Language: UR
بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ظاہر ہونے والی قدرت ثانیہ کے مظہر خامس حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے انتخاب خلافت کے بعد دنیا بھر میں احمدیوں نے تجدید بیعت کی سعادت پائی تو چند لوگوں نے اظہار کیا کہ ان دس شرائط بیعت کی اہمیت اور تعارف کی یاددہانی مفید ہوگی۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس وسیع موضوع پر خطابات و خطبات کا سلسلہ شروع فرمایا جسے نظر ثانی کے بعد کتابی شکل دی گئی اور اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز انگلستان نے اسے طبع کروایا۔ قریبا 200 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں شرائط بیعت کی توضیح وتشریح کے لئے قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے مبارک ارشادات کی روشنی میں جامع مواد مرتب ہوگیا جس سے ہر احمدی کو ان ذمہ داریوں کا احساس و ادراک بھی ہوگیا کہ اس نے کن شرائط پر جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی ہے۔
شرائط بیعت اور احمدی کی ذمه داریاں از روئے قرآن، احادیث اور ارشادات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) بیان فرموده حضرت مرزا مسر و ر احمد لية ا ا ا ا ا ا ب ا عزیز
شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں از روئے قرآن، احادیث اور ارشادات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ) Conditions of Bai'at & Responsibilities of an Ahmadi - according to the Holy Qur`an, Ahadith and the Promised Messiah, peace be upon him (Ten conditions of Bai'at - explained in detail by Hadhrat Khalifatul Masih V) Urdu Islam International Publications Ltd.First Published in UK in 2004 by: Islam International Publications Ltd."Islamabad" Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ Printed at: Raqeem Press, Tilford, Surrey, UK Composed by: Muhammad Dawood Zafar and Mahmood Ahmad Malik Cover Design by: Mirza Nadeem Ahmad ISBN: 1 85372 759 8
پیش لفظ صلى الله اللہ تعالیٰ کا ہم پر بے حد احسان اور فضل ہے کہ اس نے ہمیں آنحضور علی کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے مسیح موعود و مہدی معہودسید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو پہچاننے اور ماننے کی توفیق عطا فرمائی.فالحمد للہ علی ذلک.حضور علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا اذن ہوا تو آپ نے بیعت کرنے والوں کے لئے اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء میں دس شرائط بیعت مقررفرما ئیں.ہر وہ شخص جو حضور علیہ السلام کے سلسلہ بیعت میں شامل ہوتا ہے، ان شرائط پر عمل کرنے کا عہد کرتا ہے.ان شرائط کو تفصیل سے جانتا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنا ہم سب کے لئے بے حد ضروری ہے.حضرت امیر المؤمنین مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے ہماری راہنمائی اور آسانی کے لئے مختلف خطابات اور خطبات جمعہ میں قرآن کریم، احادیث نبویہ ﷺ اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں ان شرائط بیعت کی نہایت عمدہ رنگ میں تفصیل فرمائی ہے.اس کا آغاز حضور نے جلسہ سالانہ برطانیہ کے اپنے اختتامی خطاب فرمودہ مؤرخہ 27 جولائی 2003 ء سے فرمایا جس میں حضور نے دس شرائط بیعت میں سے پہلی تین شرائط کو تفصیل سے بیان فرمایا جبکہ حضور انور نے جلسہ سالانہ جرمنی کے موقعہ پر 24 اگست 2003ء کو اپنے اختتامی خطاب میں چوتھی ، پانچویں اور چھٹی شرط بیعت پر تفصیل سے
روشنی ڈالی.اس کے بعد 29 اگست کو شیورٹ ہالے، فرینکفورٹ، جرمنی میں خطبہ جمعہ میں ساتویں اور آٹھویں شرائط بیعت کو تفصیل سے بیان فرمایا.نویں شرط کو اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12 ستمبر 2003ء بمقام مسجد فضل لندن میں اور دسویں شرط بیعت کو تفصیل کے ساتھ مسجد فضل لندن میں اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 19 2003ء میں بیان فرمایا.ہم ان خطابات اور خطبات کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نظر ثانی کے بعد احباب کے فائدہ کے لئے کتابی صورت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان شرائط کو صحیح رنگ میں سمجھنے اور ان پر احسن رنگ میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نیز وہ سچا اور حقیقی احمدی بننے کی توفیق عطا فرمائے جیسا حضرت مسیح پاک علیہ السلام چاہتے تھے.آمین اس کتاب میں ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو حوالہ جات درج کئے گئے ہیں ان میں جن کے ساتھ جدید ایڈیشن نہیں لکھا گیا وہ روحانی خزائن اور ملفوظات کا وہ ایڈیشن ہے جو انگلستان میں 1984ء میں شائع کیا گیا تھا اور جدید ایڈیشن“ سے مراد ملفوظات کا وہ ایڈیشن ہے جو پانچ جلدوں میں شائع کیا گیا ہے.خاکسار منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف 15 جولائی 2004ء iv
:= ix 1 7 × - 2629 پیش لفظ شرائط بیعت بیعت کیا ہے؟ فہرست مضامین بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپر دکرنا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم بیعت کے اغراض و مقاصد سلسلہ بیعت کا آغاز پہلی شرط بیعت خدا تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا شرک کی مختلف اقسام دوسری شرط بیعت سب سے بڑی برائی.جھوٹ زنا سے بچو بدنظری سے بچو فسق و فجور سے اجتناب کرو ظلم نہ کرو خیانت نہ کرو فساد سے بچو بغاوت کے طریقوں سے بچو نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہو 33 13 13 15 19 19 26 27 31 33 38 39 V 41 43
vi 47 47 53 ببنه وه له لام له نه یه و 8 56 60 64 65 72 74 76 83 87 89 91 94 96 97 101 105 108 110 121 تیسری شرط بیعت پنجوقتہ نمازوں کا التزام کرو نماز تہجد کا التزام کریں آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے میں مداومت اختیار کریں استغفار میں مداومت اختیار کریں استغفار اور توبہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے رہیں چوتھی شرط بیعت عفو و درگذر سے کام لو کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ عاجزی وانکساری کو اپناؤ پانچویں شرط بیعت تکالیف گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں اصل صبر تو صدمہ کے آغاز کے وقت ہی ہوتا ہے تم خدا کی آخری جماعت ہو جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے کامل وفا اور استقامت کا نمونہ دکھائیں چھٹی شرط بیعت نئی نئی بدعات و رسوم رڈ کرنے کے لائق ہیں اسلامی تعلیم کے لئے ہمارا راہنما قرآن شریف ہے قرآن شریف ہی میں تمہاری زندگی ہے ساتویں شرط بیعت
121 127 129 132 136 139 141 143 145 147 148 162 167 167 170 177 179 184 186 189 191 192 vii شرک کے بعد تکبر جیسی کوئی بلا نہیں متکبر ہر گز جنت میں داخل نہیں ہوگا تکبر اور شیطان کا گہراتعلق ہے تکبر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں سخت مکروہ ہے آنحضرت ﷺ کی نظر میں مسکینوں کا مقام آٹھویں شرط بیعت اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فرد یہ مانگتا ہے گناہ سے نجات کا ذریعہ.یقین نویس شرط بیعت سب کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بنی نوع انسان کی ہمدردی دسویں شرط بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفہ وقت کے ساتھ بھائی چارہ کا رشتہ قائم کرنا ضروری ہے معروف اور غیر معروف کی تعریف اطاعت کی اعلیٰ مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ پایا وہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کی وجہ سے ہے اطاعت ہر حال میں ضروری ہے جماعت میں کون داخل ہوتا ہے آپس میں اخوت و محبت پیدا کرو اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرو حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے دو فائدے اس زمانہ کا حصن حصین حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں
viii
شرائط بیعت اول بیعت کنندہ بچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو شرک سے مجتنب رہے گا.دوم یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگر چہ کیسا ہی جذ بہ پیش آوے.سوم یہ کہ بلا ناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا.الله اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا.اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا.چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کوعموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.پنے جسم یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور میسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دُکھ کے قبول کرنے کیلئے اسکی راہ میں تیار رہے گا اور کسی ix
مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قَالَ الله اور قَالَ الرَّسُول کو اپنے ہر ایک راہ میں دستوار اعمل قرار دے گا.فتم یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز مجھے گا.نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دہم یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض لله با قرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.(اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء) X
بعض دوستوں کے خطوط آئے ہیں کہ ہم نے تجدید بیعت تو کرلی ہے اور ہم نے شرائط بیعت پر پابندی کرنے کا اقرار اور عہد بھی کیا ہے.لیکن ہمیں پوری طرح ادراک نہیں اور نہ ہمیں پتہ ہے کہ وہ بیعت کی دس شرائط کیا ہیں جن کو ہم نے مانا ہے.مجھے خیال آیا اور میں نے محسوس کیا کہ بہتر ہے کہ آج جلسہ کے موقع پر ہی اس عنوان پر کچھ کہوں.چونکہ کافی لمبا مضمون ہے تمام شرائط کا احاطہ کرنا تو یہاں مشکل ہے لیکن چند ایک کے بارہ میں کچھ تفصیل بتاؤں گا اور پھر آئندہ انشاء اللہ یہ مضمون خطبے میں یا کسی اور موقع پر پیش کروں گا.بیعت کیا ہے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بیعت ہے کیا.اس کی وضاحت میں احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات سے کرتا ہوں.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ” یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے.اس کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہے تو اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہوگا.لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشو ونما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اوپر 1
آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے.اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے تب وہ نشو ونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اُسے ہر گز فیض حاصل نہیں ہوتا.“ (ملفوظات جلد ششم صفحه ۱۷۳) بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپر د کرنا ہے پھر آپ فرماتے ہیں: ” بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی.یہ بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں چل کر انجام کار کوئی شخص نقصان اٹھا دے.صادق کبھی نقصان نہیں اٹھا سکتا.نقصان اسی کا ہے جو کا ذب ہے.جو دنیا کے لئے بیعت کو اور عہد کو جو اللہ تعالیٰ سے اس نے کیا ہے تو ڑ رہا ہے.وہ شخص جو محض دنیا کے خوف سے ایسے امور کا مرتکب ہو رہا ہے، وہ یاد ر کھے بوقت موت کوئی حاکم یا بادشاہ اُسے نہ چھڑا سکے گا.اس نے احکم الحاکمین کے پاس جانا ہے جو اُس سے دریافت کرے گا کہ تو نے میرا پاس کیوں نہیں کیا ؟ اس لئے ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ خداجو ملک السموات والارض ہے اس پر ایمان لاوے اور سچی توبہ کرے.“ (ملفوظات جلد ہفتم صفحه ۲۹ و ۳۰) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان ارشادات سے واضح ہے کہ بیعت چیز کیا ہے.اگر ہم میں سے ہر ایک یہ بات سمجھ جائے کہ میری ذات اب 2
میری اپنی ذات نہیں رہی.اب ہمیں بہر حال اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہو گی ، ان کا تابع ہونا ہوگا اور ہمارا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوگا تو یہی خلاصہ ہے دس شرائط بیعت کا.ملتے ہیں.اب میں مختلف احادیث پیش کرتا ہوں جن میں بیعت کے متعلق مختلف الفاظ عائذ اللہ بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ عبادہ بن صامت ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے غزوہ بدر میں شمولیت اختیار کی اور جنہوں نے بیعت عقبہ میں شمولیت اختیار کی تھی.عبادہ بن صامت نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس وقت فرمائی جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت موجود تھی کہ آؤ میری اس شرط پر بیعت کرو الَّا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا کہ تم اللہ کا کسی چیز کو بھی شریک نہ قرار دو گے اور نہ تم چوری کرو گے اور نہ ہی تم زنا کرو گے اور نہ تم اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور نہ تم بہتان طرازی کرو گے اور نہ ہی تم کسی معروف بات میں میری نافرمانی کرو گے.پس تم میں سے جس نے اس عہد بیعت کو پورا کر دکھایا تو اس کو اجر دینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے.اور جس نے اس عہد میں کچھ بھی کمی کی اور اس کی اسے دنیا میں سزا مل گئی تو یہ سزا اس کے لئے کفارہ بن جائے گی.اور جس نے اس عہد بیعت میں کچھ کمی کی پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اگر چاہے تو اسے سزا دے اور اگر وہ پسند فرمائے گا تو اس سے درگز رفرمائے گا.( صحیح بخاری.کتاب مناقب الانصار باب وفود الانصار الى النبي بمكة ربيعة العقبة) 3
پھر ایک حدیث ہے.حضرت عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے، آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی ، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اولوالامر سے نہیں جھگڑیں گے اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے.(بخاری كتاب البيعة باب البيعة على السمع والطاعة) ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آیت کریمہ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِيْنَ بِبُهْتَان يَفْتَرِيْنَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَ اَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْلَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمِ (1) (یعنی اے نبی ! جب تیرے پاس عورتیں مسلمان ہو کر آئیں اور بیعت کرنے کی خواہش کریں، اس شرط پر کہ وہ اللہ کا شریک کسی کو نہیں قرار دیں گی اور نہ ہی چوری کریں گی اور نہ ہی زنا کریں گی اور نہ ہی اولا د کوقتل کریں گی اور نہ ہی کوئی جھوٹا بہتان کسی پر باندھیں گی.اور نیک باتوں میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی.تو ان کی بیعت لے لیا کر اور ان کے لئے استغفار کیا کر.اللہ بہت بخشنے والا (اور ) بے حد رحم کرنے والا ہے ) کے مطابق عورتوں کی بیعت لیتے تھے.(1) الممتحنة آيت ١٣ 4
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بیعت لیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہ ہوتا تھا سوائے اس عورت کے جو آپ کی اپنی ہوتی.( صحیح بخاری.کتاب الاحكام.باب بيعة النساء) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت لینے کے آغاز سے قبل بعض نیک فطرت اور اسلام کا در درکھنے والے بزرگوں کو یہ احساس تھا کہ اس وقت اسلام کی اس ڈولتی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے والا اور اسلام کا صحیح در در کھنے والا اگر کوئی شخص ہے تو وہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہی ہیں اور یہی مسیح و مہدی بھی ہیں.چنانچہ لوگ آپ سے درخواست کیا کرتے تھے کہ آپ بیعت لیں لیکن حضور ہمیشہ یہی جواب دیتے تھے کہ ” لَسْتُ بِمَامُورٍ “ (یعنی میں مامور نہیں ہوں ).چنانچہ ایک دفعہ آپ نے میر عباس علی صاحب کی معرفت مولوی عبد القادر صاحب کو صاف صاف لکھا کہ اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تفویض الی اللہ غالب ہے اور...چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں.اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں.لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا - مولوی صاحب اخوت دین کے بڑھانے میں کوشش کریں.اور اخلاص اور محبت کے چشمہ صافی سے اس پودا کی پرورش میں مصروف رہیں تو یہی طریق انشاء اللہ بہت مفید ہوگا.(حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحه ۱۲-۱۳) 5
اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم آخر چھ سات سال بعد ۱۸۸۸ء کی پہلی سہ ماہی یعنی شروع کے تین مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بیعت لینے کا ارشاد ہوا.یہ ربانی حکم جن الفاظ میں پہنچا وہ یہ تھے.” إِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا الَّذِيْنَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ “ (اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء صفحه ۲) یعنی جب تو عزم کرلے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے تحت کشتی تیار کر.جو لوگ تیرے ہاتھ پر بیعت کریں گے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہو گا.حضور کی جو طبیعت تھی وہ ایسی تھی کہ اس بات سے کراہت کرتی تھی کہ ہر قسم کے رطب و یابس لوگ اس سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں.اور دل یہ چاہتا تھا کہ اس مبارک سلسلہ میں وہی مبارک لوگ داخل ہوں جن کی فطرت میں وفاداری کا مادہ ہے اور کچے نہیں ہیں.اس لئے آپ کو ایک ایسی تقریب کا انتظار رہا کہ جو مخلصوں اور منافقوں میں امتیاز کر دکھلائے.سو اللہ جل شانہ نے اپنی کمال حکمت و رحمت سے وہ تقریب اسی سال نومبر ۱۸۸۸ء میں بشیر اول کی وفات سے پیدا کر دی.(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ بیٹے تھے ) ملک میں آپ کے خلاف ایک شور مخالفت بر پا ہوا اور خام خیال بدظن ہو کر الگ ہو گئے لہذا آپ کی نگاہ میں یہی موقعہ اس بابرکت سلسلے کی ابتداء کے لئے موزوں قرار پایا.اور آپ نے یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو ایک اشتہار
کے ذریعہ سے بیعت کا اعلان عام فرما دیا.حضرت اقدس نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ استخارہ مسنونہ کے بعد بیعت کے لئے حاضر ہوں.اشتهار تکمیل تبلیغ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء) یعنی پہلے دعا کریں، استخارہ کریں، پھر بیعت کریں.اس اشتہار کے بعد حضرت اقدس قادیان سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور حضرت صوفی احمد جان صاحب کے مکان واقع محلہ جدید میں فروکش ہوئے.حيات احمد جلد سوم حصه اول صفحه ۱) بیعت کے اغراض و مقاصد یہاں سے آپ نے ۱۴ مارچ ۱۸۸۹ء کو ایک اور اشتہار میں بیعت کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا: یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقوی شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے.تا ایسا متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت ونتائج خیر کا موجب ہو.اور وہ برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آ سکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں.اور اپنے بھائیوں 7
کی ہمدردی سے کچھ بھی غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں.یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر ایک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آئے خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے.سو یہ گروہ اس کا ایک خاص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا.اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا.اور وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشینگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا.وہ خود اس کی آب پاشی کرے گا اور اس کو نشو ونما دے گا.یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے.وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر یک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی.اس 8
رب جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.ہر یک طاقت اور قدرت اسی کو ہے.“ اسی اشتہار میں آپ نے ہدایت فرمائی کہ بیعت کرنے والے اصحاب ۲۰ / مارچ کے بعد لدھیانہ پہنچ جائیں.(تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۱۵۰ تا ۱۵۵) سلسلہ بیعت کا آغاز چنانچہ اس کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو صوفی احمد جان صاحب کے مکان واقع محلہ جدید میں بیعت لی اور حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب کی روایت کے مطابق بیعت کے تاریخی الفاظ کے لئے ایک رجسٹر تیار کیا گیا جس کا نام ” بیعت تو بہ برائے تقویٰ وطہارت رکھا گیا.اس زمانہ میں حضور علیہ السلام بیعت کرنے کے لئے ایک کمرے میں ہر ایک کو الگ الگ بلاتے تھے اور بیعت لیتے تھے.چنانچہ سب سے پہلی بیعت آپ نے حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کی لی.بیعت کرنے والوں کو نصائح فرماتے ہوئے حضرت اقدس فرماتے ہیں: اس جماعت میں داخل ہو کر اول زندگی میں تغیر کرنا چاہئے.کہ خدا پر ایمان سچا ہو اور وہ ہر مصیبت میں کام آئے.پھر اس کے احکام کو نظر خفت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جائے.“ ہمہ وجوہ اسباب پر سرنگوں ہونا اور اسی پر بھروسہ کرنا اور خدا پر تو کل چھوڑ دینا یہ
شرک ہے اور گویا خدا کی ہستی سے انکار.رعایت اسباب اس حد تک کرنی چاہئے کہ شرک لازم نہ آئے.ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رعایت اسباب سے منع نہیں کرتے مگر اس پر بھروسہ کرنے سے منع کرتے ہیں.دست در کار دل بایار والی بات ہونی چاہئے.“ آپ فرماتے ہیں: ” دیکھو تم لوگوں نے جو بیعت کی ہے اور اس وقت اقرار کیا ہے اس کا زبان سے کہہ دینا تو آسان ہے لیکن نباہنا مشکل ہے.کیونکہ شیطان اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ انسان کو دین سے لا پروا کر دے.دنیا اور اس کے فوائد کو تو وہ آسان دکھاتا ہے اور دین کو بہت دور.اس طرح دل سخت ہو جاتا ہے اور پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جاتا ہے.اگر خدا کو راضی کرنا ہے تو اس گناہ سے بچنے کے اقرار کو نبھانے کے لئے ہمت اور کوشش سے تیار رہو.“ فرمایا: فتنہ کی کوئی بات نہ کرو.شر نہ پھیلاؤ.گالی پر صبر کرو.کسی کا مقابلہ نہ کرو.جو مقابلہ کرے اس سے بھی سلوک اور نیکی کے ساتھ پیش آؤ.شیریں بیانی کا محمدہ نمونہ دکھلاؤ.بچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا راضی ہو جائے.اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے بعض وہ نہیں رہا جو پہلے تھا.مقدمات میں کچی گواہی دو.اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل ، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے.“ فرمایا: (ذكر حبيب صفحه ۴۳۶ تا ۴۳۹) مارچ ۱۹۰۳ء میں.عید کا دن تھا ، چند احباب بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے و, دیکھو جس قدر آپ لوگوں نے اس وقت بیعت کی ہے ( لگتا ہے بیعت کے 10
لئے لوگ آئے ہوئے تھے ) اور جو پہلے کر چکے ہیں ان کو چند کلمات بطور نصیحت کے 66 کہتا ہوں.چاہئے کہ اسے پوری توجہ سے سنیں.“ وو آپ لوگوں کی یہ بیعت ، بیعت تو بہ ہے.تو بہ دو طرح ہوتی ہے.ایک تو گزشتہ گناہوں سے یعنی ان کی اصلاح کرنے کے واسطے جو کچھ پہلے غلطیاں کر چکا ہے ان کی تلافی کرے اور حتی الوسع ان بگاڑوں کی اصلاح کی کوشش کرنا اور آئندہ کے گناہوں سے باز رہنا اور اپنے آپ کو اس آگ سے بچائے رکھنا.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تو بہ سے تمام گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ وہ تو بہ صدق دل اور خلوص نیت سے ہو اور کوئی پوشیدہ دغا بازی دل کے کسی کو نہ میں پوشیدہ نہ ہو.وہ دلوں کے پوشیدہ اور مخفی رازوں کو جانتا ہے.وہ کسی کے دھو کہ میں نہیں آتا.پس چاہئے کہ اس کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کی جاوے اور صدق ے، نہ نفاق سے، اس کے حضور توبہ کی جاوے.تو بہ انسان کے واسطے کوئی زائد یا بے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا اور دین دونو سنور جاتے ہیں.اور اسے اس جہان میں اور آنے والے جہان دونو میں آرام اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے.“ سے، (ملفوظات.جلد پنجم.صفحه ۱۸۷، ۱۸۸) 11
12
پهلی شرط بیعت بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو شرک سے مجتنب رہے گا.خدا تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ سورۃ النساء آیت ۴۹ میں فرماتا ہے:.انَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَادُوْنَ ذَلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ - وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یقینا اللہ معاف نہیں کرے گا اس کو کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ سب کچھ معاف کر دے گا جس کے لئے وہ چاہے.اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو یقیناً اس نے بہت بڑا گناہ افترا کیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں: ” اسی طرح خدا نے قرآن میں فرمایا وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ...الخ یعنی ہر ایک گناہ کی 13
مغفرت ہوگی مگر شرک کو خدا نہیں بخشے گا.پس شرک کے نزدیک مت جاؤ اور اس کو حرمت کا درخت سمجھو.(ضمیمه تحفه گولڑویه روحانی خزائن جلد 17 صفحه 323-324 حاشیه) پھر فرمایا: ” یہاں شرک سے صرف یہی مراد نہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جائے بلکہ یہ ایک شرک ہے کہ اسباب کی پرستش کی جاوے اور معبودات دنیا پر زور دیا جاوے.اسی کا نام شرک ہے“.(الحكم جلد 7 نمبر 24 مورخه 30 جون 1903 صفحه 11) پھر قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَإِذْ قَالَ لُقْمَنُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴾ (القمن آیت (۱۴) اس کا ترجمہ یہ ہے : اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا جب وہ اسے نصیحت کر رہا تھا کہ اے میرے پیارے بیٹے اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرا یقیناً شرک ایک بہت بڑا ظلم ہے.آنحضرت ﷺ کو اپنی امت میں شرک کا خدشہ تھا.چنانچہ ایک حدیث ہے: عبادہ بن نسی نے ہمیں شداد بن اوس کے بارہ میں بتایا کہ وہ رورہے تھے.ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا.مجھے ایک ایسی چیز یاد آگئی تھی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اس پر مجھے رونا آ گیا.میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا آپ نے فرمایا.میں اپنی امت کے بارہ میں شرک اور مخفی خواہشوں سے ڈرتا ہوں.راوی کہتے ہیں.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آ کی امت آپ کے بعد شرک میں مبتلا ہو جائے گی ؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 14
نے فرمایا.ہاں! البتہ میری امت شمس و قمر ، بتوں اور پتھروں کی عبادت تو نہیں کریں گے.مگر اپنے اعمال میں ریاء سے کام لیں گے اور مخفی خواہشات میں مبتلا ہو جائیں گے.اگر ان میں سے کوئی روزہ دار ہونے کی حالت میں صبح کرے گا پھر اس کو اس کی کوئی خواہش معارض ہو گئی تو وہ روزہ ترک کر کے اس خواہش میں مبتلا ہو جائے گا.(مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۱۲۴ مطبوعه بیروت) شرک کی مختلف اقسام گو جس طرح اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ظاہری شرک ، بتوں، مورتیوں، چاند کی عبادت کر کے نہ بھی ہو تو ریاء اور خواہشات کی پیروی بھی شرک ہے.اگر ایک ماتحت اپنے افسر کی اطاعت سے بڑھ کر خوشامد کی حد تک اس کے آگے پیچھے پھرتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس سے میری روزی وابستہ ہے تو یہ بھی شرک کی ہی ایک قسم ہے.اگر کسی کو اپنے بیٹوں پر ناز ہے کہ میرے اتنے بیٹے ہیں اور یہ بڑے ہو رہے ہیں اور کام پر لگ جائیں گے ، کمائیں گے ، مجھے سنبھالیں گے اور اب میں آرام سے اپنی بقیہ عمر گزاروں گا.یا میرے ان جوان بیٹوں کی وجہ سے میرے شریک میرا مقابلہ نہیں کرسکیں گے.( برصغیر میں بلکہ ساری تیسری دنیا میں شریکے کی ایک بڑی گندی رسم ہے).مکمل انحصار ان بیٹوں پر ہے.اور وہ ناخلف نکلتے ہیں یا کسی حادثہ میں فوت ہو جاتے ہیں یا معذور ہو جاتے ہیں تو ایسے شخص کے تو تمام سہارے ختم ہو گئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: تو حید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَا إِلهُ إِلَّا اللہ کہیں اور دل میں 15
ہزاروں بت جمع ہوں.بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور متد پیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یاکسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خداتعالی پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے.ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بت پرست ہے.بت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بت ہے.یادر ہے کہ حقیقی تو حید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکرفریب ہو منزہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا.کوئی رازق نہ ماننا.کوئی مُعِزّ اور مُذِلّ خیال نہ کرنا.کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا.اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا.اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا.اپنا تذلل اسی سے خاص کرنا.اپنی امید میں اسی سے خاص کرنا.اپنا خوف اسی سے خاص کرنا.پس کوئی تو حید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہوسکتی.اوّل ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہالکتۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا.دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا.اور جو بظاہر رب الانواع یا فیض رسان نظر آتے ہیں یہ اسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا.تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی 16
محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گردانا اور اسی میں کھوئے جانا‘.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۱۲ اس کی پہلے میں نے مختصر وضاحت کر دی ہے.صفحه ۳۵۰،۳۴۹) حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے کسی اسم کسی فعل اور کسی عبادت میں غیر کو شریک کرنا، یہ شرک ہے.اور تمام بھلے کام اللہ تعالیٰ ہی کی رضا کے لئے کرے اس کا نام عبادت ہے.لوگ مانتے ہیں کہ کوئی خالق خدا تعالیٰ کے سوا نہیں.اور یہ بھی مانتے ہیں کہ موت اور حیات خدا تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں اور قبضہ اقتدار و اختیار میں ہے.یہ مان کر بھی دوسرے کے لئے سجدہ کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اور طواف کرتے ہیں.عبادت الہی کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کے روزوں کو چھوڑ کر دوسروں کے روزے رکھتے اور خدا تعالی کی نمازوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے غیر اللہ کی نمازیں پڑھتے ہیں اور ان کے لئے زکوتیں دیتے ہیں.ان اوہام باطلہ کی بیخ کنی کے لئے اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا.(خطبات نور صفحه ۸.۷) 17
18
دوسری شرط بیعت یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجو راور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا اگر چہ کیسا ہی جذ بہ پیش آوئے“.اس ایک شرط میں نوقسم کی برائیاں بیان کی گئی ہیں کہ ہر بیعت کرنے والے کو، ہر اس شخص کو جو اپنے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ان برائیوں سے بچنا ہے.سب سے بڑی برائی.جھوٹ اصل میں تو سب سے بڑی برائی جھوٹ ہے.اس لئے جب کسی شخص نے صلى الله آنحضرت ﷺ سے یہ کہا کہ مجھے کوئی ایسی نصیحت کریں جس پر میں عمل کر سکوں کیونکہ میرے اندر بہت ساری برائیاں ہیں اور تمام برائیوں کو میں چھوڑ نہیں سکتا.آپ نے فرمایا کہ یہ عہد کرو کہ ہمیشہ سچ بولو گے اور کبھی جھوٹ نہیں بولو گے.اس وجہ سے ایک ایک کر کے اس کی ساری برائیاں چھوٹ گئیں کیونکہ جب بھی اسے کسی برائی کا 19
خیال آیا اور ساتھ ہی یہ خیال آتا کہ جب پکڑا گیا تو آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش ہوں گا.جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کیا ہے.سچ بولا تو یا تو شرمندگی ہوگی یا سزا ملے گی.اس طرح آہستہ آہستہ کر کے اس کی تمام برائیاں ختم ہوگئیں.اصل میں تو جھوٹ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے.اب اس کی میں مزید وضاحت کرتا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَتِ اللهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ﴾ (الحج آیت ۳۱) اس کا ترجمہ یہ ہے : اور جو بھی اُن چیزوں کی تعظیم کرے گا جنہیں اللہ نے حرمت بخشی ہے تو یہ اس کے لئے اس کے رب کے نزدیک بہتر ہے.اور تمہارے لئے چوپائے حلال کر دیئے گئے سوائے ان کے جن کا ذکر تم سے کیا جاتا ہے.پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو.یہاں شرک کے ساتھ جھوٹ بھی رکھا گیا ہے.پھر فرمایا: ﴿اَلَا لِلَّهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ - وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهِ اَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِى مَا هُمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَذِبٌ كَفَّارٌ﴾ (الزمر آیت ۴) ترجمہ: خبردار! خالص دین ہی اللہ کے شایانِ شان ہے اور وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوست اپنا لئے ہیں ( کہتے ہیں کہ ) ہم اس مقصد کے سوا اُن کی 20
عبادت نہیں کرتے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہوئے قرب کے اونچے مقام تک پہنچا دیں.یقیناً اللہ اُن کے درمیان اُس کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے.اللہ ہر گز اُسے ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا (اور ) سخت ناشکرا ہو.صحیح مسلم میں ایک حدیث ہے.عبداللہ بن عمرو بن العاص روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چار باتیں ایسی ہیں جو جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے.اور جس میں ان میں سے ایک بات پائی جائے اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے.(۱) جب وہ گفتگو کرتا ہے تو کذب بیانی سے کام لیتا ہے.( جب وہ باتیں کر رہا ہوتا.تو اس میں جھوٹ کی ملاوٹ ہوتی ہے اور جھوٹی باتیں کر رہا ہوتا ہے ).(۲) اور جب معاہدہ کرتا ہے تو غداری کا مرتکب ہوتا ہے.(۳) اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے.( یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے ).(۴) اور جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ سے کام لیتا ہے.یہ ساری باتیں جھوٹ سے تعلق رکھنے والی ہیں.پھر ایک حدیث ہے.حضرت امام مالک بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ کہا کرتے تھے.تمہیں سچائی اختیار کرنی چاہئے کیونکہ سچائی نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف راہنمائی کرتی ہے.جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے اور نافرمانی جہنم تک پہنچا دیتی ہے.کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کہا جاتا ہے کہ اس نے سچ بولا اور فرمانبردار ہو گیا اور جھوٹ بولا تو 21
مبتلاء فجور ہو گیا.(مؤطا امام مالک ـ باب ماجاء في الصدق والكذب) پھر مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث ہے.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا آؤ میں تمہیں کچھ دیتا ہوں پھر وہ اس کو دیتا کچھ نہیں تو یہ جھوٹ میں شمار ہوگا.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۳۴۹ مطبوعه بيروت) یہ تربیت کے لئے بہت ضروری ہے.بچوں کی تربیت کے لئے دیکھیں مذاق مذاق میں بھی ایسی باتیں نہیں ہونی چاہئیں.ورنہ اسی طرح مذاق مذاق میں ہی بچوں کو بھی غلط بیانی کی عادت پڑ جاتی ہے جو آگے چل کر جب کی عادت ہو جائے تو جھوٹ بولنے میں بھی عار نہیں سمجھتے اور اس کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے.حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف.اور جو انسان ہمیشہ سچ بولے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتا ہے اور جھوٹ گناہ اور فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور جہنم کی طرف.اور جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے.(بخاری ، کتاب الادب، باب قول الله اتقوا الله وكونوا مع الصادقين) حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی علی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ جنت کا عمل کیا ہے.آنحضور ﷺ نے 22
وہ فرمایا: سچ بولنا.اور جب کوئی بندہ سچ بولتا ہے تو وہ فرمانبردار بن جاتا ہے.اور جب فرمانبردار بن جاتا ہے تو حقیقی مومن بن جاتا ہے.اور جب کوئی حقیقی مومن ہو جاتا ہے تو انجام کار وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے.اس شخص نے دوبارہ دریافت کیا کہ یا رسول اللہ دوزخ میں لے جانے والا عمل کون سا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جھوٹ.ایک شخص جھوٹ بولتا ہے تو نافرمانی کرتا ہے اور جب کوئی نافرمانی کرتا ہے تو کفر کرتا ہے اور جب کوئی کفر پر قائم ہو جاتا ہے تو انجام کار وہ دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے.دو (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۱۷۶ مطبوعه بيروت) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے.جیسا کہ فرمایا ہے.فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ النُّوْرِ﴾ (ا) دیکھو یہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بہت ہی ہے.ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے.جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجر ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا.جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہانتک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو.اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے تو جلدی سے دور نہیں ہوتا.مدت تک ریاضت کریں تب جا کر یچ بولنے کی عادت ان کو ہوگی.“ (ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۵۰ ) (۱) الحج آیت ۳۱.23
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: اور منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو اس کی فطرت کا خاصہ ہے سچائی ہے.انسان جب تک کوئی غرض نفسانی اس کی محرک نہ ہو جھوٹ بولنا نہیں چاہتا.اور جھوٹ کے اختیار کرنے میں ایک طرح کی نفرت اور قبض اپنے دل میں پاتا ہے.اسی وجہ سے جس شخص کا صریح جھوٹ ثابت ہو جائے اس سے ناخوش ہوتا ہے اور اس کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے.لیکن صرف یہی طبعی حالت اخلاق میں داخل نہیں ہوسکتی بلکہ بچے اور دیوانے بھی اس کے پابند رہ سکتے ہیں.سو اصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ان نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو.جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر سکتا.کیونکہ اگر انسان صرف ایسی باتوں میں سچ بولے جن میں اس کا چنداں ہرج نہیں ( کچھ حرج نہیں ) اور اپنی عزت یا مال یا جان کے نقصان کے وقت جھوٹ بول جائے اور سچ بولنے سے خاموش رہے تو اس کو دیوانوں اور بچوں پر کیا فوقیت ہے.کیا پاگل اور نابالغ لڑکے بھی ایسا ہی نہیں بولتے ؟ دنیا میں ایسا کوئی بھی نہیں ہوگا کہ جو بغیر کسی تحریک کے خواہ نخواہ جھوٹ بولے.پس ایسا سچ جو کسی نقصان کے وقت چھوڑا جائے حقیقی اخلاق میں ہرگز داخل نہیں ہوگا.سچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا اندیشہ ہو.اس میں خدا کی تعلیم یہ ہے.فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ﴾.(۱) ﴿وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوْا (۲) ﴿ وَلَا تَكْتُمُوْا - الشَّهَادَةَ وَ مَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ اثِمَ قَلْبُهُ ﴾ - (٣) وَ إِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ (۱) الحج آیت ۳۱ (۲) البقرة آیت ۲۸۳ (۳) البقرة آیت ۲۸۴.24
- ذَا قُرْبَى (۱) ﴿كُوْنُوْا قَوَّامِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ) - (۲) ﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا - (٣) وَالصَّدِقِينَ وَالصَّدِقتِ - (٢) وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (٥) لَا يَشْهَدُوْنَ الرُّوْرَ (۲) - اس کے ترجمہ میں آپ فرماتے ہیں:.” بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پر ہیز کرو.یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے.سوجھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے.اور پھر فرمایا کہ جب تم کچی گواہی کے لئے بلائے جاؤ تو جانے سے انکار مت کرو.اور سچی گواہی کو مت چھپاؤ اور جو چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہے.اور جب تم بولو تو وہی بات منہ پر لاؤ جو سراسر یچ اور عدالت کی بات ہے اگر چہ تم اپنے کسی قریبی پر گواہی دو حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ.اور چاہیئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو.جھوٹ مت بولو اگر چہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے.یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے یا اور قریبیوں کو جیسے بیٹے وغیرہ کو.اور چاہئے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں سچی گواہی سے نہ روکے.سچے مرد اور سچی عورتیں بڑے بڑے اجر پائیں گے.ان کی عادت ہے کہ اوروں کو بھی سچ کی نصیحت دیتے ہیں.اور جھوٹوں کی مجلسوں میں نہیں بیٹھتے“.اسلامی اصول کی فلاسفى - روحانی خزائن جلد۱۰ صفحه ۳۶۰.۳۶۱) (۱) الانعام آیت ۱۵۳ (۲) النساء آیت ۱۳۶ (۳) المائدة آیت ۹.(۴) الاحزاب آیت ۳۶ (۵) العصر آیت ۴ (۲) الفرقان آیت ۷۳ 25
زنا سے بچو پھر اسی شرط دوم میں زنا سے بچنے کی شرط ہے.تو اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا (بنی اسرائیل آیت ۳۳) یعنی زنا کے قریب نہ جاؤ یقیناً یہ بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے.ایک حدیث ہے.محمد بن سیرین روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے درج ذیل امور کی نصیحت فرمائی، پھر ایک لمبی روایت بیان کی جس میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ عفت یعنی پاکدامنی اور سچائی ، زنا اور کذب بیانی کے مقابلہ میں بہتر اور باقی رہنے والی ہے.(سنن دار قطنی ، کتاب الوصايا، باب ما يستحب بالوصية من التشهد والكلام) یہاں زنا اور جھوٹ دونوں کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جھوٹ کتنا بڑا گناہ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو.اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو.جوز نا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے.زنا کی راہ بہت بری ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کیلئے سخت خطرناک ہے.اور جس کو نکاح میسر نہ آوے چاہئے کہ وہ اپنی عفت کو دوسرے طریقوں سے بچاوے.مثلاً روزہ رکھے یا کم کھاوے یا اپنی طاقتوں سے تن آزار کام لے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد۱۰ صفحه ۳۴۲ ) 26
آپ نے فرمایا ہے کہ ایسی چیزوں سے دورر ہو جن سے خیال بھی دل میں پیدا ہوسکتا ہو.نو جوانوں میں بعض اوقات یہ احساس نہیں رہتا.فلمیں دیکھنے کی عادت ہوتی ہے اور ایسی فلمیں دیکھتے ہیں جو اس قابل نہیں ہوتیں کہ دیکھی جائیں.بڑی اخلاق سے گری ہوئی ہوتی ہیں.ان سے بھی بچنا چاہئے.یہ بھی زنا کی ایک قسم ہی ہے.بد نظری سے بچو پھر دوسری شرط میں تیسری قسم کی برائی بدنظری سے بچنے کی ہے.اب یہ کیا ہے یہ نغض بصر ہے.ایک حدیث ہے کہ ابوریحانہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک غزوہ میں رسول اللہ ہے کے ساتھ تھے.ایک رات انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیدار رہی.اور آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے آنسو بہاتی ہے.ابو شریح کہتے ہیں کہ میں نے ایک راوی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے.اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ عزوجل کی راہ میں پھوڑ دی گئی ہو.(سنن دارمی ، کتاب الجہاد ، باب في الذي يسهر في سبيل الله حارساً) پھر ایک حدیث ہے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے بارہ میں چھ باتوں میں مجھے ضمانت دیدو.صلى الله (رسول اللہ ﷺ فرما رہے ہیں کہ میں تمہیں جنت میں جانے کی بشارت 27
دیتا ہوں).فرمایا: جب تم گفتگو کرو تو سچ بولو.جب تم وعدہ کرو تو وفا کرو.جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو عند الطلب دے دیا کرو.( ٹال مٹول نہیں ہونی چاہئے ).اپنے فروج کی حفاظت کرو، غض بصر سے کام لو.اور اپنے ہاتھوں کو ظلم سے رو کے رکھو.(مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۳۲۳ مطبوعه بيروت) حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : رستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمیں رستوں میں مجلس لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھر رستے کا حق ادا کرو.انہوں نے عرض کیا پھر اس کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا: ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، غض بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی راہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور نا پسندیدہ باتوں سے روکو.(مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۱۶.مطبوعه بيروت) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے.قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ.(۱) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہو گا.فروج سے مراد صرف شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک (۱) النور آیت ۳۱ 28
سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے.پھر یاد رکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کا رانسان کو ان سے رکنا ہی پڑتا ہے.(ملفوظات جلد ۷ صفحه ۱۳۵) پھر آپ فرماتے ہیں: ” اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مردوں کے واسطے لازم کئے ہیں.پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے مردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے غض بصر کا.نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج ، حلال وحرام کا امتیاز ، خدا تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں اپنی عادات رسم ورواج کو ترک کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن سے اسلام کا دروازہ نہایت ہی تنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص اس دروازے میں داخل نہیں ہوسکتا.(ملفوظات جلد ۵ صفحه ۶۱۴ جدید ایڈیشن) اس سے مردوں کو وضاحت ہو گئی ہوگی کہ ان کی بھی نظریں ہمیشہ نیچی رہنی چاہئیں.حیا صرف عورتوں کے لئے ہی نہیں مردوں کے لئے بھی ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: ” خدائے تعالیٰ نے خُلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کیلئے صرف اعلی تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کیلئے پانچی علاج بھی بتلا دیئے ہیں.یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا.کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا.نامحرموں کے قصے نہ سننا.اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہوا اپنے تئیں بچانا.اگر نکاح نہ ہو تو روزہ 29
رکھنا وغیرہ.آپ نے فرمایا: ” اس جگہ ہم بڑے دعوی کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یا در رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذبات شہوت محل اور موقع پا کر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے.یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں.اس لئے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زمینوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کر لیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگا نہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں.نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے.اور ان کی خوش الحانی کی آواز میں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں.نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے.بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں.کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں.سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی.اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے“.(اگر روک ٹوک نہ ہو تو ٹھوکر کا موجب 30
ہو جاتی ہے ).اگر ہم ایک بھو کے کتنے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر ہم امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں.سو خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قومی کو پوشیدہ کا رروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آئے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں.“ • اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۴۳-۳۴۴) فسق و فجور سے اجتناب کرو پھر اسی شرط دوم میں چوتھی برائی فسق و فجور سے اجتناب کے بارہ میں ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: ﴿ وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيْكُمْ رَسُوْلَ اللهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ﴾ (الحجرات:۸).اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول موجود ہے.اگر وہ تمہاری اکثر باتیں مان لے تو تم ضرور تکلیف میں مبتلا ہو جاؤ.لیکن اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں سجا دیا ہے اور تمہارے لئے کفر اور بداعمالی اور نافرمانی سے سخت کراہت پیدا کر دی ہے.یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں.ایک حدیث ہے کہ اسود ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی نے روزہ 31
رکھا ہو تو نخش کلامی نہ کرے، فسق کی باتیں نہ کرے اور جہالت کی باتیں نہ کریں اور جو اس کے ساتھ جاہلانہ سلوک کرے تو اسے کہے کہ معاف کرنا میں ایک روزہ دار شخص ہوں.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۳۵۶ مطبوعه بیروت) آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے.عبدالرحمن بن شبل نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تاجر لوگ فاجر ہوتے ہیں.راوی کہتے ہیں عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ ! کیا اللہ تعالیٰ نے تجارت حلال نہیں کی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں؟ مگر وہ جب سودا بازی کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں اور قسمیں اٹھا اٹھا کر قیمت بڑھاتے ہیں.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا کہ فاسق دوزخی ہیں.عرض کی گئی یا رسول اللہ الفتاق کون ہیں؟ اس پر آنحضور نے فرمایا عورتیں بھی فساق ہوتی ہیں.ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! کیا وہ ہماری مائیں ، بہنیں اور بیویاں نہیں ہیں.آنحضور ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں؟ لیکن جب ان کو کچھ دیا جاتا ہے تو وہ شکر نہیں کرتیں اور جب ان پر کوئی آزمائش پڑتی ہے تو صبر نہیں کرتیں.(مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۴۲۸.مطبوعه بيروت) تو یہ تاجروں کی بھی سوچنے والی بات ہے کہ بڑی صاف ستھری تجارت ہونی چاہئے.یہ بھی شرائط بیعت میں سے ایک شرط ہے.32
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” قرآن سے تو ثابت ہوتا ہے کہ کافر سے پہلے فاسق کو سزا دینی چاہئے.یہ خدا تعالیٰ کا دستور ہے کہ جب ایک قوم فاسق فاجر ہوتی ہے تو اس پر ایک اور قوم مسلط کر دیتا ہے“.(ملفوظات جلد دوم صفحه ۶۵۳.جدید ایڈیشن) پھر فرمایا: ” جب یہ فسق و فجور میں حد سے نکلنے لگے اور خدا کے احکام کی ہتک اور شعائر اللہ سے نفرت ان میں آگئی اور دنیا اور اس کی زیب وزینت میں ہی گم ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اسی طرح ہلا کو ، چنگیز خان وغیرہ سے برباد کر وایا.لکھا ہے کہ اُس وقت یہ آسمان سے آواز آتی تھی اَيُّهَا الْكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَّار، غرض فاسق فاجر انسان خدا کی نظر میں کافر سے بھی ذلیل اور قابل نفرین ہے“.(ملفوظات جلد سوم صفحه ۱۰۸ جدید ایڈیشن) پھر فرمایا: ” ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لا پرواہ ہے اور خدا تعالیٰ بھی اس سے لا پرواہ ہے.ایک بیٹا اگر باپ کی پرواہ نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو“.(تفسیر حضرت مسیح موعود جلد ۳ صفحه ۲۱۱.جدید ایڈیشن) ظلم نہ کرو پھر شرط دوم میں ہے کہ ظلم نہیں کرے گا.قرآن کریم میں آتا ہے: ﴿فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ فَوَيْلٌ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ اَلِيْم ﴾ (الزخرف: ٢٢).اس کا ترجمہ ہے : پس ان کے اندر ہی سے گروہوں نے اختلاف کیا.پس اُن لوگوں 33
کے لئے جنہوں نے ظلم کیا ہلاکت ہو دردناک دن کے عذاب کی صورت میں.حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا.حرص، بخل اور کینہ سے بچو کیونکہ حرص ، بخل اور کینہ نے پہلوں کو ہلاک کیا ، اس نے ان کو خونریزی پر آمادہ کیا اور ان سے قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی کرائی.(مسند احمد جلد نمبر ۳ صفحه ۳۲۳) اسی طرح دوسرے کا حق دبانا بھی ظلم ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ کون سا ظلم سب سے بڑا ہے.تو آنحضور ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑا اعلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے ایک ہاتھ زمین دبا لے.اس زمین کا ایک کنکر بھی جو اس نے ازارہ ظلم لیا ہوگا تو اس کے نیچے کی زمین کے جملہ طبقات کا طوق بن کر قیامت کے روز اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا.اور زمین کی گہرائی سوائے اس ہستی کے کوئی نہیں جانتا جس نے اسے پیدا کیا ہے.بعض لوگ جو اپنے بہنوں بھائیوں یا ہمسایوں کے حقوق ادا نہیں کرتے یا لڑائیوں میں جائیدادوں پر نا جائز قبضہ کر لیتے ہیں ، زمینیں دبا لیتے ہیں ان کو اس پر غور کرنا چاہئے.احمدی ہونے کے بعد جبکہ اس شرط کے ساتھ ہم نے بیعت کی ہے کہ کسی کا حق نہیں دبا ئیں گے ظلم نہیں کریں گے ، بہت زیادہ خوف کا مقام ہے.ایک حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت 34
ﷺ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ ہم نے عرض کی جس کے پاس روپیہ ہو، نہ سامان.آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ، زکوۃ وغیرہ اعمال لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی ،کسی پر تہمت لگائی ہوگی کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا ناحق خون بہایا ہوگایا کسی کو مارا ہوگا.پس ان مظلوموں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی یہاں تک کہ اگر ان کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دئے جائیں گے.اور اس طرح جنت کی بجائے اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا.یہی شخص در اصل مفلس ہے.(مسلم، كتاب البر والصلة باب تحريم الظلم) اب سوچیں ،غور کریں ، ہم میں سے ہر ایک کو سوچنا چاہئے.جو بھی ایسی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہوں ان کے لئے خوف کا مقام ہے.اللہ کرے کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسی مفلسی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور کبھی پیش نہ ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہیں یا اپنے مقامات میں بود و باش رکھتے ہیں اس وصیت کو تو جہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں، اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقوی کے اعلی درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بد چلنی ان کے نزدیک نہ آ سکے.وہ پنجوقت نماز جماعت کے پابند ہوں.وہ جھوٹ نہ بولیں.وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں.وہ کسی قسم کی بدکاری کے 35
مرتکب نہ ہوں.اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں.غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور نا کر دنی اور نا گفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بیجا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بند ے ہو جائیں.اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے...اور تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک نا پاک اور فسادانگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں اور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اور غبن اور رشوت اور اتلاف حقوق اور بیجا طرفداری سے باز رہیں.اور کسی بدصحبت میں نہ بیٹھیں.اور اگر بعد میں ثابت ہو کہ ایک شخص جو ان کے ساتھ آمد و رفت رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے احکام کا پابند نہیں ہے.یا حقوق عباد کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بدچلن آدمی ہے اور یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اس کی نسبت ناحق اور بے وجہ بدگوئی اور زبان درازی اور بدزبانی اور بہتان اور افترا کی عادت جاری رکھ کر خدا تعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہوگا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دور کرو اور ایسے انسان سے پر ہیز کرو جو خطرناک ہے.اور چاہئے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو اور ہر ایک کے لئے بچے ناصح بنو.اور چاہئے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہر گز تمہاری مجلس میں گزر نہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے.36
اسی طرح فرمایا: ” یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو میں ابتداء سے کہتا چلا آیا ہوں.میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہوگا کہ ان تمام وصیتوں کے کار بند ہوں اور چاہئے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور جنسی کا مشغلہ نہ ہو اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو.اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے.اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو.اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو.اور جذبات نفس کو دبائے رکھو اور اگر کوئی بحث کر دیا کوئی مذہبی گفتگو ہوتو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو.اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ.اگر تم ستائے جاؤ اور گالیاں دیئے جاؤ اور تمہارے حق میں برے برے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسا کہ وہ ہیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہر و.سواپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے.جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پر ہیز گاری اور علم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقیناًوہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا.سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ.تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا“.(اشتہار مورخه ۲۹/مئی ۱۸۹۵ء تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۴۲-۴۳) 37
خیانت نہ کرو پھر خیانت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِيْنَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيْمًا﴾ (النساء:١٠٨ ).اور ان لوگوں کی طرف سے بحث نہ کر جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں.یقیناً اللہ سخت خیانت کرنے والے گنہگار کو پسند نہیں کرتا.ایک حدیث میں ہے.حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.جو تمہارے پاس کوئی چیز امانت کے طور پر رکھتا ہے اس کی امانت اسے لوٹا دو.اور اس شخص سے بھی ہرگز خیانت سے پیش نہ آؤ جو تم سے خیانت سے پیش آچکا ہے.(ابوداؤد كتاب البيوع.باب في الرجل ياخذ حقه......) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ” دوسری قسم ترک شر کے اقسام میں سے وہ خلق ہے جس کو امانت و دیانت کہتے ہیں.یعنی دوسرے کے مال پر شرارت اور بدنیتی سے قبضہ کر کے اس کو ایذا پہنچانے پر راضی نہ ہونا.سو واضح ہو کہ دیانت اور امانت انسان کی طبعی حالتوں میں سے ایک حالت ہے.اسی واسطے ایک بچہ شیر خوار بھی جو بوجہ اپنی کم سنی اپنی طبعی سادگی پر ہوتا ہے اور نیز باعث صغرسنی ابھی بری عادتوں کا عادی نہیں ہوتا اس قدر غیر کی چیز سے نفرت رکھتا ہے کہ غیر عورت کا دودھ بھی مشکل سے " پیتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد۱۰ صفحه ۳۴۴) 38
فساد سے بچو پھر فساد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَابْتَغِ فِيْمَا الكَ اللهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (القصص: ۷۸).اور جو کچھ اللہ نے تجھے عطا کیا ہے اس کے ذریعہ دار آخرت کمانے کی خواہش کر اور دنیا میں سے بھی اپنا معین حصہ نظر انداز نہ کر اور احسان کا سلوک کر جیسا کہ اللہ نے تجھ سے احسان کا سلوک کیا اور زمین میں فساد پھیلانا پسند نہ کر.یقیناً اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا.حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنگ دو طرح کی ہے.ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے امام کی اطاعت کی جاتی ہے.ایسا شخص اپنا اچھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور اپنے شریک سفر کے لئے سہولت پیدا کرتا ہے اور فساد سے اجتناب کرتا ہے.پس ایسے شخص کا سونا جاگنا تمام کا تمام مستوجب اجر ہے.اور ایک وہ شخص ہوتا ہے جو فخر کے لئے اور دکھاوے کے لئے اور اپنی بہادری کے قصے سنانے کیلئے لڑتا ہے.ایسا شخص امام کی نافرمانی کرتا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتا ہے.پس ایسا شخص اوپر والے شخص کا ہم پلہ ہو کر نہیں لوٹتا.(سنن ابی داؤد - كتاب الجهاد ـ باب فيمن يغزو ويلتمس) حضرت اسماء بنت یزید روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تم میں سے بہترین لوگوں کے بارہ میں تم کو نہ بتاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں 39
یارسول اللہ ! ضرور بتا ئیں.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب وہ کوئی اچھا منظر دیکھتے ہیں تو ذکر الہی میں مصروف ہو جاتے ہیں.پھر فرمایا: کیا میں تم کو شریرترین افراد سے نہ آگاہ کروں؟ شریر ترین لوگ وہ ہیں جو چغل خوری کی غرض سے چلتے پھرتے ہیں.محبت کرنے والوں کے درمیان بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں.اور فرمانبردار لوگوں کے بارہ میں ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ گناہ میں مبتلا ہو جائیں.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۵۹ مطبوعه بیروت) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے ان سے دنگه یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے.تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے.دیکھو میں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو.بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو.میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے.اس طریق کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے.بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں 40
کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہوکر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یادر کھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے.نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں تو اس معاملہ کو خدا کے سپر د کر دو.تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے.میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو.تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو.(ملفوظات جلد چهارم صفحه ۱۵۷ جدید ایڈیشن) بغاوت کے طریقوں سے بچو پھر اسی شرط دوئم میں اس بات کا بھی عہد ہے کہ بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو " وَقَاتِلُوْهُمْ حَتَّى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلَّهِ ﴾ (1) یعنی اس حد تک ان کا مقابلہ کرو کہ ان کی بغاوت دور ہو جاوے اور دین کی روکیں اٹھ جائیں اور حکومت اللہ کے دین کی ہو جائے.اور پھر فرمایا قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ وَصَةٌ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا (۲) یعنی شہر حرام میں قتل تو گناہ ہے لیکن خدا تعالیٰ کی راہ سے روکنا اور کفر اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو مسجد حرام سے خارج کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے اور بغاوت کو پھیلانا یعنی امن کا خلل انداز ہو نا قتل سے بڑھ کر ہے.(۱) البقرة آيت ۱۹۴ (جنگ مقدس - روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۵۵) (۲) البقرة آیت ۲۱۸ 41
" فرمایا : ” چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان دنوں میں بعض جاہل اور شریر لوگ اکثر ہندوؤں میں سے اور کچھ مسلمانوں میں سے گورنمنٹ کے مقابل پر ایسی ایسی حرکتیں ظاہر کرتے ہیں جن سے بغاوت کی بو آتی ہے.بلکہ مجھے شک ہوتا ہے کہ کسی وقت باغیانہ رنگ ان کی طبائع میں پیدا ہو جائے گا.اس لئے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو جو مختلف مقامات پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہیں جو بفضلہ تعالیٰ کئی لاکھ تک ان کا شمار پہنچ گیا ہے نہایت تاکید سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ میری اس تعلیم کو خوب یا درکھیں جو قریباً ۲۶ برس سے تقریری اور تحریری طور پر ان کے ذہن نشین کرتا آیا ہوں یعنی یہ کہ اس گورنمنٹ کی پوری اطاعت کریں کیونکہ وہ ہماری محسن گورنمنٹ..سو یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ ایسا شخص میری جماعت میں داخل نہیں رہ سکتا جو اس گورنمنٹ کے مقابلہ پر کوئی باغیانہ خیال دل میں رکھے.اور میرے نزدیک یہ سخت بدذاتی ہے کہ جس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہم ظالموں کے پنجے سے بچائے جاتے ہیں اور اس کے زیر سایہ ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے اس کے احسان کے ہم شکر گزار نہ ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ يعنى احسان کا بدلہ احسان ہے اور حدیث شریف میں بھی ہے کہ جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرتا.یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سایہ سے باہر نکل جاؤ تو پھر تمہارا ٹھکانہ کہاں ہے.ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے لے گی.ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کے لئے دانت پیس رہی ہے کیونکہ ان کی نگاہ میں تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو.سو تم اس خدا داد نعمت کی قدر کرو.اب خواہ نخواہ ایسے 42
اعتقاد پھیلانا کہ کوئی خونی مہدی آئے گا اور عیسائی بادشاہوں کو گرفتار کرے گا یہ محض بناوٹی مسائل ہیں جن سے ہمارے مخالف مسلمانوں کے دل سیاہ اور سخت ہو گئے ہیں اور جن کے ایسے عقیدے ہیں وہ خطرناک انسان ہیں.اور ایسے عقیدے کسی زمانہ میں جاہلوں کے لئے بغاوت کا ذریعہ ہو سکتے ہیں بلکہ ضرور ہوں گے.سو ہماری کوشش ہے که مسلمان ایسے عقیدوں سے رہائی پاویں.یادرکھو کہ وہ دین خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتا جس میں انسانی ہمدردی نہیں.خدا نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ زمین پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم کیا جائے“.(مجموع عه اشتهارات جلد ۳ صفحه ۵۸۲ تا ۵۸۵) نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہو پھر اسی شرط دوئم میں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ نفسانی جوشوں کے وقت اس کا مغلوب نہیں ہوگا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: روحانی وجود کا چوتھا درجہ وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے.﴿وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَفِظُونَ یعنی تیسرے درجہ سے بڑھ کر مومن وہ ہیں جو اپنے تئیں نفسانی جذبات اور شہوات ممنوعہ سے بچاتے ہیں.یہ درجہ تیسرے درجہ سے اس لئے بڑھ کر ہے کہ تیسرے درجہ کا مومن تو صرف مال کو جو اس کے نفس کو نہایت پیارا اور عزیز ہے خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے لیکن چوتھے درجہ کا مومن وہ چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں شار کرتا ہے جو مال سے بھی زیادہ پیاری اور محبوب ہے یعنی شہوات نفسانیہ.کیونکہ انسان کو اپنی شہوات نفسانیہ سے اس قدر محبت ہے کہ وہ اپنی 43
شہوات کے پورا کرنے کے لئے اپنے مال عزیز کو پانی کی طرح خرچ کرتا ہے اور ہزارہا روپیہ شہوات کے پورا کرنے کے لئے برباد کر دیتا ہے اور شہوات کے حاصل کرنے کے لئے مال کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا.جیسا کہ دیکھا جاتا ہے ایسے نجس طبع اور بخیل لوگ جو ایک محتاج، بھوکے اور ننگے کو باعث سخت بخل کے ایک پیسہ بھی دے نہیں سکتے شہوات نفسانیہ کے جوش میں بازاری عورتوں کو ہزار ہا روپیہ دے کر اپنا گھر ویران کر لیتے ہیں.پس معلوم ہوا کہ سیلاب شہوت ایسا تند اور تیز ہے کہ بجل جیسی نجاست کو بھی بہا لے جاتا ہے.اس لئے یہ بدیہی امر ہے کہ بہ نسبت اس قوت ایمانی کے جس کے ذریعہ سے بخل دور ہوتا ہے اور انسان اپنا عزیز مال خدا کے لئے دیتا ہے یہ قوت ایمانی جس کے ذریعہ سے انسان شہوات نفسانیہ کے طوفان سے بچتا ہے نہایت زبر دست اور شیطان کا مقابلہ کرنے میں نہایت سخت اور نہایت دیر پا ہے کیونکہ اس کا کام یہ ہے کہ نفس امارہ جیسے پرانے اثر دھا کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالتی ہے.اور بخل تو شہوات نفسانیہ کے پورا کرنے کے جوش میں اور نیز ریاء اور نمود کے وقتوں میں بھی دُور ہوسکتا ہے.مگر یہ طوفان جو نفسانی شہوات کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے یہ نہایت سخت اور دیر پا طوفان ہے جو کسی طرح بجز رحم خداوندی کے دُور ہو ہی نہیں سکتا اور جس طرح جسمانی وجود کے تمام اعضاء میں سے ہڈی نہایت سخت ہے اور اس کی عمر بھی بہت لمبی ہے اسی طرح اس طوفان کے دُور کرنے والی قوت ایمانی نہایت سخت اور عمر بھی لمبی رکھتی ہے تا ایسے دشمن کا دیر تک مقابلہ کر کے پامال کر سکے اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے رحم سے.کیونکہ شہوات نفسانیہ کا طوفان ایک ایسا ہولناک اور پر آشوب طوفان ہے کہ بجز خاص رحم حضرت احدیت 44
کے فرو نہیں ہوسکتا.اسی وجہ سے حضرت یوسف کو کہنا پڑا وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّی (1) یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا.نفس نہایت درجہ بدی کا حکم دینے والا ہے اور اس کے حملہ سے مخلصی غیر ممکن ہے مگر یہ کہ خود خدا تعالیٰ رحم فرما دے.اس آیت میں جیسا کہ فقرہ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّی ہے.طوفان نوح کے ذکر کے وقت بھی اسی کے مشابہ الفاظ ہیں کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لاَ عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ (۲) پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ طوفان شہوات نفسانیہ اپنی عظمت اور ہیبت میں نوح کے طوفان سے مشابہ ہے.“ (براہین احمدیه حصه پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۰۵-۲۰۶) خلاصہ کلام یہ کہ فرمایا ہے کہ شہوات تم پر ہمیشہ غلبہ پانے کی کوشش کریں گی.لیکن تم ان سے ہمیشہ بچو، اللہ تعالیٰ سے رحم ما نگتے ہوئے ان سے بچو.آج کل کے زمانے میں تو اس کے بہت سے اور راستے بھی کھل گئے ہیں اس لئے پہلے سے بڑھ کر دعائیں کرنے کی ، اللہ کی طرف جھکنے کی اور اس کا رحم مانگنے کی ضرورت ہے.اَلَا لِلَّهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَا إِلَى اللهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ (الزمرآيت (۴) خبردار! خالص دین ہی اللہ کے شایانِ شان ہے اور وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوست اپنا لئے ہیں ( کہتے ہیں کہ ) ہم اس مقصد کے سوا اُن کی عبادت نہیں کرتے کہ (۱) یوسف آیت ۵۴ (۲) هود آیت ۴۴ 45
وہ ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہوئے قرب کے اونچے مقام تک پہنچادیں.یقینا اللہ اُن کے درمیان اُس کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے.اللہ ہرگز اُسے ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا ( اور ) سخت ناشکرا ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ” اسی خدا کو مانو جس کے وجود پر توریت اور انجیل اور قرآن مینیوں متفق ہیں.کوئی ایسا خدا اپنی طرف سے مت بناؤ جس کا وجود ان تینوں کتابوں کی متفق علیہ شہادت سے ثابت نہیں ہوتا.وہ بات مانو جس پر عقل اور کانشس کی گواہی ہے اور خدا کی کتابیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں.خدا کو ایسے طور سے نہ مانو جس سے خدا کی کتابوں میں پھوٹ پڑ جائے.زنا نہ کرو ، جھوٹ نہ بولو اور بدنظری نہ کرو اور ہر ایک فسق اور فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو.اور نفسانی جوشوں سے مغلوب مت ہو اور پنج وقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنج طور پر ہی انقلاب آتے ہیں.اور اپنے نبی کریم کے شکر گزار رہو، اس پر درود بھیجو کیونکہ وہی ہے جس نے تاریکی کے زمانے کے بعد نئے سرے خداشناسی کی راہ سکھلائی“.فرمایا: ” یہ وہ میرے سلسلہ کے اصول ہیں جو اس سلسلہ کے لئے امتیازی نشان کی طرح ہیں جس انسانی ہمدردی اور ترک ایذاء بنی نوع اور ترک مخالفت حکام کی یہ سلسلہ بنیاد ڈالتا ہے دوسرے مسلمانوں میں اس کا وجود نہیں.ان کے اصول اپنی بے شمار غلطیوں کی وجہ سے اور طرز کے ہیں جن کی تفصیل کی حاجت نہیں اور نہ یہ ان کا موقع ہے“.( ضميمه ترياق القلوب ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۲۶.۵۲۴) 46
دو تیسری شرط بیعت یہ کہ بلاناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا.اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا.اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا“.پنج وقتہ نمازوں کا التزام کرو اس شرط میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں نمبر ایک تو یہی ہے کہ اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق پانچ وقت نمازیں بلا ناغہ ادا کرے گا.اللہ اور رسول کا حکم ہے مردوں 47
اور عورتوں دونوں کے لئے.اور ان بچوں کے لئے بھی جو دس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ نماز وقت پر ادا کرو.مردوں کے لئے یہ حکم ہے کہ نماز باجماعت کی ادائیگی کا اہتمام کرو.مسجدوں میں جاؤ ، ان کو آباد کرو، اس کے فضل تلاش کرو.پنج وقتہ نماز کے بارہ میں کوئی چھوٹ نہیں.اور سفر میں بھی کچھ رعایت تو ہے یا بیماری میں بھی رعایت ہے.یا جیسے یہ ہے کہ جمع کر لو ، قصر کر لو.اور اگر بیماری میں مسجد نہ جانے کی چھوٹ ہے تو ان باتوں سے اندازہ ہو جانا چاہئے کہ نماز با جماعت کی کتنی اہمیت ہے.اس کی اہمیت کے بارہ میں اب میں مزید کچھ اقتباسات پڑھتا ہوں لیکن یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہر بیعت کنندہ کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو بیچنے کا عہد کر رہے ہیں لیکن کیا اس واضع قرآنی حکم کی پابندی بھی کر رہے ہیں.ہر احمد ہی اپنے نفس کے لئے خود مذکر ہے، خود اپنا جائزہ لیں ، خود دیکھیں.اگر ہم خود ہی اپنے آپ کو ، اپنے نفس کو ٹولنے لگیں تو ایک عظیم انقلاب بر پا ہوسکتا ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَاتُوْا الزَّكَوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ (النور آیت ۵۷ ).اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.پھر سورۃ طہ آیت ۱۵ میں ہے.انَّنِی أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى ﴾.یقینا میں ہی اللہ ہوں.میرے سوا کوئی معبود نہیں.پس میری عبادت کرو اور میرے ذکر کے لئے نماز کو قائم کرو.اور اس طرح بے شمار دفعہ قرآن مجید میں نماز کے بارہ میں احکامات آئے ہیں.48
ایک حدیث میں پیش کرتا ہوں.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت علی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نماز کو چھوڑ نا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے.(مسلم کتاب الایمان ـ باب بیان اطلاق اسم الكفر على من ترك الصلوة) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے.اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور اس نے نجات پالی.اگر یہ حساب خراب ہوا تو وہ ناکام ہو گیا اور گھاٹے میں رہا.اگر اس کے فرضوں میں کوئی کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھو! میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں.اگر نوافل ہوئے تو فرضوں کی کمی ان نوافل کے ذریعہ پوری کر دی جائے گی.اسی طرح اس کے باقی اعمال کا معائنہ ہوگا اور ان کا جائزہ لیا جائے گا.(ترمذى كتاب الصلوة باب ان اول ما يحاسب به العبد) پھر حدیث میں آتا ہے: حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزر رہی ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ بار نہائے تو اس کے جسم پر کوئی میل رہ جائے گی ؟ صحابہ نے عرض کیا : رسول اللہ ! کوئی میل نہیں رہے گی.آپ نے فرمایا.یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ گناہ معاف کرتا ہے اور کمزوریاں دُور کر دیتا ہے.(بخارى كتاب مواقيت الصلوة باب الصلوة الخمس كفارة للخطاء) 49
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”نماز پڑھو، نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے“.(ازالہ اوہام صفحه ۸۲۹ طبع اول) حضور مزید فرماتے ہیں : ” نماز کا مغز اور روح بھی دعا ہی ہے“.(روحانی خزائن - ايام الصلح.جلد نمبر ۱۴.صفحه ۲۴۱) آپ مزید فرماتے ہیں : ” اے وے تمام لوگو! اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو.آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقومی کی راہوں پر قدم مارو گے.سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو.اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جوز کوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو.یقیناً یا د رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے.ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے.جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی.وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه (۱۵) آپ فرماتے ہیں: ” نماز کیا چیز ہے.وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بیخبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو.کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں.لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجر قرآن کے جو خدا کا کلام ہے.اور بجر بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے 50
باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کرو تا کہ تمہارے دلوں پر اس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۸.۲۹ ) پھر آپ نے فرمایا: ” نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے.نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ میں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گر پڑی ہے.جس گھر میں اس قسم کی نماز ہوگی وہ گھر کبھی تباہ نہ ہوگا.حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوح کے وقت میں نماز ہوتی تو وہ قوم کبھی تباہ نہ ہوتی.حج بھی انسان کے لئے مشروط ہے، روزہ بھی مشروط ہے ، زکوۃ بھی مشروط ہے مگر نماز مشروہ نہیں.سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں مگر اس کا حکم ہر روز پانچ دفعہ ادا کرنے کا ہے.اس لئے جب تک پوری پوری نماز نہ ہوگی تو وہ برکات بھی نہ ہوں گی جو اس سے حاصل ہوتی ہیں اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہوگا“.(ملفوظات جلد سوم صفحه ۲۲۷ جدید ایڈیشن) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ہمیں نماز معاف فرما دی جائے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں.مویشی وغیرہ کے سبب کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے.تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں ، تو ہے ہی کیا؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجز و نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا.کبھی اس کی عظمت اور اس کے 51
احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدے میں گر جانا.اس سے اپنی حاجات کا مانگنا یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے، تو ایسا ہے.اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کر کے اس کی رحمت کو جنبش دلانا پھر اس سے مانگنا.پس جس دین میں یہ نہیں ، وہ دین ہی کیا ہے.انسان ہر وقت محتاج ہے اس سے اس کی رضا کی راہیں مانگتا ر ہے اور اس کے فضل کا اس سے خواستگار ہو کیونکہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جاسکتا ہے.اے خدا! ہم کو تو فیق دے کہ ہم تیرے ہو جائیں اور تیری رضا پر کار بند ہوکر تجھے راضی کرلیں.خدا کی محبت، اسی کا خوف ، اسی کی یاد میں دل لگا رہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے.پھر جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا ؟ وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سورہنا.یہ تو دین ہرگز نہیں.یہ سیرت کفار ہے بلکہ جو دم غافل وہ دم کا فر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے.(تفسیر حضرت مسیح موعود جلد ۳ صفحه ۲۱۱-۲۱۲.مطبوعه ربوهـ طبع جدید) نماز میں ذوق کس طرح حاصل ہو.اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اے اللہ تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں.میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آ جاؤں گا.اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور 52
ناشناسا ہے.تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے.تو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جاملوں.جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پیدا کر دے گی“.(ملفوظات جلد دوم صفحه ۶۱۶ جدید ایڈیشن) نماز تہجد کا التزام کریں پھر اس تیسری شرط میں یہ ہے کہ نماز تہجد پڑھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّـدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ﴾ (سورة بنی اسرائیل آیت ۸۰) ـ سورج کے ڈھلنے سے شروع ہو کر رات کے چھا جانے تک نماز کو قائم کر اور فجر کی تلاوت کو اہمیت دے.یقیناً فجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اُس کی گواہی دی جاتی ہے.اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس (قرآن) کے ساتھ تہجد پڑھا کر.یہ تیرے لئے نفل کے طور پر ہو گا.قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر فائز کر دے.حضرت بلال بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تمہیں نماز تہجد کا التزام کرنا چاہئے کیونکہ یہ گزشتہ صالحین کا طریقہ رہا ہے اور قرب الہی کا ذریعہ ہے.یہ عادت گناہوں سے روکتی ہے، برائیوں کو ختم کرتی ہے اور جسمانی بیماریوں سے بچاتی ہے.(ترمذى ابواب الدعوات) 53
ایک حدیث ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ہ نے فرمایا کہ جب رات کا آخری پہر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سماء دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں.کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں.کوئی ہے جو مجھ سے رزق طلب کرے تو میں اسے رزق عطا کروں.کوئی ہے جو مجھ سے اپنی تکلیف کے دور کرنے کے لئے دعا کرے تو میں اس کی تکلیف کو دور کروں.اللہ تعالیٰ یونہی فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح صادق ہو جاتی ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۲ صفحه ۵۲۱، مطبوعه بیروت) بہت سارے لوگ دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں.خود بھی اس طریق پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی نازل ہوتے دیکھیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں.میرا بندہ جتنا میرا قرب اس چیز سے، جو مجھے پسند ہے اور میں نے اس پر فرض کر دی ہے ، حاصل کر سکتا ہے، اتنا کسی اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتا اور نوافل کے ذریعہ سے میرا بندہ میرے قریب ہو جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں.اور جب میں اس کو اپنا دوست بنا لیتا ہوں تو اس کے کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا 54
ہے.یعنی میں ہی اس کا کارساز ہوتا ہوں.اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں.(بخاری کتاب الرقاق باب التواضع) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ رحیم کرے اس شخص پر جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو اٹھائے.اگر وہ اٹھنے میں پس و پیش کرے تو اس کے منہ پر پانی چھڑ کے تا کہ وہ اٹھ کھڑی ہو.اسی طرح اللہ تعالیٰ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھی نماز پڑھی اور اپنے میاں کو جگایا.اگر اس نے اٹھنے میں پس و پیش کیا تو اس کے منہ پر پانی چھڑکا تا کہ وہ اٹھ کھڑا ہو.وو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: (ابوداؤد - كتاب الصلوة) ” ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں.جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائیگا.اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ بچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں.جبتک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہوسکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درددل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی اضطراب اور اضطرار اور قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں.لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اور سوز دل میں نہیں کیونکہ نیند تو غم کو دور کر دیتی ہے.لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درد اور غم نیند 55
سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے“.وو (ملفوظات جلد دوم صفحه ۱۸۲ جدید ایڈیشن) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجا تربیت پائی.وہ پہلے کیا تھے.ایک کسان کی تخم ریزی کی طرح تھے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی.آپ نے ان کے لئے دعائیں کیں.بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آپ پانی سے پھل عمد و نکلا.جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اسی طرح وہ چلتے.وہ دن کا یارات کا انتظار نہ کرتے تھے.تم لوگ سچے دل سے تو بہ کرو.تہجد میں اٹھو ، دعا کرو ، دل کو درست کرو، کمزوریوں کو چھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل کو بناؤ“.صلى الله (ملفوظات جلد اول صفحه ۲۸.جدید ایڈیشن) آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے میں مداومت اختیار کریں اسی تیسری شرط بیعت میں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کی کوشش کرتا رہے گا، درود بھیجے گا ، اس میں با قاعدگی اختیار کرے گا.اس بارہ میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِمُوْا تَسْلِيمًا﴾ (الاحزاب آیت ۵۷) یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو.56
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا کہ جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی وہی الفاظ دہراؤ جو وہ کہتا ہے.پھر مجھ پر درود بھیجو.جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا.پھر فرمایا : میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو جو جنت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو ملے گا.اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں گا.جس کسی نے بھی میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت حلال ہو جائے گی.(صحیح مسلم کتاب الصلاة باب القول مثل قول المؤذن سمعه ثم يصلى على النبي الله) تو یہ سب کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ،خدا تک پہنچنے کے لئے ، اپنی دعاؤں کو اللہ کے حضور قبولیت کا درجہ دلوانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کا وسیلہ اختیار کریں اور اس کا سب سے بہترین ذریعہ جس طرح حدیث میں آیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے، یہی ہے کہ بہت زیادہ درود پڑھنا چاہئے.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ.الله حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے 57
فرمایا ہے جو مسلمان بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ جب تک مجھ پر درود بھیجتا رہتا ہے اس وقت تک فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں.اب چاہے تو اس میں کمی کرے اور چاہے تو اسے زیادہ کرے.حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تو اپنے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی ( خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے ) او پر نہیں جاتا.(ترمذى، كتاب الصلوة - باب ماجاء في فضل الصلوة على النبي علي الله) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہوگا جو اُن میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا.(ترمذى ، كتاب الصلوة باب ماجاء في فضل الصلوة على النبى عليها الله).حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام درود کی برکات کا ذاتی تجربہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں.فرمایا کہ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استدراک رہا کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز، وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں.جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے ﴿وَابْتَغُوْا إِلَيْهِ الْوَسِيْلَة تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو سقے یعنی ماشکی آئے ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے اور ان کے کاندھوں پر 58
نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ”هذا بمَا صَلَّيْتَ عَلَى مُحَمَّدٍ ، 66 (حقيقة الوحى، حاشیه صفحه ۱۲۸ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحه ۱۳۱ حاشیه) یعنی یہ برکات اس درود کی وجہ سے ہیں جو تو نے محمد ﷺ پر بھیجا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.” درود شریف کے طفیل.میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت ﷺ کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت ﷺ کے سینے میں جذب ہو جاتے ہیں.اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہا نالیاں ہو جاتی ہیں اور بقد رحصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں.یقیناً کوئی فیض بدوں وساطت آنحضرت ﷺ دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا.درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں.جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو“.(الحكم.بتاريخ ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء.صفحه) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے.غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے، اُسے قبول کرے.اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت ﷺ کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہو جاؤ.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ يَعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوْا عَلَى اَنْفُسِهِمْ اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق.رسول کریم ﷺ کے بندہ الله 59
ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپ پر درود پڑھو اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو، سب حکموں پر کار بندر ہو.البدر.جلد ۲ نمبر ۱۴ بتاریخ ۲۴/ اپریل ۱۹۰۳ء.صفحه ۱۰۹) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: "اللَّهُمَّ صَلَّ وَسَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ بِعَدَدِ هَمِّهِ وَ غَمِهِ وَ حُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَاَنْزِلْ عَلَيْهِ أَنْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ“.بركات الدعا روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۱) ترجمہ:.اے اللہ درود اور سلام اور برکتیں بھیج آپ اور آپ کی آل پر اتنی زیادہ رحمتیں اور برکتیں جتنے ہم و غم اور حزن آپ کے دل میں اس امت کے لئے تھے اور آپ پر اپنی رحمتوں کے انوار ہمیشہ نازل فرماتا چلا جا.استغفار میں مداومت اختیار کریں پھر اس تیسری شرط میں استغفار کے بارہ میں بھی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا - يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنَّتٍ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ أَنْهَرًا (نوح آیت ۱ ۱ تا ۱۳) پس میں نے کہا اپنے رب سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ بہت بخشنے والا ہے.وہ تم پر لگا تار برسنے والا بادل بھیجے گا.اور وہ اموال اور اولاد کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا 60
اور تمہارے لئے باغات بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾ (النصر آیت (۴) پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ (اس کی تسبیح کر اور اُس سے مغفرت مانگ.یقیناً وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے.اس بارہ میں ایک حدیث ہے.ابی بردہ بن ابی موسیٰ اپنے والد ابو موسی " کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری امت کو دو امانتیں دینے کے بارہ میں وحی نازل کی جو یہ ہیں.﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيْهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ﴾ (الانفال آیت (۳۴) یعنی اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک تو ان میں موجود ہو اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں.پس جب میں ان سے الگ ہوا تو میں نے ان میں قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑا.(جامع ترمذى كتاب تفسير القرآن تفسير سورة الانفال) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جو شخص استغفار کو چمٹارہتا ہے ( یعنی استغفار کرتا رہتا ہے ) اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کی ہر مشکل سے اس کی کشائش کی راہ پیدا کر دیتا ہے اور اسے ان راہوں سے رزق عطا کرتا ہے جن کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا.(سنن ابی داؤد كتاب الوتر.باب في الاستغفار ) وو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :...استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف 61
میں دو معنے پر آیا ہے.ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خدا تعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہو کر اس سے مدد چاہنا.یہ استغفار تو مقربوں کا ہے جو ایک طرفۃ العین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے.اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشو و نما پا کر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیا.کیونکہ غَفَرَ جس سے استغفار نکلا ہے ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں.گویا استغفار سے یہ مطلب ہے کہ خدا اس شخص کے گناہ جو اس کی محبت میں اپنے تئیں قائم کرتا ہے دبائے رکھے اور بشریت کی جڑیں جنگی نہ ہونے دے بلکہ الوہیت کی چادر میں لیکر اپنی قدوسیت میں سے حصہ دے.یا اگر کوئی جڑ گناہ کے ظہور سے تنگی ہوگئی ہو پھر اس کو ڈھانک دے اور اس کی برہنگی کے بداثر سے بچائے.سو چونکہ خدا مبدء فیض ہے اور اس کا نور ہر ایک تاریکی کے دور کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے اس لئے پاک زندگی حاصل کرنے کے لئے یہی طریق مستقیم ہے کہ ہم اس خوفناک حالت سے ڈر کر اس چشمہ بطہارت کی طرف دونوں ہاتھ پھیلائیں تا وہ چشمہ زور سے ہماری طرف حرکت کرے اور تمام گند کو یکدفعہ لے جائے.خدا کو راضی کرنے والی اس سے زیادہ کوئی قربانی نہیں کہ ہم در حقیقت اس کی راہ میں موت کو قبول کر کے اپنا وجود اس کے آگے رکھ دیں.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۴۷۳۴۶) 62
پھر آپ نے فرمایا.جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بیچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں.اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گنہگار ہو چکے ہیں تو استغفار ان کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی.اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے.وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے رہتے ہیں“.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۴) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا ہوا سے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے.آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے.﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا.وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْن.(۱) یہ دعا اول ہی قبول ہو چکی ہے.غفلت سے زندگی بسر مت کرو.جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گزارتا ہرگز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بلا میں مبتلا ہو.کوئی بلا بغیر اذن کے نہیں آتی جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی: رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِيْ وَانْصُرْنِي (ملفوظات جلد دوم صفحه ۵۷۷ جدید ایڈیشن) وَارْحَمْنِي“.(1) الاعراف آیت ۲۴ 63
استغفار اور توبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” وَ أَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَيْهِ ) - (1) یا درکھو کہ یہ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں.ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے.دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے.قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمد اد اور استعانت بھی کہتے ہیں.صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کو اٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے اسی طرح پر روحانی مگدر استغفار ہے.اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے.جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے.غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں.استغفار سے انسان ان جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے ( جو ) خدا تعالیٰ سے روکتے ہیں.پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کر کے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں ان پر غالب آوے اور خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کی راہ کی روکوں سے بیچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے.یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو قسم کے مادے رکھے ہیں.ایک سمی مادہ ہے جس کا موکل شیطان ہے اور دوسرا تریاقی مادہ ہے.جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا تو سمی قوت (۱) هود آیت ۴.64
غالب آجاتی ہے.لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اور اپنے اندر اللہ تعالی کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کی روح گداز ہو کر بہت نکلتی ہے اور یہی استغفار کے معنی ہیں.یعنی یہ کہ اس قوت کو پا کر زہریلے مواد پر غالب آجاوے“.(ملفوظات جلداول صفحه ۳۴۸-۳۴۹مطبوعه ربوه) اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے رہیں پھر اس تیسری شرط میں ایک یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرتارہے گا.اس بارہ میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (الفاتحہ آیت (۲) تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ.( سورة سبا آیت ۲) سب حمد اللہ ہی کی ہے جس کا وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور آخرت میں بھی تمام تر حمد اُسی کی ہوگی اور وہ بہت حکمت والا ( اور ) ہمیشہ خبر رکھتا ہے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ہرا ہم کام اگر خدا تعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے وہ ناقص رہتا ہے.ہے.ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ہر کلام جو اللہ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے وہ بے برکت اور بے اثر ہوتا ہے.(سنن ابن ماجه ابواب النکاح اور سنن ابو داؤد کتاب الادب) 65
ایک حدیث میں آتا ہے.نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا : ”جو شخص تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا اور جولوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا بھی شکریہ ادا نہیں کر پاتا.اللہ تعالیٰ کی نعماء کا ذکر خیر کرنا بھی شکر ہے.اور اللہ تعالیٰ کی نعماء کا ذکر خیر نہ کرنا ناشکری ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۷۸ مطبوعه بيروت) صلى الله حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علی نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا.اے معاذ! اللہ کی قسم ! یقیناً میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں، پھر آپ نے فرمایا اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تو ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ بھولنا.اَللَّهُمَّ أَعِنِّى عَلى ذِكْرَكَ وَ شُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ.اے اللہ تعالیٰ ! تو مجھے توفیق عطاء کر کہ میں تیرا ذکر، تیرا شکر اور اچھے انداز میں تیری عبادت کر سکوں.(سنن ابی داؤد کتاب الوتر.باب في الاستغفار) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” اگر انسان غور اور فکر سے دیکھے تو اس کو معلوم ہوگا کہ واقعی طور پر تمام محامد اور صفات کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے.اور کوئی انسان یا مخلوق واقعی اور حقیقی طور پر حمد وثنا کا مستحق نہیں ہے.اگر انسان بغیر کسی قسم کی غرض کی ملونی کے دیکھے تو اس پر بدیہی طور پر کھل جاوے گا کہ کوئی شخص جو مستحق محمد قرار پاتا ہے وہ یا تو اس لئے مستحق ہو سکتا ہے کہ کسی ایسے زمانہ میں جبکہ کوئی وجود نہ تھا اور نہ کسی وجود کی خبر تھی وہ اس کا پیدا کر نیوالا ہو.66
یا اس وجہ سے کہ ایسے زمانہ میں کہ کوئی وجود نہ تھا اور نہ معلوم تھا کہ وجود اور بقاء وجود اور حفظ صحت اور قیام زندگی کے لئے کیا کیا اسباب ضروری ہیں اس نے وہ سب سامان مہیا کئے ہوں.یا ایسے زمانہ میں کہ اس پر بہت سی مصیبتیں آسکتی تھیں اس نے رحم کیا ہو اور اس کو محفوظ رکھا ہو.اور یا اس وجہ سے مستحق تعریف ہوسکتا ہے کہ محنت کرنے والے کی محنت کو ضائع نہ کرے اور محنت کرنے والوں کے حقوق پورے طور پر ادا کرے.اگر چہ بظاہر اجرت کرنے والے کے حقوق کا دینا معاوضہ ہے لیکن ایسا شخص بھی محسن ہو سکتا ہے جو پورے طور پر حقوق ادا کرے.یہ صفات اعلیٰ درجہ کی ہیں جو کسی کو مستحق حمد وثنا بنا سکتی ہیں.اب غور کر کے دیکھ لو کہ حقیقی طور پر ان سب محامد کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو کامل طور پر ان صفات سے متصف ہے اور کسی میں یہ صفات نہیں ہیں.غرض او لاً بالذات اکمل اور اعلیٰ طور سے خدا تعالیٰ ہی مستحق تعریف ہے.اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا ذاتی طور پر کوئی بھی استحقاق نہیں.اگر کسی دوسرے کو استحقاق تعریف کا ہے تو صرف طفیلی طور پر ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ کا رحم ہے کہ باوجود یکہ وہ وحدہ لاشریک ہے.مگر اس نے طفیلی طور پر بعض کو اپنے محامد میں شریک کر لیا ہے.روئیداد جلسه دعا روحانی خزائن جلد۱۵ صفحه ۵۹۸ تا ۶۰۲) جماعت کو عمومی نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:" اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو.اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو تم خدا کی آخری جماعت ہو.سو وہ عمل نیک دکھلا ؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو.ہر ایک جو تم میں سست ہو جائیگا وہ ایک 67
گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مریگا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا.دیکھو میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا در حقیقت موجود ہے.اگر چہ سب اس کی مخلوق ہے لیکن وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جو اس کو چتا ہے.وہ اس کے پاس آ جاتا ہے جو اس کے پاس جاتا ہے.جو اس کو عزت دیتا ہے وہ بھی اس کو عزت دیتا ہے.تم اپنے دلوں کو سیدھے کر کے اور زبانوں اور آنکھوں اور کانوں کو پاک کر کے اس کی طرف آجاؤ کہ وہ تمہیں قبول کریگا.“ دو (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں.یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے.وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بد بختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی.اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا.مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی.وہ آخر فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے 68
ان پر کھولے جائیں گے.خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جولوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بز دلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ 66 لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.(رساله الوصيت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۹) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر قائم رہنے کی تو فیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں سچا اور احمدی مسلمان بنائے ہمیں اپنے عہد بیعت پر قائم رہنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے.خدا اور اس کے رسول ﷺ کی سچی اور کامل اطاعت کرنے اور والا بنائے.ہم سے کبھی کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیاری جماعت پر کوئی حرف آئے.اے اللہ تو ہماری غلطیوں کو معاف فرما.ہماری پردہ پوشی فرما.ہمیں ہمیشہ اپنے فرمانبرداروں اور وفاداروں میں لکھ.ہمیں ہمارے عہد وفا اور بیعت پر قائم رکھ ، ہمیں اپنے پیاروں میں شامل رکھ، ہماری نسلوں کو بھی اس عہد کو نبھانے کی توفیق دے.کبھی ہمیں اپنے سے جدا نہ کرنا.ہمیں اپنی کچی معرفت عطا کر.اے ارحم الراحمین خدا ہم پر رحم فرما اور ہماری ساری دعائیں قبول فرما.ہمیں ان تمام دعاؤں کا وارث بنا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لئے ، اپنی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے لئے کیں.(از اختتامی خطاب بر موقعه جلسه سالانه انگلستان مورخہ ۲۷ جولائی ۲۰۰۳ء) 69
70
یہ اتنا اہم اور ضروری مضمون ہے اور موجودہ زمانہ میں اس کی ضرورت اور بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے.جبکہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے دور جارہے ہیں ہمیں یہ تو فخر ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فلاں صحابی کی نسل میں سے ہیں لیکن اپنے آبا واجداد کی قربانیوں پر کم نظر ہے اگلی نسلوں میں جسمانی خون تو منتقل ہو گیا ہے لیکن روحانیت کے معیار کم ہوئے ہیں بہر حال یہ قدرتی امر ہے کہ جوں جوں نبوت کے زمانہ سے دور ہوتے جائیں کچھ کمیاں کچھ کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں.لیکن ترقی کرنے والی جماعتیں زمانے اور حالات کا رونا رو کر وہیں بیٹھ نہیں جایا کرتیں بلکہ کوشش کرتی ہیں ہم تو خوش قسمت ہیں کہ ہمارے بارے میں یہ خوشخبریاں اور پیش گوئیاں موجود ہیں کہ مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہو کر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے اور یہ مقدر ہے بشرطیکہ ہم تو حید پر قائم رہیں اور اس تعلیم پر نہ صرف خود قائم ہوں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی قائم رکھیں اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام اپنی بیعت کرنے والوں سے کیا چاہتے ہیں اس کے بعد شرائط بیعت کی چوتھی شرط سے شروع کروں گا.71
حضور فرماتے ہیں.” میرے ہاتھ پر تو بہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے تا کہ تم نئی زندگی میں ایک اور پیدائش حاصل کرو.بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں.میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے پس جو کچے دل سے مجھے قبول کرتا اور اپنے گناہوں سے چھی تو بہ کرتا ہے غفور و رحیم خدا اُس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تب فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں (ملفوظات جلد سوم صفحه 262) چوتھی شرط بیعت یہ کہ عام خلق اللہ کو عموما اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے“ جیسا کہ اس شرط سے واضح ہے کہ غصہ میں آکر مغلوب الغضب ہو کر اپنی اناء کا مسئلہ بنا کر اپنی جھوٹی غیرت کا اظہار کرتے ہوئے نہ ہی اپنے ہاتھ سے نہ ہی زبان سے کسی کو دُکھ نہیں دینا.یہ تو ہے ہی ایک ضروری شرط کہ کسی مسلمان کو دُکھ 72
نہیں دوں گا یہ تو ہمارے اوپر فرض ہے اس کی پابندی تو ہم نے خصوصیت سے کرنی ہی ہے کیونکہ مسلمان تو ہمارے پیارے محبوب پیارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں ان کی برائی کا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے سوائے اُن نام نہاد علماء کے جو اسلام کے نام پر ایک دھبہ ہیں جنہوں نے اس زمانہ کے مسیح موعود اور مہدی کے خلاف اپنی دشمنی کی انتہاء کر دی ہے ان کے خلاف بھی ہم اپنے خدا سے اُس قادر و توانا خدا سے جو سب قدرتوں کا مالک ہے ایسے شریروں کے خلاف مدد مانگتے ہوئے اُس کے حضور جھکتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ تو ہی اُن کو پکڑا اور یہ بھی اس لئے کہ خدا کا رسول ان کو بدترین مخلوق کہہ چکا ہے ور نہ ہمیں کسی سے زائد عناد اور کسی کے خلاف غصہ نہیں ، ہم تو اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے غصہ کو دبانے کی نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرماتا ہے.الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِى السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ.(آل عمران آیت ۱۳۵) - یعنی وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دبا جانے والے لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.اس آیت سے ہی حضرت امام حسین علیہ السلام کے غلام نے آزادی حاصل کر لی تھی بیان کیا جاتا ہے کہ غلام نے آپ پر غلطی سے کوئی گرم چیز گرادی پانی 73
یا کوئی پینے کی چیز تھی آپ نے بڑے غصے سے اسکی طرف دیکھا تو تھا وہ ہوشیار قرآن کا بھی علم رکھتا تھا اور حاضر دماغ بھی تھا فوراً بولا وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ آپ نے کہا ٹھیک ہے غصہ دبا لیا.اب اسکو خیال آیا کہ غصہ تو دبا لیا لیکن دل میں تو رہے گا کسی وقت کسی اور غلطی پر مارنہ پڑ جائے فورا بولا وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ.آپ نے کہا ٹھیک ہے جاؤ معاف بھی کر دیا.علم اور حاضر دماغی پھر کام آئی فوراً کہنے لگا وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ آپ نے کہا چلو جاؤ تمہیں آزاد بھی کرتا ہوں تو اس زمانہ میں غلام خریدے جاتے تھے اتنی آسانی سے آزادی نہیں ملتی تھی لیکن غلام کی حاضر دماغی اور علم اور مالک کا تقوی کام آیا اور آزادی مل گئی.تو یہ ہے اسلام کی تمبر عفوو درگذر سے کام لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایصال خیر کی اقسام کے بیان میں دوسری قسم ان اخلاق کی جو ایصال خیر سے تعلق رکھتے ہیں کے متعلق فرماتے ہیں: پہلا خلق ان میں سے عفو ہے.یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا.اس میں ایصال خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایا جائے سزا دلائی جائے، قید کرایا جائے ، جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اُٹھایا جائے.پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اُس کے حق میں ایصال خیر ہے.اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (1) جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ 74
مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَاوَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى الله - (۲) یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں بدی کی جزا اسقدر بدی ہے جو کی گئی ہو لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقع پر گناہ کو بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو یعنی عین عفو کے محل پر ہو، نہ غیر حل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا“.(اسلامی اصول کی فلاسفی - روحانی خزائن جلد نمبر ۱۰.صفحه ۳۵۱) ایک بڑی مشہور حدیث ہے.اکثر نے سنی ہوگی جس میں آنحضرت علی علوم اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تقویٰ یہاں ہے یعنی حقیقی اور بے مثال تقویٰ اگر کہیں ہوسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف آپ ﷺ کا دل صافی ہے اس دل میں سوائے تقویٰ کے کچھ اور ہے ہی نہیں.پس اے لوگو اے مومنوں کی جماعت تمہارے لئے ہمیشہ یہ حکم ہے کہ تم نے جس اسوۂ حسنہ پر عمل کرتا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے.پس اپنے دلوں کو ٹولو.کیا تم دل میں اُس اُسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو تقویٰ سے بھرنے کی کوشش کر رہے ہو؟ کیا تمہارے اندر بھی اللہ کا خوف اُسکی خشیت اور اُس کے نتیجہ میں اُسکی مخلوق کی ہمدردی اور خیر خواہی ہے.اب میں پوری حدیث بیان کرتا ہوں جو یوں ہے : حضرت ابوھریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آپس میں حسد نہ کرو.آپس میں نہ جھگڑو.آپس میں بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے (1) آل عمران آیت ۱۳۵ (۲) الشوریٰ آیت ۴۱.75
دشمنیاں مت رکھو اور تم میں سے کوئی ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا اُسے ذلیل نہیں کرتا اور اُسے حقیر نہیں جانتا پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: التَّقْواى ههنا یعنی تقویٰ یہاں ہے.کسی آدمی کے شر کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ہرمہ (صحيح مسلم كتاب البر والصلة باب تحريم ظلم المسلم وخذله.....الخ) م مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ، مال اور عزت حرام ہے.کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ وو چوتھی شرط میں یہ بیان ہے کہ نہ ہاتھ سے نہ زبان سے نہ کسی بھی طرح سے کسی کو تکلیف نہیں دینی.اس شرط کو مزید کھولتا ہوں.یہ جو حدیث میں نے پڑھی ہے اس میں سے اس کو سامنے رکھیں فرمایا ” حسد نہ کرو“ اب حسد ایک ایسی چیز ہے جو آخر کار بڑھتے بڑھتے دشمنی تک چلی جاتی ہے اس حسد کی وجہ سے ہر وقت دل میں جس سے حسد ہو اس کو نقصان پہنچانے کا خیال رہتا ہے.پھر حسد ایک ایسی چیز ہے ، ایک ایسی بیماری ہے جس سے دوسرے کو تو جو نقصان پہنچتا ہے وہ تو ہے ہی ، حسد کرنے والا خود بھی اس آگ میں جلتا رہتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جوحسد پیدا کر رہی ہوتی ہیں کہ فلاں کا کاروبار کیوں اچھا ہے.فلاں کے پاس پیسہ میرے سے زیادہ ہے.فلاں کا گھر میرے سے اچھا ہے.فلاں کے بچے زیادہ لائق ہیں.عورتوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ فلاں کے پاس زیور اچھا ہے تو حسد شروع ہو گیا پھر اور 76
تو اور دین کے معاملے میں جہاں نیکی کو دیکھ کر رشک آنا چاہئے.خود بھی کوشش ہونی چاہئے کہ ہم بھی آگے بڑھ کر دین کے خادم بنیں.اس کے بجائے خدمت کرنے والوں کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح شکایات لگا کر اسکو بھی دین کی خدمت سے محروم کر دیا جائے.پھر اس حدیث میں آیا ہے کہ جھگڑ نا نہیں.چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں اور لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں مثلاً چھوٹی سی بات ہے کسی ڈیوٹی والے نے کسی بچے کو جلسہ کے دوران اُسکی مسلسل شرارتوں کی وجہ سے ذراسختی سے روک دیا یا تنبیہ کی کہ اب اگر تم نے ایسا کیا تو میں سختی کروں گا سزا دوں گا تو قریب بیٹھے ہوئے ماں یا باپ فوراً باز و چڑھا لیتے ہیں اور یہ تجربہ میں آئی ہیں باتیں اور اس ڈیوٹی والے بیچارے کی ایسی مٹی پلید کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ.اب تمہاری اس حرکت سے جہاں تم نے عہد بیعت کو توڑا اپنے اخلاق خراب کئے وہاں اپنی نئی نسل کے دل سے بھی نظام کا احترام ختم کر دیا اور اس کے دماغ سے بھی صحیح اور غلط کی پہچان ختم کردی.پھر فرمایا دشمنیاں مت رکھو.اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر دشمنیاں شروع ہو جاتی ہیں دل کینوں اور نفرتوں سے بھر جاتے ہیں.تاک میں ہوتے ہیں کہ کبھی مجھے موقعہ ملے اور میں اپنی دشمنی کا بدلہ لوں حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ کسی سے دشمنی نہ رکھو، بغض نہ رکھو.حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ سے عرض کی ایسی مختصر بات بتا ئیں.نصیحت کریں جو میں بھول نہ جاؤں آپ نے 77
فرمایا غصے سے اجتناب کرو.پھر آنحضرت نے دوبارہ فرمایا ” غصے سے اجتناب کرو.تو جب غصے سے اجتناب کرنے کو ہر وقت ذہن میں رکھیں گے تو بغض اور کینے خود بخودختم ہوتے چلے جائیں گے پھر ایک عادت کسی کو نقصان پہنچانے کی تکلیف پہنچانے کی یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح خراب کرنے کیلئے کسی کے کئے ہوئے سودے پر سودا کرے.اس حدیث میں اس سے بھی منع فرمایا ہے.زیادہ قیمت دیگر صرف اس غرض سے کہ دوسرے کا سودا خراب ہو چیز لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ کوئی ذاتی فائدہ اس سے نہیں ہو رہا، یہاں بھی بتادوں کہ کسی کے رشتے کیلئے بھیجے ہوئے پیغام پر پیغام بھی اس زمرے میں آتا ہے اور یہ بھی منع ہے اس لئے احمدیوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے.پھر فر مایا کہ ظلم نہیں کرنا کسی کو حقیر نہیں سمجھنا کسی کو ذلیل نہیں کرنا.ظالم کبھی خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل نہیں کر سکتا تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو آپ خدا کی خوشنودی کی خاطر بیعت کر کے زمانہ کے مامور من اللہ کو مان رہے ہوں اور دوسری طرف ظلم سے لوگوں کے حقوق پر قبضہ کر رہے ہوں.بھائیوں کو ان کے حق نہ دیں بہنوں کو اُن کی جائیدادوں میں سے حصہ نہ دیں صرف اس لئے کہ بہن کی شادی دوسرے خاندان میں ہوئی ہے ہماری جدی پشتی جائیداد دوسرے خاندانوں میں نہ چلی جائے یہ دیہاتوں میں عام رواج ہے تو بیویوں پر ظلم کرنے والے ہوں اُن کے حقوق کا خیال نہ رکھنے والے ہوں.بیویاں خاوند کے حقوق کا خیال نہ رکھنے والی ہوں تو روز مرہ کے معاملات میں بہت سی ایسی باتیں نکل آئیں 78
گی جو ظلم کے زمرے میں آتی ہیں.تو بہت سی ایسی باتیں سرزد ہو جاتی ہیں.جن سے محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے کو حقیر سمجھ رہے ہیں یا دوسرے کو ذلیل سمجھ رہے ہیں تو ایک طرف تو بیعت کا دعوی کرنا تمام برائیوں کو چھوڑنے کا عہد کرنا اور دوسرے یہ حرکتیں.واضح حکم ہے ایک مسلمان پر یہ کسی طرح بھی جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھے اس طرح پر مسلمانوں پر دوسرے مسلمانوں کا خون مال اور عزت حرام ہے تو آپ جو اس زمانہ کے مامور کو مان کر اسلامی تعلیمات پر سب سے زیادہ عمل درآمد کا دعویٰ کرتے ہیں کے بارے میں کس طرح برداشت کیا جاسکتا ہے کہ یہ حرکتیں ہوں اور پھر حضرت اقدس مسیح موعود کی جماعت میں بھی شامل رہیں ان باتوں کو چھوٹی نہ سمجھتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے صحابہ کا اس بارے میں کیا عمل تھا.اسلام لانے کے بعد اُ نہوں نے اپنے اندر کیا تبدیلیاں کیں.اس بارے میں احادیث کے مزید نمونے پیش کرتا ہوں.حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کے ایک حوض سے پانی پلایا جاتا تھا تو ایک خاندان کے کچھ لوگ آئے اُن میں سے کسی نے کہا تم میں سے کون ابوذر کے پاس جائے گا اور اُن کے سر کے بال پکڑ کر اُن کا محاسبہ کرے گا ایک شخص نے کہا میں یہ کام کروں گا چنانچہ وہ شخص اُن کے پاس حوض پر گیا اور ابوذر کو تنگ کرنا شروع کر دیا ابو ذر اس وقت کھڑے تھے پھر بیٹھ گئے اُس کے بعد لیٹ گئے اس پر انہوں نے کہا کہ اے ابوذر آپ کیوں بیٹھ گئے اور پھر آپ کیوں لیٹے تھے اس پر انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مخاطب 79
کر کے فرمایا تھا جب تم میں سے کسی کو غصہ آ جائے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اگر اس کا غصہ دور ہو جائے تو ٹھیک وگر نہ وہ لیٹ جائے.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر 5 صفحه -153.مطبوعه بيروت) پھر ایک روایت ہے راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم عروہ بن محمد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس ایک شخص آیا جس نے اُن کے ساتھ ایسی باتیں کیں کہ ان کو غصہ آ گیا راوی کہتے ہیں کہ جب ان کو شدید غصہ آ گیا تو وہ کھڑے ہوئے اور وضو کر کے ہمارے پاس لوٹ آئے پھر اُنہوں نے کہا کہ میرے والد نے مجھے میرے دادا عتیہ کے وصیلہ سے جو صحابہ میں سے تھے یہ روایت سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی کے ذریعہ بجھایا جاتا ہے پس جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اُسے وضو کرنا چاہئے.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحه 226.مطبوعه بيروت) حضرت زیاد اپنے چچا عتبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ میں برے اخلاق اور برے اعمال سے اور بری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں.(ترمذى ابواب الدعوات.باب جامع الدعوات) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں کیا فرماتے ہیں اور اُن کو جماعت سے کیا توقعات ہیں وہ پیش کرتا ہوں، فرمایا : وو ” میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہیں یا اپنے مقامات میں بودو باش 80
رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہوکر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقوی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی اُن کے نزدیک نہ آسکے.وہ پنج وقت نماز با جماعت کے پابند ہوں.وہ جھوٹ نہ بولیں.وہ کسی کو زبان سے ایذا ند ہیں.وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور نا کر دنی اور نا گفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بیجا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جا ئیں اور کوئی زہریلہ خمیر اُن کے وجود میں نہ رہے....اور تمام انسانوں کی ہمدری اُن کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں سے اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک نا پاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں اور پنج وقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اور نین اور رشوت اور اتلاف حقوق اور بے جا طرفداری سے باز رہیں اور کسی بدصحبت میں نہ بیٹھیں اور اگر بعد میں ثابت ہو کہ ایک شخص جو اُن کے ساتھ آمد و رفت رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے احکام کا پابند نہیں ہے.یا حقوق عباد کی کچھ پرواہ نہیں ہے رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بدچلن آدمی ہے یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اُسکی نسبت ناحق اور بے وجہ بدگوئی اور زبان درازی اور بد زبانی اور بہتان اور افتراء کی عادت جاری رکھ کر خدا تعالیٰ کے 81
بندوں کو دھوکا دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہوگا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دور کرو اور ایسے انسان سے پر ہیز کرو جو خطرناک ہے اور چاہئے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو اور ہر ایک کے لئے بچے ناسیح بنو اور چاہئے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بد چلوں کو ہرگز تمہاری مجالس میں گزر نہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے.....66 فرمایا : یہ وہ امور ہیں اور وہ شرائط ہیں جو میں ابتداء سے کہتا چلا آیا ہوں.میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہوگا کہ ان تمام وصیتوں کے کار بند ہوں اور چاہئے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور فنسی کا مشغلہ نہ ہوا ور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہوکر زمین پر چلو اور یا درکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں.اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگذر کی عادت ڈالو اور صبر اور علم سے کام لو اور کسی پر نا جائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو اور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اُٹھ جاؤ اگر تم ستائے جاؤ اور گالیاں دیئے جاؤ اور تمہارے حق میں برے برے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسا کہ وہ ہیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راست بازی کا نمونہ ٹھہرو.سواپنے درمیان 82
سے ایسے شخص کو جلد نکال لو جو ہدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنسی کا نمونہ ہے.جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پر ہیزگاری اور علم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقینا وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اُس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا سوتم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راست باز بن جاؤ.تم پنج وقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا“ (اشتہار مورخہ 29 مئی 1898 تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه 43.42) پھر آپ فرماتے ہیں: انسان کو چاہئے شوخ نہ ہو.بے حیائی نہ کرے.مخلوق سے بدسلوکی نہ کرے.محبت اور نیکی سے پیش آوے.اپنی نفسانی اغراض کی وجہ سے کسی سے بغض نہ رکھے سختی اور نرمی مناسب موقع اور مناسب حال کرے“ وو (ملفوظات جلد 5 صفحه 609.جدید ایڈیشن) عاجزی وانکساری کو اپناؤ پھر فروتنی اور عاجزی کے بارہ میں آپ نے فرمایا:...اس سے پیشتر کہ عذاب الہی آکر تو بہ کا دروازہ بند کر دے تو بہ کرو جبکہ دنیا کے قانون سے اسقدر ڈر پیدا ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں جب بلا سر پر آپڑے تو اس کا مزہ چکھنا ہی پڑتا ہے.چاہئے کہ ہر شخص 83
تہجد میں اُٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملا دیں.ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی بات سے تو بہ کریں.تو بہ سے مراد یہ ہے کہ اُن تمام بدکاریوں اور خدا کی نارضامندی کے باعثوں کو چھوڑ کر ایک سچی تبدیلی کریں اور آگے قدم رکھیں اور تقوی اختیار کریں.اس میں بھی خدا کا رحم ہوتا ہے.عادات انسانی کو شائستہ کریں.غضب نہ ہو.تواضع اور انکساری اس کی جگہ لے لے.اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو.يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْناً وَيَتِيماً وَّاسِيْرٌ - (1) یعنی خدا کی رضا کیلئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہم دیتے ہیں اور اس دن سے ہم ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے.قصہ مختصر دعا سے ، توبہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے“.دو (ملفوظات جلد اول صفحه 134 135.جدید ایڈیشن) پھر آپ نے فرمایا: سواے دوستو ! اس اصول کو محکم پکڑو.ہر ایک قوم کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ.نرمی سے عقل بڑھتی ہے اور بردباری سے گہرے خیال پیدا ہوتے ہیں اور جو شخص یہ طریق اختیار نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے اگر کوئی ہماری جماعت میں سے مخالفوں کی گالیوں اور سخت گوئی پر صبر نہ کرے تو اسکا اختیار ہے کہ عدالت کی رو (۱) آلدهر آیت ۹.84
سے چارہ جوئی کرے مگر یہ مناسب نہیں ہے کہ بختی کے مقابل سختی کر کے کسی مفسدہ کو پیدا کریں.یہ تو وہ وصیت ہے جو ہم نے اپنی جماعت کو کر دی اور ہم ایسے شخص سے بیزار ہیں اور اسکو اپنی جماعت سے خارج کرتے ہیں جو اس پر عمل نہ کرے“.(تبلیغ رسالت جلد 6 صفحه 170) 85
86
پانچویں شرط بیعت یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور یسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دُکھ کے قبول کرنے کیلئے اُسکی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا“.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَاللهُ رَوُوْق بِالْعِبَاد.(البقره: آیت (۲۰۸) اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کیلئے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت مہربانی کرنے والا ہے.وو اس کی تفسیر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یعنی انسانوں میں سے وہ اعلیٰ درجہ کے انسان جو خدا کی رضا میں کھوئے 87
جاتے ہیں وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خدا کی مرضی کو مول لیتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے.خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان بیچ دیتا ہے.اور جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور اپنے تمام وجود کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو طاعت خالق اور خدمت خلق کے لئے بنائی گئی 66 رپورٹ جلسه اعظم مذاہب صفحه 131-132 پھر آپ فرماتے ہیں:.” خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے.اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے.وہی لوگ ہیں جو خدا کی رحمتِ خاص کے مورد " ہیں.آپ مزید فرماتے ہیں : رپورٹ جلسه مذاہب صفحه 188) بعض ایسے ہیں کہ اپنے نفسوں کو خدا کی راہ میں بیچ دیتے ہیں.تاکسی طرح وہ راضی ہو...(پیغام صلح.روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحه 473) ایسے لوگوں کے بارہ میں ہی خدا تعالیٰ خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ ياَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً 88
مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ﴾ (الفجر آیات ۲۸ تا ۳۱).یعنی اے نفس مطمئنہ ! اپنے رب کی طرف لوٹ جا، راضی رہتے ہوئے اور رضا پاتے ہوئے.پس میرے بندوں میں داخل ہو جا.اور میری جنت میں داخل ہو جا.راضی بقضاء رہنے والوں اور اس کی خاطر دکھ اور مصیبت اٹھانے والوں کو خدا کبھی بغیر جزاء کے نہیں چھوڑتا.ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو غلطیوں کو تا ہیوں اور کمزوریوں کے پتلے ہیں اور ہم سے کئی غلطیاں اور گناہ سرزد ہو جاتے ہیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی قضاء پر راضی رہنے کی عادت ہے، اُس کی خاطر ہر مصیبت اٹھانے کیلئے تیار ہیں اور اُٹھاتے ہیں ، اُن عورتوں کی طرح نہیں جو ذرہ سے نقصان پر آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں.شور مچا کر اور واویلا کر کے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہوتا ہے، تو ایسے صبر کرنے والوں کے لئے خدا کے رسول ﷺ یہ خوش خبری دیتے ہیں.تکالیف گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کو کوئی مصیبت کوئی ڈکھ کوئی رنج وغم کوئی تکلیف اور پریشانی نہیں پہنچتی یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی نہیں چھتا مگر اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے.مسلم كتاب البر والصلة باب ثواب المومن فيما يصيبه من مرض أو حزن) پھر ایک روایت کہ حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں 89
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے.اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں.یہ فضل صرف مومن کیلئے ہی مختص ہے.اگر اس کو کوئی خوشی و مسرت اور فراخی نصیب ہو تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے اور اس کی شکر گزاری اس کیلئے مزید خیر و برکت کا موجب بنتی ہے.اور اگر اس کو کوئی دُکھ رنج تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے.اس کا یہ طرز عمل بھی اس کیلئے خیر و برکت کا ہی باعث بن جاتا ہے کیونکہ وہ صبر کر کے ثواب حاصل کرتا ہے.(مسلم) كتاب الذهد باب المومن امره كله خير) پھر بعض دفعہ اولاد کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے.اولاد کے فوت ہونے کی صورت میں بہت زیادہ ماتم کیا جاتا ہے خاص طور پر عورتوں میں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعت احمدیہ کو اس نے بہت صبر کرنے والوں اور اس کی رضا پر راضی رہنے والی ماؤں سے نوازا ہے.لیکن بعض دفعہ بعض جگہوں سے شکوے کے اظہار بھی ہو جاتے ہیں خاص طور پر کم پڑھے لکھے طبقے میں اور صرف خاص کم پڑھے لکھے طبقے میں ہی نہیں ، پڑھے لکھوں میں بھی میں نے دیکھا ہے.ناشکری اور شکوہ کے الفاظ منہ سے نکل جاتے ہیں.صلى الله ایک روایت ہے کہ آنحضرت لہ خواتین سے بیعت کے وقت اس بات پر عہد لیا کرتے تھے.حدیث اس طرح ہے.حضرت اُسید ایک دستی بیعت کرنے والی صحابیہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے وقت جو عہد ان سے لیا اس میں یہ بات بھی تھی کہ ہم حضور کی نافرمانی نہیں 90
کریں گی.ماتم کے وقت نہ اپنا چہرہ نو چیں گی اور نہ واویلا کریں گی ، نہ اپنا گریبان پھاڑیں گی اور نہ اپنے بال بکھیریں گی (یعنی ایسا رویہ اختیار نہیں کریں گی.جس سے سخت برہمی ، شدید بے صبری اور مایوسی کا اظہار ہوتا ہو.) (ابو داؤد.كتاب الجنائز باب في النوح) اصل صبر تو صدمہ کے آغاز کے وقت ہی ہوتا ہے پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھی اور ہی تھی آپ نے فرمایا اللہ تعالی سے ڈرو اور صبر کرو.اس عورت نے کہا : چلو د ور ہو اور اپنی راہ لو.جو مصیبت مجھ پر آئی ہے وہ تم پر نہیں آئی.دراصل اس عورت نے آپ کو پہچانا نہیں تھا ( تبھی اس کے منہ سے ایسے گستاخانہ کلمات نکلے ) جب اسے بتایا گیا کہ یہ تو رسول اللہ تھے تو وہ گھبرا کر آپ کے دروازہ پر آئی.وہاں کوئی در بان روکنے والا تو تھا نہیں اس لئے سیدھی اندر چلی گئی اور عرض کیا حضور میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا.آپ نے فرمایا : اصل صبر تو صدمہ کے آغاز کے وقت ہی ہوتا ہے ( ورنہ انجام کار تو سب لوگ ہی رو دھو کر صبر کر لیتے ہیں.) (بخارى كتاب الجنائز باب زيارة القبور) ایک بہت ہی اہم نکتہ پانچویں شرط میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ چاہے جو بھی حالات ہوں، تنگی اور تنگ دستی کے دن لمبے ہوتے جار ہے ہوں ، دنیاوی لالچیں سامنے نظر آ رہی ہیں اور یہ بھی خیال آتا ہے اگر میں فلاں کام کروں اور اس طرف 91
جھکوں تو بڑے فوائد حاصل کر سکتا ہوں.دنیاوی قو تیں بھی لالچ دے رہی ہوتی ہیں کہ کوئی بات نہیں.احمدی ہوتے ہوئے جماعت سے تعلق رکھتے ہوئے بھی تم یہ کام کرلو.یہ کاروبار کرلو اس سے تم اپنے حالات بھی بہتر کرلو گے پھر جماعت کی خدمت بھی چندے دے کر کر لو گے.تو یہ سب دجالی فتنے ہیں جماعت سے دور کرنے کے، خدا سے دور کرنے کے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم نے بیعت کی ہے تو پھر ان چکروں میں نہ پڑو.اس دھو کے سے دور رہو.خدا سے وفاداری کا نمونہ دکھاؤ.اس کی طرف جھکو تو تم میرے ہو اور تمہیں سب کچھ مل جائے گا.اس بارہ میں آنحضرت کی بڑی پیاری نصیحت ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جبکہ میں آنحضرت کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا.آپ نے فرمایا اے برخوردار میں تجھے چند باتیں بتاتا ہوں اول یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کا خیال رکھ، اللہ تعالیٰ تیرا خیال رکھے گا.تو اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھ تو اسے اپنے پاس پائے گا.جب کوئی چیز مانگنی ہوتو اللہ تعالی سے مانگ اور جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر اور سمجھ لے کہ اگر سارے لوگ اکٹھے ہو کر تجھے فائدہ پہنچانا چاہیں تو وہ تجھے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے کہ اللہ چاہے اور تیری قسمت میں فائدہ لکھ دے.اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر اتفاق کر لیں تو تجھے نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ تیری قسمت میں نقصان لکھ دے.قلمیں اٹھا کر رکھ دی گئی ہیں اور صحیفہ تقدیر خشک ہو چکا ہے.92
ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا.تو اللہ تعالیٰ کو خوش حالی میں پہچان اللہ تعالیٰ تجھے تنگدستی میں پہچانے گا اور سمجھ لے کہ جو تجھ سے چوک گیا اور تجھ تک نہیں پہنچ سکا وہ تیرے نصیب میں نہیں تھا اور جو تجھے مل گیا ہے وہ تجھے ملے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کیونکہ تقدیر کا لکھا یوں ہی تھا.جان لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور خوشی بے چینی کے ساتھ مل ہوئی ہے اور ہر تنگی کے بعد یسر اور آسانی ہے.(سنن ترمذی ابواب صفة القيامة) آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے حالانکہ، آپ کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے بغیر تھا ہی نہیں ، پھر کس درد سے دعا مانگتے تھے.روایت ہے کہ محمد بن ابراہیم حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ کے پہلو میں سوئی ہوئی تھی.پھر رات کے حصہ میں میں نے حضور کو وہاں نہ پایا.پھر ٹولنے پر اچانک میرا ہاتھ حضور کو چھو گیا اور ہاتھ حضور کے قدم مبارک پر لگا جبکہ آپ سجدہ کر رہے تھے اور اس دوران دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ مانگتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں.میں تیری ثنا کا شمار نہیں کر سکتا.تو ویسا ہی ہے جیسا خود تو نے اپنی ذات کی شنابیان فرمائی ہے.(سنن ترمذى.كتاب الدعوات) پھر ایک روایت میں ہے کہ مدینہ کے ایک شخص سے حضرت عبد الوہاب 93
بن ورد روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ نے حضرت عائشہ کی خدمت میں لکھا کہ مجھے تحریراً کوئی نصیحت فرمائیں.اس پر حضرت عائشہ نے انہیں لکھ کر بھیجا.السلام علیکم.میں نے رسول اللہ " کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جوشخص لوگوں کو ناراض کر کے بھی اللہ کی رضا کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ لوگوں کے بالمقابل خود اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور جو شخص لوگوں کی رضا جوئی کی خاطر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سپر د کر دیتا ہے.(ترمذى كتاب الزهد) تم خدا کی آخری جماعت ہو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے وفا کا تعلق قائم رکھنے کیلئے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہوجیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے.سو خبر دار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ.زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے.جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے.اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا.سو تم اس کو مت چھوڑو.اور ضرور ہے کہ تم دُکھ دئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ.سوان صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں.اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو 94
تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور نا کامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو.تم خدا کی آخری جماعت ہوسو وہ عمل نیک دکھاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو.ہر ایک جو تم میں سست ہو جائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا.دیکھو میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا در حقیقت موجود ہے.اگر چہ سب اسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جو اس کو چنتا ہے.وہ اس کے پاس آ جاتا ہے جو اس کے پاس جاتا ہے.جو اس کو عزت دیتا ہے وہ بھی اس کو عزت دیتا ہے.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحه (15) پھر آپ فرماتے ہیں ” ہم کو تو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اس کے لئے ضرورت ہے اخلاص کی صدق و وفا کی ، نہ یہ کہ قیل وقال تک ہی ہماری ہمت و کوشش محدود ہو.جب ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت دیتا ہے اور اپنے فیوض و برکات کے دروازے کھول دیتا ہے.اس تنگ دروازے سے جو صدق و وفا کا دروازہ ہے گزرنا آسان نہیں.ہم کبھی ان باتوں سے فخر نہیں کر سکتے کہ رویا یا الہام ہونے لگے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں اور مجاہدات سے دستکش ہور ہیں اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا“.(البدر جلد 3 نمبر 18- 19 بتاريخ 16.8 مئی 1904) پھر آپ نے فرمایا ” ہر مؤمن کا یہی حال ہوتا ہے اگر وہ اخلاص اور 95
وفاداری سے اس کا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا ولی بنتا ہے لیکن اگر ایمان کی عمارت بوسیدہ ہے تو پھر بے شک خطرہ ہوتا ہے.ہم کسی کے دل کا حال تو جانتے ہی نہیں.لیکن جب خالص خدا ہی کا ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کی خاص حفاظت کرتا ہے.اگر چہ وہ سب کا خدا ہے مگر جو اپنے آپ کو خاص کرتے ہیں ان پر خاص تجلی کرتا ہے اور خدا کے لئے خاص ہونا یہی ہے کہ نفس بالکل چکنا چور ہو کر اس کا کوئی ریزہ باقی نہ رہ جائے.اس لئے میں بار بار اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ بیعت پر ہرگز ناز نہ کرو.اگر دل پاک نہیں ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کیا فائدہ دے گا....مگر جو سچا اقرار کرتا ہے اس کے بڑے بڑے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کو ایک نئی زندگی ملتی ہے".(ملفوظات جلد سوم صفحه 65 جدید ایڈیشن) جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے پھر آپ نے فرمایا: پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے.مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پر خار باد یہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے.پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اُٹھاتے ہیں.جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے ، نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے ، نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے.اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے 96
اور ان کا پچھلا حال ان کے پہلے سے بدتر ہو گا.کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں.کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہو جائیں گے.کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہو سکتے ہیں.ہر گز نہیں ہو سکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے.پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جائیں ان کو وداع کا سلام.لیکن یا درکھیں کہ بدلنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عند اللہ ایسی عزت نہیں ہوگی جو وفا دار لوگ عزت پاتے ہیں کیونکہ بدظنی اور غداری کا داغ 66 بہت ہی بڑا داغ ہے.(انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحه 24.23) کامل وفا اور استقامت کا نمونہ دکھائیں آج سے سو سال پہلے حضرت اقدس مسیح موعود کی زندگی میں دو بزرگوں نے کامل وفا کا اور استقامت کا نمونہ دکھایا تھا اور اپنے عہد بیعت کو نبھایا تھا اور خوب نبھایا.عہد بیعت کو توڑنے کیلئے مختلف لالچ ان کو دیئے گئے مگر ان استقامت کے شہزادوں نے ذرہ بھر بھی اس کی پرواہ نہ کی اور عہد بیعت پر قائم رہے.حضرت اقدس نے ان کو زبر دست خراج تحسین پیش فرمایا.یہ حضرت صاحبزادہ د عبد اللطیف شہید اور عبد الرحمان خان صاحب ہیں.حضور کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں فرماتے ہیں : اب ایمان اور انصاف سے سوچنا چاہئے کہ جس سلسلہ کا تمام مدار مکر اور فریب اور جھوٹ اور افتراء پر ہو کیا اس سلسلہ کے لوگ ایسی استقامت اور 97
شجاعت دکھلا سکتے ہیں کہ اس راہ میں پتھروں سے کچلا جانا قبول کریں اور اپنے بچوں اور بیوی کی کچھ بھی پرواہ نہ کریں اور ایسی مردانگی کے ساتھ جان دیں اور بار بار رہائی کا وعدہ بشرط فسخ بیعت دیا جاوے مگر اس راہ کو نہ چھوڑیں.اسی طرح شیخ عبد الرحمن بھی کا بل میں ذبح کیا گیا اور دم نہ مارا اور یہ نہ کہا کہ مجھے چھوڑ دو.میں بیعت کو توڑتا ہوں.اور یہی بچے مذہب اور بچے امام کی نشانی ہے کہ جب کسی کو اس کی پوری معرفت حاصل ہو جاتی ہے اور ایمانی شیرینی دل و جان میں رچ جاتی ہے تو ایسے لوگ اس راہ میں مرنے سے نہیں ڈرتے ہاں جو سطحی ایمان رکھتے ہیں اور ان کے رگ وریشہ میں ایمان داخل نہیں ہوتا وہ یہودا اسکر یوطی کی طرح تھوڑے سے لالچ سے مرتد ہو سکتے ہیں.ایسے نا پاک مرتدوں کے بھی ہر ایک نبی کے وقت میں بہت نمونے ہیں.سوخدا کا شکر ہے کہ مخلصین کی ایک بھاری جماعت میرے ساتھ ہے اور ہر ایک ان میں سے میرے لئے ایک نشان ہے یہ میرے خدا کا فضل ہے.رَبِّ إِنَّكَ جَنَّتِيْ وَ رَحْمَتُكَ جُنَّتِيْ وَآيَاتُكَ غِذَائِي 660 وَفَضلُكَ رِدَائِي“ ( حقيقة الوحى.روحانی خزائن جلد 22 صفحه 361.360) یعنی اے میرے رب تو میری جنت ہے اور تیری رحمت میری ڈھال ہے تیرے آیات ونشانات میری غذا ہیں اور تیر افضل میری چادر ہے.اس کے بعد بھی جماعت کی سوسال سے زائد کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ یہ وفا اور استقامت کی مثالیں قائم ہوتی رہیں.مالی و جانی نقصان پہنچائے 98
گئے ،شہید کئے گئے ، بیٹا باپ کے سامنے اور باپ بیٹے کے سامنے مارا گیا تو کیا خدا نے جو سب سے بڑھ کر وفاؤں کا جواب دینے والا ہے اس خون کو یوں ہی رائیگاں جانے دیا ؟ نہیں اس نے پہلے سے بڑھ کر ان کی نسلوں پر رحمتوں اور فضلوں کی بارش برسائی.آپ میں سے کئی جو یہاں موجود ہیں یا دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اس بات کے چشم دید گواہ ہیں.بلکہ آپ میں سے اکثر ان فضلوں کے مورد بنے ہوئے ہیں.یہ اس وفا کا ہی نتیجہ ہے جو آپ نے خدا تعالیٰ سے کی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کئے عہد بیعت کو سچ کر دکھایا.کشائش میں کہیں آپ یا آپ کی نسلیں اس عہد بیعت کو بھول نہ جائیں.اس پیارے خدا سے ہمیشہ وفا کا تعلق رکھیں تا کہ یہ فضل آپ کی نسلوں میں بھی قائم رہے اور اس وفا کے تعلق کو اگلی نسلوں میں بھی منتقل کرتے چلے جائیں.99
100
چھٹی شرط بیعت یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قَالَ اللہ اور قَالَ الرَّسُول کو اپنے ہر یک راہ میں دستوار العمل قرار دے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ تم میرے سے اس بات پر بھی عہد بیعت کرو کہ رسم و رواج کے پیچھے نہیں چلو گے.ایسے رسم و رواج جو تم نے دین میں صرف اور صرف اس لئے شامل کر لئے ہیں کہ تم جس معاشرے میں رہ رہے ہو اس کا وہ حصہ ہیں.دوسرے مذاہب میں چونکہ وہ رسمیں تھیں اس لئے تم نے بھی اختیار کر لیں.مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر بعض فضول قسم کی رسمیں ہیں.جیسے بری کو دکھانا یا وہ سامان جو دولہا والے دولہن کے لئے بھیجتے ہیں اس کا اظہار، پھر جہیز کا اظہار.باقاعدہ نمائش لگائی جاتی ہے.اسلام تو صرف حق مہر کے اظہار کے ساتھ نکاح کا اعلان کرتا ہے.باقی سب فضول رسمیں ہیں.ایک تو بری یا جہیز کی نمائش سے اُن لوگوں کا مقصد جو صاحب توفیق ہیں صرف بڑھائی کا اظہار کرنا ہوتا 101
ہے کہ دیکھ لیا ہمارے شریکوں نے بھائی بہن یا بیٹا بیٹی کو شادی پر جو کچھ دیا تھا ہم نے دیکھو کس طرح اس سے بڑھ کر دیا ہے.صرف مقابلہ اور نمود و نمائش ہے.آج کل آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے یہاں آنے کے بعد بہت نوازا ہے.بہت کشائش عطا فرمائی ہے.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کی برکت ہے اور ان قربانیوں کا نتیجہ ہے جو آپ کے بزرگوں نے دیں اور ان کی دعاؤں کی برکت ہے.تو بعض ایسے ہیں جو بجائے اس کے کہ ان فضلوں اور برکتوں کا اظہار اس کے حضور جھکتے ہوئے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے کریں اس کی بجائے شادی بیا ہوں میں نام و نمود کی خاطر ، خود نمائی کی خاطر ان رسموں میں پڑ کر یہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں.پھر شادیوں پر ، ولیموں پر کھانوں کا ضیاع ہو رہا ہوتا ہے.اور دکھاوے کی خاطر کئی کئی ڈشیں بنائی جارہی ہوتی ہیں تو جو غریب یا کم استطاعت والے لوگ ہوتے ہیں وہ بھی دیکھا دیکھی جہیز وغیرہ کی نمائش کی خاطر مقروض ہو رہے ہوتے ہیں پھر بعض دفعہ بچیوں والے لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کے مطالبہ کی وجہ سے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بہو جہیز بھی نہیں لائی ، مقروض ہوتے ہیں.تو لڑکے والوں کو بھی کچھ خوف خدا کرنا چاہئے.صرف رسموں کی وجہ سے ، اپنا ناک اونچا ر کھنے کی وجہ سے غریبوں کو مشکلات میں ، قرضوں میں نہ گرفتار کریں اور دعوی یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں اور بیعت کی دس شرائط پر پوری طرح عمل کریں گے.تو یہ مختصراً میں نے ایک شادی کی رسم پر عرض کیا ہے.اگر اس کو مزید کھولوں تو اس شادی کی رسم پر ہی 102
خوفناک بھیانک نتائج سامنے لانے والی اور بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں.اور جب رسمیں بڑھتی ہیں تو پھر انسان بالکل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ مکمل طور پر ہوا و ہوس کے قبضہ میں چلا جاتا ہے جبکہ بیعت کرنے کے بعد تو وہ یہ عہد کر رہا ہے کہ ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت مکمل طور پر اپنے اوپر طاری کرلے گا.اللہ اور رسول ہم سے کیا چاہتے ہیں ، یہی کہ رسم و رواج اور ہوا و ہوس چھوڑ کر میرے احکامات پر عمل کرو.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ أَهْوَاءَ هُمْ - وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ ) - (القصص: آیت ۵۱) پس اگر وہ تیری اس دعوت کو قبول نہ کریں تو جان لے کہ وہ محض اپنی خواہشات ہی کی پیروی کر رہے ہیں.اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کرے.اللہ ہر گز ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا.تو دیکھیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ صادر فرما دیا ہے جو ہمارے لئے بڑے خوف کا مقام ہے کہ جو لوگ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں تو پھر وہ کبھی ہدایت نہیں پائیں گے.اب ہم ایک طرف تو یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام کو پہچان لیا ، مان لیا.دوسری طرف جو معاشرے کی برائیاں ہیں باوجود امام کے ساتھ عہد کرنے کے کہ ان برائیوں کو چھوڑنا ہے، ہم نہیں چھوڑ رہے تو کہیں ہم پھر پیچھے کی طرف تو نہیں جار ہے.ہر ایک کو یہ محاسبہ کرنا چاہیئے.ہر 103
ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے.اگر ہم اس عہد بیعت پر قائم ہیں، اپنے خدا سے ڈرتے ہوئے ہوا و ہوس سے رکے ہوئے ہیں اور ہم اس پیارے خدا کی تعریف کرتے ہوئے حمد کرتے ہوئے پھر اسکی طرف جھکتے ہیں تو وہ ہمیں اس کے عوض اپنی جنت کی بشارت دے رہا ہے.جیسا کہ فرمایا وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَــأوى (النازعات: آیات ۴۱-۴۲) اور وہ جو اپنے رب کے مرتبہ سے خائف ہوا اور اس نے اپنے نفس کو ہوس سے روکا تو یقیناً جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہوگی.رسم و رواج کے بارہ میں چند احادیث پیش کرتا ہوں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا: جو شخص دین کے معاملہ میں کوئی ایسی نئی رسم پیدا کرتا ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ رسم مردود اور غیر مقبول ہے.(بخاری کتاب الصلح باب اذا اصطلحوا على صلح جود) حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا.آپ کی آنکھیں سرخ ہو گئیں.آواز بلند ہوگئی.جوش بڑھ گیا گویا یوں لگتا تھا کہ آپ کسی حملہ آور لشکر سے ہمیں ڈرا رہے ہیں.آپ نے فرمایا وہ لشکر تم پر صبح کو حملہ کرنے والا ہے یا شام کو.آپ نے یہ بھی فرمایا : میں اور وہ گھڑی یوں اکٹھے بھیجے گئے ہیں.آپ نے یہ کہتے ہوئے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھایا کہ ایسے جیسے یہ دو انگلیاں اکٹھی ہیں.آپ نے یہ بھی فرمایا : اب میں تمہیں یہ 104)
بتاتا ہوں کہ بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریق محمد ﷺ کا طریق ہے.بدترین فعل دین میں نئی نئی بدعات کو پیدا کرنا ہے ہر بدعت گمراہی کی طرف لے جاتی ہے.(مسلم کتاب الجمعة باب تخفيف الصلوة والخطبة) حضرت عمرو بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا: جو شخص میری سنتوں میں سے کسی سنت کو اس طور پر زندہ کرے گا کہ لوگ اس پر عمل کرنے لگیں تو سنت کے زندہ کرنے والے شخص کو بھی عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے کوئی بدعت ایجاد کی اور لوگوں نے اسے اپنا لیا تو اس شخص کو بھی ان پر عمل کرنے والوں کے گنا ہوں سے حصہ ملے گا اور ان بدعتی لوگوں کے گناہوں میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی.(ابن ماجه باب من احيا سنة قد اميتت) نئی نئی بدعات و رسوم رڈ کرنے کے لائق ہیں تو اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جن رسموں کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جو دین سے دور لے جانے والی ، اللہ اور اس کے رسول کے احکامات اور ارشادات کی تخفیف کرنے والی ہیں، وہ سب مرد و در سمیں ہیں.سب فضول ہیں.رد کرنے کے لائق ہیں.پس ان سے بچو کیونکہ پھر یہ دین میں نئی نئی بدعات کو جگہ دیں گی اور دین بگڑ جائے گا.جس طرح اب دیکھو دوسرے مذاہب میں رسموں نے جگہ پا کر دین کو بگاڑ دیا ہے.خیر یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ اس زمانے 105
میں زندہ مذہب صرف اور صرف اسلام نے ہی رہنا تھا.لیکن آپ جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ دوسرے مذاہب نے مثلاً عیسائیت نے باوجود اس کے کہ ایک مذہب ہے.مختلف ممالک میں، مختلف علاقوں میں اور ملکوں میں اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنی رسموں کو بھی مذہب کا حصہ بنایا ہوا ہے.افریقہ میں بھی یہ باتیں نظر آتی ہیں.پھر جب بدعتوں کا راستہ کھل جاتا ہے تو نئی نئی بدعتیں دین میں راہ پاتی ہیں.تو آنحضرت نے ان بدعتیں پیدا کرنے والوں کے لئے سخت انذار کیا ہے،سخت ڈرایا ہے.آپ کو اس کی بڑی فکر تھی حدیث میں آتا ہے فرمایا: میں تمہیں ان بدعتوں کی وجہ سے، تمہارے ہواؤ ہوس کا شکار ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خوف زدہ ہوں مجھے ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے دین میں بگاڑ نہ پیدا ہو جائے.تم گمراہ نہ ہو جاؤ.آج کل آپ یہاں اس مغربی معاشرہ میں رہ رہے ہیں، یہاں کے بے تحاشا رسم و رواج ہیں، جو آپ کو مذہب سے دور لے جانے والے، اسلام کی خوبصورت تعلیم پر پردہ ڈالنے والے رسم و رواج ہیں، طور طریق ہیں.کیونکہ دنیاداری کی جو چکا چوند ہے زیادہ اثر کرتی ہے.اس لئے اس معاشرے میں بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تو بجائے ان کی غلط قسم کی رسوم اپنانے کے اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کرنی چاہئے.ہر احمدی کا اتنا مضبوط کیریکٹر ہونا چاہئے ، اتنا مضبوط کردار ہونا چاہئے کہ مغربی معاشرہ اس پر اثر انداز نہ ہو مثلاً عورتوں میں پردہ کا اسلامی حکم ہے.عورتوں کی عزت اسی میں ہے کہ پردہ 106
کی وجہ سے ان کا ایک نمایاں مقام نظر آتا ہو.جب عورت خود پردہ کرے گی اور اس معاشرے میں پردے کی خوبیاں بیان کرے گی تو اس کا بہر حال زیادہ اثر ہوگا بہ نسبت اس کے کہ مرد پردے کے فوائد اور خوبیاں اس معاشرے میں بیان کرتے پھریں.تو جو خواتین پردہ کرتی ہیں ان کو صرف ایک انفرادیت کی وجہ سے تبلیغ کے بھی زیادہ مواقع میسر آجاتے ہیں.اس طرف بھی بہت توجہ کی ضرورت ہے.پھر اور بھی بہت سی اس مغربی معاشرے کی برائیاں ہیں.انہیں صرف اس لئے اپنا نا کہ ہم اس معاشرے میں رہ رہے ہیں، مجبوری ہے، یہ بڑے خوف کا مقام ہے.مثلاً آپ کی ایسے شخص سے دوستی ہے جو شراب پیتا ہے تو آپ اس کے ساتھ ایسے ریسٹورنٹ میں یا بار وغیرہ میں چلے جائیں کہ ٹھیک ہے وہاں بے شک وہ شراب پیتا رہے میں تو کافی یا کوئی اور مشروب پی لوں گا تو یہ بھی غلط ہے.بہت احتیاط کی ضرورت ہے کسی دن آپ اس سے متاثر ہوکر ہو سکتا ہے کہ خود بھی پہلے ایک گھونٹ لیں اور اس کے بعد اس کی عادت پڑ جائے ، اللہ نہ کرے.اس لئے درج ذیل حدیث کو جس میں آنحضرت ﷺ نے بہت فکر کا اظہار فرمایا ہے پیش نظر رکھیں.حضرت ابو برزگا روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ بات جس کے سبب سے میں تمہارے بارہ میں خائف ہوں وہ ایسی خواہشات ہیں جو تمہارے شکموں میں اور تمہاری شرمگاہوں میں پیدا ہو جائیں گی.نیز ہواؤ ہوس 6 کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی گمراہیوں کے بارے میں بھی خائف ہوں.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحه 423.مطبوعه بيروت) 107
دو حضرت اقدس مسیح موعود فر ماتے ہیں: جب تک انسان سچا مجاہدہ اور محنت نہیں کرتا وہ معرفت کا خزانہ جو اسلام میں رکھا ہوا ہے اور جس کے حاصل ہونے پر گناہ آلود زندگی پر موت وارد ہوتی ہے انسان خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور اس کی آواز میں سنتا ہے اسے نہیں مل سکتا.چنانچہ صاف طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأوای (۱).یہ تو سہل بات ہے کہ ایک شخص متکبرانہ طور پر کہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہوں اور باوجود اس دعوی کے اس ایمان کے آثار اور ثمرات کچھ بھی پیدا نہ ہوں یہ نری لاف زنی ہوگی ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی کچھ پرواہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی پرواہ نہیں کرتا“.(الحكم جلد 9 نمبر 29 مورخه 17 اگست 1905ء صفحه 6) پھر آپ فرماتے ہیں: ” جو کوئی اپنے رب کے آگے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور اپنے نفس کی خواہشوں کو روکتا ہے تو جنت اسکا مقام ہے.ہوائے نفس کو روکنا یہی فنافی اللہ ہونا ہے اور اس سے انسان خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے اسی جہان میں مقام جنت کو پہنچ سکتا ہے“ (بدر جلد نمبر 1 مورخه 3/ اگست 1905ء صفحه2) اسلامی تعلیم کے لئے ہمارا را ہنما قرآن شریف ہے پس رسم و رواج سے بچنا اور ہوا ہوس سے بچنا اسلامی تعلیم کا حصہ ہے اور (1) النازعات آیت ۴۱ 108
اس تعلیم کو سمجھنے کیلئے ہمارے لئے رہنما قرآن شریف ہے.اور اصل میں تو اگر ایک مومن قرآن شریف کو مکمل طور پر اپنی زندگی کا دستور العمل بنالے تو تمام برائیاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں.کسی بھی قسم کی ہوا و ہوس کا خیال تک بھی دل میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ وہ پاک کتاب ہے جو ایک دستور العمل کے طور پر شریعت کو مکمل کرتے ہوئے ، انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک دل پر نازل فرمائی اور پھر جہاں ضرورت تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اپنے فعل سے اپنے قول سے اسکی وضاحت فرما دی اسلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اسکو اپنے سر پر قبول کرو اس سلسلہ میں قرآن کریم حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض حوالے پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ (القمر آیت (۱۸) اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا.پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا ؟ حدیث میں آتا ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا ایسا مومن جو قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہوتا ہے سنگترے کی طرح ہے جس کا ذائقہ بھی اچھا ہوتا ہے اس کی خوشبو بھی اچھی ہوتی ہے اور ایسا مومن جو قرآن نہیں پڑھتا لیکن اسپر عمل پیرا ہوتا ہے وہ کھجور کی طرح ہے جس کا ذائقہ تو لذیز ہوتا ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی اور قرآن پڑھنے والے.109
منافق کی مثال ریحان ( نیاز بو ) کی طرح ہوتی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن اس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال حنظل کی طرح ہوتی ہے جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور خوشبو بھی ناگوار ہوتی ہے.(بخارى كتاب فضائل القرآن باب اثم من راى بقراة القرآن او تاكل به او فخربه) دو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن عمیق حکمتوں سے پر ہے اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کیلئے آگے قدم رکھتا ہے بالخصوص بچے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے.اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا.سوشکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہو گئی تھی دوبارہ قائم ہوگئی (تحفه قیصریه - روحانی خزائن جلد 12.صفحه 282) قرآن شریف ہی میں تمہاری زندگی ہے پھر آپ فرماتے ہیں: قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے انکو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام 110
آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحه 13) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے سچے پیروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کے دل کو منور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹکڑہ ٹکڑہ کرنا چاہتی ہے.وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے اور خدا کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشتا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتا ہے.اور ہر ایک جو اس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیرو ہے، خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتا ہے“.چشمه معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحه 309.308) پھر آپ فرماتے ہیں: ” سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جوشخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے 111)
بہت ہی پیار کر وایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا : الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآن کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.یہی بات سچ ہے.افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں.تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجر قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے تو ریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے انکے قیامت سے منکر نہ ہوتے.پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی یہ نہایت پیاری نعمت ہے.یہ بڑی دولت ہے.اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی.قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدا یتیں بیچ ہیں.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19.صفحہ 26-27) پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کس حد تک قرآن سے محبت کرتا ہے اس کے حکموں کو مانتا ہے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے.محبت کے اظہار کے بھی طریقے ہوتے ہیں.سب سے زیادہ ضروری چیز جو ہر احمدی کو اپنے اوپر فرض کر لینی چاہئے وہ یہ ہے کہ بلا ناغہ کم از کم دو تین رکوع 112)
ضرور تلاوت کرے.پھر اگلے قدم پر ترجمہ پڑھے اور ہر روز تلاوت کے ساتھ ترجمہ پڑھنے سے آہستہ آہستہ یہ حسین تعلیم غیر محسوس طریق پر دماغ میں بیٹھنی شروع ہو جاتی ہے.پھر اس چھٹی شرط میں ایک بات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ اور رسول کے احکامات کو اپنے ہر معاملہ میں دستور العمل کے طور پر سامنے رکھے گا.جب ضرورت ہوگی ان سے مشورہ لے گا.اب یہ کوئی منہ سے کہنے والی بات نہیں ؟ اس عہد کو پورا کرنے کیلئے آدمی غور کرے تو بڑی فکر پیدا ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ إلَى اللَّهِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾.(النساء آیت (٢٠) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی اور اگر تم کسی معاملہ میں اولو الامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو.یہ بہت بہتر طریق ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے.پھر فرمایا: ﴿ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ ( آل عمران آیت ۱۳۳ ) اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم رحم کئے جاؤ.113
پھر فرماتا ہے ﴿يَسْتَلُوْنَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُوْلِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَاَطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ﴾ (الانفال آیت (۲) وہ تجھ سے اموال غنیمت سے متعلق سوال کرتے ہیں.تو کہہ دے کہ اموال غنیمت اللہ اور رسول کے ہیں.پس اللہ کا تقوی اختیار کرو اپنے درمیان اصلاح کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو.یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے احکامات کو صحیح طور پر مانو ، ان پر عمل کرو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احکامات کی جو تشریح کی ہے اس کے مطابق عمل کرو.تمہارے جو امراء مقرر ہیں ، جو نظام مقرر ہے اسکی پوری اطاعت کرو تو کہا جا سکتا ہے کہ تم نے بیعت کرنے کا حق ادا کر دیا.اس بارے میں چند احادیث بھی پیش کرتا ہوں.حضرت عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس امر پر کی کہ ہم پسند کی صورت میں اور ناپسند کی ا صورت میں بھی ان کا ارشا د سنیں گے اور اطاعت کریں گے.(بخاری کكتاب الاحكام باب كيف يبايع الامام الناس) عبد الرحمن بن عمر وسلمی اور حجر بن حجر بیان کرتے ہیں کہ وہ عرباض بن ساریہ کے پاس آئے پھر عرباض نے فرمایا کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی پھر آپ نے بہت موثر فصیح و بلیغ انداز میں ہمیں وعظ فرمایا 114
کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور دل ڈر گئے حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے.آپ کی نصیحت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، بات سنو اور اطاعت کرو خواہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہو.کیونکہ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی میرے بعد زندہ رہا تو بہت بڑے اختلافات دیکھے گا.پس تم ان نازک حالات میں میری اور میری ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کرنا اور اسے پکڑ لینا، دانتوں سے مضبوط گرفت میں کر لینا.تمہیں دین میں نئی باتوں کی ایجاد سے بچنا ہو گا.کیونکہ ہر نئی بات جو دین کے نام سے جاری ہو بدعت ہے اور بدعت نری گمراہی ہے.(ترمذى كتاب العلم باب الاخذ بالسنة ، ابو داؤد كتاب السنة باب لزوم السنة) آنحضرت ﷺ کی کامل پیروی اور ایمان کا دعویٰ کرنے والے ہم صلى الله علوم احمدی جو ہیں ان کو ہر وقت اس نصیحت اور اس حدیث کو پیش نظر رکھنا چاہئے.اسی طرح ایک روایت ہے : حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس میں تین باتیں ہوں وہ ایمان کی حلاوت کو پالیتا ہے.نمبر ایک اللہ اور اس کا رسول دیگر تمام وجودوں سے اسے زیادہ محبوب ہوں.دو یہ کہ وہ کسی شخص کو صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر محبوب رکھے.اور تین یہ ہے کہ وہ کفر میں لوٹنے کو اس طرح نا پسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے.(بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الايمان ) 115
وو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ﴾ خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ایک راہ ہے اور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے.انسان کا مدعا صرف اس ایک واحد لاشریک خدا کی تلاش ہونا چاہئے.شرک اور بدعت سے اجتناب کرنا چاہئے.رسوم کا تابع اور ہوا و ہوس کا مطیع نہ بننا چاہئے.دیکھو میں پھر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی راہ کے سوا اور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہو سکتا.صلى الله ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پا سکتے ہیں.آجکل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعائیں اور درود اور وظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہیں.سو تم ان سے پر ہیز کرو.ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کی مہر کو توڑنا چاہا گویا اپنی الگ ایک شریعت بنالی ہے.تم یا درکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جومسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں.بھولا ہوا ہے وہ جو ان راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے.نا کام مرے گا وہ جو اللہ اور اسکے رسول کے فرمودہ کا تابع دار نہیں بلکہ اور اور 116
راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے“.(ملفوظات جلد پھر آپ فرماتے ہیں : سوم صفحه 102.103.جدید ایڈیشن) قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (1) اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سچی فرمانبرداری کی جاوے.دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں.کوئی مرجاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں حالانکہ چاہئے کہ مردہ کے حق میں دعا کریں.رسومات کی بجا آوری میں آنحضرت ﷺ کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرت ﷺ کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا.اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی “ (ملفوظات جلد سوم صفحه 316.جدید ایڈیشن) پھر آپ فرماتے ہیں: وو یہ چند روزہ دنیا تو ہر حال میں گذر جاوے گی خواہ تنگی میں گذرے خواہ فراخی میں مگر آخرت کا معاملہ بڑا سخت معاملہ ہے وہ ہمیشہ کا مقام ہے اور اس کا انقطاع نہیں ہے.پس اگر اس مقام میں وہ اسی حالت میں گیا کہ خدا تعالیٰ سے اسنے صفائی کر لی تھی اور اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا اور وہ معصیت سے تو بہ کر کے ہر ایک گناہ سے جس کو اللہ تعالیٰ نے گناہ کر کے پکارا ہے بچتا رہا تو (۱) آل عمران آیت ۳۲ 117
خدا تعالیٰ کا فضل اسکی دستگیری کرے گا اور وہ اس مقام پر ہوگا کہ خدا اس سے راضی ہوگا اور وہ اپنے رب سے راضی ہوگا.اور اگر ایسا نہیں کیا بلکہ لا پرواہی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی ہے تو پھر اس کا انجام خطر ناک ہے.اسلئے بیعت کرتے وقت یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ بیعت کی کیا غرض ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا.اگر محض دنیا کی خاطر ہے تو بے فائدہ ہے لیکن اگر دین کیلئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے تو ایسی بیعت مبارک اور اپنی اصل غرض اور مقصد کو ساتھ رکھنے والی ہے جس سے ان فوائد اور منافع کی پوری امید کی جاتی ہے جو سچی بیعت سے حاصل ہوتے ہیں.(ملفوظات جلد ششم صفحه 142) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانے کا امام دل کی گہرائیوں سے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.جس درد اور توجہ سے آپ نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی حکومت کو دنیا پر قائم کرنے کیلئے اپنی جماعت تیار کرنا چاہتے ہیں اور جس درد سے نصیحت فرمائی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ویسا ہی بنادے اور جن شرائط پر آپ نے ہم سے عہد بیعت لیا ہے انکی ہم مکمل پابندی کرنے والے ہوں.اور ان پر عمل کرنے والے ہوں اور ہمیشہ انکو اپنے سامنے رکھنے والے ہوں.ہمارا کوئی عمل کوئی فعل ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف چلتے ہوئے ملزم ٹھہرانے والا نہ ہو اور ہم ہمیشہ اپنا محاسبہ کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعا کے بعد اب یہ جلسہ 118
اپنے اختتام کو پہنچے گا اس جلسہ کی برکات اور فیوض سے آپ سارا سال بلکہ زندگی بھر فائدہ اٹھانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں میں بھی اللہ ، اسکے رسول مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت سے محبت کا تعلق قائم رکھے.اللہ تعالیٰ ہماری پچھلی کمزوریوں اور گناہوں کی پردہ پوشی فرماتے ہوئے ہمیں معاف فرمائے اور ہمیں محض اور محض اپنے فضل سے اپنے پیاروں کی جماعت میں شامل رکھے.اے خدا تو غفور رحیم ہے.ہمارے گناہ معاف فرما.ہم پر رحم فرما.اپنی مغفرت اور رحمت کی چادر میں ڈھانپ لے.ہمیں کبھی اپنے سے جدا نہ کرنا.آمين يارب العالمين.(از اختتامی خطاب بر موقعه جلسه سالانه جرمنی ۲۴/ اگست ۲۰۰۳ء) 119)
120)
ساتویں شرط بیعت یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور علیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.شرک کے بعد تکبر جیسی کوئی بلا نہیں شیطان چونکہ تکبر دکھانے کے بعد سے ابتدا سے ہی یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاؤں گا اور عباد الرحمن نہیں بنے دوں گا اور مختلف طریقوں سے اس طرح انسان کو اپنے جال میں پھنساؤں گا کہ اس سے نیکیاں سرز دا گر ہو بھی جائیں تو وہ اپنی طبیعت کے مطابق ان پر گھمنڈ کرنے لگے اور یہ نخوت اور یہ گھمنڈ انسان کو آہستہ آہستہ تکبر کی طرف لے جائے گا.یہ تکبر آخر کار اس کو اس نیکی کے ثواب سے محروم کر دے گا.تو کیونکہ شیطان نے پہلے دن سے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ انسان کو راه راست سے بھٹکائے گا اور اس نے خود بھی تکبر کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کا انکار کیا تھا اس لئے یہی وہ حربہ ہے جو شیطان مختلف حیلوں بہانوں سے انسان پر آزماتا ہے 121
اور سوائے عبادالرحمن کے کہ وہ عموماً اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں، عبادت گزار ہوتے ہیں، اس حملہ سے بچتے رہتے ہیں.اس کے علاوہ عموماً تکبر کا ہی یہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ شیطان انسان کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے.یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے.کہ ہم نے بیعت کرتے ہوئے شرط تسلیم کر لی کہ تکبر نہیں کریں گے نخوت نہیں کریں گے، اس کو بکلی چھوڑ دیں گے.یہ اتنا آسان کام نہیں ہے.اس کی مختلف قسمیں ہیں مختلف ذریعوں سے انسانی زندگی پر شیطان حملہ کرتا رہتا ہے.بہت خوف کا مقام ہے.اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو اس سے بچا جاسکتا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے بھی اس ساتویں شرط میں ایک راستہ رکھ دیا.فرمایا جب تم تکبر کی عادت کو چھوڑو گے تو جو خلا پیدا ہو گا اس کو اگر عاجزی اور فروتنی سے پر نہ کیا تو تکبر پھر حملہ کرے گا.اس لئے عاجزی کو اپناؤ کیونکہ یہی راہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے.آپ نے خود بھی اس عاجزی کو اس انتہا ء تک پہنچا دیا جس کی کوئی مثال نہیں.تبھی تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر آپ کو الہاماً فرمایا کہ ” تیری عاجزانہ را ہیں اس کو پسند آئیں.تو ہمیں جو آپ کی بیعت کے دعویدار ہیں ، آپ کو امام الزمان مانتے ہیں ، کس حد تک اس خُلق کو اپنانا چاہئے.انسان کی تو اپنی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ تکبر دکھائے اور اکڑتا پھرے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ولَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا - بنی اسرائیل آیت (۳۸) اور زمین میں اکڑ کر نہ چل.تو یقیناً زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ وو 122
قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے.جیسا کہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے انسان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.کس بات کی اکثر فوں ہے.بعض لوگ اپنے آپ کو بادشاہ وقت سمجھ رہے ہوتے ہیں ، اپنے دائرہ سے باہر نکلنا نہیں چاہتے.اور اپنے دائرے میں بیٹھے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بڑی چیز ہیں.اس کی مثال اس وقت میں ایک چھوٹے سے چھوٹے دائرہ کی دیتا ہوں، جو ایک گھر یلو معاشرے کا دائرہ ہے، آپ کے گھر کا ماحول ہے.بعض مرد اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کر رہے ہوتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے.بعض بچیاں لکھتی ہیں کہ ہم بچپن سے اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہیں اور اب ہم سے برداشت نہیں ہوتا.ہمارے باپ نے ہماری ماں کے ساتھ اور ہمارے ساتھ ہمیشہ ظلم کا رویہ رکھا ہے.باپ کے گھر میں داخل ہوتے ہی ہم سہم کر اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں.کبھی باپ کے سامنے ہماری ماں نے یا ہم نے کوئی بات کہہ دی جو اس کی طبیعت کے خلاف ہو تو ایسا ظالم باپ ہے کہ سب کی شامت آجاتی ہے.تو یہ تکبر ہی ہے جس نے ایسے باپوں کو اس انتہا تک پہنچا دیا ہے اور اکثر ایسے لوگوں نے اپنا رویہ باہر بڑا اچھا رکھا ہوتا ہے اور لوگ باہر سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان جیسا شریف انسان ہی کوئی نہیں ہے.اور باہر کی گواہی ان کے حق میں ہوتی ہے.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو گھر کے اندر اور باہر ایک جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کا تو سب کچھ ظاہر ہو جاتا ہے.تو ایسے بدخلق اور متکبرلوگوں کے بچے بھی ، خاص طور پر لڑ کے جب جوان ہوتے ہیں تو اس ظلم کے رد عمل کے طور پر جو اُن باپوں نے ان بچوں کی ماں یا بہن یا 123)
خودان سے کیا ہوتا ہے، باپوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں.اور پھر ایک وقت میں جا کر جب باپ اپنی کمزوری کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس سے خاص طور پر بدلے لیتے ہیں.تو اس طرح ایسے متکبرانہ ذہن کے مالکوں کی اپنے دائرہ اختیار میں مثالیں ملتی رہتی ہیں.مختلف دائرے ہیں معاشرے کے.ایک گھر کا دائرہ اور اس سے باہر ماحول کا دائرہ.اپنے اپنے دائرے میں اگر جائزہ لیں تو تکبر کی یہ مثالیں آپ کو ملتی چلی جائیں گی.پھر اس کی انتہا اس دائرے کی صورت میں نظر آتی ہے جہاں بعض قو میں اور ملک اور حکومتیں اپنے تکبر کی وجہ سے ہر ایک کو اپنے سے پیچ سمجھ رہی ہوتی ہیں.اور غریب قوموں کو ، غریب ملکوں کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا ہوتا ہے.اور آج دنیا میں فساد کی بہت بڑی وجہ یہی ہے.اگر یہ تکبر ختم ہو جائے تو دنیا سے فساد بھی مٹ جائے.لیکن ان متکبر قوموں کو بھی ، حکومتوں کو بھی پتہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تکبر کرنے والوں کے غرور اور تکبر کو توڑ تا ہے تو پھر ان کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا کہ وہ کہاں گئے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے : ﴿ فَلَا تُصَعِرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ (لقمان آیت ۱۹).اس کا ترجمہ یہ ہے : اور نخوت سے ) انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پھلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہوئے نہ پھر.اللہ کسی تکبر کرنے والے (اور ) فخر و مباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا.جیسا کہ اس آیت سے بھی ظاہر ہے اللہ تعالیٰ ہمیں فرمارہا ہے کہ یونہی اپنے 124
گال پھلا کر ، تکبر کرتے ہوئے نہ پھرو.تکبر کرنے والوں کا ایک خاص انداز ہوتا ہے اور گردن اکڑا کر پھر نا اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے سے کم درجہ والوں کے سامنے اکثر دکھا رہے ہوتے ہیں اور اپنے سے اوپر والے کے سامنے بچھتے چلے جاتے ہیں.تو ایسے لوگوں میں منافقت کی برائی بھی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے.تو یہ تکبر جو ہے بہت سی اخلاقی برائیوں کا باعث بن جاتا ہے اور نیکی میں ترقی کے راستے آہستہ آہستہ بالکل بند ہو جاتے ہیں.اور پھر دین سے بھی دور ہو جاتے ہیں، نظام جماعت سے بھی دور ہو جاتے ہیں.اور جیسے جیسے ان کا تکبر بڑھتا ہے ویسے ویسے وہ اللہ اور رسول کے قرب سے، اس کے فضلوں سے بھی دور چلے جاتے ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن تم میں سے سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جوسب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے.اور تم میں سے زیادہ مبغوض اور مجھ سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو ثرثار یعنی منہ پھٹ ، بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے ہیں، متشدق یعنی منہ پھلا پھلا کر باتیں کرنے والے اور مُتفيهق یعنی لوگوں پر تکبر جتلانے والے ہیں.صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ اثرثار اور متشدّق کے معنے تو ہم جانتے ہیں ، مُتفَيْهِق کسے کہتے ہیں.آپ نے فرمایا: مُتفيهق متکبرانہ باتیں کرنے والے کو کہتے ہیں.(ترمذى ابواب البر والصلة باب في ممالى الاخلاق) ایک اور حدیث ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا : تین باتیں ہر گناہ کی جڑ ہیں ان سے بچنا چاہئے.تکبر سے 125
بچو کیونکہ تکبر نے ہی شیطان کو اس بات پر اکسایا کہ وہ آدم کو سجدہ نہ کرے.دوسرے حرص سے بچو کیونکہ حرص نے ہی آدم کو درخت کھانے پر اکسایا.تیسرے حسد سے بچو کیونکہ حسد کی وجہ سے ہی آدم کے دو بیٹوں میں سے ایک نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا تھا.(قشيريه باب الحسد صفحه ۷۹) پھر حدیث ہے.حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں نہیں داخل ہونے دے گا.ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! انسان چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، جوتی اچھی ہو اور خوبصورت لگے.آپ نے فرمایا : یہ تکبر نہیں.آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے ، یعنی خوبصورتی کو پسند کرتا ہے.تکبر دراصل یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرنے لگے ،لوگوں کو ذلیل سمجھے ، ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور ان سے بری طرح پیش آئے.(صحیح مسلم کتاب الايمان باب تحريم الكبر وبيانه) پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دوزخ اور جنت کی آپس میں بحث اور تکرار ہوگئی.دوزخ نے کہا کہ مجھ میں بڑے بڑے جابر اور متکبر داخل ہوتے ہیں اور جنت کہنے لگی کہ مجھ میں کمزور اور مسکین داخل ہوتے ہیں.اس پر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو فر مایا کہ تو میرے عذاب کی مظہر ہے.جسے میں چاہتا ہوں تیرے ذریعہ عذاب دیتا ہوں.اور جنت سے کہا تو میری رحمت کی مظہر ہے جس پر میں چاہوں تیرے ذریعہ رحم کرتا ہوں.اور تم دونوں 126
میں سے ہر ایک کو اس کا بھر پور حصہ ملے گا.(صحيح مسلم كتاب الجنة وصفة نعمها واهلها) اللہ کرے کہ ہر احمدی عاجزی، مسکینی اور خوش خلقی کی راہوں پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحم کی نظر حاصل کرنے والا ہو، اللہ تعالیٰ کی جنت میں جانے والا ہو اور ہر گھر تکبر کے گناہ سے پاک ہو.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابوسعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عزت اللہ تعالیٰ کا لباس اور کبریائی اس کی چادر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پس جو کوئی بھی انہیں مجھ سے چھینے کی کوشش کرے گا میں اسے عذاب دوں گا.(صحیح مسلم كتاب البر والصلة) متکبر ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوگا پس تکبر آخر کار انسان کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر دیتا ہے.جب خدا کا شریک بنانے والے کو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ معاف نہیں کروں گا تو پھر جو خود خدائی کا دعویدار بن جائے اس کی کس طرح بخشش ہو سکتی ہے.یہ تکبر ہی تھا جس نے مختلف وقتوں میں فرعون صفت لوگوں کو پیدا کیا اور پھر ایسے فرعونوں کے انجام آپ نے پڑھے بھی اور اس زمانہ میں دیکھے بھی.یہ بڑا خوف کا مقام ہے.ہر احمدی کو ادنی سے تکبر سے بھی بچنا چاہئے کیونکہ یہ پھر پھیلتے پھیلتے پوری طرح انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ وارنگ دے دی ہے، واضح کر دیا ہے کہ یہ میری چادر ہے ہمیں 127
رب العالمین ہوں ، کبریائی میری ہے، اس کو تسلیم کرو، عاجزی دکھاؤ.اگر ان حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کرو گے تو عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے.اگر رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہے تو عذاب تمہارا مقدر ہے لیکن ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دے دی کہ اگر ذرہ بھر بھی تمہارے اندر ایمان ہے تو میں تمہیں آگ کے عذاب سے بچالوں گا.جیسا کہ حدیث میں آیا ہے.حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا.اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ آگ میں داخل نہ ہوگا.(سنن ابن ماجه كتاب المقدمه ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں.یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے.خدا تعالیٰ کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں.شیطان بھی موحد ہونے کا دم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا.سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کیلئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا.“ (آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۸) پھر فرماتے ہیں: ” اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یار یا ہے یا خود پسندی ہے 128
یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ قبول کے لائق ہو.ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھو کہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے.کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے.اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲) تکبر اور شیطان کا گہرا تعلق ہے پھر فرماتے ہیں: ” ہاں ایسے لوگ ہیں جو انبیاء علیہم السلام سے حالانکہ کروڑوں حصہ نیچے کے درجہ میں ہوتے ہیں جو دو دن نماز پڑھ کر تکبر کرنے لگتے ہیں اور ایسا ہی روزہ اور حج سے بجائے تزکیہ کے ان میں تکبر اور نمود پیدا ہوتی ہے.یادرکھوتکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے.جب تک انسان اس سے دور نہ ہو یہ قبول حق اور فیضان الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے.کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے نہ علم کے لحاظ سے، نہ دولت کے لحاظ سے ، نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے.کیونکہ زیادہ تر انہی باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت جو جذبات کے موادِ رڈیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا." حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ بعض بنیادی چیزیں ہیں اور ان 129)
کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے.اور ان سے بچو.بعض لوگ دو چار دن نماز پڑھ کے سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے نیک ہو گئے ہیں.چہرے پر عجیب قسم کی سنجیدگی کے ساتھ رعونت بھی طاری ہو جاتی ہے.اور آپ نے بعض دفعہ بعض جبہ پوشوں کو دیکھا ہوگا کہ ہاتھ میں تسبیح لے کر مسجدوں سے نکل رہے ہوتے ہیں.ان کی گردن پر ہی فخر اور غرور نظر آرہا ہوتا ہے.شکر ہے، اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ہے کہ جماعت احمد یہ ایسے جبہ پوشوں سے پاک ہے.پھر حج کر کے آتے ہیں اتنا پروپیگنڈہ اس کا ہورہا ہوتا ہے کہ انتہا نہیں.ایسے لوگوں کے دکھاوے کے روزے ہوتے ہیں اور دکھاوے کا حج ہوتا ہے.صرف بڑائی جتانے کے لئے یہ سب ہوتا ہے کہ لوگ کہیں کہ فلا بڑا نیک ہے.بڑے روزے رکھتا ہے ، حاجی ہے، بہت نیک ہے.یہ سب دکھاوے تکبر کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں یا دکھاوے کی وجہ سے تکبر پیدا ہو جاتا ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ اپنی ذات پات کی وجہ سے تکبر کر رہے ہوتے ہیں کہ ہماری ذات بہت اونچی ہے.فلاں تو کمی کمین ہے، وہ ہمارا کہاں مقابلہ کر سکتا ہے.تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ تمبر کی کئی قسمیں ہیں جو تمہیں خدا تعالیٰ کی معرفت سے دور لے جاتی ہیں، اس کے قرب سے دور لے جاتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ انسان شیطان کی جھولی میں گر جاتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: ” پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے.نہ علمی نہ خاندانی نہ مالی.جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جوان 130
ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے.آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے.اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان ، عبادت ، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کر دے.پس کچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئی محض سمجھے اور آستانہ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے.اور اس نور معرف کو مانگے جو جذبات ف کو جلا دیا ہے اور اندر ایک روشی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے.پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے.اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی.دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے.پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے.(ملفوظات جلد چهارم صفحه ۲۱۲ ۲۱۳ جدید ایڈیشن) پھر آپ فرماتے ہیں: ” تکبر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا 131
ہو جاوے اس کے لئے رُوحانی موت ہے.میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے.متکبر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے.اس لئے کہ تکبر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا.اس لئے مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ میں یہ وصف تھا.آپ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپ کا کیا معاملہ ہے.اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں.(اللهم صل علیٰ محمد وعلى آل محمد و بارک وسلم“.(ملفوظات جلد چہارم صفحه ۴۳۷.۴۳۸.جدید ایڈیشن) تکبر خدا تعالی کی نگاہ میں سخت مکروہ ہے پھر آپ فرماتے ہیں: میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے.مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے.پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی روح سے بولتا ہوں.ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ منظمند یا زیادہ ہنرمند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو دیوانہ کر دے اور اس کے اُس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی 132
متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ وحشمت خدا نے ہی اُس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزاء سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اُس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اس کے قومی میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اُس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تیں کچھ چیز سمجھا ہے.سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالی کی نظر میں منکر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو.ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تھیج کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھیٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی پورے طور پر 133
اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہوتا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ.خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈرسکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو.پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تاتم پر رحم ہو."❝ (نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۳.۴۰۲) پھر دوسری بات جو اس شرط میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کروں گا.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جب آپ اپنے دل و دماغ کو تکبر سے خالی کرنے کی کوشش کریں گے ، خالی کریں گے تو پھر لازماً ایک اعلیٰ وصف ،ایک اعلیٰ صفت ، ایک اعلیٰ خُلق اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا ور نہ پھر شیطان حملہ کرے گا کیونکہ وہ اسی کام کے لئے بیٹھا ہے کہ آپ کا پیچھا نہ چھوڑے.وہ خُلق ہے عاجزی اور مسکینی.اور یہ ہو نہیں سکتا کہ عاجز اور متکبر اکٹھے رہ سکیں.متکبر لوگ ہمیشہ ایسے عاجز لوگوں پر جو عبادالرحمن ہوں طعنہ زنیاں کرتے رہتے ہیں ، فقرے کستے رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کے مقابل پر آپ نے ان جیسا رویہ نہیں اپنا نا.بلکہ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا ہے فرمایا: ﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِيْنَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُوْنَ قَالُوْا 134)
سلمًا ﴾ (الفرقان آیت ۶۳) اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو ( جوابا) کہتے ہیں ” سلام“.حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ آنحضور نے فرمایا جس نے اللہ کی خاطر ایک درجہ تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا یہاں تک کہ اسے علیین میں جگہ دے گا، اور جس نے اللہ کے مقابل ایک درجہ تکتبر اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے گرا دے گا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین میں داخل کر دے گا.(مسند احمد بن حنبل، باقي مسند المكثرين من الصحابة) ایسے لوگوں کی مجالس سے سلام کہہ کر اٹھ جانے میں ہی آپ کی بقا، آپ کی بہتری ہے کیونکہ اسی سے آپ کے درجات بلند ہورہے ہیں اور مخالفین اپنی انہی باتوں کی وجہ سے اسفل السافلین میں گرتے چلے جارہے ہیں.پھر حدیث میں آیا ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے.جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے.(مسلم كتاب البرو الصلة باب استحباب العفو والتواضع) صلى الله عیاذ بن حمار بن مجاشع کے بھائی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علی ہمارے درمیان خطاب کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی 135
کی ہے کہ تم اس قدر تواضع اختیار کرو کہ تم میں سے کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے، اور کوئی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے.پھر ایک روایت ہے اسے ہمیں آپس کے معاملات میں بھی پیش نظر رکھنا چاہئے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے.جتنی زیادہ کوئی تو اضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے.(مسلم.كتاب البر والصلة باب استحباب العفو والتواضع) پس ہر احمدی ایک دوسرے کو معاف کرنے کی عادت ڈالے.اگلے جہان میں بھی درجات بلند ہو رہے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی آپ کی عزتیں بڑھاتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی فعل کو کبھی بغیر اجر کے جانے نہیں دیتا.آنحضرت ﷺ کی نظر میں مسکینوں کا مقام صلى الله مسکینوں کا مقام آنحضرت ﷺ کی نظر میں کتنا تھا، اس کا اندازہ اس حدیث سے کریں.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مساکین سے محبت کیا کرو.یہ حضرت ابوسعید خدری کہہ رہے ہیں کہ پس میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ہے کہ اللَّهُمَّ أَحْينِي مِسْكِيْنًا وَاَمِتْنِي مِسْكِيْنًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِيْنِ.یعنی اے اللہ مجھے 136)
مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ، مجھے مسکینی کی حالت میں موت دے اور مجھے مسکینوں کے گروہ ہی سے اٹھانا.(ابن ماجه كتاب الزهد باب مجالسة الفقراء) پس ہر احمدی کو بھی وہی راہ اختیار کرنی چاہئے ، ان راہوں پر قدم مارنا چاہئے جن پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی علیہ چل رہے ہیں.ہر احمدی کو اپنے آپ کو مسکینوں کی صف میں ہی رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہی عہد بیعت ہے کہ مسکینی سے زندگی بسر کروں گا.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب مساکین سے بہت محبت کرتے تھے.ان کی مجلسوں میں بیٹھتے تھے.وہ ان سے باتیں کرتے اور مساکین ان سے باتیں کرتے.چنانچہ رسول اللہ ﷺ حضرت جعفر کو ابوالمساکین کی کنیت سے پکارا کرتے تھے.(ابن ماجه كتاب الزهد باب مجالسة الفقراء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو.اسی لیے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا.اسی طرح چاہیئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے.بلکہ سوال یہ ہو گا کہ تمہارا عمل کیا ہے.اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہ 137
خدا تعالی ذات کو نہیں پوچھے گا.اگر تم کوئی برا کام کروگی تو خدا تعالی تم سے اس واسطے درگزر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو.پس چاہیئے کہ تم ہر وقت اپنا کام دیکھ کر کیا کرو“.(ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۷۰.جدید ایڈیشن) پھر آپ فرماتے ہیں: ”اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ غربت اور مسکینی میں اپنی زندگی بسر کرے یہ ایک تقویٰ کی شاخ ہے جس کے ذریعہ ہمیں غضب ناجائز کا مقابلہ کرنا ہے.بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے ہی بچنا ہے.عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے.اور ایسا ہی کبھی خود ے غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ غضب اس وقت ہوگا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے.“ رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹ء صفحه ۴۹) آپ فرماتے ہیں: " تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی.تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سواس کا مجھ میں حصہ نہیں.“ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲.۱۳) 138
آٹھویں شرط بیعت یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد ایک ایسا عہد ہے کہ جماعت کا ہر وہ فرد جس کا جماعت کے ساتھ باقاعدہ رابطہ ہے، اجلاسوں اور اجتماعوں وغیرہ میں شامل ہوتا ہے وہ اس عہد کو بار ہاد ہراتا ہے.ہر اجتماع اور ہر جلسہ وغیرہ میں بھی بینرز لگائے جاتے ہیں اور اکثر ان میں یہ بھی ہوتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.کیوں اس بات کو اتنی اہمیت دی گئی ہے ، اس لئے کہ اس کے بغیر ایمان قائم ہی نہیں رہ سکتا.اس پر عمل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.اس لئے اس کے حصول کے لئے ہر وقت، ہر لحظہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہنا چاہئے.اس کا فضل ہی ہو تو یہ اعلیٰ معیار قائم ہوسکتا ہے.تو ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل ہیں.ہمارے لئے تو للہ تعالیٰ اس طرح حکم فرماتا ہے.قرآن شریف میں آیا ہے.﴿ وَمَا أُمِرُوْا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ - حُنَفَاءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَوةَ 139
وَذَلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ﴾ (سورة البينه آیت).اور وہ کوئی حکم نہیں دیئے گئے سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے ، ہمیشہ اس کی طرف جھکتے ہوئے ، اور نماز کو قائم کریں اور زکوۃ دیں.اور یہی قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات کا دین ہے.پس نمازوں کو قائم کرنے سے یعنی با جماعت اور وقت پر نماز پڑھنے سے، اس کی راہ میں خرچ کرنے سے ،غریبوں کا خیال رکھنے سے بھی ہم صحیح دین پر قائم ہو سکتے ہیں.اور ان تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکتے ہیں ، اپنی زندگیوں پر لاگو کر سکتے ہیں جب ہم اللہ کی عبادت کریں گے ، اس کی دی ہوئی تعلیم پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دیگا ، ہمارے ایمانوں کو اس قدر مضبوط کر دے گا کہ ہمیں اپنی ذات، اپنی خواہشات، اپنی اولادیں، دین کے مقابلے میں بیچ نظر آنے لگیں گی.تو جب سب کچھ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کیلئے ہو جائے گا اور ہمارا اپنا کچھ نہ رہے گا تو اللہ تعالیٰ پھر ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا.وہ ان کی عزتوں کی بھی حفاظت کرتا ہے ، ان کی اولادوں کی بھی حفاظت کرتا ہے، ان میں برکت ڈالتا ہے، ان کے مال کو بھی بڑھاتا ہے اور ان کو اپنی رحمت اور فضل کی چادر میں ہمیشہ لپیٹے رکھتا ہے اور ان کے ہر قسم کے خوف دور کر دیتا ہے.جیسا کہ فرمایا: بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ﴾ (البقره آیت ۱۱۳).نہیں نہیں، سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپر د کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجراسکے ربّ کے پاس ہے اور اُن (لوگوں) پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے.140
اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ پھر فرمایا وَمَنْ أَحْسَنُ دِينَا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيْمَ حَنِيفًا ۖ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيْلًا﴾ (النساء آیت ۱۲۲) اور دین میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ اللہ کی خاطر وقف کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کی ہو اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنالیا تھا.اس آیت میں اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے.یعنی مکمل فرمانبرداری اور اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے ، اس کے دین کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے اور احسان کرنے والا ہو.پس چونکہ وہ اللہ کی خاطر احسان کرنے والا ہوگا اس لئے کسی کو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ اگر ہر وقت وہ دین کی طرف اور دین کی خدمت کی طرف رہا تو اس کا مال یا اولا د ضائع ہو جائے گی.نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑھ کر بدلہ دینے والا ہے، اجر دینے والا ہے، اس کے اس فعل کا خود اجر دے گا.جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ خود اس کے جان ، مال ، آبرو کی حفاظت کرے گا.ایسے لوگوں کو ، ان کی نسلوں کو بھی اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾ (1).(۱) البقرة آیت ۱۱۳.141
یعنی جو شخص اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو سو وہ سر چشمہ قرب الہی سے اپنا اجر پائے گا.اور اُن لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم.یعنی جو شخص اپنے تمام قولی کو خدا کی راہ میں لگادے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے اور حقیقی نیکی بجالانے میں سرگرم رہے سو اس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور خون سے نجات بخشے گا.“ وو (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۴۴) ایک حدیث میں آتا ہے.معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا.میں نے پوچھا آپ کو ہمارے رب نے کیا پیغام دے کر بھیجا ہے اور کیا دین لائے ہیں؟“.آپ نے فرمایا: ” خدا نے مجھے دین اسلام دے کر بھیجا ہے.میں نے پوچھا دین اسلام کیا ہے.حضور ﷺ نے جواب دیا: ”اسلام یہ ہے کہ تم اپنی پوری ذات کو اللہ کے حوالے کر دو اور دوسرے معبودوں سے دست کش ہو جاؤ.اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو.“ پھر ایک روایت یہ ہے.حضرت سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے اسلام کی کوئی ایسی بات بتائیے جس کے بعد کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے یعنی میری پوری تسلی ہو جائے.حضور ﷺ نے جواب دیا: تم یہ کہو کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا، پھر اس پر پکے ہو جاؤ الله (الاستيعاب) 142
اور استقلال کے ساتھ قائم رہو.(مسلم کتاب الایمان باب جامع اوصاف الاسلام) صحابہ کا کیا فعل تھا.ایک حدیث میں یہ واقعہ ہے.ابتداء میں جب شراب اسلام میں حرام نہیں تھی.صحابہ بھی شراب پی لیا کرتے تھے اور اکثر نشہ بھی ہو جایا کرتا تھا.لیکن اس حالت میں بھی ان پر دین اور دین کی عزت کا غلبہ رہتا تھا.یہ فکر تھی کہ سب چیزوں پر دین سب سے زیادہ مقدم ہے.چنانچہ جب شراب کی حرمت کا بھی حکم آیا ہے تو جو لوگ مجلس میں بیٹھے شراب پی رہے تھے بعض ان میں سے نشہ میں بھی تھے.جب انہوں نے اس کی حرمت کا حکم سنا تو فورا تعمیل کی.اس بارہ میں حدیث ہے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابوطلحہ انصاری، ابو عبیدہ بن جراح اور ابی بن کعب کو کھجور کی شراب پلا رہا تھا.کسی آنے والے نے بتایا کہ شراب حرام ہوگئی ہے.یہ سُن کر ابوطلحہ نے کہا کہ انس اٹھو اور شراب کے مٹکوں کو توڑ ڈالو.انس کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور پتھر کی کونڈی کا نچلا حصہ مٹکوں پر دے مارا اور وہ ٹوٹ گئے.(بخاری کتاب خبر الواحد باب ماجاء في اجازة الواحد الصدوق) دو اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی ،مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی 143
موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے.اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے رو براہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا.سواس حکیم وقد میر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰ تا ۱۲) پھر آپ فرماتے ہیں : ” جب تک انسان صدق وصفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کا بندہ نہ ہوگا تب تک کوئی درجہ ملنا مشکل ہے.جب ابراہیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے شہادت دی ﴿وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفی (1) کہ ابراہیم وہ شخص ہے جس نے اپنی بات کو پورا کیا.تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبت الہی سے بھرنا خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظل اصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہونا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو، کوئی فرق نہ ہو.یہ سب باتیں دعا سے حاصل ہوتی ہیں.نماز اصل میں دعا کے لئے ہے کہ ہر ایک مقام پر دعا کرے لیکن جو شخص سویا ہوا نماز ادا کرتا ہے کہ اسے اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں.پس چاہئے کہ ادائیگی نماز میں انسان سست نہ ہو اور نہ غافل ہو.ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے.نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شئے پر مقدم رکھنے“.(ملفوظات جلد سوم جدید ایڈیشن صفحه ۴۵۷.۴۵۸) (۱) النجم آیت ۳۸.144
گناہ سے نجات کا ذریعہ.یقین پھر آپ فرماتے ہیں: ” اے خدا کے طالب بندو! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں.یقین ہی ہے جو گناہ سے چھڑاتا ہے.یقین ہی ہے جو نیکی کرنے کی قوت دیتا ہے.یقین ہی ہے جو خدا کا عاشق صادق بناتا ہے.کیا تم گناہ کو بغیر یقین کے چھوڑ سکتے ہو.کیا تم جذبات نفس سے بغیر یقینی تھیلی کے رک سکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلی پاسکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی تبدیلی پیدا کر سکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی خوشحالی حاصل کر سکتے ہو.کیا آسمان کے نیچے کوئی ایسا کفارہ اور ایسا فدیہ ہے جو تم سے گناہ ترک کرا سکے.پس تم یاد رکھو کہ بغیر یقین کے تم تاریک زندگی سے باہر نہیں آ سکتے اور نہ روح القدس تمہیں مل سکتا ہے.مبارک وہ جو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہی خدا کو دیکھیں گے.مبارک وہ جو شبہات اور شکوک سے نجات پاگئے ہیں کیونکہ وہی گناہ سے نجات پائیں گے.مبارک تم جبکہ تمہیں یقین کی دولت دی جائے کہ اس کے بعد تمہارے گناہ کا خاتمہ ہو گا.گناہ اور یقین دونوں جمع نہیں ہو سکتے.کیا تم ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو جس میں تم ایک سخت زہر یلے سانپ کو دیکھ رہے ہو.کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو جس جگہ کسی کو ہ آتش فشاں سے پتھر برستے ہیں یا بجلی پڑتی ہے یا ایک خونخوار شیر کے حملہ کرنے کی جگہ ہے یا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ایک مہلک طاعون نسل انسانی کو معدوم کر رہی ہے.پھر اگر تمہیں خدا پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ سانپ پر یا بجلی پر یا شیر پر یاطاعون پرتو ممکن نہیں کہ اس کے مقابل پر تم 145
نافرمانی کر کے سزا کی راہ اختیار کر سکو یا صدق و وفا کا اس سے تعلق تو ڈسکو“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶۷.۲۶) آپ نے فرمایا: ” خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑھ معرفتِ کاملہ ہے.پس جس کو معرفتِ کاملہ دی گئی، اُس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی، اُس کو ہر ایک گناہ سے جو بیبا کی سے پیدا ہوتا ہے، نجات دی گئی.پس ہم اس نجات کے لئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور نہ کسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے.بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کر رہی ہے.ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے.اسلام کے معنے ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا.یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی رُوح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا.یہ پیارا نام تمام شریعت کی رُوح اور تمام احکام کی جان ہے.ذبح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے.پس اسلام کا لفظ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی ضرورت.“ لیکچر لاہور صفحه ۲.۵ - روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰.صفحه ۱۵۲.۱۵۱) اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.از خطبه جمعه ارشاد فرموده ۲۹ / اگست ۲۰۰۳ء بمقام شیورٹ ہالے،فرینکفورٹ ، جرمنی ) 146
اسلام کی تعلیم ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جس نے انسانی زندگی کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں چھوڑا جس سے یہ احساس ہو کہ اس تعلیم میں کوئی کمی رہ گئی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں کا تقاضا ہے کہ اس کے پیارے رسول ﷺ پر اتری ہوئی اس تعلیم کو اپنا کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں ، اپنے اوپر لاگو کریں.اور ہم پر تو اور بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام اور اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور شامل ہونے کا دعویٰ ہے.تو اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کرنے اور حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے ہمیں مختلف رشتوں اور تعلقوں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی حکم فرمایا ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت کی نویں شرط میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا ذکر فرمایا ہے.نویس شرط بیعت یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا“.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: ﴿وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ 147
شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتْمَى وَالْمَسْكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا﴾ (النساء آیت ۳).اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے.یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور ) شیخی بگھارنے والا ہو.سب کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم ہو اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ صرف اپنے بھائیوں ، عزیزوں، رشتہ داروں ، اپنے جاننے والوں ، ہمسایوں سے حسن سلوک کرو، ان سے ہمدردی کرو اور اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو اُن کی مدد کرو، ان کو جس حد تک فائدہ پہنچا سکتے فائدہ پہنچاؤ.بلکہ ایسے لوگ ، ایسے ہمسائے جن کو تم نہیں بھی جانتے ،تمہاری ان سے کوئی رشتہ داری یا تعلق داری بھی نہیں ہے جن کو تم عارضی طور پر ملے ہو ان کو بھی اگر تمہاری ہمدردی اور تمہاری مدد کی ضرورت ہے ، اگر ان کو تمہارے سے کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے تو ان کو ضرور فائدہ پہنچاؤ.اس سے اسلام کا ایک حسین معاشرہ قائم ہوگا.ہمدردی مخلق اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا وصف اور خوبی اپنے اندر پیدا کر لو گے اور اس خیال سے کر لو گے کہ یہ نیکی سے بڑھ کر احسان کے زمرے میں آتی 148
ہے اور احسان تو اس نیت سے نہیں کیا جاتا کہ مجھے اس کا کوئی بدلہ ملے گا.احسان تو انسان خالصتا اللہ تعالیٰ کی خاطر کرتا ہے.تو پھر ایسا حسین معاشرہ قائم ہو جائے گا جس میں نہ خاوند بیوی کا جھگڑا ہوگا ، نہ ساس بہو کا جھگڑا ہوگا ، نہ بھائی بھائی کا جھگڑا ہوگا، نہ ہمسائے کا ہمسائے سے کوئی جھگڑا ہوگا، ہر فریق دوسرے فریق کے ساتھ احسان کا سلوک کر رہا ہوگا اور اس کے حقوق محبت کے جذبہ سے ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوگا.اور خالصتا اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کا پیار حاصل کرنے کے لئے اس پر عمل کر رہا ہوگا.آج کل کے معاشرہ میں تو اس کی اور بھی بہت زیادہ ضرورت ہے.فرمایا: اگر یہ باتیں نہیں کرو گے تو پھر متکبر کہلاؤ گے اور تکبر کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں کیا.تکبر ایک ایسی بیماری ہے جس سے تمام فسادوں کی ابتدا ہوتی ہے.ساتویں شرط میں اس بارہ میں تفصیل سے پہلے ہی ذکر آچکا ہے اس لئے یہاں تکبر کے بارہ میں تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں.خلاصہ یہ ہے کہ ہمدردی خلق کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں پسندیدہ بنو اور دونوں جہانوں کی فلاح حاصل کرو.اور یہ جو احسان ایک دوسرے پر کرو یہ محبت کے تقاضے کی وجہ سے کرو، احسان جتانے کے لئے نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ﴿وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِيْمًا وَّ اَسِيرًا﴾ (سورة الدهر آیت ۹ ).اور وہ کھانے کو، اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے ،مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں.اس کا ایک تو یہ مطلب ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کو اپنی ضروریات ہوتی ہیں وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ضرورتمندوں کی ضرورتوں کا 149
خیال رکھتے ہیں ، آپ بھوکے رہتے ہیں اور ان کو کھلاتے ہیں.تھر دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے کہ جو دے رہے ہیں وہ اس کو جس کو دیا جارہا ہے اس کی ضرورت بھی پوری نہ کر سکے، اس کی بھوک بھی نہ مٹا سکے.بلکہ جس حد تک ممکن ہو مدد کرتے ہیں اور یہ سب کچھ نیکی کمانے کے لئے کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کرتے ہیں.کسی قسم کا احسان جتانے کے لئے نہیں کرتے.اور اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ وہ چیز دیتے ہیں جس کی ان کو ضرورت ہے یعنی اس دینے والے کو جس کی ضرورت ہے جس کو وہ خود اپنے لئے پسند کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ اللہ کی خاطر وہی دو جس کو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو.یہ نہیں کہ جس طرح بعض لوگ اپنے کسی ضرورتمند بھائی کی مدد کرتے ہیں تو احسان جتا کے کر رہے ہوتے ہیں.بلکہ بعض تو ایسی عجیب فطرت کے ہیں کہ تحفے بھی اگر دیتے ہیں تو اپنی استعمال شدہ چیزوں میں سے دیتے ہیں یا پہنے ہوئے کپڑوں کے دیتے ہیں.تو ایسے لوگوں کو اپنے بھائیوں، بہنوں کی عزت کا خیال رکھنا چاہئے.بہتر ہے کہ اگر توفیق نہیں ہے تو تحفہ نہ دیں یا یہ بتا کر دیں کہ یہ میری استعمال شدہ چیز ہے اگر پسند کرو تو دوں.پھر بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہم غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے اچھے کپڑے دینا چاہتے ہیں جو ہم نے ایک آدھ دن پہنے ہوئے ہیں.اور پھر چھوٹے ہوگئے یا کسی وجہ سے استعمال نہیں کر سکے.تو اس کے بارہ میں واضح ہو کہ چاہے ایسی چیزیں ذیلی تنظیموں ، لجنہ وغیرہ کے ذریعہ یا خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ہی دی جا رہی ہوں یا انفردی طور پر دی جارہی ہوں تو ان ذیلی تنظیموں کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اگر ایسے لوگ چیزیں دیں تو غریبوں کی عزت کا خیال 150)
رکھیں اور اس طرح ، اس شکل میں دیں کہ اگر وہ چیز دینے کے قابل ہے تو دی جائے.یہ نہیں کہ ایسی اُترن جو بالکل ہی نا قابل استعمال ہو وہ دی جائے.داغ لگے ہوں ، پسینے کی بو آرہی ہو کپڑوں میں سے.غریب کی بھی ایک عزت ہے اس کا بھی خیال رکھنا چاہئے.اور ایسے کپڑے اگر دئے جائیں تو صاف کروا کر ، دھلا کر ، ٹھیک کروا کر ، پھر دئے جائیں.اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہماری ذیلی تنظیمیں بھی ، لجنہ وغیرہ بھی دیتی ہیں کپڑے تو جن لوگوں کو یہ چیزیں دینی ہوں ان پر یہ واضح کیا جانا چاہئے کہ یہ استعمال شدہ چیزیں ہیں تا کہ جولے اپنی خوشی سے لے.ہر ایک کی عزت نفس ہے ، میں نے جیسے پہلے بھی عرض کیا ہے اس کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور بہت خیال رکھنا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ = مِسْكِيْنًا وَيَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وو یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے.اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے ( سبحانہ تعالیٰ شانہ ).پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے.یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمدردی کرو اور بلاتمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے.وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَّيَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا﴾ (۱) وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے.اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے.میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم (1) الدهر آیت ۹.151
بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی.مجھے صحت ہو جاوے تو میں اخلاقی تعلیم پر ایک مستقل رسالہ لکھوں گا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میرا منشا ہے وہ ظاہر ہو جاوے اور وہ میری جماعت کے لئے ایک کامل تعلیم ہو اور ابتغاء مرضات اللہ کی راہیں اس میں دکھائی جائیں.مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ.میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی.میں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اٹھاتا ہے تو چار قدم گرتا ہے لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کر دے گا.اس لیے تم بھی کوشش ، تدبیر، مجاہدہ اور دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں.جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحه ۲۱۸.۲۱۹ جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسیہ سے اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے سے بہت سی بیماریاں جن کا آپ کو اس وقت فکر تھا جماعت میں ختم ہوگئی تھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑا حصہ ان سے بالکل پاک تھا اور ہے لیکن جوں جوں ہم اُس وقت اُس زمانے سے دور ہٹتے جارہے ہیں ، معاشرے کی بعض برائیوں کے ساتھ شیطان حملے کرتا رہتا ہے اس لئے جس فکر کا اظہار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ اصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے آپ کی تعلیم کے مطابق ہی تدبیر اور دعا سے اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو 152
ہمیشہ کامل رکھے.اب میں اس بارہ میں چند احادیث پیش کرتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ عز وجل قیامت کے روز فرمائے گا اے ابن آدم ! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی.بندہ کہے گا.اے میرے رب ! میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو ساری دنیا کا پروردگار ہے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.کیا تجھے پتہ نہیں چلا کہ میر افلاں بندہ بیمار تھا تو تو نے اس کی عیادت نہیں کی تھی.کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے.اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تُو نے مجھے کھانا نہیں دیا.اس پر ابن آدم کہے گا.اے میرے رب ! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جب کہ تو تو رب العالمین ہے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.تجھے یاد نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندہ نے کھاناما نگا تھا تو تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا.کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تم اسے کھانا کھلاتے تو تم میرے حضور اس کا اجر پاتے.اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا.ابن آدم کہے گا.اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو ہی سارے جہانوں کا رب ہے.اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا.تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا.مگر تم نے اسے پانی نہ پلایا.اگر تم اس کو پانی پلاتے تو اس کا اجر میرے حضور پاتے.(مسلم كتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض) پھر روایت ہے.حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ 153
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہے.پس اللہ تعالیٰ کو اپنے مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے.(مشكوة باب الشفقة والرحمة على الخلق) صلى الله پھر ایک روایت آتی ہے حضرت علی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا: ” ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں.نمبر ا : جب وہ اسے ملے تو اسے السلام علیکم کہے.نمبر ۲: جب وہ چھینک مارے تو يَرْحَمُكَ الله کہے.نمبر ۳.جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے“.بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بڑی اچھی عادت ہوتی ہے کہ خود جا کر خیال رکھتے ہوئے ہسپتالوں میں جاتے ہیں اور مریضوں کی عیادت کرتے ہیں خواہ واقف ہوں یا نہ واقف ہوں.ان کے لئے پھل لے جاتے ہیں، پھول لے جاتے ہیں.تو یہ خدمت خلق کا طریقہ بڑا اچھا ہے.نمبر ۴: جب وہ اس کو بلائے تو اس کی بات کا جواب دے.نمبر ۵:.جب وہ وفات پا جائے تو اس کے جنازہ پر آئے.اور نمبر ۶: اور اس کے لئے وہ پسند کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے.اور اس کی غیر حاضری میں بھی وہ اس کی خیر خواہی کرے.(سنن دارمی کتاب الاستيذان باب فى حق المسلم على المسلم) پھر روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 154)
ایک دوسرے سے حسد نہ کرو.ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے بڑھ چڑھ کر بھاؤ نہ بڑھاؤ ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ موڑ و یعنی بے تعلقی کا رویہ اختیار نہ کرو.ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے (اور ) آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو.مسلمان اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا.اس کی تحقیر نہیں کرتا.اس کو شرمندہ یا رسوا نہیں کرتا.آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تقویٰ یہاں ہے.یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ دہرائے، پھر فرمایا: انسان کی بدبختی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھے.ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام اور اس کے لئے واجب الاحترام ہے.(مسلم، کتاب البر والصلة باب تحريم ظلم المسلم وخذله) پھر روایت آتی ہے.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا.اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو اس سے دور کرے گا.اور جس شخص نے کسی تنگدست کو آرام پہنچایا اور اس کے لئے آسانی مہیا کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے لئے آسانیاں مہیا کرے گا.جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد پر تیار رہتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کے لئے تیار ہو.جو شخص علم کی تلاش میں لکھتا ہے اللہ تعالی اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے.جولوگ اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پڑھتے ہیں اور اس کے درس و تدریس میں لگے رہتے 155
ہیں اللہ تعالیٰ ان پر سکینت اور اطمینان نازل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو ڈھانپے رکھتی ہے، فرشتے ان کو گھیرے رکھتے ہیں.اپنے مقربین میں اللہ تعالیٰ ان کا ذکر کرتا رہتا ہے.جوشخص عمل میں ست رہے اس کا نسب اور خاندان اس کو تیز نہیں بناسکتا.یعنی وہ خاندانی بل بوتے پر جنت میں نہیں جاسکے گا.(مسلم كتاب الذكر باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر) اس میں شروع میں جو بیان کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ لوگوں کے حقوق کا خیال اور یہ کہ تم اپنے بھائیوں کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو دور کرو اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی شفقت کا سلوک تم سے کرے گا اور تمہاری بے چینیوں اور تکلیفوں کو دور کرے گا.آنحضرت ﷺ کا ہم پر یہ احسان ہے.فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کی چادر میں تمہیں ڈھانپ لے تو بے چین ، تکلیف دہ اور تنگدستوں کو جس حد تک تم آرام پہنچا سکتے ہو ، آرام پہنچاؤ تو اللہ تعالیٰ تم سے شفقت کا سلوک کرے گا.اپنے بھائیوں کی پردہ پوشی کرو ، ان کی غلطی کو پکڑ کر اس کا اعلان نہ کرتے پھرو.پتہ نہیں تم میں کتنی کمزوریاں ہیں اور عیب ہیں جن کا حساب روز آخر دینا ہوگا.تو اگر اس دنیا میں تم نے اپنے بھائیوں کی عیب پوشی کی ہوگی ، ان کی غلطیوں کو دیکھ کر اس کا چرچا کرنے کی بجائے اس کا ہمدرد بن کر اس کو سمجھانے کی کوشش کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ تم سے بھی پردہ پوشی کا سلوک کرے گا.تو یہ حقوق العباد ہیں جن کو تم ادا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہر وگے.پھر حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی.اور جو شخص دوسرے کے قصور 156)
معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتا ہے اور کسی کے قصور معاف کر دینے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۳۵) پھر روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا.تم اہل زمین پر رحم کرو.آسمان والا تم پر رحم کرے گا.دو (ابوداؤد کتاب الادب باب في الرحمة ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اس بات کو بھی خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں.اول یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں نہ عبادات میں.اور دوسرے نوع انسان سے ہمدردی کر و.اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو، آدم زاد ہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی ہو.مت خیال کرو کہ وہ ہندو ہے یا عیسائی.میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو.جس قدر نرمی تم اختیار کرو گے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے اللہ تعالیٰ اسی قدرتم سے خوش ہوگا.اپنے دشمنوں کو تم خدا تعالیٰ کے حوالے کرو.قیامت نزدیک ہے تمہیں ان تکلیفوں سے جو دشمن تمہیں دیتے ہیں گھبرانا نہیں چاہئے.میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تم کو ان سے بہت دکھ اٹھانا پڑے گا کیونکہ جولوگ دائرہ تہذیب سے باہر ہو جاتے ہیں ان کی زبان ایسی چلتی ہے جیسے کوئی پل ٹوٹ جاوے تو ایک سیلاب پھوٹ نکلتا ہے.پس دیندار کو چاہئے کہ اپنی زبان کو 157
سنبھال کر رکھے.“ پھر فرماتے ہیں: (ملفوظات جلد ۹.صفحه ۱۶۴.۱۶۵) یا درکھو حقوق کی دو قسمیں ہیں.ایک حق اللہ دوسرے حق العباد.حق اللہ میں بھی امراء کو دقت پیش آتی ہے اور تکبر اور خود پسندی ان کو محروم کر دیتی ہے مثلاً نماز کے وقت ایک غریب کے پاس کھڑا ہونا بُر ا معلوم ہوتا ہے.اُن کو اپنے پاس بٹھا نہیں سکتے اور اس طرح پر وہ حق اللہ سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ مساجد تو دراصل بیت المساکین ہوتی ہیں.اور وہ ان میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور اسی طرح وہ حق العباد میں خاص خاص خدمتوں میں حصہ نہیں لے سکتے.غریب آدمی تو ہر ایک قسم کی خدمت کے لئے تیار رہتا ہے.وہ پاؤں دبا سکتا ہے.پانی لاسکتا ہے.کپڑے دھوسکتا ہے یہاں تک کہ اُس کو اگر نجاست پھینکنے کا موقعہ ملے تو اس میں بھی اُسے دریغ نہیں ہوتا ، لیکن امراء ایسے کاموں میں ننگ و عار سمجھتے ہیں اور اس طرح پر اس سے بھی محروم رہتے ہیں.غرض امارت بھی بہت سی نیکیوں کے حاصل کرنے سے روک دیتی ہے.یہی وجہ ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ مساکین پانچ سو برس اول جنت میں جائیں گے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۶۸ جدید ایڈیشن) فرماتے ہیں: ” پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے.انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی 158
تفریق نہیں ہے.جیسا کہ سعدی نے کہا ہے.بنی آدم اعضائے یک دیگر اند.یا درکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے.کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے.میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو.نہیں.میں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو خواہ وہ کوئی ہو ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور.میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں“.(ملفوظات جلد چهارم جدید ایڈیشن صفحه ۲۱۶.۲۱۷) فرماتے ہیں: ” غرض نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے یہ ایک زبر دست ذریعہ ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے.دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے.ان پر ٹھیٹھے کیسے جاتے ہیں ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے.جو لوگ غرباء کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں.اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے اس کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں اور اس خدا داد فضل پر تکبر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحه ۴۳۸.۴۳۹ جدید ایڈیشن) آپ فرماتے ہیں: ” قرآن شریف نے جس قدر والدین اور اولاد اور دیگر ا قارب اور مساکین کے حقوق بیان کئے ہیں.میں نہیں خیال کرتا کہ وہ حقوق کسی اور کتاب میں لکھے گئے ہوں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاعْبُدُوا اللَّـ 159
وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَّ بِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَمَىٰ وَالْمَسْكِينِ وَالْجَارِذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالاً فَخُوْرًا (1) تم لان خدا کی پرستش کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور اُن سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں (اس فقرہ میں اولا د اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتہ دار آگئے ) اور پھر فرمایا کہ میموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علم دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو.خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا.“ (چشمه معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۰۹.۲۰۸) حضرت خلیفتہ امسیح الاول اس بارہ میں فرماتے ہیں: منشاء یہ ہو کہ اس لئے کھانا پہنچاتے ہیں کہ ﴿إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا فَمُطَرِيرًا ﴾ (۲) کہ ہم اپنے رب سے ایک دن سے جو عبوس اور قمطریر ہے ڈرتے ہیں.عَبُوس تنگی کو کہتے ہیں اور قَمْطَریر دراز یعنی لمبے کو.یعنی قیامت کا دن تنگی کا ہوگا اور لمبا ہو گا.بھوکوں کی مدد کرنے سے خدا تعالیٰ قحط کی تنگی اور درازی سے بھی (۱) النساء آیت ۳۷ (۲) الدهر آیت ١١.160
نجات دے دیتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے ﴿ فَوَقهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَهُمْ نَضْرَةً وَّسُرُوْرًا ﴾ (۱) خدا تعالیٰ اس دن کے شر سے بچالیتا ہے اور یہ بیچانا بھی سرور اور تازگی سے ہوتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یا درکھو آج کل کے ایام میں مسکینوں اور بھوکوں کی مدد کرنے سے قحط سالی کے ایام کی تنکیوں سے بچ جاؤ گے.خدا تعالیٰ مجھے کو اور تم کو توفیق دے کہ جس طرح ظاہری عزتوں کے لئے کوشش کرتے ہیں ابدالا باد کی عزت اور راحت کی بھی کوشش کریں.آمین ( حقائق الفرقان جلد ۴ صفحه۲۹۰.۲۹۱) یہ جماعت احمدیہ کا ہی خاصہ ہے کہ جس حد تک توفیق ہے خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور جو وسائل میسر ہیں ان کے اندر رہ کر جتنی خدمت خلق اور خدمت انسانیت ہو سکتی ہے کرتی ہے ، انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی.احباب جماعت کو جس حد تک توفیق ہے بھوک مٹانے کے لئے ،غریبوں کے علاج کے لئے تعلیمی امداد کے لئے غریبوں کی شادیوں کے لئے ، جماعتی نظام کے تحت مدد میں شامل ہو کر بھی عہد بیعت کو نبھاتے بھی ہیں اور نبھانا چاہئے بھی.اللہ کرے ہم کبھی ان قوموں اور حکومتوں کی طرح نہ ہوں جو اپنی زائد پیداوار ضائع تو کردیتی ہیں لیکن دُکھی انسانیت کے لئے صرف اس لئے خرچ نہیں کرتیں کہ ان سے ان کے سیاسی مقاصد اور مفادات وابستہ نہیں ہوتے یا وہ مکمل طور پر ان کی ہر بات ماننے اور ان کی Dictation لینے پر تیار نہیں ہوتے.اور سزا کے طور پر ان قوموں کو بھوکا اور ننگا رکھا (۱) آلدهر آیت ۱۲ 161
جاتا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو پہلے سے بڑھ کر خدمت انسانیت کی توفق عطا فرمائے.یہاں ایک اور بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جماعتی سطح پر یہ خدمت انسانیت حسب توفیق ہو رہی ہے.مخلصین جماعت کو خدمت خلق کی غرض سے اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے، وہ بڑی بڑی رقوم بھی دیتے ہیں جن سے خدمت انسانیت کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں بھی اور ربوہ اور قادیان میں بھی واقفین ڈاکٹر اور اساتذہ خدمت بجالا رہے ہیں.لیکن میں ہر احمدی ڈاکٹر ، ہر احمدی ٹیچر اور ہر احمدی وکیل اور ہر وہ احمدی جو اپنے پیشے کے لحاظ سے کسی بھی رنگ میں خدمت انسانیت کرسکتا ہے، غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آ سکتا ہے، ان سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ضرور غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آنے کی کوشش کریں.نتیجہ اللہ تعالیٰ آپ کے اموال ونفوس میں پہلے سے بڑھ کر برکت عطا فرمائے گا انشاء اللہ اگر آپ سب اس نیت سے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہوں کہ ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد بیعت باندھا ہے جس کو پورا کرنا ہم پر فرض ہے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کی کس قدر بارش ہوتی ہے جس کو آپ سنبھال بھی نہیں سکیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بنی نوع انسان کی ہمدردی بنی نوع انسان کی ہمدری خصوصاً اپنے بھائیوں کی ہمدردی اور حمایت پر نصیحت کرتے ہوئے ایک موقعہ پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: 162)
” میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں.یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو.اپنے تو درکنار، میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو.لا ابالی مزاج ہر گز نہیں ہونا چاہئے.ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جا رہا تھا ایک پٹواری عبدالکریم میرے ساتھ تھا.وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے.راستہ میں ایک بڑھیا کوئی ۷۰ یا ۷۵ برس کی ضعیفہ ملی.اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑ کیاں دے کر ہٹا دیا.میرے دل پر چوٹ سی لگی.اس نے وہ خط مجھے دیا.میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا.اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا.کیونکہ ٹھہر نا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا.(ملفوظات جلد چہارم صفحه ۸۲-۸۳ جدید ایڈیشن) فرماتے ہیں: ” اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کر وگو اپنا ما تحت ہو.اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ...بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل.اور امیر ہو کر غریبوں کی 163
خدمت کرو، نہ خود پسندی سے ان پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو “ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲.۱۱) پھر فرمایا: ” لوگ تمہیں دُکھ دیں گے اور ہر طرح سے تکلیف پہنچائیں گے مگر ہماری جماعت کے لوگ جوش نہ دکھا ئیں.جوش نفس سے دل دُکھانے والے الفاظ استعمال نہ کرو اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند نہیں ہوتے.ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے.“ آپ مزید فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں.کسی پر ظلم نہ کرو نہ تیزی کرونہ کسی کو حقارت سے دیکھو.جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے.اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹولو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نکلی ہے.یہ مقام بہت نازک ہے.“ (ملفوظات جلد نمبر ا صفحه ۸، ۹) فرمایا: ”ایسے بنو کہ تمہارا صدق اور وفا اور سوز و گداز آسمان پر پہنچ جاوے.خدا تعالیٰ ایسے شخص کی حفاظت کرتا اور اس کو برکت دیتا ہے جس کو دیکھتا ہے کہ اس کا سینه صدق اور محبت سے بھرا ہوا ہے.وہ دلوں پر نظر ڈالتا اور جھانکتا ہے نہ کہ ظاہری قیل وقال پر.جس کا دل ہر قسم کے گند اور ناپاکی سے مُعَرَّا اور مُبَرَّا پاتا ہے، اس میں آ اُترتا ہے اور اپنا گھر بناتا ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحه ۱۸۱.جدید ایڈیشن ) 164)
فرمایا : ”میں پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ نافع الناس ہیں اور ایمان، صدق و وفا میں کامل ہیں، وہ یقیناً بچالئے جائیں گے.پس تم اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کرو.(ملفوظات جلد چہارم.صفحہ ۱۸۴.جدید ایڈیشن) فرمایا: ” سو تم اُس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو.بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ اُن کی تحقیر.اور عالم ہو کر نا دانوں کو نصیحت کرو، نہ خود نمائی سے اُن کی تذلیل.اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو.کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں.تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی.تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے.اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشا.“ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحه ۱۲ تا ۱۳) فرمایا: ” دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے.عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا ؟ کبھی نہیں.حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی، مگر نہیں.اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک گویا مالک 165
کے ساتھ حسن سلوک ہے.خدا تعالی کو بھی اس طرح پر اس بات کی چڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سرد مہری برتے کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے.پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحه ۲۱۵ تا ۲۱۶.جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے.اور آپ سے جو عہد بیعت ہم نے باندھا ہے اس کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.از خطبه جمعه ارشاد فرموده ۱۲ ستمبر ۲۰۰۳ء بمقام مسجد فضل لندن انگلستان) 166
وو دسویی شرط بیعت یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ با قرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفہ وقت کے ساتھ بھائی چارہ کا رشتہ قائم کرنا ضروری ہے اس شرط میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہم سے اس بات کا عہد لے رہے ہیں کہ گو کہ اس نظام میں شامل ہو کر ایک بھائی چارے کا رشتہ مجھے سے قائم کر رہے ہو کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے لیکن یہاں جو محبت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم ہورہا ہے یہ اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہاں برابری کا تعلق اور رشتہ قائم نہیں 167
ہور ہا بلکہ تم اقرار کر رہے ہو کہ آنے والے مسیح کو ماننے کا خدا اور رسول کا حکم ہے.اس لئے یہ تعلق اللہ تعالیٰ کی خاطر قائم کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی اور اسلام کو اکناف عالم میں پہنچانے کے لئے ، پھیلانے کے لئے رشتہ جوڑ رہے ہیں.اس لئے یہ تعلق اس اقرار کے ساتھ کامیاب اور پائیدار ہوسکتا ہے جب معروف باتوں میں اطاعت کا عہد بھی کرو اور پھر اس عہد کو مرتے دم تک نبھاؤ.اور پھر یہ خیال بھی رکھو کہ یہ تعلق یہیں ٹھہر نہ جائے بلکہ اس میں ہر روز پہلے سے بڑھ کر مضبوطی آنی چاہئے اور اس میں اس قدر مضبوطی ہو اور اس کے معیار اتنے اعلیٰ ہوں کہ اس کے مقابل پر تمام دنیاوی رشتے تعلق ، دوستیاں بیچ ثابت ہوں.ایسا بے مثال اور مضبوط تعلق ہو کہ اس کے مقابل پر تمام تعلق اور رشتے بے مقصد نظر آئیں.پھر فرمایا کہ یہ خیال دل میں پیدا ہوسکتا ہے کہ رشتہ داریوں میں کبھی کچھ لو اور کچھ دو، کبھی مانو اور کبھی منواؤ کا اصول بھی چل جاتا ہے.تو یہاں یہ واضح ہو کہ تمہارا یہ تعلق غلامانہ اور خادمانہ تعلق بھی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہونا چاہئے.تم نے یہ اطاعت بغیر چون و چرا کئے کرنی ہے.کبھی تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ یہ کہنے لگ جاؤ کہ یہ کام ابھی نہیں ہوسکتا ، یا ابھی نہیں کر سکتا.جب تم بیعت میں شامل ہو گئے ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے نظام میں شامل ہو گئے ہو تو پھر تم نے اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا اور اب تمہیں صرف ان کے احکامات کی پیروی کرنی ہے، ان کی تعلیم کی پیروی کرنی ہے.اور آپ کے بعد چونکہ نظام خلافت قائم ہے اس لئے خلیفہ وقت کے احکامات کی ، ہدایات کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے.لیکن یہاں یہ خیال نہ رہے کہ خادم اور نوکر کا کام تو مجبوری ہے، 168
خدمت کرنا ہی ہے.خادم کبھی کبھی بڑ بڑا بھی لیتے ہیں.اس لئے ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ خادمانہ حالت ہی ہے لیکن اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ کی خاطر اخوت کا رشتہ بھی ہے اور اللہ کی خاطر اطاعت کا اقرار بھی ہے اور اس وجہ سے قربانی کا عہد بھی ہے.تو قربانی کا ثواب بھی اس وقت ملتا ہے جب انسان خوشی سے قربانی کر رہا ہوتا ہے.تو یہ ایک ایسی شرط ہے جس پر آپ جتنا غور کرتے جائیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی محبت میں ڈوبتے چلے جائیں گے اور نظام جماعت کا پابند ہوتا ہوا اپنے آپ کو پائیں گے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِيْنَ بِبُهْتَانِ يَفْتَرِيْنَهُ بَيْنَ أَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾ (الممتحنه آیت ۱۳) اے نبی ! جب مومن عورتیں تیرے پاس آئیں (اور ) اس (امر ) پر تیری بیعت کریں کہ وہ کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور نہ ہی چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی (کسی پر ) کوئی جھوٹا الزام لگا ئیں گی جسے وہ اپنے ہاتھوں اور پاؤس کے سامنے گھڑ لیں اور نہ ہی معروف ( امور ) میں تیری نافرمانی کریں گی تو تو اُن کی بیعت قبول کر اور اُن کیلئے اللہ سے بخشش طلب کر.یقیناً اللہ بہت بخشنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.اس آیت میں عورتوں سے اس پر عہد بیعت لینے کی تاکید ہے کہ شرک نہیں 169
کریں گی.چوری نہیں کریں گی.زنا نہیں کریں گی.اولا د کو قتل نہیں کریں گی.( اولاد کی تربیت کا خیال رکھیں گی ) جھوٹا الزام کسی پر نہیں لگا ئیں گی.اور معروف امور میں نافرمانی نہیں کریں گی.تو یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا نبی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتا ہے کیا وہ بھی ایسے احکامات دے سکتا ہے جو غیر معروف ہوں.اور اگر نبی دے سکتا ہے تو پھر خلیفہ بھی ایسے احکامات دے سکتا ہے جو غیر معروف ہوں.اس بارہ میں واضح ہو کہ نبی کبھی ایسے احکامات دے ہی نہیں سکتا.نبی جو کہے گا معروف ہی کہے گا اس کے علاوہ کچھ نہیں کہے گا.اس لئے قرآن شریف میں کئی مقامات پر یہ حکم ہے کہ تم نے اللہ اور رسول کے حکموں کی اطاعت کرنی ہے، انہیں بجالانا ہے.کہیں نہیں یہ لکھا ہوا کہ جو معروف حکم ہو اس کی اطاعت کرنی ہے.تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو مختلف حکم کیوں ہیں.لیکن دراصل یہ دو مختلف حکم نہیں ہیں.بعضوں کے سمجھنے میں غلطی ہے.تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ نبی کا جو بھی حکم ہوگا معروف ہی ہوگا اور نبی کبھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف ، شریعت کے احکامات کے خلاف کر ہی نہیں سکتا وہ تو اس کام پر مامور کیا گیا ہے.تو جس کام کے لئے مامور کیا گیا ہے اس کے خلاف کیسے چل سکتا ہے.یہ تو تمہارے لئے خوشخبری ہے کہ تم نبی کو مان کر ، مامور کو مان کر اس کی جماعت میں شامل ہو کر محفوظ ہو گئے ہو کہ تمہارے لئے اب کوئی غیر معروف حکم ہے ہی نہیں، جو بھی حکم ہے اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہے.معروف اور غیر معروف کی تعریف بعض دفعہ بعض لوگ معروف فیصلہ یا معروف احکامات کی اطاعت کے چکر 170
میں پڑ کر خود بھی نظام سے ہٹ گئے ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی خراب کر رہے ہوتے ہیں اور ماحول میں بعض قباحتیں بھی پیدا کر رہے ہوتے ہیں.ان پر واضح ہو کہ خود بخود معروف اور غیر معروف فیصلوں کی تعریف میں نہ پڑیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک اور غلطی ہے وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں طاعت نہ کریں گے.یہ لفظ نبی کریم کے لئے بھی آیا ہے وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوفٍ (1) اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ علیہ کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنالی ہے.اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے.اس میں ایک سر ہے.میں تم میں سے کسی پر ہرگز بدظن نہیں.میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا تا تم میں سے کسی کو اندر ہی اندر دھو کہ نہ لگ جائے.(خطبات نور صفحه 421.420) حضرت مسیح موعود علیہ السلام يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں.اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے اور پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور نا پاک کو حرام گھیرا تا ہے.اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں.اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں (1) الممتحنه آیت ۱۳.171)
سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں.پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اس کو قوت دیں گے اور اس کی مدد کریں گے اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے.(براہین احمدیه حصه پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحه 420) پس جب نبی اللہ تعالیٰ کے احکامات سے پرے نہیں ہٹتا تو خلیفہ بھی جو نبی کے بعد اس کے مشن کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کی ایک جماعت کے ذریعہ مقرر کردہ ہوتا ہے.وہ بھی اسی تعلیم کو، انہیں احکامات کو آگے چلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچائے اور اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضاحت کر کے ہمیں بتائے.تو اب اسی نظام خلافت کے مطابق جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت میں قائم ہو چکا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا.ان میں شریعت اور عقل کے مطابق ہی فیصلے ہوتے رہے ہیں اور انشاء اللہ ہوتے رہیں گے اور یہی معروف فیصلے ہیں.اگر کسی وقت خلیفہ وقت کسی غلطی یا غلط فہمی کی وجہ سے کوئی ایسا فیصلہ کر دیتا ہے جس سے نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو اللہ تعالیٰ خود ایسے سامان پیدا فرما دے گا کہ اس کے بدنتائج نہیں نکلیں گے.اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: یہ تو ہو سکتا ہے کہ ذاتی معاملات میں خلیفہ وقت سے کوئی غلطی ہو جائے.لیکن ان معاملات میں جن پر جماعت کی روحانی اور جسمانی ترقی کا انحصار ہوا گر اس سے کوئی غلطی سرزد بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی حفاظت فرماتا ہے اور کسی نہ کسی 172
رنگ میں اسے اس غلطی پر مطلع کر دیتا ہے.صوفیاء کی اصطلاح میں اسے عصمت صغریٰ کہا جاتا ہے.گویا انبیاء کو تو عصمت کبری حاصل ہوتی ہے لیکن خلفاء کو عصمت صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے کوئی ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کے لئے تباہی کا موجب ہو.ان کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیاں ہوسکتی ہیں مگر انجام کار نتیجہ یہی ہو گا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا اور اس کے مخالفوں کو شکست ہوگی.گویا بوجہ اس کے کہ ان کو عصمت صغریٰ حاصل ہوگی خدا تعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہوگی جوان کی ہوگی.بے شک بولنے والے وہ ہوں گے ، زبانیں انہی کی حرکت کریں گی ، ہاتھ انہی کے چلیں گے.دماغ انہی کا کام کرے گا، مگر ان سب کے پیچھے خدا تعالیٰ کا اپنا ہاتھ ہوگا.ان سے جزئیات میں معمولی غلطیاں ہوسکتی ہیں.بعض دفعہ ان کے مشیر بھی ان کو غلط مشورہ دے سکتے ہیں لیکن ان درمیانی روکوں سے گزر کر کامیابی انہی کو حاصل ہوگی.اور جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر بنے گی تو وہ صحیح ہوگی اور ایسی مضبوط ہوگی کہ کوئی طاقت اسے تو رنہیں سکے گی.(تفسير كبير جلد 6 صفحه 376 377) تو اس سے واضح ہوگیا کہ غیر معروف وہ ہے جو واضح طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات اور شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی ہے جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہے.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس پر ایک شخص کو حاکم مقرر کیا تا کہ لوگ اس کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں.اس شخص نے آگ جلوائی اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ آگ میں کو دجائیں.بعض لوگوں نے اس کی بات نہ مانی اور کہا کہ ہم تو آگ سے بچنے کے لئے مسلمان ہوئے 173)
ہیں.لیکن کچھ افراد آگ میں کودنے کے لئے تیار ہو گئے.آنحضرت علام اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود جاتے تو ہمیشہ آگ میں ہی رہتے.نیز فرمایا : اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے رنگ میں کوئی اطاعت واجب نہیں.اطاعت صرف معروف امور میں ضروری ہے.(سنن ابو داؤد - کتاب الجہاد) اس حدیث کی مزید وضاحت حضرت ابوسعید خدری کی روایت سے ملتی ہے.صلى الله حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علی نے علقمہ بن مُجزّز کو ایک غزوہ کے لئے روانہ کیا جب وہ اپنے غزوہ کی مقررہ جگہ کے قریب پہنچے یا ابھی وہ رستہ ہی میں تھے کہ ان سے فوج کے ایک دستہ نے اجازت طلب کی.چنانچہ انہوں نے ان کو اجازت دے دی اور ان پر عبد اللہ بن حذافہ بن قیس السهمـی کو امیر مقرر کر دیا.میں بھی اس کے ساتھ غزوہ پر جانے والوں میں سے تھا.پس جب کہ ابھی وہ رستہ میں ہی تھے تو ان لوگوں نے آگ سینکنے یا کھانا پکانے کے لئے آگ جلائی تو عبد اللہ نے (جن کی طبیعت مزاحیہ تھی ) کہا کیا تم پر میری بات سن کر اس کی اطاعت فرض نہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ؟ اس پر عبد اللہ بن حذافہ نے کہا: کیا میں تم کو جو بھی حکم دوں گا تم اس کو بجالاؤ گے؟ انہوں نے کہا.ہاں ہم بجالائیں گے.اس پر عبد اللہ بن حذافہ نے کہا میں تمہیں تا کیدا کہتا ہوں کہ تم اس آگ میں کود پڑو.اس پر کچھ لوگ کھڑے ہو کر آگ میں کودنے کی تیاری کرنے لگے.پھر جب عبداللہ بن حذافہ نے دیکھا کہ یہ تو سچ مچ آگ میں کودنے لگے ہیں تو عبد اللہ بن حذافہ نے کہا اپنے آپ کو ( آگ میں ڈالنے سے ) روکو.174
پھر جب ہم اس غزوہ سے واپس آگئے تو صحابہ نے اس واقعہ کا ذکر نبی علی سے کر دیا.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” امراء میں سے جو شخص تم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا حکم دے اس کی اطاعت نہ کرو“.(سنن ابن ماجه - كتاب الجهاد.باب لاطاعة في معصية الله) تو ایک تو اس حدیث سے یہ واضح ہو گیا کہ نہ ماننے کا فیصلہ بھی فرد واحد کا نہیں تھا.کچھ لوگ آگ میں کودنے کو تیار تھے کہ ہر حالت میں امیر کی اطاعت کا حکم ہے، انہوں نے سنا ہوا تھا اور یہ سمجھے کہ یہی اسلامی تعلیم ہے کہ ہر صورت میں، ہر حالت میں، ہر شکل میں امیر کی اطاعت کرنی ہے لیکن بعض صحابہ جو احکام الہی کا زیادہ فہم رکھتے تھے، آنحضرت ﷺ کی صحبت سے زیادہ فیضیاب تھے ، انہوں نے انکار کیا.نتیجہ مشورہ کے بعد کسی نے اس پر عمل نہ کیا کیونکہ یہ خودکشی ہے اور خود کشی واضح طور پر اسلام میں حرام ہے.دوسرے عبد اللہ بن حذیفہ جو ان کے لیڈر تھے جب انہوں نے بعض لوگوں کی سنجیدگی دیکھی تو ان کو بھی فکر پیدا ہوئی اور انہوں نے بھی روکا کہ یہ تو مذاق تھا.اس واقعہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے وضاحت فرما کر معروف کا اصول واضح فرما دیا کہ کیا معروف ہے اور کیا غیر معروف ہے.واضح ہو کہ نبی یا خلیفہ وقت کبھی مذاق میں بھی یہ بات نہیں کر سکتا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی واضح حکم کی خلاف ورزی تم امیر کی طرف سے دیکھو تو پھر اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو.اور اب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت راشدہ کا قیام ہو چکا ہے تو خلیفہ وقت تک پہنچو.اس کا فیصلہ ہمیشہ معروف فیصلہ ہی ہوگا، اللہ اور رسول کے احکام کے مطابق ہی ہوگا.تو جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ تمہیں خوشخبری ہو کہ اب تم ہمیشہ معروف 175
فیصلوں کے نیچے ہی ہو.آج کل بھی اعتراض ہوتے ہیں کہ ایک کارکن اچھا بھلا کام کر رہا تھا اس کو ہٹا کر دوسرے کے سپر د کام کر دیا گیا ہے.خلیفہ وقت یا نظام جماعت نے غلط فیصلہ کیا ہے اور گویا یہ غیر معروف فیصلہ ہے.وہ اور تو کچھ نہیں کر سکتے اس لئے سمجھتے ہیں کہ کیونکہ یہ غیر معروف کے زمرے میں آتا ہے ( خود ہی تعریف بنا لی انہوں نے ) اس لئے ہمیں بولنے کا بھی حق ہے، جگہ جگہ بیٹھ کر باتیں کرنے کا بھی حق ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ جگہ جگہ بیٹھ کر کسی کو نظام کے خلاف بولنے کا کوئی حق نہیں.اس بارہ میں پہلے بھی میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں.تمہارا کام صرف اطاعت کرنا ہے اور اطاعت کا معیار کیا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَأَقْسَمُوْا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ قُلْ لَا - تُقْسِمُوْا طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ - إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ.(سورة النورآيت (۵۴) اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے.تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ.دستور کے مطابق اطاعت ( کرو ) یقینا اللہ ، جو تم کرتے ہو، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.اس آیت سے پہلی آیات میں بھی اطاعت کا مضمون ہی چل رہا ہے.اور مومن ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا.اور اس تقویٰ کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ٹھہرتے ہیں اور بامراد ہو جاتے ہیں.تو اس آیت میں بھی یہ بتایا ہے کہ مومنوں کی طرح سنو اور اطاعت کرو کا نمونہ دکھاؤ ہمیں نہ کھاؤ کہ ہم یہ کر دیں گے وہ 176
کر دیں گے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ دعویٰ تو منافق بھی بہت کرتے ہیں.اصل چیز تو یہ ہے کہ عملاً اطاعت کی جائے.تو یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کیلئے فرما رہا ہے کہ جو معروف طریقہ ہے اطاعت کا ، جو دستور کے مطابق اطاعت ہے وہ اطاعت کرو.نبی نے تمہیں کوئی خلاف شریعت اور خلاف عقل حکم تو نہیں دینا.مثلاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے مان لیا ہے تو پنج وقتہ نماز کے عادی بنو.جھوٹ چھوڑ دو.کبر چھوڑ دو.لوگوں کے حق مارنے چھوڑ دو.آپس میں پیار محبت سے رہو.تو یہ سب طاعت در معروف کے حکم میں ہی آتا ہے.تو یہ کام تو کرونہ اور کہتے پھرو کہ ہم قسم کھاتے ہیں کہ آپ جو ہمیں حکم دیں گے کریں گے.اسی طرح خلفاء کی طرف بھی سے مختلف وقتوں میں روحانی ترقی کے لئے مختلف تحریکات ہیں.جیسے مساجد کو آباد کرنے کے بارے میں ، اولاد کی تربیت کے بارے میں، اپنے اندر وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے بارے میں، دعوت الی اللہ کے بارے میں یا متفرق مالی تحریکات ہیں.تو یہی باتیں ہیں جن کی اطاعت کرنا ضروری ہے یا دوسرے لفظوں میں طاعت در معروف کے زمرے میں آتی ہیں.تو نبی نے یا کسی خلیفہ نے تمہارے سے خلاف احکام الہی اور خلاف عقل تو کام نہیں کروانے.یہ تو نہیں کہنا کہ تم آگ میں کود جاؤ یا سمندر میں چھلانگ لگا دو.انہوں نے تو تمہیں ہمیشہ شریعت کے مطابق ہی چلانا ہے.اطاعت کی اعلیٰ مثال اطاعت کی اعلیٰ مثال ہمیں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں اس طرح ملتی ہے 177)
کہ جب ایک جنگ کے دوران حضرت عمرؓ نے جنگ کی کمان حضرت خالد بن ولید سے لے کر حضرت ابو عبیدہ کے سپرد کر دی تھی.تو حضرت ابو عبیدہ نے اس خیال سے کہ خالد بن ولید بہت عمدگی سے کام کر رہے ہیں ان سے چارج نہ لیا.تو جب حضرت خالد بن ولید کو یہ علم ہوا کہ حضرت عمر کی طرف سے یہ حکم آیا ہے تو آپ حضرت ابوعبیدہ کے پاس گئے اور کہا کہ چونکہ خلیفہ وقت کا حکم ہے اس لئے آپ فوری طور پر اس کی تعمیل کریں.مجھے ذرا بھی پروا نہیں ہوگی کہ میں آپ کے ماتحت رہ کر کام کروں.اور میں اسی طرح آپ کے ماتحت کام کرتا رہوں گا جیسے میں بطور ایک کمانڈ ر کام کر رہا ہوتا تھا.تو یہ ہے اطاعت کا معیار.کوئی سر پھرا کہہ سکتا ہے کہ حضرت عمر “ کا فیصلہ اس وقت غیر معروف تھا، یہ بھی غلط خیال ہے.ہمیں حالات کا نہیں پتہ کس وجہ سے حضرت عمر نے یہ فیصلہ فرمایا یہ آپ ہی بہتر جانتے تھے.بہر حال اس فیصلہ میں ایسی کوئی بات ظاہر بالکل نہیں تھی جو شریعت کے خلاف ہو.چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ حضرت عمرؓ کے اس فیصلہ کی لاج بھی اللہ تعالیٰ نے رکھی اور یہ جنگ جیتی گئی اور باوجود اس کے جیتی گئی کہ اس جنگ میں بعض دفعہ ایسے حالات آئے کہ ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں سو سو دشمن کے فوجیوں کی تعداد ہوتی تھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنے آقا کی غلامی میں ، ایسی غلامی جس کی نظیر نہیں ملتی ، حکم اور عدل کا درجہ ملا ہے اس لئے اب اس زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت اور محبت سے ہی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت اور محبت کا دعوی سچا ہو سکتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی اتباع سے ہی 178
اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعوی سچ ہو سکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبَبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ - وَاللَّهُ غَفُوْرٌ رَّحِيمٌ (آل عمران آیت (۳۲) تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا.اور اللہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ پایا وہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کیوجہ سے ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: صلى الله میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پا نا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید ومولی فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی علی کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پاسکتا ہے.اور میں اس جگہ یہ بھی بتلا تا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے جو سچی اور کامل پیروی آنحضرت ﷺ کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے.سو یادر ہے کہ وہ قلب سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے پھر بعد اس کے ایک مصفی اور کامل محبت الہی بباعث اس قلب سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ 179
سب نعمتیں آنحضرت ﷺ کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے ﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ﴾ () یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے.بلکہ یکطرفہ محبت کا دعوی بالکل ایک جھوٹ اور لاف و گزاف ہے.جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اس سے محبت کرتا ہے تب زمین پر اس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوت جذب اس کو عنایت ہوتی ہے اور ایک ٹو راس کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے.جب ایک انسان سچے دل سے خدا سے محبت کرتا ہے اور تمام دنیا پر اس کو اختیار کر لیتا ہے اور غیر اللہ کی عظمت اور وجاہت اس کے دل میں باقی نہیں رہتی بلکہ سب کو ایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی بدتر سمجھتا ہے تب خدا جو اس کے دل کو دیکھتا ہے ایک بھاری تجلبی کے ساتھ اُس پر نازل ہوتا ہے اور جس طرح ایک صاف آئینہ میں جو آفتاب کے مقابل پر رکھا گیا ہے آفتاب کا عکس ایسے پورے طور پر پڑتا ہے کہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہی آفتاب جو آسمان پر ہے اس آئینہ میں بھی موجود ہے ایسا ہی خدا ایسے دل پر اترتا ہے اور اس دل کو اپنا عرش بنالیتا ہے.یہی وہ امر ہے جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے.“ (حقيقة الوحي، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲.صفحه ۶۵،۶۴) پس اس محبت و عشق کی وجہ سے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ سے تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاک دل کو بھی اپنا عرش بنایا.(1) آل عمران آیت ۳۲.180
(حفظ مراتب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ آئندہ بھی دلوں پر اتر تا رہے گا.لیکن اب آنحضرت ﷺ کی محبت کا دعوئی ، آپ کی کامل اطاعت کا دعوی تبھی سچ ثابت ہوگا جب آپ کے روحانی فرزند کے ساتھ محبت اور اطاعت کا رشتہ قائم ہوگا.اسی لئے تو آپ فرما رہے ہیں کہ سب رشتوں سے بڑھ کر میرے سے محبت و اطاعت کا رشتہ قائم کرو تو تم اب اسی ذریعہ سے آنحضرت ﷺ کی اتباع کرو گے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرو گے.آپ یہ بات یونہی نہیں فرما ر ہے بلکہ رسول خدا ﷺ خود ہمیں یہ بات فرما چکے ہیں جیسے کہ فرمایا کہ اگر مسیح اور مہدی کا زمانہ دیکھو تو اگر گھٹنوں کے بل تمہیں جانا پڑے تو جا کر میرا سلام کہنا.اتنی تاکید سے ، اتنی تکلیف میں ڈال کر یہ پیغام پہنچانے میں کیا بھید ہے، کیا راز ہے.یہی کہ وہ میرا پیارا ہے اور میں اس کا پیارا ہوں.اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ پیاروں تک پہنچ پیاروں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے.اس لئے اگر تم میری اتباع کرنے والے بننا چاہتے ہو تو مسیح موعود کی اتباع کرو، اس کو امام تسلیم کرو، اس کی جماعت میں شامل ہو.اسی لئے حدیث میں آتا ہے.روایت ہے کہ ” خبردار رہو کہ عیسی بن مریم ( مسیح موعود ) اور میرے درمیان کوئی نبی یا رسول نہیں ہوگا.خوب سن لو کہ وہ میرے بعد امت میں میرا خلیفہ ہوگا.وہ ضرور دجال کو قتل کرے گا.صلیب کو پاش پاش کرے گا یعنی صلیبی عقیدے کو پاش پاش کر دے گا اور جزیہ ختم کر دے گا.(اس زمانہ میں جو آپ ہی کا زمانہ ہے اس کا رواج اٹھ جائے گا کیونکہ اس وقت مذہبی جنگیں نہیں ہوں گی.جزیہ کا رواج اُٹھ جائے گا.) یا درکھو جسے بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو وہ انہیں میر اسلام ضرور پہنچائے“.دو (طبراني الاوسط والصغير) 181
اس حدیث پر غور کرنے کی بجائے اور جنہوں نے غور کیا ہے اور اس کی تہ تک پہنچے ہیں ان کی بات سمجھنے کے بجائے آج کل کے علماء اس کے ظاہری معنوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو اس طرح غلط راستے پر ڈال دیا ہوا ہے اور وہ طوفان بدتمیزی پیدا کیا ہوا ہے کہ خدا کی پناہ.ہم تو اللہ تعالیٰ کی پناہ ہی ڈھونڈتے ہیں، وہ ان سے نمٹ بھی رہا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی نمٹے گا.اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح موعود منصف مزاج حاکم ہوگا جس نے انصاف کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرنی اور ایسا امام ہے جس نے عدل کو دنیا میں قائم کرنا ہے اس لئے اس سے تعلق جوڑنا، اس کے حکموں پر چلنا ، اس کی تعلیم پر عمل کرنا کیونکہ اس نے انصاف اور عدل ہی کی تعلیم دینی ہے اور وہ سوائے قرآنی تعلیم کے اور کوئی ہے ہی نہیں.آج کل کے یہ لوگ اس طرح صلیب کو توڑنے کے پیچھے چل پڑے ہیں کہ ہتھوڑے لے کر مسیح آئے گا اور صلیب تو ڑے گا.یہ سب فضول باتیں ہیں.صاف ظاہر ہے کہ وہ آنے والا مسیح اپنے آقا اور مطاع کی پیروی میں دلائل سے قائل کرے گا اور دلائل سے ہی صلیبی عقیدے کا قلع قمع کرے گا، اس کی قلعی کھولے گا.دجال کو قتل کرنے سے یہی مراد ہے کہ دجالی فتنوں سے امت کو بچائے گا.پھر چونکہ مذہبی جنگوں کا رواج ہی نہیں رہے گا اس لئے ظاہر ہے کہ جزیہ کا بھی رواج اٹھ جائے گا.اور پھر اس حدیث میں سلام پہنچانے کا بھی حکم ہے.اور مسلمان سلام پہنچانے کی بجائے آنے والے مسیح کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں.اللہ ہی انہیں عقل دے.پھر ایک اور حدیث ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کا پتہ 182
چلتا ہے کہ کیوں ہمیں آپ سے اطاعت کا تعلق رکھنا ضروری ہے.حضرت ابو ہریرۃ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جب تک عیسی بن مریم جو منصف مزاج حاکم اور امام عادل ہوں گے معبوث ہو کر نہیں آتے قیامت نہیں آئے گی.(جب وہ معبوث ہوں گے تو ) وہ صلیب کو تو ڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے ، جزیہ کے دستور کو ختم کریں گے اور ایسا مال تقسیم کریں گے جسے لوگ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.(سنن ابن ماجه كتاب الفتن باب فتنه الدجال وخروج عيسى بن مريم و خروج ياجوج و ماجوج) تو اس حدیث میں بھی چونکہ سمجھنے کی ضرورت تھی ، موٹی عقل کے لوگوں کو سمجھ نہیں آئی اور وہ ظاہری معنوں کے پیچھے چل پڑے.عجیب مضحکہ خیز قسم کی تشریح کرتے ہیں.صاف ظاہر ہے کہ خنزیر کوقتل کرنے سے مرادختر بر صفت لوگوں کا قلع قمع کرنا ہے.سؤروں کی برائیاں ، باقی جانوروں کی نسبت تو اب ثابت شدہ ہیں.تو وہی برائیاں جب انسانوں میں پیدا ہو جائیں تو ظاہر ہے کہ ان کی صفائی انتہائی ضروری ہے.پھر یہ ہے کہ وہ مال دیں گے، مال تقسیم کریں گے.اس کو بھی یہ لوگ نہیں سمجھتے.ابھی چند دن پہلے پاکستان میں علماء نے جلسہ کیا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف، جماعت کے خلاف انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے ایک یہ بھی سوال اٹھایا کہ مسیح نے آکر تو مال تقسیم کرنا تھا نہ کہ لوگوں سے مانگنا تھا.دیکھو احمدی ( وہ تو قادیانی کہتے ہیں ) چندہ وصول کرتے ہیں.اس سے ثابت ہوا کہ یہ جھوٹے ہیں.اب ان عقل کے اندھوں کوکوئی عظمند آدمی سمجھا نہیں سکتا کہ مسیح جو روحانی خزائن بانٹ رہا ہے تم اس کو 183
لینے سے بھی انکاری ہو چکے ہو.اصل میں بات یہی ہے کہ ان کی دنیا کی ایک آنکھ ہی ہے.اور اس سے آگے یہ لوگ بڑھ بھی نہیں سکتے.ان کا یہ کام ہے ، ان کو کرنے دیں، پاکستانی احمدیوں کو زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے.ان کے گند اور لغویات سن کر صبر دکھاتے ہوئے ، حوصلہ دکھاتے ہوئے ، منہ پھیر کر گزر جایا کریں.ان کے گند کے مقابلے میں ہم تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی ہم اپنی ہار مانتے ہیں.ہم ان کے گند کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے.لیکن ایک بات واضح کر دوں کہ جب بندہ نہیں بولتا تو خدا بولتا ہے اور جب خدا بولتا ہے تو مخالفین کے ٹکڑے ہوا میں بکھرتے ہوئے ہم نے دیکھے ہیں اور آئندہ بھی دیکھیں گے انشاء اللہ.پس احمدی مسیح موعود سے سچا تعلق قائم رکھیں اور دعاؤں پر زور دیں ، ہر وقت دعاؤں میں لگے رہیں.ان احادیث سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ آنے والا مسیح امام بھی ہوگا، حکم بھی ہوگا، عدل وانصاف کا شہزادہ ہوگا تو اس سے تعلق ضرور جوڑنا اور اس حکم اور امام کی حیثیت سے اطاعت بھی تم پر ضروری ہے اس لئے تمہاری بہتری کے لئے تمہاری تربیت کے لئے یہ باتیں جو بتائی ہیں ان پر عمل کرو تا کہ آنحضرت ﷺ کے پیاروں میں بھی شامل ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کے قرب پانے والوں میں بھی شامل ہو جاؤ.اطاعت ہر حال میں ضروری ہے اطاعت کے موضوع پر میں چند احادیث پیش کرتا ہوں جن سے اطاعت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : تنگدستی 184)
اور خوشحالی ، خوشی اور نا خوشی حق تلفی اور ترجیحی سلوک ، غرض ہر حالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کوسننا اور اطاعت کرنا واجب ہے.(مسلم کتاب الامارة) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے سردار اور امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جو اسے پسند نہ ہو تو صبر سے کام لے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی دور ہوتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرے گا.(بخاری کتاب الفتن ـ باب قول النبى سترون بعدی امورا) پھر حضرت عــــرفـجـہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ل ا ل ا ل کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم ایک ہاتھ پر جمع ہو اور تمہارا ایک امیر ہو اور پھر کوئی شخص آئے اور تمہاری وحدت کی اس لاٹھی کو توڑنا چاہے تا تمہاری جماعت میں تفریق پیدا کرے تو اسے قتل کر دو.یعنی اس سے قطع تعلق کرو اور اس کی بات نہ مانو.(اس کے احکامات کو بالکل سنی ان سنی کر دو ).(مسلم) با ب حكم من فرق امر المسلمين هو مجتمع) حضرت عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت اس نکتہ پر کی کہ سنیں گے اور اطاعت کریں گے خواہ ہمیں پسند ہو یا نا پسند.اور یہ کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں کسی امر کے حقدار سے جھگڑانہیں کریں گے ، حق پر قائم رہیں گے یا حق بات ہی کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے.(مسلم کتاب الامارة باب وجود طاعة الامراء) 185
الله حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہا تھ کھینچا وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن اس حالت میں ملے گا کہ نہ اس کے پاس کوئی دلیل ہوگی اور نہ عذر.اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے امام وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا.(مسلم کتاب الامارة باب الامر بلزوم الجماعة عند ظهور الفتن) پس آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے امام وقت کو مانا اور اس کی بیعت میں شامل ہوئے.اب خالصتا للہ آپ نے اس کی ہی اطاعت کرنی ہے، اس کے تمام حکموں کو بجالانا ہے ورنہ پھر خدا تعالیٰ کی اطاعت سے باہر نکلنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اطاعت کے اعلیٰ معیار پر قائم فرمائے اور یہ اعلیٰ معیار کس طرح قائم کئے جائیں.یہ معیار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کر کے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں.جماعت میں کون داخل ہوتا ہے آپ فرماتے ہیں : ” ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے.لیکن جو محض نام لکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا تو یا در کھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے محض نام لکھوانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا.اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آ جائے گا کہ وہ الگ ہو جائے گا.اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت 186
66 کرو جودی جاتی ہے.وہ تعلیم کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ : ” فتنہ کی بات نہ کرو.شر نہ کرو.گالی پر صبر کرو.کسی کا مقابلہ نہ کرو.جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ.شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ.بچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا تعالی راضی ہو اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا.مقدمات میں سچی گواہی دو.اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جاوے.دنیا ختم ہونے پر آئی ہوئی ہے.(ملفوظات جلد سوم جدید ایڈیشن صفحه ۲۲۰ ۲۲۱) اب یہاں جس طرح آپ نے فرمایا کہ فتنہ کی بات نہ کرو.بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ صرف مزا لینے کے لئے عادتا ایک جگہ کی بات دوسری جگہ جا کر کر دیتے ہیں اور ان سے فتنہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے.مختلف قسم کی طبائع ہوتی ہیں، جس کے سامنے بات کی اور بات بھی اس کے متعلق کی تو قدرتی طور پر اس شخص کے دل میں اس دوسرے شخص کے بارہ میں غلط ر بخش پیدا ہوگی جس کی طرف منسوب کر کے وہ بات کی جاتی ہے اور وہ بات اسے پہنچائی گئی ہے.تو یہ بخش گومیرے نزدیک پیدا نہیں ہونی چاہئے ایسے فتنوں کو روکنے کا بھی یہ طریقہ ہے کہ جس کی طرف منسوب کر کے بات پہنچائی گئی ہو اس کے پاس جا کر وضاحت کر دی جائے کہ آیا تم نے یہ باتیں کی ہیں یا نہیں ، یہ بات میرے تک اس طرح پہنچی ہے.تو وہیں وضاحت ہو جائے گی اور پھر ایسے فتنہ پیدا کرنے والے لوگوں کی اصلاح بھی ہو جائے گی.تو بعض 187
دفعہ اس طرح بھی ہوتا ہے کہ ایسے لوگ فتنہ پیدا کرنے والے، خاندانوں کو خاندانوں سے لڑا دیتے ہیں.ایسے فتنہ کی باتوں سے خود بھی بچو اور فتنہ پیدا کرنے والوں سے بھی بچو.اور اگر ہو سکے تو ان کی اصلاح کی کوشش کرو.پھر شتر ایک تو براہ راست لڑائی جھگڑوں سے، گالی گلوچ سے پیدا ہوتا ہے ،اس سے فتنہ بھی پیدا ہوتا ہے.تو فرمایا کہ اگر تمہیں میرے ساتھ تعلق ہے اور میری اطاعت کا دم بھرتے ہو تو میری تعلیم یہ ہے کہ ہر قسم کے فتنہ اور شتر کی باتوں سے بچو.تم میں صبر اور وسعت حوصلہ اس قدر ہو کہ اگر تمہیں کوئی گالی بھی دے تو صبر کرو.پھر اس تعلیم پر عمل کر کے تمہارے لئے نجات کے راستے کھلیں گے.تم خدا تعالیٰ کے مقربین میں شامل ہو گے.کسی بھی معاملے میں مقابلہ بازی نہیں ہونی چاہئے.بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو.اور جو مرضی تمہیں کوئی کہہ دے تم محبت پیار اور خلوص سے پیش آؤ.ایسی پاک زبان بناؤ ، ایسی میٹھی زبان ہو، اخلاق اس طرح تمہارے اندر سے ٹپک رہا ہو کہ لوگ تمہاری طرف بچے چلے آئیں.تو تمہارے ماحول میں یہ پتہ چلے، ہر ایک کو یہ پتہ چل جائے کہ یہ احمدی ہے.اس سے سوائے اعلیٰ اخلاق کے اور کسی چیز کی توقع نہیں کی جاسکتی.تمہارے یہ اخلاق بھی دوسروں کو کھینچنے اور توجہ حاصل کرنے کا باعث بنیں گے.پھر یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ مقدمات میں ذاتی مفاد کی خاطر جھوٹی گواہیاں بھی دے دیتے ہیں، جھوٹا کیس بھی اپنا پیش کر دیتے ہیں.تو فرمایا کہ تمہارا ذاتی مفاد بھی تمہیں سچی گواہی دینے سے نہ روکے.بعض لوگ یہاں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی بعض دفعہ باہر آنے کے چکر میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں ، تو ان باتوں سے بھی بچو.188
جو صحیح حالات ہوں اس کے مطابق اپنا کیس داخل کرواؤ اور اس میں اگر مانا جاتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ واپس چلے جائیں.کیونکہ غلط بیانیوں کے باوجود بھی بعضوں کے کیس ریجیکٹ (Reject) ہو جاتے ہیں تو سچ پر قائم رہتے ہوئے بھی آزما کر دیکھیں انشاء اللہ فائدہ ہی ہوگا.یا اگر ریجیکٹ ہوں گے بھی تو کم از کم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث تو نہیں بنیں گے.آپس میں اخوت و محبت پیدا کرو اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرو پھر آپس میں محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو.ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہو جاؤ کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے.آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ.ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے.اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کرلو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ.ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنی باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ“.(ملفوظات جلد اول صفحه (۲۶۶ تا ۲۶۸ پھر آپ فرماتے ہیں: ” ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہئے.189
اور ان کو شکر کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑا بلکہ ان کی ایمانی قوتوں کو یقین کے درجہ تک بڑھانے کے واسطے اپنی قدرت کے صدہا نشان دکھائے ہیں.کیا تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایک بھی ایسا نہیں جس کو ہماری صحبت میں رہنے کا موقع ملا ہو اور اس نے خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ نشان اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ہو.ہماری جماعت کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے، خدا تعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو، نیک اعمال میں سنتی اور کسل نہ ہو کیونکہ اگر ستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت معلوم ہوتا ہے چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے.اگر اعمال صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت علی الخیرات کے لئے جوش نہ ہو تو پھر ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے.(ملفوظات جلد دوم - صفحه ۷۱۱۷۱۰، جدید ایڈیشن ) اس شرط بیعت میں جو دسویں شرط چل رہی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سے اس قدر تعلق جس کی مثال کسی دنیاوی رشتے میں نہ ملتی ہو پر اس قدر زور دیا ہے.جس کی وجہ بھی صرف اور صرف ہماری ہمدردی ہے.ہمیں تباہ ہونے سے بچانے کے لئے آپ نے فرمایا ہے کیونکہ سچا اسلام صرف اور صرف آپ کو ماننے سے مل سکتا ہے اور اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانا ہے تو لازماً ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کشتی میں سوار ہونا ہوگا.آپ فرماتے ہیں : ” اب میری طرف دوڑو کہ وقت ہے کہ جو شخص اس وقت میری طرف دوڑتا ہے میں اس کو اس سے تشبیہ دیتا ہوں کہ جو عین طوفان کے 190)
وقت جہاز پر بیٹھ گیا.لیکن جو شخص مجھے نہیں مانتا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ طوفان میں اپنے تئیں ڈال رہا ہے اور کوئی بچنے کا سامان اس کے پاس نہیں.سچا شفیع میں ہوں جو اس بزرگ شفیع کا سایہ ہوں اور اس کا ظل جس کو اس زمانہ کے اندھوں نے قبول نہ کیا اور اس کی بہت ہی تحقیر کی یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم.دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه (۲۳۳) یہ اس لئے فرمایا ہے کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے دو فائدے پھر آپ فرماتے ہیں: " غرض اس بہت سے جو میرے ہاتھ پر کی جاتی ہے دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ گناہ بخشے جاتے ہیں اور انسان خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق مغفرت کا مستحق ہوتا ہے.دوسرے مامور کے سامنے تو بہ کرنے سے طاقت ملتی ہے اور انسان شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے.یاد رکھو کہ اس سلسلہ میں داخل ہونے سے دنیا مقصود نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو کیونکہ دنیا تو گزرنے کی جگہ ہے وہ تو کسی نہ کسی رنگ میں گزر جائے گی.شب تنور گذشت و شب سمور گذشت.دنیا اور اس کے اغراض اور مقاصد کو بالکل الگ رکھو.ان کو دین کے ساتھ ہرگز نہ ملاؤ کیونکہ دنیا فنا ہونے والی چیز ہے اور دین اور اس کے ثمرات باقی رہنے والے.(ملفوظات جلد ششم صفحه ۱۴۵) 191)
اس زمانہ کا حصن حصین حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں پھر آپ فرماتے ہیں: ” اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی ، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں.میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے.مجھے کون پہچانتا ہے؟ صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں.اور مجھے اس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں.دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں.مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے.جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں.جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا.مگر جوشخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے.اور اس کی لاش 192
بھی سلامت نہیں رہے گی.مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندہ مطیع بن جاتا ہے.ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور میں اس میں ہوں.مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نفس مزکی کے سایہ میں ڈال دیتا ہے.تب وہ اس کے نفس کی دوزخ کے اندر اپنا پیر رکھ دیتا ہے تو وہ ایسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ گویا اس میں کبھی آگ نہیں تھی.تب وہ ترقی پر ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی روح اس میں سکونت کرتی ہے اور ایک تجلی خاص کے ساتھ رب العالمین کا استواء اس کے دل پر ہوتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اس کے دل پر اپنا عرش قائم کرتا ہے ) ” تب پرانی انسانیت اس کی جل کر ایک نئی اور پاک انسانیت اس کو عطا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ بھی ایک نیا خدا ہو کر نئے اور خاص طور پر اس سے تعلق پکڑتا ہے اور بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان اسی عالم میں اس کو مل جاتا " ہے.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۵.۳۴) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ہوئے تمام عہدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی تمام شرائط بیعت پر ہم مضبوطی سے قائم رہیں ، آپ کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی زندگی کو بھی جنت نظیر بنادیں اور اگلے جہان کی جنتوں کے بھی وارث ٹھہریں.اللہ تعالیٰ ہماری مددفرمائے.آمین.از خطبه جمعه ارشاد فرموده ۱۹ ستمبر ۲۰۰۳ء بمقام مسجد فضل لندن انگلستان) 193