Sifat Bari Taala

Sifat Bari Taala

صفات باری تعالیٰ

یعنی اَلْاَسْمَآءُ الْحُسْنیٰ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اللہ تعالیٰ

یعنی اَلْاَسْمَآءُ الْحُسْنیٰ


Book Content

Page 1

بسم الله الرحمن الرحیم صفات باری تعالی یعنی الْأَسْمَاءُ الْحُسْنى عہد مبارک حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز در سال خلافت جوبلی ۲۰۰۸ ءاور ۲۰۱۵ء از اقبال احمد نجم ایم اے.شاہد ( واقف زندگی)

Page 2

( جملہ حقوق محفوظ ہیں ) نام کتاب: صفات باری تعالیٰ یعنی الاسماء الحسنیٰ مع عبادالرحمن کی خصوصیات تصنیف و تدوین: اقبال احمد نجم ، انگلستان سن اشاعت: 2008ء اور 2015ء تعداد: ایک ہزار + ایک ہزار رابطہ IQBAL AHMAD NAJAM 3, WIM BOURNE COURT, CHRISTCHURCH CLOSE LONDON SW 19 2 NZ U.K.ianajam@hotmail.com, ianajam9@yahoo.com iqbalnajamuk@gmail.com

Page 3

انتساب) به کتاب پیارے آقا نامدار حضرت محمد مصطفى صلى الله عليه وسلم كے نام كرتا ہوں جو اللہ تعالی کی جملہ صفات کے مظهر كامل هيں اور جمله زمره عباد الرحمن کے سردار ہیں.اللہ تعالی هم سب کو فـنــافــي الــرسـول کا اعلیٰ مقام عطا فرمائے.آمین.

Page 4

أنا مشهد الملك لانها ليرة الله من 21214 تحمله وتصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر الندات 15-7-08 جامعہ احمد یہ یو کے پیارے سے مکرم اقبال احمد نجم صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبر کاتہ آپ کا خط ملا.اللہ دور کرے اور آپ کو اپنے تمام علمی کام بہتر طور پر سر انجام دینے کی توفیق بخشے.اللہ آپ کے اخلاص اور ایمان میں برکت عطا فرمائے او آپ کی تمام نیک مرادیں پوری کرے.آمین والسلام خاکسار خليفة المسيح الخامس

Page 5

وَلِلهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا (الأعراف: 181) اور اللہ کی بہت سی اچھی صفات ہیں پس تم اس کے ذریعہ سے اس سے دعائیں کیا کرو.إِنَّ لِلهِ تِسْعَةً وَتِسْعِيْنَ إِسْمًا مِائَةً غَيْرِ وَاحِدٍ مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ (جامع ترمذی، ابواب الدعوات ) اللہ تعالیٰ کے ۹۹ نام ہیں جو ان کو مدنظر رکھے گا جنت میں داخل ہوگا.”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.“ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱)

Page 6

پیش لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات تمام خوبیوں کی جامع اور تمام عیوب سے منزہ ہے.وہ وراء الوراء اور بے پایاں صفات کی حامل ہے.اس کی صفات کا اندازہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں.خود ذات باری تعالیٰ نے اپنی صفات کا علم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور اپنا ذاتی نام اور ام الصفات بتائیں.اسی طرح اپنی کئی صفات کا اظہار بھی کیا اور صفاتی نام بھی بتائے جن کی تفصیل قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ملتی ہے.اللہ تعالیٰ کے ناموں کو یا دکر نے ا ور ان کے حوالہ سے دعائیں مانگنے کی تاکید کی گئی ہے.جو اللہ تعالیٰ کے ناموں کو یاد کرے گا جنت میں داخل ہوگا.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا صحیح عرفان پیش فرمایا ہے.مکرم اقبال احمد صاحب نجم ، ایم اے شاہد پروفیسر جامعہ احمدیہ یو کے نے صفات باری تعالیٰ یعنی الاسماء الحسنی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے نام اور ان کے معانی کو اکٹھا کرتے ہوئے قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں تفصیل بیان کی ہے.خاص طور پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں صفات باری تعالیٰ سے جس طرح پردہ اٹھایا ہے ہر قاری کے ذہن میں وہ صفات گھر کر لیتی ہیں.بالکل نیا اور اچھوتا رنگ دکھائی دیتا ہے.اسی طرح کتاب کے آخر میں عباد الرحمن کی خصوصیات بھی شامل کی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذات وصفات کا صحیح علم و عرفان عطا فرماتے ہوئے اپنے قرب کی راہوں پر چلائے اور اس کتاب کی اشاعت کو ہر لحاظ سے مبارک کرے اور بہتوں کی ہدایت کا باعث بنائے.آمین.

Page 7

بسم الله الرحمن الرحیم دیباچه الحمد للہ خاکسار کو اب تک بہت سے مضامین لکھ کر جماعت کے مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپوانے کی توفیق ملی ہے.چنانچہ الاسماء الحسنیٰ کے مضامین بھی گیارہ قسطوں میں اگست ستمبر ۱۹۸۰ء میں روز نامہ الفضل ربوہ میں شائع ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب میں بیان فرمایا ہے کہ سورۃ الفاتحہ ام الکتاب ہے.قرآن کریم کے تمام مضامین اس سے نکلتے ہیں اور اس میں پائی جانے والی چار صفات الہیہ یعنی رب ، رحمن ، رحیم اور مالک یوم الدین اُم الصفات ہیں.چنانچہ خاکسار نے اس بات کا علم حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ کون سی ام الصفات سے کون سی دیگر صفات نکلی ہیں.مجھے یاد ہے جب یہ مضمون شائع ہوا تھا تو استاذی المکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ مرحوم نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا تھا اور اس مضمون کو کتا بچہ کی شکل میں شائع کرانے کی طرف توجہ دلائی تھی.ایک دفعہ جب خاکسار نے طلباء جامعہ احمد یہ یو کے کی ایک مجلس میں اس مضمون کی ایک جھلک پیش کرنے کی توفیق پائی تو بعد میں بعض طلباء نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں کتابی شکل میں شائع کرنا چاہیے جس پر میں نے جو بلی کے اپنے پروگرام میں اس کی اشاعت کو بھی شامل کر لیا.اس کے ساتھ اپنا ایک اور مضمون ”عباد الرحمن کی خصوصیات“ بھی شامل اشاعت کر رہا ہوں.یہ مضمون میرے جامعہ احمدیہ کے تعلیمی دور کے دوران ستمبر، اکتوبر ۱۹۶۷ء میں 9 اقساط میں روز نامہ الفضل میں شائع ہوا تھا اور میرے بعض نہایت ہی پیارے اور محترم اساتذہ نے مجھے پیار سے عباد الرحمن کہنا شروع کر دیا تھا.اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم ایک بہت ضروری علم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جابجا بیان فرمایا ہے اور آنحضرت صلی شما کی تم نے عملاً ان صفات کا کامل مظہر بن کر دنیا کو خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھا دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کرام نے بھی اس طرف توجہ

Page 8

فرمائی ہے.حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے ان صفات کے متعلق خطبات کا سلسلہ جار فرمایاتھا.اور حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس بھی اس سلسلہ کو جاری فرمائے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں فرمایا ہے صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً (البقرۃ:۱۳۹)‘ آنحضرت صلی ایتم کی طرح آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس رنگ میں رنگیں تھے اور سچ ہے کہ عباد الرحمن وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے پر چڑھا لیتے ہیں.ہمارے آقا حضرت محمد سلیمی ایام فدا نفسی وابی و امی وہ تھے جو اس قافلہ قدوسیان کے قافلہ کے سالار تھے.اللهم صل علی محمد و آل محمد.اس موقع پر میں اپنے ان دوستوں کا ممنون ہوں جنہوں نے ان مضامین کو کتابی شکل میں ڈھالنے میں میری مدد کی ہے.ان میں برادرم مکرم ناصر احمد صاحب شمس سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ اور مکرم برادرم ایم اے بسمل چٹھہ صاحب ایڈیشنل ناظر صاحب اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا بے حد مشکور ہوں جنہوں نے اپنا قیمتی وقت صرف کر کے اس کتاب کی اشاعت میں ہماری مدد کی.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کے ساتھ ہو.آمین اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنی جناب خاص سے انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اس کتاب کو مفید پائیں تو ہم سب کے لئے دعائے خاص کریں، اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ خدمت دین کی توفیق عطا فرما تا چلا جائے.آمین والسلام خاکسار اقبال احمد نجم پروفیسر جامعہ احمدیہ یو کے بروز جمعۃ المبارک ۱۱ جنوری ۲۰۰۸-۲۰۱۵

Page 9

فہرست مضامین صفحہ نمبر ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ > ۲۹ ۱۳ ۱۵ 1 عنوان یعنی الاسماء الحسنیٰ حسن و احسان کا منبع.خدا تعالیٰ کی صفات اربعہ پہلی اُم الصفات.ربوبیت کا فیضان دوسری اُم الصفات.رحمانیت کا فیضان تیسری اُم الصفات.رحیمیت کا فیضان چوتھی اُم الصفات.مالکیت کا فیضان اسماء باری تعالیٰ کی تقسیم أم الصفات رب کے تحت صفات الہیہ الرب الخالق البارى ، المصور الخلاق ، الفاطر العالم الرازق الصانع الباعث الهادي الذاري، المدبر

Page 10

٣١ ۳۲ ٣٣ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۱ ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۰ ۵۱ ۵۲ ۵۳ الاكرم ، الغفار المحيى الحيى ، القيوم الفالق ، المبدى ، المعيد المقيت الجبار المحصى المغنى ذو الجلال والاكرام الرشيد ذو الطول ، ذو المعارج الغالب احسن الخالقين ، خير المنزلين أم الصفات رحمن کے تحت صفات الہیہ الرحمن المنان النور الوهاب المعطى الواسع الحكيم الحليم الخبير المجيد الماجد الحميد الغنى الحفيظ الحافظ الرقيب المتين البر المطهر الجاعل

Page 11

۵۴ ۵۷ ۵۹ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ G ۶۶ ۶۷ ۶۹ ۶۹ ۷۰ اے ง ۷۲ ۷۳ ۷۴ ۷۶ السلام ، المومن المهيمن البصير الشافي المولى الصبور خير الرازقين الناصر النصير خير الناصرين أم الصفات رحیم کے تحت صفات الہیہ السميع المجيب اللطيف الكريم الودود الرؤوف الولى خير الراحمين ، ارحم الراحمين الغافر ، قابل التوب التواب خير الغافرين ذو مغفرة ، ذورحمة الشكور الشاكر كاشف الضر الوكيل العفو القابض الباسط المعز المذل المقدم المؤخر خير الماكرين الرافع الوافي ، الكفيل الواجد المغير النافع أم الصفات مالک کے تحت صفات الہیہ

Page 12

22 ZA ۷۹ ง ۸۰ Al ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۵ ۸۶ ۸۷ ٨٨ ۸۹ ۹۰ ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ المالک الملک ملیک مالک الملک ملکوت العزيز القدوس المتكبر القهار ، القاهر الواحد الصمد الفتاح خير الفاتحين العظيم العلى ، الكبير، الوالي الشهيد الحق القوى ، شديد العقاب سريع العقاب شديد العذاب شديد البطش مخزى الكافرين برى من المشركين ، موهن كيد الكافرين اشد باسا الضار شديد المحال الحسيب سريع الحساب اسرع الحاسبين الحكم احکم الحاکمین ، خیر الفاصلين القاضي مبتلى القادر المقتدر الخافض المتوفى المميت، الوافي الوارث الجامع الجليل العدل الأول الآخر الظاهر

Page 13

۹۶ ۹ ۱۶ لا ۲۰ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۹ ۳۰ ٣٢ ۳۷ الباطن ، ذو العرش عبادالرحمن کی خصوصیات عباد الرحمن کی پہلی خصوصیت عبادالرحمن کی دوسری خصوصیت عباد الرحمن کی تیسری خصوصیت عباد الرحمن کی چوتھی خصوصیت عباد الرحمن کی پانچویں خصوصیت عبادالرحمن کی چھٹی خصوصیت عباد الرحمن کی ساتویں خصوصیت عبادالرحمن کی آٹھویں خصوصیت عباد الرحمن کی نویں خصوصیت عبادالرحمن کی دسویں خصوصیت عباد الرحمن کی گیارہویں خصوصیت عبادالرحمن کی بارہویں خصوصیت عبادالرحمن کی تیرھویں خصوصیت

Page 14

بسم اللہ الرحمن الرحیم یعنی الأَسْمَاء الْحُسْنى خدا تعالیٰ جو اپنے اس کا رخانہ قدرت کی جان ہے اور اسی کے دم سے ہر نیست کو ہست اور اس کی آن بان ہے.اس کی ہرارضی و سماوی مخلوق کا مطالعہ اس کا ایک نیا عرفان ہے.اور یہ بھی سچ ہے کہ اس کے سمجھنے اور پہچاننے کا سر چشمہ صرف قرآن ہے.اور اس کا کامل پر تو اور انعکاس صرف حامل قرآن ہے جس پر الہی تجلیات ہر آن ہیں.جن کے کامل ظل حضرت مسیح الزمان علیہ السلام ہیں.اور ہمارے ( آقائے دو جہاں ) کا یہ ارشاد واجب صد احترام ہے کہ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِلهِ تِسْعَةً وَتِسْعِيْنَ إِسْمَا مِائَةٌ غَيْرَ وَاحِدٍ مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ، الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَثِيرُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوَّرُ الْغَفَّارُ الْقَهَّارُ الْوَهَّابُ الرَّزَّاقُ الْفَتَاحُ الْعَلِيْمُ الْقَابِضُ.الْبَاسِطُ الْخَافِضُ الرَّافِعُ الْمُعِزُ الْمُذِلُّ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ الْحَكَمُ الْعَدْلُ اللّطِيفُ الْخَبِيرُ الْعَلِيمُ الْعَظِيمُ الْغَفُورُ.الشَّكُورُ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ الْحَفِيظُ الْمُقِيْتُ الْحَسِيبُ.

Page 15

یعنی الأسماء الحسنى الْجَلِيلُ الْكَرِيمُ الرَّقِيبُ الْمُجِيْبُ الْوَاسِعُ الْحَكِيمُ.الْوُدُودُ الْمَجِيْدُ الْبَاعِثُ الشَّهِيدُ الْحَقِّ الْوَكِيلُ الْقَوِيُّ.الْمَتِينُ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ الْمُحْصِ الْمُبْدِي الْمُعِيدُ الْمُحْيِ الْمُمِيتُ الْحَيُّ الْقَيُّومُ الْوَاجِدُ الْمَاجِدُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ الْقَادِرُ الْمُقْتَدِرُ الْمُقَدِّمُ الْمُؤَخِّرُ الْأَوَّلُ الْآخِرُ الظَّاهِرُ الْبَاطِنُ الْوَالِيُّ الْمُتَعَالَى الْبَنُ التَّوَّابُ الْمُنْتَقِمُ الْعَفُقُ الرّءُوْفٌ مَالِكُ الْمُلْكِ.ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.الْمُقْسِطُ الْجَامِعُ الْغَنِيُّ الْمُغْنِى الْمَانِعُ الصّارُ النَّافِعُ النُّورُ الْهَادِي الْبَدِيعُ الْبَاقِي الْوَارِثُ الرَّشِيدُ الصَّبُورُ ( ترمذی ابواب الدعوات ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صالی یہ تم نے فرمایا: باستثنائے اسم ذات اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں ، جو زندگی میں ان کو مدنظر رکھے گا اور ان کا مظہر بننے کی کوشش کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا.یہ نام آنحضرت صلہ اسلام نے اس طرح گئے: اللہ تعالیٰ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ بن مانگے دینے والا ، بار بار رحم کرنے والا ، بادشاہ، ہر قسم کے نقائص سے پاک اور منزہ، تمام آفات سے بچانے والا ، امن دینے والا ،نگہبان ، غالب، نقصان کی تلافی کرنے والا ، کبریائی والا، پیدا کرنے والا ، نیست سے ہست کرنے والا، صورت گری کرنے والا ، ڈھانپنے اور پردہ پوشی کرنے والا مکمل غلبہ رکھنے والا ، بے دریغ عطا کرنے والا ، روزی رساں ، مشکل کشا، سب کچھ جاننے والا ، روک لینے والا ، کشادگی پیدا کرنے والا ، پست کرنے والا ، بالا کرنے والا عزت دینے

Page 16

یعنی الأسماء الحسنى والا، ذلت دینے والا، سننے والا ، دیکھنے والا،فیصلہ دینے والا، عدل کرنے والا ، باریک بین، باخبر ، حلم والا ، عظمت والا ، خطا پوش، قدردان، بلند مرتبه، بڑی شان والا ، نگرانی کرنے والا ، سب کا محافظ ، حساب کتاب لینے والا ، جلالت شان والا، صاحب کرم و کرامت، نگہبان ، قبول کرنے والا ،وسعت والا ،حکمت والا، بڑا محبت کرنے والا ، بزرگی والا، دوبارہ زندگی دینے والا ، ہمہ بین، ہر کمال کا دائمی اہل، کفایت کرنے والا، صاحب قوت، صاحب قدرت ، مددگار، لائق حمد ، شمار کننده ، اول آفریننده، باز آفریننده، زندگی بخشنے والا، موت دینے والا، زندہ جاوید، قائم بالذات، بے نیاز ، صاحب بزرگی، یکتا، یگانه مستغنی، قدرت والا ، صاحب اقتدار، آگے بڑھانے والا، پیچھے ہٹانے والا، پہلا، آخری ، عیاں، نہاں، مالک، متصرف، بلند و بالا ، نیکوں کی قدر کرنے والا ، تو جہ قبول کرنے والا ، انتقام لینے والا ، معاف کرنے والا ، نرم سلوک کرنے والا، بادشاہت کا مالک عظمت و کرامت والا ، انصاف کرنے والا ، یکجا کرنے والا، بے نیاز، بے نیاز کرنے والا ، روکنے والا ، ضرر کا مالک، نفع دینے والا ، نور ہی نور، ہدایت دینے والا ، نئی سے نئی ایجاد کرنے والا ، صاحب بقا ، اصل مالک ، راہنما، سزا دینے میں دھیما.اللہ تعالیٰ نے صفات باری میں سے سورۃ فاتحہ یعنی اُم القرآن میں جن صفات کے ذریعہ اپنا تعارف فرمایا ہے.ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ کی چار اعلیٰ درجہ کی صفتین ہیں جو ام الصفات ہیں اور ہر ایک صفت ہماری بشریت سے ایک امر مانگتی ہے اور وہ چار صفتیں یہ ہیں.ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت، مالکیت یوم الدین.ا.ربوبیت:.اپنے فیضان کے لئے عدم محض اشیاء یا مشابہ بالعدم کو

Page 17

یعنی الأسماء الحسنى چاہتی ہے.اور تمام انواع مخلوق کے خواہ جاندار ہوں یا غیر جاندار اس سے پیرا یہ وجود پہنتے ہیں.۲.رحمانیت:.اپنے فیضان کے لئے صرف عدم کو چاہتی ہے.یعنی اس عدم محض کو جس کے وقت میں وجود کا کوئی اثر اور ظہور نہ ہوا اور صرف جانداروں سے تعلق رکھتی ہے اور چیزوں سے نہیں.۳.رحیمیت :.اپنے فیضان کے لئے موجود ذوالعقل کے منہ سے نیستی اور عدم کا اقرار چاہتی ہے اور صرف نوع انسان سے تعلق رکھتی ہے.۴.مالکیت یوم الدین : اپنے فیضان کے لئے فقیرانہ تضرع اور الحاح کو چاہتی ہے اور صرف ان انسانوں سے تعلق رکھتی ہے جو گداؤں کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرتے ہیں اور فیض پانے کے لئے دامن اخلاص پھیلاتے ہیں اور سچ مچ اپنے آپ کو تہی دست پا کر خدا تعالیٰ کی مالکیت پر ایمان لاتے ہیں.یہ چار الہی صفات ہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہیں اور ان میں سے جو رحیمیت کی صفت ہے وہ دعا کی تحریک کرتی ہے.اور مالکیت کی صفت خوف اور قلق کی آگ سے گداز کر کے سچا خشوع اور خضوع پیدا کرتی ہے کیونکہ اس صفت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مالک جزاء ہے کسی کا حق نہیں جو دعویٰ سے کچھ طلب کرے اور مغفرت اور نجات محض فضل پر ہے.“ ایام اصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۳) ام الصفات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفتیں بیان فرمائی ہیں.یعنی رب العالمین ، رحمن ، رحیم ، مالک یوم الدین اور ان چہار صفتوں میں سے رب العالمین

Page 18

۵ یعنی الأسماء الحسنى کو سب سے مقدم رکھا ہے اور پھر بعد اس کے صفت رحمن کو ذکر کیا اور پھر صفت رحیم کو بیان فرمایا.پھر سب سے اخیر صفت مالک یوم الدین کو لائے.پس سمجھنا چاہیے کہ یہ ترتیب خدا تعالیٰ نے کیوں اختیار کی اس میں نکتہ یہ ہے کہ ان صفات اربعہ کی ترتیب طبعی ہے اور اپنی واقعی صورت میں اسی ترتیب سے یہ صفات ظہور پذیر ہوتی ہیں.“ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۴۴) پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:.یہ چار صفتیں ہیں جو اس کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں یعنی اس کے پوشیدہ وجود کا ان صفات کے ذریعہ سے اس دنیا میں پتہ لگتا ہے.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۹) کس قدر ظاہر ہے نو ر اس مبداء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا ہے عجب جلوہ تیری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی راہ ہے تیرے دیدار کا ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا ایک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑ اغم اغیار کا سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۵۲) کو پیش کرنے کا یہ ایک نیا اسلوب ہے جس کی طرف راہنمائی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے.اس اصول کے تحت خدا تعالیٰ کی اُم الصفات کی تشریحات کے ساتھ ساتھ ان سے نکلنے والی دیگر صفات الہیہ کا علم حاصل کرنے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا ایک نیا عرفان حاصل ہوتا ہے.جو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے

Page 19

یعنی الأسماء الحسنى عطا فرمایا ہے.تا مخلوق خدا جو اپنے خالق و مالک سے دور جا پڑی ہے پھر سے اس کو پہچاننے لگ جائے اور اس کے پیار اور حسن و احسان کے جلوے مشاہدہ کرے.اور اس طرح سے اس کا گرویدہ ہو کر عشق الہی کا مزہ چکھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ”اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں؟ کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں؟ اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں؟“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱) ۶

Page 20

یعنی الأسماء الحسنى حسن و احسان کا منبع.خدا تعالیٰ کی صفات اربعہ انسانی پیدائش کا مقصد خدا تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنا ہے اور اس کا عبد بنا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً (البقرة : 139 ) اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرو اور خدا تعالیٰ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہو سکتا ہے.پس خدا تعالیٰ کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کے لئے اس کا عرفان حاصل کرنا ضروری ہے اور عرفان الہی اس کی صفات کو جانے ، ان پر غور کرنے اور اسی کی ان صفات کے جلوے اپنے گرد و بیش دیکھتے رہنے سے حاصل ہوتا ہے.جس کی دعوت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جا بجادی.مثلاً فرمایا: وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ (آل عمران : 192) ”خدا تعالیٰ کی صفت خلق کا مظاہر جو تمہارے گرد و پیش عالمین میں بکھرے پڑے ہیں ان میں فکر کرو اور دیکھو کیسے اس نے زمین و آسمان کو اور پھر ان میں دیگر آسمان کو اور پھر ان میں دیگر ان گنت مخلوقات کو پیدا کیا اور انہیں اپنی حکمت کاملہ کے ساتھ تخلیق کیا اور اپنے خالق ہونے نیز الباری اور المصور ہونے کا اعلیٰ درجے کا ثبوت فراہم کیا.خدا تعالیٰ کی تمام صفات اندرونی طور پر ایک دوسرے سے مربوط ہیں کیونکہ وہ سب ایک ہی ہستی کی صفات اور مختلف پر تو ہیں اسی لئے خدا تعالیٰ کی ایک صفت کا جلوہ دیگر بہت سی صفات کی طرف رہنمائی کرتا ہے جیسے کہ وہ عزیز ہے اسی کا غلبہ قدرت مخلوق پر مستولی ہے.وہ جبار ہے.ہر ٹوٹ پھوٹ کے جوڑ نے جاڑنے کا انتظام اس نے کر چھوڑا ہے.غرضیکہ اس کی صفات کے جلووں کا مطالعہ کرنے اور اس کی صفات پر غور کرنے سے انسانی عقل کی رہنمائی واحد فی الذات الہ کی طرف ہوتی ہے اور توحید باری تعالیٰ کا ۷

Page 21

یعنی الأسماء الحسنى مضمون کھلتا ہے.” خدا تعالیٰ کا ذاتی نام اللہ ہے اور اللہ اُس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں حسن و احسان کے کمال کے نقطہ پر پہنچی ہوئی ہوں اور کوئی منقصت اُس کی ذات میں نہ ہو.قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کا ملہ اس میں پائی جائیں.“ ایام اصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۷) اللہ جس کا ترجمہ ہے ” وہ معبود.یعنی وہ ذات جو غیر مدرک اور فوق العقول اور وراء الوراء اور دقیق در دقیق ہے جس کی طرف ہر ایک چیز عابدانہ رنگ میں یعنی عشقی فنا کی حالت میں جو نظری فنا ہے یا حقیقی فنا کی حالت میں جو موت ہے رجوع کر رہی ہے.“ (تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷ صفحه ۲۶۸) ذاتی نام کے علاوہ خدا تعالیٰ کے صفاتی نام احادیث رسول صلی یا کہ تم میں ۹۹ بیان کئے گئے ہیں جن میں سے ۲۹ تو ایسے ہیں جو لفظاً قرآن مجید میں موجود نہیں البتہ ان کے مشتقات ہیں اور ۷۰ نام بجنسم موجود ہیں.اس وقت خدا تعالیٰ کی صرف ان چار صفات کا تذکرہ مقصود ہے جو سورہ فاتحہ میں بیان ہیں اور جنہیں اُمہات الصفات کہا گیا ہے.سورہ فاتحہ ہر رکعت نماز میں پڑھی جاتی ہے.بزرگان دین اور اولیاء اللہ نے اس کے بار بار دہرانے کو روحانی مقاصد کے لئے مفید بتایا ہے.سچ ہے خدا تعالیٰ نے اپنی ذات کا تعارف ابتدائے قرآن کریم میں چار صفات کے ذریعہ فرمایا ہے اور باقی کی تمام صفات کسی نہ کسی صفات کے ذیل میں آتی ہیں جیسے سورۃ فاتحہ ام الکتاب ہے جس کی سات آیات کی تفسیر قرآن کریم ہے یا یہ کہ دیں کہ قرآن کریم کا خلاصہ

Page 22

یعنی الأسماء الحسنى جس طرح سورۃ فاتحہ ہے اسی طرح امہات الصفات اپنے اندر دیگر صفات کو لئے ہوئے ہیں چنانچہ کے مضمون کو امہات الصفات کے چار ابواب میں باندھ دیا گیا ہے اس اصول کو سمجھنے کے بعد امہات الصفات اور صفات الہی کے مضمون کا سمجھنا کافی آسان ہو جاتا ہے اور اس اصول کے تحت قرآن کریم میں بیان شدہ صفات پر غور کرنے سے عرفان الہی میں ترقی ہوتی ہے.وباللہ التوفیق صفات باری سے کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں: پھر اس سورت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ صفات باری.تعالیٰ اس کے مطابق اثر دکھاتی ہیں.جتنا بندہ کو ان پر ایمان ہو اور جب کوئی عارف خدا تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کی طرف توجہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے اور اس پر ایمان لے آتا ہے پھر ایمان لے آتا ہے.یہاں تک کہ وہ اپنے ایمان میں فنا ہو جاتا ہے تو اس صفت کی روحانی تاثیر اس کے دل میں داخل ہو جاتی ہے اور اس پر قبضہ کر لیتی ہے.تب سالک مشاہدہ کرتا ہے کہ اس کا سینہ غیر اللہ کی محبت سے خالی ہے اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہے اور اس کی زندگی محسن خدا کی یاد کی وجہ سے نہایت خوشگوار بن گئی ہے پس وہ ہر لحاظ سے خوش و خرم ہو جاتا ہے پھر اس پر اس صفت کی مزید تجلی ہوتی ہے اور وہ اس پر چھا جاتی ہے یہاں تک کہ ایسے بندہ کا دل اس صفت کا عرش بن جاتا ہے اور نفسانیت کا رنگ بالکل ڈھل جانے اور بندہ کے فانی فی اللہ ہونے کے بعد اس کا دل اس صفت کے رنگ میں خوب رنگین ہو جاتا ہے.“ ( ترجمه از کرامات الصادقین صفحه ۸۴،۸۳) ۹

Page 23

یعنی الأسماء الحسنى پہلی اُم الصفات ربوبیت کا فیضان یہ وہ فیضان مطلق ہے کہ جو بلاتمیز ذی روح وغیر ذی روح افلاک سے لے کر خاک تک تمام چیزوں پر علی الا تصال جاری ہے اور ہر یک چیز کا عدم سے صورت وجود پکڑنا اور پھر وجود کا حد کمال تک پہنچنا اسی فیضان کے ذریعہ سے ہے.اور کوئی چیز جاندار ہو یا غیر جاندار اس سے باہر نہیں.اسی سے وجود تمام ارواح واجسام ظہور پذیر ہوا اور ہوتا ہے اور ہر یک چیز نے پرورش پائی اور پاتی ہے.یہی فیضان تمام کائنات کی جان ہے اگر ایک لمحہ منقطع ہو جائے تو تمام عالم نابود ہو جائے.اور اگر نہ ہوتا تو مخلوقات میں سے کچھ بھی نہ ہوتا.اس کا نام قرآن شریف میں ربوبیت ہے.اور اسی کی رو سے خدا کا نام رب العالمین ہے.جیسا کہ اس نے دوسری جگہ بھی فرمایا ہے.وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيني - (الانعام: ۱۶۵) یعنی خدا ہر یک چیز کا رب ہے اور کوئی چیز عالم کی چیزوں میں سے اس کی ربوبیت میں سے باہر نہیں.رسول خدا نے سورۃ فاتحہ میں سب صفات فیضانی میں سے پہلے صفت رب العالمین کو بیان فرما یا.دوسری اُم الصفات رحمانیت کا فیضان دوسراقم فیضان کا جو دوسرے مرتبہ پر واقع ہے....یہ ایک خاص عنایت از لیہ ہے جو جانداروں کے حال پر مبذول ہے یعنی ذی روح چیزوں کی طرف حضرت باری کی جو ایک خاص توجہ ہے، اس کا نام فیضان عام ہے.اور اس فیضان کی یہ تعریف ہے کہ یہ بلا استحقاق اور بغیر اس کے کہ کسی کا کچھ حق ہو سب ذی روحوں پر حسب حاجت ان کے جاری ہے.کسی کے عمل کا پاداش نہیں.اور اسی فیضان کی برکت سے ہر یک جاندار جیتا جاگتا، کھاتا پیتا اور آفات سے محفوظ اور ضروریات سے متمتع نظر آتا ہے اور ہر یک ذی روح کے لئے تمام اسباب

Page 24

یعنی الأسماء الحسنى زندگی کے جو اس کے لئے یا اس کے نوع کے بقا کے لئے مطلوب ہیں میسر نظر آتے ہیں اور یہ سب آثار اسی فیضان کے ہیں کہ جو کچھ روحوں کو جسمانی تربیت کے لئے درکار ہے.سب کچھ دیا گیا ہے.اور ایسا ہی جن روحوں کو علاوہ جسمانی تربیت کے روحانی تربیت کی بھی ضرورت ہے یعنی روحانی ترقی کی استعداد رکھتے ہیں.ان کے لئے قدیم سے عین ضرورتوں کے وقتوں میں کلام الہی نازل ہوتا رہا ہے.غرض اسی فیضانِ رحمانیت کے ذریعہ سے انسان اپنی کروڑ ہا ضروریات پر کامیاب ہے.سکونت کے لئے سطح زمین، روشنی کے لئے چاند اور سورج ، دم لینے کے لئے ہوا، پینے کے لئے پانی، کھانے کے لئے انواع اقسام کے رزق اور علاج امراض کے لئے لاکھوں طرح کی ادویہ اور پوشاک کے لئے طرح طرح کی پوشیدنی چیزیں اور ہدایت پانے کے لئے صحف ربانی موجود ہیں اور کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ تمام چیزیں میرے عملوں کی برکت سے پیدا ہو گئیں ہیں....پس ثابت ہے کہ یہ فیضان جو ہزار باطور پر ذی روحوں کے آرام کے لئے ظہور پذیر ہو رہا ہے یہ عطیہ بلا استحقاق ہے جو کسی عمل کے عوض میں نہیں فقط ربانی رحمت کا ایک جوش ہے تاہر یک جاندار اپنے فطرتی مطلوب کو پہنچ جائے اور جو کچھ اس کی فطرت میں حاجتیں ڈالی گئیں وہ پوری ہو جائیں.پس اس فیضان میں عنایت از لیہ کا کام یہ ہے کہ انسان اور جمیع حیوانات کی ضروریات کا تعہد کرے اور ان کی بائیست اور نا بائیست کی خبر رکھے تا وہ ضائع نہ ہو جائیں اور ان کی استعداد میں چیز کتمان میں نہ رہیں اور اس صفت فیضانی کا خدائے تعالیٰ کی ذات میں پایا جانا قانون قدرت کے ملاحظہ سے نہایت بدیہی طور پر ثابت ہو رہا ہے کیونکہ کسی عاقل کو اس میں کلام نہیں کہ جو کچھ چاند اور سورج اور زمین اور عناصر وغیرہ ضروریات دنیا میں پائی جاتی ہیں جن پر تمام ذی روحوں کی زندگی کا مدار ہے اسی فیضان کے اثر سے ظہور پذیر ہیں اور ہر یک متنفس بلا تمیز انسان و حیوان و مومن و کافرونیک و بد حسب حاجت اپنے ان فیوض مذکورہ بالا سے مستفیض ہو رہا ہے اور کوئی ذی روح اس سے محروم نہیں اور اس فیضان کا نام قرآن شریف میں رحمانیت ہے.“ 11

Page 25

یعنی الأسماء الحسنى ترجمه آیات سوره فرقان رکوع ۶،۵ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یعنی جب کافروں اور بے دینوں اور دہریوں کو کہا جاتا ہے کہ تم رحمن کو سجدہ کرو تو وہ رحمن کے نام سے متنفر ہو کر بطور انکار سوال کرتے ہیں کہ رحمن کیا چیز ہے.( پھر بطور جواب فرمایا ) رحمان وہ ذات کثیر البرکت اور مصدر خیرات دائمی ہے جس نے آسمان میں برج بنائے.برجوں میں آفتاب اور چاند کو رکھا جو کہ عامہ مخلوقات کو بغیر تفریق کا فرومومن کے روشنی پہنچاتے ہیں.اسی رحمان نے تمہارے لئے یعنی تمام بنی آدم کے لئے دن اور رات بنائے جو کہ ایک دوسرے کے بعد دورہ کرتے رہتے ہیں تا جو شخص طالب معرفت ہو وہ ان دقائق حکمت سے فائدہ اٹھا وے اور جہل اور غفلت کے پردہ سے خلاصی پاوے اور جو شخص شکر نعمت کرنے پر مستعد ہو.وہ شکر کرے.رحمان کے حقیقی پرستار وہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بردباری سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے سخت کلامی سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں یعنی بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دعا دیتے ہیں.اور تشبہ باخلاق رحمانی کرتے ہیں کیونکہ رحمان بھی بغیر تفریق نیک و بد کے اپنے سب بندوں کو سورج اور چاند اور زمین اور دوسری بے شمار نعمتوں سے فائدہ پہنچاتا ہے.پس ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اچھی طرح کھول دیا کہ رحمان کا لفظ ان معنوں کر کے خدا پر بولا جاتا ہے کہ اس کی رحمت وسیع عام طور پر ہر یک برے بھلے پر محیط ہورہی ہے.جیسا ایک جگہ اور بھی اسی رحمت عام کی طرف اشارہ فرمایا ہے.قَالَ عَذَ إِلَى أَصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۚ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف:۱۵۷) یعنی میں اپنا عذاب جس کو لائق اس کے دیکھتا ہوں پہنچا تا ہوں اور میری رحمت نے ہر یک چیز کوگھیر رکھا ہے.....اگر خدا میں صفت رحمانیت ۱۲

Page 26

۱۳ یعنی الأسماء الحسنى کی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ تم اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے....(پھر فرمایا ) پرندے بھی جو ایک پیسہ کے دو تین مل سکتے ہیں وہ بھی اس فیضان کے وسیع دریا میں خوشی اور سرور سے تیر رہے ہیں.....(اس کے تحت) خدائے تعالیٰ آپ ہی ہر یک ذی روح کو اس کی ضروریات جن کا وہ حسب فطرت محتاج ہے عنایت فرماتا ہے اور بن مانگے اور بغیر کسی کوشش کے مہیا کر دیتا ہے.“ ( براہین احمدیہ چہار حصص روحانی خزائن جلد ا حاشیه ۴۴۵ تا ۴۵۰) تیسری اُم الصفات رحیمیت کا فیضان دو لیکن فیضان خاص میں جہد اور کوشش اور تزکیہ قلب اور دعا اور تضرع اور توجہ الی اللہ اور دوسرا ہر طرح کا مجاہدہ جیسا کہ موقع ہو شرط ہے اور اس فیضان کو وہی پاتا ہے جو ڈھونڈتا ہے اور اسی پر وارد ہوتا ہے جو اس کے لئے محنت کرتا ہے اور اس فیضان کا وجود بھی ملاحظہ قانون قدرت سے ثابت ہے کیونکہ یہ بات نہایت بد یہی ہے کہ خدا کی راہ میں سعی کرنے والے اور غافل رہنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے.بلاشبہ جو لوگ دل کی سچائی سے خدا کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اور ہر یک تاریکی اور فساد سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں ایک خاص رحمت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے.اس فیضان کے رو سے خدائے تعالیٰ کا نام قرآن شریف میں رحیم ہے اور یہ مرتبہ صفت رحیمیت کا بوجہ خاص ہونے اور مشروط به شرائط ہونے کے مرتبہ صفت رحمانیت سے موخر ہے.....جیسا کہ ایک جگہ فرمایا ہے : وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (الاحزاب: ۴۴) یعنی خدا کی رحیمیت صرف ایمانداروں سے خاص ہے جس سے کافر کو یعنی بے ایمان اور رسرکش کو حصہ نہیں.

Page 27

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى اس جگہ دیکھنا چاہیے کہ خدا نے کیسے صفت رحیمیت کو مومن کے ساتھ خاص کر دیا لیکن رحمانیت کو کسی جگہ مومنین کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ جو مومنین سے رحمت خاص متعلق ہے ہر جگہ اس کو رحیمیت کی صفت سے ذکر کیا ہے.پھر دوسری جگہ فرمایا ہے.إنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ - (الاعراف: ۵۷) 66 یعنی رحیمیت الہی انہی لوگوں سے قریب ہے جو نیکو کار ہیں.“ ( براہین احمدیہ چہار حصص روحانی خزائن جلد نمبر ۱ حاشیه صفحه ۴۵۱) آپ علیہ السلام اس صفت کے ذیل میں ہی ایک جگہ فرماتے ہیں : اب دعا سے انکار کرنا یا اس کو بے سود سمجھنا یا جذب فیوض کے لئے اس کو ایک محرک قرار نہ دینا گویا خدا تعالیٰ کی تیسری صفت سے جو رحیمیت ہے انکار کرنا ہے.مگر یہ انکار در پردہ دہریت کی طرف ایک حرکت ہے کیونکہ رحیمیت ہی ایک ایسی صفت ہے جس کے ذریعہ سے باقی تمام صفات پر یقین بڑھتا اور کمال تک پہنچتا ہے.وجہ یہ کہ جب ہم خدا تعالیٰ کی رحیمیت کے ذریعہ سے اپنی دعاؤں اور تضرعات پر الہی فیضوں کو پاتے ہیں اور ہر ایک قسم کی مشکلات حل ہوتی ہیں تو ہمارا ایمان خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرت اور رحمت اور دوسری صفات کی نسبت بھی حق الیقین تک پہنچتا ہے اور ہمیں چشم دید ماجرا کی طرح سمجھ آجاتا ہے کہ خدا تعالی در حقیقت حمد اور شکر کا مستحق ہے اور درحقیقت اس کی ربوبیت اور رحمانیت اور دوسری صفات سب درست اور صحیح ہیں لیکن بغیر رحیمیت کے ثبوت کے دوسری صفات بھی مشتبہ رہتی ہیں.“ ایام اصلح روحانی خزائن جلد نمبر ۱۴ صفحه ۲۴۳، ۲۴۴) ۱۴ پس خدا تعالیٰ کی یہ ہر دوصفات یعنی رحمانیت اور رحیمیت اس کی ربوبیت کو عام و خاص کے دائروں میں تقسیم کرتی ہیں.یا یوں کہنا چاہیے کہ اس کے جلال و جمال اور احسان کو ظاہر کرتی

Page 28

یعنی الأسماء الحسنى ہیں.رحیمیت ، ربوبیت اور استعداد معرفت کے مطابق سلوک ہوتا ہے اور رحمانیت ربوبیت کی وہ عام قسم ہے جس میں رحمت باری کی ایک عام ہوا چلتی ہے.قومی کے کسب و عمل و کوشش کا کوئی دخل نہیں.لیکن مورد رحم زیر رحیمیت ہونے کے لئے اعمال صالحہ کے بجالانے اور تزکیہ نفس حاصل کرنے ریا وغیرہ سے بکلی مجتنب رہنے اور خلوص کے کمال اور طہارت قلب کی ضرورت ہے تا خدائے ذوالجلال کی اس صفت رحیمیت کا پر تو ظاہر ہو.جب تک موت کے قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو جائے اس کا ورود نہیں ہوتا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں: پس مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں ان نعمتوں سے حصہ ملا بلکہ وہی اصل انسان اور باقی تمام لوگ تو چارپایوں کی طرح ہیں.“ (اعجاز البح) سچ ہے خدا تعالیٰ کی کی ذات وصفات کا عرفان ہی ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے بلکہ ایسا انسان مزید ترقی کرتا ہے اور پھر عرفان کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر اور خدا نما بن جاتا ہے.اور ایسے وجودوں کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے.گویا وہ خدا تعالیٰ کی تصویر بن جاتے ہیں.اور سب سے کامل مظہر ان صفات باری کے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی اسلامی ایام تھے.جنہوں نے دنیا میں آکر خدا تعالیٰ کے پوشیدہ چہرے کو عریاں کر دکھایا.چنانچہ آپ صلی یہ ہم نے ہی فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ۹۹ نام ہیں.مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ ( متفق عليه ) یعنی جس نے انہیں شمار کیا ان کے معانی پر اطلاع پائی.ان کا عرفان حاصل کیا.وہ جنت میں داخل ہو گیا.چوتھی اُم الصفات مالکیت کا فیضان اس آخری فیضان میں کہ جو تمام فیوض کا خاتمہ ہے جو کچھ پہلے فیضانوں کی نسبت عند العقل زیادتی اور کمالیت متصور ہو سکتی ہے وہ یہی ہے کہ یہ فیضان نہایت منکشف اور صاف ۱۵

Page 29

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى طور پر ہو اور...شخص فیض یاب کو بطور حق الیقین یہ امر مشہود اور محسوس ہو کہ حقیقت میں وہ مالک الملک ہی اپنے ارادہ اور توجہ اور قدرت خاص سے ایک نعمت عظمی اور لذت کبری اس کو عطا کر رہا ہے اور حقیقت میں اس کو اپنے اعمال صالحہ کی ایک کامل اور دائمی جزا کہ جو نہایت اصفی اور نہایت اعلیٰ اور نہایت مرغوب اور نہایت محبوب ہے مل رہی ہے.کسی قسم کا امتحان اور ابتلا نہیں ہے.اور ایسے فیضان اکمل اور اتم اور ابھی اور اعلیٰ اور اجلی سے متمتع ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ بندہ اس عالم ناقص اور مکدر اور کثیف اور تنگ اور منقبض اور نا پائیدار مشتبہ الحال سے دوسرے عالم کی طرف انتقال کرے.کیونکہ یہ فیضان تجلیات عظمی کا مظہر ہے جن میں شرط ہے کہ محسن حقیقی کا جمال بطور عریاں اور بمرتبہ حق الیقین مشہود ہو.اور کوئی مرتبہ شہود اور ظہور اور یقین کا باقی نہ رہ جائے.اور کوئی پردہ اسباب معتادہ کا درمیان نہ ہو.اور ہر یک دقیقہ معرفت تامہ کا مکمن قوت سے حیر فعل میں آجائے.اور نیز فیضان بھی ایسا منکشف اور معلوم الحقیقت ہو کہ اس کی نسبت آپ خدا نے یہ ظاہر کر دیا ہو کہ وہ ہر یک امتحان اور ابتلاء کی کدورت سے پاک ہے اور نیز اس فیضان میں وہ اعلیٰ اور اکمل درجہ کی لذتیں ہوں جن کی پاک اور کامل کیفیت انسان کے دل اور روح اور ظاہر اور باطن اور جسم اور جان اور ہر یک روحانی اور بدنی قوت پر ایسا اکمل اور ابھی احاطہ رکھتی ہو کہ جس پر عقلاً اور خیالا اور وہما زیادت متصور نہ ہو.اور یہ عالم کہ جو ناقص الحقیقت اور مکڈر الصورت اور بالکتۃ الذات اور مشتبہ الکیفیت اور ضیق الظرف ہے.ان تجلیات عظمیٰ اور انوار اصفی اور عطیات دائمی کی برداشت نہیں کر سکتا.اور وہ اشعہ تامہ کاملہ دائمہ اس میں سما نہیں سکتے بلکہ اس کے ظہور کے لئے ایک دوسرا عالم درکار ہے کہ جو اسباب معتادہ کی ظلمت سے بکلی پاک اور منزہ اور ذات واحد قہار کی اقتدار کامل اور خالص کا مظہر ہے.ہاں اس فیضان اخص سے ان کامل انسانوں کو اسی زندگی میں کچھ حظ پہنچتا ہے کہ جو سچائی کی راہ پر کامل طور پر قدم مارتے ہیں اور اپنے نفس کے ارادوں اور خواہشوں سے الگ ہو کر بکلی خدا کی طرف جھک جاتے ہیں کیونکہ وہ مرنے سے پہلے مرتے ہیں اور اگرچہ بظاہر ۱۶

Page 30

یعنی الأسماء الحسنى ۱۷ صورت اس عالم میں ہیں لیکن در حقیقت وہ دوسرے عالم میں سکونت رکھتے ہیں.پس چونکہ وہ اپنے دل کو اس دنیا کے اسباب سے منقطع کر لیتے ہیں اور عادات بشریت کو تو ڑ کر اور بیکبارگی غیر اللہ سے مونہہ پھیر کر وہ طریق جو خارق عادت ہے اختیار کر لیتے ہیں اس لئے خداوند کریم بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے اور بطور خارق عادت ان پر اپنے وہ انوار خاصہ ظاہر کرتا ہے کہ جو دوسروں پر بجز موت کے ظاہر نہیں ہو سکتے.غرض بباعث امور متذکرہ بالا وہ اس عالم میں بھی فیضان اخص کے نور سے کچھ حصہ پالیتے ہیں اور یہ فیضان ہر یک فیض سے خاص تر اور خاتمہ تمام فیضانوں کا ہے.اور اس کو پانے والا سعادت عظمی کو پہنچ جاتا ہے اور خوشحالی دائی کو پالیتا ہے جو تمام خوشیوں کا سر چشمہ دوسری جگہ بھی ارشاد فرما کر کہا ہے: لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ - (المومن : ۱۷) یعنی اس دن ربوبیت الہیہ بغیر توسط اسباب عادیہ کے اپنی تجلی آپ دکھائے گی.اور یہی مشہود اور محسوس ہوگا کہ بجز قوت عظمیٰ اور قدرت کاملہ حضرت باری تعالیٰ کے اور سب بیچ ہیں.تب سارا آرام وسرور اور سب جزا اور پاداش بنظر صاف و صریح خدا ہی کی طرف سے دکھلائی دے گا اور کوئی پردہ اور حجاب درمیان نہیں رہے گا اور کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہے گی تب جنہوں نے اس کے لئے اپنے تئیں منقطع کر لیا تھا وہ اپنے تئیں ایک کامل سعادت میں دیکھیں گے کہ جو ان کے جسم اور جان اور ظاہر اور باطن پر محیط ہو جائے گی اور کوئی حصہ وجود ان کے کا ایسا نہیں ہوگا کہ جو اس سعادت عظمی کے پانے سے بے نصیب رہا ہو.اور اس جگہ مالک یوم الدین کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس روز راحت یا عذاب اور لذت یا درد جو کچھ بنی آدم کو پہنچے گا اس کا اصل موجب خدائے تعالیٰ کی ذات ہوگی اور مالک امر

Page 31

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى مجازات کا حقیقی طور پر وہی ہوگا یعنی اس کا وصل یا فصل سعادت ابدی یا شقاوت ابدی کا موجب ٹھہرے گا.اس طرح پر کہ جولوگ اس کی ذات پر ایمان لائے تھے اور توحید اختیار کی تھی اور اس کی خالص محبت سے اپنے دلوں کو رنگین کر لیا تھا ان پر انوار رحمت اس ذات کامل کے صاف اور آشکارا طور پر نازل ہوں گے.اور جن کو ایمان اور محبت الہیہ حاصل نہیں ہوئی وہ اس لذت اور راحت سے محروم رہیں گے اور عذاب الیم میں مبتلا ہو جائیں گے.یہ فیوض اربعہ ہیں جن کو ہم نے تفصیل وار لکھ دیا ہے.“ ( براہین احمدیہ چہار حصص روحانی خزائن جلد نمبر ا صفحه ۴۵۶٬۴۵۵ حاشیه) چاروں اُم الصفات کا مفہوم اور ان کی تشریح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے الفاظ میں پیش کی گئی ہے.جب انسان ان صفات کے عرفان حاصل کرنے کے لئے سمندروں میں غوطہ زن ہوتا ہے تو جو ایسے سالک کے دل کی کیفیت ہوتی ہے وہ بھی آپ ملاحظہ کیجئے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ” جب انسان خدا تعالیٰ کی ان صفات کے بارہ میں غور کرتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ کی دعا کے شروع میں بیان فرمایا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے کمال اور اس کے جلال کی تمام صفات اور ثناء اس پر مشتمل ہے.اور ہر قسم کے شوق اور محبت کے لئے محرک ہے اور یہ بھی جان لیتا ہے کہ اس کا رب تمام فیوض کا سرچشمہ ہے تمام بھلائیوں کا منبع ، تمام آفات کا دور کرنے والا اور ہر قسم کی جزا سزا کا مالک ہے.نیز یہ کہ مخلوق کی پیدائش اسی سے شروع ہوئی ہے اور آخر کار مخلوقات اسی کی طرف لوٹائی جائیں گی.اور وہ عیوب و نقائص اور برائیوں سے پاک ہے اور تمام صفات کمال اور ہر قسم کی خوبیاں اس میں پائی جاتی ہیں تب انسان لازما اللہ تعالیٰ کو ہی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والا اور تمام ۱۸

Page 32

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى ہلاکتوں سے نجات دینے والا یقین کر لیتا ہے اسی کی رضا کی تلاش میں ہر قسم کے مصائب کو برداشت کرتا ہے.چاہے وہ نشانہ پر بیٹھنے والے تیر سے قتل کیوں نہ کر دیا جائے.رنج و غم اسے بے بس نہیں کر سکتے اور نہ وہ جانتا ہے کہ تھکان کیا چیز ہوتی ہے.خدا محبوب اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور بندہ چاہتا ہے کہ وہی اس کا مطلوب ہے.اپنے مالک کی رضا حاصل کرنے کے راستوں کی تلاش اس کے لئے آسان ہو جاتی ہے لہذا وہ اس کی طرف لے جانے والی راہوں میں پوری کوشش کرتا ہے خواہ وہ ہلاک کیوں نہ ہو جائے.اور وہ کسی آزمائش کے خوف سے ڈرتا نہیں بلکہ ہر ابتلاء کے لئے سینہ سپر ہو جاتا ہے اور اسی کے لئے اس کی محبت کے تذکرہ کے سوا اور کوئی ذکر باقی نہیں رہتا.دوسرے افکا را سے فریفتہ نہیں کرتے اور وہ خواہشات کی سواری سے اتر پڑتا ہے تا وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے گھوڑوں پر سوار ہو اور وہ جستجو کی باگیں بنتا ہے تا وہ خدا کے حضور پہنچنے کے لئے دور کی مسافت طے کرے اور وہ ہمیشہ اس کے قرب میں رہتا ہے اور اپنے پیاروں میں سے کسی کو بھی اس کا ثانی نہیں بنا تا اور اس کا دل خدا کے شریکوں کے درمیان بھٹکتا نہیں پھر تاوہ یہی دعا مانگتا رہتا ہے کہ: يَا رَبِّ تسلّم قَلْبِي وَ تَكْفِينِي لِجَزْبِي وَ جَلْبِى وَلَنْ يُصِيبَنِي حُسْنُ الْآخِرِينَ اے میرے رب میرے دل کو اپنے قبضہ میں محفوظ رکھ مجھے اپنی طرف کھینچنے اور مائل کرنے کے لئے تو کافی ہو جا اور اوروں کا حسن مجھے کبھی فریفتہ نہ کر سکے.آمین کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 14 مطبوعہ 1984 لندن) ۱۹

Page 33

۲۰ یعنی الأسماء الحسنى اسماء باری تعالیٰ کی تقسیم أم الصفات رب کے تحت صفات البیہ ” ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لایق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خرید نے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱) اسلام کا خدا وہی سچا خدا ہے جو آئینہ قانون قدرت اور صحیفہ فطرت میں نظر آ رہا ہے." ( تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۵) ” اُس قادر اور نیچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قومی کے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے نہ اُس کی خلق سے.اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اُس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پا یا جو آپ کلام کر کے

Page 34

یعنی الأسماء الحسنى اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے.“ (نسیم دعوت روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶۰) ۲۱ سورہ فاتحہ میں بیان فرمودہ امہات الصفات میں بھی پہلی صفت رب العالمین ہے اس قاعدہ کلیہ کے تحت کہ باقی صفات ان اُمہات الصفات سے نکلی ہیں.یا ان امہات الصفات کا مختلف پیرایوں میں اظہار اور خدا تعالیٰ کی شان کے مختلف جلوے مختلف صفات کو جنم دیتے ہیں.اس اصول سے یہ بات نتیجہ اخذ ہوتی ہے کہ ان چاروں امہات الصفات کے تحت باقی صفات کی تشریح بیان کی جائے لیکن علم اسماء باری تعالٰی اتنا وسیع مضمون ہے کہ اس کی انتہاء تک پہنچنا ہر ایک کا کام نہیں پھر صفات باری چونکہ ایک ذات الہ کی صفات ہیں اور وہ آپس میں بہت مربوط ہیں لہذا یہ کہنا کہ فلاں صفت صرف ربوبیت کے تحت ہے.رحمانیت یا رحیمیت کے تحت اس صفت کے جلوے ظاہر نہیں ہوتے یا نہیں ہو سکتے درست نہ ہوگا.جب کہ رحمانیت اور رحیمیت بھی ربوبیت کے جلووں کی درجہ بندی کرتی ہیں.اور ان کے آگے بہت سے مظاہر ہیں جو مختلف صفات کا لباس پہن کر ہمارے سامنے نمودار ہوتے ہیں.مالکیت خدا تعالیٰ کی حاکمانہ شان کو ظاہر کرتی ہے.جس کے تحت بھی بہت سی صفات کام کر رہی ہیں.پس جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ - (الرحمن:۳۰) یعنی وہ ہر وقت ایک نئی حالت میں ہوتا.اس کی ذات وصفات کے جلوے ہر آن نت نئی شان اور آن بان کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں.جن کا احاطہ کرنا ناممکن ہے.کیونکہ یہ ایسا بے کنار سمندر ہے جس میں جتنے بھی غوطے لگائیے کم ہیں.اور ایک عارف اس سمندر کی مچھلی ہے جو ہر آن خدا تعالیٰ کی سبوحیت کے ترانے گاتا ہے تب خدا تعالیٰ خود اس کو اپنے قریب کر لیتا ہے.جیسا کہ اس نے فرمایا: لا تدركهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ - (الانعام: ۱۰۴)

Page 35

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن وہ نظروں تک پہنچتا ہے.ا - الرَّبُّ مخلوقات کی پرورش کرنے والا اور اس کی تدریجا تکمیل کرنے والا.سورہ انعام رکوع ۲۰ میں ہے: قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِى رَبَّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ (الانعام: ۱۶۵) ۲۲ یعنی تو ان سے کہہ دے کہ کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رب کی حیثیت میں پسند کروں حالانکہ وہ ہر ایک چیز کی پرورش کرنے والا ہے.پھر سورۃ فاتحہ میں فرما یا رَب العلمین وہ تمام جہانوں کی پرورش کرنے والا ہے.چاہے وہ عالم سماوی ہو یا ارضی.عالم اجسام ہو یا عالم ارواح.عالم جواہر ہو یا عالم اغراض، عالم حیوانات ہو یا عالم جمادات.سب کا پرورش کہ کنندہ وہی ہے.چنانچہ اس حقیقت کو قرآن مجید میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے.فرماتا ہے: قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا.(الشعراء:٢٩) وہ مشرق کا بھی رب ہے اور مغرب کا بھی.اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے.وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ - (التوبة: ١٢٩) وہ عرش عظیم کا رب ہے.رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ (الرحمن: ۱۸) - وہ دونوں مشرقوں کا بھی رب ہے اور دونوں مغربوں کا بھی رب ہے.(سورة الفلق) رَبِّ الْفَلَقِ مخلوقات کارب رَبِّ النَّاسِ.تمام انسانوں کا رب (سورة الناس) پھر وہ عالم معاد میں بھی قول سلام سے ربوبیت فرمائے گا.جیسا کہ فرمایا:

Page 36

یعنی الأسماء الحسنى سَلَمُ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِيمٍ - (يس: ۵۹) ۲۳ ان کو سلام کہا جائے گا جو بار بار کرم کرنے والے رب کی طرف سے ان کی طرف پیغام ہوگا.پس اللہ تعالیٰ ہر شے کے تقاضوں کو پورا کرتا چلا جا رہا ہے اور اس طرح سے ربوبیت عالمین کے بے پناہ جلوے ہر آن نمودار ہورہے ہیں.وہ جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ روحانی ضروریات کی تکمیل کا انتظام بھی فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انزال وحی کو بھی صفت رب کے تحت بیان فرمایا ہے.(الاحزاب : ۳).وہ رب العالمین ہے تو اس نے صفات الہیہ کے کامل مظہر آنحضرت صلی یا یہ تم کو رحمتہ للعالمین بنایا ہے.۲.اَلْخَالِقُ ہر چیز کا کامل حکمت کے ساتھ اندازہ کرنے والا.اس کی خالقیت ایک تو اس طرح سے ہے کہ مادہ سے آگے تخلیق کا سلسلہ چل نکلا اور دوسرے یہ کہ نیست سے ہست میں لانا.چنانچہ فرمایا: لَهُ الْخَلْقُ وَالْآمُرُ (الاعراف:۵۵) یعنی پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے اور قانون بنانا بھی اسی کا کام ہے پس اس کے ذمہ ہر دو کو پیدا کرنا ہے جس کے ذریعہ سے اس کی ربوبیت عالمین کے تقاضے پورے ہورہے ہیں.فزکس کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ کائنات بھی پھیلتی چلی جارہی ہے اور ہر آن خلق اور امر کی صفات اپنے جلوے دکھا رہی ہے.چنانچہ وہ رب ارضین بھی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں جہاں بھی دیگر زمینیں پائی جاتی ہیں اور حیات موجود ہے وہ ان کا بھی خالق ہے اور نہ صرف خالق بلکہ ہر طرح سے ان کی ربوبیت بھی فرما رہا ہے.

Page 37

یعنی الأسماء الحسنى البارى ۲۴ ہر ایک چیز سے عمدہ خلاصہ الگ کرنے والا اور اسے بے نقص و تفاوت ظاہر کرنے والا.اور نیست سے ہست کرنے والا.فرمایا: وہ باری ہے یعنی روحوں اور اجسام کو عدم سے وجود بخشنے والا ہے.هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَورُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى (الحشر: ۲۵) (حق یہی ہے کہ اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کا موجد بھی ہے اور ہر چیز کو اس کے مناسب حال صورت دینے والا ہے.اس کی بہت سی اچھی صفات ہیں.گویا کہ وہ ہر چیز کا آرکیٹیکٹ ہے.الْمُصَوّر مخلوقات کی طرح طرح کی صورتیں بنانے والا.یہ تینوں صفات پیدائش کی تین حالتوں کو ظاہر کرتی ہیں.خلق.جبکہ قبل از وجود اس کا اندازہ کیا جائے.الباری.تراش خراش کرنا اور تصویر.انتہائی حالت یعنی ہیئت بخشنے کے مفہوم کو ظاہر کرتی ہے.فرمایا: يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ (آل عمران:۷) وہی ہے جو رحموں میں جیسی چاہتا ہے تمہیں صورت دیتا ہے.Genetics علوم پر آج کل بہت ریسرچ ہو رہی ہے یوں سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے نباتات کے ہر بیج میں اس کے درخت کا بلیو پرنٹ بنا چھوڑا ہے اور تمام جانداروں کے جینز میں اس کے خواص اور خد و خال یعنی کریکٹر Pack کر دیئے ہیں.کہ اسی کے مطابق بعد میں تصویر بنتی چلی جاتی ہے.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آم کے پیچ سے کبھی سیب کا درخت پیدا ہو گیا ہو.یا انسان کے ہاں کبھی جانور کا بچہ پیدا ہو گیا ہو.

Page 38

یعنی الأسماء الحسنى ه الْخَلَّاق بہت بڑا اندازہ کرنے والا اور خلق پر خلق کرنے والا.قرآن کریم میں یہ اسم ایک اور اسم علیہم کے ساتھ مل کر آیا ہے.کیونکہ خلاقیت کی صفت ایک عالم ہستی کا تقاضا کرتی ہے جیسا کہ فرمایا: أَوَ لَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ بِقَدِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُم " بَلَى وَهُوَ الْخَلْقُ الْعَلِيمُ - (يس: ۸۲) ۲۵ کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس بات پر قادر نہیں کہ ان کی طرح کی اور مخلوق پیدا کر دے.ایسا خیال ( کہ وہ پیدا نہیں کرسکتا ) یہ درست نہیں بلکہ وہ بہت پیدا کرنے والا اور بہت جاننے والا ہے اور اب سائنسی تحقیقات نے بھی منکشف کر دیا ہے کہ جب دو Galaxies کے درمیان اتنی جگہ پیدا ہو جاتی ہے کہ ایک گلیکسی سما سکے تو ایک نئی گلیکسی نیست سے ہست میں آجاتی ہے.اور اس کی خالقیت کا قصہ اس طرح چل رہا ہے اسی طرح سورہ حجر میں فرمایا: إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ - (الحجر: ۸۷) یعنی ربوبیت عالمین کے جلوے اس کی خالقیت اور علمیت کے ذریعہ ظاہر ہورہے ہیں.- الصَّانِعُ بنانے والا ، ترکیب دینے والا صانع حقیقی خدا تعالیٰ کی ذات ہے جس کی صفت بے نقص ہے جیسے کہ فرمایا: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (النمل: ۸۹) یہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیز ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا ہے.وہ تمہارے اعمال

Page 39

یعنی الأسماء الحسنى سے خوب خبر دار ہے اور ہر چیز کی بناوٹ سے اس کی ربوبیت نظر آ رہی ہے کہ اس نے کتنی مکمل اور بھلی بناوٹ بخشی ہے.۲۶ الْفَاطِر اول ہی اول پیدا کرنے والا جیسا کہ فرمایا: فَسَيَقُولُونَ مَنْ يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ (بنی اسرائیل: ۵۲) وہ ضرور کہیں گے کہ کون ہمیں دوبارہ زندہ کر کے وجود میں لائے گا.تو انہیں کہہ کہ وہی خدا جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا.سورۃ انعام میں فرمایا: قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ اتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ (الانعام: ۱۵) ” تو کہہ دے کیا میں اللہ کے سوا جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے کوئی اور دوست بناؤں.حالانکہ وہ سب انسانوں کو کھلاتا ہے کسی کی طرف سے اس کو رزق نہیں دیا جاتا.پھر فرمایا: فَاطِرَ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الْحِقْنِي (يوسف: ١٠٢) بِالصُّلِحِينَ اے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے تو ہی دنیا اور آخرت دونوں میں میرا مددگار ہے.جب بھی میری موت کا وقت آئے مجھے اپنی کامل فرماں برداری کی حالت میں وفات دے.اور صالحین کی جماعت کے ساتھ ملا دے اے خدا تعالیٰ جو فاطر ہے.تمام کارخانہ عالم کی ابتداء کر کے اس کی ضروریات و حسابات کا بھی خیال رکھتا ہے.اس لئے وہی ولی ہونے کے قابل بھی ہے پھر وہ رزاق بھی ہے جیسا کہ فرمایا:

Page 40

یعنی الأسماء الحسنى ވ وَهُوَ يُطْعَمُ.(الانعام : ۱۵) اور وہ کھلاتا ہے ) پس ان امور کی وجہ سے اس کی دوستی بھلی معلوم ہوتی ہے.اس کے اتنے احسانات ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے.العَالِمُ جاننے والا علم کامل ربوبیت کے لئے ضروری ہے.فرمایا: إنَّ اللَّهَ عَلِمُ غَيْبِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ.(الفاطر:۳۹) اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا غیب جاننے والا ہے.پھر فرمایا: ۲۷ علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ (الرعد: ١٠) وہ غائب اور حاضر دونوں کا جاننے والا ہے.بڑے مرتبہ والا اور بڑی شان والا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے علم کامل کی بناء پر عالم میں ہر ایک کی ربوبیت کر رہا ہے.ایسے کہ کوشش اور خواہشات اور دعا کے بغیر تمام کارخانہ عالم کو چلا رہا ہے اور دوسری طرف کوشش اور دعا کا خیال بھی رکھ رہا ہے کیونکہ یہ بھی اس کے احاطہ علم میں ہیں.وہ خالق کل ہے اس لئے عالم بھی ہے.۹ - الرَّزَّاقُ مخلوقات کو روزی پہنچانے والا.رزاق.مبالغہ کا صیغہ ہے مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ تمام مخلوقات کو مناسب حال اور موافق حکمت رزق پہنچاتا ہے.رزق ان کے لئے بھی اور ان کی ارواح کے لئے بھی.فرمایا: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيَّ (الانبياء : ۳۱) اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا ہے اور ان کی حیات کا موجب بھی پانی ہے اور ارواح کی حیات بھی روحانی پانی یعنی وحی پر موقوف ہے.اسی لئے فرمایا:

Page 41

یعنی الأسماء الحسنى وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَ ابْقَى - (طه: ۱۳۲) اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق سب سے اچھا اور باقی رہنے والا ہے.يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ.(البقرة : ۲۱۳) اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے.وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ - (الطلاق: ۴) اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا خیال بھی نہیں ہوگا.ایسا معاملہ متقی اور متوکل کے ساتھ ہوتا ہے.١٠.اَلبَاعِثُ اٹھانے والا ، عالم پر روحانی موت طاری ہونے کے وقت روح پھونکنے والا.رسول بھیجنے والا.سوتوں کو جگانے والا.جیسا کہ فرمایا: ہے.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا - (الجمعة: ۳) وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص رسول بنا کہ ۲۸ قوموں کو رسول بھیج کر اٹھا تا ہے.ارسال مرسلین کے ذریعہ گری ہوئی اقوام کو اٹھا کر حقیقی عروج سے ہمکنار فرماتا ہے.ان میں عباد الرحمن پیدا فرماتا ہے اور ان اقوام و افراد کو حسنات الدنیا والاخرہ عطا فرماتا ہے یہاں تک کہ ارض خداوندی نور خداوندی سے جگمگانے لگتی ہے.ا الهَادِئ ہدایت کرنے والا ، کامیاب کرنے والا.فرمایا: وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (البقرة : ۲۱۴) اور اللہ تعالیٰ جسے پسند کرتا ہے.سیدھی راہ پر چلا دیتا ہے اور مَنْ يَشَاءُ کی تشریح سورہ

Page 42

یعنی الأسماء الحسنى فاتحہ میں کر دی گئی ہے.وہ اس طرح کہ دعا لکھ دی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ جو عبودیت کے مقام کی جستجو کرتے ہوئے استعانت کا طالب ہوگا اس کو نتیجتا ضرور ہدایت حاصل ہوگی اور اس کی روحانی اعتبار سے بھی ربوبیت ہوگی اور جسمانی اعتبار سے بھی یا یوں کہہ لیں کہ دنیاوی لحاظ سے بھی اور آخرت کے لحاظ سے بھی وہ منعم علیہم گروہ میں شامل ہو کر انعامات روحانی کا وارث ہوگا.بمطابق سورۃ نساء آیت اے آنحضرت صلی لا یتیم کی کامل اطاعت کے نتیجہ میں نبوت ، صدیقیت ، شہیدیت اور صالحیت کے انعام پائے گا.اس صفت کے مظہر کامل ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ آپ کی اطاعت کامل سے روحانی انعامات ممکن الحصول ہیں اور یہ انعامات صالحیت ، شہید یت ، صدیقیت و نبوت کے انعامات ہیں.(سورۃ النساء آیت ۷۱) ۱۲_ الذَّارِئ ۲۹ پھیلانے والا.فرمایا: فَاطِرُ السَّمَوتِ وَ الْاَرْضِ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ مِنَ الْأَنْعَامِ اَزْوَاجًا ۚ يَذْرَؤُكُمْ فِيْهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الشورى: ۱۲) وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے.اسی نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے ساتھی بنائے ہیں اور چار پایوں کے بھی جوڑے بنائے ہیں اور اس طرح وہ تم کو زمین میں بڑھاتا ہے.اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ بہت سننے والا اور دیکھنے والا ہے.۱۳ - الْمُدَتِر تدبیر کرنے والا یعنی اس طور پر امور عالم سر انجام دینے والا کہ جن کا انجام نیک ہو اور نتیجہ عمدہ بر آمد ہو.فرمایا :

Page 43

یعنی الأسماء الحسنى يدبر الامر يُفَضِلُ الْآيَتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ (الرعد: ۳) اللہ تعالیٰ ہر امر کا انتظام کرتا ہے اور اپنی آیات کو کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم لوگ اپنے سے ملنے کا یقین رکھو.امر اور خلق اسی کے ہاتھ میں ہے اور بے شمار نشانات کا ئنات میں بکھرے پڑے ہیں جو اس کی طرف راہنمائی کرتے ہیں.اور اس کی ہستی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی ملاقات کا شوق پیدا ہوتا ہے.جہاں کہیں يُدَبِرُ الأَمر فرمایا اس کے ساتھ تکوین عالم کا ضرور ذکر فرمایا تا کہ احکام خداوندی کے نفاذ کی طرف توجہ ہو جائے.فرمایا: يديرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ - (السجدة: 1) وہ آسمان سے زمین تک اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرتا ہے یہ امر قانون قدرت کے ذریعہ سے بھی ہر جگہ ہمیں نظر آرہا ہے جس کے ذریعہ سے ربوبیت عالمین ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ کی مدبر بالا رادہ ہستی ہر زمانہ میں اپنے ارادے کا اظہار اس طرح فرماتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کو عزت اور ان کے مخالفوں کو ذلت دیتی ہے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا: انى معين من اراد اعانتك و انى مهين من اراد اهانتك ( تذکرہ صفحہ ۱۹۴ ایڈیشن پنجم ) میں اس کا مددگار ہو جاؤں گا جو تیری مدد کا ارادہ کرے گا اور میں اس کو ذلیل کر دوں گا جو تجھے ذلیل کرنے کا ارادہ بھی کرے گا.ایسے اعلانات سماوی کے ساتھ اس کے فرشتے بھی ایسے ارادہ الہی کی تکمیل کے لئے اترتے ہیں اور کوشش میں لگ جاتے ہیں اور پھر دنیا اس کی صفات کے جلوے دیکھتی ہے.

Page 44

یعنی الأسماء الحسنى ۱۴ - الأكْرَمُ ۳۱ معزز.ہر قسم کی بزرگیوں اور بڑائیوں کا سر چشمہ اور معزز ہے اور مکرم بنانے والا.فرمایا : اِقْرَأْ وَ رَبُّكَ الْأَكْرَمُ (العلق : ۴) قرآن کو پڑھ کر سنا تارہ کیونکہ تیرا رب بڑا معزز ہے، بڑا کریم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أَتْقَاكُمُ (الحجرات : ۱۴) وہ متقیوں پر اس کی صفت کے جلوے ظاہر فرماتا ہے اور وہ بھی معزز ہو جاتے ہیں.۱۵ - اَلغَفَّارِ بہت بخشنے والا ، ڈھانکنے والا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رَبُّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ ( ص : ٦٧) آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس پر وہ غالب ہے اور اس کے باوجود بخشنے والا ہے.پھر فرمایا: وَإِنِّي لَغَفَّارُ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى (طه: ۸۳) اور جو شخص تو بہ کرے اور ایمان لائے پھر مناسب حال عمل بھی کرے اور ہدایت پا جائے تو میں اس کے بڑے سے بڑے گناہ معاف کر دیا کرتا ہوں.یعنی اس کی استغفار قبول کر لیتا ہوں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: یہ لفظ غَفَرَ سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں.اصل اور حقیقی معنے یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی

Page 45

یعنی الأسماء الحسنى کمزوری سے بچاوے.اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیدا کر کے اس سے الگ نہیں ہوا.بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قومی اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے یعنی جو کچھ بنایا ہے.اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا.“ ریویو آف ریجنز اردو جلد اول صفحہ ۱۹۲ - ۱۹۳) ۱۶ - اَلْمُحْى ۳۲ مخلوق کو زندگی عطا کرنے والا.جیسا کہ فرمایا: إِنَّ ذلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الروم : ۵۱) یہی خدا ہے جو قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.اور اسی طرح روحانی مردوں کو بھی اپنا رسول بھیج کر زندہ کرتا ہے.ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی اس صفت کے مظہر بیان فرماتے ہیں: ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں.یعنی ارادہ الہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ھنوز ملاء اعلیٰ پر شخص محیی کی تعین ظاہر نہیں ہوئی اس لئے وہ اختلاف میں ہے.اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک میسی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا هَذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُولِ اللہ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے سو وہ اس شخص میں محقق ہے.پس حضرت ابراہیم کی اولاد میں چار بار احیاء موتی کا نظارہ ظاہر ہوا.ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر حضرت عیسی علیہ السلام کے ذریعہ اور پھر آنحضرت صلی ال پیہم کے ذریعہ اور آج آپ کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ یہ سلسلہ احیاء موتی کا خلافت علی

Page 46

یعنی الأسماء الحسنى منہاج نبوت کے ذریعہ سے جاری ہے.اور اب قیامت تک چلتا چلا جائے گا.انشاء الله ا - الحى خودزندہ اور دوسروں کی زندگی کا باعث اور موجب.خدا تعالیٰ جوحی لا یموت ہے.جو اس کے ساتھ جوڑتا ہے صفت کی کی جلوہ گاہ بن جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دفعہ کشفی رنگ میں میں نے دیکھا کہ میں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا ہے اور پھر میں نے کہا کہ آؤاب انسان کو پیدا کریں.اس پر نادان مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو اب اس شخص نے خدائی کا دعوی ہے کیا حالانکہ اُس کشف سے یہ مطلب تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے.اور حقیقی انسان پیدا ۳۳ ہوں گے.“ ۱۸ - اَلْقَيُّومُ چشمه مسیحی روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷۶) خود قائم اور دوسروں کے قیام کا حقیقی ذریعہ.فرمایا: الم - اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ - (آل عمران: ۲-۳) میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں.اللہ ایسی ذات ہے کہ اس کے سوا کوئی پرستش کا مستحق نہیں.کامل حیات والا اور اپنی ذات میں قائم اور سب کو قائم رکھنے والا ہے.پھر فرمایا: وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَينِ الَّذِي لَا يَمُوتُ - (الفرقان: ۵۹) اور اس پر توکل کر جو خودزندہ ہے اور سب کو زندہ رکھتا ہے.کبھی نہیں مرتا.هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ - (المومن : ٦٦)

Page 47

یعنی الأسماء الحسنى وہ زندہ اور دوسروں کو زندگی دینے والا ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں.غرض زندگی کے سب سرچشمے اس کے ہاتھ میں ہیں.کیونکہ وہ خالق ورزاق ہونے کے ساتھ زندہ ، زندگی بخش ، قائم بالذات اور قیوم کل کائنات ہے.حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں: سو وہ خالق بھی ہے اور قیوم بھی اور جب انسان پیدا ہو گیا تو خالقیت کا کام تو پورا ہو گیا.مگر قیومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے.اس لئے دائمی استغفار کی ضرورت پیش آئی.غرض خدا کی ہر صفت کے لئے ایک فیض ہے اور استغفار صفت قیومیت کا فیض حاصل کرنے کے لئے ہے.“ اس طرف اشارہ سورہ فاتحہ کی اس آیت میں ہے.ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - (الفاتحة:۵) یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی اس بات کی مدد چاہتے ہیں کہ تیری قیومیت اور ربوبیت ہمیں مدد دے اور ہمیں ٹھوکر سے بچاوے تا ایسا نہ ہو کہ کمزوری ظہور میں آوے.“ ۳۴ ١٩- الْفَالِقُ ریویو آف ریلیجنزار دو جلد اول صفحه ۱۹۴ - ۱۹۵) ظلمت کے بعد روشنی پھیلانے والا ، بیچوں اور گٹھلیوں کو نشود نمادینے والا.فرمایا: إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى (الانعام:۹۶) اللہ یقیناً دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے.(الانعام: ۹۷) فَالِقُ الْإِصْباح - وہ صبح کو ظاہر کرنے والا ہے.قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ.(الفلق : ٢)

Page 48

یعنی الأسماء الحسنى ۳۵ تو لوگوں سے کہتا چلا جا کہ میں مخلوق کے رب سے اس کی پناہ طلب کرتا ہوں اس رب کی جو ظلمات کے بعد روشنی پھیلاتا ہے.بچوں کونشو ونما دیتا ہے.بظاہر نا کارہ کو کارآمد بناتا ہے.اور اس کو امید سے بدل دیتا ہے.بیج یا گٹھلیاں بظاہر ناکارہ چیز سمجھ کر پھینک دی جاتی ہیں مگر ان میں ایک کائنات روپوش ہوتی ہے.جسے اپنے ربوبیت کے فیض سے سیراب کر کے باغات کی شکل میں ظاہر کر دیتا ہے.اسی طرح رات جو ظلمات کا گہوارہ ہے جس سے خوف محسوس کیا جاتا ہے اسے پھاڑ کر طلوع فجر کے سامان پیدا کرتا ہے اور ہمارے لئے فعال زندگی کا ایک اور باب وا کرتا ہے.پس خدا نے سکھایا کہ روشنی کے وقت، امید وبیم کے وقت فعال زمانہ میں ہر شر سے محفوظ رہنے کے لئے دعا کی جائے تالیلتہ القدر نمودار ہو جس کی تمام برکتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور ایسی اٹھان ہو کہ آئندہ مخالف آندھیاں بھی جڑ کو نہ ہلا سکیں.۲۰ - اَلْمُبْدِى ابتداء پیدا کرنے والا.تمام موجودات اور کائنات کا رب.۲۱- الْمُعِيْدُ دوبارہ پیدا کرنے والا.فرمایا: إِنَّهُ هُوَ يُبْدِي وَيُعِيدُ (البروج: ۱۴) یعنی یہ نہیں کہ ایک دفعہ تو سب کچھ اتفاق سے پیدا ہو گیا پھر ہو نہیں سکتا.بلکہ وہ تو ایسی ذات ہے جو دوبارہ بلکہ سہ بارہ جتنی بار بھی چاہے اس جیسا بلکہ اس سے بہتر پیدا کرنے پر قادر ہے.۲۲- الْمُقِيتُ مخلوقات کو روزی پہنچانے والا.اسم المقیت‘ ماخوذ ہے قوت سے اور قوت کے معنی ہیں خوراک جو بدن انسانی کے لئے قیام کا باعث ہو.کبھی مقیت تو انا نگاہ رکھنے والا اور گواہ کے

Page 49

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.جیسا کہ فرمایا: وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقِيِّتًا.اور اللہ ہر امر پر کامل قدرت رکھنے والا ہے.۲۳- الْجَبَّارُ (النساء:۸۶) جبر سے مشتق ہے.جبر کے معنے ہیں ٹوٹے ہوئے کو جوڑنا.اصلاح احوال کرنا.غالب کرنا.پہلی صورت میں یہ اسم جمالی اور دوسری صورت میں جلالی ہے گویا اس میں اس کی مالکیت کے تقاضے جھلک رہے ہیں اور ربوبیت کے بھی.اس نے ایک ایسا نظام قائم کر دیا ہے جس میں ٹوٹ پھوٹ کی خود بخو داصلاح اور درستی ہوتی جاتی ہے.انسانی جسم کو ہی لے لیں.مردہ سیل کی جگہ زندہ سیل لئے جاتے ہیں.یہاں تک کہ سات سال کے بعد جسم وہ نہیں رہتا جو ہوتا ہے.تمام سیل تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں.اسی سے اس کی صفت کی اور میت کا بھی پتہ لگتا ہے کہ کس طرح موت کو حیات سے تبدیل کر دیتا ہے اور ایسا کرتا چلا جاتا ہے.۲۴.الْمُحْصِي ہر چیز کو احاطہ علم میں لے آنے والا.چونکہ اللہ تعالیٰ حقائق اشیاء کو جانتا ہے اور ذرات عالم پر اس کا علم محیط ہے.اس لئے خصی کہلاتا ہے.چنانچہ فرمایا: وَ أَحْطَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا.(الجن: ٢٩) } ۳۶ وہ جو ہر چیز کوگن کر رکھتا ہے.کوئی چیز اس کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں.ہر چیز اپنی تمام تفاضیل کے ساتھ اس کے حساب میں ہے اور ہر چیز کی ربوبیت وہ فرما رہا ہے.۲۵ - اَلْمُغْنِي لوگوں کو مالدار کرنے والا.بے پرواہ کرنے والا.فرمایا: ان يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ - (النور:۳۳)

Page 50

یعنی الأسماء الحسنى ۳۷ وہ فقر کو غنی کی حالت سے تبدیل کر دیتا ہے اور یہ اس کے فضل سے ہوتا ہے اور یہ بھی اس کی ربوبیت ہے کہ گرے ہوؤں کو اٹھاتا ہے.چھوٹوں کو بڑا کرتا ہے اور کسی وسیلے سے بظا ہر نہیں بلکہ اپنے فضل سے خود ہی کوئی سبیل پیدا کرتا ہے.کتنے ہی مومنوں کا سب کچھ لوٹ لیا گیا مگر پھر اس نے ان کو غنی کر دیا.٢٦- ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ بزرگی اور عزت والا.فرمایا: تبرك اسم رَبَّكَ ذِي الْجَيْلِ وَالْإِكْرَامِ - (الرحمن: ۷۹) تیرے رب کا نام بہت برکتوں والا ہے وہ تمام بزرگیوں اور عزتوں والا ہے اور تمام عزتوں کا سر چشمہ ہے.جیسا کہ فرمایا: فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا (الفاطر : ١١) خدا تعالیٰ کی اس صفت کے فیض سے انسانوں کو سوسائٹی میں عزت عطا کرتا ہے اور رسول کے ماننے والوں کو تقویٰ کی بناء پر اپنی جناب میں عزت و منزلت عطا کرتا ہے تا انہیں اور ترقی حاصل ہو اور ان کے استعداد میں نشو و نما پائیں.۲۷.اَلرَّشِيدُ رشد والا.اسلام کو پسند کرنے والا.صفات کمال والا.فرمایا: قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى - (البقرة: ۲۵۷) یہ بھی اس کی ربوبیت کی شان ہے کہ انسان کو عبودیت کے لئے پیدا کیا تاوہ صراط مستقیم پر چل کر جو اسلام کا راستہ ہے، جو فرمانبرداری واطاعت خدا وندی کا راستہ ہے.اپنی نشوونما کرے اور کمال تک پہنچے.

Page 51

یعنی الأسماء الحسنى ۲۸.ذُوالطَّول ۳۸ بڑے مقدور والا اور صاحب خیر کثیر.سورہ مومن کے شروع میں یہ اسم آیا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس کے پھیلاؤ کا احاطہ ممکن نہیں.اس نے اپنے پیارے نبی سی لیا کہ ہم کو بھی صاحب خیر کثیر اس صفت کے مظہر کے طور پر بنادیا جنہیں صاحب کو ثر فرمایا گیا ہے.جس کے ذریعہ اس ذات بابرکات کا فیض اس دنیا میں بھی جاری ہے اور اگلی دنیا میں بھی جاری رہے گا.جیسا کہ فرمایا ہے: انا اعطينكَ الْكَوْثَرَ - (الكوثر : ٢) ٢٩_ ذُو الْمَعَارِجُ ہر قسم کی بلندیوں کا مالک.یہ اسم سورہ معارج میں آیا ہے.یوں تو بلندی و پستی اس کی تخلیق ہے مگر بلندیوں کو تو اس نے مومنوں کے مقدر میں کر دیا ہے.چنانچہ اس نے مظہر کامل حضرت محمد مصطفی سلام ایم کو روحانی رفعتوں کی معراج پر پہنچا دیا.آپ کے فیض سے ہی مومن بھی تمام رفعتوں کے لائق ٹھہرتے ہیں.جو بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ کر آگے بڑھنا چاہے وہ عرب کے بادیہ نشیں تھے یا قادیان کے گمنام ہر طرح کی رفعتوں کے وارث بن گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیان کدھر اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا اک مرجع خواص یہی قادیان ہوا اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا قادیان بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا ز یر غار

Page 52

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد لیکن اب دیکھو کہ چر چاکس قدر ہے ہر کنار غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے وہ ہمارا ہو گیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ٣٠ الْغَالِبُ ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں ہوں وہ نور خدا جس سے ہوا دن آشکار (در ثمین) ۳۹ فتح و نصرت عطا کرنے والا.حکمران اور حکومت دینے والا.سب سے بالا دست.فرمایا: وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (يوسف : ۲۲) اللہ تعالیٰ اپنے امر کو نافذ کرنے میں سب پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں پھر فرمایا: إن يَنْصُرُكُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ - (آل عمران:۱۶۱) اور اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا.پس وہ غالب ہے اور غلبہ و نصرت اسی سے وابستہ ہے جیسا کہ فرمایا: كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَنَ أَنَا وَرُسُلِى (المجادلة: ٢٢)

Page 53

یعنی الأسماء الحسنى إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.( الالمجادلة: ٢٣) جو چاہتا ہے کہ وہ غلبہ ونصرت پائے اور اس صفت سے فیض یاب ہوا سے خدا اور اس کے رسول سے وابستگی اختیار کرنی ہوگی.اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس صفت کا اظہار اپنے انبیاء کے ذریعہ سے فرمایا: چنانچہ آنحضرت صلی اینم کو اہل مکہ پر واضح غلبہ عطا فرمایا اور آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: لوگ عنقریب دیکھ لیں گے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا چہرہ ظاہر ہوگا گویا وہ آسمان سے اُترے گا.اُس نے بہت مدت تک اپنے تئیں چھپائے رکھا اور انکار کیا گیا اور چپ رہا لیکن وہ اب نہیں چھپائے گا اور دنیا اُس کی قدرت کے وہ نمونے دیکھے گی کہ کبھی اُن کے باپ دادوں نے نہیں دیکھے تھے.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۷) میں حضرت قدس کا باغ ہوں جو مجھے کاٹنے کا ارادہ کرے گا وہ خود کاٹا جائے گا.مخالف روسیاہ ہوگا اور منکر شرمسار “ ۴۰ نیز فرماتے ہیں: نشان آسمانی روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۷) ” دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی مقبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق و مغرب، شمال و جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا.یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں.یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.“ پھر فرماتے ہیں: (تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۹۰)

Page 54

یعنی الأسماء الحسنى تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے.اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا.“ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۶) ۳۱.اَحْسَنُ الْخَالِقِين اندازہ اور خلق کرنے والوں میں بہترین یعنی اس سے بہترین طور پر خالقیت کی صفت جلوہ گر ہوئی ہے.انسان کی پیدائش کے مختلف مراحل کا ذکر کر کے وہ بہترین پلاننگ کے ماتحت سرانجام پائے ہیں.فرمایا: ففَتَبَرَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ (المومنون: ۱۵) کتنا بہترین خالق ہے اور برکتوں والا ہے اللہ کہ جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کرنے کے لئے ایک سسٹم چلا دیا ہے.جو اپنی ذات میں مکمل ہے.اس صفت کے مظہر اپنی صحبت صالحین کے ذریعہ سے آسمان روحانیت پر پرواز کرنے والے طیور تخلیق کرتے رہے ہیں اور آج آنحضرت صلی اما پیام کے طفیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء یہ کام سر انجام دے رہے ہیں.۳۲.خَيْرُ الْمُنْزِلِين بہتر اتارنے والا.فرمایا: وَقُل رَّبِّ انْزِلْنِي مُنَزَلاً مُبْرَكا وَ اَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ (المومنون: ٣٠) اور کہہ دے میرے رب مجھے مبارک جگہ میں اتار اور تو بہتر اتارنے والا ہے.احسن الخالقین نے انسان کو بہترین طور پر تخلیق کیا تا وہ اس کا عبد بنے اس کے لئے جن امور کی ضرورت تھی وہ بھی نازل کئے مثلاً رسول ، کتب اور آخر میں آخری شریعت مکمل اور اکمل

Page 55

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى طور پر نازل فرمائی تا کہ حقیقی غلبہ.تائید و نصرت حاصل کر سکیں اور اس کا ذریعہ یہ ہے کہ وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا (آل عمران : ۱۰۴) تم سب اکٹھے ہو کر اس کی رسی کو پکڑے رکھو.اس کے نتیجہ میں یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ غلبہ اور تائید و نصرت الہی تمہیں حاصل ہوگی.پس چاہیے کہ ہم کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھام لیں اور اس میں جو خدا تعالیٰ کے حسن اور احسان سے پر ذات بیان کی گئی ہے اس سے وابستہ ہو جائیں تا کہ اس کے حسن و احسان کے جلوے ہمارے بھی نصیب میں ہوں.آمین حضرت موسیٰ علیہ السلام بظاہر کسمپرسی کی حالت میں مصر سے ہجرت فرما کر مدین میں تشریف لائے تو وہاں آپ نے یہ دعا کی اور کہا رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ اے میرے رب اپنی خیر اور بھلائی میں سے جو کچھ تو مجھ پر نازل فرمائے تو میں تو اس کا سخت محتاج ہوں.یہ دعا قبولیت کا شرف حاصل کر گئی اور پھر آپ پر دین و دنیا کی حسنات نازل ہوتی رہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دعا محفوظ فرما دی تا کہ آئندہ بھی مومنین اس کے ذریعہ خیر المنز لین کی انزال رحمت کے نظارے دیکھتے رہیں.أم الصفات رحمان کے تحت صفات الہیہ ” دوسری خوبی خدا تعالیٰ کی جو دوسرے درجہ کا احسان ہے....رحمانیت ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں الرحمن کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کی رُو سے خدا تعالیٰ کا نام رحمن اس وجہ سے ہے کہ اُس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے اُس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی یعنی جس طرز کی زندگی اس کے لئے ارادہ کی گئی اس زندگی کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ جسم اور اعضاء کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کئے اور پھر اس کی بقا کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کے لئے مہیا کیں.پرندوں کے لئے پرندوں کے ۴۲

Page 56

یعنی الأسماء الحسنى مناسب حال اور چرندوں کے لئے چرندوں کے مناسب حال اور انسان کے لئے انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ان چیزوں کے وجود سے ہزار ہا برس پہلے بوجہ اپنی صفت رحمانیت کے اجرام سماوی و ارضی کو پیدا کیا تا وہ ان چیزوں کے وجود کی محافظ ہوں.پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت میں کسی کے عمل کا دخل نہیں بلکہ وہ رحمت محض ہے جس کی بنیاد ان چیزوں کے وجود سے پہلے ڈالی گئی.ہاں انسان کو خدا تعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہے کیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا کہ تمہارا خدا رحمن ہے.“ ایام اصبح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۹٬۲۴۸) ۳۳_ الرحمن بلا مبادلہ فضل کرنے والا فرمایا: ۴۳ الرَّحْمَنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَمَهُ الْبَيَانَ (الرحمن: ۲ تا ۵) سورہ رحمن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کے جلووں کا ذکر کیا ہے.مثلاً قرآن کریم کا سکھایا جانا اور الانسان کی پیدائش اور پھر انسان کو قوت بیا نیہ کا عطا کیا جانا.یہ سب رحمانیت کے تحت ہوا.یہاں پر الانسان سے مراد رسول پاک ملتی ہی یہی ان کا وجود باجود ہے کیونکہ آپ ہی اپنے کمالات کی وجہ سے الانسان کہلانے کے مستحق ہیں کیونکہ آپ ہی وجہ تخلیق کا ئنات ہیں.غرض تین احسانوں کا ان آیات میں ذکر ہے.۱.قرآن کریم.۲.رسول پاک صلی ایم.۳.آپ کا طرز بیان اور زور بیان.یہ وہ عظیم جلوے ہیں جو خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے تحت ظاہر ہوئے جن کے فیض سے انسان روحانی بلند مراتب پانے کے قابل ہے.بمطابق سورۃ جمعہ آنحضرت صلی اینم کی بعثت امیین میں ہوئی اور آپ کی بعثت ثانیہ

Page 57

یعنی الأسماء الحسنى آخرین میں بتائی گئی.جس کے متعلق آپ نے فرمایا: لو كان الايمان معلقا بالثريا لناله رجل اور جال من فارس.(بخاری کتاب التفسیر تفسیر سوره جمعه) ۴۴ حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آپ نے فرمایا جب ایمان ثریا پر اٹھ جائے گا رجل من فارس اسے اتار لائے گا.یہ رجل من فارس حضرت مسیح موعود ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کی ایک تجلی ہے جو ظاہر ہوئی.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جو مجھ کو پایا وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی فسبحان الذي اخزى العادى آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ”مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا.میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں.اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں.بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑ تا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے.“ ۳۴_ اَلْمَثَانِ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۷۷) بہت ہی احسان کرنے والا یہ انسانیت پر ایک عظیم احسان ہے کہ اس نے اپنی معرفت حاصل کرنے کے لئے سلسلہ انبیاء جاری کیا.فرمایا: لَقَدْ مَنَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ

Page 58

یعنی الأسماء الحسنى قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ (آل عمران: ۱۶۵) اللہ نے مومنوں میں سے ایک ایسا رسول بھیج کر جو انہیں اس کے نشان پڑھ کر سناتا ہے ۴۵ اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے.یقیناً ان پر احسان کیا ہے اور وہ اس سے پہلے یقینا کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہوتے ہیں.یہاں پر مومنوں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ رسولوں پر ایمان لا کر خدا تعالیٰ کے اس احسان کو مانتے ہیں ورنہ احسان الہی تو تمام انسانیت کے لئے ہوتا ہے کہ وہ فائدہ اٹھائیں اور ضلالت کو روشنی سے تبدیل کر دیں اور تزکیہ نفس حاصل کریں.۳۵.النُّور روشنی کا منبع.روشنی کرنے والا.ہمہ نور.فرمایا: اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَ الْاَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ b (النور: ٣٦) اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے.وہ اپنے نور تمثیلی رنگ میں اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ گو یا طاقچہ ہے جس میں ایک قندیل رکھی ہوئی ہے اور وہ گلوب ایسا ہے جیسے ایک چمکنے والا ستارہ ظلمتیں ہوتا ہے.یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی ا یہ تم کو مصباح قرار دیا ہے جس کے ذریعہ طلا چھٹ جاتی ہیں اور الہی نور ظاہر ہوتا ہے اور اسی نور کو خلافت کے ذریعہ سے ایک چمنی پہنا دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ نور دیر تک اور دور کے زمانوں اور مکانوں میں چمکتا ہے اور نسل انسانی کی ہدایت کا موجب ہوتا ہے اور مشرقی و مغربی سب اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.اور اس عالم میں یوں نور خداوندی کے ظاہری مظاہر بھی ہیں.مختلف زمانوں میں غلطی خوردہ انسانوں نے انہیں ہی دیوتا بنا کر پوجنا شروع کر دیا مگر معنوی مظہر جنہیں سراجا منیرا کہا گیا ہے جو آسمان روحانیت میں ایک سورج ہیں اور ان کا ایک چاند بھی ہے اور صحابہ کرام جنہیں ستارے کہا گیا

Page 59

یعنی الأسماء الحسنى ہے جیسا کہ فرمایا: أَصْحَابِي كَالنَّجُومِ بِأَتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ (مشكوة كتاب الفتن مناقب الصحابه) یہ مظاہر تو وہ ہیں جن کے ذریعہ سے نور خدا وندی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چھکا.گو يانور علی نُور کا نظارہ دنیا نے دیکھا اور بتوں کو توڑ تو ڑ کر تو حید حقیقی کو دلوں میں قائم و دائم کر دیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: تو حید ایک نور ہے جو آفاقی وانفسی معبودوں کی نفی کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے اور وجود کے ذرہ ذرہ میں سرایت کر جاتا ہے پس وہ بجز خدا اور اُس کے رسول کے ذریعہ کے محض اپنی طاقت سے کیونکر حاصل ہوسکتا ہے.انسان کا فقط یہ کام ہے کہ اپنی خودی پر موت وارد کرے اس شیطانی نخوت کو چھوڑ دے کہ میں علوم میں پرورش یافتہ ہوں اور ایک جاہل کی طرح اپنے تئیں تصور کرے اور دعا میں لگا رہے تب توحید کا نور خدا کی طرف سے اُس پر نازل ہوگا اور ایک نئی زندگی اُس کو بخشے گا.“ ۴۶ ٣٦ الْوَهَّابُ (حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۸) عطا کرنے والا.وھب اور ھبہ کہتے ہیں.بخشنے اور عطا کرنے کو موصبت بخشش.وَهَّاب مبالغہ کا صیغہ ہے.روحانی انعامات اور نبوت وغیرہ سب موہبت ہیں.اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی: إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ربَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً (آل عمران:۹)

Page 60

یعنی الأسماء الحسنى ۴۷ اے ہمارے پروردگار ہمارے دلوں کو آلودہ نہ بنا بعد اس کے کہ تو نے ہم کو ہدایت عطا فرمائی.ہمیں اپنے حضور سے رحمت عطا فرما بے شک تو بڑا دائم العطا ہے.اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا ہے : هَبْ لِي مُلكًا لا يَنْبَغِى حَدٍ مِنْ بَعْدِى إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (ص: ۳۶) مجھے ایسی سلطنت عطا فرما کہ میرے بعد کسی اور کو سزاوار نہ ہو بے شک تو بڑا فیاض ہے.۳۷.الْمُعْطِئ عطا کرنے والا ، جسے چاہے عطا کرنے والا.جیسا کہ اس کی عطا کے متعلق آیا ہے.عَطَاء غَيْرَ مَجْنُودْ (هود: ۱۰۹) وہ ایسی عطا ہے جو کبھی منقطع نہیں کی جاتی.اس دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں بھی دیتا ہے وہ اتنا دیالو ہے کہ اس کی بخشش اور عطا پر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور کبھی وہ پیار سے اپنے پیاروں کو یہ بھی فرماتا ہے: ۳۸.اَلْوَاسِعُ میں تینوں ایناں دیاں گا کہ توں رج جائیں گا.“ وسیع المعلومات یا وسیع الغنا.یہ اسم سعۃ سے ماخوذ ہے فراخی اور فراخ کرنا اس کے معنی ہیں.قرآن کریم میں اس کا استعمال حکمت اور مغفرت اور علم کے ساتھ ہوا ہے.فرمایا: (الالنساء: ۱۳۱) وَكَانَ اللهُ وَاسِعَا حَكِيمًا - إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ - وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ - (البقرة : ۲۶۹) (النجم:۳۳) فَقُلْ رَّبِّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ (الانعام: ۱۴۸)

Page 61

یعنی الأسماء الحسنى ۴۸ یہ وسعت اس کی رحمانیت کے تحت ہے.اس کا علم اور اس کی حکمت تمام ذوی الروح کے ساتھ اور مغفرت مومنین کے ساتھ خاص ہے.۳۹_ اَلْحَكِيمْ حقائق الاشیاء کا عالم.یہ اسم مشتق ہے حکمت سے اور حکمت کہتے ہیں جس فعل پر عمدہ آثار مرتب ہوں.وَضْعُ الشَّي في محله یعنی کسی چیز کو اس کی اپنی اصل جگہ پر رکھنا.اس سے مراد علم اور حسن کا کمال ہوتا ہے اور حکیم وہ ہے جو حقائق الاشیاء کا عالم ہو اور رضاعات کے دقائق کو خوب جانتا ہو.فرمایا: سُبُحْنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَيْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (البقرة:۳۳) تیری ذات ہر قسم کے عیب سے پاک ہے ، ہم کوکوئی علم نہیں بجز اس علم کے جو تو نے ہم کو دیا ہے بے شک تو علیم و حکیم ہے.پھر فرمایا: وَكَانَ اللهُ وَاسِعَا حَكِيمًا - وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ (النساء: ۱۳۱) (السبا: ٢) جب یہودی بگڑے اور انہوں نے شریعت کے احکامات کی حکمتوں کو فراموش کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھیج دیا.آج جب مسلمان بگڑے تو اللہ تعالیٰ نے اسی رنگ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو حکم و عدل بنا کر بھیج دیا کہ قرآنی تعلیم کی حکمتوں سے مسلمانوں کو آگاہ کریں اور تمام دنیا پر اس کی اچھائیاں اجاگر کر کے اس کا گرویدہ بنالیں.٢٠_ الْحَلِيمُ برد بار، حلیم اسے کہتے ہیں جو مغلوب الغضب نہ ہو اور انتقام لینے میں جلدی نہ کرے بلکہ باوجود اقتدار کے عفو اور درگذر سے کام لے.اللہ تعالیٰ اس لئے حلیم کہلاتا ہے کہ تعذیب العباد

Page 62

یعنی الأسماء الحسنى میں جلدی نہیں کرتا.قرآن کریم میں یہ صفت غفور غنی علیم ،شکور کے ساتھ مل کر ا کیلے بھی آئی ہے.جیسے فرمایا: ۴۹ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ - (البقرة : ۲۶۴) وَاللهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ - ( الالنساء:۱۳) وَاللهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ (التغابن : ۱۸) وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَلِيمًا (الاحزاب:۵۲) ۴۱.الْخَبِيرُ آگاه، دانا،عالم.فرمایا: وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الانعام: ۱۰۴) احاطہ کرنے والا.واقف کہ وہ یہ اطلاع رکھتا ہے کہ کون سی ابصار تک پہنچنا صاحب الابصار کی روحانی ترقی کا باعث ہوگا.کون استعداد روحانی رکھتا ہے تا اس پر مزید احسان کیا جائے.اس کے لئے فضل کا دروازہ کھولا جائے.اللہ تعالیٰ کی نظر دلوں کی پاتال تک ہے.اس وجہ سے حق دار کو اس کا حق ضرور ملتا ہے.کبھی کوئی بے فیض نہیں رہتا.اس کی نظر سب زمانوں پر بھی ہے.وہ سب کچھ جانتا ہے کہ آئندہ کیا ہو گا.۴۲.الْمَجِيدُ بزرگ.شریف.عظمت و بڑائی والا.مجید وہ ہے جس کی ذات شریف افعال جمیل اور عطا جزیل ہو.یہ اسم ان معنوں کے لحاظ سے جمیل وہاب اور کریم کا جامع ہے.فرمایا : اتعجَبِينَ مِنْ اَمْرِ اللَّهِ رَحْمَتُ اللهِ وَبَرَكتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.(هود: ۷۴) فرشتوں نے کہا کہ کیا تو اللہ تعالیٰ کے امر سے تعجب کرتی ہے.اے ابراہیم کے گھر

Page 63

یعنی الأسماء الحسنى والو.اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں تم پر ہوں.بے شک وہ خداحمد کیا گیا اور بزرگی والا ہے.۴۳.اَلْمَاجِدُ بزرگی والا.اس عالمین میں احسانات خدا وندی کے لامتناہی سلسلے جاری ہیں.ایک طرف ذوالعطا کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں اور دوسری طرف اس کی حمد اور مجد کے ترانے گائے جاتے ہیں.فرمایا: ذوالعرش المجید.وہ عرش کا مالک اور بزرگ شان والا ہے.۴۴.اَلْحَمِيدُ ہر قسم کی حمد و ثناء کا سزاوار.فرمایا: وَكَانَ اللهُ غَنِيًّا حَمِيدًا.(النساء: ۱۳۲) پھر فرمایا: وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَيْدُ (الشورى ۴۳) تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ.( حم السجدة : ۴۳) آسمان سے روحانی ( کلام الہی ) اور مادی بارش نازل کرنے والا ہے.اس طرح زندگی دینے والا.جس کی وجہ سے وہ حمد کا سزاوار ہے.ہر طرف اس کی رحمت بکھری پڑی ہے اور رحمانیت کے تحت جلوہ گر ہے اور حمد وثناء کا باعث بن رہی ہے.۴۵- الْغَنِيُّ ہر قسم کی ضرورتوں کا متکفل اور خود بے پرواہ.فرمایا: 9.791 وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ (البقرة: ۲۶۴) یہ صفت حلیم کریم اور حمید کے ساتھ آئی ہے.بتایا وہ منی تو ہے.مگر حلیم اور کریم بھی ہے اور ان تمام صفات کے جلوے اسے صفت حمید کا موصوف بھی بنادیتے ہیں.

Page 64

یعنی الأسماء الحسنى ٤٦- الْحَفِيظُ نگہبان.چنانچہ فرمایا: إنَّ رَبِّي عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ - (هود: ۵۸) یہ اسم سورۃ شوری اور سبا میں بھی آیا ہے.خدا تعالیٰ نے شیاطین کے پیچھے شہاب ثاقب لگا دیئے ہیں تا کہ کچھ اچک کر نہ لے جائیں.زمین کے گرد حفاظت کرنے والی فضا بنائی جو ہر داخل ہونے والی چیز کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے.تمام کائنات کو نظر نہ آنے والے ستونوں یعنی کشش ثقل میں باندھ دیا.یہ سب اس کی حفاظت کے جلوے ہی تو ہیں جو اس کا حفیظ ہونا ۵۱ ثابت کر رہے ہیں.۴۷.اَلْحَافِظُ نگہبان اور حفاظت کرنے والا ، دینی اور دنیاوی ہلاکت کے اسباب سے بچانے والا.آیت الکرسی میں فرمایا : وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا.(البقرة : ۲۵۶) اور ان دونوں ( آسمان اور زمین ) کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں.اسی طرح فرمایا: وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيْمٍ - (الحجر: ۱۸) اور اس کی ہم نے ہر ایک دھتکارے ہوئے شیطان سے حفاظت کی ہے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلالہ یہ تم کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور فرمایا: وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة : ۱۱۸) کہ لوگوں سے مجھے محفوظ رکھوں گا.اور آپ کے روحانی فرزند علیہ السلام کو فرمایا: إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ.کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه (۱۴)

Page 65

یعنی الأسماء الحسنى ۵۲ میں ہر اس شخص کی حفاظت کروں گا جو تیرے روحانی گھر میں بود و باش رکھے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہورہا ہے اور تمام دینا دیکھ رہی ہے.قرآن کریم کی عظیم کتاب کی حفاظت کا ذمہ لیا تو فرمایا: إنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: ١٠) اس کی معنوی حفاظت بھی فرمائی.ارسال مجددین اور ارسال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے لفظی حفاظت بھی فرمائی.۴۸.اَلرَّقِيب نگہبان، نگران.فرمایا: انَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا - (النساء:۲) فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ - (المائدة : ۱۱۸) خدا تعالیٰ تمہاری نگرانی اور نگہبانی کر رہا ہے اور جس کی وجہ سے وہ اصلاح خلق کے لئے اقدام کر رہا ہے.٢٩- الْمَتِينُ استوار.فرمایا: إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ - (الذاريات:۵۹) وہ متعین ہے ذوالقوۃ ہونے کی وجہ سے اور اس کے قومی اور زبردست ہونے کی وجہ سے اس کی تمام صفات عالمین میں خوب اچھی طرح سے استوار ہیں.۵۰_ البر نیکی اور احسان کرنے والا ، اپنے بندوں کے لئے آسانی پسند، بہت معاف کرنے والا.مہربانی کرنے والا.فرمایا

Page 66

یعنی الأسماء الحسنى إِنَّهُ هُوَ الْبَرُ الرَّحِيمُ - (الطور : ٢٩) بے شک وہ احسان کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے.یعنی هُوَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ - (البقرة: ۱۶۴) ۵۱_ اَلْمُطَهِّر ۵۳ پاک اور پاکیزگی عطا کرنے والا ، تزکیہ کرنے والا ، اپنے بندوں کو الزامات سے پاک کرنے والا.فرمایا: وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا (آل عمران:۵۶) وہ اپنے بندوں کا انکار کرنے والوں کے غلط الزامات کی قلعی کھول کر پاک ٹھہراتا ہے اور ان کے تزکیہ کے اعلیٰ مقام کو وہ دنیا کے سامنے ظاہر کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق فرمایا: لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: ٨٠) یعنی قرآن کریم کے معارف اور معانی تک غیر مطہر کی رسائی نہ ہو گی صرف مطہر وجود ہی اس تک رسائی پاسکیں گے.چنانچہ اس زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے قرآن کریم کے ایسے ایسے معارف بیان کئے کہ 14 سو سال میں کسی نے بیان نہ کئے اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی طہارت اور پاکیزگی پر بھی مہر لگادی.۵۲.اَلْجَاعِلُ بنانے والا ، مقرر کرنے والا.فرمایا: وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ (البقرة : ١٣) جب ملائکہ کو تیرے رب نے بتایا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں حضرت ابراہیم

Page 67

یعنی الأسماء الحسنى علیہ السلام کو فرمایا.إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا اے ابراہیم میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں خلیفہ اللہ کی شکل میں ہو یا خلیفتہ النبی کی شکل میں.خلافت ایک بہت بڑا احسان ہے.انسان کی پیدائش کی غرض اس کے ذریعہ سے پوری ہوتی ہے اور دنیا میں پھر عارف باللہ انسان ۵۴ پیدا ہونے لگتے ہیں.۵۳.اَلسَّلَامُ تمام نقصانات سے محفوظ ، سلامتی کا سر چشمہ اور امن بخشنے والا.اصل میں یہ مصدر ہے بمعنی سلامت لیکن اسماء الہی میں یہ سالم کے معنوں میں آتا ہے.یعنی وہ ذات پاک جو ہر قسم کے عیب اور نقصان سے محفوظ ہے اور سلامتی بخشنے والی ہے.۵۴ - الْمُؤْمِنُ اپنے عذاب سے اور ہر قسم کے دکھوں اور مصیبتوں سے امن بخشنے والا.اپنے کمالات توحید پر دلائل قائم کرنے والا.تمام صداقتوں کو ماننے والا.اپنے وعدوں میں سچا.لفظ مومن کا ماخذ امن ہے یا ایمان.مگر امن اصل ہے تو مومن کے یہ معنی ہوئے امن دینے والا اور دنیا میں ہر قسم کے امن کو قائم کرنے والا.دنیا کو عذاب عقبیٰ سے محفوظ رکھنے والا.اگر ماخذ ایمان ہے تو مومن کے معنی ہوئے ایمانداروں کے ایمان کو باور کروانے والا.امن و امان کا قیام اور اس کا استحکام انسانوں پر بہت بڑا احسان ہے.۵- الْمُهَيْمِنُ سب کے اعمال کا محافظ، واقف، نگہبان اور گواہ.دراصل الْمُؤْمِنُ اور الْمُهَيْمِنُ ایک ہی ہیں.الْمُؤْمِنُ باب افعال سے ہے اور الْمُهَيْمِنُ باب مفاعلہ سے جو دراصل الْمُؤْمِنُ تھا.یہ اسماء سورہ حشر کے آخر میں آئے ہیں.

Page 68

یعنی الأسماء الحسنى ۵۶ - الْبَصِيرُ بہت دیکھنے والا، نظر رکھنے والا ، بینا.یہ اسم کم و بیش ۲۴ مرتبہ بطور صفت الہی استعمال ہوا ہے.فرمایا: اِنَّ اللهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ - (المؤمن: ۴۵) اللہ اپنے بندوں پر نظر رکھنے والا ہے.اس کی آبزرویشن اور اس کا نظر میں رکھنا اور نظر انداز نہ کر دینا بھی اس کی رحمانیت کے تحت ایک احسان عظیم ہے.۵۷ ۵ - الشافي شفاء دینے والا ،جسمانی اور روحانی امراض سے نجات دینے والا.قرآن کریم میں فرمایا وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ - (الشعراء: ۸۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اقرار ہے کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی ہے جو اپنے فضل سے شفاء دیتا ہے.مرض کے پیدا ہونے کا سبب انسان کی کوئی غفلت یا بد پرہیزی ہوتی ہے لیکن شفاد بنا، دوائی میں تا ثیر رکھنا یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے.۵۸- الْمَوْلى دوست ،سر پرستی کرنے والا ، کاموں کا کارساز ، مالک ، آقا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ - (الحج: ٧٩) ولی، والی اور مولیٰ ایک اسم کی مختلف شکلیں ہیں.مولیٰ کا لفظ جہاں بھی قرآن شریف میں آیا ہے وہاں علی العموم نصرت الہی کا ذکر ضرور آیا ہے.اور نصرت الہی اس کا احسان ہے.جو صفت رحمانیت کے تحت وہ فرماتا ہے.

Page 69

یعنی الأسماء الحسنى ۵۹ - الصَّبُوْرُ ۵۶ بڑا صبر کرنے والا، تمل اور برداشت کرنے والا.انسان جب صبر کرتا ہے تو ایک تلخی برداشت کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ جو سب نقائص اور نقصانوں سے پاک ذات ہے.اس کا صبر کرنا یہ ہے کہ مواخذہ میں جلدی نہ کرے جب کہ وہ ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے تا ایک شخص اپنی درستی کرلے اور اصلاح کرلے.٢٠ - خَيْرُ الرَّزِقِينَ سب سے افضل اور بہتر رزق دینے والا.فرمایا: وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (الحج:۵۹) اور بے شک اللہ ہی ہے جو سب رزق دینے والوں میں سے بہتر اور افضل رزق دیتا ہے.خدا تعالیٰ ہر مخلوق کو اس کا رزق پہنچارہا ہے جو اس کا احسان عظیم ہے.۶۱ - النَّاصِرُ مدد کرنے والا.اس اسم کے مشتقات قرآن مجید میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور ہر جگہ ہی اس کے احسانوں کی جھلک نظر آتی ہے.جیسے کہ فرمایا: وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ انْتُمْ أَذِلَّةٌ - (آل عمران: ۱۲۴) بدر کی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد کی اور تم بہت تھوڑے تھے.یعنی ظاہری اسباب نا پید تھے.صرف خدا کے فضل سے اور تائید و نصرت سے تمہیں کامیابی ہوئی.نیز فرمایا: نَصْرُ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ - (الصف: ۱۴) (النصر : ٢)

Page 70

یعنی الأسماء الحسنى ٢٢ - النَّصِيرُ مدد کر نے والا.فرمایا: هُوَ مَوْلَا كُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الحج: ٧٩) بہترین مالک اور سب سے بہتر مدد کرنے والا.۵۷ خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر کوئی سلسلہ روحانی پنپ نہیں سکتا.چنانچہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” چنانچہ اُس نے اس سلسلہ کے قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا کہ زمین میں طوفانِ ضلالت بر پا ہے.تو اس طوفان کے وقت میں یہ کشتی طیار کر جو شخص اس کشتی میں سوار ہوگا وہ غرق ہونے سے نجات پا جائے گا اور جوانکار میں رہے گا اس کے لئے موت در پیش ہے...اور اس خدا وند خدا نے مجھے بشارت دی ہے کہ....تیرے بچے متبعین اور مبین قیامت کے دن تک زندہ رہیں گے اور ہمیشہ منکرین پر انہیں غلبہ رہے گا.“ ۶۳.خَيْرُ النَّاصِرِين (فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۵) سب سے بہتر مدد کرنے والا جس کی مدد میں خیر وخوبی ہے.فرمایا: بَلِ اللهُ مَوْلَا كُمْ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ (آل عمران: ۱۵۱) اللہ تمہارا مولیٰ ہے اور وہ سب مدد کرنے والوں سے بہتر ہے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں: کس قدر ظاہر ہے نور اس مبداء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا

Page 71

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى ۵۸ چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا ہے عجب جلوہ تیری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی راہ ہے تیرے دیدار کا چشمہ خورشید میں موجیں تیری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشہ ہے تیری چمکار کا کیا عجب تو نے ہراک ذرہ میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں کس سے کھل سکتا ہے بیچ اس عقدہ دشوار کا سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۵۲) ایک عارف باللہ انسان سارے عالم میں اسرار خداوندی کے کھوج نکالتا ہے اور اسے محبوب از لی اور معشوق حقیقی کے انوار ہر طرف بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں.کبھی چاند کی دلکشی اور رونق اسے اپنے پیارے کی یاد دلاتی ہے اور بے چین کر دیتی ہے کیونکہ اسے اس حسن کے پیچھے ایک اور حسین تر کا جلوہ نظر آتا ہے.پھر وہ ستاروں کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو ہر ستارے میں اس کی چہکار دکھائی دیتی ہے پھر سورج چڑھتا ہے تو اس کی تمازت اور حدت میں اپنے محبوب کے وجود کی گرمی محسوس ہوتی ہے اور اس کے رگ وریشہ کو مستی سے سرشار کر دیتی ہے.اس سے تب کا ئنات کے ہر ذرہ میں اپنے محبوب کے پیدا کردہ دو خواص دکھائی دیتے ہیں جن کی کنہ تک پہنچنا ناممکن ہے.وہ اپنے لاثانی و لافانی دلبر یگانہ کی بے پایاں قدرتوں کے ان رازوں کو جب اپنی روحانی آنکھ سے دیکھتا اور روحانی احساسات سے محسوس کرتا ہے تو اس کی روح پکار اٹھتی ہے

Page 72

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا یہ تو ایک سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتا.ان رموز رحمانی تک عقل انسانی کی دسترس کہاں.لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي (الكهف: ١١٠) اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور خداوند کریم کے انداز کریمانہ کو کلمات کا جامہ پہنائیں تو ایسے کئی سمندر خشک ہو جائیں.اور محبوب حقیقی کے سلوک و پیار کی داستانیں اور حسن و احسان کی مدحتیں باقی رہ جائیں.سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم أم الصفات رحیم کے تحت صفات الہیہ تیسری خوبی خدا تعالیٰ کی جو تیسرے درجہ کا احسان ہے رحیمیت ہے جس کو سورۂ فاتحہ میں الرحیم کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کے رُو سے خدا تعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضیع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے.یہ احسان دوسرے لفظوں میں فیض خاص سے موسوم ہے اور صرف انسان کی نوع سے مخصوص ہے.دوسری چیزوں کو خدا نے دعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کا ملکہ نہیں دیا مگر انسان کو دیا ہے.انسان حیوان ناطق ہے اور اپنی نطق کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا فیض پاسکتا ہے.دوسری چیزوں کو نطق عطا نہیں ہوا.پس اس جگہ سے ظاہر ہے کہ انسان کا دعا کرنا اس کی انسانیت کا ایک خاصہ ہے جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ کی صفات ربوبیت اور رحمانیت سے فیض حاصل ہوتا ہے اسی طرح صفت رحیمیت سے بھی ایک فیض حاصل ہوتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ ربوبیت اور رحمانیت کی صفتیں ۵۹

Page 73

۶۰ یعنی الأسماء الحسنى دُعا کو نہیں چاہتیں کیونکہ وہ دونوں صفات صرف انسان سے خصوصیت نہیں رکھتیں بلکہ تمام پرند چرند کو اپنے فیض سے مستفیض کر رہی ہیں بلکہ صفت ربوبیت تو تمام حیوانات اور نباتات اور جمادات اور اجرام ارضی اور سماوی کو فیض رسان ہے اور کوئی چیز اس کے فیض سے باہر نہیں.برخلاف صفت رحیمیت کے جو وہ انسان کے لئے ایک خلعت خاصہ ہے.اور اگر انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھاوے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے فیض رسانی کی چار صفات اپنی ذات میں رکھی ہیں اور رحیمیت کو جو انسان کی دعا کو چاہتی ہے خاص انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے.پس اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ میں ایک قسم کا وہ فیض ہے جو دُعا کرنے سے وابستہ ہے اور بغیر دعا کے کسی طرح مل نہیں سکتا.یہ سنت اللہ اور قانونِ الہی ہے جس میں تخلف جائز نہیں.یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی اُمتوں کے لئے دُعائیں مانگتے رہے.توریت میں دیکھو کہ کتنی دفعہ بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کو ناراض کر کے عذاب کے قریب پہنچ گئے اور پھر کیونکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا اور تضرع اور سجدہ سے وہ عذاب ٹل گیا حالانکہ بار بار وعدہ بھی ہوتا رہا کہ میں ان کو ہلاک کروں گا.حقیقت یہ ہے کہ دعا پر ضرور فیض نازل ہوتا ہے جو ہمیں نجات بخشتا ہے.اسی کا نام فیض رحیمیت ہے.جس سے انسان ترقی کرتا جاتا ہے.اسی فیض سے انسان ولایت کے مقامات تک پہنچتا ہے اور خدا تعالیٰ پر ایسا یقین لاتا ہے کہ گو یا آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے.“ ایام اصلح روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ 249-250)

Page 74

یعنی الأسماء الحسنى ۶۴ - السَّمِيعُ بہت سننے والا ، سب کی سننے والا ، دعا قبول کرنے والا.فرمایا: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ - (الشورى: ١٢) وہ سمیع و بصیر ہے لیکن اس کا کوئی مثل نہیں.اس کی سماعت ہوا کے تموج اور کسی آلہ سماعت کی محتاج نہیں.ان اسباب کے بغیر ہی وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے.یہ صفت قرآن کریم میں ۳۱ جگہ استعمال ہوئی ہے.ایک جگہ فرمایا: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - (البقرة: ۱۲۸) اے ہمارے رب ہم سے قبول فرما بے شک تو سنے والا اور جاننے والا ہے.اسی طرح فرمایا: وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - (البقرة:۱۳۸) ۶۵ - الْمُجِيب دعا کرنے والا، جواب دینے والا ، اجابت جواب دینے اور دعا قبول کرنے کو کہتے ہیں یعنی جو صدق دل سے اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے وہ اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور اس کو جواب بھی دیتا ہے جیسا کہ فرمایا أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة: ۱۸۷) جب پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار کا جواب دیتا ہوں.اسی طرح فرمایا: إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُجِيبٌ.(هود: ۶۲) بے شک میرا رب قریب ہے اور جواب دینے والا ہے.اگر خدا تعالیٰ مجیب الدعوات اور سمیع الدعا نہ ہو تو اس کے عاشق بندے تو جیتے جی ۶۱

Page 75

یعنی الأسماء الحسنى مر جائیں.٦٦ - اللطيف نرمی اور مہربانی کرنے والا.ایسی مہربانی جس کی کیفیت دریافت سے باہر ہے.فرمایا: اِنَّ اللهَ لَطِيفٌ خَبِي (لقمان: ۱۷) یقیناً میرا رب جس پر چاہے مہربانی کرتا اور بردباری کرتا ہے.پھر فرمایا:.اللهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ - (الشورى: ٢٠) (الملك: ۱۵) ہے.اپنے علم کامل کی بنا پر رحم کرتے ہوئے اپنے بندوں پر لطف و کرم فرماتا 12 ۶۷ - الْكَرِيمُ بزرگ.کریم وہ ہے کہ قادر ہو تو معاف کرے.وعدہ کرے تو وفا کرے، دے تو امید سے بہت بڑک کر دے اور کوئی التجا کرے تو بے اعتنائی نہ کرے.یہ کبھی مکرم اور جواد کے معنوں میں بھی آیا ہے.اسم الہی کے طور پر یہ سورہ نمل میں آیا ہے.فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ - ۶۸ - اَلْوَدُوْدُ (النمل: ۴۱) نیک بندوں کو دوست رکھنے والا.ودود مبالغہ کا صیغہ فعول کے وزن ہر ہے.ودود اور مودت ایک ہی معنوں میں آتے ہیں.فرمایا: وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودُ (هود:۹۱) ۶۲

Page 76

یعنی الأسماء الحسنى اپنے رب سے استغفار کرو اور تو بہ کرو.یقیناً میرا رب رحم کرنے والا ہے.اور اس کے تقاضے کو یوں پورا کرتا ہے کہ اپنے بندوں سے انتہائی محبت کرنے لگتا ہے کیونکہ وہ ودود ہے.وڈ گڑ جانے کو کہتے ہیں.ایسی محبت جو ایک دوسرے کے اندر داخل ہو اور کبھی نہ نکلے اور ۶۳ کم نہ ہو بلکہ بڑھتی جائے اور ایک جگہ فرمایا.ހ ވ ވވ، وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ - (البروج : ۱۵) ۶۹ - الرَّءُوْف بہت شفقت کرنے والا.رافت کہتے ہیں شدت رحمت کو.فرمایا: بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ - (التوبة: ١٢٨) إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ - (الحشر:اا) وَإِنَّ اللهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (الحديد : ١٠) اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے بندوں کے ساتھ شفقت اور محبت کا سلوک فرماتا ہے اور اس کی ایک قسم کی رافت سے عام بندوں کو بھی حصہ دیا گیا ہے.جیسا کہ فرمایا: إِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ - (البقرة: ۱۴۴) وَاللَّهُ رَءُونَ بِالْعِبَادِ الْوَلِيُّ (البقرة: ٢٠٨) محب ، مددگار ، سر پرست ، قریب.ولی کہتے ہیں محب و ناصر کو ، اور اللہ تعالیٰ راست بازوں کا محبت ہے.اور انہیں مدد دیتا ہے اور ولی متولی کو بھی کہتے ہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا سر پرست بھی ہے.اسی طرح ولی قریب کے معنوں میں بھی آیا ہے جیسا کہ اس نے دوسری جگہ اپنے قریب ہونے کا ذکر فرمایا:

Page 77

یعنی الأسماء الحسنى إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُجِيدٌ مُجِيْب - پھر فرمایا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ - (هود:۶۲) اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا - (البقرة: ۲۵۸) وَاللهُ وَلَى الْمُتَّقِينَ - (الشورى:۲۹) (الجاثية: ٢٠) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ولایت خاص اس کے متقی اور نیک بندوں کے لئے مخصوص ہے.ا خَيْرُ الرَّحِمِينَ تمام رحم کرنے والوں میں سے جس کا رحم سب سے زیادہ خیر و برکت والا ہے.فرمایا: رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ اور ایک جگہ فرمایا: (المؤمنون:١١٠) وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَ أَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ (المؤمنون: ١١٩) سچ ہے رحمت خاص کی بھیک خدا تعالیٰ جو خیر الرازقین بلکہ ارحم الراحمین ہی سے مانگی جاتی ہے.۷۲.اَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنِ سب سے زیادہ رحم کرنے والا.قرآن کریم میں یہ اسم اکثر مرتبہ آیا ہے مثلاً فرمایا: قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَانْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (الأعراف: ۱۵۲) ۶۴

Page 78

یعنی الأسماء الحسنى حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ”اے میرے رب مجھے اور میرے بھائی ( ہارون ) کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحیمیت میں داخل فرما اور تو تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.“ ایسا ہی سورہ یوسف میں فرمایا: وَاللهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرّاحِمِينَ (یوسف:۶۵) خاص حالات میں خاص جوش ہوتا ہے اور ایسے حالات میں اس کی رحمت کی وسعت پر مومن کو نظر ہوتی ہے اور وہ اسی سے اس کی رحمت کا طلبگار ہوتا ہے.۷۳_ الْغَافِرُ گناہوں کو بخشنے والا.الغافر الغفور اور الغفار یہ تین اسم دراصل ایک ہی ہیں لیکن بلحاظ کمیت و کیفیت اپنے مفہوم کی جدا جدا شان رکھتے اور تین جدا جدا نام ہیں.یہ اسم قرآن کریم میں ایک ہی مرتبہ آیا ہے فرمایا: حمَ - تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ـ غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ (المومن: ۲ تا ۴) طلب مغفرت گناہوں کے بداثرات سے بچنے کے لئے بھی ہوتی ہے اور نیکیوں میں زیادہ مداومت کے حصول کے لئے بھی چنانچہ مومنوں کا استغفار ایسا ہی ہوتا ہے.خصوصاً مومنین کے سردار حضرت رسول پاک سمایل اسلم بھی استغفار کیا کرتے تھے.جو معصوم عن الخطا تھے اور سردار المعصومین تھے.۷۴.قَابِلِ التَّوْب تو بہ کو قبول کرنے والا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں کو رجوع الی اللہ کی توفیق دینے والا.یہ صفت بھی سورۃ مومن میں ہی آیت بالا میں آئی ہے.

Page 79

یعنی الأسماء الحسنى یعنی جو کچی تو بہ کرتا ہے جو ندامت میں لپٹی ہوئی ہو اور آئندہ نیکی کرنے کے پکے عزم کے ساتھ کی گئی ہو.حقوق اللہ کی تلافی مافات اور حقوق العباد میں غفلتوں کا ازالہ اور ان پر احسان کرتے ہوئے کی جاتی ہوضرور قبول ہوتی ہے.۷۵- تَوَّاب گناہ گاروں کی توبہ قبول کرنے والا.رجوع برحمت کرنے والا.تو اب مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس کا مادہ تو بہ ہے.اس کے اصل معنی ہیں رجوع کرنا اور بدی سے تو بہ کا مفہوم یہ ہے کہ بدی چھوڑ کر اس کے بالمقابل نیکی اختیار کرے.اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی نسبت ہو تو مطلب ہوگا رجوع برحمت ہونا.فرمایا: إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - (البقرة: ١٢٩) یه اسم دیگر اسماء کے ساتھ مل کر بھی آیا ہے.مثلاً ۶۶ وَأَنَّ اللهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ - (النور:اا) إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ - (الحجرات: ۱۳) فرمایا إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا - (النصر : ۴) اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ بار بار رجوع برحمت فرماتا ہے اور توبہ قبول فرماتا ہے جو اس کی رحیمیت کا ایک جلوہ ہے..خَيْرُ الْغَافِرِينَ جس کی مغفرت اور بخشش اور پردہ پوشی میں خیر ہی خیر ہو.فرمایا: انتَ وَلِيْنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَ أَنْتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ (الأعراف: ۱۵۶)

Page 80

یعنی الأسماء الحسنى تو ہمارا کارساز ہے پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو بہترین معاف کرنے والا ہے.ے.ذُوْ مَغْفِرَة مغفرت کا مالک.مغفرت کے معنے ڈھانپنے اور پردہ پوشی کے ہیں.فرمایا: وَ انَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ وَ إِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ (الرعد:) ۶۷ یقینا تیرا رب اس کے بعد کہ لوگ اپنے پر ظلم کرتے ہیں، مغفرت اور رحمت کرنے والا ہے اور تیرا رب پکڑ میں بھی بڑا سخت ہے.یوں تو وہ ذو مغفرۃ ہے لیکن جب حد سے بڑھتے ہوئے دیکھتا ہے تو شدید العقاب بھی ہے یہ بھی اس کی رحمت کا ہی ایک جلوہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو حد سے نہ بڑھنے دے تا کہ وہ آخرت کے عذاب شدید سے بچ جائیں.۷۸.ذُوْرَحْمَة رحمت کا مالک ، رحم کرنے والا.فرمایا: وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ - (الأنعام: ۱۳۴) اور تیرا رب غنی اور صاحب رحمت ہے.سورہ کہف میں فرمایا وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا لَعَجَلَ لَهُمُ الْعَذَابَ بَلْ لَهُمْ مَوْعِدُ لَنْ يَجِدُ وَا مِنْ دُونِهِ مَوْئِلًا - (الكهف:۵۹) اور تیرا رب غفور اور صاحب رحمت ہے اگر وہ ان کی کرتوتوں کے باعث پکڑتا تو کبھی کا عذاب آچکا ہوتا مگر اس نے ایسا نہیں کیا.ان کے لئے ایک میعاد مقرر ہے وہ اس سے بیچ نہ

Page 81

یعنی الأسماء الحسنى سکیں گے.ذُو الرَّحْمَةِ کا یہ بھی مفہوم ہے کہ وہ سزا دینے میں ڈھیل ہی نہیں دیتا بلکہ اس کی سزا کی ۶۸ تہہ میں رحمت ہی رحمت ہوا کرتی ہے جیسے جراح اور سرجن کی تکلیف میں آرام ہی آرام ہوتا ہے.۷۹_ اَلشَّكُورُ قدر دان.فرمایا: لِيُوَفِّيَهُمْ أَجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ވ (فاطر: ۳۱) یہ کہ تا وہ اپنے فضل سے ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے بے شک وہ غفور بھی ہے اور قدر دان بھی ہے.یہ اس کی قدر دانی ہے کہ محدود اور تھوڑے عمل پر لامتناہی ثواب اور اجر عطا فرماتا ہے.٨٠_ اَلشَّاكِرُ قدر دانی کرنے والا اور اپنے بندوں کی اطاعت پر خوش ہو کر ثواب دینے والا.اپنی نعمتوں اور فضلوں کو بڑھانے والا.جیسا کہ ایک جگہ فرمایا: لئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ - (ابراهيم: ۸) مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَا بِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرَا عَلِيمًا (النساء: ۱۴۸) اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرو اور اس پر ایمان لاؤ تو وہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اور خدا تعالیٰ قدر دان اور جاننے والی ہستی ہے.فرمایا: فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ - (البقرة: ۱۵۹)

Page 82

یعنی الأسماء الحسنى ۸۱- كَاشِفُ الضُّرَ غموں اور دکھوں کو دور کرنے والا.اس کا مادہ قرآن کریم میں موجود ہے.چنانچہ فرمایا: وَإِن يَمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ - (الأنعام: ۱۸) یعنی اللہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو وہی ہے جو اس کو دور کرتا ہے.ایک جگہ فرمایا: إِنَّا كَا شِفُوا الْعَذَابِ قَلِيلًا - (الدخان: ۱۶) یعنی بے شک ہم کچھ عذاب دور کرنے والے ہیں.اسی رکوع میں ایک اور جگہ فرمایا: رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ (الدخان: ۱۳) ۶۹ اے ہمارے رب ہم سے عذاب دور کر بے شک ہم مومن ہوئے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ كا كاشف الضر ہونا اس کی ربوبیت کے تقاضے کو بھی پورا کرتا ہے اور اس کی رحیمیت پر بھی دال ہے.٢_ اَلْوَكِيلُ کارساز.وکیل اسے کہتے ہیں جس کے سپر دا پنا کل کام کر دیں اور تمام تصرف اس کے ہاتھ میں ہو.خدا تعالیٰ نے اپنے عاجز بندوں کے تمام کام اپنے خاص فضل اور رحم کے ساتھ اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں اسی لئے وہ وکیل نعم الوکیل ہے.چنانچہ فرمایا: وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ - (هود:۱۳) وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ - (آل عمران: 174) وَكَفَى بِاللهِ وَكِيلًا - (النساء: ۸۲)

Page 83

یعنی الأسماء الحسنى ۸۳- الْعَفْوُ گناہوں سے درگزر کرنے والا.گناہوں کو مٹانے والا.عفوغفر سے بڑھ کر ہے اس لئے غفر میں تو چھپانا اور ڈھانکنا مقصود ہوتا ہے اور عفو میں گنا ہوں کو ٹھوکر دینا ہوتا ہے.فرمایا: إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوا غَفُورًا - (النساء: ۴۴) اور ایک جگہ فرمایا: فَإِنَّ اللهَ كَانَ عَفُوا قَدِيرًا - (النساء : ۱۵۰) ۸۴- الْقَابِضُ لوگوں کے صدقات کا لینے والا اور ان کے اچھے نتائج پیدا کرنے والا نیز جس کے قبضہ قدرت میں ہر شے ہے.۸۵_ اَلْبَاسِطُ بڑھانے والا.یہ دونوں اسم ایک دوسرے کے بالمقابل واقع ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ لیتا ہے اور اس کو بڑھا کر اور بہت سا ثواب مرتب کر کے واپس کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ.(البقرة: ۲۴۶) اور اللہ ہی ہے جو قبض و بسط کرتا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے.روحانی لحاظ سے جو قبض و بسط کا سلسلہ چلتا ہے وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے تا انسان روحانیت میں ترقی کرتا چلا جائے._ الْمُعِزّ عزت دینے والا.یعنی جسے وہ عزت دینا چاہے اسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا اور جسے وہ

Page 84

یعنی الأسماء الحسنى ذلیل کر دے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا.۸۷- الْمُذِلُّ ذلیل کرنے والا.اے اعزاز کہتے ہیں عزت کرنے کو اور اذلال خوار اور ذلیل کرنے کو.اللہ تعالیٰ اطاعت و فرمانبرداری کی توفیق دے کر اس دنیا میں مزید انعامات عطا فرما کر اور جنت کا وارث قرار دے کر اس دنیا میں اپنے پیاروں کو عزت دیتا ہے اور عزت کے سامان پیدا کرتا ہے.اور بالمقابل جو خدا تعالیٰ کے طریق کے مطابق نہیں چلتے.اپنے اعمال بد کی وجہ سے ذلیل کئے جاتے ہیں.حضرت امام غزالی " ان اسماء کے معنے کرتے ہیں کہ خدا جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے.یہ دونوں اسماء سورہ آل عمران میں اپنے مشتقات رکھتے ہیں.وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ (آل عمران:۲۷) الْمُقَدِّمُ اپنے دوستوں کو بارگاہ عزت کی طرف بڑھانے والا اور اولیت دینے والا.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو مقدم کر لیتا ہے جو اس کی ذات کو دوسروں پر مقدم کر لیتے ہیں اور ترجیح دیتے ہیں.صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اپنا سب کچھ قربان کرد یا اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم کر لیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ بھی ان کو فتح پر فتح دیتا چلا گیا.آج جماعت احمدیہ کے عالمگیر غلبہ کے لئے ۳۰۰ سال کا عرصہ مذکور ہے.اگر آج صحابہ جیسی قربانیاں کرنے والے ہم بھی ہوئے تو یہ عرصہ اللہ تعالیٰ اپنی شفقت سے کم بھی کر سکتا ہے.۸۹_ الْمُؤَخَّر جو خدا اور اس کے رسول کو قبول نہیں کرتے اور سفلی زندگی اختیار کرتے ہیں ان کو پیچھے

Page 85

یعنی الأسماء الحسنى ڈالنے والا.۷۲ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے باوجود اتنے وعدوں کے قربانیوں میں لیت ولعل کیا تو وعدے موخر کر دئے گئے اور ۴۰ سال کے بعد ایک نئی نسل تربیت پا کر آئی اور ان وعدوں کی مصداق بنی.وعدے بوجہ قربانیوں کی کمی کے مؤخر ہو گئے.۹۰ _ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ سب تدابیر کرنے والوں میں سے بہترین تدبیر کرنے والا.جس کی تدبیر میں خیر و برکت ہو.فرمایا: وَمَكَرُوا وَ مَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (آل عمران: ۵۵) انہوں نے تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی تدبیر کی اور اللہ بہتر تد بیر کرنے والا ہے.پھر فرمایا: ويمكرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ - (الأنفال: ۳۱) خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کے لئے رفعتوں کے سامان کرتا ہے تدابیر کرتا ہے اور رحیمیت کے جلوے دکھاتا ہے.۹۱ - الرَّافِعُ عَلِيًّا - درجات عالیہ عطا کرنے والا ، وفات کے بعد مقام رفع میں اٹھانے والا.فرمایا: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ اِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا (مریم: ۵۷-۵۸) اور اس کتاب میں اور یس کو بھی یاد کرو وہ بے شک نبی راستباز تھا.ہم نے مکان اعلیٰ میں اس کا رفع کیا.پھر فرمایا: يَرْفَعَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ - (المجادلة: ١٢)

Page 86

یعنی الأسماء الحسنى اللہ تعالیٰ جو ان میں مومنین ہوں گے ان کا رفع کرے گا.فرمایا: إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى (آل عمران: ۵۶) ۷۳ جو مومن بندے عاجزی و انکساری اختیار کرتے ہیں اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں خدا تعالیٰ کے مقربین میں شامل ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا رفع ساتویں آسمان تک کرتا ہے.(حدیث) ۹۲ - اَلْوَافِئ پورا پورا بدلہ دینے والا.ایفائے عہد کرنے والا.اس اسم کے مشتقات بھی قرآن کریم میں موجود ہیں.فرمایا: أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ - (البقرة: ۴۱) تم میرے عہد کو پورا کرو.میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا.ایک اور جگہ فرمایا فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ - (آل عمران: ۵۸) پس وہ ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا.یہ اس کی رحیمیت بے پایاں ہے.٩٣_ اَلْكَفِيلْ ضامن ، ضمانتوں کو قبول کرنے والا ، عہدوں پر نگاہ رکھنے والا.فرمایا: وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدُ تُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ الله عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ - (النحل : ٩٢) جب اللہ تعالیٰ سے عہد کرو تو اس کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرو اور ان کے پختہ ہو جانے کے بعد مت توڑو.بیشک تم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر ضامن کر لیا ہے اور اللہ تعالیٰ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے یہ بھی اس کی بے پایاں شفقت اور رحمت ہے کہ وہ

Page 87

یعنی الأسماء الحسنى اپنے بندوں کا ضامن بن جاتا ہے.۹۴ الْوَاجِد غنی.مقصد میں کامیاب کرنے والی اور کامیاب ہونے والی ہستی.۹۵- الْمُغَيّر انسان کے اپنے ایمان اور اعمال کے موافق اس کے ساتھ معاملہ کرنے والا.فرمایا: ذالِكَ بِأَنَّ اللهَ لَمْ يَكُ مُغَيْرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ - (الأَنْفال: ۵۴) ۷۴ یہ کہ اللہ تعالی اس نعمت کو بدلنے والا نہیں جو اس نے کسی قوم کو دی ہے جب تک کہ وہ قوم اپنے اندر کوئی تبدیلی نہ کرے.افراد کے اعمال کا اثر ساری قوم کے اخلاق پر پڑتا ہے اور یہ بھی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ قومی انعام کو قوم کے نا اہل ہونے کی وجہ سے واپس لے لیتا ہے.چنانچہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ذریعے کتنے انعام کئے گویا ان کی کوششوں اور دعاؤں سے مردہ قوم زندہ ہوگئی لیکن جب انہوں نے ہادی برحق حضرت محمد مصطفیٰ لیہ السلام کا نکار کر دیا تو سب انعام ان سے چھن گئے.جب خدا تعالیٰ کے فرستادوں کا انکار کیا جائے تو قوم کی اصلاح کا مسئلہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے اور ایسی قوم سے انعامات لے کر کسی اور قوم کو جوان کی اہل ہو دے دیئے جاتے ہیں.۹۶ _ النَّافِع نفع و خیر کو پیدا کرنے والا.نیک اعمال کے بدلے سکھ دینے والا.خدا تعالیٰ کی ذات ہی نفع رساں ہے باقی سب محتاج ہیں.وہ اپنے خاص بندوں کے ساتھ خاص سلوک فرماتا ہے.جو لوگ اس کی راہ میں قربانیاں کرتے ہیں پشت ہا پشت تک ان کو نوازتا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں:

Page 88

یعنی الأسماء الحسنى ”ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق اور وفا سے اس کے ہو گئے ہیں وہ غیروں پر جو اس کی قدرت پر یقین نہیں رکھتے اور اس کے صادق و وفادار نہیں وہ عجائبات ظاہر نہیں کرتا.کیا ہی بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد نمبر ۱۹ صفحه ۱۹) اسی طرح جلالی و جمالی صفات الہیہ کے جلوہ گر ہونے کے متعلق آپ یوں رقم طراز ہیں: یا در ہے کہ جس طرح ستارے ہمیشہ نوبت به نوبت طلوع کرتے رہتے ہیں اسی طرح خدا کے صفات بھی طلوع کرتے رہتے ہیں.کبھی انسان خدا کے صفات جلالیہ اور استغناء ذاتی کے پر توہ کے نیچے ہوتا ہے اور کبھی صفات جمالیہ کا پر تو ہ اس پر پڑتا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن:۳۰) ۷۵ پس یہ سخت نادانی کا خیال ہے کہ ایسا گمان کیا جائے کہ بعد اس کے کہ مجرم لوگ دوزخ میں ڈالے جائیں گے پھر صفات کرم اور رحم ہمیشہ کے لئے معطل ہو جائیں گی اور کبھی ان کی تجلی نہیں ہوگی.کیونکہ صفات الہیہ کا تعطل ممتنع ہے بلکہ حقیقی صفت خدا تعالیٰ کی محبت اور رحم ہے اور وہی ائم الصفات ہے اور وہی کبھی انسانی اصلاح کے لئے صفات جلالیہ اور غضبیہ کے رنگ میں جوش مارتی ہے اور جب اصلاح ہو جاتی ہے تو محبت اپنے رنگ میں ظاہر ہو جاتی ہے اور پھر بطور موہبت ہمیشہ کے لئے رہتی ہے.خدا ایک چڑ چڑہ انسان کی طرح نہیں ہے جو خواہ مخواہ عذاب دینے کا شائق ہو.اور وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ اپنے پر آپ ظلم کرتے ہیں.اس کی محبت میں تمام نجات اور اس کو چھوڑنے میں تمام عذاب ہے.“ چشمه مسیحی روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۳۷۰-۳۷۱)

Page 89

۷۶ یعنی الأسماء الحسنى أم الصفات مالک کے تحت صفات الہیہ ” خدا تعالیٰ جو ہمارا خدا کہلاتا ہے اس کی خدائی کی اصل حقیقت ہی یہی ہے کہ وہ ایک مبد، فیض وجود ہے جس کے ہاتھ سے سب وجودوں کا نمود ہے اسی سے اس کا استحقاق معبودیت پیدا ہوتا ہے اور اسی سے ہم بخوشی دل قبول کرتے ہیں کہ اس کا ہمارے بدن و دل و جان پر قبضہ استحقاقی قبضہ ہے کیونکہ ہم کچھ بھی نہ تھے اسی نے ہم کو وجود بخشا.پس جس نے عدم سے ہمیں موجود کیا وہ کامل استحقاق سے ہمارا مالک ہے.“ هحبه حق روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۲۴۸-۲۴۹) پھر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں: چوتھا احسان خدا تعالیٰ کا جو قسم چہارم کی خوبی ہے جس کو فیضان اخص سے موسوم کر سکتے ہیں مالکیت یوم الدین ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں فقرہ مالک یوم الدین میں بیان فرمایا گیا ہے اور اس میں اور صفت رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتا ہے اور صفت مالکیت یوم الدین کے ذریعہ سے وہ ثمرہ عطا کیا جاتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک انسان گورنمنٹ کا ایک قانون یاد کرنے میں محنت اور جدو جہد کر کے امتحان دے اور پھر اس میں پاس ہو جائے.پس رحیمیت کے اثر سے کسی کامیابی کے لئے استحقاق پیدا ہو جانا پاس ہو جانے سے مشابہ ہے اور پھر وہ چیز یادہ مرتبہ میسر آ جانا جس کے لئے پاس ہوا تھا اُس حالت سے مشابہ انسان کے فیض پانے کی وہ حالت ہے جو پر تو ہ صفت مالکیت یوم الدین سے حاصل ہوتی ہے.ان دونوں صفتوں رحیمیت اور مالکیت یوم الدین میں یہ اشارہ ہے کہ فیض رحیمیت خدا تعالیٰ کے رحم سے حاصل ہوتا ہے.اور فیض مالکیت یوم الدین

Page 90

یعنی الأسماء الحسنى خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتا ہے اور مالکیت یوم الدین اگر چہ وسیع اور کامل طور پر عالم معاد میں متقی ہوگی مگر اس عالم میں بھی اس عالم کے دائرہ کے موافق یہ چاروں صفتیں تجلی کر رہی ہیں.“ ۹۷- الْمَالِک ( کشف الغطاء روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۵۰-۲۵۱) جزاء سزا دینے والا مَالِكُ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ LL مالک با اختیار ہوتا ہے اور اچھائی کی جزاء اور برائی کی سزادینے میں بھی با اختیار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب بھی ہے وہ جذبوں کو بھی جاننے والا ہے اسی لئے بڑھ چڑھ کر جزاء دیتا ہے اور سزا اتنی ہی دیتا ہے جتنا قصور ہوں.تبھی تو جنت دائگی اور دوزخ عارضی ہے.کیونکہ اس کی رحمت ہر چیز ہر حاوی ہے.آنحضرت سلی لا پیہم نے بھی فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب نسیم صبا دوزخ میں چلے گی تو دروازے کھڑکھڑائے گی اس میں کوئی بھی نہ ہوگا.سچ ہے رخمینی وسعت كل شَيءٍ آنحضرت صلی اا اینم اس صفت کے کامل مظہر تھے.آپ نے جبکہ با اختیار تھے فتح مکہ کے وقت لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم فرمایا اور اپنے خون کے پیاسوں کو بخش دیا.یہ اعلیٰ اخلاق جب انہوں نے دیکھا تو وہ آپ کے گرویدہ ہو گئے اور سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے.بائکھیل میں بھی تاکستان کی تمثیل میں آپ کی آمد کو مالک کا آنا قراردیا گیا ہے.۹۸ - اَلْمَلِكُ دیکھیں متی باب ۲۱ آیت ۴۰) پورا مالک اشیاء کی خلق و بقاء پر.مالک اور ملک میں بہت فرق ہے.مالک عام ہے اور ملک خاص ہے پھر ما لک ملک نہیں ہوتا.برخلاف اس کے ہر ملک مالک ضرور ہوتا ہے.قرآن

Page 91

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ملك الناس جس میں خصوصیت پائی جاتی ہے.۹۹.مَلِیک ZA اس صفت کے بعض اشتقاق جیسے مَالِكَ الْمُلْكِ، مَلَكُوت وغیرہ سب قریب قریب ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں.قرآن کریم میں ان کا استعمال اس بار یک فرق کو ظاہر کرتا ہے جوان کے معنے اور مفہوم میں پایا جاتا ہے.ملیک قرآن کریم میں صرف ایک بار استعمال ہوا ہے.فرمایا: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ - القمر : ۵۲) ۱۰۰ _ مَالِكَ الْمُلْكِ فرمایا: قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ ملک کا مالک جسے چاہے ملک عطا کرے ١٠١ _ مَلَكُوت (آل عمران: ۲۷) بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ کے رنگ میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت بیان کی گئی ہے اور یہ صفت مالکیت کی ایک شان ہے.فرمایا: فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (يس: ۸۴) یعنی پاک ذات وہ ہے جس کے ہاتھ میں حکومت ہے ہر شے کی اور اس کی طرف ہی تم لوٹائے جاؤ گے.یہ اسم سورہ مومن میں بھی ایسے ہی استعمال ہوا ہے کہ ید کا لفظ ساتھ ہے اور ید خدا تعالیٰ کی قوت پر دلالت کرتا ہے.

Page 92

یعنی الأسماء الحسنى ۱۰۲ - الْعَزِيزُ ۷۹ بے نظیر ، سب پر غالب.ذرہ ذرہ پر متصرف، معزز کرنے والا.جس کے حضور کوئی امر ناممکن نہ ہو ، جس کی قدرت میں کوئی نقص نہ ہو.آنحضرت صلیا ایلیم کو بھی خدا تعالیٰ نے عزیز کہہ کر پکارا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو معراج روحانیت کا بلند ترین مقام عطا فرمایا اور سب سے آگے بڑھ گئے اور خاتم النبیین کا لقب آپ کو عطا ہوا.۱۰۳ - القُدوس تمام ان اسباب عیوب سے پاک جن کو حس دریافت کر سکے یا خیال تصور کر سکے یا وہم اس طرف جائے یا قلبی قومی سمجھ سکیں.استثناء باب ۳۳ آیت ۲ میں آپ کو دس ہزار قدوسیوں کا سردار بتایا گیا ہے اور یہ پیش گوئی بھی فتح مکہ کے وقت پوری ہوئی.پس خدا تعالیٰ کی صفت القدوس کے آپ مظہر تھے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والے صحابہ اور ہر مومن بھی آپ کی کامل پیروی سے قدوسیت کی چادر میں لپیٹا جاتا ہے.۱۰۴ - اَلْمُتَكَبَر تمام مخلوقی عیوب اور مخلوق کے اوصاف سے مبرا.تمام چھوٹے بڑوں اور ہر ایک قسم کے شرک سے اس کی ذات پاک ہے اور بلند و بالا ہے.کمال عظمت اور بزرگی کا مالک اور مستحق.الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: المُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ.(الحشر: ۲۴) حق یہ ہے کہ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ بادشاہ ہے.خود پاک ہے اور دوسروں کو پاک کرتا ہے.خود ہر عیب سے سلامت ہے.دوسروں کو سلامت رکھتا ہے.سب کو امن دینے والا ہے اور سب کا نگران ہے غالب ہے اور سب ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑتا ہے

Page 93

یعنی الأسماء الحسنى بڑی شان والا ہے.جن چیزوں کو یہ لوگ اس کا شریک قرار دیتے ہیں ان سے اللہ پاک ہے.۱۰۵ - اَلْقَهَّارُ زبر دست غلبہ رکھنے والا حکمران.قہر کے معنی عربی زبان میں غلبہ اور طاقت کے ہیں قاہر کے معنی غالب اور طاقت ور.القَاهِرُ جو اللہ تعالیٰ کا نام ہے اس کے معنی ہیں وہ ذات پاک جو سب پر غالب ہے.۸۰ انبیاء کرام دنیا میں آکر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انذار بھی کرتے ہیں اور بشارتیں بھی دیتے ہیں.جو ان کی بات پر کان نہیں دھرتے اللہ تعالیٰ ان پر قہری تجلی نازل فرماتا ہے.جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں نمرود، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں فرعون اور آنحضرت سلیم کے زمانہ میں ابوجہل اور عاد و ثمود وقوم صالح اور قوم نوح اپنے انبیاء کا انکار کر کے خدا تعالیٰ کی قبری تجلی کا نشانہ بن گئیں اور ہمارے زمانے میں حضرت مسیح موعود کے مقابل پر آنے والے کیا ڈوئی، عبداللہ آتھم اور لیکھر ام سب قہری بجلی کا نشانہ بن گئے اور ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا.اس لئے جلد اس کی پناہ میں آجانا چاہیے.١٠٦ _ اَلْقَاهِرُ فرمایا: الْقَهَّارُ الْقَاهِرُ کا مبالغہ ہے.خود قرآن کریم نے الْقَادِر کے معنی کر دیئے ہیں.وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ - (الأنعام:١٩) اور وہ خدا طاقت ور ہے.یعنی اپنے بندوں پر غالب ہے.اور القهار قرآن کریم میں مندرجہ ذیل مقامات پر آیا ہے.قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرُ وَمَا مِنْ إِلَهِ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (ص: ۶۶)

Page 94

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى کہد و بیشک میں نافرمانوں کو عذاب الہی سے ڈرانے والا ہوں.ہاں یادرکھواللہ کے سوا جوا کیلا از بر دست اور غالب ہے ) کوئی دوسرا معبود نہیں ہے.پھر فرمایا: يَا صَاحِبَي السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (يوسف:۴۰) اے میرے قید خانہ کے رفیقو! آیا جدا جدا معبودا اچھے ہیں یا اکیلا اللہ جوز بر دست ہے.پھر فرمایا: قُلِ اللهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ - (الرعد: ۱۷) کہد واللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ اکیلا اور زبردست غلبہ والا ہے.اسی طرح زمر ع ۱.ابراہیم ع ۳۵ اور مومن ع۶ میں بھی یہ اسم قہار استعمال ہوا ہے.جہاں بھی یہ اسم آیا ہے وہاں خدا تعالیٰ کی حکومت و جبروت اور دبدبے کا ذکر ہے اور اس کی شان مالکیت کو پیش کیا گیا ہے.ΔΙ ۱۰۷ - الْوَاحِد تنہا ، یگانہ، یکتا.واحد سے مراد یہ ہے کہ اس کو اجزاء اور حصص میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا.احد اور واحد کے معنی ایک اور اکیلا کے ہوں گے.وہ اپنی ذات میں احد ہے اور صفات میں واحد فرمایا: وَمَا مِنْ إِلَهِ إِلَّا اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ - (ص: ۶۶) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر آیا ہے جن میں 4 جگہ اسم القھار کے ساتھ مل کر آیا ہے.دراصل اس طرح سے اس کی ذات کی بڑائی بیان کرنا مقصود ہے.آنحضرت صلی سیستم اس صفت کے ظل اور مظہر اس طرح ہوئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

Page 95

یعنی الأسماء الحسنى وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى - الضحى : ٨) ۸۲ آپ کو اپنی محبت میں سرشار گویا کہ اپنے وجود سے بھی فراموش پایا اور آپ کو ہدایت کی را ہیں دکھا دیں.اور وصال الہی آپ کو حاصل ہوا.یہ تو وہ حالت تھی جس سے آپ کے مخالف بھی آگاہ تھے اور وہ بھی کہا کرتے تھے عشق مُحمد ربه کہ محمد تو اپنے رب کے عاشق ہو گئے ہیں.۱۰۸ - الصّمد بے نیاز انسان کے مقاصد کا اصل مرجع - صمد کے اصل معنی ہیں قصد چونکہ انسان اپنے تمام مطالب و مقاصد میں اللہ تعالیٰ کا محتاج اور اسی کا قصد کرتا ہے.اس لئے اس کی صفت الصَّمَدُ ہے.سورہ اخلاص میں فرما یا: قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام اس کے متعلق فرماتے ہیں اس اقل عبارت کو جو بقدر ایک سطر بھی نہیں دیکھنا چاہیے کہ کس نظافت اور عمدگی سے ہر ایک قسم کی شراکت سے وجود حضرت باری کا منزہ ہونا بیان فرمایا ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ از روئے حصر عقلی چار قسم پر ہے.کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے کبھی مرتبہ میں اور کبھی نسب میں اور کبھی فعل اور تاثیر میں سو اس سورہ میں ان چاروں قسموں کی شراکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا اور کھول کر بتلا دیا کہ وہ اپنے عدد میں ایک ہے.دو یا تین نہیں اور وہ صمد ہے یعنی اپنے مرتبہ وجوب اور محتاج الیہ ہونے میں منفر داور یگانہ ہے اور بجز اس کے تمام چیزیں ممکن الوجود اورھا لک الذات ہیں.جو اس کی طرف ہر دم محتاج ہیں.“ (براہین احمدیہ چہار تص روحانی خزائن جلد نمبر ا صفحه ۵۱۸ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳)

Page 96

یعنی الأسماء الحسنى ۱۰۹.اَلْفَتَاحُ ۸۳ مشکل کشا.بندوں پر حکم کرنے والا.فتح کے معنی کھو لنے اور حکم کرنے کے ہیں.قرآن کریم میں اسم کو یوں بیان کیا گیا ہے.والا ہے.ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَاحُ الْعَلِيمُ - (سبا: ۲۷) پھر حق و حکمت سے بھرا ہوا فیصلہ صادر فرمائے گا اور وہ جاننے والا اور حکم کرنے ١١٠ - خَيْرُ الْفَاتِحِيْن سب کشائش کرنے والوں سے بہتر.سب سے بہتر کھولنے والا.حق کو ظاہر کرنے والا.حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا یوں درج ہے: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ (الأعراف: ٩٠) اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں حق کے ساتھ فیصلہ کر دے.تو سب فیصلہ کرنے والوں میں بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.ااا - الْعَظِيمُ بڑا بزرگ.عظمت والا.The Great نماز میں بار بار سُبْحَانَ رَبِّي العَظِیم کہا جاتا ہے.فرمایا: وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرة : ۲۵۶) وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.(الشورى:۵) إنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ - (الحاقة: ۳۴)

Page 97

یعنی الأسماء الحسنى فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ - ۱۱۲ - الْعَلِيُّ (الحاقة: ۵۳) ۸۴ بہت علو والا.اللہ تعالیٰ کیونکہ سب سے فوق المرتبہ ہے اس لئے اس کا نام العلی ہے.نماز میں بھی بار بار سُبحان ربی الاعلیٰ کہہ کر اس کے مرتبہ کا اقرار کیا جاتا ہے.۱۱۳ - اَلْكَبِيرُ بزرگ تر.تمام بزرگیوں کا مستحق.بزرگی عطا کرنے والا الْعَلِجُ الكَبِيرُ.یہ دونوں اسم بھی اکثر اکٹھے آتے ہیں اور کبھی العلی العظیم کے ساتھ بھی آیا ہے.فرمایا: قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ - وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ - (السبا: ۲۴) (البقرة: ۲۵۶) اور یہ اسم الکبیر کے ساتھ نساء ع ۶- لقمان ع۳ میں بھی آیا ہے.اور ان صفات میں خدا تعالیٰ کی شان مالکیت بیان کی گئی ہے اور نماز میں بھی بار بار اللہ اکبر کہہ کر اس کی بڑائی کا اظہار کیا جاتا ہے.۱۱۴ - الْوَالِي تمام امور کا متولی اور سب کا مالک.قرآن کریم میں یہ اسم رعد آیت 12 میں آیا ہے.فرمایا: وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ (الرعد: ۱۲) یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے لئے کوئی بھی والی نہیں.۱۱۵ - الشَّهِيدُ حاضر ونگہبان، گواہ ونگران بادشاہ.یہ اسم شہود سے متعلق ہے یا شہادت سے.شہود سے

Page 98

یعنی الأسماء الحسنى ۸۵ ہو تو معنی ہوئے حاضر ہونے کے اور شہادت سے ہو تو معنی ہوں گے.گواہ.غرض الشهید اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کے معنی ہوں گے مخلوقات کے ہر حال سے مطلع اور واقف.فرمایا: وَاَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ.پھر فرمایا: (المائدة : ۱۱۸) قُلْ كَفَى بِاللَّهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمُ شَهِيدًا.(العنكبوت: ۵۳) اسی طرح مندرجہ ذیل مقامات پر بھی آیا ہے.سباع ۲- مجادله ۱۰۶ - انعام ع ۲ - یونس ع ۵ - حج ۲۶ - ١١٦ - اَلْحَقِّ سچائی اور صداقت کا سرچشمہ، اپنی ہستی میں ثابت شدہ وجود جس میں کوئی تبدیلی اور تغیر نہیں ہوسکتا.فرمایا: ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ - (الأنعام: ۶۳) پھر وہ سب کے سب اپنے حقیقی مولیٰ کی طرف واپس کئے جائیں گے.اسی طرح فرمایا: فَتَعَالَى اللهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ - (طه:۱۱۵) ذَالِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ - (الحج: ٦٣) انَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ - (النور: ۲۶) کیونکہ ہر شے کو فنا ہے.لہذا ہر شے غیر حقیقی ہے اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہی غیر متبدل اور غیر فانی ہے اس لئے وہ ہی ایک حقیقت اور حق ہے.جیسا کہ فرمایا: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن: ۲۷-۲۸)

Page 99

یعنی الأسماء الحسنى ۱۱۷ - القوى توانا، تام القدر.حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ قوت دلالت کرتی ہے قدرت کاملہ بالغہ پر چونکہ وہ قدرت کا ملہ بالغہ رکھتا ہے اسی وجہ سے وہ بالقومٹی کہلا تا ہے.فرمایا: اللهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ - (الشورى: ٢٠) یہ اسم خدا تعالیٰ کی دیگر صفات کے ساتھ مل کر بھی آیا ہے.جیسا کہ فرمایا: كتب الله لأغُلِبَنَ أَنَا وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (المجادلة: ٢٢) ΔΥ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ - (المؤمن: ۲۳) یہ یادر ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی کچھ صفات ایک دوسرے کے ساتھ مل کر آتی ہیں تو خدا تعالیٰ کی شان کے جلوے ایک اور ہی رنگ اور معانی کو اپنے اندر لئے ہوئے ظاہر ہوتے ہیں.گویا یہ صفات ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خدا تعالیٰ کی ان مختلف صفات سے متصف طاقتوں کا مشترکہ طور پر جلوہ دکھا کر آنکھوں کو خیرہ اور دلوں کو جذب کر رہی ہوتی ہیں.۱۱۸.شَدِيدُ الْعِقَابِ برے کاموں کی سخت سزا دینے والا.ارتکاب جرم کے بعد مرتکب جرم کو سخت سزا دینے والا.یہ اسم سورہ مومن کی ابتداء میں آیا ہے.فرمایا: غَافِرِ الذَّنْبِ وَ قَابِلِ التَّوبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي القَولِ.اسی طرح فرمایا : (المؤمن: ۴) وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ - (البقرة: ۱۹۷)

Page 100

یعنی الأسماء الحسنى یہ اسم اسی طرح تین جگہ اور بھی آیا ہے.١١٩.سَرِيعُ الْعِقَابِ جلد نتیجہ دکھانے والا.جلد عذاب دینے والا (انہیں جو تو بہ نہیں کرتے اور گمراہی میں آگے ہی آگے بڑھتے جاتے ہیں ) یہ اسم قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے.فرمایا : إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ - (الأعراف: ۱۶۸) اور سورہ انعام میں بھی آیا ہے.۱۲۰.شَدِيدُ الْعَذَابِ سخت عذاب دینے والا.فرمایا: وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ.(إبراهيم: ٨) اور اگر تم نے انکار کیا تو یا درکھو میر اعذاب بہت سخت ہے.۱۲۱ - شَدِيدُ الْبَطْشِ جس کی گرفت میں سختی اور قوت ہو.فرمایا: إِنَّ بَطْشَ رَبَّكَ لَشَدِيدُ.نیز فرمایا: (البروج : ١٣) وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ.(الشعراء: ۱۳۱) ۱۲۲_ مُخْزِئَ الْكَافِرِينَ ۸۷ منکرین کو انبیاءورسل کے مقابلہ میں ذلیل کرنے والا.یہ بھی اس کی حاکمانہ شان ہے کہ پنے پیغمبروں کے مقابل منکرین کو ذلیل کرتا ہے.جیسا کہ فرمایا: وَ أَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ (التوبة:٢)

Page 101

یعنی الأسماء الحسنى اور تاریخ سابق سے یہ بات اظہر من الشمس ہے.۱۲۳.بَرِى مِنَ الْمُشْرِكِيْن مشرکین سے بے زار.فرمایا: الْمُشْرِكِينَ وَ آذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَقِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِى مِنَ (التوبة: ٣) یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمام لوگوں کو حج اکبر کے دن اطلاع دی جاتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بے زار ہیں.دوسری جگہ فرمایا: إِنَّ الشَّرُكَ لَظْلَمُ عَظيم - (لقمان: ۱۴) چنانچہ ظلم عظیم کے مرتکبین کے نام ایک نوٹس جاری کیا گیا کیونکہ وہ حقائق سے منہ پھیر کر ظلمات کے پیچھے دوڑنے والے ہیں.اور ایسے نوٹس جاری فرمانا بھی خدا تعالیٰ کی ایک حاکمانہ شان ہے.۱۲۴ - مُؤْهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِين اپنے امور میں اور برگزیدوں کے مقابلہ میں منکرین کے منصوبوں اور تدابیر کو بے کار کر دینے والا.فرمایا: الِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوْهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ (الأَنْفال:١٩) اور بے شک اللہ تعالیٰ کا فروں کے منصوبوں کو بے کار کر دینے والا ہے.۱۲۵- اَشَدُّ بَابًا عذاب میں سختی کرنے والا شدید الحرب.یہ اسم نساء ع ۱۲ میں آیا ہے.اور ساتھ ہی اشَدُّ تنکیلا بھی آیا ہے.فرمایا: وَاللهُ اَشَدُّ بَأْسًا وَ اَشَدُّ تَنْكِيلا - (النساء:۸۵)

Page 102

یعنی الأسماء الحسنى ۲۶ ١٢٦ - الضار اعمال بد کے برے نتائج ظاہر کرنے والا ، خیر وشر کا خالق اور مالک اور ہلاکت خیز.۱۲۷ - شَدِيدُ الْمِحَال بڑی قوت والا.فرمایا: وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ.(الرعد: ۱۴) اور وہ کا فر اللہ کے بارہ میں جھگڑا کرتے ہیں اور وہ تو بڑی قوت والی ہستی ہے.۱۲۸- الْحَسِيْب کافی حساب لینے والا.اس اسم کے دونوں معنی ہیں.حساب کہتے ہیں کسی چیز کا کافی ہونا.جیسے کہتے ہیں حسبی الھنی یہ چیز مجھے کافی ہوئی اور بعض علماء کے نزدیک الحسیب بمعنی محاسب بھی ہے.سورۃ النساء میں فرمایا: إنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا - (النساء: ۸۷) یہ اسم احزاب ع ۵ میں بھی آیا ہے.جو مالک ہے وہی احتیاج کو پورا کرنے کے لئے کافی بھی ہو گا.کیونکہ وہ اس کی کنہ تک کو جانتا ہے اور اسی طرح وہ جس نے احکام بھیجے.انسانوں کو اخلاقی اقدار کے مطابق چلانا چاہتا ہے.تب تو وہ محاسبہ بھی کرے گا.۱۲۹ - سَرِيعُ الْحِسَابِ جلد حساب کرنے والا.یہ اسم قرآن کریم میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے.مثلاً کافروں کے بد اعمال کی سزا انہیں جلد دینے کے لئے بھی اور مومنوں کو ان کے اعمال صالحہ کی جزاء دینے کے لئے بھی یہی اس کی مالکانہ شان ہے کہ ہر ایک کے اعمال کا لحاظ رکھتے ہوئے اجزاء بڑھ چڑھ کر دے.(اپنی کیفیت و کمیت کے لحاظ سے ) اور سزا اس قدر دے جس سے مقصد عظیم کا حصول ۸۹

Page 103

یعنی الأسماء الحسنى جلد ممکن ہو جائے.فرمایا: وَمَنْ يَكْفُرُ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (آل عمران: ۲۰) پس جو شخص آیات اللہ کا انکاری ہے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے.پھر فرمایا: أُولَئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمُ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ١٣٠_ أَسْرَعُ الْحَاسِبِيْنِ (آل عمران: ۲۰۰) ٩٠ فرمایا: یہ بھی اسی قسم کی ایک اور تجلی اور شان ہے.قرآن کریم میں ایک ہی جگہ یہ اسم آیا ہے.ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللهِ مَوْلَا هُمُ الْحَقِّ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِيْنَ (الأنعام: ۶۳) پھر وہ سب کے سب اپنے مولی حقیقی اللہ تعالیٰ کی کی طرف واپس لوٹیں گے.جان رکھو! کہ حکم اسی کے لئے سزاوار ہے اور وہ تمام حساب کرنے والوں سے جلد تر حساب کرنے والا ہے.کسی قسم کی گڑ بڑ کا امکان نہیں.جس طرح دنیا میں دنیا والے بعض اوقات بعض کی حق تلفی کرتے ہیں یا بعض کو جزا سے ناجائز طور پر بچالیتے ہیں.ایسا اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں ہوتا.١٣١ - اَلْحَكَمْ مخلوقات کا حاکم صحیح فیصلہ کرنے والا.فرمایا: وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقَبَ لِحُكْبِهِ - (الرعد: ۴۲) اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حکم بنا کر بھیجا یعنی اس صفت کا مظہر.آپ نے ۷۲ فرقوں کو انصاف سے بتایا کہ کون سا مسلک درست ہے کونسا غلط ہے.

Page 104

یعنی الأسماء الحسنى ١٣٢ _ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينِ حاکموں کا حاکم.سب سے بہتر اور درست فیصلہ کرنے والا.فرمایا: وَنَادَى نُوحٌ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَانْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ (هود: ۴۶) اور نوح نے اپنے رب کے حضور التجا کی کہ اے میرے رب میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے.اور تو سب حاکموں کا حاکم ہے.پھر سورہ التین میں فرمایا : ألَيْسَ اللهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ۱۳۳ - خَيْرُ الْفَاصِلِين سب فیصلہ کرنے والوں میں سے افضل.فرمایا: (التين:٩) اِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقِّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ (الأنعام: ۵۸) اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا.وہ ہی سچی بات اور حق و حکمت سے بھری ہوئی بات بیان کرتا ہے اور وہ ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے.۱۳۴ - اَلْقَاضِي صحیح صحیح فیصلہ کرنے والا.فرمایا: وَاللَّهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَقْضُونَ بِشَيْءٍ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ - (المؤمن: ٢١) اور اللہ تعالیٰ حق و حکمت سے بھرا ہوا فیصلہ کرتا ہے.اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہیں.وہ کچھ بھی فیصلہ نہیں کر سکتے.بے شک اللہ تعالی ہی سمیع و بصیر ہے.اس لئے صحیح فیصلہ وہی کر سکتا ہے.۹۱

Page 105

یعنی الأسماء الحسنى ۱۳۵ - مُبْتَلِی ۹۲ کھرے اور کھوٹے کو پر کھنے والا.امتحان لینے والا.ظاہر کرنے والا.آزمائش کرنے والا.فرمایا: إِنَّ اللهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ - (البقرة: ۲۵۰) بے شک اللہ تعالیٰ ایک نہر کے ذریعہ تمہاری آزمائش کرنے والا ہے.وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ - (البقرة: ۱۲۵) امتحان اور ابتلاء کا سلسلہ مومن کی روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ابتلاء مومن کو کچھ دینے کے لئے آتے ہیں لینے کے لئے نہیں آتے.١٣٦ - اَلْقَادِرُ قدرت والا.فرمایا: قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ - (الأنعام: ۲۶) نیز وہ انعامات بھی نازل فرمانے کے لئے قادر ہے.ہر رمضان میں مومنوں کے لئے لیلۃ القدر نازل فرماتا ہے اور ہر مومن جو روحانی طور پر ایمان کے تقاضے پورے کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے اس قابل سمجھتا ہے تو اسے شخصی لیلتہ القدر بھی عطا کرتا ہے.نیز انبیاء کا زمانہ بھی لیلتہ القدر کا زمانہ ہوتا ہے.چنانچہ جماعت احمد یہ بھی لیلتہ القدر میں سے گزر رہی ہے اور مطلع الفجر کی نتظر ہے.۱۳۷ - اَلْمُقْتَدِرُ صاحب مقتدر ، مقتدر قادر کے معنی تو ایک ہی ہیں مقتدر مبالغہ کا صیغہ ہے.فرمایا: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ - القمر : ۵۲)

Page 106

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى حضرت امام الزمان علیہ السلام فرماتے ہیں: پس اصل بات یہ ہے کہ خدا کی قدرت میں جو ایک خصوصیت ہے جس سے وہ خدا کہلاتا ہے وہ روحانی اور جسمانی قوتوں کے پیدا کرنے کی خاصیت ہے.مثلاً جانداروں کے جسم کو جو اُس نے آنکھیں عطا کی ہیں اس کام میں اس کا اصل کمال یہ نہیں ہے کہ اُس نے یہ آنکھیں بنائیں بلکہ کمال یہ ہے کہ اُس نے ذرات جسم میں پہلے سے ایک پوشیدہ طاقتیں پیدا کر رکھی تھیں.جن میں بینائی کا نور پیدا ہو سکے پس اگر وہ طاقتیں خود بخود ہیں تو پھر خدا کچھ بھی چیز نہیں کیونکہ بقول شخصے کہ گھی سنوارے سالنا بڑی بہو کا نام.اس بینائی کو وہ طاقتیں پیدا کرتی ہیں خدا کو اس میں کچھ دخل نہیں اور اگر ذرات عالم میں وہ طاقتیں نہ ہوتیں تو خدائی بے کا ر رہ جاتی پس ظاہر ہے کہ خدائی کا تمام مدار اس پر ہے کہ اس نے روحوں اور ذرات عالم کی تمام قوتیں خود پیدا کی ہیں اور کرتا ہے اور خودان میں طرح طرح کے خواص رکھے ہیں اور رکھتا ہے پس وہی خواص جوڑنے کے وقت اپنا کرشمہ دکھلاتے ہیں.اور اسی وجہ سے خدا کے ساتھ کوئی موجد برابر نہیں ہو سکتا“ نسیم الدعوت روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸۳، ۳۸۴) تمام ایٹمی ذرات نہ صرف یہ کہ پیدا کئے بلکہ ان میں جدا جدا خاصیتیں اور طاقتیں رکھیں.ان قوتوں اور خاصیتوں کو ہر شے کے ایٹم میں جدا جدا پیدا کرنا اور ایک تنوع ان میں رکھنا یہ اس کی قدرت کا ایک زبر دست ثبوت اور اس کی خدائی کے ثابت کرنے کے لئے بہت بڑی دلیل ہے.۱۳۸ - اَلْخَافِضُ نافرمانوں کو پست کرنے والا.یہ صفت الرافع کے بالمقابل ہے یعنی اس میں رفع کی نفی پائی جاتی ہے.نیک لوگوں کا تو اللہ تعالیٰ رفع فرماتا ہے اور وہ بھی ساتویں آسمان تک یعنی ۹۳

Page 107

یعنی الأسماء الحسنى روحانیت کی انتہائی رفعتیں انہیں عطا کر دیتا ہے اور ان کے بالمقابل منکرین پست ہوتے ہوتے قعر مذلت میں جا پڑتے ہیں اور اسفل السافلین بن جاتے ہیں.۱۳۹ - اَلْمُتَوَفِّى وفات دینے والا طبعی موت سے مارنے والا.فرمایا: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں تجھے وفات دینے والا ہوں.۱۴۰ - اَلْمُمِيت مارنے والا.موت کسی مفہوم میں ہو.فرمایا: (آل عمران: ۵۶) وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ.(آل عمران: ۱۵۷) زندگی کو پیدا بھی وہی کرتا ہے اور ختم بھی وہی کرتا ہے.ابتداء کا انتہاء کا وہی مالک ہے.۱۴۱ - الباقي باقی رہنے والا ، جو کبھی فتانہ ہو ، لا فانی جیسا کہ سورہ رحمن میں فرمایا: وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ - ۱۴۲.اَلْوَارِثُ فناء موجودات کے بعد باقی رہنے والا.فرمایا: (الرحمن:۲۸) وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَيُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ (الحجر: ۲۴) ۱۴۳ - الْجَامِع تمام مخلوقات کو جمع کرنے والا اور تمام کمالات کا جامع.فرمایا: رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ - (آل عمران: ۱۰) ۹۴

Page 108

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى ایک جگہ جامع للمنافقین بھی آیا ہے.یعنی جزاء سزاء سے کوئی بچ نہیں سکتا.وہ اس بات پر قادر ہے کہ تمام مخلوقات کو جمع کر کے لائے اور اپنی مالکانہ تیجی دکھائے.۱۴۴ - الْجَلِيلُ بزرگ ، قہری نشان ظاہر کرنے والا.انبیاء کی صداقت کے ثابت کرنے کے لئے اور اپنی ہستی کو منوانے کے لئے ہر زمانہ میں اس کی جلالت شان ظاہر ہوتی رہتی ہے.۱۴۵ - اَلْعَدُل فیصلہ میں ظلم نہ کرنے والا.یہ صفت مالکیت کے تحت آتی ہے.مالکیت کی شان یہ ہے کہ چاہے تو اپنے پاس سے بڑھ چڑھ کر انعام واکرام کرے اور عدل یہ ہے کہ سزا اتنی ہی دے جتنی کا سزاوار ہے یا جو اصلاح کے لئے کافی ہے اس میں ظلم کا شائبہ تک نہ ہو.۹۵ ۱۴۶ - الْأَوَّلُ هُوَ الْأَوَّلُ لَيْسَ قَبْلَهُ شَيْ - (اللُّغَةُ) یعنی تمام موجودات و مخلوقات کو دیکھو تو خدا تعالیٰ کی ذات بابرکات اس سے پہلے موجود ہے.خدا تعالیٰ سے پہلے کوئی نہیں ہے.۱۴۷ - الْآخِرُ هُوَ الْآخِرِ لَيْسَ بَعْدَهُ شَيْءٍ - (اللُّغَةُ) یعنی ہر شے کے فنا اور زوال کے بعد اسی کی ذات پاک موجود رہے گی.۱۳۸ - الظَّاهِرُ هُوَ الظَّاهِرُ لَيْسَ فَوْقَهُ شَيْءٍ- (اللُّغَةُ) یعنی ہر چیز سے اوپر اور غالب وہی ہے اس کے اوپر کوئی شے غالب نہیں اور وہی ظاہر

Page 109

یعنی الأسماء الحسنى ہے.باقی سب لاشئے ہیں.کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا ۱۴۹ - اَلْبَاطِنُ هُوَ الْبَاطِنُ لَيْسَ دُونِهِ شَيْءٍ- (اللُّغَةُ) وہی ہر شے کے بطن میں ہے کیونکہ ہر شے اس کی مخلوق ہے.لہذا ہر شے پر خالق کی چھاپ ہے.مگر اس میں دیکھنے والی نظر چاہیے.سورہ حدید میں فرمایا: هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (الحديد: ۴) ۱۵۰.ذُو الْعَرْشِ صاحب عرش.فرمایا: فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ - رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلاقِ (المؤمن : ۱۵ - ۱۶) پس اللہ تعالیٰ کو ہی پورے مخلص ہو کر پکارو.خواہ کافر برا ہی مناتے رہیں.وہ اللہ جو بڑے بلند درجوں والا ہے.عرش کا مالک ہے.اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تا کہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرائے.ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ.(البروج: ١٦) ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينِ.(التكوير: ٢١) ۹۶ Σ

Page 110

صفات باری تعالى يعنى الأسماء الحسنى قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغُوا إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا (الإسراء: ۴۳) ترجمہ: یعنی اے نبی کہہ دو اگر اللہ کے ساتھ اور بھی ہوتے تو وہ مالک العرش ہے وہ کوئی راہ ڈھانڈ تے ( یعنی محکوم بن کر کیوں رہتے ) پس جاننا چاہیے کہ جمہور کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش کوئی محدود اور مخلوق سے نہیں.خدا تعالیٰ نے جابجا فرمایا کہ ہر وہ چیز جو وجود رکھتی ہے اس کو میں ہی پیدا کرتا ہوں.زمین و آسمان ان کی قوتیں اور ان کے ذرات کی خاصیتیں اور روحوں کی تمام قو تیں خدا تعالیٰ کہتا ہے میں پیدا کرتا ہوں.میں اپنی ذات میں قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے.ہر ایک ذرہ اور تمام موجودات میرے پیدا کئے ہوئے ہیں مگر کہیں نہیں کہا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کو میں نے تخلیق کیا ہے.اس کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : عرش سے مراد قرآن شریف میں وہ مقام ہے جو تشبیہی مرتبہ سے بالا تر اور ہر ایک عالم سے برتر اور نہاں در نہاں اور تقدس اور تنزہ کا مقام ہے وہ کوئی ایسی جگہ نہیں کہ پتھر یا اینٹ یا کسی اور چیز سے بنائی گئی ہو اور خداُس پر بیٹھا ہوا ہے اسی لئے عرش کو غیر مخلوق کہتے ہیں اور خدا تعالیٰ جیسا کہ یہ فرماتا ہے کہ کبھی وہ مومن کے دل پر اپنی تحلی کرتا ہے.ایسا ہی وہ فرماتا ہے کہ عرش پر اُس کی تحلی ہوتی ہے اور صاف طور پر فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز کو میں نے اٹھایا ہوا ہے یہ کہیں نہیں کہا کہ کسی چیز نے مجھے بھی اُٹھایا ہوا ہے.اور عرش جو ہر ایک عالم سے برتر مقام ہے وہ اُس کی تنزیہی صفت کا مظہر ہے اور ہم بار بارلکھ چکے ہیں کہ ازل سے اور قدیم سے خدا میں دو صفتیں ہیں.۹۷

Page 111

یعنی الأسماء الحسنى ایک صفت تشبیہی دوسری صفت تنزیہی.اور چونکہ خدا کے کلام میں دونوں صفات کا بیان کرناضروری تھا یعنی ایک تشبیبی صفت اور دوسری تنزیہی صفت اس لئے خدا نے تشیبی صفات کے اظہار کے لئے اپنے ہاتھ ، آنکھ، محبت بغضب وغیرہ صفات قرآن شریف میں بیان فرمائے اور پھر جب کہ احتمال تشبیہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ لَيْسَ كَمِثْلِہ کہہ دیا اور بعض جگہ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ کہہ دیا جیسا کہ سورہ رعد جز ونمبر 11 میں بھی یہ آیت ہے اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (الرعد: ۳) ( ترجمہ ) تمہارا خدا وہ خدا ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند کیا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو اور پھر اُس نے عرش پر قرار پکڑا.اس آیت کے ظاہری معنی کے رو سے اس جگہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے خدا کا عرش پر قرار نہ تھا.اس کا یہی جواب ہے کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے بلکہ وراء الوراء ہونے کی ایک حالت ہے جو اُس کی صفت ہے پس جبکہ خدا نے زمین و آسمان اور ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور ظلی طور پر اپنے نور سے سورج چاند اور ستاروں کو نور بخشا اور انسان کو بھی استعارہ کے طور پر اپنی شکل پر پیدا کیا اور اپنے اخلاق کریمہ اس میں پھونک دیئے تو اس طور سے خدا نے اپنے لئے ایک تشبیبہ قائم کی مگر چونکہ وہ ہر ایک تشبیہ سے پاک ہے اس لئے عرش پر قرار پکڑنے سے اپنے تندہ کا ذکر کر دیا.خلاصہ یہ کہ وہ سب کچھ پیدا کر کے پھر مخلوق کا عین نہیں ہے بلکہ سب سے الگ اور وراء الوراء مقام پر ہے“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۶۶،۲۶۵) پھر آپ علیہ السلام خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق عمومی رنگ میں فرماتے ہیں " آج کل توحید اور ہستی الہی پر بہت زور آور حملے ہورہے ہیں.عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا ہے اور لکھا ہے لیکن جو کچھ کہا اور لکھا ہے وہ ۹۸

Page 112

یعنی الأسماء الحسنى اسلام کے خدا کی بابت ہی لکھا ہے.نہ کہ ایک مردہ مصلوب اور عاجز خدا کی بابت.ہم دعوئی سے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود پر قلم اٹھائے گا.اس کو آخر کار اسی خدا کی طرف آنا پڑے گا.جو اسلام نے پیش کیا ہے، کیونکہ صحیفہ فطرت کے ایک ایک پتے میں اس کا پتہ ملتا ہے.اور بالطبع انسان اسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے.“ پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: ( ملفوظات جلد اول صفحہ ۷۹) اسلام کا خدا وہی سچا خدا ہے جو آئینہ قانون قدرت اور صحیفہ فطرت سے نظر آرہا ہے.اسلام نے کوئی نیا خدا پیش نہیں کیا بلکہ وہی خدا پیش کیا ہے جو انسان کا نور قلب اور انسان کا کانشنس اور زمین اور آسمان پیش کر رہا ہے.“ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۵) آخر میں عرض ہے کہ کا مضمون ایک سمندر ہے جس کے کچھ قطرات پیش کئے گئے ہیں.بنیادی طور پر صفات باری کا کسی قدر سمجھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے.تا اس کی عبادت میں چاشنی پیدا ہو سکے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: و..وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الأعراف:۱۸۱) اللہ تعالیٰ کے لئے تو اچھے ہی نام ہیں انہی ناموں سے اس کو پکارو اور ان لوگوں سے علیحدہ ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ کے اسماء میں الحاد کرتے ہیں وہ عنقریب اپنی کرتوتوں کا بدلہ پالیں گے.کسی نے خدا کا نام لات و منات اور کسی نے تثلیث کے اقنوم ثلاثہ کے نام خدا کو دے دیئے اور کسی نے قبر پرستی کے ذریعہ سے سینکڑوں چھوٹے موٹے خدا بنالئے.قرآن کریم کے مطابق یہ سب يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ کے مصداق ہیں.٩٩

Page 113

یعنی الأسماء الحسنى الاسماء الحسلی کے ذریعہ سے دعا کرنا اور اس کی صفات کو پیش نظر رکھنا قبولیت دعا کے لئے یہ بات اکسیر کا حکم رکھتی ہے.آنحضرت سی ایم نے خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق جو عرفان کے دریا بہائے ہیں ان تک پہنچنا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے اور آنحضرت سال شما ایام کے روحانی فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ پکارنے والا جب کسی صفت کے ذکر سے رب کو پکارتا ہے تو گویا وہ صفت احتراز کرتی ہے اور عالم میں تصرف کیا جاتا ہے مناسب اسباب پیدا کئے جاتے ہیں تا بمطابق دعا وجود پذیر ہو ان امور کو مد نظر رکھنے سے بہت سے روحانی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے حصہ وافر عطا فرمائے.آمین.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

Page 114

بسم الله الرحمن الرحیم عبادالرحمن کی خصوصیات از اقبال احمد نجم ایم اے.شاہد ( واقف زندگی )

Page 115

عباد الرحمان کی خصوصیات عبادالرحمن کی خصوصیات سب سے پہلا سبق جو آدم کو سکھایا گیا وہ اطاعت و فرمانبرداری ، عبادت اور فروتنی و انکساری و انانیت کو کچلنے کا سبق تھا.اور سب سے پہلے جس خطر ناک اور مہلک ترین کمزوری کا علم آدم کو دیا گیا وہ تکبر اور انانیت تھی یہی بد اخلاقی تمام دیگر بد اخلاقیوں کو پیدا کرتی ہے اس کے برخلاف اطاعت وفرمانبرداری ، فروتنی و انکساری عبادت وریاضت سے ہی اخلاق عالی جنم لیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: کمال عبد انسان کا یہی ہے کہ تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جاوے اور جب تک اس مرتبہ تک نہ پہنچ جاوے نہ تھکے نہ ہارے اس کے بعد خود ایک کشش اور جذب پیدا ہو جاتی ہے جو عبادت الہی کی طرف اسے لے جاتی ہے اور وہ حالت سجدہ اس پر وارد ہو جاتی ہے جو يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ کی ہوتی ہے.“ ( ملفوظات جلد دوئم صفحه ۱۳۳) ایسے تمام انسان جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ چڑھاتے ہیں خدائے رحمان کی رحمانیت کے مظہر بن جاتے ہیں اور عباد الرحمان کہلاتے ہیں کیونکہ وہ اخلاق حمیدہ اور اوصاف کریمہ کے مالک ہوتے ہیں ان کے اعمال میں اللہ تعالیٰ کے حسن اخلاق کا پر تو ہوتا ہے جسے حاصل کرنے کے لئے لاٹھے محض ہو چکے ہوتے ہیں تبھی تو فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا جاتا ہے.عباد الرحمان کے سب فیض خدائے رحمان کے فیض کے چشمہ رواں سے آتے ہیں اور بہتوں کی پیاس کو دور کر کے سیرابی کا موجب بنتے ہیں.خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ان کا وجود آلہ کار کی طرح ہوتا ہے.حدیث شریف میں آتا ہے کہ:

Page 116

عباد الرحمان کی خصوصیات كُنتُ سَمعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا وَإِنْ سَأَلَنِي أَعْطَيْتُهُ وَلَيْنِ اسْتَعَاذَنِي لَا عِيدَنَّهُ - (بخاری کتاب الرقاق باب التواضع) ”خدا ان لوگوں کے کان بن جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں اور آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتے ہیں اور ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتے ہیں اور جب وہ سوال کرتے ہیں تو ان پر انعام واکرام کی بارش برسائی جاتی ہے.اور جب پناہ لیتے ہیں تو پناہ دی جاتی ہے.اور ہر شر سے ان کی حفاظت کی جاتی ہے.“ در حقیقت عباد الرحمن کے اعمال خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں.ان کے اعضاء پر ایک قدرتوں والی اعلیٰ ہستی کا تصرف ہوتا ہے.جس کی منشاء کے مطابق ان کی زندگی گزرتی ہے.ان سے مخالفت خدا تعالیٰ سے لڑائی مول لینے کے مترادف ہوتی ہے جیسے کہ فرمایا: مَنْ عَادَلِي وَلِيًّا فَقَدْ أَذَنْتُهُ لِلْحَرْبِ عبادالرحمن کی پہلی خصوصیت (بخاری کتاب الرقاق باب التواضع) اللہ تعالیٰ نے سورہ فرقان کے آخری رکوع میں عباد الرحمان کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں.اگر ان کو مدنظر رکھا جائے اور کشش کی جائے کہ یہ صفات پیدا ہو جائیں تو یقینا انسان خدائے رحمان کا عبد کامل بن کر اس کی صفات کا مظہر بن سکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ عِبَادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَمًا - (الفرقان: ۶۴) اور رحمان کے بچے بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر آرام سے چلتے ہیں ( یعنی تکبر کے ساتھ نہیں چلتے اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے

Page 117

عباد الرحمان کی خصوصیات ہیں (یعنی جہالت کی باتیں کرتے ہیں ) تو وہ ( لڑتے نہیں) بلکہ کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے لئے سلامتی کی دعا کرتے ہیں.“ خدائے رحمان کے سچے بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں فروتنی و انکساری اور تواضع پائی جاتی ہے.تکبر سے وہ نا آشنا ہوتے ہیں.ان پر فقر کی حالت ہو یا امارت کی ہو اور دولت کی ریل پیل ہو غربت وفاقہ کشی کا عالم ہو.ان کے اوصاف کریمہ میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا.ان کی مثال اس ثمر دار درخت کی طرح ہوتی ہے جو شمر دار ہونے کے بعد خمید ہو کر کمزوروں اور ضعیفوں کے قریب ہو جاتا ہے.تا وہ بآسانی اس کے شیریں پھلوں اور اس کی مٹھاس، اس کی لطافت اور اس کی خوشبو سے فائدہ اٹھا سکیں اور تسکین واطمینان ، تازگی و فرحت و انبساط حاصل کرسکیں.اللہ تعالیٰ نے يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ فرمایا ہے فِي الْأَرْضِ نہیں فرمایا.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اقتدار کی حالت میں بھی احتیاط کا پہلو ترک نہیں کرتے.گویا ان میں طاقت اور قوت تو ہوتی ہے مگر اس کا غلط استعمال نہیں کرتے.کوئی قوم یا فردان کے قدموں تلے روندی نہیں جاتی.چونکہ وہ نیکی اور پارسائی کے مجسمہ ہوتے ہیں اس لئے يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ ھونا کا مصداق ہوتے ہیں.اس میں نصیحت بھی ہے کہ جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو تو مسلمانوں کو یہ خصوصیت مد نظر رکھنی چاہیے.ہلاکو خان اور چنگیز خان کی طرح بستیاں ویران اور آبادیاں تہ تیغ کرنے والے نہ ہوں بلکہ فروتنی، انکسار سے کام لینے والے بنیں اور ہر قسم کے آبی و استکبار سے بچیں.یہی نصیحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے.مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے.پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی رُوح سے بولتا ہوں.ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ منظمند یا زیادہ

Page 118

عباد الرحمان کی خصوصیات ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کوسر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو دیوانہ کر دے اور اُس کے اُس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اُس سے بہتر عقل اور علم اور بنر دے دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ وحشمت خدا نے ہی اُس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اُس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزا سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اُس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اُس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اس کے قویٰ میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دُعا مانگنے میں سست ہے وہ متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اُس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے.سو تم اے عزیز وان تمام باتوں کو یا درکھو ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو.ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سنا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک غریب بھائی جو

Page 119

عباد الرحمان کی خصوصیات اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو دُعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ.( نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۲.۴۰۳) انکساری اور عاجزی اور لوگوں کے لئے باعث سلامتی بننے سے انسان کو خود بھی بہت فائدہ ہوتا ہے.اور ایسے نافع الناس وجود کو دنیا میں لمبی عمر دی جاتی ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں: اہل تقوی کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں....میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں، یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں.خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے.یہ ایک قسم کی تحقیر ہے جس کے اندر حقارت بیچ کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جائے.بعض آدمی بڑوں کومل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے.اس کی دلجوئی کرے.اس کی بات کی عزت کرے.کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے.خدا تعالی فرماتا ہے.وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ ۶

Page 120

عباد الرحمان کی خصوصیات بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ - (الحجرات: ١٢) تم ایک دوسرے کا چڑ کے نام نہ لو.یہ فعل فساق و فجار کا ہے.جو شخص کسی کو چڑاتا ہے ، وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اس میں مبتلا نہ ہوگا.اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو.جب ایک ہی چشمہ سے کل پانی پیتے ہو، تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے.مکرم ومعظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہوسکتا.خاتعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے.إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ - ( ملفوظات جلد اول صفحه (۳۱۶) صحابہ کرام کا بھی یہی طریق تھا کہ باوجود اس کے کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں ان کے قبضہ اقتدار میں آئیں مگر ذرہ برابر ظلم کا سلوک نہ کیا گیا.وہ کر بھی کیسے سکتے تھے.جب کہ انہیں سبق ہی یہ ملا تھا کہ خون کے پیاسوں اور جان و مال پر جنگلی درندوں کی طرح بار بار حملہ کرنے والے وحشیوں کو بھی اقتدار کے وقت لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ کر آن واحد میں معاف کر کے ان کی عزت افزائی کی گئی.یہ نمونہ دنیا نے فتح مکہ کے دن دیکھا.اور آنحضرت سل کا یہی تم نے اقتدار کے ملتے ہی اپنوں اور پرایوں پر اتنی شفقت کا سلوک کیا کہ صفحہ ہستی پر اس کی مثال نہ ملے گی.عبادالرحمان کی دوسری خصوصیت فرمایا: وو وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِدُونَ قَالُوا سَلَمًا - (الفرقان: ۶۴) ” جب ان سے جاہل لوگ مخاطب ہوتے ہیں تو وہ ان سے لڑتے جھگڑتے نہیں بلکہ کہتے ہیں ہم تو تمہاری بھلائی چاہتے ہیں اور سلامتی کی دعا ۷

Page 121

عباد الرحمان کی خصوصیات کرتے ہیں.آنحضرت سیلم کی ساری زندگی میں اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں بے شمار نمونے اس قسم کے ملتے ہیں.آنحضرت صلی یا پی ایم کو کفار مکہ اور طائف کو تبلیغ کرنے کے دوران کون سی تنگی تھی جو برداشت نہ کرنی پڑی ہو.آپ سلامتی کا پیغام لے کر جاتے.بستی بستی ، قریہ قریہ ان کی ہمدردی سے مجبور ہو کر فرض تبلیغ ادا فرماتے مگر شریر لوگ کہتے اور شریر بچوں کو پیچھے لگا دیتے.جو پتھراؤ کرتے چنانچہ ایک دفعہ آپ طائف کی بستی میں تشریف لے گئے جہاں آپ کو اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا.(مسلم کتاب الجهاد باب ما لقى النبى من اذى المشركين والمنافقين) حدیثوں میں یہ بھی آتا ہے کہ رسول کریم صلی لا الہ سلم کے پاس ایک دفعہ ایک یہودی آیا اور اس نے آپ سے کسی قرض کی واپسی کا سختی سے مطالبہ کیا.صحابہ یہ حالت دیکھ کر غصہ سے بے تاب ہو گئے اور انہوں نے اپنی تلواریں سونت لیں مگر رسول کریم صلی ہی ہم نے ان سے فرمایا جانے دو جس کا حق ہوتا ہے وہ سختی کر ہی بیٹھتا ہے.(مسلم کتاب البیوع باب من استلف مقضی خیر امته) اسی طرح ایک اور شخص نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ دیا کہ آپ نے جو اموال کی تقسیم کی ہے اس میں انصاف سے کام نہیں لیا.حضرت عمر" تلوار لے کر کھڑے ہو گئے تا کہ اس کا سر اڑا دیں مگر رسول کریم صلی السلام نے فرمایا جانے دوا سے کچھ نہ کہو.عفو اور در گذر سے کام لے کر ہی دلوں پر حکومت کی جاسکتی ہے.یہی وجہ تھی کہ جب کسی معاہدہ کے تحت مسلمان کسی علاقہ سے دست کش ہوتے تو وہ محکوم لوگ مسلمانوں کی حکومت کے خواہاں ہوتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھا ؤانکسار

Page 122

۹ عباد الرحمان کی خصوصیات پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: پس ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں، کیونکہ الْإِسْتِقَامَةُ فَوْقَ الْكَرَامَةِ مشہور ہے.وہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی ان پر سختی کرے.تو حتی الواسع اس کا جواب نرمی اور ملاطفت سے دیں.تشدد اور جبر کی ضرورت انتظامی طور پر بھی نہ پڑنے دیں.انسان میں نفس بھی ہے اور اس کی تین قسم ہیں.اماره لوامه، مطمئنه امارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوش کو سنبھال نہیں سکتا اور اندازہ سے نکل جاتا اور اخلاقی حالت سے گر جاتا ہے.مگر حالت لوامہ میں سنبھال لیتا ہے.مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستاں میں لکھی ہے.کہ ایک بزرگ کو ایک کتے نے کاٹ لیا ، تو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتے نے کاٹ کھایا ہے.ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی.وہ بولی.آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا ؟ اس نے جواب دیا.بیٹی ! انسان سے گٹ پن نہیں ہوتا.اسی طرح سے انسان کو چاہیے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے.نہیں تو وہی گٹ پن کی مثال صادق آئے گی.خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں.بہت بری طرح ستا یا گیا، مگر ان کو أَعْرِضْ عَنِ الْجَھلِین کا ہی خطاب ہوا.“ عبادالرحمان کی تیسری خصوصیت ( ملفوظات جلد اول صفحه (۶۴) دنیا میں انسان کو دو قسم کے حقوق ادا کرنے پڑتے ہیں.کچھ حقوق وہ ہیں جو مخلوق خدا سے متعلق ہیں جنہیں حقوق العباد کہتے ہیں.دوسری قسم کے حقوق اللہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے عبادالرحمان کی صفات بیان فرماتے ہوئے پہلے ان دو صفات کا ذکر فرمایا تھا.جو حقوق العباد سے متعلق ہیں.اس تقدم سے بھی حقوق العباد کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے.بہت سی بد اخلاقیاں

Page 123

عباد الرحمان کی خصوصیات حقوق العباد میں اعتدال سے نہ چلنے سے ہی پیدا ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عباد الرحمان زمین میں آرام سے چلتے ہیں تکبر نہیں کرتے.نیک اخلاق کا نمونہ ہوتے ہیں اور جاہلوں کے لئے بھی مجسم رحمت ہوتے ہیں.پھر فرماتا ہے.وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا - وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا - إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرٌّا وَ مُقَامًا - (الفرقان: ۶۵ تا ۶۷) ترجمہ: اور وہ لوگ بھی جو اپنے رب کے لئے راتیں سجدوں میں اور کھڑے ہو کر گذار دیتے ہیں اور وہ ( یعنی رحمن کے بندے) کہتے ہیں اے ہمارے رب ہم سے جہنم کا عذاب ٹلا دے اس کا عذاب ایک بہت بڑی تباہی ہے.وہ دوزخ عارضی ٹھکانہ کے طور پر بھی بری ہے اور مستقل ٹھکانہ کے طور پر بھی بری ہے) زیادہ دیر مقام کے لئے بھی برا مقام ہے.حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ ان آیات کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں : وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا وہ لوگ جو اپنی راتیں خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ و قیام کرتے ہوئے گذار دیتے ہیں.اس میں جہاں عباد الرحمن کی یہ خصوصیت بتائی گئی ہے کہ وہ مصائب اور مشکلات کے اوقات میں جو رات کی تاریکیوں سے مشابہت رکھتے ہیں دُعاؤں اور گریہ وزاری سے کام لیتے اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر مجھکے رہتے ہیں.وہاں اس میں تہجد کی ادائیگی بھی عباد الرحمن کا شعار قرار دیا گیا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ اُن کی راتیں خراٹے بھرتے ہوئے نہیں گذرتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اُس کی محبت اور عبادت میں گذرتی ہیں.وہ جسمانی تاریکی کو دیکھ کر ڈرتے ہیں کہ کہیں اُن پر روحانی تاریکی بھی نہ آجائے اور وہ دعاؤں اور استغفار اور انابت سے خدا تعالیٰ کی رحمت کو جذب

Page 124

عباد الرحمان کی خصوصیات کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے نماز تہجد کی اہمیت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْاً وَ أَقْوَمُ قِيلًا ( مزمل ۱۴) یعنی رات کا اٹھنا انسانی نفس کو مسلنے میں سب سے زیادہ کامیاب نسخہ ہے اور رات کو خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گرے رہنے والوں کی روحانیت ایسی کامل ہو جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ سچ کے عادی ہو جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز تہجد کا اس قدر خیال رہتا تھا کہ بعض دفعہ رات کو اُٹھ کر چکر لگاتے اور دیکھتے کہ کون کون تہجد پڑھ رہا ہے.ایک دفعہ مجلس میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا ذکر آگیا کہ وہ بڑی خوبیوں کے مالک ہیں.آپ نے فرمایا ہاں بڑا اچھا ہے بشرطیکہ تہجد بھی پڑھے.معلوم ہوتا ہے اُن دنوں حضرت عبد اللہ بن عمر" تہجد پڑھنے میں سستی کرتے ہوں گے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ذریعہ سے انہیں توجہ دلائی کہ وہ اپنی اس شستی کو دور کریں.چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اُسی دن سے تہجد کی نماز میں با قاعدگی اختیار کر لی.رضة الله (بخاری کتاب فضائل الصحابه مناقب عبد الله بن عمر ) ایک دفعہ رات کے وقت آپ اپنے داماد حضرت علی اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر گئے اور باتوں باتوں میں دریافت فرمایا کہ کیا تم تہجد پڑھا کرتے ہو.حضرت علی نے کہا یا رسول اللہ ! پڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن جب خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت کسی وقت آنکھ نہیں کھلتی تو نماز رہ جاتی ہے.آپ اُسی وقت اُٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور بار بار فرماتے وَكَانَ الْإِنْسَانُ اكْثَرَ شَيءٍ جَدَلًا (بخاری کتاب التهجد باب تحريص النبى على صلوة الليل والنوافل...) 11

Page 125

عباد الرحمان کی خصوصیات یعنی انسان اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے مختلف قسم کی تاویلیں کر کے اپنے قصور پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے.آپ کا مطلب یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے انہوں نے یہ کیوں کہا کہ جب خدا کا منشاء ہوتا ہے کہ ہم نہ جاگیں تو پھر ہم سوئے رہتے ہیں اور اس طرح اپنی غلطی کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں منسوب کیا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر رات کو میاں کی آنکھ کھلے اور وہ تہجد کے لئے اُٹھے تو اپنی بیوی کو بھی تہجد کے لئے جگائے.اور اگر وہ نہ اٹھے تو اُس کے منہ پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے اور اگر بیوی کی آنکھ کھل جائے اور اس کا میاں جگانے کے باوجود نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے.آپ تہجد کی اہمیت پر اس قدر زور دیا کرتے تھے (سنن ابی داؤد كتاب الصلوۃ باب قیام اللیل ) کہ آپ نے فرما یا اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں بندوں کے قریب آجاتا ہے اور انکی دعاؤں کو دن کی نسبت بہت زیادہ قبول فرماتا ہے.آپ نے ایک دفعہ فرمایا.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ انسان نوافل کے ذریعہ مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اُسکے کان ہو جاتا ہوں جن سے کہ وہ سُنتا ہے اُس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے.اُس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اُس کے پاؤں ہو جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کا اُٹھنا انسان کو اللہ تعالیٰ کے کتنا قریب کر دیتا ہے.مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں تہجد پڑھنے کی عادت بہت کم ہوگئی ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی یہ ایک خاص خوبی بتائی ہے کہ وہ اپنی راتیں خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ و قیام میں گزار دیتے ہیں.مگر چونکہ یہ آیات مسلمانوں کے دور حکومت کی امتیازی خصوصیات کی بھی حامل ہیں اس لئے يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا - (الفرقان:۶۵) ۱۲

Page 126

۱۳ عباد الرحمان کی خصوصیات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جب دنیا پر غلبہ حاصل ہوگا تو وہ عیش وعشرت میں منہمک نہیں ہونگے بلکہ اُن کی راتیں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ و قیام کرتے ہوئے گذریں گی.چنانچہ جب تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں مسلمانوں کی اس امتیازی خصوصیت کا بھی نہایت واضح طور پر علم حاصل ہوتا ہے.تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب مسلمانوں کی روم کے ساتھ لڑائی ہوئی تو رومی جرنیل نے اپنا ایک وفد مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے بھیجا اور اُس نے کہا کہ تم مسلمانوں کے لشکر کو جا کر دیکھو اور پھر واپس آکر بتاؤ کہ اُن کی کیا کیفیت ہے.وہ وفد اسلامی لشکر کا جائزہ لے کر واپس گیا تو اُس نے کہا کہ ہم مسلمانوں کو دیکھ کر آئے ہیں.وہ ہمارے مقابلہ میں بہت تھوڑے ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی جن ہیں کیونکہ ہم نے دیکھا کہ وہ دن کو لڑتے ہیں اور رات کو تہجد پڑھنے کھڑے ہو جاتے ہیں.ہمارے سپاہی جو دن بھر کے تھکے ماندے ہوتے ہیں وہ تو رات کوشرا ہیں پیتے اور ناچ گانے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور جب ان کاموں سے فارغ ہوتے ہیں تو آرام سے سو جاتے ہیں.مگر وہ لوگ کوئی عجیب مخلوق ہیں کہ دن کولڑتے ہیں اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اُس کا ذکر کرتے ہیں.ایسے لوگوں سے لڑنا بے فائدہ ہے.چنانچہ دیکھ لو.اس ذکر الہی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ بھی آسمان سے اُن کی مدد کے لئے اُترا اور اُس نے انہیں بڑی بڑی طاقتور حکومتوں پر غالب کر دیا.عرب کی ساری آبادی ایک لاکھ اپنی ہزار تھی مگر انہوں نے روم جیسے ملک سے ٹکر لے لی جس کی بیس کروڑ آبادی تھی.پھر انہوں نے کسری کے ملک پر حملہ کر دیا اس کی آبادی بھی ہیں تیس کروڑ تھی.گویا پچاس کروڑ کی آبادی رکھنے والے ملک پر ایک لاکھ اسی ہزار کی آبادی

Page 127

۱۴ عباد الرحمان کی خصوصیات رکھنے والے ملک کا ایک حصہ حملہ آور ہوا.اور پھر یہ ملک اتنے طاقتور تھے کہ ہندوستان بھی اُن کے ماتحت تھا.چین بھی اُن کے ماتحت تھا.اسی طرح ترکی.آرمینیا.عراق اور عرب کے اوپر کے ممالک مصر اور فلسطین وغیرہ بھی اُن کے ماتحت تھے.مگر باوجود اتنی کثرت کے مٹھی بھر مسلمان ! تو انہوں نے ان لوگوں کا صفایا کر دیا اور بارہ سال کے عرصہ میں اُن کی فوجیں قسطنطنیہ کی دیواروں سے جاٹکرائیں.یہ فتوحات جو مسلمانوں کو حاصل ہوئیں صرف ذکر الہی اور يَبِيتُونَ لِرَمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا کا نتیجہ تھیں.“ حضرت خلیفہ اسیح الثانی تحریر فرماتے ہیں: ” جب مسلمان بگڑ گئے اور انہوں نے ذکر الہی میں اپنی راتیں بسر کرنے کی بجائے رنگ رلیوں میں راتیں بسر کرنی شروع کر دیں.جب انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اسحاق موسوی بڑا اچھا گانے والا ہے.فلاں کنچنی بہت اچھا ناچتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی تباہی کے لئے ہلاکو خاں کو بغداد پر مسلط کر دیا اور اُس نے ایک دن میں اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کو قتل کر دیا اور شاہی خاندان کی کوئی عورت ایسی نہ چھوڑی جس کے ساتھ بدکاری نہ کی گئی ہو.اُس وقت مسلمان ایک بزرگ کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ دُعا کریں بغداد تباہی سے بچ جائے.انہوں نے کہا میں کیا دُعا کروں میں تو جب بھی ہاتھ اٹھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کے فرشتے مجھے یہ آوازیں دیتے سنائی دیتے ہیں کہ آيُّهَا الْكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجّار یعنی اے کا فروان فاجر و فاسق مسلمانوں کو خوب مارو.چنانچہ بغدا دتباہ ہو گیا اور عباسی حکومت کا خاتمہ ہو گیا.حالانکہ ایک زمانہ میں اُن کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ رومی حکومت کے لشکر کو جو ساٹھ ہزار کی تعداد میں تھا مسلمانوں کے ساٹھ آدمیوں نے شکست دے دی تھی اور اُن کے ساٹھ میں سے صرف بارہ تیرہ

Page 128

۱۵ عباد الرحمان کی خصوصیات شہید ہوئے اور بیس کے قریب خطر ناک زخمی ہوئے باقی سب خیریت کے ساتھ واپس آگئے.یہ تائید مسلمانوں کو صرف اس لئے حاصل ہوئی کہ وہ طاقت اور غلبہ کو اپنی عیاشی کا ذریعہ نہیں بناتے تھے بلکہ ہر قسم کی طاقت اور ہر قسم کا غلبہ حاصل کرنے کے باوجود اُن کی زبانیں ذکر الہی سے تر رہتی تھیں اور اُن کی راتیں خدا کے حضور قیام وسجود میں گذر جاتی تھیں.دنیا میں بڑی بڑی فاتح اقوام گذری ہیں مگر ہمیں کسی قوم کی تاریخ میں یہ مثال نظر نہیں آئیگی کہ وہ اتنے خدا ترس ہوں کہ ان کی تلوار کسی عورت کسی بچے کسی بوڑھے اور کسی دینی شغف رکھنے والے انسان پر نہ اٹھتی ہو.اُن کی تلوار کسی ایک انسان کا بھی ناجائز طور پر خون نہ بہاتی ہو اور راتوں کو وہ خدا تعالیٰ کے حضور روتے اور گڑ گڑاتے ہوں.یہ عظیم الشان خوبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں پائی جاتی تھی.جن کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور بلند کردار کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے کفار کو بتایا ہے کہ دیکھو یہ لوگ تمہارے ہی ملک اور تمہارے ہی شہر کے رہنے والے تھے اور تمہارے ہی ساتھ انہوں نے اپنی عمروں کا بیشتر حصہ بسر کیا ہے مگر تم بھی جانتے ہو اور باقی سب لوگ بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ نہ اُن میں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا والی بات پائی جاتی تھی اور نہ اُن میں يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا والی کیفیت پائی جاتی تھی بلکہ اس کے برعکس ظلم و ستم اُن کا شیوہ تھا.اور شراب خوری اور عیاشی میں انہماک اُن کا رات دن کا شغل تھا مگر جب انہوں نے خدائے رحمن کے کلام کو قبول کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلے تو اُنکی دنیا ہی بدل گئی اور اُن کی اخلاقی اور روحانی حالت میں بھی ایک تغیر عظیم واقع ہو گیا.اگر یہ خدائے رحمن کے کلام کو قبول کرنے کی برکت نہیں تو بتاؤ اُن میں یہ خوبیاں کہاں سے پیدا ہوئیں اور کس چیز نے انہیں ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا

Page 129

عباد الرحمان کی خصوصیات مالک بنا دیا.“ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ۵۶۴-۵۶۵) عباد الرحمن کی چوتھی خصوصیت جب اللہ تعالیٰ کا بندہ قیام لیل اور عبادت الہی اور خدا تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ اپنا معاملہ صاف ستھرا رکھنے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے اپنا پیوند جوڑتا ہے تو اسے اس تعلق کے نتیجہ میں ایسی لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ذراسی ناراضگی یا دوری کو اپنے لئے جہنم اور اس رشتہ محبت میں ذرا سے فرق کو اپنی تباہی سمجھتا ہے.وہ دعاؤں میں لگا رہتا ہے.خدا تعالیٰ کی بے نیازی اور بلندشان ایک طرف اور دوسری طرف اپنی ناچیز اور ناکارہ ہستی اس کے سامنے ہوتی ہے.چنانچہ وہ یہ دعا کرتا ہے: رَبَّنَا اصْرِفُ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرَّا وَمُقَامًا.اے ہمارے رب عذاب جہنم کو ہم سے دور رکھ کیونکہ جہنم کا عذاب بہت بری تباہی ہے چاہے وہ عارضی ہو یازیادہ دیر تک قائم رہنے والا ہو.“ عباد الرحمن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ایک پل بھر کے لئے دوری برداشت نہیں کر سکتے.چہ جائیکہ زیادہ دیر تک دوری ان پر قائم رہے.انسان کی تخلیق ہی طین لا زب ہے.یعنی چھٹے رہنے والی مٹی.انسان میں اپنے رب حقیقی سے چمٹے رہنے والی خاصیت رکھی گئی ہے.جو عباد الرحمن میں اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ وہ خدا کی دوری کے تصور سے ہی گھبرا اٹھتے ہیں اور چلا اٹھتے ہیں کہ اے خداوند جہنم کے عذاب سے بچائیو چاہے چند منٹ کا ہی کیوں نہ ہو پھر وہ یہ بھی دعا کرتے ہیں.کہ الہی ہمیں ہرایسے کام سے بچائیو جو ہمیں دنیا و آخرت میں ذلیل کر نے والا ہو.تو ہمیں افلاس اور تنگدستی کے جہنم سے بچا.ہمیں جہالت اور کم علمی کے جہنم سے بچا.ہمیں بد اخلاقی اور عیاشی کے جہنم سے بچا.ہمیں دنیا داری اور ۱۶

Page 130

۱۷ عباد الرحمان کی خصوصیات ہوس پرستی کے جہنم سے بچا.ہمیں خود سری اور جھوٹ ، ظلم اور تعدی کے جہنم سے بچا.ہمیں اپنی محبت اور رضا سے دوری کے جہنم سے بچا.ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کی خرابی کے جہنم سے بچا.ہمیں کفر اور شیطنت کے جہنم سے بچا.ہمیں لامذہبیت اور اباحت کے جہنم سے بچا.ہمیں منافقت اور بے ایمانی کے جہنم سے بچا.کیونکہ خواہ یہ برائیاں ہم میں عارضی طور پر پیدا ہوں یا مستقل طور پر بہر حال ان کا پیدا ہونا ہمارے لئے تباہی اور رسوائی کا باعث ہے.ہم چاہتے ہیں کہ مستقل طور پر ان خرابیوں کا پیدا ہونا تو الگ رہا ہم میں عارضی طور پر اور وقتی طور پر بھی یہ خرابیاں پیدا نہ ہوں اور ہمیشہ ہمارا قدم صراط مستقیم پر قائم رہے.گویا وہی دُعا جو سورۃ فاتحہ میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کے الفاظ میں سکھائی گئی ہے اس جگہ رَبَّنَا اصْرِفُ عَنَا عَذَابَ جَهَنَّمَ کے الفاظ میں دُہرا دی گئی ہے.عبادالرحمن کی پانچویں خصوصیت اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی یہ علامت بتائی گئی ہے کہ باوجود ا سکے کہ انہیں دنیا پر غلبہ حاصل ہوتا ہے پھر بھی قومی تنزل کا خوف ہر وقت اُن کو آستانہ ایزدی پر جھکائے رکھتا ہے اور وہ رات دن دُعائیں کرتے رہتے ہیں کہ الہی ہم میں اور ہماری آئندہ نسلوں میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہوتا کہ وہ جنت جو تُو نے محض اپنے فضل سے ہمیں عطا فرمائی ہے وہ ہمیشہ قائم رہے اور کوئی ابلیس سانپ کی شکل اختیار کر کے ہماری ایڑی کو نہ کاٹ لے.اگر مسلمان اپنے غلبہ کے اوقات میں اس قرآنی دُعا کو ہمیشہ یادر کھتے اور ہر کامیابی کے حصول پر قومی تنزل کے خطرات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تو اللہ تعالیٰ اُن پر دائمی طور پر اپنا فضل نازل کرتا اور ہمیشہ اُن کا قدم ترقی کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتارہتا.“ ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ۵۶۵-۵۶۶)

Page 131

عباد الرحمان کی خصوصیات صحابہ کی خشیت اور عذاب جہنم سے ڈرنے اور خدا تعالیٰ کی مغفرت چاہنے کا بھی عجیب نظارہ ہوتا تھا.ان کی روحیں ہر آن بہہ کر خدائے واحد کے آستانہ پر سر بسجود رہتی تھیں.حد درجہ کے جری اور بہادر ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہر وقت لرزاں رہتے تھے.حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ عہد نبوت میں اگر کبھی تیز ہوا بھی چلتی تھی تو مسلمان خوف الہی سے کانپتے ہوئے مسجد کی طرف بھاگ اٹھتے تھے.“ (ابوداؤد كتاب الصلوة عند الظلمة ونحوها) حضرت عثمان کے دل پر اللہ تعالیٰ کا خوف اس قدر طاری رہتا تھا کہ جب کوئی جنازہ ۱۸ سامنے سے گذرتا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے.قبرستان سے گزر ہوتا تو آپ پر رقت طاری ہو جاتی تھی.حضرت عبد الرحمان بن عوف باوجود یکہ بہت دولت مند تھے مگر خشیت اللہ اور تقویٰ سے قلب معمور تھا اور دنیوی نعماء ان کے لئے کسی ابتلاء کے بجائے از دیا دایمان کا موجب ہوتی تھیں.ایک دفعہ تمام دن روزہ سے رہے شام کے وقت کھانا آیا تو اسے دیکھ کر رو پڑے اور فرمایا: مصعب بن عمیر مجھ سے بہتر تھے مگر وہ شہید ہوئے تو کفن میں صرف ایک چادر تھی جس سے سر چھپاتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے تھے اور پاؤں چھپاتے تھے تو سر نگا ہو جاتا.اسی طرح حضرت حمزہ شہید ہوئے تو یہی حالت تھی.مگر اب دنیا ہمارے لئے فراخ ہوگئی ہے اور اس کی نعمتیں بکثرت حاصل ہوگئی ہیں اور میں ڈرتا ہوں ہمیں کہیں اپنی نیکیوں کا صلہ یہیں نہ مل جائے اور اس قدر رقت طاری ہوئی کہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا.“ (بخاری کتاب المغازى باب غزوة احد) و یا صحابہ کرام ہر وقت عُسر ہو یا ئیسر خدا تعالیٰ کے خوف سے لرزاں رہتے تھے تا کہیں

Page 132

عباد الرحمان کی خصوصیات خدا تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے.عباد الرحمان اپنے تعلقات میں کھرے ہوتے ہیں.ان کے اعمال میں یک رنگی پائی جاتی ہے وہ دوغلی پالیسی پر عمل نہیں کرتے.ایک کے ہوکر رہنا چاہتے ہیں.توحید کے بچے پرستار ہوتے ہیں اور شرک کو مٹانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں.ان کی محبت ان کی خواہشیں اور تمنا ئیں خدا تعالیٰ سے وابستہ ہوتی ہیں.اور عُسر ویسر میں وہ خدا کے سوا کسی کو نہیں پکارتے.تو گل کے مقام کو حاصل کرنے والے اور یقین و معرفت کے قلزم بے کراں کے شناور ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَهَا أَخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا - يُضْعَفُ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ وَيَخْلُدُ فِيهِ مُهَانًا - الا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَبِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيَأْتِهِمْ حَسَنَتٍ وَ كَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا - وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا (الفرقان : ۶۹ تا ۷۲) ترجمہ.اور وہ لوگ ( یعنی عباد الرحمان ) ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو بطور معبود نہیں پکارتے اور نہ کسی جان کو جسے خدا تعالیٰ نے محافظت بخشی ہے قتل کرتے ہیں سوائے ( شرعی ) حق کے.اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ اپنے گناہ کی سزا کو دیکھ لے گا.اور قیامت کے دن اس کے لئے عذاب زیادہ کیا جائے گا اور وہ اس میں ذلت کے ساتھ رہتا چلا جائے گا.سوائے اس کے جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور ایمان کے مطابق عمل کئے.پس یہ لوگ ایسے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بدیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے.اور جو تو بہ کرے اور اعمال صالحہ بجالائے وہ شخص حقیقی طور پر ۱۹

Page 133

عباد الرحمان کی خصوصیات اللہ کی طرف جھکتا ہے.عبادالرحمان کی چھٹی خصوصیت عبادالرحمان کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خدائے واحد پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور اسی کو حزن و ملال اور خوف اور اضمحلال کے وقت پکارتے ہیں.وہ خدا کو ہی پیارا خزانہ سمجھتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ”اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً مجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے.تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا تم دشمن سے غافل ہو گے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا....خدا ایک پیارا خزانہ ہے اُس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مددگار ہے تم بغیر اُس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں.کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لایق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑ و کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد نمبر ۱۹ صفحه ۲۱، ۲۲) توحید باری تعالیٰ کی اور اس کی اقسام بیان کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں.۲۰

Page 134

۲۱ عباد الرحمان کی خصوصیات توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لا الہ الا اللہ کہیں اور دل میں ہزاروں بت جمع ہوں بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تد بیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر ایسا بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بت پرست ہے.بت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگہ میں بت ہے....یادر ہے کہ حقیقی تو حید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شرک سے خواہ بت ہو خواہ انسان ہو خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنانفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو منزہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا.کوئی رازق نہ ماننا.کوئی مُعِر اور مذل خیال نہ کرنا.کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا.اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا.اپنا تذلل اسی سے خاص کرنا.اپنی امیدیں اسی سے خاص کرنا.اپنا خوف اسی سے خاص کرنا.پس کوئی تو حید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی.اول : ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو هَالِكَةُ الذَات اور بَاطِلَةُ الْحَقِيقَتْ خیال کرنا.دوم : صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا.اور جو بظاہر رب الانواع یا فیض رسان نظر

Page 135

عباد الرحمان کی خصوصیات آتے ہیں اسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا.تیسرے: اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا.اور اسی میں کھوئے جانا.“ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب صفحہ ۲۹ تا ۳۱) حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ توحید کی خاطر صحابہ کرام کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : توحید پر صحابہ پوری طرح کار بند تھے انہوں نے توحید کی اشاعت کے لئے وہ قربانیاں پیش کیں کہ آج بھی تاریخ کے صفحات میں ان کا ذکر پڑھ کر انسانی قلب لرز جاتا ہے.وہ خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لانے کی وجہ سے قتل کئے گئے.اُن کے اموال چھین لئے گئے.اُن کی عورتوں کی آبروریزی کی گئی.انہیں اپنے وطن سے بے وطن کیا گیا.انہیں تپتی ریت پر لٹایا گیا.اُن کے سینوں پر بڑے بڑے بھاری پتھر رکھ کر اُن پر جوتوں سمیت کو دا گیا اور انہیں لات ومنات اور عزیٰ کی پرستش پر مجبور کیا گیا مگر وہ لوگ خدا تعالیٰ کے عشق میں کچھ ایسے سرشار تھے کہ اُن کی زبانوں سے اگر کوئی فقرہ نکلا تو صرف یہی کہ خدا ایک ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار مکہ نے یہاں تک پیشکش کی کہ ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں صرف اتنا مطالبہ آپ منظور کر لیں کہ ہمارے بتوں کو برا بھلا نہ کہیں.مگر اتنی بڑی پیشکش کے باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے مطالبہ کو نہایت حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا اور ایک لمحہ کے لئے بھی یہ برداشت نہ کیا کہ خدائے واحد کی توحید میں کوئی خلل واقع ہو.بلکہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو ۲۲

Page 136

عباد الرحمان کی خصوصیات میرے بائیں لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدا تعالیٰ کی توحید کے اعلان سے باز نہیں رہ سکتا.پھر آپ کی آنکھوں کے سامنے محض تو حید کو تسلیم کرنے کے مجرم میں آپ کے عزیز ترین صحابہ پر بڑے بڑے مظالم توڑے گئے خود آپ کو اور آپ کے خاندان کو ان کے پیہم مظالم کا تختہ مشق بننا پڑا مگر آپ نے ان تمام تکالیف کے باوجود دنیا کی ہر اُس قوم سے لڑائی کی جو توحید کی دشمن تھی.آپ نے مشرکین مکہ کا بھی مقابلہ کیا جو سینکڑوں بتوں کے پجاری تھے.آپ نے یہود کا بھی مقابلہ کیا جو عزیر کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے آپ نے مجوسیوں کا بھی مقابلہ کیا جو آگ کے پجاری تھے اور آخر عرب میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں توحید کو غالب کر کے دکھا دیا اور بتوں کے پرستاروں کو خدائے واحد کے آستانہ پر لا ڈالا.پھر جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو حدیثوں میں آتا ہے کہ آپ کرب واضطراب کے ساتھ کبھی ایک کروٹ بدلتے اور کبھی دوسری اور بار بار فرماتے کہ خدا تعالیٰ یہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اس طرح آپ نے صحابہ کرام کو نصیحت فرمائی کہ دیکھنا میری قبر کو کبھی سجدہ گاہ نہ بنانا.دیکھنا میرے بشر ہونے کے مقام کو کبھی فراموش نہ کرنا.چنانچہ آپ کی اس تعلیم اور تعہد کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں قریہ قریہ میں دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں پانچ مرتبہ یہ آواز بلند ہوتی سنائی دیتی ہے کہ آشْهَدُ آن لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ “ ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ۵۷۵) ۲۳ آج پھر کفر و ضلالت کا دور دورہ ہے اور توحید باری کے قیام کے لئے صحابہ کی طرح مالی، جانی ، لسانی و قلبی اور وقت کی قربانی دینے کی ضرورت ہے تا ایک دفعہ پھر دنیا کے چپہ چپہ سے کلمہ توحید کی صدا سنائی دینے لگے اور خدائی نور سے دنیا ڈھانپی جائے.

Page 137

عباد الرحمان کی خصوصیات ۲۴ عبادالرحمن کی ساتویں خصوصیت عبادالرحمن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی سے بلا وجہ لڑتے جھگڑتے نہیں کیونکہ قتل کے جہاں ایک معنے قتل کرنے کے ہیں وہاں لڑنے جھگڑنے کے بھی ہیں.اور دوسرے یہ کہ وہ بلاوجہ اور بغیر حکم شرعی کے کسی جان کو تلف نہیں کرتے.یہ دونوں صفات عباد الرحمن کا خاصہ ہیں.رسول کریم صلی اینم کی تعلیم کا یہ اثر تھا کہ صحابہ کی تلوار صرف ان لوگوں پر اٹھتی تھی جو مقابلہ کرتے تھے.معذوروں ، یتیموں ، راہبوں اور عورتوں پر ان کی تلوار کبھی نہیں اٹھی.ہٹلر ، چنگیز خان اور ہلاکو خان کی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں کہ کس طرح ان کی تلوار سے بے گناہوں کا بھی خون بہا لیکن یہ صحابہ کرام کا ہی نمونہ تھا کہ دشمن کے خلاف جب بھی نکلے ان کے اموال اور عزتوں کی بھی انہوں نے حفاظت کی.اس کے علاوہ آپس میں بھی وہ اخوت و ہمدردی کے جذبہ سے سرشار ہو کر زندگی بسر کرتے تھے.لڑتے جھگڑتے نہیں تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا منشاء کیا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے.مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَانَمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيع وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَانَمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا - (المائدة: ۳۳) ترجمہ.جو کسی شخص کو بغیر اس کے کہ اس نے قتل کیا ہو یا ملک میں فساد پھیلا یا ہو قتل کر دے گا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جو اسے زندہ کرے گا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندہ کر دیا.رسول کریم صلی این باہمی اخوت اور ہمدردی کی روح کو قائم رکھنے کے لئے فرماتے ہیں الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ

Page 138

عباد الرحمان کی خصوصیات حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے باقی مسلمان محفوظ رہیں ( مسند احمد بن حنبل جلد اول صفحه ۲۳۰) حجتہ الوداع کے موقع پر رسول کریم صلی ال پیہم نے فرمایا کہ لوگو ! تم پر مسلمانوں کی جان، مال ، عزت اسی طرح حرام ہے جس طرح آج کے دن آج کے مہینہ کی اور کعبتہ اللہ کی حرمت ہے.چنانچہ انصار اور مہاجرین کا باہمی مواخات اس کی قابل قدر مثال ہے.(مسلم کتاب الحج باب حجة النبى صلى الله علیه وسلم) عباد الرحمن کی آٹھویں خصوصیت وَلَا يَزْنُونَ میں بتایا ہے کہ وہ کسی سے ناجائز تعلقات قائم کر کے زنا جیسی قبیح بدکاری کے مرتکب نہیں ہوتے جہاں وہ خدا کے علاوہ کسی اور معبود کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اسی طرح جسمانی طور پر بھی پاکباز ہوتے ہیں." ( اسلام نے ) انسان کو پاک دامن رہنے کیلئے پانچ علاج بھی بتلا دیئے ہیں.یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا.نامحرموں کے قصے نہ سننا اور دوسری تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اپنے تئیں بچانا ، اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ.....خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی.اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے.اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں.....ہر ایک پرہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہیے کہ حیوانوں کی طرح جس طرح چاہے بے محابہ نظر آتھا کر دیکھ لیا کرے ۲۵

Page 139

عباد الرحمان کی خصوصیات بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں نغض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے.“ ( اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۳- ۳۴۴) عبادالرحمان کی نویں خصوصیت اللہ تعالی عباد الرحمان کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ لوگ بدکاری کے قریب نہیں جاتے پھر فرماتا ہے جو ایسی بداخلاقیاں کریں گے اور زمین میں فساد پیدا کریں اور خدائے واحد کے پرستار نہیں بنیں گے اللہ تعالیٰ ان پر عذاب جہنم کو بڑھا دے گا.الا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ - (الفرقان: ۷۱) ۲۶ سوائے ان لوگوں کے جوان غلطیوں کے سرزد ہو جانے کے بعد حقیقی تو بہ کر کے اعمال صالحہ بجا لا کر اپنی تو بہ کا ثبوت فراہم کر دیں گے.ایسے لوگوں کی بدیوں کو نیکیوں میں بدل دیا جائے گا.یعنی ان کو اعمال صالحہ کے ذریعہ سے بہت سی نیکیوں کی توفیق ملے گی.جس کے نتیجہ میں ان کی بدیوں کے اثرات زائل ہو جائیں گے اور انہیں معاف کر دیا جائے گا.جیسا کہ ایک اور جگہ فرمایا إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ - (هود: ۱۱۵) کہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں مگر شرط یہ ہے کہ بندہ ہر وقت تو بہ استغفار کرتا رہے تو بہ استغفار میں لگے رہنا عباد الرحمن کی نویں خصوصیت ہے.”استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے.ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خدا تعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہو کر اس سے مدد چاہنا یہ استغفار تو مقربوں کا ہے جو ایک طرفتہ العین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں اس لئے

Page 140

عباد الرحمان کی خصوصیات استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے.اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشو و نما پا کر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیا.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۴۶.۳۴۷) استغفار کے بعد توبہ کا درجہ ہے اور توبہ کے کئی مدارج ہیں جن کے بغیر تو بہ مکمل نہیں ہوتی.سچی تو بہ وہی ہے جس کے بعد نیکیاں کرنے یعنی اعمال صالحہ کی توفیق ملے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ بات بھی یا درکھنی چاہیے کہ تو بہ کے لئے تین شرائط ہیں.بدوں اُن کی تکمیل کے سچی توبہ جسے تو بۃ النصوح کہتے ہیں، حاصل نہیں ہوتی.ان ہرسہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اقلاع کہتے ہیں.یعنی ان خیالات فاسدہ کوڈ ورکر دیا جاوے جوان خصائل ردیہ کے محرک ہیں.۲۷ اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑا بھاری اثر پڑتا ہے ، کیونکہ حیطۂ عمل میں آنے سے پیشتر ہر ایک فعل ایک تصوری صورت رکھتا ہے.پس تو بہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ان خیالات فاسده و تصورات بد کو چھوڑ دے.مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہو، تو اُسے تو بہ کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قرار دے اور اس کی تمام خصائل رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے، کیونکہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے.تصورات کا اثر بہت زبردست اثر ہے اور میں نے صوفیوں کے تذکروں میں پڑھا ہے کہ انہوں نے تصور کو یہانتک پہنچایا کہ انسان کو بندر یا خنزیر کی صورت میں دیکھا.غرض یہ ہے کہ جیسا کوئی تصور کرتا ہے، ویسا ہی رنگ چڑھ جاتا ہے.پس جو خیالات بالذات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع قمع کرے.یہ پہلی شرط ہے.دوسری شرط ندم ہے یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا.ہر ایک

Page 141

عباد الرحمان کی خصوصیات ۲۸ انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتا ہے ،مگر بد بخت انسان اس کو معطل چھوڑ دیتا ہے.پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پر پشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذات عارضی اور چند روزہ ہیں اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حظ میں کمی ہوتی جاتی ہے.یہاں تک کہ بڑھاپے میں آکر جبکہ قومی بیکار اور کمزور ہو جائیں گے.آخر ان سب لذات دنیا کو چھوڑنا ہوگا.پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب لذات چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر اُن کے ارتکاب سے کیا حاصل؟ بڑا خوش قسمت ہے وہ انسان جو تو بہ کی طرف رجوع کرے اور جس میں اول اقلاع کا خیال پیدا ہو یعنی خیالات فاسده و تصورات بیہودہ کا قلع قمع کرے.جب یہ نجاست اور نا پا کی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کئے پر پشیمان ہو.تیسری شرط عزم ہے.یعنی آئندہ کے لئے مصمم ارادہ کر لے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رُجوع نہ کرے گا اور جب وہ مداومت کرے گا، تو خدا تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا.یہانتک کہ وہ سیئات اس سے قطعاً زایل ہوکر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اُس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر.اس پر قوت اور طاقت بخشا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے.جیسے فرما یا آنَ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ( ملفوظات جلد اول صفحه ۱۳۲ تا ۱۳۴) تو بہ، استغفار اور محاسبہ نفس کے ذریعے ہر وقت چوکنے اور ہوشیار ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہیے تا ہمارا خدا ہم سے راضی ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو.اور مخلوق کی پرستش نہ کرو اور اپنے مولیٰ کی طرف منقطع ہو جاؤ اور دنیا سے دل برداشتہ رہو اور اسی کے ہو جاؤ اور اسی کے لئے زندگی بسر کرو اور اس کے لئے ہر ایک نا پا کی اور گناہ سے نفرت کرو.کیونکہ وہ پاک ہے چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے

Page 142

عباد الرحمان کی خصوصیات ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲) عبادالرحمن کی دسویں خصوصیت عبادالرحمن کی دسویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے نہ عدالت میں نہ انسان کے حق میں اور نہ اپنے اعضاء کے خلاف جھوٹی گواہی دیتے ہیں.یعنی اگر ان کے ہاتھوں ، کانوں اور پیروں سے کوئی براعمل سرزد ہو گیا یا ان کی زبان نے کوئی بات کہہ دی تو وہ یہ نہیں کہتے کہ ان کے ہاتھوں نے ایسا نہیں کیا ان کے کانوں نے ایسا نہیں سنا ان کی زبان اور پیروں نے ایسا نہیں کیا.اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ اپنے ہی اعضاء کے اعمال کے خلاف گواہی دے رہے ہیں.ایسا ہی قیامت کے روز خدا تعالیٰ کے حضور اس کی تردید میں ان کے اعضاء گواہی دیں گے اور ان کے جھوٹ کی تردید کریں گے.خدا تعالیٰ کی صفات اور اس کی ہستی کا انکار کرنا بھی ایک جھوٹ ہے جس سے شرک لازم آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے.جیسا کہ فرمایا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَولَ النُّورِ (الحج : ۳۱) دیکھو یہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے.اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک تباہی ہے ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے.جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجر بلمع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا.جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہانتک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو.اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے ، تو جلدی سے دور نہیں ہوتا.مدت تک ریاضت کریں.تب جا کر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہوگی.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۵۰) ۲۹

Page 143

عباد الرحمان کی خصوصیات جھوٹ سب بد اخلاقیوں کی جڑ ہے اور اس کے ترک کرنے سے انسان کو تو فیق ملتی ہے کہ وہ دوسری اخلاقی برائیوں سے بھی بچ جائے.عبادالرحمن کی گیارھویں خصوصیت وہ اللہ کے نیک بندے جو رحمان خدا کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں.اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے لئے وقت ضائع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا.انْتَ الشَّيْحُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعَ وَقْتُه ( تذکره صفحه ۴۰۱) عباد الرحمن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وَإِذَا مَرُ وا بِاللَّغْوِ مَرُوا كِرَ اما جب کبھی وہ لغو باتوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو ان سے بچ کر صحبت صالحین اختیار کرتے ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ.صادق اور پاکباز لوگوں کی مصاحبت اختیار کرو ضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں : ”میرے نزدیک موجودہ زمانہ میں جولغویات پائی جاتی ہیں اُن میں سب سے مقدم سینما ہے جو قومی اخلاق کے لئے نہایت ہی مہلک اور تباہ کن چیز ہے اور تمدنی لحاظ سے بھی ملکی امن کے لئے خطرہ کا موجب ہے..یہ ایک بدترین لعنت ہے جس نے سینکڑوں شریف خاندانوں کی عورتوں کو ناچنے والی بنادیا ہے....کوئی فلم ایسی نہیں ہوتی جس میں گانا بجانانہ ہو.اور گا نا بجانا اسلام میں سخت منع ہے....اور قرآن کریم کی اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کا بندہ ہی نہیں بن سکتا جب تک وہ گانے بجانے کی مجلسوں سے الگ نہ ہو....اسی بناء پر میں نے اپنی جماعت کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ سینما نہ دیکھا کرے کیونکہ اس میں گانا بجانا ہوتا ہے جو انسانی قلب کوخدا تعالیٰ کی طرف سے غافل کر دیتا ہے.....رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 144

۳۱ عباد الرحمان کی خصوصیات نے بھی فرمایا ہے کہ گانا بجانا اور باجے وغیرہ یہ سب شیطان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ لوگوں کو بہ کا تا ہے.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی اس واضح ہدایت کو بھلا دیا اور وہ اپنی طاقت کے زمانہ میں رنگ رلیوں میں مشغول ہو گئے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر انہیں اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا.خلافتِ عباسیہ تباہ ہوئی تو محض گانے بجانے کی وجہ سے.ہلاکو خاں اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ منزلوں پر منزلیں طے کرتا ہوا بغداد کی طرف بڑھا آرہا تھا اور معتصم باللہ ناچ گانے میں مشغول تھا اور بار بار کہتا تھا کہ تم گانے والیوں کو بلاؤ.بغداد پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا.جو حملہ کرے گا وہ خود تباہ ہو جائے گا لیکن ہلاکو خاں نے پہنچتے ہی سب سے پہلے بادشاہ کو قتل کر وایا پھر اُس کے ولی عہد کو قتل کیا اور پھر بغداد پر حملہ کر کے اُس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور اٹھارہ لاکھ آدمی قتل کر دیئے.اسی طرح مغلیہ حکومت کی تباہی بھی گانے بجانے کی وجہ سے ہی ہوئی." محمد شاہ رنگیلے کو رنگیلا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گانے بجانے کا بہت شوقین تھا.بہادرشاہ جو ہندوستان کا آخری مغل بادشاہ تھا وہ بھی اسی گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوا.انگریزوں کی فوجیں کلکتہ سے بڑھ رہی تھیں.الہ آباد سے بڑھ رہی تھیں کانپور سے بڑھ رہی تھیں.میرٹھ سے بڑھ رہی تھیں.سہارنپور سے بڑھ رہی تھیں اور بادشاہ کے درباہ میں گانا بجانا ہو رہا تھا.آخر انگریزوں نے اُس کے بارہ بیٹوں کے سرکاٹ کر اور خوان میں لگا کر اُس کی طرف بھیجے اور کہا کہ یہ آپ کا تحفہ ہے.اندلس کی حکومت بھی گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوئی..مصر کی حکومت بھی گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوگئی.مصر پر صلاح الدین ایوبی نے حملہ کیا تو فاطمی بادشاہ اُس وقت گانے بجانے میں ہی مشغول تھا مگر اتنی بڑی تباہی دیکھنے کے باوجود مسلمانوں کو اب بھی یہی شوق ہے کہ سینما دیکھیں اور گانا بجانا

Page 145

عباد الرحمان کی خصوصیات ۳۲ سنیں اور وہ اپنی تاریخ سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے.“ عبادالرحمن کی بارھویں خصوصیت ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ۵۸۶) رحمن کے بندے اپنے رب کی آیات کا ذکر سن کر آگے بڑھتے ہیں.خدا تعالیٰ کی آیات اور نشانات کو بصیرت کے ساتھ یقین و معرفت کے ساتھ قبول کرتے ہیں.کافروں اور منافقوں کی طرح اندھوں اور بہروں کا سا سلوک آیات خداوندی اور نشانات ایزدی کے ساتھ نہیں کرتے.اس خوبی کا ذکر قرآن کریم نے ایک اور آیت میں اس طرح بیان کیا ہے: إِنَّمَا يُؤْمِنْ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِرُوا بِهَا خَذُوا سُجَّدًا وَسَبِّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ - (السجدة: ١٦ ) ترجمہ: یعنی ہماری آیات و نشانات پر وہی لوگ سچا ایمان رکھتے ہیں کہ جب انہیں آیات الہیہ کے متعلق تو جہ دلائی جائے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے زمین پر گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی تعریف اور تسبیح کرتے ہیں اور تکبر سے کام نہیں لیتے.قدرتی امر ہے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر عباد الرحمن کا دن رات اوڑھنا بچھونا ہو جاتا ہے وہ ذکر الہی سے سرشار رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: نماز کے علاوہ اٹھتے بیٹھتے اپنا دھیان خدا تعالیٰ کی طرف رہے.یہی اصل مدعا ہے جس کو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تعریف میں فرمایا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی قدرتوں میں فکر کرتے ہیں.ذکر اور فکر ہر دو عبادت میں شامل ہیں.فکر کے ساتھ شکر گزاری کا مادہ بڑھتا ہے.انسان سوچے اور غور کرے کہ زمین و آسمان ، ہوا اور بادل ، سورج اور چاند ستارے اور سیارے سب انسان کے فائدے کے واسطے خدا تعالیٰ نے بنائے.فکر معرفت کو بڑھاتا ہے.غرض ہر وقت خدا کی یاد میں اس کے

Page 146

عباد الرحمان کی خصوصیات نیک بندے مصروف رہتے ہیں.اسی پر کسی نے کہا کہ جو دم غافل سو دم کا فر“ ( ملفوظات جلد نهم صفحه ۳۲۱) ۳۳ انسان فانی میں اللہ تعالیٰ نے بقائے نسل کے لئے خواہشات رکھ چھوڑی ہیں.تا زندگی معدوم نہ ہو جائے اسی لئے انسان کے دل میں اولاد کی خواہش ایک طبعی امر ہے.کیونکہ انسانی پیدائش کی غرض مقام عبودیت حاصل کرنا ہے اس لئے جو لوگ اولاد کی خواہش اس لئے کرتے ہیں تا الباقیات الصَّالِحَاتُ چھوڑیں.اور دنیا میں نیکی و پارسائی کو اس طرح دوام دیں ان کی یہی خواہش خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہوتی ہے اس لئے وہ خدا کے مقرب اور پسندیدہ لوگ ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا - أولبِكَ يُجْزَونَ الْغُرُفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَ يُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَمًا - خُلِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرَّا وَّ مُقَامًا - (الفرقان: ۷۵-۷۷) رو اور وہ لوگ ( بھی رحمن کے بندے ہیں ) جو یہ کہتے ہیں کہ اے رب ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں (اس طرح) سے ) متقیوں کا امام بنا.( آمین ) یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کی نیکی پر قائم رہنے کی وجہ سے ( بہشت میں ) بالا خانے دیئے جائیں گے اور ان کو اس میں دعائیں دی جائیں گی.اور سلامتی کے پیغام پہنچائے جائیں گے وہ ان میں رہتے چلے جائیں گئے.وہ ( یعنی جنت ) عارضی قرارگاہ کے طور پر بھی بڑی اچھی ہے.اور مستقل قرارگاہ کے طور پر بھی بڑی اچھی ہے.آنحضرت صلی السلام فرماتے ہیں قرة عيني في الصلوۃ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے.اس لئے ایک مومن بندے کو حقیقی خوشی اور ٹھنڈک تبھی پہنچے گی جب کہ اس کی ازواج اور اس کی اولاد نماز کی پابند ہوگی.اور یہی دعا عباد الرحمان کرتے ہیں کہ :

Page 147

عباد الرحمان کی خصوصیات ۳۴ اے اللہ تعالیٰ ہماری ازواج ، ہماری اولا د کو ہمارے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا موجب بنادے.یہ ضروری ہوا کہ اس تسکین اور اطمینان ، خوشی ،ٹھنڈک کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کی جائے اور آل و اولاد نیکی کے راستہ پر گامزن ہو کر خدا تعالیٰ کے مقرب بن جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصولوں پر ہونی چاہیے اس لحاظ سے اور خیال سے نہ ہو کہ وہ ایک گناہ کا خلیفہ باقی رہے....اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں نہ ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مدنظر رکھتے ہیں.میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا.بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولا دکو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں.ابتداء میں جب بھی بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں.ایک حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک لڑکا اپنے جرائم کی وجہ سے پھانسی پر لٹکایا گیا اس آخری وقت میں اس نے خواہش کی کہ میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں جب اس کی ماں آئی تو اس نے ماں کے پاس جا کر اسے کہا کہ میں تیری زبان چوسنا چاہتا ہوں.جب اس نے زبان نکالی تو اسے کاٹ کھایا.دریافت کرنے پر اس نے کہا اسی ماں نے مجھے پھانسی پر چڑھایا ہے کیونکہ اگر یہ مجھے پہلے ہی روکتی تو آج میری یہ حالت نہ ہوتی.غرض اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ

Page 148

عباد الرحمان کی خصوصیات ۳۵ اماما - (الفرقان:۷۵) یعنی خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمادے.اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں.بلکہ عباد الرحمان کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.اولا دا گر نیک اور متقی ہوگی تو یہ ان کا امام ہی ہوگا اس سے گو یا متقی ہونے کی بھی دعا ہے.“ الحکم جلد ۵ نمبر ۳۵ صفحه ۱۰ تا ۱۲ پر چه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۱ء) اسلام نے تربیت اولاد کا بہت لحاظ رکھا ہے اور ہدایت فرمائی ہے کہ شادی کرتے وقت اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ جس سے شادی کی جارہی ہے آیا وہ نیک بھی ہے یا نہیں.رسول کریم صلی ا یہ تم سے روایت ہے کہ شادی چار وجوہات کی بناء پر کی جاتی ہے.مال کی وجہ سے حسب ونسب کی وجہ سے حسن و جمال کی وجہ سے،اخلاق و پارسائی کی وجہ سے.(بخاری کتاب النکاح باب کفاء فی الدین) مگر تم اے مسلمانو! خدا تمہاری زندگیوں کو کامیاب کرے ہمیشہ با اخلاق اور دین دار عورتوں سے شادی کیا کرو ورنہ تمہارے ہاتھ خاک آلودہ رہیں گے.آقائے دو جہاں کی یہ ہدایت اس لئے ہے تا بیویاں جنہوں نے کل ماں بن کر بچوں کی تربیت کا اہم فریضہ سرانجام دینا ہے نیک ہوں.بچے ان کی صحبت میں رہ کر ان کی تربیت میں پرورش پا کر نیک اور عباد الرحمان کی صفات لے کر پھلیں پھولیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لیے سعی اور دعا کرو.جس قدر کوشش تم ان کے لیے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو.....وہ کام

Page 149

عباد الرحمان کی خصوصیات ۳۶ کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو.اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پر ہیز گار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولا د کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا.“ (الحکم ۱۰ رنومبر ۱۹۰۵ء) دین کی راہ میں صحابہ کرام کیا مرد اور کیا عورتیں ہر رنگ میں قربانی کرنے کے لئے کمر بستہ نظر آتے تھے.تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی تو حضرت خنساء جو زمانہ جاہلیت میں ایک بہت بڑی شاعر تھیں جنہوں نے اپنے ایک بھائی کی وفات پر اتنے درد انگیز مرجیے کہے تھے کہ سخت سے سخت دل انسان کا پتہ بھی پانی ہوا جا تا تھا.ہاں انہی حضرت خنساء نے اپنے چار جگر گوشوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے پیارے بیٹو! اسلام کی خاطر قربانی کرنا تمہارا فرض ہے.خدا کی قسم میں نے نہ کبھی تمہارے باپ سے خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو کبھی رسوا کیا.یہ دنیا چند روزہ ہے اور اس میں جو آیا ایک نہ ایک دن مرے گا لیکن خوش بخت ہے وہ انسان جسے خدا کی راہ میں جان دینے کا موقع ملے.اس لئے صبح اٹھ کر لڑنے کے لئے میدان میں نکلو اور آخر وقت تک لڑو.کامیابی کے ساتھ واپس آؤ یا شہادت کا مرتبہ پاؤ.سعادت مند بیٹوں نے وقت کی نزاکت کو سمجھا، دین کی ضرورت ان کے سامنے تھی.ماں سے رخصت ہوئے اور چاروں ایک ساتھ گھوڑوں کی باگیں تھامے میدان جنگ میں کود گئے.دلاور ماں کے دلاور بیٹے ایک ایک کر کے چاروں کے چاروں جام شہادت نوش کر کے مولائے حقیقی سے جاملے.انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.جب یہ خبر بہادر اور دلیر ماں کو سنائی گئی تو خدا تعالیٰ کے حضور...سجدہ میں گر پڑی اور کہنے لگی کہ مولا تیرا شکر ہے کہ تو نے میری ساری عمر کی دولت، میری ساری عمر کی کمائی قبول کر لی.مولیٰ تیرا شکر ہے کہ تو نے میرے چاروں بیٹوں کو قبول فرما کر سرفراز فرمایا.“ (اسدالغابہ)

Page 150

عباد الرحمان کی خصوصیات ۳۷ یہ تھے صحابیات کے وقف اولاد کے نمونے جو قرون اولیٰ میں انہوں نے اسلام کی خاطر دیئے اور یہ تھے صحابہ کی اولاد کے اعلیٰ ترین نمونے کہ جان تک کی بازی لگادی اور اسلام کی آن پر آنچ تک نہ آنے دی.آج بھی اسی قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے.دین اسلام بے کسی یتیم کی طرح اس بات کا متمنی ہے کہ ایک دفعہ پھر خنساء جیسی اولوالعزم اور بہادر ماؤں کے بیٹے آگے بڑھیں اور کفرستانوں میں نکل جائیں اور قرآن کو ہاتھوں میں لے کر دلوں کی زمینوں پر فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑ دیں.توحید خداوندی کا ڈنکا بجنے لگ جائے.یہ قربانی آج بھی خلیفہ وقت کی خدمت میں پیش کریں.آج بھی مائیں اپنی اولادیں دین کی نصرت کے لئے پیش کر کے حضرت خنساء کے مقام کو حاصل کر سکتی ہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھا جائے اور جرات اور بہادری سے نیکیوں میں سبقت لے جانے کے جذبہ کے ساتھ خدا کی خاطر نیکی کی طرف قدم اٹھانے میں دیر نہ کی جائے.عبادالرحمان کی تیرھویں خصوصیت عبادالرحمان کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی بے نیازی کو سامنے رکھتے ہیں.اور دعا پر بہت زور دیتے ہیں.کیونکہ انہیں اپنے عجز اور انکساری کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشتِ خاک ہیں.وہ کرم خا کی ہیں.جب تک خدا تعالیٰ کی عنایت ور فضل نہ ہو وہ کچھ بھی نہیں ہیں.اس لئے وہ دعاؤں پر بہت زور دینے والے ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا (الفرقان: ۷۸) ترجمہ.(اے رسول ) تو ان سے کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پر واہ ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا اور استغفار نہ ہو پس ( جب کبھی ) تم نے پیغام الہی کو جھٹلا دیا تو (تب) اس کا عذاب ( تم سے ) چمٹا چلا جائے گا.“

Page 151

۳۸ عباد الرحمان کی خصوصیات حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی جان اور اُس کا خلاصہ اور اس کی روح اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف دُعا ہے.مگر دُعا اس امر کا نام نہیں کہ انسان صرف مونہہ سے ایک بات کہہ دے اور سمجھ لے کہ دُعا ہو گئی.دعا اللہ تعالیٰ کے حضور پگھل جانے کا نام ہے دُعا ایک موت اختیار کرنے کا نام ہے.دُعا تذلل اور انکسار کا مجسم نمونہ بن جانے کا نام ہے.جو شخص صرف رسمی طور پر مونہہ سے چند الفاظ دہراتا چلا جاتا ہے اور تذلل اور انکسار کی حالت اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی.جس کا دل اور دماغ اور جس کے جسم کا ہر ذرہ دُعا کے وقت محبت کی بجلیوں سے تھر تھر انہیں رہا ہوتا وہ دُعا سے تمسخر کرتا ہے.وہ اپنا وقت ضائع کر کے خدا تعالیٰ کا غضب مول لیتا ہے.پس ایسی دُعا مت کرو جو تمہارے گلے سے نکل رہی ہو اور تمہارے اندر اس کے مقابل پر کوئی کیفیت پیدا نہ ہو.وہ دعا نہیں بلکہ قہر الہی کو بھڑ کانے کا ایک شیطانی آلہ ہے.جب تم دُعا کرو تو تمہارا ہر ذرہ اللہ تعالیٰ کے جلال کا شاہد ہو.تمہارے دماغ کا ہر گوشہ اس کی قدرتوں کو منعکس کر رہا ہو اور تمہارے دل کی ہر کیفیت اس کی عنایتوں کا لطف اٹھا رہی ہو.تب اور صرف تب ہم دُعا کرنے والے سمجھے جا سکتے ہو.یہ کیفیت پیدا ہونی بظاہر مشکل نظر آتی ہے مگر جس شخص کے ایمان کی بنیاد عشق الہی پر ہو.اس کے لئے اس سے زیادہ آسان اور کوئی شے نہیں بلکہ اُس کی طبیعت کا یہ کیفیت ایک خاصہ بن جاتی ہے اور وہ ہر وقت اس سے لطف اندوز ہورہا ہوتا ہے.ایسے انسان کو یہ ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ الگ جا کر اور مصلے پر بیٹھ کر دُعائیں کرے بلکہ خلوت و جلوت میں دُعا کر رہا ہوتا ہے.اور جب اُس کی زبان پر اور اور کلام جاری ہوتا ہے اور اس کی آنکھوں کے آگے اور اور نظارے پھر رہے ہوتے ہیں.اُسکی رُوح اپنے مالک

Page 152

عباد الرحمان کی خصوصیات وخالق کے عقبہ رحمت پر گری ہوئی اپنے لئے اور ساری دنیا کے لئے طلب گار رحمت ہو رہی ہوتی ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 601) ۳۹

Page 153

تعارف مصنف مکرم اقبال احمد صاحب نجم ۱۹۴۴ء میں قادیان میں پیدا ہوئے.آپ کے بڑے نانا حضرت نعمت اللہ خاں صاحب انور کو بطور محرر مدرسہ احمدیہ میں خدمت کا موقعہ ملا.نیز آپ حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں دارالضیافت اور صدر انجمن احمد یہ میں بھی خدمت بجالاتے رہے.آپ کے نانا حضرت حکیم حشمت اللہ خان صاحب بھی صحابی تھے.اسی طرح نانی جان کے والد صاحب حضرت منشی محمد رحیم الدین صاحب آف حبیب والا ۱۳ ۳ صحابہ میں سے تھے.دادا مکرم با بومحمد بخش صاحب کو وقف بعد ریٹائر منٹ کا موقع ملا.اور آپ کو تادم آخر تقریباً اکیس سال الشركة الاسلامیۃ کے تحت بطور مینیجر ضیاء الاسلام پریس ربوہ میں خدمت کا موقع ملا.آپ نے میٹرک تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ سے کی اور گریجویشن تعلیم الاسلام کالج سے ربوہ سے ۱۹۶۴ء میں کیا اور وقف کر کے جامعہ احمد یہ ربوہ میں داخل ہوئے.۱۹۷۰.اےء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی اور حضرت خلیفہ المسیح الاول کے وطن بھیرہ سے بطور مربی خدمت سلسلہ کا آغاز کیا.کچھ عرصہ بطور مجاہد وطن عزیز کی خدمت کا موقعہ بھی ملا.آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ ایم.اے اسلامیات بھی پاس کیا.بطور مبلغ سلسلہ دوبارسپین میں خدمت کا موقع ملا.مسجد بشارت سین اسی دور میں تعمیر ہوئی جبکہ آپ قرطبہ میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے.لاطینی امریکہ کے ممالک برازیل اور گوائٹے مالا کے مجاہد اول بھی رہے.اسی دور میں مسجد بیت الاول گوائے مالا میں تعمیر ہوئی.جو احمدیت کی پہلی صدی کی آخری مسجد ہے اور لاطینی امریکہ کی پہلی مسجد ہے.جس کا افتتاح حضرت خلیفہ امسیح الرابع " نے جولائی ۱۹۸۹ ء کے آغاز میں بنفس نفیس وہاں تشریف لے جا کر فرمایا.کچھ عرصہ انگلستان میں بھی بطور مبلغ خدمت کا موقع ملا.بطور مربی بھیرہ کے علاوہ ضلع شیخو پورہ ضلع اسلام آباد (ڈی ایف) ، راولپنڈی، مظفر آباد اور لاہور میں قیام کیا اور آج کل جامعہ احمدیہ انگلستان میں خدمات بجا لا رہے ہیں.آپ کو ۱۹۸۲ء میں کتاب راہنمائے سپینش چھپوانے کا موقع ملا جس پر آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” نے جلسہ سالانہ پر مبارک باد دی.۱۹۸۷.۸۸ء میں برازیل میں پرتگالی ترجمہ قرآن کریم تیار کروایا اور اس پر نظر ثانی کی.اور پرتگالی زبان میں علمی لٹریچر پیش کرنے کی توفیق پائی.حال ہی کی میں آپ نے سپینش جانے والے تمام علاقوں کے لئے ایک ترجمۃ القرآن کریم کرنے کی توفیق پائی ہے.

Page 153