Sidqul Masih

Sidqul Masih

صدق المسیح

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات

الٰہی جماعتوں کی مخالفت ایک طبعی امر ہے، حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے مقابل پر کھڑے ہونے والے لوگوں نے دلائل سے عاری ہونے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کی ذات والا صفات، آپ کی تحریرات وغیرہ کو ہدف تنقید بنایا اور معصوم اور سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرتے رہے۔ ایسا ہی ایک فولڈر بانڈی پورہ کشمیر سے مفتی نذیر احمد قاسمی نے ’’مرزا قادیانی کے جھوٹ‘‘ کے عنوان سے تیار کرکے جاری کیا تو جامعہ احمدیہ قادیان کے استاد مکرم باسط رسول ڈار صاحب نے اس مولوی کے جھوٹ کی قلعی اس کتاب کو تیا ر کر کے کھولی ہے۔ مولوی قاسمی سمیت دیگر معاندین کی قلم جولانیاں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لوگ جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے ناواقف محض ہوتے ہیں بلکہ یہ لوگ تو درست اسلامی تعلیم سے بھی ناآشنا معلوم ہوتے ہیں، اور صرف جھوٹ بول کر اپنی کم عقلی کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں یا سستی شہرت کی خواہش انہیں اندھا کرچکی ہوتی ہے، ورنہ جن اعتراضات کی دہرائی کی جارہی ہوتی ہے ان حوالہ جات کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں ان تحریرات کے سیاق و سباق میں ہی جواب موجود ہوتا ہے، یا جماعت احمدیہ کی طرف سے ان اعتراضات کے جوابات تیارکرکے شائع کئے جاچکے ہوتے ہیں جن کے دلائل کی پختگی اور سچائی کا نور ان لوگوں کو مسکت کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ کتاب اولاً 2010ء میں شائع کی گئی تھی۔موجودہ ایڈیشن نظارت نشر و اشاعت قادیان نے سال 2013ء میں دیدہ زیب پرنٹنگ کے ساتھ دوبارہ طبع کروایا ہے۔


Book Content

Page 1

صدق المسيح مرتبہ مولوی باسط رسول صاحب ڈار مدرس جامعہ احمدیہ قادیان

Page 2

نام کتاب : صدق المسيح مولوی باسط رسول ڈار مدرس جامعہ احمدیہ قادیان مرتبه طبع اول حالیہ طباعت تعداد 2010: 2013: 1000: مطبع : فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان ، ضلع گورداسپور ، پنجاب، انڈیا.143516 ISBN: 978-81-7912-270-9 Sidqul Masih By: Basit Rasool Dar Prof.Jamia Ahmadiyya Qadian

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو الہاماً فرمایا: لا نبقى لك من المخزيات شيئاً یعنی ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کا نام و نشان نہیں چھوڑیں گے جن کا ذکر تیری رسوائی کا موجب ہو.( تذکرہ صفحہ 406 مطبوعہ 2006 قادیان) شروع سے ہی معاندین و مخالفین احمدیت کی طرف سے جماعت احمدیہ پر گھسے پٹے اور دل آزار اعتراضات ہوتے رہے ہیں.لیکن مخالفین احمدیت پر افسوس اس بات کا آتا ہے کہ وہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کئے بغیر بلکہ مخالفین احمدیت کی کتب کا ہی مطالعہ کر کے جماعت احمدیہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کتب لکھنے کی گستاخی کرتے ہیں.مخالفین احمدیت کی جس قدر بھی کتب کا مطالعہ کیا جائے ان میں ایک ہی طرح کے اعتراضات دکھائی دیتے ہیں صرف فرق اس قدر ہوتا ہے کہ طرز بیان کچھ مختلف ہوتا ہے.لیکن جماعت احمد یہ ہمیشہ خدمت اسلام بجا لاتے ہوئے اعتراضات کے جواب دیتی رہی ہے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ جوابات اپنے اندر دلائل اور سچائی کا نا قابل رڈ ٹھوس علمی مواد رکھتے ہیں.اس لئے آج تک اُن جوابات کے رد کی استطاعت کسی کو نہیں ملی.مفتی نذیر احمد قاسمی کی طرف سے اس قسم کے اعتراضات پر مشتمل ایک فولڈر بانڈی پورہ کشمیر سے شائع ہوا جس کا عنوان ”مرزا قادیانی کے جھوٹ“ رکھا گیا.اس کو پڑھ کر معلوم

Page 4

ہوتا ہے کہ موصوف جماعت احمدیہ سے تو بالکل واقف نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات سے بھی نابلد لگتے ہیں.ورنہ اس قسم کے جھوٹ بول کر کم عقلی کا ثبوت نہ دیتے.مکرم مولوی باسط رسول ڈار صاحب نے ان کے کذب کی قلعی کھولی ہے اور صدق امسیح “ کے نام سے ایک کتا بچہ مرتب کیا ہے.یہ کتا بچہ 2010 میں پہلی مرتبہ مفتی نذیر احمد کے فولڈر کے جواب میں شائع کیا گیا تھا.اب دوبارہ اس رسالہ کو نظارت نشر واشاعت قادیان شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کو متلاشیان حق کے لئے ھدایت کا ذریعہ بنائے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على ترول الكرعية وعلى عبادة المسيح الموعود ربِّ انفُخُ روح بَرَكَةٍ فِي كَلَامِيْ هَذَا وَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِ.بعد هذا واضح ہو کہ اس رسالہ کے لکھنے کی ضرورت یہ پیش آئی ہے کہ محترم مفتی نذیر احمد قاسمی نے ایک فولڈر ” مرزا قادیانی کے جھوٹ“ کے عنوان سے دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ سے شائع کرایا ہے جسمیں مولوی صاحب موصوف نے حضرت بانی جماعت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی طرف نو عدد جھوٹ منسوب کئے ہیں اور نہایت ہی جھوٹی زبان استعمال کرتے ہوئے لغو اور گھناؤ نے الزامات لگائے ہیں اور احمدیوں کے خلاف معصوم مسلمانوں کو اُکسایا ہے تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بہانے جذبات میں آکر ملک میں فساد برپا کریں.نتیجہ بعض مساجد میں جہاں پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر، تسبیح و تحمید ہونا چاہئے تھا.اسلامی روایات کے خلاف وہاں پر جماعت احمد یہ اور بانی جماعت احمدیہ کو گالیاں دی جاتی ہیں.مفتی صاحب کا یہ غیر اسلامی جہا دلگا تار جاری ہے.ایسے شر پسند علماء کے بارہ میں سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ملاحظہ ہو.فرمایا: "يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ.مَسَاجِدُ هُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِّنَ الْهُدَى عُلَمَاءُ هُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أدِيمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِ هِمْ تَخْرُجُ ( مشکوۃ کتاب العلم صفحہ : ۷۶ ) الْفِتْنَةُ وَفِيْهِمْ تَعُودُ.66 1

Page 6

ترجمہ: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنیوالا ہے کہ جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائیگا اور قرآن کریم کی صرف عبارت باقی رہ جائیگی مسجد میں ان کی بڑی عالیشان اور آباد ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے انہی میں سے فتنے نکلیں گے اور انہی میں واپس لوٹیں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کی روشنی میں امت کے معصومین کو فساد کے لئے اکسانا اور اس گالی گلوچ کا انجام کیا ہو گا اس کا فیصلہ قارئین از خود کریں اسلام کے مشاہیر نے علماء سوء کی اس خستہ حالی کو دیکھ کر اپنے دکھی جذبات کا اظہار اپنی تحریرات میں کیا ہے.چنانچہ ۱۸۷۹ء میں مولانا الطاف حسین حالی اپنے منظوم کلام میں یوں اس حالت زار کا ذکر کرتے ہیں :- رہا دین باقی نہ اسلام باقی * اک اسلام کا رہ گیا نام باقی ایک عالم دین عرب شاعر محمد رضا حبیبی اپنی نہایت فکر انگیز نظم ”روح پیغمبر کے زیر عنوان لکھتے ہیں.اردو ترجمہ پیش ہے:.اگر احمد مجتبی کی روح مبارک عالم بالا سے ہمارے پاس تشریف لے آئے یا ہمیں جھانک کر دیکھ لے تو معلوم نہیں کہ ہمارے متعلق کیا رائے قائم کرے.میرا غالب گمان ہے کہ اگر محمد آج ہمارے پاس تشریف لے آئیں تو آپ کو آج ہماری قوم کے ہاتھوں اسی طرح کے مصائب اور اعراض اور انکار حق کا سامنا کرنا پڑیگا جس طرح آپکو اہل مکہ کا سامنا کرنا پڑا.کیونکہ جس نور حق کو لیکر آپ مبعوث ہوئے تھے اُس سے اسی طرح ہم رُوگردانی اختیار کر چکے ہیں جس طرح قریش نے اُس سے منہ پھیرا تھا.اور گمراہی کے گڑھے میں جا گرے تھے اور پھر آپ یقینا یہ فیصلہ کریں گے کہ لوگ جس ڈگر پر چل رہے 2

Page 7

ہیں یہ میرا بتایا ہوا راستہ نہیں ہے اور آخری زمانہ کے لوگوں نے جس مذہب کا طوق اپنے گلے میں ڈال رکھا ہے وہ میرامذہب نہیں ہوسکتا.ديوان الشبيبي صفحه: ۱۰۷) حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور کے مسلمانوں کے متعلق حدیث شریف میں فرمایا کہ:- لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِزِرْعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوْا جُحْرَ ضَبٌ تَبِعْتُمُوْ هُمْ قُلْنَا يَا رَسُوْلَ اللهِ الْيَهُود وَالنَّصَارِي قَالَ فَمَنْ؟“ (مسلم جلد نمبر ۲ کتاب العلم ومشكوة كتاب الفتن واشراط الساعه ) یعنی اے مسلمانو! تم لوگ پہلی قوموں کے نقش قدم پر چلو گے جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے مشابہ ہوتی ہے اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح تم ان کے نقشِ قدم پر چلو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی ایسا ہی کرو گے (یعنی بُرے کاموں میں غیر شعوری طور سے ان کی پیروی کرو گے ) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ پہلی قوموں کے طریقوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں فرمایا اور کون؟ مسلمانوں کی اصلاح کے لئے آنیوالے مصلح کی پیشگوئی مسیح موعود کے نام سے کرنے میں یہی بھید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے یہود اور نصاریٰ کے مانند ہو جانے پر ان کی اصلاح کے لئے جس مصلح کی آمد کی پیشگوئی فرمائی اس آنیوالے کو مسیح موعود کے نام سے موسوم فرمایا.یعنی جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم یہود میں ان کے بگڑنے کے تیرہ سو سال بعد اللہ تعالیٰ نے یہود کی اصلاح کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تیرہ سو سال 3

Page 8

بعد امت محمدیہ میں بھی ایک مسیح کے مبعوث ہونیکا وعدہ دیا گیا تھا جس نے امت مسلمہ کی اصلاح کرنی تھی جس کا دوسرا نام بمنشاء حدیث مبارك "لَا الْمَهْدِى إِلَّا عِيسَى 66 مہدی بھی رکھا گیا ہے.ظاہر ہونے والے اس موعود کے بارہ میں بارھویں صدی ہجری کے مجد دحضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر صاف طور پر فرمایا: عَلَّمَنِي رَبِي جَلَّ جَلَا لُهُ اَنَّ الْقِيمَةَ قَدِ اقْتَرَبَتْ وَالْمَهْدِيُّ تَهَيُّئًا لِلْخُرُوج.تفهیمات ربّانيه جلد ۲ صفحه: ۱۲۳) یعنی میرے عظمت والے رب نے مجھے بتایا کہ قیامت قریب ہے اور مہدی ظاہر ہونے کو تیار ہے.قارئین کرام ! اللہ تبارک تعالیٰ نے سید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح و مہدی کے منصب پر فائز فرما کر مبعوث فرمایا جیسا کہ الہی نوشتوں سے ظاہر تھا.یہودیوں کے ہم شکل علماء سوء جو اپنے اندر فقیہوں اور فریسیوں کی مشابہت پیدا کر چکے ہیں.خدائی منشاء سے مبعوث ہونے والے امام الزمان کی مخالفت کرتے ہیں.ان کی یہ مخالفت بھی دراصل آپ کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے.چنانچہ حضرت ابوالقاسم جنید بغدادی کیا ہی بچ فرماتے ہیں:.لَا يَبْلُغُ اَحَدٌ دَرَجَ الْحَقِيْقَةِ حَتَّى يَشْهَدَ فِيْهِ أَلْفُ صِدِّيْقٍ بِأَنَّهُ (اليَواقِيْتُ والجواهر جزء ۱ صفحه (۲۵) یعنی کوئی شخص حقیقت کے درجات تک نہیں پہنچ سکتا یہاں تک کہ بڑے زندِ يق.“ بڑے صدیق کہلانے والے ہزار آدمی اُسے کا فرو بے ایمان قرار نہ دیں.پس نبی کی مخالفت اسکے کذب کی نہیں بلکہ صدق کی دلیل ہوتی ہے.اور پھر اسکی کامیابی اسکی سچائی کا واضح نشان بن جاتی ہے.اور ہر عظمند کے لئے عیاں ہو جاتا ہے کہ ہر اسکے مخالف ہی غلط کار تھے.4

Page 9

اسی لئے بزرگان اسلام نے صاف طور پر فرمایا تھا کہ جب امام مہدی مبعوث ہوں گے تو ظاہر پرست علماء ان کی مخالفت کریں گے.چنانچہ شیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:."وَإِذَا خَرَجَ هَذَا الْإِمَامُ الْمَهْدِيُّ فَلَيْسَ لَهُ عَدُوٌّ مُّبِينٌ إِلَّا الْفُقَهَاءُ خَاصَّةَ فَإِنَّهُ لَا يَبْقَى لَهُمْ رِيَاسَةٌ وَلَا تَمِيْزٌ عَن العَامَّةِ.فتوحات مكية جلد ۳ صفحه : ۳۷۴) کہ جب امام مہدی آئیں گے تو اُن کے کھلے دشمن اس زمانے کے علماء و فقہاء ہوں گے کیونکہ ان کی سرداری اور تمیز ختم ہو جائیگی.چنانچہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں اُس زمانہ کے علماء نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے جماعت احمدیہ اور بانی جماعت کا مقابلہ کیا اسکا انجام کیا ہوا.قارئین جماعت اسلامی کے سرگرم رکن مولوی عبد الرحیم صاحب اشرف کے اس اعتراف کو گوش گذار کریں.موصوف لکھتے ہیں :- ”ہمارے واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہو گئی ہے.مرزا صاحب کے مقابلہ پر جن لوگوں نے کام کیا ان میں اکثر تقویٰ تعلق باللہ، دیانت ، خلوص، علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیت رکھتے تھے.جیسے نذیرحسین صاحب دہلوی، مولانا انورشاہ صاحب دیوبندی، مولانا عبدالجبار غزنوی ، مولانا قاضی سلیمان منصور پوری، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر لیکن ہم اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر کی تمام تر کوششوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا.(المبنر لائکیپور ۲۳۰ فروری ۶۵۶) 5

Page 10

---- قارئین کرام ! اب آج کے دور میں مولوی مفتی نذیر احمد قاسمی صاحب اپنے بزرگان کے نقش قدم پر قدم مارتے ہوئے جماعت احمد یہ اور بانی جماعت احمدیہ کی مخالفت میں کمر بستہ ہیں اور ایک کتابچہ مرزا قادیانی کے جھوٹ کے نام سے شائع کرتے ہوئے حضرت محی الدین ابن عربی کے قول پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے.اور جولغو اور جھوٹے الزامات مولوی صاحب موصوف نے اپنے اس کتابچہ میں تحریر کئے ہیں اگر چہ ان کے سابقہ علماء نے جنکو پہاڑوں جیسی شخصیت حاصل تھی انہوں نے بھی ایسے ہی بودہ اعتراضات کئے تھے اور علماء سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اگر چہ ان اعتراضات فرسودہ کا جواب دے بھی دیا ہے اور جماعت کے لٹریچر میں وہ جوابات موجود ہیں.لیکن کسی نے کیا خوب کہا ہے: وو دروغگو را حافظه نباشد اب اس مختصر سی تمہید کے بعد اُن نو عدد جھوٹ کی حقیقت تحریر ہے اس امید کے ساتھ اور دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اسے بہتوں کے لئے ہدایت کا موجب بنائے.آمین.6

Page 11

سوال:: پہلا جھوٹ ”مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرت وہی ایک یتیم لڑکا ہے جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہو گیا." (پیغام صلح صفحه: ۲۷، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه: ۴۶۵ مرزا قادیانی نے کہا کہ آنحضرت کا باپ پیدائش کے بعد فوت ہوا...حالانکہ ہر ایک مسلمان جانتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے.جواب:: الموعود : - سید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے ثبوت میں تحریر ہے کہ آج سے تقریباً چار صدیاں قبل مصر کے مشہور و معروف مورخ اسلام علی بن ابراہیم ۱۰۴۴-۹۷۵ھ نے سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ”سیرت حلبیہ کے نام سے چار جلدوں میں تصنیف فرمائی جس کا ترجمہ مولانا قاسمی استاذ دارالعلوم دیو بند نے کیا ہے اُس میں تحریر ہے کہ:- ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ کی عمر اسوقت دو ماہ ہو چکی تھی اور آپ پالنے میں تھے جب آپکے والد کا انتقال ہوا علامہ سہیلی نے روض الانف میں لکھا ہے کہ اس قول پر اکثر علماء کا اتفاق ہے.(سیرت حلبیہ اردو جلد اول صفحہ: ۷۰ اشائع کردہ کتب خانہ قاسمی دیو بند ) قارئین کرام! حضرت بانی جماعت احمدیہ کی تحریر تو مذکورہ حوالہ کے مطابق ہے آپ ہی فیصلہ کریں اسمیں جھوٹا کون ہے؟ اگر مفتی نذیر احمد قاسمی جھوٹے نہیں ہیں تو پھر کیا

Page 12

نعوذ باللہ مشہور و معروف مورخ اسلام علی بن ابراہیم جھوٹے ہیں جن کے حوالہ سے حضرت مرز اصاحب نے تحریر فرمایا ہے.قارئین فیصلہ کریں.البتہ ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل آپ کے والد کی وفات کا ذکر آتا ہے.پس مفتی نذیر احمد صاحب کو اگر سیرت حلبیہ کا حوالہ معلوم نہ تھا تو یہ اُن کی اپنی کم علمی پر دلالت کرتا ہے نہ کہ حضرت مرزا صاحب کے جھوٹ پر !! 8

Page 13

دوسرا جھوٹ مفتی نذیر احمد قاسمی اپنے فولڈر میں لکھتے ہیں: ”مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ تاریخ دان جانتے ہیں کہ آنحضور کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے اور سب کے سب فوت ہو گئے.(چشمہ معرفت صفحه ۲۸۶ روحانی خزائن جلد ۲۳، صفحہ: ۲۹۹) یہ خالص جھوٹ ہے آج تک کسی ایک مورخ نے کہیں نہیں لکھا کہ آنحضرت کے گیارہ لڑکے پیدا ہوئے مرزا قادیانی کے اس جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ کے متعلق ہر مسلمان کو حق ہے کہ ہر مرزائی سے پوچھے کہ تمہارے مرزا نے یہ کیا لکھا ہے اور کیوں لکھا ہے.“ جواب :: صدق امسیح الموعود : قارئین کرام! حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کی وہ عبارت ذیل میں درج کر رہا ہوں جس پر کور باطن مفتی نے بلا تحقیق بغض و عناد کا اظہار کرتے ہوئے اعتراض کیا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ” آپ ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تو گیارہ بچوں کے فوت ہونے پر بھی صبر کرنے والے ہیں.“ ( ملفوظات جلد ۵ صفحه : ۴۱۹) ظاہر ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے آنحضرت کی مجموعی اولاد صاحبزادے اور صاحبزادیوں کے لئے بچوں کا لفظ استعمال کیا ہے اور تاریخ اسلام سے ایسا ہی ثابت ہے چنانچہ علامہ شبلی نعمانی صاحب اور جناب علامہ سید سلیمان ند اپنی معروف تصنیف سیرۃ النبی حصہ دوم میں تحریر فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کی تعداد میں سخت اختلاف ہے..9

Page 14

اس بارہ میں تمام اقوال جمع کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت کے بارہ (۱۲) اولا دیں تھیں.(سیرۃ النبی حصہ دوم صفحہ: ۲۴۹ شائع کردہ مکتبہ مدیندار دو بازار لاہور ) چنانچہ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ حضور کے ہاں گیارہ لڑکے ہوئے تھے یا نہیں ایک روایت تاریخ الخمیس صفحہ: ۳۰۸ - ۳۰۷ اور مداریج النبوۃ جلد ۲ صفحہ: ۴۷۹ میں بعثت نبوی کے بعد آپ کے ہاں گیارہ لڑکے پیدا ہونے کی بھی آئی ہے اور سیرت حلبیہ جلد ۳ صفحہ ۳۴۷- ۳۴۵ پر ان سب کے نام بھی دئے گئے ہیں.قارئین کرام! جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کی تعداد میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے درمیان سخت اختلاف ہے اور اس پس منظر میں اگر بانی جماعت احمد یہ علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کی تعدا د سلف صالحین کی تحقیق کے مطابق گیارہ تحریر فرمائی ہے تو اس میں جھوٹ کیا ہے.نیز معترض مفتی صاحب نے یہ لکھا ہے کہ آج تک کسی ایک مؤرخ نے کہیں نہیں لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ لڑکے پیدا ہوئے.ان مذکورہ حوالہ جات سے مفتی صاحب موصوف کی کور باطنی اور تعصب کا اندازہ ہوتا ہے.فاعتبرو آیا اولی الابصار قارئین خود غور فرماویں کہ مفتی صاحب نے اگر اسلامیات کا مطالعہ کیا ہوا ہوتا تو اس قسم کی جاہلانہ باتوں سے کاغذ کوسیاہ نہ کرتا.10

Page 15

تیسرا جھوٹ مفتی صاحب اپنے فولڈر میں لکھتے ہیں: ”مرزا قادیانی نے لکھا کہ قرآن شریف میں بلکہ توریت کے بعض صحیفوں میں یہ خبر موجود ہے کہ مسیح موعود کے وقت طاعون پڑیگی.بلکہ مسیح نے انجیل میں خبر دی.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹، صفحه: ۵) قرآن، توریت اور انجیل میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ مسیح موعود یعنی حضرت عیسی کے وقت طاعون آئیگا.(صفحه: ۱۸) جواب:: الموعود : - قارئین کرام ! اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَإِذَا وَقَعَ الْقَولُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةٌ مِّنَ الْأَرْضِ (النمل) تُكَلِّمُهُمْ.یعنی اور جب اُن کی تباہی کی پیشگوئی پوری ہو جائیگی تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک کیڑا نکالیں گے جو اُن کو کاٹے گا.سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "ساعة (قیامت) اس وقت تک نہیں آئے گی جیتک دس علامتیں نہ دیکھی جائیں اُن میں سے الہ خان (دھواں)، الہ جال ( دجال ) الدابہ ( کیڑا) عیسی بن مریم کا ظہور وغیرہ.(صحیح مسلم کتاب الفتن ) تُكلّمُهُمْ کے معنی کاٹنے کے ہی ہیں جیسا کہ لغت کی کتاب منجد میں ہے كَلَّمَهُ تَكْلِيْمًا أَى جَرَحَۂ یعنی اُس نے اُس کو زخم لگایا.گلم...كَلْمًا کے معنی بھی زخم لگانے کے ہیں.حدیث صحیح مسلم میں ہے: 11

Page 16

فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيْسَى وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِم النَّغْفُ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُوْنَ فَرْسَ كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ.(مسلم جلد ۲ کتاب الفتن صفحه ۲۷۷ مصری باب ذکر صفت دجال و ما معه ومسلم شرح نو دی جلد ۲ صفحه ۴۰۲،۴۰۱) یعنی پس خدا کا نبی مسیح موعود اور اُس کے صحابی متوجہ ہونگے اور خدا تعالیٰ اُن کے مخالفوں کی گردنوں میں ایک پھوڑا ( طاعون) ظاہر کریگا.پس وہ صبح کو ایک ایک آدمی کی موت کی طرح ہو جائیں گے.( نغف کے معنی پھوڑا اور طاعون ہے.) ( دیکھو عربی ڈکشنری مصنفہ Lane جلد ۸ صفحه ۲۸۱۸ ضمیمه صفحه: ۳۰۳۶) بحار الانوار میں لکھا ہے: قُدَّامَ الْقَائِمِ مَوْتَانِ مَوْتُ أَحْمَرُ وَمَوْتُ أُبْيَضُ الْمَوْتُ الْأَحْمَرُ الشَّيفُ الشيْفُ وَالْمَوْتُ الْأَبْيَضُ الطَّاعُونُ.( بحارالانوار مصنفہ باقر محمد تقی محمد ایران جلد ۳ صفحه ۱۳۰۱،۱۵۶ھ ) که امام مہدی کی علامت میں ہے کہ اس کے سامنے دو قسم کی موتیں ہونگی.پہلی سرخ موت اور دوسری سفید موت پس سرخ موت تو تلوار ( لڑائی) ہے اور سفید موت طاعون ہے.مندرجہ بالا جواب جو ہم نے قرآن کریم کی آیت النمل : ۸۳ کے مطابق دیا ہے اسکی تائید بحارالانوار کے مندرجہ ذیل حوالہ سے بھی ہوتی ہے: تُم قَالَ ( ابوعبد الله امام حسین) وَقَرَءَ تُكَلِّمُهُمْ مِنَ الْكَلِمِ وَهُوَا الْجُرْحُ 66 وَالْمُرَادُ بِهِ الْوَسْمُ.یعنی امام باقر فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی مندرجہ بالا دابتہ الارض والی آیت کے متعلق حضرت امام حسین نے فرمایا کہ: اس آیت میں تُكَلِّمُهُمْ سے مُراد یہ ہے کہ وہ کیڑا ان کو کاٹے گا اور زخم پہنچائے گا.( بحارالانوار جلد ۱۳ صفحه ۲۳۲، اقتراب الساعۃ صفحه ۱۹۷) 12

Page 17

--- تورات وانجیل میں طاعون کی پیشگوئی مرزا صاحب نے لکھا ہے تو رات اور انجیل زکر یا۱۲/۱۴ پرانا عہد نامہ میں طاعون کی پیشگوئی ہے جھوٹ نہیں ہے.تاریخ انبیا ہو شاہد ہے کہ ہمیشہ سے ہی منکرین و مخالفین نے انبیاء علیہم السلام پر ایسے ہی جاہلانہ حملے کئے ہیں جیسا کہ آج کے کور باطن ملاں اسوقت کے موعود پر کر رہے ہیں.حضرت احمد علیہ السلام نے متی کی انجیل کا حوالہ دیا ہے جو کہ درست ہے.انجیل مطبوعہ ۱۸۵۷ء میں متی ۲۴/ ۸ پر مذکور ہے کہ مسیح کی ایک نشانی مری کا پڑنا بھی ہے لیکن بعد میں عیسائیوں نے اس کی متی ۲۴/ ۸ سے نکال دیا ہے.يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ (نساء ۴۶ ع ۷ ) لیکن اگر تم نے مزید تسلی کرنی ہو تو انجیل لوقا ۱۰/۲۱ پر جو ۱۹۲۸ء میں چھپی ہے اس میں بھی موجود ہے اور لکھا ہے کہ ”جابجا کال اور مری پڑیگی.“ لڑائیاں ہونگی ، بھونچال آئیں گے اور مری پڑیگی ( طاعون ) لوقا ۱/۲۱اوز کر یا ۱۲/۱۴ چنانچہ بائیل انگریزی زکریا ۱۲/۱۴ میں تو لفظہ "Plague" بھی موجود ہے ۱۸۸۲ء میں یہ طاعون بھی پڑی.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے تو رات میں بھی طاعون کی پیشگوئی کا ذکر کیا ہے.لہذا اس کے لئے زکریا ۱۲/۱۴ دیکھو اور انگریزی بائیل مطبوعہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ۱۸۸۵ء صفحہ : ۱۰۰۷ میں تو لفظ Plague بھی موجود ہے.And this shall be the plague where with the lord will smite all the people.(Zakaria 14/12) یعنی یہ پلنگ ہوگی جس سے خدا تعالیٰ کے گھر کے خلاف لڑائی کرنے والوں کی ہلاکت ہوگی.نوٹ: بائیبل کے اس حوالہ میں جو لفظ plague استعمال ہوا ہے اسکا ترجمہ طاعون ہی ہے چنانچہ ملاحظہ ہو انگریزی عربی ڈکشنری موسومه به القاموس العصری انگلیزی عربی مؤلفه 13

Page 18

الياس الطون صفحہ ۲۸۹ جہاں لکھا ہے طاعون Plague یعنی پلیگ کے معنی طاعون ہے.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دابۂ کیڑے کو مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے.حضرت بانی جماعت احمدیہ نے ۱۸۹۰ء میں مسیح موعود ہونے کا اعلان اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا جب عامۃ الناس کو آپ کے اعلان سے آگاہی ہوئی اور ۱۸۹۴ء اور ۱۸۹۵ء میں رمضان کے مہینے میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق چاند اور سورج کو گرہن لگ گیا اور اتمام حجت ہو گیا تو ۱۸۹۶ء کے آخر میں بمبئی سے طاعون کی وباء شروع ہوئی اور ملک کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.سینکڑوں افراد اس عذاب الہی کا شکار ہوئے لیکن جو لوگ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے وعدہ إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّار کے مطابق طاعون سے بچائے گئے.حضرت احمد علیہ السلام نے اپنی جماعت کے افراد کو طاعون کا ٹیکہ لگوانے سے بھی منع فرما دیا تھا باقی لوگوں نے ٹیکہ لگوایا اسکے باوجود مرے اور افراد جماعت اللہ کے فضل و کرم سے محفوظ رہے.قرآن مجید کی اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی بڑی صفائی سے پوری ہوئی اور جہاں تک توریت اور انجیل کا تعلق ہے اسکے حوالہ جات مذکورہ بالا جواب میں دے دئے گئے ہیں البتہ حضرت مسیح موعود کی جو عبارت پیش کی گئی ہے.اسی میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں سیح موعود کے وقت میں طاعون کا پڑنا بائیل کی کتابوں میں زکریا ۱۲/۱۴ انجیل متی ۲۸/ ۸ مکاشفات ۸/۲۲ میں موجود ہے.اسکے بعد قارئین خود فیصلہ فرما دیں کہ اسمیں جھوٹ کہاں ہے اور اگر جھوٹ ہے تو وہ کس نے بولا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- تو نے طاعون کوبھی بھیجا میری نصرت کے لئے * تاوہ پورے ہوں نشان جو ہیں سچائی کا مدار 14

Page 19

66 پڑھا ہے." چوتھا جھوٹ مفتی صاحب مؤلف فولڈر نے اخلاق اور خوف خدا کو بالائے طاق رکھ کر حضرت مرزا صاحب پر یہ بے بنیاد الزام عائد کیا.مفتی صاحب اپنے فولڈر میں لکھتے ہیں: مرزا نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ ”میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی ہے کہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی ایام اصلح در روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۴) حالانکہ وہ با قاعدہ ایک شخص نہیں بلکہ کئی استاذوں سے پڑھا ہے.خود مرزا نے لکھا ہے کہ ”جب میں سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائی اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا.جب میری عمر دس سال کی ہو گئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جنکا نام فضل احمد تھا.پھر سترہ اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا اُن کا نام گل علی شاہ تھا.“ ( کتاب البریه حاشیه صفحه ۱۴۸ تا صفحه ۱۵۰ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۷۹ حاشیه ) ہر دو حوالہ جات تحریر کر کے نتیجہ یہ نکالا ہے: مرزا نے کہا کہ میرا کوئی استاد نہیں جبکہ خود کہہ چکا ہے کہ ایک بزرگ فضل الہی میرے لئے نوکر رکھا تھا تا کہ قرآن شریف پڑھائے جھوٹ بھی ملاحظہ کیجئے اور استاذ بزرگ کونوکر بنانے کا انداز احترام بھی ملاحظہ کیجیئے.جوار صدق امسیح الموعود :.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ نبی کا امی (آن پڑھ ) ہونا 15

Page 20

ضروری ہے کیونکہ اگر وہ کسی سے کوئی علم سیکھ لے تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ وہ استاد سے کم درجہ پر ہے جیسا کہ مولوی مفتی نذیر قاسمی صاحب کا بھی خیال ہے.یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ قرآن کریم اور حدیث صحیح سے اس خیال کی تائید نہیں ہوتی قرآن کریم میں تو صرف نبی کریم کو النبی الامی (سورہ الاعراف: ۱۵۶) کہا گیا ہے.کسی دوسرے نبی کو اُمی ( ان پڑھ ) نہیں کہا گیا گویا یہ حضور پر نور کی ایک خصوصیت ہے جو دوسرے کسی نبی کو حاصل نہیں اگر یہ مان لیا جائے کہ تمام انبیاء ہی اُمی تھے اور صرف اللہ تعالیٰ نے انہیں علم عطا فرمایا تھا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص برتری ختم ہو جاتی ہے.حضور نے خود بھی فرمایا.أَنَا النَّبِيِّ الْأُمِّي“ ( الجامع الصغیر جز اصفحہ ۱۷) کہ میں ہی نبی امی ہوں“ پھر ایسا عقیدہ اور ایسا خیال واقعات کے خلاف بھی ہے.حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بخاری شریف میں آتا ہے: وَشَبَّ الْغُلَامُ وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ.( حدیث بخاری ج ۲ صفحه ۱۴۷ مطبوعہ مصر کتاب بدء الخلق ) یعنی کہ جب حضرت اسماعیل جوان ہوئے تو انہوں نے جرہم قبیلہ کے لوگوں سے عربی سیکھی.سید رشید رضا مفتی مصر اپنی مشہور و معروف کتاب الوحی المہدی میں لکھتے ہیں : ثُمَّ يَرَى النَّاظِرُ أَنَّ سَائِرَ الْأَنْبِيَاءِ الْعَهْدِ القَدِيمِ كَانُوا تَابِعِيْنَ لِلتَّوْرَاةِ مُتَعَبْدِيْنَ بهَا وَإِنَّهُمْ كَانُوا يَتَدَارَ سُوْنَ تَفْسِيْرَهَا فِي مَدَارِسَ خَاصَّةٍ بِهِمْ وَبِأَبْنَا تِهِمْ مَعَ عُلُوْمٍ أُخْرَى فَلا يَصِحُ اَنْ يُذْكَرَ اَحَدٌ مِنْهُمْ مَعَ مُحَمَّدٍ ( صفحه ۶ او صفر ۱۳).یعنی کہ ہر ایک غور کرنے والا سمجھ سکتا ہے کہ تو رات میں ذکر شدہ انبیاء تو رات کے پیرو 16

Page 21

-- اور اس پر عمل کرنے والے تھے اور وہ اسکی تفسیر بھی پڑھتے تھے اور ، اور علوم بھی سیکھتے تھے ایسے سکولوں میں جو خاص ان کے لئے اور ان کے بیٹوں کے لئے بنائے جاتے ہیں پس یہ جائز نہیں کہ ان میں سے کسی کا آنحضرت کے مقابل ذکر کیا جائے.اسمیں سید رشید رضاء نے علی الاعلان کہا ہے کہ دوسرے انبیاء تو سکولوں میں علم سیکھتے رہے مگر آنحضرت نے کبھی کسی سکول میں کوئی علم نہیں سیکھا.تفسیر جامع البیان میں آیت كَذَالِکَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُوَادَكَ.(الفرقان ۳۶۳۲) کے ماتحت لکھا ہے: إِنَّكَ أُمِّي بِخِلَافِ سَائِرِ الْأَنْبِيَاءِ فَإِنَّهُمْ مُتَمَكِّنُوْنَ مِنَ القِرَاةَ وَالْكِتَابَةِ.کہ اے محمد تو امی ہے بخلاف دیگر تمام انبیاء کے کہ وہ پڑھنا اور لکھنا بھی جانتے تھے.ية تفسير جامع البیان شیخ الاسلام الستيد معین بن صفی کی لکھی ہے تفسیر قادری میں لکھا ہے: رسول ایسا چاہیئے کہ جن کی طرف بھیجا گیا ہے.ان سے اصول وفروع دین کا عالم زیادہ ہو جو ان کی طرف لایا ہے اور جو علم اس قبیل سے نہیں اسکی تعلیم امور نبوت کے منافی نہیں اور انتُمْ أَعْلَمُ بِأَمُوْرِ دُنْيَا كُمْ اسکا موید ہے.تفسیر حسینی قادری اردو جلد اصفحه : ۶۳۸) حضرت موسیٰ پر تو رات اکٹھی کیوں اتری؟ اسکے جواب میں علامہ ابن فورک کے قول کے مطابق بعض علماء یہ کہتے ہیں: لِاَنَّهَا نَزَلَتْ عَلَى نَبِيِّ يَكْتُبُ وَيَقْرَأ وَهُوَ مُوْسَى (الاتقان جزء اصفحه ۴۱) کہ وہ ایک ایسے نبی پر اتری تھی جو لکھنا اور پڑھنا جانتا تھا یعنی موسیٰ علیہ السلام پر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود خدا تعالیٰ کے ایک بندے سے کہا: هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا (الكهف آیت: ۶۶) کیا میں تیری پیروی کر سکتا ہوں اس شرط پر کہ تو مجھے وہ رشد و ہدایت سکھائے جو تجھے 17

Page 22

سکھائی گئی ہے.اس پر سوال پیدا ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام تو نبی تھے اور خدا کا وہ بندہ جس.وہ علم سیکھنا چاہتے تھے نبی نہ تھا.وَالنَّبِيُّ لَا يَتَّبِعُ غَيْرَ النَّبِيِّ فِي التَّعْلِيمِ اور نبی جو ہے وہ تعلیم میں غیر نبی کی پیروی نہیں کر سکتا.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کیوں ایسی درخواست کی؟ اسکے جواب میں حضرت امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں: وَهذَا أَيْضًا ضَعِيفٌ کہ یہ کمزور خیال ہے اسکی وجہ لکھتے ہیں لان النَّبِيُّ لَا يَتَّبِعُ غَيْرَ النَّبِيِّ فِى الْعُلُومِ الَّتِي بِاعْتِبَارِهَا صَارَ نَبِيًّا أَمَّا فِي غَيْرِ تِلْكَ الْعُلُوْم فَلَا.66 (التفسير الكبير جزء ۵ صفحه (۵۰) کیونکہ نبی ان علوم میں غیر نبی کی پیروی نہیں کرتا جن علوم کے اعتبار سے وہ نبی بنا ہو لیکن ان کے سوا دوسرے علوم میں ایسا نہیں ہوتا.پھر آگے لکھتے ہیں : يَجُوْزُ أَنْ يَكُوْنَ غَيْرُ النَّبِيِّ فَوْقَ النَّبِيِّ فِي عُلُوْمٍ لَا تَتَوَقَفُ نُبُوَّتُهُ عَلَيْهَا.66 کہ جائز ہے کہ غیر نبی کسی نبی پر ان علوم میں فوقیت رکھتا ہو جن پر اس نبی کی نبوت موقوف نہ ہو.پس اگر کوئی نبی کسی غیر نبی سے ایسا علم سیکھتا ہے جس پر نبوت موقوف نہیں ہوتی تو کوئی حرج نہیں ہے.حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قصہ موسیٰ و خضر کے سلسلے میں فرمایا: قَالَ جِئْتُ لِتُعَلِّمُنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ( بخاری کتاب الانبیاء حدیث الخضر و موسی جلد ۲ مصری ، صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خضر جلد ۲ صفحہ ۲۷ مطبع فضل المطابع دہلی ۱۳۱۹ھ ) 18

Page 23

یعنی حضرت موسیٰ نے خضر سے کہا کہ میں آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں تا کہ آپ مجھے اُس علم میں سے کچھ پڑھا ئیں جو آپ کو دیا گیا ہے.اس حدیث کی شرح میں علامہ نو دی فرماتے ہیں: اسْتَدَلَّ الْعُلَمَاءُ بِسُؤْلِ مُوسَى السَّبِيْلِ إِلَى لِقَاءِ الْخِضَرِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمْ عَلَى اسْتِحْبَابِ الرَّحْلَةِ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ وَاسْتِعْبَابِ الْاسْتَكْثَارِ مِنْهُ وَإِنَّهُ يَسْتَحِبُّ لِلْعَالَمِ وَإِنْ كَانَ مِنَ الْعِلْمِ بِمَحَلَّ عَظِيمٍ اَنْ يَّاخُذَهُ مِمَّنْ هَوَ اَعْلَمُ مِنْهُ وَيَسْعَى إِلَيْهِ فِي تَحْصِيلِهِ وَفِيْهِ فَضِيْلَةُ طَلَبِ الْعِلْمِ ( حاشیہ القودی علی مسلم جلد ۲ صفحه ۲۷۰) یعنی موسیٰ کے خضر کی ملاقات کی درخواست کرنے سے علماء نے اسبات کی دلیل لی ہے کہ طلب علم کے لئے سفر کرنا اور حصول علم کے لئے بار بار درخواست کرنا جائز ہے.نیز یہ کہ اگر چہ کوئی خود کتنا ہی بڑا صاحب علم کیوں نہ ہو پھر بھی اُس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے سے علم حاصل کرے اور حصول علم کی غرض سے کوشش کر کے اسکے پاس جائے نیز اس سے علم کے سیکھنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے.تفسیر بیضاوی میں ہے: وَلَا يُنَافِي نُبُوَّتَهُ وَكَوْنَهُ صَاحِبَ شَرِيعَةٍ أَنْ يَتَعَلَّمَ مِنْ غَيْرِهِ مَالَمْ يَكُنْ شَرْطًا فِي ابواب الدِّيْنِ ( بیضاوی زیر آیت هَلْ أَتَّبِعْكَ صفحه : ۲۸۶ مطبع احمدی و صفحه : ۳۵۸ مطبع مجتبائی ۱۳۲۶ھ ) یعنی حضرت موسیٰ کا کسی غیر سے ایسا علم سیکھنا جو امور دین میں سے نہ ہو اُن کی نبوت اور اُن کے صاحب شریعت ہونے کے منافی نہیں ہے.یعنی نہ صرف نبی بلکہ صاحب شریعت نبی بھی دوسرے علوم میں دوسروں کا شاگرد ہو 19

Page 24

--- سکتا ہے.تفسیر جلالین الکمالین از علامہ جلال الدین السیوطی میں زیر آیت الکہف اے لکھا ہے: فَقَبِلَ مُوْسَى شَرْطَهُ رِعَايَةً لِاَدَبِ الْمُتَعَلَّمَ مَعَهُ الْعَالِمِ.( صفحه: ۲۳۵ مطبوعہ مصر زیر آیت حتی أحدث لك منہ ذکرا) کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خضر کی پیش کردہ شرط اُسی طرح قبول کر لی جس طرح ایک شاگرد اپنے استاد کی شرط کو کمال ادب سے قبول کیا کرتا ہے.نیز پڑھا لکھا ہونا منصب نبوت کے خلاف نہیں ہے.حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کے حالات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پڑھے لکھے تھے لیکن نبی جو کہ سر نبوت کی تفصیل شرح اور علوم باطنی کے سب سے بڑے راز دان تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیم کے سوا کسی غیر کی تعلیم کا منت کش بنانا گوارا نہ فرمایا.”چنانچہ گزشتہ آسمانی کتب میں بھی امی کے لقب کے ساتھ آپکی بشارتیں دی ہیں.(بحوالہ تاریخ القرآن مصنفہ حافظ محمد اسلم صاحب جے راج پوری مکتبہ جامعہ نئی دہلی صفحه ۱۳ ۱۴) حضرت موسیٰ اور حضرت داؤد علیهم السلام پر کتاب جو ایک بار انتری تو وہ لکھتے پڑھتے تھے اور ہمارے حضرت خاتم النبین والہ اجمعین امی تھے.“ النے تفسیر حسینی مترجم اردو جلد ۲ صفحه: ۴۰ از سر آیت و رتلناه ترتیلا الفرقان ۳۲) معزز قارئین! مذکورہ بالا حوالہ جات سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ مفتی صاحب موصوف نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے اپنے جھوٹ اور غلط بیانی سے خود ہی پردہ اُٹھایا.وضاحت کی ضرورت نہیں ہے البتہ حضرت مسیح موعود کے اقتباسات کے اختلافات کی حقیقت بیان کرنا بھی بے سود نہ ہوگا چنانچہ مسیح موعودؓ فرماتے ہیں: 20

Page 25

یہ گمان مت کر کہ قرض ہے واپس ملیگا تجھ کو گمانی ہے معاف سارا ادھار یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اختلافات کے ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ معاند کی رائے پر نہیں حالانکہ جو اختلافات اس نے پیش کئے ہیں ویسے ہی اختلافات عیسائیوں نے قرآن مجید جیسی مقدس الہامی کتاب کے بارہ شائع کئے ہیں کیا مفتی صاحب کے پاس ان اختلافات کا حل ہے.پنڈت دیا نند نے بھی اسی قسم کے بے جا حملہ کئے ہیں وہ لکھتے ہیں: کہیں تو قرآن میں لکھا ہے کہ اونچی آواز سے اپنے پروردگار کو پکار واور کہیں لکھا ہے کہ دھیمی آواز سے خدا کو یاد کر واب کہیئے کون سی بات کچی اور کونسی جھوٹی ہے ایک دوسرے کے متضاد باتیں پاگلوں کی بکواس کی مانند ہوتی (ستیارتھ پرکاش باب ۱۴) ہیں.66 آریہ اور عیسائی مناظرین مباحثات میں عام طور پر اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے کہا کرتے ہیں کہ اگر قرآن میں اختلاف نہیں تو ان آیات کا کیا جواب ہے مثلاً : ایک طرف فرمایا 1.ووجدك ضالا دوسری طرف فرمایا 1.ما ضَلَّ صَاحِبَكُمْ 2 انک لتهدى إلى صراط مستقيم.2 انكَ لا تهدى مَنْ أَحْبَبْتَ.3 لم حَشَرْتَنى اعمى قد كنتُ بصيرا 3 فَبَصَرُكَ اليوم حَدِيد 4 إِذَا ذَكَرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قلو بهم.4.الا بذكر الله تطمئن القلوب 5.ان الذين سَبَقَت لَهُمْ مِنَّا..5 وانَّ مِنكُم إِلَّا واردها كان على الحسنى اولئك عنها مبعدون ربِّكَ حَمَّا مقضيَّا 6.الم يَجِدْكَ يَتِمًا فاوى 6 إما يبلْغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أحدهما أَوْ كِلَهُمَا 21

Page 26

ہمارا ایمان ہے کہ بلاریب قرآن مجید خدا کا کلام ہے اور اس میں زرہ بھر اختلاف نہیں یہ لوگ جو قرآن مجید پر اعتراض کرتے ہیں ان کو ہماری جماعت کی طرف سے کئی مرتبہ جواب دیا جا چکا ہے جو کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں موجود ہے.یہاں اس وقت صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ صرف مخالفین اور مکڈ مین کے کہنے سے ہی کسی الہامی کتاب یا کسی خدا کے نبی کے کلام میں تناقض اور تضاد ثابت ہو جاتا ہے تو اس صورت میں ہمیں سب انبیاء اور آسمانی کتابوں سے انکار کرنا پڑیگا.(معاذ اللہ ) پس ہماری طرف سے سب سے پہلا جواب یہی ہے کہ یہ اعتراض صرف حضرت مسیح موعود پر ہی نہیں کیا گیا.بلکہ خدا تعالیٰ کے راستبازوں صادقوں پر ان کے منکرین کی طرف سے ہمیشہ ہوتے رہے ہیں.مذہبی دنیا کی تاریخ شاہد ہے مخالف نے تو مخالفانہ بات کرنی ہی ہوتی ہے.مخالف کے کہنے سے حقائق بدل نہیں سکتے.مفتی صاحب اگر بغض و عناد کی عینک اتار کر دیکھتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا قرآن کی عبارتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے.پس حقیقتا نہ تو قرآن مجید میں اختلاف ہے اور نہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کی تحریرات میں جہاں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے ایک استاد سے پڑھنے کا ذکر فرمایا وہ قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کا ذکر ہے.جیسا کہ ہر مسلمان والدین اپنے بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کے لئے کوئی نہ کوئی انتظام کرتے ہیں.اسی طرح آپ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم نے اپنے بچوں کے لئے کیا کیونکہ وہ علاقہ کے رئیس تھے اس لئے اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق بعض اشخاص کو ملازم رکھ لیا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپکی والدہ محترمہ نے اُس زمانہ کے رواج کے مطابق رضاعت کے لئے حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپر د کر دیا ( یعنی اُسے ملازم رکھ لیا اور یہ مقصد بھی تھا کہ آپ قبیلہ بنی سعد میں رہ کر اُن کی فصیح زبان بھی سیکھ جائیں گے چنانچہ آپ نے ایک موقعہ پر فرمایا: میں تم سب سے فصیح تر ہوں کیونکہ میں قریش کے خاندان سے ہوں 22

Page 27

اور میری زبان بنی سعد کی زبان ہے.“ (سیرة النبی مؤلف علامہ شبلی نعمانی جلد دوم صفحہ ۱۱) اب جہاں تک آنحضرت کے قرآن مجید اور اُسکے علوم و معارف سیکھنے کا سوال ہے اُسکے بارے میں فرمان الہی ہے ”علمه شدید القوی“ (النجم ) اسے مضبوط طاقتوں والے نے سکھایا ہے اب کجاوہ زبان جو آپ نے بنی سعد میں رہ کر سیکھی اور کجا قرآن مجید کی زبان جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھلائی اور تمام دنیا کو چیلنج دیا اور اگر تم اسبارے میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر اتارا ہے تو فاتوا بسورة من مثله (البقرہ) تو اس جیسی کوئی سورت تولا کے دکھاؤ زمانہ اسکی نظیر لانے سے قاصر رہا.اور قیامت تک رہیگا.اسی طرح جو علوم حضرت بانی جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے سکھلائے وہ کوئی انسان آپ کو سکھلا ہی نہیں سکتا تھا اور اسی وجہ سے آپ نے تحریر فرمایا کہ کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے اور اسی بناء پر آپ نے ساری دُنیا کے علماء کو چیلنج دیا.اگر قرآن کے نکات اور معارف بیان کرنے میں کوئی میرا ہم پلہ ٹھہر 66 سکے تو میں جھوٹا ہوں.“ (اربعین) استاذ بزرگ کو نوکر لکھنے سے مُراد ملازم ہے جیسے آئے دن اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ حکومت کی طرف سے تعلیم یافتہ طلباء کے لئے نوکریوں کے اعلانات نکلتے ہیں اور اسی طرح فیروز اللغات میں نوکر کے معنی ملازم کے ہیں.نیز محترم مفتی موصوف سے گزارش ہے کہ وہ اتنا بڑا ادارہ رحیمیہ کے نام سے چلا رہے ہیں کیا وہ اور اُن کے ہمنو ا ساتھی رحیمیہ میں نوکری کرتے ہیں یا نہیں.اتنا بڑا نام نہاد مفتی اور لفظ نوکر کی وضاحت چاہتے ہیں.افسوس افسوس !! 23

Page 28

پانچواں جھوٹ ”مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئیگا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا.“ ( ضمیمہ براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۵۹) یہی دعوئی مرزا نے دوسری جگہ اس طرح کیا ہے کہ: بہت سے اہل کشف نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر خبر دی تھی کہ وہ مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پر ظہور کریگا.اگر چہ یہ پیشین گوئی قرآن شریف میں اجمالی طور پر پائی جاتی ہے مگر احادیث کی رو سے اسقدر تواتر کو پہنچی ہے کہ جسکا کذب عند العقل ممتنع ہے.(کتاب البریہ برحاشیہ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۰۵) اوپر کی عبارت میں مرزا نے کئی جھوٹ بولے (الف) چودھویں صدی کا مجد دصدی کے سر پر آئیگا یہ احادیث صحیحہ میں ہے.حالانکہ کسی حدیث میں چودھویں صدی کا لفظ ہی نہیں آیا ہے اور نہ یہ مضمون کہیں آیا ہے.(ب) قرآن شریف میں یہ پیشگوئی اجمالی طور پر ہے حالانکہ کسی مفسر نے بھی آج تک کسی ایک آیت میں بھی چودھویں صدی کے مجد داور مسیح موعود کا کوئی تذکرہ نہیں کیا.یہ جھوٹ در جھوٹ سفید جھوٹ ، سیاہ جھوٹ مرزا کے کارنامے ہیں.جواب: صدق مسیح الموعود : - قرآن کریم کی سورۃ جمعہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتوں کا ذکر فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا: 24

Page 29

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ...وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ العَزِيْزُ الْحَكِيمُ.( سورة الجمعة ركوع : ۱) ترجمہ: وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو اُن کو خدا کے احکام سناتا ہے اور اُن کو پاک کرتا ہے اور اُن کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو وہ اس سے پہلے بڑی بھول میں تھے اور اُن سے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اُسکو بھیجے گا جو ابھی تک اُن سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.صحابہ کرام نے جب دریافت کیا کہ یا رسول اللہ یہ آخرین کون ہیں تو مجلس میں حضرت سلمان فارسی موجود تھے حضور نے اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بالقُرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ أَوْ رِجَالٌ مِّنْ فَارِسَ ( بخاری شریف کتاب التفسیر ) و یعنی اگر ایک وقت ایمان ثریا پر بھی چلا جائیگا تو اہل فارس کی نسل میں سے ایک یا ایک سے زیادہ لوگ اسے واپس لے آئیں گے.“ آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ میری دوسری بعثت اُسوقت ہوگی جب ایمان دُنیا سے اُٹھ جائیگا اور مسلمان میری تعلیم سے دور چلے جائیں گے.آخرین میں رسول اکرم کی بعثت سے اشارہ ایک مصلح کے ظہور کی طرف ہے جو رسول کریم کا بروز کامل ہوگا اور اُسکا ظہور اُس وقت ہوگا جب اُمت محمدیہ میں فتنوں کا زور ہوگا اسی بروز کامل وجود کو آنحضرت نے مسیح اور مہدی کے نام سے یاد فرمایا ہے.چنانچہ رسول اکرم فرماتے ہیں: إِذَا تَظَاهَرَتِ الْفِتَنُ وَاَغَادَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا يَبْعَثُ اللَّهُ الْمَهْدِيَّ يَفْتَحُ حُصُوْنَ الضَّلَالَةِ وَقُلُوْبًا غُلْفًا يَقُوْمُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ 25

Page 30

وَيَمْلُا الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا.(ينابيع المودة صفحه ٩٣) فرمایا جب اسلام میں فتنے زوروں پر ہونگے لوگ ایک دوسرے پر حملے کریں گے تب اللہ تعالیٰ امام مہدی کو مبعوث فرمائیگا.جو گمراہی کے قلعوں کو اور بند دلوں کو فتح کر دیگا وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا اور جس طرح زمین ظلم اور جور سے بھری ہوئی تھی اسی طرح وہ اُسے عدل وانصاف سے بھر دیگا.فرمایا: مَهَدِيًّا.يُوْشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَن يَلْقَى عِيْسَى ابْنَ مَرَيْمَ إِمَاماً (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۱۱) یعنی اے مسلمانو! تم میں سے جو زندہ ہو گا وہ عیسی ابن مریم سے اس حال میں ملیگا کہ وہ امام مہدی ہونگے.پھر فرمایا: قِسْطًا.لَيَكُونَنَّ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ فِي أُمَّتِي حَكَمًا عَدْلًا وَإِمَامًا (البدايه والنهاية جلد ا ، صفحه : ۱۶) یعنی عیسی ابن مریم میری اُمت میں حکم عدل اور منصف کے طور پر ظاہر ہوں گے.نیز فرمایا: خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوَّلُهَا وَاخِرُهَا.أَوَّلُهَا فِيْهِمْ رَسُوْلُ اللَّهِ وَاخِرُهَا فِيْهِمْ عِيْسَى ابْن مَرْيَمَ وَبَيْنَ ذَلِكَ فَيْجٌ أَعْوَجُ لَيْسَ مِنْكَ وَلَسْتَ مِنْهُمْ.(الجامع الصغير للسيوطى جلد ٢/١٠) اس اُمت کا پہلا حصّہ اور آخری حصہ بہترین ہے کیونکہ پہلے حصے میں 26

Page 31

رسول اللہ کا وجود ہے اور آخری حصہ میں عیسی بن مریم کا وجود ہوگا اور اُن کے درمیان ٹیڑھے راستے پر چلنے والے لوگ ہوں گے جنکا تجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ تیرا اُن سے کوئی سروکار ہوگا.حضرت ابو جعفر بن محمد سے روایت ہے: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَيْفَ تَهْلِكُ أُمَّةٌ أَنَا اَوَّلُهَا وَ إِثْنَا عَشَرَ مِنْ بَعْدِي مِن السُعَدَاءِ أَوْلِي الْأَلْبَابِ وَالْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ اخِرُهَا.(اکمال الدین صفحه: ۱۵۷) حضرت رسول اکرم نے فرمایا وہ اُمت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں میں ہوں اور میرے بعد ۱۲ نیک اور عقل مند لوگ ہونگے اور آخر 66 میں مسیح ابن مریم ہو نگے.“ قرآن مجید کی سورۃ جمعہ اور مذکورہ بالا احادیث سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ آنحضرت کی دوسری بعثت امام مہدی علیہ السلام کے روپ میں آخری زمانہ میں ہوگی یہ آخری زمانہ کب ہوگا اس بارہ میں مشہور صحابی رسول حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَليهِ وَسَلَّمَ الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِأْتَيْنِ.(ابن ماجہ کتاب الفتن ) حضرت رسول خدا نے فرمایا فتنوں کے ظہور کی علامات دوسوسال بعد رونما ہوں گی.نامور محدث حضرت امام علی قاری رحمتہ علیہ متونی ۰۱۴اھ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں: وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُوْنَ اللَّامُ فِي المِاتَيْنِ لِلْعَهْدِي بَعْدَ الْمَأْتَيْنِ بَعْدَ الْأَلْفِ (مرقاۃ شرح مشکوۃ) وَهُوَ وَقتُ ظُهُورِ المهدِي.یہ بھی ممکن ہے کہ الماً تین میں لام عہد کا ہو ، اور مُراد یہ ہو کہ ہزار سال کے بعد ۲۰۰ سو -------.27 COOOOOOOOOOO

Page 32

سال یعنی ۱۲۰۰ سو سال کے بعد علامات مکمل طور پر ظاہر ہوں گی اور وہی زمانہ مہدی کے ظہور کا ہے.اس حدیث سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ فتنوں کے ظہور کا زمانہ تیرھویں صدی ہے اور ان فتنوں کو دور کرنے والے امام مہدی نے تیرھویں صدی ہجری کے آخر میں ہی ظاہر ہونا تھا.ایک اور روایت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِذَا مَضَتْ أَلْفٌ وَمِائَتَانِ وَأَرْبَعُوْنَ سَنَةً يَبْعَثُ اللهُ الْمَهْدِيَّ.( النجم الثاقب جلد ۲ صفحه: ۲۰۹) کہ جب ۱۲۴۰ سال گزریں گے تب اللہ تعالیٰ امام مہدی کو مبعوث کر دیگا.اس امر کی قرآن مجید سے بھی تائید ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يُدَبِّرُ الْأَمْرُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ.( سورة السجدہ رکوع : ۱) یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین کی طرف تدبیر کریگا یا کرتار ہیگا پھر ایک عرصہ کے بعد وہ دین آسمان کی طرف چڑھ جائیگا جسکی مقدار ہمارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے.سید نا رسول اکرم نے اسلام کی پہلی تین صدیوں کو خیر القرون قرار دیا ہے.یقیناً یہی وہ عرصہ ہے جس کے بعد دین آسمان کی طرف چڑھ جانے والا تھا پھر پورا ایک ہزارسال گزرنے پر ازسرنو تد بیرامر ہونامقد تھی.نیز جن بزرگان امت نے مسیح و مہدی کی آمد کا زمانہ تیرھویں وچودھویں صدی بتایا تھا اُن میں بعض کے نام بطور نمونہ تحریر ہیں: (۱) حضرت ابوقبیل ھانی بن ناصر المصری المتوفی ۱۲۸ھ (۲) نعمت اللہ ولی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ چھٹی صدی ہجری (۳) السید حضرت محمد بن عبد الرسول بن السيد الحسینی البدر في المدني الثاني المتوفى 28 000000

Page 33

--- ۱۱۲۳ھ.(۴) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی المتوفی ۱۷۶ اھ.(۵) حضرت شاہ اسماعیل شہید بالاکوٹ ۱۲۴۶ھ.بانی دیوبند مولا نا محمد قاسم نانوتوی فرماتے ہیں: ایک وقت آئیگا جب امام مہدی علیہ السلام بھی پیدا ہونگے اور اُس وقت جو اُن کی اتباع نہ کرے گا اور امام پہچان کر ان کی پیروی نہ کریگا وہ جاہلیت کی موت مریگا.“ قاسم العلوم معہ ترجمہ انوار النجوم صفحہ :۱۰۰) اُمید ہے کہ اس وضاحت کے بعد احباب بصیرت خود فیصلہ کریں گے کہ مؤلف فولڈر نے سوائے جھوٹ اور غلط بیانی کے کچھ بھی نہیں لکھا.بائیبل کے بیان کے مطابق آخری زمانہ میں آنے والے موعود کا وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے ۱۲۹۰ سال بعد بتایا گیا ہے.ملاحظہ ہو دانیال نبی کی کتاب باب ۱۲ آیت ۹ تا ۱۲ جسمیں لکھا ہے: ائے دانی ایل تو اپنی راہ چلا جا کہ یہ باتیں آخر کے وقت تک سر بمہر رہیں گی اور بہت لوگ پاک کئے جائیں گے اور سفید کئے جائیں گے اور آزمائے جائیں گے لیکن شریر شرارت کریں گے اور شریروں میں سے کوئی نہیں سمجھے گا پر دانشور سمجھیں گے اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائیگی اور بتوں کو تباہ کیا جائیگا ایک ہزار دوسونوے دن ہوں گے.دانیال نبی کی یہ پیشینگوئی آخری زمانہ میں مسیح موعود کی آمد کے وقت کا پتا دیتی ہے اس میں پہلے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت کی دو نشانیاں بتائی گئی ہیں.اول :: دائمی قربانی کا موقوف کیا جانا: - دائمی قربانی کے لئے بائیبل کی رو سے بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ ہر روز صبح و شام ایک ایک برس کے دو بکرے خدا کے سامنے پیش کریں.29

Page 34

(خروج باب ۲۵) یہ دائمی قربانی نئی شریعت کے آنے سے منسوخ ہو سکتی تھی چنانچہ آنحضرت کے ظہور سے یہ بات پوری ہوئی کیونکہ اسلامی شریعت میں ایسی روزانہ اور دائمی قربانی کا کوئی حکم نہیں تھا.دوئم :: دوسری نشانی بتوں کے تباہ کئے جانے کی تھی یہ امر بھی سید نا حضرت رسول کریم کے ذریعہ ظاہر ہوا.حضور نے فتح مکہ کے وقت بیت اللہ شریف میں رکھے ہوئے ۳۶۰ بتوں کو توڑتے ہوئے بآواز بلند فرمایا: قُل جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ( سورہ بنی اسرائیل آیت ۸۲ ع۹) اعلان کرو کہ حق آگیا یعنی خدا کی تو حید قائم ہو گئی باطل بھاگ گیا یعنی بت تباہ ہوئے اور باطل بھاگنے والا ہی ہے.ان ہر دو نشانیوں کے پورا ہونے کے بعد سے ٹھیک ۲۹۰ ادن تک مسیح موعود نے آنا ہے الہامی کتب میں دن سے مُراد سال ہوتے ہیں پس اس پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود کا ظہور تیرہویں صدی ہجری کا آخر بنتا ہے.30

Page 35

چھٹا جھوٹ مفتی صاحب موصوف کا چھٹا بہتان ، لکھتے ہیں: مرزا نے لکھا ہے کہ وہ خلیفہ جسکی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اسکی نسبت آواز آئیگی.اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور رتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے.(شہادۃ القرآن در روحانی خزائن جلد ۶ صفحه: ۳۳۷) مرزا کا یہ دعویٰ کہ بخاری شریف میں ایسی کوئی حدیث ہے یہ سراسر جھوٹ ہے مرزا قادیانی کذاب جہانی کی کذب بیانی ہے ایسی کوئی حدیث نہیں.جواب :: الموعود :- ہو مجھ کو کیا تم سے گلہ ہو کہ مرے دشمن جب یونہی کرتے چلے آئے ہو تم پیروں سے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قرآن کریم سچا کہتا ہے.تم ان کے متعلق کہتے ہو کہ انہوں نے نعوذ باللہ تین جھوٹ بولے گویا تمہارے نزدیک جھوٹ بولنا معیار صداقت ہے پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اگر تم اعتراض کرو تو تم معذور ہو.علامہ سعد الدین تفتازانی یہ ملانحسر و ملا عبد الحکیم ان تینوں نے لکھا ہے کہ حدیث تَكْفُرُ لَكُمُ الْأَحَادِیتُ بَعْدِی بخاری میں ہے حالانکہ یہ حدیث موجودہ بخاری میں نہیں ہے.توضیح شرح تلویح جلد : ۱ صفحه: ۲۶۱) اسی طرح حديث خَيرُ السَّوْدَانِ ثَلَاثَةٌ لُقْمَانُ وَبَلَالُ وَمَهْجَعُ ولَى رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليهِ وَسَلَّمَ رَوَاهُ البُخَارِي فِي صَحِيْحِهِ.عَنْ وَاثِلَةِ ابْنِ 31...

Page 36

الاسْقَعَ بِهِ مَرْفُوْعًا كَذَا ذَكَرَهُ ابْنُ الرَّبِيعُ لَكِنْ قَوْلُ الْبُخَارِي سَهْوُ قَلَم أَمَّا 66 مِنَ النَّاقِل أَوْ مِنَ الْمُصَنَّفِ فَإِنَّ الْحَدِيْتَ لَيْسَ فِي الْبُخَارِيّ.( موضوعات کبیر از مولا نا علی القاری صفحہ ۷س طبع ثانی صفحہ: ۱۳۴۶ھ مطبع مجتبائی دہلی) کہ حدیث سوڈان کے بہترین آدمی تین ہیں یعنی (۱) لقمان (۲) بلال (۳) محبع جو آنحضرت کے غلام تھے.یہ حدیث بخاری میں واثلہ بن الاسقع سے مرفوعاً مروی ہے.حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ علامہ ابن ربیع کا کہنا ہے یہ حدیث بخاری میں ہے یہ یا تو مصنف کا سہو قلم ہے اور یا کاتب کا کیونکہ یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے.معترض مولوی جو هَذَا خَلِيفَةُ اللهِ الْمَهْدِى“.(ابن ماجہ جلد ٢ الكتاب الفتن باب خروج المهدی مطبوعہ ۱۳۶۷ھ ) والی حدیث کے بخاری میں نہ ملنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کا ذب ہونے کا الزام لگاتے ہیں کیا وہ اپنے علامہ سعد الدین تفتازانی ملا و علامہ نسر وملا عبد الحکیم اور علامہ ابن الربیع کو بھی کا ذب کہیں گے؟ امام بیہقی کی کتاب ”الاسماء والصفات“ میں لکھا ہے کہ: كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَامَامُكُمْ مِنكُمْ.( رواه البخاری کہ بخاری میں ہے کہ كَيْفَ انتُمْ إِذَا نَزَلَ...مِنَ السَّمَاء حالانکہ قطعاً بخاری میں من السَّمَاءِ کا لفظ نہیں ہے.هَذَا خَلِيفَةُ اللهِ الْمَهْدِى حضرت مسیح موعود کی کتاب شہادۃ القرآن صفحہ ۴۱/ایڈیشن اول میں جو یہ لکھا ہے کہ یہ حدیث بخاری میں ہے.اس کے متعلق بھی ہم وہی جواب دیتے ہیں جو حضرت ملا علی قاری نے امام ابن الربیع کی طرف سے دیا تھا.وَلَكِنْ قُولُ الْبُخَارِي سَهْوُ قَلَم أَمَّا مِنَّ النَّاقِلِ أَوْ مِنَ المصنِّف.( موضوعات کبیر صفحه: ۳۷) کہ یہ قول کہ ہر حدیث بخاری میں ہے یا تو سہو کتابت ہے یا سبقت قلم مصنف ورنہ 32 000000

Page 37

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں صاف طور پر فرما دیا ہے.” اور میں کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں اسی وجہ سے امامین حدیث بخاری و مسلم نے ان کو نہیں لیا.(ازالہ اوہام صفحہ ۵۶۸ ایڈیشن اول حصہ دوم ) چنانچہ تاہم نبی کو سہو اور نسیان سے پاک نہیں مانتے.قرآن میں ہے فَنَسِی (طہ: ۱۱۶) کہ آدم بھول گیا.پھر حضرت موسیٰ کے متعلق نَسِيَا حُوْتَهُما (الکہف:۶۲) کہ وہ مچھلی بھول گئے اور آگے لکھا ہے کہ شیطان نے انہیں بھلا دیا.خود آنحضرت نے فرمایا ہے.إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف) نيز أُصِيبُ وأُخْطِيُّ (نبراس شرح الشرح العقائد نسفی صفحہ ۳۹۳) کہ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں بعض دفعہ خطا کرتا ہوں.بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عشاء یا عصر کی نماز پڑھائی اور دورکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیا اور پھر یاد دلانے پر چھوڑی ہوئی دور کعتیں پڑھیں اور بعد میں سجدہ سہو کیا تفصیل کے لئے دیکھیں: بخارى كتاب الصلوة باب فى السجدة السهو جلد ۱ صفحه ۱۴۱ باب تَشْبِيْك الأصابع في المسجد جلد ۱ صفحه ۶۴ مصری نیز دیکهو صحیح مسلم كتاب الصلوة باب السهو الصلوة والسجودله جلد ۱ صفحه ۲۱۵ مصری.اب کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول لم أَنسَ وَلَمْ تُقْصَرْ کوکوئی جھوٹ قرار دے سکتا ہے ہرگز ہر گز نہیں.گویا بخاری و مسلم میں مہدی کے متعلق احادیث ہیں اور ظاہر ہے ك هَذَا خَلِيْفَةُ اللهِ الْمَهْدِى آسمان سے آواز آنا کہ یہ خدا کا خلیفہ مہدی ہے.بہر حال مہدی کے متعلق ہے پس حضرت مسیح موعود کے اپنے صاف بیان کے مطابق یہ حدیث بخاری میں نہیں.ہاں یہ حدیث اسی طرح صحیح ہے جس طرح بخاری کی دوسری احادیث کیونکہ :.كَذَا ذَكَرَهُ السَّيُوطِيُّ وَفِي الزَّوائِدِ هَذَا أَسْنَادٌ صَحِيْحٌ.رِجَالُهُ ثِقَاتْ 33

Page 38

-- و وَرَواهِ الْعَالِمُ فِي الْمُسْتَدْرِكِ وَ قَالَ صَحِيْحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.“ ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المهدی جلد ۲ صفحه ۲۶۹ حاشیه مطبوعه مصر) کہ حدیث هَذَا خَلِيفَةُ اللهِ الْمَهْدِى “ کو امام سیوطی نے بھی ذکر کیا ہے اور زوائد میں ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اسکے راوی ثقہ ہیں اسکوامام حاکم نے مستدرک کتاب التواريخ باب تذكرة الانبياء هبوط عيسى و اشاعۃ الاسلام“ میں درج کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق بھی صحیح ہے نیز یہ حدیث ابوالنعیم اور تلخیص المُتَشَابِه حَبَحُ الكرمة بھلاتم لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جھوٹ بولنے کا الزام لگا سکتے ہو جو حضرت ابراہیم جنکو تم بھی نبی مانتے ہو اور جن کے متعلق قرآن مجید میں ہے صِدِّيقًا نَّبِيًّا ( سورۃ مریم: ۴۲) کہ وہ سچ بولنے والے نبی تھے.مگر تم اُن کے متعلق بھی یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تین جھوٹ بولے.بخاری میں ہے: - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيْمُ إِلَّا ثَلَاثًا...ايضًا عن ابي هريرة.....لَمْ يَكْذِب إِبْرَاهِيمُ عليه السلام إِلَّا ثَلاثَ كَذِبَاتٍ.“ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم نے کبھی جھوٹ نہ بولا مگر تین جھوٹ : (۱) مشکوۃ مطبع نظامی صفحہ ۴۲۱ و ذکر الانبیاءعلیہم السلام پہلی فصل.(۲) نیز مسلم جلد ۲ صفحه ۲۲۵ کتاب الفضائل باب فضل ابراہیم خلیل اللہ مطبوعہ مطبعة العامرة.(۳) بخاری کتاب بدء الخلق باب قول الله تعالى و اتخذو الله ابراهيم خليلاً جلد ۲ صفحه ۱۴۹ مطبوعه مطبع الهيه.(۴) ترمذی کتاب التفسیر سورۃ الانبیاء جلد ۲ صفحہ ۴۶ امجتبائی وصفحه ۶۳ مطبع احمدی.(۵) بخاری کتاب التفسير سورة بنى اسرائيل باب زربة من حملنا 34

Page 39

معه نوح (سورة مريم (۵۸) جلد ۲ صفحه ۹۳ مصری.مذکورہ بالا وہ کتب احادیث کے حوالہ جات میں جن میں اللہ کے پیارے اور بچے اور ابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا گیا ہے اور ایک طرف تو الزام لگاتے ہیں اور دوسری طرف سچا نبی بھی تسلیم کرتے ہیں.قارئین کرام ! هَذَا خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِینی بغیر کسی شک کے حدیث ہے اور صحیح حدیث ہے اور صحاح ستہ ہی کی ایک کتاب سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المھدی میں موجود ہے اور اسکے بارے میں حاکم نے مستدرک میں فرمایا ہے کہ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے جسکی تفصیل گزشتہ اوراق میں آئی ہے.آسمان سے آواز آنے سے مُراد یہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں مذکور پیشگوئیوں کے مطابق چاند گرہن سورج گرہن اور دوسرے متعدد آسمانی نشانات ظاہر ہوئے گویا وہ صداقت مسیح و مہدی کے بارے میں آواز دے رہے تھے.اور اعلان کر رہے تھے.چنانچہ حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ قیامت نامہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: بیعت کے وقت آسمان سے ان الفاظ میں آواز آئیگی کہ یہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہے اسکی بات غور سے سنو اور اسکی اطاعت کرو اور یہ آواز اس جگہ کے تمام خاص و عام سنیں گے.( ترجمه قیامت نامه صفحه : ۴) حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: وقت تھا وقت مسیحانہ کسی اور کا میں نه آتا تو کوئی اور وقت ہی آیا ہوتا اسْمَعُوا صوت السَّمَاء جاء المسيح جَاءَ المسيح نیز پشتو از زمیں آمد امام کامگار 35 ( حضرت مسیح موعود )

Page 40

ساتواں جھوٹ مفتی صاحب موصوف کا ساتواں بہتان، لکھتے ہیں: مرزا نے لکھا ہے کہ ہمارے نبی آنے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا مگر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ مکتبوں میں بیٹھتے تھے.اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک یہودی استاذ سے تمام توریت پڑھی تھی.ایام اصلح در روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۴) مرزا نے یہ صریح جھوٹ لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ و عیسی علیھما السلام مکتبوں میں بیٹھے تھے اور کسی کی شاگردی اختیار کی تھی یہ انبیاء علیھم السلام پر کھلا ہوا بہتان ہے.نبی کسی انسان کا شاگرد نہیں ہوتا نہ اُسکا کوئی استاد ہوتا ہے.نہ وہ مکتب میں جاتا ہے اور نہ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کسی یہودی سے توریت پڑھی ہے.جواب: صدق امسیح الموعود : - قارئین کرام ! مولوی صاحب نے جھوٹ بولنے کی حد کر دی ہے ایک ہی جھوٹ کو بار بارد ہراتا ہے یہی سوال مفتی موصوف نے اپنے جھوٹ نمبر۴ میں لکھا ہے.جس کا جواب تفصیل کے ساتھ سوال نمبر ۴ میں دیا گیا ہے.لیکن صرف ایک دو باتیں قارئین کے لئے تحریر کی جاتی ہیں تا کہ مفتی موصوف کا جھوٹ قارئین کرام پر عیاں ہو.قارئین کرام ! اگر یہ مان لیا جائے کہ تمام انبیاء ہی امی تھے اور صرف اللہ تعالیٰ نے انہیں علم عطا فرمایا تھا جیسا کہ مولوی معترض کا عقیدہ ہے تو پھر آنحضرت کی خاص برتری ختم ہو جاتی ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا: انا النَّبِيُّ الْأُمّى ( الجامع الصغير جزءا، صفحہ ۱۰۷) کہ میں ہی نبی امی ہوں“ رسول کریم فرماتے ہیں کہ صرف میں ہی نبی اُمّی ہوں بخلاف دیگر تمام انبیاء کے کہ وہ 36

Page 41

پڑھنا بھی اور لکھنا بھی جانتے تھے.جیسا کہ شیخ الاسلام السید معین بن صفی اپنی کتاب تفسیر جامع البیان میں آیت : كَذَالِكَ لِنُثَبِّتُ بِهِ فُوَادَكَ (الفرقان: ۳۲) کے ماتحت لکھا ہے: إِنَّكَ أُمِّي بِخِلَافِ سَائِرِ الْأَنْبِيَاءِ فَإِنَّهُمْ مُتَمَكِّنُوْنَ مِنَ الْقِراءةِ وَالْكِتَابَةِ.“ کہ اے محمد تو امی ہے بخلاف دیگر انبیاء کے کہ وہ پڑھنا بھی اور لکھنا بھی جانتے تھے.مفتی صاحب جواب دیں کہ کیا شیخ الاسلام جھوٹ بول رہے کہ رسول کریم کے علاوہ تمام انبیاء لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے لیکن ان کو اس سے کیا.موصوف نے تو جھوٹ بولنے کی قسم جو کھائی ہے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام سلف صالحین کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء پر برتری ثابت کر رہے ہیں لیکن مفتی صاحب ہیں جو مرزا صاحب کی دشمنی میں اندھے ہو کر ہمارے آقا ومطاع حضرت خاتم الانبیاءمحمد مصطفی کی ذات پر حملے کرتے چلے جارہے ہیں.مفتی صاحب موصوف کا اس میں کوئی ذاتی مقصد نہیں ہے.موصوف تو بغض و عناد میں اندھے ہو کر اپنے مقتداء رشید احمد گنگوہی کی پیروی کرتے ہیں.ذرا سنئے کہ رشید احمد گنگوہی ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہتے ہیں: ”نماز کے دوران میں زنا کے وسوسے سے اپنی بیوی کی مجامعت کا خیال بہتر ہے اور شیخ یا اُسی جیسے اور بزرگوں کی طرف خواہ رسالت مآب ہی ہوں اپنی ہمت کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے زیادہ بُرا ہے.“ (صراط مستقیم صفحہ ۸۶ تا ۸۹ مترجم اردو بار دوم مطبوعہ جبید پریس دہلی مصنفہ مولانا محمد اسماعیل شہید دہلوی) قارئین کرام یہ وہی رشید احمد گنگوہی ہے جنکی وفات پر ایک مرثیہ میں انہیں بانی اسلام 37

Page 42

--- کہا گیا ہے.زبان پر اھل اھواء ہو کیوں اعل ھبل شاید اٹھا عالم سے کوئی بانی اسلام کا ثانی حوائج دین و دنیا کی کہاں لے جائیں ہم پیارے گیاوہ قبلہ حاجات روحانی و جسمانی مردوں کو زندہ کیا زندوں کو مرنے نہ دیا اس مسیحائی کو دیکھیں زری ابن مریم بھرے تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوں کا راستہ جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے ذوق وشوق عرفانی مرثیہ رشید احمدگنگوہی محمود الحسن صدر مدرس دیو بند ) حقیقت پسند سید رشید رضا مفتی مصر اپنی مشہور کتاب الوحی الحمد ی“ میں لکھتے ہیں: ثُمَّ يَرَى النَّاظِرُ أَنَّ سَائِرَا الأنبياءِ الْعَهْدِ الْقِدِيْمِ كَانُوا تَابِئِعِيْنَ لِلتَّوْرَاةِ مُتَعَبدِيْنَ بِهَا وإِنَّهُمْ كَانُوا يَتَدَارُ سُوْنَ تَفْسِيْرُهَا فِي مَدَارِسَ خَاصَّةٍ بِهِمُ وَبِأَبْنَائِهِمْ مَعَه عُلُوْمٍ أُخْرَى فَلَا يَصِحُ أَنْ يَذْكَرَ اَحَدٌ (دیکھئے صفحہ ۱۳۱۶) مِنْهُمْ مَعَ مُحَمَّدِه کہ ہر ایک غور کرنے والا سمجھ سکتا ہے کہ تو رات میں ذکر شدہ انبیاء تو رات کے پیرو اور اس پر عمل کرنے والے تھے اور وہ اسکی تفسیر بھی پڑھتے تھے اور علوم بھی سیکھتے تھے اسے سکولوں میں جو خاص ان کے لئے اور ان کے بیٹوں کے لئے بنائے جاتے تھے پس یہ جائز نہیں کہ ان میں سے کسی کو آنحضرت کے مقابل ذکر کیا جائے.ان حوالہ جات سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء نے کسی نہ کسی کی شاگردی اختیار کی ہے اور 38

Page 43

حضرت موسیٰ اور خضر کا واقعہ بھی مشہور ہے جسکا ذکر بخاری میں بھی تفصیل کے ساتھ آیا ہے.که موسی نے خضر کی شاگردی اختیار کی.حضرت عیسی کی شاگردی اختیار کرنے کے بارے میں سید نا محمد مصطفیٰ کا فرمان ہے حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان عسى ارسلت امه ليتعلم.قصص الانبیاء صفحه ۲۳۹ مؤلف علامہ محمد بن ابراہیم شبلی مطبوعہ مطبع حجاز قاہرہ مصر ) کہ عیسی علیہ السلام کوانکی ماں نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے کسی عالم کے پاس بھیجا.بیسویں صدی کے شہرہ آفاق عرب سکالر جناب عباس محمود عقاد نے اپنی کتاب حیاۃ اسیح التاريخ وكشوف العصر الحاضر الحديث الناشر دار الكتاب العربی بیروت لبنان) نے بڑی تحقیق کے بعد تحریر فرمایا: والقول الراجح بين المورخين ان معلمى السيد المسيح (صفحه : ۵۲) في صباة كانوا من طائفة الفريسيين.یعنی مورخین کے نزدیک جس قول کو سب سے زیادہ ترجیح حاصل ہے وہ یہ ہے کہ فریسیوں کا گروہ مسیح علیہ السلام کو بچپن میں پڑھاتا تھا.قارئین کرام! قرآن مجید کی تفاسیر حدیث شریف تاریخی حوالہ سے ثابت ہے کہ موسیٰ نے خضر علیہ السلام سے علم حاصل کیا اور عیسی علیہ السلام نے فریسیوں سے علم حاصل کیا مگر ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی روحانی علوم کسی انسان سے حاصل نہیں کئے بلکہ براہِ راست اللہ تعالیٰ سے حاصل کئے.یہی آپ کی شان حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے تحریر فرمائی ہے.اب آپ ہی فیصلہ فرما دیں کہ اس میں جھوٹ کیا ہے اور اگر کسی نے جھوٹ بولا ہے تو کس نے جھوٹ اور کذب بیانی سے کام لیا ہے؟ 39

Page 44

آٹھواں جھوٹ مفتی صاحب موصوف کا آٹھواں بہتان کہ مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ: قادیان.تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کئے گئے مکہ، مدینہ (ازالہ اوہام در روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۰ حاشیه ) قرآن مجید پڑھنے والا ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآن مجید میں کہیں قادیان کا لفظ نہیں ہے اور عام وہ مسلمان جو قرآن مجید پڑھا ہوا نہیں ہے اس نے بھی کبھی تصور تک نہ کیا ہوگا که قادیان کا لفظ قرآن مجید میں ہوگا.دراصل مرزا قادیانی کا یہ جھوٹ تنہا اتنا بڑا جھوٹ ہے پوری اسلامی بلکہ انسانی تاریخ میں ایسا صریح جھوٹ کوئی بھی نہ بولا ہوگا.بلا شبہ ہر مسلمان کو یہ حق ہے بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ مرزائیت کے شیطانی قلعہ پر سنگ باری کرتے ہوئے اس صریح جھوٹ کا خوب خوب اعلان کرے.جواب: صدق المسیح الموعود : - مفتی صاحب موصوف کے اس جاہلانہ بہتان کا جواب: واہ رے جوش جہالت خوب دکھلائی ہے رنگ جھوٹ کی تائید میں حملے کریں دیوانہ وار ( حضرت مسیح موعود ) دشمنی ایک ایسا زہر ہے جس سے عقل انصاف خوف خدا زائل ہوتا ہے اور مفتی صاحب بھی اسی کا شکار ہوئے ہیں.جس کتاب سے مفتی صاحب نے صرف نصف فقرہ لے کر لوگوں کو دھوکہ دینا چاہا ہے.وہاں پر صاف لکھا ہے کہ یہ کشفی حالت ہے اور خواب کو 40

Page 45

ظاہر پر محمول کرنا پرلے درجے کی سفاہت اور نادانی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کی یہ عظیم دلیل ہے.کہ آپ نے خواب میں جو دیکھا اسی کو بیان فرمایا.کیا خواب میں قادیان کا نام قرآن میں دیکھنے سے ” کذب پروری“ ہے اگر ہے تو ذرا بتلائیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ انہیں سورج اور چاند اور گیارہ ستارے سجدہ کر رہے ہیں کیا اسکو ظاہر پر محمول کیا جاتا ہے.اور حضرت یوسف کو جھوٹا قرار دیا جاتا ہے.کہ تمہیں سورج اور چاند کیونکر سجدہ کر سکتے تھے.پھر حضرت رسول کریم نے بحالت کشف سونے کے کنگن اپنے ہاتھوں میں دیکھے تو کیا آپ نے واقعی سونا پہن لیا تھا اور یوں شریعت اسلامیہ کے خلاف عمل کر لیا تھا.اور آپ نے جنگ احد کے شہداء کو گائیوں کی شکل میں دیکھا ( مسلم باب الرویاء) کیا وہ واقعی گائیں ہو گئے ہرگز نہیں.الغرض مفتی صاحب نے کشف کو ظاہر پرمحمول کر کے اعتراض کرنے سے اپنی ایمانداری کا جنازہ نکال دیا ہے.خواب کو ظاہر پر چسپاں کر کے مفتی صاحب موصوف نے ایمانداری کی دھجیاں اڑادی ہیں.مولوی نذیر قاسمی صاحب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا کا وعدہ ہے کہ إِنِّي مُهِيْنٌ مَنْ أَرَادَ إِهَا نَتَكَ “ کہ جو شخص تجھے رسوا کرنا چاہتا ہے میں اسکو خود رسوا کرونگا اور جو تیری طرف جھوٹ منسوب کریگا وہ خود جھوٹا ثابت ہو جائیگا اب دیکھ لے کہ اس خدا کے مقدس نبی پر تو نے جھوٹ کا الزام لگایا اور تیرا دعویٰ اور تیرا یقین اور تیری بصیرت قارئین کرام پر ظاہر ہوگئی.اور سب سے بڑا جھوٹا کون ہے واضح ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کشف کے متعلق ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں: و کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر میرے قریب بیٹھ کر آواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ ”انا انزلناه قريبًا من القاديان“ تو 41

Page 46

میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے.تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھولکھا ہوا ہے.تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شائد قریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے.تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ وہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے.مکہ اور مدینہ اور قادیان یہ کشف تھا جو کئی سال ہوئے کہ مجھے دکھلایا گیا تھا.اور اس کشف میں جو میں نے اپنے بھائی صاحب مرحوم کو جو کئی سال سے وفات پاچکے ہیں.قرآن شریف پڑھتے دیکھا اور اس الہامی فقرہ کو ان کی زبانی قرآن شریف میں پڑھتے سنا تو اُسمیں یہ بھید مخفی ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے میرے پر کھول دیا کہ ان کے نام سے اس کشف کی تعبیر کو بہت کچھ تعلق ہے.یعنی اُن کے نام میں جو قادر کا لفظ آتا ہے اس لفظ کو کشفی طور پر پیش کر کے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ قادر مطلق کا کام ہے اس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیئے.اُسکے عجائبات قدرت اسی طرح پر ہمیشہ ظہور فرما ہوتے ہیں.کہ وہ غریبوں اور حقیروں کو عزت بخشتا ہے.بڑے بڑے معززوں اور بلند مرتبہ لوگوں کو خاک میں ملا دیتا ہے.بڑے بڑے علماء و فضلاء اُسکے آستانہ فیض سے بکلی بے نصیب اور محروم رہ جاتے ہیں.اور ایک ذلیل حقیر انپڑھ جاہل نالائق منتخب ہو کر مقبولین کی جماعت میں داخل کر لیا جاتا ہے.ہمیشہ سے اُسکی کچھ ایسی ہی عادت ہے اور قدیم سے وہ ایسا ہی کرتا چلا آیا ہے.” ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء.(ازالہ اوہام صفحہ ۳۲ طبع سوم ) اس اقتباس نے مولوی نذیر حسین قاسمی کی چال بازی ظاہر کر دی ہے کہ انہوں نے 42

Page 47

محض دھوکہ دینے کی غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کا صرف نصف فقر نقل کر کے عام انسانوں کو دھوکہ دینے کی ناپاک کوشش کی ہے.اُسکی بطالت واضح ہے اور قارئین کرام کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ لوگ محض دھوکا بازی سے کام لے کر حضور علیہ السلام پر جھوٹ کے الزام لگانے کی کوشش کرتے ہیں.اور دراصل خود دروغ گو ہیں.(فلعنة الله على الكاذبين) 43

Page 48

نو واں جھوٹ مفتی صاحب کا نواں بہتان لکھتے ہیں کہ مرزا قادیانی نے لکھا ہے ” تمام نبیوں کی کتابوں اور ایسا ہی قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لیکر آخر تک دنیا کی عمر سات ہزار سال رکھی ہے.(لیکچر سیالکوٹ در روحانی خزائن جلد ۲ صفحه: ۲۰۷) پھر آگے مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ مرزا نے یہی قول کا ذب دوسری جگہ یوں لکھا ہے کہ اور قرآن شریف سے بھی صاف طور پر یہی نکلتا ہے کہ آدم سے آخیر تک عُمر بنی آدم سات ہزارسال ہے اور ایسا ہی پہلی تمام کتابیں باتفاق یہی کہتی ہیں.لیکچر سیالکوٹ در روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۰۹) قرآن مجید اور تمام سابقہ کتابوں میں ایسا کہیں نہیں ہے یہ بالکل جھوٹ اور صریح جھوٹ ہے.جواب :: صدق امسیح الموعود : - اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: تَعْرُجُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوْحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارَهُ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةِ.(سورة المعارج: ۸-۷۰) یعنی فرشتے اور روح اسکی طرف ایک ایسے دن میں صعود کرتے ہیں.جسکی گنتی پچاس ہزار سال ہے.یہاں جس بلندی کا ذکر فرمایا گیا ہے اس پر ایک ایسی سائینسی شہادت ملتی ہے جسکا اس سورت میں حسنین اَلْفَ سَنَةٍ والی آیت میں ذکر ہے کہ فرشتے اسکی طرف پچاس ہزارسال میں عروج کرتے ہیں اب پچاس ہزار سال میں عروج کرنے کے دو معنے ہو سکتے ہیں.44

Page 49

اوّل ظاہراً پچاس ہزار سال اگر یہ معنی لئے جائیں تو اسمیں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا میں پچاس ہزار سال بعد موسمی تبدیلی واقع ہوتی ہے کہ ساری زمین برفانی تو دوں سے ڈھک جاتی ہے اور پھر از سرنو تخلیق کا آغاز ہوتا ہے.دوسرے یہ قابل توجہ بات ہے کہ یہاں مِمَّا تَعُدُون نہیں فرمایا قرآن کریم کی ایک دوسری آیت جس میں ایک ہزار سال کا ذکر ہے وہ اسکے ساتھ ملا کر پڑھی جائے تو مطلب یہ بنے گا کہ جو تم لوگوں کی گنتی ہے اسکے اگر ایک ہزار سال شمار کئے جائیں تو اللہ تعالیٰ کا ہر دن اس ایک ہزار سال کے برابر ہوگا اور اگر ہر دن کو سال کے دنوں سے ضرب دی جائے تو پھر اس کو پچاس ہزار کے دنوں سے ضرب دی جائے تو جو اعداد بنتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے دنوں کی مدت کی تعیین کرتے ہیں پس اس حساب سے اگر پچاس ہزار سال سے جو اللہ تعالیٰ کے دن ہیں اُسے ضرب دی جائے تو اٹھارہ سے بیس پلین سال بن جائیں گے جو سائینسدانوں کے نزدیک کائنات کی عمر ہے.18,25,00,00,000 = 365 x 50,000 × 1,000 یعنی ہر کائنات اس عمر کو پہنچ کر پھر عدم میں ڈوب جاتی ہے اور اسکے بعد پھر عدم سے وجود میں آتی ہے.نیز فرمایا: وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (سورة الحج : ۸-۲۲) یعنی اور وہ تجھ سے جلد تر عذاب مانگتے ہیں جبکہ اللہ ہر گز اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کریگا اور یقیناً تیرے رب کے پاس ایسا بھی دن ہے جو اس شمار کے مطابق جو تم کرتے ہو ایک ہزار برس کا ہے.اب جہاں تک دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے یہ استنباط تورات کی کتاب پیدائش 45

Page 50

باب نمبر ایک اور نمبر ۲ کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے اس میں مذکور ہے: کہ یہ کائنات چھ دن میں معرض وجود میں آئی اور ساتویں دن کے بارے میں لکھا ہے کہ خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا.( پیدائش ۳-۲) اور اس مؤقف پر تمام نبیوں کو اتفاق ہے.“ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: دوسری حدیثوں سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمر دنیا کی سات ہزار سال ہے اور قرآن شریف کی آیت سے بھی یہی مفہوم نکلتا ہے ( جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان يوم عندربك كالف سنة ممّا تُعُدُون.(الج: ۴۸) یعنی ایک دن خدا کے نزدیک تمہارے ہزار سال کے برابر ہے پس جبکہ خدا تعالیٰ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دن سات ہیں پس اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے.چنانچہ کنز العمال میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے الدُّنيا جمعة من جمع الاخرة سبعة الاف سنة کتاب خلق العالم جلد ۶ صفحه ۶۱ اروایت نمبر ۱۵۲۲۲) یعنی دنیا جمعہ ہے اور آخری جمعہ کے سات ہزار سال ہیں.ایک دوسری روایت میں ہے: الدنيا كلها سبعة ايام من ايام الآخرة.الدیلمی عن انس کنز العمال جلد ۶ صفحه ۱۵۷ روایت ۱۵۲۱۴) یعنی اس دنیا کی کل عمر سات دن ہے آخرت کے ایام میں سے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: 46

Page 51

--- إِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمواتِ وَالْاَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ..أَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ (سورة يونس ركوع : ۱۰ آیت:۴) یعنی یقینا تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا وہ ہر معاملہ کو تدبیر سے کرتا ہے کوئی شفاعت کرنے والا نہیں مگر اسکی اجازت کے بعد یہ ہے اللہ تمہارا رب.پس اسی کی عبادت کرو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرو گے؟ پس مذکورہ حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ جمعہ سے مُرادسات دن ہیں جیسے اردو میں ایک ہفتہ سات دن کا ہوتا ہے یعنی انسانیت پر اس دنیا میں جو ادوار آتے ہیں وہ ایک ایک جمعہ کے ہوتے ہیں اور آخری جمعہ بھی سات ہزار سال کا ہے.اسکے بعد ہر ایک اللہ سے ڈرنے والے انسان کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے جو کچھ تحریر فرمایا بالکل سچ اور حق پر مبنی ہے.نویں صدی ہجری تک تمیں جھوٹے نبی آکر اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے.قارئین کرام! جماعت احمد یہ اور بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے مثلاً حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے کلمہ تبدیل کیا.نیا دین لا یا، رسول اللہ کی توہین کی دیگر انبیاء کی تو ہین کی الغرض کوئی ایسا الزام نہیں جو بانی جماعت احمدیہ پر مخالفین کی طرف سے نہ لگایا گیا ہو ایک الزام یہ بھی لگایا گیا ہے کہ مرزا قادیانی نے صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس لئے یہ نعوذ باللہ رسول کریم کی حديث سيكون فِي امَّتِي ثَلثُوْنَ كذابون “ کے مصداق ہیں.یعنی رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری اُمت میں تھیں کذاب ہونگے.اُن میں سے ہر ایک اپنے آپکو نبی خیال کریگا حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں.جواب اوّل: - اس حدیث سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ جو بھی اب آپکے بعد 47

Page 52

-- --- قیامت تک نبوت کا دعویٰ کرے وہ ضرور جھوٹا ہے.کیونکہ آخری زمانہ میں آنے والے مسیح موعودؓ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ کے معزز ترین لقب سے ملقب فرمایا ہے.ملاحظہ ہو ( صحیح مسلم جلد الثانی صفحہ ۴۰۱ قدیم ایڈیشن عربی ) اور میں کی تعین بھی بتا رہی ہے کہ کوئی سچا بھی آسکتا ہے.دوسرے:.واضح رہے کہ اس حدیث کا مضمون آج سے قریباً ۵۵۰ (ساڑھے پانچ سو) سال پہلے پورا ہو چکا ہے اور مذکورہ ۳۰ دجال و کذاب گذر چکے ہیں جیسا کہ شرح مسلم میں لکھا ہے: فانه لَوْعُدَّ مَنْ تَنَبَّاً من زمنه صلى الله عليه وسَلَّمَ لبلغَ هذا العدد كه اگر جھوٹی نبوت کے دعویداروں کا شمار کیا جائے تو یہ تعداد ۳۰ کی پوری ہو چکی ہے.اور تاریخ اسلام سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص اسے جانتا ہے اگر شرح کے لمبا ہو جانے کا خوف نہ ہوتا تو ہم ان کے نام بھی لکھ دیتے.(شرح مسلم لابی مالکی وسنوسی جلدے صفحہ ۲۵۸مصری) اور نواب صدیق حسن خان صاحب بھی اس موضوع پر تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ۳۰ کڈ ابوں والی پیشگوئی پوری ہوچکی ہے.حج الكرامه صفحه ۲۳۲) نواب صدیق حسن خان صاحب کی عبارت سے درج ذیل امور ثابت ہوتے ہیں: 1 حافظ ابن حجر نے کہا کہ وہ حدیثیں جن میں ۳۰ یا ۷۰ کذابوں کی خبر آئی ہے کہ وہ نبوت کا دعوی کریں گے ضعیف ہیں.2 اگر صحیح بھی ہوں تو یہ اصل تعداد نہیں سمجھی جائیگی بلکہ اسے مبالغہ پر محمول کیا جائیگا.نیز اس میں نبوت کے دعوی کی شرط نہیں ہے.3 اصل تعداد کذابوں کی ۲۷ ہے جو مسند امام احمد میں عمدہ سند سے بیان ہوئی ہے.بخاری کی حدیث کے الفاظ ۳۰ کے قریب کذاب ہونگے اسکے موئید ہیں کہ اصل تعداد کذابوں کی ۲۷ ہے.48

Page 53

اور ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ یہ ۳۰ کذابوں کی پیشگوئی پوری ہو چکی ہے اور اب سچے نبی کی آمد کا وقت ہے کیونکہ صبح کاذب کے بعد ہمیشہ صبح صادق کا طلوع ہوتا ہے.بقول استاذ ذوق: مقدم صدق پر ہے کذب گرچہ صدق فائق ہے کہ پہلے صبح کاذب اور پیچھے صبح صادق ہے قارئین کرام! اگر بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام بقول مخالفین احمدیت جھوٹے ہوتے تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی آیت: وَلَوْ تقول علينا بعض الاقاويل...کی روشنی میں خود انہیں تباہ و برباد کر دیتا.حضور خود فرماتے ہیں: اگر انساں کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار نہ بھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار قارئین کرام! اب تک آپ نے مولوی نذیر احمد قاسمی کے ان من گھڑت الزامات کے جوابات قرآن، حدیث اور بزرگان سلف اور تاریخ کے حوالہ سے ملاحظہ فرمالئے ہیں.اب آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ ذرا دیو بندیوں کا اصلی چہرہ بھی اختصار کے ساتھ ملا حظہ فرمالیں.49

Page 54

دیوبندیوں کے عقائد ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے کلمہ توحید کا اعلان کر نا زبان سے اور پھر عمل سے اسکی تصدیق کرنا ضروری ہے اور وہ کلمہ ہے: لَا إِله إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله اب ذرادیو بندی کلمہ اور دروددیکھئے: دیو بندی فرقہ کے قابل احترام بزرگ مولوی اشرف علی تھانوی کو اُن کے ایک مُرید نے لکھا کہ: وو کچھ عرصہ ہوا خواب دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله پڑھتا ہوں مُحَمَّد رَسُوْلُ اللہ کی جگہ حضور ( مولوی اشرف علی تھانوی ) کا نام لیتا ہوں اتنے میں دل کے اندر خیال پیدا ہوا کہ مجھ سے غلطی ہوئی کلمہ شریف کے پڑھنے میں اسکو صحیح پڑھنا چاہئے اسی خیال سے دوبارہ کلمہ شریف پڑھتا ہوں لیکن زبان سے بے ساختہ بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشرف علی نکل جاتا ہے.کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتا ہوں لیکن پھر یہی کہتا ہوں اللهُمَّ صَلَّى عَلَى سيّدنا و نَبِيِّنَا مَولَانَا اشرف على.“ اس خواب کی تعبیر کرتے ہوئے مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنے مرید کو یہ جواب نہیں دیا کہ کلمہ شریف پڑھتے ہوئے اشرف علی رسول اللہ پڑھنا لعنتیوں کا کام ہے.اور یہ شیطانی خواب ہے بلکہ کہا یہ خواب بالکل ٹھیک ہے.دیکھو رساله الامداد ماه صفر ۱۳۳۶ھ صفحہ : ۳۵ مطبوعہ تھانہ بھون ) اشرف علی رسول اللہ کے ساتھ ساتھ اپنے دیگر بزرگوں کے کھلے بنانا بھی دیوبندیوں کی ایک عادت اور اُن کے دین کا حصہ ہے چنانچہ اسی طرح ایک مقام پر گنگوہی صاحب کا بھی 50

Page 55

کلمہ لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے کہ کس شان سے دیو بندی گنگوہی صاحب کو رسول اللہ کہتے ہیں: و بعض بزرگوں کو بعض مواقع ضرورت پر عادت ہوتی ہے کہ طالب کی ارادت اور اعتقاد کا اس طریق پر امتحان کرتے ہیں کہ کوئی فعل یا قول ایسا کہتے اور کرتے ہیں جسکا ظاہر باطن کے خلاف ہوتا ہے جیسا شیخ صادق گنگوہی نے ایک طالب کے سامنے کہہ دیا لا الہ إِلَّا الله صادق رسول الله - شریعت و طریقت مولانا اشرف علی تھانوی مرکزی ادارہ تبلیغ دینیات جامع مسجد دہلی صفحه: ۴۲۵ دوسرا ایڈیشن مطبوعہ اپریل ۱۹۸۱ء) دیو بندی جو عشق رسول کے دعویدار ہیں ان کے عشق رسول کی حقیقت سنئے دیو بندیوں کے نزدیک مولوی رشید احمد گنگوہی بانی اسلام کے ثانی تھے اسی طرح انہوں نے گنگوہی کو آنحضرت کے مقابل پر لا کھڑا کیا ہے.شیخ الہند مولانامحمدحسن خلیفہ برحق مولوی 66 رشید احمد گنگوہی.“ گنگوہی صاحب کی وفات پر انکا مرثیہ لکھتے ہوئے یوں گل افشائی کرتے ہیں: زبان پر اہل اہواء کی ہے کیوں اہل ہبل شاید کوئی بانی اسلام کا ثانی اُٹھا عالم یہ ہے دیو بندیوں کا عشق رسول کہ رشید احمد گنگوہی کو بانی اسلام کا ثانی کہتے ہیں اسی طرح شیخ محمود حسن اس قصیدہ میں مزید لکھتے ہیں : وفات سرور عالم کا نقشہ آپکی رحلت تھی ہستی گر نظیر ہستی محبوب سبحانی (مرثیہ صفحہ: ۱۱) مذکورہ شعر میں مولوی رشید احمد گنگوہی کی وفات آنحضرت کی وفات قرار دی گئی ہے ہے.اور صاف لکھا ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی کی وفات آنحضرت کی وفات کا نقشہ کھینچتی ہے گویا رشید احمد گنگوہی آنحضرت ہو گئے اور اس وقت موجود ان کے ساتھی رشید احمد گنگوہی 51

Page 56

کے صحابہ ہو گئے اسی اعتبار سے محمود حسن صاحب نے اپنے آپ کو حضرت ابو بکر کے سفاہل پر کھڑا کرتے ہوئے خود کو رشید احمد گنگوہی کا خلیفہ برحق لکھا.چنانچہ مرثیہ کے ٹائٹل پیج پر جہاں محمود حسن صاحب کا نام درج ہے لکھا ہے: مرثیہ چکیده قلم فیض رقم علامہ فروع و اصول جامعه معقول و منقول حضرت مولانامحمود حسن صاحب خلیفہ برحق مولا نا رحمۃ اللہ علیہ یہی وجہ ہے کہ محمود حسن صاحب گنگوہ کو کعبہ سے بھی افضل سمجھتے ہیں لکھتے ہیں: پھریں تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کا رستہ جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے ذوق شوق عرفانی واہ کیا خوب ہے دیو بندی ایمان مزید سنئے : دیو بندی بزرگ حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے تو یہاں تک فرمایا ہے: یہ فقیر جہاں رہیگا وہیں کعبہ اور مدینہ اور روضہ ہے.“ 66 (مرثیه صفحه : ۱۳) (خیر الافادات ملفوظات مولانا اشرف علی تھانوی ناشر ادرہ اسلامیات لاہور اگست ۱۹۸۲ء) واہ رے دیو بندیو! تمہارے عشق رسول کے دعوے.تم نے عشق رسول کے ساتھ ساتھ مکہ مدینہ اور روضہ شریف سے بھی خوب عشق کیا ہے.اب ہم پوچھتے ہیں کہاں محمد کے عاشق جو ان عشاق رسول سے پوچھیں کہ عشق محمد کے نام پر تم نے کیسے کیسے گل کھلائے ہیں خود تو ایسا عقیدہ رکھ کر بھی عشاق رسول اور دوسروں کو رسول اللہ کی توہین کرنے والے بتاتے ہیں.52

Page 57

دیو بندی اپنے پیرومر شد گنگوہی صاحب کی یہ عبارت کیسے بھول گئے وہ عبارت درج ذیل ہے: دوسُن لوحق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میری اتباع تذکرہ الرشید جلد نمبر ۲ صفحہ ۱۷ مؤلف عاشق الہی میرٹھی) پر اب انصاف پسند قارئین کرام غور فرمالیں کہ کیا اس دور میں نجات مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی پیروی سے ملتی ہے یا اب بھی نجات کے لئے آنحضرت کی پیروی لازمی ہے کیا یہ دیو بندیوں کی سرا سر تو ہین رسول نہیں ہے.قارئین کرام ! اب دیو بندیوں کے خیالات بھی قرآن مجید کے متعلق سنئے جنگی نصیحت یہ ایک دوسرے کو کرتے ہیں دیو بندیوں کا عقیدہ ہے کہ بحالت خواب قرآن پر پیشاب کرنا اچھا ہے نعوذ باللہ اللہ بچائے دیوبندیوں کے اس عقیدے سے.” ایک شخص نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ میرا ایمان نہ جاتا رہے.حضرت نے فرمایا بیان تو کروان صاحب نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ قرآن مجید پر پیشاب کر رہا ہوں حضرت نے فرمایا یہ تو بہت اچھا خواب ہے.“ (افاضات یومیہ تھانوی صفحه ۱۳۳ فتاوی رشیدیہ صفحه ۱۰۹او مزیدالمجید تھانوی صفحه ۶۶ سطر ۲۳) پھر دیوبندی کہتے ہیں قرآن مجید کو پاؤں تلے رکھنا جائز ہے لکھا ہے: کسی عذر سے قرآن مجید کو قارورات میں ڈال دینا کفر نہیں رخصت ہے اور کوئی اور چیز نہ ہو تو قرآن شریف کو پاؤں کے نیچے رکھ کر او پر مکان سے کھانا اُتار لینا درست ہے اور بوقت حاجت قرآن شریف کو کسی کے نیچے ڈال لیناروا ہے.“ تحریف اوراق صفحه ۴۰ بحوالہ وہابی نامه صفحه: ۳۵) 53

Page 58

قرآن مجید کی حد درجہ تو ہین کرنے والے یہ دیو بندی خدا جانے کس طرح معصوموں پر تو ہین قرآن کے الزام لگاتے ہیں.اے دیو بند یو مذکورہ حوالوں کو بار بار پڑھو اور خشک دیو بندیت سے تو بہ کر کے بچے امام مہدی کو قبول کرلو تا کہ تمہیں قرآن مجید کا صحیح عرفان نصیب ہو.دیو بندی تو حضرت امام حسین در کنار ان کے والد محترم خلیفہ چہارم حضرت علی کی بھی ہتک کے مرتکب ہوئے حضرت علیؓ کے متعلق آنحضرت کا فرمان ہے: أَنَا خَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتَ يَا عَلِيْ خَاتَمُ الْأَوْلِيَاءِ.( تفسیر صافی زیر آیت خاتم النبین ) کہ میں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علی تو خاتم الاولیاء ہے.جبکہ دیو بندی خاتم کے معنی کرتے ہیں کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تو پھر لازماً خاتم الاولیاء کے معنی ہوں گے کہ حضرت علی کے بعد کوئی ولی نہیں آسکتا.لیکن جو مر ثیہ محمود حسن دیوبندی نے مولوی رشید احمد گنگوہی کی وفات پر لکھا ہے اسکے ٹائیٹل پیج پر مولوی رشید احمد گنگوہی کے متعلق خاتم الاولیاء لکھ کر حضرت علی کی صریح ہتک کی ہے پس صاف ظاہر ہے کہ جو لوگ باپ کو نہیں بخشتے وہ بھلا بیٹوں کو کہاں بخشیں گے؟ چنانچہ مرثیہ کے ٹائیٹل پیج پر ذیل کی عبارت غور سے پڑھیں.حضرت قطب العالم خاتم الاولياء والمحدثين فخر الفقهاء والمشائخ حضرت عالی ماوائے جہاں مخدوم الکل مطالع العالم جناب مولاناسید رشید احمد گنگوہی کی وفات حسرت آیات پر مرثیہ ہم تو یہاں تک کہیں گے کہ اسمیں حضرت علی کے ساتھ ساتھ تمام محد ثین کرام کی بھی ہتک کی گئی ہے ساتھ ساتھ دیوبندی نے رشید احمد گنگوہی کو ماوائے جہاں.مخدوم الکل اور مطاع العالم لکھ کر آنحضرت کی بھی توہین کی ہے ہمارے نزدیک یہ خطاب صرف اور صرف آنحضرت کے ہیں.54

Page 59

دیو بندیوں کے پیر ومرشد مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں: ایک ذاکر صالح کو مکشوف ہوا کہ احقر اشرف علی تھانوی کے گھر حضرت عائشہ آنے والی ہیں اُنہوں نے مجھے کہا تو میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ کم سن عورت ہاتھ آنے والی ہے.“ (رساله الامداد صفر ۱۳۲۵ھ ) ملاحظہ فرمائیے دیوبندیوں کی سرا سر تو ہین حضرت عائشہ گھر میں آنے والی ہیں یہ ایک خواب ہے جسکی تعبیر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نیکی تقوی اور تفقہ فی الدین اس گھر میں ترقی کریگا لیکن حضرت عائشہ کے خیال سے ایک کم سن عورت کا خیال واہ رے دیو بندی نیت تعجب ہے خواب دیکھنا تو بے اختیاری ہے اور بے بسی کی بات ہے لیکن تعبیر کرنا تو انسان کی اپنی عقل سمجھ میں ہے.اسی طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی نسبت دیوبندیوں کے پیرومرشد مولوی اشرف علی صاحب تھانوی لکھتے ہیں: ”ہم ایک دفعہ بیمار ہو گئے ہم کو مرنے سے بہت ڈر لگتا ہے.ہم نے خواب میں حضرت فاطمہ کو دیکھا انہوں نے ہم کو اپنے سینے سے چمٹا لیا.ہم اچھے ہو گئے.66 (الافاضات الیومیہ جلد نمبرے صفحہ : ۲۴۰) دیو بندی اس حوالہ پر کہتے ہیں کہ بھلا یہ بھی کوئی قابل اعتراض بات ہے حضرت فاطمہ نے خواب میں مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کو مادر مہربان کی طرح چمٹایا ہے حالانکہ اس حوالہ میں مادر مہربان کا کوئی لفظ نہیں لیکن حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے متعلق باوجود یہ کہ آپ کے کشف کی عبارت میں صاف لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ نے مادر مہربان کی طرح آپ کو اپنی گود میں رکھ لیا.پھر بھی اپنی گندی نیتوں کا اظہار ناپاک اعتراضات کی صورت میں کرتے رہتے ہیں.مرزا صاحب کا وہ حوالہ جو دیو بندی چھپایا کرتے ہیں اُسے ہم ذیل میں درج کرتے 55

Page 60

ہیں.لکھا ہے کہ: دیکھا تھا کہ حضرت پنج تن سید الکونین فاطمۃ الزہرا حضرت علی عین بیداری میں آئے اور حضرت فاطمہ نے کمال محبت اور مادرانہ عطوفت کے رنگ میں اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا.“ (تحفہ گولڑویہ صفحہ :۳۰) اب قارئین حضرات سے درخواست ہے کہ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ اگر یہ تو ہین ہے تو اس تو ہین کا زیادہ مرتکب کون ہے؟ دیوبند خود انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے نہ کہ احمد یہ جماعت دیو بندیوں نے نہ صرف انگریزوں کی ہر طرح مدد کی ہے بلکہ انگریزوں سے طرح طرح کے فائدے بھی حاصل کئے ہیں جنہیں چھپانے کے لئے اب یہ احمدیوں کو انگریزوں کا خود کاشتہ پودا کہتے ہیں: دارالعلوم دیو بند کے رسالہ دیوبند کی مختصر تاریخ ، مطبوعہ یکم ستمبر ۱۹۱۷ء پرنٹنگ ورکس دہلی میں لکھا ہے: ہر مومن مسلمان سے استدعا ہے کہ وہ گورنمنٹ عالیہ کے لئے جسکی عہد حکومت میں ہر فرد بشر نہایت عیش و آرام سے زندگی بسر کر رہا ہے اور اسکی عطا کرده آزادی اسلامی جمستان سرسبز و بار آور ہے ضرور دن رات اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے غرض ہر لمحہ اور ہر ساعت میں دعا کریں کہ اے خدا تو ہمیشہ ہمیش کے لئے حکومت انگریز کو مسند حکومت پر قائم رکھ.“ یہ ہیں دیو بندی مولویوں کی انگریزی حکومت کی وفاداریوں کے اعلان اور ایسے اعلان کیوں نہ ہوتے جبکہ یہ اس حکومت کے تحت نہایت عیش و آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے مثالیں.56

Page 61

با قاعدہ اس غرض کے لئے دیو بندیوں کو تنخواہیں ملتی تھیں کہ وہ انگریز حکومت کی موافقت واعانت میں آواز میں اُٹھائیں.سوانح حیات مولا نا محمد احسن نانوتوی جسے مکتبہ عثمانیہ کراچی پاکستان نے شائع کیا ہے میں مؤلف کتاب نے اخبار انجمن پنجاب لاہور مجریہ ۱۹ فروری ۱۸۷۵ء کے حوالے سے لکھا ہے.کہ۳۱ جنوری ۱۸۷۵ء بروز یکشنبہ لفٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمی پامر نے مدرسہ دیو بند کا معائنہ کیا اسکا ذکر کرتے ہوئے کتاب میں لکھا ہے.”جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزار روپیہ کے صرف سے ہوتا ہے وہ یہاں کوڑیوں میں ہورہا ہے جو کام پر نسپل ہزاروں روپیہ ماہوار تنخواہ لیکر کرتا ہے وہ یہاں مولوی چالیس روپیہ ماہانہ پر کر رہا ہے یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیں بلکہ موافق سر کارممد و معاونِ سر کا ر ہے.“ (مولانا محمد احسن نانوتوی صفحہ ۷ ۲۱ بحوالہ زلزله صفحه : ۹۴) پس دیو بندیوں نے صاف اقرار کیا ہے کہ ہم تھوڑی رقم کے عوض میں سرکا رانگریزی کی غلامی کر رہے ہیں چنانچہ قاری محمد طیب صاحب مہتم دارالعلوم دیو بند کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیے.مدرسہ دیو بند میں کارکنوں کی اکثریت ایسے بزرگوں کی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم ملازم حال پنیشنر تھے.“ ( حاشیہ سوانح قاسمی صفحه ۲۴۷ بحوالہ زلزله صفحه ۹۶) اسی طرح یہ بات یہ خاص و عام کو معلوم ہے کہ جنگ عظیم دوم میں متحدہ ہند ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو شامل کرنے کے لئے انگریز نے مولوی رشید احمد گنگوہی کے فتووں سے ہی فائدہ اُٹھایا.پیسہ اخبار لا ہورا ارمئی ۱۹۱۸ء) 57

Page 62

پس تاریخ کی یہ منہ بولتی شہادتیں کھول کھول کر بتارہی ہیں کہ انگریزوں کے دور حکومت میں دیو بندی انگریزوں کے غلام، نوکر، ملازم ، پینشنر رہے ہیں احمدی نہیں ! یہی نہیں ندوۃ العلماء لکھنؤ جو دیوبندی مسلک کے لوگوں کا ہی ایک ادارہ ہے اس ادارے کا سنگ بنیاد بھی ایک انگریز نے رکھا تھا.چنانچہ رسالہ الندوہ میں لکھا ہے: ۲۸ نومبر ۱۹۰۸ء کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کا سنگ بنیاد ہر آنر لیفٹیننٹ گورنر بہادر ممالک متحدہ سر جان سکاٹ یہوس کے سی ایس آئی ای نے رکھا تھا.( الندوة دسمبر نمبر ۱۹۰۸ء) اسی طرح رسالہ الندوہ میں مزید لکھا ہے: علماء ( دیو بند ندوہ) کا ایک ضروری فرض یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ کی برکات سے واقف ہوں اور ملک میں گورنمنٹ کی وفاداری کے خیالات پھیلائیں.“ ( الندوہ جولائی ۱۹۰۸ء) پس صاف کہو کہ اب دیو بندی انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے یا احمدی.چنانچہ تاریخ اس امر کی شہادت بھی دیتی ہے کہ اگر ایک طرف دارالعلوم دیو بند والے گورنمنٹ برطانیہ کے نوکر تھے تو دوسری طرف ندوہ کو سالانہ چھ ہزار روپے انگریز حکومت کی طرف سے گرانٹ ملتی تھی.اسی لئے باقاعدہ جلسوں میں ملکہ وکٹوریہ کو فل سجانی“ اور ”سایہ حق تک کہا جاتا تھا چنانچہ ان دنوں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں پڑھی جانیوالی نظم کا ایک شعر یوں بھی تھا: سایہ حق انپر تھا خود ظل سبحانی تھی سارے عالم میں بڑی یکتا مہارانی تھیں اجلاس انجمن حمایت اسلام منعقدہ اکتوبر ۱۹۰۳ء بمقام امرتسر پنجاب) 58

Page 63

اُس زمانہ میں اسی تعریف کے بل بوتے پر یہ دیوبندی مولوی انگریزوں سے سالانہ گرانٹیں اور جاگیریں حاصل کیا کرتے تھے.لیکن اسکے بالمقابل کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے بھی انگریزوں سے اپنے لئے یا جماعت احمدیہ کے لئے کسی قسم کا کوئی فائدہ اُٹھایا بلکہ جس ملکہ کو یہ ظلِ سبحانی اور سایہ خدا جیسے القابات سے نوازتے تھے اس کو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی تبلیغ اسلام کرتے تھے چنانچہ آپ نے ملکہ کو مخاطب کر کے لکھا: ”اے ملکہ توبہ کر اور اس خدا کی اطاعت میں آجا جسکا نہ کوئی بیٹا ہے نہ شریک اور اسکی تمجید کر...اے زمین کی ملکہ اسلام قبول کرتا تو بچ جائے...آمسلمان ہو جا.“ ( آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۳۴) پس اب فیصلہ انصاف پسند بھائیوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ سوچیں کہ کیا انگریز دیو بندیوں کو اپنا غلام بنائیں گے یا احمدیوں کو جو ایک طرف تو اُن کے خدا یسوع مسیح کو مردہ ثابت کر رہے ہیں.اور دوسری طرف ان کی ملکہ کو اسلام قبول کرنے کے دعوت دے رہے ہیں.آخری نصیحت پس اے مولوی صاحب تم اور تمہارے ہمنوا مولویوں کو چاہیئے کہ وہ مخالفت چھوڑ کر اس نیک کام میں شامل ہوں.جھوٹ بولنا.جھوٹے الزامات لگانا چھوڑ دیں کیونکہ یہ جھوٹ اور مخالفت آپکے کسی کام نہ آئیگی بلکہ قیامت کے روز آپ کے لئے روسیاہی کا ایک داغ بن جائیگی.حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں: نیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری بتا ہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جسکو مالک 59

Page 64

حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے...اے لو گوتم یقینا سمجھو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کر یگا اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعا کریں یہاں تک کہ سجدہ کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جا ئیں تب بھی خدا ہرگز تمہاری دُعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جیتک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرے...پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اسوقت بھی فیصلہ کر دیگا.خدا کے مامورین کے آنے کے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے ایک موسم پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑویہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.“ ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۱۴-۱۳) اللہ تعالیٰ رُوئے زمین پر اسلام کا بول بالا کرے اور ہر ایک کو مامور زمانہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین! رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ خادم سلسلہ عالیہ احمدیہ باسط رسول ڈار مدرس جامعہ احمدیہ قادیان 60

Page 64