Silsila Ahmadiyya Vol 1

Silsila Ahmadiyya Vol 1

سلسلہ احمدیہ

جلد اوّل 1889 تا 1939
Author: Hazrat Mirza Bashir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے 1939ء میں منائی جانے والی خلافت جوبلی کے موقع پر یہ کتاب تصنیف فرمائی تھی کہ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ اور سلسلہ کی غرض و غایت اور سلسلہ کے مستقبل کے متعلق قارئین کو طویل علمی بحثوں میں الجھے بغیر یکجائی طور پر ضروری اور مستند معلومات میسر آجائیں۔ اورکھل کر سامنے آجائے کہ یہ سلسلہ کیا ہے؟ کس غرض وغائت کے ماتحت قائم کیا گیا؟ اور اس کے مستقبل کے متعلق کیا کیا امیدیں وابستہ  ہیں؟ اس کتاب میں مصنف نے نہایت جامعیت کے ساتھ بانی سلسلہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے حالات زندگی، دعاوی، نشانات، مخالفین اور فتوحات  سے شروع کرکے 1939ء کی جماعتی حالات کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے اور آخر پر نظام جماعت کا ڈھانچہ بتا کرجماعت کی تب تک کی عالمی وسعتیں اور سلسلہ کے متعلق بانی جماعت کی پیش گوئیاں درج کی ہیں۔


Book Content

Page 1

******** ******* سلسلہ احمدیہ جلد اوّل ۱۸۸۹ء ١٨٣٩ء تصنیف لطیف حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ***** ****

Page 2

بتقريد لافت جوبلی سلسلہ احمدیہ تصنيف لطيف حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے جس میں سلسله احمدیه کی پچاس ساله تاریخ کے علاوہ سلسلہ کے مخصوص عقائد سلسله کی غرض و غایت اور سلسله کے مستقبل کے متعلق سیر کن بحث کی گئی ہے.نظارت تالیف و تصنیف قادیان نے حضرت امیر المومنين خليفة المسيح الثانی کی خلافت جوبلی کے موقع پر طبع کرا کے شائع کیا دسمبر ۱۹۳۹ء

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض حال ایک عرصہ سے میری یہ خواہش تھی کہ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ اور سلسلہ کے مخصوص عقائد اور سلسلہ کی غرض و غایت اور سلسلہ کے مستقبل کے متعلق ایک مختصر مگر جامع رسالہ تصنیف کر کے ہدیہ ناظرین کروں تا کہ یہ رسالہ ان اصحاب کے کام آسکے جو سلسلہ احمدیہ کے متعلق علمی بحثوں میں پڑنے کے بغیر اس کے متعلق عام مگر مستند معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ کیا ہے اور کس غرض و غایت کے ماتحت قائم ہوا ہے اور اس کے مستقبل کے متعلق کیا کیا امید میں وابستہ ہیں.اب جب حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خلافت جو بلی کی خوشی کا موقع آیا تو میرے دل کی یہ پرانی آرزو پھر تازہ ہوگئی اور میں نے خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے پورا کرنے کا تہیہ کر لیا.اس عرصہ میں مجھے یہ معلوم کر کے اور بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ خود حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا بھی ارادہ تھا جیسا کہ آپ نے سیرت مسیح موعود کی تمہید میں لکھا ہے کہ اس قسم کا رسالہ تصنیف کر کے شائع فرما ئیں مگر دوسری اہم مصروفیتوں کی وجہ سے حضور کو فرصت نہیں مل سکی گویا میری یہ ناچیز کوشش حضور کے اس مبارک ارادہ کو بھی ایک حد تک پورا کرنے والی ہے.اس رسالہ کا آخری نصف حصہ بہت جلدی میں اور آخری وقت پر لکھا گیا ہے اس لئے وہ اس قدر جامع اور مکمل نہیں جیسا کہ اسے بنایا جاسکتا تھا اور ممکن ہے کہ اس میں کو ئی غلطی بھی رہ گئی ہولیکن خدا نے چاہا تو یہ کمی کسی اور موقع پر پوری ہو جائے گی.

Page 4

اس رسالہ کی تیاری میں مجھے مکرمی ملک محمد عبد اللہ صاحب مولوی فاضل نے حوالوں وغیرہ کی تلاش میں اور کاپیوں اور پروفوں کے دیکھنے میں بہت مدددی ہے.اسی طرح مولوی نعمت اللہ صاحب نگران بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے رسالہ کی طباعت میں محنت اور توجہ سے کام کیا ہے اور سید محمد باقر صاحب کا تب رسالہ ہذا نے بھی آخری کا پہیاں دن رات لگا کر لکھی ہیں.اللہ تعالیٰ ان ہرسہ اصحاب کو جزائے خیر دے اور اس رسالہ کو قبولیت کا شرف عطا فرمائے کہ یہی مؤلّف کی واحد خواہش اور آرزو ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد قادیان ۲۰ / دسمبر ۱۹۳۹ء

Page 5

مضمون چند ابتدائی امور اس رسالہ کی ضرورت سلسلہ احمدیہ کی غرض و غایت بانی سلسلہ احمدیہ کے خاندانی حالات فہرست مضامین سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ شہب ثاقبہ کا نشان صفحہ مضمون ہوشیار پور میں خلوت کی عبادت اور الہام پسر موعود بشیر اول کی ولادت اور وفات سلسلہ احمدیہ کی مختصر تاریخ بانی سلسلہ احمدیہ کے سوانح حضرت مسیح موعود کا زمانہ کا موریت ۲۳ ۲۶ ۲۸ ۲۹ ۳۲ } ٣٣ ۳۵ ۳۷ ۳۸ ۴۱ ۴۲ سلسلہ بیعت کا آغاز مسیحیت کا دعوی مہدویت کا دعویٰ کفر اور بائیکاٹ کا فتویٰ حضرت مسیح موعود کا بلند اخلاقی معیار 1.۱۳ قبل از بعثت نام اور ولادت بچپن اور ابتدائی تعلیم شباب والدہ کی وفات سایہ پدری کے آخری ایام والد کی وفات اور خدائی کفالت ۱۴ ابتدائی مناظرات ۱۵ علم کلام کے دو زریں اصول پبلک زندگی کا آغاز اور براہین احمدیہ کی تصنیف تفسیر نویسی کا چیلنج اور قرآنی علوم کے ۱۶ غیر محدود ہونے کا دعویٰ جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ ۱۸ ۲۲ ماموریت کا پہلا الہام حضرت مسیح موعود کی شادی اور مبشر اولاد

Page 6

صفحہ ۷۹ ۸۰ ۸۲ ۸۴ ۸۸ ۸۹ ۹۳ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۱۰۳ ۱۰۵ ۱۰۷ ۱۱۲ 117 ۱۱۹ 2 مضمون حضرت مسیح موعود کی مہمان نوازی تین بڑی قوموں کے متعلق پیشگوئیاں پیشگوئیوں کے متعلق دو بنیادی اصول قبولیت دعا کا مسئلہ عربی میں مقابلہ کی دعوت کسوف خسوف کا نشان عربی کے اُم الالسنہ ہونے کے متعلق دعویٰ مذہبی مباحثات کے متعلق وائسرائے کی خدمت میں میموریل صفحہ مضمون ۴۳ قادیان میں سکول اور اخبار کا اجراء ۴۴ ۵۱ ۵۲ " ۵۴ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے اور انہیں احمدی لڑکیوں کا رشتہ نہ دینے کے متعلق احکامات حضرت مسیح موعود کے خلاف ایک اور فوجداری مقدمه آپ کی اضطراب اور کرب کی دعائیں ۵۶ حضرت مسیح موعود کا آخری فرزند اور اس کی ۵۷ ۵۸ وفات بشپ آف لاہور کو مقابلہ کا چیلنج خطبہ الہامیہ حضرت بابا نانک کے متعلق ایک زبر دست ممانعت جہاد کا فتویٰ انکشاف مخالفین کو مباہلہ کا چیلنج غیر احمدی مسلمانوں کو صلح کی دعوت ۶۱ ۶۲ 3 جلسہ مذاہب اور حضرت مسیح موعود کی بے نظیر کامیابی ۶۷ پنڈت لیکھرام کی موت ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جو بلی حضرت مسیح موعود کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دشمن کے ساتھ احسان کا سلوک سفیر ترکی کی قادیان میں آمد حضرت مسیح ناصری کے متعلق ایک عظیم الشان تحقیق ง ۷۲ ۷۳ ۷۴ جماعت کا نام احمدی رکھا جانا جماعت کی ترقی اور اس کے اسباب مقدمہ دیوار اور ہرم دیوار پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی مخالفت ظلی نبوت کا دعویٰ اور ختم نبوت کی تشریح مغربی ممالک میں تبلیغ کا جوش اور ریویو آف ريليجنز کا اجراء پنجاب میں طاعون کا زور اور جماعت ۷۴ کی غیر معمولی ترقی ۷۶ حضرت مسیح موعود کی تعلیم کا خلاصہ

Page 7

3 مضمون صفحہ مضمون حضرت مسیح موعود کا تعلیم وتربیت کا طریق ۱۲۴ لاہور میں آریوں کا جلسہ اور چشمہ معرفت کی جماعت کے چندوں کی تنظیم ۱۲۸ تصنیف ایک نئے مخالف ( مولوی ثناء اللہ صاحب) کا قادیان میں فنانشل کمشنر کی آمد منارة امسیح کا سنگ بنیاد ایک اور مقدمہ کا آغاز اور سفر جہلم و گورداسپور مولوی عبداللطیف صاحب کی شہادت لاہور اور سیالکوٹ کے سفر اور مثیل کرشن ہونے کا دعویٰ ۱۳۰ ۱۳۳ ۱۳۵ ۱۳۸ قادیان میں دو امریکن سیاحوں کی آمد سفر لا ہوراور وفات کے الہامات کا اعادہ لاہور کے رؤساء کو دعوت ایک پبلک لیکچر کی تجویز اور پیغام صلح کی تصنیف ایک تباہ کن زلزلہ اور خدائی پیشگوئی کا ظہور ۱۴۲ قرب وفات کے متعلق آخری الہام ۱۴۴ وصال اکبر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات سفر د ہلی ولدھیانہ و امرتسر ۱۳۹ وفات پر اپنوں اور بیگانوں کی حالت صفحہ ۱۶۷ ۱۶۹ ۱۷۰ ง 121 ۱۷۳ ۱۷۳ ۱۷۵ ۱۷۸ ۱۸۰ ۱۸۲ IAZ ۱۸۸ ور حضرت مسیح موعود کی وصیت اور بہشتی مقبرہ کا قیام تکفین و تدفیق اور قدرت ثانیہ کا پہلا جلوہ مدرسہ احمدیہ کی ابتداء ۱۴۷ ۱۵۱ حضرت مسیح موعود کی وفات پر بعض اخبارات حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخری دور کا آغاز ۱۵۳ حضرت مسیح موعود کا حلیہ اور اخلاق و عادات خلیہ مبارک مبارک اور ذاتی خصائل اپنے خدا دادمشن کے متعلق کامل یقین اور نحضرت ﷺ کے ساتھ بے نظیر عشق و محبت ذہبی بزرگوں کا احترام ۱۶۰ ۱۶۲ ۱۶۳ ۱۶۶ صدر انجمن احمدیہ کا قیام رسالہ تشحیذ الا ذہان کا اجراء ڈاکٹر عبدالحکیم خان کا ارتداد اور حقیقۃ الوحی کی تصنیف پنجاب میں بغاوت اور اس پر حضرت مسیح موعود کا اعلان

Page 8

صفحہ ۲۳۱ ۲۳۵ ۲۳۶ ۲۴۵ ۲۴۷ ۲۴۹ ۲۵۰ ۲۵۱ ۲۵۳ ۲۵۵ ۲۵۶ ۲۵۸ ۲۵۹ ۲۶۰ ۲۶۳ ۲۶۶ ۲۶۷ ۲۷۰ ۲۷۱ مضمون صفحہ حضرت مسیح موعود کا صبر و استقلال و شجاعت ۱۹۳ مسیحیت کا دعوی محنت و انہماک عبادت الہی تقوی اللہ اور اطاعت رسول راست گفتاری تکلفات سے پاک زندگی ۱۹۴ مہدویت کا دعوی ۱۹۶ نبوت کا دعویٰ مضمون تمام انبیاء کے مثیل ہونے کا دعویٰ ۱۹۹ حضرت مسیح موعود کا مقام ۲۰۱ خدا کی کوئی صفت معطل نہیں بیوی بچوں کے ساتھ سلوک ۲۰۵ دعا ایک زندہ طاقت ہے دشمنوں کے ساتھ سلوک ۲۰۷ الہام کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے توحید کی حقیقت اور مخفی شرک کی تشریح اسلامی تعلیم کا مختصر ڈھانچہ ایمان باللہ کی حقیقت احمدیت اسلام کا ہی دوسرا نام ہے اسلام کی ابتدائی تاریخ اسلامی تعلیم کا اصل الاصول اسلام و دیگر مذاہب میں اصولی فرق اسلامی عبادت ۲۱۴ ملائکۃ اللہ کی حقیقت ۲۱۶ اس دنیا کی عمر اور خلق آدم ۲۱۸ مسئله ارتقاء ۲۲۲ تمام قوموں میں رسول آئے ہیں حقوق العباد کے متعلق اسلامی تعلیم ۲۲۳ سچاند ہب اسی دنیا میں پھل دیتا ہے اسلامی نظام حکومت ۲۲۷ قرآن شریف میں کوئی آیت منسوخ نہیں انسانی پیدائش کی غرض و غایت ۲۲۷ موت کے بعد دوسری زندگی ۲۲۸ قرآن شریف کو حدیث پر فضیلت ہے قرآن شریف کے معانی غیر محدود ہیں جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد نبوت کا سلسلہ بند نہیں ہوا الہام کی حقیقت ۲۳۰ حضرت مسیح موعود کا مجددیت کا دعویٰ

Page 9

5 جہاد کی حقیقت مضمون وفات مسیح اور عدم رجوع موتی معراج کی حقیقت معجزات کی حقیقت صفحہ ۲۷۴ مضمون بارش سے پہلے بادلوں کی گرج ۲۷ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا انتخاب اور ۲۷۷ ۲۷۸ ۲۸۳ بیعت خلافت حضرت خلیفہ اسی الثانی جنت و دوزخ کی حقیقت اسلامی فرقوں کے باہمی اختلافات ۲۸۹ شان موعود جماعت احمدیہ کی عملی اصلاح ۲۹۰ کا عہد خلافت حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت عہد خلافت ثانیہ کی ابتدائی کشمکش صفحہ ۳۱۹ ۳۲۸ ۳۳۰ ۳۳۵ ۳۴۰ ۳۴۵ ۳۴۶ ۳۴۷ ۳۴۸ ۳۴۹ ۳۵۰ ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۲ احمدیت کی غرض و غایت نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین ۲۹۷ اختلافی مسائل کا آغاز و انجام خلافت کا نظام اور حضرت خلافت ثانیہ میں واقعات کا غیر معمولی ہجوم خلیفہ اسیح الاوّل کا عہد خلافت جنگ عظیم اور جماعت احمدیہ خلافت کا نظام جماعت احمدیہ میں پہلے خلیفہ کا انتخاب جماعت پھر ایک جھنڈے کے نیچے ۲۹۹ جماعت کی تبلیغی کوششوں میں توسیع اور ایک نا در تفسیر ٣٠٣ منارة المسیح کی تجمیل ۳۰۴ جماعت احمدیہ کا دوسرا بیرونی مشن اور ماریشس کی جماعت کا قیام ۳۰۵ ۳۱۰ جماعت میں انشقاق کا بیج قرآن شریف کا انگریزی ترجمہ احمد یہ ہوٹل لاہور کا قیام قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر ۳۱۱ جماعت احمدیہ کے پریس میں نمایاں اضافہ ۳۱۲ ہندوستان کے دروازہ کی ناکہ بندی انفلوانزا کی عالمگیر و با میں جماعت کی جماعت احمدیہ کا پہلا بیرونی مشن ۳۱۳ بے لوث خدمات حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی علالت اور وفات ۳۱۵ ہندوستان میں زبردست سیاسی ہیجان اور حضرت خلیفت اُسی اول کا بلند مقام ۳۱۶ جماعت احمدیہ کا رویہ

Page 10

صفحہ ۳۹۰ ۳۹۲ ۳۹۶ ۴۰۳ ۴۰۶ ۴۱۷ ۴۱۸ ۴۲۰ ۴۲۲ ۴۲۵ ۴۲۹ 6 مضمون صفحہ مضمون جماعت کے مرکزی نظم ونسق میں اصلاح ۳۵۵ قادیان کی ترقی اور قادیان میں ریل کی آمد صیغہ قضاء کا قیام امریکہ کا دار التبلیغ مغربی افریقہ کا دارالتبلیغ مجلس مشاورت کا قیام صوبہ یوپی میں ارتداد کی زبر دست رو ۳۵۶ سائمن کمیشن اور گول میز کانفرنس کے تعلق میں ۳۵۷ حضرت خلیفتہ امسیح کے سیاسی کارنامے ۳۵۸ تحریک کشمیر اور جماعت کی تاریخ میں ایک ۳۶۰ | انقلابی دور کا آغاز اور جماعت احمدیہ کی والہا نہ جد و جہد ۳۶۱ بہار کی سرزمین اچھوت اقوام میں تبلیغ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا سفر ولایت کابل میں ایک اور احمدی کی شہادت بخارا اور ایران کے تبلیغی وفد ۳۷۴ خدا کے دو تازہ نشان.افغانستان کا تخت اور دور جدیدا اور تحریک جدید خدام الاحمدیہ حضرت خلیفہ المسیح کے خطبات و تقاریر خلافت جو بلی ۳۷۵ دمشق و فلسطین و مصر کا دار التبلیغ دار التبليغ سماٹرا و جاوا تعمیر و افتتاح مسجد لندن سفارت عراق احمدی مستورات کی تنظیم و تربیت مذہبی پیشواؤں کی حفاظت ناموس کے لئے جد و جہد ۳۷۷ ۳۷۹ ٣٧٩ ۳۸۲ جماعت احمدیہ کا نظام جماعت کے نظام کا ڈھانچہ اور چندوں کا انتظام جماعت احمدیہ کی موجودہ وسعت جماعت کی تعداد کتنی ہے اور کہاں کہاں پائی جاتی ہے مسلمانوں کی اقتصادی پا بحالی کیلئے جدو جہد ۳۸۵ جماعت احمدیہ کا مستقبل مسلمانوں میں باہمی اتحاد کی کوشش اور ایک جماعت احمدیہ کی بے نظیر ترقی کے متعلق مشترک پلیٹ فارم کی تجویز ۳۸۷ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں

Page 11

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود چند ابتدائی امور اس رسالہ کی ضرورت :.کے متعلق اس وقت تک بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض نہایت بلند پایہ رکھتی ہیں لیکن باوجود اس کے جماعت کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر یہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ کے متعلق ایک ایسا رسالہ لکھ کر شائع کیا جائے جس میں اختصار اور وضاحت کے ساتھ بانی سلسلہ کے مختصر حالات.سلسلہ کی مختصر تاریخ سلسلہ کے مخصوص مذہبی عقائد.سلسلہ کا نظام.سلسلہ کی موجودہ وسعت.سلسلہ کے مستقبل کے متعلق امیدیں وغیرہ بیان کی جائیں تا کہ اگر خدا چاہے تو یہ رسالہ دور نگ میں مفید ہو سکے.اوّل:.وہ ان غیر احمدی اور غیر مسلم محققین کے کام آسکے جو کے متعلق مذہبی اور علمی بحثوں میں پڑنے کے بغیر عام تاریخی رنگ میں مختصر مگر صحی اور مستند معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں.دوم :.وہ ان نو احمدیوں اور نو عمر پیدائشی احمدیوں کے لئے بھی مفید ہو سکے جو میں نئے نئے داخل ہونے کی وجہ سے یا اپنی کم عمری یا مطالعہ کی کمی کی وجہ سے ابھی تک سلسلہ کی اصل غرض و غایت اور اس کے مخصوص مذہبی عقاید اور اس کی تاریخ سے ناواقف ہیں.اس رسالہ کی بس یہی دو غرضیں ہیں لیکن جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کر دیا ہے میں اس رسالہ میں کسی لمبی چوڑی مذہبی بحث میں نہیں پڑوں گا بلکہ محض سادہ اور مختصر رنگ میں مذکورہ بالا عنوانوں کے ماتحت معروف اور مستند باتیں بیان کرنے پر اکتفا کی جائے گی تا کہ اگر خدا چاہے تو اس ذریعہ سے ایک غیر مسلم یا غیر احمدی یا ایک نواحمدی یا نو عمر نا واقف احمدی تحریک احمدیت کے سمجھنے اور اس کی حقیقت اور وسعت کا اندازہ کرنے میں مدد حاصل کر سکے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس رسالہ کے لکھنے میں صداقت اور راستی پر قائم رکھے.اور میری تحریر میں وہ اثر پیدا کرے جو اس نے ہمیشہ سے حق وصداقت کے لئے مقدر کر رکھا ہے.وَاَرْجُو مِنْهُ خَيْرًا وَ اَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ.

Page 12

کی غرض وغایت:.سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ احمدیت اس مذہبی تحریک کا نام ہے جس کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ایک باقاعدہ جماعت کی صورت میں ۱۸۸۹ء مطابق ۱۳۰۶ھ میں خدا کے حکم سے رکھی.یہ خدائی حکم اپنی نوعیت میں ایسا ہی تھا جیسا کہ آج سے ساڑھے انیس سو سال قبل موسوی سلسلہ میں حضرت مسیح ناصری کے ذریعہ نازل ہوا تھا.مگر جیسا کہ حقیقی مسیحیت کوئی نیا مذہب نہیں تھی بلکہ صرف موسویت کی تجدید کا دوسرا نام تھی اسی طرح احمدیت بھی کسی نئے مذہب کا نام نہیں ہے اور نہ ہی بانی کا یہ دعویٰ تھا کہ آپ کوئی نئی شریعت لائے ہیں بلکہ احمدیت کی غرض و غایت تجدید اسلام اور خدمت اسلام تک محدود ہے.حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا یہ دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت کی اصلاح اور اسلام کی خدمت کے لئے مامور کیا ہے اور اسلام کی خدمت کے مفہوم میں اسلام کے چہرہ کوگردوغبار سے صاف کرنا.اسلام کی تبلیغ واشاعت کا انتظام کرنا.اسلام کو دوسرے مذاہب کے مقابل پر غالب کرنا اور اسلام میں ہو کر دنیا کے غلط عقائد و اعمال کی اصلاح کرنا شامل ہے.چنانچہ آپ کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا کام چھ حصوں میں منقسم تھا.اول :.خالق ہستی کے متعلق مخلوق میں زندہ ایمان اور حقیقی عرفان پیدا کرنا اور خدا اور انسان کے درمیان اس تعلق کو جوڑ دینا جو انسانی پیدائش کی اصل غرض وغایت اور اسلام کا اولین مقصد ہے.دوم: مخصوص طور پر مسلمانوں کی اعتقادی اور عملی اصلاح کا انتظام کرنا.یعنی مرور زمانہ کی وجہ سے جو جو اعتقادی اور عملی غلطیاں مسلمانوں کے اندر پیدا ہو چکی تھیں.انہیں خدائی منشاء کے ماتحت دُور کرنا.سوم:.موجودہ زمانہ کی وسیع ضروریات کے پیش نظر قرآن شریف کے مخفی خزانوں کو باہر نکال کر ان کی اشاعت کا انتظام کرنا.اس ضمن میں یہ بات قابل نوٹ ہے کہ بانی کا یہ دعوی تھا جس نے اسلامی علوم میں ایک بالکل نیا دروازہ کھول دیا کہ گو قرآن شریف کے نزول کے ساتھ شریعت اپنی تکمیل کو پہنچ چکی ہے اور اس کے بعد کوئی نئی شریعت نہیں مگر جس طرح اس مادی عالم میں سے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق نئے نئے خزانے نکلتے رہتے ہیں اسی طرح قرآن شریف سے

Page 13

بھی جو گویا ایک روحانی عالم ہے، ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق نئے نئے خزانے نکلتے رہیں گے اور اس طرح تکمیل شریعت کے باوجود دین کے علمی حصہ میں نمو اور ترقی کا سلسلہ جاری رہے گا.چہارم:.دنیا کے دوسرے مذاہب کے مقابل پر اسلام کو غالب کر دکھانا یعنی اسلام کے سوا دنیا میں جتنے مذاہب پائے جاتے ہیں یا جو جو خیالات اسلام کے خلاف دنیا میں قائم ہیں انہیں غلط ثابت کر کے ان کے مقابل پر اسلام کو سچا ثابت کرنا اور خصوصیت کے ساتھ صلیبی مذہب کے زور کو توڑ نا جو اس زمانہ میں مادیت اور دہریت کے انتشار کا سب سے بڑا ذریعہ بن رہا ہے.پنجم:.اقوام عالم کو اس ایمان پر جمع کرنا کہ جو خبر آخری زمانہ کے متعلق مختلف مذاہب میں ایک زبر دست روحانی مصلح کی آمد کے بارے میں دی گئی تھی جس کے ذریعہ ہر قوم کو اس کی گری ہوئی حالت کے بعد پھر اٹھنے کی امید دلائی گئی تھی مگر جسے غلطی سے مختلف قوموں میں علیحدہ علیحدہ مصلحوں کی آمد سمجھ لیا گیا تھا وہ اسلام میں ہو کر بانی احمدیت کے وجود میں پوری ہوئی ہے اس لئے سب قوموں کے موعود مصلح آپ ہی ہیں اور آپ کو سب نبیوں کا بروز بنا کر مبعوث کیا گیا ہے.چنانچہ آپ کا یہ دعویٰ تھا کہ میں مسلمانوں کے لئے مہدی ہوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح ہوں اور ہندوؤں کے لئے کرشن ہوں وغیر ذالک.ششم:.دنیا میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے ماتحت ایک ایسے جدید نظام کو قائم کرنا جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے لحاظ سے بہترین بنیاد پر قائم ہوتا کہ یہ نظام آہستہ آہستہ وسیع ہو کر ساری دنیا پر چھا جاوے.یعنی ایک ایسی جماعت قائم کرنا جو ایک طرف تو خدا تعالیٰ کے متعلق زندہ ایمان اور حقیقی عرفان پر قائم ہو اور دوسری طرف وہ افراد اور اقوام کے باہمی تعلقات کا بھی بہترین نمونہ ہو اور یہ جماعت اسلام کی طرح بین الا قوام بنیاد پر قائم ہو کر آہستہ آہستہ دنیا کی ساری جماعتوں اور سارے نظاموں پر غالب آ جائے.مگر بایں ہمہ مختلف قوموں کے لئے ان کی اپنی اپنی مخصوص تہذیب میں بھی جہاں تک کہ وہ وسیع اسلامی تعلیم و تمدن کے ساتھ نہیں ٹکراتی نمو اور ترقی کا رستہ کھلا رہے.یہ وہ چھ اہم مقاصد تھے جو بانی نے اپنی بعثت کی غرض وغایت کے متعلق بیان کئے ہیں اور احمدیت کی ساری تاریخ انہی چھ نکتوں کے اردگر دگھومتی ہے.

Page 14

بانی کے خاندانی حالات بانی پنجاب کے ایک مشہور مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو فارسی الاصل تھا اور شاہان مغلیہ سے لے کر اس وقت تک اپنے علاقہ میں اپنی وجاہت اور عزت اور اثر کی وجہ سے ممتاز رہا ہے.خاندان کی ابتداء یوں بیان کی جاتی ہے کہ ۱۵۳۰ء میں یا اس کے قریب جبکہ شاہنشاہ ابر کا زمانہ تھا ایک شخص مرزا ہادی بیگ نامی جوامیر تیمور کے چا حاجی برلاس کی نسل میں سے تھا اور ایک با اثر اور علم دوست رئیس تھا اپنے چند عزیزوں اور خدمت گاروں کے ساتھ اپنے وطن سے نکل کر ہندوستان کی طرف آیا اور پنجاب میں لاہور سے قریباً ستر میل شمال مشرق کی طرف بڑھ کر دریائے بیاس کے قریب ایک جنگل میں اپنے کیمپ کی بنیاد رکھی.ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مرزا ہادی بیگ کو دہلی کی شاہی حکومت کی طرف سے اس علاقہ کا قاضی یعنی حاکم اعلیٰ مقرر کر دیا گیا.چونکہ مرزا ہادی بیگ نے اپنے کیمپ کا نام اسلام پور رکھا تھا اس لئے وہ آہستہ آہستہ ملک کے محاورہ کے مطابق اسلام پور قاضیاں کہلانے لگا.اور پھر مرور زمانہ اور کثرت استعمال سے اسلام پور کا لفظ گر گیا اور صرف قاضیاں رہ گیا جو بالآ خر بگڑ کر قادیان بن گیا اور اب یہی اس قصبہ کا نام ہے جس میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب پیدا ہوئے.مرزا ہادی بیگ کو قادیان کے اردگرد بہت سے دیہات بطور جاگیر عطا ہوئے تھے جن پر ان کی ایک رنگ میں حکومت قائم تھی اور اس علاقہ کی قضا کے ساتھ مل کر انہیں ایک بہت وسیع اثر حاصل ہو گیا تھا.ان کے بعد ان کی اولا دبھی شاہی احکام کے ماتحت اس علاقہ کی رئیس اور حکمران رہی اور اس خاندان کے افراد در بار مغلیہ میں ہمیشہ عزت کی نظر سے دیکھے جاتے رہے.چنانچہ مرزا فیض محمد صاحب جو بانی کے والد کے پڑدادا تھے انہیں دہلی کے شاہنشاہ فرخ سیر نے ۱۷۱۶ء میں مفت ہزاری کا عہدہ عطا کر کے عضد الدولہ کا خطاب دیا تھا.ہفت ہزاری کے عہدے کا یہ

Page 15

مطلب تھا کہ وہ خود اپنے طور پر سات ہزار نو جوانوں کی فوج رکھ سکتے تھے اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ یہ منصب ایسا تھا کہ اس زمانہ میں بہت ہی کم لوگوں کو عطا ہوتا تھا.اسی طرح مرزا فیض محمد صاحب کے فرزند مرزا گل محمد صاحب کے متعلق بھی خاندانی ریکارڈ سے پتہ لگتا ہے کہ دہلی کے دربار میں ان کی بہت عزت تھی اور بادشاہ وقت کے ساتھ ان کی خط و کتابت رہتی تھی اور ان کے عہد میں ایک دفعہ دربار دہلی کا وزیر غیاث الدولہ بھی قادیان آیا تھا اور ان کے مختصر مگر سنجیدہ اور بارعب در بار کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا تھا.مرزا گل محمد صاحب ایک نہایت متقی اور پارسا انسان تھے اور اپنے علاقہ میں بطور ایک ولی کے شہرت رکھتے تھے اور اس نیکی اور ولایت کے ساتھ ساتھ وہ ایک اعلیٰ درجہ کے مد بر اور جرنیل بھی تھے.مرزا گل محمد صاحب نے ایک لمبا زمانہ پایا.ان کے آخری ایام میں جبکہ مغلیہ سلطنت بہت کمزور ہوگئی پنجاب میں سکھوں نے طوائف الملو کی اختیار کر کے زور پکڑ لیا اور ان کا سب سے زیادہ زور پنجاب کے وسطی حصہ میں تھا جس میں قادیان واقع ہے.اس وقت بانی کے بزرگوں کو نہایت سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور قادیان کی چھوٹی سی ریاست جو اس وقت تک قریباً آزاد ہو کر خود مختار ہو چکی تھی چاروں طرف سے سکھوں کے حملہ کا شکار ہونے لگی اور گومرزا گل محمد صاحب نے اپنی ہمت اور قابلیت کے ساتھ سکھوں کو غالب نہیں ہونے دیا مگر پھر بھی جدی ریاست کے بعض دیہات ان کے قبضہ سے نکل گئے.لیکن ان کے بعد ان کے لڑکے مرزا عطا محمد صاحب کے زمانہ میں سکھ بہت زور پکڑ گئے.حتی کہ وہ دن آیا کہ اس خاندان کو مغلوب ہو کر قادیان سے نکلنا پڑا.یہ واقعہ غالبا۱۸۰۲ ء کا ہے جبکہ سکھوں کی ایک مشہور جنگجو پارٹی نے جو رام گڑھیہ مسل کہلاتی تھی قادیان پر جو اس وقت ایک قلعہ کی صورت میں تھا قبضہ حاصل کیا.اس وقت اس خاندان پر سخت تباہی آئی اور وہ اسرائیلی قوم کی طرح اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور ان کا سب مال و متاع لوٹ لیا گیا اور کئی مسجد میں اور مکانات مسمار کئے گئے اور باغات ویران کر دیئے گئے اور ایک قیمتی کتب خانہ بھی

Page 16

۶ جلا دیا گیا اور مرزا عطا محمد صاحب کو جو بانی کے دادا تھے کئی سال تک ایک قریب کی ریاست میں جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی اور آخر اسی غریب الوطنی کی حالت میں ان کی وفات ہوئی.ان کے بعد بانی کے والد مرزا غلام مرتضی صاحب کو بھی اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں بڑی تلخی کاسامنا رہا اور بلآخر جبکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے متفرق سکھ رؤساء کوزبر کر کے پنجاب میں ایک واحد سکھ حکومت قائم کی تو اس وقت مہاراجہ کی اجازت سے مرزا غلام مرتضی صاحب اپنے وطن قادیان میں واپس آگئے.مگر اس عرصہ میں جدی ریاست کے سب گاؤں جو اس وقت بھی اسی (۸۰) سے اوپر تھے قبضہ سے نکل چکے تھے اور صرف قادیان اور اس کے اردگرد کے چند دیہات پر حقوق تسلیم کئے گئے.قادیان میں واپس آنے کے بعد مرزا غلام مرتضی صاحب نے جو ایک نہایت ماہر طبیب ہونے کے علاوہ ایک بہت بارعب اور بہادر اور خود دار انسان تھے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خواہش پر پنجاب کی سکھ حکومت کے ماتحت ایک فوجی عہدہ قبول کیا اور مہاراجہ کی زندگی میں اور اس کے کئی سال بعد تک نہایت نمایاں خدمات سرانجام دیں اور جب ۱۸۴۸ء میں مرکزی سکھ حکومت کے خلاف پنجاب کے بعض حصوں میں بغاوت کا جھنڈا بلند ہوا تو مرزا غلام مرتضی صاحب نے حکومت وقت کا ساتھ دیا اور اس کی طرف سے ہو کر باغیوں کے قلع قمع میں حصہ لیا.اس کے بعد پنجاب میں جلد ہی سکھوں کی حکومت کا خاتمہ ہو کر انگریزوں کا تسلط قائم ہو گیا حکومت کی اس تبدیلی کے نتیجہ میں اس خاندان کو پھر ایک سخت دھکا لگا یعنی نہ صرف خاندانی جاگیر کا باقیماندہ حصہ ضبط ہو گیا بلکہ بہت سے مالکانہ حقوق بھی ہاتھ سے جاتے رہے اور گوسر کا رانگریزی نے ضبط شدہ جاگیر کے بدلے میں خفیف سی نقد پنشن منظور کی مگر اس پینشن کو اس جاگیر سے جو ضبط کی گئی تھی کوئی نسبت نہیں تھی.تا ہم مرزا غلام مرتضی صاحب نے اپنے قدیم اصول کے ماتحت کہ ملک کی قائم شدہ حکومت کے ساتھ بہر حال تعاون کرنا چاہئے اور کسی صورت میں امن کا رستہ نہیں چھوڑ نا چاہئے نئی حکومت کے ساتھ پوری طرح تعاون کیا اور جب ۱۸۵۷ء میں غدر کا مشہور واقعہ پیش آیا تو بانی سلسلہ

Page 17

احمدیہ کے والد نے باوجود تنگ حالی کے اور باوجو دحکومت انگریزی کی طرف سے زخم خوردہ ہونے کے اپنی گرہ سے پچاس سوار مع ان کے گھوڑوں اور ساز وسامان کے حکومت کی امداد کے لئے پیش کئے جن میں بہت سے خود مرزا غلام مرتضی صاحب کے عزیزوں میں سے تھے چنانچہ بانی کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب بھی جو ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے ان نوجوانوں میں شامل تھے.ان بے لوث خدمات کو جنرل نکلسن اور کئی دوسرے ذمہ دار انگریز افسروں نے اپنی چٹھیوں میں شکرو امتنان کے جذبات کے ساتھ تسلیم کیا اور اس سلوک سے شرمندہ ہو کر جو الحاق کے وقت انگریزی حکومت اس خاندان سے کر چکی تھی اس بات کا بار بار وعدہ کیا کہ جلد ہی کوئی مناسب موقعہ آنے پر خاندان کی پابحالی کا انتظام کیا جائے گا مگر یہ وعدے آج تک شرمندہ ایفاء نہیں ہوئے.باوجود اس کے بانی نے جس زور دار رنگ میں حکومت وقت کے ساتھ وفاداری کی تعلیم دی ہے وہ آپ کی اس پاک ذہنیت کی بین دلیل ہے کہ اصول کے مقابلہ پر ذاتی مفاد کو خیال میں نہیں لانا چاہئے.علاوہ ازیں اس عرصہ میں بانی کے اثر کے ماتحت آپ کا خاندان دنیا داری کے رستہ سے ہٹ کر اس دینی مسلک کو اختیار کر چکا ہے جس میں اس کی نظر سوائے خدا کے اور کسی طرف نہیں اٹھتی اور وہ کسی ایسے دنیوی مال و جاہ کے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں جو اسے خدا کے رستہ کو چھوڑ کر حاصل ہو.مرزا غلام مرتضی صاحب نے جن کے ساتھ علاقہ کے بڑے بڑے انگریز افسروں کے ذاتی اور دوستانہ تعلقات تھے اور وہ ہمیشہ گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رؤساء کے بلائے جاتے تھے قریباً انی سال کی عمر میں ۱۸۷۶ء میں وفات پائی اور فی الجملہ یہی وہ تاریخ ہے جس سے بانی کی پبلک زندگی کا آغاز ہوتا ہے جسے ہم مختصر طور پر اگلے باب میں بیان کریں گے لے لے ان خاندانی حالات کے لئے دیکھو (۱) کتاب پنجاب چیفس شائع کردہ حکومت پنجاب اور (۲) کتاب البریہ اور (۳) کشف الغطاء ہر دو مصنفہ مقدس بانی اور (۴) سیرۃ المہدی مصنفہ خاکسار مؤلف رسالہ ہذا.

Page 18

بانی کے ذاتی سوانح نام اور ولادت:.جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے بانی کا نام مرزا غلام احمد تھا یعنی آپ کا اصل نام غلام احمد تھا اور مرزا کا لفظ نسلی امتیاز کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا تھا جیسا کہ ہر شخص جو مغل قوم سے تعلق رکھتا ہے مرزا کہلاتا ہے.لیکن اختصار کے طور پر آپ بعض اوقات صرف احمد کا نام بھی استعمال فرما لیتے تھے چنانچہ لوگوں سے بیعت لیتے وقت آپ ہمیشہ احمد کا نام استعمال کرتے تھے اور ان خدائی الہاموں میں بھی جو آپ کو ہوئے آپ کو متعد دجگہ احمد کے نام سے پکارا گیا ہے.آپ کی صحیح تاریخ پیدائش ایک عرصہ تک غیر معلوم رہی کیونکہ وہ سکھ حکومت کا زمانہ تھا جبکہ پیدائش وغیرہ کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا اور حالات کی پراگندگی کی وجہ سے خاندان میں بھی تاریخ ولادت محفوظ نہیں رہ سکی.لیکن حال ہی میں بعض تحریرات اور روایات کی بناء پر یہ اندازہ لگایا گیا ہے جو غالباً درست ہے کہ آپ ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ء مطابق ۱۴ار شوال ۱۲۵۰ھ بروز جمعہ بوقت نماز فجر پیدا ہوئے تھے.اس طرح آپ کی ولادت اور خاندان کی نسبتی بحالی کا زمانہ قریباً مل جاتا ہے.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کی پیدائش تو ام صورت میں ہوئی تھی مگر جولڑ کی آپ کے ساتھ پیدا ہوئی تھی وہ بہت جلد فوت ہو گئی.اس وقعہ کی طرف اشارہ کر کے آپ بعض اوقات فرماتے تھے کہ اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھ سے مادہ انثیت کلی طور پر جُدا کر دیا اور آپ کے اعلیٰ مردانہ صفات اپنے کمال کو پہنچ گئے.آپ کے توام پیدا ہونے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اس سے وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو بعض اسلامی نوشتوں میں کی گئی تھی کہ مہدی موعود تو ام صورت میں پیدا ہوگا.اے بچپن اور ابتدائی تعلیم :.حضرت مرزا غلام احمد صاحب جنہیں میں اس رسالہ میں آپ کے دیکھو کتاب فصوص الحکم مصنفہ حضرت محی الدین ابن عربی

Page 19

دعوئی کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود کے نام سے یاد کروں گا بچپن سے ہی کسی قدر خلوت پسند اور سوچنے والی طبیعت رکھتے تھے اور دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر زیادہ کھیلنے کودنے کی عادت نہیں تھی تاہم اعتدال کے ساتھ اور مناسب حد تک آپ ورزش اور تفریح میں بھی حصہ لیتے تھے چنانچہ روایات سے پتہ لگتا ہے کہ آپ نے بچپن میں تیرنا سکھا تھا اور کبھی کبھی قادیان کے کچے تالابوں میں تیرا کرتے تھے.اسی طرح آپ نے اوائل عمر میں گھوڑے کی سواری بھی سیکھی تھی اور اس فن میں اچھے ماہر تھے کبھی کبھی غلیل سے شکار بھی کھیلا کرتے تھے.مگر آپ کی زیادہ ورزش پیدل چلنا تھا جو آخری عمر تک قائم رہی.آپ کئی کئی میل تک سیر کے لئے جایا کرتے تھے اور خوب تیز چلا کرتے تھے.صحت کی درستی کے خیال سے کبھی کبھی موگریوں کی ورزش بھی کیا کرتے تھے اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی کی روایت ہے کہ میں نے ایک دفعہ آپ کو آخر عمر میں بھی موگریاں پھیر تے دیکھا ہے.مگر یہ ساری باتیں صرف صحت کی درستی کی غرض سے تھیں ورنہ آپ نے کبھی بھی ان باتوں میں ایسے رنگ میں حصہ نہیں لیا جس سے انہماک کی صورت نظر آئے یا وقت ضائع ہو.بلکہ ایام طفولیت میں بھی آپ کی طبیعت دینی امور کی طرف بہت راغب تھی چنانچہ بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ آپ اپنے کھیل کود کے زمانہ میں بھی اپنے ساتھ کے بچوں سے کہا کرتے تھے کہ دعا کرو کہ خدا مجھے نماز کا شوق نصیب کرے اور دوسرے بچوں کو بھی نیکی کی نصیحت کیا کرتے تھے.جب آپ تعلیم کی عمر کو پہنچے تو جیسا کہ اس زمانہ میں شرفاء میں دستور تھا آپ کے والد صاحب نے آپ کی تعلیم کے لئے بعض اسا تذہ کوگھر پر تعلیم دینے کے لئے مقررفرمایا.مگر بہتر معلوم ہوتا ہے کہ وو آپ کے سوانح کا یہ حصہ خود آپ کے الفاظ میں بیان کیا جائے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.میری تعلیم اس طرح ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھا ئیں اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا.اور جب میری عمر قریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری

Page 20

تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا.میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم میں خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا.مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتا ہیں اور کچھ قواعد نخوان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ برس کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا.ان کا نام گل علی شاہ تھا.ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا اور ان آخرالذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے.اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا.لے شباب:.حضرت مسیح موعود نے ابھی بچپن سے قدم باہر نکالا ہی تھا اور جوانی کا آغاز تھا کہ آپ کی شادی ہو گئی.مشرقی طریق کے مطابق اس عمر کی شادی میں زیادہ تر والدین کے انتخاب کا دخل ہوتا ہے اور موجودہ صورت میں بھی یہی ہوا اور گو بحیثیت مجموعی مشرقی ممالک کی شادیاں مغربی ممالک کی شادیوں کی نسبت حقیقہ زیادہ کامیاب اور زیادہ خوشی کا باعث ہوتی ہیں مگر استثناء ہر جگہ چلتا ہے اور شاید موجودہ صورت میں خدا کا یہ بھی منشاء تھا کہ اس کے ہونے والے مسیح کی شادی خود اس کے اپنے انتخاب کے ماتحت ہو اس لئے یہ شادی کامیاب ثابت نہیں ہوئی.آپ کی یہ زوجہ جن کا نام حرمت بی بی تھا آپ کے اپنے عزیزوں میں سے تھیں اور ان کے بطن سے دولڑ کے بھی پیدا ہوئے مگر چونکہ خاوند بیوی کے مزاج اور میلانات میں انتہائی درجہ کی دوری تھی یعنی حضرت مسیح موعود دینی امور میں غرق اور دنیا سے بیزار تھے اور بیوی دین کی طرف سے غافل اور دنیا میں منہمک تھیں اس لئے باوجود اس کے کہ ظاہری حقوق کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود نے شوہری کا حق پوری طرح ادا کیا یہ رشتہ کامیاب ثابت نہیں ہوا اور ان دو بچوں کی ولادت کے بعد خاوند بیوی میں عملاً علیحدگی رہی اور بالآخر جدائی تک نوبت پہنچی.کتاب البریہ مصنفہ بانی.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۷۹ تا ۱۸۱ حاشیہ

Page 21

" حضرت مسیح موعود کی زندگی کا یہ زمانہ بھی مطالعہ کے انہاک میں گزرا.آپ کے وقت کا اکثر حصہ کتب کے مطالعہ میں گزرتا تھا اور سب سے زیادہ انہماک آپ کو قرآن شریف کے مطالعہ میں تھا حتی کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں ہم نے آپ کو جب بھی دیکھا قرآن پڑھتے دیکھا.آپ کا مطالعہ سرسری اور سطحی رنگ کا نہیں ہوتا تھا بلکہ اپنے اندر ایسا انہماک رکھتا تھا کہ گویا آپ معانی کی گہرائیوں میں دھسے چلے جاتے ہیں.زمانہ ماموریت کے متعلق جبکہ دوسرے کاموں کی کثرت کی وجہ سے مطالعہ کا شغل لازماً کم ہو گیا تھا ایک شخص کا بیان ہے کہ میں نے ایک دفعہ آپ کو قادیان سے بٹالہ تک بیل گاڑی میں سفر کرتے دیکھا لے آپ نے قادیان سے نکلتے ہی قرآن شریف کھول کر سامنے رکھ لیا اور بٹالہ پہنچنے تک جس میں بیل گاڑی کے ذریعہ کم و بیش پانچ گھنٹے لگے ہوں گے آپ نے قرآن شریف کا ورق نہیں الٹا اور انہی سات آیتوں کے مطالعہ میں پانچ گھنٹے خرچ کر دیئے.اس سے آپ کے زمانہ شباب کے مطالعہ کی محویت کا اندازہ ہوسکتا ہے.خود آپ کا اپنا بیان ہے کہ اس زمانہ میں مجھے مطالعہ میں اس قدر انہماک تھا کہ بسا اوقات میرے والد صاحب میری صحت کے متعلق فکرمند ہوکر مجھے مطالعہ سے روک دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ میں شاید اس شغف میں اپنی جان کھو بیٹھوں گا.آپ کے والد صاحب نے اس محویت کو دیکھا تو آپ کی صحت سے خائف ہوکر نیز آپ کے مستقبل کو دنیا دارانہ رنگ میں اچھا بنانے کی غرض سے آپ پر زور دینا شروع کیا کہ یا تو کوئی ملازمت قبول کر لیں اور یا خاندانی زمینداری کے کام میں لگ جائیں.آپ نے بہت ٹالا اور ہر رنگ میں معذرت کی کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں مگر بالآخر والد کا دباؤ غالب آیا اور آپ نے باپ کی فرمانبرداری کو فرض سمجھتے ہوئے زمینداری کام کی نگرانی میں ان کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا اور والد کی ہدایت کے مطابق ان مقدمات کی پیروی میں مصروف ہو گئے جوان ایام میں خاندانی جائیداد کے متعلق کثرت سے پیش آرہے تھے.یہ زمانہ آپ کے لئے بہت تلخ زمانہ تھا کیونکہ آپ کو اپنی خواہش لے اس زمانہ میں قادیان میں ریل نہ آئی تھی اور ابھی تک موٹر کا دور دورہ بھی نہیں تھا اس لئے یا تو بیل گاڑی استعمال ہوتی تھی اور یا پرانی طرز کا گھوڑے والا یکہ چلتا تھا.آپ یکہ کی نسبت بیل گاڑی کو زیادہ پسند فرماتے تھے.

Page 22

۱۲ اور اپنے طبعی میلان کے خلاف ایک ایسے دنیوی کام میں مصروف ہونا پڑا تھا جو بدقسمتی سے ہندوستان میں بہت مخرب اخلاق ہو رہا تھا.اس کے بعد یعنی ۱۸۶۴ء میں یا اس کے قریب آپ کو اپنے والد کی خواہش کے مطابق کچھ عرصہ کے لئے سیالکوٹ کے دفتر ضلع میں سرکاری ملازمت بھی اختیار کرنی پڑی.یہ نیا ماحول خفیف تغیر کے ساتھ قریباً قریباً وہی ماحول تھا جو مقدمات کی پیروی میں گزر چکا تھا.مگر خدا کو اپنے ہونے والے مسیح کو یہ سب نظارے دکھانے منظور تھے تا کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ دنیا کس رنگ میں بس رہی ہے.سیالکوٹ میں آپ کم و بیش چار سال ملازم رہے.اس زمانہ کے متعلق دوست و دشمن سب کی متفقہ شہادت ہے کہ آپ نے دینی اور اخلاقی لحاظ سے ہر رنگ میں اعلیٰ نمونہ دکھایا جس کی وجہ سے وہ سب لوگ جن کے ساتھ آپ کا واسطہ پڑا آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے.چنانچہ ان ایام میں سیالکوٹ میں ایک انگریز پادری مسٹر بٹلر ایم.اے رہتے تھے وہ حضرت مسیح موعود سے مل کر اور آپ کے خیالات سن کر اور اخلاق دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ باوجود شدید مذہبی اختلاف کے وہ آپ کو خاص طور پر عزت کی نظر سے دیکھتے تھے.چنانچہ جب وہ واپس وطن جانے لگے تو حضرت مسیح موعود کی آخری ملاقات کے لئے خود چل کر ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں آئے اور ڈپٹی کمشنر کے دریافت کرنے پر کہ کیسے تشریف لائے ہو کہنے لگے کہ وطن جا رہا ہوں اور مرزا صاحب سے آخری ملاقات کرنے آیا ہوں.چنانچہ سید ھے حضرت مسیح موعود کے پاس چلے گئے اور تھوڑی دیر تک آپ کے پاس بیٹھ کر رخصت ہوئے.مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے خود حضرت مسیح موعود کے لئے یہ ملازمت کا زمانہ اور اس سے پہلے مقدمات کی پیروی کا زمانہ نہایت دو بھر تھا چنانچہ اس زمانہ کے متعلق آپ لکھتے ہیں:.” میرے والد صاحب اپنے بعض آباؤ اجدا کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے.انہوں نے ان ہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا.مجھے افسوس

Page 23

۱۳ ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا.میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا رہا.ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیا داروں کی طرح مجھے رو خلق بناویں اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی تاہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے بر بالوالدین جانتے تھے.ایسا ہی ان کے زیر سایہ ہونے کے ایام میں چند سال تک میری عمر کراہت طبع کے ساتھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی.اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکری پیشہ نهایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں.والدہ کی وفات اور ان کی محبت بھری یاد :.آخر آپ کے اصرار پر آپ کے والد صاحب نے آپ کو سرکاری ملازمت سے مستعفی ہونے کی اجازت دے دی اور آپ اپنے والد کی خواہش کے مطابق قادیان واپس آکر پھر زمینداری کام کی نگرانی میں مصروف ہو گئے.یہ غالبا ۱۸۶۸ ء یا اس کے قریب کا زمانہ تھا.اسی زمانہ کے قریب آپ کی والدہ صاحبہ کا انتقال ہوا جن کی محبت بھری یاد آپ کو اپنی عمر کے آخری لمحات تک بے چین کر دیتی تھی.خاکسار راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب بھی حضرت مسیح موعود اپنی والدہ کا ذکر فرماتے تھے یا آپ کے سامنے کوئی دوسرا شخص آپ کی والدہ کا ذکر کرتا تھا تو ہر ایسے موقعہ پر جذبات کے ہجوم سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے اور آواز میں بھی رقت کے آثار ظاہر ہونے لگتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت آپ کا دل جذبات کے تلاطم ا کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۲ تا ۱۸۵ حاشیه

Page 24

۱۴ میں گھرا ہوا ہے اور آپ اسے دبانے کی کوشش کر رہے ہیں.آپ کی والدہ صاحبہ کا نام چراغ بی بی تھا اور وہ ایم ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں اور سنا گیا ہے کہ آپ کی والدہ کو بھی آپ سے بہت محبت تھی اور سب گھر والے آپ کو ماں کا محبوب بیٹا سمجھتے تھے.سایہ پدری کے آخری ایام:.بہر حال ملازمت سے فارغ ہو کر آپ قادیان واپس آگئے اور بدستور زمینداری کاموں کی نگرانی میں مصروف ہو گئے.مگر ان ایام میں بھی آپ کے وقت کا اکثر حصہ قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں اور تصوف کی کتابوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا اور بسا اوقات آپ یہ کتابیں اپنے والد صاحب کو بھی سنایا کرتے تھے اور اس میں آپ کو دو غرضیں مدنظر تھیں.ایک تو یہ کہ تا اس آخری عمر میں آپ کے والد صاحب کی توجہ دنیا کی طرف سے ہٹ کر دین کی طرف راغب ہو اور دوسرے یہ کہ تاوہ ان ہموم و عموم میں کسی قدر تسلی کا راہ پائیں جو اکثر مقدمات میں ناکام رہنے کی وجہ سے انہیں لاحق ہو رہے تھے.آپ کی یہ مخلصانہ کوشش کامیابی کا پھل لائی یعنی آپ کے والد صاحب کو اپنی عمر کے آخری ایام میں دنیا کی طرف سے بے رغبتی اور دین کی طرف توجہ پیدا ہو گئی.مگر یہ تبدیلی اس تلخ احساس کو بھی اپنے ساتھ لائی کہ میں نے اپنی عمر دنیا کے جھگڑوں میں ناحق ضائع کر دی.چنانچہ حضرت مسیح موعود لکھتے ہیں :.حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے اور مجھے ان حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کا موقعہ حاصل ہوتا تھا کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا جو دنیا کی کدورتوں سے پاک ہے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا تو شاید آج قطب وقت یا غوث وقت ہوتا یم اور درد ان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا.اسی خیال سے (اپنی وفات سے) قریباً چھ ماہ پہلے اس قصبہ کے وسط

Page 25

۱۵ میں اس مسجد کی تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے اور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو.تا خدائے عزوجل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے.کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو.“ اے اسی زمانہ میں جبکہ آپ کے والد ماجد کی وفات کا زمانہ بہت قریب تھا آپ کو خواب میں بتایا گیا کہ دین کی راہ میں ترقی کرنے اور انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں.چنانچہ یہ خدائی اشارہ پاکر آپ نے نفلی روزے رکھنے شروع کئے اور آٹھ نو ماہ تک مسلسل روزے رکھے یہ روزے ان روزوں کے علاوہ تھے جو اسلام نے سال میں ایک مہینہ کے لئے فرض کئے ہیں.ان روزوں کے ایام میں آپ نے اپنی خوراک کو آہستہ آہستہ اس قدر کم کر دیا کہ بالآ خر آپ دن رات میں صرف چند تولے خوراک پر اکتفا کرتے تھے.چنانچہ جیسا کہ آپ کو قبل از وقت بتایا گیا تھا ان ایام میں آپ پر بہت سے انوار سماوی کا انکشاف ہوا اور بعض گذشتہ انبیاء اور اولیاء سے بھی کشفی حالت میں ملاقات ہوئی.نیز اس طویل روزہ کشی اور خوراک کم کر دینے کے نتیجہ میں آپ کو یہ فائدہ بھی پہنچا کہ آپ کا جسم مشقت اور بھوک اور پیاس کا غیر معمولی طور پر عادی ہو گیا اور آپ کی روح کو اس کے سفلی علائق کے کمزور ہو جانے کی وجہ سے ایک فوق العادت جلا حاصل ہو گئی.تاہم آپ نے لکھا ہے کہ میں عوام الناس کے لئے سخت مجاہدات اور ریاضات کے طریق کو پسند نہیں کرتا کیونکہ ان باتوں سے بعض اوقات کمزور طبیعت کے لوگوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور ناقص قومی والے لوگ بسا اوقات خطرناک بیماریوں میں مبتلاء ہو جاتے ہیں پس آپ نے لکھا ہے کہ عام لوگوں کو اس طریق سے پر ہیز کرنا چاہئے.۲ والد کی وفات اور خدائی کفالت :.آپ کے والد صاحب کی وفات ۱۸۷۶ء میں ہوئی اور وہ اپنی وصیت کے مطابق اس مسجد کے ساتھ والی زمین مین دفن کئے گئے جو انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں تعمیر کرائی تھی اور جواب مسجد اقصی کہلاتی ہے.۳.جس دن آپ کے والد صاحب کی ل کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۷ تا ۱۹۱ حاشیه ۲ تلخیص از کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۹۷.۱۹۸ حاشیہ بعد میں مسجد کے وسیع ہونے پر یہ قبر والی جگہ بھی مسجد میں شامل ہو چکی ہے مگر قبر اسی طرح قائم ہے اور اسے ایک پختہ چار دیواری کے ذریعہ محفوظ کر دیا گیا ہے.

Page 26

۱۶ وفات ہونی تھی اسی دن آپ کو خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ آج شام کے قریب آپ کے والد اس دنیا سے گزرجائیں گے.آپ لکھتے ہیں کہ اس خبر سے مجھے والد کی جدائی کے طبعی غم کے علاوہ ایک آنِ واحد کے لئے یہ خیال بھی دل میں آیا کہ معاش کے اکثر وجوہ والد کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں.ان کے بعد نہ معلوم کیا ہو گا؟ یہ خیال دل میں گذرا ہی تھا کہ ایک نہایت پر جلال آواز میں دوسرا الہام ہوا کہ الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ.یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے؟ اس کے بعد سے آپ گویا خدا کی کفالت میں آگئے اور آپ لکھتے ہیں کہ خدا نے میری ایسی کفالت فرمائی کہ جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی.پلک زندگی کا آغاز اور براہین احمدیہ کی تصنیف:.۱۸۷۶ء تک جب کہ آپ کے والد صاحب کی وفات ہوئی آپ کی زندگی ایک بالکل پرائیویٹ رنگ رکھتی تھی.مگر اس کے بعد آپ نے آہستہ آہستہ پبلک میں آنا شروع کیا.یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہئے کہ خدائی تقدیر آپ کو دنیا کی اصلاح کے لئے زاویہ گمنامی سے نکال کر شہرت کے میدان کی طرف کھینچنے لگی.آغاز اس تبدیلی کا بظاہر اس طرح ہوا کہ ان ایام میں پنڈت دیانند سرسوتی کی تحریک سے بیدار ہو کر ہندوؤں میں ایک جماعت آریہ سماج کے نام سے قائم ہوئی جس نے نہ صرف ہندوؤں کے لئے ایک نیا مذہبی فلسفہ پیش کیا بلکہ دوسرے مذاہب کے مقابلہ پر بھی ہندو قوم میں ایک جارحانہ روح پیدا کر دی.دوسری طرف ہندوستان کے مسیحی پادریوں نے بھی جو دہلی کے غدر کے بعد سے مسلمانوں کے مذہبی جوش و خروش سے کسی قدر مرعوب ہو کر سہمے ہوئے تھے اب پھر سر اٹھانا شروع کیا اور حکومت کے سایہ میں ایک نہایت پر زور مشنری مہم شروع کر دی.اور ویسے بھی اس زمانہ میں صلیبی مذہب ساری دنیا میں ایک طوفانِ عظیم کی طرح جوش مار رہا تھا.تیسری طرف یہ زمانہ ہندوستان کی مشہور مذہبی تحریک بر ہمو سماج کے زور کا زمانہ تھا جس کا جدید مذہبی فلسفہ امن اور آشتی اور صلح کل پالیسی کے لباس میں مذہب کی عمومی روح کے لئے گویا ایک کاٹنے والی تلوار کا حکم رکھتا تھا اور چوتھی طرف اس زمانہ میں ساری دنیا کا

Page 27

۱۷ یہ حال ہو رہا تھا کہ مغربی تہذیب و تمدن کی بظاہر خوشگوار ہوائیں جہاں جہاں سے بھی گزرتی تھیں دہریت اور مادیت کا بیج ہوتی جاتی تھیں اور یہ زہر بڑی سرعت کے ساتھ ہر قوم وملت میں سرایت کرتا جارہا تھا.اس چوکور خطرے کو حضرت مسیح موعود کی تیز اور دور بین آنکھ نے دیکھا اور آپ کی اکیلی مگر بہادر روح اس مہیب خطرے کے مقابلہ کے لئے بے قرار ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی.آپ کی سب سے پہلی تصنیف جو براہین احمدیہ کے نام سے موسوم ہے اور چار جلدوں میں ہے اسی مرکب حملہ کے جواب میں لکھی گئی تھی.اس کتاب میں خصوصیت سے الہام کی ضرورت اور اس کی حقیقت.اسلام کی صداقت اور قرآن کی فضیلت.خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علم کی وسعت.خدا کی خالقیت اور اس کی مالکیت پر نہایت لطیف اور سیر کن بحثیں ہیں اور ساتھ ہی اپنا ملہم ہونا ظاہر کر کے اپنے بہت سے الہامات درج کئے گئے ہیں جن میں سے بہت سے الہام آئندہ کے متعلق عظیم الشان پیشگوئیوں پر مشتمل ہیں.غرض یہ اس پایہ کی کتاب ہے کہ متقین نے اسے بالا تفاق اس زمانہ میں اسلامی مدافعت کا شاہکار قرار دیا.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو فرقہ اہلحدیث کے نامور لیڈر تھے اور بعد میں حضرت مسیح موعود کے خلاف سب سے پہلے کفر کا فتویٰ لگانے والے بنے انہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے لکھا کہ:.”ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی.اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی ولسانی و حالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.“ 1 براہین احمدیہ کو حضرت مسیح موعود کی سب سے پہلی تصنیف ہونے کے علاوہ ایک یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں آپ نے اپنے بہت سے ابتدائی الہامات جمع کر دیئے ہیں جن میں سے اکثر آپ کی آئندہ ترقیات کے متعلق ہیں چنانچہ انہی میں سے ایک الہام یہ بھی ہے کہ:.ل اشاعة السنة جلدے نمبر ۶ بابت سال ۱۸۸۴ء

Page 28

۱۸ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اے یعنی ایک وقت آنے والا ہے کہ دنیا میں تجھے اتنی قبولیت حاصل ہو جائے گی کہ بڑے بڑے بادشاہ تیرے حلقہ غلامی میں داخل ہو کر تیرے متبرک کپڑوں کو اپنے سر آنکھوں سے لگائیں گے اور انہیں زیب تن کر کے ان سے برکت حاصل کریں گے.یہ الہام اس وقت کا ہے جبکہ آپ بالکل گوشتہ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے اور ابھی مجددیت اور ماموریت کا بھی دعویٰ نہیں تھا اور کوئی شخص آپ کو نہیں جانتا تھا.مگر آئندہ آنے والی نسلیں دیکھیں گی کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدے کو کس طرح پورا کرتا ہے اس الہام میں یہ بھی اشارہ ہے کہ احمدیت میں بادشاہوں کے داخل ہونے کا زمانہ ایسے وقت تک آ جائے گا کہ ابھی آپ کے استعمال شدہ کپڑے ( جو زیادہ دیر تک ٹھہر نے والی چیز نہیں ) دنیا میں موجود ہوں گے.حضرت مسیح موعود نے یہ بھی لکھا ہے کہ عالم کشف میں مجھے یہ بادشاہ دکھائے گئے جو تعداد میں سات تھے اور گھوڑوں پر سوار تھے.حضرت مسیح موعود نے سات کے عدد اور گھوڑوں پر سوار ہونے کے کی تشریح نہیں فرمائی مگر میں خیال کرتا ہوں کہ سات کے عدد میں کثرت اور تکمیل کی طرف اشارہ ہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لفظ ہفت اقلیم کے محاورہ کی بناء پر استعمال کیا گیا ہو اور گھوڑوں کی سواری سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ یہ بادشاہ یونہی نام کے بادشاہ نہیں ہون گے بلکہ حقیقی حکمران ہوں گے اور ان کے ہاتھوں میں حکومت کی عنان ہوگی.کیونکہ عالم رؤیا میں گھوڑے کی سواری سے حکومت مراد ہوتی ہے.واللہ اعلم.اسی طرح براہین احمدیہ میں اور بھی بہت سے الہامات درج ہیں جن میں سے کئی پورے ہو چکے ہیں اور کئی پورے ہونے والے ہیں.ماموریت کا پہلا الہام:.ابھی براہین احمدیہ کی تصنیف جس کے چار حصے۱۸۸۰ء تا۱۸۸۴ء میں شائع ہوئے مکمل نہیں ہوئی تھی کہ آپ کو خدا کی طرف سے مارچ ۱۸۸۲ء میں وہ تاریخی الہام ہوا جو آپ کی ماموریت کی بنیاد تھا.اس الہام میں خدا تعالیٰ نے آپ کو مخاطب ہو کر فرمایا :.يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيكَ مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى - الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ لے براہین احمدیہ ہر چہار صص روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۲۲ حاشیه در حاشیه نمبر۳

Page 29

۱۹ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَ آبَانُهُمْ - وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلَ الْمُجْرِمِينَ - قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَأَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ - ا و یعنی اے احمد ! اللہ نے تجھے برکت دی ہے پس جو وار تو نے دین کی خدمت میں چلایا ہے وہ تو نے نہیں چلایا بلکہ دراصل خدا نے چلایا ہے.خدا نے تجھے قرآن کا علم عطا کیا ہے تا کہ تو ان لوگوں کو ہوشیار کرے جن کے باپ دادے ہوشیار نہیں کئے گئے اور تا مجرموں کا راستہ واضح ہو جاوے.لوگوں سے کہہ دے کہ 66 مجھے خدا کی طرف سے مامور کیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں.“ آپ کا یہ الہام پہلا الہام نہیں تھا بلکہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے الہامات کا سلسلہ آپ کے والد ماجد کی زندگی میں ہی شروع ہو چکا تھا.مگر یہ وہ پہلا الہام تھا جو ماموریت کے متعلق آپ پر نازل ہوا اور جس نے آپ کی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز کر دیا.لیکن چونکہ ابھی تک آپ کو بیعت لینے کا حکم نہیں ہوا تھا اس لئے اس کے بعد بھی آپ کچھ عرصہ تک عام رنگ میں اسلام کی خدمت میں مصروف رہے اور کسی با قاعدہ جماعت کی بنیاد نہیں رکھی.البتہ آپ نے یہ کیا کہ اپنے ماموریت کے دعوی کو جسے آپ نے مجددیت کا آغاز قرار دیا ایک اشتہار کے ذریعہ نہ صرف ہندوستان کے مختلف حصوں میں بلکہ اس اشتہار کو انگریزی میں ترجمہ کرا کے دوسرے ممالک میں بھی کثرت کے ساتھ پہنچا دیا اور دنیا بھر کے بادشا ہوں، وزیروں اور مذہبی لیڈروں کو یہ اشتہار بھجوایا.اور جملہ مذاہب والوں کو دعوت دی کہ اگر انہیں اسلام کی حقانیت یا آنحضرت ﷺ کی صداقت میں کوئی شبہ ہو یا الہام یا ہستی باری تعالیٰ کے متعلق کوئی اعتراض ہو یا قرآن کی فضیلت کے متعلق کوئی بات دل میں کھٹکتی ہو تو وہ آپ کے پاس آ کر یا خط و کتابت کے ذریعہ تسلی کرلیں کہ مجددیت کے دعوئی سے آپ کی مراد یہ تھی کہ اسلام میں جو یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد یعنی مصلح مبعوث ہوا کرے گا جس کے ذریعہ لے براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۶۵ حاشیه در حاشیه نمبرا دیکھو اشتہار منسلکہ براہین احمدیہ حصہ چہارم مطبوعه ۱۸۸۴ء

Page 30

خدا تعالیٰ دنیا میں اصلاح کا کام لیا کرے گا اور اس وعدے کے مطابق گذشتہ صدیوں میں مجدد آتے رہے ہیں سو موجودہ چودھویں صدی کا مجدد میں ہوں جسے خدا نے اسلام کی خدمت کے لئے مبعوث کیا ہے اور مجھے وہ علم دیا گیا ہے اور وہ طاقتیں عطا کی گئی ہیں جو موجودہ زمانہ کے فتنوں کے مقابلہ کے لئے ضروری ہیں.بعض دوسرے الہامات: ماموریت کے الہام کے بعد الہاموں کا سلسلہ زیادہ کثرت کے ساتھ شروع ہو گیا اور چونکہ یہ الہامات براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانہ میں ہوئے تھے اس لئے آپ ان کو ساتھ ساتھ کتاب میں درج فرماتے گئے اور اس طرح مخالفوں پر اتمام حجت کے لئے ایک عمدہ ذخیرہ تیار ہو گیا.یہ الہامات اکثر صورتوں میں آئندہ ترقیوں کے متعلق ہیں اور اس زمانہ میں نازل ہوئے تھے کہ جب ابھی آپ کے دعویٰ کی بالکل ابتدا تھی اور ابھی جماعت احمدیہ کی بنیاد بھی نہیں رکھی گئی تھی اور بہت کم لوگ آپ کو جانتے تھے ان میں سے تین الہام نمونے کے طور پر اس جگہ درج کئے جاتے ہیں.پہلا الہام یہ ہے:.يَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ - وَيَأْتِيكَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ ! د یعنی تیرے پاس دور دراز سے لوگ آویں گے اور تیری امداد کے لئے تجھے دور دراز سے سامان پہنچیں گے حتی کہ لوگوں کی آمد اور اموال و سامان کے آنے سے قادیان کے راستے گھس گھس کر گہرے ہو جائیں گے.“ یہ الہام اس وقت کا ہے جبکہ قادیان میں کسی کی آمد و رفت نہیں تھی اور قادیان کا دور افتادہ گاؤں دنیا کی نظروں سے بالکل محجوب و مستور تھا مگر حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی لوگوں نے اس الہام کو پورا ہوتے دیکھ لیا اور ہنوز اس الہام کی تکمیل کا سلسلہ جاری ہے اور نہ معلوم اس کی انتہا کن کن عجائبات قدرت کی حامل ہوگی.دوسرا الہام براہین احمدیہ میں یہ درج ہے کہ :.إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ الحكم جلد ۹ نمبر ۱۹ مورخہ ۳۱ مئی ۱۹۰۵ ، صفحہ ۱.بدر جلد نمبر ۹ مورخہ یکم جون ۱۹۰۵، صفحه ۲

Page 31

۲۱ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - یعنی وقت آتا ہے کہ تیری جان پر دشمنوں کی طرف سے حملے ہوں گے مگر میں تجھے ان سب حملوں سے بچاؤں گا اور تجھے اپنے وقت پر طبعی موت سے وفات دوں گا اور تیری موت عزت اور رفعت کی موت ہوگی جس کے بعد تیری روح میری طرف اٹھائی جائے گی اور میں تیرے ماننے والوں کو قیامت کے دن تک تیرے منکروں پر غالب رکھوں گا اور وہ کبھی بھی تیرے مخالفوں کے مقابل پر مغلوب نہیں ہوں گے.“ یہ الہام بھی جس عظیم الشان پیشگوئی کا حامل ہے وہ ظاہر وعیاں ہے اور اس پیشگوئی کے اندر دراصل کئی پیشگوئیاں مخفی ہیں جن کا دامن قیامت تک پھیلا ہوا ہے اور اس الہام میں احمدیت کے لئے ایک ایسی بڑی بشارت ہے کہ جس سے بڑھ کر اس دنیا میں ممکن نہیں اور گو اس کا ایک حصہ پورا ہو چکا ہے اور اہل نظر کے لئے اس کے دوسرے حصہ کے ظہور کا بھی آغاز ہو چکا ہے مگر اس کی اصل شان آئندہ زمانوں میں ظاہر ہوگی جسے دیکھنے والے دیکھیں گے.تیسرا الہام براہین احمدیہ میں یہ درج ہے کہ :.”دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.۲؎ یہ الہام بھی جس زبر دست قوت اور بشارت کا حامل ہے اس پر کسی دلیل لانے کی ضرورت نہیں اور گوا بھی تحریک احمدیت کا آغاز ہی ہے لیکن خدائی حملوں نے پہلے سے ہی دنیا کو ہلا رکھا ہے اور یہ ابتدائی حملے اس بات پر شاہد ہیں کہ خدائے ذوالجلال اس وقت تک دنیا کو چھوڑے گا نہیں جب تک کہ اپنے مرسل و مامور کی صداقت کا سکہ نہ جمالے.اسی طرح براہین احمدیہ میں اور بہت سی پیشگوئیاں درج ہیں مگر اس مختصر رسالہ میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں.ا براہین احمدیہ ہر چہار تخصص، روحانی خزائن جلدا صفحه ۶۲۰ حاشیه در حاشیہ نمبر۳ براہین احمدیہ ہر چہار تخصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۶۵ حاشیه در حاشیه نمبر۴

Page 32

۲۲ حضرت مسیح موعود کی شادی اور مبشر اولاد : جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ حصہ چہارم کی تصنیف سے فارغ ہو چکے اور ماموریت کا اشتہار بھی شائع کیا جا چکا تو ۱۸۸۴ء کے آخر میں آپ نے ایک خدائی بشارت کے ماتحت دہلی کے ایک معز ز سید خاندان میں دوسری شادی کی جو برخلاف آپ کی پہلی شادی کے بہت کامیاب اور نہایت بابرکت ثابت ہوئی اور آپ کا گھر اہلی زندگی کا بہترین نمونہ نظر آنے لگا.آپ کی اس زوجہ محترمہ کا نام نصرت جہاں بیگم ہے جو خدا کے فضل سے اس وقت تک زندہ ہیں اور اسلامی محاورہ کے مطابق جماعت احمد یہ میں ام المومنین یعنی مومنوں کی ماں کہلاتی ہیں.ان کے والد صاحب کا نام میر ناصر نواب تھا جو دہلی کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ میر درد کی نسل میں سے تھے اور نہایت پاک باطن اور صاف گو بزرگ تھے.اس شادی سے حضرت مسیح موعود کے گھر میں زمانہ وفات کے قریب تک اولاد کا سلسلہ جاری رہا اور آپ نے لکھا ہے کہ میری یہ ساری اولاد کہ جونسل سیدہ ہے خدائی بشارتوں کے ماتحت پیدا ہوئی ہے یعنی ان میں سے ہر ایک کی ولادت سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے کسی مبشر الہام کے ذریعہ ان کی پیدائش کی خبر دیتا رہا ہے اور ایک بچہ کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے خصوصیت سے آپ کو یہ الہام کیا کہ وہ ایک بہت اعلیٰ مقام کو پہنچے گا اور اس کے ذریعہ سے دنیا میں خدا کے جلال کا ظہور ہوگا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.اس اولاد میں سے جو بچے زندہ رہے ان میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سب سے بڑے ہیں جو ۱۸۸۹ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۴ء سے حضرت مسیح موعود کے دوسرے خلیفہ کی حیثیت میں جماعت احمدیہ کے امام اور لیڈر ہیں.اس جگہ ضمنی طور پر یہ ذکر بے موقعہ نہ ہو گا کہ حضرت مسیح موعود کا تعلق اپنے اہل خانہ اور اپنی اولاد کے ساتھ نہایت درجہ پاکیزہ اور خوشگوار تھا.میں اس کے لئے کوئی اور الفاظ نہیں پاتا سوائے اس کے کہ اس تعلق میں محبت اور شفقت اور نصیحت کے عناصر نے مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا جسے اعلیٰ درجہ کی بہشتی زندگی کے سوا کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا.میں نے ہزاروں لوگوں کی اہلی

Page 33

۲۳ زندگی کو دیکھا ہے اور دوسروں کے حالات کو سنا اور پڑھا ہے مگر میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس زمانہ میں آپ سے کوئی بہتر خاوند اور بہتر باپ نہیں دیکھا اور بیوی اور بچوں پر ہی منحصر نہیں بلکہ دوستوں اور ہمسایوں.اپنوں اور بیگانوں حتی کہ دشمنوں تک سے آپ کا سلوک نہایت درجہ مشفقانہ تھا اور وہ باوجود مذہبی مخالفت کے آپ کی صداقت اور امانت اور وفاداری پر کامل بھروسہ رکھتے تھے.شہب ثاقبہ کا نشان :- ۱۸۸۵ء کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی تائید میں ایک عجیب نشان ظاہر کیا یعنی ۲۷ اور ۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء کی درمیانی رات کو آسمان پرستاروں کے ٹوٹنے کا ایک غیر معمولی نظارہ نظر آیا.اس رات اس کثرت کے ساتھ ستارے ٹوٹے کہ گویا ستاروں کی بارش ہو رہی تھی.ان ستاروں کا ٹوٹنا تصویری زبان میں اس بات کی علامت تھی کہ اب دنیا کی شیطانی فوجوں پر خدا کی رحمانی فوج کے حملہ کا وقت آ گیا ہے اور آسمان کی طاقتیں غیر معمولی حرکت میں ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود لکھتے ہیں :.۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء کی رات کو یعنی اس رات کو جو ۲۸ نومبر سے پہلے آئی اس قدر شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو میں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزار ہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اس کو بیان کر سکوں.یہ شہب ثاقبہ کا تماشا ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا...وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں الہا ما ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے.ا یہ بتایا جا چکا ہے کہ ستاروں کے ٹوٹنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمین کی اصلاح ا آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۱۷۱۱ حاشیه

Page 34

۲۴ کے لئے آسمان میں حرکت ہو رہی ہے اور یہ کہ شیطانی فوجوں پر خدا کی فوجیں حملہ آور ہونے کو تیار ہیں.چنانچہ روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے وقت بھی اسی طرح کا نظارہ آسمان میں نظر آیا تھا.لے اور بعض اوقات ستاروں کے ٹوٹنے کی بجائے اجرام سماوی میں بعض اور قسم کے نشان بھی نظر آتے ہیں جیسا کہ مثلاً حضرت مسیح ناصری کی پیدائش کے وقت ایک خاص قسم کا ستارا نظر آیا تھا جسے بعض مجوسی لوگ دیکھ کر مسیح کی تلاش کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے.سے اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری نے اپنی آمد ثانی کے لئے خاص طور پرستاروں کے ٹوٹنے کو بطور نشان کے بیان کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:.سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور آسمان سے ستارے گریں گے اور جو قو تیں آسمان میں ہیں وہ ہلائی جائیں گی اور اس وقت لوگ ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے.‘س حضرت مسیح ناصری کے اس قول میں جو سورج اور چاند کے روشنی نہ دینے کا ذکر ہے اس سے مرادان کو گرہن لگتا ہے جو وہ بھی مسیح موعود کے لئے بطور ایک علامت کے مقرر تھا چنانچہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ ۱۸۹۴ء میں سورج اور چاند کو گرہن لگا جو عین ان تاریخوں کے مطابق تھا جو اسلامی صحیفوں میں پہلے سے بتائی گئی تھیں اور انجیل کے الفاظ میں جو یہ ذکر ہے کہ مسیح کا نزول بادلوں میں سے ہو گا اس سے یہ مراد ہے کہ گو اپنی ذات میں مسیح کا نزول قدرت اور جلال کے رنگ میں ہوگا اور آسمانی طاقتیں بڑی شان و شوکت کے ساتھ حرکت میں آئیں گی لیکن شروع شروع میں دنیا کی نظر میں مسیح کا نزول ایسا ہوگا کہ گویاوہ بادلوں میں مستور ہو کر دھندلی روشنی میں اتر رہا ہے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ بادلوں کے چھٹ جانے سے روشنی ترقی کرتی جائے گی.ا زرقانی جلد اصفحه ۱۲۲ ۱۲۳ ذکر تزوج عبدالله آمنة و ولادته الله و عجائب مارأت متی باب ۲ ۳ مرقس باب ۱۳ آیت ۲۴ تا ۲۶

Page 35

۲۵ ہوشیار پور میں خلوت کی عبادت اور الہام ۱۸۸۶ء کے شروع میں حضرت مسیح موعود پسر موعود اور سرمہ چشم آریہ کی تصنیف:.خدائی منشاء کے ماتحت ہوشیار پور میں تشریف لے گئے جو قادیان سے قریباً چالیس میل مشرق کی طرف واقع ہے اور پنجاب کے ایک ضلع کا صدر مقام ہے.یہاں آپ نے چالیس دن تک ایک علیحدہ مکان میں جو آبادی سے کسی قدر جدا تھا عبادت اور ذکر الہی میں وقت گزارا.ان دنوں میں آپ اس مکان کے بالا خانہ میں بالکل خلوت کی حالت میں رہتے تھے اور آپ کے تین ساتھی جو خدمت کے لئے ساتھ گئے تھے نیچے کے حصہ میں مقیم تھے اور آپ نے حکم دیا تھا کہ مجھ سے کوئی شخص از خود بات نہ کرے اور ان ایام میں آپ خود بھی بہت کم گفتگو فرماتے تھے اور اکثر حصہ وقت کا عبادت اور ذکر الہی میں گزارتے تھے.گویا ایک طرح آپ کی یہ خلوت نشینی اعتکاف کا رنگ رکھتی تھی.ان ایام میں آپ پر بہت سے انوار سماوی کا انکشاف ہوا اور پسر موعود کے متعلق بھی انہی دنوں میں الہامات ہوئے جن میں بتایا گیا کہ خدا آپ کو ایک ایسا لڑکا دے گا جو خدا کی طرف سے ایک خاص رحمت کا نشان ہوگا اور اس کے ذریعہ دین کو بہت ترقی حاصل ہوگی.چنانچہ اس الہام کے الفاظ یہ ہیں:.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الاول والاخر مظهر الحق والعلا كَأَنَّ الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ہے.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.اور زمین کے کناروں تک

Page 36

۲۶ شہرت پائے گا.اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا “ا 66 جب حضرت مسیح موعود اس چالیس روزہ عبادت کو پورا کر چکے تو اس کے بعد آپ ہیں روز مزید ہوشیار پور میں ٹھہرے اور انہی دنوں میں ہوشیار پور کے ایک جوشیلے آریہ ماسٹر مرلی دھر کے ساتھ آ.آپ کا اسلام اور آریہ مذہب کے اصولوں کے متعلق مناظرہ ہوا جس میں حضرت مسیح موعود کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی.مناظرہ کے بعد جلد ہی حضرت مسیح موعود نے ایک تصنیف ”سرمہ چشم آریہ کے نام سے شائع فرمائی جس میں اس مناظرہ کی کیفیت درج کرنے کے علاوہ اسلام کی صداقت اور آریہ مذہب کے بطلان میں نہایت زبردست دلائل درج فرمائے اور اعلان کیا کہ اگر کوئی آریہ اس کتاب کا رد لکھ کر اس کے دلائل کو غلط ثابت کرے تو میں اسے انعام دوں گا مگر کسی کو اس مقابلہ کی جرات نہیں ہوئی.یہ کتاب ۱۸۸۶ء کے آخر میں شائع ہوئی اور کی بہترین کتابوں میں شمار کی جاتی ہے.اس کتاب میں معجزات کی حقیقت پر نہایت لطیف بحث ہے اور خصوصاً آنحضرت علی کے شق القمر کے معجزہ پر ایک نہایت لطیف مقالہ درج ہے اور آریہ مذہب کے اصول دربارہ قدامت روح و ماده و غیره کوز بر دست دلائل کے ساتھ رد کیا گیا ہے.بشیر اول کی ولادت اور وفات اور مخالفوں کا شوروغوغا :.۱۸۸۷ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے بشیر احمد رکھا.اس کی ولادت پر لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا یہی لڑکا وہ پسر موعود ہے جس کی خاص طور پر بشارت دی گئی تھی ؟ آپ نے فرمایا مجھے اس معاملہ میں خدا کی طرف سے کوئی خبر نہیں دی گئی.پس ممکن ہے کہ یہی وہ لڑکا ہو اور مکن ہے کہ وہ لڑکا بعد میں پیدا ہو.باوجود آپ کی اس تشریح کے جب یہ لڑ کا قضاء الہی سے ۱۸۸۸ء کے آخر میں فوت ہو گیا تو بعض لوگوں نے اس پر بہت شور مچایا کہ پیشگوئی غلط نکلی اور یہ کہ جس لڑکے کے متعلق اس شدومد کے ساتھ خبر دی گئی تھی وہ صرف چند ماہ زندہ رہ کر فوت ہو گیا.آپ نے ایک اشتہار کے ذریعہ ا اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۹۶ جدید ایڈیشن

Page 37

۲۷ سے اس بات کو اچھی طرح واضح کیا کہ میں نے کبھی یہ نہیں لکھا تھا کہ یہی وہ موعودلر کا ہے.بلکہ صرف اس قدر کہا تھا کہ ممکن ہے کہ یہی وہ لڑکا ہومگر مجھے اس بارے میں خدا کی طرف سے کوئی علم نہیں دیا گیا تھا اور آپ نے پھر دوبارہ بڑے زور کے ساتھ یہ اعلان فرمایا کہ جس عظیم الشان لڑکے کی مجھے بشارت دی گئی ہے وہ اپنے وقت پر ضرور پیدا ہو گا اور آپ نے لکھا کہ زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا کی بات نہیں مل سکتی.ل اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ملخص از مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۴۱ و صفحه ۱۴۶ حاشیہ.جدید ایڈیشن

Page 38

۲۸ کی مختصر تاریخ حضرت مسیح موعود کا زمانہ جماعت کا سنگ بنیاد :.یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماموریت کا پہلا الہام مارچ ۱۸۸۲ء میں ہوا تھا جس کے بعد آپ نے اشتہاروں وغیرہ کے ذریعہ تمام دنیا میں اپنے دعویٰ مجددیت کا اعلان فرما دیا مگر چونکہ ابھی تک آپ کو بیعت لینے کا حکم نہیں ہوا تھا اس لئے آپ نے بیعت کا سلسلہ شروع نہیں کیا اور بدستور عام رنگ میں اسلام کی خدمت میں مصروف رہے.پھر جب ۱۸۸۸ء کا آخر آیا تو آپ نے خدا سے حکم پا کر بیعت کا اعلان فرمایا اور پہلے دن کی بیعت میں جو مارچ ۱۸۸۹ء میں بمقام لدھیانہ ہوئی چالیس افراد نے آپ کے ہاتھ پر تو بہ اور اخلاص اور اطاعت کا عہد باندھا جس میں ہر بیعت کنندہ سے خصوصیت کے ساتھ یہ اقرار لیا جاتا تھا کہ ” میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.ابتدائی بیعت میں بیشتر طور پر وہی لوگ شامل تھے جو پہلے سے آپ کے زیر اثر آ کر آپ کی صداقت کے قائل ہو چکے تھے.انہی میں حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی تھے جو ایک بہت بڑے دینی عالم اور نہایت ماہر طبیب تھے اور ان ایام میں مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر کے دربار میں بطور شاہی طبیب کے ملازم تھے حضرت مولوی صاحب موصوف ایک نہایت جید عالم تھے اور قرآن کریم کی تفسیر کا خاص علم اور خاص ملکہ رکھتے تھے اور اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لٹریچر پر بھی ان کی نظر نہایت وسیع تھی وہ پہلے دن کی بیعت میں اول نمبر پر تھے اور انہیں یہ امتیاز اور فخر بھی حاصل ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو ۱۹۰۸ء میں ہوئی وہ جماعت کے پہلے خلیفہ ہوئے.حضرت مولوی صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے.اس ابتدائی بیعت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ صرف مجدد ہونے کا تھا یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو اسلام کی چودھویں صدی کے سر پر دین کی خدمت اور اسلام کی تجدید کے لئے ا دیکھو اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۵۸ جدید ایڈیشن

Page 39

۲۹ مبعوث کیا ہے.اس کے سوا کوئی اور دعویٰ نہیں تھا.نہ مسیح ہونے کا نہ مہدی ہونے کا ، نہ نبی اور رسول ہونے کا اور نہ تمام قوموں کے آخری موعود ہونے کا.اس لئے اس وقت تک مسلمانوں میں آپ کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی بلکہ عموماً آپ کو اسلام کا ایک نہایت قابل جرنیل خیال کیا جاتا تھا اور لوگ آپ کے غیر معمولی تقویٰ اور طہارت اور جذبہ خدمت دین کے قائل تھے اور آپ کے وجود کو اپنے لئے ایک مضبوط سہارا دین کے لئے ایک پختہ ستون سمجھتے تھے.اور دوسری قومیں بھی آپ کو اسلام کا ایک عدیم المثال جرنیل خیال کرتی تھیں اور آپ کی زبر دست تحریروں سے خائف تھیں.مگر جیسا کہ ذیل کی سطور سے ظاہر ہوگا یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی.مسیحیت کا دعویٰ اور مخالفت کا طوفانِ بے تمیزی:.۱۸۹۰ء اور ۱۸۹۱ء کے سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے خاص سال تھے کیونکہ ان میں حضرت مسیح موعود پر خدا تعالیٰ کی طرف سے اس حقیقت کا انکشاف ہوا جس نے آپ کے متعلق لوگوں کے رخ کو بالکل بدل دیا.اور آپ کے خلاف مخالفت کا وہ طوفان بے تمیزی اٹھ کھڑا ہوا جس کی نظیر سوائے انبیاء کے زمانے کے اور کسی جگہ نہیں ملتی.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۱۸۹۰ ء کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر الہاما ظاہر کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام جنہیں عیسائی اور مسلمان دونوں آسمان پر زندہ خیال کر رہے ہیں اور آخری زمانہ میں ان کی دوسری آمد کے منتظر ہیں وہ دراصل وفات پاچکے ہیں اور ان کے آسمان پر جانے اور آج تک زندہ چلے آنے کا خیال بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے اور یہ کہ ان کی دوسری آمد کا وعدہ ایک مثیل کے ذریعہ پورا ہونا تھا اور آپ کو بتایا گیا کہ یہ مثیل مسیح خود آپ ہی ہیں.چنانچہ جو الہامات اس بارے میں آپ کو ہوئے ان میں سے ایک الہام یہ تھا کہ :.مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.وَكَانَ وَعْدُ اللَّهِ مَفْعُولًا.“ اس عظیم الشان انکشاف پر آپ نے ۱۸۹۱ء کے شروع میں رسالوں اور اشتہاروں کے ذریعہ ل تذکره صفحه ۱۴۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء

Page 40

۳۰ اپنے اس دعوئی کا اعلان کیا ہے جس پر مسلمانوں اور عیسائیوں ہر دو میں ایک خطر ناک ہیجان پیدا ہو گیا اور ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مخالفت کی آگ کے شعلے بلند ہونے لگے.اس مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان اور عیسائی دونوں کئی صدیوں سے یہ عقیدہ بنائے بیٹھے تھے کہ حضرت مسیح ناصری جو ساڑھے انیس سو سال گزرے کہ ملک فلسطین میں پیدا ہوئے تھے وہ اب تک آسمان میں خدا کے پاس زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں جبکہ فتنوں اور فسادوں کا زور ہوگا وہ دنیا میں دوبارہ آئیں گے اور ان کے ذریعہ زمین پر پھر خدا کی حکومت قائم ہو گی.مگر اس حد تک مشترک عقیدہ رکھنے کے بعد ان ہر دو قوموں کے عقائد کی تفصیل میں اختلاف تھا یعنی مسلمان تو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ عیسیٰ رسول اللہ فوت نہیں ہوئے بلکہ اللہ نے انہیں صلیب سے بچا لیا تھا اور پھر وہ زندہ ہی آسمان پر اٹھا لئے گئے اور آخری زمانہ میں وہ زمین پر دوبارہ نازل ہو کر اسلام کو دوسرے مذاہب پر غالب کریں گے اور یہ غلبہ قہری اور جلالی ہوگا اور اس وقت جو قو میں اسلام کو قبول نہیں کریں گی وہ سب مٹادی جاویں گی اور دوسری طرف عیسائی یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے خداوند مسیح صلیب پر فوت تو ہو گئے تھے مگر ان کی یہ موت عارضی موت تھی جو انہوں نے دنیا کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے خود اپنی مرضی سے اختیار کی تھی چنانچہ اس موت کے بعد وہ دوبارہ زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گئے اور آخری زمانہ میں پھر زمین پر اتریں گے اور مسیحیت کو تمام دنیا میں قائم کر دیں گے اور ان کی یہ دوسری آمد پہلی آمد کی نسبت زیادہ شاندار اور جلالی ہوگی وغیرہ وغیرہ.گویا دونوں قومیں اپنے اپنے مذہبی اصول کے ماتحت حضرت مسیح کی آمد ثانی کی منتظر تھیں اور انہیں اپنا نجات دہندہ خیال کرتی تھیں اور ان کے جلالی نزول کے متعلق دونوں نے عجیب عجیب نقشے جمارکھے تھے.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسی کی وفات کا اعلان فرمایا اور اس عقیدہ کا اظہار کیا کہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہو چکے ہیں اور آسمان پر نہیں گئے اور یہ کہ ان کی دوسری آمد کا وعدہ خود آپ کے وجود میں پورا ہوا ہے کیونکہ آپ حضرت مسیح ناصری کی خوبو پر اور ا دیکھو رسالہ فتح اسلام و توضیح مرام و اشتہار مورخه ۲۶ / مارچ ۱۸۹۱ء

Page 41

۳۱ انہی کی روحانی صفات سے متصف ہو کر آئے ہیں تو اس پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو طبعاً ایک سخت دھکا لگا اور انہوں نے اپنے ہوائی قلعوں کو خاک میں ملتا دیکھ کر آپ کے خلاف اپنے اپنے رنگ میں مخالفت کا طوفان کھڑا کر دیا اور یہ مخالفت طبعا مسلمانوں میں زیادہ تھی کیونکہ آپ نے اسلام کے اندر ہو کر مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور مسلمان ہی آپ کے پہلے مخاطب تھے چنانچہ مسلمان علماء نے آپ کو ملحد اور کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور آپ کا نام دجال اور دشمن اسلام رکھا اور ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک خطرناک عداوت کی آگ مشتعل ہوگئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کے ساتھ اس وقت تک صرف چند گنتی کے آدمی تھے اس مخالفت کے طوفان سے ہراساں نہیں ہوئے بلکہ اس مخالفت کو بھی الہی سلسلوں کی سنت قرار دے کر اپنی صداقت کی ایک دلیل گردانا.اور ایک مفصل اور مدلل تصنیف کے ذریعہ جس کا نام آپ نے ازالہ اوہام “ رکھا اپنے دعوی کی صداقت کے دلائل پیش کئے اور ثابت کیا کہ حضرت مسیح ناصری واقعی وفات پاچکے ہیں اور ہر گز آسمان پر نہیں اٹھائے گئے اور قرآن اور حدیث بلکہ خود مسیحی صحیفے انہیں فوت شدہ قرار دیتے ہیں اور یہ کہ آخری زمانہ میں جس مسیح کا وعدہ تھاوہ ایک مثیل کے ذریعہ پورا ہونا تھا اسی طرح جس طرح کہ مسیح ناصری کے زمانہ میں ایلیا نبی کی دوبارہ آمد کا وعدہ یوحنا نبی کی آمد سے پورا ہوا.آپ نے ثابت کیا کہ قرآن شریف کی متعدد آیتیں حضرت مسیح کو یقینی طور پر فوت شدہ قرار دیتی ہیں اور کوئی ایک آیت بھی مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کی مؤید نہیں بلکہ مسلمانوں نے عیسائیوں کے خیالات سے متاثر ہو کر اور بعض استعارات سے دھوکا کھا کر یہ سراسر غلط عقیدہ بنا رکھا ہے جس کا آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کے زمانہ میں نام ونشان تک نہ تھا.آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ مسیح کی دوسری آمد کے لئے جو علامات اسلام میں بتائی گئی تھیں مثلاً مسلمانوں کی حالت کا بگڑ جانا اور عیسائی مذہب کا زور پکڑنا اور ریل اور پر لیس وغیرہ کا جاری ہونا وغیرہ وہ موجودہ زمانہ میں پوری ہو گئی ہیں اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں ازل سے مسیح کی آمد ثانی مقدر

Page 42

تھی.اور آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ مسیح کے جلالی ظہور سے یہ مراد نہیں کہ وہ تلوار کے ساتھ ظاہر ہوگا بلکہ اس میں اس کی روحانی طاقتوں کی طرف اشارہ ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ مسیح کی دوسری آمد اس کی پہلی آمد کی نسبت زیادہ شاندار ہوگی اور اللہ تعالیٰ اسے دوسری آمد میں زیادہ کامیابی اور زیادہ غلبہ عطا کرے گا اور دجال کے متعلق جس نے مسیح کے زمانہ میں ظاہر ہونا تھا آپ نے یہ تشریح فرمائی کہ اس سے کوئی فرد واحد مراد نہیں بلکہ ایک قوم اور ایک فرقہ ضالہ مراد ہے جو اپنی بے دینی کی طاقتوں کے ساتھ دنیا میں فساد عظیم کے پھیلانے کا موجب ہوگا اور آپ نے بتایا کہ اس سے مسیحیت کی فوجوں کی طرف اشارہ ہے جو مسیح ناصری کی حقیقی تعلیم کو چھوڑ کر دنیا میں دہریت اور مادیت کے انتشار کا آلہ بنی ہوئی ہیں.اے مہدویت کا دعویٰ اور خونی مہدی سے انکار :.اسی طرح آپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسلام میں جس مہدی کا مسیح کے زمانہ میں وعدہ کیا گیا تھا وہ میں ہوں مگر یہ کہ میں کسی جنگی مشن کے ساتھ مبعوث نہیں کیا گیا بلکہ میرا کام امن اور صلح کے طریق پر مقرر ہے اور آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں جو ایک خونی مہدی کا خیال پیدا ہو چکا ہے یہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے جس کے متعلق قرآن شریف اور صحیح احادیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا.بلکہ یہ خیال بھی بعض استعاروں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو عموماً پیشگوئیوں میں اختیار کئے جاتے ہیں اور آپ نے لکھا کہ جہاد کرنے والے اور کافروں کو مارنے والے مہدی سے صرف یہ مراد ہے کہ آنے والا مہدی ایسے مضبوط اور زبردست دلائل کے ساتھ ظاہر ہو گا کہ اس کے مقابل پر گویا اس کے مخالفوں پر موت وارد ہو جائے گی.آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ مہدی اور مسیح الگ الگ وجود نہیں ہیں بلکہ ایک ہی شخص کی دو مختلف حیثیتوں سے اسے یہ نام دیا گیا ہے یعنی مثیل مسیح ہونے کے لحاظ سے آنے والے موعود کا نام مسیح ہے اور آنحضرت یہ کے ظل اور بروز ہونے کے لحاظ سے اس کا نام مہدی ہے ورنہ دراصل وہ ایک ہی ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں بھی آتا ہے کہ مسیح موعود کے سوا اور کوئی مہدی نہیں.۲؎ ل دیکھو ازالہ اوہام مہدی کی بحث مختلف کتب میں درج ہے مثلاً دیکھوازالہ اوہام اور آئینہ کمالات اسلام اور نور الحق اور حقیقت المہدی وغیرہ

Page 43

٣٣ حضرت مسیح موعود کے خلاف کفر اور بائیکاٹ کا فتوی:.مسیح اور مہدی کی بحث کے متعلق ان تصریحات نے جن کے ساتھ زبر دست دلائل بھی شامل تھے آپ کے متبعین کی ہمتوں کو بلند کر دیا اور مسلمانوں کے ایک حصہ کو بھی آپ کی طرف کھینچنا شروع کر دیا مگر جمہور مسلمان اپنے علماء اور سجادہ نشینوں کی اتباع میں لحظہ بلحظہ مخالفت میں ترقی کرتے گئے اور علماء کے فتووں نے ملک میں ایک آگ لگادی اور علماء نے صرف قولی فتوی ہی نہیں لگایا یعنی آپ کو صرف عقیدہ کے لحاظ سے ہی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ حضرت مرزا صاحب اور آپ کے متبعین کے ساتھ کلام سلام اور ہر قسم کا تعلق نا جائز اور حرام ہے اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا رشتہ ممنوع ہے اور یہ کہ مسلمانوں کے قبرستانوں میں بھی انہیں دفن کرنے کی اجازت نہیں.ان عملی فتووں نے ملک میں ایک نہایت خطر ناک حالت پیدا کر دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مٹھی بھر جماعت چاروں طرف سے مخالفت کے طوفان میں گھر گئی اور اس طوفانِ عظیم میں احمدیت کی چھوٹی سی ناؤ اس طرح تھپیڑے کھانے لگی کہ لوگوں نے سمجھا کہ بس یہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں.ہم اس فتوے کی گالیوں اور گندے حصوں کو چھوڑ کر اس کے بعض الفاظ مثال کے طور پر درج ذیل کرتے ہیں تا کہ ہمارے ناظرین کو یہ پتہ لگ سکے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے متعلق اوائل زمانہ میں کیا کچھ کہا گیا ہے.علماء اسلام نے جن میں بڑے بڑے چوٹی کے علماء شامل تھے آپ کے متعلق لکھا کہ :.”مرزا قادیانی ان تہیں دجالوں میں سے ایک ہے جن کی خبر حدیث میں وارد ہے اور اس کے پیرو ذریت دجال ہیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے دجال کذاب سے احتر از اختیار کریں اور اس سے وہ دینی معاملات نہ کریں جو اہل اسلام میں باہم ہونے چاہئیں.نہ اس کی صحبت اختیار کریں نہ اس کی دعوت قبول کریں نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں اور نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں...وہ اور اس

Page 44

۳۴ جیسے لوگ دین کے چور ہیں اور دجالین کذابین ملعون شیاطین سے ہیں.اس کذاب قادیانی کے کفر میں کوئی شک نہیں.وہ قطعاً کافر اور مرتد ہے وہ بڑا بھاری دجال ہے.وہ دائرہ اسلام سے خارج اور ملحد اور زندیق ہے.وہ کافر ہے اور بد کردار...بدترین خلائق اور خدا کا دشمن....جو اس کے گمراہ ہونے میں شک کرے وہ بھی ویسا ہی گمراہ ہے...وہ کا فر بلکہ اکفر ہے...اس قادیانی کے چوزے ہنود ونصاریٰ کے محنت ہیں....وہ اس شیطان سے بھی زیادہ گمراہ ہے جو اس سے کھیل رہا ہے اس کو مسلمانوں کی قبروں میں دفن نہ کیا جائے یہ ملحد کادیانی اشد المرتدین اور عجیب کافر اور منافق لاثانی ہے وہ نبیوں کا دشمن ہے اور خدا اس کا دشمن ہے....و مثیل مسیح تو نہیں البتہ مثیل اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب ہے...اس پر شیطان مسلط ہے جو اس سے یہ بکواس کرا رہا ہے....و شخص کا دیانی کے موافق اعتقاد رکھتا ہے وہ بھی مردود ہے....مرزا کادیانی دجال اور مضل بلکہ دجاجلہ کا راس رئیس ہے.“ اے ”ان کی عورتوں کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان سے نکاح کر سکتا ہے.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان علماء کی گالیوں کو حوالہ بخدا کیا اور نہایت صبر اور استقلال اور ہمت کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہے اور مخالفین کے ہر اعتراض کا تسلی کے ساتھ جواب دیا اور قرآن سے.حدیث سے.ائمہ کے اقوال سے.تاریخ سے.صحف سابقہ سے اور عقل خدا داد سے مخالفین کے ہر شبہ کے ازالہ کی کوشش کی اور صرف مدافعت پر ہی اکتفاء نہیں کی بلکہ اشتہاروں اور رسالوں اور کتابوں کے ذریعہ دشمن کے قلعوں پر وہ گولہ باری کی کہ انہیں کئی معرکوں میں اپنا میدان چھوڑنا پڑا.مگر اس جنگ میں ایک بات آپ کے لئے نہایت درجہ تکلیف دہ تھی اور یہ وہ اعتراض تھے جن میں آپ کو دشمن خدا اور دشمن اسلام اور دشمن رسول قرار دیا جاتا تھا.ان اعتراضوں کو سن کر آپ ل دیکھو فتوی علماء ہند و عرب.دیکھو فتویٰ علماء لدھیانہ

Page 45

۳۵ کی روح بے چین ہو جاتی تھی اور آپ کے نازک ترین جذبات کو انتہائی دھکا لگتا تھا کیونکہ جس مقدس ہستی کی محبت میں آپ نے یہ سارا بوجھ اٹھایا تھا اس کی دشمنی اور غداری کا آپ پر الزام لگایا جا تا تھا.یہ ایسا ہی تھا جیسا کہ کسی عاشق پر یہ الزام لگایا جاوے کہ وہ اپنے معشوق کا دشمن ہے چنانچہ آپ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں:.کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے ابتدائی سفر :.ان اعتراضوں کے ازالہ اور لوگوں کے سمجھانے کی غرض سے نیز اپنا صحیح صحیح پیغام پہنچانے کے لئے آپ نے اپنے دعوئی کے ابتدائی زمانہ میں متعد دسفر بھی اختیار کئے.مثلاً شروع میں آپ ایک لمبا عرصہ لدھیانہ میں مقیم رہے.پھر دہلی گئے اور وہاں کافی عرصہ قیام کیا.پھر پٹیالہ تشریف لے گئے اور اپنے پیغام کو پہنچایا.اسی طرح امرتسر، لاہور ، سیالکوٹ اور جالندھر وغیرہ جا کر کلمہ حق کی تبلیغ کی اور حقیقت الامر سے لوگوں کو آگاہ کیا.مگر اس سے مخالفت کے طوفان میں کمی نہیں آئی.ہاں ایک فائدہ ان سفروں سے ضرور حاصل ہوا کہ آپ کی آواز بہت جلد ملک کے مختلف حصوں میں پہنچ گئی اور لوگ آپ کے دعوی سے واقف ہو گئے لیکن اس کے ساتھ ہی لوگوں کے جوش و خروش کا پارہ بھی لحظه بلحظہ چڑھتا گیا.اے حضرت مسیح موعود کا بلند اخلاقی معیار : مخالفت کے اس طوفان میں ایک بات اہل ذوق کو نہایت لطیف نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ آپ کے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کے بعد تو بے شک آپ کے خلاف ہر قسم کے الزامات لگائے گئے.آپ کو دشمن خدا اور دشمن رسول کہا گیا.دین کو بگاڑنے والا اور اسلام میں فتنہ پیدا کر نیوالا قرار دیا گیا.خدا پر افتراء باندھنے والا اور بندوں کے حقوق غصب کر جانے والا سمجھا گیا اور اسی طرح اور بھی کئی طرح کے الزام لگائے گئے حتی کہ آپ کے خلاف تقریر کرنے والوں کی زبانیں گالیاں دے دے کر تھک گئیں اور لکھنے والوں کی قلمیں کاغذوں کو سیاہ کر کر لے دیکھو تبلیغ رسالت وسيرة المهدی و غیره :.

Page 46

۳۶ کے گھس گئیں اور دعوی کے بعد ساری دنیا کے عیب آپ کی طرف منسوب کئے گئے مگر اس کے مقابل پر کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی مسلمان یا کسی ہندو یا کسی سکھ یاکسی عیسائی یا کسی دوسرے شخص نے آپ کے متعلق یہ الزام لگایا ہو کہ دعوی سے پہلے آپ کی زندگی میں یہ یہ عیب پایا جاتا تھا بلکہ قبل دعوی زندگی کے متعلق تمام مذاہب کے لوگ یک زبان ہو کر آپ کو صادق القول اور نیک اور خدا پرست قرار دیتے ہیں اور یہ شہادت دعوئی سے پہلی زندگی کے ہر زمانہ کے متعلق پائی جاتی ہے.بچپن کے متعلق بھی اور جوانی کے متعلق بھی اور ادھیڑ عمر کے متعلق بھی دور نہ جاؤ آپ کے اشد ترین معا ندمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ہی لے لو.دعویٰ کے بعد اس شخص نے اپنی مخالفت کو انتہا تک پہنچا دیا اور آپ کی طرف ہر قسم کی برائی منسوب کی اور آپ کو نعوذ باللہ جھوٹا اور مفتری اور حرام خور اور بے دین اور مکار اور فریبی قرار دیا مگر دعوی سے پہلی زندگی کے متعلق اس کے منہ سے بھی مدح وستائش کے سوا اور کوئی کلمہ نہیں نکل سکا.میں نے ان متعد د خطوط کو دیکھا ہے جو مسیحیت کے دعوئی کے بعد مولوی محمد حسین صاحب نے حضرت مسیح موعود کو لکھے.یہ خطوط وشنام دہی اور گالیوں اور طرح طرح کے الزاموں سے پر ہیں مگر ان خطوں میں بھی مولوی محمد حسین صاحب حضرت مسیح موعود کے خلاف دعوی سے پہلے کی زندگی کے متعلق قطعاً کوئی الزام نہیں لگا سکے.باقی رہا دعوئی کے بعد عیب جوئی کرنا سو ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ عیب جوئی ہرگز کوئی حجت نہیں کیونکہ دشمنی پیدا ہو جانے کے بعد انسان کی آنکھ بدل جایا کرتی ہے.یہی وجہ ہے کہ جب حضرت مسیح موعود نے اپنے مخالفوں کے سامنے یہ چیلنج پیش کیا کہ میں تمہارے اندر اپنے دھوئی سے قبل ایک لمبی زندگی گزار چکا ہوں کیا تم میں کوئی ہے جو آگے آکر میری قبل دعوئی زندگی کے متعلق کوئی دینی یا اخلاقی عیب پیش کرے یا کوئی جھوٹ یا خیانت یا بد عملی ثابت کرے.لے تو اس پر کسی شخص کو آپ کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہیں ہوئی.مگر مشکل تھی کہ جن لوگوں کے ساتھ آپ کو واسطہ پڑا تھا ان کے لئے اس قسم کی دلیلیں کافی نہیں تھیں وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ آپ نے اہل اسلام کے ایک معروف ا آئینہ کمالات اسلام و تذكرة الشهادتين ( ملخص از تذكرة الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفر ۶۴)

Page 47

۳۷ اور مسلمہ عقیدہ کے خلاف دعوی کیا ہے اور یہ کہ علماء کا مقدس طبقہ آپ کو کافر اور بے دین قرار دے رہا ہے.پس باوجود دیکھنے کے وہ آنکھیں بند کئے ہوئے تھے اور باوجود سننے کے ان کے کانوں پر مہر تھی اور مخالفت کے بادل لحظه بلحظہ گھنے اور سیاہ ہوتے جا رہے تھے.ابتدائی مناظرات:.اس مخالفت کا ایک فوری نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو اپنے دعوی کے ابتدائی دوتین سالوں میں متعدد مناظروں میں حصہ لینا پڑا.چنانچہ ابتداء میں یعنی ۱۸۹۱ء میں آپ نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ ایک مناظرہ لدھیانہ میں کیا.اس کے بعد اسی سال ایک مناظرہ مولوی نذیر حسین صاحب امام فرقہ اہل حدیث کے ساتھ جامع مسجد دہلی میں بڑے ہنگامہ کے ساتھ ہوتے ہوتے رہ گیا.اور اسی سال ایک مناظرہ دہلی میں مولوی محمد بشیر صاحب بھو پالوی کے ساتھ ہوا.سے اور ایک مناظرہ لاہور میں ۱۸۹۲ء میں مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری کے ساتھ ہوا.مگر افسوس ہے کہ ان مناظروں نے اہل مناظرہ کو چنداں فائدہ نہ پہنچایا بلکہ جیسا کہ عموماً بحث مباحثہ میں ہوتا ہے یہ لوگ اور ان کے متبعین اپنی ضد اور مخالفت میں اور بھی ترقی کر گئے.اسی طرح آپ کا ایک مناظرہ ۱۸۹۳ء میں مسٹر عبد اللہ آتھم مسیحی کے ساتھ امرتسر میں اسلام اور مسیحیت کے متعلق ہوا.سے مگر اس کا انجام بھی ضد اور ہٹ دھرمی کے بڑھ جانے کے سوا کچھ نہیں نکلا.ہاں بے شک ایک فائدہ ان مناظروں کا ضرور ہوا کہ حضرت مسیح موعود کے زبر دست مضامین کی وجہ سے ( کیونکہ آپ ہمیشہ تحریری مناظرہ کرتے تھے ) ایک مفید لٹریچر اسلام اور احمدیت کی تائید میں تیار ہو گیا جواب تک کے لٹریچر کی زینت ہے.مسیحیوں کے ایمان کا دلچسپ امتحان:.امرتسر کے مناظرہ میں ایک عجیب واقعہ بھی پیش آیا جس کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہوگا اور وہ یہ کہ چونکہ آپ کا دعوئی مثیل مسیح ہونے کا تھا اور انجیل میں آتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری بیماروں کو ہاتھ لگا کر اچھا کر دیتے تھے اس لئے عیسائی مناظر نے ایک دن ایسا کیا کہ تین چار لولے لنگڑے اور اندھے جمع کر کے ایک طرف چھپا دیے اور جب اس کی مضمون ے دیکھو الحق لدھیانہ سے دیکھو اشتہار مورخہ ۶ اکتوبر و ۷ار اکتوبر ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل اشتہار مورخه ۲۳ را کتوبر ۱۸۹۱ء صفحه ۲۲۹ تا ۲۳۱ جدید ایڈیشن) سے الحق دہلی کے اشتہار مورخہ ۳ فروری ۱۸۹۲ء.۵.دیکھو جنگ مقدس.

Page 48

۳۸ پڑھنے کی باری آئی تو اس نے ان لوگوں کو باہر نکال کر حضرت مسیح موعود سے مطالبہ کیا کہ آپ مسیح ہونے کے مدعی ہیں سو لیجئے یہ چند بیمار حاضر ہیں انہیں ہاتھ لگا کر اچھا کر دیجئے اور پھر سب لوگ ہنسنے لگے اور بعض حاضر المجلس احمدی بھی گھبرائے کہ خواہ علمی لحاظ سے اس کا جواب دے دیا جائیگا مگر بظاہر صورت فریق مخالف کو ایک ہنسی کا موقعہ مل گیا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود بڑے اطمینان کے ساتھ خاموش بیٹھے رہے.پھر جب آپ کی باری آئی تو آپ نے فرمایا کہ میں تو اس رنگ میں حضرت مسیح ناصری کے ان معجزوں کا قائل نہیں ہوں اور ان کے وہ معنی نہیں سمجھتا جو عیسائی صاحبان سمجھتے ہیں اور میں اپنی ذات کے لئے بھی اس بات کا مدعی نہیں کہ میں خود اپنی مرضی سے جب چاہوں کسی بیمار کو ہاتھ لگا کر اچھا کر سکتا ہوں اس لئے مجھ سے اس قسم کا مطالبہ جو میرے مسلمات کے خلاف ہے نہیں ہو سکتا.ہاں بے شک انجیل میں حضرت مسیح ناصری نے اپنے متبعین کوضرور یہ فرمایا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو تو تم قدرت کے خزانوں کے مالک بن سکتے ہو اور پہاڑوں کو حکم دے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتے ہو اور کوئی بات تمہارے سامنے انہونی نہیں رہ سکتی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ مسیحی حضرات جو یہاں جمع ہیں اپنے مسیح پر ضر ور سچا ایمان رکھتے ہیں اور آپ لوگوں کا ایمان رائی کے دانے سے تو بہر حال بڑا ہو گا پس میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے بیماروں کے جمع کرنے کی زحمت سے بچا لیا اب لیجئے یہی آپ کا مہیا کردہ تحفہ حاضر ہے انہیں ذرا ہاتھ لگا کر اپنے ایمان کا ثبوت دیجئے.دیکھنے والے کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے اس جواب نے مسیحیوں کو بالکل مبہوت کر دیا اور وہ سخت گھبرا کر ان بیماروں کو ادھر ادھر چھپانے لگ گئے اور یہ ساری کھیل الٹ کر خود انہی پر آ گئی اور جس بات کو انہوں نے اپنی فتح خیال کیا تھا وہ ایک خطر ناک شکست کی صورت میں بدل گئی.کے الغرض اس ابتدائی زمانہ میں آپ کو بہت سے مناظرات کرنے پڑے اور خدا کے فضل سے ہر مناظرہ میں آپ کو نمایاں کامیابی نصیب ہوئی.علم کلام کے دو زریں اصول:.ان مناظرات میں آپ نے اسلام کے اندرونی اختلافات ل متی باب ۱۷ آیت ۲۰ ولوقا باب ۱۷-۲ دیکھو جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۵۴۷۱۵۳ و سیرة المهدی

Page 49

۳۹ اور اسلام اور دوسرے مذاہب کے باہمی اختلافات کے تصفیہ کے متعلق دو ایسے زریں اصول پیش کئے جنہوں نے مذہبی علم کلام میں ایک انقلاب پیدا کر دیا.پہلا اصول آپ نے اسلام کے اندرونی اختلافات کے متعلق یہ پیش کیا کہ اسلام میں اندرونی فیصلوں کی اصل کسوٹی قرآن شریف ہے نہ کہ حدیث یا بعد کے ائمہ کے اقوال وغیرہ.اس اصول نے اس گندے علم کلام کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا جو ایک عرصہ سے اسلامی مباحثات کو مکدر کر رہا تھا جس کی وجہ سے قرآن شریف تو پس پشت ڈال دیا گیا تھا اور ہر فرقہ نے اپنے مطلب کی حدیثوں یا اپنے ائمہ کے اصوال کو قرآن پر قاضی اور حاکم بنارکھا تھا.آپ نے بدلائل ثابت کیا کہ اسلام کی اصل بنیاد قرآن شریف پر ہے اور حدیثوں وغیرہ کو صرف ایک خادم کی حیثیت حاصل ہے.پس اگر کوئی حدیث یا کسی امام کا قول کسی آیت قرآنی کے ساتھ ٹکرائے تو وہ اسی طرح پھینک دینے کے قابل ہے جس طرح اسلام کے مقابل پر ایک خلاف اسلام چیز پھینک دی جاتی ہے.یے اور آپ نے یہ تشریح فرمائی کہ کسی حدیث کو رد کرنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے قول کو رد کرتے ہیں بلکہ اس سے صرف یہ مراد ہے کہ یہ حدیث آنحضرت علی کی طرف غلط طور پر منسوب ہوئی ہے.اسی تعلق میں آپ نے بعد میں اس بات کو بھی واضح فرمایا کہ حدیث اور سنت دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ جہاں سنت سے آنحضرت ﷺ کا تعامل مراد ہے جو قرآن کے ساتھ ساتھ وجود میں آ کر صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے ذریعہ عملی صورت میں نیچے پہنچا ہے وہاں حدیث سے وہ اقوال مراد ہیں جو لوگوں کے سینوں سے ڈیڑھ دو سو سال بعد میں جمع کئے گئے ہیں.اس طرح آپ نے اسلام کی اصل بنیاد قرآن اور سنت پر قرار دی اور حدیث کو صرف ایک خادم کی صورت میں پیش کیا.یہ ایک نہایت عجیب نکتہ تھا جس نے اسلامی علم کلام کی صورت کو بالکل بدل دیا اور شکر ہے کہ آج غیر احمدی دنیا بھی آہستہ آہستہ اسی نکتہ کی طرف آ رہی ہے.بے شک وہ ابھی تک اس بارے میں حضرت مسیح موعود کے احسان کو نہیں مانتی بلکہ ان میں سے اکثر لوگ اس تبدیلی کو محسوس بھی نہیں کرتے مگر واقف کار لوگ جانتے ہیں کہ اس تبدیلی کا اصل باعث کیا ہے اور جب بعد کی نسلیں الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۱۲۱۱

Page 50

۴۰ غیر متعصب نظر کے ساتھ حالات کا مطالعہ کریں گی تو اس وقت ساری دنیا جان لے گی کہ یہ تبدیلی محض احمدیت کی تعلیم کے اثر کے ماتحت وقوع میں آئی ہے.دوسرا زریں اصول جو آپ نے بین المذاہب اختلافات کے لئے پیش کیا وہ یہ تھا کہ ہر مذہب کا یہ فرض ہے کہ جہاں تک کم از کم اصول مذہب کا تعلق ہے وہ اپنے دعوئی اور دلیل ہر دو کو اپنی مقدس کتاب سے نکال کر پیش کرے تا کہ یہ ثابت ہو کہ بیان کردہ دعوی متبعین کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ خود بائی مذہب کا پیش کردہ ہے.سلے مثلاً آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری کی خدائی کا دعوی ہرگز قابل توجہ نہیں ہو گا.جب تک کہ عیسائی صاحبان اس دعوی کو انجیل سے ثابت کر کے نہ دکھا ئیں اور پھر خود انجیل سے ہی اس کے چند دلائل بھی پیش نہ کریں.آپ نے فرمایا کہ آجکل اکثر مذاہب میں یہی فساد برپا ہے کہ مذاہب کی کتب مقدسہ کی طرف ایسے خیالات اور ایسے دعاوی منسوب کئے جار ہے ہیں جو دراصل ان مذاہب کے پیش کردہ نہیں ہیں بلکہ خود لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے ہیں اور اس طرح مذاہب کی اصل شکل وصورت بدل کر کچھ کی کچھ ہوگئی ہے.آپ نے تحدی کے ساتھ بیان کیا کہ حضرت مسیح ناصری کی اصل تعلیم تو حید اور رسالت کے اصول پر مبنی تھی مگر بعد میں آنے والوں کی دست برد اور حاشیہ آرائی سے اس نے ایک بالکل اور ہی رنگ اختیار کر لیا اور تثلیث اور کفارہ کے مشرکانہ خیالات داخل ہو گئے ہے اسی طرح ویدوں کی اصل تعلیم میں قدامت روح و مادہ وغیرہ کا کوئی نشان نہیں ہے مگر بعد میں آنے والوں نے یہ خیالات وید کی طرف منسوب کرنے شروع کر دیئے.لیکن اگر اس اصول کو اختیار کیا جاوے کہ ہر مذہبی کتاب اپنا دعویٰ خود پیش کرے اور پھر خود ہی اس کی دلیل لائے تو یہ سارا پول کھل جاتا ہے اور مذہب کی اصل تعلیم ننگی ہو کر سامنے آ جاتی ہے جب آپ نے یہ اصول امرتسر والے مناظرہ میں عیسائی صاحبان کے سامنے پیش کیا تو ان کے اوسان خطا ہو گئے مگر نتیجہ پھر بھی وہی تھا جو عموماً مذہبی مناظروں کا ہوا کرتا ہے کہ دنیا کی عزت کی خاطر صداقت کی طرف سے آنکھیں بند رکھی گئیں.لے دیکھو جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۹ صفحه ۰۱ او صفحه ۱۳۲

Page 51

۴۱ قرآنی علوم کے غیر محدود ہونے اس زمانہ میں آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ موجودہ زمانہ کے کا دعوی اور تفسیر نویسی کا چیلنج.مسلمانوں کا یہ خیال کہ قرآن شریف کے علوم سلف صالحہ یا گذشتہ علماء کی بیان کردہ باتوں پر ختم ہو چکے ہیں اور جو کچھ انہوں نے فرما دیا یا لکھ دیا اس پر قرآنی تفسیر کا خاتمہ ہے ایک بالکل غلط اور مہلک خیال ہے اور آپ نے لکھا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ جس طرح یہ ظاہری دنیا ایک مادی عالم ہے جس میں سے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق مادی خزانے نکلتے رہتے ہیں اسی طرح قرآن شریف ایک روحانی عالم ہے جس کے روحانی اور علمی خزانے کبھی ختم نہیں ہوں گے اور ہر زمانے کی ضرورت کے مطابق نکلتے رہیں گے اور اس طرح قرآنی شریعت کے مکمل ہو چکنے کے باوجود اسلام کے علمی حصہ میں نمو اور ترقی کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہی قرآن شریف کا بڑا معجزہ ہے لے اسی اصل کے ماتحت آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے قرآن شریف کی خدمت کے لئے مبعوث کیا ہے اس لئے مجھے قرآن کی وہ سمجھ عطا کی گئی ہے جو موجودہ زمانہ میں کسی اور کو عطا نہیں کی گئی اور مجھے یہ طاقت دی گئی ہے کہ میں اس زمانہ کی ضرورت کے مطابق قرآن شریف سے ایسے نئے نئے علمی اور روحانی خزانے نکال کر دنیا کے سامنے پیش کروں جو پہلے کبھی پیش نہیں کئے گئے اور آپ نے تحدی کے ساتھ لکھا کہ اس زمانہ میں دنیا کا کوئی شخص اس بات میں میرا مقابلہ نہیں کر سکتا.چنانچہ آپ نے بار بار چیلنج کر کے لوگوں کو بلایا کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو میرے سامنے آ کر قرآن کی تفسیر نویسی میں مقابلہ کر لے.۲ مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی.آپ نے دوسرے مذاہب والوں کو بھی بار بار دعوت دی کہ وہ میرے مقابل پر آ کر اپنی اپنی مذہبی کتابوں کے حقائق و معارف بیان کریں اور میں قرآن کے حقائق و معارف بیان کروں گا اور پھر دیکھا جاوے کہ کس کی کتاب زیادہ بہتر اور زیادہ معارف کا خزانہ ہے اور کون فریق حق پر ہے اور کون باطل پر مگر کوئی شخص آپ کے سامنے نہ آیا.ا ازالہ اوہام صفحہ ۱۲۸ تا ۱۳۵ و صفحه ۲۷۶، ۲۷۷ - (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۵ ۲۵۶) سے یہ چیلنج اشارہ ازالہ اوہام میں موجود ہے مگر تصریح کے ساتھ پہلی مرتبہ آئینہ کمالات اسلام میں آیا ہے.خاکسار مؤلف آئینہ کمالات اسلام ، رحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۰۳۶۰۲)

Page 52

۴۲ اس زمانہ کی ایک نہایت لطیف تصنیف:.آپ کا یہ دعویٰ محض زبانی دعوی نہیں تھا بلکہ آپ نے اسے عملاً ثابت کر دکھایا چنانچہ گوگوئی مخالف تفسیر نویسی کے مقابلہ میں آپ کے سامنے نہیں آیا مگر آپ نے اپنے طور پر بہت سی تصانیف فرما ئیں جن میں قرآن شریف کی متعدد آیات کی ایسی لطیف تفسیر بیان کی جو پہلے کسی کتاب میں بیان نہیں ہوئی اور آپ کی بیان کردہ تفسیر نے قرآن شریف کے کمال کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا.چنانچہ اسی زمانہ میں جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں آپ نے ایک کتاب ” آئینہ کمالات اسلام“ لکھ کر شائع فرمائی جو جدید تفسیر قرآن کے علاوہ اپنے مضامین کی لطافت اور ندرت کے لحاظ سے ایک نہایت اعلیٰ شان رکھتی ہے.کیونکہ وہ حقیقہ ایک ایسے آئینہ کا حکم رکھتی ہے جس میں اسلام کا خوبصورت چہرہ درخشاں ہو کر نظر آنے لگتا ہے.اس کتاب میں قرآنی آیات کی بناء پر اسلام کی حقیقت.روحانی سلوک کے مدارج.ملا ئکتہ اللہ کی حقیقت اور ان کے کام.روح القدس کا فلسفہ معجزہ کی حقیقت.اجرام سماوی کی تاثیرات وغیرہ پر نہایت لطیف بحث کی گئی ہے جسے پڑھ کر ایک علم دوست انسان کی پیاس بجھتی ہے.اس کتاب کا ایک حصہ عربی میں ہے جس کا نام التبلیغ ہے.یہ حضرت مسیح موعود کی سب سے پہلی عربی تصنیف ہے.یہ حصہ آپ نے اپنے بعض دوستوں کی تحریک پر عربی دان طبقہ کے لئے لکھا تھا اور ایک دوست کا بیان ہے کہ جب آپ کو اس موقعہ پر عربی میں لکھنے کی تحریک کی گئی تو آپ بہت متامل تھے کہ میں تو زیادہ عربی نہیں جانتا میں یہ کام کس طرح سرانجام دے سکوں گا لیکن جب آپ نے اس کام میں ہاتھ ڈالا اور خدا نے آپ کو اپنے پاس سے اس کے لئے قوت عطا کی تو ایسی فصیح و بلیغ عبارت لکھی کہ انہی دوست کا بیان ہے کہ اسے دیکھ کر ایک اہلِ زبان عرب نے آپ کی خدمت میں لکھا کہ اس کتاب کو پڑھ کر میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ سر کے بل رقص کرتا ہوا قادیان تک آؤں لے جماعت احمدیہ کا پہلا سالانہ جلسہ : واقعات کے تسلسل کو قائم رکھنے کی غرض سے میں الحکم جلد نمبر ۸ مورخه ۳/ مارچ ۱۹۰۱ء صفحه۴ کالم ۲،۱

Page 53

۴۳.درمیان میں جلسہ سالانہ کے آغاز کے ذکر کو ترک کر گیا ہوں.غالبا بہت سے ناظرین کو معلوم ہوگا کہ کے مرکز قادیان میں جماعت احمدیہ کا ایک سالانہ اجتماع دسمبر کے آخری ہفتہ میں ہوا کرتا ہے.اس کا آغاز ۱۸۹۱ ء میں ہوا تھا جبکہ اس میں ۷۵ اصحاب شریک ہوئے مگر اس اجتماع کا با قاعدہ اجراء۱۸۹۲ء میں ہوا جب کہ جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ میں ۳۲۷ اصحاب شریک ہوئے یا اس کے بعد یہ جلسہ سوائے ایک دو ناغوں کے ہر سال جاری رہا اور اس میں شامل ہونے والوں کی تعداد سال بسال بڑھتی گئی حتی کہ آجکل جلسہ سالانہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد چھپیں تمیں ہزار کے قریب ہوتی ہے جو ملک کے مختلف حصوں سے آتے ہیں.اس سے جماعت کی نسبتی ترقی کا اندازہ ہو سکتا ہے.یہ جلسہ مذہبی عبادت کا رنگ نہیں رکھتا مگر اس نے جماعت کی تبلیغی اور تربیتی اور تنظیمی اغراض کے پورا کرنے میں بہت بھاری حصہ لیا ہے.اس سالانہ اجتماع میں بعض غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب بھی شریک ہوتے ہیں جو عموماً بہت اچھا اثر لے کر جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود کی مہمان نوازی : اس جگہ یمنی طور پر پیدا کر بھی لا تعلق نہیں ہو گا کہ حضرت مسیح موعود کی طبیعت نہایت درجہ مہمان نواز تھی اور جو لوگ جلسہ کے موقعہ پر یا دوسرے موقعوں پر قادیان آتے تھے خواہ وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی وہ آپ کی محبت اور مہمان نوازی سے پورا پورا حصہ پاتے تھے اور آپ کو ان کے آرام اور آسائش کا از حد خیال رہتا تھا.آپ کی طبیعت میں تکلف بالکل نہیں تھا اور ہر مہمان کو ایک عزیز کے طور پر ملتے تھے اور اس کی خدمت اور مہمان نوازی میں دلی خوشی پاتے تھے.اوائل زمانہ کے آنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی مہمان آتا تو آپ ہمیشہ اسے ایک مسکراتے ہوئے چہرہ سے ملتے مصافحہ کرتے.خیریت پوچھتے.عزت کے ساتھ بٹھاتے.گرمی کا موسم ہوتا تو شربت بنا کر پیش کرتے سردیاں ہوتیں تو چائے وغیرہ تیار کروا کے لاتے.رہائش کی جگہ کا انتظام کرتے اور کھانے وغیرہ کے متعلق مہمان خانہ کے منتظمین کو خود بلا کر تا کید فرماتے کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.ایک پرانے صحابی نے جو دنیاوی لحاظ سے معمولی حیثیت کے تھے خاکسار مؤلف لے ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام ( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۳۰،۶۲۹)

Page 54

۴۴ سے بیان کیا کہ میں جب شروع شروع میں قادیان آیا تو اس وقت گرمی کا موسم تھا.حضرت مسیح موعود حسب عادت نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ ملے اور مجھے خود اپنے ہاتھ سے شربت بنا کر دیا اور لنگر خانہ کے منتظم کو بلا کر میرے آرام کے بارے میں تاکید فرمائی اور مجھے بھی بار بار فرمایا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ بے تکلف کہہ دیں پھر اس کے بعد جب میں سردیوں میں آیا اور نماز اور کھانے سے فارغ ہو کر مہمان خانہ کے ایک کمرہ میں سونے کے لئے لیٹ گیا اور رات کا کافی حصہ گزر گیا تو کسی نے میرے کمرہ کے دروازہ کو آہستہ سے کھٹکھٹایا.میں جب اٹھ کر گیا اور دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود خود بنفس نفیس ایک ہاتھ میں لائین لئے اور دوسرے میں ایک پیالہ تھامے کھڑے تھے اور مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمانے لگے اس وقت کہیں سے دودھ آ گیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آؤں کہ شاید رات کو دودھ پینے کی عادت ہوگی.وہ دوست بیان کرتے تھے کہ میں شرم سے کٹا جارہا تھا مگر حضرت مسیح موعود اپنی جگہ معذرت فرما رہے تھے کہ میں نے آپ کو اس وقت اٹھا کر تکلیف دی ہے لیے اس چھوٹے سے واقعہ سے آپ کے جذبہ مہمان نوازی کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا.تین بڑی قوموں کے متعلق اصولی پیشگوئیاں :.اس زمانہ میں مخالفت کا بڑا زور تھا اور ہر 66 ہے.قوم کی طرف سے نشان نمائی کا مطالبہ ہورہا تھا اور مسلمان ، عیسائی اور ہند وسب حضرت مسیح موعود کے خلاف میدان میں اترے ہوئے تھے اور آپ کے دعوی کے مطابق تقاضا کر رہے تھے کہ اگر آپ میں کوئی روحانی طاقت ہے یا اگر اسلام کی حقانیت کے متعلق آپ کا دعوی سچا ہے تو ہمیں کوئی نشان دکھا ئیں.اس پر آپ نے زمانہ کے قلیل فرق کے ساتھ ہندوستان کی تین بڑی قوموں یعنی مسلمانوں عیسائیوں اور ہندوؤں کے متعلق علیحدہ علیحدہ پیشگوئیاں فرما ئیں اور ان پیشگوئیوں کو ان قوموں کے لئے خدا کی طرف سے ایک نشان ٹھہرایا.۲ جو پیشگوئی مسلمانوں سے تعلق رکھتی تھی وہ مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیار پوری کے متعلق ۱۸۸۸ء میں کی گئی تھی مگر اس کی میعاد ۱۸۹۲ء میں شروع ہوئی.مرزا احمد بیگ صاحب حضرت مسیح موعود 1 سیرۃ المہدی حصہ سوم شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۷۶

Page 55

۴۵ کے رشتہ داروں میں سے تھے.مگر سخت دنیا دار تھے اور دین کی طرف سے قطعاً غافل تھے اور اپنے دوسرے عزیزوں کی طرح حضرت مسیح موعود سے اس بات کے طالب رہتے تھے کہ انہیں کوئی نشان دکھا یا جاوے.اتفاق ایسا ہوا کہ اسی زمانہ میں وہ حضرت مسیح موعود سے ایک احسان کے طالب ہوئے یعنی یہ درخواست کی کہ آپ اپنی جائیداد کا ایک حصہ جو آپ کو اپنے ایک مفقودالخبر رشتہ دار کی طرف سے پہنچنے والا تھا ان کے بیٹے کے نام ہبہ کر دیں.حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق حسب عادت استخارہ کیا اور دعا مانگی تو آپ کو خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ اس شخص سے یہ تحر یک کرو کہ وہ اپنی بڑی لڑکی کا رشتہ تم سے کر دے.پھر اگر اس نے اس تجویز کو مان لیا تو یہ لوگ خدا کی طرف سے رحمت کا نشان پائیں گے اور اگر انکار کیا تو اس صورت میں وہ عذاب کا نشان دیکھیں گے.گویا یہ رشتہ حضرت ہود کی اوٹنی کی طرح کے نشان نمائی کا ایک واسطہ بن گیا اور یہ پیشگوئی مرکب رنگ رکھتی تھی یعنی اس کے دو پہلو تھے ایک پہلو رحمت کا تھا جو رشتہ کے ساتھ وابستہ تھا اور دوسرا پہلو عذاب کا تھا جو انکار کے ساتھ وابستہ تھا اور حضرت مسیح موعود نے یہ تصریح فرمائی کہ ہمیں اس رشتہ کی کوئی خواہش نہیں ہے اور یہ کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض رشتہ نہیں بلکہ نشان نمائی ہے اور رشتہ صرف ایک علامت کے طور پر ہے اور انکار کی صورت میں آپ نے مرزا احمد بیگ کی موت کے لئے تین سال اور ان کے داماد کے لئے اڑھائی سال کی میعاد مقررفرمائی ہے مگر افسوس کہ ان لوگوں نے رحمت کے نشان کو رد کر دیا اور ۱۸۹۲ء کے ابتداء میں اس لڑکی کی شادی ایک صاحب مرزا سلطان محمد بیگ نامی کے ساتھ کر دی اور خدا سے مقابلہ کی ٹھان کر پیشگوئی کے عذاب کے پہلو کو اپنے اوپر لے لیا.چنانچہ ابھی اس رشتہ پر چھ ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ ماہ ستمبر ۱۸۹۲ء میں لڑکی کے والد مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری تپ محرقہ میں مبتلاء ہو کر اس جہان سے رخصت ہوئے اور خاندان کی ساری خوشیاں خاک میں مل گئیں.سے اس اچانک حادثہ نے خاندان کے دوسرے افراد کے دل میں سخت خوف پیدا کر دیا اور ان میں سے بعض نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں عاجزی اور هود: ۲۶۵ دیکھو اشتہارات مورخہ ۰ ارجولائی ۱۸۸۸ء و ۱۵ار جولائی ۱۸۸۸ء.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۳۶ آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۲۱ جدید ایڈیشن)

Page 56

۴۶ انکساری کے خط لکھے اور مرزا سلطان محمد بیگ صاحب نے بھی ادب اور احترام کا طریق اختیار کیا اور باوجود مخالفوں کے اکسانے کے کوئی مخالفت کا کلمہ زبان پر نہیں لائے.جس کی وجہ سے خدا نے اپنے ابدی قانون کے ماتحت عذاب کا بقیہ حصہ معاف کر دیا.جیسا کہ اس نے اپنے ایک الہام میں بھی پہلے سے اشارہ کر رکھا تھا کہ اس پیشگوئی میں عذاب کا پہلو ظاہر ہوگا مگر تو بہ سے یہ عذاب ٹل سکے گا.مگر نادان مخالفوں نے اس پر بھی شور مچایا کہ پیشگوئی غلط گئی کیونکہ مرزا سلطان محمد بیگ فوت نہیں ہوئے اور لڑکی آپ کے نکاح میں نہیں آئی لیکن یہ مخالفت کا شور بھی پیشگوئی کے عین مطابق تھا کیونکہ اس پیشگوئی کے تعلق میں حضرت مسیح موعود کو یہ الہام بھی ہوا تھا کہ مرزا احمد بیگ فوت ہوں گے اور ان کے پیچھے بہت سے بھونکنے والے کتے باقی رہ جائیں گے یا یعنی پیشگوئی کا ایک پہلو ایسا ہو گا کہ اس میں نادان مخالفوں کو شور کرنے کا موقعہ ملے گا مگر یہ شور ایسا ہی ہوگا جیسے کتوں کے بھونکنے کا شور ہوتا ہے سو پیشگوئی کا یہ حصہ بھی کمال صفائی سے پورا ہوا.سے دوسری پیشگوئی جو عیسائیوں کے ساتھ تعلق رکھتی تھی وہ مسٹر عبد اللہ آتھم کے متعلق تھی.مسٹر آتھم ایک پر جوش مسیحی تھے اور اس مناظرہ میں عیسائیوں کے زعیم تھے جو امرتسر میں حضرت مسیح موعود اور مسیحیوں کے درمیان ۱۸۹۳ء میں ہوا تھا.جب اس مناظرہ میں عیسائی مناظر نے ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیا اور استہزاء کا طریق اختیار کیا تو ۵/ جون ۱۸۹۳ء کو جبکہ اس مناظرہ میں حضرت مسیح موعود کی طرف سے آخری پرچہ پیش ہوا آپ نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ آج رات خدا نے مجھے بتایا ہے کہ جو فریق اس مناظرہ میں جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور بچے خدا کو چھوڑ کر ایک کمزور انسان کو خدا بنارہا ہے وہ پندرہ ماہ کے اندر بسزائے موت ہاویہ میں گرایا جائے گا بشرطیکہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.اور آپ نے اس موقعہ پر یہ بھی فرمایا کہ آتھم نے اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں آنحضرت کے متعلق نعوذ باللہ دجال کا لفظ استعمال کر کے آپ کی شان میں سخت گستاخی کی ہے.سے اس پیشگوئی کو سن کر آتھم صاحب سخت خوفزدہ ہو گئے اور اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا کہ میں ے اشتہار ۵ ار جولائی ۱۸۸۸ء مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۴۰ حاشیہ نمبر ۲ جدید ایڈیشن ے اس پیشگوئی کی تفصیلی بحث کے لئے دیکھو حقیقت الوحی صفحه ۱۸۷ و صفحه ۳۸۸،۳۸۷ نیز تمہ حقیقة الوحی صفحه ۱۳۳،۱۳۲(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۲،۴۰۱) سے دیکھو جنگ مقدس کا آخری پر چه روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۳،۲۹۲

Page 57

۴۷ نے تو دجال کا لفظ نہیں لکھا حالانکہ وہ اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں یہ لفظ استعمال کر چکا تھا ) اس وقت آتھم کی یہ حالت تھی کہ اسے مجلس سے اٹھنا محال ہو گیا اور دوسرے لوگوں نے سہارا دے کر اٹھایا اور پھر اس کے بعد آتھم نے اپنی زبان اور قلم کو اسلام کے خلاف بالکل روک لیا اور یہ پندرہ مہینے انتہائی گھبراہٹ اور خوف میں گزارے اور بعض اوقات وہ علیحدگی میں بیٹھ کر روتا بھی تھا اور اضطراب کی حالت میں ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف بھاگا پھرتا تھا تی کہ عیسائیوں کو یہ اندیشہ پیدا ہو گیا کہ وہ اپنی گھبراہٹ میں کوئی ایسا لفظ نہ منہ سے نکال بیٹھے جو ان کے لئے تذلیل کا موجب ہو چنانچہ بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ میعاد کے آخری ایام میں وہ اسے اکثر وقت مخمور رکھتے تھے اور کسی غیر شخص سے ملنے نہیں دیتے تھے.غرض آتھم نے اپنے حرکات و سکنات سے ثابت کر دیا کہ وہ دل میں اسلام کی صداقت سے مرعوب ہو چکا ہے اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کا خوف اس پر غالب ہے اور یہ کہ وہ شوخی اور مخالفت کے اس مقام سے پیچھے ہٹ گیا ہے جس پر وہ مناظرہ سے پہلے اور مناظرہ کے دوران میں قائم تھا.اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بذریعہ الہام اطلاع دی کہ اطلع الله علی همه و غمه لا یعنی خدا تعالیٰ آتھم کے غم اور اس کے فکر و اضطراب کو دیکھ رہا ہے اور اس کی اس حالت سے بے خبر نہیں.جس میں یہ اشارہ تھا کہ اب آتھم صاحب پیشگوئی کے ان الفاظ سے فائدہ اٹھائیں گے کہ بشر طیکہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.“ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ خدا کے رحم نے اس کے غضب کی جگہ لے لی اور آتھم صاحب اس وقت موت کے ہادیہ میں گرنے سے بچ گئے.مگر بجائے اس کے کہ مسیحی لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور شور کرنا شروع کیا کہ پیشگوئی غلط نکلی کیونکہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا.اس پر حضرت مسیح موعود نے اشتہار پر اشتہار شائع کیا کہ یہ پیشگوئی قطعی نہیں تھی بلکہ مشروط تھی اور آتھم نے اپنے حالات سے ثابت کر دیا ہے کہ اس نے پیشگوئی کے رعب سے خائف ہو کر اپنی سابقہ حالت سے رجوع کیا ہے اور آپ نے لکھا کہ اگر کسی کو شبہ ہو کہ آتھم نے رجوع نہیں کیا تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ آتھم صاحب خدا ے انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲

Page 58

۴۸ کی قسم کھا جائیں کہ میعاد کے دوران میں میرے دل پر اسلام کا رعب طاری نہیں ہوا اور اسلام اور مسیحیت کے متعلق میرے دل کی وہی حالت رہی ہے جو پہلے تھی تو میں آتھم صاحب کو چار ہزار روپیہ انعام دوں گا اور اپنے آپ کو جھوٹا سمجھ لوں گا اور آپ نے تحدی کے ساتھ لکھا کہ اگر آتھم صاحب نے ایسی قسم کھالی تو خدا انہیں ایک سال کے اندر اندر ضرور ہلاک کر دے گا اور یہ ہلاکت قطعی اور اٹل ہے جس میں کوئی تخلف نہیں ہوگا.مگر باوجود بار بار غیرت دلانے کے آتھم صاحب اس قسم کے لئے تیار نہ ہوئے لے مگر پھر بھی چونکہ آتھم صاحب نے حق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی اس لئے وہ حضرت مسیح موعود کے آخری اشتہار کے سات ماہ کے اندر حضرت مسیح موعود کی دن دگنی اور رات چگنی ترقی دیکھتے ہوئے ۱۸۹۶ء کے وسط میں اس جہان سے رخصت ہو گئے ہے تیسری پیشگوئی پنڈت لیکھرام کے متعلق تھی جو آریہ قوم کے ایک بہت نامور لیڈر تھے.پنڈت لیکھر ام اسلام کے سخت دشمن تھے اور آنحضرت ﷺ کے خلاف انتہائی تیز زبانی سے کام لیا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود سے نشان کے طالب رہتے تھے.آخر حضرت مسیح موعود نے لیکھرام صاحب کی خواہش کے مطابق خدا سے دعا کی کہ ان کے بارے میں کوئی ایسا نشان دکھایا جاوے جس سے اسلام کی صداقت ظاہر ہو اور جھوٹا فریق اپنی سزا کو پہنچے اس پر ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو آپ نے خدا سے خبر پا کر یہ اعلان کیا کہ چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا.اور آپ نے بڑی تحدی کے ساتھ لکھا کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں کوئی عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اند ر الہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں اور پنڈت لیکھرام کے متعلق آپ کو خدا نے یہ شعر بھی الہام کیا کہ :.66 الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بُران محمد “ یعنی اے نادان اور رستے سے بھٹکے ہوئے دشمن تو اس قدر شوخی سے کام نہ لے اور محمد ے کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر سے ے دیکھوانوار الاسلام ، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۶ کے دیکھو انجام آنقم و حقیقۃ الوحی نشان نمبر ۲۳ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحه ۲۲۱ تا ۲۲۳ ۳ے دیکھو اشتہار مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء مجموعه اشتہارات جلد اول صفحه ۳۰۴ جدید ایڈیشن

Page 59

۴۹ اس کے بعد آپ نے اس بارے میں مزید دعا کی تو آپ پر ظاہر کیا گیا کہ کھر ام کی ہلاکت عید کے دوسرے روز ہوگی ہے اور آپ کو ایک خواب میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک قوی ہیکل مہیب شکل فرشتہ جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا تھا پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کے لئے متعین کیا گیا ہے.اس کے مقابل پر پنڈت لیکھرام نے بھی یہ اعلان کیا کہ مرزا صاحب کذاب ہیں اور تین سال کے عرصہ میں تباہ و برباد ہو جائیں گے.سے غرض یہ روحانی مقابلہ بڑے اہتمام اور جلال کے ساتھ منعقد ہوا اور دنیا کی نظریں اسلام اور آریہ مذہب کے ان نامور لیڈروں پر جم گئیں اور اس انتظار میں لگ گئیں کہ پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے.آخر پنڈت لیکھرام کی تین سالہ میعاد تو یونہی گزرگئی اور کچھ نہیں ہوالیکن جب حضرت مسیح موعود کی بیان کردہ میعاد کا پانچواں سال آیا تو عید کے عین دوسرے دن پنڈت لیکھر ام صاحب ایک نامعلوم شخص کی چھری کا نشانہ بن کر اس جہان سے رخصت ہوئے اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی نہایت آب و تاب کے ساتھ پوری ہو گئی کے قاتل کی بہت تلاش ہوئی اور آریوں نے بہت ہاتھ پاؤں مارے اور حضرت مسیح موعود کے خلاف رپورٹ کر کے آپ کے مکان وغیرہ کی تلاشی بھی کرائی مگر جو بات جھوٹی تھی اس کا سراغ کیونکر ملتا.حضرت مسیح موعود نے سخت سے سخت قسم کھا کر حلفاً بیان کیا کہ ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ پنڈت لیکھرام کا قاتل کون تھا اور اس نے اسے کیوں مارا اور کیونکر مارا.ہم صرف اس بات کو جانتے ہیں کہ یہ ایک خدائی تقدیر تھی جو اپنا کام کر گئی.آپ نے لکھا کہ مارنیوالا خواہ کوئی انسان تھایا فرشتہ تھا بہر حال وہ خدا کا ایک غیبی آلہ تھا جس کا ہمیں کوئی علم نہیں.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ گو ہمیں اس لحاظ سے خوشی ہے کہ خدا کی بات سچی نکلی اور اسلام کا بول بالا ہوالیکن انسانی ہمدردی کی رو سے ہمیں افسوس بھی ہے کہ پنڈت لیکھرام کی ایسی بے وقت موت ہوئی اور ان کے متعلقین کو صدمہ پہنچا.الغرض یہ وہ تین پیشگوئیاں تھیں جو حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر کیں اور جو خدا کے لے دیکھو کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۳۹۶ے دیکھوٹائٹل پیج برکات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳ سے کلیات آریہ مسافر صفحه ۵۰۱ ۲ حقیقۃ الوحی نشان نمبر ۱۲۵، ۱۳۷، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۹۵،۲۹۴

Page 60

۵۰ فضل سے اپنی اپنی شرائط کے مطابق کمال صفائی کے ساتھ پوری ہوئیں.مگر ان پیشگوئیوں کے انفرادی پہلو کی نسبت ان کا قومی پہلو اور بھی زیادہ اہم اور زیادہ وسیع الاثر ہے.کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب ”شہادۃ القرآن میں اشارہ کیا ہے یہ پیشگوئیاں اس تقدیر الہی کو ظاہر کرتی ہیں جو خدا نے ان ہر سہ قوموں کے متعلق مقدر کر رکھی ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن دو مسلمانوں کے متعلق پیشگوئی تھی ان میں سے ایک مقررہ میعاد کے اندر اندر مر گیا اور دوسرا خائف ہوکر اور مخالفت سے کنارہ کش رہ کر حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخر تک خدائی گرفت سے بچا رہا.اور عیسائیوں میں سے جس شخص کے متعلق پیشگوئی تھی اس نے ڈر ڈر کر وقت گزارا اور دل میں اسلام کی صداقت اور حقانیت سے مرعوب ہوا اس لئے وہ مقررہ میعاد میں تو بچ گیا مگر جب بعد میں اس نے حق پر پردہ ڈالا تو پیشگوئی کے اصل منشاء کے ماتحت حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا اور آریوں میں سے جس شخص کے متعلق پیشگوئی تھی اس نے سامنے سے شیخی اور دلیری کا طریق اختیار کیا اور اسلام کے مقابلہ میں تکبر کے ساتھ ڈٹا رہا اس لئے وہ خدا کے رحم سے کلیہ محروم رہا اور مقررہ میعاد کے اندر اندر عبرتناک حالات میں اس جہان سے رخصت ہوا.دوسری طرف حضرت مسیح موعود جوان تینوں پیشگوئیوں میں اسلام اور احمدیت کے نمائندہ تھے وہ نہ صرف ہر تکلیف سے محفوظ رہے بلکہ خدا نے آپ کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی نصیب کی.اس طرح ان پیشگوئیوں نے بتا دیا کہ احمدیت اور اسلام کے مقابلہ پر ان تین قوموں کے ساتھ خدا کا کیا سلوک ہوگا.اور وہ یہ کہ غیر احمدی مسلمانوں کا ایک حصہ تو احمدیت کے مقابلہ پر آ کر جلد مٹ جائے گا اور دوسرا حصہ دب کر اطاعت اختیار کرے گا اور بچ جائے گا یا مہلت پائے گا اور عیسائی قوم اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر دل میں مرعوب ہوگی اور ایک وقت تک خدائی گرفت سے بچی رہے گی مگر جب وہ حق پر پردہ ڈالنے کا طریق اختیار کرے گی اور اس کا رویہ صداقت کے رستہ میں روک بننے لگے گا تو پکڑی جائے گی اور پھر اس کی صف اس دنیا سے عملاً لپیٹ دی جائے گی اور اس کے بعد وہ زندہ قوموں میں شمار نہیں ہوگی اور آریہ لوگ احمدیت اور اسلام کے مقابلہ پر شوخ رہیں گے اس لئے وہ جلد مٹا دیئے جائیں گے اور ان کی قومی زندگی کا جلد

Page 61

۵۱ خاتمہ ہو جائے گا سو یہ تینوں پیشگوئیاں اپنے اندر نہایت لطیف اشارے رکھتی ہیں مگر افسوس کہ کور چشم لوگوں نے ان کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور اعتراض کی طرف جلدی کی مگر دنیا اپنے وقت پر دیکھ لے گی کہ یہ ایک زبر دست خدائی تقدیر ہے جو بہر حال پوری ہوکر رہے گی.پیشگوئیوں کے متعلق دو بنیادی اصول:.پیشگوئیوں کے متعلق عمومی طور پر حضرت مسیح موعود نے ان بحثوں کے دوران میں یہ نکتہ بھی بیان کیا اور دراصل یہ نکتہ سارے معجزات پر یکساں چسپاں ہوتا ہے کہ چونکہ ایمان کے معاملہ میں بالکل شہود کا رنگ پیدا ہو جانا جو نصف النہار کےسورج کی طرح ہو ایمان کی غرض و غایت کے خلاف ہے جس کے بعد ایمان لانا چنداں ثواب کا موجب نہیں رہتا اس لئے اللہ تعالیٰ معجزات میں ایک حد تک اخفا کا پردہ ضرور رکھتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ شبہ پیدا ہونے کے سارے راستے بالکل مسدود ہو جائیں اور آپ نے اس کی مثال یوں بیان کی کہ معجزات کے نتیجہ میں اس قسم کی روشنی پیدا ہوتی ہے کہ جیسے ایک چاندنی رات کی روشنی ہو جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہوایسی حالت میں ایک طرف روشنی کی تیزی بھی نہیں ہوتی بلکہ صرف مدھم سی روشنی ہوتی ہے اور دوسری طرف آنکھیں رکھنے والوں کو رستہ بھی نظر آتا ہے اور وہ مختلف چیزوں میں تمیز کر سکتے ہیں.پس ایمان کے ابتدائی مرحلوں میں اس سے زیادہ روشنی پیدا نہیں کی جاتی تاکہ مومن اور منکر میں امتیاز رہے اور ایمان لانا موجب ثواب سمجھا جاوے ورنہ بالکل شہود کے بعد ثواب کا کوئی سوال نہیں رہتا.پس آپ نے تشریح فرمائی کہ یہ جو نبیوں کی بعض پیشگوئیوں میں یا دوسرے معجزات میں کسی قدر اشکال نظر آتا ہے اور شبہ کی گنجائش باقی رہتی ہے یہ بھی خدائی منشاء کے ماتحت ضروری ہے.پس بجائے ہر پیشگوئی کے ہر پہلو کو کریدنے اور فرضی شبہات پیدا کرنے کے ایک عمومی نظر کے ساتھ دیکھنا چاہئے کہ کیا نتیجہ پیدا ہوتا ہے مثلاً اگر کسی مامور من اللہ کی ایک سو پیشگوئیاں ہوں اور ان پیشگوئیوں میں سے ایک بھاری کثرت صفائی سے پوری ہو جائے جس میں کسی معقول شبہ کی گنجائش نہ ہو اور صرف بعض میں کسی حد تک شبہ کی صورت پیدا ہو تو اس کی وجہ سے اس مامور من اللہ کو رد نہیں کرنا چاہیئے.ہاں یہ ضرور دیکھنا

Page 62

۵۲ چاہئے کہ جو پیشگوئیاں کی گئی ہیں ان میں خدائی علم اور خدائی قدرت کا ہاتھ نظر آئے اور وہ انسانی علم اور انسانی قدرت سے بالا رنگ رکھتی ہوں.دوسرا نکتہ آپ نے یہ بیان کیا کہ جو پیشگوئیاں وعید کا رنگ رکھتی ہوں یعنی ان میں کسی فرد یا جماعت یا قوم کے متعلق عذاب کی خبر دی گئی ہو وہ ہمیشہ دوسرے فریق کی شرارت اور شوخی کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں اور اگر دوسرا فریق ڈر کر دب جائے یا خائف ہو کر تو بہ کا طریق اختیار کرے تو پھر ایسی پیشگوئیاں ٹل جاتی ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اور یہ بات اس کی شان سے بعید ہے کہ ایک گرے ہوئے دشمن یا تو بہ کے ساتھ جھکنے والے انسان پر ہاتھ اٹھائے جیسا کہ وہ قرآن شریف میں بھی فرماتا ہے کہ ہم استغفار کرنے والے بندہ پر عذاب نازل نہیں کرتے لے پس آپ نے فرمایا کہ وعید والی پیشگوئیوں میں خواہ تو بہ وغیرہ کی شرط صراحتاً مذکور ہو یا نہ ہو وہ لازماً اس اصولی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں کہ تو بہ اور استغفار سے خدا کا عذاب ٹل جاتا ہے.ایک اور لطیف تصنیف اور قبولیت دعا کا مسئلہ :.اس زمانہ میں مغربی محققین اور مسیحی پادریوں کے اعتراضوں سے تنگ آکر مسلمانون کی عجیب حالت ہو رہی تھی.ان میں سے ایک طبقہ تو عیسائیت کی طرف مائل ہو رہا تھا اور دوسرا کھلم کھلا مذہب کو خیر باد کہہ کر دہریت کا شکار ہوتا جارہا تھا مگر ایک تیسرا درمیانی طبقہ بھی تھا جو اسلام کی محبت یا عام قومی بیچ میں اسلام کو چھوڑنے کے لئے تو تیار نہیں تھا مگر مغربی اعتراضوں سے تنگ آکر وہ اسلامی مسائل کی ایسی ایسی تاویلیں کر رہا تھا کہ جس سے اسلام کی شکل وصورت ہی مسخ ہو رہی تھی.اس مؤخر الذکر طبقہ کے لیڈر سر سید احمد خان صاحب بانی علی گڑھ کالج تھے انہیں اسلام سے محبت تھی اور مسلمانوں کو تباہی سے بچانا چاہتے تھے مگر چونکہ سید صاحب روحانی اور مذہبی آدمی نہیں تھے اس لئے اسلامی مسائل کی ایسی ایسی تاویلیں کر رہے تھے جو اسلام کی تعلیم کے بالکل خلاف تھیں.ان کی مدافعت کی پالیسی بالکل یہ رنگ رکھتی تھی کہ مثلاً کوئی شخص دوسرے پر حملہ کر الانفال: ۳۴

Page 63

۵۳ کے آوے کہ تمہاری یہ یہ چیز خراب اور گندی ہے تو وہ بجائے اعتراض کو جھوٹا ثابت کرنے اور اپنی چیز کی خوبی کے دلائل دینے کے سامنے سے ہاتھ جوڑ کر یہ کہنے لگ جاوے کہ آپ کو غلطی لگی ہے یہ چیز تو میری ہے ہی نہیں میری چیز تو وہ ہے اس شکست خوردہ ذہنیت کے ماتحت سرسید مرحوم نے اسلام کی بہت سی باتوں سے انکار کر دیا اور بعض کی ایسی تاویل کرنی شروع کی کہ مذہب کی صورت ہی بدل گئی.حضرت مسیح موعود نے اس ہزیمت کو دیکھا تو غیرت کے جوش سے اٹھ کھڑے ہوئے چنانچہ آپ کی جس تصنیف کا ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں یعنی ” آئینہ کمالات اسلام“ اس میں آپ نے متفرق جگہ سرسید کی غلط تاویلات کا رد کر کے اسلام کی صحیح تعلیم پیش کی ہے اور عیسائیوں کو تحدی کے ساتھ بلایا ہے کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو میرے سامنے آئے.اسی خطرہ کے انسداد میں آپ نے ۱۸۹۳ء میں ایک مخصوص تصنیف بھی لکھ کر شائع فرمائی جس کا نام ” برکات الدعا ہے.اس کتاب میں آپ نے سرسید احمد خان صاحب کے اس غلط عقیدہ کا بطلان کیا کہ دعا محض ایک عبادت ہے ورنہ وہ دنیا کے کاموں کی رو کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی جو سب اپنے اپنے مقررہ قانون کے ماتحت اپنی اپنی صورت میں چل رہے ہیں اور چلتے چلے جائیں گے.آپ نے ثابت کیا کہ اسلام کا خدا ایک زندہ خدا ہے جو دنیا کو پیدا کرنے کے بعد اس کی حکومت سے معطل نہیں ہوا بلکہ اب بھی دنیا کی ہر چیز ہر وقت اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور گو قضاء وقدر اور خواص الاشیاء کی عام تقدیر جس کا دوسرا نام قانونِ قدرت ہے خدا ہی کی جاری کردہ ہے اور وہ اس میں سوائے خاص استثنائی حالات کے کوئی تبدیلی نہیں کرتا لیکن چونکہ وہ اپنے قانون پر غالب ہے اس لئے اگر وہ چاہے اور مناسب خیال کرے تو جب چاہے اپنے بنائے ہوئے قانون میں تبدیلی کر سکتا ہے اور یہ تبدیلی بھی خدا کے وسیع قانون کا ایک حصہ ہے چنانچہ خدا گا ہے گاہے اپنے خاص بندوں کے لئے اور خاص مصالح کے ماتحت تبدیلی کرتا بھی ہے اور اسی کا نام معجزہ ہے جو بعض اوقات قبولیت دعا کی صورت میں اور بعض اوقات ویسے ہی خدا کے منشاء کے ماتحت استثنائی قانون کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور آپ نے چیلنج دیا کہ اگر کوئی شخص اس قسم کا معجزہ دیکھنا چاہے تو وہ میرے پاس آئے میں اسے خدا کے فضل سے ایسا نشان دکھاؤں گا جو اس کے شبہات کی

Page 64

۵۴ تاریکی کو دور کر دے گا.چنانچہ آپ نے سرسید مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایا:.اے کہ گوئی گردعا ہارا اثر بودے کجا است سوئے من بشتاب بنمائم ترا چوں آفتاب ہاں مکن انکار زیں اسرار قدرت ہائے حق قصہ کو نہ کن ہیں از ما دعائے مستجاب لے و یعنی اے وہ صاحب جو یہ فرما ر ہے ہو کہ اگر دعا میں کوئی اثر ہوتا ہے تو وہ کہاں ہے آپ جلدی سے میری طرف آجائیں میں آپ کو آفتاب کی طرح دعا کا اثر دکھا دوں گا.ہاں ہاں خدا کی قدرتوں کے مخفی اسرار سے انکار نہ کرو کیونکہ خدا کے اسرار کو خدا کے بندے ہی سمجھتے ہیں اور اگر آپ کو انکار پر اصرار ہے تو لمبی بحث کی ضرورت نہیں آئیں اور میری طرف سے اس دعا کا نتیجہ دیکھ لیں جس کے متعلق مجھے خدا نے بتایا ہے کہ وہ قبول ہو چکی ہے.اور آپ نے اس شعر پر یہ نوٹ لکھا کہ اس دعا سے وہ دعا مراد ہے جو میں پنڈت لیکھرام کے متعلق کر چکا ہوں جس کے نتیجہ میں مجھے خدا کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ پنڈت لیکھرام جو اسلام کی عداوت میں کھڑا ہے چھ سال کے عرصہ میں عید کے دوسرے روز عذاب الیم میں مبتلا ہو جائے گا.اب خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو کہ مقررہ میعاد کے اندر اندر یعنی ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کو عین عید کے دوسرے روز پنڈت لیکھر ام اس جہان سے رخصت ہوئے اور حضرت مسیح موعود نہ صرف ہر قسم کی آفت اور نقصان سے محفوظ رہے بلکہ خدا نے آپ کو اس عرصہ میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی نصیب کی اور پھر لطف یہ ہے کہ خدا نے سرسید مرحوم کو بھی اس وقت تک زندہ رکھا کہ وہ اس ’’دعائے مستجاب“ کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھ لیں.عربی میں مقابلہ کی دعوت :.حضرت مسیح موعود کی تعلیم کے بیان میں یہ ذکر گزر چکا ہے کہ آپ نے اپنی ابتدائی عمر میں بعض پرائیویٹ استادوں سے عربی کا علم سیکھا تھا مگر یہ تعلیم محض ایک ابتدائی رنگ رکھتی تھی اور مروجہ تعلیم کے ابتدائی مرحلہ سے متجاوز نہیں تھی اور یہ علم بھی آپ نے گھر پر رہ کر سیکھا تھا اور کسی مرکزی شہر میں جا کر تحصیل علم نہیں کی تھی اس لئے بظاہر حالات آپ کی علمی استعداد بہت معمولی لے دیکھو کتاب برکات الدعا.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳

Page 65

۵۵ تھی اور پنجاب و ہندوستان میں ہزاروں علماء ایسے موجود تھے جو کتابی علم میں آپ سے بہت آگے تھے لیکن جب خدا نے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے مبعوث کیا اور آپ کو قر آنی علوم سے مالا مال کیا تو اس کے ساتھ ہی آپ کو خارق عادت رنگ میں عربی کا علم بھی عطا کیا چنانچہ سب سے پہلے آپ نے ۱۸۹۳ء میں علماء کو دعوت دی کہ وہ آپ کے سامنے آکر عربی نویسی میں مقابلہ کر لیں.اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ مجھے خدا کی طرف سے ایک رات میں عربی کا چالیس ہزار مادہ سکھایا گیا ہے اور خدا نے مجھے عربی میں ایسی کامل قدرت عطا فرمائی ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی دوسرا شخص نہیں ٹھہر سکتا خواہ وہ ہندی ہو یا مصری یا شامی.آپ نے بڑی تحدی کے ساتھ اور بار بار اپنے اس دعویٰ کو پیش کیا اور آخری عمر تک اسے دہراتے رہے مگر کسی کو آپ کی عربی تصانیف کے مقابلہ میں لکھنے کی جرات نہیں ہوئی.آپ نے یہ بھی لکھا کہ اگر کوئی ایک فرد اس مقابلہ کی جرات نہیں کر سکتا تو میری طرف سے اجازت ہے کہ سب مل کر میرے مقابل پر آؤ اور میرے جیسی فصیح اور بلیغ اور معارف سے پر عربی لکھ کر دکھاؤ مگر کوئی شخص سامنے نہیں آیا.شروع شروع میں ہندوستانی علماء نے یہ کہہ کر بات کو ٹالا کہ شاید آپ نے کوئی عرب چھپا کر رکھا ہوا ہے مگر جب آپ نے اپنے چیلنج کو عربوں اور مصریوں اور شامیوں تک وسیع کر دیا تو پھر یہ سب لوگ جھاگ کی طرح ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے.پھر لطف یہ ہے کہ آپ کی عربی تصانیف صرف نثر میں ہی نہیں تھیں بلکہ آپ نے بہت سی عربی نظمیں بھی لکھیں جن میں سے بعض بہت لمبی لمبی نظمیں ہیں اور ہر بحر اور ہر قافیہ میں ہیں اور ان میں فصاحت اور بلاغت کو اس کمال تک پہنچایا کہ اہل زبان بھی دنگ رہ گئے.نثر میں بھی آپ نے ہر رنگ میں کلام لکھا یعنی مقفی بھی غیر مقفی بھی مسجع بھی غیر مسبع بھی.آسان بھی اور مشکل بھی اور ادب کے ہر میدان میں اپنے گھوڑے کو ڈالا اور شاہسواری کا حق ادا کر دیا.آپ کی عربی تصانیف کی کل تعداد اکیس ہے جن میں التبليغ - حمامة البشری - من الرحمن لجۃ النور - خطبہ الہامیہ.الہدی.اعجاز مسیح اور سیرۃ الا بدال خاص طور پر قابل ذکر ہیں.

Page 66

کسوف خسوف کا نشان: ۱۸۹۴ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں ایک اور عظیم الشان نشان دکھایا اور وہ یہ کہ اس قدیم پیشگوئی کے مطابق جو مہدی معہود کے متعلق پہلے سے بیان کی جا چکی تھی ۱۸۹۴ء مطابق ۱۳۱۱ھ کے رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگا.یہ گرہن اپنی ذات میں کوئی خصوصیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ گرہن ہمیشہ سے لگتے ہی آئے ہیں لیکن اس گرہن کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ اس کے متعلق پہلے سے معین تاریخیں بتا دی گئی تھیں کہ رمضان کے مہینہ میں فلاں فلاں تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا اور یہ کہ اس وقت ایک شخص مہدویت کا مدعی موجود ہو گا جو خدا کی طرف سے ہو گا.چنانچہ ان سب شرائط کے ایک جگہ اکٹھے ہو جانے سے یہ گرہن ایک خاص نشان قرار دیا گیا تھا چنانچہ وہ حدیث جس میں یہ پیشگوئی درج تھی اس کے الفاظ یہ تھے کہ ” ہمارے مہدی کی یہ علامت ہوگی کہ اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کو اس کے گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ میں گرہن لگے گا اور اسی مہینہ کے آخر میں سورج کو اس کے گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانی تاریخ میں گرہن لگے گا.لے گویا اس نشان کے لئے اتنی شرائط ضروری قرار دی گئیں.اوّل ایک مدعی مہدویت پہلے سے موجود ہو.دوم رمضان کا مہینہ ہو.سوم اس مہینہ کی تیرھویں تاریخ کو ( کیونکہ چاند کے گرہن کے لئے یہی پہلی تاریخ ہے) چاند کو گرہن لگے.اور چہارم اسی مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو ( کیونکہ سورج کے گرہن کے لئے یہی درمیانی تاریخ ہے ) سورج کو گرہن لگے.ان شرائط کے ساتھ یہ نشان ایک عظیم الشان نشان قرار پاتا ہے اور لطف یہ ہے کہ ۱۸۹۴ء کے رمضان میں عین انہی شرائط کے ساتھ چاند اور سورج کو گرہن لگا اور حضرت مسیح موعود نے تحدی کے ساتھ اس دعوئی کو پیش کیا کہ ان چار شرائط کے ساتھ یہ نشان اس سے پہلے کبھی ظاہر نہیں ہوا اور آپ نے اپنے مخالفوں کو چیلنج دیا کہ اگر ایسا نشان پہلے کبھی گزرا ہے تو اس کی مثال پیش کر ونگر کوئی شخص اس کی مثال پیش نہیں کر سکا.اور پھر لطف یہ ہے کہ اس نشان کی طرف قرآن شریف نے بھی اشارہ کیا ہے کہ آخری زمانہ میں چاند اور سورج کو خاص حالات میں گرہن لگے گا.ہے اور انجیل میں بھی حضرت 66 لسنن الدار قطنى.كتاب العيدين.باب صفة صلاة الخسوف والكسوف وهيئتها سورۃ قيامة رکوع نمبرا - القيامة : ١٠

Page 67

۵۷ مسیح ناصری اپنی دوسری آمد کا ذکر کرتے ہوئے اس نشان کو پیش کرتے ہیں کہ اس وقت چاند اور سورج تاریک ہو جائیں گے لیے حضرت مسیح موعود نے اس نشان کے متعلق اپنی کتاب ”نور الحق حصہ دوم میں مفصل بحث کی ہے.عربی کے ام الالسنہ ہونے کے متعلق اعلان - ۱۸۹۵ء میں آپ نے خدا سے علم پا کر اس بات کا اعلان فرمایا کہ عربی زبان ام الالسنہ ہے یعنی وہ تمام دوسری زبانوں کی ماں ہے جس سے دنیا کے موجودہ دور کی ساری زبانیں نکلی ہیں اور بعد میں آہستہ آہستہ بدل کر نئی صورتیں اختیار کر گئی ہیں اور اسی لئے خدا نے اپنی آخری شریعت عربی زبان میں نازل فرمائی تا کہ وہ اس بات کی علامت ہو کہ یہ شریعت تمام دنیا اور سب قوموں کے لئے ہے.اس تحقیق کے متعلق آپ نے ایک کتاب بھی لکھ کر شائع فرمائی جس کا نام ” من الرحمن ہے مگر افسوس ہے کہ یہ کتاب مکمل نہیں ہو سکی.لیکن جس قدر حصہ لکھا گیا اس میں اس بحث کے سب بنیادی اصول آگئے ہیں جنہیں آگے چلا کر اس تحقیق کو مکمل کیا جا سکتا ہے.اس کتاب میں آپ نے اس بحث کے لئے تین مراحل مقرر کئے ہیں:.اول:.زبانوں کا ایسا اشتراک ثابت کرنا جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ ایک مشترک ماخذ سے نکلی ہیں.دوم :.یہ ثابت کرنا کہ وہ مشترک ماخذ جس سے موجودہ زبانیں نکلی ہیں وہ عربی ہے.جس کے لئے آپ نے:.(الف) عربی کے مفردات کے نظام (ب) اس کی تراکیب کے نظام (ج) اس کے اشتقاق کے نظام (د) اس کی تراکیب کے الفاظ کے مقابل پر معانی کی وسعت اور (ھ) اس کے بنیادی اسماء کی حکمت وغیرہ کو پیش کیا.لامتی باب ۲۴ آیت ۲۹

Page 68

۵۸ سوم :.یہ ثابت کرنا کہ عربی زبان الہامی زبان ہے یعنی اس کا آغاز خدا کی طرف سے بذریعہ الہام ہوا تھا.آپ کی یہ تحقیق کو بظاہر ایک محض علمی تحقیق تھی لیکن غور کیا جاوے تو اس کا جوڑ بھی بالآخر اسلام کی خدمت کے ساتھ جا ملتا ہے کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جاوے کہ عربی زبان واقعی ام الالسنہ ہے تو پھر اس دعویٰ پر بہت بھاری روشنی پڑتی ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبین ہیں اور قرآنی شریعت آخری اور عالمگیر شریعت ہے.اس تحقیق کے اعلان کے ساتھ ہی آپ نے یہ تحریک بھی فرمائی کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ عربی سیکھنے کی طرف زیادہ توجہ دیں کیونکہ اس کے بغیر وہ قرآنی حقائق و معارف کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے چنانچہ آپ نے اپنی جماعت میں بھی عربی کو رواج دینے کے لئے ایک سلسلہ اسباق جاری فرمایا جس میں روز مرہ کے الفاظ اور بول چال کے آسان فقروں کے ذریعہ عربی کی تعلیم دینا مقصود تھی اور آپ کا منشاء یہ تھا کہ مسلمان خواہ کسی ملک یا کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں انہیں چاہئے کہ عربی کو اپنی دوسری زبان سمجھیں اور اس کے سیکھنے کی طرف خاص توجہ دیں.مذہبی مباحثات کے متعلق وائسرائے یہ زمانہ ہندوستان میں مذہبی بحث و مباحثہ کے زور کا زمانہ تھا اور ہر قوم ایک دوسرے کے خلاف اٹھی ہند کی خدمت میں میموریل:.ہوئی تھی اور ایک دوسرے کے خلاف نہایت سخت حملے کئے جارہے تھے اور ایک دوسرے کے مذہبی بزرگوں کو ہر قسم کے اعتراضات کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے ملک کی فضا سخت مسموم ہو رہی تھی.حضرت مسیح موعود نے اس حالت کو دیکھا اور اس کے خطرناک نتائج کو محسوس کیا تو وائسرائے ہند کی خدمت میں ایک میموریل بھجوانے کی تجویز کی اور سمجھ دار غیر احمدیوں کو بھی اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی.اس میموریل میں یہ استند ع تھی کہ چونکہ مذہبی تحریروں اور تقریروں کو حد اعتدال کے اندر رکھنے کے لئے موجودہ قانون کافی نہیں ہے اور ملک کی فضا خراب ہو رہی ہے اور بین الاقوام کشیدگی کے علاوہ لوگوں کے اخلاف بھی بگڑ رہے ہیں اس

Page 69

۵۹ لئے گورنمنٹ کو چاہئے کہ اس بارے میں موجودہ قانون کو توسیع دے کر ایک نیا قانون بنادے تاکہ لوگ مذہبی تحریروں اور تقریروں میں مناسب حد سے تجاوز نہ کر سکیں اور بین الاقوام کشیدگی میں اصلاح کی صورت پیدا ہو اور آپ نے اپنی طرف سے یہ تجویز پیش کی کہ اوّل یہ قانون بنا دیا جاوے کہ کوئی فریق دوسرے فریق پر ایسا حملہ یا ایسا اعتراض کرنے کا مجاز نہ ہو جو خود اس کے اپنے مذہب پر بھی پڑتا ہو کیونکہ یہ بھی ایک بڑا ذریعہ فتنہ و فساد کا ہے کہ لوگ اپنے اندرون خانہ پر نگاہ ڈالنے کے بغیر دوسرے مذہبوں اور ان کے پیشواؤں پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں حالانکہ یہی اعتراض ان کے اپنے مذہب پر اور اپنے پیشواؤں پر بھی پڑتے ہیں.دوسرے یہ کہ ہر فریق اپنے مذہب کی مسلمہ کتب کی ایک فہرست شائع کر دے جو اس کے مذہب کی مقدس اور بنیادی کتب ہوں اور ان کتب کی ترتیب بھی مقرر کر دے اور پھر گورنمنٹ کی طرف سے یہ پابندی لگا دی جاوے کہ کوئی فریق دوسرے فریق کے مذہب پر اعتراض کرتے ہوئے ان کتب سے باہر نہ جاوے کیونکہ بین الاقوام کشیدگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ رطب و یابس کے ہر ذخیرہ کو جوزید و بکر کی طرف سے شائع ہوا سے اس مذہب کے خلاف حملہ کرنے کا بہانہ بنالیا جاتا ہے.یہ وہ تجویزیں تھیں جو حضرت مسیح موعود نے ۱۸۹۵ء میں گورنمنٹ کے سامنے ایک با قاعدہ میموریل کی صورت میں پیش کرنی چاہیں اور ایک طرح سے آپ نے انہیں اپنے اشتہاروں کے ذریعہ پیش بھی کر دیا ہے مگر افسوس ہے کہ بعض کو نہ اندیش مسلمانوں کی حاسدانہ دخل اندازی سے یہ تجویز تکمیل کو نہ پہنچ سکی اور گورنمنٹ نے بھی اس معاملہ میں توجہ نہ دی اور مذہبی مناقشات بد سے بدتر صورت اختیار کرتے گئے.اس کے بعد جب ۱۸۹۸ء میں ایک متعصب عیسائی نے ایک کتاب امہات المومنین لکھ الله کر شائع کی اور اس میں آنحضرت ﷺ اور آپ کی ازواج مبارکہ کے متعلق نہایت گندے اور اشتعال انگیز حملے کئے تو حضرت مسیح موعود نے اپنی سابقہ تجویزوں کو پھر دوبارہ زیادہ تفصیل اور تعیین لا دیکھو آریہ دھرم.اشتہار مورخہ ۲۲ ستمبر ۲۱ اکتوبر ۱۸۹۵ء.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۴۸۵ جدید ایڈیشن)

Page 70

۶۰ کے ساتھ گورنمنٹ کے سامنے پیش کیا اور استدعا کی کہ ملک کی فضاء کی بہتری اور اخلاقی درستی کے لئے یہ ضروری ہے کہ مجوزہ صورت میں قانون کو وسیع کر دیا جاوے تا کہ ناواجب حملوں کا دروازہ بند ہو جاوے اور آپ نے لکھا کہ یہ قانون ساری قوموں کے لئے مساوی ہوگا اور اس میں کسی کی رعایت نہیں ہے.دوسری طرف آپ نے اس موقعہ پر مسلمانوں کو بھی یہ نصیحت فرمائی کہ اس بات پر زور دینا کہ ایسی کتاب ضبط کر لی جاوے اور مصنف کے خلاف مقدمہ چلایا جائے درست نہیں ہے کیونکہ اول تو کتاب کافی حد تک پھیل چکی ہے اور اب اس کی ضبطی بے معنی ہے اور دوسرے اس کی ضبطی سے ہم اس کی تردید کے حق سے بھی محروم ہو جاتے ہیں حالانکہ اصل علاج یہ ہے کہ ہم ان اعتراضوں کا مدلل اور مسکت جواب دے کر انہیں جھوٹا ثابت کر دیں پس آپ نے اس موقعہ پر پھر اپنی سابقہ تجویزوں کی طرف گورنمنٹ کی توجہ دلائی اور لکھا کہ ہم جائز مذہبی تبادلہ خیال اور پر امن تبلیغ و اشاعت کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہتے لیکن یہ ضروری ہے کہ مذہبی آزادی کے نام پر ناجائز اور ناواجب حملے نہ کئے جائیں اور مذہبی تحریر و تقریر کو مناسب قیود کے اندر مقید کر دیا جاوے.اس موقعہ پر آپ نے یہ تجویز بھی پیش کی جو اس ضمن میں گویا تیسری تجویز تھی کہ مناسب ہوگا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر وقتی طور پر یہ قانون بھی بنادیا جاوے کہ کوئی فریق دوسرے فریق پر حملہ نہ کرے یعنی ہر شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور اس کے محاسن کو دوسروں کے سامنے لائے مگر دوسروں کے مذہب پر حملہ کرنے کی اجازت نہ ہو اے مگر افسوس ہے کہ اس موقعہ پر بھی گورنمنٹ نے ملکی فضا کی بہتری کے لئے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا.حضرت مسیح موعود نے اسی زمانہ کے قریب یہ بھی اعلان کیا کہ ہم نے جو بعض اوقات اپنے مخالفین کے خلاف یا دوسرے مذاہب کے خلاف اپنی تحریرات میں کسی قدر سختی سے کام لیا ہے تو وہ محض جوابی صورت میں لیا ہے اور ہمیشہ دوسروں کی طرف سے پہل ہوتی رہی ہے اور آپ نے تشریح فرمائی کہ ہم نے کہیں کہیں جوابی رنگ میں اس لئے سختی کی ہے کہ تا دوسری قوموں کو ہوش آئے اور وہ اپنے لے دیکھو اشتہارات مورخ ۲۴ فروری و ۴ رمئی ۱۸۹۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۹۳ تا ۱۹۵ جدید ایڈیشن

Page 71

۶۱ او پر حملہ ہوتا ہوا دیکھ کر دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا سیکھیں اور تا اس ذریعہ سے مسلمانوں کے جوش بھی ٹھندے ہو جائیں اور وہ یہ خیال کریں کہ کچھ نہ کچھ ہماری طرف سے بھی جواب ہو گیا ہے اور آپ نے بار بار لکھا کہ ہماری اصل غرض کبھی بھی یہ نہیں ہوئی کہ کسی قوم کی دلآ زاری کی جاوے بلکہ ہم نہایت نرمی اور محبت اور امن کے طریق پر کام کرنا چاہتے ہیں مگر جب دوسرا فریق حد سے بڑھ جاوے تو اصلاح اور انسداد کے خیال سے کسی قدر تلخ جواب دینا پڑتا ہے لیکن پھر بھی ہم مناسب حد سے تجاوز نہیں کرتے اور اگر دوسرے لوگ اصلاح کر لیں تو ہمیں اس کی بھی ضرورت نہیں لے حضرت بابا نانک کے متعلق ایک زبردست انکشاف:.اسی زمانہ میں یعنی ۱۸۹۵ء میں آپ نے ایک عظیم الشان تحقیق کا اعلان فرمایا جو سکھ مذہب کے بانی حضرت باوا نا نک صاحب کے متعلق تھی.آپ نے باوا صاحب کے متعلق یہ ثابت کیا کہ وہ گو ہندوؤں کے گھر میں پیدا ہوئے مگر دراصل وہ ایک پاکباز مسلمان ولی تھے جنہوں نے ہندوؤں کے مذہب سے بیزار ہوکر بالآخر اسلام قبول کر لیا تھا.آپ نے ثابت کیا کہ باوا صاحب نے کوئی نئی شریعت پیش نہیں کی بلکہ وہ آنحضرت کی رسالت اور قرآن شریف کی شریعت پر ایمان لاتے تھے اور مسلمانوں کی طرح با قاعدہ نماز پڑھتے تھے اور سارے اسلامی احکام کے پابند تھے اور انہوں نے مکہ کا دور دراز سفر اختیار کر کے بیت اللہ کا حج بھی کیا تھا اور بالآ خر آپ نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ متبرک چولہ جو ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور میں کئی صدیوں سے باوا صاحب کی خاص یادگار چلا آتا ہے وہ بھی آپ کے مسلمان ہونے کو ثابت کرتا ہے کیونکہ اس میں جابجا کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات درج ہیں.ہے اس عظیم الشان تحقیق نے سکھ قوم میں ایک تہلکہ مچا دیا اور گوان میں سے اہل الرائے لوگ اس انکشاف کی وجہ سے سوچ میں پڑ گئے مگر عوام نے اسے اشتعال کا ذریعہ بنالیا اور آپ کی مخالفت میں آگے سے بھی زیادہ تیز ہو گئے.آپ کی اس تحقیق کی قدرومنزلت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے جب ہم اسے اس بات کی روشنی لے اشتہار مورخہ ۲۰ ستمبر ۱۸۹۷ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۶۹ تا ۷۳ جدید ایڈیشن ے دیکھو حضرت مسیح موعود کی تصنیف ست بچن و غیره ( ملخص از ست بچن.روحانی خزائن جلده اصفحه ۱۴۴ تا ۱۵۸)

Page 72

۶۲ میں دیکھتے ہیں کہ قرآنی تعلیم کی رو سے حضرت مسیح موعود کا یہ عقیدہ تھا کہ چونکہ خدا کسی ایک ملک یا ایک قوم کا خدا نہیں بلکہ ساری دنیا کا خدا ہے اور وہ مختلف زمانوں میں مختلف قوموں کی طرف رسول بھیجتا رہا ہے اور یہ سلسلہ رسالت بالآخر مقدس بانی اسلام میں آ کر اپنے کمال کو پہنچا ہے اس لئے آنحضرت ﷺ سے پہلے جس جس نبی یا مصلح یا اوتار کا سلسلہ قائم ہو چکا تھا اور دنیا کے ایک معتد بہ حصہ میں اسے قبولیت حاصل ہو چکی تھی وہ خدا کی طرف سے سمجھا جائے گا کیونکہ جس مدعی رسالت کو اللہ تعالیٰ وسیع قبولیت عطا کر دے اور لاکھوں انسان اس کی صداقت پر ایمان لے آئیں اور اس کا سلسلہ دنیا میں راسخ اور قائم ہو جائے وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا ایک جھوٹے مدعی کو ایسی قبولیت عطا نہیں کرتا جس سے بچے اور جھوٹے میں امتیاز اٹھ جاوے.اس طرح گویا آپ نے ان جملہ بانیان مذاہب کی صداقت کو تسلیم کر لیا جو آنحضرت ﷺ سے پہلے گزرے ہیں.اس کے بعد دنیا کی مشہور قوموں میں سے صرف ایک سکھ قوم باقی رہ گئی جس کے بانی آنحضرت ﷺ کے بعد ہوئے ہیں.سو انہیں آپ نے ایک مسلمان ولی ثابت کر کے دوستوں کی صف میں کھینچ لیا اور اس طرح ایک وسیع بین الاقوام امن اور اخوت کی بنیاد قائم کر دی.چنانچہ احمد یہ جماعت جہاں یہودیوں اور مسیحیوں کے مقدس رسولوں پر ایمان لاتی ہے وہاں ہندوؤں کے حضرت کرشن اور بدھ مذہب والوں کے گوتم بدھ اور پارسیوں کے زرتشت اور چینیوں کے کنفیوشس کی رسالت پر بھی یقین رکھتی ہے اور اسی طرح سکھ مذہب کے بانی حضرت بابا نانک صاحب کو ایک پارسا اور نیک اور صالح بزرگ خیال کرتی ہے.پس بابا صاحب کے متعلق حضرت مسیح موعود کی تحقیق دہرا نتیجہ پیدا کر رہی ہے.یعنی ایک طرف تو وہ مسلمانوں کے دلوں میں بابا صاحب کی عزت کو بڑھاتی ہے اور دوسری طرف وہ سکھوں کو یاد دلاتی ہے کہ ان کے گھر کا چراغ بھی نور محمدی سے روشنی حاصل کرنے والا ہے.مگر افسوس ہے کہ ابھی تک دنیا نے ان نکتوں کو سمجھا نہیں.مخالفین کا نام لے کر مباہلہ کا چیلنج :.حضرت مسیح موعود کی مخالفت کا آغاز ۱۸۹۱ء میں ہوا تھا

Page 73

۶۳ اس سلسلہ کے شروع ہوتے ہی بعض مخالف علماء نے آپ کو یہ چیلنج دیا کہ اگر آپ بچے ہیں تو اسلامی طریق کے مطابق ہم سے مباہلہ کر لیں یعنی فریقین ایک دوسرے کے مقابل پر خدا کی قسم کھا ئیں کہ ہمارے یہ یہ عقائد ہیں جنہیں ہم دلی یقین کے ساتھ سچا سمجھتے ہیں لیکن ہمارا مخالف فریق انہیں جھوٹا اور خلاف اسلام قرار دیتا ہے پس اے خدا اب ہم دونوں فریقوں میں سے جو فریق تیری نظر میں جھوٹا ہے تو اس پر لعنت کی مارڈال اور اسے دوسرے کے مقابل میں ذلیل ورسوا کرتا کہ حق و باطل میں فیصلہ ہو جائے اس وقت چونکہ مخالفت کا آغاز ہی تھا اور ابھی عوام الناس کو آپ کے دعوئی اور اس کے دلائل سے اطلاع نہیں تھی اور آپ کے خلاف ابھی تک کفر کے فتویٰ کی بھی اشاعت نہیں ہوئی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ابھی تک آپ کو خدا کی طرف سے مباہلہ کی اجازت نہیں ملی تھی اس لئے آپ نے مباہلہ سے اجتناب فرمایا لیکن جب کفر کا فتویٰ شائع ہو گیا اور آپ کو جمہور علماء نے کافر اور کذاب اور دجال قرار دیا اور اس فتویٰ سے ملک میں عداوت کی آگ بلند ہوگئی اور دوسری طرف آپ کے دعاوی اور دلائل کی بھی کافی اشاعت ہو چکی تو ۱۸۹۲ء کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ایک الہام کے ذریعہ آپ کو مباہلہ کی اجازت دی جس پر آپ نے ایک عام اعلان فرما دیا کہ اب جو شخص چاہے میرے سامنے آ کر میرے دعاوی کے بارے میں مباہلہ کر لے اور پھر اسلامی تعلیم کے ماتحت ایک سال کے اندر دیکھ لے کہ خدا کیا نتیجہ ظاہر کرتا ہے.مگر وہی لوگ جن میں سے بعض مباہلہ کے لئے دعوت دے رہے تھے اب ڈر کر پیچھے ہٹ گئے اور فضول اور خلاف تعلیم اسلام شرائط پیش کر کے پہلو تہی اختیار کی.اس کے بعد ۱۸۹۶ء میں یعنی اس زمانہ میں جس کا ہم اس وقت ذکر کر رہے ہیں آپ نے ایک لمبی فہرست مسلمان علماء اور گدی نشینوں کی شائع فرمائی اور ان سب کو نام لے لے کر بلایا کہ اگر تم میں سے کسی میں ہمت ہے تو وہ میرے سامنے آکر مسنون طریق پر مباہلہ کرلے اور آپ نے بڑے غیرت کے الفاظ میں لوگوں کو ابھارا مگر کسی کو آپ کے سامنے آنے کی جرات نہیں ہوئی چنانچہ آپ لکھتے ہیں:.”اے مخالف مولویو! اور سجادہ نشینو!! یہ نزاع ہم میں اور تم میں حد سے زیادہ بڑھ

Page 74

۶۴ گئی ہے اور اگر چہ یہ جماعت بہ نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فئہ قلیلہ ہے تا ہم یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے.خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا.وہ راضی نہیں ہوگا جب تک کہ اسے کمال تک نہ پہنچاوے اسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں آپ لوگوں کے سامنے مباہلہ کی درخواست پیش کروں تا جو راستی کا دشمن ہے وہ تباہ ہو جاوے اور جو اندھیرے کو پسند کرتا ہے وہ عذاب کے اندھیرے میں پڑے.پہلے میں نے کبھی ایسے مباہلہ کی نیت نہیں کی اور نہ چاہا کہ کسی پر بد دعا کروں لیکن اب میں بہت ستایا گیا اور دکھ دیا گیا مجھے کافر ٹھہرایا گیا.مجھے دجال کہا گیا میرا نام شیطان رکھا گیا.مجھے کذاب اور مفتری سمجھا گیا.سواب اٹھو اور مباہلہ کے لئے تیار ہو جاؤ.اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں جانبری کے آثار نہ پائے جائیں تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے اور میں ہمیشہ کی لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں گا...لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفات بدنی سے بچالیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الہی کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہر ایک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہو گیا اور میری بددعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہوگئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اٹھ جائے گا.میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میں نے پہلے اس سے کبھی کلمہ گو کے حق میں بددعا نہیں کی اور صبر کرتا رہا مگر اس روز خدا سے فیصلہ چاہوں گا اور اس کی عصمت اور عزت کا دامن پکڑوں گا کہ تا ہم میں سے فریق ظالم اور دروغگو کو تباہ کر کے اس دین متین کو شریروں کے فتنہ سے بچاوے.میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا

Page 75

جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں.اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کا ذب سمجھوں گا.اگر چہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار.گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان ! کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ تکفیر اور تو ہین کو چھوڑے.“ لے مگر افسوس ہے کہ باوجود ان غیرت دلانے والے الفاظ کے ان لوگوں میں سے ایک فرد واحد بھی مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوا جن کو آپ نے اپنے چیلنج میں مخاطب کیا تھا بلکہ بعض نے تو ڈر ڈر کر چٹھیاں لکھیں کہ ہم آپ کو برا نہیں کہتے ہمیں اس مقابلہ کے امتحان میں نہ ڈالا جاوے لیکن اکثر نے تکبر اور نخوت سے کام لیا یعنی نہ تو مباہلہ کے لئے آگے آئے اور نہ ہی تکفیر اور تکذیب کو چھوڑا اور جھوٹے بہانوں سے وقت کو ٹال دیا.مگر باوجود اس کے ان میں سے اکثر لوگ حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی مختلف قسم کے عذابوں کا نشانہ بن کر خاک میں مل گئے.غیر احمدی مسلمانوں کو صلح کی دعوت :.چونکہ حضرت مسیح موعود کی بعثت کی بڑی غرض اسلام کی خدمت تھی اس لئے آپ نے مباہلہ کے ساتھ ساتھ غیر احمدی علماء کے سامنے ایک اور تجویز بھی پیش کی.یہ تجویز عارضی صلح کی تھی.آپ نے لکھا کہ اگر تمہیں فیصلہ کے دوسرے طریق منظور نہیں اور مباہلہ کے لئے بھی آگے نہیں آنا چاہتے تو آؤ میرے ساتھ سات سال کے لئے صلح کر لو اور اس عرصہ میں مجھے غیر مذاہب کے مقابلہ کے لئے آزادی اور یکسوئی کے ساتھ کام کرنے دو.پھر اگر خدا نے مجھے اس عرصہ میں غیر مذاہب کے مقابلہ میں نمایاں غلبہ دے دیا اور اسلام کو ایک غیر معمولی فتح نصیب ہوگئی اور اسلام کا بول بالا ہو گیا تو چونکہ یہی مسیح اور مہدی کی بڑی علامت ہے تم مجھے مان لینا.لیکن اگر میرے ذریعہ یہ غلبہ حاصل نہ ہوا تو پھر تمہیں اختیار ہوگا کہ میرا انکار کرو اور جس طرح چاہو جھوٹوں کی طرح سلوک کرو چنا نچہ آپ نے لکھا:.انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحه ۶۴ تا ۶۷

Page 76

۶۶ ملیں ”اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی نہ کریں ( یعنی عربی نویسی میں مقابلہ تفسیر نویسی میں مقابلہ.قبولیت دعا میں مقابلہ معجزہ نمائی میں مقابلہ اور مباہلہ وغیرہ) تو مجھ سے اور میری جماعت سے سات سال تک اس طور سے صلح کر لیں کہ تکذیب اور تکفیر اور بد زبانی سے منہ بند رکھیں اور ہر ایک کو محبت اور اخلاق سے.پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مر جانا ضروری ہے یہ موت جھوٹے دنیوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام میں داخلہ ہونا شروع ہو جائے.اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہو جائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑ جائے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کا ذب خیال کرلوں گا.اور خدا جانتا ہے کہ میں ہرگز کاذب نہیں.یہ سات برس کچھ زیادہ سال نہیں ہیں اور اس قدر انقلاب اس تھوڑی مدت میں ہو جانا انسان کے اختیار میں ہرگز نہیں.پس جبکہ میں سچے دل سے اور خدا تعالیٰ کی قسم کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہوں اور تم سب کو اللہ کے نام پر صلح کی طرف بلاتا ہوں تو اب تم خدا سے ڈرو.اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں تو میں تباہ ہو جاؤں گا ورنہ خدا کے مامور کو کوئی تباہ نہیں کرسکتا.مگر افسوس ہے کہ غیر احمدی زعماء نے اس تجویز کو بھی قبول نہ کیا اور ہر موقعہ جو ان کے سامنے آیا اسے ضائع کرتے چلے گئے.حضرت مسیح موعود نے اس صلح کی تجویز کو ۱۹۰۱ء میں پھر دہرایا اور ایک اشتہار کے ذریعہ اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میری تردید میں کچھ نہ لکھا جاوے.بے شک لکھو اور میری غلطیوں کو جو تمہیں نظر آتی ہیں دنیا کے سامنے لاؤ اور اپنے عقائد ے ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۳۱۱ تا ۳۱۹

Page 77

۶۷ کے دلائل پیش کرو مگر بدزبانی اور ذاتی حملے اور تحقیر و توہین کا طریق چھوڑ دو بلکہ نرمی اور ہمدردی اور شائستگی کے ساتھ کلام کرو اور پھر صبر اور حلم کے ساتھ خدا کے فیصلہ کا انتظار کرو کیونکہ جس فریق کے ساتھ خدا ہو گا وہ خود غالب آتا جائے گا اور اس دفعہ آپ نے سات سال کی بجائے صرف تین سال کی میعاد پیش کی مگر افسوس ہے کہ ہمارے ضدی اور کج رو علماء نے اس تجویز کو بھی ٹھکرا دیا‘ لے جلسہ مذاہب اور حضرت مسیح موعود کی بے نظیر کامیابی :.اسی زمانہ کے قریب اللہ تعالیٰ نے ایک اور رنگ میں بھی حضرت مسیح موعود کا غلبہ ثابت کیا جس نے سارے مذاہب کے مقابلہ پر آپ کو اور آپ کے ذریعہ اسلام کو ایک فاتح کی حیثیت دے دی تفصیل اس کی یہ ہے کہ ۱۸۹۵ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود نے ایک اشتہار کے ذریعہ مختلف قوموں کے مذہبی لیڈروں کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ اب جبکہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں علم کی اشاعت کے لئے اتنی سہولتیں پیدا کر دی ہیں تو مناسب ہے کہ مختلف مذاہب کی تحقیق کے لئے ایک مشترک جلسہ منعقد کیا جائے جس میں مختلف مذاہب کے چیدہ چیدہ نمائندے شریک ہو کر اپنے اپنے مذہب کے متعلق تقریریں کریں تا کہ لوگوں کے لئے تحقیق بین المذاہب کے متعلق سہولت پیدا ہو اور آپ نے اپنی طرف سے یہ دعوت دی کہ ایسا جلسہ قادیان میں منعقد کیا جائے اور یہ کہ آپ اس جلسہ کے جملہ مہمانوں کی مہمان نوازی کا خرچ خود برداشت کریں گے اور جملہ انتظامات کے ذمہ دار ہوں گے ہے مگر افسوس ہے کہ اس وقت کسی قوم نے اس دعوت کو قبول نہ کیا.لیکن اس کے ایک سال بعد یعنی ۱۸۹۶ء کے آخر میں بعض ہندو صاحبان نے اس تحریک کو پھر تازہ کر کے اپنی طرف سے یہ تجویز پیش کی کہ ایک مشترک جلسہ لاہور میں ۲۶ ۲۷ ۲۸ / دسمبر ۱۸۹۶ء کو منعقد کیا جائے اور اس مذہبی کا نفرنس میں جملہ مذاہب کے نمائندوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی تعلیم بیان کریں تا کہ لوگوں کو بیک وقت مختلف مذاہب کی تعلیم کو جانچنے اور وزن کرنے کا موقعہ میسر آجاوے اور اس غرض کے لئے چند اصولی سوالات مقرر کر دیکھو اشتہار الصلح خیر مورخه ۱۵ مارچ ۱۹۰۱ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۴۹۹،۴۹۸ جدید ایڈیشن دیکھو اشتہار جلسہ تحقیق مذاہب مورخہ ۲۹ دسمبر ۱۸۹۵ء.مجموعہ اشتہارات صفحه ۵۳۲ تا۵۳۴ جلد اول جدید ایڈیشن

Page 78

۶۸ کے ان پر اظہار خیالات کی دعوت دی گئی.چنانچہ جملہ اقوام اور جملہ مذاہب کے نمائندے اس جلسہ مذاہب میں شرکت کے لئے تیار ہو گئے.یعنی ہندو، عیسائی ،سکھ ، برہمو، مسلمان وغیرہ سبھی اس جلسہ میں شریک ہوئے اور حضرت مسیح موعود کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی تجویز کو بار آور بھی کر دیا اور اصل سہرا آپ کے سر رہا مگر دوسری طرف اس تجویز کو غیروں کے منہ سے نکلوا کر اس کامیابی کو جو اس جلسہ میں آپ کو ہونے والی تھی دوبالا کر دیا.الغرض یہ جلسہ ہوا اور حضرت مسیح موعود نے بھی مقررہ سوالات پر ایک مضمون لکھا اور خدا سے علم پا کر پہلے سے اعلان کر دیا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ میرا یہ مضمون سارے مضمونوں پر غالب رہے گا اور اس کے ذریعہ سے اسلام کو ایک نمایاں فتح حاصل ہوگی.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مسلم.غیر مسلم.دوست.دشمن سب نے بالاتفاق اقرار کیا کہ یہ مضمون واقعی سارے مضمونوں پر غالب رہا ہے اور اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ چونکہ مضمون لمبا تھا اور مقررہ وقت پر ختم نہیں ہو سکا اس لئے لوگوں کی متفقہ خواہش پر صرف اس مضمون کی خاطر جلسہ کا ایک دن بڑھایا گیا.اس جلسہ میں آریوں نے بھی اپنا مضمون پڑھا.عیسائیوں نے بھی پڑھا.سکھوں نے بھی پڑھا.برہمو سماج والوں نے بھی پڑھا.حضرت مسیح موعود کے مخالف مسلمانوں نے بھی اپنا مضمون پڑھا.مگر اس وقت بلا استثناء ہر زبان پر یہی کلمہ جاری تھا کہ مرزا صاحب کے مضمون کے آگے سارے مضامین ماند پڑ گئے ہیں لے اور یہ فتح ایسے حالات میں حاصل ہوئی کہ حضرت مسیح موعود نے پہلے سے اشتہار دے کر عام اعلان کر رکھا تھا کہ مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ یہ مضمون سارے مضمونوں پر غالب رہے گا.ہے اور پھر یہ فتح صرف ایک وقت فتح نہیں تھی بلکہ جب یہ مضمون چھپ کر شائع ہوا اور بعد میں انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ چھپا تو یورپ اور امریکہ کے مشہور اہل الرائے اصحاب اور خبارات نے بھی اس مضمون کی لطافت اور اس کی طاقت اور اس کے حسن بیان اور اس کے مضامین کی ندرت اور اس کی گہری روحانیت اور اس کے بے نظیر اثر کو تسلیم کیا اور اس کے متعلق نہایت زور دار یو یو شائع کئے.الغرض اس موقعہ پر آپ کو ایک ایسے پلیٹ فارم پر جس ے حقیقة الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۹۲،۲۹۱ دیکھو آپ کا اشتہار مورخہ ۲۱ دسمبر ۱۸۹۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۴ ۶۱ جدید ایڈیشن

Page 79

۶۹ پر ساری قوموں کے وکیل جمع تھے ایک نمایاں فتح نصیب ہوئی اور اس سے وہ قرآنی وعدہ بھی پورا ہوا کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس کے ذریعہ اسلام کو سارے مذاہب پر غلبہ حاصل ہو جائے گا.یہ مضمون ایک کتاب کی صورت میں چھپ چکا ہے جس کا نام اردو میں ” اسلامی اصول کی فلاسفی“ ہے اور انگریزی میں اس کا نام ” ٹیچنگز آف اسلام “ ہے.ہم اپنے ناظرین سے پر زور استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس بے نظیر کتاب کو ضرور مطالعہ کریں تا کہ انہیں اسلام کی روحانی طاقت اور حضرت مسیح موعود کے زور قلم کا اندازہ ہو سکے.اس کتاب کے متعلق بعض مغربی محققین کی رائے مثال کے طور پر درج ذیل کی جاتی ہے.برسٹل ٹائمنز اینڈ مرر نے لکھا:.”یقیناً وہ شخص جو اس رنگ میں یورپ و امریکہ کو مخاطب کرتا ہے کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا.سپر بجوال جرنل بوسٹن نے لکھا:.یہ کتاب بنی نوع انسان کے لئے ایک خالص بشارت ہے.“ پی او کد او و جز مرکاپانی نے لکھا:.یہ کتاب عرفان الہی کا ایک چشمہ ہے.“ تھیا سوفیکل بک نوٹس نے لکھا:.یہ کتاب محمد (صلعم) کے مذہب کی بہترین اور سب سے زیادہ دلکش تصویر ہے.“ انڈین ریویو نے لکھا:.اس کتاب کے خیالات روشن ، جامع اور حکمت سے پُر ہیں اور پڑھنے والے کے منہ سے بے اختیار اس کی تعریف نکلتی ہے.“ مسلم ریویو نے لکھا:.اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس میں بہت سے بچے اور عمیق اور اصلی اور روح افزا خیالات پائے گا.“

Page 80

پنڈت لیکھرام کی موت اور حضرت ۱۸۹۷ء کا سال اپنے ساتھ غیر معمولی نقل و مسیح موعود کے خلاف مخالفت کا زور :.حرکت کو لایا.ابھی اس سال کا آغاز ہی تھا کہ حضرت مسیح موعود کی اس پیشگوئی کے مطابق جو آپ نے ۱۸۹۳ء میں پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کے بارے میں کی تھی جس کا ذکر او پرگزر چکا ہے.۶ / مارچ کو پنڈت لیکھرام کسی نا معلوم آدمی کے ہاتھ سے لا ہور میں مارے گئے اور عجیب یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے سے خبر دی گئی تھی لیکھرام کی موت عین عید کے دسرے دن واقع ہوئی.اس واقعہ سے ہندوستان بھر کی ہندو قوم میں حضرت مسیح موعود کے خلاف ایک خطر ناک اشتعال کی صورت پیدا ہوگئی اور پیشگوئی سے مرعوب ہونے کی بجائے ہندوؤں نے یہ الزام لگا نا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب نے پنڈت لیکھرام کو خود سازش کر کے قتل کروا دیا ہے.حضرت مسیح موعود نے اس کے خلاف بڑے زور کے ساتھ اعلان کیا اور قسم کھا کھا کر بیان کیا کہ اس واقعہ میں میرا اس بات کے سوا قطعاً کوئی ہاتھ نہیں کہ خدا نے مجھے اپنے الہام کے ذریعہ یکھرام کی ہلاکت کی خبر دی تھی مگر آریہ صاحبان کی تسلی نہ ہوئی اور انہوں نے گورنمنٹ میں رپورٹ کر کے آپ کے مکان کی تلاشی کروائی اور خفیہ پولیس کے آدمی پیشل ڈیوٹی پر لگوائے مگر جب کہ حضرت مسیح موعود کا اس معاملہ میں کوئی دخل ہی نہیں تھا تو کوئی بات ثابت کیسے ہوتی لیکن ہند وصاحبان کی مزید تسلی کے لئے اور ان پر اتمام حجت کی غرض سے آپ نے یہ اعلان کیا اور اس اعلان کو بار بار دہرایا کہ اگر کسی کو یہ شبہ ہے کہ میں نے خود پنڈت لیکھرام کوقتل کروا دیا ہے تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ ایسا شخص میرے مقابل پر کھڑا ہوکر خدا کی قسم کھا جاوے کہ پنڈت لیکھرام کو میں نے قتل کروایا ہے پھر اگر وہ خود ایک سال کے عرصہ کے اندر ہلاک نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں اور اس صورت میں میں اس کو دس ہزار روپیہ انعام بھی دوں گا اور آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ ایسے شخص کی ہلاکت ایسے رنگ میں ہوگی جس میں انسانی ہاتھ کا دخل قطعا ممکن نہ ہوتا کہ کسی قسم کا اشتباہ نہ رہے.لے یہ ایک بہت لے دیکھو اشتہارات ماہ مارچ و اپریل ۱۸۹۷ء ملخص از مجموعه اشتہارات جلد دوم اشتہارات مورخه ۱۵ار مارچ ۱۸۹۷ء صفحه ۵۶ واشتہار مورخه ۶ اسر اپریل ۱۸۹۷، صفحه ۸۰-۸۱ جدید ایڈیشن

Page 81

صاف اور پختہ طریق فیصلہ تھا مگر کوئی شخص آپ کے مقابلہ پر نہ آیا اور اس چیلنج نے حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کی شان کو دوبالا کر دیا.دوسری طرف جو پیشگوئی پنڈت لیکھرام نے حضرت مسیح موعود کی صداقت کے بارے میں کی تھی وہ بالکل نا کام اور غلط ثابت ہوئی.اس جگہ یہ ذکر بھی خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ پنڈت لیکھرام کی موت کے بعد جبکہ آریہ قوم میں بہت جوش پیدا ہوا تو ان ایام میں حضرت مسیح موعود کے پاس کئی گمنام خطوط ایسے آئے جن میں آپ کو قتل کی دھمکی دی گئی تھی مگر جس کو خدا بچانا چاہے اسے کون نقصان پہنچا سکتا ہے.پنڈت لیکھرام کے تعلق میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے جس سے حضرت مسیح موعود کی مذہبی غیرت کا دلچسپ ثبوت ملتا ہے وہ یہ کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود نے پنڈت لیکھرام کے متعلق پیشگوئی فرمائی تو ایک دفعہ جب آپ ایک سفر کے دوران میں لا ہور ریلوے اسٹیشن پر تھے تو پنڈت لیکھر ام آپ کا علم پا کر آپ کی ملاقات کے لئے آئے اور قریب آ کر سلام کیا.مگر حضرت مسیح موعود نے اس سلام کا جواب نہیں دیا.جس پر پنڈت لیکھرام نے خیال کیا کہ شاید آپ نے سنا نہیں اس لئے پنڈت لیکھرام نے دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کہا مگر آپ پھر بھی خاموش رہے جس پر بعض حاضرین مجلس نے آپ کو توجہ دلانے کے لئے عرض کیا کہ حضور! پنڈت لیکھر ام سلام کہتے ہیں.آپ نے فرمایا ”ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کہتا ہے؟“ اس سے اس بے نظیر محبت اور بے نظیر غیرت کا ثبوت ملتا ہے جو آنحضرت ﷺ کے متعلق آپ کے دل میں تھی مگر اس واقعہ سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ آپ کسی مخالف اسلام کے ساتھ ملاقات نہیں فرماتے تھے کیونکہ بہت سے غیر مسلموں کے ساتھ آپ کے تعلقات تھے اور آپ ہمیشہ انہیں بڑے اخلاق اور محبت کے ساتھ ملتے تھے لیکن جب پنڈت لیکھرام نے اسلام کی مخالفت کو انتہاء تک پہنچا دیا اور آنحضرت ﷺ کے خلاف سخت بد زبانی سے کام لیا تو آپ کی غیرت نے اس بات کو قبول نہ کیا کہ ان حالات میں ایسے شخص کے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھیں خصوصاً جبکہ اب وہ آپ کے خلاف مباہلہ

Page 82

۷۲ کے میدان میں آخر خدا کی لعنت کا نشانہ بننے والا تھا.ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جو بلی اور حضرت ۱۸۹۷ء کے وسط میں ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ مسیح موعود کی طرف سے تبلیغی دعوت :- سالہ جو بلی تھی.چونکہ حضرت مسیح موعود نہ صرف اصولاً حکومت وقت کے ساتھ تعاون کے قائل اور مؤید تھے بلکہ برٹش حکومت کے ویسے بھی مداح تھے اور اس کی امن اور انصاف اور مذہبی آزادی کی پالیسی کے ثناخواں تھے اور جماعت کو ہمیشہ پر امن اور وفادار شہری بنے رہنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے اس لئے جب ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی کا موقعہ آیا تو چونکہ اس موقعہ پر ملک کے سارے حصوں میں خوشی کے جلسے ہو رہے تھے آپ نے بھی قادیان میں ایک جلسہ منعقد فرمایا جس میں حکومت کے اچھے اوصاف کی تعریف فرمائی اور پبلک کو پر امن اور وفادار رہنے کی تلقین کی اور ملک کے امن وامان کے لئے دعا فرمائی اور جلسہ کے علاوہ اس موقعہ پر غربا میں کھانا بھی تقسیم کیا گیا اور رات کے وقت قصبہ میں چراغاں ہوا.اس طرح آپ نے ایک پر امن اور وفادار شہری کے حقوق تو ادا کر دیئے لیکن ابھی ایک مصلح کے حقوق کی ادائیگی باقی تھی جو آپ نے اس طرح پوری فرمائی کہ ایک کتاب " تحفہ قیصریہ نامی لکھ کر اس میں ملکہ وکٹوریہ کو اسلام کی دعوت دی اور نہایت دلکش پیرایہ اور محبت کے انداز میں بوڑھی ملکہ کو حق اور صداقت کی طرف بلایا اور پھر اس کتاب کو خوبصورت شکل میں جلد کروا کے اپنی ایک چٹھی کے ساتھ ملکہ کی خدمت میں ارسال کیا ہے اور اس طرح آپ کے ہاتھ سے وہ سنت بھی پوری ہو گئی جو مقدس بانی اسلام نے قیصر و کسریٰ کو تبلیغ مراسلات کے بھجوانے میں قائم کی تھی.ملکہ معظمہ نے اس کتاب کا شکر یہ ادا کیا اور اسے پڑھنے کا وعدہ فرمایا مگر بادشاہوں کا مذہب عموماً ان کی سیاست سے مغلوب ہوتا ہے اس لئے نہ بظاہر اس تبلیغ کا کوئی معین نتیجہ نکلنے کی امید تھی اور نہ کوئی نتیجہ نکلا.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے ایک غیر مطبوعہ مراسلہ کے ذریعہ ۱۸۹۶ء میں امیر کابل کو لے اشتہار مورخه ۲۳ / جون ۱۸۹۷ء ملخص از مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۱۳ تا ۱۱۵ جدید ایڈیشن

Page 83

۷۳ بھی صداقت کی طرف دعوت دی تھی اور اپنے دعوئی کو پیش کر کے امیر صاحب کو حق کی طرف بلایا تھا بلکہ یہ بھی لکھا تھا کہ اگر میرے دعوی میں کچھ شک ہو تو اسے ایک طرف رکھ کر اسلام کی خدمت میں ہی میری امداد کرو کیونکہ یہ سب مسلمانوں کا مشترکہ کام ہے اور اس وقت اسلام سخت مصائب میں گھرا ہوا ہے مگر امیر نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ سنا گیا ہے کہ تحقیر اور استہزاء کا طریق اختیار کیا ہے حضرت مسیح موعود کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ :.حضرت مسیح موعود کی اس روز افزوں ترقی اور کامیابی کو دیکھ کر ہندوستان کی مختلف قوموں نے آپ کو اس رنگ میں بھی کچلنا چاہا کہ آپ پر سنگین مقدمات قائم کر کے آپ کو حکومت کی طرف سے سزا دلائی جائے یا کسی اور طرح نقصان پہنچایا جاوے.چنانچہ پنڈت لیکھرام کے قتل کے موقعہ پر آپ کے مکان کی تلاشی اس کوشش کا نتیجہ تھی.لیکن جب اس کوشش میں بھی نا کامی رہی تو اس خیال سے کہ شاید انگریزی حکومت اپنے پادریوں کی بات کی طرف زیادہ توجہ دے گی آپ کے خلاف مسیحی پادریوں کی طرف سے ایک مقدمہ اقدام قتل کا کھڑا کروایا گیا اور آریہ صاحبان اور غیر احمدی مسلمان اس ناپاک کوشش میں ان کے مددگار بنے.چنانچہ پادری مارٹن کلارک نے آپ کے خلاف یہ استغاثہ دائر کیا کہ حضرت مرزا صاحب نے ایک مسلمان نوجوان کو میرے قتل کے لئے سکھا کر بھجوایا ہے اور ایک آوارہ گرد مسلمان لڑکے کو اقبالی مجرم بنا کر عدالت میں پیش کر دیا.اس مقدمہ میں ایک مشہور آریہ وکیل نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ کی مفت پیروی کی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بطور گواہ کے پیش ہوئے اور حضرت مرزا صاحب کو قاتل ثابت کرنے کے لئے ایک پورا جال بچھا دیا گیا.مگر جس کو خدا بچانا چاہے اسے کون نقصان پہنچا سکتا ہے.خدا نے ایسا تصرف کیا کہ جس لڑکے کو اقبالی مجرم بنا کر کھڑا کیا گیا تھا اس سے اپنے بیان کے دوران میں ایسی حرکات سرزد ہوئیں کہ گورداسپور کے انصاف پسند ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کیپٹن ڈگلس کو شبہ پیدا ہوا کہ یہ سارا مقدمہ محض ایک سازش ہے چنانچہ اس نے زیادہ چھان بین کی اور لڑکے کو پادریوں کے قبضہ سے نکال کر اس پر زور ڈالا تو اس نے اقبال کر لیا کہ مجھے ہرگز مرزا صاحب نے کسی کے قتل لے دیکھو سیرۃ المہدی حصہ سوم مصنفہ خاکسار مؤلف

Page 84

۷۴ کے لئے مقرر نہیں کیا بلکہ میں نے عیسائی پادریوں کے کہنے کہانے سے ایسا بیان دیا تھا.جس پر حضرت مسیح موعود بڑی عزت کے ساتھ بری کئے گئے اور آپ کے مخالفوں کے ماتھے پر نا کامی کے علاوہ ذلت کا ٹیکہ بھی لگ گیا دشمن کے ساتھ احسان کا سلوک :.اس مقدمہ کے دوران میں دو باتیں ایسی ظاہر ہوئیں جن سے حضرت مسیح موعود کے اعلیٰ اخلاق پر بہت بھاری روشنی پڑتی ہے.اول یہ کہ دورانِ مقدمہ میں جب مولوی محمد حسین بٹالوی آپ کے خلاف شہادت میں پیش ہوئے اور آپ کو سزا دلوانے کی کوشش میں عیسائیوں کے حمایتی بنے تو آپ کے وکیل نے ان کے خلاف ایسی جرح کرنی چاہی جس سے ان کے بعض ذاتی اور خاندانی عیوب ظاہر ہوتے تھے اور ان کی حیثیت کے گرنے سے حضرت مسیح موعود کو فائدہ پہنچتا تھا کیونکہ وہی بڑے گواہ تھے مگر حضرت مسیح موعود نے اپنے وکیل کوسختی کے ساتھ اس جرح سے روک دیا اور کہا کہ میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ اس قسم کے سوال کئے جائیں آپ کے اس رویہ کا اس وکیل پر جو اتفاق سے وہ بھی ایک غیر احمدی تھا آپ کے اعلیٰ اخلاق کے متعلق نہایت گہرا اثر ہوا.اور وہ ہمیشہ اس واقعہ کا تعجب کے ساتھ ذکر کیا کرتا تھا کہ مرزا صاحب نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر بھی اپنے جانی دشمن کو تذلیل سے بچایا.دوسری بات یہ تھی کہ جب مجسٹریٹ نے فیصلہ سنایا تو حضرت مسیح موعود کو بری قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آپ کے خلاف یہ مقدمہ جھوٹے طور پر بنایا گیا تھا.قانونی طور پر آپ کو یہ حق ہے کہ اگر چاہیں تو مقدمہ کرنے والے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں.آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں چاہتا.خدا نے مجھے اپنے وعدہ کے مطابق بری کر دیا ہے اور وہ میرا محافظ ہے مجھے اپنے مخالفوں کے خلاف انتقامی چارہ جوئی کی ضرورت نہیں.اس کا بھی دیکھنے والوں پر نہایت گہرا اثر ہوا.سفیر ترکی کی قادیان میں آمد اور ایک خدائی نشان :- ۱۸۹۷ء میں ایک اور اہم واقعہ بھی پیش آیا اور وہ یہ کہ حسین کا می جو حکومت ترکی کی طرف سے ہندوستان میں سفیر تھا وہ حضرت مسیح موعود ل ملخص از کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۹ تا ۳۰۱

Page 85

۷۵ کی ملاقات کی غرض سے قادیان آیا اور علیحدگی میں ملاقات کی خواہش کر کے سلطان ترکی کے لئے دعا کی درخواست کی اور ساتھ ہی یہ بھی پوچھا کہ اگر سلطان کی حکومت کے متعلق آپ کو خدا کی طرف سے کچھ معلوم ہو تو مجھے بتا ئیں آپ نے اسے بتایا کہ میں تمہارے سلطان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور اس کی سلطنت کا حال بھی مجھے خراب نظر آتا ہے اور اپنے دعوئی کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود نے حسین کا می کو سمجھایا کہ اب میری بعثت کے بعد مسلمانوں کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ میری اتباع کو قبول کریں ورنہ خواہ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا اس کا انجام اچھا نہیں چنانچہ آپ اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے خود تحریر فرماتے ہیں کہ:.میں نے اس کو صاف کہہ دیا کہ سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں.یہی وہ باتیں تھیں جو سفیر کو اپنی بدقسمتی سے بہت بری معلوم ہوئیں.میں نے کئی اشارات سے اس بات پر بھی زور دیا کہ رومی سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصور وار ہے.خدا سچے تقویٰ اور طہارت اور نوع انسان کی ہمدردی کو چاہتا ہے اور روم کی حالت موجودہ بر بادی کو چاہتی ہے.تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ.ماسوا اس کے میرے دعوی مسیح موعود اور مہدی معہود کے بارے میں بھی کئی باتیں درمیان میں آئیں.میں نے اس کو بار بار سمجھایا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں.خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا.بادشاہ ہو یا غیر 6 بادشاہ اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تمام باتیں تیر کی طرح اس کو لگتی تھیں.“ لے الغرض ترکی سلطنت کا سفیر بہت دلبرداشتہ ہو کر قادیان سے واپس گیا اور اپنے دل میں مخالفت اور عداوت کے جذبات لے کر لوٹا مگر خدا نے جلد ہی دنیا کو بتا دیا کہ حق وہی تھا جو خدا کے اشتہار مورخہ ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۰۴ جدید ایڈیشن

Page 86

مرسل کے منہ سے نکلا تھا.چنانچہ پہلی سزا تو خود حسین کامی کو اپنی ذات میں پہنچی.یعنی جب اس نے قادیان سے واپس جا کر اخبارات میں حضرت مسیح موعود کے خلاف اعلان شائع کرایا تو اس کے کچھ عرصہ بعد وہ کسی جرم کی وجہ سے ترکی حکومت کے زیر عتاب آکر سفارت سے برطرف کر دیا گیا اور اس کے املاک وغیرہ ضبط کر لئے گئے لے اور پھر حضرت مسیح موعود کی اس پیشگوئی کے بعد خود سلطان ترکی اور ان کے خاندان کی بھی جو حالت ہوئی وہ تاریخ کا ایک کھلا ہوا ورق ہے جسے اس جگہ دہرانے کی ضرورت نہیں یعنی مختصر یہ کہ اس کے بعد ترکی کے ملک میں بغاوت ہوئی اور سلطان اپنے عہدہ سے معزول ہو کر جلا وطن ہوا اور بالآ خر حکومت ترکی نے سلطان اور خلیفتہ المسلمین کا عہدہ ہی منسوخ کر کے اس سلسلہ کا خاتمہ کر دیا.حضرت مسیح ناصری کے متعلق ایک عظیم الشان تحقیق:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا میں حقیقی تو حید کے قیام کا انتہائی جوش تھا اور آپ کی یہ دلی تڑپ تھی کہ جس طرح بھی ہولوگوں کے خود ساختہ بت خدائے واحد کے سامنے گر کر پاش پاش ہو جائیں اور آپ ان مصنوعی بتوں میں حضرت مسیح ناصری کے وجود کو سب سے بڑا بت خیال کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ عیسائیوں نے حضرت مسیح کے بعد اس جھوٹے عقیدہ کو گھڑ کر دنیا میں ایک ظلم عظیم کی عمارت کھڑی کر دی ہے اور آپ اس عمارت کو گرانے کو اپنا سب سے بڑا مشن خیال کرتے تھے.چنانچہ جب شروع شروع میں آپ پر اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات اور رفع الی السماء کا عقیدہ غلط ہے اور یہ کہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح اپنی عمر کے دن گزار کر فوت ہو گئے تھے تو آپ نے دنیا میں اس انکشاف کی نہایت کثرت کے ساتھ اشاعت فرمائی اور اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس خیال پر بہت زور دیا کہ دوسرے فانی انسانوں کی طرح حضرت مسیح ناصری دنیا میں اپنی زندگی کے دن گزار کر فوت ہو چکے ہیں.جس میں آپ کی دو غرضیں تھیں.اول یہ کہ اس طرح شرک کو مٹا کر تو حید کو قائم کیا جاوے.دوسرے یہ کہ حضرت مسیح کو فوت شدہ ثابت کر کے اپنے خدا داد منصب کی طرف لوگوں کی توجہ کو کھینچا جاوے.ے دیکھو حضرت مسیح موعود کا اشتہار مورخہ ۱۸ نومبر۱۸۹۹ء ملحض از مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه۳۳۳ جدید ایڈیشن

Page 87

22 لیکن اس سارے عرصہ میں آپ صرف اس خیال پر قانع نہیں رہے کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں بلکہ آپ اپنے طور پر اس تحقیق میں بھی لگے رہے کہ اس بات کا پتہ لگا ئیں کہ صلیب کے واقعہ کے بعد کیا پیش آیا اور صلیب سے بچ کر حضرت مسیح کہاں گئے اور بالآ خرانہوں نے کہاں پہنچ کر انتقال کیا.چنانچہ آخر کار آپ کی یہ کوشش کامیابی کا پھل لائی اور آپ نے کھوج نکالتے نکالتے اس صدیوں کے چھپے ہوئے راز کا پتہ لگا لیا.چنانچہ ۱۸۹۸ء میں آپ نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری صلیب پر چڑھائے تو گئے تھے مگر صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ صلیب کی تکلیف کی وجہ سے صرف بیہوش ہو گئے تھے اور پھر اپنے بعض دوستوں کی کوشش اور بعض افسران حکومت کی مخفی ہمدردی کی وجہ سے بیہوشی کی حالت میں ہی صلیب سے اتار لئے گئے تھے اور صلیب سے اتارنے کے بعد بھی جیسا کہ ملک میں دستور تھا ان کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں اور ان کا جسم ان کے ہمدردوں کے سپرد کر دیا گیا وغیرہ وغیرہ یہاں تک تو یہ ایک ایسا عقیدہ تھا کہ خود مسیحی قوم کا ایک حصہ ایک دھندلے خیال کے طور پر اس کا قائل رہا ہے مگر حضرت مسیح موعود نے نہ صرف اس خیال پر مزید روشنی ڈالی بلکہ اپنی تحقیق کو اس کے آگے چلا کر ثابت کیا کہ حضرت مسیح ناصری نہ صرف صلیب سے بچ گئے تھے بلکہ اس کے بعد وہ علاج سے اچھے بھی ہو گئے لیکن چونکہ ملک میں ان کی سخت مخالفت تھی اور صلیب کے بعد زندہ نظر آنا سخت خطرہ کا باعث تھا اس لئے وہ اپنے زخموں وغیرہ سے کسی قدر صحتیاب ہونے کے بعد خفیہ خفیہ اپنے ملک سے ہجرت کر گئے اور بالآخر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کی تلاش میں گھومتے گھومتے کشمیر میں پہنچے جہاں ایک سو بیس سال کی عمر کو پہنچ کر طبعی حالت میں ان کی وفات ہوئی اور وہ سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہیں جہاں اب تک ان کی قبر محفوظ ہے اور یہ قبر کشمیر کی قدیم ترین قبروں میں سے ہے جس کے متعلق اہل کشمیر کی روایات سے پتہ لگتا ہے کہ یہ ایک شہزادہ نبی کی قبر ہے جو کہیں باہر سے آیا تھا اور خود اہل کشمیر کے متعلق یہ ثابت ہے کہ وہ بنواسرائیل ہی کی ایک شاخ ہیں جو ابتداء میں اپنے پدری درخت سے جدا ہو کر کشمیر کی طرف آگئے تھے.آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ

Page 88

۷۸ جس دوائی سے حضرت مسیح کے زخموں کا علاج کیا گیا تھا وہ اب تک طب کی پرانی کتابوں میں مرہم عیسی کے نام سے مشہور ہے آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ حضرت مسیح کے پیچھے پیچھے ان کے بعض حواری بھی ہندوستان پہنچے تھے.لے یہ تحقیق ایسی اہم اور ایسی وسیع الاثر ہے کہ جب وہ دنیا کے نزدیک پایہ ثبوت کو پہنچے گی تو موجودہ مسیحیت کا تو گویا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ اس سے مسیحیت کے وہ تین ستون جس پر اس مذہب کی ساری عمارت کھڑی ہے یعنی الوہیت مسیح اور تثلیث اور کفارہ ٹوٹ کر گر جائیں گے اور مسلمان بھی جو حضرت عیسی کی انتظار میں آسمان کی طرف نظر لگائے بیٹھے ہیں اس طرف سے مایوس ہو کر احمدیت کی طرف پلٹا کھا ئیں گے.یہ درست ہے کہ ابھی تک مسیحی محققین نے اس تحقیق کو درست تسلیم نہیں کیا لیکن اگر تاریخی اور عقلی دلائل کی رو سے یہ تحقیق سچی ثابت ہوتی ہے تو پھر کسی قوم کا اسے ماننا یا نہ ماننا کوئی وزن نہیں رکھتا.اور حضرت مسیح موعود نے یونہی ایک بلا دلیل دعوی نہیں کیا بلکہ انجیل سے اور تاریخ سے اور آثار قدیمہ سے اپنے دعوئی کے دلائل پیش کئے ہیں اور واقعہ صلیب سے پہلے کے اور بعد کے حالات اور حضرت مسیح ناصری کے اقوال اور ان کے حواریوں کے واقعات اور شام اور کشمیر کی تواریخ وغیرہ سے ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح ناصری صلیب کے واقعہ سے بچ کر آہستہ آہستہ ہندوستان ہوتے ہوئے کشمیر پہنچ گئے تھے اور بالآخر یہیں فوت ہوئے.مگر چونکہ فلسطین و شام میں پولوس کے ہاتھوں سے مسیحیت نے ایک بالکل ہی اور جامہ پہن لیا لیکن اس کے مقابل پر کشمیر میں ان کی اصلی موحدانہ تعلیم قائم رہی جو بعد میں اسلام کے اندر آ کر جذب ہو گئی اس لئے ان دونوں تعلیموں میں کبھی اتصال نہیں ہوا اور نہ کبھی درمیان کا پردہ اٹھا.مگر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قمر مسیح کی تحقیق پر حضرت مسیح موعود کے اس سارے حملہ کی بنیاد تھی جو آپ کی طرف سے مسیحیت کے خلاف ظاہر ہوا بلکہ یہ صرف ایک تائیدی تحقیق تھی اور آپ کا زیادہ زور وفات مسیح کے مسئلہ پر تھا یعنی یہ کہ مسیح ناصری آسمان پر نہیں گئے بلکہ اپنی طبعی موت سے فوت ہوئے.لے اس تحقیق کی تفصیلات کے لئے دیکھو آپ کی تصنیف ”راز حقیقت اور مسیح ہندوستان میں اور آپ کے مخلص حواری ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب کی تصنیف ” قبر مسیح ، وغیرہ.

Page 89

۷۹ علاوہ ازیں آپ نے اپنی تصانیف میں مسیحیت کے بنیادی عقائد الوہیت مسیح اور تثلیث اور کفارہ پر ایسی زبر دست جرح کی ہے کہ آپ کے دلائل کے سامنے مسیحیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑ نے لگتا ہے.الوہیت مسیح کے متعلق آپ نے ثابت کیا کہ اول تو مسیح نے کبھی خدائی کا دعوی کیا ہی نہیں اور اگر بالفرض دعوی ثابت بھی ہو تو مسیح کے حالات اس کی خدائی کے خیال کو دور سے ہی دھکے دیتے ہیں اور اس میں قطعاً کوئی بات خدائی کی ثابت نہیں ہوتی اور تثلیث کے متعلق آپ نے بتایا کہ یہ ایک سراسر مشرکانہ عقیدہ ہے جس پر کسی صحیح الفطرت انسان کا دل تسلی نہیں پاسکتا اور اس سے خدا کی خدائی پر بھی سخت حرف آتا ہے اور کفارہ کے متعلق آپ نے ثابت کیا کہ وہ ایک بالکل گندہ اور غیر فطری عقیدہ ہے جس کو گناہوں کی معافی اور اصلاح نفس کے ساتھ کوئی طبعی جوڑ نہیں بلکہ اس نے گناہ کو مٹانے کی بجائے اسے اور بھی ترقی دے دی ہے.غرض مسیحیت کے متعلق آپ کا لٹریچر ایسا اعلیٰ پایہ کا ہے کہ اسے پڑھ کر کوئی غیر متعصب انسان مسیحیت کے موجودہ عقائد کو ایک منٹ کے لئے بھی سچا نہیں سمجھ سکتا اور خود سمجھدار عیسائیوں نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ احمدیت کے وجود میں مسیحی عقائد کے لئے موت کا پیغام ہے.قادیان میں سکول اور اخبار کا اجراء : چونکہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت کے خلاف مخالفت کی رو بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی اور دوسری طرف خدا کے فضل سے جماعت بھی آہستہ آہستہ ترقی کر رہی تھی اس لئے ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود کے منشاء اور مشورہ کے ماتحت جماعت احمدیہ میں دو نئے کاموں کا اضافہ ہوا.یعنی ایک تو جماعت کے بچوں کے لئے قادیان میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی تاکہ جماعت کے بچے دوسرے سکولوں کے زہر آلود ماحول میں تعلیم پانے کی بجائے اپنے ماحول میں تعلیم پائیں ور بچپن سے ہی اسلام اور احمدیت کی تعلیم کو اپنے اندر جذب کر سکیں.یہ وہی مدرسہ ہے جو اس وقت تعلیم الاسلام ہائی سکول کی صورت میں قائم ہے.یہ مدرسه سرکاری محکمہ تعلیم سے ملحق تھا اور اب بھی ہے مگر اس میں دینیات کا کورس زیادہ کیا گیا تھا جس میں قرآن شریف اور سلسلہ کی کتب شامل تھیں اور بڑی غرض یہ تھی کہ بچوں کی تربیت احمدیت کے ماحول

Page 90

۸۰ میں ہو سکے اور جماعت کے نو نہال حضرت مسیح موعود اور جماعت کے پاک نفس بزرگوں کی صحبت میں رہ کر اپنے اندر اسلام اور احمدیت کی حقیقی روح پیدا کر سکیں.سو الحمد للہ کہ مدرسہ نے اس غرض کو وبصورت احسن پورا کیا ہے.یہ مدرسہ پرائمری کی جماعت سے شروع ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی ہائی کے معیار تک پہنچ گیا تھا اور سلسلہ کے بہت سے مبلغ اور دوسرے ذمہ دار کارکن اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں مدرسہ کے انتظام کے لئے حضرت مسیح موعود نے ایک کمیٹی مقرر فرما دی تھی.دوسرا نیا کام ۱۸۹۸ء میں یہ شروع ہوا کہ حضرت مسیح موعود کی دیرینہ خواہش کے مطابق لے اس سال قادیان سے ایک ہفتہ واری اخبار جاری کیا گیا جس کی غرض وغایت سلسلہ کی تبلیغ اور سلسلہ کی خبروں کی اشاعت اور جماعت کی تعلیم و تربیت تھی.اس سے پہلے قادیان میں جماعت کا اپنا پر لیس تو موجود تھا جو۱۸۹۳ء سے جاری تھا مگر اخبار ابھی تک کوئی نہیں تھا.سو ۱۸۹۸ء میں آکر یہ کمی بھی پوری ہوگئی.یہ اخبار جس کا نام الحکم تھا جماعت کے انتظام کے ماتحت جاری کردہ نہیں تھا بلکہ مالی ذمہ داری کے لحاظ سے ایک پُر جوش نوجوان شیخ یعقوب علی صاحب تراب حال عرفانی کی انفرادی ہمت کا نتیجہ تھا مگر بہر حال وہ جماعت کا اخبار تھا اور جماعت کی عمومی نگرانی کے ماتحت تھا اور اس کے ذریعہ جماعت کی ایک اہم ضرورت پوری ہوئی.یہ اخبار ابتداء ۱۸۹۷ء میں امرتسر سے جاری ہوا تھا مگر ۱۸۹۸ء کے شروع میں قادیان آ گیا.اس کے کچھ عرصہ بعد یعنی ۱۹۰۲ء میں قادیان سے ایک دوسرا اخبار البدر نامی بھی جاری ہو گیا اور ان دونوں اخباروں نے مل کر حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں سلسلہ کی بہت عمدہ خدمت سرانجام دی.چنانچہ بعض اوقات حضرت مسیح موعود ان اخباروں کو جماعت کے دو بازو کہہ کر یادفرمایا کرتے تھے.۱۸۹۸ء کا سال جماعت کی اندرونی تنظیم کے لحاظ سے خاص خصوصیت رکھتا ہے چنانچہ جن دو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے اور انہیں احمدی اصلاحات کا اوپر ذکر گزر چکا ہے یعنی مدرسہ اور اخبار کا اجراء ان کے لڑکیوں کا رشتہ نہ دینے کے متعلق احکامات:.علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے دیکھو اشتہارات منسلکہ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۳۶

Page 91

ΔΙ نے اس سال میں خدا سے علم پا کر جماعت کی تنظیم و تربیت کے متعلق دو مزید احکامات جاری فرمائے یعنی اول تو آپ نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ آئندہ کوئی احمدی کسی غیر احمدی کی امامت میں نماز ادا نہ کرے بلکہ صرف احمدی امام کی اقتداء میں نماز ادا کی جاوے یہ حکم ابتداء ۱۸۹۸ء میں زبانی طور پر جاری ہوا تھا مگر بعد میں ۱۹۰۰ء میں تحریری طور پر بھی اس کا اعلان کیا گیا.آپ کا یہ فرمان جو خدائی منشاء کے ماتحت تھا اس حکمت پر مبنی تھا کہ جب غیر احمدی مسلمانوں نے آپ کے دعوی کو رد کر کے اور آپ کو جھوٹا اور مفتری قرار دے کر اس خدائی سلسلہ کی مخالفت پر کمر باندھی ہے جو خدا نے اس زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے جاری کیا ہے اور جس سے دنیا میں اسلام اور روحانی صداقت کی زندگی وابستہ ہے تو اب وہ اس بات کے مستحق نہیں رہے کہ کوئی شخص جو حضرت مسیح موعود پر ایمان لاتا ہے وہ آپ کے منکر کی امامت میں نماز ادا کرے.نماز ایک اعلیٰ درجہ کی روحانی عبادت ہے اور اس کا امام گویا خدا کے دربار میں اپنے مقتدیوں کا لیڈر اور زعیم ہوتا ہے.پس جو شخص خدا کے مامور کو رد کر کے اس کے غضب کا مورد بنتا ہے وہ ان لوگوں کا پیشرو نہیں ہو سکتا جو اس کے مامور کو مان کر اس کی رحمت کے ہاتھ کو قبول کرتے ہیں.اس میں کسی کے برا منانے کی بات نہیں ہے.بلکہ یہ کے قیام کا ایک طبعی اور قدرتی نتیجہ تھا جو جلد یا بدیر ضرور ظاہر ہونا تھا.چنانچہ حدیث میں بھی اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس کے متبعین کا امام انہی میں سے ہوا کرے گا چنانچہ حضرت مسیح موعودا اپنی جماعت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:.یا درکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی ملکفر یامکذب یا متر ڈو کے پیچھے نماز پڑھو.بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو.اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ یعنی جب مسیح نازل ہوگا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جود عولی اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا.دوسری ہدایت جو آپ نے اپنی جماعت کے لئے جاری فرمائی وہ احمدیوں کے رشتہ ناطہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۶۴ حاشیہ

Page 92

۸۲ کے متعلق تھی.اس وقت تک جیسا کہ احمدیوں اور غیر احمدی مسلمانوں کی نماز مشترک تھی یعنی احمدی لوگ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے اسی طرح باہمی رشتہ ناطہ کی بھی اجازت تھی یعنی احمدی لڑکیاں غیر احمدی لڑکوں کے ساتھ بیاہ دی جاتی تھیں مگر ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود نے اس کی بھی ممانعت فرما دی اور آئندہ کے لئے ارشاد فرمایا کہ کوئی احمدی لڑکی غیر احمدی مرد کے ساتھ نہ بیاہی جاوے لیے یہ اس حکم کی ایک ابتدائی صورت تھی جس کے بعد اس میں مزید وضاحت ہوتی گئی اور اس حکم میں حکمت یہ تھی کہ طبعا اور قانو نا ازدواجی زندگی میں مرد کو عورت پر انتظامی لحاظ سے غلبہ حاصل ہوتا ہے پس اگر ایک احمدی لڑکی غیر احمدی کے ساتھ بیاہی جائے تو اس بات کا قوی اندیشہ ہوسکتا ہے کہ مرد عورت کے دین کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا اور خواہ اسے اس میں کامیابی نہ ہولیکن بہر حال یہ ایک خطرہ کا پہلو ہے جس سے احمدی لڑکیوں کو محفوظ رکھنا ضروری تھا.علاوہ ازیں چونکہ اولا د عموماً باپ کی تابع ہوتی ہے اس لئے اس قسم کے رشتوں کی اجازت دینے کے یہ معنے بھی بنتے ہیں کہ ایک احمدی لڑکی کو اس غرض سے غیر احمدیوں کے سپر د کر دیا جائے کہ وہ اس کے ذریعہ غیر احمدی اولاد پیدا کریں.اس قسم کی وجوہات کی بناء پر آپ نے آئندہ کے لئے یہ ہدایت جاری فرمائی کہ گو حسب ضرورت غیر احمدی لڑکی کا رشتہ لیا جا سکتا ہے مگر کوئی احمدی لڑکی غیر احمدی کے ساتھ نہ بیاہی جاوے بلکہ احمد یوں کے رشتے صرف آپس میں ہوں.لیکن جولڑ کیاں اس ہدایت سے پہلے غیر احمدیوں کے نکاح میں آچکی تھیں ان کے متعلق آپ نے یہ ہدایت نہیں دی کہ ان کے نکاح فسخ ہو گئے ہیں کیونکہ اول تو اس کا عملی اجراء اپنے اختیار میں نہیں تھا دوسرے اس قسم کے حکم سے فتنوں اور پیچیدگیوں کے پیدا ہونے کا احتمال تھا جس سے بہر صورت بچن لا زم ہے.حضرت مسیح موعود کے خلاف ایک اور فوجداری مقدمہ :.اقدام قتل کا وہ خطرناک اور جھوٹا مقدمہ جو ڈاکٹر مارٹن کلارک نے ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود کے خلاف دائر کیا تھا اور جس لے اشتہار مورخہ ۷ جون ۱۸۹۸ء مشخص از مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۲۲۳ ۲۲۴ جدید ایڈیشن

Page 93

۸۳ میں غیر احمدی مسلمانوں اور آریوں نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ عیسائیوں کی حمایت کی تھی اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اس مقدمہ کی ناکامی نے حضرت مسیح موعود کے مخالفین کی آتش غضب کو اور بھی بھڑ کا دیا تھا چنانچہ ۱۸۹۹ء کے شروع میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعود کے خلاف ایک دوسرا مقدمہ کھڑا کر دیا جس میں یہ استغاثہ تھا کہ مجھے مرزا صاحب کی طرف سے اپنی جان کا خطرہ ہے اس لئے ان سے حفظ امن کی ضمانت لی جائے اور یا انہیں آزادی سے محروم کر کے زندانِ حراست میں ڈال دیا جائے.مولوی محمد حسین صاحب کو اس مقدمہ کی جرات اس لئے بھی ہوئی کہ اتفاق سے اس وقت بٹالہ کے پولیس سٹیشن میں جس کے حلقہ میں قادیان واقع ہے ایک شخص شیخ محمد بخش نامی تھا نہ دار تھا جو حضرت مسیح موعود کا سخت مخالف تھا اور چونکہ حفظ امن کے مقدمہ میں عموماً پولیس کی رپورٹ پر فیصلہ ہوتا ہے اس لئے مولوی محمد حسین نے یہ موقعہ غنیمت سمجھ کر آپ کے خلاف حفظ امن کی درخواست گزار دی.جب یہ درخواست تھانہ دار مذکور کے پاس آئی تو اس نے کمال ہوشیاری سے حفظ امن کی کارروائی میں خود مولوی محمد حسین کو بھی لپیٹ لیا اور یہ رپورٹ کی کہ فریقین کو ایک دوسرے سے خطرہ ہے اس لئے دونوں کی ضمانت ہونی چاہئے اور اس طریق کے اختیار کرنے میں تھانہ دار کی غرض یہ تھی کہ اس کی کارروائی غیر جانبدار سبھی جاوے تاکہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسے بلا تامل منظور کر لے چنانچہ تھانہ دار مذکور نے ان ایام میں اپنی ایک مجلس میں برملا کہا کہ ” آج تک تو مرزا بچ جاتا رہا ہے لیکن اب وہ میرے ہاتھ دیکھے گا.اس کی یہ بات کسی شخص نے حضرت مسیح موعود کو بھی پہنچادی جس پر آپ نے رپورٹ کنندہ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور بے ساختہ فرمایا.” وہ کیا سمجھتا ہے؟ اس کا اپنا ہاتھ کاٹا جائے گا.اس کے بعد قدرت حق کا تماشہ دیکھو کہ نہ صرف حضرت مسیح موعود اس مقدمہ میں بری کئے گئے بلکہ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد شیخ محمد بخش تھانہ دار کے ہاتھ میں ایک زہریلی قسم کا پھوڑا نکلا جس کے درد سے وہ دن رات بیتاب ہو کر کراہتا تھا اور آخر اسی تکلیف میں وہ اس جہان سے رخصت ہوا.اور اس بارے میں حضرت مسیح موعود کو مزید فتح یہ حاصل ہوئی کہ

Page 94

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ شیخ محمد بخش مذکور کا اکلوتا لڑکا حضرت مسیح موعود کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گیا اور اب وہ خدا کے فضل سے ایک مخلص احمدی ہیں اور ان کی والدہ اور بیوی بچے بھی احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں.حضرت مسیح موعود کی اضطراب اور کرب کی دعائیں :.اب حضرت مسیح موعود کے دھوئی ماموریت پر قریباً اٹھارہ سال گزر چکے تھے اور بیعت کے سلسلہ کو شروع ہوئے بھی دس سال ہو چکے تھے اور گو اس عرصہ میں آپ کی جماعت نے خدا کے فضل سے کافی ترقی کی تھی اور ہزاروں لوگ آپ کی بیعت میں داخل ہو چکے تھے مگر ساتھ ساتھ مخالفت کا طوفان بھی تیز ہوتا گیا تھا اور مسلمان علماء اور ان کے رفقاء نے آپ کے خلاف ایک خطر ناک آگ لگا رکھی تھی اور یہ لوگ دہری شرارت پر آمادہ تھے.ایک طرف تو وہ گورنمنٹ کو خفیہ اور ظاہری رپورٹیں کر کر کے حکام کو آپ کے خلاف اکسانے اور بدظن کرنے میں مصروف تھے اور آپ کے دعوئی مہدویت کو آڑ بنا کر اس پراپیگنڈا میں مصروف تھے کہ گویا آپ اور آپ کی جماعت در پردہ گورنمنٹ کا تختہ الٹنے میں مصروف ہے اور دوسری طرف وہ آپ کو کافر اور بے دین اور دجال کہہ کر عوام الناس کو آپ کی طرف متوجہ ہونے سے روک رہے تھے اور انہوں نے لوگوں کے اندر یہ خیال پیدا کر دیا تھا کہ آپ کے ساتھ ملنے ملانے یا آپ کی تصانیف کے پڑھنے سے انسان بے دین اور خدا کی نظر میں ملعون ہو جاتا ہے.غرض اس زمانہ میں مخالفت انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور بدزبانی اور دشنام دہی اور گالی گلوچ کا تو کچھ ٹھکا ناہی نہیں تھا.حضرت مسیح موعود کے خلاف ایسے ایسے گندے اور اشتعال انگیز اشتہار اور رسالے شائع ہورہے تھے کہ ایک شریف انسان انہیں دیکھ نہیں سکتا اور عوام الناس میں جماعت کے خلاف ایک خطرناک جذبہ پیدا ہو گیا تھا.ان حالات میں حضرت مسیح موعود کو یہ احساس ہو رہا تھا کہ جماعت کی ترقی کا قدم اس تیز رفتاری کے ساتھ نہیں اٹھ رہا جس طرح کہ آپ چاہتے تھے کہ وہ اٹھے اس احساس نے آپ کو اس زمانہ میں غیر معمولی کرب اور اضطراب میں مبتلا کر رکھا تھا اور آپ بے تاب ہو ہو کر خدا کی طرف دیکھ رہے تھے اور

Page 95

۸۵ اس دعا میں مصروف تھے کہ خدا کی طرف سے کوئی ایسے فوق العادت نشان ظاہر ہوں جو لوگوں کی گردنوں کو جھکا کر حق کی طرف مائل کر دیں.۱۸۹۹ ء کا سال اس احساس اور اضطراب کے معراج کا زمانہ تھا.چنانچہ اس زمانہ میں جو اشتہارات آپ نے شائع فرمائے یا جو تصانیف لکھیں ان میں سے اکثر میں یہی احساس اور یہی اضطراب جھلکتا نظر آتا ہے اور میں اپنے ناظرین کو آپ کے قلبی جذبات کا نظارہ دکھانے کے لئے اس جگہ آپ کے بعض اقتباسات درج کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:.”اے میرے حضرت اعلیٰ ذوالجلال، قادر ، قدوس، حی و قیوم جو ہمیشہ راستبازوں کی مدد کرتا ہے تیرا نام ابدالا با دمبارک ہے.تیرے قدرت کے کام کبھی رک نہیں سکتے تیرا قوی ہاتھ ہمیشہ عجیب کام دکھلاتا ہے.تو نے ہی اس چودھویں صدی کے سر پر مجھے مبعوث کیا.مگر اے قادر خدا تو جانتا ہے کہ اکثر لوگوں نے مجھے منظور نہیں کیا اور مجھے مفتری سمجھا اور میرا نام کا فر اور کذاب اور دجال رکھا گیا.مجھے گالیاں دی گئیں.اور طرح طرح کی دل آزار باتوں سے مجھے ستایا گیا...سواے میرے مولا قادر خدا ! اب مجھے راہ بتلا اور کوئی ایسا نشان ظاہر فرما جس سے تیرے سلیم الفطرت بندے نہایت قوی طور پر یقین کریں کہ میں تیرا مقبول ہوں اور جس سے ان کا ایمان قوی ہو اور وہ تجھے پہچانیں اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے نام کی روشنی اس بجلی کی طرح دکھلائی دے کہ جو ایک لمحہ میں مشرق سے مغرب تک اپنے تئیں پہنچاتی اور شمال وجنوب میں اپنی چمکیں دکھلاتی ہے..دیکھ! میری روح نہایت توکل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے.سو میں تیری قدرت کے نشان کا خواہشمند ہوں.لیکن نہ اپنے لئے اور نہ اپنی عزت کے لئے.بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں.

Page 96

۸۶ کو اختیار کریں.میں تجھے پہچانتا ہوں کہ تو ہی میرا خدا ہے اس لئے میری روح تیرے نام سے ایسی اچھلتی ہے جیسا کہ شیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے.لیکن اکثر لوگوں نے مجھے نہیں پہچانا اور نہ قبول کیا.اس لئے نہ میں نے بلکہ میری روح نے اس بات پر زور دیا کہ میں یہ دعا کروں کہ اگر میں تیرے حضور میں سچا ہوں.تو میرے لئے کوئی اور نشان دکھلا اور اپنے بندہ کے لئے گواہی دے جس کو زبانوں سے کچلا گیا ہے.دیکھ میں تیری جناب میں عاجزانہ ہاتھ اٹھاتا ہوں کہ تو ایسا ہی کر میں نوح نبی کی طرح دونوں ہاتھ پھیلا تا ہوں اور کہتا ہوں رَبِّ إِنِّي مَغْلُوبٌ.مگر بغیر فانتصر کے.اور میری روح دیکھ رہی ہے کہ خدا میری سنے گا “ لے آپ نے اپنی طرف سے اس دعا کی قبولیت کے لئے تین سال کی میعاد پیش کی یعنی خدا سے استدعا کی کہ وہ تین سال کے عرصہ میں آپ کے حق میں کوئی ایسا نشان ظاہر فرمائے جو رجوع عام کا باعث ہو.اسی طرح آپ نے ان ایام میں ایک فارسی نظم لکھ کر شائع فرمائی جو مناجات کے رنگ میں ہے اور نہایت دردناک ہے.اس نظم میں آپ فرماتے ہیں:.اے قدیر و خالقِ ارض و سما اے رحیم و مهربان و رہنما اے کہ میداری تو بر دلها نظر اے کہ از تو نیست چیزی مستتر گر تو می بینی مرا پر فسق و شر گر تو دید استی که هستم بد گہر پاره پاره کن من بدکار را شادکن ایس زمرہ اغیار را بر دل شاں ابر رحمت با بیار ہر مراد شان بفضل خود برآر آتش افشان بر در و دیوار من دشمنم باش و تباه کن کار من در مرا از بندگانت یافتی قبله من آستانت یافتی اشتہار مورخه ۵/ نومبر ۱۸۹۹ء مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۲۲ تا ۳۲۷ جدید ایڈیشن

Page 97

۸۷ در دل من آں محبت دیده کر جہاں آں راز را پوشیده با من از روئے محبت کارکن اند کے افشاء آں اسرار کن اے کہ آئی سوئے ہر جوینده واقفی از سوز زاں تعلق با که با تو داشتم ہا ہر سوزنده زاں محبت ہا کہ در دل کاشتم خود بروں آ از پئے ابراء من اے تو کہف و ملجاء وماوائے من آتش کاندر دلم افروختی وز دم آن غیر خود را سوختی ہم ازاں آتش رخ من بر فروز ویں شب تارم مبدل کن بروز د یعنی اے میرے قادر.زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا! اے میرے رحیم اور مہربان اور مشکلات کی تاریکی میں رستہ دکھانے والے آقا ! اے دلوں کے بھیدوں کے جاننے والے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں! اگر تو مجھے شر اور فسق وفساد سے بھرا ہوا پاتا ہے اور اگر تو یہ دیکھتا ہے کہ میں ایک بدطینت اور گندہ آدمی ہوں تو اے خدا تو مجھے بدکار کو پارہ پارہ کر کے ہلاک و برباد کر دے اور میرے مخالف گروہ کے دلوں کو خوشی اور راحت بخش اور ان پر اپنی رحمت کے بادل برسا اور ان کی ہر مراد کو اپنے فضل سے پورا کر.اور میرے درودیوار پر اپنے غضب کی آگ نازل کر اور میرا دشمن بن کر میرے اس کاروبار کو تباہ و برباد کر دے.لیکن اے میرے آقا ! اگر تو مجھے اپنے بندوں میں سے سمجھتا ہے اور اپنے آستانہ کو میری توجہ کا قبلہ پاتا ہے اور میرے دل میں اس محبت کو دیکھتا ہے جو تو نے دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ کر رکھی ہے تو اے میرے خدا تو میرے ساتھ محبت کا معاملہ کر اور اس چھپے ہوئے راز کو ذرا ظاہر ہونے دے.اے وہ کہ جو ہر تلاش کرنے والے کی طرف خود چل کر آتا ہے اور اے وہ کہ جو ہر سوز محبت میں جلنے والے کی سوزش قلب سے آگاہ ہے میں تجھے اس تعلق کا واسطہ دے کر کہتا ے حقیقة المهدی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۳۴

Page 98

۸۸ ہوں کہ جو میرے دل میں تیرے لئے ہے اور اس محبت کو یاد دلاتا ہوں عرض کرتا ہوں کہ جس کے پودے کو میں نے تیرے لئے اپنے دل کی گہرائیوں میں نصب کیا ہے کہ تو خود میری بریت کے لئے اٹھ.ہاں اے میری پناہ! اے میرے ملجاء و مالوے ! تجھے تیری ذات کی قسم ہے کہ ایسا ہی کر.وہ آتش محبت جو تو نے میرے دل میں شعلہ زن کی ہے جس کی لپٹوں سے تو نے میرے دل میں غیر کی محبت کو جلا کر خاک کر دیا ہے اب ذرا اسی نور سے میرے ظاہر کو بھی تو روشن فرما اور میری اس تاریک و تار رات کو دن کی روشنی سے بدل دے.“ 66 اس کے بعد خدا نے کئی نشان دکھائے مگر اس دعا کی قبولیت کا زیادہ ظہور طاعون کے ذریعہ ہوا جس نے ۱۹۰۲ء میں زور پکڑ کر جماعت کی ترقی میں ایک انقلابی صورت پیدا کر دی اور لوگ خدائی سلسلہ میں فوج در فوج داخل ہونے شروع ہو گئے.حضرت مسیح موعود کا آخری فرزند اور اس کی وفات:.اسی سال یعنی ۱۸۹۹ء میں ہمارا سب سے چھوٹا بھائی مبارک احمد پیدا ہوا.مبارک احمد وہ آخری لڑکا تھا جو حضرت مسیح موعود کے گھر پیدا ہوا.اس سے پہلے دوسری شادی سے آپ کے گھر میں تین لڑکے زندہ موجود تھے یعنی ایک حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو ۱۸۸۹ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۴ء سے جماعت کے امام اور خلیفہ ہیں.دوسرے خاکسار مؤلف رسالہ ہذا جو ۱۸۹۳ء میں پیدا ہوا اور تیسرے عزیزم مکرم مرزا شریف احمد صاحب جو ۱۸۹۵ء میں پیدا ہوئے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے آپ نے لکھا ہے کہ آپ کی یہ ساری اولا دخدائی بشارتوں کے ماتحت پیدا ہوئی تھی یعنی ہر بچہ کی ولادت سے پہلے آپ کو خدائی الہام کے ذریعہ اس کی ولادت کی خبر دی گئی تھی چنانچہ ۱۸۹۹ء میں جب مبارک احمد پیدا ہوا تو آپ کو خدا کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ یہ لڑکا آسمان سے آتا ہے اور آسمان کی طرف ہی اٹھ جائے گا.حضرت مسیح موعود نے اس الہام کی یہ تعبر فرمائی کہ یا تو یہ لڑکا خاص طور پر نیک اور پاکباز اور روحانی امور میں ترقی

Page 99

۸۹ کرنے والا ہوگا اور یا بچپن میں ہی فوت ہو جائے گا.چنانچہ مؤخر الذکر صورت درست نکلی اور یہ بچہ آپ کی زندگی میں ہی ۱۹۰۷ء میں وفات پا گیا.حضرت مسیح موعود کو اپنے بچوں کے ساتھ بہت محبت تھی اور مبارک احمد سب سے چھوٹا بچہ ہونے کی وجہ سے دوسروں کی نسبت طبعاً محبت و شفقت کا زیادہ حصہ پاتا تھا اس لئے اس کی وفات پر آپ کو بہت صدمہ ہوا مگر چونکہ آپ کا اصل تعلق خدا سے تھا اس لئے آپ نے اس صدمہ میں صبر اور رضا کا کامل نمونہ دکھایا اور دوسروں کو بھی صبر ورضا کی نصیحت فرمائی حتی کہ جولوگ اس موقعہ پر افسوس اور ہمدردی کے اظہار کے لئے آئے تھے ان کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود ہمارے ساتھ اس رنگ میں گفتگو فرماتے تھے کہ گو یا صدمہ ہمیں پہنچا ہے اور آپ تسلی دینے والے ہیں.اس موقعہ پر آپ نے مبارک احمد کی قبر کے کتبہ کے لئے چند شعر بھی تحریر فرمائے جو آپ کے جذبات قلب کی عمدہ تصویر ہیں.ان میں سے دواشعار نمونہ کے طور پر درج ذیل کئے جاتے ہیں.آپ فرماتے ہیں:.جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پر اے دل تو جاں فدا کر بشپ آف لاہور کو مقابلہ کا چیلنج : ۱۹۰۰ء میں لاہور میں ایک مشہور پادری ڈاکٹر لیفر ائے ہوتے تھے جو لا ہور کے لارڈ بشپ تھے اور پنجاب بھر کے عیسائیوں کے افسر اعلیٰ اور لیڈر تھے.یہ صاحب دوسرے مذاہب کے خلاف جارحانہ پالیسی کے مؤید تھے اور اسی غرض سے انہوں نے مسلمانوں کو یہ دعوت دی تھی کہ مسیح کے مقابلہ پر اپنے رسول کی معصومیت ثابت کر کے دکھائیں.حضرت مسیح موعود تو ان موقعوں کی تلاش میں رہتے تھے آپ نے فورا بشپ صاحب موصوف کے اس چیلنج کو قبول کر کے ان کے مقابلہ پر ایک اشتہار شائع کیا جس میں اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ

Page 100

۹۰ بشپ صاحب کی سی پوزیشن کا انسان اس قسم کی تحقیق کے لئے آمادہ ہوا ہے مگر ساتھ ہی تشریح فرمائی کہ معصومیت کا مفہوم غلط نہی پیدا کرنے کے علاوہ ایک نہایت محدود مفہوم ہے کیونکہ اول تو معصومیت کی تعریف میں مختلف قوموں کے درمیان بہت بڑا اختلاف ہو سکتا ہے یعنی ممکن ہے کہ ایک قوم کے نزدیک ایک بات گناہ میں داخل ہو اور دوسری کے نزدیک وہی بات کا ثواب سمجھی جائے پس کس معیار سے فیصلہ کیا جائے کہ کون زیادہ معصوم ہے؟ علاوہ ازیں معصومیت کا حقیقی اظہار گناہ کی طاقت کے موجود ہونے سے ہوتا ہے اور جس شخص کو کسی خاص قسم کے گناہ یا ظلم یا بداخلاقی کی طاقت ہی نہ ہو اسے اس گناہ یا ظلم یا بد اخلاقی سے مجتنب رہنے کی وجہ سے معصوم یا قابل تعریف نہیں سمجھا جاسکتا.پس اس لحاظ سے بھی حقیقی معصومیت کا فیصلہ آسان نہیں ہے.دوسرے محض معصومیت ایک منفی قسم کی خوبی ہے اور نہایت محدود پہلو رکھتی ہے اور اصل کمال یہ ہے کہ کسی انسان میں مثبت قسم کی خوبیاں اعلی پیمانہ پر جمع ہوں پس آپ نے لکھا کہ گو میں ثابت کر سکتا ہوں کہ حقیقی معصومیت میں بھی مسیح ناصری کو آنحضرت ﷺ سے کوئی نسبت نہیں لیکن دنیا کو اس بحث سے چنداں فائدہ نہیں پہنچ سکتا.پس اگر بشپ صاحب کو واقعی سچائی کی تڑپ ہے تو مسیح اور مقدس بانی اسلام کے کمالات کے بارے میں ہم سے مقابلہ کر لیں.یعنی اصل موضوع یہ قرار دیا جائے کہ ان دونو نبیوں میں سے کمالات ایمانی اور اخلاقی اور برکاتی اور تاثیراتی اور قولی اور فعلی اور عرفانی اور علمی اور تقدسی اور طریق معاشرت کی رو سے کون نبی افضل اور اعلیٰ ہے.اور آپ نے لکھا کہ اگر بشپ صاحب کو یہ طریق منظور ہو تو ہمیں اطلاع دیں پھر ہماری جانب سے کوئی شخص تاریخ مقررہ پر حاضر ہو جائے گا.اس کے بعد آپ نے اپنی جماعت کے بعض سر کردہ اشخاص کے ذریعہ بشپ صاحب کو پرائیویٹ خطوط بھی لکھوائے اور بار بار دعوت دی کہ وہ اس مقابلہ کے لئے آگے آئیں اور بعض معزز اخبارات مثلاً پا نیئر الہ آباد وغیرہ نے بھی پر زور تحریک کی کہ بشپ صاحب کو اس مقابلہ کے لئے آگے آنا چاہئے مگر بشپ صاحب موصوف نے اس بودے اور فضول عذر پر انکار کر دیا کہ چونکہ مرزا صاحب ے دیکھو اشتہار مورخه ۲۵ مئی ۱۹۰۰ ملخص از مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه۳۷۹ تا ۳۸۳ جدید ایڈیشن

Page 101

۹۱ مسیح ہونے کے مدعی ہیں جس میں ہمارے خدواند کی سخت ہتک ہے اس لئے میں ایسے شخص کے مقابلہ پر کھڑا نہیں ہوسکتا اور اس طرح ایک نہایت عمدہ موقعہ اسلام اور میسحیت کے مقابلہ کا ضائع ہو گیا.لیکن ملک کے سمجھدار طبقہ نے محسوس کر لیا کہ حق کس کے ساتھ ہے.مگر عصمت انبیاء کے مسئلہ میں بھی حضرت مسیح موعود نے ڈاکٹر لیفر ائے کے چیلنج کو خالی نہیں جانے دیا بلکہ اس مضمون پر رسالہ ریویو آف ریجنز قادیان میں ایک سلسلہ مضامین لکھ کر تمام دوسرے مذاہب کے دانت کھٹے کر دیئے اور ثابت کیا کہ گو سارے نبی ہی اپنی جگہ معصوم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں گناہ کے ارتکاب سے بچاتا ہے کیونکہ ان کے ذریعہ اس نے دنیا میں ایک نمونہ قائم کرنا ہوتا ہے مگر حقیقی معصومیت صرف آنحضرت ﷺ کو حاصل ہے.کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی زندگی عطا فرمائی جس میں آپ کو ہر شعبہ زندگی سے واسطہ پڑا اور آپ پر ہر فطری خلق کے اظہار کا موقعہ آیا یعنی آپ حاکم بھی بنے اور محکوم بھی.دوست بھی بنے اور دشمن بھی.بیٹا بھی بنے اور باپ بھی.خاوند بھی بنے اور خسر بھی.جرنیل بھی بنے اور مدبر بھی.غریب بھی بنے اور امیر بھی.فاتح بھی بنے اور مفتوح بھی.معاہد بھی بنے اور حلیف بھی.مزدور بھی بنے اور آقا بھی.قارض بھی بنے اور مقروض بھی.عاشق بھی بنے اور معشوق بھی.غرض انسانی اخلاق کے ہر میدان میں آپ کا قدم پڑا اور آپ نے ہر میدان میں اعلیٰ اخلاق کا وہ نمونہ قائم کیا جس کی نظیر دنیا میں کسی جگہ نظر نہیں آتی.بھلا اس عالی شان اور دلوں کو مسخر کر لینے والے منظر کے مقابلہ میں حضرت مسیح ناصری یا کسی اور شخص کی کیا حیثیت ہے جنہیں زندگی کے بہت ہی تھوڑے شعبوں سے حصہ ملا اور ان میں بھی انہوں نے چند اصولی اور خیالی تعلیموں کے سواد نیا کو کوئی عملی سبق نہیں دیا.پس ان کی معصومیت ایسی ہی ہے کہ جیسے ایک بکری یہ دعویٰ کرے کہ میں بھیڑیوں اور شیروں کو تکلیف نہیں دیتی اور نہ دوسرے جانوروں کو چیر پھاڑ کر اپنی غذا بناتی ہوں.حضرت مسیح موعود نے اپنے ان مضامین میں یہ تشریح بھی فرمائی کہ یہ جو آنحضرت ﷺ ے دیکھور سالہ ریویو آف ریلیجنز جلد نمبر انمبر9

Page 102

۹۲ کے متعلق قرآن شریف یا حدیث وغیرہ میں کہیں کہیں ذنب کا لفظ استعمال ہوا ہے یا بعض جگہ آپ کے استغفار کا ذکر آتا ہے یہ آپ کی معصومیت کے خلاف نہیں بلکہ اس سے آپ کی ارفع شان کا اور بھی کمال ظاہر ہوتا ہے کیونکہ ذنب سے عربی زبان میں گناہ اور نافرمانی مراد نہیں جس کے لئے عربی میں اثم اور جرم اور فسق وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں.بلکہ ذنب کا لفظ ایسی بشری کمزوریوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جو انسان کے اندر خلقی اور پیدائشی رنگ میں رکھی گئی ہیں.مثلاً انسان کے علم کا محدود ہونا یا اس کی طاقتوں کا محدود ہونا یا اس کی عمر کا محدود ہونا وغیر ذالک.پس آنحضرت ﷺ نے جو اپنے ذنوب یا کمزوریوں کے متعلق استغفار کی دعا کی ہے یا خدا نے آپ کے متعلق فرمایا ہے کہ ہم نے تیرے سارے ذنوب معاف فرما دیئے تو ان سے یہی خلقی اور پیدائشی کمزوریاں اور کوتاہیاں مراد ہیں جو ہر انسان کے ساتھ طبعا لاحق ہیں.گویا آنحضرت ﷺ جب استغفار کرتے تھے تو بالفاظ دیگر آپ یہ دعا فرماتے تھے کہ خدایا میں تو تیرے دین کی اشاعت میں ہر طرح سے مصروف ہوں اور میں نے اپنی جان کو اس رستہ میں ہلاکت کے کنارے تک پہنچارکھا ہے مگر میں بہر حال ایک انسان ہوں اس لئے باوجود میری اس کوشش کے پھر بھی جو خامی یا کمزوری باقی رہ جائے اسے تو اپنے فضل اور اپنی نصرت کے ہاتھ سے پورا فرما دے اور میری بشری کمزوریوں کو دین کی ترقی کے رستے میں روک نہ بننے دے.اور آپ کی اس دعا کے جواب میں خدا نے یہ وعدہ فرمایا کہ ہاں ہم تیری انسانی کمزوریوں کی خامی کو اپنے فضل اور نصرت کے ہاتھ سے خود پورا کر دیں گے.پس جس قسم کے نام نہاد گناہ کی وجہ سے آپ پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ دراصل آپ کے کمال اور آپ کی ارفع شان کی دلیل ہے.مگر اس کے مقابل پر حضرت مسیح ناصری کا یہ حال ہے کہ باوجود خدائی کے دعویدار ہونے کے اور باوجود انسانی کمزوریوں سے بالا سمجھے جانے کے وہ اپنے متعلق صاف فرماتے ہیں کہ مجھے نیک نہ کہو نیک صرف ایک ہے جو آسمان میں ہے اور شیطان ان کی آزمائش کے لئے بار بار حیلے کر کے آتا ہے.ان حالات کے ہوتے ہوئے آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللہ گناہگار سمجھنا اور حضرت مسیح ناصری کو

Page 103

۹۳ معصوم قرار دینا پرلے درجہ کی جہالت اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں.اے خطبہ الہامیہ : ۱۹۰۰ ء کے شروع میں حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر ایک نہایت لطیف اور علمی معجزہ ظاہر ہوا اور وہ یہ کہ جب اس سال کی عید الاضحی کا موقعہ آیا تو آپ کو خدا تعالیٰ نے الہاما حکم دیا کہ تم عید کے موقعہ پر عربی زبان میں تقریر کرو اور ہم تمہاری مدد کریں گے.چنانچہ باوجود اس کے کہ آپ نے کبھی عربی میں تقریر نہیں کی تھی آپ اس خدائی حکم کے ماتحت تقریر کے لئے کھڑے ہو گئے اور قادیان کی مسجد اقصیٰ میں قربانی کے مسئلہ پر ایک نہایت لطیف اور لمبی تقریر فرمائی.اس وقت آپ کی آنکھیں قریب بند تھیں اور چہرہ پر سرخی کے آثار تھے اور آپ نہایت روانی کے ساتھ بولتے جاتے تھے اور تقریر لکھنے والوں کو آپ نے یہ تاکید کر رکھی تھی کہ اگر کوئی لفظ مجھ نہ آوے تو فورا پوچھ لیں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ بعد میں مجھے بھی یاد نہ رہے.یہ تقریر بعد میں خطبہ الہامیہ کے نام سے شائع ہو چکی ہے جس کے ابتدائی اڑ میں (۳۸) صفحے اصل خطبہ کے ہیں اور باقی حصہ آپ نے بعد میں زیادہ کیا ہے اور اس کتاب کے مطالعہ سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ نہ صرف زبان کی فصاحت و بلاغت بلکہ مضامین کی لطافت اور ندرت کے لحاظ سے یہ تقریر ایک فوق العادت شان رکھتی ہے.آپ بعد میں فرماتے تھے کہ اس تقریر کے دوران میں بسا اوقات میرے سامنے غیب کی طرف سے لکھ ہوئے الفاظ پیش کئے جاتے تھے اور میں اپنے آپ کو ایسا خیال کرتا تھا کہ گویا خدا کے طاقتور ہاتھ میں ایک مردہ کی طرح پڑا ہوں اور وہ جس طرح چاہتا ہے میری زبان پر تصرف فرمارہا ہے.ممانعت جہاد کا فتوی: یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود ابتداء دعولی سے ہی اپنے مشن کو ایک امن اور صلح کا مشن خیال کرتے تھے اور کسی خونی مسیح یا خونی مہدی کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی مذہب کے معاملہ میں جبر اور تشدد کو جائز سمجھتے تھے.لیکن اب ۱۹۰۰ء میں آکر آپ نے ایک با قاعدہ فتویٰ کے ذریعہ اس بات ا اعلان فرمایا کہ اگر آنحضرت ﷺ نے اسلام کے لئے تلوار کا جہاد کیا تو لے دیکھور یویو آف ریلیجنز جلد نمبر ۵، ۱۲،۱۱،۹

Page 104

۹۴ آپ اس کے لئے اپنے دشمنوں کی پیش دستی کی وجہ سے مجبور تھے لیکن موجودہ زمانہ میں یہ حالات نہیں ہیں بلکہ ملک میں ایک پر امن اور متظام حکومت قائم ہے.جس نے ہر قسم کی مذہبی آزادی دے رکھی ہے پس آجکل دین کے لئے تلوار نکالنے کا خیال ایک بالکل باطل اور خلاف اسلام خیال ہے اور آپ نے لکھا کہ یہ جو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسیح موعود جزیہ اور جنگ کو موقوف کر دے گا تو اس ابھی یہی مطلب ہے کہ اس کا زمانہ امن کا زمانہ ہو گا اس لئے تلوار کی حاجت نہیں رہے گی اور دلائل اور براہین کے زور سے اسلام کی تبلیغ ہوگی چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.حدیثوں میں پہلے سے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا.سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا.اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے اور غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے...میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں.ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کی ایک راہ نہیں.پس جس راہ پر نادان لوگ اعتراض کر چکے ہیں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ اسی راہ کو پھر اختیار کیا جائے.لہذا مسیح موعود اپنی فوج کو اس ممنوع مقام سے پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیتا ہے.جو بدی کا بدی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے.اپنے تئیں شریر کے حملہ سے بچاؤ مگر خود شریرانہ مقابلہ مت کرو.جماعت کا نام احمدی رکھا جانا:.اب ۱۹۰۱ء کا سال شروع ہونے والا تھا جبکہ ملک میں حکومت کی طرف سے مردم شماری ہونے والی تھی.جماعت کے لئے یہ پہلی مردم شماری تھی اور ضروری تھا کہ جماعت کا کوئی نام مقرر کر دیا جاوے جو اسے دوسرے اسلامی فرقوں سے ممتاز کر دے.اس پر آپ نے ۱۹۰۰ء کے آخر میں ایک اشتہار کے ذریعہ اعلان فرمایا کہ آئندہ آپ کی قائم کردہ جماعت کا نام اشتہار ۲۸ رمئی ۱۹۰۰ ء - مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۰۱ و ۴۰۸ جدید ایڈیشن

Page 105

۹۵ جماعت احمد یہ ہو گا اور یہ کہ اسی نام کے ماتحت مردم شماری میں آپ کے متبعین کا ذکر ہونا چاہئے.چنانچہ اس کے بعد سے آپ کی جماعت ” جماعت احمدیہ اور آپ کے ماننے والے احمدی کہلانے لگے.مگر یہ ایک بہت افسوس اور تکلیف کی بات ہے کہ مخالفین نے اس چھوٹے سے معاملہ میں بھی اپنی بداخلاقی کا ثبوت دیا ہے اور بجائے اس نام کو استعمال کرنے کے جو جماعت نے اپنے لئے پسند کیا ہے وہ انہیں ”مرزائی یا ” قادیانی کے نام سے یاد کرتے ہیں.اس سے ہمارا تو کچھ نہیں بگڑتا مگر یقیناً ان کے اپنے اخلاق پر اچھی روشنی نہیں پڑتی.احمدی نام کی وجہ حضرت مسیح موعود نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن شریف اور احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی دو بعثتیں مقدر تھیں.ایک جلالی بعثت تھی جو خود آپ کے وجود باوجود کے ذریعہ محمد نام کے ماتحت ہوئی اور دوسری جمالی بعثت مقدر تھی جو ایک ظل اور بروز کے ذریعہ احمد نام کے ماتحت ہوئی تھی اور آپ نے لکھا کہ چونکہ یہ ظلّ اور بروز میں ہوں اس لئے میں نے خدا کے منشاء کے ماتحت اپنی جماعت کا نام جماعت احمد یہ رکھا ہے.لے یہ بتایا جا چکا ہے کہ پہلے دن جبکہ حضرت مسیح موعود نے اس وقت تک جماعت احمد یہ لدھیانہ میں سلسلہ بیعت شروع فرمایا تو آپ کے ہاتھ پر کی ترقی اور اس کے اسباب:.چالیس آدمیوں نے بیعت کی تھی.یہ مارچ ۱۸۸۹ء کا واقعہ ہے یہ چالیس اصحاب قریباً سارے کے سارے وہ لوگ تھے جو ایک عرصہ سے آپ کے اثر کے ماتحت آ کر آپ کی صداقت اور روحانی کمال کے قائل ہو چکے تھے.اس کے بعد بیعت کا سلسلہ آہستہ آہستہ جاری رہا حتی کہ ان اصحاب کی فہرست سے جو آپ نے ۱۸۹۶ء کے آخر میں تیار کی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں معروف بیعت کنندگان کی تعدا د۳۱۳ تھی.اس فہرست میں استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر عورتوں اور بچوں کے نام شامل نہیں تھے اور نہ ہی غیر معروف احمدیوں کے نام شامل تھے جنہیں ملا کر اس وقت تک یعنی ۱۸۹۶ء کے آخر تک جماعت احمدیہ کی مجموعی تعداد ڈیڑھ دو ہزار بھی جاسکتی ہے.اشتہار ۴ رنومبر ۱۹۰۰ء شخص از مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۳ ۴۷ جدید ایڈیشن

Page 106

۹۶ یہ زمانہ جماعت کے لئے ایک نہایت سخت زمانہ تھا جسے ایک اونچے اور تیز ڈھال والے پہاڑ کی چڑھائی سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے.بے شک جماعت کی ترقی کا قدم کبھی نہیں رکا لیکن اس خطر ناک مخالفت کے مقابلہ پر جس نے جماعت کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اس کی رفتار اس قدر دھیمی تھی کہ اس کے دشمن ہر آن یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ بس یہ سلسلہ آج بھی مٹا اور کل بھی مٹا.اور خود حضرت مسیح موعود کے لئے بھی یہ ابتدائی زمانہ سخت پریشانی اورگھبراہٹ کا زمانہ تھا اور جماعت کی یہ رینگنے والی چال آپ کی بجلی کی طرح اڑنے والی روح کو بیتاب کر رہی تھی.مگر آپ جانتے تھے کہ ہر نبی کے زمانہ میں یہی ہوا کرتا ہے اور یہ کہ اس سخت امتحان میں سے گزرنے کے بغیر چارہ نہیں اور خود جماعت کی مضبوطی اور اخلاص کی ترقی کے لئے بھی یہ مخالفت ضروری ہے.پس آپ نے ہمت نہیں ہاری اور آپ کی فولادی میخیں آہستہ آہستہ مگر یقینی اور قطعی صورت میں آگے ہی آگے دھستی گئیں حتی کہ اس زمانہ میں جس کا ہم اس وقت ذکر کر رہے ہیں یعنی انیسویں صدی کے انتہاء اور بیسیویں صدی کے آغاز میں جماعت احمدیہ کی تعداد حضرت مسیح موعود کے اپنے اندازے میں تمیں ہزار کے قریب پہنچ چکی تھی.یہ تعداد جماعت کی ابتداء کے لحاظ سے کافی بڑی تعداد تھی مگر اس کے انتہاء اور اس کی غرض و غایت کے لحاظ سے اتنی بھی نہیں تھی جسے آٹے میں نمک کہا جا سکے اور ابھی آپ کا کام ایک فلک بوس پہاڑ کی طرح آپ کے سامنے کھڑا تھا.یہ درست ہے کہ نبی کا کام صرف تخم ریزی کرنا ہوتا ہے مگر تخم ریزی کا کام بھی کچھ وقت لیتا ہے اور پھر کونسا با غبان یہ خواہش نہیں رکھتا کہ وہ اپنی تخم ریزی کا تھوڑا سا شمرہ خود اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لے.بے شک نبی کا کام نفسانیت پر مبنی نہیں ہوتا اور وہ اپنے بعد میں آنیوالی ترقیوں کو بھی اسی نظر سے دیکھتا ہے جس طرح وہ اپنے وقت کی ترقیوں کو دیکھتا ہے مگر پھر بھی وہ انسان ہوتا ہے اور اس کا دل ان جذبات سے خالی نہیں ہوتا کہ ان ترقیوں کی تھوڑی سی جھلک اسے بھی نظر آ جاوے.یقینا وہ مٹی میں چھپے ہوئے بیج کو بھی ایک درخت کی صورت میں دیکھتا ہے مگر اس کے بشری جذبات کا دل اس خواہش سے بالا نہیں ہوتا کہ میں کم از کم اس بیج کومٹی سے باہر نکلتا ہوا

Page 107

۹۷ تو دیکھ لوں یہ وہ جذبات تھے جو ان دنوں میں حضرت مسیح موعود کے دل و دماغ پر غلبہ پائے ہوئے تھے اور اس تیز روسوار کی طرح جس کے گھوڑے کے پاؤں میں زنجیریں پڑی ہوئی ہوں آپ ان زنجیروں کو تو ڑ کر ہوا ہو جانے کے لئے بے چین ہورہے تھے.خدا نے اپنے فضل سے آپ کو اس دن کی تھوڑی سی روشنی دکھا بھی دی کہ جب آپ کی تیار کردہ جماعت اڑنے کے قابل تو نہیں مگر تیز رفتاری سے چلنے کے قابل ہو گئی.لیکن ان حالات کے بیان کے لئے اگلے اوراق ہیں جن کے لئے ہمیں جلدی کی ضرورت نہیں.اس وقت تک جو جماعت کی ترقی ہوئی اس کے اسباب مختلف تھے جن میں سے ہم بعض کو اس جگہ اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں:.اول ایک بہت بڑا نہایت مؤثر سبب خود حضرت مسیح موعود کی ذات تھی.آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا مقناطیسی وجود عطا کیا تھا کہ وہ اپنے ساتھ مناسبت رکھنے والی روح کو فوراً اپنی طرف کھینچ لیتا تھا اور یہ بات حضرت مسیح موعود کے ساتھ ہی خاص نہیں تھی بلکہ ہر نبی کی کامیابی کا ایک بڑا ذریعہ اس کا ذاتی اثر ہوتا ہے.بے شک یہ درست ہے کہ یہ ذاتی اثر کسی نبی میں کم ہوتا ہے اور کسی میں زیادہ.مگر حضرت مسیح موعود کے وجود میں یہ اثر آپ کے متبوع حضرت محمد ﷺ کی طرح اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا.آنحضرت ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمد برہان محمد هست و یعنی اے حق کے متلاشی انسان ! اگر تو محمد ﷺ کی صداقت کی دلیل چاہتا ہے تو آپ کا عاشق بن جا کیونکہ محمد ﷺ کی سب سے بڑی دلیل خود محمد ﷺ کا اپنا وجود ہے.“ یہی دلیل اسی صداقت اور اسی زور کے ساتھ حضرت مسیح موعود پر بھی چسپاں ہوتی ہے.سینکڑوں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے صرف حضرت مسیح موعود کا چہرہ دیکھ کر بغیر کسی دلیل کے آپ کو مان لیا اور ان کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے کہ یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہوسکتا.سینکڑوں ہزاروں ایسے ہیں جو چند دن کی صحبت میں رہ کر

Page 108

۹۸ ہمیشہ کے لئے رام ہو گئے اور پھر انہوں نے آپ کی غلامی کو سب فخروں سے بڑا فخر جانا.غرض آپ کی کامیابی کا ایک بڑا سبب آپ کی ذات اور آپ کا اخلاقی اور روحانی اثر تھا.یہ درست ہے کہ بعض لوگوں نے باوجود آپ کے ساتھ ملنے اور آپ کی مجلس میں آنے جانے کے آپ کو نہیں مانا لیکن یہ آپ کا قصور نہیں بلکہ خودان لوگوں کا اپنا قصور تھا.کیونکہ ایک بڑے سے بڑا مقناطیس بھی مٹی کے ڈھیلے کو نہیں کھینچ سکتا اور ایسے سفلی لوگوں کا وجود ہر نبی کے زمانہ میں پایا جاتارہا ہے جس کی وجہ سے ان کی مقناطیسی طاقت کم نہیں سمجھی جاسکتی حضرت مسیح موعود کو اپنی اس خدا داد طاقت کا خود بھی احساس تھا چنانچہ آپ اپنے مخالفوں کو اکثر کہا کرتے تھے کہ چند دن مخالفت چھوڑ کر میری صحبت میں آکر رہو اور پھر میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے خود کوئی رستہ کھول دے گا.بعض لوگوں نے آپ کے اس روحانی اثر کو حرا اور جادو کے نام سے تعبیر کیا اور مشہور کیا کہ مرزا صاحب کے پاس کوئی نہ جائے کیونکہ وہ جادو کر دیتے ہیں.مگر یہ جادو نہیں تھا بلکہ آپ کی روحانیت کی زبردست کشش تھی جو سعید لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی اور روحانی اثر کے علاوہ آپ کے اخلاق بھی ایسے اعلیٰ اور ارفع تھے کہ ہر شخص جس کو آپ کے ساتھ واسطہ پڑتا تھاوہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا.دوسرا بڑا سبب وہ نشانات اور معجزات تھے جو آپ کو خدا تعالیٰ نے عطا کئے تھے جن کا مجموعی اثر بھی ایک مقناطیسی طاقت سے کم نہیں تھا اور آپ کے نشانات چند قسم پر منقسم تھے.(الف) نشانات کی پہلی قسم وہ پیشگوئیاں تھیں جو آپ خدا سے علم پا کر کرتے تھے جن میں دوستوں اور دشمنوں اور افراد اور قوموں سب کے متعلق آئندہ کی خبریں ہوتی تھیں جو اپنے وقت پر پوری ہو کر لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرتی تھیں اور آپ کی پیشگوئیوں میں علم اور قدرت ہر دوکا اظہار ہوتا تھا.کیونکہ یہی وہ دوستون ہیں جن پر خدا کی حکومت قائم ہے.مگر پیشگوئیوں کے معاملہ میں آپ یہ تشریح فرمایا کرتے تھے کہ ان سے بالعموم ایسی صورت پیدا نہیں ہوتی جسے دن کی تیز روشنی سے شیہہ دے سکیں.کیونکہ اگر ایسا ہو تو ایمان کا کوئی فائدہ نہیں رہتا اور نہ کوئی شخص ثواب کا مستحق بن سکتا

Page 109

۹۹ ہے پس آپ فرماتے تھے کہ منجزات سے صرف اس حد تک روشنی پیدا ہوتی ہے جسے بادلوں والی چاندنی رات کی روشنی سے تشبیہہ دے سکتے ہیں.کیونکہ اگر ایسا ہو تو ایمان کا کوئی فائدہ نہیں رہتا اور نہ کوئی شخص ثواب کا مستحق بن سکتا ہے پس آپ فرماتے تھے کہ مجزات سے صرف اس حد تک روشنی پیدا ہوتی ہے جسے بادلوں والی چاندنی رات کی روشنی سے تشبیہہ دے سکتے ہیں جس میں دیکھنے والے تو رستہ دیکھ لیتے ہیں مگر کمزور نظر والوں کے لئے شبہ کی بھی گنجائش رہتی ہے.آپ کی جماعت کے ہزاروں لوگوں نے پیشگوئیوں کا نشان دیکھ کر آپ کو قبول کیا.(ب) نشانات کی دوسری قسم قبولیت دعا کے نمونے ہیں.آپ کو یہ دعویٰ تھا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اس لئے وہ آپ کی دعاؤں کو خاص طور پر سنتا ہے اور انہیں قبولیت کا مرتبہ عطا کرتا ہے مگر آپ نے یہ تشریح فرمائی کہ دعاؤں کی قبولیت سے یہ مراد نہیں کہ ہر دعا ہر حال میں سنی جاتی ہے.بلکہ اس معاملہ میں بندے کے ساتھ خدا کا سلوک دوستانہ رنگ رکھتا ہے کہ وہ اکثر دعائیں سنتا اور مانتا ہے لیکن بعض اوقات اپنی بھی منواتا ہے اور اس بات کا امتحان کرنا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس کی بات کو کہاں تک خوشی اور انشراح کے ساتھ قبول کرتا ہے.بہر حال بہت سے لوگوں نے حضرت مسیح موعود کو دعاؤں کی قبولیت کے نشان سے شناخت کیا.کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ لوگ کسی مصیبت یا تکلیف کے وقت میں آپ کو دعا کے لئے لکھتے تھے اور بظاہر حالات کامیابی محال نظر آتی تھی مگر آپ کی دعا سے خدا کامیابی عطا فرما تا تھا.یا آپ کی بد دعا سے دشمنوں کو ہلاک کرتا تھا.(ج) نشانات کی تیسری قسم خدائی نصرت ہے جو مجموعی طور پر ہر ایک صادق کے حق میں کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے.اس دلیل سے بھی بہت سے لوگوں نے آپ کو مانا کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ یہ ایک اکیلا شخص اٹھا ہے جو بالکل بے سروسامان ہے اور سارا ملک اس کے خلاف ہے مگر پھر بھی خدا ہر میدان میں اسے کامیابی عطا کرتا ہے اور اس کے مخالف باوجود ہر قسم کے سازوسامان سے

Page 110

آراستہ ہونے کے اور باوجود اپنی کثرت کے اس کے سامنے ذلیل اور مغلوب ہوتے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.کبھی نصرت نہیں ملتی در مولی سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو (د) نشانات کی چوتھی قسم وہ خواہیں وغیرہ تھیں جو دوسرے لوگوں کو آپ کی صداقت کے متعلق آئیں اور اس ذریعہ سے بھی ہزاروں لوگوں نے آپ کو مانا.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں بڑی کثرت کے ساتھ لوگوں کو اس قسم کی خوا ہیں آتی تھیں یا بعض اوقات الہام بھی ہوتا تھا جن میں یہ بتایا جاتا تھا کہ آپ بچے اور خدا کی طرف سے ہیں حتی کہ بعض خوابیں مخالفوں کو بھی آئیں جن میں سے بعض نے تو اپنی مخالفت کو ترک کر کے غلامی اختیار کر لی مگر بعض خوابوں کی تاویل کر کے مخالفت پر جمے رہے.تیسرا بڑا سبب آپ کی کامیابی کا وہ دلائل اور براہین تھے جو آپ نے اپنی صداقت میں پیش کئے جو منقولی اور معقولی دونوں رنگ کے تھے.یہ دلائل ایسے زبر دست تھے کہ کوئی غیر متعصب عظمند انسان ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.آپ نے قرآن سے ،حدیث سے ، دوسرے مذاہب کے اقوال سے ، تاریخ سے اور عقل خدا داد سے اپنی تائید میں دلائل کی ایسی عمارت کھڑی کر دی کہ لوگ اسے دیکھ دیکھ کر مرعوب ہوتے تھے اور جواب کی طاقت نہیں رکھتے تھے.بے شک آپ کے مقابل پر آپ کے مخالفین بھی خاموش نہیں تھے اور وہ بھی اپنی طرف سے بعض کمزور حدیثیں یا بعض ذو معنین اور متشابہ قرآنی آیات پیش کرتے تھے اور سلف صالح کے اقوال کا ایک حصہ بھی ان کے ہاتھ میں تھا مگر اس ریت کے تو وہ کو حضرت مسیح موعود کے قلعہ سے کوئی نسبت نہیں تھی اور عقلمند لوگ اس فرق کو دیکھتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے تھے.چوتھا بڑا سبب وہ دلکش اور خوبصورت تصویر تھی جو حضرت مسیح موعود نے اسلام کی پیش فرمائی جو ہر سمجھدار شخص کے دل کو مسخر کرتی تھی اور اس کے مقابل پر اسلام کا جونقشہ غیر احمدی علماء پیش کرتے

Page 111

1+1 تھے وہ اپنے اندر کوئی خاص کشش نہیں رکھتا تھا.آپ نے نہ صرف اسلام کے چہرہ سے اس کی صدیوں کی میل کو دھو یا بلکہ قرآن شریف سے وہ وہ معارف نکال کر دنیا کے سامنے پیش کئے کہ دشمن بھی پکار اٹھا کہ اسلام کی یہ تصویر نہایت خوبصورت اور دلکش ہے اور اس صورت حال نے لا ز ما لوگوں کو آپ کی طرف کھینچا.پانچواں بڑا سبب آپ کا وہ جہاد تھا جو آپ اسلام کی خدمت میں دن رات کر رہے تھے.آپ کی یہ والہانہ خدمت بڑے سے بڑے دشمن کی زبان سے بھی یہ الفاظ نکلواتی تھی کہ یہ شخص اسلام کا بے نظیر فدائی اور اس کا عاشق زار ہے جسے دن رات اسلام کی خدمت کے سوا کوئی خیال نہیں.اس حالت کو دیکھ کر مجھدار لوگ ایک گہرے فکر میں پڑ جاتے تھے کہ ایک طرف تو مرزا صاحب علماء کی نظر میں کافر اور بے دین ہیں اور دوسری طرف انہیں اسلام کا اس قدر درد ہے کہ بے دین کہنے والے تو پڑے سوتے ہیں مگر مرزا صاحب ہر قسم کے آرام کو اپنے اوپر حرام کر کے اسلام کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں.اس پر جولوگ سعید الفطرت تھے وہ مجبور ہو کر آپ کی طرف کھچے آتے تھے.چھٹا بڑا سبب وہ نیک اثر تھا جو آپ نے اپنی جماعت میں پیدا کیا جس کی وجہ سے آپ کا ہر متبع خدمت دین کا متوالا ہورہا تھا.لوگ دیکھتے تھے کہ پہلے ایک انسان بے دین اور اسلامی تعلیم سے ٹھٹھا اور ہنسی کرنے والا ہوتا ہے لیکن جو نہی کہ وہ آپ کی جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ ایک دیندار.خدا سے ڈرنے والا.اسلام سے محبت کرنے والا.اسلام کی تعلیم پر دلی شوق سے عمل کرنے والا اور اسلام کی خدمت میں اپنی روح کی غذا پانے والا بن جاتا ہے.اس نظارے کو دیکھ کر ان کے دل کہتے تھے کہ یہ پاک پھل ایک گندے درخت سے پیدا نہیں ہوسکتا.سہ وہ اسباب تھے جو آپ کی تائید میں کام کر رہے تھے مگر مخالف بھی خالی ہاتھ نہیں تھا کیونکہ شیطان نے اس کے ہاتھ میں بھی کچھ گولہ بارود دے رکھا تھا.چنانچہ مخالفت کے موٹے موٹے اسباب یہ تھے.

Page 112

۱۰۲ (۱) حضرت مسیح موعود کے بہت سے عقائد اور خیالات موجود الوقت مسلمانوں کے معروف عقائد کے خلاف تھے.مثلاً مسیح کی وفات کا عقیدہ.اصل مسیح ناصری کی بجائے کسی مثیل مسیح کا نزول.مسیح اور مہدی کا ایک ہی ہونا.خونی اور جنگی مہدی سے انکار.جہاد بالسیف کی ممانعت.ملا ئکتہ اللہ کے نزول کی تشریح.دجال کی تشریح وغیرہ وغیرہ.ان اختلافات کی وجہ سے عوام آپ کو اسلام سے منحرف اور دین میں ایک نئی راہ نکالنے والا خیال کرتے تھے اور آپ کی باتوں پر کان دھرنے کے لئے تیار نہیں تھے.(۲) مسلمان علماء کا یہ فتویٰ کہ آپ کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور آپ سے کسی قسم کا تعلق رکھنا جائز نہیں عوام کے رستے میں ایک بھاری روک تھی.(۳) آپ کی بعض پیشگوئیوں میں وہ بادل کا ساسا یہ جوخدا کی طرف سے ایک ابتلا اور آزمائش کے طور پر رکھا جاتا ہے اور پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے معیار میں اختلاف جو آپ کے اور آپ کے مخالف علماء میں پایا جاتا تھا وہ بھی عوام الناس کے لئے ایک روک تھا.یعنی آپ یہ فرماتے تھے کہ چونکہ خدا کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اس لئے تو بہ اور استغفار سے عذاب ٹل جاتا ہے اور اسی لئے وعید کی پیشگوئیاں بعض اوقات جبکہ دوسرا فریق خائف ہوکر دب جاوے ٹل جایا کرتی ہیں اور آپ دوسرے نبیوں کے حالات میں ان کی مثالیں بھی دیتے تھے مگر آپ کے مخالف یہ کہتے تھے کہ نہیں بلکہ وعدہ ہو یا وعید جو بھی کسی پیشگوئی کے الفاظ ہوں وہ بہر حال اپنی ظاہری صورت میں پورے ہونے چاہئیں.(۴) آپ کو ماننے سے ایک تلخی اور قربانی کی زندگی اختیار کرنی پڑتی تھی جس کے لئے اس زمانہ کے مسلمان اور دوسرے لوگ تیار نہیں تھے.(۵) وہ قدرتی تعصب جو ہر نئے سلسلہ کے متعلق ہوا کرتا ہے وہ آپ کے سلسلہ کے متعلق بھی کام کر رہا تھا.ان اسباب کی وجہ سے آپ کی جماعت کی رفتار ترقی ابتداء میں دھیمی تھی اور ایک رسہ کشی کی سی کیفیت پیدا ہو رہی تھی.مگر پھر بھی باوجود خطرناک مخالفت کے آپ کی جماعت آہستہ آہستہ

Page 113

۱۰۳ قدم بقدم ( مگر اس طرح کہ ہر اگلا قدم پچھلے قدم کی نسبت کسی قدر تیز اٹھتا تھا ) کامیابی کی چوٹی کی طرف چڑھتی چلی جا رہی تھی.یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ مخالفت کی طاقتیں جماعت احمدیہ کو زور کے ساتھ نیچے کھینچ رہی تھیں.خدائی ابتلاؤں کے بادل بھی ان پر بعض اوقات اندھیرا کر دیتے تھے اور گا ہے گا ہے ان کی اپنی کمزوریوں سے بھی ان کا سانس پھولنے لگتا تھا.مگر انچ انچ.چپہ چپہ.بالشت بالشت.ان کا قدم اوپر اٹھتا جارہا تھا.اور جس طرح آنحضرت ﷺ کا دل بدر کی جنگ میں جو اسلام اور کفر کی موت وحیات کی جنگ تھی آپ کے سینہ میں اچھلتا اور گرتا تھا اور آپ بے چین ہو ہو کر یہ دعا کر رہے تھے کہ ”اے میرے آقا اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت اس میدان میں ہلاک ہوگئی تو پھر دنیا کے پردے پر تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا.اسی طرح اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کا دل انتہائی اضطراب اور کرب میں خدا کی رحمت کے ہاتھ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ کب آپ کی طرف لمبا ہوتا ہے.اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اس وقت تک جماعت احمدیہ کی تعداد قریباً تمیں ہزار تک پہنچ چکی تھی اور یہ تعداد صرف پنجاب تک محدود نہیں تھی بلکہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں پائی جاتی تھی مثلاً صوبہ سرحد، کشمیر، یوپی بمبئی ، حیدر آباد دکن ، مدراس ، بہار، بنگال وغیرہ میں جماعت قائم ہو چکی تھی اور ہندوستان سے باہر بھی مشرقی افریقہ میں احمدیت کا خمیر پہنچ چکا تھا اور خال خال احمدی عرب وغیرہ ممالک میں بھی پائے جاتے تھے اور اس اشاعت کا باعث بیشتر طور پر حضرت مسیح موعود کی تصنیفات تھیں اور دوسرے درجہ پر آپ کے مخلصین کی تبلیغی کوششیں بھی اس میں محمد ہوئی تھیں جن میں سے ہر فرد ایک پر جوش مبلغ تھا.مقدمہ دیوار اور ہرم دیوار : حضرت مسیح موعود کے خلاف جو مخالفت کا طوفان برپا تھا اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ کے مخالفین نے آپ کے بعض رشتہ داروں کو اکسا کر انہیں بھی مخالفت میں کھڑا کر دیا تھا.یہ لوگ بوجہ اپنی بے دینی اور بداخلاقی کے ویسے بھی حضرت مسیح موعود کے مخالف تھے لیکن مخالفوں نے انہیں اکسا اکسا کر اور بھی زیادہ تیز کر دیا تھا.ان میں سے دو آدمی یعنی مرزا امام الدین

Page 114

۱۰۴ اور مرز انظام الدین صاحبان ایذا رسانی میں خاص طور پر بڑھے ہوئے تھے.یہ دونوں حقیقی بھائی تھے اور حضرت مسیح موعود کے چچا کے لڑکے تھے مگر باوجود اس قرابت کے ان کے دلوں میں حضرت مسیح موعود کے چچا کے لڑکے تھے مگر باوجود اس قرابت کے ان کے دلوں میں حضرت مسیح موعود کی دشمنی کی آگ شعلہ زن تھی اور وہ کوئی موقعہ آپ کو دکھ پہنچانے کا ضائع نہیں جانے دیتے تھے اور چونکہ ان کا مکان حضرت مسیح موعود کے مکان کے ساتھ ملحق تھا اور ویسے بھی انہیں قادیان میں حقوق ملکیت حاصل تھے اس لئے ان کا وجود گویا ایک مار آستین کا رنگ رکھتا تھا.حضرت مسیح موعود نے انہیں کبھی تکلیف نہیں دی بلکہ ہمیشہ احسان اور مروت کا سلوک کیا مگر باوجود اس کے ان کی مخالفت دن بدن بڑھتی ہی گئی.بالآ خر ۱۹۰۰ء میں انہوں نے حضرت مسیح موعود اور آپ کے متبعین کو تنگ کرنے کی یہ تدبیر نکالی کہ سراسر ظلم اور سینہ زوری کے ساتھ اس رستہ کو دیوار کھینچ کر بند کر دیا جو حضرت مسیح موعود کے مہمان خانہ اور آپ کے گھر اور مسجد کو ملاتا تھا.اس شرارت نے قادیان کے غریب احمدی مہاجرین پر ان کا عرصہ عافیت تنگ کر دیا کیونکہ اب انہیں مسجد میں آنے اور حضرت مسیح موعود سے ملنے کے لئے قصبہ کے اندر ایک بڑا چکر کاٹ کر پہنچنا پڑتا تھا اور ایسے حصوں میں سے گزرنا پڑتا تھا جو سلسلہ کے اشد معاندین سے آباد تھا.آخر مجبور ہو کر حضرت مسیح موعود کو قانونی چارہ جوئی کرنی پڑی.اور آپ کی زندگی میں یہی ایک منفرد مثال ہے کہ جب آپ کسی کے خلاف مدعی بنے.آپ اب بھی اس پوزیشن میں نہیں آنا چاہتے تھے مگر وکلاء کا یہ مشورہ تھا کہ چونکہ یہ رستہ خاندان کا پرائیویٹ رستہ ہے اس لئے آپ کے سوا کسی اور شخص کو قانونی چارہ جوئی کا حق نہیں پہنچتا.اس لئے مجبورا آپ کو مدعی بننا پڑا.آخر ایک لمبے مقدمہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو فتح دی اور عدالت کے حکم سے یہ دیوار گرادی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کامیابی پر خدا کا شکر ادا کیا اور خاموش ہو گئے.اور آپ کو اس بات کا خیال بھی نہیں آیا کہ دوسرے فریقی پر خرچہ بھی پڑا ہے.لیکن آپ کے وکیل نے

Page 115

۱۰۵ آپ کی اطلاع کے بغیر خرچہ کی ڈگری لے کر اس کا اجراء کرا دیا.جب اس روپے کی وصولی کے لئے سرکاری آدمی قادیان میں پہنچا تو اتفاق سے اس وقت حضرت مسیح موعود قادیان سے غیر حاضر تھے اور گورداسپور گئے ہوئے تھے.آپ کی غیر حاضری میں ہی سرکاری آدمی نے مرزا صاحبان مذکور سے خرچہ کا مطالبہ کیا اور چونکہ ان کے پاس اس وقت اس قدر رقم موجود نہیں تھی اس لئے وہ ضابطہ کے مطابق قرقی کی کارروائی کرنے پر مجبور ہوا.اس پر ان لوگوں نے راتوں رات ایک آدمی کو اپنا ایک خط دے کر گورداسپور بھجوایا اور حضرت مسیح موعود سے استدعا کی کہ ہمیں اس ذلت سے بچایا جاوے.حضرت مسیح موعود کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ اپنے آدمیوں پر خفا ہوئے کہ خرچہ کی ڈگری کا اجراء کیوں کرایا گیا ہے اور نہ صرف خرچہ کی رقم معاف کر دی بلکہ معذرت بھی کی کہ میری لاعلمی میں یہ تکلیف پہنچی ہے.یہ مقدمہ ۱۹۰۰ء میں شروع ہوا تھا اور ا۱۹۰ء میں اس کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی.پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی مخالفت اس وقت تک حضرت مسیح موعود کی عملی مخالفت زیادہ تر علماء کی طرف سے تھی اور گوسجادہ نشینوں اور دولطیف کتابوں کی تصنیف:.اور پیروں کا طبقہ بھی مخالف تھا.مگر ابھی تک ان کی مخالفت نے کوئی عملی صورت اختیار نہیں کی تھی لیکن اس زمانہ میں جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس طبقہ کا ایک نامور نمائندہ بھی آپ کے خلاف میدان میں آیا اور آپ کے مقابلہ میں طاقت آزمائی کرنی چاہی.یہ صاحب گولڑہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور پیر تھے جن کا نام مہر علی شاہ تھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود کے خلاف دو کتابیں لکھ کر شائع کیں جن میں بہت کچھ لاف زنی کے علاوہ حضرت مسیح موعود کے لاف ناگوار حملے بھی کئے اور آپ کو اپنے مقابلہ کے لئے دعوت دی.حضرت مسیح موعود نے اس خیال سے کہ یہ صاحب ایک نئے طبقہ کے آدمی ہیں اور ممکن ہے کہ سجادہ نشینوں میں ہل چل ہونے سے پیروں کے ماننے والے لوگوں میں کوئی مفید حرکت پیدا ہو جائے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور گولڑوی صاحب کے جواب میں دوز بر دست کرتا ہیں لکھ کر شائع فرما ئیں.ایک کا نام ” تحفہ گولڑویہ

Page 116

1+7 تھا جس میں آپ نے قرآن وحدیث سے اپنے دعاوی مسیحیت اور مہدویت کو ثابت کیا اور اپنے تائید میں ایسے زبردست دلائل دیئے کہ جن سے مخالفین کے دانت کھٹے کر دیئے.یہ کتاب آپ کے دعاوی کے دلائل کے لحاظ سے غالباً سب سے زیادہ جامع ہے.دوسری کتاب جو آپ نے پیر گولڑوی صاحب کے مقابلہ میں لکھ کر شائع فرمائی اس کا نام اعجاز ای “ تھا.اس کتاب میں آپ نے عربی زبان میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھی جو نہ صرف زبان کے لحاظ سے بلکہ اپنی معنوی لطافت کے لحاظ سے بھی نہایت بلند پایہ رکھتی ہے.آپ نے اس کتاب کے لکھنے سے پہلے ۱۵/ دسمبر ۱۹۰۰ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ اس بات کا اعلان فرمایا کہ پیر صاحب کو قرآن شریف کے علم کا دعویٰ ہے اور وہ اپنے آپ کو روحانی امام و مقتداء بھی سمجھتے ہیں اگر ان میں ہمت ہے تو میرے سامنے آ کر تفسیر نویسی میں مقابلہ کر لیں تا کہ دنیا کو پتہ لگ جائے کہ کس کا دعوی حق و صداقت پر مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کس کے ساتھ ہے اور آپ نے اس کے لئے ستر دن کی میعاد مقرر فرمائی یعنی لکھا کہ میں بھی ستر دن کے اندر ایک تغییر عربی زبان میں لکھ کر شائع کرتا ہوں اور پیر صاحب بھی شائع کریں اور پھر دیکھا جائے کہ غلبہ کس کو حاصل ہوتا ہے اور آپ نے پیر صاحب کو یہ بھی اجازت دی کہ وہ اگر چاہیں تو ملک کے دوسرے پیروں اور مولویوں سے بھی مدد لے سکتے ہیں.اس کے بعد آپ نے تو مقررہ میعاد کے اندراندر یعنی ۲۵ فروری ۱۹۰۱ء سے قبل سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھ کر شائع فرما دی حالانکہ اس عرصہ میں آپ قریباً ایک ماہ تک علیل بھی رہے مگر پیر صاحب اور ان کے رفقاء ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے اور جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے حضرت مسیح موعود کی یہ تفسیر نہ صرف زبان کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ درجہ رکھتی ہے بلکہ معارف اور علوم قرآنی کا بھی ایک عظیم الشان خزانہ ہے جو صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے.اس کتاب کی خوبی کا اندازہ اس سے بھی ہوسکتا ہے کہ جب یہ کتاب شائع ہوئی تو مصر کے دو مشہور اخباروں یعنی ” مناظر اور الهلال“ نے اس کی زبان کی بہت تعریف کی اور ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھا کہ یہ واقعی ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی نظیر لانی مشکل ہے.لے دیکھو تبلیغ رسالت جلد دہم اشتہار مورخہ ۱۸ار نومبر ۱۹۰۱ صفحه ۲۷.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفر ۵۳۴ جدید ایڈیشن

Page 117

ظلی نبوت کا دعویٰ اور ختم نبوت کی تشریح:.اب ہم بیسوی صدی میں داخل ہو چکے ہیں اور ۱۹۰۱ء کا ابتداء اپنے ساتھ تازہ نشانوں کی روشنی کو لایا ہے چنانچہ رسالہ 'اعجاز مسیح “ کی معجزانہ تصنیف 66 جس کا اوپر ذکر گزر چکا ہے وہ اسی سال کے ابتدائی ایام میں انجام پذیر ہوئی تھی.اسی سال میں حضرت مسیح موعود نے ایک لمبے اشتہار کے ذریعہ جس کا نام ” ایک غلطی کا ازالہ ہے اس بات کا بھی اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آنحضرت ﷺ کی اتباع میں اور آپ کے روحانی فیض کی برکت سے ظلی اور بروزی رنگ میں نبوت کا مرتبہ عطا فرمایا ہے.نبوت اور رسالت کا دعویٰ آپ کی کتب میں پہلے بھی آپ کا تھا اور آپ کے بہت سے الہاموں میں بھی آپ کے متعلق یہ الفاظ وارد ہو چکے تھے مگر مسلمانوں کے اس معروف عقیدہ کے ماتحت کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا آپ ان الفاظ کی تاویل فرما دیا کرتے تھے اور خیال فرماتے تھے کہ یہ الفاظ حقیقت پر محمول نہیں ہیں بلکہ محض جزوی مشابہت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں استعمال کیا ہے.لیکن جب خدائی الہامات میں یہ الفاظ زیادہ کثرت کے ساتھ استعمال ہونے لگے اور آپ نے اس بارے میں توجہ فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ بات ظاہر کی کہ نبوت کا دروازہ من کل الوجوہ بند نہیں ہے بلکہ ختم نبوت کے صرف یہ معنے ہیں کہ آنحضرت لے کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرنے والا ہو یا آپ کے فیض نبوت سے آزاد ہو کر مستقل حیثیت میں نبوت کا مدعی بنے اور آپ نے تشریح فرمائی کہ آنحضرت ﷺ نے جو اس قسم کے الفاظ فرمائے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں یا یہ کہ میں آخری نبی ہوں ان سے یہی مراد ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شاگردی اور میری غلامی سے آزاد ہو.یہ انکشاف آپ پر آہستہ آہستہ ہوا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جہاں آپ اوائل میں ہمیشہ اپنے متعلق نبی اور رسول کے الفاظ کی تاویل فرماتے تھے اور ان الفاظ کو اپنے لئے استعمال نہیں کرتے تھے وہاں آپ نے ۱۹۰۱ء میں اور اس کے بعد ان الفاظ کو نہ صرف اپنے لئے خود استعمال کیا بلکہ جب آپ

Page 118

۱۰۸ کو یہ اطلاع ملی کہ آپ کے ایک مرید نے آپ کے متعلق بیان کیا ہے کہ آپ کو نبوت کا دعویٰ نہیں ہے تو آپ نے اسے تنبیہ فرمائی اور اس کی غلطی کے ازالہ کے لئے ایک اشتہار لکھ کر شائع کیا جس میں تصریح کے ساتھ لکھا کہ مجھے صرف شریعت والی نبوت یا اپنی ذات میں مستقل نبوت سے انکار ہے ورنہ خالی اور بروزی نبوت سے انکار نہیں ہے اور میں اس بات کا مدعی ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے فیض سے اور آپ کی اتباع میں مجھے خدا نے بروزی رنگ میں نبوت کا مرتبہ عطا فرمایا ہے.چنانچہ آپ نے اپنے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں ۱۹۰۱ء میں لکھا کہ :.چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا.حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے.حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں.نہ ایک دفعہ بلکہ صد ہا دفعہ.پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں.بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں.اگر یہ کہا جائے ہیں..کہ آنحضرت ﷺ تو خاتم النبین ہیں.پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آسکتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ بے شک اس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پرانا نہیں آسکتا جس طرح آپ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اتارتے ہیں نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر بلی طور پر وہی بہوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے.اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ

Page 119

1+9 اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے.میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے نہ میرے نفس کے رو سے.اور یہ نام بحیثیت فنافی الرسول مجھے ملا.الہذا خاتم النبین کے مفہوم میں فرق نہ آیا..یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی ہے.اس واسطہ کو حوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسٹمی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں.‘1 اس کے بعد آپ نے اپنی تحریرات میں اپنے اس دعوی کے متعلق مزید تصریحات بھی فرما ئیں مثلاً اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں آپ فرماتے ہیں:.صلى الله اس امت میں آنحضرت ﷺ کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی..میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے.خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جز کی فضیلت قرار دیتا تھا.مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور دوسرے پہلو سے امتی.اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ا تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۱۳ تا ۱۹.اشتہار ایک غلطی کا ازالہ مورخہ ۵ /نومبر ۱۹۰۱ء

Page 120

11 + ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزرچکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی 1 ان حوالہ جات اور اسی قسم کے بہت سے دوسرے حوالہ جات سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں.اول یہ کہ گواوائل میں حضرت مسیح موعودا اپنے متعلق نبوت اور رسالت کی تاویل فرماتے تھے مگر بعد میں جب خدا نے آپ پر حق کھول دیا تو آپ نے کھلے طور پر رسالت اور نبوت کا دعویٰ کیا.دوم یہ کہ آپ کا یہ دعوی آنحضرت ﷺ اور اسلام سے آزاد ہو کر نہیں تھا بلکہ آنحضرت ﷺ کی شاگردی اور غلامی میں ہو کر اور اسلام کی متابعت میں بروزی صورت میں دعوئی تھا.اور اس دعویٰ کو آپ آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کے خلاف نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی نبوت کو آنحضرت ﷺ کی نبوت کا حصہ اور ظل قرار دیتے تھے.مجھے اس امر میں زیادہ تشریح کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے که غیر تو خیر اعتراض کرتے ہی تھے بد قسمتی سے احمدی کہلانے والوں میں سے بھی ایک حصہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو حضرت مسیح موعود کی ابتدائی تاویلات کی بناء پر آپ کے دعوی نبوت کا منکر ہے اور غیر احمدیوں کی طرح اسے آیت خاتم النبین کے خلاف سمجھتا ہے.حالانکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے بار بار تشریح فرمائی ہے جس قسم کی نبوت کے آپ مدعی ہیں یعنی ظلی اور بروزی نبوت وہ ہرگز ہرگز آیت خاتم النبیین کے خلاف نہیں.میں اپنے غیر احمدی ناظرین کے لئے اس جگہ یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ خیال کرنا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلنے سے آنحضرت ﷺ کی ہتک لازم آتی ہے ایک نہایت ہی بودا اور سطحی خیال ہے اور یہ خیال صرف انہی لوگوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے جنہوں حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰ حاشیه صفحه ۵۰۳ - صفه ۱۵۴ حاشیه، صفحہ ۱۵۴۷۱۵۳.اور صفحہ ۴۰۶ ، ۴۰۷.

Page 121

= نے اس معاملہ میں قطعاً کوئی غور نہیں کیا اور محض سنی سنائی باتوں پر فتویٰ لگا دیا ہے.ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ہتک صرف اس صورت میں سمجھی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص آپ کی لائی ہوئی شریعت کو منسوخ کرے یا آپ سے آزاد ہو کر مستقل نبوت کا مدعی بنے.مگر یہاں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں.بلکہ یہاں تو صرف یہ دعوی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی شریعت کی ماتحتی میں اور آپ کی شاگردی اور غلامی کے جوئے کے نیچے ہو کر خدا نے نبوت کا مرتبہ عطا کیا ہے اور ایک ادنی عقل کا آدمی بھی خیال کر سکتا ہے کہ یہ صورت آنحضرت ﷺ کی عزت اور آپ کے مقام کو بڑھانے والی ہے نہ کہ کم کرنے والی.نبوت کیا ہے؟ نبوت ایک اعلیٰ روحانی مقام ہے جس میں خدا اپنے بندے کے ساتھ بکثرت کلام فرما تا اور اسے آئندہ کی خبروں سے اطلاع دیتا اور دنیا کی طرف اسے رسول بنا کر بھیجتا ہے.اب غور کرو کہ کیا آنحضرت ﷺ کی عزت اس میں ہے کہ آپ کے بعد آپ کے ماننے والوں میں اس روحانی انعام کا سلسلہ بند ہو جائے یا کہ آپ کی عزت اس میں ہے کہ آپ کے فیض سے یہ سلسلہ پہلے سے بھی بڑھ چڑھ کر جاری رہے.دراصل سارا دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ نبوت کے معنوں کے متعلق غور نہیں کیا گیا اور ہر نبی کے لئے یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے یا کم از کم اپنے سابقہ نبی سے آزاد ہو کر فیض نبوت پائے حالانکہ نبی کے لئے یہ دونوں باتیں لازمی نہیں اور جب یہ باتیں لازمی نہیں تو آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا رکھنے میں آپ کی ہتک نہیں بلکہ اس دروازے کے بند کرنے میں ہتک ہے.میں تو یہ خیال کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کے ان عظیم الشان احسانوں میں سے جو آپ نے اسلام پر بلکہ دنیا پر کئے ہیں سب سے بھاری احسان یہ دو ہیں:.اول یہ کہ آپ نے صحیفۂ فطرت کی طرح قرآنی علوم کو غیر محدود قرار دے کر اسلام کے علمی حصہ میں ایک غیر معمولی نمو اور ترقی کا دروازہ کھول دیا ہے اور ان اعتراض کرنے والوں کا منہ بند کر دیا ہے جو اس زمانہ کی ظاہری ترقی کو دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ تم ہمیں چودہ سو سال پیچھے لے جانا چاہتے ہو اور آپ

Page 122

۱۱۲ نے صرف یہ دعوئی ہی نہیں کیا بلکہ عملاً قرآن کی نئی تفسیر پیش کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کے اندر موجودہ زمانہ کے ہر اعتراض کا جواب اور ہر زہر کا تریاق موجود ہے.دوسرے آپ نے ختم نبوت کی صحیح اور سچی تشریح کر کے مسلمانوں کی گردنوں کو بلند کر دیا ہے اور دنیا پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ آنحضرت یہ خدا کی رحمت کے دروازے کو تنگ کرنے کے لئے نہیں آئے بلکہ وسیع کرنے کے لئے آئے ہیں اور یہ کہ آپ کے متبعین کے لئے ہر قسم کے روحانی انعام کا دروازہ کھلا ہے.حضرت مسیح موعود اپنے ایک شعر میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:.ہم ہوئے خیر ہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے افسوس کہ حضرت مسیح موعود کے ان عظیم الشان احسانوں کو دنیا نے آج نہیں پہچانا مگر وقت آتا ہے کہ وہ انہیں پہچانے گی اور اپنی عقیدت کے پھول آپ کے قدموں پر رکھ کر آپ پر درود اور سلام بیسجے گی.مگر جیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے اس وقت کا ایمان اس تھی کو بھی اپنے ساتھ لائے گا جو کسی شاعر نے اپنے اس شعر میں بیان کی ہے کہ :.جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم ترے ایسے پیار پر مغربی ممالک میں تبلیغ کا جوش اور حضرت مسیح موعود کو اس بات کی بڑی خواہش رہتی تھی کہ عیسائی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کی جاوے اور ریویو آف ریلیجنز کا اجراء: آپ کی بعثت کی غرضوں میں سے ایک بڑی غرض یہی تھی کہ صلیبی مذہب کے زور کو توڑ کر اس کی جگہ اسلام کو قائم کیا جاوے.دراصل آپ کو شرک سے انتہائی نفرت تھی اور آپ کی روح اس خیال سے سخت بے چین رہتی تھی کہ دنیا کے ایک وسیع حصہ میں ایک کمزور انسان کو جس میں کوئی خدائی کی بات نہیں پائی جاتی اور اس نے کبھی خدائی کا دعوی بھی نہیں کیا خدا بنایا جا رہا ہے.آپ نے کئی جگہ لکھا ہے اور فرمایا بھی کرتے تھے کہ میں نے کشف کی حالت میں

Page 123

بار ہا حضرت مسیح ناصری سے ملاقات کی ہے اور ایک دفعہ ان کے ساتھ مل کر کھانا بھی کھایا ہے اور ہر دفعہ انہیں نہایت فروتن اور منکسر المزاج پایا ہے اور ان کے منہ سے یہ اقرار سنا ہے کہ میں تو خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں.الغرض حضرت مسیح موعود کے دل میں یہ بڑی خواہش تھی کہ دنیا سے شرک اور مردہ پرستی مٹ جائے اور اس کی جگہ حقیقی تو حید اور خدا پر ستی قائم ہو جائے اور آپ کے دل میں یہ سخت قلق رہتا تھا کہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح ناصری میں قطعاً کوئی خدائی علامت نہیں پائی جاتی بلکہ بطور ایک رسول کے بھی انہیں اپنی زندگی میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی انہیں بعد میں آنے والوں نے الوہیت کے تخت پر بٹھا رکھا ہے اور آپ اس تحریف کا اصل بانی مبانی پولوس کو خیال کرتے تھے جس نے مسیحی مذہب میں داخل ہو کر اس کا رنگ بدل دیا اور ایک کمزور انسان کو خدا بنانے کی بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی اور پھر بعد میں آنے والوں نے اس خیال کو اور پختہ کر دیا.مگر آپ فرماتے تھے کہ اب آسمان پر اس شرک عظیم کے خلاف بہت جوش ہے اور میری بعثت اسی آسمانی حرکت کا نتیجہ ہے اور وہ وقت قریب آگیا ہے کہ صلیبی طلسم ٹوٹ جائے گا اور دنیا پھر بڑے زور کے ساتھ تو حید اور خدا پرستی کی طرف لوٹے گی.آپ نے فرمایا کہ ہم تو صرف ایک آلہ ہیں ورنہ اصل جنگ خدا کی ہے جس کی غیبی فوجیں شیطانی خیالات کو مٹانے کے لئے حرکت میں ہیں.لیکن ہمارا فرض ہے کہ اس آسمانی حرکت کے مطابق ظاہر میں بھی ایک حرکت پیدار کھیں اور ان اسباب کو کام میں لائیں جو خدا نے اپنے فضل.ہمارے ہاتھ میں دیئے ہیں.چنانچہ آپ نے اوائل دعوی سے لے کر برا براپنی زبان اور اپنی قلم کو تو حید کے قیام کے لئے حرکت میں رکھا اور اشتہاروں سے ، کتابوں سے ،مناظروں سے ،تقریروں سے شرک کے قلعہ پر مسلسل گولہ باری کی.اور بارہا یہ اعلان کیا کہ مسیحیوں یا دیگر مذاہب والوں میں سے جسے اسلام کی صداقت کے متعلق شک ہو یا وہ اپنے مذہب کو اسلام کے مقابل پر حق خیال کرتا ہو تو وہ ہمارے سامنے آکر منقولی اور عقلی دلائل کے ساتھ یا روحانی مقابلہ کے رنگ میں زور آزمائی کرلے.آپ نے یہ بھی اشتہار دیا کہ چونکہ خدا نے مجھے ساری دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اور اس الله

Page 124

۱۱۴ زمانہ کے وسیع فتنوں کے مقابلہ کے لئے کھڑا کیا ہے اس لئے اس نے مجھے وہ طاقتیں بھی عطا کی ہیں جو اس کام کی سرانجام دہی کے لئے ضروری ہیں اور آپ نے لکھا کہ چونکہ حضرت مسیح ناصری کا مشن بہت محدود تھا اس لئے ان کی طاقتیں بھی محدود تھیں چنانچہ آپ نے دعوی کیا کہ اگر کسی پادری میں ہمت ہے تو وہ میرے سامنے آ کر اس بات کا امتحان کر لے کہ روحانی طاقت اور نشان نمائی میں مسیح ناصری اور مسیح محمدی میں کون افضل ہے؟ آپ نے تشریح فرمائی کہ خوش اعتقادی کا خیال جدا گانہ ہے لیکن اگر مسیح ناصری کے نشانات کو تنقیدی نظر سے دیکھا جاوے اور ان کی اصلی حقیقت پر غور کیا جائے تو یقینا وہ نشانات ان نشانات کے مقابلہ پر ادنی اور کم تر ثابت ہوں گے جو خدا میرے ہاتھ پر ظاہر کر رہا ہے.الغرض آپ کو مسیح پرستی کے خلاف بہت جوش تھا اور آپ کو خدا نے الہاموں اور خوابوں کے ذریعہ یہ بشارت بھی دی تھی کہ جلد یا بدیر آپ کی لائی ہوئی روشنی سے یورپ منور ہوگا اس غرض کے لئے آپ نے ۱۹۰۲ء میں ایک انگریزی رسالہ کی بنیاد رکھی تا کہ اس کے ذریعہ سے مغربی ممالک میں مسیحیت کے خلاف اور اسلام کے حق میں مہم جاری کر سکیں اور چونکہ آپ خود انگریزی زبان سے ناواقف تھے آپ نے اس رسالہ کی ایڈیٹری اپنے ایک نوجوان اور انگریزی خوان مرید مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کے سپرد کی جو حضرت مسیح موعود کی ہدایات کے ماتحت آپ کے مضامین کا انگریزی میں ترجمہ کرتے یا آپ کے بتائے ہوئے نوٹوں کے مطابق خود مضمون لکھتے تھے.حضرت مسیح موعود کی توجہ کی برکت سے اس رسالہ نے حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی اور بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ساری علمی دنیا میں اپنا سکہ جمالیا اور بڑے بڑے یورپین اور امریکن علماء نے اس کے مضامین کی تعریف میں پُر جوش ریویو لکھے اور اس کے دلائل کی قوت کو تسلیم کیا.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اس رسالہ کے اکثر مضامین خود حضرت مسیح موعود کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہوتے تھے اور بعض کے متعلق آپ نوٹ لکھا دیتے تھے اور آپ نے ان مضامین میں اپنے

Page 125

۱۱۵ اسپ قلم کو مذاہب کے وسیع میدان کے ہر حصہ میں ڈالا اور اس میدان کا ہر کونہ اور گوشہ چھان ڈالا اور اسلام کی تائید اور مسیحیت اور دوسرے مذاہب کی تردید میں ایسے ایسے زبر دست مضامین لکھے کہ علمی دنیا میں ایک ہل چل مچ گئی.مسیح ناصری کے معجزات پر.آپ کے روحانی اثر پر.آپ کی تعلیم پر.آپ کے واقعہ صلیب پر.صلیب سے بعد کے حالات پر.آپ کی سیاحت ہند اور وفات پر.آپ کے فرضی دعوئی خدائی پر.تثلیث اور کفارہ پر.غرض مسیحیت کے ہر شعبہ پر مضامین لکھے گئے اور دوسری طرف اسلام کی حقیقت اور آنحضرت ﷺ کی رسالت اور آپ کی روحانی طاقت اور آپ کی کامیابی اور آپ کی تعلیم کی برتری وغیرہ پر زبردست بحثیں کی گئیں اور اسی طرح دوسرے مذاہب کی تعلیمات پر بھی مضامین لکھے گئے اور رسالہ نے اپنے آپ کو صحیح معنوں میں ریویو آف ریلیجنز ثابت کر دیا.چنانچہ اس رسالہ کے متعلق آل انڈیا بینگ من کرسچن ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مسٹر وا کر نے لکھا کہ:.یہ رسالہ اسم بامسٹمی ہے کیونکہ اس رسالہ نے مذاہب کے ایک نہایت وسیع حلقہ کو اپنے کام میں شامل کیا ہے اور مذہبی مضامین کے ایک بڑے وسیع دائرہ پر نظر ڈالی ہے.مسٹراے اروب نے امریکہ سے لکھا:.” اس رسالہ کے مضامین روحانی صداقتوں کی نہایت پر حکمت اور روشن تفسیر ہیں.“ کونٹ ٹالسٹائے نے روس سے لکھا:.اس رسالہ کے خیالات بڑے وزنی اور بڑے سچے ہیں.“ پروفیسر ہالٹما ایڈیٹر انسائیکلوپیڈیا آف اسلام نے لکھا:.یہ رسالہ از حد دلچسپ ہے.“ ریویو آف ریویوز لندن نے لکھا:.یورپ اور امریکہ کے وہ لوگ جو محمد (صلعم) کے مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں

Page 126

117 66 ان کو چاہئے کہ یہ رسالہ ضرور منگا ئیں.“ مس ہنٹ نے امریکہ سے لکھا:.اس رسالہ کا ہر نمبر نہایت دلکش ہوتا ہے اور ان غلط خیالات کا بطلان ثابت کرتا ہے جو اسلام کے متعلق اس زمانہ میں دنیا کی ان اقوام کی طرف سے پھیلائے جاتے ہیں جو مہذب کہلاتی ہیں.“ الغرض حضرت مسیح موعود کی زیر قیادت اس رسالہ نے کسرِ صلیب اور فتح اسلام میں نمایاں حصہ لیا.طاعون کی بیماری کو اکثر ناظرین جانتے ہوں گے.یہ ایک وبائی مرض ہے جس کے جراثیم چوہوں کے ذریعہ پھیلتے پنجاب میں طاعون کا زور اور جماعت کی غیر معمولی ترقی:.ہیں.اور جب اس بیماری کا زور ہوتا ہے تو گویا ایک آگ شعلہ زن ہو جاتی ہے جس میں ہزاروں لوگ ایک ایک دن میں بھسم ہونے لگتے ہیں.یہ بیماری قانون قدرت کے ماتحت پیدا ہوتی ہے اور عام حالات میں اس کی تہہ میں کوئی روحانی اسباب نہیں ہوتے مگر خدا کا قاعدہ ہے کہ بعض اوقات اس قسم کی بیماریوں کو بھی اپنے مرسلین کی صداقت کا نشان قرار دے دیتا ہے اور ان کے ذریعہ سے اپنے قائم کردہ سلسلوں کو ترقی دیتا ہے.چنانچہ جب شروع شروع میں طاعون کا مرض بمبئی میں ظاہر ہوا اور ابھی وہ پنجاب میں نہیں آیا تھا تو ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود نے ایک خواب دیکھا کہ بعض لوگ سیاہ رنگ کے کریہہ المنظر پودے لگا رہے ہیں اور جب آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیسے پودے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جواب اس ملک پنجاب میں پھیلنے والی ہے اور آپ کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس مرض کے پھیلنے کا روحانی باعث لوگوں کی بے دینی اور ان کی حالت کی خرابی ہے.اس کے بعد جلد ہی یہ مرض پنجاب میں بھی آ گیا اور گوشروع میں اس کا حملہ زیادہ سخت نہیں تھا.مگر آہستہ آہستہ اس کی تیزی ترقی کرتی گئی حتی کہ ۱۹۰۲ء میں آکر اس نے پنجاب میں کافی زور دیکھو اشتہار مورخہ ۶ رفروری ۱۸۹۸ تلخیص از مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۸۵.اشتہار مورخہ ۶ فروری ۱۸۹۸ء جدید ایڈیشن بعنوان " طاعون

Page 127

۱۱۷ پکڑ لیا.ان ایام میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر ظاہر کیا کہ یہ طاعون آپ کے لئے ایک خدائی نشان ہے اور اس کے ذریعہ خدا آپ کے ماننے والوں اور انکار کرنے والوں میں ایک امتیاز پیدا کر دے گا چنانچہ ان ایام میں جو الہام اس بارے میں آپ پر نازل ہوا وہ یہ تھا.وو " تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہو گا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور بچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے.اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے.لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے.اس کے لئے مت دیگر ہو.قادیان میں سخت بر بادی انگن طاعون نہیں آئے گی اور عموماً تمام لوگ اس جماعت کے گو وہ کتنے ہی ہوں مخالفوں کی نسبت طاعون سے محفوظ رہیں گے.آپ نے اس الہام کی تشریح یہ فرمائی کہ خدا تعالیٰ اس پیشگوئی کو ایسے طور سے ظاہر کرے گا کہ طالب حق کو کوئی شک نہیں رہے گا اور ہر اک غیر متعصب شخص سمجھ جائے گا کہ خدا نے اس جماعت کے ساتھ معجزانہ رنگ میں معاملہ کیا ہے اور طاعون کے ذریعہ سے آپ کی جماعت بہت بڑھے گی اور خارق عادت ترقی کرے گی اور ان کی یہ ترقی تعجب سے دیکھی جائے گی اور آپ نے لکھا کہ یہ جو خدا نے فرمایا ہے کہ جو بھی تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہے میں اسے طاعون سے محفوظ رکھوں گا اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس جگہ گھر سے مراد صرف یہ خاک وخشت کا گھر ہے.بلکہ گھر کا لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے جس کے مفہوم میں ظاہری گھر کے علاوہ روحانی گھر بھی شامل ہے.پس آپ نے لکھا کہ میری کامل پیروی کرنے والا بھی اسی طرح طاعون سے محفوظ رہے گا جس طرح میرے ظاہری گھر کے اندر رہنے والے محفوظ رہیں گے.اس کے بعد طاعون نے بہت زور پکڑنا شروع کیا اور پنجاب کے مختلف حصوں میں اس قدر تباہی مچائی کہ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے قیامت کا نمونہ آ گیا.ہزاروں دیہات ویران ہو گئے.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲.

Page 128

۱۱۸ سینکڑوں شہروں اور قصبوں کے محلے کے محلے خالی ہو گئے اور بعض جگہ ایسی تباہی آئی کہ مردوں کو دفن کرنے کے لئے کوئی آدمی نہیں ملتا تھا اور لاشیں سڑکوں اور گلیوں میں پڑی ہوئی سڑتی تھیں.یہ زور ۱۹۰۲ء میں شروع ہوا اور پھر تھوڑے تھوڑے وقفوں کیساتھ دن بدن تیز ہوتا گیا حتی کہ ۱۹۰۳ء سے لے کر ۱۹۰۷ ء تک اس کے معراج کا زمانہ تھا.اس عرصہ میں جماعت احمدیہ نے اس حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی کہ بعض اوقات ایک ایک دن میں پانچ پانچ سو بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمیوں کی بیعت کے خطوط پہنچتے تھے اور دنیا گھبرا کر خدا کے مسیح کا دامن پکڑنے کے لئے ٹوٹی پڑتی تھی.لوگوں کا یہ غیر معمولی رجوع کسی وہم کی بنا پر نہیں تھا بلکہ ہر غیر متعصب شخص کو یہ صاف نظر آرہا تھا کہ اس عذاب کے پیچھے خدا کا ہاتھ مخفی ہے جو اپنی قدیم سنت کے مطابق ماننے والوں اور انکار کرنے والوں میں امتیاز کرتا چلا جا رہا ہے.بے شک جیسا کہ الہام میں بھی اشارہ تھا بعض خال خال موتیں احمدیوں میں بھی ہوئیں کیونکہ بسا اوقات جنگ میں فاتح فوج کے بعض سپاہی بھی مارے جاتے ہیں لیکن ان شاذ و نادر اموات کو اس خطر ناک ہلاکت سے کوئی نسبت نہیں تھی جو طاعون نے حضرت مسیح موعود کے منکرین میں برپا کی.پس لوگوں کا یہ رجوع و ہم پر مبنی نہیں تھا بلکہ بصیرت پر مبنی تھا کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ اس وقت خدا کے عذاب کا حقیقی علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اس کے مسیح کی غلامی کو قبول کیا جاوے.الغرض ان ایام میں جماعت احمدیہ نے نہایت خارق عادت رنگ میں ترقی کی اور پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے.اس زمانہ میں لوگوں کے رجوع کو دیکھ کر بعض اوقات حضرت مسیح موعود مسکرا کر فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کے بہت سے لوگ طاعونی احمدی ہیں کہ جب لوگوں نے دوسرے دلائل سے نہیں مانا تو خدا نے انہیں عذاب کا طماچہ دکھا کر منوایا.اسی طرح اس پیشگوئی کا دوسرا حصہ بھی کامل صفائی سے پورا ہوا یعنی قادیان میں طاعون آئی اور بعض اوقات کافی سخت حملے بھی ہوئے مگر اپنے وعدہ کے مطابق خدا نے اسے اس تباہ کن ویرانی سے

Page 129

١١٩ بچایا جو اس زمانہ میں دوسرے دیہات اور قصبات میں نظر آ رہی تھی اور پھر لطف یہ ہے کہ خدا نے اپنے نشان کو پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود کے مکان کے ارد گر بھی طاعون کی تباہی دکھائی اور آپ کے پڑوسیوں میں کئی موتیں ہوئیں مگر اس سارے عرصہ میں آپ کے مکان میں کسی انسان کا مبتلائے مرض ہونا تو الگ رہا کبھی ایک چوہا تک بھی نہیں مرا.اور خدا نے چاروں طرف آگ لگا کر بتادیا کہ اس وسیع آگ کے میدان میں اگر کوئی امن کی جگہ ہے تو بس یہی ایک مکان ہے جس کی حفاظت کا وعدہ دیا گیا ہے.پھر ایک اور لحاظ سے بھی طاعون نے خدا کے مسیح کی خدمت کی.وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود کے کئی نامور دشمن اس مرض میں مبتلا ہو کر موت کا لقمہ بن گئے.مثلاً ۱۹۰۲ء میں ہی جو طاعون کے زور کا پہلا سال تھا کا ایک اشد مخالف مولوی رسل بابا امرتسری جو پنجاب کے حنفیوں کا سرکردہ تھا طاعون سے ہلاک ہوا.اسی طرح کئی اور مخالف طاعون کا شکار ہوئے.ان ہلاک ہونے والوں میں بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کا سن کر اس کے مقابل پر خود اپنے لئے بھی یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ طاعون سے محفوظ رہیں گے.مگر خدا نے ایسے لوگوں کو چن چن کر لیا اور جن لوگوں نے ایسا دعویٰ کیا تھا ان میں سے ایک بھی نہیں بچا چنانچہ ہم ان میں سے بعض کا ذکر آگے چل کر کریں گے.حضرت مسیح موعود کی تعلیم کا خلاصہ :.جب ۱۹۰۲ء میں طاعون کا زور ہونے لگا تو حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کو نصیحت اور لوگوں کو جاہی سے بچانے کے لئے ایک کتاب لکھ کر شائع فرمائی جس کا نام آپ نے ”کشتی نوح رکھا.گویا اس تباہی کے طوفان میں ایک نوح کی کشتی تھی جس میں بیٹھ کر لوگ اس ہلاکت سے بچ سکتے تھے.اس کتاب میں آپ نے اپنی تعلیم کا خلاصہ پیش کیا اور بتایا کہ آپ اپنی جماعت سے کن عقائد اور کن اعمال کی توقع رکھتے ہیں.ہم اس تعلیم کا ضروری اقتباس اس جگہ ہدیہ ناظرین کرتے ہیں.آپ نے لکھا.”اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس

Page 130

۱۲۰ گے..وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے.ہر اک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا.ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے.سو خبر دارر ہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ.زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے.جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے.ظاہر کچھ چیز نہیں.خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا.دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اس کو مت کھاؤ.خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو.دعا کرو.تا تمہیں طاقت ملے.جوشخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجز دوعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں.جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بدعملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بدنظری سے اور خیانت سے اور رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتاوہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا

Page 131

۱۲۱ کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بداثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنی ادنیٰ خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اس عہد کو جو اس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے توڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.اور جو شخص امور معروفہ میں میری اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.اور جو شخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.ہر ایک زانی ، فاسق ، شرابی ، خونی ، چور، قمار باز ، خائن ، مرتشی ، غاصب، ظالم ، دروغ گو، جعلساز اور ان کا ہم نشین اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے تو یہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.یہ سب زہر میں ہیں.تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور

Page 132

۱۲۲ تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی.ہر ایک جو پیچ در پیچ طبیعت رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ صاف نہیں ہے وہ اس برکت کو ہرگز نہیں پاسکتا جو صاف دلوں کو ملتی ہے کیا ہی قادر اور قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا ؟ کیا ہی زبر دست قدرتوں کا مالک ہے جس کو ہم نے دیکھا ؟ سچ تو یہ ہے کہ اس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں مگر وہی جو اس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے.سو جب تم دعا کرو تو ان جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانون قدرت بنا بیٹھے ہیں جس پر خدا کی کتاب کی مہر نہیں.کیونکہ وہ مردود ہیں.ان کی دعائیں ہرگز قبول نہیں ہوں گی.وہ اندھے ہیں نہ سو جاکھے.وہ مردے ہیں نہ زندے خدا کے سامنے اپنے تراشیدہ قانون پیش کرتے ہیں اور اس کی بے انتہاء قدرتوں کی حد بست ٹھہراتے ہیں اور اس کو کمزور سمجھتے ہیں سو ان سے ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا جیسا کہ ان کی حالت ہے...کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرمو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.

Page 133

۱۲۳ اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے.تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تمہارے لئے جاگے گا.تم دشمن سے غافل ہو گے اور خدا اسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا..میں تمہیں حد اعتدال تک رعایت اسباب سے منع نہیں کرتا بلکہ اس سے منع کرتا ہوں کہ تم غیر قوموں کی طرح نرے اسباب کے بندے ہو جاؤ اور اس خدا کو فراموش کرد و جو اسباب کو بھی وہی مہیا کرتا ہے.اگر تمہیں آنکھ ہو تو تمہیں نظر آ جائے کہ خدا ہی خدا ہے اور سب بیچ ہے.تم نہ ہاتھ لمبا کر سکتے ہو اور نہ اکٹھا کر سکتے ہومگر اس کے اذن سے.ایک مردہ اس پر ہنسی کرے گا مگر کاش اگر وہ مر جاتا تو اس ہنسی سے اس کے لئے بہتر تھا.خبردار!!! تم غیر قوموں کو دیکھ کر ان کی ریس مت کرو کہ انہوں نے دنیا کے منصوبوں میں بہت ترقی کر لی ہے آؤ ہم بھی انہیں کے قدم پر چلیں.سنو اور سمجھو کہ وہ اس خدا سے سخت بیگانہ اور غافل ہیں جو تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے.ان کا خدا کیا چیز ہے صرف ایک عاجز انسان.اس لئے وہ غفلت میں چھوڑے گئے.میں تمہیں دنیا کے کسب اور حرفت سے نہیں روکتا مگر تم ان لوگوں کے پیرومت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے.عقیدہ کی روح سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد ﷺ اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے.اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمد یت کی چادر پہنائی گئی.کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے.پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ

Page 134

۱۲۴ ایک ہی ہوا گر چہ بظاہر دو نظر آتے ہیں.صرف ظل اور اصل کا فرق ہے.سوالیسا ہی خدا نے مسیح موعود میں چاہا.میں روحانیت کی رو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہوں جیسا کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء تھا.موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں...مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا.میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں.بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے.‘] حضرت مسیح موعود کا تعلیم و تربیت کا طریق:.گذشتہ صفحات میں ان ظاہری اور باطنی طاقتوں کا ذکر گزر چکا ہے جو حضرت مسیح موعود کی طرف سے تبلیغی میدان میں زیر عمل آ رہی تھیں.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ان ذرائع کو بھی بیان کر دیا جائے جو آپ اپنی جماعت کی اخلاقی اور روحانی اور علمی اور عملی تربیت کے لئے اختیار فرماتے تھے.اس ضمن میں اصولی طور پر تو صرف اس قدر جاننا کافی ہے کہ آپ کا طریق وہی تھا جو ہمیشہ سے خدا کے رسولوں اور نبیوں کا رہا ہے وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آپ اپنی جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے ظاہری اور روحانی اسباب ہر دو کو استعمال فرماتے تھے.ان اسباب کا مختصر خاکہ یہ ہے کہ:.اوّل جب آپ کسی شخص کو اپنی جماعت میں داخل کرنے لگتے تھے تو اس کی طرف سے صرف اس بات کے عمومی اظہار کو کافی خیال نہیں فرماتے تھے کہ میں نے آپ کو قبول کر لیا ہے بلکہ ایک با قاعدہ اقرار کے ذریعہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر یہ عہد لیتے تھے کہ میں آپ کے دعووں پر ایمان لاتے ہوئے اپنے گزشتہ گناہوں سے تو بہ کرتا ہوں اور آئندہ کے لئے وعدہ کرتا ہوں کہ ہر قسم کے گناہ سے بچنے کی کوشش کروں گا اور ہر معاملہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا وغیرہ وغیرہ.یہ اقرار کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵ تا ۲۳ وصفحه ۶۱.

Page 135

۱۲۵ اور یہ عہد نامہ جو بیعت کرنے والے کو اپنے سامنے بٹھا کر اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر منہ درمنہ لیا جا تا تھا اس کی بعد کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک پختہ بنیاد بن جاتا تھا اور بیعت میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وہ اپنے اندر ایک ایسی تبدیلی محسوس کرتا تھا جو اسے بعد میں ہر لحظہ طہارت اور پاکیزگی اور اصلاح نفس کی بلندیوں کی طرف اٹھاتی چلی جاتی تھی.یہ درست ہے کہ بعض اوقات جب کسی شخص کو خود حاضر ہو کر دستی بیعت کا موقعہ نہ مل سکتا ہو تو خط کے ذریعہ تحریری بیعت کا رستہ بھی کھلا تھا مگر یہ تحریری بیعت بھی بہر حال ایک عہد اور اقرار کا رنگ رکھتی تھی جس کے بعد ہر بیعت کنندہ یہ محسوس کرتا تھا کہ اب مجھے زندگی کا ایک نیا ورق الٹنا چاہئے.پس تعلیم و تربیت کا پہلا ذریعہ وہ عہد اور وہ اقرار تھا جو بیعت کرنے والے سے ذاتی طور پر لیا جاتا تھا جس کے بعد ہر بیعت کنندہ گویا خود اپنے اعمال کا نگران اور محاسب ہو جاتا تھا.حضرت مسیح موعود ا کثر فرمایا کرتے تھے کہ بیعت کے معنی اپنے آپ کو فروخت کر دینے اور اپنے مرشد کے ہاتھ پر بک جانے کے ہیں.پس جو شخص بیعت کے بعد کوئی رنگ دُوئی کا رکھتا ہے اور اپنے آقا کے ساتھ کامل اتحاد و اتصال پیدا نہیں کرتا وہ اپنے عہد میں سچا نہیں ہے.دوم دوسرا بڑا ذریعہ آپ کا یہ تھا کہ آپ ہمیشہ تحریر اور تقریر کے ذریعہ اپنی جماعت کے لوگوں کو ان کے غلط خیالات کی اصلاح اور خراب اور ناپسندیدہ اعمال کی درستی کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے اور ان کے دلوں میں خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرنے اور اپنے نفسوں کی اصلاح کرنے اور مخلوق کے ساتھ انصاف اور احسان کا معاملہ کرنے کے لئے جوش پیدا کرتے رہتے تھے اور آپ کی یہ عادت تھی کہ اپنی جماعت کے لوگوں کے خیالات اور ان کے اعمال کو گہری نظر کے ساتھ دیکھتے رہتے تھے اور ان کی کمزوریوں اور نقصوں کے مناسب حال اپنی تحریر و تقریر میں نصیحت کا طریق اختیار فرماتے تھے.مگر عموماً آپ کسی فرد کو مخاطب کر کے اور اس کے کسی نقص کی طرف اشارہ کر کے نصیحت نہیں فرماتے تھے بلکہ جب کسی فرد یا افراد میں کوئی نقص دیکھتے تو اس کا یا ان کا نام لینے کے بغیر عمومی رنگ میں نصیحت فرماتے تھے.زبانی نصیحت کے لئے آپ عموماً پنجگانہ نماز کے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے تھے یعنی آپ کا یہ

Page 136

طریق تھا کہ بعض نمازوں کے بعد آپ مسجد میں ہی بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو جاتے تھے اور پھر موقعہ اور حالات کے مناسب گفتگو ہوتی رہتی تھی اور لوگ آپ کی باتوں کو نہایت شوق اور محبت کے ساتھ سنتے اور آپ کے مبارک کلام کو اپنے اندر جذب کرتے جاتے تھے.یہ مجلس نہایت بے تکلفی کی مجلس ہوتی تھی جس میں ہر شخص آپ کے ساتھ بے تکلفی کے انداز میں گفتگو کرتا تھا اور آپ ہر شخص کی بات کو سنتے اور اس کا جواب دیتے تھے.اس مجلس میں بیٹھنے والوں کے لئے کوئی ترتیب مقرر نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی آپ کے لئے کوئی خاص مسند ہوتی تھی.بلکہ آپ اور آپ کے ساتھی بے تکلفی کے رنگ میں جسطرح ایک مشفق باپ کے اردگر داس کے بیٹے بیٹھے ہوں اکٹھے بیٹھ کر گفتگو فرماتے تھے اور مجلس میں ہر قسم کی گفتگو ہوتی تھی یعنی دشمنوں کا ذکر بھی ہوتا تھا اور دوستوں کا بھی قوموں کا بھی اور افراد کا بھی.پرائیویٹ باتوں کا بھی اور پبلک کا بھی.عقائد و خیالات کا بھی اور اعمال وافعال کا بھی.جماعت کی موجودہ مشکلات کا بھی اور اس کی آئندہ ترقیات کا بھی.غرض ہر رنگ کی گفتگو رہتی تھی اور سب لوگ اپنی باتوں کو سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ پیش کرتے تھے اور آپ ان کے جواب میں اسی سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے.غرض یہ ایک علم وعرفان اور محبت و وفا کا درس تھا جو آپ کی مجلس میں جاری رہتا تھا اور ہر شخص اپنی بساط اور اپنی استعداد کے مطابق اس چشمہ سے پانی لیتا تھا.اسی طرح کے موقعے آپ کی روزانہ سیروں میں بھی میسر آتے تھے جو آپ عموماً ہر روز صبح کے وقت اپنے دوستوں کے ساتھ فرمایا کرتے تھے اور قادیان سے باہر دو دو تین تین میل تک چہل قدمی کرتے ہوئے نکل جاتے تھے.اس وقت بھی اس شمع کے پروانے آپ کے گرد گھومتے تھے اور ہر شخص آپ کے ساتھ چھو کر برکت و معرفت کا جام پیتا تھا.یہ مجلسیں اور یہ سیر یں گویا ایک روحانی دھوبی کا کارخانہ تھیں اس میں لوگوں کی میلیں خود بخود دھلتی چلی جاتی تھیں اور وہ طہارت اور پاکیزگی کے میدان میں اپنے ہر قدم کو دوسرے قدم سے آگے پاتے تھے.اسی طرح تحریر کے میدان میں آپ کی کتابیں اور اشتہارات اور جماعت کے رسالے اور اخبارات ایک نہایت ماہر استاد کی.

Page 137

۱۲۷ طرح لوگوں کو اوپر اٹھانے میں لگے ہوئے تھے اور جلسہ سالانہ کے اجتماع بھی جماعت میں ایک تازہ زندگی کی روح پھونکتے تھے.سوم تیسرا بڑا ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت کا یہ تھا کہ آپ جماعت کو ہر وقت اپنے مخالفین کے خلاف اس قلمی اور لسانی جہاد میں لگائے رکھتے تھے جس میں آپ خود ہر لحظہ مصروف رہتے تھے.بظاہر اس بات کا جماعت کی اندرونی تعلیم و تربیت کے ساتھ تعلق نظر نہیں آتا مگر حقیقت ان دونوں باتوں کا ایک بہت بھاری اور نہایت عمیق تعلق ہے جسے آپ خوب سمجھتے تھے چنانچہ ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے جو بعد میں آپ کے خلیفہ ہوئے آپ سے دریافت کیا کہ مجھے اپنے نفس کی اصلاح کے لئے کوئی خاص عمل بتا ئیں جس پر آپ نے انہیں فرمایا کہ اس وقت اسلام کے خلاف عیسائیوں کے بہت حملے ہورہے ہیں آپ ان کے جواب میں کوئی کتاب لکھ کر شائع کریں.اس کے بعد پھر ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب نے ایسا ہی سوال کیا تو آپ نے انہیں آریوں کے خلاف کتاب لکھنے کی ہدایت فرمائی اور حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ان تصنیفات نے بہت ہی فائدہ دیا.غرض حضرت مسیح موعود کا بڑا ذریعہ تعلیم و تربیت کا یہ بھی تھا کہ آپ اپنی جماعت کو ہر وقت جہاد میں مصروف رکھتے تھے جس میں ان کو کئی لحاظ سے فائدہ پہنچتا تھا مثلاً (۱) ان کے علم و معرفت میں ترقی ہوتی تھی.(۲) ان کی توجہ مسلسل طور پر ایک دینی اور ملی کام میں لگی رہتی تھی جو اپنی ذات میں اصلاح نفس کا ایک بڑا ذریعہ ہے.(۳) اس جہاد میں انکو یہ احساس رہتا تھا کہ ہم دوسروں کے لئے ایک عمدہ نمونہ بنیں تا کہ ہمارا فعل ہمارے قول کا مؤیدر ہے.(۴) ان کا وقت ہمیشہ ایک مفید کام میں لگارہتا تھا جس کی وجہ سے وہ اس دماغی بیکاری سے بچے رہتے تھے جو بہت سی خباثتوں کی ماں ہے(۵) وہ خدا سے ان برکتوں کا حصہ پاتے تھے جو ازل سے دین کے سچے خادموں کے لئے مقدر ہو چکی ہیں.الغرض آپ ہمیشہ اپنی جماعت کو دوسروں کے مقابلہ میں لگائے رکھتے تھے کیونکہ آپ اس نکتہ کو خوب سمجھتے اور جانتے تھے کہ قومی زندگی دفاع میں نہیں بلکہ حملہ میں مخفی ہے.

Page 138

۱۲۸ چہارم.چوتھا بڑا ذریعہ جماعت کی تربیت کا یہ تھا کہ آپ اپنی جماعت سے دین کی خاطر مالی قربانی کرواتے رہتے تھے اور بار بار کی تحریک سے ان کے اندر اس جوش کو زندہ رکھتے تھے کہ اسلام اور احمدیت کی خاطر اپنے اموال میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ نکالیں اور یہ قربانی ان کی ایمانی روح کو ہر وقت چوکس اور ہوشیار رکھتی تھی اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کرتی تھی کہ دین ایک ایسی چیز ہے جس کے مقابلہ پر دنیا کے مال و دولت کی کوئی قیمت نہیں.پنجم.پانچواں بڑا ذریعہ جماعت کی تربیت کا آپ کا ذاتی روحانی اثر تھا جو ایک زبردست بیٹری کی صورت میں ہر اس شخص میں روحانی طاقت بھر دیتا تھا جو نیک نیتی کے ساتھ اور صلاحیت کا مادہ لے کر آپ کے قریب آتا تھا اور ایک طرح سے یہ ذریعہ دوسرے سارے ذریعوں سے بڑا تھا کیونکہ اس میں وہ خاموش بجلی کا اثر کام کرتا تھا جو دنیا کی تحریکی طاقتوں میں سب سے بڑی طاقت ہے.اس عمل میں سے گزر کر ہر شخص اپنی فطری استعداد اور اپنی قوت جذب کے لحاظ سے خود ایک بیٹری بن جاتا تھا اور بڑے مقناطیس سے رگڑ کھا کھا کر لوہے کے ٹکڑے مقناطیسی صفات حاصل کرتے جاتے تھے.اس کے علاوہ آپ کا اعلیٰ اخلاقی اور روحانی نمونہ بھی لوگوں کے لئے اصلاح کا ایک نہایت عمدہ ذریعہ تھا جسے دیکھ کر اور جس کی نقل کی کوشش کر کے وہ اس میدان میں آگے بڑھتے جاتے تھے.ششم.چھٹا بڑا ذریعہ آپ کی وہ دردمندانہ دعا ئیں تھیں جو ہر وقت اپنے متبعین کے لئے آسمان کی طرف اٹھتی تھیں اور آسمانی طاقتوں کو حرکت میں لا کر جماعت کی روحانی ترقیات کا باعث بن رہی تھیں.اس زمانہ کے مادہ پرست لوگ اس ذریعہ کی حقیقت اور اس کی طاقت کو نہیں سمجھتے لیکن درحقیقت یہ ایک بہت بھاری ہتھیار ہے جو ہر نبی کو اس کی جماعت کی اصلاح اور ترقی کے لئے دیا جاتا ہے.جماعت کے چندوں کی تنظیم :.اس وقت تک جماعت کے کام ایسے چندوں پر چل رہے تھے جو مختلف احباب سلسلہ کی ضروریات کا اندازہ کر کے یا وقتی تحریک کے جواب میں اپنے اخلاص کے

Page 139

۱۲۹ مطابق اپنی خوشی سے دیتے رہتے تھے.بے شک بعض دوست با قاعدہ ماہوار چندہ بھی دیتے تھے مگر یہ طریق ان کی اپنی خوشی پر موقوف تھا اور حضرت مسیح موعود کی طرف سے کوئی ایسی تحریک نہیں تھی کہ ہر شخص ضرور با قاعدہ ماہوار چندہ دے.علاوہ ازیں شروع میں سلسلہ کا کام زیادہ تر تین مدات میں منقسم تھا یعنی اول کتب اور رسالہ جات کی اشاعت جن میں سے ایک معقول حصہ مفت تقسیم کیا جاتا تھا.دوم اشتہارات کی اشاعت جو کلیۂ مفت تقسیم ہوتے تھے.سوم مہمان نوازی کا خرچ جو دن بدن زیادہ ہو رہا تھا.ان کے علاوہ کسی قدر خط و کتابت اور غریب احمدیوں کی امداد کا خرچ بھی تھا.یہ سارے اخراجات ان چندوں سے پورے کئے جاتے تھے جو جماعت کے دوست اپنی خوشی سے بھجواتے رہتے تھے.لیکن اب نہ صرف ہر مد کا خرچ بڑھ گیا تھا اور خصوصاً مہمانخانہ کا خرچ بہت زیادہ ہو گیا تھا بلکہ بعض نئی مدات بھی نکل آئی تھیں.مثلاً تعلیم الاسلام ہائی سکول کا چندہ.ریویو آف ریلیجنز کا چندہ امدادی وغیرہ اس لئے حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۲ء میں ایک اشتہار کے ذریعہ جماعت کے نام یہ ہدایت جاری فرمائی کہ آئندہ ہر احمدی با قاعدہ ماہواری چندہ دیا کرے جس میں کسی صورت میں تخلف نہ ہو.آپ نے اس چندہ کی کوئی شرح مقر رنہیں فرمائی بلکہ رقم کی تعین کو ہر شخص کے اخلاص اور حالات پر چھوڑ الیکن یہ لازم قرار دیا کہ ہر شخص اپنے لئے ایک رقم معین کر کے اطلاع دے کہ وہ کس قدر چندہ ماہوار دے سکتا ہے اور پھر جس قدر رقم کا وہ وعدہ کرے خواہ وہ ایک پیسہ ہی ہو وہ با قاعدہ ہر ماہ بھجواتا رہے اور آپ نے اس بارے میں اس قدر تاکید فرمائی کہ حکم دیا کہ جو شخص اس قسم کی پابندی اختیار نہیں کرے گا یا رقم مقرر کرنے کے بعد پھر تین ماہ تک رقم کی ادائیگی میں غفلت سے کام لے گا اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ اس الہی سلسلہ کے ساتھ اس کا تعلق حقیقت اور اخلاص پر مبنی نہیں ہے کیونکہ جو شخص صداقت کی خاطر ادنی قربانی کے لئے بھی تیار نہیں ہوسکتا اور اس قربانی پر دوام اختیار نہیں کرتا وہ سچا احمدی نہیں سمجھا جاسکتا.یہ وہ بنیادی اینٹ تھی جس پر سلسلہ کے چندوں اور محاصل کی عمارت کھڑی ہوئی ہے اس کے لے اشتہار مورخه ۵/ مارچ ۱۹۰۲ تلخیص از مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۵۶ جدید ایڈیشن

Page 140

۱۳۰ بعد آہستہ آہستہ چندہ کی شرح بھی مقرر ہو گئی اور مدات میں بھی اس قدر را ضافہ ہو گیا کہ اب جماعت احمدیہ کا مجموعی بجٹ دس لاکھ روپے کے قریب ہوتا ہے اور اس عدد میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر پھر بھی اس وسیع کام کے مقابلہ پر جو جماعت کے ذمہ ہے یہ رقم بالکل ناکافی اور غیر مکفی ثابت ہوتی ہے اور جماعت کی مدات ہمیشہ بھاری قرضہ کے نیچے دبی رہتی ہیں.ایک نئے مخالف کا ظہور اور جیسا کہ بتایا جا چکا ہے جب حضرت مسیح موعود نے ابتداء میں مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تو آپ کی مخالفت میں مسلمانوں میں اس کے متعلق خدائی نشان : سے سب سے زیادہ جوش دکھانے والا مولوی محمد حسین بٹالوی تھا.مولوی صاحب نے کے ابتدائی سالوں میں مخالفت کو انتہا ء تک پہنچادیا اور گوملک کے اکثر مولوی اس مخالفت میں گرم جوشی کے ساتھ حصہ لے رہے تھے مگر ان سب کے لیڈر اور مدار المهام یہی مولوی صاحب تھے جو مسلسل طور پر کئی سال تک کی مخالفت میں پیش پیش رہے لیکن اب آہستہ آہستہ ان کا زور ٹوٹ رہا تھا اور وہ اپنی تمام قوت کو ختم کر کے اور مخالفت کو بے اثر پا کر کسی قدر ڈھیلے پڑ رہے تھے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ کی مخالفت میں کمی آگئی تھی کیونکہ ان کے ست ہونے پر کئی دوسرے لوگ ان کی جگہ لینے کے لئے تیار تھے اور لے رہے تھے چنانچہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی بھی جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے انہی لوگوں میں سے تھے جو مولوی محمد حسین صاحب کے ڈھیلے پڑنے پر سلسلہ کی مخالفت میں آگے آ رہے تھے.اسی طرح ایک صاحب با بو الہی بخش لاہور کے رہنے والے تھے جو کسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے معتقد بھی رہ چکے تھے مگر بعد میں مخالف ہو گئے تھے اور آجکل ان کی مخالفت زوروں پر تھی.اسی طرح امرتسر کا غزنوی خاندان بھی شروع سے مخالفت میں پیش پیش چلا آیا تھا.مگر اب ۹۱۰۲ء میں آکر ایک اور شخص آگے آیا جس کا نام مولوی ثناء اللہ تھا.یہ صاحب امرتسر کے رہنے والے تھے ( یایوں کہنا چاہئے کہ رہنے والے ہیں کیونکہ وہ ایک خدائی نشان کے نتیجہ میں اب تک زندہ ہیں) اور جب انہوں نے مخالفت کے میدان میں قدم رکھا تو اسے انتہاء تک پہنچا

Page 141

۱۳۱ دیا.شروع شروع میں تو وہ معمولی طور پر مخالفانہ مضامین لکھتے رہے لیکن ۱۹۰۲ء کے آخر میں انہوں نے جماعت احمدیہ کو مناظرہ کا چیلنج دیا.حضرت مسیح موعود تو چونکہ ۱۸۹۶ء سے ہی اپنے متعلق یہ اعلان فرما چکے تھے کہ چونکہ مناظرہ میں ضد اور ہٹ دھرمی پیدا ہوتی ہے اور عوام کے اخلاق پر بھی برا اثر پڑتا ہے اس لئے میں آئندہ کسی سے مناظرہ نہیں کروں گا لہذا جماعت کی طرف سے سلسلہ کے ایک عالم مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مناظرہ کے لئے بھجوائے گئے اور بمقام مدضلع امرتسر یہ مناظرہ منعقد ہوا.لیکن اس مناظرہ میں بھی اس تلخ تجربہ کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوا جو حضرت مسیح موعود کو پہلے مناظروں میں حاصل ہو چکا تھا یعنی یہ کہ تحقیق حق کی بجائے ضد اور ہٹ دھرمی نے ترقی کی.اس پر حضرت مسیح موعود نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو چیلنج دیا کہ فیصلہ کا اصل طریق تو خدائی نصرت اور روحانی طاقت کا امتحان ہے.پس اس کی طرف توجہ دینی چاہئے اور آپ نے لکھا کہ میں مناظرہ مد کے حالات کے متعلق ایک قصیدہ عربی زبان میں لکھتا ہوں مولوی صاحب کو جید عالم ہونے کا دعویٰ ہے سواگران میں طاقت ہے اور خدا کی نصرت ان کے ساتھ ہے تو اس کے مقابلہ پر ایسا ہی فصیح و بلیغ قصیدہ وہ بھی لکھ کر شائع کر دیں.پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ حق کس کے ساتھ ہے اور آپ نے فرمایا کہ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے مقررہ میعاد کے اندر اس قسم کا قصیدہ لکھ کر شائع کر دیا تو میں اپنی شکست ماننے کے علاوہ انہیں دس ہزار روپیہ انعام بھی دوں گا لے مگر افسوس کہ مولوی صاحب نے اس میدان میں قدم نہ رکھا.اس کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب کی مخالفت دن بدن اور بھی تیز ہوتی گئی اور حضرت مسیح موعود کے آخری ایام میں تو وہ گویا ایک طرح مخالفانہ تحریک کے لیڈر بن گئے اور ان کا اخبار ”اہلحدیث“ امرتسر کے خلاف تحقیر آمیز پراپیگنڈے سے بھرا ہوا ہوتا تھا.اس پر حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۷ء میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ لمبی قیل و قال سے کیا حاصل ہے.فیصلہ کی آسان صورت یہ ہے کہ ہم دونوں اپنے مقدمہ کو خدا کے حضور پیش کر دیتے ہیں.اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ ہم میں سے جو فریق جھوٹا ہے خدا اسے بچے کی زندگی میں ہلاک لخیص از اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴۷

Page 142

۱۳۲ کرے اور آپ نے لکھا کہ میرے اس اشتہار کو مولوی ثناء اللہ صاحب اپنے اخبار میں شائع کر دیں اور اپنی طرف سے اس کے نیچے جو چاہیں لکھ دیں لے اس پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے بڑ اواویلا کیا اور لکھا کہ یہ اشتہار میری اجازت کے بغیر اور میری مرضی کے خلاف شائع ہوا ہے اور مجھے یہ طریق فیصلہ منظور نہیں اور نہ کوئی عقلمند سے منظور کر سکتا ہے بلکہ یہاں تک لکھا کہ مسیلمہ کذاب آنحضرت علی کے بعد تک زندہ رہا تھا تو کیا یہ بات اس کے سچا ہونے کی دلیل ہوگی ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود نے یہ نہیں لکھا تھا کہ ہر صورت میں دوسرے کی زندگی میں مرنا جھوٹے ہونے کی دلیل ہے بلکہ یہ لکھا تھا کہ بالمقابل دعا کے بعد نشان کے طور پر دوسرے کے سامنے ہلاک ہونا جھوٹے ہونے کی دلیل ہے اور آپ مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق یہ بھی تحریر فرما چکے تھے کہ اگر مولوی صاحب نے اس طریق فیصلہ کو مان لیا کہ صادق کا ذب سے پہلے مرے تو پھر وہ ضرور ہلاک ہوں گے.سے لیکن باوجود غیرت دلائے جانے کے مولوی صاحب نے اس فیصلہ کو نہ مانا اور صاف انکار کیا اور تکرار کے ساتھ صراحتاً لکھا کہ مجھے یہ طریق فیصلہ منظور نہیں.پس جب مولوی صاحب نے اس طریق فیصہ کو رد کر دیا بلکہ پیچھے زندہ رہنے والے کو مسیلمہ کذاب قرار دیا تو خدا نے ان کا پھندا انہی پر لوٹا دیا اور ان کی رسی دراز کر دی.چنانچہ وہ اب تک اپنے ہی پیش کردہ اصول يَمُدُّهُمُ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ کے ماتحت کے لئے کھاد کا کام دے رہے ہیں.اور اس عذاب سے حصہ لے رہے ہیں جو دنیا کے سخت ترین عذابوں میں سے ایک عذاب ہے یعنی اپنی آنکھوں سے اپنی ذلت و نا کامی اور اپنے مخالف فریق کی عزت و کامیابی کو دیکھنا اور اس کی جماعت کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کو مشاہدہ کرنا.ان حالات میں یہ یقینی ہے کہ جب تک وہ اپنی پوری ڈور حاص نہیں کر لیں گے ملک الموت ان کی آخری قضاء وقدر کورو کے رکھے گا.لیکن حضرت مسیح موعود کے بعض الہاموں سے پتہ لگتا ہے کہ بالآ خر مولوی شاء اللہ صاحب کی موت بھی جب بھی کہ وہ ہوگی حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک نشان ہوگی جس طرح کہ ان کی زندگی ایک نشان ہے.ے دیکھو اشتہار ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء تلخیص از مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۷۰۶،۷۰۵ جدید ایڈیشن اہلحدیث مور محه ۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ء سے اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴۸

Page 143

۱۳۳ ایک اور مقدمہ کا آغاز اور سفر جہلم اور سفر گورداسپور :.یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے دشمنوں کا ایک حربہ یہ بھی تھا کہ آپ پر جھوٹے مقدمات کھڑے کر کے نقصان پہنچایا جاوے.چنانچہ ۱۹۰۳ء کے شروع میں آپ کے خلاف پھر ایک فوجداری مقدمہ قائم کیا گیا.یہ مقدمہ ایک شخص مولوی کرم دین ساکن بھیں ضلع جہلم کی طرف سے تھا جس میں مولوی کرم دین نے یہ استغاثہ دائر کیا تھا کہ مرزا صاحب نے میرے متعلق اپنی کتاب ”مواہب الرحمن میں جھوٹے اور کمینہ کے الفاظ لکھے ہیں جو میری ازالہ حیثیت عرفی کا موجب ہوئے ہیں.اس مقدمہ کی بنائی تھی کہ مولوی کرم دین نے حضرت مسیح موعود کو ایک خط لکھا تھا جس میں یہ ظاہر کیا تھا کہ میں آپ کا ہمدرد ہوں اور اس میں یہ اطلاع دی تھی کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑ وی جو کتاب آپ کی کتاب "اعجاز مسیح “ کے مہرعلی مقابلہ پر لکھ رہے ہیں اس میں انہوں نے ایک دوسرے شخص کی کتاب کے مسودہ سے سرقہ کیا ہے.مولوی کرم دین کا یہ خط اخبار الحکم قادیان میں چھاپ دیا گیا تا کہ یہ ظاہر ہو کہ سلسلہ کے مخالفین کس اخلاق اور کس ذہنیت کے لوگ ہیں.اس پر مولوی کرم دین نے برافروختہ ہو کر ایک مضمون شائع کیا کہ میں نے یونہی بنسی اور امتحان کے خیال سے یہ ساری بات لکھی تھی ورنہ پیر مہرعلی شاہ صاحب نے کوئی سرقہ نہیں کیا جب حضرت مسیح موعود کو مولوی کرم دین کے اس مضمون کی اطلاع ہوئی تو آپ کو اپنے مخالف مولویوں کی حالت پر سخت افسوس ہوا اور آپ نے اپنی عربی کتاب ” مواہب الرحمن میں جوان ایام میں زیر تصنیف تھی مولوی کرم دین کے متعلق لکھا کہ یہ شخص کذاب اور لٹیم ہے یعنی جھوٹ بولنے والا اور کمینہ مزاج شخص ہے کہ ایسے سنجیدہ معاملات میں بھی اس نے جھوٹ اور کمینگی سے کام لیا ہے.اس پر مولوی کرم دین نے حضرت مسیح موعود کے خلاف ازالہ حیثیت کا دعویٰ دائر کر دیا جس کے جواب میں دفاع کے خیال سے ایک مقدمہ ایڈیٹر اخبار الحکم کی طرف سے مولوی کرم دین کے خلاف بھی دائر کر دیا گیا.حضرت مسیح موعود کے خلاف مقدمہ کی پہلی پیشی جنوری ۱۹۰۳ء میں جہلم میں ہوئی چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے.اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو ایسی قبولیت عطا فرمائی اور

Page 144

۱۳۴ لوگوں کا ایسا رجوع ہوا کہ راستہ میں ہر سٹیشن پر زائرین کا اتنا ہجوم ہوتا تھا کہ پولیس اور محکمہ ریلوے کو انتظام کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور جہلم میں تو لوگوں کی اتنی کثرت تھی کہ جہاں تک نظر جاتی تھی آدمی نظر آتے تھے اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کے لئے دور دراز سے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے.ان میں ایک حصہ اشد مخالف اور دشمن بھی تھا لیکن اکثر لوگ عقیدت اور زیارت کے لئے آئے تھے.چنانچہ اس موقعہ پر جہلم میں قریباً ایک ہزار آدمیوں نے بیعت کی.اور لوگوں کی توجہ سے صاف نظر آتا تھا کہ جماعت کی ترقی میں ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے.اس کے بعد یہ مقدمہ جہلم میں ختم ہو کر گورداسپور میں جاری ہو گیا جو اس ضلع کا صدر مقام ہے جس میں قادیان واقع ہے اور پھر قریباً دو سال تک جاری رہا جس کے لئے حضرت مسیح موعود کو بعض اوقات لمبے لمبے عرصہ کے لئے گورداسپور میں جا کر ٹھہر نا پڑا کیونکہ مجسٹریٹ صاحب عموماً اتنی اتنی قریب کی تاریخیں مقرر کرتے تھے کہ قادیان آنا جانا باعث تکلیف تھا.اس مقدمہ میں اوپر تلے دو مجسٹریٹ بدلے اور اتفاق سے دونوں ہندو تھے اور ان ایام میں یہ افواہ بہت گرم تھی کہ آریہ لوگ ان مجسٹریٹوں کے کان بھرتے رہتے ہیں کہ مرزا صاحب نعوذ باللہ دیکھرام کے قاتل ہیں اور اب اپنا قومی بدلہ اتارنے کا اچھا موقعہ ہے.اور مجسٹریٹوں کے تیور بھی بدلے ہوئے نظر آتے تھے.انہی ایام میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کو یہ اطلاع پہنچی کہ بعض آریوں نے مجسٹریٹ سے کہا ہے کہ اس وقت یہ شخص آپ کے ہاتھ میں ایک شکار ہے اسے اب بیچ کر نہیں جانے دینا چاہئے.اس وقت حضرت مسیح موعود چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے اور طبیعت کچھ خراب تھی مگر یہ بات سن کر آپ جوش کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے جوش کے ساتھ فرمایا.” کیا یہ لوگ مجھے شکار سمجھتے ہیں؟ میں شکار نہیں ہوں.میں تو خدا کا شیر ہوں اور خدا کے شیر پر کوئی ہاتھ تو ڈال کر دیکھے ! پھر تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد فرمایا.میں کیا کروں میں نے تو خدا سے کئی دفعہ عرض کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھوں میں لوہے کے کڑے پہننے کے لئے تیار ہوں مگر وہ مجھے بار بار یہی کہتا ہے کہ

Page 145

۱۳۵ نہیں نہیں میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گا.میں تیری حفاظت میں کھڑا ہوں اور کوئی شخص تجھ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا.انہی دنوں میں حضرت مسیح موعود نے یہ بھی کہا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ اس عدالت میں سزا ہو جائے گی مگر عدالت اپیل میں بریت ہوگی.الغرض یہ مقدمہ دو سال تک چلتا رہا.اور اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود کا بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوا اور بالآخر مجسٹریٹ نے ۱۹۰۴ء کے آخر میں آپ کو پانچ سوروپیہ جرمانہ کی سزا دے دی اور دوسرے مقدمہ میں جو ایڈیٹر الحکم کی طرف سے تھا مولوی کرم دین کو پچاس روپے جرمانہ کیا گیا.حضرت مسیح موعود کی طرف سے جرمانہ فوراً ادا کر دیا گیا اور سشن حج کے پاس اپیل کی گئی سشن جج نے جو ایک انگریز افسر تھا پہلی ہی پیشی میں جو جنوری ۱۹۰۵ء میں ہوئی اپیل کو منظور کر لیا بلکہ افسوس ظاہر کیا کہ ایسا معمولی سا مقدمہ اتنے لمبے عرصہ تک چلتا رہا ہے اور لکھا کہ کرم دین نے جن گرے ہوئے اخلاق کا اظہار کیا ہے اس کے پیش نظر جو الفاظ اس کے متعلق مرزا صاحب نے لکھے ہیں وہ بالکل جائز اور واجبی ہیں اور ان سے اس کی قطعاً کوئی ہتک نہیں ہوئی بلکہ صرف امر واقع کا اظہار ہوا ہے جو حالات کے ماتحت ضروری تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود خدائی وعدہ کے مطابق بری کئے گئے اور آپ کا جرمانہ واپس ہوا.مگر مولوی کرم دین کا جرمانہ قائم رہا اور اس کے جھوٹ اور کمینگی پر ہمیشہ کے لئے مہر تصدیق مثبت ہوگئی.منارة امسیح کا سنگ بنیاد :.مسیح موعود کے متعلق بعض اسلامی پیشگوئیوں میں یہ ذکر آتا ہے کہ اس کا نزول دمشق کے مشرق کی طرف ایک سفید مینار پر ہوگا.اس پیشگوئی کے اصل معنے تو اور ہیں یعنی یہ کہ مسیح موعود کا نزول ایسے دلائل کے ساتھ ہو گا جو دودھ کی سفیدی کی طرح بے عیب ہوں گے اور اس کی روشنی دور دور تک نظر آئے گی.لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود کا یہ طریق تھا کہ جہاں تک ممکن اور جائز ہو ہر پیشگوئی کو ظاہر میں بھی پورا کرنے کی کوشش فرماتے تھے اس لئے آپ نے ۱۹۰۰ء میں یہ تجویز کی تھی کہ قادیان کی مسجد اقصیٰ میں ایک سفید منارہ تعمیر کیا جاوے جس میں ایک بڑی گھڑی لے اس مقدمہ کے حالات کے لئے دیکھو الحکم بابت سال ۱۹۰۳ء ۱۹۰۴ء.۱۹۰۵ء نیز دیکھو سیرۃ المہدی

Page 146

۱۳۶ بھی لگائی جاوے اور روشنی کا بھی انتظام ہوتا کہ یہ روشنی خدائی نور کے لئے ایک ظاہری علامت بھی بن جاوے سے اس تجویز کے مطابق آپ نے بتاریخ ۱۳/ مارچ ۱۹۰۳ء بروز جمعہ مجوزہ مینار کی بنیاد رکھی اور خشت بنیاد کو اپنی ران مبارک پر رکھ کر بہت دیر تک لمبی دعا فرمائی ہے مگر چونکہ اس وقت جماعت کی مالی حالت کمز ور تھی اس لئے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں مینار کی تعمیر مکمل نہیں ہوسکی اور ایک عرصہ تک کام رکا رہا اور پھر ۱۹۱۵،۱۶ء میں آکر خلافت ثانیہ میں اس کی تکمیل ہوئی.مولوی عبد اللطیف صاحب کی شہادت کا دردناک واقعہ :.۱۹۰۳ء میں جماعت احمدیہ کو ایک نہایت دردناک واقعہ پیش آیا جو سلسلہ کی تاریخ میں ایک یاد گار رہے گا اور وہ یہ کہ ۱۹۰۲ء کے آخر میں افغانستان کے علاقہ خوست کے ایک معزز رئیس مولوی عبداللطیف صاحب حضرت مسیح موعود کا نام سن کر قادیان میں آئے اور آپ کی بیعت سے مشرف ہو گئے.یہ صاحب افغانستان کے بڑے علماء میں سے تھے اور دربار کا بل میں ان کی اتنی عزت تھی کہ امیر حبیب اللہ خان کی تاجپوشی کی رسم انہوں نے ہی ادا کی تھی اور ان کے شاگردوں اور معتقدوں کا حلقہ بہت وسیع تھا.انہوں نے کئی ماہ تک قادیان میں قیام کیا اور حضرت مسیح موعود کی صحبت سے بہت فائدہ اٹھایا اور اس عرصہ میں ان کا ایمان اتنا ترقی کر گیا کہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ عشق کی سی کیفیت پیدا ہوگئی.جب وہ کئی ماہ کے قیام کے بعد اپنے وطن میں واپس جانے لگے تو حضرت مسیح موعود کے پاؤں پر گر کر زار زار روئے اور کہنے لگے کہ مجھے نظر آ رہا ہے کہ مجھے اس دنیا میں اس مبارک چہرہ کی زیارت پھر نصیب نہیں ہوگی.جب وہ کابل میں پہنچے تو امیر حبیب اللہ خان کے دربار میں ایک شور پڑ گیا کہ یہ شخص کا فراور مرتد ہو کر آیا ہے اور جہاد کا منکر ہے اور اگر وہ تو بہ نہ کرے تو اس سزا کا مستحق ہے کہ اسے قتل کر دیا جاوے.مولوی عبداللطیف صاحب نے انہیں سمجھایا کہ میں ہرگز مرتد یا کافر نہیں ہوں بلکہ اسلام کا خادم اور فدائی ہوں اور اسلام کے متعلق پہلے سے بہت زیادہ محبت اور اخلاص رکھتا ہوں.ہاں میں نے حضرت مسیح موعود کے دعوی کو سچا جان کر آپ کو قبول کیا ہے اور یہ ایک حق ہے جسے میں چھوڑ نہیں سکتا اور لے دیکھو اشتہار مورخہ ۲۸ مئی ۱۹۰۰ء.مجموعہ اشتہارات جلد نهم صفحه ۳۴ جدید ایڈیشن ۲ الحکم جلدے نمبرہ امورخہ ۷ار مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۴ کالم ۳

Page 147

۱۳۷ میں جہاد کا منکر نہیں ہوں البتہ چونکہ اس زمانہ میں جہاد کی ضرورت نہیں اور وہ حالات موجود نہیں جن میں اسلام نے تلوار کا جہاد جائز رکھا ہے اس لئے میں موجودہ زمانہ میں جہاد بالسیف کا قائل نہیں ہوں.غرض علماء کے ساتھ مولوی صاحب کی بہت بحث ہوئی مگر کابل کے علما ء اپنی ضد پر قائم رہے اور بالآخر انہوں نے متفقہ طور پر مولوی صاحب کو مرتد قرار دے کر ان کے قتل کا فتویٰ دیا.اس پر امیر حبیب اللہ خان نے مولوی صاحب کو سمجھایا کہ اس وقت ضدا اچھی نہیں اور مخالفت کا بہت زور ہے بہتر ہے کہ آپ اپنے عقائد سے توبہ کا اعلان کر دیں.مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے جس بات کو خدا کی طرف سے حق سمجھ کر یقین کیا ہے اسے نہیں چھوڑوں گا اور میں اپنی جان کو بچانے کے لئے اپنے ایمان کو ضائع نہیں کر سکتا.اس پر علماء کے دباؤ کے نیچے آکر امیر نے مولوی صاحب کے قتل کا حکم دے دیا اور قتل کے طریق کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ زمین میں ایک گڑھا کھود کر مولوی صاحب کو اس گڑھے میں کمر تک دفن کر دیا جائے اور پھر ان پر پتھروں کی بارش برسا کر انہیں ہلاک کر دیا جائے.چنانچہ شہر سے باہر کھلے میدان میں یہ انتظام کیا گیا اور کابل کے سب علماء اور رؤسا اور خود امیر اور دوسرے لوگ اس جگہ جمع ہوئے.جب مولوی صاحب کو کمر تک زمین میں دفن کر دیا گیا اور صرف اوپر کا دھڑ باہر رہا تو امیر کابل پھر آگے بڑھ کر مولوی صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ اب بھی وقت ہے اگر آپ تو بہ کر لیں تو علماء کا جوش دب جائے گا.مگر مولوی صاحب نے سختی کے ساتھ انکار کیا اور کہا میں کسی قیمت پر بھی اپنے ایمان کو ضائع نہیں کروں گا اور اب میری صرف اس قدر درخواست ہے کہ تم جلدی کرو تا کہ جو پردہ مجھے جنت سے جدا کر رہا ہے وہ درمیان سے اٹھ جاوے.اس پر امیر نے پتھراؤ کا حکم دیا جس پر اس زور سے پتھر برسے کہ دیکھتے ہی دیکھتے پتھروں کا ایک پہاڑ کھڑا ہوگا اور اس عاشق مسیح کی روح اپنے ابدی ٹھکانہ میں پہنچ گئی.جب حضرت مسیح موعود کو اس واقعہ کی اطلاع پہنچی اور ساتھ ہی یہ خبر بھی ملی کہ اس سے قبل مولوی عبد اللطیف صاحب کے ایک شاگرد مولوی عبد الرحمن صاحب کو بھی کا بل میں شہید کیا گیا تھا تو آپ کو بہت صدمہ پہنچا مگر اس جہت سے خوشی بھی ہوئی کہ آپ کے ان دو خلصین نے ایمان کا ایسا اعلیٰ

Page 148

۱۳۸ نمونہ قائم کیا ہے جو صحابہ کے زمانہ کی یاد کو تازہ کرتا ہے چنانچہ آپ نے اس واقعہ شہادت کے متعلق ایک كتاب " تذكرة الشہادتین“ لکھ کر شائع فرمائی اور اس میں بتایا کہ وہ الہام جو خدا نے کئی سال ہوئے آپ پر نازل کیا تھا کہ دو بے گناہ بکرے ذبح کئے جائیں گے وہ ان دو شہادتوں سے پورا ہوا ہے لے اس کے بعد افغانستان میں احمدیوں پر سخت مصائب کا زمانہ شروع ہو گیا اور ان میں سے بہت سے لوگ اپنے وطن سے بھاگ کر قریب کے انگریزی علاقہ میں آگئے اور بعض قادیان میں ہجرت کر آئے اور ان لوگوں کی جائداد میں ضبط کر لی گئیں.اور جو لوگ پیچھے ٹھہرے وہ چھپ چھپ کر اور اپنے ایمان کو مخفی رکھ کر ٹھہرے مگر ساتھ ہی مولوی عبد اللطیف صاحب کی شہادت نے کابل میں ایک بیج بھی بود یا اور بعض سعید طبیعتوں میں یہ جستجو پیدا ہو گئی کہ اس سلسلہ کے حالات معلوم کریں جس کے ایک فرد نے اپنے ایمان کی خاطر اس دلیری کے ساتھ جان دی ہے چنانچہ کچھ عرصہ کی خاموشی کے بعد پھر اندر ہی اندر احمدیت کا درخت بڑھنا شروع ہوا.اور اب افغانستان کے مختلف حصوں میں ایک کافی جماعت پائی جاتی ہے.مگر اب تک بھی یہ لوگ کھل کر ظاہر نہیں ہو سکتے ہے لاہور اور سیالکوٹ کے سفر اور مثیل کرشن ہونے کا دعوی:.۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۴ء کے سال زیادہ تر اس مقدمہ کی مصروفیت میں گزرے جو مولوی کرم دین جہلمی نے حضرت مسیح موعود کے خلاف دائر کر رکھا تھا.اس مقدمہ کی پیروی میں بظاہر بہت سا وقت ضائع کیا مگر چونکہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے اس لئے گو ایک لحاظ سے یہ وقت ضائع گیا اور حضرت مسیح موعود کو مقدمہ کی پریشانی بھی لاحق ہوئی لیکن دوسری جہت سے یہ مقدمہ باعث رحمت بھی ہو گیا.یعنی اوّل تو اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا یہ نشان ظاہر ہوا کہ آنے والے مقدمہ اور بالآخر اس کی کامیابی کے متعلق حضرت مسیح موعود کو جو الہامات ہوئے تھے وہ پورے ہو کر کئی لوگوں کی ہدایت اور جماعت کے از دیاد ایمان کا باعث ہوئے.دوسرے چونکہ حضرت مسیح موعود اس مقدمہ کے دوران میں زیادہ تر سفر کی دیکھو تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۷۲ مولوی عبد اللطیف صاحب کی شہادت کے واقعہ کے متعلق تصدیقی گواہی کے لئے دیکھو کتاب ”انڈر دی ابسولیوٹ امیر مصنفہ مسٹر مارٹن سابق انجینئر ان چیف کا بل.

Page 149

۱۳۹ حالت میں رہے جس میں آپ کو اپنے دوستوں کے ساتھ ملنے کا زیادہ موقعہ میسر آتا تھا اور کچہری کی حاضری کا وقت بھی گویا اختلاط میں گزرتا تھا اس لئے یہ ایام جماعت کی تربیت کے لحاظ سے بہت مبارک ثابت ہوئے.گویا یہ زمانہ تبلیغ کی نسبت زیادہ تر تعلیم و تربیت میں خرچ ہوا.چنانچہ خاکسار مؤلف نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے عادات و اخلاق کے متعلق آپ کے اصحاب کی روایات بیشتر طور پر اسی زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں.اور ان میں آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب کے ذاتی تعلق اور وابستگی کی ایک خاص جھلک نظر آتی ہے.مگر دعوت الی الحق کا کام بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا چنانچہ علاوہ اس کے کہ ان ایام میں بھی ملنے والوں کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ جاری رہتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں دو ایسے موقعے پیدا کر دیئے جن میں سلسلہ حقہ کی پوری پوری تبلیغ میسر آ گئی.یہ واقعات دوسفروں کی صورت میں تھے جو حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۴ء کے نصف آخر میں کئے.چنانچہ پہلا سفر اگست ۱۹۰۴ء کے آخر میں لا ہور تک کیا گیا.جہاں آپ قریباً دو ہفتے ٹھہرے.اس سفر میں بھی جہلم کے سفر کی طرح لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ پولیس کو انتظام مشکل ہو گیا اور جتنے دن آپ لاہور میں ٹھہرے آپ کی فرودگاہ کے قریب متلاشیان اور مخالفین کا ایک بھاری ہجوم رہتا تھا.متلاشی لوگ آپ کے پاس آتے آپ سے ملتے اور آپ کے سامنے اپنے اعتراضات پیش کر کے فائدہ اٹھاتے تھے اور مخالف لوگ آپ کے قریب آنے کی بجائے آپ کی فرودگاہ کے سامنے مظاہرہ کرتے جلسے منعقد کرتے اور لوگوں کو آپ کے خلاف اکساتے تھے.انہی ایام میں لوگوں کی خواہش پر آپ کے لئے ۳ رستمبر ۱۹۰۴ء کو ایک پبلک تقریر کا بھی انتظام کیا گیا.آپ نے اس موقعہ کے لئے ایک مضمون ”اسلام اور اس ملک کے دوسرے مذاہب“ کے عنوان کے ماتحت لکھ کر اسے طبع کرا لیا اور پھر اسے آپ کے ایک مخلص حواری حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے حسب معمول اپنی بلند اور خوبصورت آواز میں پڑھ کر سنایا.حاضرین کی تعداد باوجود لوگوں کی سخت مخالفت کے سات آٹھ ہزار کے قریب تھی اور جلسہ نہایت کامیاب رہا.

Page 150

۱۴۰ تقریر کے اختتام پر حاضرین نے خواہش کی کہ حضرت مسیح موعودا اپنی زبان سے بھی کچھ فرما ئیں چنانچہ آپ نے تحریری تقریر کے پڑھے جانے کے بعد ایک مختصر زبانی تقریر بھی کی جس کا بہت اچھا اثر ہوا اور اس طرح یہ جلسہ نہایت کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا.چونکہ یہ زمانہ سخت مخالفت کا زمانہ تھا اور ہر قتم کے لوگوں کا رجوع عام تھا اس لئے اس جلسہ کے موقعہ پر پولیس کی طرف سے خاص انتظام تھا.ہندوستانی اور گورہ پولیس دونوں کا پہرہ تھا اور گورہ پولیس نی تلواروں کے ساتھ ڈیوٹی پر حاضر تھی اور نہ صرف جلسہ گاہ میں پہرے کا انتظام تھا بلکہ راستہ میں بھی مضبوط پہرہ متعین تھا.اور آپ کی گاڑی کے آگے اور پیچھے گھوڑے سوار سپاہی کام پر لگے ہوئے تھے اس لئے باوجود اس کے کہ بعض شریر اور فتنہ پرداز لوگ شرارت کا ارادہ رکھتے تھے کسی کو جرات نہیں ہوئی اور پندرہ دن کے قیام کے بعد آپ لاہور سے گورداسپور تشریف لے گئے لے سفر لاہور کے قریباً دو ماہ بعد یعنی اکتوبر ۱۹۰۴ء کے آخر میں جب کہ ماتحت عدالت نے مولوی کرم دین والے مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے.اس سفر کی وجہ یہ تھی کہ سیالکوٹ کی جماعت نے آپ سے یہ درخواست کی تھی کہ آپ اپنی ابتدائی عمر میں کئی سال تک سیالکوٹ میں رہے ہیں پس اب بھی جبکہ خدا نے آپ کو ایسی عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی ہے آپ ایک دفعہ پھر چند دن کے لئے سیالکوٹ تشریف لے چلیں اور اس شہر کو اپنے مبارک قدموں سے برکت دیں.آپ نے جماعت کی اس خواہش کو منظور فرما لیا اور ۱/۲۷اکتوبر کو سیالکوٹ تشریف لے گئے.اس سفر کی کامیابی نے جہلم اور لاہور کے سفروں کو بھی مات کر دیا اور راستے کے سٹیشنوں پر اور بالآ خر سیالکوٹ کے سٹیشن پر زائرین کا اس قدر ہجوم تھا کہ محکمہ ریلوے اور پولیس کے لئے انتظام سخت مشکل ہو گیا.مسلمان.ہندو.سکھ.عیسائی غرض ہر قوم کے لوگ اس شخص کو دیکھنے کے لئے ٹوٹے پڑتے تھے جس نے اپنے دعووں اور اپنی پیشگوئیوں کے ساتھ ملک میں ایک زلزلہ برپا کر رکھا تھا.اس سفر میں لاہور کے سٹیشن پر اس قدر ہجوم تھا کہ پلیٹ فارم ٹکٹ ختم ہو گئے اور بہت سے لوگ سٹیشن کے اندر آنے دیکھو الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۷

Page 151

۱۴۱ سے محروم رہ گئے اور سیالکوٹ سٹیشن پر تو حد ہی ہوگئی جہاں تک نظر جاتی تھی لوگوں کے سر ہی سر نظر آتے تھے.سٹیشن کی عمارتیں.پاس کے مکانات اور دو کا نات اور راستے وغیرہ اس طرح بھرے ہوئے تھے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی اور یہ ہجوم صرف سٹیشن کے قرب و جوار تک محدود نہیں تھا بلکہ سٹیشن سے لے کر اس جگہ تک جہاں حضرت مسیح موعود نے قیام کرنا تھا جو قریباً ایک میل کے فاصلہ پر تھی لوگوں کا مسلسل ہجوم تھا اور راستہ میں حضرت مسیح موعود کی گاڑی کے لئے راستہ صاف رکھنے کے واسطے پولیس کو خاص انتظام کرنا پڑا اور کئی افسر ڈیوٹی پر لگے ہوئے تھے.شاید یہ نظارہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے دکھایا کہ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ جس شہر میں دعوی سے پہلے آپ ایک بالکل غیر معروف صورت میں کسم پرسی کی حالت میں رہتے تھے وہاں دعویٰ کے بعد خدا کی نصرت نے آپ کی مقبولیت کو کہاں تک پہنچا دیا کہ باوجود انتہائی مخالفت کے دنیا امدی چلی آتی ہے.سیالکوٹ میں آپ نے ایک ہفتہ قیام کیا اور لوگوں کی خواہش پر یہاں بھی آپ نے ایک پبلک جلسہ میں تقریر فرمائی.یہ تقریر بھی لکھی ہوئی تھی جسے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھا جو اسی شہر کے رہنے والے تھے اور اپنی آواز اور سحر بیانی سے لوگوں کو مسحور کر لیتے تھے.باوجود اس کے کہ علماء کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ مرزا صاحب کی تقریر میں کوئی شخص نہ جائے اور لوگوں کو روکنے کی غرض سے ایک بالمقابل جلسہ بھی منعقد کیا گیا اور لیکچر گاہ کے دروازوں پر بھی بہکانے والے آدمی مقرر کئے گئے مگر پھر بھی لوگ بڑی کثرت کے ساتھ جلسہ میں شریک ہوئے اور تقریر نہایت کامیاب ہوئی.دوران تقریر میں بعض فتنہ پرداز لوگوں نے شور کرنا چاہا مگر پولیس نے روک دیا اور کسی قسم کی گڑ بڑ نہیں ہوسکی.اس تقریر میں حضرت مسیح موعود نے اسلام اور احمدیت کی صداقت کے دلائل بیان کئے مگر جو بات اس تقریر میں حضرت مسیح موعود کی طرف سے خاص طور پر پیش کی گئی وہ مثیل کرشن ہونے کا دعویٰ تھا.یہ دعویٰ پہلے سے آپ کی تحریرات میں آچکا تھا مگر اس موقعہ پر آپ نے خصوصیت سے اس بات کا اعلان فرمایا کہ خدا نے آپ کو بتایا ہے کہ جس طرح آپ مثیل مسیح اور مثیل موسیٰ اور بہت سے دوسرے

Page 152

۱۴۲ نبیوں کے مثیل ہیں اسی طرح آپ مثیل کرشن بھی ہیں جو ہندوؤں میں ایک بہت باخدا بزرگ اور بڑے بھاری اوتار گزرے ہیں یا لیکچر کے دوسرے دن یعنی نومبر ۱۹۰۴ء کے شروع میں آپ قادیان واپس تشریف لے آئے.ایک تباہ کن زلزلہ اور خدائی پیشگوئی کا ظہور :.۱۹۰۵ء کا آغاز اس مقدمہ کی فتح کے ساتھ ہوا جو مولوی کرم دین نے آپ کے خلاف دائر کر رکھا تھا اور جس میں ماتحت عدالت نے آپ پر پانچ سو روپیہ جرمانہ کیا تھا.عدالت اپیل نے نہ صرف آپ کو بری کیا اور جرمانہ واپس دلایا بلکہ ماتحت عدالت کے فیصلہ پر سختی کے ساتھ ریمارک کئے کہ ایسے معمولی مقدمہ کو اتنا لٹکایا گیا ہے اور کرم دین کے متعلق بھی لکھا کہ وہ ان الفاظ کا پوری طرح حقدار تھا جو اس کے متعلق استعمال کئے گئے.یہ کامیابی اس خدائی بشارت کے مطابق تھی جو پہلے سے حضرت مسیح موعود کو دی جا چکی تھی.ابھی اس نئے سال نے زیادہ منزلیں طے نہیں کی تھیں کہ ۴ را پریل ۱۹۰۵ء کوشمالی ہندوستان میں ایک خطر ناک زلزلہ آیا.اس زلزلہ کا مرکز ضلع دھرم سالہ کے پہاڑ تھے جہاں سب سے زیادہ تباہی آئی مگر یہ تباہی صرف دھرم سالہ تک محدود نہیں تھی بلکہ پنجاب کے ایک بہت بڑے علاقہ میں تباہی آئی اور ہزاروں جانیں اور لاکھوں روپے کی جائیداد تباہ ہو گئی اور ایک آن کی آن میں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے قیامت کا نظارہ پھر گیا.یہ تباہ کن زلزلہ حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی کے مطابق تھا جو چند ماہ پہلے شائع کی گئی تھی اور جس کے الفاظ یہ تھے کہ :.عَفَتِ الذِيَارُ مَحَلُّهَا وَمُقَامُهَا ! یعنی عنقریب ایک تباہی آنیوالی ہے جس میں سکونت کی عارضی جگہیں اور مستقل جگہیں دونوں مٹ جائیں گی اور اس کے بعد ایک اور الہام میں بتایا گیا تھا کہ:.دردناک موتوں سے عجیب طرح پر شور قیامت برپا ہے اور موتا موتی لگ رہی ہے.سے دیکھو لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۲۸ ۲۲۲۹ - الحکم جلد نمبر ۱۸ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۹ کالم ۴ ے.دیکھوالبدر جلد نمبر۷ مورخه ۵ مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۳ کالم ۱

Page 153

۱۴۳ چنانچہ مین ان الہاموں کے مطابق جو کئی ماہ پہلے شائع کئے جاچکے تھے اس زلزلہ نے لوگوں کو یہ قیامت کا نمونہ دکھا دیا اور پیشگوئی بڑی صفائی کیساتھ پوری ہوئی.اس زلزلہ کے بعد آپ احتیاط کے طور پر اپنے مکان میں سے نکل کر اس باغ میں جا کر مقیم ہو گئے جو قصبہ کے جنوبی جانب واقع ہے اور کئی ماہ تک وہیں باغ میں ٹھہرے.جہاں خیموں کے انتظام کے علاوہ چد عارضی مکانات بھی تیار کرالئے گئے تھے اور مقامی جماعت کے اکثر دوست بھی آپ کے ساتھ باغ میں چلے گئے.اور اس طرح باغ میں ایک چھوٹا سا شہر آباد ہو گیا.جس کے سارے باشندے گویا ایک خاندان کے فرد تھے.انہی دنوں میں آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ خدا نے مجھے اور زلزلوں کی بھی خبر دی ہے اور آپ نے لکھا کہ گو خدا کے الہام میں زلزلہ کا لفظ ہے مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ ضرور زلزلہ ہی ہوگا بلکہ ممکن ہے کہ کوئی اور تباہی ہو جو اپنی ہلاکت میں زلزلہ سے مشابہ ہو.چنانچہ انہی ایام میں آپ نے وہ منظوم پیشگوئی شائع فرمائی جس میں ایک عالمگیر تباہی کی خبر دی اور یہاں تک لکھا کہ یہ تباہی ایسی خطرناک ہوگی کہ خون کی ندیاں چل جائیں گی اور عمارتیں مت جائیں گی اور لوگ اپنے عیش و عشرت کو بھول کر دیوانوں کی طرح پھریں گے حتی کہ زار روس جیسے جلیل القدر بادشاہ بھی اس وقت با حال زار ہوں گے چنانچہ آپ نے فرمایا:.اک نشاں ہے آنیوالا آج سے کچھ دن کے بعد جس سے گردش کھا ئیں گے دیہات و شہر اور مرغزار آئیگا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب اک برہنہ سے نہ ہوگا یہ کہ تا باندھے ازار یک بیک اک زلزلہ سے سخت جنبش کھائیں گے کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار اک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیر و زبر نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آپ رودبار ہوش اڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار خون سے مردوں کے کوہستان کے آب رواں سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن وانس زار بھی ہوگا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار لے لے براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۵۲٬۱۵۱

Page 154

۱۴۴ یہ نظم حضرت مسیح موعود نے اپریل ۱۹۰۵ء میں لکھی اور اس کے نیچے یہ نوٹ لکھا کہ گو خدا تعالیٰ نے الہام میں زلزلہ کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن چونکہ بعض اوقات زلزلہ کا لفظ ایک بڑی آفت اور انقلاب پر بھی بولا جاتا ہے اس لئے ممکن ہے کہ یہ مصیبت عام زلزلہ کی صورت میں نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نمونہ دکھاوے.اور بعد کے حالات نے بتا دیا کہ اس پیشگوئی میں جنگ عظیم کی طرف اشارہ تھا جس نے ۱۹۱۴ء میں ظاہر ہو کر گویا دنیا کا نقشہ بدل دیا اور ایسی خطرناک تباہی پیدا کی جس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں نہیں ملتی اور پھر لطف یہ ہے کہ عین پیشگوئی کے مطابق اس زلزلہ عظیمہ نے زار کا بھی تختہ الٹ دیا.سلسلہ کے ایک بہت بڑے عالم کی وفات :.۱۹۰۵ء کے آخر میں کو ایک بہت بھاری صدمہ پہنچا یعنی اار اکتوبر ۱۹۰۵ء کو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے وفات پائی.مولوی صاحب مرحوم ایک نہایت جید عالم ہونے کے علاوہ ایک بہت بڑے مقرر اور مصنف بھی تھے اور ان میں خدا نے ایسے دو صفوں کو جمع کر دیا تھا جو بہت کم جمع ہوتے ہیں.یعنی ان کی زبان اور قلم دونوں نے خدا سے خاص برکت حاصل کی تھی.آواز نہایت بلند اور دلکش تھی اور زبان نہایت فصیح اور زور دار اور ہر لفظ اثر میں ڈوبا ہوا نکلتا تھا.تصنیف میں بھی نہایت زور تھا.اور سلاست اور روانی کے ساتھ فصاحت غضب کی تھی.اس کے علاوہ طبیعت بہت زیرک اور نکتہ سنج تھی اور قرآن شریف کے معارف بیان کرنے میں خاص ملکہ تھا.ابھی بالکل جوان ہی تھے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کے واسطے سے حضرت مسیح موعود کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور گو شروع شروع میں سرسید مرحوم کے خیالات کے اثر کے ماتحت طبیعت میں کسی قدر نیچریت کی طرف میلان تھا مگر حضرت مسیح موعود کی صحبت میں آکر یہ اثر آہستہ آہستہ ڈھل گیا اور چونکہ جو ہر پاک تھا اس لئے نبوت کے پر تو نے غلبہ پا کر طبیعت کو ایک خاص جلا دے دی.وفات کے وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی عمر صرف سینتالیس سال کی تھی.اگست

Page 155

۱۴۵ ۱۹۰۵ء میں مرض کاربنکل سے بیمار ہوئے اور قریباً دو ماہ بیمار رہ کر ا/اکتوبر ۱۹۰۵ء کو نمونیا کی زائد تکلیف سے اپنے محبوب حقیقی سے جاملے.حضرت مسیح موعود کو مولوی صاحب کی وفات کا ایسا ہی صدمہ ہوا جیسے ایک محبت کرنے والے باپ کو ایک لائق بیٹے کی وفات کا ہوا کرتا ہے مگر آپ کی محبت کا اصل مرکزی نکتہ خدا کا وجود تھا اس لئے آپ نے کامل صبر کا نمونہ دکھایا اور جب بعض لوگوں نے زیادہ صدمہ کا اظہار کیا اور اس بات کے متعلق فکر ظاہر کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی ذات کے ساتھ بہت سے کام وابستہ تھے اب ان کے متعلق کیا ہوگا تو آپ نے ایسے خیالات پر توبیخ فرمائی چنانچہ فرمایا:.”مولوی عبدالکریم صاحب کی موت پر حد سے زیادہ غم کرنا ایک قسم کی مخلوق کی عبادت ہے کیونکہ جس سے حد سے زیادہ محبت کی جاتی ہے یا حد سے زیادہ اس کی جدائی کا غم کیا جاتا ہے وہ معبود کے حکم میں ہو جاتا ہے.خدا ایک کو بلا لیتا ہے تو دوسرا اس کے قائم مقام کر دیتا ہے.وہ قادر اور بے نیاز ہے لے حضرت مسیح موعود نے مولوی صاحب مرحوم کے سنگ مزار کے لئے ایک فارسی نظم بھی تحریر فرمائی جس میں آپ نے لکھا کہ:.کے تواں کردن شمار خوبی عبدالکریم آں کہ جاں داد از شجاعت بر صراط حامی دیں آنکہ یزداں نام اولیڈر نہاد عارف اسرار حق گنجینه دین قویم گرچہ جنس نیکواں ایس چرخ بسیار آورد کم بزاید مادرے باایں صفا در یتیم دل بدرد آمد زہجر ایں چنیں یک رنگ دوست لیک خوشنودیم برفعلِ خداوند کریم یعنی مولوی عبد الکریم مرحوم کی خوبیاں کس طرح بیان کی جائیں.وہ عبدالکریم جس نے دین کے رستہ میں شجاعت اور بہادری کے ساتھ لڑتے ه بدر جلد نمبر ۲۸ مورخه ۱۳/اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم ۳

Page 156

۱۴۶ ہوئے جان دی ہے.وہ دین کا ایک زبر دست پہلوان تھا جس کا نام خود خدا نے اپنے ایک الہام میں مسلمانوں کا لیڈر رکھا تھا.وہ حق کے اسرار کا راز دار تھا.اور دینی معارف کا ایک خزانہ تھا.اگر چہ اس آسمان کے نیچے بڑے بڑے نیک لوگ پیدا ہوئے ہیں مگر اس آب و تاب کا موتی بہت کم دیکھنے میں آیا ہے.اس قسم کے یک رنگ دوست کی جدائی سے دل میں درد اٹھتا ہے لیکن اپنے خدا کے فعل پر ہر حال میں راضی اور شاکر ہیں.“ سفر دہلی ولدھیانہ و امرتسر اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کے بعد ماہ اکتو بر کے آخر میں حضرت مسیح موعود چند دن کے لئے دہلی تشریف لے گئے.اس سفر سے پہلے آپ کو خواب میں یہ بتایا گیا امرتسر میں مخالفوں کا ہنگامہ :.تھا کہ آپ دہلی گئے ہیں مگر شہر کے دروازوں کو بند پایا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ دہلی میں لوگوں نے مخالفت کا شور تو بہت کیا مگر مخالفت کا دوسرا پہلو جو قبولیت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے وہ ظاہر نہ ہوا اور آپ نے اپنی خواب کے مطابق دہلی والوں کے دلوں پر قفل لگے ہوئے پائے.مگر پھر بھی تبلیغ کا حق ادا کیا گیا اور بہت لوگ ملاقات سے مستفیض ہوئے.دہلی سے واپسی پر آپ لدھیانہ میں دو دن ٹھہرے.یہ لدھیانہ وہی تھا جس میں آپ نے سب سے پہلی بیعت لی تھی اور جس میں بیعت اولیٰ کے دو سال بعد آپ نے دعویٰ مسیحیت کا اعلان کیا تھا.لدھیانہ میں دہلی کی طرح شہر کے دروازے مقفل نہیں تھے اور باوجود مخالفت کے ۶ نومبر ۱۹۰۵ء کو آپ کا ایک بہت کامیاب لیکچر ہوا اور ہزاروں انسانوں نے آپ کا کلام سنا.لدھیانہ سے روانہ ہو کر آپ دو دن کے لئے امرتسر ٹھہرے.یہاں بھی لوگوں کی خواہش پر آنے ۹ نومبر ۱۹۰۵ء کو ایک تقریر فرمائی جس میں حاضری بہت کا فی تھی.مگر دوران تقریر میں مخالفوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور باوجود کوشش کے نہ رکے حتی کہ آپ کو اپنی تقریر بند کر نی پڑی.اس وقت

Page 157

۱۴۷ لوگوں میں سخت جوش تھا اور وہ بار بار سٹیج کی طرف حملہ کرنے کے خیال سے بڑھتے تھے مگر پولیس روک کر پیچھے ہٹا دیتی تھی.آخر آپ پولیس کے مشورہ سے ایک عقبی دروازہ میں سے باہر نکل کر اس گاڑی میں سوار ہو گئے جو پولیس نے آپ کے لئے مہیا کی تھی جو نہی کہ آپ اس گاڑی میں بیٹھ کر اپنی فرودگاہ کی طرف روانہ ہوئے لوگوں نے گاڑی کی طرف دھاوا کیا اور لاٹھیاں اور پتھر برسنے شروع ہو گئے.مگر خدا کے فضل سے کوئی نقصان نہیں ہوا.صرف ایک احمدی کو لاٹھی سے خفیف چوٹ آئی اور ایک پتھر کا ٹکڑا گاڑی کے شیشے کو توڑ کر خاکسار مؤلف کے ہاتھ پر لگا.اس سے کوئی زخم تو نہیں آیا مگر میرے لئے ایک فخر کی یادگار باقی رہ گئی کہ حضرت مسیح موعود کے خاندان میں اور آپ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے خدا کے رستے میں پہلی ضرب میں نے کھائی ہے.دوسرے روز حضرت مسیح موعود قادیان واپس تشریف لے آئے.حضرت مسیح موعود کی وصیت اور مقبرہ بہشتی کا قیام :.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات اا راکتو بر ۱۹۰۵ء کو ہوئی تھی اور اسی مہینہ کے آخری حصہ میں حضرت مسیح موعود کو اپنی وفات کے متعلق الہامات شروع ہو گئے اور اس کثرت اور تکرار کے ساتھ ہوئے کہ بقول آپ کے آپ کی ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا اور اس زندگی کو آپ پر سرد کر دیا.چنانچہ سب سے پہلے ۱٫۱۸ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو آپ نے دیکھا کہ آپ کے سامنے ایک برتن میں مصفے اور ٹھنڈا پانی پیش کیا گیا ہے جو بقدر دو یا تین گھونٹ کے تھالے اور اس کے ساتھ ہی آپ کو الہام ہوا.” آب زندگی، یعنی یہ تیری بقیہ زندگی کا پانی ہے.اس کے بعد الہام ہوا.قَلَّ مِیعَادُ رَبِّكَ یعنی تیری زندگی کی میعاد تھوڑی رہ گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا.خدا کی طرف سے سب پر اداسی چھا گئی.پھر ۲۹ نومبر ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا.قَرُبَ اَجَلُكَ الْمُقَدَّرُ وَلَا نُبُقِى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا - یعنی تیری مقدر وفات کا وقت قریب آ گیا ہے اور ہم تیرے پیچھے کوئی رسوا کرنے والی بات نہیں رہنے دیں گے.سے پھر ۱۴ / دسمبر ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا جاء وقتک و نبقی لک الایات باهرات لے اس میں یہ اشارہ تھا کہ اب آپ کی عمر صرف دو تین سال رہ گئی ہے چنانچہ عین ڈھائی سال کے بعد وفات ہوئی.دیکھو بدرجلد نمبر ۲۹ مورخ ۲۰/اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳ کالم ۱.سے الحکم جلد نمبر ۹ نمبر ۴۲ مورخ ۰ ار دسمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم ۱ بدر جلد نمبر ۳۹ مورخه ۱۵ار دسمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم ۱ 66

Page 158

۱۴۸ یعنی تیرا وقت آن پہنچا ہے اور ہم تیرے واسطے روشن نشان باقی رکھیں گے.ہے.اسی طرح اور بھی بہت سے الہامات ہوئے جن سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ اب آپ کی وفات کا وقت بالکل قریب آ گیا ہے.اس پر آپ نے الوصیت نام کے ماتحت ایک وصیت لکھ کر شائع فرمائی اور اس میں ان سارے الہامات کو درج کر کے اس بات کو ظاہر کیا کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے اور آپ نے اپنی تعلیم کا خلاصہ بیان کر کے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ وہ آپ کے بعد آپ کی دلائی ہوئی تعلیم پر قائم رہے اور درمیانی ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی سنت اللہ کے ماتحت ضروری ہوتا ہے اور آپ نے لکھا کہ نبی کا کام صرف تخم ریزی تک محدود ہوتا ہے.پس میرے ذریعہ سے یہ تخم ریزی ہو چکی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر اک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.آپ نے یہ بھی لکھا کہ بسا اوقات ایک نبی کی وفات ایسے وقت میں ہوتی ہے جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے اندر رکھتا ہے اور مخالف لوگ ہنسی اور ٹھٹھا اور طعن و تشنیع سے کام لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس اب یہ سلسلہ مٹ گیا.اور بعض کمزور مومن بھی ڈگمگانے لگتے ہیں.تب خدا اپنی دوسری قدرت کو ظاہر فرماتا ہے اور خلفاء کے ذریعہ بظاہر گرتی ہوئی عمارت کو سنبھال کر اپنی طاقت اور نصرت کا ثبوت دیتا ہے اور دشمن کی خوشی خاک میں مل جاتی ہے.چنانچہ آپ الوصیت میں تحریر فرماتے ہیں کہ:.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہے ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے...اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا.بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک نا کامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے

Page 159

۱۴۹ غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا تب خدا تعالی دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا.جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانوں کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا..سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دوقدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر د یوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی ہے ( یعنی میری وفات کے قریب ہونے کی خبر ) غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود نے اپنی اس وصیت میں خدا کے حکم سے جماعت کے لئے ایک خاص مقبرہ کی بھی تجویز فرمائی جس کا نام آپ نے بہشتی مقبرہ رکھا.دراصل اس مقبرہ کے متعلق له رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴ ۳۰ تا ۳۰۶

Page 160

آپ کو کئی سال پہلے سے رؤیا ہو چکا تھا اور آپ کو بتایا گیا تھا کہ جماعت کے خاص مخلصین کے لئے جو خدا کی نظر میں بہشتی ہیں ایک علیحدہ قبرستان ہونا چاہئے تا کہ وہ ایک یادگار ہو اور بعد میں آنے والی نسلیں اسے دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ کریں اور آپ اس عرصہ میں اس کے جائے وقوع اور زمین وغیرہ کے بارے میں غور فرماتے رہے تھے لیکن اب جبکہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات ہوئی اور خود آپ کو اپنی وفات کے بارے میں بھی کثرت کے ساتھ الہامات ہوئے تو آپ نے اس تجویز کے متعلق عملی قدم اٹھایا اور قادیان سے جنوبی جانب اپنے باغ کے ساتھ ایک قطعہ اراضی تجویز کر کے اس میں اس مقبرہ کی بنیاد قائم کی.اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو جنہیں عارضی طور پر ایک بکس میں دوسری جگہ دفن کر دیا گیا تھا اس نئے مقبرہ کی طرف منتقل کر دیا گیا.اس مقبرہ کے قیام کے وقت آپ نے خدا سے الہام پا کر اس مقبرہ میں دفن ہونے کے لئے دوضروری شرطیں بھی مقرر فرمائیں:.اول یہ کہ اس مقبرہ میں دفن ہونے والا ایک سچا اور مخلص مومن ہو جو متقی ہو اور محرمات سے پر ہیز کرنے والا اور ہر قسم کے شرک اور بدعت سے پاک ہو.دوم یہ کہ وہ اسلام اور احمدیت کی خدمت کے لئے اپنی جائیداد کا کم از کم دسواں حصہ اور زیادہ سے زیادہ تیسرا حصہ پیش کرے اور اس بارے میں ایک با قاعدہ وصیت کر کے اپنے مال کا یہ حصہ سلسلہ کے نام پر لکھ دے.مگر آپ نے یہ تصریح کی کہ اگر کوئی شخص کسی قسم کی جائیداد نہ رکھتا ہوتو پھر صرف شرط اول کافی ہوگی بشر طیکہ یہ ثابت ہو کہ ایسا شخص اپنی زندگی کو دین کے لئے وقف رکھتا تھا.آپ نے اس مقبرہ کے انتظام کے لئے ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس کا صدر حضرت مولوی نورالدین صاحب کو مقرر کیا اور اس بات کو لازمی قرار دیا کہ اس کمیٹی میں کم از کم دو ممبر ایسے رہنے چاہئیں جو دین کے عالم ہوں اور سلسلہ کی تعلیم سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہوں آپ نے اس مقبرہ کے متعلق یہ بھی تصریح فرمائی کہ خدا نے جو یہ انتظام قائم کیا ہے اس سے یہ مطلب نہیں کہ یہ زمین کسی کو بہشتی کر دے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ایسا تصرف فرمائے گا کہ صرف بہشتی ہی اس مقبرہ میں دفن کیا جائے گا اور دوسرے لوگ اس میں جگہ نہیں پاسکیں گے.لے دیکھو ضمیمہ متعلقہ رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴ ۳۲ تا ۳۲۶

Page 161

۱۵۱ میں دینی علماء پیدا کرنے کی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی تجویز اور مدرسہ احمدیہ کی ابتدائی داغ بیل: کی وفات نے حضرت مسیح موعود کی توجہ کو اس طرف بھی مبذول کیا کہ جماعت میں کوئی ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ مرنے والے علماء کی جگہ لینے کے لئے دوسرے لوگ تیار ہوں جوسلسلہ احمدیہ کی خدمت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکیں اور چونکہ اس زمانہ میں آپ کو اپنی وفات کے متعلق بھی کثرت کے ساتھ الہامات ہورہے تھے اور ان ایام میں آپ کو جماعت کی تربیت کی طرف بھی خاص توجہ تھی اس لئے آپ نے کوشش فرمائی کہ بہت جلد کوئی ایسی تجویز ہو جاوے جس سے جماعت میں دین کی خدمت کرنے والے علماء پیدا ہونے لگیں.چنانچہ جب دسمبر ۱۹۰۵ء کے آخری ہفتہ میں قادیان میں جلسہ سالانہ کا اجتماع ہوا تو آپ نے اس موقع پر ایک نہایت دردانگیز تقریر فرمائی جس میں اپنی اس تجویز کو پیش کیا اور فرمایا کہ موجودہ انگریزی مدرسہ ( یعنی تعلیم الاسلام ہائی سکول ) ہماری اس مخصوص ضرورت کو پورانہیں کرتا اس لئے ایسی درسگاہ کی ضرورت باقی رہتی ہے جس میں دینی علوم کی تعلیم دی جائے او رایسے علماء پیدا کئے جائیں جو اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے پوری طرح واقف ہوں اور علم کے علاوہ تقریر وتحریر میں بھی اعلی ملکہ رکھیں اور انہیں انگریزی اور حسب ضرورت سنسکرت وغیرہ بھی پڑھائی جائے اور دوسرے مذاہب کی تعلیم بھی دی جائے اور کسی قدر سائنس بھی سکھائی جائے اور اس کے ساتھ آپ نے یہ بھی تحریک فرمائی کہ جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کریں تا کہ انہیں مناسب تعلیم دلا کر کام میں لگایا جا سکے.اس موقعہ پر آپ نے یہ بھی ذکر فرمایا کہ ابھی جماعت میں تربیت کے لحاظ سے بہت کچھ اصلاح اور ترقی کی ضرورت ہے اور فرمایا کہ گو خدا کے وعدوں پر نظر رکھتے ہوئے مجھے ہر طرح سے امید اور ڈھارس ہے کہ خدا ساری کمیوں کو خود پورا فرمادے گا مگر بظا ہر صورت جماعت کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے اور دوسری طرف اس پیغام موت کا خیال کرتے ہوئے جو مجھے خدا کی طرف سے آرہا ہے میرے دل میں غم اور درد پیدا ہوتا ہے اور جماعت کی حالت اس بچہ کی سی نظر آتی ہے جس نے ابھی چند دن ہی دودھ پیا ہو اور اس کی ماں فوت ہو جاوے لے دیکھو پر چہ جات اخبار الحکم بابت ماہ جنوری و فروری ۱۹۰۶ء

Page 162

۱۵۲ آپ کی اس تقریر نے جو سوز و گداز سے بھری ہوئی تھی سامعین میں ایسی رفت پیدا کر دی کہ ان میں سے اکثر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے.اور جب آپ نے اپنی تقریر کو ختم کیا تو سب نے بالا تفاق عرض کیا کہ جماعت کی بہتری کے لئے جو بھی تجویز کی جاوے ہم سب اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کا بوجھ اٹھانے کے لئے دل و جان سے تیار ہیں.اس کے بعد جماعت میں کافی دیر تک مشورہ ہوتا رہا.اور مختلف دوستوں کی طرف سے مختلف رائیں پیش کی گئیں اور بعض نے یہ بھی مشورہ دیا کہ موجودہ مدرسه یعنی تعلیم الاسلام ہائی سکول کو اڑا کر اس کی جگہ خالص دینی مدرسہ قائم کر دیا جاوے مگر حضرت مسیح موعود نے اس تجویز کو پسند نہیں کیا اور فرمایا کہ یہ مدرسہ بھی ایک ضرورت کو پورا کر رہا ہے اور اسے اڑانا مناسب نہیں.البتہ اس میں بھی دینی تعلیم کو زیادہ مضبوط کرنا چاہئے.مگرعلماء اور مبلغ پیدا کرنے کے لئے علیحدہ انتظام کی ضرورت ہے.بالآخر یہ فیصلہ قرار پایا کہ فی الحال تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ ایک دینیات کی علیحدہ شاخ زائد کر دی جائے.یعنی پرائمری کی تعلیم کے بعد طالب علم مروجہ تعلیم کے رستے پر تعلیم پائیں اور بعض بچے دینیات کی شاخ کی طرف آجائیں جس میں عربی اور دینیات کی اعلی تعلیم کے علاوہ دوسرے مذاہب کے متعلق بھی تعلیم دی جائے اور ساتھ ہی دوسری زبانیں مثلاً انگریزی اور سنسکرت وغیرہ بھی پڑھائی جائیں اور کسی حد تک سائنس بھی ہو اور تحریر وتقریر کی بھی مشق کرائی جائے.چنانچہ ۱۹۰۶ ء کی ابتداء سے یہ دینیات کی شاخ جاری کر دی گئی اور بعض نوجوانوں نے اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کر دیا.حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ۱۹۰۸ء کے جلسہ سالانہ میں یہ سوال پھر جماعت کے مشورہ کے لئے پیش کیا گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت مسیح موعود کی یادگار میں دینیات کی شاخ تو تعلیم الاسلام ہائی سکول سے کاٹ کر ایک مستقل مدرسہ کی صورت میں قائم کر دیا جائے.چنانچہ اس وقت سے یہ شاخ ایک مستقل مدرسہ کی صورت میں قائم ہوگئی اور یہی وہ درسگاہ ہے جو اس وقت مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی صورت میں قائم ہے.اس درسگاہ میں جس کے ابتدائی حصہ کا نام مدرسہ احمدیہ ہے اور آخری حصہ کا نام جامعہ احمدیہ ہے قرآن شریف اور حدیث اور فقہ اور تصوف اور کتب کے علاوہ تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت اور دیگر مذاہب کا لٹریچر بھی

Page 163

۱۵۳ پڑھایا جاتا ہے اور کسی قدر جغرافیہ اور سائنس اور انگریزی بھی ہے اور حال ہی میں سنسکرت کا بھی انتظام کیا گیا ہے اس درسگاہ کا سرکاری محکمہ تعلیم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک خالص قومی درسگاہ ہے جس کی غرض و غایت دین کے عالم اور دین کے مبلغ پیدا کرنا ہے.حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخری ۱۹۰۵ء کا انجام ایک لحاظ سے دردانگیز حالات میں دور کا آغاز اور خدائی نشانوں کی بھرمار ہوا تھا.یعنی اس سال کے آخر میں سلسلہ کے ایک جلیل القدر بزرگ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات ہوئی جن کے وصال سے جماعت میں گویا ایک خلا پیدا ہو گیا تھا اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ اسی سال کے آخری ایام میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو اپنے قرب وفات کی خبر دی جس سے جماعت میں ایک انتہائی غم اور سراسیمگی کی کیفیت پیدا ہوگئی.عام دنیا دارانہ رنگ میں ان حالات کا یہ نتیجہ ہونا چاہئے تھا کہ کم از کم ایک وقت تک جماعت میں مایوسی اور بے ذوقی کی کیفیت پیدا ہو جاتی.مگر چونکہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے قائم شدہ تھا اس لئے ان حالات نے حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت ہر دو پر وہ اثر پیدا کیا جو ایک تیز گھوڑے پر تازیانہ کا اثر ہوتا ہے چنانچہ اس کے بعد سے نہ صرف سلسلہ کے کاموں میں آگے سے بھی زیادہ چستی اور تیز رفتاری پیدا ہوگئی بلکہ جماعت کے اخلاص نے بھی اس زمانہ میں غیر معمولی ترقی کی اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق تو یوں نظر آتا تھا کہ گویا اس خیال سے کہ اب کام کی مہلت ختم ہو رہی ہے اور خدا کے دربار میں حاضر ہوکر رپورٹ دینے کا وقت قریب آ گیا ہے آپ اپنے انتہائی زور اور انتہائی جدوجہد اور انتہائی انہماک کے ساتھ خدمت دین میں مصروف تھے اور اپنے منصب ماموریت کے سوا ہر چیز کو بھولے ہوئے تھے.یہی وہ دن ہیں جن میں آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ یہ جو وقت لوازمات بشری کے ماتحت کھانے پینے یا سونے یا رفع حاجت کے لئے پاخانہ وغیرہ میں جانے میں خرچ ہوتا ہے اس کا بھی ہمیں سخت قلق ہوتا ہے کہ کاش یہ وقت بھی خدمت دین میں لگ جاتا.آپ کی یہ حالت اس پختہ ایمان اور اس کامل یقین پر ایک روشن دلیل ہے جو آپ کو اپنے خدا داد مشن کے متعلق تھا.دوسری طرف اس زمانہ میں خدا نے

Page 164

۱۵۴ بھی اپنے نشان نمائی کے ہاتھ کو غیر معمولی طور پر تیز کر دیا تھا اور یوں نظر آتا تھا کہ خداوند عالمیان یہ ارادہ کئے ہوئے ہے کہ ہمارا یہ چہیتا بندہ ہمارے سامنے کامل سرخروئی کے ساتھ آئے اور ہمارے دربار میں فتح وظفر کا پرچم لہراتا ہوا پہنچے.چنانچہ حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخری ڈھائی سال میں اتنے نشان ظاہر ہوئے اور خدا تعالیٰ نے اپنے قدرت کے ہاتھ کی اتنی تجلیاں دکھائیں اور کے مخالف اس کثرت کے ساتھ ذلت کی موت کا شکار ہوئے کہ پہلے سارے ریکارڈمات ہو گئے.مگر افسوس ہے کہ ہم اس مختصر رسالہ میں ان سب کا ذکر نہیں کر سکتے البتہ بطور مثال صرف چند معاندین کا ذکر درج ذیل کیا جاتا ہے.(۱) ایک شخص چراغ دین نامی جموں کا رہنے والا تھا.وہ حضرت مسیح موعود کا سخت مخالف تھا اور اس نے کے خلاف ایک کتاب بھی لکھی تھی جس میں اس نے حضرت مسیح موعود کے ہلاک ہونے کی پیشگوئی کی تھی اور خدا سے فیصلہ چاہا تھا چنانچہ خدا نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کتاب کے لکھنے کے چند دن بعد ہی یعنی ۱۹۰۶ ء میں وہ خود طاعون سے ہلاک ہو گیا اور اس کے ساتھ اس کے دو بیٹے بھی طاعون کا شکار ہو گئے اور کوئی نام لیوا باقی نہ رہا ہے (۲) ایک اور صاحب بابو الہی بخش لاہوری تھے.اس شخص نے حضرت مسیح موعود کے خلاف ایک کتاب ” عصائے موسی لکھی تھی اور اس میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ مرزا صاحب نعوذ باللہ فرعون ہیں اور ان کے مقابل پر میں موسیٰ ہوں اور یہ کہ فرعون موسیٰ کے سامنے ہلاک ہو گا.مگر ۱۹۰۷ء میں وہ خود اپنے آپ کو فرعون کا مثیل ثابت کرتا ہو طاعون کا نشانہ بن گیا کے (۳) ایک شخص فقیر مرزا جو دوالمیال ضلع جہلم کا رہنے والا تھا اس نے حضرت مسیح موعود کے خلاف بہت کچھ بد زبانی کر کے آپ کی ہلاکت کی پیشگوئی کی تھی.یعنی یہ کہ آپ رمضان کے مہینہ میں ہلاک ہو جائیں گے مگر پھر وہ خود حضرت مسیح موعود کی زندگی میں یعنی ۱۹۰۷ء میں طاعون کا شکار ہو گیا اور قدرت حق کا تماشا یہ ہے کہ اس کی موت عین رمضان کے مہینہ میں واقع ہوئی.سکے ے حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۸۶، ۳۸۷ نشان نمبر ۱۷۴۱۷۳.تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱ تا ۳ ے.تتمہ حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۳۹ ،۳۵۴۰ - حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۸۰ تا ۳۸۳ نشان نمبر ۱۷۱

Page 165

۱۵۵ (۴) حکیم عبد القادر جو طالب پور ضلع گورداسپور کا رہنے والا تھا اس نے حضرت مسیح موعود کے خلاف ایک نہایت گندی نظم لکھی اور اس میں خدا سے دعا کی کہ وہ جھوٹ کا مطلع صاف کرے اور پھر ۱۹۰۷ء میں طاعون سے ہلاک ہو کر خود جھوٹ کے مطلع کو صاف کر گیا ہے (۵) مولوی محمد جان عرف ابوالحسن پسروری جو ایک مصنف تھا اور حدیث بخاری کا شارح بھی تھا اس نے ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود کے خلاف ایک کتاب ” بجلی آسمانی ، لکھی اور دعا کی کہ مرزا صاحب پر خدا کی طرف سے بجلی گرے مگر اس کتاب کے لکھنے کے بعد وہ ایک ماہ کے اندراندرخود طاعون کی بجلی کا نشانہ بن کر پیوند خاک ہو گیا.کے (۶) پھر ایک شخص سعد اللہ لدھیانوی تھا جس نے کی مخالفت کو انتہاء تک پہنچا دیا اور حضرت مسیح موعود کے خلاف ایسی گندی تحریریں لکھیں کہ انسانی شرافت ان کے ذکر سے شرماتی ہے اس نے تحدی کے ساتھ لکھا تھا کہ میں مرزا صاحب کو نیچا دکھا کر تباہ و برباد کروں گا مگر آخر ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی خود طاعون سے ہلاک ہو گیا.بلکہ سعد اللہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کی ایک اور عظیم الشان پیشگوئی بھی پوری ہوئی اور وہ یہ کہ اس نے حضرت مسیح موعود کے متعلق لکھا تھا کہ آپ نعوذ باللہ ابتر رہیں گے یعنی آپ کا سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور کوئی نام لیوانہیں رہے گا اور آپ لا ولد اور لاوارث مریں گے.اس پر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو الہام کیا کہ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَر یعنی تیرا دشمن خود ابتر اور لاولد ر ہے گا.چنانچہ اس کے بعد سعد اللہ کے کوئی اولاد نہیں ہوئی اور جولڑ کا پہلے سے اس کا موجود تھا وہ بھی لا ولد گزرگیا.اور ساری نسل خاک میں مل گئی.سے (۷) قادیان میں تین جو شیلے آریہ اچھر چند ، سوم راج اور بھگت رام رہتے تھے جنہوں نے قادیان سے حضرت مسیح موعود کے خلاف ایک اخبار شبھ چپتک‘ نامی جاری کیا تھا اور اس اخبار کو کی مخالفت میں وقف کر دیا تھا اور یہ مخالفت محض اصولی حد تک محدود نہیں تھی بلکہ اخبار شبھ چنتک کا ہر ورق حضرت مسیح موعود کے خلاف گندی گالیوں اور جھوٹے الزامات سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور لا تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۸۲ تا ۴ ۴۸ سے تلخیص از حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۹۸ نشان نمبر ۲۰۵.سے - تلخیص از تمه حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۳۵ تا ۴۳۹

Page 166

اچھر چند تو تمسخر کے طور پر یہ بھی کہا کرتا تھا کہ مرزا صاحب نے اپنے لئے اور اپنے مکان میں رہنے والوں کے لئے طاعون سے محفوظ رہنے کی پیشگوئی ہے اس کے مقابل پر میں بھی کہتا ہوں کہ مجھے بھی طاعون نہیں ہوگی.آخر ۱۹۰۷ ء کے شروع میں ان تینوں کو طاعون نے پکڑا اور چند دن کے اندراندر سب کا صفایا کر دیا اور ان کی ہلاکت کے ساتھ اخبار شجھ چنک“ کا بھی ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا ہے (۸) ایک شخص جان الگزینڈر ڈوئی امریکہ کے شہر شکاگو کے پاس رہتا تھا اور نہایت امیر کبیر آدمی تھا.وہ مذہباً عیسائی تھا اور اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ خدا نے مجھے مسیح کی آمد ثانی کی تیاری کے لئے مبعوث کیا ہے اور اس نے اسلام کے خلاف ایک رسالہ ”لیوز آف ہیلنگ“ نامی بھی نکالا تھا اور اس بات کا مدعی تھا کہ اسلام اس کے ہاتھ سے نابود ہوگا.جب حضرت مسیح موعود کو اس کے دعوئی سے اطلاع ہوئی تو آپ نے اسے چیلنج دیا کہ اگر تم سچے ہو تو میرے سامنے آ کر روحانی مقابلہ کر لو اور آپ نے اس چیلنج کو امریکہ کے بہت سے اخباروں میں چھپواد یا مگر ڈوئی اس مقابلہ کے لئے تیار نہ ہوا اور یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میں ان بھنبھنانے والے مچھروں کے سامنے کھڑا نہیں ہونا چاہتا جن کو میں کسی وقت اپنے ہاتھ میں لے کر مسل سکتا ہوں.آخر حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق بطور خود خدا سے فیصلہ چاہا اور خدا نے آپ کو خبر دی کہ عنقریب ایک ایسا نشان ظاہر ہوگا جو ساری دنیا کے لئے نشان ہو گا.چنانچہ اس کے چند دن بعد ہی یعنی ۱۹۰۷ ء کے شروع میں امریکہ کا جھوٹا مدعی ڈوئی نہایت درجہ ذلیل ہو کر خاک میں مل گیا.یعنی پہلے تو اس کے مریدوں کا ایک بڑا حصہ اس سے برگشتہ ہو کر اس کے خلاف کھڑا ہو گیا اور پھر اس پر فالج کا حملہ ہوا جس میں اس نے کچھ عرصہ نہایت تکلیف کی زندگی گزاری اور آخر حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی وہ اس جہان سے رخصت ہوا.سے یہ تو وہ بعض عذاب کی تجلیاں تھیں جو حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخری ایام میں ظاہر ہوئیں.مگر خدا کے مرسل صرف عذاب کے لئے نہیں آتے بلکہ ان کا اصل مشن رحمت کا ہوتا ہے اور عذاب کا پہلو صرف انکار اور شوخی کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود کی زندگی میں خدا لے تلخیص از هقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۹۰ تا ۵۹۴ نشان نمبر ۱۹۹ ۲۰۰ ۲۰۱ تخمه حقیقت الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۴ تا ۵۱۶ نشان نمبر ۱۹۶ -

Page 167

۱۵۷ نے رحمت کے نشانوں کی بھی کمی نہیں رکھی بلکہ غور کیا جائے تو آپ کے رحمت کے نشان جو آپ کے متعلق یا آپ کی اولاد کے متعلق یا آپ کے دوستوں کے متعلق یا آپ کی جماعت کے متعلق ظاہر ہوئے ان کی تعداد عذاب کے نشانوں سے بہت زیادہ ہے مگر ہم اس جگہ مثال کے طور پر صرف پانچ نشانوں کا ذکر کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخری ایام میں ظاہر ہوئے.(۱) حضرت مسیح موعود کی جماعت میں ایک بزرگ نواب محمد علی خان صاحب ہیں جو ہر ہائی نس نواب مالیر کوٹلہ کے ماموں ہیں.نواب محمد علی خان صاحب حضرت مسیح موعود کی صحبت سے مستفیض ہونے کے لئے قادیان میں ہجرت کر کے آگئے تھے.اس عرصہ میں ان کا لڑکا عبدالرحیم خان تپ محرقہ سے بیمار ہو گیا اور باوجود پورے پورے علاج کے اس کی حالت دن بدن گرتی گئی حتی کہ ڈاکٹروں نے یہ رائے ظاہر کر دی کہ اب اس کا بچنا محال ہے اور چند دن میں فوت ہو جائے گا.اس پر حضرت مسیح موعود کو دعا کی طرف خاص توجہ پیدا ہوئی اور آپ نے علیحدگی میں جا کر اس کے لئے دعا فرمائی.جس پر آپ کو الہامآبتایا گیا کہ اس لڑکے کی موت مقدر ہے اور اب دعا کا وقت گزر چکا ہے.اس پر آپ نے خدا سے التجا کی کہ اگر دعا کا وقت نہیں تو شفاعت کا وقت تو ہے.لے پس میں اس بچہ کے لئے شفاعت کرتا ہوں اس پر بڑے زور کے ساتھ یہ الہام ہوا کہ خدا کی اجازت کے بغیر کون شفاعت کر سکتا ہے اور آپ لکھتے ہیں کہ اس الہام کے جلال کے سامنے میرا جسم کانپ گیا اور میں یہ یاد کر کے پانی پانی ہو گیا کہ میں نے خدا کی اجازت کے بغیر شفاعت کر دی.مگر ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک محبت کی آواز آپ کے کانوں میں آئی کہ انتَ الْمَجَاز یعنی ہم تجھے شفاعت کی اجازت دیتے ہیں.اس کے بعد آپ نے شفاعت فرمائی اور شفاعت کے ساتھ عبدالرحیم خان کی بیماری ہوا کی طرح اڑ گئی اور چند دن میں صحت یاب ہو کر چلنے پھرنے لگ گیا ہے (۲) ایک نہایت مخلص احمدی سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراس میں تاجر تھے.سیٹھ صاحب.لے شفاعت دعا سے اعلی مرتبہ رکھتی ہے جس میں دعا کرنے والا شخص اس شخص کو جس کے لئے دعا کی جاتی ہے اپنے نفس کے ساتھ جوڑ کر اور خدا کو اپنے تعلق کا واسطہ دے کر یہ درخواست کرتا ہے کہ اس شخص پر رحم کیا جاوے مگر شفاعت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ خدا سے اجازت لے کر کی جائے لیکن حضرت مسیح موعود کو اس وقت کے جوش کی حالت میں اجازت حاصل کرنے کا خیال نہیں رہا اور آپ نے بلا اجازت شفاعت فرما دی.خاکسار مؤلف ۲ تلخیص از حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۸۸ حاشیه و تذکره صفحه ۴۱۳،۴۱۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء

Page 168

۱۵۸ کی عمر بڑی تھی اور جسم بھاری تھا اور ساتھ اس کے ذیا بیطیس کی تکلیف بھی رہتی تھی.اس حالت میں انہیں کار بنکل کا پھوڑا نکل آیا.اور چونکہ ان حالات میں یہ مرض عموماً مہلک ہوتا ہے ڈاکٹروں نے سخت تشویش کا اظہار کیا.اس پر سیٹھ صاحب نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود کو تار کے ذریعہ دعا کی درخواست کی.حضرت مسیح موعود کو سیٹھ صاحب کے ساتھ ان کے اخلاص اور خدمات کی وجہ سے بہت محبت تھی اس لئے آپ نے ان کے لئے خاص توجہ سے دعا فرمائی جس پر آپ کو خدا کی طرف سے الہام ہوا آثار زندگی چنانچہ اس کے بعد سیٹھ صاحب بالکل تندرست ہو گئے اور کئی سال صحت کی حالت میں زندہ رہ کر حضرت مسیح موعود کے بعد وفات پائی ہے (۳) حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی جو حضرت مسیح موعود کے بعد پہلے خلیفہ ہوئے اور جو حضرت مسیح موعود کے خاص الخاص صحابہ اور دوستوں میں سے تھے ان کی اولاد چھوٹی عمر میں مرجاتی تھی جس پر بعض مخالفین نے استہزاء کا طریق اختیار کیا کہ گویا مرزا صاحب کا یہ خاص حواری لا ولد ر ہا جا رہا ہے.اس پر حضرت مسیح موعود نے خدا سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ حضرت مولوی صاحب کے ایک لڑکا پیدا ہو گا جسے خدا چھوٹے عمر میں فوت ہونے سے بچائے گا اور بطور علامت کے یہ بتایا گیا کہ اس بچہ کے بدن پر غیر معمولی صورت میں پھوڑے نکلیں گے.چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مولوی صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جسے خدا نے بچپن میں وفات سے بچایا اور ولادت کے کچھ عرصہ بعد اس کے بدن پر اتنے پھوڑے نکلے کہ سارا جسم پھوڑوں سے بھر گیا کے گویا وہ کوئی مخفی زہر تھا جو پھوڑوں کے رستے نکل گیا اور پھر ایک لمبے عرصہ کے بعد ان پھوڑوں سے نجات ملی اور اس کے بعد خدا نے حضرت مولوی صاحب کو اور بھی کئی بچے عطا کئے جو زندہ رہے.(۴) خاکسار مؤلف کے حقیقی ماموں میر محمد اسحق صاحب جو حضرت مسیح موعود کے مکان کے ایک حصہ میں رہتے تھے وہ ۱۹۰۶ء میں سخت بیمار ہو گئے اور تیز بخار کے ساتھ ہر دو بنِ ران میں گلٹیاں بھی ظاہر ہوگئیں.چونکہ یہ ایام طاعون کے تھے اس لئے یقین کر لیا گیا کہ یہ طاعون ہے اور ا تلخیص از حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحه ۳۳۸، ۳۳۹ نشان نمبر ۱۴۲ ے تلخیص از حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۰ نشان نمبر ۴۵

Page 169

۱۵۹ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول بھی جو میر صاحب کے معالج تھے بہت گھبرا گئے.اس پر حضرت مسیح موعود کو سخت قلق پیدا ہوا اور آپ نے ان کے لئے خصوصیت سے دعا فرمائی اور خدا سے عرض کیا کہ خواہ اصل مرض کچھ ہولیکن اگر اس وقت ان عوارض کے ساتھ ان کی وفات ہوگئی تو دشمن کو اعتراض کا موقعہ ہو گا کہ طاعون کی بیماری سے مکان کی حفاظت کا وعدہ غلط نکلا جس پر خدا نے آپ کی دعا کوسنا اور میر صاحب کو خارق عادت طور پر شفا عطا کی چنانچہ میر صاحب دو تین گھنٹے کے اندراٹھ کر کھیلنے کودنے لگ گئے اور بخار اور گلٹیوں کا نام ونشان نہ رہا ہے (۵) قادیان میں ریاست حیدر آباد دکن کا ایک لڑکا عبدالکریم پڑھتا تھا.اسے ۱۹۰۶ء میں ایک دیوانے کتے نے کاٹ لیا اور بہت زخمی کیا.اس پر عبدالکریم کو کسولی پہاڑ پر بھجوایا گیا جہاں ایسے بیماروں کا علاج ہوتا تھا.چند دن کے علاج کے بعد عبد الکریم بظاہر اچھا ہو کر واپس آ گیا.مگر اس کے کچھ عرصہ بعد اس میں ہائیڈ روفوبیا کے آثار ظاہر ہو گئے اور اس شدت کے ساتھ ظاہر ہوئے کہ جھوٹے ہائیڈ روفوبیا کا امکان نہ رہا بلکہ بیماری کی حقیقی علامات ظاہر ہو گئیں.چونکہ لڑکا بہت دور سے آیا ہوا تھا حضرت مسیح موعود کو اس کے لئے خاص طور پر دعا کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور ساتھ ہی آپ کے منشاء کے ماتحت کسولی کے انچارج ڈا کٹر کو تار دی گئی کہ عبدالکریم کو یہ یہ علامات ظاہر ہوگئی ہیں اس کا کیا علاج کیا جائے.وہاں سے تار آیا کہ اب اس مرحلہ پر اس بیماری کا کوئی علاج نہیں.مگر حضرت مسیح موعودؓ نے پھر بھی دعا جاری رکھی اور آخر آپ کی دعا سے خدا نے عبدالکریم کوشفا دی اور وہ بالکل صحت یاب ہو گیا حالانکہ اس وقت تک فن طب کا یہ متحدہ فتویٰ ہے کہ جب ایک دفعہ اس مہلک بیماری کے حقیقی آثار ظاہر ہو جائیں تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں ہے یہ وہ نشان ہیں جو محض سنے سنائے نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگ ان کے چشم دید گواہ ہیں اور یہ چند نشان صرف بطور مثال درج کئے گئے ہیں ورنہ حضرت مسیح موعود کی کتب اس قسم کے نشانوں سے بھری پڑی ہیں.بے شک آجکل کے مادہ پرست لوگ ان باتوں کو پڑھ کر ہنسیں گے اور انکار کریں گے مگر جن لوگوں کی آنکھوں کے سامنے یہ نظارے گزرے ہیں وہ کس طرح انکار کر سکتے ہیں اور سچ له تلخیص از حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۴۲ نشان نمبر ۱۴۳ ۲ تلخیص از تتمه حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه۴۸۱،۴۸۰

Page 170

17.پوچھو تو وہ لوگ بھی کس طرح انکار کر سکتے ہیں جو حضرت مسیح ناصری اور دوسرے مذہبی بزرگوں کے متعلق اسی قسم کے معجزوں پر ایمان لاتے ہیں حالانکہ وہ معجزے تاریخی رنگ میں اپنے ساتھ بہت ہی کم ثبوت رکھتے ہیں اور اکثر ان میں سے قصے کہانیوں سے زیادہ نہیں.صدر انجمن احمدیہ کا قیام :.حضرت مسیح موعو کے آخری ایام کے نشانوں کو ایک جگہ بیان کرنے کی غرض سے ہم نے واقعات کے تسلسل کا خیال نہیں رکھا اب اس زمانہ کے دوسرے واقعات تسلسل کے ساتھ بیان کرتے ہیں.یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے مقبرہ بہشتی کے انتظام کے لئے ایک مجلس مقرر فرما دی تھی جس کا صدر آپ نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو مقر فرمایا تھا.اس کے جلدی بعد حضرت مسیح موعود کے سامنے بعض لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اب چونکہ سلسلہ کا کام بہت پھیل گیا ہے اور کئی قسم کے کام جاری ہو گئے ہیں اور مرکزی دفاتر کا انتظام اور چندوں کا حساب کتاب ایک با قاعدہ نام چاہتا ہے اس لئے مناسب ہے کہ ایک واحد مرکزی کمیٹی بنا کر سارے دفتری کام اور انتظامات اس کے سپرد کر دیئے جائیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے اس تجویز کو منظور کر کے ایک مرکزی مجلس کے قیام کو منظور فرمایا اور اس طرح صدرانجمن احمدیہ کا وجود ظہور میں آ گیا.صدر انجمن احمدیہ کے قیام کے بعد وہ تین انجمنیں بھی جو اس سے پہلے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور ریویو آف ریلیجنز اور مقبرہ بہشتی کے انتظام کے لئے علیحدہ علیحدہ مقرر تھیں اس مرکزی انجمن کے ماتحت آگئیں چنانچہ جنوری ۱۹۰۶ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود کی منظوری سے صدرانجمن احمد یہ کے قواعد مرتب کر کے شائع کر دیئے گئے.حضرت مسیح موعود نے صدر انجمن احمدیہ کے چودہ ممبر مقرر فرمائے اور انجمن کا صدر حضرت مولوی نور الدین صاحب کو مقرر کیا اور مولوی محمد علی صاحب ایم.اے سیکرٹری مقرر کئے گئے اور گو اس وقت خاکسار مؤلف رسالہ ہذا کے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( جو اس وقت جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہیں ) بہت چھوٹے تھے یعنی صرف سترہ سال کی عمر تھی مگر انہیں بھی حضرت مسیح موعود نے اس انجمن کا ممبرمقررفرمایا.اور سلسلہ کا دفتری کام

Page 171

۱۶۱ اور صیغہ جات کا انتظام جو پہلے متفرق انجمنوں کے سپر د تھا اب اس واحد مرکزی انجمن کے سپر د کر دیا گیا.مگر انجمن کے سپرد کردہ امور میں بھی ہر معاملہ میں آخری حکم خود حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں رہاہے علاوہ ازیں لنگر خانہ اور مہمان خانہ کا انتظام براہ راست آپ کے پاس رہا کیونکہ آپ کو اندیشہ تھا کہ اسے انجمن کے سپرد کر دینے سے کہیں مہمانوں کے لئے تکلیف کا سامنا نہ ہو اور آپ یہ بھی چاہتے تھے کہ تربیت کے لحاظ سے مہمانوں کا براہ راست آپ کے ساتھ تعلق رہے.صدر انجمن احمدیہ کے قیام کی تجویز ایک عام تنظیمی تجویز تھی جو سلسلہ کے بڑھتے ہوئے کاموں کی وجہ سے سہولت کے خیال سے اختیار کی گئی اور حضرت مسیح موعود کی زندگی میں اس انجمن کی اس سے زیادہ حیثیت نہیں تھی کہ وہ آپ کے ماتحت اور آپ کی امداد کے لئے بعض کا موں کے چلانے کے واسطے ایک انجمن ہے اور کسی کو یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ یہ انجمن جماعت کی افسر اور اس کی پالیسی کی نگران اور اس کی مہم کو چلانے والی ہے.اور جماعت کے بہت سے لوگ اس سے واقف تک نہیں تھے اور جماعت سے باہر تو اس کے نام سے بھی اکثر لوگ نا آشنا تھے اور جب ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود کی وفات ہوئی تو اس وقت بھی کسی کو یہ خیال تک نہیں گیا کہ یہ انجمن میں خلافت کی قائم مقام ہے بلکہ خود انجمن نے اور انجمن کے ممبروں نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ منتخب کرنے میں حصہ لیا اور ساری جماعت نے متحدہ طور پر حضرت خلیفہ اول کی خلافت کو مطابق وصیت حضرت مسیح موعود بر حق تسلیم کر کے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ہی ایک پارٹی ایسی پیدا ہو گئی جس نے مغرب کے جمہوری طریق حکومت سے متاثر ہو کر اور شخصی نظام کو اپنی طبیعت کے خلاف پا کر اس خیال کو اٹھایا کہ اصل چیز انجمن ہی ہے اور وہی جماعت کی حاکم اعلیٰ ہے اور خلیفہ کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک پریزیڈنٹ کی ہے جو انجمن کے ماتحت ہے.یہ خیال ایک مضحکہ خیز خیال تھا کیونکہ : اوّل.وہ حضرت مسیح موعود کی وصیت کے خلاف تھا جس کا ایک اقتباس اوپر گزر چکا ہے.لے دیکھو تو اعد صدرانجمن احمد یہ مطبوعہ الحکم مورخه ار فروری ۱۹۰۶ صفحه ۷،۶

Page 172

۱۶۲ دوسرے.وہ جماعت کے سب سے پہلے اجماع کے خلاف تھا جو وہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے معابعد ایک واجب الا طاعت خلیفہ کو منتخب کر کے کر چکی تھی.تیسرے.وہ خود صدر انجمن احمدیہ کے اس متحدہ فیصلہ کے خلاف تھا جو اس نے حضرت خلیفہ اول کے انتخاب کے وقت کیا تھالے چوتھے.وہ اسلامی طریق عمل اور صحابہ کے تعامل کے خلاف تھا جو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد خلافتِ راشدہ کی صورت میں قائم ہو چکا تھا.پانچویں.وہ عقل اور تجربہ کے بھی خلاف تھا جس نے دنیا میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ گو عام انتظامی کاموں کے سرانجام دینے کے لئے مجلسیں اور پارلیمنٹیں ایک حد تک کام دے سکتی ہیں مگر کسی زبر دست مہم کو چلانے اور کسی تیز رو کو جاری کرنے اور لوگوں میں زندگی کی روح پھونکنے کے لئے ایک واحد مقناطیسی شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے.اور پھر مذہبی نظام کے معاملہ میں تو خصوصاً ایک شخصی انتظام کے بغیر کام نہیں چل سکتا کیونکہ مذہب میں جذبات اور اخلاص اور ایمان کا تعلق ہوتا ہے اور یہ چیزیں ہرگز کسی انجمن کے انتظام کے ماتحت قائم نہیں رہ سکتیں اور پھر اسلام نے خلافت کو بھی کلی طور پر شخصی نہیں رہنے دیا بلکہ اس کے ساتھ مشورہ کو ضروری قرار دیا ہے.مگر افسوس کہ جماعت کے ایک حصہ نے اس سوال پر ٹھو کر کھا کر اپنے لئے ایک ایسا رستہ اختیار کر لیا جو یقیناً فلاح و کامیابی کا رستہ نہیں لیکن اس ذکر کا اصل موقعہ آگے آتا ہے اس لئے اس جگہ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.نوجوانوں میں کام کی روح اور جو درد ناک تقریر حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۵ء کے جلسہ سالانہ میں فرمائی تھی جس میں خصوصیت سے اس بات پر زور رسالہ حمید الا ذبان کا اجراء: تھا کہ گزرنے والے علماء کی جگہ لینے کے لئے نوجوانوں کو آگے آنا چاہئے وہ بہرے کانوں پر نہیں پڑی تھی.بلکہ اس نے جماعت کے نو جوانوں میں ایک خاص لے دیکھو اعلان خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ مندرجہ غیر معمولی پر چہ الحکم مورخه ۲۸ مئی ۱۹۰۸ء

Page 173

۱۶۳ زندگی کی روح پھونک دی تھی اور وہ خدمت کا موقعہ پانے کے لئے بیتاب ہو کر آگے آ رہے تھے.چنانچہ اس تقریر کے معاً بعد یعنی اوائل ۱۹۰۶ء میں چند احمدی نوجوانوں نے مل کر قادیان میں ایک انجمن قائم کی جس کی غرض یہ تھی کہ احمدی نوجوان تقریر وتحریر کی مشق کر کے سلسلہ کی خدمت کے قابل بنیں.اس انجمن کا نام حضرت مسیح موعود نے تفخیذ الاذہان رکھا.یعنی ذہنوں کو تیز کرنے والی انجمن اور اس انجمن نے اپنا طریق عمل یہ اختیار کیا کہ ایک تو ہفتہ واری یا پندرہ روزہ جلسے منعقد کر کے تقریروں کی مشق شروع کی اور دوسرے ایک ماہواری رسالہ کا اجراء کیا جس کا نام بھی تشحیذ الاذہان رکھا گیا.اس رسالہ میں اسلام اور احمدیت کی تائید میں مضامین لکھے جاتے تھے.ان ہر دو سلسلوں نے جماعت کی ایک عمدہ خدمت سرانجام دی اور نو جوانوں کی تنظیم اور ان کی علمی اور عملی ترقی میں نمایاں حصہ لیا.اس انجمن کے روح و رواں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب تھے جو آجکل جماعت کے امام ہیں اور ان کے ساتھ چوہدری فتح محمد صاحب اور بعض دوسرے نو جوان تھے.یہ وہی چوہدری فتح محمد صاحب ہیں جو آجکل صدرانجمن احمدیہ کے پریزیڈنٹ اور ناظر اعلیٰ ہیں.ڈاکٹر عبد الحکیم خان کا ارتداد اور حقیقۃ الوحی کی تصنیف:.ہرالبی سلسلہ میں ایک حد تک ارتداد کا سلسلہ بھی چلتا ہے چنانچہ حضرت مسیح ناصری کے عہد میں بھی بعض لوگ مرتد ہو گئے تھے اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی عبداللہ بن ابی سرح وغیرہ نے ارتداد اختیار کیا تھا سو یہ سنت حضرت مسیح موعود کی جماعت میں بھی پوری ہوئی یعنی ۱۹۰۶ء کے شروع میں ایک شخص ڈاکٹر عبدالحکیم خاں نامی جوریاست پٹیالہ میں اسسٹنٹ سرجن تھا اور کئی سال تک حضرت مسیح موعود کا مرید رہ چکا تھا جماعت سے مرتد ہو کر مخالفین کے گروہ میں شامل ہو گیا.اس کے ارتداد کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کا یہ عقیدہ ہو گیا تھا کہ نجات کے لئے کسی نبی یا رسول پر ایمان لا ناضروری نہیں بلکہ محض خدا کو مان لینا کافی ہے.حضرت مسیح موعود نے اسے بہت سمجھایا کہ وہ ایمان جو سلسلہ رسل و کتب کو الگ رکھ کر محض صحیفہ فطرت پر نگاہ کرنے سے خدا کے متعلق پیدا ہوتا ہے وہ بہت ناقص اور ادنی ہوتا ہے بلکہ دراصل وہ حقیقی

Page 174

۱۶۴ وو ایمان ہوتاہی نہیں.بلکہ ایک قسم کا قیاس ہوتا ہے جو انسان کو خدا کے متعلق اس شکی مقام سے آگے نہیں لے جاتا کہ کوئی خدا ہونا چاہیئے.مگر آپ نے تشریح فرمائی کہ محض ”ہونا چاہئے والا ایمان کچھ حقیقت نہیں رکھتا جب تک کہ انسان اس یقین تک نہ پہنچ جائے کہ واقعی ایک خدا ہے اور آپ نے بتایا کہ یہ ” ہے والا ایمان رسولوں اور نبیوں کی وساطت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے لئے خدائی تجلیات اور نشانات اور معجزات کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک نبی اور رسول کے ذریعہ ہی ظاہر ہوتے ہیں.اسی لئے محض ” ہونا چاہئیے والا ایمان جو صرف ایک قیاسی درجہ رکھتا ہے انسان کے اندر حقیقی عرفان اور کامل یقین اور تسلی اور اطمینان نہیں پیدا کر سکتا جو انسانی اعمال کی اصلاح اور خدا کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے وغیرہ وغیرہ.لیکن افسوس ہے کہ حضرت مسیح موعود کی ان تشریحات نے عبدالحکیم خان کو فائدہ نہ پہنچایا اور وہ دن بدن مخالفت میں ترقی کرتا گیا اور چونکہ وہ لہم ہونے کا بھی مدعی تھا اس لئے اس نے آپ کے خلاف یہ بھی اعلان کیا کہ مجھے خدا نے بتایا ہے کہ آپ بہت جلد تباہ ہو جائیں گے اس کے لئے اس نے پہلے تین سال کی میعاد مقرر کیے اور پھر اسے بدل کر چودہ ماہ کی میعاد مقرر کی ہے اور پھر بالآخر اسے بھی بدل کر ایک معین دن مقرر کر دیا کہ ۴ راگست ۱۹۰۸ء کے دن آپ کی وفات ہوگی.سے اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود کو خدا نے اس کے متعلق یہ الہام کیا کہ:.” خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں.کوئی غالب نہیں آسکتا.رَبِّ فَرِّقْ بَيْنَ صَادِقٍ وَّ كَاذِبٍ - اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلا دے کے...ان پر یہ ایک بہت لطیف الہام تھا جس کے الفاظ میں یہ اشارہ مخفی تھا کہ گو عبد الحلیم خان کی پیشگوئی تو بہر حال جھوٹی نکلے گی مگر دوسری طرف وہ آپ کی زندگی میں مرے گا بھی نہیں بلکہ بعد تک زندہ رہے گالیکن باوجود اس کے زندہ رہنے کے اللہ تعالیٰ جھوٹے اور سچے میں فرق کر کے دکھلا دے گا یعنی سچا لے دیکھوڈ کر اتحکیم نمبر ۶ عرف کا ناد جال صفحہ ۵۰ - ۲.دیکھو اعلان الحق صفحہ ۶.۳.دیکھو پیسہ اخبار لاہور مورخہ ۵ ارمئی ۱۹۰۸ء واہل حدیث امرتسر مورخه ۱۵ رمئی ۱۹۰۸ء.۳.دیکھواشتہار مورخہ ۱۶اگست ۱۹۰۶ء

Page 175

۱۶۵ اپنی قبولیت کی علامت سے پہچانا جائے گا اور جھوٹا مردود اور نا کام رہے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دی اور ایسی قبولیت عطا فرمائی جو ہمیشہ سے صادقوں کو ملتی آئی ہے.مگر اس کے مقابل پر نہ صرف عبدالحکیم خان کی پیشگوئی جھوٹی نکلی بلکہ وہ ہر طرح ذلیل اور مردو درہا اور کسی نے اس کو پوچھا تک نہیں اور آخر وہ اسی ذلت اور گمنامی کی حالت میں مر گیا اور اب کوئی شخص اسے جانتا تک نہیں.لیکن چونکہ وہ سوال جو عبد الحکیم خان نے ایمان بالرسل کے متعلق اٹھایا تھا وہ بہت اہم تھا اور علاوہ اس کے عبد الحکیم خان الہام کا بھی مدعی بنتا تھا اس لئے حضرت مسیح موعود نے اس کے مقابل پر اپنے الہام کی اشاعت پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ عبدالحکیم خان کے غلط خیالات کی تردید میں ایک مبسوط کتاب تصنیف کر کے شائع فرمائی جس کا نام آپ نے ”حقیقۃ الوحی“ رکھا.یہ ایک بہت مضخیم کتاب ہے جو ۶ ۱۹۰ء سے شروع ہو کر ۱۹۰۷ء میں ختم ہوئی.اس میں حضرت مسیح موعود نے وحی اور الہام کی حقیقت پر نہایت سیر کن بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ وحی کتنی قسم کی ہوتی ہے اور وحی کی مختلف اقسام کی کیا کیا علامات ہیں اور یہ بھی ثابت کیا ہے کہ بعض اوقات الہام کی ادنی اقسمیں کمزور اور گندے لوگوں کو بھی ہو جایا کرتی ہیں اور غیر مومنوں اور فاسقوں فاجروں کو بھی بعض اوقات بچے خواب آ جاتے ہیں.مگر یہ خواب اور یہ الہام ان کی سچائی اور نیکی کی علامت نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالی اس غرض سے ایسا کرتا ہے کہ تا عام لوگ بھی خوابوں اور الہاموں کے کوچے سے کسی قدر آشنار ہیں اور نبیوں اور پاک لوگوں کا اعلیٰ اور ارفع الہام ان کے خلاف حجت ہو سکے اور وہ اسے سمجھ سکیں.اسی طرح آپ نے اس کتاب میں اس سوال کا بھی تشریح کے ساتھ جواب دیا کہ وہ نام نہاد ایمان جو محض صحیفہ فطرت کے عقلی مطالعہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے وہ ہرگز کافی نہیں ہوتا بلکہ حقیقی اور زندہ ایمان پیدا کرنے کے لئے نبیوں اور رسولوں کا وجود ضروری ہے جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ اپنی روشن تجلیات کا ظہور کرتا ہے جو ایمان کو ” ہونا چاہئے“ کی پر خطر وادی سے نکال کر ” ہے“ کے محفوظ قلعہ میں پہنچا دیتی ہیں.علاوہ ازیں آپ نے اس کتاب میں اپنے ان سینکٹروں نشانوں کو بھی بیان کیا

Page 176

۱۶۶ جو خدا نے آپ کے ذریعہ ظاہر کئے اور آپ نے بتایا کہ آپ کی پیشگوئیاں کس طرح پوری ہوئیں آپ کے مخالف کس طرح خدائی عذابوں کا نشانہ بنے اور آپ کے دوستوں نے کس طرح خدا کی رحمت سے حصہ پایا اور خدا نے آپ کی تائید میں کیا کیا زبردست نشانات ظاہر کئے وغیر ذالک.الغرض یہ کتاب ایک لا جواب تصنیف ہے جس کے مطالعہ سے ہر غیر متعصب شخص کو گو یا خدا کا چہرہ نظر آنے لگتا ہے.پنجاب میں بغاوت اور اس پر حضرت مسیح موعود کا اعلان :.۱۹۰۷ء میں پنجاب کے اندر ایک بہت بھاری پولیٹکل ہیجان پیدا ہوا جس کی ابتداء سودیشی کے سوال سے ہوئی تھی مگر آہستہ آہستہ بات بڑھ گئی اور اس تحریک نے ایک گونہ بغاوت کا رنگ اختیار کر لیا جس کے نتیجہ میں ہندوؤں کے مشہور لیڈر لالہ لاجپت رائے پنجاب سے جلا وطن کئے گئے.اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود نے ایک اشتہارے کے ذریعہ اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہر طرح پر امن رہیں اور کسی قسم کی باغیانہ اور قانون شکن کارروائی میں حصہ نہ لیں.دراصل حضرت مسیح موعود ہمیشہ سے اسلام کی اصولی تعلیم کے ماتحت اپنی جماعت کو یہ نصیحت فرماتے رہتے تھے کہ انسان کو حکومت وقت کا وفا دار رہنا چاہئے اور اس کے خلاف کسی قسم کی باغیانہ کارروائی میں حصہ نہیں لینا چاہئے بلکہ ایک پر امن شہری کے طور پر زندگی بسر کرنی چاہئے آپ اس بات کے خلاف نہیں تھے کہ لوگ حکومت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں مگر آپ اس بات کو ناجائز قرار دیتے تھے کہ یہ مطالبہ قانون شکنی کی صورت میں باغیانہ طریق اختیار کر کے کیا جاوے بلکہ نصیحت فرماتے تھے کہ ایسے مطالبات قانون کے اندر رہتے ہوئے پیش کرنے چاہئیں اور کوئی ایسا طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے جو ملک میں امن شکنی اور فتنہ وفساد کا باعث ہو.اور آپ اس لحاظ سے حکومت انگریزی کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے کہ اس کے ذریعہ ملک میں ایک مستحکم نظام حکومت قائم ہے جوفتنہ وفساد کے رستے کو روکتا ہے اور ہر قوم کو اپنے عقائد و خیالات کی پر امن تبلیغ کے لئے پوری پوری آزادی حاصل ہے اور آپ اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ یہ آزادی اور یہ امن کسی طرح خطرہ میں پڑے.مگر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ حکومت کے متعلق آپ کی وفاداری کی تعلیم ے اشتہار مورخہ ۷ رمئی ۱۹۰۷ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷۰۸ تا ۷۱۰ جدید ایڈیشن

Page 177

۱۶۷ انگریزی حکومت کے لئے خاص تھی بلکہ آپ کی یہ تعلیم اصولی رنگ رکھتی تھی اور سب حکومتوں پر اس کا ایک سا اثر تھا کیونکہ اس کی بنیا د امن اور ضمیر کی آزادی کے اصول پر مبنی تھی جو سب کے لئے برابر ہے ہاں چونکہ آپ انگریزی حکومت کے ماتحت تھے اور اسی حکومت میں آپ کے سلسلہ کا مرکز واقع تھا اس لئے طبعاً آپ کی اس تعلیم میں انگریزی حکومت کا ذکر زیادہ آیا ہے.لاہور میں آریوں کا جلسہ اور ۱۹۰۷ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود کو لاہور کی آریہ سماج نے یہ تحریک کی کہ ہم لاہور میں ایک مذہبی جلسہ کرنا چاہتے ہیں چشمہ معرفت کی تصنیف:.جس میں ہم نے دوسرے مذاہب کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے اور آپ سے بھی درخواست ہے کہ اس جلسہ کے لئے کوئی مضمون لکھ کر ارسال فرما ئیں اور آریہ صاحبان نے اس جلسہ کے لئے یہ مضمون مقرر کیا کہ کیا دنیا میں کوئی الہامی کتاب ہے؟ اگر ہے تو کونسی ہے؟“ آریہ صاحبان نے حضرت مسیح موعود کو یہ بھی یقین دلایا کہ جلسہ میں کوئی خلاف تہذیب اور دلآزار بات نہیں ہوگی اور دوسروں کے مذہبی احساسات کا پورا پورا احترام کیا جائے گا.حضرت مسیح موعود نے اس دعوت کو قبول کیا اور مقررہ موضوع پر ایک مضمون لکھ کر حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ ارسال فرمایا اور جماعت میں بھی تحریک فرمائی کہ لوگ اس جلسہ میں شریک ہوں مگر ساتھ ہی آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ جلسہ کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ منتظمین جلسہ کی نیت بخیر نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی کا منہ نہیں دکھائے گا لے اس کے بعد یہ جلسہ ۳/ دسمبر ۱۹۰۷ء کو لاہور میں منعقد ہوا اور حضرت مسیح موعود کا مضمون حضرت مولوی نور الدین صاحب نے پڑھ کر سنایا جو نہایت درجہ مہذب اور موثر تھا مگر جب دوسرے روز آریہ مقرر کی باری آئی تو ان لوگوں نے سارے وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک ایسا دل آزاد مضمون پڑھا جو اسلام اور آنحضرت ﷺ کے خلاف بدزبانی اور طعنہ زنی سے پر تھا اور جابجا اسلامی تعلیم کے خلاف دل آزار حملے کئے گئے تھے.جب جلسہ کے بعد حضرت مسیح موعود کو حالات سے تلخیص از الحکم جلد نمبر ۴۴ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۶، ۷

Page 178

۱۶۸ آگاہی ہوئی تو آپ کو سخت رنج ہوا اور آپ اپنے دوستوں پر بھی سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ مومن کو باغیرت ہونا چاہئے آپ لوگ اس قسم کے مضمون کے وقت کیوں نہ اٹھ کر چلے آئے اور کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم گالیاں سننے کے لئے نہیں آئے؟ اس کے بعد آپ نے آریوں کے ان اعتراضوں کے جواب کے لئے ایک کتاب تصنیف فرمائی جس کا نام ” چشمہ معرفت رکھا اور حق یہ ہے کہ اس تحریر کے ذریعہ آپ نے حقیقی معرفت کے چشمہ کا منہ کھول دیا.یہ کتاب نہ صرف ان اعتراضوں کا دندان شکن جواب ہے جو عموماً آریہ صاحبان کی طرف سے اسلام کے خلاف کئے جاتے ہیں بلکہ اس میں خود و یدک دھرم کی تعلیم پر بھی ایسی زبر دست جرح ہے کہ جس کا جواب کسی آریہ کی طرف سے ممکن نہیں ہوسکتا.مثلاً آپ نے لکھا کہ آریوں کا یہ عقیدہ کہ خدا روح اور مادہ کا خالق نہیں ہے بلکہ یہ دونوں چیزیں ہمیشہ سے خدا کے ساتھ ساتھ چلی آئی ہیں اور خدا صرف ان کے جوڑ توڑ سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے یہ نہ صرف ایک مشرکانہ عقیدہ ہے بلکہ غور کیا جائے تو اس عقیدہ کو مان کر خدا کی خدائی کا کچھ باقی ہی نہیں رہتا اور اس کی بہت سی اہم صفات مثلاً خالقیت اور مالکیت اور قدرت کاملہ وغیرہ کا انکار کرنا پڑتا ہے جن کے انکار کے بعد ایک سچا عابد خدا کی طرف کوئی کشش نہیں پاسکتا آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ قدامت روح و مادہ کا مسئلہ ایک سراسر جھوٹے مشاہدہ اور قیاس مع الفارق کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی وسیع طاقتوں کو بھی اسی قانون سے ناپا گیا ہے جو اس کی محدود طاقتوں والی مخلوق پر چلتا ہے اور تناسخ کے عقیدہ کے متعلق آپ نے لکھا کہ وہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ قانون نیچر اور قانون شریعت میں تمیز نہیں کی گئی اور دنیا کے طبعی اختلافات کو جو ایک حکیمانہ قانون نیچر کے ماتحت رو پذیر ہوتے ہیں سراسر نادانی کے ساتھ قانون شریعت کے ماتحت قرار دے کر تناسخ کا عقیدہ گھڑ لیا گیا ہے حالانکہ تناسخ کا عقیدہ ایسا خطرناک ہے کہ اسے مان کر خدا کی صفت خالقیت اور صفت عفو و قبول تو بہ پر بالکل پانی پھر جاتا ہے.اسی طرح اس عقیدہ کے متعلق کہ خدا کا الہام صرف وید کے زمانہ تک محدود تھا اور اس کے

Page 179

۱۶۹ بعد یہ دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا آپ نے لکھا کہ یہ ایسا خطرناک عقیدہ ہے کہ جو ایمان کے پودے کو جلا کر خاک کر دیتا ہے کیونکہ ایمان کا درخت ایسا ہے کہ جب تک اسے خدائی نشانات اور خدائی کلام کے ذریعہ تازہ بتازہ پانی نہ ملتا رہے وہ خشک ہو جاتا ہے اور محض گزشتہ کے قصے اسے ہرگز زندہ نہیں رکھ سکتے.جس مذہب نے خدائی الہام کا دروازہ بند کیا وہ مر گیا اسی لئے اسلام نے گو شریعت کو آنحضرت نے پر ختم قرار دیا ہے مگر الہام کے دروازہ کو بند نہیں کیا.اسی طرح آپ نے محدود نجات اور گناہوں کی معافی کا دروازہ بند ہونے کے متعلق آریہ عقائد کی تردید میں ایسے زبر دست دلائل دیئے کہ جن سے اس مذہب کا سارا تار و پود بکھر گیا اور آریہ کیمپ میں ایک کھلبلی مچ گئی.الغرض ” چشمہ معرفت‘ ایک نہایت لطیف اور جامع کتاب ہے جو آپ نے اپنی زندگی کے بالکل آخری ایام میں تصنیف فرمائی جس سے کے لٹریچر میں ایک نہایت بیش قیمت اضافہ ہوا.قادیان میں فنانشل کمشنر کی آمد اور مارچ ۱۹۰۸ء کے تیسرے ہفتہ میں پنجاب کے فنانشل کمشنر سر جیمز ولسن اپنے دورہ میں قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود سے ملاقات:.گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر مسٹر کنگ کے ساتھ قادیان میں اپنا مقام رکھا.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ صوبہ کا ایک بڑا افسر جو اس زمانہ میں گورنر سے دوسرے نمبر پر ہوتا تھا قادیان آ کر ٹھہرا تھا اور غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ گورنمنٹ ایک ذمہ دار افسر کے ذریعہ کے متعلق مستند معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی اور ان مخالفانہ رپورٹوں کی صحت یا عدم صحت کا امتحان کرنا چاہتی تھی جو ان ایام میں کے متعلق اس کے مخالفوں کی طرف سے اوپر پہنچ رہی تھیں.حضرت مسیح موعود کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے جن میں بہت سے احباب قادیان کے باہر سے بھی آئے ہوئے تھے فنانشل کمشنر صاحب کا بہت اچھی طرح استقبال کیا اور حضرت مسیح موعود نے ان کی دعوت بھی کی اور پھر آپ ان کی اس خواہش پر کہ میں

Page 180

۱۷۰ مرز اصاحب سے ملنا چاہتا ہوں خود ان کے کیمپ میں تشریف لے گئے جہاں صاحب موصوف آپ کے ساتھ بڑی عزت کے ساتھ پیش آئے اور کے متعلق بہت سے سوالات پوچھتے رہے اور ملک کی سیاسی فضا کے متعلق بھی گفتگو ہوئی اور سر جیمز ولسن اس ملاقات سے بہت محظوظ اور خوش ہو کر واپس گئے لے قادیان میں دو امریکن سیاحوں کی آمد : اپریل ۱۹۰۸ء کے شروع میں ایک امریکن مرد اور ایک امریکن عورت جو امریکہ سے ہندوستان کی سیاحت کے لئے آئے تھے.حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے قادیان آئے.ان کے ساتھ لاہور کا ایک انگریز بھی تھا.ان تینوں نے حضرت مسیح موعود سے ملاقات کی اور حضرت مسیح موعود انہیں بڑی محبت سے ملے اور ان کے سوالات کے جواب دیتے رہے.آپ نے ان کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کیا اور صبح کی بعثت ثانی کی حقیقت سمجھائی اور اپنے بعض نشانات بھی بیان کئے وہ آپ کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے اور دورانِ گفتگو میں آپ سے کہا کہ کوئی نشان ہمیں بھی دکھایا جاوے.آپ نے فرمایا کہ آپ غور کریں تو آپ کا وجود خود ایک نشان ہے.انہوں نے گھبرا کر پوچھا وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا کہ آج سے چند سال پہلے میں یہاں بالکل گمنامی کی حالت میں پڑا تھا اور قادیان کا دور افتادہ گاؤں لوگوں کی نظروں سے بالکل مستور تھا.اس وقت خدا نے مجھے خبر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ تجھے بڑی شہرت دے گا اور لوگ دور دراز سے تیری ملاقات کے لئے آئیں گے اور تیری نصرت کے لئے دور دراز سے سامان پہنچیں گے.پھر اس کے بعد میری سخت مخالفت ہوئی مگر باوجود اس مخالفت کے خدا نے اپنے وعدہ کو پورا کر کے دکھا دیا چنانچہ آپ صاحبان کا یہاں آنا بھی اس پیشگوئی کے ماتحت ایک خدائی نشان ہے ورنہ کہاں امریکہ اور کہاں قادیان ! اس پر یہ لوگ بہت گھبرائے کہ ہم اپنے منہ سے ایک بات کہہ کر خودہی پکڑے گئے ہے اسی طرح بعض اور موقعوں پر بھی بعض یورپین اصحاب قادیان آتے رہے ہیں اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود کی گفتگو سے آپ کی اعلیٰ روحانیت اور وسیع علمی نظر سے بہت متاثر ہوتے رہے الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۲ مورخه ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۲ کالم نمبر ۲ ۲ - تلخیص از الحکم جلد۱۲ نمبر ۲۶ مورخه ۱ را پریل ۱۹۰۸ء صفحه ۲۷۱

Page 181

121 ہیں.مثلاً حضرت مسیح موعود کے آخری سفر لاہور میں ایک انگریز سیاح پروفیسر ریگ نامی جوانگلستان سے ہندوستان کا دورہ کرنے آیا تھا آپ کو لاہور میں ملا تھا اور حقیقت گناہ اور نجات اور بعث بعد الموت اور خلق آدم اور عمر دنیا اور مسئلہ ارتقاء وغیرہ کے متعلق آپ کے جوابات سن کر بہت ہی متاثر ہوا تھا اور ایک دفعہ ملنے کے بعد خواہش کر کے دوسری ملاقات مقرر کروائی تھی.لے سفر لا ہور اور وفات کے الہامات کا اعادہ : ان ایام میں ہماری والدہ صاحبہ کی طبیعت علیل رہتی تھی اور ان کی خواہش تھی کہ لاہور جا کر کسی ماہر لیڈی ڈاکٹر کو دکھا کر علاج کرائیں.مگر حضرت مسیح موعود غالبا اپنی طبیعت کے کسی مخفی اثر کے ماتحت اس وقت سفر اختیار کرنے میں متامل تھے.لیکن آخر آپ والدہ صاحب کے اصرار پر تیار ہو گئے.یہ ا پریل ۱۹۰۸ء کے اخری ایام تھے.لیکن ابھی آپ قادیان میں ہی تھے اور دوسرے دن روانگی کی تیاری تھی کہ ۲۵ / اور ۲۶ اپریل کی درمیانی شب کو آپ کو یہ الہام ہوا کہ:.مباش ایمن از بازی روزگار سے یعنی اس زندگی کے کھیل سے امن میں نہ رہو.یہ ایک چونکا دینے والا الہام تھا اور چونکہ اتفاق سے اس دن ہمارے چھوٹے بھائی کی طبیعت بھی علیل ہوگئی اس لئے آپ پھر متامل ہو گئے اور اس دن کی روانگی ملتوی کر دی.لیکن چونکہ ادھر والدہ صاحبہ کی خواہش تھی اور ادھر الہام میں کوئی تعیین نہیں تھی اور بھائی کی حالت میں بھی افاقہ تھا اس لئے آپ دوسرے دن یعنی ۲۷ / اپریل ۱۹۰۸ء کو قادیان سے روانہ ہو گئے.بالہ میں پہنچ کر جو ان ایام میں قادیان کا ریلوے سٹیشن تھا پھر ایک روک پیش آ گئی اور وہ یہ کہ خلاف توقع ریز روگاڑی نہیں مل سکی.اس پر آپ نے پھر قادیان واپس چلے آنے کا ارادہ فرمایا لیکن بالآخر بٹالہ میں ہی ریز رو گاڑی کے انتظام میں ٹھہر گئے اور گاڑی ملنے پر ۲۹.اپریل کو لاہور تشریف لے گئے جہاں آپ نے اپنے ایک ذی عزت مرید خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے.ایل ایل بی کے مکان پر قیام کیا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵ مورخه ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء صفیه ۲ کالم نمبر ۲ - الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۰ مورخه ۲۶ اپریل ۱۹۰۸ صفحها

Page 182

۱۷۲ جب مخالفین کو آپ کے لاہور آنے کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے پھر وہی مخالفت کے پرانے مظاہرے شروع کر دیئے اور آپ کی فرودگاہ کے سامنے اڈہ جما کر نہایت گندے اور اشتعال انگیز لیکچر دینے لگے.یہ حالت دیکھ کر حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی کہ ان گالیوں کو صبر کے ساتھ برداشت کریں اور اپنے آپ کو ہر طرح روک کر رکھیں.اس تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ شریف طبقہ کو حضرت مسیح موعود کی طرف اور بھی زیادہ توجہ پیدا ہوگئی اور متلاشی لوگ کثرت کے ساتھ حضور کی ملاقات کے لئے آنے لگے.اسی دوران میں ۹ رمئی ۱۹۰۸ء کو آپ کو الہام ہوا کہ :.الرَّحِيل ثُمَّ الرَّحِيل - إِنَّ اللَّهَ يَحْمِلُ كَلَّ حِمْلٍ - یعنی کوچ اور پھر کوچ اللہ تعالیٰ سارا بوجھ خود اٹھالے گا.یہ آپ کی وفات کی طرف صریح اشارہ تھا.مگر آپ نہایت استقلال کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہے اور کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا البتہ آپ نے انبیاء کی سنت کے مطابق اس قسم کی خواب یا الہام کو حتی الوسع ظاہر میں بھی پورا کر دینا چاہئے اپنے مکان کو بدل لیا اور فرمایا کہ یہ بھی ایک قسم کا کوچ ہے اور ایک رنگ میں الہام کا منشاء پورا ہو جاتا ہے پس آپ خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں سے منتقل ہو کر اپنے ایک دوسرے مرید ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں جو اس کے ساتھ ہی ملحق تھا تشریف لے گئے.مگر باوجود اس کے جماعت کے ایک طبقہ میں اس الہام کی وجہ سے تشویش تھی.لیکن جب اس کے چند دن بعد قادیان سے ایک مخلص احمدی نوجوان با بوشاه دین صاحب شیشن ماسٹر کی وفات کی خبر آئی تو لوگوں کی توجہ اس طرف منتقل ہوگئی کہ شاید کوچ والے الہام میں انہی کی موت کی طرف اشارہ ہوگا مگر قرائن سے پتہ لگتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود ا چھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ الہام آپ ہی کے متعلق ہے.لیکن جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے اس کی وجہ سے آپ میں قطعا کسی قسم کی گھبراہٹ کے آثار پیدا نہیں ہوئے.بلکہ آپ اسی انہماک اور اسی استقلال اور اسی شوق و ولولہ کے ساتھ اپنے خدا داد مشن میں لگے رہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵ مورخه ۳۰ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه او بدر جلد نمبر ۲۱ مورخه ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحہ ۷ بحوالہ تذکرہ

Page 183

۱۷۳ لاہور کے رؤسا کو دعوت :.انہی ایام میں آپ نے یہ تجویز فرمائی کہ چونکہ رؤساء کا طبقہ عموماً دوسرے لوگوں کے ساتھ کم اختلاط کرتا ہے اور پبلک جلسوں میں شریک نہیں ہوتا اور ویسے بھی یہ طبقہ دولت اور آرام کی زندگی کی وجہ سے عموماً دین میں ست ہوتا ہے اس لئے انہیں ایک دعوت کے ذریعہ اپنے مکان پر بلایا جاوے اور پھر ظاہری طعام کے ساتھ انہیں روحانی غذا بھی پہنچادی جائے تاکہ اس طرح ان کے کانوں میں پیغام حق پہنچ جائے.چنانچہ آپ کی تحریک پر ۷ ارمئی ۱۹۰۸ ء کولاہور کے مسلمان رؤساء کو دعوت دی گئی اور کھانے سے کسی قدر قبل کا وقت دے کر بلا لیا گیا اور پھر حضرت مسیح موعود نے ان میں کھڑے ہو کر اپنے خدا داد مشن کے متعلق تقریر فرمائی.گو آپ اس دن کسی قدر بیمار تھے اور طبیعت اچھی نہیں تھی مگر پھر بھی آپ نے دوڈھائی گھنٹہ بڑے جوش کے ساتھ تقریر کی اور سب حاضرین نے شوق اور محبت کے ساتھ اس تقریر کوسنا اور جب بعض نازک مزاج اور جلد باز لوگ بھوک کی وجہ سے گھبرا کر کچھ تلملانے لگے تو دوسروں نے انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ دنیا کا کھانا تو ہم ہر روز کھاتے ہیں آج یہ روحانی غذامل رہی ہے اس لئے توجہ کے ساتھ سنو.الغرض اس طرح امراء کے طبقہ میں بہت اچھی طرح تبلیغ پہنچ گئی اور حضرت مسیح موعود اپنے ایک اہم فرض سے سبکدوش ہو گئے.جس دن آپ نے یہ تقریر فرمائی اسی دن یعنی اس سے پہلی رات آپ کو یہ الہام ہوا کہ : مکن تکیه برعمر نا پائیدار لے یعنی اس گزرنے والی عمر پر بھروسہ نہ کر." " سید الہام بھی واضح طور پر آپ کی وفات کے قرب کی خبر دیتا تھا مگر آپ بدستور اپنے کام میں منہمک رہے.ایک پبلک لیکچر کی تجویز اور پیغام صلح کی تصنیف:.اس مخصوص لیکچر کے بعد جو رؤساء لاہور کے سامنے ہوا تھا بعض لوگوں کی تحریک پر ایک پبلک لیکچر کی بھی تجویز کی گئی اور حضرت مسیح موعود نے اس کے لئے ”پیغام صلح کا عنوان پسند فرمایا.اس مضمون کو حضرت مسیح موعود نے حسب عادت لکھ کر سنانا پسند کیا اور اس کی تصنیف شروع فرما دی اور اس میں ہندوستان کے ہندوؤں کو بدر جلد نمبر ۲۲ مورخه ۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحه ۳

Page 184

۱۷۴ یہ دعوت دی کہ ہم لوگ ایک خدا کی مخلوق ہیں اور ایک ملک میں رہتے ہیں اس لئے یہ آپس کے ناگوار جھگڑے اچھے نہیں اور جھگڑوں کی اصل وجہ ایک دوسرے کے مذہبی پیشواؤں کے متعلق بدزبانی اور بے ادبی کا طریق اختیار کرنا ہے.پس آؤ کہ ہم اس بنائے فساد کو درمیان سے اٹھا کر آپس میں صلح کر لیں اور محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ پیش آئیں اور اس کے لئے آپ نے عملاً یہ تجویز پیش فرمائی کہ آئندہ کے لئے یہ عہد کیا جاوے جس کے توڑنے پر ایک بھاری تاوان مقرر ہو کہ ایک دوسرے کے مذہبی پیشواؤں کو برا نہیں کہا جائے گا بلکہ ان کو اسی عزت اور اسی ادب سے یاد کیا جائے گا جو ایک سچے مذہبی پیشوا کے مقام کے لحاظ سے ضروری ہے اور آپ نے لکھا کہ میں اور میری جماعت جو اس وقت چار لاکھ کے قریب ہے اپنی طرف سے یہ اقرار کرنے کے لئے تیار ہیں کہ ویدوں کے رشی اور بعد میں آنے والے ہندوؤں کے مذہبی بزرگ یعنی حضرت کرشن اور رامچند رجی صاحبان خدا کے برگزیدہ انسان تھے اور ہم ان مقدس ہستیوں کی اسی طرح عزت کریں گے جس طرح ایک صادق اور بچے مامور من اللہ کی کی جاتی ہے اور ان کے متعلق کوئی کلمہ بے ادبی یا گستاخی کا اپنی زبان پر نہیں لائیں گے.اور اس کے مقابل پر ہند و صاحبان یہ اقرار کریں کہ حضرت محمد رسول اللہ یہ خدا کی طرف سے سچے رسول تھے جو دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کئے گئے اور یہ کہ آئندہ ہند و صاحبان آپ کی اسی طرح عزت کریں گے جس طرح کہ ایک بچے رشی اور اوتار کی کی جاتی ہے.اور آپ کے متعلق کوئی کلمہ بے ادبی یا گستاخی کا اپنی زبان پر نہیں لائیں گے.حضرت مسیح موعود نے یہ بھی لکھا کہ اگر ہندو قوم اس قسم کے معاہدہ اور مصالحت کے لئے تیار ہو تو پھر یہ گائے کا جھگڑا بھی درمیان سے اٹھایا جاسکتا ہے کیونکہ مسلمانوں میں گائے حلال ہے یہ نہیں کہ اس کے گوشت کا استعمال ضروری ہے پس اتنے بڑے فائدہ کے مقابل پر یہ بات ترک کی جاسکتی ہے اور آپ نے لکھا کہ ضروری ہوگا کہ اس معاہدہ پر ہر دو فریق کے دس دس ہزار معروف اور بااثر نمائندوں کے دستخط ہوں تا کہ یہ معاہدہ قومی معاہدہ سمجھا جا سکے لیے مگر افسوس ہے کہ ابھی اس لیکچر کے پڑھے جانے کا وقت نہیں آیا تھا کہ خدائی الہام کے مطابق حضرت مسیح موعود اس جہان سے کوچ فرما گئے جس میں غالبا قدرت کا یہ اشار مخفی تھا کہ آپ کی وفات دیکھو تلخیص از لیکچر پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۵۵ تا ۴۵۸

Page 185

۱۷۵ عین کام کی حالت میں واقع ہوئی ہے لیکن چونکہ جس مشن کو لے کر آپ اس دنیا میں آئے تھے وہ خدا کا مقرر کردہ مشن تھا اس لئے آپ کی وفات کے ساتھ آپ کا کام رک نہیں سکتا تھا چنانچہ آپ کی وفات کے قریباً ایک ماہ بعد یعنی ۲۱ جون ۱۹۰۸ء کو یہ مضمون لاہور کے ایک بڑے مجمع میں جس کے صدر مسٹر جسٹس رائے بہادر پر تول چندر صاحب حج چیف کورٹ پنجاب تھے پڑھ کر سنایا گیا اور ہر قوم وملت کے لوگوں نے اسے نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھالے اور بعض نے یہاں تک آمادگی ظاہر کی کہ مجوزہ سمجھوتہ کی کارروائی ابھی اسی جلسہ میں شروع ہو جانی چاہئے لیکن بعض دوسرے لوگوں نے غور کے لئے وقت مانگا اور اس طرح یہ معاملہ اس وقت توقف میں پڑ گیا لیکن اگر ہندو اصحاب غور کریں تو آج بھی ملک کے امن اور بین الا قوام اتحاد کا یہی ایک ذریعہ ہے.لیکچر ”پیغام صلح ، حضرت مسیح موعود کی آخری تصنیف تھی جس سے آپ کی تصانیف کا شمار اسی (۸۰) سے او پر پہنچ گیا جن میں بعض بڑی بڑی ضخیم کتابیں بھی شامل ہیں اور آپ کے اشتہارات کی تعداد دوسو ساٹھ (۲۶۰) سے اوپر ہے جن میں سے بعض اشتہار کئی کئی صفحے کے ہیں.قرب وفات کے متعلق آخری الہام :.حضرت مسیح موعود ”پیغام صلح کی تصنیف میں مصروف تھے کہ ۲۰ رمئی ۱۹۰۸ء کو آپ کو یہ الہام ہوا کہ :.الرَّحِيل ثُمَّ الرَّحِيلِ وَالْمَوْتُ قَرِيبٌ - - یعنی کوچ کا وقت آگیا ہے ہاں کوچ کا وقت آ گیا ہے اور موت قریب ہے.یہ الہام اپنے اندر کسی تاویل کی گنجائش نہیں رکھتا تھا مگر حضرت مسیح موعود نے دانستہ اس کی کوئی تشریح نہیں فرمائی لیکن ہر سمجھدار شخص سمجھتا تھا کہ اب مقدر وقت سر پر آ گیا ہے.اس پر ایک دن حضرت والدہ صاحبہ نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود سے کہا کہ اب قادیان واپس چلیں.آپ نے فرمایا کہ اب تو ہم اسی وقت جائیں گے جب خدائے جائے گا اور آپ بدستور پیغام صلح کی تقریر کے لکھنے میں مصروف رہے بلکہ آگے سے بھی زیادہ سرعت اور توجہ کے ساتھ لکھنا شروع کر دیا.بالآ خر ۲۵ رمئی کی شام کو آپ بدر جلد نمبر ۲۵ و الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۰ ۲ - بدر جلد نمبر ۲۲ مورخه ۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ۲ کالم نمبر۳

Page 186

نے اس مضمون کو قریباً مکمل کر کے کاتب کے سپرد کر دیا اور عصر کی نماز سے فارغ ہو کر حسب طریق سیر کے خیال سے باہر تشریف لائے.ایک کرایہ کی گھوڑا گاڑی حاضر تھی جو فی گھنٹہ مقررہ شرح کرایہ پر منگائی گئی تھی.آپ نے اپنے ایک مخلص رفیق شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی سے فرمایا کہ اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک گھنٹہ کے کرایہ کے پیسے ہیں.وہ ہمیں صرف اتنی دور لیجائے کہ ہم اس وقت کے اندر اندر ہوا خوری کر کے گھر واپس پہنچ جائیں.چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی اور آپ تفریح کے طور پر چند میل پھر کر واپس تشریف لے آئے.اس وقت آپ کو کوئی خاص بیماری نہیں تھی صرف مسلسل مضمون لکھنے کی وجہ سے کسی قد رضعف تھا اور غالباً آنے والے حادثہ کے مخفی اثر کے ماتحت ایک گونہ ربودگی اور انقطاع کی کیفیت طاری تھی.آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں اور پھر تھوڑ اسا کھانا تناول فرما کر آرام کے لئے لیٹ گئے.وصال اکبر :.کوئی گیارہ بجے رات کا وقت ہوگا آپ کو پاخانہ جانے کی حاجت محسوس ہوئی اور آپ اٹھ کر رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے.آپ کو اکثر اسہال کی تکلیف ہو جایا کرتی تھی اب بھی ایک دست آیا اور آپ نے کمزوری محسوس کی اور واپسی پر حضرت والدہ صاحبہ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے ایک دست آیا ہے جس سے بہت کمزوری ہوگئی ہے وہ فورا اٹھ کر آپ کے پاس بیٹھ گئیں اور چونکہ آپ کو پاؤں دبانے سے آرام محسوس ہوا کرتا تھا اس لئے آپ کی چار پائی پر بیٹھ کر پاؤں دبانے لگ گئیں.اتنے میں آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور آپ رفع حاجت کے لئے گئے اور جب اس دفعہ واپس آئے تو اس قدر ضعف تھا کہ آپ چار پائی پر لیٹتے ہوئے اپنے جسم کو سہار نہیں سکے اور قریباً بے سہارا ہو کر چار پائی پر گر گئے.اس پر حضرت والدہ صاحبہ نے گھبرا کر کہا اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے؟“ آپ نے فرمایا.یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا.یعنی اب مقدر وقت آن پہنچا ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایا مولوی صاحب ( یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب جو آپ کے خاص مقرب ہونے کے علاوہ ایک نہایت ماہر طبیب تھے ) کو بلوا لو.اور یہ بھی فرمایا کہ محمود ( یعنی ہمارے بڑے بھائی

Page 187

122 مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) اور میر صاحب ( یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب جو حضرت مسیح موعود کے خسر تھے ) کو جگا دو.چنانچہ سب لوگ جمع ہو گئے اور بعد میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھی بلوالیا گیا اور علاج میں جہاں تک انسانی کوشش ہو سکتی تھی وہ کی گئی.مگر خدائی تقدیر کو بدلنے کی کسی شخص میں طاقت نہیں.کمزوری لحظه بلحظہ بڑھتی گئی اور اس کے بعد ایک اور دست آیا جس کی وجہ سے ضعف اتنا بڑھ گیا کہ نبض محسوس ہونے سے رک گئی.دستوں کی وجہ سے زبان اور گلے میں خشکی بھی پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے بولنے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی مگر جو کلمہ بھی اس وقت آپ کے منہ سے سنائی دیتا تھا وہ ان تینوں لفظوں میں محدود تھا.اللہ.میرے پیارے اللہ اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا.صبح کی نماز کا وقت ہوا تو اس وقت جبکہ خاکسار مؤلف بھی پاس کھڑا تھا نحیف آواز میں دریافت فرمایا ” کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ ایک خادم نے عرض کیا.ہاں حضور ہو گیا ہے.اس پر آپ نے بسترے کے ساتھ دونوں ہاتھ تیتیم کے رنگ میں چھو کر لیٹے لیٹے ہی نماز کی نیت باندھی.مگر اسی دوران میں بیہوشی کی حالت ہو گئی.جب ذرا ہوش آیا تو پھر پوچھا کیا ” نماز کا وقت ہو گیا ہے؟“ عرض کیا گیا ہاں حضور ہو گیا ہے.پھر دوبارہ نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی.اس کے بعد نیم بیہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب کبھی ہوش آتا وہی الفاظ اللہ.میرے پیارے اللہ سنائی دیتے تھے.اور ضعف لحظہ لحظہ بڑھتا جاتا تھا.آخر دس بجے صبح کے قریب نزع کی حالت پیدا ہو گئی اور یقین کر لیا گیا کہ اب بظاہر حالات بچنے کی کوئی صورت نہیں.اس وقت تک حضرت والدہ صاحبہ نہایت صبر اور برداشت کیساتھ دعا میں مصروف تھیں اور سوائے ان الفاظ کے اور کوئی لفظ آپ کی زبان پر نہیں آیا تھا کہ ” خدایا ! ان کی زندگی دین کی خدمت میں خرچ ہوتی ہے تو میری زندگی بھی ان کو عطا کر دے.لیکن اب جبکہ نزع کی حالت پیدا ہو گئی تو انہوں نے نہایت درد بھرے الفاظ سے روتے ہوئے کہا ” خدایا ! اب یہ تو ہمیں

Page 188

۱۷۸ چھوڑ رہے ہیں لیکن تو ہمیں نہ چھوڑیو.“ آخر ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود نے ایک دو لمبے لمبے سانس لئے اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقا اور محبوب کی خدمت میں پہنچ گئی - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ - وفات پر اپنوں اور بیگانوں کی حالت :.جماعت کے لئے یہ فوری دھ کا ایک بڑے بھاری زلزلہ سے کم نہیں تھا.کیونکہ اول تو باوجود ان الہامات کے جو حضرت مسیح موعود کو اپنی وفات کے متعلق ایک عرصہ سے ہو رہے تھے اور جو وفات سے چند روز قبل بہت زیادہ کثرت اور بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ ہوئے جماعت کے لوگ اس عاشقانہ محبت کی وجہ سے جو انہیں آپ کے ساتھ تھی اس صدمہ کے لئے تیار نہیں تھے.دوسرے آپ کی وفات مرض الموت کے مختصر ہونے کی وجہ سے بالکل اچانک واقع ہوئی تھی اور بیرونجات کے احمدی تو الگ رہے خود لاہور کے اکثر دوست آپ کی بیماری تک سے مطلع نہیں ہونے پائے تھے کہ اچانک ان کے کانوں میں آپ کے وصال کی خبر پہنچی.اس خبر نے جماعت کو گو یا غم سے دیوانہ کر دیا اور دنیا ان کی نظر میں اندھیر ہوگئی.اور گو ہر دل غم سے پھٹا جا تا تھا اور ہر آنکھ اپنے محبوب کی جدائی میں اشکبار تھی اور ہر سینہ سوزش ہجر سے جل رہا تھا مگر جولوگ حضرت مسیح موعود کے خاص تربیت یافتہ تھے اور جماعت کی ذمہ داری کو سمجھتے تھے اور وقت کی نزاکت کو پہچانتے تھے اور اپنے دلوں کے جذبات کو روکے ہوئے تھے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر ان کے ہاتھ کام میں لگے ہوئے تھے دوسرے لوگوں میں سے اکثر ایسے تھے جو بچوں کی طرح بلک بلک کر روتے تھے اور بعض تو اس بات کو باور کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ ان کا پیارا امام.ان کا محبوب آقا.ان کی آنکھوں کا نور.ان کے دل کا سرور.ان کی زندگی کا سہارا.ان کی ہستی کا چمکتا ہوا ستارا ان سے واقعی جدا ہو گیا ہے.حتٰی کہ جو تاریں.بیرونی جماعتوں کی اطلاع کے لئے لاہور سے دی گئی تھیں اور استدعا کی گئی تھی کہ لوگ جنازہ کے لئے فوراً قادیان پہنچ جائیں انہیں بھی اکثر لوگوں نے جھوٹ سمجھا اور گو وہ قادیان آئے مگر

Page 189

129 صرف احتیاط کے طور پر آئے اور اس خیال سے آئے کہ جھوٹ کا پول کھولیں.دوسری طرف جب حضرت مسیح موعود کی وفات کی خبر مخالفوں تک پہنچی تو ایک آن واحد میں لاہور کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک بجلی کی طرح پھیل گئی اور پھر ہماری آنکھوں نے مسلمان کہلانے والوں کی طرف سے وہ نظارہ دیکھا جو ہمارے مخالفوں کے لئے قیامت تک ایک ذلت اور کمینگی کا داغ رہے گا.حضرت مسیح موعود کی وفات سے نصف گھنٹہ کے اندر اندر وہ لمبی اور فراخ سڑک جو ہمارے مکان کے سامنے تھی شہر کے بدمعاش اور کمینہ لوگوں سے بھر گئی اور ان لوگوں نے ہمارے سامنے کھڑے ہو کر خوشی کے گیت گائے اور مسرت کے ناچ ناچے اور شادمانی کے نعرے لگائے اور فرضی جنازے بنا بنا کر نمائشی ماتم کے جلوس نکالے.ہماری غم زدہ آنکھوں نے ان نظاروں کو دیکھا اور ہمارے زخم خوردہ دل سینوں کے اندر خون ہو ہو کر رہ گئے.مگر ہم نے ان کے اس ظلم پر صبر سے کام لیا اور اپنے سینوں کی آہوں تک کو دبا کے رکھا.اس لئے نہیں کہ یہ ہماری کمزوری کا زمانہ تھا کیونکہ ایک کمزور انسان بھی موت کے منہ میں کود کر اپنی غیرت کا ثبوت دے سکتا ہے بلکہ اس لئے کہ خدا کے مقدس مسیح نے ہمیں یہی تعلیم دی تھی کہ :.گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار دیکھ کر لوگوں کا جوش و غیظ مت کچھ غم کرو شدت گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہی کہتے ہیں.ہاں وہی نسلیں جن کے سروں پر بادشاہی کے تاج رکھے جائیں گے کہ جب خدا تمہیں دنیا میں طاقت دے اور تم اپنے دشمنوں کا سر کچلنے کا موقعہ پاؤ اور تمہارے ہاتھ کو کوئی انسانی طاقت روکنے والی نہ ہو تو تم اپنے گزرے ہوئے دشمنوں کے ظلموں کو یاد کر کے اپنے خونوں میں جوش نہ پیدا ہونے دینا اور ہمارے کمزوری کے زمانہ کی لاج رکھنا تالوگ یہ نہ کہیں کہ جب یہ کمزور تھے تو دشمن کے سامنے دب کر رہے اور جب طاقت پائی تو انتقام کے ہاتھ کو لمبا کر دیا.بلکہ تم اس وقت بھی صبر سے کام لینا اور اپنے انتقام کو خدا پر چھوڑ نا کیونکہ وہی اس بات کو بہتر سمجھتا

Page 190

۱۸۰ ہے کہ کہاں انتقام ہونا چاہئے اور کہاں عفو اور درگز ر بلکہ میں کہتا ہوں کہ تم اپنے ظالموں کی اولادوں کو معاف کرنا اور ان سے نرمی کا سلوک کرنا کیونکہ تمہارے مقدس آقا نے یہی کہا ہے کہ : اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کا خر کنند دعوائے حُبّ پیمبرم یعنی اے دل تو ان مسلمان کہلانے والوں کا بہر حال لحاظ کر کیونکہ خواہ کچھ بھی ہو آخر یہ لوگ ہمارے محبوب رسول کی محبت کا دعوی کرتے ہیں.“ بلکہ مسلمانوں پر ہی حصر نہیں تم ہر قوم کے ساتھ عفو اور نرمی کا سلوک کرنا اور ان کو اپنے اخلاق اور محبت کا شکار بنانا کیونکہ تم دنیا میں خدا کی آخری جماعت ہو اور جس قوم کو تم نے ٹھکرا دیا اس کے لئے کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہو گا.اے آسمان گواہ رہ کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو خدا کے بچے مسیح کی رحمت اور عفو کا پیغام پہنچا دیا.تکفین و تدفین اور قدرت ثانیہ کا پہلا جلوہ:.جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے حضرت مسیح موعود کی وفات ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء بروز منگل بوقت ساڑھے دس بجے صبح ہوئی تھی اسی وقت تجہیز و تکفین کی تیاری کی گئی اور جب غسل وغیرہ سے فراغت ہوئی تو تین بجے بعد دو پہر حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول نے لاہور کی جماعت کے ساتھ خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں نماز جنازہ ادا کی اور پھر شام کی گاڑی سے حضرت مسیح موعود کا جنازہ بٹالہ پہنچایا گیا جہاں سے راتوں رات روانہ ہو کر مخلص دوستوں نے اپنے کندھوں پر اسے صبح کی نماز کے قریب بارہ میل کا پیدل سفر کر کے قادیان پہنچایا.قادیان پہنچ کر آپ کے جنازہ کو اس باغ میں رکھا گیا جو مقبرہ بہشتی کے ساتھ ہے اور لوگوں کو اپنے محبوب آقا کی آخری زیارت کا موقعہ دیا گیا.اور پھر ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو قریباً بارہ سواحمدیوں کی موجودگی میں جن میں ایک کافی تعداد باہر کے مقامات سے آئی ہوئی تھی حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا خلیفہ منتخب کیا گیا.اور آپ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی گئی اور اس طرح حضرت مسیح موعود کا وہ الہام پورا ہوا کہ ستائیس کو ایک واقعہ ہمارے متعلق.“

Page 191

۱۸۱ پہلی بیعت کا نظارہ نہایت ایمان پرور تھا اور لوگ اس بیعت کے لئے یوں ٹوٹے پڑتے تھے جس طرح ایک مدت کا پیاسا پانی کو دیکھ کر لپکتا ہے.ان کے دل غم وحزن سے چور چور تھے کہ ان کا پیارا آقا ان سے جدا ہو گیا ہے مگر دوسری طرف ان کے ماتھے خدا کے آگے شکر کے جذبات کے ساتھ سر بسجو د تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق انہیں پھر ایک ہاتھ پر جمع کر دیا ہے اور حضرت مسیح موعود کی بتائی ہوئی پیشگوئی پوری ہوئی کہ ” میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو خدا کی دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.“ حضرت خلیفہ اول کی بیعت جماعت کے کامل اتحاد کے ساتھ ہوئی جس میں ایک منفرد آواز بھی خلاف نہیں اٹھی اور نہ صرف افراد جماعت نے اور حضرت مسیح موعود کے خاندان نے آپ کی خلافت کو تسلیم کیا بلکہ صدر انجمن احمدیہ نے بھی ایک متحدہ فیصلہ کے ماتحت اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعود کی وصیت کے مطابق حضرت مولوی نورالدین صاحب کو حضرت مسیح موعود کا خلیفہ منتخب کیا گیا ہے اور ساری جماعت کو آپ کی بیعت کرنی چاہئے لے حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت مسیح موعود کے ساتھ کسی قسم کا جسمانی رشتہ نہیں رکھتے تھے اور ان کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے سے ہوا تھا.وہ حضرت مسیح موعود کے پرانے دوست اور سلسلہ بیعت میں اول نمبر پر تھے اور اپنے علم و فضل اور تقوی وطہارت اور اخلاق و قابلیت میں جماعت میں ایک لاثانی وجود سمجھے جاتے تھے.بیعت خلافت کے بعد جو حضرت مسیح موعود کے باغ متصل بہشتی مقبرہ میں ایک آم کے درخت کے نیچے ہوئی تھی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود کے باغ کے ملحقہ حصہ میں تمام حاضر الوقت احمدیوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی نماز جنازہ ادا کی جس میں رقت کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف سے گریہ وزاری کی آواز اٹھ رہی تھی.نماز کے بعد چھ بجے شام کے قریب حضرت مسیح موعود کے جسم اطہر کو مقبرہ بہشتی کے ایک حصہ میں دفن کیا گیا اور آپ کے مزار مبارک پر پھر ایک آخری دعا کر کے آپ کے غم زدہ رفیق اپنے گھروں کو واپس لوٹے.مگر جو در دبھری یا دخدا کے مقدس دیکھو اعلان خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری صدرانجمن احمد یہ مندرجہ الحکم ۲۸ مئی ۱۹۰۸ء بدر۲ / جون ۱۹۰۸ء

Page 192

۱۸۲ مسیح نے اپنے رفیقوں کے دلوں میں چھوڑی تھی وہ ایک نہ مٹنے والی یاد تھی اور آج بھی جبکہ آپ کی وفات پر اکتیس (۳۱) سال کا عرصہ گزر گیا ہے آپ کے ہر دیکھنے والے کے دل کو آپ کی یاد محبت کی تپش سے گرما رہی ہے اور میں نے کبھی آپ کے کسی صحابی کو اس حالت میں نہیں دیکھا کہ آپ کے محبت بھرے ذکر پر اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلی نہ آگئی ہو.اے خدا کے برگزیدہ میسیج! تجھ پر خدا کی بے شمار رحمتیں اور بے شمار سلام ہوں کہ تو نے اپنے پاک نمونے اور اپنی پاک تعلیم سے دنیا میں ایک ایسا بیج بو دیا ہے جو ایک عظیم الشان روحانی انقلاب کا بیج ہے جس کے ساتھ بہت سے مادی انقلاب بھی مقدر ہیں یہ پیج اب بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور پھیلے گا اور دنیا کے سب باغوں پر غالب آئے گا.اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَيْهِ وَعَلَى مُطَاعِهِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ - حضرت مسیح موعود کی وفات پر بعض اخبارات کار یویو :.اس گندے مظاہرے کے بعد جو حضرت مسیح موعود کی وفات پر لاہور میں کیا گیا تھا کسی مخالف کی طرف سے حضرت مسیح مود عود کے متعلق کسی تعریفی کلمہ کے سنے کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی مگر ہر قوم میں سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے اور حق یہ ہے کہ کمینہ مزاج اندھے دشمنوں یا ان کے متبعین کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود کی وفات پر ہر قوم و ملت کے شریف طبقہ نے آپ کے متعلق نہایت اچھے خیالات کا اظہار کیا.چنانچہ ہم اس جگہ مثال کے طور ربعض آراء درج ذیل کرتے ہیں.دہلی کے غیر احمدی اخبار ” کرزن گزٹ“ کے مشہور ایڈیٹر میرزا حیرت صاحب دہلوی نے لکھا.مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم

Page 193

۱۸۳ کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا..اگر چہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلنی بلندی میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.اس کا پر زورلٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے.اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہوکر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا...امرتسر کے غیر احمدی اخبار وکیل کے ایڈیٹر نے لکھا:.وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جود ماغی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تمہیں برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شور قیامت ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اٹھ گیا ( خالی ہاتھ مت کہو وہ رحمت کے پھول لایا تھا اور درود کا گلدستہ لے کر گیا.مؤلف مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے.ایسے شخص جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہی اور جب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں.مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کرزن گزٹ دہلی مورخہ یکم جون ۱۹۰۸ء

Page 194

۱۸۴ کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جواس کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے.میرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو.وو لاہور کے مشہور غیر احمدی رسالہ تہذیب النسوان کے ایڈیٹر صاحب نے لکھا:.مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دل کو تسخیر کر لیتی تھی.وہ نہایت باخبر عالم.بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے.ہم انہیں مذہبا مسیح موعود تو نہیں مانتے لیکن 66 ان کی ہدایت اور رہنمائی مردہ روحوں کے لئے واقعی مسیحائی تھی.“ ہے لاہور کے اخبار ” آریہ پتر کا“ کے ایڈیٹر صاحب نے لکھا:.عام طور پر جو اسلام دوسرے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے اس کی نسبت مرزا صاحب کے خیالات اسلام کے متعلق زیادہ وسیع اور زیادہ قابل برداشت تھے.مرزا صاحب کے تعلقات آریہ سماج سے کبھی بھی دوستانہ نہیں ہوئے اور جب ہم آریہ سماج کی گزشتہ تاریخ کو یاد کرتے ہیں تو ان کا وجود ہمارے سینوں میں بڑا جوش پیدا کرتا ہے.۳.لاہور کے آریہ اخبار ”اندر“ نے لکھا:.اخبار وکیل امرتسر ۲ - تہذیب النسوان لاہور سے.اخبار آریہ پتر کالا ہوں.

Page 195

۱۸۵ مرزا صاحب اپنی ایک صفت میں محمد صاحب سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور وہ صفت ان کا استقلال تھا خواہ وہ کسی مقصود کو لے کر تھا اور ہم خوش ہیں کہ وہ آخری دم تک اس پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی.الہ آباد کے انگریزی اخبار پائنیر نے لکھا:.اگر گزشتہ زمانہ کے اسرائیلی نبیوں میں سے کوئی نبی عالم بالا سے واپس آ کر اس زمانہ میں دنیا میں تبلیغ کرے تو وہ بیسویں صدی کے حالات میں اس سے زیادہ غیر موزوں معلوم نہ ہو گا جیسا کہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی تھے.مرزا صاحب کو اپنے دعوی کے متعلق کبھی کوئی شک نہیں ہوا اور وہ کامل صداقت اور خلوص کے ساتھ اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ ان پر کلام الہی نازل ہوتا ہے اور یہ کہ انہیں ایک خارق عادت طاقت بخشی گئی ہے.ایک دفعہ انہوں نے بشپ ویلڈن کے کو چیلنج دیا (جس نے اسے حیران کر دیا) کہ وہ نشان نمائی میں ان کا مقابلہ کرے اور مرزا صاحب اس بات کے لئے تیار تھے کہ حالات زمانہ کے ماتحت بشپ صاحب جس طرح چاہیں اپنا اطمینان کر لیں کہ نشان دکھانے میں کوئی فریب اور دھوکا استعمال نہ ہو....وہ لوگ جنہوں نے مذہبی میدان میں دنیا کے اندر حرکت پیدا کر دی ہے وہ اپنی طبیعت میں انگلستان کے لارڈ بشپ کی نسبت مرزا غلام احمد صاحب سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں.بہر حال قادیان کا نبی ان لوگوں میں سے تھا جو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.مسٹر والٹر ایم.اے سیکرٹری آل انڈیا کرسچن ایسوسی ایشن نے اپنی انگریزی کتاب لے اخبار اندرلاہور ہے.بشپ آف کلکته از ۱۸۹۸ء تا ۱۹۰۲، مگر غالباً یہ نام غلطی سے بشپ لیفر ائے آف لاہور کی جگہ لکھا ہے.- اخبار پائنیر الہ آباد مورخه ۳۰ رمئی ۱۹۰۸ء

Page 196

۱۸۶ ’احمد یہ موومنٹ“ میں لکھا:.وو یہ بات ہر طرح سے ثابت ہے کہ مرزا صاحب اپنی عادات میں سادہ اور فیاضانہ جذبات رکھنے والے تھے.ان کی اخلاقی جرات جو انہوں نے اپنے مخالفین کی طرف سے شدید مخالفت اور ایذا رسانی کے مقابلہ میں دکھائی یقیناً قابل تحسین ہے.صرف ایک مقناطیسی جذب اور دلکش اخلاق رکھنے والا شخص ہی ایسے لوگوں کی دوستی اور وفاداری حاصل کر سکتا ہے جن میں سے کم از کم دو نے افغانستان میں اپنے عقائد کے لئے جان دیدی مگر مرزا صاحب کا دامن نہ چھوڑا.میں نے بعض پرانے احمدیوں سے ان کے احمدی ہونے کی وجہ دریافت کی تو اکثر نے سب سے بڑی وجہ مرزا صاحب کے ذاتی اثر اور جذب اور مقناطیسی شخصیت کو پیش کیا میں نے ۱۹۱۶ء میں قادیان جا کر (حالانکہ اس وقت مرزا صاحب کو فوت ہوئے آٹھ سال گزر چکے تھے ) ایک ایسی جماعت دیکھی جس میں مذہب کے لئے وہ سچا اور زبردست جوش موجود تھا جو ہندوستان کے عام مسلمانوں میں آجکل مفقود ہے.قادیان میں جا کر انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایک مسلمان کو محبت اور ایمان کی وہ روح جسے وہ عام مسلمانوں میں بے سود تلاش کرتا ہے احمد کی جماعت میں بافراط ملے گی.اسی طرح حضرت مسیح موعود کی وفات پر دی سول اینڈ ملٹری گزٹ لا ہور.دی علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ علی گڑھ.دی یونیٹی اینڈ منسٹر کلکتہ.دی ٹائمنر لنڈن وغیرہ وغیرہ نے تعریفی نوٹ شائع کئے مگر اس مختصر رسالہ میں ان سب نوٹوں کے درج کرنے کی گنجائش نہیں ہے.لی ترجمه از احمدیہ موومنٹ مصنفہ مسٹر والٹرایم.اے

Page 197

حضرت مسیح موعود کا حلیہ اور اخلاق و عادات حلیہ مبارک اور ذاتی خصائل :.حضرت مسیح موعود کے سوانح کا حصہ ختم کرنے سے پہلے ایک مختصر نوٹ آپ کے حلیہ اور ذاتی اخلاق و عادات کے متعلق درج کرنا ضروری ہے.سو جاننا چاہئے کہ جہاں تک آپ کے حلیہ کا تعلق ہے آپ ایک اعلیٰ درجہ کے مردانہ حسن کے مالک تھے اور فی الجملہ آپ کی شکل ایسی وجیہ اور دلکش تھی کہ دیکھنے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا.آپ کا چہرہ کتابی تھا اور رنگ سفیدی مائل گندمی تھا اور خط و خال نہایت متناسب تھے.سر کے بال بہت ملائم اور سیدھے تھے مگر بالوں کے آخری حصہ میں کسی قدر خوبصورت خم پڑتا تھا.داڑھی گھند ار تھی مگر رخسار بالوں سے پاک تھے.قد درمیانہ تھا اور جسم خوب سڈول اور متناسب تھا اور ہاتھ پاؤں بھرے بھرے اور ہڈی فراخ اور مضبوط تھی.چلنے میں قدم بہت تیزی سے اٹھتا تھا مگر یہ تیزی ناگوار نہیں معلوم ہوتی تھی.زبان بہت صاف تھی مگر کسی کسی لفظ میں کبھی کبھی خفیف می کنت پائی جاتی تھی جو صرف ایک چوکس آدمی ہی محسوس کر سکتا تھا.پچھتر (۷۵) سال کی عمر میں وفات پائی مگر کمر میں خم نہیں آیا اور نہ ہی رفتار میں فرق پڑا.دور کی نظر ابتداء سے کمزور تھی مگر پڑھنے کی نظر آخر تک اچھی رہی اور یوم وصال تک تصنیف کے کام میں مصروف رہے.کہتے ہیں ابتداء میں جسم زیادہ ہلکا تھا مگر آخر عمر میں کسی قدر بھاری ہو گیا تھا جسے درمیانہ درجہ کا جسم کہا جاسکتا ہے.آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے یا یونہی بلا ضرورت ادھر ادھر نظر اٹھانے کی عادت بالکل نہیں تھی بلکہ اکثر اوقات آنکھیں نیم بند اور نیچے کی طرف جھکی رہتی تھیں.گفتگو کا انداز یہ تھا کہ ابتداء میں آہستہ آہستہ کلام شروع فرماتے تھے مگر پھر حسب حالات اور حسب تقاضائے وقت آواز بلند ہوتی جاتی تھی.چہرہ کی جلد نرم تھی اور جذبات کا اثر فوراً ظاہر ہونے لگتا تھا.لباس ہمیشہ پرانی ہندوستانی وضع کا پہنتے تھے یعنی عموم بند گلے کا کوٹ یا بہ.دیسی کاٹ کا کرتہ یا قمیض اور معروف شرعی ساخت کا

Page 198

۱۸۸ پاجامہ جو آخری عمر میں عموماً گرم ہوتا تھا.جوتا ہمیشہ دیسی پہنا کرتے تھے اور ہاتھ میں عصا ر کھنے کی عادت تھی.سر پر اکثر سفید ململ کی پگڑی باندھتے تھے جس کے نیچے عموماً نرم قسم کی رومی ٹوپی ہوتی تھی.کھانے میں نہایت درجہ سادہ مزاج تھے اور کسی چیز سے شغف نہیں تھا بلکہ جو چیز بھی میسر آتی تھی بے تکلف تناول فرماتے تھے.اور عموماً سادہ غذا کو پسند فرماتے تھے.غذا بہت کم تھی اور جسم اس بات کا عادی تھا کہ ہر قسم کی مشقت برداشت کر سکے.حضرت مسیح موعود کے حلیہ کی ذیل میں اس بات کا ذکر بھی غیر متعلق نہیں ہوگا کہ آپ کو دو بیماریاں مستقل طور پر لاحق تھیں یعنی ایک تو دوران سرکی بیماری تھی جو سر درد کے ساتھ مل کر ا کثر اوقات آپ کی تکلیف کا باعث رہتی تھی اور دوسرے آپ کو ذیا بیطس کی بیماری لاحق تھی اور پیشاب کثرت سے اور بار بار آتا تھا.آپ نے ان بیماریوں کے لئے دعا فرمائی تو آپ کو الہاما بتایا گیا کہ یہ بیماریاں دور نہیں ہوں گی کیونکہ ان کا آپ کے ساتھ رہنا مقدر ہے اور آپ نے اس کی یہ تشریح فرمائی کہ مسیح موعود کے متعلق اسلامی نوشتوں میں جو یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ دوز رد چادروں میں لپٹا ہوا نازل ہوگا اس سے انہی دو بیماریوں کی طرف اشارہ مقصود تھا کیونکہ خواب میں زرد چادر سے مراد بیماری ہوتی ہے.ان بیماریوں کے علاوہ آپ کو کبھی کبھی اسہال کی تکلیف بھی ہو جاتی تھی.اپنے خدادا مشن کے متعلق کامل یقین اور جہاں تک ان اخلاق کا سوال ہے جو دین اور ایمان سے تعلق رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود آنحضرت صلعم کے ساتھ بے نظیر محبت :.میں دو خلق خاص طور پر نمایاں نظر آتے تھے.اول اپنے خدا داد مشن پر کامل یقین.دوسرے آنحضرت ﷺ کے ساتھ بے نظیر عشق و محبت.یہ دو اوصاف آپ کے اندر اس کمال کو پہنچے ہوئے تھے کہ آپ کے ہر قول وفعل اور ہر حرکت وسکون میں ان کا ایک پُر زور جلوہ نظر آتا تھا.بسا اوقات اپنے خدا داد مشن اور الہامات کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ مجھے ان کے متعلق ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ دنیا کی کسی چیز کے متعلق زیادہ سے زیادہ یقین ہوسکتا ہے

Page 199

۱۸۹ اور بعض اوقات اپنی پیشگوئیوں کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ چونکہ وہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی ہیں اس لئے وہ ضرور پوری ہو کر رہیں گی اور اگر وہ پوری نہ ہوں تو میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ مجھے مفتری قرار دے کر برسر عام پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا جائے تاکہ میرا وجود دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو.اپنے الہام کے قطعی ہونے کے متعلق اپنی ایک فارسی نظم میں فرماتے ہیں.آں یقینے که بود عیسی را بر کلامی که شد برو القا واں یقین کلیم بر تورات واں یقیں ہائے سید السادات که نیم زاں ہمہ بروے یقین ہر کہ گوید دروغ هست لعین کے د یعنی جو یقین کہ حضرت عیسی کو اس کلام کے متعلق تھا جو ان پر نازل ہوا اور جو یقین کہ حضرت موسیٰ کو تو رات کے متعلق تھا اور جو یقین کہ نبیوں کے سردار محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے اوپر نازل ہونے والے کلام کے متعلق تھا میں یقین کی رو سے ان میں سے کسی سے کم نہیں ہوں اور جو شخص جھوٹا دعویٰ کرتا ہے وہ لعنتی ہے.“ یہ مکالمہ البہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے.اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جاوے.وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کرسکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر “ ۲ آنحضرت ﷺ کے ساتھ اپنی محبت و عشق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۷، ۴۷۸ ۲ - تجلیات البیه ،روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲

Page 200

۱۹۰ دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش در ہر مکاں ندائے جمال محمد است لے و یعنی میرے جان و دل آنحضرت ﷺ کے حسن خدا داد پر قربان ہیں اور میں آپ کے آل و عیال کے کوچہ کی خاک پر نثار ہوں.میں نے اپنے دل کی آنکھ سے دیکھا اور ہوش کے کانوں سے سنا ہے کہ ہر کون و مکان میں محمد صلعم ہی کے جمال کی ندا آ رہی ہے.“ پھر فرماتے ہیں:.بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم جانم فدا شود بره دین مصطفی اینست کام دل اگر آید میسرم سے یعنی خدا سے اتر کر میں محمد صلعم کے عشق کی شراب سے متوالا ہورہا ہوں اور اگر یہ بات کفر میں داخل ہے تو خدا کی قسم میں سخت کا فر ہوں.میرے دل کا واحد مقصد یہ ہے کہ میری جان محمد صلعم کے دین کے رستے میں قربان ہو جائے.خدا کرے کہ مجھے یہ مقصد حاصل ہو جائے.“ پھر فرماتے ہیں:.وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے وہ دلبر یگانہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے.آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی یہ والہانہ محبت محض کاغذی یا نمائشی محبت نہیں تھی بلکہ آپ کے ہر قول و فعل اور ہر حرکت و سکون میں اس کی ایک زندہ اور زبردست جھلک نظر آتی تھی چنانچہ پنڈت لیکھرام کے حالات میں جس واقعہ کا ذکر اسی رسالہ میں او پر گزر چکا ہے وہ اس محبت کی ایک عام اور دلچسپ مثال ہے کہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود نہایت درجہ وسیع القلب اور اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحه ۹۳ جدید ایڈیشن کے ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۵ ے.قادیان کے آرایہ اور ہم ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۵۶

Page 201

۱۹۱ ملنسار تھے اور ہر دوست و دشمن کو انتہائی خوش اخلاقی کے ساتھ ملتے تھے جب پنڈت لیکھرام نے آپ کے آقا اور محبوب آنحضرت ﷺ کے متعلق سخت بدزبانی سے کام لیا اور آنحضرت ﷺ کی مخالفت کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تو آپ نے پنڈت صاحب کا سلام تک قبول کرنا پسند نہ کیا اور دوسری طرف منہ پھیر کر خاموش ہو گئے اور جب کسی ساتھی نے دوبارہ توجہ دلائی تو غیرت اور غصہ کے الفاظ میں فرمایا کہ:.”ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے.“ بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے مگر اس سے عشق و محبت کے اتھاہ سمندر پر بے انتہا روشنی پڑتی ہے جو آنحضرت ﷺ کے متعلق آپ کے دل میں موجزن تھا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کے متعلق یہ روایت بھی چھپ کر شائع ہو چکی ہے کہ ایک دفعہ آپ علیحدگی میں ٹہلتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے درباری شاعر حسان بن ثابت کا یہ شعر تلاوت فرما رہے تھے اور ساتھ ساتھ آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے جارہے تھے کہ :.كنت السواد لناظری فعمی علیک الناظر من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر یعنی اے محمد صلعم تو میری آنکھ کی پتلی تھا پس تیری وفات سے میری آنکھ اندھی ہوگئی ہے سواب تیرے بعد جس شخص پر چاہے موت آجاوے مجھے اس کی پر واہ نہیں کیونکہ مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہوگئی.“ راوی بیان کرتا ہے کہ جب آپ کے ایک مخلص رفیق نے آپ کو اس رقت کی حالت میں دیکھا تو گھبرا کر پوچھا کہ ” حضرت ! یہ کیا معاملہ ہے؟ آپ نے فرمایا.” کچھ نہیں میں اس وقت یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہورہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا.مذہبی بزرگوں کا احترام : مگر آنحضرت ﷺ کی محبت کے یہ معنی نہیں تھے کہ آپ دوسرے بزرگوں کی محبت سے خالی تھے بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی محبت نے آپ کے دل دیکھو سیرة المهدی مصنفہ خاکسار مؤلف

Page 202

۱۹۲ میں دوسرے پاک نفس بزرگوں کی محبت کو بھی ایک خاص جلا دے دی تھی اور آپ کسی بزرگ کی ہتک گوارا نہیں کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ اپنے اصحاب کی ایک مجلس میں یہ ذکر فرما رہے تھے کہ نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری ہے اور امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیئے.اس پر حاضرین میں سے کسی شخص نے عرض کیا کہ ” حضور! کیا سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ؟ آپ نے فور فر مایا نہیں نہیں ہم ایسا نہیں کہتے کیونکہ حفی فرقہ کے کثیر التعداد بزرگ یہ عقیدہ رکھتے رہے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں اور ہم ہرگز یہ خیال نہیں کرتے کہ ان بزرگوں کی نماز نہیں ہوئی.“ اسی طرح آپ کو غیر مسلم قوموں کے بزرگوں کی عزت کا بھی بہت خیال تھا اور ہر قوم کے تسلیم شدہ مذہبی بزرگوں کو بڑی عزت کی نظر سے دیکھتے تھے بلکہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی شخص کے نام کو عزت کے ساتھ دنیا میں قائم کر دیتا ہے اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اس کی بزرگی کا خیال بٹھا دیتا ہے اور اس کے سلسلہ کو استقلال اور دوام حاصل ہو جاتا ہے تو ایسا شخص جسے اس قدر قبولیت حاصل ہو جاوے جھوٹا نہیں ہو سکتا اور ہر انسان کا فرض ہے کہ بچوں کی طرح اس کی عزت کرے اور کسی رنگ میں اس کی ہتک کا مرتکب نہ ہو.اس معاملہ میں خود اپنے مسلک کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.ماہمہ پیغمبراں را چا کریم ہمچو خاکے او فتاده بردرے ہر رسولے کو طریق حق نمود جان ما قرباں براں حق پرورے لے یعنی میں ان تمام رسولوں کا خادم ہوں جو خدا کی طرف سے آتے رہے ہیں اور میر انفس ان پاک روحوں کے درواز پر خاک کی طرح پڑا ہے.ہر رسول جو خدا کا رستہ دکھانے کے لئے آیا ہے (خواہ وہ کسی زمانہ اور کسی ملک میں آیا ہو ) میری جان اس خادم دین پر قربان ہے.“ دیباچہ براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۲۳

Page 203

۱۹۳ حضرت مسیح موعود کا صبر و استقلال اور شجاعت:.روحانی مصلحوں کا رستہ پھولوں کی سیج میں سے نہیں گزرتا بلکہ انہیں فلک بوس پہاڑیوں اور بے آب و گیاہ بیابانوں اور مہیب سمندروں میں سے ہو کر اپنی منزل مقصود تک پہنچنا پڑتا ہے بلکہ جتنا کسی رسول کا مشن زیادہ اہم اور زیادہ وسیع ہوتا ہے اتنا ہی اس کے رستے میں ابتلاؤں اور امتحانوں کی بھی زیادہ کثرت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود اپنی ان مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.دعوت ہر ہرزہ گو کچھ خدمت آساں نہیں ہر قدم پر کوہ ماراں ہرگزر میں دشت خار مگر آپ کو وہ چیز حاصل تھی جس کے سامنے یہ ساری مشکلات پیچ ہو جاتی ہیں.فرماتے ہیں:.عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پر خطر عشق ہے جو سر جھکا دے زیر تیغ آب دار اور دل بھی آپ کو خدا نے وہ عطا کیا تھا جو دنیا کی کسی طاقت کے سامنے مرعوب ہونے والا نہیں تھا.فرماتے ہیں:.سخت جاں ہیں ہم کسی کے بغض کی پروا نہیں دل قوی رکھتے ہیں ہم دردوں کی ہے ہم کو سہار جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زارو نزار یہ صرف ایک خالی دعوی نہیں تھا بلکہ جب سے کہ آپ نے خدا سے الہام پا کر مسیح موعود ہونے کا اعلان کیا اس وقت سے لے کر اپنے یومِ وصال تک آپ کی زندگی صبر اور استقلال اور شجاعت کا ایسا شاندار منظر پیش کرتی ہے جو سوائے خدا کے خاص الخاص بندوں کے کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتا.یہ تفصیلات میں جانے کا موقعہ نہیں صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ جب آپ نے اپنے دعویٰ کا اعلان کیا تو ہندوستان کی ہر قوم آپ کے مقابلہ کے لئے ایک جان ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی اور یوں نظر آتا تھا کہ ایک چھوٹی سی کشتی جسے ایک کمزور انسان اکیلا بیٹھا ہوا ایک ٹوٹے پھوٹے چپو کے ساتھ چلا رہا ہے چاروں طرف سے سمندر کی مہیب موجوں کے اندر گھری ہوئی ہے اور طوفان کا زور اسے یوں اٹھاتا اور گراتا ہے کہ جیسے کسی تیز آندھی کے سامنے ایک کاغذ کا پرزہ ادھر ادھر اڑتا پھرتا ہومگر

Page 204

۱۹۴ شخص قطعاً ہراساں نہیں ہوتا بلکہ برابر چپو مارتا ہوا اور خدا کی حمد کے گیت گا تا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہے اور سمندر کے لرزہ خیز طوفان کو ایک پر پشہ کے برابر بھی حیثیت نہیں دیتا.یہی وہ منظر تھا جس نے دشمنوں تک کے دل کو موہ لیا اور وہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ خواہ مرزا صاحب کے عقائد سے ہمیں کتناہی اختلاف ہومگر اس میں شبہ نہیں کہ _: اس نے مخالفتوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا.اور پھر :." مرزا صاحب اپنے آخری دم تک اپنے مقصود پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی.“ اور پھر.مرزا صاحب کی اخلاقی جرات جو انہوں نے اپنے دشمنوں کی طرف سے شدید مخالفت اور ایذا رسانی کے مقابلہ میں دکھائی یقیناً بہت قابل تحسین ہے.“ محنت اور انہماک :.اردو زبان میں ایک لفظ ” معمور الاوقات“ ہے جو ایسے شخص کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا سارا وقت کسی نہ کسی مفید کام میں لگا ہوا ہو اور کوئی وقت بریکاری میں نہ گذرے.یہ لفظ حضرت مسیح موعود پر اپنی پوری وسعت اور پوری شان کے ساتھ چسپاں ہوتا ہے.جس وقت سے کہ آپ نے خدا کے حکم کے ماتحت ماموریت کے میدان میں قدم رکھا اس وقت سے لے کر یوم وفات تک آپ کی زندگی کا ہرلمحہ اس سپاہی کی طرح گزرا جسے کسی عظیم الشان قومی خطرے کے وقت میں کسی نہایت نازک مقام پر بطور نگران سنتری مقرر کیا گیا ہو اور اس کی چوکسی یا غفلت پر قوم و ملک کی زندگی اور موت کا انحصار ہو.یہ تشبیہ قطعاً کسی مبالغہ کی حامل نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ یہ تشبیہہ غیر احمدی اخبار کر زن گزٹ دہلی- - - آریہ اخبار اندر لاہور سے.عیسائی رسالہ احمد یہ موومنٹ.

Page 205

۱۹۵ اس حالت کا صحیح حیح نقشہ کھینچنے سے قاصر ہے جو ہر دیکھنے والے کو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں نظر آتی تھی.آپ کی زندگی گویا ایک مقابلہ کی دوڑ تھی جس کا ہر قدم اس احساس کے ماتحت اٹھایا جاتا ہے کہ اس قدم کے اچھا اُٹھ جانے پر اس مقابلہ کی ساری کامیابی یا نا کامی کا دارو مدار ہے.بسا اوقات کام کے انہماک میں حضرت مسیح موعود کھانا اور سونا تک بھول جاتے تھے اور ایسے موقعوں پر آپ کو کھانے کے متعلق بار بار یاد کرا کے احساس پیدا کرانا پڑتا تھا.کئی مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ تصنیف کے کام میں آپ نے ساری ساری رات خرچ کر دی اور ایک منٹ کے لئے بھی آرام نہیں کیا.اس قسم کے واقعات شاذ کے طور پر نہیں تھے بلکہ کام کے زور کے ایام میں کثرت کے ساتھ پیش آتے رہتے تھے اور دیکھنے والے حیران ہوتے تھے کہ آپ کی خلقت میں کس پاک مٹی کا خمیر ہے کہ فرائض منصبی کی ادا ئیگی میں اپنے نفس کے ہر آرام کو فراموش کر رکھا ہے.لیکن چونکہ آپ نے ہر جہت سے لوگوں کے لئے ایک پاک نمونہ بننا تھا اس لئے آپ کا یہ شغف اور یہ انہاک دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں دخل انداز نہیں ہوتا تھا اور آپ سب لوگوں کے حقوق کو ایک مذہبی فریضہ کے طور پر احسن صورت میں ادا فرماتے تھے بلکہ اپنے نفس کی قربانی میں بھی جب آپ یہ دیکھتے تھے کہ یہ قربانی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ بشری لوازمات کے ماتحت خود کام کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو آپ فورا چوکس ہو کر اپنے نفس کے حقوق کی طرف بھی توجہ فرماتے تھے اور اس طرح آپ نے اپنی زندگی کے ہر فعل کو ایک مقدس عبادت کا رنگ دے لیا تھا.بہر حال آپ کی زندگی مصروفیت اور فرائض منصبی کی ادائیگی کے لحاظ سے ایک بے نظیر نمونہ پیش کرتی تھی اور آپ صحیح اور کامل معنوں میں معمور الاوقات تھے اور آپ کے متعلق خدا کا یہ الہام کہ:.انت الشيخ المسيح الذي لا يضاع وقته.یعنی تو وہ برگزیدہ مسیح ہے جس کا کوئی وقت بھی ضائع جانے والا نہیں کے تذکره صفحه ۳۱۸ مطبوعہ ۲۰۰۴ء

Page 206

١٩٦ آپ کی زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ افروز تھا.عبادت الہی: جیسا کہ او پر اشارہ کیا گیا ہے حضرت مسیح موعود کی زندگی ایک مجسم عبادت تھی کیونکہ آپ کا ہر قول و فعل خواہ وہ بظاہر اپنے نفس کے حقوق کی ادائیگی کے لئے تھایا اپنے اہل وعیال اور 66 الله رشتہ داروں اور دوستوں اور مہمانوں اور ہمسایوں کے آرام کی خاطر تھا یا کسی اور غرض سے تھا اس میں آپ کی نیت صرف رضائے الہی کی جستجو تھی اور آپ اپنے آقا اور مخدوم آنحضرت ﷺ کے اس پاک ارشاد کا عملی نمونہ تھے جس میں آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ ہر اچھا کام جو انسان رضائے الہی کے خیال سے کرتا ہے وہ عبادت میں داخل ہے حتی کہ اگر کوئی انسان اپنی بیوی کے منہ میں اس نیت کے ساتھ ایک لقمہ ڈالتا ہے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ بیوی کے آرام کا خیال رکھو تو اس کا یہ فعل بھی ایک عبادت ہے.اس معنی میں اور اس تشریح کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی ساری زندگی یقیناً مجسم عبادت تھی مگر عبادت کے معروف مفہوم کے لحاظ سے بھی آپ کا پایہ نہایت بلند تھا.جوانی کی زندگی جو نفسانی لذات کے زور کا زمانہ ہوتی ہے وہ آپ نے ایسے رنگ میں گزاری کہ دیکھنے والوں میں آپ کا نام مسیر مشہور ہو گیا تھا جو پنجابی زبان میں ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنا بیشتر وقت مسجد میں بیٹھ کر عبادت الہی میں گزار دے.قرآن شریف کے مطالعہ میں آپ کو اس قدر شغف تھا کہ گویا وہ آپ کی زندگی کا واحد سہارا ہے جس کے بغیر جینا ممکن نہیں اور قرآن شریف کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک جگہ خدا کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے پنجگانہ نماز تو خیر فرض ہی ہے جس کے بغیر کوئی شخص جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو مسلمان نہیں رہ سکتا.نفل نماز کے موقعوں کی بھی حضرت مسیح موعود کو اس طرح تلاش رہتی تھی جیسے ایک پیاسا انسان پانی کی تلاش کرتا ہے.تہجد کی نماز جو نصف شب کے بعد اٹھ کر ادا کی جاتی ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود کا دستور تھا کہ با قاعدہ شروع وقت میں اٹھ کر ادا فرماتے تھے اور اگر کبھی زیادہ بیماری کی

Page 207

۱۹۷ حالت میں بستر سے اٹھنے کی طاقت نہیں ہوتی تھی تو پھر بھی وقت پر جاگ کر بستر میں ہی اس مقدس عبادت کو بجالاتے تھے.جوانی کے عالم میں ایک دفعہ مسلسل آٹھ نو ماہ تک روزے رکھے اور آہستہ آہستہ خوراک کو اس قدر کم کر دیا کہ دن رات میں چند تو لہ سے زیادہ نہیں کھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خدا کے فضل سے اپنے نفس پر اس قدر قدرت حاصل ہے کہ اگر کبھی فاقہ کرنا پڑے تو قبل اس کے مجھے ذرا بھی اضطراب پیدا ہو ایک موٹا تازہ شخص اپنی جان کھو بیٹھے.بڑھاپے میں بھی جبکہ صحت کی خرابی اور عمر کے طبعی تقاضے اور کام کے بھاری بوجھ نے گویا جسمانی طاقتوں کو تو ڑ کر رکھ دیا تھا روزے کے ساتھ خاص محبت تھی اور بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سحری کھا کر روزہ رکھتے تھے اور دن کے دوران میں ضعف سے مغلوب ہو کر جبکہ قریبا غشی کی سی حالت ہونے لگتی تھی خدائی حکم کے ماتحت روزہ چھوڑ دیتے.مگر جب دوسرا دن آتا تو پھر شوق عبادت میں روزہ رکھ لیتے.زکوۃ آپ پر کبھی فرض نہیں ہوئی یعنی آپ کے پاس کبھی اس قدر رو پی جمع نہیں ہوا کہ آپ پر ز کوۃ فرض ہوتی بلکہ آپ نے اپنے محبوب آقا اور مخدوم نبی کی طرح جو بھی ملا اسے خدا کی راہ میں اور دین کی ضروریات میں بے دریغ خرچ کر دیا اور دنیا کے اموال سے اپنے ہاتھوں کو خالی رکھا اور مقدس بانی اسلام کی طرح اس اصول کو حرز جان بنایا کہ الفقر فخری یعنی فقر کی زندگی گزارنا میرے لئے فخر کا موجب ہے.حج بھی آپ باوجود خواہش کے کبھی ادا نہیں کر سکے کیونکہ اسلام نے حج کے لئے جو شرطیں مقرر کی ہیں وہ آپ کو میسر نہیں تھیں یعنی اول تو آپ کے پاس کبھی بھی حج کے مصارف کے لئے کافی روپیہ جمع نہیں ہوا دوسرے ان خطر ناک فتووں کے پیش نظر جو اسلامی دنیا میں آپ کے خلاف لگ چکے تھے آپ کے لئے حج کا رستہ یقیناً پر امن نہیں تھا مگر خدا نے آپ کی اس خواہش کو بھی خالی جانے نہیں دیا چنانچہ آپ کی وفات کے بعد حضرت والدہ صاحبہ نے آپ کی خواہش کو اس طرح پورا فرما دیا کہ اپنے خرچ پر ایک شخص کو مکہ مکرمہ میں بھجوا کر آپ کی طرف سے حج کروا دیا.غرض آپ ہر جہت

Page 208

۱۹۸ سے عبادت الہی میں ایک بہترین نمونہ تھے.تقویٰ اللہ اور اطاعت رسول: حضرت مسیح موعود کے تقویٰ و طہارت اور جذ بہ اطاعت رسول کے متعلق کچھ لکھنا میرے منصب اور میری طاقت سے باہر ہے.صرف اس قدر اصولی اشارہ کافی ہے کہ حضرت مسیح موعود کو تقویٰ کی باریک در باریک راہوں پر نگاہ رہتی تھی اور ہر قدم اٹھاتے ہوئے آپ کی نظر اس جستجو میں گھومتی تھی کہ اس معاملہ میں خدا اور اس کے رسول کا کیا ارشاد ہے.زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتیں جس میں ایک عام انسان کو یہ خیال تک نہیں جاتا کہ اس معاملہ میں بھی کوئی شریعت کا حکم ہوگا ان میں بھی آپ کو ہر قدم پر قرآن وحدیث کا حکم مستحضر رہتا تھا اور آپ اس حکم کو رسم و عادت یا چٹی کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقدس فرض کے طور پر رحمت کے احساس کے ساتھ بجا لاتے تھے.میں بڑی باتوں کو دانستہ ترک کرتے ہوئے ایک نہایت معمولی واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے اہل ذوق آپ کے اطاعت رسول کے جذبہ کا کسی قدر اندازہ کر سکتے ہیں.گورداسپور میں جبکہ مولوی کرم دین جہلمی کی طرف سے آپ کے خلاف ایک فوجداری مقدمہ دائر تھا ایک گرمیوں کی رات میں جبکہ سخت گرمی تھی اور آپ اسی روز قادیان سے گورداسپور پہنچے تھے آپ کے لئے مکان کی کھلی چھت پر پلنگ بچھایا گیا.اتفاق سے اس مکان کی چھت پر صرف معمولی منڈی تھی اور کوئی پردہ کی دیوار نہیں تھی.جب حضرت مسیح موعود بستر پر جانے لگے تو یہ دیکھ کر کہ چھت پر کوئی پردہ کی دیوار نہیں ہے ناراضگی کے لہجہ میں خدام سے فرمایا کہ میرا بستر اس جگہ کیوں بچھایا گیا ہے کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے.“ اور چونکہ اس مکان میں کوئی اور مناسب صحن نہیں تھا آپ نے باوجود شدت گرمی کے کمرہ کے اندرسونا پسند کیا مگر اس کھلی چھت پر نہیں سوئے.آپ کا یہ فعل اس خوف کی وجہ سے نہیں تھا کہ ایسی چھت پر سونا خطرہ کا باعث ہوتا ہے بلکہ اس خیال سے تھا کہ آنحضرت علی نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے.ایک اور موقعہ پر جب کہ آپ اپنے کمرہ میں بیٹھے تھے اور اس وقت دو تین باہر سے آئے

Page 209

۱۹۹ ہوئے احمدی بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے کسی شخص نے دروازہ پر دستک دی اس پر حاضر الوقت احباب میں سے ایک شخص نے اٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا.حضرت مسیح موعود نے یہ دیکھا تو گھبرا کر اٹھے اور فرمایا ٹھہریں ٹھہریں.میں خود کھولوں گا.آپ دونوں مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے.غرض حضرت مسیح موعود کو نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی قال الله اور قال الرسول کا انتہائی پاس ہوتا تھا اور زندگی کے ہر قدم پر خواہ وہ بظاہر کیسا ہی معمولی ہو آپ کی نظر لازما سیدھی خدا اور اس کے رسول کی طرف اٹھتی تھی.اس ضمن میں آپ نے جو تعلیم اپنے متبعین کو دی ہے وہ بھی آب زر سے لکھنے کے قابل ہے فرماتے ہیں:.” جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے کسی حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہرگز داخل نہیں ہوگا.سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تا تم اسی کے لئے پکڑے نہ جاؤ.لے اور مخصوص طور پر تقویٰ اللہ کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ سنو! مسلمانو! ہے حاصل اسلام بناؤ تام تقوی خدا کا عشق کے اور جام تقویٰ تقوی کہاں ایماں اگر ہے خام تقویٰ یہ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی فسبحان الله اخزى الاعادي راست گفتاری: راست گفتاری کی صفت تقویٰ وطہارت ہی کا ایک حصہ ہے لیکن چونکہ اس پر ایک روحانی مصلح کے دعوئی کی بنیاد ہوتی ہے اس لئے اس کے متعلق ایک علیحدہ نوٹ نامناسب نہ ہو گا.حضرت مسیح موعود کی راست گفتاری نہایت نمایاں اور مسلم تھی.ظاہر ہے کہ عام حالات میں ہر شخص ہی سچ بولتا ہے اور بلاوجہ کو ئی شخص راستی کے طریق کو ترک نہیں کرتا پس اس معاملہ میں انسان کا اصل امتحان عام حالات میں نہیں ہوتا بلکہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ایسے حالات میں بھی صداقت پر کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۵ ۲۶ ۲ الحکم مورخہ، اردسمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۳ کالم نمبرا

Page 210

۲۰۰ قائم رہے جبکہ ایسا کرنے میں اس کی ذات یا اس کے عزیز واقارب یا اس کے دوستوں اور تعلق داروں یا اس کی قوم و ملک کو کوئی نقصان پہنچتا ہو.ان حالات میں راست گفتاری حقیقہ ایک بڑی قربانی کا درجہ رکھتی ہے اور وہی شخص اسے اختیار کر سکتا ہے جو سچائی کے مقابلہ پر ہرو نیوی نفع اور مہرو نیوی رشتہ کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو.اور سچائی کے اختیار کرنے میں بظاہر جتنا زیادہ خطرہ درپیش ہو اتنا ہی اس کے مقابلہ پر اس قربانی کا درجہ زیادہ بلند ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود کے لئے چونکہ ایک روحانی مصلح بننا مقدر تھا اس لئے آپ کی زندگی میں ایسے متعدد موقعے پیش آئے کہ جب راستی کو اختیار کرنا آپ کے لئے بظاہر بہت بڑے نقصان یا خطرے کا باعث تھا مگر آپ نے ہر ایسے موقعہ پر اپنے نفع اور فائدہ کو ایک پر پشہ کے برابر بھی حیثیت نہیں دی اور ایک مضبوط چٹان کی طرح صداقت اور راستی پر قائم رہے اور ہر قسم کے نقصان اور خطرے کو برداشت کیا مگر سچ کا دامن نہیں چھوڑا.مثلاً ایک دفعہ ایک فوجداری مقدمہ میں جو محکمہ ڈاکخانہ کی طرف سے آپ کے خلاف دائر کیا گیا تھا اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس میں ایک بھاری جرمانہ یا قید کی سزا تھی اور مقدمہ کے حالات ایسے تھے کہ سوائے اس کے کہ آپ خود اپنی زبان سے اعتراف کریں دوسرے فریق کے ہاتھ میں کوئی قطعی ثبوت نہیں تھا آپ نے بڑی دلیری کے ساتھ اپنے فعل کا اعتراف کیا مگر ساتھ ہی یہ معذرت پیش کی کہ مجھے اس قانون کا علم نہیں تھا اور میں نے نیک نیتی کے ساتھ درست سمجھتے ہوئے یہ کام کیا ہے.اس پر مجسٹریٹ کے دل پر آپ کی صداقت کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ اس نے آپ کو بلا تامل بری کر دیا اور یہ بریت اس الہام کے مطابق ہوئی جو اس بارے میں پہلے سے آپ کو ہو چکا تھا.اسی طرح ایک دفعہ ایک دیوانی مقدمہ میں جو آپ کی زوجہ اول کے بڑے بیٹے مرزا سلطان احمد صاحب نے ایک شخص کے خلاف دائر کر رکھا تھا اور اس مقدمہ کے ناکام رہنے میں خاندان کے ہاتھ سے ایک معقول جائداد نکل جاتی تھی فریق مخالف نے جو باوجود مخالف ہونے کے آپ کی راست گفتاری پر کامل اعتماد رکھتا تھا آپ کو بطور گواہ کے لکھا دیا اور گواصل امر میں حق آپ کے ساتھ تھا مگر چونکہ بعض ضمنی اور اصطلاحی امور میں آپ کی شہادت دوسرے فریق کے حق میں جاتی تھی اور آپ نے

Page 211

۲۰۱ اپنے وکیل سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ خواہ کچھ ہو میں خلاف واقعہ بات ہرگز نہیں کہوں گا اس لئے بھاری نقصان برداشت کر کے اپنے جائز حق کو ترک کر دیا گیا اور سچ کا دامن نہیں چھوڑا گیا.یہ دو واقعات صرف بطور نمونہ کے لکھے گئے ہیں لے ورنہ آپ کی زندگی اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور آپ کے متعلق خدا کا یہ الہام ایک ٹھوس صداقت پر مبنی ہے کہ :.قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيُكُمُ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ د یعنی تو اپنے مخالفوں سے کہہ دے کہ اگر میں نے خدا پر افترا باندھا ہے تو میں مجرم ہوں اور اپنے جرم کی پاداش سے بچ نہیں سکتا مگر تم اتنا تو سوچو کہ میں اپنے دعوی سے پہلے تمہارے درمیان ایک لمباز مانہ گزار چکا ہوں اور تم میرے حالات اور میری عادات سے اچھی طرح واقف ہو تو کیا پھر بھی تم میری صداقت کے متعلق شک کرتے ہو اور عقل وخرد سے کام نہیں لیتے ؟ اس الہام میں گویا آپ کے منہ میں یہ دلیل ڈالی گئی تھی کہ اگر میں نے دنیا کی باتوں میں کبھی جھوٹ کا رستہ اختیار نہیں کیا اور ہر حال میں صداقت اور راستی کے دامن کو مضبوط پکڑے رکھا ہے اور کبھی کسی انسان تک پر افتراء نہیں باندھا تو اے لوگو کیا تمہارے دل اس بات پر تسلی پاتے ہیں کہ اب بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر میں خدائے قدوس پر افترا باندھنے لگ گیا ہوں اور ساری عمر نیکی اور راستی کی زندگی گزار کر اب آخری وقت میں اچانک ایک جھوٹا اور مفتری انسان بن گیا ہوں؟ یقینا یہ نتیجہ بالکل غیر طبعی اور عقل و خرد کے سراسر خلاف ہے کہ ایک شخص اپنی ساری جوانی تقوی وطہارت اور صداقت و راستی میں گزار کر آخری عمر میں قدم رکھتے ہی اچانک مفتری علی اللہ بن جائے.تکلفات سے پاک زندگی :.حضرت مسیح موعود کے اطلاق و عادات کا ایک اور نمایاں ان کے مفصل حالات کے لئے دیکھو آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۹۷ تا ۳۰۰ حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۸۶

Page 212

۲۰۲ پہلو یہ تھا کہ آپ کی زندگی کلیۂ تکلفات سے پاک تھی.یعنی نہ صرف جیسا کہ اس باب کے شروع میں بتایا گیا ہے آپ خوراک اور لباس وغیرہ کے معاملہ میں بالکل سادہ مزاج تھے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ اور اخلاق کے ہر پہلو میں آپ کا طریق ہر جہت سے سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے بالا تھا اور یوں نظر آتا تھا کہ آپ کے اعلیٰ اخلاق تمام مصنوعی آرائشوں سے آزاد ہو کر اپنے قدرتی زیور میں جلوہ افروز ہیں.کھانے میں، پینے میں ، سونے میں، جاگنے میں کام میں ، آرام میں، تکلیف میں ، آسائش میں، سفر میں ،حضر میں عزیزوں میں ، بیگانوں میں ، گھر کے اندر گھر کے باہر غرض زندگی کے ہر پہلو میں آپ کے اخلاق و عادات اپنے فطری بہاؤ پر چلتے تھے اور ان میں تکلف کی کوئی دور کی جھلک بھی نظر نہیں آتی تھی.خاکسار راقم الحروف نے بہت ہی کم ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو میں کسی نہ کسی جہت سے تکلف کا دخل نہ آجا تا ہو بلکہ حق یہ ہے کہ میں نے ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جو تکلف سے کلی طور پر پاک ہو مگر حضرت مسیح موعود کی زندگی تکلفات سے اس طرح بالا اور ارفع رہی جس طرح ایک بلند پرواز طیارہ زمین کو چھوڑ کر اوپر نکل جاتا ہے.میں تکلفات کو ہر صورت میں برا نہیں کہتا یقیناً ایک ایسا انسان جو اخلاق کے کمال تک نہ پہنچا ہوا اسے اپنے اخلاق کے درست اظہار کے لئے کسی نہ کسی جہت سے تکلف کی ضرورت لاحق ہوتی ہے اور قدرتی حسن کی کمی کو مصنوعی تزئین سے پورا کرنا پڑتا ہے پس اگر عام حالات میں تکلف ایک بری چیز ہے تو بعض خاص حالات میں وہ ایک مفید پہلو بھی رکھتا ہے مگر حضرت مسیح موعود کے اخلاق کو یہ قدرت حسن حاصل تھا کہ وہ اپنی اکمل صورت کی وجہ سے تکلفات کی آرائش سے بالکل بالا تھے.خوراک لباس و غیرہ کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادات نہایت درجہ سادہ تھیں جو کھانا بھی سامنے رکھ دیا جاتا آپ اسے بے تکلفی سے تناول فرماتے اور کبھی کسی کھانے پر اعتراض نہیں کیا اور نہ کبھی کھانے پینے کے شوقین لوگوں کی طرح کسی خاص کھانے کی خواہش کی.یہ نہیں کہ ملامتی فرقہ کے لوگوں کی طرح آپ کو اچھے کھانے سے پر ہیز تھا اور ضرور ادنیٰ

Page 213

کھانا ہی کھاتے تھے بلکہ جو کھانا بھی میسر آتا آپ اسے خوشی کے ساتھ کھاتے اور عموماً سادہ غذا کو پسند فرماتے تھے.اسی طرح جو لباس بھی گھر میں تیار کروا دیا جا تا یا باہر سے تحفہ آ جاتا آپ اسے خوشی کے ساتھ استعمال فرماتے تھے مگر سادہ لباس پسند تھا اور کسی قسم کے فیشن وغیرہ کا خیال تک نہ آتا تھا.لباس کے معاملہ میں مجھے اس وقت ایک واقعہ یاد آ گیا ہے جو حاضرین کی دلچسپی کے لئے اس جگہ درج کرتا ہوں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کے خسر یعنی خاکسار مولف رسالہ ہذا کے نانا حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اپنے ایک غریب رشتہ دار کو جسے کوٹ کی ضرورت تھی اپنا ایک استعمال شدہ کوٹ بھجوایا.میر صاحب کے اس عزیز نے اس بات کو بہت برا منایا کہ مستعمل کوٹ بھیجا گیا ہے اور ناراضگی میں کوٹ واپس کر دیا.جب خادم اس کوٹ کو واپس لا رہا تھا تو اتفاق سے اس پر حضرت مسیح موعود کی نظر پڑ گئی.آپ نے اس سے حال دریافت فرمایا اور جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ کوٹ میر صاحب کو واپس جا رہا ہے تو حضرت مسیح موعود نے اس خادم سے یہ کوٹ لے لیا اور فرمایا کہ واپس کرنے سے میر صاحب کی دشکنی ہوگی تم مجھے دے جاؤ.میں خود یہ کوٹ پہن لوں گا اور میر صاحب سے کہ دینا کہ کوٹ ہم نے اپنے لئے رکھ لیا ہے.یہ ایک بہت معمولی سا گھر یلو واقعہ ہے مگر اس سے حضرت مسیح موعود کے اعلیٰ اخلاق اور بے تکلفانہ زندگی پر کتنی روشنی پڑتی ہے! ہندوستان کے پیروں اور سجادہ نشینوں میں یہ ایک عام مرض ہے کہ کوئی مرید پیر کے برابر ہوکر نہیں بیٹھ سکتا یعنی ہر مجلس میں پیر کے لئے ایک مخصوص مسند مقرر ہوتی ہے اور مریدوں کو اس سے ہٹ کر نچلی جگہ بیٹھنا پڑتا ہے بلکہ پیروں پر ہی حصر نہیں دنیا کے ہر طبقہ میں مجلسوں میں خاص مراتب ملحوظ رکھے جاتے ہیں اور کوئی شخص انہیں تو نہیں سکتا.لیکن حضرت مسیح موعود کی مجلس میں قطعا کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا بلکہ آپ کی مجلس میں ہر طبقہ کے لوگ آپ کے ساتھ مل کر اس طرح ملے جلے بیٹھتے تھے کہ جیسے ایک خاندان کے افراد گھر میں مل کر بیٹھتے ہیں.اور بسا اوقات اس بے تکلفانہ انداز کا یہ نتیجہ ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود بظاہر ادنی جگہ پر بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے لوگوں کو اچھی جگہ مل جاتی تھی مثلاً بیسیوں مرتبہ ایسا

Page 214

۲۰۴ ہو جاتا تھا کہ چار پائی کے سرہانی کی طرف کوئی دوسرا شخص بیٹھا ہے اور پائنتی کی طرف حضرت مسیح موعود ہیں مانگی چار پائی پر آپ ہیں اور بستر والی چارپائی پر آپ کا کوئی مرید بیٹھا ہے یا اونچی جگہ میں کوئی مرید ہے اور نیچی جگہ میں آپ ہیں.مجلس کی اس صورت کی وجہ سے بسا اوقات ایک نو وار دکو دھوکا لگ جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود کون ہیں اور کہاں بیٹھے ہیں.مگر یہ ایک کمال ہے جو غالباً صرف انبیاء کی جماعتوں میں ہی پایا جاتا ہے کہ اس بے تکلفی کے نتیجہ میں کسی قسم کی بے ادبی نہیں پیدا ہوتی تھی بلکہ ہر شخص کا دل محبت اور ادب و احترام کے انتہائی جذبات سے معمور رہتا تھا.خادموں تک سے پوری بے تکلفی کا برتاؤ تھا.مثلاً ناظرین یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اوائل زمانہ میں کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود سفر کے خیال سے گھر سے نکلے اور ایک خادم اور ایک گھوڑ ا ساتھ تھا.آپ نے اصرار کے ساتھ خادم کو گھوڑے پر سوار کرا دیا اور خود پیدل چلتے رہے یا خادم کے ساتھ باری مقرر کر لی کہ چند میل تک تم سوار ہو اور پھر چند میل تک میں سوار ہوں گا.اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سفر میں بالعموم خادم کو اچھا کھانا دیتے تھے اور خود معمولی کھانے پر اکتفا کرتے تھے.ایک شخص نے جسے شروع کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے ساتھ خادم اور مصاحب کے طور پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا تھا مجھ سے ذکر کیا کہ عموماً حضرت مسیح موعود مجھے ایک وقت کے کھانے کے لئے چار آنے کے پیسے دیتے تھے اور خود ایک آنہ کے کھانے پر گزارہ کرتے تھے.یہ غالبا اس لئے تھا کہ آپ یہ خیال فرماتے ہوں گے کہ یہ شخص اس قدر سادہ غذا پر گزارہ نہیں کر سکتا جس پر کہ خود آپ کر سکتے ہیں.گھر کے کام کاج میں بھی حضرت مسیح موعود کی طبیعت نہایت درجہ سادہ اور تکلفات سے آزاد تھی.ضرورت کے موقعہ پر نہایت معمولی معمولی کام اپنے ہاتھ سے کر لیتے تھے اور کسی کام میں عار نہیں محسوس کرتے تھے مثلاً چار پائی یا بکس وغیرہ اٹھا کر ادھر ادھر رکھ دینایا بستر بچھا نایا لپیٹنا یا کسی مہمان کے لئے کھانے یا ناشتہ کے برتن لگا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا وغیرہ وغیرہ.خاکسار کو یاد ہے کہ وبائی امراض کے ایام میں بسا اوقات حضرت مسیح موعود خود بھنگن کے سر پر کھڑے ہو کر نالیوں کی

Page 215

۲۰۵.صفائی کرواتے تھے اور بعض اوقات نالیوں میں خود اپنے ہاتھ سے پانی بہا کر فینائل وغیرہ ڈالتے تھے.غرض حضرت مسیح موعود کی زندگی ہر جہت سے بالکل سادہ اور تکلفات کی آلائش سے بالکل پاک تھی.بیوی بچوں سے سلوک :.قرآن شریف نے بار بار اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ شفقت و احسان کا سلوک کریں اور آنحضرت یہ حدیث میں فرماتے ہیں کہ خیر کم خیر کم لاهله یعنی اے مسلمانو ! تم میں سے خدا کی نظر میں بہترین اخلاق والا شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے ساتھ سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہے.اس معیار کے مطابق حضرت مسیح موعود یقیناً ایک خیر الناس وجود تھے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ آپ کا سلوک نہایت درجہ پاکیزہ اور حسن و احسان کی خوبیوں سے معمور تھا.یہ مضمون اس نوعیت کا ہے کہ اس پر قلم اٹھاتے ہوئے مجھے کسی قدر حجاب محسوس ہوتا ہے مگر میں اپنے ناظرین کو یقین دلاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود ایک بہترین خاوند اور بہترین باپ تھے اور گھر کے اس بہشتی ماحول اور اس بارے میں حضرت مسیح موعود کی تعلیم کی وجہ سے جماعت احمدیہ کی مستورات اپنے خانگی تنازعات میں حضرت مسیح موعود کو اپنا ایک زبردست سہارا اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک نہایت مضبوط ستون خیال کرتی تھیں کیونکہ انہیں یہ یقین تھا کہ ہماری ہر شکایت نہ صرف انصاف بلکہ رحمت واحسان کے جذبات کے ساتھ سنی جائے گی.مجھے وہ لطیفہ نہیں بھولتا جبکہ ملکہ وکٹوریہ آنجہانی کے عہد حکومت میں ایک دفعہ ایک معزز احمدی نے کسی خانگی بات میں ناراض ہو کر اپنی بیوی کوسخت سست کہا.بیوی بھی حساس تھیں وہ خفا ہو کر حضرت مسیح موعود کے گھر میں آگئیں اور ہماری والدہ صاحبہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود تک اپنی شکایت پہنچائی.دوسری طرف وہ صاحب بھی غصہ میں جماعت احمدیہ کے ایک نہایت معزز فر د حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے پاس آئے اور ان کے ذریعہ حضرت مسیح موعود تک اپنے حالات پہنچانے چاہے حضرت مولوی صاحب مرحوم کی طبیعت نہایت ذہین اور بامذاق تھی.ان دوست کی بات سن کر کہنے لگے.میاں تم جانتے نہیں کہ آجکل ملکہ کا راج ہے پس میرا مشورہ

Page 216

ہے کہ چپکے سے اپنی کو منا کر گھر واپس لے جاؤ اور جھگڑے کولمبانہ کرو.“ چنانچہ ان صاحب نے ایسا ہی کیا اور گھر کی ایک وقتی ناراضگی پھر امن اور خوشی کی صورت میں بدل گئی.لطیفہ اس بات میں یہ تھا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے جو یہ کہا کہ آجکل ملکہ کا راج ہے اس سے ان کی یہ مراد تھی کہ جہاں آجکل حکومت انگریزی کی باگ ڈور ایک ملکہ کے ہاتھ میں ہے وہاں جماعت احمدیہ کی روحانی بادشاہت میں بھی جہاں تک اس قسم کے خانگی امور کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود اپنے گھر والوں کی بات کو زیادہ وزن دیتے ہیں اور عورتوں کی ہمدردی اور ان کے حقوق کا آپ کو خاص خیال رہتا ہے.دوسری طرف حضرت مسیح موعود کے احسان اور شفقت کا یہ نتیجہ نہیں تھا کہ ہماری والدہ صاحبہ کے دل میں حضرت مسیح موعود کے ادب و احترام یا آپ کی قدر و منزلت میں کوئی کمی آجاتی بلکہ حضرت مسیح موعود کے لئے ان کا رویہ نہایت درجہ مخلصانہ اور نہایت درجہ مودبانہ تھا.چنانچہ جب حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر اپنے لئے ایک نکاح ثانی کی پیشگوئی فرمائی جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے تو گویہ پیشگوئی بعض شرائط کے ساتھ مشروط تھی مگر پھر بھی چونکہ اس وقت اس کا ظاہر پہلو یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ ایک نکاح کی پیشگوئی ہے اور لڑکی کے والدین اور عزیز واقارب حضرت مسیح موعود کے سخت خلاف تھے تو ایسے حالات میں حضرت والدہ صاحبہ نے کئی دفعہ خدا کے حضور رو رو کر دعائیں کیں کہ ”خدا یا تو اپنے مسیح کی سچائی کو ثابت کر اور اس رشتہ کے لئے خود اپنی طرف سے سامان مہیا کر دے.“ اور جب حضرت مسیح موعود نے ان سے دریافت کیا کہ اس رشتہ کے ہو جانے سے تو تم پر سوکن آتی ہے پھر تم ایسی دعا کس طرح کرتی ہو؟ تو حضرت والدہ صاحبہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ” کچھ بھی ہو میری خوشی اسی میں ہے کہ آپ کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہو جائے.‘ اس چھوٹے سے گھر یلو واقعہ سے اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے بے نظیر حسن سلوک اور عدیم المثال شفقت نے آپ کے اہل خانہ پر کس قدر غیر معمولی اثر پیدا کیا تھا.الغرض آپ کا اپنے اہل وعیال کے ساتھ ایسا اعلیٰ سلوک تھا کہ جس کی نظیر تلاش کرنا بے سود ہے.

Page 217

۲۰۷ دوستوں کے ساتھ سلوک :.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے ایسا دل عطا کیا تھا جو محبت اور وفاداری کے جذبات سے معمور تھا.آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کسی محبت کی عمارت کو کھڑا کر کے پھر اس کے گرانے میں کبھی پہل نہیں کی.ایک صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آپ کے بچپن کے دوست اور ہم مجلس تھے مگر آپ کے دعوئی مسیحیت پر آ کر انہیں ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے نہ صرف دوستی کے رشتہ کو توڑ دیا بلکہ حضرت مسیح موعود کے اشد ترین مخالفوں میں سے ہو گئے اور آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ لگانے میں سب سے پہل کی.مگر حضرت مسیح موعود کے دل میں آخر وقت تک ان کی دوستی کی یاد زندہ رہی اور گو آپ نے خدا کی خاطر ان سے قطع تعلق کر لیا اور ان کی فتنہ انگیزیوں کے ازالہ کے لئے ان کے اعتراضوں کے جواب میں زور دار مضامین بھی لکھے مگر ان کی دوستی کے زمانہ کو آپ کبھی نہیں بھولے اور ان کے ساتھ قطع تعلق ہو جانے کو ہمیشہ تلخی کے ساتھ یاد رکھا چنانچہ اپنے آخری زمانہ کے اشعار میں مولوی محمد حسین صاحب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:.قَطَعْتَ وَدَادًا قَدْ غَرَسُنَاهُ فِي الصَّبَا وَلَيْسَ فُوَّادِي فِي الوَدَادِ يُقَصِرُ یعنی تو نے تو اس محبت کے درخت کو کاٹ دیا جو ہم دونوں نے مل کر بچپن میں لگایا تھا.مگر میرا دل محبت کے معاملہ میں کوتاہی کرنے والا نہیں ہے.“ جب کوئی دوست کچھ عرصہ کی جدائی کے بعد حضرت مسیح موعود کو ملتا تو اسے دیکھ کر آپ کا چہرہ یوں شگفتہ ہو جاتا تھا جیسے کہ ایک بند کلی اچانک پھول کی صورت میں کھل جاوے اور دوستوں کے رخصت ہونے پر آپ کے دل کو از حد صدمہ پہنچتا تھا.ایک دفعہ جب آپ نے اپنے بڑے فرزند اور ہمارے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (موجودہ امام جماعت احمدیہ) کے قرآن شریف ختم کرنے پر آمین لکھی اور اس تقریب پر بعض بیرونی دوستوں کو بھی بلا کر اپنی خوشی میں شریک فرمایا تو اس وقت آپ نے اس آمین میں اپنے دوستوں کے آنے کا بھی ذکر کیا اور پھر ان کے واپس جانے کا خیال کر کے اپنے غم کا بھی اظہارفرمایا.چنانچہ فرماتے ہیں:.ے براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۳۵

Page 218

۲۰۸ مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سبحان من برانی دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے یہ روز کر مبارک سبحان من برانی اے اوائل میں آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ اپنے دوستوں اور مہمانوں کے ساتھ مل کر مکان کے مردانہ حصہ میں کھانا تناول فرمایا کرتے تھے اور یہ مجلس اس بے تکلفی کی ہوتی تھی اور ہر قسم کے موضوع پر ایسے غیر رسمی رنگ میں گفتگو کا سلسلہ رہتا تھا کہ گو یا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا بھی دسترخوان بچھ جاتا تھا.ان موقعوں پر آپ ہر مہمان کا خود ذاتی طور پر خیال رکھتے اور اس بات کی نگرانی فرماتے کہ ہر شخص کے سامنے دستر خوان کی ہر چیز پہنچ جاوے.عموماً ہر مہمان کے متعلق خود دریافت فرماتے تھے کہ اسے کسی خاص چیز مثلاً دودھ یا چائے یا پان وغیرہ کی عادت تو نہیں اور پھر حتی الوسع ہر اک کے لئے اس کی عادت کے مطابق چیز مہیا فرماتے.جب کوئی خاص دوست قادیان سے واپس جانے لگتا تو آپ عموماً اس کی مشایعت کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو میل تک اس کے ساتھ جاتے اور بڑی محبت اور عزت کے ساتھ رخصت کر کے واپس آتے تھے.آپ کو یہ بھی خواہش رہتی تھی کہ جو دوست قادیان میں آئیں وہ حتی الوسع آپ کے پاس آپ کے مکان کے ایک حصہ میں ہی قیام کریں اور فرمایا کرتے تھے کہ زندگی کا اعتبار نہیں جتنا عرصہ پاس رہنے کا موقعہ مل سکے غنیمت سمجھنا چاہئے.اس طرح آپ کے مکان کا ہر حصہ گویا ایک مستقل مہمان خانہ بن گیا تھا اور کمرہ کمرہ مہمانوں میں بٹا رہتا تھا مگر جگہ کی تنگی کے باوجود آپ اس طرح دوستوں کے ساتھ مل کر رہنے میں انتہائی راحت پاتے تھے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ معززین جو آجکل بڑے بڑے وسیع مکانوں اور کوٹھیوں میں رہ کر بھی تنگی محسوس کرتے ہیں حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ایک ایک کمرہ میں سمٹے ہوئے رہتے تھے اور اسی میں خوشی پاتے تھے.در تشین اردو ( محمود کی آمین ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۲۳)

Page 219

۲۰۹ قادیان میں حضرت مسیح موعود کے والد صاحب کے زمانہ کا ایک پھلدار باغ ہے جس میں مختلف قسم کے ثمر دار درخت ہیں.حضرت مسیح موعود کا طریق تھا کہ جب پھل کا موسم آتا تو اپنے دوستوں اور مہمانوں کو ساتھ لے کر اس باغ میں تشریف لے جاتے اور موسم کا پھل تڑوا کر سب دوستوں کے ساتھ مل کر نہایت بے تکلفی سے نوش فرماتے.اس وقت یوں نظر آتا تھا کہ گویا ایک مشفق باپ کے اردگرد اس کی معصوم اولا دگھیرا ڈالے بیٹھی ہے.مگر ان مجلسوں میں کبھی کوئی لغو بات نہیں ہوتی تھی بلکہ ہمیشہ نہایت پاکیزہ اور اکثر اوقات دینی گفتگو ہوا کرتی تھی اور بے تکلفی اور محبت کے ماحول میں علم و معرفت کا چشمہ جاری رہتا تھا.حضرت مسیح موعود کے تعلقات دوستی کے تعلق میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ آپ کی دوستی کی بنیاد اس اصول پر تھی کہ الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي الله یعنی دوستی اور دشمنی دونوں خدا کے لئے ہونی چاہئیں نہ کہ اپنے نفس کے لئے یا دنیا کے لئے.اسی لئے آپ کی دوستی میں امیر وغریب کا کوئی امتیاز نہیں تھا اور آپ کی محبت کے وسیع دریا سے بڑے اور چھوٹے ایک ساحصہ پاتے تھے.دشمنوں کے ساتھ سلوک :.قرآن شریف فرماتا ہے لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى اَنْ لَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوى یعنی اے مسلمانو چاہئیے کہ کسی قوم یا فرقہ کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان کے معاملہ میں عدل و انصاف کا طریق ترک کر دو.بلکہ تمہیں ہر حال میں ہر فریق اور ہر شخص کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا چاہئیے.قرآن شریف کی یہ زریں تعلیم حضرت مسیح موعود کی زندگی کا نمایاں اصول تھی.آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں کسی شخص کی ذات سے عداوت نہیں ہے.بلکہ صرف جھوٹے اور گندے خیالات سے دشمنی ہے اس اصل کے ماتحت جہاں تک ذاتی امور کا تعلق ہے آپ کا اپنے دشمنوں کے ساتھ نہایت درجہ مشفقانہ سلوک تھا اور اشد ترین دشمن کا درد بھی آپ کو بے چین کر دیتا تھا.چنانچہ جیسا کہ آپ کے سوانح کے حالات میں گزر چکا ہے جب آپ کے بعض چازاد بھائیوں نے جو آپ کے خونی دشمن تھے آپ کے مکان کے سامنے

Page 220

۲۱۰ دیوار کھینچ کر آپ کو اور آپ کے مہمانوں کو سخت تکلیف میں مبتلاء کر دیا اور پھر بالآ خر مقدمہ میں خدا نے آپ کو فتح عطا کی اور ان لوگوں کو خود اپنے ہاتھ سے دیوار گرانی پڑی تو اس کے بعد حضرت مسیح موعود کے وکیل نے آپ سے اجازت لینے کے بغیر ان لوگوں کے خلاف خرچہ کی ڈگری جاری کروادی.اس پر یہ لوگ بہت گھبرائے اور حضرت مسیح موعود کی خدمت میں ایک عاجزی کا خط بھجوا کر رحم کی التجا کی.آپ نے نہ صرف ڈگری کے اجراء کوفور آر کوا دیا بلکہ اپنے ان خونی دشمنوں سے معذرت بھی کی کہ میری لاعلمی میں یہ کارروائی ہوئی ہے جس کا مجھے افسوس ہے اور اپنے وکیل کو ملامت فرمائی کہ ہم سے پوچھے بغیر خرچہ کی ڈگری کا اجرا کیوں کروایا گیا ہے.اگر اس موقعہ پر کوئی اور ہوتا تو وہ دشمن کی ذلت اور تباہی کو انتہا تک پہنچا کر صبر کرتا مگر آپ نے ان حالات میں بھی احسان سے کام لیا اور اس بات کا شاندار ثبوت پیش کیا کہ آپ کو صرف گندے خیالات اور گندے اعمال سے دشمنی ہے کسی سے ذاتی عداوت نہیں اور یہ کہ ذاتی معاملات میں آپ کے دشمن بھی آپ کے دوست ہیں.اسی طرح یہ واقعہ بھی اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ جب ایک خطر ناک خونی مقدمہ میں جس میں آپ پر اقدام قتل کا الزام تھا آپ کا اشد ترین مخالف مولوی محمدحسین بٹالوی آپ کے خلاف بطور گواہ پیش ہوا اور آپ کے وکیل نے مولوی صاحب کی گواہی کو کمزور کرنے کے لئے ان کے بعض خاندانی اور ذاتی امور کے متعلق ان پر جرح کرنی چاہی.تو حضرت مسیح موعود نے بڑی ناراضگی کے ساتھ اپنے وکیل کو روک دیا اور فرمایا کہ خواہ کچھ ہو میں اس قسم کے سوالات کی اجازت نہیں دے سکتا.اور اس طرح گویا اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر بھی اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائی.اسی طرح جب پنڈت لیکھرام حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق لاہور میں قتل ہوئے اور آپ کو اس کی اطلاع پہنچی تو گو پیشگوئی کے پورا ہونے پر آپ خدا تعالیٰ کا شکر بجالائے مگر ساتھ ہی انسانی ہمدردی میں آپ نے پنڈت لیکھرام کی موت پر افسوس کا بھی اظہار کیا اور بار بار فرمایا کہ ہمیں یہ درد ہے کہ پنڈت صاحب نے ہماری بات نہیں مانی اور خدا اور اس کے رسول کے متعلق گستاخی کے

Page 221

۲۱۱ طریق کو اختیار کر کے اور ہمارے ساتھ مباہلہ کے میدان میں قدم رکھ کر اپنی تباہی کا بیج بولیا.قادیان کے بعض آریہ سماجی حضرت مسیح موعود کے سخت مخالف تھے اور آپ کے خلاف ناپاک پراپیگنڈے میں حصہ لیتے رہتے تھے مگر جب بھی انہیں کوئی تکلیف پیش آتی یا کوئی بیماری لاحق ہوتی تو وہ اپنی کارروائیوں کو بھول کر آپ کے پاس دوڑے آتے اور آپ ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت درجہ ہمدردانہ اورمحنانہ سلوک کرتے اور ان کی امداد میں دلی خوشی پاتے.چانچہ ایک صاحب قادیان میں لالہ بڈھا مل ہوتے تھے جو حضرت مسیح موعود کے سخت مخالف تھے جب قادیان میں منارۃ اسیح بننے لگا تو ان لوگوں نے حکام سے شکایت کی کہ اس سے ہمارے گھروں کی بے پردگی ہوگی اس لئے مینارہ کی تعمیر کو روک دیا جائے.اس پر ایک مقامی افسر یہاں آیا اور اس کی معیت میں لالہ بڑھامل اور بعض دوسرے مقامی ہندو اور غیر احمدی اصحاب حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت مسیح موعود نے ان افسر صاحب کو سمجھایا کہ یہ شکایت محض ہماری دشمنی کی وجہ سے کی گئی ہے ورنہ اس میں بے پردگی کا کوئی سوال نہیں اور اگر بالفرض کوئی بے پردگی ہوگی تو اس کا اثر ہم پر بھی ویسا ہی پڑے گا جیسا کہ ان پر.اور فرمایا کہ ہم تو صرف ایک دینی غرض سے یہ مینارہ تعمیر کروانے لگے ہیں ورنہ ہمیں ایسی چیزوں پر روپیہ خرچ کرنے کی کوئی خواہش نہیں.اسی گفتگو کے دوران میں آپ نے اس افسر سے فرمایا کہ اب یہ لالہ بڑھامل صاحب ہیں آپ ان سے پوچھئے کہ کیا کبھی کوئی ایسا موقعہ آیا ہے کہ جب یہ مجھے کوئی نقصان پہنچاسکتے ہوں اور انہوں نے اس موقعہ کو خالی جانے دیا ہو اور پھر انہی سے پوچھئے کہ کیا کبھی ایسا ہوا کہ انہیں فائدہ پہنچانے کا کوئی موقعہ مجھے ملا ہو اور میں نے اس سے دریغ کیا ہو.حضرت مسیح موعود کی اس گفتگو کے وقت لالہ بڑھامل اپنا سر نیچے ڈالے بیٹھے رہے اور آپ کے جواب میں ایک لفظ تک منہ پر نہیں لا سکے.الغرض حضرت مسیح موعود کا وجود ایک مجسم رحمت تھا.وہ رحمت تھا اسلام کے لئے اور رحمت تھا اس پیغام کے لئے جسے لے کر وہ خود آیا تھا.وہ رحمت تھا اس بستی کے لئے جس میں وہ پیدا ہوا اور

Page 222

۲۱۲ رحمت تھا دنیا کے لئے جس کی طرف وہ مبعوث کیا گیا.وہ رحمت تھا اپنے اہل وعیال کے لئے اور رحمت تھا اپنے خاندان کے لئے.وہ رحمت تھا اپنے دوستوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے دشمنوں کے لئے.اس نے رحمت کے پیج کو چاروں طرف بکھیرا.او پر بھی اور نیچے بھی.آگے بھی اور پیچھے بھی.دائیں بھی اور بائیں بھی.مگر بد قسمت ہے وہ جس پر یہ پیج تو آ کر گر اگر اس نے ایک بنجر زمین کی طرح اسے قبول کرنے اور اگانے سے انکار کر دیا.حضرت مسیح موعود کے اخلاق و عادات کا مضمون تو نہایت وسیع ہے مگر اس مختصر رسالہ میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں پس اسی مختصر نوٹ پر اکتفا کرتے ہوئے ہم اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں اور وما التوفيق الا بالله –

Page 223

۲۱۳ اسلامی تعلیم کا مختصر ڈھانچہ احمدیت اسلام ہی کا دوسرا نام ہے :.اس رسالہ کے شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ احمدیت کسی نئے مذہب کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام ہی کی تجدید کا دوسرا نام احمدیت ہے مگر تجدید سے یہ مراد نہیں کہ اسلامی شریعت میں کسی قسم کا نسخ یا زیادتی ہو سکتی ہے بلکہ تجدید سے صرف یہ مراد ہے کہ مرور زمانہ کی وجہ سے جو غلط خیالات یا غلط اعمال مسلمانوں میں پیدا ہو چکے تھے جنہیں وہ غلطی سے اسلام کا حصہ سمجھنے لگ گئے تھے ان کی اصلاح کر کے اسلام کو پھر اس کی اصلی اور پاک وصاف صورت میں قائم کیا جائے.ہاں تجدید کے وسیع معنوں میں یہ بات بھی شامل ہے اور اسی لئے وہ بانی کے خدا دادمشن کا حصہ تھی کہ نئے نئے علوم کی روشنی میں جو نئے اعتراضات اسلام کے خلاف پیدا ہوئے ہیں جو پہلے زمانوں میں پیدا نہیں ہوئے ان کے ازالہ کے لئے اسلام کے ان مخفی معارف کو نکال کر پیش کیا جائے جو ہمیشہ سے قرآن شریف کے اندر موجود تو تھے مگر ابھی تک وہ دنیا کی نظروں کے سامنے نہیں آئے تھے اور ان قیمتی کانوں کی طرح جو اس زمین کے اندر موجود ہوتے ہوئے پھر لوگوں کی نظر سے اوجھل ہوتی ہیں یہ معارف بھی قرآن کے اندر موجود ہوتے ہوئے ابھی تک دنیا کی نظر سے مخفی رہے تھے اور اس مسلم اصول کے مطابق کہ جب کوئی زہر پیدا ہوا اسی وقت تریاق کی ضرورت پیش آتی ہے ان معارف کا باہر نکلنا اور دنیا کے سامنے آنا موجودہ زمانہ کے لئے مقدر تھا.پس چونکہ احمدیت کسی نئی شریعت کی مدعی نہیں بلکہ وہی قرآنی شریعت احمدیت کی شریعت ہے اور وہی پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار احمدیت کا شارع نبی ہے جس کی اطاعت اور غلامی کا جوا احمدیت کی گردن پر ہے اور ہمیشہ رہے گا اس لئے ضروری ہے کہ احمدیت کے مخصوص عقائد کے بیان کرنے سے پہلے یعنی ان عقائد کا ذکر کرنے سے قبل جن میں حضرت مسیح موعود نے موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے غلط خیالات کی اصلاح کی ہے اسلام کی تعلیم کا ایک مختصر ڈھانچہ بیان کر دیا جاوے تا کہ ہمارے غیر مسلم ناظرین اس بات کو سمجھ سکیں کہ وہ مذہب جس کی طرف احمدیت منسوب ہے اور وہ چراغ جس سے احمدیت نے

Page 224

۲۱۴ اپنا نور حاصل کیا ہے کیا تعلیم پیش کرتا ہے.اسلام کی ابتدائی تاریخ: سوجانا چاہئے کہ اسلام اس مذہب کا نام ہے جو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے عرب کے ملک میں ظاہر ہوا.اسلام کے مقدس بانی کا نام نامی حضرت محمد ﷺ تھا جو قریش مکہ کے ایک معزز گھرانے میں ۵۷۰ء میں پیدا ہوئے.اس زمانہ میں آپ کے قبیلہ کا مذہب بت پرستی تھا اور آپ نے اسی ماحول میں پرورش پائی مگر چونکہ طبیعت میں ابدی سعادت اور نبوت کا نو مخفی تھا اس لئے آپ کبھی بھی شرک کی نجاست میں ملوث نہیں ہوئے اور اسلام کے ظہور سے پہلے بھی ہمیشہ ایک واحد لاشریک خدا کے متلاشی رہے.جب آپ کی عمر چالیس سال کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ آپ پر الہام کے ذریعہ ظاہر ہوا اور آپ کو حکم دیا کہ شرک اور بت پرستی کے خلاف لوگوں کو بلائیں.اس پر وہی جنگ و جدال کا سلسلہ شروع ہو گیا.جو ہمیشہ سے خدا کے نبیوں کے زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے.آپ کے قبیلہ نے آپ کی سخت مخالفت کی اور جن لوگوں نے آپ کو مانا ان کو بھی ہر طرح کی اذیتیں پہنچائیں اور آپ کے لائے ہوئے مذہب کو جس کا نام اسلام تھا مٹانے اور نیست و نابود کرنے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کیں مگر آپ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے اور ہر طرح کا دکھ اٹھا کر خدا کا پیغام پہنچایا اور آپ کے صحابہ نے بھی ہر قربانی کو خوشی سے برداشت کیا مگر اپنے آقا کا دامن نہ چھوڑا.آخر جب قریش کے مظالم انتہاء کو پہنچ گئے اور انہوں نے بعض بے گناہ مسلمانوں کو قتل کر دیا اور آنحضرت ﷺ کے قتل کی بھی سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ کی تیرہ سالہ مظلومانہ زندگی کے بعد ا جازت دی کہ آپ مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں.مدینہ بھی عرب ہی کا ایک شہر تھا.جو مکہ سے دوسو میل شمال کی طرف واقع تھا اور اس میں عرب کے بعض دوسرے قبیلے آباد تھے.اس اجازت پر آپ مکہ سے رات کے وقت خفیہ خفیہ نکل کر مدینہ کی طرف چلے گئے.وہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کوایک جماعت دی اور ایک گونہ امن کی زندگی نصیب ہوئی.مگر ظالم قریش نے وہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا

Page 225

۲۱۵ اور عرب کے دوسرے قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسا کر اپنے ساتھ ملالیا اور پھر سب نے مل کر تلوار کے زور سے اسلام کو مٹانا چاہا.جب نوبت یہاں تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو اجازت عطا فرمائی کہ وہ خود حفاظتی کے طور پر ان کفار کا مقابلہ کریں جو آپ کے خلاف تلوار لے کر نکلے تھے چنانچہ آپ نے اپنی مٹھی بھر جماعت کو لے کر ان ظالموں کا مقابلہ کیا اور چونکہ آپ کے ساتھ حق و صداقت کی روشنی تھی اور خدا کی نصرت کا مخفی ہاتھ آپ کی تائید میں تھا اور آپ کے صحابہ میں ایمان کی برقی طاقت موجزن تھی اس لئے باوجود انتہائی بے سروسامانی اور قلت تعداد کے خدا نے آپ کو خارق عادت رنگ میں فتح دی اور ابھی آپ کو مدینہ میں آئے ہوئے صرف آٹھ سال ہوئے تھے کہ مکہ نے آپ کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے.اس وقت آپ چاہتے تو ایک فاتح کی حیثیت میں سب رؤساء مکہ کو نہ تیغ کر سکتے تھے اور وہ اپنی خون آشام کا رروائیوں کی وجہ سے اس سزا کے مستحق بھی تھے.مگر آپ نے اس خدائی رحمت کا ثبوت دیا جو آپ کی بعثت کی محرک تھی اور اپنے بے گناہ صحابہ کے قاتلوں سے فرمایا کہ جاؤ میں تمہیں معاف کرتا ہوں.یہ نسل انسانی کی تاریخ کا ایک ایسا سنہری ورق ہے جس کی نظیر کسی دوسری جگہ نہیں ملتی.فتح مکہ کے بعد چونکہ عرب میں مخالفت کا زور ٹوٹ چکا تھا اور جو لوگ اسلام کو تلوار کے زور سے مٹانے کے لئے اٹھے تھے وہ سب مغلوب ہو چکے تھے اس لئے اسلام کی دلکش تعلیم کا اہل عرب پر ایسا مقناطیسی اثر ہوا کہ انہوں نے بہت تھوڑے عرصہ میں ہی شرک سے تو بہ کر کے اسلام کو قبول کر لیا اور جب فتح مکہ کے دو سال بعد ادھ یعنی ۶۳۲ء میں آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی تو اس وقت سارا عرب اسلام کی غلامی میں آچکا تھا.اور ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اللہ اکبر کی آواز بلند تھی.اس طرح خدا نے آنحضرت ﷺ کو وہ کامیابی عطا فرمائی جو دنیا کی تاریخ میں حقیقہ بے نظیر ہے اور آپ کی قوت روحانی کے اثر کے ماتحت عرب کے وحشی لوگوں نے اپنی زندگیوں میں ایسا حیرت انگیز تغیر پیدا کیا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں وہ انسانیت کے ادنی ترین درجہ سے اٹھ کر

Page 226

۲۱۶ کمالات انسانی کی بلند ترین چوٹیوں تک پہنچ گئے اور ایک وحشی قوم کی بجائے ایک اعلیٰ درجہ کی با اخلاق اور باخدا قوم بن گئے اور علم و فضل میں بھی انہوں نے ایسی ترقی کی کہ وہ قوم جو چند سال پہلے جہالت میں ضرب المثل تھی اب ساری دنیا کی استاد بن گئی اور سیاسی لحاظ سے بھی عرب لوگ ایسے پھیلے کہ دنیا کے بیشتر حصہ پر چھا گئے اور یورپ کا بہت سا حصہ بھی اسلامی جھنڈے کے نیچے آ گیا.یہی وہ زمانہ تھا کہ جب اہل یورپ نے مسلمانوں کے زیر اثر آکر اور ان کے تہذیب و تمدن اور لٹریچر سے متاثر ہوکر اپنی صدیوں کی نیند سے کروٹ بدلی اور جہالت اور تاریکی کو چھوڑ کر علم اور روشنی کا رستہ اختیار کیا.چنانچہ یورپ کے تمام غیر متعصب مورخ اس بات کے معترف ہیں کہ ہماری بیداری کا بڑا باعث مسلمان ہوئے ہیں یہ مگر افسوس کہ اس کے بعد خود مسلمان اسلام کی تعلیم کو چھوڑ کر گرنا شروع ہو گئے حتی کہ آہستہ آہستہ وہ وقت آیا کہ وہ دنیا کی بڑی قوموں میں سب سے پست شمار ہونے لگے اور دین کے بگاڑ کے ساتھ ان کی دنیا بھی بگڑ گئی.قرآن شریف : آنحضرت ﷺ کی تئیس سالہ نبوت کی زندگی میں جو کلام الہی آپ پر آہستہ آہستہ نازل ہوا اس کا نام قرآن شریف ہے اور یہی وہ مقدس صحیفہ ہے جو خدا کی آخری شریعت کا حامل ہے یہ ایک نہایت عجیب و غریب کتاب ہے اور گو اس کے سطحی معنی بالکل سادہ اور صاف ہیں مگر اس کی گہرائیوں میں جانے کے لئے بڑے غور و خوض اور گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے اور جو شخص اس کی گہرائیوں تک رستہ پالیتا ہے وہ ان معارف کے خزانوں کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے جو اس چھوٹی سی کتاب کے اندر مخفی ہیں لیکن اس کا صحیح اور گہرا علم حاصل کرنے کے لئے صرف ظاہری علم اور ظاہری کوشش ہی کافی نہیں بلکہ دل کی طہارت اور پاکیزگی بھی ضروری ہے کیونکہ قرآن ایک قدوس ہستی کا کلام ہے اور قدوس ہستی کے کلام کی سمجھ ایک نا پاک دل کو حاصل نہیں ہوسکتی.اسلامی تعلیم کا اصل الاصول :.قرآنی تعلیم کا خلاصہ چند لفظوں میں آجاتا ہے اور وہ الفاظ یہ ہیں کہ:.لے دیکھو ڈر پرلین وغیرہ

Page 227

۲۱۷ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ یعنی اللہ ایک ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں.اور محمد ﷺے خدا کے رسول ہیں جن کے ذریعہ اس نے اپنی شریعت نازل کی ہے.“ قرآنی تعلیم کا یہ ایک ایسا جامع اور مانع خلاصہ ہے کہ دوسرا کوئی مذہب اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا.ان الفاظ میں واقعی اور سچ سچ اسلام کا نچوڑ آ جاتا ہے جو یہی ہے کہ خدا کو ایک یقین کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ.نہ بت کو نہ انسان کو.نہ جانور کو نہ حیوان کو.نہ سورج کو نہ چاند کو.نہ پہاڑ کونہ در یا کو.نہ مال کو نہ دولت کو.نہ دوست کو نہ عزیز کو.نہ مل کو نہ قوم کو.بلکہ ایک واحد خدا کی پرستش کرو جس نے ساری دنیا کو پیدا کیا ہے جو خالق ہے اور مالک ہے اور رازق ہے.وہ قدیر ہے اور کوئی بات اس کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں.وہ علیم ہے اور کوئی بات اس سے چھپی ہوئی نہیں.ہمارا جسم اور ہماری روح اور ہمارا ہر ذرہ اور اس کی ہر طاقت اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی کے سہارے پر قائم ہے.وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا.وہ کھانے اور پینے اور سونے اور آرام کرنے اور شادی کرنے اور بیٹا جننے سے پاک ہے.وہ دیکھتا ہے بغیر ظاہری آنکھوں کے اور سنتا ہے بغیر ظاہری کانوں کے اور بولتا ہے بغیر ظاہری زبان کے اور پکڑتا ہے بغیر ظاہری ہاتھوں کے.وہ لطیف ہے اور نظروں سے پوشیدہ.وہ غیر محدود ہے اور شکل وصورت کی قیود سے بالا.مگر وہ ہر جگہ موجود ہے اور ہر چیز کو دیکھتا ہے اور ہر بات کو سنتا ہے اور اس کی کوئی صفت معطل نہیں.وہ ایک محبت کرنے والا مہربان خدا ہے اور اس کی محبت کو کوئی دوسری محبت نہیں پہنچتی نہ باپ کی نہ ماں کی.نہ خاوند کی نہ بیوی کی.نہ بھائی کی نہ بہن کی.نہ دوست کی نہ عزیز کی مگروہ ایک حکیم اور دانا خدا ہے اور جب کوئی شخص اپنے خبث اور شرارت میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو وہ اسے اصلاح کی غرض سے پکڑتا اور سزا بھی دیتا ہے لیکن وہ ایک کینہ ورخدا نہیں بلکہ جب کوئی شخص اس کی طرف تو بہ اور استغفار کے ساتھ جھکتا ہے تو وہ معاف کر دیتا ہے اور کچی تو بہ کو جو الله اصلاح کی موجب ہور د نہیں کرتا.یہ وہ خدا ہے جسے اسلام نے پیش کیا اور آنحضرت ﷺ نے دنیا

Page 228

۲۱۸ کو اس کی بشارت پہنچائی.اسلامی کلمہ کا دوسرا حصہ آنحضرت ﷺ کی رسالت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یعنی اسلام یہ سکھاتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی توحید کے قائل ہونے کے علاوہ تم آنحضرت کی رسالت پر بھی ایمان لاؤ.یعنی یہ یقین کرو کہ محمد رسول اللہ ﷺ خدا کے بچے نبی اور رسول ہیں اور جو پیغام وہ خدا کی طرف سے لائے ہیں وہ حق و راستی کا پیغام ہے جس کی اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے اور کوئی شخص آپ کی حکم عدولی کر کے خدا کا فرمانبردار نہیں کہلا سکتا کیونکہ آپ کا پیغام خدا کا پیغام ہے اور آپ کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے.رسالت کا یہ مقام شرک میں داخل نہیں ہے بلکہ توحید کی حفاظت کے لئے ایک نہایت ضروری انتظام ہے کیونکہ حقیقی توحید کا سبق صرف نبیوں کے واسطے سے ملتا ہے اور جو شخص اس واسطے کو ترک کرے وہ حقیقی تو حید کے مقام سے گر جاتا ہے.اسی لئے قرآن نے یہ تعلیم دی ہے کہ تم اگر خدا تعالیٰ کے پیارے بندے بنا چاہتے ہوتو محمد رسول اللہ کے نقش قدم پر چلو کیونکہ اس نے ہمارے راستے کی باریکیوں کو دیکھا ہوا ہے اور اس کے پیچھے لگ کر تم بھٹکنے سے محفوظ رہو گے.اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ تمام نبیوں کے سردار ہیں اور آپ کے وجود میں سلسلہ رسالت اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے اور اسی لئے آپ کو آخری شریعت عطا کی گئی جس کے بعد نسل آدم کے لئے کوئی اور شریعت نہیں.اسلام اور دیگر مذاہب میں اصولی فرق دیگر مذاہب کے متعلق اسلام کی پوزیشن مخالفت کی نہیں بلکہ فی الجملہ تصدیق کی ہے کیونکہ گزشتہ نبیوں کے متعلق جن کی صداقت دنیا میں مسلم ہو چکی ہے اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے برگزیدہ رسول تھے اور اس کی طرف سے اپنے اپنے زمانہ کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے تھے.انہوں نے اپنے اپنے وقت میں دنیا کو روشنی پہنچائی اور خدا کی معرفت کا سبق دیا مگر ان کی رسالت کا دائرہ خاص خاص زمانوں اور خاص خاص قوموں کے ساتھ محدود تھا اور ساری دنیا کے لئے اور سارے زمانوں کے لئے نہیں تھا اس لئے اب ان کی رسالت

Page 229

۲۱۹ کا دور ختم ہے لیکن آنحضرت ﷺ کی رسالت ساری دنیا کے لئے تھی اور آپ کا پیغام سارے زمانوں پر وسیع تھا اس لئے آپ کا دور قیامت تک چلے گا اور ختم نہیں ہوگا.پہلے نبیوں کے دور کو اس لئے محدود رکھا گیا کہ اس وقت تک بنی نوع آدم کی ذہنی اور تمدنی ترقی ابتدائی حالت میں تھی اور نسل انسانی ابھی تک اس درجہ کو نہیں پہنچی تھی کہ اس کے لئے ایک کامل اور آخری شریعت نازل کی جاوے پس اس ماہر ڈاکٹر کی طرح جو بیمار کی حالت کے مطابق نسخہ تجویز کرتا ہے خدا نے اس زمانہ میں الگ الگ قوموں کے لئے وقتی اور عارضی شریعتیں نازل فرما ئیں.لیکن جب وہ وقت آیا کہ تمام دنیا ایک ملک کے حکم میں آنے لگی اور ان کی ذہنی اور تمدنی ترقی اس نکتہ کو پہنچ گئی کہ وہ ایک کامل اور دائی شریعت کی متحمل ہو سکیں جو ساری قوموں اور سارے زمانوں کے لئے وسیع ہو تو اللہ تعالیٰ نے تمام سابقہ شریعتوں کو منسوخ کر کے ایک مشترک اور کامل شریعت نازل فرما دی مگر اس میں بھی قوموں اور زمانوں کے اختلاف کو کلی طور پر نظر انداز نہیں کیا بلکہ ایک اصولی اشتراک قائم کر کے تفصیلات میں ایسی تعلیم پیش کی جو وقتی اور قومی حالات کے ماتحت مختلف صورتیں اختیار کر سکتی ہے.مثلاً اسلام نے تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے مگر اس بات کا حکم نہیں دیا کہ ہر شخص ضرور ہر حال میں ایک سے زیادہ شادی کرے بلکہ اسے افراد اور قوموں اور ملکوں کے حالات پر چھوڑ دیا ہے کہ ان کے حالات جس بات کے متقاضی ہوں وہ انہیں مناسب قیود کے ماتحت اختیار کر سکتے ہیں اس اصولی تعلیم کے ماتحت اگر کوئی فرد اپنے لئے خاص حالات میں دوسری شادی ضروری خیال کرے مثلاً اس کے اولا دنہ ہو اور وہ حصول اولاد کے لئے دوسری شادی کرنا چاہے یا کوئی قوم جو قلت تعداد کی وجہ سے تباہی کے کنارے پر پہنچ رہی ہو وہ اپنی نسلی ترقی کے لئے تعداد ازدواج کو اختیار کرنا چاہے تو اسلامی تعلیم کے ماتحت اس کے لئے رستہ کھلا ہے اور ان حالات میں کسی دانا عورت کو محض جذبات سے متاثر ہو کر اس ضروری قربانی سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے.اسی طرح مثلاً بعض گذشتہ نبیوں کی تعلیم میں صرف انتقام پر زور دیا گیا ہے اور بعض نبیوں کی

Page 230

۲۲۰ تعلیم میں صرف عفو پر زور دیا گیا ہے جس کی یہ وجہ ہے کہ اس زمانہ میں ان کی قوموں کے حالات اس مخصوص تعلیم کے متقاضی تھے یعنی اگر کوئی قوم پست ہو کر گر گئی اور ان میں بزدلی اور دنائت پیدا ہوگئی اور غیرت کا جذ بہ مٹ گیا تو انہیں اوپر اٹھانے کی غرض سے انتقام پر زور دیا گیا اور عفو سے روک دیا گیا تاکہ ان کے اندر خود داری کا جذبہ اور عزت نفس کا احساس پیدا ہو اور اگر کوئی قوم سخت دل ہوگئی اور نرمی اور درگزر کے صفت کو کھو بیٹھی تو اس کے لئے انتقام کا دروازہ بند کر کے صرف عفو پر زور دیا گیا تا کہ اس کے اندر شفقت اور رافت کا جذبہ پیدا ہو.مگر اسلام کی تعلیم چونکہ ساری قوموں اور سارے زمانوں کے واسطے تھی اس لئے اس میں اخلاق کی جڑ پر ہاتھ رکھ کر یہ اصولی ہدایت دی گئی کہ انتقام اور عفو دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اچھی چیزیں ہیں اور انسانی اخلاق کی درستی کے لئے دونوں ضروری ہیں پس جہاں حالات اس بات کے متقاضی ہوں کہ مجرم سے انتقام لیا جائے وہاں انتقام لینا چاہئے اور جہاں عفو کرنا مناسب ہو اور اس کے نتیجہ میں اصلاح کی صورت پیدا ہوتی ہو تو وہاں عفو سے کام لینا چاہئے.اسی طرح کئی دوسرے مسائل میں اسلام نے متوازی اور متقابل ہدایات دی ہیں جن میں یہی غرض مد نظر ہے کہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت مناسب رستہ اختیار کیا جاسکے.مگر اصولی اور اہم امور میں ایک واحد اور مشترک شریعت بیان کر کے اتحاد و اتصال کی صورت بھی قائم کر دی گئی ہے.ایک اور فرق اسلامی شریعت اور سابقہ شریعتوں میں یہ ہے کہ سابقہ شریعتوں کے وقت چونکہ بنی نوع آدم کا علم ایک ابتدائی حالت میں تھا اس لئے اس وقت کی شریعتوں نے انسانی اعمال میں زیادہ تفصیل کے ساتھ دخل دیا ہے اور بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی شریعت کے دائرہ میں شامل کر لیا گیا ہے لیکن اسلامی شریعت میں اس طریق کو بدل کر صرف اہم باتوں کے بیان کر دینے پر اکتفا کی گئی ہے.اور ایسی تفصیلات میں جن میں انسان خود اپنی عقل اور علم سے ایک اچھا رستہ تجویز کرسکتا ہے اسے آزاد ر ہنے دیا گیا ہے تا کہ اسے بلا وجہ تنگی محسوس نہ ہو اور اس کے دماغی نشو و نما کے لئے راستہ کھلا رہے.مثلاً اکثر پرانی شریعتوں میں اس بات کے متعلق تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں کہ عبادت کی جگہ کیسی

Page 231

۲۲۱ ہونی چاہئے اور اسے کس طرح پاک وصاف کیا جائے اور انسانی جسم کو کس طرح صاف رکھا جائے.وغیرہ وغیرہ مگر شریعت اسلامی نے نسلِ انسانی کے ترقی یافتہ حالات کے ماتحت ان امور میں ایک اصولی تعلیم دے کر تفصیلات کے فیصلہ کوخو دلوگوں کی عقل اور ان کے حالات پر چھوڑ دیا ہے.اسی طرح اسلامی شریعت اور سابقہ شریعتوں میں ایک فرق یہ ہے کہ سابقہ شریعتوں میں چونکہ انسانی ذہن کی نشو و نما کامل نہیں تھی اور انسان خدا کی ساری صفات کا نقشہ سمجھنے کے قابل نہیں تھا اس لئے صرف چند صفات کا علم دیا گیا اور انہیں بھی ایسے استعاروں کے ساتھ بیان کیا گیا جسے اس وقت کا اوسط انسانی دماغ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا.مثلاً بہت سی سابقہ شریعتوں میں انسان کے ساتھ خدا کے تعلق کو ظاہر کرنے کے لئے خدا کو بطور آب یعنی باپ کے پیش کیا گیا ہے لیکن اسلامی شریعت میں آ کر خدا کی ساری صفات کا مکمل ظہور ہو گیا اور خدا کا وجود اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوا.اور باپ وغیرہ کے استعارے چھوڑ کر جن کے ساتھ ہمیشہ شرک کے خطرہ کا امکان رہتا تھا الوہیت کے صحیح نقشہ کو پیش کیا گیا.چنانچہ اب کے لفظ کی جگہ رب کی صفت رکھی گئی جو اب کی نسبت بہت زیادہ وسیع اور بہت زیادہ گہرے تعلق پر دلالت کرتی ہے.کیونکہ اب کے معنے تو صرف اسی حد تک محدود ہیں کہ دو نرومادہ آپس میں ملیں اور ایک تیسری چیز پیدا ہو جائے خواہ اس کے بعد اس تیسری چیز کا اپنے باپ کے ساتھ کوئی تعلق قائم رہے یا نہ رہے.جیسا کہ عموماً حیوانات اور ادنیٰ درجہ کے انسانوں میں ہوتا ہے.مگر رب سے مراد ایک ایسی ہستی ہے جو ایک چیز کو نیست سے ہست میں لائے.پھر اس کی پرورش کا سامان مہیا کرے.پھر اس کے ساتھ ساتھ رہے اور اس کی زندگی کے ہر دور میں اس کی محافظ ہو اور ہر دور کی ضروریات کو بصورت احسن پورا کرے اور پھر اسے درجہ بدرجہ اعلی کمالات تک پہنچائے.یہ ایک ایسا اعلیٰ اور وسیع مفہوم ہے جس کے ساتھ اب کے ادنی اور محدود مفہوم کو کوئی بھی نسبت نہیں.اسی طرح کئی اور فرق ہیں جو اسلامی شریعت اور سابقہ شریعتوں میں پائے جاتے ہیں مگر اس مختصر رسالہ میں زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں.

Page 232

۲۲۲ اسلامی عبادات :- عبادات میں اسلام نے چار عبادتوں پر خاص زور دیا ہے یعنی نماز روزہ حج اور زکوۃ.اسلام میں نماز ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے جس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی اور اس کے ارکان بھی ایسے مقرر کئے گئے ہیں کہ جو دعا اور ذکر الہی کی صحیح کیفیت پیدا کرنے میں نہایت درجہ مؤثر ہیں.یقیناً خدا تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرانے میں نماز ایک نہایت اعلیٰ درجہ رکھتی ہے اور اگر اسے پوری شرائط کے ساتھ ادا کیا جاوے تو وہ انسان کے دل کو پاک وصاف کرنے اور اسے خدا کی محبت کا مرکز بنانے میں اکسیر ثابت ہوتی ہے اور انسان کی روحانی ترقی کے لئے ایک بہت بھاری ذریعہ ہے.اسی لئے اسلام نے دن رات میں پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے تا کہ جو زنگ انسان کے دل پر دنیا کے کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے لگتا رہتا ہے وہ بار بار دھلتا رہے اور خدا تعالیٰ کا تعلق کمزور نہ ہونے پائے.نماز کے لئے مختلف دعائیں مقرر ہیں جو اس کے مختلف حصوں میں مانگی جاتی ہیں مگر اس بات کی اجازت ہے بلکہ تحریک کی گئی ہے کہ مقررہ دعاؤں کے علاوہ انسان اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگے.نماز کی اصل جگہ مسجد ہے مگر سفر میں یا دوسرے خاص حالات میں کسی صاف جگہ میں نماز ادا کی جاسکتی ہے.اسی طرح نماز کا اصل طریق یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ ادا کی جاوے مگر کسی مجبوری کی وجہ سے منفر دصورت میں بھی ادا کی جاسکتی ہے.دوسری عبادت روزہ ہے.یہ عبادت دہری غرض رکھتی ہے ایک تو یہ کہ تا اس ذریعہ سے نفسانی لذات کمزور ہو کر روحانی ترقی کا دروازہ کھلے دوسرے یہ کہ انسان کو بھوک اور تکلیف برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو اور وہ اپنے غریب ہم جنسوں کی تکلیف کو سمجھ کر ان کے ساتھ ہمدردی کر سکے.روزہ میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ مخصوص تعلقات کرنے سے پر ہیز کیا جاتا ہے.جن لوگوں نے روزہ کا عملی تجربہ کیا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کی جسمانی اور اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لئے وہ کس قدر مؤثر ہے.اسلام نے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کئے ہیں لیکن چونکہ روزہ میں ایک پہلو تکلیف اور مشقت کا بھی رکھا گیا ہے

Page 233

۲۲۳ اس لئے بیماروں اور مسافروں کے لئے یہ سہولت کر دی گئی ہے کہ وہ بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ ترک کر کے دوسرے اوقات میں اس کی تلافی کر سکتے ہیں.تیسری عبادت حج ہے.اس کے لئے اسلام کا یہ حکم ہے کہ اگر انسان میں جسمانی اور مالی لحاظ سے طاقت ہو اور اس کے لئے رستہ بھی مخدوش نہ ہو تو وہ اپنی عمر میں کم از کم ایک دفعہ مکہ میں جا کر خانہ کعبہ کا طواف اور دوسری مقررہ عبادات سر انجام دے.کعبہ دنیا کی سب سے پرانی عبادت گاہ ہے اور اس کے ساتھ خدا کے بعض خاص برگزیدہ نبیوں کے واقعات زندگی وابستہ ہیں اور اس کی روایات میں قربانی کا ایک خاص روح پر در عصر پایا جاتا ہے اور پھر مکہ کا شہر آنحضرت ﷺ کا مولد اور مقام بعثت بھی ہے اس لئے عمر بھر میں ایک دفعہ اس مقدس جگہ کی زیارت مقرر کی گئی ہے تا کہ ایک مسلمان کے دل و دماغ میں اس کی قدیم اور مقدس روایات تازہ ہو کر زندگی کا تازہ خون پیدا کر دیں.حج میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ تا اس ذریعہ سے ساری دنیا کے مسلمانوں کو اکٹھے ہو کر آپس میں تعارف پیدا کرنے اور مشترک اسلامی امور میں تبادلہ خیالات کرنے کا موقعہ میسر آتا رہے.چوتھی عبادت زکوۃ ہے یعنی اسلام نے انسان کے اموال پر ایک خاص شرح کے ساتھ ایک خاص چندہ یا ٹیکس مقرر کر دیا ہے اور اس چندہ کے متعلق یہ ہدایت دی ہے کہ وہ غرباء اور مساکین وغیرہ پر خرچ کیا جاوے.اس انتظام میں بھی دہری غرض مد نظر ہے ایک تو یہ کہ امراء کو خدا کے رستے میں خرچ کرنے کی عادت پیدا ہو اور وہ اپنے اموال کے استعمال میں بالکل آزاد نہ رہیں.دوسرے یہ کہ کمزور اور غریب لوگوں کی امداد کا ایک مستقل انتظام قائم ہو جاوے چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ زکوۃ ایک ایسا ٹیکس ہے جس میں امیروں کی دولت کو کاٹ کر غریبوں کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے اور اس طرح ملک کی دولت کو سمونے کا عمل بھی جاری رہتا ہے.حقوق العباد کے متعلق اسلامی تعلیم : حقوق العباد کے معاملہ میں بھی اسلام نے ایک نہایت اعلیٰ اور وسطی تعلیم دی ہے اور افراد اور اقوام کے درمیان عدل و انصاف کے تر از وکو پوری طرح

Page 234

۲۲۴ قائم رکھا ہے.مثلاً غیر قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے اوفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ہے یعنی اے مسلمانو تمہیں چاہئے کہ اپنے تمام عہدوں کو پورا کیا کرو کیونکہ تمہیں اپنے عہدوں کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا.پھر فرماتا ہے لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَنْ لَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوى ہے یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان کے ساتھ انصاف کا طریق ترک کردو بلکہ تمہیں چاہئے کہ ہر حال میں دشمن کے ساتھ بھی انصاف کا معاملہ کرو کیونکہ یہی تقویٰ کا تقاضا ہے.“ افراد کے حقوق کے متعلق اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ سب سے پہلے تو اخوت اور مساوات کے اصول کو قائم کیا ہے یعنی حکم دیا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور جہاں تک حقوق کا تعلق سے کسی شخص کو کسی دوسرے شخص پر فوقیت حاصل نہیں بلکہ جو شخص بھی اپنی ذاتی خوبیوں اور ذاتی کمالات سے آگے نکل جاوے وہ دوسروں کے لئے جائے ادب ہے پس اسلام میں حقوق کے معاملہ میں کوئی نسلی یا قومی یا خاندانی امتیاز نہیں بلکہ سب برابر ہیں.اسی طرح اسلام میں ذات پات کا کوئی سوال نہیں اور نہ ہی مذہبی پیشوائی اور مذہبی تعلیم کے لئے کوئی خاص جماعت یا خاص طبقہ مقرر ہے بلکہ شخص کے لئے ہر میدان میں ترقی کا راستہ کھلا ہے.مرد اور عورت کے درمیان بھی اسلام نے حقیقی انصاف قائم کیا ہے.یعنی ایک طرف ان کے طبعی فرق کو تسلیم کیا ہے اور دوسری طرف حقوق کے معاملہ میں ان کو برابر رکھا ہے مگر چونکہ عورت میں بعض فطری کمزوریاں پائی جاتی ہیں اس لئے انتظامی لحاظ سے مرد کو عورت پر فوقیت دی ہے لیکن ساتھ ہی مرد کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ عورت کے ساتھ نرمی اور شفقت اور محبت کا معاملہ کرے.اسی طرح اسلام نے عورت کے لئے ورثہ کا حق بھی تسلیم کیا ہے اور اسے اپنے نام پر جائیداد پیدا کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق دیا ہے.تقسیم ورثہ کے معاملہ میں اسلام نے اس گندے اصول کو تسلیم نہیں کیا کہ صرف بڑے بنی اسرائیل هم مانده: ۲

Page 235

۲۲۵ لڑکے کو ورثہ دیا جائے یا یہ کہ صرف نرینہ اولا د کو ورثہ ملے اور لڑکیاں محروم رہیں بلکہ ساری اولا دکوورثہ کا حق عطا کیا ہے اور اس طرح دولت کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد قائم کر دی ہے.یہ جھوٹا اصول کہ ورثہ کے تقسیم ہو جانے سے خاندان کی حیثیت گر جاتی ہے دنیا میں بڑی تباہی اور بڑی بے انصافی کا باعث ہوا ہے اس لئے اسلام نے اسے شروع سے ہی تسلیم نہیں کیا اور ساری اولا دکو برابر حصہ دے کر انہیں زندگی کی کشمکش میں ایک لیول پر کھڑا کر دیا ہے.اسلام نے سُود کو بھی ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ اول تو اس سے انسانی اخلاق ہمدردی اور مواسات کو سخت صدمہ پہنچتا ہے.دوسرے اس میں انسان کو اپنی طاقت سے بڑھ کر قرض اٹھانے کی جرات پیدا ہوتی ہے جو سخت مہلک ہے.تیسرے اس کی وجہ سے افراد اور اقوام کے درمیان جنگ و جدال کا دروازہ کھلتا ہے.پس اسلام نے سود کو منع کر کے صرف سادہ تجارت کی اجازت دی ہے اور سود لینے اور دینے والے ہر دو کو گناہ گار قرار دیا ہے.بے شک موجودہ زمانہ میں سود کے جال کے وسیع ہو جانے کی وجہ سے یہ نظر آتا ہے کہ شاید سود کے بغیر گزارہ نہیں چل سکتا مگر یہ صرف نظر کا دھوکا ہے جو موجودہ زہریلے ماحول کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ورنہ جب مسلمان نصف دنیا سے زائد حصہ پر حکمران تھے اس وقت سود کے بغیر گزارہ چلتا ہی تھا.اسلام نے شراب کے استعمال کو بھی روکا ہے کیونکہ اس سے انسان کی اعلیٰ دماغی طاقتوں کو صدمہ پہنچتا ہے.بے شک اس سے ایک عارضی تحریک اور چمک پیدا ہوتی ہے چنانچہ شراب کے بعض فوائد کو قرآن شریف نے بھی تسلیم کیا ہے مگر مستقل نتیجہ بہر حال ضرر رساں ہے اور اسکے استعمال کی کثرت سے انسان کی عقل پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے تی کہ ایک مدہوش آدمی انسان کہلانے کا حقدار نہیں رہتا اور چونکہ شراب ان چیزوں میں سے ہے جن کا تھوڑا استعمال بڑے استعمال کی طرف کھینچتا ہے اور اس کی عادت کو اختیار کر کے ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ انسان اس کی کثرت کی طرف نہ جھک جاوے اور درمیانی حد بندی کی کوئی ضمانت نہیں اس لئے اسلام نے شراب کے قلیل اور کثیر دونوں حصوں کو منع

Page 236

۲۲۶ کیا ہے اور اس گندی عادت کو جڑ سے اکھیڑ نے کا حکم دیا ہے.اسی طرح شراب کے استعمال سے فضول خرچی کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے اور کئی لوگ محض اسی عادت کی وجہ سے اپنے ذرائع سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.یہی حال جوئے کا ہے جسے اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے کیونکہ وہ ایک اتفاق کی کھیل ہے جس میں انسان کی کسی محنت یا ہنر کا دخل نہیں ہوتا.اور اگر انسان کو ایسی باتوں میں پڑنے کی اجازت دی جاوے تو وہ حلال اور محنت کی روزی کمانے کی بجائے اپنے وقت کو بیہودہ طور پر ضائع کرنے کا عادی ہو جاتا ہے اور مال کی ناواجب طمع پیدا ہوتی ہے.اسی طرح اسلام نے قتل، چوری، ڈاکہ، فساد جھوٹ ، دغا ، خیانت، بدنظری ، زنا، رشوت وغیرہ سے منع کیا ہے اور راستی ، دیانت ، وفاداری ،انصاف امن پسندی، غرباء پروری، ادب اور شفقت و غیرہ کی تعلیم دی ہے اور ان اخلاق کی ایسی تفاصیل بیان کی ہیں جو کسی دوسرے مذہب میں نہیں پائی جاتیں مگر افسوس ہے کہ اس جگہ زیادہ تفصیلی بیان کی گنجائش نہیں ہے.ایک حکم اسلام میں پردہ اور غض بصر کا ہے یعنی مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب کوئی عورت ایسے اجنبی لوگوں کے سامنے آئے جن کے ساتھ اس کا قریبی رشتہ نہیں ہے تو وہ اپنی زینت کو چھپا کر رکھے اور غیر محرم مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کے سامنے اپنی نظروں کو نیچا رکھیں اور ایک دوسرے کی طرف بے حجابانہ اور آزادانہ نظر نہ اٹھائیں کیونکہ اس طرح بسا اوقات دل میں ناپاک خیالات پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے.بے شک بعض خاص لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جن کے دل میں ناپاک خیالات پیدا نہیں ہوتے لیکن چونکہ قانون کی بنیاد کثرت پر ہے اس لئے اسلام نے اس حکیمانہ حکم کے ذریعہ بدی کی جڑ کو کاٹنے کی کوشش کی ہے اور دنیا کا تجربہ بھی یہی بتا تا ہے کہ مرد عورت کا آزادانہ میل جول اکثر صورتوں میں خراب نتیجہ پیدا کرتا ہے مگر با وجود پردہ کی حد بندی کے اسلام نے عورت کو گھر کی چاردیواری کے اندر قید نہیں کیا بلکہ

Page 237

۲۲۷ اسے اجازت دی ہے کہ زینت کے برملا اظہار سے رکتے ہوئے حسب ضرورت گھر سے نکل کر دین و دنیا کے کاموں میں حصہ لے.اسلام نے مسلمانوں کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ ہر وقت تبلیغ میں مصروف رہنا چاہئے.تاکہ نسلی ترقی کے علاوہ تبلیغ کے ذریعہ بھی قومی ترقی کا رستہ کھلا ر ہے مگر اس حکم میں اصل غرض محض تعداد کی ترقی نہیں بلکہ اس حکم کی اصل بنیاد یہ ہے کہ جو صداقت اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو حاصل ہوئی ہے وہ دوسروں تک بھی پہنچائی جائے اور اسلام کے نور سے دوسروں کو بھی منور کیا جاوے تا کہ خدا کے بھٹکے ہوئے بندے پھر خدا کے رستہ پر آجائیں.اس تبلیغ میں کوئی قومی یا نسلی امتیاز نہیں بلکہ ہر شخص اسلام کو قبول کر کے وسیع اسلامی اخوت میں برابر کا شریک بن سکتا ہے.اسلامی نظام حکومت: چونکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس لئے اس نے نظام حکومت کے بارے میں زیادہ تفصیلی دخل نہیں دیا بلکہ چند اصولی ہدایات دے کر تفصیلات کے فیصلہ کو مختلف قوموں اور مختلف ملکوں کے حالات پر چھوڑ دیا ہے.اصولی ہدایات جو اس بارے میں اسلام نے دی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت کا اصلی اور طبعی حق جمہور کو حاصل ہے البتہ چونکہ نظام حکومت کو چلانے کے لئے ایک محدود اور مرکزی انتظام کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے لوگوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی اہل اور قابل شخص کو منتخب کر کے اس کو اپنا امیر بنالیں.لیکن جب ایک شخص امیر بن جاوے تو پھر سب لوگ اس کی پوری پوری اطاعت کریں.دوسری طرف امیر کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ حکومت کے معاملہ میں لوگوں سے مشورہ لیتا رہے اور مشورہ کے ساتھ نظام حکومت کو چلا وے.انسانی پیدائش کی غرض و غایت:.انسانی پیدائش کی غرض وغایت کے متعلق اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.عبادت سے یہ مراد نہیں کہ انسانی پیدائش

Page 238

۲۲۸ کی غرض و غایت صرف نماز روزہ تک محدود ہے.اگر ایسا ہوتا تو انسان کو اسکے موجودہ ماحول میں اور موجودہ طاقتوں اور موجودہ ضروریات کے ساتھ نہ پیدا کیا جاتا جہاں اسے بہت سے دوسرے کاموں میں لازماً پڑنا پڑتا ہے.پس اسلامی اصطلاح میں عبادت سے یہ مراد ہے کہ خدا نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی ہستی کو پہچانے اور پھر اس کی صفات کو اپنے اندر لے کر اور اس کا ظل بن کر ایک مفید اور نفع مند وجود کی صورت میں دنیا میں ترقی کرے.اعلیٰ اخلاق کا صحیح معیار سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزاری جائے اور جو رستہ خدا نے انسان کے لئے مقرر کر دیا ہے اس پر چل کر ترقی کی جاوے.اسی تعریف میں دین اور دنیا دونوں کے رستے شامل ہیں.پس اسلام کی رو سے انسان کی پیدائش کی غرض و غایت یہی ہے کہ وہ خدا کا بندہ بن کر اس کی مرضی کو پورا کرے.دین کے رستے میں خدا پر سچا ایمان اور اس کے ساتھ حقیقی تعلق ہو.اور اس کے احکام کی پیروی کی جاوے اور دنیا کے رستے میں افراد اور قوموں کے حقوق کو خدا کے منشاء کے مطابق ادا کیا جائے.اسی لئے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خدا کی خاطر اچھی نیت کے ساتھ اپنی بیوی کے منہ میں ایک لقمہ ڈالتا ہے تو وہ بھی ایک عبادت ہے.اس معنی میں ہر نیک اور اچھا صلى الله عمل جو خدا کی خاطر کیا جائے ایک عبادت ہے اور انسان کو عبادت ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.موت کے بعد دوسری زندگی :.انسانی زندگی کے متعلق اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کی زندگی کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے.ایک اس دنیا کی زندگی جو دارالعمل ہے.دوسرے آخرت کی زندگی جو دار الجزاء ہے اور ان دونوں کے درمیان موت کا پردہ حائل ہے.جو اعمال انسان اس دنیا میں کرتا ہے ان کے مطابق وہ اپنی اگلی زندگی میں اچھا یا برا بدلہ پائے گا.یہ بدلہ کس صورت میں ظاہر ہوگا اس کے متعلق ہم انشاء اللہ آگے چل کر احمدیت کے مخصوص عقائد کی ذیل میں بیان کریں گے مگر بہر حال اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ جنت ایک پاکیزہ مقام ہے جس میں کوئی لغو چیز یا گناہ کی بات نہیں.علاوہ ازیں جہاں اسلام نے جنت کو دائی قرار دیا ہے وہاں دوزخ کے متعلق

Page 239

۲۲۹ تصریح کی ہے کہ وہ دائمی نہیں.بلکہ جس طرح ایک بیمار کچھ عرصہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہ کر پھر اچھا ہو کر ہسپتال سے باہر آجاتا ہے اسی طرح دوزخی لوگ بالآ خر دوزخ سے باہر نکل آئیں گے اور علی قدرمراتب جنت میں جگہ پائیں گے.لیکن ہر دوصورتوں میں اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ آخرت کی زندگی ایک ابدی زندگی ہے جس کے بعد کوئی موت نہیں.

Page 240

۲۳۰ جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد اسلامی تعلیم کا مختصر ڈھانچہ درج کرنے کے بعد ہم ان مخصوص عقائد کا ذکر کرتے ہیں جو مقدس بانی نے دنیا کے سامنے پیش کئے.جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے یہ عقائد اسلام سے خارج یا اس کے علاوہ نہیں ہیں بلکہ یہ سارے عقائد جو ہم اس جگہ بیان کریں گے اسلام ہی کے عقائد ہیں لیکن بوجہ اس کے کہ مسلمان انہیں بھلا چکے تھے حضرت مسیح موعود نے انہیں دوبارہ زندہ کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا.اسی طرح ان میں بعض عقائد ایسے ہیں کہ وہ قرآن شریف میں موجود تو تھے مگر چونکہ ابھی تک ان کے ظاہر ہونے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی اس لئے وہ آج تک ایک مخفی کان کی طرح نظروں سے اوجھل چلے آئے تھے لیکن اب آکر حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ان کا اظہار اور انکشاف ہوا.ہم اس جگہ ان سب عقائد کا تو ذکر نہیں کر سکتے جن پر حضرت مسیح موعود نے احمدیت کی بنیا د رکھی ہے البتہ بعض خاص خاص عقائد کو ہدیہ ناظرین کرتے ہیں اور انہیں بھی صرف اختصار کے ساتھ درج کیا جائے گا کیونکہ اصل بحث حضرت مسیح موعود کی کتب اور کے دوسرے مستند لٹریچر میں موجود ہے اور جو شخص چاہے آسانی کے ساتھ اصل ماخذ کا مطالعہ کرسکتا ہے.احمدیت کے مخصوص عقائد کے بیان میں سب سے مقدم جگہ حضرت مسیح موعود کے دعاوی کو حاصل ہے کیونکہ احمدیت کی عمارت کی بنیاد انہی پر قائم ہے.سوسب سے پہلے ہم انہی کو لیتے ہیں.حضرت مسیح موعود " کا مجددیت کا دعوی :.سب سے پہلا دعوئی جو حضرت مسیح موعود نے دنیا کے سامنے پیش کیا وہ مجددیت کا دعوی تھا.جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں مقدس بانی اسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ:.ان الله يبعث لهذه الامة على رأس كل مائة سنة من يجدّد لها دينها یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے ہر صدی کے سر پر ایک ایسا مصلح مبعوث کیا " ابوداؤد جلد ۲ صفحه ۲۴۱ (ابو داؤد كتاب الملاحم باب مايذكر في قدر قرن المائة)

Page 241

۲۳۱ کرے گا جو ان کی دینی غلطیوں کی اصلاح کر کے انہیں نئے سرے سے زندگی عطا کیا کرے گا.“ اس پیشگوئی کے مطابق اسلام میں ہر صدی کے سر پر مسجد دمبعوث ہوتے رہے ہیں جو اسلام کے اندر ہو کر اور آنحضرت ﷺ کی غلامی کا جوا اپنی گردنوں پر رکھتے ہوئے اسلام کی تجدید اور مسلمانوں کی اصلاح کی خدمت سر انجام دیتے رہے ہیں.چنانچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی اور حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجددالف ثانی اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی اور حضرت سید احمد صاحب بریلوی وغیرهم اسی مقدس لڑی کی مختلف کڑیاں ہیں.اور مسلمانوں کا سواد اعظم ان بزرگوں کی ولایت اور مجددیت کا قائل اور معترف ہے.سو حضرت مسیح موعود کا سب سے پہلا دعویٰ جو گویا آپ کے سب دعاوی کے لئے بطور بنیاد کے ہے یہی تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے قدیم وعدے کے مطابق اسلام کی چودھویں صدی کا مجدد بنا کر بھیجا ہے اور آپ نے اعلان کیا کہ چونکہ یہ زمانہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک فساد عظیم کا زمانہ ہے اس لئے اس فساد کی اصلاح کے واسطے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ خاص طاقتیں بھی عطا کی ہیں جو اس زمانہ کے روحانی مصلح کے لئے ضروری ہیں.آپ نے یہ دعویٰ براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانہ میں کیا تھا مگر چونکہ آپ کے اس دعوئی میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو مسلمانوں کے کسی معروف عقیدہ کے خلاف ہو اور اس وقت تک آپ نے سلسلہ بیعت بھی شروع نہیں فرمایا تھا اس لئے اس دعویٰ پر آپ کی کوئی خاص مخالفت نہیں ہوئی اور جمہور مسلمانوں نے اسے ایک گونہ خاموش تصدیق کے ساتھ قبول کیا.بعد میں جب مخالفت کا طوفان اٹھا تو حضرت مسیح موعود نے اپنے مخالفوں کے سامنے بار بار یہ بات پیش فرمائی کہ اگر تم میرے دعویٰ مجددیت کو قبول نہیں کرتے تو پھر کوئی اور شخص پیش کرو جس نے اس صدی کے سر پر مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ہومگر آپ کا کوئی مخالف اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکا.مسیحیت کا دعوی :.حضرت مسیح موعود کا دوسرا دعوئی جس پر آپ کے خلاف ایک خطرناک دیکھو اشتہار منسلکہ براہین احمدیہ حصہ چہارم

Page 242

۲۳۲ طوفان بے تمیزی اٹھ کھڑا ہوا اور چاروں طرف سے مخالفت کی آگ کے شعلے بلند ہونے لگے وہ مسیح موعود ہونے کا دعوی تھا.یعنی آپ نے خدا سے الہام پا کر یہ دعویٰ فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری جنہیں مسلمان غلطی سے آسمان پر زندہ سمجھ رہے تھے وہ دراصل فوت ہو چکے ہیں اور جو وعدہ ان کی آمد ثانی کے متعلق اسلام میں کیا گیا تھا وہ تمثیلی رنگ میں خود آپ کے وجود میں پورا ہوا ہے.جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے قرآن شریف نے فی الجملہ ایک مثیل مسیح کی پیشگوئی فرمائی تھی لے اور حدیث میں صراحت کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ:.وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوْشَكَنَّ أَنْ يُنْزِلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدَلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ " و یعنی مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ضرور نازل ہوں گے تم میں مسیح ابن مریم اور وہ خدا کی طرف سے تمہارے تمام اختلافی امور میں حکم اور عدل ہو کر فیصلہ کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے ( یعنی صلیبی مذہب کے زور کے وقت میں ظاہر ہو کر اس کے زور کو توڑ دیں گے ) اور خنزیر کوقتل کریں گے ( یعنی خنزیری صفات لوگوں کا استیصال کریں گے ) اور جزیہ کو موقوف کر دیں گے یعنی جنگ کو موقوف کر کے جزیہ کا سوال ہی اٹھا دیں گے.“ اس پیشگوئی کے نتیجہ میں مسلمانوں میں کئی صدیوں سے یہ عقیدہ چلا آ رہا تھا کہ حضرت مسیح ناصری جو انیس سو سال ہوئے فلسطین کے ملک میں گزرے تھے اور جن کے ہاتھ سے مسیحی مذہب کی بنیاد رکھی گئی تھی وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں دوبارہ دنیا میں آئیں گے.حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر اعلان فرمایا کہ یہ عقیدہ قرآن وحدیث کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.بے شک مسیح کی آمد ثانی کا وعدہ برحق ہے مگر یہ بات قطعاً درست نہیں کہ وہی پہلا مسیح آسمان پر زندہ موجود ہے اور آخری زمانہ میں آسمان سے نازل ہوگا بلکہ یہ پیشگوئی استعارہ کے رنگ میں ایک مثیل ے دیکھو قرآن شریف سورۃ نور رکوع نمبرے وسورة صف رکوع نمبر ا.صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب نزول عیسی بن مریم.

Page 243

۲۳۳ مسیح کی آمد کی خبر دیتی تھی یعنی اس پیشگوئی میں یہ بتانا مقصود تھا کہ آخری زمانہ میں ایک ایسا روحانی مصلح مبعوث ہو گا جو اپنی صفات میں مسیح ناصری کا مثیل ہوگا اور حضرت مسیح کی خوبو پر آئے گا اس لئے اس کا آنا گویا خود مسیح ناصری کا آنا ہو گا.آپ نے مثالیں دے دے کر ثابت کیا کہ روحانی سلسلوں میں جب کبھی بھی کسی بنی کی دوسری آمد کا وعدہ دیا جاتا ہے تو اس سے ہمیشہ اس کے مثیل کا آنا مراد ہوتا ہے جیسا کہ مثلاً حضرت مسیح ناصری کے زمانہ میں الیاس نبی کی دوسری آمد کا وعدہ یوحنا نبی کی بعثت سے پورا ہوا.لے آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ قرآن شریف کی رو سے نہ صرف حضرت مسیح ناصری کا آسمان پر جانا ثابت نہیں بلکہ متعدد آیات سے ان کی وفات ثابت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی قرآن وحدیث سے یہ بھی ثبوت ملتا ہے کہ کوئی حقیقی مردہ زندہ ہو کر اس دنیا میں دوبارہ واپس نہیں آسکتا.اور بالآخر آپ نے قرآن وحدیث سے یہ بھی ثابت کیا کہ جس مسیح کا اسلام میں وعدہ کیا گیا تھا اس کے متعلق قرآن وحدیث ہی اس بات کی تشریح کرتے ہیں کہ اس سے مسیح ناصری مراد نہیں بلکہ مثیل مسیح مراد ہے اور ان جملہ امور کے متعلق آپ نے ایسے زبر دست دلائل پیش کئے کہ آپ کے مخالف بالکل سراسیمہ ہوکر رہ گئے.تاریخی رنگ میں بھی آپ نے اس بات کو ثابت کیا کہ حضرت مسیح ناصری گو خدائی تصرف کے ماتحت صلیب کی موت سے بچ گئے تھے مگر اس کے بعد وہ اپنے ملک سے ہجرت کر کے ہندوستان کے رستے کشمیر چلے گئے تھے اور وہیں اپنی طبعی موت سے فوت ہوئے.الغرض آپ نے قرآن سے اور حدیث سے اور مسیحی نوشتوں سے اور تاریخ سے حضرت مسیح ناصری کی وفات ثابت کر کے اپنے مثیل مسیح ہونے کا ثبوت پیش کیا اور اس بحث کے دوران میں مندرجہ ذیل اہم مسائل پر نہایت زبردست روشنی ڈالی: (1) یہ کہ حضرت مسیح ناصری دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے جو دشمنوں کی متی باب ۱۱ آیت نمبر ۱ تا ۱۷

Page 244

۲۳۴ شرارت سے صلیب پر تو ضرور چڑھائے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لعنتی موت سے بچالیا جس کے بعد وہ خفیہ خفیہ اپنے ملک سے ہجرت کر گئے.(۲) یہ کہ اپنے ملک سے نکل کر حضرت مسیح آہستہ آہستہ سفر کرتے ہوئے کشمیر میں پہنچے اور وہیں ان کی وفات ہوئی اور وہیں آج تک ان کی قبر موجود ہے.(۳) یہ کہ قرآن شریف اور حدیث کی رو سے کوئی حقیقی مردہ زندہ ہو کر اس دنیا میں دوبارہ واپس نہیں آسکتا اس لئے مسیح کو فوت شدہ مان کر ان کی دوبارہ آمد کا انتظار بے سود ہے.(۴) یہ کہ اسلامی تعلیم کی رو سے کوئی فرد بشر اس جسم عصری کے ساتھ آسمان پر نہیں جاسکتا اس لئے مسیح کے زندہ آسمان پر چلے جانے کا خیال بھی باطل ہے.(۵) یہ کہ بے شک مسیح کی آمد ثانی کا وعدہ تھا مگر اس سے مراد ایک مثیل مسیح کا آنا تھا نہ کہ خود مسیح کا.(1) یہ کہ مثیل مسیح کی بعثت کا وعدہ خود آپ کے وجود میں پورا ہوا ہے اور آپ ہی وہ موعود مسیح ہیں جس کے ہاتھ پر دنیا میں حق و صداقت کی آخری فتح مقدر ہے.اس شق کی ذیل میں یعنی اپنے مسیح موعود ہونے کی تائید میں آپ نے مندرجہ ذیل ثبوت پیش کئے:.(الف) یہ کہ مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق جو علامتیں بیان کی گئی تھیں وہ موجودہ زمانہ پر چسپاں ہوتی ہیں یعنی مسلمانوں کی حالت کا بگڑ جانا.صلیبی مذہب کا زوروں میں ہونا.دجال کا خروج.پر لیس اور ریل وغیرہ کی ایجاد کا ظہور وغیرہ.(ب) یہ کہ مسیح موعود کے نزول کی جگہ کے متعلق جو خبر دی گئی تھی کہ وہ مشرقی ممالک میں یعنی بلا دشام کے مشرق کی طرف ظاہر ہوگا وہ بھی آپ کے مقام ظہور یعنی قادیان پر چسپاں ہوتی ہے.(ج) یہ کہ مسیح ناصری کے حلیہ کے مقابل پر جو حلیہ مسیح موعود کا بیان کیا گیا تھا

Page 245

۲۳۵ یعنی گندمی رنگ اور سیدھے بال وغیرہ.وہ آپ پر پوری طرح صادق آتا ہے اسی طرح آخری زمانہ کے مصلح کے متعلق جو یہ پیشگوئی تھی کہ وہ قومی لحاظ سے فارسی الاصل ہوگا وہ بھی آپ میں پوری ہوتی ہے.(1) یہ کہ مسیح موعود کا جو کام بتایا گیا تھا یعنی یہ کہ وہ مسلمان میں کھوئے ہوئے ایمان کو پھر قائم کرے گا اور ان کے غلط عقائد کی اصلاح کرے گا اور صلیب کے زور کو توڑے گا اور اس کے ذریعہ سے اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا وغیرہ وغیرہ اس کام کی داغ بیل آپ کے ہاتھ سے قائم کر دی گئی ہے اور اب یہ کام سنت اللہ کے مطابق آہستہ آہستہ آپ کی جماعت کے ذریعہ اپنی تکمیل کو پہنچے گا.ان امور کو تفصیل اور دلائل کے ساتھ لکھنا بہت جگہ چاہتا ہے مگر چونکہ ان جملہ امور کی بحث حضرت مسیح موعود کی کتب میں نہایت تفصیل کے ساتھ آچکی ہے اور یہ باتیں جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں شائع و متعارف ہیں اس لئے اس جگہ اسی قدر مجمل نوٹ پر اکتفا کی جاتی ہے.یہ مہدویت کا دعوی :- تیسرا دعوئی حضرت مسیح موعود کا یہ تھا کہ آپ مہدی معہود ہیں.یعنی اسلام میں جو ایک مہدی کے ظہور کا وعدہ دیا گیا تھاوہ آپ کی آمد سے پورا ہوا ہے.مگر آپ نے اس دعوی کی ذیل میں یہ تشریح فرمائی کہ میں کسی جنگی اور خونی مشن کے ساتھ نہیں بھیجا گیا بلکہ میرا کام امن اور صلح کے طریق پر کام کرنا اور براہین اور دلائل کے ساتھ منوانا ہے.آپ نے ثابت کیا کہ یہ خیال کہ اسلامی تعلیم کی رو سے دین کے معاملہ میں جبر اور تشدد جائز ہے سراسر غلط اور بے بنیاد ہے اور قرآن شریف وحدیث بڑے زور کے ساتھ اس کی تردید کرتے ہیں.آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ یہ جو سیح موعود اور مہدی کو الگ وجود سمجھ لیا گیا تھا یہ درست نہیں بلکہ دراصل مسیح موعود اور مہدی معہود ایک ہی ہیں جنہیں صرف دو مختلف حیثیتوں کی وجہ سے دو الگ الگ نام دے دیئے گئے ہیں چنانچہ ایک صحیح حدیث ل مفصل بحث کے لئے دیکھو حضرت مسیح موعود کی کتب ازالہ اوہام وتفہ گولڑو یہ ونزول مسیح و حقیقۃ الوی وغیرہ اور خاکسار مصنف رسالہ ھذا کی تصنیف الحجة البالغه وتبلیغ ہدایت

Page 246

۲۳۶ میں بھی صراحت کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ:.لَا الْمَهْدِى إِلَّا عِيسَى و یعنی مسیح موعود کے سوا اور کوئی موعود مہدی نہیں ہے.“ اس دعوی کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود کی کتب اور سلسلہ کے لٹریچر میں تفصیل کے ساتھ بحث آچکی ہے اس لئے اس جگہ تفصیلی بیان کی ضرورت نہیں.جو ناظرین تفصیل میں جانا چاہیں وہ سلسلہ کی کتب کا مطالعہ کر سکتے ہیں.کے نبوت کا دعویٰ:.حضرت مسیح موعود کا چوتھا دعویٰ ظلی نبوت کا تھا یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آنحضرت ﷺ کی اتباع میں اور آپ کے لائے ہوئے دین کی خدمت کے لئے آپ کے ظل اور بروز ہونے کی حیثیت میں نبوت کی خلعت پہنائی ہے.یہ دعویٰ بھی چونکہ موجود الوقت مسلمانوں کے معروف عقیدہ کے سخت خلاف تھا اور وہ مقدس بانی اسلام ﷺ کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند قرار دیتے تھے اس لئے اس دعویٰ پر بھی مخالفت کا بہت شور برپا ہوا اور آپ کے مخالفوں نے اسے ایک آڑ بنا کر آپ کو نعوذ باللہ اسلام کا دشمن اور آنحضرت عملے کے لائے ہوئے دین کو مٹانے والا قراردیا اور اب تک بھی آپ کا یہ دعویٰ مسلمانوں میں سب سے زیادہ ہیجان پیدا کرنے والا ثابت ہو رہا ہے.مگر یہ سب شور و غوغا محض جہالت اور تعصب کی بناء پر ہے ورنہ غور کیا جائے تو حضرت مسیح موعود کے اس دعوی میں کوئی بات قرآن وحدیث کے خلاف نہیں بلکہ اس سے اسلام کی اکملیت اور آنحضرت ﷺ کی شان کی بلندی کا ثبوت ملتا ہے.الله دراصل اس معاملہ میں سارا دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ بدقسمتی سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ہر نبی کے لئے نئی شریعت کا لانا ضروری ہے یا کم از کم یہ کہ ہر نبی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ سابقہ نبی کے روحانی فیض سے آزاد ہو کر براہ راست نبوت کا انعام حاصل کرے اور نبوت کی اس تعریف کو مان ابن ماجه ، كتاب الفتن باب شدّة الزمان سے مثلاً دیکھو نور القرآن و حقیقۃ المہدی مصنفہ حضرت مسیح موعود در ساله ریویو آف ریلیجنز قادیان جلد نمبرے.

Page 247

۲۳۷ کر واقعی آنحضرت ﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دروازہ کھلا رکھنا نہ صرف آنحضرت ﷺ کی شان کے منافی ہے بلکہ اس سے اسلام کی اکملیت پر بھی سخت زد پڑتی ہے.مگر حق یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے نبوت کی یہ تعریف ہرگز درست نہیں اور قرآن وحدیث دونوں اسے سختی کے ساتھ رد کرتے ہیں.اس کے مقابلہ پر نبی کی جو تعریف اسلامی تعلیم کی رو سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ سے وحی پا کر دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہو اور ایسے روحانی مقام پر پہنچ جاوے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کثرت سے کلام کرے اور اسے غیب کے امور پر کثرت کے ساتھ اطلاع دی جاوے.چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.یہ تمام بد قسمتی دھوکہ سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لا نا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.پس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے سے کوئی محذور لازم نہیں آتا بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امتی اپنے اسی نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو.“ اس تشریح کے ہوتے ہوئے جو قرآنی تعلیم کے عین مطابق ہے یہ اعتراض بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ نبوت کا دروازہ کھلا ماننے سے آنحضرت ﷺ کی ہتک لازم آتی ہے یا یہ کہ اس سے قرآنی شریعت کو منسوخ قرار دینا پڑتا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ ایسی نبوت کو جاری ماننے سے آنحضرت ﷺ کی شان کی بلندی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ وہی افسر بڑا ہوتا ہے جس کے ماتحت بڑے ہوں اور وہی شخص زیادہ کامل سمجھا جاتا ہے جس کا فیضان زیادہ وسیع ہو اور اس کی پیروی انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ انعامات کا حقدار بنا سکے.بے شک اگر حضرت مسیح موعود یہ دعویٰ فرماتے کہ میرے آنے سے قرآنی شریعت منسوخ ہو گئی ہے یا یہ اعلان فرماتے کہ میں نے آنحضرت ﷺ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۳۰۶ الله

Page 248

۲۳۸ صلى الله کے فیضان سے باہر ہو کر براہ راست نبوت کا انعام پایا ہے تو اس میں آنحضرت ﷺ اور اسلام کی کسر شان سمجھی جا سکتی تھی مگر جبکہ یہ دعوی ہی نہیں بلکہ دعوی صرف اس قدر ہے کہ مجھے خدا نے اسلا کی خدمت کے لئے اور آنحضرت ﷺ کے فیضان کی برکت سے اور آپ کی اتباع اور غلامی میں نبوت کا منصب عطا کیا ہے تو ہر دانا شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ عقیدہ اسلام اور آنحضرت ﷺ کی شان کو بڑھانے والا ہے نہ کہ کم کرنے والا.باقی رہا یہ اعتراض کہ قرآن وحدیث نے آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کلی طور پر بند کیا ہے اس لئے خواہ اس میں اسلام کی عزت ہو یا ہتک ہم بہر حال اس عقیدہ کے پابند ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ یہ ہرگز درست نہیں کہ قرآن وحدیث نبوت کے دروازہ کو من کل الوجوہ بند کرتے ہیں بلکہ غور کیا جاوے تو جو دلیلیں نبوت کے بند ہونے کی قرآن وحدیث سے دی جاتی ہیں وہی اسے کھلا ثابت کرتی ہیں.مثلاً کہا جاتا ہے کہ قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین ، قرار دیا گیا ہے اور خاتم النبیین کے معنے آخری نبی کے ہیں اس لئے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا.لیکن غور کیا جاوے تو اسی دلیل سے نبوت کا دروازہ کھلا ثابت ہوتا ہے وہ اس طرح که عربی لغت اور محاورہ کی رو سے ” خاتم النبین “ کے معنی آخری نبی کے ہر گز نہیں بلکہ نبیوں کی مہر کے ہیں کیونکہ خاتم کا لفظ جوت کی فتح سے ہے اس کے معنے عربی میں ایسی مہر کے ہوتے ہیں جو تصدیق وغیرہ کی غرض سے کسی دستاویز پر لگائی جاتی ہے پس نبیوں کی مہر سے یہ مراد ہوا کہ آئندہ کوئی شخص جس کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺ کی تصدیقی مہر نہ ہو خدائی دربار سے کوئی روحانی انعام حاصل نہیں کر سکتا.لیکن اگر یہ مہر سے حاصل ہو جائے تو عام انعامات تو در کنار نبوت کا انعام بھی انسان کومل سکتا ہے.پس یہی آیت جسے غلط صورت دے کر نبوت کے دروازہ کو بند کرنے والا قرار دے لیا گیا ہے درحقیقت نبوت کے دروازہ کو کھول رہی ہے.اسی طرح حدیث میں جو یہ الفاظ آتے ہیں کہ لا نَبِيَّ بَعْدِی یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں

Page 249

۲۳۹ اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اب نبوت کا دروازہ کلی طور پر بند ہے حالانکہ اس سے صرف یہ مراد ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد شریعت والی نبوت کا دروازہ بند ہے کیونکہ وہی ایسی نبوت ہے جس کے متعلق ” بعد“ کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے ورنہ ظلی نبوت اور تابع نبوت تو دراصل آنحضرت ﷺ کی نبوت ہی کا حصہ ہے اور اس کے اندر شامل ہے نہ کہ اس کے بعد.خوب غور کرو کہ بعد میں آنے والی چیز اسی کو کہا جاتا ہے کہ جو سابقہ چیز کے اٹھ جانے یا ختم ہو جانے کے بعد آئے لیکن جو چیز سابقہ سلسلہ کے اندر ہی پروئی ہوئی ہو اور اس کا حصہ بن کر آئے اس کے متعلق بعد کا لفظ نہیں بولا جاسکتا.پس اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ ” میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہاں ایسا نبی مراد ہے جو آپ کی شریعت کو منسوخ کر کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہو.الغرض جن قرآنی آیات اور احادیث سے نبوت کے بند کرنے کی تائید میں سہارا ڈھونڈا جاتا ہے وہی نبوت کے دروازہ کو کھلا ثابت کرتی ہیں.مگر حضرت مسیح موعود نے صرف منفی قسم کے دلائل سے ہی اپنے دعوی کو قائم نہیں کیا بلکہ متعدد قرآنی آیات اور احادیث سے اس بات کو ثابت کیا کہ بے شک شریعت والی نبوت اور مستقل نبوت کا دروازه تو ضرور بند ہے مگر ظلی اور غیر تشریعی نبوت کا دروازہ بند نہیں بلکہ یہ دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور اس کے کھلا رہنے میں ہی اسلام کی زندگی اور آنحضرت ﷺ کی شان کا اظہار ہے.مثلاً حضرت مسیح موعود نے ثابت کیا کہ ایک طرف تو قرآن شریف مسلمانوں کو یہ دعا سکھاتا ہے کہ تم مجھ سے ان تمام روحانی انعامات کے حصول کے لئے دعا کیا کرو جو پہلی امتوں پر ہوتے رہے ہیں لے اور دوسری طرف قرآن شریف یہ بتاتا ہے کہ نبوت خدا کے ان اعلیٰ ترین انعاموں میں سے ہے جو پہلے لوگوں کو ملتے رہے ہیں ہے پس ایک طرف ہر قسم کے انعاموں کے مانگنے کی دعا سکھانا اور دوسری طرف یہ بتانا کہ انعام سے نبوت وغیرہ کے انعامات مراد ہیں صاف ظاہر کرتا ہے کہ اسلام میں نبوت کا دروازہ کھلا ہے ورنہ نعوذ باللہ یہ ماننا پڑے گا کہ خدا نے ایک طرف تو سوال کرنا سکھایا اور دوسری طرف ساتھ ہی یہ فاتحہ : ۷۶ نساء: ۷۰

Page 250

۲۴۰ اعلان کر دیا کہ اس سوال کو قبول نہیں کیا جائے گا.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے ثابت کیا کہ آنحضرت ﷺ کی متعدد احادیث میں آنے والے مسیح کو نبی کے نام سے یاد کیا گیا ہے.لے اور جب یہ ثابت ہے کہ آنے والا مسیح گزرے ہوئے مسیح سے جدا ہے تو لا محالہ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے.الغرض حضرت مسیح موعود نے نبوت کے مسئلہ کے متعلق اپنی کتب میں نہایت سیر کن بحث فرمائی ہے اور اس ذیل میں مندرجہ ذیل امور پر زبر دست روشنی ڈالی ہے:.(۱) یہ کہ نبوت کے جو معنی موجود الوقت مسلمانوں میں سمجھے گئے ہیں یعنی یہ کہ نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے یا کم از کم یہ کہ کسی سابقہ نبی سے فیض یافتہ نہ ہو یہ درست نہیں بلکہ نبوت سے مراد ایسا مکالمہ مخاطبہ الہیہ ہے جو کامل اور مصفی ہونے کے علاوہ کثرت کے ساتھ غیب کی خبروں پر مشتمل ہو پس ایک شخص نئی شریعت کے لانے کے بغیر سابقہ نبی کے فیض سے اور اس کی اتباع میں ہو کر نبوت کا انعام حاصل کر سکتا ہے مگر بہر حال یہ ضروری ہے کہ اسے خدا کی طرف سے نبی کا نام دیا جاوے.الله (۲) یہ کہ آنحضرت ﷺ کے خاتم النبین ہونے سے یہ مراد نہیں کہ آپ آخری نبی ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ آپ نبیوں کی مہر ہیں اور اب آپ کی تصدیقی مہر کے بغیر کسی نئے یا پرانے نبی کی نبوت تسلیم نہیں کی جاسکتی.(۳) یہ کہ آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اس سے یہ مراد ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا بی نہیں جو میرے دور نبوت کو قطع کر کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہو.(۴) یہ کہ امت محمدیہ کا مسیح موعود خدا کا ایک برگزیدہ نبی ہے جسے خود لا بخاری کتاب احادیث الانبياء باب قول الله واذكر في الكتاب مریم “ اور مسلم كتاب الفتن واشراط الساعة باب ذکر الدجال اور ابو داؤد کتاب الملاحم باب امارات الساعة -

Page 251

۲۴۱ آنحضرت ﷺ نے اپنی متعدد احادیث میں نبی کے نام سے یاد کیا ہے.مگر اس کی نبوت آنحضرت ﷺ کی نبوت کے تابع اور اسی کی ظل ہے نہ کہ آزاد اور مستقل نبوت.(۵) یہ کہ ایسی نبوت کا دروازہ کھلا ماننے میں آنحضرت ﷺ کی ہتک نہیں بلکہ اس میں آپ کی شان کی بلندی کا اظہار ہے کیونکہ اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا مرتبہ اس قدر بلند اور ارفع ہے کہ آپ کے خادم نبوت کے مقام کو پہنچ سکتے ہیں اور یہ کہ آپ روحانی مملکت کے صرف بادشاہ ہی نہیں بلکہ شاہنشاہ اور بادشاہوں کے بادشاہ ہیں.(1) اسی ذیل میں آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ گوموجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا یہ عام عقیدہ ہو رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروزہ کلی طور پر بند ہے مگر صحابہ کا یہ عقیدہ نہیں تھا اور صحابہ کے بعد بھی کئی مسلمان اولیاء اور بزرگ ایسے گزرے ہیں جو غیر تشریعی نبوت کے دروازہ کو کھلا مانتے رہے ہیں مثلاً حضرت محی الدین ابن عربی.امام عبدالوہاب صاحب شعرانی.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی.حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجددالف ثانی.علامہ محدث ملاعلی قاری.امام محمد طاہر صاحب گجراتی و غیر هم نبوت کے دروازہ کو کلی طور پر بند خیال نہیں کرتے تھے.(۷) آپ نے اپنے مخالفین کو ملزم کرنے کے لئے یہ بھی ثابت کیا کہ موجود الوقت مسلمانوں کا جو یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں دنیا میں نازل ہوں گے اس سے بھی آنحضرت کے بعد ایک گونہ نبوت کا دروازہ کھلا قرار پاتا ہے کیونکہ خواہ حضرت مسیح ناصری نے نبوت کا انعام آنحضرت ﷺ سے پہلے پایا تھا مگر جب ان کی دوسری آمد

Page 252

۲۴۲ آنحضرت ﷺ کے بعد ہوگی تو بہر حال اس طرح آنحضرت ﷺ کے بعد ایک نبی کا وجود مان لیا گیا مگر آپ نے بتایا کہ جہاں آنحضرت ﷺ کی امت میں سے کسی فرد کا نبوت کے انعام کو پانا آپ کے لئے باعث عزت ہے وہاں ایک سابقہ نبی کا آپ کے بعد آپ کی امت کی اصلاح کے لئے دوبارہ مبعوث ہو کر آنا یقینا آپ کے لئے باعث عزت نہیں بلکہ بنک اور غیرت کا باعث ہے.(۸) آپ نے عقلی طور پر بھی ثابت کیا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کے سلسلہ کا بند ہو جانا یہ معنے رکھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت خدا کے انعاموں کو وسیع کرنے والی نہیں بلکہ تنگ کرنے والی ثابت ہوئی ہے حالانکہ آنحضرت ﷺ کا وہ مقام ہے کہ اس کے بعد خدائی انعاموں کا دروازہ زیادہ سے زیادہ وسیع ہوکر کھل جانا چاہئے.الغرض حضرت مسیح موعود نے اس اہم مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر نہایت سیر کن بحث کر کے ثابت کیا که گو قرآن شریف آخری شریعت ہے جس کے بعد قیامت تک کوئی اور شریعت نہیں اور آنحضرت علی خاتم النبین ہیں جن کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو آپ کی غلامی کے جوے سے آزاد ہو کر آئے مگر مطلق نبوت کا دروازہ بند نہیں بلکہ کھلا ہے اور اس کے کھلا رہنے میں ہی اسلام کی عزت اور آنحضرت علی کی شان کی بلندی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.یا درکھنا چاہئے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین نہیں مانتے یہ ہم پر افتراء عظیم ہے.ہم جس قوت یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے سمجھتے ہی

Page 253

۲۴۳ نہیں ہیں انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں.دنیا کی مثالوں میں سے ہم ختم نبوت کی مثال اس طرح پر دے سکتے ہیں کہ جیسے چاند ہلال سے شروع ہوتا ہے اور چودھویں تاریخ پر آ کر اس کا کمال ہو جاتا ہے جبکہ اسے بدر کہا جاتا ہے.اسی طرح پر آنحضرت ﷺ پر آ کر کمالات نبوت ختم ہو گئے.پھر فرماتے ہیں:.بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں.ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے.سوخدا نے ان معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا ہے پھر فرماتے ہیں:.خاتم النبیین کے معنے یہ ہیں کہ آپ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت تصدیق نہیں ہو سکتی جب مہر لگ جاتی ہے تو کاغذ سند ہو جاتا ہے اور مصدقہ سمجھا جاتا ہے.اسی طرح آنحضرت ﷺ کی مہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ سند نہیں.“ سے پھر فرماتے ہیں:.اگر میں آنحضرت ﷺ کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا ملفوظات جلد اول صفحه ۲۲۷، ۲۲۸ مطبوعہ ربوہ.۲ حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰.الحکم مورخہ ۱۷ / اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۹ کالم ۳

Page 254

۲۴۴ کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں.شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو.“ پھر فرماتے ہیں:.یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قد ر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی.اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے.غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں.سے اس بحث کے ختم کرنے سے پہلے یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گو حضرت مسیح موعود کے الہامات میں شروع سے ہی آپ کے متعلق مرسل اور رسول اور نبی وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے آئے ہیں مگر چونکہ عام مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا اور آپ پر بھی اس بارے میں ابھی تک خدا کی طرف سے پوری وضاحت نہیں ہوئی تھی اس لئے اوائل میں آپ مسلمانوں کے معروف عقیدہ کا احترام کرتے ہوئے ان الفاظ کی تاویل فرما دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ الفاظ محض جزوی مشابہت کے اظہار کے لئے استعمال کئے گئے ہیں مگر جب خدا کی طرف سے آپ پر حق کھل گیا اور آپ کو صریح اور واضح طور پر نبی کا خطاب دیا گیا تو آپ نے کھلے طور پر اس کا تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲۰۴۱۱ - ۲ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶ ۴۰ ، ۴۰۷

Page 255

۲۴۵ اعلان فرمایا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جز کی فضیلت قرار دیتا تھا.مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ! اور اپنے ابتدائی انکار کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لا نیوالا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے “ ہے تمام انبیاء کے مثیل ہونے کا دعویٰ :.ایک دعویٰ حضرت مسیح موعود کا یہ تھا کہ چونکہ یہ دنیا کے موجودہ دور کا آخری زمانہ ہے اور میرے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہر امت کی اصلاح کا کام لینا ہے اس لئے خدا نے مجھے صرف مثیل مسیح یا مثیل محمد ﷺ ہی بنا کر نہیں بھیجا بلکہ تمام گزشتہ انبیاء کی صفات میرے اندر جمع کر دی ہیں اور مجھے مثیل انبیاء قرار دیا ہے چنانچہ اس بارے میں آپ کو ایک نہایت لطیف الہام بھی ہوا تھا جو یہ ہے کہ:.جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ یعنی ہمارا یہ مرسل تمام گزشتہ نبیوں کے لباس میں اور ان کی صفات سے متصف ہو کر آیا ہے.“ لے حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۴۱۵۳ ۲ اشتہار ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۱،۲۱ ے تذکره صفحه ۶۳ مطبوع ۲۰۰۴ء

Page 256

۲۴۶ اس الہام کی تشریح میں حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.آخری زمانہ کے لئے خدا نے مقرر کیا ہوا تھا کہ وہ ایک عام رجعت کا زمانہ ہوگا تا یہ امت مرحومہ دوسری امتوں سے کسی بات میں کم نہ ہو.پس اس نے مجھے پیدا کر کے ہر اک گذشتہ نبی سے مجھے اس نے تشبیہہ دی.گویا تمام انبیاء گذشتہ اس امت میں دوبارہ پیدا ہو گئے.لے پھر فرماتے ہیں:..” خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں.میں آدم ہوں.میں شیث ہوں.میں نوح ہوں.میں ابراہیم ہوں.میں اسحاق ہوں.میں اسماعیل ہوں.میں یعقوب ہوں.میں یوسف ہوں.میں موسیٰ ہوں.میں داؤد ہوں.میں عیسی ہوں.اور آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر ا تم ہوں یعنی ظلمی طور پر محمد اور احمد ہوں.“ ہے پھر فرماتے ہیں:.میں ان گناہوں کے دور کرنے کے لئے جن سے زمین پر ہو گئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا.یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانی حقیقت کے رو سے میں وہی ہوں یہ میرے خیال اور قیاس سے نہیں بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوؤں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے.“ نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۸۲ ۲ حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۷۶ حاشیہ ے لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۲۸

Page 257

۲۴۷ حضرت مسیح موعود کا مقام :.حضرت مسیح موعود کے دعاوی کے ذیل میں آپ کے مرتبہ اور مقام کا سوال بھی آتا ہے سو اس کے متعلق بھی اس جگہ ایک مختصر نوٹ بے موقعہ نہ ہوگا.حضرت مسیح موعود کا یہ دعویٰ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آنحضرت ﷺ کی پیروی میں ساری دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اس لئے مجھے وہ روحانی طاقتیں عطا کی ہیں اور وہ مقام بخشا ہے جو اس کام کے لئے ضروری ہے.فرماتے ہیں:.چونکہ میں ایک ایسے نبی کا تابع ہوں جو انسانیت کے تمام کمالات کا جامع تھا اور اس کی شریعت اکمل اور اتم تھی اور تمام دنیا کی اصلاح کے لئے تھی اس لئے مجھے وہ قو تیں عنایت کی گئیں جو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ضروری تھیں.تو پھر اس میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ فطرتی طاقتیں نہیں دی گئیں جو مجھے دی گئیں کیونکہ وہ ایک خاص قوم کے لئے آئے تھے اور اگر وہ میری جگہ ہوتے تو اپنی اس فطرت کی وجہ سے وہ کام انجام نہ دے سکتے جو خدا کی عنایت نے مجھے انجام دینے کی قوت دی ہے.وَهذَا تَحْدِيث نِعْمَةِ اللَّهِ وَلَا فَخُرَا پھر فرماتے ہیں:.مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کرسکتا ہوں وہ ہرگز نہ کرسکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں وہ ہرگز دکھلا نہ سکتا اور خدا کا فضل اپنے سے زیادہ مجھ پر پاتا.اور اپنے اوپر ایمان لانے کی ضروری قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.”خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر اک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۷ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶۰

Page 258

۲۴۸ اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے.پھر فرماتے ہیں:.” خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا.بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ “ ہے پھر فرماتے ہیں:.” خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کونوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لئے اسے مدار نجات ٹھہرایا جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سنے “ سے پھر فرماتے ہیں:.مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا.میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں.بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے.اپنے روحانی مقام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.میں اپنے رب سے اس مقام پر نازل ہوا ہوں جس کو انسانوں میں سے کوئی نہیں جانتا اور میرا بھیدا کثر اہل اللہ سے بھی پوشیدہ اور دور تر ہے قطع نظر اس کے کہ عام لوگوں کو اس سے کچھ اطلاع ہو سکے..پس مجھے کسی دوسرے کے ساتھ قیاس مت کرو اور نہ کسی دوسرے کو میرے ساتھ.“ ۵ پھر فرماتے ہیں:.خط بنام ڈاکٹر عبدالحکیم خاں مرتد کے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۰۴ سے اربعین، روحانی خزائن جلد۱۷ صفحه ۴۳۵ حاشیه ۴ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶۱ ۵ ترجمه از عربی عبارت خطبہ الہامیه، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۵۱ ۵۲

Page 259

۲۴۹ جیسا کہ ہمارے سردار محمد مصطفی یہ نبوت کے مقام پر فائز تھے اور خاتم الانبیاء تھے اسی طرح میں دلایت میں ختم کے مقام پر فائز ہوں اور خاتم الاولیاء ہوں.میرے بعد کوئی ولی نہیں آسکتا مگر وہی جو مجھ میں سے ہو اور میرے عہد پر قائم ہو میرا قدم ایک ایسے مینار پر ہے جس پر تمام بلندیاں ختم ہیں.عالی پھر فرماتے ہیں:.” خدا نے مجھ پر اپنے برگزیدہ رسول کا فیض نازل فرمایا اور اس فیض کو کامل ومکمل کیا اور اس نبی کے لطف و کرم کو میری طرف کھینچا حتی کہ ( کامل اتحاد کی وجہ سے ) میرا وجود اس کا وجود ہو گیا.پس جو شخص کہ میری جماعت میں داخل ہوا وہ دراصل سید المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا اور جو مجھ میں اور محمد مصطفیٰ میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہیں پہچانا.حضرت مسیح موعود کے مخصوص دعاوی اور آپ کے روحانی مقام کو بیان کرنے کے بعد ہم ان عام عقائد کا ذکر کرتے ہیں جن میں حضرت مسیح موعود نے یا تو رائج الوقت غلط عقائد کی اصلاح فرمائی ہے اور یا قرآن شریف سے استنباط کر کے ایسے نئے خیالات دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں جو اس سے پہلے اس رنگ میں دنیا کے سامنے نہیں آئے تھے.خدا کی کوئی صفت معطل نہیں ہے :.پہلا عقیدہ جو حضرت مسیح موعود نے بیان کیا وہ یہ تھا کہ خدا کی تمام صفات اس کی ذات کے ساتھ ابدی اور از لی ہیں اور کوئی صفت بھی ایسی نہیں جو پہلے تو کسی زمانہ میں کام کرتی ہو اور اب معطل ہو چکی ہو بلکہ ہر صفت اسی طرح قائم اور حیر عمل میں ہے جس طرح کہ پہلے تھی.اس عقیدہ کے بیان کرنے اور اس پر زور دینے کی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ دوسری قو میں تو خیر الگ رہیں خود مسلمانوں کا ایک کثیر حصہ اس غلط خیال میں مبتلا ہو گیا تھا کہ خدا کی بعض صفات ایسی ہیں کہ وہ بے شک پہلے زمانوں میں تو زندہ اور چوکس تھیں مگر اب وہ معلق اور معطل.خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۷۰۶۹ ۲ خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۶ اصفحه ۲۵۹،۲۵۸

Page 260

۲۵۰ ہو چکی ہیں اور آئندہ ان صفات کا ظہور بند ہے.مثلاً موجودہ زمانہ میں اکثر مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہو رہا تھا کہ خدا بے شک پہلے زمانوں میں بولتا تھا اور اپنے خاص لوگوں کے ساتھ کلام کرتا تھا مگر اب وہ کلام نہیں کرتا اور اس کی اس صفت کا ظہور بند ہو چکا ہے اسی طرح مسلمانوں کے ایک حصہ کا یہ عقیدہ بھی ہو چکا تھا کہ موجودہ زمانے میں خدا سنتا بھی نہیں اور یہ جو اسلام میں دعا پر زور دیا گیا ہے یہ صرف ایک عبادت اور اظہار عقیدت کا ذریعہ ہے.ورنہ یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ دعا کو سنے اور اس پر کوئی نتیجہ مرتب کرے وغیرہ وغیرہ.حضرت مسیح موعود نے اس قسم کے جملہ باطل خیالات کو سختی کے ساتھ رد کیا اور بڑے زور کے ساتھ فرمایا کہ خدا کی کوئی صفت بھی معطل نہیں بلکہ موجودہ زمانہ میں بھی اس کی ہر صفت اسی طرح ہوشیار اور حیر عمل میں ہے جس طرح کہ وہ پہلے زمانوں میں تھی اور آپ نے صراحت کے ساتھ لکھا کہ خدا کی کسی صفت کو معطل قرار دینا اس کی قدوسیت اور از لیت پر ایک خطر ناک حملہ ہے کہ گویا خدا کا ایک حصہ مردہ کی طرح ہو گیا ہے.چنانچہ جن جن صفات کو لوگ اپنی نادانی سے معطل قرار دے رہے تھے آپ نے انہیں بڑے زبردست دلائل کے ساتھ زندہ اور چوکس ثابت کیا اور بتایا کہ اس قسم کے گندے خیالات محض اس وجہ سے پیدا ہوئے ہیں کہ لوگ خود گندوں میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے ان خدائی صفات کا مور دنہیں رہے.دعا محض عبادت نہیں بلکہ ایک جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے جن صفات الہی کو عملاً معطل قرار دیا جا رہا تھا ان میں ایک صفت قبولیت دعا کی تھی یعنی زندہ اور زبر دست طاقت ہے:.مسلمانوں کا ایک فریق مغربی ممالک کی دہریت سے متاثر ہوکر اور خود اپنی روحانیت کو کھو کر اس بات کا قائل ہو رہا تھا کہ دعا محض ایک عبادت ہے اور یہ نہیں کہ خدا تعالی دعا کوسن کر کوئی نتیجہ پیدا کرتا ہے.ہندوستان میں اس گروہ کے لیڈر سرسید احمد خان صاحب مرحوم بانے علی گڑھ کالج تھے.سید صاحب مسلمانوں کے ہمدرد اور خیر خواہ تھے اور اسلام کا درد بھی رکھتے تھے مگر روحانیت کے فقدان کی وجہ سے اور مغرب کے اعتراضوں سے گھبرا کر اس خیال کے قائل ہو گئے تھے کہ دعا صرف ایک عبادت ہے ورنہ یہ نہیں کہ انسان کی دعا قبولیت کی صورت میں کوئی نتیجہ پیدا کرتی ہو.

Page 261

۲۵۱ حضرت مسیح موعود نے اس گندے عقیدے کے خلاف ایک رسالہ لکھ کر شائع فرمایا جس میں لکھا کہ سید صاحب کا یہ عقیدہ ایسا عقیدہ ہے جس نے خالق و مخلوق کے باہمی تعلق کو بالکل کمزور کر دیا ہے.آپ نے قرآنی آیات اور احادیث نبوی سے استدلال پکڑنے کے علاوہ اپنی مثال دے کر یہ دعویٰ پیش کیا کہ اگر کسی شخص کو قبولیت دعا کے مسئلہ میں شک ہو تو وہ میرے سامنے آ کر جس طرح چاہے تسلی کر لے.چنانچہ آپ نے سرسید مرحوم کو مخاطب کر کے لکھا:.اے کہ گوئی گر دعا ہارا اثر بودے کجاست سوئے من بشتاب بنمائم ترا چوں آفتاب ہاں مکن انکار زیں اسرار قدر تہائے حق قصہ کو تہ کن ہیں از مادعائے مستجاب لے یعنی اے وہ جو یہ دعوی کر رہے ہو کہ اگر دعا میں کوئی اثر ہوتا ہے تو وہ کہاں ہے تم جلدی سے میری طرف آجاؤ کہ میں تمہیں سورج کی طرح دعا کا اثر دکھاؤں گا.ہاں ہاں خدا کی قدرتوں کے اسرار سے انکار نہ کرو اور اگر دلیل چاہتے ہو تو کسی لمبی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے آؤ اور میری قبول شدہ دعا کا نتیجہ دیکھ لو.“ ان اشعار میں حضرت مسیح موعود نے اپنی جس قبول شدہ دعا کی طرف اشارہ کیا تھا وہ پنڈت لیکھرام والی پیشگوئی سے تعلق رکھتی تھی جس میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی دعا کے نتیجہ میں آپ کو الہاما بتایا تھا کہ پنڈت صاحب اپنی شوخی اور گستاخی کی وجہ سے چھ سال کے اندر اندر عید کے دوسرے دن عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.واقعی دعا جیسے مسئلہ میں اصل ثبوت یہی ہے کہ عملاً دعا کا نتیجہ دکھا دیا جاوے.اگر دعا کا نتیجہ عملاً دکھا دیا جاوے تو یہ ایک ایسی قطعی شہادت ہوگی جس کے بعد کوئی عقلمند شخص انکار نہیں کر سکتا اور حضرت مسیح موعود نے اپنی سینکڑوں قبول شدہ دعائیں دکھا کر ثابت کر دیا کہ قبولیت دعا کا مسئلہ بالکل سچا اور یقینی ہے.الہام کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے:.اسی طرح الہام اور کلام الہی کے متعلق آپ نے لکھا کہ اس دروازہ کو بند کرنے کا عقیدہ ایسا خطرناک اور مہلک ہے کہ اس سے خدا کے متعلق یقین اور ل بركات الدعاء - رحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳

Page 262

۲۵۲ عرفان پیدا کر نے اور اس کے نشانات کو دیکھنے کا رستہ بالکل مسدود ہو جاتا ہے اور انسان اپنے خالق و مالک کے متعلق گو یا بالکل تاریکی میں رہ جاتا ہے.آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ چونکہ لطیف اور غیر محدود ہے اس لئے وہ نظر نہیں آ سکتا اب اگر اس کے کلام کا بھی دروازہ بند کر دیا جاوے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ بندے اور خدا کے درمیان تمام علائق منقطع ہو جائیں اور کوئی جوڑ نے والی کڑی درمیان میں باقی نہ رہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.بن دیکھے کس طرح کسی مد رخ پر آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی آپ نے بار بار فرمایا کہ کلام الہی تو ایک ایسی چیز ہے کہ جو مذ ہب اس کا دروازہ بند کرتا ہے وہ یقینا زندہ مذہب کہلانے کا حقدار نہیں بلکہ وہ ایک مردہ مذہب ہے جس میں زندگی کی کوئی بھی روح نہیں کیونکہ ایسا مذہب بندے اور خدا کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل کر دیتا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے بندہ خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور خدا کا وجود محض ایک خشک فلسفیانہ خیال رہ جاتا ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود دفرماتے ہیں:.ہے غضب کہتے ہیں اب وحی خدا مفقود ہے اب قیامت تک ہے اس امت کا قصوں پر مدار گوہر وحی خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر اک یہی دیں کے لئے ہے جائے عز و افتخار یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مشک تار ہے خدا دانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں محض قصوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفاں سے پار اور دوسری جگہ فرماتے ہیں:.جبکہ خدا تعالیٰ کا جسمانی قانون قدرت ہمارے لئے اب بھی وہی موجود ہے جو پہلے تھا تو پھر روحانی قانون قدرت اس زمانہ میں کیوں بدل گیا ؟ نہیں ہرگز نہیں بدلا.پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ وحی الہی پر آئندہ کے لئے مہر لگ گئی

Page 263

۲۵۳ ہے وہ سخت غلطی پر ہیں.‘1 الہام الہی کے متعلق حضرت مسیح موعود نے ایک اور تشریح بھی فرمائی اور وہ یہ کہ یہ ضروری نہیں کہ صرف نیک اور پاک لوگوں کو ہی الہام ہو بلکہ بعض اوقات ادنیٰ درجہ کے لوگوں کو بھی الہام ہوجاتا ہے کیونکہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ عام لوگوں میں ایک شہادت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ وہ الہام کے کوچہ سے بالکل بے خبر اور نا آشنا نہ رہیں مگر یہ الہام شاذ ہوتا ہے اور درجہ میں بھی ادنیٰ ہوتا ہے لیکن جو الہام انبیاء کو یا خاص اولیاء کو ہوتا ہے اس میں کثرت کے علاوہ یہ خصوصیت بھی پائی جاتی ہے کہ وہ زیادہ مصفا اور زیادہ شاندار ہوتا ہے اور اس میں خدا کے علم اور اس کی قدرت اور اس کی محبت کی خاص جھلک نظر آتی ہے اور بسا اوقات وہ دوستانہ کلام کا رنگ رکھتا ہے مگر اس کے مقابل پر عام لوگوں کا الہام ایسا ہوتا ہے جیسے کہ ایک بادشاہ بعض اوقات گھر کے ایک ادنی نو کر یا چوہڑے سے بات کر لیتا ہے اور کثرت اور قلت کے لحاظ سے ان دونوں میں ایسا فرق ہوتا ہے کہ جیسے ایک امیر کبیر آدمی کے مقابلہ پر جس کے پاس لاکھوں روپیہ ہو ایک غریب مفلس شخص کی حیثیت ہوتی ہے جس کے پاس صرف چند پیسے ہوں پس دونوں میں اشتراک تو ہے مگر اس اشتراک کی وجہ سے دونوں کی بالمقابل حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا.ایمان باللہ کی حقیقت:.دوسرا عقیدہ جو آپ نے پیش کیا وہ ایمان باللہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے آپ نے بیان فرمایا کہ موجودہ زمانے میں اکثر لوگ ایمان باللہ کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور محض ایک رسمی اور سنے سنائے ایمان یا ورثہ کے ایمان کو حقیقی ایمان سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ ایسا ایمان کوئی چیز نہیں بلکہ حقیقی ایمان جو زندہ ایمان کہلانے کا حقدار ہے وہ یہ ہے کہ انسان خدا کی ہستی کے متعلق کم از کم ایسا ہی یقین رکھے جیسا کہ وہ اس دنیا کی چیزوں کے متعلق رکھتا ہے.مثلاً ایک انسان اپنے باپ کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ میرا باپ ہے اپنے مکان پر نظر ڈالتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ یہ میرا مکان ہے.سورج پر نگاہ کرتا ہے اور ایمان لاتا ہے کہ یہ سورج ہے اور ان چیزوں کے متعلق اسے ایک حقیقی بصیرت چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۰

Page 264

۲۵۴ اور یقین کی صورت حاصل ہوتی ہے جس میں کسی شک یا شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی اسی طرح خدا کے متعلق ایمان ہونا چاہئے مگر آپ نے لکھا کہ دنیا میں اکثر لوگوں کو یہ ایمان حاصل نہیں اور نہ صرف یہ ایمان حاصل نہیں بلکہ وہ اس ایمان سے آگاہ بھی نہیں اور محض ورثہ کے ایمان یاسنے سنائے ایمان کو ہی حقیقی ایمان سمجھ رہے ہیں یعنی چونکہ ان کے اردگر دلوگ یہ بات کہتے رہتے ہیں کہ خدا ہے اس لئے وہ بھی کہتے ہیں کہ خدا ہے یا چونکہ ان کے ماں باپ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ کوئی خدا ہے اس لئے وہ بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا ہے مگر ان کو خدا کے متعلق کوئی ذاتی بصیرت یا یقین حاصل نہیں ہے حالانکہ حقیقی اور زندہ ایمان وہی ہے جس میں انسان کو بصیرت اور یقین حاصل ہو اور اس کا دل خدا کی ہستی کے متعلق تسلی اور تشفی پا جائے اور آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسی لئے مبعوث کیا ہے کہ میں لوگوں کو اس قسم کا ایمان عطا کروں اور خدا کی ذات کو ایک خیالی فلسفہ کی وادی سے نکال کر حقیقت کی چٹان پر قائم کر دوں.آپ نے بار بار تشریح فرمائی ہے کہ خدا کا وجود ایسا نہیں ہے کہ خدا نے دنیا کو پیدا کیا اور پھر اس کی حکومت سے معزول ہو کر اور سارے تعلقات قطع کر کے الگ ہو کر بیٹھ گیا بلکہ وہ ایک تعلق رکھنے والا دنیا کے کاموں میں دلچسپی لینے والا اپنی مخلوق کی نیکی بدی کو دیکھنے والا خدا ہے جو اپنے نیک بندوں کا دوست اور محافظ ہوتا ہے اور ان کو دشمنوں کے شر سے بچاتا اور ان کے لئے ترقی کے رستے کھولتا ہے اور مشکلات میں ان کے کام آتا ہے اور برے اور شریر لوگوں کو وہ کبھی کبھی اس دنیا میں ہی اصلاح کے خیال سے پکڑتا اور سزا دیتا ہے.پس جب دنیا کا خدا ایسا خدا ہے تو اس کے متعلق ایک محض فلسفیانہ ایمان کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک کہ اس کے متعلق دلی یقین اور بصیرت کے ساتھ ایمان لا کر اس کے ساتھ تعلق نہ پیدا کیا جاوے.حضرت مسیح موعود رماتے ہیں:.نازمت کر اپنے ایماں پر کہ یہ ایماں نہیں اس کو ہیرا مت گماں کر ہے یہ سنگِ کو ہسار پیٹنا ہوگا دو ہاتھوں سے کہ ہے ہے مرگئے جبکہ ایماں کے تمہارے گند ہوں گے آشکار

Page 265

۲۵۵ توحید کی حقیقت اور مخفی شرک کی تشریح:- تیسرا عقیدہ آپ نے یہ پیش کیا کہ دنیا کو بتایا کہ حقیقی تو حید صرف یہ نہیں کہ صرف منہ سے خدا کے ایک ہونے کا اقرار کیا جائے اور شرک صرف اس بات میں محدود نہیں کہ کسی بت یا انسان یا سورج یا پہاڑ یا دریا کو خدا مان کر اس کے سامنے سجدہ کیا جائے.بلکہ یہ چیزیں صرف موٹے طور پر تو حید اور شرک کو بیان کرتی ہیں اور تو حید اور شرک کی حقیقی تشریح ان سے بہت زیادہ وسیع اور بہت زیادہ گہری ہے.چنانچہ آپ نے بتایا کہ اصل توحید یہ ہے کہ انسان نہ صرف منہ سے خدا کے ایک ہونے کا قائل ہو بلکہ اس کی کامل محبت اور کامل خوف اور کامل بھروسہ صرف خدا کی ذات کیساتھ وابستہ ہے اور یہ کہ شرک صرف یہ نہیں کہ کسی بت وغیرہ کی پرستش کی جائے بلکہ حقیقی شرک میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انسان کسی چیز کی ایسی عزت کرے جو خدا کی کرنی چاہئے اور کسی چیز کے ساتھ ایسی محبت کرے جو خدا سے کرنی چاہئے اور کسی چیز سے ایسا خوف کھائے جو خدا سے کھانا چاہئے اور کسی چیز پر ایسا بھروسہ کرے جو خدا پر کرنا چاہئے.آپ فرماتے ہیں:.ہر چہ غیر خدا بخاطر تست آں بُت تست اے بایماں ست پر حذر باش زیں بتان نہاں دامن دل زدست شاں برہاں د یعنی ہر وہ چیز کہ جو خدا کے مقابل پر تیرے دل میں جگہ پائے ہوئے ہے وہ تیرے دل کا ایک مخفی بت ہے مگر اے کمزور ایمان والے شخص تو اسے سمجھتا نہیں.تجھے چاہئے کہ اپنے ان مخفی بتوں کی طرف سے ہوشیار رہے اور اپنے دل کے دامن کو ان کی گرفت سے بچا کر رکھے.“ آپ نے بار بار اور کثرت کے ساتھ بیان کیا کہ مثلاً اگر کوئی شخص بیمار ہو کر اپنے ظاہری علاج معالجہ پر اتنا بھروسہ کرے کہ گویا خدا کو بھلا ہی دے اور ساری طاقت اور ساری شفا دوائی میں ہی سمجھنے لگ جائے تو وہ بھی ایک قسم کے مخفی شرک کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ وہ دوائی کو وہ درجہ دیتا ہے جو

Page 266

۲۵۶ خدا کو دینا چاہئے آپ نے لکھا کہ اسلام اسباب کے اختیار کرنے سے نہیں روکتا بلکہ علم دیتا ہے کہ کسی مقصد کے حصول کے لئے جو اسباب خدا کی طرف سے مقرر ہیں انہیں استعمال کرو کیونکہ وہ بھی خدا کے پیدا کردہ ذرائع ہیں مگر اسلام ان اسباب پر تکیہ کرنے سے اور انہیں کامیابی کا آخری ذریعہ قرار دینے سے منع کرتا ہے بلکہ ہدایت دیتا ہے کہ اصل بھروسہ صرف خدا پر رکھو جس نے یہ سارے اسباب پیدا کئے ہیں اور جو اس دنیا کی آخری علت العلل ہے.چنانچہ آپ اپنی جماعت کو مخاطب کر کے احدا فرماتے ہیں:.” خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر اک قدم میں تمہارا مددگار ہے تم بغیر اس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں.غیر قوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلی اسباب پر گر گئی ہیں اور جیسے سانپ مٹی کھاتا ہے انہوں نے سفلی اسباب کی مٹی کھائی میں تمہیں حد اعتدال تک رعایت اسباب سے منع نہیں کرتا بلکہ اس سے منع کرتا ہوں کہ تم غیر قوموں کی طرح نرے اسباب کے بندے ہو جاؤ اور اس خدا کو فراموش کر دو جو اسباب کو بھی وہی مہیا کرتا ہے..خدا تمہاری آنکھیں کھولے تا تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا خدا تمہاری تمام تدابیر کا شہتیر ہے.اگر شہتیر گر جائے تو کیا کڑیاں اپنی چھت پر قائم رہ سکتی ہیں.ملائکۃ اللہ کی حقیقت : چوتھا عقیدہ جو آپ نے دنیا کے سامنے پیش کیا وہ مانگتہ اللہ کی تشریح کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.فرشتوں کے وجود کو قریباً ہر مذہب وملت نے مانا ہے اس لئے ہمیں اس جگہ ان کی ہستی کی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں.صرف اس قدر بتا نا کافی ہے کہ فرشتوں کے متعلق یہ ایک عام عقیدہ ہو رہا تھا کہ فرشتے کوئی خاص قسم کی عجیب و غریب مخلوق ہے جو خدا اور انسان کے درمیان واسطہ کا کام دیتی ہے.حضرت مسیح موعود نے اس بارے میں تشریح فرمائی کہ بے شک فرشتے کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۲ ،۲۳

Page 267

۲۵۷ خدا کی ایک مخفی مخلوق ہے مگر ان کے متعلق وہ عجیب و غریب خیالات جوان کی شکل وصورت وغیرہ کے متعلق رائج ہیں مثلاً یہ کہ وہ ایک پروں کے ساتھ اڑنے والی مخلوق ہے اور ان کے یہ یہ رنگ اور اتنے اتنے پر ہیں وغیر ذالک یہ درست نہیں ہیں بلکہ اس قسم کے الفاظ بطور استعارہ بیان ہوئے ہیں اور فرشتوں کی اصل شکل وصورت کا علم صرف خدا کو ہے البتہ قرآن شریف و حدیث سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ فرشتے خدا کی ایک مخفی مخلوق ہے جو نظام عالم کو چلانے کے لئے بطور اسباب کے ہیں یعنی جس طرح دنیا کے ظاہری نظام کو چلانے کے لئے خدا نے ظاہری اسباب مقرر کر رکھے ہیں مثلاً سورج اور چاند اور ستارے اور ہوا اور پانی اور زمین وغیرہ اور ان چیزوں کے خواص اور ان کی طاقتیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بعض مخفی اسباب بھی مقرر کئے ہیں جو فرشتوں کے نام سے موسوم ہیں اور ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس نظام عالم کو چلا رہا ہے.اسی طرح آپ نے یہ تشریح فرمائی کہ یہ جو فرشتوں کے نازل ہونے کا عقیدہ عام طور پر.مسلمانوں کے اندر پایا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ کوئی فرشتہ خدا کا کلام لے کر نازل ہوتا ہے اور کوئی لوگوں کی روح قبض کرنے کے لئے نازل ہوتا ہے یہ فی الجملہ درست ہے مگر فرشتوں کے نزول سے یہ مراد نہیں کہ وہ اپنی مقررہ جگہ کو چھوڑ کر زمین پر آ جاتے ہیں اور وہ اس وقت ان کے وجود سے خالی ہو جاتی ہے بلکہ فرشتوں کے نزول سے یہ مراد ہے کہ فرشتے اپنی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے اپنے اپنے دائرہ میں دنیا کی چیزوں پر مقررہ اثرات پیدا کرتے ہیں مثلاً جس فرشتے کا کام کلام الہی کا پہنچانا ہے وہ یوں نہیں کرتا کہ خدا کے الفاظ کو لے کر کبوتر کی طرح اڑتا ہواز مین پر پہنچ جاوے بلکہ وہ صرف یہ کرتا ہے کہ اپنی خداداد طاقت کو حرکت میں لا کر خدا کے کلام کو اس کے منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے.اسی طرح جس فرشتے نے کسی انسان کی روح قبض کرنی ہو وہ یہ نہیں کرتا کہ اپنی جگہ کو چھوڑ کر زمین پر آوے اور مرنے والے کی روح نکال کر پھر واپس اڑ جائے بلکہ وہ اپنی جگہ پر رہتے ہوئے ہی سارا کام سرانجام دیتا ہے پس نزول سے خود فرشتوں کا جسمانی نزول مراد نہیں بلکہ ان کی خدا داد طاقتوں کا پر تو یا

Page 268

۲۵۸ سایہ اور اثر مراد ہے جو حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا ہے.لے اس دنیا کی عمر اور خلق آدم:.پانچویں اصلاح حضرت مسیح موعود نے یہ کی کہ لوگوں کے اس خیال کو رد کیا کہ گویا یہ دنیا صرف چھ سات ہزار سال سے ہے اور اس سے پہلے خدا نعوذ باللہ معطل تھا.دراصل چونکہ عیسائیوں کا بائیل کی بناء پر یہ عقیدہ تھا کہ انسان کی پیدائش کا آغاز آدم سے ہوا ہے اور آدم کو پیدا ہوئے صرف چھ ہزار سال ہوئے ہیں اس لئے ان کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے بعد کے مسلمانوں میں بھی غلطی سے یہی عقیدہ داخل ہو گیا مگر خود قرآن شریف نے یا آنحضرت ﷺ نے ایسی کوئی تعلیم نہیں دی تھی.بہر حال حضرت مسیح موعود نے صراحت کے ساتھ اس عقیدے کو جھوٹا قرار دیا اور فرمایا کہ آدمی کی پیدائش سے دنیا کا آغاز مراد نہیں ہے بلکہ دنیا کا آغاز بہت قدیم سے ہے اور اس میں مخلوقات کے کئی دور آتے رہے ہیں جن میں سے موجودہ دور اس آخری آدم سے شروع ہوا ہے جس کی پیدائش پر چھ ہزار سال کا عرصہ گزرا ہے پس آدم کی پیدائش سے دنیا کے ایک دور کا آغاز مراد ہے نہ کہ دنیا کی پیدائش کا آغاز.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.” ہم اس مسئلہ میں تو ریت کی پیروی نہیں کرتے کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب سے کہ آدم پیدا ہوا ہے اس دنیا کا آغاز ہوا ہے اور اس سے پہلے کچھ نہیں تھا اور گویا خدا معطل تھا اور نہ ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسل جو اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہے یہ اسی آخری آدم کی نسل ہے.ہم تو اس آدم سے پہلے بھی نسل انسانی کے قائل ہیں جیسا کہ قرآن شریف کے ان الفاظ سے پت لگتا ہے کہ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ، خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی دنیا میں مخلوق موجود تھی پس امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کے لوگوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اسی آخری آدم کی اولاد میں سے ہیں یا کہ کسی دوسرے آدم کی اولاد میں سے.۲ لے فرشتوں کے متعلق بحث کے لئے دیکھو حضرت مسیح موعود کی تصنیف توضیح المرام اور آئینہ کمالات اسلام وغیرہ.الحکم مورخه ۳۰ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۵ کالم نمبر۲ ۳۰

Page 269

۲۵۹ اسی ضمن میں حضرت مسیح موعود نے یہ عقیدہ بھی پیش فرمایا کہ چونکہ خدا کی صفات قدیم سے ہیں اور ان میں مستقل تعطل جائز نہیں اس لئے یہ خیال کرنا کہ کوئی ایسا زمانہ بھی گذرا ہے کہ جب مخلوق کی کوئی نوع بھی دنیا میں موجود نہیں تھی درست نہیں.بلکہ ہر زمانہ میں مخلوق کی کوئی نہ کوئی نوع موجود رہی ہے اور ممکن ہے کہ انسان سے پہلے اس عالم میں مخلوق کی کوئی اور نوع پائی جاتی ہو.چنانچہ فرماتے ہیں:.یہ بات سچ ہے کہ خدا کی صفات خالقیت راز قیت وغیرہ سب قدیم ہیں حادث نہیں ہیں.پس خدا تعالیٰ کی صفات قدیمہ کے لحاظ سے مخلوق کا وجود نوعی طور پر قدیم ماننا پڑتا ہے نہ شخصی طور پر یعنی مخلوق کی نوع قدیم سے چلی آتی ہے.ایک نوع کے بعد دوسری نوع خدا پیدا کرتا چلا آیا ہے.سواسی طرح ہم ایمان رکھتے ہیں اور یہی قرآن شریف نے ہمیں سکھایا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ انسان سے پہلے کیا کیا خدا نے بنایا مگر اس قدر ہم جانتے ہیں کہ خدا کے تمام صفات کبھی ہمیشہ کے لئے معطل نہیں ہوئے.اور خدا تعالیٰ کی قدیم صفات پر نظر کر کے مخلوق کے لئے قدامت نوعی ضروری ہے مگر قدامت شخصی ضروری نہیں.مسئلہ ارتقا.ایک عرصہ سے مسئلہ ارتقا ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے یعنی بعض مغربی محققین کی یہ رائے ہے کہ کسی زمانہ میں انسان موجودہ صورت میں نہیں تھا بلکہ حیوانیت کی ادنیٰ حالت میں زندگی گزارتا تھا.اور پھر آہستہ آہستہ کئی تغیرات کے بعد موجودہ شکل وصورت کو پہنچا ہے.ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ابتداء میں انسان بندر کی شکل پر تھا اور پھر اس سے تدریجا ترقی کر کے انسانی شکل پر آ گیا.سائنس دانوں کا یہ خیال ایک ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی سارے سائنسدان اس خیال کے قائل ہیں مگر اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ زمانہ کے اکثر سائنسدان مسئلہ ارتقا کی اس تھیوری کو سچا سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے اس مخصوص مسئلہ کے متعلق تفصیل کے ساتھ تو نہیں لکھا مگر بہر حال چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۹،۱۶۸

Page 270

۲۶۰ آپ نے اس خیال کو معین صورت میں رد فرمایا ہے کہ انسان بندر سے بنا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:.” ہمارا مذہب یہ نہیں کہ انسان کسی وقت بندر تھا.پھر دم کٹ گئی اور انسان بن گیا.یہ تو صرف دعویٰ ہے اور بار ثبوت مدعی پر ہے.ہم ایسے قصوں پر اپنے ایمان کی بنیاد نہیں رکھ سکتے.موجودہ زمانہ کا عام نظارہ جو ہے وہ یہی ہے کہ بندر سے بندر پیدا ہوتا ہے اور انسان سے انسان.پس جو اس کے خلاف ہے وہ قصہ ہے.واقعی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ انسان ہی سے انسان پیدا ہوتا ہے اور پہلے دن آدم ہی بنا تھا.“ مگر مسئلہ ارتقا کے اس پہلو کو رد کرنے کے باوجود حضرت مسیح موعود ارتقا کے اصول کو فی الجملہ تسلیم فرماتے تھے مثلاً حضرت مسیح موعود کا یہ عقیدہ تھا کہ دنیا کی پیدائش ایک فوری تغیر کی صورت میں نہیں ہوئی بلکہ تدریجی طور پر آہستہ آہستہ ہوئی ہے اور آپ کا یہ عقیدہ اس قرآنی تعلیم کے مطابق تھا جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا نے اس دنیا کو درجہ بدرجہ پیدا کیا ہے.اسی طرح آپ انسانی پیدائش میں بھی تدریجی خلق کے قائل تھے مگر اس بات کے قائل نہیں تھے کہ انسان کسی وقت بندر تھا اور پھر آہستہ آہستہ انسان بن گیا.اور قرآن شریف نے جو یہ بیان کیا ہے کہ خدا نے زمین و آسمان اور ان کی درمیانی چیزوں کو چھ دن میں بنایا اس کی تشریح حضرت مسیح موعود یہ فرماتے تھے کہ یہاں دن سے مراد یہ چوبیس گھنٹے والا دن نہیں ہے کیونکہ یہ دن تو خلق عالم کے بعد وجود میں آیا ہے بلکہ دن سے مراد ایک لمبا زمانہ ہے جیسا کہ مثلاً قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسانوں کی شمار کے لحاظ سے خدا کا ایک دن پچاس ہزار سال کا ہوتا ہے.کے تمام قوموں میں رسول آئے ہیں :.ایک اور نیا خیال حضرت مسیح موعود نے دنیا کے سامنے یہ پیش کیا کہ یہ درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف خاص خاص قوموں یا خاص خاص ملکوں کی طرف ہی اپنے رسول بھیجے ہی اور دوسری قوموں اور دوسرے ملکوں کو بھلائے رکھا ہے بلکہ اس نے اپنی بدر جلد نمبر ۲۱ مورخہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء صفحه کالم نمبر ۳ و الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵ مورخہ ۳۰ رمئی ۱۹۰۸، صفحه ۵ کالم نمبر ۳.تلخیص از چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۲۳

Page 271

۲۶۱ وسیع رحمت کے ماتحت ہر قوم میں رسول بھیجے ہیں اور دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو اس کی اس رحمت سے محروم رہی ہو.بے شک قرآن شریف نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے اور مسلمان اس تعلیم پر اجمالی ایمان لاتے رہے ہیں.مگر ان کی توجہ کبھی بھی اس مضمون کی تفصیلات کی طرف مبذول نہیں ہوئی اور نہ کبھی انہوں نے قرآن شریف کے بیان کردہ رسولوں کے سوا کسی اور قوم کے مذہبی پیشوا کی رسالت کو تصریحاً تسلیم کیا.لیکن حضرت مسیح موعود نے قرآن شریف کے اس پیش کردہ اصول کو ایسی تفصیل اور تعیین کے ساتھ بیان کیا کہ گویا دنیا میں ایک نئی صداقت کا دروازہ کھل گیا اور بین الاقوام تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لئے ایک نہایت موثر خیال ہاتھ میں آ گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے اس قرآنی آیت کو لے کر اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں رسول بھیجے ہیں تشریح اور تکرار کے ساتھ لکھا کہ جس طرح خدا تمام دنیا کی مادی ضروریات کو پورا فرماتا ہے اسی طرح وہ روحانی میدان میں بھی ہر قوم کی اصلاح اور کی طرف توجہ کرتا رہا ہے اور دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میں کسی نہ کسی زمانہ میں خدا کی طرف سے کوئی نہ کوئی رسول نہ آیا ہو.آپ نے لکھا کہ چونکہ خدا سارے ملکوں اور ساری قوموں کا ایک سا خدا ہے اس لئے اس نے کسی قوم کو بھی فراموش نہیں کیا اور ہر قوم کی طرف اپنے رسول بھیج کر اپنی عالمگیر خدائی اور وسیع رحمت کا ثبوت دیا ہے حضرت مسیح موعود نے اس اصول کو محض ایک فلسفہ تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ عملاً نام لے لے کر اعلان کیا کہ دنیا کی مختلف قوموں میں جو جو رسول یا اوتار یا مصلح گزرے ہیں وہ سب خدا کی طرف سے تھے اور ہم ان کی صداقت کے قائل ہیں اور ان کی اسی طرح عزت کرتے ہیں جس طرح ایک بچے رسول کی کرنی چاہئے.آپ کے اس اعلان نے بین الاقوام تعلقات میں ایک انقلاب کی صورت پیدا کر دی اور جو قو میں اس سے پہلے رقیب اور مد مقابل کی صورت میں نظر آتی تھیں اب ایک ہی درخت کی شاخیں اور ایک ہی باپ کی اولاد کے رنگ میں نظر آنے لگیں.مگر اس اعلان کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود نے یہ تشریح فرمائی کہ دوسری قوموں کے مذہبی بانیوں کو مان لینے سے ہماری یہ مراد نہیں ہے کہ ہم ان کی اس تعلیم کو بھی مانتے ہیں جو آجکل ان کی

Page 272

۲۶۲ طرف منسوب کی جاتی ہے کیونکہ یہ تعلیم دو لحاظ سے ہمارے لئے قابل عمل نہیں.اول اس لئے کہ یہ تعلیم مرور زمانہ سے اپنی اصل حقیقت اور اصل صورت سے منحرف ہو چکی ہے دوسرے اس لئے کہ قرآن شریف کے نزول کے بعد جو سارے ملکوں اور ساری قوموں اور سارے زمانوں کے لئے ہے تمام سابقہ شریعتیں جو زمانی اور مکانی اور قومی حدود میں مقید تھیں منسوخ ہو چکی ہیں.پس آپ نے فرمایا کہ ہم اس وقت عملاً صرف قرآنی شریعت کو مانیں گے مگر ویسے اصولاً ہم تمام قوموں کے رسولوں، رشیوں اور او تاروں اور مصلحوں کو سچا سمجھتے ہیں اور ان کی اسی طرح عزت کرتے ہیں جس طرح ایک سچے رسول کی کرنی چاہیئے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدددینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا.یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا.اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے گئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے.پھر فرماتے ہیں:.اسی عظیم الشان نبی نے ہمیں سکھایا ہے کہ جن جن نبیوں اور رسولوں کو دنیا کی قو میں مانتی چلی آئی ہیں اور خدا نے عظمت اور قبولیت ان کی دنیا کے بعض حصوں میں پھیلا دی ہے وہ درحقیقت خدا کی طرف سے ہیں اور ان کی آسمانی کتابوں ا تحفہ قیصریه ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۵۹

Page 273

۲۶۳ میں گو دور دراز زمانہ کی وجہ سے کچھ تبدیل تغییر ہوگئی ہو یا ان کے معنے خلاف حقیقت سمجھے گئے ہوں مگر دراصل وہ کتا بیں من جانب اللہ اور عزت اور تعظیم کے لائق ہیں.“ سچا مذہب اسی دنیا میں پھل دیتا ہے:.ایک اور لطیف انکشاف حضرت مسیح موعود نے یہ فرمایا کہ بچے مذہب کی یہ علامت ہے کہ وہ اپنے متبعین کو صرف آئندہ کے وعدہ پر نہیں رکھتا بلکہ اسی زندگی میں ایمان کے شیریں اثمار چکھا دیتا ہے.یہ اصول قرآن شریف میں موجود تھا جیسا کہ فرمایا:.وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَان لے د یعنی جو شخص خدا کا تقویٰ اختیار کر کے روز جزا کو یا د رکھتا ہے اسے دو جنتیں ملیں گی ایک آخرت میں اور ایک اسی دنیا میں یعنی اسی دنیا سے اس کے لئے جنتی زندگی کا آغاز ہو جائے گا اور وہ اسی زندگی میں خدا کے قرب کی ٹھنڈک کو محسوس کرنے لگے گا.“ پھر فرماتا ہے:.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ یعنی جو لوگ دل سے خدائے واحد کو اپنا رب مان لیتے ہیں اور پھر اس عقیدہ پر پختہ طور پر جم جاتے ہیں ان پر اسی دنیا میں خدا کے فرشتے نازل ہو کر انہیں تسلی دیتے ہیں کہ تم کسی قسم کا خوف نہ کرو اور نہ کوئی غم کرو اور اس جنت کی اسی دنیا میں بشارت حاصل کرو جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.“ مگر باوجود قرآن شریف میں ان آیات کو پڑھتے ہوئے مسلمان ان کے مفہوم سے بالکل نے چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸۲٬۳۸۱ ۲ الرحمن: ۴۷ تم السجدہ: ۳۱

Page 274

۲۶۴ بے خبر تھے اور دوسری قوموں کی طرح اس خام خیالی پر تسلی پائے ہوئے تھے کہ دنیا میں صرف عمل ہی عمل ہے اور جزا کا پہلو کلیہ آخرت کے ساتھ مخصوص ہے.حضرت مسیح موعود نے اس باطل خیال کو بختی کے ساتھ روفر مایا اور تشریح کے ساتھ بیان کیا کہ اگر دنیا میں صرف وعدہ ہی وعدہ ہے اور آخرت کی بہشتی زندگی کا کوئی اثر دنیا کی زندگی میں ظاہر نہیں ہوتا تو پھر یہ عمل وجزا کا سارا سلسلہ ایک جوئے کی کھیل سے زیادہ نہیں جس کے متعلق انسان کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا.آپ نے بڑے زور کے ساتھ لکھا کہ حقیقی نجات وہی ہے جس کا آغاز اسی دنیا سے ہو جاتا ہے اور سچا مذہب وہی ہے جو اپنے ماننے والوں کو اسی زندگی میں ایمان کا شیریں پھل چکھا دیتا ہے اور صرف آخرت کے موہوم وعدہ پر نجات کی بنیاد نہیں رکھتا.آپ نے دوسری قوموں کو بھی متنبہ فرمایا کہ وہ صرف آنے والی زندگی کے خالی وعدوں پر تسلی نہ پائیں اور اگر ان کا مذہب ان کے لئے اسی دنیا میں جنتی زندگی کی داغ بیل قائم نہیں کرتا تو قبل اس کے کہ موت ان کے لئے تلاش کا رستہ بند کر دے وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور اس مذہب کی تلاش میں لگ جائیں جو آخرت کے وعدہ کے ساتھ ساتھ جنت کا کچھ نمونہ اس دنیا میں بھی پیش کر دیتا ہے.آپ نے لکھا کہ اسلام کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس پر ایمان لا کر اور اس کے حکموں پر چل کر انسان اسی دنیا میں خدا کو پالیتا ہے اور یہ پانا ایک خیالی فلسفہ کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ ایک زندہ حقیقت کا رنگ رکھتا ہے یعنی اس مقام پر پہنچ کر خدا اپنے بندے کی دعاؤں کو سنتا اور اپنے کلام سے اس کو مشرف کرتا اور اس کے لئے اپنی قدرت کے جلوے دکھاتا ہے اور ہر رنگ میں اس پر ثابت کر دیتا ہے کہ میں تیرازندہ اور قادر خدا ہوں اور میری نصرت کا ہاتھ تیری زندگی کے ہر قدم میں تیرے ساتھ ہے.ایسے شخص کے لئے آخرت کی زندگی ایک خالی وعدہ نہیں رہتی بلکہ دنیا کی زندگی کا ایک خوش کن تسلسل بن جاتی ہے اور گو بہر حال مکمل اور تفصیلی اجر کا گھر تو آخرت ہی ہے مگر اس کی جھلک اسی دنیا میں نظر آ جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود نے اپنے مخالفوں کو بلایا کہ آؤ اور میرے ساتھ ہوکر اس بہشتی جھلک کا نظارہ دیکھ لویلے لے اس اصول کی تشریح کے لئے دیکھو حضرت مسیح موعود کی کتب کشتی نوح اور لیکچر لا ہور اور براہین احمدیہ حصہ پنجم وغیرہ

Page 275

۲۶۵ قرآن میں کوئی آیت منسوخ نہیں :.مسلمانوں میں جہاں اور بہت سی غلطیاں آگئی تھیں وہاں ایک غلط خیال ان میں یہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ نعوذ باللہ سارا قرآن شریف قابل عمل نہیں بلکہ اس کی بعض آیتیں منسوخ ہو چکی ہیں.اس گندے عقیدے نے یہاں تک زور پکڑا تھا کہ بعض لوگوں نے تو قرآن شریف کی کئی سو آیات منسوخ قرار دے دیں اور اس خیال نے بعض بڑے عالموں کے دل و دماغ پر بھی قبضہ پالیا.اس طرح نہ صرف خدا کی اس وسیع رحمت کو جو قرآن شریف کے ذریعہ نازل ہوئی محدود کر دیا گیا بلکہ نسخ کے دروازہ کو کھول کر گویا سارے قرآن کو ہی یقین اور قطعیت کے مقام سے گرا کر شک کے گڑھے میں اتار دیا گیا.حضرت مسیح موعود نے بڑی سختی کے ساتھ اس بیہودہ عقیدہ کور دفرمایا اور لکھا کہ جن لوگوں نے قرآنی آیات کو منسوخ قرار دیا ہے یہ ان کی اپنی کم علمی اور کو تہ نظری کی علامت ہے کیونکہ اگر انہیں کسی آیت کے معنے واضح نہیں ہوئے تو انہوں نے اسے اپنی کم نہی کی طرف منسوب کرنے کی بجائے قرآن کی طرف منسوب کر دیا.آپ نے لکھا کہ کسی آیت کو منسوخ ہونا تو در کنار قرآن شریف کا ایک نقطہ اور شععہ بھی منسوخ نہیں اور الحمد سے لے کر والناس تک سارا قرآن واجب العمل اور سراسر رحمت ہی رحمت ہے.چنانچہ فرماتے ہیں:.جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہرگز داخل نہیں ہوگا.سوتم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تا تم اسی کے لئے پکڑے نہ جاؤ ! پھر فرماتے ہیں:.علماء نے مسامحت کی راہ سے بعض احادیث کو بعض آیات کی ناسخ ٹھہرایا ہے حق یہی ہے کہ حقیقی نسخ اور حقیقی زیادت قرآن پر جائز نہیں کیونکہ اس سے اس کی تکذیب لازم آتی ہے.“ ہے کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۵ ۲۶ ۲ الحق لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۹۳٬۹۲

Page 276

۲۶۶ قرآن شریف کو حدیث پر فضیلت ہے:.ایک اور بڑی غلطی جو مسلمانوں میں پیدا ہوگئی تھی یہ تھی کہ مسلمانوں کے ایک متعد بہ حصہ نے عملاً یہ عقیدہ بنا رکھا تھا کہ حدیث قرآن شریف پر حاکم اور قاضی ہے اور اگر کسی صحیح دیث سے کوئی بات ثابت ہو جاوے اور قرآن کی کوئی آیت اس کے خلاف ہو تو یا تو آیت کو منسوخ سمجھ لینا چاہئے اور یا حدیث کے مطابق آیت کے معنے ہونے چاہئیں.حضرت مسیح موعود نے اس عقیدہ کو بڑی سختی کے ساتھ رد فرمایا اور لکھا کہ اصل چیز جس پر اسلام کی بنیاد ہے وہ قرآن شریف ہے نہ کہ حدیث جو آنحضرت ﷺ کے ڈیڑھ دوسو سال بعد عالم وجود میں آئی ہے.آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن شریف کے ساتھ خدا کا خاص حفاظت کا وعدہ ہے جو حدیث کے ساتھ ہر گز نہیں.پس قرآن کے مقابل پر حدیث کو کوئی وزن حاصل نہیں اور جو حدیث کسی قرآنی آیت سے ٹکرائے اور تطابق کی کوئی صورت نہ ہو سکے تو وہ اس سے زیادہ حق نہیں رکھتی کہ اسے غلط سمجھ کر ردی کی طرح پھینک دیا جائے.آپ نے لکھا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسی حدیث آنحضرت ﷺ کا قول ہے اور پھر بھی ہم اسے رد کرتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کا قول ہی نہیں اور غلط طور پر آپ کی طرف منسوب ہوئی ہے.اسی بحث کے دوران میں حضرت مسیح موعود نے ایک اور لطیف حقیقت کا بھی انکشاف فرمایا اور وہ یہ کہ آپ نے بتایا کہ قرآن شریف اور حدیث کے علاوہ ایک تیسری چیز بھی ہے جس کا نام سنت ہے.آپ نے لکھا کہ یہ جو مسلمانوں کا عام طریق ہے کہ حدیث کو ہی سنت کا نام دے دیتے ہیں یہ درست نہیں بلکہ سنت ایک بالکل جدا چیز ہے جسے حدیث سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جہاں حدیث ان زبانی اقوال کا نام ہے جو راویوں کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کے ڈیڑھ دوسوسال بعد جمع کئے گئے وہاں سنت کسی قولی روایت کا نام نہیں بلکہ آنحضرت ہے کے اس تعامل کا نام ہے جو حدیثوں کے واسطے سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے مجموعی تعامل کے ذریعہ ہمیں پہنچا ہے.مثلا قرآن شریف میں نماز کا حکم نازل ہوا اور پھر اس کی عملی صورت کو آنحضرت ﷺ نے اپنی زندگی میں کر کے بتا

Page 277

۲۶۷ دیا کہ نماز اس طرح پڑھنی چاہئے اور یہ عملی صورت کسی روایت کے ذریعہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے مسلسل تعامل کے ذریعہ بعد کے لوگوں تک پہنچی.یہ وہ چیز ہے جس کا نام سنت ہے اور جو حدیث سے بالکل الگ ہے.اس طرح حضرت مسیح موعود نے گویا اسلامی تعلیم کے تین ماخذ قرار دیئے.اوّل قرآن شریف جو خدا کا کلام ہے اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہی پوری طرح محفوظ ہو کر یقینی اور قطعی شہادت کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے.دوسرے سنت یعنی آنحضرت ﷺ کا عمل جو کسی زبانی روایت کے ذریعہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے مسلسل تعامل کے واسطے سے نیچے آیا ہے.اور تیسرے حدیث جوان اقوال کے مجموعہ کا نام ہے جو راویوں کے سینے سے جمع کئے جا کر آنحضرت ﷺ کے ڈیڑھ دوسوسال بعد ضبط میں آئے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ میں حدیث کے رتبہ کو کم نہیں کرنا چاہتا اور اپنی جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے والی صحیح حدیثوں کو انتہائی عزت سے دیکھے اور ان پر عمل کرے مگر بہر حال حدیث کا مرتبہ قرآن وسنت کے مقابل پر بہت ادنیٰ ہے اور اگر قرآن و حدیث میں کوئی تعارض پیدا ہو اور تطبیق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو سکے تو لازماً قرآن کو اختیار کر کے حدیث کو ترک کر دیا جائے گا کیونکہ حدیث قرآن پر قاضی نہیں بلکہ قرآن حدیث پر قاضی ہے.قرآن شریف کے معانی غیر محدود ہیں:.ایک اور نہایت اہم اور نہایت لطیف انکشاف جو حضرت مسیح موعود نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جس نے اسلامک ریسرچ میں گویا ایک انقلابی صورت پیدا کر دی اور نئے علوم کے لئے ایک نہایت وسیع دروازہ کھول دیا یہ تھا کہ آپ نے خدا سے علم پا کر اعلان فرمایا کہ جیسا کہ عام طور پر مسلمانوں میں خیال کیا جاتا ہے یہ بات ہرگز درست نہیں کہ قرآن شریف کے معانی اس محدود تفسیر میں محصور ہیں جو حدیث یا گذشتہ مفسرین نے بیان کر دی ہے بلکہ قرآن کے معانی غیر محدود اور غیر متناہی ہیں اور خدا نے یہ انتظام اس لئے فرمایا ہے کہ تا ہر زمانہ کی لے اس بحث کے لئے دیکھو الحق لدھیانہ دوکشتی نوح دور یویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی

Page 278

۲۶۸ ضرورت کے مطابق قرآن شریف کے نئے نئے معانی ظاہر ہو کر اسلام کی صداقت پر دلیل بنتے رہیں.اس مضمون کو واضح کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود نے ایک نہایت لطیف مثال بھی بیان فرمائی اور وہ یہ کہ جس طرح یہ مادی عالم ہمیشہ سے ایک ہی چلا آیا ہے مگر اس کے مخفی خزانے غیر متناہی ہیں اور ان کا ظہور کسی ایک زمانہ کے ساتھ وابستہ نہیں رہا بلکہ ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق صحیفہ فطرت کے مخفی خزانے نئے سے نئے رنگ میں ظاہر ہوتے رہے ہیں.اسی طرح قرآن شریف بھی جو ایک روحانی عالم ہے اپنے اندر غیر متناہی خزانے رکھتا ہے جن کا ظہور کسی ایک زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں.مثلاً آدم کے وقت میں بھی یہی مادی دنیا تھی اور پھر موسیٰ کے وقت میں بھی یہی دنیا تھی اور پھر آنحضرت ﷺ کے وقت میں بھی یہی دنیا تھی اور اب موجودہ زمانہ میں بھی یہی دنیا ہے مگر باوجود اس کے اس مادی دنیا نے اپنے سارے مخفی خزانے ایک وقت میں باہر نکال کر نہیں رکھ دیئے بلکہ کچھ حقائق آج سے ہزاروں سال پہلے ظاہر ہو گئے تھے اور کچھ درمیانی زمانہ میں ظاہر ہوئے اور بہت سے اب موجودہ زمانہ میں ظاہر ہو رہے ہیں حالانکہ یہ صحیفہ فطرت پہلے بھی وہی تھا جواب ہے.اسی طرح آپ نے لکھا کہ قرآن شریف گو بظاہر ایک چھوٹی سی کتاب ہے مگر اللہ کی حکیمانہ قدرت نے اسے ایک روحانی عالم کی صورت دی ہے اور یہ مقدر کیا ہے کہ ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق قرآن کے مخفی حقائق و معارف ظاہر ہوتے رہیں.بلکہ جس طرح موجودہ زمانہ میں مادی عالم کے خزانوں کے اظہار کا خاص طور پر زور ہے اور دنیا اپنی گونا گوں مخفی طاقتوں کو باہر نکال نکال کر مخلوق کی خدمت میں لگا رہی ہے اسی طرح موجودہ زمانہ کے لئے یہ بھی مقدر تھا کہ اس میں قرآن کے روحانی خزانے بھی پورے زور اور کثرت کے ساتھ دنیا کے سامنے آجائیں تا کہ ان مادی طاقتوں کا مقابلہ ہو سکے جو مادی لوگوں کی غلطی اور کم نہی کی وجہ سے روحانی طاقتوں کے مقابلہ کے لئے استعمال میں لائی جارہی ہیں.الغرض حضرت مسیح موعود نے اس خیال کو سختی کے ساتھ ردفرمایا کہ قرآن شریف کی تفسیر سابقہ معانی پر ختم ہو چکی ہے اور بڑے زور دار رنگ میں لکھا کہ صحیفہ فطرت کے خزانوں کی طرح قرآنی علوم بھی غیر محدود ہیں اور کبھی ختم نہیں ہوں گے مگر ان کا انکشاف ضرورت کے مطابق آہستہ آہستہ ہو گا.

Page 279

۲۶۹ اس طرح آپ نے اس اعتراض کا بھی قلع قمع کر دیا جو اس زمانہ میں نئی روشنی کے دلدادگان کی طرف سے حامیان اسلام کے خلاف کیا جاتا تھا کہ تم ہمیں ایک ایسی کتاب کی طرف لے جانا چاہتے ہو جو آج سے تیرہ سو سال پہلے نازل ہوئی تھی.کیونکہ اگر آدم کے وقت کا مادی عالم آج کے ترقی یافتہ لوگوں کی مادی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے تو آنحضرت ﷺ کے زمانہ کا روحانی عالم موجودہ زمانہ کی روحانی ضروریات کے لئے کیوں کافی نہیں ہو سکتا ؟ ہاں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مادی دنیا کے سائنس دانوں کی طرح کوئی روحانی استاد اس روحانی عالم کی گہرائیوں میں سے نئے نئے خزانے نکال کر دنیا کے سامنے لائے اور حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ میری بعثت کی یہی غرض ہے کہ میں موجودہ زمانہ کی روحانی پیاس کو ایک پرانے برتن میں سے تازہ شراب نکال کر بجھاؤں.حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں:.جاننا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک اہل زبان پر روشن ہوسکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر ایک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یورپین یا امریکن.یاکسی اور ملک کا ہوملزم وساکت ولا جواب کر سکتے ہیں وہ غیر محدود معارف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں اور ہر ایک زمانہ کے خیالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں...اے بندگان خدا یقیناً یاد رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہر ایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور ہر یک زمانہ اپنی نئی حالت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کرتا ہے یا جس قسم کے اعلیٰ معارف کا دعویٰ کرتا ہے اس کی پوری مدا فعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف ا موجود ہے.کوئی شخص برہمو ہو یا بدھ مذہب والا یا آریہ یا کسی اور رنگ کا میں

Page 280

۲۷۰ فلسفی کوئی ایسی الہی صداقت نکال نہیں سکتا جو قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہ ہو.قرآن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور جس طرح صحیفۂ فطرت کے عجائب و غرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں یہی حال ان صحف مطہرہ کا ہے تا خدائے تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو.“ پھر فرماتے ہیں:.یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم بذات خود معجزہ ہے اور بڑی بھاری وجہ اعجاز کی اس میں یہ ہے کہ وہ جامع حقائق غیر متناہیہ ہے مگر بغیر وقت کے وہ ظاہر نہیں ہوتے بلکہ جیسے جیسے وقت کے مشکلات تقاضا کرتے ہیں وہ معارف خفیہ ظاہر ہوتے جاتے ہیں.دیکھو د نیوی علوم جوا کثر مخالف قرآن کریم اور غفلت میں ڈالنے والے ہیں کیسے آجکل ایک زور سے ترقی کر رہے ہیں اور زمانہ اپنے علوم ریاضی اور طبعی اور فلسفہ کی تحقیقاتوں میں کیسی ایک عجیب طور کی تبدیلیاں دکھلا رہا ہے.کیا ایسے نازک وقت میں ضرور نہ تھا کہ ایمانی اور عرفانی ترقیات کے لئے بھی دروازہ کھولا جا تا تا شرور محدثہ کی مدافعت کے لئے آسانی پیدا ہو جاتی.سو یقیناً سمجھو کہ وہ دروازہ کھولا گیا ہے اور خدا تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ تا قرآن کریم کے عجائبات مختفیہ اس دنیا کے متکبر فلسفیوں پر ظاہر کرے.“ نبوت کا سلسلہ بند نہیں ہوا :.ایک اور بڑی اصلاح جو حضرت مسیح موعود نے مسلمانوں کے خیالات میں فرمائی وہ مسئلہ نبوت کے متعلق تھی.کئی صدیوں کے تنزل کے زمانہ میں ہمتوں کے پست ہو جانے کی وجہ سے اور بعض قرآنی آیات اور احادیث کا غلط مطلب سمجھنے کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۵ تا ۲۵۸ ۲ از اله او بام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۶، ۴۶۷

Page 281

۲۷۱ میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور اب کوئی شخص نبوت کے مقام پر فائز نہیں ہو سکتا.اس خیال نے مسلمانوں کی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیا تھا کہ وہ امت محمدیہ میں نبوت کے اجراء کو آنحضرت ﷺ کے لئے باعث ہتک اور اسلام کے لئے موجب ذلت خیال کرنے لگے تھے حضرت مسیح موعود نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ یہ عقیدہ بالکل خلاف تعلیم اسلام اور خلاف عقل ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی ایسے نبی کا آنا جو آپ کے خادموں میں سے ہو اور آپ کی وساطت سے نبوت کا انعام پائے اور اس کی بعثت کی غرض اسلام کی تجدید اور اسلام کی اشاعت ہو آنحضرت ﷺ کی شان کو گرانے والا نہیں بلکہ بلند کرنے والا اور اسلام کی اکملیت کو ظاہر کرنے والا ہے.مگر افسوس ہے کہ ابھی تک ہمارے مخالفین نے اس نکتہ کی قدر نہیں کی ورنہ وہ حضرت مسیح موعود پر اعتراض کرنے کی بجائے آپ کے شکر گزار ہوتے کہ آپ نے اس حقیقت کا انکشاف کر کے مسلمانوں کی جھکی ہوئی گردنوں کو بلند کر دیا.چونکہ اس مضمون پر ایک مفصل نوٹ اوپر گزر چکا ہے اس لئے اس جگہ صرف اس قدر اشارہ پر اکتفا کر کے ہم اگلے سوال کو لیتے ہیں.الہام کی حقیقت :.سلسلہ الہام کے متعلق مسلمانوں کی اس غلطی کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ ان کا ایک معتد بہ حصہ اس زمانہ میں الہام کے دروازہ کو بند قرار دیتا تھا.اس کے علاوہ الہام کے متعلق مسلمانوں کا ایک فریق اس غلطی میں بھی مبتلا تھا کہ الہام الفاظ کی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ وہ اچھے خیالات جو انسان کے دل میں اچانک گزر جاتے ہیں وہی الہام ہیں.حضرت مسیح موعود نے اس خیال کی سختی سے تردید فرمائی اور فرمایا کہ الہام اور وحی کی گوکئی اقسام ہیں مگر زیادہ ارفع اور زیادہ پختہ قسم لفظی الہام ہے جو خدا کی طرف سے اسی طرح انسان تک پہنچتا ہے جس طرح کہ ایک دوسرے شخص کی آواز اس کے کانوں تک پہنچتی ہے.آپ نے ثابت کیا کہ قرآنی وحی بھی اسی نوع میں داخل تھی چنانچہ سارا قرآن شریف آنحضرت ﷺ پر لفظاً نازل ہوا تھا اور نہ صرف قرآن شریف کے معانی بلکہ اس کا

Page 282

۲۷۲ ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف خدا کا کلام ہے.آپ نے بتایا کہ اگر محض دل کے اچھے خیالات کا نام الہام ہو تو اس طرح تو ہر مصنف اور ہر مقرر اور ہر شاعر اور ہر محقق اور ہر سائنسدان ملہم قرار پائے گا کیونکہ اس قسم کے فوری خیالات ہر انسان کے دل پر گزرتے رہتے ہیں بلکہ اس تعریف کے ماتحت ایک چور بھی ملہم سمجھا جائے گا کیونکہ اس کے دل پر بھی بسا اوقات دوسروں کا مال لوٹنے کے لئے بڑے بڑے باریک اور اچھوتے خیالات گزر جاتے ہیں.غرض آپ نے اپنے تجربہ اور قرآنی آیات و احادیث سے ثابت کیا کہ الہام کی یہ تعریف بالکل غلط ہے اور حقیقی الہام وہی ہے جو خدا کی طرف سے معین الفاظ کی صورت میں انسان تک پہنچتا ہے اور یہ الہام اپنے ساتھ ایک خاص قسم کی شان اور لطافت اور تاثیر رکھتا ہے جولفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی.چنانچہ حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں:.الہام کے الفاظ سے اس جگہ یہ مراد نہیں کہ سوچ اور فکر کی کوئی بات دل میں پڑ جائے جیسا کہ جب شاعر شعر کے بنانے میں کوشش کرتا ہے یا ایک مصرع بنا کر دوسرا سو چتا رہتا ہے تو دوسرا مصرع دل میں پڑ جاتا ہے سو یہ دل میں پڑ جانا الہام نہیں بلکہ یہ خدا کے قانونِ قدرت کے موافق اپنے فکر اور سوچ کا ایک نتیجہ ہے اگر صرف دل میں پڑ جانے کا نام الہام ہے تو پھر ایک بدمعاش شاعر جو راستبازی اور راستبازوں کا دشمن اور ہمیشہ حق کی مخالفت کے لئے قدم اٹھاتا اور افتراؤں سے کام لیتا ہے خدا کا ملہم کہلائے گا.دنیا میں ناولوں وغیرہ میں جادو بیانیاں پائی جاتی ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ اس طرح سراسر باطل مگر مسلسل مضمون لوگوں کے دل میں پڑتے ہیں.پس کیا ہم ان کو الہام کہہ سکتے ہیں؟ بلکہ اگر الہام صرف دل میں بعض باتیں پڑ جانے کا نام ہے تو ایک چور بھی مہم کہلا سکتا ہے کیونکہ وہ بسا اوقات فکر کر کے اچھے اچھے طریق نقب زنی کے نکال لیتا ہے اور عمدہ عمدہ تدبیریں ڈا کہ مارنے اور خون ناحق کرنے کی اس کے دل میں گزر جاتی

Page 283

۲۷۳ نہیں.ہیں.تو کیا لائق ہے کہ ہم ان تمام نا پاک طریقوں کا نام الہام رکھ دیں؟ ہرگز الہام کیا چیز ہے؟ وہ پاک اور قادر خدا کا ایک برگزیدہ بندہ کے ساتھ یا اس کے ساتھ جس کو برگزیدہ کرنا چاہتا ہے ایک زندہ اور با قدرت کلام کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے...خدا کے الہام میں یہ ضروری ہے کہ جس طرح ایک دوست دوسرے دوست سے مل کر باہم ہمکلام کرتا ہے اسی طرح رب اور اس کے بندے میں ہم کلامی واقع ہو لے اور اپنا ذاتی تجربہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ :.وحی آسمان سے دل پر ایسی گرتی ہے جیسے کہ آفتاب کی شعاع دیوار پر.میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب مکالمہ الہیہ کا وقت آتا ہے تو اول یک دفعہ مجھ پر ایک ر بودگی طاری ہوتی ہے.تب میں ایک تبدیل یافتہ چیز کی مانند ہو جاتا ہوں اور میری حس اور میرا ادراک اور ہوش گوبگفتن باقی ہوتا ہیں مگر اس وقت میں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقت نے میرے تمام وجود کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اور اس وقت احساس کرتا ہوں کہ میری ہستی کی تمام رگیں اس کے ہاتھ میں ہیں اور جو کچھ میرا ہے اب وہ میرا نہیں بلکہ اس کا ہے.جب یہ حالت ہو جاتی ہے تو اس وقت سب سے پہلے خدا تعالیٰ دل کے ان خیالات کو میری نظر کے سامنے پیش کرتا ہے جن پر اپنے کلام کی شعاع ڈالنا اس کو منظور ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک خیال..دل میں آیا تو جھٹ اس پر ایک ٹکڑا کلام الہی کا ایک شعاع کی طرح گرتا ہے اور بسا اوقات اس کے گرنے کے ساتھ تمام بدن ہل جاتا ہے.“ سے اس تحریر میں حضرت مسیح موعود نے الہام کی جو تم بیان فرمائی ہے یہ وحی الہی کی متعدد اقسام اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلده صفحه ۴۳۷ تا ۴۴۰ ۲ برکات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۲ حاشیہ

Page 284

۲۷۴ میں سے ایک قسم ہے اور دوسری جگہ آپ نے دوسری اقسام کا بھی ذکر فرمایا ہے مگر بہر حال آپ نے اس خیال کو سختی کے ساتھ رد فرمایا ہے کہ دل میں گزرنے والے خیالات کا نام ہی الہام ہے اور آپ نے اپنی متعدد کتب میں الہام الہی کی اقسام اور اس کی نشانیاں اور اس کے پر کھنے کے طریقے بھی بیان فرمائے ہیں مگر اس مختصر رسالہ میں ان سارے مضامین کی گنجائش نہیں.جہاد کی حقیقت:.ایک اور اہم مسئلہ جس میں موجودہ زمانہ کے مسلمان سخت غلطی میں مبتلا تھے جہاد کا مسئلہ ہے.مسلمانوں کا عام طور پر یہ خیال ہو رہا تھا کہ دین چونکہ ایک سچائی ہے اس لئے اس کے معاملہ میں جبر کرنا جائز ہے اور یہ کہ اسلام نے دوسری قوموں کے خلاف تلوار اٹھانے کی تحریک کی ہے اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایک مہدی کو مبعوث کرے گا جو روئے زمین کے تمام کافروں کے ساتھ جنگ کر کے یا تو انہیں مسلمان بنالے گا اور یا تلوار کی گھاٹ اتار دے گا.حضرت مسیح موعود نے قرآن و حدیث اور عقل خداداد سے اس بات کو ثابت کیا کہ یہ عقیدہ صحیح اسلامی تعلیم کے سراسر خلاف اور دنیا میں سخت فتنہ و فساد کا باعث ہے.قرآن شریف صاف اور صریح الفاظ میں تعلیم دیتا ہے کہ لَا إِكْرَاهَ فِی الدّین یعنی دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہئے اور قرآن وحدیث اور تاریخ ہر سہ سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کفار کو تہ تیغ کرنے یا ان کو جبراً مسلمان بنانے کے لئے تلوار نہیں اٹھائی تھی بلکہ کفار کے مظالم اور خونی کارروائیوں سے تنگ آکر محض دفاع کے طور پر تلوار اٹھائی تھی اور مہدی کے متعلق حضرت مسیح موعود نے ثابت کیا کہ یہ خیال قطعاً درست نہیں کہ اسلام نے کسی خونی مہدی کا وعدہ دیا ہے.آنحضرت ﷺ نے کوئی ایسی خبر نہیں دی.بے شک آپ نے ایک مہدی کی پیشگوئی فرمائی تھی مگر ساتھ ہی فرما دیا تھا کہ مہدی اور مسیح موعود ایک ہی وجود ہیں اور یہ کہ جنگ کرنا تو در کنار مسیح موعود ایسے زمانہ میں ظاہر ہوگا کہ جو امن کا زمانہ ہوگا اور اس کی جنگ دلائل اور براہین کی جنگ ہوگی نہ کہ نیزہ و تلوار اور تیر و تفنگ کی.البقرة: ۲۵۷

Page 285

۲۷۵ آپ نے فرمایا کہ خدائی پیشگوئیوں میں بسا اوقات استعارہ کے رنگ میں کلام ہوتا ہے مگر ناسمجھ لوگ اسے حقیقت پر محمول کر لیتے ہیں چنانچہ مسیح و مہدی کے متعلق جو اس قسم کے الفاظ آتے ہیں کہ اس کے دم سے کا فر مریں گے یا یہ کہ وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا وغیرہ وغیرہ اس سے کم علم لوگوں نے خیال کر لیا کہ شاید ان الفاظ میں ایک جنگ کرنے والے مصلح کی خبر دی گئی ہے حالانکہ یہ سب استعارے تھے جن سے نشانات اور دلائل کی جنگ مراد تھی نہ کہ تیر و کمان کی جنگ.چنانچہ اگر ایک طرف مسیح و مہدی کے متعلق اس قسم کے جنگی الفاظ بیان ہوئے ہیں تو دوسری طرف اسلامی پیشگوئیوں میں صراحت کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ مسیح کا کام امن کے طریق پر ہوگا اور اس کے زمانہ میں جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے گی.علاوہ ازیں جب قرآن شریف نے اصولی طور پر یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ دین کے معاملہ میں جبر جائز نہیں تو اب کسی پیشگوئی کے ایسے معنے کرنا جو اس اصولی تعلیم کے خلاف ہوں ہرگز درست نہیں ہوسکتا.عقلاً بھی آپ نے بتایا کہ جبر کا طریق نہ صرف فتنہ و فساد کا طریق ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں کبھی بھی دلوں کی اصلاح جو دین کی اصل غرض و غایت ہے حاصل نہیں ہوسکتی.آپ نے فرمایا کہ بے شک جہاد کا مسئلہ سچا اور برحق ہے مگر اصل جہاد نفس کا جہاد اور تبلیغ کا جہاد ہے.اور تلوار کا جہاد صرف ان حالات میں جائز ہے جبکہ کوئی قوم اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے لئے ان کے خلاف تلوار اٹھائے.اس صورت میں بے شک ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ امام وقت کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو کر اسلام سے اس خطرہ کو دور کرے اور تلوار کا جواب تلوار سے دے.مگر یونہی غازی نام رکھ کر کفار کو مارتے پھرنا یا لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کے لئے تلوار اٹھانا اسلام کی تعلیم اور اسلام کی روح اور اسلام کی غرض و غایت سے اسی طرح دور ہے جس طرح ایک بوسیدہ روئیدگی کی بُو تازہ پھولوں کی خوشبو سے دور ہوتی ہے.موجودہ زمانہ کے متعلق حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ اس وقت نہ صرف وہ حالات موجود

Page 286

نہیں جن میں جہاد بالسیف جائز ہوتا ہے بلکہ خدا نے اپنے مسیح کو بھیج کر اس زمانہ میں امن کا سفید جھنڈا بلند کیا ہے.پس جو شخص اب بھی خونی جہاد کے خیالات کو ترک نہیں کرے گا اس کے لئے ذلت اور نا کا می مقدر ہے.فرماتے ہیں:.ایسا گماں کہ مہدی خونی بھی آئے گا اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا اے غافلو یہ باتیں سراسر دروغ ہیں بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں فرما چکا ہے سید کونین مصطفے عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے کافی ہے سوچنے کواگر اہل کوئی ہے وفات مسیح اور عدم رجوع موتی:.ایک اور غلط عقیدہ جس کی حضرت مسیح موعود نے اصلاح فرمائی وہ حضرت مسیح ناصری کی حیات کا عقیدہ تھا.جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ حضرت مسیح ناصری فوت نہیں ہوئے بلکہ خدا نے ان کو صلیب کے واقعہ سے بچا کر آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ آخری زمانہ میں زمین پر دوبارہ نازل ہوں گے.حضرت مسیح موعود نے قرآن وحدیث سے ثابت کیا کہ یہ عقیدہ بالکل غلط اور باطل ہے بلکہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح اپنے ملک سے نکل کر کشمیر کی طرف آگئے تھے اور وہیں ایک سو بیس سال کی عمر میں اپنی طبعی موت سے فوت ہوئے.اسی ضمن میں حضرت مسیح موعود نے یہ بھی ثابت کیا کہ یہ خیال اگر حضرت مسیح ناصری فوت بھی ہو چکے ہیں تو پھر بھی خدا انہیں دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں واپس لے آئے گا بالکل غلط اور خلاف منشاء اسلام ہے کیونکہ قرآن وحدیث صراحت کے ساتھ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ کوئی شخص ایک دفعہ مرکز پھر اس دنیا میں دوبارہ زندہ ہو کر نہیں آسکتا بلکہ دوسری زندگی کے لئے آخرت کا گھر مقرر ہے اس

Page 287

۲۷۷ مضمون کی بحث بھی چونکہ او پرگزرچکی ہے اس لئے اس جگہ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.معراج کی حقیقت:.مسلمانوں کا ایک کثیر حصہ یہ عقیدہ رکھتا تھا اور رکھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ معراج کی رات اسی جسم عصری کے ساتھ آسمان پر تشریف لے گئے تھے اور وہاں سارے آسمانی طبقوں کی سیر کر کے زمین پر واپس تشریف لائے.حضرت مسیح موعود نے اس خیال کی بھی تردید فرمائی صلى الله اور ثابت کیا کہ بے شک معراج برحق ہے اور آنحضرت آسمان پر ضرور تشریف لے گئے مگر آپ کا یہ صعود اس جسم عنصری کے ساتھ نہیں تھا بلکہ ایک نہایت لطیف قسم کا روحانی کشف تھا جس میں آپ کا جسم مبارک اس کرہ ارض سے جدا نہیں ہوا.حضرت مسیح موعود نے قرآن و حدیث سے ثابت کیا کہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر جانے کا خیال بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے چنانچہ قرآنی بیان کے علاوہ ایک صحیح حدیث میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر آتا ہے کہ آسمانوں کی سیر کے بعد آنحضرت ﷺ نیند سے بیدار ہو گئے اور یہ بھی ذکر آتا ہے کہ معراج کی رات میں آنحضرت ﷺ کا جسم مبارک اپنی جگہ سے جدا نہیں ہوا.حضرت مسیح موعود نے تشریح فرمائی کہ اس قسم کے خیالات کی طرف وہی لوگ جھکتے ہیں جو معجو بہ پسندی اور شعبدہ بازی کے شائق ہوتے ہیں حالانکہ اسلام کی غرض شعبدہ بازی نہیں بلکہ انسان کی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہے.بے شک لوگوں میں یقین پیدا کرنے کے لئے معجزات کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن مجزات بھی حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور بہر حال جس چیز کے متعلق قرآن شریف اور حدیث نے صراحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ روحانی چیز تھی اسے خواہ نخواہ کھینچ کر مادی اور سفلی میدان میں لانے کی کوشش کرنا کسی طرح درست نہیں سمجھا جاسکتا.آپ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ معراج کے کشف میں آئندہ کے لئے بعض نہایت لطیف پیشگوئیاں تھیں اور گویا تصویری زبان میں آنحضرت ﷺ کو اپنی اور اپنی امت کی آئندہ ترقیات کا نظارہ دکھایا گیا تھا مگر افسوس ہے کہ دنیا کے کو تہ بینوں نے اسے اس کے اعلیٰ اور اشرف مقام سے گرا کر محض ایک شعبدہ قرار دے دیا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.

Page 288

۲۷۸ وو سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھا جس کو درحقیقت بیداری کہنا چاہئے.ایسے کشف کی حالت میں انسان ایک نوری جسم کے ساتھ حسب استعداد نفس ناطقہ اپنے کے آسمانوں کی سیر کر سکتا ہے.پس چونکہ آنحضرت ﷺ کے نفس ناطقہ کی اعلیٰ درجہ کی استعداد تھی اور انتہائی نقطہ تک پہنچی ہوئی تھی اس لئے وہ اپنی معراجی سیر میں معمورۂ عالم کے انتہائی نقطہ تک جو عرش عظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے پہنچ گئے.سو در حقیقت یہ سیر کشفی تھا جو بیداری سے اشد درجہ پر مشابہ ہے بلکہ ایک قسم کی بیداری ہی ہے.میں اس کا نام خواب ہر گز نہیں رکھتا اور نہ کشف کے ادنی درجوں میں سے اس کو سمجھتا ہوں بلکہ یہ کشف کا بزرگ ترین مقام ہے جو درحقیقت بیداری بلکہ اس کثیف بیداری سے یہ حالت زیادہ اصفی اور اجلی ہوتی ہے اور اس قسم کے کشفوں میں مؤلف خود صاحب تجربہ ہے اس جگہ زیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں.لے معجزات کی حقیقت : ایک اور لطیف انکشاف جو خدائے علیم نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ظاہر فرمایا وہ معجزات کے متعلق ہے.اس بارے میں مسلمانوں کے عقائد اور خیالات میں ایسی ایسی فضول باتیں داخل ہوگئی تھیں کہ انہیں سن کر نہ صرف شرم آتی ہے بلکہ ان سے دین اور ایمان کی غرض و غایت پر ہی پانی پھر جاتا ہے.مسلمانوں نے مختلف نبیوں اور ولیوں کی طرف ایسے ایسے معجزات منسوب کر رکھے تھے اور کر رکھے ہیں جن کا کوئی ثبوت قرآن شریف یا حدیث یا کتب سابقه یا تاریخ میں نظر نہیں آتا اور بعض صورتوں میں استعارہ اور مجاز والے کلام کو حقیقت پر محمول کر کے فرضی معجزوں کا وجود گھڑ لیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود نے اس بارے میں نہایت لطیف بحث فرمائی اور جہاں ایک طرف معجزات کے وجود کو برحق قرار دیا وہاں دوسری طرف ان قصوں اور کہانیوں کو ردی کی طرح پھینک دیا جو بعد کے خوش عقیدہ لوگوں کے تخیل نے اپنے پاس سے بنا لئے تھے آپ نے ے ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۲۶ حاشیه

Page 289

۲۷۹ آیات و معجزات کے متعلق ایسے پختہ اصول بیان فرمائے جن سے اس اہم مگر پیچدار مسئلہ پر گویا ایک چمکتا ہوا سورج طلوع کر آیا.آپ نے فرمایا کہ معجزہ برحق ہے بلکہ ایمان کو زندہ اور تروتازہ رکھنے کے لئے معجزہ ایک ضروری چیز ہے کیونکہ یہ معجزہ ہی ہے جو انسان کو عقلی دلائل کی دور آمیز فضا سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے مگر اس کے لئے خدا کی طرف سے چند شرائط ضروری اور لازمی کر دی گئی ہیں جنہیں نظر انداز کر کے اصلی اور فرضی معجزہ میں تمیز باقی نہیں رہتی.سب سے پہلے تو آپ نے یہ فرمایا کہ معجزہ کو سمجھنے کے لئے ایمان کی حقیقت کا سمجھنا ضروری ہے.آپ نے تشریح فرمائی کہ ایمان کی ابتداء ہمیشہ تاریکی اور نور کی سرحد سے شروع ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ ایمان کے ابتدائی مراحل میں ایک خفیف تاریکی کا پردہ حائل رہے اور بالکل روشنی کی صورت نہ پیدا ہو.اگر ایمان کی ابتداء کامل روشنی سے ہو تو ایمان کی غرض و غایت باطل چلی جاتی ہے اور ایمان لانا موجب ثواب نہیں رہتا کیونکہ ایک بدیہی اور بین چیز کو ماناکسی طرح قابل تعریف نہیں سمجھا جاسکتا.مثلاً کوئی شخص اس بات پر تعریف اور انعام کا مستحق نہیں بن سکتا کہ اس نے دن چڑھنے پر سورج کو دیکھ لیا ہے یا اسے چودھویں رات کا چاند نظر آ گیا ہے پس ایمان کی ابتدائی حالت میں ایک پہلو تاریکی کا ہونا ضروری ہے مگر یہ بادل کا سا سایہ اس حد تک نہیں ہونا چاہئے کہ ایک عقلمند اور غیر متعصب انسان کو خواہ نخواہ تاریکی کی طرف لے جاوے بلکہ صرف اس حد تک ہونا چاہئے کہ اندھے اور بینا اور عقلمند اور بے وقوف میں تمیز پیدا کر دے اور دیکھنے والے کو تعریف اور انعام کا مستحق بنا دے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ اگر ایک نبی مبعوث ہوتے ہی اس قسم کے معجزات دکھانا شروع کر دے کہ قبروں پر جا کر آواز دے اور اس آواز پر قبروں کے مردے نکل کر باہر آ جائیں.اور اپنے دشمنوں کی طرف اشارہ کرے اور وہ مرکر زمین میں جاگریں.اور اگر شخص اس پر حملہ کرنے آوے تو وہ لوگوں کے دیکھتے دیکھتے آسمان پر چڑھ جاوے وغیرہ وغیرہ تو ظاہر ہے کہ اس قسم کے حالات میں کوئی شخص بھی ایسے نبی کا منکر نہیں رہ سکتا اور ایمان کا معاملہ ایک بے سود

Page 290

۲۸۰ چیز بن جاتا ہے پس پہلی شرط معجزات کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان میں ایک قسم کا سایہ یعنی دھندلا پن موجود ہو اور کامل روشنی کی صورت نہ پیدا ہو.دوسری شرط حضرت مسیح موعود نے یہ بیان فرمائی کہ معجزات میں کوئی بات خدا تعالیٰ کی سنت اور اس کے وعدہ کے خلاف نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اگر ایسا ہو تو خدا پر حرف آنے کے علاوہ دین کے معاملہ میں ساری امان اٹھ جاتی ہے اور کوئی بات بھی پختہ اور قابل تسلی نہیں رہتی.مثلاً اگر ایک طرف خدا تعالیٰ اپنے کسی نبی کو یہ تعلیم دے کہ کوئی حقیقی مردہ اس دنیا میں زندہ ہو کر واپس نہیں آسکتا اور دوسری طرف اسی نبی کے ہاتھ پر وہ مردوں کو زندہ کرنا شروع کر دے تو اس سے دین میں ایک ایسا فساد عظیم بر پا ہو جائے گا کہ کوئی امن کی صورت باقی نہیں رہے گی اور خدا جو ہر صدق و راستی کا منبع ہے خود اسی کی صداقت معرض شک میں پڑ جائے گی.پس دوسری شرط حضرت مسیح موعود نے معجزات کے متعلق یہ بیان فرمائی کہ ان میں کوئی بات خدا تعالیٰ کی کسی سنت یا اس کے کسی وعدے کے خلاف نہیں ہونی چاہئے.دوسری طرف معجزہ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی معجزہ معجزہ ہی نہیں کہلا سکتا کہ وہ ایسے حالات کے ماتحت ظہور پذیر ہو کہ نبی کے مخالفوں کو حقیقۂ عاجز کر دے اور وہ اس کی نظیر لانے سے قاصر رہیں کیونکہ اگر یہ شرط نہ پائی جاوے تو پھر معجزہ کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہتا اور اس کی ساری غرض و غایت باطل چلی جاتی ہے.ظاہر ہے کہ معجزہ کی ضرورت اسی لئے پیش آتی ہے کہ تا خدا تعالیٰ دنیا پر یہ ظاہر کر دے کہ ہمارا یہ بندہ ہماری نصرت اور تائید کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور یہ کہ یہ نصرت اور تائید اس کے مخالفوں کو حاصل نہیں ہے.پس ضروری ہے کہ معجزہ میں کوئی نہ کوئی ایسی خارق عادت بات پائی جاوے جو نبی کے مخالفوں کو عاجز کر دے گو یا حضرت مسیح موعود نے معجزہ کے لئے تین شرائط ضروری قرار دیں:.اول یہ کہ اس میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ہو جو دوسروں کو نبی کے مقابل پر عاجز کر

Page 291

۲۸۱ دے اور اس کی تہ میں خدا کا ہاتھ نظر آئے.دوم یہ کہ اس میں کوئی بات ایسی نہ ہو جو نبی کی سچائی کو روز روشن کی طرح ظاہر کر دے اور تاریکی کا کوئی پہلو بھی باقی نہ رہے بلکہ اس کا کوئی نہ کوئی پہلو ایسا رہنا چاہئے کہ ایک شخص جو اسے صحیح اور کھلی ہوئی نظر کے ساتھ دیکھنے کے لئے تیار نہیں شک میں مبتلا ر ہے.سوم یہ کہ اس میں کوئی بات خدا تعالیٰ کی سنت اور وعدہ کے خلاف نہ ہو.یہ شرائط ایسی معقول اور قرآن وحدیث کے ایسی مطابق تھیں کہ انہوں نے اس پیچیدہ مسئلہ پر گویا ایک سورج چڑھا دیا اور ان دونوں قسم کے لوگوں کا منہ بند کر دیا جن میں سے ایک تو نئی روشنی سے متاثر ہوکر معجزات کے وجود سے بالکل ہی منکر ہو رہا ہے اور دوسرا ہر قسم کے فرضی اور خلاف عقل اور خلاف سنت معجزات کو سچ سمجھ کر سینہ سے لگائے بیٹھا ہے اور بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ دونوں قسم کے گروہ مسلمانوں میں کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں یعنی ایک گروہ وہ ہے جو معجزات کے معاملہ میں ہر قسم کے رطب و یابس کے ذخیرہ کو سچا سمجھ رہا ہے اور اس گروہ کے لئے معجزہ کی کوئی حدود نہیں اور دوسرا گروہ وہ ہے جو دہریت کے مخفی اثر کے نیچے آکر معجزہ کے وجود سے ہی منکر ہو گیا ہے اور صرف خشک فلسفیانہ باتوں پر دین کی بنیا د رکھتا ہے حضرت مسیح موعود نے ان دونوں گروہوں کی تردید فرما کر ایک نہایت سچا اور وسطی رستہ کھول دیا.معجزات کی اس تشریح کے ماتحت جماعت احمد یہ جہاں بچے اور ثابت شدہ معجزات کی دل و جان سے قائل ہے وہاں ان تمام فرضی معجزات کو رد کرتی ہے جو لوگوں نے حضرت مسیح ناصری یا سید عبدالقادر صاحب جیلانی یا دوسرے مذہبی بزرگوں کی طرف منسوب کر رکھے ہیں.مثلاً یہ کہ حضرت مسیح نے سینکڑوں مردوں کو ان کی قبروں میں سے اٹھا کر کھڑا کر دیا.یا حقیقی اور واقعی طور پر اندھے لوگوں کو ہاتھ لگا کر بینا بنا دیا.یا مٹی کے پرندے بنا کر ان میں پھونک ماری اور وہ زندہ ہو کر خدا کے بنائے ہوئے پرندوں سے مل جل گئے.یا جب ان کے مخالفوں نے انہیں پکڑ کر صلیب پر لٹکانا چاہا تو وہ جھٹ

Page 292

۲۸۲ حلیہ بدل کر آسمان کی طرف اڑ گئے یا یہ کہ حضرت سید عبدالقادر صاحب نے ایک کئی سال کی ڈوبی ہوئی کشتی کو دریا سے باہر نکال کر اس کے مردوں کو از سر نو زندگی دے دی وغیرہ وغیرہ.یہ سب خوش عقیدگی کے قصے ہیں جن میں کچھ بھی حقیقت نہیں سوائے اس کے کہ بعض صورتوں میں استعارہ کے کلام کو حقیقت پر محمول کر لیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود نے معجزات کے متعلق اپنی تصنیفات میں کئی جگہ بحث فرمائی ہے مگر ہم اس جگہ اختصار کے خیال سے صرف ایک اقتباس کے درج کرنے پر اکتفا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.ایمان اس حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ ایک بات من وجہ ظاہر ہو اور من وجہ پوشیدہ بھی ہو.یعنی ایک بار یک نظر سے اس کا ثبوت ملتا ہو اور اگر باریک نظر سے نہ دیکھا جائے تو سرسری طور پر حقیقت پوشیدہ رہ سکتی ہو لیکن جب سا را پرده ہی کھل گیا تو کون ہے کہ ایسی کھلی بات کو قبول نہیں کرے گا.سو معجزات سے وہ امور خارق عادت مراد ہیں جو باریک اور منصفانہ نظر سے ثابت ہوں اور بجز مؤیدان الہی دوسرے لوگ ایسے امور پر قادر نہ ہو سکیں.اسی وجہ سے وہ امور خارق عادت کہلاتے ہیں مگر بد بخت از لی ان معجزانہ امور سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے در حقیقت معجزات کی مثال ایسی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو.مگر وہ شخص جو شب کو ر ہو جو رات کو کچھ نہیں دیکھ سکتا اس کے لئے یہ چاندنی کچھ مفید نہیں.ایسا تو ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوا کہ اس دنیا کے معجزات اسی رنگ سے ظاہر ہوں جس رنگ سے قیامت میں ظہور ہو گا.مثلاً دو تین سو مردے زندہ ہو جائیں اور بہشتی پھل ان کے پاس ہوں اور دوزخ کی آگ کی چنگاریاں بھی پاس رکھتے ہوں اور شہر بہ شہر دورہ

Page 293

۲۸۳ کریں اور ایک نبی کی سچائی پر جو قوم کے درمیان ہو گواہی دیں اور لوگ ان کو شناخت کرلیں کہ در حقیقت یہ لوگ مر چکے تھے اور اب زندہ ہو گئے ہیں اور وعظوں اور لیکچروں سے شور مچادیں کہ در حقیقت یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے سچا ہے.سو یا د رہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر نہیں ہوئے اور نہ آئندہ قیامت سے پہلے کبھی ظاہر ہوں گے اور جو شخص دعوی کرتا ہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر ہو چکے ہیں وہ محض بے بنیاد قصوں سے فریب خوردہ ہے اور اس کو سنت اللہ کا علم نہیں.اگر ایسے معجزات ظاہر ہوتے تو دنیا دنیا نہ رہتی اور تمام پر دے کھل جاتے اور ایمان لانے کا ایک ذرہ بھی ثواب باقی نہ رہتا.یادر ہے کہ معجز ہ صرف حق اور باطل میں فرق دکھلانے کے لئے اہل حق کو دیا جاتا ہے اور معجزہ کی اصل غرض صرف اس قدر ہے کہ عقل مندوں اور منصفوں کے نزدیک سچے اور جھوٹے میں ایک ما بہ الامتیاز قائم ہو جائے.‘1 جنت و دوزخ کی حقیقت : جنت و دوزخ کی حقیقت کے متعلق مذاہب میں بڑا اختلاف ہے اور مسلمانوں نے بھی جنت و دوزخ کا ایک عجیب و غریب نقشہ بنا رکھا ہے جو قرآن شریف اور حدیث کے مفہوم کو غلط سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.عام مسلمانوں میں جو تصور جنت و دوزخ کا پایا جاتا ہے وہ موٹے طور پر یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اچھے یا برے اعمال بجالاتا ہے جن کے نتیجہ میں موت کے بعد اسے انعام یا سزا کی صورت میں اجر ملے گا.انعام اس صورت میں ہو گا کہ انسان کوعلیٰ قدر مراتب بڑے بڑے خوبصورت اور شاداب باغوں میں رکھا جائے گا جن میں پانی اور دودھ کی نہریں بہتی ہوں گی اور طرح طرح کے شیریں پھل ہوں گے اور انسان کی خدمت کے لئے مستعد نوجوان لڑکے اور چست و چاق نوجوان لڑکیاں مقرر ہوں گی اور جنت میں کوئی پہلو غم اور تکلیف کا نہیں ہوگا اور انسان کو ایک ابدی اور دائمی خوشی کی زندگی نصیب ہوگی وغیرہ وغیرہ.اس کے مقابل پر دوزخ لے براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲ تا ۴۴

Page 294

۲۸۴ کی سزا اس صورت میں ہوگی کہ موت کے بعد گندے لوگوں کو ایک ایسی جگہ میں رکھا جائے گا جس کے اندر اور جس کے چاروں طرف خطر ناک آگ کے شعلے بلند ہوں گے جس کا ایندھن پتھروں اور گندھک کی قسم کے آتشیں مادوں سے تیار کیا جائے گا اور طرح طرح کے زہریلے اور موذی جانورانسان پر حملہ کر کے اسے کاٹیں گے اور کھانے پینے کے لئے اسے کڑوی اور تکلیف دہ چیزیں دی جائیں گی اور اسی حالت میں اچھے لوگ جنت میں اور خراب لوگ دوزخ میں ہمیشہ کے لئے زندگی گزاریں گے.یہ وہ نقشہ ہے جو مسلمانوں کے دلوں میں جنت و دوزخ کے متعلق جگہ پائے ہوئے تھا.حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر بتایا کہ بے شک قرآن وحدیث میں بظاہر ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جو فی الجملہ اس نقشہ کے مؤید ہیں لیکن یہ نقشہ جنت و دوزخ کی اصلی تصویر نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ صرف بطور استعارہ استعمال کئے گئے ہیں جن کے پیچھے ایک اور حقیقت مخفی ہے.اسی لئے جہاں ایک طرف قرآن شریف نے جنت و دوزخ کی تمثیل میں اس قسم کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں وہاں قرآن شریف تاکید اور صراحت کے ساتھ یہ بھی فرماتا ہے کہ لَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ أَعْيُنِ اے یعنی کوئی انسان نہیں جانتا کہ اگلے جہان میں نیک لوگوں کے لئے کیا کچھ آنکھ کی ٹھنڈک کا سامان مخفی رکھا گیا ہے.اور حدیث میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ے یعنی جنت کی نعمتیں وہ ہیں کہ نہ انہیں کبھی کسی انسان کی آنکھ نے دیکھا نہ کسی انسان کے کانوں نے ان کا حال سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا تصور گذرا.اس سے ظاہر ہے کہ جو نقشہ قرآن شریف اور حدیث میں آخرت کی زندگی کا بتایا گیا ہے وہ ایک محض تمثیلی نقشہ ہے اور بیان کردہ الفاظ کوظاہر پرمحمول کرنا درست نہیں.کیونکہ اگر یہ درست ہے کہ جنت میں یہی ظاہری نہریں اور یہی ظاہری پھل ہوں گے تو پھر یہ بیان غلط قرار پاتا ہے کہ جنت کی نعمتوں کو نہ کبھی کسی نے دیکھا نہ سنا اور نہ کبھی کسی کے دل میں ان کا تصور آیا.پس حضرت مسیح موعود نے السجدة : ١٨ ابن ماجه ابواب الزهد باب صفة الجنة

Page 295

۲۸۵ بڑی سختی کے ساتھ جنت و دوزخ کے معروف اور مشہور نقشے کور دفرمایا اور فرمایا کہ چونکہ جنت و دوزخ کی چیزیں ایسی ہیں کہ اس دنیا میں انسان ان کا تصور تک دل میں نہیں لا سکتا اس لئے خدا نے انسانی ادراک کے مطابق ایک محض تمثیلی نقشہ بیان کر دیا ہے مگر اصل حقیقت اور ہے جو اس تمثیل کے پیچھے مخفی ہے ان حالات میں یہ ہرگز درست نہیں ہو گا کہ قرآن و حدیث کے بعض الفاظ کے ظاہری معنے لے کر جنت و دوزخ کا تصور قائم کیا جاوے.مگر حضرت مسیح موعود نے صرف اس قدر مجمل بیان پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ قرآن شریف کی دوسری آیات سے استدلال پکڑ کر اگلے جہان کی زندگی کا ایک ایسا نقشہ پیش فرمایا کہ جس سے علم کا ایک بالکل ہی نیا دروازہ کھل گیا.آپ نے فرمایا کہ قرآن شریف کی متعدد آیات سے معلوم ہوا ہے کہ آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی کا ہی ایک تسلسل ہے اور کوئی آزاد اور جدا گانہ زندگی نہیں ہے.یعنی ایسا نہیں کہ انسان اس دنیا میں اچھے یا برے عمل کرے اور پھر مرنے کے بعد اچانک پردہ اٹھ کر اس کے لئے ایک نئے نظارہ اور نئے ماحول کا آغاز شروع ہو جاوے.بلکہ اسلام نے آخرت کی زندگی کو اسی دنیوی زندگی کا پر تو اور نتیجہ قرار دیا ہے.آپ نے فرمایا کہ جو اچھا یا براعمل انسان اس زندگی میں کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ایک نہایت مخفی در مخفی رنگ میں بطور سایہ کے پیوست کر دیا جاتا ہے اور پھر مرنے کے بعد یہ خفی سایہ آہستہ آہستہ ایک نظر آنے والی حقیقت کی صورت اختیار کر لیتا ہے.گویا انسان کا ہر عمل ایک مخفی پیج ہے اور آخرت کا انعام یا سزا اس بیج سے پیدا شدہ درخت ہے جو آخرت میں کھلے طور پر ظاہر ہو کر نظر آنے لگے گا.اس تشریح کے ماتحت حضرت مسیح موعود نے بیان فرمایا کہ یہ جو مثلاً جنت میں پھلوں کا ذکر آتا ہے یہ کوئی نئے پھل نہیں ہیں جو اگلے جہان میں آزادانہ طور پر پیدا ہوں گے بلکہ یہ انہی اعمال کا ثمرہ یا مجسمہ ہیں جو ایک انسان اس دنیا میں بجالاتا ہے مثلاً ایک انسان خدا کی رضا کی خاطر نماز پڑھتا ہے اور اسے اس عبادت میں ایک خاص قسم کی روحانی لذت محسوس ہوتی ہے تو اب آخرت کی زندگی میں یہی روحانی لذت اس کے لئے جسمانی اور ظاہری صورت اختیار کر کے ایک پھل

Page 296

۲۸۶ کی شکل میں اس کے سامنے آ جائے گی جسے کھا کر وہ اسی قسم کی ظاہری لذت پائے گا جو وہ دنیا میں نماز ادا کر کے روحانی رنگ میں پاتا تھا مگر درجہ اور کیفیت میں اس سے بہت بڑھ چڑھ کر.اسی طرح جو روحانی لذت ایک مومن روزہ میں پاتا ہے وہ آخرت میں ایک دوسری قسم کے پھل کی صورت اختیار کر کے اسے جسمانی رنگ میں حاصل ہوگی وعلی ہذا القیاس اس فلسفہ کی تہ میں نکتہ یہ ہے کہ اس دنیا کی روح آخرت کا جسم ہے یعنی جو روح اس دنیا میں انسان کو ملتی ہے وہ آخرت میں جا کر اس کے لئے جسم بن جائے گی اور اس جسم کے اندر سے ایک اور لطیف جو ہر ترقی پاکر اس روحانی جسم کے لئے روح بن جائے گا اس طرح اس دنیا کی روحانی لذتیں آخرت میں جسمانی لذتوں کی صورت اختیار کرلیں گی.بہر حال حضرت مسیح موعود نے قرآن شریف کی آیات سے ثابت کیا کہ جنت و دوزخ کے انعام یا سزائیں کوئی جدا گانہ چیزیں نہیں بلکہ دنیا کی زندگی ہی کے اچھے یا برے اعمال کا پر تو ہیں جو آخرت میں مجسم صورت اختیار کر کے ظاہر ہو گا.حضرت مسیح موعود کی اس لطیف تشریح نے جو قرآنی آیات پر مبنی تھی نہ صرف اسلام کے مقدس چہرہ پر سے اس گندے اعتراض کو دور کر دیا کہ اسلام ایک جسمانی لذات والی جنت پیش کرتا ہے بلکہ اخروی زندگی کا نقشہ ہی بدل دیا اور اس کی جگہ ایک نہایت لطیف اور پاکیزہ نقشہ جو اپنے اندر ایک بالکل طبعی کیفیت رکھتا ہے دنیا کے سامنے آ گیا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.اس دن (یعنی آخرت میں ) ہمارے اعمال اور اعمال کے نتائج جسمانی طور پر ظاہر ہوں گے اور جو کچھ ہم اس عالم سے مخفی طور پر ساتھ لے جائیں گے وہ سب اس دن ہمارے چہرہ پر نمودار نظر آئے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے فلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمُ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنِ لا یعنی کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کے لئے مخفی ہیں.سوخدا تعالیٰ نے ان تمام نعمتوں کو خفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی السجدة : ١٨

Page 297

۲۸۷ نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اورا نار اور انگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں.سو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیز میں اور ہیں اور ان کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے.پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا اس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا.اس آیت کی شرح میں جو ابھی میں نے ذکر کی ہے ہمارے سید و مولا نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ بہشت اور اس کی نعمتیں وہ چیزیں ہیں جو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ دلوں میں کبھی گذریں حالانکہ ہم دنیا کی نعمتوں کو آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں اور کانوں سے بھی سنتے ہیں اور دل میں بھی وہ نعمتیں گزرتی ہیں.پھر فرماتے ہیں:.قاعدہ کلی کے طور پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ موت کے بعد جو جاتیں پیش آنی ہیں قرآن شریف نے انہیں تین قسم پر منقسم کیا ہے اور عالم معاد کے متعلق یہ تین قرآنی معارف ہیں جن کو ہم جدا جدا اس جگہ ذکر کرتے ہیں :.اوّل یہ دقیقہ معرفت ہے کہ قرآن شریف بار بار یہی فرماتا ہے کہ عالم آخرت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے تمام نظارے اسی دنیوی زندگی کے اظلال و آثار ہیں جیسا کہ فرماتا ہے وَكُلُّ إِنْسَانِ الْزَمْنَاهُ طَائِرُهُ فِي عُنُقِهِ دنیا وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا کے یعنی ہم نے اس دنیا میں ہر ایک شخص کے اعمال کا اثر اس کی گردن سے باندھ رکھا ہے اور انہی پوشیدہ اثروں کو ہم قیامت کے دن ظاہر کر دیں گے اور ایک کھلے کھلے اعمال نامہ کی شکل پر دکھا دیں گے.دوسرا دقیقہ معرفت جس کو عالم معاد کے متعلق قرآن شریف نے ذکر لے اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد، اصفحہ ۳۹۷، ۳۹۸ ۲ بنی اسرائیل: ۱۴

Page 298

۲۸۸ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ عالم معاد میں وہ تمام امور جو دنیا میں روحانی تھے جسمانی طور پر متمثل ہوں گے.اس بارے میں جو کچھ خدائے تعالیٰ نے فرمایا اس میں سے ایک آیت یہ ہے وَمَنْ كَانَ فِي هَذِةِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلا ! یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہو گاوہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہو گا.اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اس جہان کی روحانی نابینائی اس جہان میں جسمانی طور پر مشہود اور محسوس ہوگی.تیسرا دقیقہ معرفت کا یہ ہے کہ عالم معاد میں ترقیات غیر متناہی ہوں گی.تنزل کبھی نہیں ہوگا اور نہ کبھی بہشت سے نکالے جائیں گے بلکہ ہر روز آگے بڑھیں گے...اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن شریف کی رو سے دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثار ہیں.کوئی ایسی نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے.یہ سچ ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور سے متمثل ہوں گے مگر وہ اصل روحانی حالتوں کے اظلال و آثار ہوں گے.ہم لوگ ایسی بہشت کے قائل نہیں کہ صرف جسمانی طور پر ایک زمین پر درخت لگائے گئے ہوں اور نہ ایسی دوزخ کے ہم قائل ہیں جس میں درحقیقت گندھک کے پتھر ہیں بلکہ اسلامی عقیدہ کے موافق بہشت و دوزخ انہی اعمال کے انعکاسات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے.‘‘ ۲ اسی طرح حضرت مسیح موعود نے یہ تعلیم دی کہ گو جنت کا انعام دائمی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوگا مگر دوزخ کا عذاب دائمی نہیں ہے بلکہ ایک لمبے زمانہ کے بعد ختم ہو جائے گا کیونکہ اسلامی تشریح کے مطابق دوزخ صرف ایک عذاب خانہ ہی نہیں بلکہ ایک رنگ کا ہسپتال بھی ہے جس میں ہر روحانی بنی اسرائیل ۷۳ اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلده اصفحه ۴۰۰ تا ۴۱۴

Page 299

۲۸۹ مریض اپنی مرض کی شدت کے مطابق وقت گزار کر بالآخر خدا کی رحمت سے حصہ پائے گا اور دوزخی لوگ آہستہ آہستہ دوزخ کو خالی کر کے جنت کی طرف منتقل ہوتے جائیں گے.فرماتے ہیں:.قرآن شریف میں خدا فرماتا ہے اِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَالٌ لِمَا يُريد لا یعنی دوزخی لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے لیکن نہ وہ ہمیشگی جو خدا کو ہے بلکہ دور دراز مدت کے لحاظ سے.پھر خدا کی رحمت دستگیر ہوگی کیونکہ وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.اور اس آیت کی تشریح میں ہمارے سید و مولا نبی کریم کی ایک حدیث بھی ہے اور وہ یہ ہے يَاتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَيْسَ فِيهَا اَحَدٌ وَنَسِيمُ الصَّبَا تُحَرِّكُ أَبْوَابَهَا یعنی جہنم پر ایک وہ زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی بھی نہ ہوگا اور نسیم صبا اس کے کواڑوں کو ہلائے گی.اسلامی فرقوں کے باہمی اختلافات : موجود الوقت مسلمانوں میں بہت سے فرقے پائے جاتے ہیں جن کی تعداد ایک حدیث نبوی کی رو سے بہتر (۷۲) تک پہنچتی ہے مگر موٹے طور پر دیکھا جاوے تو مسلمانوں کے اندرونی فرقوں کی تقسیم اس طرح پر ہے کہ ایک بڑا فرقہ اہل سنت و الجماعت کا ہے اور دوسرا فرقہ شیعہ اصحاب کا ہے.پھر اہل سنت میں یہ تقسیم ہے کہ ایک فرقہ اہل فقہ یعنی مقلدین کا ہے اور دوسرا اہل حدیث کا ہے اور تیسرا اہل تصوف یعنی اہل طریقت کا ہے.اس طرح موٹے طور پر یہ چار فرقے بنتے ہیں یعنی اہل فقہ.اہل حدیث.اہل تصوف اور شیعہ.حضرت مسیح موعود نے ان فرقوں کے متعلق بھی اپنی تصنیفات میں متعدد جگہ تبصرہ فرمایا ہے خلاصہ جس کا یہ ہے کہ آپ نے شیعہ اصحاب کو اس بات میں سخت غلطی پر قرار دیا کہ انہوں نے خلافت راشدہ سے انکار کر کے اور صحابہ کی پاک جماعت پر طعن کی زبان کھول کر اسلام میں ایک سخت رخنہ پیدا کر دیا ہے اور کئی باتوں میں سنت نبوی سے منحرف ہو کر گویا ایک نئی عمارت کھڑی کر دی ہے.اہل سنت لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷۰ هود : ۱۰۸

Page 300

کے تین مشہور فرقوں میں سے آپ ہراک میں کئی جہت سے خوبیاں تسلیم فرماتے تھے مگر فرماتے تھے کہ ان میں سے ہراک فرقہ بعض پہلوؤں سے جادہ صواب سے منحرف ہو گیا ہے.مثلاً اہل فقہ نے تقلید میں ایسا اندھا دھند طریق اختیار کر لیا ہے کہ وہ اپنے مقررہ امام کے قول کے خلاف قرآن و حدیث تک کا کوئی استدلال سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اور اہل حدیث نے یہ غلطی کی ہے کہ اجتہاد کے دروازے کو بالکل ہی وسیع کر دیا ہے اور جو واجبی وزن علماء اور ائمہ کے اقوال کو ہونا چاہئے اس سے بھی انہیں محروم کر دیا ہے.بلکہ بعض صورتوں میں ائمہ کرام کی ہتک کا طریق اختیار کیا ہے اور اہل تصوف کے متعلق فرماتے تھے کہ یہ آہستہ آہستہ شریعت کے ظاہر سے ہٹ کر بعض بدعتوں میں مبتلا ہو گئے ہیں.مگر باوجود اس کے حضرت مسیح موعود ان جملہ فرقوں کی بہت سی خوبیوں کو تسلیم فرماتے تھے اور شیعہ اور سنی ہر دو فرقوں کے بزرگوں کو بڑی عزت کی نظر سے دیکھتے تھے.جماعت احمدیہ کی عملی اصلاح:.یہ وہ عقائد ہیں جن پر حضرت مسیح موعود نے خدا سے علکم پا کر کی بنیاد رکھی.ان کے علاوہ بعض اور عقائد بھی ایسے ہیں جن میں جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے مگر زیادہ اہم اور زیادہ معروف عقائد یہی ہیں جو ہم نے اوپر و بیان کر دیئے ہیں.اگر احمدیت کے ان مخصوص عقائد کو اسلام کی مشترک اور مسلم تعلیم کے ساتھ ملا کر دیکھا جاوے تو جماعت احمدیہ کے اصولی عقائد کا ایک اجمالی نقشہ مکمل ہو جاتا ہے اور اسی لئے ہم نے سابقہ باب میں اسلامی تعلیم کا ڈھانچہ بھی درج کر دیا ہے تا کہ احمدیت کی تصویر کا وہ عقبی منظر جس پر قدرت کے ہاتھ نے یہ جدید نقوش قائم کئے ہیں ہمارے ناظرین کے سامنے رہے اور وہ تحریک احمدیت کے وسیع میدان پر ایک مجموعی نظر ڈال کر صحیح رائے قائم کر سکیں.مگر کوئی مذہبی سلسلہ صرف عقائد کی اصلاح تک اپنے کام کو محدود نہیں رکھ سکتا کیونکہ مذہب کی بڑی غرض و غایت اعمال کی اصلاح ہے اور دنیا میں کوئی قوم کامل ترقی حاصل نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ عقائد کے ساتھ ساتھ اعمال کی بھی اصلاح نہ کرے اور الحمد للہ کہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم اور

Page 301

۲۹۱ روحانی تاثیر کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ نے اس میدان میں بھی غیر معمولی نمونہ پیش کیا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ہم میں کوئی شخص بھی کمزور نہیں.بے شک ہم میں بعض لوگ کمزور ہیں لیکن بعض کا کمزور ہونا جماعت کی مجموعی حیثیت کو گرانہیں سکتا.ایک اعلیٰ سے اعلیٰ مدرسہ کی اچھی سے اچھی کلاس میں بھی سب طالب علم ایک سے نہیں ہوتے.پس دیکھنا یہ چاہئے کہ بحیثیت مجموعی کسی جماعت کا کیا حال ہے اور یقیناً اس معیار کے مطابق جماعت احمدیہ کا مقام دوسری تمام جماعتوں سے نمایاں طور پر بلند و بالا ہے.عبادات میں، معاملات میں، قربانی میں تبلیغی جوش میں جماعت احمدیہ نے ایک حیرت انگیز ترقی کی ہے جس کی مثال اس زمانہ میں کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی.عبادات میں یہ حال ہے کہ وہ لوگ جو پہلے کبھی فرض نماز تک کے قریب نہیں جاتے تھے اب وہ ایسے نمازی بن گئے ہیں کہ اگر ان سے بھی تہجد کی نفی نماز بھی رہ جاوے تو گھنٹوں ان کے دل پر غم کا بوجھ رہتا ہے.جو لوگ رمضان کے مبارک مہینہ میں ایک روزہ بھی نہیں رکھتے تھے.اب وہ رمضان کے علاوہ بھی سال میں کئی کئی دن نفلی روزے رکھتے ہیں اور پھر بھی ان کی طبیعت سیر نہیں ہوتی.اسی طرح دوسری عبادتوں کا حال ہے.معاملات میں بھی ایک غیر معمولی تغیر نظر آتا ہے جو لوگ کئی کئی قسم کی کمزوریوں میں مبتلا تھے اور انصاف کا خون کرنا اور دوسروں کے حقوق غضب کرنا ان کا شیوہ تھا اب وہ بالکل ہی نئے انسان بن گئے ہیں اور وفاداری اور انصاف اور دیانت ان کا امتیازی نشان ہے.ہزاروں لوگ جو احمدیت سے پہلے طرح طرح کی کمزوریوں کا شکار تھے اب وہ عملاً ولیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں.ان معاملات میں نام لے کر مثالیں دینا اچھا نہیں ہوتا مگر ناظرین کو اس بات کا اندازہ کرانے کے لئے کہ احمدیت نے کیا تغیر پیدا کیا ہے میں اس جگہ دو مثالیں بغیر نام لینے کے بیان کرتا ہوں.ایک صاحب ضلع سیالکوٹ پنجاب کے رہنے والے ہیں وہ سرکاری ملازمت میں تھے اور احمدیت سے پہلے انہوں نے حسب دستور زمانہ لوگوں سے بے دریغ رشوت لی.مگر جب خدا نے انہیں احمدیت سے مشرف کیا

Page 302

۲۹۲ تو انہوں نے حضرت مسیح موعود کی تعلیم کے ماتحت اس کمزوری کو نہ صرف یکدم ترک کر دیا بلکہ جن جن لوگوں سے رشوت لی تھی ان سب کے گھروں پر جا جا کر ان سے معافی مانگی اور رشوت کا سارا روپیہ واپس کیا اور جب اپنی پونجی ختم ہو گئی تو جدی جائیداد فروخت کر کے حساب بے باق کیا.ایک اور صاحب ضلع گجرات کے تھے جواب فوت ہو چکے ہیں.یہ صاحب احمدیت سے پہلے اپنے علاقہ کے مشہور ڈاکو اور رہزن تھے اور جتھوں میں ہو کر نہایت دلیرانہ وارداتیں کیا کرتے تھے لیکن احمدیت کے بعد ان میں ایسا تغیر آیا کہ میں نے خود انہیں ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ ان کی زبان پر اکثر خدا اور اس کے رسول کا ذکر رہتا تھا اور اپنا اکثر وقت عبادت اور خدمت دین میں گزارتے تھے.مالی قربانی کا یہ حال ہے کہ جن لوگوں کو احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے خدا کی راہ میں ایک پیسہ تک خرچ کرنا دو بھر تھا اب وہ اس رستہ میں پانی کی طرح روپیہ بہاتے ہیں اور اس قربانی میں انہیں دلی خوشی محسوس ہوتی ہے.جماعت کے اکثر افراد پابندی کے ساتھ اپنی کل آمد کا دسواں حصہ خدا کے رستے میں دیتے ہیں اور بہت ہیں جو پانچواں یا تیسرا حصہ دیتے ہیں اور بعض یقیناً اس سے بھی زیادہ دیتے ہیں.یہ باتیں محض قیاسی نہیں بلکہ جماعت کے چندوں کے رجسٹرات سے ان کا ثبوت مل سکتا ہے اور میں یہ بات خوش عقیدگی سے نہیں کہتا بلکہ ذاتی علم کی بنا پر ایک حقیقت بیان کرتا ہوں کہ جماعت کا کثیر حصہ ایسا ہے جس کے لئے وہ مال جو وہ دین کے رستے میں خرچ کرتا ہے اس مال سے بہت زیادہ خوشی کا موجب ہوتا ہے جو وہ اپنے لئے رکھتا ہے.یہی حال جان کی قربانی کا ہے.جماعت احمدیہ کا ہر خلص فرودین کی خاطر اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہے اور اس وقت کے لئے بے تاب ہے جب اسے دین کے رستے میں خدا کی آواز پر لبیک کہنا پڑے.ہندوستان میں تو ملکی حالات کی وجہ سے ایسے موقعے نہیں پیش آئے لیکن بعض بیرونی حکومتوں میں کئی احمدی اپنے عقائد کی وجہ سے جان سے مار دیئے گئے ہیں اور انہوں نے اس قربانی کو خوشی کے ساتھ قبول کیا.کابل کی حکومت میں جماعت کے دو معزز افراد کو احمدیت کی وجہ سے زمین

Page 303

۲۹۳ میں کمر تک دفن کر کے اوپر سے پتھر برسائے گئے مگر انہوں نے خدا کی حمد کے گیت گاتے ہوئے جان دی اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی لغزش نہیں کھائی.تبلیغی جوش کا یہ عالم ہے کہ ہر مخلص احمدی ایک پر جوش مبلغ ہے اور تبلیغ کو اپنا ایک مقدس فرض سمجھتا ہے.عالم ہے تو وہ مبلغ ہے ان پڑھ ہے تو وہ مبلغ ہے.بچہ ہے تو وہ مبلغ ہے بوڑھا ہے تو وہ مبلغ ہے.مرد ہے تو وہ مبلغ ہے عورت ہے تو وہ مبلغ ہے.غرض ہر مخلص احمدی اپنی سمجھ اور بساط کے مطابق اس پیغام حق کو پھیلانے میں مصروف ہے جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دنیا تک پہنچا ہے اور یہ تبلیغی جد و جہد ان کثیر التعداد منظم مشنوں کے علاوہ ہے جو جماعت احمدیہ کی زیر نگرانی دنیا کے مختلف حصوں میں قائم ہیں.یقینا یہ نقشہ ایک عظیم الشان عملی تبدیلی کا ثبوت ہے جو حضرت مسیح موعود کی روحانی تاثیر نے جماعت احمدیہ میں پیدا کی ہے اور اگر حضرت مسیح ناصری کا یہ قول درست ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو لا ریب حضرت مسیح موعود کے شیریں پھل نے بتا دیا ہے کہ یہ درخت بندوں کا نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا ہے.حضرت مسیح موعودا اپنی جماعت کے متعلق فرماتے ہیں:.میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں.میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیروان سے جوان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار ہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں.ہاں شاذ و نادر کے طور پر اگر کوئی اپنی فطرتی نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہوتو وہ شاذ و نادر میں داخل ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے.ہزار ہا آدمی دل سے فدا ہیں اگر آج ان کو

Page 304

۲۹۴ کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دست بردار ہو جاؤ تو وہ دست بردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں.پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا مگر دل میں خوش ہوں.یہ ایک حسن ظنی اور خود بینی کی رائے نہیں تھی جو ایک امام نے اپنی جماعت کے لئے خود قائم کر لی ہو بلکہ غیر لوگ اور دشمن تک جماعت احمدیہ کی اس تبدیلی کو تسلیم کرتے ہیں.چنانچہ مسٹر محمد اسلم جرنلسٹ لکھتے ہیں:.اس جماعت کے اکثر افراد بمقابلہ باقی اسلامی فرقوں کے زہد و تقویٰ میں بہت بڑھے ہوئے ہیں اور ان میں اسلام کی محبت کا جوش ایک صادقانہ پہلو لئے ہوئے ہے.قرآن مجید کے متعلق جس قدر صادقانہ محبت اس جماعت میں میں نے دیکھی کہیں نہیں دیکھی.جو کچھ میں نے احمدی قادیان میں جا کر دیکھا وہ خالص اور بے ریا تو حید پرستی تھی.۲ مسٹر فریڈرک جرمن سیاح لکھتے ہیں:.66 قادیان دہلی اور آگرہ کی طرح شاندار عمارات کا مجموعہ نہیں لیکن ایک ایسی جگہ ہے جس کے روحانی خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے.یہاں ہر دن جو گزارا جائے انسان کی روحانیت میں اضافہ کرتا ہے.میں نے ایشیا میں ایک لمبا سفر کیا ہے اور بہت مقامات دیکھے ہیں.ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں دوبارہ دیکھنے کی خواہش نہیں.بعض ایسے ہیں جنہیں پھر دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور ایسے مقامات میں قادیان کا نمبر سب سے اول ہے.“ سے پادری ایچ کریمر امریکن مشنری لکھتے ہیں:.مسلمانوں میں صرف یہی جماعت ہے جس کا واحد مقصد تبلیغ اسلام ہے.اگرچ منقول از روز نامه افضل قادیان مورخه ۱/۱۲ اپریل ۱۹۱۵ء خط بنام ڈاکٹر عبدالحکیم خاں مرتد بدر ۱۳/ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۷ تا ۹ ۳ ریویو آف ریلیجنز مئی ۱۹۳۲ء

Page 305

۲۹۵ ان کی طر ز تبلیغ میں کسی قدر سختی پائی جاتی ہے تاہم ان لوگوں میں قربانی کی روح اور تبلیغ اسلام کا جوش اور اسلام کے لئے سچی محبت کو دیکھ کر دل سے بے اختیار تعریف نکلتی ہے میں جب قادیان گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ اسلامی جوش میں اور اسلام کی آئندہ کامیابی کی امیدوں سے سرشار ہیں.مشہور عالم پادری زویمر نے جب قادیان کو دیکھا تو اس کے اداروں کا معائنہ کر کے یہ رائے ظاہر کی یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو غیر ممکن کو ممکن ثابت کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے.راسخ الاعتقادی کا یہ عالم ہے کہ وہ پہاڑوں کو جنبش دینے والی ہے.“ اخبار تیج دہلی میں ایک جو شیلے آریہ سماجی نے لکھا:.تمام دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ٹھوس اور مسلسل تبلیغی کام کرنے والی طاقت صرف احمد یہ جماعت ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم سب سے زیادہ اسی کی طرف سے غافل ہیں.بلا مبالغہ احمدیہ تحریک ایک خوفناک آتش فشاں پہاڑ ہے جو بظاہر اتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا مگر اس کے اندر ایک تباہ کن اور سیال آگ کھول رہی ہے جس سے بچنے کی کوشش نہ کی گئی تو کسی وقت موقعہ پا کر ہمیں بالکل جھلس دے گی.‘ سے ے مسلم ورلڈ اپریل ۱۹۳۱ء چرچ مشنری ریویولندن تیج ۲۵ جولائی ۱۹۲۷ء

Page 306

۲۹۶ احمدیت کی غرض وغایت جماعت احمدیہ کے عقاید بیان کرنے کے بعد ہم احمدیت کی غرض و غایت کے متعلق ایک مختصر نوٹ ہدیہ ناظرین کرنا چاہتے ہیں.اس کتاب کے شروع میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ احمدیت کی بنیادی غرض و غایت اسلام کی تجدید اور اسلام کی خدمت اور اسلام کی اشاعت ہے مگر موجودہ باب میں احمدیت کی غرض و غایت سے ہماری مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کے ذریعہ کن خیالات کی اشاعت چاہتا ہے اور کس طریق کو قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ اس جگہ احمدیت کی غرض و غایت سے اس کا منتہی اور مقصد اور اس مقصد کے حصول کا طریق مراد ہے.سواس تعلق میں سب سے پہلے یہ جانا چاہئے کہ احمدیت کسی سوسائٹی کا نام نہیں ہے جو ایک اصلاحی پروگرام کے ماتحت قائم کی گئی ہو اور نہ ہی وہ دنیا کے نظاموں میں سے ایک نظام ہے جس کا مقصد کسی خاص سکیم کا اجرا ہو بلکہ وہ ایک خالصہ الہی تحریک ہے جو اسی طریق اور اسی منہاج پر قائم کی گئی ہے جس طرح قدیم سے الہی سلسلے قائم ہوتے آئے ہیں.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب دنیا کے لوگ اپنے خالق و مالک کو بھلا کر اور اپنی پیدائش کی غرض و غایت کی طرف سے آنکھیں بند کر کے دنیا کی باتوں میں منہمک ہو جاتے ہیں اور قرب الہی کی برکات سے محروم ہو کر اس اخلاقی اور روحانی مقام سے نیچے گر جاتے ہیں جس پر خدا انہیں قائم رکھنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کسی پاک بندے کو مبعوث کر کے انہیں پھر اپنی طرف اٹھاتا ہے اور ان کے اخلاق اور ان کے تہذیب و تمدن کو ایک نئے قالب میں ڈھال کر ایک جدید نظام کی بنیاد قائم کر دیتا ہے.یہ اسی قسم کا انقلاب ہوتا ہے جس طرح کہ حضرت موسیٰ کے وقت میں ہوا یا جس طرح حضرت مسیح ناصری کے وقت میں ظہور میں آیا یا جس طرح آنحضرت کے زمانہ میں رونما ہوا کہ خدا نے ان مقدس نبیوں کے ذریعہ ایک بیج بوکر بالآ خر اسی بیج کے نتیجہ میں دنیا کی کایا پلٹ دی.پس حضرت مسیح موعود کی بعثت بھی کسی اصلاحی سوسائٹی کے قیام کی صورت میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ ایک وقتی دنیوی نظام کا رنگ رکھتی ہے بلکہ وہ ایک جدید اور

Page 307

۲۹۷ مستقل الہی نظام کی داغ بیل ہے جس کے لئے یہ مقدر ہے کہ وہ آہستہ آہستہ سارے نظاموں کو مغلوب کر کے دنیا کو ایک نئی صورت میں ڈھال دے گا.یہ نظام ملکی اور قومی حدود میں مقید نہیں ( کیونکہ حضرت مسیح موعود کی بعثت اپنے مخدوم نبی کی طرح ساری دنیا کے لئے تھی بلکہ تمام ملکوں اور سب قوموں اور سارے زمانوں کے لئے وسیع ہے اور جو انقلاب احمدیت کے پیش نظر ہے وہ دو پہلو رکھتا ہے.اوّل خدا تعالیٰ کے ساتھ بندوں کے تعلق کو ایک نئی بنیاد پر قائم کر دینا جس میں خدا تعالیٰ کا وجود ایک خیالی فلسفہ نہ ہو بلکہ ایک زندہ حقیقت کی صورت اختیار کر لے اور انسان کا اپنے خالق و مالک کے ساتھ بیچ بیچ پیوند ہو جاوے.دوسرے بندوں بندوں کا باہمی تعلق بھی ایک نئے قانون کے ماتحت نیا رنگ اختیار کر لے جس میں حقیقی مساوات اور انصاف اور تعاون اور ہمدردی کی روح کا قوام ہو.یہ تبدیلی اسلامی تعلیم کے ماتحت اور اسی کے مطابق عمل میں آئے گی مگر اس کا اجرا اسی رنگ میں ہو گا جس طرح کہ تمام الہی سلسلوں میں ہوتا چلا آیا ہے.حضرت مسیح موعود کا ایک الہام اس انقلاب کا خوب نقشہ کھینچتا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حالت کشف میں دیکھا کہ میرے اندر خدا حلول کر گیا ہے اور میرا کچھ باقی نہیں رہا بلکہ سب کچھ خدا کا ہو گیا ہے اور گویا میں خدا بن گیا ہوں اور پھر میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ:.ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں.1 اس کشفی الہام سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی بعثت اپنے اندر ایک نہایت اہم اور نہایت وسیع غرض و غایت رکھتی ہے اور وہ غرض و غایت یہی ہے کہ دنیا کے موجودہ نظام کو تو ڑ کر اس کی جگہ ایک بالکل نیا نظام قائم کر دیا جاوے.اس کشف میں آسمان سے مراد حقوق اللہ ہیں اور زمین سے مراد حقوق العباد ہیں.یعنی حضرت مسیح موعود کے ذریعہ جو انقلاب مقدر ہے وہ لوگوں کے دین اور دنیا دونوں پر ایک سا اثر انداز ہوگا اور گویا اس جہان کا آسمان بھی بدل جائے گا اور زمین بھی بدل جائے گی اور آسمان اور زمین کے الفاظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ تبدیلی ملکی اور قو می نہیں ہوگی بلکہ جس کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۰۴ - ۱۰۵

Page 308

۲۹۸ طرح یہ آسمان اور یہ زمین سارے جہان کے لئے وسیع ہیں اور سب پر حاوی ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ایک عالمگیر انقلاب پیدا ہو گا جس سے دنیا کا کوئی ملک اور دنیا کی کوئی قوم باہر نہیں رہے گی.یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے اور اس وقت اندھی دنیا ہمارے اس دعوی پر ہنستی ہے اور ایک زمانہ تک ہنستی رہے گی مگر مستقبل بتا دے گا کہ خدا کے فضل سے یہ سب کچھ ہو کر رہے گا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.الغرض حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض و غایت اور منتہیٰ یہ ہے کہ تجدید اسلام اور اشاعت اسلام کے کام کو اس رنگ میں مکمل کیا جاوے کہ دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہو جاوے اور دنیا کے موجودہ نظام کو توڑ کر اور موجودہ تہذیب و تمدن کے نام و نشان کو مٹا کر صحیح اسلامی نظام اور صحیح اسلامی تہذیب کو قائم کیا جاوے تا کہ یہ دنیا جواب مردہ روحانیت اور گندی تہذیب کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہی وہ ایک نئی زمین اور نئے آسمان کے نیچے آ کر پھر بہشت کا نمونہ بن جاوے.دنیا اس دعویٰ پر بے شک جتنی چاہے ہنسی اڑائے اور اس کے رستہ میں جتنی چاہے روکیں ڈالے مگر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا یعنی یہ ایک خدائی تقدیر ہے جو ہر حال میں ہوکر رہے گی.لے تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۷

Page 309

۲۹۹ خلافت کا نظام اور حضرت خلیفہ المسح اوّل کا عہد خلافت اُوپر کے ابواب میں ہم کی تعلیم اور احمدیت کی غرض و غایت کا ایک مختصر نقشہ ہدیہ ناظرین کر چکے ہیں.یہ نقشہ حضرت مسیح موعود کے سوانح حیات کے معابعد درج کیا جانا ضروری تھا تا کہ حضرت مسیح موعود کے خدا داد مشن کی پوری پوری تصویر یکجا طور پر ناظرین کے سامنے آجائے.اس کے بعد ہم پھر کے تاریخی پہلو کی طرف عود کر کے ان حالات کو بیان کرنا چاہتے ہیں جو حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد جماعت کو پیش آئے.مگر اس سے پہلے نظام خلافت کے متعلق ایک مختصر نوٹ درج کرنا بے جانہ ہوگا.خلافت کا نظام :.قرآن شریف کی تعلیم اور سلسلہ رسالت کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی رسول اور نبی کو بھیجتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ ایک آدمی دنیا میں آئے اور ایک آواز دے کر واپس چلا جاوے.بلکہ ہر نبی اور رسول کے وقت خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک تغیر اور انقلاب پیدا کرے جس کے لئے ظاہری اسباب کے ماتحت ایک لمبے نظام اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ ایک آدمی کی عمر بہر حال محدود ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نبی کے ہاتھ سے صرف تخم ریزی کا کام لیتا ہے اور اس تخم ریزی کو انجام تک پہنچانے کے لئے نبی کی وفات کے بعد اس کی جماعت میں سے قابل اور اہل لوگوں میں یکے بعد دیگرے اس کے جانشین بنا کر اس کے کام کی تکمیل فرماتا ہے.یہ جانشین اسلامی اصطلاح میں خلیفہ کہلاتے ہیں کیونکہ خلیفہ کے معنے پیچھے آنے والے اور دوسرے کی جگہ قائم مقام بننے والے کے ہیں.یہ سلسلہ خلافت قدیم زمانہ سے ہر نبی کے بعد ہوتا چلا آیا ہے چنانچہ حضرت موسی" کے بعد یوشع خلیفہ ہوئے اور حضرت عیسی کے بعد پطرس خلیفہ ہوئے اور آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے بلکہ آنحضرت ﷺ کے بعد یہ سلسلہ خلافت تمام سابقہ نبیوں کی نسبت زیادہ شان اور زیادہ

Page 310

آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہوا.اس نظام خلافت میں نبی کے کام کی تکمیل کے علاوہ ایک حکمت یہ بھی مد نظر ہوتی ہے کہ تاجودھ کا نبی کی وفات کے وقت نبی کی نئی نئی جماعت کو لگتا ہے جو ایک ہولناک زلزلہ سے کم نہیں ہوتا اس میں جماعت کو سنبھالنے کا انتظام رہے.پس ضروری تھا کہ حضرت مسیح موعود کے وقت میں بھی خدا کی یہ قدیم سنت پوری ہو چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.” خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ..وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا.کچھ میرے ہاتھ سے کچھ میرے بعد.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے...اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے.ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا

Page 311

۳۰۱ سواے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوئے.....میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.خلفاء کے تقرر اور ان کے مقام کے متعلق اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خلافت کا منصب کسی صورت میں بھی ورثہ میں نہیں آسکتا بلکہ یہ ایک مقدس امانت ہے جو مومنوں کے انتخاب کے ذریعہ جماعت کے قابل ترین شخص کے سپرد کی جاتی ہے اور چونکہ نبی کی جانشینی کا مقام ایک نہایت نازک اور اہم روحانی مقام ہے اس لئے اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ گو بظاہر خلیفہ کا انتخاب لوگوں کی رائے سے ہوتا ہے مگر اس معاملہ میں خدا تعالیٰ خود آسمان سے نگرانی فرماتا ہے اور اپنے تصرف خاص سے لوگوں کی رائے کو ایسے رستہ پر ڈال دیتا ہے جو اس کے منشاء کے مطابق ہو.اس طرح گو بظاہر خلیفہ کا تقرر انتخاب کے ذریعہ عمل میں آتا ہے مگر دراصل اس انتخاب میں خدا کی مخفی تقدیر کام کرتی ہے اور اسی لئے خدا نے خلفاء کے تقرر کو خود اپنی طرف منسوب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ خلیفہ ہم خود بناتے ہیں یہ ایک نہایت لطیف روحانی انتظام ہے جسے شاید دنیا کے لوگوں کے لئے سمجھنا مشکل ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ خلیفہ کا تقرر ایک طرف تو مومنوں کے انتخاب سے اور دوسری طرف خدا کی مرضی کے مطابق ظہور پذیر ہوتا ہے اور خدائی تقدیر کی مخفی تاریں لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر منظور ایزدی کی طرف مائل کر دیتی ہیں.پھر جب ایک شخص خدائی تقدیر کے ماتحت خلیفہ منتخب ہو جاتا ہے تو اس کے متعلق اسلام کا حکم یہ ہے کہ تمام مومن اس کی پوری پوری اطاعت کریں اور خود اس کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ تمام اہم اور ضروری امور میں مومنوں کے مشورہ سے کام کرے اور گو وہ مشورہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں بلکہ اگر مناسب خیال کرے تو مشورہ کو رد کر کے اپنی رائے سے جس طرح چاہے فیصلہ کر سکتا ہے.مگر بہر حال.رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۰۳ تا ۳۰۶.ہم نے اس جگہ اختصار کی غرض سے اس حوالہ کو کاٹ کاٹ کر درج کیا ہے مگر ہم اپنے ناظرین سے درخواست کریں گے کہ وہ الوصیت کے اس لطیف حصہ کو ضرور مکمل صورت میں مطالعہ کریں.

Page 312

٣٠٢ اسے مشورہ لینے اور لوگوں کی رائے کا علم حاصل کرنے کا ضرور حکم ہے.اسلام میں یہ نظام خلافت ایک نہایت عجیب و غریب بلکہ عدیم المثال نظام ہے یہ نظام موجود الوقت سیاسیات کی اصطلاح میں نہ تو پوری طرح جمہوریت کے نظام کے مطابق ہے اور نہ ہی اسے موجودہ زمانہ کی ڈکٹیٹر شپ کے نظام سے تشبیہہ دے سکتے ہیں بلکہ یہ نظام ان دونوں کے بین بین ایک علیحدہ قسم کا نظام ہے.جمہوریت کے نظام سے تو وہ اس لئے جدا ہے کہ جمہوریت میں صدر حکومت کا انتخاب میعادی ہوتا ہے مگر اسلام میں خلیفہ کا انتخاب میعادی نہیں بلکہ عمر بھر کے لئے ہوتا ہے.دوسرے جمہوریت میں صدر حکومت بہت سی باتوں میں لوگوں کے مشورہ کا پابند ہوتا ہے مگر اسلام میں خلیفہ کو مشورہ لینے کا حکم تو بے شک ہے مگر وہ اس مشورہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں.بلکہ مصلحت عامہ کے ماتحت اسے رد کر کے دوسرا طریق اختیار کر سکتا ہے.دوسری طرف یہ نظام ڈکٹیٹر شپ سے بھی مختلف ہے کیونکہ اول تو ڈکٹیٹر شپ میں میعادی اور غیر میعادی کا سوال نہیں ہوتا اور دونوں صورتیں ممکن ہوتی ہیں دوسرے ڈکٹیٹر کو عموماً کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں حتی کہ وہ حسب ضرورت پرانے قانون کو بدل کر نیا قانون جاری کر سکتا ہے مگر نظام خلافت میں خلیفہ کے اختیارات بہر صورت شریعت اسلامی اور نبی متبوع کی ہدایات کی قیود کے اندر محدود ہیں.اسی طرح ڈکٹیٹر مشورہ لینے کا پابند نہیں مگر خلیفہ کومشورہ لینے کا حکم ہے.الغرض خلافت کا نظام ایک نہایت ہی نادر اور عجیب و غریب نظام ہے جو اپنی روح میں تو جمہوریت کے قریب تر ہے مگر ظاہری صورت میں ڈکٹیٹر شپ سے زیادہ قریب ہے.مگر وہ حقیقی فرق جو خلافت کو دنیا کے جملہ نظاموں سے بالکل جدا اور ممتاز کر دیتا ہے وہ اس کا دینی منصب ہے.خلیفہ ایک انتظامی افسر ہی نہیں ہوتا بلکہ نبی کا قائم مقام ہونے کی وجہ سے اسے ایک روحانی مقام بھی حاصل ہوتا ہے.وہ نبی کی جماعت کی روحانی اور دینی تربیت کا نگران ہوتا ہے اور لوگوں کے لئے اسے عملی نمونہ بننا پڑتا ہے اور اس کی سنت سند قرار پاتی ہے.ابو داؤد كتاب السنة

Page 313

٣٠٣ پس منصب خلافت کا یہ پہلو نہ صرف اسے دوسرے تمام نظاموں سے ممتاز کر دیتا ہے بلکہ اس قسم کے روحانی نظام میں میعادی تقریر کا سوال ہی نہیں اٹھ سکتا.خلافت کے نظام کے متعلق یہ مختصر اور اصولی نوٹ درج کرنے کے بعد ہم اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں لے جماعت احمدیہ میں پہلے خلیفہ کا انتخاب: یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی وفات پر تمام جماعت نے متفقہ اور متحدہ طور پر حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی کو حضرت مسیح موعود کا خلیفہ اور جانشین منتخب کیا تھا.یہ ۲۷ رمئی ۱۹۰۸ء کا واقعہ ہے.یہ تقرر اسلامی طریق پر انتخاب کی صورت میں ہوا تھا یعنی حضرت مسیح موعود کی وفات پر قادیان اور بیرونجات کے جو احمدی جمع تھے اور ان میں جماعت کا چیدہ حصہ شامل تھا انہوں نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو حضرت مسیح موعود کا پہلا خلیفہ منتخب کر کے آپ کے ہاتھ پر اطاعت اور اتحاد کا عہد باندھا.اس انتخاب اور اس بیعت میں صدر انجمن احمدیہ کے جملہ ممبران اور حضرت مسیح موعود کے خاندان کے جملہ افراد اور تمام حاضر الوقت احمدی اصحاب شریک و شامل تھے اور کسی ایک فرد واحد نے بھی حضرت مولوی صاحب کی خلافت کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اور اس طرح حضرت مسیح موعود کے بعد نہ صرف جماعت احمدیہ کا بلکہ صدر انجمن احمدیہ کا بھی پہلا اجماع خلافت کی تائید میں ہوا.حضرت مولوی نورالدین صاحب جو حضرت مسیح موعود کے رشتہ داروں میں سے نہیں تھے جماعت کے بزرگ ترین اصحاب میں سے تھے اور اپنے علم وفضل اور تقوی وطہارت میں جماعت کے اندر عدیم المثال حیثیت رکھتے تھے.آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی سب سے اوّل نمبر پر بیعت کی تھی اور حضرت مسیح موعود آپ کو اپنے خاص الخاص دوستوں اور محبتوں میں شمار کرتے تھے اور تمام جماعت احمدیہ میں آپ کا ایک خاص اثر اور رعب تھا حضرت مولوی صاحب دینی علم میں کامل ہونے کے علاوہ علم طب اور دیگر علوم مشرقیہ میں نہایت بلند پایہ رکھتے تھے اور قادیان آنے سے قبل مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر کے دربار میں بطور شاہی طبیب کام کر چکے تھے.ے نظام خلافت کے متعلق مفصل بحث کے لئے خاکسار کی کتاب ”سیرۃ خاتم النبین“ کا متعلقہ باب ملاحظہ فرمائیں.

Page 314

۳۰۴ حضرت مولوی صاحب کے ہاتھ پر جماعت احمدیہ نے پہلی بیعت حضرت مسیح موعود کے اس باغ میں کی تھی جو بہشتی مقبرہ کے قریب ہے اور وہیں حضرت مولوی صاحب کی قیادت میں حضرت مسیح موعود کی نماز جنازہ ادا کی گئی.بیعت کے بعد حضرت مولوی صاحب نے ایک نہایت مؤثر اور دردانگیز تقریر فرمائی جس میں حضرت مسیح موعود کے بعد جماعت کو اس کی بھاری ذمہ داریاں یاد دلائیں اور فرمایا کہ ظاہری اسباب میں سے ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے کہ جماعت اپنے اتحاد کو قائم رکھ کر اس عظیم الشان کام کو جاری رکھے جسے حضرت مسیح موعود نے شروع کر رکھا تھا.آپ نے فرمایا کہ مجھے خلیفہ بنے یا جماعت کو اپنے پیچھے لگانے کی کوئی خواہش نہیں تھی بلکہ میں چاہتا تھا کہ کوئی اور شخص اس بوجھ کو اٹھائے مگر اب جبکہ آپ لوگوں نے مجھے خلیفہ منتخب کیا ہے تو اس انتخاب کو خدا کی مرضی یقین کرتے ہوئے میں اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں لیکن یہ ضروری ہوگا کہ آپ لوگ میری پوری پوری اطاعت کریں تا کہ جماعت کے اتحاد میں فرق نہ آئے اور ہم سب مل کر اس کشتی کو آگے چلا سکیں جو خدا نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دنیا کے متلاطم سمندر میں ڈوبتے ہوؤں کو بچانے کے لئے ڈالی ہے.جماعت پھر ایک جھنڈے کے نیچے :.قادیان کی بیعت خلافت کے بعد جوں جوں بیرونجات کی جماعتوں اور دوستوں کو حضرت مسیح موعود کی وفات اور حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی اطلاع پہنچی سب نے بلا استثناء اور بلا تامل حضرت خلیفہ اول کی اطاعت قبول کی اور ایک نہایت ہی قلیل عرصہ میں جماعت احمدیہ کا ہر متنفس خلافت کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گیا اور حضرت مسیح موعود کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ:.میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.یہ نظارہ کے دشمنوں کے لئے نہایت درجہ روح فرسا تھا جو حضرت مسیح موعود کی الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶

Page 315

۳۰۵ وفات کے بعد یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ بس اب اس سلسلہ کے مٹنے کا وقت آ گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے جماعت کو پھر ایک ہاتھ پر جمع کر کے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور دنیا کو بتادیا کہ یہ پودا خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا ہے اور کسی انسان کو طاقت نہیں کہ اسے مٹا سکے.جماعت میں انشقاق کا بیج : مگر جہاں حضرت مسیح موعود کی وفات پر خدا نے اپنی قدیم سنت کے مطابق آپ کی گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال کر اپنی قدرت نمائی کا ثبوت دیا وہاں تقدیر کے بعض دوسرے نوشتے بھی پورے ہونے والے تھے.چنانچہ ابھی حضرت مسیح موعود کی وفات پر ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ بعض لوگوں نے جن کے ہاتھ پر اس فتنہ کا بیج ہونا مقدر تھا مخفی مخفی اور آہستہ آہستہ یہ سوال اٹھانا شروع کیا کہ دراصل حضرت مسیح موعود کا یہ منشاء نہیں تھا کہ آپ کے بعد جماعت میں کسی واجب الاطاعت خلافت کا نظام قائم ہو بلکہ آپ کا منشاء یہ تھا کہ سلسلہ کا سارا انتظام صدرانجمن احمدیہ کے ہاتھ میں رہے جس کی آپ نے اسی غرض سے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بنیا د رکھی تھی.پس اگر کسی خلیفہ کی ضرورت ہو بھی تو وہ صرف بیعت لینے کی غرض سے ہوگا اور انتظام کی ساری ذمہ داری صد را انجمن احمدیہ کے ہاتھ میں رہے گی.اس سوال کی ابتداء صدر انجمن احمدیہ کے بعض ممبروں کی طرف سے ہوئی تھی جن میں مولوی محمد علی صاحب ایم اے ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز قادیان اور خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ایل ایل بی لاہور زیادہ نمایاں حیثیت رکھتے تھے.ان اصحاب اور ان کے رفقاء نے خفیہ خفیہ اپنے دوستوں اور ملنے والوں میں اپنے خیالات کو پھیلانا شروع کر دیا اور ان کی بڑی دلیل یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود کی وصیت میں خلافت کا ذکر نہیں ہے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود نے اپنی ایک غیر مطبوعہ تحریر میں صدر انجمن احمدیہ کے حق میں اس قسم کے الفاظ لکھے ہیں کہ میرے بعد اس انجمن کا فیصلہ قطعی ہوگا وغیر ذالک.دلوں کا حال تو خدا جانتا ہے مگر ظاہری حالات پر اندازہ کرتے ہوئے اس سوال کے اٹھانے والوں کی نیت اچھی نہیں سمجھی جاسکتی تھی کیونکہ :.

Page 316

اول جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے اس سوال کے اٹھا نیوالے صدر انجمن احمد یہ ہی کے بعض ممبر تھے اور یہ ظاہر ہے کہ انجمن کے طاقت میں آنے سے خود ان کو طاقت حاصل ہوتی تھی.دوم حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد صدرانجمن احمد یہ اپنے سب سے پہلے فیصلہ میں اتفاق رائے کے ساتھ یہ قرار دے چکی تھی کہ جماعت میں ایک واجب الا طاعت خلیفہ ہونا چاہئے.لے پس اگر بالفرض حضرت مسیح موعود کی کسی تحریر کا یہ منشاء تھا بھی کہ میرے بعد انجمن کا فیصلہ قطعی ہوگا تو صدرانجمن احمد یہ خلافت کے حق میں فیصلہ کر کے خود خلافت کو قائم کر چکی تھی اور جن اصحاب نے اب خلافت کے خلاف سوال اٹھایا تھا وہ سب اس فیصلہ میں شریک تھے اور اس کے مؤید و حامی تھے.پس اس جہت سے بھی یہ نیا پراپیگنڈا ایک دیانتداری کا فعل نہیں سمجھا جاسکتا تھا.سوم یہ بات قطعاً غلط تھی کہ حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں خلافت کا ذکر نہیں کیا بلکہ جیسا کہ ہم الوصیت کا ایک اقتباس او پر درج کر چکے ہیں حضرت مسیح موعود نے صراحت اور تعیین کے ساتھ خلافت کا ذکر کیا تھا بلکہ حضرت ابوبکر کی مثال دے کر بتایا تھا کہ ایسا ہی میرے سلسلہ میں ہوگا اور یہ تصریح کی تھی کہ میرے بعد نہ صرف ایک خلیفہ ہوگا بلکہ خلافت کا ایک لمبا سلسلہ چلے گا اور متعدد افراد قدرتِ ثانیہ کے مظہر ہوں گے.پس ایسی صراحت کے ہوتے ہوئے یہ دعوی کس طرح دیانتداری پر مبنی سمجھا جاسکتا تھا کہ الوصیت میں خلافت کا ذکر نہیں.چہارم غالبا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس سوال کے اٹھانے والوں نے کھلے طور پر اس سوال کو نہیں اٹھایا بلکہ حضرت خلیفہ اول سے مخفی رکھ کر ے دیکھو اعلان خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ مندرجہ الحکم مورخه ۲۸ مئی ۱۹۰۸ء تلخیص از بدرمورخ ۱۲ جون ۱۹۰۸ صفحها

Page 317

۳۰۷ ر خفیہ خفیہ پراپیگنڈہ کیا جو یقیناً اچھی نیت کی دلیل نہیں ہے.مندرجہ بالا وجوہات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان اصحاب کی نیت صاف نہیں تھی اور یہ ساری کوشش محض اپنے آپ کو طاقت میں لانے یا کسی دوسرے کی ماتحتی سے اپنے آپ کو بچانے کی غرض سے تھی ان کا یہ عذر کہ یہ جمہوریت کا زمانہ ہے اور ہم سلسلہ کے اندر جمہوری نظام قائم کرنا چاہتے ہیں یا تو محض ایک بہانہ تھا اور یا پھر یہ اس بات کی دلیل تھی کہ یہ اصحاب میں منسلک ہو جانے کے باوجود سلسلہ کی اصل غرض و غایت اور اس کے مقصد و منتہی سے بے خبر تھے اور اسے ایک محض دنیوی نظام سمجھ کر دنیا کے سیاسی قانون کے ماتحت لانا چاہتے تھے گو یہ علیحدہ بات ہے کہ دنیا کا سیاسی قانون بھی کلی طور پر جمہوریت کے حق میں نہیں ہے.پس اس فتنہ کے کھڑا کرنے والوں نے ایک نہایت بھاری ذمہ داری کو اپنے سر پر لیا اور خدا کی برگزیدہ جماعت میں انشقاق وافتراق کا بیج بویا.اور اپنے نفسوں کو گرانے کی بجائے خدا کی قدیم سنت اور اسلام کے صریح حکم اور حضرت مسیح موعود کی واضح تعلیم کو پس پشت ڈال دیا.ممکن ہے کہ یہ اصحاب اپنی جگہ اپنی نیت کو اچھا سمجھتے ہوں اور دھوکا خوردہ ہوں اور ہم بھی اس بات کے مدعی نہیں کہ ہم نے ان کا دل چیر کر دیکھا ہے مگر ان ٹھوس حالات میں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں دھوکا خوردہ ہونے کی صورت میں بھی ان کی بدقسمت کا بوجھ کچھ کم نہیں ہے اے کاش وہ ایسانہ کرتے !! جب ان خیالات کا زیادہ چرچا ہونے لگا اور حضرت خلیفہ اسی اول تک سارے حالات پہنچے تو آپ نے جماعت میں ایک فتنہ کا دروازہ کھلتا دیکھ کر اس معاملہ کی طرف فوری توجہ فرمائی اور ۳۱ /جنوری ۱۹۰۹ء بروز اتوار جماعت کے سرکردہ ممبروں کو قادیان میں جمع کر کے مسجد مبارک میں ایک تقریر فرمائی جس میں مسئلہ خلافت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال کر جماعت کو بتایا کہ اصل چیز خلافت ہی ہے جو نظام اسلامی کا ایک اہم اور ضروری حصہ ہے اور حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے بھی خلافت ہی کا ثبوت ملتا ہے اور صدرانجمن احمد یہ ایک عام انتظامی انجمن ہے جسے خلافت کے منصب سے کوئی تعلق نہیں اور پھر یہ کہ خود انجمن بھی اپنی سب سے پہلی قرار داد میں خلافت کا فیصلہ کر چکی

Page 318

۳۰۸ ہے.اس موقعہ پر آپ نے حاضرین کو جن میں منکرین خلافت کے سرکردہ اصحاب شامل تھے نصیحت بھی فرمائی کہ دیکھو حضرت مسیح موعود کے اس قدر جلد بعد جماعت میں اختلاف اور انشقاق کا بیج نہ بو اور جس جھنڈے کے نیچے تمہیں خدا نے جمع کر دیا ہے اس کی قدر کرو.آپ کی یہ تقریر اس قدر دردناک اور رقت آمیز تھی کہ اکثر حاضرین بے اختیار ہو کر رونے لگے اور منکرین خلافت نے بھی معافی مانگ کر اپنے آپ کو پھر خلافت کے قدموں پر ڈال دیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان اصحاب کی اندرونی بیماری اس سے بہت زیادہ گہری تھی جو مجھی گئی تھی کیونکہ تھوڑے عرصہ کے بعد ہی ظاہر ہوا کہ مؤیدین انجمن کا مخفی پراپیگنڈا بدستور جاری ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ زوروں میں ہے.چونکہ یہ لوگ حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر چکے تھے اور اس سے پیچھے ہٹنا مشکل تھا اس لئے اب آہستہ آہستہ انہوں نے یہ بھی کہنا شروع کیا کہ ہمیں حضرت مولوی صاحب کی امامت پر تو اعتراض نہیں ہے اور وہ اپنی ذاتی قابلیت اور ذاتی علم وفضل سے ویسے بھی واجب الاحترام اور واجب الاطاعت ہیں مگر ہمیں اصل فکر آئندہ کا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کے بعد کیا ہوگا کیونکہ ہم مولوی صاحب کے بعد کسی اور شخص کی قیادت کو خلافت کی صورت میں قبول نہیں کر سکتے.افسوس ہے کہ ان کا یہ عذر بھی دیانتداری پر مبنی نہیں سمجھا جا سکتا تھا کیونکہ جیسا کہ متعدد تحریری شہادات سے ثابت ہے ان اصحاب نے اپنے خاص الخاص حلقہ میں خود حضرت خلیفہ اول کی ذات کے خلاف بھی پراپیگنڈا شروع کر رکھا تھا مگر بہر حال اس وقت ان کا ظاہر قول یہی تھا کہ ہمیں اصل فکر آئندہ کا ہے کہ پیچھے تو جو کچھ ہونا تھا ہو گیا اب کم از کم آئندہ یہ خلافت کا سلسلہ جاری نہ رہے.اس قول میں ان کا اشارہ حضرت مسیح موعود کے بڑے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( موجودہ امام جماعت احمدیہ) کی طرف تھا جن کی قابلیت اور تقویٰ طہارت کی وجہ سے اب آہستہ آہستہ لوگوں کی نظریں خود بخود اس طرف اٹھ رہی تھیں کہ حضرت مولوی صاحب کے بعد وہی جماعت کے خلیفہ ہوں گے.اس کے بعد سے گویا منکرین خلافت کی پالیسی نے دہرا رخ

Page 319

۳۰۹ اختیار کر لیا.اول یہ کہ انہوں نے اس بات کا پراپیگنڈا جاری رکھا کہ جماعت میں اصل چیز انجمن ہے نہ کہ خلافت.دوم یہ کہ انہوں نے ہر رنگ میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو نیچا کرنے اور جماعت میں بدنام کرنے کا طریق اختیار کر لیا.تا کہ اگر جماعت خلافت کے انکار کے لئے تیار نہ ہو تو کم از کم وہ خلیفہ نہ بن سکیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بار بار حلف اٹھا کر کہا کہ میرے وہم و گمان میں بھی خلیفہ بنے کا خیال نہیں ہے اور ایک خلیفہ کے ہوتے ہوئے آئندہ خلیفہ کا ذکر کرنا ہی ناجائز اور خلاف تعلیم اسلام ہے پس خدا کے لئے اس قسم کے ذاتی سوالات کو اٹھا کر جماعت کی فضا کو مزید مکدر نہ کرو مگر ان خدا کے بندوں نے ایک نہ سنی اور حضرت مولوی صاحب کی زندگی کے آخری لمحہ تک اپنے اس دہرے پراپیگنڈے کو جاری رکھا.بلکہ حضرت خلیفہ اول کے خلاف بھی اپنے خفیہ طعنوں کے سلسلہ کو چلاتے چلے گئے.اس عرصہ میں حضرت خلیفہ اول نے بھی متعدد موقعوں پر خلافت کی تائید میں تقریریں فرمائیں اور طرح طرح سے جماعت کو سمجھایا کہ خلافت ایک نہایت ہی بابرکت نظام ہے جسے اسلام نے ضروری قرار دیا ہے اور خدا تعالیٰ اس نظام کے ذریعہ نبی کے کام کو مکمل فرمایا کرتا ہے اور ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی رہی ہے اور حضرت مسیح موعود نے بھی اپنے بعد خلافت کا وعدہ فرمایا تھا اور یہ کہ گو بظاہر خلیفہ کا تقر رمومنوں کے انتخاب سے ہوتا ہے مگر دراصل اسلامی تعلیم کے ماتحت خلیفہ خدا بناتا ہے وغیرہ وغیرہ.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اب جب میں خلافت کا نظام عملاً قائم ہو چکا ہے اور تم ایک ہاتھ پر بیعت کر چکے ہو تو اب تم میں یا کسی اور میں یہ طاقت نہیں ہے کہ خدا کی مشیت کے رستے میں حائل ہو اور فرمایا کہ جو قمیض مجھے خدا نے پہنائی ہے وہ میں اب کسی صورت میں اتار نہیں سکتا.مگر افسوس که منکرین خلافت کا پراپیگنڈا ایسی نوعیت اختیار کر چکا تھا کہ ان پر کسی دلیل کا اثر نہیں ہوا اور بظاہر حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے خلافت کے خلاف اپنی خفیہ کارروائیوں کو جاری رکھا.لیکن حضرت خلیفہ اول کی تقریروں سے ایک عظیم الشان فائدہ ضرور ہو گیا

Page 320

۳۱۰ اور وہ یہ کہ جماعت کا کثیر حصہ خلافت کی اہمیت اور اس کی برکات اور اس کے خدا دا د منصب کو اچھی طرح سمجھ گیا اور ان گم گشتگان راہ کے ساتھ ایک نہایت قلیل حصہ کے سوا اور کوئی نہ رہا.اور جب ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوئی تو بعد کے حالات نے بتا دیا کہ حضرت خلیفہ اول کی مسلسل اور ان تھک کوششوں نے جماعت کو ایک خطرناک گڑھے میں گرنے سے محفوظ کر رکھا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد کا یہ ایسا جلیل القدر کا رنامہ ہے کہ اگر اس کے سوا آپ کے عہد میں کوئی اور بات نہ بھی ہوتی تو پھر بھی اس کی شان میں فرق نہ آتا.خلافت کے سوال کے علاوہ منکرین خلافت نے جماعت میں آہستہ آہستہ یہ سوال بھی پیدا کر دیا تھا کہ کیا حضرت مسیح موعود پر ایمان لانا ضروری ہے؟ اور کیا حضرت مسیح موعود نے واقعی نبوت کا دعویٰ کیا تھا؟ ان لوگوں کا یہ عقیدہ ہو گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود پر ایمان لانا اچھا تو ہے مگر ضروری نہیں اور ایک مسلمان آپ پر ایمان لانے کے بغیر بھی نجات پاسکتا ہے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ صرف مجددیت اور مسیحیت کا دعویٰ کیا تھا ہم جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد کے باب میں ان مسائل پر کافی روشنی ڈال چکے ہیں اور اس جگہ اس بحث کے اعادہ کی ضرورت نہیں مگر اس تبد یلی عقیدہ کی وجوہات اور اس کے نتائج کے متعلق ہم انشاء اللہ آگے چل کر روشنی ڈالیں گے جبکہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جماعت کے عملی افتراق کی بحث آئے گی کیونکہ اسی وقت ان تبدیل شدہ عقیدوں کا پورا ظہور ہوا.قرآن شریف کا انگریزی ترجمہ :.چونکہ حضرت مسیح موعود کی بعثت کی اغراض میں سے ایک غرض قرآنی علوم کی اشاعت تھی اس لئے جماعت احمد یہ میں قرآن شریف کو سمجھنے اور پھر اس کے علوم کو دوسروں تک پہنچانے کی طرف خاص توجہ تھی اور حضرت خلیفہ اول کے درس قرآن نے اس شوق کو اور بھی جلا دے دی تھی چنانچہ کئی احمدیوں نے قرآن شریف کی تفسیر لکھنے کی کوشش کی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے رنگ میں اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان کو کامیاب کیا انہی کوششوں میں سے ایک

Page 321

۳۱۱ کوشش مولا نا سید محمد سرور شاہ صاحب کی تھی.مولانا موصوف سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک جید عالم ہیں اور حضرت مسیح موعود کے خاص صحابہ میں شامل ہیں انہوں نے صدر انجمن احمد یہ کے انتظام کے ماتحت حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ایک تغیر اردو میں لکھنی شروع کی اور یہ کام حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بھی جاری رہا.یہ تفسیر بہت مفصل تھی مگر افسوس ہے کہ قریباً آٹھ پاروں کی تفسیر شائع ہو جانے کے بعد صدر انجمن احمد یہ اس مفید کام کو جاری نہیں رکھ سکی.اسی زمانہ میں یعنی حضرت خلیفہ اول کے عہد خلافت کے اوائل میں صدرا انجمن احمدیہ نے مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو مقرر کیا کہ وہ قرآن شریف کا انگریزی میں ترجمہ کریں اور اس کے ساتھ مختصر تفسیری نوٹ بھی لکھیں تا کہ یہ ترجمہ ممالک مغربی میں شائع کیا جا سکے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف نے کئی سال لگا کر اور کافی محنت اٹھا کر ایک انگریزی ترجمہ تیار کیا اور تفسیری نوٹوں کی تیاری میں حضرت خلیفہ اول سے جو ایک عدیم المثال مفسر قرآن تھے کافی امداد لی مگر پیشتر اس کے کہ یہ کام تکمیل کو پہنچتا حضرت خلیفہ اول کی وفات ہو گئی اور مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی مرکز سلسلہ سے کٹ کر لاہور چلے گئے.اور گو اس ترجمہ کے جملہ مصارف صدر انجمن احمدیہ نے برداشت کئے تھے اور صد را انجمن احمد یہ بدستور قادیان میں قائم تھی مگر لاہور جاتے ہوئے وہ اس ترجمہ اور تفسیر کو بھی اپنے ساتھ لیتے گئے اور وہیں اسے مکمل کر کے اپنی طرف سے شائع کر دیا.ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس ترجمہ اور تفسیر کی تکمیل کے وقت اس میں کیا کیا تبدیلی کی گئی کیونکہ اس وقت جماعت کے اندرونی اختلافات نے زور پکڑ کر ساری فضا کو سخت مسموم کر رکھا تھا.مگر بہر حال یہ ظاہر ہے کہ اختلافی مسائل میں مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر نے ایک دوسرا رنگ اختیار کرلیا.قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر :.جب ایک جماعت بنتی ہے تو اس کے رستہ میں ہر قسم کی ضروریات پیش آتی ہیں جو اسے پوری کرنی پڑتی ہیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کا اضافہ ہوا.مثلاً حضرت خلیفہ اول کے عہد میں قادیان کی جامع

Page 322

۳۱۲ مسجد یعنی مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی جو پہلے سے قریباً دو گنی بڑھ گئی.اسی طرح آپ کے زمانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے بورڈنگ کی عظیم الشان عمارتیں تیار ہوئیں جن پر قریباً سوالاکھ روپیہ خرچ ہوا.ان عمارتوں کے تیار کروانے میں براہ راست حضرت خلیفہ اول کی رائے اور تجویز کا دخل نہیں تھا بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے ممبروں کی کوشش اور توجہ سے یہ عمارتیں تیار ہوئیں مگر آپ کے زمانہ میں ان کا تیار ہونا آپ ہی کی طرف منسوب ہوگا.اسی طرح آپ کے زمانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے وسیع احاطہ میں مسجد نور“ بھی تیار ہوئی اور سکول کے قریب ایک شفاخانہ بھی تیار ہوا جس کا نام نور ہسپتال“ رکھا گیا.ہسپتال کی تیاری کلیہ اور مسجد نور کی تیاری بڑی حد تک ہمارے بلند ہمت نانا حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم کی کوشش کا نتیجہ تھی جنہوں نے باوجود پیرانہ سالی کے احمدی جماعتوں میں دورہ کر کے ان عمارات کے لئے ایک بھاری رقم فراہم کی.الغرض تعمیر عمارات کے لحاظ سے حضرت خلیفہ اول کا عہد ایک نمایاں خصوصیت رکھتا ہے.جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں ان باتوں کو جماعت کی دینی اور تبلیغی کام سے تو کوئی تعلق نہیں مگر بہر حال وہ جماعت کی ترقی کا حصہ تھیں کیونکہ قادیان کی ظاہری رونق میں اضافہ ہونا بھی فی الجملہ سلسلہ کی ترقی کی علامت ہے.جماعت احمدیہ کے پریس میں نمایاں اضافہ :.حضرت خلیفہ اول کے عہد میں جماعت کے پریس میں بھی نمایاں اضافہ ہوا یعنی آپ کے زمانہ میں جماعت میں چار نئے اخبارات جاری ہوئے.سب سے پہلے ۱۹۰۹ء میں قادیان سے اخبار ”نور“ کا اجراء ہوا جو ایک نو مسلم احمدی شیخ محمد یوسف صاحب نے سکھوں میں تبلیغ اسلام کے لئے جاری کیا.اس کے بعد ایک اخبار ”الحق دہلی سے میر قاسم علی صاحب نے ۱۹۱۰ ء میں جاری کیا اور پھر قادیان سے ایک اور اخبار الفضل‘۱۹ار جون ۱۹۱۳ء سے جاری ہوا.یہ اخبار حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( موجودہ امام جماعت احمدیہ ) نے تبلیغی اور تربیتی اور علمی اغراض کے ماتحت جاری کیا تھا اور خدا کے فضل سے اس نے بہت اچھی خدمات سرانجام دیں.یہ وہی اخبار ہے جو حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد سے جماعت احمدیہ کا

Page 323

۳۱۳ مرکزی آرگن ہے.چوتھا اخبار ”پیغام صلح لاہور سے مار جولائی ۱۹۱۳ء سے جاری ہوا.اس اخبار کے انتظام کی باگ ڈوران اصحاب کے ہاتھ میں تھی جو خلافت کو اڑا کر صدرانجمن احمدیہ کے انتظام کو قائم کرنا چاہتے تھے اور اب یہی اخبار لاہوری پارٹی کا افیشل آرگن ہے.یہ جملہ اخبارات ہفتہ واری تھے اور ان سے جماعت کے پریس کی تعداد میں ایک نمایاں اضافہ ہوا.اور چونکہ حضرت خلیفہ اوّل کے آخری ایام میں گورنمنٹ کی طرف سے ضمانت کا مطالبہ ہونے پر اخبار بدر بند ہو گیا تھا اور صرف الحکم باقی تھا اس لئے ان جدید چار اخباروں کے اجراء سے جماعت کے اخباروں کی تعداد پانچ تک پہنچ گئی جو جماعت کی تعداد اور وسعت کے لحاظ سے یقیناً ایک بہت بڑی تعداد تھی.جماعت احمدیہ کا پہلا بیرونی مشن :.حضرت طاریہ اسبح اول کے عہد مبارک کی ایک یادگار یہ بھی ہے کہ آپ کے زمانہ میں جماعت کا پہلا بیرونی تبلیغی مشن قائم ہوا.اس وقت تک براه راست تبلیغ صرف ہندوستان تک محدود تھی اور بیرونی ممالک میں صرف خط و کتابت یا رسالہ جات وغیرہ کے ذریعہ تبلیغ ہوتی تھی.لیکن حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں آکر جماعت کا پہلا بیرونی مشن قائم ہوا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۱۹۱۲ ء کے نصف آخر میں خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے ایل ایل بی کو ایک مسلمان رئیس نے اپنے ایک مقدمہ کے تعلق میں اپنی طرف سے اخراجات دے کر ولایت بھجوانے کا انتظام کیا چنانچہ خواجہ صاحب موصوف ۷ ستمبر ۱۹۱۲ء کو انگلستان روانہ ہو گئے اور چونکہ ہر احمدی کو تبلیغ کا خیال غالب رہتا ہے خواجہ صاحب نے بھی اس سفر میں تبلیغ کی نیت رکھی اور ولایت کے قیام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں بعض تبلیغی لیکچر دیئے اور پھر آہستہ آہستہ وہیں ٹھہر کر اسی کام میں مصروف ہو گئے.کچھ عرصہ کے بعد خواجہ صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں لکھا کہ مجھے کوئی نائب بھجوایا جائے.حضرت خلیفہ اول نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے کو تجویز فرمایا اور چونکہ چوہدری صاحب انجمن انصار اللہ کے ممبر تھے جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس زمانہ

Page 324

۳۱۴ میں تبلیغی اغراض کے ماتحت قائم کر رکھی تھی اور انصار اللہ کو پہلے سے بیرون ہند کی ایک تبلیغی سکیم مد نظر تھی اس لئے چوہدری صاحب کا خرچ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے انجمن انصار اللہ کی طرف سے برداشت کیا اور کچھ اپنے پاس سے اور اپنے دوستوں کی طرف سے ڈالا اور چوہدری صاحب موصوف ۱۲۸ جون ۱۹۱۳ء کو تبلیغ کی غرض سے ولایت روانہ ہو گئے لے اس طرح گویا چوہدری فتح محمد صاحب وہ پہلے احمدی مبلغ تھے جو احمدیوں کی طرف سے بیرون ہند میں خالص تبلیغ کی غرض سے بھیجے گئے.چوہدری صاحب نے کچھ عرصہ تک خواجہ صاحب کی معیت میں کام کیا اور اس عرصہ میں خواجہ صاحب موصوف نے بعض ذی اثر غیر احمدیوں کی امداد سے مسجد دو کنگ کی امامت کا بھی حق حاصل کر لیا مگر چونکہ خواجہ صاحب اور چوہدری صاحب کے خیالات اور طریق تبلیغ میں بہت فرق تھا اس لئے حضرت خلیفہ اول کی وفات پر یہ اتحاد قائم نہ رہ سکا اور چوہدری صاحب جلد ہی خواجہ صاحب سے الگ ہو کر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی ہدایات کے ماتحت مستقل حیثیت میں کام کرنے لگے اور دو کنگ کو چھوڑ کر اپنا مرکز لندن میں قائم کر لیا جواب تک جماعت احمدیہ کے برطانوی مشن کا مرکز ہے.اس جگہ یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہوگا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے اوائل زمانہ میں یہ خواب دیکھا تھا کہ آپ ولایت تشریف لے گئے ہیں اور وہاں جا کر چند سفید قسم کے جانور درختوں کے اوپر سے پکڑے ہیں اور آپ نے اس کی یہ تشریح فرمائی تھی کہ آپ کی تبلیغ ولایت میں پہنچے گی اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بعض انگریزوں کو ہدایت دے گا.کے سوالحمد للہ کہ جماعت کے برطانوی مشن کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کا یہ رویا پورا ہوا اور ہورہا ہے.مگر یہ یادرکھنا چاہئے کہ چند پرندوں کا پکڑا جانا صرف اس زمانہ تک کے لئے ہے کہ جب تک یہ پرندے بلندیوں کی ہوا کھاتے ہوئے درختوں پر بسیرا لگائے بیٹھے ہیں.لیکن جب احمدیت کے ذریعہ دنیا میں انقلابی صورت پیدا ہوگی اور ان سفید پرندوں کا شجری خمار جا تا رہے گا تو پھر چند پرندوں کے پکڑنے کا سوال نہیں ہوگا بلکہ یہ سوال ہوگا کہ خدائی الفضل مورخہ ۱۲ جولائی ۱۹۱۳ صفحہ کالم نمبر ۲ سے تلخیص از ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۶-۳۷۷

Page 325

۳۱۵ جال سے باہر کتنے پرندے باقی رہتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے بھی جہاں ایک طرف صرف چند پرندوں کے پکڑے جانے کا ذکر کیا ہے وہاں دوسری طرف صراحت کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ اہل مغرب بڑی کثرت اور زور کے ساتھ اسلام اور احمدیت کی طرف رجوع کریں گے.حضرت خلیفہ امسیح اول کی علالت اور وفات :.حضرت خلیفہ اول کو اپنی خلافت کے دوران میں ایک حادثہ پیش آ گیا تھا اور وہ یہ کہ آپ ۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء کو ایک گھوڑے سے گر کر زخمی ہو گئے تھے کے شروع شروع میں یہ زخم معمولی سمجھا گیا مگر بعد میں اس کا اثر گہرا ثابت ہوا اور دائیں کنپٹی کے پاس آپریشن کے نتیجہ میں ایک گہرا نشان پڑ گیا اور گو آپ ایک لمبے عرصہ تک صاحب فراش رہنے کے بعد صحت یاب ہو گئے مگر اس کے بعد آپ کی صحت کبھی بھی پہلے جیسی نہیں ہوئی.جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ء کے بعد سے آپ میں زیادہ کمزوری کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوئے اور جنوری ۱۹۱۴ء کے وسط سے معین بیماری کا آغاز ہو گیا.کے ابتداء میں صرف پسلی کے درد کی تکلیف اور گاہے گاہے کی ہلکی حرارت اور قے وغیرہ کی شکایت تھی جو آہستہ آہستہ سل کی صورت اختیار کر گئی اور اس بیماری نے اس قدر زور پکڑ لیا کہ پھر اس کے بعد آپ بستر سے نہ اُٹھ سکے.اس طویل بیماری کے ایام میں منکرین خلافت کا پراپیگنڈا بہت زور پکڑ گیا.اور اخلاقی مسائل کی برملا اشاعت کے علاوہ مویدین خلافت اور خصوصاً حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے خلاف ذاتی حملوں نے زیادہ شدت اختیار کر لی.گویا ان ایام میں لاہوری پارٹی کے زعماء نے ایک آخری جدوجہد اس بات کی کرنی چاہی کہ حضرت خلیفہ اول کی بیماری سے فائدہ اٹھا کر جماعت کے سواد اعظم کو اپنی طرف کھینچ لائیں.مگر ایک خدائی تحریک کو اس کے ابتدائی مراحل میں غلط رستہ پر ڈال دینا کسی انسانی طاقت کا کام نہیں اس لئے اس کوشش میں منکرین خلافت کو سخت نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا.مجھے خوب یاد ہے کہ ان ایام میں احمدیت کی فضا یوں شرر بار ہو رہی تھی کہ گویا ایک میدان جنگ لتذكرة الشهادتين ۲ بدر ۱۲۸ نومبر ۱۹۱۰، صفحه ۱۵ کال ۲-۳ ۳ الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۱۴ء

Page 326

۳۱۶ میں چاروں طرف سے گولیاں برس رہی ہوں یہ خدا کا فضل تھا کہ حضرت خلیفہ اول کی دور بین آنکھ نے اپنی بیماری کے ایام میں اپنے قدیم طریق کے مطابق اپنی جگہ نمازوں کی امامت اور جمعہ کے خطبات کے لئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو مقرر کر رکھا تھا ورنہ اگر پریس کے ایک حصہ کے ساتھ ساتھ جماعت کے خطبات کا منبر بھی ان لوگوں کے ہاتھ میں چلا جاتا تو پھر بظاہر حالات بڑے فتنہ کا احتمال تھا.بیماری کی شدت کے ایام میں حضرت خلیفہ اول کو ان حالات کی خبر نہیں تھی جو باہر گز ر ر ہے تھے مگر مسیح محمدی کی گود میں پرورش پایا ہواد ماغ خود اپنی جگہ مصروف کار تھا چنانچہ جب حضرت خلیفہ اول نے محسوس کیا کہ اب میرا وقت قریب ہے تو آپ نے ۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو ایک وصیت تحریر فرمائی کہ جس کا مال یہ تھا کہ آپ کے بعد جماعت کسی متقی اور عالم باعمل اور ہر دلعزیز شخص کو آپکا جانشین منتخب کر کے اس کے ہاتھ پر جمع ہو جائے اور پھر آپ نے اس وصیت کو معززین جماعت کی ایک مجلس میں جس میں مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور ان کے بعض رفقا بھی شامل تھے خودمولوی محمد علی صاحب سے بلند آواز کے ساتھ پڑھوایا اور اس پیغام حق کو سب تک پہنچا کر وصیت کو نواب محمد علی خاں صاحب کے پاس محفوظ کروا دیا.اس کے بعد آپ نے زیادہ مہلت نہیں پائی اور ۱۳/ مارچ ۱۹۱۴ء کو جمعہ کے دن سوا دو بجے بعد دو پہر قریباً ۷۸ سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر کے اپنے محبوب حقیقی کے پاس حاضر ہو گئے ہے اللهُمَّ ارْحَمْهُ وَارْفَعُ مَقَامَهُ فِي الْعِلْمِينَ - حضرت خلیفہ اول کا بلند مقام : حضرت خلیفہ اول کا پایہ حقیقہ نہایت بلند تھا اور جماعت احمدیہ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اسے حضرت مسیح موعود کے بعد جبکہ ابھی جماعت میں کوئی دوسرا شخص اس بوجھ کے اٹھانے کا اہل نظر نہیں آتا تھا ایسے قابل اور عالم اور خدا ترس شخص کی قیادت نصیب ہوئی.حضرت خلیفہ اول کو علمی کتب کے جمع کرنے کا بہت شوق تھا چنانچہ زر کثیر خرچ کر کے ہزاروں کتابوں کا ذخیرہ جمع کیا اور ایک نہایت قیمتی لائبریری اپنے پیچھے چھوڑی مگر آپ کا سب سے نمایاں الفضل مورخہا ار مارچ ۱۹۱۴، صفحہ ۲ الفضل مورخہ ۱۸؍ مارچ ۱۹۱۴ صفحه ا

Page 327

۳۱۷ وصف قرآن شریف کی محبت تھی جو حقیقۂ عشق کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی.خاکسار نے بے شمار دفعہ دیکھا کہ قرآن شریف کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آپ کے اندر ایک عاشقانہ ولولہ کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی.آپ نے اوائل زمانہ سے ہی قادیان میں قرآن شریف کا درس دینا شروع کر دیا تھا جسے اپنی خلافت کے زمانہ میں بھی جاری رکھا اور آخر تک جب تک کہ بیماری نے بالکل ہی نڈھال نہیں کر دیا اسے نبھایا.طبیعت نہایت سادہ اور بے تکلف اور انداز بیان بہت دلکش تھا اور گو آپ کی تقریر میں فصیحانہ گرج نہیں تھی مگر ہر لفظ اثر میں ڈوبا ہوا نکلتا تھا.مناظرہ میں ایسا ملکہ تھا کہ مقابل پر خواہ کتنی ہی قابلیت کا انسان ہو وہ آپ کے برجستہ جواب سے بے دست و پا ہوکر سر دھنتا رہ جاتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ خود فرماتے تھے کہ فلاں معاند اسلام سے میری گفتگو ہوئی اور اس نے اسلام کے خلاف یہ اعتراض کیا اور میں نے سامنے سے یہ جواب دیا.اس پر وہ تلملا کر کہنے لگا کہ میری تسلی نہیں ہوئی گو آپ نے میرا منہ بند کر دیا ہے.فرمانے لگے میں نے کہا تسلی دینا خدا کا کام ہے.میرا کام چپ کرا دینا ہے تا کہ تمہیں بتا دوں کہ اسلام کے خلاف تمہارا کوئی اعتراض چل نہیں سکتا.یہ درست ہے کہ ان معاملات میں حضرت مسیح موعود کا طریق اور تھا یعنی آپ مخالف کو چپ کرانے کی بجائے اس کی تسلی کرانے کی کوشش فرماتے تھے اور گفتگو میں مخالف کو خوب ڈھیل دیتے تھے مگر ہر اک کے ساتھ خدا کا جدا گانہ سلوک ہوتا ہے اور یہ بھی ایک شان خداوندی ہے کہ قصم تسلی پائے یا نہ پائے مگر دلیل ہو کر خاموش ہو جائے.اسی لئے کسی کہنے والے نے کہا ہے کہ:.” ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است حضرت خلیفہ اول کے دل میں حضرت مسیح موعود کی اطاعت کا جذبہ اس قدر غالب تھا کہ ایک دفعہ جب ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود د بلی تشریف لے گئے اور وہاں ہمارے نانا جان مرحوم یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب بیمار ہو گئے تو ان کے علاج کے لئے حضرت مسیح موعود نے حضرت مولوی صاحب کو قادیان میں تار بھجوائی کہ بلا توقف دہلی چلے آئیں.جب یہ تار قادیان پہنچی تو

Page 328

۳۱۸ حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے درس و تدریس کا شغل کر رہے تھے.اس تار کے پہنچتے ہی آپ بلا توقف وہیں سے اٹھ کر بغیر گھر گئے اور بغیر کوئی سامان یازاد راہ لئے سیدھے بٹالہ کی طرف روانہ ہو گئے جو ان ایام میں قادیان کا ریلوے سٹیشن تھا.کسی نے عرض کیا.حضرت بلا توقف آنے کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ آپ گھر جا کر سامان بھی نہ لیں اور اتنے لمبے سفر پر یوں خالی ہاتھ روانہ ہو جائیں.فرمایا.امام کا حکم ہے کہ بلا توقف آؤ اس لئے میں اب ایک منٹ کے توقف کو بھی گناہ خیال کرتا ہوں اور خدا خود میرا کفیل ہو گا.خدا نے بھی اس نکتہ کو ایسا نوازا کہ بٹالہ کے سٹیشن پر ایک متمول مریض مل گیا جس نے آپ کو پہچان کر آپ کا بڑا اکرام کیا اور دہلی کا ٹکٹ خرید دینے کے علاوہ ایک معقول رقم بھی پیش کی.اکثر فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود مجھے ارشاد فرما ئیں کہ اپنی لڑکی کسی چوہڑے کے ساتھ بیاہ دولے تو بخدا مجھے ایک سیکنڈ کے لئے بھی تامل نہ ہو.یقیناً ایسا پاک جو ہر دنیا میں کم پیدا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود کو بھی حضرت مولوی صاحب کے ساتھ از حد محبت تھی.اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں:.چہ خوش بُو دے اگر ہر یک زِاُمت نور دیں کو دے ہمیں بُو دے اگر ہر دل پر از نور یقیں کو دے یعنی کیا ہی اچھا ہوا گر قوم کا ہر فردنور دین بن جائے.مگر یہ تو تب ہی ہوسکتا ہے کہ ہر دل یقین کے نور سے بھر جائے.لے ہندوستان میں چوہڑہ ایک نہایت ادنی اور ذلیل قوم مجھی جاتی ہے جس کے افراد نیم وحشیوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور گھروں میں پاخانہ کی صفائی کا کام کرتے ہیں.

Page 329

۳۱۹ بارش سے پہلے بادلوں کی گرج ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود نے خدا سے علکم پا کر اپنے دعوی مسیحیت کا اعلان فرمایا تو کس طرح مذہبی دنیا کی فضا بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک سے گونجنے لگ گئی.اسی طرح اب جبکہ خدا کے برگزیدہ میسج کا موعود خلیفہ مسند خلافت پر قدم رکھ رہا تھا تو دنیا نے پھر وہی نظارہ دیکھا اور احمد بیت کے آسمان پر گھٹا ٹوپ بادلوں کی گرجوں نے آنے والے کا خیر مقدم کیا.حضرت خلیفتہ امسیح اول کی وفات کے وقت وہ اختلاف جوعر فامخفی کہلا تا تھا مگر حقیقہ اب مخفی نہیں رہا تھا یکدم پھوٹ کر باہر آ گیا.قادیان کی جماعت کو حضرت خلیفہ اول کی وفات کی خبر اس وقت ملی جبکہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نماز پڑھا کر مسجد سے باہر آ رہے تھے.اس پر سب لوگ گھبرا کر فورا نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر پہنچے جہاں حضرت خلیفہ اول اپنی بیماری کے آخری ایام میں تبدیل آب و ہوا کے لئے تشریف لے گئے ہوئے تھے اور قادیان کی نئی آبادی کا کھلا میدان گویا میدان حشر بن گیا.بے شک حضرت خلیفہ اول کی جدائی کا غم بھی ہر مومن کے دل پر بہت بھاری تھا مگر اس دوسرے غم نے جو جماعت کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ہر مخلص احمدی کے دل کو کھائے جار ہا تھا اس صدمہ کو سخت ہولناک بنادیا تھا.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے جمعہ کے دن سوا دو بجے کے قریب حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوئی اور دوسرے دن نماز عصر کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے گویا یہ قریباً چھپیں (۲۶) گھنٹہ کا وقفہ تھا جو قادیان کی جماعت پر قیامت کی طرح گزرا.اس نظارے کو دیکھنے والے بہت سے لوگ گزر گئے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس کے بعد پیدا ہوئے یا وہ اس وقت اس قدر کم عمر تھے کہ ان کے دماغوں میں ان واقعات کا نقشہ محفوظ نہیں مگر جن لوگوں کے دلوں میں ان ایام کی یا قائم ہے وہ اسے کبھی بھلا نہیں سکتے.میں پھر کہتا ہوں کہ وہ دن جماعت کے لئے قیامت کا دن تھا اور میرے اس بیان میں قطعا کوئی مبالغہ نہیں.ایک نبی کی جماعت

Page 330

۳۲۰ تازہ بنی ہوئی جماعت.بچپن کی اٹھی ہوئی امنگوں میں مخمور.اور صداقت کی برقی طاقت سے دنیا پر چھا جانے کے لئے بے قرار.جس کے لئے دین سب کچھ تھا اور دنیا کچھ نہیں تھی وہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی تھی کہ اگر ایک طرف اس کے پیارے امام کی نعش پڑی ہے تو دوسری طرف چند لوگ اس امام سے بھی زیادہ محبوب چیز یعنی خدا کے برگزیدہ مسیح کی لائی ہوئی صداقت اور اس صداقت کی حامل جماعت کو مٹانے کے لئے اس پر حملہ آور ہیں.یہ نظارہ نہایت درجہ صبر آزما تھا اور مؤلف رسالہ ہذا نے ان تاریک گھڑیوں میں ایک دوکو نہیں دس بیس کو نہیں بلکہ سینکڑوں کو بچوں کی طرح روتے اور بلکتے ہوئے دیکھا.اپنے جدا ہونے والے امام کے لئے نہیں.مجھے یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ اس وقت جماعت کے غم کے سامنے یہ تم بھولا ہوا تھا.بلکہ جماعت کا اتحاد اور اس کے مستقبل کی فکر میں.مگر اکثر لوگ تسلی کے اس فطری ذریعہ سے بھی محروم تھے.وہ رونا چاہتے تھے مگر افکار کے ہجوم سے رونا نہیں آتا تھا اور دیوانوں کی طرح ادھر ادھر نظر اٹھائے پھرتے تھے تا کہ کسی کے منہ سے تسلی کا لفظ سن کر اپنے ڈوبتے ہوئے دل کو سہارا دیں.غم یہ نہیں تھا کہ منکرین خلافت تعداد میں زیادہ ہیں یا یہ کہ ان کے پاس حق ہے کیونکہ نہ تو وہ تعداد میں زیادہ تھے اور نہ ان کے پاس حق تھا.بلکہ غم یہ تھا کہ باوجود تعداد میں نہایت قلیل ہونے کے اور باوجود حق سے دور ہونے کے ان کی سازشوں کا جال نہایت وسیع طور پر پھیلا ہوا تھا اور قریباً تمام مرکزی دفاتر پر ان کا قبضہ تھا اور پھر ان میں کئی لوگ رسوخ والے طاقت والے اور دولت والے تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ چونکہ ابھی تک اختلافات کی کشمکش مخفی تھی اس لئے یہ بھی علم نہیں تھا کہ کون اپنا ہے اور کون بیگا نہ اور دوسری طرف جماعت کا یہ حال تھا کہ ایک بیوہ کی طرح بغیر کسی خبر گیر کے پڑی تھی.گویا ایک ریوڑ تھا جس پر کوئی گلہ بان نہیں تھا اور چاروں طرف بھیڑیئے تاک لگائے بیٹھے تھے.اس قسم کے حالات نے دلوں میں عجیب ہیبت ناک کیفیت پیدا کر رکھی تھی اور گو خدا کے وعدوں پر ایمان تھا مگر ظاہری اسباب کے ماتحت دل بیٹھے جاتے تھے جمعہ سے لے کر عصر تک کا وقت زیادہ نہیں ہوتا مگر یہ گھڑیاں ختم ہونے میں نہیں آتی تھیں.آخر خدا خدا کر کے عصر کا وقت آیا اور خدا

Page 331

۳۲۱ کے ذکر سے تسلی پانے کے لئے سب لوگ مسجد نور میں جمع ہو گئے.نماز کے بعد حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے ایک مختصر مگر نہایت درد انگیز اور موثر تقریر فرمائی اور ہر قسم کے اختلافی مسئلہ کا ذکر کرنے کے بغیر جماعت کو نصیحت کی کہ یہ ایک نہایت نازک وقت ہے اور جماعت کے لئے ایک بھاری ابتلاء کی گھڑی در پیش ہے پس سب لوگ گریہ وزاری کے ساتھ خدا سے دعائیں کریں کہ وہ اس اندھیرے کے وقت میں جماعت کے لئے روشنی پیدا کر دے اور ہمیں ہر رنگ کی ٹھوکر سے بچا کر اس رستہ پر ڈال دے جو جماعت کے لئے بہتر اور مبارک ہے اور اس موقعہ پر آپ نے یہ بھی تحریک فرمائی کہ جن لوگوں کو طاقت ہو وہ کل کے دن روزہ بھی رکھیں تا کہ آج رات کی نمازوں اور دعاؤں کے ساتھ کل کا دن بھی دعا اور ذکر الہی میں گزرے.اس تقریر کے دوران میں لوگ بہت روئے اور مسجد کے چاروں کونوں سے گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں مگر تقریر کے ساتھ ہی لوگوں کے دلوں میں ایک گونہ تسلی کی صورت بھی پیدا ہوگئی اور وہ آہستہ آہستہ منتشر ہو کر دعائیں کرتے ہوئے اپنی اپنی جگہوں کو چلے گئے.رات کے دوران میں اس بات کا علم ہوا کہ منکرین خلافت کے لیڈر مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے حضرت خلیفہ اول کی وفات سے قبل ہی ایک رسالہ ” ایک نہایت ضروری اعلان کے نام سے چھپوا کر مخفی طور پر تیار کر رکھا تھا اور ڈاک میں روانہ کرنے کے لئے اس کے پیکٹ وغیرہ بھی بنوارکھے تھے اور اب یہ رسالہ بڑی کثرت کے ساتھ تقسیم کیا جارہا تھا.بلکہ یہ محسوس کر کے کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات بالکل سر پر ہے آپ کی زندگی میں ہی اس رسالہ کو دور کے علاقوں میں بھجوادیا گیا تھا.اس رسالہ کا مضمون یہ تھا کہ جماعت میں خلافت کے نظام کی ضرورت نہیں بلکہ انجمن کا انتظام ہی کافی ہے البتہ غیر احمدیوں سے بیعت لینے کی غرض سے اور حضرت خلیفہ اول کی وصیت کے احترام میں کسی شخص کو بطور امیر مقرر کیا جا سکتا ہے.مگر یہ شخص جماعت یا صدر انجمن احمد یہ کا مطاع نہیں ہوگا بلکہ اس کی امارت اور سرداری محدود اور مشروط ہو گی وغیرہ وغیرہ.یہ اشتہار یا رسالہ ہیں اکیس صفحے کا تھا اور اس

Page 332

۳۲۲ میں کافی مفصل بحث کی گئی تھی اور طرح طرح سے جماعت کو اس بات پر ابھارا گیا تھا کہ وہ کسی واجب الاطاعت خلافت پر رضامند نہ ہوں.جب قادیان میں اس رسالہ کی اشاعت کا علم ہوا اور یہ بھی پتہ لگا کہ قادیان سے باہر اس رسالہ کی اشاعت نہایت کثرت کے ساتھ کی گئی ہے تو طبعا اس پر بہت فکر پیدا ہوا کہ مبادا یہ رسالہ نا واقف لوگوں کی ٹھوکر کا باعث بن جائے.اس کا فوری ازالہ وسیع پیمانہ پر تو مشکل تھا مگر قادیان کے حاضر الوقت احمدیوں کی ہدایت کے لئے ایک مختصر سا نوٹ تیار کیا گیا جس میں یہ درج تھا کہ جماعت میں اسلام کی تعلیم اور حضرت مسیح موعود کی وصیت کے مطابق خلافت کا نظام ضروری ہے اور جس طرح حضرت خلیفہ اول جماعت کے مطاع تھے اسی طرح آئندہ خلیفہ بھی مطاع ہوگا اور خلیفہ کے ساتھ کسی قسم کی شرائط وغیرہ طے کرنا یا اس کے خدا داد اختیاروں کو محدود کر نا کسی طرح درست نہیں.اس نوٹ پر حاضر الوقت لوگوں کے دستخط کرائے گئے تا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہو کہ جماعت کی اکثریت نظام خلافت کے حق میں ہے.غرض یہ رات بہت سے لوگوں نے انتہائی کرب اور اضطراب کی حالت میں گزاری.دوسرے دن فریقین میں ایک آخری سمجھوتہ کی کوشش کے خیال سے نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر ہر دو فریق کے چند زعماء کی میٹنگ ہوئی جس میں ایک طرف مولوی محمد علی صاحب اوران کے چند رفقا اور دوسری طرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور نواب محمد علی خاں صاحب اور بعض دوسرے مؤیدین خلافت شامل ہوئے اس میٹنگ میں منکرین خلافت کو ہر رنگ میں سمجھایا گیا کہ اس وقت سوال صرف اصول کا ہے پس کسی قسم کے ذاتی سوال کو درمیان میں نہ لائیں اور جماعت کے شیرازہ کی قدر کریں.یہ بھی کہا گیا کہ اگر منکرین خلافت سرے سے خلافت ہی کے اڑانے کے درپے نہ ہوں تو ہم خدا کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرتے ہیں کہ مومنوں کی کثرت رائے سے جو بھی خلیفہ منتخب ہو گا خواہ وہ کسی پارٹی کا ہو ہم سب دل و جان سے اس کی خلافت کو قبول کریں گے مگر منکرین خلافت نے اختلافی مسائل کو آڑ بنا کر خلافت کے متعلق ہر قسم کے اتحاد سے انکار کر دیا.

Page 333

۳۲۳ بالآ خر جب یہ لوگ کسی طرح بھی نظام خلافت کے قبول کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوئے تو ان سے استدعا کی گئی کہ اگر آپ لوگ خلافت کے منکر ہی رہنا چاہتے ہیں تو آپ کا خیال آپ کو مبارک ہو لیکن جو لوگ خلافت کو ضروری خیال کرتے ہیں آپ خدا را ان کے رستے میں روک نہ بنیں اور انہیں اپنے میں سے کوئی خلیفہ منتخب کر کے ایک ہاتھ پر جمع ہو جانے دیں مگر یہ اپیل بھی بہرے کانوں پر پڑی اور اتحاد کی آخری کوشش ناکام گئی.چنانچہ جب ۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء کو بروز ہفتہ عصر کی نماز کے بعد سب حاضر الوقت احمدی خلافت کے انتخاب کے لئے مسجد نور میں جمع ہوئے تو منکرین خلافت بھی اس مجمع میں روڑا اٹکانے کی غرض سے موجود تھے.اس دو ہزار کے مجمع میں سب سے پہلے نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی وصیت پڑھ کر سنائی.جس میں جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع ہو جانے کی نصیحت کی تھی اس پر ہر طرف سے حضرت میاں صاحب حضرت میاں صاحب کی آوازیں بلند ہوئیں اور اسی کی تائید میں مولانا سید محمد احسن صاحب امروہوی نے جو جماعت کے پرانے بزرگوں میں سے تھے کھڑے ہو کر تقریر کی اور خلافت کی ضرورت اور اہمیت بتا کر تجویز کی کہ حضرت خلیفہ اول کے بعد میری رائے میں ہم سب کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ پر جمع ہو جانا چاہئے کہ وہی ہر رنگ میں اس مقام کے اہل اور قابل ہیں.اس پر سب طرف سے پھر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں اور سارے مجمع نے بالا تفاق اور بالاصرار کہا کہ ہم انہی کی خلافت کو قبول کرتے ہیں.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اس وقت مولوی محمد علی صاحب اور ان کے بعض رفقاء بھی موجود تھے.مولوی محمد علی صاحب نے مولوی محمد احسن صاحب کی تقریر کے دوران میں کچھ کہنا چاہا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کرلوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ جب آپ خلافت ہی کے منکر ہیں تو اس موقع پر ہم آپ کی کوئی بات نہیں سن سکتے.اور اس کے بعد مومنوں کی جماعت نے اس جوش اور ولولہ کے ساتھ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی طرف

Page 334

۳۲۴ رخ کیا کہ اس کا نظارہ کسی دیکھنے والے کو نہیں بھول سکتا.لوگ چاروں طرف سے بیعت کے لئے ٹوٹے پڑتے تھے اور یوں نظر آتا تھا کہ خدائی فرشتے لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر منظور ایزدی کی طرف کھینچے لا رہے ہیں.اس وقت ایسی ریلا پیلی تھی اور جوش کا یہ عالم تھا کہ لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے اور بچوں اور کمزور لوگوں کے پس جانے کا ڈر تھا اور چاروں طرف سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ ہماری بیعت قبول کریں ہماری بیعت قبول کریں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے چند لمحات کے تامل کے بعد جس میں ایک عجیب قسم کا پُر کیف عالم تھا لوگوں کے اصرار پر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بیعت لینی شروع کی.یکلخت مجلس میں ایک سناٹا چھا گیا اور جو لوگ قریب نہیں پہنچ سکتے تھے انہوں نے اپنی پگڑیاں پھیلا پھیلا کر اور ایک دوسری کی پیٹھوں پر ہاتھ رکھ کر بیعت کے الفاظ دہرائے سے بیعت شروع ہو جانے کے بعد مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء اس مجمع سے حسرت کے ساتھ رخصت ہو کر اپنی فرودگاہ کی طرف چلے گئے.بیعت کے بعد بھی دعا ہوئی جس میں سب لوگوں پر رقت طاری تھی اور پھر حضرت ماریہ المسیح ثانی نے اس مجمع میں کھڑے ہو کر ایک دردانگیز تقریر فرمائی جس میں جماعت کو اس کے نئے عہد کی ذمہ داریاں بتا کر آئندہ کام کی طرف توجہ دلائی اور اسی دوران میں کہا کہ میں ایک کمزور اور بہت ہی کمزور انسان ہوں مگر میں خدا سے امید رکھتا ہوں کہ جب اس نے مجھے اس خلعت سے نوازا ہے تو وہ مجھے اس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت دے گا اور میں تمہارے لئے دعا کروں گا اور تم میرے لئے دعا کرو چنانچہ فرمایا:.دوستو ! میرا یقین اور کامل یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.میرے پیارو! پھر میرا یقین ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں پھر میرا یقین ہے کہ قرآن مجید وہ پیاری کتاب ہے جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی اور وہ خاتم الکتب اور خاتم شریعت الفضل مورخہ ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۳.

Page 335

۳۲۵ ہے.پھر میرا یقین کامل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہی نبی تھے جس کی خبر مسلم میں ہے اور وہی امام تھے جس کی خبر بخاری میں ہے.مگر میں پھر کہتا ہوں کہ شریعت اسلامی میں کوئی حصہ اب منسوخ نہیں ہوسکتا.خوب غور سے دیکھ لو اور تاریخ اسلام میں پڑھ لو کہ جو ترقی اسلام کی خلفاء راشدین کے زمانہ میں ہوئی جب وہ خلافت محض حکومت کے رنگ میں تبدیل ہو گئی تو گھٹتی گئی.تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسی منہاج نبوت پر حضرت مسیح موعود کو آنحضرت ﷺ کے وعدوں کے موافق بھیجا اور ان کی وفات کے بعد پھر وہی سلسلہ خلافت راشدہ کا چلا ہے....حضرت خلیفہ اسی مولوی نورالدین صاحب ان کا درجہ اعلی علیین میں ہو.اس سلسلہ کے پہلے خلیفہ تھے...بیس جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا اسلام مادی اور روحانی طور پر ترقی کرتا رہے گا.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ایک خوف ہے اور میں اپنے وجود کو بہت ہی کمزور پاتا ہوں.میں جانتا ہوں کہ میں کمزور اور گنہگار ہوں.میں کس طرح دعوی کر سکتا ہوں کہ میں دنیا کی ہدایت کر سکوں گا اور حق اور راستی کو پھیلا سکوں گا.ہم تھوڑے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم اور غریب نوازی پر ہماری امیدیں بے انتہا ہیں.تم نے یہ بوجھ مجھ پر رکھا ہے.تو سنو! اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے میری مدد کرو اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق چاہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور فرمانبرداری میں میری اطاعت کرو.میں انسان ہوں اور کمزور انسان.مجھ سے کمزوریاں ہوں گی تو تم چشم پوشی کرنا.تم سے غلطیاں ہوں گی.میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرتا

Page 336

٣٢٦ ہوں کہ میں چشم پوشی اور درگذر کروں گا.اور میرا اور تمہارا متحدہ کام اس سلسلہ کی ترقی اور اس سلسلہ کی غرض و غایت کو عملی رنگ میں پیدا کرنا ہے...اگر اطاعت اور فرمانبرداری سے کام لو گے اور اس عہد کو مضبوط کرو گے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری کرے گا.“ لے اس بیعت اور اس تقریر کے بعد لوگوں کی طبیعتوں میں کامل سکون تھا اور ان کے دل اس طرح تسلی پا کر ٹھنڈے ہو گئے تھے جس طرح کہ ایک گرمی کے موسم کی بارش جھلسی ہوئی زمین کو ٹھنڈا کر دیتی ہے.روح القدس نے آسمان پر سے ان کے دلوں پر سکینت نازل کی اور خدا کے مسیح کی یہ بات ایک دفعہ پھر پوری ہوئی کہ:.میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.‘، ۲ خلیفۃالمسیح دعا اور تقریر کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے شمالی میدان میں قریباً دو ہزار مردوں اور کئی سو عورتوں کے مجمع میں حضرت خلیفہ اول کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر حضور کی معیت میں مخلصین کا یہ بھاری مجمع جس کے ہر متنفس کا دل اس وقت رنج و خوشی کے دہرے جذبات کا مرکز بنا ہوا تھا حضرت خلیفہ اول کی نعش مبارک کو لے کر بہشتی مقبرہ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس مبارک انسان کے مبارک وجود کو ہزاروں دعاؤں کے ساتھ اس کے آقا و محبوب کے پہلو میں سُلا دیا.اے جانے والے ! تجھے تیرا پاک عہد خلافت مبارک ہو کہ تو نے اپنے امام ومطاع مسیح کی امانت کو خوب نبھایا اور خلافت کی بنیادوں کو ایسی آہنی سلاخوں سے باندھ دیا کہ پھر کوئی طاقت اسے اپنی جگہ سے ہلا نہ سکی.جا.اور اپنے آقا کے ہاتھوں سے مبارکباد کا تحفہ لے اور رضوانِ یار کا ہار پہن کر جنت میں ابدی بسیرا کر.اور اے آنے والے! تجھے بھی مبارک ہو کہ تو نے سیاہ بادلوں کی دل ہلا دینے الفضل مورخه ۲۱ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۲ ۲ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶

Page 337

۳۲۷ والی گرجوں میں مسند خلافت پر قدم رکھا اور قدم رکھتے ہی رحمت کی بارشیں برسا دیں.تو ہزاروں کانپتے ہوئے دلوں میں سے ہو کر تخت امامت کی طرف آیا اور پھر صرف ایک ہاتھ کی جنبش سے ان تھراتے ہوئے سینوں کو سکینت بخش دی.آ.اور ایک شکور جماعت کی ہزاروں دعاؤں اور تمناؤں کے ساتھ ان کی سرداری کے تاج کو قبول کر.تو ہمارے پہلو سے اٹھا ہے مگر بہت دور سے آیا ہے.آ.اور ایک قریب رہنے والے کی محبت اور دور سے آنے والے کے اکرام کا نظارہ دیکھ.اے فخر رسل قرب تو معلوم شد دیر آمده زراه دور آمده

Page 338

۳۲۸ حضرت خلیفہ المسح ثانی کا عبد خلافت شان موعود :.آنحضرت ﷺ ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ میں اس وقت سے خدا کا نبی ہوں کہ جب ابھی آدم اپنی خلقت کے ابتدائی مراحل میں پانی اور مٹی کے اندر مخلوط پڑا تھا.یہ نعوذ باللہ ایک فخر یہ کلام نہیں ہے بلکہ ایک نہایت گہری اور لطیف صداقت پر مبنی ہے اور اس کی تہ میں یہ اصول مخفی ہے کہ جب خدا تعالیٰ دنیا میں کوئی انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اس انقلاب کی تیاری میں بہت عرصہ پہلے سے ایک داغ بیل قائم کرتا ہے اور پھر کئی درمیانی تغیرات کے بعد انقلاب کے ظہور کی باری آتی ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود خود اپنے متعلق بھی لکھتے ہیں کہ آدم سے لے کر آنحضرت ﷺ تک سارے نبی میری بعثت کی خبر دیتے آئے ہیں.اسی طرح چونکہ ازل سے یہ بھی مقدر تھا کہ حضرت مسیح موعود کی اولاد میں ایک خاص شان کا شخص پیدا ہو گا جو آپ کے بعد آپ کا خلیفہ ہو کر آپ کے خدا داد مشن کو غیر معمولی طور پر ترقی دے گا اس لئے جہاں خدا نے آنحضرت ﷺ کے منہ سے یہ پیشگوئی کروائی که آخری زمانہ میں ایک عظیم الشان روحانی مصلح مسیح موعود کے نام سے مبعوث ہو گا وہاں آپ ہی کے منہ سے اس بات کا بھی اعلان کروایا کہ يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُله لے یعنی جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے اس حدیث کی تشریح فرمائی ہے یہ عظیم الشان مصلح اکیلا نہیں آئے گا بلکہ خدائی منشاء کے ماتحت اس کی ایک خاص جگہ شادی ہوگی اور اس شادی سے خدا اسے اولا د عطا کرے گا جن میں سے ایک بیٹا خاص شان کا نکلے گا جس سے اس کے کام کو بہت ترقی حاصل ہوگی.اس طرح گویا خدا نے مسیح موعود کی بعثت کے ساتھ ساتھ ہی آپ کے ایک موعود فرزند کی روحانی خلافت کی بھی داغ بیل قائم کر دی.اس کے بعد جب حضرت مسیح موعود کا زمانہ آیا اور اس موعود بیٹے کے ظہور کا وقت بھی قریب پہنچا تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود پر اس پیشگوئی کی مزید تفصیلات ظاہر فرما ئیں اور پسر موعود کی شان مشكوة المصابيح كتاب الفتن باب نزول عيسى عليه السلام الفصل الثالث

Page 339

۳۲۹ کے اظہار کے علاوہ اس کے کام کی وسعت اور اس کے عروج اور ترقی کے متعلق بھی معین بشارات دیں.چنانچہ ابھی حضرت مسیح موعود کے زمانہ ماموریت کی ابتداء ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہا ما بتایا کہ: " تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک ذکی غلام وو (لڑکا) تجھے ملے گا وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت اور غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا...فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.‘‘لے اور ایک بعد کے اشتہار میں حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا.“ 66 ” اے فخر رسل قرب تو معلومم شد دیر آمده زراه دور آمده “ سے اور پھر :.وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن واحسان میں تیرا نظیر ہوگا.“ سے یہ وہ شاندار پیشگوئی ہے جس میں حضرت مسیح موعود کو پسر موعود کے مقام اور کام کے متعلق لے مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۹۵ ۹۶ جدید ایڈیشن - اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ۲ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۶۱ حاشیہ جدید ایڈیشن.اشتہار ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء سے مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۶۰ حاشیہ جدید ایڈیشن.اشتہار ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء

Page 340

۳۳۰ خبر دی گئی اور جماعت احمدیہ کا یہ تسلیم شدہ عقیدہ ہے کہ یہ پیشگوئی حضرت خلیفتہ اسیح ثانی میں پوری ہوئی ہے کیونکہ آپ کے اوصاف اور آپ کی خلافت کے حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ ہی اس کے مصداق ہیں.بے شک حضرت خلیفہ اُسی ثانی نے خدا سے الہام پا کر دعویٰ نہیں کیا مگر آپ نے اپنے آپ کو اس پیشگوئی کا مصداق ضرور قرار دیا ہے.لے اور مصلح موعود کے متعلق یہ شرط نہیں تھی کہ وہ مامور ہو گا بلکہ اس کے متعلق صرف یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ روح القدس سے نصرت پائے گا اور حضرت مسیح موعود کے بعد آ کر اور آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر آپ کے کام کو ترقی دے گا اور پھر ایک برحق خلیفہ بھی اس رنگ میں گویا مامور ہی ہوتا ہے کہ گو اس کا انتخاب بظا ہر مومنوں کی رائے سے ہوتا ہے مگر اس کے انتخاب میں خدائی تقدیر کام کرتی ہے اور یہاں تو جس رنگ میں اور جن حالات کے ماتحت حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کا انتخاب ہوا وہ اس بات کو روز روشن کی طرح ظاہر کر رہے ہیں کہ اس وقت لوگوں کے دل اور لوگوں کی زبانیں خدا کے ہاتھ میں تھیں اور لوگ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ قدرت کی مخفی تاروں سے مجبور ہو کر اس طرف کھچے آرہے تھے.پس یقیناً حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کا مقام عام خلفاء کے مقام سے ممتاز و بالا ہے اور جس رنگ میں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی خلافت کو نوازا ہے اور اس کے ہر پہلو کو اپنی برکت کے ہاتھ سے ممسوح کیا ہے اس کی مثال دوسری جگہ بہت کم نظر آتی ہے.حضرت خلیفہ اسی ثانی کے سوانح قبل از خلافت :.اس تمہیدی نوٹ کے بعد اور حضرت خلیفہ اسیح ثانی کے عہد خلافت کا ذکر شروع کرنے سے قبل ہم آپ کی ابتدائی زندگی کے حالات اور سوانح کے متعلق ایک نہایت مختصر نوٹ درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں.سو جاننا چاہئے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو ہفتہ کے دن بوقت شب قادیان میں پیدا ہوئے تھے.اس سے پہلے ہماری والدہ صاحبہ کے بطن سے حضرت مسیح موعود کی صرف ایک لڑکی زندہ تھی مگر وہ بھی کچھ عرصہ بعد فوت ہوگئی.اور اب گویا آپ اپنے سب بہن بھائیوں میں بڑے ہیں.ے دیکھو خطبہ جمعہ مندرجه الفضل مورخه ۱۲ فروری ۱۹۳۵ء صفحه ۵

Page 341

۳۳۱ آپ کی ولادت پر حضرت مسیح موعود نے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جس میں آپ کی ولادت پر خوشی کا اظہار کر کے اپنی بعض سابقہ پیشگوئیاں یاد کرائی تھیں اور اسی اشتہار میں لوگوں کو بیعت کے لئے آمادہ کرنے کے واسطے دس شرائط بیعت کا بھی اعلان فرمایا تھا جس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لدھیانہ میں پہلی بیعت لی.اس طرح گویا حضرت خلیفہ امسیح ثانی کی ولادت اور جماعت احمدیہ کا آغاز ایک ہی وقت میں جمع ہو جاتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ جسمانی اور روحانی رنگ میں یہ دونوں قوام ہیں.جب حضرت خلیفتہ امسیح ثانی تعلیم کی عمر کو پہنچے تو آپ کو مقامی مدرسہ میں داخل کرا دیا گیا مگر طالب علمی کے زمانہ میں آپ کو کبھی بھی کتابی تعلیم میں دلچسپی نہیں ہوئی حتی کہ بعض اوقات آپ کے اساتذہ شکایت کے رنگ میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں کہلا بھیجتے تھے کہ انہیں پڑھائی کی طرف توجہ نہیں.ایک دفعہ جبکہ آپ کے ریاضی کے استاد نے زیادہ اصرار کے ساتھ توجہ دلائی تو حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ جس حد تک یہ شوق سے پڑھتا ہے پڑھنے دو.ہمیں ان پڑھائیوں کی زیادہ ضرورت نہیں ہے.چنانچہ انٹرنس تک اسی طرح گرتے پڑتے پہنچے.اس کے آگے چونکہ سرکاری امتحان تھا اس لئے فیل ہو کر رک گئے اور یہی اب آپ کی مدرسی تحصیل علم کی حد ہے.مگر یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ تقدیر الہی کا ایک زبردست کرشمہ تھا کیونکہ جیسا کہ بعد کے واقعات نے بتایا خدا خود آپ کا معلم بننا چاہتا تھا پس اگر آپ کے معاملہ میں دنیوی استادوں کی خواہشیں پوری ہو جاتیں اور آپ بڑی بڑی علمی ڈگریاں حاصل کر لیتے تو خدائی تعلیم کا پہلو کس طرح روشن ہوتا.اب یہ حال ہے کہ باطنی اور روحانی علم کا معاملہ تو خیر جدا گانہ ہے ظاہری علوم میں بھی آپ کی نظر ہر اس علم کے میدان میں جس کا کسی نہ کسی رنگ میں دین کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے خواہ وہ واسطہ کتنا ہی دور کا ہو اس قدر وسیع ہے کہ کسی اسلامی صداقت پر حملہ کرنے والا خواہ وہ کیسے ہی دنیوی علوم کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر آئے وہ آپ کے سامنے طفلِ مکتب نظر آتا ہے.اور خدا کا یہ فرمانا حرف بہ حرف پورا ہوا ہے کہ:.وو وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“

Page 342

۳۳۲ حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی جبکہ آپ کا بالکل بچپن کا زمانہ تھا آپ میں خدمت دین کا ایک زبر دست جذبہ پیدا ہو چکا تھا چنانچہ جب حضرت مسیح موعود نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں احمدی نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ خدمت کے لئے آگے آئیں اور اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کریں تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے فوراً اس ارشاد کی تعمیل میں ایک انجمن تفخیذ الاذہان قائم کر کے اور اس کی نگرانی میں ایک اسی نام کا رسالہ جاری کر کے تقریر و تحریر میں مشق کا سلسلہ شروع کر دیا اور ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ اس انجمن اور اس رسالہ کے ذریعہ خدمت دین کا شاندار کام سرانجام پانے لگا.حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت آپ کی عمر صرف ساڑھے انیس سال کی تھی مگر اس وقت بھی مخالفوں کے اعتراضوں کا سب سے زیادہ مفصل اور دندان شکن جواب آپ ہی کے قلم سے نکلا ہے اس کے بعد حضرت خلیفہ اول نے آپ کو اپنی خاص تربیت میں لے لیا اور آپ نے حضرت خلیفہ اول سے قرآن شریف اور بعض کتب حدیث و تصوف کی جس حد تک کہ خدا نے چاہا تعلیم حاصل کی مگر اس تعلیم کا بھی رنگ خاص تھا.حضرت خلیفہ اول کا قاعدہ تھا کہ آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ بہت بے تکلف رہتے تھے اور شاگردوں کو یہ آزادی تھی کہ درس کے وقت میں جس طرح چاہیں سوالات کر کے بلکہ آپ کے ساتھ بحث مباحثہ میں پڑ کر اپنے علم میں ترقی دیں مگر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو آپ نے منع کر دیا تھا کہ وہ کوئی سوال نہ کیا کریں اور ہدایت دی تھی کہ جب کوئی مشکل پیش آئے تو خود سوچ کر اور طبیعت پر زور ڈال کر اس کا حل نکالا کریں.۱۹۱۱ء کے اوائل میں آپ نے حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے تبلیغ و تربیت اور باہمی رابطہ و اتحاد و محبت کی غرض سے ایک انجمن انصار اللہ قائم کی جس کے ممبروں کا یہ فرض تھا کہ وہ خدمت دین اور تبلیغ اسلام واحمدیت کے لئے اپنے وقت کا کچھ حصہ لا زما د یں اور لوگوں کے لئے پاک نمونہ بنیں اور آپس میں محبت و اخوت کا رابطہ بڑھائیں ہے چنانچہ جماعت کے بہت سے احباب نے اس انجمن کی ے دیکھو محمود اور محمدی مسیح کے دشمنوں کا مقابلہ ۲ بدر ۲۳ فروری ۱۹۱۱ صفحه ۲

Page 343

۳۳۳ ممبری قبول کی اور ان کے ذریعہ سے تبلیغ و تربیت کے کام میں ایک خاص ولولہ پیدا ہو گیا.۱۹۱۲ء کے ماہ ستمبر کے آخر میں آپ بیت اللہ کے حج کے لئے تشریف لے گئے لے اور اس سفر میں بھی تبلیغ کا حق خوب ادا کیا.۱۹۱۳ ء کے وسط میں آپ نے قادیان سے الفضل اخبار کا اجراء کیا جس میں سلسلہ کی خبروں کے علاوہ ایک مقررہ پروگرام کے ماتحت علمی اور تاریخی اور تبلیغی اور تربیتی مضامین شائع ہوتے تھے اور ایک نہایت قلیل عرصہ میں اس اخبار نے نہ صرف اپنوں میں بلکہ بیگانوں میں بھی بہت مقبولیت حاصل کر لی اور حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد سے یہی اخبار جماعت احمدیہ کا مرکزی آرگن ہے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں آپ صدرانجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ تھے اور اس زمانہ میں آپ صدرانجمن احمدیہ کے انتظام میں کئی صیغوں کے آنریری انچارج بھی رہے جن میں لنگر خانہ اور مدرسہ احمدیہ زیادہ نمایاں تھے.اسی زمانہ میں آپ حضرت خلیفہ اول کے حکم کے ماتحت شمالی ہندوستان کے کئی مقامات میں تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے اور خدا کے فضل سے آپ کے لیکچر ہمیشہ بہت مقبول ہوتے تھے.آپ کی اولیات میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ آپ نے شروع سے ہی اس مخفی فتنہ کے شراروں کو دیکھ لیا تھا جو بالآخر وسیع ہو کر حضرت خلیفہ اول کی وفات پر نمودار ہوا اور آپ نے ہر ممکن کوشش اس فتنہ کو مٹانے اور اس کی وسعت کو روکنے کے لئے کی.اس کوشش میں آپ کو طرح طرح کے مصائب میں سے ہو کر گزرنا پڑا مگر آپ نے ان مصائب کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کی اور جماعت کو اس گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کر دی.اسی لئے منکرین خلافت آپ کو اپنادشمن نمبر اخیال کرتے تھے مگر آپ نے ان کے ہردوار کو اپنے نہتے ہاتھوں پر لیا اور کبھی ایک سیکنڈ کے لئے بھی صداقت کی مضبوط چٹان سے متزلزل نہیں ہوئے.خدا کی مشیت نے تو بہرحال پورا ہوکر رہنا تھا مگر ظاہری اسباب کے لحاظ سے یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اگر حضرت خلیفہ اسیح ثانی کا وجود نہ ہوتا تو اس وقت جماعت احمد یہ ایک خطر ناک فتنہ کے بھنور میں گھری ہوئی ہوتی اور خاص خاص ل بدر ۱/۳ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۲ کالم نمبرا

Page 344

۳۳۴ نفوس کو چھوڑ کر اس کا رستہ وہی ہوتا جو آج منکرین خلافت کا رستہ ہے کہ خدا کے برگزیدہ مسیح کی طرف سے منہ موڑ کر الٹے پاؤں لوٹے جارے ہیں اور جس گڑھے سے نکلے تھے اس میں گرنے کے درپے ہیں حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کا یہ ایک ایسا عظیم الشان احسان ہے کہ جس کی قدرو قیمت زمانہ کے گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوگی بلکہ دن بدن بڑھتی جائے گی اور اس کا پورا پورا اندازہ تب جا کر ہو گا کہ جب ہمارے ان جھکے ہوئے دوستوں کا روحانی انجام نگا ہوکر بعد میں آنے والی نسلوں کے سامنے آئے گا.الغرض حضرت خلیفہ امسیح اوّل کے زمانہ میں ہی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنے علم و فضل سے ایسا مقام حاصل کر لیا تھا کہ جماعت کے ہر مخلص فرد کی نظر شکر و امتنان کے جذبات کے ساتھ آپ کی طرف اٹھتی تھی اور حضرت خلیفہ اول بھی آپ کو انتہائی محبت اور اکرام کی نظر سے دیکھتے تھے اور آپ پر از حد خوش تھے.چنانچہ اپنی بیماری وغیرہ کے ایام میں ہمیشہ آپ ہی کو اپنی جگہ امام صلوۃ مقرر فرماتے تھے اور بسا اوقات اپنی پبلک تقریروں میں آپ کے جذبہ اطاعت اور جذ به خدمت دین اور علمی قابلیت کی تعریف فرمایا کرتے تھے اور کئی دفعہ اشارہ کنایہ سے اس بات کا بھی اظہار فرمایا کہ میرے بعد یہی خلیفہ ہوں گے.چنانچہ ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:.ایک نکتہ قابل یا دسنائے دیتا ہوں کہ جس کے اظہار سے میں باوجود کوشش رک نہیں سکا.وہ یہ کہ میں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا.ان کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا.ان کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے.۷۸ برس تک انہوں نے خلافت کی.۲۲ برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے تھے.یہ بات یاد رکھو کہ میں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے کہی ہے.حضرت خلیفہ اول کی وفات کے وقت جو ۱۹۱۴ء میں ہوئی حضرت خلیفۃ المسیح خانی کی عمر صرف پچیس سال تھی مگر اس خام عمر میں بھی آپ نے کی وسیع ذمہ داریوں کو جس خوبی اور جس حسن انتظام کے ساتھ نبھایا وہ آپ ہی کا حصہ تھا.آپ کی اہلی زندگی کے متعلق صرف اس قدر ذکر خطبہ جمعہ مندرجہ بدر ۲۷ جنوری ۱۹۱۰، صفحہ ۹ کالم نمبر ۳

Page 345

۳۳۵ کافی ہے کہ آپ کی شادی حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی بلکہ حضرت مسیح موعود کی زندگی میں آپ کے گھر ایک لڑکا بھی پیدا ہوا تھا جو جلد ہی فوت ہو گیا.مگر اس کے بعد خدا نے آپ کو ماشاء اللہ بہت اولا د دی جن میں سے بڑے لڑکے کا نام مرزا ناصر احمد ہے جو خدا کے فضل سے ایک بہت ہو نہار نو جوان ہیں.عبد خلافت ثانیہ کی ابتدائی کش مکش :.یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت خلیلہ اسی جانی ۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء کو بروز ہفتہ بعد نماز عصر مسند خلافت پر متمکن ہوئے.اس وقت قادیان میں قریباً دو ہزار مردوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.اس تعداد میں ایک حصہ ان لوگوں کا بھی شامل تھا جو حضرت خلیفہ اول کی بیماری کے آخری ایام میں یا آپ کی وفات کی خبر سن کر باہر سے آئے ہوئے تھے.مگر دوسری طرف اس وقت قادیان میں ہی ایک حصہ ایسا بھی موجود تھا جو حضرت خلیفہ امسیح ثانی کی بیعت سے منحرف رہا.اس حصہ میں زعماء منکرین خلافت اور ان کے رفقا ہر دو شامل تھے.ہر چند کہ ان لوگوں کی تعداد بہت قلیل تھی یعنی اس وقت قادیان میں ان کی مجموعی تعدا د دو تین فی صدی سے زیادہ نہیں تھی مگر چونکہ ان میں بعض ذی اثر اصحاب شامل تھے.مثلاً مولوی محمد علی صاحب ایم اے جو صدر انجمن احمدیہ کے مستقل سیکرٹری اور ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر تھے اور جماعت میں اچھا اثر رکھتے تھے اور مولوی صدر الدین صاحب بی اے جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے مستقل ہیڈ ماسٹر اور صدر انجمن احمدیہ کے قائم مقام سیکرٹری تھے اور اسی طرح بعض اور لوگ جوصدر انجمن احمدیہ کے مختلف صیغہ جات میں کام کرتے تھے اس گروہ میں شریک تھے اس لئے باوجود تعداد کی کمی کے ان لوگوں کے اثر کا دائرہ کافی وسیع تھا.مگر سب سے زیادہ فکر جماعت کے اس سوادِ اعظم کے متعلق تھی جو قادیان سے باہر پنجاب و ہندوستان کے مختلف حصوں میں بالکل تاریکی کی حالت میں پڑا تھا.پس خلافت کے انتخاب کے بعد پہلا کام یہ تھا کہ جماعت کے ان منتشر دھاگوں کو سمیٹ کر پھر ایک رسی کی صورت میں جمع کر لیا جاوے چنانچہ اس کی طرف فوری توجہ دی گئی اور اخباروں اور رسالوں اور اشتہاروں کی غیر معمولی

Page 346

۳۳۶ اشاعت کے علاوہ جماعت کے اہل علم لوگوں کو ملک کی چاروں اطراف میں پھیلا دیا گیا تا کہ وہ بیرنی جماعتوں کو حالات سمجھا کر اور اختلافی امور کی تشریح کر کے اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم بنا کر خلافت کے ہاتھ پر جمع کرنے کی کوشش کریں اور گوندا کے فضل اور رقم سے جماعت کی کثرت نے ایک غیر معمولی سنبھالا لے کر مرکز کی اپیل پر مخلصانہ لبیک کہا اور حضرت خلیفتہ اسیح ثانی کی بیعت فوراً قبول کر لی مگر چونکہ منکرین خلافت کی طرف سے بھی پر زور پراپیگنڈا جاری تھا اس لئے جماعت کا ایک معتد بہ حصہ ایسا بھی تھا جسے سخت کوشش اور انتہائی جدوجہد کے ساتھ راہ راست پر لانا پڑا.یہ ایک ہولناک نظارہ تھا اور گویا ایک قسم کی طولانی رسہ کشی تھی جس میں کئی موقعے خطرے کے پیدا ہوتے رہے مگر بالآ خر چپہ چپہ اور بالشت بالشت اور ہاتھ ہاتھ خدائی فوج دشمن کے کیمپ میں دستی چلی گئی اور چند ماہ کی شب وروز کی جنگ کے بعد خدا نے اپنے روحانی خلیفہ کو فتح عطا کی اور جماعت کا زائداز پچانوے فی صدی حصہ حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گیا.یہ دن بڑے عجیب وغریب تھے جس کی یاددیکھنے والوں کو کبھی بھول نہیں سکتی.ہر مخلص احمدی جوش سے بھرا ہوا تھا اور ہر فرد اپنے علم اور اپنی استعداد کے مطابق تبلیغ کے کام میں دن رات مصروف تھا اور صحیح معنوں میں ایک پوری پوری جنگی کیفیت نظر آتی تھی.اس عرصہ میں منکرین خلافت نے بھی اپنی جد و جہد کو انتہا تک پہنچا دیا اور اصول کی بحث کے علاوہ ذاتیات کے میدان میں بھی قدم رکھ کر ایسانازیبا پراپیگنڈا کیا کہ جس نے جماعت کی اخلاقی فضا کو وقتی طور پر مکدر کر دیا مگر فرشتوں کی مخفی فوج کے سامنے سب کوششیں بریکار تھیں اور آہستہ آہستہ حریف کا ہر مورچہ مغلوب ہو کر ہتھیار ڈالتا گیا اور سوائے ایک نہایت قلیل حصہ کے ساری جماعت دامن خلافت کے ساتھ وابستہ ہوگئی.دوسری طرف منکرین خلافت کا جو حصہ قادیان میں تھا جس کے ہاتھ میں صدر انجمن احمد یہ کے بعض محکمہ جات کی باگ ڈور تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے ایسا رعب طاری کیا کہ وہ قادیان کو چھوڑ کر خود بخو دلاہور چلا گیا اور اللہ تعالیٰ نے مرکز سلسلہ کو فتنے کے شراروں سے بہت جلد پاک کر دیا.ان

Page 347

۳۳۷ لوگوں کا قادیان کو چھوڑ نا گو جماعت کے لئے ایک بڑی رحمت ثابت ہوا مگر خود ان کے مفاد کے لحاظ سے یہ ایک خطر ناک غلطی تھی جسے انہوں نے خود بھی بعد میں محسوس کیا.کیونکہ اول تو اس کے بعد ان کے لئے مرکز میں اڈا جمانے کا موقعہ نہ رہا.دوسرے چونکہ دنیا کی نظروں میں قادیان ہی کا مرکز تھا اس لئے اپنوں اور بیگانوں کی نظر قادیان ہی کی طرف لگی رہی اور ان لوگوں کے متعلق ہر سمجھنے والے نے یہی سمجھا کہ وہ جماعت کو چھوڑ کر الگ ہو گئے ہیں.مگر بہر حال ان کا قادیان سے خود بخود نکل جانا ایک خدائی تصرف تھا جس نے جماعت کے حق میں ایک بھاری ہتھیار کا کام دیا.اس اختلاف کے دوران میں صدر انجمن احمدیہ کا یہ حال تھا کہ گو اس کے ممبروں میں سے ایک معتد بہ حصہ خلافت کا منکر ہو چکا تھا مگر اب تک بھی ممبروں کی اکثریت خلافت کے حق میں تھی جیسا کہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہوگا:.۱ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلافت کے صاحب ۲ نواب محمدعلی خان صاحب حق میں مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب یہ بزرگ شروع میں حضرت خلیفتہ اسیح ثانی امروہوی کی بیعت میں داخل ہوئے مگر بعد میں منکرین خلافت کے بہکانے سے بعض امور میں خلاف ہو گئے.مگر وفات کے قریب پھر مائل ہو گئے تھے." // // ۴ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ۵ | ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب ۶ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی

Page 348

۳۳۸ مولا نا مولوی شیر علی صاحب خلافت کے حق میں خاکسار مرزا بشیر احمد مولف رساله هذا // 9 مولوی محمد علی صاحب ایم اے خلافت کے خلاف خواجہ کمال الدین صاحب 1 | ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ۱۲ | ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب ۱۳ شیخ رحمت اللہ صاحب ۱۴ | مولوی غلام حسن صاحب پشاوری ۱۵ میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی // // // خواجہ صاحب کی قائم مقامی میں حضرت خلیفہ اول کی وفات کے وقت مولوی صدرالدین صاحب عارضی طور پر ممبر تھے اور وہ بھی خلافت کے خلاف تھے.یہ بزرگ خاکسار مولف رسالہ ہذا کے خسر ہیں اور گواب تک خلافت کے خلاف ہیں مگر منکرین خلافت کی پارٹی سے الگ ہو چکے ہیں.دعا ہے کہ خدا تعالیٰ جلد ہدایت دے کر ادھر لے آئے یہ بزرگ شروع میں کچھ وقت تک مصلح منکرین کے ساتھ رہے مگر بعد میں جلد ہی حضرت خلیفہ اسیح ثانی کی بیعت سے مشرف ہو گئے.مندرجہ بالا نقشے میں جن ممبران صدر انجمن احمدیہ کا ذکر ہے یہ سب حضرت مسیح موعود کے مقرر کردہ تھے سوائے اس کے کہ مولانا مولوی شیر علی صاحب اور خاکسار مولف رسالہ ھذا کو

Page 349

۳۳۹ حضرت خلیفہ اول نے مقر فر مایا تھا اور مولوی صدر الدین صاحب کو صدر انجمن احمدیہ نے خود بخود خواجہ کمال الدین صاحب کے سفر ولایت کے ایام میں عارضی ممبر مقرر کر لیا تھا.بہر حال اس نقشہ سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے وقت بھی صدر انجمن احمدیہ کی اکثریت خلافت کی موید تھی.یہی وجہ ہے کہ منکرین خلافت اس بات پر مجبور ہوئے کہ صدرانجمن احمد یہ سے.ہاں وہی صدر انجمن احمد یہ جو ان کی اس قدر منظور نظر تھی.قطع تعلق کر کے اس کی جگہ لا ہور میں ایک علیحدہ انجمن قائم کر لیں.گویا حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد ان اصحاب کا صرف خلافت سے ہی قطع تعلق نہیں ہوا بلکہ صدر انجمن احمدیہ سے بھی قطع تعلق ہو گیا اور وہ مرکز سلسلہ کو چھوڑ کر لا ہور چلے گئے اور وہاں اپنی ایک جداگانہ انجمن بنالی جسکا نام انجمن احمد یہ اشاعت اسلام ہے.جس وقت یہ اصحاب قادیان کو چھوڑ کر جارہے تھے اس وقت ان کے تعمیراتی پروگرام نے صدر انجمن احمدیہ کے خزانے کو بالکل خالی کر رکھا تھا اور صرف چند آنوں کے پیسے باقی تھے اور دوسری طرف یہ لوگ اس قدر خود بینی میں مبتلا تھے کہ سمجھتے تھے کہ ہمارے چلے جانے سے یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور ہمارے بعد کوئی شخص اس نظام کو چلا نہیں سکے گا.چنانچہ ان کے ایک معزز رکن نے قادیان سے جاتے ہوئے سلسلہ کی عمارات کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اب یہاں اُلو بولیں گے.یہ کلمہ اس انتہائی نخوت کا ایک گندہ ابال تھا جو ان لوگوں کے دماغوں میں غلبہ پائے ہوئے تھی اور اس سے اس بے قمیتی پر بھی روشی پڑتی تھی جس کا یہ لوگ شکار ہورہے تھے کیونکہ خواہ وہ قادیان سے جار ہے تھے مگر بہر حال قادیان ان کے روحانی پیشوا اور کے بانی حضرت مسیح موعود کا مولد ومسکن و مدفن تھا اور سلسلہ کی تمام روایات قادیان سے وابستہ تھیں.پس اگر ان لوگوں کے دل میں مرکز سلسلہ کی ذرا بھی محبت ہوتی تو ان کے منہ سے قادیان کے متعلق اس قسم کے الفاظ ہر گز نہ نکلتے.کہتے ہیں کہ محبوب کی گلی کا کتا بھی پیارا ہوتا ہے مگر ان لوگوں نے اپنے محبوب کے مکانوں اور ہزاروں خدائی نشانات کی جلوہ گاہ عمارتوں اور بیسیوں شعائر اللہ کو محبوب کی گلی کے کتے کے برابر بھی حیثیت نہیں دی.ا

Page 350

۳۴۰ مگر اس کا کیا پھل پایا؟ آہ یہ ایک نہایت تلخ خیال ہے جس کے تصور سے بھی دل میں درد اٹھتا ہے.پس میں اس کی تشریح میں جانے کے بغیر صرف اس دعا پر اس حصہ مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے ان بھٹکے ہوئے بھائیوں کو پھر اس رستہ پر لے آئے جسے انہوں نے کس محبت اور کن امنگوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں اختیار کیا تھا اور خدا وہ وقت نہ لائے کہ حضرت مسیح موعود قیامت کے دن اپنے صحابہ کی ایک جماعت کو دیکھ کر اُصَحَابِي أَصَيْحَابِی پکاریں مگر خدا کے فرشتے انہیں دھکیل کر دوسری طرف لے جائیں.بس میں اس وقت اس مضمون پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ:.دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانیئے کیا یاد آیا اختلافی مسائل کا آغاز و انجام : ہم بتا چکے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ہی منکرین خلافت کا عقیدہ تین اہم باتوں میں جماعت احمدیہ کے سوادِ اعظم سے جدا ہو چکا تھا یعنی اوّل خلافت کا سوال.دوسرے یہ سوال کہ آیا حضرت مسیح موعود پر ایمان لانا ضروری ہے یا نہیں.اور تیسرے حضرت مسیح موعود کی نبوت کا مسئلہ.یہ لوگ خلافت کے منکر اور ایک انجمنی نظام کے قائل تھے اور حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے کو اچھا تو خیال کرتے تھے بلکہ ان میں سے اکثر اسے ترقی درجات کے لئے ضروری بھی قرار دیتے تھے مگر نجات کے لئے اسے ضروری نہیں سمجھتے تھے یعنی ان کا یہ عقیدہ تھا کہ آپ پر ایمان لانے کے بغیر بھی انسان نجات پاسکتا ہے اور تیسرے یہ کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح آنحضرت کے بعد نبوت کے دروازہ کو کلیۂ بند خیال کرتے تھے اور اس بات کے مدعی تھے کہ حضرت مسیح موعود نے نبوت کا دعوی نہیں کیا بلکہ صرف جزوی مشابہت کی وجہ سے استعارہ کے رنگ میں کبھی کبھی اس لفظ کو اپنے متعلق استعمال کیا ہے.ان عقائد میں سے مقدم الذکر دو عقیدے تو حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں ہی ظاہر و عیاں ہو چکے تھے مگر نبوت کے متعلق ان اصحاب کے عقیدے نے آہستہ آہستہ تدریجی رنگ میں تبدیلی اختیار کی جس کی پوری پوری تشکیل حضرت خلیفہ اول

Page 351

۳۴۱ کی وفات کے بعد ہوئی.چنانچہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ کی تحریر یں تو خیر صاف ہی ہیں جن میں یہ لوگ کثرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی نبوت کا اقرار کرتے رہے ہیں حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بھی ان میں سے کئی ایک اصحاب نے اپنی تحریرات میں حضرت مسیح موعود کی نبوت کا اقرار کیا ہے اور اپنے مضمونوں اور تقریروں میں حضرت مسیح موعود کو نبی کہہ کر پکارتے رہے ہیں.لیکن چونکہ مقدم الذکر دو عقیدوں پر قائم رہتے ہوئے یہ لوگ نبوت کے متعلق اپنے عقیدہ کو بدلنے پر مجبور تھے اس لئے انہوں نے آہستہ آہستہ یہ تیسر اعقیدہ بھی تبدیل کرلیا.دراصل اس ساری تبدیلی کی تہ میں یہ جذ بہ مخفی تھا کہ یہ لوگ موجودہ زمانہ کی پئین اسلامک تحریک کے ماتحت اس خیال سے حد درجہ متاثر تھے کہ سب مسلمانوں کو آپس میں مل کر رہنا چاہئے اور درمیانی اختلافات کو مٹا کر ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع ہو جانا چاہئے.اس خیال کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ وہ آہستہ آہستہ احمدیت کے ان مخصوص عقائد سے متزلزل ہونے شروع ہو گئے جو ان کے خیال میں احمد بیت کو اس زمانہ کے دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ کر رہے تھے.ان کا یہ میلان حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں بھی ایک حد تک موجود تھا لیکن حضرت مسیح موعود کی مقناطیسی شخصیت نے ہر قسم کے تشقت کے خیال کو دبائے رکھا اور جماعت میں کسی خارجی تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دیا.اور جماعت کی خصوصیات کو سختی کے ساتھ قائم رکھا.لیکن جب آپ وفات پاگئے تو پھر آہستہ آہستہ ان لوگوں کے خیالات نے پلٹا کھانا شروع کیا اور یکے بعد دیگرے احمدیت کے ایک ایک قلعہ کو نقب لگتی گئی.سلسلہ کے اندرونی اختلافات کا یہ نظریہ ایسا بد یہی ہے کہ سلسلہ کے مخالفوں تک نے اسے محسوس کیا ہے اور گو طبعا وہ ساری اندرونی کیفیات کو تو نہیں سمجھ سکے مگر انہوں نے اس بات کو ضرور محسوس کر لیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی لاہوری پارٹی کا رجحان انہیں آہستہ آہستہ کس طرف لے جا رہا ہے چنانچہ مسٹر ایچ اے والٹر ایم اے سیکرٹری آل انڈیا ینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن اپنی کتاب احمد یہ موومنٹ میں لکھتے ہیں :.کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات یقینی طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ اس

Page 352

۳۴۲ فرقہ کی لاہوری پارٹی آہستہ آہستہ مسلمانان ہند کی مسلم لیگ پارٹی کے اندر جذب ہو جائے گی ہاں اس قدر ضرور ہوگا کہ وہ اپنے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں میں مسیحیت کے خلاف ایک زیادہ زبر دست جذ بہ لیتی جائے گی اور شاید کسی حد تک مسیح ناصری کی موت کا عقیدہ بھی ساتھ لیتی جاوے لیکن اس کے مقابل پر قادیان کی پارٹی آخر تک اسلام کی ایک مستقل اور جدا گانہ پارٹی رہے گی اور غالباً اسی حالت میں بڑھتی جائے گی.بد قسمتی سے اس سارے انقلاب کی وجہ یہ ہوئی ہے کہ منکرین خلافت نے کی غرض و غایت اور اس کے مقصد و منتہی کو نہیں سمجھا.انہوں نے صرف اس قدر دیکھا کہ بانی ایک نیک اور پاکباز انسان ہیں اور اسلام کی تبلیغ کا خاص شوق رکھتے ہیں اور یہ کہ آپ نے بعض اسلامی عقائد کی ایسی معقول اور حکیمانہ تشریح کی ہے کہ جس سے وہ اعتراضات جو آجکل عام طور پر اسلام کے خلاف ہوتے تھے اسلام کے پاک چہرہ سے دھل گئے ہیں.اس جذ بہ اور اس احساس کے ماتحت انہوں نے احمدیت کو قبول کیا مگر انہوں نے احمدیت کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور نہ ہی کبھی یہ غور کیا کہ کس منہاج پر قائم ہے اور اللہ تعالیٰ احمدیت کے ذریعہ دنیا میں کیا انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ انقلاب کس رنگ میں پیدا ہو گا.اگر وہ ان باتوں کو سمجھتے تو یقینا وہ اس ٹھوکر سے بچ جاتے جو اب انہیں لگی ہے.کیونکہ اس صورت میں وہ بجائے احمدیت کو موجودہ زمانہ کے اسلام کی طرف لے جانے کے موجودہ اسلام کو احمدیت کی طرف لانے کی کوشش کرتے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو بالآخر غالب آنے والی ہے.انہوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کہ جب خدا تعالیٰ نے بانی کو تجدید اسلام کے لئے مبعوث کیا ہے تو اب سنت اللہ کے مطابق بگڑے ہوئے اسلام کو اصلاح شدہ اسلام کی طرف آنا چاہئے نہ یہ کہ اصلاح شدہ اسلام بگڑے ہوئے اسلام کی طرف جائے.پھر افسوس ہے کہ ان لوگوں نے قوموں کے اتار چڑھاؤ کے فلسفہ کو بھی نہیں سمجھا.کیونکہ اگر وہ سوچتے تو انہیں یہ بات ترجمه از احمدیہ موومنٹ صفحہ ۱۴۰.ایڈیشن ۱۹۱۸ء

Page 353

۳۴۳ آسانی کے ساتھ سمجھ آ جاتی کہ اصلاح کا طریق یہ نہیں ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو بچانے کی خاطر اپنی خصوصیات کو ترک کر کے اس میں جذب ہو جاوے اور نہ ہی کسی قوم کی خصوصیات دوسری قوم میں جذب ہونے سے باقی رہ سکتی ہیں.جب کسی کھیت کی فصل پرانی ہو کر خراب ہو جاوے اور اجڑنے لگے تو اس کی اصلاح کا یہ طریق نہیں کہ اس کھیت کے اندر تازہ بیج بکھیر دیا جائے.بلکہ اس کی اصلاح کا طریق یہ ہے کہ اس میں ہل چلا کر اسے صاف کیا جائے اور پھر نیا بیج ڈالا جائے.پس بے شک اسلام اور قرآن کا کھیت وہی قدیم کھیت ہے جو پہلے تھا اور قیامت تک وہی قائم رہے گا مگر اس کی موجودہ فصل خراب ہو کر اجڑ رہی ہے اور ضرورت ہے کہ اس کھیت میں دوبارہ ہل چلا کر نیا بیچ ڈالا جاوے.غالباً منکرین خلافت کے لیڈروں کو یہ بات بھی بھولی نہیں ہوگی کہ جب ۱۹۰۶ء کے آغاز میں ایک مشہور غیر احمدی جرنلسٹ نے ان تبلیغی اور علمی مضامین سے متاثر ہوکر جور یو یو آف ریلیجنز میں شائع ہورہے تھے یہ تجویز پیش کی کہ ریویو کو عام اسلامی مضامین کے لئے وقف کر دیا جاوے اور سلسلہ احمدیہ کے مخصوص عقائد کا اس میں ذکر نہ ہوا کرے اور اس صورت میں اس کی خریداری کی توسیع کے متعلق بڑی بڑی امیدیں دلائی تھیں تو حضرت مسیح موعود نے اس تجویز کوسختی کے ساتھ ٹھکرا دیا اور فرمایا کہ کیا ہم احمدیت کے ذکر کو الگ کر کے لوگوں کے سامنے مردہ اسلام کو پیش کریں گے؟ اور جب ایک دوسرے موقعہ پر اس بات کا ذکر تھا کہ بعض غیر احمدی مسلمانوں کی خواہش ہے کہ احمدی ان کے ساتھ مل جائیں اور سب کام مل کر کریں تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے میرے ذریعہ پاک اور صاف دودھ اتارا ہے تو کیا اب میں اپنے پاک وصاف دودھ کو پھر بگڑے ہوئے اور ناصاف دودھ کے ساتھ ملا دوں؟ یہ ایک کیسی سادہ مثال ہے مگر کیسی لطیف اور کیسی حکمت سے پر !! مگر افسوس ہے کہ ہمارے ان بھٹکے ہوئے ودستوں نے ان باتوں کو سنتے ہوئے بھی آنکھیں نہ کھولیں.الغرض منکرین خلافت کو ساری ٹھو کر اس بات سے لگی ہے کہ انہوں نے احمدیت کی حقیقت اور اس کی غرض و غایت کو نہیں سمجھا.انہوں نے اسے صرف ایک عام اصلاحی تحریک خیال کیا اور اس

Page 354

۳۴۴ لئے اس بات کو کافی سمجھا کہ وہ احمدیت کے اصلاح شدہ خیالات کو لے کر اسلام کے سوادِ اعظم میں پھر جا داخل ہوں مگر یہاں تو بات ہی اور تھی.یہاں تو احمدیت کا یہ دعویٰ ہے کہ میں دنیا کے سارے نظاموں کو مٹا کر جن میں موجودہ اسلام کا بگڑا ہوا نظام بھی شامل ہے ایک نیا نظام قائم کرنے آئی ہوں.یہ نیا نظام اسلام ہی کا نظام ہو گا مگر بہر حال نیا ہو گا اور احمدیت کے واسطے سے قائم ہوگا.خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود سے فرماتا ہے:.ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں.اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ ہم لوگ دوسرے مسلمانوں سے ہر بات میں جدا رہنا چاہتے ہیں اور کسی بات میں بھی ان کے ساتھ اتحاد پسند نہیں کرتے.یہ وہم یقیناً خلاف واقعہ اور خلاف تعلیم احمدیت ہوگا.ہم سب مسلمانوں کو اپنا قریب تر بھائی خیال کرتے ہیں کیونکہ ہم اس کلمہ کو پڑھنے والے اور اسی شریعت پر عمل کرنے والے اور اسی نبیوں کے سردار محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کا دم بھرنے والے ہیں اور ہم تمام مشترک امور میں مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنے اور ان کے دوش بدوش کھڑے ہو کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں اور ان کی خدمات کو اپنا فرض خیال کرتے ہیں.مگر ہم مسلمانوں کے بگڑے ہوئے عقائد کو اچھا نہیں کہہ سکتے اور نہ ان کی خاطر اپنے اچھے عقائد کو چھپانے کے لئے تیار ہیں.بلکہ ہم ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں اور خدا کے فضل سے ہمیشہ کہتے رہیں گے کہ اب حقیقی اسلام صرف احمدیت ہی میں مل سکتا ہے اور احمدیت کے ساتھ ہی مسلمانوں کی نجات وابستہ ہے.اگر وہ احمدیت کے مخالف رہیں گے اور خدا کے برگزیدہ مسیح کے ساتھ اپنا پیوند نہیں جوڑیں گے تو ہم اس بات کے اظہار سے رک نہیں سکتے کہ اس صورت میں وہ خدا کا مقابلہ کرنے والے ہوں گے اور ان کا قدم ہر لحظہ نیچے ہی نیچے گرتا جائے گا.ہم ان کا دل دکھانا نہیں چاہتے مگر ان کو ہوشیار کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے جتھے اور اپنی حکومتوں پر نازاں نہ رہیں کیونکہ خدا کے مسیح نے صاف فرما دیا ہے کہ:.ے تذکره صفحه یه ۱۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء

Page 355

۳۴۵ ”خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ لے خلافت ثانیہ میں واقعات کا غیر معمولی ہجوم :.اب ہم جماعت احمدیہ کے اندرونی اختلافات کی دلدل سے نکل کر جماعت کی تاریخ کے اس حصہ میں داخل ہورہے ہیں جہاں سے ہماری تاریخ منکرین خلافت سے علیحدہ وممتاز ہو کر اپنے مستقل رستہ پر گامزن ہوتی ہے.اس کے بعد ہمارا راستہ بالکل صاف اور سیدھا ہے جس میں جماعت احمدیہ کی متحدہ آواز میں کوئی اختلافی راگنی سنائی نہیں دیتی.اور خدا کے برگزیدہ مسیح کی ساری فوج اپنی ساری طاقت کے ساتھ ایک ہی نقطہ پر جمع نظر آتی ہے.مگر قبل اس کے کہ ہم کی تاریخ کے اس حصہ میں داخل ہوں ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ چونکہ اب خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ کافی ترقی کر چکی تھی اور نہ صرف اس کی تعداد میں اضافہ ہو چکا تھا بلکہ اس کا کام بھی گونا گوں شعبوں میں تقسیم ہو کر بہت وسعت اختیار کر چکا تھا اور وہ اپنے اندرونی اختلافات کے داغ سے بھی پاک ہو چکی تھی اس لئے جماعت احمدیہ کی تاریخ کے اس حصہ میں واقعات کا اس قدر ہجوم ہے کہ ہمارے لئے یہ ناممکن ہے کہ اس مختصر رسالہ میں سارے واقعات کو درج کر سکیں.پس اب ہمیں لازماً زیادہ اختصار اور انتخاب سے کام لینا پڑے گا.علاوہ ازیں چونکہ اس رسالہ کی اصل غرض و غایت خلفاء احمدیہ کی سیرت و سوانح بیان کرنا نہیں بلکہ کی تاریخ اور ترقی کو ضبط میں لانا اصل مقصد ہے اس لئے ہم اس بناء پر بھی صرف ایسے اہم واقعات تک اپنے آپ کو محدود رکھیں گے جن کا کی ترقی اور توسیع کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.اور پھر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس کتاب کا حجم خاکسار مولف رسالہ ہذا کے ابتدائی اندازے سے اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب سوائے اس کے کہ غیر معمولی اختصار کے ساتھ ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے آگے بڑھا جائے اور کوئی چارہ نہیں.مگر ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ سلسلہ کی تاریخ کا ی زمانہ جو خلافت ثانیہ سے تعلق رکھتا ہے ہماری تاریخ کا ایک ایسا سنہری زمانہ ہے کہ یقیناً وہ شخص بہت ے اشتہار مورخہ ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۰۴ جدید ایڈیشن

Page 356

۳۴۶ خوش قسمت ہوگا جو اس زمانہ کا ایک مفصل مرقع تیار کرنے کی سعادت پائے.جنگ عظیم اور جماعت احمدیہ :.جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں خلافت ثانیہ کا آغاز روحانی فضا میں بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک کے اندر ہوا تھا.ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک محض اتفاق تھا یا کہ آسمانی تقدیر کا ایک اور مخفی کرشمہ تھا کہ خلافت ثانیہ کے آغاز کے چند ماہ کے اندراندر ہی اس دنیا کی مادی فضا میں بھی تاریک بادلوں کی گرجوں نے ایک غیر معمولی طوفان پیدا کر دیا.خلافت ثانیہ کی ابتداء ۱۹۱۴ء کے ماہ مارچ میں ہوئی اور اسی سال کے ماہ اگست میں دنیا کی وسیع سٹیج پر اس جنگ عظیم کا آغاز ہوا جس کے متعلق یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اس سے پہلے دنیا میں کوئی جنگ اس قدر وسیع پیمانہ پر اور اس قدر ہیبت ناک مناظر کے ساتھ نہیں ہوئی.اور جب یہ آگ ایک دفعہ شروع ہوئی تو پھر اس سرعت کے ساتھ پھیلی کہ جنگ کے اختتام سے قبل دنیا کا بیشتر حصہ کسی نہ کسی جہت سے اس کی لپیٹ میں آچکا تھا.جیسا کہ ہم حضرت مسیح موعود کے سوان کے ذکر میں بتا چکے ہیں آپ نے خدا سے علم پا کر ۱۹۰۵ء میں اس خطر ناک تباہی کی پیشگوئی فرمائی تھی اور اس کی تباہی کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ خبر بھی دی تھی کہ اس عالمگیر زلزلہ میں زار روس پر بھی ایک تباہ کن مصیبت آئے گی.لے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جنگ کے اختتام سے قبل ہی زار روس کے اقبال کی صف لپیٹ دی گئی.کا اس جنگ میں چونکہ حکومت انگریزی بھی شریک تھی اس لئے جماعت احمدیہ نے اپنے مقدس بانی کی تعلیم کے ماتحت ایک وفادار شہری کا پورا پورا حق ادا کیا اور حکومت وقت کو اپنی طاقت سے بڑھ کر جان و مال سے مدد پہنچائی.یہ سب امداد ایک اصول کے ماتحت تھی اور اگر انگریزوں کے سوا کسی اور کی حکومت ہوتی تو اس کے ساتھ بھی یہی وفاداری کا سلوک کیا جاتا کیونکہ اسلام کی یہ تعلیم ہے جسے احمدیت نے بڑے زور کے ساتھ پیش کیا ہے کہ حکومت وقت کے ساتھ اور خصوصاً ایسی حکومت کے ساتھ جنس کے ذریعہ ملک میں امن قائم ہو تعاون اور وفاداری کا سلوک ہونا چاہئے اور جماعت احمدیہ کے لئے تو سب سے زیادہ قیمتی چیز ہی مذہب اور اشاعت مذہب اور تبدیل مذہب کی آزادی ہے.پس ے براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۵۲

Page 357

۳۴۷ جوحکومت جماعت احمدیہ کو یہ چیز دیتی ہے وہ خواہ کوئی ہو اور کسی ملک میں ہو وہ جماعت احمد یہ کو ہمیشہ اپنا مخلص اور وفادار پائے گی.جو لوگ جماعت احمدیہ پر انگریزوں کی جاسوسی اور حکومت انگریزی کے ساتھ خفیہ ساز باز کا الزام لگاتے ہیں وہ یقیناً جھوٹے اور فریبی ہیں کیونکہ انگریزوں کے ساتھ ہمارے اتحاد کی تہہ میں اس جذبہ کے سوا اور کوئی جذبہ نہیں جو ہم نے اوپر بیان کر دیا ہے اور وقت آنے پر دنیا دیکھ لے گی کہ ہماری پالیسی کی بنیا د اصول پر ہے نہ کہ ذاتیات پر.جماعت کی تبلیغی کوششوں میں توسیع اور ایک نادر تفسیر :.اندرونی اختلافات کی کلاش سے فرصت پانے کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح ثانی کی توجہ سب سے پہلے جماعت کے تبلیغی کام کو وسیع کرنے کی طرف مبذول ہوئی.چنانچہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ آپ کے عہد خلافت میں کس حیرت انگیز رنگ میں جماعت کے تبلیغی مشنوں نے ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں تبلیغ کا ایک وسیع جال پھیل گیا.مگر جو کام مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی فوری طور پر کیا گیا وہ قرآنی علوم کی اشاعت کا کام تھا.چنانچہ ۱۹۱۵ء میں جو خلافت ثانیہ کا دوسرا سال تھا حضرت خلیفتہ اسیح ثانی کی ہدایت اور نگرانی کے ماتحت قرآن شریف کے پہلے پارہ کی تفسیر انگریزی اور اردو ہر دو میں تیار کرا کے شائع کی گئی جس نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ یورپ کے علم دوست حلقہ میں بھی ایک ہلچل پیدا کر دی حتی کہ ایک یورپین مستشرق نے مشہور عیسائی رسالہ مسلم ورلڈ میں اس تفسیر پر ریویو کرتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ احمدیت کے لٹریچر کا مطالعہ ہی اس بات کا اندازہ کرنے میں مدد دے سکتا ہے کہ مذاہب کی موجودہ جنگ میں اسلام اور مسیحیت میں سے کون غالب آنے والا ہے لہ یہ تفسیر خود حضرت خلیفہ المسیح ثانی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھی مگر آپ کے نام پر شائع نہیں ہوئی کیونکہ آپ نے جماعت کے ذمہ دار لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ میں صرف ایک نمونہ تیار کرتا ہوں اور آگے اسے مکمل کرنا آپ لوگوں کا کام ہو گا.اس تفسیر کا انگریزی ترجمہ احمدی علما کے ایک بورڈ نے کیا تھا مگر افسوس ہے کہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے یہ نادر الوجود تغییر ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی لیکن جن لوگوں نے اس کا پہلا پارہ مطالعہ کیا ہے ان کے دیکھو مسلم ورلڈ بابت اپریل ۱۹۱۶ء

Page 358

۳۴۸ دلوں سے اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ابھی تک اس کے بقیہ حصوں کے انتظار کا جذبہ مٹ نہیں سکا.بہر حال اس تفسیر نے دنیا کو ایک رستہ دکھا دیا ہے اور اب وہ اس بات کا کسی قدرا ندازہ کر سکنے کے قابل ہے کہ احمدیت کے سینہ میں قرآنی علوم کے کتنے خزانے مخفی ہیں.منارة امسیح کی تکمیل:.منکرین خلافت نے اپنی طاقت کے زمانہ میں یعنی جب وہ حضرت خلیفہ اول کے عہد میں صدر انجمن احمدیہ کے بیت المال پر قابض تھے قادیان میں بعض شاندار عمارتوں کی بنیاد رکھی تھی.ہم ان عمارتوں کو برا نہیں کہتے کیونکہ بہر حال وہ مرکز سلسلہ کی ظاہری رونق اور شان کو بڑھانے والی اور جماعت کی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے والی تھیں مگر چونکہ حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کی توجہ تمام تر اشاعت دین اور اعلاء کلمۃ اللہ میں لگی ہوئی تھی اس لئے آپ اس زمانہ میں بسا اوقات اس بات پر کڑھتے تھے کہ جماعت کا اس قدر روپیہ جس کی دین کے کاموں میں ایسی اشد ضرورت ہے اس طرح اینٹ اور گارہ میں ضائع کیا جارہا ہے.پس جب آپ کا زمانہ آیا تو آپ نے اپنے عہد خلافت میں ان عمارتوں کے سلسلہ کو یکدم روک دیا مگر ایک عمارت کی تڑپ آپ کے دل میں بھی منفی تھی اور وہ منارة امسیح کی عمارت تھی.آپ دیکھتے تھے کہ یہ عمارت سلسلہ کی ایک مقدس یادگار ہے جس کی حضرت مسیح موعود نے خود اپنے ہاتھ سے بنیادرکھی مگر روپے کی قلت کی وجہ سے اسے مکمل نہیں فرما سکے.پس آپ نے جہاں دوسری عمارتوں کے سلسلہ کو بند کیا وہاں خود کہہ کر اور حکم دے کر منارة امسیح کی بند شده عمارت کی تعمیر جاری کرا دی.چنانچہ خدا کے فضل سے بہت جلد ہی ہمارے سلسلہ کی یہ روحانی یادگار جس کا رنگ پورے طور پر سفید ہے تکمیل کو پہنچ گئی.اور اب یہ منارہ نہ صرف قادیان کی آبادی کا ایک دلکش منظر پیش کرتا ہے بلکہ جماعت کو ہر وقت ان کا یہ فرض بھی اددلاتا ہے کہ وہ ایک سفید اور بے داغ دل کے ساتھ اسلام کی بلندیوں میں پرواز کرتے چلے جائیں.جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں منارہ کی بنیاد ۱۹۰۳ء میں رکھی گئی تھی.مگر بعد میں یہ کام فنڈز کی کمزوری کی وجہ سے رک گیا اور پھر خلافت ثانیہ کے زمانہ میں ۱۹۱۵ء میں دوبارہ جاری ہو کر ۱۹۱۶ء میں تکمیل کو پہنچا.

Page 359

۳۴۹ جماعت احمدیہ کا دوسرا بیرونی مشن حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کے حالات میں جماعت احمد یہ اور ماریشس کی جماعت کا قیام کے لندن مشن کا ذکر کیا جا چکاہے اور ی بھی بنایا جا چکا ہے کہ یہ دار التبلیغ لندن کے قیام میں بھی حضرت خلیفہ امسیح ثانی کا کا فی ہاتھ تھا کیونکہ آپ نے ہی اپنی قائم کردہ انجمن انصار اللہ کے چندہ سے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو انگلستان بھجوانے کا انتظام کیا تھا.یہ دارالتبلیغ خدا کے فضل سے کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا اور چوہدری صاحب موصوف بڑے اخلاص اور جوش کے ساتھ تبلیغ اسلام میں مصروف تھے اور قبل اس کے کہ خلافت ثانیہ کا پہلا سال اختتام کو پہنچے اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب کو ان کی کوششوں کا پہلا شمرہ بھی عطا کر دیا یعنی ایک انگریز مسٹر کور یونامی چوہدری صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کر کے احمدیت میں داخل ہوا.اب خلافت ثانیہ کے دوسرے سال میں خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کا دوسرا بیرونی مشن قائم ہوا.یہ مشن جزیرہ ماریشس میں قائم کیا گیا جو براعظم افریقہ کے مشرق میں اور خط استوا کے جنوب میں واقع ہے یہ جزیرہ پہلے فرانسیسی حکومت کے ماتحت تھا لیکن بعد میں انگریزی حکومت میں آ گیا اور اس کی آبادی کا بیشتر حصہ ایسا تھا جو کسی زمانہ میں ہندوستان سے جا کر وہاں آباد ہوا تھا.ان لوگوں نے جب احمدیت کا نام سنا تو اس بات کی خواہش کی کہ ان کے پاس کوئی مبلغ بھجوایا جائے چنانچہ حضرت خلیفتہ اسی ثانی نے اس کام کے لئے حافظ صوفی غلام محمد صاحب بی اے کو منتخب کیا اور وہ فروری ۱۹۱۵ء کو قادیان سے روانہ ہو گئے.صوفی صاحب کے پرانے مخلصین میں سے ہیں اور انگریزی میں گریجوایٹ ہونے کے علاوہ حافظ قرآن اور عربی علوم کے اچھے ماہر ہیں.حضرت خلیفہ اسیح کے حکم سے صوفی صاحب پہلے جزیرہ سیلون میں تشریف لے گئے اور وہاں تین ماہ قیام کر کے اور پیغام حق پہنچا کر آگے روانہ ہوئے.اس طرح صوفی صاحب کے ذریعہ گویا دومشنوں کا آغاز ہو گیا کیونکہ اس کے بعد سے سیلون کا مشن بھی باقاعدہ تو نہیں مگر نیم با قاعدہ صورت میں چلتا آ رہا ہے اور اس وقت وہ مالا بار کے مبلغ کے حلقہ میں شامل ہے جو سال کا کچھ حصہ سیلون میں جا کر گزارتا ہے.

Page 360

۳۵۰ ماریشس میں پہنچ کر صوفی صاحب کو خدا کے فضل سے بہت کامیابی ہوئی اور بہت سے لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے اور گو صوفی صاحب موصوف اس جزیرہ میں بارہ سال کی شاندار خدمت کے بعد واپس تشریف لے آئے مگر اب تک یہ مشن با قاعدہ طور پر قائم ہے اور اچھا کام کر رہا ہے ماریشس کو ایک خصوصیت یہ بھی حاصل ہے کہ وہاں ہمارا ایک مخلص مبلغ غریب الوطنی کی حالت میں وفات پا کر جام شہادت سے مشرف ہوا.یہ صاحب حافظ عبید اللہ صاحب تھے جو صوفی صاحب کی امداد کے لئے ۱۹۱۷ء میں ماریشس گئے تھے مگر ۱۹۲۳ء میں بیمار ہوکر وہیں وفات پاگئے.احمد یہ ہوٹل لاہور کا قیام :.تبلیغ کے ساتھ ساتھ حضرت امیر المومنین ملایان اسے مانی کی دور بین آنکھ جماعت کی تعلیمی اور تربیتی ضروریات کو بھی دیکھ کر اس کے انتظام کے لئے فکرمند تھی.یہ بتایا جا چکا ہے کہ قادیان میں حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی ایک ہائی سکول قائم ہو چکا تھا مگر چونکہ اس کے ساتھ کوئی کالج نہیں تھا اور اب تک بھی نہیں ہے اس لئے یونیورسٹی کی تعلیم کے لئے جماعت کے بچوں کو لازم لا ہور وغیرہ کے کالجوں میں داخل ہونا پڑتا تھا.یہ صورت حال تربیتی نکتہ نگاہ سے خطر ناک تھی کیونکہ کچی عمر کے بچوں کا جماعتی ماحول سے نکل کر دنیا کے زہر آلود مادی ماحول میں جا گھسنا خام طبیعتوں پر برا اثر پیدا کر سکتا تھا.حضرت خلیفتہ اسیح ثانی نے اس خطرہ کو محسوس کیا اور یہ دیکھتے ہوئے کہ ابھی تک جماعت میں کالج جاری کرنے کی طاقت نہیں ہے یہ تجویز فرمائی کہ لاہور میں احمدی بچوں کے لئے ایک ہوٹل قائم کر دیا جاوے جہاں جماعت کے نوجوان اکٹھے رہیں اور جماعت کے تربیتی انتظام کے ماتحت زندگی گزاریں.یہ ہوٹل ۱۹۱۶ء میں قائم کیا گیا.اور اب تک جاری ہے اور خدا کے فضل سے اس نے ایک حد تک جماعت کے لئے کالج کی کمی کو پورا کر رکھا ہے.ہندوستان کے دروازہ کی ناکہ بندی : ۱۹۱۷ء میں حضرت طلیقہ اسی ثانی کو اس طرف توجہ ہوئی کہ بمبئی میں تبلیغی کام شروع کیا جاوے.بمبئی کو یہ خصوصیت تھی اور اب بھی ہے کہ وہ گویا ہندوستان کا دروازہ ہے اور نہ صرف مغربی ممالک کو آنے جانے والے مسافر بلکہ بیت اللہ کے اکثر

Page 361

۳۵۱ حاجی بھی اسی رستے آتے جاتے ہیں اس لئے اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور پھر ایک بڑا شہر ہونے کے علاوہ اس میں مسلمانوں کی تین مشہور تجارتی قو میں یعنی خو جے بوہرے اور میمن آباد ہیں جو عموماً دوسرے مسلمانوں کی نسبت مذہب کی طرف زیادہ میلان رکھتے ہیں.ان وجوہات کی بنا پر آپ نے اگست ۱۹۱۷ء میں بمبئی میں ایک تبلیغی وفد روانہ کیا جس کے ممبر خاکسار کے چھوٹے ماموں مکرمی میر محمد اسحاق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل اور خاکسار مؤلف رسالہ ھذا تھے.ہم نے وہاں دو ڈھائی ماہ قیام کیا اور مسلمانوں کی مختلف اقوام میں اشتہاروں اور لیکچروں اور درس وغیرہ سے تبلیغ کی گئی جس پر بعض فتنہ پردازوں نے شرارتیں بھی اٹھا ئیں مگر خدا کے فضل سے فی الجملہ اچھا اثر ہوا.اسی دوران میں مکرمی میر محمد اسحاق صاحب فاضل کا مسیحیوں کے مشہور مناظر پادری جوالا سنگھ سے مسیحیت اور اسلام کے متعلق ایک مناظرہ بھی ہوا جس میں خدا کے فضل سے میر صاحب موصوف کو نہایت نمایاں کامیابی نصیب ہوئی اور ویسے بھی بمبئی کی عمومی تبلیغ میں میر صاحب موصوف ہی کی مساعی کا زیادہ حصہ اور زیادہ دخل تھا.ہمارے واپس آ جانے کے بعد بھی بمبئی میں ایک عرصہ تک تبلیغی کام جاری رہا اور گودرمیان میں بعض ناغے بھی ہو جاتے رہے مگر اب بھی بمبئی میں عموماً ایک مبلغ رہتا ہے اور گیٹ آف انڈیا کی ناکہ بندی کا سلسلہ جاری ہے.انفلوانزا کی عالمگیر و با میں جماعت کی بے لوث خدمت :.۱۹۱۸ء میں جنگ عظیم کا ایک نتیجہ انفلوانزا کی وبا کی صورت میں ظاہر ہوا اس نے گویا ساری دنیا میں پھیل کر اس تباہی سے بھی زیادہ تباہی مچادی جو جنگ کے میدان میں ہوئی تھی.ہندوستان میں بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا اور گو شروع میں اموات کی شرح کم تھی مگر کچھ عرصہ کے بعد اس کثرت کے ساتھ موتیں ہونے لگیں کہ قیامت کا نمونہ سامنے آ گیا.چونکہ جماعت احمدیہ کے فرائض میں ایک بات یہ بھی داخل ہے کہ وہ مخلوق کی خدمت کرے اس لئے ان ایام میں حضرت خلیفتہ اسیح ثانی کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے نہایت شاندار خدمت سرانجام دی اور مذہب وملت کی تمیز کے بغیر ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کی

Page 362

۳۵۲ تیمارداری اور علاج معالجہ میں نمایاں حصہ لیا.احمدی ڈاکٹروں اور احمدی طبیبوں نے اپنی آنریری خدمات پیش کر کے نہ صرف قادیان میں مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ شہر بہ شہر اور گاؤں بہ گاؤں پھر کر طبی امداد بہم پہنچائی اور عام والنٹیروں نے نرسنگ وغیرہ کی خدمت سرانجام دی اور غرباء کی امداد کے لئے جماعت کی طرف سے روپیہ اور خور و نوش کا سامان بھی فراخ دلی کے ساتھ تقسیم کیا گیا.مجھے خوب یاد ہے کیونکہ میں بھی اس آنریری کور میں شامل تھا کہ ان ایام میں احمدیت والنٹیر دن رات اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر مریضوں کی خدمت میں مصروف تھے اور بعض صورتوں میں جبکہ کام کرنے والے خود بیمار ہو گئے اور ابھی نئے کام کرنے والے میسر نہیں آئے تھے بیمار والنٹیر وں نے ہی خدمت کے سلسلہ کو جاری رکھا اور جب تک یہ والنٹیر بالکل نڈھال ہو کر صاحب فراش نہیں ہو گئے انہوں نے اپنے آرام اور اپنے علاج کے خیال پر دوسروں کے آرام اور دوسروں کے علاج کو ہر حال میں مقدم کیا.یہ ایک ایسا شاندار کام تھا کہ دوست و دشمن سب نے یک زبان ہو کر جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمات کا اعتراف کیا اور تقریر وتحریر ہر دو میں اس بات کو تسلیم کیا کہ اس موقعہ پر جماعت احمد یہ نے بہت اچھا نمونہ قائم کیا ہے.۱۹۱۹ء و۱۹۲۰ء کے سال اس لحاظ سے ہندوستان کی تاریخ ہندوستان میں زبردست سیاسی میں یادگار رہیں گے کہ اس زمانہ میں ہندوستان میں ایک ہیجان اور جماعت احمدیہ کا رویہ : - پیچ سیاسی ہیجان کا آغاز ہوا جس کی نظیر اس سے پہلے کسی زمانہ میں نظر نہیں آتی.جنگ کے اختتام نے دنیا میں ایک عام بیداری پیدا کر دی تھی اور چونکہ بیداری کے ابتدائی مراحل میں بعض جو خیلی طبیعتیں حد اعتدال سے آگے گزر جاتی ہیں اس لئے اس کے انسداد کے واسطے گورنمنٹ ہند نے بعض احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں اور ۱۹۱۹ء کی ابتداء میں ایک قانون رولٹ ایکٹ بھی جاری کرنے کی تجویز کی جس کے ذریعہ پریس پر خاص پابندیاں عائد کی گئیں.حکومت کے اس اقدام پر ملک کے بیدار شدہ حصہ میں سخت ہیجان پیدا ہوا اور اس نئے قانون کے

Page 363

۳۵۳ خلاف زبر دست احتجاجی جلسے کئے گئے.اس قسم کے حالات میں بعض افسروں کی غلطی سے امرتسر کے ایک پبلک جلسہ میں حکومت نے ایسے حالات میں گولی چلا دی کہ جو یقیناً دانشمندانہ نہیں تھے.اس پر گویا سارا ملک ناراضگی کے جوش میں حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اور پنجاب میں تو ایک گونہ بغاوت کا رنگ پیدا ہو گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں مارشل لا کا اجراء ضروری سمجھا گیا.اس عرصہ میں مسٹر گاندھی نے اس تحریک کی بنیاد ڈالی کہ جب تک ان شکایات کا ازالہ نہ ہو ہندوستانیوں کو حکومت سے عدم تعاون کر کے عملاً قطع تعلق کر لینا چاہئے.اس مہم نے ملک کے اندر ایک خطر ناک صورت حال پیدا کر دی اور سارا ملک گویا ایک آتش فشاں پہاڑ کا رنگ اختیار کر گیا.دوسری طرف اسی زمانہ میں یعنی ۱۹۲۰ء میں اور اس کے قریب ہندوستان کے مسلمانوں میں حکومت برطانیہ کے خلاف اس وجہ سے بڑا جوش تھا کہ جنگ عظیم کے بعد ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا اور اسلامی علاقوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دیا گیا ہے اور خلافت ایجی ٹیشن کے ماتحت ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی حکومت کے ساتھ ترک موالات کا سلسلہ شروع کر کے ایک ہیجان عظیم کی صورت پیدا کر دی.الغرض یہ دو سال ہندوستان میں ایک عالمگیر ہیجان کے سال تھے.چونکہ جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جو ملک کے امن کو برباد کرنے والی ہو اور لوگوں کی طبیعتوں میں قانون شکنی کی طرف میلان پیدا کر دےاس لئے حضرت خلیفہ اُسے ثانی نے اس زمانہ میں اپنی جماعت کو پے در پے نصیحت فرمائی کہ وہ ہر قسم کی امن شکن تحریک اور قانون شکنی کے طریق سے کلی طور پر مجتنب رہے بلکہ امن کو قائم کرنے اور قانون شکنی کے سلسلہ کو روکنے میں حکومت کے ساتھ پورا پورا تعاون کرے چنانچہ ان خطر ناک ایام میں جماعت نے اپنے آپ کو ہر قسم کے خطرہ میں ڈال کر حکومت کے ساتھ تعاون کیا اور حکومت نے بھی ایک کھلی پریس کمیونیکے کے ذریعہ جماعت کی ان پر امن خدمات کا اعتراف کیا اور اس بات کو کھلے طور پر تسلیم کیا کہ جماعت احمدیہ کے افراد نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اپنے امام کی ہدایات پر عمل کیا ہے.

Page 364

۳۵۴ دوسری طرف حضرت خلیفہ اسیح ثانی نے حکومت کو بھی ہمدردانہ رنگ میں نصیحت فرمائی کہ ان کا رویہ ہندوستانیوں کے لئے عموماً اور مسلمانوں کے لئے خصوصاً اچھا نہیں رہا کیونکہ امرتسر کے جلسہ میں وحشیانہ طور پر گولی چلا کر اور پھر مارشل لا کے دنوں میں معزز ہندوستانیوں کو فوجی نظام کے ماتحت رینگ کر چلنے کی سزا دے کر صرف ایک ظلم ہی نہیں کیا گیا بلکہ گویا سارے ملک کی ہتک کی گئی ہے.پھر مسلمانوں کے دلوں کو خصوصاً ترکی کے ساتھ سختی کا سلوک کر کے بری طرح مجروح کیا گیا ہے.آپ نے اس زمانہ میں دو کتابیں بھی تصنیف کر کے شائع فرما ئیں جن میں سے ایک میں تو ترکی کے ساتھ سلوک پر تبصرہ کیا گیا تھا اور دوسری میں ترک موالات اور عدم تعاون وغیرہ کے اصول پر بحث تھی.ان پر دو کتابوں میں انصاف کے ترازو کو اس دیانتداری اور عقل مندی کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ ملک کے سمجھدار طبقہ پر ان کا بہت اچھا اثر ہوا مگر آپ کی ان تحریکات کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ ملک کا انتہائی سیاسی باز و جماعت احمدیہ کی طرف سے سخت بدیمن ہو کر اسے اپنی سیاسی ترقی میں ایک روک خیال کرنے لگ گیا حالانکہ حضرت خلیفتہ اسیح ثانی بار بار اس بات کی تشریح فرما چکے تھے کہ ہم ملک کی سیاسی آزادی اور اہل ملک کے حقوق کی حفاظت کے ہرگز خلاف نہیں بلکہ اس مطالبہ میں دوسروں کے ساتھ بالکل شریک اور متحد ہیں.مگر اس غرض کے حصول کے لئے جو رستہ اختیار کیا جاتا ہے اسے ہم درست نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ امن کو برباد کرنے والا اور نو جوانوں اور خام خیالوں میں قانون شکنی کے میلان کو ترقی دینے والا ہے.اس کے بعد جب مسلمانوں نے ۱۹۲۱ء میں خلافت ایجی ٹیشن کے سلسلہ میں تحریک ہجرت کی بنیاد ڈالی تو اس وقت بھی حضرت خلیفہ اسیح نانی نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ یہ طریق دین اور دنیا ہر دو کےلحاظ سے نادرست اور غیر دانشمندانہ اور سراسر نقصان دہ ہے اور مسلمانوں کو اس سے پر ہیز کرنا چاہئے مگر وقتی جوش کے عالم میں مسلمان لیڈروں نے اس نصیحت کی بھی قدر نہ کی اور ہزاروں مسلمانوں کو تباہ و بربادکر کے چھوڑا.

Page 365

۳۵۵ جماعت کے مرکزی نظم ونسق میں اصلاح:.دنیا میں اکثر لیڈر اور پیشر وایسے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے دائرہ انتظام میں بعض خاص خاص شعبوں کی طرف ہی زیادہ توجہ ہوتی ہے اور دوسرے شعبے غفلت کی حالت میں پڑے رہتے ہیں مگر خدا نے حضرت خلیفہ مسیح ثانی کو ایسی آنکھ دی ہے جو چاروں طرف دیکھتی اور ہر پہلو پر نگاہ رکھتی ہے اور جماعت کی حفاظت اور ترقی کے لئے جن جن امور کی ضرورت ہے ان میں سے کوئی بھی آپ کی نظر سے اوجھل نہیں رہتا چنا نچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح اپنی خلافت کے ان ابتدائی چند سالوں میں آپ نے تصنیف کی طرف.تربیت کی طرف سیاست کی طرف.خدمت خلق کی طرف ایک ہوشیار اور چوکس نظر کے ساتھ توجہ رکھی اور ہر موقعہ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا.اسی طرح اس عرصہ میں آپ کی آنکھ جماعت کے مرکزی نظام کی اصلاح کی طرف بھی لگی ہوئی تھی.اور آپ صدر انجمن احمدیہ کے نظام کے اس تفصیلی حصہ میں جو حضرت مسیح موعود کا فیصلہ کردہ نہیں تھا بلکہ خود انجمن کا قائم کردہ تھا بعض نقصوں کو دیکھ کر اس کی اصلاح کے سوال پر غور فرما رہے تھے.اس نظام میں سب سے بڑی کمزوری آپ کو یہ نظر آتی تھی کہ اس کے اندر مرکزیت کا اصول بہت زیادہ غلبہ پائے ہوئے ہے اور مختلف صیغہ جات ایک ہی سیکرٹری کے ماتحت اس طرح جمع ہیں کہ ان صیغوں کے افسروں کو کوئی ذمہ دارانہ پوزیشن حاصل نہیں رہتی.حتی کہ صدرانجمن احمدیہ کے مشوروں میں بھی ان افسروں کی آواز کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ صدرانجمن احمدیہ کے جملہ انتظامی فیصلہ جات خالصہ ایسے ممبروں کی رائے سے تصفیہ پاتے ہیں جن کے ہاتھ میں کسی انتظامی صیغہ کی باگ ڈور نہیں.آپ نے اس نقص کو دیکھ کر اس کی اصلاح کی تجویز فرمائی مگر دوسری طرف آپ اس بات کو بھی محسوس کر رہے تھے کہ ممکن ہے کہ ایک قائم شدہ نظام کو یکلخت بدل دینے میں کوئی دوسری قسم کے نقصانات نہ پیدا ہونے لگیں پس آپ نے اس الجھن میں سے یہ راہ نکالی کہ صدرانجمن احمدیہ کے نظام کو قائم رکھتے ہوئے اس کے پہلو میں ایک دوسرا متوازی نظام جاری فرما دیا جس میں ہر شخص ایک مستقل صیغہ کا انچارج تھا اور پھر یہ سب انچارج باہم مل کر ایک انتظامی انجمن بناتے تھے.ان افسران

Page 366

۳۵۶ کا نام آپ نے ناظر، تجویز فرمایا اور ان کی انجمن کا نام ” مجلس نظارت“ رکھا.اور مختلف ناظروں کے اوپر آپ نے ایک صدر ناظر مقرر کیا جس کا نام ” ناظر اعلی رکھا گیا جس کا کام مختلف نظارتوں میں اتحاد عمل قائم رکھنا اور ان کے اختلافی امور کا فیصلہ کرنا اور مجلس نظارت کے اجلاسوں میں صدارت کے فرائض بجالا نا تھا.گویا اس طرح مرکز سلسلہ میں دو مختلف نظام قائم ہو گئے.ایک وہی پرانا صدرانجمن احمدیہ کا نظام اور دوسرے مجلس نظارت کا جدید نظام.ان دونوں میں کوئی ٹکراؤ کی صورت نہیں تھی کیونکہ صدر انجمن احمدیہ کا کام صدر انجمن کے ہاتھ میں رہا اور جو نیا کام خلافت ثانیہ میں جاری ہوا تھا وہ نظارت کے انتظام میں رکھ دیا گیا.اس موقعہ پر آپ نے مختلف قسم کے کاموں کو بھی ایک اصولی تقسیم کے مطابق منقسم فرمایا چنانچہ ایک نظارت دعوۃ و تبلیغ کی قائم کی گئی ایک تعلیم و تربیت کی ایک بیت المال کی ایک ضیافت کی ایک مقبرہ بہشتی کی ایک امور خانہ کی اور ایک امور عامہ کی وغیر ذالک.اس جدا گا نہ نظام نے کئی سال تک علیحدہ صورت میں کام کیا اور جب اس نظام کا اچھی طرح تجربہ ہو گیا تو اکتو بر ۱۹۲۵ء میں آکر صدر انجمن احمدیہ کے نظام اور اس جدید نظام کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا گیا جس میں صدر انجمن احمدیہ کا نام اور اس کی اصولی صورت قائم رہی مگر صیغہ جات کی تقسیم اور ناظروں کی ذمہ دارانہ پوزیشن جدید نظام کے مطابق قائم ہوگئی اور اب یہی مخلوط صورت جماعت کا مرکزی نظام ہے.صیغہ قضا کا قیام :.اس انتظامی تشکیل کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفہ اس نے ایک جدید نظام صیغہ قضا کا بھی قائم کیا یعنی جماعت کے اندرونی تنازعات کے فیصلہ کے لئے ایک نئے صیغہ کی بنیاد رکھی جس میں مختلف لوگ بطور قاضی مقرر کئے گئے اور ان قاضیوں کے اوپر اپیلوں کے فیصلہ کے لئے قاضیوں کے بیچ قائم کئے گئے اور آخری اپیل خود حضرت خلیفتہ اسی کے پاس رہی.ان قومی عدالتوں میں صرف ایسے تنازعات پیش ہوتے ہیں جو یا تو محض دیوانی حقوق کا رنگ رکھتے ہیں اور یا وہ حکومت وقت کے قانون کے ماتحت قابل دست اندازی پولیس نہیں سمجھے جاتے.اس صیغہ کے قیام سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اول تو گویا گھر کا فیصلہ گھر میں ہی ہو جاتا ہے اور سرکاری عدالتوں میں رو پیدا اور

Page 367

۳۵۷ وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا.دوسرے جو نا گوار اثرات اخلاقی لحاظ سے قانونی عدالتوں کی فضا میں پیدا ہو سکتے ہیں ان سے جماعت کے لوگ محفوظ ہو گئے.تیسرے بعض اوقات مقدمات کے نتیجہ میں جو ایک صورت پارٹی بندی کی پیدا ہونے لگتی ہے اس کا خطرہ جا تا رہا.جماعت کے دشمنوں نے اس صیغہ کے قیام پر بہت کچھ شور مچایا ہے کہ گویا جماعت احمدیہ نے ایک نئی حکومت قائم کر لی ہے اور لوگوں کے لئے سرکاری عدالتوں میں جانے کا رستہ بند کر دیا گیا ہے اور حکومت کو بھی طرح طرح کی رپورٹوں سے بدظن کرنے کی کوشش کی گئی مگر سمجھدار طبقہ محسوس کرتا ہے کہ یہ ایک بہت مفید نظام ہے جس میں ایک طرف تو حکومت کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں بلکہ جیسا کہ پنجایت ایکٹ وغیرہ کا منشاء ہے حکومت اس بات کو پسند کرتی ہے کہ لوگ آپس میں خود فیصلہ کر لیا کریں اور دوسری طرف جماعت کے اندرونی تنازعات کے تصفیہ کا ایک بہت سہل اور عمدہ اور ستارستہ نکل آیا ہے.جماعت کے اس نظام میں دو خصوصیتیں ہیں اول یہ کہ صیغہ قضا کے تمام مقدمات شریعت اسلامی کے مطابق تصفیہ پاتے ہیں.دوسرے یہ کہ اس میں اہل مقدمہ سے کوئی فیس چارج نہیں کی جاتی بلکہ ہر مقدمہ سلسلہ کے خرچ پر مفت کیا جاتا ہے کیونکہ یہی قدیم اسلامی طریق ہے.امریکہ کا دار التبلیغ : ۱۹۱۹ء کے سال کو ایک یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں سلسلہ احمد یہ کی تبلیغی مہم پرانی دنیا کی حدود سے باہر نکل کرنئی دنیا میں جا پہنچی.یعنی اس سال حضرت خلیفہ مسیح کے حکم سے ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ایک نیا احمد یہ مشن جاری کیا گیا.حضرت مسیح موعود کی بعثت چونکہ ساری دنیا کے لئے تھی اس لئے بہر حال جماعت نے جلد یا بدیر ساری دنیا میں تبلیغی نظام قائم کرنا تھا مگر ریاستہائے متحدہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں اس ملک کا ایک جوشیلا اور با اثر مسیحی بانی کے مقابل پر کھڑا ہو کر طاقت آزمائی کر چکا تھا ہماری مراد الگزانڈر ڈوئی سے ہے جس نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں آپ کے خلاف آواز اٹھائی اور پھر حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق آپ کی زندگی میں ہی ذلیل ہو کر پیوند خاک ہو گیا.پس یہ ضروری تھا کہ بعض

Page 368

۳۵۸ دوسرے ممالک کی نسبت جماعت کی نظر امریکہ کی طرف پہلے اٹھتی چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کے حکم سے ۱۹۱۹ء میں امریکن مشن کا قیام عمل میں آ گیا.اس مشن کے لئے سلسلہ احمدیہ کے ایک قدیم بزرگ اور کہنہ مشق مبلغ مفتی محمد صادق صاحب کو چنا گیا.جو حضرت مسیح موعود کی لمبی صحبت اٹھائے ہوئے تھے اور مسیحی مذہب کا کافی مطالعہ رکھتے تھے.مفتی صاحب موصوف نے جو اس سے کچھ عرصہ پہلے لندن مشن میں بھی کام کر چکے تھے امریکہ میں ۱۹۱۹ء سے لے کر ۱۹۲۳ء تک کام کیا اور اس کے بعد یہ دار التبلیغ خدا کے فصل سے برابر قائم ہے اور اچھا کام کر رہا ہے.امریکہ میں گوسفید آبادی نے بھی ایک حد تک توجہ کی ہے مگر اس وقت تک زیادہ کامیابی امریکہ کی کالی آبادی میں ہوئی ہے جو بڑی کثرت کے ساتھ اسلام کی طرف مائل نظر آتی ہے.اس طرح حضرت مسیح موعود کے ہاتھ کا بویا ہوا پیج نہ صرف مغرب کو مشرق سے بلکہ نئی دنیا کو پرانی دنیا سے بھی ملا دینے کی تیاری کر رہا ہے.امریکن مشن کا مرکز شکاگو میں ہے جہاں اس وقت صوفی مطیع الرحمن صاحب ایم اے انچارج ہیں.مغربی افریقہ کا دارالتبلیغ :.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میں دنیا میں اسود و احمر کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں یعنی دنیا کی جملہ تو میں خواہ وہ سفید و سرخ ہوں یا کالی اور سیاہ فام وہ سب میرے پیغام کی مخاطب ہیں.چونکہ حضرت مسیح موعود بھی آنحضرت ﷺ کی طرح دنیا کی سب قوموں کے لئے مبعوث ہوئے تھے اس لئے ضروری تھا کہ جوں جوں حالات موافق ہوتے جاتے آپ کے پیغام کو سب اقوام عالم تک پہنچانے کا انتظام کیا جاتا.بلکہ ترقی یافتہ سفید قوموں کی نسبت وبی ہوئی کالی قوموں کا حق زیادہ تھا کیونکہ فیوں کی بعثت زیادہ تر پستی میں پڑی ہوئی قوموں کو اور پر اٹھانے کے لئے ہوتی ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اُمسیح ثانی نے ۱۹۲۱ء میں مغربی افریقہ کی طرف توجہ فرمائی اور اس بات کا عزم فرمایا کہ اس علاقہ کی حبشی اقوام تک پیغام حق پہنچایا جاوے.یہ ایک بہت وسیع علاقہ ہے جس میں نائیجیریا اور گولڈ کوسٹ اور سی ایرالی اون وغیرہ کئی ممالک شامل ہیں.

Page 369

۳۵۹ حضرت خلیفہ مسیح نے اس علاقہ میں مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کو مبلغ بنا کر بھجوایا.نیر صاحب اس سے پہلے انگلستان کے دار التبلیغ میں دو سال تک کام کر چکے تھے اور تبلیغ کا اچھا تجربہ رکھتے تھے چنانچہ وہ رستہ میں سی ایرالی اون اور گولڈ کوسٹ میں قیام کرتے ہوئے نائیجیریا میں پہنچے اور اس ملک کے دارالسلطنت لیگوس میں تبلیغی مرکز قائم کیا.اور خدا نے ان کے کام میں ایسی برکت دی کہ ایک قلیل عرصہ میں نائیجیریا اور گولڈ کوسٹ میں ہزار ہا لوگ احمدیت کی صداقت کا شکار ہو گئے.نیر صاحب کے بعد اس علاقہ میں حکیم فضل الرحمن صاحب کو بھجوایا گیا اور خدا کے فضل سے یہ دار التبلیغ اب تک بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور نائیجیریا کے علاوہ گولڈ کوسٹ اور سی ایرالی اون میں بھی تبلیغی مرکز قائم ہو گئے ہیں.ان علاقوں میں پرانا قبائلی طریق رائج ہے اور چونکہ کئی قبیلوں کے سردار احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں اس طرح ایک رنگ میں اس ملک کے ایک حصہ میں گویا احمدیت کا نظام بھی قائم ہو گیا ہے جو دن بدن وسیع ہو رہا ہے اور خدا کے فضل سے وہ دن دور نہیں کہ دنیا کی یہ دبی ہوئی قومیں جنہیں میسحیت کے استبداد نے غلام بنا کر رکھا ہوا ہے اسلام اور احمدیت کے طفیل آزادی اور بلندی کی ہوا کھائیں گی.اس جگہ احمدیوں کی اپنی مسجدیں ہیں اپنے مدارس ہیں اور ایک طرح سے اپنی عدالتیں بھی ہیں اور جماعت کے اس وسیع اثر کوکئی مغربی مبصرین نے بڑی حیرت کی نظر کے ساتھ دیکھا ہے.چنانچہ مشہور مسیحی رسالہ مسلم ورلڈ ہمارے اس مشن کے متعلق لکھتا ہے.سنوسیوں جیسے مسلمانوں کے قدیم فرقے جو یورپین طاقت سے کھلے جنگ کے حامی تھے ایک ایک کر کے میدان سے ہٹ رہے ہیں اور ان کی جگہ جدید فرقہ احمدی لے رہا ہے جس نے لیگوس کے مرکز سے تمام فرانسیسی مغربی افریقہ پر اثر جمالیا ہے.“ اور ایک نائیجیریا کا مقامی عیسائی اخبار لکھتا ہے کہ:.معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کے لئے مقدر ہو چکا ہے کہ وہ نائیجیریا کے مسلمانوں منقول از اخبار الفضل ۳ فروری ۱۹۳۵ء صفحه ۸ کالم نمبر ۲

Page 370

کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا کر دیں.چند ہی سال گزرے ہیں جبکہ انہوں نے یہاں کام شروع کیا اور اب یہ سلسلہ نہ صرف لیگوس میں بلکہ تمام نائیجیریا کے مسلمان نوجوانوں کی زندگی میں ایک بھاری تبدیلی پیدا کر رہا ہے.مجلس مشاورت کا قیام:.حضرت خلیفتہ امسیح نے جہاں صدر انجمن احمد یہ کے انتظام میں اصلاح کی ضرورت کو محسوس کیا وہاں آپ کو اس ضرورت کا بھی احساس پیدا ہوا کہ ملی امور میں جماعت سے مشورہ لینے کے لئے کوئی زیادہ پختہ اور زیادہ منظم صورت ہونی چاہئے.اب تک یہ کام اس طرح پر تھا کہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر جبکہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں ملک کے مختلف حصوں سے قادیان میں احمدی جمع ہوتے تھے تو اس وقت ضروری امور میں تبادلہ خیالات کر لیا جا تا تھا.مگر حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ تمام مقامی جماعتوں کو جماعتی امور کے مشورہ میں زیادہ منسلک کرنے کے لئے کوئی بہتر اور زیادہ با قاعدہ انتظام ہونا چاہئے چنانچہ ۱۹۲۲ء سے آپ نے ایک مجلس مشاورت کی بنیاد قائم کی اور سال بھر میں اس کا کم سے کم ایک اجلاس ضروری قرار دیا اور تمام مقامی جماعتوں سے تحریک کی کہ وہ اس مجلس میں اپنے نمائندے بھجوایا کریں تا کہ ضروری امور میں مشورہ ہو سکے یہ مجلس عموماً ماہ مارچ یا اپریل میں منعقد ہوتی ہے جس میں قادیان کی مقامی جماعت اور ہر دوسری مقامی جماعت کے نمائندے شریک ہوتے ہیں.جیسا کہ ہم نظام خلافت کی بحث میں اوپر ذکر کر چکے ہیں یہ مشورہ خلیفہ وقت کے لئے واجب العمل نہیں ہوتا بلکہ صرف مشورہ کا رنگ رکھتا ہے مگر باوجود اس کے اس سے تین بڑے فائدے مترتب ہوتے ہیں.اوّل یہ کہ حضرت خلیفتہ اسی کو جماعت کے خیال اور رائے کا علم حاصل ہو جاتا ہے اور چونکہ بالعموم یہ مشورہ قبول کر لیا جاتا ہے اور اگر قبول نہ بھی کیا جائے تو پھر بھی مشاورت میں حضرت خلیفہ اسیح کی آخری رائے مشورہ سننے کے بعد قائم ہوتی ہے اس لئے لازماً جماعت کے تمام اہم امور میں جماعت کی رائے کا پر تو داخل ہو جاتا ہے.دوسرے اس طریق سے جماعت کو بھی تمام لے دی نائیجیرین سیکٹیٹر لیگوس

Page 371

ملتی امور میں نہ صرف تفصیلی اطلاع رہتی ہے بلکہ دلچسپی اور وابستگی بھی قائم رہتی ہے جو قومی ترقی کے لئے بڑی ضروری چیز ہے.تیسرے اس ذریعہ سے جماعت کے نمائندے اس بات کی عملی تربیت حاصل کرتے ہیں کہ جماعت کے نظام اور کام کوکس طرح چلانا چاہئے.مجلس مشاورت میں حضرت خلیفہ اسیج خود شریک ہوتے ہیں اور ہر شخص مشور و دیتے وقت یا دوسرے کی رائے پر جرح کرتے وقت براہ راست حضرت خلیفہ المسیح کو مخاطب کرتا ہے اور گواس مجلس کی اصل غرض و غایت امور مستفسرہ میں خلیفہ وقت و مشورہ دینا ہے مگر خاص حالات میں نمائندوں کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ حضرت خلیفہ اسی کی اجازت سے مرکزی نظام کے ناظروں سے ضروری اطلاع حاصل کریں یا ان کے کام پر رائے زنی کر کے اصلاح کی طرف توجہ دلائیں.اس مجلس کے ایجنڈا کا فیصلہ کلیۂ حضرت خلیفہ اسی کی رائے پر موقوف ہوتا ہے مگر ہر شخص مجاز ہے کہ اس بارے میں بھی آپ کے سامنے اپنا مشورہ پیش کرے.بالعموم پالیسی کے اہم سوالات جماعت کا سالانہ بجٹ مختلف نظارتوں کے سالانہ پروگرام.چندوں کی شرح سے تعلق رکھنے والے سوالات اور ایسے اصولی قواعد و ضوابط جن کا مقامی جماعتوں پر اثر پڑتا ہو مشورہ کے لئے پیش کئے جاتے ہیں.مجلس مشاورت کے قیام کے بعد گویا جماعت کے نظام کا ابتدائی ڈھانچہ مکمل ہو گیا.یعنی سب سے او پر خلیفہ وقت ہے جو گویا سارے نظام کا مرکزی نقطہ ہے.اس سے نیچے انتظامی صیغہ جات کو چلانے کے لئے صدر انجمن احمدیہ ہے جس کے مختلف ممبر سلسلہ کے مختلف مرکزی صیغوں کے انچارج ہوتے ہیں اور اس کے بالمقابل مجلس مشاورت ہے جو مختلف مقامی جماعتوں کے نمائندوں کی مجلس ہے اور تمام اہم اور ضروری امور میں خلیفہ وقت کے سامنے مشورہ پیش کرتی ہے اور جس کی پوزیشن ایک طرح سے اور ایک حد تک مجلس واضع قوانین کی سمجھی جاسکتی ہے.صوبہ یوپی میں ارتداد کی زبر دست رو ہندوستان جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے ہندوؤں کا گھر ہے اور گو موجودہ ہند و اقوام ابتداء اور جماعت احمدیہ کی والہانہ جد وجہد:.سے ہی ہندوستان کی رہنے والی نہیں بلکہ بعد میں

Page 372

۳۶۲ باہر سے آئی ہیں مگر بہر حال اب ایک عرصہ دراز سے انہوں نے اس ملک میں اس طرح قبضہ جمارکھا ہے کہ گویا سب کچھ انہی کا ہے.اس کے بعد جب مسلمان دنیا میں پھیلے تو انہوں نے اپنی فاتانہ مارچ میں ہندوستان کا بھی رخ کیا اور ایک نہایت قلیل عرصہ میں اس وسیع ملک کو اپنا بنا لیا.اس زمانہ میں مسلمان فاتحین کے ساتھ ساتھ یا ان کے آگے پیچھے بعض مسلمان اولیا اور صوفیا بھی اس سرزمین میں آئے اور اپنے زبر دست روحانی اثر کے ماتحت ہندوستان کی بت پرست اقوام کو اسلام کی طرف کھینچنا شروع کر دیا چنانچہ یہ انہی بے نفس بزرگوں کی سعی کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان کے ملک میں آٹھ کروڑ مسلمان پایا جاتا ہے جو ساری آبادی کا قریباً چہارم حصہ اور خالص ہندو آبادی کے مقابلہ میں (یعنی اچھوت اقوام کو الگ رکھتے ہوئے) قریباً نصف ہے.مگر اس وسیع تبدیلی مذہب کے زمانہ میں بعض ایسی ہندو قو میں بھی مسلمانوں میں داخل ہو گئیں کہ انہوں نے اسلام کو تو سچا سمجھ کر اختیار کر لیا مگر تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکنے کی وجہ سے ان کے خیالات میں ہند وعقائد اور ہندو رسوم کا اثر باقی رہا.نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ مسلمانوں کے تنزل کے زمانہ میں یہ تو میں آہستہ آہستہ اسلام سے دور ہو کر صرف نام کی مسلمان رہ گئیں حتی کہ صوبہ یوپی کے بعض علاقوں میں ایسی قو میں پائی جاتی ہیں جو نہ صرف ہندوؤں والے نام رکھتی اور ہندور سوم کی پابند ہیں بلکہ بتوں تک کو پوچھتی ہیں مگر باوجود اس کے وہ اپنے آپ کو مسلمان بتاتی اور اپنے گاؤں میں ایک آدھ مسجد بھی بنالیتی ہیں.یہ لوگ جو زیادہ تر ملکانہ راجپوت کہلاتے ہیں یوپی کے اضلاع آگرہ وایٹہ و مین پوری وعلی گڑھ اور ملحقہ ریاست ہائے بھرت پور والور وغیرہ میں کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں.جب ہندوؤں کے فرقہ آریہ کی نظر اس قوم پر پڑی تو چونکہ یہ فرقہ جمہور ہنود کے خلاف شدھی کا قائل ہے اور دوسری قوموں کے افراد کو اپنے اندر جذب کرنے میں حرج نہیں دیکھتا بلکہ اس کے لئے ساعی رہتا ہے تو انہوں نے خفیہ خفیہ ان قوموں میں شدھی کا پر چار شروع کر کے انہیں پھر ہندو بنانا شروع کر دیا.اور اس کام کے سیاسی فوائد کو دیکھ کر دوسرے ہندو بھی ان کے ساتھ شریک ہو گئے.جب یہ روزیادہ زور پکڑنے لگی اور بیرونی دنیا کو اس کا

Page 373

۳۶۳ علم ہوا تو ۱۹۲۲۲۳ء میں حضرت خلیفۃ اسیح ثانی نے اپنی جماعت کو حرکت میں لا کر اس شدھی کے طوفان کو روکنے کی کوشش کی اور فوراً اپنے بعض مبلغ اس علاقہ میں بھجوا کر کام شروع کر دیا اس کے بعد آپ نے جماعت احمدیہ میں ایک عام اپیل کر کے سینکڑوں آنریری مبلغ بھرتی کر لئے اور ملکانہ راجپوتوں کے علاقہ میں احمدی مبلغوں کا ایک وسیع جال پھیلا دیا اور ایسا انتظام کیا کہ جب ایک دستہ مبلغوں کا فارع ہوتا تھا تو اس کی جگہ دوسرا دستہ پہنچ جاتا تھا.اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے ہر طبقہ نے اپنی آنریری خدمات پیش کر کے اس عظیم الشان مہم میں تبلیغی خدمات سرانجام دیں.گورنمنٹ کے ملازم.رؤساء.وکلا.تاجر.زمیندار.صناع.پیشہ ور.مزدور.استاد.طالب علم.عربی دان.انگریزی خوان غرض ہر طبقہ کے لوگ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے آئے اور ایسا انتظام کیا گیا کہ ایک ایک وقت میں ایک ایک سو آنریری مبلغ اس علاقہ میں کام کرتے تھے اور یہ سارا کام ایک با قاعدہ نظام کی صورت میں تھا جس کی باگ ڈور حضرت خلیفتہ اسیح ثانی کی ذاتی ہدایات کے ماتحت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے سابق مبلغ لندن کے ہاتھ میں تھی.احمدیوں کو دیکھ کر بعض غیر احمدی انجمنیں بھی میدان عمل میں آئیں مگر یہ بات افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ ان کا کام سوائے اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ لوگوں کو احمدی مبلغوں کے خلاف اکسا کر اور کفر کے فتوے دے کر تبلیغ کے کام میں روڑا اٹکا ئیں.مگر جو کام خدا نے جماعت احمدیہ سے لینا تھا اسے کون روک سکتا تھا.چنانچہ چند ماہ کی مسلسل اور دن رات کی والہانہ جدو جہد کے نتیجہ میں شدھی کی روکو قطعی طور پر روک دیا گیا اور نہ صرف آئندہ شدھی کا سلسلہ بند ہو گیا بلکہ جو لوگ پہلے سے شدھی ہو چکے تھے انہیں بھی آہستہ آہستہ اسلام میں لا کر حق کا جھنڈا بلند کیا گیا حتی کہ بیشتر مقامات پر ہندو واعظ مقابلہ ترک کر کے میدان خالی کر گئے.خاکسار مولف رسالہ ہذا کو ان ایام میں خود اس علاقہ میں جا کر حالات دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا اور میرے دل پر جو اثر تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ ایک عظیم الشان جنگ تھی جس کا محاذ قریباً ایک سومیل

Page 374

۳۶۴ کی وسعت پر پھیلا ہوا تھا اور اس وسیع محاذ پر اسلام اور کفر کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل پر تخت یا تختہ کے عزم کے ساتھ ڈیرہ جمائے پڑی تھیں.دورانِ جنگ میں احمدیت کے جنگجو دستہ کے لئے بعض خطرے کے موقعے بھی پیش آئے جن میں بعض اوقات غنیم نے نازک حالات پیدا کر دیئے اور ایسا تو کئی دفعہ ہوا کہ احمدی والنٹیر اپنی کوشش سے ایک شدہ شدہ گاؤں کو اسلام میں واپس لائے مگر ہندو دستہ نے پھر یورش کر کے اسے پھسلا دیا مگر احمدیوں نے دوبارہ حملہ کر کے پھر دوسری دفعہ قلعہ سر کر لیا.بعض دیہات نے کئی کئی دفعہ پہلو بدلا کیونکہ اس کشمکش کے دوران میں بعض ملکا نہ دیہات میں کچھ لالچ بھی پیدا ہو گیا تھا مگر بالآخر ایک ایک کر کے ہر ہندو مورچہ فتح کر لیا گیا اور خدا کے فضل سے شدھی کے مواج دریا نے مکمل پلٹا کھا کر اپنا رستہ بدل لیا.بلکہ اس جدوجہد میں ایک حد تک ملکانہ راجپوتوں کی دینی تربیت بھی ہو گئی اور ان میں سے کم از کم ایک حصہ خدا کے فضل سے صرف نام کا مسلمان نہیں رہا بلکہ اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والا اور اسلام کے احکام پر چلنے والا بن گیا.مگر اس عظیم الشان فتح کے باوجود احمد یہ جماعت نے ابھی تک اس علاقہ کو چھوڑا نہیں بلکہ جہاں غیر احمدی اور غیر مسلم واعظ وہاں سے عرصہ ہوا کہ واپس آگئے ہوئے ہیں احمدی مبلغوں کا ایک حصہ ابھی تک میدان عمل میں ہے اور ان گری ہوئی قوموں کو اٹھانے اور پختہ مسلمان بنانے کا کام جاری ہے.جماعت احمدیہ کا یہ ایک ایسا سنہری کا رنامہ تھا کہ کے دشمنوں تک نے اس کا برملا اعتراف کیا چنانچہ ہم نمونیہ بعض آراء کا اقتباس اس جگہ درج کرتے ہیں:.احمدیوں نے جس خلوص جس ایثار جس جوش اور جس ہمدردی سے اس کام میں.حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے.“ اور پھر.وو " جو حالات فتنہ ارتداد کے متعلق بذریعہ اخبارات علم میں آچکے ہیں ان سے صاف واضح ہے کہ مسلمانان جماعت احمد یہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں زمیندار ۱۸ار اپریل ۱۹۲۳ء

Page 375

۳۶۵ جو ایثار اور کمر بستگی اور نیک نیتی اور تو کل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت اور قدر دانی کے قابل ضرور ہے.جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت کر کے دکھلا دی ہے.“ یہ تعریف صرف مسلمانوں کی طرف سے ہی نہیں تھی بلکہ بعض ہند و اخباروں نے بھی اس کا اعتراف کیا چنانچہ اخبار ”جیون تت“ نے لکھا:.ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کی تحریک کو روکنے اور ملکانوں میں اسلامی پر چار کرنے کے لئے احمدی صاحبان خاص جوش کا اظہار کر رہے ہیں.چند ہفتہ ہوئے کہ قادیان فرقہ کے لیڈر مرزا محمود احمد صاحب نے ڈیڑھ سو ایسے کام کرنے والوں کے لئے اپیل کی تھی جو اپنا اور اپنے اہل وعیال کا اور وہاں کے کرایہ کا کل خرچ خود برداشت کریں.اس اپیل پر چند ہفتوں میں چار سو سے زیادہ درخواستیں موصول ہو چکی ہیں اور تین پارٹیوں میں نوے احمدی آگرہ کے علاقہ میں پہنچ بھی چکے ہیں اور بہت سرگرمی سے ملکانوں میں اپنا پر چار کر رہے ہیں.پنے مت کے پر چار کے لئے ان کا جوش اور ایثار بہت قابل تعریف ہے.اس سے بڑھ کر یہ کہ جب ہند و صاحبان نے شدھی کی روکور کتے دیکھ کر یہ تدبیر اختیار کی که با هم مصالحت کی صورت ہو جائے اور جو لوگ شدھ ہو چکے ہیں وہی بچ جائیں اور اسے ایک سیاسی سوال کا رنگ دے کر اور بین الاقوام مصالحت کے سوال کے نیچے لا کر دہلی میں سیاسی لیڈروں کی ایک میٹنگ منعقد کی گئی تو بعض مسلمان زعماء نے نخوت کے رنگ میں احمدیوں کو دانستہ اس میٹنگ کی شرکت سے الگ رکھا اور صرف اپنے طور پر ہند و صاحبان کے ساتھ سمجھوتہ کرنا چاہا تو اس پر شیخ نیاز علی صاحب وکیل ہائی کورٹ لاہور از زمیندار ۲۴ / جون ۱۹۲۳ء ۲ جیون نت ۱/۲۴اپریل ۱۹۲۳ء

Page 376

۳۶۶ ہندو لیڈروں نے جو حقیقت حال سے اچھی طرح واقف تھے مسلمان لیڈروں سے کہا کہ جناب! آپ لوگ کس خیال میں ہیں؟ یہ تو سارا کھیل ہی احمدیوں کا ہے پس آپ انہیں الگ رکھ کر کس حیثیت میں سمجھوتہ کریں گے اور کیا سمجھوتہ کریں گے؟ اس پر مسلمان لیڈروں کو مجبوراً حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کی خدمت میں لکھنا پڑا کہ وہ اپنے نمائندے بھجوائیں مگر جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے اس سمجھوتہ میں ہند و صاحبان کی ساری کوشش یہ تھی کہ جو کچھ ہو چکا ہے اسے قائم رہنے دیا جائے اور آئندہ کے لئے دونوں فریق میدان سے ہٹ جائیں.مگر ظاہر ہے کہ یہ صورت اسلام کے لئے سراسر نقصان دہ تھی کیونکہ اس کا یہ مطلب تھا کہ شدھی شدہ مسلمان بدستور ہندور ہیں اور مسلمان ان کو واپس لانے کی کوشش ترک کر دیں.پس حضرت خلیفتہ امسیح نے اس سمجھوتہ سے صاف انکار کردیا اور فرمایا کہ جب تک شدھ شدہ مسلمانوں میں سے ایک فرد واحد بھی باقی ہے ہم اس مہم کو نہیں چھوڑیں گے.پس ہند و صاحبان کی یہ سیاسی تدبیر ناکام رہی اور بالآخر خدا نے اس میدان میں احمدیوں کو ایسی نمایاں کامیابی عطا فرمائی کہ دوست و دشمن مرحبا پکار اٹھے اور اس تحریک نے دنیا پر یہ بھی ظاہر کر دیا کہ اس زمانہ میں اگر اسلام کا سچا در درکھنے والی اور اسلام کی حقیقی خدمت کرنے والی کوئی جماعت ہے تو وہ صرف احمد یہ جماعت ہے.اچھوت اقوام میں تبلیغ :.حضرت خلیفتہ اسی ثانی کو ایک عرصہ سے یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی ا.اچھوت اقوام میں تبلیغ کی جاوے.تبلیغ کے عام فرض کے علاوہ آپ نے یہ سوچا تھا کہ ہندوستان میں ان قوموں کی تعداد کئی کروڑ ہے اور ہندو لوگ انہیں مفت میں اپنا بنائے بیٹھے ہیں.پس اگر ان قوموں میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ ہو اور خدا انہیں ہدایت دے دے تو ان کی اپنی نجات کے علاوہ اس سے اسلام کو بھی بھاری فائدہ پہنچ سکتا ہے.آپ کے اس خیال نے ارتداد ملکانہ کے ایام میں مزید تقویت حاصل کر لی اور آپ نے ایک سکیم بنا کر پنجاب کی اچھوت قوموں میں تبلیغ شروع فرما دی اور ان کے لئے ایک خاص عملہ علیحدہ مقرر کر دیا.آپ کی اس کوشش کو خدا نے جلد ہی بار آور کیا اور تھوڑے عرصہ

Page 377

میں ہی کافی لوگ حق کی طرف کھنچ آئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور بہت سے مذہبی سکھ اور بالمیکی اور دوسرے اچھوت اسلام اور احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں اس رو کے سب سے زور کا زمانہ ۲۴ ۱۹۲۳ء تھا جبکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ قو میں ایک انقلابی رنگ میں پلٹا کھا جائیں گے مگر اس وقت بعض خطرات کو محسوس کر کے اس سلسلہ کو دانستہ دھیما کر دیا گیا اور اب تک ان کے معاملہ میں انفرادی تبلیغ پر ہی زور دیا جا رہا ہے اور خدا کے فضل سے اچھے نتائج پیدا ہور ہے ہیں.اس کے بعد اگر خدا کو مور ہو تو بھی قومی تلی کا وقت کی جائے گا.حضرت خلیفہ اسیح ثانی کا سفر ولایت :.حضرت مسیح موعود نے اپنی ایک کتاب میں نزول مسیح کی بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ جو بعض حدیثوں میں ذکر آتا ہے کہ مسیح موعود دمشق کے مشرقی جانب ایک سفید مینار پر نازل ہوگا اس سے اصل مراد تو یہی ہے کہ وہ دمشق کے مشرقی ممالک میں مضبوط اور بے عیب دلائل کے ساتھ ظاہر ہو گا مگر ممکن ہے کہ اس کے ایک ظاہری معنے اس رنگ میں بھی پورے ہوجائیں کہ کبھی ہمیں دمشق جانے کا اتفاق ہو جائے یا ہمارے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ دمشق کا سفر اختیار کرے یا سو اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس ضمنی تشریح کو بھی حضرت خلیفہ امسیح ثانی کے ذریعہ پورا فرما دیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۱۹۲۴ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے نمائش کے سلسلہ میں بعض انگریز معززین نے یہ تجویز کی کہ اس موقعہ پر لندن میں ایک مذاہب کی کانفرنس بھی منعقد کی جاوے جس میں برٹش ایمپائر کے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو دعوت دی جاوے کہ وہ کا نفرنس میں شریک ہو کر اپنے اپنے مذہب کے اصولوں پر روشنی ڈالیں.یہ دعوت حضرت خلیفتہ المسح ثانی کی خدمت میں بھی پہنچی اور کانفرنس کے منتظمین نے آپ سے استدعا کی کہ آپ خود تکلیف فرما کر کا نفرنس میں شمولیت فرمائیں.چنانچہ آپ جماعت کے مشورہ کے بعد ۱۲ جولائی ۱۹۲۴ء کو بمبئی سے روانہ ہو گئے.کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جماعت کا امام ہندوستان سے باہر جا رہا تھا اور جماعت کے دل پر اپنے امام کی دوری کی وجہ سے ایک گونہ بوجھ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس سفر کو ترجمه از حمامة البشرکی، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۱۹۷ حاشیہ

Page 378

۳۶۸ بہت نوازا اور بہت سی کامیابیوں کا پیش خیمہ بنا دیا.روانہ ہونے سے پہلے آپ نے اپنے پیچھے تمام ہندوستان کے لئے مولانا مولوی شیر علی صاحب کو اپنی جگہ امیر مقررفرمایا اور بارہ اصحاب کے عملہ کے ساتھ جن میں بعض دینی علماء اور بعض سیکرٹری اور بعض احمد یہ پریس کے نمائندے شامل تھے روانہ ہوئے.ان بارہ اصحاب کے علاوہ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب حال لاممبر گورنمنٹ آف انڈیا بھی جو خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ قادیان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت لا ہور میں بطور بیرسٹر پریکٹس کرتے تھے لندن میں آپ کے ساتھ جا ملے اور پھرا کثر حصہ سفر کا آپ کے ساتھ رہے.سفر میں حضرت خلیفہ اسی ثانی کو خیال آیا کہ اگر راستہ میں مصر اور شام اور فلسطین میں بھی ہوتے جائیں تو اچھا ہو گا.چنانچہ اس تجویز کے مطابق آپ ان ملکوں میں بھی تھوڑا تھوڑا ٹھہرتے گئے.ان ممالک میں آپ کی آمد سے کافی شور ہوا اور لوگوں میں بہت توجہ پیدا ہوئی اور گوایک طبقہ میں مخالفت بھی ہوئی مگر معزز طبقہ نے آپ کا پُر تپاک خیر مقدم کیا چنانچہ فلسطین کے مفتی اعظم نے آپ کے اعزاز میں ایک دعوت دی اور ایک دعوت فلسطین کے ہائی کمشنر نے بھی دی.مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے ایک طبقہ نے دینی لحاظ سے مخالفت بھی کی چنانچہ دمشق کے ایک مشہور ادیب نے آپ سے یہاں تک کہا کہ ایک جماعت کے معزز امام ہونے کی حیثیت سے ہم آپ کا اکرام کرتے ہیں مگر آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہوگا کیونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی ہماری مادری زبان ہے اور کوئی ہندی خواہ وہ کیسا ہی عالم ہو ہم سے زیادہ قرآن وحدیث کے معنی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا.آپ نے یہ گفتگو سن کر اس کے خیال کی تردید فرمائی اور ساتھ ہی تقسیم کرتے ہوئے فرمایا کہ مبلغ تو ہم نے آہستہ آہستہ ساری دنیا میں ہی بھیجنے ہیں مگر اب ہندوستان واپس جانے پر میرا پہلا کام یہ ہوگا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں اور دیکھوں کہ خدائی جھنڈے کے علمبرداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے.چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا کہ ولایت سے واپسی پر فوراً دمشق میں ایک دار التبلیغ قائم کر دیا اور اب خدا کے فضل سے شام اور فلسطین اور مصر تینوں میں احمدی

Page 379

۳۶۹ پائے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ دن بدن ترقی کر رہا ہے.دمشق میں ایک اور لطیف واقعہ بھی پیش آیا اور وہ یہ کہ جس ہوٹل میں آپ نے جا کر قیام فرمایا جب اس کے اردگرد نگاہ ڈالی گئی تو وہ دمشق کے شرقی حصہ میں تھا اور آپ کے ہوٹل کے عین سامنے ایک خوبصورت سفید مینار بھی کھڑا تھا اسے دیکھ کر سب نے یہ محسوس کیا کہ آج آنحضرت ﷺ کی وہ پیشگوئی اپنے ظاہری معنوں میں بھی پوری ہوئی کہ مسیح موعود دمشق کے شرقی جانب ایک سفید مینار کے پاس اترے گا جس کی حضرت مسیح موعود نے یہ تشریح فرمائی تھی کہ میرے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا اور اس کے ذریعہ سے یہ پیشگوئی ظاہری صورت میں بھی پوری ہو جائے گی.دمشق فلسطین اور مصر کے مختصر قیام سے فارغ ہو کر آپ اٹلی اور فرانس کے رستے ہوتے ہوئے انگلستان پہنچے.اٹلی میں آپکی سینور مسولینی سے بھی ملاقات ہوئی جس میں موجودہ زمانہ کی تحریکات اور اسلامی امور کے بارے میں متفرق گفتگو ہوئی.ولایت میں آپ کے پہنچنے پر انگریزی اخبارات میں آپ کی تشریف آوری کا بہت چرچا ہوا اور کئی اخباروں میں آپ کے ساتھیوں کے فوٹو بھی شائع ہوئے.اور انگلستان کی پبلک نے غیر معمولی دلچسپی کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا.جو مضمون آپ نے مذاہب کی کانفرنس کے متعلق لکھا تھا وہ چونکہ متوقع حد سے بہت زیادہ بڑھ گیا تھا اس لئے کا نفرنس میں پڑھنے کی غرض سے اس کا ایک خلاصہ تیار کیا گیا جو چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب نے حضور کی طرف سے ۲۳ستمبر ۱۹۲۴ء کو کا نفرنس میں پڑھا.اور یہ بات خوش عقیدگی سے نہیں کہی جاتی بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے کہ یہ مضمون انتہائی دلچسپی سے سنا گیا اور سارے مضمونوں سے زیادہ پسند کیا گیا.اور اس کا نفرنس میں تمام مذاہب کے وکلا ء شریک تھے یعنی عیسائی، یہودی، بدھ ، ہندو، سکھ اور غیر احمدی مسلمان سبھی نے شرکت کی تھی مگر حضرت خلیفہ اسی کا مضمون سب سے نمایاں رہا.اور یہ بات تو ہر ماطور پر تسلیم کی گئی کہ کانفرنس کی کامیابی میں سب سے بڑا دخل حضرت خلیفتہ امسیح اور آپ کی جماعت کا ہے یا ے دیکھو تمہیدر پورٹ کا نفرس مذاہب مطبوعہ لندن ۱۹۲۵ء

Page 380

اصل مفصل مضمون جو آپ نے قادیان میں تیار کیا تھاوہ بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نام سے کتابی صورت میں چھپ چکا ہے اور یہ ایک ایسی نادر تصنیف ہے کہ جس کی قدرو قیمت کا اندازہ صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے.اس میں احمدی نکتہ نگاہ سے اسلام کی ایک ایسی دلکش اور ایسی نادر تصویر کھینچی گئی ہے کہ کوئی غیر مسلم اسے پڑھ کر اسلام کی خوبیوں کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.یقینا یہ کتاب کے لٹریچر میں ایک نہایت ممتاز درجہ رکھتی ہے اور تبلیغ اسلام اور تبلیغ احمدیت کے لئے ازحد مفید ہے.ولایت کے قیام کے دوران میں آپ نے مسجد احمد یہ لندن کی بنیاد بھی رکھی.اس مسجد کے لئے ۱۹۲۰ء میں لندن کے حصہ ساؤتھ فیلڈز میں ایک فراخ قطعہ خریدا گیا تھا جس کے لئے احمدیہ جماعت میں ایک خاص چندہ کے ذریعہ ایک بھاری رقم جمع کی گئی تھی.بنیا در کھتے ہوئے مختلف قوموں کے نمائندے اور متعدد انگریز نو مسلم اور دوسرے معززین موجود تھے.اور سب اس سادہ مگر حد درجہ مؤثر تقریب پر از حد خوش اور مسرور تھے.مسجد کا سنگ بنیاد ۱۹ اکتو بر۱۹۲۴ء کو رکھا گیا اور اس کے ساتھ ہی حضرت خلیفتہ اسیح نے یہ اعلان فرمایا کہ گو یہ مسجد احد یہ جماعت کی مسجد ہوگی لیکن چونکہ خدا کا گھر ایک وسیع دروازہ رکھتا ہے اور خدا کی خالص یاد ہر رنگ میں محبوب ہے اس لئے آنحضرت کے کی سنت کے مطابق ہماری طرف سے اس بات کی کھلی اجازت ہوگی کہ جو شخص بھی چاہے خواہ وہ کسی مذہب اور کسی ملت کا ہو اس مسجد میں آکر اپنے رنگ میں عبادت کرے.اس مسجد کے سنگ بنیاد پر جو الفاظ لکھے گئے وہ یہ تھے جنہیں ہم حضرت خلیفتہ امیج ہی کے خط کے عکس کی صورت میں اس جگہ درج کرتے ہیں:.

Page 381

۳۷۱ اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هر النا مر قال ان صلواتی و نشکی و مهیای و سماتي لله رب العالمین میں میرزا بشیر الدین محمو د احمد خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ میکا مرکز قاریان پنجاب ہندوستان ہے خدا کی رضا کے حصول کے لیے اور اس غرض سے کہ یہ اتعالے کا ذکر انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاریں جو نہیں ملی ہے آج بل ربیع الاول کی و کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کیے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائیے اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کر رہے اور ہمیشہ کے لیے اس مسجد کو نیکی تقوئی.انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانی کا مرکز بنائیے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیہ الصلوۃ و السلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانےکے لیے رومانی سورج کا کام دیے ایسے خدا تو ایسا ہی کر ۱۹ اکتوبر ۶۱۹۲۴ مسجد کے سنگ بنیادر کھے جانے پر بہت سے انگریزی اخباروں نے نوٹ لکھے جن میں سے صرف ایک نمونہ درج ذیل کیا جاتا ہے.ڈیلی کرانیکل نے لکھا." ہر ہولی نس خلیفتہ المسیح نے جو کہ اسلام کے فرقہ احمدیہ کے امام ہیں کل ۱۹ اکتوبر کومیل روز روڈ سوتھ فیلڈز میں لندن کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.اس اصلاحی سلسلہ کے پیرولندن میں ایک سو انگریز ہیں اور مشرق و افریقہ میں دس لاکھ سے بھی زیادہ ہیں.فی الحال یہ ارادہ کیا گیا ہے کہ مسجد کے صرف ایک

Page 382

۳۷۲ حصہ کو مکمل کیا جائے اور اس حصہ کی تعمیر کے لئے سارا روپیہ بذریعہ چندہ جمع ہو چکا ہے.اس رسم کے تعلق میں جو اصحاب سنگ بنیا در کھے جانے کے وقت موجود تھے ان میں سفیر جاپان اور جرمنی.وینڈز ورتھ کا شیرف.استھو نیا کا وزیر.اور ترکی اور البانیا کے نمائندے شامل تھے.اسی طرح ولایت کے قیام کے دوران میں سر فریڈرک ہال ممبر پارلیمنٹ نے اپنے حلقہ انتخاب ڈلچ میں آپ کی ایک تقریر بھی کروائی جس میں بہت لوگ شریک ہوئے اور اس تقریر کو بڑی دلچسپی کے ساتھ سنا گیا اور بہت اچھا اثر ہوا.غرض آپ کا سفر ولایت ہر جہت سے نہایت مبارک اور از حد کامیاب رہا اور اس کے ذریعہ ولایت میں کا ایسے رنگ میں تعارف ہو گیا کہ جو دوسری کسی صورت میں ممکن نہیں تھا.چنانچہ اس کے بعد سے ہمارے لندن مشن کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی اور ولایت کے بڑے بڑے لوگ اسے عزت کی نظر سے دیکھنے لگے اور ہمارے دار التبلیغ میں آنے کو ایک گونہ فخر کی بات شمار کرنے لگے.ولایت سے روانہ ہونے سے قبل حضرت خلیفہ امسیح نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے کو جو اس سفر میں آپ کے ساتھ ہی ولایت تشریف لے گئے تھے اور آپ کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے دار تبلیغ لندن کا انچارج مقر فر مایا اور ان کے ہم نام مولوی عبدالرحیم صاحب نیر جو اس وقت لندن مشن کے انچارج تھے اور اس سے پہلے نائیجیریا میں مبلغ رہ چکے تھے حضرت خلیفہ اسیح کے ساتھ ہندوستان واپس آگئے.الغرض حضور قریباً چار ماہ کی غیر حاضری کے بعد بے نظیر کامیابی اور کامرانی کے ساتھ ہندوستان واپس تشریف لائے جہاں جماعت نے آپ کا ایسا پر جوش اور پر اخلاص استقبال کیا کہ آج تک اس کا تصور دیکھنے والوں کے دلوں میں محبت کی لہر پیدا کر دیتا ہے.کابل میں ایک اور احمدی کی شہادت:.ابھی حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح لندن میں ہی تشریف رکھتے تھے کہ افغانستان سے یہ دردناک اطلاع پہنچی کہ امیر امان اللہ خان کے حکم سے کابل ے ڈیلی کرانیکل لندن ۲۰ را کتوبر ۱۹۲۴ء

Page 383

۳۷۳ میں ہمارا ایک اور بھائی شہید کر دیا گیا ہے.ان صاحب کا نام مولوی نعمت اللہ صاحب تھا جنہیں حضرت خلیفہ اسیح نے افغانستان میں تبلیغ کے لئے بھجوایا تھا اور افغانستان کے خاص حالات کے ماتحت انہیں تاکید کی تھی کہ ایسے رنگ میں کام کریں کہ لوگوں تک حق بھی پہنچ جائے اور خواہ نخواہ ملک میں شور بھی نہ پیدا ہو.مگر پھر بھی جب حکومت افغانستان کو پتہ لگا کہ افغانستان کی حدود میں احمدیت کے عقائد کی تبلیغ ہو رہی ہے تو اس نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو گرفتار کر کے اپنی مذہبی عدالت میں مقدمہ چلایا اور پھر علماء کے فتویٰ کے مطابق مولوی صاحب موصوف کو نہایت بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ سنگسار کر دیا گیا.افغانستان میں یہ تیسرا واقعہ تھا کیونکہ اس سے پہلے ہماری جماعت کے دو معزز اصحاب اس سرزمین میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں شہید کئے جاچکے تھے.ہمیں امید تھی کہ امیر امان اللہ خان جیسا آزاد خیال حکمران اس معاملہ میں اپنی پالیسی کو بدل لے گا مگر افسوس کہ ہماری توقعات پوری نہ ہوئیں اور کامل کی زمین نے ہمارے ایک اور بھائی کا خون اپنے سر لے لیا.جیسا کہ ہم حضرت مسیح موعود کے سوانح میں بتا چکے ہیں سنگسار کرنے کا طریق یہ ہے کہ جس شخص کو یہ سزا دینی ہوا سے کمر تک زمین میں زندہ گاڑ کر اور اس کے ارد گر دمٹی پیوست کر کے تا کہ وہ نہ تو بھاگ سکے اور نہ ہی حرکت کر سکے اس پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش برسائی جاتی ہے حتی کہ ان پتھروں کی ضرب سے اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے.سو یہی سلوک ہمارے بھائی مولوی نعمت اللہ خان صاحب کے ساتھ کیا گیا.دیکھنے والے کہتے ہیں کہ زمین میں گاڑتے ہوئے مولوی نعمت اللہ صاحب سے کہا کہ اب بھی وقت ہے اپنے عقائد سے توبہ کر لو.مگر انہوں نے اس تجویز کو نفرت کے ساتھ ٹھکرا دیا اور کہا کہ جان تو ایک معمولی چیز ہے خواہ کچھ ہو میں اس صداقت کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا جو مجھے خدا کی طرف سے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے.اس پر پتھراؤ کا حکم دیا گیا اور چاروں طرف سے پتھروں کی بارش ہونے لگی اور جلدی ہی یہ خدا کا عاشق اپنے معشوق کی گود میں پہنچ گیا.مولوی نعمت اللہ صاحب اس وقت بالکل جوان تھے مگر انہوں نے قربانی کا وہ اعلیٰ نمونہ

Page 384

۳۷۴ دکھایا جو دنیا میں بہت کم لوگ دکھاتے ہیں.جب اس خبر کی اطلاع حضرت خلیفہ اسی کو ولایت میں تار کے ذریعہ بھجوائی گئی تو آپ کو سخت صدمہ ہوا مگر دوسری طرف آپ کو اس خیال سے خوشی بھی ہوئی کہ آپ کے ایک جان نثار نے ایمان کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے.ولایت کے اخباروں نے اس حادثہ پر بڑے سخت نوٹ لکھے اور بعض انصاف پسند انگریزوں نے اس پر ایک احتجاجی جلسہ بھی کیا اور انگریزوں پر ہی حصر نہیں بلکہ ساری انصاف پسند دنیا میں اس ظالمانہ کارروائی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا.مگر افسوس ہے کہ خودا رباب کا بل پر اس کا اثر یہ تھا کہ جب اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہی ہمارا ایک وفد کابل کے ایک ذمہ وار وزیر سے ملا جو ہندوستان میں سے گزر رہا تھا تو اس نے الٹا ہم پر گلہ کیا کہ ایک معمولی سی بات تھی کہ ایک آدمی اپنے بعض خیالات کی وجہ سے مار دیا گیا اس پر آپ لوگوں نے اتنا واویلا کر کے ہمارے ملک کو بد نام کر دیا.اس واقعہ سے اس ذہنیت کا اندازہ ہوسکتا ہے جو بد قسمتی سے آجکل کے مسلمانوں میں پائی جاتی ہے.مگر ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اس معاملہ میں زیادہ آزادانہ اور زیادہ منصفانہ خیالات رکھتی ہے.بخار اور ایران کے تبلیغی وفد : ولایت جانتے ہوئے حضرت طلیقہ مسیح نے دو نئے تبلیغی وفد روانہ کئے تھے یعنی ایک مبلغ تو آپ نے ایران کی طرف روانہ کیا اور دو مبلغ روس کے علاقہ بخارا کی طرف روانہ فرمائے.ایران جانے والے بزرگ سلسلہ کے ایک پرانے فدائی شاہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی تھے جو اسی دن قادیان سے روانہ ہوئے جس دن کہ حضرت خلیفہ ایح ولایت کے لئے روانہ ہوئے اور دوسرا وفد جو مولوی ظہور حسین صاحب اور مولوی محمد امین خان صاحب پر مشتمل تھا وہ بھی حضرت خلیفہ المسیح کے ساتھ ہی ماہ جولائی ۱۹۲۴ء میں بخارا کی طرف روانہ ہوا.شاہزادہ عبدالمجید صاحب نے ایران میں قریباً چار سال نہایت خاموشی مگر نہایت مستقل مزاجی کے ساتھ آنریری کام کر کے وہیں ۱۹۲۸ء میں وفات پائی.مگر دوسرے وفد کو روسی حکومت نے اپنے میں کام کرنے سے روک

Page 385

۳۷۵ دیا.چنانچہ مولوی ظہور حسین صاحب تو ملک میں داخل ہوتے ہی گرفتار کر لئے گئے اور ایک لمبا عرصہ روی جیل خانوں میں رہ کر اور انتہائی تکلیفیں اٹھا کر جن کو سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں حکومت برطانیہ کی وساطت سے رہا ہو کر واپس آئے مگر مولوی صاحب نے جیل کی تاریک کوٹھریوں میں بھی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا اور بعض ساتھ کے قیدیوں کو صداقت کا شکار بنالیا.دوسرے صاحب مولوی محمد امین خان ہوشیاری کے ساتھ بیچ کر ملک کے اندر جا گھسے اور کچھ عرصہ روس میں خفیہ خفیہ رہ کر واپس آگئے.دمشق فلسطین و مصر کا دار التبلیغ : جب حضرت خلیفہ مسیح ولایت سے واپس آئے تو آپ نے اپنے وعدہ کے موافق پہلا کام یہ کیا کہ ۱۹۲۵ء کے اوائل میں دو مبلغ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو ملک شام کی طرف روانہ کیا جنہوں نے دمشق میں اپنا مرکز قائم کر کے کام شروع کر دیا اور گو شروع شروع میں سخت مخالفت ہوئی لیکن بالآخر ایک طبقہ مائل ہونے لگا اور آہستہ آہستہ لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف مبذول ہونی شروع ہوئی.شاہ صاحب تو دو سال کے قیام کے بعد ۱۹۲۶ء میں حضرت خلیفہ اسیح کے حکم سے واپس آگئے مگر مولوی جلال الدین صاحب و ہیں ٹھہرے اور ہمت اور استقلال کے ساتھ تبلیغ کرتے رہے مگر اس عرصہ میں وہاں کے علماء کا طبقہ ملک میں احمدیت کے پاؤں جمتے دیکھ کر سخت برافروختہ ہو گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے مبلغ مولوی جلال الدین صاحب پر ایک شخص نے خنجر سے حملہ کر کے انہیں بُری طرح زخمی کر دیا.یہ اللہ کا فضل تھا کہ زخم مہلک ثابت نہیں ہوا اور مولوی صاحب ایک لمبے علاج کے بعد صحت یاب ہو گئے لیکن اس کے بعد انہیں شام کی فرانسیسی حکومت نے علماء کی شورش کی وجہ سے دمشق میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی چنانچہ حضرت خلیفۃ اسیح کے حکم سے مولوی جلال الدین صاحب دمشق سے نکل کر فلسطین میں آگئے اور حیفا میں اپنا مرکز قائم کر لیا.یہ مارچ ۱۹۲۸ء کا واقعہ ہے.مگر شمس صاحب کے دمشق سے چلے آنے سے قبل خدا کے فضل سے شام میں ایک مختصری جماعت قائم ہو چکی تھی جواب تک ہے اور ترقی کر رہی ہے.

Page 386

فلسطین میں پہنچ کر مولوی جلال الدین صاحب نے حضرت امیر المومنین کے حکم سے اپنے دائر ہ تبلیغ میں مصر کو بھی شامل کر لیا اور اپنے وقت کو تقسیم کر کے دونوں ملکوں میں تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا اور خدا کے فضل سے ہر دو علاقوں میں نمایاں کامیابی ہوئی چنانچہ اس وقت ان دونو ملکوں میں مخلص اور مستعد جماعتیں قائم ہیں اور فلسطین میں تو جماعت کی اپنی مسجد اور مدرسہ بھی ہے اور ایک ماہوار رسالہ البشری بھی نکلتا ہے اور ایک مختصر سا پریس بھی قائم ہے.اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مصر میں اس سے قبل شیخ محموداحمد صاحب عرفانی کے ذریعہ احمدیت کا بیج بویا جا چکا تھا.شیخ صاحب ۱۹۲۲ء میں ابتداء طلب علم کے لئے مصر گئے تھے مگر اس کے بعد وہاں تبلیغ میں مصروف ہو گئے اور کئی سال قیام کر کے اچھا کام کیا.دار التبلیغ سماٹرا و جاوا : ۱۹۲۵ء میں ہی کا ایک اور اہم من سائر میں قائم کیا گیا اور ہندوستان کے مشرقی علاقہ کی ناکہ بندی کا آغاز ہو گیا.اس مہم کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح کی مردم شناس آنکھ نے مووی رحمت علی صاحب کو منتخب کیا.مولوی صاحب مولوی فاضل تھے مگر سادہ مزاج رکھتے تھے اور بعض حلقوں میں خیال کیا جاتا تھا کہ شاید وہ اس نازک کام میں کامیاب نہ ہوسکیں مگر خدا کے فضل سے اور حضرت خلیفہ امسیح کی روحانی توجہ کے طفیل اس مشن نے حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی اور بعض لحاظ سے دوسرے سب مشنوں کو مات کر گیا.سماٹرا اور اس کے ساتھ کے جزائر جاوا اور سیلی بیز اور بور نیو وغیرہ میں مسلمانوں کی آبادی ہے جو زیادہ تر ہالینڈ کی حکومت کے ماتحت ہیں.یہ لوگ مذہب میں خوب جوشیلے ہیں اور سیر و سیاحت کا بھی شوق رکھتے ہیں مگر چونکہ مذہبی تعلیم کی کمی ہے اس لئے عیسائی مشنریوں کے جال میں جلد پھنس جاتے رہے ہیں اور مولوی صاحب کے جانے سے قبل بہت سے لوگ عیسائی ہو چکے تھے مگر مولوی صاحب کے جانے کے بعد خدا کے فضل سے یہ پتسمہ کی رو بہت کمزور پڑ گئی اور کئی لوگوں نے احمدیت کو قبول کیا اور آہستہ آہستہ اس علاقہ میں احمدیت کا اثر اس قدر وسیع ہو گیا کہ جب ایک ڈچ افسر مسٹری انڈریا سا اپنی حکومت کی طرف سے جدہ میں قونصل مقرر ہوکر سماٹرا سے جانے لگا تو ڈچ حکومت نے اسے یہ ہدایت دی کہ وہ رستہ میں قادیان بھی ہوتا جاوے

Page 387

۳۷۷ تا کہ اس تحریک کے حالات سے ذاتی تعارف پیدا کر سکے جو جزائر شرق الہند میں اس قدر زور پکڑ رہی ہے.چنانچہ وہ ۱۹۳۰ء میں قادیان آیا اور حضرت خلیفہ اسی سے ملا اور بہت اچھا اثر لے کر آگے گیا.اب سماٹرا کے علاوہ جاوا میں بھی ۱۹۳۱ء سے ایک علیحدہ دار التبلیغ قائم ہو چکا ہے اور دونوں جزیروں میں احمدیت کا اثر سرعت کے ساتھ ترقی کر رہا ہے چنانچہ یہاں کے احمدیوں نے اس غرض سے کہ خود ان کے اپنے ہم وطن نو جوان احمدیت کے مبلغ بن سکیں اپنے متعدد طالب علموں کو قادیان بہموار کھا ہے جہاں وہ سلسلہ کی دینی درسگاہوں میں تعلیم پاتے ہیں اور اپنے کورس کو مکمل کر کے اسلام اور احمدیت کے لعم بردار بنیں گے.ان طالب علموں میں سماٹرا ، جاوا ، سیلی بیز اور بور نیوسب کے باشندے شامل ہیں.تعمیر و افتتاح مسجد لندن :.یہ ذکر گذر چکا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح نے ۱۹۲۴ء میں اپنے سفر ولایت کے دوران میں مسجد لندن کی بنیاد رکھی تھی مگر چونکہ اس وقت بعض ضروری سامان مہیا نہیں ہو سکے تھے اس لئے مسجد کی بقیہ تعمیر کچھ عرصہ تک ملتوی رہی.بالآ خر ۱۹۲۵ء میں اس کا کام شروع کیا گیا اور ۱۹۲۶ء میں یہ خدا کا گھر اپنی تکمیل کو پہنچا.اس وقت مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم اے لندن کے دارالتبلیغ کے انچارج تھے.درد صاحب نے حضرت خلیفہ امسیح کی ہدایت کے ماتحت بادشاہ فیصل ملک عراق سے درخواست کی کہ وہ اپنے لڑکے شہزادہ زید کو اجازت دیں کہ وہ ہماری مسجد کا افتتاح کریں اور جب اس کے جلد بعد شاہ عراق خود یورپ گئے تو ان سے تحریک کی گئی کہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ خود مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لائیں مگر انہوں نے اس درخواست کو ٹال دیا.اس کے بعد سلطان ابن سعود ملک حجاز کی خدمت میں تار دی گئی کہ وہ اپنے کسی صاحبزادہ کو اس کام کے لئے مقرر فرمائیں اور انہوں نے تار کے ذریعہ اس درخواست کو منظور کیا اور اپنے ایک فرزند شاہزادہ فیصل کو اس غرض کے لئے ولایت روانہ کر دیا جب شاہزادہ موصوف لندن پہنچے تو درد صاحب کے انتظام کے ماتحت ان کا نہایت شاندار استقبال کیا گیا اور اخباروں میں دھوم مچ گئی کہ وہ

Page 388

مسجد لندن کے افتتاح کے لئے تشریف لائے ہیں مگر اس کے بعد ایسے پر اسرار حالات پیدا ہونے لگے کہ شاہزادہ فیصل برملا انکار کرنے کے بغیر پیچھے ہٹنا شروع ہوگئے اور گو آخر وقت تک انہوں نے انکار نہیں کیا مگر عملاً تشریف بھی نہیں لائے.ان کے تامل کو دیکھ کر درد صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح سے بذریعہ تارا جازت لے رکھی تھی کہ اگر وہ نہ آئیں تو خان بہادر شیخ عبد القادر صاحب مسجد کا افتتاح کر دیں.چنانچہ جب فیصل صاحب نہ پہنچے تو درد صاحب نے مسجد کا افتتاح خان بہادر سرعبدالقادر صاحب کے ذریعہ کروالیا جوان ایام میں لیگ آف نیشنز کی شرکت کے لئے ہندوستان کے نمائندہ کی حیثیت میں ولایت گئے ہوئے تھے مگر شاہزادہ فیصل کی آمد آمد کا ولایت کے اخباروں میں اس قدر کثرت کے ساتھ چرچا ہو چکا تھا کہ لوگوں نے ان کے نہ آنے کو بہت اچنبھا سمجھا اور واقف کارلوگ تاڑ گئے کہ اس عملی انکار کے پیچھے اصل راز کیا مخفی ہے.یا یہ راز یہی تھا کہ بعض مسلم اور غیر مسلم حلقوں نے اس بات کو دیکھ کر کہ جماعت احمدیہ زیادہ اہمیت اختیار کر رہی ہے سلطان ابن سعود کو بہکا دیا تھا کہ ان کے صاحبزادہ صاحب مسجد احمدیہ کی افتتاحی رسم سے مجتنب رہیں اور ان کے دل میں یہ خیال بھی پیدا کر دیا گیا تھا کہ چونکہ مسلمان علماء کا ایک معتد بہ حصہ جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتا ہے اس لئے مسجد احمدیہ کے افتتاح میں شاہزادہ فیصل کی شرکت سے اسلامی ممالک میں سلطان کے متعلق برا اثر پیدا ہو گا بہر حال خواہ اصل وجہ کچھ بھی ہو شاہزادہ فیصل کی شرکت سے جو فائدہ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو سکتا تھا وہ پھر بھی ہو گیا اور وہ یہ کہ ولایت کے اخباروں میں نہایت کثرت کے ساتھ مسجد احمد یہ اور جماعت احمدیہ کی شہرت ہوگئی بلکہ ابتدائی اقرار اور بعد کے انکار نے اس شہرت کو اور بھی نمایاں کر دیا مگر خود شاہزادہ موصوف کی یہ بدقسمتی ضرور ہے کہ انہوں نے ایک اہم دینی خدمت سے جس کی یاد دنیا میں قیامت تک رہنے والی تھی اپنے آپ کو محروم کر دیا اور ہم امید کرتے ہیں کہ سلطان ابن سعود جیسے بیدار مغز بادشاہ نے بعد میں اپنے خیالات میں ضرور تبدیلی فرمائی ہوگی.افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح نے جو ان ایام میں ڈلہوزی پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے ایک لمبا پیغام تار کے ذریعہ لندن بھیجوایا جس میں اہل مغرب کو خطاب کر کے اسلام اور احمدیت کی کے افتتاح مسجد لندن کے مفصل حالات کیلئے دیکھو کتاب تاریخ مسجد فضل لندن مصنفہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب

Page 389

غرض و غایت اور مقاصد کے متعلق نہایت لطیف تبلیغ فرمائی.یہ پیغام بہت پسند کیا گیا اور انگریزی اخباروں نے اس کے لمبے لمبے اقتباس اپنے کالموں میں شائع کئے.سفارت عراق :.حضرت خلیفتہ امسیح کی قیادت کے ماتحت احمدیت کا بڑھتا ہوا اثر ساتھ ساتھ مخالفت کی روکو بھی تیز کرتا جاتا تھا اور اب یہ مخالفت افراد سے نکل کر حکومتوں کے پروگرام میں بھی داخل ہو رہی تھی چنانچہ جس زمانہ کا ہم اس وقت ذکر کر رہے ہیں اس میں عراق کی حکومت نے احمدیت کی تبلیغ کو اپنے علاقہ میں روک دیا تھا.بے شک ابھی تک اس ملک میں ہمارا کوئی باقاعدہ مبلغ نہیں تھا مگر چونکہ ہر احمدی ایک آنریری مبلغ ہوتا ہے اس لئے عراق کے ہندوستانی احمدی اپنے طور پر تبلیغ میں مصروف رہتے تھے.ان کے خلاف حکومت عراق نے اقدام کر کے انہیں تبلیغ کرنے سے روک دیا بلکہ پرائیویٹ گھروں میں بھی ہر قسم کا اجماع کرنے پر پابندیاں لگادی گئیں.اس پر حضرت خلیفہ اسیح نے حکومت ہند کے ذریعہ کوشش فرمائی کہ کسی طرح یہ روکیں دور ہو جائیں مگر کامیابی نہ ہوئی.بالآخر آپ نے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو جو اس وقت فلسطین میں تھے ہدایت فرمائی کہ وہ ہندوستان واپس آتے ہوئے عراق کے رستے آئیں اور حکومت عراق کے ارباب حل وعقد سے مل کر کوشش کریں کہ یہ پابندیاں اٹھادی جائیں چنانچہ شاہ صاحب موصوف اپریل ۱۹۲۶ء میں عراق پہنچے اور خدا نے ان کی کوشش میں ایسی برکت دی کہ حکومت عراق نے ان پابندیوں کو اٹھا دینا منظور کر لیا.یہ ایک بہت شاندار کامیابی تھی کیونکہ اس کے ذریعہ نہ صرف تبلیغ کا ایک بند شدہ دروازہ کھل گیا بلکہ گویا احمدیت کے اثر کو اس حد تک تسلیم کر لیا گیا کہ وہ حکومتوں کے سامنے سفارت کے رنگ میں اپنے معاملات پیش کر کے تصفیہ حاصل کرے.احمدی مستورات کی تنظیم و تربیت:.عورتیں قوم کا آدھا دھڑ ہوتی ہیں بلکہ بعض لحاظ سے ان کا کام مردوں سے بھی زیادہ ذمہ داری کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ قوم کا آئندہ بوجھ اٹھانے والے نونہال انہی کی گودوں میں پرورش پاتے ہیں اسی لئے مقدس بانئے اسلام نے لڑکیوں کی تربیت پر خاص زور

Page 390

۳۸۰ دیا ہے تا کہ وہ اس کام کے قابل بنائی جاسکیں جو بڑے ہو کر انہیں پیش آنے والا ہے.حضرت خلیفہ امسیح نے بھی اس نکتہ کو اپنی شروع خلافت سے مدنظر رکھا اور احمدی مستورات کی تنظیم اور تربیت کی طرف خاص توجہ فرمائی چنانچہ ۱۹۲۲ء کے آخر یا ۱۹۲۳ء کے شروع میں آپ نے قادیان میں لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی.یہ انجمن خالصہ مستورات کی انجمن تھی اور اب تک ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے مخصوص فرائض مثلاً عورتوں کے چندوں کی تحصیل.عورتوں میں تبلیغ.لڑکیوں کی تعلیم.مستورات کی تربیت اور تنظیم وغیرہ کا کام لیتی ہیں اور جب قادیان کی لجنہ کچھ عرصہ کام کر کے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی تو آپ نے بیرونی جماعتوں میں بھی تحریک فرمائی کہ وہ اپنی اپنی جگہ مقامی لجنہ قائم کریں چنانچ اب خدا کے فضل سے بہت سے شہروں میں بجنات قائم ہیں جن میں سے بعض بہت اچھا کام کر رہی ہیں اور ان کے ذریعہ احمدی مستورات میں بہت بڑی بیداری اور کام کی زبر دست روح پیدا ہورہی ہے.۱۹۲۵ء میں آپ نے اس کام کو مزید توسیع دی اور ایک خاص مدرسہ بڑی عمر کی لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم اور ٹرینگ کے لئے قادیان میں جاری فرمایا تا کہ چند منتخب شدہ عورتوں کو تعلیم دے کر مدرسی اور سلسلہ کے دوسرے کاموں کے لئے تیار کیا جا سکے.چنانچہ اس مدرسہ سے بہت سی احمدی مستورات نے مولوی وغیرہ کے امتحانات پاس کئے اور ایک لڑکی پنجاب بھر میں مولوی کے امتحان میں اڈل رہی.ان کی تعلیم میں دینیات اور تربیت اطفال وغیرہ کے علاوہ کچھ ابتدائی حساب کچھ تاریخ جغرافیہ اور کچھ انگریزی بھی شامل تھی.اور اس کے ساتھ ہی مستورات کے لئے ایک علیحدہ لائبریری بھی قائم کی گئی.اس کے بعد آپ نے ۱۹۲۶ء میں مستورات کے لئے ایک خاص رسالہ ” مصباح “ نامی جاری فرمایا اور مستورات میں تحریک کی کہ وہ اس رسالہ میں علمی اور تبلیغی اور تربیتی مضامین لکھا کریں.یہ رسالہ اب تک جاری ہے اور مستورات میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا موجب بن رہا ہے.اسی زمانہ کے قریب آپ نے مستورات میں یہ تحریک بھی فرمائی کہ وہ گھر یلو دستکاری کی

Page 391

۳۸۱ طرف توجہ دیں تا کہ اوّل ان کا وقت بیکاری میں نہ گزرے دوسرے وہ اس ذریعہ سے تھوڑا بہت لما بھی سکیں اور تیسرے ملک میں صنعت اور دستکاری کے فن کو ترقی حاصل ہو.اور اس تحریک کے ساتھ ہی ایک زنانہ نمائش کا بھی آغاز کر دیا گیا جو ہر سال جلسہ سالانہ کے موقعہ پر قادیان میں لگتی ہے اور اس میں احمدی مستورات اپنی دستکاری کے نمونے پیش کرتی ہیں.اسی تنظیمی پروگرام کی ذیل میں آپ نے یہ بھی تجویز فرمائی کہ جس طرح احمدی مردوں کا سالانہ جلسہ ہوتا ہے اسی طرح عورتیں بھی اپنا سالانہ جلسہ کیا کریں تا کہ انہیں تقریر کی مشق ہو اور مردوں کی طرح ان کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ بھی ترقی پائے اور قادیان میں آکر ان کا فت بریکار نہ گزرے.چنانچہ اب مردانہ جلسہ کے علاوہ ہر سال قادیان میں زنانہ جلسہ بھی ہوتا ہے جس میں ہزاروں عورتیں شریک ہوتی ہیں.اس جلسہ میں عورتوں کے علاوہ بعض خاص خاص مرد بھی پردہ کے انتظام کے ساتھ تقریریں کرتے ہیں اور ایک تقریر خود حضرت خلیفتہ امسیح کی بھی ہوتی ہے اور ہزاروں احمدی عورتیں ان تقریروں سے فائدہ اٹھاتی اور ایک نئی روح کے ساتھ قادیان سے واپس جاتی ہیں.عورتوں کے متعلق ایک اور اہم اصلاح جس کا اصل موقعہ تو آگے چل کر آتا ہے کیونکہ وہ ۱۹۳۶ء میں شروع ہوئی مگر چونکہ ہم اس جگہ مستورات سے تعلق رکھنے والے امور کو یکجا لکھ رہے ہیں اس لئے زمانہ کا لحاظ ترک کر کے اسے بھی یہاں درج کیا جاتا ہے.یہ اصلاح قادیان کے زنانہ سکول کے متعلق ہے جس کا نام نصرت گرلز ہائی سکول ہے.یہ سکول ایک لمبے عرصہ سے قادیان میں قائم ہے شروع شروع میں وہ پرائمری کی حد تک تھا پھر مڈل تک بڑھایا گیا.اور ۱۹۲۹ء میں اس کا ہائی ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بھی کھول دیا گیا.چنانچہ ۱۹۳۱ء میں اس کی لڑکیاں پہلی دفعہ انٹرنس کے امتحان میں شریک ہوئیں.مگر حضرت امیر المومنین کو ایک عرصہ سے یہ خیال تھا کہ زنانہ تعلیم کو مردانہ تعلیم کے رستہ پر چلانا درست نہیں کیونکہ ہر دو کا کام اور ضروریات جدا گانہ ہیں.چنانچہ آپ نے ۱۹۳۶ء میں یہ ہدایت جاری فرمائی کہ مڈل تک عام مروجہ تعلیم رکھ کر ( کیونکہ ایک مشترک ابتدائی معیار عام تعلیم کا ہونا ضروری ہے ) اس کے بعد سکول کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا جائے ایک حصہ وہی مروجہ تعلیم کی لائن پر

Page 392

۳۸۲ جاری رہے تا کہ جولڑ کیاں مدرسی یا ڈاکٹری وغیرہ کی لائن کی طرف جانا چاہیں وہ ادھر جاسکیں.مگر دوسری لائن جس میں زیادہ لڑکیوں کو جانا چاہئے وہ مروجہ طریق تعلیم سے ہٹا کر خالصہ اپنے پروگرام اور اپنے نصاب کے ماتحت قائم کی جائے اس لائن میں دینیات کی تعلیم پر زیادہ زور ہو اور کا لٹریچر پڑھایا جاوے اور تربیت کے اصول سکھائے جائیں اور کچھ حصہ نرسنگ اور امور خانہ داری کا بھی ہو.اس کے علاوہ تقریر تحریر کی بھی مشق کرائی جائے تا کہ یہ لڑکیاں دین کی خادم بن سکیں.چنانچہ مدرسہ کی یہ شاخ تین سال سے نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے اور اس کے ذریعہ احمدی لڑکیوں میں ایک نمایاں تبدیلی اور غیر معمولی ترقی کے آثار نظر آتے ہیں.الغرض حضرت خلیفہ اسیح کے زمانہ میں حضور کی ہدیات اور نگرانی کے ماتحت احمدی مستورات نے ہر جہت سے ترقی کی ہے اور بعض کاموں میں تو وہ اس قدر جوش اور شوق دکھاتی ہیں کہ مردوں کو شرم آنے لگتی ہے اور مالی قربانی میں بھی ان کا قدم پیش پیش ہے.احمدی مستورات کی مالی قربانی کا اندازہ صرف اس ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ جب اوائل ۱۹۲۳ء میں حضرت خلیفہ اسیح نے ی تحریک فرمائی کہ جرمنی میں ایک مسجد کی تعمیر کے لئے صرف احمدی عورتیں چندہ جمع کریں تو اس اپیل پر چند ماہ کے عرصہ میں عورتوں نے ایک لاکھ روپے سے زیادہ رقم اکٹھی کر لی اور یہ رقتم صرف مستورات سے لے گئی جس میں مردوں کا کوئی حصہ نہیں تھا.مشیت الہی سے جرمنی کی مسجد تعمیر نہیں ہو سکی اور یہ روپیہ مستورات کے مشورہ سے بعض دوسرے اہم دینی کاموں میں خرچ کر لیا گیا مگر بہر حال احمدی مستورات نے اس موقعہ پر اپنی مالی قربانی کا ایک حیرت انگیز ثبوت پیش کیا.اس چندہ میں بڑی رقمیں شامل نہیں تھیں بلکہ چھوٹی چھوٹی رقموں سے یہ بڑی میزان حاصل ہوئی تھی اور اکثر صورتوں میں نقدی کی بجائے عورتوں نے اپنے زیورات پیش کر دیئے تھے.مذہبی پیشواؤں کی حفاظت حضرت مسیح موعود بانی کے سوانح کی ذیل میں ہم بتا چکے ہیں کہ آپ نے اپنے اوائل زمانہ میں ہی گورنمنٹ کو اس ناموس کے لئے جد وجہد :.بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ملک کا موجودہ قانون مختلف

Page 393

۳۸۳ قوموں کے مذہبی پیشواؤں کی عزت کی حفاظت کے معاملہ میں بہت کمزور اور ناقص ہے اور اسی لئے ہندوستان میں آئے دن مذہبی بزرگوں پر حملے ہوتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے ملک کی فضا بہت خراب رہتی ہے اور قوموں کے درمیان امن کی صورت پیدا نہیں ہوتی.اور آپ نے اپنی طرف سے بعض تجویزیں بھی پیش فرمائی تھیں کہ اگر انہیں اختیار کیا جائے تو حالات بہتری کی طرف مائل ہو سکتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ گورنمنٹ نے اس وقت اس ضروری امر کی طرف توجہ نہ دی اور حالات بد سے بدتر ہوتے گئے.اس دلآزاری کا سب سے بڑا مظاہرہ ہمارے مقدس رسول آنحضرت ﷺ کے خلاف ہوتا تھا جن کی ارفع اور پاکیزہ شان کو گرانے اور میلا کرنے کے لئے ہر قوم کے نا اہل لوگ آپ کی عزت کے خلاف ناپاک حملے کرتے رہتے تھے.جب حضرت خلیفہ اسیح ثانی کا زمانہ آیا تو آپ ے پھر ایک دفعہ گورنمنٹ کو اس ضروری اصلاح کی طرف توجہ دلائی مگر اب بھی حکومت کے حلقوں میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی.آخر ۱۹۲۷ء میں آ کر خدا نے آپ کے ہاتھ میں ایک ایسا موقع دے دیا جس کی وجہ سے گورنمنٹ حرکت میں آنے پر مجبور ہوگئی.تفصیل اس کی یہ ہے کہ اس زمانہ میں بعض کو تہ بین ہندو مصنفوں نے اوپر تلے آنحضرت ﷺ کے خلاف ایسے دلآ زار حملے کئے کہ ان سے مسلمانوں کے دل چھلنی ہو گئے.چنانچہ پہلے تو ایک آریہ سماجی مسمی راج پال نے ایک کتاب ”رنگیلا رسول“ نامی تصنیف کر کے شائع کی اور اس کتاب میں مقدس بانی اسلام کے متعلق نہایت درجہ دلخراش اور اشتعال انگیز باتیں لکھیں یہ ۱۹۲۴ء کا واقعہ ہے.حکومت نے اس کتاب کے مصنف پر مقدمہ چلایا جو بہت دیر تک چلتا رہا مگر بالآ خرمئی ۱۹۲۷ء میں پنجاب ہائی کورٹ نے اسے ایک اصطلاحی بنیاد پر خارج کر کے مصنف کو بری کر دیا.اس فیصلہ کی وجہ سے پنجاب میں سخت ہیجان پیدا ہوا.اس کے کچھ عرصہ بعد یعنی اپریل ۱۹۲۹ء میں ایک مسلمان نو جوان علم الدین نے جوش میں آکر رنگیلا رسول“ کے مصنف کو دن دہاڑے قتل کر دیا.اس تکلیف دہ حادثہ پر حضرت خلیفتہ اسیح نے ایک طرف تو حکومت کو توجہ دلائی کہ اس قسم کی نا پاک اشتعال انگیزی کا سلسلہ رکنا چاہئے ورنہ ملک

Page 394

۳۸۴ کی فضا سخت مسموم ہو جائے گی اور کسی قوم کے لئے بھی امن نہیں رہے گا اور دوسری طرف آپ نے رنگیلا رسول“ کے مصنف راجپال کے قاتل کے فعل کو بھی قابل ملامت اور اسلامی تعلیم کے خلاف قرار دیا.آپ نے بتایا کہ اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ لوگ قانون کو خود اپنے ہاتھ میں لیں اور نہ ہی اسلام کا فروں کے قتل کی تحریک کرتا ہے بلکہ وہ ہر حال میں صبر اور امن کی تعلیم دیتا ہے.پس اگر ایک نا پاک دل انسان نے آنحضرت ﷺ کے خلاف دل آزار حملہ کیا تھا تو اس پر یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کہ ایک مسلمان اٹھ کر خود بخود کتاب کے مصنف کو قتل کر دے.ایسا طریق ملک میں بدامنی پیدا کرنے والا اور خلاف تعلیم اسلام ہے.مگر آپ نے یہ بات تکرار کے ساتھ بار بار واضح فرمائی کہ جب تک اشتعال انگیز تحریروں کے سلسلہ کو ایک پختہ اور واضح قانون کے ذریعہ روکا نہیں جائے گا اس وقت تک اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے کیونکہ ہر کس و ناکس سے اس بات کی توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ ہر حال میں اپنے جذبات کو روک کر رکھ سکے گا.اس ضمنی نوٹ کے بعد ہم پھر اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں.ابھی ”رنگیلا رسول“ کا مصنف قید حیات میں تھا اور اس کے قتل کا واقعہ عمل میں نہیں آیا تھا کہ ماہ مئی ۱۹۲۷ء میں امرتسر کے ایک ہندو رسالہ ” ورتمان“ میں ایک اور نہایت دلآزار مضمون آنحضرت ﷺ کے متعلق شائع ہوا.اس پر حضرت خلیفہ اسیح ثانی نے اوائل جون ۱۹۲۷ء میں ایک بڑے سائز کا پوسٹر لکھ کر شائع فرمایا جس میں ورتمان“ کے اقتباسات درج کر کے حکومت اور پبلک دونوں کو بتایا کہ یہ وہ آگ ہے جو ملک میں بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے اور اگر اسے فور روکا نہ گیا تو یقیناً وہ ایک خطر ناک تباہی کا موجب بن جائے گی.اس پوسٹر کے شائع ہونے پر جس نے ساری تصویر کو گویا بالکل ننگا کر کے ملک کے سامنے رکھ دیا تھا شمالی ہندوستان میں خطرناک ہیجان کی صورت پیدا ہوگئی اور گورنمنٹ کو انتہائی جدو جہد کے ساتھ امن قائم رکھنا پڑا.اور لوگوں کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے حکومت نے نہ صرف در تمان“ کی اس اشاعت کو ضبط کر لیا بلکہ ”ور تمان“ کے

Page 395

۳۸۵ ایڈیٹ کوگرفتار کر کےاس پر مقدمہ چلا یا او قرار واقعی سزا دلائی.مگر حضرت خلیفتہ اسیح کا مقصد جو ایک اصولی رنگ رکھتا تھا محض ایک فرد کی سزا سے پورا نہیں ہوسکتا تھا.اس لئے آپ نے حکومت سے اس مطالبہ کو جاری رکھا کہ قانون رائج الوقت میں کوئی ایسی دفعہ زائد ہونی چاہئے جس سے آئندہ اس قسم کی گندی اور اشتعال انگیز تحریروں کا سلسلہ قطعی طور پر بند ہو جائے.اس غرض کے لئے آپ ۱۹۲۷ء کے موسم گرما میں خود شملہ تشریف لے گئے اور نہ صرف ملک کے نامور لیڈروں کے ساتھ مل کر ان پر اس مسئلہ کی اہمیت کو واضح کیا بلکہ حکومت کے افسروں پر بھی زور ڈالا کہ وہ اس معاملہ میں قانون کی ضروری ترمیم کی طرف فوری توجہ دیں.دوسری طرف آپ نے اپنے لندن کے مبلغ مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم اے کے ذریعہ انگلستان میں بھی کوشش کر کے وہاں کے پریس میں یہ سوال اٹھا دیا کہ موجودہ قانون ناقص ہے اور اسے جلد بدلنا چاہئے اور پارلیمنٹ میں بھی بعض ممبروں کے ذریعہ سوالات کروائے گئے.ان ساری کوششوں کا یہ نتیجہ ہوا کہ حکومت ہند نے موجود قانون کے نقص کو محسوس کر کے تعزیرات ہند میں ایک نئی دفعہ ایزاد کر دی جس کی وجہ سے مذہبی پیشواؤں کی عزت کی حفاظت کا قانون پہلے سے زیادہ معین صورت اختیار کر گیا.یہ دفعہ اب بھی پوری طرح تسلی بخش نہیں ہے مگر بہر حال وہ اس معاملہ میں اصلاح کی طرف ایک معین قدم کا رنگ رکھتی ہے جسے بعد میں زیادہ وسیع اور زیادہ پختہ کیا جا سکتا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح ثانی کی ان مخلصانہ اور دردمندانہ کوششوں کو مسلمانوں کے سمجھدار طبقہ نے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا اور مختلف اسلامی اخباروں میں پے در پے تعریفی مضامین شائع ہوئے.لے :- مسلمانوں کی اقتصادی پا بحالی کے لئے جدو جہد :.۱۹۲۷ء کے بین الاقوام ہیجان میں حضرت خلیفہ اسیح ثانی نے مسلمانوں کو اس طرف بھی توجہ دلائی کہ ان کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری قوموں کے مقابل پر ان کی اقتصادی حالت سخت خراب ہے اور انہیں دوسروں کے مثلاً دیکھو اخبار انقلاب مورخه ۳ / اگست ۱۹۲۷ ء اور اخبار مشرق مورخہ یکم ستمبر ۲۲ ستمبر ۱۹۲۷ء اور اخبار ہمد ردمورخہ ۲۶ ستمبر ۱۹۲۷ء اور اخبار در نجف مورخه ۱۸/اکتوبر ۱۹۲۷ء

Page 396

سامنے دب کر اور ذلیل ہو کر رہنا پڑتا ہے پس جہاں دینی اور اخلاقی اصلاح کی ضرورت ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اپنی اقتصادی اصلاح کی طرف بھی فوری توجہ دیں چنانچہ آپ نے اس اصلاح کی غرض سے ان کے سامنے بہت سی عملی تجاویز پیش کیں جن میں دو تجویزیں زیادہ نمایاں تھیں اوّل یہ کہ مسلمان تجارت کی طرف زیادہ توجہ دیں اور ہر شہر اور ہر قصبہ میں اپنی دو کا نہیں کھولیں اور حتی الوسع صرف مسلمان دوکانداروں سے سودا خریدا کریں.دوم یہ کہ جن باتوں میں ہندو لوگ مسلمانوں سے چھوت چھات کرتے ہیں اور انہیں ناپاک سمجھتے ہوئے ان کے ہاتھ کی چیز استعمال میں نہیں لاتے ان میں مسلمان بھی (مذہباً نہیں بلکہ اقتصادی اور ملی اغراض کے ماتحت ) ہندوؤں کے ہاتھ کی چیز استعمال نہ کریں تا کہ ان میں بے غیرتی کا جذبہ نہ پیدا ہو اور ان کی تجارت کو بھی اس ذریعہ سے فروغ حاصل ہو جاوے.آپ کی اس بروقت اور پر زور تحریک نے جو صرف کاغذی نہیں تھی بلکہ عملی رنگ رکھتی تھی اور آپ نے اپنی جماعت میں اس پر عمل بھی شروع کر دیا تھا مسلمانان پنجاب میں حیرت انگیز اثر پیدا کیا اور ایک نہایت ہی قلیل عرصہ میں مسلمانوں کی ہزاروں نئی دوکانیں کھل گئیں اور دوسری طرف اکثر مسلمانوں کے اندر یہ احساس نہ صرف پیدا ہو گیا بلکہ ایک زندہ اور پر جوش جذبہ کی صورت اختیار کر گیا کہ جب تک ہندو لوگ ان سے چھوت چھات کرتے اور انہیں ذلیل اور ناپاک سمجھتے ہیں اور ان سے اپنی ضروریات کی چیزیں نہیں خریدتے اس وقت تک مسلمانوں کو بھی ان سے پر ہیز کرنا چاہئے.آپ نے اس بات کو واضح فرمایا کہ ہمیں ہندوؤں سے دشمنی نہیں ہے بلکہ وہ بھی ہمارے وطنی بھائی ہیں مگر مسلمانوں کی ہمدردی ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ جو بات انہیں دن بدن تباہی کی طرف لے جا رہی ہے اس سے انہیں محفوظ کیا جاو ہے ہاں اگر ہند و صاحبان مسلمانوں سے تعصب نہ برتیں اور انہیں

Page 397

۳۸۷ اپنا وطنی بھائی سمجھیں اور ان کے ساتھ بھائیوں کی طرح مل کر ر ہیں اور ان کی دوکانوں سے اسی طرح فراخ دلی کے ساتھ سودا خرید میں جس طرح وہ اپنے ہم مذہبوں سے خریدتے ہیں تو پھر ہم بھی بڑی خوشی کے ساتھ ان سے بھائیوں والا سلوک کریں گے مگر یہ بات انصاف سے سراسر بعید ہے کہ ہندو تو دولتمند ہو کر بھی مسلمانوں سے سودا نہ خریدیں اور اپنے اربوں روپے میں سے ایک پیسہ تک مسلمانوں کو دینے کے روادار نہ ہوں مگر مسلمان بھوکے مرتے ہوئے بھی اپنا پیسہ ہندوؤں کے حوالہ کر دیں.مسلمانوں میں باہمی اتحاد کی کوشش یہ دن مسلمانوں کے لئے سخت مصائب و آلام کے اور ایک مشترک پلیٹ فارم کی تجویز:.دن تھے.ایک طرف تو وہ ہمسایہ قوموں کی دست درازیوں کے نیچے پیسے جا رہے تھے اور دوسری طرف ان کا آپس کا افتراق انہیں تباہی کی طرف دھکیل کر لئے جار ہا تھا.ان حالات میں کئی مسلمان لیڈر اس کوشش میں تھے کہ کوئی صورت ایسی پیدا ہو جاوے کہ مسلمانوں کا اندرونی افتراق دور ہو جاوے اور وہ ایک مشترک پلیٹ فارم پر محبت اور اتحاد کے ساتھ مل کر کام کر سکیں مگر اس اتحاد کے لئے کوئی عملی صورت نظر نہیں آتی تھی اور مذہبی عقیدوں کا اختلاف اور ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دن بدن درمیانی خلیج کو زیادہ وسیع کرتے جا رہے تھے.ان حالات میں حضرت خلیفہ اسیح ثانی نے اس وقتی اتحاد سے فائدہ اٹھا کر جو ان ایام میں بین الا قوام کش مکش کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھایہ تحریک فرمائی کہ مسلمانوں کو دوسری قوموں کے مقابل پر ایک جان ہو کر رہنا چاہئے آپ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے بعض فرقے بعض دوسرے فرقوں کو مذہبی رنگ میں دائرہ اسلام سے خارج بھی قرار دیتا ہے چنانچہ خود جماعت احمدیہ کے خلاف بھی کفر کا فتویٰ صادر ہو چکا ہے اور جماعت احمد یہ بھی اپنے مذہبی عقائد کی رو سے دوسرے مسلمانوں کو حقیقی اور زندہ اسلام سے منحرف اور روگردان جانتی ہے مگر ان سب باتوں کے باوجود یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ تمام مسلمانوں کے سیاسی مفاد مشترک اور متحد ہیں.پس خواہ مذہبی لحاظ سے عقیدہ کچھ ہی ہو مگر سیاسی لحاظ سے مسلمان ایک ہیں اور

Page 398

۳۸۸ ان کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع رہنا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ سیاسی میدان میں اسلام کی مذہبی تعریف کا سوال نہیں ہے پس خواہ مذہباً ہمارے نزدیک اسلام کی تعریف کچھ ہو مگر سیاسی لحاظ سے ہر وہ شخص مسلمان سمجھا جائے گا جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور جسے غیر مسلم اقوام مسلمان سمجھتی ہیں اور ایک مسلمان کے طور پر اس کے ساتھ سلوک کرتی ہیں.آپ نے لکھا کہ مسلمانوں کے اتحاد کا فقط یہی ایک ذریعہ ہے کہ وہ سیاسیات میں اسلام کی مذہبی تعریف کو نظر انداز کر دیں اور صرف سیاسی تعریف پر اپنے اتحاد کی بنیاد رکھیں ورنہ اگر سیاسی میدان میں اسلام کی اس تعریف پر بنیاد رکھی جائے گی جو ہر فرقہ دینی لحاظ سے صحیح قرار دیتا ہے تو مسلمانوں میں کبھی بھی اتحاد نہیں ہو سکے گا اور ان کے سیاسی اور قومی حقوق ان کے باہمی اختلاف اور افتراق کی وجہ سے دن بدن ان کے ہاتھ سے نکلتے چلے جائیں گے لے یہ ایک نہایت لطیف رستہ تھا جو آپ نے مسلمانوں کو بتایا اور گو بہت سے مسلمانوں نے اس نکتہ کی قدر کی مگر افسوس ہے کہ ابھی تک بہت سے مسلمان اس نکتہ کی قدرکو نہیں پہچانتے چنانچہ پچھلے دنوں میں ہی پنجاب کی مسلم لیگ میں یہ سوال پیدا ہوگیا تھا کہ چونکہ احمدیوں کے خلاف علماء کی طرف سے کفر کا فتویٰ ہے اس لئے ہم انہیں اپنی لیگ میں شامل نہیں کر سکتے.سیاسیات کے میدان میں یہ ذہنیت یقیناً ایک سم قاتل سے کم نہیں.جلسہ ہائے سیرۃ النبی کی تجویز:.حضرت خلیفہ امسیح ثانی نے اسلام اور مسلمانوں کی ہمدردی کے لئے جو کچھ کیا وہ آپ کی اسلامی محبت اور ملی خلوص کی ایک نہایت روشن مثال ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کا دل دوسری قوموں کی خیر خواہی اور ملک کی عمومی ہمدردی کے جذبات سے خالی ہے چنانچہ آپ نے ان کارروائیوں کے معا بعد جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے یعنی ۱۹۲۸ء کے اوائل میں ایک ایسا قدم اٹھایا جو نہ صرف مسلمانوں کو مسلمانوں کے ساتھ بلکہ مسلمانوں کو ہندوؤں اور دوسری غیر مسلم اقوام کے ساتھ محبت اور موالات کی پختہ زنجیر میں پرونے والا تھا.آپ نے ملک کی زہر آلود آپ نے مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی تعریف کے امتیاز کو ابتداء ۱۹۲۴ء میں ملک کے سامنے پیش فرمایا تھا مگر بعد میں ۱۹۲۷ء کے بہیجان کے ایام میں اس پر مزید روشنی ڈالی

Page 399

۳۸۹ فضا کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز فرمائی کہ چونکہ ہندوستان کی مختلف قوموں کے باہمی افتراق کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مذہبی پیشواؤں کو محبت اور عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اس لئے کوئی ایسا طریق اختیار کرنا چاہئے جس سے مختلف قوموں میں ایک دوسرے کے مذہبی بزرگوں کے لئے عزت اور محبت کے جذبات پیدا ہو جائیں.اس اصول کے ماتحت آپ نے یہ تجویز فرمائی کہ ہر قوم اپنے اپنے مذہب کے بانی اور پیشوا کی سیرت و سوانح کے بیان کرنے کے لئے سال میں ایک دن منایا کرے اور اس دن نہ صرف خود اس مذہب کے پیرو بلکہ دوسرے مذاہب کے متبعین بھی ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر اس مذہب کے بانی کے پاکیزہ حالات لوگوں کو سنائیں.تاکہ لوگوں کے دلوں سے بدگمانی اور نفرت کے جذبات دور ہوکر ان کی جگہ حسن ظنی اور محبت کے جذبات پیدا ہو جائیں.آپ نے فرمایا کہ آئندہ ہم لوگ مقدس بانٹے اسلام ﷺ کی سیرت اور حالات سنانے کے لئے سال میں ایک دن ملک کے ہر شہر اور ہر قصبہ میں جلسہ کیا کریں گے اور ہماری طرف سے لوگوں کو یہ عام دعوت ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہمارے پلیٹ فارم پر آکر ہمارے رسول کے پاکیزہ حالات پر اظہار خیال کریں تا کہ یہ آپس کی دوری کم ہو اور ایک دوسرے کے متعلق محبت اور قدرشناسی کے جذبات پیدا ہونے شروع ہو جائیں.چنانچہ آپ کی اس تجویز کے مطابق آنحضرت ﷺ کے متعلق اس قسم کا دن ۱۹۲۸ء سے لے کر اب تک جماعت احمدیہ کے انتظام کے ماتحت ہندوستان کے ہر شہر اور ہر قصبہ میں جہاں جہاں احمدی پائے جاتے ہیں ہر سال منایا جاتا ہے اور یہ ایک بڑی خوشی کی بات ہے کہ کئی شریف اور معزز ہندو صاحبان اور سکھ صاحبان اور عیسائی صاحبان ہمارے ان جلسوں میں شریک ہو کر آنحضرت ﷺ کی پاکیزہ سیرت اور پاک تعلیم اور نیک کارناموں کے حالات سناتے ہیں جن سے آہستہ آہستہ ملک کی فضا بہتری کی طرف مائل ہورہی ہے.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے حضرت خلیفہ مسیح ثانی ن یہ بھی تجویز فرمائی تھی کہ دوسری قو میں بھی نے قومیں اسی طرح اپنے مذہبی پیشواؤں کے متعلق سال میں ایک دن منایا کریں تا کہ مسلمانوں کو بھی ان

Page 400

۳۹۰ بزرگوں کے پاکیزہ حالات بیان کرنے کا موقعہ مل سکے مگر افسوس ہے کہ ابھی تک دوسری قوموں نے اس طرف توجہ نہیں کی.بالآخر ۱۹۳۹ء میں آکر حضرت خلیفہ ایسیح نے یہ بوجھ بھی اپنے سر پر لے لیا اور جماعت احمدیہ کو ہدایت دی کہ جہاں وہ سال میں ایک دن آنحضرت ﷺ کی سیرت کے لئے منایا کرتے ہیں وہاں ایک دن دوسرے پیشوایان مذاہب کے لئے بھی منایا کریں.چنانچہ اسی ماہ دسمبر کے ابتداء میں تمام ہندوستان کی احمدی جماعتوں نے یہ دن بڑے اخلاص اور دھوم دھام سے منایا اور اپنے انتظام کے ماتحت جلسے کر کے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور حضرت کرشن علیہ السلام اور حضرت بابا نانک علیہ الرحمۃ اور دوسرے بانیان مذاہب کی تعریف میں پر اخلاص تقریریں کیں اور نعتیہ نظمیں پڑھیں.یقینا یہ ایک نہایت مبارک اقدام ہے جسے اگر خلوص قلب اور مستقل مزاجی کے ساتھ نبھایا گیا تو وہ ملک کی زہریلی فضا کو صاف کرنے میں بہت بھاری مدد دے گا اور یہ حضرت خلیفہ ایح ثانی کا ہندوستان کی مختلف قوموں پر ایک ایسا عظیم الشان احسان ہے کہ وہ اس کا جس قدر بھی شکر یہ ادا کریں کم ہے.قادیان کی ترقی اور قادیان میں ریل کی آمد : ایک تاریخی تبصرہ میں ہر قسم کے مناظر پر نظر ڈالنی پڑتی ہے اور ہم اپنے ناظرین سے معافی چاہتے ہیں کہ ہم انہیں تھوڑی دیر کے لئے ہندوستان کے وسیع منظر سے ہٹا کر قادیان کے محدود منظر کی طرف لا رہے ہیں.ہم یہ بتا چکے ہیں کہ جس وقت حضرت مسیح موعود نے خدا سے حکم پا کر دعوئی فرمایا تو قادیان ایک بہت چھوٹا سا گاؤں تھا جس کی آبادی دو ہزار نفوس سے زیادہ نہیں تھی اور اس کے اکثر گھر اجڑے ہوئے اور ویران نظر آتے تھے.اور ضروری استعمال کی معمولی معمولی چیزوں کی خرید کے لئے بھی باہر جانا پڑتا تھا.اسی طرح اس وقت قادیان کا قصبہ تار اور ریل وغیرہ سے بھی محروم تھا اور دنیا سے بالکل منقطع حالت میں پڑا تھا.مگر حضرت مسیح موعود کے دعوی کے بعد اس نے خدا کے فضل سے بڑی سرعت کے ساتھ ترقی شروع کر دی اور نہ صرف اس کی آبادی اور اس کی تجارت میں غیر معمولی ترقی ہوئی بلکہ ہر جہت سے اس نے حیرت

Page 401

۳۹۱ انگیز رنگ میں ترقی کی حتی کہ ناظرین یہ سن کر حیران ہوں گے کہ جماعت احمدیہ کے تبلیغی اور تعلیمی اور تربیتی نظام کی وجہ سے قادیان کے پریس نے یہ حیثیت حاصل کر لی کہ وہ پنجاب بھر میں تیسرے نمبر پر آ گیا.مگر جس بات کا ہمیں اس جگہ مخصوص طور پر ذکر کرنا ہے وہ ریل کی آمد سے تعلق رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں قادیان کا ریلوے سٹیشن بٹالہ تھا جو قادیان سے بارہ میل مغرب کی طرف واقع ہے اور اس کے اور قادیان کے درمیان ایک کچا اور نہایت درجہ شکستہ رستہ حائل ہے.میں نے ” حائل“ کا لفظ اس لئے لکھا ہے کہ یہ رستہ آمد ورفت میں مد ہونے کی بجائے حقیقیہ اکثر نفیس مزاج لوگوں کے لئے روک کا موجب بن جاتا تھا مگر باوجود اس کے ہمیں ہرگز امید نہ تھی کہ قادیان میں اس قدر جلد ریل آجائے گی لیکن خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ ہماری کوشش کے بغیر اچانک یہ بات معلوم ہوئی کہ ریلوے بورڈ نے بٹالہ اور بیاس کے درمیان ایک برانچ لائن کا فیصلہ کیا ہے.چنانچہ ۱۹۲۸ء میں یہ لائن بٹالہ کی طرف سے شروع ہو کر قادیان تک پہنچ گئی مگر جو نہی کہ قادیان تک کے حصہ کی تعمیر مکمل ہوئی محکمہ ریلوے نے بعض مشکلات کی وجہ سے اپنا ارادہ بدل لیا اور اگلے حصہ کی تعمیر رک گئی.اس طرح قادیان کا دور افتادہ قصبہ ہماری توقع کے سراسر خلاف اچانک پنجاب کے ریلوے سسٹم کے ساتھ پیوند ہو گیا.اس سے پہلے ۱۹۲۶ء میں قادیان میں تار کا سلسلہ بھی جاری ہو چکا تھا اور اس کے بعد ۱۹۳۵ء میں بجلی آگئی اور پھر ۱۹۳۷ء میں اچانک ٹیلیفون بھی پہنچ گیا.سوخلافت ثانیہ کے ان چند سالوں کے اندراندر خدا نے کے مرکز کو دنیا کی تمام جدید آسائشوں سے آراستہ فرما دیا.دنیا خواہ کچھ کہے لیکن ہم اسے یقیناً خدا کی ایک بخشش خیال کرتے ہیں جو ہمارے تبلیغی اور تربیتی اور تنظیمی کام کو آسان کرنے کے لئے خدا نے ہم پر کی ہے اور ہماری دعا ہے کہ خدا ہمیں ان ترقیات سے خدمت دین کی راہ میں پورا پورا فائدہ اٹھانے کی توفیق دے.آمین.اس جگہ یہ ذکر بھی بے موقعہ نہ ہوگا کہ حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کے عہد میں قادیان کی آبادی اپنی پرانی حدود سے نکل کر دور دراز فاصلہ تک پھیل گئی ہے اور بہت سے نئے محلے آباد ہو گئے ہیں.

Page 402

۳۹۲ حضرت خلیفہ اسیح ثانی کو اس نئی آبادی میں حفظان صحت کے اصول کا خاص خیال ہے چنانچہ آپ نے حال ہی میں یہ حکم دیا ہے کہ قادیان کی نئی آبادی کی کوئی گلی کسی صورت میں ہیں فٹ سے کم نہ ہو اور سڑکیں پچاس فٹ بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوں اور ایک نیا محلہ دارالانوار جو آپ کی خاص نگرانی میں ۱۹۳۲ء سے آباد ہورہا ہے.اس کی سڑک ۷۵ فٹ رکھی گئی ہے اور اس کی کوئی گلی تمیں فٹ سے کم نہیں.یہ صرف موجودہ حالات کی مجبوریوں کی وجہ سے ہے ورنہ آپ کا خیال ہے کہ راستہ جات اس سے بھی زیادہ فراخ ہونے چاہئیں.اسی طرح آپ کی یہ ہدایت ہے کہ ہر محلہ میں کوئی نہ کوئی بڑا چوک بھی چھوڑا جاوے.اسی ضمن میں یہ بات بھی قابل نوٹ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر قادیان کی ترقی کے متعلق یہ پیشگوئی فرمائی ہوئی ہے کہ وہ ایک بہت عظیم الشان شہر بن جائے گا اور اس کی آبادی بیاس دریا کے کناروں تک جو اس وقت قادیان سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے پھیل جائے گی اور اللہ تعالیٰ اسے ہر رنگ میں ترقی دے گا اور اس کی ترقی کے زمانہ میں اس کی رونق قابل دید ہوگی.سائمن کمیشن اور گول میز کانفرنس کے تعلق ۱۹۲۸ء سے لے کر ۱۳۰ در تک کے سال ہندوستان کی تاریخ میں اس لحاظ سے میں حضرت خلیفہ اسیح کے سیاسی کارنامے:.خصوصیت رکھتے ہیں کہ ان سالوں میں حکومت برطانیہ نے ہندوستان کے سیاسی آئین کی اصلاح کے لئے شروع شروع میں ایک کمیشن بٹھایا اور پھر انگلستان میں ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کر کے اس کے مشورہ میں ہندوستانیوں کو شریک ہونے کی دعوت دی.یہ ایام نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ ہندوستان کی ساری اقوام کے لئے نہایت نازک ایام تھے کیونکہ اس میں ہندوستان کے آئندہ نظام حکومت اور مختلف قوموں کے باہمی حقوق کا فیصلہ ہونا تھا گویا اس وقت ایک مثلث نوعیت کا مسئلہ ملک کے سامنے تھا یعنی ایک سوال یہ تھا کہ ہندوستان برطانیہ سے کیا حاصل کرے؟ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ ہندوستان اور دوسری ہندوستانی قوموں کے باہمی حقوق کس اصول کے ماتحت تصفیہ پائیں اور تیسرا سوال یہ تھا کہ نئے آئین میں

Page 403

۳۹۳ ہندوستانی ریاستوں کی کیا پوزیشن ہو.گویا ایک طرف انگریز کے مقابل پر ہندوستانی تھا اور دوسری طرف ہندوؤں کے مقابل پر مسلمان اور سکھ اور عیسائی اور اچھوت وغیرہ اقوام تھیں اور تیسری طرف برطانوی ہندوستان کے مقابل پر ریاستی ہندوستان تھا اور ان سب عناصر کے ملنے سے یہ مسئلہ ایک نہایت پیچد ارصورت اختیار کر گیا تھا.سو حضرت خلیفہ اُسیح ثانی نے اس موقعہ پر بھی اپنے قدیم طریق کے مطابق نہ صرف حکومت اور ملک کو بلکہ مسلمانوں کو بھی نہایت قیمتی مشورہ پیش کیا اور اس عرصہ میں دو تین کتب تصنیف کر کے اس سوال کے سارے پہلوؤں پر نہایت لطیف بحث فرمائی.مختصر طور پر حکومت کو آپ کا مشورہ یہ تھا کہ اپنی نیت کو صاف رکھو اور اس بات کو دل سے تسلیم کر لو کہ ہندوستان کو پوری پوری آزادی کا حق ہے اور اس کے بعد اسے واقعی پورا پورا حق دے دو اور صرف اتنے حصہ کو محفوظ رکھو ( اپنے لئے نہیں بلکہ ایک امین کی حیثیت میں ) جو ہندوستان کے خاص حالات کے ماتحت خود ہندوستانیوں ہی کے مفاد میں ضروری ہو.اور ملک کو آپ نے یہ مشورہ دیا کہ اس بات کو مد نظر رکھو کہ خواہ کسی وجہ سے سہی مگر بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریز ایک لمبے عرصہ سے ہندوستان پر حاکم ہیں اور ان کے اختلاط سے ہندوستان کو اور ہندوستانیوں کو کئی لحاظ سے واقعی بہت فائدہ پہنچا ہے اور کئی جہت سے آپس میں اتحاد واشتراک کی روایات قائم اور پختہ ہوچکی ہیں.پس بے شک اپنے حقوق لو اور پورے پورے حقوق لو مگر جہاں تک اپنے حقوق کی روح کو قربان کرنے کے بغیر انگریزوں کے ساتھ اتحاد اور اشتراک قائم رکھ سکتے ہوا سے قائم رکھو کیونکہ یہ اتحاد آگے چل کر ہر دو فریق کے لئے کئی لحاظ سے مفید ہو سکتا ہے.آپ نے لکھا ہے کہ برطانوی ایمپائر کا نظام ایک ایسا نظام ہے کہ اس کے اندر مختلف آزاد ممالک اپنی پوری پوری آزادی کو قائم رکھتے ہوئے بھی اکٹھے رہ سکتے ہیں.پس آزادی بھی لو اور اس اتحاد سے فائدہ بھی اٹھاؤ.تیسری طرف آپ نے ہندوؤں کو یہ مشورہ دیا کہ ملک میں آپ لوگوں کی کثرت ہے اور آپ کو دولت اور رسوخ بھی حاصل ہے اور تعلیم میں بھی آپ آگے ہیں اور تمام دوسری قو میں جو تعداد میں آپ سے کم

Page 404

۳۹۴ ہیں وہ لازماً آپ سے کمزور اور آپ سے پیچھے اور کئی باتوں میں آپ کی دست نگر ہیں.پس ان کے ساتھ ایک بڑے بھائی کا سا سلوک کرو اور ان کے لئے ایک ایسا ماحول پیدا کر دو جوان کی تسلی اور ہمت افزائی کا باعث ہو اور اگر ممکن ہو تو ان کو ان کے حق سے بھی زیادہ دے دو کیونکہ آپ لوگ دوسروں کو دے کر پھر بھی آگے ہی رہتے ہیں اور دوسرے لوگ آپ سے لے کر پھر بھی پیچھے ہی رہتے ہیں.اسی ضمن میں آپ نے ہندوؤں کو یہ بھی نصیحت فرمائی کہ اگر مسلمانوں کو یا ملک کی دوسری چھوٹی قوموں کو اپنی قلت یا کمزوری یا غربت کی وجہ سے یہ احساس ہے کہ بعض باتوں میں ان کے جدا گانہ حقوق علیحدہ صورت میں محفوظ رہنے چاہئیں.تو اس وقت ان کے اس مطالبہ کو فراخدلی کے ساتھ قبول کر لو تا کہ ان کے دل ہمت پکڑیں اور وہ اس نئے دور میں دل جمعی کے ساتھ داخل ہوں.پھر جب اس کے بعد آہستہ آہستہ آپ لوگوں کے حسن سلوک کی وجہ سے انہیں تسلی ہو جائے گی تو وہ خود بخو داشترا کی نظام کی خوبیاں دیکھ کر اس کی طرف آتے جائیں گے اور آپ کا رستہ آسان ہو جائے گا اور مسلمانوں سے آپ نے یہ فرمایا کہ آپ لوگ ملک میں تھوڑے ہیں اور بہر حال آپ نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہنا ہے اس لئے ان کے ساتھ بہتر تھا ہم کی پالیسی کو مدنظر رکھو اور بلا وجہ بگاڑ کی صورت نہ پیدا کرو.مگر ساتھ ہی آپ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ جن صوبوں میں خدا نے آپ لوگوں کو اکثریت دے رکھی ہے ان میں اکثریت کو کسی صورت میں بھی قربان نہ ہونے دو یعنی ایسا نہ ہو کہ آپ لوگ اقلیت والے صوبوں میں اپنے حق سے کسی قدر زیادہ لینے کی خاطر اکثریت والے صوبوں میں اپنی اکثریت کو خطرہ میں ڈال دیں کیونکہ موجودہ حالات میں ایسا قدم آپ لوگوں کو ملک میں بالکل بے دست و پا کر دے گا.اور والیان ریاست کو آپ نے یہ نصیحت فرمائی کہ خواہ برطانوی حکومت کے ساتھ آپ کے ہزار معاہدے ہوں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ آپ کی ریاستیں ہندوستان کا حصہ ہیں اور ہندوستان کی ترقی یا تنزل میں ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا پس آپ صاحبان ہندوستان کے آئینی نظام سے بالکل علیحدہ رہنے کا خیال ترک کر دیں

Page 405

۳۹۵ اور بے شک اپنے حقوق کی واجبی حفاظت کے لئے کوشش کریں مگر ہندوستان کے آئینی نظام میں شامل ہو کر نہ کہ اس سے علیحدہ رہ کر.اور آپ نے یہ تجویز فرمائی کہ ریاستوں کی شمولیت کے لئے ہندوستان کی فیڈریشن کے اوپر ایک کا نفڈریشن قائم کی جاوے تا کہ ریاستیں اپنے جداگانہ نظام کو قائم رکھتے ہوئے برطانوی ہند کے ساتھ پیوند کی جاسکیں.غرض آپ نے ان کتب میں جن میں سے خاص طور پر ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل‘1 زیادہ مفصل اور زیادہ مبسوط ہے ہندوستان کے تمام عناصر.حکومت.ہندو.مسلمان.دیگر اقوام اور ریاست ہائے کو تفصیلی مشورہ پیش کیا اور سابقہ نظام کی خوبیوں اور نقائص کے ساتھ مقابلہ کر کے دکھایا کہ ہندوستان کے مستقبل کے لئے کونسا طریق زیادہ بہتر اور زیادہ مفید ہے اور آپ نے اپنی اس کتاب کو صرف ہندوستان میں ہی شائع نہیں فرمایا بلکہ اس کی بہت سی کا پیاں خاص انتظام کے ماتحت ولایت بھجوا کر وہاں کے ارباب حل و عقد تک بھی اپنا مشورہ پہنچا دیا مگر افسوس ہے کہ ہم اس مختصر گنجائش میں اس نہایت درجہ مفید اور قیمتی مشورہ کی تفصیلات میں نہیں جا سکتے البتہ بعض آراء کا خلاصہ درج ذیل کرتے ہیں.سرمیلکام (بعدۂ لارڈ) ہیلی گورنر یوپی نے کتاب ” ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل“ کے متعلق اپنے ایک خط میں لکھا:.” جماعت احمدیہ سے میرے پرانے تعلقات ہیں اور میں ان حالات سے خوب واقف ہوں اور اس روح کو خوب سمجھتا ہوں اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جسے لے کر یہ جماعت ہندوستان کے اہم مسائل کے حل کے لئے کام کر رہی ہے.مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب میرے لئے مفید ہوگی.“ ہے سر عبداللہ ہارون ایم ایل اے نے لکھا:.” میری رائے میں سیاسیات کے باب میں جس قدر کتا ہیں ہندوستان میں لکھی مصنفہ ۱۹۳۰ء تتمہ کتاب سیاسی مسئلہ کا حل

Page 406

۳۹۶ گئی ہیں ان میں کتاب ”ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل“ بہترین تصانیف میں سے ہے.ڈاکٹر سر محمد اقبال نے لکھا:.چند مقامات کا میں نے مطالعہ کیا ہے.نہایت عمدہ اور جامع ہے.“ کے اخبار انقلاب لا ہور نے لکھا:.جناب مرزا صاحب نے اس تبصرہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت سر انجام دی ہے.یہ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا کام تھا جو مرزا صاحب نے انجام دیا.‘ سے تحریک کشمیر اور جماعت کی تاریخ اب ہم تاریخ کے اس حصہ میں داخل ہور ہے میں ایک انقلابی دور کا آغاز : ہیں جس میں جماعت احمد یہ دوسرے مسلمانوں کے قریب ترین پہنچ گئی.اپنے عقائد اور اپنی خصوصیات کو چھوڑ کر نہیں.بلکہ اپنی بے لوث خدمات اور اپنے کارناموں کی وجہ سے مسلمانوں کے دل میں جگہ پا کر لیکن یہی قرب دوری کا باعث بن گیا اور یہی ہر دلعزیزی نفرت پیدا کرنے کا موجب ہوگئی.تحریک کشمیر جس کا ہم اب ذکر کرنے لگے ہیں اور جو ۱۹۳۱ ء اور ۱۹۳۲ء کے سالوں میں اپنے پورے عروج میں تھی کے لئے ایک انقلابی رنگ رکھتی ہے.یعنی کئی سال کی مسلسل اور بے نظیر خدمات کی وجہ سے جماعت احمد یہ آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ مسلمانوں کے خیالات میں اوپر اٹھتی چلی جارہی تھی اور باوجود عقائد کے بھاری اختلاف کے مسلمانوں کا سواد اعظم قدم بقدم جماعت احمدیہ کے قریب تر ہو رہا تھا اور یوں نظر آتا تھا کہ اگر درمیانی خلیج میں تھوڑی سی بھی اور کمی آگئی تو یہ عظیم الشان روحانی مقناطیس مسلمانان ہند کو ایک فوری جنبش کے ساتھ کھینچ کر اپنے اندر جذب کر لے گا.اس عجیب و غریب نظارہ کو جہاں خدا کے فرشتے آسمان پر غور کی نظر کے ساتھ دیکھ رہے تھے وہاں زمین کے مبصر لا تتمه کتاب سیاسی مسئلہ کا حل ايضاً انقلاب مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۳۰ء

Page 407

۳۹۷ بھی یعنی مسلمانوں کے دنیوی لیڈر آنے والے انقلاب کے قرب سے چونک کر اپنی آنکھیں مل رہے تھے اور اس احساس کے ساتھ آہستہ آہستہ بیدار ہو رہے تھے کہ کوئی مخفی طاقت ان کے گروہ کو سرعت کے ساتھ اپنی طرف کھینچے لئے جارہی ہے.اچانک زمینی اور آسمانی طاقتوں نے ایک فوری جنبش کی اور ایک خطر ناک زلزلہ کے رنگ میں جماعت احمدیہ اور مسلمانوں کے درمیان کی خلیج کو جو بہت چھوٹی رہ گئی تھی تہ و بالا کر کے وسیع کر دیا.اتنا وسیع کہ اس سے پہلے وہ کبھی اتنی وسیع نہیں ہوئی تھی.آسمانی طاقتوں نے تو یہ کہا کہ بے شک یہ اتصال مقدر ہے اور ایک دن ہو کر رہے گا مگر ابھی اس کا وقت نہیں آیا اور وقت سے پہلے کی تبدیلی اپنے اندر کئی قسم کے خطرات رکھتی ہے اور پوری پختگی سے پہلے پھل کا توڑنا درست نہیں.اور زمین کی طاقتوں نے یہ کہا کہ اگر یہ چھوٹا سا خودرو پودا ابھی سے بڑے بڑے بلند درختوں پر اپنا سایہ ڈالنے لگ گیا تو نہ معلوم آگے چل کر کیا ہو گا پس قبل اس کے کہ وہ زیادہ طاقت پائے اسے مٹانے کا انتظام ضروری ہے.پس گو آسمان اور زمین کے ارادے مختلف تھے مگر ان کا فعل ایک ہی تھا اور ان دونوں طاقتوں کی متحدہ جنبش نے مسلمانوں اور احمدیوں کو اٹھا کر ایک دوسرے سے پرے پھینک دیا.یہ عظیم الشان انقلاب تحریک کشمیر کے زمانہ میں ہوا جس کا مختصر مگر عجیب وغریب قصہ ہم اس وقت بیان کرنے لگے ہیں.اس تحریک کے دوران میں جماعت احمدیہ مسلمانوں سے قریب ترین جگہ پر پہنچ گئی ایسی کہ اس سے زیادہ قریب وہ کبھی نہیں پہنی تھی.اور اس تحریک کے اختتام پر اس مخفی حرکت کا آغاز ہوا جس سے وہ مسلمانوں سے دور ترین جگہ پر چلی گئی ایسی کہ اس سے زیادہ دور وہ کبھی نہیں گئی تھی تفصیل اس اجمال کی یہ ہے گو ہماری مختصر گنجائش کے لحاظ سے یہ تفصیل بھی اجمال ہی کا رنگ رکھے گی.کہ ریاست کشمیر جو پنجاب کے شمال میں ایک بہت بڑی ریاست ہے اور جو اپنے رقبہ کے لحاظ سے ہندوستان کی سب ریاستوں میں بڑی ہے اس میں ۱۹۳۱ء کے قریب آکر ایک تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے.اس ریاست کی آبادی میں مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت پائی جاتی ہے.یعنی خالص کشمیر

Page 408

۳۹۸ کے حصہ میں تو نوے فیصدی کے قریب مسلمان ہیں اور جموں اور دوسرے علاقوں کو ملا کر بھی مسلمانوں کی آبادی کم و بیش ستر فی صدی ہے.مگر چونکہ یہ ریاست ایک عرصہ سے ہندو فرمانرواؤں کے قبضہ میں چلی آئی ہے اور استبدادی حکومت کا غلبہ رہا ہے اس لئے اس کی مسلمان آبادی بہت دبی ہوئی حالت میں رہی ہے حتی کہ خالص کشمیر کے حصہ میں تو ان کی حالت قریباً قریباً غلاموں کے برابرتھی.نہ صرف یہ کہ حکومت کے معاملات میں مسلمانوں کی آواز کا کوئی دخل نہیں تھا بلکہ ہر رنگ میں مسلمان غیروں کی ایڑی کے نیچے پیسے جارہے تھے.ملازمتوں میں ان کا حصہ قریب نہ ہونے کے برابر تھا.زمینوں پر انہیں حقوق مالکانہ تک حاصل نہ تھے.اور زمینوں کی فصل پر بھی ریاست کا قبضہ ہو جاتا تھا جو اپنی مرضی کے مطابق جو قیمت چاہتی تھی زمینداروں کو ادا کرتی تھی.زمینوں کا گھاس ریاست کی ملکیت تھا جس پر انہیں بغیر ٹیکس کے جانور تک چرانے کی اجازت نہیں تھی.بیگار اس حد تک تھی کہ چھوٹے سے چھوٹا افسر جب جی چاہے مسلمان آبادی کو جنگل کے جانوروں کی طرح پکڑ کر اپنے کام پر لگا لیتا تھا.تعلیم میں مسلمان از حد پیچھے تھے اور پریس کا تو وجود ہی مفقود تھا کیونکہ عملاً کسی اخبار یا رسالہ کے شائع کرنے کی اجازت نہیں تھی.اس قسم کے حالات میں رہتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کے اخلاق بالکل پست ہو گئے تھے اور ان کی حیثیت غلاموں سے بڑھ کر نہیں تھی.حضرت خلیفہ اسی خانی کئی دفعہ کشمیر گئے اور ان حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ہر دفعہ ایک دردمند دل کے ساتھ پیچ و تاب کھا کر خاموش ہو جاتے رہے کیونکہ کشمیریوں کے جسم اور ان کی روحیں اس حد تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھیں کہ بظا ہر حالات کوئی خلاصی کا رستہ نظر نہیں آتا تھا.لیکن بالآ خر خدا نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ ان سیاہ بادلوں کی تاریک گھٹاؤں میں روشنی کی چمک نظر آنے لگی.یہ اس طرح ہوا کہ ایک انصاف پسند انسان جو کشمیر میں وزیر اعظم رہ چکا تھا وہ جب اپنے عہدہ کے فرائض سے سبکدوش ہو کر واپس آیا تو اس نے بعض اخبارات میں اس قسم کے مضامین لکھے کہ کشمیر کے لوگوں کی حالت نہایت گری ہوئی اور از حد قابل رحم ہے.اور اس نے بعض مثالیں دے دے کر اہل کشمیر کی مظلومانہ تصویر کو منقش کیا.اس پر کشمیر کے بعض پڑھے لکھے لوگوں میں

Page 409

۳۹۹ چہ میگوئی شروع ہوئی اور وہ آپس میں کہنے لگے کہ اس غلامی سے نجات پانے کا کوئی رستہ تلاش کرنا چاہئے.اس قسم کے حالات میں حکومت کشمیر کے بعض جلد باز افسروں نے اہل کشمیر کے ایک جلسہ میں گولی چلا دی.اس واقعہ کے نتیجہ میں شمالی ہندوستان میں بہت شور اٹھا کہ اس ظلم کا دروازہ بند ہونا چاہئے.اس پر حضرت خلیفہ اسی کو ایک موقعہ ہاتھ آ گیا اور آپ نے متفرق مسلمان لیڈروں کے نام تاریں بھجوائیں کہ ہمیں اس بارے میں کشمیریوں کی امداد کے لئے کچھ اقدام کرنا چاہئے.ان لیڈروں میں ہندوستان کے مشہور شاعر اور فلسفی ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور دہلی کے نامور انشا پرداز اور سجاده نشین خواجہ حسن نظامی صاحب اور بعض دوسرے مسلمان لیڈر شامل تھے.چنانچہ تجویز ہوئی کہ شملہ میں ایک میٹنگ کر کے غور کیا جائے کہ کیا کرنا مناسب ہوگا اور اس میٹنگ کے لئے ۲۵ اگست ۱۹۳۱ء کی تاریخ مقرر ہوئی.جب حضرت خلیفہ اسیح شملہ میں پہنچے اور مجوزہ میٹنگ ہوئی تو آپ نے مسلمان لیڈروں کو بہت ہی پژمردہ اور مایوس پایا اور اکثر لوگوں کی زبان سے یہی فقرہ سنا کہ حالات بہت خراب ہیں اور کچھ ہوتا نظر نہیں آتا.حضرت خلیفہ امسیح کے زور دینے پر کہ بہر حال کچھ کرنا چاہئے ان اصحاب نے اپنے گلے سے بوجھ اتارنے کے لئے کہہ دیا کہ اچھا اگر آپ کو کچھ امید ہے تو ایک کمیٹی بنادی جائے اور آپ اس کے صدر بن جائیں اور پھر اس معاملہ میں جو کچھ ہوسکتا ہو وہ کیا جائے.آ نے فرمایا کہ میرا صدر بننا مناسب نہیں کیونکہ یہ عام اسلامی سوال ہے اور میرے آگے آنے سے خواہ نخواہ بعض حلقوں میں فرقہ وارانہ سوال پیدا ہو جائے گا اور کام کو نقصان پہنچے گا اس لئے کوئی اور صاحب صدر بنیں اور میں ان کی قیادت میں کام کرنے کے لئے تیار ہوں.مگر چونکہ مسلمان لیڈر بالکل مایوس ہورہے تھے ان میں سے ہر شخص نے صدر بننے سے انکار کیا اور ایک آل انڈ یا کشمیر کمیٹی تجویز کر کے حضرت خلیفہ امسیح کو اس کا صدر بنادیا گیا.اس کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب.خواجہ حسن نظامی صاحب.خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب پنشنر سشن بج.ملک برکت علی صاحب ایڈووکیٹ ایڈیٹر صاحب انقلاب اور بعض دوسرے اصحاب قرار پائے اور سیکرٹر مولوی عبدالرحیم صاحب درد سابق مبلغ لندن مقرر کئے گئے اور کام شروع ہو گیا.

Page 410

۴۰۰ چونکہ حضرت خلیفہ اسیح سے خدا تعالیٰ نے اسیروں کی رستگاری کا کام لینا تھا اس لئے آپ کی طرف سے کام میں ہاتھ پڑتے ہی دن بدن حیرت انگیز تغیرات ہونے لگے اور خدا نے آپ کو ہر قدم پر ایسی معجزانہ کامیابی عطا فرمائی کہ چند ماہ کے قلیل عرصہ میں گویا ریاست کی کنفی آپ کے ہاتھ میں تھی.کشمیر کے دبے ہوئے لوگ جو ایک مردہ کی طرح قبروں میں پڑے تھے صور اسرافیل کے پھونکے جانے کی طرح سے قبروں سے کود کر باہر نکل آئے اور اس وسیع ریاست کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک زندگی کی لہر دوڑ گئی.یقیناً یہ کام فرشتوں کی مخفی فوج نے حضرت خلیفہ المسیح کو برومند کرنے کے لئے کیا مگر اس کے ظاہری اسباب میں اس بات کا بھی بہت بھاری دخل تھا کہ حضرت خلیفہ اسیح نے ان ایام میں دن رات ایک کر کے زمین اور آسمان کی طاقتوں کو جگا دیا.آپ نے چند ہوشیار اور قابل آدمیوں کو منتخب کر کے جن میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی زیادہ نمایاں تھے کشمیر بھجوایا جنہوں نے ایک طرف تو حضرت خلیفتہ امسیح کی ہدایات کے ماتحت کشمیر کے بعض جو شیلے نو جوانوں کو اپنے ساتھ ملایا اور دوسری طرف ریاست کے ارباب حل و عقد پر بھی دباؤ ڈالنا شروع کیا اور ریاست کے اندر پے در پے جلسے کر کے اور جتھے اور پارٹیاں بنا کر ریاست میں ایک آگ لگا دی.دوسری طرف حضرت خلیفہ ایسیح نے اپنے نمائندوں کے ذریعہ نہ صرف حکومت ہند پر اثر ڈالنا شروع کیا بلکہ ولایت کے سرکردہ اصحاب میں بھی حرکت پیدا کر دی اور اخباروں کے پراپیگنڈا کا تو کہنا ہی کیا ہے.وہ ان دنوں میں اس طرح گونج رہے تھے جس طرح پہاڑوں کے اندر ایک بھاری ہجوم کا نعرہ گونجتا ہے.ان ایام میں حالات نے اس قدر جلدی جلدی پلٹا کھایا کہ جیسے ایک تیز رو ظلم کی تصویریں سینما کے پردے پر دوڑتی ہیں اور خود حضرت خلیفتہ اسیح کا یہ حال تھا اور یہ میں اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرتا ہوں کیونکہ میں اکثر موقعوں پر آپ کے ساتھ رہا کہ آپ اس عرصہ میں گویا ہر وقت پا در رکاب تھے.آج یہاں ہیں تو کل لاہور اور پرسوں دلی اور اتر سوں وزیر آباد اور اگلے دن سیالکوٹ اور پھر راولپنڈی

Page 411

۴۰۱ اور پھر ایبٹ آباد اور پھر اس سے پرے کشمیر کی سرحد پر اور پھر کہیں اور.غرض ایک مسلسل حرکت تھی جس میں مختلف لوگوں سے ملنا.کشمیر سے آنے والے لیڈروں کی رپورٹ سننا اور ہدایات دینا.کشمیر کمیٹی کے جلسے کروانا.پریس میں رپورٹیں بھجوانا.ریاست اور گورنمنٹ کے افسروں سے ملاقات کرنا کرانا وغیرہ ہر قسم کا کام شامل تھا.اس عرصہ میں آپ نے روپیہ بھی بے دریغ خرچ کیا.صرف وہی نہیں جو کشمیر کمیٹی کے نام چندہ کے طور پر آتا تھا کیونکہ وہ بہت قلیل تھا.بلکہ خود اپنے پاس سے اور اپنی جماعت سے لے کر آپ کی اس والہا نہ جدو جہد کا ریاست کے حکام پر اس قد ر رعب تھا کہ ایک دفعہ ریاست کے ایک وزیر نے حضرت خلیفہ اسیح کے ایک نمائندہ کے سامنے لجاجت کے ساتھ کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت سب کنجی آپ کے ہاتھ میں ہے.مگر خدا کے لئے اب اس معاملہ کو زیادہ طول نہ دو اور اس وقت کے مناسب حال جو حق لینا چاہتے ہو لے لومگر ہمارا پیچھا چھوڑو اور دنیا میں ہمیں بدنام نہ کرو.ریاست کے مسلمان لیڈروں کا بھی یہ حال تھا کہ جب بعض پنجاب کے احرار لیڈر احمدیت کا سوال اٹھا کر کشمیر میں پہنچے اور لوگوں کو حضرت خلیفتہ امسیح اور ان کے نمائندوں کی طرف سے بہکانا چاہا تو انہوں نے ان احراری لیڈروں کو جو انہی کے ہم مذہب و ہم عقیدہ تھے دھتکار کر جواب دے دیا اور کہا کہ جو لوگ ہماری اس قدر بے لوث خدمت کر رہے ہیں تم ہمیں ان کی طرف سے بد گمان کرنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتے.ان ایام میں گو نام کشمیر کمیٹی کا تھا مگر پنجاب کا ہر اخبار اور منبر ومحراب حضرت خلیفتہ امسیح صدر کمیٹی کے کام سے گونج رہا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نہایت قلیل عرصہ کی جنگ کے بعد.ہاں اتنا قلیل عرصہ جو قوموں کی زندگی میں ایک سانس کی بھی حیثیت نہیں رکھتا.نہ صرف ریاست نے بلکہ ایک طرح سے حکومت انگریزی نے بھی ہتھیار ڈال دیئے اور کشمیر کا صدیوں کا غلام آنکھیں کھول کر آزادی کی ہوا کھانے لگا.اہل کشمیر کو اسمبلی ملی.حکومت میں حصہ ملا.پریس کی آزادی ملی.مسلمانوں کو ملازمتوں میں برابر کے حقوق ملے.فصلوں پر قبضہ ملا اورتعلیم میں سہولتیں ملیں اور جو بات نہیں ملی اس کے ملنے کے لئے رستہ کھل گیا.

Page 412

۴۰۲ اہل کشمیر نے اپنے پبلک جلسوں میں امام جماعت احمد یہ زندہ باد اورصدرکشمیر کمیٹی زندہ باد کے فلک بوس نعرے لگائے اور اپنی عقیدت اور شکر گزاری کے پھول آپ کے قدموں پر لا کر رکھے.اس وقت آپ کشمیر اور پنجاب کے تسلیم شدہ ہیرو تھے اور دنیا کی نظریں خیرہ ہو کر آپ کی طرف اٹھ رہی تھیں کہ اس شخص نے اس قدر قلیل عرصہ میں اور ایسے مخالف حالات کے ہوتے ہوئے کیا کا یا پلٹ دی ہے مگر یہی وہ وقت تھا کہ جب اندر ہی اندر وہ زمینی اور آسمانی طاقتیں حرکت میں آ رہی تھیں جن کی طرف ہم نے او پر اشارہ کیا ہے لیکن اس کے ذکر کا موقع آگے آتا ہے.جب کشمیر اور پنجاب میں آپ کا نام شہرت کے آسمان پرستارہ بن کر چمک رہا تھا تو اس وقت مسلمانوں کی احرار پارٹی اس پیچ و تاب میں پڑی ہوئی تھی کہ خود انہی کے ہم عقیدہ لوگ ان کو چھوڑ کرنعوذ باللہ اک بدعتی فرقہ کے امام کے قدموں پر گر رہے ہیں اور جب ان کے لیڈ رکشمیر سے ذلیل ہو کر واپس آئے اور اہل کشمیر نے ان کو حضرت خلیفہ اسیح کے نمائندوں کے مقابلہ پر دھتکار دیا تو وہ وہاں سے اس تہیہ کے ساتھ نکلے کہ اب خاک بدہنش احمدیت کو مٹا کر چھوڑیں گے.یہ اس فتنہ کی ابتدا ہے جو بعد میں احرار ہند نے جماعت احمدیہ کے خلاف بر پا کیا مگران کا فوری اقدام یہ تھا کہ کشمیر کے کام میں لوگوں کی توجہ کو حضرت خلیفہ مسیح کی طرف سے ہٹا کر دوسری طرف لگا دیا جائے.چنانچہ انہوں نے عین اس وقت جبکہ ریاست کشمیر حضرت خلیفتہ اسیح کے سامنے پس پردہ اپنے ہتھیار ڈال رہی تھی مسلمانانِ پنجاب میں اس بات کا چرچا کیا کہ ہمیں کشمیر میں جتھے لے جانے چاہئیں.اس پر بعض سمجھدار لیڈروں نے انہیں روکا اور سمجھایا کہ یہ وقت جتھوں کا نہیں اور جنگ اپنے مبارک اختتام کو پہنچ رہی ہے پس بنے بنائے کام کو بگاڑنا اور پیچیدگیاں پیدا کرنا مناسب نہیں.مگر ان لوگوں کی نیت کچھ اور تھی.انہوں نے ایک نہیں سنی اور جتھوں کی تجویز کا اعلان کر کے مسلمانوں کے ناسمجھ طبقے کو جو حضرت خلیفہ امسیح کے پراپیگنڈے کی وجہ سے پہلے سے قوت عمل سے لبریز ہو چکا تھا حرکت میں لے آئے اور جب یہ روایک دفعہ حرکت میں آگئی تو چونکہ اس قسم کی باتوں میں عامیانہ دماغ خاص تسلی اور

Page 413

۴۰۳ خوشی پاتا ہے تو اس رو نے ایسا زور پکڑا کہ ہزارہا مسلمان جتھوں میں شریک ہو کر جیل خانوں کے مہمان بن گئے اور اس طوفان بے تمیزی میں حکومت ہند کی ہمدردی بھی پلٹا کھا کر پھر ایک حد تک ریاست کے حق میں ہو گئی.اس کے بعد اہل کشمیر کو حقوق تو بے شک ملے مگر اس قدر نہیں جو اس جتھہ بازی سے پہلے ملتے نظر آتے تھے اور اندرونی باتوں کا علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جتھوں نے فی الجملہ مسلمانوں کے حقوق کو سخت نقصان پہنچایا.مگر بہر حال احرار لیڈروں نے اپنی ضد پوری کر لی اور تحریک کشمیر کو آڑ بنا کر احمدیت کے مقابل پر میدانِ کارزار میں اتر آئے.انہی دنوں میں ایک مشہور احرار لیڈر چوہدری افضل حق صاحب نے آنرز یبل سر سکندرحیات خان صاحب موجودہ وزیر اعظم پنجاب کی کوٹھی میں بیٹھے ہوئے حضرت خلیفہ مسیح کے منہ پر کہا کہ ہم نے اب یہ قطعی طور پر فیصلہ کر لیا ہے کہ احمدیت کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ لڑ کر چھوڑیں گے.لڑ وخوب لڑو.شوق سے لڑو.یہ جنگ نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے جو لڑنے والے آدم سے لے کر سرور کائنات تک لڑتے آئے ہیں.پس لڑو اور اپنے سارے جتھے اور سارے ہتھیاروں کے ساتھ لڑو.مگر یا درکھو کہ اس جنگ میں وہی جیتے گا جس کے ہاتھ پر ازل سے فتح مقدر ہے.کیونکہ خدا کا وعدہ ہے کہ:.كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلِب يَنْقَلِبُون خدا نے یہ بات لکھ رکھی ہے کہ ہر روحانی جنگ میں وہ اور اس کے رسول ہی غالب آئیں گے.اور ظالم لوگوں کو عنقریب پتہ لگ جائے گا کہ ان کی قسمت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے.خدا کے دو تازہ نشان.افغانستان ادھر جماعت احمدیہ کو احرار ہند کا یہ الٹی میٹم مل رہا تھا اور ادھر خدائے عرش آسمان پر فرشتوں کو حکم دے رہا تھا کہ کا تخت اور بہار کی سرزمین :.آجکل میری قائم کی ہوئی جماعت.میری سچی توحید کی حامل جماعت.میرے اسلام کی خادم جماعت.میری خوشی کے خلاف مگر میری اپنی ہی بنائی ہوئی تقدیر کے مطابق زمین پر پھر مظالم کا تختہ مشق بننے والی ہے تم ذرا اپنی طاقتوں کو حرکت میں لا کر اہل دنیا

Page 414

۴۰۴ کو ہوشیار کر دو کہ میری رحمت کے سایہ میں پلنے والوں کے ساتھ یہ کھیل اچھا نہیں.فرشتوں نے تقدیر کے نوشتوں میں نظر ڈالی اور حضرت مسیح موعود کے منہ سے نکلی ہوئی دوز بر دست تقدیریں چھانٹ کر الگ کر لیں.ایک تقدیر میں یہ لکھا تھا کہ جب ہمارے دو عاشق اور فدائی کا بل کی سرزمین میں ایک خود بین خاندان کے حکم سے پتھروں کی بارش سے شہید کئے جائیں گے تو ہم ایک وحشی را ہرن اور لٹیرے کے ہاتھ سے اس خاندان کی صف لپیٹ دیں گے اور اس کے بعد ایک نیک دل انسان کو بستر مرض سے اٹھا کر افغانستان کا نجات دہندہ بنائیں گے اور ہماری رحمت کے ہاتھ کا چھینٹا لے کر ملک میں پھر امن و امان قائم کرے گا اور ایک سادہ ” نادر خان پٹھان کی حیثیت سے اٹھ کر ” نادر شاہ کا ذی عزت خطاب پائے گا.مگر موت تو ہر بشر کے ساتھ لکھی ہوئی ہے پس جب اس نیک دل بادشاہ کو کوئی خودسرنو جوان قتل کر دے گا تو اے آسمان والو تم آسمان پر اور اے زمین والو تم زمین پر کہنا کہ:.آہ نادر شاہ کہاں گیا“ یہ وہ مخفی تقدیر تھی جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود پر ۱۹۰۵ء میں ظاہر فرمائی لے اور گواس وقت ابھی امان اللہ خان بھی کابل کے تخت پر نہیں آیا تھا اور نادر خان بھی گمنامی کی حالت میں پڑا تھا مگر خدائی تقدیر نے بہر حال پورا ہو کر رہنا تھا سو آہستہ آہستہ ۱۹۳۳ء میں آ کر اس مخفی تقدیر کے سارے پہلو کھل گئے اور خدا نے حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پوری فرمائی کہ امیر حبیب اللہ خان اور امیر امان اللہ خان کا خاندان تخت کا بل سے محروم ہو گا اور اس کے بعد ایک شخص نادر خان نادر شاہ کا لقب پا کر تخت پر متمکن ہو گا مگر ایک بد بخت انسان اسے گولی کا نشانہ بنادے گا اور اس وقت زمین اور آسمان دونوں پکار اٹھیں گے کہ آہ نادر شاہ کہاں گیا اور خدا نے اس پیشگوئی کو۱۹۳۳ء میں آکر اس لئے پورا فرمایا کہ تا احرار اور ان کی پشت و پناہ طاقتوں کو بتادے کہ میں زمین و آسمان کا خدا ہوں اور دنیا کی حکومتیں اور حکومتوں کے تخت میرے ہی تصرف میں ہیں.پس زمین پر میرے ایک بظاہر کمزور اور غریب بندے کو دیکھ کر اس پر حملہ کرنے میں جلدی نہ کرو کیونکہ وہ اکیلا نہیں بلکہ میں اس کے لے دیکھو تذکرہ صفحہ ۴۶۱ مطبوع ۲۰۰۴ء سے اس پیشگوئی کی تفصیل کے لئے دیکھو حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کا ٹریکٹ ایک تازہ نشان“

Page 415

۴۰۵ ساتھ ہوں اور تمہاری لڑائی اس سے نہیں بلکہ مجھ سے ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ جب کوئی بدشعار گروہ خدا کے کسی نیک بندے پر ہاتھ اٹھاتا ہے.تب وہ خدائے پاک نشان کو دکھاتا ہے غیروں پہ اپنا رُعب نشاں سے جماتا ہے کہتا ہے یہ تو بندۂ عالی جناب ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے دوسرانشان جو حضرت مسیح موعود کی بتائی ہوئی پیشگوئی کے مطابق اس زمانہ میں ظہور میں آیا وہ ۱۹۳۴ء کے زلزلہ بہار سے تعلق رکھتا ہے جس نے ایک آن کی آن میں ہندوستان کے ایک وسیع علاقہ میں قیامت کا نمونہ دکھا دیا اور زمین تہ و بالا ہو کر خدا کا جلال پکارنے لگی.یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۷ء میں فرمائی تھی لے جبکہ خدا نے آپ کو یہ بتایا تھا کہ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں ایک تباہ کن زلزلہ آئے گا جس سے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے قیامت کا نمونہ آ جائے گا اور ساتھ ہی اس کے متعلق یہ خبر دی تھی کہ یہ زلزلہ خاکسار مؤلف رسالہ ہذا کی زندگی میں آئے گا اور خاکسار ہی اس پیشگوئی کو لوگوں کے سامنے لانے والا بنے گا.چنانچہ عین حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق یہ زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں آیا.اس نے قیامت کا نمونہ بر پا کر دیا.وہ میری زندگی میں آیا.اور خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ سب سے پہلے میری ہی نظر اس پیشگوئی کی طرف مبذول ہوئی اور پھر میں ہی اسے لوگوں کے علم میں لایا ہے اس پیشگوئی کو بھی خدا نے اپنی قدیم مصلحت کے مطابق موجودہ زمانہ کے لئے محفوظ رکھاتا کہ جنگ کا الٹیمیٹم دینے والوں کو بتا دے کہ اپنے وسیع جتھوں اور وسیع علاقوں کی طاقت پر نازاں نہ ہو کیونکہ احمدیت کا خدا وہ قادر خدا ہے جو دنیا کی وسیع آبادیوں اور دنیا کے وسیع علاقوں کو ایک آن کی آن میں تباہ کر کے رکھ سکتا ہے.پس ہم پھر کہتے ہیں کہ اے ہمارے ساتھ جنگ کرنے والو.لڑو اور خوب لڑو.ہم تمہاری لڑائی سے ڈرتے نہیں بلکہ اسے خدا کی زبر دست قدرتوں کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں.کیونکہ ہم بارہا تجربہ کر چکے ہیں کہ جب بھی زمین کی طاقتیں ہمیں بھسم کرنے کے لئے ایک آگ ے دیکھو تذکرہ صفحه ۵۹ مطبوع ۲۰۰۴ء ۲ اس پیشگوئی کے مفصل حالات کے لئے دیکھونا کسارمولف رسالہ ہذا کا رسالہ ” ایک اور تازہ نشان“

Page 416

۴۰۶ جلاتی ہیں تو وہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ہمارا قادر خدا رحمت کی زور دار بارش کے لئے آسمان پر حرکت میں آتا ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود نے ہمیں پہلے سے تسلی دے رکھی ہے کہ :.دیکھ کر لوگوں کا جوش وغیظ مت کچھ غم کرو شدت گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار دور جدید اور تحریک جدید:.جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اللہ تعالی نے حضرت خلیفہ اسیح ثانی کو تحریک کشمیر میں ایک معجزانہ اور عدیم المثال کامیابی عطا فرمائی اور کشمیر کے کم و بیش تمھیں لاکھ مسلمان آپ کے دم کی برکت سے غلامی کی زنجیروں سے رہائی پاگئے اور خدا کا وہ فرمان پورا ہوا جو اس نے آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود کی زبان پر ۱۸۸۶ء میں جاری فرمایا تھا کہ :.” وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا“ مگر یہ تحریک کئی مخفی طاقتوں کو بیدار کرنے کا باعث بن گئی.چنانچہ اوّل تو اس کے نتیجہ میں احرار کا فتنہ پیدا ہوا.دوسرے نو تعلیم یافتہ مسلمانوں کا وہ طبقہ بھی جو احرار سے تو الگ تھا مگر احمدیت کے روز افزوں اثر و رسوخ کو دیکھ کر خائف ہورہا تھا چونک پڑا اور اس اٹھتے ہوئے پودے کو مسل دینے کے لئے آمادہ ہو گیا.تیسرے خود حکومت انگریزی کے بعض افسر بھی اپنی غلطی اور کو تہ بینی سے جماعت کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اپنے لئے خطرہ کا موجب سمجھ کر اسے دبانے اور مثانے کی فکر میں لگ گئے.دوسری طرف ان خطرات کو دیکھ کر آسمانی طاقتیں بھی حرکت میں آئیں تا کہ آنے والے ایام کے لئے جماعت کو ہوشیار و تیار کر دیں اور خدائے علیم نے فیصلہ فرمایا کہ قدیم سنت اللہ کے مطابق جماعت کے رستہ میں کچھ ابتلا پیدا کئے جائیں تا کہ وہ ان ابتلاؤں میں سے صاف ہو کر اور دھل کر آگے جائے.اس طرح تحریک کشمیر کے اختتام پر جماعت نے اچانک دیکھا کہ اس کے سامنے چار طاقتیں صف آرا ہیں.تین مخالف طاقتیں اس کو مٹانے کے لئے اور چوتھی موافق طاقت اس کو بنانے کے لئے.ان تین طاقتوں کا ہاتھ ایک خونخوار دشمن کی طرح اس کے سر پر اٹھ رہا تھا کہ بس بہت بڑھ چکے اب آگے نہیں اور چوتھی طاقت کا ہاتھ ایک مشفق ماں کے رنگ میں اس کے سامنے پھیلا ہوا تھا کہ

Page 417

۴۰۷ بیٹا! سامنے کی طرف دیکھو اور اپنے آپ کو اس خطرہ کے مقابلہ کے لئے تیار کرتے ہوئے آگے بڑھو.جماعت احمدیہ کے دور بین امام نے ایک نظر میں ہی ان سارے زمینی اور آسمانی انقلابوں کو بھانپ لیا اور روح القدس نے آپ کے دل میں الہام کیا کہ جماعت کے لئے یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے.آپ کی اولوالعزم ہمت ان خطروں کو دیکھ کر اور بھی بلند ہوئی اور آپ نے فرمایا خدا کا لایا ہوا ہر دور مبارک ہے.ہم بھی اس جدید دور میں ایک جدید تحریک کی داغ بیل قائم کریں گے.اور ایک طرف اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اور دوسری طرف دشمن پر وار کرتے ہوئے آگے نکل جائیں گے.یہی وہ تحریک جدید ہے جو اس وقت جماعت کے سامنے ہے.جماعت احمدیہ کے نئے خطرات کا آغاز تحریک کشمیر کے آخری ایام میں ہو چکا تھا اور اندر ہی اندرز بر دست کھچڑی پک رہی تھی.۱۹۳۴ء کے شروع میں احرار نے مرکز میں چند کارکن بھجوا کر اپنا دفتر قائم کیا اور فتنہ کی آگ جلا کر اسے ہوا دینے لگ گئے.احرار مسلمانوں کی ایک نیم مذہبی نیم پولیٹیکل پارٹی کا نام ہے جس کی صحیح تعریف مشکل ہے البتہ اس لفظ کے لغوی معنوں کو دیکھا جائے جو آزاد اور بے قید کے ہیں تو اس سے اس پارٹی کے اصولوں کے متعلق ایک موٹا اندازہ ہوسکتا ہے اور وہ یہی ہے کہ اس پارٹی کا کوئی اصول نہیں بلکہ وہ بے قید ہو کر ہر کام میں دخل دے سکتی اور ہر کام سے الگ رہ سکتی ہے.اس پارٹی کے بعض لیڈر کسی وقت کانگرس میں شامل تھے پھر اس کے بعد اس سے جدا ہو گئے اور اب پھر اسی کی طرف جھک رہے ہیں.بہر حال اس پارٹی نے جس میں بعض جو شیلے مولوی بھی شامل ہیں احمدیت کے مقابلہ کا تہیہ کر کے قادیان میں اپنا دفتر قائم کیا اور اس دفتر کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ نہ صرف قادیان کے اندر جماعت احمدیہ کو تنگ کرنے اور نقصان پہنچانے اور بدنام کرنے کا طریق اختیار کرے بلکہ قادیان کے اردگرد اور آس پاس کے علاقہ میں بھی جماعت کے متعلق مغویانہ پرا پیگنڈا کر کے احمدیت کے خلاف ایک جتھہ اور پارٹی بنالے.اس کام کے لئے احرار نے چند ایسے لوگوں کو چنا جو اس قسم کی باتوں میں خاص طور پر مشاق تھے.دوسری طرف چونکہ اتفاق سے انہی ایام

Page 418

۴۰۸ میں خان بہادرمیاں سر فضل حسین صاحب مبر گورنمنٹ آف انڈیا اپنی میعاد کوختم کر کے ممبری کے عہدہ کو خالی کرنے والے تھے اور ان کی جگہ کسی مسلمان نے مقرر ہونا تھا.اور گورنمنٹ کا یہ خیال تھا کہ اس عہدہ پر چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کو مقرر کرے اس لئے احرار اور ان کے رفقاء نے اس تجویز کو بھی اپنا آلہ کار بنا کر نہ صرف اس کی مخالفت میں اخباری پراپیگنڈا شروع کر دیا بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف پرانے کفر کے فتویٰ کو از سر نو تازہ کر کے ملک کے طول وعرض میں یہ آگ لگا دینی چاہی کہ چونکہ احمدی لوگ مسلمان نہیں ہیں اس لئے کوئی احمدی کسی حیثیت میں بھی مسلمانوں کا نمائندہ نہیں بن سکتا.چوہدری صاحب موصوف کے متعلق تو بعض غیر معمولی حالات کی وجہ سے ان لوگوں کی تجویز کارگر نہ ہو سکی مگر اس ذریعہ سے انہوں نے ملک کے ایک طبقہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک زہریلا ماحول پیدا کر دیا.قادیان میں بھی انہوں نے آہستہ آہستہ مقامی غیر احمدی اور غیر مسلم آبادی کے ایک حصہ کو اپنے ساتھ ملا کر اور کچھ حصہ گردونواح کی آبادی کا بھی اپنے ساتھ جوڑ کر فتنے کے شرارے پیدا کرنے شروع کر دیئے اور جب کچھ اثر قائم کر لیا تو اس اثر کو وسیع کرنے کے لئے انہوں نے اکتوبر ۱۹۳۴ء کے تیسرے ہفتہ میں قادیان میں ایک بھاری کا نفرنس منعقد کرنے کی تجویز کی اور اس کانفرنس کے حق میں بڑے زور سے پراپیگنڈا کیا گیا.چونکہ نہ صرف قرائن سے اور نہ صرف ان لوگوں کی سابقہ تاریخ سے بلکہ بعض معین ذرائع سے بھی یہ معلوم ہو چکا تھا کہ اس کا نفرنس کے منعقد کرنے میں ان کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کسی طرح قادیان میں ایک بلوہ کی صورت پیدا کر کے جماعت احمدیہ کو جانی اور مالی نقصان پہنچایا جاوے اس لئے ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر جماعت کے ایک ناظر نے اپنی ذمہ واری پر حضرت خلیفہ اسی کی اطلاع اور اجازت کے بغیر قریب قریب کی احمد یہ جماعتوں کو پیغام بھجوادیا کہ کانفرنس کے ایام میں احرار کی طرف سے اس اس طرح کے خطرہ کا امکان ہے اس لئے آپ لوگ تیار رہیں تا کہ حسب ضرورت وقت پر پہنچ کر شرارت کا انسداد کر سکیں.جب حضرت خلیفتہ اسیح کو اس تجویز

Page 419

۴۰۹ کی اطلاع ملی تو آپ نے فوراً اس ہدایت کو منسوخ کروا دیا اور فرمایا کہ یہ طریق مناسب نہیں کیونکہ جب گورنمنٹ کے افسر تسلی ولاتے ہیں کہ ہم ہرقسم کا انتظام خود کریں گے تو ہمیں اس قسم کا اقدام کر کے کوئی نام نبی نہیں پیدا کر نی چاہئے.لیکن حضرت خلیفہ مسیح کی طرف سے اس صریح ہدایت کے جاری ہو جانے کے باوجود گورنمنٹ کے اس طبقہ نے جو جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی اہمیت سے ہوشیار ہوکر اس پر ہاتھ ڈالنا چا ہتا تھا نظر مذکور کی سابقہ ہدایت کو آڑ بنا کر اور اسے غلط طور پر حضرت خلیفہ مسیح کی طرف منسوب کر کے آپ کے خلاف ۱۷ راکتو بر ۱۹۳۴ء کو ایک نہایت نامعقول اور سراسر گستاخانہ نوٹس جاری کر دیا کہ تم اس قسم کے اقدام سے مجتنب رہو ورنہ ہم قانونی کارروائی کریں گے.اور اس طرح ایک آنی فانی ڈرامہ کے رنگ میں احمدیت کے خلاف وہ ساری طاقتیں میدان عمل میں جمع ہوگئیں جن کا ہم اس مضمون کے شروع میں ذکر کر چکے ہیں.یعنی اول احرار جو ایک فیصلہ شدہ پروگرام کے ماتحت قادیان پر حملہ آور تھے اور اس وقت انہی کے ساتھ مسلمانوں کا وہ دوسرا طبقہ بھی شامل تھا جو احمدیت کے خلاف ہوشیار ہو کر اپنی معاندانہ کارروائیوں کو شروع کر چکا تھا.اور دوسرے حکومت کا وہ حصہ جواب احرار کا نفرنس کے موقعہ پر بے نقاب ہو کر سامنے آ گیا.اس کے بعد کچھ عرصہ تک کی تاریخ سیاہ بادلوں کی گرجوں اور بجلی کی مہیب کڑکوں میں سے ہوکر گزرتی ہے جس کا کسی قدر اندازه ان اخباروں کے فائلوں سے لگ سکتا ہے جو ان ایام میں اس تاریخ کو قلم بند کرنے میں مصروف تھے مگر اصل اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے ان دنوں میں ایک طرف تو حضرت خلیفہ اسیح کے خطبات کو سنا اور دوسری طرف قادیان میں احرار اور افسران حکومت کی کارروائیوں کو خود اپنی نظر سے ملاحظہ کیا.ان ایام کی تاریخ اگر ایک طرف نہایت درد ناک ہے تو دوسری طرف نہایت شاندار بھی ہے.درد ناک اس لئے کہ مخالف طاقتوں نے نہایت اوچھے ہتھیاروں پر اتر کر جماعت کو ہر رنگ میں دکھ پہنچانے اور ذلیل کرنے اور نیچے گرانے کی کوشش کی.جس کی تفصیل کی اس جگہ ضرورت نہیں اور شاندار اس لئے کہ حریف کی ہر چوٹ نہ صرف

Page 420

۴۱۰ حضرت خلیفتہ اسیح کو ہوشیار پاتی تھی بلکہ اس ربڑ کے گیند کی طرح جو ضرب کھا کر اور بھی اونچا اچھلتا ہے ہمارے امام کا ہر قدم ہر ضرب کے بعد پہلے سے زیادہ بلند جگہ پر پڑتا تھا.اس کشمکش کی شدت چند دن نہیں چند یتے نہیں چند مہینے نہیں بلکہ دو ڈھائی سال تک جاری رہی مگر اس طویل جنگ میں حضرت خلیفہ اسیح نے ایک منٹ کے لئے بھی جماعت کے سر کو نیچا نہیں ہونے دیا بلکہ آب ایک متلاطم سمندر کی مہیب لہروں اور مواج پانیوں کے تباہ کن بھنوروں میں سے کی چھوٹی سی کشتی کو جس پر اس وقت ساری دنیا کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں بچتے بچاتے مگر احدیت کا جھنڈا لہراتے طوفان سے باہر نکال لائے.اس مثلث اور عجیب و غریب جنگ کی تاریخ کا ایک حصہ تو اخباروں کے فائلوں میں ہے اور پبلک کی ملکیت ہے.دوسرا حصہ اور گورنمنٹ کے دفتری ریکارڈ میں ہے اوراکثر لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے.اور تیسرا حصہ اور یہی سب سے زیادہ عجیب و غریب ہے صرف چند لوگوں کے دماغوں میں ہے اور غالباوہ کبھی شرمندہ عریانی نہیں ہوگا.مگر بہر حال نتیجہ یہ ہے کہ احرار کی آب دوز کشتی جس سے وہ احمدیت کو تباہ کرنے کے لئے نکلے تھے تاجدار احمدیت کی پے در پے ضر میں کھا کر پیچھے ہٹی اور پھر ایک خدا کی تیار کی ہوئی چٹان یعنی شہید گنج کے سے ٹکرا کر سمندر کی تہ میں بیٹھ گئی.اور اب صرف اس کے چند شکستہ تختے پانی کی سطح پر ادھر ادھر بہتے نظر آ رہے ہیں.اور گورنمنٹ کے بعض افسروں کا ابال بھی اپنے اس انجام کو پہنچ گیا جس کی تفصیل کی اس جگہ ضرورت نہیں.ہاں مسلمانوں کے اس دوسرے طبقہ کی عداوت کی آگ ابھی تک کم و بیش سنگ رہی ہے اور نا اہا جب تک کہ جماعت احمد یہ اپنے اس تعمیری پروگرام کو مکمل نہ کرلے گی جس کی حضرت خلیفہ اسیح نے تحریک جدید میں بنیاد قائم کی ہے یہ آگ سلگتی ہی چلی جاوے گی اور پھر وہی ہو گا جو خدا کو ازل سے منظور ہے.مگر بظاہر ان دب جانے شہید گنج لاہور میں ایک پرانی مسجد تھی جو سکھوں کے زمانہ میں گوردوارہ بنالی گئی.پنجاب کے مسلمانوں میں اس کے حاصل کرنے کے لئے ۱۹۳۶ء میں زبردست ہیجان پیدا ہوا.اس مہیجان میں احرار ہند نے جمہور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر سکھ لیڈروں کے ساتھ ساز باز کرنی چاہی اور اسلامی مفاد کو اپنے پاؤں کے نیچے مسل دیا.جس کی وجہ سے مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ احرار کی طرف سے سخت بدظن ہو گئے اور انہیں غذار ملت قرار دے کر ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور اسکے ساتھ ہی احمدیت کو مٹانے کا وہ سارا طلسم جو ان لوگوں نے جمہورمسلمانوں پر کر رکھا تھا دھواں ہوکر اڑ گیا.

Page 421

۴۱۱ والے فتنوں کے متعلق بھی ہمارا امام ہمیں بتاتا ہے کہ ابھی اپنے آپ کو امن میں نہ سمجھو کیونکہ یہ ایک وقتی سکون ہے اور میں دور کی افق میں اب بھی بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک سن رہا ہوں.بہر حال ان فتنوں کی لہر اٹھی اور اب دلی ہوئی ہے مگر تحر یک جدید ایک مستقل چیز تھی اور ٹھہرنے کے لئے آئی ہے.حضرت خلیفہ مسیح نے اس جدید نظام کو مذکورہ بالا فتنہ کے آغاز میں ہی جماعت کے سامنے پیش کر دیا تھا اور فرما دیا تھا کہ فتنہ ٹھہرے یا جائے یہ چیز بہر حال ٹھہرے گی اور جماعت کا آئندہ قدم اسی بنیاد پر اٹھے گا چنانچہ آج پانچ سال گزر رہے ہیں کہ جماعت اس رستہ پر گامزن ہے.یہ رستہ کیا ہے؟ اول جماعت کی عملی اور اخلاقی اور دینی تربیت کا ایک نیا پروگرام جس میں سادہ زندگی.معمور الاوقات زندگی.قربانی کی زندگی اور روحانی وسائل کا بیش از پیش استعمال نمایاں ہے.مثلاً سوائے خاص موقعوں کے ایک سے زیادہ کھانا نہ کھاؤ.سینما اور تھیٹر نہ دیکھو.بریکار نہ رہو اور اگر کام نہ ملے تو اپنے وقت کو دین کی خدمت میں لگا دو.ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالو اور کسی جائز کام کو بھی اپنے شان کے خلاف نہ سمجھو.حقیقی ضرورت کےسوالباس اور زیورات میں روپیہ نہ ضائع کرو.اپنے اخراجات کو کم کرو اور دینی اور جماعتی ضروریات کے لئے زیادہ سے زیادہ روپیہ بچاؤ.رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھو.اور دعاؤں کو ایک زندہ چیز سمجھ کر خدا کے آستانہ پر گرے رہو وغیرہ وغیرہ.دوم جماعت کی تبلیغ کا ایک عالمگیر پروگرام جس میں ہندوستان کے مختلف حصوں کی تبلیغ.جملہ بیرونی ممالک کی تبلیغ.آنریری کارکنوں کے ذریعہ تبلیغ تنخواہ دار مبلغوں کے ذریعہ تبلیغ.خاص خاص علاقوں میں تبلیغ کی پر زور مہم اور تبلیغ کے لئے مختلف علاقوں کی سروے وغیرہ شامل ہیں.مثلاً ملازم پیشہ لوگ

Page 422

۴۱۲ ایک ایک دو دو اور تین تین ماہ کی رخصت لے کر اپنے آپ کو ہندوستان کی تبلیغ کے لئے پیش کریں.نوجوان اپنی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مگر کام ملنے سے پہلے حسب حالات اپنی زندگیوں کو سلسلہ کی تین سالہ خدمت کے واسطے وقف کریں.بیکار جنہیں ہندوستان میں کام نہیں ملتا وہ مرکز سلسلہ کے مشورہ کے ماتحت مختلف بیرونی ممالک میں نکل جائیں.قادیان کے گردونواح کے علاقہ میں تبلیغ کی مخصوص مہم جاری کی جائے اور بعض نئے علاقوں کی تبلیغی سروے کروائی جائے نیز جماعت احمدیہ کے پریس کو بھی زیادہ مضبوط اور زیادہ وسیع کیا جاوے وغیرہ وغیرہ.سوم بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دی جاوے.مثلاً سوائے کسی حقیقی مجبوری کے جماعت کے سب لوگ جن کے لئے ایسا کرنا ممکن ہے قادیان میں اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے بھجوائیں.اور سلسلہ کے قائم کردہ بورڈنگوں میں ان کو رکھیں جہاں خاص اصول کے ماتحت ان کی تربیت کی جاوے.اور والدین اپنے بچوں کو اعلی تعلیم میں ڈالنے سے پہلے سلسلہ کے مرکزی کارکنوں سے مشورہ لیا کریں جو بچوں کے رجحان اور والدین کے حالات کے علاوہ سلسلہ کی ضروریات کو بھی اس مشورہ میں ملحوظ رکھیں وغیرہ وغیرہ.چهارم مرکز سلسلہ کی مورچہ بندی کا خاص پروگرام شروع کیا جاوے.مثلاً جن جن احمدیوں کو توفیق ہو وہ قادیان میں اپنا مکان بنائیں.قادیان میں جائداد خریدیں اور قادیان کے اردگرد بھی جہاں تک ممکن ہو سلسلہ کی جائداد پیدا کی جاوے.اور مرکز کے ماحول میں اپنے اثر کو زیادہ مضبوط اور زیادہ پختہ کر دیا جائے.اور اس غرض کے لئے روپیہ اس طرح فراہم کیا جائے کہ ہر احمدی جسے توفیق ہو وہ اپنی آمد کے ۱٫۵ سے ۱٫۳ حصہ تک ایک میعادی امانت

Page 423

۴۱۳ کے طور پر مرکزی نظام کے سپر دکر دے وغیرہ وغیرہ.پنجم سلسلہ کی ضروریات کے لئے ایک مستقل ریز روفنڈ قائم کیا جائے جو کم از کم پچیس لاکھ روپے کا ہو اور اس سے ایسی محفوظ اور فائدہ مند جائداد پیدا کی جاوے جس کا نفع سلسلہ کے تبلیغ کی موجودہ اور عام ضروریات کے لئے مکتفی ہو سکے.ششم مگر بایں ہمہ آئندہ جہاں تک ممکن ہو ظاہری اسباب کے ماتحت سلسلہ کے کاموں کی بنیا دروپے پر نہ رکھی جائے بلکہ کارکنوں کے اخلاص اور جانفشانی پر اس کی بنیاد ہو اور جماعت میں اس روح کو ترقی دی جائے کہ لوگ آنریری خدمات پیش کر کے یا کم تنخواہیں لے کر زیادہ کام کرنے کی عادت ڈالیں.اسی ذیل میں یہ بھی تحریک کی جائے کہ جولوگ اپنی ملازمتوں سے ریٹائر ہو جائیں وہ اس کے بعد قادیان آ کر آباد ہوں اور اپنی آنریری خدمات سلسلہ کے سپرد کر دیں.وغیرہ وغیرہ یہ اس’ تحریک جدید کے اصولوں کا ایک مختصر ڈھانچہ ہے جو حضرت خلیفتہ امسح ثانی نے ۱۹۳۴ء کے آخر میں جماعت احمدیہ کے سامنے پیش فرمائی.اس تحریک کے مالبات انیس تھے جنہیں ہم نے اختصار کے خیال سے چھ جامع فقروں میں جمع کر دیا ہے اور ہم نے اس جگہ دانستہ بعض حصوں کی تفصیل بیان نہیں کی.کیونکہ اس سکیم کے بعض پہلو ایسے ہیں کہ ان کے تفصیلی اظہار سے جماعت کے دشمن ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں.ممکن ہے کہ ہمارے بعض ناظرین جوز زیادہ گہرے مطالعہ کی عادت نہیں رکھتے یہ خیال کریں کہ ان باتوں میں سے بعض باتیں معمولی نوعیت کی ہیں جو جماعت احمدیہ کے سابقہ طریق کار میں بھی شامل تھیں اور ہر منظم جماعت کے پروگرام میں شامل ہوتی ہیں لیکن یہ خیال تین لحاظ سے غلط ہو گا اول ان مطالبات میں بہت سی باتیں نئی ہیں یا اگر وہ نئی نہیں تو انہیں نئے رنگ

Page 424

۴۱۴ میں پیش کیا گیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ایک سکیم کی چند نئی باتیں بھی اس کے بقیہ حصہ میں نئی جان ڈال دینے کے لئے کافی ہوتی ہیں.دوسرے ان سب باتوں کے تفصیلی اور عملی اجراء میں کئی لحاظ سے جدت ہے جس کے بیان کی اس جگہ ضرورت نہیں اور تیسرے بڑی بات یہ ہے کہ اس سکیم کے پیچھے جو روح ہے وہ بالکل نئی ہے جو غیر معمولی جوش اور ولولہ کے ساتھ اٹھ کر بر سر مل آئی ہے.جس کی وجہ سے نہایت شاندار نتیجے پیدا ہورہے ہیں.مثلاً میں تحریک جدید کے بہت سے بابرکت نتائج میں سے اس جگہ مثال کے طور پر صرف تین عملی نتیجے بیان کرتا ہوں.(۱) تحریک جدید کے انتظام کے ماتحت اس نئی روح کے ساتھ جس نے کام کو کئی لحاظ سے آسان اور سستا کر دیا ہے ان تین چار سالوں کے قلیل عرصہ میں مندرجہ ذیل نئے بیرونی مشن جاری ہو چکے ہیں جوان مراکز تبلیغ کے علاوہ ہیں جو اس سے پہلے قائم تھے.خلاصہ کے خیال سے میں انہیں ایک نقشہ کی صورت میں درج ذیل کرتا ہوں :.نمبر شمار نام ملک سال قیام کیفیت مشن سنگا پور (ملایا ) ۱۹۳۵ء ہانگ کانگ (چین) ۱۹۳۵ء جاپان ۱۹۳۵ء २ پین ١٩٣٦ء 3 ہنگری ١٩٣٦ء

Page 425

رشمار نام ملک ۶ ۴۱۵ سال قیام مشن البانيا ١٩٣٦ء یوگوسلاویا ١٩٣٦ء ارجنٹائن (جنوبی امریکہ) ۱۹۳۶ء اٹلی یولینڈ ١٩٣٧ء ١٩٣٧ء ان مشنوں میں سے بعض مشن جنگ کی وجہ سے عارضی طور پر بند ہیں مگر اکثر صورتوں میں ان ممالک کے مبلغ واپس نہیں آئے بلکہ قریب کے ممالک میں منتقل کر دیئے گئے ہیں.اور ان با قاعدہ مشنوں کے علاوہ حضرت خلیفتہ امسیح کی یہ اپیل بھی بہرے کانوں پر نہیں پڑی کہ سلسلہ کے بریکارنو جوان بیرونی ملکوں میں نکل جائیں اور روزی کی تلاش کے علاوہ سلسلہ کی تبلیغ کا کام بھی کریں چنانچہ اس کی ایک مثال بیان کرتا ہوں کہ ایک نوجوان درزی جو زیادہ پڑھا ہوا بھی نہیں تھا کشمیر اور گلگت کے رستے ہوتا ہوا اور اکثر پیدل سفر کرتا ہوا نکل گیا اور بالآخر چینی ترکستان میں پہنچ کر اس دور دراز اور پر از خطرات ملک میں احمدیت کا جھنڈا گاڑ دیا چنانچہ اب اس علاقہ میں احمدیت کا بیج بویا جا چکا ہے اور آجکل کا شغر کا ایک مخلص خاندان قادیان میں زیر تربیت ہے.(۲) سلسلہ کے لئے تحریک جدید کے خاص چندوں کی مدد سے اور کسی قدر دیگر محاصل کو ملا کر سلسلہ کے مستقل فنڈ کے طور پر سندھ کے علاقہ میں جو خاص طور پر کپاس اور نیشکر کی کاشت کے لئے موزوں ہے قریباً پندرہ لاکھ روپے کی نہری

Page 426

اراضیات خریدی جا چکی ہیں.چونکہ یہ سودا قیمت کی بالا قساط ادائیگی کے اصول پر ہوا ہے اور ساتھ ساتھ زمین آمد بھی دے رہی ہے اس لئے تھوڑی رقم خرچ کر کے زیادہ مالیت کی جائداد حاصل کی جاسکی ہے اور مزید حاصل کرنے کی کوشش ہے اور امید ہے کہ جب ان اراضیات کی ساری قیمت بے باق ہو جائے گی تو ان کی آمد سلسلہ کی موجد اور عام تبلیغی ضروریات کے لئے بڑی حد تک کافی ہو سکے گی.اسی ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت خلیفتہ اسیح کی پُر زور اپیل کے جواب میں جماعت احمدیہ نے باوجود بہت سے مالی بوجھوں کے اس اخلاص اور اس قربانی کے ساتھ تحریک جدید کے چندوں میں حصہ لیا ہے کہ جس کی نظیر کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی.(۳) تحریک جدید کے نئے قائم شدہ میعادی امانت فنڈ کے ذریعہ سے مرکز کے ماحول میں غیر معمولی نفوذ حاصل کر لیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے جس کی تفصیل کی اس جگہ ضرورت نہیں.اس کے علاوہ جماعت کے پریس میں بھی قابل قدراضافہ ہوا ہے اور تحریک جدید کا انگریزی اخبارسن رائز انگریزی خوان ممالک میں بہت اچھی خدمات سرانجام دے رہا ہے.مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ احمدیت کی پرانی شراب نے تحریک جدید کے نئے برتن میں آکر جماعت احمدیہ میں ایک غیر معمولی بیداری اور فرض شناسی اور جانفشانی کی روح پیدا کر دی ہے.اور خدا کے برگزیدہ مسیح کی فوج اپنے اولوالعزم خلیفہ کی کمان میں کمر ہمت کو کس کر اور اپنے سامنے اور گردو پیش کے خطرات پر نگاہ رکھتے ہوئے بڑی سرعت اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور چونکہ ابھی تک ہم تحریک جدید کے پروگرام کے صرف ابتدائی حصہ میں ہیں اس لئے خدا سے امید کی جاتی ہے کہ اس نئے دور کے انجام تک اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے لئے غیر معمولی ترقی کے راستے کھول دے گا.

Page 427

۴۱۷ خدام الاحمدیہ :.۱۹۳۸ کے شروع میں حضرت خلیفتہ امی نے خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی.اس کی بڑی غرض و غایت جماعت کے نوجوانوں کی تنظیم و تربیت تھی تا کہ ان نو نہالوں کو اس اہم کام کے قابل بنایا جا سکے جو کل کو ان کے کندھوں پر پڑنے والا ہے.اس انجمن کے موجودہ پروگرام میں منجملہ دیگر امور کے مندرجہ ذیل باتیں زیادہ نمایاں ہیں :.اوّل خدمت خلق یعنی خدام الاحمدیہ کے ہر ممبر کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو صحیح معنوں میں ملک وقوم کا خادم بنائے اور خادم بن کر رہے اور اس انجمن کا یہ فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ممبروں میں خدمت خلق کے جذبہ کو ترقی دے.دوم لوگوں کے دلوں میں اس احساس کو پیدا کرنا اور انہیں اس کی عملی تربیت دینا کہ کوئی کام بھی انسان کی شان سے بعید نہیں اور یہ کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا انسان کے لئے موجب عزت ہے نہ کہ باعث ذلت و شرم.سوم جماعت کے ناخواندہ لوگوں کی پرائیویٹ تعلیم کا انتظام کرنا تا کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو ان پڑھ ہو.بلکہ ہر احمدی تعلیم کے اقل معیار کو پہنچ جائے.اور اس غرض کے لئے لوگوں کی آنریری خدمات لے کر رات کے پرائیویٹ مدارس وغیرہ قائم کرنا.چہارم جماعت کے اندر خلیفہ وقت اور نظام سلسلہ کے متعلق جذبات اخلاص و محبت و وفاداری کو ترقی دینا.وغیرہ وغیرہ سوخدا کے فضل سے یہ سارے کام ” خدام الاحمدیہ کے ذریعہ سے بڑی خوبی کے ساتھ سر انجام پا رہے ہیں.اور یہ تنظیم احمدی نوجوانوں میں ایک غیر معمولی قوت عمل اور خدمت خلق کا جذبہ پیدا کر رہی ہے مگر افسوس ہے کہ میں اس جگہ ان کاموں کی تفصیل میں نہیں جاسکتا.البتہ نمونہ کے طور پر مختصر الفاظ میں صرف اس کوشش کا ذکر کئے دیتا ہوں جو وقار عمل کے شعبہ میں کی جارہی ہے.اس غرض

Page 428

۴۱۸ کے ماتحت حضرت خلیفہ اسیح کی ہدایت یہ ہے کہ ” خدام الاحمدیہ ہر دوسرے مہینہ ایک دن ایسا منایا کرے جس میں قادیان کے سارے احمدی مرد ( یعنی بچے جوان اور بوڑھے ) بلا امتیاز حیثیت اکٹھے ہو کر کسی قسم کے رفاہ عام کے کام میں اپنے ہاتھ سے مزدوروں کی طرح کام کیا کریں اور اس وقت ہر غریب و امیر اور افسر و ماتحت اور نوکر و آقا اور خور دو کلاں اپنے سارے امتیازات کو ایک طرف رکھ کر مزدور کے لباس میں حاضر ہو جایا کرے.چنانچہ یہ دن با قاعدہ منایا جاتا ہے اور اس دن کا نظارہ بہت ہی روح پرور ہوتا ہے.کیونکہ اس دن سب لوگ بلا امتیاز اور بلا تفریق ایک ہی کام میں ہاتھ ڈال کر اسلامی مساوات کی روح کو زندہ کرتے ہیں.اگر آقا کے ہاتھ میں ٹوکری ہوتی ہے تو نوکر کسی سے مٹی کھودتا ہے اور اگر آقامٹی کھودتا ہے تو نوکر ٹوکری اٹھائے پھرتا ہے.اور غریب وامیر اور افسر و ماتحت سب مٹی کے اندرلت پت نظر آتے ہیں.یہ سلسلہ کئی گھنٹہ تک جاری رہتا ہے اور پھر اس عمل محبت کو روحانیت کا خمیر دینے کے لئے ایک گھنٹی بجتی ہے اور سب لوگ کام سے ہاتھ کھینچ کر خدا کے دربار میں دعا کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں.اور یہاں پھر وہی محتاج وغنی کی مساوات اپنا رنگ دکھاتی ہے.یہ سلسلہ کئی لحاظ سے بہت مفید ثابت ہو رہا ہے.اوّل اس طرح ہر شخص کو ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے اور مغرور انسان اس مکروہ جذبہ سے رہائی پاتا ہے.کہ بعض کام میری شان سے نیچے ہیں.دوم آپس میں اخوت و مساوات اور اختلاط کی روح ترقی کرتی ہے اور سوسائٹی کے مختلف طبقات میں کسی قسم کی نا گوار لیج حائل ہونے نہیں پاتی.سوم بعض مفید قومی یا شهری کام آخر بری طریق پر بغیر کسی خرچ کے سرانجام پا جاتے ہیں اور پھر جب کبھی خود حضرت خلیفتہ اسیح اس مبارک تقریب میں شریک ہو جاتے ہیں اور گردوغبار سے ڈھکے ہوئے ادھر ادھر ٹوکری اٹھائے پھرتے نظر آتے ہیں تو پھر تو یہ وقار مل کا سبق دنیا کے سارے سبتوں میں سے زیادہ گہرا اور زیادہ دیر نقش پیدا کردیتا ہے.حضرت خلیفہ اسی کے خطبات و تقاریر : حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح ثانی کے عہد خلافت کی تصویر نامکمل رہے گی اگر آپ کے خطبات اور تقاریر کا ذکر نہ کیا جاوے کیونکہ آپ کے سوانح

Page 429

۴۱۹ کا ایک نمایاں پہلو آپ کے وہ خطبے اور وہ تقریریں ہیں جو آپ جمعہ اور جلسہ سالانہ وغیرہ کے موقعہ پر فرماتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کو فن تقریر میں ایک قدرتی اور فطری ملکہ حاصل ہے.اور چونکہ ہر لفظ دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہے اس لئے آپ کی تقریریں جماعت کی علمی اور روحانی تربیت کے لئے اکسیر ثابت ہو رہی ہیں.آپ میں تکلف بالکل نہیں ہے اسی لئے جہاں بعض اوقات آپ کی تقریر ایک ایسے دریا سے مشابہت رکھتی ہے جو ایک کامل سکون اور اطمینان کے ساتھ ایک کھلے اور ہموار میدان میں سے گزرتا ہے وہاں دوسرے اوقات میں وہ ایک ایسے مواج دریا کا رنگ اختیار کر لیتی ہے جو پہاڑوں کے پہلوؤں کے ساتھ ٹکڑا تا ہوا اور گر جتا اور دندناتا ہوا آگے آتا ہے.مقدم الذکر صورت ان کے اندر جوش اور قوت عمل کا بے پناہ جذبہ پیدا کر دیتی ہے.جمعہ کے خطبات عموماً حالات حاضرہ اور جماعت کی پیش آمدہ ضروریات پر ہوتے ہیں اور جماعت کو اوپر اٹھانے میں از حد مفید ثابت ہورہے ہیں.جلسہ سالانہ میں آپ کا یہ دستور ہے کہ ایک تقریر تو حالات حاضرہ پر ہوتی ہے جس میں سال بھر کے حالات پر ایک گونہ ریویو کر کے آئندہ سال کے پروگرام کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور دوسری تقریر خالصہ علمی ہوتی ہے جس میں ہر سال ایک نئے میدان میں قدم رکھا جاتا ہے.آپ کی ان علمی تقریروں کی وجہ سے جو ساتھ ساتھ قلمبند کر لی جاتی ہیں جماعت کے لٹریچر میں بھی ایک نہایت قیمتی اضافہ ہوتا جا رہا ہے چنانچہ اس وقت تک ہستی باری تعالیٰ ملا ئکۃ اللہ.تقدیر الہی.فضائل القرآن.حقیقۃ الرؤیا.عرفان الہی.انقلاب حقیقی.نجات وغیرہ پر ایسی ایسی زبردست تقریریں ہو چکی ہیں کہ جو دنیا کے مذہبی لٹریچر میں بالکل عدیم المثال ہیں.الغرض آپ کی تقریریں اپنے اندر ایک خاص شان رکھتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے نہ صرف جماعت کے علم میں بلکہ ان کی قوت عمل میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہورہا ہے.دوستو! میں نے آسمان خلافت کے ہزاروں درخشندہ ستاروں میں سے صرف چند ستاروں کی ایک سرسری جھلک آپ صاحبان کو دکھائی ہے مگر میں مجبور تھا اور مجبور ہوں کیونکہ اس وقت میرے

Page 430

۴۲۰ پاس وقت اور جگہ دونو محدود ہیں اور مجھے یہ طاقت حاصل نہیں کہ ایک وسیع در یا کوزے میں بند کر دوں.پس میں اب آپ لوگوں سے معافی چاہتے ہوئے خلافت جو بلی کی تقریب پر جو اس وقت ہمارے سامنے ہے ایک چلتی ہوئی نظر ڈال کر آپ سے رخصت ہوتا ہوں مگر اس دعا کے ساتھ کہ اگر میری اس ناچیز خدمت نے خدا کے دربار میں مقبولیت کا شرف پایا ہے تو اگلی صحبت مجھے اس قبولیت کے رستے میں اور آگے لے جائے.خلافت جو بلی :.حضرت خلیفہ مسیح ثانی ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۴ء کومسند خلافت پر متمکن ہوئے تھے اور اس طرح ۱۳/ مارچ ۱۹۳۹ء کو آپ کی خلافت پر ہاں کا میاب و کامران.مظفر و منصور.مبارک و مسعود.شاہد و مشہود.عامر و معمور.خلافت پر چھپیں سال کا عرصہ پورا ہو گیا.صداقت اور خدمت کی شان عرصوں اور زمانوں کی قید سے بالا ہے اور اچھے کام کی ایک گھڑی بریکار وقت کے ہزار سال سے بہتر.مگر ان چھپیں سالوں کی شان کا کیا کہنا ہے جس کا ایک ایک لمحہ خدمت خلق اور اعلاء کلمہ اللہ میں گزرا.جس کی ابتداء نے جماعت احمدیہ کو انشقاق و افتراق کی پُر خطر وادی میں گھرا ہوا پایا مگر جس کی انتہا آج اسے ایک مضبوط اور متحد دستہ کی صورت میں ایک بلند پہاڑ پر دیکھ رہی ہے.یہ ایک فطری امر ہے کہ محبوب کی کامیابی انسان کے دل میں شکر و امتنان کے جذبات کے ساتھ ساتھ مسرت و انبساط کی لہر بھی پیدا کر دیتی ہے.اور خدا بھلا کرے چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کا کہ اس لہر نے پہلی حرکت انہی کے دل میں پیدا کی.اور انہوں نے آج سے قریباً دو سال پہلے آنے والی خوشی کی گرمی کو محسوس کر کے اس تجویز کی داغ بیل رکھی کہ حضرت خلیفہ امسیح ثانی کی خلافت کے پچیس سال پورے ہونے پر جماعت کی طرف سے خوشی اور شکر کے اظہار کے لئے ایک تقریب کی صورت پیدا کی جائے اور اس مبارک تقریب پر جماعت اپنی طرف سے کچھ رقم (چوہدری صاحب نے تین لاکھ روپے کی رقم تجویز کی ) حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ پیش کرے کہ حضور اس رقم کو جماعت کی طرف سے قبول کر کے جس مصرف میں پسند فرمائیں

Page 431

۴۲۱ کام میں لائیں.سوخدا نے چاہا تو آج سے چند دن کے اندر اندر جبکہ یہ رسالہ انشاءاللہ دوستوں کے ہاتھ میں ہوگا یہ تقریب سعید عمل میں آجائے گی.اور جماعت اپنی عقیدت اور شکر وامتنان کے پھول اپنے محبوب امام کے قدموں پر رکھ چکی ہوگی.مگر جس خاص غرض کے لئے میں نے اس ذکر کو اس جگہ داخل کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح ثانی کو اس سلسلہ میں بھی جماعت کی تربیت کا از حد خیال ہے چنانچہ آپ متعدد مرتبہ جماعت کو یہ نصیحت فرما چکے ہیں کہ اگر یہ تقریب محض رسم کے طور پر ہے اور دنیا کی نقل میں ایک قدم اٹھایا جا رہا ہے تو اس میں میری خوشی کا کوئی حصہ نہیں اور نہ میں اس صورت میں جماعت کو اس کی اجازت دے سکتا ہوں.لیکن اگر آپ لوگوں نے اسے دنیا کی رسومات اور دنیا کی نمائشوں کے طریق سے پاک رکھ کر ایک خالص دینی خوشی کا رنگ دینا ہے اور اسے ان عیدوں کی طرح منانا ہے جس طرح اسلام اپنی عیدوں کے منانے کا حکم دیتا ہے تو اس قسم کا جو قدم بھی اٹھایا جائے وہ مبارک ہے اور میں اسے روکنا نہیں چاہتا.پس اس وقت جہاں ہر احمدی کا دل شکر و محبت کے انتہائی جذبات کے ساتھ لبریز ہے وہاں ہر احمدی کا ہاتھ بھی خدا کے حضور اس دعا کے ساتھ اٹھ رہا ہے کہ خدایا تو نے جس طرح ان گزرنے والے سالوں کو خوشی اور کامیابی اور کامرانی کے ساتھ پورا کیا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر آنے والے سالوں کو بھی ہمارے لئے مبارک کر اور ہماری اس جو بلی کو اس عظیم الشان جو بلی کا پیش خیمہ بنادے جو تیرے جلال کے انتہائی ظہور کے بعد آنے والی ہے.اور اے ہمارے مہربان آقا! تو ہمارے اس امام کو جس کی مبارک قیادت میں جماعت نے تیری ہزاروں برکتوں سے حصہ پایا ہے ایک لمبی اور با مراد زندگی عطا کر اور اس کے آنے والے عہد کو گزرنے والے عہد کی نسبت بھی زیادہ مقبول اور زیادہ شاندار اور زیادہ مبارک بنادے.آمین ثم آمین.

Page 432

۴۲۲ جماعت احمدیہ کا نظام الحمد للہ کہ ہم خلافت ثانیہ کے مبارک عہد کے مبارک حالات سے فارغ ہو کر اب اپنی کتاب کے آخری حصہ میں قدم رکھ رہے ہیں.اس آخری حصہ میں صرف تین مختصر سی باتیں کہنے والی ہیں کیونکہ ان کے بغیر کی تصویر جو ہمارا اصل موضوع ہے مکمل نہیں ہوتی.یہ تین باتیں (۱) جماعت احمدیہ کے نظام اور (۲) اس کی موجودہ وسعت اور (۳) اس کے مستقبل سے تعلق رکھتی ہیں.سو جماعت کے نظام کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ سلسلہ احمد یہ منہاج نبوت پر قائم ہے اس لئے اصولی رنگ میں اس کا وہی نظام ہے جو ہر الہی سلسلہ کا ہوا کرتا ہے اور وہ نظام یہی ہے کہ جب خدا تعالیٰ ایک نبی کے ذریعہ کسی سلسلہ کی بنیا درکھتا ہے تو اسکے بعد وہ جب تک مناسب اور ضروری سمجھتا ہے اس نبی کے متبعین میں سے اس کے خلفاء قائم کر کے اس سلسلہ کو ترقی دیتا ہے ان خلفاء کو جملہ اہم امور میں جماعت سے مشورہ لینے کا حکم ہوتا ہے مگر چونکہ ان کا اصل سہارا خدا کی نصرت پر ہوتا ہے اس لئے وہ اس مشورہ کے پابند نہیں ہوتے بلکہ جس طرح خدا ان کے دل میں ڈالتا ہے جماعت کے کام کو چلاتے ہیں.دراصل خلفاء کو اپنے روحانی منصب کی وجہ سے یہ حکم ہوتا ہے کہ ہر بات میں خدا کی طرف نظر رکھیں اور اسی کی مدد پر بھروسہ کریں.گویا ان کا مقام تو کل کا مقام ہوتا ہے لیکن اگر انہیں لوگوں کے مشورہ کا پابند کر دیا جائے اور وہ دوسروں کی رائے پر چلنے کے لئے مجبور ہوں تو اس پابندی اور اس مجبوری کے ساتھ ہی تو کل کا خیال دھو آں ہو کر اڑ جاتا ہے اسی لئے قرآن شریف نے تو کل کو مشورہ کے مقابل پر رکھ کر بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مشورہ تو ضرور لو.مگر آخری فیصلہ خدا کی نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے خود کرو تا کہ تو کل کے مقام پر قائم رہ سکو.بہر حال خلفاء جماعت کے مشورہ کو قبول کرنے کے پابند نہیں ہوتے مگر خود ان کا حکم جماعت کے لئے واجب التعمیل ہوتا ہے.پس مختصر طور پر تو یہی جماعت احمدیہ کا نظام ہے اور ہمارے نظام کا مستقل حصہ صرف اسی حد تک محدود ہے اور

Page 433

۴۲۳ اس سے زیادہ نہیں.لیکن جس طرح ہر سلسلہ تفصیلات میں اپنا الگ الگ رستہ قائم کر لیتا ہے اسی طرح بعض تفصیلی امور میں جماعت احمدیہ میں بھی بعض طریق قائم ہو چکے ہیں اور انہیں شامل کر کے جماعت احمدیہ کا موجودہ نظام مندرجہ ذیل صورت میں سمجھا جاسکتا ہے.(۱) اوّل خلیفہ وقت ہے جو جماعت کے نظام کا مستقل اور مرکزی نقطہ ہے اور اس قید کے ساتھ کہ وہ کوئی حکم شریعت اسلامی اور اپنے نبی متبوع کی ہدایات کے خلاف نہیں دے سکتا ( اور ایسا ہونا ممکن ہی کہاں ہے ) اسے کلی اختیارات حاصل ہیں.(۲) دوسرے صدر انجمن احمد یہ ہے جو سلسلہ کے کاموں کو چلانے کے لئے خلیفہ وقت کے ماتحت ایک مرکزی اور انتظامی انجمن ہے جس کے ممبر مختلف صیغوں کے انچارج ہوتے ہیں اور ناظر کہلاتے ہیں.مگر خلیفہ وقت کے حکم سے ایسے ممبر بھی مقرر ہو سکتے ہیں جن کے پاس کسی صیغہ کا چارج نہ ہو.موجودہ وقت میں مندرجہ ذیل نظارتیں قائم ہیں.(۱) نظارت اعلیٰ (۲) نظارت دعوة وتبليغ (۳) نظارت تعلیم و تربیت (۴) نظارت تالیف و تصنیف (۵) نظارت ضیافت (۶) نظارت مقبرہ بہشتی (۷) نظارت امور خارجه (۸) نظارت امور عامہ اور (۹) نظارت بیت المال.یہ سب نظارتیں صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت ہیں اور اسی کا حصہ ہیں.(۳) تیسرے مجلس مشاورت ہے جو صدرانجمن احمدیہ کے مقابل پر یعنی اس کے متوازی ایک مشیر انجمن ہے.اس مجلس کا عمو ماسال میں ایک دفعہ اجلاس ہوتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی جب خلیفہ وقت چاہے اس کا اجلاس منعقد کر سکتا ہے.یہ مجلس صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت نہیں بلکہ اسی طرح براہ راست خلیفہ وقت

Page 434

۴۲۴ سے تعلق رکھتی ہے جس طرح صدر انجمن تعلق رکھتی ہے.گویا صدر انجمن احمد یہ ایک انتظامی انجمن ہے اور مجلس مشاورۃ گویا ایک رنگ میں مجلس واضع قوانین کی قائم مقام ہے مگر یہ مشابہت صرف ایک جزوی مشابہت ہے ورنہ حقیقۂ مجلس مشاورت کو یہ پوزیشن حاصل نہیں ہے.(۴) چوتھے مقامی انجمنیں ہیں جو ہر شہر یا قصبے میں جہاں جہاں احمدی پائے جاتے ہیں قائم ہیں.یہ انجمنیں انتظامی لحاظ سے صدر انجمن احمد یہ کے نظام کا حصہ ہیں اور اپنے اپنے محدودحلقہ میں صدرانجمن احمد یہ والے فرائض سرانجام دیتی ہیں.مگر ایک کام ان کا یہ بھی ہے اپنے اپنے حلقہ میں سے مجلس مشاورت کے لئے نمائندے منتخب کر کے بھجوائیں.بس اس وقت تک کے نظام کا یہی ڈھانچہ ہے مگر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اس نظام کا اصل اور مستقل حصہ صرف خلافت کا وجود ہے اور باقی باتیں تفصیلات میں داخل ہیں اور حسب ضرورت ان میں ترمیم یا تبدیلی ہو سکتی ہے.سلسلہ کے محاصل کا یہ انتظام ہے کہ ہر احمدی سلسلہ کی خدمت اور اعانت کے لئے اپنی مالی حیثیت کے مطابق چندہ دیتا ہے مگر چندے کی کئی قسمیں ہیں (۱) چندہ عام.جو ہر احمدی پر واجب ہے.اس چندہ کی شرح ایک آنہ فی روپیہ مقرر ہے (۲) چندہ وصیت.جو صرف ایسے اشخاص پر واجب ہوتا ہے جو مقبرہ بہشتی کے انتظام کے ماتحت سلسلہ کے حق میں وصیت کریں.اس چندہ کی شرح آمد کے ۱۱۰ حصہ سے لے کر ۳ را حصہ تک ہے.بلکہ اس چندہ کے علاوہ وصیت کرنے والے کو اسی شرح سے اپنی جائداد کے حصہ کی بھی صدر انجمن احمدیہ کے حق میں وصیت کرنی پڑتی ہے.(۳) چندہ جلسہ سالا نہ جو سال میں ایک مہینہ کی آمد کا پندرہ فی صدی دینا پڑتا ہے.اور (۴) چندہ تحریک جدید جو حال ہی میں شروع ہوا ہے.اس چندہ سے تحریک جدید کے کاموں کو چلایا جاتا ہے اس چندہ کے لئے کوئی بعض صورتوں میں ضلع وار اور صو بہ وار اور ملک وارا نجمنیں بھی ہیں.منہ

Page 435

۴۲۵ شرح مقرر نہیں بلکہ ہر شخص کے اخلاص اور توفیق پر اسے چھوڑا گیا ہے مگر بالعموم جماعت احمدیہ کے مخلص احباب اس چندہ میں بہت شوق سے حصہ لیتے ہیں اور گو سارے احمدی اس میں شریک نہیں کیونکہ یہ چندہ لازمی نہیں مگر اس چندہ کی مجموعی آمد چندہ عام کی آمد سے کم نہیں رہتی بلکہ اس سے بھی آگے نکل جاتی ہے.ان چار باقاعدہ چندوں کے علاوہ بہت سے خاص چندے بھی ہیں جو وقتی اور خاص ضروریات کے لئے جمع کئے جاتے ہیں اور یہ بھی بعض اوقات اچھے بھاری ہوتے ہیں.ان جملہ چندوں کو ملا کر دیکھا جائے تو جماعت کی چندوں کی مجموعی اوسط ہر فرد کی آمد کے پانچویں حصہ کے برابر بنتی ہے مگر یہ اوسط ساری جماعت کے لحاظ سے ہے ورنہ کئی مخلص اس سے بہت زیادہ دیتے ہیں.جو چندہ بھی مرکز میں آتا ہے وہ صدر انجمن احمدیہ کے خزانے میں ایک مستقل اور ذمہ وار افسر کی نگرانی میں رہتا ہے جس کے ماتحت ایک خاصہ عملہ کام کرتا ہے اور خزانہ میں روپیہ کا ادخال اور پھر خزانے سے روپیہ کی برآمدگی با قاعدہ تحریری طریق پر عمل میں آتی ہے اور ہر چیز کا پورا پورا ریکارڈ رکھا جاتا ہے.جماعت احمدیہ کی موجودہ وسعت یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی موجودہ وسعت کیا ہے.یعنی جماعت کی موجودہ تعداد کیا ہے اور جماعت کہاں کہاں پائی جاتی ہے.اس سوال کے پہلے حصہ کے ساتھ ہمیں چنداں دلچسپی نہیں.کیونکہ ہمارے اندر اس اصول کو راسخ کر دیا گیا ہے کہ اصل چیز کام ہے نہ کہ تعداد.اسی لئے اس بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اگر ہماری تعداد زیادہ ہے تو اس لحاظ سے ہم خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے اتنے قلیل عرصہ میں اتنی مخالفت کے باوجود ہمیں اتنی ترقی دے دی.اور اگر ہماری تعداد تھوڑی ہے تو پھر ہم اس لحاظ سے اور بھی زیادہ خدا کے شکر گزار ہیں کہ باوجود تعداد کی اس قدر کمی کے خدا نے جماعت کو اتنے عظیم الشان کام کے سرانجام دینے کی توفیق دی.اس طرح ہمارے لئے دونوں پہلو بابرکت ہیں.اگر ہم زیادہ ہیں تو ہماری ترقی خدائی نصرت کی دلیل ہے

Page 436

۴۲۶ اگر تھوڑے ہیں تو ہمارا کام اس کی نصرت پر شاہد ہے.مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم ابھی تک بہت تھوڑے ہیں.چونکہ جماعت احمد یہ نہ صرف ہندوستان کے ہر حصہ میں بلکہ دنیا کے بیشتر حصوں میں منتشر صورت میں پھیلی ہوئی ہے اس لئے ہمیں ابھی تک اس کی صحیح تعداد کا اندازہ نہیں ہو سکا.حضرت مسیح موعود نے اپنی آخر عمر کے قریب اپنی جماعت کا اندازہ چار لاکھ لگایا تھا.اگر اسی پر قیاس کیا جاوے تو ہماری تعداد اس وقت پندرہ لاکھ کے قریب ہونی چاہئے مگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہماری یہ تعداد نہیں ہے دراصل حضرت مسیح موعود کے اندازے میں صرف با قاعدہ بیعت شدہ احمدی ہی شامل نہیں تھے بلکہ ایسے لوگ بھی شامل تھے جو دل میں احمدیت کی صداقت کے قائل ہو چکے ہیں مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے اظہار کی ہمت نہیں پاتے اور اس تعریف کے مطابق یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ موجودہ تعداد پندرہ میں لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہو یا اس سے بھی زیادہ ہو.مگر منظم اور ظاہر میں نظر آنے والی جماعت یقیناً اس سے بہت کم ہے اور اصل علم خدا کو ہے.ایک اور طریق جماعت کی وسعت اور ترقی کے اندازہ کرنے کا یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے جلسہ کی شرکت سے اندازہ لگایا جائے.اور یہ مطالعہ ویسے بھی دلچسپ ہے.سو جماعت کے سب سے پہلے جلسہ سالانہ میں جو ۱۸۹۱ء میں ہوا شریک ہونے والوں کی تعداد ۵ کے تھی اور حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے آخری جلسہ میں جو ۱۹۰۷ء کے دسمبر میں ہوا یہ تعداد دو ہزار سے اوپر تھی لے پھر اس کے بعد حضرت خلیفہ اول کا زمانہ آیا تو آپ کے زمانہ کے آخری جلسہ میں جو ۱۹۱۳ء کے دسمبر میں ہوا جلسہ کے مہمانوں کی تعداد تین ہزار سے اوپر تھی.ہے اس کے بعد ہمیں آخری اعداد وشمار ۱۹۳۸ء کے جلسہ سالانہ کے حاصل ہیں جن میں جلسہ کے مہمانوں کی تعداد میں ہزار سے او پر تھی.سے گو یہ حساب بھی بعض بہت سے غلطی کا امکان رکھتا ہے مگر بہر حال نسبتی ترقی کو دیکھنے کے لئے یہ ایک فی الجملہ اچھا معیار ہے.اب رہا دوسرا سوال کہ اس وقت جماعت احمد یہ کہاں کہاں پائی جاتی ہے.سو یہ سوال کئی لحاظ تلخیص از بدر مورخه ۹/جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ نمبر ۲ کالم نمبر ۲ تلخیص از الفضل مورخہ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ نمبرا کالم نمبر ۳ تلخیص از الفضل مورخه ۳۱ دسمبر ۱۹۳۸، صفحه ۸

Page 437

۴۲۷ سے زیادہ اہم ہےاور ہم بھی خدا کے فضل سے اس سوال کا جواب زیادہ تعین کے ساتھ دے سکتے ہیں.اس تعلق میں یہ جاننا چاہئے کہ طبعا اور قدرتی طور پر جماعت احمدیہ کی سب سے بڑی تعداد پنجاب میں ہے جس کے اضلاع گورداسپور اور سیالکوٹ اور ہوشیار پور اور گجرات دوسروں سے پیش پیش ہیں.اس کے بعد خدا کے فضل سے ہندوستان کے ہر صوبہ میں احمدی پائے جاتے ہیں.مگر بنگال اور صوبہ سرحد میں جماعت کی تعداد نسبتا زیادہ ہے اور باقیوں میں کم اور غالباً سب سے کم تعداد صوبجات متوسط میں ہے.ہندوستانی ریاستوں میں پنجاب کی وسطی ریاستوں اور ریاست کشمیر اور ریاست حیدرآباد دوسروں سے آگے ہیں اور باقیوں میں تعداد کم ہے.ہندوستان سے باہر غالبا سب سے بڑی تعداد مغربی افریقہ میں ہے اور اس کے بعد جزائر شرق الہند میں.مگر افغانستان میں بھی امید کی جاتی ہے کہ اچھی تعداد ہوگی گو اس کے متعلق کوئی بات یقینی طور پر نہیں کہی جاسکتی.ان کے علاوہ مشرقی افریقہ.جزیرہ ماریشس.سیلون.برما.مصر وفلسطین.انگلستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تھوڑی تھوڑی جماعتیں پائی جاتی ہیں.یعنی کسی میں کم اور کسی میں زیادہ.بلکہ ان علاقوں سے باہر بھی احمدی موجود ہیں مگر ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے.حضرت مسیح موعود کے عالمگیر مشن کے مقابلہ پر یہ وسعت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور ہم اس کمی کو اچھی طرح محسوس کرتے ہیں مگر یہ احساس ہمیں اپنی نظروں میں چھوٹا کر کے نہیں دکھا تا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت ہماری حالت محض ایک بیج کی ہے پس یہ احساس ہمارے لئے سبکی کا موجب نہیں بلکہ ہمارے فرائض کو یاد دلا کر ایک تازیانہ کا کام دیتا ہے.اپنے غیر احمدی اور غیر مسلم ناظرین سے ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ جب وہ ہماری اس ابتدائی حالت پر نگاہ ڈالیں تو اس کے مقابلہ کے لئے اقوام عالم کی موجودہ حالت کو نہ دیکھیں.بلکہ ان قوموں کے آغاز کو دیکھیں.مثلاً وہ مسیحیت کی موجودہ وسعت کی بجائے آج سے انیس سو سال پہلے جا کر اس نظارہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے لائیں کہ جب یہودی لوگ حضرت مسیح کو پکڑ کر صلیب پر

Page 438

۴۲۸ چڑھانے کی غرض سے لئے جارہے تھے اور مسیح کے چند گنتی کے حواری سہم کر اور خوف کھا کر ادھر ادھر چھپتے پھرتے تھے اگر موسوی مسیح کے اس پیج نے وہ درخت پیدا کیا ہے جو آج مسیحی اقوام کے عالمگیر اقبال کی صورت میں آ رہا ہے تو ہمارا مسیح تو محمدی مسیح ہے جو چمنستان احمد کا گل سرسید ہے پس.قیاس کن زگلستان من بهار مرا -

Page 439

۴۲۹ احمدیت کا مستقبل جیسا کہ ہم نے گذشتہ باب میں اشارہ کیا تھا ہر الہی سلسلہ دنیا میں ایک پیج کے طور پر قائم کیا جاتا ہے اس لئے اس کی ابتدا بہت چھوٹی ہوتی ہے مگر آہستہ آہستہ وہ ترقی کر کے ایک بہت بھاری درخت بن جاتا ہے.پس یہی ازلی قانون احمدیت کے لئے بھی مقدر ہے بلکہ احمدیت کے متعلق تو خاص طور پر یہ ذکر آتا ہے کہ اس کی ابتداء بہت ہی کمزوری کی حالت میں ہوگی اور ابتدائی مرحلوں میں اس کا بڑھاؤ بھی بہت آہستہ آہستہ ہو گا مگر باوجود اس کے اس کا قدم ایسے رنگ میں اٹھے گا کہ باریک نظر سے دیکھنے والے اس کی اٹھان میں اس کے انتہا کی جھلک پالیں گے چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب آخری زمانہ میں حضرت مسیح ناصری کا مثیل آئے گا تو اس کے سلسلہ کی ابتداء اس کمزور کونپل کی طرح ہوگی جو زمین میں سے ایسی حالت میں نکلتی ہے کہ اس کا دیکھنا تک مشکل ہوتا ہے مگر اس کے بعد یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا جائے گا اور یہ نازک کونپل پہلے ایک کمزور سا پودا بنائے گی اور پھر درجہ بدرجہ درخت کی صورت اختیار کر کے بڑھتی جائے گی اور بالآخر ایک نہایت عظیم الشان درخت بن جائے گی نیز فرماتا ہے کہ اس کو نیل کی اُٹھان ایسی ہوگی کہ جہاں ایک طرف اس پیج کے بونے والے اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوں گے وہاں اسے مٹانے والے اس کی بڑھوتی کو دیکھ کر غصہ سے بھرتے جائیں گے لے پس کی ترقی ایک پودہ کی طرح بہت آہستہ آہستہ مقدر ہے مگر یہ ترقی ایسے رنگ میں ہونے والی ہے کہ دوست و دشمن اس کی اٹھان میں اس کے مستقبل کی کسی قدر جھلک دیکھ سکیں گے.چنانچہ ہمارے ناظرین دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت تک جو پر پچاس سال گزر رہے ہیں خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے ساتھ بعینہ یہی سلوک فرمایا ہے اور بالکل قرآنی نقشے کے مطابق جماعت کا قدم اٹھ رہا ہے.مگر اس جگہ ہم اپنے ناظرین کو کسی حد تک وہ نقشہ بھی دکھا دینا چاہتے ہیں جو جماعت کی آئندہ ترقی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے الہامات وکشوف میں بیان فرمایا ہے.یہ نقشہ الفتح :٣٠

Page 440

۴۳۰ طبعاً بہت مجمل اور مختصر پیمانہ پر ہے مگر اس سے ایک عقلمند آدمی سلسلہ کی آئندہ ترقی اور اس ترقی کی نوعیت کا کسی قدر اندازہ لگا سکتا ہے.سوسب سے پہلے تو ہم حضرت مسیح موعود کا وہ الہام درج کرنا چاہتے ہیں جس میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے سلسلہ کی ترقی کے مختلف مراحل بیان فرمائے ہیں.چنانچہ ابھی حضرت مسیح موعود کے دعوئی کی ابتداء ہی تھی کہ خدا نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا.أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ فَبَرَّأَهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا - وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا - اليْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكَّا وَاللَّهُ مُؤْهِنُ كَيْدَ الْكَافِرِينَ - بَعْدَ الْعُسْرِ يُسْرَ - وَلِلَّهِ الْآمُرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ - أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ - وَلِنَجْعَلَهُ ايَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمُرًا مَّقْضِيًّا قَوْلُ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ تَمْتَرُونَ - ل یعنی کیا خدا اپنے اس بندے کی نصرت کے لئے کافی نہیں جسے اس نے دنیا میں اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے خدا اسے ان الزاموں سے بری کرے گا جولوگ اس پر لگائیں گے اور دنیا خواہ کچھ کہے وہ خدا کے دربار میں عزت والا ہے.ہاں ہم دوبارہ کہتے ہیں کہ کیا خدا اپنے اس بندے کی نصرت کے لئے کافی نہیں.جب لوگ اس بندے کے رستے میں مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیں گے تو خدا ان پہاڑوں کو پاش پاش کر کے اڑادے گا.اور خدا ان خفیہ سازشوں کو بھی ملیا میٹ کر دے گا جو اس کے منکر اس کے خلاف کریں گے اور ان مشکلات کے زمانہ کے بعد آسانی کا زمانہ آئے گا اور حکومت تو آگے اور پیچھے سب خدا ہی کی ہے کسی وقت مخفی اور کسی وقت ظاہر.ہم تیسری دفعہ کہتے ہیں کہ کیا خدا اپنے اس بندے کی نصرت کے لئے کافی نہیں.ہاں وہی خدا جواب اپنے اس بندے کو دنیا کے لئے ایک نشان بنانے والا ہے اور اسے اپنی رحمت کا علمبر دار بنا کر اس کے براہین احمدیہ ہر چہار خصص روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۱۵، ۶۱۶ بقیه حاشیه در حاشیه نمبر ۳ -

Page 441

۴۳۱ ذریعہ دنیا میں امن قائم کرنے والا ہے.یہ خدا کی تقدیر ہے جو بہر حال ہو کر رہے گی.پس لوگوسن لو اور یاد رکھو کہ یہی وہ بات ہے جس میں تم اس وقت شک میں پڑے ہوئے ہو.ان الہامات میں خدا نے نہایت لطیف رنگ میں نہ صرف جماعت کے آئندہ حالات کا ایک فوٹو کھینچ دیا ہے.بلکہ سارے درمیانی مراحل بیان کر کے اس آخری نقشہ کی جھلک بھی دکھا دی ہے جو سب سے آخر میں ظاہر ہونے والا ہے پھر فرماتا ہے.يَا عَيْسَ إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَ یعنی اے خدا کے مسیح دنیا کے لوگ تیرے مٹانے کے لئے طرح طرح کی چالیں چلیں گے.لیکن ہم خود تیری حفاظت کریں گے اور تیرا انجام ہمارے ہاتھوں میں ہو گا.اور خدا تجھے عزت کے ساتھ اپنی طرف اٹھائے گا اور تجھے ان تمام الزاموں سے بری کرے گا جو تیرے منکر تجھ پر لگائیں گے اور خدا تیرے ماننے والوں کو قیامت کے دن تک تیرے انکار کرنے والوں پر غالب رکھے گا.اس الہام میں بھی جماعت کے لئے عظیم الشان ترقیات کا وعدہ دیا گیا ہے جس کا دامن قیامت تک وسیع ہے اور خدا نے اس بات کی خوشخبری دی ہے کہ جماعت احمد یہ دنیا کے آخری دنوں تک حضرت مسیح موعود کے منکروں پر غالب چلی جائیں گی اور یہ غلبہ ہر رنگ کا ہوگا یعنی کسی زمانہ میں کسی رنگ کا اور کسی زمانہ میں دوسرے رنگ کا.لیکن بہر حال اب قیامت کے دن تک اس غلبہ میں کوئی بات رخنہ انداز نہیں ہو سکتی.پھر خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود سے فرماتا ہے.میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہانتک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے..عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھائے گئے جو براہین احمدیہ، ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۶۴ بقیه حاشیه در حاشیه نمبر۴

Page 442

۴۳۲ گھوڑوں پر سوار تھے اور چھ سات سے کم نہ تھے.یہ برکت ڈھونڈ نے والے بیعت میں داخل ہوں گے اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اسی قوم کی ہوگی.لے پھر آنے والے انقلابات کی ایک جھلک دکھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.د میں نے دیکھا کہ زار روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آ گیا ہے.وہ بڑا لمبا اور خوبصورت ہے اور اس سونٹے میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں.گویا بظاہر سونا معلوم ہوتا ہے اور وہ بندوق بھی ہے.کے اور پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں.دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بوعلی سینا کے وقت میں تھا جو اپنے عدل کے واسطے مشہور ہے اس کی تیر کمان میرے ہاتھ میں ہے اور اس بادشاہ اور بوعلی سینا کو بھی میں اپنے پاس کھڑا ہوا دیکھتا ہوں اور میں نے اس تیر کمان سے ایک شیر کو ہلاک کر دیا ہے.“ سے ان کشوف اور خوابوں کا مطلب ظاہر ہے مگر چونکہ ہر نئی عمارت پرانی عمارت کی ویرانی کے بعد کھڑی کی جاتی ہے.اس لئے دنیا کی آئندہ تباہی کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے.یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں.اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی.پر میرے لے تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۹ ، والحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۱/۲۴ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۰ کالم نمبر ۳۰۲ تذکرہ صفحہ ۳۷۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۳۷۸،۳۷۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء

Page 443

۴۳۳ آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے...کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہرگز نہیں.اے یورپ ! تو بھی امن میں نہیں اور اسے ایشیا! تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا.مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.اور پھر علیحدہ علیحدہ قوموں کے متعلق الگ الگ ذکر کرتے ہوئے ہندوؤں کے فرقہ آریہ کے متعلق فرماتے ہیں.جس مذہب میں روحانیت نہیں.وہ مذہب مردہ ہے.اس سے مت ڈرو.ابھی تم میں سے لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اس مذہب ( آریہ) کو نابود ہوتے دیکھ لو گے “ ہے اور عام ہندوؤں کے متعلق فرماتے ہیں.وو مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا.اور عیسائیوں کے متعلق فرماتے ہیں.یا درکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا ہمارے سب مخالف جواب زندہ ے حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۹،۲۶۸ ۲ تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۸،۶۷ ۲۰

Page 444

۴۳۴ موجود ہیں وہ تمام مریں گے...اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی.اور پھر اولاد کی اولا دمرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانش مند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا 66 مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس عقیدہ کو چھوڑیں گے.“ ۲ اور عام مغربی اقوام کے متعلق فرماتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا بحر ذخار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح بل پیچ کھا تا مغرب سے مشرق کو جارہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا ہے.“ سے اس نہایت لطیف رویا میں حضرت مسیح موعود کو یہ نظارہ دکھایا گیا ہے کہ اس زمانہ میں مغربی اقوام نے جو غیر معمولی اثر اپنے ظاہری علم اور دولت اور طاقت اور سیاست وغیرہ کی وجہ سے مشرقی اقوام پر قائم کر رکھا ہے یہ اثر قریب کے زمانہ میں احمدیت کے ذریعہ زائل ہو جائے گا اور جب مغرب کا یہ طلسم ٹوٹے گا تو پھر اسی طرح مشرق سے مغرب کی طرف دریا بہنے لگے گا جس طرح کہ اب مغرب سے مشرق کی طرف بہہ رہا ہے.اور پھر غیر احمدی مسلمانوں کے متعلق فرماتے ہیں.مقدر یوں ہے کہ وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں وہ دن بدن کم ہو کر اس سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے یا نابود ہوتے جائیں گے جیسا کہ یہودی اشتہار مورخ ۱۲ مارچ ۱۸۹۷ء مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۷ جدید ایڈیشن 1 تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۷ تذکره صفحه ۳۸۸ مطبوع ۲۰۰۴ء

Page 445

۴۳۵ گھٹتے گھٹتے یہاں تک کم ہو گئے کہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے “ لے پھر فرماتے ہیں.”دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا.یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.اور بالآ خراپنی جماعت کی مجموعی ترقی کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں.اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مرا در کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے ،۳ دوستو! یہ اس عظیم الشان درخت کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو احمدیت کے پیچ سے پیدا ہونے والا ہے.اب تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو بیج کو دیکھ کر ایمان لے آؤ اور چاہو تو درخت کا انتظار کرو.وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین.تمت بالخير لے براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۹۵ ۲ تحفہ گولڑ و یہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۸۲ تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۶، ۶۷

Page 446

آیات احادیث الہامات اسماء مقامات کتابیات اشاریہ جلدا 3......3........3.....4...8.......10.......

Page 447

2

Page 448

3 آیات لا اکراه فی الدین (البقره: ۲۵۷) وكل انسان الزمنه طائره فى عنقه فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة ۲۷۴ (بنی اسرائیل: ۱۴) ۲۸۷ | اعين (السجدہ: ۱۸) ۲۸۶،۲۸۴ لا يجر منكم شنان قوم(المائده: ۹) اوفوا بالعهد ان العهد كان مسئولا ان الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا ۲۲۴،۲۰۹ (بنی اسرائیل: ۳۵) ۲۲۴ حم السجده : ۳۱) الا ماشاء ربک ان ربک فعال لما من كان في هذه اعمی (بنی اسرائیل: ۷۳) ولمن خاف مقام ربه جنتن ۲۶۳ يريد (هود: ۱۰۸) ۲۸۹ احادیث ۲۸۸ (الرحمن: ۴۷) ۸۲۶۳ خيركم خيركم لاهله ان الله يبعث لهذه الامة..۲۰۵ | لا المهدى الا عيسى ۲۳۰ | لا نبی بعدی ٢٣٦ يأتي على جهنم زمان ليس فيهـا ۲۳۸ احد......والذي نفسي بيده ليوشكن ان ينزل لا عين رأت ولا اذن سمعت يتزوج ويولدله ۲۸۹ ۳۲۸ فيكم ابن مريم ۲۳۲ الہامات ۲۸۴ اليس الله بکاف عبده ۴۳۰،۱۶ اطلع الله على همه وغمه یا احمد بارک الله فیک ۱۹ | قل میعاد ربک ۱۴۷ الرحيل ثم الرحيل والموت قريب ۱۷۵ ۱۹ جاء وقتک و نبقی لک الآیات انت الشيخ المسيح الذي لا يضاع الرحمان علم القرآن ما رميت اذ رميت ولكن الله رمى ۱۹ ۱۴۷ وقته لتنذر قوما ما انذر اباء هم وا قرب اجلک المقدر ولا نبقى لك قل ان افتريته فعلی اجرام....ولتستبين سبيل المجرمين 19 من المخزيات ذكراً ۱۴۷ جرى جرى الله في حلل الانبياء قل انی امرت وانا اوّل المومنين ۱۹ | ان شانئک هو الابتر ۱۵۵ وكان عند الله يأتون من كل فج عميق..انت المجاز انی متوفیک ورافعک الی.٢٠ | الرحيل ثم الرحيل.وجيها ۱۵۷ | والله موهن كيد الكافرين ۱۷۲ بعد العسر يسر ۱۹۵ ۲۰۱ ۲۴۵ ۴۳۰ ۴۳۰ ۴۳۰

Page 449

4 ولله الامر من قبل ومن بعد ۴۳۰ ہی اُٹھ جائے گا ۸۸ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین ولنجعله اية للناس.۴۳۰ آب زندگی ۱۴۷ چاہتے ہیں قول الحق الذي فيه تمترون ۴۳۰ خدا کی طرف سے سب پر اداسی چھا گئی ۱۴۷ | آہ نادرشاہ کہاں گیا یا عیسی انی متوفیک ۳۴۴،۲۹۷ ۴۰۴ ۴۳۱ خدا کی اجازت کے بغیر کون شفاعت کر سکتا وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا ۴۰۶ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ہے ۱۵۷ میں تجھے برکت یہ برکت دوں گا..۱۸ خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں زار روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں ہوگا ۲۱ ہوتی ہیں.....رب فرق دنیا میں ایک نذیر آیا...وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا ۲۵ بین صادق و کاذب منتظر مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے...ظمین جلسہ کی نیت بخیر نہیں ہے..وكان وعد الله مفعولاً ۲۹ مباش ایمن از بازی روزگار یہ لڑکا آسمان سے آتا ہے اور آسمان کی طرف مکن تکیہ برعمرنا پائیدار آر ۲۴۶ الہی بخش با بو امام الدین مرزا اسماء ۲۴۶ امان اللہ خان امیر ۱۴۹، ۳۰۶،۳۰۰،۲۹۹ اے اروب مسٹر ۱۶۴ آثار زندگی ۱۶۷ 121 수스 ۱۵۴،۱۳۰ | بٹلرمسٹر.پادری ۱۰۳ بڑھامل لالہ ۴۰۴۰٫۳۷۳،۳۷۲ برکت علی ایڈووکیٹ ۱۱۵ بشپ ویلڈن ۴۳۱ ۴۳۲ ۱۵۸ ۱۲ ۲۱۱ ۳۹۹ ۱۸۵ آدم ابراهیم ابو بکر اچھر چند ۱۵۶،۱۵۵ | ایچ اے والٹر ۳۴۱ | بشیر احمد (اوّل) ۲۶ احمد علیہ السلام ۲۴۶،۱۰۹ اینچ کر یمر پادری ۲۹۴ بشیر احمد.مرزا ۳۳۸ احمد بریلوی.سید ۲۳۱ ایلیا.حضرت ۳۱ بشیرالدین محمود احد حضرت خلیفہ اسیح الثانی احمد بیگ ہوشیار پوری مرزا ۴۴ تا ۴۶ ،۳۰۸،۲۰۷ ، ۱۷۶،۱۶۳،۱۶۰،۸۸،۲۲،۹ احمد خان.سرسید ۵۲ تا ۴ ۵ ،۲۵۰ بابا نانک.حضرت ۳۹۰،۶۱.احمد سر ہندی شیخ.مجددالف ثانی ۲۴۱،۲۳۱ بابر بادشاه ۳۱۲،۳۰۹ تا ۳۲۴،۳۲۳،۳۲۱،۳۱۹،۳۱۶، ۳۲۶، ۳۲۸ تا ۳۳۷ ، ۳۵۱،۳۴۹،۳۴۷، اسحاق اسماعیل اسودنسی ۲۴۶ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین ۲۴۶ چاہتے ہیں ۳۴ آہ نادرشاہ کہاں گیا ،۳۶۳،۳۶۰،۳۵۸،۳۵۵،۳۵۴ ۳۴۴ ،۲۹۷ ۴۰۴ ۳۶۵ تا ۳۸۵،۳۸۴،۳۸۳،۳۶۷، ۳۸۷ تا ۴۰۲،۳۹۹،۳۹۲ فضل حق چوہدری ۴۰۳ بنواسرائیل 22

Page 450

۱۵۵ ۴۰۳ ۳۷۸،۳۷۷ ۲۰۰ ۴۶،۴۵ ۳۳۴ ۱۵۵ ٣٧٦ ۱۷۲ ۸۸ 22 5 بوعلی سینا بھگت رام ۴۳۲ خوارزم داور پر تول چندر مسٹر جسٹس رائے بہادر ۱۷۵ دجال پطرس ث ثناء اللہ مولوی جان الیگزینڈر ڈوئی で ۲۹۹ درد میر ۱۳۰ تا ۱۳۲ | دیانند سرسوتی پنڈت ۳۵۷،۱۵۶ ڈر بیپرلین جلال الدین شمس ۳۷۶،۳۷۵ ڈگلس کیپٹن وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا ۴۰۶ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا....۴۳۱ راج پال ڈ ۴۳۲ | سعد اللہ لدھیانوی سکندرحیات خان ۲۴۶ سلطان ابن سعود ۳۲ تا ۴۶،۳۴ ، ۴۷ ، سلطان احمد مرزا ۶۳ ۱۰۲،۸۵،۶۴ سلطان محمد بیگ مرزا ۲۲ سلیمان خواجہ.حضرت ۱۶ سومراج =4 ۲۱۶ سی انڈریا سامسٹر ۷۳ شاہ دین بابو شریف احمد مرزا ۳۸۳ شہزادہ نبی ش زار روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں ہوگا..۴۳۲ آثار زندگی جوالا سنگھ پادری جیمز ولسن.سر ۱۵۸ ۳۵۱ ۱۷۰،۱۶۹ راجپت رائے لالہ رام چندر جی ١٦٦ شيث ۱۷۴ شیر علی مولوی رحمت اللہ شیخ ۳۳۸ شیطان رحمت علی مولوی ۲۴۶ ۳۶۸،۳۳۸ ۱۰۱ ،۹۲،۶۴ ۳۹۹ | صدر الدین مولوی رحیم بخش شیخ.خان بہادر ۳۳۹،۳۳۵ چراغ بی بی چراغ دین ۱۴ ۱۵۴ رسل با با امرتسری مولوی ཕ ١١٩ رشیدالدین خلیفہ ڈاکٹر ظہور حسین مولوی ۳۷۵،۳۷۴ ۳۳۷ حامد شاہ میر ۳۳۸ حبیب اللہ خان امیر حرمت بی بی ۴۰۴،۱۳۶ 1.رنجیت سنگھ راجہ ریگ پروفیسر ۶ 121 ز حسان بن ثابت ۱۹۱ زرتشت حضرت ۶۲ حسن نظامی خواجه ۳۹۹ زید شہزادہ حسین کامی ۷۴ تا ۷۶ زین العابدین ولی اللہ شاہ حیرت میرزا ۱۸۲ | زویمر (پادری) ۳۷۷ ۳۷۹،۳۷۵ ۲۹۵ عبد الحکیم خان مرند ۱۶۳تا ۲۹۴۱۶۵ عبد الحکیم کلانوری مولوی عبدالرحمان مدراسی سیٹھ عبد الرحمان مولوی عبدالرحمان قادیانی شیخ عبدالرحیم درد ۳۷ ۳۳۷،۱۵۷ ۱۳۷ 124 ،۳۷۷ ،۳۷۲ خ ۴۰۰،۳۹۹،۳۸۵

Page 451

۳۹۰،۲۴۶،۱۷۴،۱۴۲،۶۲ ،۱۳۵،۱۳۳ ۱۹۸،۱۴۲،۱۳۸ ۷۲ 6 ۱۵۷ | ۲۴۷ ، ۲۵۱،۲۴۹ تا ۲۵۶،۲۵۴ ۲۵۸ تا ۲۶۱، کرشن کرم دین مولوی چهلمی ،۲۷۶،۲۷۳ ۲۷۲ ۲۷۰ ،۲۶۹ ،۲۶۵،۲۶۴ ۳۷۲،۳۵۹ عبدالرحیم خان عبدالرحیم نیر عبد القادر حکیم ۲۸۰۰۲۷۷، ۲۸۴،۲۸۱ تا ۲۹۳،۲۹۰،۲۸۶ عبد القادر جیلانی سید ۲۸۲،۲۸۱،۲۳۱ | ۲۹۶ تا ۳۰۳،۳۰۰ تا ۳۱۶،۳۱۴،۳۱۰،۳۰۸، کسری عبدالقادر شیخ خان بہادر ۳۷۸ ۳۱۷، ۳۲۵،۳۲۲،۳۱۹، ۳۲۸، ۳۳۱،۳۲۹، کمال الدین خواجه عبدالکریم سیالکوٹی ۱۳۹ ۱۴۱ ۱۴۴ تا ۱۴۷، ۳۳۹،۳۳۲ تا ۳۴۳،۳۴۱، ۳۴۴، ۳۴۶ ۲۰۶،۲۰۵،۱۵۹،۱۵۳،۱۵۱،۱۵۰ ۳۵۸،۳۵۷،۳۵۵، ۳۹۰،۳۶۹،۳۶۷، کنفیوشس حضرت ،۱۸۰۱۷ ۲۰۱۷۱ ۳۳۹،۳۳۸،۳۱۳،۳۰۶،۳۰۵ ۶۲ عبداللطیف مولوی عبداللہ آ تقم عبد اللہ بن ابی سرح ۱۳۷ ،۱۳۶ ۴۰۴، ۴۰۵، ۴۲۶، ۴۲۹، ۴۳۱ ۴۳۲۰ ۴۳۴۰ کنگ مسٹر ۱۶۹ ۴۶،۳۷ تا ۴۸ غلام حسن پشاوری ۱۶۳ غلام محمد صوفی ۳۳۸ کوریو مسٹر ۳۴۹ کونٹ ٹالسٹائے مسٹر ۳۴۹ ۱۱۵ عبداللہ ہارون سر عبدالمجید لدھیانوی ۳۹۵ غلام مرتضی مرزا ، ۳۷۴ غلام قادر مرزا گاندھی مسٹر ۳۵۳ عبدالوہاب شعرانی امام ۲۴۱ غیاث الدوله عبید اللہ حافظ عطاء محمد مرزا ۳۵۰ ۶۰۵ ۵ گل علی شاہ گل محمد مرزا ا.۵ علم الدین فتح محمد سیال ۳۶۳۳۴۹،۳۱۴،۳۱۳،۱۶۱ گوتم بدھ.حضرت ۳۸۳ | فرعون عمر بن عبدالعزیز حضرت ۲۳۱ | فرخ سیر ۶۲ ل ۴ لیٹر ائے پادری ڈاکٹر عیسی غ ۲۴۶ فریڈرک بال سر فضل احمد ،۵۴،۴۹،۴۸ ۲۵۱،۲۱۰،۱۹۱،۱۹۰ ،۱۳۴ ۷۳ ۷۱ ،۷۰ ۱۰ ۳۵۹ ۱۵۴ ۱۸۵،۸۹ غلام احمد قادیانی حضرت مرزا مسیح موعود ۲ فضل الرحمان حکیم ۱۰،۸ تا ۱۷،۱۲، ۲۲،۲۰،۱۸ تا ۴۳،۳۹ تا ۵۱ ، فضل الهی م ۹ مارٹن کلارک یا دری ۵۳ ۵۶،۵۴ تا ۶۰ ۶۲ ۶۵۰ تا ۴ ۸ ۸۸ ، فضل حسین خان بہادر ۴۰۸ مبارک احمد ۹۱،۸۹ ۹۳ ۹۴ ۹۶ تا ۹۸، ۱۰۳،۱۰۰ تا ۱۰۵، فقیر مرزا ۱۱۰،۱۰۷ تا۱۲۴،۱۲۱،۱۱۹،۱۱۶،۱۱۴، ۱۲۵، فیصل شہزاده ۱۲۹ تا ۱۳۹،۱۳۷ تا ۱۴۱، ۴۵ تا ۱۴۹،۱۴۷، فیض محمد مرزا ۱۵۱ تا ۱۶۹،۱۶۷ تا ۱۸۰،۱۷۸،۱۷۵ تا ۱۸۳، ۱۸۵ تا ۱۹۳ ۱۹۶، ۱۹۸ تا ۲۳۱،۲۳۰،۲۱۲، | قیصر ۲۳۴ تا ۲۳۷، ۲۳۹، ۲۴۶،۲۴۴،۲۴۲،۲۴۰، ق ۱۵۴ محمد ۳۷۸ ،۳۷۷ ۵،۴ ۱۳۸،۸۲،۷۳ ۸۹،۸۸ ،۳۵،۳۲،۳۱،۲۶،۲۴ ،۱۹ ،۷۱،۶۲،۶۱،۵۹،۵۸ ،۴۸ ،۴۶،۳۹ ۹۰ تا ۹۵، ۹۷، ۱۰۳ ، ۱۰۷ تا ۱۲۳،۱۱۵،۱۱۲، ،۱۷۴،۱۶۹ ،۱۶۷ ، ۱۶۳ ۱۶۲ ۱۴۹ ، ۱۳۲ ۷۲ ۱۸۵، ۱۸۸ تا ۱۹۱ ۱۹۶، ۱۹۸، ۲۰۵،۱۹۹، ۲۱۳ تا ۲۲۳،۲۱۹، ۲۳۲،۲۳۱،۲۲۸،

Page 452

7 ۲۳۶ تا ۲۴۷، ۲۵۸،۲۴۹، ۲۶۶ تا ۲۶۹ ، محی الدین ابن عربی حضرت ۲۷۱ ۲۷۴ ، ۷ ۲۷ ، ۴، ۲۸ ، ۲۸۷، ۳۲۴،۲۹۹، مرلی دھر ماسٹر ۳۲۵، ۳۴۴،۳۴۰،۳۲۸، ۳۵۸، مریم ۲۴۱،۸ ۲۶ ۱۵۸،۱۵۰ تا ۱۷۶،۱۶۱، ۱۸۱،۱۸۰، ۲۹۹، ۳۰۶،۳۰۳ تا ۳۱۵،۳۱۳ تا ۳۱۹،۳۱۷ ۲۳۲، ۲۴۵ تا ۴۳۴،۲۴۷ ۳۳۲،۳۲۶،۳۲۵،۳۲۳،۳۲۱ تا ۳۳۵ ۳۶۹ تا ۳۹۰،۳۸۹،۳۸۴،۳۸۳،۳۷۱ مسیح “ حضرت ۲۹،۲۴،۲ تا ۳۲ محمد احسن امروہوی محمد اسحاق میر محمد اسماعیل مولوی محمد اسماعیل میر محمد اسلم محمد اقبال سر ۳۳۷ ،۳۲۳ ۳۵۱،۱۵۸ ۴۰،۳۸،۳۷ ، ۷۶،۵۷ تا ۹۰۰۷۹ تا ۹۳، نیاز علی شیخ ۱۰۲ ۱۰۸ ،۱۱۳ تا ۱۱۵، ۱۸۹،۱۶۳،۱۵۹،۱۴۱، ۴۰۰،۳۵۱ ۲۳۲ تا ۲۳۴، ۲۴۱، ۴۵ ۲ تا ۲۴۷، ۲۷۶، ۲۸۱ ، واکر مسٹر ۳۷۸ ،۳۳۷ ۲۹۴ و ۳۳۹ تا ۳۴۹،۳۴۱ ۳۹۰،۳۴۲،۳۰۰،۲۹۹،۲۹۶،۲۹۳ ، والٹرمسٹرایم.اے ۴۲۷ تا ۴۳۴۴۲۹ وکٹوریہ ملکہ ۳۴ ولی اللہ شاہ سید محدث دہلوی ۳۶۵ ۱۱۵ ۱۸۶،۱۸۵ ۲۰۵ ۲۴۱ ،۲۳۱ ۴ ۱۱۵ 117 ۴۵ ۲۴۶ 22.7.۳۵۱،۳۳۸ ۳۱ ۲۴۶ ۲۹۹ ۳۹۹،۳۹۶ | مسیلمہ کذاب محمد امین خان ۳۷۵،۳۷۴ مطیع الرحمان صوفی محمد بخش تھانہ دار محمد بشیر بھوپالوی مولوی ۸۴٬۸۳ معین الدین چشتی خواجه ۳۷ ملاعلی قاری علامہ محدث محمد جان عرف ابوالحسن مولوی پسروری ۱۵۵ موسی محمد حسین بٹالوی مولوی ،۷۳،۳۷ ،۱۷ ۱۳۰،۸۳،۷۴، ۲۱۰،۲۰۷ | مہر علی گولڑوی شاه پیر محمد حسین شاہ سید ڈاکٹر ۱۷۲، ۳۳۸،۱۷۷ میلکام سر ۳۵۸ ۲۳۱ ہادی بیگ مرزا ۲۴۱ ہالٹما مسٹر پروفیسر ۲۴۶،۱۵۴،۱۴۱، ہنٹ مس ۲۹۳، ۳۰۰،۲۹۹،۲۹۶ | ھو د حضرت ۱۳۳،۱۳۰،۱۰۵ ۳۱۱،۱۳۱ محمد سرور شاہ سید محمد صادق مفتی ۳۵۸،۷۸ | ناصر احمد مرزا محمد طاہر گجراتی ۲۴۱ محمد ظفر اللہ خان - سر ۳۶۹،۳۶۸، | ناصر نواب میر محمد علی مولوی ایم.اے ۴۲۰ ، ۴۰۸ ۱۶۰،۱۱۴، نذیرحسین مولوی ۳۹۵| یعقوب ۳۳۵ یعقوب بیگ مرزا.ڈاکٹر یوحنا ( نبی ) ۲۲، ۱۷۷، یوسف ۳۱۲،۲۰۳، ۳۱۷ یوشع ۳۷ ۳۲۱،۳۱۶،۳۱۱،۳۰۵ تا ۳۳۵،۳۲۴، ۳۳۸ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت اماں جان ۲۲ محمد علی خان نواب ۳۱۶،۱۵۷ ، نعمت اللہ خان ۳۲۳،۳۲۲،۳۱۹، ۳۳۷ نکلسن جنرل ۳۷۳ ۷ محمد یوسف شیخ ۳۱۲ نوح ۲۴۸،۲۴۶ محمود احمد عرفانی شیخ ۳۷۶ نورالدین حضرت خلیفہ اول ۲۸، ۱۴۴،۱۲۷

Page 453

،۱۸۳،۱۶۶،۱۱۶،۸۹،۵۵،۴ ۴۲۷ ، ۴۰۲،۳۹۷ ،۳۷۱،۲۹۱ ۴۱۵ ۳۷۲،۷۶ ۷۵ ۷۴ ۴۱۵ ۴۱۴،۳۷۲ ۳۵ ۳۸۲،۳۷۲ ۳۹۸،۳۰۳،۱۵۴،۲۸ ۴۱۵ ۱۵۴،۱۳۹،۱۳۴ ۱۳۳ ۴۱۴ ،۲۶۲ ۴۲۷ ،۱۰۳ ۳۷۵ LL ۳۹۲ , 8 مقامات آسٹریلیا ۲۵۸ براعظم افریقہ ۳۴۹ | پنجاب آگرہ ۳۶۵،۳۶۲،۲۹۴ | برطانیه ۳۹۲،۳۷۵ اٹلی ۴۱۵،۳۶۹ برما ۴۲۷ | پولینڈ ارجنٹائن ۴۱۵ بمبئی ۳۶۷،۳۵۰،۱۰۳ استھونیا ۳۷۲ | بنگال اسلام پور قاضیاں ۴ بورنیو ۱۰۳، ۴۲۷ ترکی ۳۷۶ ترکستان افریقہ ۳۷۱ بہار ١٠٣ افغانستان ۱۳۶، ۳۷۳،۳۷۲،۱۳۸، بھرت پور والور ۳۶۲ جاپان ۴٬۳۷۴ ۴۰ ، ۴۲۷ بہشتی مقبره ( مقبره بهشتی ) ۱۸۰،۱۴۹، جالندھر البانيا الہ آباد امرتسر امریکہ انگلستان ۴۱۵،۳۷۲ ۱۸۵،۹۰ ،۸۰،۴۶،۴۰،۳۷ ،۳۵ ۳۸۴،۳۵۴،۳۵۳،۱۸۳،۱۴۶،۱۳۱،۱۳۰ ،۱۷۰،۱۱۶،۱۱۵،۶۹ ،۶۸ ،۲۳ ۴۲۷ ،۳۵۸،۳۵۷ ،۲۵۸ ،۳۴۹،۳۱۳،۱۸۵،۱۷۱ ۳۰۴۱۸۱ بھیرہ ۲۸ جاوا جرمنی جموں ۳۹۲،۳۸۵،۳۶۷ ،۳۵۹ یعقوب یعقوب بیگ مرزا.ڈاکٹر یوحنا (نبی) یوسف ۲۴۶ جنوبی امریکہ 122.7.۳۵۱،۳۳۸ ۳۱ چین ۲۴۶ ایبٹ آباد ۴۰۱ ۳۶۲ یوشع ۲۹۹ ایران ۳۷۴ بھیں ۱۳۳ حیدر آباد حيفا ایشیا ۴۳۳،۲۹۴۲۳ ۱۴ Y بیاس (دریا) بیت اللہ ۳۹۲،۴ ۶۱ خانیار دار الانوار ۱۶۳،۳۵ پٹیالہ ۳۹۱،۳۱۸،۱۸۰،۱۷ بٹالہ بخارا

Page 454

6 77 ۱۳۶۰۷۳ تا ۳۷۲،۱۳۸، ۳۵۸ کابل لده له الله ،۲۳۳،۱۰۳،۷۸،۷۷ ،۲۸ ۳۹۶،۳۰۳،۲۷۶،۲۳۴ تا ۴۱۵،۴۰۲، ۴۲۷ ۱۸۵ ۳۹۹،۳۸۵ ۴۱۰ ۳۶۷،۱۳۵، ۳۶۸، شرق الہند جزائر ۳۷۵،۳۶۹ | شکاگو ۱۵۴ شمله ۱۴۲ شهید گنج دمشق دوالمیال دھرم ساله دہلی ،۱۴۶،۳۷ ،۳۵،۲۲،۱۶،۵،۴ ۴۰۰،۳۹۹،۳۱۷ ، ۳۱۲،۲۹۵ ،۲۹۴ ،۱۹۴ ویچ ۳۷۲ صوبہ سرحد ع ۴۲۷ گجرات ڈلہوزی ۳۷۸ | علی گڑھ ڈیرہ بابا نانک ۶۱ راولپنڈی ۴۰۰،۱۰۵ فارس ،۳۶۲،۲۵۰،۱۸۶،۵۲ كملت ۳۷۹،۳۷۷ گورداسپور ۲۶۲ گولڈ کوسٹ ۴۲۷ ،۲۹۲ ۴۱۵ ،۱۳۴،۱۳۳،۱۰۵،۷۳،۶۱ ۴۲۷ ،۱۹۸ ،۱۶۹ ،۱۵۵،۱۴۰ ۳۵۹،۳۵۸ روس ۴،۱۴۳،۱۱۵ ۴۳۲،۳۷ | فرانس ۳۶۹ ل فلسطین ۳۶۹،۳۶۸،۲۳۲،۳۰ ، لاہور ،۱۳۸،۸۹،۷۱،۶۷ ،۳۷ ،۳۵،۴ ساؤتھ فیلڈز +74'17 ۴۲۷ ،۳۷۶،۳۷۵ ۱۴۰، ۱۷۱،۱۶۷ تا ۱۸۴،۱۷۳ تا ۱۹۴،۱۸۶، سپین سرحد لدالد ق ۴۱۰،۴۰۰،۳۹۶ ،۳۶۵،۳۵۰،۳۳۹،۳۱۳ ۱۰۳ قادیان ۶،۵،۴، ۹ تا ۱۱ ،۲۰،۱۴،۱۳ ، لدھیانہ ۴۳ ، ۷۲،۶۷ ۷۴ ۷۵ ۷۹ ۸۳٬۸۰، لندن ۱۴۶،۳۷،۳۵،۳۴،۲۸ ،۳۵۸ ،۳۴۹،۲۹۵،۱۸۶ ۳۹۹،۳۷۸،۳۷۷ ،۳۷۲،۳۷۰،۳۶۳ ۳۶۰،۳۵۹ ۴۲۷ ،۳۵۰،۳۴۹ ۱۰۳ ۲۱۴ ٣١٩،٩٣،١٦ ۳۱۲ ۴۲۷ ۱۱۸،۱۰۵،۱۰۴۹۳ ، ۱۳۴ تا ۱۴۲،۱۳۸،۱۳۶، ۱۷۰،۱۶۹،۱۶۳،۱۵۹،۱۵۵،۱۵۱ تا ۱۷۲ لیگوس م ،۲۰۹،۲۰۸،۱۸۶،۱۸۵،۱۸۰،۱۷۸،۱۷۵ ماریشس ۲۳۶،۲۳۴،۲۱۱، ۳۰۳٬۲۹۵،۲۹۴ تا ۳۰۵ مدراس ۳۱۲،۳۱۱،۳۰۷، ۳۱۷ تا ۳۳۰،۳۲۲،۳۱۹ مد بینه ۳۳۵،۳۳۳ تا ۳۴۸،۳۴۲،۳۳۹،۳۳۷، مسجد اقصیٰ ۳۶۵،۳۶۰،۳۴۹، ۳۶۸، ۳۷۴،۳۷۱، مسجد نور ۳۷۶، ۳۹۰،۳۸۱،۳۸۰،۳۷۷ تا ۳۹۲، مشرقی افریقہ ۴۰۷ ، ۴۰۸، ۴۱۳،۴۱۲،۴۰۹ ، ۴۱۸ | مصر ۴۲۷ ،۳۷۶،۳۷۵،۳۶۹،۳۶۸ سری نگر سماٹرا سنگاپور سی ایرالی اون 17'77 77 لدالد ۳۵۹،۳۵۸ سیالکوٹ ۱۴۱،۱۴۰،۱۳۸،۳۵،۱۲، ۲۹۱، سیلون سیلی بیز ۴۲۷ ، ۴۰۰ ۴۲۷ ،۳۴۹ ۳۷۵،۳۶۸،۷۸ ۲۸ ش شام شاہ پور

Page 455

مغربی افریقہ ملایا منارة المسيح مین یوری نائیجیریا نور ہسپتال 10 ۳۵۸ ۲۱۴،۱۹۷ ۲۲۳،۲۱۵ | وزیر آباد و ۴۰۰ ،۳۴۹،۳۴۷ ،۳۴۲،۳۳۵،۳۳۳ ۳۵۰ تا ۳۶۵،۳۶۲،۳۶۱،۳۵۳ تا ۳۶۸، ۲۸۸،۲۷۳،۶۹ ہنگری ۴۱۴ اسلامی اصول کی فلاسفی ۲۱۱،۱۳۵ | وینڈز ورتھ ۳۶۲ ہالینڈ مانگ کانگ ۳۷۲،۳۶۰،۳۵۸ ہندوستان ۳۷۲ ہوشیار پور ی ۳۷۶ یوپی ۴۱۴ یورپ ،۵۸،۵۵ ، ۴۴ ،۱۹ ،۱۶ ،۱۲،۴ ۴۷۰ ۱۸۲،۱۷۳۱۷۰،۱۴۲،۱۰۳،۷۸،۷، یوگوسلاویہ ۳۱۲ ۴۱۴ ۴۲۷ ،۲۶،۲۵،۱۴ ۳۹۵،۳۶۲،۳۶۱،۱۰۳ ،۱۱۴،۶۹،۶۸،۲۳ ۴۳۳،۳۴۷ ۴۱۵ ،۳۱۸،۳۱۳،۲۶۲،۲۳۳،۲۰۳،۱۸۶،۱۸۴ کتابیات آر اشاعة السنة آریہ پتر کا ۱۸۴ اعجاز احمدی آریہ دھرم ۱۷ ۱۳۲،۱۳۱ ۱۷۰ تا ۱۷۲، ۱۸۱ ، ۱۹۹، ۲۴۳، ۲۶۰،۲۵۸، ۱۰۶،۵۵، ۱۳۳۱۰۷ | الحق ۵۹ اعجاز المسیح ۳۶،۳۲،۲۳، اعلان الحق آئینہ کمالات اسلام ۱۶۴ الحق دہلی ۱۴۵،۱۴۲٬۸۰،۲۰، ۱۴۷، الحق لدھیانہ ۴۱ تا ۴۳ ، ۵۳،۴۵ ،۲۵۸،۲۰۱،۸۰ | البدر ۴۳۲،۳۱۳،۳۰۶ ۳۱۲ ۳۷ ۲۶۷ ،۲۶۵،۳۹،۳۷ ،۳۱۶،۳۱۴،۳۱۲۲۹۴ ۴۲۶،۳۵۹،۳۳۳،۳۳۰،۳۲۶،۳۲۴ ۵۵ 1+4 : 500 ۵۹ ۷۸،۵۶ ۱۹۴،۱۸۵،۱۸۴ ۱۳۸ ۲۸۴،۲۳۶ ۳۱۵،۳۱۳،۳۰۶،۲۹۴۲۶۰،۱۷۵،۱۷۳، الفضل ۳۰۲،۲۴۰،۲۳۰ ۴۲۶،۳۳۳،۳۳۲ ،۱۸۶،۱۸۵ التبليغ ۳۴۲،۳۴۱،۱۹۴ | الحبة البالغه الحكم ٣٦٩ البشرى ٣٧۶ الهدى ۵۵ | الهلال ۲۳۵ امہات المومنین ۱۳۵،۱۳۳،۸۰،۴۲،۲۰، انجام آتھم انجیل ،۱۶۷ ،۱۶۲،۱۶۱ ،۱۵۱ ، ۱۴۷ ، ۱۴۲ ،۱۴۰،۱۳۶ ۳۸۴،۳۸۳، ۳۹۲،۳۹۰،۳۸۹تا۳۹۵، اندر ۳۹۷، ۳۹۹، ۴۱۱،۴۰۵، ۴۱۲، ۴۲۶ ، ۴۲۷ انڈر دی ابسولیوٹ امیر ابن ماجه ابوداؤد احمدیت یعنی حقیقی اسلام ،۲۳۵،۱۹۰،۴۱،۳۲،۳۱ ۳۱۴،۲۷۸،۲۷۰ ۲۴۸ احمد یہ موومنٹ اربعین ازالہ اوہام ،۳۷۹،۳۷۸،۳۷۶،۳۷۴،۳۷۲،۳۷۱

Page 456

11 انڈین ریویو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام انقلاب انوار لاسلام اہلحدیث ۶۹ ۱۱۵ تذکرۃ الشہادتین ۳۹۹،۳۹۶،۳۸۵ ۴۷ ۴۸ | تشحیذ الا ذہان ۱۶۴،۱۳۲،۱۳۱ توضیح مرام ایک غلطی کا ازالہ ۱۰۷ تا ۲۴۵،۱۰۹ | تہذیب النسواں بجلی آسمانی براہین احمدیہ حصہ پنجم ۴۰۴ ۴۳۲۰ دی علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ۱۳۸،۳۶، دی نائیجیرین سپیکٹیر لیگوس ۴۳۳،۳۱۵،۲۹۸ تا ۴۳۵ تھیا سوفیکل بک نوٹس ۱۵۵ تیج ۲۳۷ ،۲۰۷ ۳۳۲،۱۶۳،۱۶۲ ۲۵۸،۳۰ ۱۸۴ ۶۹ ۲۹۵ ۱۸۶ ۱۸۶ } دی یومیٹی اینڈ مسٹر کلکتہ ڈیلی کرانیکل ز ذکر احکیم نمبر 6 عرف کا نادجال ۳۷۲،۳۷۱ ۱۶۴ ۲۸۴،۲۶۴، ۳۴۶ ، ۴۳۵ | جنگ مقدس براہین احمدیہ ہر چہار قصص ۱۶ تا ۲۱ ،۱۴۳، جیون نت برسٹل ٹائمنز اینڈ مرر ۴۳۱،۴۳۰،۲۳۱،۱۹۲ ۶۹ چرچ مشنری ریویولندن ۴۶،۳۸،۳۷ ۲۹۵ بركات الدعاء ۲۷۳،۲۵۱،۵۴،۵۳،۴۹ | چشمه معرفت ۱۶۷ تا ۲۵۹،۲۵۳،۱۶۹، ۲۶۳،۲۶۰ راز حقیقت رپورٹ کانفرنس مذاہب رسالہ الوصیت رنگیلا رسول ZA ۳۷۰ ۱۴۸تا ۱۵۰ ۳۲۶،۳۰۶،۳۰۴،۳۰۱ ۳۸۴،۳۸۳ ریویو آف ريليجنز ۱۲۹،۱۱۵،۱۱۲،۹۳٬۹۱، پاکستیر ۱۸۵،۹۰ ۳۴۳،۳۳۵،۳۰۵،۲۹۴،۲۳۶،۱۶۰ پنجاب چیفس حقیقة المهدی پی او کد او و جز یر کلیپانی ۶۹ حقیقۃ الوحی ۲۳۶،۸۷،۳۲ ،۱۰۹،۶۸ ،۴۹ ،۴۸ ، ۴۶ ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ۲۶۷ ۱۶۴ ۱۵۴۱۱۰ تا ۱۵۹ ۲۳۵،۲۰۱،۱۶۵،۱۶۳، زرقانی ۲۴ پیغام صلح ۱۷۳تا ۳۱۳،۱۷۵ ۲۴۳ تا ۴۳۳۲۴۷ زمیندار ۳۶۵،۳۶۴ جماعة البشرى ۳۶۷،۵۵ تاریخ مسجد فضل لندن ۳۷۸ خ تبلیغ رسالت تبلیغ هدایت ۲۳۵ تجلیات الہیہ ۱۰۹،۳۵ خطبہ الہامیہ ۴۳۲٬۲۴۴،۱۸۹ در مشین اردو تحفہ گولڑویہ ۴۳۵،۲۳۵،۱۰۵،۸۱ در نجف تحفہ قیصریہ تذکرہ ۲۶۲،۷۲ دی ٹائمنر لندن ،۳۴۴،۲۴۵،۱۹۵،۱۵۷ ،۲۹ سپریچوال جنرل بوسٹن ست بچن سرمه چشم آریہ ۳۸۵ سن رائز ۱۸۶ سنن الدار قطنی دی سول اینڈ ملٹری گزٹ ۱۸۶ | سيرة الابدال ۶۹ ۲۴۹،۲۴۸،۹۳،۵۵ ། ۲۵ ۲۰۸ ۴۱۶ ۵۶

Page 457

12 سيرة المهدی ۳۵،۷، ۷۳،۴۴،۳۸، ۲۶۵ تا ۲۷۱، ۲۸۳،۲۷۵ تا ۷ ۲۹۹،۲۹۴،۲۸، محمود اور محمدی مسیح کے دشمنوں کا مقابلہ ۳۳۲ ،۱۹۱ ،۱۳۵ ۳۱۰، ۳۳۲،۳۲۴،۳۱۷، ۴۲۹،۳۴۷ محمود کی آمین ۲۰۸ ۲۴ ۶۹ ۳۵۹،۳۴۷ ،۲۹۵ ZA ۳۸۵ ۳۲۸ ۳۸۰ ۲۴۳ 1+4 ۵۷،۵۵ ۱۳۳ ۲۴۶،۲۳۵،۱۸۹ ۳۱۲ ۵۷،۳۲ ۲۳۶ ۳۸۴ ۱۸۳ ۱۶۱ مرقس مسلم ریویو مسلم ورلڈ ۴۹ مسیح ہندوستان میں سيرة خاتم النبيين" ۳۰۳ | قواعد صدرانجمن احمدیه ش ک شجھ چٹک ۱۵۶،۱۵۵ کتاب البریه شهادة القرآن ۵۰،۴۴ | کرامات الصادقین ۲۹۷،۷۴،۱۵،۱۳،۱۰۷ صحیح مسلم کرزن گزٹ ۱۹۴۱۸۳،۱۸۲ | مشرق صحیح بخاری شریف ۲۴۰،۲۳۲،۸۱ کشتی نوح ۱۱۷، ۱۱۹، ۱۲۴ ، ۱۹۹، ۲۴۷، مشكاة المصابیح ۲۴۰ ۲۶۵،۲۶۴،۲۵۶،۲۴۸، ۲۶۷ | مصباح كشف الغطاء ملفوظات عصائے موسیٰ ۱۵۴ کلیات آریہ مسافر ۴۹ مناظر ل منن الرحمان ۳۰ الجة النور ۵۵ | مواہب الرحمان فتح اسلام فتویٰ علماء لدھیانہ فتومی علماء ہند و عرب ۳۴ لوقا ۳۴ لیکچر سیالکوٹ لیکچر لاہور لیوز آف ہیلنگ فصوص الحکم ق قادیان کے آریہ اور ہم 19.قبریح ۷۸ متی ۳۸ ۲۴۶،۱۴۲ نزول المسیح ۲۸۹،۲۶۴ نور ۱۵۶ نور الحق نور القرآن ۲۳۳،۵۷ ،۳۸،۲۴ قرآن شریف ۱۹،۱۴،۱۱،۹،۲، مجموعہ اشتہارات ۲۶ تا ۲۸ ،۳۷، در تمان ۴۶،۴۵، ۴۸، ۵۹ تا ۶۱، ۶۷، ۷۲،۷۱،۶۸، وکیل ،۱۰۶،۹۵،۹۴ ،۹۰،۸۶،۸۲،۷۶،۷۵ ، ۱۰۱ ،۷۹ ،۶۱ ،۴۲،۴۱ ،۳۹ ،۳۲،۳۱،۲۸ ،۲۱۶،۲۱۳،۲۰۹،۲۰۷ ، ۲۰۵ ،۱۹۹ ،۱۹۸ ،۱۲۱ ۲۲۵ ۲۳۰ تا ۲۳۵، ۲۳۷، ۲۳۹، ۲۴۲ ، ۱۹۰،۱۶۶،۱۳۶،۱۳۲،۱۲۹،۱۱۶، ۳۲۹،۲۴۸، ہمدرد ۲۶۱،۲۶۰،۲۵۸،۲۵۷تا ۲۶۳، ۳۸۵ ۳۴۵ ۴۳۴ ، ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کاحل ۳۹۶،۳۹۵ ماکے ☆☆☆

Page 457