Shri Krishan Ji Aur Kalki Avtaar

Shri Krishan Ji Aur Kalki Avtaar

شری کرشن جی اور کلکی اوتار

Author: Other Authors

Language: UR

UR
دنیائے مذہب

Book Content

Page 1

شری کرشن جی اور کلکی اوتا ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

بسم الله الرحمن الرحيم شری کرشن جی اور کلکی اوتار مؤلفه مولوی بر بان احمد ظفر در آنی

Page 3

نام کتاب مرتبہ شری کرشن جی اور کلکی اوتار مولوی برہان احمد ظفر درانی اشاعت با راول $1991 اشاعت بار دوم اشاعت با رسوم تعداد $2002 : $2013 : 1000 ناشر مطبع نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمدیہ قادیان-143516 ضلع گورداسپور، پنجاب (انڈیا) فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN:81-7912-043-0 SHRI KRISHAN JI AUR KALKI AVATAR (IN URDU) BY: BURHAN AHMAD ZAFAR DURRANI

Page 4

ترتیب شری کرشن جی اور کلکی اوتار نمبر شمار عنوان صفحه نمبر 1 پیش لفظ ۴ ۱۲ ۱۴ ۲۳ ۲۶ ۳۰ شری کرشن جی اور کلکی اوتار آمد انبیاء عام مسلمان شری کرشن کو نبی تسلیم کیوں نہیں کرتے شری کرشن مسلمانوں کی نظر میں کتب ہنود میں توحید قصے کہانیاں اور کرشن جی شری کرشن پر لگنے والے الزامات اور انکی حقیقت ماکھن چور کی حقیقت نہاتی عورتوں کے کپڑے اُٹھانے کی حقیقت ۶ Δ 1.

Page 5

شری کرشن جی اور کلکی اوتار صفحہ نمبر ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۸ ۳۹ ۴۲ ۴۴ ۴۴ ۴۵ ۵۰ ۵۱ ۵۲ نمبر شمار عنوان گوپیوں کی حقیقت ۱۲ بانسری کی حقیقت گائیوں کی حقیقت ۱۴ کلکی اوتار کا ظہور کلجگ کی نشانیاں کلیگی او تار کا انتظار مسلمانوں کا انتظار عیسائیوں کا انتظار آنے والا او تار موعود اقوام عالم کلکی اوتار کا نام احمد ہو گا کلکی اوتار کے آنے کا مقام کلکی اوتار کا ظہور ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۲

Page 6

شری کرشن جی اور کلکی اوتار بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ جماعت احمد یہ ہمیشہ سے اس کوشش میں رہی ہے کہ بین المذاہب پائے جانے والے اختلافات کو قرآن کریم کی تعلیم کے تابع دُور کیا جائے اور خاص طور سے وہ موضوعات جو اختلافات کا باعث بنتے ہیں ان میں مطابقت پیدا کی جائے.خدا تعالیٰ کی طرف سے آمد انبیاء کا سلسلہ آفرینش سے جاری ہے اور قرآن کریم کی پیش کردہ تعلیم وَلِكُلِ قَوْمٍ هَادٍ کے تحت ہر ملک و ہر قوم اور ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کے انبیاء مبعوث ہوتے رہے ہیں.قرآن کریم کے اس بیان کی روشنی میں ضروری تھا کہ ہندوستان میں بھی انبیاء مبعوث ہوتے.یہاں کی قومیں جن بزرگوں کو اپنے نبی کا درجہ دیتی ہیں ان میں شری کرشن جی کا بہت بڑا مقام ہے.اس کتاب میں مولوی برہان احمد صاحب ظفر نے ان کا ہی ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ بیشتر علماء اسلام اور بزرگان امت بھی ان کو خدا کا نبی تسلیم کرتے آئے ہیں.نیز آپ نے شری کرشن کی طرف منسوب کئے جانے والے الزامات سے کرشن جی کے دامن کو پاک صاف کرنے کی بڑی عمدہ کوشش کی ہے.ساتھ ہی کرشن جی کی آمد ثانی کو بیان کرتے ہوئے بین المذاہب اتحاد کی کوشش بھی.خدا تعالیٰ ان کی ان کوششوں کو ثمر آور کرے.آمین.سیدنا سید نا حضرت خلیفتہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے نظارت نشر و اشاعت قادیان کتاب ہذا کو افادہ عام کے لئے شائع کر رہی ہے.دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے بہترین نتائج پیدا فرمائے.آمین.خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان

Page 7

بسم الله الرحمن الرحيم خدا تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو اس کے ساتھ ہی نبیوں کی آمد کا سلسلہ جاری فرما کر انسان کی رُوحانی ترقی کے سامان بھی پیدا کئے.جیسے جیسے انسان دنیاوی لحاظ سے ترقی کرتا گیا ویسے ویسے خدا تعالیٰ نے اس کی ذہنی استعدادوں کے مطابق اس کو روحانیت میں ترقی دینے کے لئے نئی نئی تعلیمات سے آراستہ کر کے ان میں نبی بھیجے.یہی وجہ ہے کہ مختلف زمانوں میں مختلف نبیوں کے نام سننے میں آتے ہیں.لیکن یہ سب نبی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سچی اور حقیقی تعلیم لے کر آئے تھے.ہر آنے والا نبی اپنے سابقہ نبی کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے صادر ہونے والے نئے احکام بھی دنیا والوں کو دیتا.جو آنے والے نبی کو مان لیتے اور سابقہ احکامات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ نئے احکاموں کو بھی قبول کر لیتے وہ گویا ایک نئے مذہب میں داخل ہو جاتے اور نہ ماننے والے اپنے پہلے والے نبی کے احکامات پر عمل کرنے کی وجہ سے پہلے والے مذہب میں شمار ہوتے.اسی طرح انبیاء کا سلسلہ چلتا رہا نئے نئے احکام آتے رہے اور نئے نئے مذہب دنیا میں بنتے گئے.لیکن اگر دیکھا جائے تو پہلے نبی کی حقیقی تعلیم جو بھی وہ خدا کی طرف سے لایا تھا اس کی جھلک ہر آنے والے نبی کی تعلیم میں موجود ہے.اس طرح یہ سلسلہ آخر تک چلا جاتا ہے.مذہبی تعلیم کے ارتقاء کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ جیسے انسان نے دنیاوی لحاظ سے آہستہ آہستہ ترقی کی.اس کے غور و فکر کرنے کی استعداد میں آہستہ آہستہ اُجاگر

Page 8

ہوئیں اور عقلی اعتبار سے ترقی کرتا گیا اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے بھی انسانی عقل کے ارتقاء کو مدنظر رکھتے ہوئے انبیاء کے ذریعہ روحانی ترقی کے سامان پیدا کئے.انسانی فطرت میں ایک بات یہ داخل ہے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے مذہب اور عقیدہ کو چھوڑنے کے لئے بالکل راضی نہیں ہوتا ہے.اپنے منہ سے تو یہ بات کہے گا کہ تم جو بات کرتے ہو وہ درست ہے لیکن ہمارے باپ دادے ایسا ہی کرتے تھے اس لئے ہم بھی ایسا ہی کریں گے اور یہ بات صرف اور صرف مذہب کے معاملہ میں بیان کی جاتی ہے دنیا داری کے معاملہ میں نہیں.دنیا داری کے معاملہ میں تو انسان جنگلوں سے نکل کر محلوں میں چلے گئے.نگارہن چھوڑ کر لباس حریر کی طرف چلے گئے.زمین کو چھوڑ کر چاند پر چلے گئے.گویا کہ ہر میدان میں تدریجا ترقی کی.اگر انسان نے ترقی نہیں کی اور ترقی کرنی نہیں چاہی تو وہ دین میں اور خدا کی طرف سے نازل کردہ تعلیمات کے حصول میں اور رُوحانیت کے حاصل کرنے کے لئے آسان راستوں کو اختیار کرنے میں اور جب بھی کبھی خدا کی طرف سے کوئی ہدایت دینے والا آیا تو اس زمانہ کے لوگوں نے اس کو ٹھکرادیا اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : وَإِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا انْزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الْفَيْنَا عَلَيْهِ ابَاءَنَاء (البقرة آیت ۱۷۱) یعنی اور جب ان سے کہا جائے کہ اس ( کلام) کو جو اللہ نے اُتارا ہے پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں کہ (نہیں) ہم تو اسی (طریقہ ) کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا.یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اس قدر مذاہب دیکھنے میں آتے ہیں.کسی نے کسی نبی کا انکار کر دیا اور کسی نے کسی کا.اگر سب لوگ یکے بعد دیگرے آنے والے نبیوں کو قبول کرتے چلے

Page 9

جاتے تو آج ساری دنیا امت واحدہ ہوتی.خدا کا منشاء ہی یہ تھا کہ وہ سارے انسانوں کو جو مختلف بلا دو امصار میں آباد تھے آہستہ آہستہ ترقی دے کر اُسے اُمتِ واحدہ بنادیتا.امت واحدہ بنانے اور مذہب کے ارتقاء کی مثال اس طرح بھی دی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بچے کو اعلی تعلیم دلانا چاہے تو وہ پہلے دن ہی اونچے درجات کی کتابیں اسے لاکر نہیں دیتا بلکہ اس کی عقل کے مطابق ابتدائی تعلیم کی کتب وہ بھی بتصویر لا کر دیتا ہے تا کہ وہ تصاویر کو دیکھ کر الفاظ کو پہچان سکے.اس کے برعکس اگر اسے اونچے درجات کی کتب لاکر دی جائیں تو وہ اس کو پھاڑنے کے سوائے کوئی کام نہ کرے گا.ایسی صورت میں کیا ہم اس بچے کو بیوقوف کہیں گے یا پھر وہ بیوقوف ہوگا جو اسے ابتدائی کتب کی بجائے اونچے درجات کی کتب دیتا ہے.بالکل یہی مفہوم اس آیت کا ہوگا کہ تمہارے آباؤ اجداد اس تعلیم کو پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے جیسا کہ تم رکھتے ہو.وہ لوگ جو مذاہب کی ابتدائی تعلیم پر بیٹھے ہیں ان کو اس نکتہ پر غور کرنا چاہئے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے نبی کے بعد کسی اور نبی نے کوئی تعلیم لانی تھی تو ہمارے نبی کو ہی کیوں نہ دی گئی.اس لئے اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں.بڑی حیرت کی بات ہے کہ ایک انسان جو ایک بچے کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی خاطر بڑی حکمت سے کام لیتا ہے اور درجہ بدرجہ اس کے تعلیمی معیار کو بلند کرتا ہے اس کے بالمقابل خدا کو جو حکمتوں کا خزانہ ہے ایک ادنی انسان جتنی حکمت کا مالک بھی نہیں سمجھا جاتا.( نعوذ باللہ ) اور کہا جاتا ہے کہ خدا نے انسان کو جو بھی دینا تھا وہ شروع میں ہی پہلے نبی کے ذریعہ ہی دے دیا.جب ایک انسان اپنے بچے کو تعلیم دینے کی خاطر ایسا نہیں کرتا تو پھر خدا انسان کے ساتھ ایسی حالت میں ایسا کیوں کرتا جب کہ انسان کی حالت ایک بیچے جیسی تھی اور اس کو رہن سہن اوڑھنے بچھونے کھانے پینے کی تہذیب بھی نہ تھی.آج کے زمانہ میں بھی اس شہادت کو پیش کیا

Page 10

جاسکتا ہے.آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے.ایک تہذیب یافتہ آدمی اس کے ذریعہ حیرت انگیز کام دکھا سکتا ہے لیکن اگر اس کمپیوٹر کو انڈیمان کے جنگلی آدمیوں کے سامنے رکھ دیا جائے جو آج تک تہذیب یافتہ نہیں ہوئے ، جن کونگ ڈھانپنے تک کا احساس نہیں وہ اس کو توڑنے کے سوا اس سے اور کوئی کام نہ کریں گے.آج حکومت ان کو عام تہذیب یافتہ انسانوں کے ساتھ ملانے کی خاطر بے انتہا کوشش کر رہی ہے.اب وہ انسان علم کو کیا جانے اور مذہب کو کیا جانے یا آج کے سائنسی دور سے کیا سروکار رکھتے ہیں وہ تو نومولود بچے کی طرح ہیں جس کو سنبھالنا ہوگا.آمد انبیاء دنیا میں پائے جانے والے تمام مذاہب میں مختلف انبیاء کی آمد کے واقعات اور حالات موجود ہیں.اسی طرح دنیا کا کوئی خطہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں پر کسی نہ کسی نبی کی آمد کو تسلیم نہ کیا گیا ہو.یہ ہو سکتا ہے کہ دُور دراز کے علاقہ میں مبعوث ہونے کی وجہ سے اس کی خبر کسی دوسرے علاقہ میں نہ پہنچی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت عرصہ پہلے آنے کی وجہ سے، اور بوجہ مرور زمانہ ان کی زندگی کے حالات صحیح طور پر دنیا کے سامنے نہ آئے ہوں اور ان کی بگڑی ہوئی شکلیں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں.ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ، اسی طرح ہندوستان میں پائے جانے والے مذاہب کا مطالعہ کرنے سے یہاں بھی بعض انبیاء کے ذکر ملتے ہیں.جن میں شری کرشن جی مہاراج ، اور شری رام چندر جی مہاراج ، شری گوتم بدھ جی معروف ہیں.ان کے علاوہ مہاویر جی کا نام بھی آتا ہے.لیکن اس کتابچہ میں خاص طور پر شری کرشن جی مہاراج کے تعلق سے کچھ عرض کرنا ہے.

Page 11

شری کرشن جی مہاراج کی ہستی ایسی ہے جس کی عظمت اور بزرگی عام طور پر تسلیم کی گئی ہے اور ہندوؤں کے نزدیک ان کا ایک عالی مقام ہے.اسی لئے ہندوؤں میں شری کرشن جی کی آمد ثانی کو بھی بڑی چاہت سے بیان کیا جاتا اور اس کی جلد آمد کی خواہش کی جاتی ہے اور اس پر عظمت ہستی کی بنیاد اس مقولہ پر ہے جس کو فیضی نے یوں بیان کیا ہے.چو بنیاد دین ست گردو بسے نما نیم خود را بشکل کسے یعنی جب کبھی دین میں ضعف و زوال نمودار ہوتا ہے تو میں اپنے آپ کو کسی وجود کی شکل میں ظاہر کرتا ہوں.اس کے متعلق بھگوت گیتا میں خود شری کرشن جی مہاراج نے فرمایا ہے کہ : यदा यदा हि धर्मस्य ग्लानिर्भवति भारत। अभ्युत्थानम धर्मस्य तदात्मानं सृजाम्यहम्।। पवित्राणाय साधूनाम विनाशांय च दुष्कृताम्। धर्मसंस्थापर्नाथयि सम्भवामि युगे युगे ।। (श्री मद भगवत गीता अध्याय ४ श्लोक ७–८) یعنی ” جب بھی دھرم کا ناش اور ادھرم کی زیادتی ہونے لگتی ہے تو میں نیکوں کی حفاظت اور گناہ گاروں کی سرکوبی اور دھرم کو قائم کرنے کے لئے یگ یگ میں پرکٹ ہوتا ہوں.“ اس شلوک کا ترجمہ تمام مترجمین اور مفسرین نے ایسا ہی کیا ہے.اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف زمانوں میں اصلاح الناس کے لئے جولوگ آتے ہیں وہ کرشن رُوپ ہوتے ہیں.جس سے مُراد یہ ہے کہ تمام انبیاء کا ایک ہی کام ہونے کے لحاظ سے باوجود اس کے کہ وہ الگ الگ ہوتے ہیں ایک ہی نام سے یاد کئے جاتے ہیں.

Page 12

اسی لئے شری کرشن جی نے کہا کہ جب بھی مذہب کو طاقت بخشنی ہوگی تو میں ہی کسی نہ کسی وجود میں ظاہر ہوں گا اور ہوتا آیا ہوں.اس بات سے بھی اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ خدا تعالیٰ ایک نبی کو دوسرے نبی کا نام دیتا ہے اگر چہ ظاہر میں وہ نہیں ہوتالیکن صفات کے لحاظ سے اس کو اسی نام سے پکارا جاتا ہے جیسے کہ مسیح علیہ السلام سے ان کی آمد پر یہود نے یہ سوال کیا تھا کہ تیرے سے پہلے تو ایلیا نے آسمان سے آنا تھا تو مسیح علیہ السلام نے ان کو جواب دیا کہ یہ یوحنا ایلیا ہی تو ہے جو میرے سے پہلے آیا ہے اس طرح حضرت یحیی علیہ السلام کو ایلیا کا نام دیا گیا.خدا تعالیٰ نے ہر قوم اور ہر علاقہ اور ہر زمانہ میں اپنے نبی مبعوث کئے ہیں اور اس کی تصدیق خود قرآن کریم بھی کرتا ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (سورة فاطر ۳/۲۵) یعنی ” اور کوئی قوم ایسی نہیں (جس میں خدا کی طرف سے ) کوئی ہوشیار کرنے والا نہ آیا ہو.اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے : وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (الرعد: ۱/۸) یعنی اور ہر ایک قوم کے لئے (خدا کی طرف سے ) ایک رہنما ( بھیجا جا چکا ہے.اسی طرح سورۃ النحل میں آتا ہے : وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا (النحل : ۵/۳۷) اور ہم نے یقینا ہر قوم میں کوئی نہ کوئی رسول بھیجا ہے.قرآن کریم کی ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر زمانہ میں ہر قوم میں کوئی نہ کوئی رسول ضرور مبعوث کیا ہے.پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام قوموں کی طرف

Page 13

آنے والے رسولوں کا ذکر کیوں نہیں ملتا.اس بات کو بھی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہی حل فرما دیا ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ (النِّساء ۲۳/۱٦٥) یعنی اور کئی ایسے رسول ہیں جن کی خبر ہم (اس سے) پہلے تجھے دے چکے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کا ذکر ہم نے تجھ سے نہیں کیا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی (مشکوۃ المصابہ صفحہ ۵۱۱ مطبع کانپور جلد دوم ) گزرے.قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر قوم اور ہر امت میں نبی آیا ہے یہ الگ بات ہے کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں نہیں کیا گیا.ہندوستان میں ہزاروں سال سے انسان موجود ہیں اور یہاں کئی قومیں گزرچکی ہیں.لازمی بات ہے کہ ہندوستان میں بھی وقتاً فوقتاً کئی نبی آئے ہوں گے تاہم بعض نام جو میں نے شروع میں بیان کئے ہیں وہ ہندوستان میں اوتار یعنی نبی کی حیثیت سے یاد کئے جاتے ہیں.جن کو ہمیں لَمْ نَقصص کے تحت رکھنا ہوگا.اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیو بند لکھتے ہیں : " کیا عجب ہے کہ جس کو ہندو صاحب اوتار کہتے ہیں اپنے زمانہ کے نبی یا ولی یعنی نائب نبی ہوں.قرآن شریف میں بھی ارشاد ہے من قَصَصْنَا الخ.....سوکیا عجب ہے کہ انبیا ء ہندوستان بھی انہی نبیوں میں سے ہوں جن کا تذکرہ آپ سے نہیں کیا گیا.“ ( مباحثہ شاہجہانپور مطبوعہ سہارنپور مابین مولانا محمد قاسم صاحب ود یا نند سرسوتی ) ا.

Page 14

ہندوستان کے انبیاء کی آمد کا زمانہ بہت پہلے کا بیان کیا جاتا ہے اور جو تعلیم جتنی زیادہ پرانی ہو اتنے ہی زیادہ قصے اور کہانیاں اس کی طرف منسوب کر دیئے جاتے ہیں.شری کرشن جی کا زمانہ ہزاروں سال پرانا ہے.آپ کی سوانح حیات کے ساتھ بہت سے اس قسم کے قصے جوڑ دیئے گئے ہیں کہ اگر ان کو سچ تسلیم کر لیا جائے تو ان سے شری کرشن جی کا نبی ہونا تو کجا ایک شریف انسان ہونا بھی ثابت نہیں ہو سکتا لیکن شری کرشن جی کی طرف ایسی جتنی بھی باتیں منسوب کی جاتی ہیں جو آپ کی شان کو کم کرتی ہیں وہ صرف اور صرف قصوں اور کہانیوں کی صورت میں موجود ہیں اور حقیقت میں آپ کی زندگی کے ساتھ ظاہری طور پر اس کا کوئی تعلق نہیں.جن باتوں کو ظاہر میں لے لیا گیا ہے، ان کے پیچھے بہت سی حقیقتیں پوشیدہ ہیں.ان کو چھوڑ کر صرف ظاہر پر محمول کرنا بالکل غلط ہے.اور اگر ان کی کوئی تعبیر یا تو جیہ نہ کی جائے تو سوائے نبی کی شان کو گرانے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا.جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ دنیا میں آنے والے انبیاء کی تعلیم میں یکسانیت پائی جاتی ہے.تعلیم خواہ کتنی بھی مل جل گئی ہولیکن اس کا اصل قائم رہتا ہے اور ہر نبی کی تعلیم کا اصل توحید ہے.یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہندو مذہب میں سوائے شرک کے اور کچھ دیکھنے میں نہیں ملتا.شری کرشن جی کی طرف منسوب ہونے والی کتاب گیتا میں تو حید کی تعلیم موجود ہے.11

Page 15

عام مسلمان شری کرشن کو نبی تسلیم کیوں نہیں کرتے عام مسلمان شری کرشن جی کو نبی کی حیثیت سے ماننے کے لئے اس لئے تیار نہیں ہوتے کہ وہاں ظاہر میں پائی جانے والی تعلیم میں توحید کا نام ونشان موجود نہیں ہے.اور خود ہندوؤں میں ہی آریہ سماج والے، دیگر فرقوں مثلاً سناتن دھرم کے بالکل مخالفانہ عقیدہ رکھتے ہیں.اگر آریہ سماج والے شری کرشن جی کی مذہبی حیثیت و عظمت کو قطعا تسلیم نہیں کرتے تو دوسری طرف سناتن دھرم والے ان کو انسانیت سے مافوق البشر وجود قرار دے کر فی نفسہ خالق تسلیم کرتے ہیں اور ان کو ہادی کے درجہ سے بڑھا کر قابل پرستش قرار دیتے ہیں اور آج کے زمانہ میں ان کی پرستش اس قدر عام ہوگئی ہے کہ عام آدمی کے لئے انہیں نبی کا درجہ دینا ہی مشکل ہو گیا ہے.کسی بھی مذہب کے نبی کو جاننے کے لئے اس کی بنیادی تعلیمات پر نظر ڈالنا ضروری ہے.اس پہلو سے جب ہم شری کرشن جی کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں تو حید کی تعلیم پائی جاتی ہے.جیسا کہ ایک جگہ لکھا ہے : وو ایشور ہی دنیا میں موجود ہے اور ہر انسان میں اس کا نور جلوہ گر ہے اور سارے سنسار کو اپنی قدرت سے چلا رہا ہے.اے ارجن تو پورے طور پر اسی خدا کے چرنوں میں چلا جا جہاں تجھے دائمی اطمینان حاصل ہوگا.“ بھگوت گیتا ، ادھیائے ۱۸ ،شلوک ۶۱، ۶۲) شری کرشن جی کے موحد ہونے کے ثبوت میں اور بھی اقتباس پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن میں صرف ایک ہی اقتباس پر اکتفا کرتا ہوں.جہاں تک موجودہ زمانے میں شری کرشن جی اور

Page 16

رام چندر جی کی مورتیاں بنا کر ان کے پوجنے کا سوال ہے تو اس کی تعلیم ویدوں یا پھر بھگوت گیتا میں کہیں نہیں پائی جاتی اس لحاظ سے ان انبیاء کی مورتیاں بنا کر ان کی عبادت کرنا یہ خود ہندو مذہب کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے.سوامی دیانند جی نے خود بھی مورتی پوجا کے تعلق سے لکھا ہے کہ : وو دیکھو بت پرستی کے سبب شری رام چندر ، شری کرشن، نارائن اور شو وغیرہ کی بڑی مذمت اور جنسی ہوتی ہے.سب لوگ چاہتے ہیں کہ وے بڑے مہاراجہ ادھیر اج اور ان کی عورتیں سیتا ، رکمنی ھشمی ، اور پارہیتی وغیرہ مہارا نیاں تھیں.لیکن جب ان کے بت مندر وغیرہ میں رکھ کر پجاری.....لوگ ان کے نام سے بھیک مانگتے ہیں یعنی ان کو بھکاری بناتے ہیں...یہ ان کی ہنسی اور مذمت نہیں تو اور کیا ہے؟ اس سے اپنے معزز بزرگوں کی سخت مذمت ہوتی ہے.بھلا جس زمانہ میں یہ موجود تھے اس وقت سیتا ، رکمنی قشمی اور پاریتی کو سڑک پر یا کسی مکان میں کھڑا کر پوجاری کہتے کہ آؤ ان کے درشن کرو اور کچھ بھینٹ پو جادھر و تو سیتا رام وغیرہ ان بے عقلوں کے کہنے سے ایسا کام کبھی نہ کرتے اور نہ کرنے دیتے.جو کوئی ایسا محول ان کا اڑاتا، کیا ان کو بدوں سزا د یئے کبھی چھوڑتے ؟ “ (ستیارتھ پرکاش، باب گیارہواں ، صفحہ ۴۵۵،۴۵۴) الغرض آج شری کرشن جی یا رام چندر جی کی مورتیاں بنا کر جو پوجا کی جاتی ہے وہ اصل میں اپنے مذہب کی تعلیمات سے لاعلمی کی ہی دلیل ہے.ورنہ مورتی پوجا کا ہندو مذہب کی بنیادی تعلیمات میں کوئی ثبوت نہیں پایا جاتا بلکہ اس کی مخالفت پائی جاتی ہے.

Page 17

شری کرشن مسلمانوں کی نظر میں قرآن کریم کے بیان کردہ اصول کے مطابق کہ ہر قوم اور اُمت میں خدا کی طرف سے نبی آئے ہیں.ہندوستان کی تاریخ میں جن انبیاء کا ذکر ملتا ہے اُن میں شری کرشن جی کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور آپ کا نبی ہونا گذشتہ زمانوں سے ثابت ہے.موجودہ زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دنیا کے سامنے شری کرشن جی کے عالی مقام کو بیان کیا تو آپ کی شدید مخالفت ہوئی اور کئی علماء نے صرف اس وو اعلان پر ہی آپ پر کفر کے فتوے دے دیئے.وہ اعلان یہ تھا ، آپ فرماتے ہیں : راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا.جس پر خدا کی طرف سے رُوح القدس اُترتا تھا.وہ خدا کی طرف سے فتح مند اور با اقبال تھا.جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا.وہ اپنے زمانہ کا در حقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑ دیا گیا.وہ خدا کی محبت سے پر تھا اور نیکی سے دوستی اور شر سے دشمنی رکھتا تھا.“ لیکچر سیالکوٹ ، رُوحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۲۹،۲۲۸) حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے اس دعوی کی گذشتہ زمانوں میں بھی تصدیق ملتی ہے اور آج کے دور کے بھی بہت سے علماء نے تائید کی ہے.وہ لوگ جو شری کرشن جی کو اپنے زمانے کا نبی تسلیم نہیں کرتے ان کو سلف وخلف علماء اور محدثین کی بیان کردہ باتوں پر

Page 18

غور کرنا چاہئے.اس جگہ بعض حوالے پیش کئے جاتے ہیں سب سے پہلے میں حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا ایک حوالہ پیش کرتا ہوں.یہ ایک ایسی کتاب کا حوالہ ہے جو مختلف موضوعات پر لکھی گئی.مختلف لوگوں کے منظوم کلاموں کا ایک مجموعہ ہے.جس میں عربی فارسی کی تحریرات موجود ہیں اور مثنوی مولانا رومی بھی لکھی ہوئی ہے.یہ مجموعہ ایک کشکول کی حیثیت رکھتا ہے.اس میں ایک مقام پر نقل مقولات حضرت مولاعلی علیہ السلام کا عنوان دے کر گیارہ اشعار کی ایک نظم نقل کی ہے جس میں معلومہ اقوام عالم اور ان کے انبیاء و ہادیوں کے ناموں کا ذکر موجود ہے.اس میں ہی حضرت کرشن کا نام ہندوستان کے تعلق سے صاف طور پر موجود ہے.اور ان اشعار میں آپ فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں ہادیان مذاہب مختلف ناموں کے ساتھ آئے وہ سب میرے نام ہیں.چنانچہ اس میں لکھا ہے.ابوالحسن میخواندانم بوالعشر از مادرم.پس منم این نام من اینست گفتم مرتز اہند یا نم کشن خوانندگر جیانم اتقیا.در فرنگم شبطیا و درختا با بولیا.(ماخوذ کلکی اوتار صفحه ۷۰۶) یعنی مجھے ابوالحسن کہتے ہیں میر امادری نام ابوالعشر ہے پس میں ہی ہوں اور یہ میرا ہی نام ہے خاص طور پر تجھے بتا تا ہوں.ہندو جسے کرشن کہتے ہیں اہل گر جا اسے متقی کہتے ہیں اور انگریز اسے خبطیا کہتے ہیں اور ختالہ ملک والے اسے بابولیا کہتے ہیں.اسی طرح چھٹی صدی ہجری کے اوائل کی لکھی ہوئی ایک کتاب فردوس الا نبیاء ہے جس کو دیلمی نے لکھا ہے دیلمی محدث بھی ہے اور مؤرخ بھی.ان کی وفات ۵۰۷ ہجری

Page 19

میں ہوئی تھی.انہوں نے تاریخ ہمدان میں ایک حدیث ان الفاظ میں لکھی ہے : كان في الهندِ نَبِيًّا أَسْوَدُ اللَّوْنَ اللهُ كَاهِنَا ( تاریخ همدان دیلمی ردیف کاف) یعنی ہندوستان میں ایک نبی ہوا ہے جو سانولے رنگ کا تھا اور اس کا نام کا ہن تھا.کا ہن سے مراد کرشن کنہیا ہے.اور ہم میں سے ہر شخص کرشن کے سانولے رنگ سے واقف ہے.اگر چہ اوپر لکھے اس فقرے کو محدثین کے معیار کے مطابق حدیث کہنا دشوار ہے لیکن اس کی تصدیق قرآن کریم کی آیات وَلِكُلِ قَوْمٍ هَادٍ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولِ سے ہوتی ہے.اور یہ حدیث قبولیت کے معیار پر پوری اترتی ہے.یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں ظاہر ہونے والے دسویں صدی کے ایک بزرگ جو اس صدی کے مجد دبھی مانے جاتے ہیں حضرت سید احمد صاحب سرہندی انہوں نے بھی ہندوستان میں انبیاء کی آمد کو تسلیم کیا ہے جس سے قرآن کریم اور اس حدیث کی جو میں نے اُو پر لکھی ہے تائید ہوتی ہے.آپ لکھتے ہیں : وو و در بعضی از بلاد ہند محسوس می گردد که انوار انبیاء علیہم الصلوة والتسلیمات در ظلمات شرک درنگ مشعلها افروخته اند 66 (مکتوبات امام ربانی جلد اول مطبوعہ مطبع احمدی دہلی ، صفحه ۲۸۴ ، ومکتوب ۲۵۹) یعنی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کے بعض مقامات میں انبیاء علیہم الصلوۃ نے ظلمت و شرک کے بت کدوں میں مشعلیں روشن کی تھیں.حضرت مظہر جانِ جاناں شہید رحمتہ اللہ علیہ گیارہویں و بارہویں صدی کے ایک بزرگ ہیں.ان کے حالات زندگی حضرت شاہ غلام علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے مرتب کئے ہیں جو ملفوظات کی صورت میں ہیں.ان کے مکتوب نمبر چودہ میں در بیان آئین کفار ہند“ کے عنوان

Page 20

سے صفحہ ۱۲۱ میں درج ہے کہ : ندير و باید دانست که بحکم آیت كريمه وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا و آیات دیگر در ممالک ہندوستان نیز بعثت انبیاء ورسل علیہم السلام واقع شده است و احوال آنها در کتب اینها مضبوط است و از آثار آنها ظاهر میگردد که مرتبه کمال و تبلیغ داشته اند و رحمت عامه رعایت مصالح عباد را دریس مملکت وسیع نیز فرو نگذاشته “ یعنی اور جاننا چاہئے کہ آیت کریمہ کے حکم کی رُو سے وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نذیر اور دیگر آیات کی رُو سے ہندوستان کے ممالک میں انبیاء علیہ السلام مبعوث ہو چکے ہیں اور ان کے احوال ان کی کتب میں مضبوط طور پر درج ہیں اور ان کے آثار سے ظاہر ہے کہ وہ مرتبہ کمال اور تبلیغ رکھتے تھے اور خدا کی رحمتِ عامہ نے اس کے بندوں کے مصالح کو اس وسیع ملک میں نظر انداز نہیں کیا.حضرت مظہر جان جاناں رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کا ایک اور واقعہ بھی حضرت شاہ غلام علی صاحب نے بیان کیا ہے وہ اس طرح کہ ایک شخص نے ایک خواب دیکھا اور اپنی خواب کا ذکر حضرت مظہر جان جاناں کے سامنے کیا اور آپ نے اس خواب کی تعبیر بیان کی لکھا ہے کہ : ایک روز ایک شخص نے آپ سے عرض کیا کہ میں نے خواب وو میں دیکھا ہے کہ ایک صحرا آگ سے پر ہے.اور ( حضرت ) کرشن آگ کے وسط میں ہیں.اور ( حضرت ) رام چندر اس آگ کے کنارے پر ہیں.ایک شخص نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ رام اور کرشن اکابر کفار تھے (معاذ اللہ ) اور دوزخ کی آگ میں عذاب پارہے ہیں.فقیر نے کہا کہ اس خواب ۱۷

Page 21

کی تعبیر اور ہے.گذشتہ لوگوں میں سے کوئی معین شخص جب کہ شریعت سے کفر ثابت نہ ہو اس کے بارہ میں کفر کا فتویٰ جائز نہیں.اور اس لحاظ سے کتاب وسنت کے اعتبار سے یہ فتویٰ غلط ہے.اور حسب آیت شریفہ وَان مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُہ ظاہر ہے کہ اس جماعت میں سے بھی بشیر و نذیر گزرے ہیں اور یہ صورت حال متقاضی ہے کہ یہ لوگ ولی یا نبی ہوں.رام چندر جو ابتدائے آفرینش میں پیدا ہوئے تھے اور اس وقت عمریں بھی لمبی اور قوتیں قوی ہوتی تھیں، نے اہل زمانہ کی مناسب حال تربیت کی اور ( حضرت ) کرشن ان بزرگوں کے دور آخر میں ظاہر ہوئے تھے.ان کے زمانہ میں لوگوں کی عمریں اور قوتیں نسبتا کم تھیں.انہوں نے اہل زمانہ کی اسی نسبت سے جذب ہدایت کا کام کیا.ان سے جو بکثرت نغمے اور شنیدہ باتیں مروی ہیں وہ ان کے جذبہ عشق ہی کی دلیل ہیں.پس صحرا کی آگ ان کے جذ بہ عشق و محبت سے متشکل نظر آئی.(حضرت) کرشن جو کہ کیفیت محبت میں استغراق رکھتے تھے ان کا باطن آگ کے وسط میں ہونے سے ظاہر ہے اور رامچندر جو راہ سلوک رکھتے تھے وہ آگ کے کنارے پر نظر آئے ہیں.واللہ اعلم.حالات حضرت مظہر جان جاناں رحمتہ اللہ ، مرتبہ حضرت شاہ غلام علی صاحب رحمتہ اللہ، مطبوعہ مطبع احمدی ۱۲۶۹ ھ صفحہ ۲۶) حضرت غلام علی شاہ صاحب نے مکتوب چہار دہم بعنوان” در بیان آنین کفار ہند“ کتاب کے صفحہ ۲۶ پر ایک روایت درج کی ہے جو ابوصالح خان صاحب کی ہے لکھا ہے کہ : ۱۸

Page 22

وہ متھرا گئے ہوئے تھے ان کو سات روپوں کی ضرورت پیش آئی.ایک رات جب کہ وہ تہجد ادا کر رہے تھے ایک شخص کرشن جی کی شکل میں جس طرح کہ ہندو کرشن جی کے متعلق بیان کرتے ہیں ظاہر ہوا اور بعد سلام کے اُس نے سات روپے پیش کئے.میں نے کہا کہ ٹھہر وذرا میں نماز ادا کرلوں.ادائے نماز کے بعد میں نے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے.اس نے کہا کہ کرشن اور یہ سات روپئے تمہاری ضیافت کے ہیں کہ تم میرے مقام پر آئے.میں نے کہا کہ میں محمدی آہوں اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پیغمبر، ہماری تمام حاجتیں پوری کرنے کے لئے کافی ہیں.میں غیروں کا ہدیہ قبول نہیں کرسکتا.وہ شخص رویا اور کہا کہ : ما وصف نبی آخر زماں و اخلاص اتباع اوصلی اللہ علیہ وسلم شنیده بودیم زیاده از آن مشاہدہ کردیم یعنی ہم نے نبی آخر الزماں کی تعریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکات کے بارے میں سنا ہوا تھا اس سے بڑھ کر ہم نے اس کا مشاہدہ کیا ہے.اس واقعہ سے جہاں ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین کے مقام کا پتہ چلتا ہے وہاں دوسری طرف حضرت کرشن جی کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت اور عقیدت بھی ظاہر ہوتی ہے.مولا ناغوث علی شاہ پانی پتی رحمہ اللہ کا شمار بھی صوفیا میں ہوتا ہے اور آپ کا تعلق تیرہویں صدی سے ہے.آپ کے ملفوظات میں آپ کا ایک خواب درج ہے اس خواب کا پس منظر پیش کرتے ہیں کہ ایک ہندو پنڈت کی تعلیم کی بنیاد پر میں نے برہم گا تری کا پاٹھ کیا.اس پاٹھ کے کر چکنے کے بعد فرمایا : " جس روز ہم پاٹھ کر چکے تو آخری شب میں یہ خواب دیکھا کہ عین

Page 23

دریائے گنگ میں ایک طرف خاتم الرسل جناب سرور کائنات خلاصۂ موجودات فخر خاندان آدم رحمت عالم باعث ایجاد ارض و سماء سپه دار شکر انبیاء احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مع صحابہ کرام تشریف لائے اور ایک مجلس آراستہ و پیراستہ ہوئی.دوسری طرف مہاراج شری کرشن جی مع اپنے رفیقوں کے رونق افروز ہوئے اور ایک سبھا جم گئی.کرشن جی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ ان کو سمجھائے یہ کیا کرتے ہیں.حضرت نے کہا کہ مہاراج تم ہی سمجھاؤ.پھر مہاراج نے مجھ کو بلایا اور کہا کہ سنو برخوردار تمہارے ہاں کیا کچھ نہیں جو دوسری طرف ڈھونڈھتے ہو.کیا تم نے دوئی سمجھی ہے.یہاں اور وہاں سب ایک بات ہے.“ (تذکره خوشیه ملفوظات صفحہ ۴۸ مطبع مجتبائی دہلی ۱۹۱۱) موجودہ زمانہ کے صوفیا میں خواجہ حسن نظامی صاحب کا بڑا مقام ہے.آپ نے بھی اسلاف کے صوفیاء کرام کی طرح شری کرشن جی کو نبی بیان کیا ہے اور آپ نے کرشن بیتی کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں : وو سری کرشن بھی ہندوستان کے ہادی تھے ان کو بھی ایک بڑی اور اعلیٰ (کرشن بیتی صفحه ۳۹) قوم کی رہبری پر مامور کیا.“ نیز لکھا ہے : وو شری کرشن کی ذات در حقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ظالموں کی تباہی اور بربادی 66 کے لئے مامور ہوئی تھی.“ (کرشن بیتی (۹۱) اسی طرح شری کرشن جی مہاراج کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

Page 24

وو سلام تجھ پر اے غریب گوالن کی گود ٹھنڈی کرنے والے.سلام تجھ پر اے گمناموں کے نام کو چار چاند لگانے والے.اے وہ جو ایک مفلس دودھ والی کی آغوش میں پھولوں کی سیج سے زیادہ آرام میں پاؤں پھیلائے سوتا ہے.تجھ پر ہزاروں سلام (کرشن بیتی صفحه ۲۲) مولوی محمد اجمل خان صاحب ایم اے اپنی کتاب ” نغمہ خداوندی“ میں مولوی عبد الباری صاحب مرحوم کی ایک روایت درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں : " حضرت مولانا عبد الباری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اکثر فرمایا ہے کہ شری کرشن جی کے جو حالات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ وہ ہندوستان کے نبی ہوں.اس لئے کہ نص صریح لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ آیت کریمہ کا نظریہ بتاتا ہے کہ ہر ملک و قوم میں ایک نبی ضرور بھیجا گیا ہے اور ہندوستان کا اس نظریہ سے مستفی ہونا بعید از قیاس ہے.غالبا یہی وجہ ہے کہ اکثر بزرگان دین نے ایسے مقامات پر خصوصیت سے عبادت اور چلہ کشی کی ہے جہاں ہندوؤں کے مقدس مقامات ہیں.“ ( نغمہ خداوندی صفحہ ۲۰) مولوی وحید الزماں خان صاحب شاہجہانپوری تفسیر وحیدی میں آیت قرآنی وان من أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ ہر ملک اور ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کے پیغمبر گزرچکے ہیں اور بہت سے پیغمبروں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں نہیں فرمایا ہے.اس لئے مسلمانوں کو کسی قوم کے پیغمبروں کا انکار نہیں کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ پیغمبر تھے یا نہ تھے.آمَنْتُ بِاللهِ

Page 25

66 وَجَمِيعِ انْبِيَائِهِ کہنا چاہئے.“ ( تفسیر وحیدی ، مطبوعہ مطبع القرآن والسنه واقع امرتسر صفحه ۶۴۳، حاشیہ نمبر ۲) مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار لاہور تحریر فرماتے ہیں : " کوئی قوم اور کوئی ملک ایسا نہیں جس کی برائیوں کی اصلاح کے لئے خدائے بزرگ و برتر نے خاص خاص اوقات میں اپنا کوئی برگزیدہ بندہ نبی یا مرسل یا مامور کے طور پر مبعوث نہ کیا ہو.سری کرشن نبیوں کے اسی عالمگیر سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے.“ (اخبار پرتاب لاہور کا کرشن نمبر ۲۸ /اگست ۱۹۲۹) مولا نا فضل الرحمان صاحب فرماتے ہیں : ہندوؤں کی قوم میں رامچندر اور شری کرشن جی پیغمبر گزرے ہیں اور یہ سب موحد تھے.“ ایک دوسرے موقعہ پر فرماتے ہیں : قرآن میں پیغمبروں کا حال مذکور ہے.ان کے سوا ہر ہر ملک اور ہر ہر ولایت میں اللہ کے پیغمبر آچکے ہیں.اور لوگوں کو تو حید اور اچھی باتوں کی ہدایت کر چکے ہیں.اس لئے ہم کو لازم ہے کہ اگلے لوگوں میں سے خواہ وہ کسی قوم میں سے گزرے ہوں مثلاً ہندوؤں یا پارسیوں میں یا چینیوں میں یا یونانیوں میں یا رومیوں میں جن کی نسبت یہ ثابت ہو کہ وہ موحد گزرے ہیں کسی کی پیغمبری کا انکار نہ کریں اور یوں کہیں کہ ہم اللہ کے سب پیغمبروں پر ایمان لائے.مولانا فضل الرحمان صاحب اور مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب

Page 26

نے فرمایا کہ ہندوستان میں جو مقدس اور بزرگ لوگ گزرے ہیں جیسے رامچندر جی یا کرشن جی ہم کو ان کی برائی نہ کرنی چاہئے.شاید وہ اللہ کے پیغمبر ہوں.( تفسیر وحیدی صفحه ۷۰۳، زیر آیت وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا سُلًا مِنْ قَبْلِكَ....حاشیه نمبر ۴) اسی طرح مولانا سید اختر موہانی ایڈیٹر ”جام جہاں نما لکھنو کا ایک نوٹ کرشن اور اسلام“ کے عنوان کے تحت اخبار تیج کرشن نمبر مورخہ ۱۰ راگست ۱۹۳۶ میں شائع ہوا تھا جس میں لکھا ہے کہ : " میرے خیال میں وہ (کرشن جی ) برگزیدہ اوتار تھے اور دنیا کی ہدایت کے لئے مامور من اللہ ہو کر ظاہر ہوئے تھے.ان کا تقدس اور احترام دنیا کے ہر متنفس پر یکساں واجب ہے.“ کتب ہنود میں توحید شری کرشن جی مہاراج کے متعلق مسلمانوں کے خیالات کی بخوبی عکاسی ہو جاتی ہے.کتنے ہی مسلم شعرا ہیں جنہوں نے شری کرشن جی کے متعلق اشعار کہے ہیں.مسلمانوں میں سے جتنے بھی بزرگ اولیاء گزرے ہیں جنہوں نے شری کرشن جی کو نبی تسلیم کیا ہے وہ سب کے سب آپ کو موحد مانتے تھے.آپ ایک خدا کی عبادت کرتے اور ایک خدا کی عبادت کرنے کی تلقین کرتے تھے جس کی ایک مثال شروع میں پیش کی جاچکی ہے.ایسے ہی دو حوالے اور پیش کر دنیا ضروری خیال کرتا ہوں.بھگوت گیتا میں لکھا ہے : ۲۳

Page 27

गतिर्भता प्रभुः साक्षी निवासः शरणं सुहृत्। प्रभवः प्रलयः स्थानं निधानं बीजमव्ययम् ।। ( Add rial 3- patlas ( یعنی وہ خدا انسان کا مقصود حیات ہے.وہ رب ہے وہ مالک ہے وہ گواہ ہے وہی ملجا و ماوی ہے وہی حقیقی دوست ہے وہ اول بھی ہے اور آخر بھی وہ خزانہ ہے وہ حتمی و قیوم ہے.( بھگوت گیتا ۹:۱۸) اسی طرح فرمایا : यो मामजमनादिं च वेत्ति लोकमहेश्वरम्। असंमूढः स मर्त्येषु सर्वपापै प्रमुच्यते ।। ( भगवत गीता अ - १० श्लोक ३) یعنی جو شخص مجھے اول اور آخر اور پیدا نہ ہونے والا اور تمام جہان کا پالنہار سمجھتا ہے وہ انسانوں میں جاہل نہیں ہے.ایسا شخص ہر پاپ اور گناہ سے نجات یافتہ ہے.بھگوت گیتا ادھیائے ۱۰ شلوک ۳) جناب مولوی محمد علی صاحب مونگیری تحریر فرماتے ہیں : وو " حضرت کے پیشتر یہ لوگ (کرشن و رامچندر ) مسلمان تھے.“ (رسالہ ارشا در حمانی و فضل یزدانی طبع اول صفحه ۴۰) مسلمان وہ ہے جو توحید پر قائم ہو اور یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ یہ حضرات توحید پرست تھے.گویا بنیاد توحید تھی اور ہندو مذہب ، مذہب کی پہلی سیڑھی تھی اور ہے.بالکل اسی طرح جیسے کسی طالب علم کے لئے پہلی سیڑھی اول کلاس ہوتی ہے.لیکن غور کریں کہ کیا وہ بچہ اسی کلاس میں بیٹھے رہنا پسند کرتا ہے یا پھر اس کے ماں باپ بچے کے اسی کلاس (۲۴

Page 28

میں بیٹھے رہنے کو پسند کرتے ہیں، ہر گز نہیں.پہلی کلاس ہوتی بنیاد ہے لیکن وہ آئندہ ترقیات کا پیش خیمہ بنتی ہے.یہی وجہ ہے کہ ہر پہلے مذہب کی حقیقی تعلیم بعد میں آنے والے مذہب کی حقیقی تعلیم میں شامل ہے.جیسے پہلی دوسری تیسری اسی طرح اوپر کی تمام کلاسوں کی تعلیم کا اصل اس سے اعلیٰ کلاسوں میں موجود ہوتا ہے.جہاں تک ہندوؤں کے اس دعویٰ کا سوال ہے کہ ان کا مذہب سب سے پرانا ہے جس کو میں پہلی کلاس سے تعبیر کر رہا ہوں مجھے اس کا ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ مدعی کا اپنا دعویٰ ہے.پھر بھی ایک بات قارئین کے سامنے پیش کر دینا ضروری خیال کرتا ہوں وہ یہ کہ جب ہم ہندو بھائیوں سے یہ کہتے ہیں کہ جب آپ کے مذہب کی بنیاد تو حید ہے جیسا کہ ویدوں سے اور گیتا سے ثابت ہے تو پھر آپ مورتی پوجا کیوں کرتے ہیں تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم مورتی کو اس لئے سامنے رکھتے ہیں تا کہ ہماری توجہ ایک جگہ مرکوز رہے.میں اپنے بھائیوں سے یہ درخواست کرنی چاہتا ہوں کہ ماشاء اللہ اب تو آپ دنیا داری کے معاملہ میں بہت تعلیم یافتہ ہیں دین کے معاملہ میں بھی اپنے آپ کو آگے بڑھا ئیں اور پہلی کلاس کے بچے کی حالت کو چھوڑ کر جو تصاویر کو دیکھ کر الفاظ یاد کرتا ہے او پر اُٹھیں.آپ کے لئے اس سے اُوپر اُٹھ کر بھی خدا کی ہستی کو بآسانی حاصل کرنے کے طریق موجود ہیں.اب آپ کو چاہئے کہ شرک کو چھوڑ کر توحید کی طرف واپس آئیں اس توحید کی طرف جس کو شری کرشن جی نے قائم کیا تھا جس کو شری رامچندر جی نے قائم کیا تھا.پس اگر شری رام چندر جی اور شری کرشن جی مہاراج کے آپ پیروکار ہیں تو لازما آپ کو توحید خالص کی طرف واپس آنا ہوگا.پس جہاں تک حضرت کرشن جی اور شری رامچندر جی کی تعلیمات کا سوال ہے تو وہ توحید پر مبنی تھیں لیکن بعد میں آہستہ آہستہ ان میں اس قدر بگاڑ پیدا ہوا کہ جڑ جو توحید کامل تھی وہ بالکل غائب ہوگئی اور اس کی جگہ کلی شرک نے حاصل کر لی.موجودہ زمانے میں بھی شری کرشن جی سے محبت کرنے والے کروڑوں موجود ہیں لیکن کوئی نہیں جو توحید کی ۲۵

Page 29

بنیادی تعلیمات کو لوگوں کے سامنے پیش کرے جو شری کرشن جی لے کر آئے تھے.یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو شری کرشن کی وحدت کی تعلیم سے واقف نہیں اور وہ خود توحید پرست ہیں شری کرشن جی کو نبی کر کے مانے کو تیار نہیں ہیں کیوں کہ تو حید کی جگہ مورتی پو جانے لے لی ہے.قصے کہانیاں اور کرشن جی قارئین !وہ لوگ جو فراست رکھتے ہیں انہوں نے وقتاً فوقتاً لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے.وہ کام اور وہ باتیں جو قصوں اور کہانیوں کی صورت میں انکی طرف منسوب کی جاتی ہیں ان کو غلط بیان کیا ہے اور جہاں تک ممکن ہوا ان کے دامن کو ایسی باتوں سے پاک کرنے کی کوشش کی ہے جن سے ان کی عظمت پر حرف آتا ہے.غائر نظر سے دیکھا جائے تو ان بلند و برتر ہستیوں کو افسانوں کے گرداب میں ڈال کر ان کی شان کو گم کر دیا گیا ہے.اسی بات کو بیان کرتے ہوئے جناب مولوی شبلی نعمانی لکھتے ہیں : وو " ہندوستان کے پیغمبر افسانوں کے حجاب میں گم ہیں.“ وو (سیرت النبی جلد ۱ صفحه ۲) اسی طرح جناب مولوی عبید اللہ صاحب مؤلف تحفۃ الہند لکھتے ہیں : ہو سکتا ہے کہ اس ملک (ہند) میں حق تعالیٰ کی طرف سے بعض انبیاء بھی مبعوث ہوئے ہوں.کیونکہ احتمال ہے کہ شاید یہ باتیں جو ان کی نسبت ان کی پوتھیوں میں لکھی ہیں جھوٹ ہوں.‘ (رسالہ تحفۃ الہند صفحہ ۶) اس بات میں بھی شک نہیں کہ خود شری کرشن جی اور رامچندر جی کے ماننے والوں نے ان کی طرف ایسی ایسی باتیں منسوب کی ہیں جن سے ان کی ہتک اور کسر شان ہوتی ہے.اسلام

Page 30

کے صوفیاء کرام جنہوں نے ان بزرگان کو نبی قرار دیا اور لوگوں کے سامنے ان کی نبوت کو پیش کیا وہ قطعا اس بات کو برداشت نہیں کرتے کہ کوئی ان کی کسر شان کرے اور ایسے واقعات اور افسانے ان کی طرف منسوب کرے جن سے ان کا مقام گر جائے اور ان کا یہ عمل قرآن کریم کے عین مطابق ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے : لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (البقرة آيت ۲۸۶) یعنی وہ لوگ ( مومن ) رسولوں میں سے ایک دوسرے کے درمیان فرق نہیں کرتے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور ہم نے اطاعت کر لی.یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان کسی نبی کی ہتک کو برداشت نہیں کرتا کیوں کہ وہ سب نبیوں کو اپنا تسلیم کرتا ہے.اسی وجہ سے مسلمان علماء اور مفکرین نے شری کرشن جی کی طرف منسوب کی جانے والی باتوں کو قبول نہ کرتے ہوئے ان کی توجیہہ نکالنے کی کوشش کی ہے اور غلط قسم کے الزامات سے آپ کے دامن کو پاک کرنے کی کوشش کی ہے.جناب کیفی صاحب چڑیا کوئی نے وقائع عالمگیری“ نام کی کتاب کا مقدمہ لکھا جو کہ شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے حالات پر مشتمل ہے.اس میں انہوں نے مولوی عنایت رسول صاحب چڑیا کوٹی کی ایک روایت درج کی ہے لکھا ہے : وو شری کرشن جی جو نہایت محتاط مرتاض حکیم اور فلسفی تھے ان کی تصویر بعض مؤرخوں نے ایسی کھینچی ہے.برج اور گوپیوں کے متعلق ایسے ایسے افسانے تراشے ہیں کہ کرشن جی کا سفید دامن بالکل سیاہ نظر آتا ہے.حالانکہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ان کو نبی مانتا ہے.ہمارے خیال میں بھی مولانا عنایت رسول چڑیا کوئی استاد سرسید کے قول کے مطابق وہ نبی تھے.اس پر ۲۷

Page 31

آیت لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ دلیل بن سکتی ہے.“ (وقائع عالمگیری صفحہ نمبر ۵) اسی طرح مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی ایک جگہ فرماتے ہیں : رہی یہ بات کہ اگر ہندوؤں کے اوتار انبیاء یا اولیاء ہوتے تو دعوی خدائی نہ کرتے اور افعالِ ناشائسته مثل زنا، چوری وغیرہ ان سے سرزدنہ ہوتے.حالانکہ اوتاروں کے معتقد یعنی ہندو ان دونوں باتوں کے معتقد ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ دونوں باتیں بے شک ان سے سرزد ہوئی ہیں سو اس شبہ کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف دعوی خدائی نصاری نے منسوب کر دیا ہے اور دلائل عقلی و نقلی اس کے مخالف ہیں.ایسے ہی کیا عجب ہے کہ سری کرشن اور سری رامچندر کی طرف بھی یہ دعوی بدروغ منسوب کر دیا ہو.“ مباحثہ شاہجہانپور مطبوعہ سہارنپور مابین مولانا قاسم صاحب ودیا نند سرسوتی صفحه ۳۱) قارئین کرام مذاہب اور انبیاء کی تاریخ ایسی ہی ہے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جاتا ہے ویسے ویسے مذہب میں تبدیلی پیدا ہوتی جاتی ہے.اور پھر انبیاء پر الزامات تو ان کی اپنی زندگیوں میں ہی لگ جاتے ہیں.اور پھر آہستہ آہستہ نئے نئے الزامات ان کی طرف منسوب ہوتے چلے جاتے ہیں.شری کرشن جی کی زندگی پر جس قسم کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں عقل ان کو سچا تسلیم کرنے اور انسانی فطرت اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی کیونکہ جو خدا کا پیارا ہواور دنیا کی ہدایت کے لئے خدا نے اسے مقرر کیا ہو پھر وہ ایسے کام کرے جسے کوئی شخص بھی اپنی طرف منسوب ہونا گوارہ نہیں کرتا تو اس نبی کیلئے ویسا کرنا کیونکر درست ہوسکتا ہے.اے کرشن سے پیار کرنے والو! کیا تمہارے پیار کا یہی تقاضہ ہے کہ تم اپنے پیارے پر گند اور

Page 32

کیچڑ اچھالتے ہو.پیار کرنے والوں کے پیار کا نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ اگر اپنے پیارے سے کوئی غلطی سرزد بھی ہو جائے تو وہ اسے چھپاتا ہے اور کجا تم ہو کہ اپنے سب سے پیارے نبی کی طرف ان الزامات کو منسوب کر کے خوش ہوتے ہو اور فخر کے ساتھ تصویری رنگ میں دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے ہو.آپ تو یہ کر سکتے ہیں لیکن ہمیں یہ بات پسند نہیں.ہمارے نزدیک یہ بزرگ ایک عزت کا مقام رکھتے ہیں اور ہم ہر آن ان کی عزت و تکریم کو دوبالا کرنے کے لئے کوشاں ہیں.شری کرشن جی کی طرف منسوب کئے جانے والے واقعات ایک الزام کا رنگ رکھتے ہیں اور بعض واقعات تو جیہ طلب ہیں.اگر ہم ان تو جیہات کو قبول کر لیں تو شری کرشن جی ان تمام الزامات سے بری ہی نہیں ہو جاتے بلکہ آپ کو ایک اعلیٰ اور بلند مقام بھی عطا ہو جاتا ہے.جناب نواب اکبر یار جنگ بہادر ایڈوکیٹ اسی بات کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں : وو گوپیوں کی عشق بازی کا مشہور قصہ اور بانسری کی سریلی آواز سے ان کو مست کر دینے کا واقعہ اس قدر عام ہے کہ اس کو چھپانے یا اس سے انکار کرنے کی بجائے عام طور پر ان کو کرشن جی کے کمالات میں سے شمار کیا جاتا ہے.اگر ان واقعات کو ہندوؤں کی قدیم میتھالوجی تصور کیا جائے اور ان کی ایسی معقول تعبیر و توجیہہ کر دی جائے جو ایک مذہبی بادی کی عظمت و احترام کے شایانِ شان ہو تو کچھ شبہ نہیں کہ گوپیوں کی عشق بازی کا قصہ اور بانسری کی سریلی تانیں اس معقول تعبیر و توجیہہ کے بعد حضرت کرشن جی کے کمالات ہی سے شمار کئے جاسکتے ہیں.“ (کلکی اوتار صفحه و ۲۵) ۲۹

Page 33

شری کرشن پر لگنے والے الزامات اور ان کی حقیقت اس جگہ میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان واقعات کو بیان کروں جو شری کرشن جی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں جن سے آپ کی کسر شان ہوتی ہے اور ساتھ ہی ان کی توجیہ بھی بیان کروں جو میرے نزدیک ہو سکتی ہے جس سے آپ کے کمالات کا اظہار ہوتا ہے اور آپ کا دامن بھی الزامات سے پاک ٹھہرتا ہے.(1) ماکھن چور کی حقیقت :: حضرت شری کرشن جی مہاراج پر جو سب سے پہلا الزام لگایا جاتا ہے وہ آپ کی بچپن کی زندگی پر ہے کہ آپ مکھن چوری کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے لوگ حضرت شری کرشن جی کو ماکھن چور بھی کہتے ہیں.میری کئی لوگوں سے بات ہوئی ہے ان سے پیار کرنے والے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو بچپن کا واقعہ ہے اور بچے بچپن میں ایسا کر لیتے ہیں کوئی حرج کی بات نہیں.لیکن شری کرشن پریمیوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ چوری چوری ہی ہوتی ہے اور پھر اگر بچپن میں چوری کی عادت پڑ جائے تو بڑے ہو کر کب جاتی ہے.کرشن پر یمی تو فخر سے ماکھن چور کہہ کر پکارتے ہیں.قارئین زیرے کی چوری کرنے والا بھی چور کہلاتا ہے اور ہیرے کی چوری کرنے والا بھی چور کہلاتا ہے.چوری ایک الزام ہے اس کو نبی کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا.خدا کے نبی ایسی باتوں سے پاک ہوتے ہیں.اور حضرت کرشن ان ہی لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خدا کی محبت کا دودھ پیا تھا.بہر حال آپ کی طرف منسوب ہونے والا یہ واقعہ تو جیہہ کے قابل ہے.جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا تھا کہ خدا کی طرف سے ہر زمانہ میں نبی آئے اور خدا کی

Page 34

طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مختلف زمانوں میں مختلف تعلیمات لے کر آئے اور مرور زمانہ سے لوگوں نے ان میں تبدیلی پیدا کی.پھر خدا نے دوسرے نبی کو مبعوث کیا جو سابقہ انبیاء کی اصل اور کچھ نئی تعلیم خدا کی طرف سے لایا اور اس کے زمانہ میں پائی جانے والی تعلیم کو اس نے رطب و یابس سے پاک کیا.حضرت کرشن جی مہاراج نے بھی اپنے زمانہ میں یہی کام کیا.آپ نے سابقہ کتب سے صحیح تعلیم کو لے کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اور جو رطب و یابس اس میں لوگوں نے ملا دیا تھا اس کو چھوڑ دیا گویا آپ نے اس زمانہ کی تعلیمات کو متھ کر اس میں سے اصل نکال کر جو مکھن کی طرح تھا لوگوں کے سامنے پیش کیا.(۲) نہاتی عورتوں کے کپڑے اُٹھانے کی حقیقت :: دوسرا ایک بڑا الزام جو حضرت کرشن جی کی زندگی پر لگایا جاتا ہے اور جس کو اگر بعینہ تسلیم کر لیا جائے تو آپ کی ذات اسفل سافلین میں شمار ہوگی (نعوذ باللہ ).وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کچھ عورتیں تالاب میں نہا رہی تھیں تو شری کرشن جی آئے اور ان عورتوں کے کپڑے لے کر ایک درخت پر چڑھ گئے.جب ان عورتوں کو اس بات کا علم ہوا کہ ہمارے کپڑے شری کرشن جی لے گئے ہیں تو انہوں نے شری کرشن جی سے کپڑے مانگے.اس پر شری کرشن جی نے ان سے کہا کہ تم باری باری جنگی ہی نکل کر میرے پاس آؤ تب میں تم کو کپڑے دوں گا.آج کے اس تہذیب یافتہ دور میں بھی ایسی تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ شری کرشن جی درخت پر بیٹھے ہیں اور عورتیں پانی میں ننگی کھڑی ان سے کپڑوں کی التجا کرتی ہیں.آج کے دور میں اگر کوئی شخص ایسا کرے تو لا زما وہ قابل گرفت ہو گا اور اس کو سزا دی جائے گی اور پھر سوسائٹی میں بھی لوگ اسے بری نظر سے دیکھیں گے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کا نبی ایسی حرکت کرتا جو خدا اور

Page 35

اس کے بندوں کے نزدیک بُری ہے.ہمارے نزدیک اس واقعہ میں بھی بڑی گہری فلاسفی پائی جاتی ہے جس کو غلط رنگ میں تصویری زبان میں پیش کر دیا گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ وہ عورتیں جو لباس اُتار کر نہاتی ہوئی دکھائی گئی ہیں وہ اصل میں شری کرشن جی کے شاگرد ہیں جن پر سے آپ نے گندگی کے لباس اُتارے اور پاک تعلیم سے جو پانی کی صورت میں دکھایا گیا ان کو نہلا یا بعدہ ان کو اچھا پاک اور صاف لباس دیا جو تقویٰ سے پر تھا.اور اصل لباس تقوی ہی ہے اس کا ذکر قرآن کریم میں بھی موجود ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے : يُبَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوَاتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ (الاعراف : ۲/۲۷) التَّقْوَى « ذُلِكَ خَيْرُ یعنی اے آدم کی اولاد ! ہم نے تمہارے لئے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری چھپانے والی جگہوں کو چھپاتا ہے اوزینت کا موجب بھی ہے.اور تقویٰ کا لباس تو سب سے بہتر لباس ہے.الغرض انبیاء کا کام ہی تقویٰ کا قیام ہے.اس لئے شری کرشن جی کے لئے بھی یہ لازمی تھا کہ وہ لوگوں کو تقویٰ کا لباس دیتے.آپ نے یقینی طور پر وہی لباس ان لوگوں کو دیا جو تقویٰ کے لباس سے عاری اور بالکل ننگے تھے.اس واقعہ میں شری کرشن جی کو جو درخت پر بیٹھا دکھایا گیا ہے وہ آپ کے بلند مقام کی نشاندہی کرتا ہے اور بلند مقام اسی کو حاصل ہوتا ہے جو متقی ہو جس کا اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتفيكُمُ (الحجرات آیت (۱۴) میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت کے لائق وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.تو پھر کیا خدا کے انبیاء کے لئے اس ۳۲

Page 36

مقام کو حاصل کرنا کوئی مشکل امر ہے.پس یہ تمام تر واقعہ جو ہمارے کرشن جی کی طرف تصویری رنگ میں پیش کیا جاتا ہے اپنے اندر استعارہ اور بڑی حکمت رکھتا ہے اس جگہ میں پھر شری کرشن پریمیوں سے کہوں گا کہ ہم بھی تو کرشن پریمی ہیں.آپ کو اپنے کرشن کی طرف ایسی غلط باتوں کو منسوب کرنے کا کوئی حق نہیں بنتا جس سے ان کی کسر شان ہو.میں امید کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو شری کرشن جی کی طرف ایسی بیہودہ باتیں منسوب کرتے ہیں اس سے باز آجائیں گے اور ان واقعات کو ویسے ہی اچھے معنوں میں لوگوں کے سامنے پیش کریں گے جیسا کہ ہم کرتے ہیں اسی بات سے ہی آپ لوگوں کی شری کرشن جی مہاراج سے محبت کا ثبوت ملے گا.(۳) گوپیوں کی حقیقت :: اسی طرح شری کرشن جی کے متعلق ایک یہ بات بھی ہمارے ہندو بھائی بیان کرتے ہیں کہ شری کرشن جی کی ہزاروں گو پیاں تھیں.اور پھر ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی باتیں بھی بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں.اوّل تو ہمارے نزدیک گوپیوں سے مُراد آپ کے شاگرد ہیں جنہوں نے آپ کی تابعداری قبول کر لی تھی چونکہ شاگردی کا مقام ایسا ہوتا ہے کہ اُستاد کا ہر کہا مانا جاتا ہے جس کو مرد عورت کے تعلقات سے مشابہت دی جاسکتی ہے کہ جب کوئی عورت کسی مرد سے شادی کر لیتی ہے تو وہ اپنے آپ کو بکلی طور پر اس کی غلامی میں ڈال دیتی ہے.انبیاء کے ہاتھوں پر جمع ہونے والے بھی بالکل اسی طرح اپنے آپ کو انبیاء کی غلامی میں داخل کر لیتے ہیں اور ان کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہیں جس کا اصل نچوڑ لفظ بیعت میں پایا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو کسی کے ہاتھوں میں فروخت کر دینا.وہ لوگ جو آ پر ایمان لائے تھے اُنہوں نے اپنے آپ کو شری کرشن جی کے ہاتھوں میں بیچ دیا تھا اور وہ

Page 37

آپ کے ہر حکم پر عمل کرتے تھے جس کا بھی آپ ان کو حکم دیتے جیسے ایک عورت مرد کے ہر حکم پر عمل کرتی ہے.اس طرح اس آقا اور غلامی کے تعلق کو تصویری زبان میں کرشن جی کی گوپیوں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے.اس کا ایک دوسرا بھی پہلو ہوسکتا ہے.وہ یہ کہ جو لوگ شری کرشن جی کی طرف کثرت ازدواج کی بات کو منسوب کرتے ہیں اس کو اس زمانہ کے لحاظ سے اس طرح درست بھی مانا جاسکتا ہے کہ وہ گو پیاں آپ کی جائز بیویاں ہی ہوں اور اس کی مثال پہلے انبیاء میں پائی بھی جاتی ہے جیسا کہ مفسرین نے قرآن کریم کی تفاسیر میں حضرت داؤڈ اور حضرت سلیمان کو کثرت ازدواج والا بیان کیا ہے.لیکن ہمارے نزدیک بہر حال گوپیوں والا واقعہ خالص میتھالوجی ہے جو صرف ان خیالات و جذبات محبت کی ترجمانی کرتی ہے جو ایک نبی اور ہادی کو اپنے پیروؤں اور متبعین سے ہوتی ہے اور ہونی چاہیئے.(۴) بانسری کی حقیقت :: چوتھی بات جو حضرت کرشن جی کی طرف تصویری زبان میں پیش کی جاتی ہے وہ آپ کا بانسری بجانا ہے.اگر دیکھا جائے تو انبیاء اس کام کے لئے نہیں آیا کرتے.ان کا کام تو خدا کی باتوں کو دوسروں تک پہنچانا ہوتا ہے اور جب وہ خدا کی باتوں کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں تو اس رنگ میں پہنچاتے ہیں جو دلوں میں اُتر جائیں.شری کرشن جی بھی جو کلام کرتے تھے وہ ایسا ہی ہوتا تھا کہ جو دلوں میں اُتر جائے اور لوگوں کے دلوں کو موہ لے چونکہ بانسری بھی یہی کام کرتی ہے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اس لئے حضرت کرشن جی کی ان موہ لینے والی اور دلوں میں اُتر جانے والی اور دلوں پر قبضہ کر لینے والی باتوں کو بانسری سے مشابہت دی ہے.ہر زمانے میں ایسے لوگ ہوتے آئے ہیں جو روحانیت سے پر باتوں سے لوگوں کو اپنی ۳۴

Page 38

طرف مائل کرتے رہے اور آج کے زمانہ میں بھی موجود ہیں تو پھر یہ بات شری کرشن جی کی طرف کیوں منسوب نہیں کی جاسکتی کہ آپ بھی جب خدائی باتوں کو بیان کرتے تھے تو لوگوں کو اپنی طرف مائل کر لیتے تھے اور آپ کا کلام بانسری کی سی میٹھی آواز کا مزا دیتا تھا جو دلوں پر قبضہ کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہوسکتا ہے وہ یہ کہ ہوسکتا ہے اس زمانہ میں لوگوں کو خدا کا کلام اسی بانسری کی سی دُھن میں سننا اچھا لگتا ہو اس لئے آپ اس کلام کو نغماتی انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوں اور اس کی مثال بائبل کے عہد عتیق کی کتابوں سے پیش کی جاسکتی ہے جہاں ایک کتاب کا نام ”غزل الغزلات“ ہے جس کا کلام ایک غزل کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے.اسی طرح زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی اور آپ ایک اولو العزم پیغمبر تھے.ان کے واقعات کو پیش کرتے ہوئے خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے : وَلَقَدْ أَتَيْنَا دَا وَدَمِنَّا فَضْلًا يَجِبَالُ اَوِبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ (سورة سبأ آيت : ۱۱) مفسرین اس کی تفسیر یوں کرتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام جب زبور کو خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے چونکہ آپ نہایت خوش الحان تھے تو پہاڑ اور پرندے بھی آپ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے.جہاں تک خدا کے کلام کو خوش الحانی سے پڑھنے کی بات ہے تو اس کا ذکر قرآن کریم میں ایک جگہ یوں آتا ہے کہ : وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (المزمل آیته) یعنی اور قرآن کو خوش الحانی سے پڑھا کر.پس عین ممکن ہے کہ حضرت کرشن جی کے زمانہ میں خدائی کلام کو خوش الحانی سے پڑھنے کی غرض سے بانسری کا استعمال ہوتا ہولیکن جہاں تک شری کرشن جی کی تصاویر کے ساتھ ۳۵

Page 39

بانسری کو دکھا کر یہ نظریہ پیش کرنا کہ آپ ہر وقت بانسری ہی بجایا کرتے تھے یہ خیال غلط ہے اور شری کرشن جو اپنے زمانے کے نبی تھے ان کے شایانِ شان بھی نہیں.(۵) گائیوں کی حقیقت :: شری کرشن جی کی تصاویر کے ساتھ جو پانچویں چیز پیش کی جاتی ہے وہ گائیں ہیں اور ہندوؤں میں گائے کو ایک بہت بڑا مقام بھی دیا جاتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ گائے لوگوں کے لئے بہت فائدہ بخش جانور ہے لیکن اس کے علاوہ اور بھی تو بہت سے دودھ دینے والے جانور ہیں جن سے انسان اسی طرح فائدہ حاصل کرتا ہے جیسے گائے سے.مگر جتنی محبت اور عقیدت ہندوؤں کو گائے سے ہے دوسرے جانوروں سے نہیں.اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ شری کرشن جی کو گائے بہت محبوب تھی اور گائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا کرتی تھیں.قارئین کرام ! انبیاء کا کام جانور چرانا نہیں ہوا کرتا.یہ بات درست ہے کہ بہت سے انبیاء نے اپنی زندگیوں میں جانور چرائے ہیں لیکن ان کا اصل کام جانوروں کو چرا نا نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی اصلاح کرنا ہوتا ہے.شری کرشن جی کی پوری زندگی کے ساتھ گائیوں کو اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ گویا آپ صرف اور صرف انہیں کے لئے مبعوث ہوئے تھے.یہ بات بھی بالکل غلط ہے.آپ کا اصل کام بنی نوع انسان کی خدمت کرنا اور ان کو خدا سے آشنا کروانا اور لوگوں کو مخلوق خدا کے لئے فائدہ بخش وجود بنانا تھا سو آپ نے ایسا ہی کیا.آپ کے ساتھ جو گا ئیں دکھائی جاتی ہیں وہ اصل میں وہ لوگ ہیں جو شری کرشن جی کی تابعداری کے نتیجہ میں اور آپ کی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں کلیۂ مخلوق خدا کے خادم ہو گئے تھے جو ہر وقت شری کرشن جی کے ساتھ رہ کر آپ کی متابعت میں مخلوق خدا کی خدمت کرتے تھے جن کو شاگرد خاص کہا ۳۶

Page 40

جاسکتا ہے.ایک ایسا شخص جو کبھی کسی کو دُ کھ نہ دے اور ہر ایک کا کام بنا کسی بینچ پہنچ کے کرتا چلا جائے اور ہر بڑے چھوٹے کا کہا مانے تو اس کو عام محاورہ میں گائے کہا جاتا ہے کہ یہ تو آدمی نہیں گائے ہے.جبکہ وہ گائے نہیں ہوتا لیکن چونکہ اس میں گائے کی صفات داخل ہو چکی ہوتی ہیں اسلئے اس کو گائے کہہ دیا جاتا ہے.پس شری کرشن جی کے شاگردوں نے چونکہ اپنے اندر ایسی ہی صفات پیدا کر لی تھیں اس لئے ان کو شری کرشن جی کے ساتھ گائیوں کی شکل میں دکھایا جاتا ہے نہ کہ وہ حقیقی گائیں ہیں.شری کرشن جی کی طرف جس قسم کی باتیں منسوب کی جاتی ہیں ایسی ہی باتیں دیگر انبیاء کی طرف بھی منسوب ہوتی رہی ہیں اور خاص طور پر حضرت داؤد علیہ السلام پر ایسی ہی تہمتیں لگائی جاتی رہیں اور ان کی طرف عشق و محبت کے افسانے منسوب کئے جاتے رہے ہیں.جس طرح ان پر لگائی جانے والی تہمتیں اور الزام درست نہیں.اسی طرح شری کرشن جی پر لگائے جانے والے الزامات اور واقعات بھی درست نہیں.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ”ہندوؤں میں جو ایک نبی گزرا ہے جس کا نام کرشن تھا.افسوس کہ جیسے داؤد نبی پر شریر لوگوں نے فسق و فجور کی تہمتیں لگا ئیں ایسی ہی تہمتیں کرشن پر بھی لگائی گئی ہیں اور جیسا کہ داؤ د خدا تعالیٰ کا پہلوان اور بڑا بہادر تھا اور خدا اس سے پیار کرتا تھا ویسا ہی آریہ ورت میں کرشن تھا.پس یہ کہنا درست ہے کہ آریہ ورت کا دائڈ کرشن ہی تھا اور اسرائیلی نبیوں کا کرشن داؤڈ ہی تھا کیونکہ زمانہ اپنے اندر ایک گردش دوری رکھتا ہے اور نیک ہوں یا بد بار بار دنیا

Page 41

میں ان کے امثال پیدا ہوتے رہتے ہیں.“ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۷) سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے قارئین غور کریں کہ شری کرشن جی کے حسین چہرہ سے جب اوہام رذیلہ اور افسانوی عقائد کی گرد کو صاف کرتے ہیں تو آپ کا چہرہ کس قدر منور اور روشن نظر آتا ہے اور آپ کے وجود سے انوار نبوت کی شعاعیں نکلتی نظر آتی ہیں.اس لئے بحیثیت ہادی و نبی و اوتار کے آپ کے وجود کو قابل عظمت ولائق تعظیم ثابت کر دینے کے لئے اب کسی مزید صراحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی.کلکی اوتار کا ظہور شری کرشن جی کی آمد ثانی کے بارے میں بھی ہندوؤں میں ایک عقیدہ پایا جاتا ہے اور آپ کی آمد ثانی کو کلکی اوتار کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے.اور یہ عقیدہ اپنی جگہ ایک بہت بڑی حیثیت رکھتا ہے.جب یہ امر ثابت ہو چکا کہ آپ اپنے وقت کے نبی اور اوتار تھے تو آپ کی طرف منسوب ہونے والی آپ کی آمد ثانی کے متعلق پیش گوئی بھی ضرور سچی ہے.چونکہ نبی خدا سے علم پا کر پیش گوئی کرتا ہے اور وہ وہی پیش گوئی ہے جو اس مضمون کے شروع میں بیان کر دی گئی ہے کہ : جب بھی دھرم کا ناش اور ادھرم کی زیادتی ہونے لگتی ہے تو میں نیکوں کی حفاظت اور گناہ گاروں کی سرکوبی اور دھرم کو قائم کرنے کے لئے ینگ ینگ میں پرکٹ ہوتا ہوں.بھگوت گیتا ادھیائے ۴ شلوک ۷-۸)

Page 42

شری کرشن جی کی اس پیش گوئی کو بیان کرتے ہوئے آپ کے پیروکار ہمیشہ سے ہی کل یگی دور میں آپ کی آمد ثانی کے منتظر رہے اور ہیں.بالکل اسی طرح جس طرح مسلمان اور عیسائی امام مہدی اور مسیح کے منتظر ہیں.وہ لوگ جنہوں نے شری کرشن جی کی آمد ثانی کو بڑی وضاحت کے ساتھ دنیا والوں کے سامنے پیش کیا ہے انہوں نے آپ کی آمد ثانی کی بہت سی نشانیاں بھی پیش کی ہیں جس میں خاص طور پر کل یگ کے زمانہ کو آپ کی آمد ثانی کا زمانہ بیان کیا گیا ہے جو کہ دکھوں اور تکلیفوں کا دور ہو گا جس سے آپ دنیا والوں کو نجات دلائیں گے.آج کے زمانہ کے متعلق جب بات کریں تو ہر شخص کے منہ پر یہ آتا ہے کہ یہ کل یگ ہے.کل یگ کے عام طور پر دو معنے بیان کئے جاتے ہیں.ایک معنی بڑے بیگ کے ہیں اور دوسرے معنی مشینی یگ کے.اور یہ دونوں معانی فی زمانہ صادق آتے ہیں.ہندو شاستر میں چار یگ بیان کئے گئے ہیں.ایک ست یگ.اس کا زمانہ ۱۲۰۰ سال بیان کیا جاتا ہے.دوسرا تریتا بیگ.اس کا زمانہ ۲۴۰۰ سال بیان ہوا ہے.تیسرا دوا پر یگ.اس کا زمانه ۳۶۰۰ سال بیان کیا جاتا ہے اور چوتھا یگ ، کل یگ ہے.اس کا زمانہ ۴۸۰۰ سال تک لمبا چلتا ہے.پس یہی وہ ینگ ہے جس میں برائی انتہا کو پہنچی ہوئی ہوگی اور دھرم کا ناش ہو چکا ہوگا تو شری کرشن جی پر کٹ ہوکر دنیا کا سدھار کریں گے.کلنگ کی نشانیاں ہندوؤں کی کتب میں کل ینگ کی بہت سی نشانیاں بیان ہوئی ہیں جن کے متعلق خیال ہے کہ کلجگ اوتار کے ظہور سے قبل ان کا پورا ہونا ضروری تھا.ان نشانیوں میں سے بعض کو یہاں تحریر کرتا ہوں.۳۹

Page 43

" ہے راجہ ! کہ کلیگ میں لوگ سچائی اور دھرم چھوڑنے کی وجہ سے کمزور ہوں گے اور عمر کم ہوگی اور کرم دھرم سب چھوٹ جائیں گے.اور بادشاہ پر جا سے لگان وغیرہ لیں گے اور دکھ دیا کریں گے.اور بارش کم ہوگی جس کی وجہ سے اناج گراں رہے گا.....اور لوگ تھوڑی عمر ہونے پر بھی آپس میں فساد اور جھگڑا کریں گے اور اپنا دھرم چھوڑ کر جھوٹی سوگندھ (قسم) اور جھوٹی گواہی پیسے کی خاطر دیں گے اور پاپ اور پٹن کا خیال اور نیک و بد کی پہچان جاتی رہے گی.چوری وغیرہ جاری کریں گے.....براہمنوں کے لئے نشانی نہ رہے گی کہ جس سے کوئی پہچان سکے کہ فلاں برہمن ہے اور دھن والے کی خاطر لوگ جان دیں گے اور اونچ نیچ کا کوئی خیال نہ رہے گا اور بیوپار میں دھوکا اور استری کی کوئی ذات خیال نہ رکھ کر بھوگ ولاس کیا کریں گے.اور برہمن کا دھرم کرم چھوٹ جائے گا.....اور لوگ اپنے سر پر جٹیں بڑھا کر اپنے آپ کو برہم چاری کہلائیں گے اور بات پرست ہوں گے اور کنگال آدمی پیسے والے کو اونچی ذات کا سمجھیں گے اور جھوٹ بولنے والا سچا اور عقلمند کہلائے گا اور ہر ایک ذات تپ جپ اور کرم دھرم چھوڑ کر اشنان کرنے کے بعد کھانا کھا لیا کریں گے اور نہانے کو او تم کہیں گے.اور اپنے لیش اور بُرائی کی باتیں کیا کریں گے اور اپنے آپ کو خوبصورت بنانے کی خاطر سر پر بڑے بڑے بال رکھیں گے اور پر لوک سدھار کوئی نہ ہوگا اور ملک میں چور ڈاکو زیادہ ہو ہو کر لوگوں کو تنگ کریں گے اور تکلیف پہنچائیں گے اور بادشاہ چوروں سے مل کر رعیت کا مال وزر چھین لیا کریں گے

Page 44

اور چھوٹی چھوٹی عمر میں شادی کیا کریں گے جس سے دس سال کی عمر میں لڑکے لڑکی کے بالک ہوا کریں گے.اچھی ذات یعنی کلین استریاں دوسروں کی خواہش کیا کریں گی.جو کوئی کھانے کو دے گا اسے اچھا سمجھا کریں گی اور اپنے پیٹ کی ہر ایک کوکو رہے گی.بہت سے پرش اناج اور کپڑے سے تنگ رہیں گے.....چاروں ورن ایک ہوکر استریاں پرشوں پر راج کریں گی.اور لڑ کے ماں باپ کی سیوا چھوڑ کر سسرال کے آدمیوں کی سیوا کر کے بہت خوش ہوں گے.اپنے نزدیک کے تیر تھوں کو چھوڑ کر دور کے تیرتھ کو اچھا سمجھیں گے اور وہاں جایا کریں گے.تیر تھوں کے پھل کا کوئی پکا یقین نہ ہوگا اور ہؤن ینگ بہت کم ہوں گے.“ اسی طرح آگے لکھا ہے کہ وو : کلیگ میں تین حصہ پاپ اور ایک حصہ پٹن رہ جاتا ہے.اس لئے دھرم کے تین پاؤں ٹوٹ جاتے ہیں.اور ایک پاؤں رہ جاتا ہے.اس لئے کلیگ میں تھوڑا سا دان اور سچائی رہ جاتی ہے.مگر آخر وہ بھی چھوڑ دیں گے.اس لئے کلیگ کے وقت میں بہت سے لوگ کر ودھی اور بدصورت اور بُرے بھاگوں والے پیدا ہو کر ایک ایک پیسہ کی خاطر منش کو جان سے مارڈالا کریں گے اور اچھے اچھے کل کی عورتیں اپنے خاوند سے محبت چھوڑ کر دوسروں سے کریں گی اور استریاں پیسے کی ہوں گی اور غریبی کی حالت میں اپنے پتی کو چھوڑ کر دوسرے کے گھر چلی جاویں گی اور ہر ایک خوبصورت عورت کے پیچھے پیچھے پھرے گا اور عمدہ کھانے کی خواہش کریں گے اور

Page 45

سنیاس سب چھوٹ جائے گا اور نوکر ہوں گے مگر دُکھ کے وقت اپنے مالک کی سایتا (مدد) نہ کرتے ہوں گے.دوسری جگہ جا کر نوکر ہوا کریں گے اور بہت سے لوگ اولاد کے خواہش مند ہوں گے اور جن کے نہ ہونے سے بھوت پریت کی پوجا کیا کریں گے اور مایا کی خاطر پتر اور بھائی بھائی آپس میں دکھ دیں گے اور کم اناج ہونے پر لوگ اپنی بیٹی بیٹا کھانے کی خاطر بیچ ڈالیں گے.....اس طرح انیک پاپ ہو کر پر ماتما کی بھگتی کم ہو جائے گی.“ ( شریمد بھگوت پران ، بارہواں اسکند صفحه ۶۵۰ تا۶۵۴، اردوترجمه مطبع منشی نول کشور مقام لکھنو ۱۹۳۲ء ) ( مہابھارت ون پر مجھ ) کلیگی آوتار کا انتظار شری کرشن جی مہاراج نے کل یگ کی جتنی بھی نشانیاں بیان کی تھیں وہ سب کی سب پوری ہو چکی ہیں.یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ میں شری کرشن جی کے سچے پریمیوں نے آپ کی آمد ثانی کا بڑی شدت سے انتظار کیا اور آج بھی کر رہے ہیں ایک صاحب لکھتے ہیں : نغمہ توحید پھر آکر سنا دے ہند کو پست ہے یہ اوج کی صورت دکھادے ہندکو رہا ہے قصر ذلت میں اُٹھادے ہند کو روکش باغ جناں پھر سے بنادے ہند کو اے کرشن آ! بام رفعت پر چڑھا دے ہند کو ڈھونڈتے ہیں ہند کے دن رات مجھ کو مرد وزن پھر ترستے ہیں ترے دیدار کو اہلِ وطن

Page 46

کہن پھر مئے عرفاں پلادے ، ساقی - بزم خونِ دل سے پہینچ دیں تا بادہ کش اُجڑا چمن برق دل میں ہندوؤں کے پھر لگا ایسی لگن کلام جناب رام رکھامل برق بٹالوی پرتاپ کرشن نمبر ۱۱ اگست ۱۹۲۵) اس قسم کی کتنی ہی نظمیں آپ کی آمد ثانی کے شوق میں لوگوں کی لکھی ہوئی موجود ہیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شری کرشن نبی تھے اور نبی غلط بات بیان نہیں کرتا.زمانہ بھی آپ کی پیش گوئیوں کے مطابق ویسا ہی آگیا تو پھر آخر کرشن تشریف کیوں نہ لائے؟ اس ضمن میں عرض ہے کہ ہر مذہب والا اس زمانہ میں ایک اوتار کا منتظر ہے اور تمام مذاہب کی کتب میں اس آنے والے اوتار کا زمانہ یہی بیان کیا گیا ہے اور ہر مذہب والا آنے والے کو اپنے مذہب سے ظاہر ہونے کے خیال پر بیٹھا ہے.ہندوؤں کا خیال ہے کہ وہ ہندوؤں میں سے ہوگا.عیسائیوں کا خیال ہے کہ وہ عیسائیوں میں سے ہوگا.اور مسلمانوں کا خیال ہے کہ وہ مسلمانوں میں سے ہوگا.اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر مذہب میں ایک ایک اوتار ہوگا یا پھر سب مذاہب کی طرف ایک اوتار آئے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ او تا رسب کا ایک ہی ہوتا ہے اور ایک ہی ہوگا.البتہ جس زمانہ میں ایک قوم کا دوسری قوم سے کوئی تعلق نہ تھا اور ایک قوم اپنے سوا کسی دوسری قوم کو جانتی ہی نہ تھی تو ایسے وقت میں الگ الگ قوموں میں الگ الگ نبی ضرور آئے لیکن خدا کی طرف سے لائی ہوئی تعلیم میں سب یکساں تھے جس کو خدا نے آہستہ آہستہ سلسلہ انبیاء کے ذریعہ سے ترقی دی اور جس وقت ساری دنیا ایک قوم کی صورت اختیار کرگئی تو پھر خدا نے ساری دنیا کے لئے ایک نبی کو مبعوث کیا تا کہ ساری دنیا وحدت پر قائم ہو جائے اور ایک گھر کی صورت اختیار کرے.

Page 47

مسلمانوں کا انتظار کرنا خود مسلمانوں میں بھی ایک امام مہدی کے ظہور کا انتظار ہے.جیسا کہ ابوالخیر نواب نور الحسن خان صاحب نے ۱۳۰۱ ہجری میں لکھا : امام مہدی کا ظہور تیرہویں صدی پر ہونا چاہئے تھا.مگر یہ صدی پوری گزرگئی تو مہدی نہ آئے.اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے.اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے تک چھ ماہ گزرچکے ہیں.شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل و رحم و کرم فرمائے.چار چھ سال کے اندر مہدی ظاہر ہو جائیں.“ (اقتراب الساعۃ صفحه ۲۲۱) محترم نواب صدیق حسن خان صاحب والی کبھو پال نے امام مہدی کے انتظار کا ذکر اس یقین کے ساتھ فرمایا ہے کہ گو یا مسیح و مہدی جلد آنے والے ہیں.فرمایا : این بنده حرص تمام دارد که اگر زمانہ حضرت روح اللہ سلام اللہ علیہ را 66 دریا بم اول کسے کہ ابلاغ سلام نبوی کند من باشم “ نج الکرامه صفحه ۴۴۹، مطبوعہ ۱۲۹۱ هجری) یعنی کہ یہ بندہ بڑی خواہش رکھتا ہے کہ اگر زمانہ حضرت رُوح اللہ (عیسی علیہ السلام کا پاؤں تو پہلا شخص جو انہیں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچائے وہ میں ہوں.“ عیسائیوں کا انتظار ایک مشہور عیسائی مسٹر جے ایچ میور لکھتے ہیں : وو و ہمیں سچے نجات دہندہ کی ضرورت ہے ہاں ایسے نجات دہندہ کی جو

Page 48

ہمیں ان بیٹیوں سے آزاد کر دے کہ جس میں ہم بچپن سے ہی جکڑے جاتے ہیں.“ کتاب علم الاخلاق اور تعلیم صفحہ ۹، بحوالہ ظہور امام مہدی صفحه ۹۳-۹۲) عیسائیوں نے تو بہت سے اندازے لگا کر مسیح کی آمد ثانی کے لئے وقت بھی مقرر کئے تھے اور The Appointed Time، ہر گلوریس اپیئر نگ ، کرائٹس سیکنڈ کمنگ جیسی کئی کتا بیں بھی لکھیں ہیں.الغرض تمام قو میں ہی ایک اوتار کی منتظر رہی ہیں اور اب بھی ہیں.آنے والا او تار موعود اقوام عالم اس زمانہ میں جس اوتار کا انتظار کیا جارہا ہے وہ آنے والا سب قوموں کے لئے ایک ہوکر آئے گا.میری اس بات کی تصدیق کہ سب مذاہب کی طرف آنے والا او تار ایک ہی ہوگا.سوامی بھولا ناتھ جی حسب ذیل الفاظ میں کرتے ہیں.فرمایا : وو دنیا کے تمام مذہبی گرنتھوں میں لکھا ہے کہ آج کل کسی روحانی طاقت کا ظہور ہونے والا ہے اور وہ آکر ہمارے سارے دکھوں کو دُور کرے گا.ہندو کہتے ہیں کہ وہ پورن برہم نشکلنگ اوتار دھارن کریں گے.مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی کا ظہور ہوگا.سکھوں کا عقیدہ ہے کہ کلکی اوتار ظاہر ہوگا.عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی خدا سے الگ ہو کر ظاہر ہوں گے.اب یہ غور کرنا ہے کہ یہ ساری ہستیاں ایک ہوں گی یا علیحدہ علیحدہ.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک ہی ہستی ہوگی جس کو سب اپنا جانیں گے اور مختلف ناموں سے پکاریں گے یا مسلمان ہندو عیسائی بدھ سب ان کو اپنی اپنی نظر سے ۴۵

Page 49

دیکھیں گے.اور وہ تمام دھرموں کی اُن باتوں کو جو کہ غلطی سے دھرم کا جزو بن گئی ہیں دُور کر کے دھرم کے پوتر چہرہ کو پیش کرے گا اور اس کو کوئی پرایا خیال نہیں کرے گا.(رسالہ ستیه یگ الہ آباد مارچ ۱۹۴۱ ، صفحہ ۳) اسی طرح رسالہ ستیہ ینگ میں ہی ایک جگہ لکھا ہے کہ : وو " یہ زمانہ جو ہماری اُمیدوں کے مطابق ایک سنہری زمانہ ہوگا.جس میں خدا کی مرضی کے مطابق دنیا چلے گی.جس کے لئے خدا کی طرف سے کوئی آدمی ضرور آئے گا جو دنیا کو دکھوں سے نکال کر خدا کے دروازہ پر اس کی مخلوق کو لے آئے گا.تمام مذاہب والے اس کو ایک نظر سے دیکھیں گے اور علیحدہ علیحدہ ناموں سے پکاریں گے.جیسے اوتار، مسیح،مہدی، پیر، گرو، وغیرہ.یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان اختلافات کو دور کرے جو کہ مرور زمانہ کی وجہ سے مذہبوں کے اندر پیدا ہو گئے ہیں.حالانکہ مذہب کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں.دھرم کے روشن چہرا کولوگوں کے سامنے پیش کرے اور اس طرح تمام ان بڑے عقائد کو کہ لوگوں نے بے وقوفی سے مذہب کا جزو قرار دیا ہے، دُور کر کے ایک سیدھا راستہ دکھائے.“ ( رساله ستیه یگ الہ آباد مارچ ۱۹۴۱) او پر بیان کردہ نظریات صرف ہندوؤں کے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے بھی اسی طرح کے خیالات ہیں کہ خدا کی طرف سے آنے والا ایک ہی ہوگا.اور وہ سب مذاہب اور تمام اقوام کی اصلاح کرے گا اور ہر قوم والا اس کو اپنا خیال کرے گا.نیز وہ تمام مذاہب میں پائے جانے والے غلط عقائد کو دور کر کے ان کو صحیح عقیدہ پر قائم کرے گا.جب وہ زمانہ آگیا جس میں اس کے آنے کی اُمید تھی تو سب کی نظریں آسمان کی طرف ۴۶

Page 50

اُٹھنے لگیں اور لوگوں نے اپنے اپنے خیالات کے مطابق اندازے پیش کرنے شروع کئے کہ وہ آنے والا اوتار اتنے عرصہ میں ضرور ظاہر ہو جائے گا.اسی بات کا اظہار کرتے ہوئے لاہور کے ایک مشہور اخبار ٹریبیون نے اپنی اشاعت مورخہ ۸ جولائی ۱۸۹۹ء میں ایک نجومی کا مضمون شائع کیا جس میں وہ لکھتا ہے کہ : دوو ۱۹۰۰ ء سے ایک نئے دور کی ابتداء ہوتی ہے.۱۸۰۰ سے ۱۹۰۱؛ تک ایک بڑے دور کا خاتمہ ہوتا ہے.جس کے ختم پر آفتاب ایک نئے برج میں داخل ہوتا ہے.یہ واقعہ قریباً (۲۱۶۰) سال میں ایک دفعہ ہوتا ہے اور اس کا نظام شمسی پر ہمیشہ گہرا اثر پڑتا ہے.ایسے موقعہ پر ستارے ایک جا جمع ہوتے ہیں یعنی اجرام فلکی ( ایک راشی میں جمع ہوتے ہیں) اور اس طرح ان کا جمع ہونا زمین پر بڑا اثر ڈالتا ہے.صحیح علم تاریخ کی رو سے جب پچھلی دفعہ زمین ایک نئے برج میں داخل ہوئی تھی تو مسیح پیدا ہوئے تھے.حقیقت میں سنہ عیسوی ہمارے موجودہ حساب سے (۱۶۰) سال بعد شروع ہوا.یعنی جس کو ہم (۱۶۰) عیسوی کہتے ہیں وہ اصل میں سنہ عیسوی کا پہلا سال تھا.ہندوؤں کے فن تاریخ کے لحاظ سے جب آفتاب مسیح کی پیدائش سے پہلے نئے برج میں داخل ہوا تھا تو اس وقت کرشن پیدا ہوئے تھے.“ علم حقائق کے کچھ محققین کا اس پر اصرار ہے کہ ۱۹۰۰ ء میں کلمتہ اللہ کا ایک نیا ظہور اور زمین پر خدا کا ایک نیا اوتار ہوگا.جو انسانیت کے لئے وہ کچھ کرے گا جو مسیح نے اپنے زمانہ میں کیا.محققین بتلاتے ہیں کہ ہر ۲۱۶۰ سال بعد ایک نیا بدھ یا مسیح پیدا ہوتا ہے جو دنیا کو اعلیٰ زندگی کے لئے بیدار کرتا ہے اور لوگوں کو وہ اعلی علم دیتا ہے جو صدیوں تک صرف چند لوگوں

Page 51

میں محدود ہوتا ہے.جب بھی کبھی خدا کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے تو اس کی آمد کے ساتھ ہی ست یگ کا آغاز ہو جاتا ہے اور کلیگ کا خاتمہ اور بھگوت پر ان میں ست یگ کے آغاز کی ایک نشانی اس طرح بیان کی گئی ہے.यदा चन्द्रक्ष्य सूर्यक्ष्य तिव्य बृहस्पति एक राशौ समेव्यन्ति तथा भवति तत्कृतम شریمد بھاگوت پر ان سکند ۱۲، ادھیائے ۲ ،شلوک (۲۴) یعنی جب کچھ کھشتر میں چندر ما اور سورج اور بر جسپتی ایک راشی میں جمع ہوتے ہیں تب ست یگ کا آغاز ہو جاتا ہے.یہ نشان شری وید و یاس جی نے بیان کیا ہے.انجیل مقدس میں بھی جہاں مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا ذکر ہے وہاں آتا ہے کہ اور فورا اُن دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی.اور اُس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا.وو متی باب ۲۴ ، آیت ۳۰،۲۹) اس میں بھی وہی مضمون بیان ہوا ہے جو دید ویاس جی نے پران کے اس حوالہ سے جو اوپر گزر چکا ہے نکالا ہے.کیونکہ سورج چاند اور زمین جب بھی ایک راشی میں جمع ہوتے ہیں تو سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے جس کے نتیجہ میں سورج اور چاند روشنی دینا بند کر دیتے ہیں.سورج چاند کو عام طور پر گرہن ہوتا ہی رہتا ہے لیکن جس لوگ کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ عام لوگ نہیں بلکہ ایک خاص لوگ ہے جو ایک خاص اوتار کی آمد پر خاص طور پر پڑتا تھا.وہ وہی اوتار

Page 52

ہونا تھا جو شری کرشن مسیح ابن مریم اور مہدی کے روپ میں ظاہر ہونا تھا.اسی خاص یوگ کے بارے میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ایک پیشگوئی موجود ہے آپ فرماتے ہیں : إِنَّ لِمَهْدِينَا أَيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ - (سنن دار قطنی صفحه ۸۸ ابابصفةصلوٰةالخسوف والكسوف وهَيْئَتِهِمَا ، مطبع فاروقی دہلی) فرمایا ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ہیں جو زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے آج تک کسی کے لئے ظاہر نہیں ہوئے یعنی ماہِ رمضان میں چاند کو ( چاند گرہن کی راتوں سے ) پہلی رات کو اور سورج کو ( سورج گرہن کی تاریخوں میں سے ) درمیانی تاریخ کو گرہن ہوگا.یہ وہی مضمون ہے جو پران اور انجیل میں مذکور ہے.چونکہ اس نشانی کا ظہور ایک خاص اوتار کے لئے ہونا تھا جس کے ظہور سے ست یگ کا آغاز ہونا تھا اسی لئے ہی تینوں بڑے مذاہب میں اس نشانی کا ذکر موجود ہے.قارئین کرام ! یہ خاص نشان کہ سورج اور چاند اور برہمسپتی ایک راشی میں جمع ہوکر روشنی دینا بند کریں گے جو کہ گرہن کی صورت میں ہونا تھا ، ۱۸۹۴ء میں ہو چکا اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح پیش گوئی کے مطابق یہ لوگ ۱۸۹۴ء کے ماہِ رمضان کی تیرہویں تاریخ کو چاند کو گرہن لگنے اور اٹھائیسویں رمضان کو سورج کو گرہن لگنے سے پڑچکا وو ہے.اس تعلق سے اخبار آزاد نے لکھا : امام مہدی علیہ السلام کی صداقت پر گواہ یہ عظیم الشان نشان ۱۸۹۴ء میں ۳۱۱ ہجری کے رمضان المبارک کی مقررہ تاریخوں تیرہویں اور اٹھائیسویں پر ظاہر ہوا.“ ( اخبار آزاد ۴ رمئی ۱۸۹۴ ) ( سول اینڈ ملٹری گزٹ ۱/۶ پریل ۱۸۹۴ء) ۴۹

Page 53

کلکی اوتار کا نام احمد ہو گا ہندو مذہب میں کلکی پر ان کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے.اس میں آئندہ زمانہ کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں.آخری زمانہ میں برائیوں نے پھیل جانا تھا جیسا کہ آپ اس تعلق سے پیچھے پڑھ چکے ہیں.ایسے وقت میں شری کرشن کے بروز کا نام بھی اس میں آتا ہے جو ان پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرے گا اور دنیا کا سدھارک ہوگا جیسا کہ لکھا ہے : ترجمه :: کلکی بھگوان اون میں اور باغیچوں کو دیکھ کر جو شہر کے قریب تھے ، دل میں بہت خوش ہوئے.احمد نے عزت اور محبت سے کہا.اے طوطے ! اس جگہ ہم اشنان کریں گے.“ ( کلکی پر ان اردو تر جمہ باب ۲، ادھیائے اشلوک ۴۷ تا ۴۹،صفحہ ۴۸) ( مترجم پنڈت ایسر پرساد شرما، المشتہر پنڈت ایشری پرساد مینجر اخبار بھارت باسی مطبع صادق المطابع ، صدر میرٹھ ۱۸۹۷) کلکی پر ان کے اس حوالہ کی مانند ویدوں میں بھی احمد نام کے رشی کا ذکر ملتا ہے اور ہندو دھرم کا دارو مدار ویدوں پر مانا جاتا ہے.احمد کے تعلق سے رگوید سام وید اور انتھر وید میں آتا ہے کہ وہ اپنے سے پہلے گزرے ایک مہرشی کا نائب اور روحانی فرزند ہوگا.چنانچہ لکھا ہے : अहमिद्धि पितुष्परि मेधामृतस्य जग्रभ । अहं सूर्यइवाजनी || اتھر وید کا نڈ ۲۰ سوکت ۱۱۵ منترا) (الفاظ کا ترجمہ ) (احمد ہے ) احمد نے (اہم) میں ( پتو ) رب سے (سوریہ ) سورج (میدھام) پر حکمت (او) کی طرح رقیہ شریعت (اجنی ) روشن ہورہا ہوں ( پری جگرہ ) حاصل

Page 54

یعنی احمد نے اپنے رب سے پر حکمت شریعت کو حاصل کیا.میں سورج کی مانند (اس سے ) روشن ہورہا ہوں.“ مترجم عبد الحق صاحب ودیارتھی کتاب میثاق النبیین جلد اول صفحہ ۱۲۲، ناشر دار الاشاعت کتب اسلامیہ بمبئی) محترم عبد الحق صاحب ودیارتھی نے پتو کا ترجمہ رب کیا ہے جب کہ پتو کا اصل ترجمہ پتا یعنی باپ ہے.جس کی تائید دیگر مفسرین وید نے کی ہے.جس میں ڈاکٹر گوکل چند نارنگ ایم اے، جناب پنڈت راجہ رام جی دید بھاشیہ کار ، مولانا ناصر الدین فاضل، کاویہ تیرتھ وید بھوشن بنارس ہندو یو نیورسٹی شامل ہیں.( ویدوں میں احمد صفحہ ۲۹،۲۶) بہت سے مفسرین وید نے atefifa کا ترجمہ ” میں کیا ہے.حالانکہ ضمیر میں“ کے لئے 3 لفظ استعمال ہوتا ہے.جیسا کہ اسی سوکت میں آیا بھی ہے جب کہ یہ لفظ جس کا ترجمہ ” میں کیا جاتا ہے وہ STAR ہے جو کہ علم ہے اور احمد کبھی بھی ضمیر کے طور پر استعمال نہیں ہوتا ہے.الغرض جس مہرشی کے آنے کی پیش گوئی ویدوں میں اور کلکی پران میں موجود ہے اس کا نام احمد بیان ہوا ہے.کلکی اوتار کے آنے کا مقام اتھر وید میں ایک رشی کے آنے کا ذکر ملتا ہے اور اس کے آنے کے مقام اور بہادری دکھانے کے مقام کو ” قدون بتایا گیا ہے.( انتصر وید کا نڈ ۲۰ سوکت ۹۷ منتر ۳ بحوالہ مصلح آخر الزماں صفحہ ۲۹) آنے والے اوتار کا مقام مسلمانوں اور عیسائیوں کی کتب میں مشرق اور کدعہ“ بتایا گیا ہے.

Page 55

اسی طرح کلکی اوتار کے آنے کا مقام سنبھل بھی بیان کیا جاتا ہے.یہ کسی خاص مقام کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے معنوں پر غور کرنا لازمی ہے.سنبھل کے معنی ہندی لغت کی معتبر اور مشہور کتاب پدم چندر کوش میں میں یوں بیان ہوئے ہیں : (۱) شانتی کی جگہ (۲) پوترستھان (۳) اینشور کی پوجا کا ستھان اسی طرح اس کے معنی جلدی جلدی ترقی کرنے والا اور دلائل سے غالب آنے والے کے بھی ہوتے ہیں.الغرض آنے والا کلکی اوتار خود ہندوؤں کے نزدیک ہندوستان میں آنے والا ہے.اسی طرح ان حوالوں کی روشنی میں اس کے بہادری دکھانے کا مقام ” قدون کدعہ شانتی کی جگہ پوتر ستھان وغیرہ ہوگا.کلکی اوتار کا ظہور جب برسات کا موسم آجائے اور برسات نہ ہو تو سارے ہی آسمان کی طرف نظر لگا کر دُعا کرتے ہیں اور گرمی کی شدت کو دیکھتے ہوئے اپنے اپنے خیالات کے مطابق لوگ اندازے لگاتے ہیں کہ اتنے دنوں کے اندر اندر بارش ہوگی بالکل اسی طرح خدا کی طرف سے آنے والے اوتار کے آنے کا جب وقت آجاتا ہے تو ساری دنیا ہی اندازے لگانا شروع کر دیتی ہے.یہی وجہ ہے کہ آج سے ایک سو سال پہلے ہر مذہب والے نے آنے والے اوتار کے بارے میں اندازے لگانے شروع کر دیئے تھے.اور ان اندازہ لگانے والوں میں ہندو، مسلم ، سکھ، عیسائی سب شامل ہیں.اور ہر مذہب سے حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں.یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام لوگوں کے اندازے غلط ہوں.اور پھر اس کھیکی اوتار کے آنے کی پیش گوئیاں سب نبیوں نے کی ہیں.نبی خدا کی طرف سے علم پا کر بولتا ہے اگر ہم یہ کہیں کہ ان پیش

Page 56

گوئیوں کے مطابق کوئی بھی نہ آیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ سب اوتار جنہوں نے کلکی اوتار کے بارے میں پیشگوئیاں کی تھیں نعوذ باللہ سب جھوٹے ہیں.جب کہ یہ ممکن نہیں ہوسکتا.اوتار خدا سے علم پا کر بات کرتا ہے.اگر ہم نبی کوجھوٹا کہیں تو یہ بات خدا پر بھی جاتی ہے جب : کہ خدا کی طرف ایسی بات کے منسوب کرنے کا خیال تک بھی دل میں پیدا نہیں ہوسکتا.یہ تو ممکن ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والا اپنے وقت پر آیا ہو لیکن لوگوں نے اسے پہچانا نہ ہو اور وہ اندازے جولوگوں نے بیان کئے ہوں وہ آگے پیچھے ہو گئے ہوں.معزز قارئین ! یہی سچ اور حقیقت ہے.خدا کی طرف سے کلکی اوتار اپنے وقت پر آیا بہت سے لوگوں نے ہر قوم سے اسے قبول کیا اور بہت سے لوگ ہیں جو اس کے انکاری ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی مخالفت کر رہے ہیں.آنے والے کلکی اوتار نے تمام مذاہب میں آنے والے اوتاروں کے روپ میں اپنے آپ کو پیش کیا.آپ فرماتے ہیں کہ " میرا اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا محض مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں تینوں قوموں کی اصلاح منظور ہے اور جیسا کہ خدا نے مجھے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا ہے ایسا ہی میں ہندوؤں کے لئے بطور اوتار کے ہوں اور میں ( عرصہ بیس برس سے یا کچھ زیادہ برسوں سے ) اس بات کو شہرت دے رہا ہوں کہ میں ان گناہوں کے دُور کرنے کے لئے جن سے زمین پر ہوگئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا.یا یوں کہنا چاہئیے کہ روحانی حقیقت کے رُو سے میں وہی ہوں.یہ میرے خیال اور قیاس سے ۵۳

Page 57

نہیں ہے بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اُس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوؤں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے.“ لیکچر سیالکوٹ، صفحہ ۲۶ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ نمبر ۲۲۸) اسی طرح آگے فرماتے ہیں : وو اب واضح ہو کہ راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے در حقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا.جس پر خدا کی طرف سے رُوح القدس اترتا تھا.وہ خدا کی طرف سے فتح مند اور با اقبال تھا.جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا.وہ اپنے زمانہ کا درحقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑ دیا گیا.وہ خدا کی محبت سے پر تھا اور نیکی سے دوستی اور شر سے دشمنی رکھتا تھا.خدا کا وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں اس کا بروز یعنی اوتار پیدا کرے.سو یہ وعدہ میرے ظہور سے پورا ہوا.مجھے منجملہ اور الہاموں کے اپنی نسبت ایک یہ بھی الہام ہوا تھا کہ ” ہے کرشن روڈ ر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے سو میں کرشن سے محبت کرتا ہوں کیوں کہ میں اس کا مظہر ہوں.(لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۲۷ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۹) قارئین کرام ! او پر لکھا دعولی ہندوستان کی سرزمین میں پیدا ہونے والے مہرشی اور اوتار حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا ہے.آپ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں ۵۴

Page 58

قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے اور آپ نے ۱۸۸۹ء کو ایک جماعت کی بنیاد رکھی جس کا نام جماعت احمد یہ ہے جس میں ہر قوم وملت سے لوگ داخل ہوئے.اور انکی صداقت کے لئے سورج چاند ایک راشی میں جمع ہو کر ۱۸۹۴ء میں اپنی روشنی بند کرتے ہوئے گرہن کا نشان بھی پورا ہو چکا ہے.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا اصل نام ”احمد“ ہے جس کا ویدوں اور کلکی پر ان میں ذکر ملتا ہے.آپ کے نام کے ساتھ مرزا اور غلام یہ آپ کے خاندانی خطاب ہیں جو کسی زمانہ میں آپ کے خاندان کو عطا ہوئے تھے جس کا ذکر خود اسی مہرشی نے اپنی کتاب حقيقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۱ پر کیا ہے اس طرح اس ”احمد“ کے آنے کی پیشگوئی جس نے کرشن کا مثیل ہو کر آنا تھا آپ کے وجود میں پوری ہو چکی ہے.اسی طرح اس مہرشی کے بہادری دکھانے کا مقام جو قدون‘ بتایا گیا تھا وہ وہی قادیان ہے جہاں آپ پیدا ہوئے جس کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ”کدعہ“ کے نام سے یاد کیا ہے.اسی طرح سنبھل، مقام کے معانی شانتی کی جگہ پوتر ستھان اور ایشور کی پوجا کا ستھان قادیان پر ہی صادق آتے ہیں کیونکہ اس جگہ کو قادیان دار الامان" کے نام سے یاد کیا گیا.اسی طرح اس مہرشی کی آمد سے یہ جگہ ارضِ حرم بن گئی اور ساتھ ہی ایشور کی پوجا کا ستھان بنی کہ ساری دنیا سے لوگ یہاں پوجا کرنے اور برکت حاصل کرنے آتے ہیں.اسی طرح وہ جماعت جو یہاں سے نکلی وہ دلائل سے لوگوں پر غالب آتی ہے.پس وہ تمام قو میں جو کلکی اوتار کے انتظار میں ہیں ان کے لئے یہ خوش خبری ہے کہ وہ آنے والا اوتار اپنے وقت پر ظاہر ہو چکا اور شری کرشن جی مہاراج کی پیشگوئیوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی اور شری کرشن جی مہاراج کی صداقت پر مہر ثبت کر چکا اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کا کرشن ہونے کا دعوی ہندو بھائیوں کے لئے غور اور تحقیق کے لائق ہے.۵۵

Page 59

پس آنے والا اپنے وقت پر آیا اور آپ کے سوا کسی نے بھی مصلح آخر الزماں ہونے کا وو دعویٰ نہیں کیا ہے.پس اے کرشن پریمیو ! اگر تم کو ہزاروں سال پہلے گزرے کرشن سے محبت ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے کہنے کے مطابق آنے والے اور اس کے نام پر آنے والے سے محبت کرو اور اسے قبول کرو کہ وہ تم کو روحانی صداقتیں دینے آیا ہے.تمہارے اعمال میں درستی کرنے اور پاپ سے بچا کر نیکی کے راستہ پر لگانے آیا ہے جس کا یہ کہنا ہے کہ : میں بکمال ادب و انکسار حضرات علماء مسلمانان و علماء عیسائیان و پنڈتان ہندووان و آریان یہ اشتہار بھیجتا ہوں اور اطلاع دیتا ہوں کہ میں اخلاقی و اعتقادی و ایمانی کمزوریوں اور غلطیوں کی اصلاح کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں اور میرا قدم حضرت عیسی علیہ السلام کے قدم پر ہے.انہی معنوں سے میں مسیح موعود کہلاتا ہوں کیونکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ محض فوق العادت نشانوں اور پاک تعلیم کے ذریعہ سے سچائی کو دنیا میں پھیلاؤں.میں اس بات کا مخالف ہوں کہ دین کے لئے تلوار اٹھائی جائے اور مذہب کے لئے خدا کے بندوں کے خون کئے جائیں.اور میں مامور ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے ان تمام غلطیوں کو مسلمانوں میں سے دُور کردوں اور پاک اخلاق اور بردباری اور علم اور انصاف اور راست بازی کی راہوں کی طرف ان کو بلاؤں.میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندؤں آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور نا انصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول ہے.“ (اربعین نمبر اصفحه ا) 66 ۵۶

Page 60

پس ہم تمام کرشن پریمیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آؤ تم بھی اس کرشن کو قبول کرو تا کہ تمہیں بھی دنیا اور آخرت کی شانتی نصیب ہو.اس طرح یہ ہمارا بھارت ورش امن اور شانتی کا گہوارہ بن جائے.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کرشن ثانی فرماتے ہیں : صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار تشنہ بیٹھے ہو کنارے جوئے شیریں حیف ہے سرزمین ہند میں چلتی ہے نہر خوشگوار پس آخر میں میں شری کرشن ثانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے ایک شعر کے مطابق یہی کہتا ہوں جب کھل گئی سچائی پھر اس کو مان لینا نیکوں کی ہے خصلت راہ حیا یہی ہے تمت بالخير 谢谢谢 ۵۷

Page 60