یہاں کی جماعت نے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا.حضور نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ جرمن قوم کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہمت عطا فرمائی ہے، وہ با وجودلڑائیوں کی تباہ کاری کے پھر ترقی کر جاتی ہے.۷ا کو حضور نیورمبرگ سے باڈ گاڈر سبرگ کے لئے روانہ ہوئے.یہاں پاکستان کے سفارت خانے کے سامنے ہوٹل رہائن لینڈ میں قافلے کی رہائش کا انتظام تھا.یہاں پر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور مکرم میر داؤ د احمد صاحب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.۱۸ جون کو حضرت مصلح موعودؓ اہلِ قافلہ کے ہمراہ ہالینڈ کے لئے روانہ ہوئے.اور دو پہر کو ہالینڈ میں داخل ہوئے.پانچ بجے کے قریب قافلہ ہیگ کے مضافات میں داخل ہوا.ہیگ شہر سے ہوتے ہوئے قافلہ ویسار(Wassenaar) پہنچا، جہاں پر ایک مکان کا انتظام کیا گیا تھا.یہاں پر حضور کو خوش آمدید کہنے کے لئے ایک مقامی مبلغ مکرم غلام احمد بشیر صاحب اور انڈو نیشین احمدی مبلغ مکرم محمد ابوبکر ایوب صاحب اور کچھ نو مسلم دوست موجود تھے.ہالینڈ آکر حضور کی طبیعت مضمحل رہنے لگی تھی.حضور چند مرتبہ سیر کے لئے مختلف مقامات پر تشریف لے گئے.۲۴ جولائی کو حضور نے جمعہ پڑھایا اور انگریزی زبان میں تقریباً آدھے گھنٹے کا خطبہ ارشاد فرمایا.اس خطبہ میں آپ نے ڈچ زبان میں ترجمہ قرآن کے متعلق اور ہالینڈ میں مسجد کے بارے میں راہنمائی فرمائی.نماز جمعہ وعصر کے بعد ایک نومسلم احمدی مسٹر عبداللطیف دلیوں صاحب نے خطبہ کا ڈچ زبان میں ترجمہ احباب کو سنایا.بہت سے نومسلم ย

Page 486

476 دوستوں نے نماز جمعہ میں شرکت کی.۲۵ جون کو حضرت مصلح موعودؓ بذریعہ ہوائی جہاز جرمنی کے شہر ہمبرگ کے لئے روانہ ہوئے.ہوائی جہاز سوا تین بجے سکفول (Schiphol) کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوا اور تقریباً ساڑھے چار بجے ہمبرگ کے ہوائی اڈے پر پہنچا.اس روز ہمبرگ میں مطلع ابر آلود تھا.یہاں کے مبلغ عبد الطیف صاحب اور نو مسلم عبدالکریم ڈنکر صاحب نے حضور کا استقبال کیا.حضور کا قیام ہوٹل Europesharhof میں تھا.ہوٹل پہنچ کر حضور کچھ دیر تک یہاں کے نومسلم جرمن احباب سے گفتگو فرماتے رہے.اگلے روز حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ہمبرگ یونیورسٹی کے مشہور Neurologist ڈاکٹر پیٹے (Pette) کو دکھانے کے لئے تشریف لے گئے.ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کے بعد رائے دی کہ اب حضور کی صحت کافی بہتر ہے.البتہ آئندہ کام کی زیادتی کو کم کرنے کی ضرورت ہے.اس کے بعد ایک پریس فوٹو گرافر نے حضور سے کچھ فوٹوز لینے کے لئے درخواست کی اور حضور نے اس درخواست پر تصویریں کھچوائیں جو بعد میں اخبارات نے شائع کیں.اور اس کے بعد ایک زیر تبلیغ مستشرق نے علیحدگی میں حضرت مصلح موعود سے ملاقات کی اور اسلام قبول کر کے بیعت کر لی لیکن ساتھ یہ درخواست کی کہ فی الحال ان کی بیعت کو مخفی رکھا جائے.جب حضور ساتھ والے کمرے میں نماز کے لئے تشریف لے گئے ، جہاں مختلف نو مسلم دوست آئے ہوئے تھے تو یہ صاحب خود ہی نماز میں شامل ہو گئے.اس طرح انہوں نے خود ہی اپنے قبول اسلام کو ظاہر کر دیا.ان کا اسلامی نام زبیر رکھا گیا.اس روز حضور دیر تک مقامی احمدی احباب سے گفتگو فرماتے رہے.اور ہمبرگ میں مسجد کی تعمیر کے سلسلے پر بھی گفتگو ہوتی رہی.جرمنی میں قیام کے دوران حضور نے بعض ماہر ڈاکٹروں سے اپنی بیماری کی بابت مشورہ کیا.ایک ماہر Dr.Pette نے حضور کا تفصیلی معائنہ کیا اور حضور کی صحت یابی پر اطمینان کا اظہار کیا اور مشہور سرجن ڈاکٹر جمپر (Jumper) نے رائے دی کہ چاقو کی نوک جو اندر رہ گئی تھی اسے نکالنے کی ضرورت نہیں.بعض پریس کے نمائندوں نے حضور سے ملاقات کر کے انٹرویو لئے.ان میں Contipress کے نمائندے اور مشہور صحافی مسٹر Pirath بھی شامل تھے.Dr.Ahel اور Mr.Kamour جیسے نمایاں مستشرق بھی حضور سے ملاقات کے لئے آتے رہے.Mr.Kamour پر تو حضور سے ملاقات کا ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے دوسری ملاقات میں ہی بیعت کر کے اسلام قبول

Page 487

477 کرلیا.ہمبرگ کی جماعت نے حضور کے اعزاز میں ٹاؤن ہال میں ایک تقریب کا اہتمام کیا.اس میں احمدیوں کے علاوہ ہمبرگ کے معززین بھی شامل ہوئے.جرمن احمدی عبد الکریم ڈنگر (Dangar) صاحب نے جماعت ہمبرگ کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے نصف گھنٹہ انگریزی میں تقریر فرمائی.اس میں حضور نے ربوہ کے قیام اور ترقی کا ذکر فرمایا کہ کس طرح چند خیموں سے یہ ایک پر رونق شہر میں تبدیل ہو گیا اور بظاہر وہاں پر پانی ملنے کی کوئی امید نہیں نظر آرہی تھی مگر اللہ تعالیٰ کی دی گئی خوشخبری کے مطابق پانی بھی مل گیا.حضور نے جرمن قوم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ: ' جرمن قوم کا کیریکٹر بلند ہے اور انہوں نے ہمبرگ شہر کو اتنی جلد تعمیر کر لیا ہے.اور جرمن قوم اس زندہ روح کے ساتھ جلد از جلد اسلام کو قبول کرے گی.“ اس تقریب میں ہمبرگ حکومت کے ایک وزیر Von Flsenne نے حضور کا خیر مقدم کیا اور وہاں کے اخبارات نے اس کی خبریں شائع کیں.(۲۴) ۲۷ جون کو ایک ماہر سرجن ڈاکٹر ینکر (Yunker) نے حضور کا معائنہ کیا اور رائے دی کہ چاقو کی نوک جو اندر رہ گئی تھی وہ اس کے ارد گرد کا Tissue اب ٹھیک طرح Organize ہو چکا ہے.اور اس کا سائز چھوٹا ہے.اب اس کو چھیڑنا بالکل مناسب نہیں.کیونکہ اس کو نکالنے کے لئے بہت سے حصہ کو کاٹنا پڑے گا.اس لئے مناسب یہی ہے کہ اسے اسی طرح اندر رہنے دیا جائے.شروع میں پروگرام تھا کہ حضور ۲۷ جون کو ہمبرگ سے ہالینڈ جائیں گے مگر یہاں کی آب و ہوا اور ہمبرگ کی جماعت کا اخلاص دیکھ کر حضور نے ایک اور دن یہاں پر ٹھہرنے کا فیصلہ فرمایا اور ۲۸ جون کو آپ بذریعہ ہوائی جہاز واپس ہیگ کے لئے تشریف لے گئے.اسی روز ہیگ کی جماعت نے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا تھا.اس موقع پر رپیس کے نمائندے اور کئی معززین بھی مدعو تھے.پہلے مکرم ابوبکر ایوب صاحب نے تلاوت کی اور پھر ہالینڈ کے نومسلم دوست عبداللطیف دلیوں نے ایڈریس پیش کیا.اور مسز نصیرہ زیرمان نے بھی ایک مختصر ایڈریس پیش کیا.حضور نے انگریزی میں تقریر فرمائی جس کا ترجمہ دلیوں صاحب نے کیا.یکم جولائی کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مشن ہاؤس میں نماز جمعہ پڑھائی اور نصف گھنٹہ انگریزی میں خطبہ ارشاد فرمایا.

Page 488

478 اگلے روز ۲ جولائی ۱۹۶۷ء کو حضور بحری جہاز کے ذریعہ انگلستان کے لئے روانہ ہوئے.صبح کو قافلہ بندرگاہ ہلکفن ہالینڈ (Hokfon Holland) پہنچا اور ساڑھے گیارہ بجے بحری جہاز جس کا نام Princess Bathrisea تھا سوار ہوا.شروع میں چکروں کی وجہ سے حضور کی طبیعت خراب ہوئی اور آپ اپنے کیبن میں تشریف لے گئے.لیکن سفر کے اختتام پر آپ ڈیک پر تشریف لے آئے اور دیر تک سمندر کا نظارہ کرتے رہے.ساڑھے چھ بجے جہاز انگلستان کے ساحل پر لگا.امام مسجد لندن اور دیگر احمدی احباب نے حضور کا استقبال کیا.اور وہاں سے حضور لندن تشریف لے آئے.حضور کی انگلستان آمد: حضرت خلیفہ اسیح الثانی ۳ جولائی کو بذریعہ سمندر انگلستان پہنچے.امام مسجد لندن اور دیگر احمدی احباب بندرگاہ پر استقبال کے لئے موجود تھے.وہاں سے قافلہ کاروں میں لندن روانہ ہوا.مسجد فضل لندن میں احمدی احباب نے حضور کے استقبال کی سعادت حاصل کی.حضور کا قیام ۶۱ میلر وز روڈ پر تھا.۴ جولائی کو حضور اعصابی امراض کے مشہور ماہر چارلس سائمنڈ (Charles Symond) کو دکھانے کے لئے تشریف لے گئے.ڈاکٹر سائمنڈ نے اس بات کا اظہار کیا کہ حضور کو جو بیماری کا حملہ ہوا تھا وہ وہ Carotid Artery کے Thrombosis کی وجہ سے تھا.اس سے حضور کی طبیعت میں بہت گھبراہٹ پیدا ہوئی ، جس کا اثر چند روز تک حضور کی طبیعت پر رہا.کراچی اور لاہور کے ڈاکٹروں کو بھی ڈاکٹر سائمنڈ کی رائے کے متعلق لکھا گیا.پھر ایک اور ماہر ڈاکٹر سررسل برائین کو دکھایا گیا.انہوں نے کچھ تسلی دلائی.زیورک کے ڈاکٹر روسیو سے بھی فون پر بات کی گئی.اگلے چند روز کے دوران حضور نے ناک، دانتوں اور جوڑوں کے ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ کیا.لندن آمد کے بعد نزلہ زکام کی وجہ سے حضور کی طبیعت پہلے خراب ہوئی مگر پھر جلد طبیعت میں بہتری شروع ہوگئی (۳۶).لندن میں حضور کے قیام کے دوران ایک اہم پروگرام دنیا کے مختلف ممالک میں مبلغین سلسلہ کی کانفرنس تھی جس کی صدارت حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمانی تھی.

Page 489

479 اس کانفرنس کا فیصلہ حضور نے زیورک میں قیام کے دوران ، وسط جون میں ہی فرما لیا تھا.چنانچہ یورپ، امریکہ اور نائیجیریا کے مبلغین کو زیورک ہی سے ایجنڈا بمعہ ایک سوالنامہ کے بھجوادیا گیا تھا.تا کہ تمام مبلغین مقامی جماعتوں اور دوسرے مبلغین سے مشورہ کر کے اور پوری تیاری کر کے کانفرنس میں شامل ہوں.اس کانفرنس کے افتتاح کے لئے حضور کی لندن آمد کے بیس روز کے بعد ۲۳ جولائی ۱۹۵۵ء کا دن مقرر کیا گیا تھا.اس میں شرکت کے لئے پہلے ہی امریکہ ، غرب الہند، افریقہ اور یورپی ممالک میں متعین مبلغین کو اطلاع بھجوائی جا چکی تھی اور وہ سب اس کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن پہنچنا شروع ہو گئے تھے.کانفرنس سے دو روز قبل حضور کی طرف سے اس بارے میں بذریعہ تار یہ پیغام ملا جو کہ الفضل میں شائع کیا گیا.حضرت محمد مصطفے ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے بعد کل پہلی مرتبہ دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کی تجاویز پر غور کرنے کے لئے لنڈن میں ایک نہایت اور عظیم الشان کانفرنس شروع ہو رہی ہے.کانفرنس میں امریکہ.غرب الہند.افریقہ.اور یورپ کے تقریباً تمام اہم ممالک میں متعین احمدی مبلغین شامل ہوں گے.۲۲ جولائی سے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی اس کا نفرنس میں شامل ہورہے ہیں.دوست کا نفرنس کی نمایاں کامیابی اور اس کے وسیع ترین کامیاب نتائج کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور درد دل سے دعا کریں.(۳۳) اس کانفرنس کے لئے وسط جون میں ایک سوالنامہ ایجنڈے سمیت مبلغین کو بھجوایا جا چکا تھا تا کہ شرکاء اپنے ملکوں کے مبلغین سے مشورہ کر کے پوری تیاری کے ساتھ کانفرنس میں شرکت کریں (۳۴).یہ تاریخی کا نفرنس ۶۳ میلر وز روڈ پر واقع مشن ہاؤس میں منعقد ہوئی.یہ کانفرنس ۲۲ جولائی سے شروع ہو کر تین روز جاری رہی اور اس میں پانچ اجلاس ہوئے.مبلغین کی اس کا نفرنس میں شرکت کے لئے نائیجیریا سے مکرم نسیم سیفی صاحب،امریکہ سے مکرم خلیل احمد ناصر صاحب، سوٹزرلینڈ سے مکرم شیخ ناصر احمد صاحب، پین سے مکرم کرم الہی ظفر صاحب، جرمنی سے مکرم عبداللطیف صاحب، ہالینڈ سے مکرم غلام احمد صاحب بشیر اور ٹرینیڈاڈ سے مکرم محمد الحق صاحب تشریف لائے.برطانیہ سے جماعت کے مبلغ مکرم مولود احمد صاحب اور مکرم میرمحمود احمد صاحب

Page 490

480 سیکریٹری لندن مشن اور مرکزی عہدیداران میں سے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور وکیل التجارت قریشی عبدالرشید صاحب اور حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے شرکت فرمائی.ان سب اجلاسوں میں حضور نے شرکت فرمائی.جس وقفے میں حضور کچھ دیر کے لئے تشریف فرما نہیں ہوتے تھے ، اس وقفے میں مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کانفرنس کی صدارت فرماتے تھے (۳۵).ان اجلاسوں میں ایک ایک ملک کی رپورٹ کو لے کر اُس پر غور کیا گیا.مشنوں کی ترقی ، نئے مشنوں کے قیام مختلف زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی تیاری اور اشاعت اور مساجد کی تعمیر کے متعلق فیصلے کئے گئے.تمام مبلغین انفرادی طور پر بھی حضور سے ملاقات کر کے ہدایات حاصل کرتے رہے.اور حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بھی اس کانفرنس میں ہونے والے مشوروں میں شرکت فرمائی.اسلام کی عالمی تبلیغ کو تیز تر کرنے کے لئے اور اس مقصد کے لئے ضروری ذرائع مہیا کرنے کے لئے آخری رپورٹ کافی بحث و تمہیٹ کے بعد منظور کر لی گئی.کانفرنس کے اختتام پر تمام مبلغین نے از سر نو اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے کا عہد کیا.اس طرح یہ کانفرنس کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.(۳۶) مخالفین کی مایوسی : گذشتہ چند برسوں میں مخالفین جماعت کا ایک کے بعد دوسرا منصوبہ ناکام ہوتا گیا تھا.۱۹۵۳ء کی شورش کے نتیجے میں وہ اپنی بدنامی کے سوا کچھ نہیں حاصل کر سکے تھے اور جماعت کو مٹانے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے.پھر حضرت مصلح موعودؓ پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا اور اُس میں ناکامی ہوئی.حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری شروع ہوئی تو جماعت کے اندر شدید اختلافات کی جھوٹی خبریں شائع کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی اس میں بھی کامیابی نہ ہوئی.اب ان میں سے نسبتاً حقیقت پسند طبقہ اس بات کا اعتراف کر رہے تھے کہ یہ سازشیں جماعت احمدیہ کی ترقی کو روکنے میں ناکام رہی تھیں اور ان پر اپنی سوچ کی سطحیت واضح ہو رہی تھی.چنانچہ جب لندن میں ہونے والی کانفرنس منعقد ہوئی تو جماعت کے ایک شدید مخالف جریدے المنیر نے بڑی حسرت سے یہ خبر اس تبصرے کے ساتھ شائع کی:.

Page 491

481 کیا ایسی تحریک کو اشتعال انگیزوں کے ذریعہ ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیا ایسے منظم ادارے کو خواہ وہ سو فیصد بد دیانتی پر قائم ہوگدھے اور کتے کے جلوس نکالنے سے ناکام بنایا جا سکتا ہے؟؟ کیا ایشیا اور یورپ میں ایک پلان کے تحت قائم کر نیوالے باطل کو کہاوتوں کی پھبتیوں اور استہزاء کے قہقہوں سے دنیا بدر کیا جا سکتا ہے؟؟؟...خدارا غور کیجئے کتنی دور رس سکیم ہے " تمام دنیا میں وسیع پیمانہ پر اسلامی لٹریچر کی اشاعت " ایک اسی شق کو سامنے رکھیئے اور بتلائیے آپ کی شور وغل بپا کرنے والی جماعتیں اس کا توڑ کیا مہیا کر رہی ہیں؟ اور جیسی معیاری تقریریں ہمارے ہاں قادیانیوں کے خلاف کی جارہی ہیں کیا وہ اس منصوبے کا توڑ ہوسکتی ہیں..خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کام کا جواب نعروں سے؟ مسلسل جد و جہد کا توڑ اشتعال انگیزی سے علمی سطح پر مساعی کو نا کام بنانے کا داعیہ صرف پھبتیوں بیہودہ جلسوں اور ناکارہ ہنگاموں سے پورا نہیں ہو سکتا اس کے لئے جب تک وہ انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے فکری اور عملی تقاضے پورے ہوں.ہنگامہ خیزی کا وہی نتیجہ برآمد ہوگا جس پر مرزا صاحب کا الہام انی مهین من اراد اهانتک صادق آئے گا.(۳۷) خطبہ عید اور لندن میں آخری ایام : کانفرنس کے دنوں میں حضور آنے والے مبلغین سے ملاقات کر کے ،ان کے ممالک کے حالات دریافت فرماتے رہے اور انہیں ہدایات دیتے رہے.اس کے علاوہ آپ نے کانفرنس کے تمام اجلاسوں میں شرکت فرمائی.ان وجوہات کی بنا پر حضور پر غیر معمولی کام کا بوجھ پڑا.ان مصروفیات سے حضور کی صحت پر نا خوشگوار اثر پڑا اور آپ کی طبیعت پھر سے خراب رہنے لگی.(۳۸) حضور کا قیام تین منزلہ عمارت کی سب سے نچلی منزل میں تھا.حضور گھانے کے وقت دوسری منزل پر تشریف لاتے اور اہلِ خانہ کے ساتھ کھانا تناول فرماتے.آپ ناشتہ اپنے کمرے میں ہی فرماتے اور اس کے بعد ڈاک ملاحظہ فرماتے اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ آپ کی خدمت میں ڈاک پیش فرماتیں.آپ بسا اوقات باہر سیڑھیوں پر کرسی پر تشریف فرما ہوتے.

Page 492

482 ابھی حضور لندن میں مقیم تھے کہ عید الاضحی کا مبارک موقع آگیا.حضور کی موجودگی کی وجہ سے عید کی تقریبات ایک خاص اہمیت اختیار کر گئی تھیں.بہت سے غیر احمدیوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا.احمدی رضا کار ایک رات پہلے جاگ کر اس تقریب کے لئے تیاریاں مکمل کرتے رہے.(۳۹) حضور نے مختصر خطبہ عید میں حضرت اسمعیل کی قربانی کا واقعہ اور اُس سے حاصل ہونے والا سبق بیان فرمایا.اور بائیبل اور قرآنِ مجید کے بیان کردہ بیانات کا موازنہ بیان فرمایا.خطبہ کے آخر میں حضور نے ارشاد فرمایا آخر میں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آئے اور اس عید کا سبق ساری دنیا یاد کرے.اور ساری دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کے آگے جھک جائے.اور فساد اور لڑائی جھگڑا دنیا سے مٹ جائے.ہر دل کعبہ بن جائے یعنی خدا کا گھر اور جس طرح خدا عرش پر ہے اسی طرح خدا انسان کے دل میں بھی ہو.(۴۰) اس تقریب میں مختلف ممالک کے سفراء کے علاوہ لندن کے میئر فرانک براؤن بھی شامل ہوئے.اس تقریب میں شاڈ سمنڈ (Shaw Desmond) بھی شریک تھے.وہ کئی کتب کے مصنف تھے اور روحانیت کی طرف میلان رکھتے تھے.اس سے قبل بھی وہ کئی مرتبہ جماعت کے مشن میں ہونے والی تقریبات میں شریک ہو چکے تھے اور وہ اپنے تقریروں میں آنحضرت ﷺ کی شان میں اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے (۳۵).۱۹۵۶ء میں ان کی ایک کتاب God's Englishman شائع ہوئی تھی.جس میں انہوں نے دیگر امور کے علاوہ اس بات پر بھی بحث کی تھی کہ کمیونزم کا مقابلہ سیاستدان نہیں کر سکیں گے بلکہ مذہبی دنیا ہی کمیونزم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.اور وہ کمیونزم اور عیسائیت کے درمیان مقابلے کو روشنی اور تاریکی کے درمیان مقابلہ قرار دیتے تھے.اور اُن کے نزدیک انگریز قوم کو اس جنگ میں ایک اہم کردار ادا کرنا تھا.جب حضور تقریب کے اختتام پر واپس جانے لگے تو شا ڈسمنڈ ارخصت ہونے کے باوجود دوبارہ آپ سے ملنے کے لئے آگے بڑھے.اور سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ جب میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ محمد سب سے بڑے امن پسند نبی ہیں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میری زبان سے خدا بول رہا ہے مگر لوگوں پر اثر نہیں ہوتا.حضور نے فرمایا کہ خدا جب بولتا ہے تو دل میں بولتا ہے اور تم لوگوں کے

Page 493

483 کان میں بولتے ہو.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں.جس دن خدا لوگوں کے دلوں میں بھی بولا ان پر بھی اثر ہو جائے گا.شاڈ سمنڈ ہنس پڑے اور کہنے لگے معلوم ہوتا ہے بات یہی ہے.حضور نے فرمایا کہ تم انتظار کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعاؤں مانگو جس دن وہ لوگوں کے دلوں میں بھی بولنے لگے گا.لمبی چوڑی تقریروں کی ضرورت نہیں رہے گی.سارا یورپ تمہاری بات ماننے لگ جائے گا.اگست میں بھی حضور کی طبیعت بے خوابی کی وجہ سے قدرے ناساز تھی.سب ڈاکٹروں کا یہی مشورہ تھا کہ حضور گو آرام کی ضرورت ہے.۱۷ اگست کو حضور نے ربوہ بذریعہ تار یہ ہدایت بھجوائی.چونکہ ڈاکٹروں نے مجھے مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا ہے.اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جب تک ڈاکٹر مجھے کام شروع کرنے کا مشورہ نہ دیں اس وقت تک کے لئے میں صدر انجمن احمد یہ ربوہ اور صدر انجمن احمد یہ کراچی کو یہ اختیار دیتا ہوں کہ وہ میری بجائے کام کرتی رہیں.(۴۱) اللہ تعالیٰ کے پیارے وجودوں کی صحبت انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے.ایک سولیس مسٹر سٹنڈر (Studer) جو اس سفر میں حضور کے ڈرائیور کے فرائض سرانجام دے رہے تھے، لندن میں بیعت کر کے مسلمان ہو گئے.(۴۲) اب حضور کی وطن واپسی کا وقت قریب آ رہا تھا.۲۳ اگست کو جماعت احمد یہ لندن نے حضور کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا.اس میں دیگر مہمانوں کے علاوہ لندن کے میئر ہمبران پارلیمنٹ اور پاکستان کے ہائی کمشنر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے بھی شریک ہوئے.حضور نے پاکستانی افراد کو تلقین فرمائی کہ وہ پاکستان کے مفاد کو مد نظر رکھیں اور اپنے آپ کو پوری طرح پاکستان کے وفادار اور دیانتدارشہری ثابت کریں.حضور نے یور بین باشندوں کو کہا کہ وہ مادی اسباب کی بجائے خدا تعالیٰ کی ذات پر توجہ دیں.صرف اس صورت میں ایٹم بم جیسی خطرناک طاقتیں بھی تباہی و بربادی کی بجائے امن قائم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں.(۴۴)

Page 494

وطن واپسی 484 پاکستان کے احمدی احباب اب بے تابی سے حضور کی آمد کا انتظار کر رہے تھے.سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے یہ اشعار اس وقت لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں.مبارک آ رہے ہیں آج وہ روز و شب بے چین تھے جن کے لئے آگیا آخر خدا کے فضل دن گنا کرتے تھے جس دن کے لئے صد ۵ دسمبر ۱۹۵۵ء کی شام کو حضور بخیر و عافیت کراچی پہنچ گئے.ناظر اعلیٰ میاں غلام محمد صاحب اختر نے دیگر احباب کے ساتھ حضور کا استقبال کیا پاکستان کی مختلف جماعتوں کے نمائیندگان بھی حضور کے استقبال کے لئے کراچی آئے ہوئے تھے.جب حضور کی آمد کی خبر تار کے ذریعہ ربوہ پہنچی تو ربوہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.اور حضور کے استقبال کی تیاریاں تیز کر دی گئیں.کچھ عرصہ کراچی قیام فرمانے کے بعد حضور ۲۵ ستمبر کور بوہ تشریف لائے.جب مسجد مبارک کے لاؤڈ سپیکر سے یہ اعلان کیا گیا کہ حضور آج شام کو چناب ایکسپریس سے تشریف لائیں گے تو احباب حضور کا دیدار کرنے کے لئے راستوں پر جمع ہونا شروع ہو گئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب، صحابہ کرام ، ناظران اور وکلاء صاحبان پلیٹ فارم پر استقبال کے لئے موجود تھے.جب سات بجے دور سے ریل گاڑی کی روشنی نظر آنی شروع ہوئی تو احباب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.حضور جب گاڑی سے نیچے تشریف لائے تو سب سے پہلے امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اور پھر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے حضور کا استقبال کیا.پھر حضور اُس جگہ پر تشریف لائے جہاں دیگر احباب منتظر تھے.حضور کی آمد پر حضرت مسیح موعود کے صحابہ کی حالت شدت جذبات سے غیر ہوئی جا رہی تھی.جوش مسرت سے ان پر رقت طاری تھی.اُن میں سے بعض ہاتھ پھیلائے ہوئے حضور کی طرف دوڑ پڑے.حضور نے انہیں شرف مصافحہ سے نوازا اور ان کا حال پوچھا.اس کے بعد حضور شکار میں قصر خلافت روانہ ہوئے.سب سے پہلے حضور مسجد مبارک تشریف لے گئے اور حضور نے قبلہ رخ کھڑے ہو کر نہایت رقت انگیز دعا کرائی اور اس کے بعد اپنی رہائش گاہ تشریف لے گئے.حضور کی آمد کی خوشی میں اس بستی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا.ربوہ کی عمارات پر چراغاں

Page 495

485 کیا گیا تھا.گھروں کی چھتوں پر دیئے جلائے گئے تھے.دفاتر اور تعلیمی اداروں کی عمارات پر بجلی کے قمقموں سے چراغاں کیا گیا تھا.ربوہ کی جنوب مشرقی پہاڑی پر تیز روشنی کا اہتمام تھا..اہلِ ربوہ مساجد اور گھروں میں شکرانے کے نوافل پڑھ رہے تھے.اس طرح حضور کا دوسرا سفر یورپ بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا.احباب حضور کی آمد کی خوشیاں منا رہے تھے مگر دشمن ایک اور وار کی تیاری میں مشغول تھا.اس سازش کا ذکر ہم اگلے چند صفحات میں کریں گے.(۴۴) (۱) الفضل ۲۷ فروری ۱۹۵۵ء ص ۱ (۲) الفضل ۲۸ فروری ۱۹۵۵ء ص ۱ (۳) الفضل ۱ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۱ (۴) الفضل ۲ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۱ (۵) الفضل ۴ مارچ ۱۹۵۵ ء ص ۱ (۶) الفضل ۸ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۱ (۷) الفضل ۰ ۱ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۱ (۸) الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۵۵ ص ۱و۲ (۹) الفضل ۶ جولائی ۱۹۵۵ء ص ۱ (۱۰) الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۱ (۱۱) الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۱ (۱۲) الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۱ (۱۳) الفضل ۲۰ اپریل ۱۹۵۵ ء ص ۳ (۱۴) الفضل ۱۲۱ اپریل ۱۹۵۵ء ص ۲ (۱۵) مغربی پاکستان ۱۴اپریل ۱۹۵۵ء ص ۵ (۱۶) مغربی پاکستان ۲۱ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۶ (۱۷) زمیندار ۲۱ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۷ (۱۸) الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۵۵ء ص ۱ (۱۹) الفضل ۱۰مئی ۱۹۵۵ء ص ۱-۲ (۲۰) الفضل ۱۵ مئی ۱۹۵۵ءص (۲۱) الفضل ۲۲ مئی ۱۹۵۵ء ص۳ (۲۲) الفضل ۶ امئی ۱۹۵۵ء ص ۳ (۲۳) الفضل ۱۲ مئی ۱۹۵۵ء ص ۱ (۲۴) رپورٹ شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سویٹزر لینڈ بابت دورہ سویٹزر لینڈ ، وکالت تبشیر ربوہ (۲۴) الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۵۵ء ص ۳ (۲۵) الفضل ۲۴ مئی ص ۱ (۲۶) الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۵ء ص۳ (۲۷) الفضل ۲۹ مئی ۱۹۵۵ء ص ۱ (۲۸) الفضل ۲۲ مئی ۱۹۵۵ء ص ۱ (۲۹) الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۵ء ص ۲ (۳۰) الفضل ۱۶ جون ۱۹۵۵ء ص ۲ (۳۱) الفضل ۲۲ جون ۱۹۵۵ء ص ۳ و ۴ (۳۲) الفضل ۳۰ جون ۱۹۵۵ء ص ۳ (۳۳) الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۵۵ء ص ۱ (۳۴) الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۵ء ص ۳ (۳۵) انٹر ویو کرم میر محمود احمد صاحب (۳۶) الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۵۵ء ص ۱ (۳۷) المنیر ۱۰ اگست ص ۱۰ و ۱۱ (۳۸) الفضل ۳ اگست ۱۹۵۵ء ص ۱ (۳۹) رپورٹ لندن مشن عیدالاضحی ۱۹۵۵ء، ریکارڈ وکالت تبشیر ربوه (۴۰) خطبات محمود جلد ۲ ص ۷۸۳ (۴۱) الفضل ۲۰ اگست ۱۹۵۵ء ص ۱ ( ۴۲ ) الفضل ۱۸ اگست ۱۹۵۵ء ص ۱ (۴۳) الفضل ۲۵ اگست ۱۹۵۵ء ص ۱ (۴۴) از ڈائری صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب

Page 496

486 ایک فتنہ کی ناکامی خلافت راشدہ اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم انعام ہے.اس کے ذریعہ دین کو تمنت عطا کی جاتی ہے اور مومنوں کی خوف کی حالت امن میں بدل دی جاتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (النور: (٥٦) یعنی تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اُن سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ضرور تمكنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں.رسول اللہ ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ میری امت میں فتنوں کا دور آئے گا اور یہ راہنمائی بھی فرما دی تھی کہ اس دور میں مومنوں کا کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہئیے.حضرت حذیفہ آنحضرت ﷺ سے آنے والے فتنوں کی بابت سوال کیا کرتے تھے.آپ نے ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا ان اچھے دنوں کے بعد بھی پہلے کی طرح برے دن آئیں گے آپ نے فرمایا کہ ہاں پھر اس کی علامات بیان فرمانے کی بعد آپ نے فرمایا کہ گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ کھڑے ہوں گے ایسے حالات میں اگر تم اللہ کا کوئی خلیفہ دیکھو تو اس سے چھٹے رہوا گر چہ اس وجہ سے تمہارا جسم لہولہان کر دیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے.(۱).ایک مرتبہ الله آنحضرت ﷺ نے مسجد میں ایسا وعظ فرمایا جس کو سن کر لوگ رونے لگے اور اُن کے دل ڈر گئے.

Page 497

487 ایک شخص نے عرض کی کہ یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے.آپ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی میرے بعد زندہ رہا تو بہت بڑے اختلافات دیکھے گا.پس تم پر میری اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کرنا فرض ہے.(۲) نظام خلافت کے خلاف فتنوں کا تاریخی پس منظر: یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب اسلام کے دشمن بیرونی حملوں کے ذریعہ سے اسلام کو مٹانے اور نقصان پہنچانے میں ناکام ہو گئے تو پھر سازشوں کے ذریعہ اندرونی فتنے پیدا کئے گئے اور ان فتنوں کا نشانہ نظام خلافت تھا.حضرت عثمان کی خلافت کے ابتدائی سالوں میں مسلمانوں کی حکومت کا دائرہ تیزی سے پھیلتا گیا.فارس کا باقی ماندہ حصہ فتح ہو گیا، افریقہ کے بہت سے حصے فتح ہوئے اور آرمینیا بھی مسلمانوں کے زیر نگین آ گیا.اُس دور میں مسلمانوں کے دشمن میدانِ جنگ میں مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے تھے.اب مخالفین نے سازشوں کا جال پھیلا کر خلیفہ وقت کی شخصیت کونشانہ بنایا.ابتدائی زمانہ میں فتنہ برپا کرنے والوں کے حالات کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ بعد میں پیدا ہونے والے فتنہ پروروں نے باوجود بالکل مختلف حالات اور زمانے کے بہت سے بنیادی امور میں انہی کی پیروی کی.اس لئے ہم حضرت عثمان کے دور کے تاریخی حقائق کا مختصر جائزہ لیں گے.ان سازشوں کا بانی مبانی ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا جس نے بظاہر اسلام قبول کر لیا مگر روز اول سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے اور لوگوں کو حضرت عثمان کے خلاف بھڑ کانے میں مشغول تھا.اس کے ایجنٹ مسلمانوں کے اہم شہروں میں جا کر پہلے تو عمومی وعظ ونصیحت کرتے اور پھر جب اُن کا ایک حلقہ اثر بن جاتا تو ان میں وسوسے پھیلانا شروع کرتے.پہلے انہوں نے حضرت عثمان کے مقرر کردہ گورنروں کے خلاف لوگوں کو اکسانا شروع کیا اور مختلف علاقوں میں جا کر افواہیں پھیلائیں کہ دوسرے مقامات پر گورنر بہت مظالم کر رہے ہیں.اور مختلف شہروں کی طرف خطوط لکھنے شروع کر دیئے ، جن میں گورنروں کے فرضی مظالم کا ذکر ہوتا تھا.جب حضرت عثمان نے صحابہ سے تحقیقات کرائیں تو یہ الزامات جھوٹے ثابت ہوئے.مگر جب مسلسل پروپیگنڈا سے ایک طبقہ بھیٹر چال میں آکر گورنروں کے خلاف ہو گیا اور بہت سے لوگوں نے بھولپن میں ان الزامات کی

Page 498

488 - تشہیر شروع کر دی تو اس سازشی گروہ نے حضرت عثمان کے خلاف الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا.اور خاص طور پر یہ الزام لگانا شروع کیا کہ حضرت عثمان نے اپنے رشتہ داروں یعنی بنوامیہ کے بہت سے افراد کو مختلف علاقوں میں گورنر لگایا ہوا ہے.یہ اعتراض سراسر افترا تھا ، حضرت عثمان کے عہد میں نئے صوبوں کے اضافے کی وجہ سے ہیں صوبے بن چکے تھے جن میں سے صرف چار میں بنوامیہ سے تعلق رکھنے والے گورنر مقرر تھے.لیکن بدقسمتی سے بہت سی طبائع ایسی ہوتی ہیں جو غور کئے بغیر اعتراض کو جلد قبول کر کے اسے دوسروں کے سامنے بیان بھی کرنا شروع کر دیتی ہیں.اور ایسا ہی اُس وقت ہوا ور نہ حقیقت یہ تھی کہ نبی کریم ﷺ نے خود جن افراد کو گورنر اور عمال مقررفرمایا تھا ان میں بنوامیہ کے افراد کی تعداد دوسرے خاندانوں کی نسبت زیادہ تھی اور اسی طرح حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے عہد میں بھی بنوامیہ کے اتنے ہی افراد اعلیٰ عہدوں پر مقرر رہے تھے.(۳) اس کے ساتھ یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ حضرت عثمان اپنے رشتہ داروں کو مال و دولت سے نواز رہے ہیں.حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ حضرت عثمان نے شروع ہی سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال کو پانی کی طرح بہایا تھا اور اکثر اوقات تو اعتراض کرنے والوں کی بتائی ہوئی رقوم اتنی تھوڑی ہوتیں کہ حضرت عثمان جیسے مالدار آدمی کے لئے ایسی رقوم کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی.اور حقیقت یہ تھی کہ حضرت عثمان نے اپنے ذاتی مال سے اپنے رشتہ داروں کی مدد کی تھی.جبکہ ان فتنہ پروروں کو اللہ کی راہ میں کسی مالی قربانی کی توفیق نہیں ملی تھی.اور نہ ہی انہوں نے کسی اور رنگ میں اسلام کی خدمت کی تھی.یه گروه بصره، کوفہ، فسطاط جیسے اہم شہروں میں منظم انداز میں افواہیں پھیلا رہا تھا اور عبداللہ بن سبا کا ذہن اس سازش کے پیچھے کارفرما تھا.ایسے بھولے بھالے لوگ بھی تھے جو کہ ان اعتراضات کو قبول تو نہ کرتے مگر یہ خیال کر کے کہ ایسی باتیں کرنے والے معمولی لوگ ہیں اور کوئی اہمیت نہیں رکھتے انہیں نظر انداز کر دیتے.اور عموماً یہی خیال کیا جاتا کہ مختلف جگہوں پر اعتراضات کی مہم چلانے والوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں.حالانکہ ایک منظم سازش کے تحت جگہ جگہ فتنہ برپا کیا جا رہا تھا اور سازش کی اس بساط پر ان مہروں کو ایک ہی ہاتھ حرکت دے رہا تھا.جب اس مہم کو کچھ عرصہ گذرا تو ان مفسدوں کو یہاں تک جرات ہو گئی کہ انہوں نے حضرت عثمان کو معزول کرنے کی باتیں

Page 499

489 شروع کر دیں.عبداللہ بن سبا نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اور آنحضرت ﷺ کے وصی حضرت علی ہیں اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان نے آپ کا حق تلف کیا ہے.اس نے اس خیال کی تشہیر شروع کر دی کہ آنحضرت ﷺ اس دنیا میں واپس تشریف لائیں گے.اس سے غرض یہی معلوم ہوتی تھی کہ خلیفہ وقت سے لوگوں کی عقیدت کم ہو اور لوگ فرضی رجعت کی بحثوں میں پڑ جائیں اور بعض لوگ اس فتنے میں مبتلا بھی ہو گئے.بعض روایتوں کے مطابق اس کا انجام یہ ہوا کہ بعد میں اس کی فتنہ پروریوں کی وجہ سے حضرت علیؓ نے اپنے عہد میں اسے سزائے موت دی تھی.مفسدین جہاں ایک طرف حضرت عثمان کو معزول کرنے کا مطالبہ پیش کر رہے تھے ، وہاں دوسری طرف ان کے مختلف گروہ آئندہ خلیفہ کے لئے مختلف کبار صحابہ کا نام لے رہے تھے.اور ان کا طریق یہ ہوتا تھا کہ حج کے لئے روانگی جیسے موقع پر جب ایک مجمع جمع ہوتا ہے ان کے ایجنٹ ایسے اشعار پڑھتے جس میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ آئندہ خلیفہ کون ہوگا.اور ایک شعر میں ہی دو تین اصحاب کے نام لے کر یہ ذکر کیا جاتا کہ یہ لوگ بھی خلیفہ بننے کے لئے موزوں ہیں.ایک خلیفہ کی زندگی میں آئندہ ہونے والے خلیفہ کے متعلق اس طرح ذکر کرنا ایک رذیل حرکت تھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح اپنے فتنے کا دائرہ وسیع کیا جائے.ایسے مواقع پر بہت سے لوگ یہی گمان کرتے کہ ایک ان پڑھ بدو شعر پڑھ رہا ہے اور اس کا سختی سے نوٹس نہ لیتے.مفسدین مصر حضرت علی کا ، کوفہ کے فتنہ پرداز حضرت زبیر نگا اور بصرہ سے تعلق رکنے والے مفسدین حضرت طلحہ کا نام لے رہے تھے.یہ لوگ ہر ایک کی ذہنیت کو اپنے جیسا سمجھتے تھے.ان کا خام خیال تھا کہ اس طرح یہ صحابہ ان کے ہمنوا ہو جائیں گے.جب ان فسادیوں نے مدینہ پر ہلہ بولا تو انہوں نے ذوالمرہ اور ذ وخشب کے مقامات پر ڈیرہ لگایا.پھر یہ لوگ ان صحابہ کے پاس گئے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا تو حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت طلحہ نے انہیں دھتکار دیا.اور ان تینوں صحابہ نے مفسدوں کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ان مقامات پر ڈیرہ لگانے والے لشکر لعنتی ہوں گے.مگر مدینہ سے باہر یہ لوگ عوام الناس میں طرح طرح کے جھوٹ بول کر لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے.کبھی ایک صحابی کا نام لیتے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں اور کبھی دوسرے کا نام لیتے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں اور ان کی طرف سے جعلی خط بھی بنا لیتے.مدینہ کے اکثر لوگ صحابہ کی موجودگی کی وجہ سے باغیوں کے

Page 500

490 بہکانے میں نہیں آئے.صرف چند لوگ اُن کے ساتھ ملے جن میں حضرت ابوبکر صدیق کا بیٹا محمد بن ابی بکر اور محمد بن ابی حذیفہ شامل تھے.محمد بن ابی حذیفہ کو حضرت عثمان نے پالا تھا اور اُس پر بہت سے احسانات کئے تھے لیکن اس نے اس بنا پر کہ اُس کی خواہش کے باوجود حضرت عثمان نے اُسے گورنر کیوں نہیں مقرر کیا، آپ کی مخالفت شروع کر دی.پھر عبداللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں کی ریشہ دوانیوں سے عمرو بن العاص جیسے لوگ بھی ان کے ساتھ حضرت عثمان کے خلاف افواہیں اڑانے والوں میں شامل ہو گئے.عمرو بن العاص کو اس کی نا اہلیوں کی وجہ سے حضرت عثمان نے گورنری سے ہٹایا تھا اور اس کے دل میں آپ کے خلاف کینے کی آگ سلگ رہی تھی.یہاں تک کہ جب اسے آپ کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے فخر سے شعر پڑھے کہ میں نے ان کے خلاف لوگوں کو بھڑ کایا یہاں تک پہاڑی پر رہنے والے چرواہے کو بھی میں نے ہی ان کے خلاف بھڑ کا یا تھا.ان لوگوں کی ہمت اسی وقت تک ہوتی تھی جب تک ان سے نرمی کا برتاؤ کیا جائے یا پھر وہ طاقت میں اپنے مد مقابل سے زیادہ ہوں.جب کوئی گورنر ان سے نرمی کا معاملہ کرتا تو وہ اس کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے مگر جب عبد الرحمن بن خالد بن ولید جیسے گورنر ان پر جائز بختی بھی کرتے تو وہ فوراً جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے اور ان میں سے اشتر جیسے سرکش بھی حضرت عثمان سے عاجزی سے معافیاں مانگنا شروع کر دیتے.حضرت عثمان ان سے کمال شفقت کا معاملہ کر کے انہیں معاف کرتے تو کچھ عرصہ بعد یہ فتنہ پرور پہلے سے بھی زیادہ شرارتیں شروع کر دیتے.ان مفسدین کا طریقہ یہ تھا کہ کسی پبلک جگہ پر مثلاً حج کے موقع پر ، جب لوگوں کا مجمع دیکھتے تو کسی سے حضرت عثمان کے متعلق اعتراض کے رنگ میں سوال کرنا شروع کر دیتے.تا کہ سننے والوں میں سے کمزور طبع لوگوں کے دل میں وسوسہ ڈالا جا سکے.حضرت عبد اللہ بن عمر جیسے زیرک لوگ اس فتنے کو بھانپ کر پوری وضاحت سے ایسا جواب دیتے کہ اعتراض خود بخو دغلط ہو جاتا (۴) مگر اکثر لوگ ایسی ذہانت نہیں رکھتے تھے کہ اس فتنے کی سنگینی کا اندازہ لگاسکیں اور بر وقت اس کا سد باب کر سکیں.اس لئے کچھ نہ کچھ لوگ ان وسوسوں میں مبتلا ہوتے رہے.جب ایک حصہ اُن کا ہمنوا بن گیا تو انہوں نے حضرت عثمان کے ایسے جعلی خط بنانے شروع کئے جن کو بنیاد بنا کر وہ الزام لگا سکیں کہ نعوذ باللہ حضرت عثمان نے اُن میں سے کچھ لوگوں کو قتل کرانے کی سازش کی ہے.مگر

Page 501

491 واقعات سے جعل سازی اتنی واضح نظر آتی تھی کہ ان کی روئیداد سنتے ہی اکثر صحابہ نے یہی کہا کہ یہ تمہارا بنایا ہوا مکر ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس طرح تھی کہ ان فتنہ پروروں کو پھلنے پھولنے کا اتنا موقع مل گیا کہ بالآخر انہوں نے حضرت عثمان کو شہید کر دیا.جب یہ مفسدین مدینہ پر قابض ہوئے تو وہ لوگ جو کل تک انہیں کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے ، ان پر قابو پانے سے قاصر رہے.جب حضرت عثمان کو شہید کرنے کے لئے باغیوں نے مدینہ پر یورش کی تو عبداللہ بن سبا مصر سے مدینہ کے قریب تک آکر ارد گرد منڈلاتا رہا مگر مدینہ میں داخل نہیں ہوا.دنیا سامنے اور چہرے دیکھ رہی تھی مگر اصل میں کسی اور کا ہاتھ اس سازش کے پیچھے کار فرما تھا.اس شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلافات کا المناک باب شروع ہو گیا.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف اسلام میں اختلافات کا آغاز میں ان حالات کا جائزہ اس انداز میں پیش فرمایا ہے ، جس سے شبہات کی دھند چھٹ کر حقائق سامنے نظر آنے لگتے ہیں.اور اس فتنے کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے.فتنے کے المناک نتائج: اس عظیم سانحے کے ساتھ مسلمانوں کے ایک گروہ کے دلوں میں خلافت کی اہمیت ختم ہوگئی.اور جب مسلم معاشرے میں ایسے خیالات پہنچنے لگے تو پھر اس بدنصیبی کی کوکھ سے خوارج نے جنم لیا.ان کا آغاز جنگ صفین کے موقع پر ہوا جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ کی افواج ایک دوسرے کے مقابل پر صف آراء تھیں.خوارج ہزاروں کی تعداد میں حضرت علی کے خلاف یہ نامعقول اعتراض کر کے علیحدہ ہو گئے کہ انہوں نے ثالث مقرر کرنے کا فیصلہ قبول کر کے غلطی کی ہے کیونکہ الحکم اللہ ، حکم تو صرف خدا کے لئے ہے اور صرف کتاب اللہ کی رو سے ہونا چاہئیے.حالانکہ فیصلہ ہوا ہی یہ تھا کہ ثالث فیصلہ قرآنِ کریم کی رو سے کریں گے.خوارج کئی گروہ بنے اور ان کے مختلف فرقوں کے عقائد ایک دوسرے سے مختلف تھے لیکن خلافت کے خلاف سرکشی ان میں ایک قدر مشترک تھی.ان میں سے نجدیہ فرقہ کا نظریہ تھا کہ امام کا مقرر ہونا ضروری نہیں اور پھر یہ نظریہ ان میں رائج ہونے لگا کہ اگر لوگ ایک دوسرے سے انصاف کا برتاؤ کریں تو امام کی یا حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے.ان میں سے بعض گروہ ایک شخص کو امام تسلیم کر کے اُس کی بیعت کرتے اور پھر

Page 502

492 جب اُس سے اختلاف ہوتا تو اسے معزول کر دیتے.ان کے ذہنوں میں یہ بات سمائی ہوئی تھی کہ اُن کی ناقص عقل قرآن کریم کا جو بھی مطلب سمجھ پائی ہے وہی حرف آخر ہے اور اس ناقص فہم کی بنا پر انہیں یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ جب چاہیں خلیفہ وقت کی نافرمانی کریں، اسے معزول کرنے کا مطالبہ کریں یا چاہیں تو اُس پر کفر کا فتویٰ لگا دیں.ان کی زبانوں پر احکم اللہ کانعرہ تھا اور اصل میں غرض یہ تھی کہ ہمارا حکم چلے.اسی لئے ان کے بہت سے فرقے اپنے سے اختلاف رکھنے والے مسلمانوں کی قتل و غارت جائز سمجھتے تھے.ان کی سرکشی ایک نا قابل علاج مرض بن چکی تھی.اور ان کی ریشہ دوانیوں نے عالم اسلام کو بہت نقصان پہنچایا.اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور مزید فتنوں کی پیشگوئی: آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق حضرت علی کے بعد خلافت راشدہ کی نعمت مسلمانوں سے واپس لے لی گئی.مگر جب ظہور مسیح موعود کا زمانہ آیا تو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ہی دوبارہ خلافت علی منہاج النبوت قائم ہوئی.لیکن اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتا دیا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ میں بھی خوارج جیسے لوگ فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعوڈ ایک رؤیا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.سو اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں علی مرتضی ہوں اور ایسی صورت واقع ہے کہ ایک گروه خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے.تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس ہیں اور شفقت اور تودد سے مجھے فرماتے ہیں کہ يا عَلِيُّ دَعَهُم وَ أَنصَارَهُم وَزِرَاعَتَهُم یعنی اے علی ! ان سے اور ان کے مددگاروں اور ان کی کھیتی سے کنارہ کر اور ان کو چھوڑ دے اور ان سے منہ پھیر لے.(۵) چنانچہ جیسا کہ کتاب کے حصہ اول میں تفصیلی ذکر آچکا ہے کہ خلیفہ امسح الاول کی خلافت کے دوران ایک طبقے نے نظام خلافت اور حضرت خلیفتہ اسیح الاول پر اعتراضات شروع کئے اور پھر

Page 503

493 آپ کی وفات پر اس طبقہ نے خلافت کو غیر ضروری قرار دے کر اس نعمت سے کلیتاً انحراف کرلیا تھا.اس کے بعد بھی بعض فتنے خلافت حقہ کے خلاف بڑے بڑے دعووں کے ساتھ سر اُٹھاتے رہے.مگر خدا تعالیٰ انہیں نا کام کرتا رہا.ہم ان میں سے ایک فتنے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیں گے.کیونکہ ان فتنوں کی ایک خاص طرز ہے.الہی جماعتوں کی مخالفت ،الہی جماعتوں کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہوتی ہے.اور بیرونی اشاروں کے ایماء پر پیدا کئے گئے یہ فتنے تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں.اور ان سے کئی اہم سبق حاصل کئے جاسکتے ہیں.تاریخ کے اس عمل کو سمجھنے کے لئے ہم ۱۹۵۶ء میں سر اُٹھانے والے فتنے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیں گے.اگر چہ یہ فتنہ ابتدائی مرحلے میں ہی مکمل طور پر ناکام بنا دیا گیا لیکن فتنوں کی طرز کو سمجھنے کے لئے ایک فتنہ کا تفصیلی جائزہ ضروری ہے.اگر تاریخی حقائق کا موازنہ کیا جائے تو با وجود اس فرق کے کہ حضرت عثمان کے زمانے میں حکومت مسلمانوں کے قبضہ میں تھی اور اس دور میں جماعت احمد یہ حضرت عیسی کے متبعین کی طرح ایک غریب جماعت تھی جسے کسی قسم کا اقتدار حاصل نہیں تھا، یہ فتنہ اس فتنہ سے گہری مماثلت رکھتا تھا جو حضرت عثمان کے زمانے میں برپا کیا گیا تھا.جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس فتنہ کے دوران جماعت کے نام اپنے ایک پیغام میں فرمایا تھا، اس فتنہ کے بانی اچھی طرح حضرت عثمان کے قاتلوں کی سکیم کا مطالعہ کر رہے ہیں.اور ان کی سکیم پر چلنا چاہتے ہیں.(1) بعد میں جوں جوں حالات واضح ہوتے گئے اس ارشاد کی سچائی کھل کر سامنے آگئی.یہ فتنہ اُس وقت شروع ہو ا جب ۱۹۵۳ء میں جماعت کو بیرونی حملوں کے ذریعہ سے ختم کرنے کی سازش ناکام ہو چکی تھی اور حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ حملہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناکام ہو گیا تھا.اس سازش میں بہت سے گروہ شریک تھے جو کم از کم آغاز میں ایک دوسرے سے لاتعلق دکھائی دیتے تھے مگر بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ سب ایک ہاتھ کے اشاروں پر حرکت کر رہے تھے.ان کا ایک حصہ تو مرکز میں بیٹھا ہوا تھا.اور بعض پبلک مقامات پر بیٹھ کر حضرت مصلح موعود پر اعتراضات کرتا تھا.ان کے بظاہر سادہ اور کم عقل دکھائی دینے والے کارندے مختلف شہروں کے دورے کرتے اور یہ ذکر چھیڑتے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے بعد کون خلیفہ ہوگا اور پھر خود ہی کہتے کہ

Page 504

494 حضرت مصلح موعود اپنے بیٹے کو خلیفہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ حق دوسرے لوگوں کا ہے.اور جیسا کہ حضرت عثمان کے زمانے میں ہوا یہ مفسدین آئندہ خلیفہ کے لئے کبھی ایک شخص کا نام لیتے اور کبھی دوسرے شخص کا نام لیتے.زیادہ تر جماعتیں پنجاب میں تھیں اور لاہور پنجاب کا صدر مقام تھا.حضرت عثمان کے دور کے فتنہ پروروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ، ان میں سے بعض نے لاہور میں یہ پراپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ اب خلیفہ بوڑھا ہو گیا ہے.انہیں معزول کر کے کسی اور خلیفہ مقرر کرنا چاہئیے.جب سازش واضح ہونے لگی تو خلافت سے منحرف پیغامیوں نے اپنے اخبار پیغام صلح میں اس سازش کی پشت پناہی شروع کر دی.اور یہ پشت پناہی صرف پیغام صلح تک محدود نہ تھی بلکہ ملک کے بعض چوٹی کے اخبارات بھی ایک منظم انداز میں اس سازش کا ساتھ دے رہے تھے.جس طرح حضرت عثمان کے وقت میں آنحضرت ﷺ کے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق کا ایک بدنصیب بیٹا حضرت عثمان کے خلاف فتنہ میں شامل ہو گیا تھا، اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الاول کی اولاد بھی ۱۹۵۶ء کے فتنے میں شامل ہوگئی.اس فتنہ کے شروع ہونے سے چند ماہ قبل حضرت خلیفہ اسیح الاول کے صاحبزادے عبد السلام صاحب عمر کی وفات ہوئی.جودھامل بلڈنگ لا ہور میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی.ابھی آپ نے پہلی تکبیر کے لئے ہاتھ اٹھائے تھے کہ آپ پر کشفی حالت طاری ہوگئی.آپ نے دیکھا کہ آپ کے دائیں طرف حضرت خلیفہ اسیح الاول تشریف لائے ہیں ، آپ کا قد کافی لمبا نظر آتا ہے اور آپ کچھ جھکے ہوئے ہیں اور افسردہ نظر آ رہے ہیں.اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی طبیعت کے برعکس یہ کشف الفضل میں شائع بھی کر دیا.اُس وقت یہی تعبیر کی گئی کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول اپنے صاحبزادے کی وفات کی وجہ سے اداس نظر آ رہے ہیں.مگر بعد کے حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں آنے والے فتنہ میں آپ کی اولاد سے کئی افراد کے مبتلا ہونے کی طرف اشارہ تھا.(۷) ۱۹۵۶ء کے فتنہ کا پس منظر : یہ گروہ پہلے بھی جماعت کے اندر اعتراضات کر کے اپنے خیالات لوگوں میں پھیلانے کی

Page 505

495 کوشش کر رہا تھا اور پیغام صلح اور ملکی اخبارات بھی پہلے بھی جماعت اور خلافت احمدیہ کے خلاف لکھتے رہے تھے لیکن اب اچانک ان کا ایک ساتھ ایک منظم مہم کا حصہ بن جانے کی ایک وجہ تھی اور وہ وجہ حضرت خلیفتہ امسیح لثانی کی بیماری تھی.جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفتہ مسیح الثانی پر بیماری کا شدید حملہ ہوا اور پھر یورپ تشریف لے جانے تک آپ چند مواقع کے علاوہ نماز پڑھانے یا خطبہ دینے کے لئے تشریف نہ لا سکے.اس کے ساتھ ملکی اخبارات نے خبریں لگانی شروع کیں کہ حضور کی بیماری کی وجہ سے جماعت احمدیہ میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور جانشینی کے مسئلہ پر اختلافات پیدا ہو گئے ہیں.اور جب حضور علاج کے لئے یورپ تشریف لے جارہے تھے تو مولوی عبد الوہاب صاحب نے ، جو حضرت خلیفہ اسی الاول کے بیٹے تھے ،لاہور میں احمدیوں میں یہ باتیں شروع کر دیں کہ خلیفہ کا دماغ خراب ہو گیا ہے ( نعوذ باللہ ) ،خلیفہ بوڑھا ہو گیا ہے ،لوگ پاگل ہیں جو پیچھے لگے ہوئے ہیں.ان کو چاہئیے کہ نیا خلیفہ مقرر کر لیں.کیوں نہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب یا مرزا بشیر احمد صاحب جیسے لائق آدمیوں میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کر لیا جائے.ان کے لاج پر اتنی رقم خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے.پھر اس کے ساتھ انہوں نے یہ باتیں شروع کر دیں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تحریر فرمودہ تفسیر کبیر کی بجائے مسجد میں کوئی عام فہم درس ہونا چاہیئے.اور اس قسم کی بخشیں چھیڑنے کی کوششیں کی گئیں کہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اور بنیادی باتوں میں بھی خلیفہ وقت سے اختلاف جائز ہے.اکثر لوگ تو یہ باتیں سن کر منہ پر سنادیتے لیکن چندلوگ ایسے بھی تھے جو ان کے ساتھ مل کر اس قسم کا پراپیگنڈا کر رہے تھے.اور مولوی وہاب صاحب با وجود منع کرنے کے جماعت احمدیہ کی مسجد میں تقریر بھی کرنے کی کوشش کرتے اور ان خیالات کا اظہار کرتے.(۸) یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ مولوی عبد الوہاب صاحب اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے تھے.کئی سال سے پیغامیوں اور اُن کے روابط تھے.جب حضرت خلیفہ اسی الاول کی وفات کے بعد پیغامی خلافت سے منحرف ہو کر علیحدہ ہوئے تو انہوں نے حضرت خلیفۃ اسیح الاول کے صاحبزادے عبدالحی صاحب سے رابطہ کیا جو اُس وقت پندرہ سال کے تھے اور کہا کہ اگر آپ خلیفہ بن جاتے تو ہم آپ کی اطاعت کرتے.اسپر باوجود کم عمری کے صاحبزادہ عبدالحی صاحب نے

Page 506

496 جواب دیا کہ آپ کو آپ کے نفس دھوکہ دے رہے ہیں یا آپ جھوٹ بول رہے ہیں.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ بنتا تو بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے.میں اب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہر گز نہ مانو.اس پر اُن سے رابطہ کرنے والوں میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں پھر.پھر دیکھیں ہم آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں یا نہیں.صاحبزادہ عہدائی صاحب نے کہا کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں بچے ہو تو میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جاؤ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیعت کر لو.یہ بات سن کر وہ شرمندہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ تو نہیں ہوسکتا.اور ۱۹۳۷ء میں مولوی عبد الوہاب صاحب نے خود اپنے ایک مضمون میں یہ واقعہ لکھا تھا (9) اس کے بعد پیغامیوں نے حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رابطہ کر کے کہا کہ ہم تو آپ کے بیٹے کی بیعت کر کے انہیں خلیفہ بنانا چاہتے ہیں.حالانکہ جیسا کہ کتاب کے حصہ اول میں ذکر آچکا ہے یہ لوگ حضرت خلیفہ المسیح الاول کے دور خلافت میں انہیں طرح طرح کی تکالیف دیتے رہے تھے.اور حضرت اماں جی نے اس بات کا ذکر خود حضرت مصلح موعودؓ سے کیا تھا (۱۰).لیکن ان ابتدائی کوششوں کی ناکامی کے بعد منکرین خلافت نے حضرت خلیفتہ اسیح الاول کی چھوٹی اولاد کو اپنا نشانہ بنا کر کوششیں شروع کیں کہ وہ خلافت کے خلاف سازش میں اُن کے آلہ کار بن جائیں.پھر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو اطلاعات ملیں کہ حضرت خلیفہ اسی الاول کے بیٹوں نے اپنے بھانجے مولوی اسماعیل غزنوی کے ساتھ مل کر حضرت مصلح موعودؓ کے خلاف مہم چلانے کا ایک منصوبہ بنایا ہے.مولوی اسماعیل غزنوی جماعت کے شدید مخالفین میں سے تھے.اس مہم کے پہلے حصہ میں مالی الزامات لگائے گئے ، مگر جب اس میں ناکامی ہوئی تو پھر اخلاقی الزامات لگانے کا منصوبہ بنایا گیا.حضور کی ہدایات کے تحت حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی مدیر الحکم اور حضرت عبدالرحیم صاحب درڈ نے تحقیقات کیں اور بر وقت کاروائی سے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا گیا.حضرت خلیفہ اسی الاول کے کچھ بیٹے مسلسل حضرت خلیفہ المسیح الثانی پر اعتراضات کرتے رہتے.اور یہ باتیں ان کے لئے روز مرہ کا معمول تھیں.یہ دیکھتے ہوئے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ اب تو یہ حد سے بڑھ چکے ہیں، باتیں سن سن کر کان پک چکے ہیں، دل جل اُٹھا ہے.اب آپ کو کچھ کرنا چاہئیے.اس پر حضور نے جواب دیا کہ اکبر نے اپنے کو کا ( دودھ شریک بھائی) کی شکایت سن کر کہا تھا کہ اس کے اور

Page 507

497 میرے درمیان دودھ کا دریا بہتا ہے تو ان کے اور میرے درمیان دودھ کے سات دریا بہتے ہیں.جب تک مجھ میں طاقت ہے صبر ہی کرتا جاؤں گا.یہانتک کہ حالات مجھے مجبور نہ کر دیں کوئی قدم اُن کے خلاف نہ اُٹھاؤں گا (۱۱).مولوی عبدالوہاب صاحب تقسیم ہند کے بعد کچھ عرصہ کے لئے قادیان رہے.یہاں پر بھی ان کی حرکات کی وجہ سے مسلسل مسائل پیدا ہوتے رہے.اور وہ اس حد تک بڑھ گئے کہ انہوں نے بعض درویشوں کو یہاں تک کہہ دیا کہ تم یہاں مفت کی روٹیاں کھا رہے ہو، جاؤ جا کر کوئی کام کرو یہاں پر کیا رکھا ہے.ان پر سلسلہ کے اموال فروخت کرنے کا الزام بھی ثابت ہوا.آخر ان کی حرکات سے تنگ آکر انہیں پاکستان بھجوا دیا گیا.مولوی عبدالوہاب صاحب کے چھوٹے بھائی عبدالمنان صاحب عمر بھی حضرت مصلح موعودؓ کے خلاف نیش زنی میں پیش پیش تھے.اور ان کا انداز یہ ہوتا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر اعتراض کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے.مثلاً اگر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خدام الاحمدیہ کے اجلاس میں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی تلقین کرتے تو یہ لوگوں کے کان میں کہنا شروع کر دیتے کہ ان سے پوچھو کہ یہ خود گھر کے کتنے کام کرتے ہیں؟ ماسٹر ابراہیم جمونی صاحب کہتے ہیں کہ ایک بار میں نے ان کے بہکانے پر یہ سوال حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سے کر دیا.اس پر آپ نے تحمل سے ان کاموں کی طویل فہرست گنوائی جو سلسلہ کی طرف سے آپ کے سپرد تھے اور پھر فرمایا کہ کیا آپ کے خیال میں یہ سب کام کرنے کے بعد میرے پاس کوئی وقت بیچ سکتا ہے کہ میں اپنے گھر کے کام کروں.ابراہیم صاحب کہتے ہیں کہ مجھے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ میں نے غلط سوال کیا ہے.(۱۲) نظام خلافت کے خلاف فتنہ اُٹھانے والے اندرونی عناصر کا ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ یہ لوگ موقع بھی ملے تو صحیح فورم پر اپنے اعتراضات پیش نہیں کرتے.کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اعتراضات غلط ہیں.اگر ان پر تحقیق کی گئی تو یہ اعتراضات غلط ثابت ہوں گے.لیکن یہ گروہ ادھر اُدھر لوگوں کے سامنے اعتراضات کر کے وسوسے پھیلانے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتا ہے.اس فتنے میں ملوث دیگر افراد کی طرح مولوی عبد المنان صاحب کا بھی یہی طریق تھا.اور جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیماری شروع ہوئی تو اس وسوسہ اندازی نے ایک اور خطرناک انداز

Page 508

498 اختیار کر لیا.۱۹۵۵ء کی مجلس شوری حضور کی بیماری کے دوران ہو رہی تھی.اور مولوی عبد المنان صاحب مجلس شوری کی مالی سب کمیٹی کے ممبر تھے.اور اس ممبر کی حیثیت سے وہ سب کمیٹی کے اجلاس میں کسی بھی مالی معاملے کے متعلق سوالات اُٹھا سکتے تھے.لیکن شوری میں یا سب کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے کوئی اعتراض پیش نہیں کیا.مگر جب پرائیویٹ مجلس میں مکرم چوہدری انور حسین صاحب امیر ضلع شیخو پورہ (جو خود بھی مالی سب کمیٹی کے ممبر تھے ) سے ملے تو یہ اعتراضات شروع کر دیئے کہ لاکھوں کا حساب جماعت کے سامنے رکھا ہی نہیں جاتا.باہر والوں کو پتہ ہی نہیں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے.اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے متعلق ولیعہد کا لفظ استعمال کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ کو کین استعمال کرتے ہیں.ان مواقع پر بعض اور عہدیدار بھی موجود تھے.مکرم چوہدری انور حسین صاحب ذاتی طور پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اچھی طرح جانتے تھے ،اس لئے انہوں نے سختی سے ان لغو الزامات کی تردید کر دی.لیکن ان کو یہ خیال ضرور آیا کہ اگر ان کا کوئی واقف اس قسم کی گفتگو کے دوران انہیں ملنے آئے تو وہ غلط اثر قبول کر سکتا ہے.(۱۳) ان باتوں کے باوجود حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو نائب وکیل التصنیف مقر فرمایا.تا کہ اس طرح خدمت دین میں آکر آپ میں مثبت رحجانات پیدا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے مسند امام احمد بن حنبل کی تبویب کا کام شروع کیا تھا جو نامکمل رہ گیا تھا.مولوی عبد المنان صاحب نے جامعہ احمدیہ کے بعض طلبہ کے ساتھ مل کر اسے مکمل کرنے کا کام کیا (۱۴).(مسند میں راویوں کے حساب سے احادیث درج کی ہوتی ہیں یعنی ایک راوی کی بیان کردہ احادیث ایک ساتھ درج ہوتی ہیں.تبویب میں ان احادیث کو موضوعات کے حساب سے درج کر دیا جاتا ہے.) حضرت خلیفہ امسیح الاول کی اولاد میں آپ علمی ذوق رکھنے والے تھے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کوشش سے آپ کو ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سیمینار پر مدعو کیا گیا.چنانچہ آپ پندرہ جون کو ربوہ سے امریکہ کے لئے روانہ ہو گئے.پروگرام تھا کہ سیمینار کے اختتام پر آپ یوروپی ممالک اور کچھ اسلامی ممالک سے ہوتے ہوئے پاکستان واپس آئیں گے.جب یہ فتنہ منظر عام پر آیا تو آپ ابھی امریکہ میں ہی تھے.(۱۵) اس گروہ کے روابط ایسے شریر گروہ کے ساتھ تھے جور بوہ میں رہ کر نظام جماعت کے خلاف

Page 509

499 پروپیگنڈا کر رہا تھا.یہ گروہ ربوہ کی ابتدائی کچی عمارت کا مذاق اُڑاتا اور حضرت مصلح موعودؓ کے خلاف ہر قسم کے اعتراضات کر کے لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرنے کی کوشش کرتا (۱۶).ان کا طریق کیا تھا ؟ اس کے متعلق مکرم چوہدری محمد علی صاحب جو اس وقت تعلیم الاسلام کالج میں لیکچرار تھے فرماتے ہیں کہ میں جلسہ کے موقع پر جو عارضی ریستواران بنتے ہیں ان میں سے ایک کے پاس سے گذرا.اس میں عبد الحمید ڈاہڈا اور اس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے اصرار کر کے چوہدری صاحب کو اپنے ساتھ بٹھا لیا.عبد الحمید نے الفضل کا سالا نہ نمبر نکال کر دکھایا جس میں ت مصلح موعودؓ کی تصویر شائع ہوئی تھی اور کہا کہ مرزا صاحب نے اپنی تصویر تو شائع کرادی ہے مگر خلیفہ اسی الاول کی تصویر شائع نہیں کی.اس پر چوہدری صاحب نے کہا کہ تصویر شائع کرنے کا تعلق تو الفضل کی انتظامیہ سے ہے نہ کہ حضرت صاحب سے.یہ کہ کر وہ غصے سے باہر چلے گئے.تو ایک عرصہ سے اس قسم کے اعتراضات کرنا اور وسوسے پھیلانا ان لوگوں کا معمول تھا جیسا کہ حضرت عثمان کے عہد میں ہوا.ان میں سے اکثر لوگ بظاہر کم حیثیت کے لگتے تھے جو پبلک مقامات یا اجتماعات پر اس قسم کی باتیں کرتے نظر آتے تھے.اس لئے بہت سے لوگ ان کو اس قابل نہ سمجھتے کہ ان کی حرکات کو سنجیدگی سے لیا جائے لیکن جیسا کہ بعد کے حالات نے ظاہر کیا کہ ان کی باگ ڈور ایک ہاتھ میں تھی اور ایک ذہن اس سازش کے پیچھے کارفرما تھا.یہ ذہن ایک موقع کی تلاش میں تھا ،جس سے فائدہ اُٹھا کر فتنے کی اس آگ کو پوری طرح بھڑ کا دیا جائے.اور جب حضور کی بیماری شروع ہوئی تو اس سازش کے کرتا دھرتا افراد نے یہی سمجھا کہ جس موقع کی تلاش میں ہم تھے وہ موقع اب آگیا ہے.(۱۷) بعد میں تحقیقات پر معلوم ہوا کہ جب جلسہ سالانہ کے موقع پر یہ گروہ ان ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوتا تھا، مولوی عبدالمنان صاحب جو حضرت خلیفہ اسیح الاول کے چھوٹے بیٹے تھے، ان کو جلسہ سالانہ کے بجٹ میں سے مالی مدد مہیا کرتے تھے.اس رقم کو پیشگی ادائیگی ظاہر کیا جاتا اور اس کا حساب کبھی نہ دیا جا تا.(۱۶) فتنہ سر اُٹھاتا ہے: ۱۹۵۶ء میں ان کے ایک ایجنٹ نے مختلف جماعتوں کا دورہ کر کے پراپیگنڈا شروع کر دیا.یہ

Page 510

500 ایجنٹ اللہ رکھا نامی ایک شخص تھا.یہ شخص آزادی سے قبل بھی سلسلہ کے عہد یداران کے خلاف مختلف مقامات پر جا کر زہر اگلتا رہتا تھا.اور اس کے مطابق اس کے علاوہ باقی سب لوگ بد دیانت اور اسکے مخالف تھے.ان کے پراپیگنڈا کی وجہ سے حضور نے اگست ۱۹۴۵ء میں الفضل میں ان کے متعلق ایک اعلان بھی شائع کروایا تھا (۱۸) تقسیم ہند کے بعد یہ کسی طرح قادیان پہنچ گیا اور وہاں پر اس نے درویشوں کو تنگ کرنا شروع کیا اور بعض مقامی افسران کے ساتھ ساز باز کر کے بے کس درویشوں کے خلاف سازشیں شروع کر دیں.ان کے خلاف مقدمات قائم کئے ، جن میں درویشوں کو اپنی ضمانتیں کروانی پڑیں.جن دنوں میں مولوی عبد الوہاب صاحب وہاں پر مقیم تھے یہ مولوی صاحب کی سرگرمیوں میں ان کی معاونت کرتا تھا.اللہ رکھا بعض مقامی افسران کے ساتھ مل کر جماعت کے خلاف ساز باز کرتا.قادیان اور اس کے نواح میں کچھ ایسے افسران متعین تھے جن کی جانیں مغربی پنجاب کے فسادات میں احمدیوں نے بچائی تھیں ، یہ افسران جماعت پر حسن ظن رکھتے تھے.مولوی صاحب ان افسران کے سامنے ایسی باتیں کہتے جن کے نتیجے میں اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہوتا تو غریب اور بے کس درویشوں کے سروں پر مصائب کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑتا (۹).بالآخر کسی طرح قادیان کے درویشوں نے اللہ رکھا صاحب سے نجات حاصل کی اور یہ پاکستان آگئے.اور مولوی وہاب صاحب کو بھی پاکستان بلوالیا گیا.لیکن اللہ رکھا صاحب کے مفسدانہ طرز عمل کی وجہ سے ، حضرت مصلح موعودؓ نے ان کا اخراج از جماعت فرما دیا.پاکستان آنے کے بعد ۱۹۵۰ء میں اللہ رکھا صاحب پیغامیوں کے ہیڈ کواٹر احمد یہ بلڈنگز میں مقیم ہو گئے اور ان کو وہاں پر سہولیات مہیا کی گئیں.یہ سب کچھ پیغامیوں کے امیر صاحب کے حکم کے تحت ہو رہا تھا.وہ اس وقت بھی ان کا کچھ کام کرتے تھے مگر عملی طور پر ان کی سرگرمیاں ۱۹۵۶ء تک پردہ راز میں ہی رہیں.جب یہ فتنہ شروع ہوا تو پیغامی ان حقائق سے انکار کرتے رہے کہ ان کا اللہ رکھا صاحب سے کوئی تعلق ہے مگر عرصہ بعد ۱۹۷۴ء میں جب اللہ رکھا کا ان سے بھی جھگڑا ہو گیا تو اس نے خود یہ حقائق ایک خط کی صورت میں روزنامہ امروز کی ۲۱ مئی ۱۹۷۴ء کی اشاعت میں شائع کروا دیئے اور اس جھوٹ کی پردہ دری ہوگئی.بہر حال ۱۹۵۶ء کے شروع میں انہوں نے مختلف جماعتوں کا دورہ شروع کیا.اور یہ ظاہر کیا

Page 511

501 کہ وہ جماعت احمد یہ مبائعین سے تعلق رکھتے ہیں.اور جو ان کی سابقہ حرکات سے واقف تھے انہیں یہ کہتے کہ مجھے اپنی سابقہ حرکات کی معافی مل چکی ہے اور اس کے ثبوت میں وہ مولوی عبد الوہاب صاحب کا خط دکھاتے جو بظاہر ان کی والدہ کی وفات پر تعزیت کے جواب میں لکھا گیا تھا.مگر یہ حقیقت قابل توجہ ہے کہ یہ خط حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی بیگم صاحبہ کی وفات کے نو ماہ بعد لکھا گیا تھا اور اس میں لکھا گیا تھا کہ آپ کے تو ہمارے ساتھ بھائیوں والے تعلقات ہیں.اور اللہ رکھا صاحب جماعت کے کچھ بزرگان کا نام لے کر کہتے کہ انہوں نے بھی مجھے خطوط لکھے ہیں لیکن وہ اس وقت میرے پاس نہیں ہیں.جب انہیں جماعت کی کسی مسجد یا مہمان خانے میں ٹھہرا لیا جاتا تو یہ اپنا مخصوص پراپیگنڈا شروع کر دیتے کہیں پر کہتے کہ اب حضرت صاحب بوڑھے ہو گئے ہیں اور خلافت کے قابل نہیں رہے، کہیں پر مقامی امیر کے خلاف زہرا گلا اور کہیں پر کہا کہ حضور کی وفات کے بعد میاں ناصر کو خلیفہ بنانے کی سازش ہو رہی ہے اور ہم ان کی ہرگز بیعت نہیں کریں گے،اگر عبدالمنان عمر صاحب خلافت کا اعلان کریں تو ہزاروں ان کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں، ایک انقلاب آنے والا ہے.دو سال میں پھر خلافت کا جھگڑا کھڑا ہونے والا ہے.مری میں جب اس کی حرکات کی وجہ سے اسے خیبر لاج سے نکالا گیا تو اس نے طیش میں آکر کہا کہ ڈیڑھ سال میں مجھے نکالنے والوں پر تباہی آئے گی (۱۹،۱۰).اس طرح اس نے سرحد، پنجاب اور کشمیر کی بہت سی جماعتوں کے دورے کئے اور لوگوں کو بھڑکانے کی کوششیں کیں.بہت سی جماعتوں میں مقامی احمدیوں نے اسے صاف کہہ دیا کہ تو ہمارے خلیفہ کی موت کا متمنی ہے اس لئے ہم تجھ سے بیزار ہیں تو یہاں سے فوراً نکل جا.ان سفروں کے دوران بھی اس کے اور پیغامیوں کے روابط ظاہر ہوتے رہے.یہ پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا اور ان کے عمائدین کو خطوط لکھتا رہا.اور کئی مرتبہ یہ ان کے پاس جا کر ٹھہرا اور خاص طور پر پیغامیوں کے ایک سرکردہ لیڈر میاں محمد صاحب کی خاص طور پر تعریف کرتا رہا اور بعد میں تحقیق پر معلوم ہوا کہ پیغامیوں میں اس کا تعلق میاں محمد صاحب کے گروہ سے تھا(۱۹،۱۰،۲۱،۲۰).یہ شخص دیکھنے میں کم علم دکھائی دیتا تھا اور لگتا یہی تھا کہ یہ شخص کوئی ہوشیار شخص نہیں ہے لیکن اس کی مہار جن کے ہاتھوں میں تھی اُن کی مکاری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک صاحبزادے

Page 512

502 سے وقتی طور پر ناراض ہوئے تو یہ اللہ رکھا اُن کے پاس کو ہاٹ جا پہنچا اور ان کو مل کر کہنے لگا کہ دیکھیں میاں ناصر احمد صاحب کو خلیفہ بنانے کی سازش کی جارہی ہے ، حالانکہ حق تو میاں بشیر احمد صاحب کا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ان صاحبزادے نے جب یہ سنا تو مومنانہ رویہ دکھاتے ہوئے سختی سے اس کی لغویات کو رد کر دیا اور اسے اپنے پاس ٹھہر نے بھی نہیں دیا.اور فوراً سارا واقعہ لکھ کر حضور کی خدمت میں بھجوا دیا.ان سے رابطہ کرنے والوں کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اس وقت تک دفتر نہیں جاتے تھے جب تک حضور کی خدمت میں معافی کا خط سپر د ڈاک نہ کر دیں.اور روزانہ ایسا ہی کرتے رہے جب تک حضور کی ناراضگی دور نہیں ہوگئی.(۲۱) جیسا کہ حضرت عثمان کے وقت میں ہوا تھا یہ مفسدین بھی کبھی آئندہ ہونے والے خلیفہ کے لئے کسی کا نام لیتے اور کبھی کسی کا.لیکن اب ایک پراپیگنڈا مسلسل کیا جا رہا تھا کہ اگر آئندہ مرزا ناصر احمد صاحب کو خلیفہ بنایا گیا تو ہم بیعت نہیں کریں گے بلکہ ہم تو صرف مولوی عبد المنان صاحب کو ہی خلیفہ تسلیم کریں گے.(۲۲) اور تو اور ان کے بعض ایجنٹ عیسائی بھی تھے جو احمدیوں سے مل کر کہتے تھے کہ حضرت مصلح موعود اپنے بیٹوں کو آگے لانے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ مولوی عبدالمنان صاحب مرزا ناصر احمد صاحب سے زیادہ عالم اور موزوں ہیں.حالانکہ ایک عیسائی نہ آنحضرت پر ایمان لائے اور نہ حضرت مسیح موعود پر ، اسے آپ کی خلافت سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی.(۲۳) فتنہ بے نقاب کیا جاتا ہے: کئی دہائیوں سے یہ گروہ حضور کو تکالیف پہنچا رہا تھا لیکن حضور حضرت خلیفہ انبیع الاول کی محبت اور احترام کی وجہ سے پردہ پوشی سے کام لے رہے تھے اور ان کی اصلاح کے لئے کوششیں فرما رہے تھے.مگر اب اس سازش کا وہ رخ ظاہر ہو رہا تھا جس سے واضح ہوتا تھا کہ اب ان کو آلہ کار بنا کر مخالفین نظام خلافت پر ایک خوفناک حملہ کرنا چاہتے ہیں اور عبد اللہ بن سبا کی طرح جگہ جگہ افواہوں اور الزام تراشیوں کو استعمال کر کے اپنا جال بچھایا جا رہا تھا.اور اب یہ گروہ ایک ڈیڑھ سال اچھی طرح پراپیگنڈا کرنے کے بعد اس فتنے کو پوری طرح بھڑ کا نا چاہتا ہے.اس صورت حال میں حضور نے ان لوگوں کی ریشہ دوانیاں کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ فرمایا.چنانچہ ۲۵ جولائی کو اللہ رکھا کے متعلق

Page 513

503 اور ۲۸ جولائی ۱۹۵۶ء کو مولوی عبد الوہاب صاحب کے منافقانہ پروپیگنڈا کے متعلق شہادتیں الفضل میں شائع کر دی گئیں.اس سے یکلخت اس سازش سے پردہ ہٹ گیا اور اس میں ملوث لوگ ننگے ہو کر سامنے آگئے.بہت سے لوگ اپنی اپنی جگہ پر یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ باتیں صرف ان کے محدود حلقے میں ہی کی گئیں ہیں لیکن ان شہادتوں سے یہ امر سب پر عیاں ہو گیا کہ یہ پراپیگینڈا وسیع پیمانے پر اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جا رہا ہے.اور کچھ ہاتھ ان کٹھ پتلیوں کو حرکت دے رہے ہیں.حضور نے اس بات پر بھی اظہار ناراضگی فرمایا کہ جب مختلف لوگوں اور ذمہ دار احباب کے علم میں یہ باتیں آچکی تھیں تو ان کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئیے تھا بلکہ فوراً حضور کے علم میں لانا ضروری تھا یا جماعتی عہد یداروں کو مطلع کرنا چاہیئے تھا.یہ صورت حال فتنہ پردازوں اور ان کے آقاؤں کے لئے بہت پریشان کن تھی کیونکہ جس قسم کی وسوسہ اندازی وہ کر رہے تھے وہ صرف اس صورت میں کارگر ہو سکتی تھی جب کہ اُن کے اصلی چہرے لوگوں سے پوشیدہ ہوں مگر اب ان کی حقیقت کھل کر سب کے سامنے آ رہی تھی.جلد ہی تمام جماعتوں ، جماعتی اداروں اور احباب جماعت نے انفرادی طور پر بھی حضور کی خدمت میں اپنا اظہار وفاداری پیش کیا اور اس مہم کو چلانے والوں سے مکمل بیزاری ظاہر کی.یہ رد عمل اتنا واضح اور شدید تھا کہ اس سے فتنہ پروروں کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی.ان کی سازش کا جال بڑی تیزی سے بکھر رہا تھا.جیسا کہ حضرت عثمان کے عہد میں ہوا تھا ، جب مفسدین اپنے آپ کو گھر اہوا پاتے تو فوراً معافیاں مانگنے پر آ جاتے اور کچھ دیر بعد پھر ریشہ دوانیاں شروع کر دیتے ، اس مرحلے پر مولوی عبد الوہاب صاحب نے حضور کی خدمت میں ایک خط تحریر کیا اور درخواست کی اسے بھی شائع کر دیا جائے.اس میں لکھا کہ اصل میں اللہ رکھا کے متعلق ان کا خیال تھا کہ اسے معافی مل چکی ہے، اس لئے انہوں نے اس کے خط کا جواب دیا.ورنہ وہ ہر طرح سے خلافت کے دامن سے وابستہ ہیں.مگر انہوں نے ان شہادتوں کا کوئی ذکر نہ کیا جن کی رو سے وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے خلاف زہرا گلتے رہے تھے.مگر چونکہ یہ شہادتیں بہت سے لوگوں کی تھیں اور روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اس لئے شاید انہیں ان سب کی جھوٹی تردید کی ہمت نہ ہوئی ہو.ان کا خط الفضل میں شائع کر دیا گیا اور ساتھ ہی حضور کا جواب بھی شائع ہوا.اس میں حضور نے ان کی توجہ ان بیسیوں حلفیہ شہادتوں کی طرف مبذول کرائی جو ان کی کاروائیوں کے

Page 514

504 متعلق الفضل میں شائع ہو رہی تھیں اور جن کے متعلق انہوں نے اپنے خط میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی تھی.اس کے آخر میں حضور نے تحریر فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو الہام ہو ا تھا جسے حضرت اُم المؤمنین نہیں سمجھی تھیں اور گھبرا گئی تھیں.حضرت مسیح موعود نے یہ الہام لکھ کر حضرت خلیفہ اول کو بھجوایا تھا اور حضرت خلیفہ اول نے اسے پڑھ کر حضرت ام المؤمنین کو تسلی دی تھی کہ یہ الہام آپ کے لئے برا نہیں ہے.اس الہام کا مضمون یہ تھا کہ جب تک حضرت خلیفہ اول اور آپ کی بیوی زندہ رہیں گے آپ کی اولاد سے حسن سلوک کیا جائے گا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ ان کو ایسا پکڑے گا کہ پہلے کسی کو نہیں پکڑا ہو گا.اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس طرح پر ظاہر ہوئی کہ حضرت خلیفہ اول کی بیگم حضرت اماں جی کی زندگی تک یہ فتنہ دبارہا مگر ان کی وفات کے بعد جلد ہی ظاہر ہو گیا.حضور نے تحریر فرمایا کہ میں نے آپ کے ہاتھ سے گذشتہ میں سال میں بہت سی خنجریں کھائی ہیں مگر اب چونکہ مسیح موعود کے کلام اور کی حفاظت اور وقار کا سوال تھا اس لئے مجھے بھی جواب دینا پڑا.اگر وہ کڑوا لگتا ہے تو اپنے آپ کو ملامت کریں یا موت کے بعد حضرت خلیفہ اول کی ملامت سن لیں.(۲۴) یہ معاملہ ایسا نہیں تھا کہ محض ایک معافی مانگنے پر اسے ختم متصور کیا جاتا.جماعت کے خلاف ایک طویل عرصہ ایک منظم سازش جاری رکھی گئی تھی اور بار بار کی پردہ پوشی کے باوجود یہ لوگ اپنی سازشوں میں بڑھتے ہی گئے تھے.اس مرحلہ پر بعض سادہ مزاج احمدی بھی یہ خیال کر رہے تھے کہ شاید یہ فتنہ اتنا زیادہ سنگین نہیں کہ اس پر اتنی توجہ دی جائے.حضور نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا د بعض کمزور طبع احمدی کہتے ہیں کہ کیا چھوٹی سی بات کو بڑھا دیا گیا ہے.لاہور کا ہر شخص جانتا ہے کہ عبدالوہاب فاتر العقل ہے.پھر ایسے شخص کی بات پر اتنے مضامین اور اتنے شور کی ضرورت کیا تھی.حضرت عثمان کے وقت میں جن لوگوں نے شور کیا تھا.ان کے متعلق بھی صحابہ یہی کہتے تھے کہ ایسے زئیل آدمیوں کی بات کی پرواہ کیوں کی جاتی ہے..پھر وہ لوگ بتائیں کہ حضرت عثمان کے وقت میں شرارت کرنے والے لوگوں کو حقیر قرار دینے والے لوگ کیا بعد میں اسلام کو جوڑ سکے.اگر وہ اس وقت منافقوں کا مقابلہ

Page 515

505 کرتے تو نہ ان کا کوئی نقصان تھا نہ اسلام کا کوئی نقصان تھا.مگر اس وقت کی غفلت نے اسلام کو بھی تباہ کر دیا.اور اتحاد اسلام کو بھی برباد کر دیا.(۲۵) مخالفین کے اس الزام پر کہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو خلیفہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تحریر فرمایا ناصر احمد کے خلیفہ ہونے کا کوئی سوال نہیں خلیفے خدا بنایا کرتا ہے.جب اس نے مجھے خلیفہ بنایا تھا تو جماعت کے بڑے بڑے آدمیوں کی گردنیں پکڑوا کر میری بیعت کروادی تھی.جن میں ایک میرے نانا، دو، میرے ماموں ایک میری والدہ ایک میری نانی ایک میری تائی اور ایک میرے بڑے بھائی بھی شامل تھے.(۲۶) اگست میں حضور کو الہام ہوا ، کہ آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں.اس کی تشریح بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا، دیعنی جماعت سے پھر کہو یا تو تم مجھے چھوڑ دو اور اور میری تصنیفات سے فائدہ نہ اُٹھاؤ نہیں تو میرے ساتھ وفاداری کا ویسا ہی معاہدہ کرو جیسا کہ مدینہ کے لوگوں نے مکہ کی عقبی جگہ پر رسول اللہ ﷺ سے معاہدہ کیا تھا.اور پھر بدر کی جنگ میں کہا تھا یا رسول اللہ ! یہ نہ سمجھیں کہ خطرہ کے وقت میں ہم موسیٰ کی قوم کی طرح آپ سے کہیں گے کہ جا تو اور تیرا خدا لڑتے پھر وہم یہیں بیٹھے ہیں.یا رسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑینگے بائیں بھی لڑینگے اور آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن اسوقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آگے نہ آئے.(۲۷) جولائی کے مہینے میں اس فتنہ کے متعلق شہادتیں کثرت سے شائع ہوئیں.اب اس سازش کو پہلے کی طرح آگے بڑھانا ممکن نہیں نظر آرہا تھا.چنانچہ اگست میں اس کی پشت پناہی کرنے والوں کو کھل کر سامنے آنا پڑا.بعض اخبارات نے ان کی اعانت کے لئے جھوٹی خبریں شائع کرنا شروع کیں.اخبار نوائے پاکستان اور سفینہ اس میں پیش پیش تھے.کبھی یہ خبر لگائی کہ اللہ رکھا نے مرزا بشیر الدین محمود احمد کے خلاف عدم اعتماد کی موثر تحریک چلائی ہوئی ہے.کبھی یہ سرخی جمائی کہ جماعتِ احمد یہ چنیوٹ نے بغاوت کر دی ہے.اور جب زیادہ سنسنی پھیلانی مقصود ہوئی تو یہ شائع کر دیا کہ

Page 516

506 چوہدی ظفر اللہ خان نے خلیفہ قادیان سے مرعوب ہونے سے انکار کر دیا.اور اس افواہ سازی کا انجام یہ ہوا کہ جماعت احمد یہ چنیوٹ نے اپنا اظہار وفاداری شائع کروا کر جھوٹوں پر لعنت بھیجی اور اللہ رکھا کے اپنے حقیقی بھائیوں نے اس سے اظہار بیزاری شائع کرا کے اعلان کیا کہ وہ خلافت سے وفا داری کو ہر رشتہ داری پر مقدم رکھتے ہیں اور اس سے کوئی تعلق بھی نہیں رکھنا چاہتے.اور حضرت چوہدری صاحب نے حضور کی خدمت میں ایک عریضہ میں لکھا کہ جو عہد حضور نے طلب فرمایا ہے دل و جان اس کے مصدق ہیں جو کچھ پہلے حوالہ کر چکے ہیں.وہ اب بھی حوالہ ہے.(۲۸ تا ۳۱) اس موقع پر اخبار زمیندار پیچھے نہیں رہ سکتا تھا.۱۹۵۳ء میں ہونے والی ناکامیوں کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے.اس اخبار نے خبر شائع کی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اللہ رکھا سے ستر ہزار روپیہ قرض لیا تھا اور واپس نہیں کیا.حالانکہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے خطبہ جمعہ میں اس کی واپسی کا وعدہ بھی کیا تھا (۳۲).زمیندار کو جھوٹی خبر لگانے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا تھا تبھی باوجود اتنا پرانا اخبار ہونے کے اس کو چند سالوں کے بعد بند کرنا پڑا.اللہ رکھا لنگر خانے میں ایک معمولی ملازم تھا ، اس کے پاس اتنا روپیہ کہاں سے آیا کہ وہ اتنی بڑی رقوم کے قرضے دیتا پھرے.اور جس خطبہ جمعہ کا حوالہ گھڑا گیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف زمیندار کے ایڈیٹر نے ہی سنا تھا اور کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہیں ہوئی.جب بھی اس طرح کا فتنہ کھڑا کیا جاتا ہے تو سازش میں شریک اخبارات کا ایک خاص طریق یہ ہوتا ہے کہ فورا یہ خبر لگائی جاتی ہے کہ احمدیوں میں بہت بد دلی پھیل گئی ہے اور بہت سے احمدی اب جماعت احمدیہ کو چھوڑ رہے ہیں.اس طرح وہ ایک طرف تو ناواقف احمدیوں میں پریشانی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اپنے اُن آقاؤں کو اپنی نام نہاد کار کردگی دکھانا چاہتے ہیں جن کی مدد کا سہارا لے کر فتنہ کھڑا کیا جا رہا ہوتا ہے.اس مرتبہ بھی ان اخبارات نے یہی حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی.(۳۳) اور پھر ۹ اگست ۱۹۵۶ء کی اشاعت میں اخبار نوائے پاکستان نے صفحہ اول پر خبر شائع کی کہ مرزا محمود قادیانیوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور قادیانی ان دھمکیوں کو عدالت میں چیلنج کریں گے.اور اب قادیانیوں کے نئے خلیفہ کے انتخاب کا قضیه سنگین صورت اختیار کر گیا ہے.اور اسی روز کے اداریے میں اس اخبار نے الزام لگایا کہ حضرت

Page 517

507 خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو قتل کی دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں اور یہ فرضی مظلوم بجائے پولیس کے پاس جانے کے خوفزدہ ہو کر سیدھا نوائے پاکستان کے مدیر کے پاس آئے ہیں.بالکل اسی انداز میں حضرت عثمان کے عہد میں منافقین نے ان الزام پر مشتمل افواہیں اڑانی شروع کی تھیں کہ حضرت عثمان اپنے مخالفین کو قتل کرنے کی سازش کر رہے ہیں.اور پھر نوائے پاکستان نے ۱۲ اگست کو یہ لا یعنی خبر شائع کی کہ حضرت مصلح موعودؓ نے مخالفین کو ان کی جائیدادوں سے محروم کر دیا ہے اور ان کا مخالف گروپ عبد المنان عمر صاحب کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے.اس سے مقصد یہ تھا کہ منافقین کو ایک مظلوم کے روپ میں پیش کر کے ان کے لئے ہمدردیاں حاصل کی جائیں.اب جبکہ اس سازش میں پیغامیوں کا نام آچکا تھا اور یہ حقائق بھی شائع ہو چکے تھے کہ اس سازش کے کرتا دھرتا لوگ پیغامیوں کے ساتھ مل کر یہ فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.غالباً پیغامی اس صورتِ حال کے لئے پوری طرح تیار نہیں تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ ایک لمبا عرصہ یہ پرو پیگنڈا کرتے رہیں گے اور اس منصوبے کا کوئی خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا جائے گا حتی کہ جب ماحول ان کے لئے پوری طرح سازگار ہو جائے گا تو پھر وہ اس فتنہ کا آخری مرحلہ شروع کر دیں گے.جب وہ نظام خلافت سے منکر ہو کر علیحدہ ہوئے تو انہیں امید تھی کہ اپنی مداہنت کی وجہ سے انہیں مبائعین کے مقابلہ پر تبلیغ میں نمایاں کامیابی ملے گی لیکن نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا.خلافت سے وابستہ جماعت تیزی سے ترقی کرتی رہی اور غیر مبائعین کی جماعت مردنی کا شکار ہوتی رہی.اب وہ اپنے میں زندگی کی رمق پیدا کرنے کے لئے کوشش کر رہے تھے کہ خلافت سے وابستہ جماعت کو خلافت سے بدظن کر کے اپنا ہم نوا بنا لیں.لیکن ایک ماہ کے اندر تیزی کے ساتھ ان کی سازش کی حقیقت سب ظاہر ہوگئی اور یہ بھی ظاہر ہونے لگا کہ اس فتنے کو بھڑکانے کی کوششوں میں وہ بھی بنیادی کردار ادا کر رہے تھے.اب انہوں نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ ان کے ترجمان پیغام صلح نے یہ لکھنا شروع کیا کہ ان لوگوں نے خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا لیا ہے، اللہ رکھا تو مفلوک الحال سا شخص ہے.(۳۴) اور خواہ مخواہ ہمارے پر الزام لگایا جارہا ہے کہ ہم نے اللہ رکھا کو اس کام پر لگایا ہؤا ہے.ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں.وہ تو ایک معمولی جھلا سا درویش ہے.یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہر

Page 518

508 شخص سے اس کی جان پہچان ہو.کئی شہادتوں سے یہ معلوم ہوا تھا کہ اللہ رکھا اور پیغامیوں کے ایک لیڈر میں میاں محمد صاحب کا آپس میں تعلق ہے.اس لئے میاں محمد صاحب نے پیغام صلح میں لکھا کہ میں نے ہرگز اُس کے ساتھ کوئی ساز باز نہیں کی وہ کچھ مرتبہ میرے پاس آیا تھا اور میں نے اسے غریب جان کر اس کی مدد کر دی.اور اس سے زیادہ ہمارا اس کے ساتھ کچھ تعلق نہیں.(۳۵) پیغام صلح نے اس الزام کا ذکر کرتے ہوئے کہ اللہ رکھا کا پیغامی جماعت کے قائدین سے کوئی تعلق ہے لکھا، ہم ان کے تمام بیانات کو پڑھ کر حیران ہیں کہ جو قیاس آرائیاں انہوں نے حضرت مولنا صدرالدین صاحب یا جناب میاں محمد صاحب کے متعلق کی ہیں انہیں ان کی کسی خاص دماغی کیفیت کا نتیجہ قرار دیں یا فتنہ منافقین کا اثر کم از کم ان شہادتوں میں اللہ رکھایا دوسرے منافقین کے متعلق وہ پیش کر رہے ہیں،حضرت مولنا صدرالدین صاحب یا جناب میاں محمد صاحب یا جماعت لاہور کے کسی اور فرد کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا ، پھر انہوں نے کس طرح ان کو اس ناپاک سازش میں ملوث قرار دے دیا.خلیفہ صاحب کو معلوم ہونا چاہئیے کہ حضرت مولانا صدرالدین صاحب اور جناب میاں محمد صاحب کا مقام اس سے بہت بلند ہے، جو اُنہوں نے سمجھا ہے...(۳۴) جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ رکھا تو ایک نیم دیوانہ سا شخص ہے اس کی باتوں کو سنجیدگی سے کیا لینے کی ضرورت ہے.تو مندرجہ ذیل حقائق ہی اس بات کو خلاف عقل قرار دے دیتے ہیں.۱۹۴۵ء سے پہلے سے یہ شخص مختلف مقامات پر جا کر جماعتی عہد یداروں کے خلاف بدظنیاں پھیلا رہا تھا.حتی کہ حضور کو اس کے متعلق الفضل میں اعلان شائع کرانا پڑا.۱۹۴۷ء کے پر آشوب دور میں جب کہ مشرقی پنجاب مسلمانوں سے تقریباً مکمل طور پر خالی ہو چکا تھا اور کوئی مسلمان آزادی سے باہر بھی نکل سکتا تھا ، اُس وقت یہ شخص قادیان جا پہنچتا ہے اور نہ صرف غریب درویشوں کو تنگ کرتا ہے بلکہ ایسے مقامی افسران سے تعلقات بھی بنالیتا ہے جو مسلمانوں سے تعصب رکھتے تھے اور ان کے ساتھ مل کر درویشوں کے خلاف مقدمات بھی بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے.پھر پاکستان میں یہ شخص جگہ جگہ پھر کر مہم چلاتا ہے اور جب الفضل میں اس مہم کی حقیقت شائع ہوتی ہے تو ایک سے زیادہ ملکی اخبارات اس کی مدد شروع کر دیتے ہیں.اور اسکے الزامات اور چیلنجوں کو اتنی اہمیت دی

Page 519

509 جاتی ہے کہ کو ہستان اخبار جس کے ایڈیٹر نسیم حجازی صاحب تھے جو کہ کئی کتابوں کے مصنف تھے، اللہ رکھا صاحب کے الزامات پر تین تین کالم کے مضامین لکھتے ہیں (۳۶) اور اخبار نوائے پاکستان نے اس کے الزامات اور سرگرمیوں کو اپنے اخبار کے صفحہ اول پر جگہ دی.گیارہ بارہ سال پر محیط ان سب حقائق کی موجودگی میں اگر کوئی یہ اصرار کرے کہ اس شخص کی کاروائیوں کو سنجیدگی سے کیا لینے کی ضرورت ہے تو پھر ایسی دانشمندی کا کوئی علاج نہیں.اصل میں ایسی سازشیں صرف اُس وقت پنپتی ہیں جب الہی جماعت ان خطرات کا پوری طرح اندازہ نہ کرے اور سب اس سے آگاہ نہ ہوں.جب سازش کرنے والوں نے دیکھا کہ پوری جماعت ہوشیار ہو گئی ہے تو پیغام صلح کے ذریعہ تھپک تھپک کر سلانے کی کوشش کی گئی کہ کوئی خطرہ نہیں غفلت کی نیند سو جاؤ.جہاں تک پیغامیوں کے اس دعوئی کا تعلق ہے کہ ان کا اس سازش سے کوئی تعلق نہیں اور الفضل میں شائع ہونے والی شہادتوں میں بھی ان کے قائدین کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں پایا جاتا تو نہ معلوم لکھنے والے نے کس ذہنی رو میں ایسا لکھ دیا تھا کیونکہ اس دعوی کی اشاعت سے صرف چند روز پہلے ہی ۲۸ اور ۲۹ جولائی کو ایسی واضح شہادتیں شائع ہوئی تھیں کہ یہ شخص پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا، ان کے قائدین سے بار بار ملا، ان کے ہاں کھانا بھی کھاتا رہا.اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ پیغام صلح میں شائع ہونے والے اس دعوے کی قلعی ۱۹۷۴ء میں پوری طرح کھل گئی جب اللہ رکھا کا غیر مبایعین سے جھگڑا ہو گیا اور اس نے امروز میں اظہارِ حقیقت کے نام سے اپنا ایک بیان شائع کرایا جس کا آغاز ہی اس اعتراف سے ہوتا ہے کہ اللہ رکھا صاحب ۱۹۵۰ء سے نہ صرف پیغامیوں سے منسلک تھے بلکہ اُن کے ہیڈ کوارٹر احمد یہ بلڈنگز میں بھی مقیم تھے اور ان کا کام کرتے تھے.اور پھر انہوں نے غیر مبایعین پر مالی الزامات کے علاوہ اپنے خلاف سازش کرنے کے بھی الزامات لگائے.اس طرح خدا نے اس جھوٹ کی پردہ دری کر دی.(۳۷) حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت زیرک طبیعت عطا فرمائی تھی.اس مرحلے پر جبکہ بہت سے احمدی اس فتنہ کی گہرائی کو نہیں بھانپ رہے تھے ، آپ نے ۳ اگست ۱۹۵۶ء کو الفضل میں ایک مختصر مضمون شائع فرمایا.حالانکہ آپ کی طبیعت میں ایک حجاب تھا اور آپ نے بہت کم مضمون تحریر فرمائے ہیں.آپ نے احباب جماعت کو اس فتنہ میں اپنے لئے اور اپنے اہل وعیال کی

Page 520

510 دعاؤں کے لئے تلقین فرمائی اور تحریر فرمایا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا فتنہ ہے اور ایک ادنی درجہ کا ذلیل آدمی اس کا پراپیگنڈا کر رہا ہے.اس کے خلاف حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کو اس شد و مد سے مخالفت کرنے کی کیا ضرورت تھی.فتنے ہمیشہ ابتداء چھوٹے ہوا کرتے ہیں اور اگر وقت پر ان کو نہ سنبھالا جائے تو اتنے پھیل جاتے ہیں کہ پھر کسی انسان کے کے بس کی بات نہیں رہتی...کسی فتنہ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئیے خصوصاً جبکہ مرکز اس کو اہمیت دیتا ہو.کیونکہ مرکز میں ایسے حالات پہنچتے ہیں جن کا عام جماعت کو پتہ بھی نہیں ہوتا.اس لئے میں پھر آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس فتنہ کو چھوٹا نہ سمجھیں بلکہ بہت بڑا فتنہ سمجھیں.یہ صرف اللہ رکھا کی کاروائی نہیں ہے.بلکہ اس کے پیچھے ایک گروہ ہے.اگر چہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ منافق جو اپنے آپ کو ہماری جماعت سے منسوب کرتے ہیں.ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے.مگر باہر سے مدد کرنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں.(۳۸) بیرونی مددگاروں میں سے کچھ سامنے آتے ہیں: زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی بات بالکل صحیح ثابت ہوگئی.منافقین کی پشت پناہی کرنے والا گروہ کھل کر ان کی مدد کو آ گیا.اگست کے آخر اور ستمبر کے شروع میں بہت سے ملکی اخبارات اس فتنہ کی اعانت کھل کر کرنے لگے.اخبار کو ہستان خاص طور پر ان مفسدین کی اعانت کر رہا تھا اور عملاً یہ صورت حال تھی کہ ہر دوسرے دن اس میں اس فتنہ کے متعلق کوئی نہ کوئی شرانگیز خبر شائع ہوتی تھی.عملاً یہ اخبار مفسدین کے ترجمان کا کردار ادا کر رہا تھا.اور ان کے بیانات اور خطوط کو بڑے اہتمام سے شائع کرتا تھا اور ان پر ہونے والے فرضی مظالم کی خبر بنا کر اس کو شائع کرتا ، پھر اس کی مذمت اس خبر کے ساتھ شائع کی جاتی (۴۰،۳۹).کوہستان نے ایک طویل ادار یہ لکھا اور اس میں عبد المنان صاحب عمر اور اللہ رکھا صاحب کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش بھی کی.اس اداریے میں لکھا

Page 521

511 'مرزا صاحب اس خلفشار کو چند شریر آدمیوں کے سر منڈھنے کی کوشش کر رہے ہیں.لیکن حقائق کچھ اور ہیں.اللہ رکھا، عبد المنان عمر اور چند ایک طالب علم صرف اس بغاوت کے حقیقی کردار نہیں ہیں.یہ خلفشار ایک ذہنی انقلاب کی تمہید ہے.یہ بات صرف یہاں تک محدود نہیں ہے کہ قادیانی قوم کے کچھ افراد مرزا صاحب کو خلافت سے اس لئے اتارنا چاہتے ہیں کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں.یا ان کی ذہنی صحت اور جسمانی قومی جواب دے چکے ہیں..یہ صرف تخت کے وارثوں کا جھگڑا نہیں ہے جولوگ اب تک ان کو آنکھیں بند کر کے نعوذ باللہ نبی ولی مہدی ملہم اور امیر المومنین سمجھتے تھے.ان کی آنکھوں سے پٹیاں کھل رہی ہیں.وہ محسوس کر رہے ہیں کہ زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے.جس تقدس ، الہام، نبوت علم کلام اور سلسلہ اوھام وخرافات کو وہ حقیقت اور دین سمجھ بیٹھے تھے وہ دکان داری اور دھو کہ ہے اور ایک شخص اپنی چالا کی اور ہوشیاری سے انہیں اب تک بیوقوف بنا تا رہا ہے..ہمارے نزدیک اب اس مذہب کو تاریخی قوتوں کے حوالے کر دینا چاہئیے.وہ خود ہی اس سے نبٹ لیں گی.(۴۱) تاریخ نے کیا شہادت دی؟ اس اداریہ کے بعد جماعت نے ترقی کی یا تنزل کا شکار ہوئی.ان سوالات کے جواب میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں.مخالفین کی عادت ہے کہ ہر کچھ سالوں کے بعد انہیں جماعت کی تباہی کے خواب آنے شروع ہو جاتے ہیں اور جلد ہی ان کی خوش فہمیاں دم تو ڑ دیتی ہیں.اس مرتبہ بھی یہی ہوا.کوہستان کی خام خیالی جلد ہی دم تو ڑ گئی.یہ اخبار بند ہو کر ماضی کا قصہ بن گیا مگر جماعت احمد یہ پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرتی رہی.پاکستان ٹائمنز نے خبر لگائی کہ چالیس سال کے بعد ایک بار پھر جماعت احمدیہ میں خلافت کے مسئلہ پر تفرقہ پڑ گیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر کسی ایسے شخص کو لیڈر بنایا گیا جس کی پوری جماعت عزت نہیں کرتی تو جماعت پھر تقسیم ہو جائے گی.اور لکھا کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے بار باخطبات میں متنبہ کیا ہے کہ تفرقہ پیدا کرنے والوں سے ہوشیار رہیں اور ان کی نگرانی کریں.عبدالمنان عمر کو ان حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے.ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے علم اور

Page 522

512 روحانی فضیلت کی بنا پر نوجوان نسل میں بہت مقبول ہو گئے ہیں.دوسری طرف مخالفین محسوس کرتے ہیں کہ مرزا ناصر احمد کو غیر رسمی طور پر جماعت کو چلانے کے اختیارات دیئے جا رہے ہیں.انہیں انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کا صدر مقرر کر دیا گیا ہے.(۴۲) روزنامہ نوائے وقت نے اداریہ لکھا کہ احمدیوں نے جن کے خلاف منافقت کا الزام لگایا ہے اُن کا سوشل بائیکاٹ کر کے ان پر ظلم کیا ہے.پھر مرزا صاحب احمدیوں کے سوشل بائیکاٹ کی کس منہ سے شکایت کرتے ہیں.(۴۳).اور نوائے پاکستان نے بھی یہی الزام لگاتے ہوئے لکھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے حکم پر مولوی عبدالوہاب صاحب کا سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا ہے تا کہ انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے (۴۴).یہ ویسے ہی مضحکہ خیز الزام تھا.اُس وقت تک جن مفسدین کے نام سامنے آ رہے تھے، وہ لا ہور اور دیگر ایسے شہروں میں رہ رہے تھے جہاں پر احمدیوں کی تعداد دو تین فیصد سے زیادہ نہیں تھی.خود مولوی عبدالوہاب صاحب لاہور میں رہائش پذیر تھے.احمدیوں کے لئے کسی طرح یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ ان کا ایسا بائیکاٹ کریں کہ یہ لوگ بنیادی حقوق سے ہی محروم ہو جائیں.بلکہ ایسے شہر میں جہاں احمدی صرف دو تین فیصد ہوں وہاں پر اُن کی طرف سے کسی قسم کے بائیکاٹ کی مہم چلانا ایک بے معنی بات تھی.لیکن ایسی صورت میں جب مفسدین اس قسم کے الزام لگا رہے تھے کہ جس میں آپس کے میل ملاپ سے اشتعال پیدا ہونے کا اندیشہ تھا تو اگر احمدیوں نے ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا.مخالفین اس فتنہ سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھے تھے.اور بہت سے اخبارات اور رسائل اپنے بچگانہ جوش کا اظہار کر رہے تھے.ہفت روزہ المنیر نے اس یقین کا اظہار کیا کہ بظاہر اس امر کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ ان کے جانشین خواہ مرزا ناصر ہوں یا ظفر اللہ یا عبدالمنان ہوں یا کوئی دوسری شخصیت قادیانی جماعت کا اسپر متحد ہونا اور منظم رہ کر جوں کا توں پاکستان میں ربوہ کی ریاست کو قائم رکھنا اور بیرونِ پاکستان اپنے کام کو وسیع کرتے چلے جانے کا سلسلہ حسب سابق باقی رہے سوائے اس کے کہ قادیانیوں کی مخالفت کرنے والی بعض جماعتیں حسب سابق ایسی حماقتوں اور غلط کاریوں کو نہ اپنائیں جو قادیانیوں کو منتظم ہونے پر مجبور کر دیں.(۴۵)

Page 523

513 ایک طرف تو المنیر یہ اعتراف کر رہا ہے کہ اب تک احمدیت کی مخالفت کرنے والی جماعتیں جو پالیسی اپنائے ہوئی تھیں، اس میں حماقت کا عصر غالب تھا اور دوسرے اس المنیر کی اس پیشگوئی کو اب پچاس برس کا عرصہ گذر گیا ، جماعت کا شیرازہ بکھر نے کا خواب پورا نہیں ہوا اور احمدیت ترقی پر ترقی کرتی گئی ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ المنیر کی یہ خام خیالی بھی سوائے خوش فہمی کے کچھ نہیں تھی.اس پس منظر میں جب کہ بہت سے لوگ فتنہ پروروں کی مدد پر کمر بستہ نظر آتے تھے.نوائے پاکستان نے بڑے فخر سے خبر شائع کی کہ اکثر قادیانیوں نے تنگ آکر ربوہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے (۴۶).اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کہ مخالفین کو پوری امید ہو چکی تھی کہ وہ اپنی سازشوں سے جماعت احمدیہ کے ایک کثیر حصہ کو نظام خلافت سے بدظن کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.۳۱ را گست اور یکم ستمبر کی درمیانی رات کو حضور کو ایک رؤیا دکھائی گئی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ مفسدین کے مددگار ان کی مدد سے ہاتھ بیچ کر انہیں تنہا چھوڑ دیں گے.حضور فر ماتے ہیں دمیں نے دیکھا کہ اماں جی (حضرت خلیفہ مسیح اول کی بیگم ) بھی اس دنیا میں آئی ہوئی ہیں اور فرشتے سارے جو میں وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں.جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں.اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے.اور اگر تمہارے سے لڑائی کی گئی.تو ہم بھی تمہارے ساتھ ملکر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے.لیکن قرآنِ کریم منافقوں سے فرماتا ہے.کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ ملکر مدینہ سے نکلو.اور نہ ان کے ساتھ ملکر مسلمانوں سے لڑو گے.یہ دونوں جھوٹے وعدے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں.اس آخری حصہ پر فرشتے زیادہ زور دیتے ہیں.(۴۷) اور ستمبر میں ہی آپ کو ایسی رؤیا دکھائی گئی جس میں اس قسم کے فتنوں کے ظاہر ہونے کی حکمت بیان کی گئی تھی.حضور فر ماتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا جیسے کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے ( اغلباً فرشتہ ہی ہو گا کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس سے اسکی

Page 524

514 یہ غرض ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے.یا جب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو وہ کس سرعت سے آپ کے ساتھ مڑتی ہے.یا جب آپ اپنی منزلِ مقصود کیطرف جائیں.تو وہ کس طرح اسی منزل مقصود کو اختیار کر لیتی ہے.جب وہ فرشتہ یہ کہ رہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے جلا ہوں کی ایک لمبی تانی آئی جو بالکل سیدھی تھی.اور میرے دل میں ڈالا گیا.کہ یہ صراط مستقیم کی مثال ہے جس کی طرف آپکو خدا لے جا رہا ہے.اور ہر فتنہ کے موقع پر وہ دیکھتا ہے کہ کیا جماعت بھی اسی صراط مستقیم کی طرف جارہی ہے کہ نہیں.(۴۸) جیسا کہ ۱۹۵۳ء کے حالات کے بیان میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ مختلف اخبارات اور رسائل نے صوبائی حکومت سے مالی مدد وصول کر کے ایک سازش کے تحت جماعت کی منظم مخالفت کی تھی اور تحقیقاتی عدالت نے اپنی رپورٹ میں اس سازش کی تفاصیل درج کی تھیں.اب ایک بار پھر مختلف اخبارات اُسی پرانے انداز میں جماعت کے خلاف مہم چلا رہے تھے.فتنہ پروروں کا جھوٹا پراپیگنڈا بہت اہتمام سے شائع کیا جاتا تھا اور جماعت کی طرف سے اس کی تردید شائع نہ کی جاتی.الفضل میں تردید تو شائع ہو جاتی مگر ملکی اخبارات نے جماعت احمدیہ کے بیانات کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا.یہاں تک بھی ہوتا کہ ایک شخص کے متعلق اخبار کو ہستان میں شائع ہوتا کہ ربوہ میں اُس پر بہت ظلم کئے جارہے ہیں کیونکہ وہ عبدالمنان عمر صاحب کے دفتر میں کام کرتا تھا حتی کہ خلیفہ صاحب کے حکم پر اُس کے بیوی بچے بھی اُس سے چھین لئے گئے ہیں اور اُس بیچارے کو اس کی کانوں و کان خبر بھی نہ ہوتی اور ملکی اخبارات کے دروازے تردید شائع کرنے کے لئے بند ہوتے، چنانچہ وہ شخص الفضل میں تردید شائع کراتا کہ مجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوا، میرے بیوی بچے تو میرے پاس ہیں (۴۹ تا ۶۷).لیکن ان اخبارات کے جھوٹے پراپیگنڈے کے پیچھے بھی سطحی ذہنیت نظر آتی تھی.یہ جھوٹ بھی اس طرح بولتے تھے کہ صاف نظر آئے کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے.اخبار کوہستان نے اگست میں یہ سنسنی خیز خبر شائع کی کہ ربوہ میں مظالم اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ، میاں عبدالمنان عمر ( مرزا ناصر کے متوقع حریف) کی امریکہ کو روانگی کے وقت جو لوگ انہیں الوداع کہنے کے لئے گئے تھے ان کی فہرست تیار کی جارہی ہے.اور یہ بھی انتظامات کئے جارہے ہیں کہ کسی طرح انہیں مجبور کر کے اظہار ندامت

Page 525

515 پر مجبور کیا جائے (۶۷).اس فتنہ کے شروع ہونے سے قبل ۱۶ جون ۱۹۵۶ء کے الفضل میں ان لوگوں کے نام شائع ہوئے تھے جو مولوی عبد المنان عمر صاحب کو الوداع کہنے کے لئے سٹیشن پر آئے تھے اور ان میں سب سے نمایاں نام خود حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا ہی تھا.اس موقع پر اخبارات نے وہی پرانا راگ منظم انداز میں الاپنا شروع کیا کہ ربوہ ریاست کے اندر ایک ریاست بن چکا ہے.ستمبر کی اشاعت میں الفضل نے اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ان اخبارات میں سے جنہوں نے ایک پلان کے مطابق ایک ہی مضمون ریاست در ریاست پر ایک دو دن کے اندر اندر اداریے لکھے ہیں ایک سفینہ بھی ہے.اس سے چٹان ، نوائے وقت، آفاق کے اداریوں کا جائزہ لیا جا چکا ہے.اور جو الزامات ان اداریوں میں ایک سوچی سمجھی ہوئی تجویز کے مطابق جماعت احمدیہ اور اس کے نظام پر لگائے گئے ہیں.ان کا کسی قد تفصیلی جواب ہم دے چکے ہیں...کوہستان، سفینہ اور آفاق تو ابتداء ہی سے جماعت احمدیہ کے خلاف جو افترا ئیں گھڑی جارہی ہیں، احراری اخبار نوائے پاکستان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں.البتہ نوائے وقت اور چٹان اپنے معمولی راستہ سے ذرا ہٹ کر د اداریہ نویسی کی اس مہم میں شامل ہو گئے ہیں.یہی وجہ ہے کہ غور کرنے والا دماغ آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ یکدم ایک ہی مضمون پر تقریباً ایک ہی انداز سے ان اخبارات کا لکھنا کوئی خاص معنی رکھتا ہے.اور کوئی ایک ہاتھ ہے، جس نے ان مختلف اخبارات کو ایک ہی وقت میں ایسے اداریوں پر قلم اُٹھانے کی تکلیف دی ہے.(۵۰) اس کے جواب میں سب سے زیادہ سرگرمی سے نوائے وقت نے تردید کی.اور ۹ ستمبر ۱۹۵۶ء کو ایک اداریہ ”الفضل کا ناپاک بہتان کے نام سے شائع کیا گیا.اس میں الفضل کے اداریے کا ذکر کر کے لکھا و ہمیں یقین ہے کہ ہمارے معاصرین الفضل کو اس بہتان کا مناسب جواب دیں گے.ہم نوائے وقت کی طرف سے اس ناپاک الزام کے جواب میں صرف یہی کہہ سکتے

Page 526

516 ہیں کہ لعنت اللہ علی الکاذبین ! معاصر الفضل عقلِ سلیم سے کام لیتا تو شاید اسے یہ بات بھی سوجھ جاتی کہ نوائے وقت آفاق چٹان کو ہستان سفینہ نوائے پاکستان ایک ہی ادارہ کے اخبار نہیں ہیں.نہ ان سب کا ایک ہی سیاسی مسلک ہے.نہ ایک ہی پالیسی.نہ یہ سب ایک ہی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں.یہ مختلف الخیال اخبارات احمدیوں یا قادیانیوں کی موجودہ روش پر بیک زبان معترض ہیں تو شاید جماعت کی اس روش میں ہی کوئی نقص ہو جس نے ان سب اخبارات کو ایک ہی انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہو؟ مگر جہاں اندھی عقیدت نے دماغ کو ماؤف کر رکھا ہو وہاں عقل سے کون کام لیتا ہے؟ اندھی عقیدت کو یہ کمال حاصل ہے کہ جہاں گدھے گھوڑے نظر آتے ہیں وہاں بے نظر رسی پر بھی گماں گذرتا ہے کہ سانپ ہے.‘(۵۱) اس تحریر کی تلخی کو نظر نداز کرتے ہوئے اگر ہم اس تحریر کا تجزیہ کریں تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ حمید نظامی صاحب ایڈیٹر نوائے وقت یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ مذکورہ اخبارات ایک ہاتھ کے اشارے پر ایک منصوبہ بندی کے تحت احمدیت کے خلاف لکھنا شروع کر دیں کیونکہ ان کا تعلق مختلف اداروں اور سیاسی جماعتوں سے ہے.اول تو عقل ہی اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کیونکہ مالی لالچ دے کر ، دباؤ ڈال کر یا کسی گروہ کی مخالفت اگر آپس میں قدر مشترک ہو تو مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف سیاسی ذہنیت رکھنے والے اخبارات بھی کسی گروہ کے خلاف مشترکہ مہم چلا سکتے ہیں.اور صحافت کی تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں.اور حمید نظامی صاحب کو یہ بات نہیں لکھنی چاہئیے تھی کیونکہ ۱۹۵۳ء میں جب مختلف اداروں کے ماتحت نکلنے والے اور مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اخبارات نے مشترکہ طور پر جماعت احمدیہ کے خلاف شرانگیز پراپیگنڈا شروع کیا تو سب سے پہلے حمید نظامی صاحب نے ہی وزیر اطلاعات کے سامنے الزام لگایا تھا کہ مختلف اخبارات کی اس مہم کے پیچھے ایک ہی ہاتھ ہے اور ایک سرکاری افسر میر نور احمد صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ یہی صاحب اس تحریک کے سب مضامین لکھوا رہے ہیں.(۵۲) اور تحقیقاتی عدالت کے سامنے انہوں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ مختلف اخبارات میں جماعت کے خلاف چھپنے والے مضامین کے نکات ایک ہی صاحب فراہم کرتے تھے اور یہ شکوہ بھی کیا تھا کہ

Page 527

517 ان کے اخبار کو سرکاری اشتہارات سے اس کا حصہ نہیں ملتا رہا تھا (۵۳).۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کے سامنے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ یہ سب مختلف اخبارات حکومت پنجاب سے اعانت لے کر جماعت احمدیہ کے خلاف مہم چلا رہے ہیں.حمید نظامی صاحب کو یہ سب کچھ اُس وقت عقلِ سلیم کے خلاف نہیں لگ رہا تھا مگر اب جب وہ خود جماعتِ احمدیہ کے خلاف چلنی والی رو میں بہہ گئے تو انہوں نے اُسی بات کو خلاف عقل کہنا شروع کر دیا جس کو سب سے پہلے بیان کرنے والے وہ خود تھے.یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب اخبارات اور رسائل نے اس فتنہ کے دوران جماعت کے خلاف مہم شروع کی تو اُس وقت جیسا کہ حوالہ دیا جا چکا ہے یہ اخبارات لکھ رہے تھے کہ جماعت احمدیہ میں بغاوت ہوگئی ہے اور یہ خلفشار ایک ذہنی انقلاب کی تمہید ہے، احمدیوں کی آنکھوں سے اندھی عقیدت کی پٹیاں کھل رہی ہیں وغیرہ وغیرہ.اور اب چند ماہ کے بعد یہ رونا رور ہے تھے کہ اندھی عقیدت نے ان لوگوں کے دماغوں کو ماؤف کر دیا ہے اور یہ عقل سے کام نہیں لیتے ، اس لئے انہیں گدھا بھی گھوڑا دکھائی دیتا ہے.اس تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ اب انہیں یہ نظر آرہا تھا کہ چند منافقین کے علاوہ ساری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کے دامن سے چھٹی ہوئی ہے اور یہ سازش ناکام ہو رہی ہے.حضور کی زیر نگرانی نظام جماعت اور جماعتی جرائد خصوصاً الفضل نے اس طرح پوری جماعت کو ہوشیار کیا تھا کہ مخالفین اور منافقین کا پراپیگنڈا نا کام ہو گیا تھا.جب یہ سازش شروع ہوئی تو اس کے کرتا دھرتا اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ احمدیوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر اب اپنی ناکامی پر کچھ جھنجلائے ہوئے لگ رہے تھے.ان دنوں میں رسالہ چٹان میں ایک مضمون نگار نے لکھا ویسے قادیانی کچھ مجنون سے ہیں.وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں.چونکہ خلیفہ صاحب دین اور حکومت دنیا ٹھہری اس واسطے وہ اپنے عقائد سے مجبور ہوکر خلیفہ صاحب کے بر پا کردہ نظام کو حکومت کے نظام پر ترجیح دیتے ہیں.وہ انکم ٹیکس نہ دیں.یا اس سے گریز و فرار اختیار کریں ، چندے سے ان کو مفر نہیں.اگر ایسا ہو کہ وہ چندہ دیں یا انکم ٹیکس.وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.وہ چندہ ادا کریں گے.‘ (۶۸) مندرجہ بالا سطور میں یہ ماتم واضح نظر آرہا ہے کہ ہم نے بعض ارباب اقتدار کو بھی احمدیوں کے

Page 528

518 خلاف کر کے دیکھ لیا مگر یہ ایسے مجنون ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم کئے چلے جا رہے ہیں.اسی بات کا رونا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ احمدی سب سے زیادہ قانون کی پابندی کرنے والے ہوتے ہیں.جس وقت اس فتنے کا آغاز ہوا ، اُسوقت حضرت خلیفہ اُسیح اول کے چھوٹے صاحبزادے ،مولوی عبد المنان عمر صاحب امریکہ میں تھے.جب امریکہ کے مشنری انچارج صاحب کو حضرت مصلح موعودؓ کے ابتدائی پیغامات پر مشتمل الفضل ملے تو انہوں نے نیو یارک میں جماعت کے مبلغ مکرم نورالحق انور صاحب کو ہدایت دی کہ وہ بوسٹن پہنچ کر مولوی عبد المنان صاحب سے رابطہ کریں.مولوی نو رالحق انور صاحب ۷ اگست کو بوسٹن پہنچے اور انہیں اخبار الفضل کے تازہ پرچے پڑھنے کے لئے دیئے.یہ الفضل پڑھ کر اُنہوں نے بجائے اظہار ندامت کے کچھ ایسا اظہار کیا کہ بات کچھ نہیں تھی امیر صاحب لاہور ، مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب کی عبد الوہاب عمر صاحب کے ساتھ کچھ ناراضگی تھی ، جس کا انہوں نے بدلہ لیا ہے.مولوی نورالحق صاحب نے اُن کو اُن گواہیوں کی طرف توجہ دلائی جو مختلف لوگوں نے دی تھیں ، اسد اللہ خان صاحب نے نہیں دی تھیں.مگر وہ اسی بات پر مصر تھے کہ بات کا بتنگڑ بنالیا گیا ہے.البتہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کے اور مولوی عبد الوہاب صاحب کے اللہ رکھا صاحب سے دیرینہ تعلقات ہیں اور وہ ربوہ آ کر بھی انہیں ملتے رہے ہیں.اور کہا کہ اُن سے مولوی عبد الوہاب صاحب نے یہ کہا تھا کہ حضور پر کام کا بوجھ زیادہ ہے اس لیے حضور کسی کو اپنا قائم مقام بنا دیں اور یہ اظہار بھی کیا کہ پیغامی اُن سے جتنا تعلق رکھتے ہیں، اتنا تعلق جماعت کے لوگ بھی نہیں رکھتے اور ربوہ میں بھی دور دور سے سفر کر کے ان سے ملنے آتے رہے ہیں.ستمبر کے پہلے ہفتہ میں مولوی عبد المنان صاحب امریکہ سے ربوہ پہنچ گئے.حسب سابق اخبار نوائے پاکستان نے اُن کی آمد کی خبر بہت نمایاں کر کے شائع کی اور لکھا کہ ان کی آمد کے ساتھ اب جماعت احمدیہ میں ضرور بغاوت زور پکڑ جائے گی.چنانچہ ۱۳ستمبر ۱۹۵۶ء کے روز نوائے پاکستان نے صفحہ اول پر سب سے نمایاں سرخی شائع کی مسٹر عبدالمنان عمر کی امریکہ سے واپسی پر قادیانی خلافت کی کشمکش تیز ہو جائے گی اکثر قادیانی ترک مرزائیت کر کے مشرف با سلام ہورہے ہیں اس کے نیچے یہ خبر درج تھی کہ خلافت کے امیدوار عبدالمنان عمر امریکہ سے واپس ربوہ پہنچ گئے

Page 529

519 ہیں.ربوہ ٹیشن پر مسٹر عبد المنان عمر کے حامیوں نے ان کا پر جوش خیر مقدم کیا اور مسٹر عبدالمنان کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا.اور مزید لکھا کہ جلد مرزا محمود کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے والی ہے.وغیرہ وغیرہ.اس خبر کو لکھتے ہوئے اس اخبار نے جھوٹ بولنے کے اپنے ہی قائم کردہ سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے.لیکن یہ ضرور ظاہر ہوا جاتا ہے کہ مخالفین سلسلہ اس فتنہ سے کیا کچھ امیدیں وابستہ کئے بیٹھے تھے.مولوی عبد المنان صاحب کے سامنے ایک راستہ کھلا تھا کہ وہ خلافت سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے اور جوان کا نام لے کر منافقین پراپیگنڈا کر رہے تھے اور اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ آئندہ خلیفہ انہیں ہونا چاہئیے اس سے اظہار بیزاری کرتے اور اخبارات میں ان کا نام لے کر جو پیگنڈا کیا جا رہا تھا اس کی بھی واضح تردید کرتے.مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا.۴ استمبر کو حضور نے مری میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا موجودہ فتنہ میں بھی یہ راستہ کھلا تھا کہ وہ لوگ جنہوں نے اس میں حصہ لیا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے کہ الہی ہمیں سیدھا راستہ دکھا.مگر میں نے دیکھا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ان دنوں جماعت سے بعد اختیار کیا ہے ان میں سے صرف ایک شخص ایسا ہے جس نے صحیح راستہ اختیار کیا ہے.باقی کسی نے بھی صحیح طریقہ اختیار نہیں کیا.اس نے پہلی توبہ کی مگر جب اس سے کہا گیا تمہاری توبہ کا کیا اعتبار ہے تو اس نے جھٹ ایک مخالف اخبار کے بیان کی تردید لکھ کر اسے بھجوا دی کہ مجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا گیا اور میرے بیوی بچے بھی میری تحویل میں ہیں.اور پھر اس کی ایک نقل الفضل میں بھی بھجوا دی اور لکھا کہ میں احمدیت پر قائم ہوں یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ مجھ سے میرے بیوی بچے چھین لئے گئے ہیں.مگر باقیوں کو یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ یہی طریقہ اختیار کرتے....اگر یہ لوگ سیدھی طرح صداقت اختیار کر لیں تو نہ کوئی سزا رہتی ہے اور نہ جماعت سے اخراج کا کوئی سوال رہتا ہے.اگر ایک شخص الفضل والوں کو اپنے دستخطوں کے ساتھ یہ لکھ کر بھجوا دیتا ہے کہ میرے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ میں خلافت کا امیدوار ہوں یہ بالکل جھوٹ ہے.ایک خلیفہ کی موجودگی میں میں خلافت کے امیدوار پر لعنت بھیجتا ہوں.اور

Page 530

520 اگر کوئی دوست میری نسبت ایسے خیال کا اظہار کرتا ہے کہ خلیفہ کی موجودگی میں یا اس کے بعد یہ شخص خلافت کا مستحق ہے تو میں اس کو بھی لعنتی سمجھتا ہوں.اسی طرح جو پیغامی یہ کہتے ہیں کہ جماعت مبایعین حضرت خلیفہ اول کی ہتک کرتی ہے.میں اس کو بھی جھوٹا سمجھتا ہوں.گزشتہ میں سال میں میں دیکھ چکا ہوں کہ پیغامی جماعت حضرت خلیفہ اول کی ہتک کرتی رہی ہے.اور مبایعین ان کا دفاع کرتے رہے ہیں.تو اس کے بعد ہر احمدی سے کہہ سکتے تھے کہ اب ہم اور کیا طریق اختیار کریں.(۵۵) اس خطبہ میں حضور نے اس فتنہ میں ملوث افراد کو ایک بڑی سیدھی راہ دکھائی تھی جس پر چل کر وہ اگر چاہیں تو اپنی بریت کا سامان کر سکتے تھے.اور اپنی سابقہ غلطیوں کے ازالے کی کوشش کر سکتے تھے.کیونکہ اگر وہ یہی سمجھتے تھے کہ ایک خلیفہ کی زندگی میں کسی دوسرے شخص کو آئندہ خلافت کے لئے مستحق قرار دیا جا سکتا ہے یا اُن کا یہی خیال تھا کہ پیغامیوں کا یہ پراپیگنڈا کہ جماعت احمدیہ مبایعین حضرت خلیفہ اول کی تو ہین کرتی رہی ہے تو ویسے ہی ان کا جماعت احمد یہ مبایعین کے عقائد سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اگر ایسا نہیں تھا تو پھر مذکورہ بالا بیان کے اظہار میں کوئی تاخیر یا تردد نہیں ہونا چاہیے تھا.اس پر عمل کرنے کی بجائے مولوی عبد المنان صاحب عمر نے پیغامیوں کے اخبار پیغام صلح میں اپنا ایک اعلان شائع فرمایا جس میں قولِ سدید سے کام لینے کی بجائے یہ عبارت بھی درج تھی.میرا یہ عقیدہ ہے کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کے لئے تجویز خواہ وہ اُس کی وفات کے بعد کیلئے ہی کیوں نہ ہو حتما نا جائز ہے خلافتِ حقہ اپنے ساتھ بے انتہا برکتیں رکھتی ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اُس کے اوپر ہوتا ہے.وہ جماعتی اتحاد و ائتلاف کے قیام اور الہی نور کے اظہار کا ذریعہ ہے.لیکن جو خلافت منصوبوں ،سازشوں ، اور چالبازیوں اور ظاہر یا مخفی تدبیروں سے قائم کی جائے وہ اپنی ساری برکتیں کھو دیتی ہے.اسے اقتدار یا حکومت کا نام تو دیا جا سکتا اسے یزیدی خلافت تو کہا جاسکتا ہے لیکن وہ خلافتِ راشدہ نہیں ہوسکتی.نہ اس کی برکات سے اسے حصہ ملتا ہے.اس کے بعد انہوں نے تحریر کیا کہ میرا اس قسم کی سازشوں سے کوئی تعلق نہیں.یہ ذومعنی بیان اس طریق کے مطابق ہر گز نہیں تھا

Page 531

521 جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا تھا.اس میں واضح موقف بیان کرنے کی بجائے دوسروں کو خوش کرنے کے راستے کھلے رکھے گئے تھے تبھی انہوں نے بخوشی اسے شائع کر بھی دیا تھا.لیکن وقت گذرتا گیا اور انہوں نے اس طریق پر عمل نہیں کیا جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا تھا.مولوی عبد المنان صاحب اور ان کے ساتھی حضور کی طرف سے دی جانے والی مہلت کا بھی کوئی فائدہ نہیں اُٹھا رہے تھے.اس دوران یعنی ستمبر اور اکتوبر کے مہینے میں ان کی پشت پناہی والے اخبارات کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ دو تین مفسدین کے نام سے خطوط شائع کر رہے تھے کہ ہمارے پر ظلم کیا جا رہا ہے اور ہمارا سوشل بائیکاٹ کر کے ہمارا جینا محال کر دیا گیا ہے.جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے جو لوگ ربوہ سے باہر رہ رہے تھے ان کا یہ کہنا کہ احمدیوں نے ہمارا سوشل بائیکاٹ کر کے ہم پر بہت ظلم کیا ہے ایک بے معنی بات تھی کیونکہ ربوہ سے باہر پاکستان میں احمدی تو فقط دو تین فیصد تھے وہ اس پوزیشن میں ہی نہیں تھے کہ کسی کا سوشل بائیکاٹ کریں بلکہ انہیں تو اقلیت ہونے کے ناطے خود بارہا سوشل بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا.(۵۶) ہاں اتنا ضرور تھا کہ اس فتنے میں ملوث کچھ اشخاص کے والدین اور بھائیوں نے اس بات کی شہادت دی تھی کہ یہ لوگ شرارتوں میں ملوث ہیں اور ان سے قطع تعلق کر لیا تھا.اور یہ لوگ ربوہ سے باہر رہتے تھے اور اس طرح اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کسی نا جائز دباؤ کے تحت کیا تھا.(۵۸،۵۷) کسی شخص کو یہ مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ اگر اُس کا کوئی قریبی رشتہ دار مفسد ہو اور اُسے تکلیف پہنچائے اور جن شخصیات سے وہ عقیدت رکھتا ہے انہیں سب وشتم کا نشانہ بنائے تو وہ اس سے ضرور تعلق رکھے.یہ مفسد کوئی شیر خوار بچے تو نہیں تھے کہ اگر اُن کے والدین یا بھائیوں نے اُن سے قطع تعلق کر لیا تو ان کے بنیادی حقوق متاثر ہو گئے.اور پاکستان کے بہت سے اخبارات جو اس پر سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے وہ خود معمولی رقوم لے کر روزانہ تھوک کے حساب سے اشتہارات شائع کرتے تھے کہ فلاں نے اپنے بیٹے کو نا فرمانی کی وجہ سے عاق کر دیا یا اُس سے قطع تعلق کر لیا.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ خلاف توقع ان اخبارات کو ایسے چند احمدی بھی نہیں مل رہے تھے جو انہیں اظہارِ مظلومیت سے بھر پور خطوط مہیا کریں تا کہ انہیں ان اخبارات کی زینت بنایا جائے کہ

Page 532

522 کیونکہ اب پاکستان ٹائمنز اور کوہستان جیسے اخبارات کو گمنام خطوط اور مراسلے شائع کرنے کی ضرورت پڑ رہی تھی.کبھی ان کے نام کی جگہ صرف ایک احمدی درج ہوتا اور کبھی ایک واقف حال احمدی کے نام سے لمبی لمبی داستانیں ملکی اخبارات میں چھپ رہی تھیں.( ۵۹ تا۶۶) اور تو اور جب پیغام صلح نے اپنی طرف سے ربوہ میں ہونے والے بے پناہ مظالم کے ایک عینی شاہد گواہ کا مضمون شائع کیا تو اس پر نام کی بجائے فقط یہ لکھا ہوا تھا ربوہ کے ایک صاحب نظر نوجوان کے قلم سے اور اس مضمون کے مطابق ربوہ میں ہر قسم کے مظالم کا بازار گرم تھا.کوئی دو شخص اپنی مرضی سے کھڑے ہو کر بات بھی نہیں کر سکتے تھے، ہر وقت دیواروں سے جاسوس چمٹے رہتے تھے،سوشل بائیکاٹ کر کے لوگوں کی زندگی اجیرن کی جارہی تھی.وغیرہ وغیرہ اور یہ صاحب نظر نو جوان بیچارا ایک عرصہ سے منتظر تھا کہ لاہور آ کر بقول اُسکے پیغام صلح میں لکھنے والے پاک اور نظیف مٹی سے بنے ہوئے احباب کی زیارت سے فیضیاب ہو سکے (۲۰).لیکن اس صاحب نظر نو جوان کو صرف پوسٹ بکس تک کا راستہ ہی نظر آتا تھا جہاں آکر اس گمنام مظلوم نے پیغام صلح میں چھپنے کے لئے اپنا مضمون سپر د ڈاک کیا.اگر ذرا سامنے نظر دوڑا کر دیکھتا اور فقط دومنٹ چلنے کی زحمت گوارا کر لیتا تو مین روڈ پر پہنچ جاتا اور بس میں بیٹھ کر ہمیشہ سے ایسے قصبے سے نکل جاتا جہاں پر بقول اُس کے کسی قسم کی آزادی حاصل نہیں تھی اور زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی تھی.اُس وقت تو ربوہ میں کئی بنیادی سہولیات بھی مہیا نہیں تھیں.ابھی تو کچے مکانوں سے پکے مکانوں میں منتقل ہونے کا عمل بھی مکمل نہیں ہوا تھا.پانی کے لئے بھی ماشکی کا منتظر رہنا پڑتا تھا اور کسی قسم کی اقتصادی ترقی کے راستے نہیں کھلے تھے.وہاں تو کوئی مخلص احمدی بھی بہت قربانی کر کے اور اسے جماعت کا مرکز سمجھ کر ہی رہ سکتا تھا.پھر یہ تمام گمنام مظلوم صرف مضمون نویسی پر اکتفا کیوں کر رہے تھے وہاں سے نکل کر آزادی کی فضا میں کیوں سانس نہیں لیتے تھے.بہر صورت اُس وقت بہت سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں ، خبروں سے زیادہ کسی غیر معیاری جاسوسی ڈائجسٹ کی کہانیاں معلوم ہوتی تھیں.اور ان خبروں کو سنسنی خیز بنانے کے لئے دھما کہ خیز سرخیوں کا سہارا لیا جاتا.ایک دن سرخی لگائی جاتی 'خلافت کے دعوے داروں میں زبر دست مقابلہ شروع.خلافت ربوہ کے رضا کاروں نے مسٹر عبدالمنان کے بچوں کو اُن سے چھین لیا.(۶۱) پھر یہ دیکھ کر کہ اس کا تو کوئی اثر نہیں ہوا یہ سرخی جھائی جاتی، ربوہ کا انتظام سابق قادیانی

Page 533

523 فوجیوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا.مرزا بشیر الدین محمود کے مخالفوں کی خانہ تلاشیاں ہو رہی ہیں.(۶۲) اس شور وغوغا کو کچھ دیر کے لئے چھوڑ کر ہم اصل واقعات کی طرف واپس آتے ہیں.جب ان مفسدین نے حضور کی طرف سے بتائے گئے طریق سے کوئی استفادہ نہیں کیا تو پھر حسب قواعد نظام جماعت حرکت میں آیا اور ربوہ ، لاہور اور دوسری جماعتوں نے ریزولیشن کی صورت میں ۱۳ مفسدین کے متعلق سفارش بھجوائی کہ اپنی حرکات کی وجہ سے انہوں نے خود جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اس لئے ان کے اخراج از نظام جماعت کی سفارش کی جاتی ہے.اس پر کاروائی کرتے ہوئے صدر انجمن احمدیہ نے حضور کی خدمت میں مولوی عبد المنان صاحب ، مولوی عبد الوہاب صاحب ، غلام رسول صاحب، عبد الحمید صاحب ڈاہڈا صاحب وغیرہ کے اخراج از نظام جماعت کی سفارش کی.اور حضور نے یہ سفارش منظور فرمالی اور یہ اعلان ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۶ء کے الفضل میں شائع کر دیا گیا.مفسدین کی مایوسی ، ایک اور زہریلا وار پہلے تو فتنہ پروروں کو یہ امید تھی کہ احمدیوں کی ایک خاطر خواہ تعداد اُن کا ساتھ دے گی اور نظام خلافت سے بدظن ہو جائے گی.چنانچہ نوائے پاکستان نے یہ دعویٰ شائع کیا کہ اخراج از جماعت کے اعلان کے بعد بہت جلد جماعت کے عہدیداروں کی ایک بڑی تعداد نظام خلافت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو گی اور دنیا حیران رہ جائے گی اور یہ بھی لکھا کہ جلد مرزا بشیر الدین محمود احمد پاکستان سے چلے جانے پر مجبور ہو جائیں گے (۶۹).مگر وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہے تھے.جیسا کہ حضرت مصلح موعود گو رویا میں دکھایا گیا تھا ان کی پشت پناہی کرنے والے چند منافقین نے بھی انہیں تنہا چھوڑ دیا اور وہ بڑی حسرت سے اپنی سازش کو ناکام ہوتا دیکھ رہے تھے.کوئی بھی ان کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا.جماعت پر ان کی حقیقت کھل چکی تھی.ایسی صورت میں ہمیشہ دشمن غیظ و غضب سے بھر کر پہلے سے بھی زیادہ زہریلا وار کرنے کی کوشش کرتا ہے.اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا.چند دن بعد ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو جماعت کے اشد مخالف اخبار آزاد میں یہ خبر شائع ہوئی

Page 534

524 کہ جماعت احمدیہ میں اسلام کے نام پر ظلم و تشدد کے خلاف اور روحانیت کے نام سیاسی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے کے لئے حقیقت پسند پارٹی کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی ہے اور اُس کے عہد یداروں کا اعلان بھی کیا گیا.اور یہ اپیل کی گئی کہ ہر وہ شخص اس کا ممبر بن سکتا ہے جو روحانیت کے نام پر کئے گئے سکینڈل کو بے نقاب کرنے کو تیار ہو.(۶۳).اس مرحلے پر بھی پیغام صلح فتنہ کو بھڑ کانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا.چنانچہ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں پیغام صلح کے ایک مضمون میں یہ اعلان شائع ہوا.اس کی ناشائستہ زبان کا کچھ حصہ من و عن اس لئے دیا جا رہا ہے تاکہ ان کے انداز تحریر کا کچھ اندازہ ہو سکے محمود یت نے اپنے پیرؤوں میں سے آزادی رائے مسلوب کر رکھی ہے.استبدادیت کی زنجیریں دن بدن محکم سے محکم تر کی جارہی ہیں.جب جوروستم حد سے زیادہ بڑھ جائیں تو اس کا ایک زبردست رد عمل ہوتا ہے.اب خود ربوہ میں ایک زبر دست تحریک آزادی اٹھی ہے جس کا علمبر دار نو جوانوں کا ایک ترقی پسند طبقہ ہے.جو شاید اس طلسم کو توڑ کر رکھ دے.اس تحریک سے خلیفہ بوکھلا اُٹھا ہے.اس کا دماغی توازن قائم نہیں رہا...تمہارے اور ہمارے درمیان اب صرف محمود یت ہی کا پردہ ہے اس کو بھی چاک چاک کر دو.ہم ربوہ کے آزادی پسند عناصر کا خیر مقدم کرتے ہیں.اس تحریک آزادی میں جو علماء اور مبلغین حصہ لے رہے ہیں.وہ جو نہی محمودیت کے حصار سے آزاد ہوں وہ ہمارے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں.ہمارے ہاں ان کے لئے عزت کی جگہ ہے.تبلیغ کے لئے مواقع ہیں.تقریر کے لئے سٹیج ہے.تبلیغ کے لئے تنظیم ہے.(۷۰) پہلے تو پیغامی یہ کہہ رہے تھے کہ ان کا اس ناپاک سازش سے کوئی تعلق نہیں اور اب یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم تمہارا ساتھ دیں گے، اپنا سٹیج تمہیں پیش کریں گے اور ہماری تنظیم تمہاری مدد کرے گی.علاوہ ازیں یہ انداز تحریر اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ اس فتنہ کی پشت پناہی والے خود بوکھلا رہے ہیں کیونکہ وہ اس گمان میں تھے کہ انہوں نے احمدیوں کو خلافت سے بدگمان کرنے کے لئے بہت عمدہ مکر و فریب کئے ہیں.لیکن عملاً ہو یہ رہا تھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک کی جماعتیں بھی مفسدین کی حرکات سے اظہار نفرت کر رہی تھیں.اور منافقین کی حقیقت نہ صرف سب

Page 535

525 پر ظاہر ہو گئی تھی بلکہ یہ بھی نظر آرہا تھا کہ وہ تنہا ہیں اور کوئی احمدی اُن کا ساتھ دینے کو آمادہ نہیں.حقیقت پسند پارٹی کے نام پر وجود میں آنے والے اس گروہ کا کام تھا کہ وہ جماعت احمد یہ اور اس کی مقدس ہستیوں کے خلاف نہایت بخش الزامات پر مشتمل لٹریچر شائع کرتا.ان کا لٹریچر اس قدر غلیظ ہوتا کہ کوئی شریف آدمی اسے دہرا بھی نہیں سکتا.یہ لٹریچر احمدیوں اور غیر احمدیوں میں تقسیم کیا جاتا اور اس پر کبھی ساگر ہوٹل لاہور اور کبھی لٹن روڈ لاہور کا ایڈریس تحریرہ ہوتا.اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یہ پخش الزامات پڑھ کر کوئی احمدی اشتعال میں آئے اور انہیں اس بہانے جماعت احمدیہ کے خلاف از سر نو فتنہ بھڑ کانے کا بہانہ ملے.ان کا خیال تھا کہ وہ یہ ہتھکنڈے استعمال کر کے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن یہ گروہ بھی جلد خائب و خاسر ہو گیا.اس پارٹی کی پشت پناہی بھی بیرونی ہاتھ کر رہا تھا.اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے.ایک بار مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مری میں ایک ہومیو پیتھ ڈاکٹر صاحب سے ملے اور اُس سے کچھ تبلیغی گفتگو ہوئی.پھر ان ڈاکٹر صاحب نے لاہور میں صاحبزادہ صاحب کی ایک ریستوران میں دعوت کی.اور کہا کہ ایک اور صاحب بھی احمدیت میں دلچسپی رکھتے ہیں، آپ سے ملواتا ہوں.اس پر ایک شخص آیا اور کہا کہ میں راحت ملک ہوں.یہ وہی صاحب تھے جن کا نام حقیقت پسند پارٹی کے سیکریٹری کی حیثیت سے شائع ہوتا تھا.اس پر صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے کہا کہ میں آپ سے ملنا نہیں چاہتا اس لئے یا تو آپ یہاں سے چلے جائیں یا میں چلا جاتا ہوں.اس پر وہ چلے گئے.ایک دو دن میں ہی اخبار نوائے پاکستان میں خبر شائع ہوئی کہ مرزا محمود نے مخالف گروپ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے.اور ان کے پوتے مرزا انس احمد نے حقیقت پسند پارٹی کے سیکریٹری راحت ملک صاحب سے ملاقات کر کے یہ پیشکش کی ہے کہ وہ صلح کر لیں.(۶۵) جب صاحبزادہ صاحب واپس ربوہ پہنچے تو بس کے اڈے پر مولانا محمد شفیع صاحب اشرف آپ کے منتظر تھے اور کہا کہ حضور نے آپ کو بلایا ہے.صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے سارا واقعہ حضور کی خدمت میں عرض کر دیا.حضور نے اسی وقت ارشاد فرمایا کہ لاہور جا کر ان ڈاکٹر صاحب کی گواہی لے آئیں چنانچہ اسی وقت لاہور جا کر ان ڈاکٹر صاحب کی تحریری گواہی لے لی گئی.یہ مد نظر رہنا چاہئیے کہ اس وقت حضور ایک خطر ناک علالت سے نکلے تھے اور ڈاکٹروں نے

Page 536

526 آپ کو ہر حال میں آرام کا مشورہ دیا تھا.لیکن جب اس فتنے نے سراٹھایا تو آپ نے اپنا آرام ترک کر کے دن رات اس فتنے کی نگرانی فرمائی اور سر کو بی فرمائی.جب حضور پر بیماری کا حملہ ہوا تو یورپ جانے سے قبل حضور کی طبیعت اتنی علیل تھی کہ حضور نمازیں اور جمعہ پڑھانے بھی نہیں آسکتے تھے.جو گر وہ جماعت میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتا تھا اس نے خیال کیا کہ اُن کی کاروائیوں کے لئے مناسب ترین وقت آ گیا ہے.اور انہوں نے برملا اس بات کا اظہار کرنا شروع کر دیا کہ حضور کی صحت بحال ہونا اب ممکن نہیں اور جو پیغام حضور کے نام سے شائع ہورہے ہیں ان کو بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب درست کر کے شائع کرواتے ہیں (اے ).لیکن یورپ پہنچ کر حضور کی صحت تیزی سے بہتر ہونی شروع ہوگئی اور واپس آکر حضور نے نہ صرف خود اس فتنے کی نگرانی فرمائی بلکہ چند ماہ میں تفسیر صغیر مکمل کرنے کا عظیم الشان کام بھی چند ماہ میں مکمل فرمایا لیکن جب حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی بہتر صحت کی خبریں یورپ سے موصول ہو رہی تھیں تو یہ گروہ ان خبروں کو خود ساختہ خیال کر کے اپنی سازش کو آگے بڑھانے میں مشغول تھا.اور حضور کی آمد تک یہ معاملہ اتنا آگے بڑھ چکا تھا کہ اسے واپس لینا ان کے لئے ممکن نہیں تھا.اخراج از نظام جماعت کے بعد ان لوگوں کے سامنے ایک سیدھا راستہ کھلا تھا کہ وہ حضور سے معافی کے طلبگار ہوتے اور جو مختلف شہادتوں میں ان پر الزامات لگائے گئے تھے ان کی وضاحت پیش کرتے یا سابقہ حرکات پر تو بہ کر کے یقین دلاتے کہ آئندہ وہ اس قسم کی حرکات کے مرتکب نہیں ہوں گے.ان میں ایسے مفسدین بھی شامل تھے جو پہلے حضور کو معافی کا خط لکھتے اور لکھتے کہ وہ کچھ اور لوگوں کے بہکانے میں آگئے تھے، لیکن اس سے مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ کچھ دیر جماعت میں رہ کر اپنا کام جاری رکھ سکیں کیونکہ کچھ ہی عرصہ بعد وہ صاف انکار کر دیتے کہ ہم نے تو کوئی معافی مانگی ہی نہیں تھی اور پھر اپنی شرارتیں شروع کر دیتے (۷۲).لیکن اس کی بجائے کہ حضور کی خدمت میں خط لکھا جاتا یا کسی جماعتی دفتر کو لکھا جاتا مولوی عبدالمنان عمر صاحب نے کوہستان جیسے اشد مخالف اور فتنہ پرور اخبار میں اپنا ایک خط شائع فرمایا جس پر سرخی تھی ، قادیانی خلافت سے دستبرداری اور اس میں لکھا کہ میں خلافت احمد یہ پر ایمان رکھتا ہوں.اور یقین رکھتا ہوں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور معزول نہیں ہو سکتا.ایک خلیفہ کی زندگی میں یہ کہنا

Page 537

527 نا جائز ہے کہ فلاں شخص خلیفہ ہوگا یا اسے نہیں ہونا چاہئیے یہ نا جائز ہے.اور اس فتنہ کو کھڑا کرنے والوں سے بیزار ہوں.اور میں حضرت خلیفتہ اسیح کے وجود کو ایک عظیم نعمت سمجھتا ہوں.(۷۳) یہ اخبار تو پہلے ہی لکھ رہا تھا کہ اس فتنہ میں مولوی عبد المنان عمر وغیرہ ملوث نہیں ہیں اور ان پر خواہ مخواہ الزامات لگائے جا رہے ہیں.یہ خط دوبارہ اسی اخبار میں شائع کروایا گیا اور اس کے بعد اس کی ایک کاپی الفضل کو بھجوا دی گئی.ظاہر ہے کہ اس خط پر معافی کی کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی تھی ، یہ کاروائی صرف اس صورت میں ہو سکتی تھی جب حضور یا متعلقہ دفتر میں اس کے لئے لکھا جائے.سلسلہ کے دشمن اخبار میں اسے شائع کرانے سے تو غرض صرف پراپیگنڈا ہی ہو سکتی تھی، حضور نے الفضل میں ایک اعلان کے ذریعہ انہیں ایک بار پھر توجہ دلائی کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ براہ راست حضور سے معافی طلب کریں پھر اس پر غور کیا جائے گا.لیکن مولوی عبد المنان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ایک بار پھر اس سیدھے سادھے طریق سے اعراض کیا.(۷۴) اور سب پر حقیقت ظاہر ہوگئی.جلد ہی مولوی عبدالمنان صاحب اور مولوی عبدالوہاب صاحب اور اس سازش میں دیگر احباب پیغامی جماعت میں شامل ہو گئے.اور مولوی عبد المنان صاحب نے تو ۱۹۷۴ء میں جو وفد پیغامی جماعت کی طرف سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش ہوا اس میں بھی شرکت کی.اُس وقت تو مولوی عبد المنان صاحب یہی دعوے ررہے تھے کہ مجھ پر ظلم کیا جا رہا ہے اور میں خلافت احمد یہ پر ایمان رکھتا ہوں اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خلافت پر دل و جان سے ایمان رکھتا ہوں.لیکن سچ ہمیشہ چھپا نہیں رہتا.پہلے تو جب انہوں نے پیغامی جماعت میں شمولیت اختیار کی تو اس سے ہی واضح ہو گیا کہ ان کے سابقہ دعوے غلط تھے.کیونکہ غیر مبایعین میں شمولیت کے اعلان سے ہی واضح ہو جاتا تھا کہ ان کا نظام خلافت پر اعتقاد نہیں ہے.لیکن حقیقت اُس وقت زیادہ واضح ہو کر سامنے آگئی جب ۲۰۰۲ میں ان کے انٹرویوز کا ایک سلسلہ انٹرنیٹ پر نشر ہوا.اس میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ د میں نے کبھی مرزا محمود احمد صاحب کو خلیفہ راشد ،خلیفہ برحق تسلیم نہیں کیا..نہ میرا کوئی ایسا خط روز نامہ کو ہستان کے نام ہے نہ کسی اور کے نام “

Page 538

528 ان کے اس بیان کے بعد کسی بحث و تمحیص کی گنجائش نہیں رہتی.ان کے متعلق تو نظام جماعت کی طرف سے یہی کاروائی ہوئی تھی کہ ان کے متعلق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ان کا اب جماعت احمد یہ مبایعین سے کوئی تعلق نہیں.اگر انہوں نے کبھی حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کو خلیفہ راشد ہی تسلیم نہیں کیا تھا تو پھر یہ اعلان بالکل بر حق اور ان کے نظریات کے مطابق تھا.انہیں کسی قسم کے شکوے کی بجائے اس پر خوش ہونا چاہئیے تھا.اور لازماً ایسا شخص جو جماعت احمد یہ مبایعین کے مذہبی نظریات سے ہی متفق نہ ہو ، اُن کی مذہبی تنظیم کا عہد یدار نہیں ہو سکتا.ان کے اعتراف سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان پر لگائے جانے والے الزامات بالکل درست تھے اور وہ جو اتنا عرصہ گاہے بگا ہے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی سے اظہار عقیدت کرتے رہے تھے، یہ سوائے ملمع سازی کے کچھ نہ تھا.تقریباً ایک سال قبل مولوی عبدالمنان صاحب اور ان کی اہلیہ کا کیا ہوا انگریزی ترجمہ قرآن شائع ہوا.اس کے پیش لفظ میں حضرت خلیفہ اسی الاول کے حالات زندگی بھی درج تھے.اور ان حالات زندگی میں حضرت خلیفہ اسی الاول کے جموں تک جانے کا ذکر تو تھا مگر نہ قادیان آنے یا قادیان ہجرت کرنے کا ذکر کیا گیا تھا اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کا کوئی ذکر کرنے کی زحمت کی گئی تھی.یه گروہ صداقت کا خون کس آسانی سے کر سکتا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے.اس دیدہ دلیری سے حضرت خلیفہ مسیح الاول کی مبارک سوانح سے وہ حصہ حذف کیا گیا ہے جو ان کی زندگی کا اہم ترین حصہ تھا.اس پر سوائے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کے اور کیا کیا جاسکتا ہے.(۱) مسند امام احمد بن حنبل جلد ۵ ص ۴۰۳، مطبوعہ المكتب الاسلامي للطباعة والنشر بيروت (۲) ترمذی کتاب العلم باب الاخذ بالسنته (۳) سیرت حضرت عثمان مصنف محمود احمد ظفر ص ۵۹۴ تا ۶۱۲ (۴) مسند احمد بن حنبل، مسند حضرت عبد اللہ بن عمر ، حدیث نمبر ۵۷۳۹،۵۵۱، صحیح بخاری، فضائل اصحاب النبی ماه (۵) تذکرہ ص ۱۷۹ ایڈیشن چہارم (۶) الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۶ء ص ۱ ( ۷ ) الفضل ۱۲۴ پریل ۱۹۵۶ء ص ۳ (۸) الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۵۶ ء ص ۴۲ (۹) الفضل ۴ اگست ۱۹۳۷ء ص ۴ (۱۰) الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۵۶ء ص ۵ (۱۱) ماہنامہ، خالد دسمبر ۱۹۶۴ء ص ۱۶۸ (۱۲) یہ روایت خاکسار نے خود ماسٹر ابراہیم صاحب سے سنی ہے (۱۳) نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر، الناشر الشركة الاسلامیہ، ص۵۳۵۲ (۱۴) نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر، ناشر الشرکۃ الاسلامیہ، ص ۱۱۷ (۱۵) الفضل ۱۶ جون ۱۹۵۶ء ص او ۸

Page 539

529 (۱۶) نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظرص ۹۵ تا ۷ ۹ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ (۱۷) انٹرویو چوہدری محمد علی صاحب (۱۸) الفضل ۳۰ اگست ۱۹۴۵ء ص ۵ (۱۹) الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۵۶ء ص ۱ (۲۰) تاریخ احمدیت جلد ۱۹ ص ۱ تا ۲۷ (۲۱) روایت محترمہ بیگم صاحبہ برگیڈیئر ڈاکٹر مبشر احمد صاحب (۲۲) نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کے اسباب.ناشر الشرکۃ الاسلامیہ ص ۷۴ (۲۲) نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر، الناشر الشركة الاسلامیہ ص ۱۰۷ - ۱۰۸ (۲۳) الفضل ، ۲۷ اگست ۱۹۵۶ء ص ۳ (۲۴) الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۶ ء ص ۱و۲ (۲۵) ضمیمہ الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۶ء ص ۱ (۲۶) الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۶ ء ص ۳ (۲۷) الفضل ۴ اگست ۱۹۵۶ء ص ۳ و۴ (۲۸) الفضل ۱۴ اگست ۱۹۵۶ء ص ۱ (۲۹) الفضل ۲۸ اگست ۱۹۵۶ء ص ۱ ( ۳۰ ) الفضل ۲۹ اگست ۱۹۵۶ء ص ۱ (۳۱) الفضل ۳۰ اگست ۱۹۵۶ء ص ۱ (۳۲) زمیندار ۱۷ اگست ۱۹۵۶ء ص ۶ (۳۳) نوائے پاکستان ۲۰ اگست ۱۹۵۶ء ص ۱ (۳۴) پیغام صلح، یکم اگست ۱۹۵۶ء ص ۴ (۳۵) پیغام صلح ۲۲۰ اگست ۱۹۵۶، ص ۷ تا ۹ (۳۶) کو ہستان ۱۹ ستمبر، ۱۹۵۶ء ص ۳ (۳۷) امروز ، ۲۱ مئی ۱۹۷۴ء ص ۴، کوہستان ۲۳ اگست ، ۱۹۵۶ء ص ۲ (۳۸) بحواله الفضل ۴ جنوری ۱۹۶۲ء ص ۴۱۳ (۳۹) کوہستان ۲۹ اگست ۱۹۵۶ ء ص ۲ (۴۰) کوہستان، ۲۸ اگست ۱۹۵۶ء ص ۶ (۴۱) کوہستان ، ۲۹ اگست ۱۹۵۶ء (۴۲),1956 ,Pakistan Times ,30 August(۴۳) نوائے وقت، یکم ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۳ (۴۴) نوائے پاکستان ۲۳ اگست ۱۹۵۶ء ص ۱ (۲۵) المنیر ۳ ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۱۳ (۴۶) نوائے پاکستان ، ۲۹ اگست ، ۱۹۵۶ء ص ۱ ( ۴۷ ) الفضل سے ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۱ (۴۸) الفضل ۵ ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۱ (۴۹) الفضل سے ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۱ (۵۰) الفضل سے ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۲ (۵۱) نوائے وقت ، ۹ ستمبر ۱۹۵۶ء ص۳ (۵۲) رپورٹ تحقیقاتی عدالت، فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ،ص ۳۷۵،۱۰۷ (۵۳) ملت ۲۵ دسمبر ۱۹۵۳ء ص ۷ (۵۴) الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۵ (۵۵) الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۵۶ ء ص ۵, ۶ (۵۶) امروز ۲۰ استمبر ۱۹۵۶ء ص ۴ (۵۷) الفضل ۲۹ اگست ۱۹۵۶ء ص ۱ (۵۸) الفضل ۲۸ اگست ۱۹۵۶ء ص ۸ (۵۹) Pakistan Times,30 Sept.1956p4 (۱۰) پیغام صلح ، ۷ نومبر ۱۹۵۶ء ص ۲ (۶۱) آزاده ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۶ (۶۲) آزاد، ۱۲۱ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۲ (۶۳) آزاد، ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۴ (۶۴) پیغام صلح ۳۰ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۲ (۶۵) الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۵۶ء ص ۱ (۶۶) کوہستان ۲۳ اگست ۱۹۵۶ء ص ۲ (۶۷) کوہستان ۲۸ اگست ۱۹۵۶ء ص ۶ (۶۸) چٹان لاہور ۲۴ ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۲۰ (۶۹) نوائے پاکستان، ۲۵ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۱ (۷۰) پیغام صلح ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۶ ء ص ۶ (۷۳) کو ہستان ۱۲۰ نومبر ۱۹۵۶ء ص ۴ (۷۴ ) الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۵۶ء ص او ۸ (۷۱) نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر، الناشر الشركة الاسلامیہ، ص۱۱۰ (۷۲) الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۱

Page 540

530 قواعد انتخاب خلافت جب ایک خلیفہ راشد کی وفات ہوتی ہے تو یہ وقت الہی جماعتوں کے لئے بہت نازک ہوتا ہے.ایک قسم کی قیامت برپا ہوتی ہے.اُس وقت جہاں اپنے گھبرائے ہوتے ہیں وہاں دشمن اس امید سے جماعت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید اب ان میں انتشار پیدا ہو.اُس لمحے ہر مؤمن اس دعا میں مصروف ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ہاتھ دکھائے اور پھر سب ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں.تاریخ شاہد ہے کہ اس مرحلہ پر ذرا سی غفلت کا خمیازہ صدیوں تک بھگتنا پڑتا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں جماعت کو اپنی وفات کے بعد ایک دوسری قدرت کے ظہور کی خوشخبری دی وہاں اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو حاصل کرنے کے لئے دعاؤں کی تلقین بھی فرمائی.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں سوتم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکھٹے ہو کر دعا کرتے رہو.اور چاہئیے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکھٹے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.(۱) تاریخ اسلام میں ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک خلیفہ نے اپنی زندگی میں اگلے خلیفہ کو نامزد کر دیا اور ایسا بھی ہوا ہے کہ خلیفہ وقت نے ایک مجلس نامزد کر دی جو اُس کی وفات کے بعد نئے خلیفہ کا انتخاب کرے.آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور تجویز کیا کہ امیر انصار میں سے ہو یا ایک امیر انصار میں سے اور ایک امیر مہاجرین میں سے ہو.اور اس طرح تفرقہ کا خطرہ پیدا ہوا.لیکن جب حضرت ابو بکر نے وہاں جا کر تقریر کی تو لوگوں کے دل بدلنے شروع ہوئے.اور سب نے حضرت ابو بکر کی بیعت کی.اور اس طرح اسلام میں خلافتِ راشدہ کا با برکت آغاز ہوا.حضرت ابو بکر نے اپنی آخری بیماری میں حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا.اور اس مضمون کی تحریر حضرت عثمان کو لکھوائی جو لوگوں کو پڑھ کر سنادی گئی.جب حضرت عمرہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو آپ نے حضرت عثمان ، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت زبیر

Page 541

531 اور حضرت طلحہ پر مشتمل ایک مجلس قائم فرمائی جو آپ کی وفات کے بعد اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرے.حضرت عثمان کی شہادت جن دردناک حالات میں ہوئی اس کا ذکر گذر چکا ہے.اُس وقت نہ تو حضرت عثمان نے کسی کو خلیفہ نامزد کیا تھا اور نہ ہی کوئی مجلس قائم فرمائی تھی جو نئے خلیفہ کا انتخاب کرے.جب حضرت عثمان کی شہادت کے معاً بعد صحابہ جمع ہوئے تو صحابہ نے حضرت علی سے عرض کی کہ لوگوں کے لئے ایک نہ ایک امام کی ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں.اور آج ہم روئے زمین پر آپ سے زیادہ کسی کو اس کا حقدار نہیں پاتے.حضرت علی نے فرمایا کہ بہتر ہے کہ تم کسی اور کو اپنا امیر بنا لو اور مجھے اُس کا وزیر رہنے دو.مگر وہاں پر موجود صحابہ نے آپ کی بیعت پر اصرار کیا.اس پر حضرت علی نے فرمایا کہ جب تم مجھے مجبور کر رہے ہو تو بیعت مسجد میں ہونی چاہئیے.تا کہ لوگوں پر میری بیعت مخفی نہ رہے.پھر مہاجرین اور انصار نے مسجد نبوی میں جمع ہو کر آپ کی بیعت کی (۲).مگر اُس وقت کے فتنہ کی آگ ہر طرف بھڑ کی ہوئی تھی ، اس لئے مسلمانوں میں انتشار کا آغاز ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد تمام جماعت نے حضرت حکیم نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی اور اسطرح آپ خلیفہ اسیج اول قرار پائے ۱۹۱۰ء میں جب حضرت خلیفہ المسیح الاول گھوڑی پر سے گر کر زخمی ہوئے تو آپ نے ایک بند لفافے میں آئیندہ خلیفہ کے متعلق وصیت لکھ کر اپنے ایک شاگرد کو دی.مگر طبیعت صحیح ہونے پر اس کو واپس لے لیا.اپنی آخری بیماری کے دوران ۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو آپ نے یہ وصیت فرمائی کہ ”میرا جانشین متقی ہو.ہر دلعزیز عالم باعمل،حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی درگزر کو کام میں لاوے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے.(۳) چنانچہ حضرت خلیفقہ اسیع الاول کی وفات کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو طریقہ اسیح الثانی منتخب کیا گیا اور مسجد نور میں آپ کی بیعت کی گئی.اس مرحلہ پر منکرین خلافت علیحدہ ہو گئے اور لاہور میں اپنی ایک علیحدہ تنظیم قائم کر لی.۱۹۱۸ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی پر انفلوائنزا کا شدید حملہ ہوا.اس حالت میں حضور نے اپنی وصیت حضرت مولوی شیر علی کو لکھوائی اور اُن کی ہی

Page 542

532 تحویل میں دی گئی.اس میں حضور نے گیارہ اصحاب پر مشتمل ایک مجلس قائم فرمائی اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا کہ اگر حضور کی وفات ہو جائے تو یہ مجلس نئے خلیفہ کا انتخاب کرے.حضور نے ارشاد فرمایا کہ پہلی کوشش یہ کی جائے کہ سب ممبران ایک نام پر متفق ہو جائیں.اگر ایسا نہ ہو سکے تو سب ممبران رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے دعا کریں کہ خدایا ہم پر حق کھول دے.اگر اگلے روز بھی یہ نمبر ان ایک نام پر اتفاق نہ کر سکیں تو پھر جس نام کے حق میں 3/5 ممبران رائے دیں ، صدر مجلس اُس کی خلافت کا اعلان کرے اور سب اُس کی بیعت کریں.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور کی صحت بہتر ہونی شروع ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ تک حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو یہ توفیق بخشی کہ آپ جماعت کی قیادت فرما دیں اور 1910ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے یہ قاعدہ بنایا کہ خلیفہ وقت کی وفات کی صورت میں مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا جائے جو نئے خلیفہ کا انتخاب کرے.لیکن ۱۹۵۶ء ء میں ظاہر ہونے والے فتنے نے حضور کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ تمام ممبران شوری کا جمع ہونا ایک لمبا کام ہے، اور یہ خطرہ ہے کہ کہیں اس سے فائدہ اُٹھا کر منافق کوئی فتنہ کھڑا کر دیں.اس لئے حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے موقع پر فرمایا کہ مجلس شوری کے ممبران کی بجائے صرف ناظران صدر انجمن احمد یہ ہمبران صدر انجمن احمدیہ ، وکلاء تحریک جدید ، خاندانِ حضرت مسیح موعود کے زندہ افراد ( اس سے مراد صرف حضرت مسیح موعود کے بیٹے اور داماد تھے ) جامعتہ المبشرین اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل اور مفتی سلسلہ جن کی تعداد اُس وقت تین تھی مل کر آئیندہ خلیفہ کا انتخاب کریں گے.جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے بعد حضور نے مختلف احباب سے مشورہ کے بعد مجلس انتخاب خلافت میں ان اراکین کا اضافہ فرمایا (۱) مغربی پاکستان کا امیر.اگر اُس وقت مغربی پاکستان کا ایک امیر مقرر نہ ہو تو علاقہ جات مغربی پاکستان کے امراء (۲) مشرقی پاکستان کا امیر (۳) کراچی کا امیر (۴) تمام اضلاع کے امراء(۵) تمام سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہ چکے ہوں.گو انتخاب خلافت کے وقت امیر نہ ہوں.(ان کے اسماء کا اعلان صدر انجمن احمد یہ کرے گی.) (۲) امیر جماعت احمدیہ قادیان (۷) ممبران صدر انجمن احمد یہ قادیان (۸) تمام زندہ صحابہ کرام.اس غرض کے لئے صحابی وہ ہوگا جس نے حضرت مسیح موعود کو دیکھا ہو، آپ کی باتیں سنی ہوں اور آپ کی وفات کے وقت اس کی عمر کم از کم بارہ سال ہو.صدر انجمن

Page 543

533 احمدیہ احمد یہ تحقیق کے بعد ان کے اسماء کا اعلان کرے گی.(۹) حضرت مسیح موعود کے وہ صحابہ جن کا ذکر حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۱ء سے قبل کی کتب میں فرمایا ہے اگر وہ زندہ نہیں ہیں ، ان کا بڑا بیٹا بھی اس مجلس کا رکن ہو گا.ان کے ناموں کا اعلان صدر انجمن احمد یہ کرے گی (۱۰) ایسے تمام مبلغین سلسلہ جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونِ ملک کام کیا ہو اور انہیں کسی الزام کے تحت فارغ نہ کیا گیا ہو.(۱۱) ایسے تمام مبلغین سلسلہ جنہوں نے پاکستان کے کسی صو بہ یا ضلع میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کام کیا ہو اور انہیں کسی الزام کے تحت فارغ نہ کیا گیا ہو.حضور نے ارشاد فرمایا کہ جو ممبران حاضر ہوں گے وہ انتخاب کرنے کے مجاز ہوں گے.غیر حاضر افراد کی غیر حاضری انتخاب پر اثر انداز نہ ہوگی.انتخاب خلافت کے مقام اور وقت کا اعلان کرنا مجلس شوری کے سیکریٹری اور ناظر اعلیٰ کی ذمہ داری ہوگی.نئے خلیفہ کا انتخاب چوبیس گھنٹے کے اندر ہونا چاہئیے.مجبوری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ تین دن کے اندر انتخاب ہونا ضروری ہے.اس دوران صدر انجمن احمد یہ پاکستان جماعت کے جملہ کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ دار ہوگی.اگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی میں یہ انتخاب ہو تو وہ اس انتخاب کی صدارت کریں گے.ورنہ ناظران یا وکلاء میں سے سب سے سینیئر اس کی صدارت کریں گے.اجلاس شروع ہونے سے قبل اس مجلس کا ہر رکن مجوزہ حلف اُٹھائے گا اور جب خلافت کا انتخاب عمل میں آجائے گا تو منتخب شدہ خلیفہ کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ لوگوں سے بیعت لینے سے قبل یہ حلف اُٹھائے.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ میں خلافتِ احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافتِ احمدیہ کے خلاف ہیں باطل پر سمجھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لیے پوری کوشش کرونگا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا.اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لیے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا.حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے ایک مجلس علماء سلسلہ بھی مقرر فرمائی جو انتخاب خلافت کے

Page 544

534 قوانین کو ایک ریزولیوشن کی صورت میں تیار کرے اور پھر اسے مجلس شوریٰ میں پیش کیا جائے.چنانچہ ۱۹۵۷ء کی مجلس شوری میں مکرم و محترم مولانا عبد العطاء صاحب نے اس ریزولیوشن کو پیش کیا، یہ اجلاس حضرت مصلح موعودؓ کی صدارت میں منعقد ہوا.سب سے پہلے حضور نے دعا کروائی.اس کے بعد مکرم مولا نا عبد العطاء صاحب نے ریزولیوشن پیش کرنے سے قبل ایک تقریر کی جس میں خلافت کی اہمیت بیان کرنے کے بعد کچھ شواہد پیش کئے جن سے پتہ چلتا تھا کہ ابھی بھی ایک گروہ نظام خلافت کے خلاف فتنہ پروریوں میں مصروف ہے.مکرم مولا نا صاحب نے فرمایا، حضور نے واضح فرمایا ہے کہ خلیفہ خدا ہی مقرر فرماتا ہے.اس کے لئے کوشش کرنا نا جائز ہے.خلافت ایک مقدس امانت ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ وقت آنے پر نئے خلیفہ کا انتخاب کرے.لیکن ان جاہ طلب اور فتنہ پرداز لوگوں کو مایوس کرنے اور جماعتی اتحاد کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ابھی سے خلافت کے انتخاب کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ کرے.“ بعدہ قواعد انتخاب خلافت جو مجلس علماء سلسلہ نے تجویز کیے تھے مجلس شوری کے سامنے پیش کیے گئے ان قواعد میں ایک بنیادی قانون بھی پیش کیا گیا اور وہ یہ کہ آئندہ خلافت کے انتخاب کے لئے یہی قانون جاری رہے گا.سوائے اس کے کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے شوریٰ میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوریٰ کے مشورہ کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے.اس پر رائے شماری سے قبل حضور نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض جماعتوں نے اپنے نمائندوں سے قسمیں لی ہیں کہ وہ شوریٰ میں اس ریزولیوشن کی تائید کریں.اور اس کے خلاف ووٹ نہ دیں.بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ ہم نے تو اپنے ایمان کی بناء پر اور یہ بتانے کے لئے کہ ہمیں خلافت کے ساتھ وابستگی ہے اور ہم خلافت احمدیہ کو کسی صورت میں تباہ نہیں ہونے دیں گے اس ریزولیوشن کی تائید کرنی تھی.لیکن ہوا یہ ہے کہ جماعتوں نے ہم سے اس بات کے متعلق حلف لیا ہے کہ ہم ضرور اس ریزولیوشن کی تائید کریں.اس طرح گویا ہمارے ثواب کا راستہ بند ہوتا ہے اور ہم اپنے اخلاص کا اظہار نہیں کر سکتے.حضور نے فرمایا کہ ان کی یہ بات معقول ہے اس لئے میں انہیں اس حلف سے آزاد کرتا ہوں.خلافتِ احمدیہ کو خدا نے قائم کرنا

Page 545

535 ہے.اگر کوئی شخص اپنے ایمان میں کمزور ہے اور وہ کوئی ایسا راستہ کھولتا ہے جس کی وجہ سے خلافت احمد یہ خطرہ میں پڑ جاتی ہے تو اس کے ووٹ کی نہ خلافت احمدیہ کو ضرورت ہے اور نہ خدا کو ضرورت ہے.حضور نے واضح فرمایا کہ اس ریزولیوشن کے بعض حصے ایسے ہیں جن پر آئندہ زمانوں میں دوبارہ غور کی ضرورت ہو گی.لیکن جب تک کوئی دوسرا ریزولیوشن منظور نہیں ہو گا اس وقت تک یہ ریز ولیوشن قائم رہے گا.شوری کے اس اجلاس میں تمام جماعتوں کے ۳۲۱ نمائیندگان موجود تھے.ان سب نے اس ریزولیوشن کے حق میں رائے دی.چنانچہ ۱۹۶۵ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے وصال پر خلافت ثالثہ کا انتخاب ان قواعد کے تحت ہوا اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے وصال پر خلافت رابعہ کا انتخاب بھی انہی قواعد کے مطابق ہوا.خلافت رابعہ کے دور میں ۱۹۸۴ء اور ۱۹۹۶ء میں جیسا کہ ہم ذکر کریں گے بعد میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی منظوری سے ان قوانین میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں لیکن بنیادی طور پر انہی قوانین کے تحت خلافت ثالثہ ،خلافت رابعہ اور پھر خلافتِ خامسہ کا انتخاب عمل میں آیا.یہ حضرت مصلح موعود کا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے کہ حضور نے انتخاب خلافت کے جو قوانین مقرر فرمائے ، وہ نظام اتنا با برکت ثابت ہو ا.۱۹۵۶ء کا فتنہ بہت سے پہلؤوں سے جماعت کے لئے ایک تکلیف دہ واقعہ تھا مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو خلافت کی برکات کو جاری رکھنے کے لئے ایک مستقل نظام عطا ہوا.جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ارشاد فرمایا تھا، وقت کے ساتھ ان قواعد میں کچھ تبد یلیاں کی گئیں.۱۹۸۴ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کو ہجرت کر کے لندن آنا پڑا.اُس وقت حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اگر ان حالات میں انتخاب خلافت کا وقت آ جائے تو مخالف احمدیت عناصر اس کاروائی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں.اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ارشاد پر انتخاب خلافت کا ادارہ پاکستان سے باہر منتقل کر دینے کی عملی شکل کے بارہ میں مشورہ پیش کرنے کے لئے لاہور میں ایک خصوصی مجلس شوری کا اجلاس بلایا گیا.یہ مجلس شورٹی اسی مسئلہ پر غور کرنے کے لئے بلائی گئی تھی.اس مجلس شوری کی رپورٹ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی خدمت میں پیش کی گئی.اس پر حضور نے بعض اور پہلوؤں

Page 546

536 پر غور کرنے کے لئے لندن میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی.اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ حضور کی خدمت میں پیش کی.اس کے بعد پاکستان اور بیرونِ پاکستان بعض اور صائب الرائے احباب سے مشورہ لیا گیا.بعض اور تجاویز پر غور کرنے کے لئے حضور نے ناظر صاحب اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ پاکستان کو ہدایت فرمائی کہ ممبران صدر انجمن احمد یہ پاکستان تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان اور مجلس وقف جدید پاکستان اور بعض امراء اور صائب الرائے احمدیوں پر مشتمل ایک مجلس شوری برائے انتخاب خلافت کا اجلاس منعقد کیا جائے.یہ اجلاس ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۵ء کو پاکستان میں منعقد ہوا.اور اس مشاورت کی سفارشات حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی خدمت میں بھجوائی گئیں.متذکرہ بالا طریق پر غور و فکر اور مشوروں اور دعاؤں کے بعد ۱۹۵۷ء میں منظور شدہ قوانین میں مندرجہ ذیل ترامیم منظور کی گئیں.ممبران مجلس انتخاب خلافت میں وکلاء تحریک جدید کے علاوہ ممبران تحریک جدید کو اور ممبرانِ وقف جدید کو بھی شامل کیا گیا.۱۹۵۷ء میں یہ قاعدہ بنا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے اولین صحابہ یعنی وہ جن کا ذکر حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۱ ء سے پہلے کی کتب میں فرمایا ہے وہ اگر فوت ہو چکے ہوں تو اُن کا بڑا لڑکا اس مجلس کا ممبر ہوگا.اگر جماعت احمد یہ مبایعین میں شامل ہو اور صد را مجمن احمد یہ ان ناموں کا اعلان کرے گی.اب یہ ترمیم کی گئی کہ صدر انجمن احمد یہ ان ناموں کی فہرست حضرت خلیفہ اسیج کی منظوری سے تیار رکھے گی.”ایسے تمام مبلغین جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کا کام کیا ہو اور بعد میں تحریک جدید نے کسی الزام کے ماتحت انہیں فارغ نہ کر دیا ہو ( اُن کو تحریک جدید سرٹیفیکیٹ دے گی اور اُن کے ناموں کا اعلان کرے گی.) ایسے تمام مبلغین جنہوں نے پاکستان کے کسی صوبہ یا ضلع میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کام کیا ہو اور بعد میں اُن کو صدرانجمن احمدیہ نے کسی الزام کے تحت فارغ نہ کر دیا ہو ( انہیں صدر انجمن احمد یہ سرٹیفیکیٹ دے گی اور اُن کے ناموں کا اعلان کرے گی )‘“ ۱۹۵۷ء میں بننے والے قوانین میں جو مر بیان اور مبلغین شامل کئے گئے تھے ، اس میں یہ ترمیم کی گئی کہ مبلغین اور مربیان کی اس قدر تعداد جو مجلس انتخاب کی کل تعداد کا ۲۵ فیصد ہو مجلس انتخاب کے رکن ہوں گے.اس غرض کے لئے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید مشتر کہ اجلاس میں مبلغین اور مربیان کی سینیارٹی لسٹ تیار کریں گے اور مذکورہ تعداد میں ایسے سینئر ترین مبلغین کی فہرست حضرت

Page 547

537 خلیفہ مسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کریں گے.اس فہرست میں کسی ایسے مربی یا مبلغ کا نام شامل نہیں کیا جائے گا جسے کسی الزام کے تحت فارغ کیا گیا ہو.یہ اضافہ بھی کیا گیا کہ تمام ملکی امراء بحیثیت امیر جماعت ملک اس مجلس کے رکن ہوں گے.مقام انتخاب کے متعلق یہ ترمیم کی گئی کہ تا اطلاع ثانی انتخاب خلافت ربوہ کی بجائے اسلام آباد یو کے میں ہوگا.ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ ربوہ اگر انتخاب خلافت کا موقع پیش آنے پر یو کے میں موجود نہ ہوں تو ان کی عدم موجودگی میں ناظر اعلیٰ کے فرائض ادا کرنے کے لئے تین ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مقرر کئے گئے.یہ ترمیم بھی منظور کی گئی که اگر کسی اشد مجبوری کی وجہ سے انتخاب خلافت تین دن کے اندر نہ ہو سکے تو صدرانجمن احمد یہ اس بات کی مجاز ہوگی کہ وہ تین دن کے اندر انتخاب کی شرط کو نظر انداز کر دے.اگر ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ ربوہ اس موقع پر یو کے پہنچ جائیں تو نظارت علیا کے جملہ اختیارات انہی کے پاس ہوں گے.لیکن اگر وہ یو کے نہ پہنچ سکیں تو جو ایڈیشنل ناظرِ اعلیٰ لندن میں موجود ہوں گے وہ یہ فرائض ادا کریں گے.اور اس دوران صدرانجمن احمدیہ کے جو اراکین لندن میں موجود ہوں گے ان پر مشتمل انجمن جماعت احمدیہ کے جملہ امور کی نگران ہوگی.اور اس دوران صدرا انجمن احمدیہ کے جو مبران پاکستان میں موجود ہوں گے اور ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ موجود پاکستان اور جملہ جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر لندن میں موجود ایڈیشنل ناظر اعلیٰ اور ممبران صدرانجمن احمد یہ موجودلندن کے جملہ فیصلہ جات کو من و عن تسلیم کرنے کے پابند ہوں گے.یو کے میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاسات ایڈیشنل صدر صدر انجمن احمدیہ کی زیر صدارت ہوں گے.اور اس غرض کے لئے مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو ایڈیشنل صدر صدر انجمن احمد یہ مقرر کیا گیا.یہبھی قرار پایا کہ ناظران اور وکلاء کی سینیارٹی لسٹ کی منظوری حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ سے حاصل کی جائے گی.سیکریٹری مجلس شوری مجلس انتخاب خلافت کا سیکرٹری ہوتا ہے اس کے متعلق یہ قاعدہ منظور کیا گیا کہ تا اطلاع ثانی مکرم عطاء المجیب راشد صاحب اس مجلس کے سیکریٹری ہوں گے اور اگر وہ اس موقع پرلندن میں موجود نہ ہوں تو جو بھی عملاً حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہا ہو وہ سیکر یٹری کے فرائض ادا کرے گا.سیکرٹری مجلس شوری بحیثیت سیکرٹری شوری ووٹنگ ممبر نہیں ہوں گے.حضور نے یہ تجویز بھی منظور فرمائی کہ ہر وہ شخص جس نے کسی وقت نظام خلافت کے استحکام کے خلاف کسی

Page 548

538 قسم کی کاروائی میں حصہ لیا ہو یا جو ایسے لوگوں کے ساتھ ملوث رہا ہو اس کا نام انتخاب خلافت کے لئے پیش نہیں ہو سکے گا ،صدر انجمن احمد یہ ایسے افراد کے ناموں کی فہرست تیار کر کے حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ سے اس کی منظوری حاصل کرے گی.انتخاب خلافت حاضر اراکین کی سادہ اکثریت سے ہوگا اور جس کے حق میں سب سے زیادہ آراء ہوں گی وہی منتخب خلیفہ ہوگا.اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہو گا.اور تمام افراد جماعتہائے احمد یہ عالمگیر منتخب خلیفہ کی بیعت کریں گے.۲۳ نومبر ۱۹۸۵ء کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے دستخطوں سے ایک سرکلر جاری ہوا اور ان ترمیم شدہ قوانین کو حتمی حیثیت حاصل ہوگئی.۱۹۹۹ء میں جب حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی بیماری شروع ہوئی تو حضور نے بعض احتمالات کے پیش نظر ان قواعد میں بعض ترامیم کی ضرورت محسوس کی.چنانچہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید اور مرزا خورشید احمد ناظر امور خارجہ صدر انجمن احمد یہ ( جو ان دنوں لندن آئے ہوئے تھے ) نے حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی ہدایات کے مطابق بعض ترامیم مرتب کیں.اور پھر حضور کی ہدایات کے مطابق ان مجوزہ ترامیم کوصدرانجمن احمد یہ پاکستان تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان اور وقف جدید انجمن احمد یہ پاکستان کے اراکین پر مشتمل شوری کو مشورے کے لئے بھجوایا گیا.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے یہ فیصلہ فرمایا کہ قواعد انتخاب خلافت کا اکثر حصہ تو اسی طرح برقرار رہے گا جو ۱۹۸۵ء میں کچھ ترامیم کے بعد منظور کیا گیا تھا لیکن اب ان میں مندرجہ ذیل ترامیم کی جائیں گی.جو فوری طور پر نافذ العمل ہوں گی.۱۹۸۵ء میں یہ ترمیم کی گئی تھی کہ تا اطلاع ثانی انتخاب خلافت ربوہ کی بجائے اسلام آبا دیو کے میں ہوگا.اب یہ ترمیم کی گئی کہ تا اطلاع ثانی یہ انتخاب مسجد فضل لندن یو کے میں ہو گا.یہ ترامیم بھی منظور کی گئیں کہ اگر انتخاب خلافت لندن میں ہو تو ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مقیم لندن کا فرض ہو گا کہ جب تک ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان لندن نہ پہنچیں وہ جملہ فرائض ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی ہدایات کے مطابق ان کی نمائندگی میں ان کے اٹارنی کے طور پر ادا کرے.اگر کسی اشد مجبوری کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ انتخاب خلافت تین دن کے اندر نہیں ہوسکتا تو صدرانجمن احمد یہ پاکستان یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی اور اس درمیانی عرصہ میں صدر انجمن احمد یہ پاکستان جماعت کے جملہ کاموں کو

Page 549

539 سرانجام دینے کی ذمہ دار ہو گی.بیرون پاکستان مقیم کچھ احباب کو حضور نے صدر انجمن احمد یہ پاکستان کا ممبر مقرر فرمایا تھا، اس ضمن میں حضور نے یہ قاعدہ منظور فرمایا کہ اگر انتخاب خلافت لندن میں ہو تو انگلستان میں موجود صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے اراکین پر مشتمل انجمن کا فرض ہوگا کہ جب تک صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے اراکین لندن نہ پہنچیں وہ اپنے جملہ فرائض صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی نمایندگی میں صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی ہدایات کے مطابق ان کے اٹارنی کے طور پر ادا کرے.انگلستان میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاسات صدر، صدر انجمن احمد یہ یا ایڈیشنل صدر، صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی صدارت میں ہوں گے.اگر وہ انگلستان میں موجود نہ ہوں تو صدارت کے اختیارات ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ پاکستان کو اور ان کی عدم موجودگی میں یہ اختیارات ایڈیشنل ناظرِ اعلیٰ کو حاصل ہوں گے.حضور نے بعض ترامیم کی نشاندہی فرمائی جو اس احتمال کے پیش نظر کہ اگر انتخاب خلافت کا موقع لندن میں پیش آئے کی گئی ہیں.حضور نے ارشاد فرمایا کہ اگر انتخاب خلافت ربوہ میں ہو تو یہ ترامیم منسوخ ہو جائیں گی.(۱) رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰، ص۳۰۶ (۲) تاریخ طبری، حصہ سوم، ترجمه اردو از حبیب الرحمن صدیقی نفیس اکیڈمی ، ص ۲۶ (۳) حیات نورالدین ، مصنفہ عبد القادر، پنجاب پر لیس وطن بلڈنگ لا ہورص ۳۰۷

Page 550

540 دونئے مشنوں کا قیام لائی پیر یا میں مشن کا قیام : اب تک مغربی افریقہ میں غانا، سیرالیون اور نائیجیریا میں جماعت کا قیام عمل میں آچکا تھا.یہ تینوں جماعتیں حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحب کے ذریعہ ۱۹۲۱ء میں قائم ہوئی تھیں.اس کے بعد ان ممالک میں تو احمدیت ترقی کرتی رہی مگر ایک لمبا عرصہ مغربی افریقہ کے کسی اور ملک میں جماعت کا قیام عمل میں نہیں آیا.۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے مغربی افریقہ کے ایک اور ملک لائیپیر یا میں جماعت کا مشن قائم کرنے کی ہدایت جاری فرمائی.لائیپیر یا کا احمدیت سے پہلا رابطہ اُس وقت ہوا جب ۱۹۱۷ء میں وہاں کے ایک پروفیسر نے لندن مشن سے جماعت کا لٹریچر منگوایا (۱).جماعت کے مبلغ حضرت مولانا نیر صاحب ۱۹۲۱ء میں غانا ، بحری جہاز پر تشریف لے جا رہے تھے.جہاز لائیبیریا کے دارالحکومت اور بندر گاہ منروویا کے قریب لنگر انداز رہا.حضرت نیر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ یہاں پر اتر کر تبلیغ کریں مگر جہاز کے کپتان نے یہ کہہ کر اجازت نہ دی کہ وقت کم ہے (۲) ۱۹۴۳ء میں سیرالیون کے ایک آنریری مبلغ مکرم الفا عبد اللہ صاحب نے تین ماہ کے لئے لائیبیریا کا تبلیغی دورہ کیا (۳).فروری ۱۹۵۲ء میں حضور نے سیرالیون میں متعین کے مبلغ مکرم محمد صدیق امرتسری صاحب کو حضور نے ارشاد فرمایا کہ آپ کا کام صرف سیرالیون تک محدود نہیں ہمسایہ ممالک میں بھی تبلیغ کا انتظام کریں.آپ نے دوسرے ممالک کے علاوہ لائیپیر یا بھی بذریعہ ڈاک جماعت کا لٹریچر بھجوانا شروع کیا.پھر سیرالیون کی جماعت بو کے دو فدائی احمد یوں الحاج علی صاحب اور الحاج سعید و بنگو را صاحب نے لائیپیر یا میں تبلیغی سروے کے لئے ایک ماہ کا وقف کیا.ان دو بزرگوں نے لائیبریا کے غیر معروف علاقوں کے دورے کئے اور گاؤں گاؤں شہر شہر احمدیت کا تعارف وہاں کے لوگوں تک پہنچایا.اس دوران انہوں نے طویل پیدل سفر بھی کئے.اس دوران آپ کے شاگر د محمد کمارا صاحب بھی شریک سفر تھے.۱۹۴۴ء سے لے کر ۱۹۷۶ء میں اپنے انتقال تک صدر ٹب میں اس ملک کے صدر رہے اور لائیبیریا کے سیاسی افق پر چھائے رہے.اُس وقت بھی ٹب مین ملک کے صدر تھے.مولوی محمد صدیق صاحب کی

Page 551

541 درخواست پر صدر ٹب میں نے ایگزیٹو مینشن میں ایک غیر رسمی تقریب کا اہتمام کیا جس میں ان کے علاوہ دیگر وزراء اور عمائدینِ حکومت بھی شریک ہوئے.صدیق امرتسری صاحب نے جماعت کا تعارف کرایا اور شرکاء کو جماعت کا لٹریچر پیش کیا.صدر مملکت نے اس کے جواب میں کہا کہ حکومت جماعت کا مشن کھولنے میں تعاون کرے گی.کچھ دنوں کے بعد صد رعب مین بیمار ہو گئے تو آپ نے مولوی صاحب کو دعا کے لئے بلایا.مکرم صدیق امرتسری صاحب نے ان کے کمرے میں جا کر ان کے لئے دعا کی.(۴) ۱۹۵۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے لائیبیریا میں مشن کے قیام کے لئے مکرم صوفی محمد الحق صاحب کو مقرر فرمایا.صوفی الحق صاحب آٹھ سال سے مغربی افریقہ میں خدمات سرانجام دے رہے تھے.مکرم صوفی صاحب جنوری کے آغاز میں لائیمیر یا پہنچے.یہاں کے اخبار Listenerنے آپ کی آمد کی خبر نمایاں کر کے شائع کی.پہلے کچھ عرصہ ایک شامی کے ہاں قیام کیا پھر کچھ تگ و دو کے بعد ایک کرایہ کا کمرہ لے کر کام شروع کیا.لائیبیریا میں مقامی مذاہب سے وابستہ افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں.لیکن اُس وقت امریکہ سے آکر آباد ہونے والے لائیبیر یا پر چھائے ہوئے تھے اور ان کی اکثریت عیسائی تھی.کچھ عرصہ قبل جب صدر ٹب مین نے امریکہ کا دورہ کیا عیسائیت کے ایسے مبلغ بھی لائیپیر یا آئے جو روحانی علاج کرنے اور بیماروں میں سے خبیث روحوں کو نکالنے کا دعوی کرتے تھے.(۶،۵) اور اس طرح ضعیف الاعتقاد لوگوں کی ضعیف الاعتقادی کا فائدہ اُٹھاتے.مکرم صوفی الحق صاحب کی درخواست پر صدر ٹب مین نے مشن کی طرف سے عمائدین حکومت کو ایڈریس پیش کرنے کے لئے مدعو کیا.اور تقریب میں صدر مملکت کے علاوہ وزراء اور دیگر اہم شخصیات بھی اس موقع پر مدعو تھے.مکرم صوفی الحق صاحب کے ساتھ اس موقع پر امریکہ کے ایک احمدی اور ایک غیر احمدی امام صاحب اور بعض دوسرے غیر احمدی احباب بھی اکھٹے شرکت کے لئے گئے.صوفی صاحب کے ایڈریس کے بعد صدر ٹب مین نے شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ کے مشن کی زمین کے لئے سروے کر لیا جائے جس طرح عیسائی مشنوں کے لئے زمین مہیا کی جاتی ہے اس طرح احمد یہ مشن کے لئے بھی زمین مہیا کی جائے گی.یہاں کے چیف امام زمین کے

Page 552

542 حصول کے سلسلے میں جماعت کے ساتھ تعاون کرتے رہے.اُس وقت سیاسی مصالح کی بنا پر حکومت نے ایک شامی کو مسلمانوں کا پبلک ریلیشن آفیسر مقرر کیا ہوا تھا.یہ صاحب فری میسن سوسائٹی کے ممبر بھی تھے.تاہم یہاں پر بعض مسلمانوں نے شرافت کا رویہ بھی دکھایا.مراکش سے آئے ہوئے ایک عالم نے لیکچر دیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ احمدی سچے مسلمان ہیں اور اسلام کی بہت خدمت کر رہے ہیں ، اس لئے ان کی کوئی مخالفت نہیں کرنی چاہئیے.(۷) انفرادی تبلیغ اور لیکچروں کے ذریعہ کام کا آغاز کیا گیا.جماعت کا لٹریچر تقسیم اور فروخت کیا گیا.نائیجیریا سے شائع ہونے والا جماعتی جریدہ Truth بھی تبلیغ کے لئے ممد و معاون ثابت ہو رہا تھا.لائیبیریا کے قبائل میں سے وائی قبیلہ کے لوگ احمدیت میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے..یہ قبیلہ مغربی افریقہ کے دوسرے علاقوں سے یہاں آکر آباد ہوا تھا اور یہ یہاں آنے والے قبیلوں میں سے پہلا قبیلہ تھا جو مسلمان تھا.ان سے قبل آنے والے قبائل اپنے آبائی مذہب پر تھے اور مڈنگو سے تعلق رکھنے والے ملانے مخالفت میں پیش پیش تھے.دو ماہ کے اندر فروری ۱۹۵۶ء میں مکرم صوفی محمد الحق صاحب نے حضور کی خدمت میں پہلی دو بیعتوں کی خوش خبری بھجوائی.مارچ ۱۹۵۶ء کی رپورٹ میں صوفی صاحب نے ایک عربی عالم اسمعیل مالک صاحب کے احمدی ہونے کا ذکر کیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خواہش تھی کہ ہر ملک کے مقامی باشندے دینی علم حاصل کر کے خدمت دین کے کام میں آگے آئیں.چنانچہ حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اسمعیل مالک صاحب کو احمدیت کی تعلیم دے کر مدرس کیوں نہیں بنا لیتے ؟ (۸) یہاں پر بہائیوں نے اپنے مشن کا جال خوب پھیلا رکھا تھا اور یہ اپنے لٹریچر کی خوب اشاعت کر رہے تھے، جس میں اسلامی تعلیمات کو غلط رنگ میں پیش کیا جاتا تھا.افریقی ممالک میں لائیپیر یا میں ہی بہائیت کا سب سے زیادہ اثر تھا.مکرم و محترم صوفی محمد الحق صاحب نے ان کے پریذیڈنٹ صاحب سے مل کر تبادلہ خیالات کی دعوت کی.مشیر اجساد پر بحث ہوئی تو صوفی صاحب نے دلائل دیئے کہ قیامت کبری کے انکار سے تمام انبیاء کی تکذیب لازم آتی ہے.جب بہائیوں کے پریذیڈنٹ صاحب سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو کہنے لگے تم پاگل ہو.اس پر صوفی الحق صاحب نے ان کا شکریہ ادا کیا.صوفی صاحب کی آمد کے تقریباً ایک سال بعد ایک امریکی اپنی بیوی کے

Page 553

543 ہمراہ بہائیت کی تبلیغ کے لئے لائیبیر یا آیا.اور اپنے مذہب کی پر جوش تبلیغ شروع کی.صوفی صاحب نے اس سے تبادلہ خیالات کیا تو آخر دلائل سے تنگ آکر اس کی بیوی نے کہا کہ اب میں تمہارے کہنے سے انیس برس کے بعد بہائیت تو نہیں چھوڑ سکتی.حضور کو اس کی رپورٹ پہنچی تو حضور نے تحریر فرمایا کہ ان سے کہو کہ تم انیس سال بعد بہائیت نہیں چھوڑ سکتی تو ہم ساڑھے تیرہ سوسال بعد اسلام کیسے چھوڑ دیں.(۸،۷).حضور کی خواہش ہوتی تھی کہ جماعت کے مبلغین جب بھی تبلیغ کریں تو مضبوط اعلم اور قوی دلائل کے ساتھ کریں.چنانچہ جب بہائیوں میں صوفی صاحب کی تبلیغی مساعی کی رپورٹیں حضور تک پہنچیں تو حضور نے ان میں تبلیغ کی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا ، دیگر بہائیت کا مطالعہ پہلے کرلیں.تبشیر مولوی ابو العطاء صاحب والی بہائیت کے متعلق دونوں کتب ان کو بھجوا دیں.(۹) اس طرح لائی پیر یا میں جماعت کا قیام عمل میں آیا اور ایک مختصر جماعت کے ذریعہ اس ملک میں تبلیغ کا آغاز ہوا.(1) تاریخ احمدیت ، جلد ۱۸ ص ۳۲۹ (۲) الفضل ۵ مئی ۱۹۲۱ ء ص ۱ (۳) الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۴۳ء ص ۴ (۴) روح پرور یادیں، مصنفہ صدیق امرتسری صاحب ، ص ۴۰۶-۴۰۹ (۵) الفضل ۹ دسمبر ۱۹۵۵ ء ص ۶ (۶) الفضل ۱۰ اپریل ۱۹۵۶ء ص ۳ ( ۷ ) الفضل ۲ ستمبر ، ۱۹۵۷ء ص ۳ و۴ (۸) ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ (۹) الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۵۷ء ص ۴۱۳ سکینڈے نیویا میں مشن کا قیام: سکینڈے نیویا یورپ کا وہ حصہ ہے جس میں سویڈن، ڈنمارک اور ناروے کے ممالک شامل ہوتے ہیں.جب حضور یورپ کے دورے پر تشریف لے گئے تو ایک سویڈش نوجوان مسٹر گنار ایرکسن ( Gunnar Ericsson) نے حضور سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ سکینڈے نیویا

Page 554

544 میں جماعت اپنا مشن کھولے.یہ نوجوان اسلام سے متاثر ہوکر مسلمان ہو چکے تھے اور انجمن اسلامی کے سیکریٹری تھے (۱).اس سے قبل ۱۹۲۰ء میں جب مکرم نیر صاحب لندن میں قیام فرما تھے تو ناروے کی ایک خاتون نے نیر صاحب کے ذریعہ بیعت کر کے احمدیت قبول کی تھی.چنانچہ حضور نے سکینڈے نیویا میں مشن کھولنے کے لئے مکرم کمال یوسف صاحب کو مقررفرمایا.ایک مرتبہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نماز عصر کے بعد مجلس عرفان میں تشریف فرما تھے.مکرم کمال یوسف صاحب بھی مجلس میں حاضر تھے حضور نے کمال یوسف صاحب کو ارشاد فرمایا کہ فن لینڈ میں ایک مدت سے ترک آباد ہیں وہاں جا کر ان سے بھی ملنا چاہئیے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب آئینہ کمالاتِ اسلام اور حقیقۃ الوحی اور بعض دیگر کتب کا مطالعہ کرنے کا ارشاد فرمایا.(۲) اُس وقت مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب مغربی جرمنی میں جماعت کے مبلغ تھے ، حضور نے انہیں ہدایت فرمائی کہ وہ بھی کمال یوسف صاحب کے ساتھ جائیں.چنانچہ یہ دونوں احباب ۱۴ جون ۱۹۵۶ء کو سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں وارد ہوئے.سویڈن ایک خوبصورت ملک ہے.اس کی جھیلیں اور خوبصورت مناظر دیکھتے ہوئے بے اختیار چوہدری عبد اللطیف صاحب کے دل سے دعا نکلی کہ اے خدا جس طرح تو نے اس سرزمین کو ظاہری حسن کے زیور سے آراستہ کیا ہے اسی طرح اس ملک کے بسنے والوں کے قلوب کو اپنے نور کی کرنوں سے روشن کر دے.گوٹن برگ میں ایک کمرہ کرایہ پر حاصل کر کے تبلیغ کے کام کا آغاز کیا گیا.گوٹن برگ کے ایک روز نامہ gotibors_Posten نے ۲۲ جون کی اشاعت میں مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب کا انٹرویو شائع کیا (۳).مسٹر ایرکسن جنہوں نے لندن میں حضور سے سویڈن میں جماعت احمدیہ کا مشن کھولنے کی درخواست کی تھی، یہاں پر سب سے پہلے بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.اُنہوں نے اگست ۱۹۵۶ء میں بیعت کی.مکرم کمال یوسف صاحب نے زبان سیکھنے کے لئے رات کی کلاسز میں داخلہ لیا.اور اس کے ساتھ تبلیغ کا کام بھی جاری رکھا.مختلف مذہبی اور دیگر تنظیموں نے مکرم کمال یوسف صاحب کو لیکچروں پر بلانا شروع کیا اور اخبارات اور رسائل نے انٹرویو لینے شروع کئے.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کا یہ راستہ خود بخود نکل آیا.ڈنمارک کے مکرم عبدالسلام میڈسن صاحب اور اس خطے میں پہلے پہل بیعت کرنے والے احمدیوں سے بعض اس سے

Page 555

545 قبل ووکنگ میں اہلِ پیغام کے مبلغ کے زیر اثر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فقط ایک مجدد خیال کرتے تھے.لیکن جب مکرم کمال یوسف صاحب نے حقیقۃ الوحی سے حوالہ پیش کیا جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام واضح ہوتا تھا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو فورا تسلیم کر لیا.اُس دور میں غیر از جماعت پاکستانی سکینڈے نیویا میں آنا شروع ہوئے اور ان کے ساتھ ان کے کچھ علماء بھی داخل ہوئے.ان پاکستانی مولویوں نے حقیقۃ الوحی کی عربی عبارت کے ایک حصہ کے ترجمہ میں تحریف کر کے اس کی بنیاد پر احمدیت کے خلاف زہر گھولنا شروع کیا.لیکن جب احمدی مبلغ نے صحیح عبارت دکھائی تو اس زہر کا تریاق ہو گیا.کچھ عرصہ کے بعد مشن گوٹن برگ سے سویڈن کے شہر سٹاک ہالم منتقل کر دیا گیا کیونکہ وہاں پر تین ہزار مسلمان موجود تھے اور اسلامی سوسائٹی بھی موجود تھی.وہاں پر کمال یوسف صاحب نے ڈیڑھ سال تک تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی اس علاقے میں تبلیغ اسلام کی مہم میں گہری دلچسپی لے رہے تھے.اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب مشن کو گوٹن برگ سے سٹاک ہالم منتقل کیا جارہا تھا تو حضور نے ہدایت جاری فرمائی کہ تبشیر فوری توجہ کرے.چپ کر کے نہ بیٹھ جائے.رپورٹ کرنی ہے.ہر ہفتہ ایک دفعہ رپورٹ آئے کہ کیا کر رہے ہیں؟ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں مرکز کی طرف سے کمال یوسف صاحب کو ہدایت بھجوائی گئی کہ مسجد اور مشن ہاؤس کیلئے زمین خریدنے کی کوشش کی جائے.ایک طرف تو جماعت احمد یہ اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشاں تھی اور دوسری طرف بعض مسلمان اس راہ میں روڑے اٹکا رہے تھے.چنانچہ جلد ہی مصری سفارت خانے نے عرب اور ترک مسلمانوں کو تحریک کی کہ وہ احمدی مبلغ سے کسی قسم کا تعاون نہ کریں.اس وقت وہاں پر متعین سفیر صاحب جماعت کی مخالفت کرتے رہتے تھے.(۱) لیکن ایک ایک کر کے سعید روحوں پر اسلام کی حقانیت آشکار ہو رہی تھی.کچھ عرصہ سٹاک ہالم میں مشن کام کرتا رہا، پھر اگست ۱۹۵۸ء میں اسے ناروے کے شہر اوسلو میں منتقل کر دیا گیا.اور وہاں سے سکنڈے نیویا میں اسلام کی تبلیغ کا کام شروع کیا گیا.سکینڈے نیویا میں جب جماعت نے تبلیغ کے کام کا آغاز کیا تو مبلغ صرف ایک کمرہ کو ہی کرایہ پر لے سکتا تھا اور اسی کمرے کو مشن ہاؤس کے.

Page 556

546 طور پر استعمال کیا جاتا تھا.جب لوگوں کا آنا جانا شروع ہوتا تو گھر والے تنگ پڑ جاتے اور یہ کمرہ خالی کرالیا جا تا.اس وجہ سے ابتداء میں کمال یوسف صاحب کو بار بار ر ہائش تبدیل کرنی پڑی.ایک بار ڈنمارک میں بہت اچھی رہائش ملی.وہاں پر یورپ میں جماعت کے مبلغین کی کانفرنس ہو رہی تھی.سپین کے مبلغ مکرم کرم الہی صاحب ظفر کمال یوسف صاحب کی رہائش دیکھنے آئے اور دیکھ کر چلے گئے.اس وقت کرم الہی ظفر صاحب نے پگڑی پہن رکھی تھی.کمال یوسف صاحب جب گھر واپس آئے تو دیکھا کہ اہلِ خانہ منہ بسورے بیٹھے ہیں.اور انہیں دیکھ کر کہنے لگے کہ ہمارا گھر چھوڑ دو کیونکہ ہمارے ہمسائے پوچھ رہے تھے کہ یہ پگڑی والا کون تھا.اس طرح ہماری انگشت نمائی ہوتی ہے.جب کمال یوسف صاحب ناروے آئے تو تقریباً لگاتار چھ ماہ یوتھ ہاسٹل میں رہنا پڑا کیونکہ کوئی کمرہ کرایہ پر نہیں ملتا تھا.یوتھ ہاسٹل میں صرف تین دن رہنے کا حق ہوتا ہے.اس کے بعد وہ وارڈن کے رحم وکرم پر تھے.(۲) جماعتی زندگی میں مساجد ایک مرکز کی حیثیت رکھتی ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے.جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی.اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہیے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا.لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو.محض اللہ اسے کیا جاوے.نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا.(۴) مساجد کی اس اہمیت کے پیش نظر جب حضرت مصلح موعودؓ نے محسوس فرمایا کہ مسجد کی تعمیر میں غیر معمولی تاخیر ہو رہی ہے تو نومبر ۱۹۵۸ء کی رپورٹ پر حضور نے فرمایا، اب تک آپ نے سٹاک ہالم میں مسجد کے لئے جگہ نہیں لی.بڑا کام بیعتیں نہیں ہے بلکہ مسجد کی تعمیر ہے.‘(۱) ان ممالک میں اسلام قبول کرنے والے احباب خود اپنی ذات میں تبلیغ کا ایک مؤثر ذریعہ بن

Page 557

547 جاتے تھے.چنانچہ ڈنمارک میں وہاں کے ایک نو احمدی مکرم عبد السلام میڈیسن صاحب کو ڈنمارک کے ریڈ یو نے مذہبی مذاکرے میں مدعو کیا اور اسی طرح سویڈن کے ایک نواحمدی دوست کو بھی وہاں کے ریڈیو نے ایک مذاکرے میں بلایا.ان نو مسلم احباب نے بڑی کامیابی کے ساتھ اس موقع کا فائدہ اُٹھا کر تبلیغ کی.(۵) جنوری ۱۹۵۹ء میں جماعت کی طرف سے ایک رسالہ ایکٹو اسلام کا اجرا کیا جو سویڈش، ناروکین اور ڈینش زبانوں میں شائع ہوتا تھا.اس سے تبلیغ کے کام کو ایک نئی وسعت ملی.اس طرح یورپ کے اس خطے میں اسلام اور احمدیت کے پیغام کو پہنچانے کے کام کا آغاز ہوا.اور ان ممالک میں چھوٹی چھوٹی جماعتیں وجود میں آنے لگیں.(!) ریکارڈ وکالت تبشیر (۲) تحریری روایت از مکرم کمال یوسف صاحب (۳) الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۵۶ء ص ۳ (۴) ملفوظات ، جلد چہارم ص ۹۳ (۵) الفضل ۷ دسمبر ۱۹۵۸ء ص ۳

Page 558

548 وقف جدید کا آغاز وقت کے ساتھ جوں جوں جماعت پھیلتی جارہی تھی ، جماعت کی تربیت کے اور احمدیت کی تبلیغ کوسب تک پہنچانے کے نئے نئے تقاضے بھی سامنے آ رہے تھے.جماعت کے مربیان کی موجود تعداد تنہا تبلیغ اور تربیت کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتی تھی.دیہاتی جماعتوں میں ان مسائل کو حل کرنا بالخصوص زیادہ مشکل ہوتا تھا کیونکہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں وسیع علاقہ پر پھیلی ہوتی تھیں اور شہروں کی نسبت ان سے رابطہ رکھنا اور ان کی نگرانی کرنا زیادہ مشکل کام ہوتا تھا.پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں یہ ممکن نہیں تھا کہ ہر جگہ ایک مربی مقرر کیا جائے.اس وجہ سے خصوصاً نئی نسل میں تربیت کی کمزوری کے آثار شروع ہو گئے اور ان میں سے بعض دین کی بنیادی باتوں سے بھی بے خبر ہو گئے تھے.حضرت مصلح موعودؓ نے بشدت محسوس کیا کہ ایسی تحریک جاری کرنے کی ضرورت ہے جس کی توجہ کا مرکز دیہاتی تربیت سے ہو.حضور نے 9 جولائی ۱۹۵۷ء کو عید الاضحیٰ کے خطبہ میں ارشاد فرمایا میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی کے نقشِ قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں.وہ اپنی زندگیاں براہِ راست میرے سامنے وقف کریں.تا کہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کر سکیں.وہ مجھ سے ہدائتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں.ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں ہے لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے....پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لئے وقف کریں.وہ صدر انجمن یا تحریک جدید کے ملازم نہ ہوں بلکہ اپنے گزارہ کے لئے وہ طریق اختیار کریں جو میں انہیں بتاؤں گا.اور اس طرح آہستہ آہستہ دنیا میں نئی

Page 559

549 آبادیاں قائم کریں اور طریق آبادی کا یہ ہوگا کہ وہ حقیقی طور پر تو نہیں ہاں معنوی طور پر ربوہ اور قادیان کی محبت اپنے دلوں سے نکال دیں اور باہر جا کر نئے ربوے اور نئے قادیان بسائیں.ابھی اس ملک میں کئی علاقے ایسے ہیں، جہاں میلوں میل تک کوئی بڑا قصبہ نہیں.وہ جا کر ایسی جگہ بیٹھ جائیں اور حسب ہدایت وہاں لوگوں کو تعلیم دیں.لوگوں کو قرآنِ کریم اور احادیث پڑھائیں.اور اپنے شاگرد تیار کریں جو آگے اور جگہوں پر پھیل جائیں.اس طرح سارے ملک میں وہ زمانہ دوبارہ آ جائے گا جو پرانے صوفیاء کے زمانے میں تھا.“ اس کے بعد حضور نے بعد کے زمانے میں حضرت سید احمد صاحب بریلوی صاحب کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنے شاگردوں کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھجوایا تھا.ان میں سے مولا نا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے دیوبند کا مدرسہ قائم فرمایا تھا.اور فرمایا کہ اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث نے بھی اپنے وقت میں بڑا کام کیا تھا.اور یہ بزرگان اپنے اپنے زمانہ کے لئے اسوہ حسنہ تھے.(1) حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ابھی اس نئی تحریک کے چند بنیادی خدو خال بیان فرمائے تھے اور تفصیلات ابھی جماعت کے سامنے نہیں آئی تھیں.لیکن بہت سے احباب نے اپنے آپ کو اس نئے وقف کے لئے پیش کر دیا.حضور نے ان دوستوں کو ارشاد فرمایا کہ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر اس طرز کے وقف کی تفصیلات بیان کروں گا ، اگر ان کو سن کر تم میں ہمت پیدا ہوئی تو پھر تم اپنے آپ کو پیش کرنا.جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور نے ۲۷ دسمبر کی تقریر کے آخر پر اس سکیم کی کچھ مزید تفصیلات بیان فرمائیں.حضور نے فرمایا کہ اس سکیم کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے درکار ہوں گے.لیکن معلمین کا حال بچھا دیا جائے اور اس کے لئے ہزاروں مع ابتداء میں دس معلمین سے کام شروع کیا جائے گا.ان معلمین کو مرکز کی طرف سے گزارہ کے لئے کچھ الاؤنس دیا جائے گا مگر یہ معلمین اپنے علاقوں میں رہ کر کام بھی کریں گے.کسی کو دوکان کھول کر دی جائے گی ، یا جہاں پر ضرورت ہو وہاں پر ان کو عطاری کی دوکان کھلوا دی جائے گی یا یہ معلمین اپنی جگہ پر مدرسہ کھولیں گے جو ابتداء میں پرائمری تک ہوگا.حضور نے فرمایا کہ بڑے زمینداروں کو

Page 560

550 تحریک کی جائے گی کہ وہ اس سکیم کے تحت اپنی زمین کے آٹھ دس ایکٹر وقف کریں.اس زمین پر اس سکیم کے واقفین زندگی اپنا مکان بنائیں گے اور باغ لگائیں کے.اس طرح انہیں سلسلہ بھی مدد دے گا اور وہ خود بھی کمائی کر سکیں گے اور ان کا گزارہ عمدگی سے چل سکے گا.وہ لوگوں کو تعلیم دیں گے اور واعظ اور مبلغ بن کر کام کریں گے.(۲) بالکل ابتداء میں وقف جدید کی تحریک میں اپنے آپ کو پیش کرنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی.اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا مجھے افسوس ہے کہ جلسہ سالانہ سے پہلے تو بعض نوجوانوں کی درخواستیں آتی رہیں کہ ہم اپنے آپ کو اس سکیم کے ماتحت وقف کرتے ہیں لیکن جب میں نے وقف کی شرائط بیان کیں تو پھر ان میں سے کسی نے بھی نہیں کہا.کہ ہم اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں.پس میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر اس وقف کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئیے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑینگے اور چاروں طرف رشد و اصلاح کا جال پھیلا نا پڑے گا.(۳) حضور کے اس ارشاد کے بعد اس تحریک میں شرکت کے لئے بہت سے احباب نے اپنے آپ کو پیش کرنا شروع کر دیا، اور دو ماہ کے اندر ربوہ کے علاوہ پشاور، ملتان، بہاولپور، خیر پور اور حیدرآباد ڈویژن کی جماعتوں کی طرف سے اس سکیم کے لئے واقفین بھجوائے گئے.اور دو ماہ کے اندران واقفین کی تعداد ۲۴۵ تک پہنچ گئی.اور بنگال میں بھی اس تحریک کی طرف توجہ پیدا ہونی شروع ہوئی.حضور نے ارشاد فرمایا کہ ان کے کام کو چیک کرنے کے لئے انسپکٹر مقرر کئے جائیں.ربوہ میں مقیم انسپکٹر کے علاوہ کراچی میں بھی انسپکٹر مقرر کیا جائے جو نواب شاہ تک کے علاقے کے معلمين وقف جدید کے کاموں کا جائزہ لے اور اس کے بعد ایک انسپکٹر صوبہ سرحد سے لیا جا سکتا ہے جو مردان ، نوشہرہ ، ایبٹ آباد اور راولپنڈی کے علاقوں کا کام سنبھال سکتا ہے.ان دو ماہ میں سالانہ چندے کے وعدے ستر ہزار کے ہو چکے تھے.لیکن کام کے پھیلاؤ کے لحاظ سے مزید مالی قربانی کی ضرورت تھی.(۴) اس نئی تنظیم کے کام کو سنبھالنے اور ترقی دینے کے لئے حضور نے ایک تنظیمی ڈھانچہ قائم

Page 561

551 فرمایا.اور مجلس وقف جدید کا قیام عمل میں آیا..مکرم منیر احمد صاحب باہری نے اس کے سیکریٹری کے فرائض سنبھالے.حضور نے ابتداء میں انہیں ارشاد فرمایا کہ فلاں دفتر سے کاغذ قلم اور فٹ لے لو اور پرائیویٹ سیکریٹری سے رابطہ کر کے ایک کمرے کا انتظام ہو جائے تو وہیں دفتر بنا لو چنانچہ دفتر پرائیویٹ سیکریٹری میں ہی وقف جدید کا پہلا دفتر بنا.کچھ عرصہ بعد ایک پرائیویٹ گھر میں دفتر منتقل کیا گیا (۵).حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر اس کے صدر مقرر ہوئے.وقف جدید کے مختلف شعبوں کو نظامت کا نام دیا گیا اور معلمین کی کاوشوں کی نگرانی نظامت ارشاد کے سپرد کی گئی.اس کے علاوہ نظامت تعلیم ، مال اور جائیداد بھی قائم کی گئیں.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب آغاز سے ہی اس تنظیم کے ممبر تھے اور منصب خلافت پر سرفراز ہونے تک آپ اس تنظیم میں ناظم ارشاد کے عہدے پر فرائض ادا کرتے رہے.یکم مارچ ۱۹۵۸ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ارشاد کے تحت بھارت میں بھی وقف جدید کا قیام عمل میں آیا.مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اس کے انچارج مقرر کئے گئے اور آپ سمیت سات احباب کو اس مجلس کا ممبر مقرر کیا گیا.۱۹۶۳ ء تک اس مجلس کے تحت 4 معلمین پونچھ، جموں، کیرالہ، میسور وغیرہ میں اپنے فرائض ادا کر رہے تھے.ایک دو مقامات پر چھوٹے چھوٹے مدر سے بھی قائم تھے جن میں طلبہ کی تعداد ے کے تھی.اس نئی مجلس نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی نگرانی میں کام کا آغاز کیا.وقف جدید کے پہلے دو بجٹ جنوری اور اپریل ۱۹۵۸ء میں حضور کے ارشادات کے ماتحت پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار کئے گئے تھے.اور تیسرا بجٹ دسمبر ۱۹۵۸ء میں ، سال اول کے وعدوں اور آمد کو مد نظر رکھ کر تیار کیا گیا.اس عرصہ میں کام کا سارا زور نئے مراکز کے قیام پر تھا.اور یہ کوششیں ثمر آور ہوئیں اور اپریل ۱۹۶۰ ء تک مغربی پاکستان میں ساٹھ سے زائد مراکز قائم کئے گئے.اور مشرقی پاکستان میں بھی چار معلمین اور ایک انسپکٹر کا تقرر کیا گیا.ابتداء میں معلمین کی تعلیم اور تیاری کے لئے کوئی باقاعدہ مدرسہ یا نظام موجود نہیں تھا محض دو ماہ کے عرصہ کے لئے مسجد مبارک میں ہی معلمین کو مختلف علماءِ سلسلہ کچھ تعلیم دیا کرتے تھے.پڑھانے والے ان علماء میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، مکرم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب اور مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب، مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس

Page 562

552 اور مکرم سید زین العابدین شاہ صاحب شامل تھے.حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب نے ان طلباء کو طب کے کچھ نسخے سکھائے اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے ہومیو پیتھی کے متعلق ابتدائی تعلیم دی (۲).۱۹۵۸ء میں فروری مارچ تک چھ معلمین کو میدانِ عمل میں بھجوادیا گیا تھا (۵).جب کام شروع ہوا تو اس تنظیم کی کاوشوں سے کئی احباب بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے.پاکستان کے دیہات میں تبلیغ و تربیت کے علاوہ ملک میں غیر مسلموں میں تبلیغ بھی وقف جدید کی کاوشوں کا مرکز تھی.ابتداء میں کچھ احباب نے سندھ میں کچھ زمین اس تحریک کے ماتحت وقف بھی کی لیکن مرکزی دفتر میں عملہ کی کمی بلکہ نایابی کے باعث چندوں میں حسب ضرورت اضافہ نہ ہو سکا جس کے باعث ۱۹۶۰ء میں پیش کیا جانے والا بجٹ بھی خسارہ کا بجٹ تھا.اور اخراجات آمد سے زیادہ تھے.اب تک عملاً وقف جدید کے مرکزی دفتر میں سارا کام یکجا ہو رہا تھا، اس صورتِ حال کے پیش نظر مجلس نے یہ فیصلہ کیا کہ دفتر کے کام کو مختلف نظامتوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ملک کے مختلف حصوں میں انسپکٹروں سے نیچے محصلین مقرر کئے جائیں جو اپنے اپنے حلقوں میں بروقت وعدے حاصل کرنے اور ان کی وصولی کے ذمہ دار ہوں گے.صدر انجمن احمد یہ میں حصہ آمد کا چندہ ادا کرنے والے صرف وہ افراد ہوتے ہیں جو خود کوئی ذریعہ آمد رکھتے ہیں جب کہ وقف جدید کا چندہ ان کے گھروں کے دیگر افراد بھی ادا کر سکتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ صدر انجمن احمدیہ کے ہر چندہ دہند کے مقابل پر وقف جدید کے چھ چندہ دہند ہونے چاہئیں.اس پہلو سے صورت حال کافی قابل توجہ تھی.جب یہ اعلان کیا گیا تو صدرانجمن احمدیہ کے انیس ہزار چندہ دہندگان موجود تھے اور وقف جدید کے پہلے سال میں صرف چھ ہزار افراد نے اس تحریک میں چندہ دیا.۶۳ ۶۴ کے مالی سال میں یہ تعداد بڑھ کر انیس ہزار ہو گئی.اور ۱۹۶۴ء کی مجلس شوری میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے کا بجٹ رکھا گیا لیکن چندہ کی وصولی اس ہدف سے اکیاون ہزار روپے کم رہی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خواہش تھی کہ وقف جدید کے معلمین کی تعدادکوسو تک پہنچایا جائے لیکن مالی وسائل کی کمی کے باعث ۱۹۶۵ء تک اس خواہش کے پوارا ہونے کے سامان پیدا نہ ہو سکے.لیکن ان مسائل کے باوجود یہ تنظیم رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہی تھی اور اس کے نیک ثمرات بھی ظاہر ہورہے تھے.اس طرح نظام جماعت کی اس نئی تنظیم نے اپنے سفر کا آغاز کیا.

Page 563

553 (1) الفضل ۶ فروری ۱۹۵۸ء ص ۳ تا ۵ (۲) الفضل ۱۶ فروری ۱۹۵۸ء ص ۴۰۳ (۳) الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۵۸، ص۲ (۴) الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۸ء ص ۳۲ (۵) روایات مکرم منیر احمد باہری، گل محد صاحب، عبدالناصر صاحب ( موخر الذکر دوصاحبان ابتدائی معلمین میں سے تھے ) (۲) روایت مکرم رشید احمد طارق صاحب رامه، سابق معلم وقف جدید

Page 564

554 تفسیر صغیر کی اشاعت قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جو مسلمانوں کو عطا کی گئی ہے.اس سے فائدہ اُٹھانے اور اس پر عمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر مسلمان اس کو پڑھے اور اس پر عمل کرے.لیکن اکثریت اتنی علمی استعداد نہیں رکھتی کہ عربی زبان میں پڑھ کر اس کو سمجھ سکے.اس لئے یہ ضروری ہے کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ موجود ہو.لیکن قرآن کریم کا ترجمہ کرنا ایک نازک امر ہے.اس کے لئے نہ صرف عربی اور جس زبان میں ترجمہ ہورہا ہو اس زبان کی اعلی علمی صلاحیتیں درکار ہیں بلکہ ضروری ہے کہ ترجمہ کرنے والے کو قرآنی معارف سے بھی حصہ ملا ہو.ورنہ جو غلطی دنیاوی نظر میں معمولی غلطی دکھائی دیتی ہے وہ قرآنی تعلیمات کو غلط رنگ میں پیش کرنے کا باعث بن سکتی ہے.اور قرآنِ کریم کے منشا کے برخلاف نظریات ترجمہ کے نام پر دنیا کے سامنے پیش کئے جا سکتے ہیں.حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بعد یہ ضروری تھا کہ آپ کے بیان کردہ آسمانی معارف کی روشنی میں قرآن کریم کے صحیح تراجم دنیا کے سامنے پیش کئے جائیں.چنانچہ تفسیر صغیر کی اشاعت سے قبل حضرت میر محمد الحق صاحب کا کیا ہوا ترجمہ شائع ہو چکا تھا.حضرت پیر منظور محمد صاحب قرآنِ کریم کی کتابت کے بہت بڑے ماہر تھے.آپ نے قرآنِ کریم کی کتابت کا ایسا انداز اختیار کیا تھا جس کو ہر شخص بڑی آسانی سے پڑھ سکتا تھا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایسا ملکہ ودیعت ہوا تھا کہ آپ نے بچوں کے لئے ایک قاعدہ، قاعدہ میسرنا القران کے نام سے تصنیف فرمایا.اسے ایسے انداز میں ترتیب دیا گیا تھا کہ اسے پڑھ کر بچے آسانی سے قرآنِ کریم شروع کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے خود اس قاعدے کی تعریف فرمائی ہے.یہ قاعدہ جلد ہی پورے ہندوستان میں مقبول ہو گیا اور اس کی اشاعت سے لاکھوں روپے کی آمد شروع ہوگئی.حضرت پیر منظور محمد صاحب ایک بے نفس بزرگ تھے انہوں نے ۱۹۳۸ء میں اس قاعدے کی آمد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو ہبہ کردی.یہ ہبہ کرتے ہوئے انہوں نے حضور کو تحریک

Page 565

555 فرمائی کہ اگر حضور قرآن کریم کا ترجمہ کر دیں تو وہ اسے قاعدہ یسر نا القرآن کی طرز پر شائع کر دیں گے.ان کی تحریک پر حضور نے ۱۹۳۸ء میں قرآن کریم کے ترجمے کا کام شروع فرمایا.اور اُس وقت سات آٹھ سیپاروں کا ترجمہ مکمل بھی کرلیا گیا (۱) مگر پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت یہ اہم کام ایک لمبا عرصہ کے لئے معرض التواء میں پڑ گیا.حتی کہ ۱۹۵۶ء کا سال آ گیا.قاتلانہ حملہ اور پھر بیماری کے حملے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی صحت بہت کمزور ہو چکی تھی.ڈاکٹروں کا اصرار تھا کہ حضور کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ حضور مکمل آرام فرما ئیں اور ہر قسم کی کوفت اور پریشانی سے اپنے آپ کو بچائیں.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے اسی سال جماعت میں نظامِ خلافت کے خلاف فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی.حضور نے دن رات اس فتنہ کی سرکوبی فرمائی حتی کہ اس فتنہ کا تارو پود بکھر کر عبرت کا سامان بن گیا.اور اس کے ساتھ حضور نے قرآنِ کریم کے ترجمہ کا کام پھر سے شروع فرما دیا.اور اس کی وجہ سے حضور کو متواتر دن رات کام کرنا پڑا.اور ان تمام امور کے ساتھ جماعت کے دیگر امور کی نگرانی بھی ساتھ کے ساتھ ہو رہی تھی.۱۹۵۶ء میں حضورڑ نے اس ترجمہ کو دوبارہ شروع فرمایا.اس ترجمہ کی طرز تفسیری ترجمہ کی رکھی گئی تا کہ پڑھنے والے قرآنی معارف سے استفادہ کر سکیں.اور مختصر تشریحی نوٹس بھی دیئے گئے.حضور نے یہ کام مری اور جابہ میں قیام کے دوران مکمل فرمایا.گو یورپ سے واپسی کے وقت آپ کی صحت وقتی طور پر کچھ بہتر ہوئی تھی مگر طبیعت میں کافی کمزوری باقی تھی ڈاکٹر مشورہ دیتے تھے کہ آپ آرام فرما ئیں مگر آپ کو ایک ہی دھن تھی کہ قرآنِ کریم کے ترجمہ کا کام جلد ختم ہو جائے.حضرت سیدہ مریم صدیقہ اس ترجمہ کی املاء لیتی تھیں اور جب آپ کو کوئی کام ہوتا تو حضور مولوی محمد یعقوب صاحب کو تر جمہ لکھواتے.حضور اس کام کو جلد ختم کرنے کے لئے اس قدر فکر مند تھے جب آخری سورتوں کا ترجمہ لکھوایا جا رہا تھا تو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کو بخار ہو گیا.آپ نے حضور سے گذارش کی کہ میں نے دوائی کھائی ہے آج یا کل بخار اتر جائے گا.دو دن آپ بھی آرام کرلیں اور آخری حصہ مجھ سے ہی لکھوائیں تا کہ میں ثواب حاصل کر سکوں.مگر حضور نہیں مانے کہ میری زندگی کا کیا اعتبار.تمہارے بخار اترنے کے انتظار میں اگر مجھے موت آجائے تو ؟ اور پھر سارا دن ترجمہ اور نوٹس لکھواتے رہے اور شام کے قریب تفسیر صغیر کو ختم کر دیا.

Page 566

556 مگر ابھی نظر ثانی کا اہم اور صبر آزما مرحلہ باقی تھا.کچھ ماہ کے لئے اس کام کو ملتوی کرنا پڑا پھر نظر ثانی شروع ہوئی.مئی ۱۹۵۷ء تک صرف ترجمہ کے کام پر روزانہ آٹھ نو گھنٹے کام کر کے اس کی نظر ثانی ہو چکی تھی مگر اس کے بعد نظر ثالث کا فیصلہ کیا گیا اور اس مرتبہ نظر ثانی سے زیادہ وقت لگ رہا تھا.حضور فرماتے تھے کہ ان دنوں میں بعض اوقات کام کرتے کرتے میں مدہوش ہو جاتا ہوں.بعض دفعہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ میں گر جاؤں گا.مولوی یعقوب صاحب عرض کرتے کہ حضور کام بہت زیادہ ہو گیا ہے اب بس کر دیں.مگر حضور اس حالت میں بھی کہتے کہ کام کرتے جاؤ.ابھی تفسیر صغیر کی اشاعت بھی نہیں ہوئی تھی کہ کلام اللہ کی عظمت کے پیش نظر حضور نے یہ نصیحت فرمائی.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ قرآنِ کریم میں جو مضامین بیان ہوئے ہیں.اگر ساتوں سمندر سیاہی بن جائیں اور سات سمندر اور ان میں ڈال دئے جائیں.تب بھی وہ مضامین ختم نہیں ہوں گے.اور پھر ان کو کوئی انسان ترجمہ کے اندر کیسے لاسکتا ہے.وہ تو اپنی طرف سے یہی کرے گا کہ ایک ناقص چیز پیش کر دے...اس لئے یہ بات تو سرے سے ہی غلط ہے کہ میں کوئی کامل ترجمہ قرآن کریم کا کروں گا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ کامل وہی ہے جو عربی زبان میں خدا تعالیٰ نے اُتارا ہے.میں جو تر جمہ کروں گا وہ بہر حال ناقص ہی ہوگا.اور مجھ سے پہلوں نے جو کچھ کیا ہے وہ بھی ناقص ہے.مجھے ان کے تراجم میں نقائص نظر آتے ہیں.اور ہزار سال بعد آنے والوں کو میرے ترجمہ میں نقص نظر آئیں گے.قرآن کریم کے مقابلہ میں جو کچھ بھی ہو گا وہ ناقص ہی ہوگا.(۱) اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو سا را ترجمہ مکمل ہو گیا.(۲) تفسیر کبیر کے کام کی طرح مکرم مولا نا ابو منیر نور الحق صاحب کو تفسیر صغیر کے کام میں بھی حضور کی معاونت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.اور اسی طرح مولانا جلال الدین شمس صاحب نے بھی اس سعادت سے حصہ پایا.جب تفسیر صغیر کی ہزار کے قریب جلدیں چھپ چکیں تو حضور نے ارشاد فرمایا انڈیکس یعنی قرآنی کریم کے مضامین کی فہرست بھی لگادی جائے.تا کہ اس کے مطالعہ کے بعد ہراحمدی کی آنکھوں کے سامنے قرآن کریم کے مطالب کا خلاصہ آ جائے.مکرم مولوی ابو میر نورالحق صاحب نے پندرہ

Page 567

557 روز کے اندر یہ انڈیکس مرتب فرمایا اور اسے بھی تفسیر صغیر میں شامل کر دیا گیا.اس کی اشاعت سے قبل جماعت میں اس کا اس شدت سے انتظار تھا کہ بعض لوگ دور دور سے آکر اس کی انتظار میں ربوہ میں بیٹھے ہوئے تھے.اور اس کے پریس سے نکلنے سے قبل پریس میں جا کر اسے پڑھ کر تسکین حاصل کرتے تھے.(۳) دسمبر میں جلسہ سالانہ کے موقع پر تفسیر صغیر احباب کے ہاتھوں میں پہنچ گئی اور دنیا نے اس سے استفادہ کرنا شروع کر دیا.حضور نے بیماری کے باوجود دن رات تفسیر صغیر کی تیاری کے لئے کام کیا.لیکن حضور کے دل میں قرآنِ کریم کی خدمت کے لئے اتنا جوش اور اتنی امنگ تھی کہ حضور کی دلی تمنا تھی کہ وہ اور بھی زیادہ وقت اس عظیم کام کو دے سکتے.حضور نے ان جذبات کا اظہار ایک خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں فرمایا عمر اور بیماری کے ساتھ انسان کی کیفیتیں بدلتی چلی جاتی ہیں.مجھے یاد ہے ۲۲ء میں میں نے سارے رمضان میں درس دیا تھا.اگست کا مہینہ تھا اور گرمی بڑی سخت تھی.لیکن مجھے یاد ہے کہ میں ساری رات درس کے نوٹ لکھا کرتا تھا.اور صبح روزہ رکھ کر درس دیتا تھا.دو پہر کے بعد جب میں باہر نکلتا.تو گرمی کی شدت کی وجہ سے حکیم محمدعمر صاحب جو اب بہت بڑھے ہو گئے ہیں.مسجد کے کنوئیں سے پانی بھر لاتے اور میرے سر پر ڈالتے.اس کے بعد میں پھر واپس جا کر درس دینا شروع کر دیتا ظہر آجاتی عصر آجاتی پھر شام آجاتی میں درس دیتا چلا جاتا.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ درس دیتے دیتے روزہ کھل جاتا.غرض کوئی بارہ تیرہ گھنٹے ہم درس دیتے تھے.تفسیر کبیر کی جو جلد پہلے چھپی تھی.وہ اس درس کے نوٹوں کی وجہ سے ہے.لیکن اب بیماری کی وجہ سے جسم میں وہ برداشت نہیں رہی.پھر عمر کا تقاضہ بھی ہے.(۱) (1) الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۷ء ص ۴۰۳ (۲) الفضل ۱۸ کتوبر ۱۹۵۷ء (۳) الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۵۷ء ص ۱

Page 568

558 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیماری کی شدت میں اضافہ جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے، قاتلانہ حملہ کے بعد اور پھر بیماری کے حملے کے نتیجے میں حضور کی صحت خراب رہنے لگی تھی.یورپ سے واپسی پر طبیعت قدرے بہتر تھی.ڈاکٹروں کی ہدایت تھی کہ حضور زیادہ سے زیادہ آرام فرما ئیں اور آپ کو ہر قسم کے تفکرات سے بچایا جائے.جب ۱۹۵۶ء میں جماعت میں فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی گئی تو حضور نے با وجود علالت کے اس کی سرکوبی فرمائی.اس کے بعد تفسیر صغیر کو مکمل کرنے کے لئے حضور نے دن رات کام فرمایا اور اس غیر معمولی محنت سے بھی آپ کی صحت پر اثر پڑا اور آپ کی کمزوری میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا.۱۹۵۷ء میں آپ نے مسجد مبارک ربوہ میں خطبہ عید الفطر اور عید الاضحی ارشاد فرمایا ،۱۹۵۸ء میں آپ نے مری میں عید الاضحی کی نماز پڑھائی اور خطبہ ارشاد فرمایا اور ۱۹۶۰ء کی عید الفطر کے موقع پر پر نماز مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب نے پڑھائی اور خطبہ حضور نے ارشاد فرمایا.حضور نے ۱۹۶۰ء کی مجلس شوری کا افتتاح فرمایا اور افتتاحی دعا بھی فرمائی.مگر اس سال مجلس شوری کے اختتامی اجلاس میں حضور شرکت نہیں فرما سکے.اس کے بعد منعقد ہونے والی مجالس مشاورت کی صدارت حضور کے حکم کے ماتحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمائی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات کے بعد یہ فرض حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے ادا کیا.دسمبر ۱۹۶۰ء میں منعقد ہونے والے والے جلسہ سالانہ کا افتتاح حضور نے فرمایا اور افتتاحی تقریر بھی فرمائی.مگر اختتامی اجلاس میں حضور ناسازی طبع کے باعث تشریف نہیں لا سکے اور حضور کے حکم کے تحت مکرم مولا نا جلال الدین صاحب شمس نے حضور کی تحریر فرمودہ تقریر پڑھ کر سنائی.اس کے بعد حضور جلسہ سالانہ میں شرکت نہیں فرما سکے.ان بیماری کے ایام میں حضور کا کمرہ قصر خلافت کی دوسری منزل کے ایک کمرے میں تھا.اور حضور کا دفتر بھی حضور کے کمرے کے قریب ہی تھا.اسی کمرے میں حضور ڈاک ملاحظہ فرماتے.یا بیماری کے آغاز میں اپنے دفتر تشریف لے جا کر کچھ دیر کام فرماتے.پرائیویٹ سیکریٹری مکرم

Page 569

559 عبدالرحمن انور صاحب یا حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حضور کو ڈاک پڑھ کر سنا تیں اور حضور پیش ہونے والے معاملات پر اپنے ارشادات املاء فرماتے.آخری سالوں میں زیادہ تر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ہی حضور کی خدمت میں ڈاک پیش کرتیں.بیماری کے آغاز میں مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب یا مولوی یعقوب صاحب حضور کے بیان فرمودہ درسوں سے مرتب نوٹ حضور کو پڑھ کر سناتے رہے.حضور نے سورۃ بقرۃ پر یہ درس اپنے زمانہ خلافت کے آغاز پر قادیان میں دیئے تھے.۱۹۶۲ء میں یہ مرتب کردہ نوٹس دسمبر ۱۹۶۲ء میں سورۃ بقرۃ کے دسویں رکوع سے لے کر اس سورۃ کے آخر تک کی تفسیر کی صورت میں شائع ہوئے.حضور اپنی علالت کے باعث ان مسودات پر نظر ثانی نہیں فرما سکے تھے.شام کے وقت حضور کار میں ربوہ کے قریب احمد نگر سیر کے لئے تشریف لے جاتے اور وہاں پر کرسی پر رونق افروز رہتے.مکرم میر داؤ د احمد صاحب ، مکرم سید عبدالرزاق شاہ صاحب ، مکرم غلام محمد صاحب اختر ، حضرت مرزا عزیز احمد صاحب اور بعض دیگر بزرگان حضور کے ہمراہ احمد نگر تشریف لے جاتے.یوں تو حضور کی علالت ہر وقت تمام احمدیوں کے دلوں کو غمزدہ کر رہی تھی لیکن جلسے کے ایام میں یہ دکھ پہلے سے بہت بڑھ جاتا.جب ہزاروں کی تعداد میں عشاق ربوہ میں جمع ہوتے اور حضور کا خطاب سننے سے محروم رہتے.یہ احباب قطاروں کی صورت میں حضور کے کمرہ میں زیارت کے لئے حاضر ہوتے اور سلام کر کے رخصت ہو جاتے.ان حالات میں حضور کے چہرہ مبارک کی زیارت ان احباب کے لئے تسکین کا باعث ہوتی.اکتوبر ۱۹۶۲ء میں ڈنمارک کے مشہور ڈاکٹر ، ڈاکٹر میتھی سن صاحب کو حضور کے علاج کے لئے ربوہ بلایا گیا.یہ صاحب فزیو تھراپی کے ماہر تھے.مالش اور ورزشیں شروع کرائی گئیں تاکہ جو کمزوری شروع ہو گئی تھی اور جو مفتی حضور کے گھٹنوں میں پیدا ہو گئی تھی اس کو دور کیا جاسکے.پہلے تو کچھ افاقہ ہوا مگر پھر نہ صرف کہ مزید فائدہ نہ ہوا بلکہ کمزوری میں اضافہ شروع ہو گیا اور ان ورزشوں سے حضور تکلیف محسوس فرماتے تھے.کنیڈا کے ایک ماہر ڈاکٹر کو حضور کی بیماری کی تفاصیل بھجوائی گئیں اور انہوں نے انہی خطوط پر علاج جاری رکھنے کا مشورہ دیا.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب

Page 570

560 نے کلکتہ کے ایک ماہر ہومیو پیتھ ڈاکٹر سے رابطہ فرمایا اور ان کا مجوزہ علاج بھی شروع کیا گیا.اور کچھ دیسی ادویات بھی استعمال کی گئیں.۱۹۶۲ء کے دوران اور ۱۹۶۳ء کے شروع میں حضور کی بیماری کی کیفیت تقریباً ایک جیسی رہی ، نہ تو بظاہر کوئی ترقی محسوس ہوئی اور نہ ہی کوئی کمی محسوس ہوئی.ستمبر ۱۹۶۳ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات کا حضور کی طبیعت پر بہت گہرا اثر پڑا.اور حضور کو بے چینی کی تکلیف زیادہ ہوگئی..پھر جلسہ سالانہ کے بعد آپ کو انفلوائنزہ کا شدید حملہ ہوا.اور اس سے کمزوری میں اضافہ ہو گیا.۱۹۶۳ء میں حضور کے علاج کی نگرانی کے لئے چار ڈاکٹروں کا ایک بورڈ قائم کیا گیا.اس بورڈ نے طے کیا کہ کراچی کے اعصابی امراض کے مشہور ماہر ڈاکٹر ذکی حسن صاحب ہر ماہ آکر حضور کو دیکھتے رہیں اور علاج تجویز کریں.چنانچہ مکرم ڈاکٹر ز کی حسن صاحب کے زیر نگرانی علاج شروع ہوا.اس سال ہو میو پیتھ ڈاکٹروں کے ایک وفد نے حضور کا معائنہ کیا اور ایک مشہور طبیب حکیم محمد نبی خان صاحب جو دہلی کے نامور طبیب ،حکیم اجمل خان صاحب کے پوتے تھے، نے بھی حضور کا معائنہ کر کے کچھ ادویات تجویز کیں.حضور ان دنوں میں بھی اپنی بیماری کے باوجود جماعتی فرائض ادا فرمار ہے تھے.حضور جماعت کے نام پیغامات خود املاء فرماتے تھے، صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید کی طرف سے پیش ہونے والے امور کے علاوہ دیگر اہم امور بھی حضور کی خدمت میں پیش کئے جاتے اور حضور ان پر مناسب احکامات صادر فرماتے.جن گزارشات کی منظوری عطا فرمانی ہوتی حضور ان کو منظور فرماتے اور جن کو نامناسب خیال فرماتے انہیں نا منظور فرما دیتے.۱۹۶۴ء میں مارچ سے جون تک حضور کی طبیعت قابل تشویش حد تک خراب رہی اور کراچی سے مکرم ڈاکٹر ذکی حسن صاحب اور لا ہور سے دو اور ماہرین بلوائے گئے.انہوں نے کچھ ٹیکے شروع کرائے جن سے حالت سنبھلنی شروع ہوئی.انہی دنوں میں اس قسم کی بیماری کے لئے رومانیہ میں ایک دوائی کا کامیاب تجربہ کیا گیا.اس دوائی کے موجد ڈاکٹر اینا آسلان صاحب سے رابطہ کیا گیا اور ان کے مشورے کے بعد اس دوائی کے ٹیکوں کے کورس شروع کرائے گئے.ان کے استعمال کے بعد حضور کی علامات میں بہتری شروع ہوئی.لیکن ڈاکٹر اینا آسلان صاحب کا خیال تھا کہ چونکہ حضور کی بیماری لمبی ہوگئی ہے اس لئے اس دوائی کو لمبا عرصہ استعمال کرنا پڑے گا.نومبر ۱۹۶۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی وفات تک حضور کی طبیعت میں

Page 571

561 اسی طرح اُتار چڑھاؤ آتا رہا.(۱تا۴) یہ دن پوری جماعت کے لئے جذباتی تکلیف کے دن تھے.پچاس سال سے زائد عرصہ سے تمام نظامِ جماعت نہ صرف حضور کی نگرانی اور تربیت میں کام کر رہا تھا بلکہ حقیقت یہ تھی کہ نظام جماعت کے بیشتر حصہ کی پرورش آپ ہی کے مبارک ہاتھوں میں ہوئی تھی.ہر چھوٹی چھوٹی بات بھی آپ کی ہدایات تمام اداروں کی راہنمائی کرتی تھیں.اس سے بھی بڑھ کر آپ ہر احمدی کے لئے ایک شفیق باپ تھے.ذاتی زندگی میں بھی کوئی مسئلہ در پیش ہو یا کوئی راہنمائی درکار ہو، ہر احمدی آپ کی عظیم ذات کا سہارا لیتا تھا.مختصر الفاظ میں یہ کہ آپ کا وجود ایک ڈھال تھا جس کی پناہ میں ساری جماعت اپنی زندگی کے دن گزار رہی تھی.مگر ان برسوں میں حضورڑ کی بڑھتی ہوئی علالت نے احباب جماعت کے دلوں کو غمزدہ کیا ہوا تھا.طبی نقطہ نگاہ سے حالات خواہ کتنے ہی مایوس کن کیوں نہ نظر آرہے ہوں مگر تمام ہاتھ دعا کے لئے اُٹھ رہے تھے کہ قادر مطلق حضور کو شفا عطا کرے اور آپ کا با برکت سایه جماعت کے سر پر سلامت رہے.(۱) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۰ء ص ۳ ہم (۲) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۳ء ص ۲۴۳-۲۴۴ (۳) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۴، ص ۱۳۶ تا ۱۳۸ (۴) رپورٹ مجلس مشاورت ۲۰۵ تا ۲۰۸

Page 572

562 گیمبیا مشن کا قیام جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے اب تک نائیجیریا، سیرالیون ، غانا اور لائیپیر یا میں جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.اور ان ممالک میں مشن بھی کام شروع کر چکے تھے.برصغیر اور انڈونیشیا کی طرح برطانوی مغربی افریقہ میں بھی بڑی بڑی جماعتیں قائم ہو رہی تھیں.گیمبیا افریقہ کے مغربی ساحل کے اوپر ایک چھوٹا سا ملک ہے.اس کا رقبہ دریائے گیمبیا کے اردگرد ایک پٹی تک محدود دو ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے.افریقہ کے مغربی ساحل پر جماعت احمدیہ پھیل رہی تھی لیکن گیمبیا ابھی تک اس سے محروم تھا.محدود وسائل کی وجہ سے ابھی گیمبیا میں مبلغ بھجوانے کا پروگرام بھی نہیں تھا.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گیمبیا کی ایک خاتون تعلیم کے لئے سیرالیون گئیں اور وہاں ایک گھر میں انہیں نماز کے متعلق جماعت کی شائع کردہ ایک کتاب ملی.انہوں نے یہ کتاب گیمبیا میں پنے ایک عزیز کو بطور تحفہ بھجوائی.اس کے ایک دوست لامین بارا انجائے صاحب Lamin Barra Nine) نے یہ کتاب اصرار کر کے تین دن کے لئے عاریتاً کی لامین صاحب کے والد ایک پرانی طرز کے متدین عربی دان اور عالم تھے لیکن ۳۳ سالہ لامین کو مذہب کے متعلق صرف یہی علم تھا کہ وہ مسلمان ہیں اور مسلمان والدین کی اولاد ہیں.لامین بارا انجائے صاحب نے یہ کتاب پڑھی تو بہت متاثر ہوئے.اس کتاب پر جماعت کے نائیجیریا مشن کا پتہ درج تھا.انہوں نے نائیجیریا مشن کو لکھا کہ انہیں کچھ لٹریچر بھجوایا جائے.اُس وقت مولا نانسیم سیفی صاحب نائیجیریا کے امیر اور مغربی افریقہ کے رئیس التبلیغ تھے.نسیم سیفی صاحب نے انہیں لٹریچر بھجوایا اور خط میں انہیں اپنے ملک میں اسلام کی تبلیغ کرنے کی تحریک بھی کی.اللہ تعالیٰ نے لامین بارا انجائے صاحب کو سعید فطرت عطا کی تھی اور ان کا سینہ قبول حق کے لئے کھول دیا تھا اور انہوں نے سنجیدگی سے دینی مطالعہ شروع کر دیا.ان کے والد اپنے بیٹے میں یہ تبدیلی دیکھ کر بہت حیران ہوئے.لامین صاحب نے با قاعدہ بیعت تو ۱۹۵۸ء میں کی لیکن اس سے پہلے بھی وہ گیمبیا میں جماعت کے مشن کے قیام کے لئے مسلسل کوششیں کرتے رہے.آپ نے

Page 573

563 مکرم مولا ناسیم سیفی صاحب کو لکھا کہ گیمبیا میں بھی احمد یہ مشن قائم ہونا چاہیے اور یہ بھی لکھا کہ آپ خود یہاں آکر یہاں کے حالات کا مطالعہ کریں.نسیم صاحب نے گیمبیا آنے کی اجازت طلب کی مگر حکومت نے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا.ان کے علاوہ سیرالیون سے بھی بعض مبلغین نے گیمبیا کے ویزے کی درخواست دی مگر انہیں بھی ویزا نہیں دیا گیا.حالانکہ اُس وقت سیرالیون ، گیمبیا اور نائیجیریا کے ممالک برطانوی حکومت کے ماتحت تھے (۱).آپ نے ۱۵ اگست ۱۹۵۵ء کو گیمبیا کے انگریز گورنر کے نام خط لکھ کر درخواست کی کہ جماعت احمدیہ کے مبلغ کو گیمبیا میں آنے کی اجازت دی جائے.جب دو ماہ تک کوئی جواب نہیں آیا تو آپ نے یاد دہانی کا خط لکھا.دفتر کی طرف سے جواب آیا کہ مذکورہ خط ریکارڈ میں نہیں مل رہا ، اس لئے اس خط کی نقل بھجوائی جائے.جب یہ نقل انہیں بھجوائی گئی تو مبلغ کو گیمبیا میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی بجائے حکومت نے یہ معاملہ مسلم کانگرس گیمبیا کے حوالے کر دیا.اور دارالحکومت باتھرسٹ (جس کا نام اب بانجل ہے) کے امام صاحب کو ہدایت دی گئی کہ وہ مسلمان زعماء کی میٹنگ میں اس بارے میں مشورہ کر کے اپنے فیصلے سے حکومت کو مطلع کریں.امام صاحب باتھرسٹ حکومت سے بالواسطہ طور پر تنخواہ پاتے تھے اور جماعت کے مشن کے قیام کے نتیجے میں ان کی لیڈر شپ کو خطرہ ہوسکتا تھا.اس لئے انہوں نے میٹنگ کے بعد حکومت کو رپورٹ دی کہ گیمبیا میں احمدیہ مشن کا قیام مناسب نہیں کیونکہ یہ نہ مالکی ہیں نہ حنفی نہ شافعی نہ حنبلی اور نہ ہماری اقتداء میں نمازیں پڑھتے ہیں (۱) جب یہ رپورٹ حکومت کو ملی تو اس نے احمدی مبلغ کو گیمبیا میں داخل ہونے کا جازت نامہ دینے سے انکار کر دیا.حکومت سے خط و کتابت کر کے فیصلہ پر نظر ثانی کی اپیل کی گئی مگر یہ کوشش بے سود ثابت ہوئی.اس دوران مکرم لامین بارا انجائے صاحب نے با قاعدہ بیعت کر لی اور کئی مسلمان نوجوانوں کو اپنا ہم خیال بنالیا.نوجوانوں کا یہ گروہ گیمبیا میں جماعت کے مشن کے قیام کے لئے کوشاں تھا.ان دنوں میں سیرالیون کے ایک مسلمان لیڈر مصطفے سنوسی صاحب جو بعد میں سیرالیوں کے وزیر خزانہ بھی بنے، گیمبیا آئے.انہوں نے گیمبیا کے مسلمان زعماء کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے زور دے کر یہ بات کہی کہ وہ جماعت احمدیہ کے مبلغ کو گیمبیا میں آنے سے نہ روکیں کیونکہ اس میں اُن کا ہی نقصان ہے.جماعت کے مخالفین پر تو اس کا کوئی اثر نہیں ہو مگر کچھ روشن خیال مسلمان اس

Page 574

564 بات کے حق میں ہو گئے کہ جماعت کے مبلغ کو یہاں آنے سے نہیں روکنا چاہیئے.آخر لا مین صاحب اور ان کے ساتھ چند نو جوانوں کو امام صاحب کے مقابلہ پر آنا پڑا.انہوں نے ایک پرائمری سکول کے ہال مین ایک میٹنگ منعقد کی.اس میں تقریر کرتے ہوئے لامین صاحب نے کہا کہ احمدیہ مشن والے لوگوں کو اسلام سکھاتے ہیں ، عیسائیت سے بچاتے ہیں.سیرالیون، گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں انہوں نے اسلام کی شاندار خدمات سرانجام دی ہیں.اس لئے ہمارے ملک میں بھی احمد یہ مشن قائم ہونا چاہئیے.امام صاحب کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ گیمبیا میں عیسائیوں مشنریوں کے کام کرنے پر کوئی اعتراض نہ کریں، مگر احمد یہ مشن کے قیام کی مخالفت کریں.جواب میں مخالفین نے بھی تقاریر کیں.اس طرح یہ اجلاس بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہو گیا.مگر اس کے بعد امام صاحب کے کچھ حریفوں نے گورنر کو لکھا کہ ہمیں امام صاحب باتھرسٹ کی رائے سے اتفاق نہیں اور جماعت احمد یہ کے مشن پر اعتراض نہیں ہونا چاہئیے.(۱) اس صورتِ حال میں مکرم وکیل التبشیر صاحب نے فیصلہ کیا کہ اگر پاکستانی مبلغ کو وہاں جانے کی اجازت نہیں مل رہی تو افریقہ کے کسی ملک سے وہاں کے مقامی مبلغ کو گیمبیا بھجوا دیا جائے.۱۹۵۹ء کے آخر تک حالات اتنے سازگار ہو چکے تھے کہ نائیجیریا سے ایک مبلغ مکرم حمزہ سنسیالو (Hamza Sanyalo) صاحب کو عارضی ویزا پر گیمبیا بھجوایا گیا.سنیالوصاحب تقریباً تین ماہ تک گیمبیا ر ہے اور اس دوران کئی احباب بیعت کر کے میں داخل ہوئے.اسی دوران جماعت احمد یہ گیمبیا کے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا اور یہاں پر باقاعدہ نظام جماعت کا آغاز ہوا.سنیالوصاحب کے دورہ کے دوران گیمبیا کی اہم مسلمان شخصیات کے ساتھ میٹنگ کا اہتمام کیا گیا.اس میٹنگ میں مقررین نے احمد یہ مشن کے قیام کے حق میں تقاریر کیں اور حاضرین نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا.اس کے بعد جماعت گیمبیا کے پریذیڈنٹ ھاؤسن مصطفے کیٹا صاحب Howson Mustapha Keita) نے اس میٹنگ کا حوالہ دے کر حکومت کو درخواست کی کہ گیمبیا میں جماعت کے مرکزی مبلغ کو آنے کی اجازت دی جائے.حکومت نے پھر امام باتھرسٹ سے اس بارے میں مشورہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا.احمدیوں نے بہت سے سرکردہ مسلمانوں سے رابطے کئے مگر یہ لوگ جماعت کے مشن کے قیام کی مخالفت کرتے رہے البتہ رائے عامہ بڑی حد تک

Page 575

565 جماعت کے حق میں ہموار ہو چکی تھی.جون ۱۹۶۰ء میں صدر جماعت احمد یہ گیمبیا نے حکومت کو تین صفحے کا خط لکھا جس میں بعض مسلمان زعماء کی مخالفت کو بلا جواز ثابت کیا.اس خط پر سات سو زیادہ افراد کے دستخط تھے ، جن میں بہت سے سرکردہ مسلمان بھی شامل تھے.اب گیمبیا کی جماعت آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی.ان کی تربیت کے لئے وہاں پر کسی مبلغ کا ہونا ضروری تھا.دوسری طرف اس ضمن میں گیمبیا کی حکومت کوئی واضح جواب نہیں دے رہی تھی.چنانچہ جولائی ۱۹۶۰ء میں غانا سے جماعت کے مبلغ مکرم احمد جبرائیل سعید صاحب گیمبیا پہنچے اور مرکزی مبلغ کی آمد تک وہیں پر خدمات سرانجام دیتے رہے.جماعت کے خط پر گورنر نے امام باتھرسٹ کو لکھا کہ اب رائے عامہ احمد یہ مشن کے قیام کے حق میں ہے تو اب آپ کیا مشورہ دیتے ہیں.اس کے جواب میں امام صاحب نے لکھا کہ آپ جیسا مناسب سمجھیں فیصلہ کر لیں.چنانچہ اب حکومت کو بھی مشن کے قیام پر کوئی اعتراض نہ رہا.مرکز سلسلہ نے مکرم مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب کو ، جو پاکستان سے باہر تبلیغ کا وسیع تجربہ رکھتے تھے ، گیمبیا کے لئے مبلغ مقرر کیا.آپ ۱۲ فروری ۱۹۶۱ء کو ربوہ سے روانہ ہوئے اور مشرقی وسطی سے ہوتے ہوئے ۲۶ فروری کو نائیجیریا کے دارالحکومت پہنچ گئے.آپ نائیجیریا سے غانا گئے جہاں آپ نے تین روز قیام کیا اور 9 مارچ کو بذریعہ ہوائی جہاز گیمبیا پہنچ گئے.اس وقت آپ کی جیب میں صرف پچاس پاؤنڈ کی رقم تھی.اور قدرتا یہ فکر دامنگیر تھی کہ نہ جانے اب کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.مگر جہاز کے رکتے ہی گیمبیا کے احمدیوں نے بڑی محبت سے آپ کا استقبال کیا.شہر میں جانے کے لئے بس کا انتظام کیا ہوا تھا.شہر کی حدود میں داخل ہوتے ہی سب احباب نے اونچی آواز میں لا الہ الا اللہ کا ورد شروع کر دیا اور اس طرح سارے شہر کا چکر لگایا.یہ گویا احمدی مبلغ کی آمد کا اعلان تھا.شروع میں مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کی رہائش کا انتظام لامین بارا انجائے صاحب کے گھر میں تھا.لامین بارا صاحب کی سادہ ہی رہائش گاہ میں غانا سے آئے ہوئے مبلغ مکرم احمد جبرائیل سعید صاحب بھی قیام پزیر تھے.لامین صاحب اور اُن کے اہلِ خانہ نہایت اخلاص سے مبلغین کی خدمت کر رہے تھے.یہ رمضان کا مہینہ تھا ، اس لئے درس قرآن اور نماز تراویح کا سلسلہ شروع کیا گیا.اور مکرم چوہدری محمد شریف صاحب نے شہر میں رابطے شروع کئے اور جلد ہی لنکاسٹر سٹریٹ پر ایک مکان لے کر مشن ہاؤس کا با قاعدہ

Page 576

566 آغاز کیا گیا.یہ مشن ہاؤس شہر کے وسط میں تھا.وہاں پر بہائیوں کا سینٹر بھی قائم تھا.(۳۲) گیمبیا میں احمدیوں کے علاوہ دیگر مسلمانوں کو بھی دینی تعلیم کی اشد ضرورت تھی.مکرم چوہدری محمد شریف صاحب نے قرآنِ کریم ناظرہ پڑھانے کے لئے کلاس کا آغاز کیا.اس میں احمدیوں کے علاوہ غیر احمدی مسلمان بھی شامل تھے.تین ماہ کے عرصہ میں بیس سے زاید بالغ افراد نے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا سیکھا.ان احباب میں لامین بارا انجائے صاحب اور الحاج فار یمانگ سنگھاٹے صاحب بھی شامل تھے.دو تین ماہ میں جماعت کا ایسا تاثر پیدا ہو چکا تھا کہ جب عید الاضحیٰ کا دن آیا تو بہت سے غیر احمدیوں نے بھی احمدیوں کے ساتھ نماز عید ادا کی.جب مکرم چوہدری محمد شریف صاحب گیمبیا پہنچے تو صرف باتھرسٹ (موجودہ بانجل ) میں ہی جماعت قائم تھی.چند ماہ کے قیام کے بعد آپ نے باتھرسٹ کے نواح میں واقعہ دیہات اور قصبوں میں دورے کر کے احمدیت کا پیغام پہنچایا.آہستہ آہستہ آپ کی تبلیغی کاوشوں کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا.جون ۶۱ میں آپ نے ویسٹرن ڈویژن کا تبلیغی دورہ کیا.اس کے ساتھ مختلف سکولوں میں لیکچروں کا سلسلہ بھی کامیابی سے شروع کیا گیا.اور اس کے ساتھ ا انگریزی میں پمفلٹوں کی اشاعت کا آغاز ہوا.ان پمفلٹوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام اہلِ گیمبیا تک پہنچایا گیا تھا.وہاں پر بہائی بھی کام کر رہے تھے چنانچہ ایک پمفلٹ Discovery of Bahaism بھی شائع کیا گیا.پہلے سال میں ہی کرامیہ کی دکان پر احمد بیر بک ڈپو قائم کیا گیا.بعد میں اسے مشن ہاؤس منتقل کر دیا گیا (۴).ان مساعی کے نتیجہ میں پڑھے لکھے لیمبین حضرات میں بھی جماعت احمدیہ میں دلچسپی پیدا ہو رہی تھی.چنانچہ ۱۹۶۱ء میں ہی جسٹس آف پیں الحاج عثمان ناجی بیعت کر کے میں داخل ہوئے.غیر احمدی مسلمانوں میں سے بہت سے جماعت کی کاشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے.چنانچہ غیر احمدیوں کی طرف سے منعقد کئے گئے جلسہ سیرت النبی صلے میں جماعت احمدیہ کے مبلغ کو بھی تقریر کی دعوت دی گئی.دوسری طرف بعض دوسرے عناصر کی طرف سے جماعت کی مخالفت کا بھی آغاز ہو رہا تھا.چنانچہ ایک سوڈانی عالم محمد احمد منگتا نے جماعت کی مخالفت شروع کر دی.(۲) لیکن اس کے باوجود ایک ایک کر کے سعید روحیں احمدیت کو قبول کر رہی تھیں.چوہدری محمد شریف صاحب کی آمد سے پہلے جماعت کے مداح تو

Page 577

567 بہت تھے لیکن عملاً بہت کم لوگوں نے بیعت کی تھی.مگر اب بیعت کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا تھا.۱۹۶۲ ء کے آخر تک گیمبیا میں احمدیوں کی تعداد ۵۰۰ تک پہنچ چکی تھی.گو اس سے قبل فاریمان سنگھائے صاحب احد یہ مشن سے تعلق رکھتے تھے اور مشن میں منعقد ہونے والی قرآن کلاس میں بھی آتے رہے تھے.مئی ۱۹۶۳ء میں آپ با قاعدہ بیعت کر کے میں داخل ہو گئے.اور ۱۹۶۵ء میں آپ جماعت احمد یہ گیمبیا کے صدر مقرر ہوئے.ابتداء میں مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کا حلقہ تبلیغ زیادہ تر بانجل اور اس کے نواح تک محدود تھا.گو کہ اس دوران بھی دوسرے ذرائع سے ملک بھر میں جماعت کا پیغام پہنچ رہا تھا.بانجل سے دور کچھ مقامات مین جن میں جارج ٹاؤں بھی شامل تھا کچھ لوگ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو چکے تھے.۱۹۶۳ء میں آپ نے ملک کے دوسرے مقامات کے دوروں کا آغاز کیا.سب سے پہلے آپ دریائی جہاز پر سفر کر کے مشرقی سرحد پر واقعہ قصبے بصے (Basse) پہنچے اور وہاں پر احمدیت کا پیغام پہنچایا.اس کے بعد آپ نے جارج ٹاؤن، ساپو (Sapo) ، مانسا کونکو (Mansakonko)، فیرافینی کے دورے کئے.ان دوروں میں مقامی احباب بھی آپ کے ہمراہ تھے.ان دوروں کا بہت اچھا نتیجہ برآمد ہوا اور ان علاقوں میں بھی احمدیت کا بیج بویا گیا.(۵ تا ۷ ) بڑھتے ہوئے کام کے ساتھ اس بات کی ضرورت تھی کہ مقامی احباب بھی آگے آکر تبلیغ کا کام سنبھالیں اور اسے وسعت دیں.مکرم مولا نا محمد شریف صاحب نے ۱۹۶۳ء میں کیمبین احمدیوں کو اس فریضہ کی طرف توجہ دلائی.اس تحریک پر سب سے پہلے احمد گئی (Gaye) صاحب اور مکرم عبد القادر جکنی ( Jikni) صاحب نے لبیک کہا.مکرم احمد گئی صاحب کو بانجل کے نواح میں مبلغ مقرر کیا گیا.مکرم عبد القادر جکنی صاحب پہلے جماعت کے مخالف علماء میں سے تھے.آپ کے سپر دشمالی علاقے کئے گئے.وقف کے بعد آپ نے نہایت اخلاص اور مستقل مزاجی سے اپنے عہد کو نبھایا اور اللہ تعالیٰ نے خلافت رابعہ تک آپ کو شاندار خدمات کی توفیق عطا فرمائی.مسجد اور مشن ہاؤس جماعت کی تبلیغی اور تربیتی مساعی میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں.وقت کے ساتھ بانجل کا مشن ہاؤس لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہا تھا.سارا سال مختلف زائرین مشن ہاؤس آتے اور جماعت احمدیہ کے متعلق معلومات حاصل کرتے.ان زائرین میں عام لوگوں کے علاوہ

Page 578

568 وزراء، کونسلرز مجلس قانون ساز کے ممبران ، اور حکومتی افسران بھی شامل تھے.ایک مرتبہ سینیگال کے سفارتکار ، دو بڑے علماء کے ہمراہ ملنے آئے.کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے کہ احمدی لوگ جو قرآنِ کریم شائع کرتے ہیں ان میں مَا كَانَ مُحَمَّدُ أَبَا أَحَدٍ آبَا اَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللهِ تو شائع کیا جاتا ہے لیکن وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ کے الفاظ حذف کر دئیے جاتے ہیں.مکرم مولانا محمد شریف صاحب نے اسی وقت جماعت کے شائع کردہ انگریزی ترجمہ قرآن میں سے یہ آیت نکال کر سامنے رکھ دی.جب انہوں نے اس نسخے میں وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ کے الفاظ دیکھے تو ہنس کر کہنے لگے کہ یہ ہمارے علماء بڑے بے ایمان ہیں جھوٹ بولتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں.اُس وقت نظام تعلیم پر مکمل طور پر عیسائی مشنریوں کا قبضہ تھا اور وہ دنیاوی تعلیم کی آڑ میں عیسائیت کی تبلیغ بھی کرتے تھے.جس سے بہت سے مسلمان کم علمی کے باعث متاثر ہو جاتے تھے.یکم جون ۱۹۶۳ء کو بانجل سے آٹھ میل کے فاصلے پر جسونگ کے مقام پر گیمبیا کے پہلے احمد یہ مدرسہ کا آغاز ہوا.پہلے سال میں چالیس طلباء اور طالبات داخل ہوئے.ایک مراکشی احمدی الحاج محمد امین الحسینی اس میں مدرس کے فرائض سر انجام دے رہے تھے.ایک سال بعد اسے بند کر دیا گیا تا کہ اس کی جگہ ایک سکول قائم کر کے اس میں دیگر مضامین کے ساتھ عربی اور اسلامیات کی تعلیم بھی دی جائے (۴).بہت سے احمدی والدین اپنے بچوں کو اسلامی ماحول میں تعلیم دلانے کے لئے انہیں بو ( سیرالیون ) کے اسکول بھجوا دیتے تھے.اس طرح ابتدائی احمدیوں کے بچے جماعتی ماحول میں تعلیم پانے لگے.ہمسایہ ممالک میں جماعت کے اسکولوں کی نیک شہرت گیمبیا بھی پہنچ چکی تھی.ایک مرتبہ ملک کے وزیر زراعت نے جو کہ غیر احمدی مسلمان تھے مولا نا محمد شریف صاحب کو کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اپنے بیٹے کو بو کے احمد یہ اسکول میں پڑھنے نکے لئے بھجوا دوں کیونکہ میرا تجربہ ہے کہ آپ کا ماحول اسلامی ہے اور میں اپنے بیٹے کو صحیح اسلامی رنگ میں ڈھالنا چاہتا ہوں.۱۹۶۴ء کے آغاز میں گیمبیا میں پہلے احمد یہ ہائی اسکول کا افتتاح عمل میں آیا اور اس طرح یہاں پر جماعت کی تعلیمی خدمات کا آغاز ہوا.(۲) مکرم مولا نا محمد شریف صاحب تین سال سے گیمبیا میں خدمات سر انجام دے رہے تھے.

Page 579

569 ۱۹۶۴ء میں مرکز نے آپ کور بوہ بلا کر آپ کی جگہ مکرم مولا نا غلام احمد صاحب بدوملہی کو گیمبیا کا امیر اور مشنری انچارج مقرر کیا.آپ ۹ مئی ۱۹۶۴ء کو گیمبیا پہنچ گئے اور مکرم مولانا محمد شریف صاح کو چارج دینے کے بعد ۵ جون ۱۹۶۴ء کو مرکز سلسلہ کے لئے روانہ ہو گئے.۱۸ فروری ۱۹۶۵ء کو گیمبیا ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا.تقریب آزادی میں باقی مذہبی عمائدین کے ساتھ مکرم مولانا غلام احمد صاحب بد وملہی اور کچھ اور احمدی احباب بھی مدعو تھے.دیگر مذہبی عمائدین کی طرح آپ نے بھی مختصر دعائیہ تقریر کی جو کہ ریڈیو گیمبیا سے نشر کی گئی.مئی ۱۹۶۵ء میں مکرم میر مسعود احمد صاحب نے مرکزی نمایندے کے طور پر گیمبیا کا دورہ کیا.اور اسی سال مکرم الحاج فاریمان سنگھائے صاحب جماعت احمد یہ گیمبیا کے صدر مقرر ہوئے.بہت جلد آپ کے کندھوں پر ملک کے اہم ترین منصب کی ذمہ داریاں بھی پڑنے والی تھیں.(۲) (۱) ۲۱ جولائی ۱۹۸۳ ء ص ۳ تا ۵ (۲) فائیل گیمبیا، ریکارڈ وکالت تبشیر (۳) الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۷۶ ء ص ۴۰۳ (۴) تحریک جدید جون ۱۹۸۱ء ص ۸ الفضل ۲۹ جون ۱۹۶۳ء ص ۴۳ (۶) الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۶۳ ء ص ۵ ( ۷ ) الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۶۳ء ص ۵

Page 580

570 فنجی میں مشن کا قیام نجی جنوبی بحرالکاہل میں واقع چھوٹے چھوٹے جزائر کا مجموعہ ہے.اس ملک میں کئی قومیتوں کے لوگ آباد ہیں.ان میں سب سے زیادہ تعداد ہندوستانی باشندوں اور یہاں کے مقامی لوگوں کی ہے.یہاں کی آبادی میں عیسائی سب سے زیادہ ہیں اور ان کے بعد ہندومت سے وابستہ لوگ یہاں زیادہ تعداد میں آباد ہیں.مسلمانوں آبادی کا تقریباً سات فیصد ہیں.جب ہندوستان میں شدھی کی تحریک چلی تو اس کا اثر فجی بھی پہنچا اور ان کی طرف سے یہ کوششیں شروع کی گئیں کہ کمزور مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے.فیجی میں سب سے پہلے احمدیت کا تعارف ایک احمدی مکرم چوہدری عبد الحکیم صاحب کے ذریعہ پہنچا جو ۱۹۲۵ء میں کاروبار کے سلسلے میں فجی منتقل ہوئے.انہوں نے یہاں پر نادی کے مقام پر قیام کیا اور مرکز کے ساتھ رابطہ رکھنے کے علاوہ کچھ جماعتی لٹریچر منگوا کر اپنے واقف کاروں میں تقسیم کیا.لیکن اس وقت یہاں پر باقاعدہ جماعت کا قیام عمل میں نہیں آسکا.مگر یہاں کے کچھ باشندے پیغامیوں کی انجمن اشاعت اسلام کے ساتھ وابستہ تھے.جب یہاں پر شدھی کی تحریک چلائی گئی تو ان کی طرف سے اس تحریک کا مقابلہ کیا گیا.مگر ان میں سے بعض نے یہ محسوس کیا کہ انہیں دانستہ طور پر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی کتب مہیا نہیں کی جاتیں.جب ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کچھ کتب دستیاب ہوئیں تو ان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ آپ کا دعویٰ صرف مجدد ہونے کا نہیں بلکہ امتی نبی کا بھی تھا.ان میں سے ایک صاحب مکرم محمد رمضان صاحب حج کرنے کے بعد تلاشِ حق کے لئے ۱۹۵۹ء میں ربوہ آئے اور بیعت کر کے جماعت احمد یہ مبایعین میں شامل ہو گئے اور حضرت مصلح موعودؓ سے درخواست کی کہ نجی کوئی مبلغ بھجوایا جائے.اور نجی آکر تبلیغ کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا.ان کی کاوشوں سے کچھ احباب بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.یہاں پر جماعت کے پہلے مبلغ مکرم شیخ عبدالواحد صاحب اار اکتوبر ۱۹۶۰ء کو نجی پہنچے اور ابتداء میں آپ کا قیام مکرم محمد رمضان صاحب کے ہاں رہا.آپ سب سے پہلے نادی کی جماعت کی تنظیم

Page 581

571 کی طرف متوجہ ہوئے اور یہاں پر تعلیمی اور تبلیغی کلاس کا اجراء کیا.اور با قاعدہ نظام جماعت کا بھی آغاز ہوا.یہاں کی جماعت کے پہلے صدر کے طور پر مکرم جان خان صاحب نے کام شروع کیا.فنجی میں دوسری جماعت مارو ( Maro) کے مقام پر قائم ہوئی.یہاں کے پہلے احمدی مکرم قاسم خان صاحب تھے.اور پھر لاٹو کا (Lautoka) کے مقام پر ایک مختصر جماعت قائم ہوئی.اور پھر ۱۹۶۱ء میں مکرم شیخ عبد الواحد صاحب نے ملک کے دارالحکومت Suva کا دورہ کیا اور یہاں پر منی کی چھوٹی جماعت قائم ہوئی.نبی میں احمدیت قبول کرنے والوں کی اکثریت ہندوستانی نسل سے تعلق رکھتی تھی تاہم کچھ مقامی نسل سے تعلق رکھنے والے احباب نے بھی بیعت کی ان میں سے پہلے دو احمدیوں کے نام غلام رسول اور محمد تو راہ تھے.۱۹۶۱ء میں یہاں پر ریڈیو کے ذریعہ تبلیغ کا آغاز ہوا.اور جون ۱۹۶۱ء میں یہاں پر ایک ماہوار رسالہ الاسلام کا آغا ز کیا گیا.دسمبر ۱۹۶۲ء میں جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ منعقد ہوا.جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر ۱۹۶۳ء میں جماعت کا اپنا مشن ہاؤس اور مسجد فضل عمر کے نام سے ایک مرکزی مسجد تعمیر کی گئی.اسکے ساتھ نجی میں جماعت کی تبلیغی مساعی ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوئی.(۱) (۱) تاریخ بنی مشن مرتب کرده وکالت تبشیر

Page 582

572 افریقہ میں جماعت کی طبعی اور تعلیمی خدمات کا آغاز اب ہم ۱۹۶۰ء کی دہائی کے ذکر سے گزر رہے ہیں.گو زمانی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس دور سے بہت پہلے جماعت احمد یہ افریقہ میں اپنی تعلیمی خدمات کا آغاز کر چکی تھی لیکن چونکہ کتاب کے حصہ اول میں اس کا ذکر نہیں آیا تھا اس لئے اب اس میدان میں جماعت احمدیہ کی خدمات کے آغاز کا مختصراً ذکر کریں گے.وہ ملک جہاں سے سب سے پہلے ان خدمات کا آغاز ہوا نائیجیر یا تھا.افریقہ کے باقی علاقوں کی طرح اس ملک میں بھی تعلیمی نظام پر عیسائی مشن چھائے ہوئے تھے.نائیجیر یا میں ایک عرصہ سے مسلم اسکول کھولنے کی کوشش ہو رہی تھی لیکن اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی تھی.ستمبر ۱۹۲۲ء کو مغربی افریقہ میں پہلے احمدی مبلغ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر کے ذریعہ پہلے احمد یہ اسکول کا قیام عمل میں آیا.اس دن نائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس میں تعلیم الاسلام اسکول کے نام سے ایک اسکول کا آغاز کیا گیا.اُس وقت تک قادیان اور ربوہ میں بھی اسی نام سے جماعت کے اسکول بنائے گئے تھے.کالونی کے ریذیڈنٹ صاحب نے اس ادارے کا افتتاح کیا اور یورو با زبان میں خطاب کرتے ہوئے اس واقعہ پر اظہار مسرت کیا.مقام غانا میں پہلا احمد یہ پرائمری اسکول ۱۹۲۷ء میں سالٹ پانڈ کے مقام پر مکرم حکیم فضل الرحمن صاحب کے ذریعہ قائم ہوا.اور سیرالیون میں پہلا احمد یہ پرائمری اسکول ۱۹۲۷ء میں روکو پور کے نام پر قائم ہوا.یہ آغاز پرائمری سکولوں سے ہوا تھا.افریقہ کا پہلا احمد یہ سکینڈری اسکول کماسی ، غانا میں ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا تھا.اسی طرح سیرالیون کا پہلا احمد یہ سکینڈری اسکول بو (Bo) کے مقام پر شروع ہوا.سیرالیون میں جماعت کی تعلیمی مساعی کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی جلدی کامیابی حاصل ہوئی کہ آئندہ چند سالوں میں جماعت کے تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھتی گئی.۱۹۶۴ء تک صرف غانا میں جماعت کے تعلیمی اداروں کی تعداد پندرہ ہو چکی تھی.(۱) افریقہ میں طبی میدان کے اندر جماعتی خدمات کا آغاز کرنے کا اعزاز مکرم ڈاکٹر شاہنواز

Page 583

573 صاحب کے حصہ میں آیا.جنہوں نے ۱۹۶۰ء میں سیرالیون میں بو کے مقام پر طبی خدمات کا آغاز کیا اور تقریباً ڈیڑھ سال وہاں پر کام کیا.اگلے سال نائیجیریا میں لیگوس کے مضافات میں اپاپا کے مقام پر مکرم ڈاکٹر یوسف صاحب نے جماعت کا مشنری کلینک قائم کیا.یہ بات قابل ذکر ہے کہ مکرم ڈاکٹر یوسف صاحب نے ۱۹۶۸ء میں میدانِ عمل میں ہی وفات پائی.تیسرا کلینک مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے کانو ( نائیجیریا ) میں قائم کیا.مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے بھی ایک طویل عرصہ خدمات سرانجام دے کر نائیجیریا میں ہی وفات پائی.(۲-۳) اس طرح خلافت ثانیہ کے بابرکت دور میں براعظم افریقہ میں جماعت احمد یہ اپنی طبی اور تعلیمی خدمات کا آغاز کر چکی تھی.اور باوجود وسائل کی کمی کے ان ابتدائی کا وشوں کے ایسے مثبت نتائج نکلنے شروع ہو گئے تھے کہ خلافت ثالثہ میں ان خدمات نے مجلس نصرت جہاں کے تحت با قاعدہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر لی.اور اس میدان میں جماعتی خدمات کا ایک نیا سنہرا دور شروع ہوا.(۱) الفضل ۱۸ جون ۱۹۶۴ ء ص ۷ (۲) الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۶۰ء ص ۱ (۳) الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۱ء ص ۱

Page 584

574 آئیوری کوسٹ میں جماعت کا قیام جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ اب تک مغربی افریقہ کے چار ممالک میں جماعت کا قیام عمل میں آچکا تھا.یہ سب ممالک English speaking west Africa سے تعلق رکھتے تھے.مغربی افریقہ میں بہت سے ممالک فرانسیسی تسلط میں رہے تھے اور اس نسبت سے انہیں Francophone ممالک کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں پر انگریزی کی بجائے فرانسیسی سرکاری اور تعلیمی زبان کا درجہ رکھتی تھی.ابھی تک مغربی افریقہ کے کسی Francophone ملک میں مشن قائم نہیں ہوا تھا.چنانچہ سب سے پہلے اس مقصد کے لئے آئیوری کوسٹ کا انتخاب کیا گیا.یہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے روایتی مذہب سے بھی وابستہ ہے.اُس دور میں عام مسلمان دینی علوم سے دور کا بھی واستہ نہیں رکھتے تھے.بالخصوص علماء زودرنج اور ظاہر پرست واقع ہوئے تھے.با وجود گرمی کے بھی تین تین جسے پہن کر رکھتے.ہر عالم کے پاس عوام کو دھوکہ دینے کے لئے علیحدہ قسم کے انتظامات موجود تھے.کوئی قرآنی آیات کو سختی پر لکھ کر دھو کر پلاتا، کوئی تعویذ دیتا، کوئی آب زمزم سے دوائی بنا کر دیتا اور کوئی ریت پر ہاتھ کا عکس لے کر قسمت کا حال بتا تا.یہ ڈھنگ اختیار کر کے یہ لوگ لوگوں کو گمراہ کرتے.(۱) ۱۹۶۰ء میں جبکہ مذکورہ بالا چار ممالک کے علاوہ گیمبیا میں بھی مشن کے قیام کے لئے بھی کوششیں ہو رہی تھیں ، آئیوری کوسٹ میں جماعت کا مشن کھولنے کا فیصلہ ہوا اور اس کے لئے مکرم قریشی مقبول احمد صاحب کا انتخاب کیا گیا.آپ اس غرض کے لئے ۲۲ نومبر ۱۹۶۰ء کور بوہ سے روانہ ہوکر ۲۵ نومبر کو نائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس پہنچے.کچھ ماہ نائیجیریا اور غا نا میں گزار کر آپ فرانسیسی سفارت خانے کی اس یقین دہانی پر آئیوری کوسٹ پہنچے کہ آپ کو ایئر پورٹ پر ویزامل جائے گا.مگر وہاں پہنچ کر آپ کو ویزا نہیں مل سکا.پھر آپ وہاں سے غا نا آگئے اور دو ماہ کے لئے سینی گال گئے اور کچھ عرصہ گیمبیا میں ٹھہرے تھے کہ آپ کو حکومت آئیوری کوسٹ کی طرف سے ویزا دے دیا گیا اور بالآخر ۲۲ جولائی ۱۹۶۱ء کو آئیوری کوسٹ پہنچ گئے.آپ کا قیام ملک کے دارالحکومت آبی جان میں تھا

Page 585

575 پہلے تین ہفتہ آپ ہوٹل میں ٹھہرے اور مشن کے لئے مکان کی کوشش شروع کی گئی.شہر ایک محلہ آجاے(Adjame) میں آپ کو ایک چھوٹا سا مکان کرایہ پرمل گیا.ابھی آپ ہوٹل میں قیام پذیر تھے کہ آپ کے پاس مالی کے ایک صاحب بیچی تر اولے صاحب اور ان کے دو ساتھیوں مکرم شا کا با مبا صاحب اور مکرم محمد صاحب کے ہمراہ آپ سے ملنے آئے.مکرم مقبول ساحب نے ان لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوٹو دکھائی اور بتایا کہ آپ ہی امام مہدی ہیں جن کی آمد کی خوشخبری آنحضرت ﷺہ دی تھی.جب یہ تینوں احباب وہاں سے نکل رہے تھے تو بیچی تر اولے صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ آدمی جھوٹا ہے.لیکن چند روز بعد آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص انہیں کہتا ہے کہ امام مہدی نے ایک ہی علاقے میں آنا تھا.باقی علاقوں میں تو کوئی اور آدمی ہی اس کا پیغام لے کر جائے گا.اس خواب کی بنا پر ان تینوں ساتھیوں کو اطمینان ہو گیا اور انہوں نے احمدیت قبول کر لی.اس طرح آئیوری کوسٹ میں تبلیغ کا آغاز ہوا.ابتداء میں فرانسیسی زبان صحیح طرح نہ جاننے کی وجہ سے دقت کا سامنا تھا ، اس لئے زبان بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی پڑی.انفرادی رابطوں سے تبلیغ کا کام شروع کیا گیا.پہلے آجامے اور پھر آبی جان کے دوسرے علاقوں میں ملاقات کر کے احمدیت کا پیغام پہنچایا.جو اہل علم فرانسیسی جانتے تھے انہیں اسلامی اصول کی فلاسفی کا فرانسیسی ترجمہ دیا گیا اور عربی جاننے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب مطالعہ کے لئے دی گئیں.اخبارات میں مضامین لکھنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا.رفتہ رفتہ کچھ سعید روحیں احمدیت میں داخل ہونے لگیں.اور آبی جان میں ایک مختصر جماعت قائم ہوئی.مکرم قریشی مقبول صاحب کے زمانے میں زیادہ تر تبلیغی مساعی آبی جان میں ہی مرکوز رہی تاہم بعض دیگر مقامات تک بھی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا گیا.زیر تبلیغ افراد میں صرف مقامی باشندے ہی شامل نہیں تھے.مالی، لبنان، گنی، نائیجیریا اور غانا سے آئے ہوئے احباب تک بھی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا گیا.(۲) جماعت بن جانے کے بعد ان کی تربیت ایک مسلسل جد وجہد کا تقاضہ کرتی ہے.چنانچہ آئیوری کوسٹ میں تربیت کا عمل بھی شروع ہوا.احباب جماعت کو بار بار چندوں کی طرف توجہ دلائی گئی اور ان کو قرآن کریم پڑھانے کا انتظام بھی کیا گیا.

Page 586

576 اسی دور میں مالی کے ملک میں بھی تبلیغ کا کام جاری رکھا گیا.اور وہاں پر جماعتیں قائم ہوئیں.مقامی مبلغ مکرم الحاج محمد غزالی صاحب مالی کا دورہ کر کے احباب جماعت کی تربیت کے علاوہ تبلیغ کا کام بھی کرتے رہے.یہ دوست آئیوری کوسٹ میں احمدی ہوئے تھے جہاں وہ تحصیل علم کے لئے مقیم تھے اور پھر ان کو ان کے وطن مالی میں ہی مبلغ مقرر کر دیا گیا.(۳) نومبر ۱۹۶۳ء میں مکرم قریشی مقبول احمد صاحب واپس ربوہ روانہ ہوئے اور ان کی جگہ مکرم قریشی محمد افضل صاحب کو آئیوری کوسٹ میں مقرر کیا گیا.مکرم قریشی افضل صاحب نے اندرونِ ملک بھی دورے شروع کئے.۱۹۶۴ء کے آغاز میں آپ نے اپروولٹا ( اس کا موجودہ نام بورکینا فاسو ہے ) کا دورہ کیا.آپ وہاں کے دار الحکومت واگا ڈوگو (Ouaga dougo) گئے، وہاں کے دوسرے بڑے شہر Boake بھی گئے اور وہاں پر جامع مسجد میں لیکچر دیا.لیکچر کے بعد سوالات کا موقع دیا گیا.اس دوران لوگوں نے وہاں کے رواج کے مطابق پیسے لا کر میز پر رکھنے شروع کئے.آخر میں قریشی افضل صاحب نے کہا کہ یہ رقم آپ لوگ اپنی مسجد پر خرچ کر دیں.اس کا مقامی لوگوں پر بہت اچھا اثر ہوا (۴) ۱۹۶۵ء میں وکیل اعلی و وکیل التبشیر مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے مغربی افریقہ کا دورہ کیا تو آپ آئیوری کوسٹ بھی تشریف لائے.اس سفر میں مکرم میرمسعود احمد صاحب بھی آپ کے ہمراہ تھے.(۱) الفضل ۳۰ اپریل ۱۹۶۴ء ص ۳ (۲) الفضل ۹ جون ۱۹۶۳، ص ۳ (۳) الفضل ۱۸اگست ۱۹۶۳ء ص ۴ (۴) الفضل ۳۰ اپریل ۱۹۶۴ء ص ۴ فرینچ گنی میں مشن کھولنے کی کوشش : اگست ۱۹۵۹ء میں لائیبیریا کے صدر ولیم ٹب مین صاحب نے جنوبی افریقہ میں ہونے والے مظالم کے سلسلے میں افریقہ کے آزاد ممالک کے سربراہان کی ایک کانفرنس بلائی.دیگر ممالک کی طرح فرنچ گئی کا وفد بھی اس کا نفرنس میں شامل ہونے کے لئے لائیبیر یا آیا.اس موقع پر جماعتِ

Page 587

577 احمدیہ لائیبیریا کے ایک وفد نے صدر جمہوریہ گنی جناب شیخو ٹورے صاحب سے ملاقات کی اور جماعت کا لٹریچر پیش کیا اور جماعت احمدیہ کا تعارف کرایا.صدر گنی نے شکر یہ ادا کیا اور سرسری طور پر اظہار کیا کہ جماعت ان کے ملک میں بھی مشن کھولے اور عربی اور دینیات کے مدر سے قائم کرے.(۱) ۲۰ مارچ ۱۹۶۱ء کو مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب عارضی پر مٹ پر گنی پہنچے.اور ایک لبنانی کتب فروش کے ہاں ٹھہرے.انہوں نے یہ مکان کرایہ پر لیا ہوا تھا.جلد مالک مکان نے مکان خالی کرالیا.مجبوراً مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب کو ہوٹل میں مقیم ہونا پڑا.گنی میں تبلیغ سے پہلے با قاعدہ سرکاری اجازت لینی پڑتی ہے ، اس لئے فی الحال تبلیغ کے راستے میں بہت مشکلات حائل تھیں.عموماً جب کوئی تبلیغی بات ہوتی تو یہ سوال کیا جاتا کہ کیا آپ نے تبلیغ کے لئے اجازت لی ہوئی ہے؟ ان حالات میں روابط قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا.ان کوششوں کے نتیجے میں گنی میں سب سے پہلے مکرم انور محمد کما را صاحب بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے.یہ دوست حافظ صاحب کے ساتھ نمازیں پڑھتے اور دینی علم حاصل کرتے.اندرونِ ملک ایک شہر Kindia میں بھی دورہ کر کے تبلیغ کی گئی اور لٹریچر تقسیم کیا گیا.۲۴ نومبر ۱۹۶۱ء تک تین احباب احمدیت میں داخل ہو چکے تھے.مگر دسمبر ۱۹۶۲ء میں وزارت داخلہ نے اطلاع دی کہ حکومت جماعت کو یہاں مشن کھولنے کی اجازت نہیں دے سکتی.چنانچہ ۱۴ فروری ۱۹۶۲ء کو واپس سیرالیون تشریف لے گئے.بعد میں سیرالیون کے ایک احمدی مکرم فایا کسی صاحب جو آنریری مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے اور سلسلہ کا لٹریچر بھی فروخت کیا کرتے تھے.اس سلسلہ میں گنی گئے اور وہاں پر دارالحکومت کوناکری سے چالیس میل دور پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا اور چار روز بعد رہا کر کے واپس سیرالیون بھیجوا دیا.اس طرح انہیں گنی میں احمدیت کا پہلا اسیر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا.(۲) (1) روح پرور یادیں مصنفہ مولوی محمد صدیق امرتسری صاحب ص ۵۳۱ (۲) تاریخ گنی مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه

Page 588

578 ٹوگو میں جماعت کا قیام: ٹو گومغربی افریقہ کا ایک ملک ہے جو ۱۹۵۸ء میں فرانسیسی تسلط سے آزاد ہوا تھا.یہاں پر اکثریت مقامی مذہب سے وابستہ ہے.عیسائی اور مسلمان بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن مسلمانوں کی نسبت عیسائی بہت زیادہ بااثر تھے.یہاں پر حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر سب سے پہلے مکرم مرزا لطف الرحمن صاحب کو دسمبر ۱۹۶۰ء میں بطور مبلغ بھجوایا گیا.انہوں نے وہاں پہنچ کر مختلف با اثر شخصیات سے رابطے شروع کئے اور انہیں جماعت کا لٹریچر پیش کیا اور جماعت کا تعارف کرایا.آپ کا قیام وہاں کے دارالحکومت لومے میں تھا.وہاں کے مسلمان بہت زیادہ پسماندہ حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے اور ان کی نسبت عیسائی آبادی ملک کی سیاست اور معیشت پر چھائی ہوئی تھی.جماعت کا مشن اسلام کی تبلیغ کے لئے ایک منظم کوشش تھی.مکرم مرزا لطف الرحمن صاحب کو زیادہ عرصہ وہاں پر کام کرنے کا موقع نہ ملا.کیونکہ جون ۱۹۶۱ء میں حکومت نے انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا.اس پر جب جماعت کی طرف سے احتجاج کیا گیا تو ان کی طرف سے یہ لا یعنی الزام لگایا گیا کہ آپ کے مبلغ ملک کی سیاست میں دخل دے رہے تھے.دراصل بعض حلقے اس بات سے خائف تھے کہ کہیں یہاں کے مسلمان منظم نہ ہو جائیں اور جماعت کے مبلغ کو نکلوانے کے پیچھے چرچ کا بھی ہاتھ تھا.لیکن احتجاجی خطوط کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ حکومت نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ جماعت کوئی دوسرا مبلغ وہاں پر بھجوا سکتی ہے.چنانچہ ۲۹ دسمبر ۱۹۶۱ء کو مکرم قاضی مبارک احمد صاحب ٹو گو پہنچے اور ایک مکان کرایہ پر لے کر تبلیغ شروع کی.اور آپ کی کاوشوں سے وہاں پر ایک مختصر سی جماعت بن گئی اور بعض بااثر لوگوں نے جن میں ایک سابق وزیر صاحب بھی شامل تھے احمدیت قبول کی.مکرم قاضی مبارک احمد صاحب سوا تین سال کے بعد واپس ربوہ تشریف لے آئے اور آپ نے اپنے بعد وہاں کے ایک مخلص احمدی مکرم محمود ا گا نڈی صاحب کو تبلیغ اور تربیت کے لئے مقرر کیا.(۲۱) (۱) تاریخ ٹو گومشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ (٢) الفضل ۲۹ اگست ۱۹۶۴ء ص ۴،۳

Page 589

579 نگران بورڈ کا قیام ۱۹۶۲ء کی مجلس شوری میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جائے جو صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید اور وقف جدید کے کام اور دفاتر کا معائنہ کرے اور شکایات پر غور کرے.اس تجویز کے متعلق سب کمیٹی نے یہ مشورہ پیش کیا کہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی منظوری سے ایک ایسا بورڈ مقرر ہو جو صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید اور وقف جدید کے کاموں کی نگرانی کرے اور ان تین انجمنوں میں رابطہ پیدا کرے.اور جماعتوں سے تجاویز حاصل کرے تا کہ تینوں ادارہ جات میں پہلے سے بڑھ کر ترقی ہو.اس بورڈ کے سات ممبران ہوں.یعنی صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید اور وقف جدید کے صدر صاحبان اور جماعت سے تین دیگر نمائیندگان اس میں شامل ہوں اور حضور سے درخواست کی جائے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا جائے.اور اس بورڈ کے صدر صاحب ہی دیگر تین نمائیندگان کو منتخب فرما لیں.جب یہ تجویز مجلس مشاورت میں پیش ہوئی تو حضرت مصلح موعوددؓ کی بیماری کی وجہ سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اس اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے.آپ نے فرمایا کہ میں ذاتی طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں خود صدرانجمن احمد یہ کا ممبر ہوں بلکہ محکمانہ لحاظ سے میں صدر انجمن احمد یہ اور ناظر صاحب اعلیٰ کے بھی ماتحت ہوں.اس لئے میرے خیال میں میرا نام اس میں زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں.اس طرح محکمانہ نمائیندگی بڑھ جائے گی اور بیرونی جماعتوں کو احساس ہوگا کہ شاید نگرانی کا کام پوری طرح نہیں ہو رہا.اس کے بعد مختلف نمائیندگان مجلس شوری نے اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا اور دیگر باتوں کے علاوہ اس رائے کا اظہار کیا کہ یہی مناسب ہو گا کہ قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اس کی صدارت فرمائیں مجلس مشاورت میں اس سفارش کی منظوری کے بعد اسے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں پیش کیا گیا اور حضور کی منظوری کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا کہ نگران بورڈ کے وہ تمام فیصلہ جات جن میں صدر صاحب نگران بورڈ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی شمولیت اور اتفاق رائے شامل ہو، صدر انجمن احمد یہ اور مجلس تحریک جدید اور مجلس وقف جدید کے لئے واجب العمل ہوں گے اور صدر صاحب

Page 590

580 نگران بورڈ کی وساطت سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں اپیل کرنے کا حق سب کو حاصل ہوگا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے یہ آپ کی ذات پر اعتماد کا اظہار تھا کہ نگران بورڈ کے صرف وہ فیصلے واجب العمل قرار دئیے گئے تھے جن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا اتفاق رائے شامل ہو (۲۱).اس کا پہلا اجلاس حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی صدارت میں تحریک جدید ربوہ کے کمیٹی روم میں مورخہ ۲۳ اپریل ۱۹۶۳ء کو منعقد ہوا.اس میں فیصلہ کیا گیا کہ طریقہ کار یہ ہوگا کہ اگر کسی جماعت یا کسی دوست کو کسی شعبے میں کوئی نقص نظر آئے تو وہ پہلے اُس شعبے کے انچارج کو لکھ کر بھجوائے اور اگر مناسب سمجھے تو اس کی کاپی متعلقہ تنظیم کے صدر کو بھی بھجوا دے.اگر مناسب وقت گزرنے کے بعد وہ یہ محسوس کریں کہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو پھر نگران بورڈ کو توجہ دلائی جائے (۳) مکرم و محترم مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت سرگودھا اس بورڈ کے سیکریٹری مقرر ہوئے.اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات کے بعد آپ نے اس بورڈ کی صدارت کے فرائض سرانجام دیئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے علاوہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب صدرصد را نجمن احمدیه مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صدر تحریک جدید ، مکرم حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر صدر وقف جدید ، مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ، حضرت مرزا عبد الحق صاحب ، مکرم چوہدری انورحسین صاحب اس کے ابتدائی ممبران تھے.(۴) اس بورڈ نے اپنے فرائض ادا کرنے شروع کئے.اور اس کے اجلاسات میں مختلف مسائل پیش کئے جاتے جن کا تعلق تینوں انجمنوں میں رابطے اور دیگر اہم جماعتی مسائل سے ہوتا.یہ بورڈ ۱۹۶۵ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی وفات تک کام کرتا رہا اور پھر اسے ختم کر دیا گیا.(۱) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۱ء ص ۳۵ تا ۴۶ (۲) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۲ء ص ۵۹ (۳) الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۶۱ء ص ۱ (۴) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۲ ء ص ۱۰

Page 591

581 وفات حضرت مرزا شریف احمد صاحب البی منشاء کے مطابق جب حضرت مسیح موعود کی شادی حضرت اماں جان سے ہوئی تو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس شادی سے ہونے والی اولاد کے متعلق اور بالخصوص ایک عظیم الشان فرزند کی بابت عظیم الشان خوش خبریاں عطا کی گئی تھیں.اس مبارک شادی سے ہونے والے ہر بچے کی پیدائش سے قبل اس کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہامات سے نوازا گیا تھا.ان مبارک وجودوں میں سے ایک حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا وجود بھی تھا.آپ کی پیدائش سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بابت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دی گئی تھی اور آپ کے متعلق یہ الہامات ہوئے تھے عمره الله على خلاف التوقع (۱) اللہ تعالیٰ اس کو خلاف توقع عمر دے گا امره الله على خلاف التوقع (۱) اللہ تعالیٰ اس کو خلاف توقع صاحب امر کرے گا مرادک حاصل (۱) تیری مراد حاصل ہو جائے گی پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اُس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں.ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ بادشاہ آیا.دوسرے نے کہا ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے.ایک مرتبہ آپ نے عالم کشف میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے متعلق کہا اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں.(۲) حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے خدائی الہامات کے مطابق بہت شاہانہ مزاج پایا تھا.تقسیم ملک کے بعد جب ہجرت کی وجہ سے مالی لحاظ سے تنگی کا زمانہ تھا ، اُسوقت بھی آپ اپنے

Page 592

582 بوجھوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہر ضرورت مند کی مدد فرماتے.مردانہ شجاعت آپ کی طبیعت کا ایک نمایاں وصف تھا.آزادی سے قبل جب احرار نے کچھ انگریز حکام کے تعاون سے جماعت کے خلاف شورش برپا کی ، اُسوقت حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت اور شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے صدر انجمن احمد یہ میں نظارت خاص کے نام سے ایک نظارت قائم فرمائی اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب گو اس کا ناظر مقر فرمایا.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل آپ کے شامل حال تھا.آپ کی بیدار مغزی اور حسن تدبیر سے احرار کی چالیں ناکام ہونے لگیں.دشمن نے آپ کو اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور ایک شخص حنیفا نے آپ پر لاٹھی سے حملہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ محفوظ رہے.۱۹۵۳ء کے فسادات میں بھی آپ کو گرفتار کیا گیا.آپ نے ہمیشہ اس قسم کے حالات کا مردانہ شجاعت کے ساتھ سامنا کیا.آپ کچھ عرصہ فوج میں بھی رہے اور احمد یہ ٹیریٹوریل فورس کا نظم ونسق بھی آپ کے سپر درہا..قدرت کی طرف سے ملین کل معاملات میں آپ کو ایک فطرتی صلاحیت عطا کی گئی تھی.قادیان میں پرسین مینوفیکچرنگ کے نام سے آپ نے ایک کارخانہ بھی قائم فرمایا تھا.اپنی وفات کے وقت آپ ناظر اصلاح و ارشاد کے عہدہ پر خدمات سرانجام دے رہے تھے.آپ ایک صائب الرائے ہستی تھے.آپ کی وفات کے بعد ناظر اعلیٰ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب نے بیان فرمایا کہ صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس کے دوران جب کسی معاملہ پر بحث ہوتی تو ہم خیال کرتے کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب اس معاملہ میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے.مگر جب ہم اپنی اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہوتے تو آپ سر بلند فرماتے اور ایسی مختصر مگر مدلل رائے کا اظہار فرماتے کہ ہم سب حیران رہ جاتے اور ان کی رائے قبول کی جاتی.بڑی سے بڑی فائل پیش ہوتی.آپ اسے سنتے اور ایسا مدلل فیصلہ تحریر فرماتے کہ یوں معلوم ہوتا کہ ایک ایک صفحہ آپ کے ذہن میں مستحضر ہے.جب نو وارد مربیان دفتر میں آتے تو آپ ان سے دینی معاملات پر گفتگو فرماتے اور ان کی قابلیت اور کردار کے متعلق رائے قائم فرما لیتے اور بعد میں ظاہر ہونے والے واقعات اس رائے کی حرف بحرف تصدیق کرتے تھے.(۳) آپ کو غریبوں سے بہت ہمدردی تھی.عسر ہو یا یسر ہو آپ اپنی مالی حالت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ضرورت مندوں کی مدد فرماتے.راہ چلتے چلتے کسی کو ضرورت مند محسوس کر کے اُس کے ہاتھ

Page 593

583 میں ایک خطیر رقم پکڑا دینا آپ کا معمول تھا.گو آپ نظام کے بہت قائل تھے مگر اپنے ماتحتوں کی تکلیف آپ کو بے تاب کر دیتی تھی اور آپ اسے دور کرنے کے لئے کوشاں ہو جاتے.آپ کو شکار کا بہت شوق تھا.ایک مرتبہ آپ ریاست کپورتھلہ میں شکار کی غرض سے تشریف لے گئے.دیر ہو جانے کی وجہ سے آپ کو ایک گاؤں میں رات گزارنی پڑی.اسی رات ، جس گھر میں آپ ٹھہرے تھے، اُن کا بچہ گم گیا اور با وجود تلاش کرنے کے نہ ملا.آپ کو خیال گذرا کہ انہیں یہ خیال نہ آئے کہ میری آمد کی وجہ سے وہ بچے کا خیال نہ کر سکے اور وہ گم گیا.اس پر آپ نے خاص توجہ سے خدا سے دعا کرنی شروع کی.دعا کی حالت میں غنودگی میں آپ کو دکھایا گیا کہ ایک بوڑھا شخص ایک بچے کو لے کر آ رہا ہے.آپ نے گھر والوں کو اسی وقت اطلاع دی کہ ایک بوڑھا شخص بچے کو گھر لے کر آئے گا.صبح جب آپ کی روانگی کا وقت ہوا تو ابھی بچہ گھر نہیں پہنچا تھا.اس پر آپ نے پھر دعا کی کہ میں اس حالت میں گھر والوں کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا.اے باری تعالیٰ میرے ہوتے ہوئے اس بچے کو گھر پہنچا دے.تھوڑی ہی دیر میں ایک معمر شخص گمشدہ بچے کو لے کر آ گیا اور گھر والوں نے خوشی خوشی حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو رخصت کیا.(۵،۴) آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود کو الہاماً بتایا گیا تھا کہ آپ کو خلاف توقع عمر ملے گی.جن دنوں میں طاعون زوروں پر تھی ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو شدید بخار ہو گیا.اور بیہوشی شروع ہوگئی اور بظاہر مایوس کن علامات ظاہر ہونی شروع ہو گئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے خیال آیا کہ اگر چہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑ کا ان دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام دشمن اس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اس پاک وحی کی تکذیب کریں گے جو اُس نے فرمایا ہے ان احافظ کلّ من فی الدار یعنی میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہے طاعون سے بچاؤں گا.جب حضرت مسیح موعود دعا کے لئے کھڑے ہو گئے تو معاً وہ حالت میسر آ گئی جو استجابت دعا کی ایک کھلی کھلی نشانی ہے.ابھی حضور نے تین رکعت پڑھی تھی کہ کشفاً دکھایا گیا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب بالکل تندرست ہیں.جب کشفی حالت ختم ہوئی تو دیکھا کہ آپ ہوش کے ساتھ چارپائی پر بیٹھے ہیں اور پانی مانگتے ہیں.نماز ختم کر کے حضرت مسیح موعود نے بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ آپ کا نام ونشان نہیں ہے (۱).اس کے

Page 594

584 بعد بھی کئی ایسے مواقع پیدا ہوئے کہ آپ کی زندگی کو خطرہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق آپ کو خلاف توقع عمر دیتا رہا.وفات سے بیس بائیس برس قبل ہی آپ کی صحت بہت کمزور رہنے لگی تھی.جوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے آپ کی بیماری کی شدت تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی کی ، جس کی وجہ سے بیماری کی تکلیف میں اضافہ ہو گیا تھا.آزادی کے بعد آپ کو تھر امبوسس کا حملہ ہوا اور آپ کے پیروں پر ورم رہنے لگ گئی تھی.چند ماہ سے آپ کے عوارض خطرناک صورتِ حال اختیا کر رہے تھے.کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ چلتے چلتے چکرا کر گر گئے اور چوٹ بھی لگی.اور کئی مرتبہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بیماری آپ کی مبارک زندگی کا سلسلہ منقطع کر دے گی مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے موافق آپ کو خلاف توقع عمر ملتی رہی.اور آپ نے ایک بلند حوصلہ کے ساتھ معمولات زندگی کو جاری رکھا.جلسہ سے کچھ دن قبل آپ گر گئے اور بازو پر چوٹ آئی.ایکس رے پر معلوم ہوا کہ بازو کی دونوں ہڈیاں فریکچر ہیں.مگر آپ نے کام جاری رکھا.جماعتی روایت ہے کہ جلسہ سالانہ سے ایک روز قبل افسر جلسہ سالانہ اور ناظر اصلاح وارشاد جلسہ گاہ کا ایک آخری معائنہ ایک ساتھ کرتے ہیں.چنانچہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے افسر جلسہ سالانہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ساتھ اکٹھے جلسہ گاہ کا معائنہ فرمایا.رات کو طبیعت خراب تھی کھانا کھا کر سوئے.صبح جلسہ کا پہلا روز تھا ، آپ کی بڑی صاحبزادی نے آپ کو چائے دی لیکن جلد آپ کو غنودگی شروع ہوگئی اور آپ کا سانس اکھڑنے لگا.فوراً ڈاکٹر مرزا منوراحمد صاحب آئے تو آپ پر نزع کا عالم تھا.مصنوعی سانس دلانے کی آخری کوششیں کی گئیں مگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر ظاہر ہو چکی تھی (۷).۲۶ دسمبر ۱۹۶۱ء کی صبح کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب اس دار فانی سے کوچ کر گئے.جب آپ کی اچانک وفات کی خبر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو دی گئی تو آپ نے انا لِلهِ و إنا اليه راجعون پڑھا اور فرمایا دعا کریں، دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.جب ایک مالا ٹوٹ جاتی ہے تو باقی موتی بھی اس میں سے باری باری گر جاتے ہیں.لہذا حضرت صاحب کی صحت کے لئے بہت دعائیں کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طبیعت خراب تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ حضور کو اطلاع دینے کے لئے گئے.اور

Page 595

585 حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں عرض کی 'بڑے بھائی اب ہم چار رہ گئے ہیں.یہ جلسہ سالانہ کا پہلا دن تھا.جلسہ سالانہ کے افتتاح کا وقت قریب آ رہا تھا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے بیماری کی وجہ سے اس تقریب میں شرکت نہیں کرنی تھی.پونے دس بجے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت مصلح موعودؓ کی تحریر فرمودہ تقریر پڑھنے کے لئے جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو پہلا جملہ آپ نے فرمایا کہ آج ہم تین بھائیوں میں سے دورہ گئے ہیں.یہ جملہ سنتے ہی جلسہ گاہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک سناٹا چھا گیا.پھر آپ نے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی وفات کا اعلان کیا.جلسہ گاہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک رنج والم کی لہر دوڑ گئی.شدت غم سے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے یہ پہلی وفات تھی.لوگوں کو یہ المناک خبر اتنی اچانک ملی تھی کہ بعض لوگ اچانک صدمے کی وجہ سے کھڑے ہو گئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے نہایت جلال سے فرمایا ' آپ لوگ بیٹھ جائیں.یہ ایک ایسا قافلہ ہے،اس کو میری یا آپ کی وفات نہیں روک سکتی (۸).حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے احباب کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا یہ وفات ایک خدائی امتحان ہے اور ایسے امتحان ہمیشہ خدائی جماعتوں پر آیا کرتے ہیں.اور خدائی جماعتوں پر جب نقص من الاموال والانفس کی گھڑیاں آتی ہیں تو وہ ہمت اور استقلال سے کام لیتی ہیں.پہلے بھی خوف آئے جو خدا نے فضل سے بدل دیے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے پاؤں میں ذرا بھی لغزش نہ آئے اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں.(۹) جلسہ سالانہ کے پہلے دن کے دوسرے اجلاس کے اختتام پر جنازہ بہشتی مقبرہ کے وسیع میدان میں لایا گیا.جہاں ہزاروں کی تعداد میں احباب جماعت جمع ہو چکے تھے.احباب نے قطاروں میں کھڑے ہو کر حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے چہرے کی زیارت کی.اور اس کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کا جنازہ پڑھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد اور آپ کے صحابہ کا وجود بہت سی برکات کا باعث تھا.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی وفات نئی نسل کے لئے ایک الارم کی حیثیت رکھتی تھی کہ اب

Page 596

586 یہ بزرگ وجود ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں اور اب خدائی سلسلہ کی ذمہ داریاں اُن کے کندھوں پر منتقل ہو رہی ہیں.اپنی وفات سے تین سال قبل حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی تقریر میں احباب جماعت کو ان الفاظ میں اُن کے فرائض کی طرف توجہ ولائی.روحانی تغیر اور ایمان کے اعلیٰ مدارج تک پہنچنے کے لئے صرف کتابیں اور لٹریچر اور تقاریر کافی نہیں، بلکہ وہ مقام جو کسی مامور من اللہ یا کسی برگزیدہ خدا کے فیض نظر سے ایک لمحہ میں کسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے.ناممکن ہے کہ وہ سینکڑوں سالوں میں بھی ہزاروں علمی کتابوں کے پڑھنے اور سننے سے حاصل ہو سکے.امام اور مرکز سے دلی لگاؤ دراصل ایمان کو ترقی دینے کے دو بڑے اہم اسباب ہیں.اور ہماری جماعت کے دوستوں کو ان دونوں کی اہمیت یقیناً پہلے سے بڑھ کر محسوس کرنی چاہئیے.آجکل مادیت کی لہریں پھر زور سے سر اُٹھا رہی ہیں اور دنیا داری کے خیالات خصوصاً نوجوان نسلوں کے اذہان میں پرورش پانا شروع ہو گئے ہیں، ان دونوں کا مؤثر علاج یہ ہے کہ امام جماعت ، نظامِ جماعت اور مقام جماعت یعنی مرکز سے گہری وابستگی اور دلبستگی پیدا کی جائے.اور ان کے دلوں میں ایک خاص محبت کا جوش لہریں مارنا شروع کر دے.(۷) (۱) تذکرہ ص ۶۰۹ ایڈیشن چهارم ۲۰۰۴، مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوه (۲) تذکره ص۵۸۴، ۴۰۵ ایڈیشن چهارم ۲۰۰۴ء مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ (۳) سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب ، ص ۶۳ تا ۶۵ (۴) الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۶۲ء ص۳ ( ۵ ) الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۶۲ء ص۳ (۶) روحانی خزائن ، جلد ۲۲ ص ۸۷، ۸۸ (۷) روایت صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ بنت حضرت مرزا شریف احمد صاحب (۸) انٹر ویو مکرم محمود احمد خان صاحب، جو MTA پر یکم ستمبر ۲۰۰۶ کو نشر ہوا (۹) الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۶۱ء ص ۱

Page 597

587 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب پر پابندی اور ان احکامات کی منسوخی اٹھارہویں صدی کے اختتام پر ہندوستان کے مسلمان ایک دور ابتلاء سے گذر رہے تھے.انگریز حکومت کے قیام کے بعد مختلف چرچوں کے پادری ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لوگوں کو عیسائی بنانے کے لئے سرگرم عمل تھے.مسلمانوں کی اکثریت اپنی پسماندگی کے باعث صحیح دفاع کرنے کے قابل بھی نہیں تھی.ایشیا اور افریقہ کے اکثر علاقے یورپ کی عیسائی حکومتوں کے محکوم تھے.عیسائی مشنری نہ صرف اس تسلط کا فائیدہ اٹھارہے تھے بلکہ اسے عیسائیت کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش بھی کرتے تھے.اس کا اندازہ اس ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے.۱۸۹۷ء میں امریکہ کے ایک مشنری ڈاکٹر جان ہنری بیروز ( Barrows) نے ہندوستان میں مختلف مقامات پر لیکچر دیئے.یہ صاحب ۱۸۹۳ء میں امریکہ میں ہونے والی پہلی مذہبی پارلیمنٹ کے صدر بنے تھے اور یونیورسٹی آف شکاگو میں پڑھانے کے علاوہ Presbyterian چرچ کے مشنری بھی تھے.انہوں نے ۱۸۹۶ء کے آخری دنوں میں ہندوستان میں قدم رکھا اور اور ایک طوفانی دورے کا آغاز کیا.اس دورے کے آغاز پر انہوں نے کلکتہ میں چھ لیکچر دیے.اس کے بعد وہ لکھنو گئے اور وہاں دو لیکچر دیئے، کانپور اور دہلی میں چار اور لاہور میں اُن کے پانچ لیکچر ہوئے ،اس کے بعد وہ امرتسر ، آگرہ، جے پور، اجمیر ،احمد نگر ، پونا، بنگلور ، مدراس اور دوسرے شہروں میں بھی گئے اور وہاں پر بھی اُن کے لیکچر ہوئے.ان کے لیکچروں کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ اب زمانہ ترقی کر رہا ہے.پہلے اسلام، ہندومت، بدھ مت اور عیسائیت نے چھوٹے چھوٹے اور علاقائی مذاہب کو ختم کیا تھا اور اب وقت آ گیا ہے کہ کہ تمام انسانیت ایک عالمی مذہب اختیار کرلے اور وہ اپنا یہ دعویٰ پیش کر رہے تھے کہ صرف عیسائی مذہب میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ اسے تمام بنی نوع انسان اپنے عالمی مذہب کے طور پر قبول کریں.ان کے لیکچروں کو اتنی شہرت دی جا رہی تھی کہ نہ صرف بڑے بڑے

Page 598

588 اخبارات نے ان کی تعریفوں میں کالم لکھے بلکہ ابھی ان کے دورے کو شروع ہوئے دو ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کے لیکچروں کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا اہتمام بھی کر دیا گیا.انگریز کی حکومت تھی.پوری دنیا میں سفید فام اقوام کا راج تھا.بڑے بڑے دیسی رؤسا اور ہندوستان کی ریاستوں کے راجے مہاراجے بیروز صاحب کے اعزاز میں دعوت دینا اپنے لئے فخر سمجھتے تھے.اس دور میں جب کہ پوری دنیا پر پر عیسائی فرمانرواؤں کی حکومتیں قائم تھیں ، بیروز صاحب کے دلائل بھی ایک حاکمانہ کروفر لئے ہوئے تھے.انہوں نے اپنے پہلے لیکچر میں کہا کہ اب اسلام تلوار کی بجائے پریس کا استعمال کر رہا ہے (۱) لیکن بنیادی طور پر اسلام ایک مشرقی مذہب ہے اور یہ مغربی فضا میں سانس نہیں لے سکتا.نہ معلوم انہوں نے کس قرآنی آیت سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے دین کو پھیلانے کی تلقین کرتا ہے.جب دلیل دینے کا موقع ہوتا تو وہ بجائے دلیل بیان کرنے کے اپنی طرح کی کسی مغربی شخصیت کا قول پڑھ دیتے.گویا کہ جو کچھ مغربی مفکرین نے کہہ دیا وہ حرف آخر ہے.اس سے کچھ عرصہ قبل مغربی طاقتوں نے آپس میں افریقہ کی بندر بانٹ کی تھی.چنانچہ افریقہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا افریقہ کی تقسیم میں ایک کروڑ پندرہ لاکھ مربع میل میں سے صرف پندرہ لاکھ مربع میل باقی رہ گیا.اور اس عظیم تقسیم کے نتیجے میں صرف تر کی ایک اسلامی حکومت ہے جس کا وجود اس تاریک بر اعظم پر باقی ہے.محمڈن ازم جس طرح قسطنطنیہ اور افریقہ میں قائم ہے، وہ ہماری انسان دوست صدی سے مطابقت نہیں رکھتا.اب جب کہ دنیا میں صرف ایک طاقتور مسلمان بادشاہ بیچ گیا ہے اور اسے صرف روس اور برطانیہ کی چپقلش کی وجہ سے یورپ میں رہنے کی اجازت ملی ہوئی ہے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ محمد ن ازم تمام انسانیت کو فتح کرنے میں کامیاب ہو جائے گا.(۲) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیروز صاحب اور ان جیسے پادریوں کے نزدیک کسی مذہب کے غالب آنے کے لئے سیاسی غلبہ اور دوسری اقوام پر اقتدار ہونا نہایت ضروری تھا.یعنی ان جیسے مسیحی مبلغین کے نزدیک صرف وہی مذہب ایک عالمی مذہب بننے کے اہل ہے اور وہی مذہب انسانیت کے دلوں کو فتح کرے گا جس کی سب سے بڑی حکومتیں دنیا میں قائم ہوں ، خواہ یہ سلطنتیں کمزور اقوام کی آزدی

Page 599

589 کو سلب کر کے کے بنائی گئی ہوں.پہلے ہی لیکچر میں انہوں نے مسیحی مذہب کی برتری بیان کرنے کے لئے کسی انگریز سکالر کا یہ حوالہ پیش کیا.عیسائیت کا عالم آج اتنا وسیع ہے جتنا پہلے کبھی نہیں تھا.تم دیکھ سکتے ہو کہ ہماری ملکہ جس کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا وہ ناصرہ کے مصلوب کی خانقاہ پر تابعداری کے ساتھ جھکتی ہے.یا پھر گاؤں کے گر جا میں جا کر نظر دوڑاؤ، وہ سیاسی مد بر جو ایک عالمگیر حکومت کی قسمت کے فیصلے کرتا ہے، جب مسیح کے نام پر دعا کرتا ہے تو عاجزی سے اپنا سر جھکاتا ہے.جرمنی کے نوجوان قیصر کو دیکھو وہ اپنے لوگوں کے لئے پادری کے فرائض سرانجام دیتا ہے اور انجیلی مذہب سے اپنی وفاداری کا عہد کرتا ہے، جو یسوع کی تخلیق ہے.اور مشرقی انداز میں ماسکو کے شاہانہ ٹھاٹھ میں زار روس کو دیکھو.تاجپوشی کے وقت ابنِ آدم کے طشت میں رکھ کر اُسے تاج پیش کیا جاتا ہے.اور وسیع مغربی ریپبلک (یعنی امریکہ) کا ایک کے بعد دوسرا صد ر سادہ مگر گہرے انداز میں ہمارے خداوند کے ساتھ اظہار فرمانبرداری کرتا چلا جاتا ہے.امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور روس کے حکمران یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ یسوع مسیح کے وائسرائے ہیں.(۳) مذہب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کا اپنے خدا سے ایک زندہ تعلق پیدا کرے.اور اسے حقوق اللہ اور اپنے جیسے انسانوں کے حقوق ادا کرنا سکھائے.اگر یہ پرکھنا ہے کہ کون سا مذہب ایسا ہے کہ تمام انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کر سکے تو یہ دیکھنا چاہئیے کہ وہ کون سا مذ ہب ہے جو مذکورہ بالا امور میں تمام انسانیت کی راہنمائی کر سکتا ہے.ایک عالمی مذہب کی تلاش کا معیار یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کے پیروکار بادشاہوں کے تاج کتنے قیمتی ہیں یا تخت کتنے شاہانہ ہیں یا انہوں نے کتنی زیادہ کمزور اقوام کو بزور شمشیر اپنا غلام بنایا ہوا ہے.بیروز صاحب اور اُن جیسے دوسرے پادریوں کے دلائل کے اس انداز کوکوئی صاحب عقل قبول نہیں کر سکتا.ان کے دوسرے لیکچر میں بلی مکمل طور تھیلے سے باہر آگئی.اس عسکری غلبے پر انحصار کر کے کے عالم اسلام کے متعلق عیسائیت کے ان منادیوں کے منصوبے کیا تھے؟ بیروز صاحب نے اس لیکچر میں اعلان کیا اب میں مسلمانوں کے ممالک میں تحریک کا نقشہ کھینچتا ہوں.لبنان اور فارس کے

Page 600

590 پہاڑوں پر اور باسفورس کے پانیوں پر بھی صلیب کی شعائیں پہنچ رہی ہیں اور یہ اُس روز کا یقینی پیش خیمہ ہے جب قاہرہ، دمشق اور تہران یسوع مسیح کے غلام ہوں گے.اور عرب کا سکوت بھی ٹوٹے گا اور مسیح اپنے مریدوں کے روپ میں مکہ کے کعبہ میں داخل ہوگا اور پھر وہاں پر مکمل سچ بولا جائے گا.یہ ابدی زندگی ہے تا کہ وہ تجھے جائیں.تو جو ایک ہی سچا خدا ہے اور مسیح جسے تو نے بھیجا ہے.(۴) پادریوں کے عزائم واضح تھے.اب وہ دنیا سے اسلام کو مٹانے کے خواب دیکھ رہے تھے.اپنے مذہب کے غلبہ کے لئے دنیاوی چکا چوند کا سہارا لینا صرف بیروز صاحب تک محدود نہیں تھا.اُس زمانے میں یہ ایک عام طریق تھا.چنانچہ ۱۹۰۴ء میں جب چرچ کی طرف سے اپنے مشن کی سرگرمیوں پر کتاب The Missions of church missionary society and the church of England Zenana missionary society in The Punjab and Sindh شائع کی تو اس کے شروع میں ایک صفحے پر انگریز گورنروں اور بڑے افسران کی تصویریں نمایاں کر کے شائع کرنا ضروری خیال کیا.ان تصویروں کے نیچے عنوان درج کیا گیا تھاOur Christian Rulers.اُس دور میں ملک انگریزوں کے قبضے میں تھا.اس طریق پر چرچ کمزور دلوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کر رہا تھا.اسی دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت تمام انسانیت کو اپنے خالق کی طرف بلا رہے تھے.آپ نے بیان فرمایا کہ زندہ مذہب وہ مذہب ہے جو خدا شناسی کا ذریعہ بنے جس کی صحیح تعلیمات پر عمل کر کے انسان کو یقین حاصل ہو، اس کی دعائیں قبول ہوں.اس پس منظر میں ، اسی سال ۱۸۹۷ء کے دوران ، ایف سی کالج لاہور کے ایک پروفیسر سراج دین صاحب قادیان آئے.یہ صاحب پہلے مسلمان تھے مگر پھر انہوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا.جب آپ چند دن قادیان میں رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عیسائیت اور اسلام سے متعلق مختلف مسائل پر گفتگو کی تو پھر اسلام کی فضیلت کے قائل ہو گئے.اور نماز بھی پڑھنے لگ گئے مگر جب لاہور واپس گئے تو پھر پادریوں کے جال میں آگئے اور عیسائیت اختیار کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں چار سوال بھجوائے.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے ان اعتراضات کا جواب تحریر فرمایا

Page 601

591 اور عام فائدہ کے لئے ان جوابات کو شائع بھی فرما دیا.اس کے آخر میں آپ نے اس پر شوکت انداز میں اسلام پر حملہ کرنے والے عیسائیوں کو چیلنج دیا.ان میں کوئی بھی نہیں ہاں ایک بھی نہیں جس میں ایمان کی نشانیاں پائی جاتی ہوں.اگر ایمان کوئی واقعی برکت ہے تو بیشک اُس کی نشانیاں ہونی چاہئیں مگر کہاں ہے کوئی ایسا عیسائی جسمیں یسوع کی بیان کردہ نشانیاں پائی جاتی ہوں؟ پس یا تو انجیل جھوٹی ہے اور یا عیسائی جھوٹے ہیں.دیکھو قرآنِ کریم نے جو نشانیاں ایمانداروں کی بیان فرمائیں وہ ہر زمانہ میں پائی گئی ہیں.قرآن شریف فرماتا ہے کہ ایمانداروں کو الہام ملتا ہے.ایماندار خدا کی آواز سنتا ہے.ایماندار کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوتی ہیں.ایماندار پر غیب کی خبریں ظاہر کی جاتی ہیں.ایماندار کے شاملِ حال آسمانی تائید میں ہوتی ہیں.سو جیسا کہ پہلے زمانوں میں یہ نشانیاں پائی جاتی تھیں اب بھی بدستور پائی جاتی ہیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن خدا کا پاک کلام ہے اور قرآن کے وعدے خدا کے وعدے ہیں.اُٹھو عیسائیو! اگر کچھ طاقت ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے بیشک ذبح کردو.(۵) اس کے جواب میں عیسائی منادوں نے خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا.۶۵ سال تک اس کتاب کی اشاعت ہوتی رہی.اچانک ۱/۸ اپریل ۱۹۶۳ء کو مغربی پاکستان کی حکومت نے اس کتاب کو ضبط کر کے اس پر پابندی لگا دی.چنانچہ اس غرض کے لئے مغربی پاکستان کی حکومت کی طرف سے نمبر 2/61-No.4/51-H-Spl نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا.اس میں تحریر کیا گیا تھا کہ گورنر مغربی پنجاب اس بات کا اطمینان کر چکے ہیں کہ پمفلٹ سراج دین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب جو الشركة الاسلامیہ ربوہ سے شائع ہوا تھا کے صفحہ ۴،۳ ، ۷، ۲۲،۱۴،۸، ۲۸ اور ۶۱ پر ایسا مواد موجود ہے جس کے نتیجے میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ، بالخصوص احمدیوں کے ساتھ رنجش اور نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے.جو پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس ۱۹۶۰ء کے سیکشن ۲۳ ہبسیکشن ا، کلازز کے تحت آتا ہے.چنانچہ اس آرڈینینس کے سیکشن ۳۶ کے تحت جو گورنر کو اختیارات حاصل ہیں گورنر

Page 602

592 مغربی پاکستان یہ حکم جاری کرتے ہیں کہ اس کی تمام کا پیاں حکومت کے پاس جمع کرادی جائیں.یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ پابندی مسلمانوں کی حکومت کی طرف سے لگائی جارہی تھی.انہوں نے ہیروز کے لیکچروں پر یا مغربی مصنفین کی ان کتابوں پر تو پابندی نہیں لگائی جن میں حضرت محمد مصطفے پر بے جا اعتراضات کئے گئے تھے لیکن جو کتاب آنحضرت ﷺ اور اسلام کے دفاع اور تائید میں لکھی گئی تھی اسے ضبط کر لیا گیا.یہ ظالمانہ فیصلہ دنیا بھر کے مسلمانوں بالخصوص احمد یوں کی شدید دل آزاری کا باعث بنا.اس موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے یہ نوٹ شائع کیا گیا.جیسا کہ احباب جماعت کو معلوم ہو چکا ہے حکومت مغربی پاکستان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب "سراج دین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ضبط کر لی ہے.قطع نظر اس کے کہ وہ ہمارے نزدیک ایک مامور من اللہ کی کتاب ہے.حکومت کا یہ فیصلہ کئی لحاظ سے انتہائی غیر منصفانہ ہے کیونکہ (۱) دنیا جانتی ہے کہ یہ کتاب آج سے پیسٹھ سال قبل شائع ہوئی تھی.(۲) اس کے بعد بھی وہ متفرق سالوں میں کئی دفعہ چھپتی رہی اور اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.(۳) یہ کتاب نہ صرف ابتداء بلکہ غالباً دوسری تیسری دفعہ بھی عیسائی حکومت کے زمانہ میں چھپی تھی.(۴) جیسا کہ اس کتاب کا نام ظاہر کرتا ہے یہ کتاب ایک عیسائی کے سوالوں کے جواب میں لکھی گئی تھی.با وجود ان تمام باتوں کے یہ کتنی نا انصافی کی بات ہے کہ عیسائی حکومت نے تو اپنے سالہا سال کے دور میں اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا.مگر پینسٹھ سال کے بعد آ کر مسلمان حکومت نے اس پر ایکشن لینا ضروری خیال کیا.جماعت کے دوستوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے ضروری قانونی کاروائی کی جارہی ہے.مقامی جماعتوں کی اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس

Page 603

593 معاملہ میں دوستوں میں بڑا اضطراب اور رنج و غم کی کیفیت پائی جاتی ہے.مگر بہر حال انہیں چاہئیے کہ پُر امن رہتے ہوئے دعاؤں میں لگے رہیں.(۶) جماعت کی طرف سے اس پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک میمورنڈم حکومت کو بھجوایا گیا.اس میں لکھا گیا کہ حکومتی حکم نامے کی خبر اخبار میں شائع ہوئی ہے مگر ابھی تک کسی جماعتی ادارے کو براہ راست اس کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی.اور یہ کتاب اتنا عرصہ سے شائع ہورہی تھی اور اصل میں عیسائیوں کے ان اعتراضات کے جواب میں تھی جو وہ آنحضرت ﷺ کی ذاتِ اقدس پر اور اسلام پر کر رہے تھے.اور ایک عرصہ گذر جانے کے باوجود نہ عیسائی حکومت کے دور میں اس پر پابندی لگائی گئی اور نہ کسی عیسائی تنظیم کی طرف سے اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ ہوا.اس میمورنڈم میں جماعت کی طرف سے گورنمنٹ کو لکھا گیا کہ ہم موجودہ عیسائی لٹریچر سے ایسے بیسیوں ایسے حصے پیش کر سکتے ہیں جو قرآن کریم کی ہتک ، آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس پر اتہامات اور اسلام پر اعتراضات پر مشتمل ہیں.جن کی زبان ہرگز عالمانہ نہیں اور قطعا یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کتب تحقیق کی نیت سے لکھی گئی تھیں.اور اس میمورنڈم میں لکھا گیا کہ اس امر کے ذکر کی ضرورت نہیں کہ کسی عقیدہ پر خالص علمی رنگ میں تنقید کرنا دل آزاری اور منافرت انگیزی کے مترادف نہیں.اور پاکستان کے موجودہ آئین میں ہر فرد کو مذہب اور تحریر کی ضمانت دی گئی ہے.اور اُن ممالک میں جہاں غالب اکثریت عیسائیوں کی ہے ایسی خالص علمی ریسرچ کو کبھی نہیں روکا گیا.اس ضبطی پر احتجاج صرف جماعت احمد یہ تک محدود نہیں تھا.بہت سے غیر از جماعت شرفاء نے بھی اس حکم کے خلاف آواز بلند کی.چنانچہ جھنگ سے قومی اسمبلی کے ممبر غلام حیدر بھروانہ صاحب نے بھی صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب کو اس اقدام پر خط لکھا اور لکھا کہ یہ فیصلہ غیر دانش مندانہ، غیر منصفانہ اور غیر ضروری تھا.اور یہ امر قابل افسوس ہے کہ یہ کتاب ایک عیسائی حکومت کے دور میں شائع ہوئی اور اسے ایک مسلمان حکومت کے دور میں ضبط کر لیا گیا.جبکہ یہ کتاب عیسائی عقائد کے رد میں لکھی گئی تھی.اور یہ مطالبہ کیا کہ اس حکم کو فوری طور پر واپس لیا جائے.اسی طرح چنیوٹ کی بار ایسوسی ایشن نے بھی اس حکم کے خلاف قرار داد منظور کی.

Page 604

594 اس موقع پر نظامِ جماعت نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی قیادت میں اس حکم کی منسوخی کی کوششیں شروع کیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اس امر کی اتنی شدید بے قراری تھی کہ یہ پابندی جلد از جلد ختم ہو جائے.وہ با وجود کمزور صحت کے ہمہ وقت اس جہاد میں مشغول تھے.ان کے لئے اس فکر نے ایک علیحدہ مرض کی صورت اختیار کر لی تھی.(۷) پاکستان اور بیرون پاکستان کی جماعتوں نے اس موقع پر بہت قابل قدرردعمل کا مظاہرہ کیا.وہ اس موقع پر اسلامی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جان ہو کر اُٹھ کھڑے ہوئے.ریزولیشنوں اور احتجاجی نوٹوں سے حکومتی افسران اور اخبارات کے سامنے اس کثرت سے اپنے دلی رنج و غم کا اظہار کیا کہ گویا ایک سیلاب آ گیا ہو.بالآخر یہ کاوشیں اور دعائیں رنگ لائیں اور تقریباً ڈیڑھ ماہ کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ منسوخ کر دیا (۸).مخالفین ہمیشہ سے جماعت کے لٹریچر سے خوف زدہ رہے ہیں.اب تک پاکستان میں جماعتی لٹریچر پر پابندیاں لگانے کی ایک لمبی تاریخ رقم کی گئی ہے اور یہ ایک ابتدائی کوشش تھی جو کہ وقتی طور پر کامیاب نہیں ہوسکی.لیکن دشمن کا ہدف یہی رہا کہ جماعت کے لٹریچر کولوگوں تک کسی قیمت پر نہ پہنچنے دو.(1) The Barrows Lectures, by John Henry Barrows, The Christian Literary Society for INDIA Madras 1897, page 13 (The Barrows Lectures, by John Henry Barrows, The Christian Literary Society for INDIA Madras 1897, page 21,22 (۳),The Barrows Lectures,by John Henry Barrows,The Christian Literary Society for INDIA Madras,1897,page 19 (M)The Barrows Lectures, by John Henry Barrows, The Christian Literary Society for INDIA Madras1897,page 42 (۵) روحانی خزائن ، جلد ۲ ص ۳۷۴ (۶) الفضل ۳ مئی ۱۹۶۳ء ص ۱ (۷) حیات بشیر مصنفہ عبد القادر صاحب ،ص ۲۴۳ ۲۴۴ (۸) الفضل یکم جون ۱۹۶۳ء ص ۱

Page 605

595 وفات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب عظیم الشان الہی بشارات کے مطابق حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی پیدائش ہو چکی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک اور عظیم فرزند کی بشارت دی گئی.جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام میں شائع فرمایا.اس الہام کے الفاظ یہ تھے يــاتــى قـمـر الانبياء و امـــرك يتاتى يسر الله وجهك و ينير برهانک.سیولدلک الولدوید نی منک الفضل یعنی نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہو جائے گا.خدا تیرے منہ کو بشاش کریگا.اور تیرے برھان کو روشن کر دے گا.اور تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا.(۱) اس کی اشاعت کے چند ماہ کے بعد ۲۰ اپریل ۱۸۹۳ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت ہوئی.اس نشان کے پورا ہونے پر اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار تحریر فرمایا جو پنجاب پریس سیالکوٹ سے شائع ہوا.اس میں آپ نے مذکورہ بالا پیشگوئی کا ذکر کر کے تحریر فرمایا سو آج ۲۰ اپریل ۱۸۹۳ء کو وہ پیشگوئی پوری ہوگئی.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو خود اپنی زندگی کا اعتبار نہیں.چہ جائیکہ کہ یقینی اور قطعی طور پر یہ اشتہار دیوے کہ ضرور عنقریب اُس کے گھر میں بیٹا پیدا ہوگا.خاصکر ایسا شخص جو اس پیشگوئی کو اپنے صدق کی علامت ٹھہراتا ہے.اور تحدی کے طور پر پیش کرتا ہے.(۲) اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بشارات کے مطابق آپ کی شاندار صلاحیتیں شروع سے ہی نمایاں ہو کر سامنے آ رہی تھیں.ابھی آپ کی عمر اٹھارا برس کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ حضرت خلیفہ امسیح الاول نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ کا ممبر نامز دفرمایا.اور اس کے ساتھ با قاعدہ طور پر آپ نے خدمت دین کا آغاز فرمایا اور وفات تک کامل وفا کے ساتھ خدمت اسلام پر کمر بستہ رہے.شروع ہی سے آپ کی

Page 606

596 طبیعت خدمت دین اور دینی علوم کے حصول کی طرف اتنی مائل تھی کہ جب آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے تو جلد ہی آپ کی قابلیت کی وجہ سے سب آپ کا احترام کرنے لگ گئے.مگر آپ نے کالج کو اس لئے الوداع کہہ دیا کہ قادیان میں حضرت خلیفتہ اسی لاول کی خدمت میں حاضر ہو کر قرآن کریم کے درس میں شامل ہو سکیں.حضرت خلیفہ مسیح الاول پہلے دن میں دو مرتبہ قرآنِ کریم کا درس دیتے تھے لیکن اب آپ نے دن میں تین مرتبہ درس دینا شروع فرما دیا.خلافت ثانیہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب روز و شب خدمت دین پر کمر بستہ ہو گئے.صدر انجمن احمدیہ کی مختلف نظارتوں کے فرائض ہوں، یا صدر انجمن احمد یہ کے قوانین کی تدوین ہو، ہجرت کا پُر آشوب دور ہو یا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی علالت کے نازک دور میں نگران بورڈ کی صدارت، آپ ہر موقع پر اپنے عظیم بھائی کے دست و بازو بن کر خدمت دین پر کمر بستہ نظر آتے ہیں.آپ کی خدمات صرف انتظامی میدان تک محدود نہیں تھیں.آپ ایک بلند پایہ محقق اور مصنف بھی تھے.آپ کی تحریر میں ہر بات دلیل اور حوالہ کے ساتھ لکھی ہوتی تھی.مخالفین کے اعتراضات کا جواب اس جامع اور مدلل طریق پر دیتے کہ کوئی بھی پہلو اس گرفت سے باہر نہ رہتا.آپ نے ۳۲ تصانیف تحریر فرمائیں.جس وقت آپ نے سیرت خاتم النبین تحریرفرمائی ، اس دور میں مستشرقین کی طرف سے آنحضرت میے کی مبارک زندگی پر بہت سی کتب شائع کی جارہی تھیں.ان میں سے اکثر تعصب سے آلودہ تھیں اور آپ پر طرح طرح کے اعتراضات کئے جا رہے تھے.آپ نے تمام تاریخی حقائق کو اس خوبصورتی سے پیش کیا کہ ، وہ تمام اعتراضات دھواں ہو کر اڑنے لگے.اسی طرح جب آپ نے محسوس فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کے صحابہ ایک ایک کر کے اس عالم فانی سے رخصت ہو رہے ہیں تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روایات جمع فرمائیں اور یہ روایات سیرت المہدی کے نام سے کئی جلدوں میں شائع ہوئیں.یہ کتاب آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی خزانہ ہے.تمام تر مصروفیات کے باوجود آپ احباب جماعت سے ذاتی تعلقات رکھتے اور ان کی تربیت کے لئے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے کوشاں رہتے.باوجود تمام علم اور خدمت دین کے اور با وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک موعود بیٹا ہونے کے آپ انکسار اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا ایک نمونہ تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیماری کے ایام میں آپ کا مبارک وجود

Page 607

597 احمدیوں کے لئے ایک سہارا تھا.اور حضور کی بیماری میں آپ کے فرائض میں پہلے سے بھی بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا.آپ نگران بورڈ کے صدر بھی تھے اور نگران بورڈ کے فیصلوں کے واجب العمل ہونے کے لئے ضروری تھا کہ آپ کی رائے اس فیصلے کے حق میں ہو.اور جب بیماری کی وجہ سے حضور کے لئے مجلس مشاورت کی صدارت کرنا ممکن نہ رہا تو حضور کے حکم کے تحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اس ذمہ داری کو ادا فرماتے رہے.خواہ جماعت میں کوئی تربیتی مسئلہ ہو یا بیرونی مخالفین کی ریشہ وانیوں کا سدِ باب کرنا ہو ، آپ با وجود کمزوری صحت کے مستعدی سے ان فرائض کو ادا فرماتے.۱۹۶۳ء میں آپ نے محسوس فرمایا کہ پاکستان کی جماعت میں بے پردگی کا رحجان بڑھ رہا ہے.تو آپ نے الفضل میں ایک اعلان شائع فرمایا کہ غیر از جماعت لوگوں کی نقل میں بعض کمزور طبیعتوں میں بے پردگی کا رحجان پیدا ہو رہا ہے، اس لئے جماعت کو چاہئیے کہ وہ اس غیر اسلامی رحجان سے بچ کر رہیں اور اسلامی تعلیمات کا نمونہ دکھا ئیں.اور یہ تاکید فرمائی کہ نہ صرف مقامی جماعتوں کو اس رحجان کا سدِ باب کرنا چاہئیے بلکہ مرکز کو بھی اس بارے میں مطلع کرنا چاہئیے.اور اگر امراء اس ضمن میں رپورٹ نہیں کریں گے تو وہ بھی مجرم سمجھے جائیں گے.(۳) گذشتہ چند سالوں کی طرح حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۶۳ء کی مجلس مشاورت کی صدارت کے لئے آپ کو مقر فرمایا.آپ نے کرسی صدارت پر رونق افروز ہو کر فرمایا کہ حضرت خلیفہ اسیح کی یہ ذرہ نوازی ہے کہ مجھے اس کام کے لئے پھر منتخب فرمایا ہے.گویہ سال میرا کافی بیماری اور کمزوری کی حالت میں گزرا ہے میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں اس کے منشاء کے مطابق ان فرائض کو سرانجام دے سکوں جو اسلام کے لئے مفید اور بابرکت ہوں.“ اس کے بعد آپ نے دعاؤں کی طرف توجہ دلائی اور اجتماعی دعا کے بعد کا روائی کا آغاز ہوا.آپ نے پہلے اجلاس میں کمیٹیوں کے انتخاب سے پہلے اپنا ایک مکتوب پڑھ کر سنایا جو امراء جماعت کو بھیجا گیا تھا.اس میں آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ مختلف ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اب پھر جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفت کا سیلاب تیزی سے اُٹھ رہا ہے اور ختم نبوت کے عقیدہ کی آڑ لے کر اور دیگر اعتراضات اٹھا کر جماعت کے خلاف عوام کو اور حکومت کو اکسایا جا رہا ہے اور سازش یہ معلوم ہوتی

Page 608

598 ہے کہ ۱۹۵۳ء والے حالات پیدا کر دئیے جائیں.پس میں جماعت کے امیروں اور دیگر دوستوں کو ہوشیار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ خُذُوا حِذْرَكُمْ کے ماتحت ہوشیار اور چوکس رہیں.اور اس کے بعد آپ نے وہ احتیاطی تدابیر تحریر فرمائیں جو اس موقع پر اختیار کرنی ضروری تھیں.ہر الہی جماعت میں خدا کے مامور کے تربیت یافتہ لوگ ایک ستون کی حیثیت رکھتے ہیں.جب کبار صحابہ ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہونے لگیں تو یہ موڑ ان جماعتوں کی تاریخ کا ایک نہایت نازک موڑ ہوتا ہے اور ان مقدس وجودوں کا رخصت ہونا ایک عظیم آزمائش کا درجہ رکھتا ہے.اور اس وقت ان میں کمزوریوں کے راہ پانے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے.ہم اس وقت احمدیت کی تاریخ کے جس دور کا ذکر کر ہے ہیں وہ ایسا ہی دور تھا.بہت سے کبار صحابہ ایک ایک کر کے اس عالم فانی سے رخصت ہو رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی وفات پر ابھی ڈیڑھ سال بھی نہیں گذرا تھا.اور حضرت مصلح موعود کی علالت کے باعث تمام احمدیوں کے دل غم زدہ تھے.گوسب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مقدس وجود کی درازی عمر کے لئے دعا گو تھے مگر خدا تعالیٰ کی تقدیر یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ اب چند ماہ کے بعد آپ اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں.اس پس منظر میں آپ نے ایک رؤیا دیکھی اور اسے مجلس مشاورت کے پہلے اجلاس میں بیان بھی فرمایا.اس رؤیا سے ظاہر ہوتا تھا کہ آزمائشوں کا ایک وقت قریب آرہا ہے.آپ نے بیان فرمایا..غالباً دو ہفتہ پہلے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور نہایت نورانی اور پاکیزہ چمکتا ہوا چہرہ.آپ ایک آرام کرسی پر یا تخت پوش پر ٹیک لگا کر بیٹھے تھے اور پاؤں ذرا پھیلائے ہوئے تھے.آپ کے سامنے ہماری ماموں زاد بہن سیدہ نصیرہ بیگم (جو میاں عزیز احمد صاحب کی بیوی اور ہمارے ماموں میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کی بیٹی ہیں) بیٹھی ہوئی تھیں.کچھ اور لوگ بھی تھے مگر میں ان کو پہچانتا نہیں.صرف ان کو میں نے پہچانا.جب میں اندر گیا تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں السلام علیکم عرض کیا.بڑا صاف اور چمکتا ہوا چہرہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وعلیکم السلام کہا اور مجھے کہا کہ میاں اب کیا ہوگا ؟ ایسا جیسے فکر کا انداز ہوتا ہے.گویا کسی

Page 609

599 آنے والے خطرے کی طرف اشارہ فرماتے ہیں.میں نے اس کے جواب میں عرض کیا اللہ تعالی کا فضل چاہئیے.پھر تھوڑی دیر تامل کرنے کے بعد میں نے کہا' یہ سب کچھ آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہو رہا ہے.بس اس کے بعد آنکھ کھل گئی.(۴) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایک عرصہ سے بیمار رہ رہے تھے.دس سال قبل آپ پر دل کا حملہ بھی ہوا تھا اور ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ آپ کے دل پر بیماری کا کافی اثر ہے.اس کے علاوہ ذیا بیطیس اور ہائی بلڈ پریشر کے عوارض بھی شروع ہو چکے تھے.بسا اوقات آپ کو بے خوابی کی شکایت ہو جاتی جس سے تکلیف میں اضافہ ہو جاتا.جون ۱۹۶۳ء میں آپ کی طبیعت مزید خراب ہو گئی.اُن دنوں میں گرمی زوروں پر تھی اس لئے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ آپ کسی سرد مقام پر جا کر آرام فرما ئیں.آپ سفر سے گبھراتے تھے اور زیادہ تر مرکز میں رہنا پسند فرماتے تھے، اس لئے پہلے تو آپ اس کے لئے رضامند نہیں ہوئے.مگر پھر کچھ احباب نے زور دے کر آپ کو آمادہ کر لیا.اس مقصد کے لئے مری کے قریب گھوڑا گلی کا انتخاب کیا گیا.پروگرام تو یہ تھا کہ آپ سات آٹھ ہفتے وہاں قیام کریں گے لیکن آپ کو وہاں پر گبھراہٹ شروع ہوگئی اور اٹھارا نیس دن وہاں رہنے کے بعد آپ لا ہور تشریف لے آئے.وہاں پر آپ کا قیام ریس کورس روڈ پر اپنی کوٹھی میں تھا.لاہور میں ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بنا، جنہوں نے مشورہ کر کے نئی ادویات شروع کیں.آپ کو بہت زیادہ بے چینی تھی.آپ ذکر فرماتے تھے کہ آپ کو بہت منذ ر خواب آئے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ کا وقت قریب ہے.دوست عرض کرتے کہ خواب تو تعبیر طلب ہوتے ہیں لیکن آپ کو اپنی وفات کا یقین ہو چکا تھا.ڈاکٹر آپ کا معائنہ کر کے کہتے کہ نبض اور بلڈ پریشر ٹھیک ہیں تو آپ اپنے بڑے بیٹے محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سے کہتے "مظفر آپ ڈاکٹروں کی باتوں پر نہ جائیں.اب مجھ میں کچھ باقی نہیں رہا اور میں نے متواتر خوابیں دیکھی ہیں.لاہور میں ایک آسٹریلین ڈاکٹر ملر نے بھی آپ کا معائنہ کیا اور رائے دی کہ کوئی وجہ نہیں کہ آپ صحت یاب نہ ہوں اور وثوق سے کہا کہ چند ہفتوں میں بہتری کا آغاز ہو جائے گا.مگر دوسرے ہی دن آپ کو حرارت شروع ہوگئی.دوسرے دن ٹسٹوں سے سینے میں نمونیہ کی تصدیق ہو گئی.بخار میں تشویشناک اضافہ ہو گیا اور سانس میں رکاوٹ پیدا ہونے لگی اور بیہوشی شروع ہو گئی.ڈاکٹر اپنی کوششیں کر رہے تھے مگر بیماری کی شدت

Page 610

600 میں اضافہ ہو رہا تھا اور سانس کی تکلیف اور غنودگی بڑھ رہی تھی.حضرت مصلح موعودؓ کو جب آپ کی علالت کی خبر ملی تو آپ کی طبیعت بے چین رہنے لگی اور آپ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی بیماری کے بارے میں بار بار دریافت فرماتے.ربوہ اور دیگر جماعتوں میں اجتماعی دعائیں کی گئیں.اور حضور کی طرف سے اور اہلِ ربوہ کی طرف سے صدقہ کے لئے بکروں کی قربانی کی گئی (۷).مگر خدا کی تقدیر مبرم کے ظاہر ہونے کا وقت آچکا تھا.۲ ستمبر کو جب آپ کی کوٹھی میں مغرب کی نماز کھڑی ہو رہی تھی کہ آپ کا سانس رک گیا.مصنوعی سانس دلانے کی کوششیں کی گئیں مگر بے سود، آپ کو مولا کا بلا وہ آچکا تھا.آپ کی روح مالک حقیقی کے حضور حاضر ہوگئی.(۵) آپ کا جسد خا کی اسی رات کو ربوہ لایا گیا.ریڈیو پر آپ کی وفات کی خبر نشر ہوتے ہی احباب جماعت بڑی تعداد میں ربوہ پہنچنا شروع ہو گئے.چہرہ کی زیارت کرنے والے بڑی تعداد میں اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے.جنازے کا وقت آیا تو یہ سلسلہ مجبوراً بند کرنا پڑا.ساڑھے پانچ بجے ، آپ کا جنازہ آپ کی کوٹھی ” البشری سے اُٹھایا گیا.بہت سے لوگ باوجود شدید خواہش کے جنازے کو کندھا بھی نہیں دے سکے.جنازے کو بہشتی مقبرہ کے وسیع احاطے میں لے جایا گیا حضور کے ارشاد کے ماتحت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.پندرہ ہزار شرکاء پر رقت طاری تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے نماز جنازہ میں چار کی بجائے پانچ تکبیریں کہیں.بعض خاص جنازوں پر رسول کریم ﷺ نے چار سے زائد تکبیریں بھی کہی ہیں.(۶.۸) اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ عظیم مبشر فرزند، اپنی تمام عمر خدمتِ اسلام میں گزار کر، اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.(۱) روحانی خزائن جلد ۵ ص ۲۶۶-۲۶۷ (۲) مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام، جلد اول، ص ۳۹۴-۳۹۵، الناشر الشرکة الاسلامیہ ۱۹۶۷ء (۳) الفضل ۲۶ مئی ۱۹۶۳ء ص ۴ (۴) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۳، ص ۱۴ (۵) حیات قمر الانبیاء ، مصنفہ شیخ محمد اسمائیل پانی پتی، شائع کردہ محمد احمد اکیڈمی ۱۹۶۴ ص ۱۵۶ تا ۱۶۷ (۶) الفضل، ۵ ستمبر ۱۹۶۳ء ص ۸ ( ۷ ) الفضل ۳ ستمبر ۱۹۶۳ء ص ۸،۱ (۸) سنن ابو داؤد شریف باب ۵۹۹ التكبير على الجنازة

Page 611

601 مکرم عمری عبیدی صاحب کی وفات ۱۹۶۴ء میں جماعت احمدیہ کو مکرم عمری عبیدی صاحب کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا.آپ کی وفات سے جہاں ایک طرف پوری دنیا کے احمدیوں کے دلوں کو صدمہ پہنچا وہاں یہ اپنے ملک تنزانیہ کے لئے بھی ایک عظیم نقصان تھا.آپ کے والد کا نام عبیدی تھا.وہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی کہا کرتے تھے کہ مجھے ایک ایسا بیٹا دیا جائے گا جو خاندان کا شیر ہوگا.عمری عبیدی صاحب کی پیدائش ۱۹۲۴ء میں ہوئی.آپ ابھی سکول میں ہی تھے کہ آپ کو مشرقی افریقہ میں جماعت کے مبلغ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سے تعارف ہوا.اور آپ نے اپنے دوستوں کے ہمراہ جماعت کے مشن میں آنا جانا شروع کیا.آپ نے ابھی بیعت نہیں کی تھی لیکن آپ نہایت توجہ سے سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ فرماتے تھے.آپ کے ہم جماعت بیان کرتے تھے کہ عمری عبیدی صاحب کے دوست کھیل کود میں مشغول ہوتے لیکن آپ درخت کے سایہ میں بیٹھ کر مطالعہ میں اس قدر منہمک رہتے کہ آپ کے دوستوں کو خدشہ ہو گیا کہ کہیں اس انہاک کی وجہ سے آپ کے ذہن پر اثر نہ ہو جائے.اسی وقت سے آپ کو سچی خوا ہیں آنے لگیں.اس سے آپ کے ایمان کو بہت تقویت ملی.جب آپ نے گورنمنٹ سکول ٹو را سے تعلیم مکمل کی تو آپ اپنے علاقے بکو با جانے سے قبل کچھ عرصہ کے لئے ٹبورا میں شہر گئے.اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کی تحریک پر ان سے قاعدہ میسرنا القرآن پڑھنا شروع کیا.چند دنوں میں آپ نے قاعدہ ختم کر کے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا.اور سلسلہ کی بعض اور کتب بھی پڑھتے رہے.اپنے علاقہ میں جا کر آپ نے احمدیت کی تبلیغ کی اور جماعت کا سواحیلی لٹریچر بھی تقسیم کیا.اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو بھی بکو با آنے کی دعوت دی.مگر ابھی تک آپ نے بیعت نہیں کی تھی.مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے جب دیکھا کہ آپ احمدیت کی طرف مائل تو ہیں لیکن ابھی تک آپ نے بیعت نہیں کی تو انہوں نے آپ کو حضرت مسیح موعود کی تصنیف کشتی نوح کا سواحیلی ترجمہ یہ کہہ کر دیا کہ وہ یہ جائزہ لے لیں کہ اس میں گرائمر کی کوئی غلطی

Page 612

602 تو نہیں.مقصد یہ تھا کہ اس کتاب کے مطالعہ سے ان کا دل قبول حق کے لئے کھل جائے.اس کے بعد انہوں نے ٹو را آکر خود بھی بیعت کی اور ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں کچھ اور افراد نے بھی احمدیت قبول کر لی.کچھ عرصہ حکومت کی ملازمت کرنے کے بعد آپ نے زندگی وقف کر دی اور پھر سواحیلی ترجمہ قرآن کی نظر ثانی میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں.۱۹۵۳ء میں آپ دینی تعلیم کے حصول کے لئے ربوہ تشریف لے آئے.ربوہ میں آپ کو گزارے کے لئے بہت قلیل الاؤنس ملتا تھا.اس رقم میں آپ کتب خریدنے کا شوق پورا نہیں کر سکتے تھے.انہوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ ایک وقت کا کھانا ترک کر دیا اور کچھ عرصہ میں رقم جمع کر کے کتب خرید لیں.تقریباً دو سال کے بعد آپ کی وطن واپسی ہوئی.اور آپ نے ٹانگا نیکا میں مبلغ کے طور پر کام شروع کیا.۱۹۶۰ء میں بعض مخصوص حالات کی وجہ سے جماعت نے انہیں ملکی سطح پر خدمات شروع کرنے کی اجازت دی.اور وہ دار السلام کے پہلے افریقن میئر منتخب ہوئے.۱۹۶۲ء میں آپ کو ٹانگانیکا کے مغربی صوبے کا ریجنل کمیشنر مقرر کیا گیا.آپ پارلیمنٹ کے ممبر بھی منتخب ہوئے.آپ ایسے عمدہ مقرر تھے کہ ایک موقع پر ٹانگانیکا کی پارلیمنٹ میں یہ بل پیش ہوا کہ جو ایشیائی اور یوروپی وہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں انہیں بہت سے حقوق سے محروم کر دیا جائے.اکثریت کا جھکاؤ اس بل کی حمایت کی طرف ہو گیا.صدر مملکت نے پوری کوشش کی کہ ممبران کی اکثریت اس بل کی حمایت نہ کرے بلکہ استعفی کی دھمکی بھی دی مگر سب بے سود.اس مرحلہ پر عمری عبیدی صاحب نے ایک گھنٹہ اس موضوع پر تقریر کی اور اس عمدگی سے دلائل پیش کئے کہ جب رائے شماری کرائی گئی تو یہ قرارداد بری طرح مستر د کر دی گئی.ملکی سطح پر آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ایسے جو ہر دکھائے کہ جلد ہی ملک کے پہلے صدر جولیس نیریرے نے انہیں ملک کی کابینہ میں لینے کا فیصلہ کیا اور ۱۲؎ مارچ ۱۹۶۳ء کو آپ کو ملک کا وزیر انصاف مقرر کیا گیا.جب ٹانگانیکا اور زنجبار کا الحاق ہوا اور تنزانیہ کے نام سے نیا ملک وجود میں آیا تو آپ کو ثقافت اور Community Development کا وزیر مقرر کیا گیا.آپ با وجود نہایت مصروف ہونے کے نماز با جماعت کا اہتمام کرتے تھے.ان کا گھر

Page 613

603 عرصہ مسجد سے پانچ چھ میل کے فاصلے پر تھا مگر وہ فجر کی نماز پر اپنی موٹر پر پہنچ جاتے.نمازیں اس سوز سے پڑھتے تھے کہ بسا اوقات مسجد ان کی سسکیوں سے گونج اُٹھتی تھی.ان کو کثرت سے سچی خوا ہیں آتیں جنہیں وہ اپنے غیر احمدی دوستوں کو سنا کر کہتے کہ یہ سب احمدیت کی برکت ہے.مرکز میں صحابہ سے ایک گہرا تعلق قائم ہوا.بہت خود دار انسان تھے مگر صحابہ کے سامنے نہایت انکسار سے پیش آتے تھے.جب حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تنزانیہ آئے تو آپ حضرت چوہدری صاحب کو مسجد سے نکلتے ہوئے جوتے تک پہناتے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، آپ کو بہت منع کرتے مگر آپ اس خدمت پر اصرار کرتے.جب آپ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت غلام رسول راجیکی صاحب کی وفات کی اطلاع ملی تو بے قرار ہو کر کئی روز تک روتے رہے.ان کی دینداری کی وجہ سے اعلیٰ سیاسی حلقوں میں بھی ان کا غیر معمولی احترام کیا جاتا تھا.تمیں سال کا عرصہ بہت لمبا ہوتا ہے.کسی کو تیس سال پہلے کے وزراء کے نام بھی معلوم نہیں ہوتے.ایک بار خاکسار ۱۹۸۹ء میں جماعت کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر یوگینڈا میں تنزانیہ کے سفیر سے ملا اور باتوں میں مکرم عمری عبیدی صاحب کا ذکر آیا.سفیر صاحب نہ صرف آپ کی بلند پایہ شخصیت سے بخوبی واقف تھے بلکہ بڑے افسوس سے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ یہ بڑی بدنصیبی تھی کہ وہ بہت جلد ہمیں چھوڑ کر چلے گئے.۱۹۶۴ء میں وہ تنزانیہ کے صدر Nyerere کے ہمراہ قاہرہ میں منعقد ہونے والی افریقی سربراہان مملکت کی کانفرنس میں شرکت کے لئے مصر گئے.کھانے کے دوران شراب بھی پیش کی جاتی تھی اس لئے کھانے کے وقت آپ اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہو کر اپنے کمرے میں کھانا کھاتے.ایک روز کھانا کھانے کے بعد آپ کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی.اور اس کے بعد آپ کی صحت تیزی سے گرنے لگی.قاہرہ میں ہی قیام کے دوران آپ نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک سڑک پر چلے جا رہے ہیں جو ایک باغ میں جا رہی ہے.اور راستے میں ایک مور آپ کو ملتا ہے اور کہتا ہے کہ جہاں تم جا رہے ہو وہ جگہ بہت خوبصورت ہے.وطن واپس آتے ہوئے آپ ہوائی جہاز میں بیہوش بھی ہو گئے.وطن واپسی پر آپ کی صحت مزید خراب ہو گئی.بعض ذرائع ابلاغ اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ آپ کو زہر دیا گیا ہے.آپ کو جرمنی کے شہر بون علاج کی غرض سے لے جایا گیا مگر خالق حقیقی

Page 614

604 کا بلاوہ آچکا تھا.۱۶ اکتوبر ۱۹۶۴ ء کو آپ کی وفات ہوگئی.جنازہ تنزانیہ لایا گیا.ملک کے صدر اور وزیر اعظم کے علاوہ یوگینڈا کے وزیر اعظم اور دیگر اہم شخصیات بھی شامل ہوئیں.صدرمملکت نے آپ کی وفات کو ایک عظیم قومی نقصان قرار دیا.آپ نے صرف چالیس برس کی عمر پائی مگر آپ اپنی نیکی اور خدمت دین کی وجہ سے ہمیشہ یادر کھے جائیں گے.(۱تا۶) (۱) تاریخ احمدیت جلد ۷ ص ۲۸۳ - ۲۸۵ (۲) الفضل ۵ جون ۱۹۶۲ء ص ۴۳ (۳) الفضل ۵ نومبر ۱۹۶۴ء ص ۴ (۴) ۱۷ اکتوبر ۱۹۶۴ ء ص ۸ (۵) الفضل ۱۲۷ اکتوبر ۱۹۶۴ء ص ۴۱۳ (1) Unpublished Thesis, The Life History of Sheikh Kaluta Amri Abedi by Bakri Abedi

Page 615

605 ۱۹۴۰ء اور ۱۹۶۵ء کے درمیان جماعت کے مشنوں کی تاریخ ہم ۱۹۳۹ء کا ذکر کرتے ہوئے یہ ذکر کر چکے ہیں کہ اُس وقت برصغیر سے باہر کن ممالک میں جماعت کی تبلیغی کوششیں جاری تھیں.اور اُس کے بعد جن ممالک میں نئی جماعتیں قائم ہوئیں اس کا ذکر بھی کیا جا چکا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۴۰ ء اور ۱۹۶۵ء کے درمیان ،خلافت ثانیہ کے اس دور میں دنیا کے مختلف ممالک میں جماعت کس طرح ترقی کے مراحل طے کر رہی تھی.دنیا کے مختلف خطوں میں جہاں پر احمدی مبلغین اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشاں تھے، مغربی افریقہ کا خطہ ایک ایسا خطہ تھا جہاں کے لوگوں نے سب سے زیادہ خدا کے مامور کی آواز پر لبیک کہنے کی سعادت حاصل کی تھی.ہم مغربی افریقہ کے ممالک سے ہی شروع کرتے ہیں.سیرالیون: آج کل میں سیرالیون کے اندرونی علاقے میں، گورا ما(Gorama) چیفڈم کے صدر مقام Tungie میں کام کر رہا ہوں.یہ جگہ قریب ترین ڈاکخانے سے ۵۰ میل کے فاصلے پر اور پکی سڑک سے چھپیس میل کے فاصلے پر ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیراماؤنٹ چیف احمدی ہو گیا ہے اور میں گذشتہ تین ہفتوں سے اُس کے گھر میں ٹھہرا ہوا ہوں.اُس نے ایک مسجد کی تعمیر شروع کرادی ہے.پہلے وہ عیسائی تھا.خدا ہماری مدد کرے، ممکن ہے کہ اُس کے چیفڈم میں بہت سے لوگ حق کو قبول کر لیں گے.“ یہ مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کی رپورٹ کا ایک حصہ ہے جو ۲۰ جنوری ۱۹۴۰ء کے سن رائز میں شائع ہوئی.سیرالیون میں تبلیغی مساعی کئی اور ممالک کی نسبت بہت بعد میں شروع ہوئیں مگر یہاں کے مبلغین کی کمال جانفشانی سے دور دراز کے علاقوں کے دورے کئے ، وہاں جا کر ایک لمبا عرصہ ٹھہرے اور لوگوں تک حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا.اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو قبول فرمایا اور

Page 616

606 سیرالیون میں احمدیت تیزی سے پھیلنے لگی.یہ چھوٹا سا ملک جماعت کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے.مکرم نذیر احمد صاحب علی کی تبلیغی مساعی کسی ایک شہر یا صوبے تک محدود نہیں تھی بلکہ آپ نے شروع سے ہی پورے ملک کے دور دراز علاقوں میں احمدیت کا پیغام پہنچایا.اور تبلیغ اور تربیت کا ہر ممکنہ طریقہ اختیار فرمایا.سیرالیون میں فری ٹاؤن کے بعد سب سے پہلے روکو پور میں جماعت قائم ہوئی تھی.یہاں پر جماعت مستحکم ہوئی تو مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر ان کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ ہوئے.اسی گاؤں میں سیرالیون میں جماعت کا پہلا پرائمری اسکول جاری کیا گیا.مئی ۱۹۳۹ ء تک اس اسکول کی اپنی عمارت مکمل ہوگئی.یہ عمارت سیرالیون میں جماعت کی طرف سے تعمیر کی جانے والی پہلی عمارت تھی.جب ۱۹۴۰ء کا سال شروع ہوا تو مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے سیرالیون کے جنوبی صوبہ کو اپنی مساعی کا مرکز بنایا.ایک شامی تاجر مکرم سید حسن محمدابراہیم صاحب ابھی احمدی تو نہیں ہوئے تھے لیکن جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کے معترف تھے اور سیرالیون میں اسلام کی تبلیغ میں گہری دلچسپی رکھتے تھے.بیعت کرنے سے قبل بھی وہ حق کو اس قدر ضرور پہچان چکے تھے کہ انہوں نے شام کے ایک رسالے العرفان میں ایک مضمون تحریر کیا.اس مضمون میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی ان خدمات کا ذکر کیا جو دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام کی تبلیغ کے لئے کی جارہی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مختلف حوالے درج کر کے یہ سوال اُٹھایا کہ عرب دنیا کے پاس آپ کے انکار اور مخالفت کی وجہ کیا ہے.انہوں نے مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کو جنوبی صوبہ میں آکر احمدیت کی تبلیغ کی تحریک کی.چنانچہ ان کی تحریک کے نتیجے میں مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے جنوبی صوبہ ہو گئے اور وہاں پر تقاریر کیں اور مختلف لوگوں سے رابطے کئے.لیکن ابھی بواس سعادت کے لئے تیار نہیں تھا کہ وہاں پر جماعت کا قیام عمل میں آئے.یہ سعادت ایک اور جگہ Baowahun کے حصہ میں پہلے آنا مقدر تھی.یہ گاؤں Lunya چیفڈم میں ہے.اس گاؤں میں مقیم ایک شخص کو پہلے ہی رویا میں وہاں پر مکرم نذیر احمد صاحب علی کی آمد دکھائی گئی تھی.یہ شخص پاسننا صاحب تھے انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ مسجد کے گرد گھاس اکھیڑ رہے ہیں اور تھک کر پام کے درخت کے نیچے

Page 617

607 ستانے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں تو سفید رنگ کا ایک شخص ہاتھ میں قرآن کریم اور بائیبل پکڑے آ رہا ہے.اور سلام کر کے پوچھتا ہے کہ اس مسجد کا امام کون ہے.چند روز بعد یہ صاحب مسجد کے قریب گھاس کاٹتے ہوئے تھک گئے تو سستانے کے لئے پام کے درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے.اتنے میں مکرم مولانا نذیر احمد صاحب وہاں آئے اور پاسننا صاحب نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ وہی صاحب ہیں جو خواب میں دکھائے گئے تھے.مکرم مولانا صاحب نے ان سے رہائش کی جگہ کا دریافت کیا.اس دوست نے فوراً اپنا گھر رہائش کے لئے پیش کر دیا اور مسلمانوں کو اپنی خواب کے پورے ہو جانے کا واقعہ سنایا.یہ نشان دیکھ کر اور مولانا نذیر احمد صاحب کی تبلیغ سن کر اس گاؤں کے کئی مسلمانوں نے احمدیت قبول کر لی.اور اس طرح یہ گاؤں اس علاقہ میں احمدیت کا ایک چھوٹا سا مرکز بن گیا.مکرم نذیر احمد صاحب علی کی مساعی جمیلہ سے کام کا آغاز تو ہو گیا تھا لیکن جب تک مقامی مبلغین تبلیغ کے کام میں آگے نہ آئیں اُس وقت تک صحیح معنوں میں تبلیغ اور تربیت کا کام نہیں ہو سکتا.اب اس گاؤں اور اس کے نواح میں سو کے قریب لوگ احمدیت قبول کر چکے تھے.ایک مقامی دوست عمر جاہ صاحب کو وہاں پر مبلغ مقرر کیا گیا.اب رفتہ رفتہ احمدیت کا نام پورے علاقے میں پھیل رہا تھا.ابھی مکرم نذیر احمد صاحب علی Baowahun میں ہی تھے کہ آپ کو گورا ما چیفڈم (Gorama)کے پیرا ماؤنٹ چیف کا پیغام ملا کہ آپ ان کے علاقے میں آئیں چنانچہ آپ اُس دور افتادہ علاقے میں تشریف لے گئے.یہ چیف صاحب ۲۰ سال سے ایک بیماری میں مبتلا تھے.اور ان کا خیال تھا کہ دشمنوں کے جادو کی وجہ سے انہیں یہ بیماری لاحق ہے.اُنہوں نے مولانا نذیر احمد صاحب علی کو دعا کے لئے کہا اور پیشکش کی کہ وہ اس کے لئے آپ کو ایک خطیر رقم پیش کریں گے.مگر آپ نے کہا کہ اس کی بجائے تم وعدہ کرو کہ تم اسلام قبول کر کے ایک حقیقی مسلمان بن جاؤ گے.یہ چیف صاحب مان گئے اور اگلے روز اپنے تمام بت اور تعویذ مولانا نذیر احمد صاحب کے حوالے کر دیئے.اور آپ نے کئی لوگوں کی موجودگی میں ان بتوں اور تعویذوں کو زمین میں دبا دیا.چیف صاحب کی سو سے زائد بیویاں تھیں.مولانا نذیر احمد صاحب علی نے کہا کہ اب تم اسلامی تعلیم کے مطابق صرف چار بیویاں اپنے پاس

Page 618

608 رکھو.چیف صاحب نے اس کی بھی اطاعت کی.اللہ تعالیٰ نے اُن پر فضل کیا اور وہ جلد تقریباً مکمل طور پر ٹھیک ہو گئے.اب انہوں نے درخواست کہ ان کی تمام چیفڈم میں احمدیت کی تبلیغ کا انتظام کیا جائے.چنانچہ ایک مقامی احمدی مکرم الفا مصطفے صاحب کو وہاں پر مبلغ مقرر کیا گیا.(۱-۲).یہاں جماعت قائم ہوئی اور مسجد بھی بن گئی.پہلے یہاں کے لوگ زیادہ تربت پرست یا عیسائی تھے.انہیں ایک چھوٹی سی جگہ پر اسلام کی یہ کامیابی بھی ناگوار گزری.چنانچہ عیسائی مشنریوں نے ڈسٹرکٹ کمشنر کے پاس جا کر ان کے کان بھرنے شروع کئے اور انہیں احمدیت کی مخالفت پر اکسایا.اس صورتِ حال میں مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی از خود ڈسٹرکٹ کمشنر کے پاس گئے اور انہیں جماعتِ احمدیہ کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا.انہوں نے کہا کہ کہ انہیں ضلع میں جماعت کی سرگرمیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے.اور عیسائی مشنریوں کو جماعت کے مبلغ یا مقامی احمدیوں کے خلاف شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں.(۳) جب مولانا نذیر احمد صاحب علی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے ملنے جا رہے تھے تو آپ نے راستے میں دو ہفتہ کے لئے Wando چیفڈم میں قیام کیا اور دو ہفتہ وہاں رہ کر تبلیغ کی.اس کے نتیجے میں وہاں کے پیرا ماؤنٹ چیف نے احمدیت قبول کر لی اور اس چیفڈم میں دو مساجد بھی تعمیر کی گئیں.مخالفت تو شروع ہو رہی تھی لیکن اس کے ساتھ جنوبی صوبہ میں خاص طور پر ,Gorama Lunya, Wando اور Small Bo کی چیفڈموں میں تبلیغ کا کام جاری تھا.(۳) اب سیرالیون میں کام کی وسعت بڑھ رہی تھی.چنانچہ مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ سیرالیون کے لئے ایک اور مرکزی مبلغ بھجوایا جائے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے لندن میں مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس کو ارشاد فرمایا کہ وہاں سے مکرم مولانا صدیق امرتسری صاحب کو لندن سے سیرالیون بھجوادیا جائے.اس ارشاد کی تعمیل میں مکرم صدیق امرتسری صاحب مارچ ۱۹۴۰ء کو سیرالیون پہنچ گئے.(۴) مئی ۱۹۴۰ء میں مکرم مولانا صدیق امرتسری صاحب کو Baowahun بھجوا کر مولانا نذیر احمد صاحب علی نے Magburaka اور Makeni جا کر احمدیت کا پیغام پہنچایا.۱۹۴۰ء کے نومبر میں سیرالیون کے مشرقی صوبہ میں احمدیت کو مزید مستحکم ہونے کا موقع اس طرح ملا کہ یہاں پر کینیما

Page 619

609 (Kenema) کے مقام پر تمام پیراماؤنٹ چیفس کا اجتماع ہورہا تھا.سیرالیون کے گورنر جنرل بھی وہاں آئے ہوئے تھے.مولانا صدیق امرتسری صاحب بھی وہاں تبلیغ کے لئے پہنچ گئے.اس اجتماع میں دو احمدی پیراماؤنٹ چیفس بھی آئے ہوئے تھے، ان کی کوششوں سے مولانا صدیق صاحب کو وہاں کی مسجد میں درس و تدریس کا موقع مل گیا.اگر چہ یہ سلسلہ وہاں پر وہاں کے امام کی رضا مندی سے جاری تھا لیکن ، ایک روز نماز مغرب کے بعد وہاں پر کچھ مفسدین نے ہنگامہ کھڑا کر دیا.اس واقعہ کی اطلاع پا کر مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی بھی وہاں پر پہنچ گئے.اور آپ کو چیفوں کے آخری اجلاس میں خطاب کرنے کا موقع دیا گیا.اس موقع پر کئی لوگ بیعت کر کے میں داخل ہوئے اور بعض چیف صاحبان نے انہیں اپنے علاقے میں آکر تبلیغ کرنے کی دعوت دی.چنانچہ ان کی خواہش پر ان کے علاقوں کے دورے کئے گئے اور وہاں پر مختلف مقامات پر جماعتیں قائم ہوئیں.(۵) اللہ تعالیٰ جہاں پر بھی جماعت کو ترقی عطا فرماتا ہے ،وہاں پر مخالفت کا شدید تر ہو جاتی ہے.پہلے باؤکا ہوں (Baowahun) میں جماعت کے قیام کا ذکر کیا جا چکا ہے.یہاں پر احمدی ہونے والوں کی اکثریت یہاں کے مقامی باشندے نہیں تھے بلکہ کاروبار کے سلسلے میں اس گاؤں میں منتقل ہوئے تھے.اور مقامی قانون کے تحت انہیں ویسے حقوق حاصل نہیں تھے جو اس چیفڈم کے اصلی باشندوں کو حاصل تھے.عیسائیوں اور غیر احمدی مسلمانوں نے مل کر وہاں کے پیرا ماؤنٹ چیف کو جماعت کی مخالفت پر اکسایا.چنانچہ احمدیوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا.کبھی انہیں جرمانہ کیا گیا، کبھی اُن کے مبلغ کو وہاں سے نکالنے کی کوششیں کی گئیں.مبلغین کا بہت سا وقت ان مقدمات میں ضائع ہوا.لیکن چیف کی شکایات کے باوجود گورنمنٹ نے اس گاؤں میں جماعت کو اسکول اور دارالتبلیغ کے لئے زمین دینے کا فیصلہ کیا.اور یہاں پر بھی جماعت کے اسکول نے کام شروع کر دیا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان دنوں جماعت سیرالیون کو مرکز کی طرف سے صرف پانچ پاؤنڈ سالانہ کی مدل رہی تھی.اور اتنے فعال مشن کی سرگرمیوں کے باقی اخراجات مقامی احمدی احباب کی مالی قربانیوں سے پورے کئے جاتے تھے.(1) جب کسی مقام پر احمدیت تیزی سے ترقی کر رہی ہو اور نئے احباب جماعت میں شامل ہو.

Page 620

610 رہے ہوں تو ان کی تربیت اور ان کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کا کام اولین ترجیح اختیار کر لیتا ہے.اور مقامی مبلغین کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے.چنانچہ صدرانجمن احمدیہ کی رپورٹ برائے ۱۹۴۰ء.۱۹۴۱ء میں سیرالیون کی رپورٹ کے بعد یہ تبصرہ شائع کیا گیا تھا سیرالیون کے بعض مخصوص حالات یہ ہیں کہ بعض لوگ جلد از جلد احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن عملی تبدیلی کے لئے تیار نہیں.اور ظاہر ہے کہ اس کا احمدیت کو کوئی فائدہ نہیں.بلکہ احمدیت کے مستقبل کے لئے مضر ہے.اس وقت زیادہ ضرورت مخلص افریقن مبلغین کی ہے.علاوہ مذکورہ بالا دونوں احمدی اساتذہ کے الفا ابراہیم زکی صاحب بھی تبلیغ کا کام کر رہے ہیں.اور انشاءاللہ ایک اور نوجوان عبد الباری صاحب بھی ایک تین ماہ تک تبلیغ کے واسطے تیار ہو جائیں گے.اور ان کے علاوہ بعض اور نو جوان بھی تیار ہورہے ہیں.(۶) اپریل ۱۹۴۱ء تک سیرالیون میں ۸ جماعتیں قائم تھیں اور اپریل ۱۹۴۲ ء تک اس ملک میں ۱۴ جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.تعداد اور اہمیت کے لحاظ سے ماٹوٹو کا اور باڈو کی جماعتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں کیونکہ یہ دونوں مقامات ریاستوں کے صدر مقام تھے.ماٹوٹو کا اس لئے بھی اہمیت رکھتا تھا کیونکہ یہ علاقے میں عیسائیت کا مرکز سمجھا جاتا تھا.اور یہاں پر امام اور چند علماء کے علاوہ باقی لوگوں کی اکثریت نے احمدیت قبول کر لی تھی اور یہاں کے ایک مقامی دوست سوری باکو کو امام مقرر کیا گیا تھا.اپریل ۱۹۴۲ ء تک دو مرکزی مبلغین کے علاوہ سیرالیون کے چار مقامی مبلغین بھی کام کر رہے تھے.یہ ابتدائی چار مبلغین شیخ علی مانسری، عمر جاہ صاحب، ابراہیم ذکی صاحب اور عبدالباری صاحب تھے.(۸،۷) لندن مشن نے حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر کے متعلق ایک اشتہار شائع کیا تھا.سیرالیون کی جماعت نے کثیر تعداد میں اس اشتہار کو وہاں پر تقسیم اور فروخت کیا.اور مختلف احمدیوں نے اس اشتہار کو اپنے مکان کے برآمدے ،ستون یا دیواروں پر آویزاں کیا تا کہ عیسائیوں پر ظاہر ہو کہ حضرت عیسی خدا نہیں تھے بلکہ فوت ہو چکے ہیں..اس اشتہار کی وجہ سے پادری صاحبان اور متعصب عیسائی بہت برہم ہوئے.اور ایک دن بلوہ کر کے مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کے مکان پر آگئے اور مطالبہ کیا کہ اس اشتہار کو اُتار دیا جائے کیونکہ اس پر پبلک کی نظر پڑتی ہے.اور لوگوں کو

Page 621

611 اشتعال آتا ہے ورنہ فساد ہو جائے گا.مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے اسے اُتارنے سے انکار کر دیا.ایک گھنٹہ کے بعد یہ لوگ دوبارہ آئے اور اب ان کے ساتھ پولیس کا ایک سپاہی بھی تھا اور اس اشتہار کو اُتار کر چلے گئے.جب عدالت میں معاملہ پیش ہوا تو عیسائی صاحبان کا خیال تھا کہ غیر احمدی مسلمان ان کی مدد کریں گے.ایک عربی النسل عالم تو پادریوں کے ساتھ مل کر مباحثہ کرنے کو تیار ہو گئے لیکن مسجد کے امام صاحب نے صاف کہہ دیا کہ یہ جھگڑا احمدیوں اور عیسائیوں کے درمیان ہے.ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ اشتہار ہمارے کسی عقیدے کے خلاف ہے.اس طرح مخالفین کی سازش کی کمر ٹوٹ گئی.(۹) اسی طرح بو کے مقام پر بھی جماعت کی مخالفت تیز ہوگئی اور ایک ریاست کے پیرا ماؤنٹ چیف نے ایک مقامی احمدی مبلغ کو احمدیت کی تبلیغ کرنے پر جرمانہ بھی کر دیا.(۱۰) لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود سیرالیون کی جماعت اپنا قدم آگے بڑھا رہی تھی.اور ۱۹۴۳ء کے دوران تیرہ نئے مقامات پر جماعتیں قائم ہوئیں.ان جماعتوں میں روتیفنک کی جماعت بھی تھی.روتیفنگ کے دور افتادہ مقام کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خاص ہدایت فرمائی تھی کہ یہاں پر جماعت قائم کی جائے.اس کے علاوہ بوسمیت تین مقامات پر مساجد اور دارالتبلیغ کی تعمیر تیزی سے مکمل ہو رہی تھی.اور روکو پور اور باؤ ماہوں میں جماعت کے اسکول کام کر رہے تھے.سیرالیون کی فعال جماعت نے اپنی کاوشوں کا دائرہ کا رصرف سیرالیون تک محدود نہیں رکھا ہوا تھا.چنانچہ ۱۹۴۳ء میں ایک مخلص آنریری مبلغ مکرم الفا عبد اللہ صاحب کو تین ماہ کے لئے لائیبیریا میں تبلیغ کے لئے بھجوایا گیا تاکہ ہمسایہ ممالک میں بھی احمدیت کا پیغام پہنچایا جائے.(۱۱) ۱۹۴۳ء کا اکثر حصہ مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے مختلف علاقوں کے دوروں میں گذارا اور جنوری ۱۹۴۴ء میں لائبیریا کی سرحد تک جا کر احمدیت کی تبلیغ کی.ان دوروں کے بعد آپ کو مرکز واپس آنے کی اجازت موصول ہوئی.آپ مکہور کا تشریف لائے جہاں پر مکرم مولا نا محمد صدیق صاحب مقیم تھے اور آپ کو مشن کا چارج دیا اور اپریل ۱۹۴۴ء میں آپ ہندوستان کے لئے روانہ ہو گئے.(۱۲) اب سیرالیون میں احمدیوں کے لئے ابتلاؤں کا ایک دور شروع ہو چکا تھا.اور نوبت یہاں تک

Page 622

612 پہنچی کہ کینیما کے علاقے میں دو مقامات پر وہاں کے چیف اور پیراماؤنٹ چیف صاحبان نے احمدیوں کو اس جرم پر جرمانہ عائد کر دیا کہ انہوں نے غیر احمدیوں سے علیحدہ عید کی نماز کیوں ادا کی.اور ٹونگیا اور کویا کی ریاست میں احمدیوں کو مسلسل دکھ دیا جا رہا تھا.اور چیف اس بات کا برملا اظہار کر رہے تھے کہ اب ان ریاستوں میں احمدیوں کو نہیں رہنے دیا جائے گا.حکام کو شکایت کی گئی اور اس اقدام سے ان تکالیف کا کچھ ازالہ بھی ہوا.ایک جگہ پر وہاں کے چیف اور اس کے دیگر ساتھیوں نے اپنے بت کے سامنے جس کا نام شیطان تھا شراب پی کر عہد کیا کہ وہ وہاں سے احمدیوں کو نکال دیں گے.اور یہ قانون بھی بنادیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ لوکل شراب حرام ہے یا یہ کہے کہ اب میں شراب نہیں پیوں گا اسے پانچ شلنگ کا جرمانہ کیا جائے گا.جماعت کے مبلغ نے ان معاملات کو ڈویژنل کمشنر کے سامنے پیش کیا مگر اُس نے کوئی خاص توجہ نہیں کی.کچھ مقامات پر پیرا ماؤنٹ چیف احمدیوں کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے.ایک مقامی احمدی امام مسجد الفاہم سنوسی صاحب پر یہ جھوٹا الزام لگایا کہ انہوں نے اپنے وعظ میں چیف اور وہاں کے ایک بت کی ہتک کی ہے.سنوسی صاحب کو دو ہفتہ ننگا کر کے اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر قید رکھا گیا.اور وہاں کے چیف نے یہ ظلم کرنے کے بعد خود ڈپٹی کمشنر صاحب کو لکھا کہ وہ اپنے علاقے میں احمدیوں کو نہیں رہنے دے گا اور ان کو وہاں سے نکال کر احمدیوں کے مشن ہاؤس اور مسجد پر قبضہ کر لے گا.ایک جگہ احمدی امام نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی تو اسے چیف کے رو برو پیش کیا گیا اور امام کی پگڑی اتار کر چیف کے حاشیہ نشین اس سے فٹ بال کی طرح کھیلتے رہے اور پھر اسی پر بس نہ کی بلکہ چیف نے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ وہ اس احمدی دوست پر پیشاب کر دے چنانچہ اُس بد بخت نے ایسا ہی کیا.اور ایک اور احمدی کو نگا کر کے قید کر دیا گیا.اس پر بھی غصہ فرو نہ ہوا تو احمدی امام ساحب کو ۱۲ گھنٹے کے اندراندر اپنے علاقے سے نکلنے کا حکم دے دیا.(۱۳.۱۴.۱۵) مخالفت تو بڑھ رہی تھی مگر جماعت احمد یہ سیرالیون ہمت سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے یہ تھی.چنانچہ ۱۹۴۶ء میں بو میں جماعت کے اسکول کی عمارت مکمل ہوئی اور اس اسکول نے کام بھی شروع کر دیا.اور اس کی تعمیر کے لئے صرف سیرالیون کے احمدیوں نے ہی نہیں بلکہ دنیا کی مختلف جماعتوں نے بھی چندہ دیا.(۱۶)

Page 623

613 حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت تھی کہ ہر ملک کے مبلغین سال میں ایک دو مرتبہ ضرور جمع ہو کر مجلس شوری منعقد کیا کریں.جس میں نئے پیش آمدہ حالات اور مشکلات کا حل اور نئی تبلیغی جد و جہد کا پروگرام تجویز کیا کریں.حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں سیرالیون کے احمد یہ مشن کے مرکز بو میں ۳ مئی ۱۹۴۶ء کو سیرالیون کے مبلغین کی ایک کانفرنس ہوئی.اس کی صدارت مکرم مولا نا محمد صدیق امرتسری صاحب امیر ومشنری انچارج سیرالیون نے کی اور غور و خوص کے بعد اہم فیصلے کئے گئے.(۱۷) تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود سیرالیون کے مبلغ اتنی جانفشانی سے کام کر رہے تھے کہ یہ چھوٹا سا ملک دنیا بھر کے احمدیوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا.چنانچہ ۱۹۴۵ء کے آخر اور ۱۹۴۶ء کے شروع میں مرکز نے تین مزید مبلغین سیرالیون کے لئے روانہ کئے.یہ مبلغین مولوی نذیر احمد صاحب رائے ونڈی، مکرم صوفی الحق صاحب اور مولوی عبدالحق صاحب جنگلی تھے.مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی بھی ۲۶ فروری ۱۹۴۶ء کو سیرالیون پہنچے مگر آپ کے سپر د مغربی افریقہ کے تمام ممالک کی نگرانی تھی اس لئے آپ چند ماہ قیام کے بعد یہاں سے چلے گئے.اور پھر اکتو بر ۱۹۴۶ء میں مکرم مولا نا بشارت احمد صاحب بشیر بھی سیرالیون پہنچ گئے.اس طرح یہاں پر مرکزی مبلغین کی تعداد ۵ ہوگئی.(۱۸) سیرالیون میں مختلف مقامات پر اب تک جماعت کی متعدد مساجد تعمیر ہو چکی تھیں مگر اب تک سیرالیون کے صدر مقام اور سب سے بڑے شہر میں جماعت کی کوئی مسجد نہیں بنی تھی ، اور نہ ہی اس کے لئے کوئی مناسب قطعہ اراضی حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی تھی.اس غرض کے لئے مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب نے حضور انور کی خدمت میں درخواست کی اور حضور نے از راہ شفقت اس کیلئے پانچ سو پانڈ کی رقم منظور فرمائی اور فروری ۱۹۴۷ء میں اس سے شہر کے وسط میں گوری سٹریٹ میں ایک قطعہ زمین خریدا گیا اور یہاں پر مسجد تعمیر کی گئی.(۱۹) سیرالیون کے بہت سے علاقوں میں چیف اور دیگر امیر حضرات بہت زیادہ تعداد میں بیویاں رکھتے تھے.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے بعض کی تو سوسو بیویاں بھی تھیں.ان کی ازدواجی زندگی کو بھی اسلام کے مطابق ڈھالنا ضروری تھا.ایک رپورٹ میں اس کا ذکر کیا گیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے

Page 624

ارشاد فرمایا 614 بیویوں کے متعلق لکھا جائے کہ سر دست اسی قدر کیا جائے کہ بیعت میں اقرار لیا جائے کہ میں جلد سے جلد اسلامی حکم کے مطابق بیویوں کے بارے میں اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا اور مزید کوئی حرکت اسلام کے خلاف نہ کروں گا.(۲۰) سیرالیون میں بہت سے عیسائی مشن کام کر رہے تھے اور قدرتاً یہ مشن اسلام کو اپنا سب سے بڑا رقیب سمجھتے تھے.ان مشنوں میں سے ایک UBC بھی تھا جسے امریکہ سے کافی مالی مدد ملتی تھی.۱۹۴۸ء میں اس کی طرف سے ایک کتاب شائع کی گئی.جس میں اسلامی تعلیمات کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کرتے ہوئے افریقہ کے باشندوں کو اسلام سے بدظن کرنے کی کوشش کی گئی.سیرالیون کے احمد یہ مشن کی طرف سے فوراً اس کا جواب شائع کیا گیا اور انہیں چیلنج کیا گیا کہ وہ ہمارے مسلمات کی رو سے ان الزامات کو ثابت کریں اور علی الاعلان اس موضوع پر احمدیوں سے مناظرہ کر لیں.جماعت کا ٹریکٹ تمام سیرالیون میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا گیا ، جس کی وجہ سے عوام کو اس مناظرے میں کافی دلچسپی پیدا ہوگئی.لیکن اس مشن نے اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں دیا.اور اپنے افریقن عیسائیوں کو یہ تلقین کی کہ وہ احمدیوں سے مذہبی گفتگو نہ کریں.(۲۱) مکرم مولا نا محمد صدیق امرتسری صاحب آٹھ سال خدمات سرانجام دینے کے بعد ستمبر ۱۹۴۸ء میں رخصت پر پاکستان روانہ ہوئے..چند ماہ بعد سیرالیون میں یہ انتظامی تبدیلی کی گئی کہ اسے انتظامی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا.مولوی ابراہیم خلیل صاحب فری ٹاؤن کالونی کے انچارج مقرر ہوئے اور مولوی نذیر احمد صاحب رائے ونڈی سیرالیون کے باقی علاقہ کے امیر مقرر ہوئے.(۲۲) اب تک گوسیرالیون کی جماعت کافی حد تک مستحکم ہو چکی تھی لیکن ابھی تک ملکی سطح پر جلسے کا انعقاد نہیں ہو ا تھا.مولوی نذیر احمد صاحب رائے ونڈی کے زمانے میں سیرالیون کا پہلا جلسہ سالانہ ۱۳،۱۲ اور ۱۴ دسمبر ۱۹۴۹ء ء کو بو کے مقام پر منعقد کیا گیا.اس میں سیرالیون کی ۳۳ جماعتوں کے ۹۰۰ احباب نے شرکت کی.اور مقامی اخبار میں اس کے انعقاد کی خبر میں شائع کی گئیں.اس کے بعد یہ جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون کی روایت کا ایک درخشندہ حصہ بن گیا.دیگر تبلیغی اور تربیتی

Page 625

615 مساعی کے ساتھ جماعت سیرالیون تعلیمی میدان میں بھی خدمات میں آگے قدم بڑھا رہی تھی.چنانچہ ۱۹۴۹ء تک یہاں پر جماعت کے چھ اسکول قائم ہو چکے تھے.(۲۳) اکتوبر ۱۹۵۰ء میں مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب دوبارہ سیرالیون تشریف لائے اور یہاں کے امیر مقرر ہوئے.۱۹۵۱ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت مصلح موعودؓ نے سیرالیون کی جماعت کے نام یہ پیغام بھجوایا.آپ کے ملک میں مغربی افریقہ کے ممالک میں سب سے آخر میں تبلیغ شروع ہوئی ہے.لیکن آپ کا ملک چاروں طرف سے ایسے علاقوں میں گھرا ہوا ہے جو کہ احمدیت سے نا آشنا ہیں.پس آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے.اور آپ کے لئے کام کے مواقع بھی بہت پیدا ہو جاتے ہیں.پس آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی محنت اور کوشش کو بڑھائیں.اور نہ صرف اپنے علاقے میں احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کریں.بلکہ لائبیریا اور فرنچ افریقن علاقوں میں بھی تبلیغ کا کام اپنے ذمہ لیں.(۲۴) جیسا کہ لائبیریا میں مشن کے قیام کے سلسلے میں یہ ذکر آچکا ہے کہ حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں مولوی محمد صدیق صاحب نے ۱۹۵۲ء میں لائبیریا کا دورہ کیا اور وہاں پر احمدیت کا پیغام پہنچایا.۱۹۵۴ء میں مولانا نذیر احمد صاحب علی آخری مرتبہ سیرالیون پہنچے اور یہاں کے امیر مقرر ہوئے.۱۹ مئی ۱۹۵۵ء کو آپ سیرالیون میں ہی اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.اور یہیں پر ہی آپ کو سپر د خاک کر دیا گیا.نومبر ۱۹۴۵ء میں ایک مرتبہ قادیان کے جامعہ احمدیہ میں بیرونِ ملک جانے مبلغین کے اعزاز میں دعوت دی گئی.اسی دعوت میں اعلان کیا گیا کہ حضور نے مولانا نذیر احمد صاحب علی کومغربی افریقہ کا رئیس التبلیغ مقررفرمایا ہے.اس پر جب مولانا نذیر احمد صاحب علی تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا آج ہم خدا تعالیٰ کے لئے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لئے جارہے ہیں.موت فوت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.ہم میں سے کوئی اگر فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دور دراز حصہ ہے.جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے.احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ اس تک پہنچیں.اور اس مقصد

Page 626

616 کو پورا کریں جسکی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل پر قبضہ کیا ہو گا.پس ہماری قبروں کی طرف سے یہی مطالبہ ہو گا.کہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں.کہ جس مقصد کیلئے ہماری جانیں صرف ہوئیں.اسے وہ پورا کریں.(۲۵) اب اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ سیرالیون میں جماعت کا اپنا اخبار ہو.چنانچہ ۱۹۵۳ء کے جلسہ میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ سیرالیون مشن کا اپنا پر لیس اور اخبار ہونا چاہئیے.قریباً ڈیڑھ سال کے بعد ایک اخبار African Crescent کے نام سے شائع ہونا شروع ہوا.اس کی طباعت اجرت پر ایک عیسائی پریس میں ہوتی تھی.جس نے جلد ہی اس کی طباعت سے انکار کر دیا اور یہ طعنہ دیا کہ اگر تمہارے مسیح میں طاقت ہے تو اس کی طباعت کا انتظام کر دے.اگر چہ سیرالیون جماعت کے وسائل محدود تھے لیکن اس طعنہ سے ان کی غیرت جوش میں آئی اور انہوں نے پریس کے حصول کے لئے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کرنی شروع کر دیں.حضور خود سیرالیون میں جماعت کے پر لیس اور اخبار کے اجراء میں دلچسپی لے رہے تھے، چنانچہ حضور نے مشن کی ۱۹ اگست ۱۹۵۶ء کی رپورٹ پر ارشادفرمایا د میں نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا کہ اپنا پر لیس بنائیں.ہم نے یہاں ایک ہزار پونڈ میں خریدا ہے.پھر اگلے ماہ کی رپورٹ پر ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اس لائبریری کو سارے ملک میں احمدیت پھیلنے کا ذریعہ بنائے.آپ کی طرف سے اخبار کے متعلق اطلاع نہیں آئی.چندہ کافی جمع ہو چکا ہے.اخبار نکلنے کا نام نہیں لیتا.جب حضور کی خدمت میں افریقن کریسنٹ کا شمارہ موصول ہوا تو حضور نے اظہارِ خوشنودی فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ پبلک مفاد کے مضامین بھی آہستہ آہستہ لکھے جائیں.(۲۶) حضور کی خواہش تھی کہ سیرالیون سے ہمسایہ ممالک مین بھی تبلیغ کی جائے.چانچہ مکرم مولانا صدیق امرتسری صاحب نے اپنے خط محررہ 9 جنوری ۱۹۵۶ء میں عرض کی کہ بعض نوجوان گیمبیا میں بطور تاجر بھجوائے جا رہے ہیں.اس پر حضور نے ارشاد تحریر فرمایا بہت نیک خیال ہے.اللہ تعالیٰ کامیاب کرے.جانیوالوں کو سمجھائیں کہ ایک دو

Page 627

617 احمدی ہم نہیں مانتے.ملک کواحمدی کر کے لاؤ.(۲۷) حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خواہش تھی کہ سیرالیون میں جلد جلد احمدیت پھیلے اور حضور کا ارشاد تھا کہ جو شامی سیرالیون میں مقیم ہیں ان کو تبلیغ کی جائے.چنانچہ مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب کی رپورٹ محرره ۲۶ دسمبر ۱۹۵۴ء پر حضور نے ارشاد فرمایا شامیوں کی طرف زیادہ توجہ کی جائے.ان کے شامل ہونے سے نہ صرف جماعت کی مالی حالت مضبوط ہوگی بلکہ شام میں بھی ترقی ہوگی.سیرالیون کی جماعت ترقی کر کے گر رہی ہے.اس وقت تک جماعت کم از کم بارہ تیرہ ہزار ہونی چاہئیے تھی.اس ملک کی کل آبادی غالباً دس بارہ لاکھ ہے.اگر کوشش کریں تو جماعت جلد مضبوط ہو جائے گی.(۲۸) ۱۹۶۰ ء تک سیرالیون میں جماعت کے پرائمری اسکولوں کی تعداد دس ہو چکی تھی لیکن ابھی تک سکینڈری اسکول کھولنے میں کامیابی نہیں ہوئی تھی.منظوری ملنے پر ا استمبر ۱۹۶۰ء کو بومشن ہاؤس کے ایک حصہ میں نہایت غریبانہ طرز پر ایک سکینڈری اسکول کا اجرا کیا گیا اور مکرم شیخ نصیر الدین صاحب اس کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے.اس کے ساتھ سیرالیون میں جماعت کی تعلیمی خدمات ایک نئے دور میں داخل ہوئیں.نئے سکینڈری اسکول کھولنے کے سلسلے میں مکرم بشارت بشیر صاحب کو خاص کامیابی حاصل ہوئی.چنانچہ ان کی کاوشوں سے ۱۹۶۴ء میں فری ٹاؤن میں جماعت کا دوسرا اور ۱۹۶۵ء میں بو آجے بو کے مقام پر جماعت کا تیسرا سکینڈری قائم ہوا.۱۹۶۰ء میں جماعت نے سیرالیون میں اپنی طبی خدمات کا آغاز کیا.اور مرکز کی طرف سے مکرم ڈاکٹر شاہنواز صاحب کو سیرالیون بھجوایا گیا.آپ ۲۲ ستمبر ۱۹۶۰ء کور بوہ سے روانہ ہوئے اور سیرالیون پہنچ کر آپ نے بوشہر میں ایک ڈسپنسری کا آغاز کیا اور ڈیڑھ سال تک وہاں پر مقیم رہے.اور پھر آپ کی واپسی پر مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نومبر ۱۹۶۱ء میں سیرالیون پہنچے مگر آب و ہوا موافق نہ آنے کی وجہ سے آپ نائیجیریا تشریف لے گئے.ان کے بعد ڈاکٹر محمد اکرم ورک صاحب نے کچھ عرصہ کام کیا.(۳۰۲۹) ۱۹۶۱ء میں سیرالیون کو آزادی ملی.جماعت کی خدمات کی وجہ سے جماعت سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ مرکز سے اپنا نمائیندہ آزادی کی تقریبات میں شرکت کے لئے بھجوائے.چنانچہ مکرم

Page 628

618 جسٹس شیخ بشیر احمد صاحب کو مرکزی نمائیندے کے طور پر سیرالیون بھجوایا گیا اور آپ نے آزادی کی تقریبات میں شرکت کی.ملک کے وزیر خزانہ اور نائب وزیر اعظم مکرم مصطفے سنوسی صاحب کو آپ کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ حکومت کے گیسٹ ہاؤس میں آپ سے ملنے کے لئے تشریف لائے اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ آپ سے مختلف موضوعات پر بات چیت کی.جماعت کی مساعی کو سراہتے ہوئے انہوں نے جماعت سے درخواست کی کہ وہ ان ممالک میں اسلام کی سربلندی کے لئے مزید کوششیں کرے.خصوصاً تعلیم کے میدان میں ملک کی مدد کی جائے کیونکہ بہت سے مسلمان طلباء اسلامی اسکولوں کی کمی کی وجہ سے عیسائی اسکولوں میں جاتے ہیں.اس کے بعد مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے ملک کے وزیر اعظم اور دیگر ممبران پارلیمنٹ سے بھی ملاقات کی.اور جماعت کی طرف سے وزیرِ اعظم کو ایڈریس بھی پیش کیا گیا.(۳۱) (۱) الفضل اا جولائی ۱۹۵۶ء ص ۴٫۳ ( ۲ )The Sunrise ,Jan 20 1940,p10 (3)16,1940 The sunrise March (۴) روح پرور یادیں ، مصنفہ مولانا صدیق امرتسری صاحب ص ۲۲۲ (۵) روح پرور یادیں، مصنفہ مولانا صدیق امرتسری صاحب ص ۲۴۹ - ۲۵۰ (1) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یه ۱۹۴۰ء ۱۹۴۱، ص ۴۲ ۴۳ ۴۴ (۷) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۴۱ء ۱۹۴۲ء ص ۲۵ ۲۶۱( ۸ ) الفضل ۲۲ مئی ۱۹۴۲ء ص ۵ (۹) الفضل ۱۸مئی ۱۹۴۳ ء ص ۴ و ۵ (۱۰) الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۴۳ء ص ۲ (۱۱) الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۴۳ ء ص ۴، ۵ (۱۲) الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۴۵ء ص ۴ (۱۳) الفضل ۲ مئی ۱۹۴۵ ء ص ۵ (۱۴) الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۴۴ء ص ۴ (۱۵) الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۴۵ ء ص ۴ (۱۶) الفضل ۱۹ جون ۱۹۴۶ ء ص ۳ (۱۷) الفضل ۲۸ جون ۱۹۴۶ء ص ۱ (۱۸) تاریخ سیرالیون مشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۴۶ (۱۹) روح پرور یادیں، مصنفہ مولانا صدیق امرتسری صاحب ص ۳۹۶_۳۹۷ (۲۰) ریکارڈ تبشیر ، فائل مولانا صدیق امرتسری صاحب ۱۹۴۸ء ص ۶۰ مورخه ۳۰ اگست ۱۹۴۸ء (۲۱) الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۴۹ء ص ۲ (۲۲) تاریخ سیرالیون مشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه (۲۳) الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۴۹ء (۲۴) الفضل ۱۴اپریل ۱۹۵۲ء ص ۴ (۲۵) الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۴۵ء ص۲ (۲۶) ریکارڈ تبشیر سیرالیون ۱۹۵۶ء (۲۷) ریکارڈ تبشیر سیرالیون ۱۹۵۶، چٹھی -56-1-294/22 ص 17 (۲۸) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل مولوی صدیق صاحب امرتسری ۵۵-۵۶ص۳ (۲۹) الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۶۰ء ص ۱ (۳۰) الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۱ء ص ۱ (۳۱) الفضل ۱۸ جون ۱۹۶۱ء

Page 629

619 گولڈ کوسٹ (غانا) : ہم ۱۹۳۹ء تک کے حالات کا جائزہ لے چکے ہیں کہ کس طرح گولڈ کوسٹ میں جماعت ترقی کر رہی تھی.یہ ذکر بھی آچکا ہے کہ ۱۹۳۷ء میں مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر یہاں پر مبلغ بن کر تشریف لائے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو ایک طویل عرصہ گولڈ کوسٹ میں نمایاں خدمات کی توفیق ملی.حضور کے ارشاد کے تحت آپ کو جماعت کی تربیت ، درس قرآن مجید اور مبلغین کلاس کو پڑھانے کے کام پر لگایا گیا.اُس وقت مرکز کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ گولڈ کوسٹ میں دو مبلغین کا خرچ برداشت کیا جاتا.چنانچہ پہلے تو یہ فیصلہ تھا کہ نئے مبلغ کا خرچ گولڈ کوسٹ کی جماعت برداشت کرے گی لیکن مکرم مولانا نذیراحمد مبشر صاحب کو وہاں پہنچ کے احساس ہوا کہ جماعت گولڈ کوسٹ یہ اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے چلتے وقت آپ کو ارشاد فرمایا تھا کہ تجارت کی طرف بھی توجہ کریں.چنانچہ آپ نے دیگر فرائض کے علاوہ کھیل کے سامان کی تجارت کا کام بھی شروع کر دیا.اور آپ عصر سے مغرب تک دارالتبلیغ کے ایک حصہ میں بیٹھ کر تجارتی خط و کتابت کرتے اور اشیاء کی فروخت کرتے.مشترکہ تجارت سے اتنے وسائل پیدا ہونے لگ گئے کہ آپ کے گزارہ کے لئے ایک قلیل رقم مقرر کی گئی، جس میں نہایت کفایت اور تنگی سے گزارہ ممکن تھا.جب اکتوبر ۱۹۳۷ء میں مولانا نذیر احمد صاحب علی ، آپ کو مشن کا چارج دے کر سیرالیون تشریف لے گئے تو آپ پر کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا.آپ کو ابھی انگریزی زبان پر بھی ایسا عبور نہیں تھا.دوسری طرف تجارت ،مبلغین کلاس کو پڑھانے ، جماعت کی تربیت سکولوں کی مینیجری ، خط و کتابت کے علاوہ تبلیغی دوروں کی ذمہ داری بھی آپ پر پڑ گئی.اوپر سے پورا ملک ایک بحران کی زد میں آ گیا.آبادی کے ایک بڑے حصے کا انحصار کوکو کی فصل پر تھا جسے برآمد کیا جاتا تھا.کو کو خریدنے والی یورپین کمپنیوں نے آپس میں سمجھوتا کر لیا کہ وہ کوکو کی فصل نہ خریدیں یا اگر خریدیں تو بہت کم قیمت پر خریدیں.چونکہ جماعت زیادہ تر کاشت کاروں پر مشتمل تھی اس لئے اس بحران کا جماعتی چندے پر بہت برا اثر پڑا اور مشن کے وسائل مزید محدود ہو گئے.یہ حالت ۱۹۳۸ء کے آخر تک رہی.

Page 630

620 جیسا کہ پہلے بھی یہ ذکر آ گیا ہے کہ اب جماعت کی ترقی کے ساتھ ، جماعت کی مخالفت بھی شروع ہو رہی تھی.اور اس کے لئے طرح طرح کے طریقے اختیار کئے جارہے تھے.جون ۱۹۳۹ء میں مکرم مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کو یہ اطلاع ملی کہ ایک حاجی مکہ معظمہ سے آکر ایک گاؤں صراحہ میں مقیم ہے اور احمدیوں کو تنگ کر رہا ہے.آپ وہاں پہنچے اور ان حاجی صاحب سے مل کر اُس سے گفتگو کرنی چاہی.اُس نے کہا کہ آپ لیکچر دیں، مجھے ضرورت ہوئی تو میں سوال پوچھ لوں گا.چنانچہ ظہور مہدی اور وفات مسیح پر لیکچر دیا گیا.اس نے بجائے نفس مضمون پر کوئی اعتراض کرنے کے ایک اور غیر احمدی ملاں سے مل کر شور ڈلوایا.گاؤں کے چیف نے فساد کے خوف سے جلسہ بند کر دیا.واپسی کے دو تین بعد مکرم مولانا نذیر مبشر صاحب کو اطلاع ملی کہ غیر احمدی ایک شاہراہ پر جھنڈ ا نسب کر کے خوشیاں منا رہے ہیں کہ انہوں نے احمدیوں کو فتح کر لیا ہے.اور اس مضمون کا گیت گا رہے ہیں کہ مہدی ابھی ظاہر نہیں ہوا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ زلزلہ نہیں آیا.چونکہ ارد گرد کی جماعتوں پر اس کا برا اثر پڑ رہا تھا اس لئے اس علاقہ میں جلسے منعقد کر کے زلازل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں بیان کی گئیں اور ان کے پورے ہونے کا ذکر کیا گیا.پھر مخالفین کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ آپ لوگ اتنے بے باک نہ ہوں عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے گولڈ کوسٹ میں بھی زلزلہ بھیج دے.ان جلسوں کو ختم کر کے مکرم نذیر مبشر صاحب ایک اور گاؤں پہنچے جہاں پر آپ نے ایک جلسہ کرنا تھا.رات کو آٹھ بجے شدید زلزلہ آیا دارالحکومت میں کچھ عمارتیں تباہ ہو گئیں اور کئی عمارتوں میں شگاف پڑ گئے.اس کے علاوہ دوسرے بڑے شہروں اور دیہات میں بھی نقصان ہوا.جب مکرم نذیر مبشر ساحب تیسرے روز سالٹ پانڈ پہنچے تو بہت سے عیسائی اور مشرک دوتاروں پر یہ گا رہے تھے کہ احمدی بچے ہیں اور مہدی ظاہر ہو چکا ہے.جماعت کی طرف سے ایک اشتہار اس نشان کے متعلق شائع کیا گیا اور اس زندہ نشان کو دیکھ کر بہت سے افراد نے بیعت کر لی.دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو جماعت کو اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.کچھ افسران نے جماعت کے خلاف ساز باز شروع کر دی.ایک رات مکرم مولانا نذیر مبشر صاحب نے ایسی خواب دیکھی جس کی تعبیر تھی کہ کوئی دشمن جماعت کے لئے مشکل کھڑی کرے گا.ابھی انہوں نے اپنے

Page 631

621 شاگردوں کو یہ خواب سنائی ہی تھی کہ پولیس نے مشن ہاؤس کو گھیرے میں لے لیا.اور مشن ہاؤس کی تلاشی لی گئی.الزام یہ عائد کیا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ کے مبلغ کی جرمنی کے ساتھ خط و کتابت ہے اور یہاں پر گولہ بارود موجود ہے.جب کچھ نہ ملا تو شرمندہ ہو کر واپس چلے گئے.بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سپرنٹنڈنٹ اور ڈسٹرکٹ کمشنر کا کام تھا.ڈسٹرکٹ کمشنر پہلے معطل ہوا اور پھر بحال ہوا تو مہلک ملیریا کا شکار ہو کر اس دنیا سے کوچ کر گیا.اور سپرنٹنڈنٹ پر بھی کئی مصائب آئے.اس پر لوگوں نے اور اس کی بیوی نے اسے یہ کہا کہ جب سے تم احمد یہ مشن کی تلاشی کے لئے گئے ہو اُس وقت سے تم پر یہ مصائب آ رہے ہیں.بعد میں اس سپر نٹنڈنٹ نے اپنا رویہ تبدیل کیا اور احمدیوں سے دوستانہ تعلق قائم کر لئے.(۱) اب گولڈ کوسٹ کے شمال میں وا (Wa) کے مقام پر جماعت کی مخالفت زور پکڑ رہی تھی.یہاں پر معلم صالح مولوی نذیر احمد صاحب علی کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے.جب گاؤں والوں کو ان کے احمدی ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے ان کے قتل کے لئے مشورے کئے.ایک دن ایک جم غفیر نے ان کے مکان پر حملہ کر دیا.وہ قرآن کریم پڑھ رہے تھے.ایک شخص نے تلوار سے اُن پر حملہ کیا.وہ تو بچ گئے مگر قرآنِ کریم دو ٹکڑے ہو گیا.اُس وقت گورنمنٹ افسران نے انہیں ہدایت دی کہ وہ کچھ دنوں کے لئے سالٹ پانڈ چلے جائیں.اس وقت مولانا فضل الرحمن صاحب حکیم گولڈ کوسٹ اور نائیجیر یا دونوں کے انچارج تھے.انہوں نے لیگوس ( نائیجیریا) سے افسران سے خط و کتابت کی تو معلم صالح کو واپس جانے کی اجازت ملی.یہ واقعات تو ۱۹۳۶ء سے پہلے کے ہیں.اس کے بعد اس علاقے میں احمدیت نے پھیلنا شروع کیا اور وا میں ایک خاطر خواہ جماعت قائم ہونے کے علاوہ دو اور جگہوں پر بھی جماعت قائم ہو گئی.اس ترقی کو دیکھ کر مخالفت نے ایک مرتبہ پھر زور پکڑا اور ایک بار پھر معلم صالح صاحب پر حملہ کیا گیا.جماعت نے اس پر احتجاجی تار دیئے.۱۹۴۱ء کے شروع میں سالٹ پانڈ کے اسٹنٹ ڈپٹی کمشنر نے مولانا نذیر بشر صاحب کو بلا کر کہا کہ یہاں کے گورنر نے فیصلہ کیا ہے کہ شمالی علاقہ کے تمام احمدیوں کو وہاں سے نکال دیا جائے.اس نا معقول حکم کو سن کر مولانا نذیر مبشر صاحب نے کہا کہ یہ انصاف سے بعید ہے میں حکومت کے حکم کو بدل تو نہیں سکتا مگر اس پر احتجاج ضرور کروں گا.مگر شمالی علاقوں کے افسران نے

Page 632

622 معلم صالح کو بلا کر کہا کہ آپ کے امیر اس بات پر تیار ہو گئے ہیں کہ احمدیوں کو وا سے نکال کر کہیں اور آباد کیا جائے.مگر معلم صالح نے اُس وقت حکمت سے اس بات کو ٹال دیا.پھر ایک مسلمان حج جو زیر تبلیغ تھے انہوں نے حکومت کو لکھا کہ حکومت کے لئے ایسا قدم اُٹھانا مناسب نہیں ہے تو پھر حکومت نے یہ تجویز کیا کہ وا کے احمدیوں کو وہاں سے نکال کر ایک دو میل کے فاصلے پر آباد کیا جائے.مگر بعد میں مکرم مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کی کوششوں سے یہ فیصلہ بھی منسوخ ہو گیا.خدا کی قدرت کہ ۱۹۲۹ء میں گولڈ کوسٹ کی سرحدی پولیس کے ایک ملازم نے بذریعہ خط و کتابت احمدیت قبول کی تھی.وہ اصل میں وا کے رہنے والے تھے.جب وہ ریٹائر ہوکر ۱۹۵۰ء میں وا وا پس آئے تو انہیں وہاں کا پیرا ماؤنٹ چیف مقرر کیا گیا.اور ۱۹۵۱ء میں وہ گولڈ کوسٹ کی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہو گئے.جہاں سے احمدیوں کو نکالنے کی سازش کی جا رہی تھی وہیں کا ایک احمدی پیراماؤنٹ چیف بن گیا.وا میں احمدیت تو ترقی کرتی رہی مگر اس کے علاوہ وا کے لوگوں نے یہ نظارہ بھی دیکھا که معلم صالح جنہیں وہ کبھی قتل کرنے کی کوششیں کرتے تھے اور کبھی ان کو اپنے علاقے سے نکالنے کی سازش کرتے تھے، جب فوت ہوئے تو اس کے کچھ عرصہ کے بعد انہی کا بیٹا اس علاقے کا چیف کمشنر مقرر ہوا.(۳۲) گولڈ کوسٹ کے تعلیمی نظام پر عیسائی مشنری اداروں کا قبضہ تھا.ایک تو تعلیمی اداروں کی کمی تھی اور دوسرے مسلمان پس ماندہ تھے.تعلیم یافتہ طبقہ کی اکثریت عیسائی تھی.مسلمان لڑکے عیسائی اسکولوں میں جاتے تو ان کا عیسائی نام بھی رکھا جاتا.بلکہ بعض مسلمان والدین اپنے بچوں کے نام بدل کر عیسائی نام لکھواتے تا کہ داخلہ میں آسانی رہے.ان اداروں میں باضابطہ طور پر عیسائیت کی تعلیم مسلمان طلباء کو بھی دی جاتی.جب یہ بچے پڑھ کر کالج سے باہر نکلتے تو عیسائیت کے رنگ میں رنگین ہو چکے ہوتے.ان خوفناک حالات کے پیش نظر جماعت گولڈ کوسٹ میں خاص طور تعلیمی ادروں کے بنانے پر توجہ دے رہی تھی.۱۹۳۵ ء تک سنٹرل ریجن میں چھ اسکول قائم ہو چکے تھے.۱۹۴۱ء میں اشانٹی ریجن میں کماسی کے شہر میں بھی ایک سکول کا اجراء کیا گیا.اب تک جماعت صرف پرائمری اور مڈل سکول چلا رہی تھی.۱۹۴۴ء میں خود انسپکٹر آف سکولز نے مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کو اس طرف توجہ دلائی کہ جماعت کو اب یہاں پر ایک سکینڈری اسکول کھولنا چاہئیے.

Page 633

623 هندوستان سے باہر اب تک جماعت نے اس سطح کا ادارہ نہیں کھولا تھا.اس لئے پہلے اس کو شروع کرنے کے لئے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کی ضرورت تھی.چنانچہ حضور نے مکرم سفیر الدین صاحب کو انگلستان پی ایچ ڈی کرنے کے لئے بھجوایا.جب چار سال کے بعد ان کی پی ایچ ڈی مکمل ہو گئی تو وہ ۱۹۵۰ء میں حضور کے ارشاد کے تحت گولڈ کوسٹ چلے گئے تا کہ کماسی میں ایک سکینڈری اسکول کا آغاز کر سکیں.اس راستے میں بہت سی مشکلات حائل تھیں لیکن سکول کے عملے نے مستقل مزاجی سے ان پر قابو پالیا اور یہ سکول ملک کا ایک نامور ادارہ بن گیا.(۵۴) گولڈ کوسٹ کی جماعت ایک فعال جماعت کی حیثیت سے ابھر رہی تھی اور یہاں پر نظامِ جماعت اپنی روایات کے ساتھ مستحکم ہورہا تھا.۱۹۴۵ء میں مکرم الحاج محمد الحق صاحب اس جماعت کے پریذیڈنٹ اور مکرم جمال جانسن صاحب جنرل سیکریٹری کے فرائض سر انجام دے رہے تھے.(۶) گو دوسری جنگ عظیم کے دوران مکرم مولانا نذیر مبشر صاحب گولڈ کوسٹ میں اکیلے مرکزی مبلغ تھے لیکن وہ بڑی جانفشانی سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے.دیگر اہم فرائض کے علاوہ وہ مختلف مقامات کا دورہ کر کے احمدیت کا پیغام پہنچاتے.چنانچہ صرف ۴۲ ۴۳ کے مالی سال کے دوران آپ نے ۳۳۸ مقامات کا خود دورہ کیا اور ۴۴ ۴۵ کے سال دوران آپ نے ۳۰۹ دیہات کا دورہ کیا اور ۱۰۰ لیکچر دیئے.(۸،۷) اُس دور میں مالی حالات ایسے تھے کہ تجارت کی تمام رقم آپ نے جماعت کے بجٹ پر خرچ کرنی شروع کی، جس کے باعث تجارت رک گئی.اور آپ کو بعض دفعہ ایسی تنگی کا سامنا کرنا پڑا کہ بعض دفعہ ایک دو ہفتہ نمک مرچ کے ساتھ روٹی کھانی پڑی یا وہاں کی مقامی غذا کساوا استعمال کر لیتے.گوشت جیسی اشیاء ان حالات میں میسر نہ تھیں.سیرالیون میں جب مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کو ان حالات کا علم ہوا تو با وجود اس کے کہ انہیں بھی سخت حالات کا سامنا تھا انہوں نے اپنے الاؤنس میں سے نصف مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کو بھجوانے کا انتظام فرما دیا.(۹) آٹھ سال تک مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر گولڈ کوسٹ میں اکیلے مرکزی مبلغ تھے.جیسا کہ حضور کی ہدایت تھی آپ مقامی مبلغین بھی تیار کر رہے تھے.ان سالوں میں ایسے بائیس مقامی

Page 634

624 مبلغین تیار کئے گئے اور ان میں سے دو کو سیرالیون بھی بھجوایا گیا.جب دوسری جنگ عظیم کا اختتام ہوا تو ۱۹۴۵ء کے آخر اور ۱۹۴۶ء کے شروع میں مکرم ملک احسان اللہ صاحب ،مکرم مولا نا عبد الخالق صاحب اور مکرم مولانا بشارت احمد صاحب کو بطور مرکزی مبلغ غانا بھجوایا گیا.ستمبر ۱۹۴۶ء میں مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے گولڈ کوسٹ مشن کا چارج مکرم مولا نا عبد الخالق صاحب کے سپرد کیا اور خود ہندوستان کے لئے روانہ ہو گئے.آپ کے ہمراہ آپ کے ایک شاگر دمکرم یعقوب صاحب بھی روانہ ہوئے تا کہ مرکز اور حضور اقدس کی زیارت کر سکیں.دونوں راستے میں حج کی سعادت کے لئے سعودی عرب اترے مگر مکہ معظمہ میں ایک مختصر علالت کے بعد مکرم یعقوب صاحب کی وفات ہوگئی.اور مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر دس سال سے زائد عرصہ میدانِ جہاد میں گزار نے کے بعدے جنوری ۱۹۴۷ء کو قادیان پہنچے.گیارہ سال سے زیادہ عرصہ قبل جب آپ افریقہ کے لئے روانہ ہوئے تھے تو آپ بالکل نوعمر نوجوان تھے.آپ کا نکاح قادیان کے مکرم بھائی محمود احمد صاحب کی سب سی بڑی صاحب زادی آمنہ بیگم سے پڑھا گیا.ابھی رخصتانہ نہیں ہوا تھا کہ گولڈ کوسٹ کے لئے ایک واقف زندگی کی ضرورت پیش آ گئی.آپ نے اپنے آپ کو پیش فرمایا.حضور نے آپ کو اس کام کے لئے منتخب فرمایا.اور آپ فوراً میدانِ عمل کے لئے روانہ ہو گئے.گیارہ سال گزر گئے اور نہ آپ واپس آسکے اور نہ ہی آپ کی شادی ہو سکی.نہ آپ نے واپس آنے کے لئے درخواست دی.آخر مرکز نے خود آپ کو واپس بلا لیا.اور جب آپ واپس آئے تو آپ کے بال سفید ہونا شروع ہو چکے تھے.بالآخر نکاح کے گیارہ سال بعد ۱۶ فروری ۱۹۴۷ء کو آپ کی شادی ہوئی.(۱۰.۱۱) غانا میں احمدیوں کی تعداد میں تدریجاً اضافہ ہو رہا تھا.جب ۱۹۳۱ء میں مردم شماری ہوئی تو یہاں پر احمدیوں کی تعداد تین ہزار تھی.اور ۱۹۴۸ء کی مردم شماری میں یہ تعداد بڑھ کر۲۲ ہزار سے تجاوز کر چکی تھی.(۱۲) مکرم مولانا نذیر مبشر صاحب کی روانگی کے چند روز کے بعد مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی گولڈ کوسٹ پہنچ گئے.آپ مغربی افریقہ کے رئیس التبلیغ تھے اور مکرم مولا نا عبد الخالق صاحب بطور امیر اور مشنری انچارج کے کام کر رہے تھے.مگر عبد الخالق صاحب کو بیماری کی وجہ سے جلد واپس آنا پڑا اور مکرم مولا نا بشارت احمد صاحب نسیم یہاں کے امیر مقرر ہوئے.جب دسمبر ۱۹۴۸ء میں آپ کو

Page 635

625 واپس آنے کی اجازت ملی تو مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے گولڈ کوسٹ کے امیر کی حیثیت سے کام شروع کیا.اور مکرم مولانا نذیر مبشر صاحب بھی جنوری ۱۹۴۹ ء میں گولڈ کوسٹ پہنچ گئے.اور جب نومبر ۱۹۵۰ء کو مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی گولڈ کوسٹ سے روانہ ہوئے تو مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے ایک مرتبہ پھر امیر اور مشنری انچارج کے فرائض سنبھال لئے.(۱۳) ۱۹۵۰ء کور بوہ میں ہونے والے جلسہ سالانہ میں گولڈ کوسٹ کے ایک احمدی نے بھی شرکت کی.یہاں پر جماعت ایک عرصہ سے قائم تھی لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مرکزی جلسہ سالانہ میں گولڈ کوسٹ کی نمائیندگی ہو رہی تھی.یہ خوش نصیب مکرم حاجی حسن عطاء صاحب تھے.آپ نے ۱۹۳۶ء میں بیعت کی تھی اور کماسی کی ٹاؤن کونسل کے ایک اعلیٰ عہدہ پر کام کر رہے تھے.آپ نے جلسہ سالانہ میں شرکت کی اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.(۱۴) گولڈ کوسٹ میں احمدیوں کو بہت سے ظلموں کا نشانہ بنایا گیا تھا.لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں پر احمدیت پھیل رہی تھی.اور کئی صاحب اثر احباب بھی احمدیت قبول کر رہے تھے.چنانچہ جب ۱۹۵۱ء میں گولڈ کوسٹ اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو تین احمدی احباب بھی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے.یہ تین احباب مکرم محمد آرتھر صاحب ، مکرم نوح بن ابو بکر صاحب اور مکرم مومن کوری صاحب تھے.(۱۵) اب اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ یہاں کے احمدیوں میں سے کچھ مرکز جائیں اور دین کی تعلیم حاصل کر کے اپنے ملک میں احمدیت کی تبلیغ کا کام کریں.چنانچہ حضرت مصلح موعود کی منظوری سے اس غرض کے لئے دو طلباء کا انتخاب کیا گیا.یہ دو طلباء بشیر بن صالح اور عبدالوہاب آدم صاحب تھے.یہ طلباء تیرہ چودہ سال کی عمر کے تھے.یہ دونوں مکرم بشارت احمد صاحب بشیر کے ہمراہ نومبر ۱۹۵۲ء میں ربوہ پہنچے.۱۹۵۷ء میں بشیر بن صالح شدید بیمار ہو گئے اور انہیں واپس جانا پڑا اور کچھ عرصہ کے بعد ان کا انتقال ہو گیا.مکرم عبدالوہاب آدم صاحب نے آٹھ سال ربوہ میں رہ کر تعلیم حاصل کی اور پھر اپنی عملی خدمات کا آغاز کیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی.اب آپ غانا کے امیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں.(۱۶) جلسہ سالانہ جماعتی روایات کا ایک اہم حصہ ہے.اب گولڈ کوسٹ کے احمدیوں میں

Page 636

626 جلسہ سالانہ میں شرکت کا رحجان بڑھ رہا تھا تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس کی برکت سے فیضیاب ہو سکیں.۱۹۵۷ء میں جب سالٹ پانڈ کے مقام پر جلسہ سالانہ ہوا تو اس میں پانچ ہزار افراد نے شرکت کی.(۱۷) ۱۹۵۷ء میں جب گولڈ کوسٹ آزاد ہو کر دنیا کے نقشے پر غانا کی حیثیت سے نمودار ہوا تو حضرت خليفة امسیح الثانی نے ملک کے وزیر اعظم کے نام مبارک باد کا پیغام بھجوایا.اس میں آپ نے تحریر فرمایا میں اپنی اور جماعت احمدیہ کی طرف سے جو تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے آپ کو اور آپ کے ملک کے عوام کو حصول آزادی کی تقریب پر مبارکباد دیتا ہوں اور آپ کے ملک کی مسلسل اور ہر آن بڑھنے والی خوشحالی اور ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں.(۱۸) جیسا کہ پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ مسلمان طلباء جب عیسائی سکولوں میں داخل ہوتے تو نہ صرف ان کے عیسائی نام رکھے جاتے بلکہ ان کو عیسائیت کی تعلیم بھی دی جاتی.مکرم نذیر مبشر صاحب نے ایک میٹنگ میں ملک کے وزیر تعلیم سے مطالبہ کیا کہ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے.وزارت تعلیم نے شواہد پیش کرنے کو کہا.جب مشن کی طرف سے یہ شواہد پیش کئے گئے تو ۱۰ مارچ ۱۹۶۱ء کو حکومت نے یہ سرکلر جاری کیا کہ اب مسلمان طلباء کو زبردستی عیسائیت کی تعلیم نہ دی جائے اور جہاں پر اساتذہ موجود ہوں وہاں پر انہیں اسلامیات پڑھائی جائے.(۱۹) جوں جوں جماعت کی ترقی ہو رہی تھی یہاں پر جماعت کی مساجد کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا تھا.۱۸ستمبر ۱۹۵۹ء کو مرکز رپورٹ بھجوائی گئی کہ غانا میں جماعت کی چھوٹی بڑی مساجد کی تعداد ۱۶۵ ہو چکی ہے.(۲۰) مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کی غانا میں خدمات کا عرصہ پچیس سال کے طویل عرصہ پر پھیلا ہوا تھا.اس بار آپ دو مرتبہ رخصت پر مرکز گئے.۱۹۶۱ء میں آپ کو مستقل واپسی کی اجازت ملی اور مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب کو چارج دے کر لندن کے راستے ۳۰ اکتوبر ۱۹۶ء کور بوہ پہنچے.(۲۱) جنوری ۱۹۵۵ء میں جماعت گولڈ کوسٹ کی طرف سے ایک اخبارسن رائز جاری کیا گیا تھا مگر

Page 637

627 اسے جلد بند کرنا پڑا.پھر اکتو بر ۱۹۶۱ء میں مشن کی طرف سے ایک ماہوار بلٹن احمد یہ نیوز جاری کیا گیا.اس کے اجراء پر ایک جماعتی اخبار کی ضرورت محسوس ہوئی.اور مئی ۱۹۶۲ء سے The Guidance کے نام پر ایک اخبار جاری کیا گیا..۱۹۶۵ء میں مغربی افریقہ کے باقی ممالک کے ساتھ وکیل التبشیر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے غانا کا بھی دورہ کیا اور ملک کے صدر نکرومہ سے ملاقات کی اور یہاں کی اہم جماعتوں کا دورہ کرنے کے علاوہ تبلیغ کے مواقع کا جائزہ بھی لیا.پہلی مرتبہ ایک مرکزی نمائیندہ کی آمد پر غانا کے احمدیوں کی خوشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب صاحبزادہ صاحب کماسی پہنچے تو پانچ ہزار مردوں اور عورتوں نے آپ کا استقبال کیا اور حاضرین یہ گیت گا رہے تھے کہ ہم اسلام پر فدا ہونے کے لئے تیار ہیں.وہاں پر موجود غیر از جماعت بھی ان گیتوں کو سن کر جھوم رہے تھے.(۲۲) (۱) ریویو آف رالجنز ، مارچ ۱۹۷۴ء ص ۳۴ تا ۳۹ (۲) ریویو آف رلجنز ، مارچ ۱۹۷۴ء ص ۳۹ ۴۰ (۳) تاریخ غانا مشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۴۳ - ۴۵ (۴) تاریخ خا نامشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۴۶ و ۵۴ (۵) الفضل ۶ جون ۱۹۵۰ء (۶) الفضل ۱۹ جون ۱۹۴۵ء ص ۴ (۷) رپورٹ سالا نه صدرانجمن احمد به ۱۹۴۲ء - ۱۹۴۳، ص ۱۶،۱۵ (۸) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد به ۱۹۴۴ء ۱۹۴۵ء ص ۸۶-۸۷ (۹) یویو آف ریلیجنز ، مارچ ۱۹۷۴ء ص ۴۱ (۱۰) الفضل ۱۳ فروری ۱۹۴۷ء ص ۴ (۱۱) الفضل ۱۷ فروری ۱۹۴۷ ء ص ۳ (۱۲) الفضل ۸ ستمبر ۱۹۵۲ء ص ۴ (۱۳) تاریخ غانا مشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص۵۲ (۱۴) الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۵۰ ء ص ۱ (۱۵) الفضل یکم اپریل ۱۹۵۱ء ص ۶ (۱۶) تاریخ غانا مشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص۵۹ (۱۷) الفضل ۷ افروری ۱۹۵۷ء (۱۸) الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۵۷ء ص ۱ (۱۹) تاریخ خا نامشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۶۸ (۲۰) ریکارڈ وکالت تبشیر غانا ۱۹۵۹ء (۲۱) تاریخ غانا مشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۶۸ (۲۲) الفضل ۲ جولائی ۱۹۶۵ء ص ۲

Page 638

628 نائیجیریا: جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ۱۹۳۰ء کی دہائی کے آخر پر ، جب مکرم مولا نا فضل الرحمن حکیم صاحب مرکزی مبلغ کی حیثیت سے نائیجیریا پہنچے تو وہاں کے احمدیوں کے ایک بدقسمت گروہ نے نظام جماعت اور نظام خلافت سے علیحدگی اختیار کر لی.اور اپنا ایک علیحدہ گروہ قائم کر کے جماعت پر مقدمات قائم کرنے شروع کر دیئے، ان مقدمات کے نتیجے میں بہت سی املاک جماعت کے ہاتھوں سے نکل گئیں.۱۹۴۰ء تک نائیجیریا کی جماعت پر مصائب کی یہ آندھی چلی جو بڑے بڑے عمائدین کو اپنے ساتھ اُڑا کر لے گئی.جماعت کے بعض نام نہاد عمائدین نے جب جماعت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں نظام جماعت سے خارج فرما دیا.اس رو میں جماعت کے بعض ابتدائی ممبران بھی بہہ گئے.۱۹۴۲ء میں بھی متعد دلوگ گمراہ ہوئے اور مخرجین کے گروہ میں شامل ہو گئے.لا محالہ اس سے معاندین جماعت کو بہت مسرت حاصل ہوئی اور انہوں نے یقین کر لیا کہ اب آسمان ان لوگوں پر ٹوٹ پڑا ہے اور اب اس ملک سے احمدیت کا خاتمہ ہوا چاہتا ہے.بعض اخبارات نے ان خبروں کو غیر معمولی اہمیت دی اور بڑی بڑی سرخیوں اور دلکش عنوانات سے یہ خبریں شائع کیں.ہر طرف یہی کہا جا رہا تھا کہ امراء ورؤساء نے تو اس جماعت کو چھوڑ دیا ہے، اب یہ مفلسوں اور قلاشوں کی جماعت ہے.یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گی.بلکہ جلد ہی انہیں مخرجین کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے.لیکن خدا کی تقدیر کچھ اور ہی ظاہر کرنے والی تھی.ایک مرتبہ پھر دشمنوں کی خواہشیں حسرتوں میں بدلنے والی تھیں.(۱) اس صورتِ حال میں مکرم مولا نا فضل الرحمن حکیم صاحب مردانہ وار ان مشکل حالات کا مقابلہ کر رہے تھے.جیسا کہ پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ ۱۹۳۸ء سے انہوں نے نائیجیریا میں جماعت کے احیاء کے لئے ملک گیر دورے شروع کئے تاکہ نئی جماعتیں قائم ہوں اور احمدیوں کی تربیت بہتر انداز میں ہو سکے.چنانچہ انہوں نے ۱۹۴۲ء میں بھی ایک ملک گیر دورہ کیا جو کہ اپریل ۱۹۴۲ء سے شروع ہو کرنومبر ۱۹۴۲ء تک جاری رہا.اس طرح آپ نے مسلسل نو ماہ تک لیگوس سے باہر رہ کر تبلیغ اور رابطے کے ذریعہ جماعت کو ازسر نو منظم کیا.

Page 639

629 اسی دوران لیگوس میں بھی جماعت کو مستحکم کیا جا رہا تھا.اور یہاں پر مسجد بنانے کا منصوبہ تھا.چونکہ یہاں کی جماعت ابھی اس بوجھ کو اُٹھانے کے قابل نہیں تھی اس لئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ باہر کے احباب بھی اس کے لئے چندہ دیں.چنانچہ خاص طور پر ہندوستان کی جماعت نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ دینا شروع کیا اور کچھ قرض حاصل کیا گیا اور زیادہ حصہ نائیجیریا کی جماعت کے چندے سے پورا ہوا.۱۹۴۲ء کے وسط میں اس غرض کے لئے لیگوس میں ایک قطعہ حاصل کیا گیا.اُن دنوں جنگ عظیم کی وجہ سے سامان تعمیر بہت گراں تھا.لیکن خوش قسمتی سے اس قطعہ پر ایک عمارت ایسی بنی ہوئی تھی جسے مناسب ترمیم کے بعد بطور مسجد استعمال کیا جاسکتا تھا.ان دنوں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب امریکہ جاتے ہوئے نائیجیریا میں رکے لیکن اُس وقت مکرم مولانا فضل الرحمن حکیم صاحب دورہ پر لیگوس سے باہر تھے.اس لئے حضرت چوہدری صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی.آپ احباب جماعت کے ساتھ جمعہ پڑھنے کے لئے تشریف لائے.لیکن واپسی پر بھی آپ نے نائیجیریا سے گذرنا تھا.آپ سے درخواست کی گئی کہ آپ مسجد کا سنگِ بنیاد رکھیں.چنانچہ واپسی پر جب آپ نایجیر یا ٹھہرے تو آپ نے اس مسجد کا سنگِ بنیا درکھا.تقریب میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی.اور گورنر اور دیگر سرکاری عہدیدار بھی شریک ہوئے.احمدی مردوں عورتوں اور بچوں نے مسجد کا بہت سا کام خود کیا.بنیاد میں کھودنا، پھر اُن کو بھرنا ، پرانی عمارتوں کے بعض حصے گرانا ، زمین کا ہموار کرنا اور فرش لگانا ، غرض کئی کام لیگوس کی جماعت نے خود کئے.احباب جماعت جب ہفتہ اور اتوار کو یہ کام کر رہے ہوتے تو لوگوں کا ایک بڑا ہجوم ان کے گرد جمع ہو کر انہیں تعجب سے دیکھ رہا ہوتا.اگست میں مکرم مولا نا فضل الرحمن حکیم صاحب نے اس کا افتتاح فرمایا اور احباب جماعت نے اس میں نمازیں ادا کرنی شروع کر دیں.حضور نے اس کا نام سجد فضل رکھا.اس مسجد کی تعمیر ان لوگوں کے لئے ایک تازیانہ تھی جو یہ خیال کئے بیٹھے تھے کہ اب جماعت احمدیہ کو مخرجین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے.(۲تا۵) ۱۹۴۰ء میں نائیجیریا کی جماعت نے جلسہ ہائے سیرت النبی ﷺ کا آغاز کیا.ان کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ وہ غیر احمدی مسلمان بھی جو پہلے اس معاملے میں کسی تعاون کے لئے تیار نہیں تھے، بعد میں ان میں خوشی سے شریک ہونے لگے.اور ۱۹۴۰ء میں نائیجیریا میں مجلس انصاراللہ

Page 640

630 پر اور مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی گئیں.(1) ۱۹۴۵ء میں لیگوس کے مشن ہاؤس کا سنگِ بنیا درکھا گیا.تقریباً گیارہ سال سے مکرم فضل الرحمن حکیم صاحب نائیجیریا میں اکیلے مرکزی مبلغ تھے.دوسری جنگِ عظیم کے دوران مکرم مولوی محمد الدین صاحب نومبر ۱۹۴۲ء میں نائیجیریا کے لئے روانہ ہوئے اور بمبئی سے ایک جہاز ٹلا وہ پر سوار ہوئے.لیکن یہ جہاز راستے میں تارپیڈو سے غرق ہو گیا.اور اس طرح آپ نے جوانی میں ہی شہادت کا رتبہ پایا.جنگ عظیم کے بعد جماعت نے مزید مبلغین کو نائیجیریا بھجوانے کا انتظام کیا.چنانچہ اس سال مکرم نور محمد نسیم سیفی صاحب، مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب ، مکرم ملک احسان اللہ صاحب اور مکرم عبد الخالق صاحب سوڈان کے راستے بہت سی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے نائیجیریا پہنچے.(۷) با وجود تمام مشکلات سے رفتہ رفتہ نائیجیریا کے نئے مقامات پر جماعتیں قائم ہو رہی تھیں.ہم مختصراً جائزہ لیں گے کہ ۱۹۳۴ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیان کون سی جماعتیں قائم ہوئی تھیں.جوس ( Jos) کا شہر پلاٹو (Plateau) سٹیٹ کا صدر مقام ہے.یہاں پر احمدیت کا تعارف اوٹا (Otta) کے ایک احمدی الحاجی عبد الوہاب او جویے (Ojoye) کے ذریعہ ہوا، جنہوں نے یہاں سکونت اختیار کی.پھر مکرم فضل الرحمن حکیم صاحب نے یہاں کا دورہ کیا تو دو مزید بیعتیں ہوئیں.یہاں پر بھی مخالفت ہوئی اور بعض اوقات احمدی مقررین پر پتھر بھی پھینکے گئے لیکن آہستہ آہستہ اس علاقے میں جوس کے مقام پر مسجد بھی بنی اور قریب کے دوسرے مقامات پر بھی لوگ احمدیت میں داخل ہونے لگے.نائیجیر یا جماعت کی تاریخ میں الا رو ( llaro) کی ایک خاص اہمیت ہے کیونکہ بعد میں یہاں پر جامعہ احمدیہ بنایا گیا.یہاں پر سب سے پہلے الحاجی عبد العزیز ابیولا (Abiola) صاحب نے ۱۹۴۳ء میں احمدیت قبول کی اور اپنے مکان کے ایک حصہ کو جماعت کی مسجد کے طور پر مختص کر دیا.اس کے بعد یہاں کے کئی دوسرے احباب بھی بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.اور ۱۹۴۹ء میں جماعت نے الا رو میں اپنی مسجد بنائی اور ۱۹۵۳ء میں فضل عمر پرائمری سکول کے نام سے ایک سکول قائم کیا.اب الا رو کا شمار نائیجیریا کی بڑی جماعتوں میں ہوتا ہے.۱۹۴۶ء میں شمالی نائیجیریا کے اہم شہر کا نو میں جماعت احمدیہ کے مشن کا آغاز کیا گیا یہاں پر

Page 641

631 مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن عیسائی مشنری کافی سرگرم تھے.یہاں جماعت کی مسجد اور ایک مختصری جماعت تھی.(۸) صرف لوگوں کو احمدی کر لینے سے اغراض و مقاصد پورے نہیں ہوتے.ان میں حقیقی تبدیلی آنا اور ان کا قربانیوں میں حصہ لینا ضروری ہوتا ہے مکرم نسیم سیفی صاحب کی رپورٹ ۲۶ مئی ۱۹۴۵ء پر حضور نے ارشاد فرمایا ہمیں نام کے احمدی نہیں چاہئیے ہیں.ہمیں کام کے احمدی درکار ہیں.تمام احمد یوں کے نام لکھیں اور یہ کہ وہ کیا چندہ کس کس مد کا دیتے ہیں اور یہ تفصیل بھی بتائیں کہ وہ جمع شدہ چندہ کس کی اجازت سے خرچ ہوتا ہے.جہاں تک ہو سکے خرچ میں کفایت اور مقامی لوگوں سے چندہ با قاعدہ کرنا اور تجارت کا بھی انتظام کرنا یہ تین ضروری باتیں ایسی ہیں جو ہر مبلغ کو علاوہ تبلیغ و تربیت و تعلیم کے ضرور مد نظر رکھنی ہیں.(۹) اس بات کی ضرورت تھی کہ نائیجیریا میں جماعت کی تبلیغ کا دائرہ کار پھیلے اور اس امر کے لئے مالی وسائل کی ضرورت تھی.اور اس بات کی ضرورت تھی کہ یہ مالی وسائل جماعتی قوائد وضوابط کے مطابق خرچ کئے جائیں.کرم قریشی محمد افضل صاحب کی رپورٹ محررہ ۲۷ مئی ۱۹۴۶ء پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ارشاد فرمایا چندے باقاعدہ رکھیں.اور روپیہ خود خرچ کرنے کی اجازت نہیں.سب بجٹ با قاعدہ منظوری سے خرچ کیا جائے.اور جب کا نو سے بجٹ حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور نے ارشاد فرمایا د تھوڑی سی کوشش سے یہ بجٹ اپنی ضروریات کو پورا کر کے ایک اور جماعت کھڑی کرنے کا موجب ہو سکتا ہے.وہاں کی جماعت کو بھی خوشنودی کا خط لکھا جائے.اور لکھا جائے کہ بجٹ کی مضبوطی سے ہی وہاں کی جماعت بڑھے گی اور پھر آپ اپنے ارد گرداور مشن قائم کرنے میں انشاء اللہ کامیاب ہو جائیں گے.(۱۰) تمرم م فضل الرحمن حکیم صاحب نومبر ۱۹۴۷ء میں نائیجریا سے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے.آپ نے ۲۶ سال مغربی افریقہ میں خدمات سرانجام دیں.اور اس دوران صرف تین سال کے

Page 642

632 عرصہ کے لئے رخصت پر وطن آئے.باقی تمیس سال کا عرصہ آپ نے بغیر اہل وعیال کے مغربی افریقہ میں خدمت کرتے ہوئے گزارا.ان کے بعد مکرم مولا نانسیم سیفی صاحب یہاں کے امیر مقرر ہوئے.۱۹۴۹ء میں نائیجیریا میں تین مرکزی اور تین مقامی مبغلین کام کر رہے تھے.باوجود اس کے کہ نائیجیریا میں ایک عرصہ سے جماعت قائم تھی لیکن ابھی تک ملکی سطح پر جلسہ سالانہ منعقد نہیں کیا گیا تھا.۱۳ اور ۱۴ اگست ۱۹۴۹ء کو لیگوس میں جماعت احمدیہ نائجیریا کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا.اس میں پندرہ جماعتوں کی طرف سے نمائیندے شامل ہوئے.اور اس کے ساتھ مجلس شوریٰ بھی منعقد کی گئی.اس جلسہ کا انعقاد جماعت کے حوصلے بڑھانے کا موجب ہوا.(۱۱) ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ میں جماعت کے اخبار کے اجرا کا فیصلہ کیا گیا.اور اس کے لئے کوششوں کا آغاز ہوا.اور پہلے مرحلے کے طور پر جماعت نے اپنا نیوز لیٹر شائع کرنا شروع کیا.(۱۲)۱۹۵۱ء میں جماعت کا جریدہ ٹروتھ (Truth) کے نام سے شائع ہونا شروع ہوا اور تب سے یہ ہفتہ وار اخبار صرف نائیجیریا میں ہی نہیں بلکہ مغربی افریقہ کے باقی ممالک میں بھی اشاعتِ اسلام کے لئے اہم خدمات سرانجام دے رہا ہے.(۱۳) ۱۹۴۹ء میں بھی مخرجین کی طرف سے مقدمات کا سلسلہ چل رہا تھا.ایک مسجد کے حصول کے لئے ان کی طرف سے مقدمہ کیا گیا جو کہ خارج ہو گیا.اور اس کے بعد ایک اور قطعہ زمین کے سلسلہ میں مقدمہ کیا گیا.(۱۴)۱۹۵۲ء میں احمدی ایک مقدمہ کی پیروی کر کے عدالت سے باہر نکل رہے تھے مخالفین نے بہت گالیاں نکالیں.مگر احمد یوں نے کوئی جواب نہ دیا.حضور گور پورٹ ملی تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو مقدمہ میں نمایاں کامیابی عطا فرمائے.کمینہ دشمن ہمیشہ گالی گلوچ سے کام لیتا ہے.آپ صبر و تحمل سے خود بھی کام لیں اور دوستوں کو بھی اس کی ترغیب دیں.(۱۵) حضور کی خواہش تھی کہ نائیجیریا میں جماعت کی ترقی تیزی سے ہو نسیم سیفی صاحب کی ایک رپورٹ پر آپ نے ارشاد فرمایا

Page 643

633 وہاں پر احمدیت کی رفتار بہت ست ہے.حالانکہ ایسے علاقوں میں لاکھوں آدمی اب تک احمدیت میں داخل ہو جانے چاہئے تھے.(۱۶) مغربی افریقہ کے باقی ممالک کی طرح جماعت نائیجیریا میں بھی اپنی طبی خدمات کا آغاز کر رہی تھی.۱۹۵۵ء تک یہاں پر جماعت کے سکولوں کی تعداد آٹھ تک پہنچ چکی تھی.اور اس کے علاوہ یورو با اور انگریزی زبان میں دیگر مطبوعات بھی شائع ہو رہی تھیں.پریس کے ساتھ جماعت کے تعلقات مضبوط ہو رہے تھے اور ۱۹۵۷ء میں مکرم مولا ناسیم سیفی صاحب کو نائیجیریا کے صحافیوں کی یونین کا نائب صدر بھی منتخب کیا گیا.ایک احمد یہ نیوز ایجنسی بھی قائم کی گئی، جس کے ذریعہ پریس کو احمدیت کے متعلق خبریں مہیا کی جاتی تھی.اسلامک لٹریچر بک شاپ کا قیام عمل میں آیا جس کو بیرونِ ملک کے علاوہ اندرونِ ملک سے بھی آرڈر موصول ہونے لگے.ان کاوشوں کے علاوہ بیرونِ ملک بھی بذریعہ خط و کتابت تبلیغ کا سلسلہ خاطر خواہ پیمانے پر جاری تھا.یہ ذکر پہلے آچکا ہے کہ گیمبیا میں احمدیت کی ابتداء بھی نائیجیریا مشن سے خط و کتابت کے ذریعہ ہوئی تھی.(۱۷) یوں تو جماعت کو ہر ماہ ریڈیو پر تقاریر اور تلاوت قرآن کریم کرنے کا موقع ملتا تھا.لیکن ۱۹۵۶ء میں ریڈیو کے محکمے نے ہر ماہ ایک مرتبہ لیگوس میں جماعت کی مسجد میں دیا جانے والا خطبہ جمعہ نشر کرنا شروع کیا اور اس طرح ذرائع ابلاغ کے ذریعہ لوگوں تک حقیقی اسلام کا پیغام پہنچنے لگا.(۱۸) نائیجیریا کے احمدی بھی جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے اور نظام جماعت کے تحت مختلف خدمات سرانجام دے رہے تھے.۱۹۶۰ء میں یہاں کے جنرل پریذیڈنٹ بکری صاحب تعلیمی خدمات کے بعد ۱۹۶۱ء میں جماعت احمدیہ نے نائیجیریا میں اپنی طبی خدمات کا آغاز بھی کر دیا.چنانچہ اس غرض کے لئے مکرم کرنل ڈاکٹر محمد یوسف صاحب یکم نومبر ۱۹۶۱ء کو لیگوس پہنچ گئے اور جنوری ۱۹۶۲ء میں آپ نے لیگوس میں جماعت کی ڈسپنسری کا آغاز کیا.آپ نے عرصہ سات سال وہاں پر خدمات سرانجام دیں اور اپریل ۱۹۶۹ء کو دل کا دورہ پڑنے سے آپ کا انتقال ہو گیا.اس طرح آپ کو میدانِ عمل میں کام کرتے ہوئے شہادت کا مرتبہ ملا.لیگوس ڈسپنسری کے اجراء کے صرف دو ماہ کے بعد کانو میں جماعت کی دوسری ڈسپنسری کا آغاز کیا گیا.یہ ڈسپنسری کا نو

Page 644

634 میں مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے قائم فرمائی تھی.جلد یہ ڈسپنسری ترقی کرتی ہوئی ایک ہسپتال کی شکل اختیار کر گئی.کا نوشہر میں اُس وقت مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن وہاں پر ایک بھی مسلمان ڈاکٹر موجود نہیں تھا.مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے بھی طویل عرصہ خدمات سرانجام دے کر ۱۱ جولائی ۱۹۸۱ء کو میدانِ عمل میں وفات پائی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ کا نو میں ایک طبقہ کی طرف سے احمدیت کی شدید مخالفت کی گئی تھی.پہلے ۱۹۵۹ء میں یہ تحریک کی گئی کہ کوئی احمد یوں سے مصافحہ نہ کرے اور نہ میل جول رکھیں.شہر میں احمدیت کے خلاف لیکچر دیئے گئے.اور کانو سے زاریہ کے شہر جا کر بھی مخالفین نے لوگوں کو احمدیت کے خلاف بھڑ کا یا.اور ۱۹۵۹ء میں Anti Ahmadiyya Movement کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا.اور مخالفین نے اعلان کیا کہ وہ اب ھاؤ سا قبیلے کے احمدیوں کے گھر جا کر انہیں تو بہ کرنے کے لئے کہیں گے.بعض کو ملازمت سے ہٹانے کی دھمکیاں دی گئیں اور بعض کو تو والدین اور دیگر رشتہ داروں کی طرف سے دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں.کا نو میں پریس کا انچارج جو مقامی سلطان کا داماد بھی تھا ، احمدیت کی مخالفت کی پیروی کر رہا تھا.اور جماعت کے خلاف لکھی گئی کتب ہندوستان، پاکستان اور عرب ممالک سے منگوا رہا تھا.اور خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات کو اعتراضات کا نشانہ بنایا جا رہا تھا.اس کے جواب میں جماعت بھی اپنی روایات کے مطابق مخالفت کی اس لہر کا جواب دے رہی تھی.پبلک میٹینگز میں ان مخالفانہ اعتراضات کے جوابات دیئے جارہے تھے، اخبارات میں مضامین لکھے جا رہے تھے.اور مخالفین کے اعتراضات کے جوابات پر اور ثابت قدم رہنے کی تلقین پر مشتمل اشتہارات احمدیوں میں تقسیم کئے جارہے تھے.اور نو مبائعین اور پرانے احمدیوں کو خطبات اور تقاریر میں ثابت قدم رہنے کی تلقین کی جا رہی تھی.اس مخالفانہ لہر کے با وجود کا نو میں احمدیت رفتہ رفتہ ترقی کر رہی تھی.(۲۲،۲۱،۲۰،۱۹) اب تک مشرقی نائیجیریا میں جماعت قائم نہیں ہوئی تھی ، یہاں پر عیسائیت کا زور تھا.۱۹۶۳ء میں مرکز کی ہدایت کے مطابق یہاں پر بھی جماعت نے اپنی تبلیغی مساعی کا آغاز کیا.(۲۳) مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب ۱۹ سال سے نائیجیریا میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے.جولائی ۱۹۶۴ء میں آپ واپس پاکستان آگئے اور آپ کی جگہ مکرم شیخ نصیرالدین صاحب نے امیر کے

Page 645

635 فرائض ادا کرنے شروع کئے.(۲۵،۲۴) ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۴ء تک مکرم نسیم سیفی صاحب امیر جماعت نائیجیر یا ر ہے اور اس دوران بہت سے مقامات پر لوگوں نے احمدیت قبول کی اور یہاں پر جماعتیں قائم ہوئیں.جہاں پر جماعت قائم ہوتی بالعموم اس جگہ کے گرد و پیش میں احمدیت کے نفوذ کا کام تیز ہو جاتا.ہم ان میں سے کچھ مقامات کا اختصار سے ذکر کریں گے.اگبیڈے (Agbede) میں ایک نو جوان مکرم مرتضی حبیب کے ذریعہ جماعت کا قیام عمل میں آیا.آپ نے دو سال لیگوس میں قیام کر کے مکرم فضل الرحمن حکیم صاحب سے دینی علم حاصل کیا.اور اس دوران بیعت بھی کر لی.آپ نے ۱۹۴۷ء میں اگبیڈے پہنچ کر تبلیغ شروع کی.جب کچھ لوگوں نے احمدیت قبول کی تو مخالفت تیز ہو گئی.ایک روز شر پسندوں نے احمدیوں کے محلہ پر حملہ کیا اور پھر ایک بار پھر حملہ کر کے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا.لیکن جس دن حملہ ہونا تھا اسی دن اگبیڑے کے چیف امام کے گھر کو آگ لگ گئی اور دوسرے گھر بھی اس کی لپیٹ میں آگئے.اور اس طرح یہ حملہ شروع ہی نہ ہو سکا.پھر اگبیڑے کے قریب جاگے (Jagbe) میں بھی احمدیت کا پودا لگا اور پروان چڑھنے لگا.آڈو رکیتی (Ado ekite) کا قصبہ اونڈ و ( Ondo) سٹیٹ میں ہے.یہاں کے معلم عبد الجامی جمال ن حکیم صاحب نے اپنے پاس رکھ کر بطور مبلغ تیار کیا اور جنوری ۱۹۴۸ء میں آپ کو اونڈو میں مبلغ مقرر کیا گیا اور ان کی تبلیغ کے ذریعہ وہاں پر جماعت قائم ہوئی.اس کے بعد اسی سٹیٹ میں Iluomoob-ekiti کے گاؤں میں بھی جماعت قائم ہوئی.اویوسٹیسٹ میں ایوو (Iwo) کے مقام پر احمدیت مکرم آجیات ثانی کے ذریعہ قائم ہوئی.آپ نے دورانِ ملازمت احمدیت قبول کی تھی ، اور ریٹائر ہونے کے بعد آپ نے احمدیت کی تبلیغ شروع کی.Owode کا گاؤں Ogun سٹیسٹ میں ہے یہاں الارو کے ایک احمدی مکرم عبد الرحمن کو مپیائی (Ikumapayi) کی تبلیغ سے احمدیت کا پودا لگا.لیگوس سٹیٹ میں اگیلگے (Agege) کی جماعت الحاج اڈالیمو (Adalemo) کے ذریعہ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوئی.اوگن سٹیٹ کے صدر مقام Abeokuta میں ۱۹۵۲ء میں باقاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آیا اسی طرح اس عرصہ میں آؤچی (lvibio ،(Auchi Khua،ایپوکیا(Ayetro-egbado،(Ipokia اور اویو(Oyo) میں بھی جماعتیں قائم

Page 646

636 ہوئیں.۱۹۶۵ء میں پہلی مرتبہ مرکزی نمائیندہ محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے نائیجیریا کا دورہ کیا.(۱) الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۵ء ص ۳ (۲) الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۴۱ء ص ۲ (۳) الفضل ۴ اپریل ۱۹۴۲ء ص ۵ (۴) الفضل ۱۷ اگست ۱۹۴۳، ص ۲ (۵) الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۴۳ء ص ۴ (1) تاریخ نائیجیریا مشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص۵۴ (۷) تاریخ نائیجیریا مشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص۶۰ و۶۷ (۸) الفضل ۶ جون ۱۹۴۶ء ص ۲ (۹) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل مکرم نسیم سیفی صاحب ۴۵ - ۴۶ (۱۰) از ریکارڈ تبشیر فائل مکرم قریشی محمد افضل صاحب ۱۹۴۶ء (۱۱) ۱۰ستمبر ۱۹۴۹ ء ص ۴ (۱۲) الفضل ۵۲ جولائی ۱۹۵۱ء ص ۴ (۱۳) تاریخ نائیجیریا مشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوہ ص ۷۱-۷۲ (۱۴) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل مکرم نسیم سیفی صاحب ۱۹۴۹ء (۱۵) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل مکرم نسیم سیفی (۱۶) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل مکرم نسیم سیفی صاحب ۱۹۵۵ء (۱۷)۱۹ جنوری ۱۹۷۵ ء ص۳ (۱۸) الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۵۶ء (۱۹) الفضل ۴ نومبر ۱۹۶۱ء ص ۱ (۲۰) الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۶۲ء ص ۱ (۲۱) تاریخ نائیجیریا مشن ، مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۸۱-۸۲ (۲۲) ریکارڈ تبشیر مکرم مولانا بشیر احمد شاد صاحب ۱۹۵۶ء تا ۱۹۵۹ء (۲۳) الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۶۳ء ص ۵ (۲۴) الفضل ۹ مئی ۱۹۶۴ء ص ۱ (۲۵) الفضل ۴ جولائی ۱۹۶۴ء ص اصاحب ۱۹۵۲ء

Page 647

637 مشرقی افریقہ کتاب کے حصہ دوئم کے آغاز پر ہم مشرقی افریقہ میں جماعت کے مشن کے آغاز کا ذکر کر چکے ہیں.اور سواحیلی میں قرآن کریم کے ترجمہ کا ذکر بھی کیا جا چکا ہے.اب ہم مختصراً یہ جائزہ لیں گے کہ ۱۹۴۰ء اور ۱۹۶۱ء کے درمیان وہاں کی جماعت کن مراحل سے گذری اور رفتہ رفتہ اس کی مساعی کا دائرہ کس طرح وسیع ہورہا تھا.ابتداء ہی سے ٹانگانیکا کے علاقے میں ٹبورہ کا شہر جماعتی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا.یہاں پر مقامی احباب کی ایک مخلص جماعت قائم تھی.۱۹۴۰ء میں جماعت نے یہاں پر مسجد بنانے کا فیصلہ کیا.اس کے لئے جماعت نے قطعہ زمین پہلے ہی خرید رکھا تھا.مخالفین یوں تو پہلے ہی ہر وقت شرارتوں پر آمادہ رہتے تھے.اس موقع پر مخالفت کی آگ بھڑک اُٹھنا ایک قدرتی بات تھی.وہ فوراً حکام کے پاس پہنچے اور اپنا آزمودہ نسخہ آزماتے ہوئے انہیں کہا کہ اگر یہاں پر احمد یوں کو مسجد بنانے کی اجازت دی گئی تو اس سے فساد ہو جائے گا.حکام نے یہ معقول جواب دیا کہ حکومت کے پاس ایسا کوئی قانون نہیں کہ وہ احمدیوں کو مسجد بنانے سے روکے اور جہاں تک فساد کا تعلق ہے تو اسے حکومت دیکھ لے گی.مگر مخالفین سلسلہ کوششیں کرتے رہے کہ احمدی اپنی مسجد نہ بنا سکیں.آخر کار یکم فروری ۱۹۴۱ء کو احمدیوں نے زمین پر نشان لگانے سے کام شروع کیا.اس وقت مخالفین کے ایک نمائیندے نے آکر احمدیوں کو دھمکی دی کہ اگر تم لوگ باز نہ آئے تو مسلمان تم سے لڑیں گے اور جہاد ہو جائے گا.اگلے روز احمدیوں نے خود کام کرتے ہوئے مسجد کی بنیادیں کھودنی شروع کیں.پہلے سے اطلاع مل چکی تھی کہ شریر لوگ فساد کا منصوبہ بنا چکے ہیں.پولیس کو بھی مطلع کر دیا گیا تھا.مخالفین کا ایک گروہ آیا مگر احمدی مرد، عورتیں اور بچے اپنے کام میں لگے رہے اور یہ گروہ خاموشی سے چلا گیا.دوپہر کو جب مبلغ سلسلہ شیخ مبارک صاحب ایک احمدی کے دوکان پر بیٹھے تھے تو بلوائیوں نے ان پر حملہ کر دیا.انہوں نے اور ان کے ساتھ دوسرے احمدیوں نے ایک مکان میں پناہ لی.وہاں سے وہ شیخ صاحب کے گھر گئے اور وہاں کچھ دیر شور مچاتے رہے.اور بعض دوسرے احمدیوں کے گھروں پر حملے شروع ہو گئے.شہر میں دہشت کی فضا چھا گئی تھی.پولیس حرکت میں آئی اور دو دن میں پچاس کے قریب بلوائی گرفتار کر لئے جن میں سے تمیں کو سزا ہوئی.معاملہ

Page 648

638 گورنر تک پہنچا بعض حکام بھی مخالفین کا ساتھ دے رہے تھے ، چنانچہ حکومت نے مسجد کی تعمیر رکوا دی.(۱) ۱۹۴۲ء میں حکومت نے اس سے بہتر جگہ جماعت کو مسجد کے لئے مہیا کر دی.پھر کام شروع ہوا تو افریقن کاری گروں نے مخالفت کے باعث کام کرنے سے انکار کر دیا.لیکن خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ حکومت نے اطالوی قیدیوں کو مزدوری کرنے کی اجازت دے دی اور ان کے کاری گروں نے مسجد کا کام مکمل کیا.اور اس طرح با وجود مخالفت کے۱۹۴۴ء میں ٹبو را میں جماعت کی مسجد تعمیر ہو گئی.(۲) حضرت مصلح موعود کا ارشاد تھا کہ جماعت پوری دنیا میں سیرت پیشوایان مذاہب کے جلسے منعقد کرے.اس ارشاد کی تعمیل میں ٹورا میں پہلی مرتبہ ۲۵ اکتو بر۱۹۴۲ء کو یوم پیشوایان مذاہب کا جلسہ منعقد ہوا.(۳) مشرقی افریقہ میں لٹریچر بھی شائع کیا جارہا تھا تا کہ اس کے ذریعہ تبلیغ کے کام میں وسعت پیدا کی جاسکے.چنانچہ ۱۹۴۳ ء تک ایک انگریزی پمفلٹ Ye were told but I tell you ، سواحیلی اور گجراتی میں ٹریکٹ آسمانی آواز ، تحفہ شہزادہ ویلز کا سواحیلی ترجمه، کتاب & Islam Slavery ، سواحیلی میں کتاب اسباق الاسلام اور جنگ کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں پر مشتمل ایک اشتہار Jihadarini جیسے امری عبیدی صاحب نے تیار کیا گیا تھا شائع کئے گئے تھے.۱۹۴۳ء کا ایک اہم واقعہ یہ بھی ہے کہ اس سال اکتوبر سے مکرم و محترم امری عبیدی صاحب نے با قاعدہ جماعت احمدیہ کے معلم کے طور پر اپنی خدمات کا آغاز کیا اور دیگر فرائض کے علاوہ کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا ترجمہ بھی شروع کیا.(۴) ۱۹۴۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کشتی نوح کا سواحیلی ترجمہ مکمل ہوا.اور بعد میں شیخ مبارک احمد صاحب نے اسے طبع کرایا.مشرقی افریقہ میں جماعت کی ترقی کو دیکھتے ہوئے کینیا کے مسلمان لیڈر جنہیں وہاں پر چیف قاضی کہا جاتا تھا، نے جماعت کی مخالفت شروع کی.اور دو ٹریکٹ شائع کئے اور ان مین بہت بدزبانی سے کام لیا.ان کے جواب میں جماعت کے مبلغ نے اشتہار شائع کئے کہ اگر چیف قاضی کو

Page 649

639 یقین ہے کہ ان کے لگائے گئے الزامات درست ہیں تو وہ مؤکد بعذاب حلف اُٹھائیں اور پھر خدائی فیصلہ کا انتظار کریں.لیکن چیف قاضی نے اس کے جواب میں خاموش رہنا مناسب سمجھا.(۵) ۱۷ نومبر ۱۹۴۵ تکو میں مکرم نورالحق صاحب انور صاحب مشرقی افریقہ میں جماعت کے نئے مبلغ کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے لئے ممباسہ پہنچے.(1) ۱۹۴۴ء میں جب ٹبو را میں جماعت کی مسجد کا افتتاح ہوا تو اس وقت بہت سے احباب جمع ہوئے اور آپس میں صلاح مشورہ کے بعد یہ طے پایا کہ مشرقی افریقہ کو ہر سال اپنا ایک جلسہ منعقد کرنا چاہیئے.چنانچہ اس فیصلہ کی روشنی میں دسمبر ۱۹۴۵ء میں جماعت احمد یہ مشرقی افریقہ کا پہلا جلسہ نیروبی میں منعقد ہوا.اس میں کینیا کے علاوہ ٹانگانیکا اور یوگنڈا کے احمدیوں نے بھی شرکت کی.اس موقع پر جماعتی مبلغین اور عہدیداران کی ایک مشاورت بھی منعقد ہوئی اور تبلیغ اور اشاعت کے کام کو وسعت دینے کے لئے فیصلے کئے گئے.(۷) ۱۹۴۵ء میں مشرقی افریقہ میں کینیا کے علاقے میں نیروبی ،کسومو اور ممباسہ کے علاقہ مین فعال جماعتیں قائم تھیں.یوگنڈا کی جماعت چند افراد پر مشتمل تھی اور اس وقت یوگنڈا کے احمدی مختلف جگہوں پر بکھرے ہوئے تھے.کمپالا اور جنجہ میں کچھ احباب رہتے تھے مگر ابھی یہ جماعت مشرقی افریقہ کی جماعتوں میں تبلیغ کے میدان میں پیچھے تھی.تنزانیہ میں ٹورا ، دارالسلام اور ٹانگہ کے مقامات پر فعال جماعتیں موجود تھیں.اور ان کے علاوہ موانزہ کے شہر میں بھی جماعت تبلیغی مساعی کر رہی تھی.(۸) ۱۹۴۵ء میں ہی بو کوبا کے مقام پر نئی جماعت قائم ہوئی.یہاں پر چند احباب نے احمدیت قبول کی تو مکرم امری عبیدی صاحب کو بوکو با بھجوایا گیا.غیر از جماعت مسلمانوں نے مخالفت شروع کر دی لیکن مقامی جماعت نے استقامت سے ان حالات کا مقابلہ کیا.(۹) دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد اب مختلف ممالک میں جماعت کے مبلغین بھجوائے جا رہے تھے.چنانچہ فروری ۱۹۴۶ء میں مشرقی افریقہ کے لئے چھ مبلغین بھجوائے گئے.یہ چھ مبلغ مکرم ضیاء اللہ صاحب، مکرم ولی اللہ شاہ صاحب، مکرم چوہدری فضل الہی ، مکرم مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل ،مکرم مولوی جلال الدین صاحب قمر اور مکرم مولوی حکیم محمد ابراہیم صاحب تھے.(۱۰) یہ مجاہدین ۲۵ فروری کو ممباسہ پہنچے.پھر دار السلام سے ہوتے ہوئے ٹھورا پہنچ گئے.یہاں انہوں نے

Page 650

640 کچھ عرصہ رہ کر سواحیلی زبان سیکھی.(۱۱) اس مرحلہ کے بعد مکرم سید ولی اللہ شاہ صاحب کو کسومو میں، مکرم فضل الہی صاحب بشیر اور مکرم عنایت اللہ صاحب خلیل کو نیروبی میں مکرم مولوی جلال الدین صاحب قمر اور مکرم حکیم محمد ابراہیم صاحب کو ٹا نگانیکا میں اور مکرم مولانا نور الحق صاحب انور کو یوگنڈا میں متعین کیا گیا.(۱۲) اُس دور میں مشرقی افریقہ میں ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کی بڑی تعداد آباد تھی اور خاص طور پر شہر میں ان کی موجودگی زیادہ تھی.شروع میں وہاں زیادہ تر جماعت پنجابیوں اور ہندوستان سے آنے والوں پر مشتمل تھی اور مقامی باشندوں میں تبلیغ زیادہ توجہ کا تقاضہ کرتی تھی.جیسا کہ مغربی افریقہ میں مقامی باشندوں کو تبلیغ کے شاندار نتائج نکل رہے تھے.حضور نے ۱۹۴۸ء میں خصوصیت سے مشرقی افریقہ کے مبلغین کو مقامی آبادی میں تبلیغ کی طرف توجہ دلائی.حضور نے ایک خطبہ میں فرمایا ایسٹ افریقہ میں ہماری جماعت بہت مضبوط تھی.مگر مقامی باشندوں میں تبلیغ نہیں کی جاتی تھی.اور کہہ دیا جاتا تھا کہ مقامی باشندے ہماری بات ہی نہیں سنتے.میں انہیں یہی کہتا تھا کہ تم اپنی بات انہیں سناتے ہی نہیں ہو.اس لئے پنجابیوں میں اپنی زبان میں تبلیغ کر لینا زیادہ آسان ہے.ہندوستانیوں میں تبلیغ کر لینا زیادہ آسان ہے.میں نے شیخ مبارک احمد صاحب کو ہدایت دی کہ وہ افریقوں میں بھی تبلیغ کی طرف توجہ دیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں توفیق دی....اب وہاں ہمارے کافی مبلغین کام کر رہے ہیں.ویسٹ افریقہ میں ہزاروں مقامی لوگ جماعت میں داخل ہیں.غرض جب تک مقامی لوگوں میں تبلیغ نہیں کی جاتی.اس وقت تک تبلیغ کے کوئی معنے ہی نہیں.باہر کے لوگ آئے اور چلے گئے یا کسی وقت ملک کے لوگوں کو جوش آیا تو انہیں نکال دیا.مگر مقامی لوگوں کو تو وہ نہیں نکال سکتے.اس لئے تبلیغ کا زور زیادہ مقامی لوگوں پر دینا چاہئیے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے.(۱۳) دو تین دہائیوں میں حضور کا ارشاد حرف بحرف پورا ہوا.کینیا اور تنزانیہ سے اکثر ایشیائی باشندے نقل مکانی کر کے برطانیہ یا دوسرے ممالک میں جا کر آباد ہو گئے اور جیسا کہ ہم بعد میں

Page 651

641 جائزہ لیں گے یوگنڈا میں وہاں کی حکومت نے تمام ایشیائی باشندوں کو نکال دیا.اُس وقت وہاں پر موجود مقامی احمدی ہی وہاں پر جماعت کے استحکام کا باعث بنے.جوں جوں کام کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا مبلغین کی ضرورت بڑھتی جارہی تھی.چنانچہ ۱۹۴۸ء میں دو اور مبلغین مکرم مولانا محمد منور صاحب اور مکرم مولا نا عبد الکریم شر ما صاحب بھی مشرقی افریقہ پہنچ گئے.مکرم مولانا محمد منور صاحب نے نیروبی میں اور مکرم مولا نا عبد الکریم صاحب شرما نے ٹانگانیکا میں کام شروع کیا.(۱۴) ۱۹۴۸ء میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا ترجمہ شائع کیا گیا.اور اسی سال کینیا میں کا کا میگا کے علاقے میں Kisa کے مقام پر جماعت کی بنیاد پڑی اور کسومو کے قریب اسمبو (Asembo) کے مقام پر ایک چھوٹی سی مسجد کی بنیاد رکھی گئی.(۱۴) ٹانگانیکا کے جنوبی صوبہ میں عیسائیت کا بہت زور تھا اور وہ اپنے مشنوں کے ساتھ پورے زور کے ساتھ اسلام کے خلاف برسر پیکار تھے.مکرم فضل الہی صاحب بشیر نے لنڈی (Lindi) کے مقام کو مرکز کر بنا کر یہاں پر تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا.مخالفت بھی شروع ہوئی اور احمدیوں کے سوشل بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں پر تین بھائی جو عربی بھی جانتے تھے احمدی ہو گئے اور انہوں نے بہت اچھے انداز میں احمدیت کی تبلیغ کا کام شروع کیا.(۱۵) اسی دور میں ٹہورہ میں جماعت نے ایک چھوٹا سا پر لیس بھی حاصل کر لیا جو لندن سے منگوایا گیا تھا.مکرم مولا نا جلال الدین صاحب قمر اور مکرم امری عبیدی صاحب اس پر بڑی جانفشانی سے کام کرتے رہے اور اس میں جماعت کے پمفلٹس اور دیگر لٹریچر شائع ہوتا رہا.اپریل ۱۹۴۹ء میں احمدی مبلغین کی دوسری کا نفرنس رئیس التبلیغ مکرم شیخ مبارک صاحب کی صدارت میں نیروبی میں منعقد ہوئی.اور اس میں جماعت کا بجٹ پیش ہوا ، اور حضور کے ارشاد کی تعمیل میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ اس بجٹ کا بڑا حصہ کیشا ہی زبان اور مشرقی افریقہ کی دوسری زبانوں کے تراجم اور نبی کریم ﷺ کی سوانح حیات کی اشاعت میں خرچ کیا جائے گا.جب کانفرنس منعقد ہوئی تو اس وقت مشرقی افریقہ میں ۲۱ مرکزی اور مقامی مبلغین کام کر رہے تھے.(۱۶) دسمبر ۱۹۴۹ء میں نیروبی کی مسجد کے ساتھ ایک خوبصورت مشن ہاؤس کی تعمیر مکمل ہوئی.چھوٹے

Page 652

642 چھوٹے مقامات پر کچی مساجد بھی قائم کی جا رہی تھیں.۱۹۵۰ء میں ٹانگا نیکا میں ,Mingoyo Jangwani اور Lindi کے مقامات پر کچی مساجد تعمیر کی گئیں.(۱۵) ۱۹۴۹ء میں یوگنڈا میں بھی جلسہ یومِ پیشوایان مذاہب کا آغاز ہوا.اور یہاں پر بھی Nijemba اور Nakisamja مقامات پر بھی مساجد تعمیر کی گئیں.(۱۷) جب جماعت کہیں پر ترقی کرتی ہے تو وہاں پر مسجد بنائی جاتی ہے اور پھر یہ مسجد مزید تبلیغ کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے.۱۹۵۰ء میں کینیا کے علاقے میں چھوٹی بڑی مساجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا.اس سال Rabor کے مقام پر ایک مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی اور Yala, Kisa اور Mrumba کے مقامات پر مساجد کا کام کافی حد تک مکمل ہوا.(۱۸) بہت سے افریقن ممالک میں جماعت کی احمدیہ کی شدید مخالفت برصغیر بالخصوص پاکستان سے برآمد کی گئی تھی.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کینیا میں بھی مخالفت کی آگ بھڑ کانے میں برصغیر سے آئے ہوئے معاندین کا نمایاں ہاتھ تھا.پہلے لال حسین اختر صاحب یہاں آئے اور اپنا سا زور لگا کر چلے گئے.وہ سلسلہ کے ایک بد گو مخالف تھے.جب وہ مشرقی افریقہ سے واپس ہوئے تو بھی مخالفت جاری رکھی اور ۱۹۵۳ء میں جماعت کے خلاف جو شورش بر پا کی گئی اس میں بھی حصہ لینا شروع کیا مگر تحقیقاتی عدالت کے مطابق جلد لوگ ان سے اس لئے بدظن ہو گئے کیونکہ انہوں نے اس تحریک کی طرف سے ایک خطیر رقم تو وصول کر لی مگر کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے.(۱۹) جب معاندین نے دیکھا کہ مشرقی افریقہ میں احمدیت کے پاؤں جم رہے ہیں تو ۱۹۵۲ء میں ایک پاکستانی مولوی عبد العلیم صدیقی صاحب نیروبی میں نمودار ہوئے اور انہوں نے جامع مسجد نیروبی میں جماعت کے خلاف چند زہریلی تقاریر کیں اور ان میں طرح طرح کے الزامات لگائے.اس کے جواب میں جماعت کی طرف سے انہیں بذریعہ اشتہار مناظرے کی دعوت دی گئی اور یہ دعوت دی گئی کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کے متعلق مجمع میں مؤکد بعذ اب قسم کھا ئیں اور پھر خدائی فیصلہ کا انتظار کریں.اس کے جواب میں مولوی صاحب نے بجائے یہ چیلنج قبول کرنے کے لیت و لعل سے کام لینا شروع کیا اور یہ عجیب وغریب عذر پیش کیا کہ میں تو یہاں پردیسی ہوں چنانچہ پاکستان جا کر امام جماعت احمدیہ سے ہی مناظرہ کر سکتا ہوں ، میری طرف

Page 653

643 سے میرا فلاں شاگر د مناظرہ کرے گا.لیکن ان کا شاگرد بھی نمودار نہ ہوا.انہیں جواب دیا گیا کہ آپ زہریلی تقاریر تو یہاں کر رہے ہیں پاکستان جا کر مناظرہ کرنے سے کیا حاصل ہوگا اور اگر آپ کے نزدیک یہاں پر کوئی اس قابل ہی نہیں تھا کہ آپ سے مناظرہ کرے تو آپ نے نیروبی آنے کی زحمت ہی کیوں کی تھی؟ لیکن صدیقی صاحب خاموش ہی رہے.(۲۰) مارچ ۱۹۵۰ء میں کینیا میں لوانڈا (Luanda) کے علاقہ میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.کینیا کے اہم شہر کسومو میں جماعت تو پہلے سے قائم تھی ۱۹۵۳ء میں یہاں پر مشن اور مشن ہاؤس کی بنیاد رکھی گئی یہ عمارتیں اگلے سال مکمل ہو گئیں.(۲۱) اور ۱۹۵۴ء میں تنزانیہ کے دارالحکومت دار السلام میں بھی جماعت کی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی.حسب سابق یہاں بھی مخالفین نے رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی کوئی پیش نہ گئی.۱۹۵۷ء میں یہ مسجد مکمل ہو گئی اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے از راہ شفقت اس کا نام مسجد سلام رکھا.افتتاح کی تقریب میں عیسائی ، ہندو اور سکھ تو شریک ہوئے مگر سنیوں کی طرف سے اس کا بائیکاٹ کیا گیا.(۲۲) اب اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ مشرقی افریقہ سے طلباء دین کا علم حاصل کرنے کے لئے مرکز آئیں اور خلیفہ وقت کے قریب رہ کر برکات حاصل کریں.چنانچہ ۱۹۵۵ء میں تنزانیہ سے دو طلباء جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ آئے.ان میں سے مکرم یوسف صاحب نے کئی سال مرکز میں قیام کر کے شاہد کی ڈگری حاصل کی اور وطن واپسی پر آپ کو پہلے Bukoba ریجن اور پھر موانزا ریجن (Mwanza) میں مقرر کیا گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو ایک طویل عرصہ خدمت کی توفیق ملی.(۲۳) یوگنڈا کے مقامی احباب میں بھی سعید روحیں احمدیت میں داخل ہو رہی تھیں.یہاں پر سب سے پہلے مکرم ذکر یا کزیٹو صاحب نے احمدیت قبول کی اور آپ کے والد نے آپ کو شیخ مبارک احمد صاحب کے پاس دینی تعلیم کے لئے بھجوایا تھا اور آپ نے ۱۹۴۰ء میں احمدیت قبول کر لی اور تقسیم ہند سے پہلے قادیان بھی گئے.ان کے علاوہ شروع میں بعض علماء نے بھی احمدیت قبول کی تھی.مثلاً شیخ ابراہیم سنفو نا صاحب (Senfuna) ایک عالم شخص اور جہ میں غیر احمدیوں کی مسجد کے امام تھے

Page 654

644.آپ نے تمام مخالفت کے باوجود ۱۹۴۶ء میں مولانا نورالحق صاحب انور کے ذریعہ احمدیت قبول کی.اسی طرح مکرم موسیٰ سمپا صاحب (Sempa) شیعوں کی مسجد کے امام تھے.آپ نے اپنی امامت چھوڑ کر احمدیت قبول کی.ان دونوں بزرگان نے قرآنِ کریم پڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا.اسی طرح مکرم الحاج زیدی لوا کی موسو کے Zaidi Lwaki Musoke) بھی شیعوں کے شیخ اور عالم تھے.احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ کو بہت سے ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ ثابت قدم رہے.جب سعودی عرب حج کے لئے گئے تو دورانِ حج انہیں زدوکوب بھی کیا گیا.ان کے علاوہ دوسرے مقامی احمدی بھی فریضہ تبلیغ ادا کرتے تھے لیکن اب اس بات کی ضرورت تھی کہ مقامی طلباء مرکز آکر با قاعدہ علم دین حاصل کریں.(۲۴) مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب نے اپنی رپورٹ محررہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں یوگنڈا کی مقامی زبان سیکھنے کیلئے حضور سے دعا کی درخواست کی اور یوگنڈا کے لوگوں کی خوبیاں تحریر فرمائیں.اس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا اللہ تعالیٰ جلد زبان سیکھنے اور عمل کر نیکی توفیق دے.جماعت کے لوگوں کو تحریک کریں کہ کچھ چندہ قادیان بھی بھیجا کریں.قادیان کے لوگوں کا برا حال ہے.(۲۵) سواحیلی میں تو قرآنِ کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا تھا.کینیا میں ایک اور بولی جانے والی زبان Kikuyu بھی تھی.۱۹۵۷ء میں اس زبان میں بھی ترجمہ کا کام مکمل ہو گیا لیکن ایک طویل عرصہ اس اشاعت معرض التوا میں پڑی رہی اور بالآخر ۱۹۸۸ء میں اس کی اشاعت کرائی گئی.(۲۳) ۱۹۵۷ء میں ہی نیروبی سے جماعت کا ماہانہ جریدہ ایسٹ افریقن ٹائمنر جاری کیا گیا.جلد ہی یہ جریدہ پندرہ روزہ ہو گیا.(۲۶، ۲۷) ۱۹۵۹ء میں مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب اور مکرم عبد الکریم صاحب شرما کے ذریعہ میرو (Isiolo،(Meru اور Taveta کے مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئیں.(۲۸) ممباسہ کینیا کا ایک نہایت اہم ساحلی شہر ہے.یہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک زمانے سے احمدی آنا شروع ہو گئے تھے مگر اب تک یہاں پر باقاعدہ جماعت کی مسجد اور مشن ہاؤس تعمیر نہیں ہوئے تھے.۱۹۵۹ء میں یہاں پر مسجد کی تعمیر شروع ہوئی اور اس کے ساتھ مشن ہاؤس بھی

Page 655

645 تعمیر کیا گیا.(۲۹) مخالفت کی آگ کہیں نہ کہیں سلگتی ہی رہتی تھی.ٹانگا نیکا میں لنڈی کے علاقہ میں ایک گاؤں میں احمد یوں کو اتنے مظالم کا نشانہ بنایا گیا کہ انہوں نے گاؤں سے باہر جنگل میں رہائش اختیار کر لی اور اس نئے گاؤں کا نام قادیان رکھ لیا.حضور کو اطلاع ملی تو آپ نے اس کی اجازت مرحمت فرما دی.(۳۰) یوگنڈا میں اب تک کوئی مشن ہاؤس یا بڑی مسجد نہیں بنی تھی.یہاں کی جماعتوں میں سے جنجہ کی جماعت نسبتاً بڑی تھی.۲۷ جولائی کو مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے ججہ میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.اس وقت مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب حجہ مشن کے انچارج تھے.(۳۱) اس کے اگلے ماہ ہی 9 اگست ۱۹۵۷ء کو یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالہ میں بھی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا.(۳۲) دس مئی ۱۹۵۹ء کو جنجہ کی مسجد کا افتتاح عمل میں آیا.اس مسجد کی تعمیر میں مکرم بشیر الدین عبید اللہ صاحب اور بھائی محمد حسین صاحب نے نمایاں خدمات سر انجام دی تھیں.اس لئے امیر مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے افتتاح کی رسم مکرم بشیر الدین عبید اللہ صاحب کے ہاتھ سے کروائی.اس موقع پر حضور کا پیغام بھی پڑھا گیا.جس میں حضور نے اس مسجد کی تعمیر پر اظہار خوشی فرمایا اور ایک سکھ ٹھیکیدار مکرم سردار اندرسنگھ گل صاحب کا ذکر فرمایا جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں بہت سا حصہ لیا تھا.(۳۳) ۱۹۵۷ء میں یوگنڈا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان لوگینڈا میں جماعت کا ایک ماہوار رسالہ جاری ہوا ، جس کا نام Dobozi ly Obolslam یعنی اسلام کی آواز رکھا گیا.یہ رسالہ کچھ عرصہ جاری رہ کر پھر بند ہو گیا.(۳۴) ۱۹۶۱ء میں مشرقی افریقہ کے ممالک یوگنڈا ، کینیا اور تنزانیہ آزاد ہو کر علیحدہ علیحدہ ممالک کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوئے.اور اس کے ساتھ ہی جماعت نے بھی مشرقی افریقہ میں اپنے مشن کو انتظامی طور پر تین حصوں میں تقسیم کر دیا اور یہاں پر جماعت کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا.

Page 656

646 (۱) الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۴۱ء ص ۴ تا ۶ (۲) الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۴۲ء ص ۵،۴ (۳) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوہ ص ۱۸-۱۹ (۴) الفضل ۱۰ اگست ۱۹۴۴ء ص ۳ (۵) الفضل ۶ ستمبر ۱۹۴۴ء (۶) الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۴۵ء ص ۲ (۷) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۱۸ (۸) الفضل ۵ مئی ۱۹۴۵ء ص ۵ (۹) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۲۱ (۱۰) الفضل ۲۸ فروری ۱۹۴۷ء ص ۲ (۱۱) الفضل ۲۸ فروری ۱۹۴۷ء ص ۲ (۱۲) الفضل ۵ جولائی ۱۹۴۷ء ص ۲ (۱۳) الفضل ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء ص ۶ (۱۴) تاریخ کینیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۲۱ (۱۴) تاریخ کینیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۲۳ (۱۵) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۲۳-۲۴ (۱۶) الفضل ۱۲۱اپریل ۱۹۴۹ء ص ۷ (۱۷) تاریخ یو گنڈا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۱۴ (۱۸) تاریخ کینیا مشن مرتب کرده و کالت تبشیر ربوه ص ۲۵ (۱۹) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۴۰ ( ۲۰ ) الفضل ۲۲ مئی ۱۹۵۲ء (۲۱) تاریخ کینیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۲۵ و ۳۰ (۲۲) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۲۶ (۲۳) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کرده و کالت تبشیر ربوه ص ۲۷ (۲۴) تاریخ یو گنڈا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۱۵، ۱۵،۱۶ (۲۵) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب ۱۹۵۵ ء ص ۱۱ (۲۶) تاریخ کینیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص۳۲ (۲۷) الفضل یکم مارچ ۱۹۵۸ء ص ۳ (۲۸) تاریخ کینیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۳۴ (۲۹) تاریخ کینیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۳۵ (۳۰) تاریخ تنزانیه میشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۲۹ (۳۱) الفضل ۱۳ اگست ۱۹۵۷ء (۳۲) الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۵۷ء ص ۴ (۳۳) مفت روزه بدر قادیان ۲ جولائی ۱۹۵۹ء ص ۸ (۳۴) الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۵۷ء ص ۱

Page 657

647 جنوبی افریقہ: اپنے مخصوص حالات اور تاریخ کی وجہ سے جنوبی افریقہ کا ملک افریقہ میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے.یہاں پر مقامی آبادی کے علاوہ سفید فام باشندوں اور ایشیائی باشندوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے.یہاں پر سب سے پہلے مکرم علاؤ الدین صاحب نے ۱۹۱۵ء میں احمدیت قبول کی.انہوں نے رویا میں دیکھا کہ کسی نے انہیں کہا کہ کیا تم مرزا غلام احمد قادیانی کو جانتے ہو.انہوں نے کہا کہ نام تو سنا ہوا ہے.تو کہا گیا کہ وہ تمہارے سامنے کھڑے ہیں قیامت نزدیک ہے.موجودہ خلیفہ کے ہاتھ پر جلد سلسلہ میں داخل ہو جاؤ ورنہ افسوس کرو گے.لیکن یہ ایک بیعت تھی مگر ابھی جنوبی افریقہ میں جماعت قائم ہونے کا وقت نہیں آیا تھا.پھر جنوبی افریقہ میں احمدیت کا تعارف مکرم ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب کے ذریعہ ہوا جو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان آئے تھے.یہاں پر انکی ملاقات مکرم خواجہ کمال الدین صاحب سے ہوئی اور بعض دوسرے احمدیوں سے تعارف ہوا.انہوں نے ۱۹۱۸ء میں حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب مبلغ انگلستان کے ذریعہ احمدیت قبول کی.وہ ایک عرصہ انگلستان میں مقیم رہے اور پھر اُنکے دل میں خیال پیدا ہوا کہ دوسروں تک احمدیت کا پیغام پہنچائیں.۱۹۴۶ء میں حج کے بعد وہ قادیان آئے اور حضور سے ملاقات کی اور یہ عزم ظاہر کیا کہ وہ جنوبی افریقہ جا کر احمدیت کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں.اور وہ ۱۳ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو انگلستان سے جنوبی افریقہ کے لئے روانہ ہوئے.جنوبی افریقہ پہنچ کر آپ نے بڑی محنت اور تندہی سے کام کیا.اور چھ سال کے عرصہ میں کئی احباب سے احمدیت قبول کی.ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب ۱۹۵۲ء میں انگلستان آئے ہوئے تھے کہ آپ کا انتقال ہو گیا اور جنازہ واپس جنوبی افریقہ لا یا گیا ، جہاں سینکڑوں مسلمانوں نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی.آپ کی وفات کے بعد ایک مخلص احمدی اور آپ کے دوست ہاشم ابراہیم صاحب نے آپ کے کام کو آگے بڑھایا.اور تبلیغی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے.۱۹۶۰ء میں جنوبی افریقہ میں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم کی گئی اور ۱۹۶۱ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا.(۱) (۱) تاریخ جنوبی افریقہ مشن

Page 658

امریکہ: 648 اب ہم ۱۹۴۰ء کی دہائی سے امریکہ میں احمدیت کی تبلیغ کا جائزہ لیتے ہیں.جیسا کہ پہلے یہ ذکر کیا جا چکا ہے اس دور میں مکرم صوفی مطیع الرحمن بنگالی صاحب امریکہ میں جماعت کے مبلغ تھے.اور آپ تبلیغ اور جماعت کی تربیت کے لئے انتھک کوششیں کر رہے تھے.۱۹۳۳ء تک امریکہ کےسات شہروں میں جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.یہ سات شہر پٹس برگ ، واشنگٹن سٹو مین ول ( Stubin Youngis town will کلیو لینڈ (Cleve land) ، ہوم سٹیڈ، کینساس سٹی اور سنسنائی (Cincinnati) تھے.شکاگو میں جماعت کا مرکزی مشن تھا.(۱) ان کے علاوہ نیو یارک، ڈیٹن ، نیو جرسی اور فلاڈلفیا میں بھی صوفی مطیع الرحمن صاحب کے زمانے میں جماعتیں قائم ہوئیں.یہاں کا مشن لٹریچر کی اشاعت کے لئے کوشاں تھا.مشن کا ترجمان مسلم سن رائز شائع کیا جاتا تھا.مکرم صوفی مطیع الرحمن صاحب نے آنحضرت ﷺ کی سیرت و سوانح پر ایک کتاب Life of Muhammad تالیف فرمائی جو بہت مقبول ہوئی.۱۹۳۹ء میں حضرت عیسی کی صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں ایک کتاب The Tomb of Jesus شائع کی گئی.یہ کتاب بہت سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی حتی کہ مشہور سکالر ڈاکٹر ز ویمر نے یہاں تک کہا کہ اگر یہ کتاب کچی ہے تو عیسائیت جھوٹی ہے.جنگ کے بعد ۱۹۴۶ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا گیا.(۲) ۱۹۴۲ء میں بالٹی مور اور بوسٹن میں جماعتیں قائم ہوئیں.اور ۱۹۴۶ء میں سینٹ لوئیس اور ۱۹۴۸ء میں نیو یارک میں جماعتیں قائم ہوئی.دوسری جنگ عظیم کے دوران تو صرف مکرم صوفی مطیع الرحمن صاحب یہاں پر مرکزی مبلغ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے.جنگ کے اختتام پر جب حالات تبدیل ہونے شروع ہوئے تو ۱۹۴۶ء اور ۱۹۴۷ء میں دوسرے مبلغین کو امریکہ بھجوایا گیا.چنانچہ ان دو سالوں میں مکرم چوہدری خلیل احمد صاحب، مکرم مرزا منور احمد صاحب اور چوہدری غلام یسین صاحب امریکہ پہنچے.(۲) جو نئے مبلغین امریکہ کے لئے آئے تھے ان میں سے مرزا منور احمد صاحب کو پٹس برگ میں لگایا گیا تھا.آپ نے اس پرانی جماعت میں جانفشانی سے کام شروع کیا.ابھی انہیں امریکہ میں

Page 659

649 آئے زیادہ عرصہ بھی نہیں گذرا تھا کہ انہیں معدہ کی تکلیف شروع ہوئی اور با وجود علاج معالجہ کے آپ ۵ ستمبر ۱۹۴۸ء کو خالق حقیقی سے جاملے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ آپ کے بھائی مرزا احمد شفیع صاحب ۱۹۴۷ء میں قادیان پر ایک حملہ کے دوران شہید ہوئے تھے.(۳) مکرم چوہدری غلام یسین صاحب کو نئی جماعتوں کے دورے پر مقرر کیا گیا.انہوں نے ان جماعتوں میں احباب جماعت کی تربیت کے علاوہ مختلف مقامات پر لیکچر بھی دیئے.۱۹۴۸ء میں چوہدری خلیل احمد ناصر صاحب نے مکرم صوفی مطیع الرحمن صاحب سے چارج لے کر کام شروع کیا.(۴) ستمبر ۱۹۴۸ء میں جماعت احمدیہ امریکہ کا پہلا جلسہ ڈیٹن منعقد ہوا.اس میں نوے احمدیوں نے شرکت کی.۱۹۴۹ء کے آخر میں امریکہ کے پہلے شخص نے اپنی زندگی وقف کی.یہ دوست برادرم رشید احمد صاحب تھے.وہ دینی تعلیم پانے کے لئے ۲۲ دسمبر ۱۹۴۹ء کور بوہ پہنچے.امریکہ واپس آنے پر آپ کو سینٹ لوئیس میں آنریری مبلغ لگایا گیا اور سالہا سال آپ امریکہ کے نیشنل پریذیڈنٹ رہے.(۵) دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی منظر پر امریکہ کی اہمیت پہلے سے بہت بڑھ گئی تھی.دنیا میں جو ملک بھی آزاد ہوتا واشنگٹن میں اپنا سفارت خانہ ضرور کھولتا.چنانچہ ۱۹۴۹ء میں جب مکرم خلیل احمد ناصر صاحب رخصت پر پاکستان گئے تو حضور نے انہیں واشنگٹن میں مکان خریدنے کا ارشاد فرمایا.یہ مکان خریدا گیا اور کچھ مرمت کرا کر ۱۹۵۰ء میں امریکہ مشن کا ہیڈ کوارٹر شکاگو سے واشنگٹن میں منتقل ہو گیا.(۶) مولا نا عبد القادر نیم صاحب ستمبر ۱۹۴۹ء کو امریکہ پہنچے انہیں مکرم مرزا منور احمد صاحب کی جگہ پٹس برگ میں مبلغ لگایا گیا.۱۹۵۰ تک امریکہ میں جماعت کی تبلیغ کا دائرہ صرف مشرقی اور مڈویسٹ ریاستوں تک محدود تھا.۱۹۵۱ء میں یہ دائرہ وسیع ہو کر مغربی ریاستوں تک پہنچا اور کیلیفورنیا میں ایک نیا مشن قائم کیا گیا.لاس اینجلس میں ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہوئی.اور امریکہ کے جنوب میں ریاست ت کینٹی (Cantucky) میں بھی جماعت کا قیام عمل میں آیا.واشنگٹن میں بھی کچھ

Page 660

650 لوگ بیعت کر کے میں داخل ہو رہے تھے اور اس طرح وہاں کا مشن مستحکم ہو رہا تھا.۱۹۵۱ء میں حضور کی تصنیف احمدیت یا حقیقی اسلام کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوا.ایک انگریزی مجلہ احمد یہ گزٹ بھی شائع ہو رہا تھا جس میں جماعت احمدیہ کی عالمی خبریں شائع ہوتی تھیں.(۷) ڈیٹن کے ایک مخلص احمدی مکرم ولی کریم صاحب اور آپ کی اہلیہ لطیفہ کریم صاحبہ نے ستمبر ۱۹۴۹ء میں ایک قطعہ زمین مسجد کے لئے بطور ہدیہ دیا تھا.اس میں جماعت نے تہہ خانے سے تعمیر کا کام شروع کیا تھا.چند سالوں میں ایک ہال ، ایک بارچی خانہ اور غسلخانے تیار ہو گئے.اس پر مسجد بعد میں تیار ہوئی.۱۹۵۴ء میں مکرم مولوی نوارالحق صاحب انور اور سید جواد علی صاحب بطور مبلغ امریکہ پہنچے اور مکرم مولوی نورالحق صاحب نے نیو یارک مشن میں کام شروع کیا.اور مکرم سید جواد علی صاحب نے واشنگٹن شکا گواور سینٹ لوئیس میں خدمت کی توفیق پائی.(۸) مکرم مولا نا نور الحق صاحب انور نے ایک رپورٹ میں بنگالیوں میں تبلیغ کے متعلق عرض کی تو اس پر حضور نے فرمایا بنگالیوں کی طرف توجہ تو کریں لیکن آپ امریکہ میں امریکنوں کو تبلیغ کرنے کے لئے گئے ہیں.اس لئے کام کی وجہ سے امریکن لوگ خالی نہ رہ جائیں ، اس کام کو ضمنی ہی سمجھیں اصل توجہ امریکنوں کی طرف ہو.(۹) - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت جماعت میں نظامِ وصیت جاری فرمایا تھا اور اس میں جماعت کے لئے بہت سی برکات رکھی گئی ہیں.مکرم مولانا نورالحق صاحب انور نے یکم فروری ۱۹۵۶ء کوتحریر کیا کہ رسالہ الوصیت شائع کیا گیا ہے.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا دمیں امید کرتا ہوں کہ کیونکہ الوصیت حضرت مسیح موعود نے آسمانی تحریک کے ذریعہ جاری کی تھی اس لئے امید ہے جلد پھیل جائے گی اور ہمیں مقبرہ بنانے کی توفیق مل جائے گی (۱۰) مکرم مولا نا نو رالحق صاحب انور کی ۶ اپریل ۱۹۵۶ء کی رپورٹ پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

Page 661

651 کام بہت اعلیٰ ہے.اللہ تعالیٰ کا میابی بخشے.(۱۰) اشتہارات کی اشاعت اور تقسیم تبلیغ کا ایک اہم ذریعہ ہے.اور اُس دور میں امریکہ میں اس ذریعہ کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا تھا.چنانچہ ۱۹۵۵ء کی ایک سہ ماہی میں سات ہزار تبلیغی اشتہارات شائع کئے گئے جو دستی یا بذریعہ ڈاک تقسیم ہوئے.اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر لیکچر دیئے جاتے اور لائیبر بیریوں میں جماعت کا لٹریچر رکھوایا جاتا.(۱۱) ۱۹۵۹ء میں امریکہ میں جماعت کا بارہواں جلسہ ۵ اور ۶ ستمبر کو شکاگو میں منعقد ہوا.اس موقعہ پر امریکہ میں مجلس انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا.مکرم احمد شہید صاحب پٹس برگ اس کے پہلے صدر اور مکرم محمد صادق صاحب نیو یارک اس کے پہلے سیکر یٹری مقرر ہوئے.(۱۲) مکرم خلیل احمد ناصر صاحب دس سال امریکہ میں خدمت کر کے اپریل ۱۹۵۹ء کو امریکہ سے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے.(۱۳) اس کے بعد بعض اور مرکزی مبلغین امریکہ میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بھجوائے گئے.مکرم امین اللہ خان سالک صاحب یکم مارچ ۱۹۶۰ء کو واشنگٹن پہنچے اور آپ نے واشنگٹن، نیو یارک اور شکاگو کے مشنوں میں کام کیا.مکرم صوفی عبدالغفور صاحب اور آپ نے دو سال امریکہ میں خدمات سرانجام دیں اور امریکہ کے مبلغ انچارج کے طور پر بھی کام کیا، میجر عبد الحمید صاحب مئی ۱۹۶۳ء کو امریکہ پہنچے اور آپ نے ڈیٹن مشن میں کام کیا ، اور چوہدری عبد الرحمن صاحب بنگالی اپریل ۱۹۶۳ء کو امریکہ پہنچے، پہلے آپ نے پٹس برگ مشن میں کام کیا اور دسمبر ۱۹۶۳ء میں آپ امریکہ مشن کے مبلغ انچارج مقرر ہوئے.(۱۴) اگست ۱۹۶۱ء میں وکیل التبشیر مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے امریکہ کا دورہ کیا اور مختلف مشنوں کا جائزہ لیا اور احباب جماعت سے ملاقات کی.آپ نے دیگر ہدایات کے علاوہ تعمیر مساجد پر زور دیا.(۱) تاریخ امریکہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۴۵ (۲) الفضل ۶ ستمبر ۱۹۴۶ء ص ۳

Page 662

652 (۳) تاریخ امریکہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۴۶ (۴) تاریخ امریکہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۴۷ (۵) تاریخ امریکہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۵۶ (1) تاریخ امریکہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوہ ص ۵۷ ( ۷ ) الفضل ۲۹ مئی ۱۹۵۱ء (۸) تاریخ امریکہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۵۹ (۹) ریکارڈ تبشیر فائل مکرم مولانا نورالحق صاحب انور ۱۹۵۵ء (۱۰) ریکارڈ تبشیر فائل مکرم مولانا نورالحق صاحب انور ۱۹۵۶ء (۱۱) الفضل ۳ جولائی ۱۹۵۵ء ص ۳ و۴ (۱۲) تاریخ امریکہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۶۴ (۱۳) تاریخ امریکہ مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۶۴ (۱۴) تاریخ امریکہ مشن مرتب کرده و کالت تبشیر ربوه ص ۶۵ انگلستان مشن: ہم ۱۹۳۹ء تک لندن مشن کے حالات کا جائزہ لے چکے ہیں.اب ہم ۱۹۶۵ء تک انگلستان میں تبلیغ اسلام کے لئے کی جانے والی کاوشوں کا ذکر کریں گے.۱۹۳۹ء میں دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا اور یہ وقت لندن مشن کے لئے بہت صبر آزما وقت تھا.لندن شہر جرمنی کے بمبار طیاروں کا نشانہ بنا ہوا تھا.شہر کے دوسرے مقامات کی طرح جماعت کا مشن بھی ہر وقت خطرات سے گھرا ہوا تھا.اور جنگ کی وجہ سے پوری طرح تبلیغی مساعی بھی جاری رکھنا ممکن نہیں تھا.نہ نئے مبلغین وہاں جا سکتے تھے اور نہ ہی وہاں پر مقیم مبلغ مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب کے لئے ان حالات میں واپس آنا ممکن تھا.خود لندن کے لاکھوں باشندے ان حالات میں شہر چھوڑ کر دیہات میں چلے گئے تھے، مگر مکرم مولانا شمس صاحب نے جس حد تک ممکن تھا ان نا مساعد حالات میں بھی کام جاری رکھا مشن ہاؤس میں مذہبی مسائل پر لیکچر دیے جاتے.انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ تبلیغ کی جاتی.اور بیرونی ممالک سے آنے والی اہم شخصیات کو بھی احمدیت کا پیغام پہنچایا جا تا.اور ہائیڈ پارک میں

Page 663

653 مناظروں کے ذریعہ تبلیغ کا کام بھی جاری رہا.بعض مرتبہ مد مقابل پادری صاحب تلخ کلامی پر بھی اُتر آتے مگر شمس صاحب متانت اور حوصلہ سے جواب دیتے جس سے سننے والوں پر بہت اچھا اثر ہوتا.(۱) جن خطرناک حالات میں جماعت کے مبلغین کام کر رہے تھے، اس کا تقاضہ تھا کہ سب ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ۱۹۴۲ء کے ایک خطبہ میں فرمایا اسی طرح مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں.انہوں نے بڑی عمر میں شادی کی.اور دو تین سال بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھیج دیا گیا.ان کے ایک بچے نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا.اور باپ نہیں جانتا کہ میرا بچہ کیسا ہے.سوائے اس کے کہ تصویروں سے انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا ہو.وہ بھی کئی سال سے باہر ہیں.اور اب تو لڑائی کی وجہ سے ان کا آنا اور بھی مشکل ہے.قائم مقام ہم بھیج نہیں سکتے.اور خود وہ آنہیں سکتے کیونکہ راستے مخدوش ہیں.اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کب واپس آئیں گے.....ان لوگوں کی قربانیوں کا کم سے کم بدلہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد یہ دعائیں کرے.کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے اور ان کے اعزہ اور اقربا پر بھی رحم فرمائے..میں تو سمجھتا ہوں کہ جو احمدی ان مبلغین کو اپنی دعاؤں میں یاد نہیں رکھتا اس کے ایمان میں ضرور کوئی نقص ہے اور مجھے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ایمان میں خلل واقعہ ہو چکا ہے.(۲) اس وقت لندن میں مشن ہاؤس کن خطرات سے دوچار رہتا تھا اس کا اندازہ شمس صاحب کے اس مکتوب سے ہوتا ہے جو انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا.۱۸ فروری کو ہوائی حملہ کے بعد میں فروری کو رات کے دس بجے حملہ شروع ہوا.حملہ پہلے کی طرح بہت سخت تھا.میں اپنے مکان میں بیٹھا تھا.کہ مکان کے اندر روشنی ہو گئی.بہت سے فائرز چھوڑے گئے.اور آگ لگانے والے بم برسائے گئے.روشنی جو کمرہ کے اندر ہوئی اس سے یہی سمجھا کہ اب بم گریں گے.گنز بھی فائر کر رہی تھیں.چنانچہ کئی بموں کے گرنے کی آوازیں آئیں.اور مکان کو جھٹکے آئے مگر اللہ تعالیٰ

Page 664

654 کے فضل سے مسجد اور مکان دونوں محفوظ رہے.اور چند سو گز کے فاصلے پر بعض بم گرے.اور وہاں آگ ایسی تیزی سے بلند ہوئی کہ اس کی روشنی سے مکان روشن تھا.اور تین چار جگہ ہمارے علاقہ میں آگ لگی ہوئی تھی.(۳) دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں برطانیہ اور اتحادیوں کی حالت نازک تھی اور محوری طاقتیں فتوحات حاصل کر رہی تھیں.اس صورتِ حال میں حضور نے بہت سی رؤیا دیکھیں اور ان میں سے کئی کو اس وقت شائع بھی کر دیا گیا.ان رؤیا سے ظاہر ہوتا تھا کہ ابتدائی کمزور حالت کے بعد برطانیہ پھر قوت پکڑ جائے گا ،شاہ لیوپولڈ تخت سے دستبردار ہو جائیں گے اور ان رؤیا میں افریقہ میں جنگ کے تغیرات اور بالآخر برطانیہ کے دشمن کی شکست کے نظارے دکھائے گئے تھے.مئی ۱۹۴۳ء میں جب اتحادیوں نے افریقہ میں فتح حاصل کی تو ان خوابوں کے پورا ہونے کا آغاز ہو گیا.مکرم جلال الدین شمس صاحب نے ان رؤیا کو اسی وقت شائع کر کے یہ پمفلٹ ملک کی نامور شخصیات کو بھجوایا.ان میں سے کئی شخصیات نے ان رؤیا میں بڑی دلچسپی لی اور اپنے تبصرے بھی بھجوائے.لارڈ برڈورڈ نے لکھا نہایت دلچسپ رویا.ہو بہو پوری ہوئیں.وزیر ہند آئی اسی ایمری نے لکھا ، نہایت دلچسپ مطبوعہ ملفوف جس سے امام جماعت احمدیہ کی روحانیت اور دور بین نگاہ کا پتہ چلتا ہے.سر فرینک براؤن ، آنریری سیکریٹری ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن نے تحریر کیا.یہ بات قابلِ غور ہے کہ حضرت امیر المؤمنین کی پیشگوئی اتحادیوں کی فتح کی نسبت اس وقت کی گئی تھی جبکہ اتحادیوں کی حالت ۴ء کے موسم گرما میں بہت کمزور تھی.اور سلطنت برطانیہ تنہا محوریوں کے مقابلے پر کھڑی تھی.(۴) یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب یہ پمفلٹ شائع ہوا تو ابھی ان رؤیا کے پورے ہونے کا آغاز ہوا تھا.وقت گزرنے کے ساتھ ان رؤیا کی صداقت بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی.ہائیڈ پارک میں مباحثے لندن مشن کی کاوشوں کا ایک اہم حصہ تھے.۱۹۴۴ء میں مباحثوں کا ایک اہم سلسلہ مسٹر گرین کے ساتھ شروع ہوا.یہ صاحب ایک تحریک کے بانی تھے.ان کا خیال تھا کہ ۱۹۵۰ء میں یسوع مسیح آسمان سے نازل ہوں گے.جب پیدائش آدم سے لے کر چھ ہزار سال ختم ہو جائیں گے اور ساتواں ہزار سال شروع ہوگا.وہ ۱۸۹۹ء سے اس عقیدہ کی اشاعت کر رہے تھے.وہ ایک رسالہ کنگڈم نیوز بھی نکالتے

Page 665

655 تھے.مکرم مولا نا شمس صاحب نے ان کے ساتھ کئی مباحثے کئے.پہلا مناظر ہ۲ جون ۱۹۴۴ء کو ہوا.قرار یہ پایا کہ وہ پہلے دو گھنٹے قرآن مجید پر جتنے چاہیں اعتراض کریں.پھر ان کا جواب دیا جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ کا تصرف ایسا ہوا کہ وہ پہلے مباحثات میں جو اعتراضات کرتا رہا تھا وہ بھی پیش نہ کر سکا.انہوں نے جو نوٹ لکھے ہوئے تھے وہ بھی غلط تھے.اور انہوں نے قرآنی آیات کے غلط حوالے پیش کر کے خود اپنے آپ کو مشکل میں مبتلا کر لیا.دوسرا مباحثہ ۱۶ جون کو ہو ا جس میں شمس صاحب نے اناجیل کے متعلق سولات پیش کرنے تھے.جب یہ سوالات اٹھائے گئے تو ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا.بعض کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اعتراض میں نے پہلے کبھی نہیں سنا اس لئے میں جواب نہیں دے سکتا.اور اکثر کے متعلق انہوں نے کہا کہ میں تیاری کر کے جواب دوں گا.اس سے حاضرین پر ان کی بے بسی ظاہر ہو گئی.مقامی پریس نے بھی ان مباحثوں پر تبصرہ کیا.لیکن ان اوروہ کے بعد مسٹر گرین جماعت احمدیہ سے مناظرے کرنے سے گریز کرنے لگے.(۶۵) ان سخت حالات میں مکرم عبد العزیز ڈین صاحب نے مشن کی قابل قدر خدمات سرانجام دیں مسلسل جماعت کے مبلغین کی ہر طرح اعانت کرتے رہے.جب دوسری جنگ عظیم کا جب خاتمہ ہوا تو مرکز نے نو مبلغین کا ایک قافلہ لندن روانہ کیا.ان مبلغین نے چند ماہ مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب کی زیر نگرانی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد یورپ کے مختلف ممالک میں مشن کھولنے تھے.ان مبلغین میں مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ، حافظ قدرت اللہ صاحب، ملک عطاء الرحمن صاحب، چوہدری اللہ دتہ صاحب، کرم الہی صاحب ظفر، چوہدری محمد الحق صاحب ساقی.مولوی محمد عثمان صاحب.مکرم ابراہیم خلیل صاحب ، اور مولوی غلام احمد بشیر صاحب شامل تھے.روانگی کے وقت مولوی بشارت احمد صاحب نسیم اور محترم مولانا نذیر احمد صاحب علی (رئیس التبلیغ مغربی افریقہ ) بمع اہل و عیال بھی قافلے میں شامل ہو گئے.مکرم مولوی بشارت احمد صاحب نسیم کا اس گروپ کے ساتھ جانے کا پروگرام نہیں تھا.لیکن جب حضور نے ارشاد فرمایا تو آپ صرف چند گھنٹوں میں تیار ہو کر قافلے کے ساتھ روانہ ہو گئے.(۸،۷) لندن میں پوری دنیا سے اہم شخصیات سرکاری دوروں پر آتی رہتی تھیں.لندن مشن کے مبلغین ان سب سے رابطے کر کے ان کو حقیقی اسلام کا پیغام پہنچاتے.اور اس طرح اس طبقے تک بھی اسلام

Page 666

656 کا پیغام پہنچ جاتا.۱۹۴۶ء میں محترم مولانا جلال الدین شمس صاحب نے ایک کتابچہ Where died Jesus بڑی تعداد میں شائع کروایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں جو دلائل بیان فرمائے ہیں ، ان سے عیسائی عقیدہ کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے.چنانچہ برطانوی پر لیس میں بھی اس کتابچے کی اشاعت کا چر چاہو ا.(۹) مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب دس سال انگلستان میں مبلغ کے فرائض سرانجام دینے کے بعد اکتوبر ۱۹۴۶ء میں واپس قادیان تشریف لائے.آپ کے ساتھ مکرم سید منیر احصنی امیر جماعت احمدیہ دمشق بھی تھے.آپ کی مراجعت کے بعد مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب امام مسجد لندن اور مکرم چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب نائب امام مقرر ہوئے.(۱۰) دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر انگلستان میں تبلیغ نئے سرے سے شروع کی گئی اور لندن کے علاوہ گلاسکو،ایڈنبرا، برمنگھم ، آکسفورڈ ، نوٹنگھم، برائٹن ، بریڈ فورڈ ، لیڈز، پریسٹن ، ہیڈرز فیلڈ ، شیفیلڈ، ساؤتھ ہال، مانچسٹر اور لیور پول میں تبلیغ کے کام کا آغاز کیا گیا.اب تک مرکز سے آئے ہوئے متعدد واقفین زندگی انگلستان میں خدمات سرانجام دے چکے تھے لیکن ابھی یہاں کے باشندوں میں سے کسی کو یہ سعادت نہیں ملی تھی کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرے.سب سے پہلے یہ اعزاز مکرم بشیر آرچرڈ صاحب کے حصے میں آیا.آپ وقف کرنے سے پہلے کئی مرتبہ قادیان جاچکے تھے.فوجی خدمات سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ نے صرف دو روز اپنے شہر برسٹن میں قیام کیا اور تیسرے روز لندن مشن میں پہنچ کر اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ جماعت احمدیہ کے مبلغ کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں.مکرم شمس صاحب نے ان اہم فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جو ایک مبلغ پر عائد ہوتی ہیں اور کچھ عرصہ تو قف کرنے کو کہا.کچھ توقف کرنے کے بعد مکرم بشیر آرچرڈ صاحب نے اپنے آپ کو وقف کر دیا.حضور نے ان کے وقف کو قبول فرما لیا اور انہوں نے مشن میں رہ کر اخلاص اور جوش سے تبلیغ کے فرائض ادا کرنے شروع کئے.دسمبر ۱۹۴۵ء میں آپ کو مذہبی تعلیم کے حصول کے لئے قادیان جانے کو کہا گیا.اور یکم مئی ۱۹۴۶ء میں آپ قادیان تشریف لے آئے.اُس وقت آپ کی عمر ستائیس برس تھی.قادیان میں

Page 667

657 آپ کو خیر مقدم کہنے کے لئے ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں از راہِ شفقت حضور بھی شامل ہوئے.اس سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا 'بے شک وہ مقصد جس کے لئے آپ کھڑے ہوئے ہیں بہت عظیم الشان ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تمہیں تمہارے ملک کے لوگ بھی نہیں جانتے ، چہ جائیکہ دوسری دنیا.لیکن وہ وقت آئے گا کہ جب خدائے واحد کا نام دنیا پر قائم ہو چکا ہو گا.اور ہر طرف احمدیت ہی احمدیت ہو گی تو اس وقت تمہارے ملک کے لوگ تاریخ کی کتابوں کی چھان بین کریں گے اور وہ تلاش کرنے لگیں گے کہ کیا ابتدائی دور میں کوئی انگریز احمدی ہوا تھا.جب وہ دیکھیں گے کہ ہاں ایک شخص مسٹر بشیر احمد آرچرڈ تھا جس نے ابتداء میں احمدیت کو قبول کیا اور غیر معمولی قربانیاں کیں.یہ دیکھ کر ان کے دل خوشی سے بھر جائیں گے.(۱۱.۱۲) جون ۱۹۴۷ء میں جماعت احمدیہ کی طرف قرآنِ کریم کے ترجمے کا پہلا حصہ جو سورۃ فاتحہ تا سورۃ کہف پر مشتمل تھا شائع ہوا.اس کی اشاعت کے ساتھ انگریزی بولنے والے طبقے میں تبلیغ ایک نئے دور میں داخل ہو گئی.نومبر ۱۹۴۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند حضرت مرزا شریف احمد صاحب پاکستان سے لندن تشریف لائے اور آپ نے تقریباً پانچ ماہ انگلستان میں قیام کیا.آپ کی واپسی پر آپ کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں ایک ممبر پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی.اس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے لندن مشن کی مختصر تاریخ بیان فرمائی اور فرمایا کہ ان غلط فہمیوں کو دور کرنی کی ضرورت ہے جو ایک دوسرے کے درمیان موجود ہیں اور جن کی وجہ سے مشرقی اور مغربی اقوام کے درمیان نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں.تا کہ انہیں معلوم ہو کہ ہم اکھٹے برادرانہ طور پر رہ سکتے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم مغربی اقوام کے لوگوں کے اطوار و عادات اور رحجانات کا مطالعہ کریں اور ان کی مشکلات کو سمجھیں جس کی وجہ سے وہ اسلام قبول کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں.اگر مغربی لوگ مشرقی لوگوں کو اور مشرقی لوگ مغربی لوگوں کو سمجھ لیں تو ہمارا مستقبل شاندار ہے.صاحب صدر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جن امور کی

Page 668

658 نشاندہی کی گئی وہ واقعی اہم ہیں.ہم نے واقعی ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے.(۱۳) ۱۹۴۹ء میں انگلستان کی جماعت کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.اور اس کے ساتھ حضور کے ارشاد کے تحت یورپ کے مبلغین کی کانفرنس بھی منعقد ہوئی.پہلا دن آنحضرت ﷺ کی سیرت کے بیان کے لئے مختص تھا.مختلف مذاہب اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے احباب نے بھی آنحضرت ﷺ کی سیرت پر تقاریر کیں.اور اسی موقع پر انگلستان کی مجلس مشاورت منعقد ہوئی.(۱۴) مذکورہ بالا جلسہ سالانہ کے موقع پر پر انگلستان میں لجنہ کے قیام کا ریزولیشن بھی پاس کیا گیا تھا اور اس کے مطابق اا دسمبر ۱۹۴۹ء کو لندن کی مستورات کا اجلاس بلایا گیا اور اس میں لجنہ انگلستان کی بنیاد رکھی گئی اور عہد یداروں کا انتخاب عمل میں آیا.(۱۵) اگست ۱۹۵۰ء میں مکرم مشتاق احمد صاحب باجوہ ،مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ کو چارج دے کر پاکستان روانہ ہوئے.مکرم قریشی مقبول احمد صاحب نے ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۱ء تک سیکریٹری مشن کے فرائض سرانجام دیئے اور نومبر ۱۹۵۴ء سے لے کر جولائی ۱۹۵۷ء تک مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر نے مشن کے سیکریٹری کے فرائض سرانجام دیئے.(۱۶) حضور تو جوان مبلغین کی ٹرینگ کی خود نگرانی فرماتے تھے.مکرم و محترم میر محمود احمد صاحب ابن حضرت میر الحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت لندن مشن کے سیکریٹری کی حیثیت سے کام کر رہے تھے ، ان کے متعلق حضور نے لندن مشن کے انچارج کو ہدایت فرمائی محمود احمد سے بھی زیادہ سے زیادہ کام لیں تا کہ اگر کسی جگہ Independent لگایا جائے تو وہ سنبھال سکے.انشاء اللہ جلسہ پر اس کے نکاح کا اعلان ہوگا.تو آپ کو تار دی جائے گی.اُسکو سنادیں.(۱۷) اللہ تعالی نے مکرم میر محمود احمد صاحب کو چین اور امریکہ میں مبلغ اور مشنری انچارج کی حیثیت سے خدمات کی توفیق عطا فرمائی اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے آپ کو جامعہ احمد یہ ربوہ کا پرنسپل مقرر فرمایا.ایک مرتبہ حضور نے لندن مشن کے بعض امور کے متعلق توجہ دلائی تو مکرم و محترم چوہدری

Page 669

659 ظہور احمد صاحب باجوہ نے اس کو اظہار ناراضگی سمجھتے ہوئے وضاحت پیش کی.حضور جہاں ایک طرف مبلغین کی نگرانی اور راہنمائی فرماتے تھے وہاں ان کے ساتھ نہایت مشفقانہ سلوک بھی فرماتے تھے.جب حضور کی خدمت میں یہ وضاحت پیش ہوئی تو آپ نے تحریر فرمایا:.دفتر خط تبشیر کو بھجوا دے اور ان کو کہدے ان امور پر اظہارِ رائے کو اظہارِ ناراضگی سمجھنا غلطی ہے.اپنا مشورہ دینا اور رائے دینا ہمارا فرض ہے.یہ ناراضگی نہیں ہوتا بلکہ معمولی فرض کی ادائیگی ہوتی ہے.(۱۸) لندن مشن کی تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ ۱۹۵۵ء میں حضرت مصلح موعود کا دورہ ہے.جس کا تفصیلی ذکر پہلے گذر چکا ہے.جہاں لندن مشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں پر صحابہ نے بطور مبلغ کام کیا ، وہاں انگلستان کی جماعت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ایک صحابی مکرم میر عبد السلام نے یہاں پر مستقل قیام کیا اور آپ لندن جماعت کے ایک بہت سرگرم کارکن تھے.۲ستمبر ۱۹۵۹ء کو انگلستان میں ہی آپ کی وفات ہوئی.(۱۹) تمام تر مصروفیات اور بیماری کے باوجود حضور بیرونی مشنوں کی رپورٹوں اور ان کی کاوشوں میں گہری دلچسپی لیتے اور بعض مرتبہ بعد میں بعض ایسے امور کی بابت دوبارہ دریافت فرماتے جو بظاہر غیر اہم دکھائی دے رہے ہوتے.اور انفرادی تبلیغ کے چھوٹے چھوٹے واقعات کے متعلق بھی حضور دریافت فرماتے.اس کا اندازہ اس مثال سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ مکرم مولود احمد خان صاحب نے جو ۱۹۵۵ء میں مشن کے انچارج تھے حضور کی خدمت میں ایک تفصیلی خط لکھا.جس میں ایک آئرش نوجوان مسٹر فلپ کی بیعت کا لکھنے کے علاوہ دیگر امور کا ذکر بھی کیا تھا.اس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا:.در پورٹ اور مسٹر فلپ کی بیعت ملی.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.اس نوجوان کا کیا حال ہے جو اس سے الگ کمرہ میں ملا تھا اور روحانیت اور تعلق باللہ کے متعلق باتیں پوچھتا رہا تھا.اور ان میاں بیوی کا کیا حال ہے وانڈز ورتھ کے رہنے والے ہیں جو کمیونسٹ جس نے شخص کا لکھا ہے اس کو تبلیغ جاری رکھیں.شخص ہمارے لئے مفید ہوسکتا ہے

Page 670

660 کیونکہ یونانی میں عیسائی لٹریچر بہت موجود ہے.( یہ شخص ایک زیر تبلیغ صحافی تھے جو یونانی جانتے تھے ) (۲۰) مغرب میں رہنے والے بعض احباب بھی تھے جو کہ اسلام کی صداقت کے تو قائل ہو جاتے مگر شراب نوشی یا اس جیسی کوئی اور بری عادت چھوڑ نا انہیں دو بھر معلوم ہوتا.ایک ایسے ہی صاحب کا ذکر ایک رپورٹ میں کیا گیا تو اس پر حضور نے جواب میں تحریر فرمایا 'ان کو کہیں کہ انشاء اللہ شراب بھی چھٹ جائیگی.رسول کریم ﷺ کے صحابہ آپ سے زیادہ شراب پیتے تھے.ہمارا ایک انگریز مبلغ آرچرڈ ہے جس کا اسلامی نام بشیر احمد ہے.وہ ٹرینیڈاڈ میں مبلغ ہیں.جب وہ مسلمان ہوئے وہ انگریزی فوج میں ملازم ہو کر ہندوستان اور وہاں سے قادیان آیا.وہاں کچھ دن رہا کچھ تو متاثر ہوا مگر پوری طرح دل صاف نہ ہوا.واپس جاتے ہوئے وہ بیان کرتا ہے کہ ایک ریلوے سٹیشن پر اس نے شراب منگائی اور پینے لگا.مگر دل میں یکدم نفرت پیدا ہوئی.اور دل سے کہا کہ کیا تو اتنا کام بھی نہیں کر سکتا کہ شراب پھینک دے.اس کے بعد اس نے اسلام قبول کر لیا اور شراب کلی طور پر چھوڑ دی.وقف کر لیا اور اب مبلغ ہے.لیکن ساتھ ہی لکھیں گواسلام نے شراب منع کی ہے لیکن اسلام انسانی کمزوریوں کا بھی اعلان کرتا ہے.آپ اس کے چھوڑنے کی کوشش کریں.اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں.یقیناً آپ غالب آجائیں گے کبھی اس نوجوان کو ڈسمنڈ شا سے بھی ملائیں.وہ بھی آئرش ہیں اور جیسا کہ اس نے بتایا تھا شراب چھوڑ چکے ہیں.آپ نے مالٹا والے نو جوان کا ذکر نہیں کیا.جو مصری الاصل تھا.اور جس نے ڈرائنگ روم میں بیعت کی تھی.اور جوٹرانسپورٹ میں نوکر تھا.(۲۰) ایک مرتبہ محترم مولود احمد خان صاحب نے ۱۰ دسمبر ۱۹۵۵ء کو ایک رپورٹ بھیجوائی جس میں ایک بیعت کا ذکر کیا اور اپنی ایک تقریر کا بھی ذکر کیا جو برمنگھم یونیورسٹی میں ہوئی تھی اور اس کا عنوان مذہب کا اخلاقی قدروں سے تعلق تھا.اس موقع پر ان کی کافی عراقی طلباء سے ملاقات ہوئی.ان میں سے کچھ نے یہ سوال کیا کہ آپ مرزا صاحب کے الہامات کی موجودگی میں قرآن کریم کی طرف کیوں توجہ کرتے ہیں؟.اس کے علاوہ ایک صاحب مسٹر بیکر نے Spiritualism کے متعلق

Page 671

661 سوالات کئے.حضور نے اس رپورٹ پر ارشاد فرمایا بیعت پہنچی اللہ تعالیٰ نئے مبائع کو استقامت دے.ہر نو مسلم سے چندہ لکھوالیا کریں تا کہ جماعت کے کاموں میں دلچسپی پیدا ہو.Spirtualism کے رد کے لئے میری کتاب وحی الہی کا پڑھنا ضروری ہے.اس میں ثابت کیا گیا ہے کہ وحی کو Spirtualis پر فوقیت ہے.مختلف شہروں میں ضرور جاتے رہیں.اور عراقی نو جوانوں کی طرف خاص توجہ کریں.وہ عراقی نو جوان پھر ملیں تو کہہ دیں کہ مرزا صاحب کے الہاموں کی موجودگی میں ہم قرآن شریف کی کیطرف اسلئے توجہ کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میں محمد رسول اللہ کا خادم ہوں.پس آپ کی وحی بھی قرآن کی خادم ہے.پھر ہم کیوں آقا کو چھوڑ دیں ، اور خادم کے ہی ہو جائیں.آقا کے ساتھ ساتھ اس کے خادم کا احترام تو اچھی بات ہے.مگر خادم کو چمٹ جانا اور اسکے آقا کو چھوڑ دینا تو بڑی بے ایمانی ہے.مرزا صاحب کا ایک الہام ہے کہ کل بركة من محمد الله فتبارك من علم و تعلم.اس الہام کی موجودگی میں علم والے وجود کو چھوڑ کر کہاں جائیں.کیونکہ اس صورت میں تو نہ ہم علم کے ساتھ رہے اور نہ تعلیم کے ساتھ.تعلم تو تبھی ہو گا جبھی علم بھی ہو، علم کو چھوڑ کر نہ علم رہے گا نہ تعلم.اگر نہ ملے تب خط اسے لکھ دیں.اس مضمون پر زور دینا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ عراق میں احمدیت پھیلا دے تو سلسلہ کی بڑی روک دور ہو جائے گی.حضرت صاحب کی کوئی عربی کتاب اسے ضرور دیں.خصوصاً تبلیغ جو آئینہ کمالات اسلام کا تمہ ہے.اور اس کے بعد خطبہ الہامیہ.یہ بھی سلسلہ جاری رکھنا چاہئیے کہ غیروں کے لیکچر ہوتے رہیں تا کہ نو جوانوں کو غیروں کے اعتراض بھی معلوم ہوں اور ہماری فوقیت کا پتہ لگے.(۱۷) شروع سے لندن مشن میں اہم علمی مجالس منعقد ہوتی رہی ہیں.۱۹۵۹ء میں بھی لندن مشن میں ان مجالس کا ایک سلسلہ شروع ہوا.اور ان مجالس میں سائنس ، مذہب ،سیاست اور اسلام پر اعتراضات کے موضوعات پر متعدد مجالس منعقد ہوئیں.(۲۱)

Page 672

662 جولائی ۱۹۶۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا لندن تشریف لائیں.آپ کے ہمراہ آپ کی صاحبزادی مکرمہ فوزیہ صاحبہ بھی تھیں.آپ کا قیام مکرم عبد العزیز دین صاحب کے گھر میں تھا.آپ نے تین ماہ انگلستان میں قیام کیا اور یورپ بھی تشریف لے گئیں جہاں آپ نے زیورک کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.(۲۲) (۱) تاریخ لندن مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۷۵ (۲) الفضل یکم اکتوبر ۱۹۴۲ء ص ۱ (۳) الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۴۴ء (۴) الفضل ۲ ستمبر ۱۹۴۳ء ص ۱ (۵) الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۴۴ء ص ۱ (۶) الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۴۴ء ص ۴ ( ۷ ) الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۴۵ء ص ۲ (۸) الفضل ۱۸دسمبر ۱۹۴۵ء (۹) تاریخ لندن مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۹۳ (۱۰) تاریخ لندن مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۹۵ (۱۱) الفضل ۶ مئی ۱۹۴۷ء ص ۴ (۱۲) الفضل ۲ مئی ۱۹۴۷ء ص ۳ (۱۳) الفضل ۳۰ جولائی (۱۴) الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۴۹ء ص ۱۱ (۱۵) الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۰ء (۱۶) تاریخ لندن مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوہ ص ۱۰۷ (۱۷) ریکارڈ تبشیر فائل مولود احمد خان صاحب فائل نمبر ۶۵ ص ۵۹-۶۰ (۱۸) ریکارڈ پیشیر فائل چو ہدری ظہور احمد باجوہ صاحب ۱۹۵۵ء (۱۹) تاریخ لندن مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۱۲۳ (۲۰) رکارڈ تبشیر فائل مکرم مولود احمد خان صاحب ۱۹۵۵ء ص ۳۷ و ۳۸ (۲۱) الفضل ۲۰ اپریل ۱۹۵۹ء ص۳ (۲۲) الفضل ۲۶ فروری ۱۹۶۳ء ص۳

Page 673

جرمنی 663 جرمنی میں مشن پہلی مرتبہ ۱۹۲۲ء میں قائم ہوا تھا اور وہاں پر مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ بھی جمع کیا گیا تھا.لیکن اقتصادی بحران اور کرنسی کی قیمت گرنے کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ۱۹۲۴ء میں یہ مشن بند کر دیا گیا.دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر بیرونِ ہندوستان مبلغین بھجوانے کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہوا.جرمنی میں بھی مشن کھولنے کا منصوبہ تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے اس غرض کے لئے تین مبلغین کا انتخاب فرمایا.یہ تین مبلغین مکرم چوہدری عبد الطیف صاحب ، مکرم شیخ ناصر احمد صاحب اور مکرم مولوی غلام احمد بشیر صاحب تھے.یہ تینوں اصحاب پہلے لندن پہنچے جہاں انہوں نے مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب کے پاس رہ کر میدانِ عمل میں تبلیغ کی ٹریننگ حاصل کرنی تھی.ان کے علاوہ یورپ کے لئے باقی مبلغین بھی ۱۹۴۶ء میں لندن پہنچ چکے تھے.جلد ہی یورپ کے کئی ممالک میں جماعت کے مشن قائم ہو گئے مگر دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر جرمنی فاتح افواج کے قبضے میں تھا.وہاں ہمارے مبلغین کو داخلے کی جازت نہ مل سکی.جن مبلغین کا تقرر جرمنی کے لئے ہوا تھا وہ سویٹزرلینڈ چلے گئے تاکہ وہاں سے ویزے کے حصول کے لئے کوشش کر سکیں لیکن کامیابی نہیں ہوئی.حکام کی طرف سے یہی جواب ملتا کہ وہاں پر رہائش کا انتظام نہیں کیا جا سکتا.اس کے برعکس عیسائی مشنری جنگ ختم ہوتے ہی جرمنی پہنچ چکے تھے.جماعت کے مبلغین تو جرمنی نہ پہنچ سکے لیکن اللہ تعالیٰ نے وہاں پر احمدیت کا پودا لگانے کے انتظامات کر دیئے.۱۹۴۷ء میں ایک جرمن مکرم عبداللہ کہنے صاحب کو جنگ کے دوران ایک احمدی کی معرفت جماعت سے تعارف ہوا اور حضور کے بعض خطبات پڑھنے سے ان کی طبیعت پر گہرا اثر ہوا.انہوں نے احمدیت قبول کر کے کچھ اور احباب کو تبلیغ شروع کی اور اس طرح پانچ افراد پر مشتمل ایک چھوٹی سی جماعت وجود میں آگئی.مکرم عبد اللہ کہنے (Kuhne) صاحب نے اب مبلغین کے داخلے کے لئے کوششیں شروع کیں.ان کاوشوں کے نتیجے میں جماعت کے مبلغین کو عارضی ویزامل گیا.سب سے پہلے جون ۱۹۴۸ء میں مکرم شیخ ناصر احمد صاحب دورے کے لئے سویٹزرلینڈ سے جرمنی پہنچے.آپ کے دورہ کے دوران

Page 674

664 کچھ اور لوگ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.اس کے بعد مکرم مولوی غلام احمد صاحب بشیر کو تبلیغی اور تربیتی دورہ پر ہیمبرگ جانے کا موقع ملا.آپ نے دو ہفتہ کے لئے جرمنی میں قیام کیا اور آپ نے ہیمبرگ میں پہلی عید الفطر پڑھائی.ابھی بھی حکام جماعت کو مشن کھولنے کی اجازت دینے پر تیار نہیں تھے اور بعض مجبوریاں بتا کر ٹالنے کی کوشش کرتے.دوسری طرف عیسائیوں کی کئی تنظیمیں وہاں کام کر رہی تھیں ، انہیں حکام کی طرف سے ہر قسم کی سہولیات مہیا کی گئی تھیں مگر جماعت احمدیہ پر یہ دروازے بند تھے.(۱) بالآخر ۱۹۴۹ء کے آغاز پر مکرم چوہدری عبدالطیف صاحب کو لمبے قیام کا ویزامل گیا اور اس طرح ایک طویل عرصہ کے بعد جرمنی میں جماعت کے مشن کا با قاعدہ آغاز ہوا.مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب جرمنی پہنچے تو سب سے پہلے رہائش کا مسئلہ حل کرنا تھا.ہمبرگ میں کرایہ پر کمرہ ملا تو تبلیغی کاوشوں کا آغاز کیا گیا.لیکچروں تبلیغی میٹنگوں اور انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ کام شروع ہوا.جب کچھ میٹنگز منعقد ہو گئیں تو اس راہ میں بھی روک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی.جماعت کا مبلغ جہاں کہیں میٹنگ کے انعقاد کے لئے کمرہ کرایہ پر لینے جاتا تو جواب ملتا کہ کوئی کمرہ خالی نہیں ہے.تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ چرچ نے ان لوگوں سے رابطے کر کے انہیں اکسایا ہے کہ وہ جماعت کے مبلغ کو اپنی جگہ کرائے پر نہ دیں.مگر ان حرکتوں سے نہ جماعت کا کام رکنا تھا اور نہ رکا.(۲) آغاز میں مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب نے زبان سیکھنے کی طرف توجہ کی اور بہت جلد ایسا ملکہ پیدا کر لیا کہ دوسروں تک اپنے خیالات پہنچا سکیں.اس ملک میں تبلیغ کے لئے مختلف ذرائع استعمال کئے جارہے تھے.انفرادی اور اجتمائی تبلیغ کے ذریعہ اہلِ جرمنی تک اسلام کا پیغام پہنچایا جا رہا تھا.تبلیغی اجلاسات منعقد کئے جاتے اور مختلف انجمنوں میں تقاریر کا اہتمام کیا جاتا.یومِ پیشوایان مذاہب جماعتی روایات کا ایک اہم حصہ ہے.ان کے انعقاد کا سلسلہ جرمنی میں بھی شروع کیا گیا.جب اس قسم کی تقریبات کی خبر اخبارات میں شائع ہوتی تو یہ اپنی ذات میں لوگوں تک احمدیت کا نام پہنچانے کا باعث بن جاتا.اخبارات جماعت کے مبلغ کا انٹرویو لیتے اور ان کی اشاعت تبلیغ کا باعث بنتی.ان کے علاوہ ریڈیو پر بھی متعدد مرتبہ مکرم چوہدری عبدالطیف صاحب کے انٹرویوز

Page 675

665 اور تقاریر نشر ہوئیں اور آپ کو ریڈیو کے مذاکرات پر مدعو کیا گیا.لٹریچر کی اشاعت تبلیغ کی ایک بنیادی ضرورت تھی.چناچہ جرمن زبان میں لٹریچر کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا گیا.ނ پہلے جو کتاب شائع کی گئی وہ حضرت مصلح موعود کتاب The Life and Teachings of Prophet Muhammad کا جرمن ترجمہ تھا.جب مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب سویٹزرلینڈ میں تھے تو آپ نے ایک عیسائی سے اس کتاب کا جرمن زبان میں ترجمہ کرایا تھا.ان عیسائی مترجم کا نام B.Ambouts تھا.پھر یہ کتاب زیورک میں طبع ہوئی اور اسے جرمنی میں بھی تقسیم کیا گیا.اس کے بعد آپ نے حضور کی ایک تقریر Why I believe in Islam جو بمبئی ریڈیو سے نشر ہوئی تھی، کا ترجمہ کر کے اسے ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کرایا.اپریل ۱۹۵۱ء میں حضرت مصلح موعود کی تصنیف اسلام کا اقتصادی نظام کا جرمن ترجمہ شائع ہوا.پھر ایک اور کتابچہ حضرت مسیح موعود کی زندگی، دعاوی ، تعلیمات پر مشتمل شائع کیا گیا.۱۹۵۱ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف کمیونزم اور ڈیمارکسی کا ترجمہ شائع ہوا.(۵،۴۳) ۱۹۵۲ء میں نیورمبرگ کے مقام پر بھی تین افراد نے بیعت کی.(۶) حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے ۱۹۴۵ء میں مشہور اشاعتی ادارے Berlitz سے جرمن زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ کروایا تھا مگر اُس وقت یہ ترجمہ شائع نہیں ہو سکا تھا.پھر مکرم شیخ ناصر احمد صاحب نے اس پر نظر ثانی مکمل کی اور ۱۹۵۴ء میں یہ ترجمہ سویٹزرلینڈ میں شائع کیا گیا.ایک جرمن نو مسلم مکرم عبد اللہ کہنے نے بھی اس نظر ثانی میں مکرم شیخ ناصر احمد صاحب کی اعانت کی.اس ترجمہ کی اشاعت جرمنی میں تبلیغ اسلام کا ایک اہم سنگ میل ہے.(۷) یہ ترجمہ جرمنی کے صدر ڈاکٹر ہنس کو بھی دیا گیا.(۸) ۱۹۵۴ء میں ہمبرگ میں یورپ کے مبلغین کی کانفرنس منعقد ہوئی.اخبارات نے اس کانفرنس کی خبریں شائع کیں اور اس پر تبصرے کئے.(۹) جیسا کہ ہم بارہا جائزہ لے چکے ہیں کہ جب کسی شہر میں غیر از جماعت احباب کی مسجد بنتی ہے تو بسا اوقات یہ خانہ خدا بجائے خدمتِ اسلام کے صرف احمدیوں کی مخالفت کے لئے استعمال ہوتی رہتی ہے اور یہ مخالفین اپنے زعم میں ان حرکات سے جماعت کی تبلیغ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی حرکات کی وجہ سے اسلام کو بھی بد نام کرنے

Page 676

666 کا باعث بنتے ہیں.چنانچہ مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب ایک رپورٹ میں یہ ذکر کیا کہ ہیمبرگ میں بھی غیر از جماعت مسجد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس بارے میں اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو اس کے جواب میں حضور نے ارشاد فرمایا خانہ کعبہ کفار کے ہاتھ میں رہا اور محمد رسول اللہ اللہ کی عظمت میں فرق نہ آیا تو ان ڈھل مل یقین کے مسجد بنانے سے احمدیت کو کیا نقصان پہنچے گا.(۱۰) ۱۹۵۵ء میں حضور دورہ یورپ کے دوران جرمنی بھی تشریف لے گئے.اس دورہ کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.اب تک جرمنی میں جماعت کا مشن بھی قائم ہو چکا تھا اور کچھ سعید فطرت روحوں نے حق کو قبول بھی کیا تھا لیکن ابھی تک یہاں پر جماعت کی کوئی مسجد نہیں بنی تھی.زیادہ تر احمدی ہمبرگ میں مقیم تھے اور جماعت کا مشن بھی یہیں تھا.چنانچہ اسی شہر مین جماعت کی پہلی مسجد بنانے کا فیصلہ ہوا.اور ۲۲ فروری ۱۹۵۷ء کو بروز جمعہ ہمبرگ میں جماعت کی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا.(۱۱)۲۴ جون ۱۹۵۷ء میں حضور کے حکم کے مطابق حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس مسجد کا افتتاح فرمایا اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے حضور کے نمائیندے کی حیثیت سے اس تقریب میں شرکت فرمائی.پریس نے اس افتتاح کی خبر کو شائع کیا اور ریڈیو پر جماعت کے مبلغ مکرم چوہدری عبد الطیف صاحب کا انٹرویو نشر ہوا.(۱۲) اس موقع پر حضور کی طرف سے بھجوائے گئے پیغام میں حضور نے فرمایا 'خدا کرے کہ جرمن قوم جلد اسلام قبول کرے.اور اپنی اندرونی طاقتوں کے مطابق جس طرح وہ یورپ کی مادیات میں لیڈر ہے، روحانی طور پر بھی لیڈر بن جائے.(۱۳) ۱۹۵۸ء میں جماعت نے جرمنی میں دوسری مسجد بنانے کے لئے فرینکفرٹ میں زمین خریدی ، اور مسجد کی تعمیر مکمل ہونے پر ۲ ستمبر ۱۹۵۹ء کو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس کا افتتاح فرمایا.(۱۵،۱۴) عبدالشکور کنزے صاحب ۱۹۴۵ء میں احمدی ہوئے تھے.اور پھر زندگی وقف کر کے قادیان اور ربوہ میں دینی تعلیم حاصل کی.پھر آپ نے ساڑھے تین سال امریکہ میں مبلغ کے طور پر کام کیا

Page 677

667 اور ۱۹۵۸ء میں آپ نے جرمنی آکر یہاں مبلغ کے طور پر کام شروع کیا.مکرم مرزا لطف الرحمن صاحب جون ۱۹۵۹ء میں جرمنی آئے اور ایک سال یہاں پر تبلیغ کرنے کے بعد آپ کو نائیجیریا بھجوا دیا گیا.مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی پہلی مرتبہ مارچ ۱۹۶۱ء میں جرمنی پہنچے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے طویل عرصہ خدمات کی توفیق ملی.مکرم محمود احمد صاحب چیمہ کو۱۹۶۲ء سے لے کر ۱۹۶۶ء تک جرمنی میں بطور مبلغ کام کرنے کی توفیق ملی.اور مکرم فضل الہی انوری صاحب جون ۱۹۶۴ء میں جرمنی پہنچے اور یہاں پر اپنی خدمات کا آغاز کیا.(۱۶) وكيل التبشير مكرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے جون ۱۹۶۵ء میں جرمنی کا دورہ فرمایا.اس موقع پر مبلغ سلسلہ مکرم میر مسعود احمد صاحب آپ کے ہمراہ تھے.(۱) الفضل ۹ اکتوبر ۱۹۴۸ء (۲) الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء ص ۴ (۳) تاریخ جرمن مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۳۲-۳۳ (۴) الفضل ۱۸ستمبر ۱۹۵۰ء ص ۵ ( ۵ ) الفضل ۲۰ اگست ۱۹۴۹ء ص ۴ (۶) الفضل ۷ امئی ۱۹۵۲ء ص ۵ (۷) تاریخ جرمن مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۳۶ (۸) الفضل ۱۰ جون ۱۹۵۴ء ص ۲ (۹) تاریخ جرمن مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۳۹ ۴۰ (۱۰) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل چوہدری عبدالطیف صاحب ۱۹۵۴ء ص ۹۲ (۱۱) الفضل ۱۳ فروری ۱۹۵۷ء ص ۱ (۱۲) الفضل ۶ جولائی ۱۹۵۷ء (۱۳) الفضل ۲۶ جون ۱۹۵۷ء ص ۱ (۱۴) هفت روزه بدر قادیان ۲۵ستمبر ۱۹۵۸ء ص ۵ (۱۵) الفضل ۶ استمبر ۱۹۵۹ء ص ۱ (۱۶) تاریخ جرمن مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص۶۰

Page 678

سپین 668 سپین میں جماعت کے مشن کے احیاء کا ذکر گذر چکا ہے.یہ وہ دور تھا جب سپین میں صرف کیتھولک چرچ کو تبلیغ کی اجازت تھی.دوسرے مذاہب تو ایک طرف رہے دوسرے عیسائی فرقوں کو بھی وہاں تبلیغ کی اجازت نہیں تھی.اس صورت حال میں جماعت کے مبلغ جناب کرم الہی اظفر صاحب وہاں جا کر رہنے تو لگ گئے لیکن کھلم کھلا تبلیغ کرنا ان کے لئے ممکن نہ تھا.یہ مشن ابھی ابتدائی حالت میں ہی تھا کہ قادیان سے ہجرت کرنی پڑی تقسیم ملک کے بعد جماعت کو مالی وسائل کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا.یہ فیصلہ کیا گیا کہ یورپ کے بعض مشن بند کر دیے جائیں.چنانچہ مکرم کرم الہی ظفر صاحب کو مرکز کی طرف سے حکم ملا کہ چین سے لندن چلے جائیں.دعاؤں اور سوچ بچار کے بعد مکرم کرم الہی ظفر صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ مشن کو بند نہ کیا جائے.جماعت خرچہ بھجوائے یا نہ بھجوائے میں اپنی آمد خود پیدا کرلوں گا.آپ نے سپین آنے سے قبل لندن میں قیام کے دوران عطر سازی کا کام سیکھا تھا.چنانچہ آپ نے پھیری لگا کر عطر بیچنے کا کام شروع کیا اور اس کے ساتھ تبلیغ کا کام بھی جاری رکھا.اور چند سعید روحوں نے اسلام قبول کر لیا.با وجود کاروباری معاملات میں ان کی ناتجربہ کاری کے اللہ تعالیٰ نے ان کے کام میں ایسی برکت ڈالی کہ پہلے ہی سال انہوں نے اپنا خرچہ اٹھانے کے علاوہ اتنی رقم جمع کر لی کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی کتاب اسلام کا اقتصادی نظام کا سپینش میں ترجمہ کر کے اسے شائع کروایا.(۱) یہ کتاب شائع تو ہوگئی لیکن حکومت نے اسے تقسیم یا فروخت کرنی کی اجازت نہ دی.اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا.آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ راستہ نکالا کہ ڈائریکٹر جنرل پریس نے سنسر شپ پریس سے یہ منوالیا کہ یہ کتاب کمیونزم کے خلاف ہے اور ملک کو کمیونزم سے خطرہ ہے لہذا اسکی اشاعت کی اجازت دی جائے.سپین میں عیسائیت کے علاوہ کسی مذہب کو تبلیغ کی جازت نہیں تھی.سنسر والے تذبذب میں تھے.آخر انہوں نے کہا کہ کتاب میں جہاں لکھا ہے کہ مذہب اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے.وہاں یہ تبدیلی کر دی جائے کہ اس کی جگہ لکھا جائے مذہب اسلام جو میرے نزدیک صرف ایک سچا مذہب ہے.حضور نے اس تبدیلی کی اجازت مرحمت فرما دی.یہ کتاب با اثر لوگوں کو بھی بھجوائی گئی اور

Page 679

669 انہوں نے جواب میں شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اس کتاب کی تعریف میں شاندار تبصرے بھی کئے.مکرم کرم الہی ظفر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی، کی اشاعت کا فیصلہ کیا.چنانچہ ۱۹۵۰ء میں اس کتاب کا سپینش ترجمہ شائع کیا گیا.کتاب ابھی پریس میں ہی تھی اور اس کا ٹائٹل کا صفحہ لگ رہا تھا کہ حکومت نے اس پر بھی پابندی لگا دی.حکومت سے خط و کتابت شروع کی گئی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اُس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ تھے انہوں نے بہت کوششوں کے بعد یہ اجازت حاصل کر لی کہ اس کتاب کو ابھی ضائع نہ کیا جائے بلکہ اس وقت تک اس کے نسخے مکرم کرم الہی اظفر صاحب کے پاس رہیں جب تک حکومت اس کی اشاعت کی اجازت نہ دے دے.بعض دوستوں نے اس کتاب کے نسخے یورپ کے دوسرے ممالک میں منگوائے اور یہ ملک سے باہر مقیم ہسپانوی باشدوں میں تقسیم کی گئی اور بعض نسخے سپین کے باشندوں کو بھی بذریعہ ڈاک بھجوائے گئے.اُس وقت سپین پر جنرل فرانکو حکمران تھے.کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی جراءت نہیں تھی.مکرم کرم الہی ظفر صاحب نے تو کل کرتے ہوئے ایک نسخہ جنرل فرانکو کو بھجوا دیا.چند دنوں کے بعد ان کا حیران کن خط موصول ہوا کہ کتاب مجھے بے حد پسند آئی.میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں.اب آہستہ آہستہ کتاب کی تقسیم شروع ہوئی.تو پولیس والے پہنچ گئے کہ ممنوعہ کتاب کی تقسیم کیوں کی جارہی ہے.جب انہیں جنرل فرانکو کا خط نکال کر دکھایا گیا تو پولیس والے خاموشی سے واپس چلے گئے.۱۹۶۴ء میں حکومت نے اسلامی اصول کی فلاسفی اور میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں کی اشاعت کی اجازت دے دی.۱۹۵۶ء میں حکومت نے پاکستان کے سفیر کو رابطہ کر کے انہیں کہا سپین کی حکومت اسلام کی تبلیغ کو ملک میں غیر قانونی سمجھتی ہے اس لئے مکرم کرم الہی ظفر صاحب اس سے باز رہیں.اس پر مکرم کرم الہی ظفر صاحب نے اس پر احتجاج کیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ایک خطبہ میں فرمایا کہ پاکستان میں تو عیسائی مشنری تبلیغ کر رہے ہیں اور پین میں پاکستانی سفیر کے ذریعہ جماعت کے مشنری کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ تمہیں یہاں پر تبلیغ کی اجازت نہیں ہے.(۲) بہر حال انہوں نے مکرم کرم الہی ظفر صاحب کو ملک سے نکالنے کی دھمکی پر عمل نہیں کیا ،مگر ان کی تبلیغی سرگرمیوں پر پولیس کی نگرانی کڑی ہو گئی.بسا اوقات لوگ ان کے گھر کے بورڈ پر پتھر مار کر چلے جاتے.بہت

Page 680

670 دفعہ ایسا ہوتا کہ پادری پولیس کو جا کر اکساتے اور پولیس اس وقت چھاپا مارتی جب کچھ لوگ آپ کے پاس موجود ہوتے.ایک طالب علم نے اسلام قبول کیا تو خفیہ پولیس نے اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے اسلام نہ چھوڑا تو اس کے لئے اچھا نہ ہو گا.ایک اور شخص نے اسلام قبول کیا تو اسے اس کے افسروں نے ڈرایا دھمکایا اور مجبور کیا کہ وہ چرچ جا کر اعتراف گناہ کرنے.اگر کوئی بیچارا کبھی کوئی کتاب لینے مولا نا کرم الہی ظفر صاحب کے پاس آتا تو اس کے ہاتھ کانپ رہے ہوتے اور کتاب پکڑ کر وہ جلدی سے جانے کی کرتا.یہ حالت ۱۹۷۰ ء تک رہی جب سپین میں مذہبی آزادی کا اعلان کیا گیا.(۳) (۱) الفضل ۵ استمبر ۱۹۴۹ء ص ۴ (۲) الفضل ۱۵مئی ۱۹۵۶ء ص ۲-۳ (۳) تاریخ سپین مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ماریشس جیسا کہ پہلے ماریشس کے حالات بیان کرتے ہوئے یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ۱۹۴۰ء کی دہائی کے آغاز میں حضرت مسیح موعود کے صحابی حضرت حافظ جمال احمد صاحب یہاں پر مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے.اس وقت یہاں پر تقریباً آٹھ صدا فراد کی ایک مختصر جماعت قائم تھی.یہاں پر روز بل کا مقام جماعت کا ملکی مرکز تھا.اس کے علاوہ سینٹ پیٹر فینکس ، پورٹ لوئیس ، متایاں لانگ، تریوے، ہمت یاں بلانش کے مقامات پر جماعتیں قائم تھیں اور ان کے علاوہ بعض اور جگہوں پر افرادِ جماعت موجود تھے.(۲۱) جب اپریل ۱۹۴۹ء میں ربوہ کے نئے مرکز میں پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا تو اس میں ماریشس کے دوست مکرم احمد ید اللہ صاحب بھی شامل ہوئے.جب وہ سفر کرتے ہوئے مرکز آ رہے تھے تو جہاز پر کچھ اور احمدی بھی سوار تھے.ایک انجان مخالف نے یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ مسلمان ماریشس سے آ رہا ہے انہیں کہا کہ دیکھنا یہ دو تین آدمی مرزائی ہیں ان کے ساتھ نماز نہ پڑھنا.اس پر احمد ید اللہ صاحب نے جواب دیا کہ میں خود احمدی ہوں اور پیدائشی احمدی ہوں.اس پر وہ آدمی حیران ہو کر

Page 681

671 کہنے لگا کہ کیا مرزا صاحب کا مذہب پنجاب سے اتنی دور تک پہنچ گیا ہے.(۳) مکرم احمد ید اللہ صاحب کی حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے یہ پہلی ملاقات تھی.ان پر اس بات نے ایک گہرا اثر کیا کہ حضور ان سے اور ان کے خاندان سے اچھی طرح واقف ہیں اور مرکز سے اتنی دور رہنے والوں پر بھی حضور کی شفقت کی اتنی نظر ہے.(۴) ۲۷ دسمبر ۱۹۴۹ء کو حضرت حافظ جمال احمد صاحب وفات پا گئے.آپ کو سینٹ پیری میں سپردخاک کیا گیا.جس وقت آپ کو ماریشس کے لئے روانہ کیا گیا تو جماعت کی مالی حالت نہایت کمزور تھی.آپ نے اپنے خانگی حالات کی وجہ سے یہ درخواست کی کہ انہیں بیوی بچوں کو ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے.ان کی یہ درخواست منظور کر لی گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ زندگی بھر اپنے وطن واپس نہیں آئیں گے.جب ربوہ کا قیام عمل میں آیا تو انہیں اجازت دی گئی کہ وہ واپس آکر نئے مرکز کی زیارت کر لیں.لیکن تقدیر الہی دیکھئے کہ ابھی وہ پاکستان کے لئے روانہ نہیں ہوئے تھے کہ ماریشس میں ان کی وفات ہوگئی.اور ان کا عہد کہ وہ زندگی بھر وطن کا منہ نہیں دیکھیں گے پورا ہو گیا.حضرت مصلح موعود نے ان کی وفات پر فرمایا اس دنیا میں ہزاروں لوگ وعدے کرتے ہیں اور ان کو بھول جاتے ہیں.لیکن جو لوگ اپنے وعدہ پر قائم رہتے ہیں وہ یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مومنوں کی دعاؤں کے مستحق ہیں.اور ماریشس کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ وہ ملک مبارک ہے جس میں ایسا اولو العزم انسان مدفون ہوا.(۵) ۱۹۵۲ء میں ماریشس کے لئے جماعت کے نئے مبلغ مکرم بشیر الدین عبید اللہ صاحب ماریشس پہنچے.آپ کے والد مکرم عبید اللہ صاحب بھی یہاں پر مبلغ کے طور پر کام کر چکے تھے اور یہیں پر آپ کی تدفین ہوئی تھی.(۶) آپ نے یہاں پر اپنی بھر پور تبلیغی مساعی کا آغاز کیا.اگلے ایک ڈیڑھ سال میں ہی آپ نے چالیس تبلیغی لکچر دیئے، ریڈیو پر تقریر کی اور مختلف جماعتوں کے تقریباً ایک سو ے کیئے.حضور کی تحریر کمیونزم اینڈ ڈیموکرسی کو شائع کرایا گیا.جماعتوں کو منظم کیا گیا اور مختلف عہدوں کے لئے انتخابات کرائے گئے.خدام الاحمدیہ میں ایک نئی بیداری پیدا ہوئی اور ان کے دور

Page 682

672 با قاعدہ اجلاسات شروع ہوئے.۱۹۵۴ء میں ماریشس میں احمدیوں کی کل تعداد ۹۹۵ تھی.(۷) مختلف جماعتوں میں بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دینے کا انتظام پہلے سے موجود تھا مگر اس کو با قاعدہ کرنے کے لئے اقدامات کئے گئے.روز بل میں سکول کے اوقات سے قبل دینی تعلیم دینے کا انتظام کیا گیا اور اس کے لئے مختلف اساتذہ مقرر کئے گئے.اور اس کلاس میں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا.بڑی عمر کے احباب کے لئے تعلیم اور درس کا انتظام کیا گیا.(۸) فروری ۱۹۵۵ء میں مکرم فضل الہی بشیر صاحب فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کے لئے ماریشس تشریف لے گئے.آپ کو وہاں پر ۱۹۶۱ء تک خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا.۱۹۵۷ء میں ماریشس میں بہائیوں کی سرگرمیاں کافی زور سے جاری تھیں اور بہت سے مسلمان ان سے متاثر ہو رہے تھے.احمدیوں نے دلائل سے ان کا مقابلہ شروع کیا اور بہائی ان دلائل کے آگے لا جواب ہو گئے.مولانا فضل الہی بشیر صاحب نے بہائیت کے رد میں دوٹریکٹ شائع کئے.(۹) ۱۹۵۹ء میں فنکس کے مقام پر ایک نئی مسجد مکمل ہوئی.(۹)۱۹۶۱ء میں مکرم محمد اسماعیل منیر صاحب کو ماریشس میں مبلغ مقرر کیا گیا.آپ نے بڑی تندہی کے ساتھ کام کا آغاز کیا.۱۹۶۱ء میں جماعت احمد یہ ماریشس کا ایک جریده Le Message کے نام سے فریج زبان میں شائع ہونا شروع ہوا.عیدالاضحی کے موقع پر اس کا پہلا نمبر نکلا.خدام کے رسالے البشری کو بھی اس میں ضم کر دیا گیا.اس کے علاوہ بہت سی کتب کے فریج تراجم کی تیاری شروع کی گئی.(۱۰.۱۱) مکرم اسماعیل منیر صاحب نے ریڈیو پر متعدد تقاریر کے ذریعہ اسلام کا پیغام اہلِ ماریشس تک پہنچایا.اور ۱۹۶۱ء میں ہی انصار اللہ نے پبلک جلسوں کے ذریعہ اپنی مساعی کا دائرہ وسیع تر کیا.۱۹۶۲ء میں روز ہل کے مقام پر جماعت کے ایک سکینڈری سکول کا آغاز کیا گیا ، جس کا نام فضل عمر کالج رکھا گیا.اس وقت تک جماعت کی دینی تعلیم کے لئے ماریشس میں چھ مکاتیب قائم تھے اور جماعت احمد یہ ماریشس چھ مساجد تعمیر کر چکی تھی.(۱۲) (۱) الفضل ۱۷ اکتو بر ۱۹۵۲ء ص ۵ (۲) الفضل ۵ جنوری ۱۹۴۰ ء ص ۸

Page 683

(۳) الفضل ۲۲ ایریل ۱۹۴۹ء ص ۲ (۴) الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۴۹ء ص ۲ (۵)الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۵۰ء ص ۱ (۶) الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۲ ء ص ۵ (۷) تاریخ ماریشس مشن ص ۶۵ - ۶۶ (۸) الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۲ء ص ۵ (۹) تاریخ ماریشس مشن ص۶۹-۷۰ (۱۰) الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۶۱ء ص ۵ (۱۱) الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۶۱ء ص ۵ 673 (۱۲) الفضل ۴ اپریل ۱۹۶۲ء ص برما مکرم مولانا احمد خان صاحب نسیم نے ۱۹۳۵ء سے لے کر ۱۹۳۹ء تک برما میں بطور مبلغ خدمات سرانجام دیں.آپ کے بعد مرکز نے مکرم مولانا محمد سلیم صاحب کو برما میں مبلغ مقرر کیا.آپ کو وہاں پر صرف آٹھ ماہ تک خدمت کی توفیق مل سکی.اس کے بعد دوسری جنگِ عظیم کے شروع ہونے کے باعث آپ واپس ہندوستان تشریف لے آئے.آپ کے برما قیام کے دوران حضرت مصلح موعود کی تصنیف دعوۃ الامیر کا برمی ترجمہ شائع کیا گیا.دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی افواج نے برما پر قبضہ کر لیا.جس کے نتیجے میں بہت سے ان ہندوستانی احمدیوں کو جو برما میں سکونت رکھتے تھے وہاں سے نکلنا پڑا.کچھ نے وہاں کی شہریت اختیار کر لی ان میں اکثریت تامل احمدیوں کی تھی اور کچھ مدراسی اور پنجابی بھی تھے.دوسری جنگ عظیم کے دوران جو احمدی برما میں رہ گئے تھے انہوں نے کوشش کر کے رنگون سے سات میل دور Kamayut میں ایک چٹائیوں کی بنی ہوئی کچی مسجد تعمیر کی.اس کے لئے مکرم پیر محمد صاحب کی اہلیہ نے زمین وقف کی تھی.اُن دنوں برما کی جماعت کے ایک مخلص احمدی مکرم ابراہیم صاحب تھے جن کے خاندان کے بہت سے افراد نے احمدیت قبول کی تھی.آپ ایک مخیر دوست تھے اور مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.ان کا ایک نواسہ کم عمری میں فوت ہو گیا.مولویوں نے شور مچا دیا تھا کہ یہ کافر تھا اس لئے اس کی قبر کو

Page 684

674 مسلمانوں کے قبرستان سے منتقل کیا جائے.مقدمہ عدالت میں گیا فریقین نے اپنے اپنے حق میں قرآنی آیات سے دلائل پیش کئے.جج نے ترجمہ دیکھنے کے لئے غیر احمدی مولویوں سے قرآن کریم طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ بت پرست ہیں اور ناپاک ہیں اس لئے ہم اپنا قرآن آپ کو نہیں دے سکتے.جب احمدیوں سے قرآنِ کریم مانگا تو انہوں نے قرآن کریم دے کر کہا کہ یہ ہماری طرف سے تحفہ ہے آپ اسے پڑھیں اور اس کی سچائی پر غور کریں.حج نے متاثر ہوکر بے ساختہ کہا کہ پھر تو آپ ہی اسلام کے صحیح نمائیندے ہیں.اور بالآ خر مقدمہ خارج کر دیا گیا.مکرم ابراہیم صاحب کے قصبہ میں ہی تامل زبان کے ایک شاعر جناب نلا محمد صاحب رہا کرتے تھے.ایک مخالف نے اُن کو حضرت مسیح موعود کی تصنیف کشتی نوح اس فرمائش کے ساتھ دی کہ اس کتاب کی تردید تامل اشعار میں لکھیں.جب انہوں نے یہ کتاب پڑھی تو اتنا متاثر ہوئے تو خود بھی بیعت کی اور ان کی ایک ہمشیرہ بھی بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئیں.محترم مولانا سلیم صاحب کے بعد تیرہ سال وہاں پر کوئی مبلغ وہاں نہیں جا سکا.اس کے بعد مکرم منیر احمد صاحب باہری کو ۱۹۵۳ء کے وسط میں برما کا مبلغ ومشن انچارج بنا کر بھیجا گیا.وہاں پر آپ کا قیام چار سال تک رہا اور ان سالوں میں برما کی جماعت نے علمی اور عملی میدان میں اپنا قدم آگے بڑ جایا.اور آپ کے برما میں قیام کے دوران چینی اور برمی زبان میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا.اور حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر Why I believe in Islam کا برمی ترجمہ شائع کیا گیا.۱۹۵۶ء میں برما میں امارت کا نظام کا اجراء ہوا اور حضرت مصلح موعودؓ کی منظوری سے مکرم عبد الغنی صاحب کو امیر مقرر کیا گیا.مکرم منیر احمد باہری صاحب کی واپسی کے بعد مکرم منیر احمد عارف صاحب برما میں مبلغ مقرر ہوئے.اور تین سال تک وہاں پر خدمات سرانجام دیں.۱۹۶۰ء میں رنگون میں جماعت کی بڑی مسجد مکمل ہوئی اور اس کی چار منزلہ عمارت کا افتتاح کیا گیا.حضور نے اس کا نام رنگون مسجد رکھا.قانونی دقتوں کے بعد مکرم منیر احمد عارف صاحب کی واپسی کے بعد مرکز سے وہاں پر مبلغ بھجوانا ممکن نہ رہا.البتہ برما میں مکرم خواجہ بشیر احمد صاحب کو وہاں کا مبلغ انچارج مقرر کیا اور ۱۹۶۵ء میں آپ نے با قاعدہ طور پر زندگی وقف کر دی.(۱) (۱) تاریخ بر مامشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه

Page 685

انڈونیشیا: 675 انڈونیشیا میں جماعت کے مبلغین خاص طور پر مولوی رحمت علی صاحب کی قابلِ قدر مساعی کا ذکر حضرت مرزا بشیر احمد کی تصنیف فرمودہ میں آچکا ہے اور ہم بھی حصہ دوئم کے آغاز میں اس کا مختصر جائزہ لے چکے ہیں.اب ہم ایک دفعہ پھر انڈونیشیا کی جماعت کی ترقی کا ذکر کریں گے اور دیکھیں گے کہ ۱۹۳۰ء کی دہائی کے آخر اور ۱۹۶۵ء کے درمیان مخلصین کی اس جماعت کو کن کن مراحل سے گذرنا پڑا.یہاں پر جیسے جیسے جماعت ترقی کر رہی تھی ، جماعت کی مساجد کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی.چنانچہ ۱۹۳۷ء میں بٹاویہ کی جماعت نے اپنی مسجد اور ملحقہ مشن ہاؤس تعمیر کیا.حضرت مصلح موعودؓ نے اس مسجد کا نام مسجد الھدایت رکھا.اسی طرح انڈونیشیا میں جماعت نے دوسری مسجد گاروت کے مقام پر تعمیر کی جہاں کی ترقی پذیر جماعت کی ضروریات بڑھ رہی تھیں.اس مسجد کا افتتاح مکرم مولوی رحمت علی صاحب نے مارچ ۱۹۳۸ء میں فرمایا.(۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف کا مقامی زبانوں میں ترجمہ بہت ضروری ہے تا کہ احباب براہ راست آپ کے علم کلام سے فیضیاب ہوسکیں.مکرم مولوی عبد العزیز شریف صاحب نے ۱۹۳۵ء میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ مکمل کر لیا.اس کی اشاعت کا کام مکرم ابوبکر صاحب کے ذریعہ کیا گیا اور آپ نے باوجود مالی وسائل کی کمی کے اس کی اشاعت کی ذمہ داری اُٹھائی اور اگست ۱۹۳۷ء میں یہ کتاب شائع ہوگئی.(۲) اب مقامی احمدی بھی جماعتی کاموں اور خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے.ان میں سے ایک مکرم ڈھنگ ڈاٹو مواجہ صاحب تھے.آپ احمدیت قبول کرنے کے بعد ۱۹۲۹ء میں بمع اہل و عیال قادیان تشریف لائے تھے.۱۹۳۷ء میں حضور نے آپ کو جماعت انڈونیشیا کا پریذیڈنٹ مقرر فرمایا.مگر چند ماہ بعد نومبر ۱۹۳۷ء میں انتقال فرما گئے.انا لله و انا اليه راجعون ۱۹۳۹ء میں باقی جماعت احمد یہ عالمگیر کی طرح انڈونیشیا میں بھی گاروت میں احمد یہ مرکز میں یہ تقریبات منائی گئیں.۱۹۳۸ء اور ۱۹۳۹ء کے دوران انڈونیشیا کی جماعت نے اشاعت کے اہم

Page 686

676 کام کی طرف بھی توجہ کی اور ۱۹۳۸ء میں حضرت مولوی رحمت علی صاحب نے عیسائیت کے متعلق پانچ کتب لکھیں اور یہ کتب شائع کی گئیں.اور ۱۹۳۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ایک غلطی کا ازالہ اور حضرت مصلح موعود کی تصنیف دعوت الا میر کا ترجمہ شائع ہوا.۱۹۴۱ء میں تاسک ملایا کے علاقے میں جماعت نے اپنی مسجد تعمیر کرنی شروع کی جو اگلے سال مکمل ہو گئی.اسی طرح اس سال میں موتو بوئی بسار اور چیکا لونگ کولون کے علاقہ میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.دوسری جنگِ عظیم جاری تھی.۱۹۴۲ء میں انڈونیشیا پر جاپان کا قبضہ ہو گیا.پہلے پہل تو لوگوں نے یہ انتظار کیا کہ اب قابض افواج ایشیا کو آزادی دلانے کے نعرے پر عمل کریں گی مگر آہستہ آہستہ صورت حال واضح ہوتی گئی.جاپانی حکومت نے انڈونیشیا کے لوگوں پر اتنی سختی شروع کی کہ لوگ چلا اٹھے.اُن پر فوجی مقدمات قائم ہوتے تو کوئی تحقیقات نہ کی جاتیں.عورتوں کی عصمت دری کی جاتی.بہت سی عورتوں کو زبردستی جاپانی فوجیوں کے لئے قائم کردہ Comfort Houses میں بھجوا دیا گیا.ان کے فوجی مساجد میں رہنے لگے.فوجی جا کر کسانوں کے کھیت کاٹ کر لیجاتے اور اُن کو کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا.کوئی آواز اُٹھاتا تو اسے مار دیا جاتا.یہ تو افراد کے ساتھ سلوک تھا.اس کے علاوہ جلد ہی تمام سیاسی تنظیموں اور انجمنوں پر پابندی لگا دی گئی.احمدیوں نے کوشش کی کہ ہم مذہبی جماعت ہیں مگر جاپانی نمائیندوں نے ان کی ایک نہ سنی.جو افسر مذہبی جماعتوں کے متعلق تحقیق کر رہا تھا ، اس نے مولانا صادق صاحب سماٹری کو کہا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے کلام سے حکومت کے متعلق نظریہ پیش کرو.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ تحریر دکھائی جس میں لکھا تھا کہ ہر احمدی کو حکومت وقت کی اطاعت کرنی چاہئیے.وہ یہ تحریر پڑھ کر کہنے لگا کہ اس میں یہ تو نہیں لکھا کہ جاپان کی اطاعت کرو اگر کل کو یہاں پر کسی اور ملک کی حکومت ہو تو آپ اُس کی بھی اطاعت کریں گے.اب اس الٹے اعتراض کا کیا جواب ہوسکتا تھا.پھر وہ مصر ہوئے کہ کیا آپ عہد کرتے ہیں کہ جاپان کے ساتھ جئیں گے اور اس کے ساتھ مریں گے.انہیں کہا گیا کہ ہمارا جینا مرنا خدا کے لئے ہے ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے.یہ بات چیت ختم ہوئی تو اُس نے کہا کہ آپ کو تبلیغ کی اجازت نہیں کیونکہ آپ کی تبلیغ سے لوگوں میں جوش پیدا ہوتا ہے ، آپ اپنے

Page 687

677 سارے عہدیداروں کو موقوف کر دیں.البتہ ہم آپ کو عبادت سے نہیں روک سکتے.ایک طرف قابض افواج یہ گل کھلا رہی تھیں اور دوسری طرف جماعت کے مخالف مولوی اپنی ریشہ دوانیوں میں مشغول تھے.بعض مولویوں نے جاپانی حکام تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ حوالے پہنچائے جس میں انگریزوں کی حکومت کی تعریف کی ہوئی تھی.اور یہ ثابت کرنی کی کوشش کی کہ یہ لوگ انگریزوں کے جاسوس ہیں.اس پر جاپانی حکام نے جماعت کے لوگوں سے مزید سوالات کئے اور بلا کر کہا کہ آپ کو جماعتی عہدیداران کے انتخاب کی اجازت نہیں اور نہ تبلیغ کی اجازت ہے.تمہارے نبی نے فرمایا ہے حب الوطن من الایمان.احمدیوں نے جواب دیا کہ ہم ملک کی خدمت میں بھی حصہ لے رہے ہیں مگر مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے.کیونکہ اگر ہم مذہب کو چھوڑ دیں تو ہم ملک کی خدمت بھی نہیں کر سکتے کیونکہ مذکورہ بالا ارشاد کی وجہ سے ہی تو ہم ملک کی خدمت کر رہے ہیں.اس پر جاپانی افسر کہنے لگا کہ تم بحث کرتے ہو.دوسرے غیر احمدی علماء یہ فتویٰ بھی دے رہے تھے کہ جس جنگ کا جاپان نے بیڑا اٹھایا ہے وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے.ان حالات میں جماعت کے مبلغ مکرم مولانا صادق صاحب سماٹری نے حکومت جاپان کو ایک خط لکھا.اس خط میں راعی اور رعایا کے حقوق پر روشنی دالی اور احمدیت کی غرض و غایت پر بحث کی.اور یہ درخوست کی کہ مذہب میں حکومت کی مداخلت نہیں ہونی چاہئیے.اور یہ بھی لکھا کہ حکومت کی حقیقی خیر خواہ جماعتِ احمد یہ ہے.ایک اور خاص امر جس کی طرف حکام کی توجہ مبذول کرائی گئی وہ یہ تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا میں جس جنگ کا جاپان نے بیڑا اٹھایا ہے وہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے.اور جو علماء اسے چاپلوسی سے جہاد فی سبیل اللہ قرار دے رہے ہیں انہیں ایسا کرنے سے منع کر دینا چاہئیے.جماعت کا ایک وفد یہ خط حکام تک پہنچانے گیا.اس پر حکومت بہت برافروختہ ہوئی اور ایک مرحلہ پر فیصلہ کیا کہ مولا نا محمد صادق سماٹری صاحب کو سزائے موت دے دی جائے گی.اس وقت یہ معلوم ہورہا تھا کہ اتحادی افواج انڈونیشیا میں داخل ہوں گی.چنانچہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس قت یہ افواج انڈونیشیا میں قدم رکھیں گی اس وقت مولا نا محمد صادق سماٹری صاحب کو موت کی گھاٹ اتار دیا جائے گا.اس صورتِ حال میں احباب جماعت نے تہجد ادا کرنی شروع کی اور روزے رکھے.مولا نا صاحب کو رویا میں دکھایا گیا کہ دانیال کتاب کی فصل پانچ پڑھو.جب بائیبل میں یہ حوالہ پڑھا تو اس میں ایک

Page 688

678 بادشاہ کی بادشاہت کا خاتمہ قریب آنے کی پیشگوئی درج تھی.چند ماہ کے اندر اندر جاپان کو دو ایٹم بموں کی تباہ کاری کا نشانہ بنا پڑا اور مجبوراً اس نے ہتھیار ڈال دیئے.جاپان نے تو ۱۴ اگست کو ہی ہار مان لی تھی مگر سماٹرا اور جاوا میں یہ اعلان ۲۲ اگست کو کیا گیا.بعد میں غیر احمد یوں سے معلوم ہوا کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ مولوی صاحب کو ۲۳ یا ۲۴ اگست کو سزائے موت دے دی جائے.(۳) ۱۹۴۴ء میں جاپانی تسلط کے خلاف جاوا میں بغاوت ہوگئی.جماعت کے مخالف علماء فوراً جاپانی حکام کے پاس گئے اور کہا کہ اس بغاوت کے پیچھے احمدیوں کا ہاتھ ہے.جماعت کے چودہ افراد کو جن میں تین مبلغین بھی شامل تھے گرفتار کر لیا گیا.یہ احباب ۸۴ دن تک قید میں رہے.مگر اللہ تعالیٰ نے اسیران کو رڈیا کے ذریعہ رہائی کی بشارت دی اور خدا کے فضل سے ان کی رہائی عمل میں آگئی.(۴) جاپانی گئے اور ڈچ حکومت ایک مرتبہ پھر انڈونیشیا پر قابض ہوگئی.انڈو نیشیا کو آزادی کی منزل ابھی بھی نہیں ملی تھی.سوئیکارنو کی قیادت میں انڈونیشیا میں آزادی کی تحریک شروع ہو گئی.ملک کے احمدی اس تحریک میں حصہ لے رہے تھے.تحریک آزادی میں بعض احمدیوں نے اپنی جانوں کی قربانی پیش کی.جماعت انڈونیشیا کے پریذیڈنٹ مکرم محی الدین صاحب جو تحریک آزادی کے نمایاں کارکن تھے ان کو پہلے ڈچ فوجیوں نے اغوا کیا اور پھر آپ کو شہید کر دیا گیا.(۵) ۱۹۴۹ء میں ایک گروہ دارالاسلام نے جماعت احمدیہ کو اپنے ساتھ مل کر سیاسی مساعی میں شامل ہونے کی دعوت دی مگر جب احمدیوں نے اس سے انکار کیا تو انہوں نے احمدیوں کی شدید مخالفت شروع کر دی.اور اس مخالفانہ رو میں دو خواتین سمیت سولہ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا.ان شہداء کا تعلق مغربی جاوا سے تھا.(4) جب ۱۹۴۶ء میں انڈونیشیا میں تحریک آزادی چل رہی تھی تو حضور نے ایک خطبہ میں فرمایا دلیکن انڈونیشیا کے جزائر نے اس اعلیٰ خوبی کا مظاہرہ کیا ہے.جس سے دوسری اسلامی دنیا قاصر رہی ہے.ان کی ابھی تک آواز ایک ہے ان کی بولی ایک ہے.انکی حکومت ایک ہے.ڈچوں نے گذشتہ چند ماہ میں بہت کوشش کی ہے کہ ان میں افتراق

Page 689

679 پیدا کر دیں.لیکن وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے.“ پھر حضور نے انڈونیشیا کے متعلق فرمایا دنیا بھر میں اور کوئی علاقہ اسلامی مرکز ہونے کی اس قدر اہلیت نہیں رکھتا.پس اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے اخباروں میں رسالوں میں اپنے اجتماعوں میں مسلمان اپنے ان بھائیوں کے حق میں آواز اُٹھائیں اور ان کی آزادی کا مطالبہ کریں.اگر اب ان کی مدد نہ کی گئی اور اگر اب ان کی حمایت نہ کی گئی تو مجھے خدشہ ہے کہ ڈچ ان کی آواز کو بالکل دبادیں گے....انڈونیشیا کے لوگ خود بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب ہم اکیلے رہ گئے ہیں لیکن اگر دنیا میں ان کی حمایت میں اور ان کی تائید میں آوازیں بلند ہوں اور ایک شور برپا ہو جائے.تو وہ دلیری اور بہادری سے مقابلہ کریں گے.کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ ہم اکیلے نہیں لڑ رہے.بلکہ ہمارے کچھ اور بھائی بھی ہماری پشت پر ہیں.(۷) پاڈانگ ( سماٹرا) کے لئے مکرم محمد سعید انصاری صاحب کو مبلغ مقرر کیا گیا.آپ جون ۱۹۴۸ء میں وہاں پہنچ گئے.اسی سال مکرم ملک عزیز احمد صاحب کی کوششوں سے سورابایا میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.(۸) جنگِ آزادی کے دوران انڈونیشیا کی جماعتیں ایک منتشر حالت میں تھیں.حالات ٹھیک ہونے پر اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ جماعتی کام کو ازسر نو منظم انداز میں شروع کیا جائے.چنانچہ ان ضروریات کے پیش نظر نومبر ۱۹۴۹ء میں مکرم مولا نا رحمت علی صاحب کی صدارت میں انڈونیشیا کے مبلغین کی پہلی کانفرنس منعقد کی گئی.اس کا نفرنس میں تبلیغ ، تربیت اور تنظیم کے لئے اہم منصوبے بنائے گئے.(۹) اسی سال دسمبر کی ۹ سے ا تاریخوں جکارتہ میں جماعت احمدیہ انڈونیشیا کا پہلا جلسہ منعقد ہوا.(۵) اپریل ۱۹۵۰ء میں مکرم مولا نا رحمت علی صاحب واپس مرکز تشریف لے آئے اور آپ کی جگہ مکرم سید شاہ محمد صاحب امیر و مشنری انچارج مقرر ہوئے.(۵) جماعت احمد یہ بٹونگ نے ۱۹۴۸ء میں مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے زمین خریدی اور ۱۹۵۰ء

Page 690

680 میں یہ عمارات مکمل ہو گئیں.(۱۰) ۱۹۵۰ء میں جماعت احمد یہ انڈونیشیا کے دوسرے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے ایک پیغام بھجوایا.اس میں حضور نے فرمایا '.مجھے اس بات پر بھی خوشی ہے کہ انڈونیشیا کے نو جوان تعلیم کے لئے احمد یہ مرکز میں آتے رہتے ہیں.گواتنی توجہ اس طرف نہیں ہوئی جتنی کہ ہونی چاہئیے تھی.میں سمجھتا ہوں اور تجربہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشیا ان ممالک میں سے ہے جن کے لئے خدا تعالیٰ نے سعادت مقدر کی ہوئی ہے.انڈونیشین لوگوں میں مجھے وہ کبر نظر نہیں آتا جو بعض دوسرے ممالک کے لوگوں میں نظر آتا ہے.ان کی طبائع میں صلاحیت اور نرمی ہے...مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ انڈونیشیا ان ممالک میں سے ہے جن میں ارتداد بہت کم ہوتا ہے.جو مانتے ہیں بچے طور پر مانتے ہیں.بعض اور ممالک میں یہ نقص پایا جاتا ہے کہ ایمان اور ارتداد بالکل اسی طرح چلتے ہیں جس طرح دو متوازی لیکن مختلف اطراف میں بہنے والے دریا.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اور بھی زیادہ اپنے عملی نمونہ اور تعلیم اور تربیت کے ساتھ اس بات کو ناممکن بنا دیں گے کہ کوئی شخص احمدیت میں داخل ہو کر پھر اُس سے واپس لوٹے.“ ۱۹۵۱ء میں جماعت احمدیہ پاڈانگ نے مشن ہاؤس بنایا اور تاسکملایا کی جماعت نے ایک با موقع جگہ پر عمارت خرید کر اسے مشن ہاؤس میں تبدیل کر دیا اور جکارتہ میں مسجد کو وسیع کر کے از سر نو تعمیر کیا گیا.(۱۱) اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ۱۹۵۲ء میں انڈونیشیا کے کن علاقوں میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی جاری تھیں.جزیرہ بالی کی اکثریت ہندو مذہب سے وابستہ ہے.یہاں پر میاں عبدالحی صاحب مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے.مشرقی جاوا کے مرکزی شہر سرا بایا میں مکرم مولوی زہدی صاحب دوروں ، تقریروں اور ملاقاتوں کے ذریعہ تبلیغ کر رہے تھے.وسطی جاوا میں مکرم مولوی عبدالواحد سماٹری صاحب مصروف تبلیغ تھے.یہاں کے بڑے مقامات جو گجا اور سمارنگ میں جماعتیں موجود تھیں.مغربی جاوا میں مکرم ملک عزیز احمد صاحب کام کر رہے تھے.اور سماٹرا کے وسطی

Page 691

681 حصہ میں مکرم عبد الرشید صاحب مرکزی مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے.اور انڈونیشیا کی جماعت کا مرکز جکارتہ میں تھا.جہاں مکرم سید شاہ محمد صاحب امیر و مشنری انچارج کے طور پر فرائض ادا کر رہے تھے.(۱۲) ۱۹۵۴ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعودؓ بطور مبلغ انڈونیشیا تشریف لائے اور تقریباً دو سال وہاں پر کام کیا.۱۹۵۶ء میں پاڈانگ میں نئی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور ایک اور مسجد جاتی کے مقام پر بنائی گئی.اور اسی سال لاحت (Lahet) کے مقام پر مشن ہاؤس بنایا گیا.(۱۳) ۱۹۵۵ء میں انڈونیشیا میں جماعت کے مبلغ مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے ایک رپورٹ میں عیسائیوں کے اسکولوں اور ان کی نتیجے میں پیدا ہونے والے اثر ورسوخ کا ذکر کیا.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا وہاں لٹریچر شائع کرنا چاہیئے.اور عیسائیت کے متعلق تو فوراً لٹریچر تیار کیا جائے.نیز ہمیں مشورہ دیں کہ کس قسم کا لٹریچر آپ کو چائیے.اسوقت یہ بڑا عمدہ موقع ہے.عیسائیت ہی ہمارا شکار ہے.آپ اگر اسمیں کامیاب ہو جائیں تو مسلمان آپ کے ساتھ مل جائیں گے.مسلمان طلبہ سے تعلقات بڑھائیں.سکول کھولنے کی طرف توجہ دیں.اس سے بھی کامیابی ہو گی.مغربی افریقہ میں ہمارے اسکول کھلے ہوئے ہیں اور کامیابی ہوتی ہے.(۱۴) مکرم ملک عزیز احمد صاحب نے نومبر ۱۹۵۸ء میں انڈونیشین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل کیا.اور ۱۹۵۸ء میں جلسہ سالانہ کے ساتھ ہی خدام الاحمدیہ کا پہلا اجتماع منعقد ہوا.اس سال کے دوران انڈونیشیا میں 4 نئی جماعتوں کا اضافہ ہوا.اور سورا بایا اور چری بون میں مسجد میں بنائی گئیں.۱۹۵۹ء میں جو گجا کرتا کے مقام پر مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی.اُس دور میں پوروو کر تو ( Porvokorto) میں جماعت کا ایک مڈل اسکول کام کر رہا تھا (۱۵).نئی جماعتوں کے قیام کا سلسلہ جاری تھا، چنانچہ ۱۹۶۰ء میں بھی تین نئی جگہوں میں جماعتیں قائم ہوئیں.مکرم ملک عزیز احمد صاحب جو ۱۹۳۶ء سے انڈونیشیا میں مصروف جہاد تھے ، ۱۹۶۲ء

Page 692

682 میں میدانِ عمل میں ہی فوت ہو گئے اور وہیں ان کی تدفین کی گئی.۱۹۶۳ء میں وکیل التبشیر مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے انڈونیشیا کا دورہ فرمایا.۱۹۶۵ء میں مکرم مولوی امام الدین صاحب انڈونیشیا کے رئیس التبلیغ مقرر ہوئے.(۱) تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۲۵ (۲) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۳۶ء.۱۹۳۷، ص ۱۳۳ (۳) ریویو آف ریلیجنز جنوری ۱۹۴۷ء ص ۶۳ تا ۶۷ (۴) خالد ا پریل ۱۹۵۴ء ص ۲۴ ( ۵ ) الفضل ۷ مارچ ۱۹۵۲ء ص ۴ (1) تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ۳۶، ۳۷ ( ۷ ) الفضل ۲۷ اگست ۱۹۴۶ء ص۳ (۸) تاریخ انڈو نیشیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۳۸ (۹) تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۳۹ (۱۰) تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۴۰ (۱۱) تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۴۱ (۱۲) الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۵۳ء ص ۵ (۱۳) تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه ص ۴۹ و ۵۰ (۱۴) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل حافظ قدرت اللہ صاحب ۱۹۵۵ء (۱۵) الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۵۹ء ص ۳ ملیشیا: سنگاپور آج کے ملیشیا کے مغربی حصہ میں جب جماعت نے اپنی تبلیغی کاوشوں کا آغاز کیا تو یہ علاقہ رمشن کے تحت تھا.سنگا پور میں جماعت کے مبلغ مکرم غلام حسین ایاز صاحب ایک بار یہاں کا دورہ کر رہے تھے تو وہاں پر اتفاقاً ان کی ملاقات ایک ہندوستانی احمدی مکرم شیر محمد صاحب سے ہو گئی.جو ایک طویل عرصہ سے یہاں کی پولیس میں ملازم تھے.یہ صاحب پوشیدہ طور پر تبلیغ بھی کرتے تھے.چنانچہ ان کے زیر اثر ایک خاندان نے اس دورہ میں ہی بیعت کر لی.ان میں سے ایک نوجوان مکرم زہدی صاحب دینی تعلیم کے لئے قادیان آئے اور یہاں پر آٹھ سال رہ کر تعلیم

Page 693

683 حاصل کی.دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہاں پر تبلیغی دورے نہ ہو سکے.کوالا لمپور سے چالیس میل دور ایک گاؤں جرام میں سماٹرا کے ایک احمدی مقیم تھے جو قادیان میں تعلیم حاصل کر چکے تھے.وہ کچھ نو جوانوں کو آہستہ آہستہ بتاتے رہتے کہ امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے.جب یہ نو جوان احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار ہو گئے تو مکرم غلام حسین صاحب ایاز وہاں گئے اور ان نو جوانوں نے باقاعدہ طور پر بیعت کر کے میں شمولیت اختیار کر لی.یہ گاؤں ریاست سلانگور میں تھا.ان کی بیعت کے بعد وہاں پر مخالفت کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا.اور علماء کی طرف سے ان احمدیوں کو دھمکیاں ملنے لگیں.ریاست کے حکمران سلطان سلانگور نے احمدیوں کو اور مخالف علماء کو بلایا.اس میٹنگ میں جماعت کی طرف سے مکرم مولا نا محمد صادق صاحب نے تقریر کی.مفتی نے جماعت کو ایک سوالنامہ کا جواب تیار کرنے کا کہا.اس کا جواب بھجوانے پر سلطان سلانگور کے محل میں ایک اور میٹنگ ہوئی.پہلے مخالفین نے تقریر کی اور دلائل کی بجائے حاضرین کے جذبات کو بھڑ کانے کی کوشش کی.جب جماعت کی طرف سے مکرم مولا نا صادق صاحب تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو علماء نے شور مچادیا کہ ان کو تقریر کا موقع نہ دیا جائے ورنہ آپ کی تمام رعیت اور شاید آپ بھی قادیانی ہو جائیں گے.سلطان نے کہا کہ ان کا جواب سننا چاہئیے لیکن علماء نے شور مچا دیا اور مجبوراً یہ میٹنگ ختم کرنی پڑی.اس کے بعد جماعت کی مخالفت میں اضافہ ہو گیا.مئی ۱۹۵۶ء میں محکمہ امور مذاہب کی طرف سے اعلان شائع کیا گیا کہ ہم قادیانیوں سے مباحثہ کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن ایک ہفتہ کے بعد خود ہی یہ اعلان شائع کرا دیا کہ قادیانیوں سے مباحثے کا کوئی فائیدہ نہیں.اسی سال ریاست جوھور کے محکمہ مذاہب کے سر براہ نے مفتی جوھور اور احمدیوں کے درمیان مباحثہ کا اہتمام کرایا لیکن جن مفتی صاحب کو مباحثہ کے لئے مقرر کیا گیا تھا وہ سنگا پور چلے گئے اور مباحثہ سے انکار کر دیا.اس کا محکمہ مذاہب کے سربراہ پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے احمدیت قبول کر لی.فروری ۱۹۶۱ء میں مکرم مولا نا محمد صادق صاحب سنگا پور سے کوالا لمپور منتقل ہوئے اور جون ۱۹۶۲ء تک وہاں پر تبلیغ کرتے رہے.پھر ان کی جگہ مکرم محمد سعید انصاری صاحب کو مبلغ انچارج مقرر کیا گیا.۱۹۶۳ء میں وہاں کی جماعت نے کوالا لمپور سے آٹھ میل دور ایک چھوٹی سی عمارت تعمیر کی جس کو مسجد اور مشن ہاؤس کے طور پر استعمال کیا گیا.

Page 694

سیلون: 684 ہم پہلے جائزہ لے چکے ہیں کہ سیلون کی مختصر جماعت کن مراحل سے گذر رہی تھی.۱۹۵۱ء میں حضرت مصلح موعود کی منظوری سے مکرم و محترم مولوی محمد اسماعیل منیر صاحب بطور مشنری انچارج سیلون بھجوائے گئے.آپ کو ۱۹۵۸ء تک وہاں پر خدمات کی توفیق ملی.آپ نے احباب کے استفادے کے لئے کولمبو اور بیگومبو کے مقامات پر چھوٹی چھوٹی لائیبریریاں قائم کیں اور تبلیغ میں وسعت پیدا کرنے کے لئے احمدیت کے خلاف پھیلائے گئے غلط خیالات کے ازالہ کے لئے آپ نے متعدد سوسائیٹیوں، اخبارات اور افسران سے رابطے کئے اور ان حلقوں میں احمدیت کو متعارف کرایا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور قبر مسیح کے متعلق انگریزی ، تامل اور سنہالی زبان میں ٹریکٹ شائع کئے گئے.۱۹۵۲ء میں سیلون میں پہلی مرتبہ یوم پیشوایان مذاہب کا جلسہ منعقد کیا گیا جس میں تقریباً ۴ ہزار افراد نے شرکت کی.اب سیلون کی جماعتیں تبلیغی اور تربیتی میدان میں فعال ہو چکی تھیں.اب دوسرے مشن کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی.چنانچہ ۱۹۵۵ء کے اواخر میں سیلون کے مشرق میں Palamunai کے مقام پر دوسرا مشن ہاؤس قائم کیا گیا.اور مکرم مولوی محمد شمیم صاحب کو اس مشن میں مبلغ مقرر کیا گیا.آپ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران احمدیت قبول کی تھی اور پھر دوسال قادیان میں دینی تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے سیلون میں اپنی عملی خدمات کا آغاز کیا.۱۹۵۶ء میں سیلون کی حکومت نے سنہالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا.اب اس کے بعد ضرورت تھی کہ اس زبان میں جماعت کا لٹریچر شائع کیا جائے.لیکن مالی وسائل کی کمی اور دیگر مسائل اس راہ میں روک بنے ہوئے تھے.اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک غیر احمدی مسلمان ڈاکٹر مکرم سلیمان صاحب نے مکرم اسماعیل منیر صاحب سے کہا کہ آپ سنہالی زبان میں اسلامی لٹریچر کیوں نہیں شائع کرتے.انہوں نے کہا کہ مترجم کی نایابی اور دیگر مسائل راہ میں روک بنے ہوئے ہیں.اس پر اس غیر احمدی دوست نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا.اور آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ پر حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف کا سنہالی زبان میں ترجمہ خود کیا اور اپنے خرچ پر ہی ان کو چھپوا کر مشن کو بھجوا دیا.اس کے بعد انہوں نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ ایک اور صاحب Mr.Wadage سے

Page 695

685 کرایا اور اسے بھی اپنے خرچ پر شائع کرایا.کولمبو مشن نے اسلامی اصول کی فلاسفی کے ترجمہ کی ریب رونمائی منعقد کی.ملک کے وزیر اعظم بند را نائیکے نے اس موقع پر اپنا پیغام بھجوایا اور ایک ممبر پارلیمنٹ اور پاکستان کے ہائی کمشنر کے علاوہ کثیر تعداد میں احباب نے اس تقریب میں شرکت کی.اس کے بعد یہاں کی زبانوں میں جماعت کے لٹریچر کی اشاعت ایک نئی تیز رفتاری سے شروع ہوگئی.پہلے جماعت کا ایک جریدہ Thoothan کے نام سے نکلتا تھا جسے بعد میں بند کرنا پڑا تھا.۱۹۵۵ء میں اس کا از سر نو اجراء کیا گیا.اور اب یہ رسالہ انگریزی اور تامل دونوں زبانوں میں نکل رہا تھا.۱۹۵۷ء میں سنہالی زبان میں ایک رسالہ Doodaya نکلنا شروع ہوا.اس کے پہلے شمارے کے لئے وزیر اعظم اور وزیر تعلیم دونوں نے پیغامات بھجوائے.۱۹۵۸ء میں مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب کو سیلون مشن کا انچارج مقرر کیا گیا اور مکرم اسماعیل منیر صاحب مرکز واپس تشریف لے آئے.مکرم قریشی عبد الرحمن صاحب سیلون میں درگا ٹاؤن کے رہنے والے تھے اور آپ نے قادیان جا کر جامعہ میں تعلیم حاصل کی اور شاہد کی ڈگری حاصل کی.آپ نے ۱۹۶۱ء تک سیلون میں خدمات سرانجام دیں اور پھر آپ کو تنزانیہ بھجوا دیا گیا.اس کے بعد کچھ عرصہ ویزا نہ ملنے کے باعث ایک عرصہ کوئی مرکزی مبلغ سیلون نہ جاسکا.(۱) (۱) تاریخ سیلون مشن مرتبه وکالت تبشیر ربوه بلا دعر ببیه فلسطین وشام: ۱۹۳۸ء سے مکرم چوہدری محمد شریف صاحب اس علاقہ میں مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے اور آپ حیفا ( فلسطین) میں مقیم تھے.سیاسی حالات کی ابتری کی وجہ سے دمشق کی جماعت میں تنظیم کی کمی پیدا ہورہی تھی.چنانچہ سید منیر الحصنی صاحب کو دمشق بھجوایا گیا تا کہ جماعت میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا کی جاسکے.فروری ۱۹۴۰ء میں دمشق کے ایک بارسوخ عالم نے جماعت کے ساتھ مباہلہ کرنے کی حامی بھری.جماعت کی طرف سے ان کے چیلنج کو قبول کرنے کی اطلاع دے دی گئی لیکن انہوں نے بعض منذ ر خوا ہیں دیکھیں اور بعض لوگوں نے انہیں ڈرایا.اس پر وہ مباہلہ سے منکر

Page 696

686 ہو گئے.اس بات سے وہاں پر زیر تبلیغ افراد پر اچھا اثر پڑا.جب دمشق میں جماعت کی تنظیم کے کام کا آغاز ہوا تو وہاں کے علماء اور مشائخ نے ایک شور ڈال دیا.سید منیر الحصنی کے قتل کے منصوبے بنائے گئے.مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کو بھی دھمکی آمیز خطوط ملے.اس کے باعث حکومت کی طرف سے یہ نوٹس جاری کیا کہ آپ یہاں پر تبلیغ نہ کریں ورنہ نتائج کی ذمہ داری آپ پر ہوگی.اس بار اعلام تبلیغ کاسلسلہ بند کرنا پڑا.انہی ایام میں ایک عالم الاستاذ شفیق شعیب احمدی ہو گئے.اس پر علماء کا غصہ اور بھڑک اُٹھا.اور ستمبر ۱۹۴۲ء میں مکرم سید منیر اکھنی صاحب ، شبیب صاحب اور مکرم عبدالرؤف صنی صاحب کو زدوکوب بھی کیا گیا.اکتوبر ۱۹۴۲ء میں حضور نے مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کو دمشق جانے کا ارشاد فرمایا.جب وہ دمشق پہنچے تو علماء مخالفت پر کمر بستہ ہو چکے تھے.چونکہ شام میں جماعت کی طرف سے کوئی ٹریکٹ یا کتاب شائع نہیں ہو سکتی تھی ، اس لئے علماء کو چیلنج دیا گیا کہ وہ مرد میدان بنیں اور با قاعدہ مناظرہ و مباہلہ کر لیں.لیکن اس میں دمشق کے پچاس علماء شامل ہوں تا کہ لوگوں پر حق و باطل واضح ہو جائے.لیکن علماء میں سے کوئی میدان میں نہ اترا.بیدامر بالخصوص نو مبایعین کی تقویت ایمان کا باعث بنا.۱۹۴۵ء میں مکرم شیخ نور احمد منیر احمد صاحب کو اور ۱۹۴۶ء میں مکرم رشید احمد چغتائی صاحب کو بلاد عر بیہ میں تبلیغ کے لئے بھجوایا گیا.مکرم شیخ نور احمد منیر صاحب چند ماہ فلسطین میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ستمبر ۱۹۴۶ء مین شام آگئے اور جماعت احمد یہ شام کو بیدار کرنے کے علاوہ اونچے طبقہ تک احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہے.مکرم مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر نے ۱۹۵۷ء تک اور مکرم مولانا رشید احمد چغتائی صاحب نے ۱۹۵۱ء تک عرب ممالک میں خدمات سرانجام دیں.اپریل ۱۹۴۷ء میں جماعت احمد یہ دمشق کے ناظم تبلیغ اور ایک بزرگ احمدی سید محمد علی بک الارناؤط کی وفات ہوئی.آپ ایک رؤیا کی بنا پر احمدی ہوئے تھے.اور آپ کی وفات پر وہاں کے اخبارات نے بھی اپنے کالموں میں آپ کی دینی اور ملی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا.۱۵مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا اور فلسطین خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا.احمدیوں کی اکثریت کہا بیر میں موجود تھی.کہا بیر باقی ملک سے کٹ گیا.پھر ایک وقت یہ حالت ہوئی کہ سوائے تین کے کباب بیر کے تمام احمدی دمشق میں آگئے.جماعت کی طرف سے ان

Page 697

687 کی مشکلات کم کرنے اور ان کی اعانت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی.(۱) اس دور میں شام کے اخبارات میں احمدیت کے متعلق مضا میں شائع ہوتے رہتے تھے.جب حضور نے اسرائیل کے قیام پر الکفر ملتۃ واحدۃ تحریر فرمائی اور اسے شائع کیا گیا تو شام کے اخبارات نے حضور کی بیان فرمودہ تجاویز کو مستحسن قرار دیا.اور ان تجاویز پر نوٹ شائع کئے.مکرم منیر احصنی صاحب نے مودودی صاحب کی کتاب قادیانی مسئلہ کا عربی میں جواب المودودی فی المیز ان شائع کی.اس سے مولویوں کی مخالفت میں اضافہ ہو گیا.یہ کتاب مختلف ممالک کو بھجوائی گئی.دمشق کے علماء نے حکومت کو درخواست دی کہ جماعت احمد یہ منظم ہے اور یہ چندہ جمع کرتے ہیں.اس لئے انہیں خلاف قانون قرار دیا جائے.اور مفتی جمہوریہ نے فتوی دیا کہ اب کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا اور احمدی ایک خلیفہ کی بیعت کرتے ہیں اور یہ نا جائز ہے.اس دباؤ کے تحت شام کی حکومت نے جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلہ دے کر جماعت پر پابند یا لگا دیں.سفر یورپ پر جاتے ہوئے ، حضور کے دمشق میں قیام کرنے کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے.۱۹۵۶ء میں مکرم حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کچھ عرصہ کے لئے ذاتی طور پر دمشق آئے اور صدر جمہوریہ سمیت متعدد اہم شخصیات سے ملاقات کی.۱۹۵۷ء میں اسماعیلی احباب میں تبلیغ کرنے کے سلسلے میں کچھ کام ہوا اور چند اسماعیلی احباب بیعت کر کے میں داخل ہوئے.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی زبان میں ترجمہ کیا تھا.دمشق کی جماعت نے یہ ترجمہ الخطاب الجلیل کے نام سے شائع کیا.جب مودودی صاحب نے شام کا دورہ کیا تو جماعت احمدیہ کے خلاف ایک منصوبہ تیار کیا گیا اور شام کی حکومت نے جماعت کے دمشق میں مرکز الزاویہ کو سر بمہر کر دیا.اور علماء کے زیر اثر حکومت نے احمدیوں کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کیا.شام سے کچھ مخالفین لبنان جا کر بھی احمدیوں کے خلاف فتنہ انگیزی کرتے رہے.لیکن جماعت احمد یہ شام یہ ابتلاء بڑی ہمت سے برداشت کرتی رہی.(۲) (۱) الفضل ۷ استمبر ۱۹۴۸ء (۲) تاریخ شام مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه

Page 698

مصر: 688 جس دور کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس میں مصر میں تبلیغ پر سخت پابندیاں تھیں اور یہ کہنا درست ہو گا کہ وہاں پر پبلک میں تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں تھی.چنانچہ یہاں پر تبلیغ نجی ملاقاتوں اور پرائیویٹ اجتماعات تک ہی محدود تھی.۱۹۴۰ء میں مکرم مولوی محمد دین صاحب مبلغ البانیہ گئے اور آپ نے کچھ عرصہ وہاں پر قیام کیا.مصر میں ایک مختصر سی جماعت قائم تھی.وہاں پر کوئی مبلغ نہیں تھا لیکن مکرم چوہدری شریف صاحب جن کا ہیڈ کوارٹر حیفا میں تھا تمام بلاد عربیہ میں مشن کے انچارج تھے.۱۹۴۴ء میں آپ مصر کی جماعت کی خواہش پر وہاں تربیتی دورے پر گئے.آپ وہاں پر تقریباً دو ماہ مقیم رہے اور جماعت کے عہدیداروں کا انتخاب کرایا اور جماعت کے ساتھ تربیتی نشستیں ہوئیں.اس موقع پر چند احباب بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے.اس موقع پر ایک بلند پایہ از ہری عالم سے آپ کا مناظرہ بھی ہوا.پہلے تو یہ صاحب مصر ہوئے کہ وہ وفات مسیح کی بجائے ختم نبوت پر مناظرہ کریں گے.جب دلائل کا تبادلہ ہوا تو جلد ہی عاجز آگئے.اور نہ صرف اقرار کیا بلکہ لکھ کر بھی دیا کہ عقلی طور پر اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آئیند ہ بھی نبی آ سکتے ہیں.اُس وقت ایک مخلص دوست مکرم عبد العزیز سیالکوٹی صاحب بھی چار سال سے مصر میں مقیم تھے.آپ کو خدمت سلسلہ کے لئے ایک غیر معمولی جوش عطا کیا گیا تھا.انہوں نے ایک مصری صاحب کی مدد کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کے لیکچر سیر روحانی اور ملائکتہ اللہ کے عربی میں تراجم تیار کروائے.(۱) جماعت کے بعض علماء تحصیل علم کے لئے مصر جاتے رہے اور ساتھ جماعت سے بھی رابطہ رکھتے رہے.چنانچہ ۱۹۵۶ء میں مکرم قریشی نور الحق تنویر صاحب نے بطور طالب علم قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ڈیڑھ سال وہاں پر مقیم رہے.اسی طرح مکرم مبارک احمد صاحب بھی حصول تعلیم کے لئے مصر گئے.(۲) (۱) الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۴۴ء ص ۵ (۲) تاریخ مصر مشن مرتب کرده وکالت تبشیر ربوه

Page 699

689 سور بینام یہاں پر جماعت کے مبلغین کی آمد سے قبل غیر مبایعین کا لٹر پچر پہنچ چکا تھا.اور بہت سے لوگوں کو وفات مسیح اور حضرت مسیح موعود کی آمد کی خبر مل گئی تھی.ان میں سے بعض نے ایک انجمن بھی قائم کی تھی جس کا نام Surinam Islamitch Verantaing تھا.یہ لوگ حضرت مسیح موعود کو ایک بزرگ سمجھتے تھے لیکن نہ آپ کے صحیح مقام کے قائل تھے اور نہ ہی خلافت یا کسی بھی مرکزی ادارے کے تحت قائم کرنے کے لئے تیار تھے.۱۹۵۳ء میں مکرم مولوی محمد الحق ساقی صاحب اور ٹرینیڈاد کے ایک دوست نے سرینام کا دورہ کیا اور جماعت کو وہاں پر متعارف کرایا.سورینام میں با قاعده مشن مکرم رشید احمد اسحاق صاحب نے شروع کیا.ان کے ساتھ ٹرینیڈاڈ کے مبلغ مکرم مولوی محمد اسحاق صاحب ساقی بھی آئے تھے.شروع میں ان کا قیام ایک مقامی دوست عبد الغفور جمن بخشن صاحب کے گھر میں رہا.نومبر ۱۹۵۶ء میں مذکورہ بالا انجمن کے دوصد افراد نے جماعت احمد ہی مبایعین میں شامل ہونے کا اعلان کیا.اور مزید لوگ بیعت کر کے جماعت میں داخل ہونے لگے.سورینام میں پہلے احمدی مکرم عبدالعزیز صاحب صاحب جمن بخش تھے جو مکرم عبد الغفور جمن بخش کے صاحبزادے تھے.اور انہوں نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۸ء تک جامعہ احمد یہ ربوہ میں تعلیم حاصل کی اور اسی قیام کے دوران ۱۹۵۵ء میں بیعت بھی کی.اس کے بعد آپ کو سورینام میں ہی مبلغ مقرر کیا گیا.جہاں آپ نے ۱۹۶۲ء تک بطور مبلغ کام کیا.یہاں پر جہاں جہاں کچھ لوگ احمدیت قبول کرتے وہاں پر ایک سینٹر بن جاتا اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک سینٹر بنا دیا جاتا.ان مقامات میں سے قابلِ ذکر سارون، پارا نہی سینٹر ھنسو، کنڈال ، افرام سخنین قابل ذکر ہیں.۱۹۶۲ء میں مرکزی مبلغ نہ ہونے کی وجہ سے سورینام کو گی آنا مشن کے ماتحت کر دیا گیا اور اس طرح اس نئی جماعت کو ضعف پہنچا اور ان میں سے کئی کا رابطہ جماعت سے منقطع ہو گیا.مگر ان میں سے تین خاندان یعنی بید اللہ صاحب کا خاندان بالخصوص آپ کی اہلیہ نصیرہ صاحبہ محمود عبد المطلب صاحب کا خاندان اور محمد اسحاق صاحب کا خاندان بہت ثابت قدم

Page 700

690 رہے.انہوں نے یہاں پر جماعت کو قائم رکھنے کیلئے اور اسے ترقی دینے کے لئے بہت قربانیاں کیں اور مخالفت برداشت کی اور یہاں پر مسجد ناصر اور مشن ہاؤس بنانے میں کامیاب ہو گئے.اس دوران کچھ مبلغین دوروں پر سورینام آتے رہے.یہاں تک ۱۹۷۳ء میں مرکز نے دوبارہ مبلغ بھجوا کر اس مشن کا اجرا کیا.

Page 701

691 ب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا وفات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی صحت کچھ سالوں سے مسلسل خراب رہ رہی تھی.اور اس وجہ سے حضور نماز پڑھانے اور خطبات دینے کے لئے تشریف نہیں لا سکتے تھے.ا للہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ علاج معالجہ کی ہر ممکن کوششیں جاری رہیں.اگر افاقہ ہوتا بھی تھا تو وقتی ہوتا.اکتوبر ۱۹۶۵ء کے آخری دنوں میں حضور کو بخار کی شکایت شروع ہو گئی.ضعف کے علاوہ غنودگی بھی شروع ہو جاتی.لمبی علالت کے باعث جسم پر زخم تھے ، جو اس وقت مندمل ہوتے معلوم ہوتے تھے.خون کے ٹسٹ میں انفکشن کی علامات پائی گئیں.لاہور سے ایک ماہر ڈاکٹر صادق حسن صاحب نے ربوہ آکر حضور کا معائنہ فرمایا.پہلے کی طرح حضور کے صاحبزادے مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب حضور کے علاج میں روز و شب مصروف تھے.(۱)۳۰اکتوبر کوخون کے ٹسٹ بلڈ کلچر کے نتیجے سے معلوم ہوا کہ حضور کو Staphylococci کی انفکشن ہے.پہلے پھوڑوں کے ٹسٹ میں یہی جراثیم نکلے تھے.Sensitivity ٹسٹ سے جو دوائیں اس جرثومہ کے لئے مفید پائی گئیں وہ شروع کر دی گئیں.یہ جراثیم بہت سخت قسم کے ہوتے ہیں اور اس وقت مہیا ادویات اس پر دیر سے اثر کرتی تھیں (۲) یکم نومبر سے بخار کم ہو گیا ۱۰۰ درجہ فارن ہائٹ سے کم رہنے لگا مگرہم نومبر کوخون کے ٹسٹ پر یہ قابل فکر بات سامنے آئی کہ ابھی انفیکشن موجود ہے.(۳) ۴ رنومبر کی رات کو لاہور سے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ آیا جس میں مکرم ڈاکٹر مسعود احمد صاحب، ڈاکٹر عبد الرؤف صاحب ، ڈاکٹر رستم نبی صاحب اور ڈاکٹر عشرت صاحب شامل تھے.بورڈ نے حضور کا معائنہ کیا اور ECG اور ایکس رے لے کر رائے دی کہ دل اور سینہ پر کوئی اثر معلوم نہیں ہوتا.اگلے روز حضور کو تھوڑی دیر حرارت ہوئی.مگر ضعف اور سانس کی تکلیف رہی.(۴)۶ نومبر کو حضور کی طبیعت پھر خراب ہونی شروع ہوئی.کھانسی شروع ہونے کے علاوہ ضعف میں اضافہ ہو گیا

Page 702

692 اور پسینے آنے لگے.سانس کی تکلیف بھی پہلے کی طرح برقرار تھی.نبض میں Extrasystole کی وجہ سے بے ترتیبی پیدا ہوگئی.(۵) لاہور سے آئے ہوئے ڈاکٹر مسعود احمد صاحب اور ڈاکٹر صادق حسن صاحب اور کراچی سے آئے ہوئے ڈاکٹر ذ کی حسن صاحب نے حضور کا معائنہ کیا اور رائے دی کہ حضور کی حالت گذشتہ چوبیس گھنٹے میں بہت تشویشناک ہوگئی ہے اور دل اور سینہ پر بھی جراثیم کے Toxins کا اثر ہے.ملک کی معروف پتھالوجسٹ محترمہ ڈاکٹر زینت حسن صاحبہ نے خون کا معائنہ کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ خون میں انفکشن بہت بڑھ گئی ہے.نومبر کی صبح ساڑھے نو بجے الفضل کے ضمیمہ میں مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کا اعلان شائع ہوا ، جس کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مصرعہ درج تھا حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب ہے ریڈیو پاکستان پر بار بار آپ کی علالت کی خبر نشر ہو رہی تھی.اور آپ کے عشاق بڑی تعداد میں دعائیں کرتے ہوئے ربوہ پہنچ رہے تھے.نومبر کی شام تک آپ کی طبیعت بہت خراب ہو چکی تھی.آکسیجن لگی ہوئی تھی.سینے سے بار بار رطوبت نکالنے کی ضرورت پیش آتی تھی.مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ، لاہور کے احمدی ڈاکٹر مکرم مسعود احمد صاحب اور کراچی سے آئے ہوئے مکرم ڈاکٹر ذ کی حسن صاحب علاج میں مصروف تھے.اُس وقت دلوں کی کیا کیفیت تھی اس کا نقشہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ان الفاظ میں کھینچا ہے.خاندان کے بڑے چھوٹے سبھی کے دل اندیشوں کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے تا ہم زبان پر کوئی کلمہ بے صبری کا نہ تھا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا تھا.اندیشے دھوئیں کی طرح آتے اور جاتے تھے.توکل علی اللہ اور نیک امید غیر متزلزل چٹان کی طرح قائم تھے.وہ جو صاحب تجربہ نہیں شاید اس بظاہر متضاد کیفیت کو نہ سمجھ سکیں لیکن وہ صاحب تجربہ جو اپنے رب کی قضاء کے اشاروں کو سمجھنے کے باوجود اس کی رحمت سے کبھی مایوس ہونا نہیں جانتے میرے اس بیان کو بخوبی سمجھ جائیں گے.پس افکار کے دھوئیں میں گھری ہوئی ایک امید کی شمع ہر دل میں روشن تھی اور آخر تک روشن رہی تا ہم کبھی کبھی یہ فکر کا

Page 703

693 دھواں دم گھونٹنے لگتا تھا.دعا ئیں سب ہونٹوں پر جاری تھیں اور ہر دل اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھا.حضور پر کبھی غنودگی طاری ہوتی تو کبھی پوری ہوش کے ساتھ آنکھیں کھول لیتے اور اپنی عیادت کرنے والوں پر نظر فرماتے.ایک مرتبہ بڑی خفیف آواز میں برادرم مرزا ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو بھی طلب فرمایا.لیکن جیسا کہ مقدر تھا رفتہ رفتہ یہ غنودگی کی کیفیت ہوش کے وقفوں پر غالب آنے لگی اور جوں جوں رات بھکتی گئی غنودگی بڑھتی گئی.اس وقت بھی گو ہماری تشویش بہت بڑھ گئی تھی لیکن یہ تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حضور کی یہ آخری رات ہے جو آپ ہمارے درمیان گذار رہے ہیں.(۶) تقریباً نصف شب گزرنے کے بعد حضرت مصلح موعود کی طبیعت تیزی سے خراب ہونے لگی.اس وقت حضور کے کمرے میں بہت سے عزیز مجسم دعا بنے ہوئے کھڑے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں.'حضرت سیدہ ام متین اور سیدہ مہر آپا بائیں جانب سرہانے کی طرف اداسی کے مجسمے بنی ہوئی پٹی کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں.برادرم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب دائیں طرف سرہانے کے قریب کھڑے تھے اور حضرت بڑی پھوپی جان اور حضرت چھوٹی پھوپی جان بھی چار پائی کے پہلو میں ہی کھڑی تھیں.میرے باقی تمام بھائی اور بہنیں جو بھی ربوہ میں موجود تھے سب وہیں تھے اور باقی اعزاء و اقرباء بھی سب ارد گرد اکھٹے تھے.سب کے ہونٹوں پر دعا ئیں تھیں اور سب کی نظریں اس مقدس چہرے پر جمی ہوئی تھیں.سانس کی رفتار تیز تھی اور پوری بیہوشی طاری تھی.چہرے پر کسی قسم کی تکلیف یا جد و جہد کے آثار نہ تھے.میں نے کسی بیمار کا چہرہ اتنا پیارا اور معصوم نظر آتا ہوا نہیں دیکھا (۶) حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے سورۃ یسین کی تلاوت شروع کی.(۷۶).ارد گرد موجود مرد و خواتین مسنون دعاؤں میں مشغول تھے.حضور نے ایک لمبی اور گہری سانس لی اور یوں معلوم ہوا کہ یہ آپ کا آخری سانس ہے.پھرایسا معلوم ہوا کہ آپ کا سانس رک گیا ہے.مگر پھر سانس کی خفیف حرکت شروع ہوئی اور سانس گہرے

Page 704

694 ہوتے گئے.ہر طرف سے یا حی یا قیوم کی صدائیں بلند ہونے لگیں.مگر خدائی تقدیر کے ظاہر ہونے کا وقت آگیا تھا اس کے ہیں منٹ کے بعد ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کی صبح ۲ بج کر ۲۰ منٹ پر آپ کو اپنے مولا کا بلاوا آ گیا اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.آپ کی پیدائش سے قبل ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک عظیم بیٹے کی بشارت دی گئی تھی.ایک عالم گواہ بنا کہ اس پیشگوئی کے تمام حصے آپ کی جلیل القدر زندگی پر صادق آئے.جس طرح آپ کی مبارک زندگی کا یہ مقام تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور سے ایک پیشگوئی کی صورت میں اس کا اعلان کروایا.اور آپ کی ستر سال کی عمر کا ایک ایک لمحہ اس پیشگوئی کی صداقت کا گواہ ہے.اسی طرح آپ کی وفات دنیا کی تاریخ کا ایک ایسا اہم واقعہ تھی کہ اس پیشگوئی میں آپ کے متعلق تمام بشارات بیان کرنے کے بعد یہ الفاظ آتے ہیں.تب وہ اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.و كَانَ اَمَرامَقضِيًّا.ے اور ۸ نومبر کی درمیانی شب کو اس اٹل لمحے کا وقت آن پہنچا تھا جس کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۱۸۸۶ء میں دی گئی تھی.سب نظریں اپنے پیارے امام کے مقدس چہرے کی طرف لگی ہوئی تھیں.دل غم سے بھرے ہوئے تھے اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے.شدت غم کی وجہ سے کسی کی سکی بلند ہوگئی تو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے جوش سے فرمایا کہ ابتلا ہے ، دعاؤں کا وقت ہے، خاموش رہو.ایسے موقع پر جب بڑے بڑے بلند حوصلہ مردوں کے دل لرزاں ہوتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس عظیم اور مبشر بیٹی کی آواز میں حوصلہ اتنا نمایاں تھا کہ غیر از جماعت ڈاکٹر صاحب بھی حیران ہو گئے اور بعد میں بھی اُن کے بلند حوصلے کا حیرت سے ذکر کرتے.ستاون سال قبل ۲۶ مئی کی صبح محشر آفریں کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تھا تو پوری جماعت کو ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا اندھیر ہو گئی ہے.سب یتیم ہو گئے ہیں.ہر طرف سے ابتلاؤں کے طوفان نے گھیرے میں لے لیا ہے.کئی دوستوں نے اپنے جذبات کے طوفان کو روکا ہوا تھا اور کئی بچوں کی طرح بلک بلک کر رو ر ہے تھے.باہر بہت سے کمینہ خصلت دشمن خوشیاں منا رہے تھے، فرضی جنازے نکال رہے تھے.اُس وقت حضرت مصلح موعود کی عمر صرف انیس سال تھی.اس نازک موقع پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازے پر کھڑے ہو کر عہد کیا کہ اگر ساری دنیا

Page 705

695 بھی آپ کے پیغام کو چھوڑ دے تو بھی میں آپ کے مشن کی تکمیل کے لئے کام کرتا رہوں گا.یہ ایک نوجوان کے وقتی جذبات نہیں تھے.بعد میں آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپ نے اپنا عہد سچ کر دکھایا.آج پچاس سال سے زائد مظفر و کامران خلافت کے بعد یہ پاک روح اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو چکی تھی.کتنے ہی دلوں میں آپ کے اُس عظیم عہد کے الفاظ گونج رہے تھے.اس نازک موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے سب کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے آپ کی نعش مبارک کے پاس کھڑے ہوئے کہا کہ آج ہم وہی عہد دہراتے ہیں جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت کیا تھا.(۸) (۱) الفضل ۳۰ اکتوبر ۱۹۶۵ء ص ۱ (۲) الفضل ۳۱اکتوبر ۱۹۶۵ء ص ۱ (۳) الفضل ۵ نومبر ۱۹۶۵ ء ص ۱ (۴) الفضل ۶ نومبر ۱۹۶۵ء ص ۱ (۵) الفضل ۷ نومبر ۱۹۶۵ء ص ۱ (4) الفرقان، فضل عمر نمبر ص ۱۲:۱۱ (۷) روایت صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب (۸) روایت صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب

Page 706

696 انتخاب خلافت ثالثه خوف کی حالت امن میں بدلی جاتی ہے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی علالت کی خبر سن کر احباب کثیر تعداد میں ربوہ پہنچنا شروع ہو گئے تھے.۸ نومبر کو ریڈیو پر حضور کے وصال کی خبر سن کر یا جماعت کے ذریعہ حضور کی وفات کی خبر ملنے پر احباب و خواتین ہزاروں کی تعداد میں مرکز آنا شروع ہو گئے.۸ نومبر کو جب حضور کا وصال ہوا تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ مسجد مبارک میں جمع ہو گئے.فجر کی نماز میں ابھی کچھ گھنٹے باقی تھے.احباب نوافل ادا کرنے اور اپنے رب کے حضور دعائیں کرنے میں مشغول ہو گئے.مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی.بر شخص غم و اندوہ کی تصویر بنا ہوا تھا.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت ۵۲ سالوں پر محیط تھا.احمدیوں کی اکثریت نے جب ہوش سنبھالی تھی یا جب بیعت کی تھی ، اس وقت سے انہوں نے آپ کے با برکت وجود کو مسند خلافت پر دیکھا تھا.آپ کے روح پرور کلمات کوسن کر ان کے دل تسکین پاتے تھے اور آپ کا نورانی چہرہ دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی تھیں.دنیا بھر کے احمدی جہاں کہیں بھی بستے ہوں یہ جانتے تھے کہ جب وہ سور ہے ہوتے ہیں تو ان کا امام جاگ کر ان کے لئے دعائیں کر رہا ہوتا ہے.وہ غافل ہوتے ہیں تو وہ ڈھال بن کر اُن کی حفاظت کر رہا ہوتا ہے.خواہ ذاتی مشکل ہو یا جماعتی ابتلاء ہو ان کی نظریں راہنمائی کے لئے حضرت مصلح موعود کی طرف اُٹھتی تھیں.ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے تھے کہ وہ آپ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے ، آپ کے دورِ خلافت میں ہی اُن کی جوانی کا دور گزرا اور آپ کے دور خلافت میں ہی وہ بڑھاپے میں بھی پہنچ گئے.لیکن خدا کے سوا ہر چیز فانی ہے.یہ امل تقدیر ہے کہ محبوب ترین اور مقدس ترین ہستیاں بھی ایک دن دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں.اور ۸ نومبر کی درمیانی شب کو جب حضرت مصلح موعود کا وصال ہو ا تو اشکبار آنکھیں تو غیروں کو بھی نظر آ رہی تھیں لیکن جو عظیم خلا ہر احمدی کے دل میں تھا اسے

Page 707

697 نہ دیکھا جاسکتا تھا نہ لفظوں میں بیان کیا جا سکتا تھا صرف محسوس کیا جاسکتا تھا.جب فجر کی نماز کا وقت ہوا تو نماز پڑھانے سے قبل مکرم مولا نا جلال الدین صاحب شمس نے ایک مختصر خطاب کرتے ہوئے احباب کو بکثرت دعائیں کرنے کی تحریک کی.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کا محبوب بندہ محمود ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اپنے پیارے آقا سے جا ملا.انا لله و انا اليـه راجعون حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدمت اسلام کے لئے وقف رکھا.ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی حضور کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف رکھیں اور دنیا میں اسلام کو سر بلند کرنے کے لئے قربانیاں پیش کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھیں.ان ایام میں ہمیں خصوصیت سے بکثرت استغفار کرنی چاہئیے اور خاص طور پر سورۃ فاتحہ کو کثرت سے پڑھنا چاہئیے.اُس وقت حاضرین پر خاص رقت کا عالم طاری تھا.نماز فجر شروع ہوئی تو رکوع کے بعد قیام اور سجدوں کے دوران احباب نے بہت گریہ وزاری سے دعائیں کیں.ہچکیوں اور سسکیوں کی دردناک آوازوں سے مسجد گونج رہی تھی.حضرت مصلح موعود کی شخصیت کو وہ لوگ بھی خراج تحسین پیش کر رہے تھے جو آپ کی بیعت میں شامل نہیں تھے.جب اگلے روز ملکی اخبارات میں آپ کی وفات کی خبریں شائع ہوئیں تو غیر بھی آپ کے کارناموں کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے.چنانچہ روز نامہ جنگ نے ان الفاظ میں آپ کی وفات کی خبر شائع کی احمدی فرقہ کے مذہبی پیشوا مرزا بشیر الدین محمود احمد کل رات سوا بارہ بجے ربوہ میں انتقال کر گئے.وہ گزشتہ تین ہفتوں سے بیمار تھے.انکی عمر ستر سال تھی.انہیں کل صبح ربوہ میں دفن کیا جائے گا.تمام دنیا میں مرحوم کے تمھیں لاکھ معتقدین ہیں اور ان کے مبلغوں اور داعیوں کا جال بچھا ہوا ہے.پاکستان کے کونہ کونہ اور دنیا کے مختلف حصوں سے احمدی اپنے مرحوم رہنما کی تجہیز و تکفین میں شرکت کیلئے بڑی تعداد میں ربوہ پہنچ رہے ہیں.ان کی تدفین سے پہلے فرقہ کے نئے رہنما کے نام کا اعلان کیا جائے گا.اس مقصد کے لئے احمدیوں کی مجلس انتخاب کا اجلاس شروع ہو گیا ہے.مرزا بشیر الدین محمود نے جو ۱۹۱۴ءء میں اپنے فرقہ کے خلیفہ منتخب کئے گئے تھے بڑی پُر مشقت زندگی گزاری.انہوں نے

Page 708

698 یورپ ، امریکہ اور افریقہ میں خاص طور پر زبر دست تبلیغی مساعی کیں اور اس مقصد کیلئے دو بار مغربی ممالک کا دورہ بھی کیا.احمدیہ تبلیغی وفود کو افریقہ کے مغربی ساحل پر واقع ممالک میں خاصی کامیابی بھی ہوئی.مرزا صاحب نے اپنی یادگار کے طور پر خاص مذہبی لٹریچر چھوڑا ہے.انہوں نے سیاسی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.۱۹۲۲ء میں انہوں نے یوپی میں آریہ سماجیوں کی شدھی سنکھٹن تحریک کا مقابلہ کیا اور ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی قیادت کی اور ۱۹۴۸ء میں تحریک آزادی کشمیر میں حصہ لینے کیلئے احمدیہ رضا کاروں کی ایک بٹالین کی خدمات حکومت کو پیش کیں...(۱) مشہور کالم نگارم ش صاحب نے اخبار نوائے وقت میں ان الفاظ میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کو خراج تحسین پیش کیا مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ۱۹۱۴ء میں خلافت کی گدی پر متمکن ہونے کے بعد جس طرح اپنی جماعت کی تنظیم کی اور جس طرح صدرانجمن کو ایک فعال اور جاندار ادارہ بنایا اس سے ان کی بے پناہ تنظیمی قوت کا پتہ چلتا ہے.اگر چہ ان کے پاس کسی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں تھی لیکن انہوں نے پرائیویٹ طور پر مطالعہ کر کے اپنے آپ کو واقعی علامہ کہلانے کا مستحق بنا لیا تھا.انہوں نے ایک دفعہ ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ میں نے انگریزی کی مہارت ”سول اینڈ ملٹری گزٹ کے باقاعدہ مطالعہ سے حاصل کی.ان کے ارشاد کے مطابق جب تک یہ اخبار خواجہ نذیر احمد کے دور ملکیت میں بند نہیں ہو گیا انہوں نے اس کا با قاعدہ مطالعہ جاری رکھا.....مرزا صاحب ایک نہایت سلجھے ہوئے مقرر اور منجھے ہوئے نثر نگار تھے.اور ہر ایک اس موقع کو بے دریغ استعمال کرتے تھے جس سے جماعت کی ترقی کی راہیں کھلتی ہوں.جماعتی نقطہ نگاہ سے ان کا یہ ایک بڑا کارنامہ تھا کہ تقسیم برصغیر کے بعد جب قادیان ان سے چھن گیا تو تو انھوں نے ربوہ میں دوسرا مرکز قائم کرلیا...(۲)

Page 709

699 غسل، تجهیز وتکفین اور چہرہ مبارک کی آخری زیارت: نماز فجر کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے جسد خاکی کو نسل دیا گیا.حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب، حضرت صوفی غلام محمد صاحب ناظر بیت المال ، مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد، مکرم سید عبدالرزاق شاہ صاحب، مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب، مکرم مولانا محمد احمد صاحب جلیل نے غسل دیا.حضور کی وفات جس کمرے میں ہوئی تھی وہ دوسری منزل پر تھا.تجہیز و تکفین کے بعد جنازے کو نچلی منزل پر منتقل کیا گیا.ہزاروں کی تعداد میں احباب حضور کے چہرے کی آخری زیارت کے لئے تڑپ رہے تھے.چنانچہ چہرہ کی زیارت کے سلسلے کو جلد شروع کر دیا گیا تا کہ کوئی بھی اپنے آقا کی آخری زیارت سے محروم نہ رہ جائے.احباب اور خواتین لمبی قطاروں میں تحمل سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے.زیارت کے خواہش مند احباب کی قطار قصر خلافت سے ہوتی ہوئی باہر سڑک پر دور تک پھیلی ہوئی تھی.باہر سے پہنچنے والے ان قطاروں میں شامل ہو جاتے.(۳) حضرت مصلح موعود کا ایک اہم کارنامہ جماعت کو انتخاب خلافت کا نظام دینا تھا.اور ان قواعد کی رو سے استثنائی صورت حال کے علاوہ یہ انتخاب چوبیس گھنٹے کے اندر ہونا چاہئیے تھا.حسب قواعد آپ کی وفات کے معاً بعد ناظر اعلیٰ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب اور پرائیویٹ سیکریٹری مکرم عبد الرحمن انور صاحب کی طرف مندرجہ ذیل اعلان الفضل میں شائع کیا گیا اور ممبرن مجلس انتخاب خلافت کو بھی اس کی اطلاع کی گئی.

Page 710

700 اجلاس مجلس انتخاب خلافت بموجب ارشاد حضرت خلیفہ انسیح الثانی لمصلح الموعود بر موقع مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ص ۱۱ مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس انشاء اللہ تعالیٰ آج بتاریخ ۸ نومبر ۱۵ء بروز پیر بوقت ۱/۲ بجے بعد نماز عشاء مسجد مبارک ربوہ میں منعقد ہو گا.جملہ ممبران مجلس انتخاب خلافت کی خدمت میں عرض ہے کہ مہربانی فرما کر نماز عشاء مسجد مبارک ربوہ میں ادا فرمائیں جو ٹھیک سات بجے ہوتی ہے.اس کے بعد صرف ممبر صاحبان ہی مسجد میں تشریف رکھیں اور اجلاس کی کاروائی میں شامل ہوں.عبدالرحمن انور مرزا عزیز احمد سیکریٹری مجلس شوریٰ ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ پاکستان ۸/۱۱/۲۵ (۴) ۸/۱۱/۶۵ نومبر کی رات ہزاروں احمدی عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد مبارک میں موجود تھے.نماز کی ادائیگی کے بعد محترم مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا جماعت کے نام ایک پیغام پڑھ کر سنایا.اس میں آپ نے تحریر فرمایا آج ہمارا محبوب آقا جو رحمت کا نشان تھا رحمت بن کر آیا رحمت بن کر رہا اور عالم کے گوشے گوشے میں جس کے دوران خلافت میں اس کی کوشش سے رحمت للعالمین کا جھنڈا گاڑا گیا سلامتی کا پیام پہنچایا گیا وہ مصلح موعود خلیفہ ہم سے جدا ہو کر اپنے پیارے اللہ تعالیٰ کے حضور میں سرخرو ہو کر حاضر ہو گیا.انا لله و انا اليه راجعون - ہمارے دل غم سے بھر گئے ہیں.یہ جدائی برداشت سے باہر نظر آتی ہے مگر یہ نازک وقت رونے سے بڑھ کر دعاؤں کا وقت ہے.جماعت احمدیہ کے لئے یہ تیسرا زلزلہ ہے جو

Page 711

701 بوجہ کثرت جماعت اور قلتِ صحابہ کے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ دیکھا اور صحبت اُٹھائی تھی بہت بڑا ہے.کیونکہ جب زمانہ گذرتا ہے الہی سلسلہ پھیل جاتا ہے تو بعض کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں اور اس وقت تو ہر وقت کے ناصح خلیفہ کی لمبی علالت بھی بعض غفلتوں اور کمزوریوں کو بیمار طبائع میں پیدا کرنے کی وجہ بن گئی.اس وقت جبکہ آپ سب کے دل دردمند ہیں اور ایک اہم فیصلہ کا وقت ہے ہم سب کو اپنے دکھ بھول کر دعا میں لگ جانا چاہئیے اور صدق نیت سے اپنی کمزوریوں کا جائزہ لے کر سچا عهد خدا تعالیٰ سے کرنا چاہئیے کہ ہم اپنے قلوب کو صاف کریں گے اور نیک نمونہ احمدیت کا بننے میں کوشاں رہیں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش حضرت خلیفہ اول کی تمنا اور اس ہمارے تازہ زخم جدائی دے جانیوالے موعود خلیفہ کی تڑپ تھی.پس دعا کریں اور بہت دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہم کو پاک کرے جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے.ہم فتنوں سے بچیں صادق ہوں اور صادقوں کے ساتھ رہیں خلافت سے وابستہ رہیں ہمیں خدائے کریم و رحیم ایسا بچنے سے بچائے کہ ہم شماتت اعداء کا موجب بن جائیں.....(۵) اس کے بعد ممبران مجلس انتخاب خلافت مسجد میں ہی رہے اور باقی احباب باہر تشریف لے گئے.اجلاس کی صدارت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب نے فرمائی.آغاز میں ہر ممبر سے مقررہ حلف نامے پر دستخط کئے اور صدر مجلس نے زبانی طور پر بھی حلف لیا.تلاوت کے بعد صدر صاحب مجلس نے اجتمائی دعا کروائی اور پھر فرمایا ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ اسیح الثانی آج صبح ۲ بج کر میں منٹ پر اپنی حقیقی و مولے سے جاملے ہیں انا لله و انا اليه راجعون اب حضور کے بعد جانشینی کا سوال در پیش ہے.حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں انتخاب خلافت کے متعلق ایک ضروری ریزولیشن مجلس مشا ۱۹۵۷ء ء نے پاس کیا تھا جسے حضور نے منظور فرماتے ہوئے مجلس انتخاب خلافت مقررفرما دی تھی.جس کے اراکین کی فہرست مطابق ریزولیوشن مرتب کرا کے امراء جماعت کو بھجوا

Page 712

702 دی گئی تھی.آپ وہ اراکین مجلس انتخاب خلافت ہیں جن کا کام اپنے حلف کے مطابق جو آپ نے ابھی اُٹھایا ہے نئے خلیفہ کا انتخاب کرنا ہے.سواب آپ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کو مد نظر رکھتے ہوئے جو امانت انتخاب خلیفہ آپ کے سپرد کی گئی ہے اسے پوری دیانت کے ساتھ ادا کریں اور اپنی رائے پیش فرمائیں.اس کے بعد انتخاب خلافت کرایا گیا اور اراکین کی بہت بھاری اکثریت کی آراء کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے فرزند اکبر حضرت مرزا ناصر احمد سلمہ رتبہ خلیفہ امسیح الثالث منتخب ہوئے.ایک خلیفہ کی وفات کے بعد ایک الہی جماعت کی جو حالت ہوتی ہے وہ ایک الہلی جماعت ہی سمجھ سکتی ہے.اور جب اس غم واندوہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا جلوہ دکھاتا ہے اور ایک اور وجود اُس کی تائید کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو ہر مومن محسوس کرتا ہے کہ اُس کے دل پر آسمان سے تسکین نازل ہو رہی ہے.اور جیسا کہ آیتِ استخلاف میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے مومنوں کی خوف کی حالت امن میں بدل دی جاتی ہے.یہ کیفیت لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی صرف محسوس کی جاتی ہے.اس مرحلہ پر محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے صاحب صدر حضرت مرزا عزیز احمد صاحب سے اجازت لے کر جماعتی اتحاد کی برکات اور حضرت خلیفة أسبح الثالث" کے انتخاب میں خدائی ہاتھ کا ذکر کرتے ہوئے مختصر تقاریر کیں.دل مطمئن تھے اور زبانوں پر الحمد للہ کے الفاظ تھے.حضرت مصلح موعودؓ کے مقرر شدہ قواعد کی رو سے بیعت لینے سے پہلے منتخب ہونے والے خلیفہ کے لئے قواعد مقررہ کے مطابق ضروری تھا کہ وہ مقررہ حلف اُٹھائے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے کھڑے ہوکر تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد رقت بھرے الفاظ میں یہ عہد دہرایا میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں خلافتِ احمدیہ پر ایمان لاتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافت احمدیہ کے خلاف ہیں باطل پر سمجھتا ہوں اور میں خلافتِ احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا.اور میں ہر

Page 713

703 غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لیے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا.“ یہ عہد دہرانے کے بعد حضرت خلیلہ احسن الطائف نے مجلس انتخاب کے مہران سے خطاب فرمایا.اس خطاب میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے دہرائے جانے والے عہد کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا میں بڑا ہی کم علم ہوں ، نا اہل ہوں، مجھ میں کوئی طاقت نہیں، کوئی علم نہیں.جب میرا نام تجویز کیا گیا تو میں لرز اُٹھا اور میں نے دل میں کہا کہ میری کیا حیثیت ہے.پھر ساتھ ہی مجھے یہ بھی خیال آیا کہ ہمارے پیارے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اپنی بہت سی نعمتوں اور برکتوں سے نوازا تھا فرمایا ہے کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں جب ہمارے پیارے امام نے ان الفاظ میں اپنے خدا کو مخاطب فرمایا ہے اور اس کے حضور اپنے آپ کو کرم خاکی“ قرار دیا ہے تو میں تو اس اپنے آپ کو کرم خا کی“ کہنے والے سے کوئی بھی نسبت نہیں رکھتا.لیکن ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ میں بے شک ناچیز ہوں اور ایک بے قیمت مٹی کی حیثیت رکھتا ہوں لیکن اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ مٹی کو بھی نور بخش سکتا ہے اور اس مٹی میں بھی وہ طاقتیں اور قوتیں بھر سکتا ہے جو کسی کے خیال میں بھی نہیں آسکتیں.وہ اس مٹی میں ایسی چمک دمک پیدا کر سکتا ہے جو سونے اور ہیروں میں نہ ہو.غرضیکہ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جس سے میں اپنی کمزوریوں کو بیان کرسکوں.اس لئے آپ دعاؤں سے میری مدد کریں.جہاں تک ہو سکے گا میں آپ میں سے ہر ایک کی بھلائی کی کوشش کروں گا.اختلاف تو ہم بھائیوں میں بھی ہوسکتا ہے.لیکن اختلاف کو انشقاق اور تفرقہ اور جماعت میں انتشار کا موجب نہیں بنانا چاہئیے.

Page 714

704 سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کی وفات کے وقت اور بعد میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ہر فرد نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم جماعت میں تفرقہ پیدا نہیں ہونے دیں گے اور اس کے لئے جو قربانی ہمیں دینی پڑے گی ہم دیں گے.یہ ہرگز نہ ہو گا کہ ہم اپنے مفاد کی خاطر جماعت کے مفاد کو قربان کر دیں بلکہ بہر صورت ہم جماعت کے مفاد کو مقدم کریں گے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی کامیابی عطا فرمائی اور جو کام اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کیا تھا اسے انہوں نے پوری طرح نبھایا.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو ترقی دیں اور اس میں کمزوری نہ آنے دیں.اس بارے میں کل ایک دوست نے مجھ سے بات کرنا چاہی تو میں نے کہا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے خاندان میں کوئی فرد اپنے مفاد کے لئے جماعت کے مفاد کو قربان نہیں کرسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا ہر فرد خدا کا ہے مسیح موعود کا ہے جماعت کا ہے.ہماری طرف سے کوئی کمزوری اور فتنہ نہ ہو گا.پس اب خدا تعالیٰ نے جو یہ ذمہ واری میرے کندھوں پر ڈالی ہے اور اس کام کے لئے آپ نے مجھے منتخب کیا ہے.میں بہت کمزور انسان ہوں اس لئے آپ کا فرض ہے کہ آپ دعاؤں سے میری مدد کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے توفیق بخشے کہ میں اس ذمہ واری کو پوری طرح ادا کر سکوں اور خدمت دین اور اشاعت اسلام میں کوئی روک پیدا نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ کام ترقی کرتا چلا جائے حتی کہ اسلام دنیا کے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب آجائے.....(۶) اس خطاب کے بعد وہاں پر موجود اراکین مجلس انتخاب خلافت نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی بیعت کا شرف حاصل کیا.اُس وقت ۲۰۲ اراکین وہاں پر موجود تھے ، دیگر ۳۵ اراکین پاکستان سے باہر ہونے کے باعث یا علالت کے باعث اجلاس میں شریک نہیں تھے.(۶) یہ کاروائی ساڑھے دس بجے ختم ہوئی تو مسجد مبارک کے دروازے کھولے گئے اور باہر ہزاروں احمدی بیعت کرنے کے لئے بے تاب تھے.مسجد کھچا کھچ بھر گئی اور وہاں پر موجود جملہ احباب جماعت نے

Page 715

705 بیعت کی.حضرت مصلح موعود کی جدائی پر دل زخمی تھے لیکن اس کے ساتھ دل میں اس بات پر اللہ تعالیٰ کے حضور شکر ادا کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوئے اور جماعت ایک بار پھر ایک ہاتھ پر جمع ہوگئی.اسی وقت تمام دنیا میں جماعت کو اس انتخاب کی خبر بھجوائی گئی.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث مسجد سے قصر خلافت تشریف لائے.اور ایک بند کمرہ میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ دعاؤں میں مشغول رہے.اس کے بعد خواتین نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ کا منصب خلافت پر فائز ہونا بہت سی پیشگوئیوں کے مطابق تھا جن کا پورا ہونا مقدر تھا.اور اس لحاظ سے بھی آپ کا انتخاب مومنوں کے ایمانوں کی تقویت کا باعث بنا.بنی اسرائیل کی مقدس روایات کی کتاب طالمود میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ مسیح کے بعد اس کی بادشاہت اس کے بیٹے اور پھر پوتے کو منتقل ہو گی.چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موعود بیٹے کے بعد انہی کے بڑے فرزند منصب خلافت پر فائز ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جہاں ایک عظیم المرتبت بیٹے کے متعلق بشارات دی گئی تھیں.وہاں آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ کو ایک عظیم پوتا بھی عطا کیا جائے گا.چنانچہ ۲۶ دسمبر ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَّا فِلَةً لَّكَ نَافِلَهَ مِّن عِندِی (۱۱) یعنی ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جو تیرے لئے نافلہ ہے.وہ ہماری طرف سے نافلہ ہے.( نافلہ کا ایک مطلب پوتے کے بھی ہیں ).پھر مارچ ۱۹۰۶ء میں آپ کو الہام ہوا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ نَّا فِلَةَ لَكَ - (۱۲) اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیونکہ نافلہ پوتے کو بھی کہتے ہیں یا بشارت کسی اور وقت تک موقوف ہو.پھر حضرت مسیح موعود نے اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں ایک لمبا الہام درج فرمایا جس کے ایک حصے کا ترجمہ ہے.تو اپنی ایک دور کی نسل دیکھ لے گا.ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق کا ظہور ہوگا.گویا آسمان سے خدا اُترے گا.ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہو گا.جب ستمبر ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے صاحبزادے مرز ا مبارک احمد صاحب فوت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً

Page 716

706 بتایا گیا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِیمٍ - (۱۳) پھر اسی سال اکتوبر میں آپ کو خبر دی گئی إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ حَلِيمٍ يَنزِلُ مَنزَلَ المُبَارَكِ (۱۴) سے ساقیا آمدن عید مبارک بادت یعنی ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی بشارت دیتے ہیں.وہ مبارک احمد کی شبیہ ہو گا.اے ساقی! عید کا آنا تجھے مبارک ہو.حضرت خلیفہ مسیح الثانی کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی پیدائش سے قبل ایک خادم دین فرزند کی بشارت دی گئی تھی.چنانچہ آپ کی پیدائش سے صرف دو ماہ قبل آپ نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا ، مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ آپ کو بچپن سے ہی حضرت ام المومنین نے پالا اور آپ انہی کے پاس رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الہامات کی وجہ سے حضرت اماں جان آپ کو صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا نعم البدل خیال فرما تیں اور یہ کہا کرتی تھیں کہ یہ تو میرا مبارک ہے.آپ کی پیدائش سے قبل اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے متعلق بشارات عطا فرمائی تھیں اور حضرت ام المؤمنین نے آپ کی پرورش فرمائی.اور آج ان تمام پیشگوئیوں کے مطابق آپ کو اللہ تعالیٰ نے منصب خلافت پر سرفراز فرمایا.اگلے روز فجر کی نماز کے بعد بہت سے احباب نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی.اس بیعت کے بعد آپ نے ایک مختصر خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا یہ وقت الہی جماعتوں کے لئے بڑا نازک وقت ہوتا ہے.گویا ایک قسم کی قیامت بیا ہو جاتی ہے.ایسے وقت میں جہاں اپنے گبھرائے ہوئے ہوتے ہیں وہاں اغیار برائی کی امیدیں لئے جماعت کو تک رہے ہوتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ شاید یہ وقت الہی جماعت کے انتشار یا اس میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہونے یا اس کے اتحاد اس کے اتفاق اور اس کی باہمی محبت میں رخنہ پڑنے کا ہو.لیکن جو سلسلہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے قائم کیا جاتا ہے وہ ایسے نازک دوروں میں موت کا پیام نہیں بلکہ اپنی زندگی کا پیام لے کر آتا ہے.اور اللہ تعالیٰ قیادت کا انتظام ایک کندھے سے دوسرے کندھے کی طرف اس لئے

Page 717

707 نہیں کرتا کہ اس کا ایک بندہ بوڑھا اور کمزور ہو گیا اور وہ اس کو طاقتور اور جوان رکھنے پر قادر نہیں.کیونکہ ہمارا پیارا مولیٰ ہر شے پر قادر ہے.بلکہ اس لئے کہ وہ دنیا پر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہر نگاہ میری طرف ہی اُٹھنی چاہئیے.بندہ بڑا ہو یا چھوٹا آخر بندہ ہی ہے، تمام فیوض کا منبع اور تمام برکات کا حقیقی سرچشمہ میری ہی ذات ہے.یہ توحید کا سبق دلوں میں بٹھانے کے لئے ، وہ اپنے ایک بندے کو اپنے پاس بلا لیتا ہے اور ایک دوسرے بندے کو جو دنیا کی نگاہوں میں انتہائی کمزور اور ذلیل اور نا اہل ہوتا ہے کہتا ہے کہ اُٹھ اور میرا کام سنبھال ، اپنی کمزوریوں کی طرف نہ دیکھ ، اپنی کم علمی اور جہالت کو نظر انداز کر دے ، ہاں میری طرف دیکھ کہ میں تمام طاقتوں کا مالک ہوں.میرے ہی سے امید رکھ اور مجھ پر ہی تو کل کر کہ تمام علوم کے سوتے مجھ سے ہی پھوٹتے ہیں، میں وہ ہوں جس نے تیرے آقا کو ایک ہی رات میں چالیس ہزار کے قریب عربی مصادر سکھا دیئے تھے اور میری طاقتوں میں کوئی کمی نہ آئی تھی.میں وہ ہوں جس نے نہایت نازک حالت میں سے اسلام کو اٹھایا تھا.اور جب انسان نے اپنی تلوار سے اسے مٹانا چاہا تو میں اس تلوار اور اسلام کے درمیان حائل ہو گیا.اُس وقت دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں موجود تھیں لیکن دنیا کی کوئی طاقت خواہ کتنی ہی بڑی تھی اسلام کو نہ مٹاسکی....ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتا رہے.ہر ایک نے دنیا سے بہر حال چلے جانا ہے.آج ہم یہاں ہیں کل کا کچھ پتا نہیں کہ کہاں ہوں گے.ہمیں دعا کرتے رہنا چاہیئے کہ ہم یہاں ہوں یا کسی اور دنیا میں خدا تعالیٰ سلسلہ کو ایسے وجود بخشا رہے جو پورے زور کے ساتھ جو پورے تو کل کے ساتھ جو بکثرت دعاؤں کے ساتھ اور جو پوری انابت الی اللہ کے ساتھ دین کے غلبہ کے لئے اور اس سلسلہ کے مقصد کے حصول کے لئے کوشاں رہنے والے ہوں.اور یہ ذلیل سمجھا جانے والا گروہ خدا کی نگاہ میں ہمیشہ عزت پانے والا گر وہ رہے.جب ایسا ہو جائے گا تو پھر دنیا کی کوئی نظر ہمیں ذلیل نہیں کر سکتی اور یہ کمزور سمجھا جانے والا گروہ.خدائے عزوجل

Page 718

708 کے نزدیک جو کامل طاقتوں والا ہے طاقتور گروہ قرار دیا جائے گا تا پھر دنیا کی طاقتیں ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکیں.خدا کرے کہ ہمارا خدا ہمیشہ ہمارے ساتھ ہو.خدا کرے کہ اس کی نصرت ہمیشہ ہمارے شاملِ حال رہے.خدا کرے کہ ہمارے کمزور طاقتوروں پر ہمیشہ بھاری رہیں.خدا کرے کہ ہمارے جاہل اچھے پڑھے لکھے لوگوں کے مقابل پہ آئیں تو انہیں شرمندہ کرنے والے ہوں.خدا کرے کہ ہمارے وجود میں خدا کا جلوہ دنیا کو نظر آنے لگے.خدا کرے کہ ہمارے چہروں سے اسلام کا نور اور محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق کی الله جھلک دنیا کو دکھائی دے.خدا کرے کہ ہماری زندگیوں میں ہی اسلام کا غلبہ دنیا میں قائم ہو جائے اھم امین.اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے.یہ خطاب ختم ہونے پر فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی اور آپ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ کر واپس تشریف لے گئے.(۷)

Page 719

709 مصل جنازہ حضرت مسیح موعود رضی اللہ عنہ حضرت مصلح موعودؓ کے چہرہ مبارک کی زیارت کے لئے دور دور سے آئے ہوئے احباب اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے تا کہ وہ اپنے محبوب امام کا آخری دیدار کر سکیں.آخر وقت تک احباب بڑی تعداد میں ربوہ پہنچ رہے تھے.جنازہ اُٹھانے کے مقررہ وقت یعنی ڈھائی بجے بعد دو پہر کو آخری زیارت کا سلسلہ مجبوراً بند کرنا پڑا.آخری وقت پہنچنے والے بہت سے افراد کو زیارت سے محروم رہنا پڑا.اس موقع پر محرومی دیدار سے احباب کا اضطراب ماحول کو اور بھی غمزدہ بنا رہا تھا.وہ تڑپ تڑپ کر ڈیوٹی پر موجود احباب کی منتیں کرتے ہوئے بے حال ہورہے تھے.ان احباب کو تسلی دینے اور سمجھانے میں بھی کچھ وقت لگا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.اور پونے تین بجے خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد قصر خلافت کے اندر سے اُٹھا کر لائے.پھر جنازہ احاطہ قصر خلافت کے غربی دروازہ سے باہر لایا گیا حضرت خلیفہ اسیح الثالث جنازہ کو کندھا دے رہے تھے.نصرت گرلز اسکول کی سڑک سے ہوتے ہوئے جنازہ تحریک اور صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر کے درمیان کی سڑک سے گذر کر فضل عمر ہسپتال کے سامنے سڑک پر سے ہوتا ہوا بہشتی مقبرہ پہنچا.سڑک کے دونوں طرف ہزاروں لوگ دو رو یہ کھڑے تھے.آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور زبانوں پر درود شریف جاری تھا.اُس وقت لوگوں کی کیا کیفیت تھی اس کا نقشہ ثاقب زیروی صاحب نے ان دو اشعار میں خوب کھینچا ہے ہونٹوں پر آہ سرد جبینوں پہ غم کی دھول آنکھوں میں سیل اشک چھپائے ہوئے چلا دن ڈھل گیا تو درد نصیبوں کا قافلہ کاندھوں پہ آفتاب اٹھائے ہوئے چلا جنازہ بہشتی مقبرہ پہنچا تو صفیں درست کی گئیں.پچاس ہزار مرد احباب جنازہ میں شامل ہوئے.صفوں کی ترتیب کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھانے سے قبل حضرت

Page 720

710 خلیفہ امسیح الثانی کے جنازہ کے سامنے احباب کو مخاطب کر کے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ نماز جنازہ ادا کرنے سے قبل ہم سب مل کر اپنے ربّ رؤف کو گواہ بنا کر اس مقدس مونہہ کی خاطر جو چند گھڑیوں میں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہونے والا ہے اپنے ایک عہد کی تجدید کریں اور وہ عہد یہ ہے کہ ہم دین اور دین کے مصالح کو دنیا اور اس کے سب سامانوں اور اس کی ثروت اور وجاہت پر ہر حال میں مقدم رکھیں گے اور دنیا میں دین کی سر بلندی کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہیں گے..اس موقع پر ہم اپنے ایک اور عہد کی تجدید بھی کرتے ہیں.اگر چہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ بہشتی مقبرہ قادیان کے بہشتی مقبرہ کے ظل کی حیثیت سے ان تمام برکات کا حامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُس بہشتی مقبرہ کے ساتھ وابستہ کی ہیں لیکن حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ اولاد جو پنجتن کہلاتی ہے اور ان میں سے جو وفات یافتہ یہاں مدفون ہیں اور خاندان کے دوسرے وفات یافتہ افراد بھی جن کا مدفن اس مقبرے میں ہے ہم ان کے تابوتوں کو مقدر وقت آنے پر قادیان واپس لے جائیں گے اور ان تمام امانتوں کو جانوں سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہوئے اولین وقت میں ان جگہوں پر پہنچا دیں گے جن کی طرف وہ حقیقی طور پر اپنے آپ کو منسوب کرتے تھے.اور جہاں ان کو پہنچا نا ضروری اور جس کا ہم نے عہد کیا ہوا ہے.(۸) اس عہد کی تجدید کے وقت صفوں میں کھڑے ہوئے احباب پرسوز و گداز کا ایسا عالم طاری ہؤا کہ لوگوں کی چیخیں نکل گئیں اور ہر طرف سے انشاء اللہ انشاءاللہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں.بج کر ۴۰ منٹ پر نماز جنازہ شروع ہوئی.نماز جنازہ میں تکبیر تحریمہ سمیت چھ تکبیریں کہی گئیں.جنازے کے دوران بھی احباب پر رقت کا ایسا عالم طاری تھا کہ شرکاء کی ہچکیوں اور سسکیوں کی آواز میں فضا میں گونج رہیں تھیں.نماز جنازہ کے بعد جنازہ کو اُس احاطے کے اندر لے جایا گیا جہاں پر حضرت ام المؤمنین مدفون تھیں.تدفین کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے دعا کرائی اور 4 بج کر ۴۰ منٹ پر بہشتی مقبرہ سے واپس ہوئے.

Page 721

711 المي الـ حضرت خلیفۃ ا الثالث کا پہلا خطبہ جمعہ اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ایک پیشگوئی کا ذکر حضرت خلیفہ امسح الثالث نے پہلا خطبہ جمعہ مورخہ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء کو ارشادفرمایا.جولوگ جماعت کی تاریخ کا معمولی سا بھی علم رکھتے تھے وہ جانتے تھے کہ جب حضرت خلیفہ اسیح الاول کا وصال ہوا تو کس طرح ایک گروہ ایسا کھڑا ہوا جو نظام خلافت کا انکار کر رہا تھا.اور اس وقت مخالفین خوش ہو رہے تھے کہ جماعت میں تفرقہ پڑ گیا ہے.اور وہ یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ اس تفرقہ کے نتیجے میں یہ جماعت اب انتشار کا شکار ہو جائے گی.حضرت مصلح موعودؓ کی باون سالہ خلافت کے کارناموں میں ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس دوران آپ نے علمی طور پر عملی طور پر خلافت کے مقام اوراہمیت کو بار بار اس طرح واضح فرمایا اور جماعت کی اس نہج پر تربیت فرمائی کہ جب خلافت ثالثہ کا انتخاب ہوا تو جماعت نے ایک قابل قدر رنمونہ پیش کیا.دشمنوں کی تمام امیدیں دھری کی دھری رہ گئیں اور جماعت پھر سے ایک ہاتھ پر جمع ہو گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے اپنے پہلے خطبہ جمعہ کے آغاز میں حضرت مصلح موعودؓ کے اُس خطبہ جمعہ کا ذکر فرمایا جو آپ نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد ارشاد فرمایا تھا.اس میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا اس وقت دشمن خوش ہے کہ احمدیوں میں اب تفرقہ پڑ گیا ہے اور یہ جلد تباہ ہو جائیں گے اور اس وقت ہمارے ساتھ زلزلو ا زلزالا شديدا والا معاملہ ہے.یہ ایک آخری ابتلا ہے جیسا کہ احزاب کے مواقع کے بعد پھر دشمن میں یہ جرات نہ تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کرے.ایسے ہی ہم پر یہ آخری موقع ہے اور دشمن کا حملہ ہے خدا تعالیٰ چاہے ہم کامیاب ہوں تو انشاء اللہ پھر دشمن ہم پر حملہ نہ کرے گا بلکہ ہم دشمن پر حملہ کریں گے.نبی کریم ہے نے احزاب پر فرمایا تھا کہ اب ہم ہی دشمن پر حملہ کریں گے اور شکست دیں گے دشمن اب ہم پر کبھی حملہ آور نہ ہوگا.یہ ایک آخری ابتلا ء ہے اس سے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے تو

Page 722

712 دشمن کو پھر کبھی خوشی کا موقع نہ ملے گا.(۹) چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ کے مبارک دور خلافت میں بھی متعدد بار دشمن نے سازشیں کیں اور چاہا کہ جماعت میں تفرقہ پڑے لیکن وہ ناکام و نامرادر ہے اور جس طرح کی خوشی انہیں حضرت خليفة اسبیع الاول کی وفات پر حاصل ہوئی تھی کہ جماعت کے دو ٹکڑے ہو گئے ہیں ، ایسی خوشی انہیں پھر کبھی حاصل نہ ہوئی اور اب حضرت خلیفہ آسیح الثانی کی وفات کے موقع پر بھی وہ حسرت سے کف افسوس ملتے رہ گئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حضرت مصلح موعودؓ کے اس خطبہ جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا دلیکن حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت یہ بھی فرمایا تھا کہ تم دعاؤں میں لگ جاؤ.اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ یہ خوشی دشمن صرف ایک دفعہ دیکھ سکتا تھا اور وہ اس نے دیکھ لی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرے گا.کہ دشمن تھوڑا بہت حملہ تو کرے گا.شاید تھوڑا بہت نقصان بھی پہنچا دے احمدیوں کو تکلیفیں بھی دے سکتا ہے ان سے ایثار اور قربانی کے مطالبے بھی اس کے مقابلے میں کئے جاویں گے لیکن یہ تم کبھی نہ دیکھو گے کہ ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء والا تفرقہ اور پراگندگی جماعت میں دشمن کو پھر نظر آئے.اب جب خود آپ کا وصال ہوا تو ہم اس کے بعد کے دنوں کے حالات کو دیکھتے ہیں.ہر احمدی ایک موت کی سی حالت دیکھتا تھا.اللہ تعالیٰ نے ہر ایک احمدی کے دل میں حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اتنی محبت پیدا کی تھی اور پھر آپ کو احباب جماعت پر اس کثرت اور وسعت کے ساتھ احسان کرنے کی ان کے غموں میں شریک ہونے کی ، ان کی خوشیوں میں شامل ہونے کی ، ان کی ترقیات کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرنے کی اس قدر توفیق دی تھی کہ ہر شخص سمجھتا تھا کہ گویا آج میری ہی موت کا دن ہے.بعض احمدی حضور کی اس بیماری کے دوران اپنی کم علمی کی وجہ سے، بعض نادانی کی وجہ سے ، بعض کمزوری کی وجہ سے اور شاید بعض شرارت کی وجہ سے بھی اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے جو ہمارے کانوں میں بھی پڑتی تھیں کہ گویا جماعت میں بڑا تفرقہ پیدا ہو چکا ہے لیکن یہ باتیں اس وقت سے پہلے تھیں.جب اس موہومہ تفرقہ نے دنیا کے سامنے اپنا چہرہ دکھانا

Page 723

713 تھا پس وہ وقت آیا.تو وہ لوگ جو یہاں تھے گواہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک شخص شاہد ہے اس بات کا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کی فوج بھیجی ہے.اور اس نے جماعت احمدیہ پر قبضہ کر لیا ہے اور جس طرح گڈریا بھیڑوں کو گھیر لیتا ہے.اسی طرح اس فوج نے ہم سب کو گھیرے میں لے لیا ہے.اور کہا کہ ہمیں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ ہم تمہیں بھٹکنے نہ دیں.اس وقت کسی کے دماغ میں یہ خیال نہ تھا کہ کون خلیفہ منتخب ہوتا ہے یا کون نہیں.لیکن ہر دل یہ جانتا تھا کہ خلافت قائم رہے گی اور خلیفہ منتخب ہوگا.اور خلافت کی برکات ہم میں جاری وساری رہیں گی.(۱۰) حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے انتخاب خلافت کے دوران اجلاس کے شرکاء کی دلی کیفیات بیان کرتے ہوئے فرمایا..جس شام کو مجلس انتخاب کے ممبر مسجد مبارک کے اندر مشورہ کر رہے تھے.اور بوجہ ممبر ہونے کے میں اور خاندان کے بعض دوسرے افراد بھی اس میں شامل تھے.لیکن خدا شاہد ہے کہ اس کا روائی کا بیسواں حصہ بھی میرے کان میں نہیں پڑا.کیونکہ ہم لوگ پیچھے بیٹھے یہ دعا کر رہے تھے کہ اے خدا! جماعت کو مضبوط اور مستحکم بنا.اور خلافت کو قائم رکھ ! اور دل میں یہ عہد کیا تھا کہ جو بھی خلیفہ منتخب ہو گا.ہم اس سے کام اتباع اور اطاعت کا حلف اُٹھائیں گے اور جماعتی اتحاد اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ دیکھ کر خوشی خوشی ہم واپس آجائیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں تفرقہ پیدا نہیں ہوا.اور ہمارا جو فرض تھا آرام کے ساتھ ہم اس سے سبکدوش ہو گئے.(۸) آنحضرت ﷺ کی اتباع میں ہر احمدی جانتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں اصل ہتھیار دعا کا ہتھیار ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے پہلے خطبہ جمعہ کے آخر میں احباب جماعت کو دعاؤں میں لگ جانے، تہجد ادا کرنے اور صدقہ خیرات ادا کرنے اور روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی تھی ، اسی طرح حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے اپنے پہلے خطبہ جمعہ کے آخر میں فرمایا چونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے ہزاروں ایسے ہوں گے کہ چھوٹی یا بڑی تکالیف میں مجھے لکھیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے لئے دعا کریں.تو میری دعا یہ ہے کہ ایسے

Page 724

714 موقع پر میرا خدا مجھے شرمندہ نہ کرے.بلکہ اس ذمہ داری کے نبھانے کے لئے قبولیتِ دعا کی جوضرورت ہے وہ قبولیت دعا کا نشان مجھے عطا کرے اس لئے نہیں کہ میں اس ذریعہ سے دنیا کے مال و اسباب حاصل کرنا چاہتا ہوں.بلکہ اس لئے کہ میں آپ کے دکھوں اور دردوں اور تکلیفوں کو دور کر سکوں اور آپ کی ترقیات کی جو خواہش میرے دل میں پیدا کی گئی ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے سامان پیدا ہو جائیں...(۱۰) (۱) روز نامہ جنگ کراچی، انومبر ۱۹۶۵ء ص ۱ (۲) نوائے وقت ،۱۲نومبر ۱۹۶۵ء (۳) الفضل ۱۰نومبر ۱۹۶۵ء (۴) الفضل ۸ نومبر ۱۹۶۵ء ص ۴ (۵) الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۶۵ء ص ۲ (1) الفضل ۷ انومبر ۱۹۶۵ء ص ۲-۳ (۷) الفضل ۳ دسمبر ۱۹۶۵ء ص اول و آخر (۸) الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۶۵ ء ص او ۹ (۹) خطبات محمود جلد اول ص ۴۴-۴۵ (۱۰) خطبات ناصر جلد اول ص ۲ تا ۱۰ (۱۱) حقیقۃ الوحی ص ۳۱۸، ۳۱۹ طبع اوّل (۱۲) تذکرہ ایڈیشن چہارم ص ۶۰۷ بحوالہ بدر ۱۵ اپریل ۱۹۰۶ء (۱۳) تذکرہ ایڈیشن چہارم ص ۷۲۰ بحوالہ بدر ۱۹ ستمبر ۱۹۰۷ء (۱۴) تذکرہ ایڈیشن چہارم ص ۷۳۵ بحواله بدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء

Page 725

3......15....25 25 27 28 29 30...30.....اشاریہ جلد ۲ اسماء.....مقامات کتابیات اُردوکت اُردواخبارات اُردو رسائل انگریزی کتب انگریزی اخبارات ورسائل متفرقات

Page 726

3 آدم علیہ السلام.حضرت آرتھروانچوپ ۶۵۴ اسماء ابوالمنیر نور الحق مولانا ۱۸۷،۱۸۶،۸۹، احمد ید الله ۲۸۴ ابوبکر حضرت ۴۸۸ تا ۵۳۰،۴۹۴۴۹۰ ۵۵۶،۵۵۱ | اختر علی خان ۱۲۱ ارنسٹ بیون ۱۴۸، ۴۳۵ ابوبکر ایوب ( انڈونیشین ) ۳۷، ۶۷۵ اسد اللہ خان چوہدری آسکرسپیٹ (OSKARSPATE) ۱۶۵،۱۶۱ ابوالہاشم چوہدری آغا خان سر آمنہ بیگم ( بیگم مولانا نذیر احمد مبشر) ۶۲۴ ابو جهل آئینگر ۳۴۰ تا ۳۴۳، ۳۴۶، ۳۴۷ ابوحنیفہ.حضرت امام ابراہیم علیہ السلام.حضرت ۳۰۱،۲۴۲ ابوھریرہ.حضرت ابراہیم.( یوگوسلاوین احمدی) ۲۳ اجمل خان حکیم ابراہیم (برما کے ایک احمدی) ۶۷۴۶۷۳ احسان اللہ سکدار ۴۵۳ اسرار احمد.ڈاکٹر ۸۱ اسعد گیلانی ۶۷۱،۶۷۰ ،۴۰۶،۳۹۹،۳۹۶ ۴۰۹ ،۴۰۷ ۳۵۰ ۱ اسمعیل علیہ السلام.حضرت ۵۶۰ اسمعیل غزنوی.مولوی ۵۱۸،۱۸۷ ۴۲۸ ۴۲۸ ۴۸۲ ۴۹۶ ۳۸ اسمعیل مالک (لائبریرین احمدی) ۵۴۲ ابراہیم شیخ منڈیزی ابراہیم جمونی.ماسٹر ۲۵۴ | احسان اللہ ملک ۴۹۷ احمد الحاد ۶۳۰،۶۲۴ | اسے (ISMA) لارڈ ۹،۶ اشتر ابراہیم خلیل صاحب مولوی ۶۵۵،۶۱۴ | احمد بن حنبل.حضرت امام ۱ اصفهانی (سفیر پاکستان ) ابراہیم زکی الفا ۶۱۰ احمد جبرائیل سعید ابراہیم.سردار ( کشمیری لیڈر ) ۳۲۹، احمد حسین مدنی اعظم جنرل ۳۷۰ افتخار الدین میاں ۲۰۱۸ افتخار جنجوعه ۳۵۱،۳۳۵،۳۳۴ احمد خان ایاز چوہدری ابراہیم سنتھو ناشیخ ۶۴۳ احمد خان نسیم مولانا ۶۷۳،۲۰۲،۳۹ افتخار حسین ممدوٹ ابوالحسن ابوالحسنات ۴۰ احمد سعید.مولانا ۲۷۵ احمد تشفیع مرزا شهد ۳۷۰ افضل حق ۶۴۹ اکبر.بادشاہ ۱۷۳ ۴۹۰ ۲۵۹ ۴۱۹،۳۵۴ ۳۷۳،۳۲۸ ۲۱۳ ۱۶۲ ۳۷۵،۳۷۳،۳۶۸،۳۶۵ ۴۹۶ ابوالعطاء.حضرت مولانا ۱۹۳٬۸۳،۳۵، احمد ۶۵۱ اکبر علی پیر ۱۳۲ ۴۴۱ ۵۵۱،۵۴۳،۵۳۴۰ | احمد علی مولوی ۲۷۵ | اللہ دتہ چوہدری ابوالفضل مرزا ۱۲۰ | احمد فاربی ابوالکلام آزاد ۱۲۳،۵۵۰۵۴، | احمد کار بون ۲۰ اللہ رکھا ۵۰۰ تا ۵۰۵۰۵۰۳تا۵۱۸،۵۱۱ المعالی شکری القوتلی (شام کے صدر ) ۳۱۵ ۱۲۶ ۱۴۳ ۱۴۴، ۱۴۸، ۱۴۹ | احمد گئی ۵۶۷ الیگزنڈر.اے.وی ۱۴۱

Page 727

4 الیگزنڈر.راس امام الدین مرزا ۸۶ ابوکر سینہ (صدر لجنہ جاوا) ۹۴ امام الدین مولوی صاحب ۶۸۲ | بال راج مدهک لمته الجمیل.صاحبزادی ۴۶۵ بدرالدین ڈاکٹر بشیر الدین عبید اللہ حافظ صاحب ۵۷۷ ۶۷۱،۶۴۵،۶۴۴ ۳۵۲ بشیر بن صالح ( غانین احمدی) ۱۱۵ یک السوید ( عراقی وزیر خارجه ) ۶۲۵ 12 لمة الحفیظ بیگم.حضرت سیدہ ۶۶۲۶۷ | بدرالدین حسنی ۴۶۶، ۴۶۷ بکری (جنرل پریذیڈنٹ نائجیریا) ۶۳۳ ۲۲۳ | بلال نظل (NATTAL) انگریز احمدی ۱۵ لعتہ المتین صاحبزادی ۴۶۵ | بدرالدین عامل ام طاہر.حضرت سیدہ اے بدرو پرنس ( مشرقی افریقہ کا ایک با اثر بند را نائیکے ۶۸۵ ام متین.حضرت سیدہ ۴۶۶،۴۶۵ ، مسلمان ) ۶۹۳،۴۸۱ برڈ وڈ.لارڈ ۱۲ بید الله ۶۵۴ بہادر.مہاراجہ ام ناصر حضرت سیدہ ۴۶۵، ۴۶۹ بسٹن.ایف ڈبلیو (BUSTON) ۲۱۵ بھگوان داس ۶۸۹ ۳۲۶ ۱۹۳ ام وسیم حضرت سیدہ ۴۶۵، ۴۶۹ بشارت احمد بشیر مولانا ۶۱۳، ۶۱۷ ، بیرن سگمنڈ (IA (BARON ZSIGMOND امیرالدین ڈاکٹر ۴۴۱ امین الدین ( گورنر پنجاب ) ۴۲۷ بشارت نسیم.مولوی ۶۲۵،۶۲۴ بیکر.مسٹر ۶۶۰ 129 امین اللہ خان سالک ۶۵۱ بشیر احمد (بشیر اوّل) اندر سنگھ گل.سردار ۶۴۵ بشیر احمد (حضرت مرزا) اندر من مراد آبادی ۹۶ انس احمد مرزا.صاحبزادہ ۲۵۶،۹۶ ،۶۷ ،۶۶،۲ پال ٹیٹس (PAUL TIBBETS) ۱۲۲،۱۲۱،۱۰۰،۶۸، ۱۷۴،۱۶۱، ۱۸۲،۱۸۱ ، | پامر (HENR PALMER) ۵۲۵ | ۲۴۰،۲۰۶، ۲۵۷، ۴۶۴،۴۵۹، ۴۸۴،۴۶۷ ، پٹیل سنگھ انور حسین صاحب چوہدری (امیر ضلع شیخوپورہ) ۴۹۴ ، ۵۳۳،۵۲۶،۵۰۲،۵۰۱،۴۹۵، پرتاپ سنا انور محمد کمارا ۵۸۰،۴۹۸ ۵۷۷ ۵۸۵،۵۸۴،۵۸۰،۵۷۹،۵۶۰،۵۵۸، پریم ناتھ بزاز ۵۹۴،۵۹۲ تا ۶۷۵،۶۰۳،۶۰۰ | پکتھال اٹیلے (وزیر اعظم برطانیہ ) ۱۴۰،۱۲۷، بشیر احمد آرچرڈ ۳۵۰،۱۵۱ ۲۵۴،۲۵۲، پیتھک لارڈ ۶۶۰،۶۵۷ ،۶۵۶ ۲۵۵ ایشر سنگھ دھو بانی ( وزیر ہند ) ۲۲۱ بشیر احمد.خواجہ ایمباونٹس بی (B.AMBOUTS) ۶۶۵ بشیر احمد شیخ.حضرت ایڈووکیٹ ایمرے(وزیر ہند ) اینا آسلان (ڈاکٹر) ۶۵۴،۱۲۷ ۵۶۰ پیٹے (PETTE)ڈاکٹر ۶۷۴ پیر محمد ،۹۹ ۱۰۴ ۱۷۰ ۱۷۱، ۱۷۷، ۱۸۰،۱۷۸، ۱۸۷، تاج الدین انصاری اینگل اختر (ENGEL) ۱۸ بشیر احمد کیپٹن ایوٹ (H.V.EVATT) ۲۸۶ بشیر احمد مولوی صاحب ۵۸۰، ۶۱۸ تاج محمود.ماسٹر ۲۲۲ تارا سنگھ ۲۶۳ | تصدق حسین ۱۲۸ ۱۲۰ ۲۱۷ ،۱۵۶،۱۵۳،۱۲۳ ۳۲۶ ۱۲۰ ۱۴۱ 수료 ۴۰۱،۳۷۱ ۴۵۴ ۳۳۷ ۳۳۸

Page 728

5 تھمایا جنرل (THIMMA) ۲۱۳،۱۷۹، جواد علی.سید ۶۵۰ حنیفا ۲۱۴، ۲۱۷، ۳۳۶ جواہر لال نہرو.پنڈت ۱۲۳،۶۳،۵۴، حیدر خان منشی ۲۸۱،۲۸۰ ۱۷۰،۱۵۹ تھیوڈرل برل تیجا سنگھ.جسٹس شب مین (لائبیریا کے صدر ) ۵۴۱،۵۴۰ ۱۲۶ ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۵ ، ۱۴۷، ۱۴۸ ، حیرت مرزا.دھلوی ،۱۷۹،۱۵۹،۱۵۶،۱۵۳،۱۵۱،۱۵۰ خ ۲۱۵،۲۱۴،۲۰۶،۲۰۴، ۲۲۵،۲۱۷، خان برکت علی خان صاحب ۵۸۲ ۳۹ ۱۲۰ ۱۸۶ ۳۷۰،۳۵۲،۳۳۵ خان ڈاکٹر ۱۴۹ خان عبد القیوم خان (وزیر اعلی سرحد ) ۳۹۸ ۳۶۱،۳۱۸ جولیس نیر میرے (صدر تنزانیہ ) ۶۰۲ ۴۲۱ ٹرومین (امریکی صدر ) ۳۰۰،۱۲۸، جوگندرا ناتھ منڈل ٹورے شیخو ٹیک چند بخشی ثاقب زیروی ثناء اللہ عثمانی ج جارج آرول ۵۷۷ جوموکنیاٹا ( کینیا کے صدر ) ۴۳۶ | خلیل احمد مرزا صاحبزاده چ چرچل ۱۲۷ ،۵۸،۵۷ ،۴۵ ۲۲۳ خلیل احمد ناصر چوہدری مبلغ سلسلہ ۴۷۹، ۷۰۹ چندریگر ( گورنر پنجاب) ۴۲۴۱۴۹ ، ۴۲۷ خلیل الحامدی چیمبرلین (وزیراعظم برطانیه) ۵۷٬۴۴ خورشید احمد شیخ ۲۸۰ ۲۷۱ حبیب الرحمن احراری لیڈر) ۳۹۱۷۴۸ جان خان (نجی کے پہلے صدر جماعت) ۵۷۱ حذیفہ حضرت جان ہنری.ڈاکٹر ۶۵۱،۶۴۹،۶۴۸ ۴۳۸ ۲۴۰ خورشید احمد مرزا.حضرت صاحبزادہ ۵۳۸ ۴۸ داؤ د احمد.حضرت سید ۵۸۷ حسن بن علی ( شیراز کے شاہی خاندان کا ایک جلال الدین شمس حضرت مولانا ۳۵،۱۶، فرد) داؤد غزنوی ۵۵۶،۵۵۱،۲۴۱،۲۱۵،۲۱۴،۱۲۴،۱۱۷ ، حسن عطاء.حاجی ( غانین احمدی) ۶۲۵ دراب خان ۶۵۲،۶۰۸۰۵۵۹،۵۵۸ تا ۶۶۳،۶۵۶ ، حسن محمد ابراہیم سید ۶۶۵، ۷۰۲،۷۰۰،۶۹۹،۶۹۷ | حسن نظامی خواجه جلال الدین قمر مولوی صاحب ۶۳۹ ، حسین شہید سہروردی (وزیر اعظم پاکستان) ۶۴۱،۶۴۰ جمال احمد حضرت حافظ ۶۷۱،۶۷۰،۳۴ حشمت اللہ.حضرت ڈاکٹر جمال جانس (سیکرٹری جماعت غانا ) ۶۲۳ جمال حسینی جمپر (JUMPER) ڈاکٹر جنگ سنگھ.جنرل ۳۱۲،۲۹۰ | حمزه سنبالو ۶۰۶ | دولت احمد خان ۳۸۰ دین محمد جسٹس ،۴۶۵،۴۵۹ ۵۵۹،۴۷۵ , ۴۴۴ ۴۸ ۲۵۴ ۴۶۱ ۲۱۷، ۴۱۱ ڈسمنڈ شاہ (SHAW DESMOND )۴۸۲، ، ۴۴۱ ۶۶۰،۴۸۳ ۴۷۴،۴۶۸، ۶۹۹ ڈمنگ ڈائو.مواجہ (انڈونیشین احمدی) ۶۷۵ ۵۶۴ ڈنشا مہتا ۴۷۶ حمید اللہ صاحب چوہدری ۵۳۸،۳۲۸ ڈیسائی.بھولا بھائی ۳۲۶ | حمید نظامی ۵۱۷،۵۱۶،۳۹۷،۳۹۶ | ڈینیس.مسٹر ۲۱۷ ۱۲۵ ۲۹۴

Page 729

6 روشن علی.حضرت حافظ ذ کی حسن.ڈاکٹر ۶۹۲،۵۶۰ | رومیلو جنرل رابرٹ چارلس ۱۸ | سٹڈر(STUDER) ۲۹۶،۲۹۵ سٹرائف.ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب ( سرجن ڈاکٹر ) ۴۴۲، سٹوارٹ عبد الصادق راتھی چائیلڈ (ROTS CHILD) ۲۸۱ ریڈ کلف ۱۲۰ ۴۴۷ ، ۴۴۸، ۴۴۹ سٹیفرڈ.کرپس ۴۸۳ ۲۵۴ ۱۴۱ (STAFFORD CRIPP) | ، ۱۷۲،۱۶۶ ۱۶۵،۱۶۲،۱۶۰ ۴۴۴ ،۲۷۶ ۵۹۰ ۸۳ ۵۳۰ ۱۷ ۴۳ ۵۴۰ ۳۳ ۶۲۳ 1++ ۱۴۸ راڈ ویل (پادری) راحت ملک رام چندر رام چند کاک ۵۲۵ ۶۳ زار روس ۳۲۶ | زبیر حضرت رانیا ( صدر جنرل اسمبلی) ۲۹۹ زبیر ( جرمن نومسلم ) ۱۷۵،۱۷۳ | سراج الدین غازی سراج الدین پروفیسر ۵۸۹ | سرور شاہ.حضرت سید ۵۳۰،۴۸۹ | سعد بن ابی وقاص.حضرت ۴۷۶ سعود شہزادہ رحمت علی مولوی صاحب ۶۷۵،۳۸، زرتشت علیہ السلام.حضرت ۶۳ | سعید بن سلطان ۶۷۹،۶۷۶ | زمرمین ( ڈچ خاتون ) ۱۱۸،۱۱۷ | سعید و بنگورا رحمت علی ڈاکٹر ( برادر حضرت حافظ روشن علی زدیمر.ڈاکٹر صاحب) رستم بنی.ڈاکٹر ۶۴۸ سعیده ۵ زهدی مولوی صاحب ۶۸۲٬۶۸۰ | سفیر الدین ۶۹۱ | زیٹلینڈ.لارڈ (ZETLAND ) وزیر ہند ۲۳ سلطان احمد.حضرت مرزا رسل برا ئین.سر.ڈاکٹر ۴۷۸ زہدی لوا کی موسو کے ۶۴۴ سلطان احمد.سر سلیمہ بینک رشید احمد صاحب (ZAIDI LEAKI MUSOKE) | ۶۴۹ ت نیشنل پریذیڈنٹ امریکہ ) زین العابدین (حضرت سید ولی اللہ شاہ سمتھ (SMICHT) ڈاکٹر ۳۱۷ رشید احمد اسحاق صاحب ۶۸۹ | صاحب) ۲۰۲، ۵۵۲،۴۲۷ | سمٹس جنرل ۳۱۷ رشید احمد چغتائی ۶۸۶،۲۵۳ زینت حسن.ڈاکٹر رشید احمد مرزا ۲۲۰ س ۶۹۲ | سملد اس گاندھی سنگھا.ایس.پی ۳۲۸ ۱۶۹ رضیہ ۱۱۸ سائمنڈ.چارلس ۴۷۸ سننا ( سیرالیون کا ایک احمدی) ۶۰۷،۶۰۶ رفیع احمد مرزا.صاحبزادہ (CHARLES SYMOND) MA رمضان علی مولوی صاحب ۲۶ سبھاس چند را بوس روڈ ویل (RODWELL) ۹۲ سبھا سواستی سنوسی ( سیرالیون کا احمدی) ۴۸ سوئیکارنو ۲۸۶ سوری باکو (سیرالیون کا احمدی) ۶۱۲ ۶۷۸ روسیو پروفیسر (ROSSIER) ۴۶۸، ۴۷۸ ستیلو اڈ.( کانگرس کے وکیل ) ۱۶۵، سید احمد صاحب بریلوی.حضرت ۲۵۳ روشن دین مولوی صاحب روشن دین تنویر صاحب ۱۸۹ سٹالن ۶۱۰ ۵۴۹ ۱۷۱، ۳۴۰ ،۳۴۴،۳۴۳ سیف الرحمن - حضرت ملک ۱۸۶،۸۳، ۳۷۵،۵۷ ۱۸۷

Page 730

7 سیل.جارج (SALF GEORGE ، | صالح شیخ ۱۲۰،۱۱۹ شافعی.حضرت امام شا کا بامبا ۵۷۵ | صفدر محمود.ڈاکٹر شاہجہان شاہ محمد سید شاہنواز بھٹو ۴۶۱ صالح معلم ۱۱،۱۰ عبد الحق حضرت مرزا عبدالحق ۶۲۲،۶۲۱ | عبدالحق شیخ صدر الدین مولانا ( امیر اہل پیغام) ۵۰۸ عبد الحق منگلی مولوی صاحب صدیق حسن خان نواب ۲۷۹ عبدالحکیم چوہدری ۵۸۰،۴۴۷ 121 ۶۱۳ ۵۷۰ ۱۲۰ عبدالحمید ( حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ حملہ ۴۳۰ عبدالحکیم ڈاکٹر ۶۸۱،۶۷۹ ض ۳۳۶ | ضیاءالدین.ڈاکٹر ۶۳۴۶۱۷،۵۷۳ شاہنواز.ڈاکٹر ۶۱۷،۵۷۲ | ضیاءالدین مفتی کرنے والا ) ۳۲۹ | عبدالحمید ڈاھڈا ،۴۵۳،۴۵۰ ، ۴۴۳ ۴۴۰ ۴۵۵،۴۵۴ ۵۲۳،۴۹۹ شبیر.مولوی ۴۵۴ ضیاء اللہ ( مبلغ سلسلہ مشرقی افریقہ) ۶۳۸ عبدالحمید میجر ۶۵۱ شبیر احمد عثمانی.مولوی ۳۷۸ شجاع الدین خلیفہ ۱۶۳ طارق بن زیاد b ۱۱۴ عبدالحی (ابن حضرت خلیفہ اول ۴۹۵ ۴۹۶ شجاع شاہ ۳۹،۳۸ | طاہر احمد حضرت مرزا ۴۶۵،۱۹۵،۱۱۰ ، عبدالحی میاں مبلغ سلسلہ ۶۸۰ شرمیت لاله شریف احمد ( حضرت مرزا) ۹۴ ،٢٢٣،١٠١ ۵۳۶،۵۳۵، ۵۵۲،۵۵۱،۵۳۹،۵۳۸ ، عبد الخالق.مولوی صاحب ۷۰۲،۶۹۵،۶۹۳،۶۹۲۶۵۸،۵۵۹ عبدالرب نشتر.سردار ۴۲۵، ۵۸۱،۴۲۶ تا ۵۹۸،۵۸۶، ۶۵۷ | طلحہ - حضرت ۵۳۱،۴۸۹ شریف احمد باجوہ شریف احمد چوہدری ۴۴۷ ظ عبدالرحمن ( نائیجیرین احمدی) ۱۷۷ ظفر احمد مرزا ۶۳۰،۶۲۴ ،۱۴۹،۱۴۸ ۴۲۵،۳۷۷ ۶۳۵ شریف اشرف صاحب ۴۶۵ | ظفر اللہ کاخ ۲۲۳ عبد الرحمن انور صاحب ۷۰۰،۶۹۹٬۵۵۹ ۱۱۷ عبدالرحمن بن خالد بن ولید ۲۲ ظفر علی خان (ایڈیٹر زمیندار ) ۱۳۴۷۷، عبدالرحمن بن عوف ۳۸۹،۳۷۰،۱۹۹، ۴۰۷ عبد الرحمن بنگالی صاحب عبدالرحمن جٹ صاحب شریف دو تسا (VOTSA) شفیق شیب ( فلسطین کے ایک احمدی ) ۶۸۶ شوکت حیات.سردار ۲۳۷،۱۴۰،۱۳۹ ظہور احمد باجوہ.چوہدری شہاب الدین سہروردی ۵۴۸ ۶۵۹،۶۵۸ | عبد الرحمن قریشی شیر محمد صاحب ۶۸۲ ع عبدالرحیم احمد ۴۹۰ ۵۳۰ ۶۵۱ ۲۲۳ ۲۲۲ ۶۸۵ ۱۰۷ شیر علی حضرت مولانا ۱۵، ۷۷، ۷۸، عبدالباری ( سیرالیون کے ایک احمدی ) ۶۱۰ عبدالرحیم.خواجہ ۵۳۱،۱۲۲،۱۲۱ | عبدالباری میاں ( ناظر بیت المال) ۱۸۶ | عبدالرحیم درد.حضرت مولانا ص عبدالجامی صادق حسین ڈاکٹر ۶۹۲۶۹۱ | عبدالحق پنڈر ۱۶۴ ،۲۱۳،۲۰۱،۱۸۶،۱۶۴،۱۶۱،۱۰۴ ،۱۰۳،۷۵ ۶۳۵ ۴۹۶،۲۱۴ ۲۵۳

Page 731

8 عبدالرحیم نیر.حضرت مولانا ۲۷،۱۵، عبدالغفور صوفی ۵۷۲،۵۴۴،۵۴۰،۳۲،۳۱،۳۰ | عبدالغنی صاحب.امیر بر ما ۲۴۰ عبد الغنی مرزا عبد الرزاق خان ۶۵۱ | عبدالمنان عمر میاں ۶۷۴ ،۴۹۸ ،۴۹۷ ،۵۱۲،۵۱۱،۵۱۰،۵۰۷ ، ۵۰۲،۵۰۱،۴۹۹ ۵۱۴، ۵۱۵، ۵۱۸ تا ۵۲۶،۵۲۳ تا ۵۲۸ عبدالرزاق شاہ صاحب ۶۹۹،۵۵۹ | عبدالقادر (مالا بار کے تاجر ) ۱۱۵ | عبدالواحد مولوی صاحب عبدالرشید صاحب ( مبلغ انڈونیشیا) ۶۸۱ عبد القادر جکنی عبدالقادر ۲۴۰ عبدالقادر ضیغم مولانا ۵۶۷ | عبد الواحد شیخ صاحب ۶۴۹ | عبدالواحد سماٹری ۴۲،۳۸ ۵۷۱،۵۷۰ ۶۸۰ عبدالرشید (میاں) عبدالرشید اشک ۳۹۱ عبد القدیر صاحب نیاز - صوفی ۴۱، ۱۸۷ عبد الوهاب مولوی ( پسر حضرت خلیفہ اول) عبدالرشید قریشی صاحب ۴۸۰،۴۶۵ | عبدالکریم ڈنکر ۶۹۱ | عبدالکریم شر ما.مولانا ۶۸۶ | عبداللطیف صاحب ۴۷۷ ،۳۷۶،۲۵۲ ،۵۰۳،۵۰۱،۵۰۰ ، ۴۹ ۷ ، ۴۹۶ ،۴۹۵ ۵۲۷ ،۵۲۳،۵۱۸،۵۱۲،۵۰۴ عبدالرؤف ڈاکٹر عبدالرؤف حصنی ۶۴۴۶۴۱ ۴۶۵ عبدالوهاب آدم (امیر غانا مشن) ۶۲۵ عبدالستار نیازی.مولوی ۴۱۱، ۴۱۹ عبد اللطیف چوہدری مبلغ سلسلہ ۲۵۲،۱۱۶ | عبدالوھاب او جوی عبد السلام اختر ۲۴۱ ۶۳۰ ۴۷۵، ۴۷۶، ۴۷۹، ۵۴۴ ۶۶۳ تا ۶۶۶ عبید اللہ مولوی.شہید ماریشس ۶۷۱،۳۴ عبد السلام عمر میاں (پسر حضرت خلیفہ اوّل) عبد اللطیف چوہدری اوور سیئر ۲۴۴ | عبیدی ( والد عمری عبیدی ) ۴۹۴ عبداللطیف دلیوی (ایک نومسلم) ۴۷۵ عثمان - حضرت خلیفہ سوم عبد السلام میڈسن صاحب عبدالسلام میر عبد الشکور کنزے ۵۴۷،۵۴۴ ۶۵۹ عبد الله الفا ۴۷۷ ۶۱۱،۵۴۰ ۶۰۱ ،۱۸۱،۷۲ ۴۸۷ تا ۴۹۳،۴۹۱، ۴۹۴، ۵۰۲،۴۹۹، ۶۶۶ | عبدالله بن حسین (شاہ اُردن ) ۲۵۳ عثمان شیخ عبدالعزیز (سیلون کے احمدی) ۴۰،۳۹ عبد اللہ بن سبا عبد العزیزی بیولا ( نائیجیرین احمدی) ۶۳۰ عبداللہ بن عمر حضرت ۵۳۱،۵۳۰،۵۰۷،۵۰۴،۵۰۳ ۱۱۸ ۲۷ ،۲۶ ۴۸۷ تا ۴۹۲ | عثمان فودیو.حضرت ۴۹۰ عثمان ناجی ۲۸۹ | عبداللہ خان.حضرت نواب ۱۷۸، عثمان یعقوب عبد العزیز جمن عبدالعزیز ڈین عبد العزیز سیالکوٹی ۶۶۲۶۵۵ ۶۸۸ | عبد اللہ شاہ مولوی عبدالعزیز شریف ۶۷۵ عبدالله صالح شیخ عبد العزیز مولوی ۱۸۶، ۲۳۵ | عزیز احمد باجوہ ۴۳۵ | عزیز احمد مرزا.حضرت ۵۶۶ ۹ ۲۳۵،۲۳۴ ،۲۱۳،۲۰۶،۷۸ ۴۳۷ ، ۴۳۸ ۲۱۴ ، ۲۴۷ ، ۵۸۲،۵۵۹، ۶۹۹،۵۹۸ تا ۷۰۲ ۲۰۲ عبد اللہ کہنے ( جر من احمدی) ۶۶۵،۶۳۳ عزیز احمد صاحب ملک ۶۷۹ تا ۶۸۱ عبد العزیز صدیقی ۶۴۲،۴۳۵ | عبدالله مالا باری مولوی صاحب ۴۱ عزیز دین عبد الغفور ( جالندھری) ۴۱ ۴۲ عبدالله محمد (اُردن کے پہلے احمدی) ۲۵۳ عشرت.ڈاکٹر ۶۸۹ | عبدالماجد دریا آبادی ۱۰ عطاء الرحمن ملک صاحب عبدالغفور ( جمن بخش) عبدالغفور ( مشرقی افریقہ کا احمدی) ۹ | عبدالمالک خان مولانا ۶۹۹،۴۶۵ | عطاء اللہ مولوی صاحب ( مبلغ سلسلہ) ۴۵۴ ۶۹۱ ۱۱۴

Page 732

9 عطاء اللہ شاہ بخاری ۲۷۳،۲۳۷، غلام احمد بدوملہی مولانا ۳۶۶، ۳۷۴،۳۷۱،۳۷۰،۳۶۸،۳۶۷ ، غلام احمد بشیر مولوی صاحب ۴۲۷ ،۴۰۲،۳۸۲،۳۷۹،۳۷۸ ،۳۷۷ عطاء اللہ کلیم مولانا عطاء اللہ کیپٹن عطاء المجیب راشد مولانا ۵۶۹ غلام رسول را جیکی حضرت مولا نا ۵۵۲ ۶۰۳۰ ۴۷۵،۱۱۶ ، غلام سرور حافظ ۱۲۰ ۴۷۹، ۶۶۴۰۶۶۳،۶۵۵ غلام فرید حضرت ملک ۲۵۲،۱۲۲،۱۲۱،۱۵ ۴۴۸ ۶۹۹ ،۳۹،۳۴ ۶۲۶ غلام احمد مبشر مولوی صاحب ۱۱۸ غلام قا در فصیح منشی قادر ۱۸۲ غلام احمد قادیانی حضرت مرزا ( مسیح موعود )، غلام محمد حضرت صوفی ۲۲،۲۱،۱۵،۹،۶،۵، ۳۴،۲۷، ۳۹، ۴۰ ۴۳۰ ، غلام محمد (وزیر خزانہ.و گورنر جنرل پاکستان ) ۵۳۷ علا والدین (جنوبی افریقہ کا احمدی) ۶۴۷ ۶۳،۶۲،۶۱،۵۹، ۶۸،۶۷، ۷۰ تا ۸۲،۷۳، علی حضرت خلیفہ چہارم ،۷۲،۶۶ ۵۳۱،۵۳۰،۴۹۲،۴۹۱،۴۸۹ ،۱۸۱،۸۵ على (الحاج) علی مانسرے.شیخ علی محمد راجه عمر حضرت.خلیفہ دوم ۵۴۰ ۶۱۰ ۴۷۰،۴۶۹،۲۵۹ ۸۴ ۸۷ ۸۸ ۹۰ ۹۱ ۹۲ ۴ ۹ تا ۱۱۰،۱۰۷، غلام محمد اختر میاں.ناظر اعلیٰ ۴۸۴،۴۵۹ ،۱۸۲،۱۷۸،۱۵۵ ،۱۲۴،۱۲۱ ،۱۲۰،۱۱۸،۱۱۴ ۵۵۹ ۱۸۶،۱۸۵،۱۸۳، ۲۰۱،۱۹۴۱۹۰،۱۸۸، غلام نبی گلکار.انور ۳۲۹ تا ۳۳۴،۳۳۱ ۲۲۲،۲۲۰ ۲۲۳ ۲۲۴، ۲۴۱،۲۲۵، ۲۳۸، غلام یسین چوہدری ( مبلغ امریکہ )۶۴۹٬۶۴۸ ۲۳۴ | ۲۸۰،۲۵۸،۲۵۶، ۳۸۸،۳۸۳٬۳۸۱،۳۷۸، غوث محمد اکبر ،۴۸۸،۱۸۱ ، ۴۸۴،۴۶۷ ، ۴۵۲ ، ۴۴۸ ، ۴۲۸ ، ۴۲۵ ۳۹ ،۵۳۲،۵۳۱،۵۳۰، ۵۲۸ ،۵۰ ۴۵۰۲۴۹۲ ۵۳۰ ، ۴۸۹ عمر جاہ (سیرالیون کے ایک لوکل مبلغ ) ۶۰۷، ۵۵۴،۵۴۶،۵۴۵،۵۴۴،۵۳۶،۵۳۳، فارس خوری ۵۶۶ ،۵۷۰ ،۵۸۵،۵۸۳،۵۸۱،۵۷۵، فار یماسنگھاٹے عمر و بن العاص ۶۱۰ ،۶۰۱،۶۰۰،۵۹۸،۵۹۶،۵۹۵،۵۹۲،۵۹۰ ۴۹۰ عمر ہوفر (HOFFER) ۲۵۲ ۶۳۴،۶۲۰،۶۰۶، ۶۴۷،۶۴۴،۶۴۲،۶۳۸، فایاکسی ۳۱۴ ۵۶۶ ،۵۶۹،۵۶۷ ۵۷۷ عمری عبیدی ۱۳، ۶۰۱،۴۳۶ تا ۶۰۴، ۶۵۶،۶۵۰، ۶۵۷ ۶۶۰۰ ، ۶۶۱ ۶۶۲، ۶۶۹ ، فتح محمد سیال حضرت چوہدری ۷۸،۷۱،۱۵، ۶۴۱،۶۳۹،۶۳۸ عنایت اللہ صاحب چوہدری عنایت اللہ صاحب خلیل ۶۴۴ ۶۴۴ ۲۰۲،۱۴۰،۱۳۹،۱۰۰ ۶۹۵،۶۹۴،۶۹۲،۶۸۹،۶۸۴ ، | فرانک براؤن (لندن کے میئر ) ۷۰۱ تا ۷۱۳،۷۱۰،۷۰۹،۷۰۶ | فرانکو جنرل عیسی علیہ السلام.حضرت ۶۱ ۶۳ ، ۲۴۱، غلام حیدر بھروانہ ۲۸۰،۲۷۹، ۶۱۰،۵۹۰،۵۸۹،۴۹۳،۴۴۵ ، غلام حسن خان.حضرت مولوی ۵۹۳ | فرینک براؤن.سر ۹۸ ۶۸۳،۶۸۲ ،۴۲ ۴۸۲ ۶۶۹ ۶۵۴ ،۳۲،۳۰،۲۸ فضل الرحمن حکیم.حضرت ۶۲۱،۵۷۲،۳۳، ۶۲۸ تا ۶۳۵،۶۳۱ غلام رسول ( نجی کے مقامی احمدی) ۵۷۱ فضل الہی انوری صاحب ۶۵۴۶۴۸ | غلام حسین ایاز غ غضفر علی خان غضفر علی راجہ ۱۴۹ ۲۱۳ غلام رسول نمبر ۳۵ ( فتنہ منافقین میں ملوث ) فضل الہی بشیر.مولانا ۵۲۳ ،۶۴۰،۶۳۹ ۶۷۲،۶۴۱

Page 733

10 فوادشاه فوزیہ.صاحبزادی ( بنت حضرت نواب لمة الحفیظ بیگم ) فیرشا(FARE SHAW) فیروز خان نون ۲۶۰،۱۴۸ گاندھی مہاتما فقیر محمد میاں حضرت ۶۷ کفایت اللہ مولانا ۳۷۰ لال حسین اختر فلپ.مسٹر ( آئرش نواحمدی ) ۶۵۹ کمال الدین خواجه ۹۹، ۶۴۷ | لال شاہ بخاری ۶۴۲،۹ ،۸،۷ ۴۶۶ فلپ کنلف لسٹر ( و زیر نو آبادیات ہند ) ۲۸۳ کمال یوسف ۴۴ ۵ تا ۵۴۶ | لامین بارا (افریقن ) ۵۶۲ تا ۵۶۶ ۴۴۷ کوریو (CORIO) ایک اطالوی باشنده ۲۳ لطف الرحمن مرزا فلک شیر بھروانہ ۲۰ کیانی ۳۳۰ لطیف (احمدی پائلٹ ) لطیفہ کریم ۶۶۲ گاڈفری ڈیل (GODFREY DALE) لیاقت علی خان نوابزاده ۲۵۲ ۴۳۵ ،۱۲۶،۵۵،۵۴ ،۵۳،۴۹ ۶۶۷،۵۷۸ ۱۷۴،۱۵۲ ،۱۴۸ ،۱۲۵ ۳۸۷ ،۳۳۹،۱۷۲،۱۴۹ پنڈت ۹۶،۹۴، ۱۰۱،۱۰۰،۹۸،۹۷ فیصل (شہزادہ.شاہ) ،۲۹۳،۱۷ ۳۱۲،۳۰۱ ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۴۳ ۱۴۶ تا ۱۵۶،۱۵۳،۱۴۹، لینلی تھگو.لارڈ ۲۱۴،۲۰۵، ۲۱۷، ۲۲۹، ۳۲۶،۲۳۷، ۳۲۸، لیوپولڈشاہ ۴۹ ۶۵۴ فیض احمد فیض ۳۲۸،۲۱۲ ۳۶۷ ،۳۴۵ ق قاسم خان ۵۷۰ گرومیکو قدرت اللہ حضرت حافظ ۱۱۷، گریسی جنرل ۶۸۱،۶۵۵ | گرین.مسٹر ۶۵۵،۶۵۴ مبارک احمد شیخ مولانا گر جاشنکر.باجپائی ۳۴۰ مالک.حضرت امام ۳۴۲،۳۰۳ ماؤنٹ بیٹن.لارڈ Al ،۱۶۰،۱۵۳،۱۵۱ ۳۵۰،۳۲۴ ۳۳۵ ،۱۰،۸،۷ ،۶۴۱،۶۴۰،۶۳۸،۶۳۷ ،۶۰۱،۴۳۵ ۱۹ ۶۴۵،۶۴۳ (GRAND DUKE WITOLD) قربان علی ۳۹۴ گرینڈ ڈیوک وائسٹولڈ کارل.سر ۲۸۷ گلاب سنگھ.راجہ کارلائل ۹۲ گلانسی (گورنر پنجاب) ۳۲۹،۳۲۵ | مبارک احمد قاضی ۵۷۸ ۱۲۷ مبارک احمد مرزا ( پسر حضرت مسیح موعود ) کرائپا (CARIAPA) گل بابا ۱۸ ۷۰۶،۷۰۵،۲۵۶ کراف(DR.KRAPF) گل محمد مرزا ۲۲۰ مبارک احمد مرزا.صاحبزادہ کرپس ۳۵۰ گنارا برکسن ( سویڈش جوان) ( پسر حضرت مصلح موعود ) ،۳۵۵،۳۵۳ کرزن.لارڈ کرشن علیہ السلام - حضرت ۶۱ ۶۳ کیسل (GISEL) ہومیوڈاکٹر کرشنامورتی کرم الہی ظفر ۴۷۹،۱۱۶،۱۱۵ ، لاج.وائسرائے ۶۷۰،۶۶۹،۶۶۸۰۶۵۵،۵۴۶ | لاس.مسٹر ۱۲۶ مبارک احمد ملک صاحب ۴۶۹ | مبارک علی مولوی ۵۴۳ (GUNNAR ERICSSON | ۱۶۸ ،۶۶۷،۶۶۶،۶۵۱،۶۳۶،۶۲۷ ، ۵۸۰ ۴۶۹ ۶۹۳،۶۸۲ ۲۱۷ ، ۵۷۶،۴۸۰،۴۷۵ ، ۴۷۰ ، ۴۶۹ ،۴۶۵ ۶۸۸،۴۶۵ ۲۵۱

Page 734

11 مبارکہ بیگم.حضرت نواب ۴۶۷ ۴۸ ، محمد اسحاق چوہدری محمد تواره ۷۰۰،۶۹۴،۵۸۵،۵۸۴۴۹۶ (ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ) ۴۴۹ محمد توفيق الصفدي محمد رسول الله الله حضرت خاتم الانبیاء محمد اسحاق صوفی صاحب ۵۴۱ تا ۵۴۳، محمد حسین صاحب (آف یوگنڈا) ،۷۴۷۲،۷۰ ،۶۷ ،۶۶،۶۳،۱۶،۵،۴ ۱۳ محمدحسین چیمہ کیپٹن ۹۲،۸۶،۸۵،۸۲،۸۱،۸۰،۷۵، ۱۲۰،۱۱۹ ، محمد اسحاق ( حضرت میر ) ۸۳۶۷، محمد حنیف یعقوب صاحب ( مبلغ ) ۲۴۷ ،۲۴۳ ،۲۴۲،۲۲۴،۱۸۰ ،۱۷۶،۱۲۱ ۶۵۸،۵۹۸،۵۵۴ ۵۷۱ ۴۶۸ ۶۴۵ ۲۵۵،۲۵۴ ۲۷۲،۲۵۲۰۲۵۱ ۳۸۳،۳۲۰،۲۸۰،۲۷۳، محمد اسحاق صاحب ( مبلغ سلسله ) ۱۱۵،۴۲ محمد حیات قیصرانی صاحب کرنل ۳۵۴، ۳۵۵ ۳۹۵،۳۹۲٬۳۸۹،۳۸۸،۳۸۴، ۳۹۸، محمد اسحاق ساقی ۶۸۹،۶۵۵،۲۵۴ | محمد در خبانی.السید ،۴۷۹،۴۵۳،۴۵۲۰ ۴۵۱،۴۴۹ ،۴۳۶،۴۰۱ ۴۶۸ محمد اسلم ( مولوی معاند سلسله ) ۴۵۴ محمد دین مولوی صاحب ( مبلغ البانیہ ) ۲۱ ۴۸۶،۴۸۲، ۵۰۲،۴۹۴،۴۹۲،۴۸۹،۲۸۸، محمد اسلم قاضی.حضرت ،۵۹۶،۵۹۳،۵۹۲،۵۷۵،۵۳۰، ۵۰۵ ،۶۶۶،۶۶۰،۶۵۸ ،۶۴۸ ،۶۴۱ ، ۶۰۰ ۱۲۲ محمد اسمعیل (حضرت ڈاکٹر ) ۱۷۴ محمد رمضان محمد اسمعیل (مفتی) ۱۸ محمد زکریا ۷۳۱،۷۱۱،۶۸۴ محمد اسمعیل ( هلالپوری حضرت مولوی ) محمد زهدی مولوی صاحب محمد صاحب (صوبائی امیر ڈھاکہ) ۴۶۱ ۸۳، ۸۸ | محمد سعید انصاری صاحب محمد (مالی کے ایک دوست ) ۵۷۵ محمد اسمعیل منیر صاحب ۶۸۴۶۷۲ ، محمد سلیم مولانا محمد آرتھر ( غانین احمدی) ۶۲۵ محمد ابراہیم مولوی (صدر جماعت سیلون ) محمد الدین.حضرت نواب ۶۸۸،۳۶،۲۳۲۲ ۵۷۰ ۳۸۴ ۱۱۵ ۶۸۳،۶۷۹ ۲۸۵ محمد شریف چوہدری صاحب ( مبلغ فلسطین) ۲۳۶،۱۸۶ ۴۰ ۴۱ محمد الدین.حضرت مولوی صاحب ۶۳۰،۲۵ ۳۵، ۵۶۵،۱۸۷ تا ۶۸۵،۵۶۹، محمد ابراہیم حکیم مولوی صاحب ( مبلغ سلسلہ) محمد افضل قریشی صاحب ۶۳۱،۵۷۶ | محمد شریف صاحب گجراتی ۶۴۰،۶۳۹ محمد افضل (حضرت میاں ) ۵ محمد شریف صاحب ملک ۱۸ محمد اقبال ( پہریدار حضرت مصلح موعود ) محمد شفیع اشرف صاحب ۶۸۸،۶۸۶ ۱۱۵ ۲۳ ۵۲۵ ۶۸۴ ،۲۵،۲۴،۱۵ ۴۴۰ محمد شمیم مولوی صاحب محمد اکرم.ڈاکٹر ۶۱۷ | محمد صادق مفتی.حضرت ۴۷۷ ، ۴۷۵ ۶۹۹ محمد ابراہیم ناصر محمد ابوبکر ایوب صاحب محمد احمد جلیل مولانا محمد احمد سید ۲۰۱۷۱۷۹،۱۷۴ | محمد امین احسینی محمد احمد مظہر ( حضرت شیخ ۲۳۵، ۴۴۷ ، محمد ایوب محمد احمد منگتا ۵۸۰٬۵۵۸،۵۵۱ | محمد ایوب خان صدر پاکستان ۵۶۶ محمد بن ابی بکر محمد اسحاق الحاج ( صدر جماعت غانا ) ۶۲۳ محمد بن ابی حذیفہ ۵۶۸ ۳۱۴ محمد صادق سماٹری مولانا ۵۹۳ ۴۹۰ | محمد صادق (امریکہ کے احمدی) ۴۱،۳۱ ،۶۷۶،۳۷ ۶۸۳،۶۷۷ ۶۵۱ ۴۹۰ محمد صدیق صاحب (لائبریرین) ۲۴۱،۱۸۷

Page 735

12 ۵۴۱،۵۴۰، محمد علی چوہدری (وزیر اعظم پاکستان) ۱۴۹ محمد صدیق امرتسری مولانا ۶۱۳،۶۱۱،۶۰۹،۶۰۸ تا ۶۱۷ ۳۵۱،۳۴۰،۱۷۳،۱۷۲ ،۲۳۴،۲۳۳،۲۲۹ ،۲۲۸ ،۲۲۶،۲۲۴ ۲۲۳ ۲۳۶،۲۳۵، ۲۳۸ تا ۲۴۵، ۲۴۷، ۲۴۸ ۲۵۳،۲۵۱۵۳۲ ۲۴ ۲۵ ۲۵۶ ، ۲۵۹،۲۵۷ تا ۰۲۶۳ محمد ظفر اللہ خان چوہدری سر حضرت ۶۶ ، محمد علی خان.حضرت نواب ۱۳۲،۱۲۲،۱۱۱،۱۰۵،۷۱، ۱۶۱،۱۵۹، ۱۶۲ ۱۶۴، محمد علی سید (دمشق کا احمدی) ۶۸۶ ۲۷۰، ۳۱۸،۳۱۶،۲۸۳،۲۸۰،۲۷۶ تا ۳۲۱ ۱۷۲،۱۷۱، ۲۰۱،۱۸۷، ۲۱۴،۲۰۶، ۲۳۸، محمد علی مولوی صاحب (امیر اہل پیغام ) ۱۲۰ ۲۸۴،۲۸۳، ۲۸۶ تا ۲۹۲ ۲۹۴۰، ۲۹۹،۲۹۵، محمد غزالی الحاج ۳۰۵،۳۰۴،۳۰۳،۳۰۱، ۳۱۰،۳۰۷ تا ۳۱۶، محمد قاسم نانوتوی مولانا ۳۱۹، ۳۳۹ تا ۳۴۴، ۳۴۷ تا ۳۷۲،۳۵۲، محمد کما را ۳۷۴،۳۷۳، ۳۹۲،۳۹۰،۳۸۵،۳۷۸، محمد منور مولانا ۳۹۶، ۳۹۷ تا ۴۰۴ ، ۴۱۸ ، ۴۵۸ ،۴۶۳ ، محمد منیر جسٹس ۴۶۵، ۴۶۶ ، ۴۶۸ تا ۴۷۲، ۴۰ ۴۷۹،۴۷ ، محمد نبی خان.طبیب ۲۸۰ ،۴۹۵، ۶۲۹،۶۰۳،۵۱۲،۵۰۶،۴۹۸، محمدی بیگم ۶۶۹،۶۶۶ | محمد یوسف صراف ۳۳۱،۳۲۶، محمد یوسف کرنل محمد عبداللہ شیخ شر کشمیر ۳۵۰،۳۴۶،۳۴۰،۳۳۶،۳۳۴،۳۳۲، محمد یونس مولوی محمد عبد اللہ قادری ۵۷۶ ،۳۵۵،۳۳۷ ،۳۳۳،۳۲۹ ،۳۲۸ ،۳۲۶ ،۳۷۶،۳۶۵،۳۶۲،۳۶۱،۳۵۸،۳۵۶ ۳۸۹،۳۸۷ ،۳۸۶،۳۸۱ ،۳۷۸ ،۳۷۷ ۵۴۹ ، ۴۰۵ ،۴۰۴ ،۴۰۲،۴۰۱ ،۳۹۷ ،۳۹۵،۳۹۴ ۵۴۰ ، ۴۲۶ ،۴۲۲،۴۲۱ ،۴۱۷ ، ۴۱۶ ،۴۰۸ ، ۴۰۶ ۶۴۱،۴۳۶ ۱۷۲،۱۶۶،۱۵۹ ۵۶۰ ۴۲۷، ۴۳۶، ۴۳۹ ، ۴۴۰ ۴۴۲ تا ۴۴۶ ، ۴۴۸ ، ۴۴۹، ۴، ۴۵ ، ۴۵۵ ، ۴۵۷ تا ۴ ۴۸ ، ۴۹۳۴۹۱۸ تا ۵۰۸ ۵۱۰ تا ۵۱۳، ۵۱۷ تا ۵۲۱ ۵۲۳، ۵۲۵ تا ۵۳۱،۵۲۸ تا ۵۳۶ ۵۴۰ تا ۵۴۸۰۵۴۶ تا ۵۵۵۰۵۵۲ تا ۵۶۱، ۳۲۸ ۶۳۳ ،۵۸۴،۵۸۲،۵۸۰، ۵۷۹،۵۷۸ ،۵۷۰ ۴۵۳ ۳۷۲،۳۵۲،۳۵۱ محمد یعقوب مولوی صاحب ۵۵۶،۵۵۵، ۵۹۶،۵۸۵ تا ۵۹۸ ،۶۰۰، ۶۱۳،۶۱۱،۶۰۸، ۳۲۹ ،۶۲۸،۶۲۶۵۶۲۳،۶۱۹ ،۶۱۷ ،۶۱۶۰۶۱۵ ۵۵۹ ۱۵، ۲۴۷ محمود احمد.حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ محمد عبد اللہ.حضرت قاضی ،۶۴۳،۶۴۱،۶۴۰،۶۳۸ ،۶۳۲،۶۳۱،۶۲۹ محمد عثمان مولوی ۶۵۵ محمد علی جناح.حضرت قائد اعظم ا، ،۶۵۳،۶۵۰،۶۴۹ ،۶۴۷ ،۶۴۵ ،۶۵۴ ،۳۹،۳۸ ،۳۴،۲۸ ،۲۵،۲۱،۲۰،۱۳۹،۷،۲ ۶۵۴ تا ۶۶۸،۶۶۶۰۶۶۵۰۶۶۳۰۶۶۱، ،۶۳،۶۲،۵۹،۵۸ ،۵۱،۴۶ ،۴۵ ، ۴۳،۴۰ ،۱۴۶،۱۴۰،۱۳۹،۱۳۸ ،۱۳۴ ،۱۳۲،۱۲۷ ،۱۲۶ ۶۵ تا ۷۴ ۷۶ ۹۰،۸۸،۸۳،۷۸،۷۷، ۱۴۷، ۱۶۶،۱۶۳،۱۶۱،۱۶۰،۱۵۵،۱۵۳،۱۴۸ ، ۹۱ ۹۴ ۹۶، ۹۸ تا ۱۰۰ ۱۰۲ تا ۱۱۰،۱۰۹،۱۰۵، ،۱۳۶،۱۳۵،۱۲۳،۱۲۲،۱۲۱ ،۱۱۹ ،۱۱۵ ۱۱۴ ۱۱۱ ، ۲۳۸ ،۲۳۷ ،۲۳۰،۲۲۹،۲۱۴،۱۷۳،۱۷۲ ،۱۴۷ ، ۱۴۶،۱۴۵ ،۱۴۴ ،۱۴۲ ۱۴۱ ۱۳۹،۱۳۸ ،۲۷۶،۲۷۱ ،۲۶۹،۲۶۸،۲۶۷ ،۲۶۴ ،۳۳۹،۳۳۵،۳۳۱،۳۱۶،۲۷۷ ۳۶۸ تا ۳۹۹،۳۷۵،۳۷۱، ۴۲۴،۳۰۷ ،۶۸۴۶۸۱،۶۸۰۰۶۷۹،۶۷۸ ۶۸۶ تا ۶۹۶،۶۹۴،۶۹۳،۶۹۱۰۶۸۸، ۶۹۷ تا ۷۰۴،۷۰۲ تا ۷۰۹،۷۰۶ تا ۷۱۳ ۱۵۲،۱۴۸ ۱۵۴ ۱۵۵ ۱۵۶، ۱۵۸،۱۵۷، | محمود احمد (مولانا نذیر احمد مبشر کے خسر ) ۱۶۱ ۱۶۴ ۱۶۵ ، ۱۷۳،۱۷۱ تا ۱۷۸ محمد علی چوہدری ( پروفیسر تعلیم الاسلام کالج) ۱۸۰ تا ۱۸۳، ۱۸۶ تا۱۹۰ ۱۹۴ تا ۲۰۳٬۲۰۱، محموداحمد چیمہ صاحب ۴۹۹ ،۱۹۳ ۲۰۶، ۲۲۲٬۲۱۸،۲۱۷،۲۱۲،۲۰۸،۲۰۷، محموداحمد میجر صاحب ۶۲۴ ۲۲۲

Page 736

محمود احمد ناصر صاحب میر محمودا گانڈی محمود اللہ شاہ سید محمودعبدالمطلب 13 ۴۷۹، ۶۵۸ | مظہر علی اظہر ۵۷۸ | مظہر علی خان ۲۴۱ | معاذ بن جبل.حضرت ۶۸۹ | معاویہ.حضرت ۳۶۹،۳۶۷، مودی فرانس ۲۴۹ ۳۹۶، ۳۹۷ موسیٰ علیہ السلام.حضرت ۱۸۲،۶۳،۶۱، ۸۰ ۴۹۱ موسیٰ بن نصیر ۵۰۵،۲۸۰ ۱۱۴ محموده ۱۷ معین الدین چشتی.حضرت خواجہ ۵۴۸ | موسی سمپا (SEMPA) محی الدین (صدر جماعت انڈونیشیا) مقبول احمد قریشی صاحب ۶۷۸ ( مبلغ آئیوری کوسٹ ) ۵۷۴ تا ۶۵۸،۵۷۶ ۶۴۴ موسیٰ کے گابا(MUSA.K.GERBER) ۳۰ مرتضی حبیب ( نائیجیرین احمدی ) مر.ایک آسٹریلین ڈاکٹر ۵۹۹ | مولو د احمد خان صاحب ۶۶۰،۶۵۹،۴۷۹ ۶۳۵ ممتاز دولتانه ۴۰۰،۳۹۵،۳۹۰،۳۸۷ ، مومن کوری (غانین احمدی) مرد ولا سارا بھائی ۲۱۷ (MIRDULA SARAH BHAI) ۴۰۳ ۴۰ ۴۰ ، ۴۱۸ تا ۴۲۲، ۴۲۴ ، ۴۲۷، ۴۲۹ ، مہاجن مہر چند مہا راجہ ۴۵۴۴۳۰ مریم صدیقہ.حضرت سیدہ ۱۷۸،۴۴، منصور احمد مرزا.حضرت صاحبزادہ ۱۷۸ مہر آیا.حضرت سیدہ ۵۵۹،۵۵۵،۴۵۷،۱۸۲،۱۸۰ | منصورہ بیگم.حضرت سیدہ مسعود احمد خان صاحب.نواب ااا | منظور احمد (شہید) ۶۹۲۶۹۱ | منظور محمد حضرت پیر مسعود احمد ( ڈاکٹر ) مسعود احمد ( جہلمی ) مسعود احمد میر مسولینی ۱۸۲،۱۷۸ ۴۱۶ | میاں محمد (پیغامی لیڈر ) ۵۵۴ میتھی سن.ڈاکٹر ۶۶۷ منور احمد مرزا.حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر میتھوز جے.یادری ۵۷۶،۵۶۹،۵۶۷ ۵۲،۴۹ ،۲۳ ۲۵۷، ۴۴۱ ، ۴۴۸، ۴۴۹ ، ۴۶۵،۴۵۷ ، مینن وی پی ۶۹۳،۶۹۲،۶۹۱،۵۸۴ ۴۷۵ ، ۴۶۶ مشتاق احمد باجوہ.چوہدری ۴۶۶، ۴۶۸ ، منور احمد مرزا ( مبلغ امریکہ) ۶۴۹،۶۴۸ نائیڈو سروجنی ۶۵۸۰۶۵۶،۴۷۰ | منیر احمد صاحب باہری ۶۷۴٬۵۵۱ ناجم ( ابن صالح ) ۵۰ | منیر احمد عارف صاحب ۶۷۴ ناصر احمد شیخ ۱۸ منیر انکنی.السید حضرت ۶۰۸ ،۴۶۶،۳۶ ۶۸۷،۶۸۶،۶۸۵۰۶۵۶ ۵۶۳، ۶۱۸ | مودودی.مولانا.امیر جماعت اسلامی مشرقی علامہ مصطفی اربات مصطفى الفا مصطفی سنوسی مطیع الرحمن صاحب بنگالی صوفی مظفر احمد مرزا حضرت صاحبزادہ ۶۲۵ ،۳۳۱،۱۵۹ ۳۳۴،۳۳۲ ܪ، ۶۹۳،۴۶۶ ۵۰۸،۵۰۱ ۵۵۹ ۴۳۹ ۳۳۴ ۱۴۸ ا.،۴۷۹ ،۴۷۰ ، ۴۶۸،۱۱۶ ۶۶۵،۶۶۳ ناصر احمد مرزا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث ، ۲۰۹ ،۱۷۸ ،۱۷۱ ، ۱۶۱ ، ۱۰۶ ،۷۸ ،۶۷ ،۲۶ ،۴۸۴،۴۶۳،۴۲۵ ،۳۵۵،۲۵۷ ،۲۱۸ ،۲۶۷،۲۶۶،۲۶۵،۲۳۷ ،۱۴۰ ۲۵ ۲۶۹ تا ۷ ۳۸۴،۳۸۳،۳۷۲،۳۶۹،۲۷ ، ۴۹۸،۴۹۷۱ ، ۵۱۲،۵۰۶،۵۰۵،۵۰۲،۵۰۱، ۶۴۹،۶۴۸ ،۵۹۴،۵۸۴ ،۵۸۰، ۵۳۵ ، ۵۲۵،۵۱۴ ،۴۴۸ ،۴۳۸ ، ۴۲۸ ، ۴۱۶ ،۴۱۴ ،۴۱۱،۴۰۳ ،۱۸۷ ۷۰۲۰۶۹۳،۶۰۰ تا ۷۰۹،۷۰۶ تا ۷۱۳ ۶۸۷ ،۴۵۴ ام۴ ، ۵۹۹،۵۳۷

Page 737

14 ناظم الدین خواجہ ۳۸۷،۱۴۸، نوح بن ابوبکر ۶۲۵ ولیم باركر ۴۳۰،۴۰۲،۳۹۹،۳۹۲ نور احمد منیر شیخ ۴۶، ۶۸۶،۵۱۶،۴۶۸ | دھیری ریورنڈ نانک.حضرت باوا نذیر بریگیڈیئر صاحب نذیر احمد چوہدری نذیر احمد خواجہ نذیر احمد رائے ونڈی نذیر احمد علی مولا نا ۶۳۶۱ ۲۱۳ نورالحق انور صاحب ۲۵۴ ۱۲۱،۸۶ (REVEREND WHERPY) ،۶۳۹،۵۱۸ ۶۵۰،۶۴۴۶۴۰ | ویول.لارڈ.وائسرائے (WAVELL) ۶۸۸ ۱۵۲،۱۵۱،۱۴۹ ،۱۴۱ ، ۱۲۷ ، ۱۲۶ ،۱۲۵ ۶۳۰ نور الحق تنویر صاحب ۲۹۸ | نورالدین (حضرت خلیفه امسیح اول) ۶۵، ۴۹۲،۱۲۱،۱۲۰،۸۲،۶۸،۶۷، ہاشم.ابراہیم ۶۱۴،۶۱۳ ،۳۳،۳۲،۳۰ ۶۰۵ تا ۶۲۳،۶۲۱،۶۱۹،۶۱۵،۶۱۳،۶۱۱، ۶۵۵،۶۲۵،۶۲۴ نذیر احمد مبشر مولانا ۶۱۹،۳۳ تا ۶۲۶ ۴۹۵،۴۹۴، ۴۹ ، ۵۰۱،۴۹۹،۴۹۸، ہاؤس مصطفی کٹیا (صدر جماعت گیمبیا ) ۵۲۸،۵۲۰،۵۱۸،۵۰۴،۵۰۲ ،۵۹۶،۵۹۵،۵۳۱، | ھٹل ۷۱۲،۷۱۱،۷۰۱ ھری سنگھ مہاراجہ ۴۴۰ نفس ڈاکٹر (صدر جرمنی ) ۱۷۸، نور محمد نسیم سیفی مولانا ۵۶۲،۴۷۹ ، ھیس (HESS).ڈاکٹر نسیم حجازی ۴۴۴، ۵۰۹ نور محمد ( پہریدار ) نصرت جہاں بیگم.حضرت سیدہ ۷۱۰ ،۷۰۶،۵۸۱،۲۵۶،۲۴۷ نصیر الدین شیخ ۶۳۰،۵۶۳ تا ۶۳۵ ی ۶۳۴۶۱۷ | نور محمد نورویا ۳۴ یکی تراوے ۱۴۰ یعقوب (غانین احمدی) ۵۹۸ یعقوب بیگ ڈاکٹر ۶۴۷ ۵۶۴ ۲۹۶،۵۲،۴۹،۴۴ ۳۳۰،۳۲۹،۳۲۶ ۴۶۹ ۵۷۵ ۶۲۴،۳۲ ۶۹ ۴۹۶ ۶۴۳ ۵۷۳ ۶۴۷ نصیرہ (سورینام کی احمدی خاتون ۶۸۹ نیاز چوہدری نصیرہ بیگم.حضرت سیدہ نصیر و زمیریمان مستر نظام الدین اولیاء نظام الدین مرزا ۴۷۷ وائٹ لو.مسٹر (WHITE LOW) ۲۵۲ یعقوب سلیمان ۳۸۰ وجے لکشمی پنڈت ۲۰۶ یعقوب علی عرفانی حضرت شیخ ۹۴ ۹۷ وسیم احمد.حضرت مرزا ۵۵۱،۲۲۵،۲۲۴ ینکر.ڈاکٹر نقوی صاحب ( کمشنر کراچی) ۳۹۳ ولی اللہ شاہ سید ۱۳۹ ۶۴۰، ۶۸۷ یوسف ( تنزانیہ کا مبلغ ) نکرومہ (غانا کے صدر ) ۶۲۷ ولی اللہ شاہ.حضرت محدث دھلوی ۵۴۹ یوسف.ڈاکٹر نونل بیکر ۳۴۳، ۳۵۰،۳۴۹،۳۴۷ ولی کریم ۶۵۰ | یوسف سلیمان.ڈاکٹر

Page 738

15 آیا آئس لینڈ مقامات ۳۵۴ | الارو ( ALARO.نائیجیریا) ۶۳۵،۶۳۰ ادیالا گالا (آزاد کشمیر ) ۲۹۵،۲۸۶ اڈالیمو (ADALEMO.نائیجیریا) ۶۳۵ | البانيه ۶۳۵ ارجنٹائن آؤچی (AUCHI) ( نائیجیریا) ۵۷۴ تا ۵۷۶ | اُردن آئیوری کوسٹ آڈوا کیتی (ADOEKITE) (نائیجیری) ۶۳۵ اروناچل پردیش آرمینیا ۴۸۷ اڑیسہ ۳۴۹،۲۵۱،۲۱۵،۲۶ ۳۲۲،۲۵۳ | الجيريا ،۵۲،۴۶ ،۴۵،۲۲،۲۱،۲۰ ۶۸۸،۴۷۲،۵۳ ۲۰ ۱۳۵ الزاویہ ( دمشق میں جماعت کا مرکز ) ۶۸۷ ۱۳۵ الگرک (اردن) ۳۶ اليوموب اکیلتی.نائیجیریا ۳۳۴، ۴۴۶،۳۵۱،۳۴۹ اسرائیل ۶۸۷،۶۸۶،۳۱۸،۳۱۵،۲۹۰ | الہ آباد آزاد کشمیر ۲۵۳ ۱۲۰ آسام ۱۴۳،۱۴۲ اسکندریہ آسٹریا ۵۲،۴۶،۴۴ ۵۳ ،۴۷۵،۲۸۰ | اسلام آباد (UK) (ILUOMOOB EKITI) | ۵۳۸،۵۳۷ آسٹریلیا ۲۸۶،۵۵، ۲۹۷، ۳۰۷ | اسمبو ( ASEMBO) کینیا ۶۴۱ امرتسر آکسفورڈ ۶۵۶ | اسیولو (ISIOLO.کینیا ) ۶۴۴ ۶۳۵ ۱۷۴،۱۷۲،۱۵۲۶۲ ۵۸۷ ،۲۱۵،۲۱۴۲۰۴ آگز ۵۸۷ اخرام تحسین (سورینام ) ۶۸۹ امروہہ ۲۲۶ ابادان ( نائیجیریا) ۴،۲،۱ تا ۷ ، ۲۶،۲۴،۱۲،۱۱،۱۰ ، امریکہ ۲۸ افریقہ ابا کرامیہ (غانا) ،۴۳۵،۲۵۱،۱۳۰،۱۱۴،۷۴ ،۷۱ ،۳۱ ،۳۰،۲۹ ۳۳ ابی جان ( آئیوری کوسٹ ) ۵۷۵،۵۷۴ ابیو کوتا (ABEOHUTO.نائیجیریا) ۶۳۵ ، ۴۷۹ ،۴۷۳،۴۷۲،۴۷۱،۴۵۸ ،۳۶۲ ،۶۳۱،۶۲۷ ،۶۲۴،۶۱۵ ،۶۱۴ ،۶۱۳،۶۰۵ ۵۷۳ ،۵۵،۴۴،۲۵،۲۴،۱۸ ، ۴،۱ ،۲۶۰،۲۵۹،۲۵۴ ، ۲۴۷ ، ۱۲۹ ، ۱۲۸ ،۶۲ ۲۸۵،۲۶۸ تا ۲۹۲،۲۹۰ تا ۲۹۴ ۲۹۷ تا ۳۰۱ ، ۳۰۷، ۳۱۳،۳۱۲،۳۱۰،۳۰۸، ۳۱۶،۳۱۴ تا ۳۴۶،۳۲۱، ۳۶۱،۳۴۷، ،۵۴۰،۴۸۷ ، ۴۷۹ ،۴۳۸ ، ۴۳۷ ، ۴۳۶ ،۵۷۳،۵۷۲۵۶۴۵۶۲۵۴۲۵۴۱ ،۶۰۱،۵۸۸،۵۸۷ ، ۵۷۸ ،۵۷۶۰۵۷۴ ۶۳۳، ۶۳۷ تا ۶۴۵،۶۴۳،۶۴۲،۶۴۰، اپاپا ( نائیجیریا) اپرولٹا (حال بورکینافاسو) اٹلی ۴۳،۲۳ تا ۵۳،۵۲،۴۶، اجمیر ۲۵۱،۵۵، ۴۷۱ ۴۷۴ افغانستان ۵۸۷ اکھنور ۶۹۸،۶۸۱،۶۵۵۰۶۵۴،۶۴۷ ۳۲۳،۳۲۲،۲۹۳،۲۸۷ ،۵۸۹،۵۸۷،۵۴۱،۵۱۸ ،۵۱۴ ، ۴۹۸ ۶۲۹،۶۱۴، ۶۴۸ تا ۶۵۸،۶۵۱، ۶۹۸،۶۶۶ ۳۳۳ انڈو ( ONDO.نائیجیریا) ۲۴۲،۲۴۰،۲۳۹،۲۳۵،۱۹۳، اگبیڑے (AGBEDE.نائیجیریا) ۶۳۵ انڈونیشیا احمد نگر ۲۴۳، ۵۸۷،۵۵۹،۴۴۰،۲۵۷ گیگے (AGEGE.نائیجیریا) ۶۳۵ ۳۳۲۸ ،۴۶۳،۱۱۷ ،۵۲،۳۷ ۶۷۸،۶۷۵،۵۶۲ تا ۶۸۱

Page 739

16 انڈیا نویولس (امریکہ) ۲۵ ایشیا انز برک (آسٹریا) ۴۷۵ ۱۱۲،۷۴ ۱۶۱،۱۳۰،۱۱۴، بریڈ فورڈ ۴۸۱،۴۷۲،۳۳۸، ۶۷۶،۵۸۷، ۶۷۷ بریلی انگلستان (برطانیہ) ۱۶،۱۵،۶،۳،۱، ایوو(IWO.نائیجیریا) ۶۳۵ | بصره ۴۳،۳۵،۳۱،۲۹،۲۳،۱۷ تا ۵۰،۴۹،۴۷، ۱۲۴،۱۲۳،۱۲۱،۸۵،۷۱،۵۸،۵۷،۵۵، باتھرسٹ ۲۲۶ ۴۸۹،۴۸۸ ہے (BASSE - گیمبیا) ۵۶۷ ۵۶۳ تا ۵۶۵ | بعلبک ۴۶۸ ۱۲۷، ۱۵۱،۱۴۱،۱۳۱،۱۲۸، ۱۶۲،۱۶۱،۱۵۷، (بانجل کا پرانا نام.گیمبیا کا دارالحکومت ) ۲۱۵،۲۱۴،۱۷۳،۱۶۵، ۲۵۱،۲۴۷ تا ۲۵۴، باڈ گاڈ رسبرگ.جرمن بغداد ۴۷۵ بکوبا ( مشرقی افریقہ) } ۳۶ ۳۱۷،۳۰۹،۳۰۳،۲۹۲،۲۸۲، ۳۲۵،۳۱۸، باڈو (سیرالیون) ۲۱۰ بلتستان ۶۰۱ ۳۳۵ ۳۴۶،۳۴۳،۳۲۹، ۳۴۷، ۳۶۱،۳۴۹، باغ (آزاد کشمیر ) ۳۲۷ بلغاریہ ۴۷۲،۱۷ ۴۷۲،۴۶۸،۳۶۸،۳۶۲ ، ۴۷۹،۴۷۸ ، باغبانپوره ۴۱۶ بلغراد ۲۲ ۶۴۰،۶۲۳،۵۸۹،۵۸۸،۵۳۹، ۶۴۷ ، باغسر ۳۵۴ | بلقان ۵۷ اوٹا(OTTA.نائیجیریا) ۶۳۰ بانجل ۶۵۶،۶۵۴۶۵۲ تا ۶۶۲۶۵۹ | بالٹی مور (امریکہ ) اودے پور.بھارت ۱۳۱ بالی (انڈونیشین جزیره ) ۶۸۰ | بنگال ۶۴۸ | بلوچستان ۴۱۶،۴۰۶،۱۴۳،۱۴۲ ۵۶۸،۵۶۷ | بمبئی ۳۳۵ بٹالہ ۶۶۵،۶۳۰،۳۲۸،۱۵۲،۱۵۰ ،۱۴۵،۱۴۳،۱۴۲،۱۲۷ ، ۵۰ ،۲۱۷ ،۱۶۰،۱۵۹ ،۱۵۴ ۱۵۳ ۱۵۰،۱۴۶ اور نگر.پاکستان اوسلو (ناروے) اوکاڑہ ۵۴۵ ۴۲۰،۴۰۹ بٹاویہ (انڈونیشیا) ۵۵۰،۴۶۱،۴۶۰ ، ۴۱۶ ،۴۰۶ ،۴۰۳،۲۴۱ ۲۰۸ ،۱۹۹،۱۸۲،۱۷۸،۱۷۵ ۵۸۷ ۶۷۵ بنگلور ۶۷۵ بو ( سیرالیون) اونٹر و ( ONDO.نائیجیریا) ۶۳۵ | بونگ (انڈونیشیا) اوو (OWO.نائیجیریا) ۲۸ برائٹن ،۵۶۸،۵۴۰ ۶۱۷،۶۱۴۶۱۳،۶۱۲،۶۱۱،۶۰۶،۵۷۲ اووڈے (OWODE.نائیجیریا) ۶۳۵ برازیل ۲۹۵،۲۹۲،۵۵، ۲۹۸ | بواجے بو ( سیرالیون) اویو(OYO.نائیجیریا) ۶۳۵ برٹش گیانا ایبٹ آباد ۵۵۰،۳۳۳ | برجا ایپوکیا (IPOKIA.نائیجیریا) ۶۳۵ برسٹن (انگلستان) ۲۵۵ | بوا کے(BOAKE.آئیوری کوسٹ ) ۴۶۸ ۶۵۶ بوڈا پیسٹ.ھنگری کا دارالحکومت ۶۱۷ ۵۷۶ ۱۸ ایتھوپیا ایڈنبرا.انگلستان ایران (فارس) ایفے (IFE.نائیجیریا) ۳۱۱ برما अ (BUDAPEST) | ،۵۳،۵۲،۴۸ ،۳۹،۳۸ ۶۷۴،۶۷۳،۳۳۹،۲۱۵ بور مینو ۶۶۰،۶۵۶ بوسٹن ،۲۹۳،۲۱۵ پر ۵۸۹،۳۱۳،۲۹۹ | برونڈی بوکو ہا.تنزانیہ ۲۸ برهمن بڑ یہ ۴۶۱،۱۴۶ | بون.جرمنی ۱۱۵،۱۱۴ ۶۴۸،۵۱۸ ۶۴۳،۶۳۹ ۶۰۳

Page 740

17 ۴۰۳ تا ۴۰۶ ، ۴۰۸ ، ۴۱۰، ۴۱۴ تا ۴۲۳ ، ۲۶ ۴۰۷ تا ۴۰۹، ۴۲۱، ۴۲۳، ۴۲۴ ، ۴۲۷ تا ۴۳۱ ، بیونس آئرس.ارجنٹائن ،۵۰۰،۴۹۴ ،۴۶۴ ،۴۵۳ ، ۴۴۵ ، ۴۲۸ ، ۴۲۷ ، ۴۵۵ ، ۴۵۲۰ ۴۵۱ ، ۴۵۰ ، ۴۴۶ ،۴۴۵ ۶۷۱،۵۹۵،۵۹۱،۵۱۷،۵۰۸،۵۰۱ ۶۷۰ ، ۴۹ ،۴۷ ، ۴۶،۲۰،۱۹،۱۸ ، ۴۹۷ ، ۴۸ ۴،۴۸۳،۴۷۵ ، ۴۷۲،۴۶۹ ۳۴۵،۱۵۰،۱۴۷ ۱۴۶ ۱۴۵ ۱۴۶ ۵۵۰،۴۰۲ ۳۵۴،۳۵۳ ۵۱۲،۵۰۸،۵۰۰،۴۹۸، ۵۲۳٬۵۲۱،۵۱۷ ، پورٹ لوئیس (ماریشس ) ۵۳۵،۵۳۳،۵۳۲،۵۲۷،۵۲۴تا۵۳۹، پولینڈ ،۵۶۵،۵۵۲،۵۵۱،۵۴۹،۵۴۸ ۲۰۸ | ۵۹۱ تا ۵۹۴ ، ۶۱۴،۵۹۷ ، ۶۴۲،۶۳۴،۶۳۱، پونا ۵۵ تا ۴۷۲،۳۱۱،۳۰۱،۳۰۰،۵۹ ۵۸۷ ۳۳۹،۱۷۲،۱۴۸،۵۰ ۵۵۱،۳۳۴،۳۳۳،۳۲۷ ۶۴۳، ۶۵۱،۶۴۹، ۶۵۷، ۶۷۱،۶۶۹، پونچھ ۷۰۴،۷۰۰ ،۶۹۷ ،۶۹۲۶۸۵ ۲۹۱ ۴۶۸،۴۶۷ ۲۵، ۶۴۸ ، تا سک ملایا (انڈونیشیا) ۱۳۱ پٹس برگ (امریکہ) ۶۸۰،۶۷۶ ،۲۸۱،۲۸۰،۴۶،۲۲ ۵۸۸،۲۹۳ ۲۶ ۶۷۰ لا ۶۵۱،۶۴۹ | ترکی ۱۳۱ ۳۴۷ ،۳۴۲،۳۰۳،۵۶ بہار بھاگلپور بہاولپور بھوپال بھینی بیر شیبا بیروت بیکانیر بيلجيئم ۱۷۰،۱۶۰،۱۴۰، ۲۳۷، تریپولی ۶۷۹ تا ۶۸۱ | پٹھانکوٹ پاڈانگ.انڈونیشیا پارا چیی سورینام ۶۸۹ پاکستان ۱۱۴،۷۸، ۱۳۲،۱۲۷، پریسٹن.انگلینڈ ۳۳۰ ۳۳۴ تریولی( مالایشس ) ۶۵۶ | تلونڈی ۱۳۴ تا ۱۳۶، ۱۵۵،۱۵۳،۱۴۴،۱۴۰،۱۳۹، | پسرور ۲۳۳ تنزانیہ ۱۶۳،۱۶۱،۱۵۶، ۱۶۷تا ۱۷۲،۱۷۰ تا ۱۷۵، پیشاور ۵۵۰،۴۴۶ ۶۳۰ تھائی لینڈ ۱۸۵،۱۸۲،۱۸۱،۱۷۷ تا ۱۹۰،۱۸۸، پلاٹو (PLATEAU.نائیجیریا) ۱۹۲ تا ۲۱۱،۲۰۶،۲۰۴،۲۰۰ تا ۲۱۴، پلندری.آزاد کشمیر ۲۱۶ تا ۲۲۶،۲۲۲،۲۲۰،۲۱۸، ۲۲۸ تا ۲۳۱ | پنجاب ،۲۴۹ ،۲۴۷ ،۲۳۸ ،۲۳۷ ،۲۳۳ ۳۳۴ تهران ،۱۲۷ ،۱۲۲،۸۶،۵۱،۵۰ ۱۳۲ تا ۱۳۶،۱۳۴، ۱۳۸، ۱۴۳،۱۴۲،۱۳۹، ٹانگا.تنزانیہ ،۶۰۳،۶۰۱،۴۳۵،۲۱۴،۳ ۶۸۵،۶۴۵،۶۴۳۶۰۴ ۵۶ ۱۵۰ ۱۵۲ تا ۱۵۷، ۱۵۹ تا ۱۷۰،۱۶۹،۱۶۷، ٹانگانیکا.مشرقی افریقہ ۲۵۹ تا ۲۷۱ ۲۷۳ ۲۷۶ ، ۲۸۶،۲۸۳،۲۷۷، ۳۱۰،۳۰۴،۳۰۲،۲۹۳،۲۹۱،۲۸۸،۲۸۷، ۷۴ اتا ۷ ۱۸۵،۱۷ ، ۱۸۹،۱۸۷ تا ۱۹۲، ۱۹۴، ۵۹۰ ۶۳۹ ،۶۰۲،۹،۶،۳ ۶۴۵،۶۴۲،۶۴۱،۶۳۹،۶۳۷ ۶۴۴ ۱۹۵، ۱۹۷، ۲۱۲،۲۱۱،۲۰۵،۲۰۴،۲۰۲،۲۰۱ ، ٹاویٹا (TAVETA.کینیا ) ۳۲۲،۳۱۶،۳۱۵،۳۱۲ تا ۳۳۲،۳۳۰، ۲۱۳، ۲۱۵ ، ۲۲۲،۲۱۷، ۲۳۴،۲۳۰، ۲۳۷، طبورا.تنزانیہ ۳۳۵،۳۳۳ تا ۳۴۱ ،۳۴۳ تا ۳۴۵ ۳۴۷ تا ۳۶۶،۳۵۴ تا ۳۷۱،۳۶۹ تا ۳۷۳، ۳۴۱،۳۳۰،۳۲۵،۲۸۴،۲۷۳،۲۴۹،۲۴۷، ۳۴۳ تا ۳۷۸،۳۷۵،۳۷۰،۳۴۵، ٹرینیڈاڈ ۳۷۶، ۳۸۰،۳۷۷ تا ۳۸۸،۳۸۵،۳۸۲، ۰۳،۴۰۰،۳۹ ۳۸۷ تا ۹ ۳۹۵،۳۹۲،۳۹۱،۳۸ تا ۳۹۷، ۳۹۰تا۳۹۲، ۳۹۹،۳۹۴، ۴۰۰، ۴۰۳، ۴۰۴ ، ،۶۰۱،۴۳۵،۱۳،۱۰،۹،۶ ۶۰۲، ۶۳۷تا۶۴۱،۶۳۹ ،۲۵۵،۲۵۴،۲۵۳ ۶۸۹،۶۶۰،۴۷۹

Page 741

،۶۰۲،۶ ۶۴۳،۶۳۹ ۶۸۵ 18 ٹو گو ( مغربی افریقہ کا ایک ملک) ۵۷۸ جونا گڑھ ۶۱۲،۶۰۵ ،۳۳۲،۳۲۸،۳۲۷،۳۲۴ ۳۳۶،۳۳۵، ۳۴۳،۳۳۹ دار السلام ( تنزانیہ) ،۴۶۶،۴۶۵،۳۱۴،۳۶ ۶۸۳ ۴۰۸،۶ درگا ٹاؤن سیلون جوھد ر ( ملائشیا ) جہلم ۵۵۵ ٹونگیا.سیرالیون ج جابہ.پاکستان جاپان ۵۲،۴۱ تا ۵۶، ۱۲۵، ۱۲۸ ، | جھنگ ۴۲۱،۴۱۳،۴۱۰، ۴۲۶ ، ۴۴۸ ، دمر (دمشق) ۶۷۶،۳۶۱،۱۲۹ تا ۶۷۸ ۶۸۵،۶۵۶۰۵۹۰،۴۶۷ تا ۶۸۷ ۳۳۴ ۲۰۲ ،۱۴۷ ،۱۴۱،۱۰۶ ،۱۰۲۶۳ ،۱۶۸،۱۶۶،۱۶۳،۱۵۳،۱۵۲،۱۵۰ دمشق دومیل دھار یوال دھل ۱۷۲ تا ۱۷۴، ۲۲۱،۲۱۷، ۳۴۵،۲۲۸، ۳۴۹، ۵۸۷،۵۶۰،۳۸۰،۳۶۸،۳۶۲ ۵۴۹ } ۴۷۳ ،۵۴۳،۳۱۲،۲۹۰،۵۶ ۵۵۹،۵۴۷،۵۴۶،۵۴۴ ۴۶۱،۲۶۸،۱۴۶۶۳ دیوبند ۵۹۳،۴۵۳ ۵۸۷ ۴۷۰،۴۶۸ جے پور جینوا چ ۴۵۴،۴۵۳ ۲۴۰،۲۳۵،۲۳۴،۱۹ ۶۳۵ چک نمبر 220 - حج والا.چک ڈھگیاں ۳۳۶ ،۲۴۱ ،۲۳۴،۱۹۴،۱۹۳ ۵۹۳،۵۰۶،۵۰۵،۲۴۶،۲۴۳ چیکا لونگ کولون (انڈونیشیا) ۶۷۶ ڈلہوزی ۴۴ تا ۵۲،۴۶ ، ڈنمارک ۴۷۲،۵۳ ،۱۱۲،۵۵،۵۳،۴۲۱ ڈھاکہ ۳۱۰، ۴۷۲،۳۶۱،۳۴۷ ڈیٹن (امریکہ ) ۶۴۸ تا ۶۵۱ ز ۵۳۵۲،۴۶،۴۵ ،۳۳۳،۳۳۲،۳۲۴ ۵۵۰،۳۵۶ ۲۵۳،۳۵ ذوالمره ( نزد مدینہ منورہ) ز وخشب (نزد مدینه منوره) ۴۸۹ ۴۸۹ رائے گڑھ ۱۳۱ ۶۴۲ ¢ ۳۳۳ ،۳۷۸،۱۶۴،۱۵۲ رابور (RABOR.کینیا ) راجوری راولپنڈی ۵۵۰،۴۲۰ ، ۴۰۹ ،۴۰۷ ، ۴۰۱ ،۳۸۷ ۶۸۸،۶۸۵ چیکوسلو یکیا چین جاتی.انڈونیشیا جارج ٹاؤن - گیمبیا جافا ۶۸۱ ۵۶۷ ۳۰۷ جاگے (JAGBE.نائیجیریا) جالندھر جاوا ۴۵۳،۴۴۰،۲۳۴۱۷۲ ۶۸۰،۶۷۸،۳۸ ،۳۷،۱ جبل پور ۶۳ جبونگ.گیمبیا جرام.ملائشیا ۵۶۸ ۶۸۳ جرمنی ،۵۳،۵۲،۴۷ ، ۴۵ ، ۴۴،۶ ۵۵ تا ۳۲۰،۲۹۶،۲۸۱،۲۵۲،۲۵۱،۱۱۶،۵۹، ،۵۴۴،۴۷۹،۴۷۶ ،۴۷۵ ، ۴۷۲،۳۶۱ ۵۸۹، ۶۶۳۶۵۲۶۲۱،۶۰۳ تا ۶۶۷ ۶۷۹ تا ۶۸۱ ۴۵۳،۴۴۰ جکارتہ جمال پور.جالندھر جموں ججہ.یوگنڈا ۵۵۱،۵۲۸،۳۵۳،۳۴۸ ،۳۳۴ ۶۴۵،۶۴۳،۶۳۹ ،۹ جنگوانی (JANGWANI.مشرقی افریقہ ) جبشه حیدر آباد ۶۴۲ حیفا ( فلسطین) ۱۳۱ جودھ پور جوس (JOS.نائیجیریا) جو گجا ( انڈونیشیا) ۶۳۰ ۶۸۰ | خیر پور

Page 742

19 ۴ زیورک.زیورچ ربائی (RABAI - مشرقی افریقہ ) ربوه ۱۲۲، ۲۳۹،۲۳۸، ۲۴۱ تا ۲۴۹ ۵۴۳٬۲۹۰ تا ۵۴۵ ۴۶۸،۱۱۶ ، سکنڈے نیویا سکھیکی ۴۲۱ ،۴۲۶،۴۰۵،۳۹۹ ،۳۸۱،۲۵۷ ،۲۵۴۲۵۱ ۶۸۳ ۶۷۸،۳۷،۱ تا ۶۸۳،۶۸۰ س سلانگور ( ملائشیا ) ۶۵۶ سماٹرا ۵۶۷ | سمارنگ (انڈونیشیا) ۶۸۹ | سمندری ۴۴۰ تا ۶ ۴۴ ، ۴۴۸ ، ۷ ۴۵ ،۴۶۰،۴۵۹، ساؤتھ ہال.انگلینڈ ۴۶۲ ۴۳ ۴۶۴، ۴۶۶، ۴۷۷ ، ساپو(SAPO - گیمبیا) ۴۸۳ تا ۴۸۵ ، ۱۲،۴۹۹،۴۹۸ ۵ تا ۵۱۵ ، سارون (سورینام ) ۳۰ تا ۶۲۰،۵۷۲،۳۲ ، سندھ ۵۲۱،۵۱۹،۵۱۸ تا ۵۳۷،۵۲۵تا۵۳۹، سالٹ پانڈ ۵۵۰،۵۴۹ ، ۵۵۷ تا ۵۶۹،۵۶۵،۵۵۹، ۶۲۶،۶۲۱ ۶۸۰ ۳۸۸ ،۲۱۴،۱۷۷ ،۱۵۲،۱۴۳،۱۴۲ ۵۵۲،۴۱۶،۳۶۷ ، ۳۴۵،۲۵۷ ،۲۳۷ ۵۸۰،۵۷۸،۵۷۶،۵۷۴،۵۷۲،۵۷۰، سان فرانسکو ۳۶۱ سنسنائی ۶۴۸ ۴۵ ، ۵۴۶،۴۷۹،۳۰۶،۱۱۵ ، | (CINCINNATI.امریکہ ) ۵۹۱ ، ۶۰۲،۶۰۰، ۶۴۳،۶۲۶،۶۲۵،۶۱۷، سپین ،۶۸۹،۶۷۱،۶۷۰ ،۶۶۶،۶۵۸ ،۶۴۹ ۶۹۱ تا ۶۹۳، ۶۹۷، ۷۰۰،۶۹۸، ۷۰۹ سٹاک ہالم ( سویڈن ) ۶۶۸،۶۵۸ تا ۶۷۰ ۵۴۶،۵۴۵ سورا بابا ( انڈونیشیا) رنگون ۳۳۹،۱۶۱،۵۶،۵۲ ،۶۷۳ ۶۷۴ سٹو بین ول (STUBIN WILL.امریکہ ) روانڈا روٹیفنک (سیرالیون) ۶۱۱ سٹھیالی ۶۴۸ سورینام ،۱۵۱ ،۷۱،۵۲،۴۲۱ ۶۸۳،۶۸۲ ۶۸۰،۶۷۹ ۶۹۰،۶۸۹ ۱۹۷ سوھن (سرائے عالمگیر کے قریب گاؤں ) ۶۷۲،۶۷۰،۳۵ | سرائے عالمگیر روزهل ( ماریشس ) روس (سویت یونین ) ، ۴۹ ،۴۷ ، ۴۶ سرحد ۳۵۳ ۱۷۷،۱۵۰،۱۴۳،۱۴۲، سوئٹزرلینڈ ۳۵۳ ، ۴۷۰ ، ۴۶۸ ،۲۵۲،۱۱۶ ۶۶۵،۶۶۳،۴۷۹ ۵۵ تا ۱۱۲،۵۹، ۱۲۸ ،۲۸۵ تا ۲۹۳،۲۹۲،۲۸۹، ۲۹۸ تا ۳۱۳،۳۱۲،۳۰۱۹، ۱۳۷، ۳۱۹ تا ۴۷۲،۳۶۲،۳۶۱،۳۴۲،۳۲۳، ،۴۲۱،۴۱۶ ،۴۰۶ ،۴۰۴،۳۹۸،۳۳۳ سرگودھا ۵۸۹،۵۸۸،۴۷۳ | سری لنکا ۶۰۶،۵۷۲،۳۰ سری نگر روکو پُر (سیرالیون) ۴۶۸،۲۳ | سعد آباد ۵۵۰،۵۰۱، سویڈن ۵۸۰،۴۲۱،۴۱۳،۴۱۰،۲۳۴ ۱۶۲ ۳۳۶،۳۳۳،۳۲۹ ،۳۰۲،۲۹۵ ۵۴۳ تا ۵۴۷،۵۴۵ سیام ( تھائی لینڈ کا پرانا نام) ۲۸۶، ۲۸۸، ۳۵۵،۳۵۴ | سیالکوٹ ۲۹۵،۲۹۳ ،۲۳۳،۱۹۰،۱۸۱،۶۳،۳۳ روم رومانیہ ز زاریہ.نائیجیریا زاویه الحصنی زنجبار ۵۶۰،۴۷۲ | سعودی عرب - عرب ۶۳۴ ، ۴۱۷ ، ۴۱۱ ،۴۱۰ ، ۴۰۹ ،۴۰۷ ،۳۹۰ ،۳۵۳ ،۲۸۶،۱۱۴،۳ ،۶۲۴،۵۹۰،۳۱۲،۳۰۶،۳۰۱،۲۹۳،۲۸۷ ۴۶۷ | سکاٹ لینڈ ۶۰۲،۴۳۷ ،۴،۳ ،، سکندر آباد ۵۹۵،۴۲۰ ، ۴۱۹ ۶۴۴،۶۳۴ سیرالیون ،۵۴۰،۲۵۱،۳۰،۲۹ ۲۵۴۲۵۲ ۵۶۲ تا ۵۶۴، ۵۷۷،۵۷۳،۵۷۲،۵۶۸، ۶۳ ۶۰۸۰۶۰۶۰۶۰۵تا۶۲۴۶۲۳،۶۱۹

Page 743

20 20 سیلون (سری لنکا ) ۳۹ ۴۰ ۴۱، عمان ۶۸۵،۶۸۴،۲۴۱ سینٹ پیری ( ماریشس ) ۶۷۱،۶۷۰ | غازی پوری سینٹ لوئیس (امریکہ) ۶۴۸ تا ۶۵۰ غانا ( گولڈ کوسٹ ) سینیگال ش ۵۷۴،۵۶۸،۲۴ شام (سیریا) ۲۸۷،۲۷۹،۴۶،۳۵،۲۶، ۳۲۰،۳۱۵،۳۱۴،۳۱۳،۳۰۲،۳۰۱،۲۹۳، غرب الهند غ ۱۴۷ ،۳۱ ،۳۰،۲۷ قادیان ( مرکز احمدیت ) ،۲۷ ،۲۰ ،۶۳،۶۲،۶۱،۴۰،۳۸،۳۵،۳۲،۳۰ ۶۷ تا ۶۹ ، ۷۱ ، ۷۷، ۹۴،۸۸، ۹۷ تا ۱۰۱ ، ۱۱۱ ۱۵۶،۱۵۲،۱۳۹،۱۲۰،۱۱۴ تا ۱۶۰،۱۵۸، ۱۶۵،۱۶۴،۱۶۱، ۶۸اتا ا۱۷۴،۱۷ تا ۱۸۲ ۱۸۵ تا ۱۹۲،۱۸۹ ۱۹۴ تا ۲۰۸ ۲۱۰ تا ۲۱۹ ،۵۶۲۵۴۰،۲۵۱،۳۳،۳۲ ۵۷۴،۵۷۲،۵۶۵،۵۶۴ ۶۱۹۰۵۷۵ تا ۶۲۷ - ۲۲۱ تا ۲۲۶، ۲۲۸ ۲۳۳ تا ۲۴۰،۲۳۹،۲۳۵، ۴۷۹ ،۳۳۶،۲۵۶،۲۵۴ ،۲۵۱،۲۴۸ ،۲۴۵ ،۲۴۲ ،۵۰۰،۴۹۷ ، ۴۴۵ ، ۴۳۹،۳۷۲،۳۴۴ ،۵۵۹،۵۴۹،۵۳۲،۵۲۸ ، ۵۰۸ ،۵۰۶ ۴۸۷ ،۶۲۴،۶۱۵،۵۹۶۰۵۹۰،۵۸۲،۵۷۲ ،۶۶۰،۶۵۶،۶۴۹ ،۶۴۷ ،۶۴۴،۶۴۳ ۶۸۲،۶۷۵،۶۶۸،۶۶۶ تا ۰۶۸۵ ف ۵۷۱،۵۷۰ ،۲۹۱،۱۱۴،۵۵ ،۴۷ ، ۴۶ ،۴۴ ۴۷۱،۳۴۶،۳۱۲،۳۱۱،۲۹۲ ،۶۱۷ ،۴۶۷ ،۳۴۷ ،۳۴۶،۳۲۲ ۶۸۶، ۶۸۷ | فارس ۲۲۶ نجی ۶۲،۲۵،۲۴، ۵۸۷، فرانس ۶۴۸ تا ۶۵۱ ۱۷۵ فری ٹاؤن شاہجہانپور شکا ۲۳۳،۱۸۸،۱۸۱،۱۶۷، فسطاط شکر گڑھ شملہ ۱۷۲،۱۳۶،۱۲۶ | فرینکفورٹ شیخوپوره شیراز شیفیلڈ (انگلستان ) صحارا ۲۳۴، ۴۰۸ ، ۴۹۸ | فلاڈلفیا (امریکہ ) فلپائن ۶۵۶ فلسطین ۳۱ ۶۱۷،۶۱۴۶۰۶،۳۰،۲۹ ۷۱۰،۶۹۸ ۶۶۶ قادیان ( مشرقی افریقہ کا ایک گاؤں) ۴۸۸ ۲۴ ۶۴۸ قاہرہ ۳۱۳٬۲۹۶،۲۹۵،۵۶،۵۳ قسطنطنیه ۲۸۱،۴۶،۳۵، ۲۵۳،۲۳۸، قصور ۲۸۲،۲۷۹ تا ۲۹۶،۲۹۴ تا ۲۹۹ ۳۰۱ تا ۳۰۶،۳۰۳ تا ۳۱۳،۳۱۲،۳۱۰، کابل ۶۸۸،۶۰۳،۵۹۰،۳۶ ۵۸۸ ۳۷۵،۲۶۳ ۳۳۵ ۶۴۱ ۵۸۷ ،۶۳۰،۵۷۳ ۶۳۴۶۳۳،۶۳۱ ۶۸۶،۳۵ ۳۹۵ صراحه (غانا) ۶۲۰ ۳۱۵ تا ۶۸۶،۶۸۵،۳۲۲، کاٹھیاوار فن لینڈ ۵۴۴ کا کا میگا ( کینیا ) طرابلس ع عدن ۴۶۸ فیرا فینی ( گیمبیا) فیض اللہ چک ۱۱۸ فینکس (ماریشس) ۵۶۷ کانپور ۱۷۸ کانو ( نائیجیریا) ۶۷۲،۶۷۰ عراق ،۲۹۳،۲۸۷ ،۲۸۶،۳۶،۱۷ ق ۶۶۱،۳۲۰،۳۱۱،۲۹۹ | قادر آباد کیا بیر ( فلسطین) ۲۰۳ | گپ ( ضلع ملتان )

Page 744

۳۳۶،۳۳۵،۳۲۵ ۵،۲۹ ۵۷ تا ۵۷۷ ۳۱۰ ۲۷ ۵۴۵،۵۴۴ ۴۲۰ ، ۴۱۰ ، ۴۰۷ ،۱۵۲ 21 کپورتھلہ ۳۴۳،۳۴۱،۳۲۵، کوسووو ۲۲ کراچی ۵۸۳٬۳۴۵ کوفه ۴،۱۷۲،۵۶ ۲۳۳،۱۸۹،۱۷، کولمبو (سری لنکا) ۴۸۸، ۴۸۹ | گنی ۳۹ تا ۴۱، گوئٹے مالا ۶۸۵،۶۸۴ | گوبر (GOBIR) كولمبيا ۲۸۷، ۳۱۱،۳۰۱،۲۸۸، گوٹن برگ ۳۱۲، ۳۴۹ گوجرانوالہ ۵۷۷ گورداسپور ۱۶۶،۱۶۰،۱۵۸، ۱۶۹،۱۶۷، ،۲۰۱ ،۱۹۹ ،۱۹۷ ،۱۶ ،۱۷۵ ،۱۷۲ ۱۷۰ ff ۳۳۲،۳۳۰،۳۲۵،۲۲۵،۲۲۱،۲۱۰۲۰۲ ۵۰۲ ۶۱۲ گی آنا ۶۸۹ ۵۵۱ گینڈر ۳۴۰ ۶۴۱ گیمبیا ۵۶۲۲۴ تا ۵۷۴،۵۶۹ ، ،۳۴۰،۳۳۹،۳۳۵،۳۱۶،۲۶۳،۲۵۹ ، ۴۰۵ ، ۴۰۴ ،۴۰۲،۳۹۳،۳۹۲،۳۷۶،۳۴۵ ،۴۶۴،۴۶۲،۴۶۰ ، ۴۵۹ ،۴۵۳،۴۱۸ ،۴۰۶ ۴۶۵، ۴۸۳،۴۷۸ ۴۰ ۴۸ ۵۳۲ ،۵۵۰، کوناکری(گنی) ۶۹۲،۵۶۰ کونگو کرم آباد ۴۰۸ کو ہاٹ کریمیا (CRIMEA) ۱۹ کو ہا (سیرالیون) کسومو ( کینیا ) ۶۳۹ تا ۶۴۱ ۶۴۳ کیرالہ کلکتہ کلنڈ نی (مشرقی افریقہ) ۲۳۰،۲۱۸،۱۴۰،۱۱۲، ۲۳۸، کیسا (KISA - کینیا ) ۳۲۴،۳۱۹ تا ۳۳۹،۳۳۶ ۳۴۱ تا ۳۵۰، کیلیفورنیا.امریکہ ۳۵۲ تا ۳۷۲،۳۶۵،۳۵۶،۳۵۴، ۳۷۷، کیمرون ۲۹۸،۵۰۱،۴۰۳،۳۹۸،۳۷۸ | کینٹکی (CANTUCKY.امریکہ ) ۵۸۷،۵۶۰،۳۴۵ ،۱۴۶ ۱۴۵ ۶ کینڈی (سیلون) ۶۴۹ ۶۳۳۶۱۶ ۲۷ لائبیریا ،۵۴۰،۳۱۳،۲۹۹ ،۲۹۴ ۶۴۹ ،۵۷۷،۵۷۶،۵۶۲۵۴۳،۵۴۲،۵۴۱ ۴۰،۳۹ ۶۱۵،۶۱۱ کلیولینڈ (امریکہ) ۶۴۸،۲۵ کینساس.امریکہ کماسی (غانا) ۶۲۷ ،۶۲۵،۶۲۳ کمپالا ( یوگنڈا) کنٹن ( چین ) ۴۲ کینیڈا کنڈال ( سور بنام ) ۶۸۹ ۶۲۲،۵۷۲، کینما ( KENEMA.سیرالیون ) ۶۴۸ لائل پور (فیصل آباد ) ۶۱۲،۶۰۸ ۶۴۵،۶۳۹ کینیا ۱۲۴،۱۱،۹،۵،۳، ۴۳۶ ، ۶۳۸ تا ۶۴۵ | لابوان ( بورینو ) ۳۰۲،۲۹۸،۲۹۷، ۳۰۷، | لائو کا ۳۴۶، ۳۴۷، ۵۵۹،۳۴۸ لاس اینجلس (امریکہ ) کواؤ (KWAW.غانا) ۳۳،۳۲ کیوبا کوئٹہ ۲۳۳ ۳۱۰،۲۹۳ ،۳۱۱ لالیاں لاحت ( انڈونیشیا) ،۴۰۸ ،۴۰۷ ، ۴۰۱ ،۳۹۶،۳۷۳،۱۹۱،۱۶۸ ۴۵۳،۴۴۰ ، ۴۲۰ ، ۴۱۷ ، ۴۱۱ ،۴۰۹ ۱۱۵ ۵۷۱ ۶۴۹ ۴۴۸ کوالا لمپور ( ملائشیا ) ۶۷۵،۳۸ لاہور ۶۸۳ | گاروت (انڈونیشیا) ΥΛΙ ،۱۰۴،۱۰۳،۱۰۲،۹۹،۶۷ ،۶۲ کوتوالی ۴۱۷ گجرات کوریا ۴۷۲،۵۳،۵۲ گلاسگو ۳۵۳ ۶۵۶،۲۵۳،۲۵۲ ۱۳۴۱۲۲،۱۲۰ ، ۱۵۲،۱۳۸ ، ۱۶۰ تا ۱۷۲،۱۶۸ ۱۷۴ ، ۱۷۷ ۷۸ تا ۱۸۵،۱۸۲،۱۸۰،

Page 745

۵۹۹،۵۵۸ ۲۵۳،۳ ،۲۹۱،۲۷۹،۳۶،۲۳،۲۲،۲۰ 22 ۱۸۶ تا ۱۹۱،۱۸۹ تا ۱۹۵، ۲۰۶،۲۰۰،۱۹۷، لیگوس ( نائیجیریا) ،۲۴۵،۲۴۳،۲۴۰،۲۳۵،۲۳۳،۲۱۴ ۲۱۲ ،۳۴۴،۳۳۵،۲۶۲۲۵۹ ،۲۵ ۷ ،۲۴۷ ،۲۸،۲۷ ۵۷۲ تا ۶۲۱۰۵۷۴، ۶۲۸ تا ۶۳۲،۶۳۰، مسقط ۶۳۵،۶۳۳ | مصر ۴۰۴،۳۹۴،۳۹۳،۳۷۴،۳۷۳،۳۷۰ ، لیورپول ۴۰۶ تا ۴۱۱، ۴۱۶ ، ۴۱۷ تا ۴۲۰ ، ۴۲۵ ، ۴۴۲ ، ۴۴۵ ، ۴۵۷، ۴۵۹ ۴۶۰۰ ، ۴۷۸ ، ماٹوٹو کا (سیرالیون) ۵۱۸،۵۱۲،۵۰۸،۵۰۴۴۹۵،۴۹۴، مارو نجی ۵۶۰،۵۳۵،۵۳۱،۵۲۵،۵۲۳،۵۲۲، ماریشس ۶۹۲،۶۹۱،۵۹۹،۵۹۶،۵۹۰،۵۸۷ ۶۹۲۶۹۱،۶۸۷،۵۸۹،۵۷۵،۳۲۲،۳۱۳ | مالابار ۳۳۶ مالٹا م ۶۱۰ ۵۷۱ ،۴۹۱،۴۸۹،۳۲۲،۳۲۰،۲۹۹ ،۲۹۳ مظفر آباد ۶۷۰،۳۹،۳۵،۳۴، معراجکے ۶۷۲،۶۷۱ مکه مکرمه ۵۸۹،۵۸ ۶۸۸،۶۰۳ ،۳۳۳،۳۳۰،۳۲۹ ۳۳۶،۳۳۴ ۳۵۳ ،۳۲۰،۲۴۲،۲۱۸،۱۷ ۶۲۴۶۲۰، ۵۹۰ ،۵۰۵ ، ۴۴۹ ۱۱۵ مکینی (MAKENI - سیرالیون) ۶۰۸ لبنان ۲۶، ۳۱۱،۳۰۲،۲۹۳،۲۸۷، ماسکو ۶۶۰ مگبورکا ( سیرالیون ) لداخ لدھیانہ ۱۰۶،۱۰۵،۱۰۲،۶۲ | مالی (افریقن ملک) ۵۷۶،۵۷۵ | ملایا لکسمبرگ لکھو ۳۱۲ مالیر کوٹلہ ۵۸۷ مانچسٹر (انگلستان) ۴۲۵ ملتان مليشيا لندن ۶۱۱،۶۰۸ ۱۱۵،۷۱ ،۳۹۵،۳۸۸،۳۸۲،۱۵۲ ۵۵۰،۴۴۳،۴۲۷ ۴۵،۳۱،۱۷،۱۶،۱۵، ۱۱۷، مانسا کونکو (MANSAKONKO - گیمبیا) ،۲۸۳،۲۵۲،۱۶۱،۱۶۰ ، ۱۴۸ ،۱۲۵، ۱۲۴ ۶۸۲ ۵۶۷ ممباسه ( کینیا ) ۴ تا ۷، ۶۴۴۶۳۹ ۳۲۰،۳۳۷، ۳۴۹، ۴۶۵،۳۹۴،۳۵۸ ، ماہی ( ہندوستان کا گاؤں) ۴۰ مناودر ۴۶۹ ، ۴۸۲،۴۸۰،۴۷۹،۴۷۸ ۳۰ ۴۸ ، متا یاں بلانش ( ماریشس ) ۶۷۰ منٹگمری (ساہیوال) ۵۳۵ تا ۵۴۴،۵۴۰، ۶۱۰،۶۰۸ ،۶۴۱،۶۲۶، متاباں لانگ (ماریشس ) ۶۵۲ تا ۶۶۱۰۶۵۹ تا ۶۶۸،۶۶۳ مدراس لنڈی (LINDI - مشرقی افریقہ) ۶۴۱، مدھیا پردیش ۶۴۵،۶۴۲ مدینه منوره ۶۴۳ ۶۷۰ ۳۳۹،۳۳۵ ۱۶۸، ۴۰۷ تا ۴۰۹ ۴۴۵،۱۵۸ ،۵۸۷ | منروویا (لائبیریا کا دارالحکومت) ۱۳۵ منگویو ( MINGOYO - مشرقی افریقہ) ،۴۴۹ ،۳۲۰،۳۱۹ ،۲۱۸ ۵۱۳،۵۰۵،۴۹۱،۴۸۹ | موانزا (MWANZA تنزانیہ) ۵۴۲ ۵۵۰ موتو بوئی بسار (انڈونیشیا) لوانڈ ا ( LUANDA.کینیا ) لوگانو لوے (لوگو) ۴۷۴ مراکش ۵۷۸ | مردان لیتھوانیا (LITHUANIA) ۱۹ | مرمبا (MRUMBA) ۶۴۲ میدان ( انڈونیشیا) لیڈز (انگلستان) ۶۵۶ | مری ۵۵۵،۵۲۵،۵۱۹،۵۰۱ ، میڈرڈ (سپین) ۵۴۰ ۶۴۲ ۶۴۳،۶۳۹ ۶۷۶ ۳۷ ۱۱۵

Page 746

23 23 میر پور (آزاد کشمیر ) ۳۳۳٬۳۲۷ نیومبرگ (جرمنی) میرٹھ ۶۶۵،۴۷۵،۲۵۲ ۴۳۵ نیویارک ۶۴۸،۵۱۸،۳۴۰،۳۱۸،۲۴، میرو (MERU - کینیا ) میسور میکسیکو ۶۴۴۶ ۵۵۱،۳۲۴ ۱۲۸ | وا (WA.غانا ) وارسا ( پولینڈ) ۲۷ وا اشنگٹن ۶۵۱،۶۵۰ ۶۲۲،۶۲۱ ۲۰ ۶۴۸ تا ۶۵۱ ۱۲۳ تا ۱۳۰،۱۲۷، ۱۳۶،۱۳۵،۱۳۱، ۱۴۰ تا ۱۴۳، ۱۴۵ ، ۱۴۷، ۱۵۱،۱۵۰،۱۴۸، ۱۵۳ تا ۱۶۰،۱۵۸،۱۵۵ تا ۱۶۵،۱۶۲تا۱۷۱ ،۲۰۵،۲۰۴،۱۹۷ ،۱۸۲،۱۷۹ ، ۱۷۵ ، ۱۷۳ ۲۱۲،۲۱۰،۲۰۸ تا ۲۲۱،۲۱۶ تا ۲۲۳ ۲۲۸ تا ۲۳۱ ۲۳۴،۲۳۳، ۲۷۵،۲۳۷، ۳۲۴،۳۲۲،۲۸۴،۲۷۶ تا ۳۴۴ نائیجیریا ۳۲،۳۰،۲۸،۲۷،۲۶، ۲۵۱، وا گاڈوگو ( بورکینا فاسو کا دارالحکومت ۶ ۵۷۶ | ۳۴۶ تا ۳۶۶،۳۵۲، ۳۷۰،۳۶۷ تا ۳۷۲، ۴۷۹ ۵۶۲،۵۴۲،۵۴۰۰ تا ۵۶۵ ، وانڈ زورتھ (انگلستان) ۵۷۲ تا ۵۷۵ ، ۶۲۱،۶۱۷ ، واهنگه ۶۲۸ تا ۶۳۵، ۶۶۷ وڈالہ گرنتھیاں (بھارت) نادی ( نجی کا ایک مقام ) ۵۷۰ و نجوال ( نزد قادیان) ،۴۲۱،۳۹۵،۳۹۳،۳۹۱،۳۸۰،۳۷۶ ۶۵۹ ،۵۵۴،۵۵۱،۵۴۹ ،۴۷۲،۴۴۵ ، ۴ ۴ ۴ ۳۷۱ ،۶۲۴،۶۲۳،۶۱۱،۵۸۸،۵۸۷ ،۵۷۰ ۶۷۳۶۶۳۶۶۰،۶۴۰،۶۳۴،۶۲۹ ۳۳۵ ناروے ۵۴۳،۵۶ تا ۵۴۶ | ولنو (WILNO.پولینڈ کا شہر ) ۱۹ هزه ناصره ۵۸۹ | دوکنگ ناگاساکی ۱۲۹ | ویت نام شمالی ۴۷۲ نجف ۲۹۱،۲۸۹ | ویستار (ہالینڈ) ۵۴۵ | هستو ( سور بنام ) هنگری ۴۷۵ ہوشیار پور ۶۸۹ ۴۷۲،۲۲،۲۱،۱۸ ،۱۷ ۱۰۲،۹۵ تا ۱۰۴ ننکانہ صاحب ۲۳۴٬۲۲۱ وینس (اٹلی) ۴۷۴ ، ۴۷۵ ہوم سٹیڈ (امریکہ) ۶۴۸ منگل باغبان ۳۵۸ ھیٹی ۳۱۳،۳۰۲ نواب شاہ ھیڈ ز رفیلڈ (انگلستان) نواکھلی.بنگال ۳۴۵،۱۴۶،۱۴۵ | ہالینڈ ۱۱۶،۵۵،۳۷ تا ۳۰۳،۱۱۸، هیروشیما ۴۷۱،۴۶۸،۳۶۲ ، ۴۷۵ ، ۴۷۹،۴۷۷ ھیگ 0 ۱۲۹ ،۱۲۸ ۴۷۷ ، ۴۷۵ ، ۴۷۰،۱۱۷ نو نگھم (انگلستان) نوشہرہ ۵۵۰،۳۵۴۳۳۳ | ہانگ کانگ نیپال نیروبی ( کینیا ) ۳۲۶ صلفن (ہالینڈ) ۴۲ ی ۴۷۸ یافه ۳۱۸،۲۹۰ ۵ تا ۸ ۶۳ ، | ہمبرگ ۱۲۴، ۴۳۵ ، ۴۳۷، ۶۳۹ تا ۶۴۴ نیگومبو (سیلون ) نیوجرسی (امریکہ) نیوزی لینڈ ۶۴۸ ۳۰۳،۲۸۷،۵۵ ۴۷۶،۲۵۲، ۴۷۷ ، یالا کیسا (YALAKISA.کینیا ) ۶۶۴ تا ۶۶۶ سیرو ۶۸۴،۴۱ | هندوستان (بھارت) ۲۰،۹،۷،۶،۵، یمن ۶۴۲ ۳۲۰،۳۰۷،۲۸۸ ۲۹۶،۲۹۳،۲۸۷،۸۰ ۳۴،۳۳،۳۰،۲۵، ۴۰،۳۹ ، ۴۷ تا ۶۱۰۵۶، ینکس ٹاؤن (YOUNGIS TOWN) ۶۲ ، ۱ ، ۷۴، ۱۰۱، ۱۱۲ تا ۱۱۴ ۱۲۰ ۱۲۱، ۶۴۸

Page 747

24 24 ۶۹۸،۱۵۸ ،۱۵۰،۱۴۵ ٣٠٢ ،۴۴،۲۳،۲۱،۲۰۱۷ ، ۴،۲،۱ یوپی یوراگوئے یورپ ،۲۹۷ ،۲۹۴،۱۱۶ ، ۱۱۴ ، ۱۱۲،۵۷ ، ۴۷ ، ۴۵ ،۳۲۱،۳۱۷ ،۳۰۶،۳۰۳،۳۰۱ ۴۵۸ تا ۴۶۵،۴۶۲،۴۶۰، ۴۶۶ ، یوکرین ۴۶۹ تا ۴۷۹،۴۷۲، ۴۸۵،۴۸۳،۴۸۱ ، یوگنڈا ،۵۵۸،۵۵۵،۵۴۷ ، ۵۴۳،۵۲۶،۴۹۵ ۷ ۵۸ ۶۶۳،۶۶۲،۶۵۸،۶۵۵،۵۸۸۰، یوگوسلاویہ ۶۹۸،۶۸۷،۶۶۹،۶۶۸،۶۶۶۰۶۶۵ | یونان ۳۴۲ ،۶۰۳،۱۲،۱۱،۹،۶،۵،۴،۳ ۶۳۹ تا ۶۴۵ ۴۷۲،۵۶،۲۲،۲۱ ۲۹۸،۲۹۲،۵۶

Page 748

25 کتابیات BIBLOGRAPHY آ.) آئینہ کمالات اسلام ۶۶۱،۵۹۵،۵۴۴ | بائبل آتش چنار ۳۵۷،۳۵۶،۳۳۱ ۶۳۸ باجوه خاندان اُردوكتب ،۱۲۰ ،۹۲،۹۱،۸۵،۳۲،۱۳،۴ تحریک جماعت اسلامی کا ایک تحقیقی مطالعہ ۶۷۷،۶۰۷ تحفہ شہزادہ ویلز ۲۵۰ تذکرہ ( مجموعہ الہامات حضرت مسیح موعود ) ۴۳۴ ۶۳۸ آسمانی آواز ابوداؤد احمد علیہ السلام ۶۰۰،۱۳ بخاری ۴۰ براہین احمدیہ احمدیت حقیقی اسلام ۶۵۰،۶۴۱،۶۳۸ اسباق الاسلام ۵۲۸،۳۸۳ ،۸۴،۱۳ ۷۱۴ ،۵۸۶،۵۲۸ ،۲۵۸،۱۸۲ ۸۷ تذكرة الشهادتين ترجمان القرآن بللطائف البیان ۶۳۸ پارلیمینٹری مشن اور ہندوستان کا فرض ۱۴۱ اسلام کا قتصادی نظام ۶۶۵، ۶۶۸ پاکستان میں امریکہ کا کردار ۲۷۷ | ترندی اسلام میں اختلافات کا آغاز اسلامی اصول کی فلاسفی ۴۹۱ ،۵۷۵،۴۲ ۶۸۷،۶۸۵،۶۸۴،۶۷۵۰۶۷ ۴۶۶۹ المودودی فی المیزان الموعود الوصيت انجیل ۶۸۷ ۶۵۰،۵۳۹،۷۲ ۱۸۴ ۳۲۳،۲۷۹ ۵۲۸،۹۳٬۸۴ تعمیر مرکز ربوہ کے ابتلائی حالات اور ایمان تاریخ احمدیت ( مولا نا دوست محمد شاہد ) افروز واقعات ،۱۱۸ ،۱۱۷ ،۱۱۶،۱۰۸ ،۸۴،۷۹ ،۱۴ ۶۵۵،۵۹۱،۳۱۹،۲۶۱ | تاریخ طبری اندرونی اختلافات کے اسباب تاریخ لجنہ ۲۴۹،۲۳۲،۲۳۱،۱۹۹،۱۸۴، تفسیر بیضاوی تفاسیر ۲۵۰، ۲۷۷، ۴۳۳،۳۵۶ ، تفسیر صغیر ( حضرت مصلح موعود ) 101 تجدید و احیائے دین ۶۰۴،۵۴۳،۵۲۹ ،۴۳۴ ۲۵۰ ΔΥ ۵۲۶ ۵۵۴ تا ۵۵۸ ۵۳۹ تفسیر فتح البیان فی مقاصد القرآن ۷۵ ۲۷۹ ۴۳۲ تفسیر کبیر ( حضرت مصلح موعود ) ۸۵،۷۵ ۳۸۸ | تحدیث نعمت (از چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان ) ۹۱ ۹۲ ، ۵۵۷،۵۵۶،۴۹۵،۳۲۳،۲۸۰،۱۱۹ ۳۶۴ ۴۳۴٬۳۲۳،۱۸۴،۱۶۲ | تفسیر مظهری انوار الاسلام انوار العلوم ایک غلطی کا ازالہ ۶۷۶ | تحریک اسلامی کے عالمی اثرات ۴۳۸ تکذیب براہین احمدیہ ۳۲۳،۲۸۰ ۹۷

Page 749

26 تورات ج جماعت اسلامی کا رخ کردار ۲۶۱، ۳۱۹ رجسٹر ریزولیوشن تحریک جدید ۴۳۲ رجسٹر ریزولیوشن صدرانجمن احمد یہ پاکستان ۱۹۶ ۲۵۰ فقہ احمدیہ ف ق جماعت اسلامی کی دستوری جد و جہد رجسٹر ریزولیوشن صدر انجمن احمد یہ قادیان قادیانی مسئله ۱۹۶،۱۸۴ قائد اعظم اور ان کا عہد حقیقة الوحی ۲۷۸ ،۲۷۷ ۷۱۴،۷۰۵،۵۴۵،۵۴۴ رجسٹر کارروائی مجلس ناظران و وکلاء ۲۵۰، قاعده یسرنا القرآن حیات امیر شریعت ۴۳۱ ،۴۳۲ ۴۳۴۰ | رسائل و مسائل ۴۳۲ قرآن مجید ۴۳۳،۲۷۸ ۸۴،۸۳ ۶۸۷ ۱۳۷ ۶۰۱،۵۵۵،۵۵۴ ،۷۹،۷۵،۶۴،۵۹ ۲۵۰،۱۰۸،۹۳۸۴ حیات بشیر ( عبد القادر صاحب) ۵۹۴ روئیداد جلسه خلافت جو بلی ۷۵ قواعد وضوابط صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۸۴ حیات قمر الانبیاء ( شیخ محمد اسمعیل پانی پتی ) ۶۰۰ روحانی خزائن ۵۳۹ ۴۳۲،۴۳۱ ،۷۵،۶۴،۵۹ ۶۰۰،۵۹۴،۵۸۶،۱۰۱،۸۴ | کاروان سخت جان روح پرور یادیں ۵۴۳ ، ۵۷۷، ۶۱۸ | کشتی نوح حیات نورالدین خ س خطبات احرار خطبات محمود ۴۳۱ ، ۴۸۵ ۷۱۴ سبز اشتہار خطبات ناصر خطبہ الہامیہ کشمیر کی جنگ آزادی ۹۶ کلیات آریہ مسافر ۷۱۴ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کمیونزم اور ڈیما کریسی ۶۶۱ دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات ۲۷۸ (حضرت مرزا بشیر احمد ) دعوة الامير ۶۷۳، ۶۷۶ سواخ بیگم شفیع دیباچہ تفسیر القرآن ۵۹۱ کیفیات زندگی ،۲ ۶۷۵،۷۵،۲۴ ۱۸۴ گم گشته قوم ۲۳۱،۱۹۹ ۶۷۴۶۰۱ ۳۵۷ 1+1 ۶۷۱،۶۶۵ ۴۳۸،۱۴ ۱۸۳ ۱۴ ۱۲۲ سید مودودی.دعوت و تحریک ۴۳۴ مباحثات نیروبی سیرت المہدی ۵۹۶ | مباحثه نیروبی رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ سیرت حضرت اماں جان ۲۵۸ مجاهد هنگری ۴۱۲،۲۷۸ ،۴۱۳، ۴۳۱ تا ۶۴۶،۵۲۹،۴۳۳ سیرت حضرت عثمان رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۷،۱۴ سیرت حضرت مرزا شریف احمد ۳۶،۳۴،۳۱،۲۹،۲۵، ۳۸، ۴۱،۳۹ ، ۱۳۷، سیرت خاتم النبیین ۲۵۰،۲۳۱،۱۹۶، ۶۱۸، ۶۸۲،۶۲۷ | سیر روحانی رپورٹ مجلس مشاورت ،۶۴،۶۰،۵۹ ۱۱۳، ۶۰۰،۵۸۰،۵۶۱،۱۳۷ | طالمود ۵۲۸ مجددین امت اور ان کے تجدیدی کارنامے ۵۸۶ ۵۹۶ مجموعہ اشتہارات ۶۸۸ b ۷۰۵ مسلم مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ۱۴ ۱۹ ۲۹ ۶۰۰،۱۰۱ ۳۸۳،۱۳ ،۲۶۹ ۴۳۲،۴۳۱،۳۶۹ ،۲۷۷ ،۲۷۲

Page 750

27 ۴۳۰ ملا نگت الله مسلم لیگ کا دور حکومت ۶۸۸ نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر ۲۳۲٬۸۴، ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسند احمد بن حنبل ۵۴۷،۸۴ نور الحق مسند سعد بن ابی وقاص مسند عبداللہ بن عمر مند معاذ بن جبل مظالم قادیان کا خونی روز نامچہ ۵۲۸،۴۹۸ ۲۳۲ مودودی صاحب اور ان کی تحریروں ۴۳۲ وحی الہی ۵۲۸ کے متعلق چند اہم مضامین ۸۴ ۱۸۴ نبی معصوم ۲۳۲،۲۳۱ | نصرت الحق ن اُردو اخبارات ۲۵۸ یہودی ریاست ی ۵۲۹،۵۲۸ ۳۸۸ 11 ۲۸۰ ،۲۳۱،۱۹۹،۱۳۷ ، ۱۳۴۶۰۷ ۴۰۵،۳۸۹، ۴۳۳،۴۳۲،۴۳۱، ۴۳۸، زمیندار ،۳۷۶،۳۵۷ ،۳۵۶،۲۷۷ ، ۲۶۰،۲۳۶ ۴۰۵،۳۹۶،۳۸۹ تا ۴۳۱،۴۰۷ تا ۴۳۳، ، ۴۷۹،۴۶۴،۴۶۱ ،۴۵۵ ، ۴۴۶ ،۴۴۳ ،۵۰۴،۵۰۳،۵۰۰ ، ۴۹۹ ، ۴۹۴ ، ۴۸۵ ،۲۵۰،۲۴۸،۲۳۸ ،۲۳۶ ،۴۳۲،۴۰۵،۳۸۹،۳۸۱،۳۷۷ ،۳۷۶ ۵۲۹،۵۲۳،۴۳۳ آزاد ،۴۵۶،۴۳۴،۴۳۳۳۸۹ ۵۱۶،۵۱۵ ،۲۳۱،۲۱۰،۲۰۷ ،۶۰،۸ آفاق احسان ،۳۸۹،۳۵۷ ،۳۳۸ ،۳۲۹،۲۷۷ ،۲۳۲ ۵۱۵،۵۱۴۵۰۹،۵۰۸ تا ۵۲۳،۵۱۹، ۵۲۹،۵۰۶،۴۸۵،۴۶۳،۴۵۶ ۵۱۶،۵۱۵،۵۰۵ ۴۳۴ ،۵۱۰،۵۰۹،۴۵۶ ،۴۴۴ ۵۲۷ تا ۵۶۹٬۵۵۷،۵۵۳،۵۴۳،۵۲۹، | سفینه ۵۹۴،۵۸۶،۵۸۰،۵۷۸،۵۷۶،۵۷۳ ، | شہباز ۶۰۴۶۰۰،۵۹۷، ۶۱۸، ۶۳۶،۶۲۷، کوہستان ۴۳۲۴۱۷ تا ۴۳۴ ۴۵۶ ،۴۴۴ المصل ۴۹۶،۶۴،۱۴ ۱۲۳۲،۲۲۹ ،۶۷۰،۶۶۷ ،۶۶۲۰۶۵۲۰۶۵۱،۶۴۶ ۵۱۱، ۵۱۴ تا ۵۲۶،۵۲۲،۵۱۶تا۵۲۹ ۶۸۲،۶۷۳،۶۷۲، ۶۹۵،۶۹۲،۶۸۷ ، مغربی پاکستان الاعتصام الحكم الرحمت الفضل ۳۴،۳۱،۲۵، ۴۱،۳۸ ، ۵۸ تا ۶۴،۶۰ ، انقلاب ،۱۱۴،۱۱۳،۱۰۸،۱۰۲،۱۰۱ ،۹۳،۸۴ ،۷۹،۷۵ بدر ۷۱۴،۶۹۹ ۴۵۶ ملت ،۴۱۵،۳۸۹ ۴۸۵،۴۶۳،۴۶۲،۴۳۴ ۵۲۹،۴۵۶،۴۳۴۴۳۳ ۴۵۶، ۵۰۵ تا ۵۰۷ ۵۲۹،۵۰۹،۵۰۰،۳۹۰ نوائے پاکستان ۱۴، ۱۷، ۲۴،۲۳،۲۰،۱۹، امروز ۲۵۰ ۶۶۷،۶۴۶،۴۵۶۰۵ ،۵۲۳،۵۱۸،۵۱۶ ، ۵۱۵،۵۱۳،۵۱۲،۵۰۹ ۵۲۹،۵۲۵ ،۱۸۴،۱۶۶،۱۶۳،۱۳۷ ،۴۵۶،۴۳۴،۴۳۳،۳۹۶،۳۹۰،۲۳۲ ۴۵۶،۴۴۵ ۷۱۴۶۹۸ ،۵۲۹،۵۱۶،۵۱۵،۵۱۲ ۴۳۴ ۴۳۲،۴۳۱،۳۶۶،۲۵۰،۶۰، نوائے وقت ۱۱۶ تا ۱۳۵،۱۱۸، ۱۸۳،۱۸۰،۱۶۴،۱۳۷، | پرتاب ،۲۲۹،۲۲۸ ،۱۹۶ ،۱۹۱،۱۸۹،۱۸۶،۱۸۴ ۲۳۲،۲۳۱، ۲۳۸، ۲۵۳،۲۵۰،۲۴۹، ۲۷۷، تعمیر ۷۱۴،۶۹۷ ،۴۵۶،۴۳۲ ۳۲۳،۳۱۶،۲۷۸، ۳۳۷، ۳۸۱،۳۵۷، | جنگ

Page 751

۴۵۶،۴۴۵ ،۳۵،۳۴،۲۷ ،۲۱ ۶۸۲،۶۲۷ ،۶۴،۶۳۴۱ ۳۹۳ ۳۹۱ ۲۶ ۲۵۸ 28 آواز حق احمدیت ۴۵۶ ،۴۴۶ رسائل ۱۹۱، ۱۹۶ | دلچسپ ۲۵۴ | پیغام صلح (لا ہوری رسالہ) ۴۹۵،۴۹۴، ریویو آف ریلیجنز ۵۷۱ ۵۰۷ تا ۵۰۹ ،۵۲۹،۵۲۴،۵۲۲۵۲۰ الاسلام البشرى ۶۷۲،۳۷ | تحریک جدید ۵۶۹ سٹار العرفان ۶۰۶ تفخیذ الا ذہان ۱۸۴ شعله الفرقان ۶۹۵،۹۳ | چٹان ۵۱۶،۵۱۵، ۵۲۹،۵۱۷ | فاروق المنشور ۱۹۳ خالد ۶۸۲،۵۲۸،۱۱۸ | مصباح

Page 752

29 29 انگریزی کتب S SARTOR RESARTUS ON HEROS AND HERO WORSHIP INTRODUCTION TO GEORGE A SALES TRANSLATION OF THE A BOOK OF READINGS ON KORAN 93 THE HOSORY OF THE PUNJAB 93 ISLAM AND SLAVERY 638 60`137 277 T ISLAM OUTSIDE ARAB A HISTORY OF INDIA FROM THE BARROWS LECTURES EARLIEST TIMES TO THE WORLD 29 594 J PRESENT DAY 60 THE BRITISH RAT IN INDIA 60 ARYA DHARAM 101 JEWISH ENCYCLOPEDIA 301 THE EMERGENCE OF A HISTORY OF AFRICA 13 14 JINNAH OF PAKISTAN 137 PAKISTAN 60 183 184 AN INTRODUCTION TO THE K 356 357 HISTORY OF EAST AFRICA KASHMIR FIGHTS FOR THE GATHRING STORM 60 13 14 FREEDOM 356 357 THE HISTORY OF STRUGGLE E KASHMIR STORM CETER OF FOR FREEDOM IN KASHMIR ECONOMIC MANAGEMENT IN THE WORLD 352 356 357 PAKISTAN 277 L THE LIFE AND TEACHINGS OF ECONOMIC SURVEY 2004-2005 LIFE OF MUHAMMAD 648 PROPHET MUHAMMAD 665 277 LISTENER 541 THE MISSIONS OF CHURCH ENCYCLOPEDIA BRITANNICA 29 M MISSIONARY SOCITY 590 F MUHAMMAD AND THE THE PARTITION OF THE FROM JINNAH TO ZIA 277 RELIGION OF ISLAM 93 PUNJAB 184 G P THPREACHING OF ISLAM 19 GLIMPSES OF ISLAMIC PAKISTAN PENAL CODE 456 21'23 WORLD 20 POLISH EGYPTIAN THE TOMB OF JESUS 648 GOD'S ENGLISHMAN 482 RELATIONS 20 THE SECOND GREAT WAR 60 H Q THE STATE OF ISRAEL 323 HARIJAN 137 QUAID-E-AZAM SPEECHES 277 TWO NATIONS AND I QUDIAN A TEST CASE 232 INDIA WINS FREEDOM 60° KASHMIR 357 183 184

Page 753

30 Y YEAR OF DECIASIONS W THE GUIDANCE 627 137 WHERE DIED JESUS 656 | THE HINDU 137 YE WERE TOLD BUT I TELL WHY I BELIEVE IN ISLAM THE MUSLIM TIMES 16 YOU 638 665 674 THE SIND OBSERVER 433 YOUNG INDIA 137 THE STATESMAN 232 انگریزی اخبارات ورسائل ۱۲۴ سول اینڈ ملٹری گزٹ احمد یہ گزٹ ۶۵۰ | ٹائمنر احمد یہ نیوز افریقن کریسنٹ ایسٹ افریقن ٹائمنر ایکٹو اسلام پاکستان ٹائمنر ۶۲۷ ٹروتھ ۶۱۶ | ڈان ۶۴۴ ڈیلی ٹیلیگراف ۵۴۷ ڈیلی گرافک ۳۵۷ ،۲۳۲،۲۱۲ ڈیلی میل ۵۲۹،۵۲۲،۵۱۱،۳۹۰ | سن رائز ۶۳۲،۵۴۲ ۳۹۳،۳۹۰،۱۸۴ ،۲۳۱،۲۱۵ ،۴۱۹،۳۹۳،۳۹۰ ،۳۵۷ ،۳۲۳،۲۳۲ ۶۹۸،۴۳۴۴۳۳ ۶۴۶۲ ۵۷ سول اینڈ ملٹری نیوز ۲۳۲،۲۱۵ ۳۹۴ ۶۲۶،۶۱۸،۶۰۵ متفرقات کنگڈم نیوز مسلم سن رائز ۴۱ ، ۵۴۷ ، غیر مطبوعہ ڈائریاں ۶۸۷ ریکارڈ وکالت تبشیر ۶۵۴ ۶۴۸ ۴۸۵،۲۳۲ 672 ،۶۲۷ ،۶۱۸ ،۵۷۸ ،۵۷۷،۵۷۱،۵۶۹ LE MESSAGE MAPENZI YA MUNGU 11 ( سواحیلی رساله) ۷۵ ،۶۲۲،۶۵۲۰۶۵۱،۶۴۷ ،۶۴۶،۶۳۶ ۶۸۵ ،۶۸۵،۶۸۲۶۷۳۶۷۰،۶۶۷ ۶۸۸،۶۸۷ ۱۲،۱۱ الْكُفْرُ مِلَّة وَاحِدَةً الوفاء باحوال المصطفى تھوتھن (THOOTHAN) رافیکی یا تو (RAFIKI YETU)

Page 753