Shuhda-eAhmadiyyat Aaghaz Ta Khilafat 4

Shuhda-eAhmadiyyat Aaghaz Ta Khilafat 4

شہدائے احمدیت

آغاز تا عہد خلافت رابعہ
Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
شہدائے احمدیت

حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبات جمعہ میں جماعت احمدیہ میں شہادت کا بلند مرتبہ پانے والے خوش نصیب احمدیوں  کے ذکر خیر کا سلسلہ فرمایا تھا اس کو طاہر فاونڈیشن ربوہ نے کتابی شکل میں مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ اس میں آغاز احمدیت سے لیکر خلافت رابعہ تک کے شہداء کی قابل تقلید قربانیوں، پاکیزہ زندگی اور اوصاف حمیدہ کا دلنشین اور پر اثر تذکرہ فرمایا ہے۔ مورخہ 14 اپریل 1999ء کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قابل فخر فرزند محترم صاجزادہ مرزا غلام قادر صاحب نے شہادت کا اعزاز پایا اور 16 اپریل کو خطبہ جمعہ میں حضورؒ نے شہید مرحوم کا تذکرہ فرمایا ، اگلے جمعہ میں سید الشہداء حضرت سید عبداللطیف صاحب رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر فرمایا، اس کے بعد حضور ؒ نے شہدائے احمدیت کے تذکرہ پر مبنی سلسلہ شروع فرمایا جو 23 جولائی 1999 تک جاری رہا، یہ کل 15 خطبات جمعہ تھے۔ اس کتاب میں خطبات شہداء کے بعد خلافت رابعہ تک کے دیگر شہداء کا تذکرہ بطور ضمیمہ شامل کتاب کیا گیا ہے۔اس ضمیمہ میں 32 شہداء کامختصر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ضروری حوالہ جات اور اسماء و مقامات کا اشاریہ بھی دیا گیا ہے نیز اس کے ساتھ ساتھ میسر تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔


Book Content

Page 1

بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی شہدائے احمدیت ( آغاز تا عهد خلافت رابعہ ) فرمودة سیدنا حضرت مرزا کا ہر امر علیه مسیح الرابع مِرْزاطَا براح رَحِمَهُ اللهُ تعالى

Page 2

نام کتاب بیان فرموده شہدائے احمدیت ( آغاز تا عہد خلافت رابعہ ) حضرت مرزا طاہر احمد خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ

Page 3

حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ (1928-2003)

Page 4

خطبه فہرست شہدائے احمدیت 16 اپریل 1999 ء صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب نام شہداء 1 صفحه 23 اپریل 1999 سید الشہد اوسید عبداللطیف شهید 13 30 اپریل 1999 ء | حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب، مولوی عبد الحلیم صاحب، قاری نور علی صاحب ، شیخ 29 دور خلافت ثانیہ کے احمد فرقانی صاحب، ولی داد خان صاحب، میجر محمود احمد صاحب ، ماسٹر غلام محمد صاحب، چوہدری بدرالدین صاحب، مولوی عبدالغفور صاحب مع کمسن بیٹا ، داؤد جان صاحب، شہداء ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب 7 مئی 1999ء صاحبزادہ محمد سعید جان صاحب ، صاحبزادہ محمد عمر جان صاحب، سید سلطان احمد صاحب | 47 خلافت ثانیہ کے شہداء سید حکیم صاحب ، حضرت حاجی میراں بخش صاحب مع اہلیہ، صوبیدار خوشحال خان صاحب، شہداء انڈونیشیا، شریف دو تسا صاحب، چوہدری محمد حسین صاحب ، ماسٹر منظور احمد صاحب، محمد شفیع صاحب ، میان جمال احمد صاحب ، مرزا کریم بیگ صاحب ، حوالدار عبدالغفور صاحب اور ایک احمدی عطار 14 مئی 1999ء جمعدار محمد اشرف صاحب، میاں علم الدین صاحب، سید محبوب عالم صاحب بہاری، 59 شہداء حفاظت مرکز پیر سلطان عالم صاحب، مرزا احمد شفیع صاحب، فیض محمد ، زہرہ بی بی ، عبد الجبار + بچی ، ملک حمید علی صاحب ، ماسٹر عبد العزیز صاحب، غلام محمد صاحب ، عبد الحق صاحب محمد قادیان رمضان آف کھارا اور ان کا خاندان، نیاز علی صاحب، عبدالمجید خان صاحب، بدردین صاحب مع اہلیہ و بیٹا ، عبدالرحمن صاحب 21 مئی 1999ء برکت علی صاحب اللہ رکھا صاحب، چوہدری نصیر احمد صاحب ، منظور احمد صاحب او جلوی ، 77 شہداء فرقان بٹالین اور عبدالرزاق صاحب، محمد اسلم مانگٹ صاحب نخی منگ صاحب ، میاں غلام بین صاحب، دو واقف زندگی شہداء محمد خان صاحب، بشیر احمد ریاض صاحب ،عبدالرحمن صاحب ، مولوی عبید اللہ صاحب، الحاج مولوی محمد دین صاحب

Page 5

28 مئی 1999ء شہزادہ عبدالمجید صاحب ، محمد رفیق کاشغر صاحب ، مرزا منور احمد صاحب ، حضرت حافظ 85 شہید مربیان کا تذکرہ جمال احمد صاحب، الحاج مولانا نذیر احمد علی صاحب، مولانا غلام حسین ایاز صاحب مبارک احمد بھٹی صاحب ،محمد شفیق قیصر صاحب ، ملک عبد الحفیظ صاحب، عبدالرحمن بنگالی صاحب، بشارت الرحمن قمر صاحب ،مولا نا عبدالمالک خان صاحب 4/ جون 1999 ء ڈاکٹر محمد یوسف شاہ صاحب، مولانا ابوبکر ایوب صاحب، ظاہر احمد صاحب، جواد رشید خان 101 واقفین زندگی شہداء صاحب ، خواجہ اعجاز احمد صاحب ، ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب، قریشی محمد اسد اللہ کا شمیری صاحب ، مولوی برکت اللہ محمود صاحب، الحاج محمد ابراہیم بی چی صاحب ، قریشی محمد اسلم صاحب، عبدالمالک آر جے صاحب محمد احمد الموسا مینسا ، مبارک احمد ساقی صاحب مسعود احمد جہلمی صاحب ، مبشر احمد چوہدری صاحب ، محمد کمال الدین آیودیجی صاحب چوہدری محمد عینی صاحب علی حید را پل صاحب مبشر احمد باجوہ صاحب، احسان احمد باجوہ صاحب، حلمی الشافعی صاحب، اسماعیل تر اولے صاحب، ابراہیم کنڈا صاحب ، مولانا کرم الہی ظفر صاحب، ابوبکر طور ئے صاحب، ناصر فاروق سندھو صاحب 11 جوان 1999 ء حافظ بشیر احمد جالندھری صاحب، عدالت خان صاحب، چوہدری فقیر محمد صاحب محمد 119 دوران تقسیم ملک اور غیر اسماعیل و نجواں، محمد منیر شامی صاحب، حمیدہ بیگم صاحبہ اور عظیم احمد پنڈت، با بوعبد الکریم ممالک میں صاحب اور شہدائے پونچھ ، خواجہ محمد عبد اللہ لون صاحب ، حاجی فضل محمد خان صاحب مع بیٹا ، عثمان غنی صاحب اور عبد الرحیم صاحب محتر عبدالرحمن سماٹری صاحب فضل بی بی وفات پانے والے واقفین شهداء صاحبہ اہلیہ مولانا محمد شریف صاحب ، سید رضوان عبداللہ صاحب ، سیدہ طینت صاحبه بشری منیر صاحبہ ، مولوی حنیف یعقوب صاحب، ڈاکٹر قدسیہ خالد ہاشمی صاحبہ ، حافظ عبدالوہاب بلتستانی، امتہ المتین صاحبہ اہلیہ محمد افضل ظفر مع بچگان 18 جون 1999 ء رستم خان صاحب، مولوی عبدالحق نور صاحب، بشیر احمد طاہر بٹ صاحب، محمد افضل کھوکھر صاحب عہد خلافت ثالثہ کے اور محمد اشرف کھوکھر صاحب، چوہدری منظور احمد اور چوہدری محمود احمد صاحب ، چوہدری شوکت شہداء حیات صاحب ، قریشی احمد علی صاحب ،سعید احمد خان صاحب، بشیر احمد صاحب

Page 6

منیر احمد صاحب ، محمد رمضان محمد اقبال صاحب، غلام قادر صاحب ، چوہدری عنایت اللہ صاحب محمد الیاس عارف صاحب، نقاب شاہ مہمند صاحب ،صو بیدار غلام سرور صاحب 135 اور اسرار احمد خان صاحب آف ٹوپی 25 جون 1999 ء ماسٹر غلام حسین صاحب، چوہدری حبیب اللہ صاحب، سید مولود احمد صاحب ، محمد فخر الدین بھٹی 153 عہد خلافت ثالثہ کے صاحب، محمد زمان خان صاحب اور مبارک احمد خان صاحب بیٹھی مقبول احمد صاحب ، پروفیسر شہداء عباس بن عبدالقادر صاحب،ماسٹر ضیاء الدین ارشد صاحب، عبدالحمید صاحب، بشارت احمد صاحب، چوہدری عبدالرحیم اور چوہدری محمد صدیق صاحب، رشیدہ بیگم صاحبہ 2 جولائی 1999ء ملک محمد انور صاحب، مولوی نوراحمد صاحب ، بشیر احمد رشید صاحب، منشی علم دین صاحب، چوہدری 171 عہد خلافت ثالثہ اور مقبول احمد صاحب، ماسٹر عبدالحکیم ابر و صاحب، ڈاکٹر مظفر احمد صاحب، شیخ ناصر احد صاحب، چوہدری خلافت رابعہ کے شہداء عبدالحمید صاحب قریشی عبدالرحمن صاحب ، ڈاکٹر عبد القادر چینی صاحب ، ڈاکٹر انعام الرحمان انور صاحب، چوہدری عبدالرزاق صاحب، ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر صاحب ور جولائی 1999ء محمود احمد اٹھوال صاحب ، مرزا منور بیگ صاحب، سید قمر الحق صاحب، راؤ خالد سلیمان صاحب 189 عہد خلافت رابعہ کے رخسانہ طارق صاحبه، بابومحمد عبد الغفار صاحب، غلام ظہیر احمد صاحب، ڈاکٹر منور احمد صاحب ، چک سکندر کے تین شہداء، ڈاکٹر عبدالقدیر جدران، ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب جدران، مبشر احمد صاحب، شہداء شہداء نصیر احمد علوی صاحب، محمد اشرف صاحب جهلن ، رانا ریاض احمد صاحب، احمد نصر اللہ صاحب ، وسیم احمد بٹ صاحب، حفیظ احمد بٹ صاحب، پروفیسر ڈاکٹر نسیم احمد بابر صاحب 16 جولائی 1999ء قاضی بشیر احمد کھوکھر صاحب، ملک محمد دین ،صاحب فیضیه، مهدی صاحبہ ، عبدالرحمن باجوہ 207 عہد خلافت رابعہ کے صاحب، دلشاد حسین کچھی صاحب، سلیم احمد پال صاحب، انور حسین ابر و صاحب، چوہدری ریاض احمد صاحب مبارک احمد شر ما صاحب محمد صادق صاحب چٹھہ داد، چوہدری عتیق احمد باجوہ صاحب، ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ، مظفر احمد شر ما صاحب ، میاں محمد اکبر اقبال صاحب ، محمد جری اللہ مظفر صاحب ، محمد ایوب اعظم صاحب ، ملک نصیر احمد صاحب ، ماسٹر نذیر احمد بھگیو صاحب

Page 7

223 231 23 جولائی 1999ء سید محمد موسی صاحب ، عبدالمجید صاحب ، اے ٹی ایم حق صاحب مصطفی علی صاحب بنگلہ دیش، عہد خلافت رابعہ کے چوہدری عبدالرشید شریف صاحب، ملک اعجاز احمد صاحب ، مبارکه بیگم صاحبہ، حضرت سیدہ آصفه شہداء بیگم صاحبه ضمیمہ شہدائے مسجد کھلنا بنگلہ دیش ، ڈاکٹر شمس الحق طیب صاحب ، مولانا عبدالرحیم صاحب ، چوہدری عبداللطیف صاحب اٹھوال،شہدائے مسجد گھٹیالیاں ، شہدائے تخت ہزارہ ، عبدالرحیم مجاہد صاحب مع اہلیہ، پا پچحسن صاحب، شیخ نذیر احمد صاحب، چوہدری نو را حم صاحب اور طاہر احمد صاحب نعیم احمد نسیم صاحب ، غلام مصطفی محسن صاحب، مقصود احمد صاحب، ڈاکٹر رشید احمد صاحب، عبدالوحید صاحب، میاں اقبال احمد صاحب ایڈووکیٹ

Page 8

خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے شہید صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب شہید تاریخ شہادت ۱۶ را پریل ۱۹۹۹ء

Page 9

خطبات طاہر بابت شہداء 1 خطبہ جمعہ ۶ ارامریل ۱۹۹۹ء صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی شہادت کا تذکرہ ( تاریخ شہادت ۱۴ را پریل ۱۹۹۹ء) ( خطبه جمعه فرموده ۱۶ار اپریل ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی : يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِثَى مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرُتِ وَبَشِّرِ الصِّبِرِينَ ﴿ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ ) قف أُولَيْكَ عَلَيْهِمْ صَلوتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرة : ۱۵۴-۱۵۸) اس کے بعد فرمایا: ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے سے مدد مانگا کرو.وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَا الله يقيناً صبر

Page 10

خطبات طاہر بابت شہداء 2 خطبہ جمعہ ۶ اراپریل ۱۹۹۹ء کرنے والوں کے ساتھ ہے.اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ اور ہرگز اس کو مردہ نہ کہو جو خدا کی راہ میں مارا جائے یا جو خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردے نہ کہو بَلْ أَحْيَا ولكِنْ لا تَشْعُرُونَ بلکہ وہ تو زندہ ہیں، حقیقت یہی ہے کہ وہ زندہ ہیں ولکن لا تَشْعُرُونَ مگر تم کوئی شعور نہیں رکھتے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَئُ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ اور میں تمہاری ضرور آزمائش کروں گا کچھ خوف کے ساتھ والجُوعِ اور بھوک کے ساتھ وَنَقْصٍ مِنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَراتِ اور مالوں اور جانوں کے ضیاع کے ساتھ.وَالثَّمَراتِ اور اسی طرح پھلوں کے نقصان کے ساتھ وبَشِّرِ الصَّبِرِین اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دے.الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ یعنی وہ لوگ جنہیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ کہتے ہیں اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.أُولَيْك عَلَيْهِمْ صَلَوت یہی وہ لوگ ہیں جن پر بہت ہی برکات ہیں اپنے رب کی طرف سے وَرَحْمَةٌ اور اس کی رحمت بھی و أوليكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں.اس آیت کے تعلق میں میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ایک جامع اور مانع حدیث جو بخاری سے لی گئی ہے پڑھ کر سناتا ہوں.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے.جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے.جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے.( بخاری کتاب المظالم من قبل دون ماله حدیث نمبر ۲۳۰۰) ہے.اس حدیث میں تمام شہادتیں اکٹھی کر دی گئی ہیں جو حال ہی میں ہمارے شہید ہونے والے عزیزم غلام قادر کو سب نصیب ہوئیں کیونکہ ان کے اندر شہادت کی وجوہات میں سب اکٹھی ہو

Page 11

خطبات طاہر بابت شہداء 3 خطبہ جمعہ ۶ار اپریل ۱۹۹۹ء گئی ہیں اور بھی بہت چیزیں اکٹھی ہوئی ہیں جن کا میں تفصیل سے ذکر کروں گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اولیاء اللہ اور وہ خاص لوگ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں وہ چند دنوں کے بعد پھر زندہ کئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاج یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندہ ہیں“.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۷) یہ خدا کی راہ میں جب زندہ کئے جاتے ہیں تو ان کو پھر دوبارہ اس دنیا میں واپس آنے کی تمنا ہوتی ہے جبکہ اور کسی کو جو خدا کے ہاں قرب کا مقام پا جائے جنت میں واپس آنے کا خیال تک نہیں آتا.اس کی وجہ کیا ہے کہ ان شہداء کا معاملہ اور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک حدیث کے حوالے سے یہ ذکر فرماتے ہیں وہ حدیث ترمذی کتاب الجہاد سے لی گئی ہے، اس کا ایک ٹکڑا میں آپ کے سامنے رکھتے ہوں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.کوئی بندہ بھی جس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور خیر مقدر ہو فوت ہونے کے بعد دوبارہ دنیا میں آنا پسند نہیں کرتا خواہ دنیا و ما فیہا بھی اس کے لئے مقدر ہو.ساری دنیا کی بادشاہت جو کچھ اس میں ہے اس کے مال و دولت سب کا وعدہ ہو کہ سب تجھے دیئے جائیں گے پھر بھی وہ نہیں آئے گا سوائے شہید کئے.شہید دوبارہ آنا چاہتا ہے.شہادت کی فضیلت کی وجہ سے یہ ایسا کرتا ہے.یہ حدیث میں جس فضیلت کا ذکر ہے اس سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اور یہی مضمون دوسری احادیث میں مزید وضاحت کے ساتھ بھی بیان ہوا ہے.ایک لمبی حدیث میں سے ایک ٹکڑا میں نے لیا ہے.جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جن کے والد شہید ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

Page 12

خطبات طاہر بابت شہداء 4 خطبہ جمعہ ۶ ار اپریل ۱۹۹۹ء اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو زندہ کیا.اس سے آمنے سامنے گفتگو ہوئی اور فرمایا میرے بندے مجھ سے جو مانگنا ہے مانگ میں تجھے دوں گا.تو تمہارے والد نے جواباً عرض کیا.اے میرے رب میں چاہتا ہوں کہ تو زندہ کر کے مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے تا کہ تیری خاطر دوبارہ قتل کیا جاؤں.اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ میں یہ قانون نافذ کر چکا ہوں کہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں نہیں لوٹاؤں گا“.( ترمذی ابواب التفسیر تفسیر سورۃ آل عمران ) اسی حدیث کے مختلف ورژن (Version) یعنی مختلف رنگ میں اسی مضمون پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے روشنی ڈالی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ شہید خدا کے حضور پیش ہوا اور اس نے کہا کہ مجھے سو بار دنیا میں بھیج اور سو بار تیری راہ میں قتل کیا جاؤں اور ہر بار میری یہی خواہش ہو کہ میں دوبارہ دنیا میں جاؤں.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہی جواب دیا کہ یہ نہیں ہوسکتا.ایک حدیث میں آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی بھی ایسی ہی خواہش کا ذکر فرمایا ہے.ان سب امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ شہید کو مردہ نہیں کہنا، وہ زندہ ہے بلکہ سب زندوں سے زیادہ زندہ ہے اور ایسا زندہ ہے جس زندگی سے قوم زندگی پاتی ہے.اس پہلو سے جس شہادت کا میں ذکر کرنے لگا ہوں اس میں بھی یہ خصوصیت تھی کہ اس کی شہادت سے قوم نے واقعہ غیر معمولی طور پر زندگی پائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلا دے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے“.پھر فرماتے ہیں:.(روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۱۶) اے مومنو! ہم تمہیں اس طرح پر آزماتے رہیں گے اور کبھی

Page 13

خطبات طاہر بابت شہداء 5 خطبہ جمعہ ۶ اراپریل ۱۹۹۹ء خوفناک حالت تم پر طاری ہوگی اور کبھی فقر وفاقہ تمہارے شامل حال ہوگا اور کبھی تمہارا مالی نقصان ہوگا اور کبھی جانوں پر آفت آئے گی اور کبھی اپنی محنتوں میں ناکام رہو گے اور حسب المراد نتیجے کوششوں کے نہیں نکلیں گے اور کبھی تمہاری پیاری اولا د مرے گی.پس ان لوگوں کو خوشخبری ہو کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کی چیزیں ہیں اور اس کی امانتیں اور اس کی مملوک ہیں.پس حق یہی ہے کہ جس کی امانت ہے اس کی طرف رجوع کرے.یہی لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہیں جو خدا کی راہ کو پاگئے.غرض اسی خلق کا نام صبر اور رضا برضائے الہی ہے“.رپورٹ جلسه اعظم مذاہب صفحہ ۱۱۶،۱۱۵) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی تعلق میں ان قربانیوں کے ادوار میں جماعت کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کوئی یہ نہ کہے کہ میرے پر ہی تکلیف اور ابتلاء کا زمانہ آیا ہے بلکہ ابتداء سے سب نبیوں پر آتا رہا ہے.ایک روایت میں لکھا ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ بیٹے فوت ہوئے تھے.آخر بشریت ہوتی ہے غم کا پیدا ہونا ضروری ہے مگر ہاں صبر کرنے والوں کو پھر بڑے بڑے اجر ملا کرتے ہیں.پھر فرماتے ہیں:.” جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان پڑتا ہے اور ابتلاء آتا ہے تو وہ رگ اور پیٹھے کا لحاظ رکھ کر نہیں آتا.یہ بہت دلچسپ عبارت ہے.لمبی ہے اس میں سے میں نے ایک ٹکڑا لیا ہے.مراد یہ ہے کہ انسان خود خدا کی راہ میں جتنی مرضی محنت کرے اور اپنے بدن کو اس لئے کمائے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرے.جتنی چاہے ریاضت کرے مگر وہ اپنے رگ پٹھے کا بھی خیال رکھتا ہے اور کبھی اس سے غافل نہیں ہوتا مگر جب خدا ابتلاء میں ڈالتا ہے تو ہر گزرگ پٹھے کا خیال نہیں کرتا پھر جس قدر اس کو تکلیف

Page 14

خطبات طاہر بابت شہداء 6 خطبہ جمعہ ۶ ار اپریل ۱۹۹۹ء پہنچے، پہنچنے دیتا ہے اور وہ تکلیف اس کی مرضی سے نہیں ہوتی.بے اختیار کے عالم میں مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں تکلیف اٹھائے اور صبر دکھائے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق میں یہ عبارت پڑھ رہا ہوں اس میں رگ پیٹھے کا جو لفظ آیا ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لیجئے.فرماتے ہیں:.ابتلاء آتا ہے تو وہ رگ اور پٹھے کا لحاظ رکھ نہیں آتا.خدا کو اس کے آرام اور رگ پٹھے کا خیال مدنظر نہیں ہوتا.انسان جب کوئی مجاہدہ کرتا ہے تو اپنا تصرف رکھتا ہے مگر جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان آتا ہے تو اس میں انسان کے تصرف کا دخل نہیں ہوتا.انسان خدا کے امتحان میں بہت جلد ترقی کر لیتا ہے اور وہ مدارج حاصل کر لیتا ہے جو اپنی محنت اور کوشش سے کبھی حاصل نہیں کر سکتا“.(احکم جلدا انمبر۳۴ ، مورخہ ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۵) عمر بھر ریاضتوں میں جو گزر جائے اس کے نتیجے میں اس تیزی کے ساتھ انسانی روح خدا کے حضور صعود نہیں کرتی جتنا خدا کی طرف سے ڈالے ہوئے ابتلاء میں ظہور میں آتا ہے اور یہی صورت ہمارے شہید عزیزم غلام قادر کی شہادت پر اطلاق پاتی ہے.اس تمہید کے بعد جو قرآنی آیات اور احادیث اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کی روشنی میں میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے.اب میں عزیزم مرزا غلام قادر کی شہادت کے متعلق کچھ ایسی باتیں کرنا چاہتا ہوں جو اکثر جماعت کو معلوم نہیں ہونگی.اور کیوں میں اس شہادت کو ایک بہت عظیم اور غیر معمولی شہادت قرار دے رہا ہوں اس کی وجوہات جماعت کی سمجھ نہیں آئیں گی.شاید یہ سمجھتے ہوں کہ میرا رشتہ دار شہید ہوا ہے اس لئے ہم یہ باتیں کر رہے ہیں.جب میں سمجھاؤں گا تو پھر یہ سمجھ آئے گی کہ اس میں رشتے داری یا قرب کا کوئی تعلق نہیں ، یہ شہادت واقعہ ایک غیر معمولی شہادت ہے.اس کے کئی پہلو ایسے ہیں جن کو اس وقت اجاگر کر کے بیان کرنے کی ضرورت ہے اور اس اعلان کے ساتھ جو بھی جمعہ میں شریک احباب و خواتین ہیں میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ نماز جمعہ کے معاً بعد میں ان کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا تو وہ اس میں شریک ہو کر سعادت دارین حاصل کریں.

Page 15

خطبات طاہر بابت شہداء 7 خطبہ جمعہ ۶ اراپریل ۱۹۹۹ء ب سے پہلے قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی براہ راست ذریت کی تیسری نسل سے ہے.غلام قادر شہید حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے اور صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب اور قدسیہ بیگم کے چھوٹے صاحبزادے تھے.قدسیہ بیگم نواب عبد اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صاحبزادی ہیں.اس پہلو سے حضرت اقدس علیہ السلام کے بیٹے اور بیٹی دونوں کے خون ان کی رگوں میں اکٹھے ہو گئے.صرف یہی نہیں بلکہ میرے ساتھ بھی ان کا ایک رشتہ بنتا ہے...میرے ساتھ ان کا جو رشتہ ہے وہ یہ ہے کہ میری ہمشیرہ امتہ الباسط اور بہنوئی میر داؤ د احمد صاحب ابن حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ امتہ الناصر نصرت ان کی بیگم تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے بزرگوں کے خون کا ایک شہید کی رگوں میں اکٹھا ہونا ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو میری نزدیک خاص تقدیر الہی کے تابع ہوا ہے تا کہ سب کا حصہ پڑ جائے.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھی حصہ پڑ گیا اس میں اور سب بزرگوں کے جتنے خون ہیں ان کا اجتماع ہوا ہے اور یہ شاید ہی اس خاندان کے کسی اور لڑکے کے متعلق کہا جاسکتا ہو.جہاں تک شہید کے تعلیمی کوائف کا تعلق ہے وہ ان کی ذہنی اور علمی عظمت کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے لیکن اصل خراج تحسین تو ان کی وقف کی روح ہے جو انہیں پیش کرتی رہے گی اور ہمیشہ ان کو زندہ رکھے گی.ان کی تعلیم پہلے ربوہ اور پھر ایبٹ آباد پبلک سکول میں ہوئی.جہاں سے ایف ایس سی (.F.Sc) کے امتحان میں یہ تمام پشاور یونیورسٹی میں اول قرار پائے.پھر انجینئر نگ یو نیورسٹی لاہور سے الیکٹریکل انجینئر نگ میں بی ایس سی ( B.SC) کی پھر امریکہ جارج میسن یو نیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس (.M.S) کیا اور پاکستان پہنچ کر اپنے وقف کے عہد پر پورا اترتے ہوئے اپنی خدمات سلسلہ کے حضور پیش کر دیں.ربوہ میں کمپیوٹر کے شعبے کا آغاز کرنے اور پھر اسے جدیدترین ترقی یافتہ خطوط پر ڈھالنے کی ان کو تو فیق ملی.وہاں بہت ہی عظیم کام ہورہے ہیں کمپیوٹر میں پوری ٹیم تیار ہوگئی ہے اور ان کا نظام دنیا کے کسی ملک سے پیچھے نہیں ہے.جدید ترین سہولتیں مہیا کی گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے بہت سے کام جو زیادہ کاموں کے اجتماع کی وجہ سے یہاں نہیں کئے جا سکتے وہ ہم وہاں ربوہ بھیجتے ہیں

Page 16

خطبات طاہر بابت شہداء 8 خطبہ جمعہ ۶ ار اپریل ۱۹۹۹ء اور وہاں کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ ہمارے اس کام کو آسان کر دیتا ہے.بہت سی کتابیں چھپ رہی ہیں، بہت سے ایسے کام ہیں وہ وہاں چلے جاتے ہیں.وہاں سے ڈسک (Disc) بن کر ہمارے پاس آ جاتی ہے تو اس کا بھی سہرا غلام قادر مرحوم کے سر پر ہے.نہایت محنتی ، خاموش طبع اور دلنواز شخصیت کے مالک تھے.تین خوبیاں یہ ایسی نمایاں تھیں.بے انتہاء محنتی ، خاموش طبع ، چپ چاپ اپنے کام میں لگے رہتے تھے اور شخصیت بڑی دلنواز تھی ، دل لبھانے والی تھی جس کو طبیعت کے بے تکلف انکسار نے چار چاند لگا دیئے تھے یعنی انکسار ایسا تھا جو بالکل بے تکلف مزاج کی رگ رگ میں داخل تھا.شہید ۱۲/جنوری ۱۹۶۲ء کو پیدا ہوئے تھے گویا اس عظیم شہادت کے وقت ان کی عمر ۳۷ سال کے قریب تھی اور اب یہ عمر لا زوال ہو چکی ہے.ان کے پسماندگان میں عزیزہ امتہ الناصر نصرت جو میری بہت ہی پیاری بھانجی ہیں ان کے بطن سے ایک نو سالہ بیٹی عزیز سطوت جہاں ہے، ایک سات سالہ بیٹا کرشن احمد ہے نیز اڑھائی سالہ جڑواں بچے عزیز ان محمد مفلح اور نور الدین شامل ہیں.ایک خصوصیت جو اس شہادت کو اس دور کی سب دوسری شہادتوں سے ممتاز کرتی ہے جس کا میں ابھی ذکر کرنے والا ہوں وہ یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک بہت ہی ہولناک ملک گیر فتنہ کے احتمال سے بچالیا.اس سے پہلے کوئی ایسی شہادت نہیں جس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہو کہ اس شہادت کے نتیجے میں بکثرت معصوموں کے خون بہائے جانے کے احتمال سے خدا تعالیٰ نے بچالیا ہو.اور یہ بہت ہی گہری اور بہت ہی کمینی اور ہولناک سازش تھی.جس کے متعلق اب مزید تحقیق جاری ہے اور اگر چہ پولیس نے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی تھی مگر ہمارے ماہرین لگے ہوئے ہیں اور پوری تفاصیل معلوم کر کے رہیں گے انشاء اللہ.لیکن جواب تک معلوم ہو چکا ہے اس پر بنا کرتے ہوئے میں آپ کو یقین کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ کوائف کیا ہیں.ان کا اغوالشکر جھنگوی کے چار اشتہاری بدمعاشوں نے جن کا سرغنہ لشکر جھنگوی کا ایک نہایت بد نام زمانہ مولوی تھا اور یہ چاروں مفرور مجرم پولیس کو انتہائی خطر ناک جرائم کے ارتکاب میں اس درجہ مطلوب تھے کہ ان میں سے ہر ایک کے سر کی قیمت حکومت نے ہمیں نہیں لاکھ مقرر کر رکھی تھی یعنی بد بخت ملاں جو اس کا سربراہ تھا اور باقی پیشہ ور بدمعاش جو ان کی ملازمت میں رہتے ہیں ان

Page 17

خطبات طاہر بابت شہداء 9 خطبہ جمعہ ۶ ار اپریل ۱۹۹۹ء سب کے سروں کی ہیں بیس لاکھ قیمت مقرر کر رکھی تھی.اس قسم کے منتظم جرائم کے ماہرین سے ہم نے مشورہ کیا ہے ان کی قطعی رائے یہ ہے کہ ان کو شیعوں پر خطرناک حملہ کرنے کے الزام میں ملوث کیا جائے کیونکہ محرم کا زمانہ ہے اس لئے دنیا پر یہ ظاہر کرنا تھا اور سارے ملک میں یہ کہہ کے آگ لگانی تھی کہ بے چارے سپاہ صحابہ پر تو خواہ مخواہ الزام آتے ہیں اصلی بد معاشی جماعت احمد یہ کروارہی ہے اور محرم وغیرہ کے مواقع پر جو ملک گیر فسادات ہوتے ہیں ان میں یہ ذمہ دار ہیں اور اگر یہ پتہ چل جائے کہ جماعت احمد یہ ملوث ہے تو پھر وہ ملک گیر فسادات بہت زیادہ ہولناک صورت اختیار کر سکتے تھے.بے شمار احمدی معصوموں کی جانیں ان کے رحم و کرم پر ہوتیں ، جو رحم و کرم کا نام تک نہیں جانتے.چنانچہ ماہرین بڑی قطعیت کے ساتھ یہ کہتے ہیں اور ان کے پاس یہ کہنے کی وجوہات موجود ہیں.ان کی کارسمیت ان کی لاش کو وہ کہتے ہیں کہ جلا دینا مقصود تھا.جس میں دہشت گردی کے جدید ترین ہتھیار مثلاً راکٹ لانچرز، گرینیڈ اور گرینیڈ لانچر اور بہت سے کلاشنکوفیں بھر دی جانی تھیں.یہ خیال کیوں ان کو آیا اس لئے کہ ایک شخص کے قتل کے لئے اتنا بھاری جدید اسلحہ جو دہشت گردی کے جدیدترین تیارلوگوں کو جو ٹرینڈ آدمی ہیں ان کو دیا جاتا ہے وہ ساتھ لے جانے کی ضرورت کیا تھی.ایک کار سے ان سارے جدید ترین اسلحات کی بھر مار پکڑی گئی ہے اور ان ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ساری چیزیں ان کی کار میں بھر کر ان کو جلا دینا مقصود تھا لیکن اندر سے وہ چیزیں پکڑیں جاتیں اور یہ الزام لگتا کہ سارے پاکستان میں جو خطرناک اسلح تقسیم ہورہا ہے اور بدمعاشیاں کی جا رہی ہیں یہ جماعت احمدیہ کروارہی ہے.اور یہ جو چیزیں پکڑی گئیں یہ پولیس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ایک طرف تو اس کو اتفاقا ڈکیتی کا واقعہ بیان کرتی ہے اور دوسری طرف تسلیم کرتی ہے کہ ساری چیزیں ان کے پاس تھیں.عام ڈکیتی میں اتنے خطرناک ہتھیاروں کی ضرورت کیسے ہوسکتی ہے.یہ ویسے ہی ناممکن ہے.اب عزیزم غلام قادر شہید کا جو غیر معمولی کارنامہ ہے وہ یہ ہے کہ اس کو سمجھ آئی تھی یہ ایک بہت خطرناک سازش ہے جس کے بداثرات جماعت پر مرتب ہو سکتے ہیں.چنانچہ اس نے بالکل پروانہیں کی کہ اس کو کیا تکلیف دی جارہی ہے.اس کے گلے گھونٹنے کی کوشش کی گئی اس کو ہر طرح سے اندر خنجر مار کے بھی مارنے کی کوشش کی گئی تاکہ وہ بیچ کے باہر نہ نکل سکے لیکن بڑی سخت جان کے ساتھ سارے مصائب برداشت کرتے ہوئے وہ ان کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور یہ پسند کیا

Page 18

خطبات طاہر بابت شہداء 10 خطبہ جمعہ ۶ ار اپریل ۱۹۹۹ء کہ سڑک پر اس کا خون بہہ جائے تا کہ جماعت احمد یہ اس سازش کے بداثرات سے محفوظ رہے اور ان کے قبضہ میں آکر دہشت گردی کے منصوبے میں اس کو ملوث نہ کیا جا سکے.یہ جد و جہد تھی قادر کی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہی.شدید جسمانی اذیت پہنچی ہے مگر بالکل پروا نہیں کی.آخر دم تک ان سے لڑتا رہا اور اغواء کا منصوبہ نا کام کر دیا اور سڑک پر باہر نکل کر ان کی گولیوں کا نشانہ بننا قبول کر لیا.اس شہادت کا یہ پہلو ایسا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ قیامت تک شہید کے خون کا ہر قطرہ آسمان احمدیت پرستاروں کی طرح جگمگاتا رہے گا.مجھے اس بچے سے بہت محبت تھی.میں اس کی خوبیوں پر گہری نظر رکھتا تھا.میں جانتا تھا کہ کیا چیز ہے.اس وجہ سے میں بہت ہی پیار کرتا تھا گویا یہ میری آنکھوں کا تارا تھا.مجھے صرف ایک حسرت ہے کہ کاش کبھی لفظوں میں اس کو بتا دیا ہوتا کہ اسے قادر تم مجھے کتنے پیارے ہوں.کبھی آج تک ناز اور غم کے جذبات نے مل کر میرے دل پر ایسی یلغار نہیں کی.ناز بھی ہے اور غم بھی ہے ان دونوں جذبات نے مل کر کبھی میرے دل پر ایسی یلغار نہیں کی جیسے قادر شہید کی شہادت نے کی ہے.إِنَّمَا أَشْكُوابَتِي وَحُزْنِي إِلَى اللهِ (یوسف:۸۷) خدا کے حضور آنسو بہانا منع نہیں ہے.کوشش یہی ہونی چاہئے کہ دنیا کے سامنے یہ آنسو نہ ہیں صرف اللہ کے حضور ہیں مگر بے اختیاری میں نکل بھی جاتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیٹے حضرت ابراہیم کو قبر میں دفناتے ہوئے اگر چہ بے انتہاء صبر کا مظاہرہ کیا مگر آنکھوں سے آنسو جاری تھے.ایک بدنصیب نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کی آنکھ سے آنسو! کیا دیکھ رہا ہوں.آپ نے فرمایا خدا نے مجھے شقی القلب نہیں بنایا.اگر تم بد نصیب ہو تو میری پاس اس کا کوئی علاج نہیں.میرا دل سخت نہیں ہے.میرے دل کے خون کے قطرے میرے آنسو بن کر بہہ جاتے ہیں مگر یہ ایک بے اختیار کا معاملہ ہے، میرے صبر کے باوجود ایسا ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر صبر کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے.پس میں آخر پر قادر شہید کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں سید الشہداء حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو خدا تعالیٰ

Page 19

خطبات طاہر بابت شہداء 11 خطبہ جمعہ ۶ اراپریل ۱۹۹۹ء نے سید الشہداء ہونے کی توفیق عطا فرمائی وہ تو ازلی ابدی توفیق ہے اس کا مقابلہ تو نہ قادر کر سکتا ہے نہ کوئی اور کر سکتا ہے پس اے شہید تو ہمیشہ زندہ رہے گا اور ہم سب ایک دن آ کر تجھ سے ملنے والے ہیں.زندہ باد، غلام قادر شہید، پائندہ باد.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا: میں نے بارہا نصیحت کی ہے کہ جو میرے سامنے بیٹھے ہوں وہ گھور گھور کے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھا کریں اس سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے جس کو Embarrassment کہتے ہیں نا اور باوجود بار بار یہ کہنے کے پھر بھی لوگ ایسے ہی کرتے ہیں.اب بھی ایک دیکھ رہے ہیں سامنے بیٹھے ہوئے زرد قمیص والے.آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھا کریں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کا یہی طریق تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کا بھی یہی طریق تھا.جب نظریں نہ پڑتی ہوں کسی پہلو پر بیٹھے ہوں یا نظریں نہ پڑ رہی ہوں اس وقت بے شک دیکھ لو، ایک محبت کا بے اختیار جذ بہ ہوا کرتا ہے مگر خصوصاً ایسے خطبہ میں جس میں انسان جذباتی ہو جاتا ہے مجھے سخت تکلیف پہنچتی ہے جب میں دیکھ رہا ہوں کہ بعض لوگ گھور گھور کر مجھے دیکھے چلے جارہے ہیں.پس اس کے بعد میں اب خطبہ ثانیہ پڑھتا ہوں.خطبہ ثانیہ کے بعد مزید فرمایا: احباب دوسنتیں پڑھ لیں.جمعہ کے معا بعد پھر میں نماز جنازہ پڑھاؤں گا پھر آپ کو رخصت ہوگی.

Page 20

بنگر این شوخی ازاں شیخ عجم ایس بیاباں کر د طے از یک قدم سید الشہداء حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید رئیس اعظم خوست افغانستان تاریخ شہادت ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء

Page 21

خطبات طاہر بابت شہداء 13 خطبه جمعه ۲۳ رابریل ۱۹۹۹ء حضرت سید عبد اللطیف شہید کا بل کی شہادت کابل ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ را پریل ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا: وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِى سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَا ولكِن لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة: ۱۵۵) وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ اَمْوَاتُ جو بھی اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو کو مردے نہ کہو.بل احیا ہے بلکہ وہ تو زندہ ہیں.جبکہ حال یہ ہے کہ تم اس کا شعور نہیں رکھتے.یہی وہ آیت ہے جو شہداء کے ضمن میں ہمیشہ پڑھی جاتی ہے اور اسی تعلق میں میں آج اس مضمون کو جاری رکھوں گا جو پچھلے خطبہ میں بیان کیا تھا.ایک غلطی جو اُس خطبہ کے دوران مجھ سے ہوئی وہ نسبتی غلطی تھی یعنی میں نے غلام قادر شہید کو اپنے دور کا سید الشہداء کہہ دیا تھا اور اس پہلو سے اس کے بعد مجھے رات بھر یہ پریشانی رہی اور دوسرے دن صبح میں نے پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کو ہدایت کی کہ اپنے اخباروں کو، رسالوں کو اچھی طرح ہدایت کر دیں کہ یہ لفظ کسی نسبت سے بھی نہ استعمال ہو اور ایسا ہی ہوگا لیکن میں وجہ بیان کر رہا ہوں کہ کیوں میں نے ایسا کیا.پہلی وجہ تو یہ ہے کہ مجھے خیال آیا کہ اللہ کے سوا کون کسی کو سید الشہداء کہہ سکتا ہے، وہ ہر حال سے باخبر ہے.وہی ایک ذات ہے جو کسی کے متعلق سید الشہداء ہونے کا

Page 22

خطبات طاہر بابت شہداء 14 خطبه جمعه ۲۳ راپریل ۱۹۹۹ء فتوی دے سکتی ہے اور کسی دور کی نسبت سے اللہ ہی کو حق ہے اور کسی کوحق نہیں ہے.اور اس تعلق میں میرا ذ ہن حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب شہید کی طرف گیا اور خیال آیا کہ اگر یہ بات اسی طرح رہی اور ہمارے اخباروں میں اور کیسٹس میں لوگ یہ سنتے چلے گئے تو قیامت تک یہ ایک ناجائز سلسلہ شروع ہو جائے گا.ہمارے شہداء کا دور تو اللہ بہتر جانتا ہے کب تک چلنا ہے اور سب میں ایک دوسرے سے بڑھنے کے شوق میں یہ ناجائز دوڑ شروع ہو جائے گی کہ کوئی کہے گا اس دور کا یہ سیدالشہداء ہے اُس دور کا وہ سید الشہداء ہے اور اصل شہید کی عظمت پر ایک رنگ میں پردہ پڑ جائے گا جو حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید ہیں، ہمیشہ وہی رہیں گے کوئی نہیں جو ان کی پاسنگ کو بھی پہنچتا ہو.پس اس پہلو سے میں نے آج کے خطبہ میں ایک تو یہ وضاحت کرنی ضروری سمجھی اور کچھ اور وضاحتیں بھی ، کچھ لفظی غلطیاں وغیرہ اور رہ گئی تھیں جو میں درست کرنا چاہتا ہوں.ایک غلطی ایسی ہوئی ہے جو میرے علم میں ہے کہ غلط ہے اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا کہ غلام قادر شہید کی رگوں میں میرا یا میری ماں کا یا میر داؤ د احمد صاحب یا میر محمد الحق صاحب کا خون دوڑ رہا ہے.مجھے علم ہے، اچھی طرح جانتے ہوئے میرے منہ سے بجائے یہ نکلنے کے کہ شہید کی اولاد میں یہ سب خون دوڑ رہا ہے، یہ لفظ نکل گیا کہ شہید کے خون میں دوڑ رہا ہے اور ایک غلطی سے دوسری غلطی پیدا ہونے لگ گئی.پس جو خون آپ کی رگوں سے بہا ہے بلاشبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کا خون ہے.اس میں میرا یا کسی اور کے خون کے شامل ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے ہاں ان کی اولاد میں یہ خون اکٹھے ہو گئے ہیں اور اس کی کوئی مثال خاندان میں آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گی.ان کے بچوں میں جو خون اکٹھے ہوئے ہیں وہ تو لگتا ہے مجمع البحرین ہے.ہر طرف سے آ آ کر خون کی نالیاں مل گئی ہیں.تو اس درستی کو بھی پیش نظر رکھیں اور ان کے متعلق جو میرا فقرہ منہ سے نکلا تھا وہ کسی پہلو سے بھی درست نہیں تھا.وہ کہنا یہ چاہئے تھا کہ آپ کی اولاد میں یہ خون اکٹھے ہو گئے ، منہ سے نکل گیا کہ ان کے خون میں یہ سب خون اکٹھے ہو گئے.دوسرا ایک اور غلطی جو لفظی ہے جو تحریر میں غلط لکھی گئی تھی اور اسی طرح میں نے اس کو پڑھ دیا یا تحریر میں ٹھیک لکھی گئی ہوگی یا میری نظر کا قصور ہوگا اللہ بہتر جانتا ہے کیا واقعہ ہوا.ان کے ایک بچے کا نام جو جڑواں بچہ ہے محمد معظم لکھا گیا تھا حالانکہ محمد مصلح نام ہے.ماں باپ نے محمد مصلح نام رکھا تھا اور

Page 23

خطبات طاہر بابت شہداء 15 خطبه جمعه ۲۳ را پریل ۱۹۹۹ء لکھنے میں کوئی طرز ایسی تھی کہ میں اسے محمد معظم پڑھ گیا.تو یہ معمولی ایک ثانوی سی غلطی ہے مگر اس کی درستی بھی ضروری تھی.ایک لفظ محرم کا ہے جو میں غلط استعمال کرتارہا ہوں سارے عرصہ میں اور اچھا بھلا علم ہے کہ محرم ذوالحج کا مہینہ گزرنے کے بعد شروع ہوتا ہے.ہمیشہ سے علم ہے، ہر بچہ بچہ جانتا ہے لیکن میں حج کے معابعد یہ کہنے لگ پڑا کہ محرم شروع ہو گیا.اس غلطی کو تو میں یقیناً یہی سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ کے تصرف سے ہوئی تھی کیونکہ جماعت احمدیہ کے لئے یہ محرم شروع ہو چکا تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو خون بہا ہے شہادت کے طور پر اور آپ کی اولاد کے ذریعہ یہ کر بلا کی یاد تازہ کرتا ہے.پس اس پہلو سے اس کو تو غلطی سے زیادہ تصرف الہی سمجھتا ہوں.یہ میرا بار بار کہنا کہ محرم شروع گیا ہے دعائیں کرو یہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوا ہے.وہ یہی چاہتا تھا کہ جماعت کثرت کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی آل پر جو سچی روحانی آل ہیں درود بھیجنا شروع کر دیں.کیونکہ محرم سے پہلے پہلے ہی یعنی اصل مہینہ شروع ہونے سے پہلے ہی یہ واقعہ گزر جانا تھا.ایک اور بات میں یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے خطبہ سے کئی لوگوں کو یہ غلط تاثر ہوا ہے کہ مجھے جو غلام قادر سے محبت تھی اور ان کی شہادت کا صدمہ ہے اس کی وہ اپنی بہن امتہ الباسط کا خیال رہا ہے اور اپنی بھانجی نصرت کا، یہ درست نہیں.کئی لوگ تعزیت میں بھی یہ بات کہتے ہیں، ہرگز یہ درست نہیں ہے.لوگوں کو تصور نہیں کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خون سے کیسی محبت ہے.ایسا عاشق ہوں کہ شاید کوئی اور اس کی نظیر نہ ملتی ہو.اور اس کا ذہن پر اتنا دباؤ تھا کہ دیکھو پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خون شہادت کے طور پر گلیوں میں ظاہر ہوا ہے.تو اس ضمن میں امتہ الباسط کا بھی ذکر کیا ہے، عزیزہ نچھو (نصرت) کا بھی ذکر کیا گیا، مگر وہ وجوہات نہیں ہیں.چنانچہ وہ لوگ جواب مجھے لکھ رہے ہیں تعزیت کے لئے کہ آپ کی بہن امتہ الباسط.اس کا دُور کا بھی تعلق نہیں.عزیزم غلام قادر سے مجھے جو محبت تھی وہ بہت پہلے سے ہے اور اس کی وجہ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا تفصیلی وجہ کہ کیوں ایسا ہوا، مگر میرے دل میں ڈال دی گئی تھی.چنانچہ عزیزہ نصرت یعنی

Page 24

خطبات طاہر بابت شہداء 16 خطبه جمعه ۲۳ را پریل ۱۹۹۹ء جن کو ہم نچھو کہتے ہیں انہوں نے میری بیٹی کو فون پر بتایا کہ جب غلام قادر نے وقف کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے تو اس وقت میں نے ان کے نام ایک خط لکھا تھا اور اتنا غیر معمولی ، اس قدر محبت کا اظہار تھا کہ وہ حیران رہ گئے اور اس خط کو غالبا نصرت کی تجویز پر ہی انہوں نے فریم کرا کر اپنے گھر رکھا ہوا.تو میں آپ کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ جو بھی میرا تعلق تھا وہ اللہ کی طرف سے دل میں ڈالا گیا تھا اور ایسا ہونا چاہئے تھا کیونکہ اب میں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام پڑھ کے سناتا ہوں.جس کا اطلاق لازماً مرزا غلام قادر شہید کے اوپر ہوتا ہے ،اس کے سوا ہو ہی نہیں سکتا.۱۹۰۴ء میں ۲۵ نومبر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا غلام قادر آگئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا.ردالله الی ( تذکرہ صفحہ: ۴۳۹) نیچے ترجمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اسے میرے پاس پھر بھیج دیا.ردّ الله الی کا ترجمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اسے میرے پاس بھیج دیا.اب غلطی سے اس سے پہلے اس الہام کو حضرت مرزا غلام قادر کے اوپر چسپاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ حضرت مرزا غلام قادر تو اس الہام سے بہت پہلے وفات پاچکے تھے اور ان کے آنے سے مسیح موعود کا گھر کیسے برکت سے بھر گیا.گھر نور اور برکت سے بھر گیا ظاہر ہے کہ یہ ایک پیشگوئی تھی ، ایک ایسا غلام قادر آنے والا ہے میری اولاد میں جس کے آنے سے جس گھر میں آئے گا وہ گھر برکت اور نور سے بھر جائے گا.اس سلسلہ میں مرزا غلام قادر جو بہت پہلے فوت ہو چکے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوای ماموریت کے بعد ہوئے.لیکن مخالفتوں کے دور سے بہت پہلے کے فوت ہو چکے ہیں.ان کے متعلق مجھے توجہ دلائی ہے ایک بزرگ نے کہ اردو کلاس میں کہیں میرے منہ سے یہ نکل گیا تھا کہ مرزا غلام قادر مخالفت کی حالت میں فوت ہو گئے تھے، یہ درست نہیں ہے.حضرت مرزا غلام قادر نے کبھی بھی مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت نہیں کی.مخالفت کی حالت سے مراد یہ ہے کہ وہ دور پہلے کا جو تھا ابھی مخالفانہ اس حالت میں بھی نہیں کہنا چاہئے تھا.کہنا یہ چاہتے تھے اس مخالفت کے دور سے پہلے فوت ہو چکے تھے.یہ درستی الفضل میں شائع کر دی جائے گی جب یہ خطبے چھپیں گے.لیکن ان سب باتوں کے متعلق میں وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کہ جب لوگ پڑھیں گے اور جنہوں نے کیسٹ سنی ہوئی ہوگی تو فرق کی وجہ یہ ہے کہ منہ سے بعض غلط لفظ نکل جاتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ کا مجھ سے

Page 25

خطبات طاہر بابت شہداء 17 خطبه جمعه ۲۳ راپریل ۱۹۹۹ء سلوک رہا ہے کہ میرے مرنے سے پہلے پہلے وہ ان غلطیوں کی اصلاح کر دیتا ہے جو جماعتی تاریخ کے لحاظ سے ضروری ہوتی ہیں.پس الحمد للہ کہ اس کے احسانات ہیں مجھ پر.مجھے امید ہے میرے مرنے تک ہمیشہ اسی طرح جاری رہیں گے.اب اس کے بعد میں آپ کے سامنے سید الشہداء کا ذکر کرنے لگا ہوں.میں بتانا چاہتا ہوں کہ سید الشہداء حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کے تو پاسنگ کو بھی دوسری شہادتیں نہیں پہنچ سکتیں، کوئی نسبت نہیں.جسے خدا نے سید الشہداء کہ دیا، جسے خدا کے مامور نے اللہ سے علم پا کر سید الشہداء کہ دیا اس کے ساتھ کوئی مماثلت نہیں.میں نے اب وہ ساری شہادتیں اکٹھی کی ہیں جن کے متعلق مختلف وقتوں میں میں بیان کرتارہا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دور میں، حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دور میں، پھر میرے دور میں.ان کی اب میں بعض آئندہ خطبات میں باتیں کروں گا.جب تک یہ ذکر یار چلتا ہے چلتا رہے اور مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ غلام قادر کی شہادت کی وجہ سے اللہ نے مجھے یہ موقع دیا کہ دوسرے شہداء کا بھی پھر ذکر خیر جاری کر دوں، اس کے نتیجے میں ان کی یاد تازہ ہوگی اور ہر شہادت کے وقت رشتہ دار کامل طور پر اعتراف کریں گے کہ ان کی شہادت کو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کی شہادت سے کوئی نسبت نہیں، زمین آسمان کا فرق ہے.وہ شہادت ہی اور ہے.چنانچہ اب میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کی شہادت کا واقعہ جہاں تک ممکن ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں پڑھ کر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۱۲٬۵۱۱ جدید ایڈیشن : ” صاحبزادہ عبداللطیف شہید کی شہادت کا واقعہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے.تذکرۃ الشہادتین کو بار بار پڑھو اور دیکھو کہ اس نے اپنے ایمان کا کیسا نمونہ دکھایا.اس نے دنیا اور اس کے تعلقات کی کچھ بھی پروا نہیں کی.بیوی یا بچوں کا غم اس کے ایمان پر کوئی اثر نہیں ڈال سکا.دنیوی عزت اور منصب اور تنعم نے اس کو بزدل نہیں بنایا.اس نے جان دینی گوارا کی مگر ایمان کو ضائع نہیں کیا.عبداللطیف کہنے کو مارا گیا یا مر گیا مگر یقیناً سمجھو کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا.

Page 26

خطبات طاہر بابت شہداء پھر فرماتے ہیں: 18 خطبه جمعه ۲۳ راپریل ۱۹۹۹ء ”دیکھو مولوی عبداللطیف صاحب شہید اسی بیعت کی وجہ سے پتھروں سے مارے گئے.ایک گھنٹہ تک برابر ان پر پتھر برسائے گئے حتی کہ ان کا جسم پتھروں میں چھپ گیا مگر انہوں نے اف تک نہ کی ، ایک شیخ تک نہ ماری بلکہ ان کو اس ظالمانہ کارروائی سے پیشتر تین بار خود امیر نے اس امر سے تو بہ کرنے کے واسطے کہا اور وعدہ کیا کہ اگر تم تو بہ کرو تو معاف کر دیا جاوے گا اور پیشتر سے زیادہ عزت اور عہدہ عطا کیا جاوے گا مگر وہ تھا کہ خدا کو مقدم کیا اور کسی دکھ کی جو خدا کے واسطے ان پر آنے والا تھا پر واہ نہ کی اور ثابت قدم رہ کر ایک نہایت عمدہ زندہ نمونہ اپنے کامل ایمان کا چھوڑ گئے.وہ بڑے فاضل عالم اور محدث تھے“.اب صرف یہی لفظ دیکھ لیں ان کا اطلاق بعد کے کسی شہید کے اوپر نہیں کیا جاسکتا.علم وفضل کے لحاظ سے محدث بھی تھے اور محدث بھی تھے.حدیث کا گہرا علم تھا اور اپنے زمانے کے اقطاب میں سے تھے.پس اس پہلو سے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے ساتھ بعد کی شہادتوں کو کیا نسبت ہے.وہی نسبت ہو سکتی ہے جو کسی بزرگ یا بلند مرتبہ کی خاک سے کسی کو نسبت ہوسکتی ہے.”سنا ہے کہ جب ان کو پکڑ کر لے جانے لگے تو ان سے کہا گیا کہ اپنے بال بچوں سے مل لوان کو دیکھ لو.اب کون ہے بعد کا شہید جو اس پیشکش کے باوجود ملنے سے انکار کر دے، کوئی ہے تو مجھے دکھاؤ.مگر انہوں نے کہا اب کچھ ضرورت نہیں.یہ ہے بیعت کی حقیقت اور غرض و غایت“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۴۵۷-۴۵۸) پھر فرماتے ہیں: یقیناً یا درکھو کہ جس طرز سے انہوں نے میری تصدیق کی راہ میں مرنا قبول کیا اس قسم کی موت اسلام کے تیرہ سو برس کے سلسلے میں بجز نمونہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اور کسی طرح نہیں پاؤ گے.اب جو مختلف رستوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قطعی شہادتیں ملی ہیں.اس

Page 27

خطبات طاہر بابت شہداء 19 خطبه جمعه ۲۳ راپریل ۱۹۹۹ء واقعہ کے بعد جو شہادتیں اکٹھی ہوئی ہیں اور آنکھوں دیکھے گواہوں نے جو واقعات بیان کئے ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: چونکہ قضاء وقد ر سے مولوی صاحب کی شہادت مقدر تھی اور آسمان پر وہ برگزیدہ بزمرہ شہداء داخل ہو چکا تھا اس لئے امیر صاحب نے ان کو بلانے کے لئے حکمت عملی سے کام لیا اور ان کی طرف خط لکھا کہ آپ بلا خطر چلے آؤ اگر یہ دعوی سچا ہوگا تو میں بھی مرید ہو جاؤں گا“.اس بے وقوف امیر کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ ہیں کون.ان کو دھوکہ دینے کی ضرورت ہی کوئی نہیں ہے.وہ تو کہا جائے کہ تم موت کے منہ میں آنکھیں ڈال کر دیکھو اور تکلیفوں کے ساتھ مارے جاؤ تو دوڑتے ہوئے اس وقت چلے آتے.مگر ان بیوقوفوں کا جن کا ایمان نہیں تھا.ان کا ایک حیلہ تھا اور پیغام یہ بھیجا کہ اگر یہ دعویٰ سچا ہو گا تو میں بھی مرید ہو جاؤں گا.بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ خط امیر صاحب نے ڈاک میں بھیجا تھا یا دستی روانہ کیا تھا بہر حال اس خط کو دیکھ کر مولوی صاحب موصوف کابل کی طرف روانہ ہو گئے اور قضاء و قدر نے نازل ہونا شروع کر دیا.راویوں نے یہ بیان کیا ہے کہ جب شہید مرحوم کا بل کے بازار سے گزرے تو گھوڑے پر سوار تھے اور ان کے پیچھے آٹھ سرکاری سوار تھے اور ان کی تشریف آوری سے پہلے عام طور پر کابل میں مشہور تھا کہ امیر صاحب نے اخوند زادہ صاحب کو دھوکہ دیکر بلایا ہے اب بعد اس کے دیکھنے والوں کا یہ بیان ہے.یہاں اخوندزادہ سے مراد حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید ہیں.کہ جب اخوند زادہ صاحب مرحوم بازار سے گزرے تو ہم اور دوسرے بہت سے بازاری لوگ ساتھ چلے گئے“.اب یہ موقع کے گواہوں کا بیان ہے.اور یہ بھی بیان کیا کہ آٹھ سرکاری سوارخوست سے ہی ان کے ہمراہ کئے گئے تھے کیونکہ ان کے خوست میں پہنچنے سے پہلے حکم سرکاری ان کے گرفتار

Page 28

خطبات طاہر بابت شہداء 20 20 خطبه جمعه ۲۳ راپریل ۱۹۹۹ء کرنے کے لئے حاکم خوست کے نام آچکا تھا.غرض جب امیر صاحب کے رو برو پیش کئے گئے تو مخالفوں نے پہلے سے ہی ان کے مزاج کو بہت کچھ متغیر کر رکھا تھا.اب امیر کی بدتمیزی اور بے شرمی ملاحظہ کریں کہ وہ کہتا ہے مجھے ان سے بُو آتی ہے.امیر نے حاضرین کے سامنے یہ بیان دیا:.حکم دیا کہ مجھے ان سے بُو آتی ہے ان کو فاصلہ پر کھڑا کرو.پھر تھوڑی دیر کے بعد حکم دیا کہ ان کو اس قلعہ میں جس میں خود امیر صاحب رہتے ہیں قید کر دو اور زنجیر غراغراب لگادی.زنجیر غراغراب کیا چیز ہے.ید زنجیر وزنی ایک من چو بیس سیر انگریزی کا “.مراد ہے کہ یہ وزن انگریزی بیان کیا جا رہا ہے.یہ زنجیر وزنی ایک من چوبیس سیر انگریزی کا ہوتا ہے.گردن سے کمر تک گھیر لیتا ہے اور اس میں ہتھکڑی بھی شامل ہے اور نیز حکم دیا کہ پاؤں میں بیٹری وزنی آٹھ سیر انگریزی کی لگا دو.انگریزی بیٹری سے مراد انگریزی بیٹری نہیں بلکہ آٹھ سیر انگریزی.پھر اس کے بعد مولوی صاحب مرحوم چار مہینہ قید میں رہے.ان کے دکھوں اور تکلیفوں کا زمانہ کتنا لمبا ہوا ہے.چار مہینہ قید میں رہے اور اس عرصہ میں کئی دفعہ ان کو امیر کی طرف سے فہمائش ہوئی کہ اگر تم اس خیال سے تو بہ کرو کہ قادیانی در حقیقت مسیح موعود ہے تو تمہیں رہائی دی جائے گی مگر ہر ایک مرتبہ انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں صاحب علم ہوں اور حق و باطل کی شناخت کرنے کی خدا نے مجھے قوت عطا کی ہے، میں نے پوری تحقیق سے معلوم کر لیا ہے کہ یہ شخص در حقیقت مسیح موعود ہے.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میرے اس پہلو کے اختیار کرنے میں میری جان کی خیر

Page 29

خطبات طاہر بابت شہداء 21 خطبه جمعه ۲۳ راپریل ۱۹۹۹ء نہیں اور میرے اہل وعیال کی بربادی ہے مگر میں اس وقت اپنے ایمان کو اپنی جان اور ہر ایک دنیوی راحت پر مقدم سمجھتا ہوں“.”لوگوں نے شہید مرحوم کی اس استقامت اور استقلال کو نہایت تعجب سے دیکھا اور در حقیقت تعجب کا مقام تھا کہ ایسا جلیل الشان شخص کہ جو کئی لاکھ روپیہ کی ریاست کا بل میں جاگیر رکھتا تھا اور اپنے فضائل علمی اور تقویٰ کی وجہ سے گویا تمام سرزمین کابل کا پیشوا تھا اور قریباً پچاس برس کی عمر تک تنعم اور آرام میں زندگی بسر کی تھی اور بہت سا اہل وعیال اور عزیز فرزند رکھتا تھا پھر یک دفعہ وہ ایسی سنگین قید میں ڈالا گیا جو موت سے بدتر تھی جس کے تصور سے بھی انسان کے بدن پر لرزہ پڑتا ہے.ایسا نازک اندام اور نعمتوں کا پروردہ انسان وہ اس روح کے گداز کرنے والی قید میں صبر کر سکے اور جان کو ایمان پر فدا کرے بالخصوص جس حالت میں امیر کابل کی طرف سے بار باران کو پیغام پہنچتا تھا کہ اس قادیانی شخص کے تصدیق دعوی سے انکار کر دو تو تم ابھی عزت سے رہا کئے جاؤ گے.مگر اس قوی الایمان بزرگ نے اس بار بار کے وعدہ کی کچھ بھی پروا نہ کی اور بار بار یہی جواب دیا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں ایمان پر دنیا کو مقدم رکھ لوں اور کیوں کر ہوسکتا ہے کہ جس کو میں نے خوب شناخت کر لیا اور ہر ایک طرح سے تسلی کر لی اپنی موت کے خوف سے اس کا انکار کر دوں.یہ انکار تو مجھ سے نہیں ہوگا.میں دیکھ رہا ہوں کہ میں نے حق کو پالیا.اس لئے چند روزہ زندگی کے لئے مجھ سے بے ایمانی نہیں ہوگی کہ میں اس ثابت شدہ حق کو چھوڑ دوں.میں جان چھوڑنے کے لئے تیار ہوں اور فیصلہ کر چکا ہوں کہ حق میرے ساتھ جائے گا.اس بزرگ کے بار بار کے یہ جواب ایسے تھے کہ سرزمین کا بل ان کو کبھی فراموش نہیں کرے گی اور کابل کے لوگوں نے اپنی تمام عمر میں یہ نمونہ ایمانداری اور استقامت کا کبھی نہیں دیکھا ہوگا“.( تذكرة الشهادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۰-۵۲)

Page 30

خطبات طاہر بابت شہداء 22 22 خطبه جمعه ۲۳ را پریل ۱۹۹۹ء کن معنوں میں فراموش نہیں کرے گی اس کی تفصیل بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زبان ہی سے ملتی ہے یا قلم ہی سے ملتی ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کروں گا.مزید واقعات شہادت:.” جب شہید مرحوم نے ہر ایک مرتبہ تو بہ کرنے کی فہمائش پر تو بہ کرنے سے انکار کیا تو امیر نے ان سے مایوس ہوکر اپنے ہاتھ سے ایک لمبا چوڑا کا غذ لکھا اور اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کیا اور اس میں یہ لکھا کہ ایسے کافر کی سنگسار کرنا سزا ہے.تب وہ فتویٰ اخوند زادہ مرحوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا اور پھر امیر نے حکم دیا کہ شہید مرحوم کے ناک میں چھید کر کے اس میں رسی ڈال دی جائے.چنانچہ اس ظالم امیر کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا اور ناک کو چھید کر سخت عذاب کے ساتھ اس میں رسی ڈال دی گئی.تصور تو کریں کس قدر پے بہ پے عذابوں میں آپ کو مبتلا کیا گیا اور اتنا دردناک عذاب جیسے جانوروں کے ناک کو چھیدا جاتا ہے اور رسی ڈالی جاتی ہے مگر اس میں بھی ان کو کھینچنے سے پہلے انتظار کیا جاتا ہے کہ زخم مندمل ہو جائیں بعد میں ان میں رسی ڈال دی جاتی ہے مگر ابھی زخم کچے تھے اور درد سے بھرے ہوئے تھے کہ آپ کے ناک میں رسی ڈال دی گئی.' تب اس رسی کے ذریعہ سے شہید مرحوم کو نہایت ٹھٹھے، ہنسی اور گالیوں اور لعنت کے ساتھ مقتل تک لے گئے اور امیر اپنے تمام مصاحبوں کے ساتھ اور مع قاضیوں، مفتیوں اور دیگر اہل کاروں کے دردناک نظارہ دیکھتا ہوا مقتل تک پہنچا اور شہر کی ہزار ہامخلوق جن کا شمار کرنا مشکل ہے اس تماشہ کے دیکھنے کے لئے گئی.جب مقتل پر پہنچے تو شہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا یہاں مرحوم سے مراد فوت شدہ نہیں بلکہ جس پر رحم کیا گیا.فوت شدہ کے لئے لفظ مرحوم اسی لئے استعمال کیا جاتا ہے.تو آپ سے زیادہ رحم کس پر کیا گیا.اللہ کی طرف سے کہ آپ کو یہ عظمت کا مقام عطا فر مایا گیا.شہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر اس حالت میں جبکہ

Page 31

خطبات طاہر بابت شہداء 23 23 خطبه جمعه ۲۳ ر اپریل ۱۹۹۹ء وہ کمر تک زمین میں گاڑ دیئے گئے تھے امیر ان کے پاس گیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے انکار کرے تو اب بھی میں تجھے بچا لیتا ہوں.اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقع ہے جو تجھے دیا جاتا ہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر.تب شہید مرحوم نے جواب دیا کہ نعوذ باللہ سچائی سے کیونکر انکار ہوسکتا ہے اور جان کی کیا حقیقت ہے اور عیال واطفال کیا چیز ہیں جن کے لئے ایمان کو چھوڑ دوں، مجھ سے ایسا ہر گز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا.تب قاضیوں اور فقیہوں نے شور مچایا کہ کافر ہے، کافر ہے، اس کو جلد سنگسار کرو.اس وقت امیر اور اس کا بھائی نصر اللہ خان اور قاضی عبدالاحد کمیدان یہ لوگ سوار تھے اور باقی تمام لوگ پیادہ تھے.جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بار بار کہہ دیا کہ میں ایمان کو جان پر مقدم رکھتا ہوں تب امیر نے اپنے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤ کہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے.قاضی نے کہا آپ بادشاہ وقت ہیں آپ چلاویں.تب امیر نے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں.تب قاضی نے گھوڑے سے اتر کر ایک پتھر چلایا.جس پتھر سے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی پھر بعد اس کے بد قسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا.پھر کیا تھا اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر اس شہید پر پڑنے لگے اور کوئی حاضرین میں سے ایسا نہ تھا جس نے اس شہید مرحوم کی طرف پتھر نہ پھینکا ہو، یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہید مرحوم کے سر پر ایک کوٹھہ پتھروں کا جمع ہو گیا.پھر امیر نے واپس ہونے کے وقت کہا کہ یہ شخص کہتا تھا کہ میں چھ روز تک زندہ ہو جاؤں گا اس پر چھ روز تک پہرہ رہنا چاہئے.یہ اپنی شہادت کے بعد دوبارہ روحانی زندگی کی طرف اشارہ تھا مگر اس کو امیر نے ظاہر پر محمول کیا اور کہا یہ کہتا تھا کہ میں چھ روز تک زندہ ہو جاؤں گا“.جب شہید کر دیا گیا تو پھر پہرے کی

Page 32

خطبات طاہر بابت شہداء 24 24 خطبه جمعه ۲۳ را پریل ۱۹۹۹ء ضرورت کیا تھی.معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دل میں روحانیت کا اثر ضرور تھا.دل میں جانتا تھا کہ اس شخص نے تو کبھی جھوٹی بات کی ہی نہیں تو اگر چہ بظاہر مردے کا زندہ ہونا ناممکن ہے مگر چونکہ شہید نے یہ کہا ہے اس لئے کوئی بعید نہیں کہ یہ شخص زندہ ہو جائے.اتنا گہرا اثر اس صدیق کی باتوں کا دلوں پر پڑتا تھا کہ جھٹلانے والا ، سنگسار کرنے والا بھی دل کی گہرائی سے آپ کی سچائی کا قائل ضرور تھا.بیان کیا گیا ہے کہ یہ ظلم یعنی سنگسار کرنا ۱۴ جولائی کو وقوع میں آیا.اس بیان میں اکثر حصہ ان لوگوں کا ہے جو اس سلسلہ کے مخالف تھے، جنہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ ہم نے بھی پتھر مارے تھے.یہ وہ گواہی ہے جو قابل اعتماد ہے اس پہلو سے کہ شامل ہونے والے سارے اس بات کی گواہی دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی گواہیاں کبھی تحریر کی صورت میں کبھی دوسرے احمدی مخلصین کی زبانی پہنچتی رہیں.اس بیان میں اکثر حصہ ان لوگوں کا ہے جو اس سلسلے کے مخالف تھے جنہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ ہم نے بھی پتھر مارے تھے اور بعض ایسے آدمی بھی اس بیان میں شامل ہیں کہ شہید مرحوم کے پوشیدہ شاگرد تھے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس سے زیادہ دردناک ہے جیسا کہ بیان کیا گیا ہے.اتنے خوفناک مظالم کئے گئے کہ بعض لوگوں نے ان کی تفصیل نہیں بتائی کیونکہ خطرہ تھا کہ رستے میں پکڑے نہ جائیں اور حکومت تک یہ بات نہ پہنچ جائے کہ ہم نے یہ رپورٹنگ کی ہے.شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہو چکی.اب ظالم کا پاداش باقی ہے.یہ کابل کی سرزمین میں جو کچھ ہورہا ہے یہ وہی پاداش ہے جس کو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.جتنا چاہیں زور لگالیں، جو مرضی کر لیں ، ایک دوسرے کے قتل وخون سے باز آ ہی نہیں سکتے.مسلسل مرتے چلے جائیں گے اور ایک دوسرے کو قتل کرتے چلے جائیں گے اور ایک دوسرے پر ظلم توڑتے چلے جائیں گے کیونکہ یہ پاداش ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کابل کی زمین کبھی نہیں بھولے گی.

Page 33

خطبات طاہر بابت شہداء فرمایا: 25 25 خطبه جمعه ۲۳ راپریل ۱۹۹۹ء اب ظالم کا پاداش باقی ہے.اِنَّهُ مَنْ يَّأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى (٢٥:٣) افسوس کہ یہ امیر زیر آیت وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا ( النساء:۹۴) داخل ہو گیا اور ایک ذرہ خدا تعالیٰ کا خوف نہ کیا اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کر نالا حاصل ہے.ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں اور زن و فرزند کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے.اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لوگ میری جماعت میں میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے.( تذكرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۵۸-۶۰) جماعت کی طرف سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روح کو میں کامل یقین سے یہ پیغام دے سکتا ہوں.اے ہمارے آقا تیرے بعد تیری جماعت انہی رستوں پر چلی ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ چلتی رہے گی جو رستے صاحبزادہ عبداللطیف شہید نے ہمارے لئے بنائے تھے.گو ان سے نسبت کوئی نہیں مگر غلامانہ ہم انہیں راہوں پر چل رہے ہیں.فرماتے ہیں: اے کابل کی زمین تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا.اے بد قسمت زمین تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے“.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰-۷۴ ) جو کچھ کابل میں ہو رہا ہے وہ زمین خدا کی نظر سے گر گئی ہے.جب مہاجرین مجھ سے کہتے ہیں کہ کابل کے لئے دعا کرو تو میں کہتا ہوں مجھے غریب عاجز کی دعا کیا کام کرے گی.جو زمین خدا کی نظر سے گر چکی ہے اسے میری دعا کیسے خدا کی نظروں میں دوبارہ بٹھا دے گی.یہ ناممکن ہے.یہ تو

Page 34

خطبات طاہر بابت شہداء 46 26 خطبه جمعه ۲۳ را بریل ۱۹۹۹ء ایسی بدبختی ہے جب تک صاحبزادہ عبداللطیف شہید کے پیغام کو کابل قبول نہیں کرتا یا افغانستان قبول نہیں کرتا ناممکن ہے کہ کابل کی سرزمین ایک دوسرے پر کئے جانے والے ظلموں سے نجات پاسکے.ہوتا چلا جائے گا، ہوتا چلا جائے گا.بسا اوقات آپ لوگ خبریں سنتے ہیں کہ اب صلح ہو گئی، اب صلح ہو گئی شمال و جنوب کے درمیان.ہمیشہ جب مجھے لوگ کہتے ہیں تو میں ہنس کر کہا کرتا ہوں یارو کر کہنا چاہئے کہتا ہوں کہ سب جھوٹ ہے، تم دیکھ لینا چند دن تک کیا واقعہ ہو جائے گا ، یہی کچھ ہوگا.حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب شہید کابل ایک اور شہید جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے (۱۹۰۱ء) میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے شاگرد تھے اور ان کا بھی الہام میں ذکر ہے اگر چہ ان کو سید الشہداء تو نہیں کہا گیا مگر سید الشہداء کے شاگر دضرور تھے اور یہ مرتبہ ضرور حاصل تھا کہ الہام شَاتَانِ تُذْبَحَانِ میں آپ کا بھی ذکر ہے.فرمایا، الہام ۱۸۸۴ ء اور ۱۸۹۳ء : شاتان تذبحان و كل من علیها فان یعنی دو بکریاں ذبح کی جائیں گی اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا یعنی ہر ایک کے لئے قضاء وقدر در پیش ہے اور موت سے کسی کو خلاصی نہیں“.( تذکرہ صفحہ ۶۹) اس کے بعد یہ الہام ایک دفعہ پھر بھی ہوا بعد میں لیکن میں نے یہ پہلے دوالہام جو اس واقعہ شہادت سے پہلے کے ہیں وہ سنادیئے ہیں اور بعد کے الہام کا کیا معنی ہے کیوں ہوا.اس کی تفصیل اللہ بہت جانتا ہے.اس کے بعد میں یہ کہہ کر اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں کہ غلام قادر شہید کے متعلق جو یہ دو فضیلتیں ہیں وہ تو کوئی دنیا میں ان سے چھین ہی نہیں سکتا.ایک فضیلت یہ کہ آپ کی رگوں سے وہ خون ٹپکا ہے پاکستان کی سرزمین پر جس خون میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت اماں جان کا خون شامل ہے اور اس واقعہ نے کربلا کی یاد کو ہمارے لئے تازہ کر دیا اور یہی وجہ تھی کہ میں بار بار کہہ رہا تھا کہ محرم شروع ہو گیا ہے دعائیں کرو اور محمد رسول اللہ اور آپ کی آل پر درود بھیجو.دوسرا اس وقت مجھے یہ الہام یاد نہیں تھا کہ غلام قادر آیا اور گھر برکتوں اور نور سے بھر گیا.یہ

Page 35

خطبات طاہر بابت شہداء 27 خطبه جمعه ۲۳ را پریل ۱۹۹۹ء بعد میں مجھے توجہ دلائی گئی اور میں حیران رہ گیا کہ واقعہ جس کے ساتھ مجھے محبت تھی کیوں نہ ہوتی کہ اللہ کو اس سے محبت تھی اور مسیح موعود کو یہ پیش گوئی کے طور پر بتادیا تھا کہ تیرے گھر میں تیری اولاد میں ایسا شخص پیدا ہوگا، نوجوان جو اپنے گھر کو جس گھر میں پیدا ہوگا برکت اور نور سے بھر دے گا.تو اللہ کا احسان ہے کہ ہم اگر چہ بظاہر روتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ساتھ استغفار کی بھی بہت توفیق ملاتی ہے کہ روکس بات پر رہے ہو اتنا بڑا اعزاز، ایک انسان بے اختیار ہو جاتا ہے.چنانچہ وہ رات جو مجھ پر گزری وہ ان دو باتوں کی کشمکش میں گزری ہے.تقریب رات بھر میں سو نہیں سکا کہ اچانک غم قبضہ کرتا تھا اور پھر استغفار شروع ہو جاتا تھا.تو بلاشبہ ساری رات کروٹوں میں کٹی ہے انہی دو باتوں میں اور اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ بار بار استغفار کی طرف توجہ دلاتا رہا کیونکہ ایسے شہادت کے اوپر زیادہ نم کرنا خدا کو پسند نہیں اور مجھ سے جو بشری غلطی ہوتی رہی ہے اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کی اصلاح بھی فرما دی اور بار بار مجھے استغفار کی طرف توجہ دلائی.پس اب اس ذکر کے بعد خطبہ کوختم کرتا ہوں.جہاں تک مجھے یاد ہے با تیں جو بعض غلط کہی گئیں ان کی تصحیح میں نے کر دی ہے اور شہید کا مقام بھی آپ پر کھول دیا ہے.بلا شبہ یہ میرے دور کی شہیدوں میں ایک استثنائی شان تو رکھتا ہے جس میں اور کوئی شامل نہیں مگر جس طرح درد اور تکلیف دوسرے بعض شہداء کو دی گئی ہے ہوسکتا ہے ویسا درد اور ویسی تکلیف ان کو اپنے آخری لمحوں میں نہ پہنچائی گئی ہو.مگر یہ باتیں انشاء اللہ میں بعد میں کروں گا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کے شہیدوں کی اور بعد میں اپنے دور میں جو شہادتیں ہوئی ہیں ان کا بھی انشاء اللہ تعالیٰ میں تفصیلی ذکر کروں گا.تو یہ ذکر یار چلتا رہے گا جہاں تک بھی توفیق ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ ان یاروں کا ذکر چلتا رہے گا، ہمارے دلوں کی محفلیں تازہ ہوتی رہیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں ان یادوں کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 36

Page 37

خطبات طاہر بابت شہداء 29 29 خطبه جمعه ۳۰ ر ا پریل ۱۹۹۹ء دور خلافت ثانیہ کے شہداء کا تذکرہ ( خطبه جمعه فرموده ۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: عزیزم غلام قادر کی شہادت کے تعلق میں جو سلسلہ خطبات شروع ہوا ہے ان سب کا عنوان یہی آیت ہے: وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ ولكِن لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة: ۱۵۵) کہ خدا کی راہ میں جولوگ مارے جائیں ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم لوگوں کو شعور نہیں ہے.اس تسلسل میں آج کے خطبہ کا آغاز میں پنی عزیز بھائی چھو (نصرت ) کے خط کے تذکرے سے کرتا ہوں.انہوں نے جو تفصیلی خط لکھا ہے اس میں لکھتی ہیں کہ مجھے اس خیال سے بیحد خوشی ہوتی ہے کہ غلام قادر کی شہادت کی وجہ سے وہ سلسلہ شروع ہو گیا شہادتوں کے تذکرے کا جس میں حضرت سید الشہداء صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت سے شروع ہو کر پھر آخر دوسرے شہداء کا ذکر خیر شروع ہوگیا.وہ لکھتی ہیں کہ مجھے خوشی اس بات سے ہوتی ہے کہ میرا خاوند آغاز بن گیا ہے اس کا.اس کی شہادت کے ذکر سے یہ سارے پیارے پیارے ذکر چل پڑے اور بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس ذکر خیر پر اٹھنے والی دعاؤں میں اس کو بھی شریک رکھے اور غلام قادر کے درجات بھی اس

Page 38

خطبات طاہر بابت شہداء 30 خطبه جمعه ۳۰ ر ا پریل ۱۹۹۹ء ذکر خیر کی وجہ سے بڑھاتا رہے.تو یہ بہت ہی پیارا تبصرہ ہے اور اسی تعلق میں میں یہ سارے شہادتوں کے واقعات بیان کر رہا ہوں.اگر چہ اب تک مختلف شہادتوں کے متعلق ابھی تفصیلی اعداد و شمار جمع نہیں ہو سکے کیونکہ بہت سی ایسی شہادتیں بھی ہیں جن کا ذکر اس وقت محفوظ نہیں ہے یا نمایاں طور پر اس وقت جو حوالے پیش کئے ہیں ان کے سامنے نہیں آسکا.لیکن وہ رفتہ رفتہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی دور کی کوئی بھی شہادت باقی نہ رہے جس کا ذکر ہماری تاریخ میں نہ ہو چکا ہو.حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید افغانستان آج میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کی شہادتوں کا ذکر حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید افغانستان کے ذکر سے کرتا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو لندن میں قیام کے دوران یہ دردناک اطلاع پہنچی کہ امیر امان اللہ خان شاہ افغانستان کے حکم سے کابل میں ایک احمدی مبلغ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو ۳۱ راگست کو چونتیس سال کی عمر میں محض احمدی ہونے کی وجہ سے سنگسار کر دیا گیا.انالله واناالیه راجعون.مولوی نعمت اللہ خان صاحب ابن امان اللہ خان صاحب کا بل کے قریبی گاؤں خوجہ تحصیل رخہ ضلع پنج شیر کے رہنے والے تھے اور افغانستان سے دینی تعلیم حاصل کر کے قادیان تشریف لائے تھے اور مدرسہ حد یہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ ۱۹۱۹ء میں دوران تعلیم ہی حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں کابل کے احمدیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے روانہ کر دیا.آپ اپنے فرائض تندہی سے ادا کر رہے تھے کہ ۱۹۲۳ء کے آخر پر اطلاع ملی کہ دو احمدیوں کو افغانستان کی حکومت نے قید کر لیا ہے.اس اطلاع کے بعد شروع جولائی ۱۹۲۴ء میں مولوی نعمت اللہ صاحب کو حکام نے بلایا اور بیان کیا کہ کیا وہ احمدی ہیں؟ پہلے تو انکو یہ صیح بیان دینے پر کہ وہ احمدی ہیں رہا کر دیا گیا مگر جلد ہی آپ کو جیل میں ڈال دیا گیا.یکم اگست ۱۹۲۴ء کو مولوی نعمت اللہ صاحب نے قید خانہ سے فضل کریم صاحب بھیروی مقیم کابل کو ایک خط لکھا.یہ ہم نہیں جانتے کہ کیسے جیل کی سخت نگرانی کے باوجود ان کو یہ خط لکھنے کی توفیق مل سکی اور وہ خط باہر بھجوانے کی توفیق مل سکی مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چھپا ہوا ہمد ردوہاں موجود تھا.جس

Page 39

خطبات طاہر بابت شہداء 31 خطبه جمعه ۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء کے ذریعہ سے یہ کارروائی ہوئی کیونکہ وہ ان کے ہاتھ ہی کا خط لکھا ہے اس میں کوئی بھی شک نہیں.وہ اپنے خط میں جو فارسی میں ہے جس کا ترجمہ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں لکھتے ہیں : یہ کم ترین بندہ داعی اسلام تمہیں روز سے ایسے قید خانہ میں ہے جس کا دروازہ اور روشن دان بھی بند رہتے ہیں اور صرف ایک حصہ دروازہ کھلتا ہے.کسی سے بات کرنے کی ممانعت ہے.جب میں وضو وغیرہ کے لئے جاتا ہوں تو ساتھ پہرہ رہتا ہے.خادم کو قید میں آنے کے دن سے لے کر اس وقت تک چار کوٹھریوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے لیکن جس قدر بھی زیادہ اندھیرا ہوتا ہے اسی قدر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے روشنی اور اطمینان قلب دیا جاتا ہے.“ یہ شہداء کے دل کی داستان ہے جو سو فیصد درست ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی طرح اندھیرے کمروں میں بھی اس کا نور اترتا ہے اور مظلوموں کے دل کو روشن کر دیتا ہے.مولوی صاحب شہید نے مکرم فضل کریم صاحب کو لکھا.ایک اور خط میں لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اسیح کے حضور یہ خط بھیج دیں.علاوہ ازیں بذریعہ تار یا خط میرے احمدی بھائیوں کو میرے حال سے اطلاع دیں تا وہ دعا کریں.دعا کیا کریں؟ کہ خدا تعالیٰ مجھے دین متین کی خدمت میں کامیاب کرے.میں ہر وقت قید خانہ میں خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ الہی اس نالائق بندے کو دین کی خدمت میں کامیاب کر.میں یہ نہیں چاہتا کہ مجھے قید خانہ سے رہائی بخشے اور قتل ہونے سے نجات دے بلکہ میں عرض کرتا ہوں کہ الہی اس بندہ نالائق کے وجود کا ذرہ ذرہ اسلام پر قربان ہو“ ( ترجمه از اصل خط فارسی) الغرض مولوی نعمت اللہ خان صاحب محکمہ شرعیہ ابتدائیہ میں پیش کئے گئے جس نے ۱۱ اگست ۱۹۲۴ء کو آپ کے ارتداد اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا.۱۴؍ اگست کو آپ عدالت مرافعہ کابل کے سامنے پیش کئے گئے جس نے دوبارہ آپ کے بیانات لینے کے بعد فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے مزید حکم دیا کہ نعمت اللہ کو قتل کرنے کی بجائے بڑے ہجوم کے سامنے سنگسار کیا

Page 40

خطبات طاہر بابت شہداء 32 32 خطبه جمعه ۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء جائے.اس فیصلہ کے مطابق تقریباً دو ماہ کی قید و بند کی مصیبتیں جھیلنے کے بعد ۳۱ /اگست کو پولیس نے مولوی صاحب کو لے کر کابل کی تمام گلیوں میں پھر ایا اور ہر جگہ یہ منادی کہ یہ شخص ارتداد کی پاداش میں سنگسار کیا جائے گا لوگ اس موقع پر حاضر ہو کر اس میں شامل ہوں.دیکھنے والوں کی شہادت ہے کہ جس وقت آپ کو گلیوں میں پھرایا جا رہا تھا اور سنگساری کا اعلان کیا جا رہا تھا تو آپ گھبرانے کی بجائے مسکرا رہے تھے.گویا آپ کو موت کا فتویٰ نہیں دیا جا رہا تھا بلکہ عزت افزائی کی خبر سنائی جا رہی تھی.عصر کے وقت آپ کو کابل کی چھاؤنی کے میدان میں سنگسار کرنے کے لئے لایا گیا تو آپ نے اس آخری خواہش کا اظہار کیا جو صحابہ آنحضرت ﷺ کی سنت کی یاد دلانے والے ایک واقعہ ہے.اس آخری خواہش کا اظہار کیا کہ اس دنیا کی زندگی ختم ہونے سے پہلے ان کو اپنے رب کی عبادت کرنے کا آخری موقع دیا جائے.حکام کی اجازت ملنے پر انہوں نے نماز پڑھی اور اس کے بعد کہا کہ اب میں تیار ہوں، جو چاہو کر و.آپ کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا اور پہلا پتھر کابل کے سب سے بد بخت عالم نے پھینکا.اس کے بعد چاروں طرف سے پتھروں کی بارش ہو گئی یہاں تک کہ آپ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے دب گئے اور خدا تعالیٰ کے رستے میں شہید ہو گئے.انالله واناالیه راجعون.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے آپ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے جماعت کو جو نصیحت کی یہ آپ کا وہ پیغام ہے جب قادیان میں ان کی شہادت پر ایک اجلاس کیا گیا تو اس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا یہ پیغام بھی تھا.غم کے اس وقت میں ہمیں اپنے فرائض کو نہیں بھلانا چاہئے جو ہمارے اس مبارک بھائی کی طرف سے ہم پر عاید ہوتا ہے جس نے اپنی جان خدا کی راہ میں قربان کر دی ہے.اس نے اس کام کو شروع کیا ہے جسے ہمیں پورا کرنا ہے.آؤ ہم اس لمحہ سے یہ مصمم ارادہ کر لیں کہ ہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک ہم ان شہیدوں کی زمین کو فتح نہیں کر لیں گے.صاحبزادہ عبداللطیف صاحب، نعمت اللہ خان صاحب اور عبدالرحمن صاحب کی روحیں آسمان سے ہمیں ہمارے فرائض یاد دلا رہی ہیں اور میں یقین کرتا ہوں کہ احمد یہ جماعت ان کو نہیں بھولے گی.(ملخص از تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۴۴۷ تا ۴۵۹)

Page 41

خطبات طاہر بابت شہداء 33 33 خطبه جمعه ۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء یہ امر واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ان واقعات کو کبھی نہیں بھولی اور آج بھی شہادت کے لئے اسی طرح احمدی دل مچل رہے ہیں جس طرح پہلے مچلا کرتے تھے.مولوی عبد الحلیم صاحب اور قاری نور علی صاحب کابل اب دوسرا واقعہ بھی کا بل کی سرزمین کا واقعہ ہے.مولوی عبدالحلیم صاحب ساکن چراسہ اور قاری نور علی صاحب ساکن کا بل کو ۵ فروری ۱۹۲۵ء میں شہید کیا گیا.۵ فروری ۱۹۲۵ء کو امیر امان اللہ خان والی افغانستان کے حکم سے آپ سنگسار کئے گئے.اس موقع پر اخبار ریاست دہلی نے بھی اپنے ۲۱ فروری ۱۹۲۵ء کے شمارہ میں لکھا: افغان گورنمنٹ کا یہ وحشیانہ فعل موجودہ زمانہ میں اس قدر قابل نفرت ہے کہ جس کے خلاف مہذب ممالک جتنا بھی صدائے احتجاج بلند کریں کم ہے.دنیا میں کسی شخص کا مذہبی عقائد کی صورت میں حکومت کی طرف سے ظلم کئے جانا اور بے رحمی کیسا تھ قتل کئے جانا باعث شہادت ہوا کرتا ہے اور بلا شبہ نعمت اللہ اور اس کے دو شجاع اور بہادر قادیان میں شہید کہلائے جانے کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنے عقائد کے مقابلہ میں دنیاوی لالچ اور راحت و آرام کی پرواہ نہ کی اور اپنے فانی جسم کو پتھروں، اینٹوں اور دوسری بے جان چیزوں کے حوالے کر دیا.ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما.“ عالم کے صفحہ پر ہماری ہمیشہ کی زندگی ایک ایسا نقش چھوڑ گئی ہے جو ہمیشہ باقی رہے گا.” ہم جہاں افغان حکومت کے اس ظالمانہ فعل کے خلاف نفرت اور انتہائی حقارت کا اظہار کرتے ہیں وہاں ان شہداء کے خاندانوں اور قادیانی فرقہ کے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عقائد پر مضبوط رہ کر دنیا میں ظاہر کر دیا کہ ہندوستانی اب بھی اپنے عقائد کے مقابلہ پر بڑی سے بڑی مصیبت کو لبیک کہنے کے لئے تیار ہیں.“ تو آپ کی شہادت نے نہ صرف کا بل ہی کی سرزمین پر ایک ماضی کے بہترین اسوہ کو زندہ نہیں کیا بلکہ ہندوستان کی سرزمین بھی اس واقعہ پر فخر کرنے لگی.

Page 42

خطبات طاہر بابت شہداء 34 =4 خطبہ جمعہ ۳۰ ر ا پریل ۱۹۹۹ء جب یہ خبر قادیان پہنچی تو حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے اس سلسلہ میں منعقد ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.آپ وہاں موجود تھے وہاں ایک اجلاس ہوا جس سے آپ نے خطاب کیا اور اس خطاب میں فرمایا:." مجھے جس وقت گورنمنٹ کابل کی اس ظالمانہ اور اخلاق سے بعید حرکت کی خبر ملی میں اسی وقت بیت الدعا میں گیا اور دعا کی الہی تو ان پر رحم کر اور ان کو ہدایت دے اور ان کی آنکھیں کھول تا وہ صداقت اور راستی کو شناخت کر کے اسلامی اخلاق کو سیکھیں اور انسانیت سے گری ہوئی حرکات سے باز آجائیں.میرے دل میں بجائے جوش اور غضب کے بار بار اس امر کا خیال آتا تھا کہ ایسی حرکت ان کی حد درجہ بے وقوفی ہے.اس تقریر کے ذریعے میں آئندہ آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ طاقت اور قوت کے زمانے میں اخلاق کو ہاتھ سے نہ دیں کیونکہ اخلاق اصل وہی ہیں جو طاقت اور قوت کے وقت ظاہر ہوں.ضعیفی اور نا توانی کی حالت میں اخلاق اتنی قدر نہیں رکھتے ہیں جبکہ انسان بر سر حکومت ہو.اس لئے میں آئندہ آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ ان کو ہماری ان حقیر خدمات کے بدلے میں حکومت اور بادشاہت عطا کرے گا“ اور یہ ضرور ہوگا اٹل تقدیر ہے جو کسی قیمت بھی ٹالی نہیں جاسکتی.ان کی آنکھوں کے سامنے ایسا ہو گا کہ جب حکومت اور بادشاہت عطا کرے گا تو یہ حکومت اور بادشاہت ان پر انوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں عطا فرمائے گا.تو وہ ان ظالموں کے ظلموں کی طرف توجہ نہ کریں.جس طرح ہم اب برداشت کر رہے ہیں وہ بھی برداشت سے کام لیں.طاقتور ہونے کے با وجود برداشت سے کام لیں اور اخلاق دکھانے میں ہم سے پیچھے نہ رہیں بلکہ 66 ہم سے آگے بڑھیں.“ الفضل قادیان ۱۹ / فروری ۱۹۲۵ء)

Page 43

خطبات طاہر بابت شہداء 35 مکرم شیخ احمد فرقانی صاحب عراق خطبہ جمعہ ۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء اب میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دور کی ایک شہادت کا ذکر کرتا ہوں جو شیخ احمد فرقانی صاحب کی شہادت ہے اور یہ عراق میں واقع ہوئی ، ۱۶ جنوری ۱۹۳۵ء کو.ایک عرب نوجوان الحاج عبداللہ صاحب جو ایک نہایت مخلص احمدی ہیں اور ایک لمبا عرصہ قادیان میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آج کل اپنے وطن میں تبلیغ احمدیت میں مصروف ہیں.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا جو حال ہی میں پہنچا ہے.آج بغداد سے خط موصول ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ شیخ احمد فرقانی جو عرصہ دس سال سے احمدیت کی وجہ سے مخالفین کے ظلم و ستم برداشت کرتے چلے آرہے ہیں جن کا لوگوں نے بائیکاٹ کر رکھا تھا، ان کو شہید کر دیا گیا ہے.اناللہ وانا الیه راجعون.وہ لواء کرکوک میں اپنے گاؤں میں رہتے تھے جو بغداد سے قریب دو سو میل کے فاصلہ پر ہے.جب میں بغداد میں تھا تو وہ کئی ہفتے میرے ساتھ آکر رہتے تھے.حضرت مسیح موعود سے بے حد محبت اور اخلاص رکھتے تھے.آپ کے فارسی اور عربی اشعار سن کر وجد میں آجاتے تھے اور زار زار رونے لگ جاتے تھے.یہ خط ان کا الفضل قادیان دارالامان مورخه ۱۴ فروری ۱۹۳۵ء کو شائع ہوا.حضرت احمد الفرقانی نے مصائب الانبياء والابرار على ايدى السفلة والاشرار “ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی جو چھپ نہ سکی لیکن اس کتاب کا ایک قیمتی اقتباس مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم نے اپنے رسالہ البشری (ربیع الثانی ۱۳۵۴ھ مطابق جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۶، ۲۷) میں شائع کر دیا تھا اگر کسی نے یہ خط دیکھنا ہو تو اس رسالہ سے دیکھا جاسکتا ہے.مکرم ولی دادخان صاحب افغانستان اب اس کے بعد جو شہادت کا نمبر آتا ہے وہ بھی افغانستان کی ہی شہادت ہے.ولی داد خان صاحب افغانستان - تاریخ شہادت ۱۵ / فروری ۱۹۳۹ء.ولی داد خان صاحب جو ایک لمبا عرصہ دارالامان میں تعلیم حاصل کرتے رہے پھر وہ اپنے آپ کو تحر یک جدید کے سلسلہ میں حضرت امیر المومنین حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد پر وقف کر کے حضور کے منشاء کے بموجب تخمیناً تین سال تک مجاہد تحریک جدید ر ہے.اس کے بعد وہ بخوشی علاقہ خوست یعنی اپنے گاؤں جو کہ برطانوی اور

Page 44

خطبات طاہر بابت شہداء 36 خطبه جمعه ۳۰ را بریل ۱۹۹۹ء افغانوی حکومت کی حد فاصل پہاڑ کی چوٹی پر واقع اور بالکل آزاد علاقہ ہے آگئے جہاں اپنے چچا زاد بھائی خالیدا د کی لڑکی سے نکاح کیا اور خدا تعالیٰ نے ایک لڑکا بھی دیا.اب ان ظالموں کا کلیجہ دیکھیں.کیسے پتھر دل انسان ہیں جو بد بختیوں سے اب تک بعض نہیں آ رہے.لڑکے کی عمر بھی ڈیڑھ ماہ کی ہوئی تھی کہ ان کی بیوی کے بھائیوں نے اس ننھے معصوم بچے کو قتل کر دیا ، ذبح کر دیا اس بچے کو اور پھر غالبا چوتھے دن پندرہ فروری کو نہایت بے دردی اور بے رحمی سے تین گولیوں سے ہمارے بھائی کو قتل کر کے شہید کر دیا تین دن تک مرحوم کو ان ظالموں نے بغیر دفن کئے رکھ چھوڑا اس کے بعد انہیں کہیں پھینک دیا.انالله وانا اليه راجعون.ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب شہید کوئٹہ اب خلافت ثانیہ کے دور کی ایک شہادت جو ۱۹۴۸ء میں ہوئی اس کا ذکر کرتا ہوں.ڈاکٹر میجرمحمود احمد صاحب شہید ، امرتسر کی مشہور احمدی قاضی فیملی کے چشم و چراغ قاضی محمد شریف صاحب ریٹائرڈ انجینئر لائکپور کے صاحبزادے اور قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے (کینٹب) کے بھتیجے تھے.قاضی محمد اسلم صاحب مرحوم کو ہندوستان میں عظیم الشان علمی خدمات کرنے کی توفیق ملی ہے اور ان کا نام پنجاب کی علمی تاریخ میں بالخصوص ہمیشہ یادرکھا جائے گا.ڈاکٹر صاحب بہت متدین نوجوان تھے.انہوں نے قادیان میں بھی درویشی کے ایام کاٹے ہیں اور وہاں اپنے آپ کو وقف کیا تھا.زمانہ درویشی کے ابتدائی ایام نہایت وفا گزاری سے قادیان میں گزارے اور گراں قدر طبی خدمات بجالاتے رہے.واقعہ شہادت منقول از تحقیقاتی عدالت.یہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ شائع ہوئی ہے اس میں سے یہ واقعہ لیا گیا ہے.حج لکھتے ہیں مرزا بشیر الدین محمود احمد ۱۹۴۸ء کے موسم گرما میں کوئٹہ میں مقیم تھے.ان کی موجودگی میں ایک نوجوان فوجی افسر میجر محمود جواحمدی تھا نہایت وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا.اس جلسے میں بعض مولویوں نے تقریریں کیں اور ہر شخص نے اپنی تقریر کے لئے ایک ہی موضوع یعنی ختم نبوت اختیار کیا.ان تقریروں کے دوران قادیانیوں کے کفر اور اس کے نتائج کی طرف بار بار اشارے کئے گئے.ابھی یہ جلسہ ہو رہا تھا کہ میجر محمود ایک مریض کو دیکھنے کے بعد واپس آتے ہوئے جلسہ گاہ کے پاس سے گزرے.اب جو واقعہ ہوا ہے یہ بظاہر ایک حادثہ ہے مگر بلا شبہ یہ مشیت ایزدی تھی کہ

Page 45

خطبات طاہر بابت شہداء 37 خطبه جمعه ۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء عین جلسہ کے سامنے پہنچ کر ان کی موٹر کا رٹھہر گئی اور اس کو دوبارہ چلانے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی.عین اس موقع پر ایک ہجوم موٹر کار کی بڑھا اور اس نے میجر محمود کو گھسیٹ کر نیچے اتار لیا.میجر محمود نے بھاگ کر جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن ان کا تعاقب کیا گیا.اب دیکھیں شہادت کے وقت یہ بھاگنے کا کیا مطلب ہے.ایک کابل کا شہزادہ ہے جو شہادت کی طرف بھاگ رہا ہے اور کچھ دوسرے ہیں جو شہادت سے بھاگ رہے ہیں.یہ کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو بار بار یہ سمجھایا جا چکا ہے اور سمجھایا جاتا رہے گا کہ اپنی شہادت کے وقت جوابی کارروائی نہ کریں کیونکہ اس کے نتیجہ میں پھر اور بھی اشتعال پھیلتا ہے اور بہت سے معصوم لوگ مارے جاتے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میجر صاحب شہید مجبور تھے کہ ان لوگوں کے چنگل سے نکلیں اور ان کی جوابی کارروائی سے کسی شخص کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے جس کو بہانہ بنا کر پھر سارے پاکستان میں اشتعال انگیزی کی جاسکتی تھی.تو بعض باتیں سمجھانی پڑھتی ہیں ورنہ تو عجیب لگتا ہے کہ ایک احمدی شہادت سے جہاں تک ممکن ہو بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے.چنانچہ آخر پتھر اور چھرے مار مار کر ان کو ہلاک کر دیا گیا.ان کی پوری انتڑیاں پیٹ سے باہر نکل آئیں.ان کی نعش کے پوسٹ مارٹم معائنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جسم پر کند اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگائے گئے چھیں (۲۶) زخم تھے اور موت ایک تو صدمے سے دوسرے داخلی جریان خون یعنی خون اندر بہت بہہ جانے کی وجہ سے واقعہ ہوئی جو بائیں پھیپھڑ ہے، بائیں گردے اور جگر کے دائیں کنارے کے زخموں سے جاری ہوا تھا.عدالت لکھتی ہے کہ کوئی شخص بھی اسلامی شجاعت کے اس کارنامے کی نیک نامی لینے پر آمادہ نہ ہوا اور بے شمار عینی شاہدوں میں ایک بھی ایسا نہ نکلا جوان غازیوں کی نشاندہی کر سکتا یا کرنے کا خواہشمند ہوتا جن سے یہ بہادرانہ فعل صادر ہوا.لہذا اصل مجرم شناخت نہ کئے جاسکے اور مقدمہ بے سراغ ہی داخل دفتر کر دیا گیا.حضرت مصلح موعودؓ کا رد عمل.آپ نے ۲۱ ظہور / اگست ۱۹۴۸ء کو خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں اس شہادت پر تبصرہ کیا.میجر محمود احمد صاحب کی شہادت کا رد عمل لوگوں کے اپنے نظریہ کے مطابق ہوگا.اب یہ بھی حضرت مصلح موعودؓ کا انصاف ہے کہ سب کو ملزم نہیں کر رہے بلکہ جانتے ہیں کہ بہت سے شریف لوگ وہاں موجود ہوں گے جنہوں نے اس بات کو نا پسند کیا ہوگا مگر چونکہ شرافت

Page 46

خطبات طاہر بابت شہداء 38 خطبہ جمعہ ۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء آج کل بزدل اور گونگی ہو چکی ہے اس لئے ہمیں ان کا علم نہیں ہوسکتا.فرماتے ہیں اپنے اپنے نظریہ کے مطابق ہوگا.بعض کا برا اور غیر اسلامی رد عمل ہوگا اور بعض کے نزدیک اس کا رد عمل اچھا ہو گا لیکن ایک رد عمل تو ایسا ہوتا ہے جو دیر تک چلتا رہتا ہے اور جس کے نتیجہ میں لوگوں کو حق قبول کر نے کی توفیق بھی ملتی رہی ہے.فرماتے ہیں: یہ حملہ جو میجر محمود پر کیا گیا ہے، ہے تو اتفاقی حادثہ درحقیقت یہ حملہ احمدیت پر کیا گیا ہے.میجرمحمود تو وہاں اتفاقا چلے گئے اگر کوئی اور احمدی ہوتا تو اس کے ساتھ بھی واقعہ پیش آتا کیونکہ میجر محمود پر کسی ذاتی عناصر کی وجہ سے حملہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے...اس واقعہ سے ہمارے اندر جور د عمل ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ انہماک اور تندہی سے تبلیغ کی طرف متوجہ ہوں.مامور کی جماعتوں پر ظلم ہوتے ہیں اور وہ ظلموں کے نیچے بڑھتی اور پھولتی ہیں.دشمنوں میں بھی شریف الطبع انسان ہوتے ہیں ان کے اندر ظلموں کو دیکھ کر دلیری پیدا ہو جاتی ہے اور سلسلے میں داخل ہو جاتے ہیں.چنانچہ میجر محمود کی شہادت کے بعد ایک دوست آئے.ان کے دل میں احمدیت کی سچائی گھر کر گئی.پہلے بھی وہ سچائی کے قائل تھے لیکن ایمانی جرات پیدا نہ ہوئی تھی.اس واقعہ نے ان کے اندر ایمانی جرات پیدا کر دی اور وہ یہ کہتے ہوئے کہ میجرمحمود احمد کی خالی جگہ اور اس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے احمدیت میں داخل ہوتا ہوں، احمدیت میں داخل ہو گئے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی حضرت حمزہ اور حضرت عمر کے واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں.وہ ظلموں سے متاثر ہو کر ایمان کی روشنی میں منور ہوئے تھے.تو اس قسم کے ظلم و تشدد کے واقعات جماعت کی ترقی کا باعث ہوتے ہیں.اس لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت تبلیغ پر صرف کرنا چاہئے تا صحیح عقائد ان پر واضح ہو جائیں اور احمدیت کی سچائی کھل جائے“.

Page 47

ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب کوئٹہ شہادت ۱۹۴۸ء پیر سلطان عالم صاحب قادیان شہادت ۱۹۴۷ء حضرت حاجی میراں بخش انبالہ شہادت ۱۹۴۰ء چوہدری نصیر احمد صاحب محاذ شمیره شہادت ۱۹۴۸ء چوہدری محمد حسین صاحب خیر پور شہادت ۱۹۵۲ء

Page 48

داؤد جان صاحب افغانستان شہادت ۱۹۵۶ء مولوی عبدالحق صاحب نور کرونڈی شہادت ۱۹۶۶ء ڈاکٹر محمد احمد خان کو ہاٹ شہادت ۱۹۵۶ء عثمان غنی صاحب بنگلہ دیش شہادت ۱۹۶۳ء ماسٹر ضیاء الدین ارشد صاحب ربوہ شہادت ۱۹۷۴ء

Page 49

محمد اشرف کھوکھر صاحب گوجرانولہ شہادت ۱۹۷۴ء سعید احمد خان صاحب گوجرانوالہ شہادت ۱۹۷۴ء محمد افضل کھوکھر صاحب گوجرانوالہ شہادت ۱۹۷۴ء چوہدری محمود احمد صاحب گوجرانوالہ شہادت ۱۹۷۴ء احمد علی قریشی صاحب گوجرانوالہ شہادت ۱۹۷۴ء

Page 50

بشیر احمد صاحب گوجرانوالہ شہادت ۱۹۷۴ء چوہدری منظور احمد صاحب گوجرانوالہ شہادت ۱۹۷۴ء منیر احمد صاحب گوجرانوالہ شہادت ۱۹۷۴ء عنایت اللہ صاحب گوجرانوالہ شہادت ۱۹۷۴ء بشارت احمد صاحب، تہال شہادت ۱۹۷۴ء

Page 51

سید مولود احمد صاحب بخاری کوئٹہ شہادت ۱۹۷۴ء محمد الیاس عارف صاحب ٹیکسلا شہادت ۱۹۷۴ء P سیٹھی مقبول احمد صاحب جہلم شہادت ۱۹۷۴ء غلام سرور صاحب ٹوپی مردان شہادت ۱۹۷۴ء اسرار احمد خان صاحب ٹوپی مردان شہادت ۱۹۷۴ء

Page 52

چوہدری عبدالرحیم صاحب موسیٰ والا شہادت ۱۹۷۶ء منشی علم دین کھوکھر صاحب کوٹلی شہادت ۱۹۷۹ء بشیر احمد رشید احمد صاحب سری لنکا شہادت ۱۹۷۹ء چوہدری مقبول احمد صاحب پنوں عاقلهم شہادت ۱۹۸۲ء ماسٹر عبدالحکیم ابڑ وصاحب لاڑکانہ شہادت ۱۹۸۳ء

Page 53

خطبات طاہر بابت شہداء 39 ماسٹر غلام محمد صاحب اوکاڑہ خطبه جمعه ۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء اب ماسٹر غلام محمد صاحب کی شہادت کا ذکر کرتا ہوں جو یکم اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ہوئی.یہ صوبہ سرحد کے یا غیر ملکوں کے نہیں پاکستان میں ہونے والے واقعات ہیں.میجر محمود کا واقعہ بھی پاکستان ہی میں ہوا ہے.اب پاکستان کے واقعات میں یہ دوسرا واقعہ ہے.یکم اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ایک احمدی مولوی نور دین سات دوسرے احمدیوں کے ساتھ تبلیغی مہم پر چک نمبر ۵ میں گیا.یہاں کے غیر احمدیوں نے ان مبلغوں کوگھیر لیا.پھر ان پر کیچڑ پھینکی اور ان کے چہروں پر کالک ملی اور گندے پانی میں سے انہیں ہنکا کر ریلوے سٹیشن اوکاڑہ پہنچایا.پولیس میں اس واقعہ کی رپورٹ لکھوائی گئی جس پر ایک مینی مولوی فضل الہی زیر دفعہ ۳۴۲۱۴۷ زیرحراست لے لیا گیا.دشمن یہ بہانہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہمارے کسی مولوی کو پکڑیں یا کوئی جوابی کارروائی کریں تو اس کے نتیجہ میں ہم سارے ملک میں آگ لگا سکیں.اس گرفتاری کے خلاف احتجاج کے طور پر اوکاڑہ میں دکانیں بند ہوگئیں اور تین اکتوبر کی رات کو ایک جلسہ عام ہوا جس میں ہزاروں اشخاص شامل ہوئے.بہت سے مقررین نے تقریریں کیں جو بے انتہا اشتعال انگیز تھیں.ایک مقرر نے جلسہ کے نوجوان حاضرین سے اپیل کی کہ مرزائی فرقے سے قوم کو نجات دلا ؤ اور بہت سے واقعات بیان کئے ، علم دین شہید کے اور دوسرے واقعات.یہ ایک لمبی تفصیل ہے جس میں جانے کی ضرورت نہیں.یہ تقریر سننے کے بعد محمد اشرف نے جو تقریریں سن چکا تھا ایک چھرے سے مسلح ہو کر غلام محمد کا تعاقب کیا جبکہ وہ اوکاڑہ جارہا تھا.محمد اشرف نے غلام محمد کو ایک نہر کے قریب جالیا اور اس کے چھرا گھونپ دیا.غلام محمد کا زخم کاری تھا چنانچہ وہ تھانے کو لے جانے سے پہلے ہی مر گیا.محمد اشرف ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس نے بیان دیا تفصیل اس کے منہ سے سنئے.پہلے یہ کہا کہ تمبر میں پھر کہا کہ اکتو بر کی تیسری تاریخ کو اوکاڑہ میں ایک جلسہ ہوا جس میں رضوان ، بشیر احمد ، مولوی ضیاء الدین، قاضی عبدالرحمن ، چوہدری محبوب عالم اور صدر جلسہ نے جو غالبا قاضی تھے پر جوش تقریریں کیں جن میں بتایا کہ مرزائی نبی کریم کو گالیاں دیتے ہیں.ہم حضور کی عظمت کے لئے اپنی جانیں دے دیں گے.تقریر میں یہ کہا گیا کہ جولوگ ان کو پہچان کرنا بود کرنے پر آمادہ ہیں وہ اپنے ہاتھ اٹھا ئیں.جلسے میں علم دین غازی کا بھی ذکر کیا گیا اور اس کی سرگزشت سنائی گئی.یہ ساری تحریر میں نے اپنے قلم سے کاٹی ہوئی

Page 54

خطبات طاہر بابت شہداء 40 40 خطبه جمعه ۳۰ ر ا پریل ۱۹۹۹ء تھی وہ پرائیویٹ سیکرٹری نے غلطی سے لکھ دی ہے تو اصل حصہ ان کے قتل کے واقعہ کا میں اس شخص کے الفاظ میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے: میں سائیکل پر چک نمبر ۴۸ گیا جہاں ماسٹر تفریحی چھٹی پر اپنے گھر گیا ہوا تھا.میں چک میں ٹھہرا رہا تا وقتیکہ وہ سکول آ گیا.گاؤں کے چوک کی دکان پر میں نے ایک سگریٹ پیا.جب میں باہر نکلا ماسٹر سکول میں نہ تھا.مجھے یقین تھا کہ ماسٹر مرزائی ہے اور میں اسی نیت سے آیا تھا.چک میں نے ایک الله سید سے پوچھا کہ آیا حضور نبی کریم عملے کے زمانے میں ہمارے بچوں کو پڑھانے پر کوئی کا فرمقر ر تھا.اس ماسٹر کا کیا حق کہ وہ ہمارے چک میں مقیم ہے، زمین الاٹ کر رکھی ہے اور بچوں کو پڑھا رہا ہے.اس کے بعد میں نے ایک لڑکے سے پوچھا کہ ماسٹر کہاں گیا ہے.اس نے بتایا کہ وہ چک ۴۰/۳R کو گیا ہے.میں نے پوچھا کہ سائیکل پر یا پیدل جواب ملا سائیکل پر.میرے پاس اس وقت ایک چھرا تھا میں نے اس کو دو میل کے فاصلے پر جالیا اور وہاں میں نے اپنے سائیکل سے اتر کر اس کے سائیکل کو دھکادیا اور اسے گرالیا.میں نے ماسٹر کو چھرے سے ایک ضرب لگائی اور وہ بھاگ کر چھوٹی نہر کے پانی میں گھس گیا.چھرا ٹھیک نہ رہا.میں نے اسے درست کیا اور پھر پانی میں اور ضر میں لگائیں.میں اس کو مار رہا تھا کہ ادھر ادھر سے کچھ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے مجھے روکا.میں نے ان سے کہا مجھے نہ روکو میں ایک کا فر کوقتل کر رہا ہوں اور ایک اجنبی شخص نے مجھ سے سوالات کئے.میں نے اس کو بھی یہی بتایا کہ میں نے ایک کا فرکو ہلاک کر دیا ہے.پھر میں اوکاڑہ چلا آیا.اوکاڑہ آکر کسی نے اس سے کوئی باز پرس نہیں کی.جتنے بھی احمدیوں کے قاتل ہیں ان کے خلاف قانون مجرم ہے.کسی انگریز مفکر نے بہت اچھی بات لکھی تھی کہ دنیا میں سب سے زیادہ بھیانک مظالم اس ملک میں توڑے جاتے ہیں جہاں قانون مجرم ہو چکا ہو.اگر قانون مجرموں کی پشت پناہی کرتا ہے تو وہاں سب سے زیادہ بھیا نک مظالم

Page 55

خطبات طاہر بابت شہداء 41 معصوموں پر توڑے جاتے ہیں.یہ فقرہ بعینہ پاکستان پر چسپاں ہوتا ہے.چوہدری بدرالدین صاحب راولپنڈی خطبه جمعه ۳۰ ر ا پریل ۱۹۹۹ء اب میں چوہدری بدرالدین صاحب آف راولپنڈی کی شہادت کا ذکر کرتا ہوں جو ۱۰ را کتوبر ۱۹۵۰ء کو ہوئی.ماسٹر غلام محمد صاحب کی دردناک شہادت کا زخم بالکل تازہ ہی تھا کہ صرف چند روز بعد جماعت احمد یہ راولپنڈی کے ایک سادہ مزاج اور خاموش طبع بزرگ اور صحابی چوہدری بدرالدین صاحب لدھیانوی گولی مار کر شہید کر دیئے گئے.چوہدری صاحب موصوف ۱۸۹۰ء میں پیدا ہوئے تھے.ابتدائی تعلیم قادیان میں پائی.انہوں ۱۸۹۹ء کے لگ بھگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.عرصہ دراز جماعت احمد یہ لدھیانہ کے سیکرٹری مال اور سیکرٹری امور عامہ رہے.فسادات ۱۹۴۷ء میں آپ گوالمنڈی راولپنڈی میں پناہ گزین ہو گئے تھے.راولپنڈی میں احرار کانفرنسوں نے سخت اشتعال پھیلا دیا اور ٠ ا را کتوبر ۱۹۵۰ء ساڑھے چھ بجے شام گوالمنڈی کے باغیچہ میں آرہے تھے کہ فائر بریگیڈ کے پاس ایک شخص ولایت خان نے ان پر پیچھے سے فائر کیا اور گولی ان کی پشت کو چیرتے ہوئے پیٹ کی طرف سے نکل گئی.اتفاق سے اس وقت ایک سب انسپکٹر پولیس نے جو کسی کام کے تعلق میں باہر سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے قاتل کو گولی چلاتے دیکھ لیا اور اسے موقع پر ہی گرفتار کر کے اس کا پستول چھین لیا اور جیسا کہ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کے فاضل جوں نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے عینی شاہدوں میں سے ایک نے جس پر سیشن جج اور ہائی کورٹ دونوں نے اعتبار کیا ہے یہ بتایا کہ مجرم کو عین موقع پر گرفتار کیا گیا تو اس نے یہ اقرار کیا کہ میں نے بدر دین کو اس لئے ہلاک کیا کہ وہ احمدی ہے.اور اس کا کچھ نہیں بنا.چوہدری بدر دین صاحب گولی لگنے کی وجہ سے گر پڑے.ان کے ایک داماد ڈاکٹر میر محمد صاحب قریشی نے آپ کو ایمبولینس کار کے ذریعہ سے سول ہسپتال پہنچایا مگر آپ جانبر نہ ہو سکے اور اگلے دن گیارہ بجے کے قریب ساٹھ سال کی عمر میں آپ کو شہادت کے ذریعے عمر جاودانی نصیب ہوئی.اناللہ وانا الیہ راجعون.بے ہوشی کے عالم میں بھی آپ کی زبان پر مسنونہ دعائیں اور کلمہ طیبہ جاری رہا.آپ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے مگر آپ نے اپنے پیچھے چونتیس افراد کا کنبہ بطور یادگار چھوڑا ہے.

Page 56

خطبات طاہر بابت شہداء 42 خطبہ جمعہ ۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء مولوی عبد الغفور صاحب اور آپ کا کمسن بچہ مانسہرہ اب میں صوبہ سرحد میں ہونے والی ایک شہادت کا ذکر کرتا ہوں یہ کیونکہ ایسے ضلع کی شہادت ہے جو کبھی سرحد میں شمار ہوتا ہے، کبھی پنجاب میں شمار ہوتا ہے یعنی ضلع ہزارہ تحصیل مانسہرہ.مولوی عبدالغفور صاحب، آپ دس برس کی عمر میں قادیان پہنچے اور ۱۹۰۶ء میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے.آپ کو قادیان کی پیاری اور پر نور برکت سے اس قدر محبت اور عقیدت ہوگئی کہ اپنے بڑے بھائی حکیم نظام جان صاحب کو بھی آنے کی ترغیب دی جس پر حکیم صاحب مستقل ہجرت کر کے قادیان ہی کے ہو گئے.آپ کا معمول تھا کہ روزانہ اذان سے پہلے اٹھتے اور اپنے ملازم کو ہمراہ لے کر دریا سے پار چکیوں پر چلے جاتے تھے.نماز فجر و ہیں ادا کرتے اور اسی عرصہ میں ان کا سات سال کا بچہ عبداللطیف چائے لے کر وہاں پہنچ جاتا.دونوں ناشتہ کرتے اور زمین کی دیکھ بھال کے بعد اپنے گاؤں لوٹ آتے.۲۱ ستمبر کو بوقت صبح آٹھ بجے آپ اپنے بچے عبد اللطیف کو لے کر اپنے گھر سے پن چکیوں کی نگہداشت کے لئے نکلے.آپ چار فرلانگ تک گئے تھے کہ ایک کمین گاہ سے آپ پر بندوق کا فائر کیا گیا.اس کے بعد آپ کو اور آپ کے بچے کو کلہاڑی سے شہید کر دیا گیا.ظالم قاتل بھاگ گئے اور بے گور و کفن لاش کی نگرانی آپ کا گھر یلو کتا کرتا رہا جو کبھی آپ کی نعش کی طرف جا تا اور کبھی ان کے بچے کی نعش کی طرف جاتا تھا.بس دیکھو کتے کو بھی خدا تعالیٰ نے ان بد بختوں پر فضیلت بخشی ہے.وہ شہید کی نعشوں کی نگرانی کر رہا تھا اور ظالم اس سے لا پرواہ ہو کر اپنی خباثتوں میں مصروف ہو چکے تھے.مولوی عبدالغفور صاحب نے اپنے پیچھے ایک بیوہ، تین لڑکے اور تین لڑکیاں یاد گار چھوڑیں.اب ان سب کے خاندان گواہ ہونگے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کتنے فضل نازل فرمائے ہیں.دنیا تو ان واقعات کو بھول سکتی ہے مگر خدا کبھی نہیں بھولتا اور اپنے بے شمار انوار کے ذریعہ ان کی اولا در اولا د پر ثابت کرتا چلا جاتا ہے کہ تم جو کچھ دنیا میں پا رہے ہو اور جو آخرت میں پاؤ گے وہ تمہارے بزرگ شہداء کی برکت ہے.محترم داؤ د جان صاحب شہید اب یہ واقعہ.شہادت ۱۹۵۶ء کی محترم داؤد جان شہید صاحب کی ہے، یہ بھی صوبہ سرحد کے

Page 57

خطبات طاہر بابت شہداء 43 خطبه جمعه ۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء ہیں اور وہیں شہید کئے گئے.۲۳ مارچ ۱۹۵۶ء کو خطبہ ثانیہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے نماز ہائے جنازہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا : ” چوتھا جنازہ جو بہت تکلیف دہ ہے کابل کے ایک احمدی دوست داؤد جان صاحب کا ہے.یہ مخلص دوست جلسہ پر ربوہ آئے ہوئے تھے.واپس گئے تو بعض لوگوں نے ان کی حکام کے پاس شکایت کر دی.انہوں نے بلا کر دریافت کیا کہ تم ربوہ گئے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں میں ربوہ گیا تھا.اس پر انہیں قید کر دیا گیا مگر ان کی قوم کی اس سے تسلی نہ ہوئی.چنانچہ ایک بہت بڑے ہجوم نے قید خانے پر حملہ کر دیا اس کے دروازے اور کھڑکیاں توڑ دیں اور پھر انہیں نکال کر باہر لے آئے اور کھلے میدان میں کھڑا کر کے ان کو شہید کر دیا.ان کی شہادت پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مرنا تو سب نے ہے لیکن اس قسم کی موت بہت دکھ اور تکلیف کا موجب ہوتی ہے اور مارنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستحق بناتی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ انصُرُ أَخَاكَ ظَالِماً أَوْ مَظْلُوما تو اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم.ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آگئی ہے لیکن ظالم کی مدد کیسے کی جائے.آپ نے فرمایا ظالم کو ظلم سے روکو یہی اس کی مدد ہے.پس تم دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کی حفاظت فرمائے اور جن لوگوں نے غلطی کی ہے انہیں بھی ہدایت دے تا بجائے اس کے کہ وہ احمدیوں کے خلاف تلوار اٹھائیں ان کے دل احمدیت کے نور سے منور ہو جائیں اور انہیں نیکی کی راہوں پر چلنے کی توفیق نصیب ہو“.( روزنامه الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۵۶ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبہ فرموده ۳۰ / مارچ ۱۹۵۶ء مطبوعہ الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کھلے میدان میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا.ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب کو ہاٹ اب حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں ہونے والی بے شمار شہادتوں میں سے اب میں ایک آخری شہادت کا ذکر کرتا ہوں.شہید مرحوم ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب ابن خان میر خان صاحب افغان

Page 58

خطبات طاہر بابت شہداء 44 خطبه جمعه ۳۰ را بریل ۱۹۹۹ء تھے.یہ خان میر خان حضرت مصلح موعودؓ کے ایک جانثار محافظ تھے اور ایسا کام کرتے تھے صرف حفاظت کا ہی نہیں بلکہ سامان وغیرہ بھی خود اٹھا اٹھا کر گاڑیوں میں رکھنا اور بچوں کی حفاظت کرنا ، ان کی بھی دلداری کرنی.غرضیکہ حضرت مصلح موعودؓ کے پہرہ داروں میں سے خان میرا ایک بے مثل پہرہ دار تھے.مریم سلطانہ جوڈا کٹر محمد احمد خان صاحب، آپ کے بیٹے کی بیگم اور آپ کی بہو تھیں وہ بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ ضلع کو ہاٹ کے علاقہ ٹل میں مقیم تھی.اس علاقے میں کوئی احمدی گھرانہ نہ تھا.۱۹۵۶ء میں وہاں مخالفت کی آگ بہت بھڑ کی.۲۹ جون ۱۹۵۶ء کو مخالفین میرے خاوند کو دھوکہ دے کر ایک مریض کے علاج کے لئے پانچ چھ میل دور علاقہ غیر میں لے گئے.یہ سراسر جھوٹ بول کر لے جانے والا گاؤں کا ایک ملاں تھا.اس نے انسانی ہمدردی کے نام پر ان سے اپیل کی کہ سات میل دور تمہیں جانا پڑے گا مگر ایک مریض ہے اور اس کی خاطر اگر تمہارے دل میں سچی ہمدردی ہے انسانیت کی تو وہاں پہنچو اور اس کا علاج کرو لیکن جو نہی یہ بد بخت گاؤں پہنچا اس نے نہایت غضب ناک آواز میں اعلان کیا کہ یہ قادیانی ڈاکٹر ہے میں اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ اسے گولی نہ ماردوں اور وہیں گولی مار کر شہید کر دیا.مریم سلطانہ کو شہادت کی خبر ملی تو ارد گرد کوئی بھی ان کا ہمدرد نہ تھا.سب مخالف تھے.لیکن بڑی بہادر خاتون تھیں.یہ ہمت کر کے، بچوں کو خدا کے سپر د کر کے اپنے میاں کی نعش لینے کے لئے نکل کھڑی ہوئیں.جس قسم کے حالات تھے نعش کا ملناممکن نہیں نظر آتا تھا لیکن آپ لاش کی تلاش میں سرگرداں پھرتی رہیں.کہتی ہیں کہ میں لاش تلاش کرتی پھرتی تھی اور شہر کے لوگ میرے شوہر کے قتل پر خوشیاں منا رہے تھے.میں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا پھر کوئی میرے غم میں شریک نہ تھا.آخر انہوں نے یعنی مریم نے آخر لاش حاصل کر ہی لی اور ٹرک کا انتظام بھی خود ہی کیا.بڑی بہادر خاتون تھیں، خودا کیلئے ہی سارے کام کئے.ٹرک کا انتظام کر کے اس میں لاش رکھ کر چاروں بچوں کو ہمراہ لے کر ربوہ روانہ ہوگئیں.کہتی ہیں میں آہوں اور سسکیوں میں زیر لب دعائیں کرتی رہی اور اور ان کے شوہر کی دکان بھی لوٹ لی گئی.قاتل وہاں دندناتا پھر رہا تھا لیکن کوئی اسے پکڑے والا نہ تھا لیکن خدا کی پکڑ سخت ہوتی ہے.

Page 59

خطبات طاہر بابت شہداء 45 خطبه جمعه ۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء اب یہ وہ آخری بات ہے جس سلسلہ میں میں جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جتنے بھی احمدیوں کو شہید کرنے والے ظالم لوگ ہیں ان کی خبر تو لے کر دیکھیں کہ حکومت کی پکڑ سے تو وہ بچ گئے ان پر خدا کی کیسی پکڑ آئی.میں جب وقف جدید میں تھا مجھے یہ شوق تھا، میں جستجو کیا کرتا تھا تو ایک خاندان کے متعلق جس نے بہت ظالمانہ طریق پر ایک احمدی کو مارا تھا اس کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ سارا خاندان ایک حادثہ میں بس میں جل گیا اور تمام کے تمام جل کر مر گئے.پس اس پہلو سے بھی مجھے شوق تھا کچھ مواد میں نے اکٹھا کر وایا تھا وہ اللہ بہتر جانتا ہے کہاں گیا.لیکن احمدی محققین کو یا جن جن علاقوں میں یہ لوگ بستے ہیں جو قتل کرنے کے بعد دندناتے پھرتے تھے ان کے علاقے کے احمدیوں کو چاہئے کہ ان کے حالات جمع کریں اور دیکھیں کہ خدا کی تقدیر نے ان کو کیسے آ پکڑا.اب ان کے بیان کے متعلق میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں.پیشخص جودند نا تا پھرتا تھا یہ پاگل ہو گیا اور دیوانگی کی حالت میں گلیوں میں نیم برہنہ پھرتارہا اور کچھ عرصہ نظر آنے کے بعد کہیں ہمیشہ کے لئے گم ہو گیا.وہ ملاں جو مریض دکھانے کے بہانے ڈاکٹر کو بلانے آیا تھا وہ بھی اپنے بھائی کے ہاتھوں بیوی بچوں سمیت قتل ہو گیا.تو اللہ کی پکڑ ڈھیل تو دکھاتی ہے مگر بہت سخت ہوا کرتی ہے.مگر ہمارے ارباب حل و عقد کو تو خدا کی کوئی پرواہ نہیں.یہ تو تاریخ ان کو بتائے گی کہ یہ کہاں جا رہے ہیں اور کس گڑھے میں کو درہے ہیں اور سارے ملک کو اپنے ساتھ جہنم میں داخل کر رہے ہیں.آج کل جو وہاں حال گزر رہا ہے گلی گلی ظلم کا شکار بن چکی ہے، اتنے بھیانک مظالم ہور ہے ہیں کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.مزقهم کل ممزق و سحقهم تسحیقا کی تقدیر ہے جو پاکستان میں چلتی دکھائی دے رہی ہے.مزقھم کی چکی کے نیچے یہ سارے پیسے جارہے ہیں اور کسی کو پتہ نہیں کہ ابھی مرنے کے بعد ایک اور چکی میں بھی پیسے جائیں گے جس کا پیسا جانا ہمیشہ کے لئے یا اتنے لمبے عرصہ کے لئے ہے جسے ہمیشگی کہا جا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ہدایت عطا فرمائے.آمین.

Page 60

خطبات طاہر بابت شہداء 47 خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۹۹ء ہوں.خلافت ثانیہ کے شہداء ( خطبه جمعه فرموده ۷ رمئی ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ بقرہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی: وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ ولكِنْ لا تَشْعُرُونَ) (البقرة: ۱۵۵) شہداء کا ذکر چل رہا ہے اسی تعلق میں یہ مرکزی آیت ہے جس کی میں ہر دفعہ تلاوت کرتا جب شہداء کا ذکر خیر چلا تو اس وقت اس کثرت سے شہداء کے نام نہیں تھے جو اب اس مضمون کے تتبع سے آہستہ آہستہ نکل آئے ہیں اور عزیزم غلام قادر کی شہادت نے جو یہ سلسلہ جاری کیا دیا ، اللہ تعالیٰ امید ہے اس کو بھی اس کے ثواب سے محروم نہیں رکھے گا کیونکہ بہت سے ایسے نام ہیں جن کو عام یاد بھلا چکی تھی.پس ضروری تھا کہ ان کا ذکر بار بار چلے.اب جو پاکستان میں خصوصیت سے ہمارے اسیران راهہ مولیٰ پڑے ہوئے ہیں ان میں سے بھی اکثر کے نام کولوگ بھلا چکے ہوں گے لیکن اپنے قفس میں بیٹھے ہوئے ان کا دل تو چاہتا ہوگا کہ کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے.فیض نے بہت خوب کہا ہے که

Page 61

خطبات طاہر بابت شہداء 48 خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۹۹ء قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار کر چلے زنداں نامہ نسخہ ہائے وفاصفحہ : ۲۶۴) تو جو میرے یار ہیں وہ ان کے بھی تو یار ہیں.ان کے بھی یار ہیں جنہوں نے راہ احمدیت میں بے شمار قربانیاں پیش کیں.تو یہ ذکر خیر جو آج میری زبان سے جاری ہورہا ہے ہوسکتا ہے آج کے قفس کی فضاؤں کو بھی روشن کر دے اور کچھ دیر تک وہ لوگ جو اس ذکر کو سنیں ان یادوں میں محو ہو جائیں جو ان کو بھی بہت پیاری ہیں اور اس سے خود تسلی پائیں کہ بڑی بڑی عظیم قربانیاں دینے والے وجود پہلے گزر چکے ہیں، ان کے مقابل پر تو ان لوگوں کی قربانیاں ماند ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں.پس وہ سلسلہ ہے جسے اب ہم آگے بڑھاتے ہیں اور تعجب ہے کہ افغانستان میں اس سے اور بھی بہت زیادہ شہید ہوئے ہیں جتنا عام لوگوں کا تصور ہے.صاحبزادہ محمد سعید جان اور صاحبزادہ محمد عمر جان افغانستان سب سے پہلے میں صاحبزادہ محمد سعید جان اور صاحبزادہ محمد عمر جان افغانستان کا ذکر کرتا ہوں.۱۹۱۷ ء میں ضلع گجرات کے ایک مجذوب فضل کریم صاحب ہوا کرتے تھے جن کو تبلیغ کا بہت شوق تھا لیکن تھے مجذوب.ان کو پتہ نہیں تھا کہ ان کی تبلیغ کی جرات کے نتیجہ میں احمدی بھائیوں کو کیا کیا مصیبتیں پڑیں گی.بہر حال ان کے دل میں یہ سودا سمایا کہ وہ تبلیغ کی خاطر ۱۹۱۷ء میں روانہ ہو کر کابل چلے گئے او روہاں جا کر سردار نصر اللہ خان کو درخواست دی کہ میں احمدی ہوں اور بغرض تبلیغ آیا ہوں.سردار نے ان کو فوراً گرفتار کر لیا اور پھر جب ان سے پوچھ گچھ کی اور کون کون احمدی ہیں تو اس مجذوب بے چارے نے ان سب کے نام لے دیئے جن کا اس کو علم تھا.چنانچہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے پانچ لڑکوں کو بھی ان کی نشاندہی پر گرفتار کر لیا گیا جوا بھی افغانستان میں ہی تھے.انہیں شیر پور کے جیل خانے میں مقید کر کے ان کے پاؤں پر موٹی موٹی بیڑیاں ڈال دی گئیں اور اگر چہ ان میں سے کسی کو قتل نہیں کیا گیا مگر یہ دردناک اذیت ناک موت جو رفتہ رفتہ ان کو پہنچائی گئی یہ عام یکدفعہ کی شہادت سے زیادہ دردناک ہوا کرتی ہے.چنانچہ آٹھ نو ماہ تک وہ جیل میں اس حالت میں

Page 62

خطبات طاہر بابت شہداء 49 49 خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۹۹ء رہے کہ ان کو کھانے میں سوائے نمک اور خشک روٹی کے کچھ نہیں ملتا تھا اور اس کی وجہ سے جیل میں ہی انہوں نے تکلیفیں اٹھا اٹھا کر جب نظام نے جواب دیا، انتڑیاں گل گئیں تو اسی حالت میں وفات پائی.تو بلاشبہ ان کا نام عظیم شہداء میں داخل ہے اور ان کی شہادت اس پہلو سے زیادہ درد ناک ہے کہ نو ماہ تک مسلسل تکلیفیں اٹھاتے ہوئے انہوں نے جان دی ہے.حضرت سید سلطان احمد صاحب اور حضرت سید حکیم صاحب ایک اور کابل کے شہید ہیں ان کا بھی یہی حال ہے.ان کو بھی نمک اور خشک روٹی پر رکھا گیا تھا جس طرح ان شہداء کو بھی اور اسی طرح رفتہ رفتہ انتڑیاں گل گئیں، زخم پیدا ہو گئے سارے نظام میں اور اس حالت میں انہوں نے جان دی ہے.یہ واقعہ ۱۹۱۸ ء کا ہے.حضرت سید سلطان احمد صاحب شہید اور ان کے بھائی حضرت سید حکیم صاحب کا ذکر ہے.شہادت ۱۹۱۸ء میں ہوئی.علاقہ حاجی کے حاکم سردار محمد خان کے حکم سے ایک بڑے عالم یعنی سید سلطان صاحب جو بڑے عالم دین تھے اور ان کے بھائی سید حکیم صاحب کو گرفتار کر کے قید خانہ میں ڈال دیا گیا.یہاں خشک نمک اور نان کے سوا کوئی کھانا نہیں ملتا تھا.مسلسل یہ کھانا کھانے کے نتیجہ میں دونوں کی انتڑیاں بالکل گل گئیں اور اسی دردناک حالت میں شہید ہوئے.حاجی میراں بخش صاحب اور ان کی اہلیہ اب تاریخ کے اعتبار سے مختلف ملکوں کا جگہ جگہ ذکر چلے گا.مگر میں نے تاریخ وار چونکہ مرتب کیا ہے اس لئے اب میں انبالہ کے حاجی میراں بخش صاحب اور ان کی اہلیہ کی شہادت کا ذکر کرتا ہوں یوم شہادت ۱۴/۱۳ اگست ۱۹۴۰ء ۱۴/۱۳ /اگست کی درمیانی شب کو گیارہ بجے حضرت حاجی میراں بخش صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ کو ان کے اپنے مکان میں شہید کر دیا گیا.حاجی میراں بخش قریشی محلہ خلوت انبالہ شہر کے رہنے والے تھے.چرم فروشی کرتے تھے.حاجی صاحب نے ۱۹۰۴ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.نہایت سرگرم داعی الی اللہ تھے.ان پر اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی بدولت فضل بھی بہت کئے تھے اور بہت کا روبار چلا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا جو کاروبار کا پھلنا اور پھیلنا یہ بھی احمدیت ہی کی برکت سے تھا.اس وجہ سے بہت مشہور ہو گئے تھے اور ملانوں کو یہ بہت تکلیف تھی کہ احمدی ہو کر اتنی اس کو برکت ملی ہے، اتنا مال و دولت اس کے ہاتھ آ رہا ہے.

Page 63

خطبات طاہر بابت شہداء 50 50 خطبہ جمعہ سے مئی ۱۹۹۹ء اس وجہ سے ملانوں کی انگیخت پر ۱۳ اور ۱۴ کی درمیانی شب کو گیارہ بجے جب کہ آپ اور آپ کی اہلیہ اپنے مکان پر سوئے تھے آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا.پہلے حاجی صاحب پر دشمنوں نے تیز چاقو سے حملہ کیا اور پسلی کے قریب ایک گہر از خم لگا جس سے حاجی صاحب موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے.اس واقعہ کو دیکھ کر ان کی اہلیہ کی آنکھ کھلی اور وہ شور مچا کر مدد حاصل کرنے کے لئے چھت پر چڑھنے لگیں کہ سنگدل قاتل نے مرحومہ کو چھت سے نیچے گرا لیا اور ایک دو وار میں ہی کام ختم کر دیا.یہ واقعہ شہادت اور بھی دردناک ہو جاتا ہے یہ معلوم کر کے کہ ان کی چھوٹی بچی عمر دس ماہ ان کی گود میں تھی وہ ان کے نیچے دب گئی اور لاش اس بچی کے اوپر تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہوئی.اس حالت میں بچی کو اٹھایا گیا جو زندہ تھی کہ وہ مرحومہ ماں کا دودھ چوسنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ دودھ خشک ہو چکا تھا.بہت ہی دردناک شہادت ہے یہ اور اس حالت میں چونکہ پوسٹ مارٹم کے بعد لاش احمدیوں کے سپرد نہیں کی گئی تا کہ وہ اس کو با قاعدہ تابوت میں ڈال کر قادیان لے جا سکتے اس لئے ان کے غیر احمدی رشتہ داروں نے ان کی نعش کو وہیں دفنا دیا.صو بیدار خوشحال خان صاحب صو بیدار خوشحال خان صاحب، تاریخ شہادت ۲۹ مئی ۱۹۴۲ء.آپ صوابی ضلع مردان میں ۱۸۶۸ء میں پیدا ہوئے.آپ کے دوسرے بھائی جمعدار سلطان محمد خان صاحب تھے.اب ان کی شہادت کا ذکر کرتا ہوں عین ان کے ساتھ بھی احمدیت کا ایک معجزہ ہوا ہے کہ ان کے خاندان کی تمیں بہتیں پشتوں سے جہاں تک ان لوگوں کو یاد تھا یہ سلسلہ چلا آ رہا تھا کہ دو بیٹے ہوتے تھے ایک لا ولد مرجاتا تھا پھر دوسرے کی بھی دو بیٹے ہوتے تھے اور اس میں سے ایک لا ولد مر جاتا تھا.پھر آگے اس کے بھی دو بیٹے ہوتے تھے.یہ ایک حیرت انگیز سنت تھی جو بڑی دیر سے چلی آرہی تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کے احمدیت قبول کرنے سے یہ طریق بدل ڈالا اور آپ کو بیٹوں، پوتوں اور پڑ پوٹیوں سے نوازا یعنی دو بیٹوں والا قصہ ختم ہو گیا پھر کثرت سے ان کے بیٹے بیٹیاں بھی ہوئے پوتے بھی ہوئے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس دور میں قاضی محمد یوسف صاحب آف پشاور کے زیر تبلیغ تھے مگر احمد یت قبول کرنے کی توفیق حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ملی.آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیارت ایک خواب میں پہلے بھی کر چکے تھے.

Page 64

خطبات طاہر بابت شہداء آپ کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا.51 خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۹۹ء واقعہ شہادت کی تفصیل یہ ہے: احمدیت کی وجہ سے آپ کے گاؤں مینی تحصیل صوابی ضلع مردان میں آپ کی بہت مخالفت تھی.۲۹ مئی ۱۹۴۲ء کو آپ حسب معمول ٹوپی سے نماز جمعہ ادا کر کے اپنے گاؤں واپس جا رہے تھے کہ رستے میں ان کے گاؤں موضع مینی اور صوابی کے درمیان انہیں بعض نا معلوم لوگوں نے گولیاں برسا کے شہید کر دیا.قاتل جائے واردات پر ایک خط چھوڑ کر گئے جس میں لکھا تھا کہ قادیانی مذہب چھوڑ دو، رسول کریم کا دین خراب مت کرو ورنہ سب قتل کر دیئے جاؤ گے.آپ نے اپنے پیچھے نو بیٹے ، تین بیٹیاں اور متعدد نواسے نواسیاں بطور یادگار چھوڑے ہیں.یہ بھی شاید سن رہے ہوں اگر ان کے کانوں تک میری یہ آواز پہنچے تو یہ اپنے خاندان کی آج کی موجودہ تفصیل بھی مجھے بھجوائیں.کون کون کہاں آباد ہوا ہے، ان سے خدا تعالیٰ کا کیا سلوک ہے.انڈونیشیا کے شہداء کا ذکر اب میں ہندوستان کا ذکر چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لئے آپ کو انڈونیشیا لے کے چلتا ہوں.انڈونیشیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت سی شہادتیں ہوئی ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ جلی قلم کے لکھنے والی شہادتیں ہیں.ب سے پہلے ۱۹۴۵ء میں آزادی کے اعلان کے بعد جبکہ انڈونیشیا نے جنگ آزادی جیت لی تو موضع چوکنگ کا ونگ ضلع تا سک ملایا، مغربی جاوا، انڈونیشیا کے علاقہ میں ماشومی نامی ایک انتہا پسند مسلمان تنظیم کے ایماء پر ماشومی کے شر پسند عناصر کے ہاتھوں چھ احمدی شہید کئے گئے.جن کے نام یہ ہیں.محترم جائد (Jaid) صاحب، محترم سورا (Sura) صاحب، محترم سائری (Sairi) صاحب، محترم حاجی حسن صاحب ، محترم راڈن صالح ) Raden Saleh)صاحب، دحلان (Dahlan) صاحب.ان سب شہداء کو انتہائی وحشیانہ طریق سے ہاتھ باندھ کر سر عام چوک میں شہید کیا گیا.اناللہ وانا اليه راجعون.اب ظاہر ہے کہ ان سب کے لئے بظاہر تو بہ کا رستہ کھلا تھا اور ارتداد کا رستہ کھلا تھا مگر ایک بھی ان میں سے اپنے دین سے نہیں ہٹا.بہت بہادری سے جان دی.انہی ایام میں اس ضلع کی ایک اور جماعت سانگیانگ لومبنگ انڈ ہیانگ ( Sangiang Lombang

Page 65

خطبات طاہر بابت شہداء 52 52 خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۹۹ء Indhiang) میں اس تنظیم کے چار دہشت گردوں نے چار احمدی احباب کو بے دردی سے شہید کیا جن کے اسماء حسب ذیل ہیں.محترم حاجی سنوسی Haji Sanusi) صاحب، محترم اومو (omo) صاحب، محترم تبیان (Tahyan صاحب اور محترم سہرومی (Sahromi) صاحب.۱۹۴۱ء تا ۱۹۴۵ء وارنگ دویانگ چی آنجور ) Warung Doyong Chianjur) میں نام نہاد ملاں اور نام نہاد اسلامی شر پسندوں کے فتنہ کی وجہ سے دو احمدیوں کو جیل بھیج دیا گیا جن میں سے ایک احمدی محترم مارتاوی (Martawi) صاحب ۴ رمئی کو جیل کے اندر ہی فوت ہو گئے اور اس طرح انہوں نے بھی خدا کی راہ میں شہادت پائی.اگر چہ قتل نہیں ہوئے مگر جیل میں راہ مولیٰ میں قید کئے جانے والے جب مرتے ہیں تو شہید ہی ہوتے ہیں.مکرم شریف دو تسا صاحب البانیہ اب یورپ آتے ہیں.یورپ کے پہلے احمدی شہید کا ذکر کرتا ہوں.یہ البانیہ کے باشندے تھے ان کا نام شریف دو تسا تھا.ان کے بیٹے یہاں آکر مجھ سے ملے بھی ہوئے ہیں.شریف دوتسا صاحب یورپ کے پہلے احمدی شہید ہیں کیونکہ جب کمیونسٹ انقلاب آیا تو وہ مذہب کا نام بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے اور چونکہ اشتراکیت اصولاً اسلام کے خلاف تھی اس لئے بڑی بہادری کے ساتھ اسلام پر قائم رہے اور کمیونسٹ حکومت کو کہ دیا کہ میں تمہارے جھوٹے نظام کے ساتھ نہیں چل سکتا.اس کے نتیجہ میں ان کو شہید کر دیا گیا.گویا با قاعدہ انہوں نے شہادت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے قبول کیا ہے.سرکردہ رئیس تھے اور ان کا اثر ورسوخ البانیہ میں بھی تھا اور یوگوسلاویہ میں بھی تھا.حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے آپ کی شہادت کے موقع پر تحریر فرمایا شریف دو تسا ایک مخلص احمدی تھے.ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ کمیونسٹ طریق حکومت کے مخالف تھے اور جو مسلمان اس ملک میں اسلامی اصول کو قائم رکھنا چاہتے تھے ان کے لیڈر تھے.مرتے تو سب ہی ہیں اور کوئی نہیں جو مقررہ عمر سے زیادہ زندہ رہ سکے مگر مبارک ہے وہ جو کسی نہ کسی رنگ میں دین کی حمایت کرتا ہوا مارا جائے.شریف دو تسا کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ یورپ کے پہلے

Page 66

خطبات طاہر بابت شہداء 53 53 خطبہ جمعہ سے مئی ۱۹۹۹ء شہید ہیں.محترم محمد اکرم خان صاحب چارسدہ مضلع پشاور اب پھر واپس صوبہ سرحد چلتے ہیں.محترم محمد اکرم خان صاحب چارسدہ ضلع پشاور.تاریخ شہادت ۱۰ جنوری ۱۹۵۰ء.آپ نے مولوی محمد الیاس صاحب کے ذریعہ احمدیت قبول کی.پہلے پیغامی ہوا کرتے تھے پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر دستی بیعت کی.بڑے مخلص احمدی رہے.تبلیغ کا بہت شوق تھا.مطالعہ کتب کا جنون تھا.کچھ عرصہ نائب تحصیلدار رہے.دفتر چیف کمشنر سرحد میں میر منشی بھی رہے.بعد میں زمینداری اختیار کی اور چارسدہ کے قریب موضع ” ڈب“ آباد کیا.ڈب میں ہی تھے کہ کسی انگیخت پر ایک نامی گرامی بدمعاش نے ۱۰؍جنوری بروز منگل بندوق سے فائر کر کے شہید کر دیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ چھہتر سال کی عمر کے تھے اور ایک رئیس خاندان میں سے تھے.یہ وہی ہیں جن کے متعلق ان کے بھائی نے بیان دیا تھا کہ ہم نے ایک اٹھنی احمدیوں کو دے دی ہے اور ایک اٹھنی غیر احمدی کو.یہ پہلے پیغامی جماعت کے ساتھ تھے بعد میں مبائعین میں شامل ہو گئے.خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی شہادت میں بعض مولویوں کا ہاتھ ہے.وہ تولاز م ہو گا مگر چونکہ قطعی شہادت حضرت مصلح موعودؓ کونہیں ملی تھی اس لئے یہی فرمایا کہ خیال کیا جاتا ہے.چوہدری محمد حسین صاحب، گمبٹ اب چوہدری محمد حسین صاحب تاریخ شہادت ۲۲ فروری ۱۹۵۲ء کا ذکر کرتا ہوں.یہ اب پنجاب کی بات ہے اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب کہ احرار موومنٹ کی شرارت اور شور و غوغا بہت زوروں پر تھا.احراری لیڈروں کی رات دن کی فتنہ انگیز تقریروں اور تحریروں کی وجہ سے ۱۹ / فروری ۱۹۵۲ء کو چوہدری محمد حسین صاحب احمدی کو گمبٹ ریاست خیر پورسندھ میں شہید کر دیا گیا.اب سندھ کے شہداء کا جو ذ کر چلتا ہے اس میں عام طور پر لوگ ان کو بھول جاتے ہیں.یہ بھی سندھ کے عظیم الشان

Page 67

خطبات طاہر بابت شہداء 54 خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۹۹ء شہداء میں سے ہیں.پولیس نے اطلاع ہونے پر قاتل کو موقع پر گرفتار لیا.چوہدری صاحب موصوف کو فوراً ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے.اناللہ وانا الیه راجعون انڈونیشیا کے مزید چھ شہداء کا ذکر اب پھر انڈونیشیا.تاریخ کے اعتبار سے اب پھر انڈونیشیا کی باری آرہی ہے.چیانڈام(Chiandam ) انڈونیشیا ۳ / مارچ ۱۹۵۳ء کو اس جماعت کے چھ مردوزن کو شہید کیا گیا.۱۹۵۳ء میں مغربی جاوا، انڈونیشیا میں ایک انتہا پسند پارٹی دارالاسلام ہوا کرتی تھی.شر پسند عناصر اور اس جماعت کے پیشوا امام کا رتو سوویر و ( Karton Suiryo)، جو انڈونیشیا میں نام نہاد اسلامی شریعت نافذ کرنا چاہتے تھے.دارالاسلام جو ان کی تنظیم تھی اس کے دہشت گرد جو کہ اپنے آپ کو تن تارا اسلام انڈونیشیا کہا کرتے تھے.۳ / مارچ ۱۹۵۳ء بروز ہفتہ شام سات بجے اسی تنظیم تن تارا اسلام کے دہشت گرد صدر جماعت احمد یہ چیانڈا م کے گھر آئے.اس وقت صدر جماعت سوما (Soma) صاحب ( عمر تقریباً ۳۷ سال) کے پاس ان کے بیٹے اور جماعت احمد یہ چیانڈام کے سیکرٹری اور محاسب محترم اوسون (Uson) صاحب ( عمر ۲۱ سال ) اور سوما صاحب کے ایک قریبی رشته دار محترم سرمان (Sarman) صاحب ( عمر ۲۶ سال) موجود تھے.تن تارا کے کارندے زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوئے اور ان تینوں کو اپنے ساتھ گھر کے باہر ایک کھلے میدان میں لے گئے اور فائرنگ کر کے شہید کر دیا.اناللہ وانا الیه راجعون.اس کے بعد تن تارا اسلام انڈونیشیا کے شر پسند اس گھناؤنی کا رروائی کو جاری رکھتے ہوئے محترم جملی (Jumli) صاحب کے گھر گئے اور انہیں گھر سے بلایا.پھر زبردستی گھر میں داخل ہو گئے جہاں محترمہ ایڈوٹ (Idot) صاحبہ اور محترمہ اونیہ (Uniah) صاحبہ بھی موجود تھیں.انہوں نے تینوں کو گھر سے باہر نکال کر فائرنگ کر شہید کر دیا.انالله واناالیه راجعون.1953ء کے فسادات میں لاہور کے شہداء اب لاہور کے شہداء کا ذکر کرتا ہوں جو پہلے مارشل لاء کے نفاذ سے کچھ عرصہ پہلے شہید ہوئے اور بعضوں کا ذکر پہلے شاید ہو چکا ہو لیکن اب میں تاریخ کے حوالے سے بعض کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کا ذکر تحقیقی عدالت کی رپورٹ میں بھی ہے.جس دن مارشل لاء لگایا گیا اس دن حالات اتنے خراب ہو

Page 68

خطبات طاہر بابت شہداء 55 خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۹۹ء چکے تھے کہ تحقیقاتی عدالت کے جج جسٹس منیر نے لکھا: اس دن کے واقعات کو دیکھ کر ”سینٹ بارتھولومیو ڈے یاد آ جاتا تھا.ماسٹر منظور احمد صاحب لاہور اس مارشل لاء سے قبل جو شہادتیں ہیں ان میں ماسٹر منظور احمد صاحب مدرس بھی شامل تھے.ان سب شہداء کے متعلق میں نے لکھ دیا ہے کہ ان کی تفاصیل معلوم کریں کہاں تھے ، کس کے بیٹے تھے ، ان کی اولاد کہاں کہاں گئی.شہادتوں کے ذکر میں توجہ صرف اسی طرف بٹی رہی کہ کون شہید ہوا حالانکہ ضروری تھا ہماری تاریخ کو مکمل کرنے کی خاطر کہ ان کی اولاد، ان کے پسماندگان وغیرہ کہاں گئے اور کہاں آباد ہوئے اور خدا تعالیٰ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تو اب انشاء اللہ یہ بھی اس شہادت کے تذکرہ کا ایک پھل، بہت ہی نیک پھل ہے جو ہمیں زائد حاصل ہورہا ہے.وہ لوگ جن کی اولادوں کو بھلا دیا گیا تھا اب وہ اولاد ہیں بھلائی نہیں جاسکیں گی.اس خطبہ کے تسلسل میں ان کا ذکر خیر بھی چلے گا.محمد شفیع صاحب اور میاں جمال احمد صاحب لاہور ماسٹر منظور احمد صاحب مدرس تھے.یہ نہیں لکھا کہ کون تھے، کس کے بیٹے تھے، کہاں تھے.صرف اتنا ذکر ہے کہ مدرس تھے.ان کے علاوہ ۶ / مارچ کو ایک احمدی محمد شفیع صاحب بر ما والا کو مغلپورہ میں شہید کیا گیا اور کالج کے ایک احمدی طالب علم میاں جمال احمد صاحب کو بھی اسی روز شہید کیا گیا.میاں جمال احمد صاحب شہید کی شہادت کا واقعہ بہت ہی دردناک بھی ہے اور ان کی بہادری پر بھی دلالت کرتا ہے.بہت نڈر انسان تھے.محترم جمال احمد صاحب ولد مستری نذرمحمد صاحب حلقہ بھائی گیٹ لاہور کو 4 مارچ ۱۹۵۳ کو شہید کیا گیا.شہادت کے وقت آپ تعلیم الاسلام کالج لاہور میں ایف.ایس سی کے طالب علم تھے.جب بھی حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ تشریف لے جاتے تو شہید مرحوم ساری ساری رات ڈیوٹی دیتے.۵/ مارچ ۱۹۵۳ء کو آپ ساری رات گھر کی چھت پر پہرہ دیتے رہے.مارچ کو جمعہ کے روز آپ اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کو ملنے سائیکل پر رنگ محل جارہے تھے.گھر سے کچھ فاصلہ پر محلہ دار جو آپ کو جانتے تھے جلوس کی شکل میں کھڑے تھے.آپ پاس سے گزرے تو انہوں نے پتھر برسانے شروع کر دیئے.آپ سائیکل سے اتر کر کھڑے ہو گئے.ہجوم گالیاں

Page 69

خطبات طاہر بابت شہداء 56 خطبہ جمعہ سے رمئی ۱۹۹۹ء دیتا ہوا آپ کو مارتے ہوئے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا یہ مرزائی ہے اسے جان سے ماردو.ایک شخص جو آپ کو ذاتی طور پر جانتا تھا وہ آپ کے پاس آیا کہنے لگا جمال تم کہہ دو کہ تم احمدی نہیں ہو تو میں تمہیں بچا لوں گا.اگر تم ویسے نہیں کہنا چاہتے تو میرے کان میں ہی کہ دو تو پھر بھی میں اس ہجوم کو سنبھال لوں گا.کیونکہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا.آپ کہنے لگے کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہوں اور اپنی جان بچانے کے لئے جھوٹ نہیں بولوں گا، تم نے جو کچھ کرنا ہے کر لو.چنانچہ آپ کو نیچے گرا کر چاقوؤں سے شہید کر دیا گیا.اناللہ وانا الیه راجعون.شہادت کے وقت آپ کی عمر صرف ۷ اسال تھی.جمال احمد شہید کے بھائی نصیر الدین بلال اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ شہید مرحوم کے قاتل حکومت نے پکڑ کر چھوڑ دیئے.لیکن خدا تعالیٰ نے ان کو ہمارے سامنے سزا دی.ایک پاگل ہو کر نہایت بری حالت میں مرا یعنی گندی نالیوں کا گند پیتے ہوئے پھرتا رہا اسی حالت میں مرا اور دوسرا اندھا ہو کر مرا.مرزا کریم بیگ صاحب اب ایک اور احمدی مرزا کریم بیگ صاحب کو فلیمنگ روڈ پر چھرا مار دیا گیا اور ان کی نعش ایک چتا میں پھینک دی گئی جوفر نیچر کو آگ لگا کر تیار کی گئی تھی.کثرت کے ساتھ اسی روز احمدیوں کی دکانیں لوٹ لی گئیں.ان کے سامان کو اکٹھا کر کے ان کی دکانوں میں ڈال کر یا باہر آگ لگا دی گئی.تیسرے پہر ایک ممتاز ایڈووکیٹ شیخ بشیر احمد صاحب لاہور کے مکان کو بھی ہجوم نے گھیر لیا.اس واقعہ میں شہادت تو کوئی نہیں ہوئی مگر چونکہ شیخ بشیر احمد صاحب نے دفاع میں گولی چلائی تھی اس لئے ان کو پکڑ لیا گیا بعد میں عدالت نے ان کو بری کر دیا.مارچ کی رات کو عبدالحکیم مالک پائنیر الیکٹرک اینڈ بیٹری سٹیشن کے مکان پر چھاپہ مارا گیا اور ان کی بوڑھی والدہ قتل کر دی گئیں حالانکہ وہ احمدی نہیں تھی.یہ واقعہ اس غلط فہمی سے ہوا کہ چونکہ عبدالحکیم صاحب جماعت احمد یہ گنج مغلپورہ کے صدر تھے اور ایک معروف ہستی تھے اس لئے دشمنوں نے سمجھا کہ ماں بھی احمدی ہوگی حالانکہ وہ احمدی نہیں تھی.تو یہ نہیں وہاں قتل ہوئے مگر ان کی بوڑھی والد قتل کر دی گئیں.مکرم عبد الغفور صاحب حوالدار اور ایک احمدی عطار، لاہور ۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور میں دو اور بھی شہادتیں ہوئیں جن میں سے ایک مکرم حوالدار عبد

Page 70

خطبات طاہر بابت شہداء 57 خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۹۹ء الغفور صاحب ولد الہی بخش صاحب تھے اور دوسرے لاہور کے علاقہ میں ایک احمدی عطار تھے جن کا نام کسی وجہ سے تاریخ میں درج نہیں.اب یہ بھی اسی قسم کا واقعہ ہے کہ جہاں تاریخ میں محفوظ رکھنے والی ضروری چیزیں نظر انداز کر دی گئیں ہیں.اب یہ ہوہی نہیں سکتا کہ احمدی عطار شہید ہوا ہو اور اس کا کوئی باپ، کوئی ماں، رشتہ دار، کوئی اور پسماندہ ایسے نہ ہوں جن کو پتہ نہ ہو کہ ان کا نام کیا تھا، کہاں کے تھے اور اب ان کی اولاد بھی کہیں پھیلی ہوئی ہوگی.تو یہ وہ اہم تاریخی واقعات ہیں جو نظر سے دور رہ گئے ہیں اور شہادت کے ذکر میں صرف اتنا ہی سمجھا گیا کہ ایک شہید ہوا، ایک شہید ہوا، ایک شہید ہوا.حالانکہ اس کے ماحول کی باتیں، اس کے رشتہ داروں کی باتیں، اس کے بزرگوں کی باتیں ، یہ ساری تاریخ کا حصہ ہونی چاہئے تھیں.پس اتنا ہی لکھا ہوا ہے کہ ایک احمدی عطار تھا جس کا نام معلوم نہیں ہو سکا.اب جب تاریخ لکھنے والے نے لکھا ہے اس وقت اس کا نام معلوم نہیں ہوا ہوگا.ہوسکتا ہے ہنگامے کے حالات میں یہ بات لکھی گئی ہو بعد میں آسانی سے یہ نام معلوم کیا جا سکتا تھا.مرکز سلسلہ قادیان کی حفاظت کے سلسلہ میں شہادتیں اب اس کے بعد جو ذکر چلے گا وہ مرکز حفاظت کے سلسلے میں قادیان اور اس کے نواح میں شہادت کے واقعات کا ذکر ہو چکا ہوگا یہ چونکہ اپنی ذات میں ایک لمبا مسودہ ہے اور اس ذکر میں کئی باتیں بیان ہونے کے قابل ہیں اس وقت میں صرف اتنی بات بیان کرتا چاہتا ہوں کہ قادیان سے ہجرت سے پہلے جو واقعات وہاں گزرے ہیں ان میں لفظ شہادت کا استعمال جائز ہے.اگر چہ ایک تقسیم کا ایک سیاسی جھگڑا تھا اور اس کے نتیجے میں حملے ہورہے تھے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ جتنے بھی مسلمان جو لاکھوں کی تعداد میں شہید کئے گئے ہیں محض اس جرم میں شہید ہوئے ہیں کہ وہ مسلمان تھے پس احمدی تھے یا غیر احمدی تھے اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ ان سے دشمنی کی وجہ ان کا مسلمان ہونا تھا.پس اگر کسی کو مسلمان سمجھتے ہوئے خواہ وہ حقیقی مسلمان ہو یا سطحی مسلمان ہو قتل کیا گیا ہو تو لازماً خدا کے حضور اس کا درجہ شہادت کا ہی ہوگا.لیکن جن احمدی شہداء کا ذکر میں کروں گا اس ضمن میں ان کے متعلق ایک بات میں کھول کر دینا چاہتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کا شہادت کا مرتبہ ان عام مسلمانوں سے زیادہ بڑا تھا.جیسا کہ تفصیلی ذکر آئے گا آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ بہت سے احمدی نو جوانوں نے اپنے بھائی مسلمانوں کی حفاظت میں جانیں دی ہیں اور قادیان میں بڑی بڑی دور دور سے لوگ جا کر اس خیال سے آباد ہوئے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی حفاظت میں اور مرکز کی حفاظت

Page 71

خطبات طاہر بابت شہداء 58 خطبہ جمعہ سے مئی ۱۹۹۹ء میں جان دینے سے بھی دریغ نہ کریں.پس قطعی طور پر کھلی کھلی شہادت ہے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور اپنی جانیں دے دیں اور جانتے تھے کہ انتہائی خطرناک حالات ہیں اس کے باوجود بعض بہت دور دور کے گاؤں میں گئے ہیں اور وہاں سارے کے سارے مسلمان گاؤں کا انخلا کر وا دیا گیا ہے حالانکہ چند ایک ہوا کرتے تھے.مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کی نصرت فرمائی اور کامیابی کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں کو وہاں سے نکالنے کی توفیق احمد یوں کو ملی.قربانی کا یہ حال تھا اس زمانہ میں جب کہ کھانے کو روٹی بھی نہیں ملتی تھی ، ایک ایک لاکھ یا اس سے زائد مسلمان مہاجرین کو روٹی دینے کا انتظام قادیان کے لنگر خانہ نے کیا ہوا تھا.اور حضرت مصلح موعود کی فراست کو دیکھئے کہ اس سے بہت پہلے آپ نے اندازہ لگا لیا تھا کہ حالات نہایت خطرناک ہونے والے ہیں اور ہمیں اس وقت ضرورت پڑے گی جب کہ کہیں گندم میسر ہی نہیں آئے گی، جب کہیں خوراک نہیں ملے گی.چنانچہ آپ نے جماعت احمدیہ کا وہ انتظام جہاں گندم کی جاتی تھی اس انتظام کو کناروں تک گندم سے بھروا دیا.بہت دور تک لوگوں کو بھیجا جاتا تھا کہ وہ گندم خرید کے لائیں.اس وقت تعجب ہوتا تھا کہ اتنی زیادہ گندم کی کیا ضرورت ہے مگر جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت پتہ چلا کہ ارد گرد کے مسلمان جو لاکھوں کی تعداد میں قادیان میں پناہ لینے کے لئے وقتاً فوقتاً آتے رہے اگر وہ دشمن کی بستیوں سے بچا بھی لئے جاتے تو فاقوں کا شکار ہو جاتے.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کے گندم کے ذخیروں نے ان کو زندہ رہنے کے لئے قوت مہیا کر دی یعنی جیسا بھی تھا نمک روٹی سے گزارہ کیا یا پانی نمک روٹی سے گزارہ کیا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ رکھے گئے اور ان کے زندہ رکھنے میں وہ تمام احمدی شامل ہیں جنہوں نے مختلف جگہوں سے وقف کر کے قادیان میں آکر ان کی حفاظت کے انتظام کئے تھے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے.اب چونکہ وقت تھوڑا ہے اس لئے اس میں میں اگلے مضمون کو شروع نہیں کر سکتا.انشاء اللہ یہ سلسلہ آگے جرمنی میں بھی جاری رہے گا اور جرمنی کے بعد پھر جب یہاں آئیں گے تب بھی یہ شہداء کے تذکرے کا سلسلہ جاری رہے گا.اللہ تعالیٰ ان کو دین و دنیا کی سعادت تو نصیب کر ہی چکا ہے ان کی اولادوں کو بھی دین و دنیا کی سعادتیں نصیب کرے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی سب نئی نسلوں کو توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 72

خطبات طاہر بابت شہداء 59 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء شہداء بسلسلہ حفاظت مرکز قادیان ۱۹۴۷ء خطبه جمعه فرموده ۱۴ مئی ۱۹۹۹ء بمقام با دکر وکس ناخ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ اَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ (البقرة : ۱۵۴ تا ۱۵۵) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو صبر کے ساتھ اور نماز کے ساتھ صبر اور نماز کے لئے دعا مانگو.یہ دونوں باتیں اس میں شامل ہیں صبر کے ساتھ خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرو اور نماز کے ساتھ خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرو.اور صبر کے ساتھ صبر کی مدد طلب کرو اور نماز کے ساتھ نماز کی بھی مدد طلب کرو.اِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ.یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتُ اور انہیں جو خدا کی راہ میں مارے جائیں گے، خدا کے رستے میں مارے جائیں مردے نہ کہا کرو.بل احیاء ولكِنْ لا تَشْعُرُونَ بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.یہ وہ آیات ہیں جیسا کہ ان کے ترجمہ سے ظاہر ہے یہ شہدا کے ذکر کے عنوان کے طور پر اختیار کی گئی ہیں.ایک سلسلہ شہدا کے ذکر کا جو ہم نے شروع کر رکھا ہے آج بھی انشاء اللہ اسی سلسلہ

Page 73

خطبات طاہر بابت شہداء 60 60 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء میں قادیان سے ہجرت سے پہلے جو شہادتیں ہوئی تھیں ان کا ذکر چلے گا.حفاظت مرکز کے سلسلے میں قادیان اور اس کے نواح میں جو شہادات ہوئی ہیں ان کو جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں ذکر کیا تھا دو ہرا امتیاز حاصل ہے کیونکہ ان مسلمانوں کے دفاع میں جن کا قصور صرف مسلمان ہونا تھا ، جن کا قتل عام کیا جارہا تھا ، ان کے دفاع میں احمدیوں نے ان کو بچانے کی خاطر جو جانیں دیں ہیں یہ غیر معمولی عظمت کی شہادتیں ہیں اور جیسا کہ ان کا ذکر چلے گا آپ حیران ہوں گے کس بہادری کے ساتھ موت کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے وہ لوگ آگے بڑھے اور خدا کی راہ میں اپنی جانیں پیش کر دیں.جمعدار محمد اشرف صاحب شہید پہلا ذکر جمعدار محمد اشرف صاحب شہید کا ہے جن کی تاریخ شہادت ۲ ستمبر ۱۹۴۷ء ہے.مجھے افسوس ہے ہماری تاریخ میں ان لوگوں کے متعلق تفصیلات اکٹھی نہ کی گئیں لیکن اب جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے نتیجہ میں بہت سے شہداء کے پسماندگان خود وہ اطلاعیں بھجوا رہے ہیں جو ہماری تاریخ میں اس وقت محفوظ نہیں ہیں.وہ لکھ رہے ہیں کہ ہم ان کے بچے کتنے تھے، کہاں کہاں گئے ، اللہ تعالیٰ نے ان سے کیا سلوک کیا ، دشمنوں سے کیا سلوک کیا وغیرہ وغیرہ.غرضیکہ اس مبارک سلسلہ کے نتیجہ میں ایک اور سلسلہ معلومات کا اکٹھا ہونا شروع ہو گیا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری تاریخ اور زیادہ سنورتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.جمعدار محمد اشرف صاحب کے متعلق تاریخ احمدیت میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے روز نامچے کے حوالے سے یہ درج ہے کہ ۲ ستمبر ۱۹۴۷ء کو مسلمانوں کے گاؤں سٹھیالی پر جہاں خود حفاظتی کے خیال سے علاقے کے اور کوئی مسلمان دیہات بھی جمع تھے، بہت بڑا گاؤں تھا سٹھیالی ، مسلمانوں کا اور وہاں اردگرد کے دیہات کے مسلمان بھی پناہ کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے وہاں سکھوں کے حملے کا آغاز ہوا اور اس حملہ کے دوران جمعدار محمد اشرف صاحب ان مسلمانوں کی حفاظت کے لئے سٹھیالی بھجوائے گئے تھے.وہاں برین گن کے فائر سے شہید ہوئے.جمعدار صاحب مرحوم احمد یہ کمپنی 8/15 پنجاب رجمنٹ سے جنوری ۱۹۴۷ء میں فارغ ہوئے تھے اور قادیان تشریف لے آئے تھے.۲۵ اگست ۱۹۴۷ء کو آپ نے حفاظت مرکز کے لئے اپنی خدمات پیش کیں.۲۶ / اگست کو

Page 74

خطبات طاہر بابت شہداء 61 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء جناب کیپٹن شیر ولی صاحب کے حکم سے صوبیدار عبدالمنان صاحب دہلوی ، عبدالسلام صاحب سیالکوٹی ، حوالدر میجر محمد یوسف صاحب گجراتی ، محمد اقبال صاحب اور عبدالقادر صاحب کھارے والے، غلام رسول صاحب سیالکوٹی ، فضل احمد صاحب اور عبدالغفار صاحب ان کے ہمراہ یہ سٹھیالی پہنچے جہاں سکھوں نے رائفل ،ٹین گن ، برین گن اور گرینیڈ کے بے دریغ استعمال کیا.جمعدار محمد اشرف صاحب اور صو بیدار عبدالمنان صاحب دہلوی اور محمود احمد صاحب عارف تینوں بڑی بہادری اور جرات سے دفاع کر رہے تھے کہ یکا یک برین گن کا برسٹ جمعدارمحمد اشرف صاحب کے ماتھے پر لگا اور وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.میاں علم الدین صاحب دوسری شہادت جس کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے وہ میاں علم الدین صاحب کی ہے.تاریخ شہادت ۶ ستمبر ۱۹۴۷ء.آپ کی پیدائش غالبا ۱۸۹۸ء کی ہے.منگل باغبان نز دقادیان میں کچھ عرصہ سکونت پذیر رہے.پھر ۱۹۳۲ء میں قادیان منتقل ہو گئے.اولاً حلقہ مسجد مبارک اور پھر حلقہ مسجد فضل میں سکونت اختیار کی.آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.ہر سال اس سلسلہ میں گرمیوں کے موسم میں دریائے بیاس کے پاس اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو ضرور ملنے جایا کرتے تھے.آپ کی تبلیغ کی بدولت ان میں سے بعض کو قبول احمدیت کی توفیق ملی.آپ مولانا جلال الدین صاحب قمر کے والد تھے.واقعہ شہادت یوں بیان ہوا ہے کہ قادیان پر جب پولیس اور فوج کی مدد سے جنہوں نے حملے شروع کئے تو فوج قادیان پر کرفیو لگا دیتی تھی اور اہل قادیان کو قانونی زنجیروں میں جکڑ کر غیر مسلم جتھوں کو کھلا چھوڑ دیتی تھی کہ وہ من مانی کریں لیکن اس کے باوجود غیر مسلم جتھوں کو احمدیوں کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی.کچھ تو ویسے ہی اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ رعب کے ذریعے ہماری مدد کی جائے گی.اصل وجہ تو یہی ہے جو وعدہ ہم نے بار ہا پورا ہوتے دیکھا ہے لیکن اس مدد دینے کے تعلق میں غیروں کا جھوٹ بھی شامل ہو جایا کرتا تھا جو ان کے خلاف کام کرتا تھا.اس قدر کثرت سے انہوں نے قادیان کے اسلحے سے متعلق مشہور کر رکھا تھا کہ سکھ باوجود جتھوں کے، باوجود اس کے کہ فوج اور پولیس کی اعانت ان کو حاصل ہوتی تھی جب بھی لڑتے تھے اور ذرا ان کو خطرہ ہو کہ قادیان سے اسلحہ نکل کے ان پر جوابی حملہ ہونے والا ہے تو ڈر کر بھاگ جایا کرتے تھے.مگر اس دوران جب کہ لڑائی ہورہی

Page 75

خطبات طاہر بابت شہداء 62 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء تھی اس وقت ان کو یقیناً موقع مل جاتا تھا احمدیوں کو شہید کرنے کا اور بعض غیر احمدی مسلمانوں کو شہید کرنے کا.یہ جو واقعہ میں بیان کر رہا ہوں یہ غالباًا رستمبر ۱۹۴۷ء کو جب قادیان پر ایک بہت بڑا حملہ ہوا ہے اس وقت پیش آیا.اس حملے کا زور زیادہ تر حلقہ مسجد فضل پر پڑا تھا.مستورات اور بچوں کو محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا تھا.یعنی احمدی والنٹیئر جو خدمت کر رہے تھے جنہوں نے ہر قسم کا خطرہ مول لے کر تمام مستورات اور بچوں کو وہاں سے نکال لیا تھا.مولانا جلال الدین صاحب قمر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب اپنے گھر کے بالا خانے پر بیٹھے ہوئے تھے.اس گھر کے سامنے ایک منزلہ کچے مکانات تھے.ایک سکھ پولیس مین ان گھروں کی چھتوں پر چڑھ آیا.بالا خانے کی کھڑکی اس طرف کھلتی تھی.قانون کے اس محافظ کی نظر میرے والد صاحب پر پڑی.غالباً وہ اپنے افکار میں مگن تھے اور ان کی نظر پولیس مین پر نہیں پڑی.اس پولیس مین نے اچانگ گولی چلا دی اور انہوں نے اپنے خون میں لت پت تڑپ تڑپ کر جان دے دی.انا لله وانا اليه راجعون.آپ کی شہادت کا منظر ایک دوسرے بالا خانے میں بیٹھے ہوئے ایک احمدی دوست دیکھ رہے تھے جن میں چوہدری محمد حسین صاحب کلرک نظامت جائیداد بھی تھے.موجود احمد یوں نے نماز جنازہ پڑھ کر تن کے کپڑوں میں ان کو دفنا دیا.اس سلسلہ میں ضمناً ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ جولوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے باوجود اس کے کہ خطرہ بہت سخت تھا وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم کی بنا پر بیٹھے ہوئے تھے.اس لئے خواہ انہوں نے مقابلے میں حصہ لیا ہو یا نہ لیا ہو بڑی دلیری کے ساتھ اس خیال سے کہ قادیان کا یہ تاثر نہ پڑے کہ قادیان کے باشندے اپنے مکان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں بہت بڑا ریلا قادیان کے اوپر آسکتا تھا.اس خطرے کو دور کرنے کی خاطر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ ہر احمدی اپنے مکان پر پہرہ دے.صرف وہ اپنے مکان سے باہر جائیں جن کو با قاعدہ نظام جماعت کے تحت کسی مصلحت کے پیش نظر نکالا جائے خصوصاً ان میں عورتیں اور بچے شامل ہوا کرتے تھے.اس لئے ان اکیلے اکیلے لوگوں کا اپنے گھروں میں بیٹھے رہنا یقیناً ایک بہت عظیم شہادت ہے کیونکہ سلسلہ کے وقار کی خاطر انہوں نے اپنی جان کا خطرہ مول لیا ہوا تھا.

Page 76

خطبات طاہر بابت شہداء 80 63 سید محبوب عالم صاحب بہاری خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء ایک اور بزرگ سید محبوب عالم صاحب بہاری کی شہادت کا واقعہ بھی یوں درج ہے کہ ۱۹ار ستمبر ۱۹۴۷ء کو سید محبوب عالم صاحب بہاری جن کا خاندان اس وقت انگلستان میں اور ہر جگہ اور بھی گیا لیکن انگلستان میں خصوصیت کے ساتھ ان کی اولا د بس رہی ہے.سید صاحب ایک نیک اور بہت بے نفس بزرگ تھے.۱۹ ستمبر ۱۹۴۷ء کی صبح کو نماز کے بعد ریلوے لائن کے ساتھ سیر کے لئے گئے.اب بہادری دیکھیں باوجود اس کے کہ حالات بے انتہا خراب تھے، گھر میں ٹھہرنے کا حکم تھا مگر بزدلی کے ساتھ نہیں ٹھہرے.جو سیر کا دستور تھا جاری رکھا اور ریلوے لائن کے ساتھ باقاعدہ صبح سیر پہ جایا کرتے تھے لیکن ڈی.پی.سکول قادیان کے قریب موضع رام پور کے بالمقابل کسی نے انہیں گولی کا نشانہ بنایا.شروع میں تو انہیں لا پتہ تصور کی جاتا رہا لیکن وہ جو احمدی والنٹیئر ز کے دستے جایا کرتے تھے اس مکان میں ان کو موجود نہیں دیکھا تھا.اس مکان میں ان کا نہ پا کر یہی سمجھتے رہے کہ لاپتہ ہیں.شاید کسی اور کے مکان میں چلے گئے ہوں مگر اس واقعہ کے تین دن کے بعد ایک مسلمان دیہاتی نے جو پناہ گزین کے طور پر باہر سے آیا ہوا تھا سید صاحب کے داما دسید صادق حسین صاحب کو بتایا کہ میں نے اس حلیہ کے ایک مسلمان کی لاش جس کے گلے میں نیلا کر نہ تھا اور یہ نیلا کرتا انہوں نے ہی پہنا ہوا تھا ریلوے لائن کے قریب پڑی ہوئی دیکھی تھی.انا للہ وانا اليه راجعون.پس ان کی نعش کا تین دن بعد پتہ چلا اور ان کو دفنانے کا بھی کوئی انتظام نہ ہو سکا.شمسہ سفیر لنڈن سے بیان کرتی ہیں کہ میرے نانا جان سید محبوب عالم صاحب اور ان کے بھائی سیدمحمود عالم صاحب جب انہوں نے احمدیت کا پیغام سنا تو بہار سے پیدل چل کر قادیان آئے تھے.یہ جو واقعہ ہے اس کا میں نے دوبارہ انگلستان سے پتہ کروایا ہے کیونکہ جہاں تک جماعت کی تاریخ محفوظ ہے میں نے اصل رجسٹر پڑھے ہیں جن میں ابتدائی احمدیوں کے ، صحابہ کے بڑے عظیم الشان واقعات درج ہیں.کس طرح انہوں نے غیر معمولی قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قادیان آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.مجھے یہ خیال تھا کہ غالبا سید محبوب عالم صاحب بھی انہیں میں سے ہیں.چنانچہ انگلستان سے جب تصدیق کروائی گئی تو شمسہ سفیر صاحبہ نے یہ تصدیق بھیجی ہے کہ اولاد میں صرف ایک ہی بیٹی تھی جو میری والدہ تھیں اور ان کا نام سلمی تھا.پندرہ برس کی عمر میں ان

Page 77

خطبات طاہر بابت شہداء 64 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء کی شادی سید صادق علی صاحب سے ہوئی تھی.قادیان پیدل آنے کے متعلق لکھتی ہیں کہ جب انہوں نے بہار میں احمدیت کا پیغام سنا تو بہار سے پیدل چل کر قادیان آئے اور ان کے پاؤں سوج گئے تھے.غریب خاندان تھا ، سفر خرچ نہیں تھا.یہ مختصری بات انہوں نے لکھی ہے.جور جسر کا حوالہ میں نے دیا ہے جس کی تفصیل انشاء اللہ جلسہ سالانہ پر میں سناؤں گا.وہ بہت ہی عظیم الشان واقعہ ہے حیرت انگیز قربانی ہے.بہار سے چل کر پیدل ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ننگے پاؤں ، زخمی پاؤں جو ہر روز سوج جایا کرتے تھے زخموں سے، اس کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام سنا تھا صرف آنکھوں دیکھنا تھا اس حالت میں بیہ قادیان آئے تھے.پس ان کی شہادت ایک عظیم واقعہ ہے جس کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.جیسے بہا در پہلے تھے ویسے ہی شہادت کے دوران بھی بہادر ہی ثابت ہوئے.مکرم پیر سلطان عالم صاحب ایک شہادت مکرم سلطان عالم صاحب کی تاریخ میں درج ہے.عزیز سلطان عالم صاحب ۲۶ نومبر ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے.۱۹۳۸ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے درجہ اول میں میٹرک پاس کیا.اس عرصہ میں تحریک جدید بورڈنگ ہاؤس میں داخل رہے.اس چھوٹی سی عمر میں ہی با قاعدہ تہجد گزار تھے.بعد ازاں گجرات سے امتیاز کے ساتھ ایف اے پاس کیا اور سی ایم اے کے مقابلہ کے امتحان میں کامیاب ہو کر ملازم ہو گئے.۱۹۴۲ء میں آپ کو مہمان خانے میں معاون ناظر ضیافت کے طور پر تعینات کیا گیا.یہ چونکہ وقف کر کے آگئے تھے اور قادیان میں معاون ناظر ضیافت کے طور پر ان کی تقرری ہوئی تھی جو انہوں نے بڑی جانفشانی سے ادا کی.۱۹ ستمبر ۱۹۴۷ء کی ایک چٹھی میں جو ۲۵ ستمبر کوگولیکی پہنچی ، مرحوم نے یہ لکھا: حضور کا حکم ہے کہ عورتوں اور بچوں کو بھیج دو اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرو.ہم تو حضور کے حکم کے مطابق خون کا آخری قطرہ بہانے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں.واقعہ شہادت ۴۰ /اکتوبر ۱۹۴۷ء کو کرفیو اٹھنے کے بعد جب بعض بیرونی محلوں میں رہنے والے احمدی اپنے مکانوں کی دیکھ بھال کے لئے باہر جانے لگے تو بڑے بازار کے اختتام پر جو

Page 78

خطبات طاہر بابت شہداء 65 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء ریتی چھلہ سے ملتا ہے عین دن دہاڑے برسر بازار سات احمدیوں کو گولی کا نشانہ بنایا گیا.ان میں میاں سلطان عالم صاحب بی.اے.نائب ناظر ضیافت بھی تھے اور جب بعض لوگ شہید ہونے والے احمدیوں کی لاشوں کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھے تو ان کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا.اب اس شہید کے مزید تعارف کے طور پر بیان کر رہا ہوں کہ یہ شہید مکرم پیر عالم صاحب واقف زندگی کے حقیقی بھائی تھے.پیر عالم صاحب میرے دفتر میں ، پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں، ہمہ وقت خدمت کے ئے تیار رہتے ہیں.رات بارہ بجے یا ایک بجے تک ہماری بعض علمی مجالس رہی ہیں بعض دفعہ دو بجے تک، سب لوگ چھٹی کر جاتے تھے مگر پیر صاحب نے کبھی چھٹی نہیں کی.صبح ہمارے مختلف کارکنوں کے آنے سے پہلے میں اپنے دفتر پہنچ جاتا ہوں اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں پہنچا ہوں اور پیر صاحب موجود نہ ہوں.اللہ کے فضل سے ان کا بھائی تو شہادت کا رتبہ پا گیا لیکن پر صاحب نے بھی جیتے جی وقف کا حق ادا کر کے اللہ کے حضور یقیناً بہت رہتے پائے ہیں.نور ہسپتال کے قریب جس گڑھے میں آپ کو دفن کیا گیا وہاں اب کتبہ بھی نصب کر دیا گیا ہے.نور ہسپتال کے قریب یہ جو شہید ہوئے تھے ان کو بعد میں موقع پا کر جتنے بھی شہید تھے اکٹھا کر کے ایک گڑھا بنا کر اس میں دفن کیا گیا تھا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں کتبہ نصب کر دیا گیا ہے.میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ قادیان جانے والے جائیں تو وہاں بھی دعا کے لئے جایا کریں.شہید نے بوڑھے والدین ، نوجوان بیوہ بنت ڈاکٹر عمر دین صاحب افریقی ساکن گجرات اور دو بیٹے خلیل احمد اور نعیم احمد بطور پسماندگان چھوڑے ہیں.مکرم مرزا احمد شفیع صاحب اب ایک اور شہادت کا ذکر کرتا ہوں جو مکرم مرزا احمد شفیع صاحب ( شہادت ۱۴ را کتوبر ۱۹۴۷ء) کی ہے.جن کا بیٹا یہاں جرمنی میں ہے مرزا صیح احمد صاحب.ان کو آپ اکثر لوگ جانتے ہوں گے.مرزا احمد شفیع صاحب ، مرزا محمد شفیع صاحب کے صاحبزادے تھے.۱۹۱۳ء میں پیدا ہوئے.آپ نے اعلیٰ نمبروں سے میٹرک پاس کیا.ایف اے اور بی اے میں ڈبل میتھ لے کر اعلیٰ نمبروں میں ڈگری حاصل کی.شہادت کے وقت آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں بطور استاد کے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے.سلسلہ کی خدمت کو اپنا شعار بنایا.نماز با جماعت اور خدام

Page 79

خطبات طاہر بابت شہداء 99 66 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء الاحمدیہ کے کاموں میں بہت دلچسپی لیتے تھے.ہر قسم کے چندوں اور خصوصاً تحریک جدید میں ہر سال اضافے کے ساتھ حصہ لیا کرتے تھے.اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اپنے فرائض کو نہایت احسن طور پر نبھاتے رہے.اب میں ان کے خاندان کا تعارف کرواتا ہوں.ان کے والد حضرت مرز امحمد شفیع صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ محاسب صدر انجمن احمد یہ تھے.میرے بچپن سے پارٹیشن تک مجھے ان کا ہمیشہ دیکھنا یاد ہے.بہت ہی مستعد کا رکن تھے اور ہمیشہ اعلیٰ درجہ کی صلاحیتوں کا نمونہ دکھاتے ہوئے محاسبہ کا کام کیا ہے.ان کا مزید تعارف یہ ہے کہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خسر تھے.یعنی حضرت مرزا محمد شفیع صاحب، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خسر تھے اور انہی کی بیٹی سے آگے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ساری نسل جاری ہوئی ہے.جو دوسری بیگم تھیں ان کو اچھی اماں کہا کرتے تھے ان سے کوئی اولا د نہیں تھی لیکن وہ ان کی اولا د سے بھی ماں کی طرح محبت کرتی تھیں بلکہ بعض ان کے بچے انہی کے پاس پلے ہیں.حضرت چھوٹی آپا یعنی ام متین کے یہ حقیقی ماموں تھے، مرزا احمد شفیع صاحب.مرزا احمد شفیع صاحب کی بیوہ امتہ الرحمن صاحبہ ربوہ میں ہوتی ہیں جن کے ساتھ ان کی بیٹی امتہ الباسط (امتہ القیوم ساتھ رہتی ہیں.حضور نے ۲۸ رمئی کے خطبہ میں تصحیح فرما دی تھی رہتی ہیں.ان کی ایک بیٹی لندن میں ہیں جن کے بچے آگے پھر خدمت دین کی توفیق پارہے ہیں.فضل اور شیلا دو نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں جنہوں نے جماعت کی علمی خدمات میں بہت بھر پور حصہ لیا ہے اور جو بھی ریسرچ کے کام میں ان کے سپر د کرتا ہوں بڑی تند ہی سے ادا کرتے ہیں.انگلستان کی جماعت میں یہ دو نام کافی مشہور ہیں.ان کے بیٹے مرزا مسیح احمد جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہاں جرمنی میں ہیں اور کافی لمبے عرصہ سے صاحب فراش ہیں اور بڑی ہمت سے بیماری کا مقابلہ کر رہے ہیں.ان کی بیگم بھی ان کی بہت خدمت کر رہی ہیں.آپ سب کو میں ان سب کے لئے دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں.فیض محمد صاحب، انکی اہلیہ و نچی اور عبدالجبار صاحب اب کئی شہادتوں کا ذکر جو فیض محمد صاحب، زہرہ بی بی صاحبہ، عبدالجبار صاحب اور فیض محمد صاحب کی چار سالہ بچی کی شہادتیں ہیں.اب ان کا ذکر میں کرتا ہوں.مکرم ٹھیکیدار عبدالرزاق بیان

Page 80

خطبات طاہر بابت شہداء 67 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء کرتے ہیں کہ فیض محمد صاحب سری گوبند پورہ کے رہنے والے تھے.آپ کے والد کا نام نبی بخش تھا.معمار کا کام کیا کرتے تھے.آپ کی شہادت سے ایک رات قبل قادیان پر انڈین آرمی نے بہت زبردست فائرنگ کی اور صبح فجر کے بعد سکھ جتھے نے حملہ کر دیا ، اس طرح ہندوستانی فوج پہلے سکھ جتھوں کے لئے رستہ تیار کیا کرتی تھی پھر اس کے عقب میں جتھے حملہ آور ہو جایا کرتے تھے.“ کہتے ہیں ”ہم تو وہاں سے ہجرت کر کے بورڈنگ میں منتقل ہو گئے تھے مگر فیض محمد صاحب نے اہل خانہ سمیت اپنا مکان نہ چھوڑا اور وہیں مقیم ر.اب یہ بھی وہی روح ہے.چونکہ امام کاحک تھا اپنے مکانوں پر قائم رہو اس لئے یقینی طور پر حملے کی خبر پانے کے باوجود یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے مکان میں ڈٹے رہے.”جس وقت ہمارے مکان پر حملہ ہوا تو ہم گھر کے عقبی دروازے سے سو کے قریب افراد نکل کر بورڈنگ ہاؤس جاچکے تھے“.یعنی یہ بیان دے رہے ہیں ٹھیکیدار عبدالرزاق صاحب کہ ہم جاچکے تھے، یہ بعد میں شہید ہوئے.پنڈت محمد عبد اللہ صاحب نے اطلاع دی کہ فیض محمد صاحب، ان کی اہلیہ زہرہ بی بی ، ان کے جواں سال بیٹے عبدالجبار صاحب اور ایک چار سالہ بچی کو سکھوں نے تلواروں اور برچھیوں سے شہید کر دیا.انا لله وانا اليه راجعون.مکرم ملک حمید علی صاحب ایک شہادت ملک حمید علی صاحب کی بھی مذکور ہے.یہ تاریخ میں درج ہے مگر اس کی تفاصیل موجود نہیں ہیں.اس خطبہ کے سلسلہ کا ایک یہ بھی فائدہ پہنچ رہا ہے اور پہنچے گا کہ اب جو بھی ان کے عزیز بنیں گے وہ انشاء اللہ ان کے متعلق تفصیلی معلومات مزید مہیا کر دیں گے.ملک حمید صاحب کے متعلق جو کچھ معلوم ہے وہ یہ ہے کہ مکرم ملک بشیر احمد صاحب کنجاہی کے فرزند اور جناب ملک غلام فرید صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ایم.اے کے رشتہ میں بھیجے تھے.آپ کو ملٹری نے پکڑا اور ہائی سکول قادیان کے پیچھے لے جا کر گولی مار کے شہید کر دیا.مکرم ماسٹر عبدالعزیز صاحب ایک شہید کا نام ماسٹر عبدالعزیز ہے.ان کے متعلق بھی تفصیلات معلوم نہیں ہوسکیں.لیکن جو معلوم ہیں مختصری وہ میں بیان کر دیتا ہوں.آپ منگل باغبان متصل قادیان کے رہنے والے تھے.

Page 81

خطبات طاہر بابت شہداء 68 80 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء لا ہور سے واپس آرہے تھے قادیان نہیں پہنچ سکے.یہ لاہور سے اسی غرض سے واپس آرہے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ کا حکم تھا کہ قادیان والے قادیان نہ چھوڑیں.یہ باوجود اس کے کہ باہر محفوظ جگہ پہنچ چکے تھے پھر بھی قادیان واپسی کا فیصلہ کیا ہوا تھا.ان کے متعلق یقینی طور پر پتہ نہیں چل سکا کہ کیسے شہید ہوئے مگر جب کچھ عرصہ غائب رہے تو روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ بٹالہ میں ان کو شہید کیا گیا.ماسٹر عبدالعزیز صاحب کسی وقت مدرسہ احمدیہ میں مدرس بھی رہے ہیں.مکرم غلام محمد صاحب اور مکرم عبد الحق صاحب اب دو ایسی شہادتیں ہیں جن کا ذکر خصوصی طور پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے مضمون قادیان کی خونریز جنگ میں کیا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے ان الفاظ میں یہ ذکر کیا کہ قادیان کے مرکزی حصہ پر جو حملہ ہوا اس میں ایک شاندار واقعہ ہوا.بہت سے واقعات میں اس واقعہ کو خصوصیت کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک شاندار واقعہ بیان کیا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ وہ قرون اولیٰ کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے.” جب حملہ کرتے وقت پولیس اور سکھ شہر کے اندر گھس آئے اور شہر کے مغربی حصہ کے لوگوں کو مار پیٹ کر خالی کرانا چاہا اور وہ لوگ مشرقی حصہ میں منتقل ہو گئے تو معلوم ہوا کہ گلی کے پار ایک گھر میں چالیس عور تیں جمع تھیں وہ وہیں رہ گئی ہیں ہمارے مغرب میں ہندوؤں کے محلے تھے اور وہیں احمدی بھی پہلے آباد ہوا کرتے تھے.تو جب یہ خطرہ ہوا تو احمدیوں کو محفوظ جگہ پہنچانے کا وقت کسی طرح نہ مل سکا اور وہیں بعض گھروں میں وہ اکٹھے ہو گئے اور حسب توفیق والنٹیئر زان کو لے کے آتے رہے.یہ پس منظر ہے جس میں یہ واقعہ ہوا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں شہر کے مغربی حصہ کے لوگوں کو مار پیٹ کر جگہ خالی کروانی شروع کی یعنی پہلے فوجیوں نے اور پولیس نے یہ کام شروع کیا اور وہ لوگ جو مشرقی حصہ میں منتقل ہو گئے تھے یعنی مغربی حصہ سے جو احمد یوں والا حصہ تھا مشرقی اس میں منتقل ہو گئے اس وقت معلوم ہوا کہ گلی کے پارا ایک گھر میں چالیس عورتیں جمع تھیں وہ وہیں رہ گئیں ہیں.

Page 82

خطبات طاہر بابت شہداء 69 69 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء بعض افسران ان کو نکلوانے کے لئے گلی کے سرے پر موجود مکان تھا وہاں پہنچے اور ان کے نکالنے کے لئے دو نو جوانوں کو بھیجا وہاں پھٹے لگا کر ایک عارضی پل بنالیا جایا کرتا تھا تو پھٹوں پر سے یہ گزر کر گئے ہیں ، یہ نوجوان جس وقت گلی پار کرنے لگے تو سامنے کی چھتوں سے پولیس نے ان پر بے تحاشہ گولیاں چلا دیں اور وہ لوگ واپس گھر آنے پر مجبور ہو گئے.تب لکڑی کے تختے منگوا کر ، یہ غالبا لکڑی کے تختے منگوائے گئے ہیں پہلے نیچے سے جانے کی کوشش کی ہوگی عام گلی میں سے لیکن وہاں وہ عین لوگوں کے نشانے میں تھے اور خطرہ تھا کہ شاید کوئی بھی بچ نہیں سکے گا.اس لئے اس کے بعد جو ترکیب سوجھی کسی کو کہ لکڑی کے پھٹے لگائے جائیں اور بہت تیزی سے چھلانگ لگا کر ان پھٹوں پر سے گزر جائیں.دو نو جوان اس کام کے لئے گئے تھے یعنی دو نو جوانوں نے پیش کیا کہ ہمیں بھیجیں پھٹوں کے اوپر سے ہم انشاء اللہ جا کر احمدی خواتین کو نکال لائیں گے.ان میں ایک غلام محمد صاحب ولد مستری غلام قادر صاحب سیالکوٹی تھے اور دوسرے عبدالحق نام قادیان کے تھے جو احمدیت کی طرف مائل تو تھے اور احمدی مجاہدین کے ساتھ خدمت میں بھی بھر پور حصہ لے رہے تھے مگر ابھی جماعت میں شامل نہیں تھے.یہ دونوں نوجوان برستی گولیوں میں سے پھٹے پر سے کودتے ہوئے اس مکان میں چلے گئے جہاں چالیس عورتیں موجود تھیں.انہوں نے ایک ایک عورت کو کندھے پر اٹھا کر تختے پر ڈالنا شروع کیا اور مشرقی مکان والوں نے انہیں کھینچ کر اپنی طرف لانا شروع کیا.جب وہ اپنے خیال میں سب عورتوں کو نکال چکے اور خود واپس آگئے اور محفوظ تھے تو معلوم ہوا کہ انتالیس عور تیں آئی ہیں اور ایک نہیں آئی حالانکہ یہ یقینی خبرتی کہ چالیس عورتیں ہیں.ایک بڑھیا عورت جو گولیوں کے ڈر کے مارے ایک کونے میں چھپی ہوئی تھی وہ وہیں رہ گئی.اب ایسے موقع پر انسان کہہ سکتا ہے کہ انتالیس آ گئی ہیں ٹھیک ہے.اب اپنے جوانوں کو خطرے میں کیوں ڈالیں بڑھیا عورت ہے ویسے ہی مرنے کے قریب ہے اس کو وہیں چھوڑ دیں.مگر وہ وقت ایسا تھا جب کہ احمدی مجاہدین ہر قربانی کے لئے تیار تھے.چنانچہ اس وقت ان دونوں نو جوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا.غلام محمد صاحب ولد میاں غلام قادر صاحب سیالکوئی اور اسی طرح ان کے علاوہ عبدالحق صاحب، تھے جنہوں نے کہا کہ ہم جاتے ہیں فکر نہ کریں.

Page 83

خطبات طاہر بابت شہداء 70 10 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء چنانچہ غلام محمد صاحب ولد میاں غلام قادر صاحب جب یہ دوڑے ہیں تختے پر سے اس طرف سے بڑھیا کو ڈھونڈنے کے لئے تو جاتے ہوئے سامنے سے ان کے پیٹ میں گولی لگی اور بہت گہرا زخم آیا انتڑیوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی.لیکن بڑے ہمت والے بڑے مضبوط جوان تھے.انہوں نے ایک ہاتھ سے اپنے پیٹ کو سنبھالا اور پھر بھی جا کر اس بڑھیا کو نکالنے کی کوشش کرنے کے لئے اندر چلے گئے لیکن توفیق نہ مل سکی اور وہاں دروازے پر دوسری طرف اسی کمرے میں گر گئے.اس پر وہ جو غیر احمدی دوست تھے عبدالحق صاحب انہوں نے کہا اب میں جاتا ہوں چنانچہ وہ بھی گئے اور انہوں نے بڑھیا کو نکال لیا اور جب وہ دونوں واپس آنے لگے تو ان کی پیٹھ پر گولی لگی اور وہ بھی شہید ہو گئے.ان دو واقعات میں ایک عجیب بات بھی مضمر ہے جس سے قبولیت دعا کا بھی پتہ چلتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کس طرح بار یک بار یک اشاروں سے اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ میں اپنے بندوں کی دلی آرزوؤں کو پوری کیا کرتا ہوں.وہ واقعہ یہ ہے کہ ہسپتال تو نہیں تھا جس جگہ بھی انہیں لے جایا گیا وہاں عارضی طور پر طبی امداد مہیا کی گئی تھی لیکن چونکہ اندر کا زخم بہت زیادہ گہرا تھا اور نا قابل علاج تھا اس لئے ان کے بچنے کا کوئی سوال نہیں تھا.مگر آخر وقت تک ہوش قائم رہی.اس وقت انہوں نے جو عیادت کے لئے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان کو بتایا کہ مجھے اسلام اور احمدیت پر پکا یقین ہے.تم گواہ رہو کہ میں اپنے ایمان پر قائم رہتے ہوئے جان دے رہا ہوں.یہ واقعات بھی ایسے ہیں جو اسلام کی عظیم پرانی تاریخ کو زندہ کرنے والے اور اس کو دکھانے والے واقعات ہیں.صحابہ مرتے وقت دوسروں کو گواہ کر دیا کرتے تھے گواہ رہو کہ ہم اسی دین پر جان دے رہے ہیں.پھرانہوں نے ایک اور بات بیان کی.کہتے ہیں میں اپنے گھر سے اسی لئے نکلا تھا کہ میں اسلام کے لئے جان دوں گا.آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اس مقصد کے لئے جان دی ہے.جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا.اب اس بات میں بہت گہر اراز مضمر ہے جو شاید ایسے ذہنوں میں نہ ابھرے کہ ان کو سامنے گولی لگی ہے پیٹھ پیچھے نہیں لگی اور جو غیر احمدی تھے ان کو پیٹھ پیچھے گولی لگی.اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرق کر کے دکھا دیا کہ ایک کی ماں کی دعا تھی سامنے سے مارکھانا، پیٹھ نہ دکھانا.واقعۂ اس نے پیٹھ نہ دکھائی.یہ وہ پہلو ہیں جو ان کی شہادت کو بہت ہی عظیم کر کے دکھا رہے ہیں اور پھر انہوں نے اپنی ماں کے نام یہ پیغام بھیجا کہ میری ماں سے کہہ دو کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری

Page 84

خطبات طاہر بابت شہداء 71 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء وصیت پوری کر دی ہے اور یہ پیغام دے کر انہوں نے جان دے دی.قادیان کی خونریز جنگ“ بحوالہ تاریخ احمدیت یہ واقعہ درج ہے.( تاریخ احمدیت جلدا اصفحہ: ۱۸۸ ۱۹۰) مکرم محمد رمضان صاحب آف کھارا اور انکا خاندان اب ایک واقعہ محمد رمضان ، عالم بی بی ، چراغ دین ، جان بی بی منور احمد وغیرہ شہداء کا میں بیان کرتا ہوں.ٹھیکیدار ولی محمد صاحب جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی زندہ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم محمد رمضان صاحب کا خاندان موضع کھارا نز دقادیان کا رہائشی تھا.ان کا خاندانی پیشہ زمینداری تھا.پہلے ان کا خاندان کسی پیر کا مرید تھا.خدا کے فضل سے ۳۶ ء یا۳۷ء میں سب خاندان احمدی ہو گیا.مکرم محمد رمضان صاحب اور مکرم چراغ دین صاحب جو دونوں بھائی مخلص احمدی تھے، دیانت میں اتنے مشہور تھے کہ جب غدر کے وقت حالات خراب ہوئے تو اکثر لوگ اپنی امانتیں محمد رمضان کے پاس آکر جمع کرایا کرتے تھے.ان کو یقین تھا کہ یہاں ان کا مال محفوظ رہے گا.جب ہندو تاجر کھارا کے علاقہ میں آباد ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے گورنمنٹ سے یہ درخواست کی کہ ان کو یہ علاقہ خالی کر کے دیا جائے.سکھوں اور ہندوؤں کے کردار کا یہ فرق ہے کہ سکھ تو بزور شمشیر خود علاقہ خالی کروالیا کرتے تھے.ہندوؤں کا یہ مطالبہ تھا کہ پہلے خالی کراؤ پھر ہم جائیں گے.تو پرانے بنی اسرائیلیوں کی کچھ روایات ان میں ابھی تک زندہ ہیں.بہر حال انہوں نے حکومت سے یہ درخواست کی اور حکومت خاص طور پر ہندوؤں کا تو بہت ہی لحاظ کرتی تھی کہ ہمیں پہلے خالی کرا دو پھر ہم داخل ہوں گے.جب قادیان میں جماعت کو علم ہوا کہ کھارا کے احمدی اس وقت مشکل میں ہیں تو کچھ خدام سینوں پر اسلحہ باندھ کر ہماری مددکو پہنچے.یعنی ولی محمد صاحب یہ واقعہ بیان کر رہے ہیں.سکھوں نے ان کی مزاحمت کی مگر خدام نے جرات اور بہادری کے ساتھ سکھوں پر فائرنگ کی حتی کہ گاؤں کا ایک حصہ سکھوں سے بالکل خالی کر دیا اور خدام گاؤں کے اندر داخل ہو گئے اور احمدیوں کو کہا کہ آپ لوگ سورج نکلنے سے پہلے قادیان چلے جائیں تب آپ لوگ بیچ سکتے ہیں.چنانچہ اسی ہدایت پر ٹھیکیدار ولی محمد صاحب کے بزرگوں کے سوا سب احمدی سورج نکلنے سے پہلے قادیان چلے گئے مگر ٹھیکیدار ولی محمد صاحب کے بزرگ قائم رہے کہ نہیں ہم یہ جگہ چھوڑ کر نہیں جائیں گے.یہ گھرانہ چونکہ زمینداری کی وجہ سے مشہور تھا لہذا اسکھوں کا خیال تھا کہ یہاں بہت زیادہ.

Page 85

خطبات طاہر بابت شہداء 72 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء مال و دولت ہوگی.سکھوں نے جب اس گھر پر حملہ کیا تو اس حملے میں ٹھیکیدار ولی محمد صاحب کی والدہ محترمہ عالم بی بی صاحبہ، چچا چراغ دین صاحب، بچی جان بی بی صاحبہ، چچا کا بیٹا تین سالہ منور احمد اور چچا کی ایک بیٹی اور رشتے دار محمد شریف آف قادر آباد کو گھر پر ہی شہید کر دیا گیا.حملے کے وقت اگر چہ محمد رمضان صاحب اپنے تین سالہ پوتے کو ساتھ لے کر گھر سے نکلنے میں کامیاب تو ہو گئے مگر سکھوں نے پیچھا کر کے تالاب کے قریب ان کو گولی مار کر شہید کر دیا.مکرم نیاز علی صاحب اب ایک اور دوست مکرم نیاز علی صاحب کھاریاں کی شہادت کا ذکر کرتا ہوں.مکرم خواجہ غلام نبی صاحب بلا نوی بیان فرماتے ہیں کہ میرا ایک بچہ حمید جو مرکزی حفاظت کا فریضہ اد کرنے والوں میں شامل تھا اور محلہ کی مخدوش حالت پر اطلاع پا کر اور یہ سن کر کہ سکھوں کے حملے کا بہت بڑا زور ہمارے مکان کے پاس ہے میری خبر معلوم کرنے کے لئے گھر آیا تھا اور ہم یہ دیکھ کر کہ قریب قریب کی عورتیں اور بچے جاچکے ہیں اپنے مکان سے نکلے اور بابوا کبر علی صاحب مرحوم کی کوٹھی میں پہنچے جہاں مرکزی حفاظت کرنے والے نوجوان مقیم تھے.میرے وہاں جانے کے تھوڑی دیر بعد انچارج صاحب کو اطلاع پہنچی کہ ایک مکان میں ابھی تک بہت سی عورتیں اور بچے محصور ہیں اور خطرہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جا رہا ہے ان کو بحفاظت نکالنے کا انتظام کیا جائے.اس پر انچارج صاحب نے نوجوانوں کو آواز دی اور وہ دوڑتے ہوئے آکر ان کے گرد جمع ہو گئے اور جب انہیں بتایا گیا کہ فلاں مکان میں عورتیں اور بچے موجود ہیں ان کو نکال لائیں تو ایک لمحہ کے توقف کئے بغیر سارے کے سارے نوجوان جن کی تعداد پندرہ بیس سے زیادہ نہ تھی ملٹری اور سکھوں کی گولیوں اور سکھوں کی کر پانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے محض لاٹھیاں لے کر دوڑ پڑے اور تھوڑی ہی دیر میں دوسو کے قریب عورتوں اور بچوں کو بحفاظت نکال لائے.یہ بھی رعب کی ،نصرت کی ایک عجیب مثال ہے.ایک طرف فوج بھی تھی، پولیس بھی تھی سکھ ہر قسم کے ہتھیاروں، رائفلوں، کر پانوں وغیرہ سے مسلح اور مقابل پر یہ پندرہ ہیں صرف لاٹھی بردار اور ان کو یہ توفیق مل گئی کہ ان کے حملے کو چیرتے ہوئے ، ان کے جتھے کو چیرتے ہوئے بیچ میں سے راستہ بنایا اور محفوظ طریق پر عورتوں اور بچوں کو نکال لائے.کسی قسم کی کسی گھبراہٹ کا کوئی اظہار نہیں کیا.

Page 86

خطبات طاہر بابت شہداء الله 73 خطبه جمعه ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء جب ہمارے مجاہد ان کو اپنی حفاظت میں بورڈنگ کی طرف لا رہے تھے تو موضع سے قادیان آنے والے راستے کے قریب جو محلہ دارالرحمت اور محلہ دارالعلوم کے درمیان واقع ہے بہت سے مسلح سکھوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی.یہ دیکھ کر ہمارے نوجوان جن کے پاس لاٹھیاں تھیں ان کے مقابلے پرڈٹ گئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھایا کہ ان سکھوں کو توفیق نہ ملی ان کو مارنے کی.جب تک ملٹری اور پولیس والے وہاں نہ پہنچے.اس سے پہلے کئی سکھوں کو یہ پندرہ میں نوجوان لاٹھیاں مار کر بھگا چکے تھے اور ہمارے نوجوانوں میں کسی کو خراش تک نہیں آئی تھی.خواتین اور بچوں کو نرغے سے نکالنے کے لئے جو مجاہدین اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر مردانہ وار آگے بڑھے تھے ان میں ایک مجاہد جو نہایت سنجیدہ نوجوان اور رضا کار بن کر قادیان کی حفاظت کی غرض سے کھاریاں ضلع گجرات سے آیا ہوا تھا اس کا نام نیاز علی تھا.نہ معلوم اپنے ساتھیوں سے کس طرح علیحدہ ہو گیا بعد میں معلوم ہوا کہ ملٹری نے نہایت سفا کی سے ان کو گولی کا نشانہ بنا دیا.اب یہ دیکھیں کتنا عظیم خدا تعالیٰ کی نصرت کا معجزہ ہے کہ پندرہ ہیں لاٹھی بردار بغیر کسی رائفل کے جاتے ہیں اور سکھوں کے لشکر کے بیچ سے رستہ بناتے ہوئے صفیں چیرتے ہوئے فوج اور پولیس کی گولیوں سے بے خوف پار اتر جاتے ہیں اور احمدی عورتوں اور بچوں کو نکال لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس عرصہ میں ان کو خراش تک نہیں آتی جب کہ کئی سکھ جن کی تعداد معین نہیں وہ ان کی لاٹھیوں سے ہی مارے گئے.تو یہ واقعات بتاتے ہیں کہ احمدیت کوئی مسیح موعود کا لگایا ہوا پودا نہیں یہ خداکے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جسکو اللہ نے آپ کے ہاتھ سے لگوایا ہے اور یہ پودا بھی ناکام نہیں ہوسکتا.یہ لازماً بڑھے گا اور لازماً ہمیشہ ترقی کرتا چلا جائے گا اور دشمن کی پھونکیں اس روشن چراغ کو کبھی بجھا نہیں سکیں گی جسے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اور قرآن کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ میں روشن کیا گیا ہے.مکرم عبدالمجید خان صاحب اب ایک شہادت عبدالمجید خان صاحب کی ہے جن کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب مرحوم کے یہ ماموں تھے.آپ مسجد اقصیٰ قادیان میں قرآن کریم کی کلاس لیا کرتے تھے.مرحوم تقسیم ملک کے بعد دوبارہ قادیان گئے.اس وقت آپ پاکستان کی فوج کے ملازم

Page 87

خطبات طاہر بابت شہداء 74 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء تھے.انہوں نے چاہا کہ میں اپنے والدین کو جا کر لے آؤں.بہت دلیر تھے.لوگوں نے منع بھی کیا مگر وردی پہن کر عازم سفر ہو گئے.آپ کے جانے سے تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آیا اور اس نے کہا وہاں پر ایک نوجوان کا سر پڑا ہوا ہے.جب تحقیق کی گئی تو وہ عبدالمجید خان صاحب کا سر تھا جو کھارا سے نکلتے ہی شہید کر دیئے گئے تھے.مکرم بدر دین صاحب، گلاب بی بی صاحبہ اور محمد اسماعیل صاحب ایک شہادت مکرم بدر دین صاحب، ان کی اہلیہ گلاب بی بی صاحبہ اور ان کے بیٹے محمد اسمعیل کی ہے.مکرم بدر دین صاحب قادیان کے قریب گاؤں سیکھواں کے رہنے والے تھے.پیدائشی احمدی تھے.ہر جمعہ با قاعدگی سے قادیان پیدل جا کر پڑھتے تھے.آپ کی اہلیہ مکرمہ گلاب بی بی صاحبہ بھی پیدائشی احمدی تھیں.آپ احمدیت کی خاطر ہر مشکل کو برداشت کرنے والی تھیں.آپ کے بیٹے محمد اسمعیل صاحب نے والدین کی تربیت سے صالح ہونے کا مقام حاصل کیا تھا.بہت نیک انسان تھے.یہ بھی ہر جمعہ قادیان جایا کرتے تھے اور حفاظت مرکز کی ڈیوٹی بڑے شوق سے کرتے تھے.واقعہ شہادت تقسیم ملک کے اعلان کے بعد گاؤں کے اکثر احمدی قادیان منتقل ہو چکے تھے لیکن ابھی گاؤں کلیہ نہیں چھوڑا تھا اچانک سکھوں نے گاؤں پر ہلہ بول دیا اور مسلمانوں کے گھروں پر قبضہ کر لیا اور ان کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا.مکرم ابراہیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد بدر دین صاحب، والدہ گلاب بی بی صاحبہ اور بھائی اسمعیل صاحب گاؤں سے ایک قافلے کے ساتھ قادیان آرہے تھے کہ قافلے پر سکھوں نے حملہ کر دیا.میں خود اس قافلے میں شامل تھا.وہاں پر میرے والد ، والدہ اور بھائی اسمعیل کو شہید کر دیا گیا.حملہ کے وقت مجھے میرے والد صاحب نے اشارہ کیا کہ بھاگ جاؤ یعنی اپنے نکلنے کی وجہ یہ بیان کر رہے ہیں کسی بزدلی کی وجہ سے نہیں گیا تھا، والد کی اطاعت میں گیا ہوں.کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ ان کا بچنا محال ہے.پس غالبا اپنی نسل کو جاری رکھنے کی تمنا پوری کرنے کی خاطر انہوں نے اشارہ کیا کہ تم نکل جاؤ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ اس حملے کے باوجود اس گھیرے سے باہر آگئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ گئے.مگر اثر یہ تھا کہ بدحواس ہو چکے تھے، کوئی ہوش نہیں رہی ، میں کون ہوں ، کہاں سے آیا ہوں، کیا ہوا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے مرحوم شہید باپ کی خواہش کو پورا کرنا تھا اور نسل کو جاری رکھنا تھا چنانچہ کچھ دوستوں کو ان کا

Page 88

خطبات طاہر بابت شہداء 15 75 خطبہ جمعہ ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء علم ہوا یعنی بہکتے بہکتے پھرتے ہوئے بعض احمدی دوستوں کی نظر میں آگئے اور وہ ان کو پکڑ کے قادیان لے آئے اور جہاں تک شہداء کا تعلق ہے کچھ عرصہ کے بعد احباب ان کے اشارے پر وہاں پہنچے اور ان کی لاشوں کو دفن کر دیا.مکرم عبد الرحمن صاحب اب آخری ذکر مکرم عبدالرحمن صاحب شہید کا ہے.یعنی اس سلسلہ میں جو شہادتیں ہوئی ہیں قادیان میں تقسیم کے وقت ان شہادتوں میں یہ آخری فرکر میں کر رہا ہوں اس کے بعد یہ تذکرہ ابھی لمبا ہے اور بہت دیر تک چلتا رہے گا.ابھی تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے زمانے کی شہادتوں کا دور ہے بہت عظیم دور ہے.پھر اس عاجز کے زمانے میں خدا تعالیٰ نے جو بعض لوگوں کو شہید ہونے کی توفیق بھی دی ان کا بھی ذکر ہوگا تو یہ سلسلہ اللہ بہتر جانتا ہے کب تک چلے گا.ہوسکتا ہے جلسہ سالانہ تک یہ خطبات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے اور اس کے نتیجہ میں انشاء اللہ تعالیٰ جو معلومات اکٹھی ہوں گی ان کے علاوہ جو شہداء کے خاندان ہیں خصوصاً ان کے دل میں اپنے ماں باپ کی قربانیاں احمدیت کے ساتھ ایک غیر معمولی وابستگی پیدا کر دیں گی ، وابستگی ہے تو اس وابستگی کو اور بھی چمکا دیں گی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ شہادتوں کا یہ سلسلہ، سلسلہ وار آگے بڑھتا رہے گا اور اگلی صدی تک ان کی یادیں اور شہداء بھی پیدا کرتے رہیں گے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ جو شہداء کے ذکر کا چلا ہے یہ بہت با برکت ثابت ہوگا.کیپٹن نور احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمن صاحب شہید پیروشاہ کے رہنے والے تھے اور فوج میں حوالدار تھے اور بڑے بہادر تھے.ہماری ملاقات حفاظت مرکز کے سلسلہ میں قادیان میں ہوئی.واقعۂ شہادت یہ ہے کہ کیپٹن صاحب موصوف بیان کرتے ہیں کہ ہمیں کسی شخص نے تلونڈی جھنگلاں میں یہ اطلاع دی کہ دھوپ سڑی میں ہم نے کنویں میں تھری ناٹ تھری کی رائفل پھینک دی ہے.ان حالات میں اس زمانے میں تھری ناٹ تھری کی رائفل کی احمدیوں کے نزدیک بڑی قدر تھی کیونکہ دشمنوں نے تو مشہور کیا تھا کہ بے انتہا اسلحہ ہے لیکن بہت معمولی اسلحہ تھا.ایک تھری ناٹ تھری رائفل کے لئے مجاہد جان دینے کے لئے تیار بیٹھے تھے کیونکہ اس رائفل کے ذریعہ کئی لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتیں تھیں.تو مکرم کیپٹن شیر ولی صاحب نے کیپٹن نوراحمد صاحب کے بیان کے

Page 89

خطبات طاہر بابت شہداء 76 خطبه جمعه ۴ ارمئی ۱۹۹۹ء مطابق مجھے پانچ آدمیوں کے ہمراہ بھیج دیا کہ آپ لوگ جا کر رائفل تلاش کر لائیں.جب ہم وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کنویں کے ساتھ رہی نہیں ہے جس کے ذریعہ کنویں میں اترا جاوے.میں نے کسی چیز کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور کنویں میں چھلانگ لگا دی.چھلانگ لگاتے ہی میری پشت پر ایک برچھی جنس گئی.مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی لیکن میں نے اس کی پروا کئے بغیر کنویں میں غوطہ لگایا لیکن کنویں میں کوئی راکفل نہیں تھی.ایک غلط اطلاع تھی یا کسی نے دیکھ لیا ہوگا راکفل پھینکتے ہوئے اور ان کے پہنچنے سے پہلے نکال لی.صرف تین چار بر چھیاں تھیں جن میں سے ایک برچھی نے ان کو زخمی کیا.واپسی پر راجن پور کے قریب ہم نے دیکھا کہ کچھ سکھ وہاں سے نکل رہے ہیں.ہم پر واہ کئے بغیر آگے بڑھ گئے لیکن عبدالرحمن صاحب حوالدار پیچھے ہی رہ گئے.جب سکھوں نے دیکھا تو بھاگ کر آئے اور موقع پر ہی عبدالرحمن صاحب کو شہید کر دیا.ہمیں اس واقعہ کی اطلاع بعد میں ملی.ہم جب تلونڈی چھنگلاں پہنچے تو پیچھے سے آنے والے کسی آدمی نے بتایا کہ عبدالرحمن کو سکھوں نے مار دیا ہے اور لاش کماد میں پھینک دی ہے.یعنی گنے کے کھیت میں.ہم لوگ وہیں سے جائے واردات کی طرف لوٹے اور عبدالرحمن کی لاش کو حفاظت سے واپس لے آئے.تو یہ روح تھی جو اس زمانہ میں کارفرم تھی.عظیم بہادری کے نمونے دکھائے ہیں مجاہدین نے اور امر واقعہ یہ ہے کہ آپ تلاش کر کے دیکھیں تاریخ میں.اسلام کی اولین تاریخ کے سوا آپ کو اس قسم کی بیباک شہادتوں اور قربانیوں کے واقعات اور نظر نہیں آئیں گے.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ ان واقعات کو ہمیشہ اپنے دل کی دنیا میں آباد رکھیں گے اور آپ کے دل کی دنیا ان واقعات کی یاد سے جگمگاتی رہے گی اور انہی میں سے، انہی لوگوں میں سے جن کے دلوں میں یہ یادیں وابستہ ہیں آسمانِ احمدیت پر چمکنے والے ستارے بھی پیدا ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 90

خطبات طاہر بابت شہداء 77 خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۹۹ء شہداء فرقان بٹالین اور دو واقف زندگی شہداء ( خطبه جمعه فرموده ۲۱ رمئی ۱۹۹۹ء بمقام اسپل ہائم ، ہائیڈل برگ جرمنی ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة: ۱۵۴-۱۵۵) اور پھر فرمایا: ان آیات کا عام فہم ترجمہ یہ کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ سے صبر کے ذریعہ اور نماز کے ذریعہ استعانت طلب کرتے رہو.اِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِینَ.یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتُ اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو مردے نہ کہا کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.جو شہدا کا تذکرہ شروع ہوا ہے آج بھی یہی تذکرہ جاری رہے گا اور آگے بھی جاری رہے گا.آج اس تذکرے سے پہلے میں یہ اعلان بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ آج لجنہ اماءاللہ جرمنی کا سالانہ اجتماع شروع ہو رہا ہے اور آج اس کا جمعہ المبارک کا دن پہلا دن ہے تو اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بھی مبارک فرمائے اور ہر پہلو سے خدا تعالیٰ اس پروگرام میں برکت رکھ دے، خیر وعافیت سے یہ یہاں

Page 91

خطبات طاہر بابت شہداء 78 خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۹۹ء تشریف لائیں اور خیر و عافیت سے واپس جائیں.ان دعاؤں میں بھی آپ ان کو یاد رکھیں.شہدا کا جو ذکر چلا ہے آج کے بہت مختصر خطبہ میں میں فرقان بٹالین کے شہدا کا پہلے ذکر کروں گا.فرقان بٹالین کا قیام حکومت پاکستان کی درخواست پر عمل میں آیا تھا کیونکہ کشمیر کے محاذ پر ہندوستان کا دباؤ بہت زیادہ تھا اور جس کثرت سے بعد میں پاکستان کو اپنے دفاع میں جرات مندانہ شہادتیں پیش کرنے کی توفیق ملی ہے ابھی اس کا ذوق و شوق کے ساتھ یہ سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا اور جماعت احمدیہ کا نمونہ ہی دراصل آغاز میں باقی مجاہدین کے لئے سر فہرست بن گیا اور جماعت کو ہر میدان میں پہل کرنے کی توفیق ملی ہے اسی طرح کشمیر کے جہاد میں بھی جماعت کو خدا تعالیٰ نے یہ پہل کی توفیق عطاء فرمائی.اس کی بہت ہی تفصیلی تاریخ ہے جو ہماری کتابوں میں محفوظ ہے مگر میں ان سب تفاصیل کو نظر انداز کرنا چاہتا ہوں کیونکہ جو مرکزی پہلو ہے وہ یہ ہے کہ کون کون شہدا تھے جن کو شہادت کی توفیق ملی.اس لئے اس کے مختصر تعارف کے طور پر میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے پاکستان کی حکومت کی تحریک پر ہی یہ تحریک کی تھی اور اس تحریک میں آپ نے اپنا بہت ہی اعلیٰ نمونہ فرمایا.صرف احمدی والدین ہی کو تحریک نہیں بلکہ ان کے جذبہ شہادت کو بڑھانے کے لئے آپ نے اپنے بیٹے بھی اس تحریک میں سب سے پہلے پیش کئے.ان میں سے خاص طور پر دو بڑے بیٹے اس لحاظ سے قابل ذکر ہیں.ایک حضرت خلیفتہ امسیح الثالث " کو بھی آپ نے اس کو آرگنائز کرنے لئے یعنی اسے منظم کرنے کے لئے مقرر فرمایا تھا اور دوسرے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی زندہ ہیں ان کے سپرد کیا تھا کہ وہ تمام تحریک کو منظم کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اپنے اپنے دائرے میں بہت اعلیٰ خدمات سرانجام دیں اور ان دونوں کے علاوہ آپ کے چھ بیٹے بھی اس محاذ پر لڑنے کے لئے پہنچے اور ایک داماد میر داؤد احمد صاحب بھی اس میں شامل ہوئے.اسی طرح خاندان کے دو اور افراد بھی اس قربانی میں شامل ہو کر سعادت پاگئے.تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے اپنے دائرے میں خدمت کی بہترین جزا عطاء فرمائے.شہادت کے واقعات کی تفصیلات کو جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے میں نظر انداز کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اب میں خطبات کو ویسے بھی مختصر کر رہا ہوں کیونکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی اور حضرت

Page 92

خطبات طاہر بابت شہداء 79 خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۹۹ء مسیح موعود علیہ السلام کی خطبات میں یہی سنت تھی کہ ضرورت پڑنے پر خطبات کو بہت لمبا بھی کر دیا کرتے تھے مگر بالعموم چھوٹا خطبہ دیا کرتے تھے.تو یہ جو میرا دستور بن گیا تھا کہ ہر خطبہ ضرور ایک گھنٹے کا ہواب میں اس کو چھوڑ رہا ہوں اور مجھے اس سے زیادہ لطف آتا ہے کہ میں اس پرانی سنت کا احیاء کروں جس کا احیاء ہمارے زمانے میں ہمارے وقت کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی کیا.مکرم برکت علی خان صاحب اور مکرم اللہ رکھا صاحب ان شہدا میں سے جن کی قسم کا بیان ہوا ہے سب سے پہلے مکرم برکت علی خان صاحب ساکن دانہ زید کا تحصیل پسرور کا ذکر کرتا ہوں اور دوسرے نمبر پر ضلع گجرات کے مکرم اللہ رکھا صاحب ساکن جسو کے.دونوں نے بڑی بہادری کے ساتھ جام شہادت نوش کیا.اللہ رکھا صاحب شہید کے وصال کے بعد ان کے کپڑوں میں سے ان کی والدہ کا خط ملا جو ظاہر کر رہا ہے کہ احمدی خواتین میں جذبہ شہادت کس قدر عروج کرتا ہے.ان کی والدہ کے الفاظ یہ ہیں : ”بیٹا احمدیت کی خاطر تن من دھن کی بازی لگا دینا، ہر مشکل کا مقابلہ کرنا اور پشت نہیں دکھانا بلکہ دلیری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنا “ اللہ تعالیٰ ان کی والدہ کو بھی جزا دے اور اس شہید کو بھی جزا دے کہ اس والدہ کی نصیحت پر لفظ لفظا عمل کیا اور شہادت کی روح کے ساتھ شہید ہوئے.جو باتیں ہمارے تاریخی مواد میں موجود نہیں ہیں وہ اب ان تذکروں کے ذریعہ سے اکٹھی ہوسکتی ہیں اور ہو بھی رہی ہیں.جب بھی شہادت کا ذکر کرتا ہوں تو ان کے رشتے دار جو دنیا میں دور دراز پھیلے ہوئے ہیں وہ ان کے متعلق مزید تفصیلات بھی بھجواتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر ان کی پیچھے اولاد کوئی ہے، رشتہ دار تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر کیا کیا فضل فرمائے.پس یہ سارے امور رفتہ رفتہ خطوط کے ذریعہ اکٹھے ہو کر ہماری تاریخ کا ایک نیا باب کھول دیں گے.چوہدری نصیر احمد صاحب تیسرے شہید جن کو اسی محاذ پر شہادت کی توفیق ملی ہمارے عزیز دوست پروفیسر سلطان اکبر صاحب کے چچازاد بھائی چوہدری نصیر احمد صاحب تھے.۳ اگست ۱۹۴۸ء کو بوقت شہادت کنوارے تھے اور سیکنڈ ایئر کے طالب علم تھے.ان کے متعلق بھی یہی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ خاص جذبہ

Page 93

خطبات طاہر بابت شہداء 80 خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۹۹ء شہادت کے ساتھ فرقان بٹالین میں شامل ہوئے تھے.مکرم منظور احمد صاحب او جلوی چوتھے نمبر پر مکرم منظور احمد صاحب او جلوی تھے جو ۷/ دسمبر ۱۹۴۸ء کو کشمیر کے محاذ پر شہید ہوئے.یہ بھی غیر شادی شدہ تھے.ایک بہن زندہ ہیں اور والدین فوت ہو چکے ہیں.اب ان کی بہن جو شاید سن رہی ہوں اللہ کرے کہ ابھی زندہ ہوں تو وہ اس بارے میں مزید معلومات ہمیں مہیا کرسکتی ہیں.مکرم عبدالرزاق صاحب پانچویں نمبر پر مکرم عبدالرزاق صاحب کا ذکر کرتا ہوں جو جذ بہ شہادت کے شوق کے لحاظ سے دیوانوں کی طرح تھے تقسیم ہند سے پہلے بھی آپ کو احمدیوں اور دیگر مسلمانوں کے دفاع کی توفیق ملی یعنی قادیان اور اس کے ماحول میں خدمت کی توفیق ملی.آپ ایک صحابی ابن صحابی کی اولاد تھے یعنی آپ کے باپ بھی ، آپ کے دادا بھی یہ دونوں صحابی تھے.اگر چہ ان کے چا اور بھائی محاذ کشمیر پر جاتے ہوئے اس تاکید کے ساتھ ان کو پیچھے چھوڑ گئے تھے کہ تم یہیں رہو ہم جاتے ہیں لیکن ان کا شوق شہادت ان دونوں کے حکم پر غالب آگیا اور از خود خاموشی کے ساتھ محاذ کشمیر پر پہنچے اور ۲۱ دسمبر ۱۹۴۸ء کو بڑی دلیری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے.شہادت کے وقت آپ چونکہ غیر شادی شدہ تھے اس لئے ظاہر ا پیچھے کوئی اولاد نہ چھوڑی.گھر والوں کے اصرار پر کہ آپ واپس آ جائیں آپ نے ان کو معذرت کا خط لکھ دیا جس کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ابدی شہادت پانے کوزندہ واپس لوٹنے پر ترجیح دیتے تھے اور بڑی دلی معذرت کے ساتھ آپ نے لکھا کہ اب میری واپسی کی توقع نہ کریں.مکرم محمد اسلم صاحب مانگٹ چھ نمبر پر مکرم محمد اسلم صاحب مانگٹ کا ذکر کرتا ہوں.یہ چوہدری جہان خان صاحب صحابی کہ چھوٹے بیٹے تھے.چوہدری جہان خان کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال سے پہلے آپ کی بیعت کرنے والے آخری صحابی چوہدری جہان خان صاحب تھے.یہ چوہدری محمد افضل صاحب مانگٹ جو کسی وقت امیر ضلع حافظ آباد ر ہے ہیں ان کے چھوٹے بھائی تھے.ان کی شہادت ۱۹۴۸ء میں فرقان محاذ پر ہندوستان کی شدید بمباری کے نتیجے

Page 94

خطبات طاہر بابت شہداء 81 خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۹۹ء میں براہ راست ایک بم پھٹنے سے ہوئی یعنی ایسے بم پھٹنے سے جن کا براہ راست ان کے جسم پر اثر ہوا اور ان کے پر خچے اڑ گئے.شہادت کے وقت چونکہ آپ غیر شادی شدہ تھے اس لئے کوئی اولاد پیچھے نہیں چھوڑی.مکرم سخنی منگ صاحب ساتویں نمبر پر مکرم منی منگ صاحب کا ذکر کرتا ہوں.انہوں نے خود۱۹۳۳ء میں چھوٹی عمر میں ہی احمدیت قبول کی تھی.۱۶، ۱۷ار جنوری ۱۹۴۹ء کو محاذ پر مجاہدین کا ٹرک کھڑ میں گرنے کی وجہ سے شہید ہوئے.مکرم میاں غلام یسین صاحب آٹھویں نمبر پر مکرم میاں غلام بین صاحب کا ذکر کرتا ہوں.یہ یکم فروری ۱۹۴۹ء کو دوران خدمت نمونیہ سے وفات پاگئے تھے.وہاں شدید سردی سے بچاؤ کا چونکہ کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا تھا اس لئے بہت سے غرباء جو پوری طرح تن کو ڈھانپ نہیں سکتے وہ اسی دوران سردی کا شکار ہو گئے لیکن در حقیقت چونکہ شہادت کے شوق میں گئے تھے اور اسی ذمہ داری کو ادا کرتے کرتے فوت ہوئے اس لئے ان کو بھی شہید کا مقام حاصل ہوا.مکرم محمد خان صاحب نویں نمبر پر مکرم محمد خان صاحب کا ذکر کرتا ہوں یہ بھی صحابی ابن صحابی کی اولاد تھے.ان کو فرقان بٹالین کے محاذ پر ۱۸ / مارچ ۱۹۴۹ء کو دشمن کی شدید بمباری کے نتیجے میں منہدم ہونے والی عمارت کے اندر شہادت کی توفیق ملی.ان کے ایک صاحبزادے عزیزم مبارک احمد نجیب اللہ کے فضل سے سلسلہ کے ایک مخلص مربی ہیں اور نظارت اشاعت میں اعلیٰ درجہ کی علمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں.مکرم بشیر احمد صاحب ریاض دسویں نمبر پر مکرم بشیر احمد صاحب ریاض کا ذکر کرتا ہوں.مقبوضہ کشمیر کے رہنے والے تھے اور اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے.شہادت کے وقت ان کی چار بہنیں تھیں.کیونکہ غیر شادی شدہ تھے اس لئے ظاہر ہے کوئی اولاد پیچھے نہیں چھوڑی.ان کی شہادت ۹ را کتوبر ۱۹۴۹ء کو ایک راکٹ

Page 95

خطبات طاہر بابت شہداء 82 لانچر پھٹنے کے نتیجے میں ہوئی اور موقع پر ہی دم تو ڑ دیا.میں ہوا مکرم عبد الرحمن صاحب خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۹۹ء گیارہ نمبر پر مقبوضہ کشمیر کے ایک اور نوجوان عبدالرحمن صاحب کا ذکر کرتا ہوں.ان کی شہادت نہر میں ڈوبنے کے نتیجہ میں ہوئی.اس محاذ سے یہ واپس آرہے تھے کہ رستے میں ایک نہر میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے.کیونکہ ڈوب کر فوت ہونے والوں کا بھی آنحضرت مہ نے شہیدوں میں ذکر فرمایا ہے اس لئے قطعاً مبالغہ نہیں کہ ہم ان کو شہید قرار دے سکتے ہیں.نیز چونکہ ان کا سفر محض اللہ تھا.آنحضور ﷺ نے مسلمان ڈوب کر فوت ہونے والوں کو شہید قرار دیا خواہ وہ اللہ سفر اختیار کئے ہوئے ہوں یا بغیر سفر کے ہی کسی نہر وغیرہ میں غرق ہو چکے ہوں ان سب کو رسول اللہ ﷺ نے شہید قرار دیا ہے.اللہی سفر اس شہادت کی عظمت کو بڑھانے والا ایک زائد پہلو ہے.پس اس پہلو سے ان کو جب غرقابی نصیب ہوئی تو یہ غرقابی محض خدا کی خاطر ایک سفر کے دوران نصیب ہوئی.یہ اگر چہ شادی شدہ تھے مگر براہ راست انہوں نے کوئی اولاد پیچھے نہیں چھوڑی.ہاں ان کی بیوی کی دوسری شادی کے نتیجے میں ان میں ایک عزیز محمد اشرف ضیاء مربی سلسلہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان شہادتوں کو اس طرح نوازا کہ آگے بھی خدمات کے سلسلے ان کی نسل سے جاری فرما دیئے.اس فہرست کو یہاں ختم کرتا ہوں.اس وقت تک جو معلومات قطعی طور پر مل چکی ہیں ان کو شامل کر لیا گیا ہے اور بعد میں مزید آتی رہیں گی.اب میں ایسے شہداء کی فہرست پیش کرتا ہوں آخر پر جو واقفین زندگی تھے اور خدمت دین کے دوران میدان جہاد میں ان کی طبعی موت سے وفات ہوئی.چونکہ واقف زندگی تھے اس لئے اس دوران جو طبعی موت سے وفات ہے وہ بھی شہادت کا درجہ رکھتی ہے.مولوی عبید اللہ صاحب ابن حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ان میں سر فہرست مولوی عبید اللہ صاحب ابن حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی بھی ہیں.ان کا وصال ۷ دسمبر ۱۹۲۳ء کو ماریشس میں ہوا تھا اور چونکہ خدمت دین پر مامور تھے اور اس دوران وفات ہوئی اس لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو شہداء میں شامل کیا یعنی شہداء میں تو اللہ تعالیٰ نے شامل کیا تھا شہداء کی فہرست میں حضرت مصلح موعودؓ نے ان کا ذکر بھی فرمایا.آپ کے الفاظ ان

Page 96

خطبات طاہر بابت شہداء کے متعلق یہ ہیں:.83 خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۹۹ء میں آج ایک دین کی خدمت میں جان دینے والے عزیز کی یاد کے لئے اور دوستوں کو اس کے لئے دعا کی تحریک کرنے کے واسطے خطبہ پڑھنے لگا ہوں.وہ دوست جس کو خدمت دین میں شہادت ملی ہے وہ ہمارا عزیز بچہ عبید اللہ ہے ( خطبات محمود جلد ۸ صفحه: ۲۵۹) یہ حافظ بشیر الدین صاحب عبید اللہ کے والد تھے اور ان کی ساری اولاد آگے جو سلسلہ جاری ہوا ہے یہ انہیں کی پاک ذریت میں سے ہیں.اللہ ان کو جزا دے.خدا تعالیٰ نے ان کی اولا د پر بڑی برکتیں نازل فرمائی ہیں.یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اکثر خدمت دین کرنے والے ہیں.شاید ہی کوئی ہو میرے علم میں نہیں جسے خدمت دین کی توفیق نہ مل رہی ہو.اگر نہیں مل رہی تو دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو خدمت دین کرنے والوں میں شامل فرما دے.یہ اس وقت سب دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس شہادت کو ظاہری ، دنیوی لحاظ سے بھی بہت رنگ لگائے ہیں اور دینی لحاظ سے بھی جیسا کہ میں نے عرض کیا بہت رنگ لگائے ہیں.الحاج مولوی محمد دین صاحب آخر پر الحاج مولوی محمد دین صاحب کا ذکر کرتا ہوں جو حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے منجھلے بیٹے تھے ، آپ کو ۱۹۳۶ء میں وقف کی توفیق ملی اور آپ کا پہلا وقف تین سال کے لئے تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو البانیہ تبلیغ کے لئے بھجوایا تھا.اس زمانے میں دیکھیں کہاں کہاں حضرت مصلح موعوددؓ کا ذہن پہنچتا تھا اور کن کن ملکوں تک آپ کی رسائی تھی اور البانیہ میں جواب شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کا بھی آغاز احمدی کے ذریعہ ہی ہوا تھا یعنی ایک احمدی مبلغ کو سب سے پہلے وہاں جا کر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پہنچنے کی توفیق ملی تھی.اگر چہ اس ملک میں وہ شہید نہیں ہوئے لیکن آغاز انہیں سے ہوا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے آپ کو ۱۸ نومبر ۱۹۴۲ء کو اس محاذ سے واپسی کے بعد دوبارہ ساؤتھ افریقہ کے لئے روانہ کیا لیکن جس جہاز میں آپ سفر کر رہے تھے کیونکہ وہ جنگ کا زمانہ تھا اس لئے اسے تارپیڈو کا نشانہ بنایا گیا اور جہاز کے مسافروں سمیت آپ بھی غرق ہوئے.تو اس جہاز میں

Page 97

خطبات طاہر بابت شہداء 84 خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۹۹ء ایک شخص ایسا تھا جس نے خدا کی راہ میں، خدا کے رستہ میں جان دی اس لئے اس کا نام ہمیشہ کے لئے شہیدوں میں لکھا جائے گا.اس پہلو سے ان کو غرقابی کی شہادت بھی نصیب ہوئی اور خدمت دین کے سفر کے دوران وصال پانے کے نتیجے میں دوہری شہادت عطا ہوئی.اللہ تعالی انکی اولاد کو بہت بابرکت کرے، ہر لحاظ سے ان کی ترقی کے سامان کرے، دینی ترقی کے بھی اور دنیاوی ترقی کے بھی.ان کی اولاد کے متعلق اب تک جو مجھے معلوم ہوا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ اپنے پیچھے ایک بیٹے جمال دین نامی چھوڑے تھے جو کسی وقت کراچی میں رہتے تھے.اب اگر اللہ کرے زندہ موجود ہوں تو وہ رابطہ کر سکتے ہیں، بتا سکتے ہیں کہ آگے ان کی اولا د کب ہوئی اور کتنی ہوئی اور کہاں کہاں پھیلی.بہر حال ہماری تاریخ میں تو اتنا ذکر ہے کہ ان کے بیٹے جمال دین صاحب کسی وقت کراچی میں رہتے تھے اور اس وقت کیا حال ہے اس کا ہمیں کوئی علم نہیں.مگر اس سلسلۂ خطبات کی ایک یہ بھی برکت ہوگی کہ وہ اگر زندہ ہوں، خدا کرے زندہ ہوں تو سن رہے ہوں گے اور ہمیں اپنے حالات مزید بھجوائیں گے اور اگر وہ زندہ نہ ہوں خدانخواستہ تو آگے ان کی اولا دہم سے رابطہ کرے اور بتائے کہ ان کے بزرگ والدین کی شہادتوں کے نتیجہ میں ان کو کیا کیا دنیاوی اور دینی برکات وصول ہوئیں.اس ذکر کے بعد میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں اور انشاء اللہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے لجنہ کا اجتماع شروع ہو رہا ہے، دعاؤں میں بہت بہت یادرکھیں اور چونکہ بعض احمدی خواتین کے جذبہ شہادت کا ذکر ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ توقع رکھتا ہوں کہ ہماری بجنات اماءاللہ ان کی نیک قربانیوں کی روح کو اپنے سینوں میں ہمیشہ یادرکھیں گی اور نسلاً بعد نسل یہ روح آگے منتقل ہوتی رہے گی.اللہ تعالیٰ ہماری ان دعاؤں اور التجاؤں کو قبول فرمائے.

Page 98

خطبات طاہر بابت شہداء 59 85 شہید مربیان کا تذکرہ ( خطبه جمعه فرموده ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ بقرہ کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة :۱۵۴ - ۱۵۵) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور صلوٰۃ پر قائم رہتے ہوئے صبر اور صلوۃ کے ذریعہ استعانت طلب کرو.یقینا اللہ تعالیٰ صابرین کے ساتھ ہے.اور جو راہ خدا میں قتل کئے جائیں انہیں مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.یہ وہی سلسلہ شہادات ہے جو ایک لمبے عرصہ سے جاری ہے اور ایک لمبے عرصہ تک جاری رہے گا.اس دفعہ جن شہداء کا ذکر کیا جارہا ہے یہ وہ ہیں جن کو براہ راست دشمن نے قتل نہیں کیا بلکہ راہ خدا میں خدمت کرتے ہوئے وفات پاگئے.پس اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ بھی راہِ خدا کے شہداء میں شمار ہونے چاہئیں.اس ضمن میں جو فہرست میں نے تیار کی ہے سردست اس میں سب سے پہلا نمبر مرزا احمد شفیع صاحب مرحوم کے بھائی مرزا منور احمد صاحب کا آتا ہے لیکن اس ضمن میں ایک گزشتہ خطبہ میں خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء

Page 99

خطبات طاہر بابت شہداء 86 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء ایک یادداشت کی خرابی کی وجہ سے یا بے توجہی کی وجہ سے غلط بات کہہ دی گئی تھی اس کو درست کرنا چاہتا ہوں.مرزا احمد شفیع صاحب مرحوم کے صاحبزادے مرزا مسیح احمد صاحب نے جرمنی سے یہ درستی کروائی ہے بالکل معمولی سی بات تھی مگر بہر حال خطبات میں درستی ہوئی ضروری ہے.امتہ الرحمن صاحبہ مرحومہ کے ساتھ جو بیٹی رہتی تھیں ان کا نام میں نے غلطی سے امتہ الباسط کہ دیا تھا.اس بیٹی کا نام امۃ القیوم ہے اور امتہ القیوم اب شادی شدہ ہیں اور سرگودھا میں مقیم ہیں جبکہ امتہ الباسط صاحبہ لندن میں رہتی ہیں اور یہ ہیں وہ جو فضل اور شیلا کی والدہ ہیں.پس اس درستی کے بعد اب میں ان شہداء کا ذکر کرتا ہوں.حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب ایران سب سے پہلے شہزادہ عبدالمجید صاحب تاریخ شہادت ۲۲ فروری ۱۹۲۸ء کا ذکر کرتا ہوں جن کا مدفن تہران میں ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۱۲؍ جولائی ۱۹۲۴ء کو شہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی کو ایران میں احمد یہ مرکز قائم کرنے کے لئے روانہ فرمایا.آپ کے ہمراہ مولوی ظہور حسین صاحب اور محمد امین خان صاحب بھی تھے جن کو بخارا میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا.حضرت شہزادہ صاحب جو اس تبلیغی وفد کے امیر بھی تھے اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت ۱۶ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ایران کے مشہور شہر مشہد میں پہنچے اور پانچ چھ دن کے بعد مشہد سے تہران میں تشریف لے گئے اور وہاں نیا دار التبلیغ قائم کیا.حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب ضعیف العمر بزرگ اور قدیم صحابہ میں سے تھے اور نہایت اخلاص سے اپنے خرچ پر آئے تھے.مگر یہاں آکر خرچ ختم ہو گیا.پیچھے کوئی جائیداد نہیں تھی.مرکز سے مستقل مالی امداد ان کو نہیں دی جارہی تھی.آپ معمولی سی صف اور نہایت مختصر سے بستر پر رات بسر کیا کرتے تھے یہاں تک نوبت آجاتی تھی کہ کپڑے دھونے کے لئے صابن کا خرچ نہیں رہتا تھا.بایں ہمہ آپ نے آخر دم تک اپنے عہد کو نبھایا اور بے نفس خدمات سے با قاعدہ وہاں جماعت قائم کر دی.۲۲ فروری ۱۹۲۸ء کو تہران میں انتقال فرما گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے ان کی وفات پر فرمایا: ”شہزادہ عبدالمجید صاحب افغانستان کے شاہی خاندان سے تھے اور شاہ شجاع کی نسل سے تھے.آپ نہایت ہی نیک نفس اور متوکل آدمی

Page 100

هید مربیان حافظ عبید اللہ صاحب مبلغ ماریشس شہادت ۱۹۲۳ء حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب ایران شہادت ۱۹۲۸ء حضرت حافظ جمال احمد مبلغ ماریشس شہادت ۱۹۴۹ء مولوی محمد دین صاحب مبلغ سلسله شہادت ۱۹۴۲ء مولانا نذیر احمد علی صاحب سیرالیون شہادت ۱۹۵۵ء -1.

Page 101

مولانا ابوبکر ایوب صاحب ہالینڈ شہادت ۱۹۷۲ء شہید مربیان یان مولانا غلام حسین ایاز صاحب سنگاپور شہادت ۱۹۵۹ء مبارک احمد بھٹی صاحب مربی سلسلہ شہادت ۱۹۷۱ء محمد شفیق قیصر صاحب مربی سلسله شہادت ۱۹۷۹ء حافظ عبدالحفیظ صاحب مبلغ بنی شہادت ۱۹۸۱ء 10

Page 102

شہید مربیان مولانا عبدالمالک خان صاحب شہادت ۱۹۸۳ء قریشی محمد اسلم مربی سلسلہ ٹرینیڈاڈ شہادت ۱۹۸۵ء بشارت الرحمن قمر صاحب مربی سلسلہ شہادت ۱۹۸۲ء محمد احمد اموسا مینسا مبلغ غانا شہادت ۱۹۸۸ء مبشر احمد شاہد چوہدری مبلغ نائجیریا شہادت ۱۹۹۲ء

Page 103

شہید مربیان مبارک احمد ساقی صاحب مبلغ سلسلہ شہادت ۱۹۹۲ء چوہدری محمد عیسی صاحب مبلغ لندن شہادت ۱۹۹۴ء مولا نا کرم الہی ظفر صاحب پین شہادت ١٩٩٦ء مسعود احمد جہلمی صاحب مبلغ سلسله شہادت ۱۹۹۲ء علی حید را پل صاحب مبلغ سلسلہ شہادت ۱۹۹۵ء ناصر فاروق سندھو صاحب مربی سلسلہ شہادت ۱۹۹۹ء

Page 104

خطبات طاہر بابت شہداء 87 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء تھے.میں نے جب تبلیغ کے لئے اعلان کیا کہ ایسے مجاہدوں کی ضرورت ہے جو تبلیغ دین کے لئے زندگی وقف کریں تو انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا.اس وقت ان کے پاس کچھ روپیہ تھا انہوں نے اپنا مکان فروخت کیا ، رشتہ داروں اور متعلقین کو حصہ دے کر خودان کے حصہ میں جتنا آیا وہ ان کے پاس رہا اس لئے مجھے لکھا کہ میں اپنے خرچ پر جاؤں گا.اس وقت میں ان کو بھیج نہ سکا اور جب کچھ عرصہ بعد ان کو بھیجنے کی تجویز ہوئی تو اس وقت وہ روپیہ خرچ کر چکے تھے مگر انہوں نے ذرا نہ جتایا کہ ان کے پاس روپیہ نہیں ہے.ہندوستان سے باہر کبھی نہ نکلے تھے.اس ملک ( یعنی ایران ) میں کسی سے واقفیت نہ تھی مگر انہوں نے اخراجات کے نہ ہونے کا قطعاً اظہار نہ کیا اور وہاں ایک عرصہ تک اسی حالت میں رہے.انہوں نے وہاں سے بھی اپنی حالت نہ بتائی.نامعلوم کس طرح گزارہ کرتے رہے مگر پھر مجھے اتفاقاً پتہ چلا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ایک دفعہ دیر تک ان کا خط نہ آیا اور پھر جب آیا تو لکھا تھا کہ میرے پاس ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے اس لئے خط نہیں لکھ سکا.اس وقت مجھے سخت افسوس ہوا کہ چاہئے تھا جب ان کو بھیجا گیا اس وقت پوچھ لیا جاتا کہ آپ کے پاس خرچ ہے کہ نہیں.پھر میں نے ایک قلیل رقم ان کے گزارہ کے لئے مقرر کر دی.وہاں کے لوگوں پر ان کی روحانیت کا جو گہرا اثر تھا اس کا پتہ ان چٹھیوں سے لگتا ہے جو آتی رہی ہیں.ابھی پرسوں ترسوں اطلاع ملی کہ آپ یکم رمضان المبارک فوت ہو گئے.دس دن بیمار رہے پہلے ہلکا ہلکا بخار رہا.آخری دن بہت تیز بخار ہو گیا اور ڈاکٹر کو بلایا تو اس نے کہا ہسپتال لے چلو.دوسرے دن وہاں لے جانا تھا کہ فوت ہو گئے.ان کی تیمارداری کرنے والے رات بھر جاگتے رہے تھے.سحری کے وقت تیمار دار صبح کی نماز کے بعد سو گئے اور بارہ بجے دو پہر کے قریب ان کی آنکھ کھلی تو آپ فوت ہو چکے تھے.(خطبات محمود جلد صفحه ۲۴۴) حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب تہران کے جنوبی طرف شہر کے سب سے چھوٹے قبرستان میں دفن کئے گئے.۱۹۵۳ء تک آپ کا مزار مبارک موجود تھا مگر اس کے بعد قبرستان ہموار کر کے اس پر عمارتیں تعمیر کر دی گئیں.مکرم محمد رفیق صاحب کاشغر دوسرے مبلغ جن کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ محمد رفیق صاحب کاشغر ۱۹۳۹ء مدفن کاشغر.مکرم مولوی محمد رفیق صاحب موضع چاچڑ ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے.تحریک جدید کے مطالبہ نمبر

Page 105

خطبات طاہر بابت شہداء 88 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء دس کے تحت انہوں نے اپنی زندگی وقف کی تھی.تحریک جدید کے مطالبہ نمبر دس کے مطابق صرف زادراہ لے کر کسی غیر ملک میں جائیں گے یہ شرط تھی.چنانچہ وہ محض زادِ راہ لے کر اس غیر ملک کے لئے روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر اپنے کاروبار سے تبلیغی کام کو چلانا تھا.مولوی صاحب نے کاشغر جانے کا ارادہ کیا.۱۹۳۸ء کے آغاز میں آپ راجہ عدالت خان صاحب کے ساتھ کشمیر پہنچ گئے.راجہ عدالت خان صاحب کو تو پاسپورٹ نہ مل سکا مگر مولوی محمد رفیق مرحوم کو پاسپورٹ مل گیا تا ہم انہیں کچھ عرصہ سرینگر ٹھہر نا پڑا.اس قیام سے فائدہ اٹھا کر آپ نے چینی ترکستان کی زبان کافی حد تک سیکھ لی.گلگت سے کاشغر کا سفر نہایت سخت تھا.راستہ میں اٹھارہ ہزار دوسوفٹ تک بلند پہاڑ اور طویل برفانی گلیشیئر ز حائل تھے.مرحوم پیدل سفر کرنے کے لئے بھی تیار تھے مگر ان کے لئے جماعت احمدیہ گلگت نے گھوڑ ا خرید لیا.آپ بخیریت دوماہ میں کا شغر پہنچ گئے.کا شغر پہنچ کر انہوں نے درزی کا کام شروع کر دیا پھر کپڑے بیچنے کی دکان ڈال لی.اس وقت کا شغر روسی ترکستان میں تھا.گورنمنٹ نے انہیں کچھ دن نظر بند بھی رکھا تا ہم مرحوم اپنا تبلیغی کام برابر سرگرمی سے کرتے رہے.چنانچہ ان کی تبلیغ سے ہی حاجی آل محمد صاحب اور حاجی جنو داللہ صاحب موضع سلوخ کا شغر مع خاندان احمدی ہوئے ہیں.تو یہ حاجی جنود اللہ صاحب کا خاندان اب تو دنیا میں اللہ کے فضل سے پھیل چکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کو بہت ترقی دی ہے.یہ وہی خاندان ہے جو برفوں پر تقریباً گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے آخر ہندوستان پہنچے.محمد رفیق صاحب کو تیسرے سال استسقاء کی بیماری ہوگئی.یہ جگر کی خرابی سے ہوتی ہے اور اسی بیماری سے آپ وفات پاگئے.آپ کی وفات کی اطلاع جناب مرزا معظم بیگ صاحب نے گلگت سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو دی.مرحوم نے کا شعر میں ہی شادی کی تھی اور پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بچی تھی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے محمد رفیق صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اس ( عدالت خان صاحب مرحوم) نے ایک اور نوجوان کو خود ہی تحریک کی کہ میرے ساتھ چلو اور وہ تیار ہو گیا.اس طرح گو عدالت خان فوت ہو گیا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے بیج کو ضائع نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے شخص نے جسے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا احمدیت کے جھنڈے کو پکڑ کر آگے بڑھانا شروع کر دیا اور مشرقی شہر کا شعر میں پہنچ گیا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی.نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے ایک دوست کو

Page 106

خطبات طاہر بابت شہداء 89 99 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما دی.حاجی جنو داللہ صاحب ان کا نام ہے.وہ اسی تبلیغ کے نتیجہ میں قادیان آئے اور تحقیق کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے.پھر کچھ عرصہ بعد حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ اور ہمشیرہ بھی احمدی ہوگئیں اور اب تو وہ قادیان ہی آئے ہوئے ہیں.تو عدالت خان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکہ احمدیت کو اس علاقے میں پھیلانے کا موجب بن گئی.‘( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحہ:۷ ) مکرم مرزا منور احمد صاحب مبلغ امریکہ دوسرے مجاہد جن کا میں نے مختصر ذکر مرزا احمد شفیع صاحب شہید کے ذکر کے ساتھ کیا تھا ان کے متعلق کوائف یہ ہیں.مرزا منور احمد صاحب مرحوم اگست ۱۹۴۶ء کے آخر میں امریکہ تشریف لے گئے تھے.شکاگو میں کوئی ایک مہینہ قیام کے بعد آپ پٹس برگ کے حلقے میں متعین کئے گئے.ابتداء میں یہ حلقہ امریکہ کے ساحل پر بالٹی مور سے لے کر ڈیٹن تک پھیلا ہوا تھا جس میں کلیولینڈ اور مینگس ٹاؤن بھی شامل تھے.ان سب جماعتوں کے دلوں میں آپ نے اپنی خوش خلقی سادگی اور محبت کی بنا پر ایک خاص مقام پیدا کرلیا تھا.دو سال کے مختصر عرصہ کے اندر آپ نے اپنی شب و روز والہا نہ جد وجہد سے پٹس برگس کے احمدیوں میں زبر دست حرکت پیدا کر دی اور یہ حلقہ امریکہ مشن میں ایک ممتاز حیثیت اختیار کر گیا حتی کہ شکاگو کی مقامی جماعت نے بھی آپ کو اپنے ہاں تقریر کی دعوت دی کہ ان میں وہ روح پیدا کریں جو انہوں نے پٹس برگ کی جماعت میں پیدا کر دی ہے.مرزا منور احمد صاحب شہید نہایت وجیہ صورت، بلند قامت اور بظاہر اعلیٰ درجہ کے صحت مند نوجوان تھے مگر اندر اندر آپ ٹیومر کے عارضہ میں مبتلا ہو چکے تھے جس کا آپریشن ۱۴ ستمبر ۱۹۴۸ء کو ایک مقامی ہسپتال میں کیا گیا کیونکہ ٹیومر کا زہر انتڑیوں میں سرایت کر چکا تھا اس لئے آپریشن کے بعد کمزوری انتہاء کو پہنچ گئی اور دوسرے ہی دن دین مصطفی کے اس انتھک جانباز سپاہی کی روح قفس عصری سے پرواز کرگئی.اناللہ وانا اليه راجعون.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ان کو بچپن سے ذاتی طور پر جانتے تھے.آپ نے ان کے بارہ میں لکھا: ”عزیز مرزا منور احمد مرحوم کو میں بچپن سے جانتا تھا اس لئے بھی کہ وہ ہمارے قریبی عزیزوں میں سے تھے یعنی ہماری ممانی صاحبہ کے بھائی اور ہماری ایک بھا وجہ صاحبہ کے ماموں تھے

Page 107

خطبات طاہر بابت شہداء ge 90 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء اور اس لئے بھی کہ مرحوم کا بچپن سے میرے ساتھ خاص تعلق تھا.پس میں یہ بات بغیر کسی مبالغہ کے کہہ سکتا ہوں کہ مرحوم ایک بہت مخلص اور نیک اور ہونہار اور محبت کرنے والا اور جذبہ خدمت و قربانی سے معمور نو جوان تھا.دن ہو یا رات، دھوپ ہو یا بارش جب بھی انہیں کوئی ڈیوٹی سپرد کی جاتی تھی وہ کمال مستعدی اور اخلاص کے ساتھ اس ڈیوٹی کو سرانجام دینے کے لئے لبیک، لبیک کہتے ہوئے آگے آجاتے تھے اور پھر اپنے مفوضہ کام کو اس درجہ توجہ اور سمجھ کے ساتھ سرانجام دیتے تھے کہ دل خوش ہو جاتا تھا اور زبان سے بے اختیار دعا نکلتی تھی.میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی نیکی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی زندگی وقف کرنے اور پھر بلا دامریکہ میں وطن سے بارہ ہزار میل دور جا کر فریضہ تبلیغ بجالانے کی سعادت عطا کی.موت تو ہر انسان کے لئے مقدر ہے مگر مبارک ہے وہ نوجوان جسے یہ سعادت کی زندگی عطا ہوئی اور مبارک ہیں وہ والدین جنہیں خدا نے ایسا نیک اور خادم دین بچہ عطا کیا.“ (روز نامه الفضل ۱۹ر ستمبر ۱۹۴۸ صفحه ۳۰) خود حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے متعلق فرمایا ”مرزا منور احمد صاحب جو امریکہ کے مبلغ تھے میری ایک بیوی ام متین کے ماموں ، میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم کے سالے اور نہایت مخلص نوجوان تھے.ان کے معدہ میں رسولی ہوئی اور وہ فوت ہو گئے.ویسے تو ہر ایک کوموت آتی ہے لیکن اس طرح کی موت گو ایک طرف قوم کے لئے فخر کا موجب ہوتی ہے لیکن دوسری طرف اس کا افسوس بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو پندرہ بیس سال میں تیار کیا جائے اور وہ جوانی کی حالت میں فوت ہو جائے.‘ (روز نامہ الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۴۸ء صفحه : ۶) یہ جو دوسرا پہلو ہے اسی وجہ سے میں جماعت کے مربیوں وغیرہ کو، واقفین کو تلقین کرتا ہوں کہ خدا کے لئے سفر کرتے وقت پوری احتیاطیں اختیار کیا کریں کیونکہ اگر چہ آپ تو شہادت کا رتبہ پا جاتے ہیں مگر پیچھے رہنے والوں کو یہ دکھ رہتا ہے کہ آپ کو اگر اور زندگی عطا ہوتی اور اور بھی زیادہ خدمت دین میں حصہ لے سکتے تھے.حضرت حافظ جمال احمد صاحب ماریشس اب تیسرے شہید جن کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں یہ حضرت حافظ جمال احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں.یوم شہادت ۲۷ دسمبر ۱۹۴۹ء.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ممتاز صحابہ میں سے تھے جو عفوان شباب سے حضور کے دامن سے وابستہ ہوئے اور مئی ۱۹۰۸ء میں بمقام لاہور

Page 108

خطبات طاہر بابت شہداء 91 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء حضرت اقدس کی زیارت سے مشرف ہوئے.آپ کے والد حضرت حکیم غلام محی الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہو چکے تھے.آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر سایہ بھی تربیت حاصل کی.آپ موضع چکوال کے رہنے والے تھے.حضرت حافظ صاحب کو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں یہ منفر د خصوصیت حاصل ہے کہ آپ اکیس برس تک ماریشس میں جہاد تبلیغ میں سرگرم رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں کسی کو اتنا لمبا عرصہ میدان عمل میں مسلسل تبلیغ کا موقع نہیں ملا جیسے آپ کو ملا.آپ ۲۷/ جولائی ۱۹۳۸ء کو قادیان سے ماریشس پہنچے اور ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۹ء کو ماریشس ہی میں انتقال فرما گئے اور سینٹ پیری میں سپرد خاک کئے گئے.آپ کی وفات کی اطلاع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۳۰ دسمبر ۱۹۴۹ء کو خطبہ دیا.اس میں آپ کی وفات کو نشان قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ماریشس بھیجے گئے تو جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی.اتنی کمزور کہ ہم کسی مبلغ کی آمد و رفت کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے.میں نے تحریک کی کہ کوئی دوست اس ملک میں جائیں.اس پر حافظ صاحب مرحوم نے خود اپنے آپ کو پیش کیا.“ ( تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ: ۹۰-۹۱) جو اس سے بھی بڑا نشان ہے وہ وہی ہے جو میں عرض کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے کسی صحابی کو اتنا لمبا عرصہ میدان جہاد میں تبلیغ کرنے کی توفیق نہیں ملی.حضرت الحاج مولانا نذیر احمد علی صاحب سیرالیون اب میں حضرت الحاج مولانا نذیر احمد صاحب علی کا ذکر کرتا ہوں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے اور مخلص صحابی حضرت بابو فقیر علی صاحب ریٹائر ڈ اسٹیشن ماسٹر کے فرزند تھے.آپ فروری ۱۹۰۵ء کو جمعۃ المبارک کے دن موضع منگل کوٹلی متصل گورداسپور شہر پیدا ہوئے.آپ کا اصل وطن کوٹلہ چہلاں متصل چھینہ ضلع گورداسپور تھا.ابتدائی تعلیم مسلم ہائی سکول امرتسر میں حاصل کی.میٹرک کا امتحان تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے پاس کیا.اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں بی ایس سی تک تعلیم حاصل کی.آپ نے ۱۹۲۸ء میں زندگی وقف کی اور قادیان آکر زیر ہدایت حضرت

Page 109

خطبات طاہر بابت شہداء 92 92 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء امیر المؤمنین خلیفة المسح الثانی مولوی امام دین صاحب آف گولیکی سے عربی تعلیم حاصل کی.حضور کے درس قرآن میں بھی باقاعدہ شامل ہوتے رہے.آپ یکم فروری ۱۹۲۹ء کو باقاعدہ مبلغ مقرر ہوئے اور پہلی مرتبہ ۲ رفروری ۱۹۲۹ء کو گولڈ کوسٹ یعنی گھانا میں تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کے لئے روانہ ہوئے.وہاں چارسال متواتر تبلیغی جہاد میں عملی حصہ لینے کے بعد ۱۵ مئی ۱۹۳۳ء کو قادیان واپس تشریف لائے.آپ پہلے مبلغ تھے جو غیر ملک میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے لئے قادیان سے بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے تھے.بذریعہ ٹرین تو بہت روانہ ہوئے تھے لیکن قادیان سے، گاڑی جب قادیان پہنچ چکی تھی سٹیشن بن گیا تھا اس کے بعد اس ٹرین سے پہلے مبلغ تھے جو ٹرین پر قادیان ہی سے تبلیغ کے فریضہ کے لئے روانہ ہوئے ہیں.دوسری مرتبہ آپ ۲۰ فروری ۱۹۳۶ء کو گولڈ کوسٹ تشریف لے گئے یعنی گھانا تشریف لے گئے.وہاں ایک سال تک کام کیا اس کے بعد حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو سیرالیون میں نیا مشن کھولنے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ آپ ۲۰ را کتوبر ۱۹۳۷ء کو سیرالیون روانہ ہوئے.جہاں آپ نے آٹھ سال تک تبلیغ کا شاندار کام کیا.اس عرصہ میں آپ نے متعد د سکولوں اور مساجد کی بنیادیں رکھیں اور متعدد جماعتیں قائم کر کے ان کی تنظیم کی.۱۹۴۵ء میں آپ قادیان تشریف لائے اور واپسی پر آپ نے حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا.۲۶ نومبر ۱۹۴۵ء کو آپ تیسری بار جملہ مشن ہائے مغربی افریقہ کے لئے بحیثیت رئیس التبلیغ بھجوائے گئے.اس موقع پر نہ صرف آپ کو رئیس التبلیغ کا لقب عطا فر مایا گیا بلکہ حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو علی کا لقب بھی عطا فرمایا.چنانچہ اس کے بعد آپ کا پورا نام نذیر احمد علی مشہور ہو گیا.آپ ۱۴ / اپریل ۱۹۵۱ء کو واپس وطن تشریف لائے.آپ کی خدمات جلیلہ کے پیش نظر حضور رضی اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیاب جرنیل کے خطاب سے نوازا.آپ ۹رمئی ۱۹۵۴ء کو چوتھی مرتبہ ایک سال کے لئے بیرون ملک بھجوائے گئے جہاں آپ ایک سال کا عرصہ پورا کرنے کے بعد یعنی سیرالیون میں ۱۹ رمئی ۱۹۵۵ء کو اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.انالله وانا اليه راجعون.آپ پانچویں مبلغ ہیں جو تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے ہوئے میدان تبلیغ میں شہید ہوئے.۱۹۴۵ء میں جب آپ کو واپسی کا حکم ہوا تو ایک تقریب میں آپ نے اپنے عزم کا اظہاران

Page 110

خطبات طاہر بابت شہداء 93 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء الفاظ میں فرمایا " آج ہم خدا تعالیٰ کے لئے جہاد کرنے ، یہ بہت ہی لطیف آپ کا اظہار ہے اور بڑا غور طلب ہے.کیسا عمدہ خیال آپ کو یاد آیا، کیسی عمدہ نصیحت کر گئے ہیں.” آج ہم خدا تعالیٰ کے لئے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لئے جار ہے ہیں.موت فوت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.ایک قسم کی مخفی پیشگوئی بھی کی اپنی وفات کی.”ہم میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دور دراز حصہ ہے جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے.تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے، مراد اپنی قبر تھی.جس تھوڑی سی جگہ میں مجھے دفن کیا جائے گا وہ احمدیت کی ملکیت رہے گی تا کہ آئندہ احمدی نوجوانوں کے لئے نیکیوں کی تلقین کرتی رہے.احمدی نو جوانوں کا فرض ہے کہ اس تک پہنچیں اور اس مقصد کو پورا کریں جس کی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہوگا اللہ ان پر بے شمار رحمتیں نازل کرے، کیسی پیاری قبر کی صورت میں آپ نے زمین پر قبضہ کیا ہے.اس کے بعد مسلسل وہاں جماعت احمدیہ کے مبلغین پہنچ رہے ہیں اور بکثرت تبلیغ کی تو فیق پارہے ہیں.پس ہماری قبروں کی طرف سے یہی مطالبہ ہوگا کہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں کہ جس مقصد کے لئے ہماری جانیں صرف ہوئیں اسے وہ پورا کرتے رہیں.“ ( الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۴۵ء) پسماندگان کے ذکر میں آپ نے اپنے پیچھے بطور یادگار ایک بیوی اور پھر چھلڑ کے چھوڑے ہیں.رشید اختر صاحب، مبارک احمد نذیر صاحب مربی سلسلہ کینیڈا، بشارت احمد صاحب حال لندن، ڈاکٹر منیر احمد صاحب امریکہ، لطیف احمد نذیر صاحب، کریم احمد نذیر صاحب.یہ سارے بچے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہایت مخلص احمدی اور اپنے والد کی نیکیوں کو زندہ رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.یہ خاندان اب بکثرت دنیا میں پھیل چکا ہے اور اس کی تفصیل کی یہاں جگہ نہیں.مکرم مولانا غلام حسین صاحب ایاز سنگاپور مکرم مولانا غلام حسین صاحب ایاز ، تاریخ شہادت ۱۸،۱۷ اکتوبر ۱۹۵۹ء کی درمیانی شب.آپ کی ولادت ۱۹۰۳ء میں ہوئی.آپ کے والد بزرگوار کو ۱۸۹۱ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا.آپ نے ابتدائی تعلیم موضع فیض اللہ چک میں حاصل کی جو آپ کے گاؤں سکنہ تھہ غلام نبی سے دو میل کے فاصلہ پر واقع ہے.

Page 111

خطبات طاہر بابت شہداء 94 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء پرائمری کی تعلیم کے بعد آپ مدرسہ احمدیہ قادیان میں دینی تعلیم کے لئے داخل ہوئے اور پنجاب یو نیورسٹی سے مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کی اور پھر خدمت دین کے لئے اپنی زندگی پیش کر دی.ایاز صاحب ۱۹۳۵ء میں تحریک جدید کے پہلے تبلیغی وفد میں سنگا پور بھیجے گئے تھے.پندرہ سال متواتر فریضہ تبلیغ سرانجام دینے کے بعد ۱۹۵۰ء میں واپس آئے.آپ کو اس عرصہ میں شدید ترین مصائب کا سامنا کرنا پڑا.ایک دفعہ آپ کو شدید زخمی کر کے سڑک پر پھینک دیا گیا.پھر بعض لوگوں نے بیہوشی کی حالت میں سڑک سے اٹھا کر ہسپتال پہنچایا جہاں کافی عرصہ تک زخموں کا علاج ہونے کے بعد بالآخر تندرست ہو گئے.بعض لوگ آپ کے قتل کا منصو بہ بنا کر آپ کے پاس پہنچے مگر اللہ تعالیٰ نے یہ کرشمہ دکھایا کہ وہی لوگ آپ کی باتیں سن کر آپ کی محبت کی تلوار سے گھائل ہو گئے اور جماعت میں شامل ہو کر سلسلہ کے مخلص خادم اور جاں نثار بن گئے.اس زمانے میں جب آپ کے والد صاحب محترم کو آپ کے خط آتے تھے تو یہی لکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی طرح قربانی کے لئے پیدا کیا ہے.“ ۸/اکتوبر ۱۹۵۶ء کو آپ کو دوبارہ سنگا پور اعلائے کلمتہ الحق کے لئے بھجوایا گیا.کچھ عرصہ آپ سنگا پور میں مقیم رہنے کے بعد بور نیو میں متعین ہوئے.آپ ذیا بیطس کے مریض تھے.۱۶/اکتوبر ۱۹۵۹ء کو رات بخیریت سوئے صرف معمولی سی تھکاوٹ محسوس ہور ہی تھی لیکن آدھی رات کے بعد جب تہجد کے لئے بیدار ہوئے تو اٹھ کر کھڑے نہ ہو سکے اور زمین پر گر گئے.آپ کی اہلیہ نے ساتھ کے کمرے سے آکر آپ کو دیکھا اور قریبی ہمسائے کو جو احمدی تھا آواز دی، اس نے آکر چار پائی پر ڈالا.آپ کو ایمبولینس کے ذریعہ ہسپتال پہنچایا گیا جہاں چھتیں گھنٹے قومہ کی حالت میں رہنے کے بعد ۱۷، ۱۸ اکتوبر ۱۹۵۹ ء کی درمیانی شب آپ اپنے میدان جہاد ہی میں وفات پاگئے.انالله وانا اليه راجعون مکرم مبارک احمد صاحب بھٹی ربوہ اب مکرم مبارک احمد صاحب بھٹی کا تذکرہ کرتا ہوں.تاریخ شہادت سے دسمبر ۱۹۷۱ء.مکرم مبارک احمد صاحب بھٹی چوہدری محمد علی صاحب کے بیٹے تھے.۱۹۶۲ء میں کنری سے میٹرک پاس کرنے کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا.۱۹۷۱ء میں شاہد پاس قرار پائے اور بطور مربی ضلع

Page 112

خطبات طاہر بابت شہداء 95 95 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء گوجرانوالہ میں مقرر فرمائے گئے.ابھی آپ کی تعیناتی کو تین ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں آپ کو مجاہد فورس ڈیوٹی پر طلب کیا گیا تو آپ مرکز کے حکم کے مطابق مجاہد فورس میں حاضر ہونے کے لئے ربوہ آگئے.۷ دسمبر ۱۹۷۱ء کو دریائے چناب کے پل کی حفاظت کی ڈیوٹی سے واپس آتے ہوئے ریل کار کے حادثہ میں وفات پاگئے.آپ کا جنازہ فوجی اعزاز کے ساتھ مسجد مبارک لایا گیا.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور موصی ہونے کے باعث آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی.آپ خدام الاحمدیہ کے فعال کارکن تھے.آپ کی زعامت کے دوران ہوٹل جامعہ احمدیہ کی زعامت ربوہ کی تمام مجالس میں اول آتی رہی.بہت ہمدرد، مخلص اور خدمت گزار انسان تھے.مکرم محمد شفیق قیصر صاحب محترم محمد شفیق صاحب قیصر.ان کی شہادت حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ کے زمانے میں ہوئی.آپ محترم منشی محمد صادق صاحب کے فرزند تھے.۱۲ اکتوبر ۱۹۳۹ء کو محمود آباد سندھ میں پیدا ہوئے.پرائمری تک تعلیم قادیان میں پائی اور تقسیم ملک کے بعد ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ، سلانوالی ضلع سرگودھا اور تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ، ربوہ میں تعلیم حاصل کر کے ۱۹۵۵ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا.میٹرک کے فورا بعد ہی اللہ تعالی نے آپ کو سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی.پہلے کچھ عرصہ دفتر خدمت درویشاں میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.۱۹۵۷ء میں جامعہ احمد یہ ربوہ میں داخلہ لے کر ۱۹۶۳ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی.ان کے علمی کام سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت متاثر تھے اور خود میرے سامنے بھی کئی بار ذکر کیا کہ یہ نوجوان خدا تعالیٰ کے فضل سے علمی کاموں میں خاص ملکہ رکھتا ہے.آپ نے فاضل عربی کا امتحان پاس کیا.دیگر جماعتی خدمات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی گرانقدر خدمت کی بھی توفیق عطا فرمائی.آپ ۱۹۵۹ء میں نائب مہتمم اشاعت اور نائب ایڈیٹر رسالہ خالد مقرر ہوئے.اس کے بعد ۱۹۷۶ء تک آپ مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دیتے رہے.۱۹۷۶ء میں آپ نا ئب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ نامزد ہوئے

Page 113

خطبات طاہر بابت شہداء 96 96 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء اور وفات تک آپ اسی حیثیت سے یعنی نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے.آپ ایک مرکزی حکم کے تحت قرآن کریم کی طباعت کے سلسلے میں ۱۳/ مارچ ۱۹۷۹ء کو ہانگ کانگ جانے کے لئے روانہ ہوئے.مرکز کے دیئے ہوئے پروگرام کے مطابق ۱۵؍ مارچ کو رنگون پہنچے جہاں پر قیام کا آپ کو مرکز سے ہی پروگرام دیا گیا تھا.چار روز تک وہاں تنظیمی امور طے کرنے کے بعد ۱۹؍ مارچ کو رنگون سے مانڈلے کے لئے بعض تنظیمی عہد یداروں کے ہمراہ روانہ ہوئے.مانڈ لے رنگون سے ۴۵۰ کلومیٹر پر ہے.۲۰ / مارچ ۱۹۷۹ء کو علی اصبح مانڈ لے پہنچے.اسی روز اپنے مفوضہ امور نمٹانے کے بعد رات کو واپس آرہے تھے کہ رستے میں آپ کی کار کو حادثہ پیش آگیا جس سے آپ کے سر پر چوٹ آئی اور بیہوشی طاری ہو گئی.ہر قسم کی امداد دینے کے باوجود آپ جانبر نہ ہو سکے اور بالآخر ۲۲ / مارچ کو اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.انـــالــــه وانــا اليــه راجعون.آپ کا جنازہ ۶ را پریل ۱۹۷۹ء کو ربوہ لایا گیا.اسی روز احاطہ بہشتی مقبرہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے نماز عصر کے بعد نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.مرحوم نے بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی یادگار چھوڑے.ایک بیٹا طارق حیدر ٹورانٹو کینیڈا میں ہے اور دوسرا بیٹا محمد لطیف قیصر لاہور میں چارٹر ڈا کا ؤنٹینسی کر رہا ہے اور بیٹی سعد یہ جھنگ میں اردو کی لیکچرار ہیں.مگرم ملک عبد الحفیظ صاحب مبلغ منجی ایک اور شہید جن کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ ملک عبدالحفیظ صاحب مبلغ نبی تھے.محترم ملک عبدالحفیظ صاحب مرحوم سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشہور صحابی حضرت نظام الدین صاحب کے پوتے اور مکرم کریم بخش صاحب آف بہاولپور کے صاحبزادے اور محترم مولانا محمد اسمعیل صاحب دیا لگڑھی کے داماد تھے.محترم ملک عبدالحفیظ صاحب حافظ قرآن تھے.حافظ صاحب مرحوم نے جامعہ احمدیہ میں شاہد کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ۱۹۷۴ء میں میدان عمل میں قدم رکھا اور سب سے پہلے تخت ہزارہ ضلع سرگودھا میں بطور مربی سلسلہ تعینات ہوئے.اس کے بعد رحیم یار خان اور مردان میں بھی بطور مربی سلسلہ مقیم رہے اور بوقت شہادت تقریباً ڈیڑھ سال سے بھی

Page 114

خطبات طاہر بابت شہداء 97 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء میں بطور مبلغ اسلام تعینات تھے.حافظ صاحب بہت نیک ، تہجد گزار اور انتھک خادم دین تھے.۱۹۷۴ء میں جب تخت ہزارہ میں متعین کیا گیا تو اس وقت وہاں کی جماعت بہت شدید مشکلات اور دباؤ کا شکار تھی.آپ کی لگن، محنت اور کامیاب حکمت عملی سے اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور یہ جماعت پھر سے اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی.حافظ صاحب کو یہ سعادت بھی حاصل رہی کہ آپ نے جلسہ سالانہ پر مسجد مبارک میں نماز تہجد بھی پڑھائی.نہایت خوبصورت قراءت کرتے تھے اور رمضان مبارک میں تراویح پڑھایا کرتے تھے.واقعہ شہادت: حافظ صاحب ۵/اگست ۱۹۸۱ء کو ایک دورہ پر لمباسہ جارہے تھے.ہائی وے پر ایک ٹرک سے ان کی ٹکر ہوگئی جس کے نتیجہ میں آپ شدید زخمی ہو گئے.ان کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں پر ۶ ارا گست ۱۹۸۱ء بروز اتوار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی جان حقیقی مولا کے سپر د کر دی.انالله وانا اليه راجعون ۲۲ اگست ۱۹۸۱ء کو شہید مرحوم کی نماز جنازہ ربوہ میں ادا کی گئی اس کے بعد بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.شہادت کے وقت آپ کی عمر ۳۴ سال تھی.شہید مرحوم نے اپنے پیچھے ایک بیوہ کے علاوہ تین لڑکیاں اور ایک لڑکا چھوڑے جن میں سے دو بیٹیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں.ایک بیٹی عطية المحجیب مکرم محمد احمد صاحب نعیم مربی سیر یا ( حال لندن) کی بیگم ہیں.دوسری قرۃ العین ہیں جو ملک نجیب احمد صاحب کی اہلیہ ہیں جو اسسٹنٹ انجینئر شاہ تاج شوگر ملز ہیں.بیٹا ( حافظ عبدالوہاب مربی سلسلہ ) حافظ قرآن ہے اور جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم ہے.تیسری بیٹی صائمہ بی اے کر چکی ہیں اور ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں.اللہ ان کو بہترین رشتہ عطا فرمائے.مکرم عبدالرحمن صاحب بنگالی.امریکہ اب مکرم عبد الرحمن صاحب بنگالی مرحوم کا ذکر کرتا ہوں.ضمناً یہ عرض کر دیتا ہوں کہ بہت آغاز میں میں اکثر ان سے ہومیو پیتھک دوا لیا کرتا تھا.بہت بار یک بار یک گولیوں میں بہت پتلی شیشیوں میں رکھا کرتے تھے اور بہت ہی مہربان اور پیار کرنے والے تھے اور کبھی کبھی تھوڑا تھوڑا ہو میو پیتھی کا سبق بھی دے دیا کرتے تھے.۱۹۶۳ء میں امریکہ تشریف لے گئے اور پٹس برگ میں قیام فرمایا.نو سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے.۱۹۷۲ء میں ڈیٹن

Page 115

خطبات طاہر بابت شہداء 98 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء مشن میں مقیم تھے اور تبلیغ اسلام میں ہمہ تن مصروف عمل تھے کہ ۶ امئی ۱۹۷۲ء کو داعی اجل نے پکارا اور آپ نے اپنی جان مولائے حقیقی کے حضور پیش کر دی.انالـلـه وانا اليه راجعون - عبدالرحمن صاحب بنگالی کی ایک بیٹی محترم هبتہ النور صاحب امیر ہالینڈ کی بیگم ہیں اور ان کی بیٹی پھر آگے ہمارے نوید مارٹی صاحب کی بیگم ہیں اور اللہ کے فضل سے یہ بھی بہت مخلص خاندان ہے.مکرم بشارت الرحمن صاحب قمر مکرم بشارت الرحمن صاحب قمر.تاریخ شہادت ۴ دسمبر ۱۹۸۲ء.مکرم بشارت الرحمن صاحب قمر جھنگ میں پیدا ہوئے.میٹرک پاس کرنے کے بعد جامعہ احمد یہ میں داخل ہوئے.یکم جولائی ۱۹۸۲ء کو میدان عمل میں مدرسہ چٹھہ ضلع گوجرانوالہ میں تقرر ہوا.وہیں فرائض منصبیہ ادا کرتے ہوئے ایک خادم دوست طاہر احمد کے ہمراہ اپنے علاقہ کی جماعتوں کے دورہ کے لئے موٹر سائیکل پر جارہے تھے کہ ۴ / دسمبر ۱۹۸۲ء کی شام کوعلی پور چٹھہ جاتے ہوئے علی پور شہر کے قریب پیچھے سے ایک تیز رفتار ٹرک آیا اور اس کی ٹکر کے نتیجہ میں دونوں ہی گرے اور دونوں کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی جس وجہ سے موقع پر ہی وفات پاگئے.انالله وانا اليه راجعون.مکرم بشارت الرحمن صاحب نے جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران ہی وصیت کر لی تھی.ان کا جنازه ۵/ دسمبر ۱۹۸۲ء کور بوہ لایا گیا.خاکسار کونماز عصر کے بعد آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کی توفیق ملی.بعدہ بہشتی مقبرے میں تدفین عمل میں آئی.بہت نیک فطرت ہمتین، کم گو اور وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر ان پر پورا اترنے والے تھے.مطالعہ کا بہت شوق تھا.اپنے سنٹر میں ان کے غیر احمدی احباب سے بھی دوستانہ مراسم تھے اور وہ سب ان کی بڑی قدر کیا کرتے تھے.مرحوم غیر شادی شدہ تھے.محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب اب میں مولانا عبدالمالک خان صاحب مرحوم شہید کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.یوم شہادت ۵/اگست ۱۹۸۳ء ہے.اگر چہ یہ ذکر کچھ لمبا ہو گیا ہے لیکن ان کے مقام اور مرتبے کے لحاظ سے اگر کچھ لمبا ہو بھی گیا تو کوئی حرج نہیں.لیکن ایک اور بات بھی ہے کہ نوٹس کی تیاری کے وقت جب میں ان شہداء کے نام اکٹھے کر رہا تھا اور ان کا ذکر خیر کر رہا تھا اس وقت تک مجھے علم نہیں تھا کہ اور کتنے شہداء کا ذکر ابھی باقی ہے.

Page 116

خطبات طاہر بابت شہداء 99 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء اس دوران مجھے سید عبدالحئی صاحب کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ اب تک جو دریافت ہو چکے ہیں راہ مولیٰ میں سفر اختیار کرتے ہوئے شہید ہونے والے ان کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے جو اور بھی بڑھ سکتی ہے.پس اس پر یہ خیال آیا کہ یہ سلسلہ تو پھر بہت لمبا چل جائے گا اور ابھی بہت سے دوسرے شہداء کا ذکر باقی ہے.اس لئے آئندہ انشاء اللہ میں اس مضمون کو مختصر کرنے کی کوشش کروں گا.ان کے اسماء بیان کر دوں گا کس موقع پر ، کس تاریخ کو شہید ہوئے اور مختصر ذکر ان کے پسماندگان کا کر دوں گا تاکہ ان کے لئے دعائے خیر کی تحریک ہوتی رہے.اس طرح انشاء اللہ آئندہ دو تین خطبوں کے اندر یہ ذکر مکمل ہو سکے گا.اب مولا نا عبدالمالک خان صاحب کا ذکر کرتا ہوں.آپ ۲۵ نومبر ۱۹۱۱ء کو رام پور میں پیدا ہوئے.۱۹۲۰ء میں قادیان آئے اور مدرسہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی.۱۹۳۴ء میں آپ نے پنجاب یو نیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا بعد ازاں دو سال مبلغین کلاس میں دینی تعلیم حاصل کی اور ۳۱ را کتوبر ۱۹۳۵ء سے آپ نے میدان تبلیغ میں عملی دینی خدمات کا آغا ز فرمایا.آپ کو ابتداء میں یوپی کے انچارج مبلغ کی حیثیت سے اہم ذمہ داری سونپی گئی.اس وقت آپ کا صدر مقام لکھنو تھا.۱۹۳۹ء میں یہ صدر مقام آگرہ منتقل ہو جانے کی وجہ سے آپ آگرہ آگئے.۱۹۴۰ء میں چند ماہ کے لئے کراچی میں کام کیا.۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۳ء تک کے عرصہ میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر آپ نے مسلسل اٹھارہ ماہ تک ہندوستان کے چار صوبوں کا تفصیلی دورہ فرمایا.۱۹۴۴ء میں آپ کی تقرری حیدر آباد دکن میں بطور مشنری انچارج کی گئی جہاں پر آپ نے ۱۹۴۸ء تک خدمات سرانجام دیں.تقسیم ملک کے بعد آپ کو لاہور بھجوایا گیا جہاں آپ نے آٹھ ماہ تک خدمات دینیہ سرانجام دیں.اس کے بعد آپ کی تقرری سے نومبر ۱۹۴۹ء کو کراچی میں بطور مبلغ انچارج کی گئی.۱۹۵۳ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جو تبادل انجمن کراچی میں قائم فرمائی تھی اس صدرانجمن احمد یہ کراچی کا آپ کو جنرل سیکرٹری مقرر فرمایا.اس زمانے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے آپ کو رئیس التبلیغ کا خطاب بھی عطا فرمایا.۱۹ار جون ۱۹۶۱ء کو آپ مغربی افریقہ کے ملک غانا میں بغرض تبلیغ تشریف لے گئے.آپ کے زمانہ میں کماسی کا مشن ہاؤس تعمیر ہوا.۱۹۶۴ء میں آپ واپس آئے تو پھر کراچی میں مربی سلسلہ مقرر کر دیا گیا جہاں آپ ۲۸ جون ۱۹۷۰ء تک دینی

Page 117

خطبات طاہر بابت شہداء 100 خطبہ جمعہ ۲۸ رمئی ۱۹۹۹ء خدمات بجالاتے رہے بعد ازاں آپ کو مرکز میں نائب ناظر اصلاح وارشاد مقرر کیا گیا اور اگلے سال ہی ناظر اصلاح وارشاد مقرر فرما دیا گیا.اس عہدہ پر آپ نے بارہ سال تک خدمات سرانجام دیں.آپ ۵/اگست ۱۹۸۳ء بروز جمعہ المبارک ایک تبلیغی سفر پر جاتے ہوئے شیخو پورہ کے قریب کار اور ٹرک کے حادثے میں زخمی ہوئے اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.انالله وانا اليه راجعون مختصر خاندانی حالات یہ ہیں کہ آپ حضرت ذوالفقار علی خان صاحب گوہر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تیسری زوجہ محترمہ کے بطن سے سب سے چھوٹے بیٹے تھے.آر کے بڑے بھائی مکرم حبیب اللہ خان صاحب ایم ایس سی تھے جوتعلیم الاسلام کا لج میں واقف زندگی پروفیسر رہے ہیں.ان کے بعد آپ کی ہمشیرہ، اہلیہ صاحبہ محترم خلیل احمد صاحب موگھیری ہیں اور ان کے بعد آپ تھے.مولانا کی اولاد میں ایک صاحبزادہ مکرم عبدالرب انور محمود خان آف کیلیفورنیا امریکہ اور چار صاحبزادیاں محترمہ فرحت صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر صالح الہ دین صاحب حیدر آباد دکن محترمه شوکت گوہر صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر لطیف احمد صاحب قریشی، محترمہ نصرت جہاں صاحبہ گائنا کالوجسٹ فضل عمر ہسپتال ربوہ اور محترمہ امتہ الحئی فضیلت صاحبہ اہلیہ مکرم سید حسین احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں.اب اس ذکر کو آج میں حضرت مولا نا عبد المالک خان صاحب شہید کے ذکر پر ختم کرتا ہوں اور اس کے بعد جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کچھ نہ کچھ تفصیل تو شاید بیان کرنی پڑے مگر حتی المقدور کوشش کروں گا کہ مختصر ہو.اللہ تعالیٰ ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی اولادوں کو جہاں جہاں بھی دنیا میں پھیل چکی ہیں دین و دنیا کی حسنات سے نوازتار ہے اور قیامت تک یہ شہادت کے علم بلند رکھیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ شہداء کے نقش قدم پر چل سکیں.

Page 118

خطبات طاہر بابت شہداء 101 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء واقفین زندگی شہداء کا ذکر (خطبه جمعه فرموده ۴ /جون ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ بقرہ کی یہ آیات تلاوت فرما ئیں: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة :۱۵۴ - ۱۵۵) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے مدد طلب کرتے رہو صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ.یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.شہداء کا جو میں ذکر کر رہا ہوں اس سلسلہ میں مختلف سفارشات مرکز سے موصول ہوتی رہیں کہ ان سب کو بھی شہداء میں شامل کرنا چاہئے جن کو اس قسم کی موت راہ خدا میں نصیب ہوئی.لیکن اگر ان کی سفارشات کو قبول کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عملاً ہر واقف زندگی خواہ وہ اپنے ملک میں ہو یا اس کو اگر اپنی مرکزی جگہ سے کچھ فاصلے پر وفات نصیب ہو جائے تو اس کو وہ شہداء کی فہرست میں شامل کر لینا چاہتے تھے لیکن میرے لئے اس میں وقت یہ تھی کہ اس طرح تو ہر واقف زندگی کی وفات جہاں بھی ہوگی وہ شہداء ہی کی فہرست میں شمار ہونا چاہئے کیونکہ شاذ کے طور پر ہی کوئی ہوگا کہ

Page 119

خطبات طاہر بابت شہداء 102 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء اپنے گاؤں میں بیٹھا ہوا ہو تو اس کی وہاں وفات ہو چکی ہو.پس اس پہلو سے یہ فہرست حد سے زیادہ پھیل جاتی اور کوئی معین جواز نہ ہوتا ایسے دوستوں کو شہداء قرار دینے کا.ویسے تو واقفین زندگی جو بچے ہوں ان کی موت خدا تعالیٰ کے نزدیک یقیناً ایک بہت بڑا مقام رکھتی ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کو کیا مراتب نصیب ہوں گے.پس یہاں مراتب کی بحث نہیں ہو رہی یہاں لفظ شہید کے اطلاق کی بات ہورہی ہے.پس اس ضمن میں جو میں نے فیصلہ کیا وہ اصولی طور پر یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں جو واقفین زندگی کام کرتے ہوئے حادثہ کا شکار ہو جائیں انہیں ہم نے بوجہ حادثاتی وفات کے شہداء میں شمار کیا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حادثاتی وفات کو بھی شہداء کے زمرہ میں شمار فرمایا ہے.جو کسی دوسرے ملک میں کام کرتے ہوئے چاہے حادثہ سے فوت ہوئے ہوں یا کسی اور طرح ان کی وفات ہوئی ہوا نہیں بھی شہداء کی فہرست میں شامل کر لیا گیا.ہر واقف زندگی جو طبعی موت سے اپنے ہی ملک میں کام کرتے ہوئے وہاں کسی بھی جگہ فوت ہوا ہو جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے خدا کے ہاں اس کا جو بھی مرتبہ ہو ہم نے اسے شہداء کی فہرست میں شامل نہیں کیا.اس اصول کا بڑی سختی سے اطلاق کرتے ہوئے جو واقفین شہداء کی فہرست تیار ہوئی ہے اب میں پہلے سلسلے سے بات شروع کر کے جہاں بات کو چھوڑا تھا اب آگے بڑھاتا ہوں.ڈاکٹر محمد یوسف شاہ صاحب اور آج اس خطبہ کا آغاز ڈاکٹر محمد یوسف شاہ صاحب کی شہادت کے واقعہ سے تعلق رکھتا ہے.حضرت ڈاکٹر محمد یوسف صاحب سید معصوم شاہ صاحب کے ہاں موضع مدینہ ضلع گجرات میں ۱۶ فروری ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوئے.آپ نے عین جوانی کے عالم میں ، طالب علمی کے دور میں ۱۹۱۸ء میں بیعت کی اور ۱۹۳۰ء میں اپنے آپ کو نظام وصیت سے منسلک کر دیا.آپ نے گورنمنٹ میں فوجی ڈاکٹر کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچے.۱۹۶۰ء میں آپ نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی زندگی بعد ریٹائر منٹ وقف کر دی.چنانچہ یکم نومبر ۱۹۶۱ء کو آپ خدمت دین کے لئے لیگوس نائیجیر یا پہنچے.آپ نے لیگوس میں احمد یہ ہسپتال کی بنیاد ڈالی.آپ کے اوصاف حمیدہ جن کے بیان میں کوئی بھی مبالغہ نہیں وہ مختصر یہ ہیں کہ آپ بے انتہا

Page 120

خطبات طاہر بابت شہداء 103 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء پابند صوم وصلوۃ ، بہت ملنسار، خلیق اور مخلوق خدا کا در درکھنے والے وجود تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی.خلفاء سلسلہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے اور امام وقت کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے تھے.اسلام اور احمدیت کی تبلیغ بے دریغ اور والہانہ انداز میں کیا کرتے تھے.آپ کی ڈسپنسری میں ہمہ وقت جماعتی لٹریچر موجود رہتا تھا.نائیجیر یا جماعت کے جملہ افراد آپ کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے اور آپ سے گہری محبت اور احترام کا تعلق رکھتے تھے.سانحہ ارتحال - ۱/۵اپریل ۱۹۶۹ء کے جلسہ سالا نہ نائیجیریا کے موقع پر صبح کے سیشن کی صدارت کی نماز اور طعام کے وقفہ کے لئے گھر جاتے ہوئے رستہ ہی میں دل کا دورہ پڑا.آپ کی میت ربوہ لائی گئی جہاں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر موصی ہونے کے باعث بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی.تدفین کے بعد حضور نے دعا کروائی.آپ کی اولا د جس شادی سے بفضلہ تعالیٰ زندہ رہی اور دین اور دنیا میں نشو و نما پارہی ہے وہ آپ کی تیسری شادی تھی جو اپنے ماموں سید احمد شاہ صاحب مرحوم کی صاحبزادی تاج سلطانہ صاحبہ سے ہوئی جن سے دو بچے ہیں.ایک سید محمد یحی خضر صاحب حال لا ہور اور دوسرے سید محمد عیسی پرویز صاحب فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد سول ایوی ایشن کے محکمہ میں بطور جنرل مینیجر کام کر رہے ہیں.میں گواہ ہوں کہ یہ دونوں بچے خدا کے فضل سے بہت ہی فدائی ہیں سلسلہ کے ادنیٰ خادم ہیں اور ان کی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ نے برکت عطا فرمائی ہے.آپ کی اہلیہ سیدہ تاج سلطانہ کی وفات ۱۹۹۲ء میں کراچی میں ہوئی اور چونکہ موصیبہ تھیں بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں.مولانا ابوبکر ایوب صاحب مولانا ابوبکر ایوب صاحب انڈونیشیا کے رہنے والے تھے.تاریخ وفات ۱۵،۱۴ ستمبر ۱۹۷۲ء کی درمیانی رات.مولانا ابوبکر الیوب انڈونیشیا کے ان اولین احمدیوں میں سے تھے جو ۱۹۲۴ء میں قادیان آئے.وہاں انہیں بیعت سے مشرف ہونے اور پھر دینی تعلیم حاصل کرنے کی توفیق ملی.یعنی جب قادیان آئے تھے تو اس وقت احمدی نہیں تھے.آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا.آپ کو انڈونیشیا کے علاوہ ہالینڈ میں بھی تبلیغی فرائض سرانجام دینے کی توفیق ملی.آپ کا وصال ہالینڈ میں ہی ڈیوٹی پر مامور ہونے کی حالت میں ہوا.

Page 121

خطبات طاہر بابت شہداء 104 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء مولوی صاحب موصوف نہایت نیک فطرت ، ملنسار، خوش اخلاق، شیریں گفتار اور بے حد محنتی تھے.لباس کی عمدگی اور صفائی کا بڑا خیال رکھتے تھے.وقت کے بہت پابند تھے.شیریں گفتار تھے.مجھے بھی اس زمانہ میں جب یہ ہالینڈ میں تھے وہاں ان سے ملنے کی توفیق ملی تھی اور میں نے خصوصیت سے یہ بات محسوس کی تھی کہ بہت ستھرا اور صاف لباس پہننے کے عادی تھے اور کافی (Coffee) بنانے میں بہت ماہر تھے.چنانچہ سب سے پہلا کافی کا چسکا مجھے ان کی بنی ہوئی کافی سے ہوا تھا.آپ نے مختصر علالت کے بعد سڑسٹھ (۶۷) سال کی عمر میں وفات پائی.بوقت وفات آپ وہاں کے مشنری انچارج تھے.آپ کی میت ربوہ پہنچائی گئی جہاں۲۳ ستمبر ۱۹۷۲ء کو نماز جمعہ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مسجد اقصیٰ میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.آپ کے وصال کے وقت آپ کے بچے انڈو نیشیا میں مقیم تھے.آپ نے اپنی بیوہ کے علاوہ چار بیٹے اور چار بیٹیاں بطور یادگار چھوڑے.آپ کے بڑے بیٹے انہیں احمد یعقوب صاحب اس وقت جکارتہ میں ایک انجینئر نگ کمپنی میں ڈائریکٹر ہیں اور دو بیٹے عبدالحمید صاحب اور عبدالمغنی صاحب بھی جکارتہ میں رہتے تھے.اول الذکر ملازم ہیں اور دوسرے بزنس مین ہیں.چاروں بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ جہاں ان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ترقی عطا فرمائی ہے ان کی اولاد کو دین میں بھی بہت مخلص بنایا ہے اور یہ سارے بچے خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے مخلص خادم ہیں.مکرم ظاہر احمد صاحب، مکرم جوا درشید خان صاحب اور مکرم خواجہ اعجاز احمد صاحب لاہور اب ظاہر احد صاحب، جواد رشید احمد خان صاحب ایڈووکیٹ نائب قائد ضلع لا ہور اور خواجہ اعجاز احمد صاحب ناظم اطفال ضلع لاہور کی شہادت کا واقعہ بیان کرتا ہوں.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث لاہور سے ربوہ آرہے تھے.لاہور کے خدام کا ایک گروپ جو پانچ افراد پر مشتمل تھا، حفاظتی نقطہ نظر سے حضور انور کے قافلہ کے پیچھے آرہا تھا.پنڈی بھٹیاں سے چھ کلو میٹر دور ایک ٹرک کو اوور ٹیک کیا تو سامنے ایک سائیکل سوار کو دیکھ کر اسے بچانے کے لئے کار روکنے کی کوشش کی اور اسی کوشش میں کار ایک درخت سے جاٹکرائی جس سے مکرم ظاہر احمد صاحب، مکرم خواجہ اعجاز احمد صاحب

Page 122

خطبات طاہر بابت شہداء 105 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء اور مکرم جوا در شید احمد خان صاحب نے موقع پر ہی دم تو ڑ دیا اور ان کے ایک ساتھی بہت زخمی ہوئے.شہید ہونے والے خدام میں سے قائد ضلع مکرم ظاہر احمد صاحب روہڑی کے رہنے والے تھے اور ملازمت کے سلسلہ میں لاہور منتقل ہو چکے تھے.دوسال سے قائد ضلع لاہور تھے.آپ نے اپنے سوگوار والدین کے علاوہ ایک بیوہ، تین لڑکیاں اور ایک لڑکا یادگار چھوڑے.بیٹیوں میں سے ایک کی شادی ہوچکی ہے.دولڑ کیاں کراچی یونیورسٹی میں B.Sc کی طالبات ہیں.بیٹا الیکٹرونکس انجینئر نگ کر کے فلپس کمپنی میں ملازم ہے اور کراچی میں مقیم ہے.مکرم جواد رشید احمد خان صاحب ابن ملک بشیر احمد صاحب بوقت شہادت نائب قائد ضلع لاہور تھے.آپ کی عمر ۲۷ برس تھی.آپ کے بڑے بھائی مکرم زرتشت منیر احمد صاحب (حال ناروے) کراچی کے قائد ضلع تھے.حلقہ محمد نگر لاہور کے مکرم خواجہ اعجاز احمد صاحب ابن مکرم خواجہ محمد اکرم صاحب حادثہ کے شکار ہونے والے خدام میں سب سے چھوٹی عمر کے تھے.کوئی ۲۳ ۲۴ سال عمر ہوگی.شہادت سے ایک سال پہلے آپ نے ایم ایس سی فزکس کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے دوئم پوزیشن میں پاس کیا تھا اور مجلس نصرت جہاں کے لئے اپنی خدمات پیش کر رکھی تھیں.آپ کے چھوٹے بھائی خواجہ ایاز احمد صاحب بھی واقف زندگی ہیں اور جامعہ احمدیہ میں بطور استاد اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ موصی تھے چنانچہ آپ کو بہشتی مقبرہ میں تدفین کی سعادت نصیب ہوئی جبکہ دوسرے شہداء کو قبرستان نمبر میں دفن کیا گیا.سوا چار بجے سہ پہر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بہشتی مقبرہ کے میدان میں نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد پہلے مکرم خواجہ اعجاز احمد صاحب کی قبر کی تیاری میں حضور نے شرکت فرمائی اور قبر تیار ہونے پر دعا کرائی.پھر قبرستان نمبرا تشریف لے گئے جہاں آپ باقی دونوں شہداء کی تدفین تک ٹھہرے رہے اور آخری دعا کروائی.محترم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب اب محترم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کا نو نائیجیریا کی وفات کا ذکر کرتا ہوں.تاریخ وفات جولائی ۱۹۸۱ء.ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب حضرت مولوی سعد الدین صاحب آف کھاریاں کے بیٹے تھے.ربوہ میں بھی آپ کو خدمت کی بہت توفیق ملی اور اتنے ہمدرد تھے اور غریبوں کا علاج مفت کرتے

Page 123

خطبات طاہر بابت شہداء 106 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء تھے کہ بہت کم ڈاکٹروں کو جو ربوہ میں متعین رہے ہیں اتنی ہر دلعزیزی حاصل ہو گی جتنی ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کو تھی.۱۹۶۲ء میں کانو نائیجیر یا بطور مشنری ڈاکٹر تقرر ہوا.مسجد میں ہی کلینک شروع کیا اور اس کی آمد سے زمین خریدی اور ایک بہت بڑا ہسپتال بنایا.آج کل وہاں جو ہسپتال ہے انہی کا بنایا ہوا ہے.احمد یہ سکول کا نو کی زمین بھی ڈاکٹر صاحب نے ہی خریدی اور ۱۹۸۱ء میں دل کے حملہ سے نائیجریا میں ہی وفات ہوئی.انا للہ وانا اليه راجعون.آپ کا جنازہ ربوہ لے جایا گیا.آپ کے پسماندگان میں دو بیٹے ڈاکٹر انوار الدین صاحب ( حال THI ربوہ ) اور ڈاکٹر جمال الدین صاحب ضیاء امریکہ میں مقیم ہیں.ایک بیٹی بھی امریکہ میں ہیں اور دوسری بیٹی کینیڈا میں ہیں.مکرم قریشی محمد اسد اللہ صاحب کا شمیری مکرم قریشی محمد اسد اللہ صاحب کا شمیری.تاریخ وفات ۲۶ /اگست ۱۹۸۲ء.مرحوم ۱۹۲۶ء میں وادی کشمیر کی شمال مغربی تحصیل ہندواڑہ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کے علاوہ اپنے طور پر دینی تعلیم حاصل کرتے رہے.ان کو پاکستان میں خدمت کی توفیق ملی ہے.پاکستان ہی میں وفات ہوئی ہے لیکن کشمیر کا وہ حصہ جس میں یہ پیدا ہوئے تھے ان کا وطن تھا نہ کہ پاکستان.پاکستان ان کا نانی وطن بنا ہے اس لئے ان کی بعض دوسری خوبیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کو بھی شہداء کی فہرست میں شامل سمجھا گیا ہے.ابتدائی تعلیم کے علاوہ اپنے طور پر دینی تعلیم حاصل کرتے رہے.۱۹۴۸ء میں پاکستان آگئے.۱۹۵۰ء کے لگ بھگ جب آپ حکومت پاکستان کی طرف سے واہ کے کشمیری مہاجرین کے کیمپ میں دینی معلم تھے تو جماعت احمدیہ سے متعارف ہوئے اور تحقیق حق کی غرض سے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے لگے.مسلسل آٹھ نو سال تک بڑے غور سے مطالعہ کرنے کے بعد جب آپ کو پوری طرح شرح صدر نصیب ہو گیا تو ۱۹۵۹ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے اور پھر اپنی زندگی وقف کر دی.آپ کو بطور مربی گلگت، ایبٹ آباد، کیمبل پور (اٹک)، مظفر آباد اور کوٹلی میں بڑی خوش اسلوبی اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے منصبی فرائض نبھانے کی توفیق ملی.آپ مربی سلسلہ کے فرائض کے ساتھ ساتھ علمی تحقیق میں بھی ہمیشہ مصروف رہے.چنانچہ آپ نے کئی اعلیٰ مرتبہ کی تحقیقی کتب اور پمفلٹ اپنی یاد گار چھوڑے ہیں.آپ نے تین مرتبہ فضل عمر

Page 124

خطبات طاہر بابت شہداء 107 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء فاؤنڈیشن کا علمی تصانیف پر دیا جانے والا انعام بھی حاصل کیا.مرحوم بڑے حلیم الطبع اور سادہ تھے.فرض شناسی، نیکی، دیانت اور محنت آپ کی نمایاں صفات تھیں.وفات کے وقت آپ کوٹلی آزاد کشمیر میں بطور مربی متعین تھے.اگست ۱۹۸۲ء کے تیسرے ہفتہ میں ملیر یا بخار سے بیمار ہوئے.بخار میں کمی آئی تو ۲۶ را گست کو دل کے شدید حملہ سے جانبر نہ ہو سکے.انا لله وانا اليه راجعون - مرحوم موصى تھے اس لئے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی.آپ کی اہلیہ آپ کی وفات کے دو سال بعد وفات پا گئیں.آپ کی ایک ہی بیٹی مریم ہیں جور بوہ کے محلہ دار العلوم شرقی میں رہتی ہیں.مولوی برکت اللہ محمود صاحب مربی سلسلہ محترم مولوی برکت اللہ محمود صاحب مربی سلسلہ.۷ اکتوبر ۱۹۸۳ء کی صبح دس بجے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے حادثہ میں شدید زخمی ہو گئے.اس کے بعد مسلسل بے ہوش رہے اور اسی بیہوشی میں ان کی وفات ہوئی.بوقت وفات ان کی عمر ۵۲ سال تھی.مجھے بھی ان کا کلاس فیلو ہونے کا شرف حاصل رہا.بہت نیک دل، خوش مزاج اور سلسلہ سے بہت محبت رکھنے والے وجود تھے.مرحوم کا جنازہ ۱۴ اکتوبر کی صبح ربوہ پہنچا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.مرحوم عرصہ ڈیڑھ سال سے لاہور میں متعین تھے اور اس سے قبل لمبا عرصہ ملتان میں خدمات بجالاتے رہے.مرحوم نے اپنی یادگار اپنی بیوی کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے ہیں.بیٹیاں سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے شادی شدہ ہیں اور خوش ہیں.الحاج محمد ابراہیم بی چی صاحب مکرم الحاج محمد ابراہیم بی چی (Bichi) صاحب.سن وفات ۱۹۸۴ء.مکرم الحاج محمد ابراہیم صاحب بیچی کانو نائیجیریا کے رہنے والے تھے.ہا ؤ سا قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور لوکل مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے.آپ ایک صاحب علم شخص تھے.دعوت الی اللہ کا بے حد شوق تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی کتب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا.مخالفین نے ان کو پیشکش کی کہ ان کے ساتھ شامل ہو جائیں تو اعلیٰ عہدہ ، کار اور تمام سہولتیں مہیا کی جائیں گی.آپ نے اس پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا دیا.۱۹۸۴ء میں کانو سے باؤچی (Bauchi) تبلیغی دورے پر جارہے تھے ٹیکسی کے حادثہ میں شدید زخمی ہو گئے.محترم محمد میشا نو صاحب جو موجودہ امیر جماعت

Page 125

خطبات طاہر بابت شہداء 108 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء نائیجیریا ہیں نے انہیں ہسپتال پہنچایا.بظاہر حالت تسلی بخش تھی اور ڈاکٹرز نے بھی اس حالت پر اطمینان کا اظہار کیا تھا لیکن جب محترم میشا نو صاحب انہیں ہسپتال پہنچا کر اپنے گھر پہنچے تو ایک گھنٹے کے بعد ہی حالت اچانک بگڑ گئی اور وفات پا گئے.آپ کا جنازہ کا نولا یا گیا اور وہاں تدفین ہوئی.آپ کی یو کا نو میں مقیم ہیں اولاد کو ئی نہیں تھی.مکرم قریتی محمد اسلم صاحب مبلغ ٹرینیڈاڈ مکرم قریشی محمد اسلم صاحب مبلغ ٹرینیڈاڈ مکرم قریشی محمد اسلم صاحب ۱۸ نومبر ۱۹۳۹ء بروز جمعہ قادیان میں پیدا ہوئے.آپ کے والد قریشی محمد احسن صاحب مرحوم تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں استاد تھے اور دادا مکرم حافظ محمد حسین صاحب حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے رفقاء میں سے تھے.قریشی صاحب نے ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی.۱۹۵۶ء میں آپ نے اپنی زندگی وقف کر دی اور ۱۹۵۷ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد جامعتہ المبشرین میں داخلہ لیا.جامعہ سے فارغ ہونے پر ۲۷ مئی ۱۹۶۳ء سے با قاعدہ طور پر خدمت سلسلہ کا آغاز کیا.مئی ۱۹۶۹ء میں محترم قریشی صاحب ماریشس تشریف لے گئے جہاں ۱۹۷۳ء تک اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ سرانجام دیتے رہے.مئی ۱۹۷۵ء میں آپ گیانا گئے جہاں جولائی ۱۹۸۳ء تک خدمات سلسلہ بجالاتے رہے.اس کے بعد آپ کی تقرری ٹرینیڈاڈ میں بطور مربی سلسلہ ہوئی جہاں آپ اپنی شہادت کے نیک انجام تک پہنچے.ان کی شہادت کا واقعہ ایک پہلو سے ایک ایسا رنگ بھی رکھتا ہے جیسے عمداً ان کو محض احمدیت کی وجہ سے قتل کیا گیا ہے.لیکن جو حالات ہیں وہ مشکوک ہیں اس لئے ان کو شہادت کی حیثیت تو ہر لحاظ سے حاصل ہے ہی مگر معین طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خالصہ احمدیت کی بنا پر ان کو شہید کیا گیا تھا.غالباً کرائے کے قتل کرنے والے کو کسی دشمن نے پیسے دے کر ان کی شہادت پر آمادہ کیا ہے.محترم قریشی صاحب ا ر ا گست ۱۹۸۵ ء کی شام اپنے بیٹے محمد نصیر قریشی کے ساتھ کار میں بیٹھ کر جارہے تھے رستہ میں تین نامعلوم افراد نے آپ کو اپنی کا روکنے کا اشارہ کیا اور قریشی صاحب کو کار سے باہر بلایا.آپ کار سے باہر آئے تو ایک شخص نے فوراً پستول آپ کی کنپٹی پر رکھ کر فائر کر دیا جس کے نتیجہ میں آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے.انا لله و انا الیه راجعون.شہادت کے وقت آپ کی عمر ۴۶ سال

Page 126

خطبات طاہر بابت شہداء 109 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء تھی.جو بیٹا کار میں بیٹھا ہوا تھا اسے کچھ نہیں کہا نہ کوئی لوٹ مار کی ہے.معلوم ہوتا ہے کسی پیسے یا کسی لالچ کی خاطر ایسا کام نہیں کیا گیا.۱۹ار اگست کو آپ کا جنازہ ربوہ میں ادا کرنے کے بعد بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.مکرم قریشی صاحب کی شادی ۱۹۶۶ء میں ان کی چچازاد محترمہ شمس النساء بیگم صاحبہ بنت قریشی محمد اکمل صاحب کے ساتھ ہوئی تھی.قریشی صاحب نے اپنی یادگار ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں.یہ کینیڈا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آباد ہیں.مکرم عبدالمالک آدجے صاحب غانا مکرم عبدالمالک آدجے صاحب غانین.۱۹۶۰ء میں آپ کا تقر رگھانا میں سرکٹ مشنری کے طور پر ہوا.بڑے پر جوش داعی الی اللہ تھے اور تبلیغ کی خاطر دور دراز علاقوں کا سفر پیدل کیا کرتے تھے.۱۹۸۶ء میں مجلس انصار اللہ کے اجتماع میں شمولیت کے لئے ابورا (Abura) آئے.واپس روانگی پر ان کی کار کو ایک گاڑی سے ٹکرانے پر حادثہ پیش آیا جس کے نتیجہ میں آپ جانبر نہ ہو سکے اور ۳۱ /اکتوبر ۱۹۸۶ء کو راہی ملک بقا ہوئے.آپ کی عمر بوقت وفات چھیالیس سال تھی.آپ نے اپنے پیچھے دو بیوائیں اور تین بیٹے اور سات بیٹیاں بطور یادگار چھوڑی ہیں.ساری بیٹیاں شادی شدہ ہیں.ایک بیٹا تاجر ہے اور دو بیٹے پٹرول سٹیشن پر کام کرتے ہیں.سارا خاندان خدا کے فضل سے دنیا کے لحاظ سے بھی ٹھیک ہے اور دین کے لحاظ سے بھی.مکرم مولوی محمد احمد اموسا مینسا صاحب غانا مکرم مولوی محمد احمد امو سا مینسا صاحب غانین.مولوی محمد احمد اموسا مینسا صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ کے فارغ التحصیل تھے اور ۱۹۸۶ء میں شاہد کی ڈگری اور فقہ میں تخصص کرنے کے بعد گھانا واپس تشریف لائے جہاں سنٹرل ریجن میں بطور مرکزی مبلغ مقرر ہوئے.۱۸ ستمبر ۱۹۸۸ء کو لجنہ اماءاللہ گھانا کے مرکزی اجتماع میں شمولیت کے لئے لجنات کے ساتھ ایک بس میں سوار وا (WA) شہر جارہے تھے کہ بس کا ٹائر پھٹنے کی وجہ سے حادثہ پیش آیا اور مولوی صاحب اسی حادثہ کے نتیجہ میں وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.شہادت کے وقت آپ کی عمر چھتیس برس تھی اور پسماندگان میں ایک بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا چھوڑا جو اس وقت سکول میں زیر تعلیم ہے.-

Page 127

خطبات طاہر بابت شہداء 110 مکرم مبارک احمد صاحب ساقی لندن خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء مکرم مبارک احمد صاحب ساقی مبلغ انگلستان تاریخ وفات ۶ ارمئی ۱۹۹۲ء.مکرم مبارک احمد ساقی صاحب مکرم چوہدری فضل دین صاحب کے بیٹے اور حضرت چوہدری پیر محمد صاحب صحابی حضرت اقدس مسیح موعود کے پوتے تھے.۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۲ء تک مولوی فاضل اور شاہد کلاس میں کامیابی کے بعد بطور واقف زندگی میدان عمل میں کام شروع کر دیا.ہم دونوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کلاس فیلو ہونے کا موقع ملا.آپ کو امیر ومشنری انچارج کے طور پر لائبیریا میں بھی خدمت کی توفیق ملی.۱۹۷۸ء میں انگلستان تقرر ہوا.اس دوران آپ نائب امام مسجد فضل لندن کے طور پر خدمت سرانجام دیتے رہے.پھر ۱۹۸۴ء میں میری انگلستان ہجرت کے بعد آپ مختلف اہم مرکزی عہدوں پر فائز رہے.ایک عرصہ سے دل کے عارضہ میں مبتلا تھے.آخر ۱۶ رمئی ۱۹۹۲ء کو دل کے حملہ سے ہی وفات پائی.انا للہ وانا الیہ راجعون.پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ پہلی بیوی سے ایک بیٹا منصور احمد ساقی اور بیٹی سارہ ہیں جو یہاں لندن میں مختلف جماعتی کاموں یہیں خدمت کی سعادت پر ہے ہیں.مکرم مسعود احمد صاحب بیلمی مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی.تاریخ وفات ۲۳ اگست ۱۹۹۲ء.یہ عجیب اتفاق ہے کہ جن واقفین کا ذکر ہو رہا ہے یہ بہت سے میرے کلاس فیلو بھی رہے ہیں.مسعود احمد صاحب جہلمی کا مجھے یاد نہیں ہے شاید یہ کلاس فیلو نہ رہے ہوں.مگر پہلے تھے یہ نہیں تھے.کیونکہ یہ مجھ سے بہت جونیئر تھے.آپ مکرم عبدالرحیم صاحب نیا محلہ جہلم کے فرزند تھے.اپریل ۱۹۳۴ء میں پیدا ہوئے.۱۹۵۷ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.۱۹۶۰ء میں مربیان کلاس پاس کی ،اس کے بعد بی.اے اور پھر ۱۹۶۵ء میں ایم.اے کیا.جولائی ۱۹۶۰ ء سے آپ نے کام شروع کیا.آپ کو بیرون ملک نائیجیریا، لائبیریا، انگلستان، سوئٹزر لینڈ اور جرمنی میں خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.وفات کے وقت جرمنی میں خدمات سرانجام دے رہے تھے.ہر ابتلاء میں حیرت انگیز صبر و ثبات دکھایا اور اس کا میں خود ذاتی طور پر گواہ ہوں کہ کسی وجہ سے میں ان سے ناراض ہوا اور ان کی جو ترقیات تھیں ساری ختم کر کے ان کو ایک عام شہری کے طور پر وہاں رکھا اور اسی حیثیت سے واقف زندگی کے طور پر خدمت کرنے کا موقع دیا لیکن ایک ذرہ بھی ان کی زبان سے کوئی شکوہ ظاہر نہیں ہوا.اپنی اولاد کو نصیحت کرتے رہے کہ

Page 128

خطبات طاہر بابت شہداء 111 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء مرکز سے اپنا تعلق فدائیت کا قائم رکھنا.یہ جو خاص ان کا جذ بہ تھا اس نے میرے دل کو موہ لیا.آپ ۲۳ را گست ۱۹۹۲ء کو دل کی تکلیف کے باعث جرمنی میں وفات پاگئے.انا لله و انا اليـــه راجعون.آپ کی تدفین فرینکفرٹ مشن کے قریب ہی ایک قبرستان میں ہوئی.انہوں نے اپنی اولاد اور متعلقین کو بھی ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ نظام جماعت سے پوری طرح وابستہ رہیں.ان کی اس وفا کو دیکھ کر ان کی وفات پر میرے دل میں خیال آیا کہ ان کی قبر کے کتبہ پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا یہ مصرعہ لکھنا چاہئے.ع بے وفاؤں میں نہیں ہوں میں وفاداروں میں ہوں وہ واقعی وفادار تھے.اسی روز جمعہ کے بعد خاکسار نے ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی.ان کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.بڑے بیٹے لقمان احمد صاحب واقف زندگی ہیں اور آجکل امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں.دوسرے بیٹے سلمان احمد صاحب واشنگٹن میں بطور بینک مینیجر ر کام کر رہے ہیں.تیسرے بیٹے محمد ذبیح صاحب میری آخری ملاقات تک وہاں پڑھائی کر رہے تھے.بڑی بیٹی منصورہ اسد شادی شدہ ہیں اور واشنگٹن میں مقیم ہیں، ان کے پھر دو بیٹے ہیں.دوسری بیٹی قدسیہ مسعود 11th میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں.یعنی شہید مرحوم کی دوسری بیٹی قدسیہ ابھی طالبہ علم ہیں.مکرم مبشر احمد چودھری صاحب مبلغ نائیجیریا مبشر احمد چودھری صاحب مربی سلسلہ کا نو نایجیر یا.تاریخ شہادت سے اردسمبر ۱۹۹۲ء.آپ ۱۷ دسمبر ۱۹۹۲ء کو دعوت الی اللہ کے لئے دیگر دوستوں کے ساتھ ایک سفر پر جارہے تھے کہ ان کی کار کھائی میں گر گئی.مکرم مبشر احمد چودھری صاحب نے موقع پر ہی دم تو ڑ دیا جبکہ دوسرے دو ساتھی زخمی ہو گئے.ان کے امیر صاحب نے حلفاً گواہی دی کہ ایک سال قبل مکرم مبشر احمد صاحب نے انہیں یہ بات بتائی تھی کہ جب میں ربوہ سے چلنے لگا تو میری بیوی نے خواب دیکھا تھا کہ اس کا خاوند خدمتِ دین کے سفر سے کفن میں لپٹا ہوا واپس آیا ہے.اب دیکھیں کس طرح احمدیت کی تاریخ میں اللہ تعالیٰ یہ نشانات ظاہر فرماتا ہے.کوئی جاہل سے جاہل بھی اگر تعصب سے پاک ہو تو غور کرے کہ یہ ساری شہادتیں ہی احمدیت کی پیشگی کی زندگی کی گواہ بن جائیں.ان کے پسماندگان میں بیوہ مکرمہ امتہ المتین

Page 129

خطبات طاہر بابت شہداء 112 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء صاحبہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.بڑی بیٹی نداء افتح ۱۲ سال کی ہیں ، بیٹا باسل احمد دس سال کا ہے اور چھوٹی بیٹی سائرہ احمد کی عمر آٹھ سال ہے.تینوں بچے ربوہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.مکرم محمد کمال الدین صاحب آیودیجی ، نائجیریا مکرم محمد کمال الدین صاحب آیو دیجی ، نائجیرین.تاریخ وفات ۴ / دسمبر ۱۹۹۳ء.آپ نے ۱۹۸۰ء میں زندگی وقف کی اور تقریباً بیس سال تک اخلاص سے خدمت دین سرانجام دیتے رہے.جماعت احمدیہ نائجیریا کے اولین موصیان میں سے تھے.جماعت کے ایک کارکن کی اہلیہ کے ہاں پیدائش متوقع تھی اور فوری طور پر ہسپتال لے جانا ضروری تھا.اس وقت فون کام نہیں کر رہا تھا آپ موٹرسائیکل پر ایمبولینس لینے کے لئے گئے واپسی پر موٹر سائیکل کو حادثہ پیش آنے سے ان کی وفات ہوگئی.انا للہ وانا الیہ راجعون.پسماندگان میں ایک بیوہ کے علاوہ ایک لڑکا اور چھ لڑکیاں چھوڑیں.بیٹا اسوقت او لیول کر رہا ہے.سب بچے خدا کے فضل سے احمدی ہیں اور جماعت کے کاموں میں بہت مستعد ہیں.محترم چوہدری محمد عیسی صاحب انگلستان محترم چوہدری محمد عیسی صاحب انگلستان - تاریخ وفات ۳۰ رستمبر ۱۹۹۴ء.محترم چوہدری محمد عیسی صاحب مکرم چودھری محمد یوسف صاحب آف مالو کے بھگت ضلع سیالکوٹ کے بیٹے تھے.۱۹۶۵ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی.کئی سال کینیا میں بطور مبلغ کام کیا.۱۹۸۲ء میں آپ کا تقرر انگلستان میں ہوا.میری لندن آمد پر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں تقرری ہوئی اور وفات سے چند روز قبل تک نہایت محنت سے مفوضہ امور سرانجام دیتے رہے.وفات سے چند روز قبل ہسپتال میں داخل ہوئے اور پھر ہسپتال سے گھر واپس نہیں آئے اور اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.انا للہ وانا اليه راجعون.آپ کے پسماندگان میں آپ کی بیوہ محترمہ طاہرہ عیسی کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں جو اللہ کے فضل سے دین ودنیا کی نعمتوں سے متمتع ہیں.مکرم علی حید را پل صاحب مبلغ سلسلہ مکرم علی حیدر او پل صاحب مبلغ سلسلہ.آپ ۱۲ را گست ۱۹۴۱ء کو مہدی پورضلع سیالکوٹ میں میاں محمد رمضان صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.آپ پیدائشی احمدی تھے.مئی ۱۹۷۲ء کو شاہد کی

Page 130

خطبات طاہر بابت شہداء 113 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء ڈگری حاصل کی.آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۲۳ سال تک خدمت دین کی توفیق پائی.بیرونی ممالک میں آپ غانا، گیمبیا اور کینیڈا میں خدمات سرانجام دیتے رہے.آپ گیمبیا سے رخصت پر اپنے بچوں کو ملنے کینیڈا آئے ہوئے تھے.۳۰ را پریل ۱۹۹۵ء کو کینیڈا ہی میں کار کے ایک حادثہ میں شہید ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.بوقت شہادت آپ کی عمر ۴ ۵ سال تھی.آپ نے اپنی بیوہ کے علاوہ اپنے پیچھے بطور یادگار تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑے ہیں.آپ کی شہادت سے پہلے ہی بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی تھی جواب امریکہ میں ہیں.بڑے بیٹے محمد افضل صاحب پی ایچ ڈی کر رہے ہیں.دوسرے بیٹے محمد حسن اور محمد انور زیر تعلیم ہیں.اول الذکر الیکٹریکل انجینئر نگ میں اور محمد انور مکینیکل انجینئر نگ میں ہیں.چھوٹی بیٹی امتہ الرؤف کی بھی شادی ہو چکی ہے اور سسکاٹون کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں.سارے بچے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے گئے ہیں.مکرم مبشر احمد صاحب باجوہ جرمنی مکرم مبشر احمد صاحب باجوہ شہید آف جرمنی.مبشر احمد صاحب باجوہ جماعت احمد یہ جرمنی کے سرگرم کارکن اور فدائی احمدی تھے.خلافت احمدیہ سے ایسا عشق تھا کہ اس عشق میں ہمیشہ مگن رہتے تھے.مختلف حیثیتوں سے جماعت جرمنی کی بہت عمدہ خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی.زندگی کے آخری ایام میں ایم ٹی اے کی ذمہ داری ان کے سپر د تھی اور سارے جرمنی میں حلقہ وار کارکنوں اور کارکنات کی ٹیمیں بنا کر بہت عمدگی سے اس کام کو منظم کیا اور یہی منتظم کام ہے جواب بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے.ایم ٹی اے کے کاموں کے سلسلہ میں ہی اپنے بیٹے کے ہمراہ لندن آئے ہوئے تھے اور ٹیسٹس وغیرہ تیار کروا کر واپس جرمنی جارہے تھے کہ ۲۳ راگست ۱۹۹۵ء کو دوران سفر ایک حادثے کے نتیجے میں شہید ہو گئے.انا لله وانا اليه راجعون.آپ نے بیوہ کے علاوہ دو بیٹے محمد مظفر باجوہ اور محمد احسن باجوہ چھوڑے ہیں.دونوں بھائی جماعتی کاموں میں فدائیت کی روح سے حصہ لیتے ہیں.اول الذکر اپنے باپ کے نقش قدم پر ایم ٹی اے جرمنی کی بہت عظیم الشان خدمت کر رہے ہیں اور بطور ایڈیشنل سیکرٹری اس خدمت پر فائز ہیں اور ان کا ارادہ ڈینٹسٹ (Dentist) بننے کا ہے.اللہ ان کو اچھا ڈاکٹر بننے کی توفیق بخشے.احسن باجوہ بھی ایم ٹی اے کی ٹیکنیکل ٹیم کی روح رواں ہیں.

Page 131

خطبات طاہر بابت شہداء 114 مکرم احسان احمد باجوہ صاحب انگلستان خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء مکرم احسان احمد باجوہ صاحب انگلستان - مکرم احسان احمد باجوہ صاحب اگر چہ مبلغ تو نہیں تھے مگر اپنی زندگی وقف بہر حال کر دی تھی اور بہت اخلاص سے زندگی وقف کی تھی.مکرم احسان باجوہ صاحب، مکرم یوسف باجوہ صاحب حال جرمنی کے صاحبزادے تھے.آپ ۱۹۸۶ء میں جماعتی خدمت پر انگلستان تشریف لائے اور جماعت کے لئے کارپینٹر کے طور پر اپنی خدمت کا عرصہ پورا ہونے سے پہلے ہی ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی.بڑے محنتی اور خاموش طبع کا رکن تھے.اکتوبر ۱۹۹۵ء میں بیماری کے اچانک حملہ کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوئے اور کچھ عرصہ قومہ (Comma) میں رہ کر بالآخر۱۲ راکتو بر ۱۹۹۵ء کو ہسپتال میں ہی وفات پائی.انــا للـه وانــا الـيـه راجعون.آپ کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو یو کے میں مقیم ہیں.ایک بیٹی جرمنی میں بیاہی ہوئی ہے.سب ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے دینی اور دنیاوی حسنات سے نوازے گئے ہیں.مکرم الحاج السيد علمی الشافعی انگلستان مکرم الحاج السيد علمی الشافعی انگلستان.تاریخ وفات ۱۲ فروری ۱۹۹۶ء.محترم السید حلمی الشافعی صاحب قاہرہ مصر میں ۱۹۲۹ء میں پیدا ہوئے.۱۹۶۵ء میں قبول احمدیت کی سعادت پائی.۱۹۸۶ء میں آپ نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور خدمت دین کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی.۱۹۹۴ء میں مرکز کی ہدایت پر برطانیہ تشریف لے آئے اور یہاں سلسلہ کی کتب کے عربی ترجمہ کے کام میں ہمہ تن مصروف ہو گئے.مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ پر لقاء مع العرب“ پروگرام کے اجراء پر آپ کو اس خدمت کا موقع ملا کہ میرے انگریزی جوابات کا ساتھ ساتھ عربی ترجمہ پیش کرتے تھے اور تر جمانی میں آپ کو ایک ایسی خصوصیت حاصل تھی کہ میں نے اور کسی ترجمان کو اس صفت سے مزین نہیں دیکھا.ایک تو رواں فصیح عربی میں ترجمہ ساتھ ساتھ کرنا اور پھر دل ڈال کر ایسے ترجمہ کرنا گویا کہ میں ہی خود عربی بول رہا ہوں.یہاں تک ترجمہ کا کمال تھا کہ جب میری آنکھوں میں آنسود یکھتے تھے تو ان کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو جاتے تھے ، جب میں ہنستا تھا تو یہ بھی ہنتے تھے.بہت عظیم الشان انسان تھے.خدا انہیں غریق رحمت کرے.ان کی یاد ہمیشہ دعا بن کے دل سے اٹھتی ہے اور

Page 132

خطبات طاہر بابت شہداء 115 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء اٹھتی رہے گی.بچے مصر قاہرہ میں ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے سب بچے مخلص اور فدائی احمدی ہیں.استاد اسمعیل تر اولے صاحب گیمبیا استاد اسمعیل تر اولے صاحب معلم گیمبیا.تاریخ شہادت ۱۵ فروری ۱۹۹۶ء.آپ نے ۱۹۸۱ء میں وقف کر کے تبلیغ کا کام شروع کیا اور بارہ سال تک گیمبیا میں خدمت دین کی توفیق پائی.گنی بساؤ میں مشن کے اجراء پر ان کا تقر ر وہاں علاقائی مبلغ کے طور پر ہوا اور اڑھائی سال تک کام کیا.گنی بساؤ میں ہی تبلیغی سفر پر روانگی کے دوران موٹر سائیکل کے حادثہ میں شہادت پائی.انا للہ وانا اليه راجعون.آپ کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بڑا بیٹا عمر دس سال اور ایک بیٹی عمر پانچ سال ہیں.محترم ابراہیم کنڈا صاحب بورکینا فاسو محترم ابراہیم کنڈا صاحب آف بورکینا فاسو.۱۹۶۵ء میں بورکینا فاسو میں پیدا ہوئے.ان کا گھرانہ بہت مذہبی تھا.اور بورکینا فاسو میں مذہبی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سعودی عرب چلے گئے.۹ سال وہاں قیام کیا اور مدینہ المنورہ یونیورسٹی سے کامیاب ڈگری حاصل کر کے واپس بور کینا فاسو پہنچے.۱۹۹۲ء میں جماعت میں شمولیت اختیار کی اور خدا کے فضل سے اخلاص اور ایمان میں بہت ترقی اور اپنی خدمات جماعت کو پیش کر دیں.بڑے پر جوش داعی الی اللہ تھے.لوکل مبلغ کے طور پر کام کرنے کی توفیق ملتی رہی.۲۱ جون ۱۹۹۶ء کو ایک تبلیغی سفر سے واپس آتے ہوئے گاڑی الٹ جانے سے شہادت نصیب ہوئی.انا لله وانا اليه راجعون - مرحوم انتہائی وفادار اور مخلص احمدی اور بڑے پر جوش داعی الی اللہ تھے.پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا جس کی عمراڑھائی برس ہے وہ مرحوم کی شہادت کے بعد پیدا ہوا.مولانا کرم الہی صاحب ظفر چین مولانا کرم الہی صاحب ظفر مبلغ سپین و پرتگال تاریخ وفات ۱۲ را گست ۱۹۹۶ء.آپ ۳۰ دسمبر ۱۹۱۹ء کو بنگہ یوسی ضلع ہوشیار پور میں مکرم چوہدری اللہ بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں پیدا ہوئے.آپ کے والد نے ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی.دسویں جماعت میں کامیابی کے بعد آپ نے واقف ہونے کی سعادت پائی.مبلغین کلاس میں

Page 133

خطبات طاہر بابت شہداء 116 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء کامیابی کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر آپ نے کچھ دیر ایک گلاس فیکٹری میں کام سیکھا.۱۹۴۵ء میں آپ کو حضرت مصلح موعودؓ نے سپین کے لئے نامزدفرمایا.چنانچہ آپ ۱۲۴ جون ۱۹۴۶ء کو تبلیغ دین کے لئے پین پہنچے.جہاں آپ نے انتہائی مشکل حالات میں خود اپنے خرچ پر سپین مشن کے کام کو جاری رکھا.ایک پیسہ بھی مرکز سے وصول نہیں کیا.مارچ ۱۹۸۸ء تک آپ سپین میں ہی تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہے جس کے بعد آپ کا تقرر پرتگال ہو گیا جہاں آپ نے احمد یہ مشن کی بنیاد ڈالی.۱۹۹۶ء کے آغاز میں آپ کی ریٹائر منٹ ہوئی چنانچہ آپ پرتگال سے واپس سپین میں آکر غرناطہ کے ایک قریبی گاؤں ڈرکال (Durcal) میں رہائش پذیر ہو گئے.آپ چند سالوں سے سانس کی تکلیف میں مبتلا تھے.ساتھ ہی ذیا بیطس بھی تھی جس نے مزید پیچیدگی پیدا کر دی.غرناطہ کے ہسپتال میں ۱۲ اگست ۱۹۹۶ء کو اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.انــا لــلــه وانــا اليــه راجعون.بو وقت وفات آپ کی عمرے ۷ سال تھی.غرناطہ سے آپ کا جنازہ پید رو آباد لایا گیا اور پید رو آباد کے قبرستان میں جو مسجد بشارت سے اتنے فاصلہ پر ہے کہ اذان کی آواز وہاں سنائی دیتی ہے، آپ کی امانتاً تدفین ہوئی.آپ کے پسماندگان میں آپ کی بیوہ مکرمہ رقیہ بشری صاحبہ کے علاوہ تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.بڑے بیٹے مکرم عطاء الہی منصور صاحب خاطبہ، سپین میں سرجن ہیں.دوسرے بیٹے فضل الہی قمر صاحب آئبیریا ایئرلائن میں انجینئر ہیں اور میڈرڈ میں کام کرتے ہیں.ایک بیٹا بے چارہ نفسیاتی مریض ہے.اور یہ جو دو بڑے بیٹے ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مخلص فدائی احمدی اور واقفین زندگی کی طرح خدمت سر انجام دیتے ہیں.بیٹیوں میں سے مکرمہ رضیہ تسنیم صاحبہ یہاں لندن میں رہتی ہیں.اور دوسری دو بیٹیاں طاہرہ شاہدہ صاحبہ اور امتہ الکریم مبارکہ صاحبہ والدہ کے ساتھ سپین میں مقیم ہیں.استاد ابو بکر طور کے صاحب گیمبیا استاد ابوبکر طورے صاحب سیمبین معلم.آپ ۱۹۸۱ء میں غانا کے جامعہ احمدیہ میں تعلیم کی غرض سے گئے اور تین سالہ کورس مکمل کرنے کے بعد گنی بساؤ میں ان کا تقرر ہوا.گنی بساؤ میں یہ Farin کے علاقہ میں خدمات بجالاتے رہے.پھر گیمبیا میں بھی کام کیا.آپ ایک جماعتی کام کے

Page 134

خطبات طاہر بابت شہداء 117 خطبہ جمعہ ۴ / جون ۱۹۹۹ء لئے ایک علاقہ کا سفر کر رہے تھے جہاں مسجد اور مشن کی تعمیر کا پروگرام تھا.راستہ میں کار کو حادثہ پیش آ گیا جس کی وجہ سے شہادت نصیب ہوئی.یہ حادثہ ۱۵ / دسمبر ۱۹۹۸ء کو پیش آیا.انـا لـلـه وانا اليه راجعون.آپ نے بیوہ کے علاوہ دو بیٹے یاد گار چھوڑے ہیں.ایک کی عمر پانچ سال ہے اور دوسرا تقریب ڈیڑھ سال کا ہے.مکرم ناصر فاروق سندھو صاحب آخری ذکر جس شہید کا میں اس خطبہ میں کروں گا ان کا نام مکرم ناصر فا روق سندھو صاحب ہے.مکرم ناصر فاروق صاحب ابن رشید احمد اختر صاحب ۱۷ راگست ۱۹۹۸ء کو پیدا ہوئے.آپ جسو کی ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.یکم جولائی ۱۹۸۸ء کو جامعہ سے فارغ التحصیل ہوکر چک WB/390 ضلع لودھراں میں دین کی خدمت پر کمر بستہ رہے.آپ نہایت محنتی ، خادم دین اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.جامعہ احمدیہ کے علمی پروگراموں میں بھی نمایاں اعزازات حاصل کئے اور خدام الاحمدیہ کے تنظیمی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.تین سال معاون مدیر تشخیذ الاذہان کے طور پر نمایاں خدمت کی توفیق پائی.بچوں کے لئے ان کی مختلف کہانیاں اور سبق آموز تحریرات جماعتی رسائل کے علاوہ دیگر ملکی اخبارات میں بھی شائع ہوتی رہیں.اس پہلو سے آپ کو ملک گیر شہرت حاصل رہی.۱۳ راپریل ۱۹۹۹ء کو بہاولپور ریلوے اسٹیشن پرٹرین سے اترتے ہوئے حادثہ میں شہید ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.شہادت کے وقت آپ کی عمر صرف ۲۲ برس تھی اور آپ غیر شادی شدہ تھے.اللہ تعالیٰ ان سب شہداء کو غریق رحمت فرمائے اور دین و دنیا میں ان کو حسنات سے نوازے اور ان کی اولاد کو بھی ہمہ وقت دینی اور دنیاوی ترقیات عطا فرما تار ہے.آمین.

Page 135

خطبات طاہر بابت شہداء 119 خطبہ جمعہ اا / جون ۱۹۹۹ء دوران تقسیم ملک اور غیر ممالک میں وفات پانے والے واقفین شہداء ( خطبه جمعه فرموده ۱۱ار جون ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ بقرہ کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة :۱۵۴ - ۱۵۵) اے وہ لو گو جوایمان لائے ہو اللہ سے مدد طلب کرتے رہو صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ.یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.اس خطبہ کے شہداء کے ذکر میں بعض ایسے شہداء کا بھی ذکر ہے جو تقسیم ملک کے دوران شہید کئے گئے تھے.یہ ذکر پہلے گزر چکا ہے اور بظاہر ختم ہو گیا تھا لیکن چونکہ بعد میں ان کے ورثاء وغیرہ نے یہ اطلاعات بھجوائی ہیں اس لئے ان کا ذکر بھی شہداء کے ذکر کے موجودہ تذکرے میں داخل کر لیا گیا ہے.اس تذکرے کے بعد گزشتہ تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے ان شہداء کا ذکر جاری رکھا جائے

Page 136

خطبات طاہر بابت شہداء 120 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء گا جو وقف اور خدمت کے دوران اپنے وطنوں سے دور حادثانی یا طبعی موت سے وفات پاگئے.مکرم حافظ بشیر احمد صاحب جالندھری قادیان سب سے پہلے مکرم حافظ بشیر احمد صاحب جالندھری کا ذکر کرتا ہوں.آپ ۱/۸اپریل ۱۹۱۲ء کو صوفی علی محمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ لاہور چھاؤنی کے ہاں پیدا ہوئے.حافظ صاحب کی والدہ ماجدہ حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب ناظر بیت المال کی چھوٹی ہمشیرہ تھیں.حافظ صاحب نے بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کیا.۱۹۲۴ء میں مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور ۱۹۳۴ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کر کے مبلغین کلاس میں شامل ہو گئے اور یکم اگست ۱۹۳۶ء کو مبلغ کے فرائض سرانجام دینے لگے.وفات سے صرف دوروز قبل لدھیانہ میں ایک تبلیغی دورہ سے واپس آئے.آپ مجلس خدام الاحمدیہ کے ابتدائی دس ارکان میں سے تھے اور نہایت جوش اور اخلاص کے ساتھ مجلس کے کاموں میں حصہ لیتے تھے.حلقہ وار مجالس کے قیام کے بعد آپ مجلس خدام الاحمدیہ دارالرحمت کے زعیم مقرر ہوئے.آپ نے نہایت ہی جوش اور اخلاص کے ساتھ مجلس کے لئے انتھک محنت کی.سانحہ ارتحال اس طرح پیش آیا کہ ۲ رمئی ۱۹۳۸ء کو صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد خدام الاحمدیہ کے دیگر ممبروں کے ساتھ محلہ دار الرحمت کے اجتماعی و قادر عمل میں شریک تھے کہ دماغ کی رگ پھٹ گئی.آپ کو فوراً میوہسپتال پہنچایا گیا جہاں ہر ممکن تدبیر کے باوجود پونے نو بجے آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.انالله وانا اليه راجعون.۲ رمئی کو بعد نماز عصر حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر مقامی کی حیثیت سے باغ میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم کو بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کیا گیا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سانحہ کا مندرجہ ذیل الفاظ میں تذکرہ فرمایا.حافظ بشیر احمد صاحب حافظ قرآن، جامعہ کے فارغ التحصیل ، وقف کننده، خدام الاحمدیہ کے مخلص کارکن اور ان نوجوانوں میں سے تھے جن کے مستقبل کی طرف سے نہایت اچھی خوشبو آ رہی تھی مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کچھ اور تھی.اس نے خدام الاحمدیہ کے لئے ایک مثال اور نمونہ بنانا تھا.جس جماعت

Page 137

خطبات طاہر بابت شہداء 121 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء کے بنتے ہی اس کے کارکنوں کو شہادت کا موقع مل جائے اس کے مستقبل کے شاندار ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا اور غیرت مند افرادا اپنی روایات کے قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ جد و جہد کرتے رہتے ہیں.پس یہ موت تکلیف دہ تو ہے لیکن اس کے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک حکمت کام کرتی نظر آرہی ہے.“ ( تاریخ احمدیت جلد هشتم صفحه ۴۵۴۰) عدالت خان صاحب آف خوشاب دوسرے شہید جو ہندوستان کی تقسیم کے دوران شہید ہوئے.عدالت خان صاحب تحصیل خوشاب ضلع شاہ پور.عدالت خان صاحب قادیان میں دینیات کی متفرق کلاس میں پڑھتے تھے.۱۹۳۴ء میں جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احمدی نوجوانوں کو تحریک فرمائی کہ دوسرے ممالک میں اپنے ذرائع سے جا کر وہاں احمدیت کی تبلیغ کریں تو عدالت خان صاحب قادیان سے اچانک غائب ہو گئے.اس وقت یہی سمجھا گیا کہ شاید وہ پڑھائی سے دلبرداشتہ ہو کر بھاگ گئے ہیں.دراصل عدالت خان صاحب حضور کی تحریک پر فوری تعمیل کی غرض سے سفری دستاویزات کے بغیر افغانستان پہنچ گئے تھے.وہاں حکومت نے انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا.جیل میں انہوں نے قیدیوں میں تبلیغ شروع کر دی.جب حکومت کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے عدالت خان صاحب کو ہندوستان کی سرحد پر لا کر چھوڑ دیا.عدالت خان صاحب قادیان آئے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساری روئیداد سنا کر درخواست کی کہ انہیں کسی اور ملک میں جانے کا ارشاد فرمایا جائے.حضور نے انہیں فرمایا کہ تم چین چلے جاؤ.چین جاتے ہوئے عدالت خان صاحب کو کشمیر کی حکومت نے پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے روک لیا.سردیوں کا موسم تھا اور عدالت خان صاحب کے پاس لباس وغیرہ واجبی سا تھا.آپ کو ڈبل نمونیا ہو گیا اور دو دن بعد وہ وفات پاگئے.اناللہ وانا اليه راجعون.ان کی شہادت میں بھی ایک عظیم الشان نشان احمدیت کے لئے ظاہر ہوا ہے وہ اس طرح کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء کے موقع پر عدالت خان کے ذکر میں ان کا ایک ایمان افروز واقعہ یوں بیان فرمایا:

Page 138

خطبات طاہر بابت شہداء 122 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ا بھی کشمیر سے چند دوست آئے ہوئے تھے انہوں نے عدالت خان کا ایک عجیب واقعہ سنایا جسے سن کر رشک پیدا ہوتا ہے کہ احمدیت کی صداقت کے متعلق اسے اتنا یقین اور وثوق تھا.وہ ایک گاؤں میں بیمار ہوا تھا جہاں کوئی علاج میسر نہیں تھا.جب اس کی حالت بالکل خراب ہو گئی تو ان دوستوں نے سنایا کہ وہ ہمیں کہنے لگا کہ کسی غیر احمدی کو تیار کرو.“ اب یہ ترکیب بھی خوب سوجھی ہے ان کو.کسی غیر احمدی کو تیار کر و جواحمدیت کی صداقت کے متعلق مجھ سے مباہلہ کرلے.اگر کوئی ایسا غیر احمدی مل گیا تو میں بچ جاؤں گا اور اسے تبلیغ بھی ہو جائے ١٩٩٩ء گی ورنہ میرے بیچنے کی اور کوئی صورت نہیں.‘ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ صفحہ ۶) مکرم چوہدری فقیر محمد صاحب اور محمد اسماعیل صاحب آف و نجواں مکرم چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ونجواں ضلع گورداسپور اور مکرم محمد اسمعیل صاحب ابن چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدر جماعت ونجواں.چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.اس حیثیت سے آپ کو ۱۹۳۹ء میں خلافت جو بلی کے موقع پر لوائے احمدیت کی تیاری میں شمولیت کا موقع ملا.یہ چوہدری فقیر محمد صاحب کے لئے اور ان کی اولاد کے لئے بھی ایک بہت یادرکھنے والی بات ہے، بہت عظیم الشان واقعہ ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اصولی ہدایت فرمائی تھی کہ لوائے احمدیت کی تیاری میں صرف صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شامل کیا جائے.یعنی آغاز سے آخر تک بیج کی کاشت سے لے کر اس کی برداشت تک اور پھر سوت کاتنے تک ہر مر حلے پر صرف صحابہ کا ہاتھ لگے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا کہ اپنی نگرانی میں کروائیں.چوہدری فقیر محمد صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ارشاد پر اپنے ہاتھ سے کپاس کا بیج بویا، خود پانی دیا ، پھر چنا اور صحابیوں سے ہی اس کو دھنوایا.یعنی اس کو دھنکنے والے بھی صحابہ تلاش کر لئے اور اپنے گھر میں اس کو کتو ایا.آپ نے کچھ اور روئی دی جسے میری والدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نگرانی میں

Page 139

خطبات طاہر بابت شہداء 123 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء قادیان کی صحابیات نے کا تا اور پھر ایک بزرگ صحابی حضرت میاں خیر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ دری باف اور دوسرے صحابہ نے مل کر وہ کپڑا تیارکیا.(تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ ۵۸۵) واقعہ شہادت: جب ملک تقسیم ہوا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ جب تک مرکز اجازت نہ دے اس وقت تک اردگرد کے بعض احمدی دیہات کے افراد اپنی جگہ نہ چھوڑیں.ونجواں کے لئے بھی یہی حکم تھا.چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بھائی چوہدری علی محمد صاحب نماز تہجد ادا کرنے کے بعد نماز فجر کے لئے ابھی صفیں سیدھی ہی کر رہے تھے کہ سکھوں نے حملہ کر دیا اور سب سے پہلے چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت نصیب ہوئی.بہت سے احمدی زخمی ہوئے ان میں چوہدری صاحب کے بیٹے محمد اسمعیل بھی تھے.ملٹری والے انہیں دھار یوال ہسپتال لے گئے وہاں سے ڈسچارج ہو کر اسمعیل صاحب قادیان کے لئے روانہ ہوئے تو پیچھے سے گولی مار کر انہیں بھی شہید کر دیا گیا.اناللہ وانا اليه راجعون.پسماندگان.حضرت چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد تین بیٹوں اور تین مشتمل ہے.ان کے سب سے بڑے بیٹے مکرم محمد اسمعیل صاحب کو تو ۱۹۴۷ء میں ہی شہید کر دیا گیا تھا.باقی دونوں بیٹے مکرم احمد علی صاحب اور مکرم فضل الہی صاحب بھی اب وفات پاچکے ہیں جبکہ تینوں بیٹیاں خدا کے فضل سے زندہ ہیں.بڑی بیٹی کا نام غلام بی بی ہے ، دوسری شریفاں بی بی اور تیسری ناصرہ بی بی صاحبہ.حضرت چوہدری صاحب کی اولاد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور خدا کے فضل سے اکثر بڑے اخلاص سے اپنے اپنے رنگ میں جماعت کی خدمت کی توفیق پار ہے ہیں.بیٹیوں پر لرم محمد منیر صاحب شامی قادیان مکرم محمد منیر صاحب شامی.آپ مکرم ڈاکٹر حبیب اللہ صاحب ابو منیفی کے ہاں تنزانیہ میں ۱۹۲۲ء میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی.۱۹۴۷ء کے دوران آپ تعلیم الاسلام کالج قادیان میں بی اے کے طالب علم تھے.آپ واقف زندگی تھے اور عربوں سے اپنی ہمدردی کی وجہ سے آپ کو لوگوں نے شامی مشہور کر دیا حالانکہ ملک شام سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن عربوں سے محبت تھی.

Page 140

خطبات طاہر بابت شہداء 124 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء اوصاف حمیدہ.آپ خاموش طبع اور محنتی طالبعلم تھے.انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا.جماعت سے انتہائی محبت اور عقیدت رکھتے تھے.امام وقت کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے تھے.مطالعہ کا بہت شوق تھا.مکرم چوہدری فضل داد صاحب مرحوم لائبریرین تعلیم الاسلام کالج قادیان بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے لائبریری کی تقریبا تمام کتب پڑھ لی تھیں.واقعہ شہادت.آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے مطابق اپنے گھر دارالرحمت قادیان بر مکان خان ارجمند خان صاحب مرحوم محلہ کی حفاظت کے سلسلہ میں مقیم تھے.گھر میں دونالی بندوق تھی.ادھر ادھر سے سکھوں کے ہونے والے حملوں کے دوران خوب مقابلہ کرتے رہے.ایک رات سکھوں نے ان کے گھر کی دیوار پھاند کر اندھیرے میں آپ پر حملہ کیا اور آپ کو شہید کر دیا.جب خدام کو حکم ہوا کہ وہ ہوسٹل میں جمع ہو جائیں تو آپ کو نہ پا کر جب پتہ کیا گیا تو آپ کو گھر کے صحن میں چت پڑا پایا گیا.آپ کی انتڑیاں باہر نکل چکی تھیں اور آپ شہید ہو چکے تھے.انالله وانا اليه راجعون.آپ کے والد صاحب جو ان دنوں تنزانیہ میں تھے وہ بھی اللہ کے فضل سے بہت مخلص انسان تھے.دراصل ان سے ہی اخلاص ورثہ میں پایا تھا.ان کی ڈائری کے اندراج بتاریخ ۳ /ستمبر ۱۹۴۷ء میں یہ پر خلوص عبارت درج ہے.آج قادیان میں عزیز محمد منیر خان شامی نے شہادت پائی.الحمد للہ رب العالمین.“ پسماندگان: آپ غیر شادی شدہ تھے.آپ کے تین بھائی اور ایک بہن زندہ ہیں.سب سے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد حفیظ خان صاحب آج کل ٹورانٹو میں رہتے ہیں.شہید کے دو چھوٹے بھائی بھی تھے محمد معین خان صاحب لاہور میں اور پروفیسرمحمد شریف خان صاحب ربوہ میں مقیم ہیں.جبکہ ان کی بہن خدیجہ بیگم صاحبہ مانٹریال میں آنا یہ ہیں.مکرمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اور عزیزم عظیم احمد ولد پنڈت عبداللہ صاحب قادیان حمیدہ بیگم اہلیہ عبد السلام پنڈت صاحب اور عظیم احمد ولد پنڈت عبداللہ صاحب.عمر ساڑھے چار سال.شہدائے قادیان.قادیان میں کرفیو لگا ہوا تھا.جماعت نے محلہ کی عورتوں اور بچوں کو فضل حسین صاحب بوٹوں والے کے گھر رکھ کر دشمن کو بے خبر رکھنے کی خاطر گھر سے باہر تالا

Page 141

خطبات طاہر بابت شہداء 125 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء لگا دیا تھا.حملہ آوروں کے جتھے نے تالہ توڑ کر اندر آ کر لوٹ مار اور قتل و غارت شروع کی.پنڈت عبداللہ صاحب کے بڑے بیٹے عبدالسلام پنڈت کی اہلیہ حمیدہ بیگم اپنی ایک بھانجی کو بچانے کی کوشش میں شہید کر دی گئیں.پنڈت عبداللہ صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا عظیم احمد عمر ساڑھے چار سال اپنے بھائی با بو مسعود کی گود میں تھا حملہ آوروں نے تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا سر بھی کاٹ ڈالا اور یہ کم سن موقع پر ہی شہید ہو گیا.اس وقوعہ میں پنڈت عبداللہ کے ایک بیٹے پنڈت نصر اللہ صاحب جو آج کل ربوہ میں ڈسٹمپر وغیرہ کا کام کرتے ہیں کو بھی شدید زخمی کر دیا گیا تھا.عبدالسلام پنڈت صاحب ہالینڈ والے باسط صاحب کے ابا ہیں.ہالینڈ والے عبدالباسط صاحب کوسب جماعت ہالینڈ کے لوگ ان کے خاص غیر معمولی اخلاص کی وجہ سے جانتے ہیں لیکن جو بیگم ان کی شہید ہوئی تھیں ان کی کوئی اولاد نہیں تھی.حمیدہ بیگم صاحبہ، سلام صاحب کی پہلی بیگم تھیں.دوسری شادی امتہ القیوم صاحبہ سے ہوئی جو ہالینڈ والے عبدالباسط کی والدہ ہیں.ان سے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جو سب خدا تعالیٰ کے فضل سے دین و دنیا میں بہت اچھے ہیں اور ہمیشہ خدمت کے کاموں میں آگے رہتے ہیں.مکرم با بوعبدالکریم صاحب اور دیگر شہدائے پونچھ با بوعبدالکریم صاحب ابن نواب علی خان صاحب یوسف زئی پونچھ ریاست جموں وکشمیر.آپ ۸/ جون ۱۹۳۳ء کو ایک خواب کی بنا پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے.جماعت میں آپ کی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کو ۱۹۳۳ء میں ایک برطانوی فوجی کی حیثیت سے شرق اوسط یعنی مشرق وسطی میں جانے کا موقع ملا تو وہاں آپ نے جامعہ ازھر کی مجلس افتاء کو یہ استفسار بھیجا کہ کیا قرآن کریم اور سنت نبوی سے عیسی بن مریم علیہ السلام وفات یافتہ ثابت ہوتے ہیں یا چوتھے آسمان پر زندہ موجود ہیں.اسی استفسار کے جواب میں الاستاذ محمود شلتوت مفتی مصر نے وفات مسیح کے حق میں اپنا وہ عظیم الشان مدلیل فتویٰ دیا جو جماعت کے لٹریچر میں بہت شہرت پا گیا ہے.ان پر بہت دباؤ ڈالا گیا علماء کی طرف سے کہ اس فتویٰ کو واپس لے لیں یا اس میں تبدیلی کریں لیکن وہ مرد خدا قائم رہا.یہ واقعہ استفتاء کا انہی بابو صاحب سے تعلق رکھتا ہے.واقعہ شہادت: بابو عبدالکریم صاحب نے اپنی ملکیتی زمین کا ایک حصہ جماعت احمد یہ

Page 142

خطبات طاہر بابت شہداء 126 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء پونچھ کی مسجد کے لئے وقف کیا ہوا تھا.بابو صاحب کی نگرانی ہی میں یہ مسجد زیر تعمیر تھی اور اسے جموں کے سات احمدی معمار تعمیر کر رہے تھے کہ ملک کی تقسیم ہوگئی.پونچھ شہر میں مظفر آباد آزادکشمیر سے جو ہندو اور سکھ ہجرت کر کے آئے تھے انہوں نے اس وقت جب اس زیر تعمیر مسجد میں عصر کی نماز ہو رہی تھی اور محترم با بوعبدالکریم صاحب کے علاوہ جموں کے سات آٹھ احمدی معمار بھی شامل تھے مسجد پر حملہ کر کے ان سب کو شہید کر دیا اور پھر بابو عبد الکریم صاحب کے مکان پر حملہ کر کے ان کی والدہ صاحبہ اور پہلی بیوی کو بھی شہید کر دیا.دوسری بیوی اپنی بچی سمیت حملہ آوروں سے بچ گئیں.حکومت نے ان سب شہداء کو پونچھ جیل سے متصل قبرستان میں دفن کر دیا.اناللہ وانا اليه راجعون.خواجہ محمد عبد الله لون صاحب آسنور کشمیر خواجہ محمد عبد الله لون صاحب مولوی فاضل آف آسنور کشمیر.آپ مولوی حبیب اللہ صاحب لون صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرزند تھے.قادیان سے ۱۹۳۶ء میں مولوی فاضل کیا اور کشمیر میں محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے.تقسیم ملک کے وقت آپ اپنے گاؤں آسنور میں تھے، دو ماہ بعد اکتوبر میں جب سکول کھل گئے تو آپ ڈیوٹی پر جموں آگئے جو ان دنوں ہندو مسلم فسادات کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا.اس دوران حکومت نے اعلان کیا کہ جو مسلمان پاکستان جانا چاہتے ہیں وہ کل ایک مقررہ جگہ پہنچ جائیں.اس طرح حکومت دھوکہ کے ساتھ بکثرت مسلمانوں کے قتل عام کو تر و یج دے رہی تھی.بظاہر تو یہ اعلان ان کے لئے نجات کا اعلان تھا مگر جال میں پھنسانے کا ایک طریقہ تھا.جب یہ بسیں اکھنور کے قریب پہنچیں تو ہندوؤں اور سکھوں نے ان بسوں پر حملہ کر دیا اور ہزاروں مسلمان مرد اور عورتوں کو شہید کر دیا.خواجہ محمد عبد اللہ صاحب بھی ان شہید ہونے والوں میں شامل تھے.انالله وانا اليه راجعون.مرحوم بہت شریف النفس اور عبادت گزار تھے.بہت خوش الحان تھے.قرآن کریم کی تلاوت بہت خوش الحانی اور سوز کے ساتھ کیا کرتے تھے.آپ کی شادی خواجہ عبدالرحمن صاحب ڈار رئیس آف آسنور کی صاحبزادی مریم بیگم صاحبہ سے ہوئی جو ابھی آسنور میں زندہ ہیں.آپ کی بیٹی عائشہ بیگم صاحبہ اسلام آباد میں رہتی ہیں اور دو بیٹے نعمت اللہ اور مطیع اللہ صاحب آسنور تحصیل کو لگام میں ہیں.نعمت اللہ صاحب پچھلے سالوں میں جماعت احمد یہ آسنور کے پریذیڈنٹ بھی رہے ہیں.

Page 143

خطبات طاہر بابت شہداء 127 خطبہ جمعہ ا ارجون ۹۹ مکرم حاجی فضل محمد خان صاحب اور آپ کا بیٹا پشاور ١٩٩٩ء مکرم حاجی فضل محمد خان صاحب اور آپ کا بیٹا.شہادت ۱۹۵۷ء.حاجی صاحب بہت علم دوست، سادہ مزاج اور متقی انسان تھے.عرصہ دراز سے احمدی تھے.آپ جاجی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور پیواڑ کو تل کے قریب ایک گاؤں کے باشندے تھے.حاجی صاحب پشاور سول کوارٹرز کی مسجد میں نقیب ہوا کرتے تھے.وہاں مجھے بھی ان سے ملنے کی سعادت نصیب ہوئی.میں وہاں کسی خدام الاحمدیہ یا وقف جدید کے دورے پر تھا جب میں ان سے ملا اور مجھے یاد ہے وہ لمحہ جب سیٹرھیوں میں بڑے جوش سے وہ مجھے دیکھ کر اتر رہے تھے.وہیں ایک دن ۱۹۵۷ء میں ان کے رشتہ دار آئے اور قرآن کریم پر حلف اٹھا کر تسلی دی کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں ہم ہر طرح آپ کو اچھی حالت میں رکھیں گے مگر ان کے دل میں ان کے قتل کا ارادہ تھا تا کہ ان کی جائیداد پر قبضہ کر لیں.حاجی صاحب بہت سادہ دلی سے ان کے حلف پر اعتبار کر کے چلے گئے.وطن پہنچ کر ان کے رشتہ داروں نے ان پر حملہ کر دیا اور ان کو اور ان کے خوردسالہ بچے کو شہید کر دیا اور ان کی بیوی اور لڑکی پر قبضہ کر لیا.حکومت افغانستان نے ان مظالم کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی.اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان کی بیوی اور لڑکی کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی دوبارہ احمدیت میں کھینچ لائے.مکرم عثمان غنی صاحب اور مکرم عبدالرحیم صاحب بنگلہ دیش مکرم عثمان غنی صاحب اور مکرم عبدالرحیم صاحب شہدائے بنگلہ دیش.۳ نومبر ۱۹۶۳ء کو احمدیہ مسلم جماعت برہمن بڑیہ کا سالانہ جلسہ بعد نماز مغرب لوک ناتھ ٹینک کے میدان میں مکرم سید سہیل احمد صاحب سی ایس پی کی زیر صدارت شروع ہوا.سید سہیل احمد صاحب سی ایس پی آج کل اسلام آباد میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ اور ان کا سارا خاندان بہت مخلص ہے.وہ اس وقت ڈھا کہ میں حکومت کے ڈپٹی سیکرٹری بھی تھے اور خدام الاحمدیہ میں اسٹنٹ ریجنل قائد کے عہدہ پر فائز تھے.یعنی بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود بھی انہوں نے خدمت دینیہ سے سرمو انحراف نہیں کیا.بڑی جرات سے عہدے لیا کرتے تھے اور بڑی جرات سے اور عمدگی سے ان کو نبھاتے تھے.جلسہ شروع ہوئے دس پندرہ منٹ گزرے تھے کہ ملاؤں نے ہلہ بول دیا اور جلسہ گاہ پر

Page 144

خطبات طاہر بابت شہداء 128 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء شدید پتھراؤ کیا.مخالفین نے جلسہ گاہ کی بجلی کی تاریں کاٹ دیں جس سے سارے علاقے میں اندھیرا چھا گیا.لوگ ادھر ادھر بکھر گئے.محترم سید سہیل احمد صاحب اور بعض دوسرے احمدیوں نے کرسیاں سر پر رکھ کر اپنی حفاظت کی.مخالفین کے ہلہ بولنے کے بہت دیر بعد پولیس جب وقوعہ پر پہنچی تو وہ اس طوفانی بارش کے بعد نظر آئی جو خدا تعالیٰ نے اس موقع پر معجزانہ طور پر نازل فرمائی تھی اور جس سے خود دشمن ہی تتر بتر ہو چکا تھا.دشمن کے اس حملہ کے نتیجہ میں بہت سے احمدیت احباب زخمی ہوئے جنہیں رات کے وقت برہمن بڑ یہ ہسپتال میں داخل کروایا گیا.ان میں سے دو دوست مکرم عثمان غنی صاحب اور مکرم عبدالرحیم صاحب کی حالت بہت نازک تھی اور وہ شدید زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور اگلے روز ۴ نومبر ۱۹۶۳ء کی صبح کو دونوں اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے اور شہادت کا رتبہ پایا.اناللہ وانا اليه راجعون.شہید عثمان غنی صاحب شاہ طور یہ ضلع ما تک گنج کے رہنے والے تھے اور اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے.نہایت مخلص ، خاموش طبع ، خدمت گزار اور نرم خوشخصیت کے حامل تھے احمدی ہونے کے بعد فوج میں بھرتی ہو کر کراچی چلے گئے تھے.ریٹائرمنٹ کے بعد موصوف سلسلہ کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے.شہادت کے وقت آپ کی عمر ۳۵ برس تھی اور آپ غیر شادی شدہ تھے.آپ کی تبلیغ سے آپ کے چھوٹے بھائی جناب ڈاکٹر اولاد حسین صاحب اور آپ کی ہمشیرہ احمدی ہوئیں.شہید عبدالرحیم صاحب برہمن بڑیہ ضلع تارواں گاؤں کے رہنے والے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر تقریباً ۴۷ سال تھی.خاموش طبع اور عبادت گزار تھے.آپ بھی ریٹا ئر فوجی تھے.شہادت کے وقت ان کے دو بچے اور تین بچیاں تھیں جو سب سلسلہ سے اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں.بڑے بیٹے مکرم مسلم صاحب سرکاری ملازم ہیں اور چھوٹے بیٹے مکرم رستم صاحب آج کل تنجیم میں مقیم ہیں.اب میں از سر نو وقف اور خدمت کے دوران اپنے وطنوں سے دور حادثانی یا طبعی وفات پانے والے شہداء کا تذکرہ کرتا ہوں.مکرم عبدالرحمن صاحب سماٹری سب سے پہلے مکرم عبد الرحمن صاحب سماٹری.آپ سماٹرا انڈونیشیا سے ۱۹۳۸ء کے شروع میں قادیان دینی تعلیم کے حصول کے لئے تشریف لائے.آپ سے قبل آپ کے دو بڑے بھائی

Page 145

خطبات طاہر بابت شہداء 129 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء مولوی ابوبکر ایوب صاحب اور مولوی محمد ایوب صاحب بھی اسی غرض سے قادیان آچکے تھے.آغاز میں آپ اردو سے بالکل بے بہرہ تھے لیکن دن رات محنت کر کے بہت جلدار دو زبان سیکھ لی.بعد میں مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لے کر تیسری اور چوتھی جماعت کا امتحان اکٹھا دے کر کامیاب ہوئے.وفات کے وقت آپ مدرسہ احمدیہ کی چھٹی جماعت میں پڑھ رہے تھے اور اپنی جماعت کے چوٹی کے طلباء میں تھے.آپ احمدیت کے شیدائی تھے اور زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اور آپ کے خاندان سے بڑی محبت تھی.آپ ٹائیفائیڈ کی وجہ سے ایک ماہ تک بستر مرگ پر رہے.اس عرصہ میں تکلیف کو نہایت صبر واستقلال سے برداشت کیا.آخر ۱۳ اگست ۱۹۴۱ء کو صبح سات بجے وفات پاگئے.انـالـلـه وانا اليه راجعون.آپ اگر چہ موصی تو نہ تھے مگر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے از راہ شفقت قواعد الوصیت کی شرط نمبر۴ کے تحت کہ ہر ایک صالح جس کی کوئی جائیداد نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیں کر سکتا اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا تو وہ اس قبرستان میں دفن ہو سکتا ہے.“ آپ کی بہشتی مقبرہ میں تدفین کی اجازت فرمائی.بوقت وفات آپ کی عمر ۲۴ سال تھی.محترمہ فضل بی بی صاحبہ اہلیہ مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب فلسطین محتر مہ فضل بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم چو ہدری محمد شریف صاحب مبلغ بلا دعر به فلسطین ومغربی افریقہ.آپ ۱۹۳۸ء میں اپنے میاں چوہدری محمد شریف صاحب کے ساتھ قادیان سے فلسطین گئیں.۱۹۴۳ء میں کیا بیر فلسطین میں ہی وفات پا گئیں.آپ کیا بیر کے احمد یہ قبرستان میں دفن ہوئیں.آپ موصیہ تھیں اس لئے بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کے نام کا کتبہ نصب ہے.یہ خود فلسطینی نہیں تھیں ، ان کی فلسطینی بیوی دوسری ہیں جن کا ذکر بعد میں آئے گا.آپ کے بطن سے ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے.چھوٹا بیٹا آپ کی وفات کے چند دن بعد وفات پا گیا تھا.بڑے بیٹے مکرم عبد الرشید شریف، ڈپٹی سیکرٹری محکمہ صحت حکومت پنجاب تھے جنہیں اکتوبر ۱۹۹۸ء میں لاہور میں بعض شر پسندوں نے شہید کر دیا.آپ کی بیٹی امتہ الحمید صاحبہ کی شادی چوہدری غلام رسول صاحب ٹھیکیدار کے بیٹے عبدالمجید ایم اے کے ساتھ ہوئی تھی.ان کے پانچ بیٹے ہیں جو بفضلہ تعالیٰ سبھی مخلص ہیں.عزیزم بشیر شریف صاحب جو انگلستان کی جماعت کے

Page 146

خطبات طاہر بابت شہداء 130 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء بڑے مخلص کارکن ہیں چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم کی دوسری اہلیہ کی اولاد ہیں جو فلسطینی تھیں اور ربوہ میں رہتی ہیں.اور ان کی ایک بہن امیر صاحب کینیڈا کی پہلی بیگم کی وفات کے بعد ان سے بیاہی گئی ہیں.سید رضوان عبداللہ صاحب آف سوڈان سید رضوان عبداللہ صاحب ابن سید عمر ابو بکر آفندی خرطوم سوڈان.آپ دسمبر ۱۹۵۰ء میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ آئے اور جامعہ حمد یہ حمد گر میں داخلہ لیا.آپ بہت ذہین تھے.آپ نے چند ماہ میں ہی اردو بولنی اور لکھنی پڑھنی سیکھ لی اور ہر امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا.آپ جامعہ احمدیہ کی بزم تعلیم البیان کے بانیوں میں سے تھے.آپ ۲۶ اگست ۱۹۵۳ء کو جامعہ احمدیہ کے طلبہ کے ساتھ دریائے چناب پر نہانے گئے.عصر کی نماز کے لئے وضو کر رہے تھے کہ پاؤں پھسل جانے سے دریا میں ڈوب گئے اور اس غریب الوطنی کے عالم میں شہید ہو گئے.مرحوم اپنے والدین کے سب سے بڑے بیٹے تھے.آپ کو پہلے امانتاً عام قبرستان میں دفن کیا گیا.اگر چہ آپ موصی نہیں تھے مگر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجازت سے آپ بہشتی مقبرہ میں سپردخاک کئے گئے.یعنی آپ کی امانت وہاں منتقل کر دی گئی.آپ کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مضمون ” رضوان عبد اللہ کی المناک وفات“ کے عنوان سے سپر د قلم فرمایا جس میں لکھا رضوان جو کئی ہزار میل کی مسافت طے کر کے علم دین کی تحصیل کی غرض سے ربوہ آیا ہوا تھا اور جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے اپنے والدین کا سب سے بڑا بچہ تھا.ایک بہت ہی شریف اور ہونہار اور دیندار لڑکا تھا.رضوان مرحوم سب سے پہلے لاہور میں مجھے ملا اور عربی زبان میں باتیں کرتا رہا اور پھر ہم نے اسے ربوہ بھجوانے کا انتظام کر دیا.اس وقت سے میری طبیعت پر رضوان کی شرافت کا خاص اثر تھا.کم گو، شریف مزاج، بے شر، مخلص، دینی جذبات سے معمور اور ہونہار.یہ وہ اثر ہے جو ہر وہ شخص جو رضوان سے ملا اس کے متعلق قائم کرتا رہا ہے.“ لمصل (روز نامه اصلح کراچی یکم نمبر ۱۹۵۳ صفحه ۳۰)

Page 147

خطبات طاہر بابت شہداء 131 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ مکرمہ سیدہ طینت صاحبہ اہلیہ سید جواد علی صاحب مبلغ امریکہ ١٩٩٩ء مکرمہ سیدہ طینت صاحبہ اہلیہ سید جواد علی صاحب مبلغ امریکہ مرحوم.آپ ادیب عالم تھیں اور میٹرک تک تعلیم یافتہ تھیں.آپ نے اپنی زندگی اسلام اور احمد بیت کی خدمت کے لئے۱۹۵۲ء میں پیش کی جسے حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبول فرمالیا اور پھر ۱۹۵۳ء میں آپ کا نکاح بھی ایک واقف زندگی یعنی سید جواد علی شاہ صاحب سے کروا دیا.۱۹۵۴ء میں مکرم شاہ صاحب کو امریکہ میں بطور مبلغ سلسلہ بھجوایا گیا تھا.دسمبر ۱۹۵۷ء میں آپ کو بھی یعنی مرحومہ کو اپنی تین سالہ بچی کے ہمراہ امریکہ ا.میاں کے پاس بھجوا دیا گیا.مارچ ۱۹۵۸ء کے آغاز میں آپ کو دل کی تکلیف ہوئی اس کی وجہ سے آپ ہسپتال میں زیر علاج تھیں کہ نمونیہ کا ایسا سخت حملہ ہوا جس سے آپ جانبر نہ ہوسکیں.آخر ۱۶/ مارچ ۱۹۵۸ء کو وفات پاگئیں.انالله وانا اليه راجعون.آپ نے اپنے پسماندگان میں ایک بچی چھوڑی ہے.آپ کی تدفین امریکہ ہی میں ہوئی.محترمه بشری منیر صاحبه سیرالیون محترمہ بشری منیر ایم ایس سی، ایم فل بنت چوہدری علیم الدین صاحب مرحوم سابق امیر جماعت احمد یہ اسلام آباد.آپ کی شادی منیر احمد صاحب ایم ایس سی ، بی ایڈا بن مولوی محمد صدیق صاحب سابق انچا رج خلافت لائبریری سے ہوئی تھی.نصرت جہاں سکیم کے تحت احمد یہ سکول جورو، سیرالیون میں خدمت سر انجام دے رہی تھیں کہ ۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ء کو زچگی کے دوران ۳۲ سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی.میت ربوہ پہنچنے پر ۲۰ ستمبر ۱۹۸۲ء کو آپ کو قطعہ شہداء قبرستان عام نمبر ایک ربوہ میں دفن کیا گیا.آپ کی شہادت کے وقت کوئی اولا د نہ تھی.محترم مولوی حنیف یعقوب صاحب ٹرینیڈاڈ مکرم و محترم مولوی حنیف یعقوب صاحب مبلغ ٹرینیڈاڈ.وفات ۶ رنومبر ۱۹۸۶ء.آپ ۱۹۲۶ء میں پیدا ہوئے اور مولانا محمد اسحاق ساقی صاحب مبلغ ٹرینیڈاڈ کے ذریعہ احمدیت قبول کی.۱۹۵۴ء میں آپ ربوہ تشریف لے گئے اور خدمت اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی.ربوہ میں تین سال کی تربیت کے بعد ۱۹۵۷ء میں ٹرینیڈاڈ تشریف لائے اور بطور مبلغ کام شروع کیا.۲۶ سال مسلسل ٹرینیڈاڈ میں خدمت دین کی توفیق پائی.۱۹۸۳ء میں آپ کو گیا نا بطور مبلغ بھجوایا گیا اور

Page 148

خطبات طاہر بابت شہداء 132 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء خدمت دین کے دوران ہی ۲۶ نومبر ۱۹۸۶ء کو گیا نا میں وفات ہوئی.اناللہ وانا اليه راجعون.چونکہ خدمت دین کرتے ہوئے اپنے وطن سے دور فوت ہوئے اس لئے ان کو بھی شہداء میں شامل کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو گیارہ بچوں سے نوازا جن میں سے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں زندہ موجود ہیں اور اخلاص کے ساتھ جماعت سے وابستہ ہیں.ڈاکٹر قدسیہ خالد ہاشمی صاحبہ غانا ڈاکٹر قدسیہ خالد ہاشمی صاحبہ اہلیہ خالد ہاشمی صاحب.آپ ۱۹۳۲ء میں پیدا ہوئیں.ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ۱۹۶۶ء میں آپ کی شادی ڈاکٹر خالد ہاشمی صاحب کے ساتھ ہوئی.شادی کے وقت آپ احمدی نہیں تھی.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کی اجازت سے شادی ہوئی تھی.۱۹۷۲ء میں آپ نے احمدیت قبول کی تھی اور ۱۹۷۴ء میں نصرت جہاں سکیم کے تحت زندگی وقف کرنے کے بعد اپنے خاوند ڈاکٹر خالد ہاشمی صاحب کے ساتھ ٹیچی مان غانا میں بطور لیڈی ڈاکٹر تقرر ہوا.انتہائی نامساعد حالات میں صبر و شکر اور محنت کے ساتھ آپ نے ہسپتال کو بہت ترقی دی.واقعہ شہادت.۶ فروری ۱۹۸۸ء کو جب میں غانا کے دورہ پر کرا پہنچا تو یہ وہاں استقبال کے لئے تشریف لائی ہوئی تھیں.ایئر پورٹ سے واپس اپنے سینٹر ٹیچی مان جاتے ہوئے کار کے حادثہ میں وفات پاگئیں.اناللہ وانا اليه راجعون.۱۹۸۸ء کے جلسہ سالانہ غانا کے موقع پر میں نے چھپیں تمہیں ہزار احباب کی موجودگی میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی.احمد یہ ہسپتال ٹیچی مان کے احاطہ میں انہیں دفن کیا گیا.موصیہ بھی تھیں اس لئے بہشتی مقبرہ ربوہ میں ان کا یادگاری کتبہ نصب ہے.مرحومہ کی کوئی اولا د نہیں تھی.ان کے میاں خالد ہاشمی صاحب آج کل وینکوور کینیڈا میں ہیں.احمد یہ ہسپتال نیچی مان کی نئی عمارت میں جو میٹرنٹی وارڈ ہے وہ انہی کے نام پر ” قدسیہ وارڈ کہلاتا ہے.حافظ عبدالوہاب صاحب بلتستانی حافظ عبدالوہاب بلتستانی تاریخ وفات ۱۴ /اکتوبر ۱۹۸۸ء.مکرم حافظ عبدالوہاب صاحب، مولوی غلام محمد صاحب بلتستانی کے بڑے بیٹے تھے.مولوی غلام محمد صاحب بلتستان کے پہلے احمدی تھے جو سیا چین گلیشیئر کے نیچے دم تم کے دور دراز علاقہ کے رہنے والے تھے.انہوں نے ۱۹۷۳ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دست مبارک پر بیعت کی تو حضور نے اسی موقع پر آپ

Page 149

خطبات طاہر بابت شہداء 133 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء سے کہا کہ اپنے بچوں کو ربوہ لائیں اور حصول تعلیم کے لئے انہیں یہاں کے تعلیمی اداروں میں داخل کرائیں.چنانچہ انہوں نے عبدالوہاب کو مدرستہ الحفظ میں داخل کرایا.تین سال میں قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد حافظ صاحب جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ۱۹۸۴ء میں شاہد پاس کر کے گلگت اور شمالی علاقہ جات میں مربی مقرر ہوئے.اسی دوران آپ کے دماغ میں ٹیومر ہو گیا.کراچی میں آپ کا اپریشن بھی ہوا مگر صحت روز بروز گرتی گئی اور ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء کو آپ فضل عمر ہسپتال ربوہ میں وفات پاگئے.موصی تھے اس لئے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی.اناللہ وانا الیہ راجعون.مرحوم جوانی میں ہی عابد وزاہد اور تہجد گزار تھے.آپ شادی شدہ نہیں تھے.مرحوم کے والد مولوی غلام محمد صاحب کچھ ہی عرصہ پہلے مارچ 1999ء میں وفات پاچکے ہیں.آپ کے بھائی ثناء اللہ نے بھی ربوہ سے بی اے پاس کیا ہے اور آپ کی چھوٹی ہمشیرہ خدیجہ محترم سید عبدالحئی شاہ صاحب کے زیر کفالت پل رہی ہیں.نتر مدامتہ المتین صاحب اہلیہ محترم محمد افضل ظفر نبی اور ان کے بچے اب یہ آخری تذکرہ ہے ایک تازہ واقعہ کا.محترمہ امتہ المتین صاحبہ اہلیہ محترم محمد افضل ظفر صاحب.تاریخ وفات ۳ رمئی ۱۹۹۹ء محتر مہ امتہ المتین صاحبہ بنت چوہدری محمود احمد صاحب (عرضی نولیس وفات ۲۶ فروری ۱۹۷۸ء) ہمارے مبلغ نبی مکرم محمد افضل ظفر صاحب کی اہلیہ تھیں.چوہدری محمود احمد صاحب عرضی نویس کو میں ذاتی طور پر بہت اچھی طرح جانتا ہوں.آپ سنڈیکیٹ میں بھی ملازم رہے جس میں میں ان دنوں انچارج ہوا کرتا تھا اور اس کے علاوہ وقف جدید میں بہت آنا جانا تھا.بہت ہی نرم مزاج، خوش اخلاق، بہت ہی پیار کرنے والی طبیعت جس سے لوگوں کے دل موہ لیا کرتے تھے.افضل ظفر صاحب انہی کے داماد تھے.مئی سوموار کو محترم محمد افضل صاحب مربی سلسلہ کے اہل خانہ بیگم اور بچے ایک اور احمدی خاندان کے ساتھ لمباسہ سے سمندر کی طرف پکنک کے لئے گئے.پکنک سمندر میں ایک جزیرے پر منائی گئی.پکنک کے بعد سمندر کے اوپر چڑھنے کا وقت ہو چکا تھا.چنانچہ سمندر میں جوش آچکا تھا اور لہریں بہت زور دکھا رہی تھیں.چنانچہ جزیرے سے واپس آتے ہوئے اچانک کشتی ایک بڑی لہر سے ٹکرانے کے نتیجہ میں الٹ گئی اور کشتی پر سوار تمام افراد ڈوب گئے.افسوس ہے کہ اس سانحہ میں جو آٹھ

Page 150

خطبات طاہر بابت شہداء 134 خطبہ جمعہ ا ا / جون ۹۹ ١٩٩٩ء افراد جاں بحق ہوئے ان میں محترمہ امتہ المتین صاحبہ اور ان کے چار بچے عزیزہ ناصرہ ظفر صاحبہ عمر پندرہ سال عزیزه ساره ظفر عمر بارہ سال، عزیزه رابعه بشری عمر ساڑھے دس سال اور عزیز عطاء امنعم اکمل عمر چھ سال شامل تھے.انالله وانا اليه راجعون.محمد افضل ظفر صاحب کے بچوں میں سے صرف دو بیٹیاں عزیزہ طاہرہ ظفر عمر چودہ سال اور عزیزہ عطیة امنعم عمر پانچ سال بچیں جو اس کشتی پر سوار تھیں جس میں محمد افضل ظفر صاحب بھی سوار تھے.اور یہ کشتی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ گئی اور ان کی حالت بہت دردناک ہے.ان کے لئے میں دعا کی تحریک کرتا ہوں اگر چہ بچنے والوں نے ، افضل صاحب نے بھی اور ان کی دو بچیوں نے بھی غیر معمولی صبر کا نمونہ دکھایا ہے ان سب غرق ہونے والے شہداء کو اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے.مولوی محمد افضل ظفر صاحب کا خاندان تو خاص طور پر دوہری شہادت کا رتبہ پا گیا ہے.ایک فریق کی شہادت جس کا خود حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا اور دوسرے ایک واقف زندگی کی بیگم ہونے کے لحاظ سے اپنے وطن سے دور خدمت کے دوران انہیں اور ان کے بچوں کو جو حادثہ پیش آیا اس کی وجہ سے انہیں شہادت کا ایک اور مرتبہ بھی نصیب ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو غریق رحمت فرمائے.آج کی فہرست عین وقت کے مطابق ختم ہوئی ہے.باقی انشاء اللہ اگلے جمعہ سے پھر شہداء کا تذکرہ شروع کیا جائے گا.ابھی تو بہت بڑی فہرست باقی ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ کب تک سلسلہ چلے گا.

Page 151

خطبات طاہر بابت شہداء 135 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء عہد خلافت ثالثہ کے شہداء (خطبه جمعه فرموده ۱۸ جون ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورہ بقرہ کی آیات کریمہ: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة :۱۵۴ - ۱۵۵) کی تلاوت کی اور پھر یوں ترجمہ بیان فرمایا: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے مدد طلب کرتے رہو صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ.یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.مکرم رستم خان صاحب مردان آج کے خطبہ سے میں خلافت ثالثہ کے شہداء کا ذکر شروع کرتا ہوں.سب سے پہلے اس ضمن میں رستم خان شہید مردان کا ذکر ہو گا.یوم شہادت ۱۱ فروری ۱۹۶۶ء.مکرم رستم خان صاحب شہید کو خلافت ثالثہ کے دور میں پہلا شہید ہونے کا امتیاز حاصل ہے.اگر چہ ان کے حالات بہت حد تک جماعت کی تاریخ میں محفوظ ہیں لیکن ان کے بعض بچوں نے حال ہی میں جو واقعات لکھ کر

Page 152

خطبات طاہر بابت شہداء 136 خطبہ جمعہ ۱۸ / جون ۱۹۹۹ء بھجوائے ہیں غالبا وہ زیادہ مکمل ہیں اس لئے انہی کے بیان پر اکتفاء کرتے ہوئے اس شہادت کا تذکرہ کرتا ہوں.نام رستم خان خٹک شہید.پشاور کے قریب ایک گاؤں جلوزئی کے رہنے والے تھے.خود احمدی ہوئے تھے اور اپنے گاؤں بلکہ آس پاس کے کئی گاؤں میں اکیلے احمدی تھے.احمدی ہونے پر سارا گاؤں ان کا مخالف ہو گیا اور انہیں گھر سے نکال دیا گیا ، جائیداد سے عاق کیا گیا.ان پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا گیا کہ قادیانیت سے توبہ کر لو ان کے بچوں میں پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.چاوغیرہ چاہتے تھے کہ ان کی نسل کو ہی ختم کر دیا جائے.بیٹیوں کو گاؤں لے جا کر بیچنے کی سازش کی گئی.بیٹے کرنل عبدالحمید حال راولپنڈی کو بارہا جان سے مارنے کی کوشش کی گئی.شہید اپنی سروس کے سلسلہ میں زیادہ تر باہر رہتے تھے.گاؤں کی مسجد کے مولوی نے فتوی دیا کہ جو کوئی رستم خان کی نسل کو ختم کرے گا وہ جنتی ہو گا.ان کی بیگم کو ایک دو دفعہ کسی مرگ پر گاؤں جانا ہوا تو کھانے پینے کے برتن الگ ہوتے تھے.سب اچھوتوں والا سلوک کرتے تھے.کھانے میں زہر ملانے کی بھی سازش کی گئی جو کے ناکام ہوئی.جب ۹ فروری ۱۹۶۶ء کو شہید کے والد کی وفات ہوئی تو ان کی لاش لے کر بچے گاؤں گئے گاؤں پہنچتے ہی تمام گاؤں میں مولوی نے اعلان کیا کہ: لوگو! خوش ہو جاؤ ، آج رستم خان قادیانی آیا ہے.اس کو قتل کر دو اور اس کی اولاد کو علاقہ غیر میں بیچ دویا پھر گاؤں میں بیاہ دو.اس کا ایک بیٹا ہے اس کو مار ڈالو اور اب جو بھی ثواب کمانا چاہتا ہے، بہادر بنے اور سامنے آئے کیونکہ جنت کمانے کا ذریعہ سامنے آیا ہے.“ رات کو رستم شہید کے والد کی تدفین سے پہلے جب یہ اعلان ہوا تو انہوں نے اپنی بیگم کو بلا کر کہا کہ تم کسی طرح سے اپنے بھائیوں عبدالسلام اور عبدالقدوس کو اطلاع کرو کہ وہ تعزیت کے بہانے گاؤں آئیں اور بچوں کو ساتھ لے جائیں کیونکہ حالات ٹھیک نہیں ہیں اور مجھے بیٹیوں کا خطرہ ہے.دوسری طرف بیٹا عبدالحمید جو ان دنوں کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پڑھتا تھا اور اٹھارہ

Page 153

خطبات طاہر بابت شہداء 137 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء سال کا تھا، دادا کی وفات پر گاؤں آرہا تھا.جونہی وہ گاؤں پہنچا.اس نے دیکھا کہ ایک شخص منہ پر ڈھاٹا باندھے گاؤں کے باہر جہاں ویگن رکھتی ہے، ایک جگہ چھپ کر بیٹھا ہوا تھا.عبدالحمید نے اس کو دیکھ لیا اور پیچھے سے جاکر پکڑ لیا.دیکھا تو وہ اس کا چچا تھا.اس نے کہا چچا آپ.چا گھبرا کر بولا کہ ہاں میں تمہاری حفاظت کے لئے بیٹھا ہوں کیونکہ لوگ تمہیں قتل کرنا چاہتے ہیں.اس نے جب یہ واقعہ اپنی امی کوسنایا تو وہ اور بھی پریشان ہو گئیں اور انہیں اور دوسرے بچوں کو ماموں کے آنے پر وہاں سے نکلوا دیا.دوسرے روز اار فروری ۱۹۶۶ء کو رستم خان شہید صبح کی نماز کے لئے وضو کر نے کھیتوں کی طرف جارہے تھے کہ فائر کی آواز آئی.ان کی بیگم یہ آواز سن کر باہر کی طرف بھا گئیں.پیچھے سے رستم شہید کے بھائیوں نے پکڑ لیا لیکن وہ چونکہ پہلے سے چوکنا تھیں اس لئے ان کو دھکا دے کر باہر نکل گئیں.باہر جا کر دیکھا تو دشمن اپنا کام کر چکے تھے اور ان کے خاوند راہ مولیٰ میں شہید ہو چکے تھے.اب وہ بچوں کو ڈھونڈنے لگے لیکن بچے تو وہاں سے پہلے ہی نکل چکے تھے.ان کی بیگم کو اللہ تعالیٰ نے صبر کی قوت دی.گاؤں کے مولوی نے آکر کہا کہ کس پر رپورٹ درج کرو گی.انہوں نے کہا یہ معاملہ خدا کے سپرد ہے.تم سب لوگ راستے سے ہٹ جاؤ.میں اپنے خاوند کی لاش کو پشاور لے کر جاؤں گی اور وہاں ہماری جماعت کے لوگ دفن کریں گے.ایک بیوہ عورت کی دلجوئی کی بجائے تمام گاؤں والے ان پر دباؤ ڈالنے لگے کہ اس کو یہیں دفنا دو اور بچوں کو ہمارے سپر دکر دو تا کہ ہم انہیں پھر مسلمان بنالیں.اس وقت ان کی بیگم نے نعش کے سامنے ایک تقریر کی کہ آج تو میں اپنے خاوند کی لاش کو یہاں سے لے جا کر رہوں گی.یا درکھنا کہ جس سچائی کو رستم خان نے پایا تھا، میں اور میری اولا داس سے مڑنے والے نہیں.انشاء اللہ رستم خان کی نسل پھیلے گی.“ تمام لوگوں نے کہا کہ یہ عورت پاگل ہوگی ہے.بجائے بین کرنے کے بڑی بڑی باتیں کرتی ہے.اگلے دن ان کی بیگم شہید کی لاش لے کر پشاور آئیں اور وہاں تدفین ہوئی.دشمنوں کا انجام: ایک سال کے اندر اندر ان کے ایک بھائی جس نے ان کے بیٹے حمید کو بھی

Page 154

خطبات طاہر بابت شہداء 138 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء مارنے کی کوشش کی تھی.اس کا جواں سال اکلوتا بیٹا کنوئیں میں ڈوب کر مر گیا.دوسرے چچا کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا.تیسرے چا کو نا گہانی موت آ گئی.کچھ پتا نہیں چلا کہ کیوں مرا اور ایک چچا کا سارا گھر اچانک بارشوں سے گر گیا اور اس کے دو بچے موقع پر ہی مر گئے.رستم خان شہید کے پسماندگان: بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں چھوڑ ہیں.بیٹا کرنل عبدالحمید خٹک راولپنڈی میں رہتے ہیں.بڑی بیٹی شمیم اختر صاحبہ کرنل نذیر احمد صاحب کی اہلیہ ہیں اور امریکہ میں قیام پذیر ہیں.دوسری بیٹی رقیہ بیگم صاحبزادہ جمیل لطیف صاحب کی اہلیہ ہیں.تیسری بیٹی یاسمین ڈاکٹر قاضی مسعود احمد صاحب امریکہ کی اہلیہ ہیں.چوتھی بیٹی نگہت ریحانہ بھی امریکہ میں ہیں اور ناصراحمد کی اہلیہ ہیں.پانچویں بیٹی ناہید سلطانہ صاحبہ کرنل اولیس طارق صاحب کی اہلیہ ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں.مولوی عبدالحق نور صاحب کرونڈی مولوی عبدالحق نور صاحب - تاریخ شہادت ۲۱ / دسمبر ۱۹۶۶ء.آپ قادیان کے قریب ایک گاؤں ”بھٹیاں گوت“ کے رہنے والے تھے.آپ کے والد مکرم الہی بخش صاحب ایک معروف زمیندار تھے اور ہندو، سکھ اور مسلمان سب آپ سے اپنے معاملات کے فیصلے کرواتے تھے.آپ نے چارسال تک بطور ہیڈ ماسٹر ملازمت کر کے ملازمت کو خیر باد کہ دیا.لمبی سوچ بچار اور دعاؤں کے بعد ۱۹۳۴ء کے جلسہ سالانہ پر بیعت کی.بیعت کرنے کے فوراً بعد ہی آپ کی مخالفت شروع ہو گئی.آپ نے مخالف مولوی کو دعوت مباہلہ دی جس کی تحریرلکھی گئی جس میں آپ نے تحریر کیا: اگر حضرت مسیح موعود بچے ہیں تو سب سے پہلے مخالف مولوی کا بیٹا مرے گا اور اس کے بعد وہ خود بھی مرجائے گا.“ چنانچہ مولوی محمد اسماعیل جس کے ساتھ آپ نے مباہلہ کیا تھا مر گیا.یہ اطلاع آپ کے بھائی نے دی.آپ نے جوش میں آکر کہا تحریر مباہلہ میں تو تھا کہ اس کا بیٹا پہلے فوت ہوگا.جا کر پتہ کرو کہ اس کا بیٹا فوت ہوا کہ نہیں.چنانچہ پتہ کرنے سے معلوم ہوا کہ پہلے مولوی مذکور کا بیٹا فوت ہوا تھا اور پھر وہ مرا.اس واقعہ کو دیکھ کر آپ کے بھائی نے بھی بیعت کر لی.زمیندارہ کا وسیع تجربہ ہونے کی وجہ سے آپ کو تقسیم ہند کے بعد محمود آباد، ناصر آباد اور دوسری

Page 155

خطبات طاہر بابت شہداء 139 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء اسٹیٹس میں کام کی نگرانی پر مقرر کیا گیا.۱۹۴۲ء میں آپ کر ونڈی منتقل ہو گئے اور زمینوں کے ٹھیکے وغیرہ لینے شروع کئے.آپ بہترین داعی الی اللہ تھے.آپ کی تبلیغ سے آپ کے رشتہ داروں میں سے پچاس کے قریب احمدی ہوئے.کرونڈی جماعت کی داغ بیل آپ نے ہی ڈالی.شہادت کے وقت تک کرونڈی جماعت کے صدر رہے.واقعہ شہادت : دسمبر ۱۹۶۶ء کی بات ہے کہ بعض متعصب اور شر پسند عناصر نے آپ کے خلاف سیکیم تیار کی اور آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا چنانچہ انہوں نے کرائے کے دو قاتل اس غرض کے لئے بھیجے.جو آپ کے پاس اس انداز سے آئے گویا وہ بیعت کرنا چاہتے تھے.آپ حسب معمول ان کو تبلیغ کرتے ہوئے شام کے وقت اپنے گھر لے آئے.انکی خاطر مدارت کی نمازیں باجماعت ادا کیں پھر فجر کی نماز پر آپ نے خود پانی گرم کر کے ان کو وضو کر وایا اور انہیں نماز پڑھائی اور نماز کے بعد انہیں باہر اپنے باغ میں لے آئے.وہاں کچھ دیر چار پائیوں پر بیٹھے رہے اور ان کو تبلیغ کی.پھر ان کولے کر باغ کی سیر کروانے چلے گئے.آپ کے پوتے مقصود احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے چا یعقوب صاحب نے ان سے کہا کہ پتہ تو کرو، کافی دیر ہوگئی ہے ، آئے نہیں.وہ کہتے ہیں میں جب باغ میں گیا تو میں نے دیکھا ہمارا وہ مہمان جو مولوی عبدالحق صاحب کے ساتھ باغ میں گیا تھا بھاگ رہا.مجھے شک پڑا تو میں نے اپنے چا کو بھی آواز دی کہ ادھر آئیں.پھر ہم باغ میں ادھر اُدھر دیکھنے لگے.دادا جان کو دیکھا تو وہ شہید کر دیئے گئے تھے.اناللہ وانا الیه راجعون.شہید مرحوم موصی تھے.ایک سال تک کر ونڈی میں امانتاً دفن رہے پھر ربوہ میں بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.مکرم بشیر احمد طاہر بٹ صاحب کنڈیارو بشیر احمد طاہر بٹ کنڈیار وضلع نواب شاہ.تاریخ شہادت ۲۹ رمئی ۱۹۷۴ء.بشیر احمد بٹ صاحب ابن محمد دین بٹ صاحب کنڈیارو کے رہنے والے تھے.آپ کا اصل آبائی گاؤں سیالکوٹ تحصیل شکر گڑھ تھا.تلاش معاش کے سلسلہ میں مختلف جگہوں پر پھرتے رہے اور آخر کار کنڈیار وضلع نواب شاہ میں سکونت اختیار کی.بہت مہمان نواز اور ملنسار تھے.بہترین داعی الی اللہ تھے.عبادت گزار ، سلسلہ کے فدائی، مرکز کی ہر تحریک پر لبیک کہنے والے اور ہر قسم کی قربانی دینے والے مخلص خادم

Page 156

خطبات طاہر بابت شہداء 140 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء سلسلہ تھے.۲۶ مئی ۱۹۷۴ء کو اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک طالب علم نے آپ پر حملہ کیا جس کے نتیجہ میں آپ شدید زخمی ہو گئے.آپ کو فوراً ہسپتال پہنچایا گیا مگر جب نواب شاہ ہسپتال کے ڈاکٹر عاجز آگئے تو آپ کو حیدر آباد ہسپتال منتقل کر دیا گیا لیکن وہاں بھی علاج کارگر نہ ہو سکا اور آپ نے ۲۹ رمئی ۱۹۷۴ء کو اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی.انالله واناالیه راجعون.۳۰ رمئی ۱۹۷۴ء کو جنازہ پڑھایا گیا جس میں احمدیوں کے علاوہ غیر از جماعت نے بھی بھاری تعداد میں شرکت کی.شہید مرحوم کو ان کی اپنی زمین میں سپرد خاک کیا گیا.آپ کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ چار بیٹے اور بیٹیاں ہیں.آپ کا قاتل رفیق میمن کسی جرم میں سات سال تک جیل میں رہا.وہاں سے رہا ہونے کے بعد اس کا ایکسیڈنٹ ہوا جس میں اس کے اوپر سے ٹرک گذر گیا اور اس کی لاش رات بھر کہتے نوچتے رہے.قاتل کا خاندان مشہور کاروباری خاندان تھا.اس کا کاروبار اور خاندان بھی تباہی و بربادی سے دو چار ہوا.مکرم محمد افضل کھوکھر صاحب اور مکرم محمد اشرف کھوکھر صاحب گوجرانوالہ مکرم محمد افضل کھوکھر صاحب اور محمد اشرف کھوکھر صاحب گوجرانوالہ.تاریخ شہادت یکم جون ۱۹۷۴ء مکرم محمد افضل کھوکھر شہید کی اہلیہ سعیدہ افضل بیان کرتی ہیں کہ شہادت سے چند روز پہلے افضل شہید عشاء کی نماز پڑھ کر گھر واپس آئے تو میں بستر میں بیٹھی رو رہی تھی.دیکھ کر کہنے لگے سعیدہ کیوں رورہی ہو.میں کہا یہ کتاب "روشن ستارے ، پڑھ رہی تھی اور میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی حضرت رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہوتی اور میرا نام کسی نہ کسی رنگ میں ایسے روشن ستاروں شامل ہو جاتا.اس پر افضل کہنے لگے یہ آخــریـن کا زمانہ ہے، اللہ کے حضور قربانیاں پیش کرو تو تم بھی اولین سے مل سکتی ہو اور پہلوں میں شمار ہو سکتی ہو.مجھے کیا خبر تھی کہ کتنی جلدی اللہ تعالیٰ میری آرزو کو پورا کرے گا اور کتنی دردناک قربانیوں میں سے مجھے گزرنا پڑے گا.۳۱ رمئی کی رات احمدیوں کے خلاف فسادات کا جوش تھا.ساری رات جاگ کر دعائیں کرتے گزرگئی.ہم جیسے بھی بن پڑا اپنا دفاع کرتے رہے.مجھے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ میرے شوہر اور بیٹے کے ساتھ یہ میری آخری رات ہے.یکم جون کو جلوس نے حملہ کر دیا.عورتوں کو افضل شہید نے

Page 157

خطبات طاہر بابت شہداء 141 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء اپنے ہمسایوں کے گھر بھیج دیا اور خود باپ بیٹا گھر پر ٹھہر گئے کیونکہ اس وقت ہدایت یہی تھی کہ کوئی مرد اپنا گھر نہیں چھوڑے گا لیکن عورتوں اور بچوں کو بچانے کی خاطر ان کو بے شک محفوظ جگہوں میں پہنچادیا جائے.کہتی ہیں کہ سارا دن شور بپار ہا اور حملہ ہوتارہا.توڑ پھوڑ کی آوازیں آتی رہیں.مگر ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ باپ بیٹے پر کیا گزری اور ظالموں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا.رات ہمیں ایک اور جگہ منتقل کر دیا گیا.وہاں اپنے خاوند افضل صاحب اور اپنے بیٹے اشرف کا انتظار کرتی رہی.رات گیارہ بجے ان کو بتایا گیا کہ دونوں باپ بیٹا شہید ہو گئے ہیں.انــالــلــه وانــا اليــه راجعون.بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں بڑے دردناک طریقے سے مارا گیا تھا.چھرے مارے گئے.انتڑیاں باہر نکل آئیں.پھر اینٹوں سے سر کوٹے گئے.اس طرح پہلے بیٹے کو باپ کے سامنے مارا گیا.جب اس نوجوان بیٹے کو اس طرح کچل کچل کر مار دیا گیا تو پھر باپ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اب بھی ایمان لے آؤ اور مرزا غلام احمد قادیانی کو گندی گالیاں دو.ایک موقع کے گواہ کے بیان کے مطابق افضل نے جواب دیا کہ کیا تم مجھے اپنے بیٹے سے ایمان میں کمتر سمجھتے ہو جس نے میرے سامنے اس بہادری سے جان دی ہے.جب آخری وقت سسکتے ہوئے وہ پانی مانگ رہا تھا تو گھر پر جو عمارت کے لئے ریت پڑی تھی وہ اس کے منہ میں ڈال دی اور باپ نے یہ نظارہ بھی دیکھا اس نے کہا جو چاہوکرلو، اس سے بدتر سلوک مجھ سے کرو مگر اپنے ایمان سے متزلزل نہیں ہوں گا.اس پر ان کو اسی طرح نہایت ہی دردناک عذاب دے کر شہید کیا گیا.اور پھر دونوں کی نعشیں تیسری منزل سے گھر کے نیچے پھینک دی گئیں اور سارا دن کسی کو اجازت نہیں تھی کہ وہ ان کی نعش کو اٹھا سکے.مکرم محمد افضل کھوکھر شہید نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے دو بیٹیاں طیبہ سعید صاحبہ اور طاہرہ ماجد صاحبہ کینیڈا میں مقیم ہیں ایک بیٹی عزیزہ ثمینہ یاسمین رصاحبہ یہاں یو کے میں آباد ہیں.دونوں بیٹے آصف محمود کھوکھر اور بلال احمد کھوکھر بھی کینیڈا میں مقیم ہیں اور ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور تمام پسماندگان خدا کے فضل سے دین و دنیا کی نعمتوں سے متمتع ہیں.چودھری منظور احمد صاحب اور چودھری محمود احمد صاحب گوجرانوالہ شہادت چودھری منظور احمد صاحب اور چودھری محمود احمد صاحب گوجرانوالہ.تاریخ

Page 158

خطبات طاہر بابت شہداء 142 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء شہادت یکم جون ۱۹۷۴ء.چودھری منظور احمد صاحب کی بیوہ محترمہ صفیہ صدیقہ صاحب لکھتی ہیں کہ جون ۱۹۷۴ء میں جب حالات خراب ہوئے تو پولیس ان کے بیٹے مقصود احمد کو ایک مولوی کے کہنے پر دکان سے گرفتار کر کے لے گئی اور حوالات میں بند کر دیا.اگلے دن جلوس نے گھروں پر حملہ کر دیا.عورتوں کو ایک احمدی گھر پر جو بظا ہر محفوظ تھا پہنچا دیا گیا.بعض لوگوں نے بتایا کے ان کے گھروں کو جلوس نے آگ لگا دی ہے اور وہاں پر موجود تمام افراد زخمی ہو گئے ہیں.حالانکہ اس وقت تک وہ شہید کئے جاچکے تھے.اس دن شام کو جب ایک ٹرک چھ شہیدوں کو لے کر را ہوالی پہنچا تو اس وقت پسماندگان کو پتہ چلا کے ان کے پیارے شہید ہو چکے ہیں.جلوس کے خطرے سے جو پیچھے لگا ہوا تھا ٹرک ان لاشوں کو لے کر چلا گیا اور پسماندگان ان کے چہرے بھی نہ دیکھ سکے.صفیہ صدیقہ صاحبہ اپنے بیٹے کی شہادت کا واقعہ مزید تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ جلوس کے ساتھ جو پولیس تھی اس کا ایک سپاہی راہوالی کا رہنے والا تھا.اس نے بتایا کے یکم جون کو سول لائن میں ایک گھر کی چھت پر جو معرکہ گزرا وہ دیکھ کر مجھے معلوم ہوا کہ صحابہ کیسے جان نثار کرتے تھے.اس نے کہا، میں اس لڑکے کو کبھی بھلا نہیں سکوں گا جس کی عمر بمشکل سترہ اٹھارہ برس ہوگی.سفید رنگ اور لمبا قد تھا.اس کے ہاتھوں میں ایک بندوق تھی.جلوس میں شامل لوگوں کی ایک بڑی تعداد پولیس سمیت اس کے مکان کی چھت پر چڑھ گئی.ہمارے ایک ساتھی نے جاتے ہی اس کے ہاتھ پر ڈنڈا مارا اور بندوق چھین لی.جلوس اس لڑکے پر تشدد کر رہا تھا.جلوس میں سے کسی نے کہا: ”مسلمان ہو جاؤ اور کلمہ پڑھو.“ اس نے کلمہ پڑھا اور کہا میں سچا احمدی مسلمان ہوں.جلوس میں سے کسی نے کہا کہ مرزا کو گالیاں دو.اس لڑکے نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا یہ کام میں نہیں کرسکتا، یہ کام میں کبھی نہیں کروں گا اور ان کی ایک نہ سنی.اس نے کہا تم مجھے اس کو گالیاں دینے کے بارہ میں کہہ رہے ہو جو اس جان سے بھی زیادہ پیارا ہے اور ساتھ ہی اس نے مسیح موعود زندہ باد اور احمد بیت زندہ باد کا نعرہ لگایا.نعرہ لگانے کی دیر تھی کہ جلوس نے اس لڑکے کو چھت سے اٹھا کر نیچے پھینک دیا اور اس پر اینٹوں اور پتھروں کی بارش شروع ہو گئی.چھت پر بنے ہوئے پردوں کی جالیاں تو ڑ کر بھی اس پر پھینکیں.یہ وہ واقعہ ہے جو اس دن اس پولیس والے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا.ان ظالموں کا کیا انجام ہوا.اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے.مگر اکثر ایسے لوگ آخرت کے علاوہ دنیا کے عذاب میں بھی مبتلا

Page 159

خطبات طاہر بابت شہداء 143 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء کئے جاتے ہیں.جن کے حالات بھی معلوم ہو سکے ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے.مکرم چودھری شوکت حیات صاحب حافظ آباد شہادت مکرم چودھری شوکت حیات صاحب.تاریخ شہادت یکم جون ۱۹۷۴ء مکرم چودھری شوکت حیات صاحب تھہیم ۱۹۲۰ء میں مکرم چودھری محمد حیات خان صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر پولیس ، صحابی حضرت مسیح موعود کے ہاں حافظ آباد میں پیدا ہوئے.تعلیم حافظ آباد اور قادیان میں حاصل کی.پھر پولیس میں ملازمت اختیار کی ۳۱ رمئی بروز جمعتہ المبارک ۱۹۷۴ء کو حافظ آباد شہر میں ہنگامہ ہوا اور یہ ہنگامہ یکم جون کو زور پکڑ گیا.شور شرابہ کرنے والوں کی ٹولیاں شہر میں نعرہ بازی کر رہی تھیں.شہید مرحوم کے بچوں کی سٹیشنری کی ایک دکان تھی جس کے متعلق خبر ملی کہ لوٹ لی گئی ہے اور بقیہ سامان کو آگ لگا دی گئی ہے.آپ بچوں سمیت جائے وقوعہ پر پہنچے تو پتہ چلا کہ شر پسند لوٹ ماکر کے جاچکے ہیں اور آگ پر پولیس نے قابو پالیا ہے.آپ اپنی دوکان کے سامنے چوبارہ پر بیٹھ گئے.آپ کا ایک بیٹا شفقت حیات بھی آپ کے ساتھ تھا.اتنے میں ایک ہجوم گزرا جو حضرت مسیح موعود کی شان میں گستاخی کر رہا تھا.آپ نے جلوس کی قیادت کرنے والوں سے کہا کہ کچھ حیا کرو.جن کی تم توہین کر رہے ہو انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے.آپ اس وقت اندازہ نہ لگا سکے کہ اس وقت اصولوں پر شر پسندی غالب ہے.چنانچہ بجائے سرد پڑنے کے ان کی آتش غضب اور بھی شعلہ زن ہوئی اور آپ کے ان الفاظ نے جلتی پر تیل کا کام کیا.شریروں نے کہا کہ ان کو پکڑ لو.قریب ہی ریلوے لائن تھی چنانچہ وہ وہاں سے پتھر اٹھا اٹھا کر آپ کو مارنے لگے.آپ کا بیٹا شفقت حیات جو وہاں موجود تھا ان کے ہی پھینکے ہوئے جواباً انہیں مارنے لگا اور کچھ دیر ان کو مزید پیش قدمی نہ کرنے دی.اسی اثنا میں انہیں کسی نے بتایا کہ سامنے سے تم کامیاب نہیں ہوسکو گے، مکان کے پچھواڑے سے حملہ کرو.چنانچہ وہ پیچھے سے حملہ آور ہوئے.چنانچہ وہ پیچھے سے حملہ آور ہوئے.پہلے آپ کے بیٹے کو پتھروں سے شدید زخمی کیا.ان کے جسم پر چالیس کے قریب زخم آئے لیکن وہ تقریباً ایک مہینہ مسلسل علاج کے بعد صحت یاب ہو گئے.ان کے والد شوکت حیات کو وہ ظالم گھسیٹ کر نیچے لے گئے اور پتھر مار مار کر لہولہان کر دیا.اتنے میں پولیس بھی آگئی اور شر پسند موقع سے بھاگ گئے.ابھی آپ میں زندگی کی رمق باقی تھی.چناچہ فوراً آپکو

Page 160

خطبات طاہر بابت شہداء 144 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء ایک عزیز مکرم حق نواز صاحب نے اپنی گاڑی میں ڈال کر لا ہور کا قصد کیا لیکن آپ زخموں کی تاب نہ لا سکے اور رستہ میں ہی دم توڑ گئے.انالله وانا اليه راجعون.بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے چھوڑے.اہلیہ فروری ۱۹۹۰ء میں وفات پاگئیں اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں اور بچوں میں سے بیٹی نشاط افزا ڈسکہ میں بیاہی ہوئی ہیں.بڑے بیٹے شفقت حیات گوجرانوالہ میں کاروبار کرتے ہیں.دوسرے بیٹے عظمت حیات ٹورانٹو (کینیڈا) میں آباد ہیں.جبکہ تیسرے بیٹے سعادت حیات صاحب جرمنی میں مقیم ہیں.مکرم قریشی احمد علی صاحب گوجرانوالہ قریشی احمد علی صاحب گوجرانوالہ.یوم شہادت: یکم جون ۱۹۷۴ء.آپ ۱۹۴۳ء میں سنداں والی ضلع سیالکوٹ میں مکرم حکیم فضل دین صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.بلوغت کے بعد گوجرانوالہ شہر میں منتقل ہو گئے.واقعہ شہادت : ۲۹ مئی ۱۹۷۴ء کو گوجرانوالہ میں حالات خراب ہونا شروع ہوئے.آپ کے بیٹے ڈاکٹر ناصر احمد صاحب جو ناظم اطفال ضلع تھے اور جماعت کی طرف سے حالات کا جائزہ لینے کی ڈیوٹی پر تھے، نے گھر آکر اپنے والد محترم کو بتایا کہ حالات خراب ہیں.کہنے لگے کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.۳۰ مئی کو حالات مزید خراب ہو گئے.چنانچہ یکم جون کو عورتیں اور بچے قریشی مجید احمد صاحب سپرنٹنڈنٹ جیل کے گھر پہنچا دیئے گئے.اور مردوں کو گل روڈ میں ایک احمدی گھرانے میں اکٹھا کر دیا گیا.جلوس نے ان کا رخ کیا اور سب سے پہلے سعید احمد خان صاحب اور ان کے خسر مکرم چودھری منظور احمد صاحب کو شہید کیا گیا.ان کے گھر قریشی احمد علی صاحب بھی تھے.شرپسند بعد ازاں پھر ان پر حملہ آور ہوئے اور ان پر کسی کا وار کیا گیا جو اتنا گہرا لگا کہ موقع پر ہی شہید ہو گئے.مکرم سعید احمد خان صاحب گوجرانوالہ سعید احمد خان صاحب ابن محمد یوسف صاحب مندوخیل - تاریخ شہادت: یکم جون ۱۹۷۴ء.سعید احمد صاحب شہید ۲۶ مئی ۱۹۳۷ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی.میٹرک کا امتحان لاہور سے پاس کیا اور لاہور ہی سے ایف.اے کیا.۱۹۶۳ء میں ان کی شادی

Page 161

خطبات طاہر بابت شہداء 145 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء انیسہ طیب صاحبہ بنت چودھری منظور احمد صاحب سے ہوئی.فیصل آباد میں سیکرٹری مال اور قائد خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے.ملازمت کے سلسلہ میں کوئٹہ کے قیام کے دوران وہاں بھی قائد خدام الاحمدیہ رہے.آپ نے نیروبی کینیا میں بھی کچھ عرصہ گزارا.وہاں پہلے نائب قائد خدام الاحمدیہ تھے پھر قائد خدام الاحمدیہ کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے.پھر گوجرانولہ منتقل ہو گئے.جب آپ نے سول لائن گوجرانوالہ میں اپنا مکان بنوایا تو ساتھ ہی مسجد احمدیہ کی بنیاد رکھ دی.احاطہ گھیر کر اس پر مسجد احمدیہ کا بورڈ لگا دیا.اسی دن سے مولوی حضرات نے جو قریبی مسجد کے تھے، آپ کی سخت مخالفت شروع کر دی.۱۹۷۴ ء کے حالات سے پہلے ہی مسجد سے بورڈ اتارنے اور مسجد احمدیہ کو شہید کرنے اور آپ کے قتل کے پروگرام بن چکے تھے.واقعہ شہادت: یکم جون ۱۹۷۴ء بروز ہفتہ سول لائن گوجرانوالہ میں صبح کے وقت جلوس آیا اور ساتھ ساتھ پولیس والے بھی تھے.مکرم سعید احمد خان صاحب تھانے دار کے پاس گئے کہ جلوس کو روکو مگر کافی بحث کے بعد کچھ نتیجہ نہ نکلا.آخر جب آپ واپس آنے لگے تو اس تھانے دار نے اشارہ کیا.اس پر جلوس مکرم سعید احمد خان صاحب پر ٹوٹ پڑا اور پتھروں اور ڈنڈوں سے آپ کو بے دردی سے موقع پر ہی شہید کر دیا.اناللہ وانا الیه راجعون.پسماندگان : شہید مرحوم نے اپنے پیچھے ایک بیٹا اور چار بیٹیاں چھوڑی ہیں.بڑا بیٹا رشید احمد خان آج کل آسٹریلیا میں ہے.بیٹی منورہ کینیڈا میں ہے اور مکرم مبارک اعظم صاحب کی اہلیہ ہیں.سیکرٹری تربیت کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں.دوسری بیٹی فرزانہ منیب صاحبہ بھی شادی شدہ ہیں جن کے میاں مکرم رائے منیب احمد صاحب آج کل نائب ناظم انصار اللہ شیخو پورہ ہیں.تیسری بیٹی شبنم نواز ان دنوں کینیڈا میں ہیں.چوتھی بیٹی در مشین مسرور صاحبہ ہیں جن کی شادی مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی کے پوتے مسرور احمد صاحب سے ہوئی ہے اور ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں.مکرم بشیر احمد صاحب، مکرم منیر احمد صاحب گوجرانوالہ شہادت بشیر احمد صاحب ، منیر احمد صاحب گوجرانوالہ - یوم شہادت ۲ جون ۱۹۷۴ء.بشیر احمد صاحب مرکز احمدیت قادیان کے ایک قریبی گاؤں ٹوڈرمل میں ۱۹۴۳ء میں پیدا ہوئے.بوقت ہجرت آپ کی عمر چار سال تھی.میٹرک کے بعد محکمہ صحت میں ملازمت اختیار کر لی اور آخری وقت تک

Page 162

خطبات طاہر بابت شہداء 146 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء اسی محکمہ سے منسلک رہے.ان کے چھوٹے بھائی منیر احمد صاحب دسمبر ۱۹۵۶ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے.بوقت شہادت عمر میں سال تھی.ابھی غیر شادی شدہ تھے اور پنکھوں کے کارخانہ میں کام کرتے تھے.واقعہ شہادت: یکم جون بروز ہفتہ ڈیوٹی سے گھر آئے تو اپنی والدہ سے کہنے لگئے اماں جلوس آ رہا ہے.والدہ نے کہا اچھا بیٹا بتاؤ کیا پسند ہے، میں وہی پکاتی ہوں.والدہ نے حسب منشاء چاول پکائے مگر انہوں نے جی بھر کر نہ کھائے.اس کے بعد آپ والدین کو اپنے دوست سلیم کے گھر چھوڑ آئے اور ان کی حفاظت کی تاکید کی.دونوں بھائی بشیر احمد اور منیر احمد رات بھر مکان کی چھت پر پہرہ دیتے ہوئے جاگتے رہے.جلوس کا جس طرف سے آنا متوقع تھا اس طرف ناکہ بندی کا انتظام تھا مگر جلوس اس قدر کثیر تعداد میں تھا کہ نہ رک سکا اور آگے بڑھتا آیا یہاں تک کہ ان کے مکان کے پاس آگیا.چنانچہ آپ نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہم نے بھا گنا نہیں ، حضور کا حکم ہے کہ اپنا گھر چھوڑ کر بھا گنا نہیں.خواہ ہم مارے جائیں.چنانچہ جلوس نے ہلہ بول دیا اور آپ دونوں حقیقی بھائیوں بشیر احمد اور منیر احمد کو موقع پر ہی نہایت اذیت سے شہید کر دیا گیا.اناللہ وانا الیہ راجعون.مکرم محمد رمضان صاحب اور مکرم محمد اقبال صاحب گوجرانوالہ محمد رمضان صاحب ومحمد اقبال صاحب ابناء محترم علی محمد صاحب.یوم شہادت ۲ / جون ۱۹۷۴ء.دونوں ویر و وال تحصیل ترن تارہ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے جو کہ قادیان کے قریب ایک گاؤں ہے.قادیان سے اتنا قریب تو نہیں جتنا لکھا ہے لیکن بہر حال لکھا ہوا یہی ہے کہ قادیان کے قریب ایک گاؤں ہے.۱۹۴۷ء میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو آپ کے والدین نے وہاں سے نقل مکانی کر کے فیصل آباد میں سکونت اختیار کی.کچھ عرصہ فیصل آباد میں رہنے کے بعد آپ کو ہلووال، ضلع گوجرانوالہ میں منتقل ہو گئے اور ۲ جون ۱۹۷۴ء کو مخالفین احمدیت دونوں بھائیوں محمد رمضان صاحب اور محمد اقبال صاحب کو دھوکہ دہی سے گھر سے بلا کر لے گئے اور گاؤں کے قریب ایک نہر کے کنارے لے جا کر دونوں کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا.نعشیں نہر میں پھینک دیں.محمد رمضان شہید کی نعش تو برآمد ہو گئی مگر محمد اقبال شہید کی نعش کوشش کے باوجود دستیاب نہ ہوسکی.انالله وانا اليه راجعون.

Page 163

خطبات طاہر بابت شہداء 147 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء مکرم غلام قادر صاحب اور چودھری عنایت اللہ صاحب گوجرانوالہ شہادت غلام قادر صاحب ابن روشن دین صاحب اور چودھری عنایت اللہ صاحب ابن فضل دین صاحب گوجرانوالہ تاریخ شہادت ۲ جون ۱۹۷۴ء.مکرم غلام قادر صاحب کے والد روشن دین صاحب ضلع گوجرانوالہ میں آباد ہوئے اور اپنے چار بھائیوں میں اکیلے احمدی تھے.غلام قادر صاحب کی شادی تر گڑی ضلع گوجرانوالہ میں ہوئی.آپ کی بیوی ایک جان لیوا بیماری کے باعث.آپ کی زندگی میں ہی فوت ہوگئی تھیں.آپ کنگنی والا ضلع گوجر انوالہ میں مقیم تھے.واقعہ شہادت: آپ کے بیٹے خالد محمود کا بیان ہے کہ ایک دن جلوس آیا مگر والد صاحب گھر پر موجود نہ تھے اور جلوس کو لوگوں نے واپس لٹا دیا.جب آپ کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ تھا نہ گئے اور پولیس کو مطلع کیا.چنانچہ آپ کے ساتھ تھانے دار آیا.اس نے گاؤں میں ایک قصاب کو ڈانٹا جو کہ بدمعاش اور مخالف احمدیت تھا اور یقین دلا کر چلا گیا کہ آپ کو اب کوئی کچھ نہیں کہے گا اور ایک حوالدار کی ڈیوٹی لگائی کہ ان کے گھروں کی حفاظت کرنا.اس نے بھی اپنی طرف سے تسلی دی اور کہا آپ گھبرائیں نہیں رات کو پولیس کے آدمی سول کپڑوں میں آجائیں گے اور آپ کی حفاظت کریں گے مگر رات بھر کوئی نہ آیا.اسی رات خریدے گئے پیشہ ور قاتلوں کا ایک گروہ دو احمد یوں کو کسی اور جگہ شہید کر کے پہلے چودھری عنایت اللہ صاحب کے پاس آیا اور ان کو پکڑ کر ساتھ لے گیا اور انہیں پوچھا کہ وہ جو تھا نے روز جاتا ہے اس کا گھر کون سا ہے؟ چنانچہ وہ ساتھ ہو لئے اور غلام قادر شہید کے دروازے کی نشاندہی کی اور قاتلوں کے کہنے پر ان کا دروازہ کھٹکھٹایا.یہ سحری کا وقت تھا.غلام قادر صاحب نے پوچھا کون ہے.تو انہوں نے بتایا میں عنایت اللہ ہوں.چنانچہ آپ نے بلا تردد دروازہ کھول دیا.جو نہی آپ باہر آئے تو قاتلوں نے آپ کو گھیر لیا اور مجبور کر کے دونوں یعنی غلام قادر صاحب اور عنایت اللہ صاحب کو گاؤں سے باہر لے گئے اور باہر کھیتوں میں شہید کر ڈالا.انـــالــلــه وانا اليه راجعون غلام قادر صاحب شہید نے پسماندگان میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑیں.ان کے ایک بیٹے گوجرانوالہ میں ہوتے ہیں جبکہ باقی ساری اولا در بوہ میں مقیم ہے.مکرم عنایت اللہ صاحب شہید قادیان کے نزدیک گاؤں ” کھارا‘ کے رہنے والے تھے.

Page 164

خطبات طاہر بابت شہداء 148 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء ان کے والد فضل دین صاحب اور والدہ محترمہ سراج بی بی صاحبہ بہت نیک اور مخلص احمدی تھے.ان کے پسماندگان میں بیوہ حنیفاں بی بی صاحبہ، ایک بیٹا محمد انور اور دو بیٹیاں نسیم اختر اور کوثر پروین صاح ہیں.بیٹا آسٹریلیا میں اور باقی خاندان ربوہ میں آباد ہے.مکرم محمد الیاس عارف صاحب شہادت محمد الیاس عارف صاحب.آپ ۱۰ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو مکرم ماسٹر محمد ابراہیم شاد صاحب کے ہاں مومن، ضلع شیخو پورہ میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم آپ نے چک چھور میں حاصل کی پھر اسلامیہ کالج خانیوال سے ایف.اے اور بی.اے کیا.واقعہ شہادت: ۱۹۷۴ء کی تحریک مخالفت میں آپ واہ کینٹ میں تھے.جب ٹیکسلا میں احمدیت دشمن تحریک نے شدت اختیار کی تو وہاں کرائے کے غنڈوں اور قاتلوں میں اسلحہ تقسیم کر دیا گیا اور احمدیوں کے مکانوں پر نشان لگا دیئے گئے.آپ کے مکان پر بھی نشان لگا دیا گیا.۴ جون ۱۹۷۴ء کو آپ نے اپنے چھوٹے بھائی محمد اسحاق ساجد صاحب کے ہمراہ اپنی بیوی بچوں کو واپس اپنے گاؤں بھیجنے کا فیصلہ کیا اور صبح سات بجے ٹیکسلا سے انہیں بس پر بٹھایا.خود گھر جا کر ناشتہ کیا.اپنی سائیکل لی.مکان کو تالا لگایا اور چابی مالک مکان کو دیتے ہوئے کہا کہ تین چار بجے واپس آ جاؤں گا.لیکن ابھی آپ گھر سے ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلہ تک ہی پہنچے تھے کہ وہاں تین مولوی اور ایک کرائے کا قاتل گھات میں تھے.مولویوں نے اس کرائے کے قاتل کو اشارہ کیا.چنانچہ اس نے رائفل سے فائر کیا.گولی شہید مرحوم کے سینے میں لگی اور آپ موقع پر وہیں جام شہادت نوش کر گئے.انالله وانا اليه راجعون آپ کی تدفین اولاً چک چھور میں ہوئی پھر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خاص اجازت سے ۱۹۷۵ء میں تابوت ربوہ لایا گیا اور مقبرہ شہداء میں دفن کیا گیا.شہید مرحوم اپنے پیچھے ایک بیٹی ، ایک بیٹا اور بیوہ چھوڑ گئے.بیٹی کی شادی ہو چکی ہے اور بیٹا عطاء القیوم عارف آج کل آسٹریلیا میں شہید مرحوم کی اہلیہ ثریا بیگم بیان کرتی ہیں کہ مجھے ہمارے مالک مکان غزن خان نے بتایا کہ شہید مرحوم کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد قاتل کو ایک پاگل کتے نے کاٹا جس سے وہ ذہنی توازن کھو

Page 165

خطبات طاہر بابت شہداء 149 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء بیٹھا اور کتے کی طرح بھونکنے لگا.ایک ماہ بعد اس کے گھر والوں نے اسے زنجیر سے باندھ دیا.تین چار روز بعد وہ غضب الہی کا مورد ٹھہر کر اسی حالت میں مر گیا.مکرم نقاب شاہ مہمند صاحب مردان مکرم نقاب شاہ مہمند صاحب ولد محمد شاہ آف مردان.تاریخ شہادت ۸/ جون ۱۹۷۴ء.آپ با زید خیل کے رہنے والے تھے.آپ کے والد کا نام محمد شاہ تھا جو احمدی نہیں تھے مگر آپ کے دادا گل فراز صاحب غیر مبائع احمدی تھے.واقعہ شہادت: نقاب شاہ مہمند صاحب ۱۸ جون ۱۹۷۴ء کو پشاور کے اندر دن کے ایک بجے سائیکل پر جاتے ہوئے ۳۷ سال کی عمر میں شہید کر دئے گئے.اناللہ واناالیه راجعون.آپ ٹیچر تھے اور ٹیچر ایسوسی ایشن کے صدر تھے.آپ مکرم الطاف خان صاحب کے داماد تھے.شہید کرنے والا بظاہر ان کا دوست تھا.جب کسی نے پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے آواز دی کہ قادیانی تھا مار دیا میرا پیچھا کرنے کی کوشش نہ کرو.ان کی کوئی اولاد نہیں تھی.اہلیہ زندہ ہیں اور امریکہ جاچکی ہیں.صو بیدار غلام سرور صاحب اور مکرم اسرار احمد خاں صاحب ٹوپی صو بیدار غلام سرور صاحب اور ان کے بھتیجے اسرار احمد خاں صاحب آف ٹوپی ضلع مردان.یوم شہادت ۱۹ جون ۱۹۷۴ء.صوبیدار غلام سرور صاحب کا آبائی گاؤں مینی ہے جو ٹوپی سے دس کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے.آپ پاک فوج کے محکمہ انٹیلی جنس میں امیر یا افسر تھے.ٹوپی میں جب حالات خراب ہورہے تھے تو ایک غیر احمدی بوڑھے شخص نے جو لکڑی کا کام کرتا تھا، آپ کو بتایا کہ لوگ آپ کو قتل کرنے کا پروگرام بنا چکے ہیں اسلئے آپ کہیں اور چلے جائیں.آپ نے اس کو جواب دیا کہ اگر مجھے دین حق کی خاطر شہادت نصیب ہو جائے تو اس سے بڑھ کر اور کونسی خوش بختی اور سعادت ہوگی.واقعہ شہادت:۹/ جون ۱۹۷۴ء کوٹوپی قصبہ کے محلہ خوشحال آباد میں شر پسندوں نے قتل و غارت، لوٹ مار اور آتشزدگی کا بازار گرم کئے رکھا.اس دن آٹھ احمدیوں کو شہید کیا گیا اور ستر سے زائد مکانات، ڈیوڑھیاں، حجرے، بنگلے اور دکانیں تباہ کی گئیں.آپ اور آپ کا بھتیجا اسرار احمد گھر پر ہی موجود رہے.آپ کے مکانوں کی پچھلی طرف واقع قبرستان کی طرف سے پر جوش ہجوم کے لوگ

Page 166

خطبات طاہر بابت شہداء 150 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء حملہ آور ہوئے.اگر چہ آپ نے حفظ ماتقدم کے طور پر فائر کر کے ان کو ڈرایا مگر وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے.ان میں سے ایک حملہ آور نے آپ کو گولی مار دی جس سے آپ موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گئے.انالله واناالیه راجعون.شہادت کے بعد ان بد بختوں نے آپ کے بے جان جسم پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی.پھر آپ کی نعش کو گھسیٹ کر گلی کے چوراہے پر لے آئے اور پتھر مار مار کر بری طرح کچلا اور اپنی دانست میں مسخ کر دیا.آپ موصی تھے لیکن حالات کی سنگینی کے پیش نظر آپ کمرو ہیں دفن کر دیا گیا.کچھ عرصہ کے بعد آپ کے بھائی مکرم احمد جان خان صاحب نے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی خدمت میں آپ کی میت ربوہ بہشتی مقبرہ میں دفن کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو حضور نے ان کو جواب دیا کہ شہید جہاں دفن ہوتا ہے وہی جگہ اس کے لئے جنت ہوتی ہے.ایک وقت آئے گا جب ان شہداء کی قربانی رنگ لائے گی اور لوگ کہیں گے کہ یہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کو احمدیت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کی توفیق ملی.البتہ حضور نے بہشتی مقبرہ میں آپ کا یادگاری کتبہ کی اجازت مرحمت فرمائی جس کی تعمیل کر دی گئی.شہادت کے وقت آپ کی عمر باون سال تھی.آپ کی بیوہ مکرمہ فہمیدہ بیگم صاحبہ آج کل ربوہ میں اپنے بچوں کے پاس مقیم ہیں.بچوں میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں آپ کی یادگار ہیں.سب سے بڑے بیٹے مکرم آفتاب احمد خان صاحب شادی شدہ ہیں اور بیوی بچوں سمیت متحدہ عرب امارات میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں.دوسرے بیٹے مکرم انوار احمد خانصاحب بھی شادی شدہ ہیں اور مع اہل وعیال ربوہ میں ہیں.خان بابا سپر سٹور کے نام سے گول بازار ر بوہ میں گارمنٹس اور جنرل سٹور کا کام کرتے ہیں.تیسرے بیٹے مکرم امین احمد خان صاحب ہیں.بیٹیوں کے اسماء حسب ذیل ہیں:.مکرمہ رسول بیگم صاحبه زوجہ مکرم محمد اقبال خان صاحب جو چپ بورڈ فیکٹری جہلم میں ملازم ہیں.مکرمہ فرحت حسین صاحبه زوجہ مکرم بشیر احمد خان صاحب جو تر بیلا میں اپنا کام کر رہے ہیں اور مکر مہ امتہ المجیب صاحبہ زوجہ اعجاز احمد خان صاحب ہیں جو راولپنڈی میں پرائیویٹ سروس کرتے ہیں.مکافات عمل: جس شخص نے آپ کو شہید کیا تھا اس پر جولائی ۱۹۷۴ء کے تیسرے ہفتہ میں آسمانی بجلی گری اور وہ جھلس کر مر گیا.

Page 167

خطبات طاہر بابت شہداء 151 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جون ۱۹۹۹ء آپ کے سگے بھتیجے مکرم اسرار احمد خان صاحب جنہیں آپ کے ساتھ ہی شہید کیا گیا تھا الحاج سلطان سرور خان صاحب آف ٹوپی ضلع مردان کے صاحبزادے تھے.شہادت سے کچھ عرصہ پہلے یہ اپنے والد محترم کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر چکے تھے.ان کا میٹرک کا رزلٹ شہادت کے کچھ عرصہ بعد نکلا.شہادت کے وقت عمر سولہ سترہ سال تھی اور غیر شادی شدہ تھے.شہادت آپ کی کنپٹی پر پستول کے فائر سے ہوئی.شہادت کے بعد آپ پر پتھراؤ کیا گیا پنجروں سے وار کئے گئے اور آخر ہجوم نے از منہ گزشتہ کے شہداء کی یاد تازہ کرتے ہوئے ان کی دونوں ٹانگوں کو مخالف سمتوں میں کھینچتے ہوئے ان کی لاش کو دو نیم کر دیا.ایک عورت یہ لرزہ بر اندام کرنے والا خونی کھیل نہ دیکھ سکی اور زور زور سے چیخنے لگی اور بلند آواز سے بددعا ئیں دینے لگی.اس پر قاتلوں کی رائیفلوں کا رخ اس کی طرف پھر گیا مگر کچھ لوگ آڑے آگئے کہ یہ قادیانی نہیں ہے.اسرار احمد کو ان کے چچا صو بیدار غلام سرور شہید کے ساتھ ٹوپی میں ہی دفن کیا گیا.ان کے پسماندگان میں والد مکرم الحاج سلطان سرور خان صاحب ( جو کہ اب وفات پاچکے ہیں ) اور والدہ مکرمہ امتہ الود و دصاحبہ کے علاوہ تین بھائی اور پانچ بہنیں ہیں.والدہ ربوہ میں مقیم ہیں.جبکہ بڑے بھائی مکرم ابرار احمد خان صاحب مع اہل و عیال متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں.دوسرے بھائی مکرم زبیراحمد خان صاحب بھی شادی شدہ ہیں اور مع فیملی جرمنی میں مقیم ہیں.تیسرے بھائی اسرار احمد وقار خان صاحب غیر شادی شدہ ہیں اور ایف.اے.کے طالبعلم ہیں.یہ بھائی کی شہادت کے بعد پیدا ہوئے.والدین نے ان کا نام شہید بیٹے کے نام پر اسرار احمد خان وقار رکھا ہے.پانچوں بہنیں ربوہ میں مقیم ہیں.ان کے اسماء یہ ہیں:.مکرمہ امتہ العزیز صاحبہ اہلیہ مکرم ریاض احمد خان صاحب - مکرمہ یاسمین کوثر صاحبہ اہلیہ مکرم طاہر احمد خان صاحب مکرمہ آسیہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم انوار احمد خان صاحب.مکرمه فرخنده ناز صاحبہ اہلیہ مکرم عارف احمد خانصاحب.اور مکر مہ فہمیدہ ناز صاحبہ.یہ آخری ابھی غیر شادی شدہ ہیں اور بی.اے کی طالبہ ہیں.مکافات عمل: غیر احمدی عینی شواہد کے مطابق جس شخص نے اسرار احمد خان سے بربریت کا یہ سلوک کیا وہ اسی رات پاگل ہو گیا اور پاگل خانہ میں بند کر دیا گیا.اس کی بیوی بھی ذہنی توازن کھو بیٹھی اور گھر میں ہر وقت رسیوں سے بندھی رہتی.

Page 168

خطبات طاہر بابت شہداء 153 خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء عہد خلافت ثالثہ کے شہداء ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ / جون ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ بقرہ کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة :۱۵۴ - ۱۵۵) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے مدد طلب کرتے رہو صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ.یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.یہ شہداء کے ذکر کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے یہی آج کے خطبہ کا بھی موضوع ہے لیکن ضمنی طور پر چونکہ مالی سال ختم ہو رہا ہے اس کے متعلق مجھے تحریک کی گئی ہے کہ جماعت کو یاد دلا دوں کہ اس مالی سال کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اپنے وعدے پورے کر لیں اور جو کچھ قرض رہ گئے ہیں وہ بھی اتار لیں.زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے بہتر ہے کہ اس کے ساتھ حساب صاف رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ایک دو اقتباسات اسی ضمن میں پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:

Page 169

خطبات طاہر بابت شہداء 154 خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء پس میں تم میں سے ہر ایک کو جو حاضر یا غائب ہے تاکید کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو چندے سے باخبر کرو.ہر ایک کمزور بھائی کو بھی چندہ میں شامل کرو.یہ موقع ہاتھ آنے کا نہیں“.پھر فرماتے ہیں: یہ ظاہر ہے کہ تم دو چیز سے محبت نہیں کر سکتے اور تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو.پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا“.مجموعہ اشتہارات جلد سوم مطبوعہ لندن صفحه ۴۹۷) مکرم ماسٹر غلام حسین صاحب گلگت اس مختصر تحریک کے بعد اب میں شہداء کا ذکر کرتا ہوں جو خلافت ثالثہ کے زمانے میں شہید ہوئے اور اس تعلق میں سے سب سے پہلے ماسٹر غلام حسین صاحب ولد عبدالکبیر بٹ صاحب کا ذکر کروں گا.تاریخ شہادت اکتوبر ۱۹۶۷ء ہے.آپ ۱۹۴۹ء یا ۱۹۵۰ء میں ترک پورہ بانڈی پورہ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے گلگت آگئے تھے.یہاں چند سال خواجہ ثناء اللہ صاحب مرحوم کے پاس ملازمت کرتے رہے پھر آپ گلگت میں ہی سکول ماسٹر کے طور پر بھرتی ہوئے اور مختلف اوقات میں مختلف سکولوں میں بطور ٹیچر کام کرتے رہے.گلگت سے آپ کا تبادلہ چلاس میں ہوا.پھر غالبا ۱۹۶۶ء میں چلاس سے ہیں پچیس کلو میٹر کے فاصلہ پر تھور نالہ میں آپ کا تبادلہ ہوا.احمدیت کی بنا پر وہاں آپ کی مخالفت ہوئی اور غالبا اکتوبر ۱۹۶۷ء میں جب آپ سکول میں ہی رہائش پذیر تھا آپ پر رات کو حملہ کیا گیا اور دشمنوں نے آپ کو نماز پڑھنے کی حالت میں جائے نماز پر ہی ذبح کر دیا اور یوں یہ سادہ مزاج ، نیک فطرت، نرم دل اور تہجد گزار مخلص احمدی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوا.انا للہ وانا

Page 170

خطبات طاہر بابت شہداء 155 خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء اليه راجعون حملہ آوروں نے آپ کو شہید کرنے کے بعد نعش کو تھور نالہ میں بہا دیا.مکرم خواجہ برکات احمد صاحب محلہ ناصر آبا در بوہ بیان کرتے ہیں کہ خاکساران دونوں علاقہ داریل میں رہائش پذیر تھا.اطلاع ملنے پر تھور نالہ پہنچا.مقامی نمبر دار شیر غازی کے تعاون سے مرحوم کی نعش تلاش کی گئی.چلاس پولیس کو اطلاع کی گئی تھی اس لئے وہ بھی ہمراہ تھی.سکول سے ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک گہری جگہ صرف آپ کے پاؤں کی انگلیاں دکھائی دیں جن پر سے گوشت گل گیا تھا.نعش نکالی گئی اور سکول کے احاطہ میں ہی آپ کی تدفین کی گئی.بعدہ ملزمان پکڑ لئے گئے مگر معمولی سزا کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا.دنیا میں تو بعض اوقات معمولی سزا ہی ملتی ہے اور دنیا کی سخت سزا بھی اس سزا سے بہت معمولی ہے جو قیامت کے دن خدا تعالیٰ کی طرف سے دی جائے گی.پسماندگان: آپ غیر شادی شدہ تھے.آپ کے چھوٹے بھائی محمد عبد اللہ صاحب مقبوضہ کشمیر میں بطور مربی سلسلہ کام کر رہے ہیں.مکرم چودھری حبیب اللہ صاحب آف قبولہ مکرم چودھری حبیب اللہ صاحب آف چک حسن آرا ئیں.تاریخ شہادت ۱۳/جون ۱۹۶۹ء.آپ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے اور اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے جس کی وجہ سے رشتہ داروں سمیت پورا گاؤں آپ کی مخالفت کرتا تھا.آپ کے والدین نے احمدیت قبول کرنے کے جرم میں آپ کو گھر سے نکال دیا تو ساہیوال میں آکر اپنے برادر نسبتی کے ہاں رہنے لگے جہاں آپ محنت مزدوری کرتے تھے.کچھ عرصہ بعد ان کی والدہ ان کو واپس اپنے گاؤں ”چک حسن آرا ئیں“ تحصیل عارف والا ضلع پاکپتن میں لے گئیں.آپ کے والد صاحب، والدہ اور دیگر اقرباء آپ پر زور دینے لگے کہ احمدیت چھوڑ دیں.آپ کو اس جرم میں اکثر مارا پیٹا جاتا مگر آپ نے نہ بوڑھے والدین کی خدمت سے منہ موڑا ، نہ احمدیت سے.اسی دوران آپ کے والد صاحب کی وفات ہو گئی.آپ نے تجہیز و تکفین کا مکمل انتظام کیا مگر آپ نے اپنے غیر احمدی والد کا جنازہ نہ پڑھا جس سے آپ کے غیر احمدی چا اور دیگر اقرباء نے بڑا شور کیا اور آپ کی مخالفت کھلے عام ہونے لگی.اس گاؤں کے مولوی کو آپ کئی دفعہ بحث میں

Page 171

خطبات طاہر بابت شہداء 156 خطبہ جمعہ ۲۵ / جون ۱۹۹۹ء لا جواب کر چکے تھے.اس نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور آپ کی مخالفت کی آگ خوب بھڑکائی.چنانچہ وہ آپ کے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ مل کر منصوبے بنانے لگا.آپ نے شریعت کے مطابق اپنے والد صاحب کی زمین کا حصہ اپنی پانچوں بہنوں کو دیا تو بھی آپ کے چچازاد برہم ہوئے اور کہنے لگے تم نے انہیں ہمارے سروں پر بٹھا دیا ہے.جب آپ نے قرآن وسنت کا حوالہ دیا تو کہنے لگے کہ تم کہاں کی شریعت کی باتیں کرتے ہو تم خود مرزائی ہو.اپنے گاؤں سے قریبی قصبہ ” قبولہ میں آپ کا بک ڈپو تھا اور آپ قبولہ جماعت کے امام الصلوۃ مقرر تھے.آپ معمول کی نمازیں اور نماز جمعہ قبولہ میں ہی ادا کرتے تھے.واقعہ شہادت : ۱۳ / جون ۱۹۶۹ء کو جب آپ قبولہ میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد واپس گاؤں میں آئے تو ان کی اہلیہ نے کہا آج زمین پر نہ جانا.میں نے سنا ہے کہ آج مخالفوں نے آپ سے لڑائی کا پروگرام بنایا ہوا ہے.مگر آپ نے کہا جب میں نہیں لڑوں گا تو وہ خواہ مخواہ کیسے لڑیں گے.چنانچہ آپ خالی ہاتھ اپنی زمینوں کی طرف چل پڑے.جمعہ کے روز پانی لگانے کی ان کی باری تھی مگر آپ کے ایک بہنوئی نے ان کا پانی اپنی زمینوں کو لگا لیا.آپ نے جا کر دیکھا تو اپنے ایک مزارعہ کو جو برہم ہو رہا تھا کہا ”یہ بھی تو اپنے ہی کھیت ہیں، انہیں پانی لگا دو پھر خود وہیں نالے پر وضو کرنے لگ گئے.نماز عصر کا وقت ہو گیا تھا.ابھی وضو کر کے واپس کھیتوں میں جارہے تھے کہ ان کی چچاز ادا اور چند دوسرے مخالف للکارتے ہوئے لاٹھیوں سے مسلح ہو کر حملہ آور ہوئے.آپ چونکہ گنگے کے ماہر تھے اس لئے ان سے ہی ایک لاٹھی چھین کر اپنا دفاع کرنے لگے.آپ کے ایک بہنوئی نے جب یہ دیکھا تو وہ برچھی سے ان پر حملہ آور ہوا.برچھی آپ کے پیٹ میں لگی جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے.آپ کے ایک کزن جو آپ کی مدد کو آئے تھے، انہیں بھی برچھی لگی.اس دوران جب کہ آپ زخمی ہو کر زمین پر گرے پڑے تھے، گاؤں سے آپ کی برادری کی ایک منافق عورت جو گاؤں میں نیک بی بی کے نام سے مشہور تھی ( زہر ملا ) دودھ کا گلاس لائی اور شہید مرحوم کے منہ سے لگا دیا کہ پی لو.شہید مرحوم نے اس دودھ کے چند گھونٹ پی لئے.آپ کو ہسپتال پہنچانے کے لئے لوگ اٹھا کر شہر کی طرف لے جارہے تھے کہ آپ رستہ میں ہی شہید ہو گئے.بوقت

Page 172

خطبات طاہر بابت شہداء 157 خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء شہادت آپ کی عمر اکتیس سال تھی.انا للہ وانا اليه راجعون.بعد میں پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ آپ کو دودھ میں اس بظاہر نیک بی بی نے زہر ملا کر دیا تھا.کیونکہ پوسٹ مارٹم میں وہ زہر نکل آیا.مکافات عمل: جس عورت نے شہید مرحوم کو زخمی ہونے کی حالت میں دودھ میں زہر ملا کر پلایا تھا بعد میں وہ پاگل ہوئی اور لوگ اس کی نزدیک بھی نہیں آتے تھے.وہ اسی حالت میں مرگئی اور اس کو بغیر غسل دیئے اسی حالت میں دفن کر دیا گیا.باقی ظالموں کا حال معلوم نہیں.پسماندگان میں بیوہ مکرمہ صدیقہ بیگم کے علاوہ تین بیٹیاں اور چار بیٹے چھوڑے.تینوں بیٹیاں مکرمہ امتہ السلام صاحبہ مکرمہ خالدہ پروین صاحبہ اور مکرمہ آنسہ طلعت صاحبہ شادی شدہ ہیں.ایک بیٹا مکرم محمد اقبال صاحب لاہور میں الیکٹرونکس کی دوکان کرتے ہیں اور شادی شدہ ہیں.دوسرے بیٹے مکرم وسیم احمد صاحب ربوہ میں لکڑی کا کام کرتے ہیں اور یہ بھی شادی شدہ ہیں.تیسرے بیٹے مکرم ناصر احمد مظفر صاحب فضل عمر ہسپتال ربوہ میں کیشیئر ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں.اور چوتھے بیٹے مکرم محمود احمد صاحب گڈز ٹرانسپورٹ کا بزنس کرتے ہیں، ربوہ میں رہتے ہیں اور یہ بھی ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں.شہید مرحوم مکرم ضیاء اللہ مبشر صاحب سابق مبلغ جاپان کے خالو تھے.مکرم سید مولود احمد صاحب بخاری کوئٹہ مکرم سید مولود احمد بخاری شہید ولد سید محمود احمد صاحب کوئٹہ یوم شہادت : ۹ / جون ۱۹۷۴ء.سے ہی کوئٹہ میں مولویوں نے مساجد میں جماعت کے خلاف منافرت انگیز اور شر پھیلانے والی تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیا تھا.جب کہ سید مولود احمد شہید اپنے والدین کے ساتھ کوئٹہ کے نواحی گاؤں میں رہائش پذیر تھے.صبح کے وقت سکول میں ملازمت کرتے اور شام کے وقت پڑھائی کرتے اور بی.اے کی تیاری کرتے تھے.۸/ جون کو مفتی محمود نے ان کے گھر کے قریب کی مسجد میں اشتعال انگیز تقریر کی.چنانچہ ۸/ جون اور ۹ / جون کی درمیانی رات ڈیڑھ بجے چند افراد صحن کی دیوار پھلانگ کر اندر آئے.اس وقت مولود شہید کی آنکھ کھل گئی.اس کی چیخ و پکار کی آواز سن کر اس کی بہن سیما بھی جاگ اٹھی.اس نے چور سمجھا اور شور ڈالا تو صحن میں واقع سٹور میں چھپا ہوا ایک شخص نکلا اور دوسرا لیٹرین سے نکل بھاگا اور تیسرا جو صحن میں تھا باہر کا دروازہ کھول کر بھاگ گیا.اتنے میں باقی افراد خانہ

Page 173

خطبات طاہر بابت شہداء 158 خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء ނ بھی جاگ اٹھے.شہید اور اس کے بھائیوں نے سمجھا کہ یہ چور ہیں ، ان کو پکڑنا چاہئے.لہذا وہ باہر سڑک پر آگئے.شر پسند جن کی تعداد سات بتائی جاتی ہے وہ ساتھ والی تنگ اور چھوٹی سی گلی.نکلے.ایک نے مولود احمد کو بغلوں میں ہاتھ ڈال کر کمر کی طرف سے پکڑ لیا.اور باقی لوگوں نے خنجروں سے اس پر وار کر کے شدید زخمی کر دیا.شہید کے بڑے بھائی ڈاکٹر سید مقصود احمد صاحب اور سب سے چھوٹے بھائی سید مظفر احمد صاحب جو اس وقت گیارہ بارہ سال کے تھے ، وہاں پہنچے.دشمنوں نے اندھیرے میں ڈاکٹر مقصود احمد صاحب اور سید مظفر احمد شاہ پر بھی خنجروں سے وار کئے اور وہ دونوں بھی زخمی ہو گئے.اتنے میں ان کے والد اور ان کی بہن بھی موقع پر پہنچے.اس وقت مولود شہید زخموں کی تاب نہ لا کر گر رہا تھا.ان دونوں نے اسے سنبھال لیا اور تینوں زخمیوں کو اٹھا کر گھر لے گئے.شہید کو اکیس زخم آئے جو دل اور بغل میں تھے.گھاؤ بہت گہرے اور دہان زخم کھلے تھے اور نیچے دل نظر آرہا تھا.باقی دونوں زخمیوں کو ہسپتال لے جایا گیا.پھر آپریشن ہوا.ڈاکٹر مقصود کو دو بوتل اور سید مظفر احمد کو چودہ بوتلیں خود دیا گیا.مولود کی شہادت کے وقت عمر اٹھارہ سال تھی.مولود شہید کو پولیس کی ہدایت پر مسجد احمدیہ کوئٹہ میں دفن کیا گیا.سید مولود احمد صاحب غیر شادی شدہ تھے.آپ کے بڑے بھائی سید مقصود احمد صاحب اس وقت بہت سے اہم جماعتی عہدوں پر فائز ہیں.چھوٹے بھائی سید مشہود احمد صاحب آج کل جاپان میں ہیں اور مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں.سب سے چھوٹے بھائی سید مظفر احمد صاحب بھی مختلف جماعتی خدمات بجالاتے ہیں.بڑی بہن امتہ الرشید انجم صاحبہ اور چھوٹی بہن مکر مہ امتہ الکریم صاحبہ سمن آبا دلا ہور میں رہتی ہیں.آپ پر حملہ کرنے والوں کی تعداد سات تھی.کچھ عرصہ بعد ان حملہ آوروں میں سے دوکا دو پہر کے وقت کسی بات پر ایک ہوٹل میں جھگڑا ہوا.وہ لڑتے ہوئے باہر سڑک پر نکل آئے اور خنجروں سے ایک دوسرے پر وار کئے اور سڑک پر گر گئے.پولیس نے آکر جب ان کو اٹھایا تو ایک کی گردن کا کچھ حصہ جسم سے جڑا ہوا تھا اور باقی سرلٹک رہا تھا.دوسرا ہسپتال لے جاتے ہوئے مر گیا.سڑک پر موجود لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے.ایک شخص مولود شہید پر حملہ کے دوران اندھیرے کے باعث اپنے ساتھیوں ہی کے خنجروں سے زخمی ہوا اسے خفیہ طور پر علاج کے لئے کوئٹہ سے باہر لے جایا گیا لیکن علاج کی مناسب سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے زخم خراب ہو گئے.اور وہ اسی حالت میں

Page 174

خطبات طاہر بابت شہداء 159 مرگیا.( تلخیص از مراسله امتہ الکریم سیما صاحبه بمشره شهید مرحوم) مکرم محمد فخر الدین بھٹی صاحب ایبٹ آباد خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء شہادت مکرم محمد فخر الدین بھٹی صاحب.تاریخ شہادت : ارجون ۱۹۷۴ء مکرم محمد فخر الدین بھٹی صاحب ۱۹۱۸ء میں گجرات کے ایک قصبہ جلال پور جٹاں میں پیدا ہوئے.ابھی چار پانچ سال کے تھے کہ والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا.آپ نے میٹرک کا امتحان دیا تو والد بھی فوت ہو گئے.آپ نے پہلے فوج میں اور پھر پولیس کے محکمہ میں ملازمت کی، بعد میں تجارت بھی کرتے رہے.آخر ضلع ہزارہ کے ایک قصبہ میں ملازمت شروع کر دی اور باقی زندگی ایبٹ آباد میں ہی گزاری.جب ۱۹۷۴ء میں احمدیوں کے خلاف ہنگامے شروع ہوئے.تو آپ نے نہ صرف اپنے گھر والوں کو بلکہ دوسرے احمدیوں کو بھی بہت حوصلہ دیا.ار جون ۱۹۷۴ء کو حالات بہت خراب تھے.آپ دفتر گئے تو کچھ دوستوں کے مجبور کرنے پر واپس گھر چلے گئے.اُس روز شہر میں اشتعال بہت زیادہ پھیل گیا تھا اور جلسے جلوس ہو رہے تھے.آپ کے ایک بیٹے کے دوست جو فوج میں تھے ، انہوں نے ایک ٹرک بھیجا کہ اپنا قیمتی سامان لے کر ان کے ہاں آجائیں لیکن آپ نے انکار کر دیا.بیوی نے چلنے پر اصرار کیا تو کہنے لگے کہ اگر تم گھبرا گئی ہو تو بچوں کو لے کر جہاں جانا چاہو چلی جاؤ ، میں تو کہیں نہیں جاؤں گا.پھر آپ نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا بل کے واقعات بیان کئے کہ انہوں نے پتھروں کی بارش میں بھی مسکراتے ہوئے جان دیدی اور دشمن کے سامنے سر نہ جھکایا.آپ کی بیٹی مکرمی روبینہ خلیل صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ شام ساڑھے چار بجے ایک بہت بڑا جلوس گھر پر حملہ آور ہوا اور گیٹ توڑ کر اندر آ گیا پھر اندرونی دروازہ توڑنے کی کوشش شروع کی تو شہید مرحوم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ دروازے کو اندر سے سہارا دیئے کھڑے رہے.جب آدھا دروازہ ٹوٹ گیا تو آپ نے مجبور ہوائی فائرنگ کی جس سے جلوس بھا گا اور باہر نکل کر چاروں طرف سے گھر پر شدید پتھراؤ شروع کر دیا.جب کھڑکیوں اور روشندانوں کے شیشے ٹوٹ گئے تو اہل خانہ نے صحن کے درخت کے ذریعے ہمسایوں کے گھر میں چھلانگ لگا دی.اس پر جلوس نے بہت شور مچایا اور ایک لڑ کا حملہ کرنے کے لئے چھت پر چڑھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرسکتا ، شہید مرحوم نے

Page 175

خطبات طاہر بابت شہداء 160 خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء اُسے گولی ماردی اور اُس کی لاش جلوس کی طرف پھینک دی.اس کے بعد کسی اور کو چھت پر چڑھنے کی جرات نہ ہوئی لیکن اب ہمسایہ کے گھر پر بھی پتھراؤ شروع ہو گیا اور شہید مرحوم اکیلے اپنے گھر کے صحن میں کھڑے رہ گئے.بیوی بچے ہمسایوں کے ایک غسلخانے میں بند ہو گئے.کچھ دیر بعد ہمسایہ نے اپنے گھر کی عورتوں اور بچوں کو جیپ میں باہر بھجوادیا اور بعد میں دشمن کو کہہ دیا کہ فخر الدین کے بیوی بچے بھی انہی کے ساتھ نکل گئے ہیں.مشتعل ہجوم فخر الدین بھٹی صاحب کے گھر پر دوبارہ حملہ آور ہوا تو شہید مرحوم کے پاس گو پستول تو تھا لیکن گولیاں ختم ہوگئی تھیں جب بھرا ہوا ہجوم آپ پر ٹوٹ پڑا.آپ کے گھر کو آگ لگا دی اور آپ کو آگ میں پھینکا گیا لیکن آپ جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دشمن کا مقابلہ کرتے رہے.جب بے بس ہو گئے تو ہجوم آپ کو مارتا ہوا میدان میں لے گیا.آپ کلمہ شہادت پڑھتے تو دشمن کہتا کہ اب تو موت کے ڈر سے مسلمان ہورہا ہے لیکن ہم تجھے نہیں چھوڑیں گے.آپ جواب دیتے کہ میں موت سے نہیں ڈرتا تم نے جو کرنا ہے کرو، میں خدا کے فضل سے پکا مسلمان ہوں اور کا فرتم ہو.کچھ لوگوں نے جب آپ کو بچانے کی کوشش کی تو انہیں بھی پتھر مارے گئے.اس پر آپ نے ہاتھ کے اشارے سے اُن لوگوں کو پیچھے چلے جانے کو کہا.ظالم پتھروں، چاقوؤں اور ڈنڈوں سے آپ پر وار کرتے رہے اور اسی طرح یہ بے خوف مجاہد کلمہ پڑھتے پڑھتے شہید ہو گیا.جب آپ پر پتھر برسائے جارہے تھے تو آپ نے ایک دفعہ بھی اپنے چہرے کو بچانے کے لئے ہاتھوں سے چھپانے کی کوشش نہ کی.دشمن حیران تھا کہ اس شخص نے اتنی چوٹیں کھانے کے باوجود بھی ”اُف تک نہ کی.بعد میں یہی کہتے پھرتے تھے کہ یہ شخص لاکھوں میں ایک تھا، بہت ایماندار مخلص اور خوبیوں والا تھا بس ایک ہی کمی تھی کہ یہ مرزائی تھا.پھر ظالموں نے پروگرام بنایا کہ آپ کی لاش کو چوک میں لے جا کر پھانسی دیدی جائے.تب ایک شدید مخالف نے اس وقت عقل سے کام لیا اور آگے بڑھ کر دشمن کو اس حرکت سے منع کیا.اتنے میں پولیس آپ کی لاش کو ایک چارپائی پر ڈال کر اٹھا لے گئی.ان کا ایک وفادار کتا ان کی لاش کے گرد گھومتا رہا اور تین دن بھوکا رہنے کے بعد اس نے بھی صدمے سے جان دیدی.شہید کو راولپنڈی لے جا کر سپردخاک کر دیا گیا.جو کتے کی موت ہے یہ بھی اپنے مالک

Page 176

خطبات طاہر بابت شہداء 161 خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء سے وفاداری ظاہر کرتی ہے.لیکن انسان بد نصیب کو خدا کا وفادار ہونا نصیب نہیں.مکرم محمد زمان خان صاحب اور مکرم مبارک احمد خان صاحب بالاکوٹ مکرم محمد زمان خان صاحب اور مکرم مبارک احمد خان صاحب پوڑی، بالا کوٹ تاریخ شہادت اار جون ۱۹۷۴ء.مکرم سید بشیر احمد صاحب آف پھگلہ کے بیان کے مطابق مکرم محمد زمان صاحب اور ان کے بیٹے مبارک احمد خان صاحب کو دشمنان احمدیت نے اارجون ۱۹۷۴ء کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا تھا.ان کی نعشوں کی بے حرمتی کی گئی.ان کے گھر بار جلا دئے گئے اور ایک نعش کو بھی پٹرول چھڑک کر جلا دیا گیا.مکرم محمد زمان خان صاحب کے تین بیٹے منیر احمد خان صاحب، منور احمد خان صاحب اور محمود احمد خان صاحب ایم.اے بقید حیات ہیں.مکرم محمود احمد صاحب ملا زمت کرتے ہیں اور منیر احمد صاحب اور منور احمد صاحب کامیابی کے ساتھ ٹھیکیداری کرتے ہیں.چند ہفتے قبل مکرم بشیر احمد شاہ صاحب آف پھگلہ اور مکرم ناظر صاحب اصلاح و ارشاد مرکز یہ ان کومل کر آئے ہیں.مکرم محمد زمان خان صاحب کی اہلیہ ابھی زندہ ہیں اور ماشاء اللہ بڑی صابر و شاکرہ اور باہمت خاتون ہیں.مکرم سیطی مقبول احمد صاحب جہلم سیٹھی مقبول احمد صاحب جہلم.تاریخ شہادت ۲ جولائی ۱۹۷۴ء.آپ ۱۹۴۲ء میں سیٹھی محمد اسحاق صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.آپ کے والد انتہائی مخلص، نڈر اور بہت جو شیلے احمدی تھے اور وفات تک زعیم انصار اللہ جہلم تھے.آپ کے دادا میاں محمد ابراہیم صاحب ابتدائی صحابہ میں سے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم میں شائع شدہ ۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں آپ کا نام ۲۰۵ نمبر پر تحریہ فرمایا ہے.آپ کی دادی جان بھی صحابیہ تھیں.اسی طرح آپ کے نا نا مکرم شیخ فرمان علی صاحب بھی صحابی تھے.یعنی آپ ہر لحاظ سے نجیب الطرفین تھے.آپ نے ابتدائی تعلیم جہلم میں حاصل کی پھر بی.اے تک تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے طالبعلم رہے.پھر جہلم میں مقبول ھوسٹور کے نام سے ذاتی کاروبار شروع کیا.آپ کی شادی ۱۹۷۴ء میں مردان کے ایک احمدی خاندان میں مشتاق احمد صاحب کی ہمشیرہ سے ہوئی.واقعہ شہادت : ۲۹ مئی ۱۹۷۴ء کے ربوہ ریلوے سٹیشن کے واقعہ کے بعد جہلم شہر میں بھی

Page 177

خطبات طاہر بابت شہداء 162 خطبہ جمعہ ۲۵ / جون ۱۹۹۹ء شرانگیزی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور مولوی ہر روز لاؤڈ سپیکروں پر جماعت اور بانی جماعت کے خلاف زہر اگلنے لگے.چنانچہ ۱۹۷۴ء کے پُر آشوب حالات میں جہلم شہر میں ایک اوباش نو جوان قتل ہوا تو مولویوں نے قتل کا الزام احباب جماعت پر لگا کر جماعت کے خلاف مزید اشتعال انگیزی شروع کر دی.مساجد کے سپیکروں اور بازاروں میں قتل و غارت اور لوٹ مار کے بار بار اعلانات کئے گئے.ایک احمدی سیٹھی عطاء الحق صاحب ایڈووکیٹ کو بھی قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا.اس اشتعال انگیزی کے نتیجہ میں احمدی احباب کے چار گھرانوں اور اڑتالیس (۴۸) کاروباری مراکز کولوٹا گیا اور بعد میں آگ لگادی گئی.جب چار دکانوں کو آگ لگائی گئی تو مخالفین کی ملحقہ کچھ دکا نہیں بھی آگ کی لپیٹ میں آگئیں.جس پر وقت کے ایس.پی چودھری محمد رمضان نے اعلان کیا کہ اب آگ نہ لگائیں اس طرح مسلمانوں کی دکانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے،صرف سامان لوٹیں.ایک دکان کا تالا الیں.پی نے خود اپنے پستول سے فائر کر کے توڑا اور دکان لوٹی.اسی دوران اسلحہ برا در جلوس پولیس کی نگرانی میں سیٹھی مقبول احمد صاحب کے گھر حملہ آور ہوا اور اندھا دھند فائرنگ کر کے سیٹھی مقبول احمد صاحب کے دو بھائی اور بھا وجہ کو شدید زخمی کر دیا.ان کے بھائی سیٹھی محبوب احمد صاحب کی ایک آنکھ ہمیشہ کے لئے ضائع ہوگئی.جلوس دروازہ توڑ کر گھر کے اندر داخل ہو گئے اور سیٹھی مقبول احمد صاحب جلوس کی فائرنگ کی زد میں آکر موقع پر ہی شہید ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.ورثا: شہید مرحوم شہادت کے وقت بیوہ اور ایک بیٹا ممتاز احمد سیٹھی جس کی عمر دو سال تھی چھوڑ گئے.اور شہادت کے دوماہ بعد دوسرا بیٹا مقبول ثانی پیدا ہوا جو کہ آج کل رشیا میں میڈیکل فائنل ائیر میں پڑھ رہا ہے.بڑا بیٹا ممتاز احمد سیٹھی آسٹریلیا میں یو نیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے.ان کے بھائی محبوب احمد سیٹھی صاحب نے ان کی شہادت کے بعد ان کی بیوہ سے شادی کر لی اور بچوں کو اپنی کفالت میں لے لیا.مجلس تحفظ ختم نبوت کا سیکرٹری نشر و اشاعت مولوی حافظ محمد اکرم جو کہ جہلم شہر میں اشتعال انگیزی میں پیش پیش تھا اسے ذیا بیطس کی بیماری لگی.جسم گلنا سڑنا شروع ہو گیا.بیوی بچوں نے چھوڑ دیا، کوئی تیماداری کرنے والا نہ تھا.اسلام آباد میں ایک مکان میں اس کی وفات ہوئی جس کا تین

Page 178

خطبات طاہر بابت شہداء 163 خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء چار دن بعد علم ہو.جسم سے شدید بد بو آرہی تھی.لاش کسی نے جہلم پہنچائی تو اس کے بیوی بچوں اور سسر نے لاش قبول نہ کی اور کہا کہ اس قسم کے سیاہ کار شخص کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں.گھر سے ایک فرلانگ کے فاصلہ پر مولویوں نے جنازہ پڑھا کر لاش اس کے آبائی گاؤں سمندری ضلع فیصل آباد بھجوادی.اس کے علاوہ مجلس تحفظ ختم نبوت کے صدر مولوی عبدالغفور کے جسم پر بھی ذیا بیطس کے پھوڑے نکلے اور جسم میں کیڑے پڑ گئے اور بعد ازاں اسی بیماری کے ساتھ مرا.مجلس تحفظ ختم نبوت کا جنرل سیکرٹری ناصر فد۲۳۱ / مارچ ۱۹۷۴ء کو یوم مسیح موعود کے جلسہ کے موقع پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسجد احمد یہ جہلم پر حملہ آور ہوا.اُس نے حقارت سے ٹھوکر مار کر مسجد کے بیرونی دروازہ کو کھولا جس سے اسی وقت اس کے پاؤں کے ناخن میں تکلیف ہوئی جو کینسر میں تبدیل ہوگئی جس کی وجہ سے تین دفعہ اس کی ٹانگ کاٹنی پڑی.آخر اسی بیماری کے عذاب سہتا ہوا مر گیا.پروفیسر عباس بن عبد القادر صاحب حیدر آباد پروفیسر عباس بن عبد القادر صاحب : تاریخ شہادت ۲ /ستمبر ۱۹۷۴ء.آپ بھاگلپور کے رہنے والے تھے.1947ء میں تقسیم ملک کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی پھر حیدر آبادسندھ چلے گئے اور وہیں رہائش اختیار کر لی.آپ کے والد ماجد پروفیسر سید عبدالقادر صاحب صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے تھے جو حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ حرم حضرت اصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی تھے.عباس شہید بوقت شہادت گورنمنٹ کالج حیدرآباد میں پروفیسر تھے.اس سے پہلے آپ تعلیم الاسلام کا لج میں بھی پروفیسر رہے.آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا.سب کو جماعت سے متعارف کروانا اپنا فرض سمجھتے تھے.آپ کی شہادت کی ظاہری وجہ بھی کثرت سے تبلیغ کرنا ہی بنی.ساری عمر بے داغ بسر کی اور اعلیٰ اخلاق کے حامل رہے.واقعہ شہادت ۲ ستمبر ۱۹۷۴ء بروز ہفتہ رات دس بجے آپ کسی دوست کے گھر سے واپس آرہے تھے کہ ایک شخص نے آپ پر پستول سے فائر کر کے شہید کر ڈالا.انا للہ وانا اليه راجعون.اس سے قبل جمعہ کا دن تھا.اس دن آپ نے اپنے چندے کی مکمل ادائیگی کی.یہی بات

Page 179

خطبات طاہر بابت شہداء 164 خطبہ جمعہ ۲۵ / جون ۱۹۹۹ء میں نے ابھی سمجھائی ہے کہ جماعت کو کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ موت کب ہوتی ہے.ان کو تو معلوم ہوتا ہے یہ تصرف الہی کے تابع سمجھایا گیا تھا کہ آج اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاؤں ، چندہ تو ادا ہو جائے.چنانچہ اگلے روز ہی مولیٰ کریم کا بلاوا آ گیا.ورثا : آپ کی اہلیہ حمدی بیگم خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور اپنے دو بیٹوں حماد اور عمار کے ساتھ آج کل امریکہ میں مقیم ہیں.ان کے علاوہ آپ نے چند بیٹیاں بھی چھوڑ دیں.بڑی بیٹی مریم ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر صاحب شہید کے بیٹے مسلم کی بیوی ہیں اور ناروے میں مقیم ہیں.دوسری بیٹی بسینی امریکہ میں سردار رفیق احمد صاحب انجینئر کی اہلیہ ہیں.تیسری بیٹی بشری عباس ہیں جو مکرم نصیر احمد سلیمان صاحب کے ساتھ بیاہی ہوئی ہیں اور ٹورانٹو ( کینیڈا) میں مقیم ہیں.چوتھی عامرہ عباس صاحبہ اپنے بھائی عمار کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئیں.عامرہ کی شادی امریکہ میں مقیم ڈاکٹر فیروز پڈر صاحب سے ہوئی ہے جو ناصر آباد مقبوضہ کشمیر کے باشندے ہیں.ان کے جڑواں بھائی عمار کی شادی عنقریب ہونے والی ہے انشاء اللہ.مکرم ماسٹر ضیاءالدین ارشد صاحب ربوہ ماسٹر ضیاء الدین ارشد صاحب: یوم شہادت : ۲۹ /ستمبر ۱۹۷۴ء.آپ ۲۰/اکتوبر ۱۹۱۰ء کو مڈھ رانجھا میں پیدا ہوئے.15 سال تک محلہ دار البرکات کے صدر رہے.مئی ۷۴ء میں ہنگامے شروع ہوئے تو ربوہ کے بہت سے بے گناہ شہریوں کو پولیس نے دھوکہ سے پکڑ کر سرگودھا جیل میں ڈال دیا.جہاں انہیں مختلف اذیتیں پہنچائی جاتی رہیں.ان اسیران میں ماسٹر صاحب کا بیٹا اور نواسہ بھی شامل تھے.ایک روز آپ ان سے ملاقات کے لئے ایک وفد کے ساتھ سرگودھا گئے.جب واپس آنے کے لئے سرگودھا ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو وہاں چند نقاب پوشوں نے احمدیوں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں ۹.افراد شدید زخمی ہو گئے.ماسٹر صاحب بھی ان زخمیوں میں شامل تھے.آپ کے سر پر گولی لگی.فائرنگ کے بعد جب نقاب پوش فرار ہو گئے تو احمد یوں نے اپنے زخمی ساتھیوں کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالنا شروع کیا لیکن پولیس نے کہا کہ جب تک رپورٹ درج نہیں ہو جاتی ، زخمیوں کو کہیں نہیں لے جایا جاسکتا.چنانچہ زخمیوں کو گاڑی سے نیچے اتارا گیا اور رپورٹ درج کروائی گئی.جو زیادہ

Page 180

خطبات طاہر بابت شہداء 165 خطبہ جمعہ ۲۵ / جون ۱۹۹۹ء زخمی تھے انہیں سرگودھا ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا.ماسٹر صاحب بھی تین ہفتے سرگودھا ہسپتال میں رہے.پھر آپ کو جنرل ہسپتال لاہور منتقل کیا گیا مگر ڈاکٹر ان کے سر سے گولی نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکے.کچھ عرصہ بعد انہیں فضل عمر ہسپتال ربوہ منتقل کیا گیا جہاں آپ ۲۹ رستمبر ۱۹۷۴ء کو وفات پاگئے.انا لله وانا اليه راجعون.آپ نے پسماندگان میں پانچ بیٹیاں اور چھ بیٹے چھوڑے جو پاکستان کے علاوہ کینیڈا، سویڈن وغیرہ میں آباد ہیں.مکرم عبدالحمید صاحب کنری عبدالحمید صاحب.کنری.تاریخ شہادت ۳ /۱ اکتو بر ۱۹۷۴ء.۳ /اکتوبر ۱۹۷۴ء کو جماعت اسلامی کی تحریک پر مکرم ڈاکٹر رشید احمد صاحب کے بارہ میں ایک سوچی سمجھی سکیم تیار کر کے یہ مشہور کر دیا گیا کہ انہوں نے قرآن کریم جلا دیا ہے.۳/اکتوبر کو جماعت کے خلاف نکالا جانے والا جلوس جو طالب علموں ، شہر کے اوباشوں اور غنڈوں پر مشتمل تھا اور ان کی پشت پناہی جماعت اسلامی اور پولیس کر رہی تھی.ڈاکٹر رشید صاحب کے کلینک پر حملہ آور ہوا اور اسے مکمل تباہ کیا ، پھر ان کے مویشیوں کے باڑے کو آگ لگا دی.محترم عبدالحمید صاحب مویشیوں کو بچانے کے لئے اور انہیں کھولنے کے لئے آگے بڑھے تو ہجوم میں سے کسی نے ان پر گولی چلا دی اور وہ وہیں شہید ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.شهید مرحوم غیر شادی شدہ تھے.پسماندگان میں والدین اور بہن بھائی تھے.آپ کے والد مکرم سردار احمد صاحب ۱۹۸۷ء میں وفات پاگئے.مکرم بشارت احمد صاحب آف تهال بشارت احمد صاحب.تہال ضلع گجرات : تاریخ شہادت ۷ اکتو بر ۱۹۷۴ء.بشارت احمد صاحب ولد غلام حسین صاحب یکم نومبر ۱۹۴۸ء کو موضع تہال ضلع گجرات میں پیدا ہوئے.مرحوم پیدائشی احمدی تھے.مرحوم کے چار بھائی تھے اور ایک بہن تھی.آپ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے.آپ نے تہال سے پرائمری پاس کی اور ساتھ ہی قرآن کریم ناظرہ بھی پڑھ لیا.بعد ازاں ۱۹۶۶ء میں میٹرک کے بعد آپ فوج میں بھرتی ہوئے.۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف ملک گیر تحریک کے دوران نہال بھی لپیٹ میں آگیا

Page 181

خطبات طاہر بابت شہداء 166 خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء اور گردونواح کے چھ گاؤں تہال پر حملہ آور ہوئے احمدیوں کے گھر جلائے گئے ، اس سے پہلے سامان لوٹا گیا ، مال مویشی چھینے گئے اور عام لوٹ کھسوٹ کی گئی.ان سنگین حالات کو دیکھ کر ایس.پی چیمہ صاحب نے نہایت دلیری سے ان شر پسندوں کو روکا بلکہ اس ہنگامہ میں بلوائیوں میں سے دو مارے بھی گئے.مخالفت وقتی طور پر تو کچھ سرد پڑ گئی مگر چنگاریاں اندر ہی اندر سلگتی رہیں..رمضان المبارک کے مہینہ میں تقریباً چار بجے تنویر احمد اور بشیر احمد جو شہید مرحوم کے بھتیجے تھے، روتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے.ان بچوں نے آکر بتایا کہ چند غیر احمدی لڑکے راستہ میں تھے انہوں نے ہمیں مرزائی مرزائی کہنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی پتھراؤں بھی کیا اور ہم مشکل سے جان بچا کر نکلے ہیں.مکرم بشارت احمد صاحب سے برداشت نہ ہوسکا.اٹھے کہ میں ان کے گھر والوں کو کہتا ہوں کہ یہ کیا شرافت ہے کہ ہمارے بچوں کو بھی گلی میں سے نہیں گزرنے دیتے، اپنے بچوں کو سمجھاؤ.سب نے روکا آپ نہ جائیں، حالات خراب ہیں مگر آپ نہ مانے اور کہا کہ میں ان کو محض کہنے جارہا ہوں کون سی لڑائی کرنی ہے، کچھ نہیں ہوتا اور اتنا دب کر کیوں رہیں ، جورات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آسکتی.چنانچہ آپ ان بچوں کے گھر گئے اور ان کے والدین کو سمجھانے لگے کہ دیکھیں یہ طریق درست نہیں ہے.ان بچوں کی والدہ بولی تو کافر ہے ہمارے گھر سے نکل جا.تو نے ہمارا صحن ناپاک کر دیا ہے.آپ باہر نکلے ہی تھے کہ منصوبہ کے مطابق وہ لوگ جو چھپ کر مسلح بیٹھے تھے پیچھے سے نکل آئے اور آتے ہی آپ پر اندھا دھند لاٹھیوں کے وار کرنے شروع کر دئے.ایک لاٹھی آپ کے سر پر لگی جس سے سر کی ہڈی ٹوٹ گئی اور آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور حملہ آور بھاگ گئے.آپ کے اقرباء کو جب پتہ چلا تو فوراً موقع واردات پر پہنچے.آپ میں ابھی زندگی کی رمق موجود تھی چنانچہ آپ کو ہسپتال پہنچایا گیا مگر آپ زخموں کی تاب نہ لا کر اپنے مولائے حقیقی سے جا لے انا لله وانا اليه راجعون.ورثا : آپ اپنے پیچھے ایک بیٹی اور بیوہ چھوڑ گئے.بیٹی کی اب شادی ہو چکی ہے.مکافات عمل: جس خاندان نے مکرم بشارت احمد صاحب کو شہید کیا تھا ان کا ایک بیٹا ریل سے گر کر مر گیا اور اس کی لاش کے کئی ٹکڑے ہو گئے.جس وقت اس کی نعش گاؤں لائی گئی تو اس میں سے سخت بدبو آتی تھی.اس کی بقیہ نرینہ اولاد بھی منشیات کے دھندے میں ملوث ہوگئی اور سارا

Page 182

خطبات طاہر بابت شہداء 167 خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء خاندان برباد ہو گیا یعنی وہ عورت جس نے شرارت کی تھی اس کی اولاد کا یہ حال ہوا.چودھری عبدالرحیم صاحب اور چودھری محمد صدیق صاحب موسیٰ والا چودھری عبدالرحیم صاحب شہید اور چودھری محمد صدیق صاحب شہید.تاریخ شہادت ۲۶ ستمبر ۱۹۷۶ ء.چودھری عبدالرحیم صاحب ۱۹۱۰ء میں پیدا ہوئے.آپ کے والد صاحب کا نام چودھری شاہ نواز صاحب اور والدہ کا نام حاکم بی بی صاحبہ تھا.شہید مرحوم پیدائشی احمدی تھے.شہادت کے وقت آپ کی عمر تقریباً ساٹھ سال تھی.آپ کا گاؤں تلونڈی جھنگلاں قادیان سے چار میل کے فاصلہ پر تھا.۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے اپنے خاندان سمیت گھر والیاں تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں رہائش اختیار کی.چار سال کے بعد فیصل آباد میں سسرال کے ہاں چند سال گزارے.پھر ۱۹۶۱ء میں موسیٰ والا چلے آئے کیونکہ آپ کی زمین کی الاٹمنٹ موسیٰ والا میں ہوئی تھی.واقعہ شہادت: مسجد احمد یہ جو کہ ۱۹۷۴ء سے پہلے کی بنی ہوئی تھی اس میں احمدی اور غیر احمدی دونوں نماز پڑھتے تھے.بعد میں ایک اور مسجد تیار کی گئی جو کہ غیر احمد یوں نے گاؤں میں ہی واقع اپنی زمین پر تعمیر کروائی.فریقین نے اس میں حصہ ڈالا اور احمدی اور غیر احمدی دونوں اپنی اپنی نما ز علیحدہ پڑھنے لگے.گاؤں کے چند شر پسندوں اور ڈسکہ شہر سے مولویوں نے آکر شرارتیں شروع کر دیں.اندر ہی اندر انہوں نے شرارت کا منصوبہ بنایا.مسجد کے ارد گر د آباد مقامی لوگ ایک برادری کے تھے اور آپس میں باہم رشتہ دار تھے جس کی وجہ سے ان کا یہ منصوبہ ظاہر نہ ہو سکا.اس طرح ۳۰ / رمضان کی رات آئی اور فیصلہ کے مطابق کہ نماز اسی عید گاہ میں پڑھنی ہے جہاں پر غیر احمدی بھی پڑھتے تھے.صبح کی نماز کے بعد چودھری عبدالرحیم صاحب نے اپنے دو بیٹوں کو کہا کہ صفیں وغیرہ عید گاہ لے جائیں اور ساتھ ہی خود بھی تیار ہو گئے.شر پسندوں نے منصوبہ کے مطابق ان کے لڑکوں پر حملہ کر دیا.چودھری عبدالرحیم صاحب اور ان کے بھائی محمد صدیق صاحب جب عید گاہ میں داخل ہوئے تو چند افراد نے ان دونوں پر بھی کلہاڑیوں اور ڈنڈوں کے ذریعہ اچانک حملہ کر دیا جبکہ یہ دونوں خالی ہاتھ تھے.چودھری عبدالرحیم صاحب زخموں کی تاب نہ لا کر ایک گھنٹہ کے بعد خالق حقیقی سے جاملے اور چند گھنٹے بعد چودھری محمد صدیق صاحب نے بھی دم تو ڑ دیا.انا لله وانا اليه راجعون.چودھری عبدالرحیم صاحب جماعت احمدیہ موسیٰ والا میں پہلے شہادت پانے والے خوش

Page 183

خطبات طاہر بابت شہداء 168 خطبہ جمعہ ۲۵/ جون ۱۹۹۹ء نصیب ہیں.آپ کی بیوہ امانت بی بی صاحبہ موسیٰ والا میں بقید حیات ہیں.ان کے علاوہ آپ نے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں.مکرم عبدالستار زمیندارہ کرتے ہیں.مکرم فرزند علی صاحب آرمی ریٹائر ڈ ہیں اور موسیٰ والا میں مقیم ہیں.مکرم اصغر علی صاحب بھی آرمی ریٹائر ڈ ہیں اور طاہر آباد در بوہ میں رہائش پذیر ہیں.مکرم محمد یعقوب صاحب ایر فورس سے ریٹائر ڈ ہیں اور اس وقت لاہور میں مقیم ہیں.مکرم ارشد علی صاحب جرمنی میں مقیم ہیں.بیٹیوں میں سے ایک رضیہ صاحبہ لیہ میں اور دوسری صفیہ صاحبہ فیصل آباد میں بیاہی گئی ہیں.چودھری محمد صدیق صاحب کے پسماندگان میں آپ کی بیوی عائشہ بی بی صاحبہ زندہ ہیں اور موصیہ ہیں.اولاد تین بیٹوں اور تین بیٹیوں پر مشتمل ہے.تینوں بیٹے اکبر علی صاحب، ناصر احمد صاحب اور محمود احمد صاحب بھرو کے خورد ضلع سیالکوٹ میں زمیندارہ کرتے ہیں.بیٹیوں میں محترمہ شریفاں بی بی صاحبہ ہارون آباد ضلع بہاولنگر میں اور سکینہ بی بی صاحبہ اور عزیزہ بی بی صاحبہ دونوں موسیٰ والا میں بیاہی ہوئی ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام بچے صاحب اولا د اور خوشحال ہیں.مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ سانگلہ ہل رشیدہ بیگم صاحبہ - تاریخ شہادت ۹ / اگست ۱۹۷۸ء.قاری عاشق حسین صاحب کے تحریر کردہ حالات کے مطابق ان کی بیگم رشیدہ بیگم صاحبہ سانگلہ ہل شہر کی رہنے والی تھیں.ان کے والدین چادر چک نزد مریم آباد ضلع شیخو پورہ کے رہنے والے تھے ، زمیندارہ پیشہ کرتے تھے.اچھا کھاتا پیتا گھرانہ تھا.آپ دنیاوی تعلیم تو حاصل نہ کر سکیں البتہ قرآن کریم ناظرہ اچھی طرح پڑھا ہوا تھا اور بہت سارے بچوں اور بچیوں کو بھی پڑھایا کرتی تھی.قبول احمدیت : ۱۹۷۶ء میں جب قاری صاحب نے خدا تعالیٰ کی بشارات کے مطابق سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق پائی تو رشیدہ بیگم صاحبہ کو بتایا کہ میں تو خدا تعالیٰ کی بشارات کے تحت احمدی ہو گیا ہوں، اگر آپ بھی احمدیت کو قبول کر لیں تو بہت اچھا ہو ، ورنہ مذہب میں جبر نہیں ہے.اس بات پر وہ خاموش ہو گئیں.کچھ دیر کے بعد کہنے لگیں کہ ابھی نہیں پھر بتاؤں گی.اسی حالت میں کچھ عرصہ گزر گیا.ایک دن ان کے والد اور چا اور کچھ اور لوگ گاؤں سے آئے اور رشیدہ بیگم صاحبہ سے گفتگو

Page 184

خطبات طاہر بابت شہداء 169 خطبہ جمعہ ۲۵ / جون ۱۹۹۹ء کرتے رہے اور اس بات پر زور دیتے رہے کہ حافظ تو کافر ہو گیا ہے آپ ہمارے ساتھ بچے لے کر چلیں.اس پر رشیدہ بیگم نے کہا کہ اگر حافظ صاحب کا فر ہو گئے ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ کا فر ہی ہوں.اگر یہ دوزخ میں جائیں گے تو میں بھی دوزخ میں جاؤں گی.چنانچہ وہ مایوس لوٹ گئے.۱۹۷۶ء کے جلسہ سالانہ پر ربوہ آئیں.جب مستورات میں غیر معمولی اخوت اور پیار محبت کا نمونہ دیکھا تو کہنے لگیں یہ خدائی تصرف ہے ورنہ عورتوں میں اس قسم کی تربیت ہرگز نہیں ہوسکتی.چنانچہ اسی سال گھر جا کر باقاعدہ بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئیں اور آخر دم تک نہایت اخلاص اور وفاداری سے اس عہد بیعت کو نبھایا اور اس راہ میں ہر دکھ اور قربانی کو خندہ پیشانی سے قبول کیا.ہر روز گھر میں کئی غیر از جماعت وفود کی صورت میں آتے اور بحث و مباحثہ کرتے اور روحانی اذیت پہنچاتے مگر باوجود ان کے سخت رویہ کے مرحومہ ان کی بڑے اخلاص اور محبت سے خدمت کرتی تھیں.مرحومہ خدا کے فضل سے پہلے بھی نماز وروزہ اور تہجد کی پابند تھیں لیکن قبول احمدیت نے تو اس صفت کو چار چاند لگا دیئے اور وہ بجگانہ نمازوں اور نماز تہجد کے علاوہ اور نوافل بھی بڑے اہتمام سے ادا کر نے لگیں.بہت سی سچی خوا میں دیکھنے لگیں.غریبوں کی بہت مدد کرنے والی اور افراد جماعت کا بہت احترام اور عزت کرنے والی خاتون تھیں.جماعتی پروگراموں اور تنظیموں کے ساتھ بہت تعاون اور دلچسپی کا مظاہرہ کرتی تھیں.چندہ جات با قاعدگی سے ادا کرتیں اور اپنی خدا داد صلاحیتوں سے عورتوں میں خوب تبلیغ کرتی تھیں.۸/اگست ۱۹۷۸ء کو رمضان المبارک کی تین تاریخ تھی.قاری صاحب نماز تراویح پڑھا کر آئے تو دیکھا کہ بیٹھک میں دو مہمان آئے بیٹھے ہیں.وہ پرانے دوست تھے.جب ان سے فارغ ہوکر اندر آئے تو بیوی سے پوچھا کیا بات ہے آپ ابھی تک سوئی نہیں.کہنے لگیں حافظ جی مجھے آج نیند نہیں آرہی.حافظ صاحب نے پوچھا کیا وجہ ہے؟ کہنے لگیں کہ کل رات خدا نے مجھے بتایا ہے کہ جس لڑکے کو تو نے خود پالا ہے وہ تیرا قاتل ہے.یہ لڑکا قاری صاحب کا بھتیجا تھا.عبداللہ نام تھا اور تقریباً 9 ماہ کی عمر سے ہیں سال کی عمر تک مرحومہ نے اسے پالا تھا.ان کی سچی خوا میں بھی دیکھیں کتنی عظیم الشان ہیں، کیسی صفائی سے پوری ہوئیں ان کو یہ یقین تھا.اس کا کوئی والی وارث نہ تھا.اب اپنوں اور غیروں نے اسے ورغلا کر اپنی مربیہ ماں کا مخالف بنادیا تھا.کہنے لگیں کہ میرا خیال ہے اب

Page 185

خطبات طاہر بابت شہداء 170 خطبہ جمعہ ۲۵ جون ۱۹۹۹ء ہمارا یہاں رہنا مناسب نہیں.سانگلہ ہل چھوڑ کر ہمیں ربوہ چلے جانا چاہئے.مبادا اس لڑکے سے ہمیں کوئی نقصان پہنچ جائے.حافظ صاحب نے کہا صدقہ وغیرہ دو کوئی بات نہیں.اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.وہ تو آپ کا بیٹا ہے ایسا نہیں کرے گا.لیکن خدا کی بات بہر حال پوری ہونی تھی.علی الصبح مکرم امیر صاحب سانگہ ہل اور قاری صاحب ایک دو اور دوست لے کر فیصل آباد ایک احمدی دوست کی تعزیت کرنے چلے گئے.وہ لڑ کا عبداللہ جو ایک سال قبل شیخو پورہ چلا گیا تھا گھر میں داخل ہوا.گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے پہلے ایک بچی جو پرائمری جماعت میں پڑھتی تھی ، حملہ کیا.لیکن جب وار خالی گیا تو پھر بچوں پر جھپٹنا.آپ بچوں کو بچانے کے لئے آگے بڑھیں تو انہیں بچاتی بچاتی خود اس کی گرفت میں آگئیں.وہ ظالم چھاتی پر بیٹھ گیا اور چاقو کے وار کرتا رہا.آپ بے بسی کی حالت میں اسے روکتی رہیں اور کہتی رہیں کہ عبداللہ بتا تو دو کہ ہمیں کس وجہ سے مار رہے ہو.کہنے لگا تم کا فر ہوگئی ہو اس لئے مارتا ہوں.بہر حال جب اس نے سمجھا کہ اب فوت ہوگئی ہیں تو انہیں چھوڑ کر پھر دوسرے بچوں کی طرف لپکا مگر وہ ادھر ادھر بھاگ چکے تھے.قریب ہی سول ہسپتال تھا.مرحومہ کو اور زخمی بچی کولوگوں نے وہاں پہنچایا.اس واقعہ کے تقریباً آدھ گھنٹہ بعد قاری صاحب بھی فیصل آباد سے واپس آگئے.چنانچہ امیر صاحب جماعت سانگلہ ہل کے حکم پر زخمیوں کو فوری طور پر فیصل آبادسول ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا.وہاں ڈاکٹر ولی محمد صاحب نے بڑے ہی اخلاص، محبت اور توجہ سے آپریشن کیا.فجزاه الله احسن الجزاء.ڈاکٹر صاحب تین گھنٹوں کے بعد آپریشن روم سے باہر آئے اور آتے ہی رو پڑے اور کہا انا لله وانا اليه راجعون.رشیدہ بیگم فوت ہوگئی ہیں.بچی کی امید ہے کہ انشاء اللہ بچ جائے گی.مرحومہ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں.ایک بیٹے مکرم حافظ عارف اللہ صاحب نے ایم.اے عربی کیا ہے اور ربوہ میں ہی کا روبار کر رہے ہیں.باقی دونوں بیٹے کینیڈا میں مقیم ہیں.تینوں بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے.مکرم ملک محمد انور ابن ملک محمد شفیع صاحب تاریخ شہادت ۲۲ / اگست ۱۹۷۸ء.مگر اب تو وقت ہو گیا ہے.یہ میرا خیال ہے اگر آگے جو میرے زمانے کے شہداء ہیں ان کا ذکر چلنا ہے اس سے پہلے اس کو لے لیں گے.

Page 186

خطبات طاہر بابت شہدا 171 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء عہد خلافت ثالثہ اور خلافت رابعہ کے شہداء (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ بقرہ کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة :۱۵۴ - ۱۵۵) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے مدد طلب کرتے رہو صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ.یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.شہداء کے ذکر کے تسلسل میں پہلے چند خلافت ثالثہ کے شہداء کا ذکر کیا جائے گا جو پہلے ہونے سے رہ گیا تھا بعد میں خلافت رابعہ کے شہدا کا ذکر شروع کیا جائے گا.ملک محمد انور صاحب سانگلہ ہل ملک محمد انور صاحب ابن ملک محمد شفیع صاحب تاریخ شہادت ۲۲ / اگست ۱۹۷۸ء.آپ ۱۹۴۵ء میں قادیان میں مکرم محمد شفیع صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.آپ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے.آپ کے دادا محترم ملک محمد بوٹا صاحب حضرت مسیح موعود کے رفقاء میں سے تھے.تقسیم ہند

Page 187

خطبات طاہر بابت شہدا 172 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء کے بعد آپ کے والد صاحب تلاش معاش کے سلسلہ میں مختلف جگہوں پر کام کرتے رہے.شہادت کے وقت آپ اور آپ کے والدین چک نمبر ۴۵ مرڈ نز د سانگلہ ہل ضلع شیخو پورہ میں مقیم تھے.آپ کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا.چک نمبر ۴۵ مرڈ کے ایک سکول ٹیچر مکرم را نا محمد لطیف صاحب جب آپ کی کوششوں کے نتیجہ میں احمدی ہوئے تو گاؤں کے لوگ کھلے عام آپ کی مخالفت کرنے لگے.۲۲ راگست ۱۹۷۸ء بمطابق ۷ار رمضان المبارک صبح کے وقت آپ کے غیر احمدی چا ملک محمد رمضان صاحب سانگلہ ہل سے دوائی لے کر آرہے تھے.رستہ میں ان پر ان کے دشمنوں نے حملہ کیا مگر وہ تانگہ پر ہونے کی وجہ سے معمولی زخمی ہوئے.مخالف لاٹھیوں اور برچھیوں سے مسلح تھے.وہ پیچھا کرتے ہوئے چلے آئے.مکرم ملک محمد انور صاحب اور آپ کے والد صاحب نے جب گلی میں شور سنا تو گھر سے باہر نکل آئے کہ معلوم ہو کیا معاملہ ہے.ان کے چا پر حملہ آور ہونے والوں نے جب ان کو دیکھا تو انہوں نے ان کے چا کو چھوڑ دیا اور ان کو اور ان کے والد صاحب کو گھیرے میں لے کر ان پر لاٹھیوں اور برچھیوں سے حملہ کر دیا.جب آپ شدید زخمی ہو کر گر پڑے تو یہ نعرہ لگاتے ہوئے اور بھنگڑا ڈالتے ہوئے بھاگ گئے کہ ایک مرزائی کو ہم نے لے لیا مگر دوسرا بچ گیا ملک محمد انور صاحب کو انتہائی زخمی حالت میں فوری طور پر سانگلہ ہل سے فیصل آباد ہسپتال پہنچایا گیا جہاں پر مکرم ڈاکٹر ولی محمد صاحب نے آپ کا آپریشن کیا مگر تی کٹ جانے کے باعث آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسی رات اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.بوقت شہادت آپ کی عمر چونتیس سال تھی.انا لله وانا اليه راجعون.ملک محمد شفیع صاحب کو بھی اپنے بیٹے کو بچاتے ہوئے شدید زخم آئے مگر وہ شہادت ان کے نصیب میں نہ تھی اور ان کے بیٹے کو عطا ہو گئی.پسماندگان : شہید مرحوم کی بیوہ کا نام صدیقہ بیگم تھا.بیٹا ملک محمد سرور اور والد ملک محمد شفیع صاحب جو محلہ دارالعلوم شرقی ربوہ میں رہتے ہیں.مولوی نوراحمد صاحب آف کوریل کشمیر مولوی نور احمد ولد غلام محمد جو صاحب موضع کوریل ضلع اسلام آباد ( مقبوضہ کشمیر ).تاریخ شہادت ۵/ اپریل ۱۹۷۹ ء.مولوی نور احمد پیدائشی احمدی تھے.پرائمری کے بعد قادیان گئے اور

Page 188

خطبات طاہر بابت شہدا 173 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.۱۹۳۷ء مولوی فاضل پاس کرنے کے بعد ریاست کشمیر کے محکمہ تعلیم میں ملا زم ہوئے اور کٹھوعہ اور کشتواڑ کے دور دراز علاقوں میں طویل عرصہ بطور استاد کام کرنے کے بعد اپنے قریبی گاؤں منز گام میں اپنی ملازمت پوری کی.ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی زمینوں وغیرہ کو سنبھالا اور ۱۹۷۸ء کے سالانہ جلسہ قادیان میں شمولیت کے لئے آئے مگر کشمیر سے آپ کے بھانجے کی اچانک وفات کی اطلاع ملنے پر کشمیر چلے گئے.ابھی آپ کو کشمیر پہنچے چند روز ہی ہوئے تھے کہ ۴ را پریل ۱۹۷۹ء کو پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو جب پھانسی دی گئی تو کشمیر میں لوگوں نے جماعت اسلامی کے دیہات پر حملے شروع کر دیئے.۱/۵اپریل کو حملوں کا رخ جماعت کی طرف مڑ گیا یا موڑ دیا گیا.مولوی نوراحمد صاحب کے گاؤں کو ریل کی اکثر آبادی احمدیوں پر مشتمل ہے اور اس سے چند فرلانگ کے فاصلہ پر آسنور گاؤں ہے جو کوریل سے بہت بڑا ہے اور اس کی بھی ساری آبادی احمدی ہے.۵ / اپریل ۱۹۷۹ء کو دن کے دو بجے ہزاروں لوگوں پر مشتمل ہجوم آپ کے گاؤں کو ریل میں داخل ہوا اور احمدیوں کے پندرہ گھروں کو آگ لگانے اور لوٹنے کے بعد مولوی نوراحمد صاحب کے گھر کا رخ کیا.مولوی صاحب نے اپنے مکان کی تیسری منزل پر اپنے دو بیٹوں مسعود احمد اور شمیم احمد کے ساتھ مل کر حملہ آوروں پر فائرنگ شروع کر دی.فائرنگ کے نتیجہ میں ہجوم پیچھے ہٹ جاتا اور پھر حملہ آور ہوتا.اس طرح ساڑھے چار بج گئے.غالباً آپ کے پاس کارتوس ختم ہو گئے تھے.چنانچہ حملہ آور گھر میں داخل ہو گئے.آپ کے دونوں بیٹے تو بیچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر مولوی نوراحمد صاحب حملہ آوروں کے قابو میں آگئے.دشمن آپ کو گھسیٹ کر صحن میں لے آیا اور پتھروں سے کوٹ کوٹ کر آپ کو شہید کر دیا.حملہ آور آپ کی لاش کو چھوڑ کر بھاگ گئے.ان حملہ آوروں میں بہت سے نوجوان آپ کے شاگر د بھی تھے.انا للہ وانا اليه راجعون.شہید نے اپنے پیچھے اپنی اہلیہ آمنہ بیگم ، دو بیٹے مسعود احمد اور شمیم احمد اور ایک بیٹی چھوڑے ہیں.۴ راور ۵ / اپریل کے اس سانحہ میں وادی کشمیر میں اور بھی مختلف احمدی دیہات میں احمدیوں کے چار سو گھر کوٹے اور جلائے گئے تھے اور کئی مساجد شہید کر دی گئی تھیں.

Page 189

خطبات طاہر بابت شہدا 174 مکرم بشیر احمد رشید احمد صاحب آف سری لنکا خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء بشیر احمد رشید احمد صاحب آف سری لنکا تاریخ شہادت ۲۷/ جون ۱۹۷۹ء.مکرم بشیر احمد رشید احمد صاحب ، مکرم بے رشید احمد صاحب آف نیگومبوسری لنکا کے بیٹے تھے.آپ کے دادا محمد جمال الدین صاحب نے احمدیت قبول کی اور نیگومبو میں جماعت کے ابتدائی احمدیوں میں شمار ہوئے.۱۹۷۸ء میں جماعت احمد یہ سری لنکا کی تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجہ میں ملاؤں نے جماعت کی مخالفت بڑے زور شور سے شروع کر دی اور مولویوں کی زیر نگرانی احمدی دوستوں کے گھروں پر حملے شروع ہوئے اور بہت سے گھر جلائے گئے.احمدیہ مسجد کو بھی آگ لگائی گئی.یہ صورتحال تقریباً ایک سال تک جاری رہی.جون ۱۹۷۹ء میں بشیر احمد صاحب دو خدام کے ہمراہ نماز عشاء کے بعد مسجد سے گھر آرہے تھے کہ چارغنڈوں نے چاقوؤں اور خنجروں سے آپ پر حملہ کر دیا.آپ کے جسم پر چاقوؤں کے اٹھارہ زخم آئے جن کے نتیجہ میں بشیر احمد صاحب موقع پر ہی شہید ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.مرحوم کی شہادت کے وقت بائیس سال عمر تھی اور غیر شادی شدہ تھے.آپ کی والدہ ابھی زندہ ہیں.ان حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ کیا گیا لیکن حکومت میں اُن کے اثر و رسوخ کی وجہ سے فیصلہ اُن کے حق میں ہو اور اُن کو بری کر دیا گیا لیکن خد کی عدالت سے یہ لوگ بیچ نہ سکے.ان میں سے ایک شخص چلتی گاڑی کی زد میں آگیا اور اس کے جسم کے ٹکڑے اڑ گئے.دوسرے کو اپنے ہی ساتھیوں نے چاقوؤں سے حملہ کر کے ہلاک کر دیا اور اسے بھی ریلوے لائن پر پھینک دیا.باقی دونوں دماغی توازن کھو بیٹھے اور لمبے عرصہ تک پاگل خانے اور ہسپتال میں زیر علاج رہے.یہ دونوں اگر چہ ابھی تک زندہ ہیں مگر انتہائی تکلیف دو حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں.مردوں میں شمار ہیں نہ زندوں میں.محترم منشی علم دین صاحبہ کوٹلی آزادکشمیر حضرت منشی علم دین صاحبہ کوٹلی آزاد کشمیر.تاریخ شہادت ۱۳ راگست ۱۹۷۹ء.حضرت منشی صاحب نے ۱۹۳۴ء میں کافی جستجو اور مطالعہ کے بعد شرح صدر کے بعد احمدیت قبول کی.قبول احمدیت سے قبل جلسہ سالانہ پر قادیان بھی جاتے رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح

Page 190

خطبات طاہر بابت شہدا 175 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء موعودؓ کے خطبات اور کتب کا مطالعہ بھی کرتے رہے.احمدیت قبول کرنے سے قبل آپ کر اہل حدیث تھے.آپ چونکہ عرائض نو لیس تھے اس لئے جو لوگ آپ کے پاس درخواستیں لکھوانے کی غرض سے آتے ، آپ انہیں تبلیغ کرتے رہتے.بعض اوقات انہیں کہتے کہ الفضل کا یہ صفحہ پڑھ کر سناؤ تو تمہارے درخواست لکھنے کا معاوضہ نہیں لوں گا.جس دن آپ کی شہادت ہوئی اس سے پہلے تمام رات خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزاری.آپ شہادت کے روز یعنی ۱۳ راگست ۱۹۷۹ء کو دن کے تقریبا ساڑھے نو بجے گھر سے کچہری کی طرف تشریف لے جارہے تھے کہ دشمن نے آپ کا گلا کاٹ کر آپ کو شہید کر دیا.انا لله وانا اليه راجعون.خدائی انتقام : قاتل کے قید ہونے پر گو اس کے خاندان نے اسے بغرض علاج ضمانت پر تو رہا کرالیا تھا لیکن تقدیر الہی غالب آ کر رہی اور قاتل پاگل ہو گیا اور گھر والوں کے لئے اور علاقہ کے لئے وحشت وخوف اور دہشت کی ایک علامت بن گیا.گھر والے اسے مقفل رکھتے.پھر اس کے خاندان نے مختلف ذرائع سے اس کے قول و فعل کی ذمہ داری سے اعلانیہ بریت کا اعلان کر دیا اور اسے آزاد چھوڑ دیا.قاتل احمدی کا روباری حضرات کی دکانوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر پہروں کھڑا رہتا تھا.شاید ضمیر کی ملامت کی وجہ سے یا الہی پکڑ کے خوف سے.پھر عرصہ سات سال گیارہ ماہ اور ہیں دن کی ذلت آمیز زندگی گزارنے کی بعد قاتل نے ۳ / مارچ ۱۹۸۷ء کو نشہ آور دوائیں کھا کر خوش کشی کر لی.ہر شریف النفس شہری قاتل کی موت کو الہی قہر گردانتا ہے.اور وہ علاقہ کے لئے عبرت کا نشان بن گیا.قاتل کے خاندان کا شیرازہ بکھر چکا ہے.والد کبر سنی اور جوان اولاد کی نا گہانی اور قہری موت کی وجہ سے حواس باختہ ہو چکا ہے اور سارا خاندان ہی قہر الہی کا نشانہ بن چکا ہے.مکرم چودھری مقبول احمد صاحب پنوں عاقل چودھری مقبول احمد صاحب، پنوں عاقل سندھ.تاریخ شہادت ۱۹ فروری ۱۹۸۲ء.مقبول شہید کی بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرے شوہر مقبول احمد نے ۱۹۶۷ء میں بیعت کی.احمدیت قبول کرنے کے بعد مولوی آپ کو بہت تنگ کرتے ، دھمکیاں دیتے ، رات کو گھروں پر پتھراؤ کرتے اور دروازے کھٹکھٹاتے تھے.آپ کا لکڑی کا آرا تھا.ایک دن ایک نقاب پوش لکڑی خریدنے کے بہانے آیا اور خنجر نکال کر آپ پر پے در پے وار کئے اور وہیں شہید کر دیا.

Page 191

خطبات طاہر بابت شہدا 176 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء شہادت کے بعد ان کی بیوی کے سسرال والوں نے جو غیر احمدی تھے بیوی سے کہا کہ احمدیت چھوڑ دو تو ہم تمہیں پناہ دیں گے.دشمن بھی دھمکیاں دیتے رہے کہ احمدیت چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ مل جاؤ لیکن انہوں نے ان سب باتوں کو حقارت سے رد کر دیا اور ان سے کہا کہ جو کچھ کر سکتے ہو کر گز رو کسی قیمت پر بھی میں احمدیت کو نہیں چھوڑوں گی جس کی خاطر میرے شوہر کو آپ نے شہید کیا ہے.پسماندگان میں بیوہ ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.شہید کے بڑے بیٹے عتیق الرحمان صاحب آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور شادی شدہ ہیں.بڑی بیٹی رضیہ بیگم صاحبہ بھی شادہ شدہ ہیں.باقی بچے والدہ کے ہمراہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آباد ہیں.عہد خلافت رابعہ کے شہداء یہ خلافت ثالثہ کے بقیہ شہداء کا ذ کر تھا.اب خلافت رابعہ کے شہداء کی پہلی پیش کی جارہی ہے.ماسٹر عبدالحکیم صاحب ابڑ ولاڑکانہ محترم ماسٹر عبدالحکیم ابرو شہید دور خلافت رابعہ کے پہلے اور سندھ میں سندھی قوم کے بھی پہلے شہید ہیں.۱۰ را پریل ۱۹۳۲ء کو پیدا ہوئے.نہایت غربت اور تنگدستی میں پرورش پائی اور ایام طفولیت میں ہی شفقت پدری سے محروم ہو گئے.ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم جاری رکھتے ہوئے سندھ یو نیورسٹی سے ایم.اے، ایم.ایڈ پاس کر لیا.قرآن کریم کے عاشق تھے.گھر میں بچوں کو اس وقت تک ناشتہ کی اجازت نہ تھی جب تک تلاوت قرآن کریم نہ کرلیں.تبلیغ کے شیدائی تھے اور کوئی موقع پیغام حق پہنچانے کا ہاتھ سے نہ جانتے دیتے تھے.حتی کہ سرکاری دفاتر میں جماعتی اخبارات اور رسائل جاری کروا دیئے.خلافت احمدیہ سے آپ کو عشق تھا.خود بھی بار بار مرکز تشریف لاتے اور دوسروں کو بھی نہ صرف تلقین کرتے بلکہ بعض کے سفر کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے.بوقتِ شہادت جماعت احمد یہ وارہ کے صدر تھے.واقعہ شہادت : ۱۲ / اپریل ۱۹۸۳ء کو صبح دو بجے کے قریب دو آدمی آپ کے گھر میں گھس آئے.ان کے پاس کلہاڑیاں تھیں.ان کا ارادہ ابتدا صرف آپ کو ختم کرنا تھا.آپ اس وقت سو رہے تھے.انہوں نے آپ پر کلہاڑیوں کے پے در پے وار کئے.حملہ آوروں اور شہید کی آوازیں سن

Page 192

خطبات طاہر بابت شہدا 177 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء کر باقی افراد خانہ بھی بیدار ہو گئے.آپ کے ایک بیٹے مکرم ریاض احمد صاحب ناصر مربی سلسلہ نے جوان دنوں جامعہ احمدیہ میں پڑھتے تھے اور چھٹیوں پر گھر آئے ہوئے تھے ،حملہ آوروں میں سے ایک کو پکڑنے کی کوشش کی مگر ان کو بھی زخمی کر دیا گیا اور وہ بے ہوش ہو کر پڑے.آپ کی اہلیہ محترمہ کے سر پر بھی کلہاڑی کے کاری زخم لگائے گئے اور آپ کی بچی بھی زخمی ہوئی.آپ نے زخمی ہونے کی حالت میں بھی لوگوں سے یہی کہا کہ جس مسلک کو میں نے اپنایا ہے خدا کی قسم وہ جھوٹا نہیں ہے، نہ ہی میں نے کوئی بزدلی دکھائی ہے اور نہ ہی میرے قدم اس رستے میں ڈگمگائے ہیں.ہاں میرے مقدر میں اے مخالفو! شہادت ہے اور تمہارے مقدر میں نحوست اور ہلاکت کے سوا کچھ نہیں.پھر آپ نے بآواز بلند سندھی میں یہ نعرہ لگایا احمدیت کچی آہے، احمدیت کچی آہے، احمدیت کچی آہے.آپ نے حالت نزع میں واقف زندگی بیٹے ریاض احمد ناصر کو نصیحت فرمائی کہ ”میں تو اب بچ نہیں سکوں گا.مگر یاد رکھو احمدیت بالکل سچی اور برحق ہے اور تم اپنا وقف ہرگز نہ تو ڑ نا حملہ کے قریباً ایک گھنٹہ بعد آپ مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.انا لله وانا اليه راجعون.آپ کی نماز جنازہ کھنڈو میں ہوئی.آپ کے گھر کے پاک نمونہ اور آپ کی بلا امتیاز خدمت خلق کے غیر احمدی بھی معترف تھے.یہی وجہ تھی کہ بارہ ہزار لوگ آپ کے جنازے میں شریک تھے جن میں ماحول کے دیہات کے لوگ بھی بکثرت شامل تھے.بہت سے غیر احمدی افراد بھی دھاڑیں مار مار کر رورہے تھے.پہلے آپ کو کھنڈو میں امانتاً دفن کیا گیا اور پھر ۲۶ دسمبر ۱۹۸۳ء کومیت ربوہ لائی گئی جہاں بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین ہوئی.پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق آپ کے جسم پر کلہاڑیوں کے ستائیس زخم تھے جن سے بعض دو سے تین انچ تک گہرے تھے.جب صبح کو ہائی سکول کے لڑکوں کو اپنے مہربان اور شفیق استاد کے وحشیانہ قتل کی خبر ملی تو انہوں نے جلوس نکالا اور حکومت سے قاتلوں کی گرفتاری اور ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا.قاتل ۱۶ار اور ے اور اپریل کو گرفتار کر لئے گئے.پسماندگان میں شہید مرحوم نے بیوہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور چار بیٹے یادگار چھوڑے ہیں.بڑے بیٹے مکرم ریاض احمد صاحب ناصر مربی سلسلہ ہیں اور شادی شدہ ہیں.دوسرے بیٹے امتیا ز احمد صاحب ابڑو آسٹریلیا میں ہیں اور شادی شدہ ہیں.باقی دو بیٹے مکرم افتخار احمد صاحب ابڑو اور مکرم

Page 193

خطبات طاہر بابت شہدا 178 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء عبدالسمیع صاحب ابڑو اور دو بچیاں مکرمہ تہمینہ پروین صاحبہ اور مکر مہ امتہ الاعلی نصرت پری صاحبہ والدہ کے ساتھ ربوہ میں مقیم ہیں.جب کہ تیسری بیٹی مکرمہ نعیمہ پروین صاحبہ شادی شدہ اور ان کے شوہر سیف اللہ شاہ صاحب ٹرانسپورٹ کا کام کرتے ہیں.ڈاکٹر مظفر احمد صاحب شہید امریکہ - ڈاکٹر مظفر احمد صاحب شہید.ڈیٹرائٹ (امریکہ).یوم شہادت ۸ /اگست ۱۹۸۳ء.امریکہ کی سرزمین پر اپنے خون سے شجر احمدیت کی آبیاری کرنے والے پہلے شہید ڈاکٹر مظفر احمد صاحب ۱۹۴۶ء میں ماہل پور ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے.اس طرح شہادت کے وقت ان کی عمر ۳۷ سال تھی.آپ کے والد محترم کا نام رشید احمد تھا.آپ نے تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے F.Sc کرنے کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ۱۹۷۱ء میں M.B.B.S کیا اور پھر آرمی میڈیکل کور میں شامل ہو گئے.۱۹۷۵ء میں امریکہ چلے گئے اور بہت سے ہسپتالوں میں کام کرنے کے بعد بالآخر ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں کام شروع کر دیا.آپ نے صرف ایک اچھے ڈاکٹر تھے بلکہ ایک کامیاب داعی الی اللہ بھی تھے.شہادت کے وقت بھی آپ امریکہ کے نیشنل جنرل سیکرٹری اور علاقائی قائد کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے.عیسائیت کے موضوع پر آپ خاص دسترس رکھتے تھے.چنانچہ آپ اپنے سٹاف کے عیسائی ممبران کے ساتھ عیسائیت کے موضوع پر بحث مباحثے کرتے رہتے.۱۹۸۳ ء کے جلسہ سالانہ امریکہ میں شمولیت کی تیاری کر رہے تھے کہ ۸ اور ۹ راگست کی درمیانی رات ایک سیاہ فام آپ کو ملنے گھر آیا.آپ اسے تبلیغ کرتے رہے.بعد ازاں جب آپ اس کو الوداع کہہ کر دروازے کی طرف مڑے تو اس نے پیچھے سے فائر کر دیا.ایک گولی گردن کے پیچھے گی، دو گولیاں آپ کے چہرے اور بازوؤں میں سے گزر گئیں اور آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے.انا لله وانا اليه راجعون.بعد ازاں اسی قاتل نے جماعتی مرکز کو بھی بم سے اڑانے کی کوشش کی لیکن خود بھی ساتھ ہی جل مرا اور اس طرح کیفر کردار کو پہنچا.۱۵ را گست ۱۹۸۳ء کو شہید کی میت دو بجے شب کراچی پہنچی اور ۱۶ اگست کو آپ کی میت پہلے لاہور، چونڈہ اور پھر اسی روز ربوہ لائی گئی.ربوہ میں شہید کا جنازہ میں نے پڑھایا اور شام چھ بجے آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا.اس کی شہادت پر میں نے ۱۲ / اگست ۱۹۸۳ء کو مسجد اقصیٰ میں خطبہ جمعہ

Page 194

خطبات طاہر بابت شہدا کے دوران کہا: 179 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء رہے ہیں.” اے ڈیٹرائٹ اور امریکہ کے دوسرے شہروں میں بسنے والے احمد یو!“ اور وہ بھی جو امریکہ سے باہر بس رہے ہو یعنی ”اے مشرق اور مغرب میں آباد اسلام کے جاں شارو ! اس عارضی غم سے مضمحل نہیں ہونا کہ یہ ان گنت خوشیوں کا پیش خیمہ بننے والا ہے دنیا میں جتنی ترقیات احمدیت کو نصیب ہو رہی ہیں انہی شہدا کے خون کے قطرے رنگ لا اس شہید کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہے اور اس راستہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹو جس پر چلتے ہوئے وہ مرد صادق بہت آگے بڑھ گیا.تمہارے قدم نہ ڈگمگائیں تمہارے ارادے متزلزل نہ ہوں“.اے مظفر تجھ پر سلام کہ تیرے عقب میں لاکھوں مظفر آگے بڑھ کر تیری جگہ لینے کے لئے بے قرار ہیں.اور اے مظفر کے شعلہ حیات کو بجھانے والو! تم نے تو اسے ابدی زندگی کا جام پلا دیا.زندگی اس کے حصہ میں آئی اور موت تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی.( خطبات طاہر جلد دوم صفحہ ۴۲ - ۴۲۲) پس ماندگان میں بیوہ مکرمہ آسیہ بیگم صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے چھوڑے.بڑے بیٹے عزیزم غفنفر احمد صاحب آپ کی شہادت کے وقت چار سال کے تھے اور اس وقت میری لینڈ یو نیورسٹی میں کمپیوٹر انجینئر نگ میں ڈگری کر رہے ہیں.دوسرے بیٹے جعفر منصور احمد ، باپ کی شہادت کے دو ماہ بعد پیدا ہوئے.اس وقت پندرہ سال کے ہیں اور ہائی سکول کی تعلیم مکمل کر کے آگے پڑھ رہے ہیں.شیخ ناصر احمد صاحب شہید اوکاڑہ شیخ ناصر احمد شہید اوکاڑہ.تاریخ شهادت : ۱۸ رستمبر ۱۹۸۳ء.مکرم شیخ ناصر احمد صاحب ۱۹۴۲ء میں موگہ ضلع فیروز پور انڈیا میں محترم شیخ فضل محمد صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.آپ کے دادا حضرت شیخ دین محمد صاحب کو 1903 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریری بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.قیام پاکستان کے بعد آپ کے والدین اوکاڑہ میں آباد ہوئے اور کپڑے کا

Page 195

خطبات طاہر بابت شہدا 180 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء کاروبار شروع کیا.آپ بھی اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد اپنا علیحدہ کاروبار شروع کر دیا.جو گاہک ایک دفعہ آتا وہ آپ کے حسن سلوک اور دیانت داری سے متاثر ہوتا اور آپ کے اخلاق کا گرویدہ ہو جاتا.مرحوم سلسلہ کے فدائی تھے اور نظام جماعت سے بہت اخلاص کا تعلق رکھتے تھے.۱۲ / اگست ۱۹۸۳ء کے خطبہ جمعہ میں جب میں نے ڈاکٹر مظفر احمد شہید امریکہ کا ذکر کیا تو آپ کی طبیعت پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا اور آپ نے انتہائی حسرت سے یہ جملہ کیا کہ یہ تو قسمت والوں کو ملتی ہے.ایک ماہ بعد ہی ۱۸ ستمبر ۱۹۸۳ء کوعید الاضحی کی نماز ادا کرنے کے بعد واپس اپنے گھر آئے تو قربانی کا بکرا ذبح کرنے والے قصاب کی آمد میں قدرے تاخیر ہونے پر اسے دیکھنے گھر سے باہر نکلے ہی تھے کہ ایک شقی القلب محمد اسلم نے احمدیت دشمنی میں ان کی پسلی میں چھرا گھونپ دیا.خون بہنے لگا لیکن آپ کو اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ زخم کاری ہے.زخم پر ہاتھ رکھ کر خود ہی قریبی ڈاکٹر کے پاس گئے.ڈاکٹر نے زخم کی نوعیت دیکھ کر ہسپتال جانے کا مشورہ دیا.بھائیوں نے آپ کو سی.ایم.ایچ اوکاڑہ چھاؤنی پہنچایا.اس عرصہ میں خون کافی بہ چکا تھا جس کی وجہ سے آپ جانبر نہ ہو سکے اور عزیزوں سے باتیں کرتے کرتے دم توڑ دیا.انا لله وانا اليه راجعون.قاتل کو پولیس کے حوالہ کیا گیا.یہ شخص اسی شہر کا رہنے والا تھا.اس نے بیان دیا کہ میں نے قتل کیا ہے کیونکہ ناصر نے رسول اکرم ﷺ کی بہت توہین کی (نعوذ باللہ من ذالک ) جسے میں برداشت نہ کر سکا.حالانکہ وار کرنے سے پہلے آپ کی اس سے کبھی کوئی بات نہیں ہوئی تھی.۵ فروری ۱۹۸۵ء کومحمد الیاس ایڈیشنل سیشن جج اوکاڑہ نے مجرم کو صرف تین سال قید کی سزا دی اور فیصلہ میں لکھا کہ قاتل چونکہ پہلے ہی دو سال سے جیل میں ہے اس لئے یہ دوسال اس کی سزا سے منہا ہوں گے.پسماندگان میں شہید مرحوم نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور چار بیٹے یاد گار چھوڑے.جن ایسے لوگوں کا ذکر ہوتا ہے اگر کسی کے علم میں ہو کہ آزادی کے بعد ان پر کیا بنی تو مہربانی فرما کر وہ اب بھی مجھے مطلع کر دیں تا کہ وہ ہماری تاریخ کا حصہ بن جائے.مرحوم نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور چار بیٹے یاد گار چھوڑے.بابر احمد شادی شدہ ہیں اور کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں.ڈاکٹر عامر محمود صاحب ( امیر ضلع اوکاڑہ ) اوکاڑہ میں محمود پولی کلینک

Page 196

خطبات طاہر بابت شہدا 181 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء کے نام سے پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں اور نصرت جہاں سکیم کے تحت تین سال کا وقف کر کے ستمبر ۱۹۹۳ء سے ستمبر ۱۹۹۶ ء تک اپا پا لیگوس ( نائیجیریا) میں خدمت سرانجام دے چکے ہیں.شادی شدہ ہیں لیکن ابھی اولاد کوئی نہیں.اللہ انہیں پاکیزہ اولاد سے نوازے.اس وقت نائب قائد ضلع اور ناظم خدمت خلق ضلع ہیں.مکرم اظہر محمود ناصر صاحب غیر شادی شدہ ہیں اور سول انجینئر نگ میں Ph.D کرنے کے لئے آسٹریلیا گئے ہوئے ہیں.لقمان احمد طاہر صاحب غیر شادی شدہ ہیں اور لقمان کارپوریشن کے نام سے اوکاڑہ میں کیمیکلز کا کام کرتے ہیں اور خدام الاحمدیہ کی ضلعی عاملہ میں ناظم اشاعت، ناظم مال، ناظم عمومی کے علاوہ جماعت کے نائب سیکرٹری جائیداد ہیں.مکرمہ بنٹی ناصر صاحبہ ہومیو پیتھک فائنل ائر کی طالبہ ہیں اور ابھی غیر شادی شدہ ہیں.لجنہ اوکاڑہ شہر کی جنرل سیکرٹری کے طور پر خدمت کر رہی ہیں.شہید مرحوم کی بیوہ ضلع اوکاڑہ کی لجنات کی نائب صدر ہیں.مکرم چودھری عبد الحمید صاحب محراب پور چودھری عبدالحمید صاحب شہید محراب پور سندھ : تاریخ پیدائش ۱۰ / اپریل ۱۹۸۴ء.آپ ۱۹۴۷ء میں چودھری سلطان علی صاحب مرحوم کے ہاں ملتان میں پیدا ہوئے.۱۹۵۷ء میں میٹرک اور ۱۹۵۹ء میں F.Sc پاس کیا.بعد ازاں جب آپ کے والد تجارت کے سلسلہ میں محراب پور جا کر آباد ہوئے تو آپ بھی اپنے والد کے کاروبار سے منسلک ہوئے.آپ کے والد خاندان بھر میں اکیلے احمدی تھے.آپ نے 13 سال کی عمر میں خود بیعت کی.بوقت شہادت آپ محراب پور ضلع نوابشاہ کی جماعت احمدیہ کے صدر تھے.واقعہ شہادت : ۱۰ار اپریل ۱۹۸۴ء کو دس بجے کے قریب ایک غیر احمدی عالم مولوی شاہ محمد صاحب کی عیادت کے بعد اپنی آڑھت کی دکان کی طرف آرہے تھے.راستہ میں ایک جلد ساز کی دکان پر بچوں کی کتابیں جلد کروانے کے لئے دی ہوئی تھیں.اس دکاندار سے کتابوں کے بارہ میں پوچھ کر آپ نے سائیکل چلایا ہی تھا کہ پیچھے سے ایک شخص سچل سومرو نے آواز دی کہ عبدالحمید میری بات سننا آواز سن کر آپ نے سائیکل سے پاؤں نیچے رکھا ہی تھا کہ اس نے پیچھے سے آکر آپ کے سینے میں تیز چھری گھونپ دی.آپ سائیکل سے اتر کر نیچے بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ سے چھری پکڑ کر سینے سے باہر نکای مگر اس کے زخم سے سے آپ کا پھیپھڑا بری طرح مجروح ہو گیا تھا.قریبی ہسپتال

Page 197

خطبات طاہر بابت شہدا 182 خطبہ جمعہ ۲ ر جولائی ۱۹۹۹ء سے مرہم پٹی کے بعد نوابشاہ ہسپتال لے جاتے ہوئے آپ راستہ میں ہی اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے.انا لله وانا اليه راجعون.قاتل کو لوگوں نے موقع پر ہی پکڑ کر پولیس کے حوالہ کر دیا.اس نے کہا کہ یہ قادیانی ہے اور میں نے اسی لئے مارا ہے اور جہاد کیا ہے.بہر حال اس پر مقدمہ چلا اور قریبا تین سال بعد رجب علی ایڈیشنل سیشن جج نے اسے تین سال قید کی سزا سنائی اور ساتھ یہ فیصلہ میں لکھا کہ ملزم ۱۰ را پریل ۱۹۸۴ء سے ۱۳ رمئی ۱۹۸۶ ء تک جیل میں رہا ، قید کا یہ عرصہ اس کی سزا سے منہا ہوگا.گویا عملاً اسے کوئی بھی سزا نہ دی گئی.یہ بھی معلوم ہوا کہ شہید مرحوم نے اپنے آخری لمحات میں اپنے بیٹوں اور بڑے بھائی کو وصیت کی کہ قاتل کے خلاف کسی قسم کی کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے.کیونکہ میں نے اسے معاف کر دیا ہے اور مجھے اس کی بدولت اعلیٰ وارفع مقام نصیب ہو رہا ہے.شہید مرحوم بہت شگفتہ مزاج اور ہنس مکھ تھے.حقوق اللہ کے علاوہ حقوق العباد کا بھی خیال رکھتے تھے.یہ بات قابل ذکر ہے کہ چودھری صاحب کے قاتل اور اس کے اہل خانہ کی تمام ضروریات ایک عرصہ تک چودھری صاحب مرحوم نے اپنی جیب سے پوری کیں لیکن اس نے علماء سوء کے بہکانے پر اپنے ہی محسن کو شہید کر دیا.شہید مرحوم نے بیوہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے چھوڑے ہیں.جن کی تفصیل یہ ہے منور احمد محراب پور کے صدر جماعت اور قائد علاقہ سکھر ڈویثرن ہیں.حافظ محمد ناصر صاحب جرمنی میں مقیم ہیں.محمد احسن صاحب محراب پور میں رہائش پذیر ہیں.مظفر حسن صاحب اور محمد اسلم صاحب دونوں بھائی ہالینڈ میں آباد ہیں.بیٹیاں بشری فضیلت صاحبہ اور سلمی ندرت صاحبہ شادی شدہ ہیں.اور یہ سارے بچے اپنے گھروں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہیں اور دینی و دنیاوی خدمات سرانجام دے رہے ہیں.مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب شہید سکھر شہادت قریشی عبدالرحمن صاحب شہید ،سکھر.تاریخ شہادت یکم رمئی ۱۹۸۴ء.مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب 1911ء میں سیالکوٹ کے ایک گاؤں دولت پور میں حضرت قریشی غلام محی الدین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں پیدا ہوئے.تعلیمی زندگی کا آغاز پسرور سے کیا اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد ۱۹۳۲ء میں ریلوے ہائی سکول سکھر میں ایک معلم کی حیثیت

Page 198

ڈاکٹر مظفر احمد صاحب امریکہ شہادت ۱۹۸۳ء شیخ ناصر احمد صاحب اوکاڑہ شہادت ۱۹۸۳ء قریشی عبدالرحمن صاحب سکھر شہادت ۱۹۸۴ء ڈاکٹر عبدالقادر صاحب فیصل آباد شہادت ۱۹۸۴ء چوہدری عبدالحمید صاحب محراب پور شہادت ۱۹۸۴ء

Page 199

ڈاکٹر انعام الرحمن صاحب گھر شہادت ۱۹۸۵ء چوہدری عبدالرزاق بھر یا روڈ شہادت ۱۹۸۵ء ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر حیدرآباد شہادت ۱۹۸۵ء چوہدری محمود احمد اٹھوال پنوں عاقل شہادت ۱۹۸۵ء مرز امنور بیگ صاحب لاہور شہادت ۱۹۸۶ء

Page 200

خطبات طاہر بابت شہدا 183 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء سے متعین ہوئے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے.ریٹائرمنٹ کے بعد آپ پنجاب آنا چاہتے تھے لیکن حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے ارشاد پر سکھر میں ہی قیام کیا.اڑتالیس سال تک مختلف دینی خدمات پر مامورر ہے.شہادت کے وقت آپ سکھر اور شکار پور کے اضلاع کی جماعتوں کے امیر تھے.آپ نہایت مخلص، ہمدرد، عبادت گزار اور فنافی اللہ احمدی تھے.آپ کا اکثر وقت احمد یہ دارالذکر میں ہی گزرتا تھا.واقعہ شہادت: یکم رمئی ۱۹۸۴ء کو آپ مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد اپنے گھر واپس آرہے تھے کہ رستہ میں چھپے ہوئے چھ حملہ آوروں نے آپ پر برچھیوں اور خنجروں سے حملہ کر دیا.ایک حملہ آور نے بائیں طرف سے آپ پر تین وار کئے جن میں سے ایک آپ کے پیٹ میں لگا اور انتڑیاں باہر نکل آئیں.زخمی حالت میں آپ گھر کی طرف چلے تو دوسرے حملہ آور نے بلم نما ہتھیار سے پیٹھ پر آٹھ اور بائیں کنپٹی پر ایک وار کیا.شور سن کر گھر کی مستورات باہر نکلیں تو ابھی آپ زندہ تھے.آپ نے سختی سے ان کو واپس جانے کی ہدایت کی.قاتلوں کے بھاگ جانے کے بعد آپ کے اہل خانہ آپ کو گھر لے آئے.آپ کی بہو نے پانی پلایا لیکن پانی ابھی حلق سے نیچے نہیں اترا تھا کہ آپ زخموں کی تاب نہ لا کر اپنے حقیقی مولا سے جاملے.انا للہ وانا اليه راجعون.قریشی صاحب شہید کے قتل کا مقدمہ تو درج ہوا مگر پولیس نے کسی قاتل کو گرفتار نہیں کیا.شہید مرحوم کے پسماندگان میں چھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.آپ کے دو بڑے بیٹے قریشی ناصر احمد صاحب ایم.اے پروفیسر گورنمنٹ کالج سکھر اور قریشی مبارک احمد صاحب مربی سلسلہ وفات پاچکے ہیں.جب کہ باقی بیٹوں میں سے قریشی منور احمد صاحب M.Sc ایگریکلچر آفیسر حیدر آباد میں رہائش پذیر ہیں.قریشی رفیع احمد صاحب سابق اسیر راہ مولی سکھر میں ملازم ہیں اور ان کے اہل خانہ ربوہ میں مقیم ہیں.قریشی نعیم احمد صاحب سکھر میں رہتے ہیں اور کھاد کی فیکٹری میں ملازم ہیں.قریشی حنیف احمد صاحب اپنے خاندان کے ساتھ لاہور میں رہائش پذیر ہیں.آپ کی دونوں بیٹیاں نصرت بیگم صاحبہ اور فضیلت بیگم صاحبہ شادی شدہ ہیں اور کراچی میں آباد ہیں.سارا خاندان اللہ کے فضلوں کا گواہ بنا ہوا ہے.

Page 201

خطبات طاہر بابت شہدا 184 مکرم ڈاکٹر عبد القادر صاحب چینی فیصل آباد خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء ڈاکٹر عبد القادر صاحب چینی شہید.فیصل آباد : تاریخ شہادت ۱۶ جون ۱۹۸۴ء.ڈاکٹر عبدالقادر صاحب ولد قاری غلام مجتبی صاحب (صحابی حضرت مسیح موعود ) نے ابتدائی تعلیم ہائی سکول قادیان میں پائی.پھر آپ MBBS کر کے نہایت کامیاب فزیشن اور سرجن بنے.فیصل آباد میں مقیم تھے اور نہایت مخلص احمدی تھے.اپنی شرافت اور نیک دلی کی وجہ سے خاص و عام میں مقبول تھے.ہر دل عزیز اور فرض شناس تھے اور خدمت خلق کے جذ بہ سے سرشار تھے.۶ ارجون ۱۹۸۴ء کو دن کے تقریباً پونے بارہ بجے پیپلز کالونی فیصل آباد میں آپ اپنی کوٹھی میں موجود تھے اور روزے سے تھے کہ ایک شخص نعیم اللہ ہاشمی بیماری کے بہانے آپ کی کوٹھی پر آیا آپ نے اسے اندر بلالیا.اس نے پیٹ درد کی شکایت کی چنانچہ ڈاکٹر صاحب اسے دیکھنے کے لئے نیچے جھکے تو اس نے چھرے سے آپ کے بازو پر ایک اور پیٹ میں دو وار کئے اور بھاگ گیا.آپ کا ملازم شورسن کر قاتل کے پیچھے بھاگا اور تھوڑی دور جا کر لوگوں کی مدد سے اسے پکڑ لیا اور پولیس کے حوالہ کر دیا.ڈاکٹر صاحب کو زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا مگر زخم اتنے کاری تھے کہ آپ جانبر نہ ہو سکے اور ایک بجے کے قریب ہسپتال میں اللہ کو پیارے ہو گئے.انـا لــلــه وانـا اليه راجعون ـ بوقت شہادت آپ کی عمر ۶۵ سال تھی.مجرم نے پولیس کو کئی جھوٹے بیانات دیئے.کبھی کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے اسے بیماری کا جعلی سرٹیفیکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا.کبھی کہا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے دوائی کے لئے پیسے مانگے تھے جو انہوں نے نہیں دیئے وغیرہ.گوایڈیشنل حج فیصل آباد محمد اسلم ضیاء نے اسے عمر قید کی سزاد دی مگر ہائیکورٹ نے ملزم کو بری کر دیا.شہید مرحوم نے اپنے پسماندگان میں بیوہ محترمہ طاہرہ قادر صاحبہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ڈاکٹر رضوان قادر چھوڑے جو کہ آج کل ڈیٹرائیٹ امریکہ میں مقیم ہیں.آپ کی بیٹیوں میں سب سے بڑی بیٹی ڈاکٹر نائلہ احمد ڈاکٹر سلیم احمد صاحب کی اہلیہ ہیں.دوسری بیٹی ڈاکٹر شہلا ظفر اللہ خانصاحب آف نیروبی کی اہلیہ ہیں اور تیسری بیٹی ڈاکٹر فائزہ رحمان ہیں جو مکرم ڈاکٹر لطف الرحمان صاحب امریکہ کی اہلیہ ہیں.سوائے شہلا کے شہید مرحوم کا سارا خاندان اب امریکہ میں آباد ہے.

Page 202

خطبات طاہر بابت شہدا 185 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء ضمناً یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ مکرمہ آپا سارہ صاحبہ اہلیہ کرنل صادق ملک صاحب آف راولپنڈی کی وفات پر میں نے ذکر کیا تھا کہ آپ چینی صاحب کی بیٹی تھیں.اول تو آپ قاری غلام مجتبی صاحب جو چینی کہلاتے تھے ان کی بیٹی نہیں بلکہ نواسی تھیں.یہ درستی ریکارڈ میں ہو جانی چاہئے.دوم یہ کہ قاری صاحب چینی نہیں تھے.غالباً اس لئے چینی مشہور ہو گئے کہ ان کی دوسری شادی ہانگ کانگ میں ایک چینی خاتون سے ہوئی تھی اور عبد القادر صاحب چینی شہید فیصل آباد اسی چینی بیوی کے بطن سے تھے جبکہ سارہ بیگم کی والدہ غیر چینی ماں کے بطن سے تھیں.مکرم ڈاکٹر انعام الرحمن صاحب انور سکھر ڈاکٹر انعام الرحمن صاحب انور شہید ،سکھر.تاریخ شہادت: ۱۵ / مارچ ۱۹۸۵ ء.آپ مولوی عبدالرحمن صاحب انور کے ہاں ۱۹۳۷ء میں قادیان میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم قادیان میں ہی حاصل کی.میٹرک ربوہ سے کیا.لاہور سے ہیلتھ ٹیکنیشن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے سندھ میں جا کر میڈیکل پریکٹس شروع کی.نہایت مخلص، غریبوں کے ہمدرد اور جماعتی کاموں سے گہرا لگاؤ رکھنے والے انسان تھے.آپ سکھر ، شکار پور اور جیکب آباد کے اضلاع کی مجالس انصار اللہ کے ناظم تھے.بوقت شہادت سکھر کے نزدیک گوٹھ عبدو کی سرکاری ڈسپنسری کے انچارج کے طور پر ملازمت کر رہے تھے.آپ کی بیگم مکرمہ امتہ الحفیظ شوکت صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن لوگوں نے آپ کو حالات خراب ہونے اور اس کے نتیجہ میں درپیش خطرات سے آگاہ کیا تو آپ نے یہ کہہ کر علاقہ چھوڑنے سے انکار کر دیا کہ پھر تو یہ علاقہ احمدیت سے خالی ہو جائے گا.آپ کے تمام بہن بھائیوں اور عزیز واقارب نے بھی سندھ چھوڑنے کا مشورہ دیا مگر اس وقت بھی حامی نہ بھری بلکہ کہنے لگے کہ شاید سندھ کی سرزمین میرا خون مانگتی ہے اور پھر سینہ پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ میں اس کے لئے تیار ہوں.۱۵ مارچ ۱۹۸۵ء کو مسجد احمد یہ سکھر میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد آپ اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ گوشت خریدنے کے لئے بازار گئے اور ایک دکان سے گوشت لے کر ابھی جیب سے پیسے نکالنے لگے تھے کہ اچانک پیچھے سے دشمنوں نے بندوق اور چاقوؤں سے آپ پر حملہ کر دیا جس سے آپ کا جسم خون میں لت پت ہو گیا.آپ نے اپنے خون میں انگلیاں ڈبوکر ” لا اله الا اللہ “ لکھا اور وہیں

Page 203

خطبات طاہر بابت شہدا 186 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء تڑپتے تڑپتے جان جان آفریں کے سپرد کر دی.انا للہ وانا اليه راجعون.شہادت کے وقت آپ کی عمر انچاس سال کے قریب تھی.شہید مرحوم نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی یادگار چھوڑے.آپ کے بیٹے محمود الرحمان صاحب انور شادی شدہ ہیں اور سوئٹزرلینڈ میں مقیم ہیں جبکہ بیٹی امتہ النصیرا نو ر صاحبہ اہلیہ فضل الرحمان صاحب انور ہمبرگ جرمنی میں مقیم ہیں.مکرم چودھری عبدالرزاق صاحب شہید بھریا روڈ چودھری عبدالرزاق صاحب شہید.بھر یا روڈ ( سندھ ).تاریخ شہادت ۷ اپریل ۱۹۸۵ء.آپ مکرم عبدالستار صاحب کے ہاں ۱۹۲۹ء میں گوکھو وال ضلع فیصل آباد میں پیدا ہوئے.میٹرک کر کے ایک دوست کے پاس بطورا کا ؤنٹنٹ کام شروع کیا جو آپ کی دیانت ، معاملہ نہی اور قابلیت سے اتنا متاثر ہوئے کہ آپ کو اپنے کاروبار میں حصہ دار بنالیا.بعد ازاں آپ نے سندھ جا کر بھر یا روڈ میں کپڑے کا کاروبار شروع کیا.اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت دی کہ آپ ایک کاٹن فیکٹری ، کھاد کی ایجنسیوں اور تقریباً دوسو ایکڑ اراضی کے مالک بن گئے.غلہ منڈی بھر یا روڈ کے منتخب صدر بھی رہے.مکرم چوہدری صاحب ایک صابروز اہد انسان تھے.آپ شروع سے ہی بھر یا روڈ ضلع نوابشاہ کی جماعت کے مقامی صدر تھے.شہادت سے ایک سال قبل امیر ضلع بھی مقرر ہوئے.۱۹۸۴ء کے آرڈینینس کے بعد آپ کو گمنام خطوط کے ذریعہ متواتر دھمکیاں ملتی رہتی تھیں کہ مسلمان ہو جاؤ ورنہ قتل کر دیئے جاؤ گے مگر آپ کبھی بھی ان دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوئے.۷ را پریل ۱۹۸۵ ء کو حسب معمول اپنی آڑھت کی دکان پر بیٹھے تھے کہ دن کے گیارہ بجے ایک بد بخت نے آپ پر گولی چلا دی جس سے آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے.انــا لــــه وانــا اليه راجعون.واردات کے بعد قاتل کو لوگوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا.میر محمد نامی قاتل کا تعلق شر قوم سے تھا.قاتل نے ابتدائی بیان میں کہا کہ چودھری عبدالرزاق قادیانی اور کا فر تھا اس لئے ان کو قتل کر کے میں نے اپنے لئے جنت میں جگہ بنائی ہے.پس ماندگان میں شہید مرحوم نے ضعیف والدہ اور بیوہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے یادگار چھوڑے.بڑے بیٹے مکرم چودھری محمود احمد صاحب قائد ضلع نوابشاہ اور قائد نوشہرو فیروز رہے ہیں.آج کل ناظم مجلس انصار اللہ بھر یا روڈ ہیں.آڑھت کا کاروبار کرتے ہیں اور اپنی خاندانی زمینوں

Page 204

خطبات طاہر بابت شہدا 187 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء کی نگرانی بھی آپ کے ذمہ ہے.شادی شدہ ہیں.دوسرے بیٹے چودھری ناصر احمد صاحب نے اپنے والد صاحب کی شہادت سے پہلے ہی کا روبار سنبھال لیا تھا مگر زندگی نے وفا نہ کی اور جنوری ۱۹۹۴ء میں وفات پاگئے.تیسرے بیٹے چودھری اعجاز احمد صاحب شادی شدہ ہیں اور بھر یا روڈ میں ہی ایک میڈیکل سٹور چلا رہے ہیں.جماعتی خدمات کے لحاظ سے آج کل ناظم انصار اللہ علاقہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں.چوتھے بیٹے ڈاکٹر طاہر احمد صاحب لیاقت میڈیکل کالج سے MBBS کرنے کے بعد آج کل نوابشاہ ہسپتال میں کام کر رہے ہیں اور ناظم اصلاح وارشاد علاقہ ہیں.پانچویں بیٹے طارق احمد صاحب نے B.SC تک تعلیم حاصل کی اور اب چھوٹی سطح پر کنسٹرکشن (Construction) کا کام کر رہے ہیں.آپ کی بیٹیوں میں سے ساجدہ صاحبہ کی شادی مکرم عبدالواسع صاحب سے ہوئی جو آج کل جرمنی میں مقیم ہیں اور دوسری صاحبزادی کی شادی مکرم محمد منور صاحب ابن چودھری عبدالحمید صاحب شہید آف محراب پور سے ہوئی.یہ محراب پور میں ہی رہائش پذیر ہیں.مکرم ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر صاحب حیدرآباد شہادت ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر صاحب شہید ، حیدرآباد.تاریخ شہادت ۱۹ جون ۱۹۸۵ء.آپ حضرت مولانا عبد الماجد صاحب بھاگلپوری کے پوتے اور پروفیسر سید عبدالقادر صاحب رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے تھے.آپ کے والد کو ۱۹۰۲ء میں پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریری بیعت کرنے اور پھر ۱۹۰۳ء میں قادیان آکر دستی بیعت کرنے کی توفیق ملی.مکرم ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر صاحب ۲۱ اکتوبر ۱۹۲۱ء کو پیدا ہوئے.کلکتہ سے میٹرک کرنے کے بعد ۱۹۴۶ء میں پٹنہ میڈیکل کالج سے ڈاکٹری پاس کی اور پاکستان آرمی میں بحیثیت میجر ملازمت اختیار کر لی.پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے آنکھوں کے معالج کی حیثیت سے کام شروع کیا اور بطور معالج اتنی شہرت پائی کہ دور دور سے آنے والے بگڑے ہوئے مریض آپ کے ہاتھ سے شفا پا جاتے.ہیں سال لیاقت میڈیکل کالج میں بطور پروفیسر تدریس کے فرائض سرانجام دیئے.کچھ عرصہ فضل عمر ہسپتال میں بھی کام کیا.غرباء کا مفت علاج کرتے تھے.قرآن کریم سے عشق تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کا بہت شغف تھا.باوجود مخالفت کے بے دھڑک تبلیغ کرتے.شہادت کے وقت آپ اپنے حلقہ کے صدر جماعت تھے.

Page 205

خطبات طاہر بابت شہدا 188 خطبہ جمعہ ۲ جولائی ۱۹۹۹ء واقعہ شہادت: ۹ جون ۱۹۸۵ء کو آپ دن کے وقت کار پر اپنے گھر پہنچے تو گھر کے قریب ہی چھپے ہوئے دوسندھیوں نے آپ پر حملہ کر دیا اور آپ کی گردن پر چاقو کے پے در پے وار کئے.آپ نے کار کا ہارن بجایا تو قاتل بھاگ گئے.پھر آپ ہمت کر کے خود کار چلا کر قریبی ہسپتال پہنچے لیکن اس وقت تک بہت خون بہہ چکا تھا جس کی وجہ سے جانبر نہ ہو سکے.انا للہ وانا اليه راجعون.پولیس نے مقدمہ تو درج کیا لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی.شہید مرحوم بکثرت غرباء کے علاج پر اپنے پاس سے خرچ کیا کرتے تھے اور ان کے بچوں کے لئے بھی اخراجات دیا کرتے تھے.نہایت بے نفس و بے لوث انسان تھے.خدمت اپنوں اور غیروں سبھی کی کی مگر کبھی کسی سے کوئی جزانہ چاہی.ساری زندگی یک طرفہ احسان کا سلسلہ جاری رکھا.ان کی شہادت کے موقع پر میں نے خطبہ میں جماعت کو سمجھایا کہ یہ جو شہادتیں ہو رہی ہیں.ان شہادتوں کے نتیجہ وہ پاکیزہ لوگ اور وہ پیارے وجود پاکستان سے رخصت ہو رہے ہیں جو دراصل پاکستان کی بقا کے ذمہ دار ہیں.ایسے وجود ہیں کہ جن پر خدا کی رحمت کی نظر پڑتی ہے تو باقی لوگ بھی بخشے جایا کرتے ہیں“.( خطبات طاہر جلد ۴ صفحہ ۵۳۶) پس ماندگان میں آپ نے بیوہ محترمہ ناصرہ بنت ظریف جو بے حد مخلص اور فدائی احمدی ہیں کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے یاد گار چھوڑے جو اخلاص میں والدین ہی کے رنگ میں رنگین ہیں.بیٹی نصرت بنت عقیل اہلیہ میجر طارق بن ابراہیم کراچی میں مقیم ہیں.دونوں بیٹے مسلم بن عقیل اور عون بن عقیل ناروے میں آباد ہیں.دونوں ڈاکٹر ہیں اور دینی و دنیاوی نعمتوں سے مالا مال ہیں.شہادت محمود احمد صاحب اٹھوال شہید پنوں عاقل.سندھ.یہ اب وقت ہو چکا ہے میں اسی لئے نظر بار بار اٹھا کے دیکھتا رہا ہوں.یہ باقی ذکر بعد میں چلیں گے.

Page 206

خطبات طاہر بابت شہداء 189 خطبہ جمعہ ۹؍ جولائی ۱۹۹۹ء عہد خلافت رابعہ کے شہداء (خطبہ جمعہ فرموده ۹ جولائی ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ بقرہ کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ * وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَا ۚ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة: ۱۵۲ - ۱۵۵) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے مدد طلب کرتے رہو صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ.یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.مکرم محموداحمد صاحب اٹھوال پنوں عاقل خلافت رابعہ کے شہداء کا تذکرہ ہو رہا ہے اور آج یہ اس کی دوسری قسط ہے.سب سے پہلے محمود احمد صاحب اٹھوال شہید پنوں عاقل.سندھ.تاریخ شہادت ۲۹ جولائی ۱۹۸۵ء.مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ جن کے شوہر محمود احمد اٹھوال صاحب شہید کئے گئے ہھتی ہیں کہ محمود صاحب کو شہادت کا بہت ہی شوق تھا.۱۹۷۴ء میں احمدیوں کی مخالفت زوروں پر تھی مگر آپ نے ہر موقع پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا.یہ مخالفت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی اور آپ کے ماموں زاد بھائی مقبول احمد کو

Page 207

خطبات طاہر بابت شہداء 190 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء فروری ۱۹۸۲ء میں پنوں عاقل میں شہید کر دیا گیا.جب آپ اپنی بھائی کی نعش کو بہشتی مقبرہ میں قبر میں اتار رہے تھے تو پہلے مقبول شہید سے مخاطب ہوئے ہیں پھر اپنے آپ کو مخاطب کیا ہے.مقبول کو دفن کرتے وقت آپ نے کہا: اے مقبول ! یہ رتبہ خوش نصیبوں کو نصیب ہوتا ہے.پھر کہا اے محمود! یعنی خود اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہا: کاش مجھے بھی یہ رتبہ حاصل ہو جائے اور تو بھی یہیں پر آئے.ربوہ سے واپسی پر پنوں عاقل کی پولیس نے آپ سے کہا کہ آپ اپنی زمینیں فروخت کر کے کہیں اور چلے جائیں کیونکہ پہلے آپ کے رشتہ دار بھائی کو شہید کیا جا چکا ہے.ہم مولویوں کی وجہ سے مجبور ہیں کچھ نہیں کر سکتے.اس پر آپ نے انہیں جواب دیا کہ احمدیت کی مخالفت تو ہر جگہ ہے، ہر جگہ دشمن ہیں.اگر مجھے شہادت ملنی ہے تو یہاں کیوں نہ ملے.آپ کے دو بیٹے سکول جاتے تو مولویوں کے کہنے پر کچھ لڑکے ان کو تھپڑ مارتے اور گالیاں دیتے.سکول کے اساتذہ بھی مذہبی مخالفت کی بنا پرپختی کرتے.اوباشوں کے گروہ ان کے گھروں پر بھی فائرنگ کرتے رہتے.دشمن رات کو چھپ کران کے کھیتوں کا پانی بند کر دیتے.پکی ہوئی فصلوں کو آگ لگا دیتے یا کاٹ کر اجاڑتے تا کہ ان پر ذریعہ معاش تنگ ہو جائے اور کسی طرح یہ احمدیت سے تو بہ کر لیں.آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات دروازہ کھٹکا.جیٹھ کا بیٹا سعید باہر گیا تو دروازہ کے پاس ہی دو آدمی کھڑے تھے.انہوں نے سعید پر حملہ کر دیا.ایک نے اس کے منہ اور ناک کو ہاتھوں اور کپڑے سے باندھ دیا اور دوسرے نے اسے مارنا شروع کیا اور گھسیٹتے ہوئے دروازے سے پندرہ گز دور لے گئے.سعید نے بعد میں بتایا کہ میں نے بہت کوشش کی ان سے آزاد ہو جاؤں لیکن ناکام رہا.آخر کار جب مارنے والے نے خنجر نکالا اور دوسری طرف سانس بند کر دینے کی وجہ سے میری حالت بگڑی تو میں نے اللہ کو یاد کرتے ہوئے آخری کوشش کی اور منہ آزاد کروانے میں کامیاب ہو گیا.میں نے والد صاحب کو آوازیں دیں.چنانچہ وہ اور چا یعنی محمود احمد صاحب شہید موقع پر پہنچ گئے اور ایک آدمی تو بھاگ نکلا لیکن دوسرے کو پکڑ لیا گیا.مجرم نے پولیس کو بتایا کہ میں گھوٹکی ضلع سکھر کے ایک مدرسہ کا طالب علم ہوں.مولوی صاحبان نے ہمیں بھیجا تھا کہ اس نوجوان کو قتل کر دیں لیکن اس نوجوان کی قسمت تھی کہ یہ بچ گیا.سعید آج کل ربوہ میں رہائش پذیر ہیں اور دوکانداری کرتے ہیں.ملاں ملنے بازار میں مسلسل لوگوں کو بھڑکاتے رہے کہ محمود قادیانی کو قتل کرنا واجب اور

Page 208

خطبات طاہر بابت شہداء باعث ثواب ہے.191 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء واقعہ شہادت: ۲۹ / جولائی ۱۹۸۵ ء کی شام کو جب آپ ایک دوست کو ملنے باہر گئے تو آپ کا چودہ سالہ بیٹا بھی ساتھ تھا.واپسی پر تین آدمیوں نے اچانک ایک گلی سے نکل کر آپ پر حملہ کر دیا اور آپ وہیں شہید ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.شہادت کے وقت اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹے احمدیت نہ چھوڑ نا خواہ تمہیں بھی جان دینی پڑے.پسماندگان میں بیوہ مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ کے علاوہ چھ بیٹیاں اور چار بیٹے چھوڑے جن میں سے پانچ بیٹیوں کی بفضل خدا کامیاب شادی ہو چکی ہے.باقی بچے غیر شادی شدہ ہیں.بچوں کے اسماء یہ ہیں: بیٹی عذرا پروین فاروق آباد ضلع شیخو پورہ میں بیاہی ہوئی ہیں.خالدہ پروین احمد آباد سانگرہ نز در بوہ میں بیاہی ہوئی ہیں.فاروق احمد امریکہ میں ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں.ساجدہ پروین جرمنی میں ہیں اور شادی شدہ ہیں.راشدہ پروین احمد آبادسانگرہ نز در بوہ میں بیاہی ہوئی ہیں.روبینہ پروین صاحبہ آسٹریلیا میں ہیں اور شادی شدہ ہیں.طاہرہ پروین والدہ کے ساتھ رحمان کالونی ربوہ میں رہ رہی ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں.دو بیٹوں طاہر احمد اور عثمان احمد نے میٹرک کا امتحان دیا ہے اور ایک بیٹے لقمان احمد ساتویں جماعت میں پڑھتے ہیں اور یہ سب والدہ کے ساتھ رہ رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی ساری اولا د دین و دنیا میں ترقی پذیر ہے.اللہ تعالیٰ ان کی ہمیشہ دینی اور دنیاوی لحاظ سے حفاظت فرمائے.مکرم مرز امنور بیگ صاحب لاہور مرزا منور بیگ صاحب شہید، چونگی امرسدھو (لاہور ).تاریخ شہادت : ۱۸ / اپریل ۱۹۸۶ء مکرم مرزا منور بیگ صاحب شہید سکنہ چونگی امرسدھولا ہور کو ایک معاند احمد بیت عبدالشکور منشاء نے ۷ ار ا پریل ۱۹۸۶ء کو فائر کر کے زخمی کر دیا اور آپ ہسپتال میں اگلے روز ۱۸ را پریل ۱۹۸۶ء کو وفات پاگئے.انا لله وانا اليه راجعون.شہید کے بیٹے مرزا اقدس بیگ صاحب لکھتے ہیں کہ میرے والد مرزا منور بیگ صاحب کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہ تھی لیکن چونکہ تبلیغ کا شوق تھا اس لئے ایک مولوی امین اور اس کے چیلے اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے.شہادت سے پندرہ روز قبل آپ کا ایک غیر احمدی دوست جو مولوی امین کا

Page 209

خطبات طاہر بابت شہداء 192 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء پیرو کار تھا، آپ کے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا کوئی اسلحہ وغیرہ گھر پر ہے.والد صاحب نے جواب دیا میری کسی سے کیا دشمنی ہے؟ اس نے کہا کہ سارا علاقہ تمہارا دشمن ہے اس لئے اسلحہ بناؤ.والد صاحب نے جواب دیا اچھا بنا لیں گے.غالباوہ بھی ٹوہ لینے کے لئے آیا ہو گا کہ گھر پر ان کے اسلحہ ہے کہ نہیں.ایک دن ان کے گھر کے باہر شور ہوا تو گھر والے دیکھنے باہر نکلے تو پتہ چلا کہ مولوی امین کے ایک چہیتے شاگر دمنشاء نے انہیں گولی ماردی ہے.شہید اس وقت خون میں لت پت سڑک پر پڑے تھے.فوراً ہسپتال لے جایا گیا جہاں اگلے روز آپ نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دیں.آپ کے پس ماندگان میں اہلیہ محترمہ مجیدہ بیگم صاحبہ کے علاوہ چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں.چاروں بیٹے مرزا اقدس ،بیگ، مرزا مظفر بیگ، مرز وسیم بیگ اور مرزا طاہر بیگ اپنی والدہ کے ساتھ لاہور میں رہتے ہیں.مرزا اقدس بیگ شادی شدہ ہیں اور باقی تینوں غیر شادی شدہ ہیں.جبکہ بیٹیوں میں سے نصرت مبارک صاحبہ اہلیہ مبارک احمد خان جرمنی میں مقیم ہیں.بشریٰ جہانگیر صاحبہ اہلیہ مرزا جهانگیر بیگ صاحب فیصل آباد میں ہیں.رخسانہ نسیم صاحبہ اہلیہ مرزا نسیم بیگ صاحبہ راولپنڈی میں رہتی ہیں.چوتھی بیٹی نسرین اہلیہ مرزا محمود احمد صاحب.ان کے میاں زمیندارہ کرتے ہیں اور پانچویں ارسہ مرزا ابھی غیر شادی شدہ ہیں.اور یہ سارے اللہ تعالی کے فضل سے خیر و عافیت سے ہیں.مکرم سید قمر الحق صاحب سکھر اور راؤ خالد سلیمان صاحب کراچی شہادت سید قمر الحق صاحب شہید ، سکھر اور راؤ خالد سلیمان صاحب شہید کراچی.یہ کراچی والے دوست بھی سید قمر الحق صاحب کی حفاظت کی غرض سے بھیجے گئے تھے اور اسی دوران وہیں شہید ہو گئے تھے.خود احمدی ہوئے تھے.ان کے والد غیر احمدی تھے جو آخر تک غیر احمدی ہی رہے.آپ یعنی سید قمر الحق صاحب شہید مکرم حکیم سید عبدالہادی صاحب مون گھیری کے بیٹے تھے آپ چند ور ضلع مونگھیر میں پیدا ہوئے.نو یا دس سال کی عمر میں قادیان آئے اور مڈل تک وہیں تعلیم حاصل کی تقسیم ملک کے بعد ملتان سے میٹرک کیا جس کے بعد چھ سال تک مرکز سلسلہ ربوہ میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ، دفتر وصیت اور دفتر خزانہ میں خدمات سرانجام دیں.۱۹۵۶ء میں سکھر چلے گئے اور وہیں پرائیویٹ طور پر.M.A اور پھر B.T کر کے گورنمنٹ کامران ہائی سکول میں انگلش ٹیچر لگ گئے اور بوقت شہادت اسی ادارے میں ملازمت کر رہے تھے.آپ سید شمس الحق صاحب (مرحوم )

Page 210

خطبات طاہر بابت شہداء 193 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء کارکن دار الافتاء اور مکرم مجحم الحق صاحب مرحوم امیر ضلع کے بھائی تھے.اوصاف حمیدہ : نو عمری ہی میں آپ نظام وصیت سے منسلک ہو گئے تھے.نماز روزہ کی بڑے خلوص سے پابندی کرتے تھے.بہت کم گو اور سنجیدہ مزاج تھے.سکھر میں قائمقام امیر اور زعیم انصار اللہ کے طور پر سلسلہ کی خدمات کی توفیق پائی.واقعہ شہادت : یکم رمضان المبارک مطابق ۱۱ مئی ۱۹۸۶ء کی صبح سات بجے آپ اپنے گھر سے سکول جانے کے لئے پیدل روانہ ہوئے.کراچی کے ایک نو مبائع خادم مکرم راؤ خالد سلیمان صاحب بھی آپ کے ہمراہ تھے.رستہ میں منارہ روڈ کے چوک کے قریب پانچ نامعلوم افراد نے اچانک آپ پر خنجروں اور کلہاڑیوں سے حملہ کر دیا.مکرم خالد سلیمان صاحب کچھ دیر تک ان حملہ آوروں کے خلاف دفاع کرتے رہے.مگر حملہ آوروں نے پستول سے گولیاں چلا کر اور خنجروں اور کلہاڑیوں سے پے در پے وار کر کے دونوں کو شہید کر دیا.انا للہ وانا اليه راجعون.بوقت شہادت آپ کی عمر ۳ ۵ سال تھی.پولیس میں اس واقعہ کی رپورٹ درج کروائی گئی لیکن کوئی قاتل گرفتار نہیں کیا گیا.۲ رمئی ۱۹۸۶ ء کی شام دونوں شہداء کے جنازے ربوہ میں لائے گئے جہاں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد شہداء کے قبرستان میں تدفین ہوئی.پسماندگان میں آپ نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں.بیٹا انوار الحق منیب غیر شادی شدہ ہیں اور آسٹریلیا میں مقیم ہیں.تین بیٹیوں میں سے بڑی سیدہ عطیہ سلطانہ صاحبہ مکرم مسرور مصطفیٰ صاحب کی اہلیہ ہیں اور لاہور میں رہتی ہیں.دوسری بیٹی تنویر قمر، مکرم مدثر احمد صاحب ملک کی اہلیہ ہیں اور کیلگری ( کینیڈا) میں آباد ہیں.تیسری بیٹی شمرین قمرا بھی غیر شادی شدہ ہیں اور والدہ کے ساتھ کراچی میں رہتی ہیں.مکرم راؤ خالد سلیمان صاحب گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہنے والے تھے.خاندان میں اکیلے احمدی تھے.شہادت سے دو تین سال پہلے بیعت کی لیکن اپنے اخلاص سے السابقون الاولون میں شمار ہونے لگے.کراچی میں ملازم تھے اور سکھر میں حالات کے پیش نظر مقامی جماعت کی امداد کے لئے رضا کارانہ طور پر آئے تھے.آپ غیر شادی شدہ تھے اور کوئی اولا د پیچھے نہیں چھوڑی.

Page 211

خطبات طاہر بابت شہداء 194 مکرمہ رخسانه طارق صاحبه مردان خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء شہادت رخسانه طارق صاحبه شهیده، مردان: رخسانه طارق صاحبہ ۱۹ جون ۱۹۸۶ء کو عید کے دن شہید کی گئیں.ان کے والد کا بیان ہے کہ ایک عجیب بات ہے جو میں نے رخسانہ میں دیکھی وہ شادی کے چند دن بعد ہی اپنا جہیز بانٹنے سے تعلق رکھتی ہے.مجھ سے اجازت لے کر سارا سامان غریب لڑکیوں میں تقسیم کر دیا.پوچھنے پر کہنے لگیں کہ میں نے امی جان سے کہا تھا کہ مجھے صرف ایک چار پائی دے دیں.زندگی فانی ہے، اس کا کیا بھروسہ ہے؟ جتنی بھی غریبوں کی خدمت کرلوں مجھے راحت آتی ہے.ان کے میاں طارق صاحب بتاتے ہیں کہ غریبوں کی خدمت کر کے ان کے چہرے پر اتنی خوشی چمکتی تھی جیسے سورج نکل آیا ہو.عید کے دن رخسانہ نے عید پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا مگر طارق کے بڑے بھائی نے مخالفت کی اور ڈانٹ کر منع کر دیا مگر یہ نہ رکیں اور پرانے کپڑوں میں ہی عید کی نماز کے لئے چلی گئیں حالانکہ شادی کے بعد یہ ان کی پہلی عید تھی.عید کی نماز میں وہ بہت روئیں مگر گھر واپس آتے ہوئے بہت خوش تھیں.سب کے لئے ناشتہ تیار کیا.ان کے خاوند بتاتے ہیں کہ میں حیران تھا آج اتنی خوش کیوں ہیں؟ گھر میں سب کو خوشی سے ملیں.ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ان کے آخری لمحات ہیں.معلوم ہوتا ہے ان کو شہادت کی اطلاع مل چکی تھی.اتنے میں طارق کا بڑا بھائی آیا اور آتے ہی اس نے رخسانہ پر گولیوں کی بارش برسادی.طارق کا بیان ہے کہ مجھے اکثر کہا کرتی تھیں کہ جب میں اللہ کو پیاری ہو جاؤں تو مجھے پہاڑوں کے دامن میں دفن کرنا.وہ ربوہ ہی کے پہاڑ تھے جہاں پر وہ بالآخر دفن کی گئیں.شہیدہ کا تعلق سرگودھا سے تھا.آپ مکرم مرزا خان محمد صاحب کی بیٹی تھیں.آپ کے شوہر اپنے سر مرزا خان محمد صاحب کے پاس سرگودھا میں مقیم ہیں.مکرم با بومحمد عبد الغفار صاحب حیدر آباد شہادت با بومحمد عبد الغفار صاحب شہید، حیدر آباد.یوم شہادت ۱۹ جولائی ۱۹۸۶ء.آپ ماسٹر خدا بخش صاحب کے ہاں کا نپور ( انڈیا ) میں ۱۹۰۶ء میں پیدا ہوئے.۱۹۱۶ء میں ان کے والد صاحب نے تمام افراد خانہ سمیت حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ہاتھ پر شرف بیعت حاصل کیا.تقسیم ملک کے وقت آپ ہجرت کر کے حیدر آباد (سندھ) میں آکر آباد ہو گئے.پیشہ کے اعتبار سے آپ

Page 212

خطبات طاہر بابت شہداء 195 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء فوٹو گرافر تھے.قرآن کریم سے بہت محبت رکھتے تھے.بہت ملنسار، ہمیشہ جماعت کی خدمات پر کمر بستہ.ایک لمبے عرصہ تک جماعت کی امارت آپ کے سپر درہی.حیدرآباد میں آپ جماعت کی روح رواں تھے.ایک نڈر داعی الی اللہ تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی بھی تھے.واقعہ شہادت : ۹/ جولائی ۱۹۸۶ء بروز بدھ ایک بجے دو پہر اپنے شوروم میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک درندہ صفت ملاں آپ کی دکان میں داخل ہوا اور اس نے آپ پر چھری سے پے در پے وار کر کے آپ کو شہید کر دیا.آپ کے ہاتھوں کے نشانات سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ آپ نے آخری وقت تک حملہ آور کا مقابلہ کیا.اس وقت آپ کا صرف ایک ملازم دکان پر موجود تھا مگر ڈارک روم (Dark Room) میں تصویریں بنا رہا تھا.وہ جب کام سے فارغ ہو کر باہر نکلا تو اس نے شور مچایا.لوگ جمع ہو گئے ، فون کئے گئے اور آپ کو اسی وقت ہسپتال لے جایا گیا لیکن راستہ میں آپ اللہ کو پیارے ہو گئے.اللہ کو پیارے تو پہلے ہی تھے مگر راستہ ہی میں وفات پاگئے ـ انــا لـلـه وانــا الـيـه راجعون.آپ کی تدفین ربوہ میں عمل میں آئی.پسماندگان : مکرم ذوالفقار احمد صاحب قریشی گزشتہ چالیس سال سے یہان لندن میں مقیم ہیں.آگے ان کے بچوں کی بھی شادیاں ہو چکی ہیں.مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ قریشی محمد افضل صاحب کراچی میں ہیں.مکرمہ صدیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم عبد الباسط صدیقی صاحب حیدرآباد میں ہیں.مکرمہ صادقہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا الطاف احمد صاحب واہ کینٹ میں ہیں.مکرمہ بشری احمد صاحبہ اہلیہ مکرم وحید احمد صاحب بھی شادی شدہ ہیں اور جرمنی میں ہیں اور اپنے حلقہ کی لجنہ کی صدر ہیں.مکرمہ صابرہ بیگم صاحبہ اہلیہ ظہور الحسن صاحب مرحوم بھی اپنے بچوں کے ساتھ جرمنی میں آباد ہیں.بابو صاحب کے سب بچے خدا کے فضل ہے دینی اور دنیوی نعمتوں سے متمتع ہیں.غلام ظہیر احمد صاحب سوہاوہ غلام ظہیر احمد صاحب، سوہاوہ ضلع جہلم.آپ سوہا وہ ضلع جہلم کے رہنے والے تھے اور مکرم شیخ بشیر احمد صاحب کے صاحبزادے تھے.واقعہ شہادت : ۲۵ فروری ۱۹۸۷ء کی رات کو آپ بجلی درست کروانے جارہے تھے کہ احمدیت کی مخالفت کے باعث بعض نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا.انا للہ وانا اليه

Page 213

خطبات طاہر بابت شہداء 196 خطبہ جمعہ ۹ر جولائی ۱۹۹۹ء راجعون - ورثا : شہید مرحوم نے بیوہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا پسماندگان میں چھوڑے.بیٹا مرحوم کی شہادت سے چھ ماہ بعد پیدا ہوا.سب بچے ابھی زیر تعلیم ہیں.نادیہ ظہیر، راشدہ ظہیر، بشری ظہیر ، احسن ظہیر اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں.شہید مرحوم کی بیوہ نے ان کے بڑے بھائی سے بعد میں شادی کر لی تھی.مکرم ڈاکٹر منوراحمد صاحب سکرنڈ ڈاکٹر منور احمد صاحب شہید، سکرنڈ : تاریخ شہادت ۱۴ مئی ۱۹۸۹ء.ڈاکٹر منوراحمد صاحب کے والد چودھری بشیر احمد صاحب اٹھوال تحصیل وضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.ڈاکٹر صاحب کی پیدائش ۱۹۵۷ء میں چک نمبر ۳۱۸ تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہوئی.آپ کے خاندان میں احمدیت کا آغاز ڈاکٹر صاحب کے پڑدادا نواب ولد زمیندار کے ذریعہ ہوا.ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم سکرنڈ ضلع نوابشاہ میں حاصل کی جہاں آپ کے والد بسلسلہ روزگار مقیم تھے.میٹرک کے بعد آپ نے طبیہ کالج ربوہ میں داخلہ لیا جہاں سے فاضل الطب والجراحۃ کا امتحان پاس کرنے کے بعد سکرنڈ میں پریکٹس شروع کردی.۱۹۸۴ء میں آپ کی شادی سکرنڈ کے موجودہ صدر صاحب چودھری فرزند علی صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی.ڈاکٹر صاحب کی شہادت سے قبل آپ کی اہلیہ نے خواب میں دیکھا کہ میری سونے کی چوڑیوں میں سے ایک چوڑی ٹوٹ کر گر گئی ہے اور ساتھ ہی بہت ہجوم ہے اور عورتیں باری باری میرے گلے لگ کر رو رہی ہیں لیکن میں سمجھ نہ سکی کہ وہ کیوں رو رہی ہیں.صبح اٹھ کر پریشان رہی ، صدقہ بھی دیا مگر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جسم سے جان نکل گئی ہو.ڈاکٹر صاحب شہید کو خواب سنائی تو کہنے لگے اللہ پر بھروسہ رکھو.جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آئے گی.معلوم ہوتا ہے وہ اس خواب کی تعبیر صحیح سمجھ چکے تھے.بہت بہادر انسان تھے کہا کرتے تھے کہ شہادتیں کسی کسی کو نصیب ہوا کرتی ہیں.یہ نصیبوں والوں کا حصہ ہے، کاش یہ رتبہ مجھے نصیب ہو.سکرنڈ کے حالات زیادہ خراب ہوئے تو بیوی سے کہنے لگے کہ ربوہ چلی جاؤ مگر وہ نہ مانی اور کہا کہ آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی.شہادت کے دن کلینک میں دو آدمی آئے اور گولیاں برسا کر

Page 214

خطبات طاہر بابت شہداء 197 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء آپ کو وہیں شہید کر دیا.انا للہ وانا اليه راجعون.کمپوڈر گھر روتا ہوا آیا اور بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کو کسی نے گولی ماردی ہے.بہت ہجوم اکٹھا ہو گیا.غم کا پہاڑ تھا جو اہل خانہ پر ٹوٹ پڑا.بچے کہتے تھے کہ ابو کوکس نے مارا ہے اور کیوں مارا ہے؟ ایک بچہ کہتا کہ میں اُن کو گولی ماردوں گا.دوسرا کہتا کہ وہاں اور لوگ بھی تو تھے انہوں نے ہمارے ابا ہی کو کیوں مارا.اتنے چھوٹے تھے کہ ان باتوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے.آپ کی بیوہ مکرمہ تنویر کوثر صاحبہ چاروں بچوں کے ساتھ اس وقت بیوت الحمد ربوہ میں رہائش پذیر ہیں.سب بچے زیر تعلیم ہیں اور ان کے نام یہ ہیں.منصورہ فرحت عمر پندرہ سال اور میٹرک میں زیر تعلیم ہے.عدیل منور کی عمر تیرہ سال ہے اور آٹھویں میں زیر تعلیم ہے.بیٹے وقاص احمد منور کی عمر بارہ سال ہے وہ ساتویں میں زیر تعلیم ہے.بیٹا تو صیف احمد منور جو ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد پیدا ہوا تھا اس کی عمر قریباً گیارہ سال ہے اور وہ چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے.اللہ ان سب کو دنیا کی نعمتوں سے نوازے.شہداء چک سکندر مکرم نذیر احمد صاحب ساقی مکرم رفیق احمد صاحب ثاقب اور عزیزہ نبیلہ نذیر احمد صاحب ساقی شہید چک سکندر ضلع گجرات.رفیق احمد صاحب ثاقب شہید، چک سکندر ضلع گجرات اور عزیزہ نبیلہ بنت مکرم مشتاق احمد صاحب ، چک سکندر ضلع گجرات.ان تینوں کی شہادت کا واقعہ یہ ہے کہ: مکرم نذیر احمد صاحب ساقی ۱۹۵۳ء میں مکرم محمود احمد صاحب کے ہاں چک سکندر ضلع گجرات میں پیدا ہوئے.پیدائشی احمدی تھے.آپ کے پڑدادا مکرم دلا خان صاحب اور دادا مکرم کالے خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اس وقت بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے جب آپ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لائے ہوئے تھے.رضوان اللہ عليهم - آپ فوج میں ملازم تھے اور اچھے کھلاڑی اور باکسر تھے.فوج سے آپ کی ریٹائر منٹ اس وجہ سے ہوئی کہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کے خلاف کسی کو باتیں کرتے ہوئے سن کر آپ برداشت نہ کر سکے اور اسے مکا مارا جس سے وہ وہیں مر گیا.یہ جو واقعہ ہے حضرت موسیٰ کے مکا مارنے والے واقعہ کی یاد دلاتا ہے.ان کو گرفتار کرلیا گیا اور کورٹ مارشل بھی ہوالیکن پھر

Page 215

خطبات طاہر بابت شہداء 198 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء معجزانہ طور پر آپ کو بے قصور قرار دے کر بمع مراعات پنشن وغیرہ دے کر ریٹائر کر دیا گیا.اصل میں شہادت ان کے مقدر میں تھی اس لئے یہ سارا سلوک ان سے کیا گیا.دوسرے شہید مکرم رفیق احمد صاحب ثاقب ۱۹۵۲ء میں چک سکندر ضلع گجرات میں پیدا ہوئے.آپ کے والد کا نام خان محمد صاحب اور والدہ کا نام فتح بیگم صاحبہ تھا.شہید مرحوم پیدائشی احمدی تھے.آپ کے پڑدا دا مکرم محمد بوٹا صاحب اور دادا مکرم محمد بخش صاحب کو بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر حضور کے سفر جہلم کے دوران بیعت کی سعادت نصیب ہوئی تھی.آپ فوج میں ملازم تھے اور شہادت کے وقت رخصت پر گاؤں آئے ہوئے تھے.نبیلہ شہید مکرم مشتاق احمد صاحب کے ہاں چک سکند رضلع گجرات میں پیدا ہوئیں اور دس سال کی عمر میں جام شہادت نوش کر کے اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئیں.ان سب کی شہادت ۱۶ / جولائی ۱۹۸۹ء کو ہوئی جب مخالفین احمدیت نے چک سکندر پر چاروں طرف سے حملہ کر دیا.اس حملہ کے دوران احمدیوں کے قریباً ۶۴ مکانات جلائے گئے اور کھلے بندوں لوٹ مار کی گئی.مکرم نذیر احمد ساقی شہید نے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے.دو بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے اور باقی بچے نذیر شہید کی والدہ محترمہ کے زیر کفالت ہیں.دوسرے شہید مکرم رفیق احمد صاحب ثاقب شہید نے اپنے پیچھے چھ بیٹیاں، دو بیٹے اور ایک بیوہ سوگوار چھوڑے جو اس وقت ربوہ میں مقیم ہیں.مکرم ڈاکٹر عبدالقدیر جدران صاحب قاضی احمد نوابشاہ شہادت مکرم ڈاکٹر عبدالقدیر جدران صاحب.تاریخ شہادت ۲ اگست ۱۹۸۹ء.آر حضرت مولوی رحیم بخش صاحب آف تلونڈی جھنگلاں اور حضرت برکت بی بی صاحبہ کے ہاں ۱۹۲۴ء میں پیدا ہوئے.آپ کے والد بزرگوار ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے.آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹری کا کورس پاس کیا اور کچھ عرصہ بطور واقف زندگی ناصر آباد اسٹیٹ کی ڈسپنسری میں خدمت بجالاتے رہے.اس کے بعد پہلے اپنے بڑے بھائی مکرم ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب شہید کے پاس نوابشاہ رہے اور پھر قاضی احمد ضلع نوابشاہ میں اپنا کلینک کھول لیا.بوقف شہادت قاضی احمد کی جماعت

Page 216

سید قمر الحق صاحب سکھر شہادت ۱۹۸۶ء راؤ خالد سلیمان صاحب کراچی شہادت ۱۹۸۶ء با بوعبدالغفار صاحب حیدرآباد شہادت ۱۹۸۶ء غلام ظہیر احمد صاحب سوہاوہ شہادت ۱۹۸۷ء ڈاکٹر منوراحمد صاحب سکرنڈ شہادت ۱۹۸۹ء

Page 217

دو شہید بھائی ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب قاضی احمد ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب قاضی احمد شہادت ۱۹۸۹ء شہادت ۱۹۸۹ء شہدائے چک سکندر نذیر احمد ساقی چک سکندر شہادت ۱۹۸۹ء رفیق احمد ثاقب صاحب چک سکندر شہادت ۱۹۸۹ء نبیله مشتاق صاحبه چک سکندر شہادت ۱۹۸۹ء

Page 218

خطبات طاہر بابت شہداء 199 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء کے صدر تھے.۱۹۸۴ء میں جب حالات خراب ہوئے تو ان کو کئی دفعہ دھمکی آمیز خطوط آئے کہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے لیکن آپ کو ان دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہ تھی بلکہ نماز تہجد میں شہادت کی دعامانگا کرتے تھے.ایک روز ایک شخص اپنے آپ کو مریض ظاہر کر کے دوکان میں آیا اور اس نے آتے ہی کئی فائر کئے اور ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت شہادت کا رتبہ پالیا.آپ آب زم زم سے دھلے ہوئے دو کفن مکہ سے لائے تھے.آپ کی خواہش تھی کہ انہی میں آپ کو دفنایا جائے.اصولاً تو شہید کو کفن نہیں دیا جاتا اپنے انہی کپڑوں میں مدفون ہوتا ہے جن میں خون لت پت وہ شہید ہوتا لیکن ان کی خواہش تھی کہ ان کو مکہ والا کفن دیا جائے.اس کا سبب اللہ نے یہ بنادیا کہ پولیس نے وہ کپڑے اپنے قبضے میں لے لئے جن کپڑوں میں شہید ہوئے تھے اور باوجود اصرار کے ان کو واپس نہ کیا.نتیجہ ان کو اسی مکہ والے کفن میں جو آب زم زم میں دھلا کر اپنے ساتھ لے کر آئے تھے اسی میں دفن کیا گیا.شہید مرحوم نے اپنی بیوہ غلام فاطمہ بی بی صاحبہ کے علاوہ چار بیٹے اور ایک بیٹی پسماندگان میں چھوڑے.محمد عبدالسمیع جدران صاحب شادی شدہ ہیں اور امریکہ میں ملازمت کرتے ہیں.عبدالحلیم جدران صاحب اسلام آباد (پاکستان) میں اسٹنٹ چیف منسٹری آف فنانس میں کام کرتے ہیں اور شادی شدہ ہیں.عبدالرفیق جدران صاحب M.Sc نصرت جہاں سکیم کے تحت تیرہ سال بطور وقف مغربی افریقہ میں کام کرتے رہے، آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں.امتہ اللہ خانم صاحبہ شادی شدہ ہیں اور نوابشاہ میں رہ رہی ہیں.ڈاکٹر عبدالمومن جدران صاحب شادی شدہ ہیں.نصرت جہاں سکیم کے تحت ۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۶ ء تک وقف کیا اور اب بسلسلہ تعلیم خود تو آئر لینڈ میں ہیں اور ان کی بیگم طاہرہ مومن اور بچے یہاں لندن میں مقیم ہیں.ضلع نوابشاہ کا وہ با اثر زمیندار جو کہ پیر بیروالے کا مرید تھا اور جس کی ایما پر ہی اس علاقہ کے اکثر احمدی ڈاکٹروں کی شہادتیں ہوئیں، اس کی موت اپنے اندر ایک عبرت کا نشان رکھتی ہے.اس کے جوان بیٹے نے گھر والوں سے باہمی مشورہ کے بعد اپنے باپ کو رات سوتے میں گولی ماری.گولی لگنے کے بعد وہ ذرا سا اٹھا تو اس کی بیوی اور بچوں نے سمجھا کہ اس کو گولی نہیں لگی اور اگر یہ بچ گیا تو ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا.چنانچہ اس کی بیوی، بیٹیوں اور بیٹے نے مل کر اس کا گلا دبانا شروع کیا

Page 219

خطبات طاہر بابت شہداء 200 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کی موت کا یقین نہیں ہو گیا.ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب جدران قاضی احمد نوابشاہ ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب شہید ، قاضی احمد ( ضلع نوابشاہ ).یوم شہادت ۲۸ ستمبر ۱۹۸۹ء.آپ ڈاکٹر عبدالقدیر جدران کے بڑے بھائی تھے.تقسیم ملک کے بعد سندھ میں آکر آباد ہوئے اور شہادت کے وقت قاضی احمد ضلع نوابشاہ میں رہائش پذیر تھے.واقعہ شہادت: ۱۲۸ ستمبر ۱۹۸۹ء کو آپ حسب معمول اپنے کلینک میں کام کر رہے تھے کہ ایک مریض کو دیکھنے کے لئے جانا پڑا مریض دیکھ کر واپس آرہے تھے کہ راستہ میں تین افراد میں سے ایک نے آپ کی کمر کے ساتھ پستول رکھ کر فائر کر دیا.آپ گر گئے.لوگوں نے آپ کو اٹھایا اور ایدھی ٹرسٹ کی ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے گئے لیکن آپ راستہ ہی میں دم توڑ گئے.کسی دوست نے جو آپ کو پہچانتا تھا آپ کے گھر ٹیلیفون کے ذریعہ اس واقعہ کی اطلاع دی.انا لله وانا اليه راجعون.شہید مرحوم نے اپنے پیچھے دو بیٹیاں اور چار بیٹے چھوڑے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: امتہ القدوس صاحبہ شادی شدہ ہیں اور لاہور میں رہتی ہیں.عبدالقیوم صاحب ایم.ایس.سی شادی شدہ ہیں ، نوابشاہ میں مقیم ہیں اور ملازمت کرتے ہیں.عبدالشکور صاحب بی.ایس.سی شادی شدہ ہیں ، نوابشاہ میں مقیم ہیں اور ملازمت کرتے ہیں.عبد الماجد صاحب شادی شدہ ہیں اور کراچی میں ملازمت کرتے ہیں.امتہ الصبور صاحبہ ایم.اے اہلیہ مرزا حفیظ احمد صاحب کارکن تحریک جدیدر بوه میں رہتی ہیں.(عبدالبصیر صاحب ربوہ میں قیام پذیر ہیں ) سب بچے اللہ کے فضل سے دینی و دنیوی نعمتوں سے مالا مال ہیں.مکرم مبشر احمد صاحب تیما پور، کرناٹک شہادت مبشر احمد صاحب شہید.تیما پور، کرناٹک (بھارت ).یوم شہادت ۳۰ / جون ۱۹۹۰ء جماعت احمدیہ عالمگیر نے جب صد سالہ جشن کی تقریبات منائیں تو یتیما پور کی جماعت نے بھی شایانِ شان پروگرام بنایا.اس سے وہاں کے شر پسند غیر احمد یوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور شرارتیں کرنے لگے.۲۹ جون ۱۹۹۰ء کو ایک احمدی خاتون کی وفات پر جنازہ کو اٹھانے کے لئے مقامی مسجد کی انتظامیہ سے ڈولا مانگا گیا تو انہوں نے دینے سے انکار کر دیا.وہاں رواج یہ ہے کہ

Page 220

خطبات طاہر بابت شہداء 201 خطبہ جمعہ ۹ر جولائی ۱۹۹۹ء وفات شدگان کو ڈولے میں ڈال کر لے جایا جاتا ہے.ہر ملک کے اپنے اپنے رواج ہوتے ہیں وہاں کا رواج یہی ہے جس پر سب احمدی اور غیر احمدی برابر عمل کرتے ہیں.وہاں کے مقامی رواج کے مطابق جنازہ کو قبرستان تک پہنچانے کے لئے چار پائی کی جگہ ڈولا استعمال کیا جاتا ہے.اگلے دن ۳۰ /جون کو پولیس انسپکٹر کی موجودگی میں دوبارہ مطالبہ کیا گیا تو نہ صرف یہ کہ انکار کر دیا گیا بلکہ پہلے سے تیار شدہ منصوبہ کے مطابق اُن چنداحمدیوں پر جو ڈولا حاصل کرنے کے لئے گئے تھے، ایک جم غفیر نے لاٹھیوں اور پتھروں سے حملہ کر دیا.اس حملہ میں چند احمدی شدید زخمی ہو گئے جن میں سے مکرم مبشر احمد صاحب نا گنڈ موقع پر ہی شہید ہوگئے.انـا لـلـه وانا اليه راجعون.ان کے پسماندگان وغیرہ کے متعلق کوئی دوسری خبر نہیں ملی.اب اس خطبہ کو سننے کے بعد شاید اطلاعیں آجائیں مگر ان کا اب دوبارہ کسی خطبہ میں ذکر نہیں ہو سکتا.یہ ریکارڈ میں چلی جائیں گی.مکرم نصیر احمد علوی صاحب دوڑ نوابشاہ نصیر احمد علوی صاحب شہید.دوڑ ضلع نوابشاہ.تاریخ شہادت ۱۷ نومبر ۱۹۹۰ء.نصیر علوی شہید کے والد صاحب جو دوڑ ضلع نوابشاہ کے رہنے والے تھے خود احمدی ہوئے تھے، نہایت مخلص اور فدائی تھے.یہ آپ ہی کی نیک تربیت کا نتیجہ تھا کہ نصیر احمد علوی دوسروں تک احمدیت کا پیغام پہنچانے میں سرگرداں رہتے تھے.کہا کرتے تھے کہ اگر میں دن میں دو چار آدمیوں کو تبلیغ نہ کرلوں تو میرا کھانا ہضم نہیں ہوتا.اس وجہ سے دن بدن متعصب لوگ آپ کی مخالفت میں بڑھتے رہے.ایک دو دفعہ دھمکی بھی ملی کہ اگر تبلیغ سے باز نہ آئے تو آپ کو مار دیا جائے گا لیکن آپ نے اس دھمکی کی کوئی پرواہ نہ کی اور دعوت الی اللہ میں مصروف رہے.۷ ارنومبر ۱۹۹۰ء کو جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات دو بجے تین آدمی آپ کے گھر آئے.ان میں سے دو تو دیوار پھلانگ کر اندر آگئے اور ایک دیوار پر کھڑا رہا.گھر کے اندر داخل ہونے والے دو افراد میں سے ایک نے آپ کے منہ پر تکیہ رکھا اور دوسرے نے آپ کے دل کے بالکل قریب فائر کر دیا.آپ کی اہلیہ فائر کی آواز سن کر جاگ اٹھیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ ایک آدمی آپ پر جھکا ہوا ہے.اہلیہ نے اس کو پیچھے سے پکڑنا چاہا تو اس نے کہنی مار کر انہیں نیچے گرا دیا اور دیوار پھلانگ کر بھاگ گیا.اہلیہ نے جب آپ کے اوپر سے کپڑا ہٹایا تو زندگی کی رمق ابھی باقی تھی.فوراً ہسپتال پہنچایا گیا لیکن

Page 221

خطبات طاہر بابت شہداء 202 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء رستہ ہی میں آپ شہید ہو گئے.انا لله وانا اليه راجعون.آپ نے پسماندگان میں بیوہ مکرمہ فہمیدہ بیگم صاحبہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور تین بیٹے چھوڑے ہیں.بڑی بیٹی فرح نصیر صاحبہ سمبڑیال میں بیاہی ہوئی ہیں.دوسری بیٹی انیقہ چودھری صاحبہ ہومیو پیتھی کے کورس میں پورے ملک میں اول رہیں.ان کا نکاح ٹورانٹو کے صفدر حسین واجد سے ہو چکا ہے لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی.تینوں بیٹے احسان الحق علوی، انعام الحق علوی اور انوار الحق علوی ابھی زیر تعلیم ہیں.در مکرم محمد اشرف صاحب شہید جلہن ضلع گوجرانوالہ محمد اشرف صاحب شہید، جلہن ضلع گوجرانوالہ.یوم شہادت ۱۶ دسمبر ۱۹۹۲ء.محمد اشرف صاحب آف جلهن ضلع گوجرانوالہ ۱۹۸۴ء میں خود احمدی ہوئے اور بہت جلد ترقی کی.مجھے لکھا کرتے تھے کہ میں تو ہر وقت جان ہتھیلی پر لئے پھرتا ہوں سوائے بیوی بچوں کے کوئی میرا نہیں.ان پر ۶ اردسمبر ۱۹۹۲ء کی رات کو حملہ کیا گیا.حملہ آوروں نے دھوکہ سے ان کا اعتماد حاصل کیا.رات ان کے پاس ٹھہرے.کھانا کھایا اور پھر سوتے میں ان کے سر اور چہرے پر پستول سے فائر کر کے شہید کر دیا.انا لله وانا اليه راجعون.ان کی اہلیہ نے اپنے بیٹے کو ساتھ کے گاؤں اطلاع دینے کے لئے بھجوایا تو سب خبر سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے مگر خدا کی راہ میں جان دینے والے اس دوست کے بیٹے نے ان کو تسلیاں دیں کہ میرا باپ نیک انجام کو پہنچا ہے.میری والدہ بھی خوش ہیں اور راضی ہیں.شہید مرحوم نے بیوہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور چھ بیٹے چھوڑے جو سب ابھی زیر تعلیم ہیں.بچوں کے اسماء یہ ہیں :.اشتیاق احمد صاحب.اعجاز احمد صاحب.افتخار احمد صاحب.شہزاداحمد صاحب.طاہر احمد صاحب.خرم شہزاد صاحب.صالحہ اشرف صاحبہ اور سعیدہ اشرف صاحبہ.مکرم را نا ریاض احمد صاحب لاہور رانا ریاض احمد صاحب شہید، لاہور.تاریخ شہادت ۵ فروری ۱۹۹۴ء.آپ ۱۵ / مارچ ۱۹۵۴ء کو مکرم را نا عبدالستار صاحب کے ہاں ضلع وہاڑی کے ایک گاؤں E.B-285 میں پیدا ہوئے.میٹرک کرنے کے بعد بلڈنگ میٹریل کا کاروبار شروع کیا.آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود

Page 222

خطبات طاہر بابت شہداء 203 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت چودھری غلام قادر صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف لنگیری ضلع جالندھر کا داماد بننے کا شرف نصیب ہوا.واقعہ شہادت :۲ فروری ۱۹۹۴ء کی سہ پہر تین بجے دس معاندین احمدیت نے شہید مرحوم کے والد مکرم را نا عبدالستار صاحب جو ایک پر جوش داعی الی اللہ تھے پر حملہ کیا ور زدوکوب کرنے کے بعد انہیں اغواء کرنے کی کوشش کی.اسی اثناء میں رانا ریاض احمد صاحب گھر سے باہر آئے اور والد صاحب کو بچانے کی کوشش کی تو ایک بد بخت نے بالکل قریب سے ان پر فائر کیا جو پیشانی پر لگا اور آپ وہیں بے ہوش ہو کر گر پڑے.دو دن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ۵ فروری ۱۹۹۴ء کو اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.اور موت پر ہمیشہ کی زندگی فتح یاب ہوئی.شہادت کے وقت آپ کی عمر ۳۹ سال تھی.آپ کی شہادت کے صرف چار ماہ بعد آپ کی اہلیہ بھی وفات پاگئیں.انا لله وانا اليه راجعون.تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں خدا کے فضل سے بقید حیات ہیں اور زیرتعلیم ہیں.دو بیٹے وقف نو کی تحریک میں شامل ہیں.شہید مرحوم اپنے بھائیوں اور بہنوں میں سب سے بڑے تھے.ان کے پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں.ایک بھائی رانا ارسال احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں اور ان دنوں جامعہ میں بطور استاد خدمت کی توفیق پارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت قابل انسان ہیں.مکرم احمد نصر اللہ صاحب لاہور احمد نصر اللہ صاحب شہید ، لاہور.تاریخ شہادت ۵ فروری ۱۹۹۴ء.آپ مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب ساکن آسٹریلیا کے صاحبزادے اور حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نواسے تھے.آپ اپنی والدہ مکرمہ امتہ ائی صاحبہ اہلیہ چودھری حمید نصر اللہ صاحب امیر ضلع لاہور کے پاس لاہور میں رہتے تھے.آپ انتہائی نیک نفس ، سادہ اور پر وقار طبیعت کے مالک تھے.بچپن سے ہی تہجد گزار تھے.خدا کے فضل سے موصی بھی تھے اور ہر مالی قربانی میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.۵ فروری ۱۹۹۴ء کو آپ اپنی رہائش گاہ پر آرام کر رہے تھے کہ بعض نامعلوم حملہ آوروں نے کمرہ میں گھس کر آپ کر سر پر آہنی سر یہ مار مار کر آپ کو شہید کر دیا اور جاتی دفعہ دروازہ کو باہر سے مقفل

Page 223

خطبات طاہر بابت شہداء 204 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء کر گئے.اگلے دن شام کے وقت آپ کی شہادت کا علم ہوا.ے فروری کو ربوہ میں عام قبرستان میں تدفین ہوئی.آپ غیر شادی شدہ تھے.یہ سمجھ نہیں آئی کہ موصی تھے تو عام قبرستان میں کیوں تدفین ہوئی.یہ معلوم کرنا چاہئے نظام وصیت سے.اس وقت تو مجبوری ہوگی پولیس کی کہ بعض دفعہ نعش کو دیکھنے کے لئے دوبارہ نکالا جاتا ہے مگر بعد میں تو ان کی نعش ، ان کے تابوت کو بہشتی مقبرے میں منتقل کر دینا چاہئے.وسیم احمد بٹ صاحب اور حفیظ احمد بٹ صاحب فیصل آباد وسیم احمد بٹ صاحب شہید سمن آباد ضلع فیصل آباداور حفیظ احمد بٹ صاحب شہید فیصل آباد.تاریخ شهادت ۳۰ را گست ۱۹۹۴ء مکرم وسیم احمد صاحب بٹ ۱۹۶۹ء میں مکرم محمد رمضان بٹ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے اور مڈل تک تعلیم حاصل کی اور پھر پاور لومز کا کام کرنے لگے.جماعت سے بہت لگاؤ رکھتے تھے اور دعوت الی اللہ میں خوب حصہ لیتے تھے.نماز با قاعدگی سے ادا کرتے تھے اور چندہ میں بھی بہت با قاعدہ تھے.غریب پرور تھے.واقعہ شہادت: ۳۰ راگست ۱۹۹۴ء کو ایک شخص مشتاق اور اس کے ساتھی حملہ آوروں نے آپ پر اور آپ کے بھائیوں پر رائفلوں سے گولیاں برسائیں.جن میں سے ایک گولی آپ کے دل پر اور دوسری بائیں ٹانگ پر لگی اور آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے.انـا لــلــه وانـا اليه راجعون.بوقت شہادت آپ کی عمر 25 سال تھی اور غیر شادی شدہ تھے.اس حملہ میں آپ کے بڑے بھائی محمد امین بٹ اور دو چچازاد بھائی حفیظ احمد صاحب بٹ اور اختر کریم صاحب بٹ بھی شدید زخمی ہوئے جن میں سے حفیظ بٹ صاحب ابن اللہ رکھا بٹ صاحب نے الائیڈ ہسپتال پہنچ کر دم تو ڑ دیا.انا للہ وانا اليه راجعون.دونوں کی تدفین ۳۱ /اگست ۱۹۹۴ء کور بوہ کے قبرستان عام میں ہوئی.حفیظ بٹ شہید ایک ہمدرد، ملنسار اور مخلص احمدی تھے اور دعوت الی اللہ کا بہت شوق رکھتے تھے.نماز با جماعت کے علاوہ تہجد بھی ادا کیا کرتے تھے اور چندہ جات میں بہت با قاعدہ تھے.بوقت شہادت عمر اٹھارہ سال تھی اور غیر شادی شدہ تھے.پسماندگان میں آپ کے والدین ، چھ بھائی اور چار بہنیں ہیں.چار بھائیوں اور تین بہنوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور دو بھائی ابھی غیر شادی شدہ ہیں.

Page 224

خطبات طاہر بابت شہداء 205 پروفیسر ڈاکٹر نسیم با بر صاحب اسلام آباد خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء شہادت پروفیسر ڈاکٹر نسیم با بر صاحب شہید، اسلام آباد ( پاکستان ) تاریخ شہادت ۱۰ را کتوبر ۱۹۹۴ ء.پروفیسر ڈاکٹر نسیم بابر شہید ۱۹۵۲ء میں ڈاکٹر سید محمد جی احمدی اور سیدہ امتہ الوحید صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے.آپ کے دادا حضرت سید محمد شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے تھے.آپ یعنی پروفیسر ڈاکٹر نسیم صاحب بچپن سے ہی غیر معمولی ذہین تھے اور خدا کے فضل سے مڈل سے لے کر پی.ایچ.ڈی تک مسلسل تعلیمی وظائف حاصل کرتے رہے.پی.ایچ.ڈی کے لئے وارسا ٹیکنیکل یونیورسٹی پولینڈ میں داخل ہوئے اور ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد ۱۹۸۰ء میں واپس آئے.پولینڈ میں قیام کے دوران آپ نے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم کے ادارے انٹر نیشنل سنٹر فار تھیوریٹیکل فزکس سے رابطہ رکھا اور ان کے مختصر کورسز میں داخلہ لیا.اسی دوران سویڈن ، جرمنی اور اٹلی کی کئی اور اہم یونیورسٹیوں سے بھی آپ کا رابطہ ہو گیا.چنانچہ آپ تقریباً ہر سال کسی نہ کسی بین الا قوامی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور جاتے رہے.ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن میں تقریباً ایک سال گزار کر اور پھر اس یو نیورسٹی سے اپنے قریبی روابط کی بنا پر Defects in Semi-Conductor Materials اور High Temperature Super Conductivity کے میدان میں ایسی اعلیٰ اور قابل قدر ریسرچ کی کہ برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی نے قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں آپ کی نگرانی میں Semi-conductor Materials پر مزید تحقیق کے لئے ایک شعبہ کھولنے کی منظوری دے دی.اس سلسلہ میں تمام انتظامات مکمل تھے اور جرمنی سے اہم سائنسی آلات کی درآمد شروع ہونے والی تھی کہ آپ کی شہادت ہو گئی.آپ نے F.Sc سے لے کر M.Sc تک کا طالب علمی کا زمانہ راولپنڈی میں ایک مستعد متحرک خادم کے طور پر گزارا اور مختلف شعبوں کے ناظم رہے.واقعہ شہادت : ۱۰ / اکتوبر ۱۹۹۴ ء رات ساڑھے دس بجے آپ نے گھنٹی بجنے پر اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو چہرے پر نقاب اوڑھے ہوئے ایک شخص نے گھر کے دروازے کے عین سامنے آپ پر

Page 225

خطبات طاہر بابت شہداء 206 خطبہ جمعہ 9 جولائی ۱۹۹۹ء کلاشنکوف کے دو فائر کئے.ایک دل پر لگا اور دوسرا گردن پر.دونوں گولیاں جسم سے پار ہو کر پیچھے دیوار پر لگیں جن سے سخت کنکریٹ کا پلستر بھی اکھڑ گیا.قاتل فوری طور پر دیوار پھلانگ کر عقبی جنگل میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا.اس حادثہ کی عینی شاہد آپ کی اہلیہ مکرم مین باب صاحبہ کے بیان کے مطابق قاتل چھ فٹ قد کا ایک تنومند شخص تھا جس نے شلوار میض پہنی ہوئی تھی ، چہرے پر نقاب تھا جس میں سے صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں.اس کے پاس اسلحہ تھا جو اس نے دروازہ کھلنے سے پہلے ہی آپ پر تان رکھا تھا.اس نے کوئی آواز نہ نکالی نہ بات کی، بس چشم زدن میں فائر کر کے فرار ہو گیا.آپ کی اہلیہ کے شور مچانے پر ایک ہمسایہ پروفیسر پرویز ہود بھائی دوڑے آئے اور اپنی کار میں ڈاکٹر نیم بابر کو ڈال کر ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے لیکن راستہ ہی میں روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.انا لله وانا اليه راجعون.پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے چھوڑے.تینوں بچے ریما با بر، سقراط بابر اور جبران بابر ابھی زیر تعلیم ہیں اور آج کل اپنی والدہ کے ہمراہ کینیڈا میں مقیم ہیں.آپ کی ایک بہن مکرمہ روبینہ ہاشمی صاحبہ یہاں لندن میں رہتی ہیں اور مکرم خاور ہاشمی صاحب کی اہلیہ ہیں.آپ کی خالہ محترمہ طاہرہ ونڈرمین صاحبہ بھی یو.کے جماعت کی ایک مخلص اور مستعد خاتون ہیں اور بڑی محنت سے انگلش ڈاک کا کام کر رہی ہیں.آپ کی شہادت پر جرمنی کے سفیر کے علاوہ قائد اعظم یونیورسٹی کے مختلف پروفیسرز اور دیگر شخصیات نیز ملکی اخبارات ”دی نیوز راولپنڈی ، ہفت روزہ Pulse اسلام آباد دی مسلم اسلام آباد نے ملائیت اور مذہبی تعصب کو جتنا بھی وہ برا بھلا کہہ سکتے تھے، کہا اور آپ کی وفات پر آپ کے پسماندگان سے تعزیت کی.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے.یہ مختصر ذکر ہے اس شہادت کا.اس کے بعد اگلے خطبہ سے انشاء اللہ باقی شہداء کا ذکر شروع کیا جائے گا.

Page 226

خطبات طاہر بابت شہداء 207 خطبہ جمعہ ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۹۹ء عہد خلافت رابعہ کے شہدا (خطبہ جمعہ فرموده ۱۶ جولائی ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ بقرہ کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة : ۱۵۴ - ۱۵۵) اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اللہ سے مدد طلب کرتے رہو صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ.یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.میری کوشش تو یہی تھی کہ تمام شہداء کا ذکر اس خطبہ میں مکمل ہو جائے لیکن اب جو مختلف ذکر بعد میں مل رہے ہیں ان سب کو شامل کرنے کے بعد یہ مضمون اور بھی لمبا ہو جائے گا اس لئے اس خطبہ میں تو غالباً یہ ممکن نہیں ہوگا کہ اس مضمون کو ختم کی جاسکے لیکن انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں جہاں جلسہ پر آنے والے مہمانوں اور ان کو رکھنے والے میزبانوں کو ہدایت دی جاتی ہیں اس حصہ کو ذرا مختصر کر کے باقی حصہ یہی شہداء کے مضمون کا چلے گا جو انشاء اللہ تعالیٰ پھر جلسہ سے پہلے پہلے اختتام پذیر ہوگا.

Page 227

خطبات طاہر بابت شہداء 208 مکرم قاضی بشیر احمد صاحب کھوکھر شیخوپورہ بشیر خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۹ء سب سے پہلے قاضی بشیر احمد صاحب کھوکھر ایڈووکیٹ شیخو پورہ کی شہادت کا ذکر کرتا ہوں جو ۷ا / جولائی ۱۹۹۰ء کو ہوئی.قاضی بشیر احمد صاحب یکم ستمبر ۱۹۳۰ء کو قاضی کلیم احمد صاحب آف شیخو پورہ کے ہاں پیدا ہوئے.۱۹۷۴ء میں آپ نے وکالت کا امتحان پاس کیا اور پنجاب بار کونسل کے ممبر بن گئے.آپ بڑے مخلص اور فدائی احمدی تھے.تنگدستی کے باوجود وصیت کے چندہ کی ادائیگی اور جماعتی ذمہ داریاں خوب نبھاتے تھے.۱۹۷۴ء میں مسجد ہنجراں والا کے خطیب اللہ دتہ اور دوسرے مولویوں نے ایک احمدی خاتون کی تدفین کے وقت بہت شور مچایا کہ ایک کافرہ عورت کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیں گے.مفسدین کی اسی ہنگامہ آرائی کے دوران آپ کسی کام سے گھر سے باہر نکلے تو انہوں نے آپ کو گھیر لیا اور شدید زدو کوب کرنے کے بعد آپ کو ایک تندور میں پھینک دیا.مگر عورتوں کے شور مچانے پر کچھ آدمیوں نے آپ کو تندور سے باہر نکال لیا اور آپ اعجازی طور پر بچ گئے بلکہ جولائی ۱۹۸۸ء کے جلسہ سالانہ لندن میں شمولیت کی توفیق پائی.مولویوں کی شرارتیں جاری رہیں.۲۰ /اکتوبر ۱۹۸۹ء کو ایک بیرنگ خط میں آپ کو احمدیت نہ چھوڑنے کی صورت میں چک سکندر کا حوالہ دے کر قتل کی دھمکی دی گئی.اس خط کے وصول ہونے کے تین ماہ بعد ایک دن شہید مرحوم کچہری بند ہونے کے بعد اپنی سائیکل پر گھر آرہے تھے کہ کمپنی باغ شیخوپورہ میں داخل ہوتے ہی موٹر سائیکل پر سوار دو اشخاص نے آپ پر چاقوؤں کے متعد دوار کئے اور فرار ہو گئے اور آپ کسی علاج سے پہلے ہی اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے اور شہادت کا رتبہ پالیا.اناللہ وانا الیہ راجعون.شہادت کے وقت آپ کی عمر ساٹھ سال تھی اور آپ بطور سیکرٹری جائیداد شیخو پورہ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے.پسماندگان میں آپ نے بیوہ کے علاوہ ایک لڑکا اور چار لڑکیاں یادگار چھوڑیں جو سب کے سب آج کل جرمنی میں آباد ہیں.بیٹا نعیم احمد کھوکھر شادی شدہ اور صاحب اولاد ہے.بیٹی غزالہ بشیر قاضی عبدالمتین صاحب ایڈووکیٹ حال جرمنی کی بیگم ہیں.بیٹی مبارکہ فرحت حمید عباسی کی بیگم ہیں.ریحانہ زبیر احمد صاحب سے بیاہی ہوئی ہیں.فریدہ بھی شادی شدہ ہیں اور اپنے خاوند ممتاز احمد کے ساتھ جرمنی میں رہتی ہیں.گویا کہ تمام پسماندگان خدا تعالیٰ کے فضل وکرم کے ساتھ دینی اور دنیاوی نعمتوں سے متمتع ہیں.

Page 228

خطبات طاہر بابت شہداء 209 مکرم ملک محمد دین صاحب شہید ساہیوال خطبہ جمعہ ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۹۹ء ملک محمد دین صاحب شہید ساہیوال.وفات نومبر ۱۹۹۱ء محترم ملک محمد دین صاحب فیض اللہ چک کے ایک نواحی گاؤں کے رہنے والے تھے.آپ کے والد کا نام فقیر علی تھا.تقسیم ہند کے بعد آپ کا خاندان ساہیوال شہر میں آباد ہوا.آپ ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ پولیس میں بھرتی ہوئے اور ۱۹۷۶ء کو انسپکٹر پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے.اکتوبر ۱۹۸۴ء میں سانحہ ساہیوال مسجد کے بعد جن گیارہ بے گناہ افراد کے خلاف جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا ان میں سے ایک آپ بھی تھے.آپ کو رات کے وقت دھوکہ کے ساتھ آپ کے گھر سے پولیس نے اس حال میں گرفتار کیا کہ آپ کو جوتا تک پہننے کی مہلت نہ دی اور اس کے بعد سات سال تک آپ ساہیوال اور ملتان کی جیلوں میں اسیر راہ مولا رہے.دوران اسیری پیرانہ سال میں آپ نے طرح طرح کی صعوبتیں بڑی خندہ پیشانی اور جذبہ ایمانی کے ساتھ برداشت کیں.آپ کو ۱۹۸۵ء میں جب ایک فوجی عدالت کی طرف سے دی گئی چیس سالہ قید کی سزا سنائی گئی تو آپ نے بے اختیار کہا پچھتر سال تو میری عمر ہو چکی ہے اب پچپیس سال مزید کہاں میں قید و بند میں رہوں گا.آخر نومبر ۱۹۹۱ء میں سات سال قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے جیل ہی میں نے آپ نے اپنی جان جان آفریں کے سپر د کر کے شہادت کا عظیم مرتبہ پالیا.انالله وانا اليه راجعون.مرحوم نے دو بیٹے اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں.آپ کے سب بچے شادی شدہ اور صاحب اولا د اور خوش ہیں.عزیزه فیضیه مهدی صاحبہ عزیزه فیضیه مهدی صاحبہ - تاریخ وفات ۲۱ اکتو بر۱۹۹۳ء، مکرمه عزیزه فیضیه مهدی صاحبہ، چوہدری عبدالعزیز صاحب بھا میری اور محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ کی صاحبزادی اور نسیم مہدی صاحب واقف زندگی کی اہلیہ تھیں.ان کا وصال وطن سے دوران ایام میں ہوا جب آپ بڑے خلوص کے ساتھ اپنے واقف زندگی خاوند کی طرح وقف کے جذبے سے سرشار ٹورانٹو میں ہمہ وقت خدمت دین میں مگن رہتی تھیں.۱۹۹۳ء میں پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ آپ اپنے خاوند کو پریشانی سے بچانے کے لئے اپنی سر کی ایک بہت خطرناک تکلیف کو مسلسل چھپا رہی تھیں مگر جب مزید دبانا ناممکن نہ رہا تو ڈاکٹری

Page 229

خطبات طاہر بابت شہداء 210 خطبہ جمعہ ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۹۹ء تشخیص سے معلوم ہوا کہ دراصل سر میں کینسر کی رسولی تھی جو اس عرصہ میں اتنی بڑھ چکی تھی کہ کوئی علاج کارگر نہ رہا.آخر اسی بیماری سے ۲۱ /اکتوبر ۱۹۹۳ء کو اپنے مولائے حقیقی سے جا میں انالله وانا اليه راجعون.آپ بہت صابرہ و شاکرہ اور خلافت احمدیہ سے اور خلیفہ وقت سے بے حد محبت رکھتی تھیں.مرحومہ چونکہ میدان جہاد میں خدا کو پیاری ہوئیں اس لئے ان کے اس نیک انجام کو بلاشبہ شہادت قرار دیا جا سکتا ہے.آپ کی ایک یادگار بیٹی اور دو بیٹے ہیں.بڑا بیٹا احمد مہدی ٹورانٹو یونیورسٹی میں ہے.بیٹی سعد یہ مہدی یارک یو نیورسٹی میں زیر تعلیم ہے.۳/ جولائی کو ہفتہ کے روز ان کے والد امیر صاحب کینیڈا نے ان کے نکاح کا اعلان کیا ہے.چھوٹا بیٹا فرید مہدی ساتویں میں زیر تعلیم ہے.مکرم عبدالرحمان صاحب باجوہ کراچی عبدالرحمان صاحب باجوہ شہید.کراچی.تاریخ شہادت ۲۸ را کتوبر ۱۹۹۴ء.آپ مکرم غلام جیلانی صاحب باجوہ اور امتہ الحفیظ صاحبہ کے صاحبزادے تھے.آپ کے خاندان کا تعلق چک نمبر L.R-116 ضلع ساہیوال سے تھا.۱۹۷۲ء میں والدین کے ہمراہ کراچی منتقل ہو گئے.جہاں آپ کو ۲۸ اکتو بر ۱۹۹۴ء کو شہید کر دیا گیا.واقعہ شہادت : ۱۹۹۴ء میں کراچی کے علاوہ منظور کالونی میں جماعتی مخالفت کی ایک شدید لہر اٹھی جس میں فضل عمر ویلفئیر ڈسپنسری اور احمدی احباب کے گھروں پر حملے کرنے اور انہیں آگ لگانے کے پروگرام ترتیب دیئے گئے جو اکثر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناکام ہوئے.ان دنوں آپ بحیثیت سیکرٹری امور عامہ اپنی ڈیوٹی دینے والے خدام کی رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ دن رات کی پرواہ کئے بغیر حالات کو کنٹرول کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے تھے.۲۸ اکتوبر ۱۹۹۴ء بروز جمعتہ المبارک آپ اپنی ہمشیرہ کے گھر سے موٹر سائیکل پر آرہے تھے کہ شام پانچ بجے کے قریب دو موٹر سائیکل سواروں نے گلی میں اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر کے سامنے سے آپ کا راستہ روک لیا اور آنافانا پستول سے آٹھ فائر کئے جس سے آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے.اناللہ وانا الیه راجعون.شہید کی کوئی اولاد نہیں تھی.ایک لے پالک بیٹی تھی جو آپ کی بیوہ مکرمہ سلمیٰ رحمان صاحبہ کے گھر میں پلی ہے.

Page 230

خطبات طاہر بابت شہداء 211 مکرم دلشاد حسین کبھی صاحب لاڑکانہ خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۹ء دلشاد حسین کچھی صاحب شہید، لاڑکانہ (سندھ).تاریخ شہادت ۳۱ راکتو بر ۱۹۹۴ء.آپ مکرم زوار محمد جمن کچھی صاحب کے صاحبزادے تھے.بیعت کی توفیق اگر چہ جولائی ۱۹۹۳ء میں ملی.قبول احمدیت سے قبل آپ کر شیعہ تھے اور آپ کے والد اور چا شہر کے ایک بہت بڑے امام باڑہ کے متولی تھے.آپ نمازوں کی ادائیگی میں بہت با قاعدہ تھے.ڈش انٹینا اپنے گھر میں لگوایا جہاں غیر از جماعت احباب کو لاتے اور ان کو جماعت کے پروگرام دکھاتے تھے.مساجد اور امام باڑوں کے مولوی ان کے پاس آتے اور ان کو مرتد کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر بری طرح ناکام رہے اس دوران اندر ہی اندر آپ کے خلاف سازشیں پلتی رہیں.یہاں تک کہ ۳۱ اکتو بر ۱۹۹۴ء کو جبکہ آپ اپنی دوکان سے واپس گھر آرہے تھے آپ کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا.انا للہ وانا اليه راجعون.آپ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے.اپنے پیچھے بیوہ کے علاوہ ایک بچی چھوڑی.مرم سلیم احمد صاحب پال کراچی سلیم احمد صاحب پال شہید کراچی.آپ مکرم خدا بخش صاحب پال اور محتر مہ سلیمہ بی بی صاحبہ کے ہاں ڈسکہ کلاں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.بعد ازاں پہلے ربوہ میں اور پھر کراچی منتقل ہو گئے.بوقت شہادت کراچی ہی میں آباد تھے.واقعہ شہادت : منظور کالونی کراچی میں شہید ہونے والوں عبدالرحمان باجوہ صاحب کے بعد آپ کا دوسرا نمبر ہے.باجوہ صاحب کی شہادت کے چودہ دن بعد ارنومبر ۱۹۹۴ء کو محترم سلیم احمد صاحب پال جب رات کو اپنی دکان بند کر کے گھر کی طرف جارہے تھے تو دکان سے تین گلیاں آگے دو موٹرسائیکل سواروں نے آپ پر اندھا دھند فائرنگ کر کے آپ کو موقع پر ہی شہید کر دیا.اناللہ وانا اليه راجعون شہید مرحوم نے اہلیہ محترمہ رفعیہ بیگم صاحبہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں یادگار چھوڑے ہیں.بڑے بیٹے وسیم احمد پال کے علاوہ سب بچے ابھی غیر شادی شدہ ہیں.ان کے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کے جو نام معلوم ہو سکے ہیں وہ یہ ہیں.تنویر احمد پال، ندیم احمد پال، کلیم احمد پال نسیم احمد پال ، شمائلہ تسنیم، ثوبیہ نورین گلشن نورین.

Page 231

خطبات طاہر بابت شہداء 212 مکرم انور حسین صاحب ابڑو لاڑکانہ خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۹ء انور حسین ابر و صاحب شہید ، انور آباد (لاڑکانہ ).۱۹؍ دسمبر ۱۹۹۴ء.آپ مولوی محمد انور صاحب ابڑو اور محترمہ جنت خاتون صاحبہ کے صاحبزادے تھے.آپ کا تعلق ایک ایسے معروف علمی گھرانہ سے تھا جس کو سندھ کے اس علاقہ میں تعلیم پھیلانے کی وجہ سے بہت شہرت ملی.اسی لئے آپ کے گھرانے کو استاد گھرانہ کہہ کر تنظیم دی جاتی تھی.آپ کے دادا محترم مولوی عبدالرؤف صاحب ابڑو ۱۹۴۷ء میں اپنی اولاد، عزیز و اقارب اور شاگردوں سمیت بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہوئے.ایک استاد کے علاوہ ابڑو خاندان کے آپ بڑے پگدار بھی تھے.ان کی یہ ایک سندھی اصطلاح ہے.پگدار بڑے رئیس کو کہا جاتا ہے.ان کی وفات ۱۹۴۸ء میں ہوئی.ان کی وفات کے بعد مکرم مولوی محمد انور صاحب ابڑو نے اپنے بھائیوں ،عزیز واقارب اور شاگردوں کے ساتھ مل کر تمام مخالفتوں کا بھر پور استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا.۱۹؍ دسمبر ۱۹۹۴ء کو شام کے قریب قریباً ساڑھے پانچ بجے ایک سفید رنگ کی کار میں رینجرز کی وردی میں ملبوس سات افراد انور آباد آئے جن میں سے ایک کے پاس لائٹ مشین گن اور چھ کے پاس کلاشنکوف رائفلیں تھیں.ان میں سے تین نے گوٹھ میں مختلف جگہوں پر پوزیشن سنبھال لیں اور باقی چار مولوی محمد احمد صاحب ابڑو کے مکان میں گھس گئے.وہاں موجود عورتوں سے کہا کہ ہم کرنل صاحب کے حکم سے خطرناک ڈاکوؤں کی تلاش میں آئے ہیں.خواتین نے کہا کہ یہاں کوئی ڈاکو چھپا ہوا نہیں ہے، آپ بے شک تلاشی لے لیں.تلاشی کے دوران انہوں نے مولوی محمد انور صاحب ابڑو کے بارہ میں پوچھا کہ کہاں.انہوں نے جواب دیا باہر گئے ہوئے ہیں.جب سخت تلاشی کے باوجود کوئی مرد نظر نہ آیا تو ان میں دو افراد باہر مسجد میں مکرم انور حسین صاحب ابڑو کو جو سنتوں کے بعد نفل ادا کر رہے تھے اور سجدہ کر رہے تھے، اُسی حالت میں اٹھایا اور کہا کہ تمہیں کرنل صاحب نے بلایا ہے.ان کے علاوہ ڈاکوؤں نے مسجد سے ہی ظہور احمد صاحب ابڑو اور مکرم ناصر احمد صاحب ابڑو کو بھی پکڑا اور تینوں کو گھر لے آئے.عطاء المومن ابرو پہلے ہی ان کے قبضہ میں تھا.اس کے بعد وہ مردوں کو ایک لائن میں کھڑا کر کے کہنے لگے کہ کلمہ سناؤ.جب سب نے کلمہ پڑھا تو ملانوں کے بھیجے ہوئے یہ بد قماش مغلظات بکنے لگے کہ تم مسلمان نہیں کچھ اور ہو.یہ تمہارا کلمہ نہیں تم صرف ظاہر یہ کلمہ پڑھتے

Page 232

خطبات طاہر بابت شہداء 213 خطبہ جمعہ ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۹۹ء ہو.مکرم انور حسین صاحب ابڑو اور ان کے بیٹے ظہور پر تشدد کرتے رہے اور کہتے رہے کہ تم اپنے مرشد کو گالیاں دو جس پر انہوں نے انکار کیا تو شہید کی گردن کے ساتھ بندوق کی نالی لگا کر کہا کہ گالیاں دوور نہ تمہیں ماریں گے.شہید مرحوم اگر چہ طبعی طور پر کمزور تھے مگر آدھ گھنٹے تک ان درندوں کے سامنے عظیم الشان استقامت کا مظاہرہ کرتے رہے اور کسی ایک لمحہ کے لئے بھی ایمان نہ ڈگمگایا.اس عرصہ میں ان کی خواتین نے بھی بڑی بہادری کا ثبوت دیا.کسی عورت نے ان کی منتیں نہیں کیں ، واسطہ نہیں ڈالا اور سندھی دستور کے مطابق قدموں میں دوپٹہ نہیں ڈالا.اس کے بعد یہ غنڈے انہیں مارتے ہوئے باہر لے گئے اور گاؤں کے لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ آج اسلام اور قادیانیت کا مقابلہ ہے.دیکھو ہم انہیں کیسے مارتے ہیں اور چاروں کو گاؤں کے باہر کنویں پر لے آئے.پھر ناصر احمد ابڑو کو کہا کہ تم ایک طرف ہو جاؤ.اس کے بعد مکرم ظہور احمد ابڑو ابن انور حسین صاحب ابڑو پر فائر کیا جو کہ نہر کے کنارے پر کھڑے ہوئے تھے.فائر لگتے ہوئے وہ پھسلے اور نہر میں گر گئے.ایک گولی ان کے دائیں کندھے میں لگ کر بائیں طرف سوراخ کرتی ہوئی نکل گئی.اس کے بعد مکرم انور حسین صاحب ابڑو پر گولیاں برسائیں.ایک گولی ان کے سر پر لگی.شرپسندوں کے بھاگ جانے کے بعد فور دونوں باپ بیٹوں کو ایک ٹیکسی میں وارہ لے جایا گیا مگر مکرم انور حسین صاحب نے راستہ ہی میں دم تو ڑ دیا.انالله وانا اليه راجعون.ان کا بیٹا ظہور احمد بچ گیا جو آج کل اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آسٹریلیا میں آباد ہے.مرحوم نے چار بیٹیاں اور پانچ بیٹے پسماندگان میں چھوڑے.ظہور احمد کے علاوہ باقی بچے اللہ کے فضل سے اپنی زمینوں پر آباد ہیں اور مخالفین کی خطرناک سازشوں کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں.مکرم چودھری ریاض احمد صاحب شب قدر مردان شہادت چودھری ریاض احمد صاحب شہید ، شب قدر ( مردان ) ۱۹ / اپریل ۱۹۹۵ء.مکرم چودھری ریاض صاحب جولائی ۱۹۴۷ء میں ضلع لدھیانہ کی تحصیل جگر اؤں کے ایک گاؤں ملبہ میں پیدا ہوئے.آپ کے والد چودھری کمال الدین صاحب خود احمدی ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد مردان میں رہائش اختیار کی.چودھری ریاض احمد نے مردان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں کاروبار شروع کیا.آپ نے بسلسلہ روزگار قریباً چھ سال ابوظہبی میں بھی قیام کیا جہاں سے آپ کو

Page 233

خطبات طاہر بابت شہداء 214 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۹۹ء احمدی ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا.آپ اکثر خواہش کیا کرتے تھے کہ کاش مجھے بھی صاحبزادہ عبداللطیف کی طرح شہادت کی توفیق ملے.چنانچہ بارہا ان کو احمدیت کی خاطر تکلیفیں پہنچیں.مردان میں ان پر چھری سے وار کیا گیا.۱۹۷۴ء میں سرگودھا ریلوے سٹیشن پر جن کو گولیاں لگیں ان میں یہ بھی شامل تھے اور جب انہیں گولی گی تو فرمایا یہ تو ابھی آغاز ہے.گویا اسی وقت سے شہادت کی خواہش تھی اور جب تک زندہ رہے اسی نیت کے ساتھ زندہ رہے.ریاض شہید کے خسر محترم ڈاکٹر رشید احمد خان صاحب کی تبلیغ سے شب قدر مردان کے مکرم دولت خان صاحب کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی.وہ چونکہ ایک طاقتور پٹھان خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لئے ان کے احمدی ہونے پر وہاں بڑا سخت رد عمل ہوا اور تمام علاقے میں ان کے متعلق قتل کے فتوے جاری ہونا شروع ہو گئے.دولت خان صاحب کے بھائیوں میں سے ایک بھائی سخت متشدداور مخالفت میں پیش پیش تھا.اس نے افغانستان سے آئے ہوئے ایک ملاں سے ان کے قتل کا فتویٰ لیا مگر وہ پھر بھی وہاں رہتے رہے.آخر پولیس نے نقص امن کی دفعہ لگا کر ان کو جیل میں ڈال دیا.۹ر اپریل ۱۹۹۵ء کی صبح جب رشید احمد صاحب اور ریاض احمد صاحب ان کی ضمانت کے لئے شب قدر گئے تو وہاں پانچ ہزار عوام کا ایک مشتعل ہجوم اکٹھا کیا جا چکا تھا اور ملاں فضل ربی بڑے زور کے ساتھ سنگسار کرنے کی تعلیم دے رہا تھا.چنانچہ عین احاطہ عدالت میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں سب سے پہلے بڑے زور سے ریاض شہید کی پیشانی پتھر مارا گیا اور وہ نیم بے ہوش ہو کر گر پڑے.اسی حالت میں آپ پر مزید سنگ باری کی گئی.لیکن آپ مسلسل کلمہ کا ورد کرتے رہے.آپ کی آخری آواز بھی یہی تھی.لا اله الا الله محمدرسول الله.انالله وانا الیه راجعون.بعد ازاں آپ کی نعش کو گھسیٹا گیا اس پر ان درندوں نے ناچ کیا اور یوں ان لوگوں نے اپنا درندہ ہونے کا ثبوت دیا.پولیس نے بھی ان کو بچانے کی بجائے ان کی نعش کو ٹھڈے مارے اور کہا کہ ہم بھی ثواب میں شریک ہو جائیں.پاکستان کی پولیس کو ثواب کا بس یہی موقع ملتا ہے اس کے سوا ان کو بھی ثواب کمانے کا موقع نہیں ملا.آپ کے خسر پر بھی بہت زیادہ تشدد کیا گیا یہاں تک کہ تشد دکر نے والوں نے سمجھا کہ

Page 234

خطبات طاہر بابت شہداء 215 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۹ء آپ مرچکے ہیں لیکن وہ بچ گئے اور ان کا اب تک زندہ رہنا اور روزمرہ کے فرائض سرانجام دینا ایک چلتا پھرتا معجزہ ہے.ایکسرے اور ڈاکٹری معائنہ کے بعد یہ قطعیت کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے کہ آپ کے جسم کے بازوؤں اور ٹانگوں کی ساری ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں.ایک جگہ سے نہیں کئی کئی جگہ سے بازؤں کی اور ٹانگوں کی اور ڈاکٹروں کو سمجھ نہیں آتی کہ کیسے یہ شخص چلتا پھرتا ہے.یعنی خدا کے فضل سے.انہوں نے ہر قسم کا علاج کروانے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ تادم آخر اللہ کے فضل کے ساتھ اس کے اعجاز کے سہارے زندہ رہوں گا.اسی جذبہ کے ساتھ اب روز مرہ کے کاروبار میں با قاعدہ حصہ لیتے رہے.اس طرح ریاض شہید کی بھابھی کی یہ رویا بھی لفظاً لفظاً پوری ہوگئی کہ ایک بکری تو ذبح کر دی گئی اور ایک چھوڑ دی گئی.یہ چھوڑی ہوئی بکری بھی عملاً شہیدوں میں ہی داخل ہے آپ کے پسماندگان میں آپ کی بیوہ کے علاوہ آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو زیر تعلیم ہیں اور آج کل بحجیم میں مقیم ہیں.مکرم مبارک احمد صاحب شر ما شکار پور مبارک احمد صاحب شر ما شہید، شکار پور.آپ ۱۹۴۶ء میں مکرم عبدالرشید صاحب شرما کے ہاں پیدا ہوئے.۱۹۵۰ء میں والدین کے ساتھ شکار پور سندھ میں رہائش اختیار کی.ڈبل ایم.اے کے بعد بی.ایڈ کیا اور محکم تعلیم میں ملازم ہو گئے.۱۹۷۴ء میں جب جماعت کی مخالفت زوروں پر تھی تو ایک رات چند دوستوں کی موجودگی میں سول ہسپتال شکار پور کے سامنے آپ پر ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے بڑا سخت حملہ کیا گی.حتی کہ حملہ آور آپ کو مردہ سمجھ کر بھاگ گئے.آپ کے سر، ٹانگ اور باقی جسم پر گہرے زخم آئے.فوری طور پر سول ہسپتال میں داخل کیا گیا مگر ڈاکٹروں نے احمدی ہونے کی وجہ سے توجہ نہ دی تو آپ کو سکھر کے ہسپتال لے جایا گیا اور پھر وقفہ وقفہ سے کئی دوسرے شہروں میں بھی علاج کروایا جاتا رہا مگر ٹانگ کے زخم اور دماغی چوٹوں کا شافی علاج نہ ہو سکا.آخر آپ انہی تکالیف کے سبب ۳ رمئی ۱۹۹۵ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے.انالله وانا اليه راجعون.پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوڑیں.بیٹا سہیل مبارک احمد شرما اس وقت جامعہ احمد یہ ربوہ میں درجہ ثالثہ کا طالب علم ہے.

Page 235

خطبات طاہر بابت شہداء 216 مکرم محمد صادق صاحب چٹھہ داد حافظ آباد خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۹ء محمد صادق صاحب شہید ، چٹھہ داد ضلع حافظ آباد.یوم شہادت ۸/ نومبر ۱۹۹۶ء.آپ کے خاندان میں جو کٹر اہل حدیث تھا آپ کے والد صاحب سے بھی پہلے آپکے بڑے بھائی ہدایت اللہ صاحب کو احمدی ہونے کی توفیق ملی.محمد صادق صاحب کو جو ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے اس کا سخت رنج تھا مگر والد کے احترام میں خاموش رہے.مگر جونہی والد کی وفات ہوئی.آپ نے اور دوسرے بھائی عنایت اللہ نے اپنے احمدی بھائی ہدایت اللہ کی زندگی اجرین کر دی.۱۹۷۴ء میں جماعت کے خلاف تحریک زوروں پر تھی اور لوگ کہہ رہے تھے کہ اب ایسی دیوارسی بن گئی ہے کہ آئندہ اس وجہ سے کوئی احمدی نہیں ہوگا جو اس دیوار کو پھلانگ سکے ، لیکن مخالفین نے یہ اعجاز دیکھا کہ خود محمد صادق صاحب کو مخالفت کی دیوار پھلانگ کر احمدی ہونے کی توفیق ملی اور ہر طرف احمدیت کا پیغام پہنچانے میں جنگی تلوار بن گئے.آپ ہی کی تبلیغ سے محمد اشرف صاحب شہید آف جلہن گوجرانوالہ بھی احمدی ہوئے جن کی قبول احمدیت نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور محمد صادق صاحب کی مخالفت اور بھی تیز ہوگئی.مگر محمد صادق صاحب نے تا زندگی تبلیغ جاری رکھی اور خدا کے فضل سے آپ کو پندرہ مزید کٹر اہل حدیث اشخاص کو احمدی مسلمان بنانے کی توفیق ملی.اس دوران نومبر ۱۹۹۶ء کو جب کہ آپ جمعہ پر جارہے تھے راستہ میں ایک پل کے پاس دشمن تاک لگائے بیٹھا تھا.جو نہی آپ پل کے پاس پہنچے اُنہوں نے گولیاں برسا کر آپ کو چھلنی کر دیا اور وہیں موقع پر ہی شہید ہو گئے.انــالـلـه وانـا الـيـه راجعون.پسماندگان میں بیوہ محترمہ آمنہ بی بی صاحبہ کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے چھوڑے.بڑے بیٹے مکرم عصمت اللہ صاحب آرمی میں ملازم ہیں اور شادی شدہ ہیں.دوسرے بیٹے نعمت اللہ صاحب بھی شادی شدہ ہیں.تیسرے بیٹے رضوان احمد صاحب مڈل پاس کرنے کے بعد فارغ ہیں.بیٹی نصرت شہزادی صاحبہ ابھی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں.مکرم چودھری عتیق احمد صاحب باجوہ وہاڑی شہادت چودھری عتیق احمد صاحب باجوہ شہید، وہاڑی.مکرم چودھری عتیق احمد صاحب باجوہ ۱۹۳۹ء میں فیصل آباد کے ایک گاؤں بہلول پور میں مکرم چودھری بشیر احمد صاحب باجوہ کے ہاں یدا ہوئے.ابھی آپ آٹھ سال کے تھے کہ والد وفات پاگئے اور آپ کی والدہ محترمہ شریفہ بیگم صاحبہ

Page 236

خطبات طاہر بابت شہداء 217 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۹۹ء نے بہت محنت اور دعاؤں سے آپ کی پرورش کی.شریفہ بیگم صاحبہ بہت نیک اور دعا گو خاتون ہیں اور خدا کے فضل سے ابھی تک زندہ ہیں.چودھری عتیق احمد صاحب باجوہ نے ابتدائی تعلیم وہاڑی سے حاصل کی.پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کر کے وہاڑی میں وکالت شروع کر دی اور ہمیشہ سچ پر مبنی کیس لیا کرتے تھے.اوائل جوانی سے ہی آپ مختلف جماعتی عہدوں پر فائز رہے.پہلے آپ قائد ضلع ، سیکرٹری اصلاح وارشاد اور قریباً نو سال تک امیر ضلع وہاڑی رہے.بہت مخلص اور نڈر داعی الی اللہ تھے.چندوں کی ادائیگی اور تمام مالی تحریکات میں آپ کی شمولیت ایک مثالی حیثیت رکھتی تھی.آپ اسیر راہ مولیٰ بھی رہے.اس دوران آپ اٹھارہ دن ملتان جیل میں قید رہے.واقعہ شہادت: آپ ۱۹ جون ۱۹۹۷ء کو شام پانچ بجے اپنی گاڑی پر زمینوں کی طرف جارہے تھے کہ وہاڑی سے کچھ فاصلہ پر دوموٹر سائیکل سواروں نے آپ پر فائرنگ کردی جس سے آپ اور آپ کا ڈرائیور موقع پر ہی دم توڑ گئے.اناللہ وانا اليه راجعون.بوقت شہادت آپ کی عمر اٹھاون سال تھی.پسماندگان میں والدہ کے علاوہ بیوہ ڈاکٹر نسرین عقیق باجوہ صاحبہ اور ایک بیٹی اور تین بیٹے چھوڑے.بیٹی خولہ عتیق شادی شدہ ہیں اور راولپنڈی میں آباد ہیں.بڑا بیٹا فرید احمد باجوہ آسٹریلیا میں کمپیوٹر کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے اور وہ جڑواں بیٹے نعیم احمد باجوہ اور خلیل احمد باجوہ الیکٹرانک انجینئر نگ کی اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ڈھونیکی وزیر آباد ڈاکٹر نذیر احمد صاحب شہید، ڈھو نیکے (ضلع گوجرانوالہ).تاریخ شہادت ۲۷/۲۶ /اکتوبر ۱۹۹۷ء کی درمیانی رات مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب را جوری بھارتی کشمیر کے ایک گاؤں و داستی میں پیدا ہوئے.۱۹۷۴ء میں والدین کے ہمراہ ہجرت کر کے واہ کینٹ آگئے.ابتدائی تعلیم پہلے واہ کینٹ اور پھر وزیر آباد میں حاصل کی.خدا تعالیٰ نے آپ کو خاص دست شفا عطا فرمایا اور سارا علاقہ آپ کی انسانیت دوستی ، ہمدردی اور طبی خدمات کا معترف تھا.باوجود ایک کم تعلیم یافتہ ڈاکٹر ہونے کے لوگ دور درواز سے آپ کے پاس علاج کے لئے آتے تھے.خدمت خلق میں مصروف ہونے کے علاوہ آپ مختلف جماعتی عہدوں پر بھی فائز رہے.صف اول کے مالی قربانی کرنے والے تھے.اپنے کلینک سے متصل جگہ مسجد کے طور پر جماعت کو دے رکھی تھی.

Page 237

و خطبات طاہر بابت شہداء 218 خطبہ جمعہ ۱۶ار جولائی ۱۹۹۹ء واقعہ شہادت : ۲۶ / اور ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۹۷ء کی درمیانی شب محترم ڈاکٹر صاحب کو گھر سے اغوا کیا گیا.اور پھر بڑی بے دردی سے قتل کر کے گاؤں کے قریب بہنے والے معروف برساتی نالے پلکھو میں پھینک دیا گیا.ایک مجرم زمان شاہ کی نشاندہی پر پولیس نے علاقہ کے تین معززین کے ذریعہ نعش برآمد کروائی.پسماندگان میں بیوہ محترمہ نسیم بیگم صاحبہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور چار بیٹے یادگار چھوڑے.بیٹیوں میں سے ایک مکر مہ امتہ النصیر اہلیہ مکرم کمال الدین صاحب کارکن نظارت تعلیم ربوہ ہیں.دوسری مکر مہ امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ طارق محمود صاحب چونڈہ میں ہیں.تیسری امتہ الحمود صاحبہ ساتویں کلاس میں پڑھتی ہیں اور اپنی بہن امتہ النصیر صاحبہ کے پاس ربوہ میں رہتی ہیں.بیٹوں میں سے مکرم نصیر احمد صاحب وزیر آباد میں رہائش پذیر ہیں اور اپنے والد صاحب کا کلینک چلا رہے ہیں.مکرم حفیظ احمد صاحب کراچی میں الیکڑونکس انجینئر ہیں اور مکرم محمود احمد صاحب امریکہ میں رہائش پذیر ہیں.مکرم مظفر احمد صاحب شر ما شکار پور مظفر احمد صاحب شرما شہید، شکار پور.تاریخ شہادت ۱۲؍ دسمبر ۱۹۹۷ء امیر جماعت ہائے احمد یہ اضلاع شکار پور، جیکب آباد، سکھر اور گھوٹکی محترم عبدالرشید صاحب شرما کے صاحبزادے تھے.بڑے مخلص اور دین کی غیرت رکھنے والے فدائی احمدی تھے.دعوت الی اللہ کا بڑا شوق تھا.پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے لیکن عملاً وکالت نہیں کی بلکہ اپنے والد کے کاروبار میں ان کی معاونت کرتے رہے بوقت شہادت ضلعی سیکرٹری امور عامہ اور قاضی کی خدمت آپ کے سپر د تھی.اس سے پہلے آپ قائد خدام الاحمدیہ ضلع بھی رہے.شکار پور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری اور بار ایسوسی ایشن کے ممبر بھی تھے.اپنے اثر و رسوخ اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے عوام الناس میں بہت ہر دل عزیز تھے.سندھ میں پیدا ہوئے اور بڑی روانی سے سندھی بولتے تھے.آپ کا خاندان شکار پور میں اکیلا احمدی گھرانہ تھا.اس خاندان نے جماعت کی وجہ سے آنے والی جملہ مصیبتوں کا پوری ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کیا.ان کا کارخانہ ایک ظالمانہ حملہ میں مکمل طور پر بر باد کر دیا گیا.دھمکی آمیز خطوط لکھے گئے لیکن ان کے پائے ثبات میں کوئی فرق نہ پڑا.اخبارات میں ان کے بارہ میں انتہائی غلیظ بیانات شائع

Page 238

خطبات طاہر بابت شہداء 219 خطبہ جمعہ ۶ ارجولائی ۱۹۹۹ء ہوتے رہے جن میں بیان دینے والوں کے نام بھی درج ہوتے ہیں جو ا نتظامیہ سے بار بار مطالبہ کرتے کہ یہ مرکز سے مرد اور مستورات بلوا کر مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں اس لئے فوری طور پر ان کو یہاں سے نکالا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم خود یہ کام سنبھال لیں گے مگر حکومت نے مخالفین کی ان دھمکیوں سے واقف ہونے کے باوجود کبھی کوئی نوٹس نہ لیا.واقعہ شہادت : ۱۲؍ دسمبر ۱۹۹۷ء کو شام پونے آٹھ بجے آپ اپنی بھا بھی محترمہ غزالہ بیگم صاحبہ بیوہ مبارک احمد صاحب شہید اور ان کی بچیوں کو گاڑی پر سوار کرانے کے لئے ریلوے سٹیشن جا رہے تھے.بھا بھی اور بچے تانگے پر سوار تھے اور آپ تانگے کے پیچھے موٹر سائیکل پر جارہے تھے کہ سول ہسپتال کے قریب اچانک پیچھے سے ایک موٹر سائیکل سوار آیا اور اس نے آپ پر گولی چلا دی.گولی لگنے سے آپ زمین پر گر گئے.تانگہ سے اتر کر بھا بھی نے اٹھایا.اس وقت آپ ابھی زندہ تھے، فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا مگر بہت تاخیر ہو چکی تھی اور کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی اور آپ نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی.انالله وانا اليه راجعون.بوقت شہادت آپ کی عمر۴۲ سال تھی.پسماندگان میں بیوہ مکرمہ فوزیہ بیگم صاحبہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا یادگار چھوڑے.تینوں بچے غزالہ نصرت وریحانہ عنبر اور عزت احمد نو سے تیرہ سال کی عمروں کے ہیں اور زیر تعلیم ہیں اور والدہ کے ساتھ سویڈن میں رہتے ہیں.مگرم میاں محمد اکبر اقبال صاحب یوگنڈا شہادت میاں محمد اکبر اقبال صاحب.تاریخ شہادت ۱۵/۱۴ / فروری ۱۹۹۸ء کی درمیانی رات.آپ کا تعلق لاہور کی ایک فیملی سے تھا.آپ حضرت میاں تاج دین صاحب کے پوتے تھے جو کہ لاہور کے نیک مخلص اور دعا گو بزرگ اور میاں معراج دین صاحب اور میاں سراج دین صاحب کے چھوٹے بھائی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لا ہور آمد کے دوران کبھی کبھی ان کے ہاں آکر قیام فرمایا کرتے تھے.ان کے گھر کا نام تھا مبارک منزل دلی دروازہ لاہور.میاں محمد اکبر اقبال ۱۵/جنوری ۱۹۲۵ء کو میاں کمال دین صاحب کے ہاں لاہور میں پیدا ہوئے.۱۹۴۵ء میں اپنی زندگی وقف کی.۱۹۴۶ء میں آپ کو جینگ اینڈ پر اسسٹنگ فیکٹری کنری میں کام کرنے کے لئے بھیجا گیا جہاں آپ نے خوب محنت سے کام کیا اور جنرل مینیجر کے عہدے تک ترقی پائی.

Page 239

خطبات طاہر بابت شہداء 220 خطبہ جمعہ ۱۶؍ جولائی ۱۹۹۹ء ۱۹۹۳ء میں آپ کو یوگنڈا کے ایک شہر نجہ (Jinja) میں ایک جماعتی فیکٹری میں خدمت کے لئے بھجوایا گیا.جہاں آپ شہادت تک خدمات سرانجام دیتے رہے.اتنے قابل تھے اور مزدوروں سے ایسا سلوک تھا کہ بار ہا وہاں کوشش کی گئی کہ جس طرح باقی فیکٹریوں میں ہڑتال ہوتی ہے یہاں بھی ہڑتال کروائی جائے مگر مزدوروں نے صاف انکار کر دیا کیونکہ ان کا بہت نیک اثر ان پر تھا.واقعہ شہادت: ڈاکو ۸ فروری ۱۹۹۸ ء کی شب آپ کی رہائش گاہ میں نقب لگا کر داخل ہوئے اور آپ پر حملہ کر کے کسی آہنی چیز سے آپ کے سر پر ضر ہیں لگا ئیں جن کی وجہ سے آپ شدید زخمی ہو گئے.قریب ہی ایک احمدی دوست ناصر احمد رہتے تھے وہ جب آپ کونماز فجر کے لئے بلانے آئے تو دیکھا کہ آپ شدید زخمی حالت میں فرش پر گرے پڑے ہیں.انہوں نے جماعت کو اور پولیس کو اس وقوعہ کی اطلاع کی.آپ کو ضروری کارروائی کے بعد فوراً ہسپتال داخل کروایا گیا مگر زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپ مسلسل بے ہوش رہے اور ہر طرح کی طبی امداد دینے کے باوجود جانبر نہ ہو سکے.آخر ۱۴ اور ۱۵ / فروری کی درمیانی شب اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے.اناللہ وانا اليه راجعون.شہید مرحوم کا جنازہ ربوہ لایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.پسماندگان میں بیوہ مکرمہ ممتاز بیگم صاحبہ کے علاوہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑیں.مکرم محمد ارشاد اقبال صاحب عزیز آباد کراچی میں زعیم مجلس انصاراللہ ہیں ، شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں.مکرم مرزا نا صر محمود صاحب مربی سلسلہ لاہور کینٹ بھی شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں.مکرم اقبال محمود صاحب ٹیکنیکل ایجوکیشن سندھ میں سرکاری ملازم ہیں اور ماڑی پور مجلس کے ناظم اطفال ہیں.مظفر محمود صاحب لاہور میں ذاتی کاروبار کرتے ہیں اور مقامی مجلس کے ناظم عمومی ہیں.مکرمه فاخرہ بیگم صاحبہ مکرم خلیل الرحمن صاحب مغل راولپنڈی کی اہلیہ ہیں.مکرمہ افتخار بیگم صاحبہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کراچی میں رہتی ہیں اور عزیز آباد کراچی میں لجنہ کی سیکرٹری ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی ساری اولا د دینی اور دنیاوی ہر لحاظ سے صف اول میں ہے اور خدا کے فضل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات کی شاہد ہے.

Page 240

خطبات طاہر بابت شہداء 221 عزیزم محمد جبری اللہ مظفر کینیا خطبہ جمعہ ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۹۹ء عزیزم محمد جری اللہ مظفر.کینیا.تاریخ وفات ۲۱ / جون ۱۹۹۸ء عزیز جری الله ۱۸ رمئی ۱۹۹۳ء کو مکرم مظفر احمد صاحب درانی امیر و مشنری انچارج تنزانیہ کے ہاں ربوہ میں پیدا ہوئے.عزیز کے والد جب کینیا میں تھے تو انہوں نے ایک پہاڑی پر اپنی ایک بیٹی کی آمین منعقد کرنے کا پروگرام بنایا جس کے ساتھ ہی ایک برساتی نالہ بہتا تھا.وہاں کھیل کود میں مشغول تھے کہ پاؤں پھسلنے کے نتیجہ میں عزیز جری اللہ مظفر برساتی نالے میں گرا اور تیز پانی کی لپیٹ میں آکر نظروں سے غائب ہوگیا.انالله وانا اليه راجعون.چونکہ واقف زندگی کا بیٹا وقف کے دوران وطن سے دور ڈوب کر غرق ہوا اس لئے ڈوب کر غرق ہونے والے کو ویسے ہی آنحضرت ﷺ نے شہید قرار دیا ہے تو یہ شہادت اس رنگ میں ایک دوہری شہادت تھی.ایک ہفتہ کی مسلسل تلاش کے بعد آٹھویں روز اس کی لاش مل گئی.۲۹ / جون ۱۹۹۸ء کو احمدیہ مسجد کسومو کینیا میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور نیروبی میں احمد یہ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی.مکرم محمد ایوب اعظم صاحب واہ کینٹ محمد ایوب اعظم صاحب شہید، واہ کینٹ.تاریخ شہادت ۷/ جولائی ۱۹۹۸ء.آپ محترم شیخ نیاز الدین صاحب (مرحوم) اور محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ (مرحومہ ) کے ہاں پیدا ہوئے.آپ کے نانا حضرت شیخ عمر الدین صاحب ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے.والد بعد میں خلافت ثانیہ کے دوران احمدی ہوئے.آپ کی شادی محترمہ بشری منہاس صاحبہ بنت مکرم محمد افضل منہاس صاحب ایڈووکیٹ مرحوم (راولپنڈی) کے ساتھ ہوئی.آپ ایک مخلص احمدی تھے.B.SC کرنے کے بعد آرڈینینس فیکٹری واہ کینٹ میں بطور چارج مین ملازم ہوئے اور ترقی کر کے فورمین کے عہدہ تک پہنچے.بعد ازاں اسٹنٹ ورکس مینجر مقرر ہوئے لیکن پھر نا معلوم وجوہات کی بناء پر 1991ء میں آپ ریٹائر کر دیا گیا.نامعلوم سے مراد یہ ہے کہ پتہ ہے جماعت کی دشمنی میں کیا گیا تھا مگر حکومتی ریکارڈ کے مطابق وجوہات نا معلوم ہیں.اس کے بعد آپ بسلسلہ ملازمت سعودی عرب چلے گئے.۱۹۹۵ء میں واپس آکر پھر شہادت تک واہ کینٹ میں ہی رہے.واقعہ شہادت: ۷ جولائی ۱۹۹۸ء تقریباً ساڑھے آٹھ بجے رات آپ گھر سے نکلے اور محلہ

Page 241

خطبات طاہر بابت شہداء 222 خطبہ جمعہ ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۹۹ء کی ایک قریبی دکان پر گئے.وہاں سے واپس گھر آرہے تھے کہ قاتل اچانک تاریکی سے نکل کر آپ کےسامنے آئے.آپ کا پوچھا اور یہ بھی پوچھا کہ آپ احمدی ہیں اور ایک اور آدمی کا نام بھی پوچھا کہ آپ کسی نذیر احمدی کو جانتے ہیں تو آپ نے لاعلمی کا اظہار کیا.اس کے بعد قاتلوں میں سے ایک نے آپ پر دو فائر کئے اور بھاگ گئے.آپ پر چونکہ گھر کے قریب ہی فائر کئے گئے تھے اس لئے آپ نے زخمی ہونے کے باوجود گھر والوں کو آوازیں دیں جو آپ کی آواز پر فوراً باہر آئے اور زخمی حالت میں آپ کو ہسپتال لے گئے لیکن راستہ ہی میں وفات پاگئے.اناللہ وانا اليه راجعون.شہید مرحوم نے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں پسماندگان میں چھوڑیں.مکرم ملک نصیر احمد صاحب وہاڑی شہادت مکرم ملک نصیر احمد صاحب شہید، وہاڑی.تاریخ شہادت ۴ را گست ۱۹۹۸ء.آپ کے والد مکرم غلام علی صاحب ۱۹۱۱ء میں حضرت خلیفتہ اسی الاول کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.ملک نصیر احمد صاحب ۱۹۱۳ء میں فیض اللہ چک میں پیدا ہوئے.عملی زندگی کا آغاز محکمہ پولیس کی ملازمت سے کیا اور سب انسپکٹر کے عہدہ سے ۱۹۶۷ء میں ریٹائر ہونے کے بعد وہاڑی میں مستقل رہائش اختیار کر لی.ایک جینگ فیکٹری کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ فلپس کمپنی کی ایجنسی بھی آپ کے پاس تھی.آپ وہاڑی کی ایک با اثر شخصیت تھے.نہایت دبنگ ،غریبوں کے ہمدرد اور بڑے مہمان نواز تھے.آپ سالہا سال تک جماعت احمد یہ وہاڑی کے سیکرٹری امور عامہ رہے.دو دفعہ زعیم اعلی انصار اللہ بنے اور جولائی ۱۹۹۸ء سے صدر کے عہدہ پر فائز تھے.بڑے نڈر داعی الی اللہ تھے.خلافت سے بے انتہا محبت تھی.باجماعت نماز کے پڑھنے کے پابند تھے حتی کہ پچاسی سال کی عمر میں بھی آپ کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی کہ ہر نماز بیت الذکر میں ادا کریں.۴/اگست ۱۹۹۸ ء کو بیت الذکر میں نماز فجر کی ادائیگی کے لئے ، یعنی یہ ان کا جذبہ تھا با جماعت نماز کی ادائیگی کے لئے کہ اس عمر میں موٹر میں بیٹھ کر مسجد پہنچے، صبح پونے چار بجے کار پر روانہ ہوئے.ابھی آپ اپنی کار سے اترے ہی تھے کہ حملہ آوروں نے جو پہلے سے گھات لگائے بیٹھے تھے آپ پر فائرنگ کر دی.ایک گولی سینے میں لگی جس سے موقع پر ہی جام شہادت نوش کیا.اناللہ وانا اليه راجعون.حملہ آور آپ کی گاڑی لے کر فرار ہو گئے.اس وقت ابھی بیت الذکر میں کوئی نمازی

Page 242

خطبات طاہر بابت شہداء 223 خطبہ جمعہ ۶ ار جولائی ۱۹۹۹ء نہیں آیا تھا.جب نمازی آئے تو انہوں نے آپ کو بیت الذکر کے قریب شہید ہونے کی حالت میں پایا.اسی دن آپ کی نعش ربوہ لائی گئی جہاں بعد نماز جنازہ تدفین ہوئی.پسماندگان میں آپ نے دو بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑیں.مکرم ماسٹر نذیر احمد صاحب بھگو نوابشاہ مکرم ماسٹر نذیر احمد صاحب بھکیو شہید نوابشاہ.تاریخ شہادت ۱۰ را کتوبر ۱۹۹۸ء.آپ کے پڑنانا حضرت اخوند محمد رمضان صاحب، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیمی صحابہ میں سے تھے جنہیں ۱۸۹۸ء میں بیعت کی سعادت نصیب ہوئی.اس لحاظ سے سندھی خاندانوں میں آپ قدیم ترین صحابہ کی اولاد میں سے تھے.آپ بہت نیک متقی ، تہجد گزار بزرگ تھے.خاموش طبع ، بے لوث خدمت کرنے والے اور مخلس انسان تھے.احمدیوں اور غیر احمدیوں میں یکساں ہر دل عزیز تھے.ایک عرصہ سے دو تین مولوی ماسٹر صاحب کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے.رات کے وقت وہ کبھی کبھی آپ کے گھر میں پتھر بھی پھینکتے تھے.۱۰ را کتوبر ۱۹۹۸ء کی صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد جب آپ گھر پر ہی تھے کہ آپ کے دروازے کی گھنٹی بجی.جیسے ہی آپ باہر نکلے تو ایک آدمی نے آپ پر پستول سے فائر کیا.اس حملہ سے آپ دروازہ پر ہی گر گئے اور چند لمحوں میں ہی موقع پر شہید ہو گئے.اناللہ وانا اليه راجعون.آپ کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.بڑے بیٹے غلام حیدر بھگو نیشنل ہائی وے میں بڑے عہدہ پر فائز ہیں.دوسرے بیٹے حمید احمد بھگیو سندھ سیکرٹریٹ کراچی میں ملازم ہیں اور تیسرے بیٹے سلیم احمد بھگو لیاقت میڈیکل کالج میں فائنل ائیر کے طالب علم ہیں.چوتھے بیٹے خالد احمد بھنگیو سندھ یونیورسٹی میں کامرس کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.بیٹیوں میں بڑی بیٹی شادی شدہ ہیں اور باقی دوا بھی غیر شادی شدہ ہیں.اب چونکہ وقت ختم ہو گیا ہے جو چند شہداء کا تذکرہ باقی رہتا ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ اگلے خطبہ میں بیان کر دیا جائے گا اور پھر جلسے کے متعلق ہدایات بھی اسی خطبہ میں دے دی جائیں گی.(حضور انور نے پرائیویٹ سیکرٹری سے مخاطب ہو کر فرمایا : اس عرصہ میں ہوسکتا ہے کچھ اور بھی مل جائیں اگر مل گئے تو پوچھ کے شامل کر لینا ورنہ یہی ذکر ہے.باقی تاریخ احمدیت میں انشاء اللہ چھپتار ہے گا.

Page 243

خطبات طاہر بابت شہداء 225 خطبہ جمعہ ۲۳؍ جولائی ۱۹۹۹ء شہداء خلافت رابعه (شہداء کے تذکرہ پر آخری خطبہ ) ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ جولائی ۱۹۹۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ بقرہ کی یہ آیات تلاوت فرما ئیں: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة : ۱۵۴ - ۱۵۵) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ( اللہ سے مدد طلب کرتے رہو صبر اور صلوۃ کے ساتھ.یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.پہلی آیت کے ترجمہ میں لفظ اللہ سے بریکٹ میں ہی رکھا ہوا ہے کیونکہ الفاظ میں ظاہر نہیں ہے اس لئے اس کو ترجمہ میں بریکٹ میں ہی رکھا ہوا ہے.کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ یہ الفاظ میں ظاہر ہے.شہداء کے ذکر پر مشتمل یہ میرا آخری خطبہ ہے جس کے بعد انشاء اللہ دوسرے مضمون کے خطبات شروع ہوں گے جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا.اب خطبات میں مزید یہ ذکر نہیں ہوسکتا اور نہ بعض دوستوں کی طرف سے مطالبے آتے چلے جارہے ہیں جو معلوم ہوتا ہے ایک نہ

Page 244

خطبات طاہر بابت شہداء 226 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۹ء ختم ہونے والا سلسلہ ہے اس لئے آج اس جلسہ سے پہلے انشاء اللہ اس خطبہ میں جتنے بھی شہداء کا ذکر آئے گا اسی پر اکتفاء ہوگی اور باقی اگر کسی کے ذہن میں کوئی ایسے شہداء آئیں جو ان کے خیال میں شہداء میں شریک ہونے چاہئیں تو ان کو چاہئے کہ وہ تاریخ احمدیت میں وہ کوائف بھجوا دیں وہ خود فیصلہ کر لیا کریں گے.مکرم مولوی سید محمد موسیٰ صاحب مبلغ اڑیسہ مولوی سید محمد موسیٰ صاحب مبلغ سلسلہ شہید، اڑیسہ (بھارت ).تاریخ شہادت ۳ / دسمبر ۱۹۷۴ء کو دو دیگر خادمان سلسلہ کے ساتھ چندہ جات کی تحریک کے سلسلہ میں سفر پر تھے کہ ریلوے لائن عبور کرتے ہوئے ریل گاڑی کے نیچے آکر موقع پر ہی شہید ہو گئے.انا لله و انا اليه راجعون.شہید مرحوم ایک لمبا عرصہ ہندوستان کی سب سے بڑی جماعت کیرنگ اڑیسہ کے مبلغ رہے.ایک مرتبہ گاؤں کے گھانس پھونس کے مکانات میں آگ بڑک اٹھی تو آپ کی دعا سے غیر متوقع طور پر بارش ہوگئی جس سے آگ بجھ گئی.شہید مرحوم مکرم سید حسن علی صاحب سونگھڑوی کے چھوٹے بیٹے تھے.آپ کے تین بڑے بھائی جماعت احمد یہ بھدرک ،سورو اور کٹک (اڑیسہ) کے صدر رہے ہیں یا صدر ہیں.آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی.پسماندگان میں صرف بیوہ چھوڑی ہے.مکرم عبدالمجید صاحب ربوہ عبدالمجید صاحب، ربوہ.آپ مکرم عبدالکریم صاحب کے بیٹے تھے جو قادیان میں نلکا سازی کا کام کرتے تھے اور ربوہ کے بھی ابتدائی نلکا سازوں میں سے تھے.دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو برکت دی اور آپ کی جو خدمت کا جذبہ تھا آپ کے کام آیا.۱۹۴۳ء میں عبدالمجید صاحب گورداسپور میں پیدا ہوئے.خدمت خلق تحریک کے تحت ۲۵/جنوری ۱۹۹۴ء کو غانا میں نلکے لگوانے کے پروگرام پر بھجوائے گئے.جہاں آپ نے ایک سال تک خدمات وقف کیں.واپسی کے سفر پر نیروبی قیام کے دوران بیمار ہو گئے اور اسی بیماری سے وطن پہنچنے سے پہلے دسمبر ۱۹۹۴ء میں وفات پائی.انا لله و انا الیه راجعون.تدفین کے لئے آپ کی میت ربوہ لے جائی گئی.مکرم اے ٹی ایم حق صاحب اور مصطفیٰ علی صاحب بنگلہ دیش اے ٹی ایم حق صاحب شہید اور مصطفیٰ علی صاحب عرف تو میاں شہید ، بنگلہ دیش.تاریخ

Page 245

خطبات طاہر بابت شہداء 227 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۹ء شہادت ۲۱ مئی ۱۹۹۵ء.۲۱ مئی ۱۹۹۵ء کی رات کو مکرم نیشنل امیر صاحب بنگلہ دیش کی ہدایت پر مکرم اے ٹی ایم حق صاحب نائب نیشنل امیر کی سربراہی میں ایک وفد بعض جماعتی امور سرانجام دینے کے لئے احمد نگر بھجوایا گیا.اس وفد میں ان کے ساتھ مکرم عبد الاول خان صاحب مربی سلسله، مکرم رضاء الکریم صاحب سیکرٹری وصایا، مکرم بشیر الدین محمود احمد صاحب اور ڈرائیور مکرم مصطفی علی صاحب ننو بھی شامل تھے.صبح گیارہ بجے ان کی گاڑی فیری کے ذریعہ دریا جمنا پار کر کے نگر باڑی کھاٹ پر اتری اور آگے کا سفر شروع ہو گیا مگر دو پہر بارہ بج کر بیس منٹ پر رائے گنج تھانہ کے قریب مین روڈ پر ایک ٹرک سے ٹکرا گئی جس کے نتیجہ میں مکرم اے ایم ٹی حق صاحب تو موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ کار کے ڈرائیور مکرم مصطفی علی ننو صاحب بوگڑا ہسپتال پہنچتے ہوئے رستہ میں وفات پاگئے.انا للہ و انا اليه راجعون مکرم اے ٹی ایم حق صاحب بہت ہی نیک اور مخلص احمدی تھے.یہ پہلے پیر پرست اور قبر پرست مسلمان تھے.۱۹۶۰ء کے قریب خود احمدیت قبول کی.مریض ہونے کے باوجود یہ جماعت کے کاموں میں تقریباً روزانہ حاضر ہوا کرتے تھے.بہت ہی صاف گو، نفاست پسند اور خوش پوش بزرگ تھے.بوقت شہادت عمر ۷۵ سال تھی.شہید مرحوم نے اپنے پیچھے تین بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑیں.تینوں بیٹے ماشاء اللہ نہایت مخلص اور فدائی احمدی ہیں.شهید مصطفی علی ننو صاحب بھی بڑے نرم مزاج تھے اور با اخلاق نوجوان تھے آپ مکرم رمیز الدین صاحب آف احمد نگر کے بیٹے تھے.جماعت کی گاڑی چلانے کے علاوہ ٹائپسٹ کا کام بھی کرتے تھے.آپ کی شادی ہوئے تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا.کوئی بچہ نہیں ہوا.پسماندگان میں صرف ایک بیوہ چھوڑ ہیں.مکرم چودھری عبدالرشید شریف صاحب لاہور چودھری عبدالرشید شریف صاحب شہید ، لاہور.تاریخ شہادت ۳۰ را کتوبر ۱۹۹۸ء.آپ مولا نا چودھری محمد شریف صاحب مرحوم سابق مبلغ بلاد عربیہ و مغربی افریقہ اور محترمہ فضل بی بی صاحبہ مرحومہ کے بیٹے تھے.حیفا فلسطین میں ۱۹۴۱ء میں پیدا ہوئے ابھی صرف دو سال کے تھے کہ والدہ وفات پاگئیں.آپ کی پرورش آپ کی دوسری والدہ محترمہ حکمت عباس عودہ صاحبہ نے نہایت ہی

Page 246

خطبات طاہر بابت شہداء محبت اور خوش خلقی کے ساتھ کی.228 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۹ء آپ دسمبر ۱۹۵۵ء میں اپنے والد محترم کے ہمراہ پاکستان آئے.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ سے بی اے اور لاہور کالج سے ایم.اے کرنے کے بعد سی ایس پی کے مقابلہ کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور پنجاب میں بطور ڈپٹی سیکرٹری فنانس مقرر ہوئے.متعصب مولوی اگر چہ آپ کے خلاف شدید پراپیگنڈہ کرتے رہے مگر آپ کی ایمان داری اور اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے حکومت ان کو الگ نہ کرسکی بلکہ مزید ترقی کرتے رہے.ایک موقع پر منفی سفارش کے ساتھ آپ کا معاملہ صدر ضیاء تک بھی پہنچا تو آپ کی ملازمت ختم کرنے کا حکم فوری طور پر جاری کر دیا گیا.مگر جب گورنر پنجاب جنرل سوار خان نے آپ کی فائل صدر کو بھجوائی کہ دیکھ تو لو یہ کیسا افسر ہے تو اسے دیکھ کر یہ نیا حکم جاری کرنا پڑا کہ سر دست اسے کسی اور جگہ تبدیل کر دیا جائے.آپ رفاہی کاموں میں دل کھول کر حصہ لیتے تھے اور بزرگ باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ ہمیشہ صداقت پر قائم رہے.۳۰ /اکتوبر ۱۹۹۸ء کی شام کو بعض قاتلوں نے آپ کو احمدیت کے جرم میں بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا.آپ کی شادی محترم الحاج ڈاکٹر محمد سعید صاحب کی صاحبزادی نازی سعید صاحبہ سے ہوئی تھی جو لجنہ اماء اللہ لاہور کی ایک فعال کارکنہ ہیں.آپ نے اپنے پیچھے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا عبدالعزیز اور دو بیٹیاں فوزیہ رشید اور شیبا رشید چھوڑے.بیٹا قالینوں کا کاروبار کرتا ہے.دونوں بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے گھروں میں خوش ہیں.آپ کے چھوٹے بھائی بشیر شریف صاحب انگلستان میں ہر جماعتی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں اور اللہ کے فضل سے ایک مثالی احمدی ہیں.مکرم ملک اعجاز احمد صاحب وزیر آباد ملک اعجاز احمد صاحب شہید.وزیر آباد.تاریخ شہادت یکم دسمبر ۱۹۹۸ء.آپ مکرم عنایت اللہ صاحب مرحوم ڈھونیکے تحصیل وزیر آباد کے صاحبزادہ تھے اور ایک نڈر داعی الی اللہ تھے.آپ کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں ” جنڈیالہ ڈھاب والا“ میں ایک خاندان کے جملہ افراد کو بیعت کرنے کی توفیق ملی تھی.اس سے قبل اس گاؤں میں کوئی احمدی نہ تھا.اپنوں اور غیروں میں آپ

Page 247

خطبات طاہر بابت شہداء 229 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۹ء کا حلقہ بڑا وسیع تھا.ڈاکٹر نذیر احمد صاحب شہید کے مقدمہ میں مجرموں کو گرفتار کر وانے میں آپ نے بڑی کوشش کی.اسی لئے مخالفین آپ کے جانی دشمن ہو گئے.واقعہ شہادت.یکم دسمبر ۱۹۹۸ء کو آپ وزیر آباد میں اپنی سیمنٹ ایجنسی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ صبح دس بجے کے قریب ایک لڑکا جس نے چادر لپیٹ رکھی تھی آیا اور پوچھا کہ ملک اعجاز کون ہے؟ ملک اعجاز صاحب کے ساتھ آپ کے دوست بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے پوچھا، کیوں کیا بات ہے؟ میں ملک اعجاز ہوں.یہ سنتے ہی اس لڑکے نے اپنی چادر کے نیچے سے لوڈ کیا ہوا ریوالور نکالا اور آ پر فائر کر دیا.ملک صاحب کو دو گولیاں لگیں جن سے آپ شدید زخمی ہو گئے.فائر کرنے کے بعد وہ لڑکا فرار ہونے کے لئے قریبی گلی میں دوڑا مگر ملک صاحب کے ایک دوست اور ملازم نے اہل محلہ کے تعاون سے اسے پکڑ کر حوالہ پولیس کر دیا.آپ کے دوسرے دوست ٹانگہ میں ڈال کر سول ہسپتال لے گئے جہاں ابتدائی طبی امداد دی گئی.ابھی آپریشن تھیٹر میں جانے کی تیاری ہورہی تھی کہ مولا کریم کی طرف سے بلاوا آ گیا اور لبیک کہتے ہوئے اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.شہید مرحوم کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی.آپ نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ اپنی ایک زمیر کفالت بچی چھوڑی.جوان دنوں میڈیکل کی طالبہ ہیں.مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ چونڈہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ عمر سلیم بٹ صاحب، چونڈہ، سیالکوٹ.تاریخ شہادت ۹رمئی ۱۹۹۹ ء.آپ چونڈہ کے ایک مخلص احمدی مکرم عبد اللہ بٹ صاحب کی بیٹی تھیں.دعوت الی اللہ کا کام بڑے جوش اور جذبہ سے کرتی تھیں.چنانچہ آپ کی کوششوں سے چونڈہ کے نواحی گاؤں ڈوگر انوالی میں دو بہن بھائی فروری ۱۹۹۹ء میں احمدی ہوئے چونکہ اس گاؤں میں اور کوئی احمدی نہ تھا اس لئے دونوں نو مبائع کو کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.آپ نے دونوں کا بہت خیال رکھا اور ہر مشکل میں انہیں حوصلہ اور تسلی دیتی رہیں.اس مقصد کی خاطر آپ ان کے گاؤں چلی جاتیں.آخری بار یکم مئی ۱۹۹۹ء کو وہاں گئیں تا کہ ان کے والد کو زیارت مرکز کے لئے ربوہ جانے کا پروگرام بنا ئیں.نو مبائعین عابد حسین اپنے کسی کام کی غرض سے سیالکوٹ گئے ہوئے تھے لہذا ان کی واپسی کا انتظار کرتے کرتے دیر ہوگئی اور کوئی سواری نہ ملنے کی وجہ سے آپ کو ڈوگر انوالی میں ہی رات ٹھہر نا پڑا.

Page 248

خطبات طاہر بابت شہداء 230 خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۹۹ء نومبائع کا ایک سوتیلا بھائی رفاقت حسین جو مجرمانہ ذہنیت کا مالک تھا اور منشیات اور چوری وغیرہ کے مقدمات میں ملوث ہے ، گھر میں احمدیت پھیلانے کی ذمہ دار مبار کہ بیگم کو سمجھتا تھا لہذا ان کا سخت دشمن تھا.چنانچہ اس نے ۲ مئی ۱۹۹۹ ء کو آپ پر چھریوں کے پے در پے وار کر کے آپ کو شدید زخمی کر دیا.آپ کو اسی حالت میں علامہ اقبال ہسپتال سیالکوٹ میں پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے آپ کا آپریشن کیا بظاہر آپریشن کامیاب رہا لیکن چند دن بعد آپکی حالت بگڑنے لگی تو فورا میو ہسپتال لے جایا گیا جہاں آپ ۹ رمئی ۱۹۹۹ء کو وفات پاگئیں.آپ کے پسماندگان میں آپ کے شوہر مکرم عمر سلیم صاحب کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں اور والدہ شامل ہیں.ایک بیٹا ثا قب تحریک وقف نو میں شامل ہے.حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ المسیح الرابع اب آخر میں میں آصفہ بیگم کا ذکر کرتا ہوں.کیونکہ بکثرت لوگوں کے خطوط مل رہے ہیں اور مجھ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ آپ کی تعریف کے مطابق وہ بھی شہیدوں میں شامل ہیں.مجھے تو جب بھی وہ یاد آتی ہیں نہ جانے کیوں ذہن پر یہ شعر قبضہ کر لیتا ہے مارا دیار غیر میں مجھ کو وطن سے دور رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم وہ شرم میں رکھنے والا جانتا ہے جہاں تک مجھے یقین ہے وہ اللہ کے نزدیک شہداء میں شامل تھیں.میرے شہید کہنے یا نہ کہنے سے بھی ان کا مقام میرے اللہ کے حضور وہی رہے گا جو مقدر ہو چکا ہے.اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے.پس یہ آخری ذکر ہے خطبات میں شہداء کا.اس کے بعد یہ سلسلہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اب بند کر دیا جائے گا.نوٹ: عہد خلافت رابعہ کے دیگر شہداء کا ذکر بطور ضمیمہ اس کتاب میں شامل کیا جارہا ہے.

Page 249

نصیر احمد علوی صاحب نوابشاہ شہادت ۱۹۹۰ء ملک محمد دین صاحب ساہیوال شہادت ۱۹۹۱ء پروفیسر ڈاکٹر نسیم با بر اسلام آباد شہادت ۱۹۹۴ء را ناریاض احمد صاحب لاہور شہادت ۱۹۹۴ء عبدالرحمن باجوہ صاحب کراچی شہادت ۱۹۹۴ء

Page 250

ماسٹر انور حسین ابرولاڑکانہ شہادت ۱۹۹۴ء چوہدری عتیق احمد باجوہ صاحب وہاڑی شہادت ۱۹۹۷ء سلیم احمد صاحب پال کراچی شہادت ۱۹۹۴ء چوہدری ریاض احمد شب قدر شہادت ۱۹۹۵ء مبارک احمد شر ما صاحب شکار پور شہادت ۱۹۹۵ء

Page 251

مظفر احمد شر ما صاحب شکار پور شہادت ۱۹۹۷ء محمد ایوب اعظم صاحب واہ کینٹ شہادت ۱۹۹۸ء ملک اعجاز احمد صاحب وزیر آباد شہادت ۱۹۹۸ء عزیزم جری اللہ مظفر کینیا شہادت ۱۹۹۸ء

Page 252

اے ٹی ایم حق صاحب بنگلہ دیش شہادت ۱۹۹۵ء شہدائے مسجد کھلنا شہادت ٫۸اکتوبر ۱۹۹۹ء مصطفی علی ننو صاحب بنگلہ دیش شہادت ۱۹۹۵ء نورالدین صاحب بنگلہ دیش شہادت ۱۹۹۹ء جہانگیر حسین صاحب بنگلہ دیش شہادت ۱۹۹۹ء محمد محب اللہ صاحب بنگلہ دیش شہادت ۱۹۹۹ء

Page 253

ڈاکٹر عبدالماجد صاحب بنگلہ دیش شہادت ۱۹۹۹ء دائے مسجد گھلنا شہادت ۸ اکتوبر ۱۹۹۹ محمد سبحان مورل صاحب بنگلہ دیش شہادت ۱۹۹۹ء ممتاز الدین صاحب بنگلہ دیش شہادت ۱۹۹۹ء علی اکبر صاحب بنگلہ دیش شہادت ۱۹۹۹ء

Page 254

چوہدری افتخار احمد صاحب گھٹیالیاں شہادت ۲۰۰۰ء عبادت مارا تو به معنان چوہدری عطاء اللہ صاحب گھٹیالیاں شہادت ۲۰۰۰ء چوہدری غلام محمد صاحب گھٹیالیاں شہادت ۲۰۰۰ء محمد عباس علی صاحب گھٹیالیاں شہادت ۲۰۰۰ء شہزاداحمد صاحب گھٹیالیاں شہادت ۲۰۰۰ء

Page 255

ضمیمہ 231 ضمیمہ بعد از خطبات شہداء تا عہد خلافت را بعه) شہداء بعد از خطبات شہداء

Page 256

ضمیمہ 232 شہداء بعد از خطبات شہداء ذیل میں عہد خلافت رابعہ کے ان ۳۲ شہداء کا مختصر تعارف شامل کتاب کیا جارہا ہے جن کی شہادتیں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے خطبات فرمودہ بابت شہداء کے بعد ہوئیں.ان میں سے بنگلہ دیش کے شہر کھلنا میں ہونے والی شہادتوں کا ذکر حضور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرما دیا تھا یہ ذکر حضور کے ہی الفاظ میں دیا جا رہا ہے جبکہ عہد خلافت رابعہ تک کے دیگر شہداء کے بارہ میں تعارف تحریر کیا جارہا ہے:-

Page 257

ضمیمہ 233 شہداء مسجد کھلنا بنگلہ دیش ( تاریخ شہادت ۸/اکتوبر ۱۹۹۹ء) شہداء بعد از خطبات شہداء مورخه ۱/۸ کتوبر ۱۹۹۹ء بروز جمعہ احمدیہ مسجد کھلنا بنگلہ دیش میں ایک بم دھما کہ ہوا جس کے نتیجہ میں سات احمدی شہید ہو گئے.سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۵/نومبر ۱۹۹۹ء بمقام مسجد فضل لندن میں ان شہدا کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اب میں اس خطبہ کے آخر پر بعض شہداء کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی نماز جنازہ آج جمعہ کے بعد ادا ہوگی.چند ہفتے قبل ۱/۸اکتوبر ۱۹۹۹ء کو بنگلہ دیش کے شہر کھلنا کے رہائشی علاقہ نرالہ میں واقع احمد یہ مسجد میں بم کا ایک خوفناک دھما کہ ہوا تھا.اس وقت مربی سلسلہ مکرم امدادالرحمان صاحب خطبہ جمعہ دے رہے تھے.اس دھما کہ کے نتیجہ میں دو خدام مکرم جہانگیر حسین صاحب اور مکرم نورالدین صاحب موقع پر ہی شہید ہو گئے جبکہ چار افراد نے ہسپتال پہنچ کر دم تو ڑ دیا.یہ دو اور چار چھ بنتے ہیں مگر مجھے یاد ہے انہوں نے مجھے رپورٹ پیش کی تو میرے منہ سے سات نکلا ہے کہ سات شہید ہوگئے.تو بعد کی اطلاع کے مطابق ایک صاحب بعد میں بھی زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہو گئے تو سات کا عدد اس طرح پورا ہو گیا.اب ان شہداء کے مختصر حالات میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.مکرم جہانگیر حسین صاحب ابن مکرم اکبر حسین صاحب مکرم جہانگیر حسین صاحب کی عمر پچیس سال تھی اور وہ بی کام کا امتحان دینے والے تھے.بہت نیک اور فعال داعی الی اللہ تھے.مکرم سید علی سردار صاحب مرحوم آف سندر بن کے نواسے تھے.اس ضمن میں بہت سے لوگ لکھتے ہیں کہ ان کے پسماندگان کا خیال رکھا جائے.وہ تو جس دن خبر آئی تھی اسی وقت ہم نے کہہ دیا تھا.ایک لمحہ بھی انتظار نہیں کیا اور ہدایت دی ہوئی ہے کہ پسماندگان کو ان کے شہداء کی زندگی میں جو کچھ ملتا تھا اس سے کم کسی صورت میں نہیں ملنا چاہئے اور زیادہ ضرورت ہو تو زیادہ بھی ملنا چاہئے.اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ غرباء ہیں اور اپنی زندگی میں

Page 258

ضمیمہ 234 شہداء بعد از خطبات شہداء بمشکل گزارہ کرتے تھے.جو جماعتیں اپنے شہداء کا خیال رکھتی ہیں، شہداء کی طرح وہ جماعتیں بھی ہمیشہ زندہ رہتی ہیں.اس لئے ضروری ہے، بنگلہ دیش کو پھر میں دوبارہ ہدایت کر رہا ہوں کہ ہرگز کوئی کنجوسی نہیں کرنی ، پہلے سے بہتر حالت میں ہوں اور کمزور حالت میں نہ ہوں.مکرم نورالدین صاحب مکرم نور الدین صاحب کی عمر ۳۰ سال تھی اور کھلنا جماعت کے جنرل سیکرٹری کے طور پر خدمت کر رہے تھے.ہمیشہ جماعت کی پر خلوص خدمات کی توفیق پاتے رہے.دو سال پہلے شادی ہوئی تھی.آپ تین بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑے تھے.ان کے دادا مکرم منشی سکیم الدین صاحب سندر بن جماعت کے بانیوں میں سے تھے.ان کو میں ذاتی طور پر ملا بھی ہوں اور بہت ان کی عزت کرتا تھا.مکرم اکبر حسین صاحب مکرم اکبر حسین صاحب کی عمر ۳۹ سال تھی اور انہوں نے ساڑھے تین سال پہلے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ قبول احمدیت کی سعادت حاصل کی تھی.پسماندگان میں بوڑھی والدہ کے علاوہ دو بیٹے بھی چھوڑے ہیں.شہادت سے متعلق میرے خطبات سننے کے بعد آپ نے مجھے لکھا تھا.اب یہ بات خاص طور پر میرے پیش نظر ہے اور میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ نئے احمدی تھے مگر خطبات شہادت کو سننے کے بعد مجھے لکھا کہ حضور دعا کریں مجھے بھی خدا کی راہ میں قربانی کا شرف حاصل ہو.تو اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ پر خلوص تمنا پوری کر دی..مکرم سبحان موڑل صاحب مکرم سبحان مورل صاحب کی عمر ۵۴ سال تھی اور یہ سندر بن کے رہنے والے تھے.کسی کام سے کھلنا آئے ہوئے تھے.پُر جوش داعی الی اللہ تھے.پسماندگان میں چار بیٹیاں اور : پانچ بیٹے چھوڑے ہیں.چھوٹا بیٹا عزیزم غلام رسول تحریک وقف نو میں شامل ہے.مکرم محب اللہ صاحب مکرم محبت اللہ صاحب کی عمر ۳۴ سال تھی.آپ جماعت سندر بن کے صد ر مکرم جی ایم مطیع الرحمان صاحب کے دوسرے بیٹے تھے.تین سال قبل شادی ہوئی تھی.پسماندگان میں بیوہ اور ایک

Page 259

ضمیمہ 235 شہداء بعد از خطبات شہداء بیٹی جو تحر یک وقف نو میں شامل ہے ، چھوڑے ہیں.مرحوم کھلنا جماعت کے سیکرٹری وقف نو کے علاوہ خدام الاحمدیہ کے ریجنل قائد بھی تھے.ان میں سے بہت ایسے ہیں جن کی بیوائیں بہت چھوٹی عمر کی ہیں اور بنگلہ دیش میں رشتے ناطے کی دقتیں بھی ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کثرت سے نئے احمدی ہور ہے ہیں.اس لئے جماعت کو اس طرح بھی توجہ چاہئے.پسماندگان کا یہ بھی حق ہے کہ نیک دل آدمیوں سے بیواؤں کی شادیاں ہوں جو یتیموں کا خیال رکھیں.قرآن کریم میں اس کے متعلق بہت تاکید ہے کہ جب سوسائٹی میں یتامی بنیں تو ان کی خاطر ایک سے زیادہ شادیاں بھی کرنی پڑیں تو کرو مگر یتامیٰ کا خاص طور پر انصاف کے ساتھ خیال رکھنا ضروری ہے.مکرم ڈاکٹر عبدالماجد صاحب مکرم ڈاکٹر عبدالماجد صاحب کی عمر ۴۳ سال تھی.آپ کھلنا جماعت کے زعیم انصار اللہ ، سیکرٹری تبلیغ اور سیکرٹری وصایا تھے.خود بھی پر جوش داعی الی اللہ تھے.آپ بحیثیت ڈاکٹر کھلنا میں ہی پریکٹس کرتے تھے.پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹیاں چھوڑی ہیں.مکرم ممتاز الدین احمد صاحب جو ساتویں میں کہہ رہا تھا جن کی اطلاع ملی ہے وہ مکرم ممتاز الدین احمد صاحب ہیں.آپ کھلنا کی مسجد کے موذن اور خادم تھے.اسی حادثہ میں شدید زخمی ہوئے ، ہسپتال میں زیر علاج رہے مگر جانبر نہ ہو سکے.انا للہ وانا اليه راجعون.پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے ہیں.ان میں سے ایک بچی کے علاوہ باقی سب شادی شدہ ہیں.افسوس کہ کھلنا کے ان شہداء کی نماز جنازہ غائب میں تاخیر ہو گئی.مجھے پہلے توجہ کرنی چاہئے تھی مگر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوتی ہے کسی حکمت سے یہ تاخیر ہوگئی.اب جب حضرت چھوٹی آپا کے جنازہ غائب کا خیال آیا تو پہلے ان شہداء کی طرف دماغ گیا کہ پہلے ان کا حق ہے.ان کا نام پڑھا جائے ، ان کے کوائف لکھے جائیں اور اس جمعہ میں خدا تعالیٰ نے عالمی طور پر جماعت کو دعا کی توفیق عطا کرنی تھی.ان سب کے لئے دعا کریں اس لئے اس جمعہ کے لحاظ سے آج نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ نماز جنازہ غائب بھی ہوگی.الفضل انٹر نیشنل لندن ۱۰ دسمبر ۱۹۹۹ء)

Page 260

ضمیمہ 236 شہداء بعد از خطبات شہداء مکرم ڈاکٹر شمس الحق طبیب صاحب.فیصل آباد تاریخ شہادت ۷ ارجنوری ۲۰۰۰ء ) فیصل آباد کے معروف آرتھو پیڈک سرجن مکرم ڈاکٹر شمس الحق طیب صاحب کو ا۴ سال کی عمر میں ۷ ارجنوری ۲۰۰۰ء کی رات لاہور روڈ پر انکی کار میں شہید کیا گیا.واقعات کے مطابق رات ساڑھے دس بجے ساحل ہسپتال سے ڈیوٹی سے فارغ ہو کر نکلے تو انہیں انکی کار میں ہی اغوا کرلیا گیا.لاہور روڈ پر کار میں کنپٹی پر فائر کر کے شہید کر دیا گیا.کار میں آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے.اگلے روز مسجد مبارک میں بعد نماز مغرب و عشاء حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفہ اسیح الخامس ) ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور قبرستان نمبر 1 میں تدفین کے بعد دعا بھی کروائی.ڈاکٹر شمس الحق طیب صاحب مکرم ڈاکٹر فضل الحق صاحب دارالرحمت شرقی را جیکی ربوہ سابق صدر جماعت لالیاں کے بیٹے تھے.ابتدائی تعلیم ربوہ سے مکمل کی.۱۹۷۶ء میں ایف ایس سی کرنے کے بعد پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد سے ایم بی بی ایس کیا اور بہاولپور سے سپیشلائزیشن کیا.آپ نے بہت جلد ترقی کر کے ایک ماہر آرتھو پیڈک سرجن کے طور پر اپنا نام پیدا کر لیا تھا.غریبوں کا علاج مفت کرتے.فضل عمر ہسپتال ربوہ میں بھی آکر آپریشن کئے.شہادت سے چند ماہ قبل ایک مریض کا کٹا ہوا ہا تھ جو بالکل علیحدہ ہو گیا تھا نہایت مہارت سے جوڑا جس کی اخبارات میں بھی شہرت ہوئی.مرحوم ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ مکرمہ ڈاکٹر صبیحہ جاوید صاحبہ بنت مکرم ایس ایم جاوید صاحب آف بہاولپور ہیں.اہلیہ نے گائنی میں ایم آرسی پی (MRCP) کیا ہوا ہے.پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین کم سن بچے دو بیٹے معین الحق اور منظور الحق اور ایک بیٹی سدرہ چھوڑے ہیں حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے محترم ڈاکٹر شمس الحق طیب صاحب کی شہادت پر انکے والد مکرم ڈاکٹر فضل حق صاحب کے نام مکتوب محرره ۱۹ار جنوری ۲۰۰۰ء میں تحریر فرمایا کہ: عزیزم شمس صاحب ایک قابل ڈاکٹر تھے اور جماعت کے مخلص

Page 261

ضمیمہ 237 شہداء بعد از خطبات شہداء فدائی خادم تھے ہر ایک کی خدمت کرنا ان کا شیوہ تھا.انکی یہ خوبیاں احمق دشمنوں کیلئے انگارہ بنی رہیں اور اندھی دشمنی میں ایک معصوم کی جان لیتے ہوئے اتنا بھی نہ سوچا کہ وہ تو اور بھی امر ہو گیا.اس سے انہیں حیات ابدی نصیب ہو گئی ہے.اللہ یہ اعزاز ان کے لئے اور ان کے سب پیاروں کیلئے بے حد مبارک کرے اور ہمیشہ ان سے مغفرت اور عفو کا سلوک فرمائے.میں انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.“ محترم ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ کے نام مکتوب محررہ ۱۹ جنوری ۲۰۰۰ ء میں حضور نے تحریر فرمایا: عزیزم ڈاکٹر شمس الحق طیب کی شہادت کی خبر سن کر افسوس تو ہوالیکن جو بلند مرتبہ خدا نے اپنے فضل سے انہیں عطا فرمایا ہے اور جس ابدی زندگی سے انہیں سرفراز فرمایا ہے اس پر بلاشبہ وہ ایک بے حد قابل رشک وجود بن گئے ہیں.وہ آپ کے ہی پیارے نہیں تھے ، مجھے بھی بہت عزیز تھے.ابھی پچھلے سال ہی تو وہ مجھ سے یہاں مل کر گئے تھے.ان کا وہی کھلا مسکرا تا چہرہ میری نظروں کے سامنے ہے.اللہ انہیں اعلی علیین میں جگہ دے اور اپنے قرب خاص سے نوازے.“ مکرم مولانا عبدالرحیم صاحب نواحمدی آف انڈیا ( تاریخ شہادت ۱۵ را پریل ۲۰۰۰ء) محترم مولانا عبدالرحیم صاحب نو احمدی فاضل دیو بند کو ۱۵ / اپریل ۲۰۰۰ء لدھیانہ میں مخالفین نے جامع مسجد فیلڈ گنج میں بے دردی اور سفاکی سے تشد دکر کے شہید کر دیا.اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ لدھیانہ میں مقیم ایک معلم مکرم نصر الحق صاحب کچھ ایام سے لا پتہ تھے.ان کو ڈھونڈنے کے لئے ایک وفد روانہ ہوا.معلم صاحب کے ایک دوست سے معلوم کرنے کیلئے ایک وفد احراریوں کی جامع مسجد گیا.انہیں مولوی کے حکم پر باندھ دیا گیا اور تشدد کیا گیا.ایک دوسرا وفد پہلے دوستوں کا پتہ کرنے گیا تو انہیں بھی باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر مولانا عبدالرحیم صاحب اور دوسرے ساتھیوں کو پکڑ کر رسیوں سے باندھا گیا اور تشدد شروع کر دیا گیا.

Page 262

ضمیمہ 238 شہداء بعد از خطبات شہداء مولا نا عبدالرحیم صاحب کے سر پر ایک ڈنڈے کا وار کیا گیا جس سے آپ بے ہوش ہو گئے.امام مسجد کے بیٹے نے بھی آپ پر کئی وار کئے اور دوسرے احمدیوں پر بھی تشدد کیا گیا.ایک احمدی باہر بھاگنے میں کامیاب ہو گیا اور پولیس کو اطلاع دی.چنانچہ پولیس کے ذریعہ تمام احمدیوں کو چھڑالیا گیا.محترم مولا نا عبدالرحیم صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں آپ زخموں کی تاب نہ لا کر بھمر ۴۰ سال شہید ہو گئے.۱۶ / اپریل کو آپ کی نعش قادیان لائی گئی جہاں آپ کی تدفین ہوئی.مولا نا عبدالرحیم صاحب چھوٹا کدمہ ضلع گنج بہار کے رہنے والے تھے.آپ نے ۱۹۸۰ء میں اللہ آباد بورڈ سے عربی ادب میں سند فضیلت حاصل کی.۱۹۸۱ء میں دارالعلوم مئو سے دور حدیث مکمل کیا پھر دارالعلوم دیو بند سے سند فضیلت حاصل کی.اس کے بعد بطور مدرس صوبہ بنگال میں کام کیا.۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۵ء تک ہیڈ ماسٹر اور شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے اور پھر جماعت اسلامی کے ادارہ اشاعت اسلام مالیر کوٹلہ پنجاب کی جانب سے صوبہ پنجاب ہما چل اور ہریانہ کے انچارج منتخب ہوئے.۱۹۹۸ء میں پہلی بار قادیان تحقیق کے لئے آئے اور نومبر ۱۹۹۸ء میں قادیان آ کر بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے.جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۸ء کے موقع پر حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے آپ کا ذکر خیر بھی فرمایا تھا.بیعت کے بعد زندگی وقف کر دی آپ کو نظارت دعوت الی اللہ کے تحت ہما چل و پنجاب کے تربیتی امور پر لگایا گیا اور دعوت الی اللہ میں بھی سرگرم رہے آپ کے ذریعہ ہزاروں لوگ احمدیت میں داخل ہوئے.مدرستہ المعلمین قادیان میں بطور مدرس بھی خدمت کی توفیق پائی.آپ ادب عربی بالخصوص حدیث پر عبور رکھتے تھے.منکسر المزاج، ملنسار، کم گو، صابر وشاکر ، ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے.بیعت کے بعد آپ کے اہل وعیال نے آپ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی.آپ بہت بعد میں آ کر بہت آگے نکل گئے.اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے.آمین.مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب اٹھوال.بہوڑ و چک ( تاریخ شہادت ۸/ جون ۲۰۰۰ء ) مورخہ ۸/ جون ۲۰۰۰ ء بروز جمعرات بہوڑ و چک نمبر ۸ ضلع شیخو پورہ کے ایک مخلص احمدی دوست مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب اٹھوال مخالفین کی فائرنگ سے ۷۰ سال کی عمر میں شہید

Page 263

ضمیمہ 239 شہداء بعد از خطبات شہداء ہو گئے.واقعات کے مطابق چک بہوڑو میں چند روز سے احمدیوں اور غیر از جماعت میں کشیدگی چل رہی تھی.احمدیوں کی طرف سے صلح کی کوششیں کی گئیں اور مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب اٹھوال بھی صلح کروانے کے لئے پہنچ گئے کہ مخالفین نے فائرنگ کر دی جس سے آپ شہید ہو گئے.مسلسل اڑھائی گھنٹے فائرنگ ہوتی رہی اور نعش اٹھانی مشکل ہوگئی بعد میں چند مستورات نے انکی نعش اٹھائی.فائرنگ سے چارا حمدی زخمی ہوئے.مورخہ 9 جون ۲۰۰۰ء کو چک بہوڑو میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور احمد یہ قبرستان چک بہوڑ و میں تدفین عمل میں آئی.آپ ایک مخلص احمدی تھے اور بوقت شہادت بھی صلح کروانے کیلئے گھر سے نکلے.آپ نے بیوہ مکرمہ خورشید بی بی صاحبہ کے علاوہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑ ہیں.بیٹوں کے اسماء یہ ہیں: مکرم عبدالرزاق صاحب جرمنی ، مکرم محمد نواز صاحب بیجنیم ، مکرم چوہدری اعجاز احمد صاحب جو فیصل آباد میں کاروبار کرتے ہیں اور مکرم طاہر احمد صاحب جرمنی ہیں.آپکی دو بیٹیاں مکرمہ زبیدہ ثاقب صاحبہ اہلیہ غلام سرور ثاقب صاحب اسلام آباد اور مکرمہ فریده بانو صاحبہ اہلیہ محمد عادل صاحب جرمنی ہیں.شہدائے مسجد گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ تاریخ شہادت ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۰ء) گھٹیالیاں خورد ضلع سیالکوٹ کے شرقی جانب واقع احمدیہ مسجد میں مورخہ ۳۰ را کتوبر ۲۰۰۰ء کو بوقت فجر جب لوگ ادا ئیگی نماز اور درس قرآن سننے کے بعد باہر نکلنے لگے تو بعض نا معلوم نقاب پوش دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کردی.جس کے نتیجہ میں ۵ احباب راہ مولیٰ میں قربان ہو گئے اور ۶ نمازی زخمی ہوئے.اس سانحہ کے شہداء کی نماز جنازہ مورخہ ۳۱ اکتوبر ۲۰۰۰ء کو گورنمنٹ تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں کی گراؤنڈ میں ادا کی گئی جس میں ہزاروں احباب شامل ہوئے.حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفہ اسیح الخامس) ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے جنازہ پڑھایا اور احمد یہ قبرستان گھٹیالیاں میں تدفین مکمل ہونے کے بعد دعا کروائی.مرکزی وفد کے بعض اراکین جنازه و تدفین میں شرکت کے بعد لاہور گئے اور میوہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی.اس

Page 264

ضمیمہ 240 شہداء بعد از خطبات شہداء سانحہ میں شہید ہونے والے احمدیوں کے مختصر کوائف ذیل میں دیئے جار ہے ہیں.(نوٹ:.زخمیوں کے اسماء یہ ہیں : نصیر احمد صاحب عمر ۷۰ سال ، ماسٹر محمد اسلم صاحب عمر ۶۱ سال، ندیم احمد صاحب ولد مہر محمد اسلم صاحب عمر ۲۴ سال تسنیم احمد صاحب ولد ماسٹر محمد اسلم صاحب تیم اسلم واقف نو ولد ماسٹر محمد اسلم صاحب عمر ۱۳ سال، شہباز احمد ولد غلام محمد صاحب عمر ۳۶ سال، محمد بوٹا صاحب ولد محمد یار صاحب عمر ۳۵ سال) مکرم افتخار احمد صاحب شہید مکرم افتخار احمد صاحب ولد مکرم چوہدری محمد صادق صاحب مرحوم کی عمر ۳۵ سال تھی.آپ زمیندارہ کے پیشہ سے وابستہ تھے.اپنا ٹریکٹر ٹرالی اور تھریشر رکھا ہوا تھا.ایک مخلص، فدائی احمدی اور خدام الاحمدیہ کی عاملہ کے رکن تھے.ہر کسی کی خدمت کیلئے ہر وقت تیار رہتے تھے.نمازوں میں با قاعدہ تھے اور حضور کا خطبہ بھی بڑی باقاعدگی سے سنتے.اپنوں اور غیروں میں ہر دل عزیز اور لوگوں کی مدد میں کمر بستہ رہتے تھے.پس ماندگان میں والدہ کے علاوہ بیوہ اور دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی.بڑا بیٹا وقار احمد ششم جماعت چھوٹا بیٹا وقاص احمد واقف نو پہلی جماعت اور بیٹی طیبہ کی عمر تین سال تھی.مکرم شہزاد احمد صاحب ولد محمد بشیر صاحب خوبصورت، صحت مند اور ذہین نوجوان مکرم شہزاد احمد صاحب کی عمر ۱۶ سال تھی.بڑے اچھے نمبروں میں اسی سال میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ کالج آف سائنس میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا تھا.اس نو عمری میں ہی پنجوقتہ نماز کے شوقین تھے اور دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.ہاکی ، کرکٹ، کبڈی کے بھی شوقین تھے.شہزاد احمد شہید کے ایک بڑے بھائی محمد افضل صاحب اور تین چھوڑے بھائی کامران ، بشارت احمد اور طارق محمود ہیں جبکہ دو ہمشیرگان شبانہ صاحبہ اہلیہ فرقان احمد اور فاخرہ صاحبہ ہیں.شہزاد کے والد آرمی سے ریٹائر ڈ ہیں.مکرم عطاء اللہ صاحب شہید مکرم عطاء اللہ صاحب کی عمر ۶۵ سال تھی.آپ مرید کے کوہ نور آئل ملز سے ریٹائر ہوئے تھے اور آجکل زمیندارہ کرتے تھے.پنجگانہ نماز کے عادی اور مخلص احمدی تھے.دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور جماعتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.آپ کو راہ مولیٰ میں قربان

Page 265

ضمیمہ 241 شہداء بعد از خطبات شہداء ہونے کی خواہش تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کی خواہش پوری کر دی.آپ نے شہادت کے دن پہلے مسجد میں نماز تہجد ادا کی اور پھر فجر کا انتظار کیا، درس سنا قبلہ رخ بیٹھے تھے کہ آپ پر گولیاں لگیں اور شہادت کا رتبہ پایا.پسماندگان میں اہلیہ زہرہ بیگم صاحب کے علاوہ چھ بیٹے اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑیں.بیٹوں میں خالد محمود صاحب، آصف محمود صاحب، طاہر محمود صاحب، عدنان محمود صاحب اور عمران محمود صاحب ہیں.بیٹیوں میں کوثر صاحبہ اہلیہ جاوید اقبال يحي صاحب، نسرین اختر صاحبہ اہلیہ ارشد احمد صاحب ، غزالہ صاحبہ اور راحت عطاء صاحبہ ہیں.مکرم غلام محمد صاحب شہدائے گھٹیالیاں میں سے آپ سب سے معمر بزرگ تھے.آپ نے ۶۸ سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا.زمیندارہ پیشہ سے وابستہ تھے.پنجوقتہ نمازوں کے عادی اور جماعتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور مالی قربانی میں بھی پیش پیش تھے.آپ فائرنگ کے نتیجہ میں شدید زخمی ہوئے.انہیں طبی امداد کے لئے پہلے نارووال لے جایا گیا وہاں سے لاہور لیکن لاہور ہسپتال میں پہنچنے سے پہلے ہی راہ مولیٰ میں قربان ہو گئے.آپ نے اپنی یادگار چھ بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں.ان کے اسماء یہ ہیں.محمد اقبال صاحب، ناصر احمد صاحب محمو داحمد صاحب، منظور احمد صاحب، محمد افضل صاحب، مقصود احمد صاحب، نذیراں بی بی صاحبہ مسرت بی بی صاحبہ اور نجمہ بی بی صاحبہ.مکرم عباس علی صاحب مکرم عباس علی صاحب والد مکرم فیض احمد صاحب عمر ۳۵ سال وہ دلیر جوان تھے جنہوں نے سب سے پہلے حملہ آوروں کی گن پر ہاتھ ڈال دیا اور ایک حملہ آور سے گھتم گتھا ہوئے.یہ افتخار احمد صاحب شہید کے دوست تھے اور ان کے ساتھ مل کر زمینداری اور محنت مزدوری کرتے تھے.انتہائی شریف النفس اور نمازی تھے.صحت مند اور محنتی جوان تھے.انہوں نے پسماندگان میں ایک بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا عزیزم وقاص عمر چھ سال اور بیٹی عاصمہ بعمر ۳ سال چھوڑے ہیں.

Page 266

ضمیمہ 242 شہدائے تخت ہزارہ ضلع سرگودھا ( تاریخ شہادت ۱۰ نومبر ۲۰۰۰ء) شہداء بعد از خطبات شہداء مورخه ۱۰ نومبر ۲۰۰۰ء بروز جمعتہ المبارک جماعت احمد یہ تخت ہزارہ ضلع سرگودھا کے پانچ احمدی معاندین کے تشد داور فائرنگ سے مسجد احمد یہ میں شہید ہو گئے.اس اشتعال انگیز اور پر تشدد واقعہ میں چند احمدی زخمی بھی ہوئے.اس گاؤں میں مولوی اطہر شاہ نے گذشتہ ایک عرصہ سے جماعت کے خلاف سب وشتم اور اشتعال انگیزی کا بازارگرم کر رکھا تھا.۱۰ نومبر کو عصر کے بعد اس نے اپنے غنڈوں کے ہمراہ گاؤں کی گلیوں میں احمدیوں کے گھروں کے باہر غلیظ گالیاں نکالنی شروع کیں.احمدیوں نے صبر سے کام لیا.عشاء کے وقت طے شدہ منصوبہ کے تحت چار مساجد سے اعلان ہوا اور دو اڑھائی صد افراد ڈنڈے اور کلہاڑیاں لیکر احمد یہ مسجد پہنچے.دیوار گرادی، اندر گھس گئے اور چھت پر بھی چڑھ گئے.پولیس کو واقعہ کی اطلاع کی دی گئی تھی اور اس وقت بھی چند سپاہی موجود تھے.اس پر تشدد واقعہ میں چار احمدی موقع پر ہی شہید کر دئیے گئے اور انکی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی اور لاشوں کو گھسیٹ کر چھت سے گلیوں میں پھینکا گیا.ایک نوجوان ہسپتال پہنچ کر قربان ہو گیا.یوں عشق حقیقی میں سرشار پانچ احمد یوں نے اپنے خون سے لافانی عشق کی داستان رقم کر دی.شہید ہونے والوں میں مکرم ناصر احمد صاحب امیر جماعت تخت ہزارہ، مکرم نذیر احمد صاحب رائے پوری، مکرم عارف محمود صاحب ابن مکرم نذیر احمد صاحب رائے پوری ، مکرم مبارک احمد صاحب ابن جمال دین صاحب اور مکرم مدثر احمد صاحب ابن مکرم منظور احمد صاحب شامل تھے.شدید زخمی ہونے والوں میں مکرم عبدالحمید صاحب عمر ۷۵ سال اور دو بھائی مکرم مختار احمد صاحب اور خالد احمد صاحب شامل تھے.شہدائے تخت ہزارہ کی میتیں اگلے روزا ارنومبر ۲۰۰۰ء کو عصر کے وقت ربوہ پہنچیں.مغرب و عشاء کے بعد مسجد مبارک میں محترم ملک خالد مسعود صاحب قائم مقام ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین کے بعد دعا کروائی.ربوہ اور اطراف سے آئے ہوئے ہزاروں احمدیوں نے نماز جنازہ و تدفین میں شرکت کی.شہدائے تخت ہزارہ کا مختصر تذکرہ پیش ہے:

Page 267

ضمیمہ 243 شہداء بعد از خطبات شہداء مکرم ماسٹر ناصر احمد صاحب امیر جماعت تخت ہزارہ مکرم ماسٹر ناصر احمد صاحب کی عمر ۳۸ سال تھی اور قریبی گاؤں ادھیاں شریف کے مڈل سکول میں ٹیچر تھے.گذشتہ چار سال سے امیر جماعت اور اس کے ساتھ سیکرٹری مال بھی تھے.جماعت کے کاموں میں پیش پیش اور تہجد گزار تھے.نوجوانی میں ہی شب بیدار تھے.شہادت کے روز جمعہ بھی پڑھایا.دلیر اور شریف النفس وجود تھے آپ نے خطبہ میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر قربانی کا وقت آیا تو سب سے پہلے میں قربانی دونگا.جب مشتعل ہجوم حملہ آور ہوا تو ماسٹر ناصر احمد صاحب مسجد کی چھت پر چڑھ کر پہرہ دے رہے تھے کہ بیت الذکر کی عقبی سمت سے کوئی حملہ نہ کرے.ایک مکان سے غیر از جماعت عورتوں نے ان کو کہا بھاگ جاؤ اور اپنی جان بچاؤ وہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے تو ماسٹر صاحب نے کمال جرات اور بہادری اور بے خوفی سے کہا میں ہر گز یہاں سے نہیں جاؤں گا آج ہی تو قربانی کا وقت ہے.آپ شادی شدہ تھے پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو کمسن واقفین نو بچے یادگار چھوڑے.بڑی بیٹی عطیہ ابھی عمر چھ سال، اس بچی نے ساڑھے تین سال کی عمر میں قرآن کریم ختم کرنے کا اعزاز حاصل کیا.بیٹا معروف احمد عمر چار سال.اللہ تعالیٰ ان بچوں کا خود کفیل اور حامی و ناصر ہو اور شہید مرحوم کے درجات بلند کرے.مکرم نذیر احمد صاحب رائے پوری اس سانحہ میں باپ اور بیٹا راہ مولیٰ میں قربان ہوئے یعنی نذیر احمد صاحب رائے پوری اور آپ کے بیٹے عارف محمود صاحب.محترم نذیر احمد صاحب ۶۵ سال کی عمر کے تھے اور آپ زمینداره کا کام کرتے.آپ کا دل ہر وقت مسجد میں ہی اٹکا رہتا تھا.شہادت کے روز نماز مغرب مسجد میں پڑھی پھر حضور کا خطبہ سنا پھر عشاء کی نماز ادا کی اور اس کے بعد بھی گھر جانے کی بجائے مسجد میں ہی رہے.دعوت الی اللہ کے شوقین اور بلند حو صلے اور بچوں پر شفقت کرنے والے تھے.سلسلہ کے ساتھ محبت تھی.آپ کے چار بیٹے ہیں: افضال محمود صاحب، طارق محمود صاحب، عارف محمود صاحب شہید، طاہر محمود صاحب.آپ کی بیوہ محترمہ صدیقہ بی بی صاحبہ نے صبر اور حوصلہ سے اس صدمہ کو برداشت کیا.اللہ تعالیٰ پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو اور شہید کو اعلی علیین میں جگہ دے.

Page 268

ضمیمہ 244 مکرم عارف محمود صاحب شہداء بعد از خطبات شہداء مکرم عارف محمود صاحب ابن مکرم نذیر احمد صاحب رائے پوری شہید عمر ۳۲ سال اور شادی شدہ تھے.بیت الذکر کی غربی سمت تیل کی ایجنسی کی دکان کرتے تھے.جماعت سے والہانہ محبت اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے نوجوان تھے.والدہ نے بیت الذکر سے اس کے لگاؤ کی وجہ سے مسیٹر نام رکھا ہوا تھا.بیت الذکر کی حفاظت کے لئے پیش پیش رہتے تھے.شہادت کے روز بھی انہوں نے کہا کہ میں سب سے پہلے جان دونگا چنانچہ اپنا وعدہ سچا کر دکھایا.آپ ہر وقت امیر صاحب کے ساتھ ملکر جماعت کی ترقی کے لئے کوشاں رہتے تھے اور کہتے جب بھی جماعت کو ہماری جانوں اور مالوں کی ضرورت پڑے گی ہم تیار ہونگے اور آگے نکلیں گے.عارف محمود صاحب کی اہلیہ نے بڑے حوصلہ اور صبر سے صدمہ برداشت کیا اور کہا مجھے فخر ہے کہ میں شہید کی بیوہ ہوں.شہید مرحوم سابق قائد مجلس تھے اور آجکل معتمد اور اصلاح وارشاد کا عہدہ تھا.آپ نے دو کمسن بچے یاد گار چھوڑے.بیٹا مدثر احمد عمر تین سال اور بیٹی طیبہ سر عمر دو ماہ کی تھی.اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند کرے اور پسماندگان کا حامی و ناصر ہو.آمین عزیز مبارک احمد صاحب عمر ۱۵ سال دسویں جماعت کے طالب علم اور ۱۵ سال کی عمر تھی والد کا نام جمال الدین صاحب تھا شعبہ اطفال انکے پاس تھا.جماعتی اور بیت الذکر کے کاموں میں مصروف رہنے والے نوجوان تھے.امیر صاحب کے معاون و مددگار اور مربیان سے بے حد محبت کرنے والے تھے.ہمہ وقت جماعتی کاموں کے لئے تیار رہتے.پانچ وقت کے نمازی اور مسجد کی ڈیوٹی کے لئے خود اپنے آپ کو پیش کرتے.شہادت کے روز بیت الذکر کی حفاظت کے لئے پہرہ پر مامور تھے کہ راہ مولیٰ میں قربان ہونے کی سعادت پائی.عزیز مدثر احمد صاحب عمر ۱۵ سال عزیز مدثر احمد صاحب ابن مکرم منظور احمد صاحب نویں جماعت کے طالب علم تھے اور اطفال الاحمدیہ میں شامل پر جوش خادم دین تھے.میٹرک کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ کا ارادہ تھا.تعلیم میں نمایاں نتائج حاصل کرتے آٹھویں جماعت میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی.اطفال کے

Page 269

ضمیمہ 245 شہداء بعد از خطبات شہداء پروگراموں میں بھر پور حصہ لیتے.یوم شہادت مدثر احمد نے اپنی والدہ کے ساتھ مسجد جا کر نماز مغرب پڑھی پھر خطبہ سنا، نماز عشاء پڑھی اور پھر والدہ کے ساتھ گھر آگئے.غیر از جماعت کی مسجدوں سے اعلانات سنتے ہی یہ بیت الذکر چلے گئے.بعض دوستوں نے کہا واپس چلے جاؤ لیکن مدثر نے کہا میں بیت الذکر کی حفاظت کروں گا اور واپس نہیں جاؤں گا اور اللہ کے گھر کی حفاظت میں شہید ہو گئے.شہید مرحوم نے والدین کے علاوہ تین بھائی اور دو بہنیں سوگوار چھوڑ ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ان عاشقان دین پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل کرے، انکی اولا داور ا قارب کے زخموں پر اپنی تسکین کا مرہم لگائے اور شہداء کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.آمین.مکرم چوہدری عبدالرحیم صاحب مجاہد اور انکی اہلیہ مکرمہ شریفہ شوکت صاحبہ آف ساہیوال مکرم چوہدری عبدالرحیم صاحب مجاہد اور انکی اہلیہ مکرمہ شریفہ شوکت صاحبہ کو مورخہ ۸ اور ۹ رمئی ۲۰۰۱ ء کی درمیانی رات ساہیوال انکے گھر میں بڑے ظالمانہ طور پر شہید کر دیا گیا.دونوں صحن میں سوئے ہوئے تھے انہیں وہاں سے اٹھا کر باتھ روم اور ملحقہ سٹور میں لیجا کر تشدد سے ہلاک کیا گیا.تشدد سے انکی ہڈیاں ٹوٹ گئیں.مکرم چوہدری عبدالرحیم صاحب مجاہد ۱۹۹۲ء میں محکمہ صحت سے ریٹائر ہوئے.بہت نیک اور صابر انسان تھے.ان کے اکلوتے بیٹے مکرم عبد القدیر صاحب اسیر راہ مولی ساہیوال (جامعہ رشیدیہ ساہیوال کیس ) تقریباً دس سال اللہ کی راہ میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے.اس اذیت ناک عرصہ کو دونوں میاں بیوی نے نہایت صبر اور استقامت سے برداشت کیا.دونوں میاں بیوی اسیران ساہیوال سے ملاقات اور انکی دیگر ضروریات جیل میں پہنچانے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے.مرحومه شریفه شوکت صاحبہ جماعتی اجلاسات اور جمعہ میں با قاعدہ شامل ہوتیں.دونوں کی عمرہ ۷ سال کے قریب تھیں.انکی ایک بیٹی مع بچگان والدین کے ساتھ مقیم تھی.وقوعہ کے روز انکی بیٹی ساہیوال سے باہر تھی.شہید کے بیٹے کے ایک ساتھی اسیر مکرم نثار احمد صاحب کے گھر سپاہ صحابہ تنظیم کی طرف

Page 270

ضمیمہ 246 شہداء بعد از خطبات شہداء سے دھمکی آمیز فون آتے رہے.گمان ہے کہ مخالفین نے اس دشمنی میں ہر دو کوشہید کیا ہے.مکرم پا پو حسن صاحب آف انڈونیشیا ( تاریخ شہادت ۲۲ جون ۲۰۰۱ء) مورخه ۲۲ / جون ۲۰۰۱ء کو مخالفین احمدیت کا ایک مشتعل ہجوم مغربی لامبوک (Lombok) کے شہر سمبی الین (Sambi Elen) میں واقع جماعت احمد یہ انڈونیشیا کی دو مساجد پر حملہ آور ہوا.حملہ آور چھروں اور کلہاڑیوں سے مسلح تھے.انہوں نے مساجد کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا اور احمدیوں کے 9 گھر بھی مسمار کر دیئے.مساجد کی حفاظت کیلئے ایک احمدی بزرگ مکرم پا پوحسن صاحب نے ہنگامہ کرنے والوں کی مزاحمت کی.ہجوم نے کلہاڑیوں اور چھروں سے ان پر حملہ کر دیا جس سے آپ لہولہان ہو گئے.آپ کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن زخموں کی تاب نہ لا کر آپ بعمر ۶۵ سال شہید ہو گئے.آپ کی اہلیہ محترمہ رقیہ صاحبہ اس حملہ میں شدید زخمی ہوئیں.بروقت طبی امداد ملنے سے آپ کی جان بچ گئی.مکرم پاپوحسن صاحب جماعت سمبی امین کے سیکرٹری دعوت الی اللہ تھے.آپ کو دعوت الی اللہ کا جنون کی حد تک شوق تھا.جب آپ تبلیغ میں مصروف ہوتے تو مخالفین آپ کی داڑھی کو تضحیک کا نشانہ بناتے مگر آپ ان کی پرواہ نہ کرتے اور دعوت الی اللہ میں مصروف رہتے.اس دردناک حادثہ کے بعد پولیس نے کچھ گرفتاریاں کیں.بعد میں علم ہوا کہ اس حملہ کا منصوبہ چند مولویوں نے بنایا تھا جس میں بعض پولیس اہلکار بھی شریک تھے.مکرم شیخ نذیر احمد صاحب آف فیصل آباد تاریخ شہادت ۲۸ / جولائی ۲۰۰۱ء ) فیصل آباد کے ایک مخلص بزرگ محترم شیخ نذیر احمد صاحب عمر ۷۸ سال مورخہ ۲۸ / جولائی ۲۰۰۱ء کو راہ مولیٰ میں قربان ہو گئے.صبح آٹھ بجے کے قریب آپ کی رہائش گاہ خیابان کالونی نمبر 2 (مدینہ ٹاؤن) فیصل آباد کی گھنٹی بجی.ملازم نے دروازہ کھولا اس نے کہا کسی بڑے کو بلاؤ.محترم شیخ

Page 271

ڈاکٹر شمس الحق طیب صاحب فیصل آباد شہادت ۲۰۰۰ء چوہدری نور احمد صاحب نارووال شہادت ۲۰۰۱ء نعیم احمد نسیم صاحب گولیکی شہادت ۲۰۰۱ء طاہر احمد بھٹی صاحب نارووال شہادت ۲۰۰۱ء

Page 272

ڈاکٹر رشید احمد صاحب رحیم یارخان شہادت ۲۰۰۲ء عبدالوحید صاحب فیصل آباد شہادت ۲۰۰۲ء میاں اقبال احمد صاحب راجن پور شہادت ۲۰۰۳ء

Page 273

ضمیمہ 247 شہداء بعد از خطبات شہداء صاحب دروازہ پر پہنچے تو اس نے فائرنگ کردی.فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن آپ اپنے مولی حقیقی کے پاس حاضر ہو گئے.اگلے روز پہلے بہت الفضل فیصل آباد میں جنازہ ہوا اور پھر ربوہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفہ اسیح الخامس ) ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین کے بعد دعا کروائی.آپ کے نانا اور دادا صحابی تھے.آپ نے قلعہ کالر والا میں کاروبار کا آغاز کیا اور پھر ۱۹۶۶ء میں فیصل آباد منتقل ہو گئے.یہاں ہمیں سال سیکرٹری مال رہے.آپ ہر دلعزیز شخصیت کے مالک اور دعا گو اور ہمدرد بزرگ تھے.آپ کی اولا د ایک بیٹا شیخ سلیم احمد صاحب اور پانچ بیٹیاں ہیں: مکرمہ بشری رزاق صاحبہ اہلیہ شیخ عبدالرزاق صاحب لاہور، مکرمہ نصرت صادق صاحبہ اہلیہ مکرم شیخ عبد الصادق صاحب فیصل آباد، ہمکر مہ رضیہ احمد صاحبہ اہلیہ مکرم شیخ محمد احمد صاحب کراچی، ہمکر مہ فردوس افضال صاحبہ مرحومہ اہلیہ شیخ محمد افضال صاحب لاہور، مکرمہ بلقیس اعجاز صاحب اہلیہ مکرم اعجاز احمد صاحب شاکر بدوملہی.محترم شیخ نذیر احمد صاحب کی بیوہ کا نام مکرمہ امتہ الحفیظ صاحبہ ہے.اللہ تعالیٰ شہید کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے.آمین مکرم چوہدری نوراحمد صاحب اور انکے بیٹے مکرم طاہر احمد صاحب سد و والہ نیواں ضلع نارووال تاریخ شہادت ۱۳-۱۴ ستمبر ۲۰۰۱ء) مکرم چوہدری نور احمد صاحب صدر جماعت احمدیہ سد و والہ نیواں ضلع نارووال عمر ۷۰ سال اور انکے بیٹے مکرم طاہر احمد صاحب عمر ۲۲ سال پر ۱۳ اور ۱۴ ستمبر ۲۰۰۱ء کی درمیانی رات انکے گاؤں میں نامعلوم دہشت گردوں نے فائرنگ کردی جس سے وہ راہ مولیٰ میں قربان ہو گئے.مورخہ ۱۵ ستمبر ۲۰۰۱ء کو محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر امور خارجہ کی قیادت میں ایک وفد سد و والہ نیواں پہنچا.دن ساڑھے گیارہ بجے شہداء کی نمازہ جنازہ ادا کی گئی جس میں قریبی جماعتوں سے آئے احمدی اور ۵۰۰ کے قریب غیر از جماعت شامل تھے.دو ہزار کے قریب لوگوں نے جنازہ پڑھا اور مقامی قبرستان میں تدفین ہوئی.غیر از جماعت نے بھی گواہی دی کہ انکی کسی سے دشمنی نہ تھی اور ہر شخص انکی تعریف میں رطب اللسان تھا.

Page 274

ضمیمہ 248 شہداء بعد از خطبات شہداء مکرم چوہدری نور احمد صاحب ریٹائر ڈ پٹواری تھے.۱۹۳۳ء میں اور اضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.۱۹۶۰ء میں نقل مکانی کر کے سدو والہ نیواں آگئے.یہاں ۱۹۸۶ء میں با قاعدہ جماعت کا قیام ہوا اور محترم چوہدری صاحب آغاز سے تادم آخر اس جماعت کے صدر تھے.سالہا سال تک نائب ناظم انصار اللہ ضلع نارووال بھی رہے.آپ پر جوش داعی الی اللہ نیز شرافت اور ایمانداری میں علاقے میں ممتاز تھے.آپ کے چھوٹے بیٹے طاہر احمد صاحب بھی اس واقعہ میں شہید ہوئے وہ مخلص احمدی خادم تھے اور ابھی غیر شادی شدہ تھے.چوہدری نور احمد صاحب نے بیوہ کے علاوہ ۵ بیٹے اور ایک بیٹی یادگار چھوڑی:- مکرم ممتاز احمد بھٹی صاحب ، مکرم جاوید احمد بھٹی صاحب (اس واقعہ میں زخمی ہوئے )، مکرم منور احمد بھٹی صاحب، مکرم مبشر احمد بھٹی صاحب، مکرم مظفر احمد بھٹی صاحب کا رکن حفاظت خاص ر بوه ، مکرمه شگفتہ بیگم صاحب اہلیہ مکرم مبشر احمد صاحب جبکہ ایک بیٹے طاہر احمد صاحب اس واقعہ میں شہید ہو گئے.مکرم نعیم احمد نسیم صاحب آف گولیکی گجرات ( تاریخ شہادت ۷ ارا کتوبر ۲۰۰۱ء) مکرم نعیم احمد نسیم صاحب ولد مکرم چوہدری محمد شفیع صاحب آف گولیکی ضلع گجرات کو محمد ۱۷ اکتوبر ۲۰۰۱ بعمر ۲۶ سال شہید کر دیا گیا.مرحوم ایک احمدی مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب نمبردار گولیکی ضلع گجرات کے گھر اور زمینوں کا خیال رکھتے تھے جن کی گاؤں میں دشمنی چلی آرہی تھی اور مخالفین احمدیت کا خاص نشانہ تھے.بعد میں مخالفین نے مسجد بھی سیل کروادی اور عید گاہ و قبرستان کے جھگڑے شروع کر دیئے.وقوعہ سے دو دن قبل نعیم احمد صاحب ربوہ سے اکیلے گاؤں گئے کہ مخالفین کے ہتھے چڑھ گئے.انہیں قتل کر کے مخالف نے نعش کو چوہدری مشتاق احمد صاحب کے ڈیرہ پر ایک کھرلی میں پھینک دیا.محترم امیر صاحب ضلع گجرات کا لکھنا ہے کہ مقتول کی کسی سے دشمنی نہ تھی اور مخلص گھرانے سے تعلق تھا.گولیکی میں جاری مذہبی منافرت کی آڑ میں مخالفین نے انہیں شہید کر دیا ہے.انہیں ۷اراکتو بر کو گولیکی میں دفن کیا گیا.آپ ۲۰ رمئی ۱۹۷۵ کو پیدا ہوئے ، میٹرک پاس اور ابھی غیر شادی شدہ تھے.آپ

Page 275

ضمیمہ 249 شہداء بعد از خطبات شہداء کے تین بھائی اور ایک بہن ہے.آپ کے ایک بھائی مکرم ندیم احمد وسیم صاحب مربی سلسلہ ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرئے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.مکرم غلام مصطفی محسن صاحب آف پیر محل ( تاریخ شہادت ۱۰ جنوری ۲۰۰۲ء) مکرم غلام مصطفی محسن صاحب المعروف جی.ایم محسن آف ۳۴۲گ.ب پیر محل ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ ۵۵ سال کی عمر میں مورخہ ۱۰ / جنوری ۲۰۰۲ ء کو شہید ہو گئے.واقعات کے مطابق آپ کو ۱۰ جنوری ۲۰۰۲ء کی رات آپ کے گھر میں فائرنگ کر کے شہید کیا گیا.بوقت شہادت آپ گھر میں اکیلے تھے اور فیملی بیرون شہر تھی.پیشہ کے لحاظ سے آپ اسٹام فروش تھے اور پر جوش داعی الی اللہ تھے.آپ ہر دلعزیز شخصیت کے مالک اور ہر وقت خدمت دین میں لگے رہتے اور روزنامہ الفضل کے پرچے آپ کی دکان ضلع کچہری میں موجود رہتے.زیرتبلیغ لوگوں کو اکثر و بیشتر زیارت مرکز کیلئے لایا کرتے تھے.۱۲ جنوری ۲۰۰۲ ء کو آپ کا جنازہ مسجد مبارک ربوہ میں ادا کیا گیا اور قبرستان نمبر 1 میں تدفین ہوئی.پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑیں.اکلوتا بیٹا مکرم طارق احمد محسن صاحب مربی سلسلہ ہیں بیٹیوں کے نام مکرمہ طاہرہ غزل صاحبہ اور مکر مہ حامدہ طلعت صاحبہ ہیں.مکرم مقصود احمد صاحب آف فیصل آباد ( تاریخ شہادت یکم ستمبر ۲۰۰۲ء ) ہجویری ٹاؤن (بولے دی جھگی) فیصل آباد کے ایک فرد جماعت مکرم مقصود احمد صاحب ابن مکرم نور محمد صاحب مرحوم بعمر ۳۶ سال نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے.حملہ آور صبح سواسات بجے آپ کے گھر داخل ہوئے اور آپ پر فائرنگ کر دی.آپ کو فورا الائیڈ ہسپتال لے جایا گیا جہاں آپ اپنے مولی حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.اسی روز بعد نماز عصر پہلے فیصل آباد میں نماز جنازہ ہوئی اور پھر ربوہ میں بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب

Page 276

ضمیمہ 250 شہداء بعد از خطبات شہداء (خلیفہ المسیح الخامس) ناظر اعلیٰ وامیر مقامی نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر تیار ہونے پر دعا بھی کروائی.مکرم مقصود احمد صاحب پہلے ٹیلرنگ کے پیشہ سے وابستہ تھے.لیکن بینائی کمزور ہونے کی وجہ سے یہ کام چھوڑ چکے تھے.پسماندگان میں بیوہ مکرمہ رشیدہ فوزیہ صاحبہ بنت مہر نذیر احمد صاحب زمیندار احمد نگر اور کم سن بچوں میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑیں.بچوں کے نام یہ ہیں: عزیزم وقاص احمد ، عزیزہ تہمینہ ، عزیزہ حنا اور عزیزم اسامہ.مکرم ڈاکٹر رشید احمد صاحب آف رحیم یارخان ( تاریخ شہادت ۱۵/ نومبر ۲۰۰۲ء) آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر رشید احمد صاحب سیکرٹری امور عامہ شہر وضلع رحیم یار خان مورخہ ۱۵ نومبر ۲۰۰۲ء کو ۴۸ سال کی عمر میں شہید ہو گئے.مورخہ 9 نومبر ۲۰۰۲ء کو دوپہر ایک بجے جب آپ اپنے کلینک رشید ہسپتال اپوا کلب روڈ رحیم یار خان میں موجود تھے تین مسلح نقاب پوش آپ کے دفتر میں گھس آئے اور آپ پر فائرنگ کردی.آپ کو شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان پہنچایا گیا.سات دن تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد جماعت کا یہ فدائی خادم اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گیا.آپ کی میت ربوہ لائی گئی.مورخہ ۱۶ار نومبر کو بعد نماز فجر مسجد مبارک میں حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفتہ اسیح الخامس ) ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین کے بعد آپ نے دعا کروائی.محترم ڈاکٹر صاحب ۱۹۵۴ء میں پیدا ہوئے والد کا نام مکرم بشیر احمد صراف صاحب ہے.۱۹۷۸ء میں قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور سے ایم بی بی ایس پاس کیا اور پھر ویانا یونیورسٹی آسٹریا سے آرتھو پیڈک میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا.آپ ماہر آرتھو پیڈک سرجن کے طور پر معروف تھے.آپ محنتی اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے.جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.ایک عرصہ سے سیکرٹری امور عامه رحیم یار خان شہر وضلع فرائض سرانجام دے رہے تھے.آپ نے لواحقین میں اہلیہ مکرمہ ترنم رشید صاحبہ کے علاوہ چار کمسن بیٹے : بلال احمد عمرا اسال، بختاور احمد عمر ۸ سال عمر احمد عمر ۶ سال اور ولید احمد عمر ایک سال یادگار چھوڑے.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا

Page 277

ضمیمہ فرمائے اور بچوں کا حامی و ناصر ہو.آمین.251 مکرم عبدالوحید صاحب آف فیصل آباد ( تاریخ شہادت ۲۴ نومبر ۲۰۰۲ء) شہداء بعد از خطبات شہداء مکرم عبدالوحید صاحب ابن مکرم عبدالستار صاحب سیکرٹری اصلاح وارشاد و ناظم عمومی مجلس خدام الاحمدیہ کریم نگر فیصل آباد۱۴ نومبر ۲۰۰۲ ء کو صبح ساڑھے دس بجے گوشت کی خریداری کے لئے اسلام نگر بازار گئے.وہاں ایک معاند احمدیت سید امتیاز حسین شاہ نے خنجر سے حملہ کر دیا.شہید مرحوم تقریبا نصف گھنٹہ موقع پرا کیلے تڑپتے رہے.انکے بھائی کو اطلاع ملی تو وہ الائیڈ ہسپتال لے کر گئے لیکن جاتے ہی اپنے مولیٰ حقیقی سے جاملے.انکی عمر ۳۱ سال تھی.اگلے روز مسجد اقصیٰ میں بعد نماز جمعہ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفہ اسیح الخامس) ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور تدفین کے بعد دعا بھی کروائی.آپ نے پسماندگان میں والدین، چار بھائی، تین بہنوں کے علاوہ اپنی اہلیہ ثمرہ وحید صاحبہ اور تین کم سن بیٹیاں یادگار چھوڑیں.بیٹیوں کے نام نجمہ وحید، ماریہ وحید اور مہک وحید ہیں.مکرم عبدالوحید صاحب ایک مخلص اور فدائی نوجوان تھے جماعتی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے اور جماعتی عہدے دار بھی تھے.خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار اور جماعت کے ساتھ والہانہ محبت تھی.اللہ تعالیٰ آپ کو اعلی علیین میں داخل کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.آمین.مکرم میاں اقبال احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر ضلع راجن پور تاریخ شہادت ۲۵ فروری ۲۰۰۳ء) عہد خلافت رابعہ کے آخری شہید مکرم میاں اقبال احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر ضلع راجن پور کو ۶۱ سال کی عمر میں مورخہ ۲۵ فروری ۲۰۰۳ء کو نامعلوم حملہ آوروں نے انکے گھر سے ملحقہ دفتر میں آ کر فائرنگ کر کے شہید کر دیا.۲۵ فروری رات نو بجے آپ اپنے دفتر میں کام کر رہے تھے آپ کے بھائی (غیراز جماعت ) اور بیٹی بھی پاس بیٹھی تھی.دو پگڑی پوش آدمی آئے انہوں نے میاں صاحب کی بیٹی کو کہا تم

Page 278

ضمیمہ 252 شہداء بعد از خطبات شہداء اندر چلی جاؤ اس کے اٹھتے ہی انہوں نے فائرنگ کر دی.محترم میاں اقبال صاحب موقع پر ہی شہید ہو گئے آپ کے بھائی زخمی ہوئے.۲۶ فروری دن بارہ بجے آپ کی نماز جنازہ راجن پور میں ادا کی گئی اور پھر میت ربوہ لائی گئی.۲۷ فروری کو صبح نو بجے احاطہ دفاتر صدرانجمن میں حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفتہ اسیح الخامس) ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور قبرستان میں تدفین مکمل ہونے پر دعا کروائی.محترم میاں اقبال احمد صاحب تحصیل چشتیاں ضلع بہاولنگر کے رہنے والے تھے.ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی.میٹرک کے بعد تعلیم الاسلام کالج ربوہ داخل ہوئے.۲۳ / اپریل ۱۹۶۱ء کو بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.۱۶ / مارچ ۱۹۷۰ء کو نظام وصیت میں شامل ہوئے.کئی سال پہلے دفتر میں اپنے تجہیز و تکفین کے اخراجات کی رقم جمع کروا چکے تھے.۱۹۷۱ء میں آپ نائب امیر ضلع ڈیرہ غازی خان مقرر ہوئے.۱۹۸۰ء میں جب راجن پور ضلع بنا تو آپ امیر ضلع راجن پور مقرر ہوئے.۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۲ء کے عرصہ کے علاوہ آپ تا دم آخر اس عہدہ پر فائز رہے.مجالس شوری ربوہ میں بھر پور نمائندگی کرتے اور اپنی رائے کا اظہار کرتے.آپ پر متعدد مقدمات بنائے گئے ، اسیر راہ مولیٰ بھی رہے اور جماعتی مقدمات کی پیروی کیلئے بھی خدمات بجالاتے رہے.روزنامہ الفضل میں مضامین بھی لکھا کرتے تھے.آپ ایم اے اسلامیات ( گولڈ میڈلسٹ ) اور ایل ایل بی تھے.معروف قانون دان کے علاوہ علاقے کی ہر دل عزیز شخصیت اور دیوانی مقدمات میں ضلع کے صف اول کے وکیل تھے.غرباء کی ہمدردی اور مدد کیلئے کمر بستہ رہتے.آپ کی وفات پر ڈسٹرکٹ بار را جن پور کے صدر کی جانب سے پر زور مذمت اور دوروزہ سوگ کا اعلان کیا گیا.آپ نے اپنے پسماندگان میں پہلی مرحومہ بیوی مکرمہ نعیمہ بشری صاحبہ سے ایک بیٹا سعید احمد صاحب، دو بیٹیاں نمودسحر صاحبہ اور شیریں ثمر صاحبہ ایم ایس سی سائیکالوجی جبکہ دوسری بیوی مکر مہ امتہ المجید صاحبہ سے ایک بیٹی مکر مہ امتہ النور صاحبہ بی اے اور بیٹا حمید احمد صاحب طالب علم بی اے یادگار چھوڑا.بوقت شہادت سب بچے غیر شادی شدہ تھے.اللہ تعالیٰ مرحوم کو اعلی علیین میں جگہ دے اور پسماندگان کا حامی و ناصر ہو.آمین

Page 279

اشاریہ اسماء مقامات 10......

Page 280

آسیہ بیگم آ.آسیہ سلطانہ آصف محمود آصف محمود کھوکھر آصفہ بیگم ، حضرت سیده آفتاب احمد خان آل محمد ، حاجی آمنه بی بی آمنہ بیگم آنسه طلعت ابرار احمد خان ابراہیم بن حضرت محمد ابراهیم ابن بدر دین ابراھیم کنڈا ابو العطاء جالندھری ابوبکرایوب ابو بکر طورے احسان احمد باجوہ احسان الحق علوی احسن ظهر احمد جان خان احمد شاہ سید احمد شفیع مرزا احمد علی ۱۷۹ ۱۵۱ ۲۴۱ ۱۴۱ ۲۳۰ ۱۵۱ ۸۸ ۲۱۶ 수표 ۱۷۳ ۱۵۷ ۱۵۱ ا.۷۴ ۱۱۵ ۳۵ ١٢٩،١٠٣ ۱۱۶ ۱۱۴ ۲۰۲ ۱۹۶ ۱۴۴ ۸۹،۸۶،۸۵،۶۵ ۱۲۳ هرام اسماء احمد فرقانی شیخ احمد مہدی احمد نصر الله اختر کریم بٹ ارجمند خان ارسال احمد رانا ارشد علی اسامہ بن مقصود اسرار احمد وقار اسرار احمد خان شهید اسماعیل علیہ السلام اسماعیل تراولی اشتیاق احمد اصغر علی اطہر شاہ مولوی اظہر محمود ناصر اعجاز احمد آف جہلن اعجاز احمد چوہدری بھر یا روڈ اعجاز احمد خواجہ اعجاز احمد شاکر اعجاز احمد ملک شہید اعجاز الحق ڈاکٹر افتخار احمد آف جہلن افتخار احمد شهید افتخار احمد ابرو ۳۵ ۲۱۰ ۲۰۴ ۱۲۴ ۲۰۳ ۱۶۸ ۲۵۰ ۱۵۱ ۱۵۱،۱۴۹ ۹۴ ۱۱۵ ۱۶۸ ۲۴۲ ۲۳۹ ۲۰۲ 1^2 ۱۰۵،۱۰۴ ۲۴۷ ۲۲۹،۲۲۸ IAL ۲۰۲ ۲۴۱ ،۲۴۰ ۱۷۷ افضال محمود ۲۴۳ اقبال احمد ایڈووکیٹ میاں ۲۵۱ ۲۵۲ اقبال محمود اقدس بیگ مرزا اکبر حسین اکبر حسین شهید اکبر علی ، بابو اکبر علی ، موسیٰ والا الطاف خان اللہ دتہ خطیب الی بخش امام الدین گولیگی امان اللہ خان ۲۲۰ ۱۹۲،۱۹۱ ۲۳۳ ۲۳۴ ۷۲ ۱۶۸ ۱۴۹ ۲۰۸ ۵۷ ۹۲ ۳۰ امانت بی بی ۱۶۸ امتہ الاعلی نصرت پری امة الباسط ، صاحبزادی IZA ۱۵،۷ امته الباسط بنت مرزا احمد شفیع ۸۶،۶۶ امته الحفیظ بیگم، حضرت سیدہ ۲۴۷ امتہ الحفیظ اہلیہ غلام جیلانی امة الحفيظ المیہ طارق محمود امة الحفیظ شوكت امة الحميد ۲۱۰ ۲۱۸ ۱۸۵ ۲۵۲ لته الکی اہلیہ چوہدری حمید نصر اللہ ۲۰۳ امة الحئی فضیلت امته الرحمن بیوہ مرزا احمد شفیع ۸۸،۶۶ امۃ الرشید انجم ۱۵۸

Page 281

۱۶۴ ۱۸۲ ۲۲۱ ۱۳۱ ۲۵۰ ۱۴۱ ۲۴۷ بشری عباس بشری فضیلت بشری منہاس بشری منیر بلال احمد ابن ڈاکٹر رشید احمد بلال احمد کھوکھر ۱۹۳ ۲۰۲ ۱۰۶ ۲۱۳،۲۱۲ ۱۴۵ انوار الحق انوار الحق علوی انوار الدین ڈاکٹر انور حسین ابرو شہید انیسه طیب ۱۱۳ ۱۵۷ ۲۰۰ ۱۵۱ ۱۲۵ امة الرؤف امة السلام امت الصبور امة العزيز امۃ القیوم اہلیہ عبد السلام امة القيوم بنت مرزا احمد شفیع ۸۶،۶۶ انیقہ چوہدری امة القدوس لعة الکریم سیما امتہ الکریم مبارکہ ۲۰۰ ۱۵۸ ۱۱۶ اوسون انڈونیشیا اولاد حسین ڈاکٹر اومؤانڈونیشیا امتہ المتین اہلیہ محمد افضل ظفر ۱۳۳ ۱۳۴ اونیہ انڈونیشیا امتہ المتین اہلیہ مبشر احمد چوہدری 111 ایڈوٹ انڈونیشیا امة الحجيب امة المجيد امته الحمود امة الناصر نصرت صاحبزادی امة النصیر انور امة النصر امة النور امة الوحید، سیده امة الودود امتیاز احمد ابرو امتیاز حسین شاہ امدادالرحمن بنگالی امین احمد خان امین ، مولوی انعام الحق علوی انعام الرحمن انور سکھر انوار احمد خان آف ٹوپی انوار احمد خان آف ربوه ایس ایم جاوید ۵۴ ۱۲۸ ۵۲ ۵۴ ۵۴ ۲۳۶ بلقیس اعجاز بشیر احمد ایم اے، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد اٹھوال ۱۳۰،۱۲۲،۹۵،۸۹،۶۰، ۱۹۶ بشیر احمد باجوہ ۲۱۶ بشیر احمد پھگلہ سید ۱۲۹ ۲۱۸ بشیر احمد جالندھری، حافظ برپ بشیر احمد رشید احمد سری لنکا ۲۹،۱۶ ،۱۵،۸،۷ ۱۸۶ ۲۱۸ ۲۵۲ ۲۰۵ ۱۵۱ 162 ۲۵۱ ۲۳۳ باسل احمد بختاور احمد ۱۱۲ بشیر احمد ریاض شهید ۲۵۰ بشیر احمد شیخ ایڈووکیٹ لاہور بدرالدین چوہدری شہید ام بشیر احمد شیخ سوباوه بدر دین شهید برکات احمد ، خواجہ برکت اللہ محمود، مولانا برکت بی بی برکت علی خان شهید بشارت احمد آف لندن بشارت احمد ، تبال بشارت احمد گھٹیالیاں ۷۴ ۱۵۵ ۱۰۷ ۱۹۸ ۷۹ ۹۳ ۱۶۶،۱۶۵ بشیر احمد صراف بشیر احمد طاہر بٹ بشیر احمد کھوکھر بشیر احمد گوجرانوالہ بشیر احمد ملک کنجاہی بشیر احمد ملک ۱۶۱ ۱۲۰ K24 Al ۵۶ ۱۹۵ ۲۵۰ ۱۳۹ ۲۰۸ ۱۴۶،۱۴۵ ۶۷ ۱۰۵ بشیر الدین عبید اللہ ۸۳ ۲۴۰ بشیر الدین محمود آف بنگلہ دیش ۲۲۷ ۱۹۲ ۲۰۲ ۱۸۵ ۱۵۱ ۱۵۰ بشارت الرحمن قمر بشری احمد بشری جهانگیر بشری رزاق بشری ظہیر ۹۸ ۱۹۵ ۱۹۲ ۲۴۷ ۱۹۶ بشیر الدین محمود احمد ، حضرت مرزا دیکھئے محمود احمد پاپوحسن انڈونیشیا پرویز ہود بھائی پروفیسر پیر محمد حضرت چوہدری ۲۴۶ ۲۰۶ 11.

Page 282

جلال الدین قمر مولانا جمال احمد حضرت حافظ ۶۲۶۱ حکمت عباس عوده جمال احمد شہید جمال الدین ڈاکٹر ۹۰ ۵۶،۵۵ 1+4 حکیم احمد ، حضرت سید حلمی الشافعی حماد بن عباس جمال دین ابن مولوی محمد دین ۸۴ حمدی بیگم جملی آف انڈونیشیا جمیل لطیف، صاحبزاده جنت خاتون جنود اللہ حاجی جواد رشید خان جواد علی سید جہان خان ، حضرت چوہدری جهانگیر حسین جی ایم مطبع الرحمان جے رشید احمد سری لنکا چراغ دین ۵۴ ۱۳۸ ۲۱۲ ۸۹ ،۸۸ ۱۰۵،۱۰۴ ۱۳۱ ۸۰ ۲۳۳ ۲۳۴ ۱۷۴ ۷۲ ۷۱ حمزہ ، حضرت ۲۲۷ ۴۹ ۱۱۴ ۱۶۴ ۱۶۴ ۳۸ حمید احمد ابن میاں اقبال احمد ۲۵۲ حمید احمد بھگو حمید علی ملک شهید ۲۲۱ ۶۷ حمیدہ بیگم حنا بنت مقصود حنیفاں بی بی حنیف احمد قریشی حنیف یعقوب مولوی خالد احمد آف تخت ہزارہ خالد محمود ۱۲۵،۱۲۴ ۲۵۰ ۱۴۸ ۱۸۳ ۱۳۱ ۲۴۲ ۲۴۱ ح - خ خالد مسعود، ملک خالد ہاشمی ڈاکٹر ۲۴۲ ۱۳۲ حاکم بی بی ۱۶۷ حامد ه طلعت حبیب اللہ ابو حنیفی ڈاکٹر حبیب اللہ چوہدری حبیب اللہ خان پروفیسر حسن حاجی انڈونیشیا حسن علی مونگھیری ،سید 2 : ۲۴۹ ۱۲۳ ۱۵۵ خالد سلیمان راؤ شہید خالدہ پروین بنت حبیب اللہ ۱۵۷ خالدہ پروین احمد آبا دسانگھڑ خالیداد ۱۹۳ ۱۹۲ ۵۱ ۲۲۶ حسین احمد سید حفیظ احمد آف کراچی حفیظ احمد بٹ حفیظ احمد مرزا حق نواز 1..: ۲۱۸ ۲۰۴ ۲۰۰ ۱۴۴ خان محمد خان محمد مرزا خاور ہاشمی خدا بخش یال خدا بخش ماسٹر خدیجلتتانی خدیجہ بیگم خرم شہزاد ۱۹۱ ۳۶ ۱۹۸ ۱۹۴ ۲۰۶ ۲۱۳ ۱۹۴ ۱۳۳ ۱۲۴ ٢٠٢ ۲۱۹ ۱۰۳ ۲۵۰ ۲۴۰ ۲۰۶ ۲۱۳ ۱۹۳ ۱۹۷ ۱۹۷ ۲۵۰ IZA ۵۲ ۲۳۰ ۱۴۸ ۲۵۱ ۱۹۳ ۱۴۱ ۱۵۴ ۱۳۳ ۲۱۳ ۷۲ ۷۱ ۲۴۸ ۵۱ ۲۰۶ ۱۷۹ ت.ت تاج دین، حضرت میاں تاج سلطانہ ترنم رشید تسنیم احمد تمکین بایر تنویر احمد پال تنویر کوثر توصیف احمد منور تہمینہ بنت مقصود احمد تہمینہ پروین تهیان آف انڈونیشیا ثاقب ابن عمر سلیم بٹ ثریا بیگم شمرہ وحید ثمرین قمر شمینه یاسمین ثناء اللہ ، خواجہ ثناء الہ بلتستانی ثوبیہ نورین ج - چ جابر بن عبد اللہ ، حضرت جان بی بی جاوید احمد بھٹی جائد آف انڈونیشیا جبران بابر جعفر منصور احمد

Page 283

خلیل احمد باجوہ خلیل احمد گولیکی خورشید احمد ، صاحبزادہ مرزا خوشحال خان شهید صو بیدار خواد عقیق وز داؤ د احمد، حضرت میر داؤ داحمد جان شہید در شین مسرور دلا خاں دلشاد حسین کچھی شہید دولت خان آف شب قدر دهلان آف انڈونیشیا دین محمد ، حضرت شیخ ۲۱۷ ۲۴۷ ۲۱۷ ۷۸ ،۱۴۷ ۴۳۴۲ ۱۴۵ ۱۹۷ ۲۱۱ ۲۱۴ ۵۱ ۱۷۹ ۱۹۵ ذوالفقار احمد قریشی ذوالفقار علی بھٹو 수공 ۱۷۳ ذوالفقار علی خاں گوہر، حضرت ۱۰۰ رابعہ بشری رز راحت عطا راڈن صالح انڈونیشیا را شده پروین را شده ظهیر رجب علی رحیم بخش، حضرت مولوی ۱۳۴ ۲۴۱ ۵۱ ۱۹۱ ١٩٦ ۱۸۲ ۱۹۸ ۱۹۴ ۱۲۸ رخسانہ طارق رستم رستم خان خٹک مردان ۱۳۶،۱۳۵، ۱۳۷ رسول بیگم رشید احمد والد ڈاکٹر مظفر احمد رشید احمد اختر رشید احمد خان رشید احمد خان ڈاکٹر رشید احمد ڈاکٹر شہید رشید احمد ڈاکٹر رشید اختر رشیده بیگم شهید ۱۵۰ KA ۱۱۷ ۱۴۵ ۲۱۴ ۲۵۰ ۱۶۵ ۹۳ ۱۷۰،۱۶۸ رو بین خلیل روبینہ ہاشمی روشن الدین ۱۵۹ ۲۰۶ ۱۴۵ ریاض احمد رانا لاہور ریاض احمد چوہدری شہید شب قدر ریاض احمد ناصر ابرو ۲۱۴۲۱۳ 122 ریحانه ۲۰۸ ریحانہ عنبر رشیدہ بیگم بیوه محمود احمد اٹھوال ۱۹۱ زبیدہ ثاقب رشیدہ بیگم والده محمد ایوب اعظم ۲۲۱ زبیر احمد خان رشیده فوزیه رضوان احمد رضوان عبد اللہ سید رضوان احمد قادر رضیہ رضیہ احمد رضیہ بیگم رضیه تسنیم رضاء الکریم بنگلہ دیش رفاقت حسین رفیع احمد قریشی سکھر رفیعہ بیگم رفیق احمد ثاقب رفیق احمد ، سردار رقیہ اہلیہ یا یوحسن رقیه بشری رقیه بیگم رمیز الدین بنگلہ دیش روبینہ پروین ۲۵۰ ۲۱۶ ۱۳۰ ۱۸۴ ۱۶۸ ۲۴۷ ۱۷۶ ۲۲۷ ۲۲۹ ۱۸۳ ۲۱۱ = ۱۹۸ ،۱۹۷ ۱۶۴ ۲۴۶ ۱۳۸ ۲۲۷ ۱۹۱ زرتشت منیر احمد زمان شاه ۲۱۹ ۲۳۹ ۱۵۱ ۱۰۵ ۲۱۸ زوار محمد جمن کھچی ۲۱۱ زہرہ بی بی شہید زہرہ بیگم ۲۴۱ سیش ساجدہ اہلیہ عبد الواسع IAZ ساره بنت مبارک احمد ساقی 11+ ساره آپا اہلیہ کرنل صادق ملک ۱۸۵ ساره بیگم حضرت سیدہ ساره ظفر سائرہ احمد سائری آف انڈونیشیا ۲۳۴ 국으 ۱۶۳ ۱۳۴ ۱۱۲ ۵۱ سبحان مورل شهید سخی منگ شهید سراج بی بی سراج دین، حضرت میاں سردار احمد ۱۴۸ ۲۱۹ ۱۶۵

Page 284

سرمان آف انڈونیشیا سرور شاہ ، حضرت سید محمد سطوت جہاں سعادت حیات سعد الدین مولوی سعدیہ بنت محمد شفیق قیصر سعدیہ مہدی ۵۴ ۱۲۰ Λ ۱۴۴ ۱۰۵ ۹۶ ۲۱۰ ۱۹۰ سوما، انڈونیشیا سهروی انڈونیشیا سہیل احمد سید سهیل مبارک شرما سیف اللہ شاہ شاہ محمد مولوی شاہنواز چوہدری شبانہ اہلیہ فرقان احمد شریف دوتسا شہید شریفاں بی بی ہارون آباد سعید احمد ابن میاں اقبال احمد ۲۵۲ شبنم نواز سعید احمد خان سعیدہ اشرف سعیده افضل سقراط بابر سکیم الدین منشی سلطان احمد، حضرت سید سلطان اکبر پروفیسر سلطان سرور خان الحاج سلطان عالم پیر سلطان علی چوہدری سلطان محمد خان جمعدار سلملی اہلیہ سید محمود عالم شہید سلمی رحمن سلمی ندرت سلیم احمد بھنگیو سلیم احمد پال شہید سلیم احمد شیخ سلیمہ بی بی سنوسی حاجی انڈونیشیا سوار خان جنرل سورا انڈر ونیشیا ۱۴۵،۱۴۴ ۲۰۲ ۱۴۰ ۲۰۶ ۲۳۴ ۴۹ ۷۹ ۱۵۱ ۱۸۱ ۶۳ ۲۱۰ ۱۸۲ ۲۲۳ ۲۱۱ ۲۴۷ ۲۱۱ ۵۲ ۲۲۸ ۵۱ ۵۴ ۵۲ ۱۲۸ ،۱۲۷ ۲۱۵ ۱۷۸ ۱۸۱ ۱۶۷ ۲۴۰ ۱۴۵ ۵۲ ۱۶۸ شیریں ثمر شیر غازی شیر ولی کیپٹن شیلا آف لندن صیض صابرہ بیگم صادق حسین سید صادقہ بیگم واہ کینٹ صالح محمد الہ دین ، ڈاکٹر صالحہ اشرف ۲۵۲ ۷۵،۶۱ ۸۶،۶۶ ۱۹۵ ۶۳ ۱۹۵ 1..۲۰۲ شریفاں بی بی بنت چوہدری فقیر محمد ۱۲۳ صائمہ بنت حافظ عبدالحفیظ شریفہ بیگم شریفه شوکت ساہیوال شفقت حیات شگفته بیگم شمائله تسنیم شهره سفیر شمس الحق ،سید ۲۱۷ ،۲۱۶ ۲۴۵ ۱۴۴ ۱۴۳ ۲۴۸ ۲۱۱ ۶۳ ۱۹۲ صبیحہ جاوید صدیقہ بی بی ۹۷ ۲۳۶ ۲۴۳ صدیقہ بیگم بیوہ چوہدری حبیب اللہ ۱۵۷ صدیقہ بیگم آف حیدر آباد صفدر ندر حسین واجد صفیہ صفیہ صدیقہ شمس الحق طیب ڈاکٹر ۲۳۶، ۲۳۷ ضیاء الدین ڈاکٹر شمس النساء بیگم شمیم احمد شمیم اختر شوکت حیات شوکت گوہر شهر شہباز احمد شہزاد احمد آف جهلن شہزاد احمد شهید شہلا ظفر اللہ شیبار شید 1+9 ۱۷۳ ۱۳۸ ۱۴۳ {E : 1.۲۴۰ ۲۰۲ ۲۴۰ ۱۸۴ ۲۲۸ ضیاء الدین ارشد ضیاء اللہ مبشر b-b طارق آف مردان طارق بن ابراہیم طارق احمد طارق احمد محسن طارق حیدر طارق محمود ۱۹۵ ۱۶۸ ۱۴۲ ۱۰۵ ۱۲۴ ۱۵۷ ۱۹۴ ۱۸۸ ۱۸۷ ۲۴۹ ۹۶ ۲۴۳

Page 285

طاہر احمد ،مرزا.حضرت خلیفہ مسیح ، الرابع ۲۳۳،۲۳۲،۲۳۰،۱۲۲،۱۷ عارف محمود شہید ۲۴۲ ۲۴۳ ۲۴۴ عبدالرب انور محمود خاں ۱۶۸ 1++ عاشق حسین ، قاری ۲۳۸،۲۳۶ عاصمہ بنت عباس علی شہید ۲۴ عبد الرحمن شهید کابل حضرت مولوی ۳۲۲۶ عبد الرحمن شهید فرقان فورس ۸۲ طاہر احمد آف جرمنی طاہر احمد ابن محمد اشرف طاہر احمد ، ڈاکٹر طاہر احمد اٹھوال طاہر احمد شہید طاہر بیگ ۲۳۹ عالم پیر آف لندن ٢٠٢ عالم بی بی ۷۲ ۷۱ طاہر محمود آف گھٹیالیاں طاہر محمود آف تخت ہزارہ طاہرہ پروین طاہرہ شاہ طاہرہ ظفر طاہرہ عینی طاہرہ غزل طاہرہ قادر طاہرہ ماجد طاہرہ مومن طاہرہ ونڈرمین طیبه افتخار طیبہ سحر طیبہ سعید 1^2 ۱۹۱ ۲۴۸ ،۲۴۷ ۱۹۲ ۲۴۱ ۲۴۳ ۱۹۱ ۱۱۶ ۱۳۴ ۱۱۲ ۲۴۹ ۱۸۴ ۱۴۱ ۱۹۴ ۲۰۶ ۲۴۰ ۲۴۴ ۱۴۱ عامر محمود، ڈاکٹر عامرہ عباس عائشه بی بی ۱۸۰ ۱۶۴ ۱۶۸ عبد الرحمن شہید قادیان ۷۶،۷۵ عبدالرحمن با جوه شهید عبد الرحمن بنگالی ۲۱۰ ۹۸ ،۹۷ عبدالرحمن ڈار ، خواجہ عبد الرحمن سماٹری ۱۲۶ ۱۲۸ عائشہ بیگم ۱۲۶ عباس بن عبد القادر عباس علی شہید عبدالاحد کمیداں عبد الاول خان مربی سلسله عبد الباسط بالینڈ ۱۶۳ ۲۴۱ ۲۳ ۲۲۷ ۱۲۵ عبدالبصير ۲۰۰ عبدالجبار شہید عبد الحق شهید عبدالحق نور مولوی عبدالحفیظ ملک مبلغ منجی عبدالحلیم عبدالحکیم ابڑو ماسٹر عبدالحلیم مولوی عبد الحلیم جدران طینت سیدہ امیہ سید جواد علی ۱۳۱ ظاہر احمد ۱۰۵،۱۰۴ ۲۱۳ ۲۱۲ عبدالحمید تخت ہزارہ عبدالحمید عبدالحمید چوہدری ۶۷۶۶ ۷۰،۶۸ ۱۳۹،۱۳۸ ۹۶ ۵۶ ۱۷۶ ۳۳ ۱۹۹ ۲۴۲ ۱۰۴ عبد الرحیم چوہدری موسیٰ والا عبدالرحیم آف جہلم عبدالرزاق عبد الرزاق ٹھیکیدار عبد الرحمن قریشی سکھر ۱۸۳،۱۸۲ عبدالرحیم شہید ، مولانا ۲۳۷، ۲۳۸ عبد الرحیم شهید بنگلہ دیش ۱۲۷، ۱۲۸ عبد الرحیم مجاہد شہید ۲۴۵ ۱۶۷ 11+ عبدالرزاق شہید عبد الرزاق شہید چوہدری آف بھر یا روڈ ۱۸۶ عبدالرزاق شیخ ۲۳۹ ۶۷۶۶ ۸۰ عبدالرشید شرما عبدالرشید شریف عبدالرفیق جدران عبدالرؤف ابر و مولوی عبدالرؤف سیالکوٹی عبد السلام آف مردان ۲۴۷ ۲۱۸،۲۱۵ ۲۲۷ ،۱۲۹ ١٩٩ ۲۱۲ ۶۱ ۸۶ آف محراب پور عبدالحمید آف کنری ظہور احمد ابرو ظہور حسین بخارا، مولانا ع غ عبدالحمید کرنل عارف اللہ حافظ ۱۷۰ ۱۸۷،۱۸۱ ۱۶۵ ۱۳۸،۱۳۷،۱۳۶ عبد السلام پنڈت عبد السميع جدران عبدالسمیع ابڑو عبد الستار رانا عبدالحی سید ( ناظر اشاعت ) ۱۳۳٬۹۹ عبدالستار والد عبد الوحید = ✓ ۱۳۸ ۱۲۵،۱۲۴ ۱۹۹ IZA ۲۰۳،۲۰۲ ۲۵۱

Page 286

عبد الستار موسی والا ۱۶۸ عبد الشكور ۲۰۰ عبد الماجد عبدالشکور منشاء عبد الصادق شیخ عبد العزيز عبدالعزیز بھا میری ۱۹۱ ۲۴۷ ۲۲۶ ۲۰۹ عبدالماجد ڈاکٹر عبدالمالک آدجے غانا ۲۳۸ ،۲۳۹ ۲۰۰ ۲۳۵ 1+9 عطاء القيوم عطاء المنعم عطاء اللہ شہید لمنو عطية الحجيب عبد المالک خان ، مولانا ۱۰۰،۹۸ عطیة التی ۱۴۸ ۲۴۰ ۱۳۴ ۹۷ ۲۴۳ عبدالمجید خان عبدالعزیز ماسٹر شہید ۶۷ عبدالمجید شهید عبد الغفار عبدالغفار با بوشهید ۶۱ ۱۹۴ عبدالمجید ایم.اے ۷۴ ۷۳ ۲۲۶ ۱۲۹ عطية المنعم عبدالمجید لدھیانوی، عبدالغفور شهید حوالدار ۵۷ حضرت شہزادہ عبدالغفور مولوی آف مانسهره ۴۲ عبد المغنی عبدالغفور مولوی ختم نبوت عبد القادر آف کھارا ۱۶۳ ۶۱ عبدالمنان دہلوی صوبیدار عبدالمومن جدران ڈاکٹر عبدالقادر، پروفیسر سید ۱۶۳، ۱۸۷ عبدالوحید شهید عبد القادر چینی ڈاکٹر ۱۸۴ عبدالوہاب حافظ عبدالقدوس جدران ڈاکٹر ۲۰۰،۱۹۸ عبدالوہاب بلتستانی حافظ ۱۳۳،۱۳۲ علی محمد چوہدری ۸۷،۸۶ ۱۰۴ ۶۱ ۱۹۴ ۲۵۱ ۹۷ عطیہ سلطانہ عظمت حیات ۱۳۴ ۱۹۳ ۱۴۴ عظیم احمد ولد پنڈت عبد الله ۱۲۵،۱۲۴ عقیل بن عبد القادر ڈاکٹر ۱۶۴، ۱۸۷ علم دین شهید علم دین منشی کرنل علم الدین شہید میاں علی حیدر اپل علی محمد صوفی ۳۹ ۱۷۴ บ ۱۱۲ عبد القدوس مردان عبد القدیر جدران ، ڈاکٹر ۲۰۰،۱۹۸ ۱۳۶ عبدالقدیر اسیر ساہیوال عبد القيوم ۲۴۵ ۲۰۰ عبدالکبیر بٹ عبدالکریم نلکا ساز عبدالکریم با بو پونچھ عبد الله عبداللہ بٹ عبد اللہ پنڈت ۱۵۴ ۲۲۶ ۱۲۵ ۱۶۹۱۶۸ ۲۹۹ ۱۲۵،۱۲۴ عبدالہادی حکیم سید ۱۹۲ علی سردار عبید اللہ ، حافظ مبلغ ماریش ۸۳٬۸۲ علیم الدین چوہدری حقیق احمد با جوه شهید عقیق الرحمن عثمان احمد اٹھوال ۲۱۷ ،۲۱۶ ۱۷۶ 191 عمار بن عباس عمر احمد عمر ابو بکر آفندی عثمان غنی شهید بنگلہ دیش ۱۲۷، ۱۲۸ عمر بن خطاب ، حضرت عدالت خان راجہ عدالت خان آف خوشاب عدنان محمود عدیل منور اللطيف شہید کابل، حضرت عذرا پروین صاحبزاده سید ۱۳،۱۰ تا ۳۲،۲۹،۲۷ عزت احمد عصمت اللہ ۲۱۴،۱۵۹،۴۸ عبداللطیف اٹھوال شہید، چوہدری عطاء الہی منصور ۸۹ ،۸۸ ۱۲۱ ۲۴۱ ۱۹۷ ۱۹۱ ۲۱۹ ۲۱۶ عمر الدین ، حضرت شیخ عمر دین افریقی ، ڈاکٹر عمر سلیم بٹ عمران محمود عنایت اللہ عنایت اللہ ملک عون بن عقیل عیسی علیہ السلام، حضرت ۱۲۰ ۱۲۳ ۲۳۳ ۱۳۱ ۱۶۴ ۲۵۰ ۱۳۰ ۳۸ ۲۲۱ ۲۳۰،۲۲۹ ۲۴۱ ۲۱۶ ۲۲۸ ۱۸۸ ۱۲۵

Page 287

۱۴۵ ۱۶۱ ۲۱۷ ۲۱۰ ۲۳۹ ۸۶،۶۶ ۶۱ ۱۸۶ ۱۲۳ ۱۱۶ ۳۹ ۱۲۴ ۱۲۴ 11.۱۴۴ 616 غزالہ غزالہ بشیر غزاله بیگم غزالہ نصرت غزن خان غضنفر احمد ۲۴۱ ۲۰۸ ۲۱۹ ۲۱۹ ۱۴۸ ۱۷۹ غلام فرید حضرت ملک غلام قادر شہید، صاحبزادہ مرزا ۶۷ فرزانہ منیب فرمان علی شیخ به ۱ تا ۲۶،۱۶،۱۵،۱۳،۱۱، ۴۷ فریداحمد باجوہ غلام قادر سیالکوٹی ہمستری ۷۰،۶۹ فرید مهدی غلام قادر مرز ابر اور حضرت مسیح موعود ۱۶ فریده بانو غلام قادر آف گوجرانواله ۱۴۷ غلام احمد قادیانی علیہ السلام، حضرت غلام قادر آف تنگیری، حضرت چوہدری ۲۰۳ مرزا.سیح موعود و مہدی معہود فضل آف لندن فضل احمد آف قادیان غلام مجتبی ، حضرت قاری ۱۸۵،۱۸۴ فضل الرحمن انور ۶،۵،۳، ۷، ۱۱،۱۰، ۱۴ تا ۱۸، ۲۲ ، ۲۴ ، غلام محمد باستانی ،۷۹،۶۳،۵۰،۴۹ ،۴۲،۴۱ ،۳۵ ،۲۶ ، ۱۱۵ ،۱۱۰،۱۰۷ ،۹۳ ،۹۱،۹۰،۸۳٬۸۰ ۱۴۲ ،۱۴۱ ،۱۳۸ ،۱۲۹ ،۱۲۶ ۱۲۲ ۱۸۲،۱۷۹،۱۷۴۱۷۱ ، ۱۶۱ ، ۱۵۱ ،۱۴۳ ۲۲۳،۲۲۱،۲۱۹ ،۱۹۸ ،۱۹۷ ، ۱۸۷ غلام محمد جو ۱۳۳،۱۳۲ ۱۷۲ فضل الہی فضل الهی قمر غلام محمد شہید قادیان ۷۰،۶۹،۶۸ فضل الہی مولوی غلام محمد شہید گھٹیالیاں غلام محمد ماسٹر شہید اوکاڑہ غلام مصطفی محسن غلام احمد بدو ملهوی، حضرت مولوی ۱۴۵ غلام نبی بلانوی، خواجه ۲۴۱ ۴۱،۳۹ ۲۴۹ ۷۲ فضل حق ڈاکٹر فضل حسین بوٹوں والے فضل داد چوہدری فضل دین چوہدری فضل دین حکیم ۱۴۸ ،۱۴۷ ۲۱۴ ۴۸ อง 129 ۱۸۳ ۹۱ ۲۰۹ ۱۲۳ ۱۲۲ ۲۱۹ ۲۲۸ ۲۰۲ ۱۵۱ فضل دین گوجرانوالہ فضل ربی ملاں فضل کریم فضل کریم بھیروی فضل محمد شیخ فضلیت بیگم فقیر علی، حضرت بابو فقیر علی فقیر محمد چوہدری و نجواں فوزیہ بیگم فوزیه رشید فہمیدہ بیگم آف ٹوپی فہمیدہ بیگم آف دوڑ فهمیده تاز ۲۴۰ ۲۲۰ ۱۹۱ ۱۸۴ ۱۹۸ : غلام بی بی غلام جیلانی با جوه ۱۲۳ غلام یسین شہید ،میاں ۲۱۰ غلام حسین فـق ܩܪܙ غلام حسین گلگت غلام حسین ایا ز مولانا غلام حیدر بھگیو ۱۵۴ ۹۴ ،۹۳ ۲۲۳ فاخرہ آف گھٹیالیاں فاخرہ بیگم فاروق احمد غلام رسول وزیر آبادی، حضرت حافظ ۸۲ فائزه رحمان فتح بی بی فرحت اہلیہ ڈاکٹر صالح محمد الہ دین ۱۵۰ ۱۵۱ ۲۴۷ ۱۶۸ ١٩٦ ۱۲۰ فرحت حسین فرخنده ناز فردوس افضال فرزند علی آف موسیٰ والا فرزند علی چوہدری فرزند علی خان ، مولانا غلام رسول چوہدری ٹھیکیدار ۱۲۹ غلام رسول ابن سبحان مورل ۲۳۴ غلام رسول سیالکوٹی غلام سرور خان آف ٹوپی غلام سرور شہید غلام ظہیر احمد سوہاوہ غلام علی غلام فاطمه بی بی ۶۱ ۱۴۹ ۱۵۱ ۱۹۵ ۲۲۲ ١٩٩

Page 288

لطف الرحمن لطیف احمد قریشی ، ڈاکٹر لطیف احمد نذیر لقمان احمد لقمان احمد اٹھوال لقمان احمد طاہر مارتا وی آف انڈونیشیا ماریہ وحید ۱۸۴ ۹۳ ۱۹۱ ۱۸۱ ۵۲ ۲۵۱ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ،۴۰،۳۹ ،۳۸ ،۳۲،۲۶ ،۱۵ ،۱۰ ، ۴ ،۲ ۱۸۰،۱۳۹،۱۳۴،۱۰۳ ،۱۰۲،۸۲،۷۸ ۲۰۵ محمد جی ، ڈاکٹرسید محمد ابراہیم جہلمی ، حضرت میاں ۱۶۱ محمد ابراہیم بی چی ، الحاج محمد ابراہیم شاد محمد احمد اموسا مینسا محمد احمد ابر و مولوی مبارک احمد آف تخت ہزارہ ۲۴۲ ۲۴۴۰ مبارک احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا ۷۸ محمد احمد خان شہید مبارک احمد بھٹی مبارک احمد خان مبارک احمد ساقی مبارک احمد شرما مبارک احمد قریشی مبارک احمد نجیب مبارک احمد نذیر مبارک اعظم مبارکه بیگم مبارکہ بیگم اہلیہ قریشی محمد افضل ۹۴ ۱۶۱ 11.۲۱۹،۲۱۵ 112 ΔΙ ۹۳ ۱۴۵ ۲۳۰،۲۲۹ ۱۹۵ محمد احمد شیخ محمد احمد نعیم مربی سلسله محمد احسن محمد احسن ایل محمد احسن با جوه محمد احسن قریشی محمد ارشد اقبال محمد اسلم قریشی شهید محمد اسلم ماسٹر محمد اسلم مانگٹ شہید 1.6 ۲۲۱،۱۴۸ 1+9 ۲۱۲ ۴۳ ۲۴۷ ۹۷ ۱۸۲ ۱۱۳ ۱۱۳ ۱۰۸ ۲۲۰ ۱۰۸ ۲۴۰ ۸۰ مبشر احمد چوہدری مربی سلسلہ محمد اسلم ضیاء ایڈیشنل سیشن جج ۱۸۴ محمد اسلم قاضی ۳۶ ۱۴۷ 1 3 ۱۴۸ ۱۳۱ ۱۶۱ ١٠٦ ۷۴ ۹۰،۶۶ ۹۶ محمد الحق ، حضرت میر محمد اسحاق ساجد محمد اسحاق ساقی محمد اسحاق سیٹھی محمد اسد اللہ کا شمیری محمد اسماعیل شہید محمد اسماعیل ، حضرت میر محمد اسماعیل دیا لگڑھی ۲۴۸ ۲۰۱،۲۰۰ ۱۱۳ 4 ۱۴۴ ۱۹۲ ۲۳۴ ۶۳ ۱۶۲ مبشر احمد بھٹی مبشر احمد ناگنڈ مبشر احمد باجوہ مجید احمد ، صاحبزادہ مرزا مجید احمد قریشی مجیدہ بیگم محب اللہ شہید محبوب عالم بہاری شهید سید محبوب احمد سیٹھی ΙΔΙ ۱۶۴ ۲۴۱ ۴۷ ۶۷۶۶ ۲۰۹ 77 ۱۳۲ = لا ۲۴۰ ۱۹۲ ۲۴۰ Δ ۱۱۵ ۹۳ Σ ۹۶ ۵۶ ۲۱۱ ۲۰۸ ۲۱۸ ۲۱۳ ۲۱۹ ۱۴۸ ۷۴ ۲۱۱ فیروز پدر فیض احمد فیض احمد فیض فیض محمد شهید فیضیه مهدی قدسیہ بیگم صاحبزادی قدسیہ خالد ہاشمی قدسیه مسعود قرة العین قسیم اسلم قمر الحق سید سکھر ک مگ کامران آف گھٹیالیاں کرشن احمد کرم الہی ظفر، مولانا کریم احمد نذیر کریم بخش کریم بیگ مرزا شهید کلیم احمد پال کلیم احمد قاضی کمال الدین کمال الدین چوہدری کمال دین، میاں کوثر پروین گلاب بی بی شہید گلشن نورین لبنی طاہر لم

Page 289

محمد سرور ملک محمد سعید جان صاحبزادہ 122 ۴۸ >> محمد سعید الحاج ڈاکٹر ۲۲۸ محمد شاہ محمد شاہ ، حضرت سید محمد شریف محمد شریف قاضی محمد شریف خان، پروفیسر ۱۴۹ ۲۰۵ ۷۲ ۳۶ ۱۲۴ محمد شریف ، مولانا چوہدری ۱۲۹، ۲۲۷ محمد شفیق قیصر محمد شفیع مرزا ۹۵ ۶۶،۶۵ محمد شفیع شہید محمد شفیع چوہدری محمد شفیع ملک محمد صادق شهید چٹھہ داد محمد صادق منشی ۲۴۸ ۱۷۲۱۷۱ ۱۷۰ ۲۱۶ ۹۵ محمد صادق چوہدری ۲۴۰ محمد صدیق ،مولانا چوہدری محمد صدیق چوہدری شہید محمد ضیاء الحق جنرل ۱۳۱ ۱۶۷ ۲۲۸ محمد ظفر اللہ خان حضرت چوہدری ۲۰۳ ۶۷ ۱۲۶ ۹۴ ۴۸ ۱۱۲ ۱۰۳ ۱۶۰،۱۵۹ ۱۱۲ محمد عبد اللہ آف کشمیر محمد عبد اللہ پنڈت محمد عبد الله لون آف آسنور محمد علی چوہدری محمد عمر جان، صاحبزاده محمد عیسی چوہدری محمد عیسی پرویز محمد فخر الدین بھٹی محمد کمال الدین آیو دیجی الله 161.12.۱۲۹ ۲۲۱ ۲۴۰ 121 ۲۴۰ ۱۹۸ ۲۲۰ ۱۷۴ ۱۲۴ ۱۰۸ ۵۴۵۳ ۶۲ ۱۴۳ ۴۹ ۴۹ ۸۳ ۲۰۹ = 7 ۱۳۹ ۸۸۸۷ ۷۲ ۷۱ ۱۴۶ ۲۰۴ ۲۲۳ ۱۶۲ ۱۷۲ ۱۱۲ 171 محمد اسماعیل آف و نجوان ۱۲۳،۱۲۲ محمد انور اپل محمد اسماعیل مولوی محمد اشرف شهید جملن محمد اشرف ضیاء محمد اشرف شہید جمعدار محمد اشرف اوکاڑہ محمدا شرف کھوکھر شہید محمد افضال شیخ محمد افضل گھٹیالیاں محمد فضل اہل ۱۳۸ ۲۱۶،۲۰۲ ۸۲ ۶۱۶۰ ۳۹ ۱۴۰ ۲۴۷ ۲۴۱ ،۲۴۰ ۱۱۳ محمد انور ملک محمد ایوب آف انڈونیشیا محمد ایوب اعظم محمد بشیر محمد بوٹا ملک صحابی محمد بوٹا محمد بخش محمد جری اللہ مظفر محمد افضل ظفر محمد افضل کھوکھر شہید ۱۳۴،۱۳۳ محمد جمال الدین محمد حفیظ خان ڈاکٹر محمد افضل مانگٹ محمد افضل منهاس محمد اقبال قادیان محمد اقبال گوجرانوالہ محمد اقبال گھٹیالیاں محمد اقبال لاہور محمد اکرم حافظ محمد ا کرم شہید محمد اکرم خواجہ محمد اکبر اقبال شهید محمد اکمل قریشی محمد الیاس ایڈیشنل سیشن جج محمد الیاس عارف محمد الیاس مولوی محمد امین خان محمد امین بٹ محمد انور محمد انور ابڑو ۱۴۱ ،۱۴۰ ۸۰ ۲۲۱ ۶۱ محمد حسین حافظ محمد حسین شہید چوہدری محمد حسین چوہدری کلرک =☑ محمد حیات خان ہیم ۱۴۶ ۲۴۱ ۱۵۷ ۱۶۷ ۵۳ ۱۰۵ ۲۱۹ ۱۰۹ ۱۸۰ ۱۴۸ ۵۳ ۸۶ ۲۰۴ ۱۴۶ ۲۱۲ محمد خان شهید محمد خان سردار محمد دین ، الحاج مولوی محمد دین ملک ساہیوال محمد دین بٹ محمد ذبیح محمد رفیق کا شغر محمد رمضان شہید کھارا محمد رمضان گوجرانوالہ محمد رمضان بٹ محمد رمضان، حضرت اخوند محمد رمضان چوہدری محمد رمضان ، ملک سانگلہ ہل محمد رمضان، میاں محمد زمان خان

Page 290

محمد لطیف قیصر محمد مظفر با جوه مقل محمد مع محمد معین خان محمد منیر جسٹس محمد منیر شامی محمد موسیٰ ، مولوی سید محمد منور محمد میشا نو محمد ناصر حافظ محمد نواز محمد نصیر قریشی ۱۷۲ ۱۱۳ ۱۴،۸ ۱۲۴ ۵۵ ۱۲۴۱۲۳ ۲۲۶ IAZ 1.6 ۱۸۲ ۲۳۹ 1.1 ۱۶۸ ۱۰۳ محمود احمد اٹھوال پنوں عاقل ۱۸۸ تا ۱۹۰ مسلم بن عقیل ۱۸۸،۱۶۴ محمود احمد چوہدری عرضی نولیس ۱۳۳ صیح احمد مرزا 1111ܬ محمود احمد چوہدری محمود احمد خان محمود احمد سید ۱۴۱ ۱۶۱ ۱۵۸،۱۵۷ مشتاق احمد چوہدری مشتاق احمد آف مردان مشتاق احمد چک سکندر محمود احمد شہید کوئٹہ، میجر ۳۸،۳۶ مشہو داحمد سید ۲۴۸ ۱۶۱ ۱۹۸ ۱۵۸ محمود احمد مفتی مولانا ۱۵۸ مصطفی علی بنگلہ دیش محمود احمد چوہدری نواب شاہ ۱۸۶ مطیع اللہ ۱۲۶ محمود الرحمن انور محمود شلتوت ، مفتی مصر محمود عالم سید مختار احمد ۱۸۶ ۱۲۵ ۶۳ ۲۴۲ مظفر بیگ مظفر احمد شہید، ڈاکٹر ۱۷۸ تا ۱۸۰ مظفر احمد سید مدثر احمد تخت ہزارہ ۲۴۴،۲۴۲، ۲۴۵ مظفر احمد بھٹی مظفر حسن ۱۹۲ ۱۸۲ ۱۵۸ محمد یعقوب محمد یحیی خضر محمد یوسف چوہدری محمد یوسف شاہ ڈاکٹر محمد یوسف گجراتی محمد یوسف مند و خیل محمد یوسف ، حضرت قاضی محمود احمد آف ربوه محمود احمد آف گھٹیالیاں محمود احمد آف امریکہ محمود احمد آف بھرو کے خورد ۱۱۲ ۱۰۲ ۶۱ ۱۴۴ ۱۵۷ ۲۴۱ ۲۱۸ ۱۶۸ مدثر احمد ابن عارف محمود مریم بنت عباس مریم بنت قریشی محمد اسد اللہ مریم بیگم، آسنور ۲۴۴ ۱۶۴ 1.2 ۱۲۶ مظفر احمد درانی مظفر احمد شرما مظفر محمود معصوم شاہ سید مریم النساء بیگم، حضرت سیدام طاہر ۱۳۲ معروف احمد مریم صدیقہ حضرت سیدہ ام متین معراج دین، حضرت میاں ۲۳۵،۹۰،۶۶ مریم سلطانه معظم بیگ مرزا معین الحق مسرت بی بی ۲۴۱ ۱۴۵ مقصود احمد سید مسرور احمد مقصود احمد شہید محمود احمد، حضرت مرزا بشیرالدین، مسرور احمد، حضرت صاحبزادہ مرزا.مقصود احمد کرونڈی خلیفہ اسیح الثانی ۳۷،۳۶،۳۵،۳۴،۳۲،۳۰،۲۷ ،۱۷ ۶۲۵۸،۵۵٬۵۳ ۵۲ ۵۱،۴۴ ۴۳ ۹۱،۹۰،۸۸ ،۸۶،۸۳٬۸۲،۷۸،۶۸ خلیفہ اصبح الخامس ایدہ اللہ تعالٰی مقصود احمد گھٹیالیاں ۲۳۹،۲۳۶، ۲۴۹،۲۴۷ تا ۲۵۲ مقبول احمد سیٹھی جہلم مسعود احمد جہلمی مسعود احمد کشمیر ۹۲، ۹۹، ۱۱۱، ۱۱۶ ۱۲۰ تا ۱۳۰،۱۲۹،۱۲۵، مسعوداحمد ، ڈاکٹر قاضی ۱۹۴،۱۸۷ ،۱۷۴۱۶۳ مسلم آف بنگلہ دیش 11.۱۷۳ ۱۳۸ ۱۲۸ ۲۴۸ ۲۲۱ ۲۱۸ ۲۲۰ ۱۰۲ ۲۴۳ ۲۱۹ ۸۸ ۲۳۶ ۱۵۸ ۲۵۰،۲۴۹ ۱۳۹ مقبول ثانی سیٹھی مقبول احمد چوہدری پنوں عاقل ممتاز احمد بھٹی ۲۴۱ ۱۶۲،۱۶۱ ۱۶۲ ۱۸۹ ،۱۷۵ ۲۴۸

Page 291

۲۴۱ ۲۱۱ ۲۴۰ ۲۴۹ ۲۲۳ ۲۲۸ ،۲۱۷ ۱۹۸ ،۱۹۷ ۱۳۸ ۹۱ ۲۴۱ نجمه بی بی ۱۸۶ ام ندیم احمد یال ندیم احمد گھٹیالیاں ندیم احمد وسیم نذرمحمد مستری لاہور نذیر احمد بھگیو شہید ۴۴ ۴۳ ۴۹ میر محمد ثر میر محمد قریشی میر محمد خان میراں بخش، حضرت حاجی ن.و.ہی ۱۶۲ ۲۲۰ ۲۳۵ ۲۴۴ ۲۴۱ ۱۴۵ ممتاز احمد سیٹھی ممتاز بیگم اہلیہ میاں محمد اکبر اقبال ممتاز الدین احمد منظور احمد تخت ہزارہ منظور احمد گھٹیالیاں منظور احمد چوہدری منظور احمد چوہدری گوجرانوالہ ۱۴۴۱۴۱ نادیه ظهیر نازی سعید ١٩٦ ۲۲۸ ناصر احمد ، حضرت حافظ مرزا خلیفة اصبح الثالث رحمہ اللہ نذیر احمد شہید ڈاکٹر نذیر احمد ساقی نذیر احمد، کرنل نذیر احمد علی ، حضرت مولانا نذیراں بی بی نذیر احمد رائے پوری شہید ۲۴۲ تا ۲۴۴ ۲۴۶ ۲۱۱ نذیر احمد شیخ شهید نسیم احمد پال ۱۰۴۱۰۳۹۶،۹۵،۷۸ ،۷۵،۱۷ ۱۸۳،۱۵۰،۱۴۸،۱۳۲،۱۰۵ ۲۱۳ ۲۱۲ ۱۴۴ ۲۴۱ ناصر احمد ابرو ناصر احمد ڈاکٹر ناصر احمد آف گھٹیالیاں ۱۳۸ ناصر احمد امریکہ ناصر احمد شیخ اوکاڑہ نسیم بابر، پروفیسر ڈاکٹر ۲۰۵ ۲۰۶ نسیم مهدی ، مولانا ۲۰۹ ناصر احمد شہید تخت ہزارہ ۲۴۳٬۲۴۲ نسیم بیگم بیوہ ڈاکٹر نذیر احمد شہید ۲۱۸ ۱۴۸ ۲۴۱ ۲۱۷ ۱۴۴ ۱۲۵ ۴۸،۲۳ H.۲۱۶ نسیم اختر نسرین اختر نسرین عقیق باجوہ نشاط افزا نصر اللہ پنڈت نصر اللہ خان ، سردار نصرت شہزادی نصرت جہاں بیگم، حضرت سیدہ ام المومنين نصرت جہاں ڈاکٹر نصرت صادق نصر الحق ۲۶،۱۴۷ ۲۴۷ ۲۳۷ ۱۵۷ ۱۶۸ ۲۲۰ ۲۲۰ ۱۱۷ ۱۲۳ ۱۳۴ ۱۳۸ ۱۹۸ ،۱۹۷ ۶۷ ۲۴۵ ۲۵۱ ناصر احمد مظفر ناصر احمد موسیٰ والا ناصر احمد یوگنڈا ناصر محمود مرزا ناصر فاروق سندھو ناصرہ بی بی ناصرہ ظفر ناہید سلطانہ نبیلہ آف چک سکندر نبی بخش ثار احمد نجمه وحید ۸۰ ۲۳۶ ۱۹۷ 11.۱۹۱ ۱۶۱ ۱۸۲ * E ۷۲ ۷۱ ۲۴۸ ۱۹۶ منظور احمد ماسٹر شہید منظور احمد او جلوی شهید منظور الحق منصوره فرحت منصوره بنت مسعود احمد جہلمی منصور احمد ساقی منور احمد بیگ منور احمد محراب پور ۹۰،۸۹،۸۵ ۱۴۵ منور احمد خان منور احمد آف کھارا منور احمد بھٹی منور احمد شہید ڈاکٹر منور احمد مرزا مبلغ امریکہ منوره منیر احمد ابن مولوی محمد صدیق ۱۳۱ ۱۴۵ ۱۴۶ ،۱۴۵ ۱۶۱ ۹۳ ۱۹۷ ۱۵۷ ۲۵۱ منیب احمد رائے منیر احمد گوجرانوالہ منیر احمد خان منیر احمد ڈاکٹر موسیٰ علیہ السلام، حضرت مولو داحمد بخاری مهک وحید

Page 292

۲۱۱ ۲۴۰ ۲۴۱ ۲۵۰ ۲۴۰ ۱۹۷ ۲۵۰ ۳۵ ۷۲ ۷۱ ۱۷۰ تا ۱۷۲ ۲۰۹ ۹۸ ۲۱۶ وسیم احمد یال وقار احمد وقاص احمد ابن عباس علی وقاص احمد ابن مقصود احمد وقاص احمد گھٹیالیاں ۱۴۹ 7.9 ۱۳۸ ۲۵۲ ۱۲۵ ۷۵ ۱۳ نقاب شاه مهمند نگہت ریحانه نمود سحر نواب علی خان نور احمد کیپٹن نور احمد چوہدری شہید ۲۴۷، ۲۴۸ وقاص احمد منور نورالدین بھیروی ، حضرت حکیم مولانا ولید احمد خلیفۃ ابیح الاول ۲۲۲،۹۱ ولید ادخان نورالدین بنگلہ دیش ۲۳۴۲۳۳ ولی محمد ٹھیکیدار نورالدین ابن صاحبزاده ولی محمد ساغر ، ڈاکٹر مرزا غلام قادر شہید باجرہ بیگم نوردین مولوی اوکاڑہ نور علی قاری ۳۹ ۳۳ هبته النور فرغاغن ہدایت اللہ نور محمد مولوی کو ریل کشمیر ۱۷۳،۱۷۲ یاسمین اہلیہ ڈاکٹر قاضی مسعود احمد ۱۳۸ ۱۵۱ ۱۳۹ ۱۱۴ یاسمین کوثر یعقوب احمد یوسف با جوه ۹۸ ۲۲۱ ۷۲ ۲۰۴ ۱۹۲ نوید مارٹی نیاز الدین شیخ ۱۶۴ ۲۴۰ ۲۲۲ ۲۱۸ ۷۳ ۲۰۱ ۴۲ ۹۶ 쿠오 ۵۶ ۲۱۷ ۲۰۸ ۲۴۸ ۲۵۲ ۱۲۶ ۲۱۶ نصیر احمد سلمان نصیر احمد گھٹیالیاں نصیر احمد ملک شہید نصیر احمد وزیر آباد نصیر احمد خان، پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد علوی شہید نصیر الدین بلال نظام جان ، حضرت حکیم نظام دین حضرت نعیم احمد باجوہ نعیم احمد کھوکھر نعیم احمد گولیکی نعیم احمد وسیم گولیکی نعمه بشری نعمت اللہ آف آسنور نعمت اللہ چٹھہ داد نعمت اللہ خان، حضرت مولوی ۳۰ تا ۳۳ نیاز علی شهید وسیم احمد آف ربوه وسیم احمد بٹ وسیم احمد بیگ

Page 293

آسٹریا Li ۲۵۰ انبالہ مقامات ۴۹ انگلستان ۱۱۲،۱۱۰،۶۶،۶۳ ۱۱۳ ۱۱۴ آسٹریلیا ۱۷۷،۱۷۶،۱۶۲،۱۴۸،۱۴۵ انور آباد لاڑکانہ آسنور کشمیر آگرو آئرلینڈ ابورا (غانا) اپایا ( نائیجیریا) اٹلی احمد آباد سانگره احمد نگر بنگلہ دیش احمد نگر نز در بود ۲۰۳،۲۱۷ ،۱۹۳،۱۹۱ ۱۷۳،۱۲۶ ۹۹ ۱۹۹ 1+9 ۱۸۱ ۲۰۵ ۱۹۱ ۲۲۷ ۱۳۰ ۲۲۶ اڑیسہ اسلام آباد ۲۳۹،۲۰۵،۱۹۹،۱۶۲،۱۳۱،۱۲۷ اسلام آباد کشمیر ۱۲۶ افغانستان ۶،۴۸،۳۵،۳۰،۲۹،۲۶ اکھنور ۱۲۷ ،۱۲۱،۸ البانية امرتسر ۱۲۶ ۸۳،۵۲ ۱۴۶،۹۱،۳۶ امریکہ ۹۳٬۹۰،۸۹، ۱۳۱،۱۰۶،۱۰۰،۹۷ ،۱۸۰ ،۱۷۹ ،۱۷۸،۱۶۴ ، ۱۴۹ ، ۱۳۸ اودھیاں شریف اوکاڑہ ایبٹ آباد ایران ایمن آباد بالاکوٹ بالٹی مور باؤ چی نائیجریا بخارا بدوملہی برکینا فاسو برین برہمن بڑیہ بغداد بلتستان بنگال بنگلہ دیش ۲۲۸،۲۰۶،۱۴۱ ،۱۲۹ ۲۱۲ ۲۴۳ ۱۸۱،۱۸۰،۱۷۹ ۱۵۹،۱۰۶،۷ ۸۶ ۹۵ بھارت انڈیا ۸۰۷۸،۵۱،۳۶،۳۲ ۲۳۷ ،۱۲۱ ،۹۹ ،۸۶، ۱۶۳ ۲۵۰،۲۳۶،۱۱۷ ،۹۶ ۲۵۲،۱۶۸ ۱۳۸ بھاگلپور بہاولپور بہاولنگر بھٹیاں گوٹ بھدرک بھر یا روڈ بہلول پور پہوڑ و چک ۲۲۶ ۱۸۶ ۲۱۴ ۲۳۹،۲۳۸ پیچیم پاکپتن ۲۳۹،۲۱۵،۱۲۸ ۱۵۱ پاکستان ۴۱،۳۷،۹۷۷، ۷۸،۷۳،۴۷ 171 ۸۹ ۲۱۳ ،۱۷۹ ،۱۷۳ ،۱۴۶ ،۱۲۶ ،۱۰۶ ۱۰۷ ۲۳۰،۲۱۴ ۸۶ ₹ IAL 117 ۷۹ پٹنہ پرتگال پسرور ۲۴۷ ۱۱۵ ۲۰۵ ۱۲۸،۱۲۷ ۳۵ ۱۳۲ پشاور ۱۴۹،۱۳۶،۱۲۷،۵۵،۵۳،۵۰،۷ پنج شیر ۳۰ پنوں عاقل ۱۹۰،۱۸۹،۱۸۸،۱۷۵ ۲۳۸ ۲۳۵،۲۳۳،۲۲۸ ،۱۲۷ پوری بالا کوٹ پولینڈ پونچھ پیٹس برگ ۱۶۱ ۲۰۵ ۱۲۶،۱۲۵ ۹۷،۸۹ ۱۱۶ ۲۴۹ پید رو آباد پیر محل ۹۴ ۲۳۸ بور نیو بہار ۲۱۸ ،۱۹۹ ،۱۹۱ ۱۸۴ انڈونیشیا ۲۴۶،۱۲۸،۱۰۳،۵۴،۵۱

Page 294

ح خ ۱۳۶ ۱۹۵،۱۹۴ ،۱۸۳،۱۶۳ ١٠٠,٩٩ ۲۲۷ ۱۴۸ ۱۳۰ ۳۵ ۱۲۱ ۵۴ ۷۹ ۱۵۵ ۱۳۲ ۲۰۱ ۳۳ ۵۳ 117 ۲۱۱،۱۶۷ ۲۲۹ ۱۲۷ د.ڈر ۲۳۰،۲۱۷ ۹۷،۸۹ ۱۸۴،۱۷۹،۱۷۸ ۲۵۲ حافظ آباد حسن ابدال حیدر آباد حیدر آباد دکن حيفا فلسطين خاطبه سپین خانیوال خرطوم خوست خوشاب خیر پورسندھ دا تا زید کا داریل دم هم سیاچن دوڑ نوابشاہ دہلی ڈب نز د چارسدہ ڈر کال سپین ڈسکہ ڈوگراں والی ڈھاکہ ڈھونیکی وزیر آباد ڈیٹن امریکہ ڈیٹرائیٹ ڈیرہ غازی خان 61476 جرمنی ۱۱۰،۸۶،۷۷،۶۵،۵ ۱۱۳ ۱۱۴ ،۱۹۵،۱۹۲ ۱۹۱ ،۱۸۷ ، ۱۸۶،۱۶۸،۱۴۴ {1}}} ۲۲۸ ۲۲۰ ۱۳۱ ۱۲۶،۱۲۵ ۲۰۸،۲۰۵ 122.29 ۱۰۴ ۱۵۸ ۱۳۶ جسو کی جکارتہ جلالپور جٹاں جلوز کی پشاور جموں جنڈیالہ ڈھاب والا تیجہ جورو جہلم ۱۹۵،۱۶۳،۱۶۲،۱۶۱،۱۵۰،۱۱۰، ۱۹۸ ،۱۹۷ ۹۸ ،۹۶ ۲۱۸،۱۸۵ AL ۱۶۸ ۵۲ ۲۵۲ ۱۷۲ ۱۴۸ ۱۵۵ ۱۹۸ ،۱۹۷ ۹۱ ۱۹۲ ۹۵ ۲۳۱،۲۱۸،۱۷۸ ۹۱ ۵۴ جہلن گوجرانوالہ جھنگ جیکب آباد چاچڑ چادر چک چارسده چشتیاں چک ۴۵ مرڈ چک چهور چک حسن آرا ئیں چک سکندر چکوال چند ورضلع مونگیر چنیوٹ چونڈہ چھینہ چیانڈام انڈونیشیا ۷۵ ۱۲۷ ۲۴۲،۹۶ ۱۵۴ ۸۸ ۱۴۶ ت.ٹ پیروشاہ پیواڑ کوتل تخت ہزارہ تربیلا ترک پورہ بانڈی پورہ ترکستان ترن تاره تلونڈی.جهنگلاں ۱۶۷،۷۶،۷۵ تنزانیہ تهال تهران حصہ غلام نبی تیما پور ٹرینیڈاد مل ٹو بہ ٹیک سنگھ ٹوپی ٹوڈرمل ٹورانٹو ۲۲۱،۱۲۷ ۱۶۶،۱۶۵ ALAY ۹۳ ۲۰۰ ۱۰۸ ۱۳۱ ۴۴ ،۱۹۶ ،۱۹۳،۱۷ ۲۴۹ ۱۴۹،۵۱ ۱۴۵ ،۹۶ ۲۱۰،۲۰۹،۲۰۲،۱۶۴۱۴۴۱۲۴ ٹیجی مان (غانا) ۱۳۲ ۱۵۸ ۴۹ ۲۰۳ 8-2 جاپان جاجی جالندھر

Page 295

راجن پور رامپور راولپنڈی ۲۵۱ ٩٩ سعودی عرب ۱۱۵ سکرنڈ ۱۹۶ T سکھر ۲۱۶،۲۱۵،۱۹۲،۱۹۰،۱۸۳،۱۸۲ سلانوالی ،۱۶۰،۱۵۰،۱۳۸،۱۳۶،۴ ۲۲۱ ۲۲۰،۲۱۷ ،۲۰۵،۱۹۲،۱۸۵ سلوخ سمندری ربوه ۷ ۴۳، ۴، ۱۰۰،۹۵،۹۴،۴، ۱۰۵ سند ربن ۱۳۲ ،۱۳۱ ،۱۳۰ ،۱۲۴ ، ۱۱۲ ،۱۰۹ ،۱۰۷ ،۱۵۷ ،۱۵۵،۱۵۰ ۱۴۸ ،۱۴۷ ،۱۳ ،۱۳۳ ۱۷۷ ،۱۷۰،۱۶۹ ،۱۶۸ ،۱۶۵،۱۶۴۱۶۱ ۱۹۶ ،۱۹۲ ۱۹۱ ،۱۹۰،۱۸۵،۱۸۳،۱۷۸ ۲۱۱ ،۲۰۴ ،۲۰۰ ، ۱۹۸ ،۱۹۷ ، ۱۹۳ ۲۳۶ ،۲۳۰ ،۲۲۸ ۲۲۱ ،۲۱۶ ۲۱۵ ۲۵۲،۲۵۰،۲۴۹ ۲۴۸ ۲۴۷ ۲۴۲ رحیم یارخان ۲۵۰،۹۶ ۹۶ سندھ سنداں والی سنگاپور سوڈان سورو سوئٹزرلینڈ سویڈن ۹۵ ۸۸ ۱۶۳ ۲۳۴،۲۳۳ ۲۲۰،۲۱۸،۲۰۰ ۱۴۴ ۹۴٬۹۳ ۱۳۰ ۲۲۶ ۱۸۶،۱۱۰ ۲۱۹،۲۰۵،۱۶۵ غرناطه فاروق آباد مجی فرینکفورٹ فلسطین فیروز پور انڈیا فیصل آباد ۱۱۶ Σ ۱۹۱ ۱۳۳ ،۹۶ 11+ ۲۲۷ ،۱۲۹ ۱۷۹ ،۱۶۷ ،۱۶۳،۱۴۵ ۱۴۴ ،۱۹۲ ،۱۸۶ ،۱۸۵ ،۱۸۴ ،۱۷۲ ،۱۷۰ ،۲۴۷ ،۲۴۶،۲۳۹ ،۲۳۵،۲۱۶،۲۰۴ فیض اللہ چک قادر آباد ۲۵۱،۲۴۹ ۲۲۲،۲۰۹ ،۹۳ ۷۲ قادیان ۳۰ ۳۳ تا ۴۲،۳۶، ۵۸۰۵۷ ۶۰ تا ۷۵، ۸۰، ۹۲،۹۱، ۹۴، ۹۹، ۱۰۳، ۱۰۸، ۱۲۰ تا ۱۲۹ ۱۳۸، ۱۴۳، ۱۴۵ سیالکوٹ ۱۸۲،۱۶۷،۱۴۴،۱۳۹،۱۱۲ ۱۴۶، ۱۶۷، ۷۱ اتا ۱۸۴،۱۷۴، ۱۸۵، رنگون روس ۱۶۲ سیرالیون س ش ص سیمی ایلین شام شاہ پور سانکیانگ سانگلہ ہل ساہیوال ساؤتھ افریقہ سپین سٹھیالی سد ووالہ نیواں سرحد صوبہ ۵۲ ۱۷۲،۱۶۹،۱۶۸ ۲۴۵،۲۱۰،۲۰۹ ۸۳ ۱۱۶،۱۱۵ ۶۱ ۲۴۸ ،۲۴۷ ۵۳۴۳ سرگودھا ۲۴۲،۲۱۴،۱۹۴۱۶۵،۱۶۴ سری گوبند پوره سری لنکا سکاٹون ۶۷ ۱۷۴ ۱۱۳ ۲۳۹،۲۳۰،۲۲۹،۲۱۱ ۱۳۱ ،۹۲،۹۱ ۲۴۶ ۹۷ ML ۲۱۸،۲۱۵،۱۸۵ شکار پور شیخو پوره ۱۶۹،۱۶۸،۱۴۸،۱۴۵،۱۰۰ ۲۳۸،۲۰۸،۱۸۱ شیر پورافغانستان صوابی ۴۸ ۵۱ ع_غ_فق عارف والا عراق غانا ۳۵ ۲۲۶،۱۳۲،۱۱۳،۱۰۹ ،۹۹ ،۹۲ ۲۳۸،۲۲۶،۱۹۲،۱۸۷ ۲۰۰،۹۸ قاضی احمد نواب شاہ قاہرہ قبوله ۱۱۴ ک مگ کابل ۳۰،۲۵،۲۴،۲۱ تا ۳۳، ۴۸، ۴۹ کاشغر کانپور ۸۸۸۷ ۱۹۴ کانو ۱۰۵ تا ۱۰۸ کیا بیر کٹک ۱۲۹ ۲۲۶ کٹھوعہ ۱۷۳ کراچی ۱۸۳،۱۴۵،۱۰۵،۹۹٬۸۴، ۲۲۰،۲۱۸ ،۲۱۱،۲۱۰ ، ۱۹۵ ،۱۹۳ ،۱۹۲

Page 296

671 مومی ضلع فیروز پور ٢٠٣ ۳۵ لجرات ۱۵۹،۱۱۷،۷۹،۶۵،۶۴،۴۸ تنگی می ضلع جالندھر ۲۴۷ ،۲۲۳ ۱۱۷ ۱۰۲ لودھراں ۱۶۸ ۱۰۸ ،۹۱،۹۰،۸۲ ۵۱ ۱۲۱ ۲۳۸ لیگوس ماریشس ماشومی مالو کے بھگت مالیر کوٹلہ کرناٹک کرونڈی کشتواڑ الله لله الله الله ۲۴۸ ،۱۹۸،۱۶۵ گلگت گمبٹ کشمیر ۱۲۵،۱۲۲،۱۲۱،۱۰۶،۸۱،۸۰۷۸ گنی بساؤ ۲۱۷،۱۷۳،۱۵۵،۱۵۴،۱۲۶ گوٹھ عبد و سکھر ۱۵۴،۱۳۲،۸۸ ۵۴۵۳ ۱۱۶،۱۱۵ ۱۸۵ گوجرانوالہ ۱۴۱،۱۴۰ ۱۴۴ تا ۲۰۰،۱۴۷ ۱۹۸،۱۲۲،۹۱ گورداسپور ۸۹ ۹۹ المهله ۹۶ مانٹریال مانڈ لے ۱۸۶ ۲۴۸ ،۶۴ گھو کھووال الله 6 کلیولینڈ کماسی کنڈیارو گولیکی ۲۱۹،۱۶۵،۹۴ ۲۳۹ مانسهره مایل پور محراب پور محمود آبا دسندھ مدینہ ضلع گجرات مڈھ رانجھا ۴۲ V71 ۱۸۷ ،۱۸۲،۱۸۱ ۱۳۸،۹۵ ۱۰۲ ۱۶۴ مردان ۱۶۱،۱۴۹،۱۳۵،۹۶،۵۱،۵۰، ۱۹۰ ۱۳۱ ۱۱۶،۱۱۵،۱۱۳ گھٹیالیاں گھوٹکی گیانا گیمبیا الد ۹۱ L+17+1271 ۲۱۲۲۲۱،۱۷۶ ۲۳۶ ۲۴۶ لم لاڑکانہ لالیاں لامبوک لدلد 주수 ۱۷۴ الد کنری کنگی والا کو ٹلاں چہلاں کو ٹلی کشمیر کوریل کشمیر کوہاٹ کو ہلووال ۱۴۷ ،۱۴۵،۳۶ ۱۴۷ ،۷۴ ،۷۱ کوئٹہ کھارا ۱۰۵ له الدله الله لاہور ۷ ۴ ۵ تا ۹۶،۱۱،۹۰،۶۸،۵۷ ۱۶۷ ۱۲۷ مشرق وسطی AY V71 ۱۲۵،۱۱۴ ☑ ۱۰۶ ١٩٩،٩٩،٩٣ ۲۱۷ ،۲۰۹،۱۸۱،۱۰۷ له الله ۱۶۸،۱۶۷ لائبیریا لدھیانہ لکھنو لمباسه 11° ۲۳۷ ،۱۲۰،۴۱ ۹۹ الله لله 76 لندن ۱۱۰،۹۳،۶۶،۶۳ ۱۱۳ ۱۱۴، مشهد مشی گن مظفر آباد مغربی افریقہ ملتان ملبہ ضلع لدھیانہ موسیٰ والا ۱۴۴ ،۱۲۹ ، ۱۲۴ ، ۱۲۰ ، ۱۰۷ ، ۱۰۵ ، ۱۰۴ ۱۸۳،۱۷۸ ،۱۶۸ ،۱۶۵ ،۱۶۳،۱۵۸ کھاریاں کھر والیاں کھلنا بنگلہ دیش ۲۳۵،۲۳۳٬۲۳۲ ۱۷۳ ،۲۲۸ ،۲۲۰،۲۱۹ ،۲۰۳،۲۰۲،۱۹۳۱۹۱ ۲۲۶ ۲۴۷ ،۲۴۱ احاله 1..١٠٦ ۲۲۱،۱۱۲ کینیڈا ۶۹۶۹ ۱۳۸،۱۳۲،۱۳۰،۱۱۳،۱۰۶۹۶۹ ۱۹۹ ،۱۷۰،۱۶۵،۱۶۴ ،۱۴۵ ،۱۴۴ ،۱۴۱ کھنڈو کیرنگ کیلگری کیلیفورنیا کیمبل پورا ٹک کینیا ۲۳۳،۲۰۶،۱۹۹،۱۹۵،۱۱۶ ۲۱۰،۲۰۶۰ *VI

Page 297

۱۳۲ ۱۶۸ ۱۸۲،۱۲۵،۱۰۳ ،۹۸ ۹۶ ۴۲ ۲۳۸ ۱۸۶ ۱۰۶ ۱۷۸،۱۱۵ ۵۲ ۲۲۰،۲۱۹ ۵۲ وینکور ہارون آباد ہالینڈ ہانگ کانگ ہائیڈل برگ ہزارہ ہما چل ہمبرگ ہندواڑہ ہوشیار پور یورپ یوگنڈا یوگوسلاویہ 6196 نواب شاه ۱۹۸،۱۸۶،۱۸۲،۱۸۱،۱۳۹ نوشهر و فیروز نیروبی نیگومبوسری لنکا وا (غانا) واره ۲۲۳،۲۰۱،۲۰۰،۱۹۹ ۱۸۷،۱۸۶ ۲۲۸،۲۲۱،۱۸۴ ۱۷۴ 1+9 ۲۱۳،۱۷۶ واشنتشن = واہ کینٹ و داستی کشمیر وزیر آباد ونجواں وہاڑی ویانا ویرووال ۲۲۱،۲۱۷ ،۱۹۶۱۴۸ ۲۱۷ ۲۳۰،۲۱۸،۲۱۷ ۱۲۳،۱۲۲ ۲۲۲،۲۱۷ ،۲۱۶ ،۲۰۲ ۲۵۰ ۱۴۶ ۱۴۸ ۱۹۲ ۱۱۲ ۱۱۶ IZA ۱۴۹ مومن ضلع شیخو پوره می کھیر مهدی پور ضلع سیالکوٹ میڈرڈ میری لینڈ مینی ضلع مردان ن.و.ہ.ی ۲۴۸ ،۲۴۷ ،۲۴۱ ۱۸۸،۱۶۴ نارووال ناروے ناصر آبا دسندھ ناصر آباد کشمیر ۲۰۰،۱۳۸ ۱۶۴ نائیجیریا ۱۰۷،۱۰۶،۱۰۵،۱۰۳،۱۰۲ منگل باغباں ۱۱۲،۱۱۱،۱۰۹،۱۰۸ ۶۷ ،۶۱

Page 297