Shuhada-eLahore

Shuhada-eLahore

شہدائے لاہور کا ذکر خیر

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
شہدائے احمدیت

شہدائے احمدیت کی لازوال اور عجوبہ روزگار قربانیوں سے جماعت  کی صدسالہ تاریخ معطر ہے۔ سال 2010ء میں 28مئی کو جمعۃ المبارک کا دن تاریخ احمدیت میں ہمیشہ زندہ رہے گا جب لاہور شہر کی مرکزی مساجد میں دنیا کی مصروفیات چھوڑ کر محبت الٰہی کی خاطر جمع ہونے والے سینکڑوں نہتے اورمعصوم احمدیوں پر مسلح اور سفاک دہشت گردوں نے نہایت بے دردی سے گولیوں اور گرنیڈوں کی بوچھاڑ کردی اور ان احمدی پیروجوان نے اجتماعی شہادت کو مومنانہ شان سے قبول کیا اور خدا کے پیارے ٹھہرے۔ جماعتی تاریخ کی اس سب سے دردناک  اور سب سے بڑی اجتماعی قربانی میں 86 احمدی شہید اور متعدد شدید زخمی ہوئے۔یہ سب لوگ احمدیت کی تاریخ میں ان شاء اللہ ہمیشہ روشن ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے۔ اجتماعی قربانی کے اس واقعہ پر حضرت امیر المومنین مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 28 مئی سے 9 جولائی تک اپنے خطبات جمعہ میں ان شہداء اور زخمیوں کی جرأت وبہادری ، عزم و ہمت اور ان کے پسماندگان کے صبر و استقامت کے عظیم الشان اور درخشندہ نمونوں اور شہدائے لاہور کے اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ کا بہت ہی قابل رشک اور دلگداز تذکرہ فرمایا۔ اسی تسلسل میں حضور انور نے جلسہ سالانہ جرمنی 2010ء کے موقع پر 27 جون کو نہایت ہی پرشوکت، جلالی شان والا اور ولولہ انگیزاختتامی خطاب فرمایا تھا۔ یہ کتاب انہی 7 خطبات جمعہ اور اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 2010ء پر مشتمل ہے۔ اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز انگلستان کی طرف سے شائع کردہ اس ٹائپ شدہ کتاب کے آخر پر شہداء کی تصاویر بھی شامل ہیں۔


Book Content

Page 1

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لَّا تَشْعُرُونَ اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو مردے نہ کہو بلکہ (وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.شہداء لا ہور کا ذکر خیر (البقرة: 155) حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ایده الله تعالیٰ بنصره العزيز

Page 2

شہداء لا ہور کا ذکر خیر حضرت مرزا مسر و ر احمد خليفة المسيح الخامس ایده الله تعالیٰ بنصره العزيز

Page 3

شہدا ءلاہور کا ذکر خیر (Eulogy to the Lahore Martyrs) By: Hadrat Mirza Masroor Ahmad, Khalifatul Masīḥ V, Head of the Worldwide Ahmadiyya Muslim Community) First Published in [Urdu] in UK in: 2010 Ⓒ Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd."Islamabad", Sheephatch Lane, Tilford, Surrey, GU10 2AQ Printed at: Cover Design by: Omair Aleem ISBN: 978 1 84880 108 0

Page 4

پیش لفظ جمعۃ المبارک 28 رمئی 2010ء کو عین اس وقت جب کہ سینکڑوں احمدی نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے لاہور کی دو بڑی احمد یہ مساجد ، دارالذکر ( گڑھی شاہو ) اور بیت النور ماڈل ٹاؤن ) میں جمع تھے بعض خود کش مسلح دہشتگردوں نے ان احمد یہ مساجد پر گولیوں اور گرنیڈوں کی اندھا دھند بوچھاڑ اور خود کش بم دھماکوں کے ذریعہ حملہ کر کے معصوم اور نہتے نمازیوں کا بے دریغ خون بہایا.یہ سفا کا نہ کارروائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی.اس نہایت ظالمانہ اور بہیمانہ حملہ کے نتیجہ میں 86 احمدی شہید اور متعدد شدید زخمی ہوئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اجتماعی شہادت کا یہ سب سے بڑا اور نہایت دردناک واقعہ ہے.امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 28 مئی سے 9 جولائی تک اپنے خطبات جمعہ میں ان شہیدوں اور زخمیوں کی جرات و بہادری ، عزم و ہمت اور ان کے پسماندگان کے صبر و استقامت کے عظیم الشان اور درخشندہ نمونوں اور شہدائے لاہور کے اخلاق حسنہ اور خصائل حمیدہ کا بہت ہی قابل رشک اور دلگد از تذکرہ فرمایا.اسی تسلسل میں حضور نے جلسہ سالانہ جرمنی 2010 ء کے موقع پر 27 جون کو نہایت ہی پر شوکت، جلالی شان والا اور ولولہ انگیز اختتامی خطاب فرمایا.یہ کتاب انہی سات خطبات جمعہ اور اختتامی خطاب بر موقع جلسہ سالانہ جرمنی 2010 ء پر مشتمل ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اور حضور کی ہدایات کے مطابق ان خطبات اور خطاب کا وہ حصہ جو براہ راست اس موضوع سے متعلق نہیں تھا اسے اس کتاب میں شامل نہیں کیا گیا.اسی طرح بعض دیگر ضروری تصحیحات و ترمیمات کی گئی ہیں.نیز شہداء کرام کی تصاویر کتاب میں دی جارہی ہیں.جیسا کہ حضور ایدہ اللہ نے فرمایا: ” یہ سب لوگ...احمدیت کی تاریخ میں انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ روشن ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گئے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جون 2010 ء) حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی زبان مبارک سے شہداء لاہور کا یہ

Page 5

عظیم الشان اور بصیرت افروز ذکر خیر جہاں ان شہداء کے لئے زبردست خراج تحسین ہے وہاں یہ پیچھے رہنے والوں کے دلوں میں اخلاص و وفا اور قربانی کی نئی شمعیں روشن کرنے والا ہے.ان جانے والے ہیروں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے چمکدار ستاروں کی صورت میں آسمان اسلام اور احمدیت پر سجا دیا جس نے نئی کہکشائیں ترتیب دے دی ہیں اور ان کہکشاؤں نے ہمارے لئے نئے راستے متعین کر دیئے ہیں.(خطبہ جمعہ فرمود 4 جون 2010ء) شہدا ءلاہور کے اس ذکر خیر سے جماعت احمدیہ کی حقانیت اور عظمت و شان خلافت حقہ اسلامیہ احمد یہ بھی خوب نمایاں ہے.یہ ذکر خیر للہی محبت ومودت کے اس عظیم الشان اور اٹوٹ تعلق کا بھی آئینہ دار ہے جو خلیفہ وقت اور جماعت کے درمیان پایا جاتا ہے.اور اس سے حضرت مسیح موعود اللہ اور آپ کے مقدس خلفاء کی تربیت یافتہ جماعت کے مثالی نظم و ضبط ،صبر و استقامت ،عسر ویسر ہر حال میں راضی برضاء الہی ہونے ، اخلاق حسنہ پر مضبوطی سے قائم رہنے اور اعلیٰ دینی اقدار کی حفاظت جیسے بلند کردار کی بھی نمایاں طور پر عکاسی ہوتی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ : ” انشاء اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کی لاج پیچھے رہنے والا ہر احمدی رکھے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جون 2010ء) اللہ تعالیٰ ان سب شہیدوں کے درجات بلند تر کرتا چلا جائے اور ہم بھی ہمیشہ استقامت کے ساتھ دین کی خاطر قربانیاں دیتے چلے جانے والوں میں سے ہوں“.(خطبہ جمعہ فرمود 4 جون 2010ء ).آمین.خاکسار نصیر احمد قمر (ایڈیشنل وکیل الاشاعت.لندن)

Page 6

نمبر شمار انڈیکس فہرست مضامین خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 2010ء انسان اور آدم کی تخلیق کے ساتھ ہی شیطان نے اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیئے.ابلیس اور شیطان کے چیلے اپنا زور لگاتے رہتے ہیں کہ کسی طرح سے، کسی بھی رنگ میں وسوسے پیدا کر کے اللہ کے بندوں کے دلوں میں شکوک ڈالتے رہیں.انہیں قتل وغارت کے ذریعہ سے خوف دلاتے رہیں، مالی نقصان کے ذریعہ سے خوف دلاتے رہیں.چھپ کے حملوں کے ذریعہ سے بھی خوف دلائیں.ظاہری حملوں کے ذریعہ سے بھی خوف دلائیں.مخالفین کا انبیاء کو نہ ماننا اور شیطان کے قبضہ میں جانا ان کے تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے.خدا کے فرستادہ کی تو ہین خدا کی توہین ہے.لاہور میں دو مساجد پر ماڈل ٹاؤن اور دارالذکر میں خودکش حملے.متعدد افراد شہید اور بعض شدید زخمی مخالفین نے جو یہ اجتماعی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اللہ تعالیٰ یقیناً اس کا بدلہ لینے پر قادر ہے.کس ذریعہ سے اس نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھانا ہے، کس طرح اس نے ان فساد اور ظلم بجالانے والوں کو پکڑنا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے.جب یہ دشمنیاں بڑھ رہی ہیں تو ہمیں دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.احمدی اپنی دعاؤں میں مزید درد پیدا کریں.اللہ تعالیٰ ان کے تکبر، ان کی شیطنت، ان کی بڑائی، ان کی طاقت کے زعم کو اپنی قدرتوں اور طاقتوں کا جلوہ دکھاتے ہوئے خاک میں ملا دے.اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ان اسیروں، زخمیوں اور شہیدوں کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی اور شیطان اور اس کے چیلے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے.i مو نمبر 1

Page 7

15 35 خطبه جمعه فرموده 4 رجون 2010ء لاہور کی احمد یہ مساجد پر حملہ کے نتیجہ میں شہید اور زخمی ہونے والوں کی جرأت و بہادری، عزم و ہمت اور ان کے پسماندگان کے صبر واستقامت کے عظیم الشان اور درخشندہ نمونے.شہدائے لاہور کی قربانیوں کا دلگد از تذکرہ.یہ صبر ورضا کے پیکر اپنے زخموں اور ان سے بہتے ہوئے خون کو دیکھتے رہے لیکن زبان پر حرف شکایت لانے کی بجائے دعاؤں اور درود سے اپنی اس حالت کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتے رہے.احمدی خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنے والے اور اس کی پناہ میں آنے والے لوگ ہیں.خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہونے والے لوگ ہیں.یہ اس مسیح کے ماننے والے ہیں جو اپنے آقا ومطاع حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنے آیا تھا.ہمارا کام صبر اور دعا سے کام لینا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہر احمدی اس پر کار بند رہے گا.احمدیوں کے خلاف دہشتگر دی کو قانون کا تحفظ حاصل ہے.اللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ.اور رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِيْ وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي کی دعائیں پڑھیں.اس کے علاوہ بھی بہت دعائیں کریں.ان جانے والے ہیروں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے چمکدار ستاروں کی صورت میں آسمان اسلام اور احمدیت پر سجا دیا جس نے نئی کہکشائیں ترتیب دی ہیں.نارووال میں مکرم نعمت اللہ صاحب کو چھریوں کا وار کر کے شہید کر دیا گیا.شہدائے لا ہورا اور مکرم نعمت اللہ صاحب کی نماز جنازہ غائب.خطبه جمعه فرموده 11 جون 2010ء لاہور میں جمعہ کے دوران دہشتگردوں کے ظلم وسفا کی کا نشانہ بننے والے شہداء کا در دانگیز تذکرہ.

Page 8

یہ سب لوگ احمدیت کی تاریخ میں انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ روشن ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کی قربانی کی لاج پیچھے رہنے والا ہر احمدی رکھے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا.وو جو لوگ شہداء کی فیملیوں کے لئے کچھ دینا چاہتے ہوں وہ سیدنا بلال فنڈ میں 38 لله له من ب 45 47 دے سکتے ہیں 1 مکرم منیر احمد شیخ صاحب شہید (امیر ضلع لاہور ) ابن مکرم شیخ تاج دین صاحب مکرم میجر جنرل ریٹائرڈ ناصر احمد چوہدری صاحب شہید ابن مکرم چوہدری صفدر علی صاحب 43 3 مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب شہیدا بن مکرم مہر راجہ خان بھروانہ صاحب 4 مکرم محمد اشرف بلال صاحب شہیدا بن مکرم عبداللطیف صاحب 5 مکرم کیپٹن (ریٹائرڈ) مرزا نعیم الدین صاحب شہید ابن مکرم مرز اسراج دین صاحب 48 مکرم کامران ارشد صاحب شہید ابن مکرم محمد ارشد قمر صاحب 7 مکرم اعجاز احمد بیگ صاحب شہید ابن مکرم محمد انور بیگ صاحب مکرم مرزا اکرم بیگ صاحب شہیدا بن مکرم مرزا منور بیگ صاحب 9 مکرم منور احمد خان صاحب شہیدا بن مکرم محمد ایوب خان صاحب 10 مکرم عرفان احمد ناصر صاحب شہیدا بن مکرم عبدالمالک صاحب 11 مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب شہیدا بن مکرم مہر اللہ یار بھر روانہ صاحب 12 مکرم مسعود احمد اختر باجوہ صاحب شہید ابن مکرم محمد حیات باجوہ صاحب 13 مکرم محمد آصف فاروق صاحب شہید ابن مکرم لیاقت علی صاحب 14 مکرم شیخ شمیم احمد صاحب شہیدا ابن مکرم شیخ نعیم احمد صاحب 15 مکرم محمد شاہد صاحب شہید ابن مکرم محمد شفیع صاحب 16 مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب شہید ابن مکرم عبدالمجید صاحب 17 مکرم ولید احمد صاحب شہید ابن مکرم چوہدری محمد منور صاحب 49 50 51 52 52 53 54 55 57 58 59 60

Page 9

18 مکرم محمد انور صاحب شہیدا بن مکرم محمد خان صاحب 19 مکرم ملک انصار الحق صاحب شہیدا بن مکرم ملک انوارالحق صاحب 20 مکرم ناصر محمود خان صاحب شہید ابن مکرم محمد عارف نیم صاحب 21 مکرم عمیر احمد ملک صاحب شہید ابن مکرم ملک عبدالرحیم صاحب 22 مکرم سردار افتخار الغنی صاحب شہید ابن مکرم سردار عبدالشکور صاحب خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 2010ء 23 مکرم عبدالرشید ملک صاحب شہیدا بن مکرم عبد الحمید ملک صاحب 24 مکرم محمد رشید ہاشمی صاحب شہید ابن مکرم محمد منیر شاہ ہاشمی صاحب 25 مکرم مظفر احمد صاحب شہید ابن مکرم مولانا محمد ابراہیم صاحب قادیانی در ولیش 26 مکرم میاں مبشر احمد صاحب شہید ابن مکرم میاں برکت علی صاحب 27 مکرم فدا حسین صاحب شہید ابن مکرم بہادر خاں صاحب 28 مکرم خاور ایوب صاحب شہید ابن مکرم محمد ایوب خان صاحب 29 مکرم شیخ محمد یونس صاحب شہید ابن مکرم شیخ جمیل احمد صاحب 30 مکرم مسعود احمد بھٹی صاحب شہید ابن مکرم احمد دین صاحب 31 مکرم حاجی محمد اکرم ورک صاحب شہید ابن مکرم چوہدری اللہ دتہ درک صاحب 32 مکرم میاں لئیق احمد صاحب شہید ابن مکرم میاں شفیق احمد صاحب 33 مکرم مرزا شابل منیر صاحب شہید ابن مکرم مرزا محمدمنیر صاحب 34 مکرم ملک مقصود احمد صاحب شہید ( سرائے والا ) ابن مکرم ایس اے محمود صاحب 35 مکرم چوہدری محمد احمد صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر نور احمد صاحب 36 مکرم الیاس احمد اسلم قریشی صاحب شہید ابن مکرم ماسٹر محمد شفیع اسلم صاحب 37 مکرم طاہر محمود احمد صاحب شہید ابن مکرم سعید احمد صاحب 38 مکرم سید ارشاد علی صاحب شہید ابن مکرم سید سمیع اللہ صاحب 39 مکرم نور الامین صاحب شہید ابن مکرم نذیر نیم صاحب 62 63 64 65 66 69 71 72 73 8 8 8 يا الله الله له له لا له لا 74 76 77 78 79 80 81 81 83 84 87 88 88 90 40 مکرم چوہدری محمد مالک صاحب چدھڑ شہید ابن مکرم چوہدری فتح علی صاحب 90 iv

Page 10

41 مکرم شیخ ساجد نعیم صاحب شہید ابن مکرم شیخ امیر احمد صاحب 42 مکرم سید لئیق احمد صاحب ابن مکرم سید محی الدین صاحب 43 مکرم محمد اشرف بھلر صاحب شہید ابن مکرم محمد عبداللہ صاحب 44 مکرم مبارک احمد طاہر صاحب شہیدا بن مکرم عبدالمجید صاحب 45 مکرم انیس احمد صاحب شہید ابن مکرم صوبیدار منیر احمد صاحب 46 مکرم منور احمد صاحب شہید ابن مکرم صوبیدار منیر احمد صاحب 47 مکرم سعید احمد طاہر صاحب شہیدا بن مکرم صوفی منیر احمد صاحب خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جون 2010ء 92 93 95 96 97 98 99 103 105 113 115 116 48 مکرم خلیل احمد سونگی صاحب شہید ابن مکرم نصیر احمد سولنگی صاحب 49 مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب شہید ابن مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب 109 50 مکرم چوہدری حفیظ احم کاہلوں صاحب ایڈووکیٹ شہید ابن مکرم چوہدری نذیر حسین سیالکوٹی صاحب 112 51 مکرم چوہدری امتیاز احمد صاحب شہیدا بن مکرم چوہدری نثار احمد صاحب 52 مکرم اعجاز الحق صاحب شہیدا بن مکرم رحمت حق صاحب 53 مکرم شیخ ندیم احمد طارق صاحب شہید ابن مکرم شیخ محمد منشاء صاحب 54 مکرم عامرلطیف پراچہ صاحب شہید ابن مکرم عبد اللطیف پراچہ صاحب 55 مکرم مرزا ظفر احمد صاحب شہیدا بن مکرم مرز اصفدر جنگ ہمایوں صاحب 56 مکرم محمود احمد صاحب شہید ابن مکرم اکبر علی صاحب 57 مکرم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب شہید ابن مکرم شیخ شمس الدین صاحب 58 مکرم مرزا منصور بیگ صاحب شہید ابن مکرم مرزا سرور بیگ صاحب 59 مکرم میاں منیر عمر صاحب شہیدا بن مکرم مولوی عبدالسلام عمر صاحب 60 مکرم ڈاکٹر طارق بشیر صاحب شہیدا بن مکرم چوہدری یوسف خان صاحب 61 مکرم ارشد محمود بٹ صاحب شہید ابن مکرم محمود احمد بٹ صاحب 62 مکرم محمد حسین ملہی صاحب شہید ابن مکرم محمد ابراہیم صاحب 63 مکرم مرزا محمد امین صاحب شہید ابن مکرم حاجی عبدالکریم صاحب 117 118 120 121 123 124 125 126 127 128 V

Page 11

64 مکرم ملک زبیر احمد صاحب شہیدا بن مکرم ملک عبدالرشید صاحب 65 مکرم چوہدری محمدنواز حجہ صاحب شہیدا بن مکرم چوہدری غلام رسول حجہ صاحب 66 مکرم شیخ مبشر احمد صاحب شہید ابن مکرم شیخ حمید احمد صاحب خطبہ جمعہ فرمودہ 02/ جولائی 2010ء 67 مکرم عبد الرحمن صاحب شہید ابن مکرم محمد جاوید اسلم صاحب 68 مکرم نثار احمد صاحب شہیدا بن مکرم غلام رسول صاحب 128 130 131 133 135 137 69 مکرم ڈاکٹر اصغر یعقوب خان صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب 138 70 مکرم میاں محمد سعید در د صاحب شہید ابن مکرم حضرت میاں محمد یوسف صاحب 71 مکرم محمد یحیی خان صاحب شہید ابن مکرم حضرت ملک محمد عبد اللہ صاحب 72 مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر عبدالشکور میاں صاحب 73 مکرم لعل خان ناصر صاحب شہید ابن مکرم حاجی احمد صاحب 74 مکرم ظفر اقبال صاحب شہید ابن مکرم محمد صادق صاحب 75 مکرم منصور احمد صاحب شہید ابن مکرم عبدالحمید جاوید صاحب 76 مکرم مبارک علی اعوان صاحب شہیدا ابن مکرم عبدالرزاق صاحب 77 مکرم عتیق الرحمن ظفر صاحب شہید ابن مکرم محمد شفیع صاحب 78 مکرم محمود احمد صاحب شہید ابن مکرم مجید احمد صاحب خطبہ جمعہ فرمودہ 09/جولائی 2010ء 79 مکرم احسان احمد خان صاحب شہید ابن مکرم وسیم احمد خان صاحب 80 مکرم منور احمد قیصر صاحب شہید ابن مکرم میاں عبدالرحمن صاحب 81 مکرم حسن خورشید اعوان صاحب شہید ابن مکرم ملک خورشید اعوان صاحب 139 140 142 146 149 152 154 156 157 159 161 162 164 82 مکرم محترم محمود احمد شاد صاحب شہید (مربی سلسلہ ) ابن مکرم چوہدری غلام احمد صاحب 165 مکرم وسیم احمد صاحب شہید ابن مکرم عبدالقدوس صاحب 84 مکرم ملک و سیم احمد صاحب شہید ابن مکرم محمد اشرف صاحب مکرم نذیر احمد صاحب شہیدا بن مکرم محمد یسین صاحب 171 174 176 vi

Page 12

177 185 86 مکرم محمد حسین صاحب شہید ابن مکرم نظام دین صاحب ان سب شہداء میں بعض اعلیٰ صفات قدر مشترک کے طور پر نظر آتی ہیں.مثلاً ان کا نمازوں کا اہتمام اور اپنے بچوں اور گھر والوں کو بھی اس طرف توجہ دلا نا.تہجد اور نوافل کا التزام، گھریلو زندگی میں اور گھر سے باہر بھی ہر جگہ اخلاق حسنہ کا مظاہرہ.جماعتی غیرت کا بے مثال اظہار ، اطاعت نظام کا غیر معمولی نمونہ، دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے سارے حقوق کی ادائیگی کے باوجود جماعت کے لئے وقت نکالنا.پھر یہ کہ خلافت سے غیر معمولی تعلق ،محبت اور اطاعت کا اظہار.شہداء جو شہادت کے مقام پر پہنچے یقیناً یہ شہادت کا رتبہ ان کے لئے عبادتوں کی قبولیت اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حق ادا کرنے کی سند لئے ہوئے ہے.یہ لوگ تھے جنہوں نے عبادات اور اعمال صالحہ کے ذریعہ سے نظام خلافت کو دائمی رکھنے کے لئے آخر دم تک کوشش کی اور اس میں نہ صرف سرخرو ہوئے بلکہ اس کے اعلیٰ ترین معیار بھی قائم کئے.ہمارا فرض ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ان قربانیوں کا حق ادا کریں.خطاب فرموده 27 جون 2010ء بر موقع جلسہ سالانہ جرمنی آج بھی جو ظلم جماعت پر پاکستان میں روا رکھا جا رہا ہے اور جس کی انتہائی بہیمانہ اور ظالمانہ صورت لاہور میں احمدیوں پر اجتماعی حملے کی صورت میں سامنے آئی اور حملہ بھی خدا کے گھر میں، خدا کی عبادت کرنے والے نہتے احمد یوں پر.تو کیا اُس وقت جب حملہ ہو رہا تھا، اُس وقت جس صبر اور حوصلہ اور اضطرار سے احمدی دعائیں کر رہے تھے اور اس کے بعد آج تک احمدیوں میں اضطراری کیفیت قائم ہے اور دعاؤں میں مصروف ہیں، تو کیا خدا تعالیٰ ان دعاؤں کو نہیں سنے گا ؟ سنے گا اور انشاء اللہ یقیناً سنے گا.یہ اس کا وعدہ ہے.یہ ظلم جو خدا کے نام پر خدا والوں سے روا رکھا گیا اور رکھا جا رہا ہے، کیا اس بات پر خدا کی غیرت جوش نہیں دکھائے گی ؟ دکھائے گی اور یقینا دکھائے گی.vii

Page 13

ہم اپنے مخالفین سے کہتے ہیں کہ ہمیں اس کلمہ کی قسم جو قیامت کے دن ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر کے بتائے گا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ سے حقیقی وفا کرنے والے ہم ہیں کہ تم ؟ اس دنیا میں اپنی عارضی طاقت اور حکومتوں کی پشت پناہی کے زعم میں تم جو ظلم اور سفا کی ہم سے روا رکھ سکتے ہو، رکھ لو.لیکن ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس کلمہ کا یہی حقیقی فہم و ادراک آئندہ ہمیشہ کی زندگی میں جنت کی خوشخبریاں دیتا ہے.اس کلمہ سے ہی ختم نبوت کا حقیقی فہم خدا تعالیٰ سے ہدایت پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمایا ہے.پس لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ اس دنیا میں بھی ہمارے دل کی آواز ہے اور اگلے جہان میں بھی ہمارا گواہ بن کر دشمن کے گریبانوں کو پکڑے گا.انشاء اللہ.ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ان واقعات نے جو جماعتی قربانی کی صورت میں ہوئے جس طرح پہلے سے بڑھ کر ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف راغب کیا ہے، اس جذبے کو، اس ایمانی حرارت کو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی آہ و بکا کے عمل کو ، اپنے اندر پاک تبدیلیوں کی کوششوں کو کبھی کمزور نہ ہونے دیں، کبھی کمزور نہ ہونے دیں، کبھی اپنے بھائیوں کی قربانی کو مرنے نہ دیں جو اپنی جان کی قربانیاں دے کر ہمیں زندگی کے نئے راستے دکھا گئے.viii

Page 14

خطبه جمعه سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ايده الله تعالیٰ بنصره العزيز فرمودہ 28 رمئی 2010ء بمقام بیت الفتوح لندن

Page 15

Page 16

إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلِئِكَةِ إِنِّى خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِيْنِ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ - فَسَجَدَ الْمَلَئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُوْنَ إِلَّا إِبْلِيسَ - (75-72:0) اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا یقیناً میں مٹی سے بشر پیدا کرنے والا ہوں.پس جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑو.اس پر سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں.اس نے استکبار کیا اور وہ تھا ہی کافروں میں سے.ابتدائے عالم سے ہی شیطان اور انسان کی جنگ شروع ہے اور مذہبی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پڑنے کے ساتھ ہی شیطان نے جنگ شروع کر دی تھی.شدت سے انسانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا.اور پھر جو بھی انبیاء کا زمانہ آیا ہر زمانے میں یہ تاریخ دہرائی جاتی رہی ، اور دو ہرائی جارہی ہے.انبیاء جب آتے ہیں تو آ کر انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے دکھاتے ہیں اور شیطان ان میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.پہلے بھی کرتا رہا ہے اور اب بھی کرتا ہے.مختلف طریقوں، حیلوں بہانوں ، لالچوں اور خوف کے ذریعے سے ڈراتا ہے.گمراہی کی طرف لے جاتا ہے.قرآنِ کریم میں بے شمار جگہ اس بات کا ذکر آیا ہے.انسان اور آدم کی تخلیق کے ساتھ ہی شیطان نے اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیئے.قرآنِ کریم میں سورۃ فاتحہ سے لے کر سورۃ الناس تک شیطان کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کے حملوں سے ہوشیار کیا ہے اور بچنے کا حکم دیا ہے اور دعا بھی سکھائی ہے کہ اے اللہ ! ہمیں 3

Page 17

شیطان لعین کے حملوں سے بچا اور ہمیں ہر دم اپنی پناہ میں رکھ.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اپنا محبوب اور قریبی ہونے کا اعلان اس کی پیدائش کے اعلان کے ساتھ کیا اور فرشتوں کو اس کی کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا حکم دیا.تو شیطان نے بڑی رعونت اور تکبر سے کام لیتے ہوئے کہا، میں اس انسان کو سجدہ کروں جو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے؟ جبکہ میں تو اپنے اندر ناری صفات رکھتا ہوں ، آگے آیات میں اس کا ذکر ہے.پس اللہ تعالیٰ نے جب بشر پیدا کیا اور اس میں وہ صلاحیتیں رکھیں جن سے وہ خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو کر قرب خداوندی کے انتہائی مقام تک پہنچ سکتا ہے تو فرشتے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی خدمت پر مامور ہوئے.پس جب اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء بھیجتا ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے الہام ، وحی اور روح القدس سے حصہ پانے والے ہوتے ہیں تو تمام فرشتوں کا نظام ان کی تائید میں کھڑا ہو جاتا ہے، یا اس نبی کی تائید میں کھڑا ہو جاتا ہے.اور وہ نتائج اس کے کام میں پیدا ہوتے ہیں جو اس کے مقصد کو جس مقصد کے لئے وہ آیا ہوتا ہے ترقی کی طرف لے جاتے چلے جاتے ہیں.ایک تقدیر خاص اللہ تعالیٰ کی جاری ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے بعض جگہ بشر کہہ کر اور بعض جگہ آدم کے الفاظ استعمال کر کے اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے.تو تمام عالم اور دوسری مخلوق جو ہے اس کی خدمت پر لگا دی.جب ایک بشر اللہ تعالیٰ کے مقام قرب کا درجہ حاصل کر لیتا ہے اور نبوت کے مقام پر پہنچ کر اپنے وقت کا آدم بن جاتا ہے تو اس کے ساتھ کس قد ر خدا تعالیٰ کی تائیدات ہوتی ہیں اس کا تصور بھی انسانی سوچ سے باہر ہے.ہم دیکھتے ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین پر ظلم کی انتہا ہوئی اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے مدینہ پر کفار نے حملہ کرنے کی نیت سے فوج کشی کی اور پھر بدر کے میدان میں جنگ کا میدان جما تو کس طرح فرشتوں کے ذریعے خدا تعالیٰ نے

Page 18

مسلمانوں کے حق میں جنگ کا پانسا پلٹا.جماعتی سطح پر بھی ہر موقع پر یہ نظارے نظر آتے ہیں.قومی سطح پر بھی نظارے نظر آتے ہیں.انفرادی طور پر بھی انبیاء کے ساتھ یہ سلوک دیکھتے ہیں.پھر جنگ حنین میں بھی یہ نظارہ دیکھا تو ہر موقع پر اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے آپ کی، مومنین کی تائید فرماتا رہا.اور اسلام کی تائید میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور مسلمانوں کی ابتدائی حالت میں ہمیشہ فرشتوں کی ایک فوج ساتھ تھی.بے شک مسلمانوں کے جانی نقصان بھی ہوئے ہیں.مالی نقصان بھی ہوئے ہیں لیکن ابلیس کا گروہ جو ہے وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا.ابلیس اور شیطان کے چیلے اپنا زور لگاتے رہتے ہیں کہ کسی طرح سے، کسی بھی رنگ میں وسوسے پیدا کر کے اللہ کے بندوں کے دلوں میں شکوک ڈالتے رہیں.انہیں قتل و غارت کے ذریعے سے خوف دلاتے رہیں.مالی نقصان کے ذریعے سے خوف دلاتے رہیں.چھپ کے حملوں کے ذریعے سے بھی خوف دلائیں.ظاہری حملوں کے ذریعے سے بھی خوف دلائیں.مخالفین کا انبیاء کو نہ ماننا اور شیطان کے قبضہ میں جانا ان کے تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے جو ان کو نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے کی توفیق نہیں دیتا.اور ہمیشہ ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اس نبوت کے دعویدار اور خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو ماننے والے تو غریب لوگ ہیں اور ہم بڑے لوگ ہیں.ہم صاحب علم ہیں.ہمیں دین کا علم زیادہ پتہ ہے اس لئے ہم کس طرح اس جماعت میں شامل ہو جائیں یا اس کی بیعت کر لیں.آج اس زمانے میں بھی جو زمانے کے امام کو نہیں مانتے تو یہ تکبر ہی ہے جو ان کو نہ ماننے پر مجبور کر رہا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا کہ جو بشر میں نے بنایا ہے اس کو سجدہ کرو تو یہ کوئی ظاہری سجدہ نہیں تھا.ظاہری سجدہ تو صرف خدا تعالیٰ کو کیا جاتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں دین پھیلانے کے لئے میں نے جس شخص کو مبعوث کیا ہے اس کے لئے کامل فرمانبرداری کرتے ہوئے اس کے مشن کو آگے بڑھانے میں اس کی مدد کرو اور شیطانوں کے منصوبوں کو کبھی کامیاب نہ ہونے دو.ان مقاصد کو کبھی شیطان حاصل نہ کر 5

Page 19

سکے.اور شیطان کے تمام منصوبوں کو ناکام و نا مراد کرنے میں نبی کی تائید کرو.اس کا ہاتھ بٹاؤ اور نیک فطرت اور سعید لوگوں کے دلوں میں نبی کے پیغام اور اللہ تعالیٰ کی اس کے ساتھ تائیدات کے سلوک کی پہچان بھی پیدا کرو تا کہ وہ حق کو پہچانیں اور حق کو پہچان کر اس کی جماعت میں شامل ہو جائیں.پھر ایسے لوگ اپنے اندر بھی نفخ روح کے نظارے دیکھیں گے.خدا تعالیٰ کے سلوک کے نظارے دیکھیں گے.اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کا باعث بنتے ہوئے جنتوں کا وارث ٹھہریں گے.نبی کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے میں، فرشتے انسانوں کو بھی جو حکم دیتے ہیں کہ نبی کا پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے اس کے مددگار بن جاؤ تو سعید فطرت لوگوں میں یہ تحریک پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جب تمام فرشتے بھی نبی کی تائید میں فَسَجَدَ الْمَلَئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُوْنَ کا اعلان کرتے ہیں.یعنی اس چیز کا نظارہ پیش کرتے ہیں کہ سب فرشتوں نے سجدہ کیا.اور خارق عادت اور غیر معمولی برکات نبی کے کام میں پڑ رہی ہوتی ہیں.اور فرشتہ صفت انسانوں کے ذریعے بھی اس سجدہ کے نظارے نظر آتے ہیں جو فرمانبرداری کا سجدہ ہے.جو اطاعت کا سجدہ ہے.جو اپنی تمام تر طاقتیں اور صلاحیتیں نبی کے کام کو آگے بڑھانے کا سجدہ ہے.اور وہ نبی کے سلطان نصیر بن کر اس کے کام کو آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں.اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کہہ کر مخاطب کیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ یا درکھو خدا کے فرستادہ کی تو ہین خدا کی توہین ہے.تمہارا اختیار ہے چاہو تو مجھے گالیاں دو کیونکہ آسمانی سلطنت تمہارے نزدیک حقیر ہے.پس آج بھی جو مقابلہ کر رہے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود یا آپ کی جماعت سے مقابلہ نہیں ہے.پھر ایک تفصیل بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ حقیقی خلافت میری ہے یعنی میں خلیفة اللہ ہوں اور پھر اپنے ایک الہام کا ذکر فرمایا کہ أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَم خَلِيفَةَ الله السُّلْطَانَ.کہ میں نے چاہا کہ اپنا خلیفہ بناؤں تو آدم کو پیدا 6

Page 20

کیا جو اللہ کا خلیفہ اور سلطان ہے.آپ فرماتے ہیں.” ہماری خلافت روحانی ہے اور آسمانی ہے.نہ زمینی.مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه 423) پس یہ آدم کا مقام خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی وجہ سے آپ کو عطا فر مایا.اور جب یہ مقام دیا تو جیسا کہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے، فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو.اس خاص بشر کو سجدہ کرو جس کو میں نے اپنے دین کو پھیلانے کے لئے چن لیا ہے.تو غیر معمولی تائیدات کا ایک سلسلہ بھی آپ کے ساتھ شروع ہو گیا.وہ ایک آدمی کروڑوں میں بن گیا.آپ کو الہام یہ تسلی دی گئی کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور میرے فرشتے بھی تیری مدد کے لئے ہمہ وقت مستعد ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا." فَإِنِّي مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَيَنْصُرُهُ الْمَلَئِكَةُ.پس میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور ملائکہ بھی ( تذکره صفحه 309 ایڈیشن چہارم مطبوعه ربوہ ) اس کی مدد کریں گئے“.اور یہ خدا تعالیٰ کی مددکوئی پرانے قصے نہیں ہیں بلکہ اپنے وعدے کے مطابق آج تک خدا تعالیٰ کی مدد کے نظارے ہم دیکھتے ہیں.شیطان بھی اپنا کام کئے چلا جا رہا ہے اور فرشتے بھی.جب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعے سینے کھولتا ہے تو اس کی تمام روکیں دور ہو جاتی ہیں.ایک جگہ ظلم کر کے جماعت کو دبایا جاتا ہے تو دوسری جگہ نئی نئی جماعتیں پیدا ہو جاتی ہیں.گزشتہ دنوں میں عربوں کے متعلق الفضل میں ندیم صاحب جو ایک صفحہ لکھتے ہیں اس میں ایک واقعہ دیکھ رہا تھا اس میں علمی شافعی صاحب کی قبولیت احمدیت کا واقعہ تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو احمدیت کی طرف مائل کیا؟ مصطفی ثابت صاحب جو پہلے احمدی تھے وہ اور علمی شافعی صاحب صنعاء کے صحراء میں جس کمپنی میں وہ کام کرتے تھے ایک جگہ اکٹھے ہو گئے.تو کہتے ہیں میں دیکھتا تھا ایک نوجوان ہے جو دوسروں سے الگ تھلگ رہتا ہے.نمازیں بھی باقاعدہ پڑھتا ہے.پہلے مجھے خیال ہوا کہ یہ بہائی ہے یا کوئی اور ہے.پھر 7

Page 21

دیکھا جو باقاعدہ نمازیں پڑھتا ہے تو خیال ہوا بہائی تو نہیں ہوسکتا.پھر اور بعض فرقوں کی طرف دھیان گیا.پھر میں نے آہستہ آہستہ اس سے تعلق پیدا کرنا شروع کیا تو دیکھا کہ وہ نوجوان یعنی مصطفیٰ ثابت صاحب اسلام کے جو نظریات پیش کرتا تھا اور جو دلیلیں دیتا تھا وہ ایسی ہوتی تھیں کہ میرے پاس جواب ہی نہیں ہوتا تھا.علماء سے بھی میں جواب مانگتا لیکن تسلی نہیں ہوتی تھی.ایک موقع ایسا آیا کہ مجھے وہاں سے کام چھوڑ کے آنا پڑا اور انہوں نے اپنی کتابوں کا بکس میرے سپرد کر دیا کہ یہ لے جاؤ.تو میں نے کہا کہ اس شرط پہ لے جاؤں گا کہ یہ کتا بیں میں پڑھوں.اس میں میں نے قرآنِ کریم کی تفسیر جو فائیو والیم میں ہے وہ اور بعض اور کتب پڑھیں ، اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی.تو کہتے ہیں کہ ہر کتاب کو پڑھ کے جس طرح غیر از جماعت علماء کی اور پڑھے لکھوں کی بھی عادت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں اعتراض تلاش کرنا اور آج کل پاکستان میں یہ اعتراض کی صورت بڑی انتہاء پر گئی ہوئی ہے کتابیں نکال نکال کر اس پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ اعتراض کرنے والا جس طرح کے بودے اعتراض کر رہا ہوتا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی کم علمی ہے اور فطرت صحیحہ کی بجائے وہ شیطان کے پیچھے چلنے والے لوگ ہیں.بہر حال یہ کہتے ہیں کہ میں بھی اعتراض تلاش کرتا تھا.اور اعتراض نکالنے کے بعد جب میں علماء سے تسلی کروانے جاتا تھا تو وہاں میری تسلی نہیں ہوتی تھی.پھر کہتے ہیں میں نے اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی تو اس نے میرے دل میں ایک ہلچل مچادی.میں نے اپنے والد صاحب کو بھی سنائی تو میں نے کہا یہ کیسا ہے؟ لکھنے والا کون شخص ہو سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کتاب کا لکھنے والا یقیناً کوئی ولی اللہ ہے.اس پر میں نے کہا اگر یہ مسیح موعود کا دعویٰ کر رہا ہو تو پھر ؟ تو سوچ میں پڑ گئے اور کہا کہ ٹھیک ہے.بہر حال میں اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کیونکہ ایسی اعلی پائے کی چیز اللہ تعالیٰ کا کوئی انتہائی مقرب ہی لکھ سکتا ہے.لیکن میں تو اب بوڑھا ہو رہا ہوں اس لئے مذہب کے معاملے میں پکا ہو چکا ہوں تو میں تو قبول نہیں کر سکتا.لیکن بہر حال حلمی شافعی صاحب کے دل میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں پیدا ہوئیں.وہ سعید فطرت تھی جس نے اعتراضوں کی

Page 22

تلاش کے باوجود ان کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائی اور انہوں نے بیعت کر لی.(الفضل انٹرنیشنل مورخہ 28 مئی 2010ء صفحہ 34) تو اس طرح کے واقعات بے شمار ہیں.آج کل بھی ہوتے ہیں.کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ خوابوں کے ذریعہ سے دکھاتا ہے.اب خوابوں کے ذریعے سے جو پیغام پہنچتا ہے اس میں تو کسی انسان کا ہاتھ نہیں ہوتا.تو یہ سب اس کی تائید میں ان فرشتوں کی ایک ہلچل ہے جو سارے نظام میں مچی ہوئی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے فرستادے کے لئے ظاہر کر رہا ہوتا ہے.اور پھر اس طرح سے جو سعید فطرت ہیں وہ حق کی طرف آتے چلے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف شیطان کے قدموں پر چلنے والے مخالفت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.وہ روکیں ڈالتے ہیں اور ان کے پیچھے ان کا وہ تکبر کام کر رہا ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے نشاندہی فرمائی تھی جو انہیں ملائکہ کے زمرہ سے نکال کر بغاوت پر آمادہ کرتے ہیں اور شیطان کے پیچھے چلنے پر مجبور کرتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے بندے تو خدائی صفات کا پر تو بنتے ہیں اور ان کا خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھتا چلا جاتا ہے.روحانی ترقی میں بھی ان کے قدم بڑھتے ہیں.اور اس طرح دنیاوی اور مادی معاملات میں بھی خدا تعالیٰ کی رضا کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی جو تفسیر ایک جگہ فرمائی ہے یہ میں ابھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:.تکبر ایسی بلا ہے کہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی.یا درکھو! تکبر شیطان سے آتا ہے اور تکبر کرنے والے کو شیطان بنا دیتا ہے.جب تک انسان اس راہ سے قطعاً دور نہ ہو قبول حق و فیضانِ الوہیت ہر گز پا نہیں سکتا.(بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 520 سورۃ الاعراف زیر آیت 13) یعنی اللہ تعالیٰ کا جو حق کا پیغام ہے وہ اس کو کبھی قبول نہیں کرتا.اور اللہ تعالیٰ کے جو فیض ہیں ان سے استفادہ نہیں کر سکتا.اور یہ سب اس مخالفت کا نتیجہ ہے جو انبیاء کی کی جاتی ہے.چاہے جتنی بھی عبادتیں ہوں، جتنے بھی سجدے ہوں وہ کوئی فائدہ نہیں دے رہے ہوتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے:.” تم میری مخالفت میں اور مجھے 9

Page 23

بددعائیں دینے کے لئے سجدے کرو اور ناکیں رگڑ لو.تمہاری ناکیں جل جائیں گی لیکن تم مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.(ماخوذ از اربعین نمبر 3 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 400) پھر فرماتے ہیں:." کیونکہ یہ تکبر اس کی راہ میں روک ہو جاتا ہے.پس کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے.علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے.کیونکہ زیادہ تر تکبر انہیں باتوں سے پیدا ہوتا ہے.جب تک انسان اپنے آپ کو ان گھمنڈوں سے پاک وصاف نہ کرے گا اس وقت تک وہ اللہ جل شانہ کے نزدیک پسندیدہ و برگزیدہ نہیں ہوسکتا اور وہ معرفت الہی جو جذبات نفسانی کے موادر ڈیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی.یہ کھو کھلے علم جو ہیں یہ صرف کھو کھلے علم ہی رہتے ہیں ان کو معرفت نہیں مل سکتی.فرمایا : ” کیونکہ یہ گھمنڈ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا.شیطان نے بھی یہی گھمنڈ کیا اور اپنے آپ کو آدم علیہ السلام سے بڑا سمجھا اور کہہ دیا أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ - خَلَقْتَنِى مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِيْنِ - (الاعراف:13 ) ( میں اس سے اچھا ہوں تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا، اس کو مٹی سے ) نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ بارگاہ الہی سے مردود ، ہو گیا.اس لئے ہر ایک کو اس سے بچنا چاہئے.جبتک انسان کو کامل معرفتِ الہی حاصل نہ ہو وہ لغزش کھاتا ہے اور اس سے متنبہ نہیں ہوتا مگر معرفتِ الہی جس کو حاصل ہو جائے اگر چہ اس سے کوئی لغزش ہو بھی جاوے تب بھی اللہ تعالیٰ اس کی محافظت کرتا ہے.پس یہ جو انبیاء کے مخالفین ہوتے ہیں یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالفین ہیں.یہ ان کا تکبر ہے اور یہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں رہ سکتے بلکہ شیطان کی گود میں گرتے چلے جاتے ہیں.فرمایا: ” چنانچہ آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش پر اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور سمجھ لیا کہ سوائے فضل الہی کے کچھ نہیں ہو سکتا.اس لئے دعا کر کے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا.رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (الاعراف:24) 10

Page 24

(اے رب ہمارے! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا.اگر تیری حفاظت ہمیں نہ بچاوے اور تیرا رحم ہماری دستگیری نہ کرے تو ہم ضرور ٹوٹے والوں میں سے ہو جاویں.).(بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 520 سورۃ الاعراف زیر آیت 13) کاش کہ یہ بات ان لوگوں کو بھی سمجھ میں آ جائے جو اپنے آپ کو امت مسلمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور جس مسیح موعود کے آنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور جو خدا تعالیٰ کی تائیدات کے ساتھ مبعوث ہوا اس کو ماننے لگ جائیں.بجائے اس کی مخالفت کرنے کے اور باغیانہ خیالات کے لوگوں کے پیچھے چل کر زمانے کے امام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے کے وہ اس کو ماننے کی طرف توجہ دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا فرمایا ہے کہ اگر یہ خدائی سلسلہ نہ ہوتا تو کب کا ختم ہو چکا ہوتا.پس مسیح موعود کی مخالفت کے بجائے آدم کی دعا پر غور کریں.آج بھی بہت ساروں نے سن لیا ہوگا ، ٹی وی پر بھی آ رہا ہے، اطلاعیں آ رہی ہیں، لاہور میں دو مساجد پر ماڈل ٹاؤن میں اور دارالذکر میں بڑا شدید حملہ ہوا ہے.اسی طرح کنری میں بھی جلوس نکالے گئے ہیں اس طرح دنیا میں اور جگہوں پر بھی مولویوں کے پیچھے چل کر مختلف ممالک میں مخالفت ہورہی ہے.کیا یہ مخالفتیں احمدیت کو ختم کر دیں گی؟ کیا پہلے کبھی مخالفتوں سے احمدیت ختم ہوئی تھی؟ ہرگز نہیں ہوئی اور نہ یہ کر سکتے ہیں.ہاں ان کو ضرور اللہ تعالیٰ کی پکڑ عذاب کا مورد بنا دے گی.ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” دعا ایسی شے ہے کہ جب آدم کا شیطان سے جنگ ہوا تو اس وقت سوائے دعا کے کوئی اور حربہ کام نہ آیا.آخر شیطان پر آدم نے فتح بذریعہ دعا پائی.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 171 جدید ایڈیشن) پھر آپ فرماتے ہیں: ”ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتدا میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلّط عطا کرے گا، نہ تلوار.آدم اول کو ( شیطان پر ) فتح دعا ہی سے ہوئی تھی.سے.11

Page 25

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (الاعراف:24) اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ، اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوں گے.فرمایا: ” اور آدم ثانی کو بھی (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے آدم ثانی فرمایا ہے ) جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے، اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہوگی.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 190-191 جدید ایڈیشن) پس جب یہ دشمنیاں بڑھ رہی ہیں، بلکہ دشمنی میں بعض جگہ معمولی اضافہ نہیں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، اور یہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ہمیں دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ باوجود ساری مخالفتوں کے، باوجود تمام تر روکوں کے، باوجود اس کے کہ شیطان ہر راستے پر بیٹھا ہوا ہے جماعت بھی بڑھتی چلی جارہی ہے.سعید فطرت لوگوں کے ذریعے ملائکتہ اللہ بھی حرکت میں ہیں اور جو سعید فطرت لوگ ہیں وہ جماعت میں شامل ہوتے چلے جارہے ہیں.سورۃ اعراف میں یہ دعا سکھائی گئی ہے رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا.(الاعراف:24) اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے اور زیادہ سے زیادہ برکات کو سمیٹنے اور شیطان کے ہر حملے سے بچنے کے لئے دعاؤں کی طرف اور اپنی اصلاح کی طرف ہمیں انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حکمتِ الہیہ نے آدم کو ایسے طور سے بنایا کہ فطرت کی ابتداء سے ہی اس کی سرشت میں دو قسم کے تعلق قائم کر دیئے.یعنی ایک تعلق تو خدا سے قائم کیا جیسا قرآن شریف میں فرمایا: فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ (الحجر: 30) یعنی جب میں اس کو ٹھیک ٹھاک بنالوں اور میں اپنی روح اس میں پھونک دوں تو اے فرشتو! اس وقت تم سجدے میں گر جاؤ.فرمایا: ” کہ مذکورہ بالا آیت سے صاف ثابت ہے کہ خدا نے آدم میں اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی روح پھونک کر اس کی فطرت کو اپنے ساتھ ایک تعلق 12

Page 26

قائم کر دیا ہے.سو یہ اس لئے کیا گیا کہ تا انسان کو فطرتاً خدا سے تعلق پیدا ہو جاوے.ایسا ہی دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ ان لوگوں سے بھی فطرتی تعلق ہو جو بنی نوع کہلائیں گے کیونکہ جبکہ ان کا وجود آدم کی ہڈی میں سے ہڈی اور گوشت میں سے گوشت ہوگا تو وہ ضرور اس روح میں سے بھی حصہ لیں گے جو آدم میں پھونکی گئی.ریویو آف ریلیچنر مئی 1902 جلد 11 نمبر 5 صفحہ 177 178 ) پس یہ تو ہے ہماری ذمہ داری کہ اللہ تعالیٰ کے تعلق میں اور بڑھیں اور اگر ہمارا یہ تعلق صحیح ہوگا تو یہ جو آدم کی فطرت ہے، یہ ہماری فطرت کا خاصہ بن جائے گی.اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.پس اس مشن کو آگے بڑھاتے جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے کر آئے تھے.لیکن شیطان کے چیلوں کو تو اللہ تعالیٰ نے جہنم سے بھر نے کا فرمایا ہے.جیسا کہ میں نے کہا مخالفت کی آندھیاں تیز تر ہو رہی ہیں.لاہور میں جو مسجد پر حملہ ہوا ہے اس کے نقصان کی نوعیت ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئی.لیکن کافی زیادہ شہادتیں بھی ہوئی ہیں اور زخمی بھی بہت زیادہ ہیں اور بعضوں کی حالت کافی Critical ہے.دارالذکر میں ابھی تک پوری طرح صورتحال واضح نہیں ہوئی.پتہ نہیں کس حد تک شہادتیں ہو جاتی ہیں.لوگ جمعہ کے لئے آئے ہوئے تھے.بہر حال تفصیلات آئیں گی تو پتہ لگے گا لیکن کافی تعداد میں شہادتیں ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب شہیدوں کے درجات بلند فرمائے اور زخمیوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو شفا بخشے.بعض کافی Critical حالت میں ہیں.مخالفین نے جو یہ اجتماعی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، اللہ تعالیٰ یقیناً اس کا بدلہ لینے پر قادر ہے.کس ذریعہ سے اس نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھانا ہے، کس طرح اس نے ان فساد اور ظلم بجالانے والوں کو پکڑنا ہے، یہ وہ بہتر جانتا ہے.لیکن یہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی غیرت کو بار بار للکار رہے ہیں اور ظلم میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں عبرت کا نشان بنا دے.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ ہوگا..13

Page 27

جیسا کہ میں نے کہا احمدی اپنی دعاؤں میں مزید درد پیدا کریں.اللہ تعالیٰ ان کے تکبر، ان کی شیطنت ، ان کی بڑائی ، ان کی طاقت کے زعم کو اپنی قدرتوں اور طاقتوں کا جلوہ دکھاتے ہوئے خاک میں ملا دے.اللہ تعالیٰ احمدیوں کے ایمان اور ایقان میں ترقی دیتا چلا جائے.اور یہ ابتلا کبھی ہمارے ایمان میں کمزوری کا باعث نہ بنے.تمام دنیا کے احمدی پاکستان کے احمدیوں کے لئے آج کل بہت دعا کریں.بڑے شدید تنگ حالات ہیں.اسی طرح مصر کے اسیران کے لئے بھی بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ان کی بھی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے.ہندوستان میں بھی گزشتہ دنوں کیرالہ میں دو تین احمد یوں پر غلط الزام لگا کر اسیر بنایا گیا ہے.ان کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ان اسیروں، زخمیوں اور شہیدوں کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی اور شیطان اور اس کے چیلے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہم پر بھی رحم فرمائے اور آئندہ ہر ابتلاء سے ہر ایک کو محفوظ رکھے.14

Page 28

خطبه جمعه سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ايده الله تعالیٰ بنصره العزيز فرمودہ 4/جون 2010ء بمقام بیت الفتوح لندن 15

Page 29

Page 30

إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلِئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُوْنَ - نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ - وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِي اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدْعُوْنَ - نُزُلًا مِّنْ (حم سجدہ: 31 تا 33) غَفُورٌ رَّحِيْم یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے.پھر استقامت اختیار کی ، ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت ( کے ملنے ) سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو.ہم اس دنیاوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی.اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جو تم طلب کرتے ہو.یہ بخشنے والے اور بے انتہا رحم کرنے والے خدا کی طرف سے بطور مہمانی کے ہوگا.یہ ترجمہ ہے ان آیات کا جو میں نے تلاوت کی ہیں.ہر ہفتہ میں ہزاروں خطوط مجھے آتے ہیں جنہیں میں پڑھتا ہوں، جن میں مختلف قسم کے خطوط ہوتے ہیں.کوئی بیماری کی وجہ سے دعا کے لئے لکھ رہا ہوتا ہے.عزیزوں کے لئے لکھ رہا ہوتا ہے.شادیوں کی خوشیوں میں شامل کر رہا ہوتا ہے.رشتوں کی تلاش میں پریشانی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے.کاروباروں اور ملازمتوں کے بابرکت ہونے اور دوسرے مسائل کا ذکر کر رہا ہوتا ہے.امتحانوں میں کامیابیوں کے لئے طلباء لکھ رہے ہوتے ہیں، ان کے والدین لکھ رہے ہوتے ہیں.غرض کہ اس طرح کے اور اس کے علاوہ بھی مختلف نوع کے خطوط ہوتے ہیں.لیکن گزشتہ ہفتے میں ہزاروں خطوط معمول کے ہزاروں خطوط سے بڑھ کر مجھے 17

Page 31

ملے اور تمام کا مضمون ایک محور پر مرکوز تھا ، جس میں لاہور کے شہداء کی عظیم شہادت پر جذبات کا اظہار کیا گیا تھا، اپنے احساسات کا اظہارلوگوں نے کیا تھا.غم تھا، دکھ تھا ، غصہ تھا لیکن فوراً ہی اگلے فقرہ میں وہ غصہ صبر اور دعا میں ڈھل جاتا تھا.سب لوگ جو تھے وہ اپنے مسائل بھول گئے.یہ خطوط پاکستان سے بھی آ رہے ہیں، عرب ممالک سے بھی آ رہے ہیں، ہندوستان سے بھی آرہے ہیں، آسٹریلیا اور جزائر سے بھی آرہے ہیں.یورپ سے بھی آ رہے ہیں، امریکہ سے بھی آ رہے ہیں، افریقہ سے بھی آرہے ہیں ، جن میں پاکستانی نژاد احمدیوں کے جذبات ہی نہیں چھلک رہے کہ ان کے ہم قوموں پر ظلم ہوا ہے.باہر جو پاکستانی احمدی ہیں، ان کے وہاں عزیزوں یا ہم قوموں پر ظلم ہوا ہے.بلکہ ہر ملک کا باشندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کی بیعت میں آنے کی توفیق دی ، یوں تڑپ کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہا تھا یا کر رہا ہے جس طرح اس کا کوئی انتہائی قریبی خونی رشتہ میں پرویا ہوا عزیز اس ظلم کا نشانہ بنا ہے.اور پھر جن کے قریبی عزیز اس مقام کو پاگئے ، اس شہادت کو پاگئے ، ان کے خطوط تھے جو مجھے تسلیاں دے رہے تھے اور اپنے اس عزیز ، اپنے بیٹے ، اپنے باپ، اپنے بھائی، اپنے خاوند کی شہادت پر اپنے رب کے حضور صبر اور استقامت کی ایک عظیم داستان رقم کر رہے تھے.پھر جب میں نے تقریباً ہر گھر میں کیونکہ میں نے تو جہاں تک یہاں ہمیں معلومات دی گئی تھیں، اس کے مطابق ہر گھر میں فون کر کے تعزیت کرنے کی کوشش کی.اگر کوئی رہ گیا ہو تو مجھے بتا دے.جیسا کہ میں نے کہا میں نے ہر گھر میں فون کیا تو بچوں، بیویوں ، بھائیوں، ماؤں اور باپوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی پایا.خطوط میں تو جذبات چھپ بھی سکتے ہیں، لیکن فون پر ان کی پُر عزم آوازوں میں یہ پیغام صاف سنائی دے رہا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے مومنین کے اس رد عمل کا اظہار بغیر کسی تکلف کے کر رہے ہیں کہ اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن.ہم پورے ہوش وحواس اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ادراک کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر خوش ہیں.یہ ایک ایک دودو 18

Page 32

قربانیاں کیا چیز ہیں ہم تو اپنا سب کچھ اور اپنے خون کا ہر قطرہ مسیح موعود کی جماعت کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.اس لئے تیار ہیں کہ آج ہمارے لہو ، آج ہماری قربانیاں ہی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہونے کا اظہار اور اعلان دنیا پر کریں گی.ہم وہ لوگ ہیں جو قرونِ اولیٰ کی مثالیں قائم کریں گے.ہم ہیں جن کے سامنے صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم نمونہ پھیلا ہوا ہے.یہ سب خطوط، یہ سب جذبات پڑھ اور سن کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا تو میرے بس کی بات نہیں ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس یقین پر قائم کر دیا، مزید اس میں مضبوطی پیدا کر دی کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیارے یقیناً ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں جن کے پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.صبر و استقامت کے حامل یہ وہ عظیم لوگ ہیں، جن کے جانے والے بھی ثبات قدم کے عظیم نمونے دکھاتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة 155) کے مصداق بن گئے ، اور دنیا کو بھی بتا گئے کہ ہمیں مردہ نہ کہو.بلکہ ہم زندہ ہیں.ہم نے جہاں اپنی دائگی زندگی میں خدا تعالیٰ کی رضا کو پالیا ہے وہاں خدا تعالیٰ کے دین کی آبیاری کا باعث بھی بن گئے ہیں.ہمارے خون کے ایک ایک قطرے سے ہزاروں ثمر آور درخت نشو و نما پانے والے ہیں.ہمیں فرشتوں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے.ہمیں تو اپنی جان دیتے ہوئے بھی پتہ نہیں لگا کہ ہمیں کہاں کہاں اور کتنی گولیاں لگی ہیں؟ ہمیں گرنیڈ سے دیئے گئے زخموں کا بھی پتہ نہیں لگا.یہ صبر و رضا کے پیکر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بے چین ، دین کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے ، گھنٹوں اپنے زخموں اور ان میں سے بہتے ہوئے خون کو دیکھتے رہے لیکن زبان پر حرف شکایت لانے کی بجائے دعاؤں اور درود سے اپنی اس حالت کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتے رہے.اگر کسی نے ہائے یا اُف کا کلمہ منہ سے نکالا 19

Page 33

تو سامنے والے زخمی نے کہا ہمت اور حوصلہ کرو، لوگ تو بغیر کسی عظیم مقصد کے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تم تو اپنے ایک عظیم مقصد کے لئے قربان ہونے جا رہے ہو.اور پھر وہ اف کہنے والا آخر دم تک صرف درود شریف پڑھتا رہا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ یقین کرواتا رہا کہ ہم نے جو سیح محمدی سے عہد کیا تھا اسے پورا کر رہے ہیں.میں نے ایک ایسی درد ناک ویڈیو دیکھی، جو زخمیوں نے ہی اپنے موبائل فون پر ریکارڈ کی تھی.اس کو دیکھ کر دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے.پس یہ وہ لوگ ہیں جن سے بیشک قربانیاں تو خدا تعالیٰ نے لی ہیں لیکن اس کے فرشتوں نے ان پر سکینت نازل کی ہے اور یہ لوگ گھنٹوں بغیر کرا ہے صبر ورضا کی تصویر بنے رہے.فون پر لاہور کے ایک لڑکے نے مجھے بتایا کہ میرے 19 سالہ بھائی کو چار پانچ گولیاں لگیں، لیکن زخمی حالت میں گھنٹوں پڑا رہا ہے، اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں اور دعائیں کرتا رہا.اگر پولیس بر وقت آ جاتی تو بہت سی قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں.لیکن جب پورا نظام ہی فساد میں مبتلا ہو تو ان لوگوں سے کیا توقعات کی جاسکتی ہیں؟ ایک نوجوان نے دشمن کے ہینڈ گرنیڈ کو اپنے ہاتھ پر روک لیا اس لئے کہ واپس اس طرف لوٹا دوں لیکن اتنی دیر میں وہ گرنیڈ پھٹ گیا اور اپنی جان دے کر دوسروں کی جان بچالی.ایک بزرگ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر نو جوانوں اور بچوں کو بچالیا.حملہ آور کی طرف ایک دم دوڑے اور ساری گولیاں اپنے سینہ پر لے لیں.آج پولیس کے آئی جی صاحب بڑے فخر سے یہ بیان دے رہے ہیں کہ پولیس نے دو دہشتگردوں کو پکڑ لیا.جب اوپر سے نیچے تک ہر ایک جھوٹ اور سچ کی تمیز کرنا چھوڑ دے تو پھر ایسے بیان ہی دیئے جاتے ہیں.دو دہشتگرد جو پکڑے گئے ہیں انہیں بھی ہمارے ہی لڑکوں نے پکڑا.اور پکڑنے والا بھی مجھے بتایا گیا، ایک کمزور سا لڑکا تھا یعنی بظاہر جسمانی لحاظ سے بڑے ہلکے جسم کا مالک تھا لیکن ایمان سے بھرا ہوا تھا.اس نے ایک ہاتھ سے اس دہشتگرد کی گردن دبوچے رکھی اور دوسرے ہاتھ سے اس کی جیکٹ تک اس کا 20

Page 34

ہاتھ نہ جانے دیا، اس بُک تک اس کا ہاتھ نہ جانے دیا جسے وہ بھینچ کر اس کو پھاڑ نا چاہتا تھا.یہ بیچارے لوگ جو نو جوان دہشتگرد ہیں، چھوٹی عمر کے، اٹھارہ انیس سال کے، یا بہیں بائیس سال کے لڑکے تھے ، یہ بیچارے غریب تو غریبوں کے بچے ہیں.بچپن میں غربت کی وجہ سے ظالم ٹولے کے ہاتھ آجاتے ہیں جو مذہبی تعلیم کے بہانے انہیں دہشتگر دی سکھاتے ہیں اور پھر ایسا brain wash کرتے ہیں کہ ان کو جنت کی خوشخبریاں صرف ان خود کش حملوں کی صورت میں دکھاتے ہیں.حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بننے والی موت ہے.لیکن یہ بات سمجھنے سے اب یہ لوگ قاصر ہو چکے ہیں.ان دہشتگردوں کے سرغنوں کو کبھی کسی نے سامنے آتے نہیں دیکھا، کبھی اپنے بچوں کو قربان کرتے ہوئے نہیں دیکھا.اگر قربانیاں دیتے ہیں تو غریبوں کے بچے، جن کے برین واش کئے جاتے ہیں.بہر حال ایسے دو دہشتگرد جو پکڑے گئے ، ہمارے اپنے لڑکوں نے ہی پکڑے.یہ فرشتوں کا اترنا اور تسکین دینا جہاں ان زخمیوں پر ہمیں نظر آتا ہے وہاں پیچھے رہنے والے بھی اللہ تعالیٰ کے اس خاص فضل کی وجہ سے تسکین پارہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر رکھا ہوا ہے.اس ایمان کی وجہ سے جو زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے ہم میں پیدا ہوا یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ جاؤ اور میرے بندوں کے دلوں کی تسکین کا باعث بنو.ان دعا ئیں کرنے والوں کے لئے تسلی اور صبر کے سامان کرو.اور جیسا کہ میں نے کہا، ہر گھر میں مجھے یہی نظارے نظر آئے ہیں.ایسے ایسے عجیب نظارے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے ہوئے ہیں.ہر ایک إِنَّمَا أَشْكُوا بَنِّى وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ (یوسف: 87) کہ میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ تعالیٰ کے حضور کرتا ہوں کی تصویر نظر آتا ہے.اور یہی ایک مومن کا طرہ امتیاز ہے.مومنوں کو غم کی حالت میں صبر کی یہ تلقین خدا تعالیٰ نے کی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ - إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرة:154) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو.صبر اور صلوۃ کے ساتھ اللہ سے مدد مانگو، 21

Page 35

یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.پس ایک بندہ تو خدا تعالیٰ کے آگے ہی اپنا سب کچھ پیش کرتا ہے، جو اللہ کا حقیقی بندہ ہے، عبد رحمان ہے، جزع فزع کی بجائے شور شرابے اور جلوس کی بجائے ، قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے ، جب صبر اور دعاؤں میں اپنے جذبات کو ڈھالتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کا حق دار ٹھہرتا ہے.مومنوں کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی آزمائشوں کے متعلق بتا دیا تھا.یہ فرما دیا تھا کہ آزمائشیں آئیں گی.فرماتا ہے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ.(البقرة:156) اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے سے آزمائیں گے.اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے.پس صبر اور دعائیں کرنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ نے خوشیوں کی خبریں سنائی ہیں.اپنی رضا کی جنت کا وارث بننے کی خبریں سنائی ہیں.اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو بھی جنت کی بشارت ہے.اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اس دنیا میں رہنے والوں کے لئے بھی جنت کی بشارت ہے.ایسے لوگوں کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول بن جاتی ہیں.جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی انہی خوبیوں کا ذکر کیا ہے کہ جولوگ ابتلاؤں میں استقامت دکھاتے ہیں فرشتے ان کے لئے تسلی کا سامان کرتے ہیں.جب مومنین ہر طرف سے ابتلاؤں میں ڈالے جاتے ہیں جانوں کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے.اموال کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے یا پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے.عزتوں کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے یا پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے.ہر طرف سے بعض دفعہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی مدد کے دروازے ہی بند ہو گئے ہیں اس وقت جب مومنین بَشِرِ الصَّابِرِينَ کو سمجھتے ہوئے استقامت دکھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاتے ہیں.ایک دم ایسی فتح و ظفر اور نصرت کی خبریں ملتی ہیں، اس کے دروازے کھلتے ہیں کہ جن کا خیال بھی ایک مومن کو نہیں آ سکتا.ایسے ایسے عجائب 22

Page 36

اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے کہ جن کا تصور بھی نہیں ہو سکتا.پس استقامت شرط ہے اور مبارک ہیں لا ہور کے احمدی جنہوں نے یہ استقامت دکھائی ، جانے والوں نے بھی اور پیچھے رہنے والوں نے بھی.پس یقیناً اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے اپنے وعدے پورے کرے گا.اور دلوں کی تسکین کے لئے جو وعدے ہیں ، جو ہمیں نظر آ رہے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہونے کا ہی نشان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ :.و, وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداؤں سے الگ ہو گئے پھر استقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے.ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور مت غمگین ہو اور خوش ہو اور خوشی میں بھر جاؤ کہ تم اس خوشی کے وارث ہو گئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.ہم اس دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں.اس جگہ ان کلمات سے یہ اشارہ فرمایا کہ اس استقامت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے.کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجود نہ ہو یہانتک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کر دے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے.اس وقت نامردی نہ دکھلاویں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں.صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں.ذلت پر خوش ہوجائیں ، موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے، نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے طالب ہوں کہ وقت نازک ہے اور باوجود سراسر بے کس اور کمزور ہونے کے اور کسی تسلّی کے نہ پانے کے سیدھے کھڑے ہو جا ئیں اور ہر چہ بادا باد کہ گر گردن کو آگے رکھ دیں اور قضاء وقدر کے آگے دم نہ ماریں اور ہرگز بے قراری اور جزع فزع نہ دکھلاویں جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے.یہی استقامت 23

Page 37

ہے جس سے خدا ملتا ہے.یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی خاک سے اب تک خوشبو آ رہی ہے“.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 419-420) آج ہمارے شہداء کی خاک سے بھی یقیناً یہ خوشبو آ رہی ہے جو ہمارے دماغوں کو معطر کر رہی ہے.ان کی استقامت ہمیں پکار پکار کر کہ رہی ہے کہ جس استقامت اور صبر کا دامن تم نے پکڑا ہے، اسے کبھی نہ چھوڑنا.یقین اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے.ابتلا کا لمبا ہونا تمہارے پائے استقلال کو ہلا نہ دے.کہیں کوئی ناشکری کا کلمہ تمہارے منہ سے نہ نکل جائے.ان شہداء کے بارے میں تو بعض خواہیں بھی بعض لوگوں نے بڑی اچھی دیکھی ہیں.خوش خوش جنت میں پھر رہے ہیں.بلکہ ان پر تم نے سجائے جارہے ہیں.دنیاوی تمغے تو لمبی خدمات کے بعد ملتے ہیں یہاں تو نو جوانوں کو بھی نو جوانی میں ہی خدمات پر تمغے مل رہے ہیں.پس ہمارا رونا اور ہما راغم خدا تعالیٰ کے حضور ہے اور اس میں ہمیں کبھی کمی نہیں ہونے دینی چاہئے.آپ لاہور کے وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں“.(الہام 13 دسمبر 1900ء) اور لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں“.(البام 13 دسمبر 190 ء ) پس یہ آپ لوگوں کا اعزاز ہے جسے آپ لوگوں نے قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کوصبر اور دعا سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے.اور پھر اس تعلق میں بہت سی خوشخبریاں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتائی ہیں.پس خوش قسمت ہیں آپ جن کے شہر کے نام کے ساتھ خوشخبریاں وہاں کے رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک مسیح علیہ السلام کے ذریعہ دی ہیں.دشمن نے تو میرے نزدیک صرف جانی نقصان پہنچانے کے لئے یہ حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی مقصد تھے.ایک تو خوف پیدا کر کے اپنی نظر میں ، اپنے خیال میں کمزور احمدیوں کو احمدیت سے دور کرنا تھا، نو جوانوں میں بے چینی پیدا کرنی تھی.لیکن نہیں جانتے کہ یہ ان ماؤں کے بیٹے ہیں جن کے خون میں ، جن کے دودھ میں جان ، مال ، وقت، 24

Page 38

عزت کی قربانی کا عہد گردش کر رہا ہے.جن کے اپنے اندر عہد وفا نبھانے کا جوش ہے.دوسرے دشمن کا یہ خیال تھا کہ اس طرح اتنی بڑی قربانی کے نتیجے میں احمدی برداشت نہیں کر سکیں گے اور سڑکوں پر آجائیں گے.توڑ پھوڑ ہو گی ، جلوس نکلیں گے اور پھر حکومت اور انتظامیہ اپنی من مانی کرتے ہوئے جو چاہے احمدیوں سے سلوک کرے گی.اور اس رد عمل کو باہر کی دنیا میں اچھال کر پھر احمدیوں کو بدنام کیا جائے گا.اور پھر دنیا کو دکھانے کے لیے، بیرونی دنیا کو باور کرانے کے لئے یہ لوگ اپنی تمام تر مدد کے وعدے کریں گے.لیکن نہیں جانتے کہ احمدی خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنے والے اور اس کی پناہ میں آنے والے لوگ ہیں.خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہونے والے لوگ ہیں.اور یہ بھی ایسا رد عمل نہیں دکھا سکتے.جب یہ رد عمل جو مخالفین کی توقع تھی ان لوگوں نے نہیں دیکھا اور پھر بیرونی دنیا نے بھی اس ظالمانہ حرکت پر شور مچایا اور میڈیا نے بھی ان کو ننگا کر دیا تو رات گئے حکومتی اداروں کو بھی خیال آ گیا کہ ان کی ہمدردی کی جائے.اور اپنی شرمندگی مٹائی جائے.اور پھر آ کے بیان بازی شروع ہوگئی.ہمدردیوں کے بیان آنے لگ گئے.حیرت ہے کہ ابھی تک دنیا کو، ان لوگوں کو خاص طور پر یہ نہیں پتہ چلا کہ احمدی کیا چیز ہیں؟ گزشتہ ایک سو بیس سالہ احمدیت کی زندگی کے ہر ہر سیکنڈ کے عمل نے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھولیں.یہ ایک امام کی آواز پر اٹھنے اور بیٹھنے والے لوگ ہیں.یہ اس مسیح موعود کے ماننے والے لوگ ہیں جو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنے آیا تھا.جنہوں نے جانور طبع لوگوں کو انسان اور انسانوں کو با خدا انسان بنایا تھا.پس اب جبکہ ہم درندگی کی حالتوں سے نکل کر با خدا انسان بننے کی طرف قدم بڑھانے والے ہیں، ہم کس طرح یہ توڑ پھوڑ کر سکتے ہیں.جلوس اور قتل و غارت کا رد عمل کس طرح ہم دکھا سکتے تھے.ہم نے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتے ہوئے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون کہا اور اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا.ہم نے تو اپنا غم اور اپنا دکھ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیا ہے اور اس کی رضا پر راضی اور اس کے فیصلے کے انتظار میں ہیں.25

Page 39

یہ درندگی اور سفا کی تمہیں مبارک ہو جو خدا کے نام پر خدا کی مخلوق بلکہ خدا کے پیاروں کے خون کی ہولی کھیلنے والے ہو.عوام کو مذہب کے نام پر دوبارہ چودہ پندرہ سو سال پہلے والی بد دوانہ زندگی میں لے جانے والے اور اس میں رہنے والے ہو.یہ لوگ کہتے ہیں کہ کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے.اب کسی مسیح موعود کی آنے کی ضرورت نہیں ہے.اب اس سے بھی انکاری ہوتے جارہے ہیں.ہمارے لئے قرآن اور شریعت کافی ہے.کیا تمہارے یہ عمل اس شریعت اور قرآن پر ہیں جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے؟ یقیناً نہیں.تم میرے آقا ، ہاں وہ آقا جو محسن انسانیت تھا اور قیامت تک اس جیسا محسنِ انسانیت پیدا نہیں ہو سکتا، اس محسنِ انسانیت کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے ہو.ناموس رسالت کے نام پر میرے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے والے ہو.یقیناً قیامت کے دن لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کا کلمہ تم میں سے ایک ایک کو پکڑ کر تمہیں تمہارے بد انجام تک پہنچائے گا.ہمارا کام صبر اور دعا سے کام لینا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہر احمدی اس پر کار بند رہے گا.یہ صبر کے نمونے جب دنیا نے دیکھے تو غیر بھی حیران ہو گئے.ظلم اور سفا کی کے ان نمونوں کو دیکھ کر غیروں نے نہ صرف ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ احمدیت کی طرف مائل بھی ہوئے بلکہ بیعت میں آنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا.پس یہ ظلم جو تم نے ہمارے سے روا رکھا اس کا بدلہ اس دنیا میں ہمیں انعام کی صورت میں ملنا شروع ہو گیا.میرا خیال تھا کہ کچھ واقعات بیان کروں گا لیکن بعض اتنے دردناک ہیں کہ ڈرتا ہوں کہ جذبات سے مغلوب نہ ہو جاؤں.اس لئے سارے تو بیان نہیں کر سکتا.چند ایک واقعات جو ہیں وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ہمارے نائب ناظر اصلاح و ارشاد ہیں.انہوں نے لکھا کہ ایک نمازی نے جب وہ جنازے پر آئے تھے، کسی کو مخاطب ہو کر کہا کہ ایک انعام اور ملا کہ شہید باپ کا بیٹا ہوں اور مجھے کہا کہ عزم اور حوصلے بلند ہیں.ماڈل ٹاؤن میں مکرم اعجاز صاحب کے بھائی شہید ہو گئے 26

Page 40

اور انہیں مسجد میں ہی اطلاع مل گئی اور کہا گیا کہ فلاں ہسپتال پہنچ جائیں.انہوں نے کہا کہ جانے والا خدا کے حضور حاضر ہو چکا، اب شاید میرے خون کی احمدی بھائیوں کو ضرورت پڑ جائے ، اس لئے میں تو اب یہیں ٹھہروں گا.ایک ماں نے کہا کہ اپنی گود سے جواں سالہ بیٹا خدا کی گود میں رکھ دیا.جس کی امانت تھی اس کے سپر د کر دی.ہمارے مربی سلسلہ محمود احمد شاد صاحب نے ماڈل ٹاؤن میں اپنے فرض کو خوب نبھایا.خطبہ کے دوران دعاؤں اور استغفار، صبر اور درود پڑھنے کی تلقین کرتے رہے.بعض قرآنی آیتیں بھی دہرائیں.دعا ئیں بھی دہرائیں اور درود شریف بھی بلند آواز سے دہرایا اور نعرہ تکبیر بھی بلند کیا اور آپ نے جام شہادت بھی نوش کیا.سردار عبد السمیع صاحب نے بتایا کہ فجر کی نماز پر چک سکندر کے واقعات اور شہادتوں کا ذکر فرمارہے تھے کیونکہ یہ اس وقت وہاں متعین تھے.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ باہر سیڑھیوں کے نیچے صحن میں ڈیڑھ دو سو آ دمی کھڑے تھے.اس وقت دہشتگر دفائرنگ کرتے ہوئے ہال کے کارنر میں تھے.ایک آدمی بالکل صحن کے کونے تک آ گیا.اگر وہ اس وقت باہر آ جاتا تو جو ڈیڑھ دو سو آدمی باہر تھے وہ شاید آج موجود نہ ہوتے.لیکن میری آنکھ کے سامنے ایک انصار جن کی عمر لگ بھگ 65 سال یا اوپر ہوگی ، انہوں نے pillar کے پیچھے سے نکل کر اس کی طرف دوڑ لگا دی.اور اس کی وجہ سے بالکل ان کی چھاتی میں گولی لگی اور وہ شہید ہو گئے لیکن ان کی بہادری کی وجہ سے دہشتگرد کے باہر آنے میں کچھ وقت لگا.لیکن اس عرصہ میں بہت سے احمدی محفوظ جگہ پر پہنچ گئے اور پھر اس نے گرنیڈ بعد میں پھینکا.اور کہتے ہیں جب ہم باہر آئے ہیں تو ہم نے دیکھا کہ بیشمار لوگ سیڑھیوں پر شہید پڑے تھے.ایک صاحب نے مجھے لکھا، جو جاپان سے وہاں گئے ہوئے تھے اور جنازے میں شامل ہوئے کہ آخرین کی شہادتوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک کی یادوں کو تازہ کر دیا.ربوہ کے پہاڑ کے دامن میں ان مبارک وجودوں کو دفناتے ہوئے کئی دفعہ ایسا لگا جیسے اس زمانے میں نہیں.صبر و رضا کے ایسے نمونے تھے جن کو الفاظ میں ڈھالنا ناممکن ہے.27

Page 41

انصار اللہ کے لان میں میں نے اپنی دائیں طرف ایک بزرگ سے جو جنازے کے انتظار میں بیٹھے تھے پوچھا کہ چچا جان! آپ کے کون فوت ہوئے ہیں؟ فرمایا میرا بیٹا شہید ہو گیا ہے.لکھنے والے کہتے ہیں کہ میرا دل دہل رہا تھا اور پُر عزم چہرہ دیکھ کر ابھی میں منہ سے کچھ کہتے رہا کر بھی میں منہ بول نہ پایا تھا کہ انہوں نے پھر فرمایا کہ الحمد للہ ! خدا کو یہی منظور تھا.لکھنے والے کہتے ہیں کہ میرے چاروں طرف پر عزم چہرے تھے اور میں اپنے آپ کو سنبھال رہا تھا کہ ان کوہ وقار ہستیوں کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہ کروں کہ خود مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے.کہتے ہیں کہ میں مختلف لوگوں سے ملتا اور ہر بار ایک نئی کیفیت سے گزرتا رہا.خون میں نہائے ایک شہید کے پاس کھڑا تھا کہ آواز آئی میرے شہید کو دیکھ لیں.اس طرح کے بے شمار جذبات احساسات میں لکھے.ایک خاتون بھتی ہیں کہ میرے چھوٹے بچے بھی جمعہ پڑھنے گئے تھے اور خدا نے انہیں اپنے فضل سے بچالیا.جب مسجد میں خون خرابہ ہورہا تھا تو ہماری ہمسائیاں ٹی وی پر دیکھ کر بھاگی آئیں کہ رو دھو رہی ہوگی.یعنی میرے پاس آئیں کہ رو دھو رہی ہوں گی کیونکہ مسجد کے ساتھ ان کا گھر تھا.لیکن میں نے ان سے کہا کہ ہمارا معاملہ تو خدا کے ساتھ تھا.مجھے بچوں کی کیا فکر ہے؟ ادھر تو سارے ہی ہمارے اپنے ہیں.اگر میرے بچے شہید ہو گئے تو خدا کے حضور مقرب ہوں گے اور اگر بچ گئے تو غازی ہوں گے.یہین کر عورتیں حیران رہ گئیں اور الٹے پاؤں واپس چلی گئیں کہ یہ کیسی باتیں کر رہی ہے؟ اور پھر آگے لکھتی ہیں کہ اس نازک موقع پر ربوہ والوں نے جو خدمت کی اور دکھی دلوں کے ساتھ دن رات کام کیا اس پر ہم سب آپ کے اور ان کے شکر گزار ہیں.ایک ماں کا اٹھارہ سال کا اکلوتا بیٹا تھا.ایک لڑکا تھا باقی لڑکیاں ہیں.میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا.شہید ہو گیا اور انتہائی صبر اور رضا کا ماں باپ نے اظہار کیا اور یہ کہا کہ ہم بھی جماعت کی خاطر قربان ہونے کے لئے تیار ہیں.مسلم الد روبی صاحب سیریا کے ہیں وہ بھی ان دنوں میں وہاں گئے ہوئے تھے.اور 28

Page 42

ان کو بھی ٹانگ پر کچھ زخم آئے ہیں.شام کے احمدی ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ایسا نظارہ میں نے کبھی نہیں دیکھا.کوئی افراتفری نہیں تھی.کوئی ہراسانی نہیں تھی.کوئی خوف نہیں تھا.ہر ایک آرام سے اپنے اپنے کام کر رہا تھا.اس وقت بھی جب دشمن گولیاں چلا رہا تھا اور انتظامیہ کی طرف سے جو بھی ہدایات دی جارہی تھیں ان کے مطابق عمل ہو رہا تھا.کہتے ہیں کہ میرے لئے تو ایک ایسی انہونی چیز تھی کہ جس کو میں نے کبھی نہیں دیکھا.پس یہ وہ لوگ ہیں، یہ وہ مائیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں پیدا کی ہیں.قربانیوں کی عظیم مثال ہیں.اس بات کی فکر نہیں کہ میرے بچوں کا کیا حال ہے یا میرا بچہ شہید ہو گیا ہے.پوری جماعت کے لئے یہ مائیں درد کے ساتھ دعائیں کر رہی ہیں.پس اے احمدی ماؤں ! اس جذ بے کو اور ان نیک اور پاک جذبات کو اور ان خیالات کو کبھی مرنے نہ دینا.جب تک یہ جذبات رہیں گے، جب تک یہ پُر عزم سوچیں رہیں گی، کوئی دشمن کبھی جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا.ایک احمدی نے لکھا کہ میں ربوہ سے گیا تھا.ایک نوجوان خادم کے ساتھ مل کر لاشیں اٹھاتا رہا تو سب سے آخر میں اس نے میرے ساتھ مل کر ایک لاش اٹھائی اور ایمبولینس تک پہنچا دی ، اور اس کے بعد کہنے لگا کہ یہ میرے والد صاحب ہیں.اور پھر یہ نہیں کہ اس ایمبولینس کے ساتھ چلا گیا بلکہ واپس مسجد میں چلا گیا اور اپنی ڈیوٹی جو اس کے سپر د تھی اس کام میں مستعد ہو گیا.یہ ہیں مسیح محمدی کے وہ عظیم لوگ جو اپنے جذبات کو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں.اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں.بعد میں انشاء اللہ تعالیٰ یہ جمع کر کے لکھے بھی جائیں گے.ایک بات جو سب نے بتائی ہے جو کائن (Common) ہے، عینی شاہد جو بتاتے ہیں کہ دہشتگرد جب یہ سب کارروائی کر رہے تھے تو کوئی پینک (Panic) نہیں تھا.جیسا کہ الہ روبی صاحب نے بھی لکھا ہے.امیر صاحب اور مربی صاحب اور عہدیداران کی ہدایات پر جب تک یہ لوگ عہدیداران زندہ رہے سکون سے عمل کرتے 29

Page 43

رہے اور اس کے بعد بھی کوئی بھگدڑ نہیں مچی بلکہ بڑے آرگنا ئز ڈ طریقے سے دیواروں کے ساتھ لگ گئے تا کہ گولیوں سے بچ سکیں اور بیٹھ کر دعائیں کرتے رہے.اور ایک بزرگ اس حالت میں مسلسل سجدہ میں رہے ہیں کوئی پرواہ نہیں کی کہ دائیں بائیں گولیاں آ رہی ہیں.یہ ہیں ایمان والوں اور حقیقی ایمان والوں کے نظارے.کئی خطوط مجھے اس مضمون کے بھی آ رہے ہیں جو سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كم مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ- فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يُنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا - (الاحزاب :24) کہ مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا.پس ان میں سے وہ بھی ہیں جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہا ہے.اور انہوں نے ہرگز اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی.اور وَمِنْهُمْ مَّنْ يُنتظر لکھ کر یہ لوگ پھر اپنے عہدِ وفا اور اور قربانی کا یقین دلا رہے ہیں.پس دشمن تو سمجھتا تھا کہ اس عمل سے احمدیوں کو کمزور کر دے گا ، جماعت کی طاقت کو توڑ دے گا.شہروں کے رہنے والے شاید اتنا ایمان نہیں رکھتے.لیکن انہیں کیا پتہ ہے کہ یہ شہروں کے رہنے والے وہ لوگ ہیں جن میں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایمان کی حرارت بھر دی ہے.جو دین کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لئے ہر دم تیار ہیں.بے شک دنیا کے دھندوں میں بھی لگے ہوئے ہیں لیکن صرف دنیا کے دھندے مقصود نہیں ہیں.جب بھی دین کے لئے بلایا جاتا ہے تو لبیک کہتے ہوئے آتے ہیں.بلکہ جیسا کہ میں نے کہا یہ درندگی کے بجائے انسانیت کے علمبردار ہیں.آخر یہ احمدی بھی تو اسی قوم میں سے آئے ہیں.وہی قبیلے ہیں، وہی برادریاں ہیں جہاں سے وہ لوگ آ رہے ہیں جو مذہب کے نام پر درندگی اور سفا کی دکھاتے ہیں.لیکن مسیح موعود کے ماننے کے بعد یہی لوگ ہیں جو مذہب کی خاطر قربانیاں تو دیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق.میں نے ذکر کیا تھا کہ ان واقعات کا پریس نے اور پاکستان پریس نے بھی ذکر کیا.30

Page 44

اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزا دے اور ہمیشہ حق کہنے کی توفیق دیتا رہے.اب اس حق کہنے کے بعد کہیں مولویوں کے رد عمل سے ڈر کر پھر پرانی ڈگر پر نہ چل پڑیں.اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک کے پریس ہیں ، حکومتیں ہیں ان کی طرف سے بیان آئے ، Statements آئیں، ہمدردی کے پیغام آئے اور مختلف حکومتوں کے نمائندے، یہاں کی حکومت کے نمائندے نے بھی انگلستان کے ممبران پارلیمنٹ نے بھی ہمدردی اور تعزیت کے پیغام بھیجے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.اور تو اور مجلس ختم نبوت کی طرف سے بھی اخبار میں خبر آئی تھی کہ بڑا غلط کام ہوا ہے اور یہ درندگی ہے اور یہ نہیں ہونی چاہئے تھی.تو پھر وہ جو بینر ہیں جو پوسٹر ہیں جو دیواروں پر لگے ہوئے ہیں، جو سڑکوں پر لگے ہوئے ہیں حتی کے ہائی کورٹ کے جوں کے نیم پلیٹس (Name Plates) کے نیچے لگے ہوئے ہیں، جس میں احمدیوں کے خلاف گندی زبان استعمال کی گئی ہے انہیں مرتد کہا گیا ہے، انہیں واجب القتل کہا گیا ہے، وہ کس کے لگائے ہوئے ہیں؟ تم لوگ ہی تو ہو اس دنیا کو ، ان لوگوں کو ، بے عقلوں کو جوش دلانے والے، اور اب جب یہ دیکھا کہ دنیا کا رخ اس طرف آ گیا ہے تو ہم بھی ہیں تو سہی اس ظلم میں شامل، پھر دنیا کی نظر میں ہم اس ظلم میں شامل ہونے سے بچ جائیں تو یہ بیان دینے لگ گئے ہیں.تو احمدیوں کے خلاف یہ بغض اور کینہ جو ان نام نہاد علماء کی طرف سے دکھایا جا رہا ہے.یہی اصل وجہ ہے جو یہ ساری کارروائی ہوئی ہے.پاکستان کے چیف جسٹس صاحب ہیں، ذراذراسی بات پر خود نوٹس لیتے ہیں.اخباروں میں یہ بات آ جاتی ہے.تو یہ جو اتنا بڑا ظلم ہوا ہے اور یہ جو بینر لگے ہوئے ہیں اور جو پوسٹر لگے ہوئے ہیں اس پر ان کو خیال نہیں آیا کہ خود کوئی نوٹس لیں اور یہ علماء جو لوگوں کو اُکسا رہے ہیں ، ان کے خلاف کارروائی کریں.کیا انصاف قائم کرنے کے معیار صرف اپنی پسند پر منحصر ہیں؟ جیسا کہ میں نے کہا، ہمارا رونا اور ہمارے دکھ تو خدا تعالیٰ کے سامنے ہیں.ان سے تو ہم نے کچھ نہیں لینا.لیکن صرف ان کے معیاروں کی طرف میں نشاندہی کر رہا ہوں.ہمارا تو 31

Page 45

ہر ابتلاء کے بعد اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیوں کا اور اس کی رضا کے حصول کا ادراک اور بڑھتا ہے.بندے نہ تو ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں یہ کچھ دے سکتے ہیں.بے شک دنیا میں آج کل دہشتگردی بہت زیادہ ہے.پاکستان میں اس کی انتہا ہوئی ہوئی ہے.لیکن احمدیوں کے خلاف دہشتگردی کو قانون کا تحفظ حاصل ہے.اس لئے جوان کے دل میں آتا ہے وہ کرتے ہیں.مونگ رسول کا واقعہ ہوا، وہاں بھی دہشتگردی ہوئی ، وہاں کے جو دہشتگرد تھے پکڑے گئے تھے ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ کیا ان کو سزا دی گئی ؟ وہ پاکستانی گلیوں میں آج بھی آزادی کے ساتھ پھر رہے ہیں.پس ان سے تو کوئی احمدی کسی قسم کی کوئی توقع نہیں کر سکتا اور نہ کرتا ہے.ہمارا مولیٰ تو ہمارا اللہ ہے اور اس پر ہم تو کل کرتے ہیں.وہی ہمارا معین و مددگار ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ ہمیشہ ہماری مددکر تا رہے گا اور اپنی حفاظت کے حصار میں ہمیں رکھے گا.ان لوگوں سے آئندہ بھی کسی قسم کی خیر کی کوئی امید نہیں اور نہ کبھی ہم رکھیں گے.اس لئے احمدیوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے.اور دعاؤں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے.اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ کی دعا بہت پڑھیں.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِيْ وَانْصُرْنِيْ وَارْحَمْنِی کی دعا ضرور پڑھیں.اس کے علاوہ بھی بہت دعائیں کریں.ثبات قدم کے لئے دعائیں کریں.ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا ئیں ، روئیں.ان دو مساجد میں جو ہمارے زخمی ہوئے ہیں ان کے لئے بھی دعائیں کریں.ان زخمیوں میں سے بھی آج ایک اور ڈاکٹر عمران صاحب تھے ان کی شہادت ہوگئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون الله تعالی باقی جو زخمی ہیں ان کو شفا عطا فرمائے اور ہر احمدی کو ہر شر سے ہمیشہ بچائے.احمدیوں نے پاکستان کے بنانے میں کردار ادا کیا تھا اور ان لوگوں سے بڑھ کر کیا تھا، جو آج دعویدار ہیں، جو آج پاکستان کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اس لئے ملک کی بقا کے لئے بھی دعا کرنا ہمارا فرض ہے.اور ان لوگوں کے شر سے بچنے کے لئے اور ان کے عبرتناک انجام کے لئے بھی دعا کریں جو ملک میں افراتفری اور فساد پھیلا رہے 32

Page 46

ہیں، جنہوں نے ملک کا سکون برباد کیا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے.ایک بات اور کہنا چاہوں گا.ایک احمدی نے بڑے جذباتی انداز میں ایک خط لکھا لیکن اس سوچ پہ مجھے بڑی حیرت ہوئی، کیونکہ پڑھے لکھے بھی ہیں جماعتی خدمات بھی کرنے والے ہیں.ایک فقرہ یہ تھا کہ دشمن نے کیسے کیسے ہیرے مٹی میں رول دیئے“.یہ بالکل غلط ہے.یہ ہیرے مٹی میں رولے نہیں گئے.ہاں دشمن نے مٹی میں رولنے کی ایک مذموم کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی اہمیت پہلے سے بھی بڑھا دی اور ان کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگالیا.ان کو دائمی زندگی سے نوازا.اس ایک ایک ہیرے نے اپنے پیچھے رہنے والے ہیروں کو مزید صیقل کر دیا.ان جانے والے ہیروں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے چمکدار ستاروں کی صورت میں آسمانِ اسلام اور احمدیت پر سجا دیا جس نے نئی کہکشائیں ترتیب دے دی ہیں اور ان کہکشاؤں نے ہمارے لئے نئے راستے متعین کر دیئے.ان میں سے ہر ہر ستارہ جب اس سے علیحدہ ہو کے بھی ہمارے لئے قطب ستارہ بن جاتا ہے.پس ہمارا کوئی بھی دشمن کبھی بھی اپنی مذموم اور قبیح کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتا.اور ہر شہادت بڑے بڑے پھل پیدا کرتی ہے، بڑے بڑے مقام حاصل کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب شہیدوں کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے ، اور ہم بھی ہمیشہ استقامت کے ساتھ دین کی خاطر قربانیاں دیتے چلے جانے والوں میں سے ہوں.شہداء کا ذکر بھی کرنا چاہتا تھا لیکن یہ تو ایک لمبی بات ہو جائے گی.آئندہ انشاء اللہ مختصر ذکر کروں گا کیونکہ تقریباً 85 شہداء ہیں مختصر تعارف بھی کروایا جائے تو کافی وقت لگتا ہے.جمعہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ان کی نماز جنازہ بھی پڑھاؤں گا.اسی دوران گزشتہ دنوں اس واقعہ کے دو تین دن کے بعد نارووال میں ہمارے ایک احمدی کو شہید کر دیا گیا.ان کا نام نعمت اللہ صاحب تھا اور اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے.صحن میں آ کر چھریوں کا وار کر کے ان کو شہید کیا.ان کا بڑا بیٹا بچانے کے لئے آیا تو اس کو بھی زخمی کر دیا.وہ ہسپتال میں ہے.اللہ تعالیٰ اس کو بھی شفا عطا فرمائے اور مرحوم کے 33

Page 47

درجات بلند کرے.ان کی اہلیہ اور تین بیٹیاں ہیں اور تین بیٹے ہیں.ان کے دوسرے عزیزوں میں سے بھی لاہور میں دو شہید ہوئے ہیں.اور قاتل کا تعلق تحفظ ختم نبوت سے ہے.ایک طرف تحفظ ختم نبوت والے اعلان کر رہے ہیں کہ بہت برا ہوا.دوسری طرف اپنے لوگوں کو اُکسا رہے ہیں کہ جاؤ اور احمدیوں کو شہید کرو اور جنت کے وارث بن جاؤ.وہ پکڑا گیا ہے اور اس نے اقرار کیا ہے کہ سانحہ لاہور کے پس منظر میں مجھے بھی کیونکہ ہمارے علماء نے یہی کہا ہے اس لئے میں شہید کرنے کے اس نیک کام کے لئے ثواب حاصل کرنے کے لئے آیا تھا.اور پھر پکڑے جانے کے بعد یہ بھی کہ دیا کہ یہاں ہم کسی بھی احمدی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے.تو یہ تو ان کے حال ہیں.پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں بدنام کیا جاتا ہے.دنیا میں تو خود تم اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہو.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے.بہت دعائیں کریں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ مریضوں کے لئے بھی بہت دعا ئیں کریں.اللہ تعالیٰ انہیں شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.34

Page 48

خطبه جمعه سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ايده الله تعالیٰ بنصره العزيز فرمودہ 11 جون 2010ء بمقام بیت الفتوح لندن 35

Page 49

Page 50

آج میں ان شہداء کا ذکر کروں گا جو لاہور میں جمعہ کے دوران دہشت گردوں کے ظلم اور سفا کی کا نشانہ بنے تھے.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ موت کو سامنے دیکھ کر بھی وہاں موجود ہر احمدی نے کسی خوف کا اظہار نہیں کیا.نہ ہی دہشت گردوں کے آگے ہاتھ جوڑے، نہ زندگی کی بھیک مانگی، بلکہ دعاؤں میں مصروف رہے اور ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش میں مصروف رہے.یہ کوشش تو رہی کہ اپنی جان دے کر دوسرے کو بچائیں لیکن یہ نہیں کہ ادھر ادھر panic ہو کر دوڑ جائیں.اور ان دعاؤں سے ہی گولیوں کی بوچھاڑ کرنے والوں کا مقابلہ کیا جو ظالمانہ طریقے پر گولیاں چلا رہے تھے.ان دعائیں کرنے والوں میں کچھ مومنین کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کا رتبہ عطا فرمایا اور یہ رتبہ پاکر ان کو خدا تعالیٰ نے دائمی زندگی عطا فر مادی اور یہ سب لوگ جو ہیں یہ احمدیت کی تاریخ میں انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ روشن ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے.بہر حال شہداء کا ذکر میں کرنا چاہتا ہوں.ان کے ذکر خیر سے پہلے ایک ضروری امر کی وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں.مجھ سے بعض جماعتوں کی طرف سے بھی پوچھا جا رہا ہے کہ شہداء فنڈ میں لوگ کچھ دینا چاہتے ہیں تو یہ رقم کس مد میں دینی ہے؟ اسی طرح بعض دوست مشورے بھی بھجوا رہے ہیں کہ شہداء کے لئے کوئی فنڈ قائم ہونا چاہئے.یہ ان کی لاعلمی ہے.شہداء کے لئے فنڈ تو اللہ تعالی کے فضل سے خلافت رابعہ سے قائم ہے جو سیدنا بلال فنڈ“ کے نام سے ہے اور میں بھی اپنے اس دور میں ایک عید کے موقع پر اور خطبوں میں دو دفعہ بڑی واضح طور پر اس کی تحریک کر چکا 37

Page 51

ہوں.اس فنڈ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے شہداء کی فیملیوں کا خیال رکھا جاتا ہے، جن جن کو ضرورت ہو ان کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور اگر اس فنڈ میں کوئی گنجائش نہ بھی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ان کا حق ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ ان کا خیال رکھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ہم ان کا خیال رکھتے رہیں گے.تو بہر حال ” سیدنا بلال فنڈ“ قائم ہے جو لوگ شہداء کی فیملیوں کے لئے کچھ دینا چاہتے ہوں اس میں دے سکتے ہیں.مکرم منیر احمد شیخ صاحب شہید (امیر ضلع لاہور) آج سب سے پہلے میں مکرم منیر احد شیخ صاحب کا ذکر کروں گا جو دارالذکر میں شہید ہوئے تھے اور امیر ضلع لاہور تھے.ان کے والد صاحب مکرم شیخ تاج دین صاحب سٹیشن ماسٹر تھے اور ان کے والد نے 1927 ء میں احمدیت قبول کی تھی.جالندھر کے رہنے والے تھے.ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم سے ان کی دوستی تھی اور یہ دونوں پہلے احمدیت کے بہت زیادہ مخالف تھے.یعنی شیخ صاحب کے والد اور حضرت مفتی ملک سیف الرحمن صاحب.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب دیکھیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شان میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشعار پڑھے تو پھر ان کو جستجو پیدا ہوئی اور چند کتابیں پڑھنے کے بعد ان دونوں بزرگوں کے دل صاف ہو گئے.بہر حال مکرم شیخ منیر احمد صاحب، شیخ تاج دین صاحب کے بیٹے تھے.ان کی تعلیم ایل ایل بی تھی.تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ سول جج بنے.پھر مختلف جگہوں پر ان کی پوسٹنگ ہوتی رہی، اور پھر سیشن جج سے ترقی ہوئی اور پھر لاہور میں سپیشل جج اینٹی کرپشن پر ان کی تعیناتی ہوئی.پھر پیشل جج کسٹم کے طور پر کام کیا.اور ٹیب (NAB) کے حج کے طور پر بھی کام کرتے رہے اور 2000ء میں یہ ریٹائر ہوئے.موصوف شیخ صاحب کے انصاف کی ہر جگہ شہرت تھی.جن کا بھی ان سے واسطہ پڑتا تھا 38

Page 52

ان کو پتہ تھا کہ یہ انصاف پسند آدمی ہیں اور انہیں کبھی کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا تھا.راولپنڈی میں ایک کیس کے دوران دونوں پارٹیوں میں سے ایک پارٹی جو لا ہوری احمدی ہیں ان کی خواتین تھیں.ان کے وکیل مجیب الرحمن صاحب تھے.اور دوسرا فریق جو تھا ، دوسری پارٹی ایک مولویوں کی پارٹی تھی.تو کورٹ میں آکے انہوں نے پہلے ہی بتا دیا کہ میں احمدی ہوں اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو بتائیں.جو دوسرا گروپ مولویوں کا تھا، ان کا مقدمہ احمدی پیغامیوں کے ساتھ تھا.لیکن انہوں نے کہا کہ ہمیں قبول ہے ہم آپ سے ہی فیصلہ کروانا چاہتے ہیں.جو پیغامی فریق تھا ان کے وکیل مجیب الرحمن صاحب احمدی تھے.تو وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ خوف ہوتا تھا کہ کہیں آپ اپنی انصاف پسندی کا اظہار کرنے کے لئے ہمارے خلاف فیصلہ نہ کر دیں.لیکن انہوں نے انصاف کو ہمیشہ ملحوظ رکھا اور انصاف کی بنیاد پر ہی فیصلہ کیا اور ان خواتین کے حق میں کردیا اور مولویوں کے خلاف ہوا.ان کا علم بھی بڑا وسیع تھا.بڑے دلیر تھے.قوت فیصلہ بہت تھی.ملازموں اور غریبوں سے بڑی ہمدردی کیا کرتے تھے.درویش صفت انسان تھے.جب بھی میں ان کو ملا ہوں جہاں تک میں نے دیکھا ہے ان کی طبیعت میں بڑی سادگی تھی.فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے.اس کے علاوہ شروع میں ماڈل ٹاؤن حلقہ میں زعیم اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات رہی ہیں.گارڈن ٹاؤن حلقہ کے صدر بھی رہے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ہمارا اور بچوں کا ہمیشہ بہت خیال رکھتے تھے.یہ کہا کرتے تھے کہ میں تو ایک غریب سٹیشن ماسٹر کا بیٹا ہوں اور تم لوگوں کی ضروریات کا ، بچوں کا خیال مجھے اس لئے رکھنا پڑتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو سیشن جج کے بچے سمجھتے ہیں.وصیت کے نظام میں بھی شامل تھے.اور جیسا کہ میں نے کہا دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے.شہادت سے ایک دن قبل ان کی بہن نے لجنہ اماءاللہ کو وصایا کے حوالہ سے ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ وصیت بھی جنت کے حصول کا ذریعہ ہے اور گھر آ کر شیخ صاحب سے جب بات کی کہ کیا میں نے ٹھیک کہا ہے؟ تو انہوں نے کہا یہ ٹھیک ہے.لیکن اپنی بہن کو کہا کہ، آپا! اصل 39

Page 53

جنت کی ضمانت تو شہادت سے ملتی ہے.اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ شہادت سے قبل شہید مرحوم کا فون آیا کہ میرے سر اور ٹانگ پر چوٹ آئی ہے اور بلند آواز سے کہا کہ میں ٹھیک ہوں.خدام نے ان کو نیچے کی طرف یعنی basement میں جانے کے لئے کہا تو انہوں نے انکار کر دیا.اور جب فائرنگ شروع ہوئی ہے تو کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر لوگوں کو کہا کہ بیٹھ جائیں اور درود شریف پڑھیں اور دعائیں کریں.اپنا فون ان کے پاس نہیں تھا، ایک خادم سے فون لیا گھر بھی فون کیا، پولیس کو بھی فون کیا.پولیس نے جواب دیا کہ ہم آگئے ہیں تو بڑے غصے سے پھر ان کو کہا کہ پھر اندر کیوں نہیں آتے؟ ایک خادم جس نے فون دیا تھا ان کے مطابق آخری آواز ان کی اس نے بینی تھی کہ اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ نماز جمعہ پر جانے سے پہلے چندہ کی رقم مجھے پکڑائی اور کہا کہ اپنے پاس رکھ لو.کیونکہ آج تک پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا تو میں نے کہا کہ جہاں آپ پہلے رکھتے تھے وہیں رکھ دیں.انہوں نے کہا کہ نہیں آج تم رکھ لو کیونکہ دفتر بند ہو گا اس لئے جمع نہیں کروا سکتا.اسی طرح ایک کیس کے بارے میں مجھے بتایا.اہلیہ سے کہا کہ وہ آگے چلا گیا ہے، اس کی تاریخ آگے پڑگئی ہے اور یہ کیس کے پیسے ہیں، یہ اپنے پاس رکھ لو اور کیس والے فریق کو دے دینا اور اس کی فائل بھی.اہلیہ کہتی ہیں کہ حالانکہ پہلے میرے سے کبھی آج تک انہوں نے کوئی کیس ڈسکس (Discuss) نہیں کیا.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دو دفعہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد یا بلکہ پہلے ہی میرا اوقف قبول کریں.حضور نے ان کو یہی فرمایا تھا کہ جہاں آپ کام کر رہے ہیں وہیں کام کریں کیونکہ اس کے ذریعہ سے احمدیت کی تبلیغ زیادہ مؤثر رنگ میں ہو رہی ہے.لوگوں کو پتہ لگے کہ احمدی افسر کیسے ہوتے ہیں.ان کے ایک بیٹے نے بتایا کہ میں نے ان سے کہا کہ اپنا کوئی سکیورٹی گارڈ رکھ لیں.کہنے لگے کیا ہوگا؟ مجھے گولی مار دیں گے تو شہید ہو جاؤں گا.40

Page 54

ہمارے سلسلہ کے ایک مبلغ ہیں مبشر مجید صاحب انہوں نے ان کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے.یہ گلبرگ لاہور میں مربی ہوتے تھے کہتے ہیں کہ 97ء یا 98ء کی بات ہے کہ مجھے ایک دن مربی ضلع کا فون آیا کہ غیر احمدیوں کے ایک بڑے عالم ہیں اور جمیعت علمائے پاکستان کے کسی اعلیٰ عہدے پر، بڑے عہدے پر قائم ہیں ان کو ہم نے ملنے جانا ہے.تو کہتے ہیں میں بڑا حیران ہوا کہ کیا ضرورت ، مصیبت پڑ گئی ہے ان کو ملنے کی ؟ خیر، کہتے ہیں میں مربی صاحب ضلع کے ساتھ چلا گیا.سبزہ زار میں جمیعت کا سیکریٹریٹ ہے تو وہاں جب ہم پہنچے ہیں تو ان صاحب سے تعارف ہوا.یہ ہمارے شدید ترین مخالف لوگ ہیں.ان صاحب نے جو جمیعت علماء پاکستان کے سیکرٹری تھے انہوں نے کہا کہ مجھ پر کسٹم والوں نے ایک سراسر غلط مقدمہ بنا دیا ہے.جو جج ہے وہ نہایت عجیب وغریب قسم کا انسان ہے.میں تین پیشیاں بھگت چکا ہوں.جب بھی میں عدالت میں آتا ہوں تو کرسی پر بیٹھتے ہی میز پر ایک زور دار مکا مارتا ہے اور کہتا ہے کہ Listen every body کہ میں احمدی ہوں، اب مقدمہ کی کارروائی شروع کرو.تو یہ صاحب کہتے ہیں کہ میری تو آدھی جان و ہیں نکل جاتی ہے جب یہ دھمکی دیتے ہیں.مجھے یہ خیال ہے کہ یہ مجھے پیغام دیتے ہیں کہ بچو ! اب تم میرے قابو میں آئے ہو ، اب میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں.تو آپ لوگ خدا کے واسطے میری کوئی مدد کریں اور میری اس سے جان چھڑوائیں.مجھے لگتا ہے کہ مذہبی مخالفت کی بنا پر مجھے سزا دے دے گا.پھر بولے: عجیب قسم کا آدمی ہے.یہ کوئی زمانہ ہے، یہ حالات ہیں؟ کہ یہ صاحب آتے ہیں اور میز پر مکا مار کے اپنے احمدی ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور میرے پسینے چھوٹ جاتے ہیں.مرتبی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ غلطی پر ہیں.آپ نے ان کے پیغام کو نہیں سمجھا.وہ میز پر مکا مار کے یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک سن لو، میں احمدی ہوں.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ آپ کو دھمکاتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سنو اور غور سے سنو کہ میں احمدی ہوں.نہ میں رشوت لیتا ہوں ، نہ ہی میں کسی کی سفارش سنوں گا اور نہ ہی میرے فیصلے کسی تعصب کے زیر اثر ہوتے ہیں.میں صرف خدا سے ڈرتا 41

Page 55

ہوں.مربی صاحب نے کہا یہ ہے ان کا اصل مطلب.اس لئے ہم پر تو آپ رحم کریں اور ہمیں کسی سفارش پر مجبور نہ کریں اور نہ ہی ہم ایسا کریں گے.تو کہتے ہیں بہر حال وہ صاحب بڑے پریشان تھے کہ اگر اس نے مجھے ٹانگ دیا تو پھر کیا ہوگا ؟ تو میں نے کہا آپ کے کہنے کے مطابق اگر آپ بے قصور ہیں تو آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ صرف مذہبی اختلافات کی بنیاد پر آپ کو سزا نہیں دیں گے.اس کے بعد ان کے ہاں سے چلے آئے.پانچ چھ مہینے کے بعد ان کے پی اے (P.A) کا فون آیا اور اطلاع دی کہ وہ باعزت طور پر بری ہو گئے ہیں اور ہمارے وہ عالم صاحب جو لیڈر ہیں جمیعت علمائے اسلام کے آپ لوگوں کا شکر یہ ادا کر رہے ہیں.میں نے عرض کیا کہ ان سے کہیں کہ ہمارا شکر یہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے.شکر یہ ادا کریں اس امام مہدی آخر الزمان کا ، جس کی تعلیمات اور قوت قدسیہ کے فیض نے ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو ان اخلاق کو زندہ کرنے والی ہے جو آج دنیا سے نا پید ہیں.تو یہ تھا ان کے انصاف کا معیار.اور بڑے دبنگ ، جرات والے انسان تھے.گزشتہ سال جب میں نے ان کو امیر جماعت لاہور مقرر کیا ہے تو انہیں لکھا کہ اگر کوئی مشکل ہو براہ راست رہنمائی لینی چاہتے ہوں تو بے شک لے لیا کریں اور بے شک مجھ سے رابطہ رکھیں.ایک دن ان کا فون آیا تو میں نے کہا کہ خیر ہے؟ تو کہنے لگے کہ اس اجازت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو آپ نے دی ہے میں نے کہا فون کر لوں اور اگر کوئی ہدایت ہو تو لے لوں.باقی کام تو صحیح چل رہے ہیں.اور آپ سے سلام بھی کرلوں.تو بڑے منجھے ہوئے شخص تھے.سب جو کارکنان تھے، ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کو ساتھ لے کر چلنے والے تھے.لجنہ ضلع لاہور کی صدر نے مجھے بتایا کہ جب یہ مقرر ہوئے ہیں تو ہمیں خیال تھا کہ یہ کس شخص کو آپ نے امیر جماعت مقرر کر دیا ہے جس کو زیادہ تر لوگ جانتے بھی نہیں.لیکن ان کے ساتھ کام کرنے سے پتہ چلا کہ یقیناً انہوں نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کر دیا اور بڑے پیار سے ساروں کو ساتھ لے کر چلے.بے شمار خصوصیات کے حامل تھے.اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں میں ان کو جگہ دے.42

Page 56

مکرم میجر جنرل (ریٹائرڈ) ناصر احمد چوہدری صاحب شہید دوسرے شہید مکرم میجر جنرل (ریٹائرڈ) ناصر احمد چوہدری صاحب ابن مکرم چوہدری صفدر علی صاحب ہیں.یہ بہلول پور تحصیل پسر ورضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.ان کے والد صاحب انسپکٹر تھے اور 1930 ء میں ڈیوٹی کے دوران ہی وہ بھی شہید ہوئے تھے.اس وقت جنرل صاحب شہید کی عمر صرف 10 سال تھی.جنرل صاحب کی دادی جو تھیں وہ حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کی رضاعی والدہ بھی تھیں.1942ء میں ان کو کمیشن ملا ، بنگلور گئے.اور دوسری جنگ عظیم میں برما کے فرنٹیئر فورس محاذ پر تھے.43ء میں ان کا نکاح ہوا اور سید سرور شاہ صاحب نے ان کا نکاح پڑھا.اور اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ میرے نکاح میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہوئے تھے.بہر حال فوج میں ترقی کرتے رہے اور 1971ء میں راجھستان میں اپنی بنائی ہوئی 33- Div کی کمانڈ کرتے رہے.وہیں ان کے گھٹنے میں گولی لگی جو ان کے جسم کے اندر ہی رہی ہے.ڈاکٹر اس کو نکال نہیں سکے.اس حملے کے دوران میں ان کا جو پرسنل سیکرٹری تھا وہ بھی زخمی ہوا.اس کو تو انہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ سے حیدر آباد بھیجا اور خود ٹرین کے ذریعے حیدر آباد پہنچے.ڈاکٹر کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دوبارہ چلنے لگ جائیں تو معجزہ ہوگا.اس لئے گولی بھی نہیں نکالی کہ خطرہ تھا کہ مزید خرابی پیدا ہو جائے گی لیکن بہر حال بڑی قوت ارادی کے مالک تھے.ورزش کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی ٹانگ اس قابل ہوگئی کہ چلتے تھے اور اپنی کیٹیگری اے کر والی کیونکہ بی میں نوکر مل جاتا ہے.بیس سال تک یہ سیکرٹری اصلاح و ارشاد ضلع لاہور رہے ہیں.1987 ء سے لے کر شہادت کے وقت تک بطور صدر حلقہ ماڈل ٹاؤن خدمت سرانجام دیتے رہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 91 سال تھی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.مسجد ماڈل ٹاؤن میں ان کی شہادت ہوئی ہے.43

Page 57

ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بہت مخلص اور خلافت سے محبت کرنے والے تھے.نمازی، پر ہیز گار، جماعت کا درد رکھنے والے انسان تھے ایک دفعہ ڈرائیور کی مشکل پیش آئی تو میں نے کہا کہ اپنی پلٹن سے ڈرائیور مانگ لیں تو جواباً کہا کہ نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے بہت دیا ہے.خود ہی خرچ کروں گا.ابتدائی دور میں 1943ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے.لاہور کے ایک نائب امیر ضلع تھے مکرم میجر لطیف احمد صاحب.وہ بھی فوج سے ریٹائر ہوئے تھے اور میجر تھے، اور یہ فوج سے ریٹائر ہوئے اور جنرل تھے.وہ ان کو مذاق میں کہا کرتے تھے کہ دیکھو آج جنرل بھی میرے نیچے کام کر رہا ہے.کیونکہ وہ میجر صاحب نائب امیر تھے تو شہید مرحوم ہنس کے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمارا کام تو اطاعت ہے.جب میں احمدی ہوں اور جماعت کی خاطر کام کر رہا ہوں تو پھر میجری اور جرنیلی کا کوئی سوال نہیں.مسجد نور میں جو ماڈل ٹاؤن کی مسجد ہے، عموماً ہال سے باہر کرسی پر بیٹھا کرتے تھے اور جو سانحہ ہوا ہے اس دن جب فائرنگ شروع ہوئی ہے تو ایک صاحب نے ، احمدی دوست روشن مرزا صاحب نے کہا کہ اندر آجائیں.تو انہوں نے کہا کہ آپ باقی ساتھیوں کو پہلے اندر لے جائیں اور پھر آخر میں خود اندر گئے اور ہال کے آخری حصہ میں لگی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے.اس کے بعد لوگ تہہ خانے کی طرف جاتے رہے اور ان کو بھی لے جانے کی کوشش کی.لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں، مجھے یہاں ہی رہنے دو.اسی دوران دہشتگر دنے ایک گرینیڈان کی طرف پھینکا جو ان کے قدموں میں پھٹا.گرینیڈ پھٹنے سے ان کے ساتھ والے بزرگ بھی نیچے گرے لیکن اس کے بعد اٹھ کر دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئے.پھر دہشتگرد نے ان پر فائرنگ کی جس سے گردن میں ایک گولی لگی اور وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کی حالت میں شہید ہوئے.جیسا کہ میں نے کہا ہے بڑی عاجزی سے اور بڑی وفا سے انہوں نے اپنی جماعت کی خدمات بھی ادا کی ہیں اور عہد بیعت کو بھی نبھایا ہے.شہادت کا رتبہ تو ان کو فوج میں بھی بعض ایسے حالات پیدا ہوئے جب مل سکتا تھا.لیکن خدا تعالیٰ کو اپنے بندوں کی کوئی نہ کوئی 44

Page 58

نیک ادا پسند آتی ہے.ان کی یہ ادا پسند آئی کہ شہادت کا رتبہ تو دیا لیکن مسیح محمدی کے ایک کارکن کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے دیا اور عبادت کرتے ہوئے دیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب شہید پھر مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب شہید ہیں جو مکرم مہر راجہ خان بھروانہ صاحب کے بیٹے تھے.شہید مرحوم کے والد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں بیعت کی.جھنگ کے رہنے والے تھے.ٹیکسلا یونیورسٹی سے مکینیکل انجنیئر نگ کی اور 1981 ء سے پاکستان ریلوے میں ملازمت اختیار کی.مجلس انصار اللہ کے بڑے اچھے رکن تھے، جمعہ کے روز آپ عام طور پر مسجد میں کھڑے ہو کر اعلانات کیا کرتے تھے.اس وقت بھی خطبہ سے پہلے اعلان کر کے فارغ ہوئے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 59 سال تھی.ان کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی ہے.نسیم مہدی صاحب اور پروازی صاحب کے یہ برادر نسبتی تھے، بہنوئی تھے اور مولوی احمد خان صاحب ان کے خسر تھے.پاکستان ریلوے ملینیکل انجنیئر نگ میں چیف انجنیئر تھے اور بیسویں گریڈ کے افسر تھے اور اکیسویں گریڈ کے لئے فائل جمع کروائی ہوئی تھی اور چند روز میں ان کی ترقی ہونے والی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ عظیم رتبہ ان کو عطا فرمایا ہے جس کے سامنے ان گریڈوں اور ان ترقیوں کی کوئی حیثیت نہیں.ان کے بارے میں ڈیوٹی پر موجود ایک خادم نے بتایا کہ مکرم اسلم بھر روانہ صاحب کو تہہ خانہ میں بھجوانے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں یہیں رہوں گا.آپ دوسروں کو تہہ خانے میں لے جائیں اور خود ہال سے باہر صحن میں نکلے تا کہ دوسروں کی خبر گیری کرسکیں.جب دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے دہشتگرد نے ان پر فائرنگ کر دی.شہید مرحوم اہم جماعتی عہدوں پر فائز رہے.سابق قائد علاقہ راولپنڈی اور لاہور کے علاوہ سیکرٹری تربیت نومبائعین ،سیکرٹری جائیداد لاہور، لاہور کا ہانڈو گھر میں قبرستان ہے اس 45

Page 59

کے نگران ، بہت اخلاص سے دن رات محنت کرنے والے تھے اور بہت بہادر انسان تھے.جب کوئٹہ میں بسلسلہ ملازمت تعینات تھے تو ضیاء الحق اس وقت صدر پاکستان تھے.ان کی آمد پر ریلوے آفیسر ہونے کی وجہ سے ان کو آگے سیٹ ملی.جب وہاں جو فنکشن تھا اس میں آگے بیٹھے ہوئے تھے ، پہلی لائن پر ، اور وہاں ان دنوں کلمے کی مہم بھی چل رہی تھی.مطلب ہے کہ احمدیوں کو منع کیا تھا، نیا نیا آرڈینینس آیا تھا انہوں نے کلمے کا بیج لگایا ہوا تھا اور آ کے آگے بیٹھ گئے.تو گورنر نے ان کو پیغام بھیجا کہ آپ یا تو پیچھے چلے جائیں یا کملے کا بیج اتار دیں.تو انہوں نے جواب دیا کہ نہ تو میں کلمے کا بیج اتارسکتا ہوں اور نہ ڈر کی وجہ سے پیچھے جاسکتا ہوں.آپ اگر چاہیں تو مجھے بے شک گھر بھیج دیں یعنی نوکری سے فارغ کر دیں.بہر حال ڈٹے رہے.اس طرح کے ابتلاء کے دور میں لاہور کے قائد علاقہ رہے ہیں اور حالات کے پیش نظر احمدی نوجوانوں کو ڈیوٹی کے لئے ہمیشہ انہوں نے تیار کیا.خود بھی لمبے عرصے تک گیٹ پر ڈیوٹی دیتے رہے.بہت مدد کرنے والے اور خدمتِ خلق کرنے والے انسان تھے.شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ خلافت اور جماعت سے عشق تھا.جماعتی کام کو ترجیح دیتے تھے.زندگی وقف کرنے کی بہت خوشی تھی.ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی وقف کی تھی اور صحت کا خیال اس لئے رکھتے تھے کہ میں نے وقف کیا ہوا ہے اور جماعت کے کام آسکوں.باجماعت نماز کے پابند اور دیانتدار افسر تھے اس لئے ان کی ہر جگہ بہت عزت کی جاتی تھی.جب یہ تعلیم حاصل کر رہے تھے تو جماعتی طور پر ان کا خرچ اٹھایا جاتا تھا.اس لئے با قاعدگی سے کفالت یتامیٰ میں چندہ ادا کیا کرتے تھے.یتامی کی طرف سے ان کا خرچ اٹھایا جاتا تھا.اس کے علاوہ بھی دیگر چندہ جات میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.شہید مرحوم کی ایک عزیزہ نے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ آواز آئی ” شہیدوں کو چننے کے لئے تیار ہو جاؤ“.خود میں نے بھی ان کو دیکھا ہے بڑی عاجزی سے کام کرنے والے تھے اور مرکزی کارکنان ، جس لیول کا بھی کارکن ہو، اس کی بڑی عزت کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.46

Page 60

مکرم محمد اشرف بلال صاحب شہید مکرم محمد اشرف بلال صاحب شہید ابن مکرم عبداللطیف صاحب.شہید مرحوم کے والد نے بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی تھی.ان کے نانا مکرم خدا بخش صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.یہ برطانیہ کے شہری تھے.ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے.مالی خدمات میں حصہ لینے والے تھے.انہوں نے شالیمار ٹاؤن کی بیت الذکر تعمیر کروا کر جماعت کو عطیہ کرنے کی سعادت پائی.انجنیئر نگ کے شعبہ سے وابستہ تھے.اپنی ورکشاپ فیکٹری بنائی ہوئی تھی.شہادت کے وقت ان کی عمر 56 سال تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی خدمات ، سیکرٹری تحریک جدید وغیرہ کے طور پر بھی انجام دے رہے تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے.موصی تھے.ان کے بائیں کندھے کے پیچھے سے گولی لگ کر سامنے دل سے نکل گئی تھی اور مضبوطی سے انہوں نے ہاتھ جسم کے قریب کر کے جیب میں ڈالا اور ڈرائیور کوفون کیا کہ مجھے گولی لگی ہے لیکن کسی کو بتانا نہیں ہے.اسی طرح ایک گولی ان کی گردن پر بھی لگی.ایک بچہ نثار احمد نام کا جو بچپن سے ان کے پاس تھا.اس کے بارے میں دیکھنے والوں نے بتایا کہ ان کو گرتے ہوئے اس بچے نے بازوؤں میں لے لیا.لیکن وہ نیم مردہ حالت میں آگئے.نثار نے ان کا سراٹھا کر جب ان کے دل کی دھڑکن سننے کی کوشش کی ہے تو دہشتگر دنے ایک اور گولیوں کی بوچھاڑ کی جس سے وہ لڑکا نثار احمد بھی شہید ہو گیا اور وہ بھی شہادت پاتے ہوئے اپنی وفاداری کا ثبوت دے گیا.ہر وقت ذکر الہی اور استغفار میں مصروف رہتے تھے.نمازوں میں خوب روتے تھے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں میں وجہ پوچھتی تھی تو کہتے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں میں تو اس قابل نہ تھا.خدمت خلق اور مالی قربانی میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے.ہر ماہ کئی لاکھ روپیہ خدمت خلق کے لئے خرچ کر دیتے تھے.ایک فری ڈسپنسری چلا رہے تھے.بہت سے لوگوں کو ماہانہ خرچ دیتے تھے.جو کوئی بھی ان کے پاس مدد کے لئے آتا تو کہتے کہ اب 47

Page 61

- کسی اور کے پاس نہیں جانا، میرے سے لیا کرو.ان کی اہلیہ کہتی ہیں اشرف صاحب کا رو یه دو ماہ سے مختلف ہو رہا تھا.جلدی جلدی تمام کام مکمل کروار ہے تھے.یو.کے والے گھر کی دیوار اونچی کروائی اور مجھے نصیحت کی کہ اب تم ایک ملازمہ رکھ لو اور یہاں سے ایک لڑکی کے ویزے کا کام مکمل کروایا کہ اس کو ساتھ لے کر جانا ہے.شہادت سے پندرہ روز قبل مجھے مختلف کاموں کی انجام دہی کے لئے وصیت کی تو میں نے کہا کہ میں یہ نہیں کر پاؤں گی.تو جواباً کہا کہ نہیں تم اچھی طرح سنبھال لوگی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.مکرم کیپٹن (ریٹائرڈ) مرزا نعیم الدین صاحب شہید مکرم کیپٹن (ریٹائرڈ) مرزا نعیم الدین صاحب شہید ابن مکرم مرز اسراج دین صاحب.یہ شہید فتح پور ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.خاندان میں سب سے پہلے ان کے دادا نے بیعت کی تھی.مرزا محمد عبد اللہ صاحب درویش قادیان آپ کے تایا تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 56 سال تھی اور دارالذکر میں شہید ہوئے.شہید مرحوم کی اہلیہ نے ان کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جمعہ کے روز بیٹی کے گھر کھانا کھاتے تھے.زخمی حالت میں کوئی دو بجے کے قریب بیٹی کو گھر فون کیا کہ والدہ کا دھیان رکھنا.ان کی اہلیہ نے کہا پھر میں نے فون پکڑا تو کہا کہ ٹھیک ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں جی ٹھیک ہوں.کہا کہ اللہ حافظ.بیٹے عامر کا پتہ کرواتے رہے.دو افراد کو فوجی نقطۂ نظر سے جان بچانے کے طریقے بتائے جس سے بفضلہ تعالیٰ وہ دونوں محفوظ رہے.خود یہ محراب کے قریب دیوار کے ساتھ بیٹھی ہوئی حالت میں شہید ہو گئے.ان کے پیٹ میں گولی لگی تھی.اس سانحے میں ان کا بیٹا عامرنعیم بھی زخمی ہوا ہے.اللہ تعالیٰ اسے شفائے کاملہ عطا فرمائے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ہمارے دونوں خاندانوں میں ہماری ازدواجی زندگی ایک مثال تھی.پانچ بیٹیاں پیدا ہو ئیں اور ہر بیٹی کی پیدائش پر یہ کہتے تھے کہ رحمت آئی اور ہر بیٹی کی پیدائش کے بعد ان کی ترقی ہوئی.یہ ان لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو بیٹیاں پیدا ہونے پر 48

Page 62

بعض دفعہ بیویوں کو کوستے ہیں اور یہ شکایات مجھے اکثر آتی رہتی ہیں.سپاہی سے یہ کیپٹن تک پہنچے اور دیانتداری کی وجہ سے لوگ ان کا بڑا احترام کرتے تھے.بڑے بہادر انسان تھے.1971ء کی جنگ اور کارگل کی لڑائی میں حصہ لیا.شہادت کی بڑی تمنا تھی.اللہ تعالیٰ نے یہ تمنا بھی ان کی اس رنگ میں پوری فرمائی.عبادت کرتے ہوئے ان کو شہادت کا رتبہ دیا.مکرم کامران ارشد صاحب شہید مکرم کا مران ارشد صاحب شہید ابن مکرم محمد ارشد قمر صاحب.ان کے دادا مکرم حافظ محمد عبداللہ صاحب اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدی تھے.انہوں نے 1918 ء میں بیعت کی.پارٹیشن کے وقت ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے آئے تھے.بوقت شہادت شہید کی عمر 38 سال تھی اور دارالذکر میں انہوں نے شہادت پائی.شہید مرحوم کی تعلیم بی اے تھی.کمپوزنگ کا کام کرتے تھے اور خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال رکن تھے.بطور سیکرٹری تعلیم جماعت کی خدمات سرانجام دے رہے تھے.اس کے علاوہ mtaلا ہور میں 1994ء سے رضا کارانہ خدمت سر انجام دے رہے تھے.اس سے پہلے دارالذکر میں شعبہ کتب میں بھی خدمت سرانجام دیتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ فائرنگ شروع ہونے کے وقت بہادری کے ساتھ جان کی پرواہ کئے بغیر mta کے لئے ریکارڈنگ کرنے کے لئے نکلے مگر اس دوران دہشتگردوں کی فائرنگ کی زد میں آکر شہید ہو گئے.اہلِ خانہ نے بتایا کہ بہت حلیم طبع انسان تھے.بچوں کی نماز کی خصوصی نگرانی کرتے اور پچھلے ایک ماہ سے دارالذکر کے کام میں مصروف تھے.شہادت سے تین چار روز قبل خلاف معمول نہایت سنجیدہ اور خاموش رہے.قرآن شریف کی تلاوت کے بغیر گھر سے نہیں نکلتے تھے.ان کے بارے میں جب ان کی والدہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جمعہ کے روز فجر کے بعد خواب میں دیکھا کہ گھر میں شادی کا ماحول ہے.باہر گلی میں احمدی عورتیں بیٹھی ہیں وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوتی ہیں اور 49

Page 63

میرے گلے میں ہار ڈالتی ہیں.ایک عورت نے مجھے گلے لگایا اور ایک گولڈن پیکٹ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو مہندی کرلی ہے.آپ نے کب کرنی ہے؟ میں نے کہا کہ گھر جا کر کرتے ہیں.یہ والدہ کی خواب تھی.شہید مرحوم کے بھائی نے اپنی خواب کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کامران بہت سارے پھولوں میں کھڑا ہے.شہید کی والدہ لمبا عرصہ حلقہ دارالذکر کی صدر رہی ہیں اور والد سیکرٹری مال رہے ہیں.اس حادثے میں شہید کے ماموں مظفر احمد صاحب بھی شہید ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم اعجاز احمد بیگ صاحب شہید مکرم اعجاز احمد بیگ صاحب شہیدا ابن مکرم محمد انور بیگ صاحب.یہ شہید مرحوم قادیان کے قریب لنگر وال گاؤں کے رہنے والے تھے.والدہ کی طرف سے محمدی بیگم کے رشتے دار تھے.تیمور جان صاحب ابن عبدالمجید صاحب ( نظام جان ) کے بہنوئی تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 39 سال تھی.مجلس خدام الاحمدیہ سے وابستہ تھے اور دارالذکر میں شہید ہوئے.اہلیہ ان کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ ان کو یورین انفیکشن تھی اور دو سال سے ن بیمار تھے.دو مہینے کے بعد پہلی دفعہ جمعہ پڑھنے گئے اور جمعہ سے پہلے خاص طور پر تیاری کی.دو ماہ کے بعد صحت میں بہتری آئی اور ان کو تیار ہوا دیکھ کر کہتی ہیں مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آج پہلے کی طرح اچھے لگ رہے ہیں.لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا.بہت سادہ اور متوکل انسان تھے.کبھی پریشان نہ ہوتے تھے.صابر تھے، کبھی کسی کے منفی طرز عمل کے جواب میں رد عمل کے طور پر منفی طرز عمل نہیں دکھایا.آپ پرائیویٹ ڈرائیونگ کرتے تھے.ان دنوں جنرل ناصر صاحب شہید کے ڈرائیور کے طور پر کام کر رہے تھے.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند کرے.50

Page 64

مکرم مرزا اکرم بیگ صاحب شہید مکرم مرزا اکرم بیگ صاحب شہید ابن مکرم مرزا منور بیگ صاحب یه شهید مرحوم مرزا عمر بیگ صاحب کے پوتے تھے اور عمر بیگ صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دست مبارک پر بیعت کی تھی.پارٹیشن کے وقت قادیان سے ہجرت کر کے آئے تھے.اور ایوب اعظم بیگ صاحب شہید آف واہ کینٹ ان کے حقیقی ماموں تھے.ان کے ماموں کو واہ کینٹ میں میرا خیال ہے 98-1997 ء میں شہید کیا گیا.بوقتِ شہادت شہید کی عمر 58 سال تھی.مجلس انصار اللہ کے ممبر تھے اور دارالذکر میں ہی شہید ہوئے.موصوف کی شہادت گرینیڈ کے شیل لگنے سے ہوئی تھی.ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اپنے بیٹے کو فون کیا اور کہا کہ میں زخمی ہوں میرے لئے دعا کرنا اور اہلیہ کے ساتھ بات کی کہ میں معمولی سا زخمی ہوں میرے لئے دعا کریں.بڑا بیٹا فرحان بھی مسجد میں ساتھ موجود تھا جو ان کو تلاش کرتا رہا لیکن اندازہ ہے کہ جب یہ افواہ مشہور ہوئی کہ دہشتگرد چلے گئے ہیں اور جو کارروائی وہ کر رہے ہیں ختم ہوگئی ہے جو غلط اعلان تھا تو باہر نکلتے ہوئے ان کو گولی لگی.بڑے عبادت گزار تھے پانچ وقت کے نمازی، بہت ہمت والے انسان تھے.ہر سال اعتکاف بیٹھا کرتے تھے.اصول پسند اور وقت کی پابندی کرنے والے تھے.ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ان کی وجہ سے ہمارا گھر گھڑی کی سوئی پر چلتا تھا.بزرگوں کا احترام کرنے والے تھے، بچوں سے بہت پیار تھا.اپنے داماد سے اکثر ذکر کرتے کہ عبادت میں جو پانا چاہ رہا ہوں وہ ابھی تک نہیں ملا، شاید کچھ کمی ہے.شہید مرحوم نے کچھ عرصہ قبل خود خواب میں دیکھا کہ میں کسی پل پر چل رہا ہوں اور سات آٹھ قدم چلنے کے بعد پل ختم ہو گیا ہے.خود ہی اس کی تعبیر کی کہ زندگی تھوڑی رہ گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند مقام دیا.شہید مرحوم کے بچے بتاتے ہیں کہ جب بھی کسی کی شہادت ہوتی تو کہا کرتے تھے کہ کبھی ایسا موقع آئے کہ ہم بھی شہید ہوں.اپنے ماموں کی شہادت پر کہا کہ کاش ان کو لگنے والی گولی مجھے لگی ہوتی.51

Page 65

موصوف نے شادی سے پہلے خود خواب میں دیکھا کہ گھر میں صحن میں کھڑا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بالائی منزل سے مجھے دیکھ رہے ہیں اور میں حضور علیہ السلام کو دیکھ کر کہتا ہوں یہ تو حضور ہیں.خواب میں خانہ کعبہ کی زیارت بھی کی.شہادت سے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ سفید چاول کھا رہا ہوں.اکثر معبرین جو ہیں وہ اس کی یہ بھی تعبیر کرتے ہیں کہ کسی کی خواہش کا پورا ہونا اور بلند درجہ ہونا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم منور احمد خان صاحب شہید مکرم منور احمد خان صاحب شہید ابن مکرم محمد ایوب خان صاحب.یہ ڈیریاں والا ضلع نارووال کے رہنے والے تھے.عرفان اللہ خان صاحب امیر ضلع نارووال کے کزن تھے اور قالینوں کا ان کا کاروبار تھا شہادت کے وقت ان کی عمر 61 سال تھی.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.اپنے چندہ جات با قاعدگی سے ادا کرتے تھے.ان کی تدفین لاہور میں ہانڈ و گجر قبرستان میں ہوئی ہے.بچوں کو خاص طور پر تربیتی کلاسز میں حصہ لینے کی تاکید کرتے.نیک انسان تھے، اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق تھا.اہلیہ بتاتی ہیں کہ اس سے قبل جب حالات خراب ہوئے تو انہوں نے مجھے کہا کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو میرے بچوں کو احمدیت اور خلافت سے منسلک رکھنا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی دعائیں اور خواہشات اپنی اولاد کے حق میں پوری فرمائے.مکرم عرفان احمد ناصر صاحب شہید مکرم عرفان احمد ناصر صاحب شہید ابن مکرم عبدالمالک صاحب.شہید مرحوم کے دادا میاں دین محمد صاحب نے 1934 ء میں بیعت کی تھی.بدوملہی ضلع نارووال کے رہنے والے تھے.ان کی پڑنانی محترمہ حسین بی بی صاحبہ حضرت مصلح موعودؓ کی بیٹی صاحبزادی 52

Page 66

امۃ القیوم کی رضاعی والدہ تھیں.شہید مرحوم کے والد مکرم عبدالمالک صاحب کو نمائندہ الفضل، نمائندہ تشحیذ وخالد برائے لاہور اور سیکرٹری تعلیم القرآن اور سیکرٹری وصایا ضلع لاہور کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی.بوقتِ شہادت شہید کی عمر 31 سال تھی اور مجلس خدام الاحمدیہ میں بطور منتظم اشاعت خدمات سرانجام دے رہے تھے.موصوف نے دارالذکر میں شہادت پائی.ان کے بھائی بتاتے ہیں کہ ان کی ڈیوٹی عموماٹر یفک کنٹرول پر ہوتی تھی.اس حوالے سے غالباً امکان یہی ہے کہ یہ سب سے پہلے شہید یا پہلے چند شہیدوں میں سے ہوں گے.نظام وصیت میں شامل تھے.اطاعت کا مادہ بہت زیادہ تھا.کبھی کسی کام سے انکار نہیں کیا.نہایت خدمت گزار تھے.علاقے میں سماجی کارکن کے نام سے مشہور تھے.مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب شہید مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب شہید ابن مکرم مہر اللہ یار بھروانہ صاحب.یہ محمد اسلم بھروانہ صاحب شہید کے بھانجے تھے اور یہ بھی ضلع جھنگ کے رہنے والے تھے اور ریلوے میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کلرک کی پوسٹ پر ملازمت کر رہے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 30 سال تھی.خدام الاحمدیہ کے بہت ہی فعال اور ذمہ دار رکن تھے.ان کو متعد تنظیمی عہدوں پر خدمت کی توفیق ملتی رہی.شہید مرحوم نے دارالذکر میں شہادت پائی اور نظامِ وصیت میں شامل تھے.ہمیشہ خدمت دین کا موقع تلاش کرتے رہے اور ہر آواز پر لبیک کہنے والے تھے.بہت مخلص احمدی تھے.آخری وقت تک فون پر معتمد صاحب ضلع شہباز احمد کو وقوعہ کے بارے میں اطلاع دیتے رہے اور اطلاع دیتے ہوئے شہید ہو گئے.ایک خادم شعیب نعیم صاحب نے بتایا کہ سجاد صاحب آئے اور مجھے کہتے ہیں کہ مجھے آج یہاں ڈیوٹی دینے دیں.میرا یہ دارالذکر میں آخری جمعہ ہے اس کے بعد میں نے گاؤں چلے جانا ہے.چنانچہ میری جگہ انہوں نے ڈیوٹی دی اور اس ڈیوٹی کے دوران شہید ہو گئے.گاؤں تو نہیں گئے لیکن اللہ تعالیٰ ان کو ایسی جگہ لے گیا جہاں ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہے.بہت 53

Page 67

خدمت گزار تھے.اپنی ملازمت کے فوراًبعد جماعتی دفتر میں تشریف لے آتے تھے اور رات گیارہ بارہ بجے تک وہیں کام کرتے تھے.شہید مرحوم کی اہلیہ نے بتایا کہ ایک ہفتہ پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ سجاد زخمی حالت میں گھر آئے ہیں اور کہا ہے کہ میرے پیٹ میں شدید تکلیف ہے.میں نے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو خون بہہ رہا تھا.اور شہید مرحوم کے پیٹ میں گولیاں لگی ہوئی تھیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.مکرم مسعود احمد اختر باجوہ صاحب شہید مکرم مسعود احمد اختر باجوہ صاحب شهید ابن مکرم محمد حیات باجوہ صاحب.شہید مرحوم کے والد صاحب 7 / 191 ضلع بہاولنگر کے رہنے والے تھے.پیچھے سے یہ سیالکوٹ کے تھے.ان کے والد صاحب اپنے خاندان میں احمدیت کا باشمر پودا لگانے والے تھے.ان کی وجہ سے ان کے خاندان میں احمدیت آئی.انہوں نے حضرت مولوی عبداللہ باجوہ صاحب آف کھیوہ باجوہ کے ذریعہ احمدیت قبول کی.آپ کے ایک بھائی چک میں صدر جماعت ہیں.آپ نے بہاولنگر سے تعلیم حاصل کی ، پھر ربوہ سے پڑھے واپڈا کے ریٹائرڈ افسر تھے.1975 ء سے لے کر 2000 ء تک ملازمت کے سلسلہ میں کوئٹہ رہے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے.2001ء میں لاہور شفٹ ہوئے.مجلس انصار اللہ کے محنتی اور فعال ممبر تھے.زعیم انصار اللہ اور امیر حلقہ دارالذکر تھے.معاون سیکرٹری اصلاح و ارشاد واشاعت ضلع اور سیکرٹری تعلیم القرآن حلقہ دارالذکر بھی تھے.شہادت کے وقت آپ کی عمر 72 سال تھی.آپ نے دارالذکر میں شہادت پائی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.ان کے بیٹے ڈاکٹر حامد صاحب امریکہ میں ہوتے ہیں انہوں نے بتایا کہ میں نے گرین کارڈ کے لئے اپلائی کرنا تھا مگر بوجوہ نہیں کر سکا.تو میرے والد نے مجھے ایک ہزار ڈالر بھجوائے اور کہا کہ فورا گرین کارڈ کے لئے اپلائی کرو جلدی میں پاکستان آنا پڑ سکتا ہے.چنانچہ میں نے اپلائی کر دیا اور چھپیں دنوں میں ہی گرین کارڈ مل گیا.عموماً کہتے ہیں کہ چھ ماہ لگتے ہیں.اور 54

Page 68

اس طرح وہ والد کی شہادت پر پاکستان پہنچ بھی گئے.ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ شہادت سے پہلے جو زخم آنے سے خون بہہ رہا تھا تو ایک پڑوسی میاں محمود احمد صاحب کو کہا کہ میں گیا.میرے بچوں کا خیال رکھنا.انہوں نے کپڑا پھاڑ کر ان کے زخم کو باندھا.لوگوں کو آخر وقت تک سنبھالتے رہے.ایک نوجوان بچے کو سارے عرصے میں پکڑ کر اس کی حفاظت کی خاطر اپنے پیچھے رکھا کہ اس کو نہ گولی لگ جائے.سب کا خیال کرتے رہے اور دعا کی تلقین کرتے رہے.خود بھی درود شریف پڑھتے رہے اور اپنے پڑوسی میاں محمود صاحب کو بھی تلقین کرتے رہے.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ہر بندے سے بے غرض تعلق تھا.جمعہ سے پہلے پڑوسیوں کو جمعہ کے لئے نکالتے اور ہر کسی سے گرمجوشی کے ساتھ ملتے اور طبیعت مزاحیہ بھی تھی ہر ایک کی دلجوئی فرماتے.مسعود صاحب کی آخری خواہش تھی کہ میرا بیٹا مربی بن جائے جو کہ جامعہ احمد یہ ربوہ میں اس سال درجہ خامسہ میں تعلیم حاصل کر رہا ہے.قناعت پسند تھے، چھوٹا سا گھر تھا لیکن بڑے خوش تھے.میرے خطبات جو ہیں بڑے غور سے سنتے تھے اور سنواتے تھے.اسی طرح مرکزی نمائندگان اور بزرگانِ سلسلہ کے بارے میں ان کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے گھر آئیں اور ان کو خدمت کا موقع ملے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی تمام دعائیں اور نیک خواہشات جو اپنے بچوں کے لئے اور واقف زندگی بچے کے لئے تھیں، ان کو بھی پورا فرمائے.اور اس واقف زندگی بچے کو وقف کا حق نبھانے کی توفیق بھی عطا فرمائے.مکرم محمد آصف فاروق صاحب شہید مکرم محمد آصف فاروق صاحب شہید ابن مکرم لیاقت علی صاحب.ان کے والد صاحب نے 1994ء میں بیعت کی تھی.1994ء میں ایک آدمی ان کے والد صاحب کو مکرم مولانا مبشر کا ہلوں صاحب کے پاس لے گیا.انہوں نے کہا کہ کوئی سوال پوچھیں تو انہوں نے کہا 55

Page 69

میرا کوئی سوال نہیں بس بیعت کرنا چاہتا ہوں.تو یہ ہے نیک فطرتوں کا رد عمل.جب بات سمجھ آ جاتی ہے تو کوئی سوال نہیں.جس پر اس کے بعد پھر پوری فیملی نے بیعت کر لی.بوقتِ شہادت موصوف کی عمر 30 سال تھی.انہوں نے بی اے ماس کمیونیکیشن (Mass Communication) میں کیا ہوا تھا.خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال رکن تھے.UMTAا ہور کے بڑے فعال کارکن تھے.سمعی بصری شعبہ میں خدمت سرانجام دے رہے تھے.موصی تھے.دارالذکر میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا.یہ شہید بھی دہشت گردوں کے حملے کے دوران MTA کے لئے ریکارڈنگ کرنے کے لئے نکل پڑے اور اسی سلسلے میں اوپر کی منزل سے اتر رہے تھے کہ دہشت گرد کی گولی سے شہید ہو گئے.پچھلے تین سال مسلسل دارالذکر رہ کر کام کیا.شہادت سے ایک دن قبل اپنی ملازمت سے رخصت لی اور جمعہ کے لئے صبح گھر آئے اور کہا کہ میں آج سارے کام ختم کر آیا ہوں.اور کہا کرتے تھے کہ میرا جینا اور مرنا یہیں دارالذکر میں ہے.والد، والدہ اور بھائی نے کہا کہ شہادت ہمارے لئے بہت بڑا اعزاز ہے.خدا کرے کہ یہ خون جماعت کی آبیاری کا باعث ہو.یہ ان کے جذبات ہیں.شہید بڑے نیک فطرت اور ہمدرد انسان تھے.ان کے تین ہی ٹھکانے تھے.یا دفتر یا دارالذکر یا گھر کبھی غصہ نہیں آتا تھا.ایک دفعہ ان کی والدہ نے پوچھا تمہیں بیٹا غصہ نہیں آتا؟ انہوں نے کہا ہم جیسے کام کرنے والوں کو کبھی غصہ نہیں آتا.والد صاحب نے بتایا کہ چند سال پہلے خواب میں دیکھا کہ کسی نے میرے دل پر گولی چلائی ہے، جس کی تعبیر میں نے اپنے اوپر لاگو کی.لیکن جب میرا بیٹا شہید ہوا تو پتہ لگا کہ اس کی تعبیر یہ تھی.ان کی شہادت کے چند دن بعد 5 جون کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اہلیہ کو دوسرے بیٹے سے نوازا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو نیک، صالح اور خادم دین بنائے اور وہ لمبی عمر پانے والے ہوں.56

Page 70

مکرم شیخ شمیم احمد صاحب شہید مکرم شیخ شمیم احمد صاحب شہید ابن مکرم شیخ نعیم احمد صاحب.شہید مرحوم حضرت محمد حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پوتے تھے.اور حضرت کریم بخش صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑپوتے تھے.شہید مرحوم کے دادا مکرم شیخ محمد حسین صاحب حلقہ سلطان پورہ کے چالیس سال تک صدر رہے.ان کے دور میں ہی وہاں مسجد تعمیر ہوئی.شہید اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے.اور گھر کے واحد کفیل تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 38 سال تھی.بینک الفلاح میں ملازمت کرتے تھے.خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال رکن تھے.آڈیٹر حلقہ الطاف پارک کے طور پر خدمت سر انجام دے رہے تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے.مالی خدمات میں پیش پیش تھے.اخلاق میں بہت اعلیٰ تھے.ہمیشہ پیار اور محبت کا سلوک کیا کرتے تھے.ہر کام بڑی سمجھداری سے کرتے تھے.ان کے دفتر کے لوگ جو غیر از جماعت تھے، افسوس کرنے آئے تو انہوں نے بتایا کہ ہر وقت ہنستے رہتے تھے اور ہنساتے رہتے تھے.والدہ بیمار تھیں تو ساری ساری رات جاگ کر خدمت کی.والد بیمار ہوئے تو ساری ساری رات جاگ کر انہیں سنبھالا.انہوں نے گھر کے باہر مین گیٹ کے اوپر کلمہ طیبہ لکھوایا ہوا تھا.مسجد میں جب واقعہ ہوا تھا تو پونے دو بجے اپنے کزن کو فون کیا اور واقعہ کی تفصیل بتائی.لوگوں نے بعد میں بتایا کہ امیر صاحب کے آگے کھڑے رہے.دہشتگرد نے ان سے کہا کہ تیرے پیچھے کون ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میری بیوی، میرے بچے اور میرا خدا تو دہشتگر دنے کہا کہ چل پھر اپنے خدا کے پاس اور گولیاں برسا دیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی والدہ کہتی ہیں میرا بیٹا بہت پیارا تھا.میرا بڑا خیال رکھتا تھا.ہر خوبی کا مالک تھا، ہر کسی کے کام آتا تھا.اہلیہ نے بتایا کہ میرے خسر بیان کرتے ہیں کہ ان کے بچے فوت ہو 57

Page 71

جاتے تھے اور ان کو ایک وقت میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ ہو گیا کہ بچے کیوں نہیں دیتا تو الفضل میں ایک خاتون کی تحریر پڑھی کہ جب اللہ مجھے بچے دے گا تو میں تحریک جدید کا چندہ ادا کروں گی.تو کہتے ہیں یہ پڑھ کر انہوں نے کہا کہ اے اللہ میں آج سے ہی تحریک جدید اور وقف جدید کا چندہ شروع کرتا ہوں تو مجھے بیٹا عطا کر، جس پر میرے خاوند کی پیدائش ہوئی تھی.ان کی اہلیہ کہتی ہیں ان کی زندگی چندوں ہی کی مرہونِ منت ہے.شہید مرحوم نے کچھ عرصہ پہلے خود اپنا ایک خواب سنایا کہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنے بچے مجھے دے دو جس پر آپ نے تمام بچوں کو وقف کر دیا جو وقف نو کی تحریک میں شامل ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.مکرم محمد شاہد صاحب شہید مکرم محمد شاہد صاحب شہید ابن مکرم محمد شفیع صاحب.شہید مرحوم کے دادا مکرم فیروز دین صاحب 1935ء میں احمدی ہوئے.ضلع کوٹلی آزاد کشمیر کے رہنے والے تھے.بوقتِ شہادت موصوف کی عمر 28 سال تھی.اور خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال ممبر تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.جمعہ کے وقت محراب کے ساتھ امیر صاحب کے قریب ان کی ڈیوٹی تھی.اپنی ڈیوٹی پر کھڑے تھے.والد صاحب اور دوستوں کو شہادت سے قبل فون کر کے کہا کہ میں ان دہشتگردوں کو پکڑنے کی کوشش کروں گا.چہرے پر ناخن لگنے کے نشان تھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کے ساتھ لڑائی ہوئی ہو.شہادت سے چند دن قبل دوستوں سے کہا کہ میرے ساتھ اگر کسی کا لین دین ہو تو مکمل کر لیں.سگریٹ نوشی کی ان کو بری عادت تھی وہ بھی کئی مہینے پہلے چھوڑ دی تھی.اور آخری بات بھائی کے ساتھ ہوئی، بڑی دھیمی آواز میں کہا کہ امی کو نہ بتانا وہ پریشان ہوں گی.نمازوں کے پابند تھے.ہر جمعہ سے قبل صدقہ دینا معمول تھا اور اب بھی جب جمعہ پڑھنے ڈیوٹی پر مسجد میں آئے ہیں تو ان کی جیب میں سے اس تاریخ کی بھی 50 روپے صدقہ کی رسید نکلی.علاقے کے چوکیدار نے 58

Page 72

رو رو کر بتایا کہ ہمیشہ مجھے جھک کر سلام کیا کرتے تھے.دونوں بھائی اکٹھے ہی ایک دکان کرتے تھے.چھوٹے بھائی نے ان کو کہا کہ آج مجھے جمعہ پر جانے دو.تو انہوں نے کہا نہیں اس دفعہ مجھے جانے دو، اگلی دفعہ تم چلے جانا.ان کی شادی نہیں ہوئی تھی.والدین جب بھی شادی کے لئے کہتے تو کہتے پہلے چھوٹی بہن کی شادی کرلوں.اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر میں لپیٹے.مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب شہید مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب شہید ابن مکرم عبدالمجید صاحب.یہ حضرت شیخ عبدالحمید صاحب شملوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے.اور گورنمنٹ کالج باغبان پورہ لاہور میں انگلش کے پروفیسر تھے.جماعتی خدمات میں فعال تھے.ان کی اہلیہ بھی اپنے حلقہ کی صدر لجنہ اماءاللہ ہیں.خلافت جو بلی کے موقع پر ان کی کوششوں سے حلقہ میں بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا.بڑے حلیم طبع، ملنسار اور نفیس طبیعت کے مالک تھے.کلمہ کیس میں اسیر راہ مولیٰ بھی رہے.سات سال مقدمہ چلتا رہا.شہادت کے وقت ان کی عمر 55 سال تھی.انگلش کے پروفیسر تھے.ایل ایل بی بھی کیا ہوا تھا.موصوف مجلس انصار اللہ کے انتہائی محنتی اور مخلص کارکن تھے.نائب زعیم انصار اللہ لاہور چھاؤنی تھے.خدام الاحمدیہ میں بھی کام کرتے رہے.کچھ عرصہ صدر حلقہ مصطفی آباد بھی خدمت انجام دی.موصی تھے اور دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.شہید موصوف دہشتگردوں کی فائرنگ کے دوران مربی ہاؤس کی طرف جا رہے تھے کہ ایک دہشتگرد نے سامنے سے گولی چلائی اور موصوف مربی ہاؤس کے دروازے پر شہید ہو گئے.ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بہت محبت کرنے والے اور نرم طبیعت کے مالک تھے.کہتی ہیں کہ شادی کے 23 سالوں میں میرے خاوند نے کبھی کوئی ترش لفظ نہیں بولا.بچوں سے دو معاملوں میں سختی کرتے تھے.نماز کے معاملے میں اور گھر میں جاری ترجمۃ القرآن کلاس میں شرکت کے بارے میں.اور 59

Page 73

ترجمه قرآن کی کلاس جو لیتے تھے اس میں تقریباً سترہ سپارے پڑھ لئے تھے.کہتی ہیں حدیث کا بھی گھر میں باقاعدہ درس ہوتا تھا.چھوٹی عمر سے ہی بحیثیت عہدیدار کے خدمت کا موقع ملتا رہا.کام کرنے کا جذبہ بہت زیادہ تھا.عملی کام کے قائل تھے.بڑے بھائیوں نے بتایا کہ بھائیوں سے دوستانہ تعلقات تھے.بھائیوں میں ہر کام اتفاق رائے سے ہوتا.کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو شہید مرحوم کے مشورے سے مستفید ہوتے.چھوٹے بھائی کا مکان بن رہا تھا.سب بھائیوں نے قرض کے طور پر اس کو رقم دینے کا فیصلہ کیا اور مرحوم نے اپنے حصہ کی رقم سب سے پہلے ادا کی.اور شہید مرحوم ہم بھائیوں سے کہا کرتے تھے کہ جہاں بھی کوئی ضرورت مند ہو اس کی مدد کر کے مجھ سے رقم لے لیا کرو.اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں بھی جاری رکھے.مکرم ولید احمد صاحب شہید مکرم ولید احمد صاحب شہید ابن مکرم چوہدری محمد منور صاحب.شہید مرحوم کے دادا مکرم چوہدری عبد الحمید صاحب سابق صدر جماعت محراب پور سندھ نے 1952 ء میں احمدیت قبول کی تھی.10 اپریل 1984ء کو محراب پور میں ہی ان کے دادا نے جام شہادت نوش کیا.اسی طرح شہید مرحوم کے نانا مکرم چوہدری عبدالرزاق صاحب سابق امیر جماعت نوابشاہ سندھ کو 17 اپریل 1985ء کو معاندین احمدیت نے شہید کر دیا.ان کے والد صدر عمومی ربوہ کے دفتر میں اعزازی کارکن ہیں.شہادت کے وقت عزیز شہید کی عمر ساڑھے سترہ سال تھی اور میڈیکل کالج کے فرسٹ ائیر میں تعلیم حاصل کر رہا تھا.وقف نوسکیم میں شامل تھا.موصی بھی تھا.اس کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی ہے.اور لاہور کا جو سانحہ ہوا ہے اس میں سب سے کم عمر یہ عزیز بچہ ہے.شہادت والے دن موصوف جمعہ کی ادائیگی کے لئے کالج سے سید ھے اپنے دوسرے احمدی ساتھی طالبعلموں سے پہلے دارالذکر پہنچ گئے.سانحہ کے دوران موبائل پر رابطہ ہوا تو انہوں 60

Page 74

نے بتایا کہ میری ٹانگ میں گولی لگی ہے اور متعدد شہیدوں کی لاشیں میرے سامنے پڑی نظر آ رہی ہیں.دعا کریں خدا تعالیٰ فضل فرمائے.انہوں نے ایف ایس سی ربوہ سے کی تھی.لاہور میں داخلہ ہوا.جب آخری بار ربوہ سے لاہور گئے تو اپنے ساتھی خدام دوستوں سے باری باری گھر جا کر ملے اور سب سے کہا مجھے مل لیں میرا کیا پتہ کہ میں شہید ہو جاؤں.شہید مرحوم پنج وقتہ نمازی تھے.فرمانبردار تھے، سلجھے ہوئے تھے.راستے میں آتے جاتے آنے والے ساتھیوں کو اپنے دوستوں کو مسجد میں لے کر جایا کرتے تھے.کم گو اور ذہین نوجوان تھے.اپنی تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے.شہادت کے ضمن میں شہید مرحوم کے بچپن کی سیکرٹری وقف نو نے بتایا کہ عزیزم ولید احمد کے بچپن کا ایک واقعہ ہے جب اس کی عمر گیارہ سال کی تھی تو ایک دن میں نے دورانِ کلاس سب وقف نو بچوں سے فرداً فرداً پوچھا کہ تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ جب عزیزم ولید کی باری آئی تو کہنے لگا کہ میں بڑا ہو کر اپنے دادا جان کی طرح شہید بنوں گا.شہید مرحوم کی اپنی تعلیمی ادارے میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہادت کے بعد تد فین والے دن اس کے اساتذہ اور طلباء نے ایک ہی دن میں تین دفعہ تعزیتی تقریب منعقد کی جس میں شامل ہونے والے اکثر غیر از جماعت طالب علم تھے.شہید مرحوم کے استاد نے بذریعہ فون اطلاع دی کہ ہم ٹیچر اور ہمارے طالب علم تدفین میں شامل ہونے کے لئے ربوہ آنے کا پروگرام بنا چکے تھے کہ تمام طالب علم بلک بلک کر زار و قطار رونے لگے اور خدشہ پیدا ہوا کہ یہی حال رہا تو ربوہ جا کر ولید کا چہرہ دیکھ کر غم کی شدت سے بالکل بے حال نہ ہو جائیں اس لئے ہم نے مجبوراً یہ پروگرام ملتوی کر دیا اور کسی اور وقت آئیں گے.اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول فرماتے ہوئے ہزاروں لاکھوں ولید جماعت کو عطا فرمائے.61

Page 75

مکرم محمد انور صاحب شہید مکرم محمد انور صاحب شہید ابن مکرم محمد خان صاحب.ان کا تعلق شیخو پورہ سے تھا.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور خلافت میں انہوں نے بیعت کی.ابتدائی عمر میں فوج میں بھرتی ہو گئے.دس سال قبل ریٹائر ڈ ہوئے تھے اور ساتھ ہی بیت نور ماڈل ٹاؤن میں بطور سیکیورٹی گارڈ خدمت کا آغاز کیا اور تا وقتِ شہادت اس فریضے کو احسن رنگ میں انجام دیا.شہادت کے وقت ان کی عمر 45 سال تھی.مجلس ماڈل ٹاؤن میں ہی انہوں نے (جیسا کہ وہاں سکیورٹی گارڈ تھے ) شہادت پائی.موصی تھے.اس واقعہ میں ان کا بیٹا عطاء الحئی بھی شدید زخمی ہوا جو ہسپتال میں ہے.شہید مرحوم بحیثیت سیکیورٹی گارڈ بیت نور کے مین گیٹ پر ڈیوٹی کر رہے تھے کہ دہشتگر دکو دور سے آتے دیکھا تو اپنے ساتھ کھڑے ایک خادم کو کہا کہ یہ آدمی مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا.تو خادم نے کہا کہ آپ کو تو یوں ہی ہر ایک پر شک ہو رہا ہوتا ہے.انہوں نے کہا نہیں، میں فوجی ہوں میں اس کی چال ڈھال سے پہچانتا ہوں.بہر حال اسی وقت دہشتگر دقریب آیا اور اس نے فائرنگ شروع کر دی.انہوں نے بھی مقابلہ کیا.ایک خادم نے ان کو کہا کہ گیٹ کے اندر آ جائیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں، شیروں کا کام پیچھے ہٹنا نہیں.اور ساتھ ہی جو ان کے پاس ہتھیار تھا اس سے فائرنگ کی.ہٹنا دہشتگر د زخمی ہو گیا.لیکن پھر دوسرے دہشتگرد نے گولیوں کی ایک بوچھاڑ ماری جس سے و ہیں موقع پر شہید ہو گئے.بڑے خدمت دین کرنے والے تھے.کبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.مسجد کے غسل خانے خود صاف کرتے ، جھاڑو دیتے.اور جب مسجد کی تعمیر ہورہی تھی تو جو ہمیں چوبیس گھنٹے مسلسل وہیں رہے ہیں.والدین کی بھی ہر ممکن خدمت کرتے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں تہجد میں پہلے با قاعدگی نہیں تھی.ایک ماہ سے مسلسل تہجد پڑھ رہے تھے.اور بچوں سے پہلا سوال یہی ہوتا تھا کہ نماز کی ادائیگی کی ہے یا نہیں اور قرآنِ کریم پڑھا ہے کہ نہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.62

Page 76

مکرم ملک انصار الحق صاحب شہید مکرم ملک انصار الحق صاحب شہید ابن مکرم ملک انوار الحق صاحب.یہ بھی قادیان کے ساتھ فیض اللہ گاؤں ہے وہاں کے رہنے والے ہیں.اور پاکستانی آرمی کے ایک ڈپو میں سٹور کیپر تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 63 برس تھی.مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.ساڑھے آٹھ بجے یہ نیا سوٹ پہن کر کسی کام سے نکلے اور وہیں سے نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے دارالذکر میں چلے گئے.انہوں نے کبھی بھی نماز جمعہ نہیں چھوڑی تھی.سامنے ہی کرسی پر بیٹھے تھے.گرینیڈ پھٹنے سے زخمی ہو گئے اور اس طرح جسم میں مختلف جگہوں پر پانچ گولیاں لگیں.زخمی حالت میں میوہسپتال لے گئے جہاں پہنچ کر شہید ہو گئے.ان کی بہو بتاتی ہیں کہ میرے ماموں بھی تھے اور خسر بھی.وہ شہادت کے قابل تھے.دل کے صاف تھے ، عاجزی بہت زیادہ تھی.کبھی کسی سے لڑائی نہیں چاہتے تھے، ہمیشہ صلح میں پہل کرنے والے تھے.ان کی صرف معمولی تنخواہ تھی.جو پنشن ملتی تھی اس سے لوگوں کا راشن وغیرہ لگایا ہوا تھا.جماعت سے انتہائی طور پر وابستہ تھے اور خلافت سے بہت محبت کرتے تھے.ماں باپ کی خدمت کرنے والے تھے.اسی وجہ سے ملازمت کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی ریٹائرمنٹ لے لی اور خدمت کے لئے آگئے.ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ عادت کے اتنے اچھے تھے کہ اگر اپنا اور اپنے بچوں کا قصور نہ بھی ہوتا تو رشتے داروں کے ساتھ صلح کے لئے بچوں سے بھی معافی منگواتے تھے.خود بھی معافی مانگ لیتے تھے.شہادت سے دو مہینے قبل اپنے خاندان کو بعض مسائل کے حوالے سے پانچ صفحات کا نصیحت آمیز خط لکھا اور اس میں اپنے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ میں اپنے بچوں سے بھی معافی مانگتا ہوں کہ اس وجہ سے میں تم سے معافی منگواتا تھا اگر چہ مجھے پتہ بھی ہوتا تھا کہ تمہاری غلطی نہیں ہے.شہادت کے بعد کچھ لوگ ملنے آئے تو کہتے ہیں کہ انہوں نے تو ہمارا راشن لگایا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولا دکوان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.63

Page 77

مکرم ناصر محمود خان صاحب شہید مکرم ناصر محمودخان صاحب شہید ابن مکرم محمد عارف نسیم صاحب.شہید مرحوم کے والد محمد عارف نسیم صاحب نے 1968ء میں بیعت کی تھی.ضلع امرتسر کے رہنے والے تھے.پارٹیشن کے بعد یہ رائے ونڈ آ گئے.پھر لاہور میں سیٹ ہو گئے.شہید مرحوم خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال کارکن تھے.پرنٹنگ پریس ایجنسی کا کام کرتے تھے.ان کے والد بھی بطور سیکرٹری زراعت اور والدہ بطور جنرل سیکرٹری ضلع لاہور خدمت سر انجام دے رہے ہیں.خود یہ بطور ناظم عمومی اور نائب قائد اول حلقہ فیصل ٹاؤن خدمات سرانجام دے رہے تھے.ناظم عمومی بھی تھے اور نائب قائد اول بھی تھے.نظام وصیت میں شامل تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 39 سال تھی.شہید مرحوم کے بھائی مکرم عامر مشہود صاحب بتاتے ہیں کہ دارالذکر میں جب دہشتگر دوں نے حملہ کیا تو میں ہال کے اندر تھا اور بھائی باہر سیڑھیوں کے پاس تھے.دورانِ حملہ میری ان سے فون پہ بات ہوئی اور بھائی نے بتایا کہ میں محفوظ ہوں سیڑھیوں کے نیچے کافی لوگ موجود تھے.دہشت گرد نے ان کی طرف گرینیڈ پھینکا تو بھائی نے گرینیڈ اٹھا کر واپس پھینکنا چاہا.یہ وہی نوجوان ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ پر گرینیڈ لے لیا تا کہ دوسرے زخمی نہ ہوں یا ان کو کوئی نقصان نہ پہنچے.لیکن اسی دوران گرینیڈ ان کے ہاتھ میں پھٹ گیا اور وہیں ان کی شہادت ہو گئی.دوسروں کو بچاتے ہوئے شہید ہوئے.شہید مرحوم نے گھر میں سب سے پہلے وصیت کی تھی اور گھر کے سارے کام خود سنبھالتے تھے.رابطہ اور تعلق بنانے میں بڑے ماہر تھے.کہتے ہیں ان کی شہادت پر غیر از جماعت دوست بھی بہت زیادہ ملنے آئے.بھائی نے بتایا کہ جب ہم نے کار خریدی تو عید وغیرہ پر جاتے ہوئے پہلے ان لوگوں کو مسجد پہنچاتے تھے جن کے پاس کوئی سواری نہ ہوتی تھی اور دوسرے چکر میں ہم سب گھر والوں کو مسجد لے کر جاتے تھے.شہادت سے ایک ہفتہ قبل خود خواب دیکھا.خواب میں مجھے دیکھا کہ میں 64

Page 78

نے ان کی کمر پر تھپکی دی اور کہا کہ فکر نہ کرو سب اچھا ہو جائے گا.اللہ کرے کہ یہ قربانیاں جماعت کے لئے مزید فتوحات کا پیش خیمہ ہوں.اللہ تعالیٰ جماعت کو خوشیاں دکھائے.مکرم عمیر احمد ملک صاحب شہید مکرم عمیر احمد ملک صاحب شہید ابن مکرم ملک عبدالرحیم صاحب.حضرت حافظ نبی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام شہید مرحوم کے پردادا تھے.یہ لوگ قادیان کے قریب فیض اللہ چک کے رہنے والے تھے.ان کے دادا ملک حبیب الرحمن صاحب جامعہ احمدیہ میں انگلش پڑھانے کے علاوہ سکول اور کالج وغیرہ میں بھی پڑھاتے رہے ہیں.ٹی آئی سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے.حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ سلسلہ گولڈ کوسٹ ،شہید مرحوم کے والد مکرم عبدالرحیم صاحب کے تایا تھے.شہید مرحوم خدام الاحمدیہ کے بہت ہی فعال رکن تھے.سات سال سے ناظم اشاعت ضلع لاہور کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے.اور AACP جو جماعت کی کمپیوٹر پروفیشنلز کی ایسوسی ایشن ہے، اس کے آڈیٹر رہے.تین سال سے یہ لاہور چیپٹر کے صدر بھی تھے.نیز ان کی والدہ بھی بطور صدر لجنہ اماء اللہ حلقہ فیصل ٹاؤن خدمات سرانجام دے رہی ہیں.نظامِ وصیت میں شامل تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 36 سال تھی.مسجد ماڈل ٹاؤن میں گولیاں لگیں، زخمی حالت میں جناح ہسپتال پہنچ کر جام شہادت نوش فرمایا.جمعہ کے روز خلاف معمول نیا سفید جوڑا پہن کر گھر سے نکلے اور والد صاحب نے کہا کہ آج بڑے خوبصورت لگ رہے ہو.دفتر کے ملازم نے بھی یہی کہا.مسجد بیت نور میں خلاف معمول پہلی صف میں بیٹھے.دہشت گرد کی گولی لگنے سے ہال کے اندر دوسری صف میں الٹے لیٹے رہے.فون پر اپنے والد سے باتیں کرتے رہے.وہ بھی وہیں تھے اور کہا کہ اللہ حافظ ،میں جارہا ہوں اور مجھے معاف کر دیں.اپنے بھائی کے بارے میں پوچھا اور پانی مانگا.ڈائس سے اٹھا کر ایک کارکن نے ان کو پانی دیا.آواز بہت ضعیف اور کمزور ہوگئی تھی.بہر حال ایمبولینس کے ذریعے ان کو 65

Page 79

ہسپتال لے جایا گیا.بلڈ پریشر بھی نیچے گرتا چلا جا رہا تھا.جب ہسپتال پہنچے ہیں تو وہاں والدہ کو آنکھیں کھول کر دیکھا اور والدہ سے پانی مانگا.والدہ جب چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھیں تو ان کی انگلی پر کاٹا صرف یہ بتانے کے لئے کہ میں زندہ ہوں اور پریشان نہ ہوں.اندرونی کوئی انجری (Injury) تھی جس کی وجہ سے بلیڈنگ ہورہی تھی.اور آپریشن کے دوران ہی ان کو شہادت کا رتبہ ملا.ان کے اچھے تعلقات تھے.واپڈا کے کنٹریکٹر تھے، کنسٹرکشن کے ٹھیکے لیتے تھے.خدمت خلق کا بہت شوق اور جذبہ تھا شہادت پر آنے والے لوگوں نے بتایا کہ عمیر کا معیار بہت اچھا تھا اور ان کے سامنے کوئی بھی چیز مسئلہ نہیں ہوتی تھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.اقبال عابد صاحب مربی سلسلہ عمیر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عمیر احمد ابن ملک عبدالرحیم صاحب دہشتگردانہ حملہ میں اللہ کے پاس چلا گیا.جب اس کو گولیاں لگی ہوئی تھیں تو اس عاجز کو فون کیا اور کہا مربی صاحب ! خدا حافظ ، خدا حافظ ، خدا حافظ اور آواز بہت کمزور تھی.پوچھنے پر صرف اتنا بتایا کہ مسجد نور میں حملہ ہوا ہے اور مجھے گولیاں لگی ہوئی ہیں.گویا وہ خدا حافظ کہنے کے بعد، کہنا چاہتا تھا کہ ہم تو جارہے ہیں لیکن احمدیت کی حفاظت کا بیڑا اب آپ کے سپرد ہے.ہمارے خون کی لاج رکھ لینا.انشاء اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کی قربانی کی لاج پیچھے رہنے والا ہر احمدی رکھے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا.مکرم سردار افتخار الغنی صاحب شہید مکرم سردار افتخار الغنی صاحب شہید ابن مکرم سردار عبدالشکور صاحب.یہ حضرت فیض علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑپوتے تھے.حضرت فیض علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ افریقہ میں حضرت رحمت علی صاحب کے ہاتھ پر احمدی ہوئے.افریقہ سے واپسی پر امرتسر کی بجائے قادیان میں ہی سیٹ ہو گئے.شہید نظام 66

Page 80

وصیت میں شامل تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 43 سال تھی.مسجد دارالذکر گڑھی شاہو میں شہادت پائی.عموماً مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جمعہ ادا کرتے تھے.لیکن وقوعہ کے روز نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے اپنے دفتر سے ( اپنے کام سے ) مسجد دارالذکر چلے گئے.شہادت سے قبل سردار عبدالباسط صاحب ( جوان کے ماموں ہیں ) سے بھی فون پر بات ہوئی.گھر میں بھی فون کرتے رہے اور یا حفیظ یا حفیظ کا ورد کرتے رہے.ماموں کو بھی دعا کے لئے کہتے رہے کہ دعا کریں دہشتگردوں نے ہمیں گھیرا ڈالا ہوا ہے.اہلیہ محترمہ کو پتہ چلا کہ مسجد پر حملہ ہوا ہے تو آپ کو فون کیا اور کہا کہ آپ جمعہ کے لئے نہ جائیں.لیکن پتہ لگا کہ آپ تو دارالذکر میں موجود ہیں.گھر میں بھی دعا کے لئے کہتے رہے اور ساڑھے تین بجے ایک دوست جو ملٹری میں ہے ان کو فون کر کے کہا کہ اس طرح کے حالات ہیں، پولیس تو کچھ نہیں کر رہی ، تم لوگ مسجد میں لوگوں کی مدد کے لئے آؤ.شہید ہونے تک دوسروں کو بچانے کی کوشش کرتے رہے.اور انہوں نے موقع پاتے ہی بھاگ کر ایک دہشتگرد کو پکڑا تو دوسرے دہشتگرد نے فائرنگ کر دی.جس دہشتگرد کو پکڑا تھا اس نے اپنی خود کش جیکٹ بلاسٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پوری طرح نہیں بلاسٹ ہوسکی، دھما کا تھوڑا ہوالیکن اس دھماکے سے شہید ہو گئے اور دہشتگر دشدید زخمی ہو گیا.لوگ کہتے ہیں کہ یہ آسانی سے بچ سکتے تھے اگر یہ اس وقت ایک طرف ہو جاتے اور دہشتگرد پر نہ جھپٹتے.شہید مرحوم کو خدمت خلق کا بہت شوق اور جذبہ تھا.جب بھی کسی کو ضرورت پڑتی ، خون کا عطیہ دے دیا کرتے.ہمیشہ اپنی تکلیف کے باوجود دوسروں کی مدد کرتے.رویہ کے بہت اچھے تھے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں مجھے کبھی کسی دوست کی ضرورت نہیں پڑی.اہلیہ کہتی ہیں مجھے کبھی کوئی محسوس نہیں ہوا کہ مجھے کوئی دوست یا سہیلی بنانی چاہئے.گھر کے سارے کاموں میں میرا ہاتھ بٹاتے تھے.یہاں تک کہ برتن بھی دھلوا دیتے تھے.بڑی سادہ طبیعت کے مالک تھے.نیکی کو ہمیشہ چھپا کر رکھتے تھے.استغفار اور درود شریف بہت پڑھتے تھے.یوں لگتا تھا کہ انگلیوں میں تسبیح کر رہے ہیں.بے لوث خدمت کرنے والے تھے، رحم دل تھے.ہر رشتے کے لحاظ سے وہ بہترین تھے 67

Page 81

اور بطور انسان بھی.بچوں سے بھی دوستانہ تھے.والدہ کے بہت خدمت گزار تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے جو پیچھے رہنے والے لواحقین ہیں ان کو بھی صبر اور ہمت اور حو صلے سے اس صدمے کو برداشت کرنے کی توفیق دے.نیکیوں پر قائم رکھے.آئندہ انشاء اللہ باقی شہداء کا ذکر کروں گا.کیونکہ یہ بڑا لمباذکر چلے گا.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے.68

Page 82

خطبه جمعه سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ايده الله تعالیٰ بنصره العزيز فرمودہ18/جون 2010ء بمقام بیت الفتوح لندن 69

Page 83

Page 84

شہدائے لاہور کا ذکر جاری ہے.اسی سلسلے میں کچھ اور شہداء کا ذکر کرتا ہوں.مکرم عبدالرشید ملک صاحب شہید مکرم عبدالرشید ملک صاحب شہید ابن مکرم عبد الحمید ملک صاحب.شہید مرحوم لالہ موسیٰ کے رہنے والے تھے.ان کے دادا حضرت مولوی مہر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے 313 صحابہ میں شامل تھے ،.شہید کی عمر شہادت کے وقت 64 سال تھی.موصی تھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجلس انصار اللہ کے فعال رکن تھے.سیکرٹری وصایا و تعلیم القرآن کے سیکرٹری تھے.مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے.عموماً کڑک ہاؤس میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے اور کافی عرصہ بعد دارالذکر گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے شہادت کا رتبہ دینا تھا.جمعہ پر جانے سے قبل اہلیہ کو کہا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ کبھی کبھی بڑی مسجد میں جمعہ پڑھنا چاہئے اس لئے میں دارالذکر آج جا رہا ہوں.مین ہال میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے.گھر فون کیا کہ میرے پاؤں میں گولی لگی ہے.اہلیہ کہتی ہیں ان کی بات کے دوران گولیوں کی آوازیں آتی رہیں.اپنا فون تو تھا نہیں، کسی کے فون سے بات کر رہے تھے.پھر بہر حال رابطہ ختم ہو گیا.اہلیہ کا بھی بڑا صبر اور حوصلہ ہے بیان کرتی ہیں کہ ان کی شہادت پر اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں.اللہ تعالیٰ پوری جماعت کا حامی و ناصر ہو.اور بہت ترقیات عطا فرمائے.یہ بھی لجنہ کی کارکن ہیں.کہتی ہیں کہ بطور باپ بہت شفیق انسان تھے.تین بیٹیاں ہیں اور کبھی اظہار نہیں کیا کہ بیٹا نہیں ہے.بیٹیوں پر بہت توجہ دی اور دینی اور دنیاوی تعلیم میں ہمیشہ آگے رکھا اور تینوں بچوں سے 71

Page 85

برابری کا سلوک کیا.ایک نو مبائع بچی کو بھی، جو گھر کا کام کرنے کے لئے آتی تھی ، تبلیغ کرتے رہے، اس کی بیعت کی، اس کو پالا ، اور اس کی شادی کے بھی انتظامات کئے تھے.اور بڑی پیار کرنے والی طبیعت تھی.دعا گو ، سادہ متقی ، ملنسار اور اطاعت گزار شخص تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم محمد رشید ہاشمی صاحب شہید مکرم محمد رشید ہاشمی صاحب شہید ابن مکرم محمدمنیر شاہ ہاشمی صاحب.شہید مکرم شاہ دین ہاشمی صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑپوتے تھے اور شہید کے والد مکرم محمد منیر ہاشمی صاحب ایبٹ آباد میں جنرل پوسٹ ماسٹر تھے.1974ء کے فسادات میں آپ کے گھر کو مخالفین نے جلا دیا.ریڈیو پاکستان پشاور سٹوڈیو میں ملازمت کرتے تھے، خبریں پڑھتے تھے.نوائے وقت اخبار میں کالم نویسی بھی کرتے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 78 سال تھی.مجلس انصار اللہ کے بڑے فعال کارکن تھے.16 سال تک صدر حلقہ بھی رہے.موصی تھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے.اور آپ کی شہادت بھی دارالذکر لاہور میں ہوئی ہے.تین گولیاں آپ کو لگی تھیں.بہت ہی پیار کرنے والے تھے، جماعت کا دردر کھنے والے تھے.خدمت دین کا شوق رہتا تھا.اور بیوی بچوں کو بھی یہ تلقین کرتے تھے.صدر شمالی چھاؤنی کو جمعہ کے روز فون کیا کہ میرے پاس جماعت کی ایک امانت ہے.یہ رقم قومی بچت سے پرافٹ (Protit) ملا تھا وہ آ کر لیں جائیں.شہادت کے وقت بھی یہ رقم ان کی جیب میں موجود تھی اور گولی لگنے سے اس رقم میں بھی ، پیسوں میں بھی نوٹوں پر سوراخ ہوئے ہوئے تھے.ہر کام میں وقت کی پابندی کا بہت خیال تھا، لاہور میں ایک وہاں کے صدر صاحب نماز سینٹر بنانا چاہتے تھے.لیکن نقشے کی اجازت نہیں ملتی تھی.انہوں نے راتوں رات خود ہی پنسل سے نقشہ بنایا اور اس کی منظوری لے لی.غیر احمدی بھی ان کی بہت عزت کرتے تھے.سارے محلے والے تعزیت کے لئے گھر آئے.72

Page 86

بہت بہادر تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.اپنے حلقے کو جماعتی طور پر بڑا اونچا رکھا ہوا تھا.ان کے بارے میں عطاء القادر طا ہر صاحب کا ایک خط مجھے ملا.وہ کہتے ہیں کہ انتہائی مہمان نواز، ملنسار، منکسر المزاج تھے.تلاوت اور نظم پڑھتے تھے.کمزوری صحت کے باعث چلنے پھرنے میں دشواری آتی تھی لیکن صدارت سے معذوری ظاہر کرنے کے باجود جماعتی کاموں کے لئے ہر وقت تیار تھے.خلافت سے آپ کو والہانہ عشق تھا اور ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.مکرم مظفر احمد صاحب شہید مکرم مظفر احمد صاحب شہید ابن مکرم مولا نا محمد ابراہیم صاحب قادیانی درویش مرحوم.شهید مرحوم کے خسر حضرت میاں علم دین صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے اور ان کے والد سابق ناظر اصلاح وارشاد و اشاعت قادیان کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں کے استاد ہونے کا شرف حاصل ہوا.شہید مرحوم اپنے حلقے کے امام الصلوۃ تھے.لمبے عرصے تک مجلس دھرم پورہ کے سیکرٹری مال رہے.شہادت کے وقت آپ کی عمر 73 سال تھی اور ان کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی.باقاعدہ نماز میں دارالذکر میں ادا کرتے تھے.بارہ بجے جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے گھر سے نکل گئے.بیٹا نماز جمعہ کے لیے مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن گیا.چھ بجے معلوم ہوا کہ مظفر صاحب شہید ہو گئے ہیں.وہاں مردہ خانے میں ان کی نعش ملی.پانچ گولیاں ان کو لگی ہوئی تھیں.زخمی ہونے کی حالت میں ان کو دیکھنے والے جو ان کے قریبی تھی انہوں نے بتایا کہ خود بھی درود شریف پڑھ رہے تھے اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتے تھے کہ درود پڑھو اور استغفار کرو.ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ مظفر صاحب بچپن سے ہی نماز تہجد ادا کرنے کے عادی تھے.کبھی تہجد نہیں چھوڑی.بچوں کو بھی یہ تلقین کرتے تھے.اونچی آواز میں تلاوت کرتے تھے.بلکہ پانچوں وقت نماز کے بعد تلاوت کیا کرتے تھے.کچھ دن قبل روزے بھی رکھے.تھوڑے تھوڑے 73

Page 87

دنوں میں روزے رکھتے رہتے تھے.ہر ایک کو یہی کہتے تھے کہ میرے لئے دعا کرو کہ میرا انجام بخیر ہو.گھر کی سب ذمہ داریاں پوری کرتے تھے.نہ کبھی جھوٹ بولا نہ جھوٹ برداشت کر سکتے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کا رتبہ دیا.اور جس چیز کے لئے دعا کے لئے کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کا انجام بھی قابلِ رشک کیا ہے.ان کی ہمشیرہ قادیان میں ہیں جو ناظر صاحب اعلیٰ کی اہلیہ ہیں.انہوں نے بھی لکھا کہ داماد سے دوستوں کی طرح تعلق تھا.بہنوں سے بھی بڑا حسنِ سلوک کرتے تھے.بڑی بیٹی نے بتایا کہ میرے ماموں کی بیٹی وہاں ربوہ میں بیاہی ہوئی ہیں.پھر اس کے گھر گئے تو دو مرتبہ ایسا ہوا کہ ایم ٹی اے پر خلافت جوبلی والا عہد دہرایا جا رہا تھا تو کھڑے ہو کر بلند آواز سے اس عہد کو دہرانے لگے.جس طرح کمرے میں اور کوئی موجود نہیں ہے اور صرف انہی کو کہا جا رہا ہے کہ عہد دہرائیں.1980ء میں ان کو حج کرنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی.مکرم میاں مبشر احمد صاحب شہید مکرم میاں مبشر احمد صاحب شہید ابن مکرم میاں برکت علی صاحب.شہید مرحوم کے والد میاں برکت علی صاحب نے 1928ء میں بیعت کی تھی اور پھر تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہوئے.شہید مرحوم حضرت میاں نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے ہیں.کھاریاں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.پھر یہ 2008ء میں لاہور شفٹ ہو گئے.پہلے یہ لوگ وزیر آبادرہتے تھے.ان کا کوکا کولا کا ڈسٹری بیوشن کا کاروبار تھا.1974ء میں کاروبار ختم ہو گیا.لوگوں نے تمام سامان لوٹ لیا.شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا.ان حالات میں ایک دفعہ جماعتی ڈاک مرکز دے کر ربوہ سے واپس وزیر آباد جا رہے تھے تو چنیوٹ پہنچنے پر ان کو گاڑی سے اتارنے کی کوشش کی گئی کہ مرزائی ہے، اسے مارو.لیکن بہر حال ڈرائیور نے گاڑی چلا دی اور وہاں تو کچھ نہیں ہوا.پھر 74

Page 88

گوجرانوالہ پہنچنے پر بھی جلوس نے آپ پر حملہ کیا.بہر حال اس طرح بچتے بچاتے اپنے گھر آدھی رات کو پہنچے.ان دنوں جو حالات تھے بڑے خوفناک حالات تھے.اور مرکز سے رابطے کے لئے جو لوگ آتے تھے وہ بڑی قربانی دے کر آتے تھے.بہر حال قربانیوں کے لئے تو یہ ہر دم تیار تھے.اور پھر دوبارہ انہوں نے 1998ء میں ڈسٹری بیوشن کا کام شروع کیا.کوکا کولا کے ڈسٹری بیوٹر بنے.جب بوتلوں کا کام کرتے تھے تو کئی پارٹیاں آ کر یہ لالچ دیتی تھیں کہ آپ کی ایمانداری کی شہرت بہت ہے کہ آپ کی کوئی بوتل جعلی نہیں ہوتی.جب آپ تقسیم کرتے ہیں، بالکل خالص چیز ہوتی ہے.پاکستان میں تو جعلی بوتلوں کا کسی بھی چیز کا جعلی کاروبار بہت زیادہ ہے.ہر چیز میں ملاوٹ ہوتی ہے.تو انہوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کی شہرت تو ہے ہی، آپ اپنے جو کریٹ بیچتے ہیں ان میں دو جعلی بوتلیں ڈال دیا کریں.اس سے آپ کا منافع جو ہے کئی گنا بڑھ جائے گا اور کروڑ پتی ہو جائیں گے.لیکن آپ نے کبھی ان کی بات نہیں مانی اور نہ کبھی ایسے سوچا.ان لوگوں کی جو مشورہ دینے آتے تھے ، بڑی مہمان نوازی کرتے تھے، اور اس وقت بڑے آرام سے کہہ دیا کرتے تھے کہ آپ غلط جگہ پر آگئے ہیں.چھ سال امیر جماعت تحصیل وزیر آباد بھی رہے.آپ کے ایک بیٹے قمر احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں، آج کل ببینن میں ہیں.شہادت کے وقت ان کی عمر 65 سال تھی.وصیت کی ہوئی تھی اور آپ کی شہادت بھی دارالذکر مسجد میں ہوئی.جب حملہ ہوا ہے تو اپنی جگہ پر لیٹے رہے اور حملہ کے بعد محراب کے پاس گرینیڈ گرا تو زخمی ہو گئے.گردن کا بائیں طرف کا حصہ گرینیڈ پھٹنے سے اڑ گیا.اور کافی بلیڈنگ ہوئی اور بھانجے کو فون کیا کہ بیٹا میں کافی زخمی ہو گیا ہوں.پانچ چھ گولیاں میرے جسم میں بھی لگی ہیں.انتہائی نرم دل، غریب پرور اور توکل کرنے والے انسان تھے.ہر ایک سے شفقت اور محبت کا سلوک کرتے تھے.دعا گو انسان تھے.کسی کی تکلیف کا پتہ چلتا تو فوری دعا شروع کر دیتے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ میری رفاقت ان سے 39 سال رہی.کبھی انہوں نے مجھے اُف نہیں کہا.اور نہ ہی بچوں کو کچھ کہا میں اگر کچھ کہتی تھی تو یہی کہتے تھے کہ دعا کیا کرو، میں بھی ان کے لئے 75

Page 89

دعا کرتا ہوں.بچوں کے لئے بہت محبت تھی.گھر میں کسی قسم کی غیبت کو نا پسند کرتے اور منع کر دیتے.اور کوئی بات شروع کرتا تو فوراً روک دیتے.گوجرانوالہ میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے.تو وہاں کی مالکن جو غیر احمدی تھی وہ شہید مرحوم کے بارے میں کہتی تھیں کہ میری یہ سعادت ہے کہ میاں مبشر صاحب میرے کرایہ دار ہیں اور میں یہ دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو بھی ان جیسا انسان بنائے اور بھائی جان آپ بھی میرے بچوں کی تربیت کریں.کاروبار میں اپنے جو ملازمین کام کرنے والے تھے، جب کھانے کا وقت آتا تھا ان کے کھانے وانے کا بڑا خیال رکھتے تھے.تبلیغ بھی کرتے رہتے تھے.اہلیہ کہتی ہیں کہ اکثر یہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ میں تو نالائق انسان ہوں اللہ تعالیٰ مجھے 33 نمبر دے کر ہی پاس کر دے.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سو فیصد نمبر دے کر شہادت کا رتبہ دے دیا.مکرم فداحسین صاحب شہید مکرم فداحسین صاحب شہید ابن مکرم بهادر خان صاحب.ان کا تعلق کھاریاں ضلع گجرات سے ہے.وہیں پیدا ہوئے.قریباً چار سال کی عمر میں ہی والدین ایک ماہ کے وقفہ سے وفات پاگئے.یہ میاں مبشر احمد صاحب جن کا پہلے ذکر آیا ہے ان کے کزن بھی تھے.اور والدین کی بچپن میں وفات کی وجہ سے میاں مبشر احمد صاحب کے زیر کفالت ہی رہے.غیر شادی شدہ تھے.ان کی عمر شہادت کے وقت 69 سال تھی اور انہوں نے دارالذکر میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا.جمعہ کے روز مسجد کے صحن میں معذوری کے پیش نظر تھوڑے سے معذور تھے ، کرسیوں پر بیٹھتے تھے لیکن سانحہ کے روز اندر ہال میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ دہشتگرد نے جب گولیوں کی بوچھاڑ کی تو آپ کو 35 کے قریب گولیاں لگیں اور موقع پر شہید ہوگئے.اللہ درجات بلند فرمائے.76

Page 90

مکرم خاور ایوب صاحب شہید مکرم خاور ایوب صاحب شہید ابن مکرم محمد ایوب خان صاحب.شہید مرحوم کا خاندان گلگت کا رہنے والا تھا.تا ہم ان کی پیدائش بھیرہ ضلع سرگودھا میں ہوئی.دسویں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور آ گئے.1978ء میں واپڈا میں ملازمت شروع کر دی.اس وقت اکا ؤنٹ اور بجٹ آفیسر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے.1984ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.شہادت کے وقت ان کی عمر 50 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.سیکرٹری وقف نو اور محاسب کی حیثیت سے خدمات بجالا رہے تھے.سابق قائد مجلس انصار اللہ بھی تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.ایک عرصے سے دارالذکر میں نماز جمعہ ادا کیا کرتے تھے.سانحہ کے روز بھی ملازمت سے جمعہ پڑھنے کے لئے گئے اور مین ہال میں بیٹھے تھے.دو گولیاں لگیں ایک دل کے قریب، اور دوسری گھٹنے میں.قریباً سوا دو بجے گھر فون کیا کہ دہشت گرد آگئے ہیں، ان کے پاس اسلحہ ہے، آپ دعا کریں.پھر اہلیہ رابطہ کرتی رہیں.تیسری دفعہ رابطہ ہوا تو یہی کہا کہ بس سب دعا کرو.اس کے بعد پھر شہید ہو گئے.اہلیہ کہتی ہیں بڑے اچھے انسان تھے.باجماعت نماز ادا کرتے تھے.لوگوں نے ان کے متعلق یہی رائے دی ہے کہ بڑے اچھے انسان تھے اور بڑی انتظامی صلاحیت تھی آپ میں.بچوں کی تربیت بھی خوب اچھی طرح کی.حقوق العباد ادا کرنے والے بھی تھے.خلافت کے وفادار اور شیدائی تھے.خاور ایوب صاحب کے بارے میں الیاس خان صاحب نے لکھا ہے کہ 1980ء میں خاور ایوب صاحب کو بی اے کے بعد واپڈا میں ملازمت مل گئی.اور یہ عزیز داری کی بنیاد پر بھیرہ ضلع سرگودھا سے ہمارے گھر رحمان پورہ آ گئے.ہمارے گھر کا احمدی ماحول تھا.الیاس خان صاحب کہتے ہیں ہماری تربیت احمدی تعلیمات کے مطابق تھی.تو خاور ایوب صاحب بھی ہمارے ماحول کا ایک حصہ بن چکے تھے.مگر احمدی نہیں ہوئے تھے.البتہ احمدیت کی تعلیم سن کے روایتی اعتراضات جو مولوی کرتے ہیں وہ 77

Page 91

کرتے رہتے تھے.یہاں تک کہ ہم ان کو چھیڑا کرتے تھے کہ سوال کرو.کیونکہ شہید مرحوم بہت سوال کیا کرتے تھے.ایک روز ایک ہمارے مبلغ سلسلہ برکت اللہ صاحب مرحوم نے مجلس سوال و جواب کا انعقاد کیا.خاور صاحب سوال کی کثرت کی وجہ سے مشہور تھے اس لئے مربی صاحب نے شہید مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایا خاور صاحب سوال کریں.تو انہوں نے کہا اب میرا کوئی سوال نہیں ہے.اور پھر کچھ عرصے بعد بیعت کر لی.ان کے عزیز کہتے ہیں کہ لیکن ہم ان کو کہتے تھے کہ سوچ لو.تو انہوں نے ہمارا یہ کہہ کر منہ بند کرا دیا کہ اگر تم میری بیعت نہیں کرواؤ گے تو میں حضور کو لکھوں گا کہ یہ میری بیعت نہیں کرواتے.اور پھر بیعت کرنے کے بعد نیکی اور روحانیت میں اللہ کے فضل سے بڑی ترقی کی.مکرم شیخ محمد یونس صاحب شہید مکرم شیخ محمد یونس صاحب شہید ابن مکرم شیخ جمیل احمد صاحب.شیخ یونس صاحب مرحوم 1947 ء میں امروہہ (انڈیا) میں پیدا ہوئے تھے.1950ء میں قادیان اور پھر 1955 ء میں ربوہ آگئے.ان کے والد شیخ جمیل احمد صاحب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے تھے اور درویشان قادیان میں سے تھے.شہید مرحوم نے میٹرک ربوہ سے کیا.اس کے بعد صدر انجمن احمد یہ میں کارکن رہے.2007ء میں ریٹائر منٹ ہو گئی.پھر یہ اپنے بیٹے کے پاس لاہور چلے گئے اور بطور سیکرٹری اصلاح و ارشاد اور دعوت الی اللہ خدمت سرانجام دے رہے تھے.63 سال ان کی عمر تھی.بیت النور ماڈل ٹاؤن میں ان کی شہادت ہوئی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.اور معمول ان کا یہی تھا کہ جمعہ کے لئے جلدی مسجد میں جاتے تھے اور اس روز بھی جمعہ کے دن کے لئے مسجد بیت النور میں گیارہ بجے پہنچ گئے.اور پہلی صف میں بیٹھے تھے.بیٹا بھی ساتھ تھا.وہ دوسرے ہال میں تھا.پہلی صف میں سب سے پہلے زخمی ہوکر گرتے ہوئے دیکھے گئے.ان 78

Page 92

کے سر اور سینے میں گولیاں لگی تھیں.گرینیڈ پھٹنے کی وجہ سے پسلیاں بھی زخمی ہوگئی تھیں، جس کی وجہ سے شہادت ہوئی.شیخ صاحب نے ایک خواب میں دیکھا کہ ربوہ میں ایک بہت خوبصورت سڑک ہے یا خوبصورت قالین بچھے ہوئے ہیں، بڑی بڑی کرسیوں پر خلفاء تشریف فرما ہیں اور سب سے اونچی کرسی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف فرما ہیں اور کہتے ہیں میں بھی (یعنی شیخ صاحب) ساتھ گھٹنے جوڑ کر بیٹھا ہوا ہوں.اہلِ خانہ نے بتایا کہ خلافت کے شیدائی تھے.پنجوقتہ نماز کے پابند.دل کے مریض ہونے کے باوجود شدید گرمیوں اور سردیوں میں نمازیں مسجد میں جا کر ہی ادا کیا کرتے تھے.کسی شکرانہ کے موقع پر جب الحمد للہ ادا کرتے تو ساتھ ہی ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں.خدا پر تو کل بہت زیادہ تھا.کہتے تھے کہ بظاہر ناممکن کام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ممکن ہو جاتے ہیں.تہجد گزار تھے ، ضرورتمندوں کا خیال رکھتے تھے.جو بھی معمولی آمدنی تھی اس سے دوسروں کا بھی خیال رکھتے تھے.سادہ زندگی بسر کرتے تھے مختلف علمی مقالہ جات لکھے اور نمایاں پوزیشن حاصل کیں.دعوت الی اللہ میں مستعد تھے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ڈاور کے قریب ایک گاؤں میں ہم دونوں میاں بیوی مختلف اوقات میں قریباً چھ سات سال تک دعوت الی اللہ کرتے رہے اور قرآن مجید کی کلاسیں لیتے رہے.پھر مخالفت شروع ہوئی تو کام روکنا پڑا.یہ ربوہ کے قریب ایک گاؤں ہے.لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان کو پھل بھی عطا فرمائے.مکرم مسعود احمد بھٹی صاحب شہید مکرم مسعود احمد بھٹی صاحب شہید ابن مکرم احمد دین صاحب بھٹی.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کھر پر ضلع قصور کے رہنے والے تھے.ان کے دادا مکرم جمال دین صاحب نے 1911-12ء میں بیعت کی تھی.1975ء میں یہ خاندان لاہور شفٹ ہو گیا.اپنے والد کے ساتھ یہ ٹھیکے داری کا کام کرتے تھے.میٹرک تک تعلیم حاصل کی.خدام الاحمدیہ کے بہت دلیر اور جرات مند رکن تھے.دوسرے دو بھائی بھی ان کے کاروبار میں شریک تھے.79

Page 93

ان کے ایک بھائی مکرم محمد احمد صاحب صدر جماعت ہڈیارہ ضلع لاہور ہیں.دارالذکر میں انہوں نے شہادت پائی.اور ان کی عمر 33 سال تھی.مسجد دارالذکر میں نماز جمعہ سے قبل سنتیں ادا کر رہے تھے کہ شیلنگ شروع ہوگئی.سلام پھیرنے کے بعد اپنی بنیان اتار کر ایک لڑکے کے زخموں کو باندھا جو ان کے ساتھ ہی زخمی تھا اور اس کو تسلی دی اور اس کے بعد انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دہشتگرد کو پکڑ کر گرانے اور قابو پانے میں کامیاب ہو گئے.اسی دوران دوسرے دہشتگر دنے، گولیوں کی بوچھاڑ کی اور ان کو شہید کر دیا.مکرم حاجی محمد اکرم ورک صاحب شہید مکرم حاجی محمد اکرم ورک صاحب شہید ابن مکرم چوہدری اللہ دتہ ورک صاحب.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد قاضی مرال ضلع شیخو پورہ کے رہنے والے تھے.ان کے آباؤ اجداد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بیعت کی تھی.بعد میں یہ خاندان علی پور قصور میں شفٹ ہو گئے.جہاں شہید مرحوم کی پیدائش ہوئی.میٹرک تک ان کی تعلیم تھی ، اور پچاس کی دہائی میں یہ خاندان لاہور شفٹ ہو گیا.محکمہ اوقاف میں ملازم تھے.1966ء میں ریٹائر ہو گئے.کافی عرصہ اپنے حلقے کے زعیم انصار اللہ ر ہے.اس وقت سیکرٹری تعلیم اور نائب صدر حلقہ تھے اور ان کی عمر 74 سال تھی.ان کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی ہے.چوتھی صف میں مسجد میں بیٹھے تھے.جہاں دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے.ان کے والد صاحب نے اپنا پتو کی والا آبائی گھر جماعت کو تحفہ پیش کر دیا تھا جو آج کل مربی ہاؤس ہے.ان کے والد صاحب پتو کی جماعت کے کافی عرصہ صدر رہے ہیں.اہلِ خانہ نے بتایا کہ بہت محنتی تھے.بزرگ ہونے کے باوجود اہل خانہ اور دیگر چھوٹے بچوں کی خدمت کیا کرتے تھے.بڑے صاف گوانسان تھے.80

Page 94

مکرم میاں لئیق احمد صاحب شہید مکرم میاں لئیق احمد صاحب شہید ابن مکرم میاں شفیق احمد صاحب.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد انبالہ کے رہنے والے تھے.پڑدادا مکرم بابو عبدالرحمن صاحب انبالہ کے امیر رہے.پارٹیشن کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیا.یہ شہید مرحوم انبالہ میں پیدا ہوئے.بنیادی تعلیم لاہور سے حاصل کی.شہادت کے وقت ان کی عمر 66 سال تھی ،سیکر ٹری اشاعت حلقہ کینال پارک ان کو خدمت کی توفیق مل رہی تھی.مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.مسجد کے مین ہال کی تیسری صف میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ دہشتگردوں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئے.ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال لے جا رہے تھے کہ راستے میں خالق حقیقی سے جاملے.ان کو بلیڈنگ اتنی ہو گئی تھی کہ تین گھنٹے تک تو وہاں سے کوئی نکل نہیں سکتا تھا.شہید مرحوم پیشہ کے لحاظ سے الیکٹریشن تھے.نہایت سیدھے سادھے اور خاموش طبیعت کے مالک تھے.کبھی کسی سے کوئی زیادتی نہیں کی.تہجد گزار تھے.گھر میں بچوں سے دوستانہ ماحول تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم مرزا شابل منیر صاحب شہید مکرم مرزا شاہبل منیر صاحب شہید ابن مکرم مرزا محمد منیر صاحب.شہید مرحوم کے پردادا حضرت احمد دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.جبکہ شہید مرحوم کے والد مکرم مرزا محمد منیر صاحب کا ساؤنڈ سسٹم وغیرہ کا بزنس تھا.شہید مرحوم بی کام (B.Com) کے بعد بی بی اے (BBA) کر رہے تھے.اور شہادت کے وقت ان کی عمر 19 سال تھی.خدام الاحمدیہ کے بڑے سرگرم رکن تھے.ہر آواز پر لبیک کہا.اور دارالذکر میں جام شہادت نوش کیا.شہید مرحوم کے چھوٹے بھائی شہزاد منعم صاحب کے ہمراہ مین ہال میں محراب کے سامنے سنتیں ادا کرنے کے بعد بیٹھے ہوئے تھے کہ فائرنگ شروع ہوگئی.پہلا 81

Page 95

حملہ محراب پر ہوا.اس موقع پر شہید مرحوم پہلے ہال سے باہر نکل گئے.پھر تھوڑی دیر بعد اندر واپس آئے اور دروازے کے پاس بیٹھ گئے ، اور دوسرا بھائی بھی پاس آ گیا.گھر فون پر بات کی اور دوستوں سے بھی بات کی.اتنے میں مینار کی طرف سے ایک دروازے سے ایک دہشت گرداندر داخل ہوا اور فائرنگ کر دی جس سے کافی لوگ شہید ہو گئے.شہید مرحوم اس وقت گولی لگنے سے شدید زخمی تھے.ان کا بھائی کہتا ہے کہ میں نے آواز دی لیکن خاموش رہے.میں نے دیکھا کہ ٹانگ سے کافی خون بہہ رہا ہے اور مجھے کہا کہ میری ٹانگ سیدھی کرو.میں نے اپنی قمیض اتار کر پٹی باندھنے کی کوشش کی لیکن نہیں باندھ سکا کیونکہ کہتے تھے جہاں میں ہاتھ لگا تا تھا وہیں سے گوشت لٹک جاتا تھا.قریباً آدھا گھنٹہ اسی کیفیت میں رہے.اور اسی عرصے میں پھر تھوڑی دیر بعد شہادت کا رتبہ پایا.بھائی کہتا ہے کہ میں ساتھ بیٹھا تھا بڑی ہمت دکھائی انہوں نے.ایسی حالت میں بھی کوئی چیخ و پکار نہیں تھی.بلکہ آنکھوں سے لگ رہا تھا خوش ہے کہ چلو میرا بھائی تو بچ گیا اور بالکل سلامت بیٹھا ہے.آپ کے ایک دوست نے ایک کارکن نے لکھا ہے کہ خدام الاحمدیہ میں ایک حزب کے سائق تھے.کچھ ماہ سے نہایت جذ بہ اور اخلاص کے ساتھ کام کر رہے تھے.ایک مرتبہ خاکسار رات ساڑھے گیارہ بجے گھر گیا کہ حقیقۃ الوحی کے پرچے پر کروانے تھے.وہ اسی وقت موٹر سائیکل لے کر نکل کھڑے ہوئے اور گھروں کا دورہ کیا.اس کے علاوہ بھی ان کے پاس گاڑی ہوتی تو مجلس کے کاموں کے لئے پیش کرتے.غرض نہایت شریف، سادہ اور کبھی نہ نہ کرنے والے وجود تھے.ان کے ایک دوست نے لکھا کہ مجھے خواب میں شامل منیر ملا میں اس سے کہتا ہوں کہ تم کدھر ہو.تو وہ مجھے جواب دیتا ہے، ( شہادت کے بعد کا ذکر ہے ) کہ بھائی میں تو ادھر ہوں تم کدھر ہو.پھر وہ ساتھ ہی مجھے کہتا ہے کہ بھائی میں ادھر بہت خوش ہوں تم بھی آجاؤ.مجھے خود بھی وہ خوش محسوس ہوتا ہے.پھر یہ منظر ختم ہو جاتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ اس نوجوان کے بھی درجات بلند فرمائے.یہ وہ نوجوان ہیں، جو اپنے پیچھے رہنے والے نو جوانوں کو اپنا عہد پورا کرنے کی یاد دلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہم تو قربان ہو گئے ہم اپنے عہد سے پیچھے نہ ہٹنا.82

Page 96

مکرم ملک مقصود احمد صاحب شہید ( سرائے والا ) مکرم ملک مقصود احمد صاحب شہید ( سرائے والا ) ابن مکرم ایس اے محمود صاحب.شہید مرحوم کے دادا بٹالہ کے رہنے والے تھے جبکہ ان کے والد صاحب مکرم احسن محمود صدر پاکستان ایوب خان کے مشیر بھی رہے.اسی طرح ان کے نانا حضرت ملک علی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور ریاست بھوپال کے رہنے والے تھے.بچپن میں ان کی والدہ محترمہ کے سر پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ پھیرا تھا، شہید مرحوم کے نانا ، دادا اور والدہ محترمہ صحابی تھے.شہید مرحوم کی پیدائش بھوپال میں ہوئی.نانی محترمہ مختار بی بی صاحبہ کے پاس انہوں نے قادیان میں پرورش پائی.تعلیم الاسلام کالج میں زیر تعلیم رہے.ایف اے کے امتحان سے قبل واپس بھوپال چلے گئے.پھر یہ فیملی لاہور آ کر سیٹل (Sette) ہوگئی.شہادت کے وقت ان کی عمر 80 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور اپنے حلقے میں بطور سیکرٹری تعلیم ،سیکرٹری تعلیم القرآن امین اور آڈیٹر خدمت کی توفیق پا رہے تھے.شہید مرحوم ملک طاہر صاحب قائمقام امیر ضلع لاہور کے بہنوئی تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.شہید مرحوم کے نواسے نے بتایا کہ وہ مسجد کے مین ہال میں دوسری صف میں بیٹھے تھے.فائرنگ کے وقت مربی صاحب کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے صحن کی طرف باہر نکلے تو دیکھا کہ شہید مرحوم کانوں میں انگلیاں ڈال کر لیٹے ہوئے تھے.یہ نواسہ جو باہر نکلا تھا.لیکن مجھے ان کے اندر کوئی حرکت نظر نہیں آ رہی تھی.شاید اس وقت شہید ہو چکے ہوئے تھے کیونکہ کافی گولیاں لگی ہوئی تھیں.شہید مرحوم کے اہل خانہ نے بتایا کہ پنجوقتہ نماز اور تہجد کے پابند تھے.باقاعدگی سے چندے ادا کرتے تھے.تبلیغ کا بہت شوق تھا.جماعتی کتب کا مطالعہ اور خلیفہ وقت کے خطبات باقاعدگی سے سنتے تھے.ایم ٹی اے کے دیگر پروگرام بھی دلچسپی سے دیکھتے تھے اور سنتے تھے.اکاؤنٹس کے ماہر تھے.ایک مرتبہ بتایا کہ قادیان میں مقابلہ ہوا بچپن میں جب 83

Page 97

بچے تھے یہ، کہ کون سب سے پہلے مسجد آئے گا تو دیکھا کہ آپ صبح اڑھائی بجے مسجد پہنچے ہوئے تھے.حالانکہ اس وقت آپ کی بہت چھوٹی عمر تھی.ان کے ایک بیٹے تقسم مقصود صاحب وکیل ہیں اور زندگی وقف کی ہے اور آج کل ربوہ میں کام کر رہے ہیں.مکرم چوہدری محمد احمد صاحب شہید مکرم چوہدری محمد حمد صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر نور احمد صاحب.شہید مرحوم کے دادا مکرم چوہدری فضل داد صاحب نے 96-1895ء میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی.آبائی تعلیم کھیوہ ضلع فیصل آباد سے حاصل کی.شہید مرحوم کے والد صاحب حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے ساتھ جونئیر ڈاکٹر کے طور پر کام کرتے رہے.ان کے والد صاحب نے شدھی تحریک کے دوران ایک سال سے زائد عرصہ وقف کیا تھا.شہید مرحوم 1928ء میں کھیوہ میں پیدا ہوئے.فیصل آباد سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی.میٹرک کے بعد ائیر فورس جوائن (Join) کر لی.دو سال کی ٹرینگ کے بعد وارنٹ افسر کے طور پر کام کرتے رہے.پھر دوران سروس 65 ء اور 71ء کی جنگوں میں حصہ لیا.65ء کی جنگ کے دوران ایک موقع پر جب طیارے کا بم لوڈ ر خراب ہو گیا تو ساتھیوں کو ہمت دلا کر ہم کندھوں پر لاد کر خود لوڈ کیا کرتے تھے.آج یہ نام نہاد ملک کے ہمدرد احمدیوں پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ ملک کے ہمدرد نہیں.اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کی خاطر بھی قربانیاں دیں اور دینے کے لئے ہر وقت تیار رہے.حکومت کی طرف سے غیر ممالک کے دورے پر بھی ٹرینگ کے لئے جاتے رہے.1971ء میں ریٹائرڈ ہوئے.ریٹائرمنٹ کے بعد سول ڈیفنس کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ہیڈ کے طور پر 1988 ء تک کام کرتے رہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 85 سال تھی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں ان کی شہادت ہوئی.اکثر وہیں یہ جمعہ ادا کیا کرتے تھے.جمعرات کو بڑا اہتمام کیا کرتے تھے جمعہ کی تیاری کا.84

Page 98

جمعرات کو ہی کپڑے استری کروا کر لٹکوا دیا کرتے تھے اور بارہ بجے مسجد چلے جاتے تھے.عموماً ہال کے اندر بائیں طرف کرسیوں پر بیٹھتے تھے.وقوعہ کے روز ایک نوجوان نے ان کو دوسری اور تیسری صف کے درمیان خون میں لت پت دیکھا.انہوں نے اس نوجوان کو آواز دی اور کہا کہ مجھے گولیاں لگی ہیں میرے پیٹ پر کپڑا باندھ دو.اس کے بعد انہوں نے دیگر زخمیوں کو پانی پلانے کی ہدایت کی.خود زخمی تھے، اس کے بعد انہوں نے نوجوان کو کہا کہ زخمیوں کو پانی پلاؤ.ساتھ ساتھ دیگر احباب کو بچاؤ کی ہدایات دیتے رہے کہ یہ شعبہ کے ماہر تھے.ایک گولی ان کی ہتھیلی پر بھی لگی ہوئی تھی.زخمی حالت میں ان کو جناح ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں رات آٹھ بجے کے قریب ان کی شہادت ہوئی.شہید کی فیملی میں ایک خاتون نے دو دن قبل خواب میں دیکھا کہ لاہور میں فائرنگ ہو رہی ہے.اس طرح کی خوا ہیں اکثر احمدیوں کو پاکستان میں بھی اور باہر کے ملکوں میں بھی آئی ہیں جو اس واقعہ کی نشاندہی کرتی تھیں کسی سے بغض نہیں رکھتے تھے، صحت اچھی تھی.اور بچوں کے ساتھ بہت پیار کا تعلق تھا.نماز با جماعت اور قرآن کریم کی تلاوت کے شوقین.کبڈی اور فٹبال کے بڑے اچھے کھلاڑی رہے.خلافت سے عشق تھا.ان کے بارے میں ان کی بیٹی نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابا جی ہال میں کرسیوں پر بیٹھے تھے جہاں مربی صاحب خطبہ دے رہے تھے.خطبہ ابھی شروع ہوا ہی تھا کہ باہر سے گولیوں کی آواز میں آئیں اور پھر یہ آواز میں لمحہ بہ لحد قریب ہوتی گئیں.اس دوران مربی صاحب لوگوں کو درود شریف پڑھنے کی ہدایت دیتے رہے اور کہا کہ خطبہ جاری رہے گا.کہتی ہیں کہ میرے اباجی کے ساتھ چوہدری نسیم احمد صاحب صدر کینال ویو اور ان کے بزرگ والد بیٹھے تھے.وہ اپنے عمر رسیدہ والد کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے Basement کی طرف لے گئے.اور میرے والد صاحب سے بھی کہا کہ بزرگواٹھو! لیکن آپ نہ اٹھے.بقول وسیم صاحب کے وہ ایسے بیٹھے تھے جیسے ان کا اندر کا فوجی جاگ گیا ہو اور وہ حالات کا بغور مطالعہ کر رہے ہوں.اسی بھیڑ چال میں چند اور لوگوں نے بھی کہا.ہم نے ان سے کہا کہ اٹھ جائیں لیکن وہ نہیں اٹھے.اسی دوران اس 85

Page 99

دہشتگرد نے گولیوں کا رخ کرسیوں کی طرف کر دیا اور فائرنگ کرتا ہوا ابا جی کے نزدیک جاتا گیا.بقول کرنل بشیر احمد باجوہ صاحب جو کرسیوں کے پیچھے تھے، ان پر بھی فائر ہوئے لیکن وہ بچ گئے.وہ کہتے ہیں کہ اس دوران یہ زخمی ہو چکے تھے.وہ دہشتگر دسمجھا کہ میرا کام ختم ہو گیا ہے.فارغ ہو کر مڑا اور شاید اپنی گن لوڈ کرنے لگا.تو کہتی ہیں کہ کرنل صاحب نے بتایا کہ اسی دوران میرے اباجی نے زخمی ہونے کے باوجود موقع غنیمت جانا اور پیچھے سے ایک دم چھلانگ لگا کر اس کی گردن پکڑ لی.یقینا یہ ایک ایسی طاقت تھی جو ان کی مدد کر رہی تھی، کوئی پیچھے خاص طاقت.کرنل بشیر نے جو کرسیوں کے پیچھے تھے انہوں نے بھی فوراً چھلانگ لگائی اور دہشتگرد کو قابو کرنے لگے.وسیم صاحب کا بیان ہے کہ ہم سیڑھیوں سے چند stepہی نیچے تھے اور دیکھ رہے تھے.جب دیکھا کہ دہشتگر دقابو میں آ رہا ہے تو دوسرے خدام بھی اس دوران میں مدد کے لئے آگئے اور اس ہاتھا پائی کے دوران ان کے بقول ،اس دوران میں ان کو گولیاں لگ چکی تھیں.لیکن اس سے پہلے بھی لگ چکی تھیں.اور ایک ہتھیلی سے بھی پار ہوئی ، دوسری بازو میں کلائی کے پاس لگی.اور تیسری پسلیوں میں پیٹ کے ایک طرف.پہلے کم زخمی تھے، اس ہاتھا پائی میں مزید گولیاں بھی لگیں.بہر حال ان کی اس ابتدائی کوشش کے بعد کرنل بشیر اور باقی نمازی شامل ہوئے اور اس دہشتگرد کی جیکٹ کو (Defuse) کر دیا اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے.دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ عمر کے اس حصے میں بھی گولیاں لگنے کے باوجود آپ کا دماغ صحیح کام کر رہا تھا.اور جیکٹ کو ڈ فیونر (Defuse) کرنے کے بارے میں بھی وہی ہدایت دیتے تھے.کیونکہ ان کا یہی کام تھا، بم ڈسپوزل میں کام کرتے رہے ہیں.اور دیکھنے والے مزید کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی حالت دیکھ کر ہماری بری حالت ہو رہی تھی لیکن ایک دفعہ بھی انہوں نے ہائے نہیں کی اور بڑے آرام سے اپنی جان جان آفرین کے سپر د کر دی اور شہادت کا رتبہ پایا.86

Page 100

مکرم الیاس احمد اسلم قریشی صاحب شہید مکرم الیاس احمد اسلم قریشی صاحب شہید والد مکرم ماسٹر محمد شفیع اسلم صاحب.شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق قادیان سے تھا.پھر گوجرانوالہ شفٹ ہو گئے.آپ کے والد محترم مبلغ سلسلہ تھے.تحریک شدھی کے دوران انہوں نے نمایاں خدمات سرانجام دیں.ان کے بھائی محمد اسلم ، احمد اسلم صاحب 313 درویشان قادیان میں سے تھے.گریجوایشن کے بعد نیشنل بنک جوائن کیا.اور اے وی پی کے اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے.شہادت کے وقت ان کی عمر 76 سال تھی.اللہ کے فضل سے وصیت کے نظام میں شامل تھے.اور بطور صدر جماعت جو ہر ٹاؤن خدمات سرانجام دے رہے تھے.بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی پچھلے ہال میں پہلی صف میں بیٹھے تھے.دیگر دوساتھیوں کے ساتھ ہال کا دروازہ بند ر کھنے کی کوشش کے دوران حملہ آوروں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئے اور زخمی حالت میں کئی گھنٹے پڑے رہے.چار بجے کے قریب یہ شہید ہوئے ہیں.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ بہت سادہ دل، نیک اور ہر حال میں صبر و شکر کرنے والے اور متوکل انسان تھے.دعاؤں کی طرف خصوصی تو جہ تھی.جماعتی کام خوشی سے سرانجام دیتے تھے.آپ کے بچے کہتے ہیں، آپ ایک نہایت شفیق باپ اور ایک ہمدرد انسان تھے.نمازوں اور تہجد کے پابند تھے.کبھی ہم نے انہیں نماز قضاء پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا.اپنی اولاد کو بھی نماز کی طرف توجہ دلاتے رہتے.بڑے ہنس مکھ، ملنسار انسان تھے.پانچ سال سے حلقہ جو ہر ٹاؤن کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے.کبھی بھی کوئی کارکن یا کوئی جماعتی کام کے لئے خادم یا انصار میں سے کسی بھی وقت آ جاتا، دو پہر کو یا رات کو تو کبھی برانہیں مناتے تھے.اور اپنے بچوں سے بھی کہتے تھے کہ اگر کوئی جماعتی کام سے گھر آئے تو بیشک میں سو بھی رہا ہوں تو مجھے اٹھا دیا کرو.اور انہوں نے اسی پر ہمیشہ عمل کیا.اکثر نصیحت کرتے کہ جماعت اور خلافت سے وفا کرنا.87

Page 101

مکرم طاہر محمود احمد صاحب شہید مکرم طاہر محمود احمد صاحب شہید ابن مکرم سعید احمد صاحب مرحوم.یہ کوٹ اڈ وضلع مظفر گڑھ کے رہنے والے تھے.1953ء میں آپ کے والد صاحب خاندان میں پہلے احمدی ہوئے.1993ء میں لاہور منتقل ہو گئے.شہید مرحوم نے کوٹ اڈو سے میٹرک کیا.پھر ایک پرائیویٹ ملازمت اختیار کر لی.پھر ملائیشیا چلے گئے.تھوڑے سے ذہنی طور پر پسماندہ بھی تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 53 سال تھی.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں ان کی شہادت ہوئی.جمعہ پر آنے سے قبل حلقے کے صدر صاحب کے گھر گئے تو صدر صاحب نے ویسے ہی مذاقاً کہہ دیا کہ چلو میں تمہیں جمعہ پڑھا کر لاتا ہوں اس طرح صدر صاحب کے ساتھ پہلی دفعہ مسجد بیت النور گئے تھے.اور وہیں ان کی شہادت ہوئی ورنہ اکثر ٹھوکر نیاز بیگ سنٹ یا کبھی کبھی دارالذکر جا کر نماز جمعہ ادا کرتے تھے.رات شام سات بجے ان کی شہادت کا علم ہوا.چھاتی میں دو گولیاں اور ماتھے پر ایک گولی لگی ہوئی تھی.بڑے دبنگ احمدی تھے.زندگی میں بھی کہتے تھے کہ میں گولیوں سے نہیں ڈرتا، میں نے شہید ہی ہونا ہے.سارے علاقے میں واقفیت تھی.مخلص اور جذباتی احمدی تھے اور ہر راہ چلتے کو السلام علیکم کہا کرتے تھے.مکرم سید ارشاد علی صاحب شہید مکرم سید ارشاد علی صاحب شہید ابن مکرم سید سمیع اللہ صاحب.شہید مرحوم کو چہ میر حسام الدین سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.ان کے دادا حضرت سید حصلت علی شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور نانا حضرت سید میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی صحابی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقائے خاص میں شامل تھے.سیالکوٹ میں قیام کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے گھر قیام کیا.ان کے والد صاحب جامعہ احمدیہ چنیوٹ اور ربوہ کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں.انہوں نے اپنا گھر جماعت کو وقف کر دیا تھا.شہید مرحوم بی اے 88

Page 102

کے بعد مقابلے کا امتحان پاس کر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی ہوئے اور ڈپٹی ڈائریکٹر لیبر ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے.گارڈن ٹاؤن میں اس وقت سیکرٹری مال کے فرائض سر انجام دے رہے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 80 سال تھی.مسجد بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی.ان کے گھر والے کہتے ہیں کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے جانے سے قبل گھر میں سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے لیٹے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج سکون کرنے کو دل چاہ رہا ہے.جانے کو جی نہیں چاہ رہا.پھر تھوڑی دیر بعد اٹھ کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے چلے گئے اور جاتے ہوئے آواز دی کہ میں جا رہا ہوں.پھر دوسری دفعہ کہا کہ میں جاہی رہا ہوں.داماد کے ساتھ بیت النور میں باہر صحن میں بڑی کرسیوں پر بیٹھے تھے، شروع کے حملے میں کرسیوں پر بیٹھنے والوں کو فوری طور پر ہال کے اندر بھجوا دیا گیا.جہاں ان کی شہادت ہوئی.جسم پر تین گولیاں لگی ہوئی تھیں.ان کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ کافی سال قبل شہید مرحوم نے بتایا کہ ان کو آواز آئی کہ اِنِّی رَافِعُكَ وَ مُتَوَفِّيْكَ شاید سنے والے نے یا بیان کرنے والے نے الٹا لکھ دیا ہو.ہوسکتا ہے اِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ ہو، بہر حال جو بھی ہے ، تو کہتے ہیں مجھے آواز آئی لیکن مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس کا کیا مطلب ہے.کہتے ہیں شہادت سے پندرہ دس میں دن پہلے مجھے یہ آواز آئی، کہ We recieve.you with open arms with red carpet.شہید مرحوم نے شہادت سے چند دن قبل خواب میں ایک گھر دیکھا.اس میں ایک خوبصورت بگھی آ کر رکی ، اور آواز آئی ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ آئے ہیں.آپ گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے کہا کرتے تھے کہ میں اپنے آباؤ اجداد کی طرح دین کی خدمت نہیں کر سکا.اس سے بڑے پریشان ہوتے تھے.حقوق العباد کی ادائیگی ان کا خاص وصف تھا.صلہ رحمی کرنے والے تھے اور بڑے زندہ دل آدمی تھے.89

Page 103

مکرم نور الامین صاحب شہید مکرم نور الامین صاحب شہید ابن مکرم نذیر نیم صاحب.شہید مرحوم راولپنڈی میں پیدا ہوئے.وہیں سے میٹرک کیا.اس کے بعد نیوی میں بطور فوٹو گرافر بھرتی ہو گئے.ان کے دادا حضرت پیر فیض صاحب رضی اللہ عنہ آف اٹک صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.جب کہ ان کے پڑنا نا مکرم بابو عبد الغفار صاحب تھے جو امیر ضلع حیدر آباد رہے اور خدا کی راہ میں شہید ہوئے ، مجلس خدام الاحمدیہ کے بڑے ذمے دار اور محنتی رکن تھے.منتظم عمومی حلقہ ماڈل ٹاؤن خدمت سر انجام دے رہے تھے.کلوز سرکٹ سسٹم کی مانیٹرنگ کرتے رہے جو مسجد میں لگایا تھا.کچھ عرصے کے لئے کراچی چلے گئے شہادت کے وقت ان کی عمر 39 سال تھی اور مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.سانحہ کے دوران ان کا اپنے گھر والوں کو اور دوستوں کو فون آیا کہ میں ایسی جگہ پر ہوں کہ اگر چاہوں تو نکل سکتا ہوں، لیکن میری یہاں ڈیوٹی ہے.یہ دارالذکر کے صحن میں پڑی ڈش انٹینا کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے.وہیں گرینیڈ لگنے سے شہید ہوئے.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بے انتہا خوبیوں کے مالک تھے.جمعہ کو جب دو بجے فون کیا تو انہوں نے کہا کہ خیریت سے ہوں.میں نے کہا کہ آپ وہاں سے نکل آئیں تو انہوں نے کہا یہاں بہت لوگ پھنسے ہوئے ہیں میں ان کو چھوڑ کر نہیں آسکتا.بچوں کی تربیت کے بارے میں فکر مند رہتے تھے خاص طور پر وقف نو بچوں کے بارے میں.اور جماعتی ڈیوٹیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے.مکرم چوہدری محمد مالک صاحب چدھڑ شہید مکرم چوہدری محمد مالک صاحب چدھڑ شہید ابن مکرم چوہدری فتح علی صاحب.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد گکھڑ منڈی کے رہنے والے تھے ، وہاں سے گوجرانوالہ اور پھر لاہور شفٹ ہو گئے.ان کی پیدائش سے قبل ہی ان کے والد صاحب وفات پاگئے تھے.90

Page 104

میٹرک میں پڑھتے تھے کہ والدہ نے بازو میں پہنی ہوئی سونے کی چوڑی اتار کر ہاتھ میں دے دی کہ جا کر پڑھو.مرے کالج سیالکوٹ سے بی.اے کیا.سپرنٹنڈنٹ جیل کی نوکری ماتی تھی لیکن نہیں کی بلکہ زمیندارہ کرتے رہے.اسی سے بچوں کو تعلیم دلوائی.شہادت کے وقت ان کی عمر 93 سال تھی اور موصی بھی تھے.اب اس عمر میں جانا تو تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ رتبہ عطا فرمایا.مسجد بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی.اہلِ خانہ بتاتے ہیں کہ ان کو بڑھاپے کی وجہ سے بھولنے کی عادت تھی جس کی وجہ سے تقریباً سات آٹھ جمعے چھوڑے.اور 28 مئی کو جمعہ پر جانے کے لئے بہت ضد کر رہے تھے.ان کی بہو بتاتی ہیں کہ ان کو کہا گیا کہ باہر موسم ٹھیک نہیں ہے، آندھی چل رہی ہے اس لئے آپ جمعہ پر نہ جائیں.بچوں کی بھی یہی خواہش تھی کہ جمعہ پر نہ جائیں.لیکن نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے تیار ہو کر گھر سے چلے گئے.عموماً مسجد کے صحن میں کرسی پر بیٹھ کر نماز جمعہ ادا کرتے تھے.ہمیشہ کی طرح سانحے کے روز بھی صحن میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور حملے کے شروع میں ہی گولیاں لگنے سے شہادت ہو گئی.بہت امن پسند تھے کبھی کسی سے زیادتی نہیں کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب بہت شوق سے پڑھتے تھے اور گھر والوں کو بھی تلقین کرتے تھے.ان کے صاحبزادے داؤ د احمد صاحب بتاتے ہیں کہ جب میں نے ایم اے اکنامکس پاس کیا والد صاحب سے ملازمت کی اجازت چاہی تو انہوں نے جواب دیا کہ میری نوکری کرلو.میں نے کہا وہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا تم با قاعدہ دفتر کی طرح تیار ہو کر صبح نو بجے آنا، درمیان میں وقفہ بھی ہوگا اور شام پانچ بجے چھٹی ہو جایا کرے گی.اور یہاں میز پر بیٹھ جاؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں پڑھا کرو اور اپنی نوکری سے جتنی تنخواہ ملنے کی تمہیں امید ہے اتنی تنخواہ تمہیں میں دے دیا کروں گا تو کتا بیں پڑھوانے کے بعد پھر اس نوکری سے فارغ کیا.تو بچپن سے لے کر شادی تک بچوں کی اس طرح تربیت کی اذان کے وقت سب بچوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ، اور جب تک انہیں اٹھا نہیں لیتے تھے نہیں چھوڑتے تھے.اور پھر وضو کروا کے گھر میں باجماعت نماز ادا ہوتی تھی.بچوں کی تربیت کے 91

Page 105

لئے کبھی بھی نہیں مارا.اور یہی لڑکے کہتے ہیں کہ مجھے یہ فلسفہ سمجھاتے تھے کہ بچوں کے لئے دعا کرنی چاہئے.یہی ان کی ہمدردی ہے.اور مار پیٹ سے تربیت نہیں ہوتی.کہتے ہیں کہ جب بھی رات کو میری آنکھ ھلتی میں نے رو رو کر ان کو اپنی اولاد کے لئے دعائیں کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے.1974ء میں لڑکے کہتے ہیں کہ ہم سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں تھے.حالات خراب ہونے پر کافی احمدی احباب ہمارے گھر جمع ہو گئے.اور ڈیڑھ دو ماہ ان کا کیمپ ہمارے گھر کے پاس تھا.چنانچہ ان سب کی بہت خدمت کی، بہت دیانتدار تھے.جھوٹ تو منہ سے نکلتا ہی نہیں تھا.ہمیشہ سچ بولا اور سچ کا ساتھ دیا اور سارے خاندان کی کہہ کر وصیت کروائی.مکرم شیخ ساجد نعیم صاحب شهید مکرم شیخ ساجد نعیم صاحب شہید ابن مکرم شیخ امیر احمد صاحب.شہید مرحوم کے آبا و اجداد کا تعلق بھیرہ سے تھا.انہوں نے لاہور سے بی.اے کیا.راولپنڈی میں ایم سی بی بینک میں گریڈ تھرڈ کے افسر بھرتی ہوئے.اور 2003 ء میں بطور مینیجر ریٹائر منٹ لی.بچے چونکہ لا ہور میں تھے اس لئے لاہور آ گئے.مکرم شیخ محمد یوسف قمر صاحب امیر ضلع قصور کے برادرِ نسبتی تھے.شہید مرحوم مجلس انصار اللہ کے بہت ہی ذمہ دار رکن تھے.اور بطور نائب منتظم تعلیم القرآن خدمت کی توفیق پارہے تھے.بوقت شہادت ان کی عمر 59 سال تھی.نظام وصیت میں شمولیت کے لئے درخواست دی ہوئی تھی.مسل نمبر مل چکا تھا.مسجد بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی.نماز جمعہ کے لئے وقت سے پہلے ہی گھر سے نکل جاتے اور نماز بہت سنوار کر پڑھتے.عموماً اپنی جگہ بیت النور کے دوسرے ہال میں بیٹھے ہوئے تھے.فائرنگ شروع ہونے کے پندرہ بیس منٹ کے بعد اپنے بیٹے شہزاد نعیم کو فون کیا کہ تم ٹھیک ہو؟ وہ ٹھیک تھا اور بتایا کہ ہم لوگ مسجد میں ہی ہیں.دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہال کے مین دروازے کو بند کیا اور اس کے آگے کھڑے رہے، کیونکہ اس دروازے کی کنڈی صحیح طرح نہیں لگ رہی تھی.اس وجہ سے ہال میں موجود اکثر لوگ بیسمینٹ میں جانے میں کامیاب ہو گئے.دہشتگرد کے 92

Page 106

اندھا دھند فائرنگ اور بعد میں گرینیڈ کے پھٹنے کی وجہ سے شہید ہو گئے.ایک بیٹے کی شادی اور ملازمت کی وجہ سے فکر مند تھے.اور اس دن بھی ، جمعہ والے دن بیٹے کا انٹرویو دلوایا.سوال جواب اس سے پوچھے، کیسا ہوا ؟ اور خوش تھے کہ انشاء اللہ نوکری مل جائے گی.اور اللہ کے فضل سے پھر بیٹے کو نوکری یکم جون سے مل بھی گئی.بیوی بچوں کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے.سسرالی رشتوں اور دیگر رشتے داروں کا بہت خیال رکھتے تھے.نرم طبیعت کے تھے،اطاعت گزار تھے.خلافت سے عشق تھا.بچوں کی ہر قسم کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے.ان کے بیٹے نے بتایا کہ محلے کے غیر احمدی یا غیر از جماعت دکاندار نے سانحہ کے بعد اتوار کو خواب میں دیکھا کہ شیخ صاحب کہہ رہے ہیں کہ پتہ نہیں میں یہاں کیسے پہنچا ہوں.لیکن بہت خوش ہوں اور مزے میں ہوں.مکرم سید لئیق احمد صاحب شہید مکرم سید عتیق احد صاحب شہید ابن مکرم سید حی الدین احمد صاحب.شہید کے والد محترم کا تعلق رانچی ضلع بہار بھارت سے تھا.علیگڑھ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ تھے، یونیورسٹی میں ایک احمدی سٹوڈنٹ سے ملاقات ہوئی جس نے ان کے والد کو کہا کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں اور امام مہدی علیہ السلام آچکے ہیں.تو شہید کے والد نے محی الدین صاحب نے غصے میں اس احمدی سٹوڈنٹ کا سر پھاڑ دیا.بعد میں شرمندگی بھی ہوئی ، پھر کچھ کتابیں پڑھیں تو مولوی ثناء اللہ امرتسری سے رابطہ کیا.اس نے گالیوں سے بھری ہوئی کتا بیں ان کو بھیج دیں.یہ دیکھ کر ان کو غصہ آیا اور کہا کہ میں نے ان سے مسائل پوچھے ہیں اور یہ گالیاں سکھا رہے ہیں.چنانچہ احمدیت کی طرف مائل ہوئے اور بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے.یہ ملاں کی عادت جو ہمیشہ سے ہے آج تک بھی یہی قائم ہے.اب پوچھنے پر یہ گالیوں کا لٹریچر نہیں بھیجتے بلکہ ٹی وی پر بیٹھ کے جماعت کے خلاف جو منہ میں آتا ہے بکتے چلے جاتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بڑی دریدہ دہنی کرتے ہیں.93

Page 107

بہر حال اس سے لوگوں کو توجہ بھی پیدا ہوتی ہے، اسی طرح ان کو توجہ پیدا ہوئی.شہید تو پیدائشی احمدی تھے.ان کے والد وکیل تھے، پھر انجمن کے ممبر بھی تھے.رانچی میں انہوں نے میٹرک کیا اور میٹرک فرسٹ ڈویژن میں کیا تو والد بہت خوش ہوئے.پھر پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا.پارٹیشن کے بعد یہ لاہور آ گئے اور 1969ء میں ایم سی بی جوائن کیا.1997ء میں بینک مینیجر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے.لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایم سی بی بینک میں کام کرتے رہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 72 سال تھی.اور نظام وصیت میں شامل تھے.مسجد میں آتے ہی سنتیں ادا کیں.مربی صاحب سے ایک صف پیچھے بیٹھ گئے.اور ساتھ بیٹھے بزرگ مکرم مبارک احمد صاحب کے ماتھے پر گولی لگی تو ان کو تسلی دیتے رہے.اسی دوران دہشتگرد کی گولیوں کا نشانہ بنے اور زخمی ہو گئے ، اٹھنے کی بہت کوشش کی لیکن اٹھ نہیں سکے.سامنے سے گولی نہیں لگی تھی البتہ ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی اور وہیں شہید ہوگئے.بہت دھیمی طبیعت کے مالک تھے.لیکن اگر کوئی شخص جماعت یا بزرگانِ سلسلہ کے متعلق کوئی بات کرتا تو ان کو ہرگز برداشت نہیں کرتے تھے.کم گو تھے لیکن اگر کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا خلفائے سلسلہ کا ذکر چھیڑ دیتا تو گھنٹوں ان سے باتیں کرتے رہتے تھے.جماعت سے خاموش لیکن گہری وابستگی تھی اور عشق کی حد تک پیار تھا.سب بچوں کو تکلیف کے باوجود پڑھایا.بچے ڈاکٹر بنے.ایک کو آئی ٹی میں تعلیم دلوائی.اور ایک بیٹی کو فرنچ میں ایم اے کروایا.سب بچے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اپنے اچھے کاموں میں لگے ہوئے ہیں.ان کے بارے میں اہلِ خانہ لکھتے ہیں کہ جمعہ کی نماز کا خاص طور پر بڑا خیال رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ نماز اولاد میں جس نے محبت پیدا کی.ایک دفعہ ایک باران کی اہلیہ بہت بیمار ہوگئیں اور انہیں ہسپتال داخل کروانا پڑا اور جمعہ کا وقت ہو گیا تو یہ سیدھے وہیں سے مسجد چلے گئے.یہ نہ سوچا کہ واپس آؤں گا تو اہلیہ زندہ بھی ہوں گی کہ نہیں.وہ کافی شدید بیار تھیں.94

Page 108

مکرم محمد اشرف پهلر صاحب شہید - مکرم محمد اشرف بھلر صاحب شہید ابن مکرم محمدعبداللہ صاحب.شہید مرحوم کے آباؤ اجدا در کھ شیخ ضلع لاہور کے رہنے والے تھے.ان کے دادا مکرم چوہدری سکندر احمد صاحب احمدی ہوئے تھے.چوہدری فتح محمد صاحب سابق نائب امیر ضلع لاہور کے تایا تھے آباؤ اجداد کے ذریعے زمین تھی کھیتی باڑی کرتے تھے.لیکن کچھ عرصے بعد رائے ونڈ میں اینٹوں کا بھتہ بنالیا.تعلیم صرف پرائمری تھی.2004ء میں عمرہ کرنے کے لئے بھی گئے اور سب بھائیوں کو جماعتی کام کرنے کی تلقین کرتے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 47 سال تھی.گھر کے واحد کفیل تھے.ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں ان کی شہادت ہوئی.جمعہ با قاعدگی سے ادا کرتے تھے.سانحہ کے روز بھی مسجد بیت النور کے ہال میں تھے.ہال کا چھوٹا دروازہ بند کر کے کمر دروازے کے ساتھ لگا کر اس کے آگے کھڑے ہو گئے.دہشت گرد باہر سے زور لگاتا رہا لیکن دروازہ نہیں کھولنے دیا.تو دہشت گرد نے باہر سے ہی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے ان کی کمر چھلنی ہو گئی اور موقع پر شہید ہو گئے.دروازہ توڑنے کے لئے جو گولیوں کی بوچھاڑ کی تو ان کو لگتی رہیں.دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا.اپنے علاقے میں اپنی شرافت اور ایمانداری کی وجہ سے بہت مشہور تھے.بعض غیر از جماعت بھی ان کی نماز جنازہ میں شامل ہوئے.اور 30 مئی کو نوائے وقت اخبار میں یہ خبر آئی کہ جنہوں نے بھی غیر احمد یوں نے ان کا جنازہ پڑھا ہے مولویوں کی طرف سے اعلان ہوا کہ ان کا نکاح ٹوٹ گیا ہے.اور ایکسپریس ٹی وی پر یہ خبر چلتی رہی.جنازہ پڑھنا تو بڑی بات ہے یہ مولوی تو جنہوں نے تعزیت کی ہے اور ہمدردی کی ہے ان کے بھی نکاح توڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں.گھر والے کہتے ہیں کہ عمرہ ادا کرنے کے بعد تہجد کی ادائیگی میں بڑے باقاعدہ ہو گئے تھے.قرآنِ کریم پڑھنے کی بھی روزانہ تلقین کرتے تھے.اپنے بچوں کو بھی کہتے تھے کہ قرآن کریم روزانہ پڑھو چاہے ایک لائن پڑھو اور پھر ترجمہ پڑھو، کیونکہ اس کے بغیر کوئی فائدہ نہیں.95

Page 109

مکرم مبارک احمد طاہر صاحب شہید مکرم مبارک احمد طاہر صاحب شہید ابن مکرم عبد المجید صاحب شہید لاہور کے رہنے والے تھے.ان کی دادی محترمہ قادیان کی تھیں.ان کے والد محترم نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بیعت کی.یہ ایک بینک میں ٹائپسٹ کے طور پر بھرتی ہوئے اور اس سروس کے دوران پہلے بی اے کیا.پھر ایم اے کیا.اور بینک کے مختلف کورسز بھی کئے اور بینک میں ہی ترقی کرتے کرتے اس وقت نیشنل بنک میں وائس پریذیڈنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے.اور سینیئر پریذیڈنٹ کی پروموشن بھی ان کی ڈیو (Due) تھی.بیسٹ ایمپلائی (Best Employee) ہونے کا بینک کا ان کو کیش پرائز بھی ملا.مولا نا دوست محمد صاحب شاہد مرحوم مؤرخ احمدیت کے یہ داماد تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 57 سال تھی.بطور نائب قائد ناظم تعلیم حلقہ دارالذکر خدمت سرانجام دے رہے تھے.اللہ کے فضل سے موصی تھے.سانحہ والے روز نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں آئے اور خود مین ہال میں پیچھے بیٹھ گئے اور دونوں بیٹے دوسرے ہال میں بیٹھ گئے.جب دہشتگرد نے اپنی کارروائی شروع کی اور مربی صاحب نے دعا کے لئے کہا تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی شروع کر دی.دعا کے دوران ہی ایک گولی ان کے بائیں بازو میں لگی اور دوسری دل کے پاس، جس سے موقع پر ہی ان کی شہادت ہو گئی.بہت ہمدرد انسان تھے.بینک میں اپنے لیول کے آفیسر سے اتنی دوستی نہیں تھی جتنی کہ ان کی اپنے ماتحت ورکر سے دوستی تھی.اپنے گھر میں نماز سینٹر بنایا ہوا تھا.اور پہلی منزل صرف نماز سینٹر کے لئے ہی تعمیر کروائی تھی.خلافت سے بہت عشق تھا.ان کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ جماعتی کام سے واپس آتے ہوئے اگر رات کے تین بج جاتے تو ہمیں کچھ نہیں کہتے تھے.اگر بچے گئے ہیں اور کسی جماعتی کام میں مصروف ہیں رات کے تین بج جائیں تب بھی کچھ نہیں کہتے تھے.لیکن اگر کسی اور کام سے ہم گھر سے باہر جاتے اور عشاء کی 96

Page 110

نماز سے لیٹ واپسی ہوتی ، تو بڑی ڈانٹ پڑا کرتی تھی.سخاوت ان کی زندگی کا ایک بڑا خلق تھا.لوگوں کو بڑی بڑی چیزیں مفت بھی دے دیا کرتے تھے.مربیان سلسلہ سے بہت لگاؤ ہوتا بہت عزت کرتے تھے ان کی ، مہمان نوازی کرتے تھے.جہاں بھی گھر لیا حلقے کا مرکز اور سینٹر اپنے گھر کو ہی بنانے کی کوشش کرتے تھے.بہت ملنسار تھے.مکرم انیس احمد صاحب شہید مکرم انیس احمد صاحب شہید ولد مکرم صو بیدار منیر احمد صاحب.شہید مرحوم کا خاندان ضلع فیصل آباد سے تھا جہاں سے بعد میں لاہور شفٹ ہو گئے.میٹرک کی تعلیم کے بعد کمپیوٹر ہارڈ ویئر کا کام کرتے تھے.گلبرگ میں ان کا آفس تھا.شہادت کے وقت ان کی عمر 35 سال تھی.نظام وصیت میں شامل تھے.مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے عموماً ماڈل ٹاؤن جایا کرتے تھے.سانحہ کے روز کسی کام سے نکلے اور نماز جمعہ کے لئے مسجد دارالذکر چلے گئے.اپنے والد صاحب کے ساتھ محراب کے قریب ہی بیٹھے تھے.فائرنگ شروع ہو گئی تو والد صاحب نے چھپنے کے لئے کہا تو جوابا کہا کہ آپ چھپ جائیں میں ادھر لوگوں کی مدد کرتا ہوں اور اس دوران دہشتگر د کی گولیوں سے شہید ہو گئے.بیوی بچوں سے بہت پیار کرتے تھے.اسی طرح والد صاحب کی بہت اطاعت کرتے تھے.سسرالی رشتے داروں سے بھی بھائیوں جیسا تعلق تھا.خدمت خلق کا بہت شوق تھا.ایک جگہ کسی احمدی دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تو اس وقت فوری طور پر خون نہیں مل رہا تھا اپنا خون بھی دیا اور پھر اس نے علاج کے لئے پیسے مانگے قرض کے طور پر پانچ ہزار یا کتنے؟ تو وہ دے دیے اور قرض واپس بھی نہیں لیا.اپنے بیٹے کو باقاعدگی سے قرآن کلاس کے لئے بھجواتے تھے.اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.اس سانحے میں ان کے چھوٹے بھائی مکرم منور احمد صاحب بھی شہید ہو گئے ہیں.97

Page 111

مکرم منور احمد صاحب شہید مکرم منور احمد صاحب شہید ابن مکرم صو بیدار منیر احمد صاحب.اپنے بھائی کی طرح ان کا تعلق بھی فیصل آباد سے تھا.پیدائشی احمدی تھے، لیکن کچھ عرصہ شیعہ عقائد کی طرف مائل رہے، کیونکہ انہوں نے اپنی نانی جو ذاکرہ تھیں، ان کے پاس پرورش پائی تھی.پھر یہ ذاکر اور پیر بن گئے تھے.اور اسی دوران انہوں نے خواب میں حضرت امام حسین اور حضرت علی کو دیکھا.وہ آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے بارے میں ان کو بتایا تو دوبارہ انہوں نے بیعت کر لی اور بڑے فعال کارکن تھے.فطرت نیک تھی.اللہ تعالیٰ نے خود ان کی رہنمائی فرما دی.احمدیت کا بہت علم تھا، بہت تبلیغ کرتے تھے، انہوں نے بہت ساری بیعتیں بھی کروائیں.دعوت الی اللہ کے شیدائی تھے.بڑے بڑے مولویوں کولا جواب کر دیتے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 30 سال تھی.بطور نائب ناظم اصلاح وارشاد خدمت کی توفیق ملی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.دارالذکر میں نماز جمعہ کے وقت حملے کے وقت یہ بیرونی گیٹ سے فائرنگ کی آواز آئی.تو یہ نہایت پھرتی سے کرالنگ (Crawling) کرتے ہوئے باہر نکلے اور جلدی سے واپس آ کر مین ہال کی طرف جانے والے اندرونی گیٹ کو بند کیا.اور ہال کے مین گیٹ میں دروازے بند کروائے.حملے کے دوران مسلسل گھر فون سے رابطہ رکھا اور اپنے چچا سے دعا کے لئے کہتے رہے اور کہا کہ میں اوپر جا رہا ہوں میرے لئے دعا کریں.ایک عینی شاہد دوست نے بتایا کہ حملہ کے شروع میں ہی ہال کے اندر آئے اور زور سے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ اگر کسی کے پاس اسلحہ ہے تو مجھے دو کیونکہ دہشتگر داندر آ گئے ہیں.(وہاں لوگ مسجد میں نمازیں پڑھنے آئے تھے اسلحہ لے کر تو نہیں آئے تھے ) اس کے بعد جب اندر فائرنگ سے لوگ زخمی ہوئے اور جب دہشت گرد ہال سے اوپر جاتے تو یہ موقع پا کر بڑی پھرتی سے کرالنگ کرتے ہوئے زخمی بزرگان کو پانی پلاتے رہے.پولیس اور انتظامیہ یہی.98

Page 112

اعتراض کر رہی ہے نہ آپ لوگ کیوں نہیں اسلحہ لے کر بیٹھے ہوئے تھے.یہ غیر احمدیوں کا مقام ہے کہ وہ لے کر بیٹھ سکتے ہیں لیکن احمدی نہیں.یا پولیس بالکل ہاتھ اٹھالے اور کہہ دے کہ اپنی حفاظت کا خود انتظام کریں.بہر حال مسلسل موقع کی تلاش میں رہے کہ دہشتگر دکو پکڑیں.بالآ خر موقع پا کر نہایت بہادری سے دہشتگر دکو پکڑا جس کی وجہ سے دہشتگرد نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑالیا.دھماکے کی وجہ سے یہ بھی شہید ہو گئے.ان کو شروع میں معلوم ہو چکا تھا کہ ان کے بھائی مکرم انیس احمد صاحب شہید ہو چکے ہیں.لیکن اس کے باوجود بڑی بہادری سے لوگوں کی مدد کرتے رہے.ان کے گھر بڑے عرصے سے باہر منافرت پھیلانے والے اشتہارات اور پوسٹر چسپاں تھے.اس سے پہلے بھی غیر از جماعت انتشار پسند ایسی کارروائیاں کرتے رہتے تھے بچوں کے ذریعے سے ہی کام کرواتے ہیں.لیکن شہید مرحوم نے پوسٹر لگانے والے بچوں کو بڑے پیار اور اخلاق سے سمجھایا اور بچوں کو اثر بھی ہو گیا ان کو سمجھ بھی آگئی.لیکن پھر وہ بڑوں کے کہنے پر مجبور تھے ، لگا جایا کرتے تھے.ان کے ناظم اصلاح وارشاد صاحب ضلع منور احمد صاحب نے بتایا کہ سانحہ سے تقریباً ایک ڈیڑھ ماہ قبل انہوں نے اپنی ایک خواب مجھے بتائی.خواب میں ان کی وفات یافتہ والدہ ملی ہیں.انہوں نے کہا ہے کہ میں نے تمہارا کمرہ تیار کر لیا ہے، میں تمہیں بلالوں گی.حافظ مظفر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ اپنے عزیزوں کو پہلے ہی بتا دیا تھا بلکہ شادی ہوئی ہے پچھلے سال ، تو اپنی بیوی کو بھی پہلے دن ہی کہہ دیا کہ میں نے تو شہید ہو جانا ہے، اس لئے میرے شہید ہو جانے کے بعد کوئی واویلا نہ کرنا.مکرم سعید احمد طاہر صاحب شہید ایک شہید ہیں مکرم سعید احمد طاہر صاحب والد مکرم صوفی منیر احمد صاحب.آج ان کا میں جنازہ غائب بھی پڑھوں گا.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد ضلع کرنال بھارت کے رہنے والے تھے.ان کے پردادا حضرت رمضان صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام 99

Page 113

تھے.ہجرت کے بعد تخت ہزارہ ضلع سرگودھا میں آباد ہوئے.خاندان لاہور میں مقیم تھا.شہادت کے وقت ان کی عمر 37 سال تھی.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں شہید ہوئے.سانحہ کے روز کام سے سیدھے جمعہ پڑھنے چلے گئے.مسجد بیت النور میں ان کے پہنچنے سے پہلے مسجد میں فائرنگ شروع ہو چکی تھی.دو دہشتگر دجوموٹر سائیکل پر ماڈل ٹاؤن آئے تھے، اپنی موٹر سائیکل پھینک کر گیٹ پر فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہو گئے تھے.چند سیکنڈ بعد موٹر سائیکل پھٹ گیا.یہ اس کے قریب تھے اس کی وجہ سے ان کو آگ لگ گئی اور جسم جھلس گیا.آٹھ دن یہ ہسپتال میں رہے ہیں لیکن جانبر نہ ہو سکے اور 5 جون کو جام شہادت نوش کیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.شہادت سے ایک دن پہلے انہوں نے اپنی بہن کو گاؤں فون کیا کہ گوشت کی دیگ پکوا کر تقسیم کر دو.خواب دیکھی تھی انہوں نے ، بہر حال اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیرتھی، اور پھر جمعہ والے دن بچوں کو پیار کیا اور جلدی جلدی تیار ہو کر کام کے لئے نکل گئے اور اس کے بعد پھر جمعہ پڑھنے مسجد نور چلے گئے.مرحوم کی بیوہ نے چند ڈائریاں دکھائی ہیں جن میں کئی مقامات پر یہ لکھا تھا کہ شہادت میری آرزو ہے.انشاء اللہ.ڈائری میں ایک اور جگہ تحریر ہے کہ اے اللہ ! شہادت نصیب فرما.یہ گردن تیری راہ میں کئے.میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے تیری راہ میں ہو دیں.پیارے حبیب کے صدقے میرے مولی میری یہ دعا قبول فرما.آمین.اللہ تعالیٰ نے دعا قبول بھی کر لی.30 نومبر 2000 ء کو انہوں نے یہ الفاظ لکھے تھے ڈائری کے.ڈائری میں نمازوں کی ادائیگی ، جمعہ کی ادائیگی ، خطبہ جمعہ کا مختصر خلاصہ اور نوٹس ، چندہ جات کی باقاعدہ ادائیگی کا جابجاذ کر ملتا ہے.اور تخت ہزارہ کے چونکہ رہنے والے تھے، وہاں کچھ سال پہلے چار پانچ شہید ہوئے تھے ان کے لئے دعا کی تحریک کا بھی ذکر ملتا ہے.والدین اور رشتے داروں کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے.غرباء کو صدقہ دیتے تھے.بہت ہنس مکھ تھے ، بہت پیار کرنے والے تھے.ماں باپ، بہن بھائی ، اہلیہ کا سب کا خیال رکھتے تھے.ایک ڈبہ رکھا ہوا تھا انہوں نے جس میں روزانہ کچھ رقم ڈال دیتے تھے.اور جب گاؤں جاتے تھے تو وہاں مستحقین میں تقسیم کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے 100

Page 114

درجات بلند فرمائے.تمام شہداء جو ہیں ان کے درجات بلند فرمائے.یہ تمام شہداء قسم قسم کی خوبیوں کے مالک تھے.اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں اور ان کی نیک خواہشات اپنے بیوی بچوں اور نسلوں کے لئے قبول فرمائے.سب ( پسماندگان) کو صبر اور حوصلہ سے یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اب یہ ذکر خیر تو ابھی آئندہ بھی چلے گا.{ حضور نے جمعہ کے آخر پر مکرم سعید احمد صاحب کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا اور نماز جمعہ کے بعد شہید مرحوم کی نماز جنازہ غائب پڑھائی (ناشر)} 101

Page 115

Page 116

خطبه جمعه سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ايده الله تعالیٰ بنصره العزيز فرمودہ 25 جون 2010ء بمقام من ہائیم جرمنی 103

Page 117

Page 118

{ اس خطبہ کے ساتھ جلسہ سالانہ جرمنی 2010ء کا افتتاح بھی ہو رہا تھا.چنانچہ خطبہ کے آغاز میں حضور ایدہ اللہ نے جلسہ سالانہ کی مناسبت سے ضروری نصائح فرمائیں اور بعد ازاں شہداء کے ذکر خیر کا مضمون بیان فرمایا.(ناشر)} آج کے خطبہ کا مضمون بھی انہی شہداء کے ذکر خیر پر ہی ہے جنہوں نے اپنی جان کی قربانیاں دے کر ہماری سوچوں کے نئے راستے متعین کر دیئے ہیں“.مکرم خلیل احمد سولنگی صاحب شہید آج کی فہرست میں سب سے پہلا نام جو میرے سامنے ہے، مکرم خلیل احمد سولنگی صاحب شہید ابن مکرم نصیر احمد سولنگی صاحب کا ہے.یہ ترتیب کوئی خاص وجہ سے نہیں ہے، جس طرح کوائف میرے سامنے آتے ہیں میں وہ بیان کر رہا ہوں.مکرم خلیل احمد سولنگی صاحب شہید کے آباؤ اجداد کا تعلق قادیان کے ساتھ گاؤں کھارا تھا، وہاں سے ہے.ان کے دادا حضرت ماسٹر محمد بخش سولنگی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.مکرم عبد القادر سوداگر مل صاحب بھی ان کے عزیزوں میں سے تھے.پارٹیشن کے بعد یہ لوگ گوجرانوالہ شفٹ ہو گئے.شہید نے گورنمنٹ کالج لاہور سے الیکٹریکل انجینئر نگ کرنے کے بعد پانچ سال واپڈا میں ملازمت کی، پھر اپنے والد صاحب کے ساتھ کاروبار شروع کر دیا.والد صاحب کی وفات کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا.1997ء میں یہ لاہور آ گئے اور یہاں کا روبار کرتے رہے اور ایک سال پہلے گارمنٹس کے امپورٹ کا امریکہ میں کاروبار شروع کیا اور امریکہ میں رہائش پذیر 105

Page 119

تھے.اس سے قبل پاکستان میں بھی کافی عرصہ ٹھہر کے کاروبار کرتے رہے ہیں.بطور ناظم اطفال انہوں نے پاکستان میں خدمات سرانجام دیں.قائد ضلع، قائد علاقہ مجلس خدام الاحمدیہ ضلع گوجرانوالہ، مجلس انصار اللہ علاقہ لا ہور، مرکزی مشاورتی بورڈ برائے صنعت و تجارت کے صدر اور ممبر کے علاوہ جنرل سیکرٹری ضلع لاہور کی خدمات بھی انجام دیتے رہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 51 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.ان کی مسجد دارالذکر میں شہادت ہوئی ہے.شہید ایک ماہ قبل امریکہ سے پاکستان اپنے کاروبار کے سلسلے میں آئے تھے اور نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد دارالذکر پہنچے تھے.حملہ کے دوران صحن میں سیڑھیوں کے نیچے باقی احباب کے ساتھ قریباً ایک گھنٹہ رہے.شائد بیسمنٹ میں چلے جاتے لیکن انہوں نے دیکھا کہ ایک زخمی بھائی ہے اس کو بچانے کے لئے سیڑھیوں سے نیچے کھینچنے کی کوشش میں دہشتگرد کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے اور ان کے سینے کی دائیں طرف گولی لگی.کافی دیر تک زخمی حالت میں سیڑھیوں کے نیچے رہے.لیکن اللہ تعالیٰ کو ان کی شہادت منظور تھی، اس لئے مسجد میں ہی شہادت کا رتبہ پایا.جب دارالذکر پر حملہ ہوا تو انہوں نے اپنے بڑے بیٹے شعیب سولنگی کو فون کیا کہ اس طرح حملہ ہوا ہے، بس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے اور گھر والوں کو بھی دعا کے لئے کہو.انتہائی مخلص مالی جہاد میں پیش پیش تھے.ان کو چھوٹی عمر سے ہی اعلی جماعتی عہدوں پر کام کرنے کی سعادت ملی.جماعتی خدمت کا بھر پور جذبہ رکھتے تھے.ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.مالی قربانیوں میں ہمیشہ سبقت لے جانے والے تھے.گوجرانوالہ میں محلہ بھگوان پورہ میں مسجد تعمیر کروائی.دارالضیافت ربوہ کی Reception کے لئے انہوں نے خرچ دیا محنتی اور نیک انسان تھے.اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف بڑی توجہ دیتے رہے.ہر کام شروع کرنے سے پہلے خلیفہ وقت سے اجازت اور رہنمائی لیتے تھے.ان میں خلافت کی اطاعت بے مثال تھی.ان کا بزنس پاکستان میں تھا.ان کے کاروباری اور بعض دوسرے حالات کی وجہ سے میں نے ان کو کہا کہ امریکہ چلے جائیں.تو 106

Page 120

لا ہور سے اسی وقت فوری طور پر وائنڈ آپ کر کے امریکہ چلے گئے.انہوں نے بہت سے احمدی بے روزگار افراد کی ملازمت کے سلسلہ میں مدد کی.ان کی اہلیہ کہتی ہیں ہماری گھر یلو زندگی بھی بڑی مثال تھی.مثالی باپ تھے، مثالی شوہر تھے.ہر طرح سے بچوں کا اور بیوی کا خیال رکھنے والے.دروازے پر کوئی ضرورتمند آ جاتا تو کبھی اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹا یا.لوگ آپ کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لئے آتے اور بڑا مشورہ اچھا دیا کرتے تھے.اسی لئے مرکزی صنعتی بورڈ کے ممبر بھی بنائے گئے تھے.بڑے ہنس مکھ اور زندہ دل انسان تھے.ہر مشکل کام جو بھی ہوتا ان کے سپرد کیا جاتا بڑی خوشی سے لیتے ، بلکہ کہہ دیتے تھے انشاء اللہ ہو جائے گا.اور اللہ تعالیٰ نے ان کو صلاحیت دی ہوئی تھی اس کو بخوبی سرانجام دیتے تھے.انہیں دوسروں سے کام لینے کا بھی بڑافن آتا تھا.بہت نرم گفتار تھے، اخلاق بہت اچھے تھے.مثلاً یہ ضروری نہیں ہے کہ جو اپنے سپر دفرائض ہیں انہی کو صرف انجام دینا ہے.اگر کبھی سیکرٹری وقف جدید نے کہہ دیا کہ چندہ اکٹھا کرنا ہے میرے ساتھ چلیں.گو ان کا کام نہیں تھا لیکن ساتھ نکل پڑتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے مسجد بیت الفتوح کی جب تحریک کی ہے تو فوراً فیکس کے ذریعے اپنا وعدہ کیا اور وعدہ فوری طور پر ادا بھی کر دیا.چوہدری منور علی صاحب سیکرٹری امور عامہ بیان کرتے ہیں کہ جلسہ سالانہ قادیان کے انتظامات میں ان کے پاس ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہوتا تھا اور انتہائی خوبی سے یہ کام کرتے تھے.بسوں، کاروں اور دیگر ٹرانسپورٹ کا کام انتہائی ذمہ داری سے کرتے تھے اور یہ ہے کہ سارا دن کام بھی کر رہے ہیں اور ہنستے رہتے تھے.بڑے خوش مزاج تھے.امریکہ شفٹ ہونے کے باوجود 2009ء کا ( قادیان کا) جو جلسہ ہوا ہے اس میں پاکستان آئے اور اس کام کو بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دیا.قادیان جانے والے جو لوگ تھے ان کی مدد کی.میرے ساتھ بھی ان کا تعلق کافی پر ا نا خدام الاحمدیہ کے زمانہ سے ہے.مرکز سے مکمل تعاون اور اطاعت کا نمونہ تھے.جیسے بھی حالات ہوں جس وقت بلا ؤ فوراً اپنے کام کی پروا نہ کرتے ہوئے حاضر ہو جایا کرتے تھے.عام طور پر بزنس مین اپنے بزنس کو چھوڑا نہیں 107

Page 121

کرتے.اب بھی جب یہاں سے گئے ہیں، مجھے لندن مل کے گئے ہیں اور گو حالات کی وجہ سے میں نے ان کو کہا بھی تھا کہ احتیاط کریں، بہر حال اللہ تعالیٰ نے شہادت مقرر کی تھی ، شہید ہوئے.ان کو یہ بھی فکر تھی کہ جو پرانے بزرگ ہیں ، جو پرانے خدمتگار ہیں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے میں پہل کرنے والے ہیں، ان کی بعض اولا دیں جو ہیں وہ خدمت نہیں کر رہیں.تو یہ بھی ان کو ایک بڑا درد تھا اور میرے ساتھ درد سے یہ بات کر کے گئے اور بعض معاملات میرے پوچھنے پر بتائے بھی اور ان کے بارے میں بڑی اچھی اور صاف رائے بھی دی.رائے دینے میں بھی بہت اچھے تھے.سابق امیر صاحب گوجرانوالہ نے لکھا کہ سولنگی صاحب کہا کرتے تھے کہ خلافت کے مقابلے پہ کوئی دوستی اور رشتے داری کسی قسم کی حیثیت نہیں رکھتی.1974ء میں سولنگی صاحب کے خاندان کے بعض افراد نے کمزوری دکھائی.یہ اس وقت بہت کم عمر تھے مگر اپنے خاندان کو اسی حالت میں چھوڑ کر امیر جماعت چوہدری عبدالرحمن صاحب کے گھر چلے گئے جہاں ساری جماعت پناہ گزین تھی اور وہاں ڈیوٹیاں دینی شروع کر دیں.چوہدری صاحب پر بھی ان کی اس قربانی کا بڑا اثر تھا.جیسا کہ میں نے کہا مالی قربانی کی بھی بڑی توفیق ملی.یہ سابق امیر صاحب لکھتے ہیں کہ کھلے دل سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والے تھے.ایک دفعہ ایک پلاٹ مل رہا تھا جو بعد میں نہیں ملا.لیکن اس کی قیمت پچاس لاکھ روپے تھی.انہوں نے کہا میں ادا کر دوں گا.بہر حال وہ تو نہیں ملا لیکن اس کے مقابلے پر ایک اور کوٹھی چوالیس لاکھ روپے کی مل گئی، جس کی قیمت انہوں نے ادا کی اور جو جماعت کے گیسٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہو رہی ہے.اس سے پہلے مسجد کے لئے بھی کافی بڑی رقم دے چکے تھے لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ہے میں نے رقم دی ہے.خلافت جو بلی کے موقع پر لاہور کی طرف سے جو قادیان میں گیسٹ ہاؤس بنا ہے، اس کی تعمیر کے لئے بھی انہوں نے دس لاکھ روپیہ دیا.خدام الاحمدیہ گیسٹ ہاؤس جور بوہ میں ہے اس کی رینوویشن (Renovation) کے لئے انہوں نے بڑی رقم دی.غرض کہ مالی قربانیوں میں پیش پیش 108

Page 122

تھے، وقت کی قربانی میں بھی پیش پیش تھے.اطاعت اور تعاون اور واقفین زندگی اور کارکنان کی عزت بھی بہت زیادہ کیا کرتے تھے.پیسے کا کوئی زعم نہیں.جتنا جتنا ان کے پاس دولت آتی گئی میں نے ان کو عاجزی دکھاتے ہوئے دیکھا ہے.مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب شہید دوسرے شہید ہیں مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب ابن مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب.یہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے تھے.اور چوہدری حمید نصر اللہ خان صاحب جو سابق امیر ضلع لاہور ہیں ان کے چچازاد بھائی تھے.ان کو بھی جماعتی خدمات بجالانے کا موقع ملتا رہا.چار خلفائے احمدیت کے ساتھ کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.ان کے والد مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب سابق امیر ضلع لاہور تھے.ان کی ابتدائی تعلیم قادیان کی تھی.میٹرک اور گریجویشن لاہور سے کی.انہوں نے لائرز ان کا لج لندن سے بارایٹ لاء کیا.کچھ عرصہ لندن میں پریکٹس کی.پھر والد صاحب کی بیماری کی وجہ سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر واپس آگئے اور پھر حضور رحمہ اللہ کے ارشاد پر ہی اسلام آباد میں سیٹ ہو گئے اور 1984ء میں ریٹائر ڈ ہوئے.پھر انہوں نے کوئی دنیاوی کام نہیں کیا بلکہ جماعتی کام ہی کرتے رہے.متعدد جماعتی عہدوں پر ان کو خدمت کی توفیق ملی.سابق امیر جماعت اسلام آباد، نائب امیر ضلع لاہور ہمبر قضاء بورڈ ہمبر فقہ کمیٹی کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 83 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.جمعہ کے دن تیار ہو کر کمرے سے نکلے تو کمرے سے نکلتے ہی کہا کہ کمزوری بہت ہوگئی ہے.پھر ناشتہ کیا اور بیٹے کو کہا کہ میں نے بارہ بجے چلے جانا ہے.تو بیٹے نے کہا کہ اتنی جلدی جا کر کیا کرنا ہے.تو جواب دیا کہ میرا دل نہیں چاہتا کہ لوگوں کے اوپر سے پھلانگ کر جاؤں اور پہلی صف میں بیٹھوں.بیٹا اور پوتا ساتھ تھے.بیٹے نے ڈیوٹی پر جانے سے پہلے کہا کہ 109

Page 123

پوتے کو اپنے ساتھ بٹھا لیں.پہلے یہ ہمیشہ ساتھ بٹھایا کرتے تھے.انہوں نے کہا نہیں اس کو اپنے ساتھ لے کے جاؤ.بیٹے نے کہا کہ میری ڈیوٹی ہے.تو کہا کہ نہیں بالکل نہیں.چنانچہ بیٹے نے اپنے بیٹے کو یعنی ان کے پوتے کو کسی اور کے پاس چھوڑا اور اللہ تعالیٰ نے بیٹے اور پوتے دونوں کو محفوظ رکھا.شہید مسجد دارالذکر کے مین ہال میں محراب کے اندر پہلی صف میں کرسی پر بیٹھے تھے.ان کے دائیں طرف سے شدید فائرنگ شروع ہوئی جس سے ان کے پیٹ میں گولیاں لگیں.کسی نے بتایا کہ امیر صاحب ضلع نے ان کو کہا کہ چوہدری صاحب آپ باہر نکل جائیں تو انہوں نے جواباً کہا کہ میں نے تو شہادت کی دعا مانگی ہے.چنانچہ امیر صاحب کے اور ان کے دونوں کے جسم ایک ہی جگہ پر پڑے ہوئے ملے.مولوی بشیر الدین صاحب نے خواب میں دیکھا کہ آسمان سے سفید رنگ کی بہت بڑی گاڑی آئی ہے، اس میں سے آواز آئی کہ میں آپ کو لینے آیا ہوں.رات کو عشاء کی نماز پڑھ کر جلدی سو جاتے تھے.اور رات ایک بجے اٹھ جاتے تھے پھر نماز تہجد اور دعاؤں میں مشغول رہنا ان کا کام تھا.ہر ایک کو دعا کے لئے کہتے کہ خاتمہ بالخیر کی دعا کرو.خلافت سے محبت انتہا کی تھی.جو جماعت کے خدمت گزار تھے ان کی بھی بڑی تعریف کیا کرتے تھے کہ کتنی پیاری جماعت ہے کہ لوگ اپنا کام ختم کر کے جماعت کے کاموں میں جت جاتے ہیں.لوگوں میں بیٹھتے تو تبلیغ کرتے مجلس برخاست ہوتی تو کہتے کہ اگر کسی کو برا لگا ہے تو معاف فرمائیں.یکصد یتامیٰ میں مستقل ایک یتیم کا خرچ دیتے تھے.ربوہ سے ایک ملازم آیا، وہ ساتویں جماعت تک پڑھا ہوا تھا گھر میں کہا کہ اسے بھی پڑھاؤ اور جو کچھ پڑھائی کے لئے اپنے بچوں کو چیزیں دیتی ہو وہی اس کو بھی دو.خدا کے فضل سے موصی تھے.ان کے بیٹے کا بیان ہے اور کسی اور نے بھی یہ لکھا ہے کہ بچپن سے ہی ایک خواہش کا اظہار فرماتے تھے کہ خدا زندگی میں وصیت کی ادائیگی کی تو فیق عطا فرمائے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے شہادت سے تین سال پہلے ان کو اپنی جائیداد پر وصیت کی ادائیگی کی توفیق عطا فرما دی اور شہادت سے چند روز پہلے اپنے سارے چندے ادا کر دیئے.110

Page 124

آپ اسلام آباد میں ملازمت کے دوران مونا پلی کنٹرول اتھارٹی میں رجسٹرار کے طور پر فائز تھے.اس دوران اس وقت کے وزیر اعظم کی سفارش کے ساتھ فائل آئی.بھٹو صاحب وزیر اعظم تھے.جب فائل آئی تو چوہدری صاحب کو کوئی قانونی سقم نظر آیا.انہوں نے انکار کے ساتھ اس فائل کو واپس کر دیا.اب وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے فائل آئی ہے انہوں نے کہا کہ یہ قانونی سقم ہے میں اس کی منظوری نہیں دے سکتا.یہ غلط کام ہے.تو وزیر اعظم صاحب جو اس وقت سیاہ وسفید کے مالک تھے.بہت سیخ پا ہوئے اور دھمکی کے ساتھ نوٹ لکھا کہ یا تو تم کام کرو ورنہ تمہارے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے گی.تو چوہدری صاحب نے اپنے احمدی ہونے کا بھی نہیں چھپایا تھا اور موقع محل کے مطابق تبلیغ بھی کرتے تھے.وزیر اعظم صاحب کو بھی یہ پتہ تھا کہ احمدی ہے.کیونکہ اس نے اس معاملے میں بعض غلط قسم کے الفاظ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بارے میں بھی استعمال کئے تھے.بہر حال یہ معاملہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں پیش ہوا تو حضور نے دعا کے ساتھ فرمایا ٹھیک ہے، ہمت کرے اور اگر بزدل ہے تو استعفیٰ دے دے.جب چوہدری صاحب کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا یہ پیغام ملا تو انہوں نے کہا جو مرضی ہو جائے میں استعفی نہیں دوں گا اور ایک لمباخط وزیر اعظم صاحب کو لکھا کہ اگر میں استعفیٰ دوں تو ہوسکتا ہے کہ سمجھا جائے کہ میں کچھ چھپانا چاہتا ہوں.مجھے کچھ چھپانا نہیں ہے اس لئے میں نے استعفی نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے.اس پر ان کے خلاف کارروائی ہوئی اور ان کو ایک نوٹ ملا کہ تمہاری خدمات سے تم کو فارغ کیا جاتا ہے.اور کوئی وجہ نہیں بتائی گئی.انہوں نے پھر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں معاملہ پیش کیا، اور دعا کے لئے کہا.انہوں نے دعا کی.اگلی صبح کہتے ہیں کہ میں فجر کی نماز کے لئے باہر نکلا تو اس وقت کے امیر جو چوہدری عبد الحق ورک صاحب تھے ، ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کے لئے دعا کر رہا تھا تو مجھے آواز آئی کہ چھٹیاں مناؤ، عیش کرو.تو جب بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوئی اور مارشل لاء والوں نے تمام سرکاری دفاتر کی تلاشی لینی شروع کی تو ان کی فائل بھی سامنے آئی اور ان کے 111

Page 125

کا غذات مل گئے ، اور جو انکوائری ہوئی پھر بغیر وجہ ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا اس پہ فوراً ایکشن ہوا اور ان کو بحال کر دیا اور ساتھ یہ نوٹ بھی اس پر لکھا ہوا آ گیا کہ دو سال کا عرصہ جو آپ کو برطرف کیا گیا ہے، یہ چھٹی کا عرصہ سمجھا جائے گا.تو اس طرح وہ خواب جو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے احمدی بھائی کو دکھائی تھی وہ بھی پوری ہوئی.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عجیب کام ہے کہ اگر ایک مخالف احمدیت نے ان کو برطرف کیا تو بحالی بھی مخالف احمدیت سے ہی کروائی اور ضیاء الحق نے ان کی بحالی کی.ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ لاہور کی انتظامیہ نے ہمیں کہا کہ حفاظت کے پیش نظر اپنی کار بدل لو تا کہ نمبر پلیٹ تبدیل ہو جائے.اور دارالذکر آنے جانے کے راستے بدل بدل کر آیا کرو.تو اپنے والد صاحب کو جب میں نے کہا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے یہ کرلو، اور ساتھ یہ بھی ہدایت تھی کہ کبھی کبھی جمعہ چھوڑ دیا کرو.جب یہ بات میں نے والد صاحب سے کی تو انہوں نے کہا کہ جمعہ تو نہیں چھوڑوں گا چاہے جو مرضی ہو جائے ، دشمن زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہے، ہمیں شہید ہی کر دے گا، اور ہمیں کیا چاہئے.مکرم چوہدری حفیظ احمد کاہلوں صاحب ایڈووکیٹ شہید اگلے شہید ہیں مکرم چوہدری حفیظ احمد کاہلوں صاحب ایڈووکیٹ.ان کے والد تھے مکرم چوہدری نذیر حسین سیالکوٹی صاحب.ان کا تعلق بھی ضلع سیالکوٹ سے ہے تعلیم ایل ایل بی تھی.با قاعدہ وکالت کرتے تھے.پہلے سیالکوٹ میں پھر لاہور شفٹ ہو گئے.سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ کے طور پر کام کرتے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 83 سال تھی اور ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں ان کی شہادت ہوئی.جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد بیت النور کے مین ہال میں تھے.حملے کے دوران سینے میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئے.سانس بحال کرنے کی کافی کوشش کی گئی لیکن وہیں شہادت ہوئی.جنرل ریٹائرڈ ناصر شہید، مکرم محمد غالب صاحب شہید، مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب شہید بھی ، یہ سب حفیظ صاحب کے رشتہ دار تھے.112

Page 126

شہید بہت ہی نرم طبیعت کے مالک تھے.کبھی کسی کو ڈانٹا نہیں.گھر میں ملازموں سے بھی حسنِ سلوک کرتے تھے.نماز کے پابند.اکثر پیدل ہی نماز کے لئے جاتے تھے.ان کے ایک بیٹے ناصر احمد کاہلوں صاحب آسٹریلیا میں ہمارے نائب امیر ہیں.بڑی اچھی طبیعت کے مالک تھے، اللہ تعالیٰ درجات بلند کرے.ان کے بارے میں کسی نے مجھے لکھا کہ غریبوں کے کیس مفت کرتے تھے بلکہ لوگوں کی مالی مدد بھی کرتے تھے.مارشل لاء کے زمانے میں لجنہ کے امتحانی پرچے میں پنجتن پاک کا لفظ لکھنے پر کیس بن گیا.چوہدری صاحب نے اس کیس میں احسن رنگ میں پیروی کرا کر اسے ختم کروا دیا.آپ کی تعزیت کے لئے بہت سے غیر از جماعت دوست بھی آئے.بلکہ کہتے ہیں بعض متعصب لوگوں نے بھی تعزیت کی.ان کا کورٹ میں دفتر میں جو منشی تھا وہ کہتا ہے ایک سابق جج صاحب کا تعزیت کا فون آیا اور بہت دیر تک افسوس کا اظہار کرتے رہے.منشی نے جج صاحب سے کہہ دیا کہ آپ ان کی مغفرت کے لئے دعا کریں.تو جج صاحب کا جواب تھا ( تعصب کی انتہا آپ دیکھیں ) کہ میں افسوس تو کرسکتا ہوں لیکن مغفرت کی دعا نہیں کر سکتا.جمعہ کی نماز باقاعدگی سے بیت النور ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں ادا کرتے تھے اور باوجو د نظر کی کمزوری کے مغرب کی نماز پر پیدل چل کر آیا کرتے تھے.اپنے محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے.گھنٹوں قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہتے تھے.آپ کی چھوٹی پوتی کو جب آپ کی شہادت کے بارے میں بتایا گیا، تو اس کی والدہ نے اسے بتایا کہ اس طرح آپ آسمان پر چلے گئے ہیں، شہید ہو گئے ہیں تو اس پر آپ کے قرآن کریم پڑھنے کا اتنا اثر تھا ، ہر وقت دیکھتی تھی کہتی تھی کہ وہاں بھی بیٹھے قرآن شریف پڑھ رہے ہوں گے.تو یہ ہے وہ اثر جو بچوں پر عملی نمونے دکھا کر ہر احمدی کو قائم کرنا چاہئے.مکرم چوہدری امتیاز احمد صاحب شہید اگلے شہید جن کا ذکر کرنے لگا ہوں مکرم چوہدری امتیاز احمد صاحب شہید ابن مکرم 113

Page 127

چوہدری نثار احمد صاحب ہیں.شہید مرحوم کے دادا مکرم چوہدری محمد بوٹا صاحب آف بھینی محرمه ضلع گورداسپور میں 1935ء میں بیعت کی تھی.ان کے دادا اکیلے احمدی ہوئے تھے اور سارا گاؤں مخالف تھا.ان کی دادا کی وفات کے وقت مولویوں نے شور مچایا اور ان کی قبر کشائی کی گئی جس کی وجہ سے ان کی تدفین ان کی زمینوں میں کی گئی.پارٹیشن کے بعد یہ خاندان ساہیوال کے ایک چک میں آ گیا.اور 1972ء میں ان کے والد صاحب لاہور آ گئے.بوقتِ شہادت شہید امتیاز احمد کی عمر 34 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے ، معاون قائد ضلع، ناظم تربیت نو مبائعین ضلع، سابق ناظم اطفال اور سیکرٹری اشاعت ڈیفنس خدمت کی توفیق پارہے تھے.ان کی شہادت بھی مسجد دارالذکر میں ہوئی ہے.مسجد دارالذکر کے مین گیٹ پر دائیں جانب ان کی ڈیوٹی تھی.دہشتگر دوں نے جب حملہ کیا تو یہ بھاگ کر ان کو پکڑنے کے لئے گئے.اس دوران فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہو گئے.سر اور سینے میں گولیاں لگیں جس کے نتیجہ میں سانحہ کے اولین شہداء میں شامل ہو گئے.بہر حال جماعتی خدمات میں پیش پیش تھے ، شوری کے نمائندے بھی رہے، بچپن سے ہی اطفال کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.صد سالہ جشنِ تشکر کے سلسلہ میں اپنے حلقہ میں نمایاں خدمت کی توفیق ملی.سکیورٹی کی ڈیوٹی بڑی عمدگی سے ادا کرتے تھے.عموماً گیٹ کے باہر ڈیوٹی کرتے تھے.نمازوں کی ادائیگی میں با قاعدہ تھے.اپنے دونوں بچوں کو وقف نو کی با برکت تحریک میں شامل کیا ہوا تھا.جماعتی عہدیداران کا بہت احترام کیا کرتے تھے.لیڈر شپ کی کوالیٹیز (Qualities) تھیں.وقف کرنے کی بہت خواہش تھی.اور ڈیوٹی کا کام بھی اپنے آپ کو وقف سمجھ کر کیا کرتے تھے.ان کی ڈائری کے پہلے صفحے پر لکھا ہوا ملا ( بعد میں انہوں نے دیکھا ) کہ بُزدل بار بار مرتے ہیں اور بہادر کو صرف ایک بارموت آتی ہے.پھر ان کی ایک بہن امریکہ میں رہتی ہیں.پاکستان کچھ عرصہ پہلے آئی ہوئی تھیں، انہوں نے کہا کہ میری ڈائری میں کچھ لکھ دیں.تو اس پر شہید نے یہ شعر لکھا کہ یہ ادا عشق و وفا کی ہم میں اک مسیحا کی دعا سے آئی 114

Page 128

ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ شہادت سے پہلے ان کو خواب آئے تھے کہ میرے پاس وقت کم ہے اور اپنی زندگی میں مجھے کہتے تھے کہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاؤ.اور اس کے لئے بزنس بھی تھوڑ اسا ان کے لئے establish کر دیا.ہمیشہ تہجد پڑھنے والے اور نماز سینٹر میں فجر کی نماز اپنے والد صاحب کے ساتھ پڑھتے تھے.ایک دن رات کو دارالذکر سے ساڑھے بارہ بجے آئے اور صبح ساڑھے تین بجے پھر اٹھ گئے.میں نے کہا کہ کبھی آرام بھی کر لیا کریں.تو کہنے لگے، اس دنیا کے آرام کی مجھے کوئی پرواہ نہیں، مجھے آرام کی فکر ہے جو میں نے آگے کرنا ہے.مکرم اعجاز الحق صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم اعجاز الحق صاحب شہید ابن مکرم رحمت حق صاحب کا.شہید مرحوم کا تعلق حضرت الہی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھا.آبائی وطن پٹیالہ ضلع امرتسر تھا، والد صاحب ریلوے میں ملازم تھے اور لاہور میں ہی مقیم تھے.ہال روڈ پر الیکٹرانکس روپیئر (Repair) کا کام کرتے تھے.ان دنوں لاہور کے ایک پرائیویٹ چینل میں بطور سیٹلائٹ ٹیکنیشن کام کر رہے تھے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 46 سال تھی.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.وقوعہ کے روز ایم ٹی اے پر جو خلافت کا عہدِ وفا نشر ہو رہا تھا تو سر پر تولیہ رکھ کر کھڑے ہو کر عہد دوہرانا شروع کر دیا.اور اہلیہ نے بھی ان کو دیکھ کر عہد دوہرایا.مسجد دارالذکر میں ہی نماز جمعہ ادا کیا کرتے تھے اور سانحہ کے روز بھی اپنے کام سے سیدھے ہی نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے دارالذکر پہنچ گئے.باہر سیڑھیوں کے نیچے بیٹھے رہے.دہشتگردوں کے آنے پر گھر فون کیا اور بڑے بھائی سے کہا کہ اسلحہ لے کر فوری طور پر دارالذکر پہنچ جاؤ.اور یہ ساتھ ساتھ اپنے ٹی وی کو فون پر رپورٹنگ بھی کر رہے تھے.اسی دوران گولیوں کی بوچھاڑ سے موقع پر ہی شہید ہوگئے.اہلِ خانہ نے بتایا کہ ہمدرد اور ملنسار انسان تھے.سب کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے.چندہ جات کی ادائیگی با قاعدہ تھی اور ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.حلقہ کے ناظم اطفال 115

Page 129

تھے ان کے بارے میں ناظم اطفال نے بتایا کہ میں جب بھی ان کے بچوں کو وقار عمل یا جماعتی ڈیوٹی کے لئے لے کر گیا اور جب واپس چھوڑنے آیا تو انہوں نے خصوصی طور پر میرا شکرایہ ادا کیا کہ آپ نے ہمیں یہ خدمت کا موقع دیا.مکرم شیخ ندیم احمد طارق صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم شیخ ندیم احمد طارق صاحب شہید ابن مکرم شیخ محمد منشاء صاحب.شہید کے آباؤ اجداد چنیوٹ کے رہنے والے تھے.کاروبار کے سلسلے میں کلکتہ چلے گئے، 1947ء کے بعد ان کے والد صاحب کلکتہ سے ڈھا کہ چلے گئے جہاں سے 1971ء میں لاہور آ گئے.شہید مرحوم کی اہلیہ صاحبہ کا تعلق بھی کلکتہ سے ہے.اہلیہ کے دادا مکرم سیٹھ محمد یوسف صاحب بانی تھے جو مکرم صدیق بانی صاحب کلکتہ کے چھوٹے بھائی تھے.شہید مرحوم نے آئی کام کرنے کے بعد سپئیر پارٹس کا کاروبار شروع کیا.شہادت کے وقت ان کی عمر 40 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.ہمیشہ دارالذکر میں ہی جمعہ ادا کیا کرتے تھے.اور میرے خطبہ جمعہ تک جو لا ئیو نشر ہوتا ہے وہیں رہتے تھے اور وہ سن کر آیا کرتے تھے.سانحہ کے وقت یہ امیر صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.دایاں بازو بہت سوجا ہوا تھا.باقی جسم پر کوئی زخم نہیں تھا.غالب خیال یہی ہے کہ بازو میں گولی جو لگی ہے تو خون بہہ جانے کی وجہ سے شہید ہوئے.بہت صلح پسند، شریف اور بے ضرر اور نرم گفتار انسان تھے.کام پر ہوتے تو بچوں کو فون کر کے نماز کی ادائیگی کا پوچھتے.کام پر بیٹھے ہوئے ہیں، نماز کا وقت ہو گیا تو گھر بچوں کو فون کرتے تھے کہ نماز ادا کرو.یہ ہے ذمہ داری جو ہر باپ کو ادا کرنی چاہئے.اسی سے دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی عادت پڑتی ہے.نماز تہجد کا بہت خیال رکھتے تھے قریباً چار کلومیٹر دور جا کر نماز باجماعت پڑھا کرتے تھے.یہاں یہ فاصلے اتنے نہیں لگتے کیونکہ سڑکیں بھی ہیں ، سواریاں بھی ہیں.لیکن گودہاں سواری تو ان کے پاس تھی لیکن حالات ایسے ہیں ٹریفک ایسا ہے کہ مشکل ہو جاتی 116

Page 130

ہے.مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.حلقے کی مسجد کی ضروریات کو پورا کرنے میں نمایاں خدمت کی توفیق ملی.جماعتی ضرورت کے لئے اگر کبھی موٹر سائیکل ان سے مانگا جاتا تو پیش کر دیتے اور خو در کشہ پر چلے آتے.خدمت خلق نہایت مستقل مزاجی سے کرتے تھے.یہ خاندان بھی ، ان کے باقی افراد بھی حسب توفیق مالی قربانیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے.مکرم عامرلطیف پراچہ صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم عامرلطیف پراچہ صاحب شہید ابن مکرم عبداللطیف پراچہ صاحب کا.موصوف شہید کے والد ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے.اور والد صاحب ضلع سرگودھا کی عاملہ کے فعال رکن تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ قریبی تعلق تھا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ جب جابہ تشریف لے جاتے تو راستے میں اکثر اوقات شہید مرحوم کے والد مکرم عبد اللطیف صاحب کے گھر ضرور قیام کرتے تھے.شہید کے والد کے نانا مکرم بابو محمد امین صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الاول" کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.شہید نے ابتدائی تعلیم سرگودھا سے حاصل کی اور ایم بی اے لا ہور سے کیا.جماعتی چندہ جات اور صدقات با قاعدگی سے دیتے تھے.بزرگان کی خدمت کرتے تھے.سابق امیر ضلع سرگودھا مرزا عبدالحق صاحب کے ساتھ کام کرتے رہے.سانحہ کے دوران بھائی کو فون کیا کہ میرے اردگر دشہداء کی نعشیں پڑی ہیں.جب آ کے دیکھا گیا تو ان کے چہرے پر گن کے بٹ کے کندے کے نشان بھی تھے.شاید کسی دہشتگرد سے بھتم گھتا ہوئے اور اس وقت اس نے مارا.یا یہ دیکھنے کے لئے کہ شہادت ہوئی ہے کہ نہیں ، بعض لوگوں کو ویسے بھی گن سے مار کے دیکھتے رہے ہیں.اسی طرح ایک گرنیڈ بھی ہاتھ پر لگا ہوا تھا.اس کے زخم تھے.دارالذکر میں باہر سیڑھیوں کے نیچے بیٹھے تھے.وہیں پر شہید ہوئے.ان کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ نہایت دیانت دار اور امانت دار انسان تھے.دیانت داری کی وجہ سے جیولر ز ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ کی جیولری ان کے حوالے کر دیا کرتے تھے.احمدیت کو کبھی نہیں چھپایا.والد صاحب عرصہ دراز یا 117

Page 131

بیمار ر ہے.ان کی وفات تک علالت میں ان کی بہت خدمت کی.اسی طرح والدہ صاحبہ بھی بیمار ہیں.ان کی بے پناہ خدمت کرتے تھے.چندہ جات اور مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.صدقہ و خیرات عمومی طور پر چھپا کر کرتے.اپنے آبائی علاقے سرگودھا کے بہت سارے مریضوں کو لاہور لا کر مفت علاج کرواتے تھے.قربانی کا بہت جذبہ تھا.نماز کے پابند ، قرآن باقاعدگی سے پڑھتے.گھر والوں نے کہا کہ رات اڑھائی تین بجے ، ان کو تہجد پڑھتے اور قرآن پڑھتے دیکھا ہے.شہید مرحوم کی والدہ محترمہ نے بتایا کہ میں شہید مرحوم کے والد صاحب مرحوم کو کچھ عرصہ خواب میں مسلسل دیکھ رہی تھی.شہید کی ایک خادمہ نے بتایا کہ شہادت سے چند دن قبل والدہ کے لئے چارسوٹ لے کر آئے تو والدہ نے کہا کہ میرے پاس تو پہلے ہی بہت سوٹ ہیں.تو انہوں نے کہا کہ ماں پتہ نہیں کب تک میری زندگی ہے آپ میرے لائے ہوئے سوٹ پہن لیں.مکرم مرز اظفر احمد صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم مرز اظفر احمد صاحب شہیدا ابن مکرم مرز اصفدر جنگ ہمایوں صاحب کا.شہید مرحوم اکتوبر 1954ء میں منڈی بہاء الدین میں پیدا ہوئے.خاندان میں احمدیت کا آغاز حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ان کے دادالکرم مرز اند بی احمد صاحب کے ذریعے سے ہوا.مرزا نذیر احمد صاحب نے خلیفہ اسیح الثانی کی بیعت کی.میٹرک لاہور سے کیا اس کے بعد لائلپور یونیورسٹی سے دو سال تعلیم حاصل کی.ہوٹل میں بعض مشکلات کی بنا پر یونیورسٹی چھوڑ دی اور کراچی چلے گئے.جہاں سے مکینکس میں تین سالہ ڈپلومہ کیا.بعد ازاں مزید ایک سال کا کورس کیا.اپنے شعبہ سے متعلق ایک ملازمت کراچی میں کی.اس کے بعد جاپان چلے گئے.1981ء سے سولر انرجی میں انجینئر کی حیثیت سے 21 سال جاپان میں مقیم رہ کر کام کیا.وہاں جماعتی خدمات کی توفیق پائی.جاپان میں ٹوکیومشن بند ہوا تو آپ کا گھر بطور مشن ہاؤس استعمال ہوتا تھا.1983ء میں 118

Page 132

کوریا میں وقف عارضی کا موقع ملا.1985 ء میں جلسہ سالانہ یو کے میں جاپان کی نمائندگی کی توفیق حاصل ہوئی.1993ء میں صدر خدام الاحمدیہ جاپان کی حیثیت سے ایک پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے اور اس پر اذان دینے کی سعادت پائی.1999 ء میں بیت الفتوح کے سنگ بنیاد کے موقع پر آپ کو اور ان کی بیگم کو جاپان کی نمائندگی کی توفیق ملی.جاپان میں بطور صدر جماعت ٹوکیو سیکرٹری مال کے علاوہ 2001 ء سے 2003 ءتک نائب امیر جاپان کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی.ایک موقع پر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کی اطاعت اور تقویٰ کے نمونہ پر اظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کرے کہ سب جماعت جاپان ان کے نمونے پر چلنے کی توفیق پائے.جاپان میں اکیس سال قیام کے دوران ملازمت کے علاوہ دیگر تعلیمی کوششیں بھی کرتے رہے.2003ء میں پاکستان شفٹ ہو گئے.لاہور میں کیولری گراؤنڈ میں رہتے تھے، آپ کا گھر وہاں بھی نماز سینٹر تھا.شہادت کے وقت ان کی عمر 56 سال تھی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.دارالذکر میں شہادت پائی.ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھتے تھے اور وہاں امام صاحب کے قریب بیٹھے تھے.پائی.میں اور ان کے سر کے پچھلی طرف گولی لگی اور دایاں ہاتھ گرنیڈ سے زخمی ہوا جس سے شہادت ہوگئی.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ خلافت سے بے انتہا محبت کرنے والے تھے.جب بھی لندن جاتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ نماز خلیفہ وقت کے پیچھے ادا کریں.خطبات کو ہمیشہ بڑے غور سے سنتے تھے.یہاں سے جو لائیو خطبات جاتے ہیں کسی وجہ سے براہ راست نہ سن سکتے تو جب تک سن نہ لیتے ، اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے.کہتی ہیں کہ حقیقی معنوں میں محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کے مصداق تھے.سب بچے بوڑھے ہر ایک ان سے عزت سے پیش آتا ، سب کے دوست تھے.امانتوں کی حفاظت کرنے والے، وعدوں کا ایفاء کرنے والے اور اعلیٰ معیار کی قربانی کرنے والے تھے.ہر چیز میں سادگی ان کا شعار تھا.ایک نہایت محبت کرنے والے شوہر تھے.کہتی ہیں میری چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھتے تھے اور کبھی تھکی ہوتی تو کھانا بھی بنادیا کرتے.گلے شکوے کی عادت نہیں تھی.119

Page 133

جاپان میں ہمارے ایک ملک منیر احمد صاحب ہیں ، انہوں نے لکھا کہ مرزا ظفر احمد صاحب جب جاپان تشریف لائے تو ابھی شادی شدہ نہ تھے.بڑے سادہ طبیعت کے مالک اور بہت کم گو تھے.سعید فطرت اور نیک سیرت انسان تھے.دین کی خدمت کا جذبہ آپ کی سرشت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.آپ اس مقصد کے حصول کے لئے ہر وقت تیار نظر آتے.اطاعت کے بہت بلند معیار پر فائز تھے.جماعت کے چھوٹے چھوٹے عہد یداروں سے لے کر بڑے عہدیدار تک سب سے برابر کا سلوک کرتے اور عزت سے پیش آتے کسی جماعتی خدمت کا کبھی انکار نہ کرتے.ایک سال جاپان کے مثالی خادم بھی قرار پائے.آپ پر رشک آتا تھا.آپ جب بھی کوئی کام اپنے اوپر لیتے تو اسے بہت ایمانداری اور احسن طریق پر نبھانے کی کوشش کرتے.جاپان سے جانے سے پہلے مستقل طور پر اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا.مغفور احمد منیب صاحب مبلغ ہیں، ربوہ میں ہمارے مربی ہیں.یہ بھی جاپان میں رہے ہوئے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ مرزا ظفر احمد صاحب جو لمبا عرصہ جاپان میں مقیم رہے اللہ کے فضل سے جاپان میں موصوف کی دینی خدمات کسی طرح بھی واقفین زندگی سے کم نہیں تھیں.بلکہ ان کی قربانیاں احباب کے لئے قابل تقلید تھیں.وقت کی قربانی ، مال کی قربانی میں سب سے آگے تھے.آنریری مبلغ تھے، سیکرٹری مال جاپان تھے، صدر جماعت ٹوکیو رہے.خلافت سے والہانہ عشق تھا.نماز میں توجہ سے دعا کرتے.ان کی آنکھیں نمناک ہو جاتیں.محبت کرنے والے تھے ، ہر ایک کی تکلیف کا سن کے آنکھیں نمناک ہو جاتیں.مکرم محمود احمد صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم محمود احد صاحب شہید ابن مکرم اکبر علی صاحب کا.شہید مرحوم بدوملہی ضلع نارووال کے رہنے والے تھے.ان کے دادا حضرت عنایت اللہ صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.محکمہ ٹیلیفون سے وابستہ تھے.2008ء میں 120

Page 134

ریٹائر ہوئے.اور 35 سال سے لاہور میں مقیم تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 58 سال تھی.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.نماز جمعہ عموماً ماڈل ٹاؤن میں ادا کرتے تھے.سانحہ کے روز مسجد کے عقبی ہال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران ایک گولی ان کے ماتھے پر لگی جس سے موقعہ پر شہید ہو گئے.اہلِ خانہ نے بتایا کہ جماعتی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے.وقف عارضی کی متعدد مرتبہ سعادت ملی.بہت نرم دل اور انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے.محنتی انسان تھے.ان کے بیٹے قیصر محمود صاحب اس وقت ڈیوٹی پر موجود تھے جو اس سانحہ میں محفوظ رہے.شہادت سے چار دن قبل ان کی اہلیہ نے خواب دیکھا کہ ایک خوبصورت باغ ہے جس میں ٹھنڈی ہوا اور نہریں چل رہی ہیں خوبصورت محل بنا ہوا ہے.محمود صاحب مجھے کہتے ہیں کہ تم لوگوں کے لئے میں نے گھر بنا دیا ہے یہ میرا محل ہے اب میں نے یہاں رہنا ہے.پورے محل میں خوشبو ہی خوشبو پھیلی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب شہید مکرم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب شہیدا بن مکرم شیخ شمس الدین صاحب.شہید مرحوم کے والد صاحب چنگڑانوالہ ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے.طاعون سے جب سب رشتے دار وفات پاگئے تو مڈھ رانجھا ضلع سرگودھا میں آ کر آباد ہوئے.شہید مرحوم کے والد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بعد میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت کرنے یعنی دبانے کا موقع ملا.تاہم بیعت کی سعادت حضرت مصلح موعودؓ کے دورِ خلافت میں ملی.شہید مرحوم کے خسر مکرم خواجہ محمد شریف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.ان کے والد محترم شیخ شمس الدین صاحب کی تبلیغ کی وجہ سے حضرت مرزا عبدالحق صاحب کے خاندان میں احمدیت آئی.مولوی عطاء اللہ خان صاحب درویش قادیان ان کے بھائی تھے اور مکرم منیر احمد منور صاحب مربی سلسلہ جو یہاں ( جرمنی میں ) بھی رہے 121

Page 135

ہوئے ہیں آج کل پولینڈ میں ہیں، ان کے بھانجے ہیں.بوقتِ شہادت ان کی عمر 66 سال تھی.مسجد دارالذکر گڑھی شاہو میں جام شہادت نوش فرمایا.مسجد دارالذکر کے مین ہال میں کرسیوں پر بیٹھے تھے.بڑھاپے کے باعث سانحے کے دوران سب سے آخر میں اٹھے.لیکن اس دوران دہشتگرد کی گولیاں سر اور پسلیوں میں لگنے سے شہید ہو گئے.اہلِ خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم دو تین ماہ سے کہہ رہے تھے کہ میر اوقت قریب آ گیا ہے.کچھ عرصے سے بالکل خاموش رہتے تھے.ان کی بہو نے خواب میں دیکھا کہ ربوہ میں انصار اللہ کا ہال ہے ( جو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ) تو وہاں سے مجھے تین تحفے ملے ہیں اور وہ لے کر میں لاہور روانہ ہورہی ہوں.شہداء کے سب کے جنازے بھی انصار اللہ کے ہال ہی میں ہوئے تھے.شہید مرحوم کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.قریبی دیہاتی علاقوں میں جا کر مختلف لوگوں سے گھروں میں رابطہ کر کے تبلیغ کیا کرتے تھے.خاص طور پر الفضل جیب میں ڈال کر لے جاتے.سگریٹ نوشی کے خلاف بڑا جہاد کیا کرتے تھے اور چلتے چلتے لوگوں کو منع کر دیتے اور کوئی دوسری چیز کھانے کی دے کر کہتے کہ یہ کھالو اور سگریٹ چھوڑ دو.تہجد گزار تھے.نیک عادات کی بنا پر ان کا رشتہ ہوا تھا یعنی عبادت اور تبلیغ کی وجہ سے.بہت دعا گو اور تہجد گزار تھے.خاص طور پر بہت سارے لوگوں کے نام لے کر دعا کیا کرتے تھے.چندوں میں با قاعدہ تھے تنخواہ ملنے پر پہلے سیکرٹری صاحب مال کے گھر جاتے اور چندہ ادا کرتے.یہ ہے صحیح طریق چندے کی ادائیگی کا، نہ کہ یہ کہ جب بقایا دار ہوتے ہیں اور پوچھو کہ بقایا دار کیوں ہو گئے تو الٹا یہ شکوہ ہوتا ہے کہ سیکرٹری مال نے ہمیں توجہ نہیں دلائی نہیں تو ہم بقایا دار نہ ہوتے.یہ تو خود ہر ایک کا اپنا فرض ہے کہ چندہ ادا کرے.خلافت جوبلی کے سال میں مقالہ تحریر کیا جس میں A گریڈ حاصل کیا.122

Page 136

مکرم مرزا امنصور بیگ صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم مرزا منصور بیگ صاحب شہید ابن مکرم مرزا سرور بیگ صاحب مرحوم کا.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد پی ضلع امرتسر کے رہنے والے تھے.ان کے تایا مرزا منور بیگ صاحب، ان کی 1953 ء سے قبل بیعت تھی ان کو تایا کو بھی )1985ء میں ایک معاند احمدیت نے شہید کر دیا.ان کی زری کی دکان تھی.بوقت شہادت مرزا منصور بیگ صاحب کی عمر 29 سال تھی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.بطور سیکرٹری اشاعت، ناظم تحریک جدید اور عمومی کی ڈیوٹی سکواڈ میں ان کو خدمت کا موقع مل رہا تھا.بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.جمعہ کی صبح ان کی مجلس کے قائد صاحب نے ان کو ڈیوٹی پر جانے کے لیے کہا.پھر گیارہ بجے کے قریب دوبارہ یاد دہانی کے لیے قائد نے فون کیا تو انہوں نے جواب دیا ” قائد صاحب فکر نہ کریں اگر ضرورت پڑی تو پہلی گولی اپنے سینے پر کھاؤں گا.بیت النور ماڈل ٹاؤن میں چیکنگ پر ڈیوٹی تھی.مین گیٹ کے باہر پہلے بیریئر کے پاس کھڑے تھے.خدام کی نگرانی پر متعین تھے کہ دہشتگرد نے آتے ہی ان پر فائرنگ کر دی.سب سے پہلے ان کو ہی فائر لگا.کئی گولیاں لگنے کی وجہ سے موقع پر ہی شہادت ہوئی.شہید مرحوم نے سانحہ سے قبل صبح کے وقت گھر میں اپنی خواب سنائی کہ ”مجھے کوئی مار رہا ہے اور میرے پیچھے کالے کتے لگے ہوئے ہیں.شہید مرحوم جماعتی خدمت کرنے والے اور اطاعت کا جذبہ رکھنے والے تھے.نرم مزاج ، ہنس مکھ اور پنج وقتہ نماز کے پابند.اہلیہ کی عمر 26 سال ہے.ان کی شادی ہوئی تھی تو ان کے ہاں اولا د متوقع ہے.اللہ تعالیٰ نیک صالح، صحتمند اور لمبی عمر پانے والی ان کو اولا د عطا فرمائے.ان کی والدہ اور اہلیہ خوشیاں دیکھیں.123

Page 137

مکرم میاں منیر عمر صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم میاں منیر عمر صاحب شہید ابن مکرم مولوی عبدالسلام عمر صاحب کا.شہید مرحوم حضرت خلیفہ اُسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے تھے.آپ 11 اکتوبر 1940 ء کو حیدر آباد دکن میں اپنے نانا حضرت مولوی میر محمد سعید صاحب رضی اللہ عنہ کے گھر میں پیدا ہوئے.آپ کے نانا حضرت میر محمد سعید صاحب رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لینے کی اجازت دی تھی.آپ کے نانا کی وجہ سے حیدر آباد دکن میں کافی لوگ جو آپ کے مرید تھے احمدی ہو گئے.بی اے تک تعلیم حاصل کی اور 1962ء میں لاہور شفٹ ہو گئے.بوقت شہادت ان کی عمر 70 سال تھی.بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے ہر جمعہ قریباً 12 بجے گھر سے نکلتے تھے.وقوعہ کے روز ناسازی طبیعت کے باعث قریباً ایک بجے ماڈل ٹاؤن بیت النور میں پہنچے.مسجد کے صحن میں جنرل ناصر صاحب کے ساتھ کرسی پر بیٹھے تھے.حملے کے دوران موصوف ہال کے اندر داخل ہو کر پہلی صف میں بیٹھ گئے.اس دوران دروازہ بند کرنے کی کوشش کے دوران دہشتگرد نے بندوق کی نالی دروازے میں پھنسالی اور فائرنگ کرتا رہا.پہلی گولی آپ کے سر میں لگی جس سے موقع پر ہی شہادت ہوگئی.قریباً دس سال قبل آپ نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے ساتھ ایک قبر تیار کی گئی ہے، پوچھنے پر بتایا کہ یہ آپ کی قبر ہے.شہادت کے بعد یہ تعبیر بھی سمجھ میں آئی کہ وہ واقعہ میں آپ کی قبر تھی کیونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسل میں سے تھے اور شہادت بھی دونوں کی قدر مشترک ہے.شہادت کے بعد ان کی بیٹی نے خواب میں دیکھا کہ والد صاحب شہید خواب میں آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرا کمرہ (جو گھر کا کمرہ تھا) سیٹ کر دو تو خادم نے ٹھیک کر دیا.اور کہتی ہیں کہ کچھ دیر بعد کچھ مہمان آئے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم نے کمرہ دیکھنا ہے.124

Page 138

شہید مرحوم کے بیٹے مکرم نورالامین واصف صاحب بتاتے ہیں کہ جب والد صاحب شہید کے نکاح کا مرحلہ پیش ہوا تو بعض لوگوں نے ان کا تعلق غیر مبائعین سے قائم کرنے کی کوشش کی کہ یہ غیر مبائعین ہیں یعنی خلافت کی بیعت نہیں کی.جس پر معاملہ حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے پاس پہنچا تو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ ان کو تجدید بیعت کی کیا ضرورت ہے یہ تو اس شخص کے پوتے ہیں جس نے سب سے پہلے بیعت کی تھی اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت ہی پیارا تھا.اس پر حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب نے ان کا نکاح پڑھایا.آپ کے ایک عزیز نے آپ کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ شہید مرحوم میں حسنِ سلوک، غریبوں کی مدد کرنا ، مہمان نوازی ، بیماروں کی تیمارداری کرنے کی خوبیاں نمایاں تھیں.شہید مرحوم کو سندھ قیام کے دوران متعدد ضرورتمند بچیوں کی شادی کروانے اور ضرورتمند بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی بھی توفیق ملی.مہمان نوازی کی صفت تو آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.اگر کوئی مہمان آ جاتا اپنے گھر سے بغیر کھانا کھلائے اس کو جانے نہیں دیتے تھے.با قاعدہ تہجد گزار تھے.مکرم ڈاکٹر طارق بشیر صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم ڈاکٹر طارق بشیر صاحب شہید ابن مکرم چوہدری یوسف خان صاحب کا.شہید مرحوم کے والد شکر گڑھ کے رہنے والے تھے اور والد صاحب نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی.اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ارشاد پر زمینوں کی نگرانی کے لئے سندھ چلے گئے.کراچی قیام کیا.شہید مرحوم کی پیدائش کراچی میں ہوئی.تاہم بعد میں یہ خاندان شکر گڑھ آ گیا.ابتدائی تعلیم کے بعد شہید مرحوم لا ہور آگئے جہاں سے MBBS کے علاوہ میڈیکل کی دیگر تعلیم حاصل کی.15 سال قصور گورنمنٹ ہسپتال میں کام کیا.شہادت کے وقت میوہسپتال لاہور میں بطور A.M.S کام کر رہے تھے نیز قصور 125

Page 139

میں کلینک بھی بنایا ہوا تھا.بوقت شہادت ان کی عمر 57 سال تھی اور دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.مسجد دارالذکر کے مین ہال میں محراب کے بائیں طرف بیٹھے تھے کہ باہر سے حملہ کے بعد جو پہلا گرنیڈ اندر پھینکا گیا اس میں زخمی ہوئے اور اسی حالت میں ہی شہید ہو گئے.شہید مرحوم کی اہلیہ نے شہادت سے چند دن قبل خواب میں دیکھا کہ آسمان پر ایک اچھا سا گھر ہے جو فضا میں تیر رہا ہے اور آپ اس میں اڑتے پھر رہے ہیں.دوسری خواب میں دیکھا کہ زلزلہ اور طوفان آیا ہے چیزیں ہل رہی ہیں.اور میں دوڑتی پھر رہی ہوں اور وہ مجھے مل نہیں رہے.ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بہت نفیس آدمی تھے کبھی کسی سے سخت بات نہیں کی.بچوں سے اور خصوصاً بیٹیوں سے بہت پیار تھا.مریضوں سے حسن سلوک سے پیش آتے.ہر ایک سے ہمدردی کرتے تھے.ان کے غیر از جماعت مالک مکان نے جب اپنے حلقہ احباب میں ان کی شہادت کی خبر سنی تو اسے اتنا دکھ ہوا کہ وہ چکرا گئے.کئی سعید فطرت لوگ ایسے ہیں.چھ سال کے عرصہ کے دوران مالک مکان کو کرایہ گھر جا کر ادا کرتے تھے.کبھی موقع ایسا نہیں آیا کہ مالک مکان کو کرایہ لینے کے لئے آنا پڑا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بہت شوق سے پڑھتے تھے.چندہ باقاعدگی سے دیتے.بیوی کو کہا ہوا تھا کہ روزانہ آمدنی میں سے ایک حصہ غریبوں کے لیے نکالنا ہے.میرے خطبات باقاعدگی سے سنتے تھے.بعض اوقات بار بار سنتے تھے.ان کے ایک بیٹے نے بھی MBBS کر لیا ہے اور ہاؤس جاب کر رہا ہے.وہ بھی اس سانحہ میں زخمی ہوا ہے.اللہ تعالیٰ اس زخمی بیٹے کو اور تمام زخمیوں کو بھی صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.مکرم ارشد محمود بٹ صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم ارشد محمود بٹ صاحب شہید ابن مکرم محمود احمد بٹ صاحب کا.شہید کے پڑ دادا مکرم عبداللہ بٹ صاحب نے احمدیت قبول کی تھی اور پسر ورضلع سیالکوٹ کے رہنے 126

Page 140

والے تھے.ان کے پڑنا نا حضرت جان محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے.ڈسکہ کے رہنے والے تھے.ان کے والد صاحب ائیر فورس میں ملازم تھے.بسلسلہ ملازمت مختلف مقامات پر تعینات رہے.شہید مرحوم لاہور میں پیدا ہوئے.I.COM کیا ہوا تھا.بوقت شہادت ان کی عمر 48 سال تھی.اپنے حلقہ کے نائب زعیم انصار اللہ اور سیکرٹری تحریک جدید کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے تھے.بیت النور میں جام شہادت نوش فرمایا.جمعہ کے روز جلدی تیار ہو گئے.عموماً ان کے بھائی ساتھ لے کر جاتے تھے ، کیونکہ ان کا ایک پاؤں پولیو کی وجہ سے کمزور تھا.اگر بھائی لیٹ ہوتے تو خود ہی وین پر چلے جاتے.سانحہ کے وقت پہلی صف میں بیٹھے ہوئے تھے.شروع میں ہونے والے حملے میں تین چار گولیاں لگیں جس سے موقع پر ہی شہید ہو گئے.اہل خانہ نے بتایا کہ شهید مرحوم پنجوقتہ نماز کے پابند تھے روزانہ اونچی آواز میں تلاوت قرآن کریم کیا کرتے.معذوری کے باوجود اپنا کام خود کرتے تھے.خلافت سے عشق تھا.اپنی استطاعت سے بڑھ کر چندہ ادا کرتے تھے.سلسلہ کی بہت ساری کتب کا مطالعہ کر چکے تھے.بہت دعا گو انسان تھے.اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے.مکرم محمد حسین ملی صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم محمد حسین ملہی صاحب شہید ابن مکرم محمد ابراہیم صاحب کا.شہید کا تعلق گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ سے تھا.ان کے والد محترم نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی.کچھ عرصہ سندھ میں بھی رہے.34 سال سے لا ہور میں مقیم تھے.ان کو جماعتی سکولوں میں بھی پڑھانے کا موقع ملا.بوقت شہادت ان کی عمر 68 سال تھی.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.ہانڈ و گجر لاہور میں تدفین ہوئی.سانحہ کے روز ایک بجے کے قریب سائیکل پر گھر سے نکلے اور مسجد بیت النور کے مین ہال میں پہلی صف میں بیٹھے تھے کہ دہشتگردوں کی فائرنگ سے بازو اور پیٹ میں گولیاں لگیں اور شدید زخمی ہو گئے.زخمی 127

Page 141

حالت میں میوہسپتال لے جایا گیا جہاں آپریشن تھیٹر میں شہید ہو گئے.اہل خانہ نے بتایا کہ پنجوقتہ نماز کے پابند تھے، تہجد باقاعدگی سے ادا کرتے.ہر نیکی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.پیشہ کے لحاظ سے الیکٹریشن تھے.غریبوں اور ضرورتمندوں کا کام بغیر معاوضہ کے کر دیتے تھے.اپنے حلقہ کی مسجد اپنی نگرانی میں تعمیر کروائی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم مرز امحمد امین صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم مرزا محمد امین صاحب شہید ابن مکرم حاجی عبدالکریم صاحب کا.شہید مرحوم کے والد جموں کشمیر کے رہنے والے تھے.انہوں نے 1952ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.والد صاحب کے بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد شہید مرحوم نے بھی بیعت کر لی تھی.بوقت شہادت ان کی عمر 70 سال تھی اور مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.عموماً مسجد دارالذکر میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے.پہلی صف میں بیٹھے ہوئے تھے کہ گرینیڈ اور گولیوں کے حملہ میں شدید زخمی ہو گئے.تین دن ہسپتال میں زیر علاج رہے.31 مئی کو ہسپتال میں ہی شہید ہو گئے.سانحہ سے دو دن قبل رات کو سوئے ہوئے تھے کہ اچانک اپنے دونوں ہاتھ بلند کر کے اللہ اکبر کہہ کر اٹھ بیٹھے.ہڑ بڑا کر نعرہ لگاتے ہوئے اٹھے.نہایت خوش اخلاق اور ملنسار تھے.جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.مختلف جماعتی مقابلہ جات میں انعامات بھی حاصل کئے.مکرم ملک زبیر احمد صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم ملک زبیر احمد صاحب شہید ابن مکرم ملک عبدالرشید کا.شہید مرحوم ضلع فیصل آباد کے رہنے والے تھے.ان کے دادا مکرم ملک عبدالمجید خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں احمدیت قبول کی تا ہم حضور علیہ السلام کی زیارت نہ کر پائے.شہید مرحوم نے فیصل آباد میں محکمہ واپڈا میں ملازمت کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد 128

Page 142

سانحہ سے قریباً ایک ماہ قبل لاہور شفٹ ہوئے تھے.فیصل آباد میں مسجد بیت الفضل کی تعمیر میں ان کے والد صاحب کا نام بنیادی لوگوں میں شامل تھا.ابتدا میں دیگر حلقہ جات میں نماز جمعہ ادا کرتے رہے لیکن بیت النور ماڈل ٹاؤن کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ یہاں احمدی اکٹھے ہوتے ہیں اور کافی تعداد میں ہوتے ہیں اور بیٹے کو کہا کہ مجھے یہاں ہی لایا کرو.بوقت شہادت ان کی عمر 61 سال تھی اور مسجد بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی.شہید مرحوم مین ہال میں بیٹھے تھے اور بیٹا دوسرے ہال میں تھا.فائرنگ کے دوران ہال کے درمیان گرل (Grill) کے پاس جاتے ہوئے یہ گرے ہیں یا بیٹھے ہیں بہر حال وہیں بیٹھے تھے.بیٹا ان کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا تو بیٹے کو تو یہ نظر نہیں آئے لیکن انہوں نے بیٹے کو دیکھ لیا اور زور دار آواز میں کہا ” کدھر بھاگے پھرتے ہو ، اگر کچھ ہو گا تو ہم شہید ہوں گے اور یہاں اپنے بھائیوں کے ساتھ ہی شہید ہوں گے.اسی دوران ان کو دل پر گولی لگی ، شدید زخمی ہو گئے.اسی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی شہادت ہو گئی.اہل خانہ بتاتے ہیں کہ نمازی اور تہجد گزار تھے.تہجد میں کبھی ناغہ نہیں کیا.اکثر وقت MTA دیکھتے تھے.شہید مرحوم کہا کرتے تھے کہ اگر تھکاوٹ کی وجہ سے کبھی بیدار نہ ہوں تو یوں لگتا ہے کہ کسی نے مجھے زبر دستی اٹھا دیا ہے.تہجد کی اتنی عادت تھی اور وقت پر اٹھ جایا کرتے تھے.بیٹے نے گاڑی لی تو نصیحت کی کہ بیٹا اس میں کسی قسم کا کوئی ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈر یا ڈی وی ڈی (جو ہے ) نہیں لگانی.اس کے بدلے سبحان اللہ اور درود شریف کا ورد کیا کرو اور خود بھی یہی کیا کرتے تھے.چھوٹے بھائی نے بتایا کہ بچپن میں فٹ پاتھ پر بنے ہوئے چوکٹھوں پر چلتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اس چوکٹھے میں درود پڑھو، اس میں فلاں دعا پڑھو، اس میں فلاں دعا پڑھو.بیٹے نے کہا کہ گاڑی کی انشورنس کروانی ہے تو انہوں نے کہا بیشک کر والولیکن انشورنس والے کمزور ہیں، تم ایسا کرو کہ گاڑی کے نام پر ہر ماہ چندہ دیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادہ حفاظت کرنے والا ہے.چنانچہ اس ہدایت پر بھی عمل کیا گیا.باکسنگ کے اچھے کھلاڑی تھے اور انہوں نے کافی انعامات جیتے ہوئے تھے.129

Page 143

مکرم چوہدری محمد نواز حجمه صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم چوہدری محمد نواز حجہ صاحب شہید کا جو مکرم چوہدری غلام رسول حجہ صاحب کے بیٹے تھے.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد اونچاجہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.ان کے پھوپھا حضرت چوہدری غلام احمد مہار صاحب رضی اللہ عنہ اور ان کے والد حضرت چوہدری شاہ محمد مہار صاحب رضی اللہ عنہ چندر کے منگولے ضلع نارووال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.ان کے والد صاحب اور ان کے بڑے بھائی نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں بیعت کی اور اس سے قبل گاؤں میں مناظرہ کروایا جس کے نتیجے میں ان کے خاندان نے بیعت کر لی تھی.بی.اے ، بی.ایڈ کرنے کے بعد محکمہ تعلیم جائن (Join) کیا.1991ء میں بطور ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول کشمیر سے ریٹائر ہوئے اور اکتوبر 1992ء میں لاہور شفٹ ہو گئے.اپنے حلقہ میں بطور محاسب خدمت کی توفیق پائی.بوقت شہادت ان کی عمر 80 سال تھی اور مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.مسجد دارالذکر سے ان کو خاص لگاؤ تھا.کہا کرتے تھے کہ جب لاہور میں زیر تعلیم تھا تو دار الذکر کی تعمیر کے سلسلہ میں وقار عمل میں شامل ہوتا تھا اس لئے دارالذکر سے خاص لگاؤ ہے.وقوعہ کے روز نیا سوٹ اور نیا جوتا پہنا.ایک بجے کے قریب دارالذکر کے مین ہال میں پہنچے ، کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران گرینیڈ پھٹنے سے شہید ہو گئے.چند ماہ پہلے اہلیہ نے خواب میں دیکھا کہ آواز آئی ہے ”مبارک ہو آپ کا خاوند زندہ ہے“.اہل خانہ نے مزید بتایا کہ صاف گوانسان تھے.تندرست اور Active تھے.اپنی عمر سے 20 سال چھوٹے لگتے تھے.تعلیم الاسلام کالج میں روئنگ کی ٹیم کے کیپٹن تھے.مختلف زبانوں پر عبور حاصل تھا.جماعتی لٹریچر کے علاوہ دیگر مذاہب کا لٹریچر بھی زیر مطالعہ رہتا تھا.66 130

Page 144

مکرم شیخ مبشر احمد صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم شیخ مبشر احمد صاحب شہید ابن مکرم شیخ حمید احمد صاحب کا.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد قادیان کے رہنے والے تھے، پارٹیشن کے بعد ربوہ آگئے اور 35 سال سے لاہور میں مقیم تھے.پھر ربوہ سے لاہور چلے گئے.ان کے دادا مکرم شیخ عبدالرحمن صاحب نے خلافت ثانیہ کے دور میں بیعت کرنے کی توفیق پائی.حضرت مہر بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، صحابیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کی نانی تھیں.بوقت شہادت ان کی عمر 47 سال تھی اور مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.بیت النور کے پچھلے ہال کی تیسری صف میں بیٹھے ہوئے تھے.دہشتگرد کے آنے پر دروازہ بند کرنے کی کوشش کی مگر ایک گولی ان کے پیٹ میں دائیں طرف لگ کر باہر نکل گئی.بعد میں گرینیڈ پھٹنے سے بھی مزید زخمی ہوئے.اور کان سے بھی کافی دیر تک خون نکلتا رہا.باوجود اس کے بعد میں بھی دو تین گھنٹے یہ زندہ رہے ہیں ، پیٹ پر ہاتھ رکھ کر خود چل کر ایمبولینس تک گئے لیکن ایمبولینس میں ہسپتال جاتے ہوئے شہید ہو گئے.سانحہ کے روز بظاہر حالات اس نوعیت کے تھے کہ نماز جمعہ پر جانا مشکل تھا لیکن خدا تعالیٰ نے شہادت کا رتبہ دینا تھا اس لئے بالآخر بیت النور پہنچ گئے.شہید مرحوم ہر جمعہ کو اپنے بیمار خسر کو نماز کے لئے لے جایا کرتے تھے.اس مرتبہ ان کی طبیعت ناساز تھی اور انہوں نے کہا کہ میں نے اس دفعہ جمعہ پر نہیں جانا.چنانچہ اکیلے خود ہی جمعہ کیلئے نکلے.راستے میں گاڑی خراب ہو گئی گاڑی کو ورکشاپ پہنچایا اس کے بعد اپنے قریبی کام کرنے والی جگہ پر چلے گئے تا کہ بعض امور نمٹا سکیں.وہاں پہنچے ابھی کام شروع کیا ہی تھا تو لائٹ بند ہوگئی.وہاں سے باہر نکلے تو بھائی سے ملاقات ہوگئی اور اس نے کہا کہ مجھے بھی جمعہ پر جانا ہے، لے جائیں.ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ لائٹ آگئی.لیکن بہر حال جمعہ پر چلے گئے.بجلی آنے پر کام شروع نہیں کیا بلکہ جمعہ کے لئے روانہ ہو گئے.اگر کام میں مصروف ہوتے تو ہوسکتا تھا وقت کا پتہ نہ لگتا.131

Page 145

ان کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ میرے خاوند ایک مثالی شوہر تھے.ہماری شادی قریباً نہیں سال قبل ہوئی تھی.ہمارا جائنٹ فیملی سسٹم تھا.میرے شوہر نے ہر ایک کا خیال رکھا اور کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا.ان کی نسبتی ہمشیرہ نے شہادت سے پہلے خواب میں دیکھا کہ مبشر بھائی سفید رنگ کی گاڑی میں ہیں جو آسمان پر اڑتی جارہی ہے.ان کی شہادت کے دو دن بعد ان کی بیٹی ماریہ مبشر نے خواب میں دیکھا کہ ” ابو دروازے میں کھڑے مسکرا رہے ہیں تو پوچھا کہ آپ زندہ ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ میں تو ٹھیک ہوں اور آپ کے ساتھ ہوں.شہید مرحوم نہایت سادہ طبیعت کے مالک، رحم دل ، غریبوں کے ہمدرد محبت کرنے والے انسان تھے.چھوٹوں اور بڑوں کی عزت کرنے والے اور سب میں ہر دل عزیز تھے.اللہ تعالیٰ ان سب شہداء کے درجات بلند فرمائے.ان کے بیوی بچوں کا حافظ و ناصر ہو.جن کے والدین حیات ہیں انہیں بھی ہمت اور حوصلہ سے یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور ان کی نسلوں کے ایمانوں کو بھی مضبوط رکھے.آئندہ نسلیں بھی صبر اور استقامت سے یہ سب دین پر قائم رہنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان سب کو اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے.132

Page 146

خطبه جمعه سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ايده الله تعالیٰ بنصره العزيز فرمودہ 02 جولائی 2010ء بمقام بیت الفتوح لندن 133

Page 147

Page 148

آج بھی لاہور کی مساجد کے شہداء کا ذکر خیر ہوگا.مکرم عبد الرحمن صاحب شہید پہلا نام آج کی فہرست میں ہے.مکرم عبدالرحمن صاحب شہید ابن مکرم محمد جاوید اسلم صاحب کا.شہید مرحوم نے اپنی والدہ ، خالہ اور چھوٹی بہن کے ہمراہ اگست 2008ء میں احمدیت قبول کی تھی.نو مبائع تھے.حکمت کے تحت دیگر خاندان میں فوری طور پر اس کا اظہار نہیں کیا.شہید مرحوم کا خیال تھا کہ MBBS کی تکمیل کے بعد دیگر تمام رشتے داروں کو بتا دیں گے.میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے تھے.ننھیال کی طرف سے سوائے نانا کے سب احمدی ہیں.ان کی نانی محترمہ سعیدہ صاحبہ مرحومہ نہایت ہی مخلص احمدی تھیں.بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.نہایت مخالفانہ حالات میں بھی وہ احمدیت سے وابستہ رہیں.شہید مرحوم کی عمر شہادت کے وقت اکیس سال تھی اور دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.سانحہ کے روز شہید مرحوم کالج سے نماز جمعہ کے لئے سیدھے مسجد دارالذکر پہنچے.مسجد کے مین ہال میں بیٹھے تھے تو والدہ کو فون پر بتایا کہ بہت گولیاں چل رہی ہیں ، آپ فکر نہ کریں.اور ساتھ ہی خالہ زاد بھائی کو فون کر کے کہا کہ اگر میری شہادت ہو جائے تو میری تدفین ربوہ میں کرنا.ان کا خیال تھا کہ باقی عزیز رشتہ دار شاید ربوہ لے جانے نہ دیں.شہید مرحوم کو تین گولیاں لگیں جس سے شہید ہو گئے.ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی اس سانحہ میں شہید ہوئے جن میں ملک عبدالرشید صاحب، ملک انصار الحق صاحب اور ملک زبیر احمد صاحب شامل ہیں.سانحہ کے بعد جب دیگر خاندان اور اہل محلہ و علم ہوا تو ان کی خالہ کو ان کے شوہر نے گھر 135

Page 149

سے نکال دیا.محلے میں بھی شدید مخالفت شروع ہوگئی.دھمکیوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفاظت میں رکھے.جنازہ کے لئے ان کے گھر میں بہت شور شرابہ ہوا اور شہید مرحوم کے خالو جو شدید مخالف ہیں، انہوں نے اور دوسرے رشتے داروں نے مل کر کہا کہ جنازہ یہیں پڑھیں گے.اس وقت شہید کی خالہ کھڑی ہو گئیں اور بڑی سختی سے اور بڑی جرات کا مظاہرہ کیا.انہوں نے کہا : نہیں، اس بچے نے فون کیا تھا کہ مجھے ربوہ لے کر جانا.ان کی خواہش کے مطابق ان کو ہم ربوہ ہی لے کر جائیں گے.شہید مرحوم کے والد نے تا حال بیعت نہیں کی.پہلے تو ان کا رویہ سخت تھا مگر اب نسبتا نرم ہے.شہید مرحوم کی والدہ نے شہادت سے پہلے خواب میں مجھے دیکھا کہ میں ان کے گھر گیا ہوں.ان کی کزن نے خواب میں دیکھا کہ پانچوں خلفاء کی تصاویر لگی ہیں اور ایک راستہ بنا ہوا ہے جس پر لکھا ہوا ہے This is the right way.جیسا کہ میں نے بتایا شہید ایم بی بی ایس کر رہے تھے اور پہلے سال کے طالب علم تھے.پڑھائی کا بڑا شوق تھا.بزرگوں کی خدمت کا بڑا شوق تھا.ان کی خواہش تھی کہ عملی زندگی میں جب قدم رکھوں تو بے سہارا لوگوں کے لئے اپنی نانی کے نام پر ایک سعیدہ اولڈ ہاؤس بناؤں گا.ابھی بھی جیسا کہ میں نے کہا ان کے خاندان میں اور محلے میں ان لوگوں کی بڑی سخت مخالفت ہے اور والدہ نے یہ درخواست بھی کی ہے کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں ثبات قدم عطا فرمائے اور ہر شر سے محفوظ رکھے.اتنی مخالفت ہے کہ جو جماعتی وفد ملنے گیا، جو احمدی لوگ تعزیت کرنے گئے ہیں وہ ان کے گھر بھی نہیں جا سکے تھے.شہید مرحوم نے باوجود نو مبائع ہونے کے جو استقامت دکھائی ہے یقینا یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص تعلق کی وجہ سے تھی کہ انہوں نے جب مسیح موعود کو پہچانا اور ان کو آپ کا سلام پہنچایا تو اس کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.136

Page 150

مکرم نثار احمد صاحب شہید دوسرا ذکر ہے مکرم نثار احمد صاحب شہید ابن مکرم غلام رسول صاحب کا.شہید مرحوم کے آبا و اجداد کا تعلق ضلع نارووال سے تھا.ان کے دادا حضرت مولوی محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امرتسر کے رہنے والے تھے.یہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے.شہید مرحوم سترہ سال کی عمر میں لاہور آ گئے اور اشرف بلال صاحب جو اس سانحہ میں شہید ہو گئے ہیں ان کی فیکٹری میں کام شروع کیا ، ان کے ساتھ ہی رہے.شہادت کے وقت شہید کی عمر 46 سال تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.مسجد دارالذکر میں اشرف بلال صاحب کو بچاتے ہوئے انہوں نے جام شہادت نوش فرمایا.عموماً نماز جمعہ دارالذکر میں ہی ادا کرتے اور بچوں کو بھی ساتھ لاتے.سانحہ کے روز بھی بچوں کو ساتھ لے کر آئے.نماز جمعہ سے قبل صدقہ دینا ان کا معمول تھا.بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے کہ اس سے ثواب ہوتا ہے.سانحہ کے روز بھی صدقہ دیا.ایک بیٹے نے کہا کہ میری طرف سے بھی صدقہ دیں.انہوں نے کہا کہ بیٹا آپ خود اپنے ہاتھ سے صدقہ دیں.بعد میں پتہ چلا کہ بیٹے کی طرف سے بھی ادا شدہ صدقہ کی رسید ان کی جیب میں موجود تھی.فائرنگ کے دوران اشرف بلال صاحب جو شدید زخمی ہو گئے ،جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، ان کو بچانے کے لئے ان کے اوپر لیٹ گئے.اسی دوران ایک دہشتگرد نے گولیوں کی بوچھاڑ ماری جس سے آپ کی کمر چھلنی ہوگئی اور آپ موقع پر شہید ہو گئے.شہید مرحوم نے سانحہ سے دس دن قبل خواب میں دیکھا تھا کہ والدین مرحومین سے ملاقات ہوئی ہے.والدین کہتے ہیں کہ بیٹا ہمارے پاس ہی آکر بیٹھ جاؤ.اہلِ خانہ نے بتایا کہ تہجد اور نمازوں میں با قاعدہ تھے.شادی کے پچیس سالہ عرصہ میں کبھی سختی سے بات نہیں کی.دونوں بچوں کو وقف نو کی بابرکت تحریک میں پیش کیا.والدین کی وفات سے قبل بھر پور طریقے سے والدین کی خدمت کا موقع ملا.خدمت خلق کا بہت شوق اور جذبہ تھا.احمدیت کے حوالے 137

Page 151

سے بہت جذباتی تھے.اپنے آبائی گاؤں میں ان کا اکیلا احمدی گھر تھا.ایک دفعہ مخالفین نے جلسہ کیا اور لاؤڈ سپیکر میں جماعت کے خلاف سخت بدزبانی کی.رات کا وقت تھا، یہ چپکے سے گھر سے نکلے اور وہاں جا کر ان کوسختی سے کہا کہ یہ بدکلامی بند کرو اور اونچی آواز کو بند کرو اور اگر کوئی بات کرنی ہے تو ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کر لو.جس پر مخالفین نے لاؤڈ سپیکر کی آواز بند کر دی.واپس آنے پر اہلیہ نے کہا آپ اکیلے چلے گئے تھے مخالفین اتنے زیادہ تھے اگر وہ آپ کو مار دیتے تو کیا ہوتا.تو جواباً کہا زیادہ سے زیادہ شہید ہو جاتا، اس سے اچھا اور کیا تھا؟ لیکن مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کے خلاف بدزبانی سنی نہیں جارہی تھی.مکرم ڈاکٹر اصغر یعقوب خان صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم ڈاکٹر اصغر یعقوب خان صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب کا.شہید مرحوم صاحب کے والد 1903ء میں بٹالہ میں پیدا ہوئے.ان کے دادا حضرت شیخ عبدالرشید خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.ان کے والد اور ان کے نانا حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے معالج کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق پاتے رہے.شہید مرحوم 25 اگست 1949 ء کو لاہور میں پیدا ہوئے.ایف ایس سی کے بعد ایم ایس سی بائیو کیمسٹری میں کیا اور پھر ایم بی بی ایس کی ڈگریاں لیں.بوقتِ شہادت ان کی عمر 60 سال تھی.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں تدفین ہوئی.عموماً نماز جمعہ کڑک ہاؤس میں ادا کیا کرتے تھے.کبھی کبھی دارالذکر بھی چلے جاتے.سانحہ کے روز بیٹے کو کالج چھوڑنے گئے اس کے بعد قریب ہی دارالذکر چلے گئے.ایک بج کر چالیس منٹ کے قریب یہ مسجد میں داخل ہوئے.اسی دوران گیٹ کے قریب ہی دہشتگردوں کی فائرنگ شروع ہوئی.چھاتی اور ٹانگ میں گولیاں لگیں، تھوڑی دیر تک ہوش میں رہے.ایمبولینس میں اپنا نام 138

Page 152

وغیرہ بتایا تا ہم ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں شہید ہو گئے.اہلِ خانہ نے بتایا کہ حقیقی معنوں میں انسانیت کی خدمت کرنے والے تھے.کبھی کسی امیر وغریب میں فرق نہیں کیا.سب سے ایک جیسا ہمدردانہ سلوک کرتے تھے.مریضوں کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا تھا.جب بھی کوئی ضرورتمند آ جاتا آپ خدمت کے لئے تیار ہوتے اور ہمیشہ ہر ایک کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے.شہید مرحوم کے ایک عزیز نے سانحہ سے ایک روز قبل خواب میں دیکھا تھا کہ میرے والد ڈاکٹر وسیم صاحب قبر کھودرہے ہیں اور ساتھ روتے ہیں کہ میرے کسی عزیز کی قبر ہے.خدا تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم میاں محمد سعید در د صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم میاں محمد سعید درد صاحب شہیدا بن مکرم حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد گجرات کے رہنے والے تھے.پھر قادیان شفٹ ہو گئے.ان کے والد حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دادا حضرت ہدایت اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے اور انہوں نے 1900ء میں بیعت کی تھی.شہید مرحوم کے والد صاحب پارٹیشن تک حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے.اس کے علاوہ نائب امیر ضلع لاہور بھی رہے.شہید مرحوم 1930ء میں گجرات میں پیدا ہوئے.پیدائش کے بعد گھر والے قادیان شفٹ ہو گئے چنانچہ آپ نے ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی.مولوی فاضل پاس کرنے کے بعد بی اے کیا اور بعد میں نیشنل بینک میں ملازمت اختیار کی جہاں سے 1970 ء میں مینجر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے.زندگی میں چھ مرتبہ حج اور متعدد بار عمرہ کرنے کی سعادت بھی ملی.شہادت کے وقت ان کی عمر 80 سال تھی.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.قریباً ایک بجے بیت النور ماڈل ٹاؤن پہنچ گئے.جنرل ناصر صاحب کے ساتھ ویل چیئر پر بیٹھے تھے.دو گولیاں ٹانگ میں اور ایک بازو 139

Page 153

میں لگی.شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں اڑھائی گھنٹے آپریشن جاری رہا لیکن جانبر نہ ہو سکے اور جام شہادت نوش فرمایا.اہلِ خانہ نے بتایا کہ بہت دعا گو انسان تھے.کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا.ہمیشہ صبر کی تلقین کرتے.نہایت مہمان نواز تھے.باوجود بڑھاپے کے ہر ایک سے کھڑے ہو کر ملتے تھے.بچوں کو نصیحت کی کہ اپنا دستر خوان ہر ایک کے لئے کھلا رکھنا.اتنی عمر کے باوجود سارے روزے رکھتے تھے.1969 ء سے ہر سال اعتکاف بیٹھا کرتے تھے.صرف گزشتہ دو سال سے بچوں کے اصرار کی وجہ سے اعتکاف نہیں بیٹھے.بیت النور ماڈل ٹاؤن کے سنگ بنیاد کے وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شہید مرحوم کے والد صاحب کو بھی بنیاد میں اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی.اکثر بیٹھے بیٹھے رونے لگ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اتنی نعمتیں مجھے دی ہیں.شہادت سے چند دن پہلے نائب امیر صاحب ضلع لاہور ان سے ملنے آئے تو ان سے کہا کہ یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہے.جب تک نظر ٹھیک رہی بچوں کو قرآن کریم پڑھاتے رہے.آخری وقت تک دیگر احباب سے چندہ وصول کرنے کے لئے خود پیدل جاتے اور کہتے کہ میں اگر اس غرض سے ایک قدم بھی چلوں گا تو سوقدم کا ثواب ملے گا.بیت النور میں حصول ثواب کی خاطر اکثر پیدل جاتے تھے.ان کی شہادت کے بعد ان کے میز پر دعائیہ خزائن کی کتاب کھلی ملی ہے جو کہ الٹی رکھی ہوئی تھی.ان کے اہلِ خانہ کہتے ہیں عموماً پہلے نہیں ہوتی تھی اور جو صفحہ کھلا ہوا تھا اس پر الوداع کہنے کی دعا اور بلندی پر چڑھنے کی دعا تحریرتھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم محمد یحیی خان صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم محمد یحیی خان صاحب شہید ابن مکرم حضرت ملک محمد عبد اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا.شہید مرحوم کے والد حضرت ملک محمد عبد اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دادا حضرت برکت علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 140

Page 154

تھے.حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابق ناظرِ اعلیٰ قادیان (بھارت) ان کے چچا تھے.شہید مرحوم 1933ء میں قادیان میں پیدا ہوئے.ان کی اپنی زندگی بھی ایک معجزہ تھی.ان کے بڑے بھائی اور ان کی عمر میں 18 سال کا فرق تھا کیونکہ درمیان کی ساری اولاد چار سے پانچ سال کی عمر میں فوت ہوگئی اور ان کی صحت بھی چار پانچ سال کی عمر میں خراب ہو گئی.ان کی والدہ صاحبہ ان کو لے کر حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئیں.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو لے کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئیں.ان کی والدہ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پنجابی میں عرض کیا کہ ” حضور اے وی جاریا ہے ( کہ حضور یہ بھی جا رہا ہے).حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو (اس بچے کو گود میں لے لیا اور آپ کا نام شریف احمد سے بدل کر محمد بیٹی رکھ دیا.حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان دعاؤں کے طفیل آپ نے نہ صرف لمبی عمر پائی بلکہ شہید ہو کر ابدی حیات پاگئے.پارٹیشن کے بعد فیصل آباد آگئے.ہجرت سے قبل ان کی ڈیوٹی مینارہ اسیح قادیان پر ہوتی تھی.یہ دور بین لگا کر ارد گرد کے ماحول کی نگرانی کیا کرتے تھے.سول انجینئر نگ کے بعد مختلف جگہوں پر تعینات رہے.82-1981ء میں بسلسلہ ملازمت عراق چلے گئے جہاں ان کو جماعت کو Establish کرنے کا موقع بھی ملا.بوقت شہادت ان کی عمر 77 سال تھی.بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.سانحہ کے دوران مسجد کے مین ہال میں کرسیوں پر پہلی رو میں بیٹھے تھے کہ اچانک فائرنگ شروع ہوگئی.کسی دوست نے کہا کہ آپ پیچھے چلے جائیں تو کہا کہ گھبراؤ نہیں اللہ یہیں فضل کرے گا.اس کے بعد عہد یداران کی ہدایت پر دیوار کے ساتھ نیچے بیٹھ گئے.اسی دوران دہشت گرد نے گرنیڈ پھینکے جن میں سے ایک گرنیڈ کے پھٹنے سے ان کے سرکا پچھلا حصہ زخمی ہو گیا جس سے موقع پر ہی شہید ہو گئے.ان کے دو بیٹے دارالذکر میں ڈیوٹی پر تھے جو کہ رات 12 بجے تک ریسکیو کا کام کرتے رہے.حالانکہ ان کو والد صاحب کی شہادت کی اطلاع مل چکی تھی.اہل خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم 141

Page 155

انتہائی حلیم طبیعت کے مالک تھے.کبھی غصے میں نہیں دیکھا.جماعتی کاموں میں غیرت تھی.بچوں کو جماعتی کاموں اور نمازوں میں کوتاہی کی صورت میں معافی نہیں ملتی تھی.عرصہ دراز تک سیکرٹری تعلیم القرآن رہے.لوگوں کو گھروں میں جا جا کر قرآن کریم کی تعلیم دی.یہ لوگ آپ کی شہادت پر زار و قطار روتے ہوئے ملے کہ ان کا یہ احسان ہماری نسلیں کبھی نہیں بھلا سکتیں.عزیز و اقارب اور دیگر رشتہ داروں کی ہمیشہ مشکل حالات میں مدد کی اور ان کو سپورٹ کیا.جو بھی آپ کو پنشن ملتی تھی وہ ساری کی ساری غریبوں پر ہی خرچ کر دیتے تھے.نماز ظہر و عصر گھر میں باجماعت ادا کرتے اور باقی تین نمازیں مسجد میں جا کر ادا کرتے تھے.کبھی تہجد نہیں چھوڑی.داماد اور بیٹے میں کبھی فرق نہیں کیا.بہوؤں کو اپنی بیٹی سمجھا.سانحہ سے ایک جمعہ قبل تین نئے سفید سوٹ سلوائے دونوں بیٹوں نے اپنے اپنے سوٹ پہن لئے.جب شہید مرحوم کو کہا گیا کہ تیسرا سوٹ آپ پہن لیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں میں اگلے جمعہ پہنوں گا.کچھ عرصہ قبل آپ کی بیٹی نے خواب میں دیکھا کہ کوئی تہہ خانے والی بلڈنگ ہے جس میں میڈل تقسیم کیے جارہے ہیں.ان میں میرے والد صاحب بھی شامل ہیں.خواب میں ہی کوئی شخص کہتا ہے کہ یہ میڈل ان کو دیئے جارہے ہیں جنہوں نے کوئی خاص کارنامہ سرانجام دیا ہے.مطالعہ کا بے حد شوق تھا.ان کی اپنی لائبریری تھی جس میں ہزاروں کتابیں موجود تھیں.ان کے ایک بیٹے خالد محمود صاحب واقف زندگی ہیں اور تحریک جدید کی سندھ کی زمینوں میں مینجر ہیں.اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے.مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر عبدالشکور میاں صاحب کا.شہید مرحوم کے دادا چوہدری عبدالستار صاحب نے 1921ء یا 22 ء میں بیعت کی تھی.ان کے ننھیال گورداسپور جبکہ ددھیال میاں چنوں کے رہنے والے تھے.ان کے والد صاحب کے خالو حضرت مولوی محمد دین صاحب لمبا عرصہ صدر، صدر انجمن احمد یہ رہے ہیں.142

Page 156

تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے ہیں.اسی طرح مولانا رحمت علی صاحب مبلغ انڈونیشیا اور چوہدری احمد جان صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی ان کے والد کے خالو تھے.حضرت منشی عبد العزیز صاحب او جلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے والد کے نانا تھے.شہید مرحوم جولائی 1979ء میں لاہور میں پیدا ہوئے.ایم ایس سی آنرز مائیکر و بیالوجی کرنے کے بعد سترہ گریڈ کے ویٹرنری آفیسر تعینات ہوئے.بوقتِ شہادت ان کی عمر اکتیس برس تھی.نظام وصیت میں شامل تھے.مسجد دارالذکر میں شدید زخمی ہوئے.ہسپتال میں زیرِ علاج رہے اور بعد میں شہید ہوئے.سانحہ کے روز ملازمت سے ہی نماز جمعہ ادا کرنے دارالذکر پہنچے.ابھی وضو کر رہے تھے کہ فائرنگ شروع ہوگئی.لفٹ کے پاس کھڑے تھے کہ دہشتگرد کی دو تین گولیاں ان کے گردوں کو چھلنی کرتی ہو ئیں نکل گئیں.شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا.جہاں ان کے چار آپریشنز ہوئے.ایک گردہ بالکل ختم ہو چکا تھا اسے نکال دیا گیا.علاج کی پوری کوشش کی گئی.ستر بوتلیں خون کی دی گئیں لیکن جانبر نہ ہو سکے اور مؤرخہ 4 جون کو جام شہادت نوش فرمایا.اہلِ خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم بہت کم گو اور ملنسار انسان تھے.کبھی کسی نے بھی ان کے بارے میں شکایت نہیں کی.نماز کے پابند تھے.ہر جمعرات کو اپنے مسجد کے حلقہ کے وقار عمل میں حصہ لیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم ڈاکٹر عمراحم صاحب شہید کے بارہ میںان کی اہلیہ نے حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ کی خدمت میں کچھ کو انف لکھ کر بھجوائے.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جولائی و میں دوبارہ شہید مرحوم کا ذکر فرمایا جو درج ذیل ہے (ناشر)} ایک شہید کا ذکر جو پہلے ہو چکا ہے وہ بہت ہی مختصر تھا ان کی اہلیہ نے بعد میں کچھ کوائف بھیجے ہیں، اس لئے ان کا مختصر ذکر میں دوبارہ کر دیتا ہوں.ڈاکٹر عمر احمد صاحب شہید ہیں ان کی اہلیہ نے لکھا کہ میرا اور ان کا ساتھ تو صرف ڈیڑھ سال کا ہے، لیکن اس عرصے میں مجھے نہایت ہی پیار کرنے والے شفیق، کم گو اور سادہ 143

Page 157

طبیعت انسان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا.بچپن سے ہی شہادت کا شوق تھا.دوسری اور تیسری کلاس میں تھے کہ میجر عزیز بھٹی کو خط لکھا کہ مجھے آپ بہت اچھے لگتے ہیں.عزیز بھٹی شہید تھے پاکستان کے فوجی ، ان کا کتاب میں ذکر تھا.اور ایک فرضی خط لکھا، کہ مجھے آپ بہت اچھے لگتے ہیں میں بھی آپ کی طرح شہید ہونا چاہتا ہوں.یہ مختصر خط ان کی والدہ کے پاس محفوظ ہے.شادی کے بعد اکثر شہادت کے موضوع پر بات کرتے رہتے تھے.ایک دن کہنے لگے کہ میں نے بہت ہی غور کیا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جنت میں جانے کا واحد شارٹ کٹ شہادت ہے.لیکن میری قسمت میں کہاں؟ انہوں نے دو دفعہ آرمی میں کمیشن کوشش کی تھی لیکن دونوں دفعہ آخری سٹیج پر رہ گئے.اس کا انہیں بہت دکھ تھا.وہ خیال کرتے تھے کہ شہادت کے لئے فوج ہی اچھا ذریعہ ہے.یہ ان لوگوں کو بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ جماعت احمد یہ ملک کے خلاف ہے.ان میں ملک کی خدمت کا جذبہ اس طرح کوٹ کر بھرا ہوا تھا.اکثر کہتی ہیں کہ مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ دیکھنا جب بھی جماعت کو کوئی ضرورت ہوئی تو عمر پہلی صف میں ہوگا اور سینے پر گولی کھائے گا.اور یہ جو خط لکھا تھا، میجر عزیز بھٹی شہید کو اس کے نیچے بھی لکھا تھا، میجر عمر شہید.گھر پر ہوتے تو مسجد میں جا کر نماز ادا کرتے.نماز مغرب پر مسجد جاتے اور عشاء پڑھنے کے بعد کچھ نہ کچھ جماعتی کام کرنے کے بعد واپس آتے ، یہ ان کا معمول تھا.خدام الاحمدیہ میں نہایت مستعد تھے.سال میں ایک دو دفعہ وقف عارضی پر جاتے تھے.خدمت خلق کا بے انتہا شوق تھا.سال میں دو دفعہ ضرور خون کا عطیہ دیا کرتے تھے.جس دن دارالذکر میں زخمی ہوئے اس دن صبح دفتر جانے کے لئے جلدی میں نکلے یہ کہتے ہوئے کہ مجھے دیر ہو رہی ہے، چونکہ ان کے آفس سے مسجد دارالذکر قریب پڑتی تھی، اس لئے وہ جمعہ وہیں پڑھتے تھے، میری چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ضرورت کا خیال رکھا.اپنی بیٹی سے جو کہ اب آٹھ ماہ کی ہوگئی ہے، بہت پیار کرتے تھے، دفتر سے آکر اس کے ساتھ بہت دیر تک کھیلتے تھے، اس کے بارے میں کسی بھی قسم کی بے احتیاطی برداشت نہیں کرتے تھے.اہلیہ محتی ہیں کہ صرف اپنی بیٹی ہی نہیں بلکہ 144

Page 158

تمام بچوں سے بہت شفقت کا سلوک کرتے اور کہتے تھے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس لئے مجھے پسند ہیں.لکھتی ہیں کہ شہادت سے قریباً دو ماہ قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ عمر کی دوسری شادی ہورہی ہے اور میں زار و قطار رو رہی ہوں.اس خواب کا ذکر میں نے عمر سے بھی کیا لیکن انہوں نے ہنس کر ٹال دیا.لکھتی ہیں کہ بہت زیادہ صفائی پسند تھے.اسی طرح دل کے بھی بہت صاف تھے.کبھی کسی کو تکلیف نہ دی.سخت گرمی میں بھی پاکستان میں گرمی بہت شدید ہوتی ہے، ہر ایک جانتا ہے.دو پہر کو آفس سے آتے تو ہلکی سی گھنٹی بجاتے تا کہ کوئی ڈسٹرب نہ ہو.اکثر اوقات تو کافی کافی دیر آدھ آدھ گھنٹہ تک باہر ہی خاموش کھڑے رہتے.آفس کے تمام لوگ بے حد تعریف کرتے تھے.یہ گورنمنٹ ریسرچ کے ادارے میں تھے.اور کہتے تھے کہ ہمارا ایک بہت ہی پیارا بچہ ہم سے علیحدہ ہو گیا.آفس کا تمام سٹاف گھر افسوس کرنے کے لئے آیا.جب بھی کوئی پریشانی ہوتی تو فور أخلیفہ وقت کو خط لکھتے.اور کہتی ہیں مجھے بھی کہتے تھے کہ خط ضرور لکھا کرو.میرے والدین اور تمام عزیز رشتے داروں کی بہت زیادہ عزت کیا کرتے تھے.اپنے دوستوں کی بہت عزت کرتے تھے.ان کے لئے ضرور تھوڑا بہت وقت نکالتے.جو بھی خلیفہ وقت کی طرف سے تحریک ہوتی چاہے وہ دعاؤں کی ہو ، روزہ ہو، تہجد ہو، صدقات ہوں فوراً اس پر کمر بستہ ہو جاتے.تمام چندہ جات بر وقت ادا کرتے اور ہمیشہ صحیح آمد پر چندہ بنواتے تھے، بجٹ بنواتے تھے.23 مئی کو انہوں نے چندہ حصہ آمد کی آخری قسط جو کہ ساڑھے نو ہزار روپے تھی ادا کیا اور گھر آکر مجھے اور باقی سب گھر والوں کو بڑی خوشی سے بتایا کہ شکر ہے کہ آج چندہ پورا ہو گیا.جب سے سیدنا بلال فنڈ کا اجراء ہوا اس وقت سے اس فنڈ میں باقاعدگی سے چندہ دیتے تھے.کبھی گھر میں سالگرہ منانے اور تحائف دینے کی بات ہوتی تو سخت نا پسند کرتے اور کہتے کہ آپ کو پتہ نہیں کہ حضور نے منع فرمایا ہے بلکہ کہتے کہ یہ پیسے جماعت کی کسی مد میں دے دو تو زیادہ اچھا ہے.چند دن ہسپتال میں رہے، پھر اس کے بعد ان کی شہادت ہوئی ہے.145

Page 159

مکرم لعل خان ناصر صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم لعل خان ناصر صاحب شہید ابن مکرم حاجی احمد صاحب کا.شہید مرحوم اور حمال ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے.ان کے دادا نے اپنے خاندان میں سب سے پہلے بیعت کی تھی.بچپن میں شہید مرحوم کے والد وفات پاگئے تھے.والدہ بھی 1995ء میں وفات پاگئیں.ابتدائی تعلیم کے بعد ربوہ آگئے تھے.بی اے تک تعلیم حاصل کی جس کے بعد بسلسلہ ملازمت کچھ عرصہ کے لئے کراچی چلے گئے.بعد میں تربیلا میں ملازمت مل گئی.اس وقت گریڈ سترہ کے بجٹ اکاؤنٹ آفیسر تھے اور گریڈ اٹھارہ ملنے والا تھا.دورانِ ملا زمت ملتان اور وہاڑی میں بھی بھر پور جماعتی خدمات کا موقع ملا.اس کے علاوہ مظفر گڑھ میں پہلے قائد ضلع اور پھر امیر ضلع مظفر گڑھ کی حیثیت سے بھی خدمت سرانجام دیتے رہے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 52 سال تھی اور نظام وصیت میں شامل تھے.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں شہادت کا رتبہ پایا.مسجد بیت النور کے دوسرے ہال میں بیٹھے تھے.دہشتگر دوں کے آنے پر آپ نے بھاگ کر دروازہ بند کیا اور احباب جماعت سے کہا کہ آہستہ آہستہ ایک طرف ہو جائیں.اسی دوران دروازے میں سے دہشتگرد نے گن کی نالی اندر کر کے فائر کئے جو آپ کے سینے میں لگے اور موقع پر ہی شہید ہو گئے.ان کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ سانحہ سے ایک روز قبل شہید مرحوم غالبا کوئی خواب دیکھتے ہوئے ایک دم ہڑ بڑا کے اٹھ گئے تھے.میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے؟ تو خاموش رہے.تاہم اٹھ کر بچوں کو دیکھا لیکن خواب نہیں سنائی.بڑے بیٹے نے بتایا کہ تدفین سے اگلے روز غیر از جماعت لڑکوں کے گالیوں بھرے ایس ایم ایس (SMS) آتے رہے.یہ ان کی اخلاقی حالت کا حال ہے.لڑکے نے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک کالی سکرین ہے جس پر سفید الفاظ لکھے آ رہے ہیں اور ساتھ ہی ابو شہید کی آواز آتی ہے کہ ignore کروسب کو، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے قربانی دی.شہید مرحوم کے ایک عزیز نے شہادت کے بعد 146

Page 160

خواب میں دیکھا کہ ہرے بھرے گراؤنڈ میں ٹہل رہے ہیں.ایک ہاتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ہے اور دوسرے ہاتھ میں سیب ہے جو کھا رہے ہیں.بروز جمعہ شہید مرحوم نے نماز سینٹر جا کر با جماعت تہجد پڑھائی اور رو رو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں.پھر اس کے بعد نماز فجر پڑھائی تو آخری سجدہ بہت لمبا کیا.اہلِ خانہ نے بتایا کہ وقف عارضی کا بہت شوق تھا.وقف نو کی کلاسز بہت دلجمعی سے لیتے تھے.فرداً فرداً بچوں کو وقت دے کر جائزہ لیا کرتے تھے.گھر میں ایک عیسائی بچی ملازمہ تھی ، اس کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کئے.اس کو جہیز بنا کر دیا اور بعد میں اس کی شادی کی.ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ عینی شاہد نے بتایا کہ لعل خان صاحب دہشتگردی کا واقعہ ہوا تو فوراً اپنے ہی حلقہ کے انصار بھائی کے ساتھ مسجد کی چھت پر چلے گئے.جب اس فائر کرنے والے درندہ صفت کی بندوق کی گولیاں ختم ہو گئیں تو دوبارہ گولیاں بھر نے لگ گیا.تب تھوڑی دیر کے لئے خاموشی ہوئی تو چھت پر جانے والے تمام افراد نے یہ سمجھا کہ حالات قابو میں آگئے ہیں.چنانچہ وہ فور نیچے آگئے.اتنی دیر میں اس نے اپنی بندوق پھر لوڈ کر لی.خان صاحب اپنے ہاتھ اپنے ساتھیوں سے چھڑا کر بھاگ کر ہال کے پچھلے دروازے کو بند کر کے دروازے کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے اور باقی نمازیوں سے کہنے لگے کہ آپ درود شریف کا ورد کرتے ہوئے جلدی جلدی محفوظ جگہوں پر چلے جائیں.تقریباً پونے دو بجے تک وہ خیریت سے تھے.اور دہشتگرد نے جب دروازہ بند کرتے دیکھا تو فوراً بھاگ کر دروازے پر پہنچا اور دروازہ کھولنے کے لئے دھکا دینے لگا.انہوں نے مضبوطی سے تھامے رکھا.اور اس دوران جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اس نے نالی اندر کی اور فائر کر دیا.اس دوران ان کے دو اور ساتھی بھی شہید ہو گئے.ان تینوں کی شہادت سے اس عرصے میں جو دہشتگر د کے ساتھ زور آزمائی ہو رہی تھی ، ہال خالی ہو چکا تھا اور باقی نمازی محفوظ جگہوں پر چلے گئے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ میرے میاں ایک فرشتہ صفت انسان تھے، ہر وقت جماعت کی خدمت کی فکر تھی.جوں ہی جماعت کی طرف سے کوئی اطلاع آتی تو فوراً عمل کرتے.اپنے حلقہ 147

Page 161

پنجاب سوسائٹی کے زعیم انصار اللہ سیکرٹری تربیت نو مبائعین ،سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے.وقف عارضی بہت شوق سے کرتے تھے.شہادت سے پندرہ دن پہلے ان کی وقف عارضی مکمل ہوئی تھی.وقف عارضی کے لئے انہوں نے عصر سے لے کر نماز عشاء کا ٹائم وقف کیا ہوا تھا.عصر سے مغرب تک واپڈا ٹاؤن کے بچوں سے قرآنِ مجید، نماز باترجمہ اور نصاب وقف نو میں سے سورتیں وغیرہ سنتے.اگر کسی بچے کا تلفظ درست نہ ہوتا تو اس کا تلفظ درست کرواتے.اور نماز مغرب کے بعد NESS پارک سوسائٹی میں آ جاتے.نماز عشاء تک وہاں کے بچوں کو پڑھاتے.بچوں کے دلوں میں جماعت کی محبت ، خلیفہ وقت کی محبت اور اطاعت کا شوق پیدا کرنے والے واقعات سناتے.میرے میاں کی شہادت کے بعد تمام بچے سوگوار تھے اور یہی کہتے کہ انکل تو ہمارے فیورٹ (Favorite) انکل تھے.ہمیں انہوں نے بہت کچھ سکھایا.ہر وقت زبان پر درود شریف اور خلافت جو بلی کی دعائیں ہوتی تھیں.گھر میں ہم سب کو بھی درود شریف اور خلافت جو بلی کی دعائیں پڑھنے کی تلقین کرتے رہتے تھے.اول وقت میں نماز پڑھنے کے عادی تھے اور اہلِ خانہ کو بھی اس کا عادی بنایا.ان کے ایک اور واقف نے لکھا ہے کہ 1998ء سے 2001 ء تک مظفر گڑھ کے امیر ضلع رہے.آپ کو جماعت کے افراد کی تربیت کا بڑا فکر ہوتا تھا.آغاز اپنے گھر سے کرتے تھے.لوگوں کے عائلی معاملات میں صلح و صفائی کی کوشش کرتے.ایک دفعہ شہر سلطان ، ( یہ وہاں جگہ کا نام ہے ) میں عائلی معاملہ پیش تھا.آپ نے فریقین کے حالات و واقعات سنے اور دیگر افراد سے بھی تصدیق چاہی.دونوں خاندانوں کو سمجھایا.اس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور بار بار یہ صیحت کرتے تھے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے ہیں.آپ کوشش کریں کہ اپنے گلے شکوے دور کر کے پھرا کٹھے ہو جائیں اور ناراضگی جانے دیں.عاجزی اور انکساری کمال کی تھی.کوئی معاملہ در پیش ہوتا تو مجلس عاملہ کے اراکین کے سامنے رکھتے اور ان سے رائے لیتے.آپ میں کمال کی ستاری دیکھی.کسی سے کوئی لغزش ہو جاتی تو اس کے لئے دعا بھی کرتے.مرکز کو حالات لکھتے اور حالات سے آگاہ رکھتے اور اگر 148

Page 162

اصلاح دیکھتے تو اس کی اطلاع بھی مرکز کو کرتے.جب تک یہ امیر ضلع رہے جماعت کے لئے ایک پُر شفقت باپ کا کردار ادا کیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم ظفر اقبال صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم ظفر اقبال صاحب شہید ابن مکرم محمد صادق صاحب کا.شہید مرحوم عارف والا ضلع لیہ کے رہنے والے تھے.ابتدائی تعلیم عارف والا میں حاصل کرنے کے بعد لاہور شفٹ ہو گئے.بی اے تک تعلیم لاہور میں حاصل کی.اس کے بعد سعودی عرب چلے گئے.جہاں قیام کے دوران پانچ بار حج کرنے کی سعادت ملی.پاکستان واپس آنے پر ٹرانسپورٹ لائن اختیار کی اور شہادت تک اسی سے وابستہ رہے.ایک سال قبل مع فیملی بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی.بوقتِ شہادت ان کی عمر 59 برس تھی.دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.شہید مرحوم با قاعدگی سے تہجد کی ادائیگی کے لئے اٹھتے اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد کام کے سلسلے میں سات بجے گھر سے نکلتے.28 مئی سانحہ کے دن نماز تہجد ادا کرنے کے بعد تلاوت کی اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد ناشتہ کر کے کام کے لئے گھر سے نکلے.کام سے فارغ ہو کر مسجد دارالذکر پہنچے.سانحہ کے دوران مسلسل بیٹے سے فون پر بات ہوتی رہی.کہا کہ ہم چھپے ہوئے ہیں.لیکن کہاں چھپے ہوئے تھے یہ نہیں بتایا اور بتایا کہ فائرنگ بہت ہو رہی ہے، آپ دعا کریں.اللہ خود ہی ہماری مدد کرے گا.پھر بیٹی سے بھی بات کی تو یہی کہا کہ دعا کریں.پھر بار بار فون کرنے سے منع کر دیا.دہشتگردوں کی فائرنگ کے دوران ایک گولی آپ کے کندھے پر لگی.مین گیٹ کے قریب ان کی لاش پڑی ہوئی تھی جس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ جب وہ آپریشن مکمل ہونے کی غلط خبر پھیلی تو یہ با ہر نکل کر آئے ہیں اور مینار پر موجود دہشتگر دنے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں گولی ان کے کندھے میں لگی جو ترچھی ہو کر دل کی طرف چلی گئی.اس کے بعد جب ان کو اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالا گیا تب تک ان کی نبض چل رہی تھی.طبی امداد دینے کی کوشش کی گئی لیکن 149

Page 163

جانبر نہ ہو سکے اور جام شہادت نوش فرمایا.شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے تاثرات لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں.لیکن میرا ایمان اس قدر پختہ ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نیتوں کا حال جانتا ہے اور وہ جو بھی اپنے بندے کے لئے کرتا ہے وہ انسان کی سوچ سے بھی بہت بڑھ کر ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے میرے میاں کو شہید کا جو رتبہ دیا ہے وہ اصل میں اس کے حق دار تھے اور مجھے اس پر فخر ہے.میری ساری اولاد بھی احمدیت کے لئے قربان ہو جائے تو مجھے رتی بھر بھی ملال نہیں ہو گا بلکہ میں خدا کی بے انتہا شکر گزار ہوں گی.شہید مرحوم کے بیٹے نے بتایا کہ ابو کی شہادت سے چند روز قبل میرے ماموں طاہر محمود صاحب نے خواب دیکھا اور جب فجر کی نماز کے لئے بیدار ہوئے تو بتایا کہ مجھے خواب تو یاد نہیں، بس ایک جملہ یا درہا ہے ” پہاڑوں کے پیچھے چھوڑ آئے اور جب ہم ابو شہید کو ربوہ ہمیشہ کے لئے چھوڑنے جا رہے تھے تو پہاڑوں میں گھری اس وادی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنا خواب بیان کیا.پہلی دفعہ ربوہ گئے تھے اور پھر ہمیشہ کے لئے وہیں رہ گئے.بیٹے نے مزید بتایا کہ ابو ابتدا میں تو جماعت کے شدید مخالف تھے لیکن پھر خدا تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ بچے دل سے احمدیت قبول کی اور اخلاص، تقویٰ اور ایمانداری میں اس قدر بڑھ گئے کہ بیعت کے صرف ایک سال بعد ہی شہادت کا بلند مرتبہ پایا.ایک سال میں ہی جماعت سے بے پناہ لگاؤ ہو گیا تھا.ڈش انٹینا لگوا کر ایم ٹی اے بڑے شوق سے سنتے تھے.کس طرح بیعت کی؟ یہ بھی ان کی عجیب کہانی ہے.اس کا ذکر آگے آتا ہے.ان کے ملنے والے نے ایک خط میں ذکر کیا ہے کہ سانحہ لاہور میں ایک ایسے وجود نے بھی جام شہادت نوش کیا جس کو بیعت کی توفیق تو اللہ تعالیٰ نے گزشتہ سال ہی عطا فرمائی تھی لیکن اس تھوڑے سے عرصہ ہی میں ان کو خلافت سے اتنی محبت ہو گئی تھی کہ جب بھی وہ ایم ٹی اے پر میرا کوئی پروگرام دیکھتے تھے، تو چہرے کو زوم (Zoom) کر کے سکرین پر لے آتے تھے اور جماعت سے اتنا گہرا تعلق ہو گیا تھا کہ ہمیشہ دارالذکر میں ہی جا کر جمعہ پڑھتے تھے.اور باوجود یہ کہ قریب ہی مسجد تھی، کہتے تھے کہ مجھے 150

Page 164

و ہیں جانا ہے.کچھ دن پہلے تلاوت کے کسی مقابلے میں حصہ لیا اور پہلا انعام حاصل کیا اور انعام میں ایک جائے نماز ملی جس پر بہت خوش تھے.یہ ان کی بیوی کے بھائی کا خط ہے.کہتے ہیں کہ خاکسار کے بہت مخلص، سادہ طبیعت اور پیارے بہنوئی کی یہ باتیں خاکسار کی ہمشیرہ نے ان کی شہادت کے بعد بتائیں.میرے بہنوئی اپنے خاندان کے پہلے احمدی تھے.ان کے رشتے داروں کی طرف سے مخالفت تھی.بہت زیادہ ہنس مکھ اور ہر کسی کا خیال رکھنے والے تھے.ہر کسی کے غم یا خوشی میں سب سے آگے ہوتے تھے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں که مارچ 2009ء میں بیعت کی تھی.میں پیدائشی احمدی ہوں اور میرے بچوں اور میاں نے اکٹھے بیعت کی تھی.میری شادی کے بعد احمدیت کے بہت بڑے مخالف تھے بلکہ پورا سسرال ہی مخالف تھا لیکن ظفر صاحب تب بھی نماز کے بہت پابند اور بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے.دس سال تک سعودی عرب رہے.ماشاء اللہ پانچ حج اور لاتعداد عمرے کئے.1986ء میں پھر سے پاکستان آگئے.احمدیت میں آنے سے پہلے بھی بحیثیت شوہر کے انتہائی پیار کرنے والے شوہر اور باپ تھے.اپنے بچوں کے علاوہ دوسرے بچوں سے بھی بے حد پیار کرتے تھے.احمدیت میں آنے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ نمازوں کی پابندی اور تہجد کی پابندی کرنے لگے.کتابیں پڑھنے کا زیادہ شوق نہیں تھا لیکن بیعت کرنے کے بعد سونے سے پہلے اکثر مجھے کہتے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب پڑھ کر سناؤ، یا خود پڑھ کر سوتے تھے.ایک دو ماہ پہلے ہم سب گھر والوں نے نوٹ کیا تھا، احمدیت سے بہت زیادہ وابستہ ہو گئے تھے.انصار اللہ کی کوئی بھی تقریب ہوتی تو ضرور شرکت کرتے اور ہمیشہ سب سے آگے بیٹھے ہوتے.ان کے بیٹے نے کہا کہ انہوں نے مجھے مسجد سے فون کیا لیکن میں مصروف تھا تو میں نے فون ریسیو نہیں کیا.پھر مجھے پتہ لگا کہ مسجد میں اس طرح فساد ہو رہا ہے.جب میں گھر آیا تو میں نے ان کو فون کیا.انہوں نے مجھے بھی کہا کہ یہاں بہت فائرنگ ہو رہی ہے، آپ ہمارے لئے بہت دعا کریں.میں نے کہا کہ ابو جی اپنا خیال رکھنا.اس وقت بھی انہوں نے ہنس کر جواب دیا کہ کیا خیال رکھوں، خیال تو اللہ میاں نے 151

Page 165

رکھنا ہے، آپ بس دعا ئیں کریں.احمدیت قبول کرنے سے پہلے، ان کی اہلیہ تو احمدی تھیں، بیٹا کہتا ہے کہ اگر میری ماں کو کبھی جماعت کا لٹریچر پڑھتے دیکھ لیتے تھے تو بہت غصہ آتا اور انہوں نے میری ماں کو سختی سے کہہ دیا تھا کہ یہاں احمدیوں کی کوئی کتاب نظر نہیں آنی چاہئے.پھر ایک دفعہ احمدی رشتے داروں کے پاس ملتان گئے.کہتے ہیں کہ میری ممانی بتاتی ہیں کہ وہاں انہوں نے گلشن وقف نو کا پروگرام دیکھا جو ایم ٹی اے پر آرہا تھا.تو اگلے دن ان سے ہی جن کے گھر مہمان گئے تھے دوبارہ پوچھا کہ وہ جو کل پروگرام لگا ہوا تھا وہ روز لگتا ہے؟ ممانی نے کہا : جی روز لگتا ہے.تو بیٹا کہتا ہے کہ ابو نے کہا اچھا پھر اس کو دوبارہ لگائیں.پھر کچھ عرصہ بعد ماموں کے کہنے پر میری ماما نے ابو کو ڈش لگانے کا کہا تو فوراً گئے اور خود ڈش لا کر لگائی اور ایم ٹی اے سیٹ کیا.خطبات نہایت شوق سے سنتے تھے.پھر ا تو نے مارچ 2009ء میں بیعت کر لی.یہ بیٹے کا بیان ہے.پھر یہ بیٹا کہتا ہے کہ جب پیارے ابو شہید ہوئے تو اس وقت بھی انہوں نے چندہ دیا ہوا تھا لیکن اس کی رسید ان کی شہادت کے بعد مربی صاحب نے ہمیں دی.پھر بیٹا لکھتا ہے کہ ابا کی شہادت کے بعد ہمارے محلے میں مخالفت شروع ہو گئی ہے اور فتووں کے پوسٹر اور سٹکر وغیرہ چسپاں ہو رہے ہیں اور پمفلٹ بانٹے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفاظت میں رکھے.مکرم منصور احمد صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم منصور احمد صاحب شہید ابن مکرم عبدالحمید جاوید صاحب کا.شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق شاہدرہ لاہور سے ہے.ان کے پڑ دا د مکرم غلام احمد صاحب ماسٹر تھے.غالباً حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے دورِ خلافت میں بیعت کی تھی.1953 ء میں ان کے مکانات کو آگ لگادی گئی جس کے بعد ربوہ چلے گئے.پھر والد صاحب 1970ء کے قریب کراچی چلے گئے.1974ء میں کراچی میں ان کے والد محترم کی دکان کو آگ لگا دی گئی جس کے بعد یہ لاہور شفٹ ہو گئے.152

Page 166

شہید مرحوم امپورٹ ایکسپورٹ کی ایک فرم میں ملازمت کرتے تھے.باہر جانے کی کوشش کر رہے تھے.ان کا ایک بھائی مانچسٹر میں تھا.کچھ دنوں سے کہہ رہے تھے کہ میں نے ربوہ سیٹ ہونا ہے.بوقت شہادت ان کی عمر 36 برس تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظامِ وصیت میں بھی شامل تھے.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.شہید مرحوم کے دفتر والے جو ان کی بہت تعریف بھی کر رہے تھے، بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایک اور احمدی دوست بھی کام کرتے تھے.ان کو ہر جمعہ پر اپنے ساتھ لے کر جاتے.سانحہ کے روز کہا کہ ہر جمعہ پر آپ مجھے لیٹ کروا دیتے ہیں، آج کسی صورت بھی لیٹ نہیں ہونا.اور باقاعدہ لڑائی کر کے بحث کر کے، اپنے دوست کو جمعہ کے لئے جلدی لے کر گئے.مسجد پہنچ کر پہلی صف میں سنتیں ادا کیں.حملے کے دوران اپنے دفتر فون کر کے کہا کہ میں بہت زیادہ زخمی ہو گیا ہوں ، خون کافی بہہ گیا ہے، مجھے بچانے کی کوشش کریں.گھر سے والدہ نے فون کیا تو ان کو بھی یہی کہا کہ کسی کو بھیجیں تا کہ ہمیں یہاں سے نکال سکے.اہلیہ سے گفتگو کے دوران بھی گولیاں چلنے کی آوازیں انہوں نے سنیں.پھر ان کی آواز بند ہوگئی.شہید مرحوم کی اہلیہ نے بتایا کہ بہت زیادہ حساس طبیعت کے مالک تھے.شہادت سے ایک ہفتہ قبل مجھ سے کہا کہ آپ بچوں کا خیال رکھا کریں، بچوں کی ذمہ داری آپ بہتر طریقے سے نبھا سکتی ہیں.اب میں شاید بچوں کو زیادہ وقت نہ دے سکوں.بچوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ اٹیچ (Attach) کرو تا کہ یہ مجھے یاد نہ کریں.شہادت کے روز صبح کے وقت کہا کہ بیٹا شانزیب محسن ( جو صحتمند اور خوبصورت ہے) جب تین سال کا ہو جائے گا تو اسے ہم نے ربوہ بھیج دینا ہے اور جماعت کو پیش کرنا ہے.وہ اسے جو چاہیں بنا لیں.کچھ عرصہ قبل ایک پڑوسی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا.وہ موٹر سائیکل چلانے کے قابل نہیں رہے تھے.شہید مرحوم کافی عرصہ مسلسل ان کو گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر واپس لاتے رہے.مذکورہ پڑوسی کی والدہ نے جب شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی تو کہا کہ جب تک میری سانس ہے میں آپ کے بیٹے کو ساتھ لے کر جاتا اور آتا رہوں گا، شکریہ کی کوئی بات نہیں.ایک مربی صاحب نے ان 153

Page 167

کے بارے میں لکھا ہے کہ منصور احمد صاحب شہید سادہ مزاج، نہایت مخلص اور نظام خلافت سے محبت اور وفا کا تعلق رکھنے والے تھے.موصوف اپنے وقت نو بچوں کو بڑی باقاعدگی کے ساتھ وقف نو کی کلاس میں شامل کرتے تھے.ان کے بچوں کو خلافت کے ساتھ محبت و عقیدت پر مبنی بڑی لمبی لمبی نظمیں یاد ہیں.بڑی بچی جس کی عمر پانچ سال ہے، بہت خوش الحانی اور سوز و گداز کے ساتھ نظم پڑھتی ہے.خاکسار نے ایک دفعہ کلاس کے موقع پر مکرم منصور احمد صاحب شہید سے پوچھا کہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو آپ نے اتنی لمبی لمبی نظمیں کیسے یاد کروا دیں؟ تو کہنے لگے کہ ینظمیں میں نے اپنے موبائل فون میں ریکارڈ کی ہوئی ہیں اور بچے ہر وقت سنتے رہتے ہیں.ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے جلدی سیکھ جائیں اور جماعت میں نام پیدا کریں.وہ لوگ جو اپنے موبائل میں میوزک اور مختلف چیزیں بھر لیتے ہیں ان کے لئے اس میں ایک سبق ہے..مکرم مبارک علی اعوان صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم مبارک علی اعوان صاحب شہید ابن مکرم عبد الرزاق صاحب کا.شہید مرحوم قصور کے رہنے والے تھے.آپ کے دادا مکرم میاں نظام دین صاحب اور پڑدادا نے خاندان میں سب سے پہلے شدید مخالفت کے باوجود بیعت کی تھی.مرحوم کے نانا حضرت مولا نا محمد اسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.شہید مرحوم بی اے، بی ایڈ کے بعد محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے اور لاہور میں تعینات تھے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 59 سال تھی.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.روزانہ قصور سے بسلسلہ ملازمت لاہور آتے تھے.نماز جمعہ مسجد دارالذکر میں ادا کرتے تھے.سانحہ کے روز مین ہال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دہشتگردوں کے حملے کے دوران امیر صاحب ضلع قصور کو بذریعہ فون اطلاع دی کہ مسجد دارالذکر پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا ہے.تھوڑی دیر بعد فون کیا کہ مجھے گولیاں لگ گئی ہیں اور میں شدید زخمی ہوں.بعد میں بیٹے سے 154

Page 168

بھی سوا تین بجے بات ہوئی اور صورتحال سے آگاہ کیا اور دعا کے لئے کہا.اس کے بعد ایک اور دوست نے رابطے کی کوشش کی تو آگے سے اللہ اللہ کی آواز آ رہی تھی.زخمی ہونے کی وجہ سے خون زیادہ بہہ جانے اور زخموں کی وجہ سے جام شہادت نوش فرما گئے.اہلِ خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم مثالی انسان تھے.آپ کے اخلاق کی وجہ سے محلے میں کبھی کسی کو کھل کر مخالفت کرنے کی جرات نہیں ہوئی.جماعت کے ساتھ خصوصی لگاؤ تھا.فراخ دل اور مہمان نواز تھے.غریبوں کی بہت مدد کیا کرتے تھے.جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو ایک غیر احمدی خاتون روتی ہوئی آئیں اور کہا کہ ان کے بعد میرا اور میرے بوڑھے خاوند کا کون سہارا ہوگا؟ نماز سینٹر قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا.نماز تہجد اور باجماعت نماز کے پابند تھے.جماعتی پروگرامز کا اہتمام خود کرتے.مربی صاحب ضلع قصور نے بتایا کہ سانحہ کے روز سکول سے تعطیلات ہوگئی تھیں.اگر چاہتے تو آرام سے قصور پہنچ کر جمعہ پڑھ سکتے تھے لیکن انہوں نے کسی سے ذکر کیا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں آخری جمعہ دارالذکر میں ہی پڑھ کر جاؤں کیونکہ اس کے بعد تو چھٹیاں ہو جائیں گی.شہید مرحوم نے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ میں کسی بہت ہی اچھی جگہ میں جا رہا ہوں.بعد میں اہلیہ سے مذاقا کہا کہ اب تو دل چاہتا ہے کہ جنت میں ہی چلا جاؤں.سال میں دو ایک مرتبہ کھانے کی دیگیں پکوا کر مستحقین میں تقسیم کیا کرتے تھے.مربی صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار کو قصور میں چار سال تک بطور مربی سلسلہ کام کا موقع ملا.مکرم مبارک علی اعوان صاحب شہید کو احمدیت کی غیرت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات یا جماعت احمدیہ پر کسی بھی قسم کے اعتراض کے جواب میں منفر دشخصیت کا مالک پایا.آپ چونکہ ٹیچنگ(Teaching) کے پیشہ سے منسلک تھے اس لئے وہاں پر دوسرے اساتذہ کے ساتھ جماعتی موضوعات پر بحث رہتی تھی.کسی بھی اعتراض یا سوال کے جواب کے لئے مکرم مبارک علی اعوان صاحب اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے تھے جب تک اس کا کافی وشافی جواب حاصل نہ کر لیتے.اور جب ان کو سیر حاصل بحث کے بعد جواب دے دیا 155

Page 169

جاتا تو ان کے چہرے پر عجیب طمانیت اور بشاشت دیکھنے کو ملتی گویا سمندر طغیانی کے بعد سکون کی حالت میں آ گیا ہو.اسی طرح آپ جماعت اور اپنے عزیز رشتے داروں کے متعلق نہایت رقیق القلب اور ہمدرد تھے.غلطی خواہ دوسرے کی ہو وہ خود جا کر معذرت کرتے اور پھر پہلے سے بڑھ کر اس سے ہمدردی کا سلوک کرتے.مکرم عتیق الرحمن ظفر صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم عتیق الرحمن ظفر صاحب شہید ابن مکرم محمد شفیع صاحب کا.شہید مرحوم سیداں والی غربی ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.1998ء سے مانا نوالہ ضلع شیخوپورہ میں مقیم تھے.1988ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.ان کے ایک سال بعد ان کی اہلیہ نے بھی بیعت کر لی.ذاتی کاروبار تھا، کچھ عرصہ دبئی میں بھی رہے.2009ء کے آغاز میں پاکستان واپس آگئے.پچھلے قریباً چھ ماہ سے مکرم امیر صاحب ضلع لاہور کے ساتھ بحیثیت ڈرائیور ڈیوٹی کر رہے تھے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 55 سال تھی مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.مسجد دارالذکر کے مین ہال میں بیٹھے تھے کہ ان کے قریب ہی گرنیڈ پھٹا.اہلِ خانہ کو فون کر کے حملہ کی اطلاع دی.اسی دوران ان کو گولیاں لگیں جس سے فون گر گیا اور دوبارہ بات نہ ہو سکی اور ساتھ ہی شہادت ہوگئی.شہید مرحوم کے غیر احمدی بھائیوں کا مطالبہ تھا کہ ان کی تدفین آبائی گاؤں میں ہو، جبکہ اہلیہ نے کہا کہ شہید مرحوم چونکہ احمدی ہیں اور شہید کی خواہش چونکہ ربوہ شفٹ ہونے کی تھی لہذار بوہ میں تدفین کی جائے جس پر بھائی مان گئے اور ربوہ میں ہی تدفین ہوئی.شہید مرحوم کی بیعت سے پہلے ان کی بیٹی نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ان کے گھر آئے ہیں اور گلاب کے پودے لگا رہے ہیں اور بعد میں میں اور میرے ابو ان پودوں کی حفاظت کرتے ہیں اور پانی دیتے ہیں.کچھ عرصہ بعد یہ خاندان احمدی ہو گیا.بیعت کرنے کے بعد ان کے والدین نے انہیں عاق کر کے گھر سے نکال دیا.دیگر رشتے دار اور اہلِ محلہ 156

Page 170

بھی ان کے ساتھ بد زبانی کرتے ، گالیاں دیتے ، پتھر مارتے.بالآخر انہوں نے ایک احمدی گھرانے میں پناہ لی.اللہ تعالیٰ خاندانوں کے لئے بھی تسلی کے سامان پیدا فرماتا ہے، خوابوں کے ذریعے تسلی دیتا ہے.ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ایک روز قبل میں نے خواب دیکھا کہ گھر اور باہر ہر جگہ بہت زیادہ ہجوم ہے.دوسری بیٹی مریم نے ایک روز خواب دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث تشریف لائے ہیں اور ہمارے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دے رہے ہیں.پھر تیسری بیٹی نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا کہ ایک جنگل ہے جہاں بہت خطر ناک بھینسیں اور جانور ہیں اور میں ڈر کر بھاگ رہی ہوں کہ اچانک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نظر آتے ہیں، میں بھاگ کر ان کے گلے لگ جاتی ہوں.اہل خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم ہمیشہ باوضور ہتے تھے.ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے تھے.بہت محنتی تھے.نماز تہجد پڑھنے کے بعد ڈیوٹی پر چلے جاتے اور پھر رات کو لیٹ واپس آتے.جب پوچھا گیا کہ آپ تھکتے نہیں ، تو کہتے کہ میں ہر وقت درود شریف پڑھتارہتا ہوں جس سے تھکاوٹ نہیں ہوتی کبھی تبلیغ کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.رشتے داروں اور دوستوں میں بیٹھ کر باتوں کا رخ ہمیشہ تبلیغ کی طرف کر دیا کرتے تھے.دبئی میں دو فیملیوں کو بیعت کروا کر جماعت احمدیہ میں شامل کرنے کی سعادت پائی.مکرم محمود احمد صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم محمود احمد صاحب شہید ابن مکرم مجید احمد صاحب کا.شہید مرحوم کے دادا مکرم عمر دین صاحب و مفیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پڑدادا حضرت کریم بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.انہوں نے 1900 ء میں بیعت کی تھی.قادیان کے قریب گاؤں بھینیاں کے رہنے والے تھے.قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے گجر ضلع شیخو پورہ میں شفٹ ہو گئے.بعد میں چک متا بہ ضلع شیخو پورہ رہائش اختیار کر لی.157

Page 171

بوقتِ شہادت ان کی عمر 53 سال تھی.عرصہ 15 سال سے دارالذکر کے سیکورٹی گارڈ کی حیثیت سے خدمت کر رہے تھے.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.مسجد کے مین گیٹ پر ڈیوٹی پر تھے.سانحہ کے دوران انہوں نے ایک دہشتگر دکو پکڑنے کی کوشش کی.اس کوشش میں ان پر فائرنگ ہوئی.دو گولیاں سینے میں لگیں جبکہ ایک برسٹ ان کے پیٹ کے نچلے حصہ اور ٹانگ پر لگا جس سے موقع پر ہی ان کی شہادت ہوگئی.اہلِ خانہ نے بتایا کہ بہت ہی عمدہ شخصیت کے مالک تھے.کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا.سادہ اور صلح پسند انسان تھے.ایک دوست نے بتایا کہ شہید مرحوم ایک روز وردی پہن کر خوب ناز سے چل رہے تھے.انہوں نے کہا کہ اس طرح کیوں چل رہے ہیں؟ تو جواباً کہا کہ جو بھی غلط ارادے سے آئے گا وہ میری لاش پر ہی سے گزر کر جائے گا.شہید مرحوم کی خواہش تھی کہ اگر اب میری کوئی اولا د ہو تو میں اسے وقف نو میں پیش کروں گا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سنتے ہوئے بڑے بیٹے کی پیدائش کے گیارہ سال بعد بیٹا عطا کیا جو وقف نو میں ہے.اہلِ خانہ بتاتے ہیں کہ جمعہ والے دن مصروفیت کی وجہ سے کبھی گھر فون نہیں کیا.تا ہم شہادت سے ہیں منٹ پہلے فون کر کے بات کی.جب انہوں نے پوچھا کہ آج آپ نے جمعہ والے دن کیسے فون کر لیا ہے؟ تو انہوں نے کہا بس میرا دل چاہ رہا تھا لہذا پاس ہی کھڑے خادم سے فون لے کر بات کر رہا ہوں.باقی ذکر انشاء اللہ آئندہ.158

Page 172

خطبه جمعه سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ايده الله تعالیٰ بنصره العزيز فرمودہ09جولائی 2010ء بمقام بیت الفتوح لندن 159

Page 173

Page 174

مکرم احسان احمد خان صاحب شہید شہداء کا جو ذکرِ خیر چل رہا ہے.اسی سلسلے میں آج سب سے پہلے میں ذکر کروں گا مکرم احسان احمد خان صاحب شہید ابن مکرم وسیم احمد خان صاحب کا.شہید مرحوم کے پڑدادا حضرت منشی دیانت خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.نارو ضلع کانگڑہ کے رہنے والے تھے.یوسف زئی خاندان سے تعلق تھا.شہید مرحوم کے پڑدادا کے دو بھائی حضرت شہامت خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت منشی امانت خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1890 ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی.اور 313 صحابہ میں شامل ہوئے.مکرم ظہیر احمد خان صاحب مربی سلسلہ جو آجکل یہاں لندن میں ہیں، شہید مرحوم کے چچا ہیں.جبکہ شہید مرحوم کے دوسرے بھائی ندیم احمد خان صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ میں زیر تعلیم ہیں.شہید مرحوم 1984 ء میں پیدا ہوئے.دو سال سے شیزان انٹرنیشنل میں ملازمت کر رہے تھے.جبکہ جماعت احمد یہ بھماں ضلع لاہور میں بطور سیکرٹری ( یہ پتہ نہیں کون سی جماعت ہے بہر حال ) بطور سیکرٹری وقف جدید خدمت کی توفیق مل رہی تھی.بوقت شہادت ان کی عمر 26 سال تھی.اور مسجد دارالذکر گڑھی شاہو میں جامِ شہادت نوش فرمایا.سانحہ کے روز صبح غنسل کے بعد نماز پڑھی اور تلاوت کی اور ملازمت کے لئے روانہ ہونے سے پہلے اہلیہ کو بتایا کہ میں یہ جمعہ دارالذکر میں پڑھوں گا.اور ساتھ ہی بتایا کہ پچھلا جمعہ میرے سے رہ گیا تھا.بیٹی کو اٹھا کر پیار کیا اور روانہ ہو گئے.قریباً 1:35 پر مسجد دارالذکر سے اپنی والدہ محترمہ کو فون کر کے بتایا کہ یہاں دہشتگرد آگئے 161

Page 175

ہیں.والدہ محترمہ کو تسلی دی، پھر اس کے بعد دوبارہ رابطہ نہ ہو سکا.اس دوران دہشتگر دوں نے جب گرنیڈ پھینکے اس کے شیل لگنے سے زخمی ہوئے.جب غلط افواہ پھیلی کہ دہشتگرد مارے گئے ہیں اور باہر آ جائیں تو باہر نکلنے پر دوبارہ گرنیڈ کے ٹکڑے لگنے سے شہید ہو گئے.ربوہ میں تدفین ہوئی ہے.تدفین سے قبل ان کے چچانے اپنے گھر ان کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں بہت سے غیر از جماعت لوگوں نے شرکت کی.شہید مرحوم کی والدہ نے شہادت سے ایک ماہ قبل خواب میں دیکھا کہ ان کا بیٹا شہید ہو گیا ہے اور اس کی میت کو صحن میں رکھا گیا ہے اور میں بیٹے کے منہ پر پیار سے ہاتھ پھیرتی ہوں اور پوچھتی ہوں کہ کیا ہوا؟ اس خواب سے گھبرا کر اٹھ جاتی ہوں اور صدقہ دیتی ہوں.شہادت کے بعد اسی جگہ پر جنازہ لا کر رکھا گیا جہاں خواب میں دیکھا تھا.شہادت سے چند دن پہلے شہید نے خود بھی ایک خواب دیکھا اور ہڑ بڑا کر اٹھ گئے.والدہ کو صرف اتنا بتایا کہ بہت بُرا خواب ہے.پھر صدقہ بھی دیا.شہید مرحوم بہت ہی ایماندار اور نیک فطرت انسان تھے.دوسروں سے ہمدردی اور محبت سے پیش آتے تھے.والدین کی خدمت بڑی توجہ سے کیا کرتے تھے.ان کے چچا نے مجھے بتایا کہ کام سے گھر آتے تھے تو والدین کو سلام کرتے تھے پھر بیوی بچوں کے پاس اپنے گھر جاتے تھے.اور روزانہ رات کو اپنے والد کے پاؤں دبا کے سویا کرتے تھے.انہوں نے والد والدہ کی کافی خدمت کی خدمت کا حق ادا کیا.ڈیڑھ سال ہوا ان کی شادی کو ، ان کی ایک چار ماہ کی وقف نو کی بچی ہے.اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے.مکرم منور احمد قیصر صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم منور احمد قیصر صاحب شہید ابن مکرم میاں عبدالرحمن صاحب کا.شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق قادیان سے تھا، قادیان سے پاکستان بننے کے بعد گوجرہ منتقل ہوئے.اس کے بعد لاہور شفٹ ہو گئے.ان کے خاندان میں سب سے پہلے حضرت عبدالعزیز صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آڑھتی تھے انہوں نے بیعت کی تھی.وہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ 162

Page 176

الصلوۃ والسلام تھے.یہ شہید مرحوم کے دادا مکرم میاں دوست محمد صاحب کے کزن تھے.ان کے دادا اور خاندان کے دیگر لوگوں نے خلافت ثانیہ میں بیعت کی.شہید مرحوم پیشے کے لحاظ سے فوٹوگرافر تھے.پچھلے قریباً بیس سال سے جمعہ کے روز دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی دیا کرتے تھے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 57 برس تھی.اور مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی کے دوران کئی دفعہ اس بات کا اظہار کیا کہ اگر کوئی حملہ کرے گا تو میری لاش سے گزر کر ہی آگے جائے گا.سانحہ کے روز قریباً گیارہ بجے ڈیوٹی پر پہنچے ، فرنٹ لائن پر کھڑے تھے کہ 1:40 پر دہشتگردوں نے آتے ہی فائرنگ شروع کر دی.ایک کو تو انہوں نے مضبوطی سے پکڑ لیا جبکہ دوسرے نے آپ پر فائر کر کے آپ کو شہید کر دیا.اہلیہ محترمہ نے چند دن قبل خواب میں دیکھا کہ ایک تابوت ہے جو عام سائز سے کافی اونچا ہے.جس کے قریب ایک پیچ پڑا ہے.ان کے ایک عزیز پیج پر پاؤں رکھ کر تابوت کے اندر لیٹ جاتے ہیں.پوچھنے پر کہ یہ کیوں لیٹے ہیں حالانکہ یہ تو اچھے بھلے ہیں، ( یہ واقعہ بیچ میں رہ گیا ہے پورا بیان کرنے سے ) اہلیہ نے بتایا کہ جمعہ پر جانے سے پہلے میں نے ان کو گولڈن رنگ کا سوٹ استری کر کے دیا اور ساتھ ہی کہا کہ آج تو آپ دلہوں والا سوٹ پہن رہے ہیں.چنانچہ خوب تیاری کر کے نماز جمعہ کے لئے گئے.بے شمار خوبیوں کے مالک تھے.احساس ذمہ داری بہت زیادہ تھا.کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا.نمازوں کے پابند تھے.فوٹوسٹیٹ کا کام بھی کرتے تھے.قریبی کالج سے بچے فوٹوسٹیٹ کروانے آتے تو بغیر گنے ہی پیسے رکھ لیتے.کہتے تھے کہ کبھی کسی کے پاس پیسے نہیں بھی ہوتے اس لئے میں نہیں گنتا.بعض دفعہ مخالفین آپ کی دکان پر آپ کے سامنے ہی مخالفانہ پوسٹر لگا جاتے تھے.آپ ان سے جھگڑا نہ کرتے اور بعد میں اتار دیتے.اپنے بیٹے کو کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو خاموشی سے واپس آ جاؤ.اگر آپ نے جواب دیا تو پھر آپ نے اپنا معاملہ خود ہی ختم کر لیا.اگر اللہ پر چھوڑ دیا تو اللہ ضرور بدلہ لے گا.163

Page 177

مکرم حسن خورشید اعوان صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم حسن خورشید اعوان صاحب شہید ابن مکرم ملک خورشید اعوان صاحب کا.شہید مرحوم کا تعلق بند پال ضلع چکوال سے تھا.ان کے والد اور دادا پیدائشی احمدی تھے.تا ہم کچھ عرصہ قبل ان کی فیملی کے دیگر افراد نے کمزوری دکھاتے ہوئے ارتداد اختیار کرلیا جبکہ شہید مرحوم بفضلہ تعالٰی شہادت کے وقت تک جماعت سے وابستہ رہے.ان کے ایک اور بھائی مکرم سعید خورشید اعوان صاحب جو جرمنی میں ہیں، انہوں نے بھی جماعت کے ساتھ وابستگی رکھی.شہادت کے وقت ان کی عمر 24 سال تھی.غیر شادی شدہ تھے.اور مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.سانحہ کے روز دارالذکر میں نماز جمعہ ادا کرنے گئے.دہشتگردوں کے آنے پر گھر فون کر کے بتایا کہ مسجد پر حملہ ہو گیا ہے، میں زخمی ہوں دعا کریں.اسی دوران دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے.ان کے فیملی کے غیر از جماعت ممبران ان کے احمدی ہونے کے بارے میں اعتراضات کرتے رہے جس پر ان کے والدین ان کے دباؤ میں آگئے اور اطلاع دی کہ اگر احمدی احباب نے نماز جنازہ پڑھی تو علاقے میں فساد پھیل جائے گا.یہاں پر ختم نبوت والے( نام نہاد ختم نبوت والے کہنا چاہئے ) کافی ایکٹو (Active) ہیں.انہی وجوہات کی بنا پر احمدی احباب کو نماز جنازہ ادانہ کرنے دی گئی.غیر از جماعت نے ہی نماز جنازہ پڑھی اور تدفین کی.تاہم علاقے میں عام لوگ مجموعی طور پر اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے رہے.شہید کے والد پہلے تو مخالفت کے باعث کوائف دینے سے انکار کرتے رہے، جس پر سمجھایا گیا کہ آپ کے بیٹے نے جان دے کر پیغام دیا ہے کہ دنیاوی لوگوں سے خوف نہ کھائیں، خواہ جان ہی کیوں نہ چلی جائے.شہید مرحوم کی قربانیوں کو چھپانا شہید کے ساتھ زیادتی ہے لیکن پھر بھی انہوں نے کوئی کوائف نہیں دیئے.اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے.اور ان کی یہ قربانی ان کے گھر والوں کی بھی آنکھیں کھولنے کا باعث بنے.164

Page 178

مکرم ملک حسن خورشید اعوان صاحب کے بارے میں امیر صاحب چکوال نے لکھا ہے، کہ دعوت الی اللہ کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے ، پچھلے چند سالوں سے آپ کے والد مکرم ملک خورشید احمد صاحب نے جماعت احمدیہ سے علیحدگی اختیار کی تو ملک حسن خورشید صاحب اپنے حقیقی عقیدے یعنی احمدیت سے منسلک رہے اور تا دمِ آخر اس کے ساتھ رہے.نماز جمعہ گڑھی شاہو اور دارالذکر میں جا کر ادا کرتے تھے.متعدد بار والدین کے اصرار کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہے.مکرم و محترم محمود احمد شاد صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم محترم محمود حمد شاد صاحب شہید ( مربی سلسلہ) ابن مکرم چوہدری غلام احمد صاحب کا.شهید مرحوم کے خاندان کا تعلق خون ضلع گجرات سے تھا.شہید مرحوم کے دادا مکرم فضل داد صاحب نے بیعت کی تھی.شہید مرحوم کے والد بہت متعصب تھے.ایک دفعہ ایک کتاب تبلیغ ہدایت فرش پر بکھری پڑی تھی اس کو اکٹھا کرنے لگے اور سوچا کہ اس کو پڑھنا نہیں ہے.لیکن جب ترتیب لگا رہے تھے تو کچھ حصہ پڑھا، دلچسپی پیدا ہوئی اور ساری کتاب پڑھنے کے بعد کہا کہ میں نے بیعت کرنی ہے.اور 1922 ء میں گیارہ سال کی عمر میں بیعت کر لی.شہید مرحوم کے والد صاحب نائب تحصیلدار رہے.آپ نے کبھی کسی سے رشوت نہیں لی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی سندھ میں زمینوں کے مختار عام تھے.اور انتہائی نیک اور متقی انسان تھے.شہید مرحوم 31 مئی 1962 ء کو پیدا ہوئے اور پیدائشی وقف تھے.1986ء میں جامعہ پاس کیا.اس کے علاوہ محلے کی سطح پر متعدد جماعتی عہدوں پر خدمت کا موقع ملا.اس کے علاوہ نائب ایڈیٹر ماہنامہ خالد کے طور پر بھی کام کرتے رہے.پاکستان کے مختلف شہروں میں بطور مربی سلسلہ تقرری کے علاوہ تنزانیہ میں بھی گیارہ سال مربی سلسلہ کے طور پر خدمت کی توفیق پاتے رہے.بیت نور ماڈل ٹاؤن میں قریباً تین ماہ قبل تقرری ہوئی تھی.165

Page 179

بوقتِ شہادت ان کی عمر قریباً 48 سال تھی اور نظام وصیت میں بھی شامل تھے.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.سانحہ کے روز نیا سوٹ پہنا، نیا رو مال لیا.اپنی رہائشگاہ میں دورکعت ادا کرنے کے بعد اپنے بیٹے کے ہمراہ نماز جمعہ کے لئے مین ہال میں پہنچ گئے.لوگوں نے بتایا کہ حملے کے دوران آپ مسلسل لوگوں کو دعاؤں کی طرف توجہ دلا رہے تھے.اور جب حملہ آور مسجد کے اندر آیا تو آپ نے بلند آواز میں نعرہ بھی لگایا اور مسلسل درود شریف کا ورد کرتے رہے.آپ کے سینے میں دو گولیاں لگی تھیں جس کی وجہ سے آپ کی شہادت ہوگئی.اس سانحہ میں آپ کا بیٹا اللہ کے فضل سے محفوظ رہا.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ شہادت سے ایک روز قبل مؤرخہ 27 مئی کی رات ایم ٹی اے پر عہد نشر ہورہا تھا.( وہ عہد جو خلافت کا میں نے خلافت جوبلی پر دہرایا تھا ، انہوں نے اونچی آواز میں یہ عہد دوہرایا اور یہ ارادہ کیا کہ جمعہ کے دن خطبہ کے بعد پوری جماعت کے ساتھ یہ عہد دہرائیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.اہلیہ نے مزید بتایا کہ آپ بہت ہی نڈر تھے.جب جماعت کے خلاف آرڈینینس آیا تو اس کے کچھ عرصہ بعد اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ سفر پر جارہے تھے قمیص پر کلمہ طیبہ کا بیج لگا ہوا تھا.ان کی ہمشیرہ ڈر رہی تھیں اور احتیاط کے لئے ان سے کہا.لیکن انہوں نے جواب دیا کہ تمہارا ایمان اتنا کمزور ہے.سٹیشن پر اترنے کے بعد وہاں موجود پولیس اہلکار سے جا کر سلام کیا اور اپنی ہمشیرہ سے کہا دیکھو میں تو ان سے سلام کر کے آیا ہوں.آپ کو خدا تعالیٰ پر بہت ہی تو کل تھا.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ تنزانیہ میں بھی خدمت کے دوران ان کی مخالفت ہوئی اور اس دوران اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشان بھی دیکھے.1999ء میں معاندِ احمدیت شیخ سعیدی نے مربی صاحب پر ایک الزام لگایا کہ انہوں نے کچھ غیر قانونی بندوں کو اپنے مشن ہاؤس میں پناہ دے رکھی ہے.پولیس مشن ہاؤس آ گئی اور تلاشی کے بعد مربی صاحب کو تھانہ لے گئی.تنزانیہ کا یہ قصہ ہے.مربی صاحب نے وہاں پہنچ کر اپنا اور جماعت کا تعارف کروایا تو پولیس والوں نے معذرت کرتے ہوئے آپ کو چھوڑ 166

Page 180

دیا.بعد ازاں پولیس سے بہت اچھے تعلقات بن گئے.اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد شیخ سعید کو اسی الزام میں حکومت نے سعودی عرب سے ڈی پورٹ کر دیا.اور یہ خبر اخبارات میں بھی شائع ہوئی.ان کی اہلیہ کہتی ہیں تنزانیہ میں ہی ایک دفعہ جماعتی دورے پر جانے لگے تو مجھے ملیریا بخار تھا.تو میں نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور آپ جا رہے ہیں؟ مربی صاحب کہتے ہیں کہ میں اللہ کا کام کرنے جا رہا ہوں اور تمہیں بھی اللہ کے حوالے کر کے جا رہا ہوں.شہید کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں تقرری کے کچھ عرصے بعد سے دھمکی آمیز ٹیلیفون کالز کا سلسلہ شروع ہو گیا.جب پہلی کال آئی تو مربی صاحب ایک شادی کے فنکشن میں گئے ہوئے تھے.معلوم ہوا کہ کچھ لوگ آپ کا پیچھا کر رہے ہیں.تو خدام الاحمدیہ کے کچھ ممبران نے بحفاظت مربی صاحب کو گھر پہنچا دیا.گھر واپس پہنچنے پر مجھے کہتے ہیں کہ دیکھو کیسی عظیم الشان جماعت ہے کہ ان خدام سے ہمارا کوئی دنیاوی رشتہ نہیں ہے لیکن ہر وقت یہ ہماری حفاظت کے لئے تیار رہتے ہیں.مربی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ اگر تو نے میری قربانی لینی ہے تو میں حاضر ہوں لیکن میری اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھنا.ان حالات میں جب ان کو بہنوں کے فون آتے اور وہ اس خواہش کا اظہار کرتیں کہ چھٹی لے کر ربوہ آجائیں تو آپ کہتے کہ جب باقی احمدی قربانی دے رہے ہیں تو ہم قربانیاں کیوں نہ دیں اور میدان چھوڑ کر کیوں بھا گیں.ان حالات سے بعض دفعہ پریشان ہو کر میں جب رو پڑتی.تو مجھے کہتے کہ شہداء کی فیملی کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا اور ان کی خود حفاظت فرماتا ہے.شہید مرحوم و دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا.شہادت سے ایک ماہ قبل ایک ڈاکٹر صاحب غیر از جماعت جو چاہتے تھے کہ ان کو مطمئن کیا جائے.ان کی کافی مربیان سے بحث ہوئی لیکن ان کی تسلی نہیں ہو رہی تھی ، تو مربی صاحب نے ( شاد صاحب نے ) دوتین مجلسوں کے دوران کئی کئی گھنٹے ان کو تبلیغ کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور کلام بڑے آبدیدہ ہو کر بڑی جذباتی کیفیت میں ان کو سناتے تھے.یہی ڈاکٹر صاحب جن کو تبلیغ 167

Page 181

کی جارہی تھی کہتے ہیں کہ آج میرے لئے میرے فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں.میں اب مطمئن ہو گیا ہوں.جو شخص خود آبدیدہ ہو کر مجھے تبلیغ کر رہا ہے، ان کی جماعت جھوٹی کیسے ہو سکتی ہے.یہ بھی تبلیغ کرنے کا اپنا اپنا ہر ایک کا انداز ہوتا ہے اور جو دل سے نکلی ہوئی باتیں ہوتی ہیں پھر ا ثر کرتی ہیں اور پھر ڈاکٹر صاحب نے بیعت کر لی.مربی صاحب کے والدین کے علاوہ باقی تمام رشتے دار غیر از جماعت ہیں.آخری سانس تک ان کو بھی تبلیغ کرتے رہے.ہر غمی اور خوشی کے موقع پر اپنے بچوں کو خاص طور پر غیر از جماعت رشتے داروں کے پاس دکھانے کی غرض سے ساتھ لے جاتے تھے، کہ دیکھو ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ ان لوگوں کے گلوں میں بدرسومات اور بدعات کا طوق ہے اور ہم خلافت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں.ان کے بارے میں ایک صاحب نے مجھے خط میں لکھا کہ 2006ء میں خاکسار کو اطلاع ملی پنڈی میں ، ( پنڈی کے ہیں یہ ) کہ محمود شاد صاحب مربی سلسلہ کو بیت الحمد مری میں تعینات کیا گیا ہے.خاکسار کو امیر صاحب ضلع راولپنڈی نے صدر حلقہ اور بیت الحمد شرقی کے علاوہ بیت الحمد مری روڈ مربی ہاؤس مری روڈ اور گیسٹ ہاؤس مری روڈ کی نگرانی بھی سونپی تھی.تو امیر صاحب کی ہدایت آئی کہ مربی صاحب کے قیام و طعام کا بندوبست کریں.گیسٹ ہاؤس میں طعام کا ابھی بندوبست نہیں تھا.کھانا جو بھی پیش کیا جاتا مربی صاحب بڑے صبر و رضا کے ساتھ کھا لیتے.مربی ہاؤس اور گیسٹ ہاؤس مری روڈ تین منزلہ ہے.پہلے مربی ہاؤس دوسری منزل پر تھا.جماعت نے فیصلہ کیا کہ اسے تیسری منزل پر شفٹ کر دیا جائے.اور پہلی دو منزلیں گیسٹ ہاؤس بنائی جائیں.تیسری منزل پر شدید گرمی ہوتی تھی.مگر مر بی صاحب کمال صبر ورضا کے ساتھ وہاں مقیم رہے.اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے.خلیفہ وقت کے خطبات جمعہ بڑے اہتمام سے سنتے تھے اور احباب جماعت کو بھی بار بار سننے کی تلقین کرتے تھے.اگر کبھی کسی جماعت میں ڈش خراب ہو گیا تو اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک ڈش درست نہ کروا لیتے تھے.مربی صاحب نہایت ہی نرم دل اور خوش مزاج 168

Page 182

انسان تھے.ہر ایک کے ساتھ دوستی اور پیار کا تعلق قائم کرتے.خاندانوں کا بہت علم رکھتے تھے.اس طرح احباب کے ساتھ ایک ذاتی تعلق بنا لیتے تھے.خطبات جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی تحریرات اور منظوم کلام بھی بکثرت استعمال کرتے.دشمن کے ناکام و نامراد ر ہنے اور جماعت کی کامیابی پر کامل یقین تھا.اور بڑی تحدی سے اس کا ذکر کرتے تھے.خطبات میں اکثر ان کی آواز بھتر اجاتی تھی.28 مئی سے دو یا تین جمعہ پہلے عشرہ تعلیم القرآن کے سلسلے میں ماڈل ٹاؤن میں خطبہ دیا.اور حضرت مسیح موعود کا ایک انذار پڑھ کر سنایا جس میں جماعت کے ان لوگوں کا ذکر ہے جو قرآن کو باقاعدگی سے نہیں پڑھتے اس پر جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکے اور آواز بھتر اگئی.خلافت، جماعت اور نظام کے تقدس کے بارے میں ایک ننگی تلوار تھے.اگر خلافت اور جماعت کے بارے میں کوئی معمولی سی بات بھی کر دیتا تو اسی وقت اس کا منہ بند کر دیتے.اور اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک اس کو غلطی کا احساس نہ ہو جاتا.خاکسار کے حلقے میں ( یہ وہی صاحب لکھ رہے ہیں اعظم صدیقی صاحب ) کہ خاکسار کے حلقے کی مجلس عاملہ کا اجلاس اکثر رات کو نو یا دس بجے شروع ہوتا تھا.رات گئے سخت سردی میں سائیکل پر اجلاس میں شامل ہوتے اور اپنی ہدایت سے نوازتے.صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ جب ان کی لاہور میں تبدیلی ہوئی تو بڑے خوش تھے کہ ماڈل ٹاؤن میں تبدیلی ہوگئی ہے اور ساتھ جب میں نے بتایا کہ میری بھی سرکاری ملازمت لاہور پوسٹنگ ہو گئی ہے تو مذاق سے مجھے کہنے لگے کہ صدیقی صاحب! لا ہور تک ساتھ جانا ہے یا آگے بھی ساتھ جانا ہے؟ ان کے بارہ میں ایک مربی صاحب نے مزید لکھا ہے کہ شہید ایک ہنس مکھ اور بڑی سے بڑی مصیبت اور دکھ کو خندہ پیشانی سے برداشت کر کے مسکرانے والے تھے.دلیر اور نڈر تھے.تبلیغ کے شیدائی تھے.خاکسار کی تقرری جب تنزانیہ میں ہوئی تو ان کے ساتھ دار السلام سے موروگور و جارہا تھا.راستے میں کچھ مولوی برلب سڑک نظر آئے.محمود شاد صاحب نے گاڑی روکی اور ان کو تبلیغ کرنے لگے جبکہ شام کا وقت ہو چلا تھا اور آگے راستہ بھی خطرناک 169

Page 183

تھا.ایک مجمع اکٹھا ہو گیا اور دعوت الی اللہ سے تمام لوگ مستفید ہوئے.اور ان مولویوں کو لاجواب کر کے دوڑا دیا.گاڑی میں بیٹھتے ہوئے خاکسار کو کہا کہ ہمیں یہاں مذہبی آزادی ہے، ڈرنا نہیں کھل کر تبلیغ کریں.پھر ان کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ شہید مرحوم کئی بہنوں کے اکیلے بھائی تھے.اس لئے والدین اور خاص طور پر پر بیمار والدہ کی خوب خدمت کی.جب آپ کا تقرر بیرونِ ملک ہونے والا تھا تو پریشان تھے کہ بیمار والدہ کو کس کے پاس چھوڑ کر جاؤں گا؟ چنانچہ والدہ کی زندگی میں آپ کو پاکستان میں ہی خدمت کا موقع ملتا رہا.یہ بھی مربی صاحب ہیں، لکھ رہے ہیں کہ جب خاکسار کا تقرر 1999ء میں بطور امیر، انچارج مبلغ تنزانیہ ہوا تو اس وقت آپ تنزانیہ میں تعینات تھے.بڑے ہی شوق اور لگن سے تبلیغ کیا کرتے تھے.نئی سے نئی جگہوں پر رابطے کر کے ویڈیو آڈیو کیسٹ کے ذریعے اور مجالس لگا کر آپ تبلیغی کیمپس لگایا کرتے تھے.جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے کئی جماعتیں بھی عطا کیں.آپ ارنگا (Iringa) تنزانیہ میں تعینات تھے کہ آپ کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے مقامی علماء نے عرب ریاستوں کی طرف سے مذہبی امداد دینے والے ایجنٹوں سے ویسی ہی تبلیغی سہولیات کا مطالبہ کرنا شروع کیا جو احمدی مبلغ محمود احمد شاد صاحب کو حاصل تھیں تا کہ وہ احمد یہ نفوذ کو روک سکیں.جب ایک ایک کر کے ان کی تمام تبلیغی ضروریات پوری کر دی گئیں اور کوئی نتیجہ نہ نکلا بلکہ احمدیت مزید تیزی سے صوبے میں پھیلتی رہی تو مقامی علماء سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ تمام تبلیغی سہولیات کے حصول کے بعد بھی آپ کے کام کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا؟ تو انہوں نے کہا کہ ابھی ہمارے پاس ایک چیز کی کمی ہے وہ یہ کہ جماعت احمدیہ کے پاس پاکستانی مبلغ ہے جو کہ ہمارے پاس نہیں ہے.اگر ہمیں بھی ایک پاکستانی مبلغ دے دیا جائے تو اس کی رہنمائی میں ہم بھی کامیاب ہوں گے.یہ بھی بیچاروں کی غلط فہمی تھی کیونکہ ان کے جو غیر از جماعت پاکستانی مبلغ آنے تھے انہوں نے ان کو تبلیغ کے بجائے صرف گالیاں سکھانی تھیں.170

Page 184

مکرم وسیم احمد صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم وسیم احمد صاحب شہید ابن مکرم عبدالقدوس صاحب آف پون نگر کا.شہید مرحوم کا تعلق حضرت میاں نظام دین صاحب رضی اللہ عنہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور حضرت بابو قاسم دین صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے ہے.حضرت بابو قاسم دین صاحب رضی اللہ عنہ کافی لمبا عرصہ سیالکوٹ کے امیر مقامی اور امیر ضلع رہے ہیں.یہ خاندان اسی محلے سے تعلق رکھتا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام دعوی سے قبل دورانِ ملازمت قیام پذیر رہے.اور دعویٰ کے بعد اسی جگہ پر آ کر قیام فرماتے تھے.سیالکوٹ میں ایف ایس سی کے بعد یونیورسٹی آف پنجاب لاہور میں پلیس (Space) سائنس میں بی ایس سی میں ان کو سیلیکٹ کیا گیا.پھر اسی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس میں کیا.شہادت سے قبل سوفٹ وئیر کی ایک فرم میں بطور مینجر کام کر رہے تھے.بطور ناظم اطفال مجلس علامہ اقبال ٹاؤن خدمت کی توفیق پارہے تھے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 38 سال تھی اور نظام وصیت میں شامل تھے.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.شہید مرحوم ہمیشہ نماز جمعہ مسجد دارالذکر میں ادا کرتے تھے.سانحہ کے روز بھی مال روڈ پر واقع اپنے دفتر سے نماز ادا کرنے کے لئے دارالذکر پہنچے عموماً مین ہال کی پہلی صف میں بیٹھتے تھے.سانحہ کے روز بھی پہلی صف میں ہی بیٹھے اور دہشتگردوں کے آنے پر امیر صاحب کے حکم پر وہیں بیٹھے رہے.جب باقی دوست ہال کے پچھلے گیٹ سے جان بچانے کے لئے باہر جا رہے تھے تو ان کو بھی کہا گیا لیکن انہوں نے کہا کہ پہلے باقی دوست چلے جائیں، پھر میں جاؤں گا.اسی دوران دہشتگرد کی گولیوں سے شہید ہو گئے.شہید مرحوم کی شہادت پر ان کے دفتر والوں نے ان کی یاد میں اپنے دفتر میں دو گھنٹے کا پروگرام بھی رکھا.تمام سٹاف تعزیت کے لئے ان کے گھر بھی آیا اور بہت اچھے الفاظ میں شہید کو یاد کیا.ان کی شہادت پر 171

Page 185

ان کے دفتر کا سٹاف ہسپتال میں بھی ان کی مدد کے لئے موجود تھا اور تدفین کے لئے ربوہ بھی آئے.ان کی کمپنی کے ڈائریکٹر کراچی سے تعزیت کے لئے سیالکوٹ بھی آئے ، اور ربوہ بھی آئے اور بہت دکھ اور رنج کا اظہار کیا.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ اپنے والدین اور بزرگوں کے نہایت ہی فرمانبردار تھے.ہر کسی سے عزت و احترام سے پیش آتے تھے.والدین کے ساتھ کبھی بھی اونچی آواز میں بات نہیں کی.بلکہ اس چیز کو گناہ سمجھتے تھے.جماعت کے نہایت ہی خدمت کرنے والے ممبر تھے.جماعت لاہور کے چندوں کے حوالے سے سوفٹ وئیر بھی تیار کیا.ناظم اطفال کے طور پر خدمت کرتے رہے اور بچوں سے نہایت ہی شفقت اور محبت کا تعلق تھا.شہادت کے بعد ان کا جنازہ ان کے خاندان والے لاہور سے سیالکوٹ لے گئے جہاں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد تدفین کے لئے ربوہ لے آئے.وسیم صاحب کو شہادت کی بہت تمنا تھی.اکثر کہتے تھے کہ اگر کبھی میری زندگی میں ایسا وقت آیا تو میرا سینہ سب سے آگے ہوگا.مکرم عمران ندیم صاحب سیکرٹری اشاعت مجلس اطفال الاحمدیہ ضلع لاہور ان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ نہایت دھیمی طبیعت تھی، اطاعت کا مادہ بہت زیادہ تھا، بڑے آرام سے اور غور سے بات سنتے اور پھر ہدایت پر عمل کرتے کسی اجلاس یا پروگرام میں بچوں کو شامل کرنے کے لئے اپنی گاڑی پر بڑی ذمہ داری سے لاتے اور گھر واپس چھوڑتے.دوسروں کے بچوں کو گھروں سے اکٹھا کرتے تھے.آخری دم تک یہ جماعتی خدمات سرانجام دیتے رہے.صدر صاحب حلقہ علامہ اقبال ٹاؤن ان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ بہت ہی مخلص احمدی نوجوان تھے.مجلس خدام الاحمدیہ کے کاموں میں بہت دلچسپی لیتے تھے.اطفال کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت ہی بہترین رہنما تھے.وسیم صاحب پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے.نہایت ہی لائق ذہین اور مخنتی نوجوان تھے.ان کی والدہ محترمہ نے ان کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا.والدین کے کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود والدین کی خواہش تھی کہ ان کی اولا د تعلیم حاصل کرے.چنانچہ اپنی لگن اور علم سے محبت کی بدولت کامیاب ہوئے.ان کی اہلیہ نے 172

Page 186

مجھے خط لکھا تھا، کہتی ہیں کہ ان کی خوبیاں تو شاید میں گنواہی نہیں سکتی.حضور ! اگر میں یہ کہوں کہ وہ ایک فرشتہ صفت انسان تھے تو جھوٹ بالکل نہ ہوگا.یہ تو پورے خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ وسیم صاحب جیسا دوسرا نہیں.میں تو یہی سوچتی ہوں کہ خدا تعالیٰ نے یہ اعزاز وسیم صاحب کی اعلیٰ اور نمایاں خوبیوں کی وجہ سے ہی دیا ہے اور وسیم نے نہ صرف والدین کا اور میرا بلکہ پورے خاندان کا سر فخر سے بلند کر دیا.پھر بھتی ہیں کہ جماعت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی.دو سال سے ناظم اطفال علامہ اقبال ٹاؤن لاہور تھے.بچوں سے بہت پیار کرتے تھے.انتہائی دفتری مصروفیات کے باوجود بچوں کے پروگرام کرواتے اور انہیں علمی مقابلہ جات کے لئے تیار کرتے.کمزور بچوں پر توجہ دیتے اور ان کے والدین کو بھی تاکید کرتے کہ بچوں کو آگے لائیں.اکثر ہماری مجلس کے بچے بہت انعامات جیتتے.اور پھر وسیم صاحب کو دلی خوشی ہوتی تھی.اپنی گاڑی پر بچوں کو دارالذکر لے کر جاتے اور واپس گھروں تک پہنچاتے.غرض ہر کام کو محنت اور لگن سے کرتے تھے.دفتری مصروفیات کے با وجود اکثر شام کو دارالذکر میں میٹنگ کے لئے جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے ، دفتر میں با قاعدگی سے نماز کے وقت نماز ادا کرتے تھے.میں نے اکثر وسیم صاحب کو نماز ادا کرتے ہوئے غور کیا کہ وہ نماز ادا کرتے ہوئے حق ادا کرتے تھے.کبھی نماز میں جمائی لیتے یا کوئی ایسی حرکت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس سے لگے کہ ان کا نماز میں دھیان نہیں ہے.ایسا لگتا تھا جیسے وہ واقعی ہی خدا تعالیٰ کو سامنے دیکھ کر دعا کر رہے ہیں.پھر بھتی ہیں مالی قربانی میں بھی وسیم صاحب ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.ہمیشہ اپنی تنخواہ پر پورے دس حصہ ادا کرتے.اور اس کے علاوہ جو بھی چندہ جات ہوتے ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.کبھی بھی اپنی ذات پر فالتو پیسے خرچ نہیں کرتے تھے.کبھی اپنے والدین کے سامنے اونچی آواز سے بات نہیں کی.نہ صرف والدین سے بلکہ کسی سے بھی کبھی اونچی آواز سے بات نہیں کی.انتہائی نرم مزاج تھے.میں نے اپنی پوری شادی شدہ زندگی میں ان کے منہ سے کبھی کوئی سخت بات نہیں سنی.وسیم صاحب کا چہرہ ہر وقت مسکراتا رہتا تھا.اور کبھی میں کسی بات پر 173

Page 187

ناراض ہوتی تو بڑے پیار سے مناتے ، اور جب تک میری ناراضگی دور نہیں ہو جاتی منانا نہیں چھوڑتے تھے.شہادت کے بعد جب ان کی میت گھر لائی گئی تو ان کے چہرے پر وہی مسکراہٹ اور سکون تھا جو ہر وقت ان کے چہرے پر ہوتا تھا.کوئی بھی مہمان ہو ہر ایک سے بہت عمدہ طریق سے ملتے کوئی بھی ہوتا.ماں باپ کا ، بہن بھائیوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے.عزیز رشتے داروں سے کبھی بھی کوئی ناراضگی نہ رکھتے تھے.یہاں تک کہ آفس کے لوگ بھی کہتے کہ وسیم صاحب نے بھی اپنے جونیئر ز سے سخت لہجے میں بات نہیں کی.وسیم صاحب نڈر قسم کے انسان تھے.احمدی ہونے پر فخر تھا، گاڑی میں تفخیذ رسالے اکثر پڑے ہوتے تھے.ان کا جو نیئر جو کہ احمدی تھا، انہیں اکثر کہتا تھا کہ وسیم صاحب! کہیں کوئی مولوی فطرت انسان دیکھ کر آپ کو نقصان نہ پہنچائے؟ تو وسیم صاحب کہتے کہ یار! شہادت کا رتبہ ہر ایک کی قسمت میں نہیں ہوتا.گھر میں بھی اکثر کہتے تھے کہ تبلیغ سے کبھی نہیں ڈرنا چاہئے کیونکہ ہم جیسے گناہگاروں کو ایسا اعزاز کہاں ملتا ہے ان کے جونیئر تھے اسدانہوں نے بتایا کہ وسیم صاحب اور وہ اگلی صف میں بیٹھتے تھے ، جیسے ہی فائرنگ شروع ہوئی تو سب لوگ ہال کے ایک طرف اکٹھے ہو گئے اور کسی دروازے سے باہر نکل رہے تھے.اسد نے وسیم کو آواز دی لیکن وسیم نے کہا کہ پہلے اگلے لوگوں کو نکل جانے دو پھر میں آتا ہوں.اسی دوران وسیم صاحب کو آٹھ گولیاں پیٹ میں لگیں اور ایک گھنٹے کے اندر شہادت ہوگئی.مکرم ملک و سیم احمد صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم ملک وسیم احمد صاحب شہیدا بن مکرم محمد اشرف صاحب (چکوال) کا.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کا تعلق رتو چھ ضلع چکوال سے تھا،شہید مرحوم نے میٹرک تک تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی.پھر فوج میں بطور لانس نائیک ملازمت شروع کر دی.فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد اسلام آباد میں ایک سکیورٹی کمپنی میں ملازمت شروع کی.بعد ازاں 2009 ء میں مسجد دارالذکر میں سکیورٹی گارڈ کی ملازمت شروع کر دی.ان کے 174

Page 188

خسر مکرم عبدالرزاق صاحب نظارت علیاء صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ کے ڈرائیور تھے.شہادت کے وقت وسیم احمد صاحب کی عمر 54 سال تھی.اور مسجد دارالذکر میں ڈیوٹی دینے کے دوران جام شہادت نوش فرمایا.سانحے کے روز وسیم صاحب مسجد دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی پر تھے.حملہ آوروں نے دور ہی سے فائرنگ شروع کر دی.جس سے سانحے کے آغاز میں ہی ان کی شہادت ہو گئی.شہید مرحوم کی دوشادیاں ہوئی تھیں.1983ء میں پہلی بیوی کی وفات ہو گئی پھر 1990ء میں عبد الرزاق صاحب جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان کی بیٹی سے شادی ہوئی.ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بہت ہی اچھے انسان تھے.معاشرے میں بہت اچھا مقام تھا.ہر ایک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے.ہر رشتے کے لحاظ سے بہت اچھے انسان تھے.خاص طور پر یتیم بچے اور بچیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے.چاہے وہ رشتے دار، غیر رشتے دار غیر از جماعت یا احمدی ہوتا.جماعتی خدمات کا بہت جوش اور جذبہ تھا.اسی لئے جب بھی لاہور سے چھٹی پر گھر آتے تو بتاتے کہ میں ادھر بہت خوش ہوں.مسجد میں آنے والا ہر احمدی چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا ہر ایک بہت عزت سے ملتا ہے.شہید مرحوم کے بچوں نے بتایا کہ ہمارے ابو بہت اچھے انسان تھے.ہمارے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا.ہر ایک خواہش کا احترام کرتے تھے.بیٹی نے بتایا کہ خاص طور پر میری ہر خواہش پوری کرتے تھے.بچوں کی تعلیم کے بارہ میں بہت جذ بہ اور شوق تھا.بیٹی نے بتایا کہ مجھے کہتے تھے کہ میں تمہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ بھیج دوں گا.ماحول اچھا ہے.اور وہیں جماعت کی خدمت کرنا.چاہے مجھے تمہارے ساتھ ربوہ میں ہی کیوں نہ رہنا پڑے.بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والے باپ تھے.شہید مرحوم کی اہلیہ نے مزید بتایا کہ شہادت سے کچھ روز قبل فون کر کے مجھے بتایا کہ میں ڈیوٹی پر کھڑا تھا، صدر صاحب حلقہ مسجد میں تشریف لائے.میرے پاس سے گزرے تو میں نے کہا صدر صاحب! میری وردی پرانی ہو گئی ہے اگر مجھے نئی وردی لے دیں تو ہر ایک آنے والے کو اچھا محسوس ہو گا.لہذا صدر صاحب نے نئی وردی لے دی.شہادت والے روز سانحہ سے قبل فون کر کے بتایا کہ 175

Page 189

میں نے نئی وردی پہنی ہے.اسی وردی میں شہادت کا رتبہ پایا.ان کی اہلیہ لکھ رہی ہیں شہادت کی خبر پہلے ٹی وی کے ذریعہ ملی کہ لاہور میں احمدی مساجد پر حملہ ہو گیا.پھر ہم نے لا ہور وسیم صاحب کے نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا.وسیم صاحب کے نمبر سے کسی احمدی بھائی نے فون کر کے خبر دی کہ وسیم صاحب شہید ہو گئے ہیں.یہ خبر سن کر بہت دکھ اور تکلیف بھی ہوئی لیکن شہادت جیسا بلند مرتبہ پانے پر بہت خوشی تھی اور سرفخر سے بلند تھا کہ مسجد میں نمازیوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت پائی.شہید مرحوم پنجوقتہ نماز کے پابند تھے، نیکی کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.مکرم نذیر احمد صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم نذیر احمد صاحب شہید ابن مکرم محمد لیلین صاحب کا.شہید مرحوم اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور اکیلے احمدی ہونے کی وجہ سے پورے خاندان میں مخالفت تھی.شہید مرحوم تجنید اور بجٹ کے لحاظ سے حلقہ کوٹ لکھ پت میں شامل تھے.نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں آتے.اس کے علاوہ باقی نمازیں اپنے حلقے میں واقع نماز سینٹر میں ادا کرتے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 72 سال تھی.مسجد ماڈل ٹاؤن بیت النور میں جام شہادت نوش فرمایا.ان کی نماز جنازہ اور تدفین ان کے غیر از جماعت رشتے داروں نے ہی ادا کی اور کوٹ لکھ پت قبرستان میں دفن کیا.شہید مرحوم نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن پہنچے ہی تھے.اس دوران دہشتگردوں نے حملہ کر دیا.اور اسی طرح گولیاں لگنے سے شہید ہو گئے.ان کا جسدِ خاکی جناح ہسپتال میں رکھا گیا جہاں سے ان کے بھانجے جو غیر از جماعت ہیں نعش کو جنازہ اور تدفین کے لئے لے گئے.مسجد دارالذکر میں ان کا نماز جنازہ غائب ادا کیا گیا.شہید مرحوم چندہ جات کی ادائیگی میں با قاعدہ تھے اور نمازی بھی تھے.خاندان میں شدید مخالفت کے باوجود شہادت پانے تک مضبوطی سے احمدیت پر قائم رہے.ان کے بارہ میں صدر صاحب نے مزید لکھا ہے کہ 176

Page 190

مین بازار میں ان کی اپنی قیمتی جائیداد تھی.ان کی دکانیں تھیں، دکانوں پر بھتیجوں نے زندگی میں ہی قبضہ جمالیا تھا.ایسے حالات میں ساری عمر سادہ زندگی بسر کی.خاندان کی مخالفت بھی برداشت کی لیکن احمدیت سے تعلق نہ تو ڑا اور نہ کمزور ہونے دیا.شہادت تک با قاعدہ بجٹ کے ممبر تھے گو آمد نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی مگر ادائیگی کرتے تھے.پرانی وضع کے آدمی تھے.سادہ لباس اور باقاعدگی سے جمعہ کی ادائیگی کے لئے سائیکل پر بیت النور وقت پر پہنچتے تھے اور پہلی صف میں بیٹھتے تھے.ہر ایک کو بڑی گرمجوشی سے ملتے تھے اور جب مسجد میں آتے تھے تو بڑا وقت گزارتے تھے کہ جتنا زیادہ وقت احمدیوں کے درمیان میں گزرے اتنا اچھا ہے.گھر کے اندر اور باہر انہوں نے باوجود مخالفت کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفاء کی تصویریں لگائی ہوئی تھیں.عہد یداروں سے عقیدت رکھتے تھے.تبلیغ کا شوق جنون کی حد تک تھا.جہاں آپ کی رہائش ہے وہاں مخالفین کی سرگرمیاں عروج پر ہیں مگر کسی خوف کے بغیر دعوت الی اللہ جاری رکھتے تھے.مکرم محمد حسین صاحب شہید اگلا ذکر ہے مکرم محمد حسین صاحب شہید ابن مکرم نظام دین صاحب کا.شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق ضلع گورداسپور سے تھا.آپ کی پیدائش بھی وہیں ہوئی.کوئی دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کی.لیکن قرآن مجید پڑھنا جانتے تھے.مکرم شیخ فضل حق صاحب سابق صدر جماعت سمی کے ذریعے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے.ان کے خاندان میں خود اور ان کی ایک بہن احمدی تھی.مکرم انعام الحق کوثر صاحب مربی سلسلہ شکاگو امریکہ کے ماموں تھے.کچھ عرصہ ایم ای ایس لیبر سپروائزر کے طور پر کام کرتے رہے.کار پینٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا.ملازمت کے بعد کوئٹہ میں فرنیچر کی دکان بھی تھی.فرقان فورس میں خدمت کی توفیق پائی.بوقتِ شہادت ان کی عمر 80 سال تھی اور مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا.جمعہ کے روز صدقہ دینا ان کا معمول تھا.گھر سے گیارہ 177

Page 191

بجے تیار ہو کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے نکل پڑتے.سانحہ کے روز مسجد دارالذکر کے مین ہال میں موجود تھے.ان کی نعش دیکھی گئی تو ان کے دائیں جانب کا سارا حصہ جل چکا تھا.پیٹ پر بھی کافی زخم تھے.غالباً گرنیڈ پھٹنے سے شہادت ہوئی ہے.شام کو میوہسپتال سے ان کے غیر از جماعت لواحقین ان کی نعش لے گئے اور جنازہ اور تدفین بھی انہوں نے ہی کی.اہلِ خانہ کے مطابق شہید مرحوم نماز کے پابند تھے.چندہ جات باقاعدگی سے ادا کرتے تھے.باوجود اس کے کہ مالی حالت زیادہ اچھی نہ تھی اپنی ضروریات سے بچا کر غریب اور ضرورتمندوں کی بلا تفریق مذہب وملت مدد کرتے تھے.جماعت سے بہت مضبوط تعلق تھا.اہلِ خانہ نے مزید بتایا کہ عام طور پر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے پہلی صفوں میں بیٹھتے تھے.بڑھاپے کی وجہ سے یہ یاد نہ رہتا تھا کہ آج کونسا دن ہے؟ کیونکہ گھر والے تمام غیر از جماعت ہیں، تو وہ نہ بتاتے تھے کہ آج جمعہ ہے.شہید مرحوم نے ایک فقیر کے آنے کی نشانی رکھی ہوئی تھی کہ یہ فقیر جمعہ کو آتا ہے، کبھی بھول جاتے تو اس فقیر کو دیکھ کر یاد آ جاتا کہ آج جمعہ ہے.لیکن اچانک ایک دن فقیر نہ آیا ایک بیٹی نے یاد دلایا کہ آج جمعہ ہے اور بغیر کھانا کھائے ہی جلدی میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکل گئے.بڑے بیٹے نے بتایا کہ عموماً رات کو بستر پر نہ ہوتے.جب ان کو ڈھونڈھتے تو جائے نماز پر نماز ادا کر رہے ہوتے.بچوں کو کہا کرتے تھے کہ مجھے اہلِ بیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور تم کو نہیں ہے.میں نے خواب میں اہلِ بیت سے ملاقات بھی کی ہے.بیٹے نے مزید بتایا که عموماًدس محرم کو روزہ رکھا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورہ کوئٹہ کا بہت ذکر کیا کرتے تھے کہ جب حضور کا پارک ہاؤس والی کوٹھی میں قیام تھا تو انہوں نے وہاں پر دن رات مرمت وغیرہ کا کام کیا.جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو فرماتے تھے کس نے کام کروایا ہے.دیواروں سے خلوص ٹھیک رہا ہے.اسی قیام کے دوران ایک دن پانی کا پائپ لیک (Leak) کر رہا تھا تو ٹھیک نہ کر سکا، تو حضور نے فرمایا کہ محمد حسین کو بلاؤ وہ ٹھیک کر دے گا.اور جب انہوں نے ٹھیک کر دیا تو بہت خوش 178

Page 192

ہوئے فرمایا دیکھو میں نے کہا تھا ناں کہ محمد حسین ٹھیک کر دے گا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولا دکو بھی احمدیت حقیقی اسلام کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے.یہ واقعات تو ایسے ہیں کہ اگر ان کی تفصیلات میں جایا جائے تو یہ لمبا سلسلہ چلا جائے گا.اس لئے میں نے مختصر بیان کئے ہیں.یہ اب شہداء کا ذکر تو ختم ہوا.یہ ذکر جو میں نے شہداء کا کیا ہے اس میں ہمیں ان سب میں بعض اعلیٰ صفات قدر مشترک کے طور پر نظر آتی ہیں.ان کا نمازوں کا اہتمام اور نہ صرف خودنمازوں کا اہتمام بلکہ اپنے بچوں اور گھر والوں کو بھی اس طرف توجہ دلانا.کوئی اپنے کام کی جگہ سے فون کر کے بچوں کو نماز کی یاد دہانی کروا رہا ہے تو کوئی مسجد اور نماز سینٹر دور ہونے کی وجہ سے گھر میں ہی نماز با جماعت کا اہتمام کر رہا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ انہیں فکر تھی کہ نمازیں ان کی اور ان کے اہل کی اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی خیر اور بھلائی کی ضمانت ہیں.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے راستے عبادات سے ہی متعین ہوتے ہیں.ان سب میں ہم نماز جمعہ کا خاص اہتمام دیکھتے ہیں.بعض نوجوان گھر سے تو یہ کہہ کر نکلتے تھے کہ شاید کام کی وجہ سے جمعہ پر نہ جاسکیں ، لیکن جب جمعہ کا وقت آتا تھا تو سب دنیاوی کاموں کو پس پشت ڈال کر جمعہ کے لئے روانہ ہو جاتے تھے.پھر بہت سے ایسے ہیں جو تہجد کا التزام کرنے والے ہیں.بعض اس کوشش میں رہتے تھے کہ نوافل اور تہجد کی ادائیگی ہو، اکثر نوجوان شہداء میں بھی اور بڑی عمر کے شہداء میں بھی یہ خواہش بڑی شدت سے نظر آتی ہے کہ ہمیں شہادت کا رتبہ ملے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے اخلاق حسنہ کس کثرت سے ان میں نظر آتے ہیں.یہ اخلاق حسنہ جو ہیں، گھریلو زندگی میں بھی ہیں اور گھر سے باہر زندگی میں بھی ہیں.جماعتی کارکنوں اور ساتھیوں کے ساتھ جماعتی خدمات کی بجا آوری کے وقت بھی ان اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہورہا تھا.تو اپنے کام اور کاروبار کی جگہوں پر بھی اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو اپنے اعلیٰ اخلاق سے اپنا گرویدہ بنایا ہوا تھا.مرد کے اعلیٰ اخلاق اس کے اپنے اہل کی اس کے اخلاق کے بارے میں گواہی سے پتہ چلتے ہیں.179

Page 193

بعض دفعہ مرد باہر تو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں.لیکن گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کر رہے ہوتے.ایک شادی شدہ مرد کی سب سے بڑی گواہ تو اس کی بیوی ہے.اگر بیوی کی گواہی اپنے خاوند کی عبادتوں اور حسنِ سلوک کے بارے میں خاوند کے حق میں ہو تو یقیناً یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والا تھا.پھر ان شہداء کے حسنِ اخلاق کی گواہی صرف بیوی نہیں دے رہی بلکہ معاشرے میں ہر فر د جس کا ان سے تعلق تھا ان کے حسنِ اخلاق کا گواہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو حقوق العباد کی ادائیگی نہیں کرتا، بیوی بچوں اور عزیزوں کے حق ادا نہیں کرتا ، وہ خدا تعالیٰ کے حق بھی ادا نہیں کرتا.اگر وہ بظاہر نمازیں پڑھنے والا ہے بھی تو حقوق العباد ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس کی عبادتیں رائیگاں چلی جاتی ہیں.پس یہ شہداء جو شہادت کے مقام پر پہنچے یقینا یہ شہادت کا رتبہ ان کے لئے عبادتوں کی قبولیت اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حق ادا کرنے کی سند لئے ہوئے ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں که صرف اپنی عبادتوں اور حسنِ اخلاق پر ہی ان لوگوں نے بس نہیں کی بلکہ اپنی ذمہ داریوں کی جزئیات کو بھی نبھایا.ایک باپ اپنے گھر کا راعی ہے اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگرانی اس کی ذمہ داری ہے تو ان لوگوں نے اس فریضے کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دی ، اور یہ توجہ ہمیں ہر شہید میں مشترک نظر آتی ہے.اس قرآنی حکم کو انہوں نے اپنے پیش نظر رکھا کہ وَلَا تَقْتُلُوْا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ - کہ تم مفلسی کے خوف سے اولا د و قتل نہ کرو.اپنے کاروباروں میں اس قدر محو نہ ہو جاؤ کہ یہ خیال ہی نہ رہے کہ اولاد کی تربیت بھی ہماری ذمہ داری ہے.یہ لوگ اپنے اس عہد کو بھولے نہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے.اور اس عہد کی پاسداری کی خاطر انہوں نے اپنے کاموں کی جگہوں سے فون کر کر کے گھر میں بیوی کو یاد کروایا کہ بچوں کو نماز پڑھوا دو.کہ دین کو مقدم کرنے کی ابتداء تو نمازوں سے ہی ہوتی ہے.ایک بچی نے باپ کی تربیت کا یہ اسلوب بتایا کہ لمبے تفریحی سفر پر ہمارے ابا ہمیں 180

Page 194

ساتھ لے جاتے تھے اور راستے میں مختلف دعائیں پڑھتے رہتے تھے اور اونچی آواز میں اور بار بار پڑھتے تھے کہ ہمیں بھی دعائیں یاد ہو جائیں، اور ہمیں ان سے یاد ہو گئیں اور پھر صرف دعائیں یاد ہی نہیں کروا ئیں بلکہ یہ بھی کہ کس موقع پر کون سی دعا کرنی ہے؟ تو یہ تھے وہ جانیں قربان کرنے والوں کے اپنی اولاد کے لئے تربیت کے اسلوب.پھر نو جوان تھے ، جن کے والدین بفضلہ تعالیٰ حیات ہیں.ان کے حقوق بھی ہمہ وقت ان جوان شہیدوں نے ادا کئے.والدین بیمار ہیں تو رات دن ان کی خدمت میں ایک کر دیئے.خدا تعالیٰ کے حکم کہ والدین سے حسنِ سلوک کرو اور ان کی کسی سخت بات پر بھی اُف کا کلمہ منہ سے نہ نکالو.اس کا حق ادا کر دیا ان لوگوں نے.پھر بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ شادی شدہ جوان اگر ماں باپ کا حق ادا کر رہے ہیں تو بیوی کا حق بھول جاتے ہیں، اگر بیوی کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ ہے تو ماں باپ کا حق بھول جاتے ہیں.لیکن ان مومنوں نے تو مومن ہونے کا اس بارے میں بھی حق ادا کر دیا.بیویاں کہہ رہی ہیں کہ والدین کے حق کے ساتھ ہمارا اس قدر خیال رکھا کہ کبھی خیال ہی دل میں پیدا نہیں ہونے دیا کہ ہماری حق تلفی تو کجا ہلکی سی جذباتی تکلیف بھی پہنچائی ہو.اور ماں باپ کہہ رہے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے حق ادا کرنے کی کوشش میں کہیں بیوی کے حق کی ادائیگی میں کمی نہ کی ہو.پس یہ اعتماد اور یہ حقوق کی ادائیگی ہے جوحسین معاشرے کے قیام اور اپنی زندگی کو بھی جنت نظیر بنانے کے لئے ان لوگوں نے قائم کیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی کتنا بڑا اجر عطا فرمایا کہ دائی زندگی کی ضمانت دے دی.17 ،18 سال کا نوجوان ہے تو اس کی طبیعت کے بارے میں بھی ماں باپ اور قریبی تعلق رکھنے والے، بلکہ جس کا لج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ نو جوان، کر رہے تھے ، ان سب کی رائے یہ ہے کہ یہ عجیب منفرد قسم کا اور منفر د مزاج کا بچہ تھا پھر ان سب میں ایک ایسی قدرے مشترک ہے جو نمایاں ہوکر چمک رہی ہے.اور وہ ہے جماعتی غیرت کا بے مثال اظہار.اطاعت نظام کا غیر معمولی نمونہ ، جماعت کے لئے وقت قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا اور کرنا ، دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے سارے حقوق کی ادائیگی کے باوجود ساری ذمہ داریاں کے 181

Page 195

حقوق کی ادائیگی کے باوجود جماعت کے لئے وقت نکالنا.اور صرف ہنگامی حالت میں ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی کئی کئی گھنٹے وقت دینا.اور بعض اوقات کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہنا.اور پھر یہ کہ خلافت سے غیر معمولی تعلق ، محبت اور اطاعت کا اظہار.یہ اظہار کیوں تھا؟ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح موعود اور مہدی موعود کے بعد جو دائمی خلافت کا سلسلہ چلنا ہے اس نے مومنین کے جذبہ وفا اور اطاعت اور خلافت کے لئے دعاؤں سے ہی دائمی ہونا ہے.پس یہ لوگ تھے جنہوں نے عبادات اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے نظام خلافت کو دائمی رکھنے کے لئے آخر دم تک کوشش کی.اور اس میں نہ صرف سرخرو ہوئے ، بلکہ اس کے اعلیٰ ترین معیار بھی قائم کئے.یہ لوگ اپنے اپنے دائرے میں خلافت کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں.یہ سلطان نصیر تھے خلافت کے لئے جن کے لئے خلیفہ وقت دعا کرتا رہتا ہے کہ مجھے عطا ہوں.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرماتا رہے.اپنے پیاروں کے قرب سے ان کو نوازے.یہ شہدا ء تو اپنا مقام پاگئے ، مگر ہمیں بھی ان قربانیوں کے ذریعے سے یہ توجہ دلا گئے ہیں کہ اے میرے پیارو! میرے عزیزو! میرے بھائیو! میرے بیٹو! میرے بچو! میری ماؤں! میری بہنو! اور میری بیٹیو! ہم نے تو صحابہ کے نمونے پر چلتے ہوئے اپنے عہد بیعت کو نبھایا ہے مگر تم سے جاتے وقت یہ آخری خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ نیکیوں اور وفا کی مثالوں کو ہمیشہ قائم رکھنا.بعض مردوں نے اور عورتوں نے مجھے خط بھی لکھے ہیں کہ آپ آج کل شہداء کا ذکر خیر کر رہے ہیں ان کے واقعات سن کر رشک بھی آتا ہے کہ کیسی کیسی نیکیاں کرنے والے اور وفا کے دیپ جلانے والے وہ لوگ تھے.اور پھر شرم بھی آتی ہے کہ ہم ان معیاروں پر نہیں پہنچ رہے.ان کے واقعات سن کر افسوس اور غم کی حالت پہلے سے بڑھ جاتی ہے کہ کیسے کیسے ہیرے ہم سے جدا ہو گئے.یہ احساس اور سوچ جو ہے بڑی اچھی بات ہے.لیکن آگے بڑھنے والی قو میں صرف احساس پیدا کرنے کو کافی نہیں سمجھتیں بلکہ ان نیکیوں کو جاری رکھنے کے لئے پیچھے رہنے والا ہر فرد جانے والوں کی خواہشات اور قربانیوں کے مقصد 182

Page 196

کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس ہمارا کام ہے اور فرض ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ان قربانیوں کا حق ادا کریں.ان کے بیوی بچوں کے حق بھی ادا کر کے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں.ان کے چھوٹے بچوں کی تربیت کے لئے جہاں نظام جماعت اپنے فرض ادا کرے وہاں ہر فر د جماعت ان کے لئے دعا بھی کرے.اللہ تعالیٰ تمام لواحقین کو اپنی حفظ وامان میں رکھے.ان کی پریشانیوں ، دکھوں اور تکلیفوں کو دور فرمائے اور خود ہی ان کا مداوا کرے.انسان کی کوشش جتنی بھی ہو اس میں کمی رہ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو صحیح تسکین کے سامان پیدا فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے لئے تسکین کے سامان پیدا فرمائے اور ان کے بہتر حالات کے سامان پیدا فرمائے.پس ان شہداء کے ورثاء کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں اور اب احباب جماعت اپنے لئے بھی دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دشمن کے ہر شر سے محفوظ رکھے.کیونکہ دعاؤں کی آج کل بہت زیادہ ضرورت ہے.پاکستان میں حالات جو ہیں وہ بد تر ہی ہو رہے ہیں.کوئی فرق نہیں پڑا اس سے، مخالفت بڑھتی چلی جا رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہر شر سے بچائے اور اُن شریروں کے شر ان پر الٹائے اور ہمیں، ہر احمدی کو ثبات قدم عطا فرمائے.183

Page 197

Page 198

خطاب سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ايده الله تعالیٰ بنصره العزيز فرمودہ 27/جون 2010ء بمقام منہائم.جرمنی 185

Page 199

Page 200

گزشتہ دنوں پاکستان میں، لاہور میں احمدیوں پر جو حالات گزرے ہیں، جس ظالمانہ اور سفا کا نہ طور پر افراد جماعت کو جمعہ کے دوران شہید کیا گیا ہے.17 ،18 سال کے نوجوان سے لے کر 92 93 سال کے بوڑھے تک کا خون سفا کی کی بدترین مثالیں قائم کرتے ہوئے بہایا گیا ہے.اور قانون نافذ کرنے والوں نے اپنی کسی مصلحت کے تحت اس خون کو بہنے دیا اور بر وقت مددنہ کی ورنہ شاید کئی قیمتی جانیں بچ جاتیں.بہر حال جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اکثر احمدی خود بھی اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ إِنَّمَا أَشْكُوا بَى وَ حُزْنِی إِلَى اللهِ (یوسف: 87) ( کہ میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ کے حضور کرتا ہوں ) پس ہماری فریاد تو اللہ تعالیٰ کے حضور ہے جو مضطر کی دعائیں سنتا ہے.جیسا کہ خود اس نے فرمایا ہے کہ میں ہی ہوں جو مضطر کی دعائیں سنتا ہوں.وہ لوگ جو تکلیف میں ہیں، وہ لوگ جن پر ظلم کیا جاتا ہے، وہ لوگ جن پر جینا تنگ کیا جاتا ہے، جب وہ بے چین ہوکر مجھے پکارتے ہیں تو میں ان کی تکلیفوں کو دور کرتا ہوں.فرماتا ہے آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ وَإِنَّهُ مَّعَ اللَّهِ - قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (سورۃ النمل آیت:63) نیز بتاؤ تو کون کسی بے کس کی دعا سنتا ہے جب وہ اس خدا سے دعا کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور وہ تم ( دعا کرنے والے انسانوں) کو ایک دن ساری زمین کا وارث بنادے گا.کیا اس قادر مطلق اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟ کم ہی ہیں جو نصیحت حاصل کرتے ہیں.پس ہم تو اس تمام طاقتوں کے مالک اور تمام صفات کاملہ سے متصف خدا کے ماننے والے ہیں.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم کہیں کہ خدا پہلے تو سنتا تھا ، آج نہیں سنتا.ہم یہ تو نہیں کہہ 187

Page 201

سکتے کہ پہلے تو اس میں یہ صفت تھی کہ براہ راست خلفاء بناتا تھا جو انبیاء کی صورت میں آئے ، لیکن اب اس کی یہ طاقت اور صفت ختم ہو گئی ہے.آج بھی وہ جسے چاہے کلیم اللہ بنا سکتا ہے.اور اس زمانے میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خاتم الخلفاء بنا کر اپنی اس صفت کا واضح اور روشن اظہار فرمایا ہے.اور جس خدا نے مسیح موعود کو بھیجا ہے وہ اس سے کئے گئے وعدے بھی یقیناً پورے کرے گا اور اس کے ماننے والوں کی متضرعانہ دعاؤں کو بھی سنے گا اور یقیناً سنے گا اور سنتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.” کلام الہی میں لفظ مضطر ضرر یافتہ مراد ہیں جو محض ابتلا کے طور پر ضر ر یافتہ ہوں نہ سزا کے طور پر.سے وہ دافع البلاء.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 231) اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادتوں اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھتے ہوئے ہم اس بات پر علی وجہ البصیرت قائم ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائے تو جاتے ہیں لیکن یہ آزمایا جانا سزا نہیں ہوتا بلکہ خدا ایمان کی مضبوطی کے لئے مومنوں کو آزماتا ہے.جماعت احمدیہ کی ایک سو اکیس سالہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی الہی تقدیر کے تحت جماعت پر ابتلاء آیا اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ثبات قدم عطا فرمایا، دعاؤں کی طرف راغب کیا اور جماعت کی متضرعانہ اور مضطر بانہ دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے کامیابیوں کی طرف پہلے سے بڑھ کر رواں دواں کر دیا اور بَشِّرِ الصَّابِرِين (البقرہ:156) کی خوشخبری کا مصداق بنا دیا.پس آج بھی جو ظلم جماعت پر پاکستان میں روا رکھا جا رہا ہے اور جس کی انتہائی بہیمانہ اور ظالمانہ صورت لاہور میں احمدیوں پر اجتماعی حملے کی صورت میں سامنے آئی اور حملہ بھی خدا کے گھر میں ، خدا کی عبادت کرنے والے نہتے احمدیوں پر.تو اُس وقت جب حملہ ہورہا تھا، اُس وقت جس صبر اور حوصلہ اور اضطرار سے احمدی دعائیں کر رہے تھے اور اس کے بعد آج تک احمدیوں میں اضطراری کیفیت قائم ہے اور دعاؤں میں مصروف ہیں، تو کیا خدا تعالیٰ ان دعاؤں کو نہیں سنے گا؟ سنے گا اور انشاء اللہ یقیناً سنے گا.یہ اس کا وعدہ ہے.یہ ظلم جو خدا 188

Page 202

کے نام پر خدا والوں سے روا رکھا گیا اور رکھا جا رہا ہے، کیا اس بات پر خدا کی غیرت جوش نہیں دکھائے گی؟ دکھائے گی اور یقیناً دکھائے گی.احمدیوں کو کیوں ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے؟ صرف اس بات پر یہ ظلم ہو رہا ہے کہ تم لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کے حقیقی معنی کو چھوڑ کر ان معنوں کی پیروی کرو جن سے اللہ اور اس کے رسول کی تحقیر اور تو ہین ہوتی ہے.احمدی اپنی گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں لیکن کبھی اللہ اور اس کے رسول کے نام کی تحقیر اور تو ہین برداشت نہیں کر سکتے.کبھی خدا تعالیٰ کی صفات کو محدود نہیں کر سکتے.کبھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام افضل الرسل اور خاتم النبین پر آنچ نہیں آنے دے سکتے.ہم کہتے ہیں لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کا مطلب ہے کہ ہمارا خدا ازل سے معبود حقیقی ہے اور ہمیشہ رہے گا.ہم کہتے ہیں ہمارے معبود حقیقی کی تمام صفات کا اظہار جیسے پہلے ہوتا تھا، آج بھی ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے.جس طرح پہلے وہ بگڑی ہوئی قوموں کی اصلاح کے لئے وحی و الہام کر کے اپنے خاص بندے بھیجتا تھا اس زمانے میں بھی اس نے بھیجا ہے.لیکن جیسا کہ اس کی سنت رہی ہے کبھی شرعی نبی بھیجتا رہا، کبھی غیر شرعی نبی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور قرآن کریم کے نازل ہونے کے بعد اس نے شریعت کامل کر دی اور قیامت تک ہر زمانے کے انسان کی ضروریات کے لئے اس نے کامل اور مکمل تعلیم اتار دی.لیکن اس کامل تعلیم کے سمجھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پیروی کرنے والے سے اب بھی اللہ تعالیٰ مکالمہ مخاطبہ کر کے اسے نبوت کے مقام تک پہنچا سکتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس نے پہنچایا.اس نے یہ مقام عطا فرمایا تا کہ اس تعلیم کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری، جسے مرورِ زمانہ کے ساتھ دنیا بھول رہی تھی، دوبارہ دنیا پر روشن کرے.تا کہ دنیا کو بتائے کہ لَا اِلهَ إِلَّا الله صرف زبانی اعلان نہیں ہے بلکہ ہمارا معبودوہ اللہ ہے جو آج بھی ان صفات کا جامع ہے جیسا ہمیشہ سے تھا.وہ آج بھی دین کا درد رکھنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی دعاؤں کو سنتے 189

Page 203

ہوئے ایسے شخص کو بھیج سکتا ہے اور بھیجا ہے جو معبود حقیقی اور واحد ویگا نہ خدا کی پہچان دنیا کو کروائے.پس اگر ہم منہ سے تو کہیں کہ لَا إِلهَ إِلَّا اللہ اور اس کی عبادت کرنے سے ہماری وہ دعا بھی قبول نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لئے ہم کر رہے ہیں.وہ دعا بھی قبول نہ ہو جو ایک خدا کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہم کر رہے ہیں.ہم پکار پکار کر کہیں کہ اے خدا! تیرے آخری کامل دین کے ماننے والوں کی حالت بھی بگڑ گئی ہے کوئی مسیحا بھیج جو پھر سے انہیں معبود حقیقی کے قدموں میں ڈالتے ہوئے عبادالرحمن بنادے.نیکن خدا کہے کہ بے شک میں معبود حقیقی ہوں لیکن نعوذ باللہ تمہاری اس دعا کو میں نہیں سن سکتا.آج بھی یہ غیر احمدی مسلمان چلا چلا کر کہ رہے ہیں کہ اسلام کی کشتی کو سنبھالنے کے لئے خلافت کا نظام ہونا ضروری ہے.لیکن جس خاتم الخلفاء کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت میں سرشار کر کے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے، اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ نہیں اب ایسا شخص خدا تعالیٰ نہیں بھیج سکتا.پس ہم تو لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کا یہ اور اک رکھتے ہیں کہ جب ہم نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کی عبادت کی ، اس کے سامنے جھکے تو اس نے کہا کہ لَا اِلهَ إِلَّا الله قائم کرنے کے لئے اس زمانے میں میں نے تمہاری تضرعات کو سنتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیج دیا ہے.جاؤ اور اس کے مددگار بن کر لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کو دنیا میں پھیلا دو اور ہر قسم کے شرک کو دنیا سے مٹانے کے لئے اس کی مدد کرو.لیکن ہمارے مخالفین کو یہ برداشت نہیں ہے.وہ کہتے ہیں کہ تم ہماری طرح منہ سے تو بیشک لا إِلهَ إِلَّا الله کہو، منہ سے تو بے شک کہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے لیکن یہ نہ کہو کہ وہ آج بھی ہماری دعاؤں کو سنتے ہوئے کوئی مصلح، کوئی مسیحا کوئی نبی دنیا میں بھیج سکتا ہے.اے مخالفین احمدیت ! غور سے سن لو کہ ایسی محدود طاقتوں والا خدا تمہارا معبود تو ہو سکتا ہے، ہمارا نہیں.ہمارا واحد و یگانہ معبودِ حقیقی تو وہ ہے جو تمام صفات کا حامل ہے، تمام طاقتوں کا مالک ہے اور ایسے خدا کو ہم کبھی نہیں 190

Page 204

چھوڑ سکتے کبھی نہیں چھوڑ سکتے اور کبھی نہیں چھوڑ سکتے خواہ ہماری گردنیں کٹ جائیں.پھر تم کہتے ہو کہ ہم اس بات سے انکار کر دیں کہ محمد، اللہ کے خاص رسول ہیں.وہ رسول ہیں جن کی رسالت کا اقرار کرنا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور معبود حقیقی ہونے کے اقرار کے ساتھ ضروری ہے.اس کے بغیر اب تا قیامت خدا تعالیٰ کا قرب پانا ممکن نہیں.اس اقرار کے بغیر اب تا قیامت دعاؤں کی قبولیت کی معراج حاصل کرنا ممکن نہیں.اللہ تعالیٰ انہی کی زیادہ سنتا ہے جو اس کے پیارے ہیں.اور اس قبولیت کے لئے جو نسخہ قرآنِ کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کروا کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ إنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله ( آل عمران : 32) کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو وہ تم سے محبت کرے گا.پس ہم تو جب اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو نہ سمجھیں اور آپ کی کامل پیروی کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہ پائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب یہ مسیحیت اور امامت زمانہ کا مقام ملا تو یہ مقام آپ علیہ السلام کو اپنے آقا کی کامل پیروی اور محبت کے نتیجہ میں ملا.چنانچہ اس مقام کے عطا ہونے سے پہلے آپ کو جو نظارہ دکھایا گیا اس میں فرشتوں نے یہی کہہ کر تو آپ کی طرف اشارہ کیا تھا کہ هذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُوْلَ الله ( تذکرہ صفحہ 34 ایڈیشن چہارم مطبعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ) یعنی یہ شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے.آپ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ اس مقام کی سب سے بڑی شرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے.اور فرشتوں نے اعلان کیا کہ یہ محبت کا جذ بہ سب سے زیادہ اس شخص میں پایا جاتا ہے.پس یہ وہ مقام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور حقیقی ادراک کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو عطا ہوا اور آپ کی وساطت سے ہمیں عطا ہوا.آپ خود ایک جگہ فرماتے ہیں: وو سو میں نے خدا کے فضل سے ، نہ اپنے کسی ہنر سے، اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو 191

Page 205

مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی.اور میرے لئے اس نعمت کا پا نا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 64) آپ فرماتے ہیں سو میں نے جو کچھ پایا، اُس پیروی سے پایا اور میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پا سکتا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحه 65-64) پس ہم نے اس زمانے کے امام، جسے خدا تعالیٰ نے مسیح و مہدی بنا کر بھیجا ہے، اس مسیح و مہدی سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عرفان حاصل کیا ہے کہ آپ کی کامل پیروی سے ، آپ سے عشق و محبت کے حقیقی اظہار اور عمل سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو منعم علیہ گروہ میں شامل کرتا ہے.جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ (النساء: 70) جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا.اور اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی وجہ سے مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ (النساء : 70) یعنی وہ لوگ نبیوں ،صدیقوں ،شہداء اور صالحین کے مقام سے حصہ پانے والے بن گئے.پس ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح ادراک رکھنے والوں اور آپ سے محبت رکھنے والوں کو ان درجات اور مرتبوں تک خدا تعالیٰ لے جاسکتا ہے اور لے جاتا ہے جو اس کے مقرب ترین بندے ہیں.مخالفین ہمیں کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی اس تعلیم کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی تعریف کرو ورنہ ہم تمہاری گردنیں کاٹیں گے.ہماری تعریف کے مطابق لَا اِلهَ إِلَّا الله پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو ٹھیک ورنہ مرنے کے لئے تیار ہو.ہماری تعریف کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کو سمجھنے کے لئے تیار ہوتو ٹھیک، ورنہ اپنی جان سے ہاتھ دھونے کے لئے تیار ہو جاؤ.ہم اپنے مخالفین سے کہتے ہیں کہ ہمیں اس کلمہ کی قسم جو قیامت کے دن ہمارے اور 192

Page 206

تمہارے درمیان فیصلہ کر کے بتائے گا کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ حقیقی وفا کرنے والے ہم ہیں کہ تم ؟ اس دنیا میں اپنی عارضی طاقت اور حکومتوں کی پشت پناہی کے زعم میں تم جو ظلم اور سفا کی ہم سے روا رکھ سکتے ہو، رکھ لو.لیکن ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس کلمہ کا یہی حقیقی فہم و ادراک آئندہ ہمیشہ کی زندگی میں جنت کی خوشخبریاں دیتا ہے.اس کلمہ سے ہی ختم نبوت کا حقیقی فہم خدا تعالیٰ سے ہدایت پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمایا ہے.پس لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ اس دنیا میں بھی ہمارے دل کی آواز ہے اور اگلے جہان میں بھی ہما را گواہ بن کر دشمن کے گریبانوں کو پکڑے گا.انشاء اللہ.ہم ببانگ دہل اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ مسیح محمدی کی بعثت سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام خاتمیت نبوت میں اضافہ ہوتا ہے.آپ کے امتی کو یہ بلند مقام ملنا آپ کی اعلیٰ شان کا اظہار ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ.برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 286 حاشیہ ) پس ہم تو اس تعلیم کو سینے سے چمٹائے ہوئے حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلی ترین شان کے قائم کرنے والے ہیں.ہم کسی مولوی، کسی عالم اور کسی حکومت کے خوف سے خوفزدہ ہو کر ، مال و جان کے ضائع کر دیئے جانے کی دھمکیوں سے ڈر کر قتل کے فتووں سے پریشان ہو کر، ظالمانہ طور پر گرنیڈوں کے حملوں اور گولیوں کی بوچھاڑ سے اپنے پیاروں کو شہادت کا رتبہ پاتے دیکھ کر اس شان محمدی کے قائم کرنے سے کبھی پیچھے ہٹنے والے نہیں.ہم جانتے ہیں کہ دشمن اپنی کئی ظالمانہ، سفاکانہ حرکات سے کبھی باز نہیں آئے گا کہ شیطان کے چیلوں کا یہی کام ہے.افسوس ہے تو صرف یہ کہ ظالم میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، امن و سلامتی کے پیامبر، محسن انسانیت کے نام کو استعمال کر کے اس ظلم کو روا 193

Page 207

رکھتے ہیں.جو رسول کمزوروں، بیواؤں ، تیموں کا سہارا بن کر آیا تھا یہ ظالم اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کمزوروں کے سہارے چھین رہے ہیں.بچوں اور سہاگنوں کو یتیم اور بیوہ کرنے کی ظالمانہ کوششیں کر رہے ہیں اور پھر اپنے اس فعل پر خوشی سے مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں.جو رسول انسانیت کی قدریں بحال کرنے آیا تھا ، جس نے جاہلوں اور اجڈوں کوانسان اور با خدا انسان بنایا تھا، یہ ظالم اس رسول کے نام پر انسانیت کی معمولی قدروں کو بھی پامال کرتے چلے جا رہے ہیں.اے ظالمو! خدا کے لئے ، خدا کے لئے میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بدنام نہ کرو.اگر تم اپنی ظالمانہ حرکات سے اپنی بدفطرتی کی وجہ سے باز نہیں آ سکتے تو نہ آؤ.اگر تم اپنے ظلم و بربریت کی مثالیں قائم کرنے سے نہیں رک سکتے تو نہ رکو.اگر تم احمدیوں پر ظلم و تعدی کا بازار گرم کرنا چاہتے ہو تو بے شک کرو اور کرتے چلے جاؤ.اس بارے میں اگر تم کسی حکومت کی اشیر باد لینا چاہتے ہو اور اس وجہ سے یہ کام کر رہے ہو تو بے شک کرو.لیکن میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر یہ مذموم حرکات نہ کرو.غور سے سن لو کہ تم لَا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ کے پیارے کلمے کو بدنام کرنے والے ہو نہ کہ احمدی.اگر تم اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہو تو خدا کے حضور روڈ اور فریاد کرو کہ اللہ تمہارے لئے نشان ظاہر کرے.لیکن یا درکھو کہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ کے اس فرستادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے خلاف دعا ئیں اور نالے بھی ہوا میں اُڑ جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام مخالفین کو یہ کھلا چیلنج دیا ہے کہ میرے پر بددعا ئیں خدا تعالیٰ کبھی نہیں سنے گا.آپ فرماتے ہیں: میں محض نصحت اللہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بد زبانیاں کرنا طریق شرافت نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی، لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں 194

Page 208

اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں.پھر اگر میں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی اور آپ لوگ ہمیشہ وہ دعائیں کرتے بھی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رورو کر سجدوں میں گریں کہ ناک ٹھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے ،تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں.جو شخص میرے پر بددعا کرے گا وہ بد دعا اسی پر پڑے گی.جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اس پر لعنت ہو وہ لعنت اس کے دل پر پڑتی ہے مگر اسے خبر نہیں“.( اربعین نمبر 4، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 472-471) آپ فرماتے ہیں : ” میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی.مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے.کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا.مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں.میں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں.اگر ان کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مُردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کے لئے دعائیں کریں، تو میرا خدا ان تمام دعاؤں کو لعنت کی شکل پر بنا کر ان کے منہ پر مارے گا.دیکھو صدہا دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں.اب اس آسمانی کا رروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو.وہ تمام مکر و فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تد بیراٹھا نہ رکھو.ناخنوں تک زور لگاؤ.اتنی بددعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟ خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں مگر بد قسمت انسان دور سے اعتراض کرتے ہیں.جن دلوں پر مہریں ہیں ان کا ہم کیا علاج کریں.اے خدا تو اس اُمت پر رحم کرے.(اربعین نمبر 4 ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 473) 195

Page 209

مخالفین احمدیت اور دشمنانِ احمدیت کے ظالمانہ فعل اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ دعاؤں سے اور دلائل سے تو جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے.انبیاء کے مخالفین کا رویہ اپناتے ہوئے طاقت اور حکومت سے مقابلہ کریں.پس جس حکومت و طاقت کا تمہیں زعم ہے اس کا استعمال بھی کر لو بلکہ گزشتہ ایک سو اکیس سال سے کر رہے ہو.کیا اس مخالفت سے احمدیت کے قدم رکے ہیں؟ احمدیت تو ہر جہت اور ہر سو پھیلتی چلی جا رہی ہے.ہر مخالفت کے بعد سعید فطرت احمدیت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.اس تازہ ظلم کے بعد بھی کئی سعید فطرت اس حوالے سے ہی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آئے ہیں.لاہور کے واقعہ کے بعد اس واقعہ کو دیکھ سن کر کافی بیعتیں بھی آرہی ہیں.اس واقعہ کے بعد یہ فتنہ وفساد پیدا کرنے والا ٹولہ جو ہے مخالفت اور گھٹیا زبان کے استعمال میں مزید بڑھا بھی ہے.اس کے باوجود لوگوں کی توجہ پیدا ہورہی ہے.ٹی وی پروگراموں میں بغیر کسی روک ٹوک کے ان کی دریدہ دہنی کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں.اور اگر کسی ٹی وی چینل نے احمدیوں کو وقوعہ کی روشنی میں حقائق پیش کرنے اور پاکستان کی تعمیر میں جماعت احمدیہ کے کردار کے بارے میں روشنی ڈالنے کے لئے بلانے کا اظہار کیا تو یا ملاں کے خوف سے یا حکومتی ادارے کے خوف سے اس پروگرام کے کرنے کی اجازت نہیں ملی یا خود ہی بعد میں کہہ دیا کہ ہمیں اجازت نہیں.اس لئے کہ ان کو پتہ ہے کہ قوم کی آنکھوں پر نام نہاد علماء کے غلط پرو پیگنڈے نے جو پردہ ڈالا ہوا ہے احمدیوں کا مؤقف سامنے آنے پر یہ پردہ چاک ہو جائے گا.جن کی احمدیوں کو گالیاں دینے اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کرنے کی وجہ سے روزی لگی ہوئی ہے ان کی وہ روٹی بند ہو جائے گی.پس یہ نفس پرست ملاں ہیں جنہوں نے بد قسمتی سے پاکستانی حکومتوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور حکومتیں بھی اپنا الہ ، اپنا معبودان ملا ؤں کو سمجھتے ہوئے آنکھیں اور کان بند کر دیتی ہیں.اے وہ لوگو! جو اپنی طاقت اور کثرت کے بل بوتے پر ظلم میں بڑھتے چلے جا رہے ہو اُس خدا سے ڈرو جو کہتا ہے سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ (الاعراف:183 ) ( اور 196

Page 210

ہم انہیں آہستہ آہستہ ایسے راستوں سے جن کو وہ جانتے نہیں ہلاکت کی طرف کھینچ لائیں گے) پس اپنی ہلاکت کو آواز نہ دو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور زمانے کے منادی کی آواز پر کان دھرو کہ وہ بھی آیت اللہ ہے.یہ نہ سمجھو کہ تمہاری مخالفت تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل کو اپنی فتح پر محمول نہ کرو.یہ ڈھیل تو تمہیں خدا تعالیٰ کے قول اُملِی لَهُمْ ( کہ میں انہیں ڈھیل دیتا ہوں ) کی وجہ سے مل رہی ہے.لیکن اس کے بعد کے انداری الفاظ پر بھی ذرا غور کرو جن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ كَيْدِى مَتِيْن.(الاعراف :184 ) ( کہ میری تدبیر بڑی مضبوط ہے).پس جب اللہ تعالیٰ حد سے بڑھے ہوؤں کے خلاف تدبیر کرتا ہے تو وہ انسانی سوچ کے دائرے سے باہر ہے.ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا تدبیر ہوگی.لیکن یہ ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو ضرور پورا کرتا ہے اور پورا کرے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” جو شخص خدا تعالیٰ کے مامور کی مخالفت کرتا ہے وہ اس کی نہیں بلکہ حقیقت میں وہ خدا کی مخالفت کرتا ہے.یاد رکھو خدا تعالیٰ اگر چہ سزا دینے میں دھیما ہے مگر جو لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے اور بجائے اس کے کہ اپنے گناہوں کا اقرار کر کے خدا تعالیٰ کے حضور جھک جائیں، الٹے خدا تعالیٰ کے رسول کو ستاتے اور دکھ دیتے ہیں، وہ آخر کار پکڑے جاتے ہیں اور ضرور پکڑے جاتے ہیں“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 413-412 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس اے احمد یو ! تم اس ظلم پر پریشان نہ ہو کہ الہی جماعتوں سے یہی ہمیشہ روارکھا گیا ہے.ان ظالموں کا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑو.جماعت احمدیہ کی ترقی ، جیسا کہ میں نے کہا ہے، نہ پہلے کبھی ان واقعات سے رکی ہے نہ آئندہ انشاء اللہ رکے گی.ظالموں کو اللہ تعالیٰ پکڑے گا اور ضرور پکڑے گا.ہمارا کام خدا تعالیٰ کے حضور جھکنا ہے اور اس کی رحمت کو جذب کرنا ہے.جب ہم نے یہ اعلان کیا ہے کہ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيْمَانَ (آل عمران : 194 ) کہ اے ہمارے رب! ہم نے یقینا ایک پکارنے والے کی آواز کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا 197

Page 211

تهَا أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُم کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ.اس بات پر ایمان لاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے.اس بات پر ایمان لاؤ کہ زمین و آسمان کا پالنے والا وہ خدا ہے جو تمام طاقتوں کا مالک ہے.اس بات پر ایمان لاؤ کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور اس میں موجود ہر چیز کی پیدائش اور پرورش کرنے والا وہی رب ہے.اس بات پر ایمان لاؤ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہیں اور آپ پر شریعت کامل ہوئی ہے.اس بات پر ایمان لاؤ کہ قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے جو رب العالمین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے.اس بات پر ایمان لاؤ کہ فرشتے برحق ہیں اور جس طرح پہلے اپنے مفوضہ فرائض کو سرانجام دیتے تھے آج بھی سرانجام دیتے ہیں.وحی والہام کرنے والے فرشتے جس طرح پہلے فعال تھے آج بھی فعال ہیں.روح القدس کی تائیدات جس طرح پہلے اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کے ساتھ تھیں آج بھی ساتھ ہیں.اس بات پر ایمان لاؤ کہ پہلے انبیاء پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتابیں نازل ہوئیں.اس بات پر ایمان لاؤ کہ تمام رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں کچھ شریعت اور کتاب لے کر اور کچھ اپنے سے پہلے انبیاء کی تعلیم کو آگے پھیلانے کے لئے.اس بات پر ایمان لاؤ کہ تمام رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس لحاظ سے سب برابر ہیں.اس بات پر ایمان لاؤ کہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آخرین میں جو نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں مبعوث ہونا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق مبعوث فرما دیا ہے.یہ سب سننے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ فَامند پس ہم ایمان لائے.اے عاشق رسول اور مسیح و مہدی ! ہم تجھے ہی وہ منادی سمجھتے ہیں جس کے آنے کا خدا تعالیٰ نے اس زمانے میں وعدہ فرمایا.ہم کامل طور پر تیری اطاعت کرنے اور اس کامل شریعت کی پیروی کرنے کا عہد کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری.اور جسے اس زمانے میں دنیا میں پھیلانے کا کام خدا تعالیٰ نے اے مسیح موعود تیرے سپرد کیا.اے اللہ ! مجیب الدعوات اور غفور الرحیم ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے تجھ سے یہ دعا 198

Page 212

مانگتے ہیں کہ تادم آخر ہمیں اس ایمان پر قائم رکھ جس کا عہد ہم نے تیرے فرستادے سے عہد بیعت کی صورت میں کیا ہے.رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَيِّاتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الأبْرَارِ ( آل عمران : 194) اے ہمارے رب! تو ہمارے قصور معاف کر اور ہماری بدیاں ہم سے مٹادے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ وفات دے.پس ہم عہدِ بیعت اسی صورت میں نبھا سکتے ہیں جب ہم خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں، جب ہم برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں.ہماری موت سبھی ان نیک لوگوں کے ساتھ ہو سکتی ہے جب ہم اپنے اعمال پر نظر رکھیں ، جب ہم اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی ہر دم کوشش کرتے رہیں.کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے عہد بیعت کو نبھایا ، جنہوں نے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی سند حاصل کی.ہم شہداء کے واقعات سنتے ہیں ، بعض لکھنے والے مجھے لکھتے ہیں کہ آج کل خطبات میں جو شہداء کا ذکر ہو رہا ہے اور بعض کو ان میں سے ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں اور ان کا ذاتی تجربہ ہے یقیناً ان میں سے ہر ایک اپنا عہد پورا کرنے والا اور ایک روشن چمکدار ستارہ تھا.قطب ستارے یا بعض ستارے تو ارضی راستوں کی نشاندہی کرتے ہوئے رہنمائی کرتے ہیں.یہ لوگ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں.یہ لوگ عشق و وفا کے لہلہاتے کھیتوں کی طرف ہمیں لے جانے والے ہیں.پس یہ لوگ ہیں جنہوں نے عہد بیعت نبھایا ہے.حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کے ذکر کے بعد ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے ، اس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف کی روح رکھتے ہوں“.( تذكرة الشهادتين ، روحانی خزائن جلد 20 صفحه 75) 199

Page 213

(تذکرة الشهادتين ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 76-75) پھر اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سرو کی کائی گئی اور میں نے کہا کہ اس شاخ کو زمین میں دوبارہ نصب کر دو تا وہ بڑھے اور پھولے.اس کشف کو حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید کے واقعہ پر محمول کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ” سو میں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا.سو میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جائے گی“.پس جو مالی اور جانی قربانیاں کرتے ہوئے اپنے عہد بیعت کو نبھا گئے وہ بے شک اسی کشف کے مصداق اور اس شاخ کے بغل بچے ہیں جو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی صورت میں زمین میں گاڑی گئی تھی.یہ تو خدا تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کس کو اس نے شہادت کا درجہ دینا ہے اور کس سے کسی اور رنگ میں کام لینا ہے.لیکن آج ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ اپنے عہد بیعت کو نبھاتے ہوئے اپنے اندر وہ انقلاب عظیم پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے مقرب بنیں جو انقلاب زمانے کے منادی ہم میں روحانی طور پر پیدا کرنا چاہتے تھے.جو روحانی انقلاب اور مسیح محمدی سے تعلق حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید نے دکھایا تھا وہ ہمیں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ کے کلمے کی عملی تصویر بننے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں.ورنہ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي (آل عمران:194) کا نعرہ بے فائدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ ہمارا ایمان کامل کرنے کے لئے آپ نے کیا طریق بتائے ہیں؟ یہاں کچھ ذکر کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سب سے بنیادی چیز ایک مومن کے ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے.اور یہ ایمان اس وقت تک اعلیٰ درجے تک نہیں پہنچتا جب تک خدا تعالیٰ سے بے غرض محبت نہ ہو.(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 508 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) 200

Page 214

( ملفوظات جلد 2 صفحہ 133 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) فرمایا: ” مسلمان وہ ہے جو اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے وقف کر دے اور سپر د کر دے اور اعتقادی اور عملی طور پر اس کا مقصود اور غرض اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اور خوشنودی ہو“.فرمایا: ایک حقیقی مسلمان اللہ تعالیٰ سے پیار کرتا ہے یہ کہہ کر اور مان کر کہ وہ میرا محبوب ومولا پیدا کرنے والا اور محسن ہے، اس لئے اس کے آستانہ پر سر رکھ دیتا ہے.سچے مسلمان کو اگر کہا جاوے کہ ان اعمال کی پاداش میں کچھ بھی نہیں ملے گا اور نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے اور نہ آرام ہیں نہ لذات ہیں تو وہ اپنے اعمالِ صالحہ اور محبت الہی کو ہرگز ہرگز چھوڑ نہیں سکتا.کیونکہ اس کی عبادات اور خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس کی فرمانبرداری اور اطاعت میں فنا کسی پاداش یا اجر کی بناء اور امید پر نہیں ہے.(ملفوظات جلد 2 صفحہ 133 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) پھر آپ فرماتے ہیں: ” تمہارا فرض ہے کہ بچی تو بہ کرو اور اپنی سچائی اور وفا داری سے خدا کو راضی کرو تا کہ تمہارا آفتاب غروب نہ ہو.(ملفوظات جلد 2 صفحہ 140 جدید ایڈیشن مطبوعه ر بوه) پس مسیح محمدی کی بیعت میں آ کر جس آفتاب صداقت اور نور محمدی سے ہم احمدی فیض پا رہے ہیں جس سے دوسرے مسلمانوں نے باوجود اس سورج کے پاس ہونے کے فائدہ نہیں اٹھایا اس سورج کو ہمیشہ چمکتا اور روشن رکھنے اور فیض حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے تعلق کی ضرورت ہے.مجھے ان دہشتگردی کے واقعات کے بعد جس کثرت سے اس مضمون کے خط آ رہے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے قریب ہوئے ہیں اور ہمارے ایمان میں ترقی ہوئی ہے اس تعلق میں خدا تعالیٰ کی قربت کے مزید مدارج طے کرنے کی طرف ہر احمدی کو اب مستقل مزاجی سے توجہ کی ضرورت ہے.پھر دیکھیں وہ خدا جو ہمارا خدا اور سب طاقتوں والا خدا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے گئے اپنے تائیدات کے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے کس تیزی سے اپنی تائیدات کے نظارے دکھاتے ہوئے دشمن کے ہر مکر کو اُس پر الٹاتا چلا جائے گا.آج تک ہم نے خدا تعالیٰ کی فعلی شہادتیں مسیح محمدی کے قائم کردہ اس سلسلے کے ساتھ ہی دیکھی ہیں اور 201

Page 215

اس کو دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں اور جو خدا آج تک جماعت احمدیہ کی حفاظت کرتا آیا ہے اور ترقی کی نئی راہیں دکھاتا رہا ہے اور دکھاتا چلا جا رہا ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی دکھائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ”اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے دو فریق ہو گئے ہیں.جس طرح ہماری جماعت شرح صدر سے اپنے آپ کو حق پر جانتی ہے اسی طرح مخالف اپنے غلو میں ہر قسم کی بے حیائی اور جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں.شیطان نے ان کے دلوں میں جما دیا ہے کہ ہماری نسبت ہر قسم کا افترا اور بہتان ان کے لئے جائز ہے اور نہ صرف جائز بلکہ ثواب کا کام ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 176 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اور یہ بات آج بھی سچ ہے.مجھے کسی نے بتایا کہ لاہور میں مسجد پر حملے کے بعد ان کا کوئی عزیز ٹیکسی پر بیٹھا تو باتوں باتوں میں ڈرائیور سے اس نے کہا کہ کیا خیال ہے یہ ظلم نہیں ہوا جواحمدیوں کی مسجد میں فائرنگ ہوئی ہے اور ظلم ہوا ہے؟ تو ڈرائیور نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ بالکل ٹھیک ہوا کیونکہ اس مسجد ( وہ مسجد تو نہیں کہتے عبادت گاہ کہتے ہیں ) کے اندر یہ لوگ ایک بڑا خطرناک کام کر رہے تھے جس سے تمام امت مسلمہ تباہ ہو سکتی تھی.نعوذ باللہ.تو یہ باتیں علم نہ رکھنے والے عوام کے دماغوں اور دلوں میں جھوٹی کہانیاں سنا سنا کر ان نام نہاد علماء نے ہی بھری ہوئی ہیں.اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ، تا کہ اس کا جواز بنا کر پھر احمد یوں پر ظلم کئے جائیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کی ان باتوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جھوٹ سچ کی تمیز تو اب ان کو رہی نہیں.اس لئے اب ضروری ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو ان کے مقابلے میں بالکل چھوڑ دیں، یعنی ان کے الزامات پر صفائیاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اور خدا تعالیٰ کے فیصلے پر نگاہ کریں.اب مقابلے کو چھوڑ دیں اور خدا تعالیٰ کے فیصلے پر نگاہ کریں.” جس قدر وقت ان کی بیہودگیوں اور گالیوں کی طرف توجہ کرنے میں ضائع کریں بہتر ہے کہ وہی وقت استغفار اور دعاؤں کے لئے دیں.آپ فرماتے ہیں کہ ” جس قدر وقت اُن کی بیہودگیوں اور گالیوں کی طرف توجہ کرنے " 202

Page 216

میں ضائع کریں بہتر ہے کہ وہی وقت استغفار اور دعاؤں کے لئے دیں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 177-176 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) ہاں تبلیغ کرنا ہمارا کام ہے اس لئے کہ بہت سے سعید فطرت حقیقت جاننا چاہتے ہیں.ان کی رہنمائی بہر حال ہم نے کرنی ہے.اور یہ دیکھ کر خود اس لئے ہمارے پاس آتے بھی ہیں.اس لئے وہ کام تو جاری رہے گا.لیکن ان مولویوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کی ہر بات ہر گالی کا جواب دینے کے لئے جو بعض لوگوں کو خیال آتا ہے کہ دیا جائے ، وہ غلط ہے.آپ اپنی طاقتیں ضائع کرنے کی بجائے اتنا عرصہ دعاؤں اور استغفار میں اپنا وقت گزاریں.کیونکہ یہ دریدہ دہن علمائے سوء جو ہیں، ان کے ساتھ بحث کرنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں ، کیونکہ انہوں نے تو ماننا نہیں، چکنے گھڑے ہیں.ان کی روزی مرتی ہے.پس اگر ہم دعاؤں اور استغفار میں اس کا حق ادا کرتے ہوئے بجت گئے.اگر ہم نے مسیح محمدی کے ارشادات پر صحیح رنگ میں عمل کیا، وہ تبدیلیاں پیدا کر لیں جو اس زمانے کے امام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں.اپنی راتوں کو دعاؤں سے سجاتے رہے.استغفار کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے رہے، تو یہ مخالفتیں اور ظلم جو درحقیقت جماعت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لئے کی جارہی ہیں یہ جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتیں.ان مخالفتوں کے پھل یقیناً جماعت کی کامیابی کی صورت میں لگتے ہیں اور ضرور لگتے ہیں اور لگ رہے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہزار کوششوں کے باوجود بھی جماعت کو پھلنے پھولنے اور بڑھنے سے نہیں روک سکتی.اگر ہمارا اپنے معبود حقیقی سے تعلق مضبوطی کی طرف بڑھتا چلا جائے تو جماعت کی عظیم کامیابیوں کو ہم اپنی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں.بڑا احمق ہے دشمن جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے مالی نقصان ہمیں اپنے دین سے پیچھے ہٹا دیں گے.بڑا کم عقل اور خوش فہم ہے ہمارا دشمن جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے جانی نقصان ہمارے ایمان میں کمزوری پیدا کر دیں گے.ہم نے تو یہ نظارے دیکھے ہیں کہ باپ کے شہید ہونے پر اس کے نو دس سالہ بیٹے کو ماں نے اگلے جمعہ مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لئے بھیج دیا اور کہا کہ وہیں کھڑے ہو کر جمعہ پڑھنا 203

Page 217

ہے جہاں تمہارا باپ شہید ہوا تھا تا کہ تمہارے ذہن میں یہ رہے کہ میرا باپ ایک عظیم مقصد کے لئے شہید ہوا تھا، تا کہ تمہیں یہ احساس رہے کہ موت ہمیں اپنے عظیم مقصد کے حصول سے کبھی خوفزدہ نہیں کر سکتی.جہاں ایسے بچے پیدا ہوں گے، جہاں ایسی مائیں اپنے بچوں کی تربیت کر رہی ہوں گی وہ قومیں کبھی موت سے ڈرا نہیں کرتیں.اور کوئی دشمن ، کوئی دنیاوی طاقت ان کی ترقی کو روک نہیں سکتا.یہ مالی اور جانی نقصان ہونے کی اطلاع تو آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے خدا نے ہمیں دے دی تھی اور ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ ، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے عمل سے اس کی مثالیں بھی قائم فرما دی تھیں اور جب آخرین کو پہلوں سے جوڑا تو یہ واضح کر دیا کہ یہ مثالیں آخرین بھی قائم کریں گے.اور پھر بَشِّرِ الصَّابِرِين (البقرہ: 156) کہہ کر آخرین کو بھی ان قربانیوں کے بدلے جنتوں اور فتوحات کی خوشخبری سنادی.پس ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ان واقعات نے جو جماعتی قربانی کی صورت میں ہوئے جس طرح پہلے سے بڑھ کر ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف راغب کیا ہے، اس جذبے کو ، اس ایمانی حرارت کو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی آہ و بکا کے عمل کو، اپنے اندر پاک تبدیلیوں کی کوششوں کو کبھی کمزور نہ ہونے دیں، کبھی کمزور نہ ہونے دیں، کبھی اپنے بھائیوں کی قربانی کو مرنے نہ دیں جو اپنی جان کی قربانیاں دے کر ہمیں زندگی کے نئے راستے دکھا گئے.اگر ہم نے اپنی سوچوں اور اپنے عملوں کو اس نہج پر چلایا تو خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت کے نظارے بھی ہم دیکھیں گے، انشاء اللہ.اور أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيْب (البقرة:215) ( یا درکھو کہ اللہ کی مدد یقیناً قریب ہے) کی جاں فزا اور پُر شوکت آواز بھی ہم سنیں گے.اور انا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحاً مبينا (الحج) کی خوشخبری اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے.پس خدا کے حضور جھک جائیں اور اپنے خدا کے حضور جو سب طاقتوں کا مالک ہے جو مجیب الدعوات ہے اس طرح چلا ئیں کہ عرش کے کنگرے بھی ملنے لگیں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی ایسی دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے.204

Page 218

اے اللہ! تو ہم کمزوروں کو باوجود ہماری تمام تر کمزوریوں کے ہر آن اپنے مسیح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق سے کئے گئے وعدوں کے پورا ہونے کے نظارے دکھاتا چلا جا.ہماری کمزوریوں سے صرف نظر فرما.ہمارے گناہوں کو معاف فرما.ہمیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے.کبھی کوئی ابتلاء، کوئی امتحان ہمارے ایمانوں میں کمزوری پیدا کرنے کا باعث نہ بنے.ہمارے ایمانوں میں پہلے سے بڑھ کر مضبوطی عطا فرما.ہماری پردہ پوشی فرما.مخالفین اور منافقین کے ہر شر سے ہمیں بچا.مخالفین پر ہمیں فتح و کامیابی عطا فرما.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( البقرة 251) اب ہم دعا کریں گے.دعا میں اپنے سب شہداء اور ان کے خاندانوں کو بھی یادرکھیں، اسیران کو بھی یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے اور خیریت سے اپنے گھروں کو لے کر جائے.اب دعا کر لیں.205

Page 219

تصاویر شہداء لاہور

Page 220

607

Page 221

مکرم منیر احمد شیخ صاحب مکرم میجر جنرل (ریٹائرڈ) ناصر احمد چوہدری صاحب مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب مکرم محمد اشرف بلال صاحب

Page 222

مکرم کیپٹن (ریٹائرڈ) مرزا نعیم الدین مکرم کامران ارشد صاحب مکرم اعجاز احمد بیگ صاحب مکرم مرزا اکرم بیگ صاحب

Page 223

مکرم منور احمد خان صاحب مکرم عرفان احمد ناصر صاحب مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب مکرم مسعود احمد اختر ہا جوہ صاحب

Page 224

مکرم محمد آصف فاروق صاحب مکرم شیخ شمیم احمد صاحب مکرم محمد شاہد صاحب مکرم پروفیسر عبد الودود صاحب

Page 225

مکرم ولید احمد صاحب مکرم محمد انور صاحب مکرم ملک انصار الحق صاحب مکرم ناصر محمود خان صاحب

Page 226

Friends! th dancing & sin preading far Test, The d rden are go rishing of مکرم عمیر احمد ملک صاحب مکرم سردار افتقار الغنی صاحب مکرم عبد الرشید ملک صاحب مکرم محمد رشید ہاشمی صاحب

Page 227

مکرم مظفر احمد صاحب مکرم میاں مبشر احمد صاحب مکرم فداحسین صاحب مکرم خاور ایوب صاحب

Page 228

مکرم شیخ محمد یونس صاحب مکرم سعود احمد بھٹی صاحب مکرم حاجی محمد اکرم ورک صاحب مکرم میاں لئیق احمد صاحب

Page 229

مکرم مرزا شابل منیر صاحب مکرم ملک مقصود احمد صاحب (سرائے والا ) مکرم چوہدری محمد احمد صاحب مکرم الیاس احمد اسلم قریشی صاحب

Page 230

مکرم طاہر محمود احمد صاحب مکرم سید ارشاد علی صاحب مکرم نور الامین صاحب مکرم چوہدری محمد مالک صاحب چدھڑ

Page 231

مکرم شیخ ساجد نعیم صاحب مکرم سید تحقیق احمد صاحب مکرم محمد اشرف پهلر صاحب مکرم مبارک احمد طاہر صاحب

Page 232

مکرم انیس احمد صاحب مکرم منور احمد صاحب تکریم سعید احمد طاہر صاحب مکرم خلیل احمد سولنگی صاحب

Page 233

مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب مکرم چوہدری حفیظ احمد کاہلوں صاحب ایڈووکیٹ مکرم چوہدری امتیاز احمد صاحب مکرم اعجاز الحق صاحب

Page 234

مکرم شیخ ندیم احمد طارق صاحب مکرم عامر لطیف پراچہ صاحب مکرم مرز اظفر احمد صاحب مکرم محمود احمد صاحب

Page 235

مکرم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب مکرم مرز امتصور بیگ صاحب مکرم میاں منیر عمر صاحب مکرم ڈاکٹر طارق بشیر صاحب

Page 236

مکرم ارشد محمود بٹ صاحب مکرم محمد حسین مسلمی صاحب مکرم مرزا محمد امین صاحب تکریم ملک زبیر احمد صاحب

Page 237

مکرم چوہدری محمد نواز حجہ صاحب مکرم شیخ مبشر احمد صاحب 9) مکرم عبد الرحمن صاحب مکرم شما ر احمد صاحب

Page 238

مکرم ڈاکٹر اصغر یعقوب خان صاحب مکرم میاں محمد سعید در د صاحب مکرم محمد یحیی خان صاحب مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب

Page 239

مکرم لعل خان ناصر صاحب مکرم ظفر اقبال صاحب مکرم منصور احمد صاحب مکرم مبارک علی اعوان صاحب

Page 240

مکرم عتیق الرحمن ظفر صاحب مکرم محمود احمد صاحب مکرم احسان احمد خان صاحب مکرم منور احمد قیصر صاحب

Page 241

مکرم حسن خورشید اعوان صاحب مکرم و محترم محمود احمد شاد صاحب (مربی سلسلہ ) مکرم وسیم احمد صاحب مکرم ملک و سیم احمد صاحب

Page 242

مکرم نذیر احمد صاحب مکرم محمد حسین صاحب

Page 243

Eulogy to the Lahore Martyrs 28 May 2010.Hundreds of worshippers are gathered to attend the Friday Prayers at Darul Zikr and Baitul Nur - two mosques belonging to the Ahmadiyya Muslim community in Lahore, Pakistan.As the Imams deliver their speeches, masked gunmen force their way inside in simultaneous attacks on the two mosques.They start firing indiscriminately, lobbing grenades into the packed congregations.One of the terrorists runs towards a busy area, and blows himself up.A bloodbath ensues.86 Ahmadis would depart this world on that day.But they leave behind stories of unbelievable bravery and selflessness that will live on forever two teenagers grapple a terrorist wearing a suicide jacket, dying men being brought water, only to pass it to those nearby; a 65 year old man runs into a spray of bullets to save those behind him - fearless in death, and role models in life - the 86 martyrs were unique individuals loving husbands, exceptional fathers, and caring sons - as families, friends and neighbours would all testify.This book consists of seven Friday Sermons and the concluding session of Jalsa Salana (Annual Gathering) Germany 2010, delivered by Hadrat Mirza Masroor Ahmad, Khalifatul Masih V, Head of the Worldwide Aḥmadiyya Muslim community, who praises the faith-inspiring lives of each of the martyrs of Lahore, and recounts the horrific events that transpires on that fateful day.ISBN 184880108-4 9781848801080">

Page 243