Shuhada-ul-Haq

Shuhada-ul-Haq

شہدآء الحق

سرزمینِ کابل۔ افغانستان اور یاغستان میں شہدائے احمدیت کی جانفشانیوں کی ایمان افروز داستان
Author: Other Authors

Language: UR

UR
شہدائے احمدیت

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے ایک مشن لیکر آئے اور تبلیغ کا حق ادا کرکے اپنے خالق حقیقی کے پاس حاضر ہوگئے۔ آپ کا پیغام سن کر جن لوگوں نے لبیک کہا،تو ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے تب اللہ تعالیٰ نے ان مخالفین کی الگ الگ گرفت کے سامان کئے۔ ان دشمنان حق کو عبرتناک انجام تک پہنچا کر نشانوں کا سامان کیا۔ اس کتاب میں مملکت افغانستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم اور ظالموں کے بد انجام کی تاریخ محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تا مومنین کا ایمان ترقی کرے اور اس طرح دیگر ممالک اور صوبہ جات کے احمدی بھی تحریک و تحریص پائیں کہ وہ بھی اپنے اپنے علاقوں سے ایسے نشانات کا ریکارڈ محفوظ کریں تا نہ صرف سلسلہ کی تاریخ کے زریں اوراق میں اضافہ ہو اور آئندہ نسلیں اپنے ایمان میں تقویت پائیں اور حق دشمنی پر کمربستہ لوگ اپنے انجام بد سے ڈر کر باز آجائیں۔ اس کتاب میں مسئلہ جہادکی حقیقت، حضرت مسیح موعود کی اپنی اور آپ کے زمانہ اور جماعت کے متعلق پیش گوئیاں درج کرکے مختلف ابواب بنا کر تاریخ افغانستان سے مختلف شاہان کے ادوار میں ہونے والے واقعات کو قریبا پونے دو سو صفحات میں سمویا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

شُهَدَاءُ الْحَقِّ مؤلفه و مرتبه حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروق آف قاضی خیل ہوتی مردان

Page 2

وَلَا تُقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لَّا تَشْعُرُونَ وَلَسْتُ أَبَالِي حِيْنَ أَقْتَلُ مُسْلِماً عَلَى أَيِّ جَنْبِ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي ذلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِن يَشَاءُ يُبارِكُ عَلَى أَوْصَالِ شِلُو مُمَنَّع شُهَدَاء الْحَقِّ سرزمین کابل-افغانستان اور یاغستان میں شہدائے احمدیت کی جانفشانیوں کی ایمان افروز داستان مؤلفه و مرتبه حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروق آف قاضی خیل ہوتی مردان طابع وناشر حکیم محمد عبد اللطیف شاہد نشی فاضل ، ادیب فاضل آنرزان پنجابی تاجر کتب نمبر ۱۴ مین بازار گوالمنڈی لاہور

Page 3

سبب تالیف کتاب سیدنا حضرت احمد موعود : حضرت احمد موعود علیہ السلام جو قادیان دار الامان ضلع گورداسپور میں ۱۲۵۱ھ مطابق ۱۸۳۵ء میں خاندان مغلیہ کے ایک رئیس جناب مرزا غلام مرتضی خان کے گھر میں ۱۳ فروری کو تولد ہوئے اور ۱۲۹۰ھ کے قریب بعمر چهل سالگی خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت مشرف بہ مکالمہ و مخاطبہ الہیہ ہوئے.آپ نے مفاسد عالم کی اصلاح کے واسطے مبعوث ہو کر موعود مذاہب عالم ہونے کا دعوی کیا.جن کو قرآن کریم میں شاہد اور احمد کہا گیا.احادیث میں امام مہدی معہود اور اناجیل اربعہ میں مسیح موعود اور بھا گوت گیتا میں حضرت کرشن اور کتب زردشت میں بہرام اور کتب یہود میں مسیح ثانی کہا گیا ہے.آپ نے سنتِ نبوی پر عمل کرتے ہوئے بارہا شاہان کے زمانہ اور رؤساء ممالک کو اپنے ظہور اور اغراض بعثت سے مطلع کیا ، اور ان کو دعوت الی الاسلام دی - آپ نے ۳۶ سال نہایت کامیابی سے دعوت حقہ کے فرائض کو پورا کیا.اور آخر کار بعد تکمیل دعوت بروز منگل سوا دس بجے صبح بمرض اسهال لے آپ کے موجودہ اور دوسرے خلیفہ ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس سنت رسول کے مطابق اپنے زمانہ کے چار بادشاہوں کو تبلیغ احمدیت یا حقیقی اسلام کر کے حجت پوری کر دی اور آج ہم قدرت الہی کا عجیب کرشمہ اور آپ کی ایمان افروز کرامت دیکھتے ہیں.کہ جب ان میں سے کسی بادشاہ نے آپ کی دعوت حقہ پر کان نہ دھرا اور لا پرواہی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان سب سے اختیارات حکومت چھین لئے.چنانچہ نظام حیدرآباد تو دکن میں معزول ہے.امان اللہ اٹلی میں جلا وطن ہے.پرنس آف ویلز انگلستان میں بحالت عزلت و دستبرداری زندگی بسر کر رہا ہے.چوتھا لا رڈارون سابق وائسرائے آف انڈیا ان وسیع اختیارات سے محروم ہے جو وقت دعوت اسے حاصل تھے.( ناشر )

Page 4

مزمنہ لا ہور میں ۲۴ ربیع الثانی ۱۳۶۶ھ مطابق ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء بزمانہ حکومت ملک معظم ایڈورڈ ہفتم بادشاہ انگلستان و قیصر ہند وفات پائی اور مرفوع الی اللہ ہوئے.آپ کا جسد اطہر بہشتی مقبرہ واقع قادیان میں سپردخاک ہوا.انا للہ و انا اليه راجعون جیسا کہ سنت اللہ ہے.علماء وقت نے مخالفت کی.تکفیر و تکذیب کا بازار گرم کیا اور ہر قسم کے مظالم آپ کے لئے اور آپ کے خدام کے لئے جائز اور روار کھے.وہ مسلمان جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمانوں کا امن میں رہنا فرمانِ نبوی میں اسلام و ایمان کی علامت قرار دیا گیا تھا.جماعت - احمدیہ کے مخالف ہو گئے اور ان کے ہاتھوں اور زبانوں سے وہ دکھ اور تکلیف آپ کو اور جماعت احمدیہ کو دی گئی.جس کو سن کر یا دیکھ کر ایک حساس انسان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے جب حضرت احمد جری اللہ اور آپ کے خدام پر یہ مظالم ہوتے دیکھے تو اس نے ہر مخالف کی مخالفت کے مطابق ان سے الگ الگ گرفت کی.اور ہندوستان اور ہندوستان سے باہر ان سے عبرتناک سلوک کیا اور ان کے وجودوں کو اس زمانہ کے واسطے ایک نشان بنا کر چھوڑا.اس کتاب میں ہم صرف ان مظالم کا ذکر کریں گے.جو مملکت افغانستان میں افراد جماعت احمدیہ پر ہوئے.اور جن کا بدلہ زیادتی کرنے والوں کو اسی دنیا میں مل گیا اور غرض یہ ہے کہ اس سے مومنین کا ایمان ترقی کرے، اور ان کو تحریک اور تحریص ہو کہ وہ اپنے صوبہ کے یا کم از کم اپنے علاقہ

Page 5

میں ہمچو قسم ظاہر شدہ نشانات کو قید تحریر میں لا کر تاریخ سلسلہ عالیہ احمد یہ میں کچھ زریں اوراق کا اضافہ کریں اور عنداللہ ماجور ہوں اور رہتی دنیا تک بعد میں آنے والی احمدی نسلوں کی دعائیں لیتے رہیں.یہ کتاب چارا بواب اور ہر باب کئی فصول پر تقسیم شدہ ہے اور ہر باب ر ہر فصل میں جد اجد احالات درج ہیں.جیسا کہ تفصیل ذیل سے واضح ہوگا.اور ہر ا.تمہید کتاب ۲- باب اوّل: زمانہ حکومت امیر عبدالرحمن خاں بادشاہ دولت خداداد افغانستان - فصل اوّل: تخت نشینی امیر عبدالرحمن اور اس کو دعوتِ احمدیت ثر فصل دوم: فصل سوم : تعلیم احمد بیت.فصل چهارم : مسئلہ جہاد اور اسلام - حقیقت جہاد اور جہاد کا غلط مفہوم ہفتاد و دو (۷۶) ملت اور احمدیت.فصل پنجم : افغانستان میں احمدیت اور شہادت حضرت ملا عبد الرحمن احمدی شہید فصل ششم : امیر عبدالرحمن کی وفات کس طرح ہوئی.۳ - باب دوم : زمانہ حکومت امیر حبیب اللہ خان با دشاہ افغانستان فصل اول: تخت نشینی امیر حبیب اللہ خان اور حضرت سید عبداللطیفہ صاحب احمدی شہید

Page 6

فصل دوم: فصل سوم : حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید کا ارادہ حج اور سفر قادیان حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی مراجعت وطن اور واقعہء شہادت فصل چهارم : کلام منظوم درشان حضرت شہید مرحوم فصل پنجم : فصل ششم : فصل هفتم : فصل واقعات بعد از شهادت حضرت شہید مرحوم میرزا شیر احمد خان مصنف نجم السعادت کی غلط بیانیوں کا جواب پاداش ظلم کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کی پیش گوئیاں مظالم کا خمیازہ بھگتنا.۴ - باب سوم : زمانہ حکومت امیر امان اللہ خان- بادشاہ افغانستان فصل اول: حکومت اما نیہ اور آزادگی مذہب کا اعلان فصل دوم: بغاوت اقوام منگل اور شہادت حضرت نعمت اللہ خان احمدی شهید فصل سوم : شہادت حضرت مولا نا عبد الحلیم احمدی وقاری نور علی احمدی فصل چهارم : بعض مخالفین کا ناپاک پرو پیگنڈا فصل پنجم : امیر امان اللہ خان کا سفر یورپ اور اس کے بدنتائج بصورت بغاوت

Page 7

فصل ششم : خروج بچہ سقہ اور فرارا میرامان الله خان از افغانستان فصل ہفتم : حکومت سردار عنایت اللہ خان اور اس کا عزل فصل هشتم : خدائے غیور کا مجرموں سے اخذ شدید ۵- باب چہارم : بچہ سقہ کی ہلاکت.فصل اول: زمانہ حکومت اعلیٰ حضرت محمد نادرشاه با دشاہ افغانستان زمانہ حکومت اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ ریاست کا بل میں پچاسی ہزا ر ۱۸۵۰۰۰افراد کی ہلاکت فصل دوم: فصل سوم : ہماری ملاقات فصل چهارم : فصل پنجم : افغانستان میں چند اور شہدائے احمدیت.فصل ششم : گذشتہ واقعات سے درس عبرت

Page 8

تمہید کتاب خدا تعالیٰ کی سنت مستمرہ ہے.کہ وہ بنی نوع انسان کی اصلاح کے واسطے ہر زمانہ میں ہر ملک میں ، اور ہر قوم میں نبی اور رسول مبعوث کرتا رہا ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے.(۱) ان من امة الاخلافيها نذير (٢) لكل قوم هاد (۳) لكل جعلنا منكم شرعةً ومنها جا (۴) لكل امة الرّسول کوئی قوم ایسی نہیں ہوئی جس میں خدا تعالیٰ کا نذیر نہ ہوا ہو.ہر قوم میں ہادی ہوئے ہیں.اور ہر قوم میں رسول ہوئے ہیں اور ہر قوم کی ہدایت کے واسطے ہم نے شریعت اور منہاج مقرر کیا ہے.یہ رسل بعض دفعہ شارع یعنی صاحبانِ شریعت جدیدہ تھے.جیسا کہ حضرت نوح ، حضرت موسی ، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہم اجمعین اور بعض ان کے اور ان کی شریعت کے تابع رسول تھے.جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام حضرت موسیٰ اور تورات کے تابع تھے.اور ہمارے امام سیدنا حضرت احمد قادیانی علیہ السلام سید نا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کریم کے تابع اور مطیع ہیں.صاحب شریعت یا براہ راست رسول نہیں.بلکہ شریعت محمدیہ کے اسی طرح بلکہ اس سے صد ہزار گنا زیادہ تابع ہیں.جتنا کہ ایک عام مومن ہو سکتا ہے.اسی طرح آپ امت محمدیہ کے ایک فرد ہیں اور کوئی نئی امت بنانے والے یا شریعت محمدیہ میں تنسیخ یا تبدیلی احکام کرنے والے رسول نہیں.

Page 9

جب کبھی کوئی نبی اور رسول آیا اور اس نے قوم کو دعوت دی تو بعض افراد نے قبول کر لیا اور اکثر نے اس کا انکار کر دیا.جیسا کہ ”منهم من امن و مـنهـم مـن كـفـر “ سے ثابت ہے ملک کے لوگ دو اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں.مومنین ماننے والوں میں اور منکرین نہ ماننے والوں میں پھر مومنوں میں دو گروہ ہو جاتے ہیں.ایک گروہ نہایت مخلص مستعد اور سرگرم مومنان باعمل کا ہوتا ہے.جو دنیا اور آخرت میں مور د انعامات کثیرہ ہوتا ہے.دوسرا گروہ زبان سے ایمان کا مقر ہوتا ہے.مگر بجا آوری اعمال صالح میں ویسا مخلص اور مستعد نہیں ہوتا.جیسا کہ گروہ اول کے لوگ ہوتے ہیں.پس یہ لوگ حصول انعامات میں بھی ان سے کم درجہ پر ہوتے ہیں.اسی طرح پر منکروں میں بھی دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک گروہ وہ ہوتا ہے.جو کسی وجہ سے منکر رہ جاتا ہے.مگر مکفر مکذب اور شریر اور دلآزار اور بد تہذیب نہیں ہوتا.صرف اس نبی کا دعوی یا اس کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئی تو نہ مانا.یا کوئی اور امر مانع ایمان ہوا اور دعوت حقہ کی قبولیت سے محروم رہ گئے.پس ایسے لوگوں سے دنیا میں کوئی گرفت نہیں ہوتی اور قیامت میں باز پرس اور مواخذہ ضرور ہو گا.رہا دوسرا گروہ منکرین پس وہ نہ صرف اس نبی کی دعوت کو رڈ کرتا ہے.بلکہ تکفیر اور تکذیب پر کمر بستہ ہوتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی حق کے قبول کرنے میں مانع ہوتا ہے اور اس نبی اور اس کی جماعت پر گونا گوں

Page 10

بہتانات اور مفتریات باندھتا ہے اور اس کے کلام میں تحریف و تصریف کرتا ہے.تا کہ عامۃ الناس بدظن ہو کر کنارہ کش ہوں اور بد زبانی دروغ گوئی اور تمسخر اور استہزاء اور اذیت اور نقصان جان و مال دے رہا ہوتا ہے.لوگوں کو ان کے قتل وغارت پر آمادہ کرتا ہے اور جہاں جیسا بس چلا کر گذرے.انہی کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا حسرة على العباد ما ياتيهم من رسول الا كـانـوا به يستهزؤن یعنی اے افسوس ان بندوں پر کہ جب کبھی ان کے پاس کوئی نبی یا رسول آیا تو انہوں نے اس پر ٹھٹھا اڑایا.قرآن کریم میں اسی وجہ سے حضرت آدم ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت عیسی ، حضرت موسی اور دوسرے رسل کا ذکر آیا ہے.کہ لوگ ان کے حالات سے عبرت حاصل کریں.کہ دیکھو جن مکذبین رسل نے ان نبیوں اور ان کی جماعتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا.آخر کا ر ان کا کیا حشر ہوا.وہی حشر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اصحاب کو دکھ دینے والوں کا ہوگا.خدا تعالیٰ نے ان کو بارہا کہا.کہ سیروا فی الارض فانظر واكيف كان عاقبة المكذبين يعنى جاؤ اور ذرا اطراف عالم میں پھر کر دیکھ لو اور چاروں طرف نظر دوڑاؤ کہ انبیاء سابقین کے خلاف شریر بن کر جو لوگ مکذب بنے.ان کا کیسا عبرت ناک اور دردناک پھل ان کو ملا.اگر تم اس مذموم فعل سے باز نہ آئے تو وہی حشر تمہارا ہونے والا.لا ہے.ہمارے مخالف علماء حضرت آدم علیہ السلام کے مخالف جس عزازیل کو اپنی عصر کا علا مہ اور بڑا زاہد اور عابد یقین کرتے ہیں.بلکہ اس کو تمام فرشتوں کا استاد یا معلم الکل کہتے ہیں.آخر حضرت آدم علیہ السلام کے انکار سے ابلیس

Page 11

اور شیطان کا لقب پایا، اور بارگاہ ایزدی سے راندہ ہوا.اور ملعون اور مردود ٹھہرا.اور یقینی جہنمی قرار پایا.اسی طرح حضرت نوح کے مخالفین طوفانِ آب کی نذر ہو گئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے شریر مخالف آفات زمینی و آسمانی کے مستوجب ٹھیرے.حضرت لوط کے مخالف مکذب آتش فشاں پہاڑ اور زلزلہ کا طعمہ ہوئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مکذب فرعون معہ آل فرعون بحر میں غرقاب ہوا.حضرت ہودا اور حضرت صالح کے مخالف زلزلہ اور سیلاب سے تباہ ہوئے حضرت عیسی علیہ السلام کے مکفر و مکذب معاند طیطوس رومی کی تلوار کے گھاٹ اترے.اور رومیوں کی افواج سے پامال ہوئے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن کفار عرب اصحاب النبی کی تلواروں اور نیزوں کی نوکوں سے حسرت اور یاس کی موت کے گھاٹ اترے.صدق الله و رسوله خدا تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی باتیں سچی ثابت ہوئیں.اور اس کے وعدے پورے ہوئے.الحمد اللہ اسی طرح اور ٹھیک اسی طرح جب خدا تعالیٰ نے حضرت احمد علیہ السلام کو وحی سے مبعوث فرمایا.اور اس نے اعلان کیا.کہ میں آنے والا عیسی موعود اور امام مہدی معہود ہوں.اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور دوبارہ وہ نہ آئیں گے.بلکہ آنے والا اسی امت کا ایک فرد تھا جو میں ہوں.میں جمیع فرق اسلامیہ کو اپنے ہاتھ پر جمع کر کے اصحاب النبی کے نقش قدم اور اتباع پر چلانا چاہتا ہوں.اور ان منتشر افراد کو ایک امام اور مرکز پر جمع کرتا ہوں.میں ان کے واسطے اختلافات باہمی کے واسطے حکم و عدل ہوں.غیر الاسلام مذاہب کو دعوت الی الاسلام دوں گا مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ میرا

Page 12

ساتھ دیں.حضرت احمد نے یہ بھی فرمایا کہ میرا ایمان لا اله الا اللہ پر ہے.اور میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین کرتا ہوں.حدیث میں لانبی بعدی کا فرمان درست ہے.مجھے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امتی اور نبی ہونے کا خطاب فرمایا ہے.اس واسطے کوئی اسرائیلی نبی بالخصوص حضرت عیسی ناصری دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے.کیوں کہ وہ خاتم النبین سے نبی ماسبق ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کی آمد کو فرض کیا جاوے.تو وہ نبی ہیں.اور نبی کا امتی ہو جانا ان کے منصب نبوت سے معزول ہونا ہے.اور یہ امر خلاف سنت اللہ ہے.اور اس میں حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے.نیز وہ رسول امت موسویہ کا ہے.اور امت محمدیہ کے واسطے اس کا رسول ہونا ثابت نہیں.البتہ ایک امتی کا بسبب اتباع کا ملہ قرآن کریم و حضرت محمد رسول اللہ مقامِ نبوت پر فائز ہونا اور نبی کا خطاب پانا ممتنع نہیں.بلکہ اس امت کے واسطے موجب عزت ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بلند کرتا ہے.پس میں امتی سے نبی بنا.مگر اتباع محمد اور قرآن کریم کر کے اور آپ نے صاف فرمایا - لا معبود لنا الا الله ولا شريعة لنا الا القرآن - ولا شارع | لنا الا محمد رسول الله مگر آہ ! ان علماء نے اس کی باتوں کو قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں نہ سوچا اور اپنے ناقص علم قرآن وحدیث پر اس کو پرکھا.اور اس کے

Page 13

کلمات طیبات کو علماء سابقین کے اجتہادات سے رڈ کیا.اور کورانہ تقلید آباء و سادات کو ترجیح دی.نہ صرف حق کا انکار کیا بلکہ شریر بن کر شرارتوں میں نمایاں حصہ لیا.بعض نے صرف انکار پر اکتفا کیا اور بعض نے قدرے تکذیب بھی کی.پرا مگر شریر بننا پسند نہ کیا - ولكل درجات مما عملوا خدا تعالیٰ کا سلوک بھی ہر ایک سے اس کے اعمال کے لحاظ سے ہوتا ہے.اور ہوگا.خدا وند تعالیٰ نے حضرت احمد پر بطور تسلی و تشفی مندرجہ ذیل وحی نازل کی (۱) کتب الله لاغلبن انا ورسلى یعنی خدا تعالیٰ نے یہ بات لکھ دی ہوئی ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب ہوں گے (۲) كان حقاً علينا نصر الـمـؤمـنـيـن یعنی ہم پر واجب ہے کہ ہم مومنوں کی نصرت اور حمایت کریں (۳) جاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القيمة يعنى ميں تیری متبع جماعت کو تیرے منکر گروہ پر تا قیامت فوقیت بخشوں گا ( ۴ ) انسی معین من اراد اعانتک و انی مهین من اراد اهانتک یعنی میں ان لوگوں کی مددکروں گا جو تیرے مددگار ہوں گے اور میں ان کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت کے جو یاں ہوں گے.(۵) انا کفیناک المستهزئین میں تیرے ساتھ استہزاء کرنے والوں کو سزا دینے کے واسطے کافی ہوں (۶) ذرنی والمكذبين اني مع الرسول اقوم مجھے اور مکذبوں کو نپٹ لینے دو میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں - ( ۷ ) ويل يومئذ للمكذبين یعنی اس دن تکذیب کرنے والوں کے واسطے ہلاکت کا دن ہو گا.(۸) عبرت بخش سزائیں دی جائیں گی.(۹) اے بسا خانہ ء دشمن که تو ویران کر دی یعنی بہت سے دشمنوں کے گھر ویران ہو جائیں گے.(۱۰) غرق الاعداء كل غرق یعنی ہم دشمنوں کو تتر بتر کر دیں

Page 14

۱۲ گے.اور تباہ کر دیں گے.(۱۱) قطع دابر قوم الذين لا يؤمنون یعنی وہ قوم جو ایمان لانے سے روگردان ہے.اس کی جڑ کاٹ دوں گا.(۱۲) قل یا ایها الكفار انى من الصادقين فانتظر وا أياتى حتى سنريهم اياتنافي الأفاق وفى انفسهم جمعية قائمة وفتح مبين يعنی کہہ دو کہ اے انکار کرنے والو ! میں سچا ہوں.پس تم میرے نشانات کا انکار نہ کر و.یہاں تک کہ میں ان کو آفاق عالم میں اور خود ان کے نفسوں میں عنقریب نشانات دکھاؤں گا.یہ ایک قائم رہنے والی جمعیت ہے اور کھلی فتح ہوگی (۱۳) ان الذين يصدون عن سبيل الله سينا لهم غضب من ربهم ضرب الله اشد من ضرب الناس انما امرنا اذا اردنا شئيا ان نقول له كن فيكون و يعض الظالم على يديه ويطرح بين يدى جزاء السيئة بمثلها وترهقهم ذلة مالهم من الله من عاصم فاصبر حتى ياتى الله بامره ان الله مع الذين اتقوا والذين هم محسنون جو خدا کی راہ میں روک ہوتے ہیں.عنقریب ان پر ان کے رب کی طرف سے غضب کا نزول ہوگا.خدا کی مارلوگوں کی مار سے سخت تر ہوتی ہے ہم جب کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں.تو اس کو ہو جا کا حکم دیتے ہیں.اور وہ ہو جاتا ہے.یہ مخصوص ظالم اپنا ہاتھ کاٹے گا.اور میرے سامنے ڈالا جائے گا.یہ سزا ہے اس بات کی.کہ جیسا برا کیا ویسا پھل پایا.اس پر ذلت سوار ہو گی.خدا تعالی کی گرفت سے اس کو کوئی نہ بچا سکے گا.پس تو صبر سے کام لے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اپنا فرمان جاری کر دے.خدا تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے.جو متقی ہوں اور محسن ہوں (۱۴) امانریـنـک بـعـض الذي نـعـد هـم او نتوفینک یعنی بعض پیشگوئیاں تیری زندگی میں پوری ہوں گی.اور بعض

Page 15

۱۳ تیری وفات کے بعد ( ۱۵ ) ساریکم آیاتی فلاتستعجلون یعنی میں عنقریب تم کو اپنے نشانات دکھاؤں گا پس تم جلدی مت کرو (۱۶) ربنا افتح بيننا وبين قومنا بالحق وانت خير الفاتحین یعنی اے ہمارے رب تو ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ فرما اور تو فیصلہ کرنے والوں میں سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے.خدا تعالیٰ نے جیسا کہ حضرت احمد علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے کلام کے ذریعہ تسلی اور تشفی دی تھی.اسی طرح عملاً اپنے فعل سے مکفرین و مکذبین سے سلوک بھی کیا.حضرت اقدس علیہ السلام کی نسل کو بڑھا یا جماعت کو بڑھایا اور آپ سے وہی سلوک کیا جو اپنے پاک اور برگزیدہ نبیوں سے کیا تھا.اور آپ کے مخالفوں سے وہی سلوک کیا جو حق کے مخالفوں سے ہوتا آیا ہے.اور سب سے بُرا انجام ان لوگوں کا ہوا.جن کو حضرت احمد علیہ السلام نے اپنی کتاب انجام آتھم میں صفحہ ۶۹ پر مباہلہ کی دعوت دی تھی.اور انہوں نے مباہلہ بھی نہ کیا.اور تکفیر و تکذیب سے بھی باز نہ آئے.جو شخص اب یا آئندہ بھی یہ خطر ناک طرز عمل اختیار کرے گا.تو وہی خداوند غیور اب بھی موجود ہے اور اس کے قبضہ قدرت میں وہی گرفت اخذ الیم اور عذاب شدید کی موجود ہے.چونکہ ہمارا مدعا پنجاب یا ہندوستان یا دوسرے ممالک کے مکفروں اور مکذ بوں سے نہیں اور یہ کام ہم ان ملکوں کے لوگوں پر چھوڑتے ہیں.کہ وہ اپنے علاقہ کے ایسے لوگوں کے حالات جمع کر کے ترتیب دیں.اس واسطے ہم صرف اس وقت افغانستان اور اس کے بعد صوبہ سرحد شمال مغربی کے اندر واقع شده نشانات کا تذکرہ کریں گے اور بالخصوص یہ حصہ کتاب مملکت افغانستان سے

Page 16

۱۴ متعلق ہے کہ وہاں دعوت احمدیت کس طرح پہنچی.اور وہاں کے مکفر اور مکذب گروہ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے کیسا سلوک کیا.اور ہمارے ملک کے باشندے اکثر حالات افغانستان سے بسبب ہمسایہ ہونے کے خوب واقف ہیں.اس واسطے ان کی دلچسپی بھی انہی واقعات سے زیادہ ہو سکتی ہے.پیشتر اس کے کہ ہم اصل واقعات پر روشنی ڈالیں.ہم اپنے وطن کے مطالعه کنندگان سے بطور ایک ہموطن بھائی اور ہمدرد اور خیر خواہ کے مؤدبانہ التماس کرتے ہیں.کہ وہ ذرا خدا کا خوف اور موت کا واقعہ اور میدانِ حشر کی باز پرسی کو سامنے رکھ کر ایک ایک ہو کر یا دو (۲) دو (۲) مل کر عدل اور انصاف کو سامنے رکھ کر خوب سوچیں اور اپنی ضمیر سے دریافت کر یں.کہ کیا ممکن نہیں ہو سکتا.کہ واقعی آنے والا اسی امت محمدیہ کا ایک فرد ہو.اور ہم میں سے کوئی انسان ہو.اور خدا تعالیٰ نے اس کو شرف مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف کیا ہو.اور اس کو مسیح موعود اور امام مہدی معہود قرار دیا ہو اور اس سے اشاعت تو حید اور تبلیغ رسالت محمدیہ اور تعلیم قرآن مجید کا کام لیا ہو اور ہم کو صحیح معنوں میں مسلمان بنانے آیا ہو.اور وہ موعود یہی حضرت احمد قادیانی ہو.اور دراصل جميع انبیاء و رسل کی طرح حضرت عیسی علیہ السلام بھی فوت شدہ ہوں.ہم اور ہمارے علماء اس کی تکذیب اور تکفیر میں غلطی پر ہوں ، اور حق اور سچ وہی ہو جو حضرت احمد فرماتے ہیں.اور اگر واقعات اسی طرح ہوں.تو ہماری تکذیب اور تکفیر ہمارے واسطے کیسا خطرناک انجام پیدا کرے گی.ایک تو ہم اس کے وجود کی شناخت سے محروم رہے.جس کا تیرہ سو سال سے انتظار تھا.دوسرا وہ خدمت اسلام جو اس نے کرنی تھی.اس سے محروم ہوئے.تیسرا اس کے ماننے کے

Page 17

۱۵ انعامات اور برکات سے محروم ہوئے.چوتھا اس کی تکفیر اور تکذیب کا وبال سر پر لیا اور قیامت کے دن خدا تعالیٰ اور اس کے برگزیدہ رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں شرمندہ اور رسوا ہوں گے.کہ ہم خدا کے فرستادہ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند اور جانشین کی متابعت سے محروم ہوئے.بلکہ اس کی تکفیر اور تکذیب کے مرتکب ہوئے.اللهم احفظنا من تكفير و تكذيب للصادقين پس وہ لوگ جو اس وقت بد زبانی ، بہتانات اور افتراء اور استہزاء کو پیشہ بنا چکے ہیں.وہ بار دیگر ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کریں تا کہ وہ خدا کے غضب کی آگ کو اپنے خلاف نہ بھڑ کا ئیں.اور اپنی عاقبت کو محمود بنانے کا فکر کریں.خدا تعالیٰ نے تمام قرآن کریم میں ایک مقام پر بھی ایسا نہ فرمایا.کہ فلاں شہر یا ملک میں ایک نبی اٹھا.اور لوگوں نے اس کی خوب تکذیب کی.اور اس کو طرح طرح کی ایذا ئیں دیں اور ہم ایسے لوگوں سے خوش ہیں.بلکہ بار بار یہ فرمایا کہ فلاں ملک یا قوم میں ایک نبی اور رسول کھڑا ہوا.جن لوگوں نے اس کی تکذیب کی ، اور اس کی مخالفت کی.ہم نے ان پر زمینی اور آسمانی عذابوں کی بارش برسائی ، اور ان کو ہلاک کر دیا.لہذا میرے دوست ان امور کو خوب سوچیں.اور خدا تعالیٰ سے توفیق مانگیں.کہ ان کو حق کی شناخت حاصل ہو.اور اپنے آپ کو مجرم بنا کر اپنی ذات پر عذاب کے نزول کا تجربہ نہ کریں.وما علينا الا البلاغ و عليه الحساب خدا تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کر و ان یک کاذباً فعلیه کذبه و ان یک صادقاً يصبكم بعض الذي يعد کم اگر یہ مدعی کا ذب ہوگا تو اپنی

Page 18

14 کذب کی سزا پاوے گا.اگر صادق ہوا تو خدا کے عذابوں میں سے بعض عذاب تم پر ضرور نازل ہوں گے.پس خدا سے ڈرواور تکذیب مت کرو.باب اوّل زمانہ حکومت امیر عبدالرحمن خان بادشاه افغانستان فصل اول امیر عبدالرحمن خان کی کابل کے تخت پر تخت نشینی اور اس کو دعوتِ احمدیت : امیر عبدالرحمن خان جوامیر محمد افضل خان ابن امیر کبیر امیر دوست محمد خان کے فرزند تھے.اور ۱۸۳۰ء میں کابل میں متولد ہوئے اور پچاس سال کی عمر میں ۳۰ جولائی ۱۸۸۰ ء میں افغانستان کے تخت پر تخت نشین ہوئے اور بڑے شان وشوکت سے اور قوت و جبروت سے ایک مضبوط اور با قاعدہ حکومت قائم کر کے آخر کا ر ۲۲ سال کی حکومت کے بعد اس دار فانی سے را ہی ملک عدم ہوئے.دعوتِ احمدیت : سیدنا حضرت احمد قادیانی علیہ السلام نے ۱۲۹۰ھ میں ما مور من اللہ اور مبعوث ہو کر باتباع سنتِ محمدیہ بادشاہانِ عالم و رؤساء ریاست کو بھی دعوت سلسلہ حقہ دی اور ان کو باخبر کیا.کہ آنے والا موعود آ گیا ہے.وہ صلى الله کلمہ لا الہ الا اللہ کو صدق دل سے قبول کریں اور اتباع محمد رسول اللہ علی

Page 19

71 شجرة نسب امیرانِ افغانستان بازک زائی حاجی جمال خاں ( مورث اعلیٰ ) پائیند و خان معروف به سرفراز خان وز سر فتح خان سلطان محمد خان یار محمد خان پیر محمد خان حاکم ہوتی مردانا ) سید محمد خان امیر (حاکم چهار سه ده) ست محمد خان محمد عظیم خان CIN>> (گورنہ کشمیر ) (حاکم پیشاور ) (حاکم تو شهره) سردار عباس خان محمد ذکریا خان محمد مکی خان عبد القدوس خاں امیر محمد اعظم خان امیر محمد افضل خان و وزیر محمد اکبر خان غازی سردار محمد یوسف خان سردار محمد آصف خان محمد اسحاق خان امیر عبدالرحمن خان تولد ۱۸۴) تولد ۱۸۳۳ء وقات ۱۹۰۱م) ب خان امیر محمد ایوب خان سردار محمد ابراهیم خان (nor) محمد عزیز خان محمد نادرخان محمد ہاشم خان محمد شاه ولی خان شاه محمود خان سردار عبدالمجید خان سردار عبدالحمید خان (احمدی) محمد ظاہر شاہ (-۱۹۳۳) اللہ خان سردار نصر اللہ خان سردار امین الله سردار محمد عمر خان سردار غلام علی خان تولد ۱۸ م ولات ۱۹۱۹ء) تولده عام و قات ۱۹۳۱ء) (IAA-W7) (IAM) (MMA)

Page 20

VI زوجہ اول سے د افضل خان محمد عظیم خان ( وفات ۱۸۹۷) تولد ۱۸۳۳ م جلادان روسیه وقت ۱۸۷۰) شجره نصب امیر افغانستان (امیرکبیر) امیر دوست محمد خان بارک زائی ( تولد ۷۷۸ ار تخت نشینی ۱۸۲۹ء وفات ۱۸۶۳ء مدفون ہرات ) سردار محمد اسحاق خان تولد ۸۴۰ و حالا دن روسیه ) امیر عبدالرحمن خان نی ۱۸۸۰ ، فالج گرا وفات ادراکتو میرا ۱۹۰م) زوجہ ثانیہ سے امیر شیر علی خان وزیر محمد اکبر خان غازی تولد ۱۸۲۵ تخت مکی ۲۳ ۱۸ موقات ۰۱۸۷۹) امیر محمد یعقوب خان امیر محمد ایوب خان سردار محمد ابراہیم خان سردار غلام حیدر سردار عبدالمجید خان سردار عبد الحمید خان احمدی سردار نصر اللہ خان سردار امین اللہ خان سردار محمد عمر خان سردار غلام علی خان تولد ۱۸۸۵) (تولی ۱۸۸۹) ( توی یه ۱۸۸) تولد ۱۸۷۲ تخت نشینی ۱۰۱۹۰۱ کیا ہوا) تولد ۷ ۱۸ ء وفا سے ۱۹۲۰ قتل ہوا ) سردار حیات اللہ خان امیر امن الله خان بادشاہ افغانستان سردار محمد کبیر خان سردار عنایت اللہ خان تولد ۱۸۸۰ عزل ۱۹۲۸ لاوت در ایران) (تولید ۱۹۹۰ م ولات ۱۹۲۸ ش هوا ) تولد ۱۸۹۰ عزل ۱۹۳۸ جلاوطن در اطالید) تولد ۱۱۸۹۳)

Page 21

۱۹ اختیار کریں.اور قرآن کتاب اللہ پر ایمان لائیں.اور اس کی تعلیم اور تعمیل پر عامل ہوں.اور اشاعت اسلام اور تبلیغ دین حق میں اس کے معاون اور ممد ہوں.کہتے ہیں کہ امیر عبدالرحمن کو جس وقت یہ دعوت پہنچی.تو اس نے سن کر فرمایا ما را عمر باید نه عیسی عیسی در زمان خود چه کرده بود که بار دیگر آمده خواهد کرد یعنی ہم کو حضرت عمر فاروق کی ضرورت ہے حضرت عیسی ناصری کی ضرورت نہیں.حضرت عیسی نے بعثت اولی میں کیا کامیابی حاصل کی تھی کہ اب دوبارہ آکر حاصل کریں گے.“ ہم کو تو ہرگز یہ یقین نہیں آتا.کہ امیر عبدالرحمن خان نے مسلمان کہلا کر ایسا گستاخانہ فقرہ ایک اولو العزم نبی کے حق میں کہا ہو.جس سے نہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت اولی پر حملہ ظاہر ہے.بلکہ اس سے ان کی بعثت ثانیہ کی عدم ضرورت ثابت ہوتی ہے.حالانکہ نزول و ظہور عیسی موعود کی خبر قرآن کریم میں خود خدا تعالیٰ نے دی ہے.اور احادیث صحیحہ میں خود حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے.اور اگر اس فقرہ کی یہ تاویل کی جائے.کہ چونکہ حضرت عیسی ناصری ایک جمالی نبی تھا.اور اس کی تعلیم صلح اور آشتی اور امن اور اخلاق پر مبنی ہے اور حضرت عمر فاروق نے کفار اسلام کے مقابلہ میں شمشیر سے کام لے کر جہاد کیا تھا.اس واسطے یہ زمانہ تبلیغ اسلام کے واسطے جہاد بالسیف کو چاہتا ہے.اور تبلیغ بالقرآن والبُرہان کی ضرورت نہیں.تو اس طرح گویا امیر موصوف نے پادریوں اور مخالفین اسلام کی تصدیق اور تائید کی کہ اسلام کی اشاعت واقعی بزور شمشیر ہوئی ہے.اور وہ اپنی قوت روحانیہ اور

Page 22

۲۰ براہین قاہرہ کے زور سے قلوب اقوامِ عالم کو سخر نہ کر سکا.فصل دوم مسئلہ جہاد اور احمدیت حقیقت جہاد : حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر مذہب اسلام اپنی اشاعت اور تبلیغ کے واسط ممنونِ احسانِ شمشیر آبدار ہوتا.تو آغاز اسلام میں جو لوگ مکہ معظمہ میں داخلِ اسلام ہوئے ان کو کس تلوار سے سید نا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کیا تھا.اور سیزدہ سالہ کی زندگی میں آپ نے کیوں شیخ و سنان سے کام نہ لیا.تلوار تو مدنی زندگی میں اٹھائی گئی اور وہ بھی اس وقت جب کہ مکہ والوں نے نہ صرف مسلمانوں کو مکہ معظمہ سے ہجرت پر مجبور کیا بلکہ ان کی جائدادوں اور ازواج پر قبضہ کر لیا بلکہ ان کو بیک بینی و دو گوش مدینہ منورہ اور حبشہ اور کنار بحر احمر کی ہجرت پر مجبور کیا اور بہتوں کو تہ تیغ کیا.آخر کار ان کا پیچھا کر کے ان کو مدینہ منورہ میں نیست و نابود کرنے کے شوق اور ارادہ سے مکہ معظمہ سے روانہ ہوئے.تو بحالت صد مجبوری اور بغرض حفاظت جان و مال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے اسی (۸۰) میل باہر نکل کر مقام بدر پر دفاعی مقابلہ کیا.اور اس کے بعد بھی جس قدر جنگ ہوئے زمانہ نبوی یا خلفائے اسلام کے زمانہ میں وہ اکثر دفاعی تھے.تاہم تبلیغ اسلام تو صرف قوت روحانیہ اور

Page 23

۲۱ براہین قرآنیہ سے ہوتی رہی.اور یہ مقدس کام بھی بادشاہوں نے نہیں بلکہ اولیاء اللہ روحانی لوگوں نے کیا ہے.اگر مسلمان بادشاہ جبر و واکراہ سے کام لیتے تو کیا ہندوستان اور مصر و شام میں دوسرے مذاہب کا وجود باقی رہتا ؟ ہرگز نہیں.تبلیغ اسلام : قرآن کریم نے تبلیغ مذہب کے بارے میں صاف کہا ہے کہ ادع الى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة يعنى دعوت الى الاسلام صرف دلائل حکمت اور مواعظہ حسنہ کے ذریعہ ہوا کرے.اور تلوار یا جبر کے بارہ میں فرمایا کہ لا اکراہ فی الدین کہ دین کے بارہ میں کسی شخص کو جبر اور اکراہ سے مجبور نہ کیا جائے.بلکہ لکم دینکم ولی دین پر عامل ہوں.یعنی مومن اپنے مذہب پر عمل کریں.اور کا فراپنے مذہب پر.کوئی کسی کو جبر سے مجبور نہ کرے.- رہا سیاسی مخالف اور حملہ آور اعداء سے معاملہ.سو اس کے بارہ میں بھی صاف فرمایا کہ قاتلوا الذين يقاتلونکم یعنی تلوار کا جنگ ان سے کرو جو تمہارے خلاف تلوار سے حملہ آور ہوتے ہیں.ولا تعتدوا اور تم کسی پر جبر اور زیادتی مت کرو جزاء سيئة سيئة مثلها برائی کی سزا اسی قدر ہے جس قدر کہ برائی ہے اس سے زیادہ نہیں کیونکہ مذہب شمشیر کا محتاج نہیں.البتہ جان و مال کی حفاظت یا ملکی حفاظت کے واسطے بطور دفاع تلوار سے کام لینا لابدی اور ضروری ہے.اختلاف مذہب کی بنا پر کسی کو قتل کرنے کی ہرگز اجات نہیں.بلکہ بے

Page 24

۲۲ گناہ کو قتل کرنا اسلام میں جرم عظیم ہے.ہاں اگر کوئی فرد یا بادشاہ ایسے فعل کا مرتکب ہو.تو اس کے شخصی فعل کا اسلام ذمہ دار نہیں.اور نہ بادشاہوں کی ملک گیری کی جنگوں کو مذہبی جہاد سے کوئی تعلق ہے.اگر کوئی قوم یا بادشاہ اس قسم کی غلطی کا مرتکب ہو.تو وہ مذہب اسلام کے واسطے باعث ننگ و عار ہے.جہاد کا غلط مفہوم : بے شک عیسائی پادریوں اور آریوں کی سعی سے ایک طبقه مسلمانانِ ہندا اس باطل عقیدہ میں مبتلا ہو گیا ہے.کہ آنے والا امام مہدی معہود اور عیسی موعود کفار اسلام سے جہاد بالسیف کرے گا.اور اس غلط فہمی کی اشاعت میں اہلحدیث کے علماء بالخصوص نواب صدیق الحسن صاحب بھوپالوی کی تالیفات نے بڑی مدد دی ہے اور احناف جو سرحد افغانستان پر بستے ہیں.اکثر ہندوستان کے مکتبوں دیو بند دہلی وغیرہ سے یہ غلط خیالات لے کر اپنے اوطان کو جاتے ہیں.اور اس غلط مسئلہ کو شہرت دیتے رہے ہیں.حضرت احمد مسیح موعود علیہ السلام نے اس غلطی کی بھی اصلاح کی ہے.اور عمدہ دلائل اور براہین سے کی ہے.اور فرمایا کہ ہر مسلمان کے واسطے مقدم جہاد بالقرآن اور جہاد بالعلم والقلم ہے.اور یہیں از روئے قرآن کریم جہاد کبیر ہے.جو تقریر اور تحریر کے ذریعہ سے ہو.لیکن اگر کوئی دشمن دینِ اسلام قوم یا فرد مسلمانوں کے جان و مال و ے حضرت سید احمد بریلوی نے ۱۸۳۰ء میں ہندوستان سے آکر سرحد میں سکھ قوم کے خلاف جہاد کا تہیہ کیا کیونکہ سکھ حکومت نے مسلمانوں سے مذہبی آزادی چھین لی تھی.مگر انگریزوں کے خلاف جہاد بالسیف کو جائز نہ جانا.کیونکہ انہوں نے مذہبی آزادی برقرار رکھی تھی.مگر اہل حدیث اور بعض نا واقف اہل سرحد اس خطرناک غلطی کے مرتکب ہوتے رہے اور نتیجہ ہمیشہ مسلمانوں کے حق میں مضر نکلتا رہا.

Page 25

۲۳ ملک پر دست تطاول دراز کرے اور اس وجہ سے حملہ آور ہو کہ اس کو مذہبی جنگ قرار دے.اور مسلمانوں کو شریعت قرآنیہ کی اتباع اور تبلیغ سے روکے اور ارتداد پر مجبور کرے.تو بغرض حفظ جان و املاک و حکومت و مذهب بیشک مسلمان جہاد بالسیف کر سکتے ہیں.اور کون بے وقوف ہو گا جو ظالم حملہ آور کے مقابلہ میں مظلوم مسلمانوں کا حق دفاع تسلیم نہ کرے گا اور ان کے قتل و غارت اور عزت و آبرو اور ملک و مذہب کے ضائع ہو جانے کا مشورہ دے گا اور اس پر رضا مند ہوگا : - حضرت احمد صاحب نے جس قسم جہاد کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے وہ غلط مفہوم جہاد ہے کہ جس میں صرف اختلاف مذہب کے سبب سے غیر مسلم کا قتل اور غارت جائز قرار دیا جاتا ہے.جیسا کہ ۱۸۹۲ء کے بعد ۱۹۰۲ ء تک سرحد پر ملا لوگوں نے جائز کر رکھا تھا کہ جہاں کسی انگریز مرد یا عورت کے خلاف موقع ملا.تو اس کو بے گناہ قتل کر دیا.یہ سب ان بعض متشد دلا يعقل مسجد نشین ملاؤں کے خیالات ہیں.قرآن کریم نے اس قسم کے کسی جہاد کی تعلیم نہیں دی.اس کے ذمہ دار یہی بے عقل لوگ ہیں.اور وہ امام مہدی معہود کو بھی اسی قسم کے جہاد کا عامل مانتے ہیں اور اسی کے انتظار میں ہیں.چونکہ حضرت احمد علیہ ا نے ان کے اس لغو فعل کو ر ڈ کیا ، اور اس کو حرام جہاد کہا اس واسطے وہ ناراض ہو گئے.اور لوگوں میں شہرت دی.کہ جماعت احمد یہ منکرِ جہاد ہے.ہم بے شک اس جہاد کے منکر ہیں جس کا ثبوت قرآن کریم میں نہیں ملتا.اور قرآن کریم کے فرمودہ ہر دوا قسام جہاد کے قائل ہیں.اور خود جہاد کبیر یا جہاد بالقرآن پر عامل ہیں.ہم محض اختلاف مذہب اور عقیدہ کی بناہ پر کسی کی

Page 26

۲۴ جان و مال پر حملہ کرنا اور ان کے قتل و غارت کو حرام جانتے ہیں.جو خدا کے بندوں کا خونِ ناحق کرے گا.وہ قیامت کے دن اس کا ذمہ دار ہو گا.مذہب اسلام تو اپنے معنوی لحاظ سے صلح امن اور آشتی پھیلا نے آیا ہے.اور ہر مسلمان اپنے نام کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کا فرمانبردار مخلوق خدا سے صلح اور امن سے زندگی بسر کرنے والا ہونا چاہیئے اگر مذہب اسلام اس ظلم و تعدی کی تعلیم دیتا.تو ممالک اسلامیہ میں آج یہود نصاری اور پارسی یا کوئی اور مذہب کا پیر و نظر نہ آتا اور نہ صرف مبلغ تین روپے سالانہ کے مساوی رقم کے عوض میں غیر مسلم کو اپنی سلطنت میں آزا د ر ہنے دیتا.اور نہ اس کے جان و مال و مذہب کی پابندی کی ذمہ داری لیتا.فصل سوم تعلیم احمدیت حضرت احمد قادیانی علیہ السلام نے اپنے عقائد اور تعلیمات اپنی ایک سو(۱۰۰) کے قریب کتب میں مدلل اور مفصل لکھی ہیں.جو عربی اردو اور فارسی میں مرقوم ہیں.اور جماعت احمد یہ باتباع ان تعلیمات کے بآوازِ دہل اعلان کرتی ہے.ہمارا عقیدہ: (1) أمنا بالله وحده لا شريك له، لم يلد و لم يولد ولم يكن له

Page 27

۲۵ كفوا احد - ليس كمثله شئى وله الاسماء الحسنى ولا معبود لنا الا لله ونؤمن بالملئكة انهم عباد مكرمون لا يعصون امر الله ويفعلون مايؤمرون - ونؤمن بما اوتى النبيون من ربهم و بكتاب الله القرآن لانزيد فيه ولا ننقص منه مثقال ذرة - الخير كله في القرآن وهو مقدم على كل شئى ولا شريعة لنا الا القرآن ونؤمن بسائر الانبياء والرسل ولانفرق بين احد منهم ونشهد ان محمداً عبده ورسوله وهو خاتم النبيين لا نبي بعده، الا الذي ربّى من فيضه واظهره وعده وهو الذي قال الله في حقه يتلوه شاهد منه اسمه احمد - وقال الرسول في شانه ينزل ابن مريم فيكم و امامكم وسماه بعیسیٰ نبی الله - لا مهدی الاعيسی ولیس بینی و بینه نبى وهو فرد من افراد امته ونحل ما احل الله ورسوله ونحرم ماحرم الله و رسوله نصلی خمس صلواة بالجماعة ونستقبل القبلة وهي الكعبة في بطن بكة المباركة و نصوم صيام شهر رمضان ونوتی الزكواة ونحج البيت ان كان لنا استطاع اليه سبيلا - ونؤمن بالبعث بعد الموت و نحن له مسلمون ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ واحد ہے.اس کا کوئی شریک (۲) (۳) (۴) (۵) (۶) -1

Page 28

۲۶ نہیں.نہ وہ کسی کا بیٹا ہے نہ اس کا کوئی باپ ہے اور نہ اس کا کوئی رشتہ دار ہے نہ اس کا کوئی مثیل ہے.اس کے واسطے پاک صفات ہیں اور ہمارا کوئی معبود نہیں.سوائے اللہ تعالیٰ کے.ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ملائکہ خدا تعالیٰ کی قابل عزت مخلوق ہیں اور خدا کے حکم کے نافرمان نہیں.بلکہ وہ وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے.ہم ایمان رکھتے ہیں ان تمام وحیوں پر جو خدا تعالیٰ کے نبیوں کو ان کے رب سے ملی ہیں.اور اس کی کتاب قرآن پر بھی.نہ ہم اس میں سے کسی چیز کو زیادہ کرتے ہیں نہ کم.خواہ ایک ذرہ بھر ہو.تمام خوبیاں قرآن میں ہیں اور وہ تمام چیزوں پر مقدم ہے.اور ہماری شریعت صرف قرآن کریم ہے.- ہم ایمان رکھتے ہیں.کہ جمیع انبیاء ورسل صادق تھے.ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار نہیں کرتے.ہم شہادت دیتے ہیں.کہ حضرت محمد خدا کا بندہ اور رسول تھا.اور وہ خاتم النبین ہے.اس کے بعد کوئی مدعی نبوت سچا نہیں سوائے اس کے جو فیض محمدی سے فیض یاب ہوا اور اس کے وعدہ کے بموجب ظاہر ہوا ہو.اور وہی شخص ہوسکتا ہے جس کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ سید نا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک شاہد من اللہ ظاہر ہو گا.جو اس میں سے ہوگا.اور اس کا نام احمد ہو گا.اور سید نا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.کہ تم میں ایک ابن مریم ظہور کرے -۲

Page 29

۲۷ -7 -L گا.جو تمہارا امام ہو گا.اور تم مسلمانوں میں سے ہو گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام عیسی نبی اللہ رکھا ہے اور کوئی جدا امام مہدی معہود نہ ہوگا.سوائے عیسے موعود کے.اور اس کے اور سید نا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیانی زمانہ میں کوئی ولی اللہ مجد د یا محدث نبی نہ کہلائے گا.وہ اسی امت کے افراد میں سے ایک فرد ہو گا.ہم حلال جانتے ہیں ان تمام چیزوں کو جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حلال ٹھہرایا.اور حرام جانتے ہیں.جس کو انہوں نے حرام فرمایا.ہم پانچ وقت نماز با جماعت ادا کرتے ہیں اور منہ قبلہ کی طرف کرتے ہیں اور وہ کعبۃ اللہ ہے جو مکہ معظمہ میں ہے.اور ماہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں.اور زکوۃ دیتے ہیں.اور حج بیت اللہ ادا کرتے ہیں.اگر ہم کو اس کی طرف جانے کی استطاعت میسر ہو.ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لاتے ہیں اور ہم خداوند تعالیٰ کے فرمانبردار اور مسلمان ہیں.یہ ہمارے عقائد اور تعلیمات ہیں.جو ان کے خلاف ہمارے حق میں کہتا ہے.وہ ہم پر افتراء کرتا ہے.اور اپنے کذب و بہتان کے واسطے خدا کے نز دیک جواب دہ ہوگا.

Page 30

۲۸ فصل چهارم ہفتاد و دو (۷۲) ملت اور احمدیت آج بے شک پیروانِ اسلام ہفتاد و دو ملت میں تقسیم شدہ ہیں اور ہر فرقہ باقی فرق کو کافر اور خارج از اسلام کہتا ہے.گویا عملاً تمام اپنے منہ کے فتوؤں سے اسلام سے خارج ہو چکے ہیں.اور ہر ایک فرقہ کے خلاف اکثر فرق کے فتاویٰ تکفیر کے موجود ہیں.ہم جماعت احمدیہ کے افراد علی قدم الصحابتہ النبی ہیں.اور تفریق بین المسلمین کے مخالف ہیں.کیونکہ اس مصیبت نے مذہب اسلام کی شوکت کو تباہ کر دیا ہے.اور ہم اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.کہ ایک گروہ قرآن کریم کو کامل اور اکمل یقین نہیں کرتا.اور اس کو دست بُر دصحابہ سے خالی نہیں جانتا.یا حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ذوالنورین کو خلفاء برحق نہیں جانتا.اور ان کو اور حضرات ازواج النبی میں سے حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ کو کافرین اور فاسقین کہتے ہیں.اور ان کی تھی ایمان کرتے ہیں.یا ان کی خلافت برحق ماننے والوں کو ناصبی اور جہنمی کہتے ہیں.ہم ان لوگوں کے خیالات کو بھی نفرت سے دیکھتے ہیں.جو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ یا حضرت امام محمد شافعی یا حضرت امام مالک یا حضرت احمد بن حنبل کو بدعتی اور مفتری کہتے ہیں.اور ان کی مساعی جمیلہ کو قدر اور عزت سے رح

Page 31

۲۹ نہیں دیکھتے بلکہ ان کی ہتک کرتے ہیں ، اور ان کو حديث كل بدعة ضلالة و كل ضلالة في النار کا مصداق ٹھہراتے ہیں.اور اہل سنت کو مشرکین کا گروہ کہتے ہیں.الغرض مسلمانوں کا ہر گروہ دوسرے کی دل آزاری کو ثواب جانتا ہے.اور اس طرح تخریب اسلام کے در پے ہے.ان لوگوں نے اسلام سے دشمنی کی جو کفار بھی نہ کر سکے اور حدیث نبوی ستــفــرق امتـى عـلـى ثـلاث وه ر وسبعين فرقة كلهم فى النار الا واحدة قالوا ماهي قال ما انا عليه واصحابی کو اپنے اندر پورا کیا.یعنی جس وقت میری امت قریب میں ۷۳ فرقے ہو جائے گی.تو ۷۲ فرقے تو اہل النار ہوں گے.اور صرف ایک فرقہ محفوظ رہے گا.جو میرے اور میرے اصحاب کے نقش قدم پر چلے گا.فرقہ واحدہ ناجیہ کی شناخت : قرآن کریم نے دو (۲) گروہوں کی خبر دی ہے.ایک اصحاب محمد کی اور ایک اصحاب احمد کی.اول الذکر کا نام اولین اور امین رکھا ہے اور دوسرے گروہ کا نام آخرین رکھا گیا ہے.چنانچہ ایک جگہ یوں خبر دی ہے - هو الذي بعث فی الامیین رسولا منه......و آخرین منهم لما يلحقوا بهم (سوره الجمه) دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ثلة من الاولین و ثــلـة مـن الأخـريـن پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی احادیث میں فرمایا ہے- کیف تھلک امة انا اولها والمسيح ابن مريم في آخرها يعنى میری امت کس طرح ہلاک ہوگی.جس کا نجات دہندہ جماعت اولین میں میں خود موجود ہوں ، اور جماعت آخرین میں امسیح ابن مریم ہو گا.پس ثابت ہوا.

Page 32

کہ آخرین کی جماعت حضرت مسیح موعود کی جماعت ہے.چونکہ ایک طرف اس گروہ کی شناخت یوں بتائی گئی ہے کہ ما انا عليه واصحابی یعنی وہ میری سنت پر اور میرے اصحاب ! کی طرز پر عامل ہوگا.تو دوسری طرف فرمایا کہ اخــریـن منهم یعنی وہ آنے والی جماعت اصحاب النبی میں شمار ہوگی.پس ۷۲ فرقوں کی باہمی تکفیر و تفیق کے بعد جو گروہ بنا.وہ خدا کے حکم سے اور ایک نبی اللہ کی اجازت سے تھا.اور ان کے پیش نظر صرف تین امور ہیں.یعنی خدا، رسول اور کتاب اصحاب النبی کا بھی اصل کام.(۱) اشاعت توحید (۲) تبلیغ رسالت محمدیہ اور (۳) شریعت قرآنیہ تھا.اور اصحاب احمد کا کام بھی دراصل اشاعت تو حید تبلیغ رسالت محمدیہ اور شریعت قرآنیہ ہے.لہذا حضرت احمد جری اللہ کی جماعت ہی علی قدم صحابہ اور جماعت احمدیہ صحابہ کی طرح خالص مواحدانہ عقائد پر قائم ہے.شرک فی الصفات جو مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں عام ہے.اس سے محفوظ ہے.(۲) صحابہ کی طرح نماز روزہ حج زکوۃ وغیرہ احکام دین کی پابند ہے (۳) صحابہ کی طرح آپس میں اتفاق و اتحاد رکھتی ہے (۴) صحابہ کی طرح تبلیغ دین ہر ملک میں کر رہی ہے (۵) صحابہ کی طرح رویائے صادقہ الہامات ربانیہ اور کشوف صحیحہ قبولیت دعا کی روحانی نعمتوں سے مشرف ہے (۶) صحابہ کی طرح وقت کے امام کی مصدق ہے (۷) صحابہ کی طرح تمام قرآنی و نبوی پیشگوئیوں کی مصدق اور اخبار غیب پر ایمان رکھتی ہے.ناشر: حکیم عبد اللطیف شاہد

Page 33

۳۱ فرقہ واحدہ اور گروہ ناجیہ ہے.باقی ۷۲ فرقے ان بانیوں کی طرف منسوب ہیں.جو خود صاحب وحی اور مامور من اللہ نہ تھے.مگر یہ جماعت ۷۲ کی جامع ہے.یعنی ان کو ایک مرکز اور امام پر جمع کرنے والی ہے.جس طرح سید نا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جمیع قسم کے کفار ومشرکین.یہود و نصاری اور مجوسی اور لامذہب متفق ہو کر الکفر ملة واحدة کے مصداق تھے.اسی طرح سید نا حضرت احمد جری اللہ کے خلاف تمام گروہ اور مذاہب مل کر متفقہ محاذ قائم کر چکے تھے.اور الکفر ملة واحدة کا نمونہ بن گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق جماعت احمد یہ ہی آلا وَهِيَ الْجَمَاعَةُ کہلانے کی مستحق ہے.کیونکہ جماعت وہی ہوتی ہے جس کا امام ہو اور امام بھی وہ جو حکم اور الہام الہی کے ماتحت کھڑا ہو ا ہو کسی احمدی کو کسی مکفر و مکذب کا میرزائی کہنا بعینہ ایسا ہے.جیسا کہ کفار عرب ومشرکین اصحاب الرسول کو صابی کہتے تھے.وہ علماء جن کو سید نا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ آلہ وسلم نے شرمن تحت اديم السماء قرار دیا تھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت پر فتویٰ کفر دے کر حدیث من قال لاخيه كافراً فقد باء باحد هما (صحیح مسلم خود اپنے کفر پر مہر تصدیق ثبت کی.اور مصداق كلهم في النار ہوئے.اور جس عبد البطن نے جب الا میرزائی کہا.تو حدیث الا واحدہ جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ما انا علیه و اصحابی کا مصداق ٹھہرایا

Page 34

۳۲ تھا.تو تصدیق فرقہ ناجیہ کر دی.فالحمد للہ علی ذالک.سرحدات ہند پر جہاد بالسیف: کہتے ہیں حد بندی ہند و افغانستان جو ۱۸۹۴ء میں ہوئی اس سے ناراض ہو کر امیر عبدالرحمن خان نے ۱۸۹۵ء میں انگریزوں کے خلاف قبائل کو جنگ و جہاد پر ابھارا.اور آغا ز ۱۹۰۰ ء میں.امیر عبدالرحمن خان کے منشاء کے ماتحت ایک رسالہ بنام تقویم الدین درباره تحریک جہا د سرحدات ہند پر تقسیم کیا گیا.جس میں اقوام افاغنہ سرحد کو جہاد بالسیف پر ء آمادہ کیا گیا تھا.دیکھو انگریزی کتاب بنام افغانستان مصنفہ مسٹرانکس ہملٹن مطبوعہ لندن ۱۹۰۶ء صفحہ ۴۱۵ جس سے آزاد قبائل مشتعل ہو کر بے گناہ انگریزوں پر پشا ور اور بنوں میں بسبب اختلاف مذہب حملہ آور ہوئے.کئی بے گناہ انگریز مارے گئے.اور مارنے والے غازی بنے.حالانکہ یہ سب کچھ خلاف تعلیم قرآن تھا.جو کیا گیا.اور فساد فی الارض تھا.فصل پنجم افغانستان میں احمدیت اور شہادتِ حضرت ملا عبد الرحمن احمدی شہید افغانستان میں احمدیت : حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید جو موضع سید گاہ علاقہ خوست سمت جنوبی کے ایک نجیب سید اور رئیس اور عالم تھے.اور حضرت سید علی ہجویری عرف دا تا گنج بخش مدفون لاہور کی اولاد سے تھے اور بڑی

Page 35

۳۳ جائداد کے مالک اور کثرت سے مریدوں کے پیر تھے.ان کو ملک اور حکومت میں ایک خاص عزت حاصل تھی.چنانچہ جب امیر عبدالرحمن خان نے انگریزی گورنمنٹ ہند کے ساتھ تقسیم سرحدات کا معاہدہ ۱۸۹۳ء میں کر لیا تھا.اور سرحد گرم پر حد بندی ہوئی قرار پائی.تو گورنمنٹ ہند کی طرف سے آنریبل سر مار ٹیمر ڈیورنڈ اور جناب نواب سر صاحبزادہ عبد القیوم خان ساکن ٹوپی ضلع پشاور نمائندہ مقرر ہوئے.اور دولت افغانستان کی طرف سے سردار شریندل خان اے گورنر سمت جنوبی اور حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید مقرر ہوئے.امیر عبدالرحمن خان نے آپ کے متعلق ایک فرمان میں اپنے قلم سے لکھا ہے.کہ کاش افغانستان میں آپ جیسے ایک دو عالم اور بھی ہوتے اور خوست کے تمام خوانین وکلا اور معتبرین کا آپ کے متعلق اقرار نامہ موجود ہے.کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو ہم پر ہر لحاظ سے فوقیت حاصل ہے.اور انہیں ہم اپنا سر کردہ تسلیم کرتے ہیں.بمقام پارہ چنار گرم دن کو یہ کمیشن حد بندی کرتے اور وہ حد قائم کی جاتی.جس کو ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں.اور رات کو باہم ملاقات بازدید کرتے اور باہم مجالس خورد و نوش اور مضامین متفرقہ پر اظہار خیالات کرتے.انہی ایام میں پشاور کے ایک سید چن با دشاہ صاحب بھی بطور محرر اس کمیشن میں تھے.کسی وقت بدوران گفت گو مختلفہ حضرت احمد جری اللہ کے ظہور و بعثت و دعوی کا تذکرہ درمیان آیا اور حضرت سید عبد اللطیف صاحب نے نہایت ا سردار شیر میں دل خان پسر سردار خوشدل خان پسر سردار مهر دل خان پسر سردار پائندہ خان تھے.یہ قندہار کے سردار کہلاتے تھے.

Page 36

۳۴ شوق سے یہ ذکر سنا اور مزید حالات معلوم کرنے کی غرض سے ان کی کوئی تصنیف دیکھنے کی خواہش کی اور سید چن بادشاہ نے آئینہ کمالات اسلام یا دافع الوساوس مصنفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بغرض مطالعہ پیش کی اور اس طرح افغانستان کے ایک درخشندہ گوہر کو احمدیت کا پیغام مل گیا.یہ کمیشن ۲۹ مئی ۱۸۹۴ ء لغایت ۳ دسمبر ۱۸۹۴ ء اپنا حد بندی کا کام کر کے واپس ہو گیا.حضرت سید عبداللطیف صاحب اس کے بعد وقتاً فوقتاً اپنے ہوشیار اور عالم شاگرد مولوی حضرت عبدالرحمن صاحب اور حضرت مولوی عبدالجلیل صاحب کو افغانستان سے بغرض حصول معلومات و حالات مزید قادیان بھیجا کرتے اور وہ تازہ حالات سے ان کو مطلع کیا کرتے.اور تالیفات جدیدہ ساتھ لے جایا کرتے.آخری دفعہ حضرت عبد الرحمن صاحب دسمبر ۱۹۰۰ء میں قادیان آئے.اور واپسی پر براہ پشاور افغانستان گئے.اور بدوران قیام پشاور جناب خواجہ کمال الدین صاحب وکیل پشاور کے بالا خانہ پر بیرون کا بلی دروازہ مقیم رہے.اور یہاں سے روانہ وطن ہوئے.ان دنوں سرحد پر افغان غازی بے گناہ انگریزوں کے قتل و خون ناحق میں مشغول تھے.ان حالات کو دیکھ کر حضرت احمد علیہ السلام نے ایک رسالہ جہاد پر لکھا.اور اس میں حقیقت جہاد پر بحث کی تھی اور اس قسم کے جہاد کو حرام قرار دیا تھا اور انجمن حمایت اسلام لاہور کی مساعی سے ان دنوں علمائے ہند وسرحد نے بھی ایک فتویٰ عربی فارسی اور اردو میں چھوٹے چھوٹے رسالوں کی صورت میں چھپوایا تھا اور کثرت سے سرحد پر تقسیم کیا گیا تھا.جن میں سے کچھ حضرت عبدالرحمن صاحب احمدی اپنے ساتھ افغانستان لے گئے تھے اور ان کو

Page 37

۳۵ وہاں تقسیم کیا.اور خوست سے فارغ ہو کر کابل گئے.اور وہاں کے علماء کو پیش کیا.اور ان سے گفتگو کی.اس امر کو وہاں کے علماء نے امیر عبدالرحمن خان کے گوش گذار کیا.اور اس نے حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب احمدی کو اپنے دربار میں بلوایا اور بیان لیا.اور کابل میں یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی.کہ گویا حضرت احمد اور جماعت احمد یہ ہر قسم کے جہاد کے منکر ہیں.اور ان رسائل کو اپنے جہاد بالسیف کے خلاف پایا.امیر عبدالرحمن خان نے کچھ عرصہ حضرت مولوی عبدالرحمن احمدی کو قید میں رکھا.اور پھر دربار میں بلوایا.اور جب ان کو اپنے جاری کردہ جہاد کے خلاف پایا.تو ان کے قتل کا حکم دے دیا.اور ان کے گلے کو گھونٹا گیا.اور دم گھٹ کر شہید ہوئے انا لله و انا اليه راجعون بہ واقعہ ا ١٩٠ء کے آغا ز نصف میں ہوا اور یہ پہلا احمدی مظلوم تھا جس کو محض اس بات کے الزام میں قتل کیا گیا کہ یہ غیر اسلامی اور مخالف تعلیم قرآن بلا وجہ انگریزوں کو قتل کرنا کیوں جہاد قرار نہیں دیتا.حضرت احمد مسیح موعود علیہ السلام کو اس سے قبل الہام الہی سے اطلاع مل چکی تھی - شاتان تذبحان (دیکھو البشرى جلد اول صفحه (۳۵) یعنی دو بکرے مارے جائیں گے.اور حضرت عبدالرحمن صاحب بکرے کی طرح نہایت ظلم سے مارے گئے.

Page 38

۳۶ فصل ششم امیر عبدالرحمن خان کی وفات خدا تعالیٰ نے جو بڑا ٹھور ہے.یہ ظلم ناروا پسند نہ کیا.بلکہ اس نے اپنے غضب کو بھڑ کا یا.اور • استمبر ۱۹۰۱ء کو امیر عبدالرحمن خان پر فالج گرا.جس سے اس کا دایاں پہلو بے کار ہو گیا.ہندوستان اور افغانستان کے حاذق حکیموں اور ماہر ڈاکٹروں نے بہت ہاتھ پاؤں مارے اور بہتیرا علاج کیا.مگر ڈاکٹریا حکیم کیا چیز ہیں.جو کسی مغضوب کو خدا کی گرفت سے نجات دلا سکیں.امیر عبدالرحمن خان کی حالت ہر روز بد سے بدتر ہوتی چلی گئی.اور طاقت نشست و برخاست بھی سلب ہو گئی.آخر کا ر فرشتہ اجل نے باذن خداوندی اس کی روح کو ۳ بجے شب بروز جمعرات ۳ /اکتوبر ۱۹۰۱ ء مطابق ۱۹ جمادی الثانی ۱۳۱۹ھ قبض کر لیا.اور دربار خداوندی میں..بجرم شہادت حضرت ملا عبد الرحمن شہید پیش ہوا.اور اس کا جسدِ عنصری شہر کا بل ده افغاناں کے بازار شاہی کی بستان سرائے میں دفن ہوا.جس پر اس وقت ایک عظیم الشان گنبد موجود ہے.دیدی که خونِ ناحق پروانه شمع را چنداں اماں ندارد که شب را سحر کند دیکھو تاریخ افاغنہ حصہ اول صفحہ ۹۹ مؤلفہ شہاب الدین ثاقب مطبوعہ حمید یہ پریس لاہور اور انگریزی کتاب افغانستان صفحه ۴۳۳ و ۴۳۴

Page 39

۳۷ باب دوم زمانہ حکومت امیر حبیب اللہ خان بادشاہ افغانستان فصل اول تخت نشینی امیر حبیب اللہ خاں اور حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید تخت نشینی : امیر حبیب اللہ خاں جو میر عبدالرحمن خان کا بڑا فرزند تھا.اور ملکه گلریز ساکن دا خان کے بطن سے بمقام سمر قند ۱۸۷۲ء میں تولد ہوا تھا.اور امیر عبدالرحمن خان کی طرف سے مقرر شدہ ولی عہد تھا.اور اپنے والد کی وفات کے بعد ۳ اکتوبر ۱۹۰۱ ء کو تخت نشین ہوا.اس کے استاد حضرت سید عبد اللطیف صاحب احمدی شہید نے اس کی رسم دستار بندی ادا کی.جوان دنوں کابل میں تھے.اور دربار کابل کے معتمد علیہ بھی تھے.چنانچہ اشد مخالف میرزا شیر احمد اپنی کتاب نجم السعادت میں لکھتا ہے..چوبو د مرد سخندان و پرفن و جرار ببار گاہِ امیر جہاں رسیدش کار ظهور صدق و ارادت نمود مدت چند که تا بقرب بساط امیر شد پیوند یعنی چونکہ حضرت عبد اللطیف ایک سخن دان اور صاحب کمال اور جری انسان تھا.لہذا امیر کابل کے دربار میں اس کو رسوخ حاصل ہو گیا تھا.کچھ

Page 40

عرصہ اس نے اپنی صداقت اور ارادت کا اظہار کیا.جس کی وجہ سے اس کو امیر کابل کے بساط کا قرب حاصل ہوا.گویا حضرت شہید مرحوم کے مقرب بارہ گاہ امیر ہونا اشد ترین مخالفوں کو بھی مسلم تھا.۶ اکتوبر ۱۹۰۱ء مطابق ۲۲ / جمادی الثانی ۱۳۱۹ھ ایک عام دربار شہر کا بل میں کیا گیا.اس دربار میں نمائندگانِ ملک اطراف واکناف سے اور امراء واراکین سلطنت نے امیر حبیب اللہ خان کو اپنا بادشاہ اور حکمران تسلیم کر - لیا.اور سردار نصر اللہ خان اس کے برادر خورد کو جو ۱۸۷۴ء میں تولد ہوا تھا.اپنا نائب السلطنت مقرر کر لیا.بوقت تاجپوشی اس کی عمر قریباً تمہیں سال تھی.اور سردار نصر اللہ خان کی عمر ستائیس سال تھی.ان دنوں سرحد پشاور پر علاقہ اقوام مہمند میں جناب ملا نجم الدین عرف ملا صاحب ہڑہ موضع ہڑہ میں موجود تھے.اور ملا صاحب جناب اخوند عبدالغفور صاحب سوات عرف اخوند صاحب سوات مدفون سیدو کے مرید تھے.ان کا ایک مد مقابل سجادہ نشین علاقہ خٹک موضوع مانکی تحصیل نوشہرہ میں جناب ملا عبدالوہاب عرف ملا صاحب مانکی تھے.ہر دو آ پس میں ایک پیرا خوند صاحب کے مرید تھے.مگر ہا ہم رقابت اور عداوت پیدا ہوگئی تھی.ملاً صاحب مانکی نے حکم دیا تھا کہ استعمال چلم ونسوار حرام ہے.اور نماز میں بوقتِ تشہد اشارہ بالسبا بہ درست نہیں.اور انگریزوں کا خونِ ناحق گرانا حرام ہے.اور بغیر بادشاہ آزاد قبائل کا جہاد نہیں ہوتا.ملا صاحب ہڑہ نے آزادا قوام کا جنگ جہاد سے موسوم کیا.لڑنے والوں کو غازی کا خطاب

Page 41

۳۹ دیا.اشارہ بالسبا بہ کو مریدوں پر لازم کیا.اور چلم اور نسوار کے استعمال کی حرمت کو غلط قرار دیا.اس اختلاف کے سبب سے باہمی عداوت قتل و غارت تک پہنچ گئی اور اختلاف کا اثر بنیر ،سوات ، با جوڑ ، اقوام مہمند ، آفریدی خٹک، اضلاع پشاور، کو ہاٹ اور بنوں میں پھیل گیا اور افغانستان میں بھی اختلاف نے خصوصیت کی شکل اختیار کی.امیر حبیب اللہ خان کے استاد حضرت عبداللطیف احمدیت سے قبل ملاً صاحب مانکی کے ہم خیال تھے.بعد میں جب ان پر ملا صاحب مانکی کے خیالات کی حقیقت کھل گئی تو آپ نے ان کی تردید شروع کر دی.اور سردار نصر اللہ خان کا تعلق ملا صاحب بڑہ سے تھا.کیونکہ سردار نصر اللہ خاں جنگ و جہاد کا شائق تھا اور انگریزوں سے نفرت رکھتا تھا.اس واسطے وہ حضرت عبد اللطیف صاحب کا بھی مخالف تھا.مگر چونکہ وہ بادشاہ کے استاد تھے.اس واسطے وہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکتا تھا.مگر انتظام کی تاک میں رہتا.ملا صاحب ہڈ ۲۳۵ / دسمبر ۱۹۰۲ء مطابق ۲۳ / ماه رمضان المبارک ۱۳۲۰ھ کو اس دار فانی سے عالم جاودانی کو رخصت ہو گئے اور اقوام سرحد میں جنگ و جہاد کا چر چاست پڑ گیا.فصل دوم حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف شہید کا ارادہ حج اور سفرِ قادیان

Page 42

۴۰ حضرت شہید مرحوم نے جس زمانہ میں کتاب آئینہ کمالات اسلام پڑھی اس کے بعد حضرت ملا عبدالرحمن شہید اور مولوی عبدالجلیل صاحب اور حضرت ملا عبدالستار عرف ملا بزرگ کو وقتاً فوقتاً قادیان بحضور حضرت مسیح موعود بھیجتے رہے.تا کہ علم و معرفت میں مزید ترقی ہو تو ان کے مرید افغانِ سمت جنوبی اور غزنی سے قادیان آتے رہے اور داخل بیعت ہوتے رہے اور ان مبائعین کی فہرست اخبار الحکم قادیان میں شائع ہوتی رہتی.جس وقت امیر حبیب اللہ خان نے زمام حکومت سنبھال لی.تو حضرت شہید نے اجازت سفر حج بیت اللہ طلب کی اور امیر موصوف نے بخوشی اجازت دے دی.اور انعام واکرام سے رخصت کیا.آپ کا بل سے خوست اور وہاں سے اکتو بر ۱۹۰۲ء تک وارد لا ہور ہوئے.لاہور میں ان کو معلوم ہوا کہ طاعون کی کثرت نے حجاج پر شرائط کی قیود لگا دی ہیں.اور سلطان روم نے گورنمنٹ ہند سے حج ہند کے لئے قرنطیہ کا مطالبہ کیا تھا.جس نے حج کو قریباً محال کر دیا تھا.اس واسطے آپ نے ارادہ حج کو کسی اور وقت پر ملتوی کر کے قادیان دارالامان جانے کا ارادہ کر لیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے شرف ملاقات حاصل کیا.اور ان کی صحبت با برکت سے مستفید ہوتے رہے.غالباً آپ ہندوستان رجب المرجب ۱۳۲۰ھ کو تشریف لائے تھے اور نصف شوال المکرم ۱۳۲۰ھ تک قادیان میں رہے.- حضرت صاحبزادہ صاحب کے کمالات اللہ اور اس کے رسول سے عشق و محبت کا کچھ کچھ اندازہ وہ لوگ لگا سکتے ہیں.جن کو ان کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا ہے.آپ کی طہارت پاکیزگی اور صفائی قلب کا یہ کتنا

Page 43

زبر دست ثبوت ہے.کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی اللہ تعالیٰ سے بشارت ملی تھی.چنانچہ آپ کے کئی شاگردوں کا بیان ہے.کہ آپ نے پہلے سے ہمیں بتلایا تھا.کہ اس زمانہ میں مسیح موعود آنے والے ہیں.اس لئے آپ نے اپنے شاگردوں کو پہلے سے احمدیت کے لئے تیار کیا تھا.اور جب آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب پہنچی تو آپ نے فوراً مان کر صد یقیت کا ایک بڑا نمونہ پیش کیا.حضرت صاحبزادہ صاحب چونکہ قرآن وحدیث کے پیرو تھے.اور اہل بدعت فرقے آپ کے قرآن و حدیث و علوم حقانی کے پھیلانے کی وجہ سے سخت مخالف بلکہ جانی دشمن بن گئے تھے.اسی وجہ سے سردار نصر اللہ خان اور دوسرے بدعتی پیر...صاحبزادہ صاحب کے سخت مخالف تھے.مگر چونکہ آپ کا رسوخ حکومت کے ساتھ نہایت مضبوط تھا اس لئے سردار نصر اللہ خان آپ کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا.لیکن جس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب نے احمدیت کا اعلان افغانستان میں کر دیا.تو سردار نصر اللہ خان کو یہ ایک بڑا بہانہ مل گیا اور آپ کے خلاف مفسدہ پرداز مولویوں میں سخت پراپیگنڈا کیا.حتی کہ امیر حبیب اللہ خان کو بھی مولویوں کے فتوے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا.جب خاکسار راقم ۲۳ / رمضان المبارک ۱۳۲۰ھ مطابق ۲۳ دسمبر ۱۹۰۲ء جلسہ سالانہ کے موقع پر پہلی دفعہ قادیان پہنچا.تو مہمان خانہ میں جہاں اس وقت جنوب کی طرف پہلا کمرہ ہے.اس میں حضرت شہید مرحوم اور ان کے ساتھی ٹھہرے ہوئے تھے.اور جہاں اب کنواں ہے.وہاں پر صبح چار پائی

Page 44

۴۲ پر رو بہ قبلہ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہتے.اور خاکسار کنواں کے پاس پہلے کمرہ میں بطرف شمال مقیم تھا.ہر روز نماز باجماعت میں شامل ہونے کی غرض سے مسجد مبارک میں حاضر ہوتے.اور مسجد مبارک ان دنوں نہایت تنگ تھی اور ہر صف میں چار یا پانچ افراد ہی کھڑے ہو سکتے.حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی امام الصلوۃ ایک چھوٹے کمرہ میں علیحد ہ کھڑے ہوتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس باری کے پاس جو آپ کے گھر میں بجانب شمال ہے نماز ادا کرتے اور حضرت شہید صف اول کے جنوبی کونے میں کھڑے ہوتے.بعد از نماز حضرت مسیح موعود کی مجلس میں بیٹھے رہتے اور موقعہ بہ موقعہ کچھ فرمایا بھی کرتے.اکثر فارسی میں گفتگو کرتے.- - حضرت شہید مرحوم کا قد درمیانہ تھا.بدن موٹا نہ تھا.ریش مبارک بہت گھنی نہ تھی.بال اکثر سیاہ تھے.اور ٹھوڑی پر کچھ کچھ سفید تھے.حالت نهایت گداز تھی.باتیں بآواز بلند کرتے اور ا کثر حصہ رات جاگتے رہتے.اور اپنے ساتھیوں کی تعلیم و تربیت میں مشغول رہتے.تلاوتِ قرآن کریم کا عشق تھا.ہر وقت حرز جان رکھتے.آپ کو تمام علوم مروجہ پر عبور تھا.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو علوم روحانی کا ایک خاص ملکہ اور ذہن رسا عطا فرمایا تھا.حق کے مقابلہ میں کسی شخص کی حتی کہ بادشاہ کی بھی پرواہ نہ کرتے تھے.جب آپ کے مقابلہ میں کوئی عالم کسی مسئلہ میں ملامت ہو جا تا.تو اپنا غلبہ ہرگز نہ جتاتے نیز روایت ہے کہ جب آپ کسی مسئلہ کی تلاش کے لئے کتاب کھولتے تو پہلی ہی دفعہ یا دوسری دفعہ حوالہ مل جاتا.یکم جنوری ۱۹۰۳ء مطابق یکم شوال المعظم ۱۳۲۰ھ کو عید الفطر کا دن

Page 45

۴۳ تھا.اور دہلی میں سابق بادشاہ ایڈورڈ ہفتم قیصر ہند کی تاجپوشی کا جشن منایا جا رہا تھا.اور لارڈ کرزن بطورنمائندہ ملک معظم کرسی صدارت پر متمکن تھے.انہی ایام میں مولوی کرم دین صاحب باشندہ بھین ضلع جہلم اور مولوی فقیر محمد صاحب ایڈیٹر سراج الاخبار جہلم اور شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحکم قادیان اور حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کے مابین اس کتاب کے بارہ میں تنازعہ پیدا ہو گیا.جو پیر مہر علی شاہ صاحب سجادہ نشین گولڑہ کی طرف سے سیف چشتیائی کے نام سے شائع ہوئی تھی.اور مقدمہ جہلم میں چل رہا تھا.جہلم کے مجسٹریٹ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بطور گواہ بغرض شہادت طلب کیا تھا ، اور حضرت اقدس قادیان دارالامان سے مع چند اصحاب ۱۴/ جنوری ۱۹۰۳ء کو روانہ ہوئے اور اپنے ساتھ کتاب مواہب الرحمن بزبانِ عربی بھی لے گئے تھے.جو اسی دن شائع ہوئی تھی اور حضرت شہید مرحوم بھی اس سفر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمرکاب تھے.اور چونکہ خاکساران دنوں اسلامیہ ہائی سکول پشاور کی جماعت ہفتم میں تعلیم حاصل کر رہا تھا.اور تعطیلات کرسمس وعید الفطر گذر چکی تھیں.لہذا اول ہفتہ جنوری میں واپس پشاور آ گیا تھا اور حضرت اقدس کی مشایعیت سے مستفید نہ ہو سکا.آخر کار حضرت اقدس جہلم تشریف لائے.مقدمہ کا بحق جماعتِ احمد یہ فیصلہ ہوا اور کامیابی سے واپس قادیان تشریف لے گئے.اس سفر میں قریباً دس ہزار افراد نے جہلم کے ریلوے سٹیشن پر حضرت مسیح موعود کا استقبال کیا اور تین دنوں میں ایک ہزار افراد نے بیعت کی اور يدخلون في دين الله افواجاً کا نظارہ قائم ہو گیا.بعض لوگوں نے مخالفت

Page 46

۴۴ میں ناخنوں تک زور لگا یا مگر خائب و خاسر ر ہے.حضرت شہید مرحوم نے قادیان واپس جا کر وہاں حضرت احمد سے مراجعت وطن کی درخواست کی.اور دو چار دنوں کے قیام کے بعد ا جازت ملی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت شہید مرحوم کی نہر بٹالہ تک پا پیادہ مشایعت کی.بوقت رخصت حضرت شہید نے حضرت مسیح موعود سے مصافحہ اور معانقہ کیا.اور بہ چشم گریاں وسینہ بریاں.وہاں سے بٹالہ، امرتسر اور کوہاٹ سے ہوتے ہوئے ٹل پہنچے اور ٹل سے سید گاہ علاقہ خوست میں داخل ہوئے.فصل سوئم حضرت سید عبد اللطیف کی مراجعت وطن اور واقعہ ء شہادت حضرت شہید مرحوم نے وطن جا کر چند دن قیام کیا.اور پھر ایک قاصد کو چند ا خطوط درباره حالات سفر ہند و حالات حضرت مسیح موعود اور کچھ تبلیغ لکھ کر سردار عبدالقدوس خان سے شاہ غاسی اور سردار محمد حسین خان سے کمانڈرانچیف افغانستان کو جو اس وقت شہر کا بل کے کوتوال تھے.روانہ کا بل کئے اور ان سے استدعا کی.کہ مناسب موقع پر امیر حبیب اللہ خان کے یہ سب لے آپ نے افغانستان جا کر بادشاہ سے لے کر تمام بڑے لوگوں کو تبلیغی خطوط بھیجے.سردار عبدالقدوس خان خلف سردار محمد خان طلائی افغانستان کے صدر اعظم ہوئے.امیر امان اللہ کے زمانہ بقید حیات تھے.سے سردار محمد حسین قوم صافی کے رئیس تھے اور مستوفی الممالک تھے.امیر امان اللہ خان نے اپنے والد کے قتل کے سلسلہ میں اس کو قتل کرایا تھا.

Page 47

۴۵ امور گوش گزار کر دیں.کسی طرح سردار نصر اللہ خان کو اس بات کا علم ہوا.اور اس نے ان خطوط میں سے جو سردار محمد حسین خان کے نام تھے حاصل کر لئے.اور امیر حبیب اللہ خان کو اپنے ڈھب سے آگاہ کیا.اور امیر موصوف سے کہا کہ حضرت شہید مرحوم کو کابل بلوایا جاوے.تا کہ علماء کابل کے سامنے تحقیق کی جاوے.چنانچہ سردار موصوف کی تحریک سے کابل سے فرمان جاری ہوا اور حاکم خوست نے جو بڑا متعصب آدمی تھا.آپ کو کچھ مدت خوست میں قید کیا.اور پھر پہرہ کے ساتھ پہنچا دیا.اور حضرت شہید نے تن تنہا مع ایک آدھ مرید کے سفر کابل کا ارادہ کیا.اور گارد کے ساتھ روانہ کا بل ہو گئے.اور اہل بیت کو صبر واستقامت کی تلقین کر گئے.جب کا بل پہنچے اور سردار نصر اللہ خان کو اطلاع ہوئی.تو اس نے حکم دے دیا.کہ ارک شاہی کے ساتھ تو قیف خانہ میں نظر بند کر دیا جاوے.اور ایسا ہی کیا گیا.کھانا آپ کو سردار عبدالقدوس خان اور سردار محمد حسین خان کی طرف سے پہنچایا جاتا.امیر کابل نے اپنے حضور میں بلوایا.نزاکت حالات سے آگاہ کیا اور کہا کہ کیا اچھا ہو.کہ آپ مصلحۂ سلسلہ احمدیہ کے ممبر ہونے سے انکار کر دیں.اور سر دست اس دار و گیر سے نجات حاصل کریں.مگر حضرت شہید مرحوم نے جواب دیا.کہ جن امور کو میں از روئے قرآن و حدیث درست اور صحیح تسلیم کر چکا ہوں.ان کو کس طرح غلط اور جھوٹ کہہ دوں.اور جس شخص کی صداقت کو بچشم خود مطالعہ کر چکا ہوں.اس کو کس طرح بطالت سے نسبت دوں.اس سے تو مرنا اچھا ہے.مگر انکار درست نہیں نیز حضرت شہید

Page 48

۴۶ نے فرمایا کہ بہتر ہو گا.کہ آپ علماء کا بل کو ایک مقام پر جمع کریں.اور میں ان سے تحریری مباحثہ کرلوں.آپ ہر دو فریق کے بیانات دیکھ کر فیصلہ کر لیں.یہ درخواست منظور کی گئی اور ایک خاص دن پر جامع مسجد واقع بازار کتب فروشی شہر کا بل کے مدرسہ سلطانیہ کے احاطہ میں علماء سے تحریری مباحثہ قرار پایا.اور مباحثہ کے دن لوگ جوق در جوق مسجد مذکور میں جمع ہوئے اور حضرت شہید کو پا بہ جولاں پولیس کی نگرانی میں وہاں پہنچایا گیا.آپ کے مقابلہ میں کثرت سے علماء تھے.اور ان کے سرکردہ شیخ عبد الرازق خاں رئیس و ملائے حضور امیر اور قاضی عبدالروف قندھاری تھے.مباحثہ تحریری ہوا اور اس مباحثہ کا سر پنج اور منصف ڈاکٹر عبدالغنی پنجابی باشندہ جلال پور جٹاں ضلع گجرات مقرر ہوا.کابل میں ان دنوں پنجاب کے اہل حدیث میں سے ڈاکٹر عبدالغنی و مولوی نجف علی اور مولوی محمد چراغ تینوں بھائی مختلف عہدوں پر سر فراز تھے اور مقر بان بارگاہِ امیر تھے.چونکہ وہ حضرت مسیح موعود کے ہم وطن تھے.اس واسطے ان کو خاص بغض تھا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اوّل المكفرين والمکذبین یہی گروہ تھا.انہوں نے غلط بیانیوں سے امیر حبیب اللہ خان کے خوب کان بھرے.مدرسہ سلطانیہ میں ہزار ہا افراد کا ہجوم تھا.کئی گھنٹوں تک مسلسل مباحثہ رہا.مگر حاضرین کو کوئی علم نہ دیا گیا.مباحثہ حیات و وفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر صداقت حضرت مسیح موعود پر اور حقیقت جہاد پر تھا.اختتام مباحثہ پر علمائے کا بل نے باہم مشورہ کیا.کہ ان کا غذات مباحثہ کو مخفی رکھا جائے اور پبلک میں مشہور کر دیا جائے.کہ صاحبزادہ عبداللطیف ملامت شد، یعنی

Page 49

۴۷ حضرت شہید مرحوم شکست کھا گئے.اور امیر کا بل کو صرف اس قدر اطلاع دی جائے کہ ہم حضرت شہید کے دلائل کو نا درست اور غلط پاتے ہیں اور اس پر فتویٰ کفر دیتے ہیں.اگر کاغذات مباحثہ سے پبلک کو اطلاع ہو جائے تو احتمال ہے کہ اور لوگ بھی احمدی ہو جائیں گے.چند سالوں کا عرصہ ہوتا ہے.کہ جلال آباد کے ایک علاقہ کا ایک مولوی پیشاور آیا.اور ڈاکٹر محمد دین صاحب غیر مبائیع کی دوکان پر جہانگیر پورہ بازار پشاور میں میرے ساتھ اس نے تبادلہ خیالات کیا.بدورانِ گفتگو اس نے کہا کہ میں خود اس مباحثہ میں موجود تھا.جو حضرت شہید مرحوم اور علماء کا بل کے درمیان ہوا.حضرت شہید کے دلائل زیادہ تر قرآن کریم اور سنت اللہ اور مبنی بر دلائل عقلیہ تھے.اور علماء کے دلائل تفاسیر اور اقوال سلف سے تھے.اس واسطے وہ ان مضامین زیر بحث میں حضرت شہید پر غالب نہ آ سکے.اور ان کو اس قدر علم بھی نہ تھا.جس قدر حضرت شہید مرحوم کو تھا.خدا تعالیٰ شاہد ہے کہ اس مولوی کے کلام کا یہی مطلب اور مفہوم تھا.یہ اس کے الفاظ نہیں بلکہ اس کے کلام کا خلاصہ ان الفاظ میں ہے.اس بات کی تصدیق ہمارے محترم دوست خان بہا در رسالدار مغل باز خان صاحب رئیس بغداده علاقه یوسف زئی نے بھی کی.جو اس وقت مدرسہ سلطانیہ میں یہ لباس طالب العلم موجود تھے.وہ بھی حضرت شہید کے تبحر علمی کے قائل ہیں اور وہ فرماتے ہیں.کہ قاضی عبدالرازق بھی اقرار کرتے تھے کہ ہم کو حضرت شہید کی طرح قرآن کریم پر عبور نہیں.اور نہ مباحثات کا تجربہ ہے.

Page 50

الغرض حضرت شہید کو ایک جلوس کی صورت میں مسجد بازار کتب فروشی سے روانہ کیا اور پا پیادہ چوک پل خشتی سے ہو کر اور بازار ارک شاہی میں سے گذر کر دروازہ نقار خانہ پر جا پہنچے.جو ارک شاہی کے ساتھ ہے، اور شاہی قلعہ میں داخل ہو کر امیر حبیب اللہ خان کے حضور پیش ہوئے علماء اور عوام کا جم غفیر بھی ساتھ تھا.اور سردار نصر اللہ خان بھی خود اس وقت موجود تھا سردار نصر اللہ خان نے دریافت کیا کہ کیا فیصلہ ہوا.علماء اور عوام الناس نے شور مچایا کہ صاحبزادہ ملامت شد بادشاہ نے بار بار حضرت شہید سے کہا کہ مولویوں کا فتویٰ تو کافر ہونے کا ہے اور رحم کرنے کا ہے اگر آپ کوئی صورت تو بہ کی پیدا کر لیں.تو اس فتویٰ اور گرفت سے نجات ہو سکے گی.سردار نصر اللہ خان نے اپنے قلبی بغض اور عناد کے سبب سے علماء کا نوشتہ فتولی کفر ور جسم لے کر پڑھ سنایا اور خود ہی پبلک کو مخاطب ہو کر کہنے لگا.کہ آپ اطمینان رکھیں.امیر صاحب آپ کی مرضی کے خلاف نہ کریں گے اور ضرور علماء کے فتوے پر عمل کریں گے.وہ اپنے عمل اسلام میں آپ سے کم نہیں ہیں.اور آپ کے فتوے کی تصدیق اور تائید کریں گے مگر وہ چاہتے ہیں کہ بطور اتمام حجت صاحبزادہ عبداللطیف کو کسی قدر مہلت دے کر تو بہ کا موقعہ دیں.اس موقعہ پر ڈاکٹر عبدالغنی اور اس کے بھائیوں ا نے دل کھول کر ے مولوی نجف علی.ڈاکٹر عبدالغنی اور مولوی چراغ یہ تینوں بھائی اہلحدیث تھے.اور جلال پور جٹاں ضلع گجرات کے باشندے تھے.امیر حبیب اللہ خان کی حکومت میں کابل میں مختلف عہدوں پر مقرر تھے.امیر امان اللہ خان کے زمانہ میں بھی کابل میں رہے.لاہور کے منشی الہی بخش مولف اعصائے موسی کے مرید تھے...اور حضرت احمد کے دشمنوں میں سے تھے.ایک دفعہ حضرت احمد کو مولوی نجف علی کے زمانہ طالب علمی میں بوقت ملاقات الہام ہوا.دس از مائی اینمی...سو انہوں نے اپنی دشمنی کا خوب ثبوت دیا.

Page 51

۴۹ احمدیت کی مخالفت کی اور جلتی آگ پر تیل ڈالا.اس واقعہ کے بارہ میں مرزا شیر احمد خان مولف نجم السعادت لکھتا ہے روایتی ز کتب یافته پس از تحقیق که اوست کافر و در کفر رتبه اس زندیق نوشته مسئلہ بے اختلاف را با هم زدند مهر ببردند پیش شاہ امم چوں آں مخرب ملت ز تو به عاری بود دراں نوشته باد حکم سنگساری بودا یعنی مولویوں کو بڑی تحقیق کے بعد کتابوں میں ایک روایت مل گئی کہ ایسا شخص کا فروزندیق ہے.اور چونکہ یہ قوم کا تباہ کنندہ تو بہ کرنے والا نہ تھا.اس واسطے اس نوشتہ کی رُو سے اس کے واسطے سنگ سار کرنے کا حکم موجود تھا.جیسا کہ معلوم ہے سر زمین افغانستان میں ہمیشہ علماء کے سامنے امرائے کا بل بے دست و پا ہوتے تھے.خود امیر عبدالرحمن اپنی سوانح حیات میں لکھتا ہے کہ جب میں نے حکومت کا بل کو اپنے ہاتھ میں لیا.تو طرف داران امیر ایوب خان نے علماء سے فتویٰ حاصل کیا.کہ امیر عبد الرحمن خان کا فر ہے.اور اس کے ایک فوجی کا قتل دس گوروں کے قتل کا ثواب رکھتا ہے.امیر حبیب اللہ خان جب ۱۹۰۷ ء میں سیر ہند کے لئے آیا.تو اس کی واپسی پر سمت مشرقی کے علما نے فتویٰ دے دیا تھا.کہ امیر کابل کافر اور عیسائی اور مرتد ہو چکا ہے.اور امیر امان اللہ خان کو بھی سیر یورپ کے بعد کافر اور عیسائی اور مرتد قرار دے دیا.اور یہی امر اس کے خروج از کابل کا سبب ہوا.امیر حبیب اللہ خان تازہ تخت کا بل پر متمکن ہوا تھا.گھر میں بھی

Page 52

۵۰ مخالفت موجود تھی.اور خود سردار نصر اللہ خان بھی اپنے امیر ہونے کی فکر میں تھا.اور امیر حبیب اللہ خان کو کسی نہ کسی طرح زک دینا چاہتا تھا.امیر موصوف ایک کمزور طبع انسان تھے.اور اس میں قوتِ مقابلہ کمزور تھی.اس وقت سردار نصر اللہ خاں جو نائب السلطنت تھا.مولویوں کا طرف دار تھا.اور حضرت عبداللطیف اسے بھی دیرینہ نفار تھا.امیر کا بل نے اس وقت علماء اور پبلک کو رخصت کر دیا.اور حضرت عبد اللطیف کو تو قیف خانہ میں بھیج دیا.جو ارک میں ہی تھا بعدہ بار بار طلب کیا اور کہا کہ صاحبزادہ صاحب آپ کسی طرح اس موقع کو ٹال دیں.اور اپنی جان اور عیال پر رحم کریں.مگر حضرت عبداللطیف نے بار بار یہی جواب دیا.کہ ایک بات جو صحیح اور حق ہے.کس طرح ان مولویوں کے کہنے اور موت کے ڈر سے چھوڑ دوں اور اپنی عاقبت کو خراب کر دوں.اور خدا تعالیٰ کو ناراض کروں میں نے تیرہ سو سال کے بعد اس شخص کو پایا.اور قرآن وحدیث کی تائید اور تصدیق سے قبول کیا.میں اس کو صادق اور راستباز مان چکا ہوں.اور اب اس کی تکذیب کروں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا اور نہ میری ضمیر اجازت دیتی ہے.اگر چرا میر صاحب نے بار بار کہا.مگر وہ کوہ وقار اولوالعزم انسان ایک انچ اپنے مقام صداقت سے پیچھے نہ ے سید احمد ابوالحسن خلف حضرت شہید مرحوم فرماتے ہیں کہ آپ کو ارک کے قید خانہ میں بھیج دیا گیا.اور آپ کو کیلے کمرہ میں رکھ کر آپ پر باہر سے سارے دروازے بند کر دیئے گئے.اور کسی کو آپ سے ملنے کی اجازت نہ تھی.جو سپا ہی آپ پر متعین کئے گئے تھے.ان کا بیان تھا کہ ہمیں دن رات آپ کے قرآن شریف کی تلاوت کی آواز آتی رہتی تھی.اور ہم حیران تھے.کہ باوجود ان روکوں اور تکالیف کے حاجات بشری کو کس طرح پورا کرتے ہیں.اور کس چیز پر زندگی بسر کرتے ہیں.وہ تمام سپاہی آپ کی زندگی اور تعلق باللہ کے قائل ہیں اور ان کے دلوں پر آپ کی محبت کا گہرا اثر ہے.

Page 53

۵۱ ہٹا.ناچار امیر حبیب اللہ خان نے فتویٰ کفر پر دستخط کر دیئے.مگر آہ بادشاہ اسلام کہلا کر اس قدر نہ کیا.کہ کاغذاتِ مباحثہ طلب کرتا اور خود فریقین کے دلائل مطالعہ کرتا.تا کہ اس پر حقیقت کھل جاتی.علماء اور سردار نصر اللہ خاں سے دب گیا.عدل وانصاف سب کچھ بھول گیا.آہ امیر حبیب اللہ خان حضرت شہید کی موت پر نہیں.بلکہ اپنی اور اپنے بھائی سردار نصر اللہ خان اور کئی اور وں کی موت کے کاغذ پر دستخط کر چکا نہیں بلکہ نسل امیر محمد افضل خان کی تباہی پر دستخط کر چکا - وجف الـقـلـم بما هو کائن یعنی جو ہونا تھا.اس پر قلم نے دستخط کر دیئے اور خشک ہوگئی.مسٹر انگس ہملٹن اپنی کتاب افغانستان صفحہ ۳۶۰ پر لکھتا ہے کہ افغانستان کو ایسے بادشاہ کی ضرورت ہے.جو مضبوط ہاتھ سے حکومت کر سکے.وہ نہ صرف حکمران ہو بلکہ ان کو انسان بنانے والا ہو.امیر حبیب اللہ خان کمزور مزاج انسان ہیں.ایسا ملک جہاں ملاؤں کا فتویٰ قانونِ ملک ہو.امیر حبیب اللہ خان کا ان کے آگے سر تسلیم خم کرنا اور اپنے بھائی سردار نصر اللہ خان کے زیر اثر ہونا.اس بات نے عامۃ الناس کی توجہ کو جذب کیا ہوا ہے.“ جب اس کمزوری طبع نے اس سے فتویٰ تکفیر ور جسم پر دستخط کرا دیئے تو سردار نصر اللہ خان نے علماء کو اطلاع دے دی.اور انہوں نے ارک شاہی کے آگے جمع ہونا شروع کر دیا.اور حضرت عبداللطیف کو پابہ جولاں بھاری زنجیروں میں جکڑا ہوا گلے میں فتویٰ کفر و رجم لڑکا یا ہوا.وزارت حربیہ کے

Page 54

۵۲ سامنے گزار کر اور اس سڑک پر جلوس روانہ ہوا.جوارک سے بجانب بالا حصار واقع کو ہ آسا مائی کی طرف جاتی ہے.اور اس موقع کے بارہ میں میرزا شیر احمد لکھتا ہے کہ.چوسا ختند برونش ز بارگاه امیر برد هجوم خلائق شد از صغیر و کبیر یعنی جب اس کو دربار امیر سے باہر نکالا گیا.تو مخلوقات خورد و کلاں نے اس کے گرد ہجوم کیا.کو ہ آسامائی کے دامن میں شہر کا بل واقع ہے.اس کے شیر دروازہ کے باہر جس کا رخ پشاور کی طرف ہے.آدھ میل کے فاصلہ پر جنوب کی طرف ایک ٹیلہ پر بالا حصار واقع ہے.یہ ایک قلعہ ہے.جہاں امیر شیر علی خان رہا کرتا تھا.اور اس کے بعد وہاں سر لوئس ! کیوگزی انگریزی سفیر رہتا تھا.جسے افغانوں نے ۱۸۷۸ء میں قتل کر دیا تھا.انگریزی فوج نے اس قلعہ کی چار دیواری کو خراب کر دیا تھا.اس کے بعد اب تک یہ قلعہ بطور میگزین استعمال ہوتا تھا.مگر اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ نے اس کو دوبارہ مرمت کیا.اور اس کے دامن میں بجانب شمال اونچی سطح پر باغ عمومی یا پبلک گارڈن بنا دیا.جو بہت خوبصورت ہے اور اس کے پاس مدرسہ حربیہ تعمیر کیا.اسی ٹیلہ کے جنوب کی طرف وہ مشہور اور پرانا قبرستان ہے جس کے اندر کابل کے امراء ورؤساء کی قبریں ہیں اور اسی جگہ ایک مقام پر حضرت شہید کے رجم کئے جانے کے لئے ایک گڑھا بقدراڑھائی فٹ کھودا گیا.جس میں حضرت شہید مرحوم کو کھڑا کر کے آدھا جسم گاڑا گیا.افغانان کا بل اس کو مناریٰ کہتے ہیں

Page 55

۵۳ اس مجمع یا جلوس میں بمقام مقتل سردار نصر اللہ خان نائب السلطنت اور سردار عبدالاحمد خان اے تو ماندان پولیس اور قاضی عبدالرازق ملائے حضور امیر اور قاضی عبدالروف قندہاری اور دوسرے ہزار ہا لوگ جمع تھے.کہتے ہیں سب سے پہلے پتھر حضرت شہید مرحوم پر سردار نصر اللہ خان نے پھینکا.مگر میرزا شیر احمد مولف نجم السعادت لکھتا ہے.کسے کہ سنگ نخستین بزد برآں چین شدست معتین که عبدالرازق بود بمردمان دگر گفت از رو غیرت کہ ہر کہ سنگ زند جائے اوست در جنت زہر طرف به نمودند سنگ بارانش بدان عذاب برآمد ز کالبد جانش ہلاک گشت باغوائے بدگمانی خویش نیافت جاں زمسیحائے قادیانی خویش یعنی جس نے پہلا پتھر چلایا.وہ شخص قاضی عبدالرازق تھا.اور اس نے جوش میں آ کر کہا.کہ جو اس پر پتھر پھینکے گا وہ جنت میں مقام پاوے گا.ہر طرف سے اس پر پتھروں کی بارش برسائی گئی.اور اس تکلیف سے اس نے جان دے دی.اپنے بُرے خیالات نے اس کو ہلاک کر دیا اور اس کو اس کا مسیح قادیانی زندہ نہ کر سکا.الغرض گاڑے جانے کے بعد جب لوگوں نے حضرت شہید کے گرد حلقہ بنایا.تو آپ نے بلند آواز سے کلمہ شہادت اس طرح ادا کیا - اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمد ارسول الله جب پہلا پتھر پیشانی پر لگا.تو آپ نے سرمبارک کو قبلہ رُخ جھکا دیا.اور آیت انست ولي في الدنيا والاخرة توفنى مسلماً والحقني بالصالحين

Page 56

۵۴ پڑھی یعنی اے پروردگار تو ہی دنیا و آخرت میں میرا ولی ہے اور تو مجھے مسلمانوں والی موت دے.اور اپنے نیک بندوں میں شامل کر دے.چند منٹوں میں ہی آپ پر تو وہ سنگ کھڑا ہو گیا.اور آپ کا جسد اطہر نظروں سے پوشیدہ ہو گیا.اور روح مبارک جسد عنصری کی قید سے آزاد ہو کر مرفوع الى الله ہوئی انا للہ وانا اليه راجعون- یہ یومِ شہادت سه شنبه ۱۷ ماہ ربیع الثانی ۱۳۲۱ھ مطابق ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء اور عصر کا وقت تھا چونکہ آپ پر پتھروں سے بارش کی گئی.جس طرح حضرت امام حسین پر تیروں سے اس واسطے آپ کا سن شہادت بھی حسین افغانیاں ۱۳۲۱ھ اور فخر امت ۱۳۲۱ھ سے نکلتی ہے.فخر امت شد خطابش ز آنکے با صدق وصفا سر فدائے حق نمود و شد بجنت جا گزیں خدا تعالیٰ نے جن دو بکروں کی شہادت کی خبر وحی شاتان تذبحان میں دی تھی.وہ دوسرا شات بھی مظلوم مارا گیا.اور خدا تعالیٰ کی بات پوری ہوئی.جس طرح شات ایک بے آزار جانور ہے.اسی طرح یہ دونوں شہداء داعی امن و صلح اور بے آزار انسان تھے.اور محض بجرم احمدیت معصوم اور مظلوم مارے گئے ان کی خبر وفات خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان الفاظ میں دی - قتل خيبة وزيلاهيبة (البشرى جلد دوم صفحه (۷۸) یعنی وہ مظلوم ایسے حالات میں مارا گیا.کہ لوگوں نے اس کی باتوں پر کان نہ دھرا.پس اس کی وفات کے سبب سے کابل پر ہیبت طاری ہوئی یعنی سخت

Page 57

۵۵ خطرناک طور پر شہر میں ہیضہ پھوٹ پڑا اور دوسرے دن ۱۵ جولائی کو اہل کابل پر عذاب مسلط کر دیا گیا.شد فصل چهارم کلام منظوم درشان حضرت شہید مرحوم اے دریغا بار دیگر کربلا آمد پدید کربلا شد ملک کابل شاہ کابل شد یزید دحسین عبداللطیف و آل او آل عبا! بے وطن شد اہل بیت ہر دو از جور شدید ظلم شام ارسخت بد ایس ظلم کا بل سخت تر شد فراموش آں شنید آنرا که این ظلمے بدید آں حسین شد قتل برنا کردن بیعت اگر ایں حسین شد بروفات حضرت عیسے شہید گر زہر زخم وجود آن حسین خون شد رواں ایس حسین را قطره قطره خون زہر زخمش چکید سید مرحوم را گر حلق خنجر پاره کرد سید مظلوم را صد سنگِ خارا تن درید سید معصوم را گرتیر آمد بر وجود سید مظلوم را سنگریز با برتن رسید سید معصوم بد گر در زمان خود امام سید مظلوم بد در عصر خود مرد فرید یکطرف بین صبر و استقلال مردانِ خدا جانپ دیگر تنظلم جبر از قوم پلید شامت اعمال شال باید پیاپے آورد جنگ و طاعون و و با بانعره هل من مزيد گر حواری مسیح شد رجم در انطاکیه رحم در کابل نمودند این مسیحا را مرید اس شہادت میشود مکشوف میخواهی اگر سوره لیسبین بخواں محزوں بفرقان مجید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس واقعہ پر ایک کتاب اردو زبان میں لکھی.جس کا نام تذکرۃ الشہا دتین ہے.اور مولوی محمد احسن صاحب امروہوی نے سورہ یسین رکوع دوم میں واضرب لهم مثلا اصحاب

Page 58

۵۶ القرية اذجاءها المرسلون الخ میں سے واقعہ شہادت کی پیشگوئی نکالی اور اس رسالہ کا نام ”سر الشہادتین“ رکھا.حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بسمل امرت سری احمدی نے تذکرہ الشہادتین کا فارسی ترجمہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واقعہ شہادت کا تذکرہ فارسی نظم میں اس طرح کیا ہے: آں جواں مرد و حبیب کردگار جوهر خود کرد آخر آشکار نقد جان از بهر جاناں باخته دل ازیں فانی سرا پرداخته بنگر ایں شوخی ازاں شیخ عجم کین بیاباں کرد طے در یک قدم این چنین باید خدا را بنده کر پئے دلدار خود افگندہ اوپنے دلدار از خود مرده بود از پئے تریاق زہرے خورده بود تانه نوشد زہر ایں جائے کسے گئے رہائی یابد از مرگ آں جسے زیر ایں موت است پنہاں صد حیات زندگی خواہی بخور جام حیات ہیں کہ ایس عبداللطیف پاک فرد چوں پنے حق خویشتن برباد کرد جاں بصدق آں دلستان را داده است تاکنون در سنگ ها افتاده است این بود رسم و ره صدق و صفا این بود مردان حق را انتہا حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بسمل نے فارسی ترجمہ کے آغاز میں ایک فارسی نظم لکھی.جس میں اس واقعہ کی طرف اس طرح اشارہ کیا.اینکه آں عبداللطیف پاک زاد کز پے جانانہ جان خود بداد جاں فدا کرد و حیات تازه یافت شد مجرد روح در جنت شتافت

Page 59

لا بهر دین در زیر آں رحم شدید ہمچو حواری عیسی شد شهید بود مردے فارغ از کبر و ریا ہمچو اصحاب رسول باصفا ! زاہد و شب زنده دار و و متقی نونهال گلشنِ در فضل و کمال ! آرمیده ره مولی گرامی مهندی در نہایات الوصال حق پژده و حق پرست و حق نیوش ہمچو مردان در ره حق جاں فروش صوفی و فقیہ ایک خونش ریخت یک قوم سفیه واعظ ملا و و حیف مردم قدر او نشناختند سنگ بروے بے دریغ انداختند ایکہ پراندی بعجلت سنگ کیں سوئے آں مردے کہ بودہ پاک دیں گرچه ختی جسم آں صاحب نظر قدر او از سنگ نه شکستی مگر رتبه اش در پیش ایزد شد بلند زانکه بهر حق رسیدش بس گزند خوانده در قرآن توفی آن سعید بر وفات ابن مریم شد شهید تو او بنده عیسی نبود ایکه داری از ره احمدی بود و چو تو ترسانه بود بغض و عناد بر حیات ابنِ مریم اعتقاد تابگے اغوائے شیطان خبیث چشم سے پوشی از آیات و حدیث خون نا حق را چه میگوئی جواب چوں شود پرسش ز تو یوم الحساب

Page 60

۵۸ فصل پنجم حضرت سید عبد اللطیف شہید کی شہادت کے بعد واقعات کا ظہور مسٹر انگس ہملٹن اپنی کتاب افغانستان کے صفحہ ۴۵۰ پر لکھتا ہے کہ ۱۹۰۳ء میں افغانستان کے شہر کا بل اور شمال و مشرقی صوبہ جات میں زور وشور سے ہیضہ پھوٹ پڑا.جو اپنی شدت کے سبب سے ۱۸۷۹ء کی وباء ہیضہ سے بدتر تھا.سردار نصر اللہ خان کی بیوی اور ایک بیٹا اور خاندان شاہی کے کئی افراد اور ہزار ہا باشندگان کا بل اس وباء کے ذریعہ لقمہ اجل ہوئے.اور شہر میں افراتفری پڑگئی.کہ ہر شخص کو اپنی جان کا فکر لاحق ہو گیا.اور دوسرے کے حالات سے بے فکر اور بے خبر ہو گیا.“ اس موقعہ پر سید احمد نور صاحب مہا جر خوست و ملا میر وصاحب احمدی جو حضرت شہید مرحوم کے شاگرد تھے.کابل پہنچے اور وہاں کے احمدیوں کی امداد سے مقتل میں رات کی تاریکی میں پہنچے.اور حضرت شہید کے جسد اطہر کو پتھروں کے تو وہ سے نکالا.اور ایک تابوت میں جو اسی غرض کے لئے بنایا گیا تھا بند کر کے قریب کے قبرستان میں دفن کر دیا.حضرت شہید کا جسد اطہر چالیس دن تک پتھروں کے اندر رہا.چند دن ٹھہر کر ملا میر و صاحب نے اس تابوت کو وہاں

Page 61

۵۹ سے نکالا.اور خچر پر باندھ کر اطمینانِ قلب سے اپنے وطن خوست بمقام سید گاہ لے آئے اور ایک پرانے قبرستان میں ایک نمایاں مقام پر دفن کر دیا.محمد عجب خان صاحب احمدی ساکن زیدہ ضلع پشاور جن کو حضرت شہید سے بمقام جہلم ملنے کا اتفاق ہوا تھا.اور ان دنوں میرام شاہ وزیرستان میں نائب تحصیلدار تھے جس وقت اس بات کا اُن کو علم ہوا.تو انہوں نے اپنے خرچ سے ان کے روضہ کو پختہ اور خوبصورت بنوا دیا.رفتہ رفتہ ملک خوست میں یہ خبر پھیل گئی.اور ان کے کثیر التعداد معتقدان کے روضہ پر بغرض زیارت آنے لگے اور وہ مقام مرجع خلائق بننے لگا.اور زیارت گاہ خاص و عام ہو گیا.اس وقت کے حاکم خوست نے اس بات سے سردار نصر اللہ خاں کو اطلاع دی.جو نہی اس کو علم ہوا.تو اس کا جوش آتش بغض سے بھڑک اٹھا.اور اس نے شاہ خاصی محمد اکبر خاں اے حاکم اعلیٰ خوست سمت جنوبی کو حکم بھیجا.کہ فوراً فوج کا ایک دستہ لے کر حضرت شہید کے روضہ پر پہنچو اور راتوں رات وہاں سے تابوت حضرت شہید مرحوم نکال کر کسی غیر معروف مقام میں گمنام ونشان کر -22 آغاز ۱۹۱۰ء میں شاہ خاصی مذکور نے یہ تعمیل فرمان نائب السلطنت حضرت شہید کے تابوت کو رات کے اندھیرے اور فوج کی حفاظت میں نکال لے شاہ خاصی محمد اکبر خان گورنر خوست برادر محمد سرور خان نائب الحکومت پسر عطا اللہ خان پسر سردار خوشدل خان پسر سردار مهر دل خان خلف سردار پائندہ خان تھا.سردار شریندل خان اس کا چچا تھا.اکتوبر ۱۹۰۹ لغایت مارچ ۱۹۱۳ ء حاکم سمت جنوبی اور گورنر گردیز و خوست رہا.بغاوت منگل ۱۹۱۵ء کے سبب سے معزول ہو کر زیر حر است کابل کو چالان ہوا اور زیر عتاب رہا.

Page 62

۶۰ کر کسی غیر معروف مقام میں دفن کر دیا.یہ زیارت بمقام سید گاہ ستمبر ۱۹۰۳ء لغایت جنوری ۱۹۱۰ ء تک قائم رہی.مصلحت خداوندی نے حضرت عیسی اور حضرت علی کی طرح ان کی قبر کو معدوم کر دیا.تا کہ کسی وقت شرک کا مقام نہ بن جائے.سردار نصر اللہ خاں کا یہ آخری انتقام تھا.جو اس نے حضرت شہید مرحوم کی نعش مبارک سے لیا.خاندان حضرت شہید کی ترکستان کو جلا وطنی : سردار نصر اللہ خاں نے واقعہ شہادت کے معاً بعد حضرت شہید کی جائداد و املاک بحقِ حکومت ضبط کر لیا.اور ان کے اہل بیت کے عورتوں اور بچوں کو سید گاہ سے کابل کی طرف جلا وطن کیا گیا.اور وہاں سے مزار شریف ترکستان کو بھیج دیا.جولائی ۱۹۰۳ء لغایت ۱۹۱۱ء وہاں رہے اور معمولی گذارہ کے واسطے کچھ زمین زرعی دی گئی.کا بل کو واپسی : اس کے بعد کا بل ان کو آنے کی اجازت دی گئی.وہاں وہ ۱۹۱۱ ءلغایت ۱۹۲۰ ء تک نہایت تکلیف سے رہے.رہنے کو ایک معمولی سامکان شہر میں متصل چہار معصوم شور بازار میں کرایہ پر لے رکھا تھا.اور گذارہ کے واسطے معمولی رقم اور غلہ مقرر تھا.جو ایک زمین سے حاصل ہوتی.جو ان کو سرکاری دی گئی تھی.ترکستان سے امیر حبیب اللہ خان کے حکم سے واپس ہو کر کچھ عرصہ خوست میں رہے.مگر بہت جلدی سردار نصر اللہ خان نے ان کو واپس کا بل بلایا گیا.اور اس طرح وطن میں رہنا نصیب نہ ہوا.کابل میں زیر حراست یا نظر بند رہتے تھے.یعنی ان کو کہیں کا بل سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی.اور روزہ

Page 63

۶۱ مرہ کو تو الی شہر میں حاضری دی جاتی.حضرت نورالدین خلیفہ امسیح الاول کے زمانہ خلافت میں ضلع گجرات کا ایک باشندہ فضل کریم نامی مجذوب الاحوال قادیان سے ہوتا ہوا پشا ور ۱۹۱۷ء میں آیا.اور کچھ دن ہمارے پاس انجمن احمدیہ میں مقیم رہا.انہی ایام میں برادر عزیز صاحبزادہ محمد عمر جان جو ایک خوبصورت اور نو جوان تھا.اور عمر اس کی تقریباً بیس سالہ ہوگی.پشاور آیا اور ہمارے پاس بطور مہمان مقیم رہا.کچھ دن کے لئے سرائے نورنگ ضلع بنوں کو گیا.جہاں ان کی زرعی جائداد علاقہ انگریزی میں واقع ہے.وہاں سے حاصلات زراعت وصول کر کے واپس پشا ور آیا.اتنے میں کابل سے ایک احمدی دوست حضرت شہید مرحوم کی زوجہ محترمہ کا پیغام لایا.کہ عزیز محمد عمر جان کو واپس کا بل روانہ کر دیا جائے.ورنہ ہم کو بڑی مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا.اگر چہ برا درموصوف واپس جانے کا خیال نہ رکھتا تھا.مگر محض والدہ صاحبہ کے تعمیل ارشاد کی غرض سے کا ہل چلا گیا.فضل کریم مجذوب بھی ایک دن ۱۹۱۷ء میں بلا حصول اجازت مکان انجمن سے نکل کر کو ہاٹ اور کرم کی راہ سے درہ پیواڑ کو عبور کر کے براہ حاجی کا بل میں جا پہنچا.اور سردار نصر اللہ خاں کو درخواست دی کہ میں احمدی ہوں اور کا بل بغرض تبلیغ آیا ہوں.سردار موصوف نے اس کو گرفتار کر وا دیا.حاکم شہر نے دریافت کیا.کہ تم کسی احمدی سے یہاں واقف ہو.اس نے کہا ہاں میں حضرت شہید کے بڑے فرزند کو جانتا ہوں.اور چند اور احمدیوں کا نام لیا.اور اس طرح سے وہ تمام احمدی بمعہ اولاد حضرت شهید مرحوم دوباره گرفتار

Page 64

۶۲ ہوئے.حضرت سید عبداللطیف شہید کی اولاد نرینہ اس وقت حضرت صاحبزادہ محمد سعید جان اور صاحبزادہ عبد السلام جان صاحب ، صاحبزادہ محمد عمر جان صاحب، صاحبزادہ احمد ابوالحسن صاحب اور صاحبزادہ محمد طیب جان صاحب تھے یہ سب گرفتار ہو کر شیر پور کے جیل خانہ میں مقید کر دئے گئے.اور ان کے پاؤں میں موٹی بیڑیاں ڈالی گئیں.اور آٹھ نو ماہ تک جیل خانہ کی سخت تکالیف میں مبتلا رہے.اس جیل میں حضرت صاحبزادہ محمد سعید جان اور صاحبزادہ محمد عمر جان جیل فیور یا تپ زندان میں گرفتار ہوئے اور ایک سال کی تکلیف کے بعد ۱۹۱۸ء میں ہر دو فوت ہو گئے.حضرت صاحبزادہ محمد سعید جان کا ایک نرینہ فرزند باقی ہے.جن کا نام صاحبزادہ محمد ہاشم جان اہے.انا للہ وانا الیہ راجعون.کچھ عرصہ کے بعد جب امیر حبیب اللہ خان کا بل سے جلال آباد ایام گر ما بسر کرنے کے لئے چلے گئے.اور ان دنوں سردار امان اللہ خان نے جو بعد میں امیر امان اللہ خان بادشاہ کا بل ہوئے.شہر کا بل میں عین الدولہ کے عہدہ پر ممتاز تھے.ان مظلوموں کی تحقیقات کی تو فضل کریم کے سامنے حضرت شہید مرحوم کا بڑا لڑکا صاحبزادہ محمد سعید جان پیش کیا گیا.جس کو اس نے شناخت نہ کیا.کیونکہ اس کا بیان تھا.کہ وہ بڑے لڑکے کو جانتا تھا.مگر دراصل اس نے پشاور میں بڑے لڑکے کو نہیں بلکہ تیسرے فرزند صاحبزادہ محمد عمر جان کو دیکھا تھا اور وہ بڑا نہ تھا.جو پولیس پیش کرتی اس طرح اس کے بیان میں غلطی ا محترم صاحبزادہ محمد ہاشم جان عسا کر پاکستان میں میجر اور ڈاکٹر ہیں.

Page 65

۶۳ پائی گئی اور پولیس نے کو توالی میں بڑے لڑکے کی روزانہ حاضری کی تصدیق کی.نیز سردار موصوف نے ان کو بے گناہ پا کر سب کو جیل خانہ سے رخصت کر کے آزاد کر دیا.فضل کریم کو تو ہندوستان کی سرحد پر پہنچا کر چھوڑ دیا اور خاندان حضرت شہید اور دوسرے احمدیوں کو بھی چھوڑ دیا.ان ایام میں برائے رہائی ان مظلوموں کا بڑا روپیہ خرچ ہوا.حضرت صاحبزادہ محمد سعید جان اور عزیز صاحبزادہ محمد عمر جان دونوں نوجوان احمدیوں کی موت بھی شہادت کی موت واقع ہوئی.اور ان کے خونِ ناحق کا بار گناہ خاندان امیر عبدالرحمن خان کے نامہ اعمال میں جمع ہوا.اس کے لئے خدا وند تعالیٰ کے حضور جواب دہ ٹھہرے.فصل ششم میرزا شیر احمد خان مصنف مجم السعادت کی غلط بیانیوں کا جواب میرزا شیر احمد خان باشنده جلال آباد جس نے نجم السعادت نامی کتاب امراء کابل کی مدح خوانی میں منظوم کی ہے.وہ اپنے آپ کو ملا نجم الدین صاحب ہڑہ کا مرید ظاہر کرتا ہے.اور اس کتاب کے صفحات ۴۷ - ۴۸ پر حضرت سید عبداللطیف شہید کے شہادت کے واقعہ کو بھی اپنے رنگ میں لکھا ہے.اور چونکہ وہ ایک مخالف فریق کا ممبر ہے.اس واسطے اس نے اسی رنگ

Page 66

۶۴ میں لکھنا تھا.اور ان کی شہادت کو اپنے پیرومرشد صاحب کی کرامت اور کامیابی تصور کیا ہے.اس کی تحریر چونکہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے.اس واسطے وہ باتیں بے بنیا دا ور غلط ہیں.ہم ان کی تصیح یا تردید کر دیتے ہیں.-1 وہ لکھتا ہے.کہ حضرت عبداللطیف نے جناب ملا صاحب ہڑہ کو بدوران قیام کابل ۱۹۰۱ ء میں امیر عبدالرحمن خان کا باغی اور کافر ٹھہرایا تھا.اور امیر حبیب اللہ خان کو اس کے قتل پر آمادہ کیا تھا.حالانکہ ۱۸۹۵ء کے بعد حضرت عبد اللطیف کو جناب ملا صاحب مانکی سے کوئی تعلق نہ رہا تھا.اور نہ ملا نجم الدین صاحب سے کوئی تنازعہ باقی تھا.اور نہ جماعت احمد یہ کسی سے اختلاف خیالات پر کسی کے قتل در جم کو جائز اور درست جانتی ہے.پس محض یہ افتراء اور بہتان ہے.جو بعد از مرگ حضرت شہید پر لگایا گیا ہے.اور ان کی شہادت کے واسطے وجہ ٹھہرائی ہے.-۲ وہ لکھتا ہے.کہ حضرت شہید نے کہا تھا کہ میرا پیر حضرت عیسے ہے.اور جالندھر میں رہتا ہے.یہ تو درست ہے کہ حضرت احمد قادیانی کو آنے والے عیسے موعود ہونے کا دعوئی ہے.مگر یہ امر تو بالبداہت غلط اور خلاف واقعہ ہے کہ وہ جالندھر میں سکونت رکھتے تھے.دنیا جانتی ہے کہ موضع قادیان ضلع گورداسپور میں واقع ہے.وہ لکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا اصلی نام غلام قادر ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود کا خاندانی نام غلام احمد اور الہامی اور اصلی نام احمد تھا نہ کہ غلام قادر -

Page 67

- وہ کہتا ہے.کہ شہید مرحوم نے فرمایا تھا.کہ میرا مرشد مسیح موعود ہے.اور میں امام مہدی ہوں.حالانکہ سب جانتے ہیں.کہ حضرت احمد قادیانی کا دعویٰ مسیح موعود اور امام معہود ہونے کا تھا.چنانچہ کشی نوح صفحہ ۷ اطبع اول پر فرماتے ہیں کہ :.جو شخص مجھے فی الحقیقت مسیح موعود اور امام مہدی معہود نہیں مانتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.پس کیونکر حضرت شہید اس کے خلاف کہہ سکتے تھے.نیز وہ جانتے تھے.کہ حدیث نبوی میں بھی لا مهدی الاعیسی ! (ابن ماجہ واضح طور پر موجود ہے.-۵ -4 وہ کہتا ہے.کہ حضرت شہید مرحوم قرآن کریم اور احادیث نبویہ کو نہ مانتے تھے.حالانکہ کشتی نوح میں حضرت مسیح موعود نے ہر احمدی پر اتباع قرآن کریم وسنت اور احادیث لا زمی قرار دی ہے.اور جو شخص قرآن کی ایک آیت سے یا احادیث نبوی سے انکار کرے.وہ جماعت میں داخل ہی نہیں ہو سکتا.وہ لکھتا ہے کہ حضرت شہید نے کہا تھا.کہ میرے قتل کے وقت میرا پیر حاضر ہو گا.حالانکہ جماعت احمد یہ سوائے خدا تعالیٰ کی ذات اقدس کے کسی مخلوق کو حاضر و ناظریقین نہیں کرتی.خواہ کوئی ہو.اور عـــــالـــم الــغـيـــب و الشهادة صرف پروردگارِ عالم ہی ہو سکتا ہے اور ہے اور بس ہم کہتے ہیں کہ ہمارے مخالف ہمارا مقابلہ حق اور صداقت کو ہاتھ میں لے کر ہر گز نہیں کر سکتے.اور ان کا جس قدر مقابلہ ہے وہ سب کذب و بهتان و افتراء اور تحریف فی الکلام پر مبنی ہے.ذالك مبلغهم من العلم اور خودساختہ کلمات اور مطالب اپنے سامنے رکھ کر فتاویٰ کفر و تکفیر دیا کرتے ہیں.اور وہ خدا تعالیٰ کے اخذ ا ترجمہ : حضرت عیسی موعود ہی امام مہدی معہود ہے نہ کوئی اور ۱۲ منہ

Page 68

۶۶ شدید اور عذاب الیم سے نڈر ہیں.اور موت اور روزِ محشر کی باز پرس سے لا پر واہ ہیں.ایسی حرکات مجانین کیا کرتے ہیں اور ذی ہوش مومنوں کی شان کے شایان نہیں.اس قسم کے لوگوں کے حق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: تا مرا از قوم خود ببریده اند بہر تکفیرم چها کوشیده اند افترا با پیش ہر کس بُرده اند واز خیانت ها سخن پرورده اند تا مگر لغزد کسے زاں افتراء سادہ لوح کافر انگارد مرا کا فرم گفتند و قتام ہر لیے در دجال و لعین بہر کا فرم خواند نداز جہل و عناد ایں چنیں کورے بدنیا کس مباد فصل ہفتم کمیں پاداش ظلم کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی امیر حبیب اللہ کی کمزوری طبع : سردار نصر اللہ خاں نائب السلطنت اور علماء کا بل نے ایک مومن متقی اور ایک صالح با عمل کو صرف اختلاف عقائد پر شہید کر دیا.باوجود یکہ وہ اپنی حقانیت اور صداقت پر آیات قرآنیہ اور نصوص حدیثیہ پیش کر رہا تھا.مومنوں پر فتویٰ رحم از روئے قرآن کریم ہمیشہ منکرین نے دیا.اور اس طرح ایک مومن کو رحم کر کے اپنے ظلم پر مہر کر دی.ورنہ

Page 69

قرآن کریم میں کسی مومن کے حق میں کسی حالت میں بھی رجم ثابت نہیں.کیونکہ یہ سزا خلاف شرافت انسانیہ ہے.اور مخالف نصوص قرآنیہ بھی.امیر حبیب اللہ خان نے بادشاہ اسلام اور سراج الملت والدین کہلانے کا مدعی ہو کر سردار نصر اللہ خان اور عوام کے رعب اور کثرت ہجوم سے دب کر ایک مومن صالح کے قتل اورجم کا فتویٰ دے دیا.اور تعلق استادی اور حق شاگردی اور عدل و انصاف کو بھول گیا.بغیر کا غذات مباحثہ مطالعہ کرنے کے اور بلا تحقیق رجم پر مہر تصدیق ثبت کر دی.حضرت مسیح موعود کا درد دل : حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود نے امیر کا بل اور اس کے اراکین سلطنت کی اس کارروائی پر جو اس قتل میں شریک ظالم تھے.در درسیدہ دل سے امیر حبیب اللہ خاں اور ان اراکین سلطنت کے حق میں جو اس فعل کے بانی مبانی اور محرک ہوئے.کے بارہ میں لکھا : - ”اے نادان! امیر (حبیب اللہ ) کیا مسلمانوں میں اختلاف مذہب اور رائے پر یہی سزا ہوا کرتی ہے تو نے کیا سوچ کر یہ خون کر دیا.امیر کا یہ طریق اور یہ عدل ہے.نہ معلوم وہ خدا کو کیا جواب دے گا.“ ( تذکرۃ الشہا دتین صفحه ۴ ۵ ) شہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی.وہ ہو چکی ہے.اب ظالم کا پاداش باقی ہے- انه من يات ربه مجرماً فـان لـــه جهنم لايموت فيها و

Page 70

۶۸ لا يحيى ( تحقیق جو شخص اپنے رب کے نزدیک مجرم پیش ہو گا پس اس کے واسطے آتش جہنم ہو گا وہ اس میں نہ مرے گا نہ جیئے گا.) افسوس کہ یہ امیر زیر آیت من يقتل - مومنا متعمداً داخل ہو گیا اور ایک ذرہ خدا کا خوف نہ کیا.اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش لا حاصل ہے.,, ( تذکرۃ الشہا دتین صفحه ۵۸) صاحبزادہ مولوی عبداللطیف مرحوم کا اس بے رحمی سے مارا جانا اگر چہ ایسا امر ہے کہ اس کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے (مـارئيـنـا ظـلـما اغيظ من هذا ترجمہ: اس سے سخت ظلم ہم نے کہیں نہیں دیکھا ) لیکن اس خون میں بہت برکات ہیں.کہ بعد میں ظاہر ہوں گے اور کابل کی سر زمین دیکھ لے گی کہ یہ خون کیسے کیسے پھل لائے گا.یہ خون کبھی ضائع نہیں جائے گا.پہلے اس سے غریب عبد الرحمن میری جماعت کا ظلم سے مارا گیا.اور خدا چپ رہا.مگر اس خون پر اب وہ چپ نہیں رہے گا.اور بڑے بڑے نتائج ظاہر ہوں گے.“ ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا.ایسے معصوم شخص کو کمال بے دردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کیا.اے کابل کی سرزمین تو گواہ رہ- کہ تیرے پر سخت

Page 71

۶۹ ظلم کا ارتکاب کیا گیا.اے بدقسمت سرزمین تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے.“ ( تذکرۃ الشہا دتین صفحه ۷۲ ) ہماری نظم میں قتل امیر کا ذکر : ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کچھ پیشگوئیاں آپ کی تحریرات اور الہامات سے اخذ کر کے اردو نظم میں منظوم کر کے امیر حبیب اللہ خان کے قتل سے کچھ عرصہ پیشتر اخبار الفضل جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخہ ۱۹ نومبر ۱۹۱۸ء میں شائع کی تھیں.جن میں کابل کے بارہ میں انتخاب درج ذیل ہے : گوش دل سے تم سنو اے ساکنانِ ہر دیار ہم سناتے ہیں تمہیں وحتی خدائے کردگار ہم سناتے ہیں تمہیں کچھ اور پیشن گوئیاں وحی حق ہے خواہ کرو تم یا نہ ان پر اعتبار یہ نشان ہیں مختلف لیکن نتیجہ ایک ہے یعنی ان پر ہے ہمارے صدق دعوئی کا مدار لوسنو تم غور سے اب ساری آیات مبیں پورا ہونے کا کرو پھر شوق سے تم انتظار بس نہیں ہوگا یہاں پر بلکہ ظاہر ہوتے ہیں اور بھی صدہا نشان منجانب پروردگار شہر کابل میں ہمارے مولوی عبداللطیف احمدی ہونے کے باعث ہو چکے ہیں سنگسار خاندان مظلوم کا پابند جولان گراں ! ! خوست سے خارج ہوا املاک سے بے اختیار شاہ نے شاہی کے نشے میں کیا ظلم عظیم جس کے باعث آتے ہیں اب اس یہ دن تاریک تار آہ جو مظلوم پر ہونا تھا وہ تو ہو چکا !! لیکن اب باقی ہے ظالم اس پر بھی پڑنی ہے مار شاہ اور اس کے اراکین جو شریک ظلم تھے اس کے خمیازہ میں اب ہونا انہوں نے ہے شکار

Page 72

شاہ کا بل کی ریاست میں مریں گے عنقریب دمی اس کی رعایا میں سے پچاسی ہزار جیسا کہ حضرت احمد مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی کی تھی اور جیسا کہ ہم نے زیر خط کشیدہ مصرعوں میں پیش خبریاں نظم کی تھیں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حرف بحرف ان کو نہایت رعب اور جلال اور شان وشوکت سے پورا کیا.واقعہ قتل امیر حبیب اللہ خان: امیر حبیب اللہ خان بمعہ سردار نصر اللہ خان اور سردار عنایت اللہ خان اور جرنیل محمد نادر خان اور علیا حضرت ملکہ افغانستان اور کمانڈر انچیف سردار محمد حسین خان سیر جبال گله گوش و نعمان پر نکلے.اور بمقام گلہ گوش پغان پر کیمپ لگایا گیا اور بادشاہ اور بیگم ایک خیمہ میں سوئے.اور رات کے وقت خدا کا فرشتہ پیغام اجل لایا.اور موت کے پستول نے امیر حبیب اللہ خان کا دماغ پارہ پارہ کر دیا.اور سوئے کا سو یا دائمی نیند سورہا.اور یہ واقعہ بروز جمعرات ۲۰ فروری ۱۹۱۹ء کو ہوا مطابق ۱۸ جمادی الاولی ۱۳۳۷ھ.ہمارے محترم بھائی قاضی مظہر الحق صاحب احمدی ساکن کوٹ نجیب اللہ ہزارہ نے اس واقعہ پر زیر عنوان افغانستان میں خدا کا ایک جلالی نشان“ پر اخبار الفضل مورخہ ۴ مارچ ۱۹۱۹ ء میں مضمون لکھا.مذکورہ الصدر اشعار کو دوبارہ شائع کیا.گویا کہ یہ اخبار پورے تین ماہ کے اندر پورے ہو گئے.جزاہ اللہ احسن الجزاء.امیر امان اللہ خان نے علی احمد غلام بچہ کو بجرم مقتل امیر حبیب اللہ خان جبس دوام کی سزا دی اور کرنل علی رضا پسر سالا رسید شاہ خان کو ۱۲ / اپریل

Page 73

اے ۱۹۱۹ء کو سر دربار قتل کر دیا.کہتے ہیں کہ شجاع الدولہ جو غلام بچہ تھا اس کو امیر امان اللہ خاں اور اس کی والدہ علیا حضرت نے امیر حبیب اللہ خان کے قتل پر مقرر کیا تھا.اس کے صلہ میں اس کو امیر الحیش مقرر کیا واللہ اعلم بالصواب.فصل هشتم مظالم کا خمیازہ بھگتنا خداوند ذوالجلال ذوالجبروت کا غضب اور غصہ آخر جوش میں آیا.چونکہ وہ اپنے انبیاء اور ان کے مومنین کے واسطے نہایت غیور ہے، اور عزیز اور ذ وانتقام ہے.ان مظالم کابل کا خمیازہ ظالموں کو پاداش ظلم میں بھگتا نا شروع کر دیا.پہلا پاداش ظلم ( وباء ہیضہ ) : حضرت عبداللطیف کے شہادت کے دوسرے دن یعنی ۱۵ جولائی ۱۹۰۳ء کو شہر کابل اور اردگرد کے علاقوں میں اچانک اور خطر ناک ہیضہ پھوٹ پڑا.جس سے روزمرہ تین چار سو آدمی ہلاک ہونے شروع ہوئے.اور لوگوں پر سخت ہیبت طاری ہوگئی.سردار نصر اللہ خان کی بیوی ! اور ایک نوجوان لڑکا ہیضہ سے ہلاک ہوئے.اور سردار نصر اللہ خان کو عبرت دلائی گئی اور آیت فان له جهنم لايموت فيها ولا يحى كا نظاره اس کے دل میں قائم ہو گیا.ہیضہ کی خطرناک صورت کا تذکرہ مسٹرانگس ہملٹن ا دختر سردارمحمد اسلم خان ولد سردار محمد اصغر خاں ولد سردار مہر دل خاں ولد پائند ہ خان تھی.

Page 74

۷۲ نے اپنی کتاب افغانستان کے صفحہ ۴۵۰ پر کیا ہے.دوسرا پاداش ظلم ( فتوی کفر ) : امیر حبیب اللہ خان کابل سے سیاحت ہند پر ۱۹۰۷ ء میں آیا.اور جب وطن واپس لوٹا.تو جن علماء نے حضرت شہید کو کافر اور مرتد قرار دیا تھا.ان ہی علماء افغانستان نے خود اُسی امیر کو کافر اور عیسائی اور مرتد قرار دیا.اور اس کی بد عقیدگی پر نکتہ چینی کی ، اور اس کا چال چلن خراب ظاہر کیا.اور سمت مشرق میں بغاوت برپا کی.اور اس طرح امیر کو فتویٰ کفر کا بدلہ بطور جزاء سيئة سيئة مثلها مل گیا - تیسرا پاداش ظلم ( ڈاکٹر عبد الغنی ) : امیر حبیب اللہ خان نے تحریک ڈاکٹر عبدالغنی خان اور اس کے بھائیوں کے کابل میں مجلس شوری ملتی قائم کی.مگر بہت جلد اس کو علم ہو گیا کہ یہ مجلس شوری نہ صرف اس کے اختیارات کو محدود کرنے والی ہے.بلکہ اس کی جان لینے کی سازش کر رہی ہے.چنانچہ اس نے نہ صرف اس مجلس شوری ملی کو توڑا.بلکہ شرکاء سازش کو گرفتار کر لیا.اور خود ڈاکٹر عبدالغنی اور اس کے بھائیوں کو گیارہ سال اسیر زندان کر دیا ہے.اس طرح خدا تعالیٰ نے ان....کوسزا دی.جنہوں نے حضرت شہید کو قید و بند دلایا تھا.اور آخر کا ر شہید کر وا دیا تھا.یہ پہلی سزا تھی جو ڈاکٹر کو اپنی قید کی ملی - بزمانہ حکومت امیر امان اللہ خان جب کہ ڈاکٹر ہنوز اسیر زندان تھا.اس کی بیوی کابل سے روانہ وطن ہوئی اور راستہ میں بمقام لنڈی کو تل سرائے میں مرگئی.اور پبلک نے چندہ کر کے کفن دفن کا انتظام کیا.یہ دوسری سزا تھی جو ا از مارچ ۱۹۰۹ ء لغایت اپریل ۱۹۱۹ء

Page 75

۷۳ ا ڈاکٹر عبدالغنی کو ملی.ڈاکٹر عبدالغنی خان کا نوجوان لڑکا عبدالجبار شہر کا بل میں سودا لے کر بازار سے گھر جا رہا تھا.کہ عقب سے کسی نے تلوار مار کر سرتن سے جدا کر دیا.داغ مرگ پسر کی تیسری سزا تھی.جو ڈاکٹر کو ملی - امیر امان اللہ خان نے ڈاکٹر کو گیارہ سال بعد جیل سے رہا کر کے ہندوستان کی طرف خارج کر دیا.یہ چوتھی سزا تھی.پانچویں سزا یہ ہے.کہ کہا جاتا ہے کہ اس کا ایک ہی لڑکا ہے اور وہ اب اپنے وطن میں کرایہ پر ٹمٹم چلاتا ہے.خدا کی شان یا تو ڈاکٹر عبدالغنی کا بل میں مختار کل بنا ہوا تھا.یا آج کسمپرسی میں زندگی بسر کر رہا ہے.فاعتبروا یا اولی الابصار - چوتھا پاداش ظلم ( قاضی عبدالرازق ) : امیر حبیب اللہ خاں نے اپنے ایامِ حیات میں حکم دے رکھا تھا.کہ ہر شخص سڑک پر اور گذرگاہ عامہ پر دست چپ پر جایا کرے.اور کوئی شخص اس کے خلاف نہ کرے.کہتے ہیں کہ ایک دن امیر کا بل سڑک پر سے گذر رہے تھے.دیکھا کہ ملا عبدالرازق خاں ملائے حضور سڑک پر دست راست پر جا رہا ہے.اور ڈیوٹی والا سپاہی روک.رہا ہے.اور وہ منع نہیں ہوتا.اس پر امیر نے ملا عبدالرازق کو ایک ہزار روپے جرمانہ کر دیا.بعد ازاں امیر امان اللہ خان نے حاجی عبدالرازق کو کوڑے لگوائے.اور ۱۹۱۷ء میں روزانہ حاضری کا حکم دیا.اس سزا کے بعد وہ کابل سے ایسا غائب ہو گیا.کہ گویا زندہ درگور ہو اب مر چکا ہے.نا شرحکیم عبد اللطیف شاہد

Page 76

۷۴ گیا کوئی نہیں جانتا.کہ اس کا کیا حشر ہوا.البتہ نہ وہ مدارس کی افسری رہی.اور نہ ملائے حضور کا عہدہ رہا.جن کی بنا پر اس نے حضرت شہید کے خلاف فتنہ کھڑا کیا تھا.انی مهین من اراداهانتک پورا ہوا.تحریر ہے کہ حکومت کابل کے رسالہ تر دید شبہات باطله شاه مخلوع صفحه ۱۵-۱۶ پر ' حاجی عبد الرازق خاں.ان امتیازات سے جو سابقہ نصیب تھے.تا دم مرگ محروم نہیں کیا گیا.لیکن کسی شخص نے امان اللہ کے دہ سالہ سلطنت کے عرصہ میں حاجی صاحب کو امان اللہ کے کسی دربار میں دیکھا.کیا امان اللہ نے کبھی حاجی صاحب غازی کو دربار یا عیدوں یا جشنوں میں مدعو کیا تھا.جناب مولا نا فضل ربی نے مولانا حاجی عبدالرازق کے جنازہ پر اپنی تقریر کے دوران میں حاجی صاحب کے خدمات کا ذکر کیا تھا.اور اس خاص شخصیت کو مسلمانوں کے رہنما اور ملت کے موسس اور مجاہدات کے محرک کا خطاب دیا تھا.کیا امان اللہ نے اس اظہار پر مولوی فضل ربی کو ماخوذ کر کے قید خانے میں ڈال نہ دیا تھا.“ ی تھی وہ موت جو حاجی عبدالرازق کو آخری عمر میں نصیب ہوئی.پانچواں پاداش ظلم ( مولوی نجف علی ) : بزمانہ حکومت اعلیٰ حضرت

Page 77

۷۵ محمد نادرشاہ مولوی نجف علی برادر ڈاکٹر عبدالغنی نے فارسی نظم میں ایک کتاب بنام درہ نادرہ لکھی.اور اس میں ملا ہائے کابل کی مذمت لکھی.اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ نے وہ کتاب عدالت عدلیہ کے افسر اعلیٰ کو بھیج دی.کہ وہ اپنی رائے ظاہر کریں.جنگ افغانستان ۱۹۱۹ ء میں حاجی عبدالرازق آزاد قبائل وزیرستان میں تھا.اس کے بعد کا بل واپس آیا - امیر کا زیر عتاب رہا.جب فوت ہوا.تو مولوی فضل ربی نے اس کا جنازہ پڑھا.اور تعریف کی امیرامان اللہ خان نے فضل ربی کو زیر عتاب کیا ) انہوں نے بعد مطالعہ حکم دیا کہ یہ شخص کا فر اور مرتد ہے.کیونکہ اس نے توہین علمائے دین کا ارتکاب کیا ہے.اور اس کو سنگ سار کیا جائے.آخر کارسفیر برطانیہ کی مداخلت سے اس کو اجازت ملی.کہ وہ کابل سے نکل کر ہندوستان چلا جاوے.اور ساتھ ہی اس کا بھائی محمد چراغ بھی کابل سے خارج کر دیا گیا.یہ ان شریر گروہ کا انجام ہوا.جنہوں نے حضرت شہید کو قتل کرایا تھا.ان کو خدا کا وعدہ انی مهین من اراد اهانتک کے ماتحت پکڑا گیا.اب سب فوت ہو چکے ہیں.ناشر چھٹا پاداش ظلم : امیر حبیب اللہ خان بمعیت سردار نصر اللہ خان وغیرہ سیر و شکار کی غرض سے سمت مشرقی علاقہ جلال آبا د کو گیا.کونٹر نعمان کے سرسبز علاقہ میں دورہ کر رہا تھا.جب مقام گلہ گوش پر پہنچا جو ایک قابل نظارہ مقام اور

Page 78

شاہی سیر گاہ و شکارگاہ ہے.وہاں شاہی کیمپ لگایا گیا.اور چند دن قیام و آرام چاہا.ایک دن آدھی رات کے وقت جب بادشاہ اور اس کی ملکہ دونوں ایک خیمہ میں خواب استراحت میں تھے.موکل خدا وند پیغام اجل لایا.اور موت کا پستول اس کے دماغ میں رکھ کر چلایا.اور امیر افغانستان کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا.فوج موجود - پہرہ ڈبل موجود - بادشاہ ملک مارا جاوے کان سے کان تک خبر نہ ہو.یہ کیا تھا.وہی انتقام الہی اور حضرت شہید کے قتل کی پاداش تھا.جو ظالم اور نادان امیر کو بھگتنا پڑا.آج تک کوئی یقینی قاتل نہ ملا.لوگوں نے کئی وجودہ قتل تجویز کئے اور کئی لوگوں لے کو قاتل قرار دیا.زمینی لوگ زمینی قاتل کی تلاش میں ناکام ہوئے اور کامیاب کیوں کر ہوتے.جب کہ قاتل فرشتہ تھا.جو خود غائب ہو گیا.اور ہونا تھا کیا پنڈت لیکھرام پشاوری کا قاتل آج تک مل سکا جوامیر کا قاتل مل جاتا.- امیر حبیب اللہ خان جس دن مرا.اس کے صبح جمعرات کا دن تھا.اور ۲۰ فروری ۱۹۱۹ء مطابق ۱۸ جمادی الاولی ۱۳۳۷ھ تھا.جب کہ وہ خدا وند عزیز و ذ والانتقام کے دربار میں قاتلان حضرت شہید کی صف میں بطور مجرم جا کھڑا ہوا.اور اس کا بستر استراحت بستر مرگ سے بدل دیا گیا.دیکھو ا مصلحت کے ماتحت کرنل شاہ علی رضا پسر سید شاہ خان نائب سالار غربی کو ۱۳ / اپریل ۱۹۱۹ ء کو قاتل قرار دے کر مارا گیا.یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا قاتل کرنل احمد شاہ خاں پسر سردار محمد آصف خان میر بہبود خیال کیا جاتا ہے.جو اس وقت خیمہ گاہ امیر مقرر تھا.اور امیر کے اردگر دوالی قنات میں رہا کرتا تھا.مگر قاتل تو بوقت واقعہ نہ بوقت فرار گر فتار کیا گیا.اس کو نہ اس جرم سے بری قرار دیا گیا.بلکہ امیر امان اللہ خان نے اپنی بہن نکاح میں دے دی.ان واقعات سے صاف ظاہر ہے.کہ جو کچھ واقع ہوا والدہ امان اللہ خان کی مصلحت سے ہوا.

Page 79

تفصیل کے واسطے کتاب زوال غازی کا صفحہ ۸ و۲۳،۱۴ مصفنه عزیز ہندی اسباب قتل امیر حبیب اللہ خاں : ڈاکٹرعبدالغنی پنجابی.اپنی کتاب ” وسط ایشیاء کے سیاسی حالات پر ایک نظر مطبوعہ ۱۹۲۱ء باب چہارم میں زیر عنوان افغانستان اور امیر حبیب اللہ کے قتل کے.وجوہ و اسباب یوں تحریر کرتا ہے: اول (۱) بوجہ ذیل عامۃ الناس خیالات اس سے (امیر حبیب اللہ خان سے ) برگشتہ تھے.وہ اپنے مذاق مغربیت- لباس- عام طرز معاشرت میں مغرب کی تہذیب و تمدن کا اس قدر دلدادہ تھا.کہ لوگ اس کو نہ صرف کفار کا حلیف بلکہ اس سے بڑھ کر خیال کرتے تھے.وہ اندھا دھند اہل یورپ کی نقل اتار رہا تھا.(۲) اپنے فرانسیسی طباخ (باورچی ) کے مارے ہوئے مرغ کو بخوشی خاطر کھاتا تھا جس کا وہ صرف سرتن سے جدا کر دیتا تھا.حالانکہ اس طرح کا مارا ہوا جانور ایک غیر مسلم کے ہاتھ ایک مسلمان کے واسطے حقیقتاً حرام ہے.امیر موصوف کا یہ فعل ایک غیر متعصب مسلمان کے نزدیک بھی سخت قابل اعتراض تھا.دوم اس کے تمام درباری تکلفات نے اس کے تمام درباریوں کو (باستثنائے چند منتخب افراد کے ) اس کے

Page 80

ZA ساتھ دستر خوان پر کھانے سے محروم کر دیا.حالانکہ ایک مشرقی مسلمان بادشاہ کا دستر خوان عام طور پر کھلا ہوتا ہے.عام لوگ اس کے اس خیال کو جست جانتے تھے.سوئم وہ تند مزاج ہو گیا تھا.معمولی قصور پر لوگوں کو مارتا اور جھڑکتا.چهارم وہ لوگوں کے معروضات و شکایات خود نہ سنتا تھا.لوگ خیال کرتے تھے کہ وہ بہت مغرور ہے.اور اپنے آپ کو عامۃ الناس کے مقدمات سے بالا تر خیال کرتا ہے.پنجم امور سلطنت کو نظر انداز کر گیا تھا.اور تا بہ مرگ یہ امر ترقی پذیر رہا.یعنی اپنا سارا وقت تصویر کشی ، طباخی ، کثرت شکار لہو ولعب اور عیش و طرب میں بسر کرتا تھا.ششم وہ انگریزوں سے خاص انس کا اظہار کرتا تھا.حالانکہ وہ صرف حکومت کے ملازم تھے.ہفتم اس نے ترکیہ اور جرمن مشن کو نظر انداز کر دیا تھا.بالفاظ دیگر خلیفہ المسلمین کی ضرورت کو ٹھکرا دیا تھا.افغان اس بات سے ناراض تھے نہ صرف یہ کیا بلکہ آزاد قبائل سرحد کو جمع کر کے عملی اقدام سے روکا اور خلیفہ المسلمین کے تعاون پر عامل ہونے پر سختی سے روکا.

Page 81

۷۹ ہشتم اس نے بیت المال کی دولت کو فضول خرچی میں صرف کر دیا تھا.حالانکہ اس کو اس پر کوئی فوق حق حاصل نہ تھا.اس کے سالانہ اخراجات لباس- بیگمات و اثاث البيت بہت خطرناک حد تک بڑھا ہوا تھا.امیر عبد الرحمن خان نے بڑی محنت سے خزانہ جمع کیا تھا.وہ ملک کی سالانہ آمدنی اپنے ذاتی عیش میں صرف کرتا تھا.اور بوقت مرگ اس کے باپ کے اندوختہ میں سے صرف چند لاکھ روپیہ باقی تھے.یہ تمام امور لوگوں کو اس کے خلاف بھڑ کانے کے تھے.( صفحه ۹۴ تا ۹۶ ) واقعہ قتل امیر حبیب اللہ خاں : ڈاکٹر موصوف صفحہ ۹۷ - ۹۸ پر لکھتا ہے بوقت مراجعت جب کہ وہ درہ گلہ ء گوش میں سے گذر رہا تھا.وہ ایک شفاف نالہ پر سے گذر رہا تھا.جس کے صاف اور شفاف پانی نے جو بڑی نرمی سے پتھر ملی سطح کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس کے ساتھ بہہ رہا تھا اس نظارہ نے امیر موصوف کو تخلیات سے بھر دیا.چند چھوٹی مچھلیاں جو کبھی آڑ میں اوپر چلی جائیں کبھی نیچے آئیں.امیر اس کا لطف اٹھا رہا تھا.اس فطرت عریاں کے خوبصورت سادہ تلعب نے جو دور افتادہ خاموش

Page 82

۸۰ سنسان گوشوں میں بے روک و خطر آدمی کو محظوظ کر رہا تھا.ایک پیالہ چائے کے نوش فرمانے سے جب وہ تازہ دم ہوا.تو وہ اس ندی کے کنارے آ رہا.اور چند مچھلیاں پکڑ لیں.اسی رات جب کہ وہ مچھلی کے شکار سے لطف اندوز ہو کر رات بستر استراحت پر سورہا تھا.اور اس کے ہاتھ سے اس کے اختیارات سلب ہو گئے تو موت کا غیبی ہاتھ نا معلوم طریقہ سے داخل خیام ہوا.اور ایک گولی اس کے دماغ میں داغ دی.اور خیمہ سے اس کی جان لے کر ایسا نا معلوم نکلا جیسا کہ وہ داخل ہوا تھا.شور وغوغا بلند ہوا.محافظ آگے پیچھے بھاگے.افسر موقعہ کی طرف دوڑے آئے.شہزادے بیدار ہوئے اور ہر طرف تلاش کی گئی.مگر فرشتہ اجل رخصت ہو چکا تھا.اور اپنے عقب میں سوائے نعش کے اور کچھ نشان نہ چھوڑا.جو وقار اور آرام سے بے جان ہو کر استراحت فرما تھی.(صفحہ ۹۷ تا۹۹) ساتواں پاداش ظلم : سردار عنایت اللہ خان معین السلطنت جو امیر حبیب اللہ خان کا بڑا فرزند اور مقرر شدہ ولی عہد تھا.اور مستحق تاج و تخت تھا.سردار نصر اللہ خان جو اس کا چا اور خسر تھا.دیرینه حرص و آز امارت افغانستان چمک اٹھا.اور اس نے اپنے کمزور طبع بھتیجے کا جائز حق غصب کر لیا.اور امیر حبیب

Page 83

ΔΙ اللہ خان کی نعش جلال آبا د لا کر سپر د خاک کر دی.اور ولی عہد کی موجودگی میں خود میر افغانستان بن بیٹھا فوج اور اراکین موجودہ سے بیعت لی.اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا.اور انگریزی گورنمنٹ ہند کو اطلاع دے دی.اور ان سے توثیق کا خواہاں ہوا.اس وقت مستوفی الممالک سردار محمد حسین خان بھی ساتھ تھا.سردار امان اللہ خان نے جو امیر حبیب اللہ خان کا فرزند ثالث تھا اور اس وقت کا بل میں گورنر تھا.جب دیکھا کہ میرا باپ کس مپرسی کی حالت میں مارا گیا.اور جائز ولی عہد سلطنت با وجود موقع پر موجود ہونے کے محروم السلطنت کر دیا گیا.اور اس کا حق سردار نصر اللہ خان نے غصب کر لیا.اور قاتلوں کی گرفتاری کا کوئی تردد نہ کیا گیا.تو اس نے فوراً سردار عبدالقدوس خان اے شاہ عاصی کے مشورہ سے اراکین سلطنت ورؤسائے ملک و علماء شہر کو بلوایا.اور ایک اجتماع قائم کیا.اور سب واقعات با چشم تر بیان کئے.کہ ملک کا بادشاہ اور ہمارا باپ کس مپرسی میں قتل ہو گیا اور کوئی قاتل گرفتار نہ کیا گیا اور جائز ولی عہد محروم کر دیا گیا.کیا اس سے صاف واضح نہیں.کہ قاتل خودسردار نصر اللہ خاں ہے.کیا یہ جو کچھ ہوا.درست ہوا.سب نے کہا نہیں.تو سردار امان اللہ خان نے کہا.کہ آپ لوگ میرا ساتھ دیں ہم مظلوم ہیں.اور قصاص لینے میں اعانت کریں.سب نے سردار امان اللہ خان کے ہاتھ پر اتفاق کیا اور بیعت کی.اور اس کو بادشاہ تسلیم کر لیا.اب ملک میں دو بادشاہ ہو گئے.امیر امان اللہ خان نے فوراً ان اراکین سلطنت کی.اولاد اور گھروں اور ا سردار عبدالقدوس خان شاہ خاصی صدراعظم مقرر ہوئے.

Page 84

۸۲ جا گیروں پر قبضہ کر لیا جو اس وقت سردار نصر اللہ خان کے ساتھ سفر میں تھے.اور اس کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے.اور اسلحہ اور خزانہ پر تصرف کر لیا.ایک فرمان شاہی کا بل سے جلدی روانہ کیا گیا.اور سردار نصر اللہ خان اور سردار عنایت اللہ خان اور مستوفی الممالک محمد حسین کو مطلع کیا گیا.کہ آپ لوگ حکومت کے باغی اور میرے باپ کے قاتل ہیں.سردار نصر اللہ خان فوراً دعویٰ امارت سے دست کش ہو.اور سب پابہ جولاں حاضر دربار ہوں.اور اپنی صفائی پیش کریں چنانچہ فرمان ملتے ہی سردار نصر اللہ خان اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو بے بس پایا.اور سردار نصر اللہ خان نے خلع امارت کیا.اور تینوں پابہ جولاں کا بل لائے گئے اور ان کو نظر بند کر دیا گیا.عزیز ہندی ہندی زوالِ غازی صفحہ ۱۲۳ میں لکھتا ہے کہ : قارئین کوسن کر حیرت ہو گی.کہ غازی امان اللہ خان کی تخت نشینی پر جب امیر حبیب اللہ کے مستوفی الممالک محمد حسین کو پھانسی پر لٹکایا گیا.تو اس کی کثیر التعداد غیر منقولہ جائداد کے علاوہ محض نقد روپیہ جو اس کے گھر سے برآمد ہوا.وہ دس کروڑ تھا ا نصر اللہ خان نے افغانستان کی حکومت کا تاج ۲۱ فروری ۱۹۱۹ ء کو سر پر رکھا.یکم مارچ ۱۹۱۹ء کو بحبق امیر امان اللہ خان تخت سے دستبردار ہوا.۴ مارچ ۱۹۱۹ء کو جلال آباد سے پابہ جولاں کابل روانہ ہو گیا.۳/ اپریل ۱۹۱۹ء کو کابل کے عام دربار میں مجرم قتل امیر حبیب اللہ خان قرار پا کر عمری قیدی ہوا.سردار امان الله خان گورنر کا بل نے ۲۱ فروری ۱۹۱۹ ء کو عام دربار کا بل میں والد کے قتل کے حالات بتائے.اور اسی دربار میں امان اللہ خان امیر منتخب ہوا.۲۲ فروری کو شاہی فرمان اپنی امارت اور نصر اللہ خان کے عزل کا ارسال کیا ۲۷ فروری کو با قاعدہ دربار میں اپنی شاہی کا اعلان کیا اور تاج و تخت کا والی ہوا

Page 85

۸۳ اور آپ کی حیرت میں اضافہ ہو گا.کہ اس وقت ملک کی مجموعی آمدنی دس کروڑ روپیہ سالانہ سے کسی طرح زیادہ نہ تھی.سردار نصر اللہ خان اور سردار عنایت اللہ خان اور سردار حیات اللہ خان کو ارک شاہی میں نظر بند کر دیا گیا.اور بعد میں سردار نصر اللہ خان کو ایک برج میں رکھا گیا.کہتے ہیں اس صدمہ سے نصر اللہ خان کے دماغ کا توازن بگڑ گیا.اور مختل الدماغ ہو گیا.اور جس برج میں مقید تھا کچھ عرصہ کے بعد رات کے وقت حبس دم کر کے مارا گیا.یہ واقعہ اسی ۱۳۳۷ھ کا ہے.ڈاکٹر احمد بیگ ترک معاون ڈاکٹر منیر عزت بیگ سول ہسپتال کا بل نے آواخر اپریل ۱۹۱۹ ء میں آسٹروی دعوت کے موقع پر کابل میں کہا.کہ میں نے بحکم امیر امان اللہ خان سردار نصر اللہ خان کو زہر کھلائی.یہ شخص ۱۹۱۹ ء میں شاہی حکیم رہا.اور دسمبر ۱۹۱۹ء میں سول ہسپتال کابل کا روح رواں تھا.ایک روایت یہ ہے کہ قید خانہ میں سردار نصر اللہ خاں کے..اس کو مارا گیا.خدا جانے اصل واقعہ کیا ہے.جس طرح سردار نصر اللہ خاں نے حضرت شہید کو پابہ جولاں کیا تھا.اسی طرح پابہ جولاں ہوا.جس طرح آپ کو ارک شاہی میں قید رکھا.اسی طرح خودارک شاہی میں قید رکھا گیا.اور جس طرح آپ کو بے گناہ قتل کرا دیا گیا.ٹھیک اسی طرح خود بھی قتل ہو گیا.اور جس طرح آپ کی قبر کو معدوم کرایا.اسی طرح امیر امان اللہ خان نے اس کی قبر کو نا معلوم کر دیا.ہم نے

Page 86

۸۴ بدوران سیر کا بل بہتیری کوشش کی.کہ اس کی قبر کا پتہ ملے.مگر کوئی صحیح موقعہ نہ بتا سکا.کوئی تو شہر آرا کا قبرستان بتاتا.کوئی عاشقانِ عارفان کا کوئی خواجہ صفا کا.اور کوئی وہی پرانا قبرستان بتا تا تھا جس میں حضرت شہید کو قتل و رجم کیا گیا تھا.وہ مستحق تھا.خدائے غیور نے اس مغرور انسان کے ساتھ وہی سلوک کیا.جس کا دیکھو زوال غازی صفحه ۲۸۵) آٹھواں پاداش ظلم ( قتل پسر سردار نصر اللہ خاں ): کچھ عرصہ بعد ۱۹۲۰ء میں امیر امان اللہ خان کو خیال گذرا - که افعی را کشتن و بچه اش را نگه داشتن درست نہ ہوگا پس اس نے سردار نصر اللہ خان کا اکلوتا فرزند ا بھی قتل کرا دیا.اور اس طرح سردار نصر اللہ خان بحکم آیت ان شانئک هو الابتر - ابترا اور منقطع النسل ہو گیا - فـقـطع دابر القوم الذين لايؤمنون سردار نصر الله خان کی اکلوتی لڑکی عالیہ بیگم سے امیر امان اللہ خان نے ملکہ ثریا کے ڈر سے خفیہ نکاح کر لیا.مگر بوقت عزل اور فرار از افغانستان اس کو طلاق دے دیا.زوال غازی صفحه ۲۸۴ - ۲۸۵ گویا اس کی آخری یادگار لڑکی کا بھی انجام خراب ہوا.عبرت ! عبرت !! عبرت !!! نواں پاداش ظلم : امیر حبیب اللہ خان کے ظلم سے حضرت شہید مرحوم کے لے سردار عزیز اللہ خان جو ۱۸۹۳ء میں تولد ہوا تھا.اور اس وقت ۲۷ سالہ نو جوان تھا باپ کے ساتھ قید ہو کر جلال آباد سے آیا تھا.

Page 87

۸۵ دو نوجوان فرزند حضرت محمد سعید جان اور محمد عمر جان جیل فیور سے شہید ہو گئے.تو اسی طرح اور ٹھیک اسی کے انتقام میں خدا تعالیٰ نے سردار نصر اللہ خاں کا نو جوان لڑکا قتل کرایا اور امیر حبیب اللہ خان کا جوان فرزند سردار حیات اللہ خان بچہ سقہ کے ہاتھ سے مارا گیا.( زوال غازی صفحه ۳۸۱) شہزادہ حیات اللہ خان لے کو بچہ سقہ نے پہلے پہٹوانے کا حکم دیا اور بعد میں خیال آیا.کہ اس کی ضرورت نہیں.اور بغیر پٹوائے بندی خانہ میں بھیج دیا اور دو ماہ کی قید کے بعد خفیہ طور پر قتل کرا دیا اور ارک شاہی کی دیوار کے نیچے دفن کرا دیا.جب حکومت افغانستان اعلیٰ حضرت محمد نادرشاہ کے ہاتھ آئی.تو انہوں نے دیوار گرا کر حیات اللہ خان کی نعش نکلوائی اور باقاعدہ ایک قبرستان میں دفن کرا دیا.( دیکھو زوال غازی صفحه ۳۱) حضرت شہید کے دو مظلوم صاحبزادوں کے عوض میں خدائے غیور نے امیر عبدالرحمن خان کے خاندان کے دو شہزادے ہلاک کرا دیئے.گندم از گندم بروید جو ز جو از از مکافات عمل غافل مشو دسواں پاداش ظلم (رجم قبر امیر ) : جس طرح امیر حبیب اللہ خان نے حضرت شہید کے جسد اطہر پر باران سنگ کرایا.اسی طرح اور ٹھیک اسی طرح باغیان علاقہ شنوار نے بدورانِ بغاوت جلال آباد پر حملہ کر کے امیر حبیب اللہ خان کی قبر پر پتھروں کی بارش کی.اور مرنے کے بعد رجم کیا.اور ا سردار حیات اللہ خان بزمانہ بچہ سقہ قریباً چالیس سالہ جوان تھا.

Page 88

ΔΥ انی مهین من اراد اهانتک کا الہام پورا ہوا.- خاکسار جب سیر کابل کے واسطے جا رہا تھا.تو بمقام جلال آبا دا میر حبیب اللہ خان کی قبر کو دیکھا.جو لب سڑک ایک باغ میں واقع ہے.۱۳ را گست ۱۹۳۴ء کو ہم نے علامات رحم کو تعویذ قبر پر نمایاں دیکھا.جو موجود تھے.یہ قبر ایک مسجد کے دروازے پر واقع ہے.سبزی مائل سیاہ پتھر کا تعویذ ہے پشاور سے کابل جانے والی سڑک کے جنوب کی طرف ایک وسیع احاطہ باغ کے وسط میں واقع ہے.گیارھواں پاداش ظلم : حضرت شہید پر فتوے تکفیر اور رجم دینے والے د و ملا قاضی عبد الرازق اور قاضی عبدالروف قندھاری تھے.قاضی عبد الرازق تو زندہ درگور ہوا.اور قاضی عبدالرؤف کے انجام کا اس وقت تک کوئی علم نہ ہوا.البتہ اس کے جانشین اور قابل فرزند قاضی عبدالواسع کو جس نے حضرت نعمت اللہ خان کی شہادت میں حصہ لیا تھا.حکومت سقاویہ کے والی کا بل ملک محسن نے سر بازار چوک کابل میں نہایت بے رحمی سے ہلاک کیا.اور خدا کے مواخذہ سے محفوظ نہ رہ سکا.درس عبرت : میرے عزیز! اگر حضرت احمد علیہ السلام خدا کا راستباز نبی نہیں.اور اس کی جماعت خدا کی برگزیدہ جماعت نہیں تو آخر کس طرح اور کس وجہ سے جماعت احمدیہ کے افراد کے خون ناحق کا انتقام خدا تعالیٰ نے ایک ایک مجرم سے چن چن کر لیا.اور اس طرح لیا.کہ ایک زبر دست با دشاہ اور اس کی جزار فوج بھی بمشکل اس طرح چن چن کر بلا خون ریزی نہ لے سکتی.مگر

Page 89

خدائے غیور نے وہ کام خود کیا جس کو جماعت احمدیہ کی کمزور اور غریب اور مظلوم جماعت خود نہ کر سکتی تھی.ہر ایک واقعہ سبق آموز اور قابل عبرت ہے.اور ہرگز ہرگز اتفاقی نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ کے عملی ارادہ اور مصلحت سے ایسا ہوا.تمہارے دل اس بات کو ضرور قبول کریں گے.خواہ زبان ضد اور شرم سے انکار ہی کرے.سچ ہے.هر که آمد در مقابل شد وجودش عاقبت آیت للسائلین و عبرة للناظرين

Page 90

باب سوم زمانہ حکومت امیر امان اللہ خان بادشاہ افغانستان فصل اوّل حکومت اما نیہ اور مذہبی آزادی کا اعلان نشینی : یہ نوجوان پادشاه جو...امیر حبیب اللہ خاں کا تیسرا فرزند تھا.اور 0 ملکہ علیا لے حضرت کے بطن سے یکم جون ۱۸۹۲ء کوتولد ہوا.اور بوقتِ وفات والدی سالہ نوجوان تھا.اور والی شہر کا بل تھا.جب قوم اور اراکین سلطنت نے اس کو ۲۱ جمادی الاولی ۱۳۳۷ھ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا.تو اس نے زمام سلطنت ہاتھ میں لیتے ہی فرمانِ شاہی بنام امیر نصر اللہ خان غاصب بمقام جلال آباد روانہ کیا.کہ وہ حکومت کے دعوی سے دست بردار ہو جائے اور اپنے آپ کو فوج کے حوالے کر دے.اور پابہ جولان اس کو کابل لایا گیا.اور مع اپنے دو بھائیوں سردار عنایت اللہ خان ولی عہد ( جس نے بزدلی سے اپنا حق تاج و تخت اپنے خسر کے حق میں چھوڑا تھا.اور سردار حیات اللہ خاں دوسرے برا در کلاں کے بارگ شاہی میں نظر بند کر دیا.( دیکھو زوال غازی صفحه ۳۱۳) جنگ سوم افغانستان: ان ناگوار واقعات کے اثر سے بچنے کے لئے بقول ا علیا حضرت والدہ امیر امان الله خان دختر لوی نائب سردار خوشدل خان خاندان محمد زی سے تھی.امیر امان اللہ خان بوقت قتل امیر حبیب اللہ خان کا بل میں گورنر اور امین تھا.

Page 91

۸۹ عزیز ہندی امیر امان اللہ خان نے جلدی سے سرحدات ہند پر گورنمنٹ برطانیہ سے جنگ کی طرح ڈال دی.جنگ کا آغا ز مئی ۱۹۱۹ء میں ہوا.اور تھوڑا عرصہ باہمی کشمکش رہ کر اگست ۱۹۱۹ ء میں صلح جنبانی ہوئی.اور نمائندگان صلح بمقام راولپنڈی بغرض صلح کا نفرنس جمع ہوئے.برطانیہ نے اپنا سالانہ امدادی وظیفہ بند کر دیا اور حکومت افغانستان کو دولت مستقلہ تسلیم کر لیا.جس کی یادگار میں ہر سال کابل میں جشن استقلال منایا جاتا ہے.یہ معاہدہ استقلال ۱۶ / اگست ۱۹۱۹ء کو دستخط پذیر ہوا.( دیکھوز وال غازی صفحه ۳۱۴) - مذہبی آزادی : سردار محمود خان طرزی خلف سردار غلام محمد خان طرزی اے جو امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ میں سراج الاخبار کا بل کا مدیر اور سر دبیر تھا.اور امیر امان اللہ خان کا خسر اور ملکہ ثریا سے کا باپ تھا.اور سرزمین شام میں آزادانه زندگی بسر کر چکا تھا.اس نے امیر امان اللہ خاں پر پورا قا بو پا لیا تھا اور اس کو مشورہ دیا کہ افغانستان کو ممالک متمدن کے اصول تمدن اور تہذیب پر چلا یا جاوے.اور ملک میں مذہبی آزادی دی جاوے.چنانچہ ایسا کیا گیا.کہ ہماری مملکت میں ہر مذہب اور ہر فرقہ کے پیر ومکمل آزادی کے ماتحت رہ سکتے ہیں.اس پر ہماری جماعت کا نمائندہ جب سردار محمود طرزی سے بمقام بمبئی و منصوری ملا تو انہوں نے تحریری اطلاع دی.کہ افغانستان میں ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے.لہذا جماعت احمدیہ پر بھی کوئی پابندی نہیں.چونکہ وہ ا سردار غلام محمد خان طرزی ولد سردار رحمدل خان ولد سردار پائندہ خان تھا.فارسی کا اعلیٰ شاعر تھا اور اس کا دیوان طرزی مشہور ہے.ے امیر امان اللہ خان کی ملکہ ثریا بنت سردار محمود خان طرزی سے شادی ۱۹۱۴ء میں ہوئی.دیکھو ڈاکٹر عبد الغنی کی کتاب ” وسط ایشیاء کے سیاسی حالات ، صفحہ ۱۴۱

Page 92

اس وقت وزیر خارجہ کے عہدے پر ممتاز تھے.اس واسطے ان کی اس تحریر کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو یقین دلایا گیا کہ کابل اور افغانستان میں جماعت احمد یہ آزادی سے رہ سکتی ہے اور ان پر ملاؤں کا کوئی دست تطاول دراز نہ ہو سکے گا.اس اعتبار کی بنا پر حضرت خلیفۃ المسیح سید نا محمود احمد صاحب کی اجازت سے حضرت نعمت اللہ خان پنج شیری قادیان سے بغرض قیام کا بل روانہ ہوا.اور پشاور میں ہمارے پاس آ کر رہا.حضرت نعمت اللہ : یہ نوجوان کے علاقہ پنج شیر ملک افغانستان کا باشندہ تھا.ایک میانہ قد کا خوبصورت نو عمر جوان تھا اور تازہ خط ریش چہرہ پر آیا ہوا تھا.اندازاً بیس (۲۰) اور پچیس (۲۵) سالہ عمر کا ہو گا.قادیان دارالامان میں علوم قرآن کریم اور معارف احادیث سے بہرہ اندوز ہو چکا تھا.بطور معلم و مبلغ احمدیت و تربیت جماعت کا بل جانے کو تھا.- دعوۃ الا میر : حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ان دنوں ایک کتاب دعوۃ الا میر نامی اردو میں تحریر کی.اور اس کا فارسی میں ترجمہ کیا گیا اور خوبصورت شکل اور عمدہ کاغذ پر لکھوا اور چھپوا کر امیر امان اللہ خان کے نام سے معنون کر دیا تھا.اس کتاب میں سلسلہ احمدیہ کے تاریخی حالات اور حضرت احمد علیہ السلام کے دعوے اور دلائل کا ذکر تھا.اور صحیح شکل میں احمدیت پیش کی گئی تھی.تا کہ امیر مذکور بجائے ہمارے مخالفوں کے غلط خیالات سنے.ہماری باتیں ہماری زبانی لے آپ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید مرحوم کے شاگرد تھے.اور عالم پارسا متقی اور صوفی آدمی تھے.

Page 93

۹۱ سنے.اور برادر حضرت نعمت اللہ خان کو وہ کتاب دی گئی کہ اپنے ساتھ لے جا کر امیر افغانستان اور اس کے اراکین کے حضور پیش کرے.تا کہ ان کو احمدیت کے حالات کا صحیح اندازہ ہو سکے.قیام پشاور : برادر موصوف جب پشاور پہنچا.تو ہمارے پاس مکان انجمن احمد یہ پشاور واقعہ بازار جہانگیر پورہ میں ٹھہرا.اور عرصہ دراز تک قیام کیا.یہ واقع ۱۹۲۲ء مطابق ۱۳۴۰ھ کا تھا.برادر موصوف ایک نہایت پاکیزہ ، کم گو، پر جوش ، متدین نوجوان تھا.گفتگو میں شیرینی تھی.خدا تعالیٰ شاہد ہے کہ اس کے ایام قیام میں ہم پر یہ اثر ہوتا رہا.کہ اس اخلاق حسنہ اور صلاحیت کا مجسمہ انسان بشر نہیں.بلکہ فرشتہ مجسم ہے گویا ما هذا بشرا ان هذا الاملك كريم اسی کے حق میں آیا ہے.وہ شیر میں کلام موثر لہجہ میں کلام کرنے والا.سرخ و سفید خوبصورت چہرہ والا، سیاہ چشم ، سڈول وجود، کشادہ پیشانی ، سیاہ بالوں والا ، سیاہ بادام نما آنکھوں والا تھا.باریک لب اور چہرہ پر سیاہ ابریشم کی طرح بالوں کی ریش تھی.زبان فارسی تھی اور پشتو بھی بول لیتا تھا.اردو زبان بھی قدرے سیکھ لی تھی.برادر موصوف کے ملائم طبع اور نرم مزاج کو دیکھ کر ایک دن ہم نے دریافت کیا کہ اگر خدانخواستہ افغان اپنے معاہدہ پر قائم نہ رہے.اور آپ کو کوئی ابتلاء یا امتحان پیش آئے.تو کیا آپ مصائب اور شدائد، باز پرس و دار و گیر برداشت کر سکیں گے؟ برادر موصوف پر ہمارے اس سوال کا ایک خاص اثر ہوا اور آبدیدہ ہو کر کہا.کہ انشاء اللہ آپ دیکھ لیں گے.میں اس

Page 94

۹۲ وقت کیا لاف و گزاف کر سکتا ہوں.خدا تعالیٰ برادر موصوف کو جزائے خیر دے.کہ جیسا کہا.ویسا کر کے دکھا دیا.اور ایسے لوگ دنیا میں کم ملتے ہیں.سفر کا بل : آخر کار برادر موصوف ایک دن بمعہ برادر عبد الاحد خان کا بلی ہم سے بصد حسرت وافسوس جدا ہوئے گلے ملے.دعا کی.اور رخصت ہوا.اور براہ جمر و دو درہ خیبر و جلال آباد کابل چلے گئے.وہاں کے احمدی ان کو دیکھ کر خوش ہوئے.اور ایک مکان کرایہ پر لیا.اور جماعت کو درس القرآن دینے لگے.اور احباب کی ترقی علم دین اور تربیت اخلاق میں مشغول ہو گئے.اور وہاں جب تک آزاد رہا.یا بعد میں قید رہا خط و کتابت جاری رکھی.اور حالات پیش آمدہ سے اطلاع دیتا رہا.فصل دوم بغاوت اقوام منگل و سمت جنوبی و شہادت حضرت نعمت اللہ خان جن ایام میں حضرت نعمت اللہ خاں کا بل میں قیام پذیر تھے.اقوام منگل ۲ و جدران باشندگان سمت جنوبی نے بعض وجوہ کی بنا پر بغاوت اختیار کی.اور ان وجوہ و بغاوت میں ایک یہ تھا کہ امیر امان اللہ خان قرآن کریم ا عبدالاحد کابلی احمدی اصلی باشندہ خواجہ صفا علاقہ کوہ دامن کا تاجک سے اور حضرت مولانا عبدالرحمن بازار کتب فروش کابل کا شاگرد تھا.قادیان آیا اور آج تک قادیان میں بصورت درویش مقیم ہے.ہے سردیوں کے موسم میں جو پٹھان پنجاب آیا کرتے.میں نے بھی ان سے خود یہ بات سنی تھی ۱۹۲۴ ء میں.شاہد

Page 95

۹۳ سے روگردان ہو چکا ہے.اور اس کے بدلے نظام نامہ جاری کرایا ہے جو اس کا خود ساختہ ہے.اور اس کے بعض دفعات کو علماء سمت جنوبی نے خلاف شریعت قرار دیا.اور انہوں نے امیر امان اللہ خان پر فتویٰ کفر دے دیا تھا.اور اس کے خلاف بغاوت کا نام جہاد رکھا یہ واقعہ ۱۹۲۴ء مطابق ۱۳۴۲ھ کا تھا.خوف زوال مملکت : عزیز ہندی اپنی کتاب زوالِ غازی میں لکھتا ہے.کہ اس بغاوت کا مرکز خوست کا صوبہ تھا.جو افغانستان میں واقع ہے.اور اس کا سرغنہ ملائے لنگ (ملا عبداللہ ) تھا.اور اس بغاوت کا عام سبب ملک میں قانون کے ذریعہ سے حکومت کئے جانے کی ابتداء تھی.اس مطلب کے لئے جو نظام نامہ بنایا گیا تھا.اس میں چند دفعات ایسے تھے جن کی نسبت ملاؤں کا دعوی تھا.کہ وہ شریعت اسلامیہ کے خلاف ہیں.اور ساتھ ہی ان کے بعض مواد ان ملاؤں کے اقتدار پر بھی حرف زن تھے اس لئے انہوں نے نظام نامہ مذکور کو اپنے مفاد اور مذہبی اعتقادات کے خلاف پاتے ہوئے ملک میں آتش فساد برپا کر دی تھی.اور یہ آگ مذہب کے نام پر لمحہ بہ لحہ ترقی کرتی جاتی تھی.اور بجا طور پر خوف لاحق ہو چکا تھا.کہ کہیں حکومت سقوط نہ کر جاوے.لہذا اس پیش آمدہ خطرہ سے بچنے کے لئے غازی امان اللہ خان نے ملک بھر کے موثر اور مقتدر اشخاص کو عین بغاوت کے شباب میں پایہ تخت میں طلب کیا اور ان کے سامنے نظام نامہ رکھ دیا گیا.کہ وہ حسب دل خواہ اس میں ترمیم و تنسیخ کرلیں.اور سب یک دل ہو کر بغاوت کے فروکر نے میں منہمک ہو

Page 96

۹۴ جاویں.( زوال غازی صفحه ۱۴۳-۱۴۴) احمدیان خوست کا رویہ : آغاز بغاوت میں باغیان منگل نے احمدیان سمت جنوبی کو بھی شرکت بغاوت کی دعوت دی.جس پر ان احمدیوں نے مہلت بغرض جواب طلب کی.اور ایک نمائندہ ہمارے پاس پشاور روانہ کیا.کہ جماعت احمدیہ کا اس بارہ میں کیا احکام اور رویہ ہو گا.ہم نے ان کو اچھی طرح ذہن نشین کرایا کہ ہر احمدی پر بادشاہ وقت کی اطاعت واجب ہے.اور کسی حالت میں بھی بادشاہ کے خلاف بغاوت درست نہیں.اس واسطے وہ باغیوں کا ساتھ نہ دیں.چنانچہ انہوں نے احمدیان خوست کو مطلع کیا.کہ وہ بغاوت میں شمولیت نہ کریں.اور وہ الگ رہے اور باغیوں کو جواب دے دیا.باغیوں نے جب دیکھا.کہ احمدی ان کا ساتھ نہیں دیتے تو انہوں نے خود احمدیوں کے خلاف کارروائی کرنی لازمی سمجھی.چنانچہ انہوں نے سمت جنوبی کے احمدیوں کی جائدادوں کو اور املاک کو خوب لوٹا.اور لتاڑا.اور ان کو طرح طرح کی ایذا دی.باغیوں نے یہ بھی کہا.کہ امیر امان اللہ خان بھی قادیانی ہے.کیونکہ احمدی اس کے خلاف بغاوت میں شریک نہیں ہوئے.قیام لوئی جرگہ: جس وقت امیر امان اللہ خان نے ملا عبداللہ عرف ملائے لنگ اور اس کے داماد ملا عبدالرشید عرف ملا دبنگ کو اور دوسرے سر کردگانِ منگل کو بغرض مشورہ و گفتگو کا بل بلوایا.اور لوئی جرگہ کی بنیا د رکھی.( زوال غازی صفحه ۴۳) تو اس جرگہ میں بدورانِ گفتگو ملا عبداللہ نے یہ بات پیش کی.کہ ہمارا یہ خیال ہے.کہ امیر امان اللہ خان قادیانی ہو گیا ہے اس وجہ سے اس نے ایک

Page 97

۹۵ احمدی مبلغ کو کابل میں رہنے کی اجازت دے رکھی ہے.اور اگر وہ قادیانی نہیں ہے تو ہمارے شک کا ازالہ اس طرح کر سکتا ہے کہ اپنے باپ دادا کی طرح وہ بھی احمد یوں کو قتل کر دے.گرفتاری مبلغ احمدیت : چونکہ امیر امان اللہ خان بقول عزیز ہندی صفت تہور سے بے نصیب تھا ( زوال غازی صفحہ ۳۲۵) اور اس کو یہ بھی فکر لاحق تھا.کہ کسی طرح منگل کی بغاوت فرو ہو جاوے.( زوالِ غازی صفحه ۱۴۳-۱۴۴) تو اس نے اس شرط کو تسلیم کر لیا اور ر ڈ کرنے کی جرات نہ کر سکا.رعیت کے ایک حصہ کو خوش کرنے کی غرض سے دوسرے حصہ کو ناراض کر دیا.یعنی ان پر بلا وجہ ظلم روارکھا.یہ بات تو ہم پہلے لکھ آئے ہیں.کہ اقوامِ منگل کے باغی احمدیان خوست سے صرف اسی وجہ سے ناراض تھے.کہ وہ بادشاہ وقت کے خلاف بغاوت میں شریک نہ ہوئے.اور یہ بات امیر امان اللہ خان نے اپنی قلم سے لکھے ہوئے خط میں تسلیم کی ہے.جو اس نے اٹلی سے اخبار زمیندار لاہور میں شائع کرایا تھا کہ اقوام منگل نے مجھے کا فر اور قادیانی کہا تھا.پس اس کمزور طبع اور بے تہور بادشاہ نے بے گناہ احمدی مبلغ کی گرفتاری کا حکم دے دیا.صرف اس واسطے کہ منگل خوش ہوں.اور مجھ سے ناراض نہ رہیں.میرا تخت و تاج سلامت رہے اور میں احمدی نہ کہلاؤں.فرمانِ نبوی: سید نا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے.کہ کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیت یعنی تم میں سے ہر ایک

Page 98

۹۶ راعی یا چوپان یا بادشاہ ہے.اور اس سے اس کی رعیت کے حقوق اور حفاظت کا سوال ہو گا.جب قرآن کریم نے صاف فرمایا ہے : کہ لا اکراہ فی الدین اور لـكـم ديـنـكــم ولی دین یعنی ہر شخص کو مذہبی آزادی کا حق ہے.اور کوئی شخص دوسرے مذہب میں جبر وا کراہ سے دخل نہ دے.اور نہ صرف اختلاف مذہب پر قتل کرے.اور خود اس نے ملک میں مذہبی آزادی کا اعلان کیا تھا.تو اس نے کیوں خدا تعالیٰ کے صریح احکام کے خلاف اور اپنے اعلان وفرمان کے خلاف ایک معصوم اور مظلوم احمدی مبلغ کو اپنے تخت و تاج کی سلامتی کے واسطے قربانی کا بکرا بنایا !!!؟ امیر کابل کی بے وفائی : نہایت افسوس ہے.کہ احمدیان سمت جنوبی نے اپنے بادشاہ کی اطاعت اور وفاداری کے ثبوت میں نقصانِ مال و جان قبول کیا.مگر باغیوں کا ساتھ نہ دیا.اور امیر امان اللہ خان بادشاہ نے اس وفادار حصہ رعیت کے حقوق اور مال و جان کی حفاظت نہ کی.اور ان کے نقصانات کی تلافی نہ کی.بلکہ الٹا ان ہی باغیوں کے کہنے سے اپنے وفا داروں سے بے وفائی کی.اور نہ خدا اور اس کے رسول کی شریعت کا پاس کیا.اور نہ اپنے اعلان کا پابند رہا.اور هل جزاء الاحسان الا الاحسان کی آیت کو بھول گیا.اور وفاداری کا معاوضہ وفا داری تھا نہ کہ بے وفائی.آه ! افسوس کہ امیر حبیب اللہ خان کا فرزند اور امیر عبدالرحمن کا پوتا اپنے ظلم و زیادتی میں اپنے باپ اور دادا سے کم نہ نکلا اور آخر کا ر حضرت نعمت اللہ خان کو گرفتار کر لیا گیا.اور ایک فرضی مقدمہ ان پر چلایا.کہ جماعت احمدیہ

Page 99

۹۷ کے عقائد خلاف اسلام ہیں.اور قاضی عبدالرحمن کو ہ دامنی اور قاضی عبدالسمیع قندھاری نے فتویٰ کفر دے دیا.اور صرف اسی پر صبر نہ کیا بلکہ رجم کا حکم بھی دے دیا.اور عدالتِ عدلیہ نے بھی اس حکم کو برقرار رکھا.حضرت نعمت اللہ خان نے بھی عدالت عدلیہ میں خوب مفصل بحث کی.اور علماء کے فتاویٰ تکفیر غلط ثابت کر دیئے.مگر علمائے کا بل تو امیر امان اللہ خان کے حکم کے تابع تھے.ان کو اصلیت اور حقیقت سے کیا کام تھا.ان دنوں میں جب کہ حضرت نعمت اللہ خان زندان میں اسیر تھا.اس کے دو تین خطوط مشتمل بر حالات خود آئے.اور آخری چار صفحہ کا خط جیل سے آیا.جو پنسل سے لکھا ہوا تھا.اور اس کے بعد یومِ شہادت سے دو چار یوم قبل کا لکھا ہوا تھا.کہ دو تین دن میں آخری پیشی ہو گی.اور یہ آخری خط ہے.جو دھیمی روشنی میں لکھ رہا ہوں.اگر چہ عدالت عدلیہ پر اتمام حجت کر دی گئی تھی.مگر وہاں تو ” پیش گرگان گر یہ میشی چہ شوڈ پر عمل ہو رہا تھا.کیونکہ وہ بحکم فدیناہ بذبح عظیم یعنی ہم نے اس کے عوض میں بڑی قربانی دی.حضرت نعمت اللہ خاں کے قتل کے عوض میں تخت و تاج کو قائم رکھنا چاہتے تھے.تین بکروں کے ذبح ہونے کی خبر : خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے ایام حیات میں ہی اطلاع دی تھی.کہ شاتان تذبحان کے بعد جو پوری ہو چکی تھی.یکم جنوری ۱۹۰۲ء کو خبر دی.کہ تین بکرے ذبح کئے جائیں گے.(البشری جلد دوم صفحه ۱۰۵) اگر چه حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بظاہر تین بکرے منگوا کر ذبیح بھی کروائے.تاہم جو خدا تعالیٰ

Page 100

۹۸ کے ہاں مقدر ہو چکا تھا.وہ ہو کر رہتا تھا.اور حضرت نعمت اللہ خان ان تینوں میں سے پہلا قربانی کا بکرا بنا.آخری خط : حضرت نعمت اللہ خان نے آخری خط میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا.اس کا ایک حصہ ہم نے فارسی نظم میں منظوم کیا تھا.جو درج ذیل ہے.اور اصل خط حضرت خلیفۃ المسیح امام جماعت احمدیہ کو بمقام قادیان ارسال کر دیا تھا.جو وہاں محفوظ ہے.جذبات حضرت نعمت اللہ خان در زندان کا بل اے خدا من از تو استدعا دریں زنداں کنم جان فدائے دین کنم سرور رہت قرباں کنم من نے خواہم که از زندان مرا بیرون کشی بلکه می خواهم که بر اسلام قربان جان کنم مقصدم اعلائے دین ست و مراکن کامیاب نقش صدق احمدیت بر دل افغان کنم چوں نمی ترسم زکشتن پس چرا خواهم نجات بلکه خونم قطره قطره در رهت افشان کنم گر قضائے تو بمرگم رفته باشد راضی ام تا کہ ذرات وجودم در رہت پران کنم استقامت بخش تا ثابت قدم باشم بمرگ تا کہ حسب بیعتِ خود من وفا پیماں

Page 101

११ بیشتر از پیشتر یا رب مرا اخلاص ده تا ازاں من ازدياد لذتِ ایمان کنم مومن بالله باشم امتِ خیر الرسل جاں فدا بر احمد موعود و هم قرآن کنم چوں بکابل جمع گردد بہر رجم مجمعے صدق کیش احمدیت را بخون اعلان کنم آنچناں ثابت قدم باشم دراں بارانِ سنگ تا بر استقلال خود اعدائے خود حیراں کنم وقت قتلم جنگ باشد در من و شيطانِ من یاورم باشی که من مفتوح آں میدان کنم گر مغلوب گردد روح من آزاد باد تا سبک پرواز سوئے جتِ رضوان کنم آنچه در وقت شہادت کر دہ بد عبداللطیف اندریں آواں ہماں من نعمت اللہ خاں کنم یوسف محزوں سلامم را با خوانم رساں عاقبت محمود باشد این دعا الآن در عدن فارسی صفحه ۴۳ ) واقعہ شہادت: چند ماہ قید و بند میں رہ کر اور اس آخری خط سے دو چار روز بعد آخری دفعہ عدالت عدلیہ میں پیش ہوئے اور حکم کفر و رجم سنا دیا گیا.اور ایک دن بغرض رجم مقرر ہوا.اور زنداں سے چھاؤنی شیر پورتک پابہ جولان ایک جم غفیر کے اندر گھرا ہوا مقتل کی طرف لے جایا گیا ایک میدان میں بارکوں

Page 102

کے نزدیک ایک گڑھا اڑھائی فٹ گہرا کھودا گیا.اور حضرت نعمت اللہ خان نے نماز عصر ادا کرنے کی اجازت حاصل کی.اور بعد از ادائے نماز ان کو آدھا زمین کے اندر گاڑا گیا.حضرت نعمت اللہ خاں نے آخری دفعہ باشندگان کابل پر اتمام حجت کر دی.کہ سید نا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز اعلان فرمارہے ہیں کہ : من صلى صلاتـنـا و استقبل قبلتنا واكل ذبیحتنا فذالک المسلم (رواه البخاری) یعنی جو شخص ہماری مقرر کردہ نماز ادا کرتا ہو اور ہمارے قبلہ کی طرف نماز میں رخ کرتا ہو.اور ہمارے ہاتھ کا ذبح حلال جان کر کھا تا ہو تو یہی تو مسلمان ہے.تم ان کو کس طرح کا فر قرار دے دیتے ہو.قرآن کریم نے صاف فرمایا ہے کہ من قتل مومناً متعمداً فجزاء ه جهنم یعنی جو ایک مومن مسلمان کو عمد اقتل کرتا ہے.تو وہ یقینی جہنمی ہے.اس صریح احکام شریعت سے جو خدا اور اس کے رسول نے دیئے ہیں.رُو گردان ہو کر علمائے کا بل نے ایک مومن با عمل کو گھیرے میں لے لیا.اور آدھا گاڑ کر اس پر پتھر چلائے.حضرت نعمت اللہ خان نے رو بہ قبلہ ہوکر با واز بلند کلمہ شہادت پڑھا.اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمداً رسول الله - یہی الفاظ دوہراتا رہا.اور جاں بحق ہوا.اور چند منٹوں میں اس پر سنگ ریزوں کا تو وہ قائم ہو گیا.اور جسم مبارک نظروں سے پنہاں ہوا.اور روحِ مبارک سرخرو ہو کر اپنے معبود حقیقی کی طرف پرواز کر گئی انا لله و انا اليه راجعون

Page 103

1•1 یه واقعه دوشنبه ۲۹ محرم الحرام ۱۳۴۳ھ مطابق ۳۱ جولائی ۱۹۲۴ء کو ظہور میں آیا.اور بہت جلد ساری سرحدات افغانستان تک یہ خبر پھیل گئی اور ہندوستان کے اخبارات نے اس کو اطراف عالم میں یورپ اور امریکہ تک پہنچا دیا.اور مہذب دنیا نے افغانوں کی وحشت اور بر بریت پر دل کھول کر مضامین لکھے اور نفرت کی آراء پاس کیں.خاکساراس وقت مانسہرہ ضلع ہزار میں بغرض سیر گیا تھا.اور وہاں ہی اس واقعہ شہادت کا علم ہوا.اسی وقت پشاور روانہ ہوا.اور دل میں سخت درد تھا.اور آنکھوں سے خون پانی ہو کر نکل رہا تھا.اور یہ چشم پرنم جو اس وقت چند اشعار فارسی زبان سے نکلے.وہ درج ذیل ہیں.اور اخبار الفضل مورخہ ستمبر ۱۹۲۴ء میں شائع ہو چکے ہیں.مرثیہ شہید نوجوان حضرت نعمت اللہ خان پنجشیری اے شہید نوجوان زاں جاں کہ قرباں کردہ مرحبا صد مرحبا بر ما چه احسان کرده ! نعمت اللہ خاں چہ خوش مردانه دادي جان خویش جدا صد آفرین کار نمایاں کردہ سنگ باریدند مردم سویت از جهل و عناد سر خرو گشتی چو تن در خون غلطاں کرده جسم تو مجروح سنگ و روح تو مرفوع شد پیش مولی رفتی و جائیت برضوان کرده

Page 104

۱۰۲ تو رضائے حق نمودی حق ز تو راضی شود تو ز فعل خود نمایاں صدق ایماں کردہ جاں بدادی و ندادی گوهر ایمان ز دست واه چه خوش مردانگی ثابت به افغال کرده ظلم کابل کم نہ بد بہرت ز ظلم کربلا چوں حسیں ثابت قدم خود را بمیدان کرده احمدی بودی فدا گشتی پے تبلیغ دیں حسب بیعت اے جری ایفائے پیماں کردہ خطاب به امیر امان اللہ خان خانه ظلم است ویراں ظالم مظلوم گش خانه خود چون ز دست خویش ویران کرده نعمت اللہ خاں تو کشتی اے امان اللہ مگر آنچه انجام تو باشد خلق حیران کرده عبرت از حال پدر گیر آنکه کشت عبداللطیف ایکہ بر ایں بے کسے از سنگ باراں کردہ نعمت اللہ خاں شہید نوجواں کشته نشد ۱۰ ستمبر ۱۹۲۴ء بلکہ بازی تو بخون خویش ناداں کردہ تو ز ما گشتی جدا ومن ز ہجرت خسته دل این دو چشم یوسف محزون گریاں کردہ ور عدن فارسی صفحه ۳۸-۳۹)

Page 105

۱۰۳ مرثیه ثانیه شهید امت احمد نبی صد مرحبا عهد بیعت را وفا بنمودی از صدق و صفا نعمت اللہ خاں تو گشتی ثانئے عبداللطیف یاد ایامیکه گفتی سر سر فدائے حق نمودی چوں حسین در کربلا فدائے دین کنم از عمل ثابت نمودی آنچه بد قول شما جاں بدادی وندادی گوھر ایماں ز دست آنچه تو کردی ہمیں کردند مردانِ خُدا می سزد گربر تو نازد سر زمین پہنچ شیر کم بزائد مادرے دُرے بمثلت بے بہا! نوجوان خوب وضع و خوب شکل و خوب رو نیک سیرت پاک خوی و خوش کلام و باصفا احمدی و مرد صالح باحیا و با ادب مولوی و عالم و پرہیز گار پر ہیز گار و پارسا مومن باللہ غلام حضرت فخر الرسل عامل قرآن مطیع احمد خیر الوراء سنگ باریدند افغان از انکه بودی احمدی واه چه خوش ثابت قدم ثابت شدی در ابتلا گوہر جانت زسنگ کیں شکستند و مگر بیشتر از پیشتر شد قیمتش چشم ، در

Page 106

۱۰۴ جسم تو شد زیر سنگ و روح تو مرفوع باد سرخرو باشی به پیش حضرت رب السماء چوں مقدم حسب بیعت دیں بہ دُنیا کرده تو رضائے حق نمودی حق ز تو باشد رضا مسکنت بادا بجنت نزد آں خیر الرسل ہم بقرب احمد موعود ختم الاولیاء صد ہزاراں رحمتے بر عبد رحمان اے شہید صد نیز بر عبداللطيف "فخرامت با صفا ہزاراں رحمتے بر سید سلطان ۳ شهید نیز بر روح سعید و ہم عمر جان سے باصفا صد ہزاراں رحمتے حق بر روان پاک تو نعمت اللہ خان شہید نوجوان مرد خدا آه نگرفتنه است ظالم عبرت از حال پدر کرد تجدید تظلم تا خود سزا خونِ ناحق ریختن گا ہے نماندے بدل سنت اللہ ہست باشد بہر ہر فعلے جزا بست و نهم از محترم روز بد يوم الاحد اے سرت گردم چو کردی سر براه دین فدا مر بحبيب انداخته یوسف یے تاریخ قتل پے ۵۱۳۴۳ -۱۳۲۱ھ گو بکابل رحم شد آں نعمت اللہ با وفا در عدن فارسی صفحه ۴۰ ۴۲ ) و - صاحبزادگان حضرت شہید مرحوم

Page 107

۱۰۵ فصل سوم شہادت حضرت مولانا عبد العلیم و حضرت قاری نور علی سردار علی احمد جان : سردار علی احمد جان لے جو جنگ افغانستان کے اختتام پر اگست ۱۹۱۹ ء میں حکومت افغانستان کی طرف سے بطور نمائندہ راولپنڈی کا نفرنس میں تشریف لائے تھے.وہ والدہ امیر امان اللہ خان کے بھتیجے اور داماد تھے.(دیکھوز وال غازی صفحہ ۹) صلح کا نفرنس کے بعد کچھ وجوہ ایسے پیدا ہوئے.کہ امیر امان اللہ خان نے اس کو کابل میں نظر بند کر دیا.اور آخر پھوپھی کی سفارش سے آزاد کر دئے گئے اور ۱۹۲۴ء بغاوت منگل کے فرو کرنے کی غرض سے امیر امان اللہ خاں نے ان کو خوست روانہ کیا بغاوت کے فرو کرنے کے بعد فاتح منگل کہلاتے تھے.( زوال غازی صفحہ ۱۰) اس نے حکومت افغانستان کی طرف سے بغاوت منگل فرو کرنے کی غرض سے ملا عبداللہ عرف ملائے لنگ سے لوئی جرگہ میں جو عہد و پیمان کئے تھے.ان میں چند احمد یوں کا قتل کیا جانا طے پایا تھا.امیر امان اللہ خان نے اپنی مہر اور دستخطوں سے قرآن کریم پر اس مضمون کا حلف اٹھا کر بھیجا تھا.لے سردار علی احمد جان والی خلف سردار خوشدل خان لو ہے نا ئب خلف سردار مهر دل خان قندہاری تھا.اس کی والدہ امیر دوست محمد خان کی لڑکی تھی.علی سردار علی احمد جان بارک زائی نے ہندوستان میں تعلیم حاصل کی.۱۹۰۴ء میں سردار عنایت اللہ خان کے ساتھ اور ۱۹۱۷ء میں امیر حبیب اللہ خان کے ساتھ سیر ہند پر آیا تھا.

Page 108

( زوال غازی صفحه ۲۳۸) بالفاظ دیگر حضرت نعمت اللہ خان شہید، حضرت مولانا عبد الحلیم شہید اور حضرت قاری نور علی شہید کے قتل ہونے کی تمام تر ذمہ داری امیر امان اللہ خان، سردار علی احمد جان اور ملا عبداللہ ملائے لنگ پر تھی.اور یہی تینوں ان تین مظلوموں کے قتل کے باعث تھے.اور صلح منگل کی خوشی میں یہ تین احمدی قربانی کے بکرے بنائے گئے.تا کہ ان کا صدقہ دے کر حکومت اما نیہ کو سلامت رکھا جاوے.گرفتاری حضرت مولوی عبد الحلیم و مولوی قاری نورعلی امیر امان اللہ خان نے اقوام منگل کو خوش کرنے کی غرض سے اپنی فطری بزدلی سے کام لیا.اور حضرت نعمت اللہ خان کی شہادت پر قانع نہ ہوا.اور چند اور احمدیوں کی تلاش میں ہوا.آخر قرعہ ء فال حضرت مولانا عبد الحلیم احمدی ساکن چار آسیا ( کابل ) اور قاری نور علی احمدی باشندہ شہر کابل کے نام پڑا.ہر دو کے ذمہ یہ الزام قائم کئے کہ یہ ان احمدیوں سے کی ملاقات کے واسطے سفارت خانہ برطانیہ میں گئے تھے.جو سفارت خانہ میں ملازم تھے.اور یہ کہ وہ خود بھی احمدی ہیں.بقول مسٹر انگس ہملٹن کسی باشندہ افغانستان کے واسطے لے آپ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید مرحوم کے شاگرد تھے.اور عالم پارسا متقی اور صوفی آدمی تھے.ہے قاری نور علی صاحب حضرت خلیفہ عبد الرحمن صاحب کے شاگرد تھے اور بہت مخلص خوش اخلاق با خدا انسان تھے.سے حضرت مولانا غلام حسن جان رضی اللہ عنہ کے فرزند مولوی عبد اللہ جان صاحب کا بل کے برطانوی سفارت خانہ میں میر منشی تھے.اور اکثر کابل کے احمدی ان سے ملنے آتے جاتے.حضرت مولوی عبدالحلیم صاحب، حضرت قاری نور علی صاحب اور مولوی محمد رسول صاحب، ڈاکٹر فضل کریم صاحب احمدی سے سفارت خانہ میں بھی اسی غرض کے لئے آئے.یہ بھائیوں کی ملاقات جو محض اللہ تھی.جرم قرار پائی.

Page 109

سفارت خانہ برطانیہ میں جانا یا ان کے ملازموں سے ملنا حکومت افغانستان کے نزدیک ایک ناقابل معافی جرم ہے.بلکہ جو شخص عمارت سفارت کے نزدیک گھومتا پایا جاوے.تو اس کو بھی سزا دی جاتی ہے.یہ سزا صرف قید ہی نہیں بلکہ یہ ایک ناتحریر شدہ قانون ہو چکا ہے.لوگ جہاں تک ہو سکے سفیر برطانیہ اور اس کے ساتھیوں سے دور رہیں.دیکھو کتاب افغانستان صفحه ۲۷۳-۲۷۴) فیصلہ عدالت عدلیہ : حضرت مولانا عبدالحلیم اور حضرت قاری نور علی دونوں کو گرفتار کر لیا گیا.اور قاضی عبد الرحمن کو ہ دامنی کے پاس پیش کیا گیا.جہاں سے فتویٰ کفر ور جم دیا گیا.اور عدالتِ عدلیہ نے برقرار رکھا.اور رکھنا تھا بھی.کیونکہ کوئی بے گنا ہی اور بے قصوری کا تو سوال ہی نہ تھا.انہوں نے خواہ مخواه چند مظلوموں کو مارنا تھا کہ تخت و تاج بچایا جاوے.ان کے واسطے وہ سزا تجویز کی.جو از روئے قرآن کریم ہمیشہ کفار کی طرف سے لنر جمنکم اولیمسنکم منا عذاب الیم کی صورت میں مومنین اور انصار رسول وقت کے لئے تجویز ہوتی رہی ہے.یعنی مومنوں کو فتویٰ دیا جاتا.کہ ان کوضرور سنگسار کیا جاوے.یا عذاب شدید میں مبتلا کیا جاوے.واقعہ شہادت ایک دن مقرر ہوا اور جب وہ دن آیا.تو علماء اور باشندگان شہر میں سے ایک انبوہ کثیر بصورت جلوس زندان کے سامنے جمع ہوا اور ہر دو مظلوم احمدیوں کو پابہ جولاں نکال کر شیر پور چھاؤنی کی طرف لے جایا گیا.اور ایک میدان میں گڑھا کھودا گیا.تا کہ ان کو آدھا گاڑکر ان پر بارانِ

Page 110

سنگ کیا جاوے اور ہر دو مظلوموں نے اپنے قاتلوں سے درخواست کی.کہ عصر کی نماز باجماعت ادا کرنے کا موقعہ دیا جائے.چنانچہ موقع دیا گیا اور ہر دو مظلوموں نے نماز عصر با جماعت نہایت خشوع اور خضوع سے ادا کی.اور اپنے قاتلوں پر خاموشی سے اتمام حجت کر دی.کہ وہ کن کو قتل کر رہے ہیں.ان کو جو (۱) ایمان باللہ رکھتے ہیں.(۲) ایمان بالقرآن رکھتے ہیں.(۳) ایمان محمد رکھتے ہیں.(۴) ایمان بالصلوۃ رکھتے ہیں.(۵) ایمان بالکعبہ رکھتے ہیں.(۶) ایمان بالآ خرت رکھتے ہیں ! پس مومنوں کے قاتل من قتل مومناً متعمداً کے فرمان خداوندی کے تحت میں آچکے.اور خدا تعالیٰ کے حضور مجرم بن چکے.حضرت مولانا عبد الحلیم اور حضرت قاری نور علی نے بعد از فراغت نماز اپنے قاتلوں کے سر کردہ سے کہا.کہ ہم کو گاڑنے کی ضرورت نہیں.ہم قبلہ رخ بیٹھے رہتے ہیں.اور آپ اپنا کام کریں- فاقض ما انت قاض یعنی کرو.جو تمہاری مرضی ہو.اور ہر دو نے بلند آواز سے کلمہ شہادت ادا کرنا شروع کیا.نشهد ان لا اله الا الله ونشهد ان محمداً رسول الله قاتلوں نے چاروں اطراف سے پتھروں کی بارش شروع کر دی.اور چند منٹوں میں ہر دو شہید تو وہ سنگ کے نیچے نظروں سے پوشیدہ ہو گئے.ان کی مبارک روحیں ان کے پاک اجسام سے جدا ہو گئیں.اور اپنے معبود حقیقی کی طرف سرخرو ہو کر پرواز کر گئیں.ان کے اجسام مظہر ہ پتھروں کے نیچے مدفون

Page 111

۱۰۹ ہو گئے.انا الله و انا اليه راجعون یہ دن پنج شنبہ کا تھا اور تاریخ ۱۰ رجب المرجب ۱۳۴۳ھ مطابق ۶ رفروری ۱۹۲۵ء تھا.ہم نے اپنے قابل عزت بھائیوں کی یاد میں ایک مرثیہ ان دنوں میں لکھا تھا جو کہ اخبار الفضل مورخہ ۲۴ جون ۱۹۲۵ء میں شائع ہوا تھا.اور وہ یہ ہے.جبرا نور علی مرثیه بزبان فارسی صد مرحبا عبد الحلیم احمدی بودید زاں گشتید در کابل رجیم ہمت مرداں نمودید آفرین صد آفریں گشته گشتید و نگشتید از صراط مستقیم غیرت افغاں کجا دارد روا مرند شود! چون به بیند جان خود در معرض امید و بیم احمدی افغاں دہد جاں لیک ایمان را ز دست گونخواهد داد گر گردو ز سرتا پا دو نیم احمدیت عین اسلام ست و مومن احمدی ست مومنان را نام مرند می نهد مرد لیم چیست جرم شاں بجز ایمان بالله داشتن احمد موعود نگرفته نیز ایمان بالحمد یا بقرآن کریم ست بیعت از کسی غیر ایں شہ امر تا بیتم ما مردم علیم

Page 112

11.گر چنیں کفرست ما را الحمد للہ کا فریم فارغیم از کفر و اسلام تو اے مرد خصیم دوزخ و جنت اگر در قبضہء مولائے ماست تو جہاں باشی قسیم جنت و نارِ جہیم اے مکفر احمد آمد تا ترا مومن کند تو او را کافر بگفتی حسب دستور قدیم احمدی را کافری گفتن و گشتن ناروا ست نزد مردان سر پر مغز با قلب سلیم نیست مرتد احمدی نے رجم مرتد را رو است حسب قرآن و حدیث وحسب ایں دینِ قدیم کار مومن رجم مومن کے یو د جز کا فرے رو بخواں لین و مریم بود و شعراء اے فہیم احمدی را مخبر اغیار گفتن افتراء است دامنِ شانِ پاک زمیں جرم است والله العلیم افترا سهل است لیکن مشکل افتد آن زماں چوں ثبوت از مفتری خواهد خداوند لعنتِ حق بر روان روان مختبر و ہم مفتری ست عظیم نزد احمد ہر دو فعلے ہست جرم بس فخم اتباع بادشاه بر احمدیاں واجب است گر بود او مسلمے یا کافر دین قویم !

Page 113

اے امان اللہ سلطان است ظل الله بملک پیرو ہر کیش می باشد بفرمانش سلیم خود خُدا گفته است لااکراه در قرآن پاک نیز آزادی مذہب را نمودی تو رقیم پس خلاف حکم قرآن نیز فرمانِ خودت چوں کشی خدام احمد چوں کنی ظلم عظیم گر خدا هست و قیامت یعنی روز باز پرس پس ز عهد خود مخالف را بود اخذ گر شود کافر کسے کو گفت عیسی را وفات فوت کو گوید محمد را چه باشد آں آه بد يوم الخميس عاشوره شهر رجب اشیم چون دو سر و باغ احمد اوفتاده کالصريم بود ہجری یک هزار و سه صد و هم چهل و سه ۵۱۳۴۳ تازه در کابل چو شد از کربلا رسم قدیم سر فرو یوسف نمود بعد قطع لب بگفت مامن روح شما بادا بجنات در عدن فارسی صفحه ۴۶ - ۴۸ )

Page 114

۱۱۲ فصل چهارم بعض اخبارات لا ہور کا نا پاک پرو پیگنڈا ظلم کی خلاف حکم قرآں تائید : امیر امان اللہ خان اور اس کے علماء نے تین احمدیوں کو محض بے گناہ صرف باغیان خوست کے خوش کرنے کی غرض سے قتل کرا دیا تھا ، اور کسی مسلمان کو کیا ایک مرتد اسلام کو بھی پتھروں سے قتل کرنے (رجم) کا جواز قرآنِ کریم میں موجود نہیں.اور نہ کسی صحیح حدیث میں موجود ہے.کہ اختلاف عقائد پر کسی مسلمان کو یا مرتد کو سنگسار کیا جاوے.مگر با وجود اس کے ہندوستان و پنجاب کے بعض.ایڈیٹران اخبارات وغیرہ نے سعی نا کام کی.کہ کسی طرح امیر امان اللہ خان کو شرعی اور معقول جواز مل جائے مگر یہ سب کچھ محض غلط تھا.کیونکہ اختلاف عقائد پر رحم کرنا کبھی کسی مومن گروہ کا کام نہیں ہوا.البتہ سورہ یسین ، سورہ ہود، سورہ الشعراء اور سورہ مریم میں کفار کی طرف سے مومنوں کو رجم کا فتویٰ اور دھمکی ملتی رہی ہے.ایک ایڈیٹر اے اخبار لا ہور اور علمائے دیو بند پیش پیش رہے.اور عند الشریعت رجم کے جواز پر بہترے ہاتھ پاؤں مارے.مگر سب نابود حضرت مولانا شیر علی نے قتل مرتد پر لا جواب کتاب تحریر کی.اور قائلان قتل مرتد کے قلموں کو توڑ کے رکھ دیا.آخر کار ان کو یہ سوجھا.کہ چلو یہ ر..لے ایک مخالف ایڈیٹر اخبار جو احمدیت کا سخت مخالف تھا.بالآ خر فالج کے مرض میں گرفتار ہوا.اور عرصہ دراز بیمار رہ کر ۱۹۵۶ء میں مر گیا.

Page 115

۱۱۳ الزام دھر دو کہ جماعت احمدیہ کے افراد گورنمنٹ برطانیہ کے مخبری کرتے ہیں.اور اسی جرم کے یہ مظلوم بھی مرتکب ہوئے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ گواہ ہے.کہ مخبری کا فعل شنیع ہمارے مخالف ملاؤں کا پیشہ اور شیوہ ہے.اور ہم احمدی اپنے ملک و ملت اور حکمران کے خلاف مخبری کو ایک لعنتی کام جانتے ہیں.ہمارا تو طرہ امتیاز یہی ہے کہ ہندوستان میں ایک عیسائی بادشاہ کے ماتحت رہ کر ہم فرمانبردار اور امن پسند اور تابعدار وفادار ہیں.تو جو احمدی ہندوستان سے باہر دوسرے ممالک میں ہیں.مثلاً عراق ، افغانستان ، ایران ، ترکیه، شام، عرب، مصر، چین، جاپان اور جزائر زیر قبضہ ہالینڈ میں وہ اپنے ملک اور بادشاہ کی وفادار رعیت ہیں.ہم احمدی اپنے ملک کی حکومت کی وفاداری اور تابعداری اور بادشاہ وقت کی اطاعت اپنی مذہبی تعلیم کے ماتحت کرتے ہیں.نہ کسی لالچ سے نہ خوشامد سے مگر ہمارے مخالف جو ہم پر خوشامدی ہونے کا الزام دیتے ہیں.ان میں سے ایک حصہ زبان سے حکومت کے خیر خواہ خوشامدی اور دل سے مخالف اور بدخواہ ہوتے ہیں صرف اغراض دنیاوی کے ماتحت اور اپنی ذاتی فوائد کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں.اور اپنے نفاق کا ثبوت دیتے ہیں.اور ایک حصہ تو ایسا ہے جو دل سے گورنمنٹ کا خیر خواہ اور مددگار ہوتا ہے.اور ان کے جوان فوجوں اور رسالوں میں بھرتی ہوتے ہیں.اور اپنے ہم مذہب لوگوں کے خلاف میدانِ جنگ میں اترتے ہیں.اور بالعوض تنخواہیں اور جاگیریں اور انعامات اور خطابات حاصل کرتے ہیں.اور ایک حصہ محض خطابات اور انعامات اور جاگیروں اور تنخواہوں کی غرض سے ہر ایک امر پر کمر بستہ ہوتا ہے

Page 116

۱۱۴ اپنے ہم مذہبوں کی چغلیاں کھانا.اور مخبریاں کرنا اپنا پیشہ بنا رکھا ہے یا اپنی حکومت کی مخبری دوسرے ممالک مثلاً روس وغیرہ کے پاس کرتے ہیں.پس جیسا کہ وہ خود غدار اور بے وفا اور باغی اور لالچی ہوتے ہیں.اسی قسم کا ہر ایک کو خیال کرتے ہیں.چیلنج حلف مؤکد بعذ اب درباره مخبری کیا کوئی ہے.جو ہمارے ذمہ حلف مؤکد بعذ اب اٹھا کر ثبوت دے سکے.کہ ہم میں سے کس نے اور کب اور کہاں مخبری اور خبر رسانی کا نا پاک فعل کیا اور اس کے عوض میں گورنمنٹ سے کوئی خطابات، جاگیریں یا انعامات حاصل کئے ہوں.ہم یقین دلاتے ہیں.کہ ایک احمدی کے خلاف بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا.بعض افراد کی اسلام دشمنی: کیا ہمارے معترضین...بتاسکتے ہیں کہ ہندوستان سے جو مسلمان پیادہ اور سوار پلٹنوں میں ملازم ہو کر ایران پر ،عراق پر ، کاظمین پر ، کربلا پر ، نجف پر ، بغداد پر ، حجاز میں ، عدن میں ، مصر میں ، فلسطین میں، قسطنطنیہ میں مسلمان بادشاہوں اور خلیفہ المسلمین کے خلاف نبرد آزما ہوئے.اور اپنے مقدس مقامات کو پامال کیا.اور اپنے ہم مذہب جوانوں کو قتل کیا.ان کی ازواج کو بیوہ کیا.ان کی اولا د کو یتیم کیا.اور ان کے املاک پر ہاتھ صاف کئے.اور ان کے ملک کو چھینا.یہ تمام احمدی تھے.پھر کون تھے؟ بس کس منہ سے ہم پر وہ یہ اعتراض کرتے ہیں جس کے مرتکب دراصل وہ خود ہیں.

Page 117

۱۱۵ ایک شخص مدیر اخبار لا ہور بالآ خر خدا کے غضب کی گرفت میں آیا اور فالج میں گرفتار ہو کر دنیا سے رخصت ہوا.اور اپنے اعمال بد کا نتیجہ پا گیا.پس جو لوگ جماعت احمدیہ پر یہ ناپاک الزامات لگاتے ہیں.وہ تو بہ کریں ورنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے روز باز پرس مقرر ہے.اور اس کے واسطے وہ خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوں گے.اور ضرور ہوں گے.لاہور کا ایک گروہ : لاہور کے کچھ لوگوں نے جو پرانے دشمن خاندان و جماعت مبایعین تھے.محض ذاتی بغض و عناد کی بنا پر جماعت کی مخالفت کی اور حسد کی وجہ سے کہ شہداء کی قربانیاں ہماری جماعت کے اندر کیوں ظاہر ہوئیں.ہمارے مخالفوں کا ساتھ دیا لیکن ناکام رہے.بعض معاندین کا جوش انتقام : ایک ایسے شخص اور اس کے رفقا کے خلاف ان کے خیالات کی تردید میں اردو اور فارسی میں بعض نظمیں لکھی تھیں.جو اخبارات قادیان میں شائع ہوتی رہی ہیں.نومبر ۱۹۲۷ء میں ہم نے ان کا ایک مجموعہ فارسی اردو میں شائع کیا.اور اس کا نام در عدن رکھا.ہم نے اپنی نظموں کے ساتھ وہ نظمیں بھی ضم کر دیں.جو حضرت سید عبداللطیف شہید اور دوسرے شہدا کی وفات پر اخبارات سلسلہ میں شائع کی تھیں.ان کو ان رسالوں کی اشاعت سخت نا گوار تھی.مگر وہ کوئی صورت ان کی اشاعت کو روکنے کی نہ کر سکتے تھے.مگر سخت تلملاتے رہے.آغاز دسمبر ۱۹۲۷ء امیر امان اللہ خان بارادہ سفر یورپ کا بل سے

Page 118

براہ قندھار چمن اور کوئٹہ ہندوستان آیا.اور یورپ کو جاتا رہا.ان لوگوں کو در عدن کو ضبط کرانے اور راقم کو مقدمات میں پھنسانے کی نیت سے یہ سوجھا کہ اچھا موقع ہاتھ آیا ہے.اور یہ ہاتھ سے جانے نہ پائے.تب انہوں نے اس طرح ایک ناپاک پراپیگینڈا لاہور کے ایک اخبار میں شروع کیا کہ اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ خان مسلمانوں کا بادشاہ ہے اور سات کروڑ مسلمانانِ ہند کا محبوب ہے.اور قیصر ہند کا مہمان ہو کر ہندوستان آیا.اور عین اسی وقت قاضی محمد یوسف نے سرکاری ملازم ہو کر اس کے خلاف در عدن شائع کی اور اس میں امیر امان اللہ خان کو گالیاں دی گئیں.اور بُرا کہا گیا اور اس کی ہتک کی گئی.لہذا گورنمنٹ برطانیہ اس کو گرفتار کرے اور اس پر مقدمہ چلائے.اور اس کو سخت سے سخت سزا دے.لاہور کے ایک اخبار نے خود بھی اس پر بار بار مضامین لکھے.اور دوسرے اخبارات نے.اس پر برابر مضامین لکھے.اور خوب زور لگایا.پشاور کے ایک صاحب جو ایک پینشنز انسپکٹر آف پولیس تھے.اور جماعت کے مخالف تھے اور ان کے ساتھیوں..وغیرہ نے خاکسار کے خلاف پور از ورقلم صرف کیا.جواناپ شناب آیا لکھا.اور دل میں خیال کیا کہ بس وہ چاروں طرف سے ہم کو گھیر چکے ہیں.اور اب زمین پر ہم کو ان کی گرفت سے کوئی نہ بچا سکے گا.مگر جس کا خدا محافظ ہو.بھلا اس کا کوئی کیا بگاڑ ہے اور یہ نادان اس قدر بے خبر تھے.کہ خاکسار نے جو کچھ امیر امان اللہ سکتا.خان کے بارہ میں لکھا تھا.وہ تو صرف بطور پند و نصیحت تھا.کہ محض اختلاف

Page 119

112 - عقائد یا خیالات پر چند مظلوم مسلمانوں کو بدترین سزا دی.اور ان کو بے گناہ قتل کر دیا.خدا اور قیامت سے نہ ڈرا.یہ خونِ ناحق آخر رنگ لائے گا.اور دنیا کے واسطے درس عبرت چھوڑ جائے گا.خدا کا ہاتھ اور اس کا فیصلہ : انہوں نے سلطنت برطانیہ کے منصف مزاج اور انسانیت پرور مہذب افسروں کو بھی اپنی طرح کور دل اور بد باطن خیال کیا تھا.کہ وہ ان کی لغو تحریرات سے متاثر ہوں گے.مگر ہمارا خدا جو غیور خدا ہے.اور ایک مومن کے واسطے اس کو بڑی غیرت ہے.اس نے ایک طرف افسرانِ برطانیہ کو عدل و انصاف پر قائم رکھا نہ ہم سے کوئی قانونی گرفت درست سمجھی.اور نہ ہماری ملازمت کو کوئی نقصان پہنچ سکا.اور نہ ان بدطینتوں کو خوشی کا موقعہ دیا بلکہ ان کے اس.محبوب کو بعد از مراجعت سفر افغانستان کے تخت و تاج سے محروم کر کے کابل سے ہمیشہ کے واسطے رخصت کر دیا.اور یہ اسی سال کے آخری حصہ میں کر دکھایا.اور سب جان نثار اپنا سا منہ لے کر دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے.جن اشعار کی بنا پر اس قدر شور مچایا تھا.وہ یہ تھے.ناظرین خود انصاف کریں کہ اس میں کونسی گالی یا بد زبانی استعمال ہوئی ہے.یا کون سی ہتک کی گئی.یا صرف بطور ہمدردی امیر امان اللہ خان کے ظلم پر اظہار افسوس اور نصیحت کی گئی ہے.خانه ظلم است ویران ظالم مظلوم گش خانہء خود چوں ز دست خویش ویراں کردہ

Page 120

۱۱۸ نعمت اللہ خان تو کشتی اے امان اللہ مگر ! آنچه انجام تو باشد خلق حیران کرده عبرت از حال پدر گیر آنکه گشت عبداللطیف اے کہ بر ایں بے کسے از سنگ باراں کردہ نعمت اللہ خان شہید نوجواں گشته نشد بلکه بازی تو بخون خویش ناداں کردہ آه نگرفت است ظالم عبرت از حال پدر کرد تجدید تظلم تا به بیند خود سزا خونِ ناحق ریختن گا ہے نہ ماندے بدل سنت اللہ ہست باشد بہر ہر فعلے جزا خود خدا گفته است لا اکراه در قرآن پاک نیز آزادی مذہب را نمودی تو رقیم پس خلاف حکم قرآن نیز فرمانِ خودت چوں گشتی خدام احمد چوں کنی ظلم عظیم گر خدا هست و قیامت یعنی روز باز پرس پس ز عهد خود مخالف را بود اخذ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو.کہ کیا وہ امیر جس نے ان مظلوموں کو خلاف تعلیم قرآن اور خلاف اپنے اعلانِ آزادی مذہب کے قتل و رجم کر دیا.ان مظالم کے باعث ظالم نہ تھا.اور اس کے ظلم کا خانہ ویران نہ ہوا.اور اس ویرانی کا باعث وہ خود نہ تھا.اور امیر امان اللہ خان کے اس ہولناک انجام

Page 121

۱۱۹ سے دنیا حیرت میں مبتلا نہ ہوئی.جو سزا حضرت شہید عبداللطیف کے قتل کے بعد اس کے باپ امیر حبیب اللہ خان اور اس کے خاندان کو ملی.وہ قابل عبرت نہ تھی.کیا حضرت نعمت اللہ خان کو قتل کر کے امیر امان اللہ خان نے تخت و تاج نہ کھویا ؟ اور اس کے خاندان کے لوگ قتل نہ ہوئے.کیا یہ مواخذہ بہت جلد خدا تعالیٰ نے نہ کیا.چاہئے تو تھا کہ یہ لوگ پھر ان کلمات کو حرف بحرف پورا ہوتا دیکھ کر جو چار سال قبل از وقت کہے گئے تھے.وہ ہمارے ہاتھ اور قلم کو بوسہ دیتے.الٹا ہمارے خلاف طوفانِ بے تمیزی برپا کیا.اور ظالم کا ساتھ دیا.حالانکہ اپنے دل میں وہ بھی امیر امان اللہ خان کو ظالم ہی یقین کرتے تھے.اور اس کی ان حرکات کو خلاف اسلام جانتے تھے.مگر ان کے ذاتی بغض نے ان کے دلوں کو اندھا کر دیا.اور ان کے ہاتھوں اور زبانوں نے ہمارے خلاف لکھا اور کہا جو خود ان کے واسطے موجب ذلت و ندامت وسبب حسرت ہوا.پاداش ظلم : ایک گروہ میں سے بڑا حصہ اول ایک شخص باشندہ پشاور نے لیا اور خدا تعالیٰ نے آخر اس کو ایک خطر ناک اور مہلک بیماری میں مبتلا کر دیا.اور عرصہ دراز تک گوناں گوں تکالیف میں معذب رہا.اسی حالت میں ایک لڑکا سل کے مرض سے فوت ہوا.اور اس کے صدمہ کے بعد وہ خود بھی دکھ اور تکالیف برداشت کرتا ہوا فوت ہوا.اور اس کے بہت جلد بعد ایک نوجوان لڑکا بھی جو انا مرگ مر گیا.دوسرا دشمن عنید ایک اور شخص ا تھا.جس نے اخبار سرحد پشاور میں ے ان دوسرے صاحب کو خدا تعالیٰ نے فوت ہونے سے پہلے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی سے تجدید بیعت کی توفیق دی.اور فوت ہو کر احمد یہ قبرستان پشاور میں دفن ہوئے.خدا تعالیٰ عفو کرے اور مغفرت نصیب کرے.آمین

Page 122

۱۲۰ - ایک نہایت گندہ اور گالیوں کا پلندہ شائع کیا.اور ہمارے تمام احسانات کو فراموش کر گیا.آخر کار خدا تعالیٰ نے اس سفید ریشی میں ایک سرکاری جرم میں گرفتار کرا دیا.اور جن ہاتھوں نے قلم گھڑ کر ہمارے خلاف کذب و بہتان اور سب وشتم کو اشاعت دی تھی.ان کو بہتھکڑیاں پہنا دیں.اور ہم نے بچشم خود یہ نظارہ دیکھا اور ایک سال اس کو جیل میں ڈال دیا.یہ اس نا پاک نیت کا پھل تھا.جو اس کو ملا.یہ خدا کی اس غیرت کا ثبوت تھا.جواس نے ایک مظلوم احمدی مومن کے واسطے دکھائی.اہلِ بصیرت کے واسطے یہ تمام واقعات جدا جدا آیات اللہ ہیں.اور ہماری صداقت اور بریت پر ایک خداوندی مہر تصدیق ہے.اور مخالفوں کے جھوٹے ہونے کا ثبوت ہے.کیا ایک اہل دل ان سب واقعات کو صرف اتفاق کہہ سکتا ہے.ہاں وہی کہہ سکے گا جو خدا کا منکر اور دہر یہ ہو.فصل پنجم امیر امان اللہ خان کی سیاحت یورپ اور اس کے بدنتائج یورپ جانا : امیر امان اللہ خان اپنے ملک میں بظاہر امن وامان دیکھ کر اس بات کا شائق ہوا.کہ یورپ کا سفر کیا جاوے.اور وہاں کے حالات سے واقفیت حاصل کی جاوے.اور واپسی پر ملک میں وہی اصلاحات جاری کی جاویں.اس سیاحت کے واسطے جلدی تیاری کا حکم دیا.سردار محمد ولی خان

Page 123

۱۲۱ از بک کو اپنا نائب السلطنت مقر ر کیا.اور خود سارا انتظام مکمل کر کے دس دسمبر ۱۹۲۷ء کو براہ قندھار، چمن ، کوئٹہ، دہلی اور بمبئی یورپ روانہ ہوا.ہندوستان میں اس کا نہایت شان و شوکت سے استقبال ہوا.ہندوستان سے نکل کر ایک مسلمان بادشاہ ہو کر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا خیال تک دل میں نہ لایا.اور بحر قلزم میں سے جدہ کے پاس سے گذر کر مسولینی کی دعوت پر سیدھا اطالیہ جا پہنچا.وہاں سے فرانس گیا.فرانس سے لندن.لندن سے جرمنی.جرمنی سے روس اور روس سے براہ بلقان و مملکت ترکیه، ایران آیا اور ایران سے براہ مشہد و ہرات افغانستان میں جون ۱۹۲۸ء کو داخل ہوا.ہر ایک ملک نے اپنی قوت اور طاقت کی حیثیت سے پورا پورا استقبال کیا.اور حق مہمان نوازی ادا کیا.اور اس کی وہ عزت کی جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی.اور عروج و اقبال کے بلند مقام پر جا کھڑا کر دیا.اس سیاحت پر پانچ کروڑ روپے خرچ ہوئے ایران سے بعد فراغت براہ مشہد ہرات جب کابل پہنچا.تو آتے ہی پغمان میں لوئی جرگہ ( اجتماع عظیم ) بلوائے.اور ۱۹ / اگست ۱۹۲۸ء کو جشن استقلال افغانستان منانے کے احکام جاری کر دیئے.اور سیر و سیاحت یورپ سے جو آزادانہ خیالات دل میں اٹھے تھے.اور جن اصلاحات کا اس نے کمال پاشا سے بدوران ملاقات تذکرہ کیا تھا (زوال غازی صفحہ ۳۳ تا ۳۹ ) ان کو عملی ترویج اور رنگ دینے کے واسطے اس نے اقدام شروع کیا اور وہ اس طرح ہوا.سب سے پہلے اس نے وزیر اعظم یا صدر اعظم کے عہدہ کو منظور کیا.اور کسی مناسب شخص کے انتخاب کا فکر ہوا.وزراء السلطنت میں با ہم

Page 124

۱۲۲ کشمکش شروع ہوئی.اور ہر شخص اپنے استحقاق پر غور کر رہا تھا.اور امیدوار تھا کہ وہ منتخب ہو گا.امیر امان اللہ خان نے سب کی خدمات جلیلہ کو نظر انداز کر کے ایک ایسے شخص سردار شیر احمد خان کو چن لیا.جو کسی صورت میں بھی اس عہدہ کے واسطے اہل اور مستحق نہ تھا.یہ شخص اس وقت صدر یا رئیس مجلس شوری ملی تھا.وزراء اس بات پر اپنے بادشاہ سے اور بادشاہ کو اپنے وزراء سے اختلاف شدید پیدا ہوا.اور دل ہی دل میں با ہم کشمکش شروع ہوگئی.( زوال غازی صفحہ ۴۷ تا ۵۴) جس وقت بادشاہ وطن میں داخل ہوا.تو ممالک سمت مشرقی ( جلال آباد ) اور سمت جنوبی ( خوست ) میں اس کے عقائد اور چال چلن کے بارہ میں مختلف افواہیں پھیل رہی تھیں.اور رعیت کے دماغی توازن کو خراب کر رہی تھیں.امیر امان اللہ خان نے صوبہ جات افغانستان میں اعلان جاری کرایا.کہ وہ اپنے نمائندے جشن استقلال افغانستان میں بغرض شمولیت روانہ کریں.بادشاہ نے خزانہ شاہی سے ان کے واسطے سوٹ بوٹ تیار کر رکھے تھے اور کابل آنے پر ان کی ڈاڑھیوں کی قطع و برید شروع کردی - ( زوال غازی صفحه ۴۶ - ۵۵-۵۹) نمائندگانِ ممالک کے آنے پر جو جو وزراء ان کے مہمان داری پر مقرر ہوئے تھے.انہوں نے بادشاہ سے نفرت کے سبب اعلیٰ حضرت امیر کے عقائد و اخلاق و چال چلن اور مغربی اصلاحات کے خلاف -۲ -٣ ۴

Page 125

ان کے کان بھر دیئے.اور ان کو خوب پڑھایا.کہ جشن میں لوئی جرگہ کے وقت تو بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملا دو.مگر واپسی پر اپنے علاقہ کے لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کر دو.چنانچہ ان نمائندگان نے واپسی پر رعیت کو بادشاہ کے خلاف خوب مشتعل کیا.جس کا نتیجہ وہ بغاوت ہوئی.جس نے بادشاہ کو تخت و تاج سے محروم کر دیا.زوال غازی صفحه ۴۵ - ۴۶ - ۵۵) اعلیحضرت امیر نے جلتی پر خود تیل ڈالا.کہ جب نمائندگان ملک پغمان میں موجود تھے.تو حکم دے دیا.کہ عورتیں برقعہ اور دولاق کو ترک کر دیں.اور مکتبی برقعہ پہننا شروع کر دیں.اور اپنے خاندان اور اپنے امراء کی مستورات کو یوروپین لباس میں لوگوں کے سامنے بے پردہ باغات اور سیرگاہ کے پغمان میں برہنہ رُو پھرنے کی اجازت یا حکم دے دیا.( زوال غازی صفحہ ۵۶) عام لوگوں کو حکم مل چکا تھا.کہ وہ انگریزی لباس اور ہیٹ کا استعمال کریں اور جو نہ پہنتا.اس کو جرمانہ کر کے وصول کیا جاوے.( زوال غازی صفحہ ۵۷ ) بیرق یعنی علم افغانستان.جس پر مسجد محراب اور منبر کی تصویر کا نقش ہوتا ہے.اس کے ترک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا.نمائندگان نے کہا کہ ہمارا ملک اسلامی ہے.آخر جھنڈا پر کچھ تو علامات اسلامی ہونی ضروری ہیں.تو اللہ اور محمد کے نام ہی سہی.امیر امان اللہ خان نے بصد اصرار و لجاجت اللہ کا نام منظور کیا.مگر محمدؐ کے نام سے انکار کر -1

Page 126

۱۲۴ -A -9 - 1+ 11- دیا - ( زوال غازی صفحه ۶۲-۶۳) اگر چہ قرآن کریم نے عند الضرورت چار تک نکاح کرنے کا حق ایک مسلم کو دیا ہے.مگر امیر امان اللہ خان نے بہ تقلید یورپ صرف ایک بیوی ا ر کھنے کا حکم دے دیا.اور بقایا کو طلاق دینے پر اصرار کیا - ( زوال غازی صفحه ۶۳ - ۶۴) ملک میں عام افواہ پھیل گئی.کہ امیر امان اللہ خاں سید نا حضرت محمد کو خدا تعالیٰ کا نبی اور رسول نہیں مانتا.اور قرآن کریم کو ان کا خود ساختہ کلام کہتا ہے.( زوال غازی صفحہ ۷۰ ) ملک میں یہ افواہ بھی تھی.کہ بوقت سیاحت اطالیہ امیر امان اللہ خان.پوپ آف روم کے ہاتھ پر اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی ہو چکا ہے.اور ایڈیٹر اخبار احسان لاہور آقا مرتضی احمد خان نے تو یہاں تک پتہ لگایا.کہ امیر امان اللہ خاں کا عیسائی نام جارج تھا اہل ملک نے صاف کہہ دیا.کہ وہ خائن اور غدار ہے اس کے کفر میں شبہ نہیں.دیکھو اخبارا حسان لاہور مورخه ۱۲ / فروری ۱۹۳۵ء جلد نمبر ۱۴۱) بادشاہ نے اپنی تقریر میں کہا.کہ دور قدیم ( پا بندی شریعت ) ختم ہو چکا ہے اور دور جدید ( آزادی از مذہب) شروع ہو چکا ہے.ملک کی لڑکیوں کو مما لک یورپ میں بغرض تعلیم بھیجتا ہوں - ایک.ނ زائد بیویاں نہ ہوں گی.میری حکومت میں عورتیں آج سے آزاد ا خود دوسری بیوی خفیہ طور پر رکھی ہوئی تھی.جسے بھاگتے وقت طلاق دے گیا.جیسے بہاء اللہ نے دو بیویاں کیں.لیکن یورپ میں ایک بیوی رکھنے کا عقیدہ ظاہر کیا.

Page 127

۱۲۵ -۱۲ ہیں.اور میرا قانون ہر طرح ان کی حفاظت کرنے کے لئے تیار ہے.اور وہ عدالت سے ظالم شوہروں سے طلاق حاصل کر سکتی ہیں.( زوال غازی صفحه ۶۸-۶۹) ملکہ ثریا کے بارے میں مشہور ہو چکا تھا.کہ ان کی لونڈی سے قرآن کریم گر گیا.اور اس نے اٹھا کر چوما.تو ملکہ ثریا نے کہا.کہ یہ پرانی کتاب کے اوراق ہیں.ان کو کیا چومتی ہو.دنیا میں اس سے بہتر کتابیں موجود ہیں.یہ باتیں بھول جاؤ اور انسانیت سیکھو.( زوال غازی صفحہ ۷۰ ) ۱۳ - بادشاہ عند الملاقات نمائندگان وطن اور علماء سے ملے.تو انگریزی لباس زیب تن تھا.اور سر پر سے ہیٹ اتار کر بغیر سلام علیکم کہنے کے یورپین طرز سے ملاقات شروع کی اور مصافحہ کرتے چلے گئے.اور جس وقت ملا چکنور کے صاحب سے مصافحہ کیا.جو افغانان سرحد کا مشہور رہنما اور عالم اور پیشوا تھا تو اس کے ہاتھ میں تسبیح تھی.بادشاہ نے اس کو کہا کہ یہ کیا اونٹ کی لینڈ نیوں سے کھیل رہے ہو.کسی نے کہا.کہ حضور یہ تو ملا صاحب چکنور تھے.تو امیر امان اللہ خان نے ترش رو ہو کر کہا.کہ کوئی بھی خرس ( ریچھ ) ہو فکر نہیں.ہم ان کو درست کریں گے.( زوال غازی صفحہ ۴۲ ) لا اخوند زاده امیرمحمد معروف به چکنور ملا صاحب شاگر دسید احمد ملا صاحب ساکن چارمنگ جس کا بڑا اثر قبائل مہمند اور جلال آباد پر تھا.مسٹر رولینڈ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ امان اللہ خان کے خلاف بغاوت کے اصل بانی ملا چکنور صاحب ہی تھے

Page 128

سبحان اللہ کیا عجیب بات ہے.کہ جن علما کے فتوؤں سے ڈر کر امیر امان اللہ خان نے مظلوم اور بے گناہ احمدیان کابل کو کافر اور مرتد کہا.اور ان کو سزائے قتل و رحم دی.آج ان علماء کو خودامان اللہ خان کیا کہ رہا ہے.اور وہ امیر امان اللہ خان کو کیا فتویٰ سنا رہے ہیں.سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا خوب فرمایا کہ من قال لا خيه كافر فقد باء باحد هما یعنی جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا.تو دونوں میں سے ایک ضرور کا فر ہو جاتا ہے.پس امیر نے مظلوم احمدیوں کو کافر اور مرتد کہا تھا.اور آج اس کو خود ہر ایک کافر اور مرتد قرار دیتا ہےصدق الله و رسوله فصل ششم حبیب اللہ خان عرف بچہ سقہ کا خروج اور امیر امان اللہ خان کا فرار حبیب اللہ عرف بچہ سقہ : کابل سے بجانب ترکستان غالبا ہیں میل کے فاصلہ پر علاقہ کوہ دامن میں ایک قصبہ آباد ہے.جس کو خواجہ سرائے کہتے ہیں.اسی قصبہ کا حبیب اللہ خان اعرف بچہ سقہ ولد عبدالرحمن باشندہ تھا.جو بغاوت منگل کے ایام میں اس خاص فوج میں کپتان تھا.جو بغاوت فرو کرنے کے ا بعض نے لکھا ہے.کہ حبیب اللہ ولد کریم اللہ ولد عظیم اللہ ہے.اس کا والد کریم سقہ کا کام کرتا تھا.اس واسطے بچہ سقہ کہلایا.یہ بچہ سقہ ساکن کل کان تھا.جو خواجہ سرائے کے پاس گاؤں ہے.

Page 129

۱۲۷ واسطے بھرتی ہوئی تھی اور عرصہ تک خوست میں رہی اور جب خوست سے واپس آئی.تو کابل میں ارک شاہی میں متعین ہوئی.اور ان کو رخصت نہ ملتی تھی.کہ فوجی گھروں سے ہو آیا کریں.اس واسطے بعض فوجی پوشیدہ طور پر گھر چلے جاتے.اور ہو آتے.حبیب اللہ بھی بلا اجازت ایک دفعہ گھر چلا گیا.اس بات کا علم اس کے افسروں کو ہو گیا.تو انہوں نے اس کو بلا اجازت جانے کے سبب فوج سے موقوف کر دیا.اور اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا.جب سپاہی گرفتار کرنے خواجہ سرائے گئے.تو حبیب اللہ پاس کے پہاڑوں میں روپوش ہو گیا.دن کو غاروں میں وقت گزارتا.رات کو رہزنی شروع کر دی.اور اس طرح حبیب اللہ کپتان فوج کی بجائے رہزن بن گیا.اور رفتہ رفتہ دوسرے فراری بھی اس کے ساتھ مل گئے.اور ایک جتھہ ہو گیا.اور کوہ دامن کے اردگر ددیہات میں ڈاکے ڈالتا.اسی طرح چاری کارنامی قصبہ میں سے جو خواجہ سرائے سے دس پندرہ میل اور شمال کو واقع ہے.ایک شخص سید حسین نامی فراری ہوا.اور اس نے اپنے قصبہ کے سامنے پہاڑوں میں پناہ لی.اور اس نے بھی ایک جتھہ تیار کیا.اور وہ بھی ڈاکے ڈالا کرتا.آخر کار حبیب اللہ اور سید حسین ستمبر ۱۹۲۸ء میں باہم مل کر کابل پر ڈاکے ڈالنے کی تجویز کرنے لگے.اور باغ بالا تک بڑھنے لگے.کابل کی افواج وقتاً فوقتاً حبیب اللہ کے جتھے کا پیچھا کیا کرتی.مگر چنداں کامیابی نہ ہوئی.

Page 130

۱۲۸ آثار بغاوت شنواری انہی ایام میں سمت مشرقی علاقہ جلال آباد میں شنواری لوگوں نے افغان لڑکیوں کے یورپ کو روانگی بغرض تعلیم کو بُرا منایا.اور بغاوت برپا کر دی.اور رفتہ رفتہ سمت مشرقی اور سمت مغربی میں کامل بغاوت کا اثر پھیلنے لگا.(دیکھو زوال غازی صفحہ ۲۰۸) سمت جنوبی تو پہلے ہی سے مشتعل ہو رہا تھا.وو بچہ سقہ کا کا بل پر حملہ : ان باتوں کو سن کر حبیب اللہ ( بچہ سقہ ) اور بھی دلیر ہوا.اور سید حسین کو ساتھ لے کر اکتوبر ۱۹۲۸ء میں کا بل پر چڑھائی کی غرض سے روانہ ہوا.اور تین چارسو راہزن ساتھ تھے.پہلے باغ بالا میں اور پھر وہاں سے وہ افغاناں تک جا پہنچا.جو شہر کابل کا ہی ایک حصہ ہے.اور افواج سرکاری بمشکل اس کو پسپا کر سکیں.جشن پغمان ۱۹۲۸ء کے بعد تو شہر کا بل کے باشندے اور وزراء اور امراء سب امیر اللہ خان سے بگڑے ہوئے تھے اور اس سے بیزار ہو رہے تھے.اس واسطے حبیب اللہ کو یہ ایک زریں موقع ہاتھ آ گیا.اور امیر امان اللہ خاں کے مخالف فریق نے اس کو امیر حبیب اللہ خادم دین رسول اللہ اور غازی اور مجاہد کے خطابات دے دئے ( زوال غازی صفحہ ۲۷۱) جس سے حبیب اللہ کے حو صلے اور بھی بڑھ گئے.اور ۳ / دسمبر ۱۹۲۸ء کے بعد اس نے برابر حملوں پر حملے شروع کر دئے.جس کی تفصیل عزیز ہندی نے زوال غازی صفحات ۲۱۷ لغایت ۳۴۰ تک دی ہے.افواج امانیہ نے جو مدافعت کی ہے.اس کے حالات بھی دلچسپ پیرا یہ میں لکھے ہیں.جو قابل دید اور لائق عبرت ہیں.امیر امان اللہ خان کا تہور: بچہ سقہ کے حملوں کے وقت

Page 131

۱۲۹ ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو امیر امان اللہ خان پر جو گھبراہٹ کی حالت تھی.اس کے بارے میں عزیز ہندی لکھتا ہے.کہ امیر امان اللہ خان بہادر تو ضرور تھا مگر صاحب تہور نہ تھا.اے کاش کہ وہ بہادری کے ساتھ صفت تہوری سے بھی آشنا ہوتا.تو یقیناً افغانستان کا تاج و تخت ابھی تک اس کے سر کا زیب وزینت ہوتا.پھر کہتا ہے.کہ غازی امان اللہ خان میں جو ہر تہور کی کمی نے آخری شکست کے فوری اثر سے نجات پانے کی مہلت نہ دی.واقعات کی رفتار تیزی سے اپنے خلاف پا کر اس کی رہی سہی کمر ہمت بھی ٹوٹ گئی.غازی امیر امان اللہ خاں کا فرار : عزیز ہندی لکھتا ہے.کہ اس وقت جو اس کے دل و دماغ پر خیالات چھائے ہوئے تھے.کہ سمت شمالی کے باغی کل تک کابل کی چار دیواری کے نیچے پہنچ جاویں گے.میری فوج میری طرف سے بالکل نہیں لڑتی.پھر اگر وہ کل ہی کابل پہنچ جاویں تو میرا کیا حشر ہوگا.مجھے وہ گرفتار کرتے ہی مار دیں گے مجھے ضرور جان بچا کر فوراً ہی نکل جانا چاہیئے.آہ ! مگر کس طرف جان بچا کر جاؤں.سمت شمالی باغی سمت مشرقی باغی - سمت جنوبی اسے بھی باغی ہی سمجھو.ترکستان آہ ! مگر میں تو اپنے بال بچوں کو قندھار بھیج چکا ہوں.میرے ترکستان کی طرف نکل جانے سے نہ معلوم ان کا کیا حشر ہوگا.اور یقینا رہی سہی ہمدردی جو قندھاریوں کو بوجہ ہم قومی کے مجھ سے ہو سکتی ہے وہ بھی نہ رہے گی.اس سے قطع نظر ترکستان میں جا کر کیا کروں گا.وہاں تمام غیر افغان قو میں رہتی ہیں.مجھ کو بھگوڑا سمجھ کر کیا معلوم کس قسم کا سلوک کریں نہیں نہیں مجھے ایسی دور دراز جگہ نہ جانا چاہئیے.اور پھر وہاں پہنچ بھی کیسے

Page 132

۱۳۰ سکتا ہوں.اگر غیر از سمت شمالی دوسری راہ بھی اختیار کروں.تو موٹر کی راہ اس طرف بھی نہیں ہے.ہوائی جہاز - آہ! یہ میرے لئے خاص کر پُر خطر کھیل ہے ہاں ہاں بس یہی سواری ٹھیک ہے.تو پھر کیا قندھار کا رُخ کروں بے شک ! بے شک وہیں !! آج سارے افغانستان میں امان اللہ خان کے لئے بجز اس کے اور کوئی جگہ پناہ کی نہیں ہے.مگر غزنی اور قندھار کا راستہ مسدود ہو چکا ہے.اور اس کی مجھے پرواہ نہیں کرنی چاہئیے برفوں کو ہٹا کر راستہ بنایا جا سکتا ہے.تو پھر کیا ابھی چل دوں.نہیں نہیں صبح ہونے تک انتظار کرنا پڑے گا.اور ارغندی تک تمام فوجیں ہی فوجیں ہیں.مجھے دیکھ کر شک نہ کر لیں.اور بچہ سقہ کی بجائے وہی میری مشکیں نہ کس لیں.( زوال غازی صفحہ ۳۲۵) کابل میں آخری رات: اس رات ان خیالات کی موجوں کی آغوش میں غازی امان اللہ خان کے عروج و اقبال کا ستارہ غروب اور فنا ہو رہا تھا.اس نے اس رات ایک لمحہ بھی آرام نہیں کیا.بلکہ اپنے بھائی سردار عنایت اللہ خان معین السلطنت کو اس وقت اپنے پاس بلا کر اپنا عند یہ اس سے ظاہر کیا.اور بکمال منت والحاح اس بات پر راضی کیا.کہ وہ ایسے نازک وقت میں افغانستان کی بادشاہت قبول کر لے.( زوال غازی صفحه ۳۳۶ - ۳۳۷) ۱۴ جنوری ۱۹۲۹ء کو امان اللہ خان نے خلع تخت و تاج کر دیا.غازی امان اللہ کا فرار : عزیز ہندی کہتا ہے.کہ نہ معلوم اس رات

Page 133

۱۳۱ دونوں بھائیوں کے درمیان کیا کچھ سرگوشیاں ہوتی رہیں مگر نتیجہ یہ تھا.کہ صبح ہوتے ہی غازی امان اللہ خان ایک تیز رفتار موٹر پر قندھار کی طرف رخصت ہو چکا تھا.اور کسی کو کانوں کان تک خبر نہ تھی.سفر کی بدشگونی : عزیز ہندی کہتا ہے.کہ غازی امان اللہ خان نے جس موٹر کو منتخب کیا (۱) اس میں پٹرول نہ تھا.نہ دوسرے شاہی موٹروں میں پٹرول تھا.اور نہ پٹرول مل سکتا تھا.(۲) آخر تھوڑے سے پٹرول کے ساتھ روانہ ہوا.اور موٹر روانہ ہوتے ہی الٹ گئی.(۳) اس کا اصل موٹر ڈرائیور اے جو ہندوستانی تھا.دو دن قبل اپنے سرکاری موٹر میں مردہ پایا گیا.غازی امان اللہ صرف دو گیلن پٹرول کے ساتھ روانہ قندھار ہوا.معزول بادشاہ کا اس بے سروسامانی کے ساتھ نکلنا اس کی بے انتہاء مایوسی اور گھبراہٹ کا صاف پتہ دیتا ہے دارالسلطنت اور اس کے اردگرد میں وہ اپنے لئے پناہ کی کوئی جگہ نہ پاتا تھا.اور معتمد سے معتمد ترین شخص پر سے اس کا اعتبار وغیرہ سب اُٹھ چکا تھا.( زوالِ غازی صفحہ ۳۳۹) آہ ! جس تاج و تخت کے واسطے اس نے تین مظلوم احمدی قربانی کے بکرے بنائے.وہ تاج و تخت آخر چھینا گیا.سچ ہے : - تـؤتــی الملک من تشاء وتنزع الملك ممن تشاء بيدك الخیر انک علی کل شئی قدیر یعنی اے خدا جس کو تو مناسب خیال کرے اس کو تاج و تخت دیتا ہے.اور جس سے تو مناسب خیال کرے مملکت چھین لیتا ہے.تمام خیر تیرے ہاتھ میں ا بہاری لال ہندو

Page 134

۱۳۲ ہے اور تو ہر بات پر قدرت رکھتا ہے.غازی امان اللہ خان نے اپنے آپ کو معزول کر لیا.اور دوشنبہ کے دن صبح ۸ بجے ۳ / شهر شعبان المعظم ۱۳۴۷ھ مطابق ۱۴ جنوری ۱۹۲۹ء کو اپنی حکومت سے دست برداری کے کاغذ پر دستخط کر دیئے.اور شہر کابل کو ہمیشہ کے واسطے خیر باد کہہ دیا ( دیکھو زوال غازی صفحه ۳۴۰) فاعتبرو آیا اولی الابصار خدا کے فرستادہ حضرت احمد قادیانی نے کیا سچ فرمایا تھا.کہ مجھ سے جو ہوگا الگ وہ جلد کاٹا جائے گا ہو وہ سلطان یا کہ قیصر یا ہو کوئی تاجدار ترک افغانستان و سفر اطالیہ: عزیز ہندی کہتا ہے کہ غازی امان اللہ خان کو راستہ میں ایک لاری سے پٹرول مل گیا اور سیدھا غزنی اور وہاں سے مسقر اور قندھار جا پہنچا.وہاں پہنچ کر اس کو پتہ لگا.کہ سردار عنایت اللہ خان بھی تیسرے دن ۵ /شعبان المعظم ۱۳۴۷ھ کو کابل چھوڑ چکا ہے.تو اس نے دوبارہ اپنی بادشاہی کا اعلان کر دیا.مگر دول خارجہ نے اس کی دوبارہ اعلان شاہی کو تسلیم نہ کیا.اور اس بات کو غالباً اس کی تلون مزاجی اور عدم استقلال پر محمول کیا.کچھ سامانِ حرب اور فوج مہیا کر کے قندھار سے مستقر کی طرف بڑھا اور جنگ شروع کر دی.مگر غازیوں کے ایک ہی حملہ نے اس کی رہی سہی تو قع پر بھی پانی پھیر دیا.اور افواج ہنوز مصروف جنگ تھیں.کہ غازی امان اللہ خان میدان جنگ سے کھسک گیا.اور قندھار آ کر بال بچوں کو ساتھ لیا.اور سیدھا سرحد چمن بلوچستان کا راستہ لیا.اور سرحدات ہندوستان میں آکر دم لیا اور براہ کو ئٹہ اور دہلی بمبئی میں آن پہنچا.چندے

Page 135

۱۳۳ ٹھہر کر جہاز میں سوار ہو کر اطالیہ کا راستہ لیا.اور اب وہاں آرام سے قیام پذیر ہے.( زوال غازی صفحه ۳۹۸ و ۴۰۰ ) بقو لے نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچہ سے ہم نکلے فصل ہفتم سردار عنایت اللہ خان کا عزل اور حبیب اللہ بچہ سقہ کا نصب سردار عنایت اللہ خان اے جو امیر حبیب اللہ خان کا فرزند اکبر اور مقرر شدہ ولی عہد تھا.امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد سب سے پہلے خود اس کے چچا اور خسر سردار نصر اللہ خان نے تاج و تخت سے محروم کر دیا تھا.پھرا میرامان اللہ خان نے سردار نصر اللہ خان کو معزول کر کے خود تاج و تخت کو اختیار کیا.اور سردار عنایت اللہ خان کو محروم ہی رکھا.اب امیر امان اللہ خان نے اپنے معزول ہونے پر اس کو تاج و تخت سپر د کر دیا.مگر اس کی حکومت صرف دوشنبہ اور سہ شنبہ تک محدود رہی.چہار شنبه ۵ شعبان ۱۳۴۷ھ بذریعہ حضرت شیر آغا مجددی آرک شاہی میں بحق حبیب اللہ خان عرف بچہ سقہ تخت افغانستان کو ترک کے دست بردار ہو گیا.اور کابل سے بہ اجازت بچہ سقہ اور بہ امداد سفیر لے سردار عنایت اللہ خان ۱۸۸۸ء میں تولد ہوا.اور ۱۹۰۴ء میں سیر ہند ہندوستان آیا تھا.اس وقت سولہ سالہ نوجوان تھا.۱۹۱۹ء میں ولی عہدی کے حقوق سے محروم ہوا.۱۹۲۹ء کو کابل سے معزول ہو کر پشاور آیا.اور قندھار گیا اور وہاں سے طہران گیا.وہاں کچھ عرصہ زندہ رہا اور فوت ہوا.

Page 136

۱۳۴ برطانیہ برطانوی ہوائی جہاز میں پرواز کر کے پشاور صدر میں نزول فرما ہوا.اور ڈین ہوٹل میں دم لیا - ۱۶ جنوری ۱۹۲۹ء یوم الجمعہ تھا.خروج از کابل کا معاہدہ: عزیز ہندی نے واقعات عزل سردار عنایت اللہ خان اس طرح لکھے ہیں.کہ بالآ خر بچہ سقہ اور سردار عنایت اللہ خان کے ثالثوں کی طرف سے یہ طے پایا.کہ یک روزہ بادشاہ اپنے اہل و عیال اور متعلقین سمیت مامون ہے.اگر وہ افغانستان میں رہنا چاہے تو اس کا وہی درجہ اور مرتبہ ہو گا.جو امان اللہ خان کے عہد میں تھا.لیکن اگر وہ افغانستان میں نہ رہنا چاہے.تو وہ بحفاظت تمام ہندوستان کی طرف جا سکتا ہے اس دوسری صورت میں وہ خزانہ سے تین لاکھ روپے سے زیادہ نہیں لے جاسکتا ہے اور اس کی جملہ جائداد جا گیر حکومت سقاوی ضبط نہ کرے گی.( زوال غازی صفحہ ۳۵۲) عزیز ہندی کہتا ہے کہ سردار عنایت اللہ خان نے یہ فیصلہ کر لیا.کہ ان لوگوں پر اعتبار مشکل ہے.اور یہی بہتر ہوگا.کہ بال بچوں سمیت جان بچا کر افغانستان سے نکل جاوے اور اسی غرض سے انگریزی سفارت خانہ سے استمداد کی.سفیر برطانیہ نے ہوائی جہاز کا انتظام کر دیا.معین السلطنت سردار عنایت اللہ خان تیسرے دن ۱۶ / جنوری ۱۹۲۹ء کو ارک شاہی سے نکل کر دس بجے صبح میدان طیارہ کا بل میں جا پہنچا.اور بہ اجازت سفیر برطانیہ ہوائی جہاز میں سوار ہو کر پشاور کے میدان طیارہ میں آن پہنچا.سردار عنایت اللہ خان کا اضطرار : عزیز ہندی لکھتا ہے کہ جب معین السلطنت نے ارک شاہی کے پچھلے دروازہ سے قدم باہر رکھا.تو فرط الم سے

Page 137

۱۳۵ اس پر بے حد رقت طاری ہو رہی تھی.اور بالآخر جب اس سے نہ رہا گیا.تو لوٹ کر دروازے سے چمٹ گیا.بری طرح رو دیا.اور جب میدان طیارہ میں پہنچا تو اس وقت بھی اس کی آنکھیں اشکبار تھیں.سفارت خانہ برطانیہ کے تمام اعضاء ایک سو گوارا نہ نمائش کے ساتھ پہلے سے ہی موجود تھے.بے شک یہ ایک عجیب سو گوارا نہ منظر تھا.جو صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا.کئی آنکھیں اشکبار تھیں.اور کئی دل اس دن خون ہورہے تھے.(زوال غازی صفحہ ۳۰۳) ورود پشاور : خاکسار راقم الحروف ایام ضلع کا بل میں گورنمنٹ ہاؤس پشاور میں عہدہ نظارت پر سرفراز تھا.اور کابل آنے جانے والے جہازوں پر مقرر تھا.اور میدان طیارہ پشاور میں مسافروں کے واسطے موٹروں اور لاریوں کا انتظام اور سامان اٹھوانے کا بندوبست کیا کرتا تھا.جس دن یعنی بروز جمعہ ۱۶ جنوری ۱۹۲۹ء کو جب سردار عنایت اللہ خان پشاور آنے والے تھے.تو پشاور سے تین بڑے بڑے جہاز کابل روانہ ہوئے.اور ایک بجے کے قریب واپس آئے اور سردار عنایت اللہ خان بمعہ عیال و ہمراہیاں وسامان آن پہنچے.خلع کابل : ۲۳ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو حکومت برطانیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ کابل سے برطانوی رعایا اور دوسرے ممالک کے باشندے جو کا بل کو بدامنی کی وجہ سے چھوڑ نا چاہیں بذریعہ ہوائی جہاز کابل سے پشاور لائے جائیں گے.اس غرض کے واسطے عراق سے بڑے جہازات منگوائے اور خاکسار آمد ورفت جہازات پر نگران مقرر ہوا.ہر روز ۱۰ بجے دو جہاز جاتے اور ا ا بجے کابل پہنچ جاتے.ایک گھنٹہ رہ کر سوار لے کر واپس ایک بجے پہنچ جاتے وہ سواریاں اور

Page 138

ان کا سامان مقام معلوم تک پہنچائے جاتے.آخر میں ۲۶ فروری ۱۹۲۹ء سفارت خانہ برطانیہ کے سفیر سر فرنس اور باقی عملہ پشاور آئے.کل ۵۸۶ افراد کابل سے پشاور لائے گئے.انہی میں سردار عنایت اللہ خان اور ان کا بھائی بھی تھا.واقعہ عبرت : خاکسار نے سردار عنایت اللہ خان کو یا تو اس وقت دیکھا تھا.جب کہ وہ ۱۹۰۴ء میں کابل سے ہندوستان آیا تھا اس وقت وہ ایک بے ریش و بروت نو جوان تھا یا اب دوبارہ ۱۹۲۹ء میں دیکھا.کہ وہ ایک درمیانہ قد کا چالیس سالہ مرد تھا جس کی ریش سفید تھی اور فرنچ کٹ تھی.اور سر پر سفید پگڑی ململ کی باندھی ہوئی تھی جہاز سے اتر کر نہایت حسرت سے آسمان کی طرف سر اٹھا کر نگاہ کی اور سب ساتھی اور حاضرین سُن ہو گئے.اور سب پر رقت کی حالت طاری ہو گئی.اور پھر موٹروں میں سوار ہو کر ڈین ہوٹل کا راستہ لیا.ان کا سامان خاکسار نے میدان طیارہ سے ڈین ہوٹل پہنچا کر سردار عبد العزیز خان وزیر کے سپر د کیا.حضرت احمد مسیح موعود کا ایک خادم جس کو ان واقعات سے آغاز سے دلچسپی تھی.خاموش کھڑا اس نظارے کو دیکھ رہا تھا.کہ خدائے غیور نے کس طرح امیر عبدالرحمن خان کی اولاد کو ان کے ظلم وستم کے باعث عبرتناک سزا دی اور خدائے قدوس کی حمد اور استغفار کر رہا تھا.اغـرقـنـا ال فرعون و انتم تنظرون کا نظارہ دیکھا.قیام ایران : چند دن پشاور رہ کر براہ کوئٹہ قندھار روانہ ہوا.لیکن وہاں بھی

Page 139

۱۳۷ نا کام ہو کر واپس بمبئی چلے گئے اور وہاں سے بغداد اور بعدہ طہران ایران چلے گئے اور اب وہاں قیام فرما ہیں.عزیز ہندی لکھتا ہے.کہ تین لاکھ روپے بچہ سقہ کی اجازت سے ساتھ لے گیا.کہتے ہیں.اس کی بیگم کے بدن پر جو چمڑے کا کوٹ تھا.اس میں تمام پونڈ اور نوٹ سلے ہوئے تھے.“ (زوال غازی صفحہ ۳۵۷) حبیب اللہ خان عرف بچہ سقہ کا فاتحانہ ورود کابل : عزیز ہندی لکھتا ہے کہ معین السلطنت کے جانے کے بعد ارک شاہی سے علم خاندان امیر عبد الرحمن اتار دیا گیا اور غلام دستگیر خان قلعہ ہیگی نے اپنے محصور فوجی دستوں کو غیر مسلح کر کے اس انتظار میں تیار بٹھایا تھا کہ ارک کو فاتح کے حوالے کر دے.خود بچہ سقہ باغ بالا سے ریاست کا بل یعنی گورنری کی جگہ جو ارک شاہی سے بمشکل ایک فرلانگ کے فاصلہ پر ہو گی.آچکا تھا.مگر قلعہ شاہی کے قبضہ لینے کا کام سید حسین کے ذمہ کر دیا تھا.چنانچہ سید حسین کی آمد اور اس کے قلعہ کو تصرف حاصل کرنے کے عبرت آموز نظارہ دیکھنے کے لئے کثیر در کثیر تعداد میں لوگ مشرقی اور جنوبی دروازوں پر جمع ہو رہے تھے.بالآ خرم بجے شام کے قریب سید حسین بمعہ سٹاف کے آیا.اور اس نے قلعہ ہیگی سے ارک کو تحویل میں لینے کی کارروائی شروع کر دی.تھوڑی دیر بعد قلعہ ہیگی نے اپنے غیر مسلح دستہ ہائے فوج کو جمع کیا.اور با جابجاتا ہوا ارک سے باہر نکل گیا.وہ خود سیاہ جھنڈیوں کے ساتھ فوج کے سر پر تھا.اور با چشم زار ر و مال کو آنسوؤں سے تر کر رہا تھا.ابھی ارک کے جنوبی دروازہ سے چند قدم باہر نکلا ہی تھا.کہ سب

Page 140

۱۳۸ کی امیدوں اور توقع کے برخلاف بچہ سقہ چند مسلح موٹروں کے ہمراہ ارک میں داخلہ کی نیت سے سامنے آتا دکھائی دیا.بیچارے غلام دستگیر خان کے لئے یہ ایک نہایت صعب وقت تھا.کہ اس کا دل اپنی حکومت کے زوال پر غم والم سے ٹکڑے ٹکڑے ہورہا تھا.ایسے وقت میں اس کے دشمن فاتح کا دفعہ سامنے سے نمودار ہو جانا اور اس کے رسمی فرائض میں نا قابل برداشت اضافہ کرنے والا تھا.کہاں وہ ماتمی نوحوں کے کیف سے ہم آغوش تھا.اور کہاں اسے دفعہ ان نوحوں کو بند کر کے بچہ سقہ کی فتح مندی کا ترانہ گا کر شاہی سلامی اتارنی پڑی.اس کے دل پر ایسا کرنے سے کیا کچھ گذر گیا ہو گا.اس کا اندازہ بیان قلم سے مشکل ہے ( زوال غازی صفحہ ۳۵۹) ۱۶ / جنوری ۱۹۲۹ء کو حبیب اللہ بچہ سقہ بادشاہ افغانستان مقرر ہوا.کا بلیوں کا تلون مزاج : عزیز ہندی لکھتا ہے کہ آہ! یہ بھی عجیب عبرت خیز سماں تھا.لوگوں کے یہی گروہ ابھی چھ ماہ نہیں گزرے.کہ افغانستان کو غازی امان اللہ خان کی خدمات کے صلہ میں اس کی نسل کو بخش چکے تھے اور اس عہد کو برقرار رکھنے کے لئے پابند و مسئول بنا چکے تھے اور یہی وہ لوگ تھے جو صرف ایک دو دن قبل معین السلطنت سردار عنایت اللہ خان کو اپنا ہاتھ دے چکے تھے.اور آہ آج یہ وہی لوگ ہیں جو بچہ سقہ کو اپنا بادشاہ بنا ر ہے ہیں کیا یہ محض طاقت کی کرشمہ نمائی نہیں ہے.اور کیا طاقت اس سے پیشتر بھی انسانیت کے لئے ذلت اور لعنت آفرین ہو سکتی ہے.( زوال غازی صفحہ ۳۶۱) کہتے ہیں کہ جب ملک مصر کی حکومت ہارون رشید خلیفہ بغداد کے

Page 141

۱۳۹ ہاتھ میں آئی تو اس نے اپنا ایک بدترین صورت کا ایک حبشی غلام دیکھا اور اس کو وہاں کا حاکم بنا دیا.کسی نے خلیفہ سے پوچھا کہ یہ کیوں کیا.اس نے کہا کہ اس ملک مصر کی حکومت پر فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تھا.میں نے اس واسطے یہ ملک ایک ادنی ترین اور بدصورت غلام کو دے دیا تا کہ فرعون کی ذلت کروں پس تخت افغانستان پر بچہ سقہ کی حکومت کا ہو جانا دراصل امیر امان اللہ خان کی انتہائی ذلت اور تذلیل تھی خدا تعالیٰ کی بات سچ ثابت ہوئی - انــی مـهـيـن مــن اراداهانتک فصل ہشتم خدائے غیور کا مجرموں سے اخذ شدید ہمارے خدائے غیور نے جس طرح اور جس رنگ میں ظالموں کی سرزمین افغانستان میں گرفت کی.اور ان کو ان کے مظالم.کی پاداش کا مزہ چکھایا.وہ مندرجہ ذیل واقعات سے ظاہر ہے.پہلا پاداش ظلم : شاہ خاصی محمد اکبر خان جو اکتو بر ۱۹۱۲ء لغایت مارچ ۱۹۱۳ء کے قریب سمت جنوبی کا گورنر تھا.اور جس نے سردار نصر اللہ خان کے حکم پر جب حضرت شہید عبداللطیف کے تابوت کو نکال کر کسی نامعلوم مقام میں دفن کر دیا تھا.یہ الزام رشوت ستانی جو اس پر قائم ہوا ( شاہ خاصی محمد اکبر خان کی رشوت ستانی اور مظالم کی وجہ سے سمت جنوبی کے قبائل ۱۹۱۳ء میں باغی.

Page 142

۱۴۰ ہوئے.اور سخت بغاوت پھیلی.یہ گورنر معزول کر کے کا بل بلا یا گیا ) بزمانہ امیر حبیب اللہ خان اس کو اس عہدہ جلیلہ سے معزول کیا گیا.اور دعویٰ کنندگان کے سامنے اپنی بریت حلف کی.اور حلف دروغ کی سزا میں مہلک بیماری لاحق ہوئی.جس سے جان بحق ہوا نہ وہ عزت رہی اور نہ وہ زندگی جس کے نشے میں وہ چور تھا.دوسرا پاداش ظلم : سردار محمدعمر خان معروف بہ سور جرنیل جو ۱۹۱۸ء میں علاقہ جاجی کا حاکم تھا.اور اس کے حکم سے سید سلطان صاحب احمدی گرفتار کیا گیا تھا.جو ایک عالم اور سید تھا.اور اس کو کابل کے جیل خانہ میں ڈلوایا.جہاں ان کو نانِ نمک کھلا کھلا کر شہید کر دیا گیا اور ان کا بھائی سید حکیم صاحب احمدی بھی زنداں میں ڈالا گیا.جس کے اثر سے وہ فوت ہو گیا.عزیز ہندی لکھتا ہے.کہ یہ حاکم بھی سخت ظالم اور مرتشی تھا.اور عادی مجرم بھی.اکثر دفعہ سخت اور لمبی سزاؤں سے بچ جاتا تھا.آخر امان اللہ خان نے اس کو سزا دی.اور زنداں میں قید کر دیا.بچہ سقہ کے حملہ کابل کے وقت اس کو قید خانہ سے نکال کر باغ بالا کے پاس مقابلہ کے لئے بھیج دیا گیا اگر چہ قابل اور بہادر جرنیل تھا.تاہم منگل سرداروں سے اختلاف ہونے کے سبب اس کے پاؤں پر جنگ میں گولی لگی.اور زخمی ہوا حمید اللہ خان برادر بچہ سقہ کے پچاس ساتھیوں کے شب خون کی تاب نہ لا سکا.اور اس کے ساتھی گھبرا گئے اور بھاگ نکلے.شکست کھا کر اپنی جبیں پر داغ ذلت و ندامت لیا.اور پھر کوئی عہدہ نصیب نہ ہوا.( زوال غازی صفحه ۲۹-۳۳۶)

Page 143

۱۴۱ تیسرا پاداش ظلم : باغیان اقوام منگل وخوست کے سرغنہ ملا عبداللہ عرف ملائے لنگ اور اس کے داماد عبدالرشید عرف ملا دبنگ جن کے حق میں امیر امان اللہ خان نے قرآن کریم پر حلف لکھوا کر اقرار کیا تھا.کہ ان کو کچھ نہ کہے گا.اور سردار علی احمد جان ان کو اس اقرار کی بنا پر کابل لایا تھا اور انہی کی درخواست پر امیر امان اللہ خان نے حضرت نعمت اللہ خان اور حضرت عبد الحلیم اور حضرت قاری نور علی کو جام شہادت پلایا تھا.آخرا میر امان اللہ خاں نے ان سے تخلف عن الحلف کیا اور ان کو گر فتار کر لیا.تو توپ کے آگے باندھ کر کابل میں ہلاک کر دیا.( زوال غازی صفحہ ۲۸-۳۲۹) گویا خدا نے ان ہر دو ملانوں کو بھی اپنی ظالمانہ درخواست کا مزہ چکھا دیا.چوتھا پاداش ظلم : سردار علی احمد جان لے جس نے بغاوت خوست کو فتح کیا تھا.اور باغیان خوست کے ساتھ شرائط صلح طے کی تھیں ( زوال غازی صفحہ ۳۲۸) اور اسی کی سفارش سے امیر امان اللہ خان نے تین مظلوم احمد یوں کو رجم کرایا.جن کی شہادت کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یکم جنوری ۱۹۰۶ء کو دی تھی.البشری جلد دوم صفحہ ۱۰۵) فتح منگل کے فوراً بعد بادشاہ کی نظر سے گر گیا تھا اور خطر ناک شخصیتوں میں شمار ہونے لگا ( زوال غازی صفحہ ۱۰) یورپ سے واپسی پر جب سیاحت روما کی فلمیں کابل کے سینما میں دکھائی جانے لگیں.تو جس وقت سردار علی احمد جان سامنے آتا.تو تمام سرداروں اور اراکین کے سامنے امیر ے علی احمد مع اپنی والدہ اور دوسرے رشتہ داروں کے میرے اقربا ء ساکنین جاوانز دگھوڑ اگلی ضلع راولپنڈی کے مکانوں میں بہ زمانہ جلا وطنی ہیں سال ٹھہرا رہا.شاہد

Page 144

۱۴۲ امان اللہ خان کہنے لگتا.کہ اس خرس کو دیکھو کیسے اکڑ کر چلتا ہے.( زوال غازی صفحہ (۲۴۱ سردار علی احمد جان سمت مشرقی کی بغاوت کو فرو نہ کر سکا.اور لاچار فروری ۱۹۲۹ء میں وہاں سے براہ ملک مہمند پشاور پہنچا.اور چند دن قیام کر کے قندھار چلا گیا (زوال غازی صفحه ۲۴۳) قندھار میں امیر امان اللہ خان کے بعد ما رچ ۱۹۲۹ء میں بادشاہ بن بیٹھا.مگر وہاں بھی بچہ سقہ کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر گرفتار ہو گیا.اور پابہ جولاں اور برہنہ سر کا بل لایا گیا.(زوال غازی صفحه ۳۶۳،۶۶) عزیز ہندی لکھتا ہے.کہ سردار علی احمد جان بچہ سقہ کے حکم سے بازاروں میں پھیرایا گیا.اور اس کے جلوس کا وہی راستہ تھا.جس پر ہمارا مکان واقع تھا.میں بیوی اور والدہ سمیت اوپر کھڑ کی میں کھڑا تھا.جس کا رخ بازار کی طرف تھا.اتنے میں جلوس آیا.آگے گھوڑے سوار تھے.ان کے ہمراہ فوجی باجہ تھا.جو بچہ سقہ کی فتح و ظفر کے ترانے الا پتا تھا.اور اس کے بعد پیدل فوج تھی.کچھ آگے اور کچھ پیچھے درمیان میں مضطرب اور ناتسکین یافتہ ہستی علی احمد جان کی تھی.کبھی وہ دن تھا کہ وہ اس شان و شوکت سے کابل کی سڑکوں پر نمودار ہوتا.کہ خود غازی امان اللہ خان پر رشک کی بجلیاں گر پڑتی تھیں.لوگ ساحرانہ کشش سے خود بخود اس کی تعظیم و تکریم پر مجبور ہوتے.لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے.آج زنجیروں میں جکڑا ہوا ایک فرومایہ کی طرح قیدی کی حیثیت سے پا پیادہ منظر عام پر نمودار ہے.بدن پر صرف معمولی خا کی زمین کی قمیض اور لٹھے کا پاجامہ ہے اور کچھ نہیں.پاؤں میں پرانی چپلی ہے

Page 145

۱۴۳ دونوں پاؤں میں ڈنڈا بیری ہے.اور ہاتھ کہنیوں تک پیچھے کسے ہوئے ہیں.ننگا سر ( زوال غازی صفحہ ۶) آخر شہر سے باہر لے جا کر توپ سے اڑا دیا گیا.اور تین مظلوموں کے خون کا سودا کر کے جس نے خوست فتح کیا تھا.آخر ان خونوں کے عوض میں ۹ر جولائی ۱۹۲۹ء کو مارا گیا.پانچواں پاداش ظلم : جس امیر امان اللہ خاں نے حضرت احمد نبی اللہ کے خدام کا خون نہایت بے دردی سے گرایا تھا.آخر افغانستان سے خاسرو نا کام ہو کر اس کو نکل جانا پڑا.( زوال غازی صفحہ ۱۹) اور اپنی انتہائی مایوسی اور حرماں نصیبی کے ہجوم میں اپنے پیارے وطن سے شاید ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا - ( زوال غازی صفحہ ۳۰ ) چھٹا یاداش ظلم : امیر حبیب اللہ خان کا ولی عہد سردار عنایت خان ۱۴؍ جنوری کو بادشاہ بنا.اور ۱۶ / جنوری ۱۹۲۹ء کو معزول ہوا اور اڑھائی دن کا بادشاہ نہایت رنج وغم کے ساتھ کا بل سے خارج ہوا.اور ایران میں زندگی کے سانس لے رہا ہے.اور اس کے اپنے خاندان امیر عبدالرحمن کے حکومت کا چراغ ہمیشہ کے واسطے گل ہو گیا.ساتواں پاداش ظلم : جن علمائے کا بل نے ان شہداء ثلاثہ جماعت احمدیہ پر فتویٰ کفر ور جسم دیا تھا.انہی علما نے امیر امان اللہ خان کو بھی کافراور عیسائی اور مرتد کہا.اور اس کے مقابلہ میں بچہ سقہ کو غازی اور مجاہد اور خادم دینِ رسول کا خطاب دیا.اگر چہ ان کے سامنے امیر امان اللہ خاں نے بارہا.کلمہ طیبہ

Page 146

۱۴۴ پڑھا.مگر انہوں نے اعتبار نہ کیا اور یہ سب کچھ بے سود ثابت ہوا.( زوالِ غازی صفحه ۳۶۵-۳۸۵) آٹھواں پاداش ظلم : قاضی عبدالرحمن کو ہ دامنی جو کا بل کا مشہور قاضی تھا.اور جس نے حضرت نعمت اللہ خاں اور باقی شہدا پر فتو کی قتل ورحم دیا تھا.وہ کوہ دامن کا رہنے والا تھا.غازی امان اللہ خان کے بعد بھی بچہ سقہ سے لڑتا رہا.بالآ خر گرفتار ہوا.اور بچہ سقہ کے پیش ہوا.جس نے اس کی اعضاء بریدگی کا حکم دیا.اور اس کو ملک محسن والی شہر کے حوالے کر دیا.تا کہ سر چوک کا بل اس کے حکم کی تعمیل کرے.ملک محسن نے جو ہر طرح کے جبر وتشد د وحیلہ و ہنر سے لوگوں سے دولت سمیٹنے کا عادی تھا.قاضی عبدالرحمن کو دم دلاسہ دیا.اور تشفی دی.اور مقررہ قتل گاہ کی طرف لے گیا.چوک کے پاس فالودہ کی دو کان تھی.جس میں دونوں داخل ہوئے.باہر سخت پہرہ تھا.اور اندر والی اس کی دولت کی تفصیل قلم بند کر نے لگا.وعدہ یہ کیا کہ اگر قاضی عبد الرحمن اس کو اپنی ساری دولت کا پتہ دے دے گا تو اس کے عوض میں وہ بچہ سقہ سے کہہ کر جان بخشی کرا دے گا.مگر جب اس کی تمام جائداد منقولہ و غیر منقولہ کی ساری تفصیل قلم بند کر چکا.تو والی.اس سے یہ کہہ کر کہ وہ ابھی اس سے بہت کچھ چھپا رہا ہے.گالی گلوچ پر اتر آیا اور ساتھ ہی اپنے سپاہیوں کو حکم دیا.کہ فوراً قصاب کو حاضر کریں.قصاب تو پہلے ہی موجود تھا.یہ محض دکھاوا تھا.تا کہ اس کی دھمکی سے متاثر ہو کر اگر کچھ باقی ہو تو وہ بھی لکھا دے.مگر غالباً کچھ باقی نہ تھا.اور قاضی اپنی موت سے جو اس کے سامنے کھڑی تھی.بالکل پروانہ کرتا ہوا مزاحاً والی سے کہنے لگا.کہ میرے بند بند تو تم نے جدا جدا کاٹنے ہی ہیں مجھے

Page 147

۱۴۵ پیٹ بھر کر فالودہ تو پی لینے دو.اس کے فالودہ پینے تک سینکڑوں تماشائی باہر جمع ہو چکے تھے.اور جب باہر لایا گیا تو فرش زمین پر چت لٹا دیا گیا.تو حیرت ہے کہ اپنی موت کی سختی کا علم ہوتے ہوئے قاضی عبد الرحمن کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا.گویا ایسا معلوم ہوتا تھا.کہ قاضی بدن پر تیل کی مالش کروانے کے لئے - زمین پر لٹا یا گیا ہے.غرضیکہ جب وہ لیٹ چکا.تو قصاب ایک آبدار پھر الے کر آگے بڑھا اور ایک ہی حرکت میں اس کا پہلے ایک ہاتھ جدا کر دیا.اور پھرتی سے دوسرا ہاتھ کاٹ دیا اب وہ پاؤں کی طرف بڑھا.یکے بعد دیگرے.دونوں پاؤں کاٹ دیئے.اور پھر دوسری طرف بڑھا.اور لنجے ہاتھوں کو کہینوں تک جدا کر دیا.اور پھر واپس آ کر دونوں ٹانگوں کو رانوں سے بھی اڑا دیا.ہاتھ کٹ رہے تھے مگر ایک کوہ وقا را ستقامت کے ساتھ ان کے کٹنے کا تماشا دیکھ رہا تھا.پاؤں جدا ہو چکے تھے.مگر ابھی تک اس کے لب پر اف تک نہ آئی تھی.حتی کہ کہنیاں بھی کٹ کر گر گئیں.مگر اسے جنبش تک نہ ہوئی.لیکن جب نوبت گھٹنوں پر پہنچی.تو ضبط اس سے چلا گیا.اور وہ ماہی بے آب کی طرح زمین پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا.اور اس کی چیخیں آسماں تک پہنچ رہی تھیں.اور خون کے فوارے اس کے بریدہ جسم سے نکل کر چاروں طرف فوجیوں اور تماشائیوں کے دامنوں کو تر کر رہے تھے.اور ان چیخوں کی ہیبت کے ساتھ مل کر ایک نہایت بھیانک اور محشر آفریں منظر پیش کر رہے تھے.مگر وہ قسی القب والی (یا عذاب کا فرشتہ ) اس سے متاثر نہ ہوا.بلکہ چلانے والے کی لوتھ کے سر پر کھڑا ہنس رہا تھا.اور مخش اور مغلظات سنا رہا تھا ( زوالِ غازی

Page 148

۱۴۶ صفحہ ۳۸۳) یہ انجام اس قاضی کا ہوا.جس نے تین احمدیوں کے قتل ورجم کا فتویٰ دیا تھا.اور اپنی عاقبت سے نڈر تھا - فانظر واکيف كان عاقبة المكذبين- نواں پاداش ظلم : سردار نصر اللہ خان کی اکلوتی لڑکی عالیہ بیگم جو نہایت حسین اور جمیل تھی.جس کو غازی امان اللہ خان نے منکوحہ بیوی بنالیا تھا.مگر بقول عزیز ہندی اس کو بھاگتے وقت کس مپرسی کی حالت میں اپنے دشمن بچہ سقہ کے رحم پر کابل میں چھوڑ گیا ( زوال غازی صفحہ ۳۸۶،۸۳) افغانوں کے رسم ورواج کے ماتحت امیر امان اللہ خان کا یہ فعل نہایت شرمناک اور فتیح تھا.جو اس سے سرزد ہوا.کہ اپنی بیوی بچہ سقہ کے سپر د کر کے چلا گیا.- دسواں پاداش ظلم : جس تخت و تاج پر امیر امان اللہ خان کو بڑا ناز و وغرور تھا اور جس کی فرضی حفاظت کے واسطے اس نے جماعت احمدیہ کے افراد کا خون گرانا مباح جانا.اور بکروں کی طرح حضرات شہداء ثلاثہ کو قربان کیا.اور جس کو امیر موصوف نے ہمیشہ کے واسطے اولاد سے مخصوص کر دیا تھا.اس سے چھین لیا گیا.اور ہمیشہ کے واسطے امیر امان اللہ خان خود اور اس کی اولا د کیا.بلکہ خاندان عبدا الرحمن خان کا ہر فرد محروم کر دیا گیا.اور ایک ایسے چور کے سپرد کر دیا گیا.جو اس کے باپ کا ہم نام تھا.اور اس کا باپ اس کے داد کا ہم نام تھا.یعنی حبیب اللہ بچہ سقہ ولد عبد الرحمن- ( زوال غازی صفحہ ۳۸۷) - قل اللهم مالك الملك تؤتي الملك من تشاء وتنزع الملك ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء بيدك الخير انک علی کل شی قدیر -

Page 149

۱۴۷ باب چهارم زمانہ حکومت اعلیٰ حضرت محمد نادرشاه با دشاہ افغانستان فصل اوّل اعلیٰ حضرت محمد نادرشاہ کا نسب اعلی حضرت محمد نادرشاہ جو سردار محمد یوسف خاں کا بیٹا اور سردار محمد یحیی خان کا پوتا اور سردار سلطان محمد خاں طلائی کا جو گورنر پشاور اور امیر کبیر دوست محمد خان والی کا بل کا بھائی تھا.پڑپوتا تھا.امیر عبدالرحمن خان کے خاندان کا امیر امان اللہ خان پر خاتمہ ہوا.اور خدا تعالیٰ نے اس خاندان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا.اور نہایت ڈرامائی انداز میں یہ کھیل ختم ہوا.اور دیکھنے والوں کو خدا کے غضب کا نظارہ دکھا دیا.اب خدا تعالیٰ نے سردار سلطان محمد خان خلف سردار پائندہ خان کے دوسرے بیٹے کی نسل میں حکومت منتقل کر دی سلطان محمد خاں بزما نہ حکومت امیر دوست محمد خاں برا در خود صوبہ سرحد میں ضلع پشاور وضلع مردان اور ضلع کو ہاٹ کا گورنر تھا اور شہر پشاور میں دروازہ کو ہائی کے بالمقابل جو وسیع احاطہ مشن ہائی سکول ہے.یہ گورنر کا رہائشی مکان تھا.مشن سکول میں ایک یادگاری کتبہ سنگِ مرمر کا لگا ہوا ہے.

Page 150

ال ۷ حضرت محمد ظاہر شاہ سردار سلطان محمد خان طلائی گورنر پشاور سردار نور محمد خان سردار محمد عباس خان سردار محمد دریا خان سردار محمد یکی خان سردار محمد اسمعیل خان سردار عبد القدوس خان سردار شیر احمد خان سردار فیض اللہ خان وتو کے تیار ہے سلطان احمد بیله گران اور اللہ نے ۱۹۹م سردار محمد یوسف خان سردار محمد آصف خان اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ شاہ ولی اللہ محمد باشم خان شماء محمود خالت محمد عزیز خان ( بادشاه افغانستان) (سفیر لندن) (صدراعظم) وزیر پیر) (سفیر جرمنی) اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ بادشاہ افغانستان سردار احمد شاه خان سردار محمد سلیمان خان سردار احمد علی

Page 151

۱۴۹ گورنر مذکور ایام گرما میں وزیر باغ میں رہائش رکھتے تھے.جو وزیر فتح خان برادر کلاں سردار سلطان محمد خان نے بنوایا تھا.اس میں شاہی محلات تھے.جواب مٹ چکے ہیں.یہ باغ کو ہائی دروازہ سے کوئی نصف میل کے فاصلہ پر جنوب کو واقع ہے.جن ایام میں حضرت سید احمد بریلوی بمعہ مجاہدین سرحد میں بغرض جهاد مقیم تھے.سردار سلطان محمد خان پشاور میں حاکم تھے.سردار یار محمد خان حاکم اتمان تھے.اور زیدہ میں مقیم تھے.سردار پیر محمد خاں یوسفزائی کے حاکم تھے.اور ہوتی میں مقیم تھے سردار سید محمد خان ہشت فقیر کے حاکم تھے.اور بالا حصار چارسدہ میں مقیم تھے.یہ سب عباسی سردارانِ پشا ور کہلاتے تھے.سردار سلطان محمد خان کے قریباً بیس فرزند تھے.جن میں سردار عباس خاں ، سردار ذکریا خان، سردار محمد یکی خان، سردار عبدالقدوس خان مشہور افراد ہیں.جب سرحد میں مہاراجہ رنجیت سنگھ مسلط ہو گیا.تو سردار سلطان محمد خان پشا ور سے کابل چلے گئے.اور وہیں فوت ہوئے اور لب سڑک پشاور کا بل نزدیک چمن حضوری ایک گنبد کے اندر سلطان محمد خان کی قبر ہے.خاکسار نے جب کابل میں یہ قبر دیکھی تو خستہ حالت میں تھی.قریب ہی اعلیٰ حضرت محمد نادر خان کا مدفن ہے جو فوجی قلعہ کے باہر ہے.اس خاندان کے اور افراد بھی وہیں دفن ہیں.سردار محمد سمی خان امیر عبدالرحمن کے تخت نشینی کے ایام میں کابل سے پشاور تشریف لائے اور پھر پشاور سے ہندوستان چلے گئے.اور اکثر حصہ عمر

Page 152

۱۵۰ ڈیرہ دون میں رہے.سردار محمد یوسف خان اور سردار محمد آصف خان نے ہندوستان میں ہی تعلیم حاصل کی.اور ان کی اولا د بھی ڈیرہ دون میں ہی تعلیم حاصل کرتی رہی.سردار محمد عزیز خاں جرمنی میں سفیر تھے.اور وہاں مارے گئے.سردار محمد نادر خان اور سردار محمد ہاشم خان اور سردار شاہ ولی خان اور سردار شاہ محمود خان ہندوستان ہی میں پیدا ہوئے اور یہی تعلیم پائی.جب امیر حبیب اللہ خان تخت نشین ہوا تو اس نے سردار محمد یوسف خان اور سردار محمد آصف خان کو کابل آنے کی اجازت دے دی.اور کابل بلوائے گئے.اور اپنے مشیر خاص مقرر کئے.جب امیر حبیب اللہ خان ۱۹۰۷ ء میں سیر ہند پر تشریف لائے.تو یہ دونوں بھائی بھی ساتھ تھے.کابل میں ان کی اولاد اہم عہدوں پر فائز رہی.سردار محمد نادر خان فوج کے سپہ سالار رہے.اور امیر امان اللہ خان نے جب انگریزوں سے مئی ۱۹۱۹ء میں تیسری جنگ افغانستان چھیڑی.تو سردار محمد نادر خان سمت جنوبی کے راہ سے ٹل آ کر فوجی قلعہ پر قابض ہوئے.اور دو تین دن ٹل پر قبضہ رکھا.جب امیر امان اللہ خان کسی وجہ سے ناراض ہوئے تو سردار محمد نادر خان کابل سے فرانس سفر ہو کر روانہ ہوئے.اور پانچ سال پیرس میں مقیم رہے.اور ان دنوں ان کی صحت خراب تھی.نومبر ۱۹۲۷ء میں جب امیر امان اللہ خان سفر یورپ پر گئے اور جون

Page 153

۱۵۱ ۱۹۲۸ء میں واپس آئے.تو افغانستان کے اندرا میر موصوف کے خلاف نفرت اور بغاوت پھیل چکی تھی.اس موقع سے ملاؤں نے فائدہ اٹھایا.اور حبیب اللہ بچہ سقہ کو جرات دلائی کہ وہ کا بل پر حملہ آور ہو.اور امیر امان اللہ خان کے دل میں خدا تعالیٰ نے بچہ سقہ کا ڈر اور رعب بٹھا دیا کہ وہ ڈر اور بزدلی سے کابل کے تخت و تاج سے دست بردار ہو کر قندھار کی راہ سے بڑی بے سروسامانی اور پریشانی میں بھاگے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا.کہ وہ کیا کر رہے ہیں.جن انگریزوں سے اس کو نفرت تھی.بالآخر انہی کے دستِ کرم اور امداد کا محتاج ہوا.چمن آیا.دہلی سے ہوتا ہوا بمبئی پہنچا.وہاں ملکہ ثریا بیمار ہوئی اور ایک لڑکی تولد ہوئی.اور قدرے صحت پا کر بمبئی سے اطالیہ پہنچے.وہاں مقیم ہوئے.اے سکندر نہ رہی تیری بھی عالمگیری کتنے دن آپ جیا کس لئے دارا مارا امیر امان اللہ خان نے جس تخت و تاج کی حفاظت کے واسطے جماعت احمدیہ کے بے گناہ مبلغ حضرت نعمت اللہ خان - حضرت مولوی عبدالحلیم اور حضرت قاری نور علی شہید کئے وہ تخت و تاج ایک آن کی آن میں حبیب اللہ بچہ سقہ کے ڈر سے امیر امان اللہ خان چھوڑ بھاگا - آیت لـلـســائــليــن وعبرة للناظرین کا مقام ہے.جب سردار محمد نادر خان کو فرانس میں علم ہوا.کہ افغانستان کا یہ حشر ہوا.تو وہ بمعہ اپنے بھائیوں کے بیمار حالت میں قیصر ہند جہاز میں

Page 154

۱۵۲ ۲۲ فروری ۱۹۲۹ء کو پیرس سے بمبئی پہنچے اور بمبئی اور لاہور ہوتے ہوئے پشاور پہنچ گئے.اور پشاور میں آرام فرما کر فروری ۱۹۲۹ء کے آخیر میں سردار محمد ہاشم خان کے ہمراہ خیبر ڈ ہکہ افغانستان کی حدود میں داخل ہونے کی ہدایت کی.اور مشورہ دیا.کہ وہ شنواری اور مہمندوں اور آفریدیوں سے امداد حاصل کرے.خود سردار محمد نادر خان - شاہ ولی خان اور شاہ محمود خان براہ خوست داخل افغانستان ہوئے.اور قبائل خوست وزیرستان، جدران حاجی اور دوسرے قبائل کی امداد لے کر براہ گردیز و لوگر اور علی خیل کا بل کی طرف بڑھے اور چار آسیا کی راہ شاہ ولی خان کابل میں داخل ہوئے.اور بچہ سقہ کی افواج اور مددگار شکست کھا گئے اور کابل فتح ہوا.ابتدائی نصف اکتوبر ۱۹۲۹ء سردار محمد نادر خان کا بل پر قابض ہو گئے.اور بچہ سقہ نے ارک شاہی خالی کر دیا.۱۶ / اکتوبر ۱۹۳۰ء کو سردار محمد نادر خان نے افغانستان کے صوبوں سے نمائندے طلب کر کے لوئی جرگہ قائم کی اور لوئی جرگہ نے بالا تفاق سردار محمد نا در خان کو تخت و تاج پیش کیا اور کہا ہر کہ شمشیر زند سکه بنامش خوانند اس طرح خدا تعالیٰ نے سردار محمد نادر خاں کو افغانستان کا بادشاہ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ ) بنا دیا.اور امیر امان اللہ سے عامۃ الناس نے سخت بیزاری کا اظہار کیا.اور اس کو کافر اور بے دین اور عیاش اور بد کردار ظاہر

Page 155

۱۵۳ کیا.( دیکھو حالات خلع تخت کا بل شائع کردہ حکومت افغانستان.جس میں لوئی جرگہ کی تفصیلات ہیں یہ کتاب فارسی اور اردو میں شائع ہوئی ہے ) حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی : خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ 66 السلام کو بذریعہ وحی ۳ مئی ۱۹۰۵ء اطلاع دی.کہ آہ نادر شاہ کہاں گیا.“ ( تذکرہ صفحه ۵۴۳ ) یہ وحی تین امور پر مشتمل خبر دے رہی تھی.اول تو یہ کہ کوئی شخص نا درشاہ نامی آنے والے زمانہ میں کسی قطعہ زمین پر ظہور کرے گا.یہ شخص اپنی اعلیٰ قابلیتوں اور قواے خداداد کے باعث پبلک میں اس قدر محبوب اور مطلوب ہو گا.کہ عند الضرورت لوگ پکار اٹھیں گے.اس وقت نادر شاہ کی ضرورت ہے.آہ نادر شاہ کہاں گیا.کیونکہ اس ضرورت کو وہی پورا کر سکتا ہے.دوم وہ عین اس وقت میں پبلک سے جدا ہو گا.اور اچا نک جدا ہو گا.جب کہ ہنوز اس کی خدمات جلیلہ کی ضرورت باقی ہو گی.تب لوگ بطور حسرت کہیں گے.کہ آہ نادرشاہ کہاں گیا.یہ ہرسہ امور اس طرح پورے ہوئے کہ امیر امان اللہ خاں نے خود محمد نادر شاہ کو سفارت فرانس پر روانہ کر دیا.اور اس کی غیر حاضری میں بغاوت رونما ہوئی اور امیر امان اللہ خان تخت و تاج چھوڑ کر افغانستان سے نکل گیا.اور تخت و تاج اور ملک حبیب اللہ بچہ سقہ کے ہاتھ میں چلا گیا.تو قدرت نے موقع دیا.اور محمد نادر خاں کو فرانس سے بلوایا گیا.اور خالی ہاتھ نہ پاس خزانہ نہ فوج - مگر فتح افغانستان کا عزم کیا.اور خدا تعالیٰ نے غیب سے سب سامان کر دیئے اور اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ افغانستان کا بادشاہ بن گیا اور بچہ

Page 156

۱۵۴ سقہ اور اس کے ساتھی چوروں کو گولیوں سے ہلاک کر کے پھانسی پر لٹکا دیا.دوم حبیب اللہ بچہ سقہ نے کابل لیا تو اس قدر ظلم کیا اور دست تعدی دراز کیا.کہ لوگوں کی عزت مال اور جان سب خطرے میں پڑ گئے.اور ہزارہا نفوس ہلاک ہوئے.اور دولت اور جائدا دلوٹ لی گئی.یہاں تک کہ لوگ محمد نادرشاہ کی غیر حاضری از کابل کو سختی سے محسوس کرنے لگے.اور چلا اٹھے کہ آہ! نادر شاہ کہاں گیا.سوخدا تعالیٰ نے ان کی درد دل سے نکلی ہوئی دعا کو پورا کیا اور محمد نادر شاہ کو فرانس سے بھیج دیا.اور محمد نادر شاہ کو بادشاہ بنا دیا.اور بچہ سقہ کو بمعہ رفقاء نیست و نابود کر دیا.اور افغانستان کی تباہ شدہ سلطنت اور عزت کو بحال کر دیا.اور حیرت انگیز طریق پر نہ صرف ضائع شدہ اشیاء کو بحال کیا.بلکہ پہلے سے زیادہ خوبصورت اور رفیع الشان عمارات ، بازار، پل ، سڑکیں ، تار، ٹیلیفون اور باقاعدہ افواج اور سامانِ جنگ مہیا کر لیا.سوم تین چار سال کے عرصہ میں جس قدر جلدی ترقی افغانستان نے کی.افغانان کابل ابھی ان کے نظارہ میں محو تھے.کہ ایک نمک حرام شخص عبد الخالق نامی نے اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ کو ارک شاہی میں ۸/ نومبر ۱۹۳۳ء کو بوقت تقسیم انعامات پستول سے فائر کر کے شہید کر دیا.اور افغانستان چشم زدن میں ایک نہایت ہی قیمتی وجود، بہادر جرنیل، دیندار منتظم اور عادل اور ہمدرد بادشاہ کیا بلکہ ایک بے نظیر وجود اور جلیل القدر ہستی کی سر پرستی سے محروم ہو گیا.اس کے قابل قدر کاموں کو دیکھ کر اس کی گذشتہ خدمات جلیلہ کو دیکھ کر اس کے انتظامات کو دیکھ کر اور اس کی موت کو دیکھ کر ہر باشندہ افغانستان در دِ دل سے پکار اٹھا " آہ ! نادر شاہ کہاں گیا.“

Page 157

۱۵۵ تینوں صورتوں میں یہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی.اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ نے ایک بر با دشدہ گھر کو نہ صرف دوبارہ تعمیر کرایا بلکہ اس کی سابقہ عمارت کو شان و شوکت میں دو بالا کر دیاجہ زاه الله احسن الجزاء فصل دوم زمانہ حکومت اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ جب اعلیٰ حضرت محمد نادر شاه ۸/نومبر ۱۹۳۳ء کو مارے گئے.اراکین سلطنت کے مشورہ اور خاندان کے اتفاق سے ان کا اکلوتا فرزند محمد ظاہر شاہ تخت کا بل پر حکمران مقرر ہوا.تو بڑے امن و امان سے یہ واقعہ قبول کیا گیا.اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ نے ۱۶ / اکتوبر ۱۹۲۹ ء لغایت ۸ / نومبر ۱۹۳۳ء صرف چارسال کامل حکومت کی اور رعایا کا دل مول لے لیا.اور ملک میں بچہ سقہ کی تخریب کے بعد نہ صرف تعمیر کی بلکہ مزید ترقیات کا راستہ کھول کر چل دئے.اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ ۸/ نومبر ۱۹۳۳ء سے اس وقت تک دسمبر ۱۹۵۸ء ہے.قریباً ۲۵ سال سے حکمران ہیں.نہایت خاموشی سے حکومت کرتے آئے ہیں.۱۴ را گست ۱۹۴۷ء کو دولت پاکستان وجود میں آئی.اورافغانستان

Page 158

۱۵۶ نے بھارت سے تعلقات سیاسی جوڑے.اور اپنے ہم مذہب اور ہم قوم مسلمان اور سلطنت سے برادرانہ تعلق کسی مصلحت کے ماتحت روا نہ رکھا.اب حالات پہلے سے قدرے بہتر ہو گئے ہیں جیسا کہ ایک مسلمان حکومت کو دوسری مسلمان حکومت سے برادرانہ رکھنے چاہیں.خدا کرے یہ تعلقات باہمی اچھے ہو جائیں.ہماری آرزو : خدا کرے.افغانستان کو چند ایسے بادشاہ مسلسل مل جاویں.جیسے کہ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ تھے.تو بہت جلد مہذب دنیا کے دوش بدوش افغانستان کھڑا ہونے کے قابل ہو جاوے گا.اس وقت بھی شاہ فقید نے اس کو ایسا شاہراہ ترقی پر ڈالا ہے.کہ اگر خدا کو منظور ہوا.اور کسی قسم کا کوئی نا گوار واقعہ پیش نہ آیا.تو بسرعت تمام اپنے معراج کی طرف افغانستان بڑھتا جاوے گا.اس وقت دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے.خدا کرے اس میں شوق حصول علم و ہنر و کمالات دنیاوی اور قدردانی امن و جذ به وفاداری بادشاه و ملک پیدا ہو.اور بادشاہ میں رعیت پروری عدل و حقوق العباد و حفاظت عزت و اموال و اخلاق ملت کا شوق بیش از بیش ترقی پذیر ہو.اور ان کے ملک میں ہر مذہب وملت کو ان کے حقوق آزادی مذہب و تجارت و تمدن محفوظ رہیں.موجودہ حکمران خاندان کا رویہ اس وقت تک سلسلہ احمدیہ کے خلاف ثابت نہیں.اور خدا کرے کہ وہ خدا کے فرستادہ کی مخالفت کے سیلاب سے بچے رہیں.اور حالات آل امیر عبدالرحمن ان کے واسطے سبق آموز ہوں.

Page 159

۱۵۷ بادشاہ کاظل اللہ ہونا : بادشاہ وقت ظل اللہ ہوتا ہے اور ہر مذہب وملت اس کے سایہ میں آزادی سے اپنے اصول پر عامل ہوتے ہیں.اور اگر بادشاہ متعصب ہو جاوے.تو ظل اللہ نہیں رہتا.اور حکومت کا اہل بھی نہیں ہو سکتا.فصل سوئم زمانہ حکومت بچہ سقہ اور پچاسی ہزار افراد کی ہلاکت حضرت احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے ۱۳ مارچ ۱۹۰۷ء کو بذریعہ وحی اطلاع دی کہ ریاست کا بل میں قریب پچاسی ہزار آدمی مریں گے.(تذکرہ صفحہ (۷۰) ہم نے اس وحی الہی کو منظوم کر کے اخبار الفضل مورخہ ۱۹ / نومبر ۱۹۱۸ء میں قبل از وقوع شائع کرایا تھا.جو یہ ہے.شاہ کابل کی ریاست میں مریں گے عنقریب آدمی اس کی رعایا میں سے پچاسی ۸۵ ہزار خدا تعالیٰ نے اس پیش گوئی کو اپنا عملی رنگ اس طرح دے کر پورا کیا.کہ سرزمین افغانستان میں بغاوت پر بغاوت نمودار ہوئی اور آخر کار یہ انقلاب بچہ سقہ واقع ہوا.جس کی نذر ہزار ہا نفوس ہو گئے.پہلا وقوعہ بغاوت منگل : امیر حبیب اللہ خان کے ایام حیات میں ہوا.منگل قوم نے بغاوت کی.باہمی جنگ میں سرکار کے سپاہی اور قوم کے افراد

Page 160

۱۵۸ کثرت سے ہلاک ہوئے.تب جا کر بغاوت دب گئی.دوسرا وقوعه قتل امیر : امیر حبیب اللہ خان بمقام گله گوش پغمان قتل ہوا.اور سردار نصر اللہ خاں نے سردار عنایت اللہ خان کا حق تخت و تاج غصب کر لیا.امیر امان اللہ خان کا بل میں بادشاہ ہو گیا.اور امیر مقتول کے قتل کے سلسلہ میں کئی لوگوں کو قتل کیا اور اسی سلسلہ میں برطانیہ اور افغانوں کی جنگ چھڑ گئی.جس کو افغانستان کی تیسری جنگ کہتے ہیں.اور یہ جنگ سرحدات سمت مشرقی - سمت جنوبی اور صوبہ قندھار کی سرحدات تک پھیل گئی اور ہزار ہا نفوس فوج اور رعیت کے مارے گئے.یقیل مقاتلہ فروری ۱۹۱۹ ء لغایت اکتوبر ۱۹۱۹ء جاری رہا.تیسرا وقوعہ بغاوت منگل وجدران : یه بغاوت بار دیگر بزمانه حکومت امیر امان اللہ خان ۱۹۲۴ء میں اقوام منگل وجدران میں شروع ہوئی اور ملائے لنگ عبداللہ کے قتل ہونے تک اس کے ذریعہ سلسلہ ہلاکت جاری رہا.اور ہزار ہا نفوس رعیت اور بادشاہ کی طرف سے مارے گئے.تب جا کر یہ بغاوت فرو ہوئی.چوتھا وقوقعہ بغاوت شنواری و مہمند : یہ بغاوت ۱۹۲۸ء میں امیر امان اللہ خاں کے خلاف علاقہ جلال آباد میں شروع ہوئی.جس کا مدعا افغان لڑکیوں کو یورپ میں تعلیم کے واسطے جانے سے روکنا تھا.اور یہی بغاوت سمت مشرقی سے سمت شمالی اور سمت جنوبی کی سرحدات تک پھیل گئی.جس کا نتیجہ امیر امان اللہ خان کا عزل از تاج و تخت ہوا.کثرت سے باغی اور افواج قتل

Page 161

۱۵۹ ہوئیں.اور بقول عزیز ہندی پندرہ بیس ہزار نفوس قتل ہوئے.( زوال غازی صفحه ۴۰۲) پانچواں وقوعہ حکومت بچہ سقہ : حبیب اللہ خاں عرف بچہ سقہ نے تخت نشین ہو کر شہر کا بل اور اطراف افغانستان میں جنگ و جدل اور قتل و مقاتلے شروع کر دیئے.اور ہزار ہا نفوس کو اس دار فانی سے رخصت کر دیا.یہ سلسلہ اکتوبر ۱۹۲۸ء لغایت جنوری ۱۹۲۹ء جاری رہا.بڑے بڑے اراکین سلطنت اور امراء اور سردار قتل ہوئے.سمت شمالی و مشرقی ہزارہ جات اور قندھار اور مستقر پر کثرت سے لوگ مرے.چھٹا وقوعہ حکومت نادرہ: جس وقت اعلیحضرت محمد نادرشاہ حدود افغانستان میں داخل ہوئے.تا فتح کابل و جنگ کوہ دامن وقتل بچہ سقہ ہزار ہا نفوس ہلاک ہوئے.بعض سرکار کی طرف سے اور بعض رعیت کی طرف سے اور کو ہ دامنیوں کو خوب سزا دی گئی.ساتواں وقوعہ شہادت محمد نادرشاہ : جرنیل غلام نبی خان اور اس کے بعد اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ شہید کے واقعہ قتل کے سلسلہ میں کثرت سے لوگ مارے گئے.عزیز ہندی لکھتا ہے.کہ بچہ سقہ نے اسی نوے ہزار افواج بھرتی کی تھی.جنہوں نے جنگوں میں حصہ لیا.اور نصف سے زیادہ مقتول و مجروح ہو گئی.اس میں قبائل کی تعداد شامل نہیں.جو بچہ سقہ کی طرفداری میں جنگ کر رہے تھے.اس سے قارئین معمولی سا اندازہ کر سکتے ہیں.کہ بغاوت شنواری

Page 162

14.سے بچہ سقہ کے نیست و نابود ہونے تک کس قد رنفوس مارے گئے.( زوال غازی صفحه ۴۰۴ ) جنرل غلام نبی خان اور غلام جیلانی خان پسران فیلڈ مارشل غلام حیدرخان چرخی اعلیحضرت محمد نادرشاہ کی موت سے چند ماہ قبل مارے گئے تھے.عبد الخالق جو ان کا پروردہ تھا.اس نے اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ کو مار کر بدلہ لیا - ۸/ نومبر ۱۹۳۳ء کو یہ واقعہ ہوا.اخبار انقلاب لاہور روزانہ نے شائع کیا تھا.کہ ایک لاکھ سے زائد نفوس ہلاک ہو چکے تھے.آپ نے ان واقعات پر نظر دوڑا کر دیکھ لیا ہو گا.کہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کو کس طرح عملی رنگ میں پورا کیا اور بغیر اس قسم کے واقعات کے کس طرح ریاست کابل میں قریب پچاسی ہزار کے آدمی مر سکتے تھے.جب تک کہ خلاف توقع واقعات ظہور پذیر نہ ہوں.بچہ سقہ تو محض خاندان امیر عبدالرحمن خان کے مٹانے کی غرض سے ایک غضب کا فرشتہ تھا.جو پیدا ہوا اور کام کر کے فنا ہو گیا.اور ملک اور تاج دوسرے اہل لوگوں کے لئے چھوڑ کر چلا گیا.نہ وہ بادشاہ تھا اور نہ وہ بادشاہت کا اہل تھا.البتہ ایک امانت کو حاصل کیا اور اہل لوگوں کو دے کر چلتا بنا.فصل چهارم ہماری ملاقات سردار محمد یوسف خان : خاکسار نے سردار محمد یوسف خان اور سردار محمد

Page 163

་་་ آصف خان کو اس وقت پہلی دفعہ دیکھا تھا.جب کہ امیر حبیب اللہ خان سیر ہند پر ۱۹۰۷ء میں تشریف لائے تھے.اور بازار قصہ خوانی پشاور میں فٹن میں شہر کا سیر کرنے گذرے تھے.اس وقت دونوں بھائی ایک فٹن میں سوار تھے اور ان کی ڈاڑھیاں سیاہ تھیں.غالباً ۱۹۲۴ء میں دوبارہ اس وقت سردار محمد یوسف خان کو دیکھا.کہ آپ بدوران حکومت امیر امان اللہ خان کابل سے پیرس - بغرض تبدیل ہوا و علاج جا رہے تھے.اور صدر پشاور ریلوے سٹیشن سے سیکنڈ کلاس میں سوار ہوئے.ان کی گاڑی ریز رو تھی.چھٹی کا دن تھا.میں بھی پشاور سے ہوتی مردان جا رہا تھا.میں نے اطلاع پا کر سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ خریدا.جب گاڑی روانہ ہونے کو تھی.میں اس بوگی میں سوار ہوا.جس میں سردار صاحب تشریف فرما تھے.میں نے بوگی میں داخل ہو کر السلام علیکم کہا اور ایک سیٹ پر بیٹھ گیا اور سردار صاحب سے اجنبی ہونے کی صورت میں گفتگو شروع کی.اور دریافت کیا.کہ آپ کہاں جا رہے ہیں.فرمانے لگے پیرس بغرض علاج اور تبدیلی آب و ہوا.خاکسار نے گفتگو کا رخ افغانستان کی طرف پھیرا.وہاں کی ضروریات اور ترقیات علم وتعلیم اور زمانہ کے حالات کے مطابق اہل ملک میں تبدیلی پیدا کرنے کا ذکر کیا.مسلمانوں کی خستہ حالت اور اصلاح اور حضرت احمد کا ظہور اور مشن اور جماعت احمدیہ کے اصلاحی کارنامے اور عامۃ الناس کی خدمات کا ذکر کیا سردار صاحب سنتے رہے.اور بعض مقامات پر محظوظ ہوتے اور تعریف کرتے اور اظہار فرمایا کہ ارکان دربار کابل ان حالات سے خبر پاتے رہتے ہیں.مگر ہمارا ملک بے علم اور جاہل ہے.وہاں سب سے مقدم علم کی ضرورت ہے.امیر صاحب بیدار مغز ہیں چاہتے ہیں.کہ

Page 164

ملک جلد ترقی کرے.مگر اس پر ضرور بڑا وقت خرچ ہوگا.سردار صاحب کے ساتھ دونو جوان دوسرے کمرہ میں فوجی لباس میں ساتھی تھے.جو غالباً کپتان تھے.مگر جغرافیہ سے اس قدر نا واقف تھے.کہ دریافت کرنے لگے کہ پہلے راولپنڈی آئے گی یا لا ہور.بمبئی نزدیک ہے یا لندن.خاکسار نے بالتفصیل بتایا.اور نوشہرہ سے اتر کر مردان کا رخ اختیار کیا.اور ان سے رخصت ہو گیا.سردار محمد یوسف خان کی داڑھی اب سفید اور خود معمر تھے.یہ جنرل محمد نادر خان کے والد تھے.جنرل محمد نادر خان صاحب سے پشاور میں ملاقات : امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد غالباً ۱۹۲۴ء میں جب امیر امان اللہ خان جنرل محمد نادر خان سے ناراض ہوا.اور افغانستان سے باہر روانہ کرنے کی خاطر جنرل موصوف کو فرانس کا سفیر مقرر کر دیا.آپ فرانس جاتے ہوئے پشاور وارد ہوئے اور ڈین ہوٹل میں مقیم تھے.خاکسار جماعت احمد یہ پشاور کے چھپیں معزز افراد کا وفد بنا کر ڈین ہوٹل گیا.اور سیکرٹری سے اجازت حاصل کر کے جنرل صاحب موصوف سے ایک کمرہ میں ملاقات ہوئی.مزاج پرسی کے بعد جماعت احمدیہ کے مختصر عقائد حضرت احمد کا دعویٰ اور حضرت کے مشن کی غرض بیان کی.اور تبلیغ اسلام کا جو کام ممالک غیر میں ہو رہا ہے.اس کا ذکر کیا.جنرل صاحب اور ان کے عملہ نے غور سے سنا.اور جنرل موصوف نے بجواب فرمایا.کہ میں ہندوستان میں بڑی عمر رہا ہوں اور یہاں تعلیم پائی اور

Page 165

حضرت احمد اور ان کے مشن سے ہندوستان اور افغانستان سے باخبر ہوں.ہم باشندگان افغانستان جو حالات سے باخبر رہتے ہیں.وہ جماعت کی مساعی جمیلہ اور تبلیغ اسلام کو بہ نظر استحسان دیکھتے ہیں.اور خود امیر صاحب اور اراکین سلطنت بھی واقف ہیں.مگر ہمارا ملک اکثر علم سے غافل اور بے بہرہ ہے اس واسطے افغانستان میں علم دین نہیں.امید ہے خدا تعالیٰ وہ وقت جلد لائے گا.کہ افغانستان بھی آپ کے کار ہائے نمایاں کی قدر کرے گا.میں امیر صاحب سے بھی جماعت احمدیہ کے نیک خیالات کا ذکر کروں گا.تمام افراد بڑے تپاک سے ملے.اور جماعت رخصت ہوئی.یہ واقعات حضرت نعمت اللہ خان کی شہادت سے کچھ ماہ قبل کے ہیں.دار شجاع الدولہ گورنر : جب حضرت نعمت اللہ خان قید میں تھے.معلوم ہوا.کہ گورنر ہرات سردار شجاع الدولہ براہ نوشہرہ پشاور آئے ہیں.اور کا بل جا رہے ہیں.خاکسار نے پھر ایک وفد جماعت احمد یہ پشاور کے معزز افراد کا تیار کیا.اور ڈین ہوٹل میں سردار شجاع الدولہ سے ملاقات کی.جو باتیں جنرل محمد نادر خان سے کی تھیں.وہی باتیں سردار شجاع الدولہ سے ہوئیں.سردار موصوف نے کہا.کہ میں احمدیت کے حالات سے واقف نہ تھا جس قد رعلم مجھے اب ہوا.اس سے قبل میں احمدیت سے خائف تھا.اب میرا خوف دور ہوا.اور میں آپ احمد یوں کو اپنا مسلمان بھائی جانتا ہوں.اور اس ملاقات سے دل خوش ہوا.اور میں امیر صاحب سے بھی یہ واقعات ذکر کروں گا تمام افراد کو پر تپاک طور پر ہاتھ ملا کر رخصت کیا.

Page 166

b ۱۶۴ غالبا سردار شجاع الدولہ جلال آباد پہنچا ہو گا.کہ حضرت نعمت اللہ خاں کی شہادت کی خبر آ گئی.یہ خاندان ہندوستان میں رہنے کے سبب سے زیادہ نرم مزاج اور معقول پسند اور عام فہم اور رفتار زمانہ سے واقف ہے.اعلیٰ حضرت محمد نادرشاہ نے بدوران حکومت کا بل عمدہ نمونہ دکھایا.مگر افسوس ہے کہ ان کا زمانہ بہت محدود تھا.اور کا بل جلد ان کی حکومت سے مرحوم ہو گیا.مگر افغانستان کا ہرافسر ضروری نہیں کہ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ کی طرح ہو.اگر چہ خدا کرے ہر افسر ایسا ہی ہو.جن ایام میں پاکستان اور افغانستان کا اختلاف شروع ہوا.کابل ریڈیو نے ہندوستان کی ہمدردی میں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے میں بلا وجہ اور نہایت بے انصافی سے محترم محمد ظفر اللہ خان اور احمدیت کے خلاف غلط رویہ اختیار کیا.جو سراسر خلاف انصاف اور اخلاق تھا.فصل پنجم واقعات گذشتہ سے درس عبرت خدا تعالیٰ اپنے پاک کلام قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوْحِي إِلَيْهِمْ مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى.

Page 167

۱۶۵ أَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ.وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَوْا ط أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ O حَتَّى إِذَا اسْتَيْتَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا جَاءَ هُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاءُ طَ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ O لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (سوره یوسف ۱۰۹-۱۱۰) یعنی تجھ سے پہلے جس قدر نبی اور رسول ہم نے بھیجے ہیں.وہ مردوں 6◉ میں سے ہی منتخب ہوئے تھے.ہم نے ان پر وحی نازل کی.وہ انہی قصبوں کے رہنے والے تھے.پس یہ منکر لوگ کیوں اس زمین پر چل پھر سیر نہیں کر لیتے.تا کہ وہ دیکھ لیں کہ آخر ان منکران رسل کا جو ان سے قبل گزر چکے ہیں کیا انجام ہوا.آخرت کا گھر تو صرف ان لوگوں کے واسطے بہتر ہو گا.جو تقویٰ اور پر ہیز گاری اختیار کرتے ہوں.اور تکذیب رسل سے بچتے ہوں.پس تم لوگ کیوں تکذیب سے پر ہیز نہیں کرتے.ایک وقت ایسا بھی آیا.کہ لوگوں سے رسول مایوس ہو گئے.اور انہوں نے گمان کر لیا.کہ بس ان کی تکذیب کی حد ہوگئی عین اس وقت میں ہماری طرف سے ان کو نصرت اور مدد پہنچی.پس ہم تو جس کو پسند کرتے ہیں.اس کو بلاؤں سے نجات دیتے ہیں.اور ہماری سزا کو مجرمانِ رسل سے کوئی نہیں ٹال سکتا.ان مکذبین رسل کے واقعات بیان کرنے سے ہمیں عقل مندوں کو درس عبرت دینا ہے اور بس.b

Page 168

۱۶۶ حضرت احمد کی نصرت : خدا تعالیٰ نے اپنی سنت کے بموجب اپنے فرستادہ حضرت احمد علیہ السلام کو اپنا موعود نبی اور رسول بنا کر اصلاح خلق اللہ کے واسطے مبعوث کیا.ہندوستان اور دوسرے ممالک نے تکذیب سے کام لیا.فتویٰ کفر دیا.اور جی کھول کر تکذیب کی افغانستان میں پہلے امیر عبدالرحمن خان نے پھر امیر حبیب اللہ خان نے اور پھر امیر امان اللہ خان نے بار بار تکذیب رسول کا تجربہ کیا.اور اپنے ملک سے استیصال احمدیت میں انتہا کر دی.خدا تعالیٰ نے بھی اپنی گرفت کا حکم صادر کیا.اور امیر عبدالرحمن خان کو فالج سے ہلاک کر دیا.امیر حبیب اللہ خان اور اس کے بھائی سردار نصر اللہ خان اور فرزند حیات اللہ خان کو قتل کرا دیا.سردار نصر اللہ خان کا نو جوان بیٹا امیر امان اللہ خان سے مروا دیا.اور سردار علی احمد جان کو توپ سے اڑا دیا.اور امیر امان اللہ خان کو تاج و تخت سے محروم کر کے ہمیشہ کے لئے افغانستان کے ملک سے خارج کر دیا.اور ان زور آور حملوں سے ثابت کیا.کہ کون حق پر تھا.اور کون خدا کے نزدیک ناحق پر تھا.- شہداء احمدیہ: جس وقت حضرت ملا عبدالرحمن (۱) مارا گیا.حضرت سید عبد اللطیف (۲) کو شہید کیا گیا.حضرت نعمت اللہ خان (۳) اور حضرت عبد الحليم (۴) حضرت قاری نور علی(۵) حضرت محمد سعید جان ( ۶ ) - حضرت محمد عمر جان ( ۷ ) - حضرت سید سلطان (۸) - حضرت سید حکیم (۹) مظلوم مارے گئے.اور قاتلوں نے خیال کیا کہ بس وہ غالب ہو گئے.اور احمدیت مٹ گئی.خدا تعالیٰ نے آخر کار ان کو وہ ہاتھ دکھائے.کہ

Page 169

خاندان امیر کے علاوہ ڈاکٹر عبدالغنی کا جوان بیٹا ہلاک کر دیا.قاضی عبدالسمیع مارا گیا.قاضی عبد الرحمن کو ہ دامنی کا بند بند جدا کر کے ہلاک کر دیا گیا.خدا کے کام : ذرا غور اور تدبر سے کام لو.اورسوچو.ایک ایک دو دو ہو کر تنہائی میں ٹھنڈے دل سے تعصب کو دور کر کے غور کرو.کہ جماعت احمد یہ ایک کمزور اور غریب جماعت ہے.اگر کوئی طاقت اور قوت بھی رکھتی ہے.تو اس طرح اپنے مخالف گروہ شاہان کا بل سے اپنے مظلوم اور معصوم شہدا کے خون کا بدلہ اور انتقام نہ لے سکتی اور پھر شان و شوکت کے ساتھ جس طرح لیا گیا.یہ صرف خدا تعالیٰ کا کام تھا.اور اہل حق کی تائید میں تھا.ہزار ہا کتب اور نقلی اور عقلی دلائل سے بڑھ کر یہ خدا تعالیٰ کی عملی اور فعلی تائید صداقت حضرت مسیح موعود پر ہے جو ہمارے قومی اور قادر خدا نے دکھائی.جس نے خود بخو دایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ امیر عبدالرحمن خان کو اپنے رنگ میں اور امیر حبیب اللہ خان کو اور اس کے اراکین سلطنت کو اپنے رنگ میں اور امیر امان اللہ خان کو اپنے رنگ میں اور اس کے معتمدین کو اپنے رنگ میں مواخذہ کیا.اور چوروں اور رہزنوں کو اپنے رنگ میں سزا دی.درس عبرت : اگر ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کو شکست دے دے.تو کوئی نئی بات نہیں.البتہ ایک بے سروسامان چوروں کا گر وہ اٹھ کر ایک قوی بادشاہ اس کی افواج کو عین دارالسلطنت میں کروڑوں روپے کے خزانہ اور اسلحہ و بارود کے ہوتے ہوئے نہ صرف بے دست و پا کر دے.بلکہ اوسان باختہ کر کے تخت و تاج سے بیزار کر کے ملک کی حدود سے ہی باہر نکال دے.یہ کیسی

Page 170

ذلت ہے.یا تو اسی سال امیر امان اللہ خان سیاحت یورپ میں اپنے اقبال و عروج کے انتہاء پر پہنچ جائے.اور نپولین کے بسترے میں پیرس میں استراحت کرے.یا پھر اسی سال ہی تحت الثریٰ میں جا گرے.کہ بیوی کو دشمن کے ہاتھ میں چھوڑ کر خود کپڑے تک بھول جاوے.اور جان بچانے کو ہی غنیمت جانے.آخر یہ سب کچھ کیوں واقع ہوا.کیا یہ سب اتفاقات ہیں نہیں بلکہ سب کچھ ارادہ الہی کے ماتحت ہوا ہے یہ احمد کی دشمنی کا وبال بالیقین رائے یہ ہماری ہے فصل ششم افغانستان میں چند اور شہداء احمدیت کی شہادت مندرجہ ذیل چند ا حمدی زمانہ حکومت محمد ظاہر شاہ میں شہید ہوئے.جو حکام مقامی کی غفلت اور کمزوری کا نتیجہ ہے.ولی داد خاں : یہ نوجوان خوست کا باشندہ تھا.قادیان آیا - احمدی ہوا.تعلیم پائی.کمپونڈری پاس کی.شمالی وزیرستان میں دوکان کھولی.اور اہل ملک کی خدمت بحیثیت کمپونڈ ر شروع کی.اس کے رشتہ دار آئے اس سے ملے.اس کو شادی کی لالچ دی.اس نے رشتہ داروں میں شادی کی.ایک لڑکا ہوا.وہ صاحب جائداد تھا.اس کے ورثاء نے شادی کے ذریعہ اس کو دھوکا دیا.اور وطن لے گئے.وہاں اس کی جائداد پر قبضہ کرنے کی غرض سے اس کو اور اس کے لڑکے خورد سال کو قتل کر دیا.اور مقامی حکام یہ جان کر کہ مقتول

Page 171

۱۶۹ شہید احمدی تھا.قاتلوں کی سزا میں غفلت اور چشم پوشی سے کام لیا.یہ واقعات ۱۹۳۴ء کے قریب کے ہیں.محمد داؤ دخاں : یہ نوجوان قوم کا جاجی تھا.پیواڑ کوتل کے پاس ایک گاؤں کا باشندہ تھا.ربوہ جلسہ سالانہ ۱۹۵۵ء پر آیا.بیعت کی اور چند دن قیام کیا.اور جب وطن واپس ہوا.تو بعض ملاؤں نے ہلڑ مچایا کہ داؤ دخان احمدی ہو گیا اور کافر اور مرتد ہو گیا.اور اس کے گھر پر حملہ آور ہوئے اور اس کو گرفتار کیا.اس کو مرتد ہونے پر مجبور کرنا چاہا.اس نے استقامت دکھائی اور مرتد نہ ہوا.ملاؤں اور بدمعاشوں نے اس کو ایک درخت سے باندھ کر چاند ماری کر دی اور یہ نوجوان شہید ہوا مگر مرتد ہونا پسند نہ کیا.یہ واقعہ ابتدا مارچ ۱۹۵۶ء کا ہے.حکومت کے کمزور طبع حاکم نے قاتلوں سے کوئی باز پرس نہ کی.حاجی فضل محمد خاں : یہ حاجی صاحب ذی علم ، سادہ مزاج اور متقی انسان تھے.عرصہ دراز سے احمدی تھے یہ بھی حاجی قبیلہ سے تھے.جو پیواڑ کو تل کے قریب کے ایک گاؤں کے باشندہ تھے.ان کے رشتہ داران سے رشتہ کے خواہاں تھے.حاجی صاحب راضی نہ ہوتے تھے.حاجی صاحب چارسدہ قرب پشا ورسول کوارٹرز کی مسجد احمد یہ میں نقیب بھی رہے ہیں.۱۹۵۷ء میں ان کے رشتہ دار آئے.ان کو قرآن کریم پر حلف اٹھا کر تسلی دی کہ آپ ہمارے ساتھ وطن چلیں اور ہم ہر طرح آپ کو اچھی حالت میں رکھیں گے.مگر ان کے دل میں ان کے قتل کا ارادہ تھا.اور ان کی جائداد پر قبضہ پانا تھا.حاجی صاحب سادہ دلی سے ان کے حلف پر اعتبار کر کے چلے گئے.وطن پہنچ کر ان کے رشتہ داروں

Page 172

نے ان پر حملہ کر دیا.اور ان کو اور ان کے خورد سالہ بچہ کو قتل کر دیا.اور ان کی بیوی اور لڑ کی پر قبضہ کر لیا.اور حکومت نے چشم پوشی کی اور حاجی صاحب شہید ہو گئے.محمد احمد نے یہ نوجوان محمد احمد - خانمیرہ صاحب ساکن دہ سبزہ کا بل کا فرزند تھا.مولوی فاضل تھا.قادیان میں پیدا ہوا.اور تعلیم پائی.کمپونڈ ر کا امتحان پاس کیا.اور ٹل ضلع کو ہاٹ میں دوکان کرتا تھا.باشندگان ٹل اور کابل خیل وزمیر اس کی خدمات سے خوش تھے.ایک متعصب ملا محمد نامی ساکن ہڑکانے فریب سے اس کو اپنے گھر بلوایا اور محمد احمد اعتبار کر کے..چلا گیا.ملا کا اپنا بچہ بلانے آیا تھا.کہ ہمارے گھر مریض ہے علاج کریں جب محمد احمد وہاں پہنچا.تو ملا محمد نے بندوق اٹھا کر محمد احمد پر فائر کر دیا.اور اس کو شہید کر دیا.یہ واقعہ ۲۹ / جون ۱۹۵۷ء کا ہے-انا الله و انا اليه راجعون- ا عزیزم مولوی محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۳۳ ء میں کابل سے دوسری بار قادیان آیا.اس وقت مرحوم قریباً چھ سات برس کا خورد سال معصوم صورت بچہ تھا.پشتو اور قدرے فارسی کے علاوہ اردو اور پنجابی زبان سے ناواقف تھا.خاکسار اور مرحوم کے والدین ایک ہی محلہ ناصر آباد میں رہتے تھے.عزیزم مرحوم کے والدین کی خواہش پر خاکسار سے مدرسه المتفرقین میں جہاں پر خاکسار حضرت مولوی امام الدین رضی اللہ عنہ آف گو لیکے کا نا ئب معلم تھا.اپنے ساتھ لے جاتا اور فارسی زبان کے ذریعہ اردو کا قاعدہ پڑھاتا.اور اردو پڑھ لینے کے بعد عزیزم مرحوم با قاعدہ ا پرائمری اور ازاں بعد مدرسہ احمدیہ میں دینی تعلیم حاصل کر کے ٹل میں مقیم ہو گیا.اور کمپونڈری سیکھ کر خلق خدا کی خدمت میں مصروف تھا.ایک ملا نے دھو کے سے گھر بلا کر شہید کر دیا.انا للہ و انا اليه راجعون - خاکسار حکیم عبداللطیف شاہد تا جر کتب لا ہورور بوہ.سابق باڈی گارڈ حضرت سید نا حضرت خلیفہ ایک ایدہ اللہ تعالی.

Page 173

ایک مظلوم احمدی کا ترانہ احمد کی پیروی میں ستایا گیا ہمیں اور بدترین خلق دکھایا گیا ہمیں مومن تھے ہم مگر ہمیں کافر کہا گیا فتوائے قتل و رجم سنایا گیا ہمیں مال و متاع جو لوٹ سکے لوٹ لے گئے موقع ملا تو زندہ جلایا گیا ہمیں بیوجہ ہم دھرے گئے زندانیوں کے ساتھ نانِ نمک بنا کے کھلایا گیا ہمیں کوڑوں سے کر دیئے گئے گھائل ہمارے جسم کانٹوں پا برہنہ چلا گیا ہمیں ہاتھوں میں جھکڑی پڑی پاؤں میں بیڑیاں چکی کا پاٹ سر پہ دہرایا گیا ہمیں بس میں جو ان کے آیا اسے کر دیا ہلاک آماجگاہ ظلم بنایا گیا ہمیں بے جرم و بے قصور گرفتار کر لئے اور مجرموں کے ساتھ چلایا گیا ہمیں جو گوسپند سمجھے تھے وہ گرگ بن گئے اور خون کے آنسوؤں سے رلایا گیا ہمیں گرمی میں سخت پیاس سے جب العطش کہا تب آب گرم لا کے پلایا گیا ہمیں قطع تعلقات کو ہم سے رکھا روا منکوحہ بیویوں سے چھڑایا گیا ہمیں بستر ہمارے چھین لئے فرش خاک پر زنداں میں پھر برہنہ سُلایا گیا ہمیں پایا جو ہم کو ہر طرح پر مستقل مزاج! جھنجوڑ کر کے خوب ہلایا گیا ہمیں جب سختیوں سے ہم کو وہ مرتد نہ کر سکے الٹا لٹا کے خوب پٹایا گیا ہمیں احمد نبی کو گالیاں دیں مفتری کہا ناحق ناحق یہ ظلم کر کے دکھایا گیا ہمیں ظالم نے ہم سے چاہا بھلانا وہ راستہ وحی خدا سے جو کہ دکھایا گیا ہمیں اس منتقم نے ظالموں سے لے لے کے انتقام انجام بد ہر اک کا بتایا گیا ہمیں یوسف خدا کے فضل سے ہم بھولتے ہیں کب.احمد کا درس جو کہ پڑھایا گیا ہمیں ۳۱ جولائی ۱۹۵۸ء

Page 173