Language: UR
اس کتاب میں اختصار کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کی مقدس زندگی کے متفرق پہلوؤ ں پر روایات کا باحوالہ انتخاب مرتب کیا ہےتا خدام و اطفال اس مختصر کتاب کے مطالعہ سے استفادہ کرکے اپنی زندگیاں ہادی کاملﷺ کی اتباع میں گزارنے کی راہیں اپنا سکیں۔
فہرست مضامین نمبر شمار باب اللہ تعالی کی گواہی مقصد بعثت سیرت نبوی کا جامع نقشہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا خراج تحسین حسن مجسم آغاز وحی خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت خشیت الہی نماز با جماعت تہجد ونوافل رمضان اور نفلی روزے محبت قرآن تو کل الی اللہ دعوت الی اللہ سچائی امانت مالی معاملات اور لین دین قرض کی ادائیگی حیا ایثار ایفائے عہد عدل و انصاف www.alislam.org نمبر شمار باب صفحہ نمبر صفحہ نمبر 1 23 24 25 26 2 27 3 28 5 29 7 30 11 31 13 32 17 33 19 34 22 35 25 36 27 37 29 38 30 39 32 40 34 41 35 42 37 43 38 44 40 45 42 46 46 دین کی راہ میں قربانیاں اور صبر و استقامت 47 شجاعت اور عزم 49 صفائی اور پاکیزگی عاجزی و انکساری اپنے ہاتھ سے کام کرنا اجتماعی کاموں میں شرکت حب الوطنی شکر گزاری سادگی اور بے تکلفی پاک زبان تبسم اور شکن ور شگفتگی وسعت حوصلہ معلم اخلاق خدمت والدین ازواج سے حسن سلوک بچوں پر شفقت حقوق ہمسایہ مہمان نوازی مریضوں کی عیادت غریبوں اور کمزوروں سے حسن سلوک ساتھیوں کا خیال دشمنوں سے عفو و درگزر دشمن کے مذہبی حقوق کا خیال جانوروں کے لئے رحمت 52 54 56 58 61 62 67 69 71 73 75 78 80 83 87 88 90 92 94 96 98 100
پیش لفظ انسانی زندگی بے شمار مسائل میں گھری ہوئی ہے.دُنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں ہر قوم اور ہر علاقے کے لوگ اپنے مسائل اور پریشانیوں کے حل کے لئے کسی نہ کسی راہبر کی تلاش میں ہیں.دُنیا میں بڑے بڑے ہیرو پیدا ہوئے لیکن کسی کی زندگی بھی اس کی قوم کو مکمل راہنمائی فراہم نہ کرسکی کیونکہ ان کے نظریات افراط و تفریط کا شکار تھے اور ویسے بھی محمد ودزمانہ تک ہی فائدہ دے سکتے تھے.خالق کائنات نے انسانی ضرورتوں کے پیش نظر آج سے چودہ سو سال قبل بنی نوع انسان کو قرآن کریم کی شکل میں ایک مکمل آئین عطا فرمایا جو انسانی ضرورت کے کسی بھی پہلو کونظر انداز نہیں کرتا اور جس عظیم ہستی پر یہ کتاب نازل فرمائی اسے بنی نوع انسان کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا کیونکہ آپ کی پوری زندگی در اصل قرآن کریم کی عملی تفسیر تھی.آنحضور رکھتا ہے.ملاقہ کی زندگی کا ہر پہلو بنی نوع انسان کی بھلائی کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور اپنے اندر سیرت النبی کے موضوع پر بہت بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں جن کا مطالعہ یقینا فائدہ مند ہے لیکن خیال کیا گیا کہ اس موضوع پر ایک بہت مختصر کتاب لکھی جائے جو ہر خادم اور طفل آسانی سے پڑھ سکے اور اپنی زندگی کو آنحضور ملالہ کی سیرت کی روشنی میں ڈھال سکے.خاکسار اس سلسلے میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کا شکر گزار ہے کہ انہوں نے نہایت محنت اور لگن سے آنحضور ملالہ کی سیرت کے چمن سے کچھ منتخب پھول خدام واطفال کے لئے چنے اور انہیں اس کتاب کی زینت بنایا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء یہ کتاب جہاں ہمارے نوجوانوں اور بچوں کے لئے مفید ہے وہاں دیگر افراد جماعت بھی اس کے مطالعہ سے یقیناً لطف اٹھا سکیں گے اور مستفید ہونگے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آنحضور مطالعہ کی سیرت و نصائح کے مطابق اپنی زندگیاں سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین www.alislam.org
شمائل محمد صلى الله عبدالسمیع خان دہلیز ہمارے سید و مولی آنحضرت مقالہ کا وجود باجود ایسا شجرہ طیبہ ہے جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور جڑیں فطرت انسانی کی پاتال میں پیوست ہیں.ہے.ہے.ایک ایسا سدا بہار درخت ہے جو ہر موسم اور ہر زمانہ میں اپنے رب کے اذن سے پھل دیتا آپ کی سیرۃ ایسا شجرہ مبارکہ ہے جو شرقی ہے نہ غربی بلکہ کل عالم اس کے فیض سے معطر ہوتا ایک ایسی بارش ہے جو ہر خشکی اور تری پر اترتی اور اسے نہال کر دیتی ہے.ایک ایسا نور ہے جو ہر تاریکی کو اجالے میں بدل دیتا ہے.ایک فرقان ہے جو حق و باطل میں بین فرق پیدا کر دیتا ہے.الغرض ایک ایسا لعلِ بے بہا ہے جس کے اوصاف لکھنے کے لئے سات سمندر سیاہی اور تمام درخت قلمیں بن جائیں تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہوتا.فطرت انسانی میں کتنا تنوع ہے.اس کی ضرورتیں ان گنت اور مسائل بے شمار ہیں.ملک ملک قوم قوم قبیلہ قبیلہ فرد فرد ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ذاتی اور اجتماعی اور پھر بین الاقوامی تعلقات کے حوالہ سے کامل راہبر کا متلاشی ہے.اور محمد رسول اللہ مطلقہ ہی کی ہستی وہ کامل ہستی ہے جو کسی کو مایوس نہیں کرتی.ہر ضرورت مند کا ہاتھ پکڑتی اور اسے روشنی دکھاتی ہے.زمین سے زمین اور پھر زمین سے آسمان تک راستوں کے مسافر کو ہر قدم پر زاد راہ مہیا کرتی ہے.مبارک وہ جو اس چاند سورج کو اپنے سینے میں اتار لے اور دل میں بسائے.محمد مصطفے متلاقہ کی پاک سیرت کا چمن ہزاروں شاخوں اور لاکھوں پھولوں سے سجا ہوا www.alislam.org
1 ہے.اس میں سے صرف کچھ ٹہنیوں کی آپ کے لئے تصویر کشی کی گئی ہے اور ہر ٹہنی سے صرف چند پھولوں کا انتخاب کیا گیا ہے.یہ دلکش مناظران پاک وجودوں نے بیان کئے ہیں جنہوں نے اس صاحب جلال و جمال کو اپنی ظاہری و باطنی آنکھوں سے دیکھا.جنہوں نے اس چشمہ رواں سے جام بھر بھر کر بیٹے اور اس حسن و احسان کی تابنا کی سے خود بھی روشن ہو کر ستارے بن گئے.رسول اللہ کی سیرت نوروں کا مجموعہ ہے.جس سے رنگارنگ شعاعیں پھوٹتی ہیں اور سیرت کے ہر واقعہ سے متعدد اخلاق کی طرف راہنمائی ہوتی ہے.مگر تکرار اور طوالت سے بچتے ہوئے ہر واقعہ ایک ہی عنوان کے تابع رکھا گیا ہے.اہلِ ذوق اور صاحبان نظر سرسری مطالعہ سے ہی اسی موضوع کے دیگر واقعات اسی کتاب میں تلاش کر سکتے ہیں.یہ روح پرور واقعات صرف پڑھنے کی چیز نہیں عمل میں ڈھالنے اور زندگی سنوارنے کا نسخہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس رحمت عالم کی سچی اتباع کی توفیق عطا فرمائے.جس کی پیروی سے خدا تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں کچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں.الله تعالی کی گواهـ صاحب خلق عنق إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ تو اے نبی ایک خلق عظیم پر مخلوق ومفطور ہے“ یعنی اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا ستم و کمل ہے کہ اس پر زیادت متصور نہیں.ترجمہ حضرت مسیح موعود.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 194 حاشیہ) رؤف و رحیم وجود لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيهِ مَاعَنِتُم حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُومِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (سورۃ التوبہ - آیت 128) ترجمہ:.(اے مومنو!) تمہارے پاس تمہاری ہی قوم کا ایک فردرسول ہو کر آیا ہے تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گذرتا ہے اور وہ تمہارے لئے خیر کا بہت بھوکا ہے.اور مومنوں کے ساتھ محبت کرنے والا (اور ) بہت کرم کرنے والا ہے.www.alislam.org
3 2 مقصد بعثت مکارم اخلاق کی تکمیل عَنْ أَبِي هُرَيرَةً قَالَ قَالَ رَسُولُ الله الله إِنَّمَا بُعِثْتُ لِا تَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت متلاقہ نے فرمایا مجھے تو اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے معبوث کیا گیا ہے.(سنن کبری للبیھقی - کتاب الشهادات بیان مکارم الاخلاق جلد 10 صفحہ 192 مطبع دائرہ المعارف العثمانیہ.حیدر آباد دکن 1355ھ ) اخلاق عین قرآن تھے حضرت سعد بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ:.میں حضرت عائشہ کے پاس گیا اور عرض کی کہ اے ام المومنین مجھے آنحضرت مالقہ کے اخلاق کے بارہ میں کچھ بتا ئیں.انہوں نے فرمایا.كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ آپ کے اخلاق قرآن کے عین مطابق تھے.کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق فرمایا ہے.سیرت نبوی کا جامع نقشه حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ملالہ سے آپ کی سنت کے بارہ میں پوچھا تو آپ نے فرمایا.الْمَعْرِفَةُ رَأْسُ مَالِي معرفت میرا سرمایہ ہے وَالعَقُلُ أَصْلُ دِينِي اور عقل میرے دین کی بنیاد وَالْحُبُّ أَسَاسِي اور محبت میری اساس وَالشَّوقُ مَرْكَبِي اور شوق میری سواری وَذِكرُ اللَّهِ أَنِيسِی اور ذکر الہی میرا مونس وَالرِّقَةُ كَنُزِى اور وثوق میرا خزانہ وَالْحُزْنُ رَفِيقي اور غم میرار فیق وَالعِلمُ سَلَاحِي اور علم میرا ہتھیار وَالصَّبْرُ رِدَائي اور صبر میری چادر وَالرَّضَاءُ غَنِيمَتِي اور رضا میری غنیمت وَالعَجْزُ فَخْرِى اور عاجزی میرافخر وَالزُّهدُ حِرفَتِي اور زھد میرا پیشہ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ “ وَاليَقينُ قُوَّتِي اور یقین میری قوت (مسند احمد بن حنبل.باقی مسند الانصار.حدیث نمبر 24460) وَالصِّدْقُ شَفِيعِي اور صدق میرا شفیع وَالطَّاعَةُ حَسْبِي اور اطاعت الہی میرا حسب وَالْجِهَادُ خُلُقِى اور جہاد میر اخلق وَقُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوةِ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے www.alislam.org
4 وَثَمُرَةُ فُؤادِي فِي ذِكْرِهِ اور ذکر الہی میرے دل کا پھل ہے وَغَمِّي لَا جَلٍ أُمَّتِي اور میراغم میری امت کے لئے وَشَوْقِي إِلَى رَبِّي عَزَّوَجَلَّ اور میرا شوق اپنے رب عزوجل کی طرف ہے www.alislam.org الشفاء لقاضی عیاض بن موسیٰ صفحہ 81) 5 حضرت مسیح موعودعليه الصلواة والسلام کا خراج تحسین رسول اللہ ملاقہ کا اخلاقی اعجاز اخلاقی حالت ایک ایسی کرامت ہے جس پر کوئی انگلی نہیں رکھ سکتا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے رسول اللہ صل اللہ کو سب سے بڑا اور قومی اعجاز اخلاق ہی کا دیا گیا جیسے فرمایا انَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ.یوں تو آنحضرت صلعم کے ہر ایک قسم کے خوارق قوت ثبوت میں جملہ انبیا علیہم السلام کے معجزات سے بجائے خود بڑھے ہوئے ہیں مگر آپ کے اخلاق اعجاز کا نمبر ان سب سے اول ہے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ نہیں بتلا سکتی اور نہ پیش کر سکے گی.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 89) اخلاق الہیہ کا کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک عظیم الشان کامیاب زندگی ہے.آپ کیا بلحاظ اپنے اخلاق فاضلہ کے اور کیا بلحاظ اپنی قوت قدسی اور عقد ہمت کے اور کیا بلحاظ اپنی تعلیم کی خوبی اور تکمیل اور کیا بلحاظ اپنے کامل نمونہ اور دعاؤں کی قبولیت کے.غرض ہر طرح اور ہر پہلو میں چمکتے ہوئے شواہد اور آیات اپنے ساتھ رکھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ایک غیبی سے غیبی انسان بھی بشرطیکہ اس کے دل میں بیجا غصہ اور عداوت نہ ہو صاف طور پر مان لیتا ہے کہ آپ تَخَلَّقُوا بِاخْلَاقِ اللہ کا کامل نمونہ اور کامل انسان ہیں.“ (الحکم 10 اپریل 1902ء)
7 6 اے پاک اخلاق والے إِنَّا نُطِيْعُ مُحَمَّداً خَيْرَ الْوَرى نُوْرَ الْمُهَيْمِنِ دَافِع الظلماء يَاطَيبَ الْأَخْلَاقِ وَالْأَسْمَاء افَانتَ تُبْعِدُنا مِنَ الآلَاء ہم محمد رسول اللہ مطلقہ کی پیروی کرتے ہیں جو تمام مخلوق سے بہتر ہیں جو خدائے مھیمن کا نور اور تاریکیوں کو دور کرنے والے ہیں.اے پاک اخلاق اور پاک ناموں والے کیا آپ ہمیں اپنی نعمتوں سے محروم رکھیں گے.حسینان انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 268 280) ز ہے خلق کامل ہوئے شرمگیں جو دیکھا وہ حسن اور وہ نور جہیں پھر اس وہ پر اخلاق اکمل تریں کہ دشمن بھی کہنے لگے آفریں خلق کامل زہے حسن تمام رہے علیک الصلوة علیک السلام (حضرت میر محمد اسماعیل صاحب) 1 حسن مجسم ظاہری حسن کا بے مثال نمونہ حضرت حسن بن علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ھالہ سے آنحضرت ملالہ کا حلیہ پوچھا کیونکہ وہ آنحضرت صل اللہ کا حلیہ بیان کرنے میں بڑے ماہر تھے اور میں چاہتا تھا کہ وہ میرے پاس حضور کے حلیہ کے متعلق ایسی باتیں بیان کریں جنہیں میں پہلے باندھ لوں.حضرت حسن فرماتے ہیں کہ میرے ماموں نے حضور کا حلیہ مجھ سے کچھ یوں بیان فرمایا:.آنحضرت ملالہ کی آنکھوں اور آپ کے سینہ میں ایسی کشش تھی اور ایسا حسن تھا کہ جو دیکھنے والوں کو مرعوب کر لیتا تھا.آپ کا چہرہ مبارک بھرا ہوا تھا.شرافت اور عظمت کے آثار اس پر نمایاں تھے اور رعب و وجاہت اس سے ٹپکی پڑتی تھی.وہ چاند کی طرح چمکتا تھا اور حسن اس میں موجیں مارتا ہوا دکھائی دیتا تھا.آپ نہ تو کوتاہ قد تھے نہ حد سے زیادہ لمبے بلکہ آپ کا قد بہت مناسب اور درمیانہ تھا.سر بڑا تھا بال گھنے تھے جو کانوں کی لو تک پہنچتے تھے لیکن اس سے نیچے نہیں گرتے تھے.ان میں قدرتی طور پر ایسا سنوار پایا جاتا تھا کہ وہ کبھی بھی بکھرتے یا پراگندہ نہیں ہوتے تھے اور انہیں کنگھی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی.بعض دفعہ آپ کے بالوں میں خود بخود مانگ پڑ جاتی تھی جو نمایاں ہوتی تھی ورنہ حضور خود عام طور پر بالوں میں مانگ نہیں نکالتے تھے.آپ کا رنگ سفید اور کھلتا ہوا تھا.پیشانی کشادہ تھی.ابر و باریک www.alislam.org
9 8 لیکن بھرے ہوئے لمبے ہلالی تھے.دونوں ابروؤں کے درمیان فاصلہ تھا.غصہ کی حالت میں ابروؤں کے اس درمیانی فاصلہ میں ماتھے پر ایک رگ ابھر کر نمایاں ہو جاتی تھی.ناک پتلی اور کھڑی ہوئی تھی جو سرسری نظر سے دیکھنے والوں کو اصل سے زیادہ اٹھی ہوئی نظر آتی تھی.اس پر نور چھلکتا تھا.داڑھی گھنی تھی.رخسار نرم اور ملائم تھے.دہانہ کشادہ تھا.دانت خوب چمکتے تھے وہ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے نہیں تھے بلکہ ان ایک میں قدرتی فاصلہ تھا جو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا.اور آپ کی لمبی گردن بس اس کا حسن نہ پوچھوا سے تو خدا نے اپنے ہاتھ سے گھڑا تھا اور وہ چاند کی طرح چمکتی تھی.جسم کی عمومی بناوٹ بہت موزوں تھی.وہ بھرا بھرا لیکن بہت متناسب تھا.پیٹ کمر کے ساتھ لگا ہوا تھا اور سینہ پیٹ کے ساتھ ہموار تھا.آپ کا سینہ چوڑا اور فراخ تھا.آپ کے جوڑ مضبوط بھرے ہوئے اور نمایاں تھے.جلد چمکتی ہوئی نازک اور ملائم تھی.چھاتی اور پیٹ پر بال نہیں تھے ہاں بالوں کی ایک بار یک دھاری سینے کے نیچے سے ناف تک چلی گئی تھی.سینہ کے اوپر کے حصہ اور کاندھوں پر اسی طرح کلائی سے کہنیوں تک ہاتھوں پر خوب بال تھے.ہاتھ (یعنی کلائی سے کہنیوں تک بازوؤں کے حصے ) لمبے تھے دست چوڑے تھے انگلیاں لبی تھیں ہاتھ اور پاؤں نرم اور گوشت سے خوب بھرے ہوئے تھے.تلوے زمین کے ساتھ ہموار نہیں تھے بلکہ درمیان سے ان میں خم تھا.پیر ایسے چکنے اور ملائم تھے کہ جب ان پر پانی پڑتا تھا تو ٹھہرتا نہیں تھا فوری بہ جاتا تھا.چال ایسی سبک تھی جیسے ڈھلوان پر سے اتر رہے ہوں لیکن بڑی ہی پر وقار.اور باوجود تیزی کے قدم زمین پر ٹھہراؤ سے پڑتا تھا.چہرہ اٹھا کر نہیں چلتے تھے قدموں پر نگاہ رکھ کر چلتے تھے، اکڑ کر اور گھٹتے نہیں تھے.قدم اٹھا کر چلتے تھے.جب کسی طرف رخ پھیرتے تھے تو پورا رخ پھیرتے تھے.نظر ہمیشہ نیچی رکھتے تھے یوں لگتا جیسے فضا کی نسبت زمین پر نظر زیادہ پڑتی تھی.عادتا نیم وانظروں سے نگاہ ڈالتے اور جب صحابہ کے ساتھ چل رہے ہوں تو ہمیشہ انہیں اپنے سے آگے رکھتے تھے.جب کسی سے آمنا سامنا ہوتا تو ہمیشہ آپ ہی سلام میں پہل کیا کرتے تھے.“ (شمائل الترمذی باب فی خلق رسول اللہ ) دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ آپ کی آنکھیں بہت خوبصورت اور سیاہ تھیں.سرمہ نہ بھی لگائے ہوئے ہوں تو لگتا یہی تھا کہ سرمہ آنکھوں میں پڑا ہوا ہے.آنکھوں کی سفیدی میں ہلکی سی سرخی بھی جھلکتی تھی.چہرہ مبارک پر ہمیشہ بشاشت ہوتی تھی اور مسکراہٹ بکھری رہتی تھی.فرفر کر کے کلام نہیں کرتے تھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے.گفتگو میں سمجھانے کا انداز نمایاں ہوتا تھا اور بات کو اکثر دہرایا کرتے تھے تاکہ دوسرے کے ذہن نشین ہو جائے.کوہ وقار تھے کسی ایسی حرکت کا سرزد ہونا ناممکن تھا جو دوسروں میں کراہت پیدا کرے.ہر ادا دل کو موہ لینے والی تھی.ہر انداز میں حسن ٹپکتا تھا.آپ نہایت پرکشش شخصیت کے مالک تھے.زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جس میں حسن نے اپنا کمال نہ دکھایا ہو.چہرہ حسین تھا جسم مرقع حسن تھا.انداز بیاں سحر کن تھا.نگاہ مبارک اٹھتی تھی تو فضا میں حسن بکھر جاتا تھا.اٹھنا بیٹھنا سونا.آپ کی مجلس آپ کی خلوت سب کچھ ہی تو حسن میں ڈوبا ہوا تھا.یہ تو ایسی داستان ہے جس کا بیان ختم نہیں ہوسکتا.www.alislam.org
11 10 چاند سے زیادہ حسین حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ہم باہر کھلے میدان میں بیٹھے تھے حضور ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اور ایک سرخ لباس زیب تن کئے ہوئے تھے.چاندنی رات تھی چودھویں کا چاند تھا.خوب روشن بڑا حسین، لیکن میری نگاہ بار بار حضور کے چہرہ کی طرف اٹھتی تھی.حضور آج بہت ہی پیارے لگ رہے تھے.حضور کا حسن تو ہمیں ہمیشہ ہی گھائل کئے رکھتا تھا لیکن آج تو یہ کچھ اور ہی رنگ دکھا رہا تھا.میں سوچتا تھا کیا اس چہرہ سے زیادہ اور کوئی چیز حسین ہو سکتی ہے.پھر میری نگاہ چاند پر پڑی پھر میں نے حضور کے چہرہ کو دیکھا پھر چاند کو دوبارہ دیکھا پھر حضور کے رخ پر نگاہ گڑ گئی.اف ! آپ کتنے حسین لگ رہے تھے میں نے کہا نہیں اے چاند تیرا حسن اس حسن کے آگے ماند پڑ گیا ہے.(شمائل الترمذی باب خلق رسول اللہ ) 2 آغاز وحی حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ سب سے پہلے حضور ملالہ کو کچی خوا ہیں آنے لگیں جو خواب بھی آتی وہ نمود صبح کی طرح روشن اور صحیح نکلتی.حضور کو خلوت پسند تھی اور غارحرا میں جا کر عبادت کرتے تھے.آپ کچھ سامان اپنے ہمراہ لے جاتے جب ختم ہوجاتا تو دوبارہ گھر آ کر کھانے پینے کا سامان لے جاتے.اسی اثناء میں آپ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہا پڑھو آپ نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا.فرشتے نے آپ کو زور سے بھینچا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھو.حضور نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا.فرشتہ نے دوسری مرتبہ پھر بھینچا اور پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھو.حضور نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا.فرشتہ نے تیسری مرتبہ پھر دبایا اور چھوڑ دیا اور کہا اپنے اس پر وردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے انسان کو پیدا کیا.پڑھو در آں حالیکہ تیرا رب عزت والا اور کرم والا ہے.اس کے بعد حضور ملالہ گھر واپس آئے آپ ملالہ کا دل لرز رہا تھا.اپنی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ کے پاس آکر کہا مجھے کمبل اوڑھا دو چنانچہ انہوں نے کمبل اوڑھا دیا.جب آپ کی یہ گھبراہٹ جاتی رہی تو حضرت خدیجہ کو سارا واقعہ بتایا اور اس خیال کا اظہار کیا کہ میں اپنے متعلق ڈرتا ہوں ( کہ میں یہ اہم کام کر بھی سکوں گا یا نہیں ) اس پر حضرت خدیجہ نے کہا کہ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا.آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کو اٹھاتے ہیں.جو خوبیاں معدوم ہو چکی ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں، ضرورت حقہ میں امداد کرتے ہیں.پھر حضرت خدیجہ ان کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں یہ حضرت خدیجہ کے چچازاد بھائی تھے.اور زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے.عبرانی جانتے تھے اور عبرانی انا جیل لکھ پڑھ سکتے تھے وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے بینائی بھی جاتی رہی تھی.حضرت خدیجہ نے www.alislam.org
13 12 ورقہ سے کہا اپنے بھتیجے کی بات سنو.چنانچہ ورقہ نے کہا میرے بھتیجے تم نے کیا دیکھا ہے.حضور نے سارا واقعہ بیان فرمایا.اس پر ورقہ نے کہا یہ وہی روح القدس ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوا.کاش، جس وقت تیری قوم تجھے نکالے گی.اس وقت میں مضبوط جوان ہوتا یا زندہ رہتا تو میں پوری طاقت سے آپ کی مدد کرتا.اس پر آنحضرت ملالہ نے حیران ہو کر پوچھا کیا یہ مجھے نکال دیں گے؟ انہوں نے کہا جس آدمی کو بھی یہ مقام ملا ہے جو آپ کو دیا گیا ہے.اس سے ضرور دشمنی کی گئی.اگر مجھے وہ دن دیکھنا نصیب ہوا تو میں پوری مستعدی سے آپ کی مدد کروں گا لیکن افسوس کہ ورقہ اس کے بعد جلد ہی فوت ہو گئے.( صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی ) -3 خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت محامد الہیہ کا مورد صلى الله حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنے کامد اور شاہ کے معارف اس طور پر کھولے ہیں کہ مجھ سے قبل کسی اور شخص پر اس طرح نہیں کھولے گئے.( صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ بنی اسرائیل باب ذرية من حملنا ) استغفار اور حمد کی کثرت حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ سورۃ نصر نازل ہونے کے بعد جب بھی آپ نماز پڑھتے تو اس میں بکثرت یہ دعا مانگتے.اے ہمارے پروردگار! تو پاک ہے ہم تیری حمد کرتے ہیں اے میرے اللہ ! تو مجھے بخش دے.جوش توحید ( صحیح بخاری کتاب التفسير سورة نصر ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت مطلقہ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ آیت پڑھی:.( ترجمہ ) آسمان لیٹے ہوئے ہیں اس کے داہنے ہاتھ میں.وہ پاک ہے اور بہت بلندان شریکوں سے جولوگ اس کے مقابل میں ٹھہراتے ہیں.“ www.alislam.org
15 14 حضور نے کہا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.میں بڑی طاقتوں والا اور نقصان کی تلافی کرنے والا ہوں.میرے لئے ہی بڑائی ہے.میں بادشاہ ہوں میں بلندشان والا ہوں.“ اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی ذات کی مسجد اور بزرگی بیان کرتا ہے.آنحضرت متلاقہ ان کلمات کو بار بار بڑے جوش سے دہرا رہے تھے یہاں تک کہ منبر لرز نے لگا اور ہمیں خیال ہوا کہ کہیں منبر گر ہی نہ جائے.غیرت توحید صلى الله ( مسند احمد بن جنبل جلد 2 ص 88) حضرت براہ کہتے ہیں کہ رسول کریم متعاقہ نے پیادہ فوج کے پچاس آدمیوں پر احد کے دن حضرت عبد اللہ بن جبیر کو مقرر کیا اور فرمایا کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ ہمیں جانور نوچ رہے ہیں تب بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہلنا جب تک تم کو میں کہلا نہ بھیجوں.اور اگر تم یہ معلوم کر لو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے اور ان کو مسل دیا ہے تب بھی اس وقت تک کہ تمہیں کہلا نہ بھیجا جائے اپنی جگہ نہ چھوڑنا.اس کے بعد جنگ ہوئی اور مسلمانوں نے کفار کو شکست دے دی.اس بات کو دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے کہا کہ اے قوم غنیمت کا وقت ہے، غنیمت کا وقت ہے تمہارے ساتھی غالب آگئے پھر تم کیا انتظار کر رہے ہو اس پر عبد اللہ بن جبیر نے انہیں کہا کہ کیا تم رسول کریم ملالہ کا حکم بھول گئے ہو.انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم بھی ساری فوج سے مل کر غنیمت حاصل کریں گے.جب لشکر سے آکر مل گئے تو ان کے منہ پھیرے گئے اور شکست کھا کر بھاگے اسی کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ یاد کرو جب رسول تم کو پیچھے کی طرف بلا رہا تھا اور رسول کریم متلاقہ کے ساتھ سوائے بارہ آدمیوں کے اور کوئی نہ رہا اس وقت کفار نے ہمارے ستر آدمیوں کا نقصان کیا اور رسول کریم ملاقہ اور آپ کے اصحاب نے جنگ بدر میں کفار کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا.ستر قتل ہوئے تھے اور ستر قید کئے گئے تھے.غرضیکہ جب لشکر پراگندہ ہو گیا اور رسول کریم کے گرد صرف ایک قلیل جماعت ہی رہ گئی تو ابوسفیان نے پکار کر کہا کہ کیا تم میں محمد معلاقہ ہے اور اس بات کو تین بار دہرایا لیکن رسول کریم نے صحابہ کو منع کر دیا کہ وہ جواب دیں.اس کے بعد ابوسفیان نے تین دفعہ بآواز بلند کہا کہ کیا تم میں ابن ابی قحافہ (حضرت ابوبکر) ہے.اس کا جواب بھی نہ دیا گیا تو اس نے پھر تین دفعہ پکار کر کہا کہ کیا تم میں ابن الخطاب (حضرت عمر) ہے.پھر بھی جب جواب نہ ملا تو اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ یہ لوگ مارے گئے ہیں.اس بات کو سن کر حضرت عمر برداشت نہ کر سکے اور فرمایا کہ اے خدا کے دشمن تو نے جھوٹ کہا ہے جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں اور وہ چیز جسے تو نا پسند کرتا ہے ابھی باقی ہے.اس جواب کو سن کر ابوسفیان نے کہا کہ آج کا دن بدر کا بدلہ ہو گیا.اور لڑائیوں کا حال ڈول کا سا ہوتا ہے تم اپنے مقتولوں میں بعض ایسے پاؤ گے کہ جن کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں گے.میں نے اس بات کا حکم نہیں دیا تھا لیکن میں اس بات کو نا پسند بھی نہیں کرتا.پھر فخریہ کلمات بآواز بلند کہنے لگا اُعْلُ هُبَلَ اُعْلُ هُبَل یعنی اے ہبل ( بت) تیرا درجہ بلند ہو، اے ہبل تیرا درجہ بلند ہو.اس پر رسول کریم ملالہ نے فرمایا کہ تم اس کو جواب کیوں نہیں دیتے.صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم کیا کہیں ؟ آپ نے فرمایا کہو : اللہ اعلی واجل ” خدا تعالیٰ ہی سب سے بلند رتبہ اور سب سے زیادہ شان والا.ابوسفیان نے یہ سن کر کہا ”ہمارا تو ایک بت عزمی ہے اور تمہارا کوئی عز کی نہیں“.جب صحابہ خاموش رہے تو رسول کریم نے فرمایا کہ کیا تم جواب نہیں دیتے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول لا ہے.66 www.alislam.org
17 16 اللہ ہم کیا کہیں ؟ آپ نے فرمایا انہیں کہو کہ:.اللہ مولا نا ولا مولیٰ لکم خدا ہمارا دوست و کارساز ہے اور تمہارا کوئی دوست نہیں.“ ( صحیح بخاری کتاب الجہاد باب ما يكره من التنازع) اطاعت خداوندی آپ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک کہ خدا کی طرف سے حکم نہ ہوا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں ہم ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ عین دو پہر کے وقت رسول کریم تشریف لائے اور سر لپیٹا ہوا تھا.آپ اس وقت کبھی نہیں آیا کرتے تھے.حضرت ابوبکر نے فرمایا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ اس وقت کسی بڑے کام کے لئے آئے ہوں گے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم نے اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر گھر میں آئے اور فرمایا کہ جولوگ بیٹھے ہیں ان کو اٹھا دو.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول الله ، واللہ وہ آپ کے اہل ہی تو ہیں.آپ نے فرمایا اچھا مجھے ہجرت کا حکم ہوا ہے.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا مجھے آپ کی مصاحبت نصیب ہو سکتی ہے.آپ نے ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے فرمایا ”ہاں“.(بخاری کتاب المناقب باب هجرة النبي) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک حکم نہ ہوا اور آخر وقت تک اس بات پر قائم رہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرنا.-4 خشیت الہی بدر میں تضرع بدر کے دوران جب کہ دشمن کے مقابلہ میں آپ اپنے جاں نثار بہادروں کو لے کر کھڑے ہوئے تھے.تائید الہی کے آثار ظاہر تھے.کفار نے اپنا قدم جمانے کے لئے پختہ زمین پر ڈیرے لگائے تھے اور مسلمانوں کے لئے ریت کی جگہ چھوڑ دی تھی لیکن خدا نے بارش بھیج کر کفار کے خیمہ گاہ میں کیچڑ ہی کیچڑ کر دیا اور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہوگئی.اسی طرح اور بھی تائیدات سماویہ ظاہر ہورہی تھیں.لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کا خوف ایسا آنحضرت پر غالب تھا کہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غنا کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور بے تاب ہو کر اس کے حضور میں دعا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو فتح دے.آپ یہ دعا کر رہے تھے اور اس الحاح کی کیفیت میں آپ کی چادر بار بار کندھوں سے گر جاتی تھی.اللهمّ اِنّى اَنْشُدُ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ اللَّهُمَّ إِن تَهْلِكَ هَذِهِ الْعِصَابَةُ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدُ فِي الْأرض (تاریخ طبری) اے میرے خدا اپنے وعدہ کو اپنی مدد کو پورا فرما.اے میرے اللہ اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج ہلاک ہو گئی تو دنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا.اس وقت آپ اس قدر کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپ سجدہ میں گر جاتے اور کبھی کھڑے ہو کر خدا کو پکارتے تھے اور آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر پڑتی تھی.حضرت علی کہتے ہیں مجھے لڑتے لڑتے آنحضرت کا خیال آتا اور میں دوڑ کے آپ کے پاس پہنچ جاتا تو www.alislam.org
19 18 دیکھتا کہ آپ سجدہ میں ہیں اور آپ کی زبان پر یاحی یا قیوم کے الفاظ جاری ہیں.حضرت ابوبکر جوش فدائیت میں آپ کی اس حالت کو دیکھ کر بے چین ہو جاتے اور عرض کرتے یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ گھبرائیں نہیں.اللہ ضرور اپنے وعدے پورے کرے گا مگر اس مقولہ کے مطابق کہ ہر کہ عارف تر است ترساں تر برابر دعا وگریہ وزاری میں مصروف رہے.آپ کے دل میں خشیت الہی کا یہ گہرا احساس مضمر تھا کہیں خدا کے وعدوں میں کوئی ایسا پہلو مخفی نہ ہو جس کے عدم علم سے تقدیر بدل جائے.( صحیح بخاری کتاب الجہاد.باب في درع النبی) -5 نماز با جماعت دل بایار حضرت اسود بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا کہ آنحضرت مقالہ گھر میں کیا کیا کرتے تھے ؟ حضرت عائشہ نے کہا.آپ کام کاج میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو باہر نماز کے لئے چلے جاتے.( بخاری کتاب الاذان باب ما کان فی حاجتہ اهله ) قیام نماز حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ ایک شام مجھے نبی کریم متلاقہ کا مہمان ہونے کی سعادت حاصل ہوئی.حضور نے میرے لئے گوشت کا ایک ٹکڑا بھنوایا پھر حضور چھری کے ساتھ گوشت کے ٹکڑے کاٹ کر مجھے دینے لگے.ہم کھانا کھا رہے تھے کہ حضرت بلال نے آ کر نماز کی اطلاع دی.حضور نے چھری ہاتھ سے رکھ دی اور فرمایا اللہ بلال کا بھلا کرے اس کو کیا جلدی ہے ( کچھ انتظار کیا ہوتا ) اور نماز کے لئے تشریف لے گئے.(ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب ترک الوضوء ) آنکھوں کی ٹھنڈک حضرت علیؓ نے حضور کی طبیعت کے بارہ میں سوال کیا تو حضور نے انہیں ایک لمبا جواب دیا جس میں اللہ سے اپنی محبت کی کیفیات کا ذکر تھا اور جواب کے آخر میں فرمایا:.وَقُرَّةُ عَيْنِي www.alislam.org
21 20 فِي الصَّلَاةِ میرا حال کیا پوچھتے ہو میرا حال یہ ہے کہ میری آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے میری رُوح کو سکون ملتا ہے تو اُن لمحات میں جن میں میں اپنے مولیٰ کے حضور نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں.( الشفاء لقاضی عیاض) ہرلحہ نماز کا انتظار رہتا تھا.ہر وقت طبیعت نماز کے لئے بے چین رہتی تھی.دل مسجد میں ہی اٹکا رہتا تھا.حضرت بلال کو فرمایا کرتے تھے:.يَا بِلَالُ ارِحُنَا بِالصَّلوةِ“ اے بلال نماز کی اطلاع کر کے ہمیں خوشی پہنچاؤ ( مسند احمد بن حنبل جلد اول حدیث نمبر 364) نماز کا منظر حضرت عبد اللہ بن مشیر سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ملالہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے.دوران نماز گریہ وزاری کی وجہ سے آپ کے سینہ سے ایسی آواز نکلتی تھی جیسے چکی چلنے سے آتی ہے.(سنن ابی داؤد كتاب الصلوۃ باب البكاء في الصلوة ) نماز کی تڑپ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نماز پڑھانے پر قادر نہ تھے اس لئے آپ نے حضرت ابو بکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا.جب ابوبکر نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپ نے کچھ آرام محسوس کیا اور نماز کے لئے نکلے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہوگئی تو آپ نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی پس آپ حجرے سے مسجد کی طرف نکلے اور دو آدمی آپ کو سہارا دے کر لے جا رہے تھے اور اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے آپ کے قدم زمین سے گھسٹتے جاتے تھے.آپ کو دیکھ کر حضرت ابوبکر نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ آئیں.اس ارادہ کو معلوم کر کے رسول کریم متلاقہ نے ابو بکر کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو.پھر آپ کو وہاں لایا گیا اور آپ حضرت ابو بکر کے پاس بیٹھ گئے اس کے بعد رسول کریم نے نماز پڑھنی شروع کی اور حضرت ابوبکر نے آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی اور باقی لوگ حضرت ابوبکر کی نماز کی اتباع کرنے لگے.( صحیح بخاری کتاب الاذان باب حد المریض) آخری وصیت حضرت علی اور حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ملالہ کی آخری وصیت اور آخری پیغام جبکہ آپ جان کنی کے عالم میں تھے اور سانس اکھڑ رہا تھا یہ تھا کہ:.الصَّلوةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ» فرمایا.نماز اور غلاموں کے حقوق کا خیال رکھنا یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہترین خلاصہ ہے جو رسول اللہ نے اپنی امت کے لئے تجویز (سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا باب هل اوصی رسول الله ) www.alislam.org
23 22 -6 تہجد ونوافل پاؤں سوج جاتے نماز با جماعت کے علاوہ آنحضور متلاقہ باقاعدگی سے نوافل اور نماز تہجد کا التزام فرمایا کرتے تھے.جب سب دنیا سورہی ہوتی آپ اپنے بستر کو چھوڑ کر بے قرار دل کے ساتھ اپنے خالق و مالک اور محبوب ازلی کے حضور حاضر ہو جاتے.اور اپنی مناجات پیش کرتے.گویا در بار خاص لگ جاتا جس میں آپ ہوتے اور سامنے آپ کا رب ہوتا.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ملالہ نے فرمایا کہ ہمارا رب جو بڑی برکت اور بڑی شان والا ہے ہر رات جب اس کا ایک تہائی حصہ باقی رہتا ہے اس دنیاوی آسمان پر نازل ہوتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے.کون ہے جو مجھے پکارے کہ میں اسے جواب دوں.کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تا میں اسے عطا کروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تا میں اسے بخش دوں.( صحیح مسلم کتاب صلوة المسافرين باب الترغیب فی الدعاء الذکر فی آخر الليل) آنحضرت ملاقہ رات کے وقت اس قدر دعائیں کرتے اور اس قدر لمبی نماز پڑھتے کہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ بعض دفعہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے اور پھٹنے ( بخاری کتاب التهجد باب قیام النبی متلاقه ) لگتے.ان کی شان تو اور ہے رات کا وقت ہے.حضرت عائشہ کی آنکھ کھلتی ہے وہ آپ کو اپنے بستر پر نہیں پاتیں.وہ کہتی ہیں ایک رات (میری آنکھ کھلی ) تو میں نے حضور کو اپنے بستر پر نہ پایا.مجھے خیال آیا کہ حضور مجھے چھوڑ کر کسی اور بیوی کے پاس چلے گئے ہیں.پھر میں حضور کو تلاش کرنے لگی تو کیا دیکھتی ہوں کہ حضور (نماز میں ) رکوع میں ہیں (یا شاید ) آپ اس وقت سجدہ کر رہے تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ تو اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ ہر قسم کی بزرگی کا حامل ہے ( تو میرا رب ہے ) تیرے سوا اور کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اے اللہ جو کچھ میں لوگوں سے چھپ کر کرتا ہوں اور جو کچھ میں ان کے سامنے کرتا ہوں ان میں سے ہر عمل کو اپنی رحمت اور مغفرت سے ڈھانپ لے.حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے حضور کو جب نماز میں ) اس طرح اپنے مولیٰ کے حضور دعا کرتے دیکھا تو مجھے اپنی حالت پر افسوس ہوا اور میں نے دل ہی دل میں کہا تم کیا سمجھ بیٹھیں خدارا ان کی تو شان ہی کچھ اور ہے.(نسائی کتاب عشرة النساء باب الغيرة وكتاب الصلوة باب الدعاء في السجود) عجیب بات حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ آپ مجھے آنحضور ملالہ کی کوئی ایسی بات بتائیں جو آپ کو بہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہو.اس پر حضرت عائشہ روپڑیں اور ایک لمبے عرصہ تک روتی رہیں اور جواب نہ دے سکیں پھر فرمایا کہ آپ کی تو ہر بات ہی عجیب تھی کس کا ذکر کروں اور کس کا نہ کروں.ایک رات میرے ہاں باری تھی حضور میرے پاس تشریف لائے بستر میں داخل ہوئے اور فرمایا اے عائشہ کیا مجھے اس بات کی اجازت دیں گی کہ میں اپنے رب کی عبادت میں یہ رات گزاروں.www.alislam.org
25 25 24 میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یقیناً مجھے تو آپ کا قرب پسند ہے اور آپ کی خوشنودی مقصود ہے میں آپ کو خوشی سے اجازت دیتی ہوں.اس پر حضور اٹھے اور گھر میں لٹکے ہوئے ایک مشکیزہ کی طرف گئے اور وضو کیا پھر آپ نماز پڑھنے لگے اور قرآن کا کچھ حصہ تلاوت فرمایا.آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی پھر آپ بیٹھ گئے اور خدا کی حمد اور تعریف کی اور پھر رونا شروع کر دیا پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور پھر رونے لگے یہاں تک میں نے دیکھا کہ آپ کے آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی اور اسی حال میں وہ رات گزرگئی اور جب صبح کے وقت حضرت بلال نماز کے لئے آپ کو بلانے آئے تو اس وقت بھی آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ رور ہے ہیں کیا آپ کے متعلق اللہ نے یہ خوشخبری نہیں دی وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَاتَقدَّم مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ پھر آپ کیوں روتے ہیں.آپ نے فرمایا اے بلال کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.( تفسیر کشاف زیر آیت ان فی خلق السموات والارض......حسن وطوالت کا نہ پوچھ حضرت ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ رسول کریم صل اللہ رمضان میں رات کو کتنی رکعات پڑھا کرتے تھے.انہوں نے فرمایا:.رسول کریم صتلاقہ رمضان اور اس کے علاوہ بھی رات کو گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے.پہلے چار رکعات پڑھتے اور ان کے حسن اور طوالت کے بارہ میں نہ پوچھ.پھر چار رکعات پڑھتے اور ان کے حسن اور طوالت کا بھی کیا کہنا.حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں.فرمایا:.اے عائشہ میری آنکھیں بظاہر سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا.(بخاری کتاب اتجد باب قیام النبی بابیل) -7 رمضان اور نفلی روزے تیز ہوائیں حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ملالہ لوگوں میں سب سے زیادہ نیکیاں بجالاتے تھے مگر رمضان میں تو یہ سلسلہ اور بھی زیادہ ہو جاتا تھا.جبریل رمضان کی ہر رات آپ کے پاس آتے تھے اور رسول کریم ملالہ جبریل کے ساتھ مل کر قرآن کا دور کیا کرتے تھے.اور ان دنوں رسول اللہ صل اللہ تیز ہواؤں سے بھی زیادہ نیکیوں میں بڑھ جاتے تھے.آخری عشره ( صحیح بخاری کتاب بدء الوحی) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آنحضرت اپنی کمر ہمت کس لیتے.اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور اپنے اہل وعیال کو خصوصیت سے عبادت کے لئے جگاتے تھے.( صحیح بخاری کتاب الصوم باب العمل في العشر الأخر ) اعتکاف حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ملالہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے.اور وفات تک آپ کا یہی معمول رہا.اس کے بعد آپ کی ازواج بھی انہی دنوں میں اعتکاف کیا کرتی تھیں.( صحیح بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتكاف في العشر الاواخر ) www.alislam.org
27 26 نفلی روزے آنحضرت ملاقہ رمضان کے علاوہ کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے.شعبان کا تقریباً پورا مہینہ روزے سے گزارتے.رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھتے.ہر ماہ کے آغاز میں تین روزے مہینہ کے نصف اول میں اکثر روزے چاند کی 15,14,13 کو روزہ ہر سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے اور فرماتے کہ ان دنوں میں اعمال خدا کے حضور پیش ہوتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حالت میں پیش ہوں کہ میں روزہ دار ہوں اتفاقی روزے اس کے علاوہ ہوتے تھے.( صحیح بخاری کتاب الصوم وسنن ترمذی کتاب الصوم) -8 ہے.محبت قرآن مجھے قرآن سناؤ حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ملالہ نے مجھے فرمایا:.مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ“ میں نے حیران ہو کر عرض کیا حضور میں آپ کو قرآن سناؤں جبکہ قرآن آپ پر نازل کیا گیا فرمایا:.مجھے دوسرے سے قرآن سننا بہت اچھا لگتا ہے.تب میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی.جب میں اس آیت پر پہنچا:.فَكَيْفَ إِذَا جِبْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَؤُلَاءِ شَهِيدًا تو فرمایا:.بس کرو.تلاوت ختم کرنے کے بعد جب میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے.(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقری) قرآن پڑھنے کا طریق حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے آنحضرت ملاقہ کے ساتھ تہجد پڑھی.حضور نے قیام میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرہ شروع کی تو www.alislam.org
29 29 28 میں نے سوچا کہ سو آیات کے بعد رکوع کریں گے لیکن حضور ( سو آیات پرڑ کے نہیں بلکہ) پڑھتے ہی رہے پھر مجھے خیال آیا کہ شاید حضور سورۃ بقرہ کی تلاوت کے بعد رکوع کریں گے لیکن بقرہ ختم کرنے کے بعد حضور نے سورہ نساء کی تلاوت شروع کر دی اس کے بعد سورہ آل عمران شروع کی اور اس کو آخر تک پڑھا.حضور آرام سے ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرماتے تھے جلدی جلدی نہیں پڑھتے تھے.جب حضور کسی ایسی آیت پر سے گذرتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتو اللہ تعالیٰ کی تسبیح فرماتے.جب کسی ایسی آیت پر سے گذرتے جس میں مومنوں کو سوال کی تحریص کی گئی ہو تو اللہ سے مانگتے اور جب کسی آیت میں اللہ سے پناہ مانگنے کا ذکر ہوتا تو بھی رُک جاتے اور خدا کی پناہ مانگتے حضرت عوف بن مالک کہتے ہیں جب بھی کسی رحمت کی آیت پر سے گذرتے تو رک جاتے اور رحمت طلب کرتے اور جب عذاب کی آیت پر سے گذرتے تو رک جاتے اور عذاب سے خدا کی پناہ مانگتے.حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ حضور نے پھر آل عمران تک تلاوت کرنے کے بعد رکوع کیا اور آپ رکوع میں یہ دعا کرتے تھے.سُبحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمَ عوف بن مالک کہتے ہیں آپ رکوع میں یہ دعا کرتے تھے میں اُس خدا کی تسبیح اور پاکیزگی کرتا ہوں جس کو ہر قسم کی طاقت اور حکومت ہر قسم کی عظمت اور کبریائی اور بڑائی حاصل ہے.آپ کے قیام کی طرح آپ کا رکوع بھی لمبا تھا.پھر آپ رکوع سے سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے ہوئے کھڑے ہوئے پھر لمبا قیام فرمایا اور آپ جتنی دیر رکوع میں رہے تھے اتنی ہی دیر رکوع کے بعد قیام کیا پھر آپ سجدہ میں گئے اور سبحن ربی الاعلی پڑھا اور آپ کا سجدہ بھی آپ کے رکوع جتنا لمبا تھا.( صحیح مسلم کتاب صلوة المسافرين باب استحباب تطويل القراءة) -9 توکل علی اللہ تو کل کا مینار حضرت ابوبکر فرماتے ہیں میں رسول کریم متلاقہ کے ساتھ غار میں تھا میں نے اپنا سر اٹھا کر نظر کی تو تعاقب کرنے والوں کے پاؤں دیکھے اس پر میں نے رسول کریم سے عرض کیا یا رسول اللہ اگر کوئی نظر نیچی کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا.چپ اے ابی بکر.ہم دو ہیں ہمارے ساتھ تیسرا خدا ہے.(پھر وہ کیونکر دیکھ سکتے ہیں) ( بخاری کتاب المناقب باب ہجرة النبي) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.اللہ اللہ کیا توکل ہے.دشمن سر پر کھڑا ہے اور اتنا نزدیک ہے کہ ذرا آنکھ نیچی کرے اور دیکھ لے لیکن آپ کو خدا تعالیٰ پر ایسا یقین ہے کہ باوجود سب اسباب مخالف کے جمع ہو جانے کے آپ یہی فرماتے ہیں کہ یہ کیوں کر ہوسکتا ہے خدا تو ہمارے ساتھ ہے پھر وہ کیوں کر دیکھ سکتے ہیں؟ (سیرۃ النبی ملاقہ صفحہ ۴۹) www.alislam.org
31 30 30 -10 دعوت الی اللہ اقرباء کو دعوت اسلام جب یہ آیت نازل ہوئی فَاصْدَعُ بِمَا تُؤْمَرُ د یعنی اے رسول ! جو حکم تجھے دیا گیا ہے وہ کھول کھول کر لوگوں کو سنادے.“ اور اس کے قریب ہی یہ آیت اتری کہ:- انْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ.یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار و بیدار کر “ جب یہ احکام اترے تو آنحضرت ملالہ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے پکار کر اور ہر قبیلہ کا نام لے لے کر قریش کو بلایا.جب سب لوگ جمع ہو گئے.تو آپ نے فرمایا: اے قریش! اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے کو تیار ہے تو کیا تم میری بات کو مانو گے! بظاہر یہ ایک بالکل نا قابل قبول بات تھی مگر سب نے کہا.”ہاں ہم ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے تمہیں ہمیشہ صادق القول پایا ہے.آپ نے فرمایا.تو پھر سنو! میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ اللہ کے عذاب کا لشکر تمہارے قریب پہنچ چکا ہے.خدا پر ایمان لاؤ تا اس عذاب سے بچ جاؤ.“ جب قریش نے یہ الفاظ سنے تو کھلکھلا کر ہنس پڑے اور آپ کے چا ابولہب نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا.تَبالَكَ اَلِهَذَا جَمَعْتَنَا.محمد تو ہلاک ہو.اس غرض سے تو نے ہم کو جمع کیا تھا.پھر سب لوگ ہنسی مذاق کرتے ہوئے منتشر ہو گئے.“ 66 صحیح بخاری کتاب التفسير - سورة الحب ) اقرباء کی دعوت انہی دنوں میں آنحضرت متلاقہ نے حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا کہ ایک دعوت کا انتظام کرو اور اس میں بنو عبدالمطلب کو بلاؤ.تا کہ اس ذریعہ سے ان تک پیغام حق پہنچایا جاوے چنانچہ حضرت علی نے دعوت کا انتظام کیا اور آپ نے اپنے سب قریبی رشتہ داروں کو جو اس وقت کم و بیش چالیس 40 نفوس تھے اس دعوت میں بلایا.جب وہ کھانا کھا چکے تو آپ نے کچھ تقریر شروع کرنی چاہی مگر بد بخت ابولہب نے کچھ ایسی بات کہہ دی جس سے سب لوگ منتشر ہو گئے.اس پر آنحضرت نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ موقعہ تو جاتا رہا.اب پھر دعوت کا انتظام کرو.چنانچہ آپ کے رشتہ دار پھر جمع ہوئے اور آپ نے انہیں یوں مخاطب کیا کہ اے بنوعبدالمطلب !دیکھو میں تمہاری طرف وہ بات لے کر آیا ہوں کہ اس سے بڑھ کر اچھی بات کوئی شخص اپنے قبیلہ کی طرف نہیں لایا.میں تمہیں خدا کی طرف بلاتا ہوں.اگر تم میری بات مانو تو تم دین و دنیا کی بہترین نعمتوں کے وارث بنو گے.اب بتاؤ اس کام میں میرا کون مددگار ہوگا ؟ سب خاموش تھے اور ہر طرف مجلس میں ایک سناٹا تھا کہ یکلنمت ایک طرف سے ایک تیرہ سال کا دبلا پتلا بچہ جس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا اٹھا اور یوں گویا ہوا.گو میں سب میں کمزور ہوں اور سب سے چھوٹا ہوں مگر میں آپ کا ساتھ دوں گا“ یہ حضرت علی کی آواز تھی.آنحضرت ملاقہ نے حضرت علی کے یہ الفاظ سنے تو اپنے رشتہ داروں کی طرف دیکھ کر فرمایا.اگر تم جانو تو اس بچے کی بات سنو اور اسے مانو “ حاضرین نے یہ نظارہ دیکھا تو بجائے عبرت حاصل کرنے کے سب کھلکھلا کر ہنس پڑے اور ابولہب اپنے بڑے بھائی ابوطالب سے کہنے لگا.لواب محمد" تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی پیروی اختیار کرو.اور پھر یہ لوگ اسلام اور آنحضرت ملالہ کی کمزوری پر ہنسی اڑاتے ہوئے رخصت ہو گئے.“ تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 63 مطبع استقامه قاهره-1939) www.alislam.org
33 32 -11 سچائی ہر داغ سے پاک آنحضرت ملالہ کی پاکیزہ اور بے داغ زندگی کے گواہ وہ تمام لوگ ہیں جن کا کسی رنگ میں حضور سے واسطہ پڑا.ان میں آپ کے رشتہ دار بھی ہیں.آپ کے دوست اور ہمجولی بھی.آپ سے محبت کرنے والے بھی ہیں اور آپ کے دشمن بھی.اور کسی کو یہ طاقت نہیں کہ وہ آپ کی زندگی کے کسی پہلو پر بھی انگشت نمائی کر سکے اور یہ آپ " کی صداقت کافی ذاتہ بہت بڑا ثبوت ہے جو آپ نے خدا کے حکم سے اس طرح پیش فرمایا:.(ترجمہ) کہ میں اس دعویٰ نبوت سے پہلے بھی ایک عرصہ دراز تم میں گزار چکا ہوں.اس عرصہ میں میری زندگی صداقت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہی ہے.پھر یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے اب میں خدا پر جھوٹ باندھنا شروع کر دوں یہ بات عقل کے خلاف ہے.(یونس.17) روم کا بادشاہ ہر قتل بھی اس راز کو پا گیا تھا.6ھ میں جب ہر قل کے پاس آنحضرت ملالہ کا تبلیغی خط پہنچا تو اس نے تلاش کروایا کہ عرب کا کوئی آدمی ملے جس سے ہم اس مدعی کے حالات دریافت کریں.آخر ابوسفیان اور اس کا قافلہ جو تجارت کے لئے وہاں گیا ہوا تھا دربار میں حاضر کیا گیا.ہرقل نے ابوسفیان کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے کھڑا کر دیا اور کہا اگر یہ جھوٹ بولے تو فور انتا دینا.اس سلسلہ گفتگو میں ہر قل نے ابوسفیان سے پوچھا کیا تم لوگ اس کے دعوئی سے پہلے اسے جھوٹا سمجھتے تھے.ابوسفیان کہتے ہیں.میں نے کہا نہیں.اس پر ہر قل نے کہا کہ پھر یہ یمکن نہیں کہ وہ انسانوں پر تو جھوٹ نہ بولے اور خدا پر جھوٹ باندھنا شروع کر دے.( بخاری کتاب بدء الوحی ) ابو جہل کا اقرار ایک دفعہ ابو جہل سے آنحضرت کی گفتگو ہوئی جس میں ابو جہل نے کہا.إِنَّا لا نُكِذْ بُكَ بل نُكَذِّبُ بِمَا جِبْتَ بِهِ (جامع ترمذی کتاب التفسیر سوره انعام) ہم تجھے جھوٹا قرار نہیں دیتے بلکہ اس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جو تو لے کر آیا ہے.www.alislam.org
35 -13 34 -12 امانت دعویٰ نبوت سے پہلے لوگ حضور مطلقہ کے پاس امانتیں رکھا کرتے تھے اور یہ سلسلہ اس وقت تک کامل اعتماد کے ساتھ جاری رہا جب تک حضور ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ تشریف نہیں لے گئے حضور اپنوں اور دشمنوں سب کی امانتوں کا حق پوری شان کے ساتھ ادا کرتے رہے.جب آپ شدید دکھ اور اذیت کے ساتھ مکہ سے ہجرت فرما رہے تھے.تب بھی آپ کو لوگوں کی امانتوں کی واپسی کا خیال تھا اور آپ نے وہ امانتیں حضرت علی کے حوالے کیں اور انہیں فرمایا کہ لوگوں کی امانتیں لوٹا کر مدینہ پہنچ جائیں.صدقہ کا خیال آپ فرمایا کرتے تھے کہ بسا اوقات گھر میں بستر پر یا کسی جگہ کوئی کھجور پڑی ملتی ہے.اٹھاتا ہوں اور ( بھوک کی وجہ سے ) کھانے لگتا ہوں مگر معاً خیال آتا ہے کہ کہیں صدقہ کی نہ ہو تب اس کے کھانے کا ارادہ ترک کر دیتا ہوں.(صحيح بخاری کتاب اللقطه باب اذا وجدتمرة في الطريق) مالی معاملات اور لین دین بہترین شریک کار حضرت سائب کہتے ہیں کہ میں (ہجرت کے بعد ) حضور کے پاس حاضر ہوا تو صحابہ (جو مجھے جانتے تھے حضور کے پاس میری تعریفیں کرنے لگے اور میرے متعلق حضور کو بتانے لگے.اس پر آپ نے فرمایا کہ مجھے کیا بتاتے ہو ( سائب) کو تو میں تم سب سے زیادہ جانتا ہوں.سائب کہتے ہیں تب میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ صحیح فرماتے ہیں.آپ اور میں تو اسلام سے پہلے تجارت میں شریک ہوتے تھے اور آپ بہترین شریک کار یا پارٹنر (Partner) تھے.آپ مخالفت نہیں کرتے تھے روک ٹوک نہیں فرماتے تھے یعنی اپنی مرضی نہیں چلاتے تھے اور آپ سے معاملہ کرنا بڑا آسان تھا اور نہ ہی آپ جھگڑتے تھے.(سنن ابوداؤد کتاب الادب باب کراھیة المراء) احتیاط کی معراج حضرت عقبہ فرماتے ہیں.میں نے نبی کریم مقاقعہ کے پیچھے مدینے میں عصر کی نماز پڑھی.آپ نے سلام پھیرا اور جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنوں پر سے دوڑتے ہوئے اپنی بیویوں میں سے ایک کے حجرہ کی طرف تشریف لے گئے.لوگ آپ کی اس جلدی کو دیکھ کر گھبرا گئے.آپ جب باہر تشریف لائے تو معلوم کیا کہ لوگ آپ کی جلدی پر منتجب ہیں.آپ نے فرمایا کہ مجھے یاد آ گیا کہ تھوڑا سا سونا ہمارے پاس رہ گیا ہے اور میں نے ناپسند کیا کہ وہ میرے پاس پڑا رہے اس لئے میں نے جا کر حکم دیا کہ اسے تقسیم کر دیا جائے.( بخاری کتاب الصلوۃ باب من صلی بالناس) www.alislam.org
37 36 حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مال کے معاملہ میں نہایت محتاط تھے اور کبھی پسند نہ فرماتے کہ کسی بھول چوک کی وجہ سے لوگوں کا مال ضائع ہو جائے.آپ کی نسبت یہ تو خیال کرنا بھی گناہ ہے کہ نعوذ باللہ آپ اپنے نفس پر اس بات سے ڈرے ہوں کہ کہیں اس سونے کو میں نہ خرچ کرلوں.مگر اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ آپ اس بات سے ڈرے کہ کہیں جہاں رکھا ہو و ہیں نہ پڑار ہے اور غرباء اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جائیں.اور اس خیال کے آتے ہی آپ دوڑ کر تشریف لے گئے اور فور وہ مال تقسیم کروایا اور پھر مطمئن ہوئے.(سيرة النبي ص 97) گمشدہ پیالے کی قیمت حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضور ملالہ نے ایک بڑا پیالہ کسی سے مستعار لیا.مگر وہ کم ہو گیا تو حضور نے اس کا تاوان یعنی اس کی قیمت ادا فرمائی.(سنن ترمذی ابواب الا حکام باب فیمن یکسر له شی ) -14 قرض کی ادائیگی آنحضرت مطلقہ قرض لینے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے تھے اور حتی الامکان قرض لینے کو سخت نا پسند کرتے تھے لیکن اگر حقیقی ضرورت ہوتی تو قرض لیتے اور وقت پر اور عمدگی کے ساتھ ادا ئیگی فرماتے اور بڑھا کر دیتے.مگر یاد رہے کہ بڑھا کر دینے کی شرط کو حضور نے نا پسند فرمایا اور اسے سود قرار دیا جو اسلام میں حرام ہے.ہاں اپنی مرضی اور خوشی سے کوئی بڑھا کر دے تو یہ پسندیدہ ہے.حضور متلاقہ نے ایک دفعہ کسی سے اونٹ قرض لیا اور جب واپس کیا تو زیادہ بہتر اونٹ واپس کیا اور فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو ادائیگی میں بہتر رویہ اختیار کرے.کر دیا.(سنن ترمذی ابواب البیوع باب استنقراض البعير ) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ حضور نے ایک دفعہ مجھ سے قرض لیا اسے ادا فر مایا اور بڑھا ( صحیح بخاری کتاب الاستقراض باب حسن القضاء) حضور ملالہ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ حضور ملاقہ نے ایک شخص سے جوان اونٹ بطور قرض لیا تھا جب حضور ” کی تحویل میں کچھ اونٹ آئے تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ میں اس شخص کا قرض ادا کروں.میں نے عرض کیا کہ ہمارے تمام اونٹ اس شخص کے اونٹ سے زیادہ عمر اور قیمت کے ہیں.مگر حضور نے فرمایا اس کو انہی میں سے دو کیونکہ لوگوں میں سے بہترین وہی ہیں جو ادائیگی کے لحاظ سے بہتر ہیں.(جامع ترمذی ابواب البيوع باب استقراض البعير ) www.alislam.org
39 39 سکھائے اور فرمایا:.38 -15 حیا کے نمونے حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ حضور پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے اور جب آپ کسی بات کو نا پسند فرماتے تھے تو آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا تھا اور ہم حضور کے چہرہ سے پہچان لیتے تھے کہ حضور نے کسی بات کو نا پسند فرمایا ہے.( صحیح بخاری مسلم کتاب الفصائل باب كثرة وحياة ) نام نہ لیتے حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب حضور کو کسی شخص کے متعلق کوئی شکایت پہنچتی تو حضور اس شکایت کا ذکر اس شخص کا نام لے کر نہیں کرتے تھے اور یہ نہیں فرماتے تھے کہ فلاں آدمی کو کیا ہو گیا ہے وہ ایسی باتیں کرتا ہے بلکہ ہمیشہ بغیر کسی کا نام لئے یہ فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے وہ ایسی باتیں کرتے ہیں یہ کہتے ہیں.صلى الله (سنن ابوداؤد کتاب الادب باب في حسن العشرة) اللہ نے آداب سکھائے نے جب حضرت زینب سے شادی کی تو آپ کی دعوت ولیمہ میں صحابہ کرام دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے رہے.حضور کی مصروفیات میں حرج ہور ہا تھا.مگر حضور اپنی فطری حیا کی وجہ سے ان کو جانے کے لئے نہیں کہہ رہے تھے.اس پر اللہ تعالیٰ نے خود مومنوں کو آداب تمہارا طریق نبی کو تکلیف دے رہا تھا.مگر وہ تم سے حیا کر رہا تھا مگر اللہ تعالیٰ حق کے بیان میں کوئی شرم نہیں کرتا.(احزاب.8) بچپن کا واقعہ آنحضرت ملالہ کے بچپن میں کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی.اور حضور ملالہ اور حضور کے چچا عباس پتھر اٹھا اٹھا کر جمع کر رہے تھے تو آپ کے چچا حضرت عباس نے آپ سے کہا.بھتیجے اپنا تہہ بندا اپنے شانے پر رکھ لو.تاکہ پتھروں کی رگڑ وغیرہ نہ لگے.اور غالباً حضرت عباس نے خود ہی ایسا کر دیا مگر چونکہ اس سے آپ کے جسم کا کچھ ستر والا حصہ ننگا ہو گیا.جس کی وجہ سے آپ شرم کے مارے زمین پر گر گئے اور آپ کی آنکھیں پتھرانے لگیں.اور آپ بے تاب ہو کر پکارنے لگے میرا تہہ بند میرا تہہ بند.اور پھر آپ کا تہہ بند جب درست کر دیا گیا تو آپ نے اطمینان محسوس کیا.☆☆☆ (صحیح بخاری کتاب بنیان الکعبه باب نمبر 1) www.alislam.org
41 40 16 ایثار آنحضرت مطلقہ کی تو پوری زندگی بنی نوع انسان کی بہبود اور ہر قسم کی فلاح کے لئے وقف تھی.اور اس مقصد کے لئے آپ اس کی خاطر ہمہ وقت تیار رہتے تھے.اور اس مقصد کے لئے آپ اپنے تمام حقوق اپنے تمام آرام چھوڑ دیا کرتے تھے.اور اپنے اہل خانہ کی بھی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ اس ایثار میں آپ کا ساتھ دینے میں خوشی اور فخرمحسوس کیا کرتے تھے.چادر دے دی حضور حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت حضور مقالہ کے پاس حاشیہ دار چادر لے کر آئی.اور کہا یا رسول اللہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنا ہے تا کہ آپ کو پہناؤں.ملالہ کو ان دنوں ایک چادر کی ضرورت بھی تھی آپ نے وہ چادر لے لی اور اسے زیب تن فرما کر صحابہ کی طرف تشریف لائے.ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ یہ چادر مجھے عطا فرما دیں حضور جب مجلس سے واپس گئے تو چادر اتار کر اس صحابی کو بھجوا دی.دوسرے صحابہ نے اس صحابی سے کہا تو نے اچھا کام نہیں کیا.تم جانتے تھے کہ حضور کسی سائل کو رد نہیں کرتے.اس نے کہا میں نے تو اس لئے یہ چادر مانگی تھی کہ مجھے بطور کفن پہنائی جائے.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.(صحیح بخاری کتاب البیوع باب النساج) اہل خانہ بھوکے رہے حضرت ابو بصرہ غفاری بیان کرتے ہیں میں قبول اسلام سے قبل آنحضرت ملالہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے میرے لئے بکری کا دودھ پیش کیا جو آپ کے اہل خانہ کے لئے تھا.حضور نے مجھے سیر ہو کر دودھ پلایا اور صبح میں نے اسلام قبول کر لیا.بعد میں مجھے پتہ لگا کہ آنحضرت متلاقہ کے اہل خانہ نے وہ رات بھوکے رہ کر گزاری جبکہ اس سے پچھلی رات بھی بھو کے گزاری تھی.☆☆☆ (مسند احمد بن جنبل جلد 6 ص 397) www.alislam.org
43 42 -17 حضور صلى الله ایفائے عہد حق دلوایا نے اپنی جوانی میں معاہدہ حلف الفضول میں شرکت کی تھی جس کے سب شرکاء نے وعدہ کیا کہ ہم ہمیشہ ظلم روکیں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے.اس عہد کی حضور نے اس وقت بھی پاسداری کی.بلکہ سب سے بڑھ کر کی اور حقیقت میں ایفائے عہد کے شاندار نظارے بعثت کے بعد دکھلائے جب شدید دشمنوں اور ظالموں کے مقابل پر حضور نے اپنی جان اور عزت کی پروانہ کرتے ہوئے معاہدہ حلف الفضول کے تحت مظلوموں کا حق دلوانے کی بھر پورسعی کی.اس کی تائید میں یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیے.اراش قبیلہ کا ایک فرد مکہ میں اونٹ بیچنے کے لئے لایا.ابوجہل نے اس سے ایک اونٹ خریدا اور رقم ادا کرنے کے لئے ٹال مٹول کرنے لگا.وہ شخص دہائی دیتا ہوا قریش کے سرداروں کی مجلس میں پہنچ گیا.اور بلند آواز سے کہنے لگا.اے سردار مجھے غریب مسافر کا حق ابوالحکم نے مارلیا ہے.مجھے اونٹ کی قیمت دلا دو.اس وقت حضور مقالہ مسجد حرام کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے.اور وہ سب سردار جانتے تھے کہ ابو جہل حضور مقالہ سے سخت دشمنی رکھتا ہے.انہوں نے اس شخص سے استہزاء کرتے ہوئے حضور کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ شخص تجھے حق دلا سکتا ہے.وہ شخص حضور کے پاس پہنچا اور اپنی داستان سنائی.حضور اس کی بات سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور ابو جہل کی طرف جانے لگے.قریشی سرداروں نے ایک شخص سے کہا کہ تو ان کے پیچھے جا اور دیکھ کیا ہوتا ہے.حضور اس شخص کے ساتھ ابو جہل کے دروازہ پر پہنچے.دستک دی.اس نے پوچھا کون ہے فرمایا میں محمد ہوں تم باہر آؤ.ابو جہل باہر آیا تو فرمایا اس شخص کا حق ادا کرو.وہ کہنے لگا آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی اس کی رقم لے کر آتا ہوں.چناچہ وہ گھر گیا اور رقم لے آیا.وہ شخص واپس جاتے ہوئے اہل قریش کی اسی مجلس کے پاس ٹھہرا اور کہا اللہ حمد کو جزا دے مجھے میرا حق مل گیا.اتنی دیر میں وہ شخص جو حضور کے تعاقب میں بھیجا گیا تھا واپس آ گیا اور ابوجہل کے متعلق سارا واقعہ بیان کیا تو سب سخت حیران ہوئے.تھوڑی دیر بعد ابو جہل آیا تو سب نے اسے لعن طعن کی.اس نے کہا جب میں محمد کے بلانے پر باہر آیا تھا تو میں نے دیکھا کہ محمد کے پیچھے قوی الجثہ خوفناک جبڑوں والا اونٹ ہے اور اگر میں انکار کرتا تو وہ مجھے نگل جاتا.السيرة النبویہ لابن کثیر جلد اول ص 469 داراحیاء التراث العربی بیروت) عہد کو پورا کرو عہد کی پابندی کا جو احساس حضور ملالہ کے قلب مبارک میں تھا اس کا ایک عجیب نظارہ غزوہ بدر میں نظر آیا.حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ میں غزوہ بدر میں شامل نہ ہوسکا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میں اور میرا ایک ساتھی ابوحسیل سفر میں تھے کہ کفار مکہ نے ہمیں پکڑ لیا کہ تم محمد (متلاقہ ) کے پاس جارہے ہو( تا کہ آپ کے لشکر میں شامل ہو جاؤ).ہم نے کہا ہم تو مدینہ www.alislam.org
45 44 جارہے ہیں.اس پر انہوں نے ہم سے یہ عہد لے کر چھوڑا کہ ہم مدینہ چلے جائیں گے اور کفار کے خلاف لڑائی میں شامل نہ ہوں گے.یہ عہد کو جارحانہ حملہ آوروں نے جبرا لیا تھا اور کسی معروف ضابطہ اخلاق میں اس کا ایفاء لازمی نہیں تھا مگر حضور ملالہ کو عہد کا اتنا پاس تھا کہ ایسے نازک وقت میں جبکہ ایک ایک سپاہی کی ضرورت تھی آپ نے فرمایا تو پھر تم جاؤ اور اپنے عہد کو پورا کرو.ہم اللہ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور اسی کی نصرت پر ہمارا بھروسہ ہے.(صحیح مسلم کتاب الجہاد باب الوفاء بالعهد ) صبر کرو ہم بد عہدی نہیں کر سکتے صلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ تھی کہ مکہ سے جو مسلمان ہو کر مدینہ چلا جائے گا وہ اہل مکہ کے مطالبہ پر واپس کر دیا جائے گا.عین اس وقت جب معاہدہ کی شرطیں زیر تحریر تھیں اور آخری دستخط نہ ہوئے تھے حضرت ابو جندل پابہ زنجیر اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر آئے اور رسول اللہ سے فریادی ہوئے.تمام مسلمان اس درد انگیز منظر کو دیکھ کر تڑپ اٹھے لیکن آنحضرت ملالہ نے باطمینان تمام ان کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا اے ابو جندل! صبر کرو ہم بدعہدی نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے لئے کوئی راستہ نکالے گا.“ ( صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد ) میں تین دن سے انتظار کر رہا ہوں حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء بیان کرتے ہیں کہ بعثت سے پہلے میں نے ایک دفعہ آنحضرت ملالہ کے ساتھ کوئی کاروباری معاملہ کیا اور میرے ذمہ آپ کا کچھ حساب باقی رہ گیا جس پر میں نے آپ سے کہا کہ آپ کہیں ٹھہریں میں ابھی آتا ہوں.مگر مجھے بھول گیا اور تین دن کے بعد یاد آیا.اس وقت جب میں اس طرف گیا تو حضور متعلقہ وہیں کھڑے تھے مگر آپ نے سوائے اس کے مجھے کچھ نہیں کہا کہ.و تم نے مجھے تکلیف میں ڈالا ہے.میں یہاں تین دن سے تمہارے انتظار میں ہوں.“ (ابوداؤ د کتاب الادب باب في العدة) اس سے مراد یہ تو نہیں ہو سکتی کہ آپ مسلسل تین دن تک اسی جگہ ٹھہرے رہے بلکہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ آپ مناسب اوقات میں کئی دفعہ اس جگہ پرعبداللہ کا انتظار کرتے رہے ہوں گے تا کہ عبداللہ کو اپنا وعدہ پورا کرنے اور آپ کو تلاش کرنے میں دقت نہ ہو.www.alislam.org
47 -19 46 -18 عدل و انصاف انصاف کا بلند ترین معیار حضرت عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دنوں کی بات ہے کہ ایک عورت نے چوری کی (حضور نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا) لیکن اس کی قوم کے لوگ جھٹ سے اسامہ بن زید کے پاس ان سے حضور کی خدمت میں سفارش کرانے کو پہنچ گئے.عروہ کہتے ہیں کہ جب (حضرت) اسامہ نے آنحضرت ملاقہ سے (اس عورت کو معاف کر دینے کے بارہ میں ) عرض کیا تو حضور گیا چہرہ متغیر ہو گیا اور فرمایا کہ.کیا تم مجھ سے ان حدود کے بارہ میں سفارش کرتے ہو جو اللہ نے قائم کی ہیں اور ( چاہتے ہو کہ میں خدا کی حدود کو بالائے طاق رکھ دوں اور اس عورت کو ان حدود سے آزاد چھوڑ دوں.ایسا نہیں ہوسکتا) اس پر اسامہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ملاقہ ( مجھ سے بہت گناہ ہوا ہے) میرے لئے اپنے موٹی سے ) مغفرت طلب کیجئے.پھر جب شام ہوئی تو حضور خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور جیسا کہ اللہ کا حق ہے اس کی تعریف فرمائی پھر فرمایا.اپنے مولیٰ کی ثناء کے بعد ( میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ) جس چیز نے تم سے پہلی قوموں کو ہلاک کیا وہ یہی تھی کہ اگر ان میں کوئی شریف اور بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا اس پر حد جاری کر دیتے ( اور اسے سزا دیتے لیکن سنو) مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (متلاقہ ) کی جان ہے اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دوں.(بخاری کتاب المغازی باب صلى مقام التي لا اله ) دین کی راہ میں قربانیاں اور صبر و استقا حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ملاقہ نے فرمایا.اللہ کی راہ میں جتنا مجھے ڈرانے کی کوشش کی گئی کسی اور کے لئے ایسی کوشش نہیں ہوئی.اور راہ مولیٰ میں جتنی اذیت مجھے دی گئی اتنی کسی اور کو نہیں دی گئی.اور مجھ پر تمیں دن ایسے گزرے کہ میرے اور بلال کے لئے کوئی کھانا نہیں تھا جسے کوئی زندہ وجود کھا سکے سوائے معمولی سے کھانے کے جو بلال کی بغل کے نیچے آسکتا تھا.(جامع ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ حدیث نمبر 2396) اونٹنی کی بچہ دانی ایک دفعہ آپ صحن کعبہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے سر بسجود تھے اور چند رؤساء قریش بھی وہاں مجلس لگائے بیٹھے تھے کہ ابو جہل نے کہا اس وقت کوئی شخص ہمت کرے تو کسی اونٹنی کی بچہ دانی لا کر محمد کے اوپر ڈال دے چنانچہ عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور ایک ذبح شدہ اونٹنی کی بچہ دانی لا کر جو خون اور گندی آلائش سے بھری ہوئی تھی آپ کی پشت پر ڈال دی اور پھر سب قہقہے لگا کر ہنسنے لگے.حضرت فاطمتہ الزہر کو اس کا علم ہوا تو وہ دوڑی آئیں اور اپنے باپ کے کندھوں سے یہ بوجھ اتارا.تب جا کر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا.روایت آتی ہے کہ اس موقعہ پر آنحضرت صل اللہ نے ان روساء قریش کے نام لے لے کر جو اس طرح اسلام کو مٹانے کے درپے تھے بددعا www.alislam.org
49 48 کی اور خدا سے فیصلہ چاہا.راوی کہتا ہے کہ پھر میں نے دیکھا کہ یہ سب لوگ بدر کے دن مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو کر وادی بدر کی ہوا کو متعفن کر رہے تھے.( صحیح بخاری باب بنیان الکعبه باب مالتی النبی مکتاب المغازی باب دعاء النبی علی کفار قریش) پہلا شہید ایک اور موقعہ پر آپ نے صحن کعبہ میں توحید کا اعلان کیا تو قریش جوش میں آ کر آپ کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور ایک ہنگامہ برپا کر دیا.آپ کے ربیب یعنی حضرت خدیجہ کے فرزند حارث بن ابی ہالہ کو اطلاع ہوئی تو وہ بھاگے آئے اور خطرہ کی صورت پا کر آپ کو قریش کی شرارت سے بچانا چاہا.مگر اس وقت بعض نوجوانان قریش کے اشتعال کی یہ کیفیت تھی کہ کسی بد باطن نے تلوار چلا کر حارث کو وہیں ڈھیر کر دیا.اور اس وقت کے شور و شغب میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تلوار چلانے والا کون تھا.(الاصابہ ذکر حارث) ایک دفعہ آپ ایک راستہ پر چلے جاتے تھے کہ ایک شریر نے برسر عام آپ کے سر پر خاک ڈال دی.ایسی حالت میں آپ گھر تشریف لائے.آپ کی صاحبزادی نے یہ دیکھا تو جلدی سے پانی لے کر آئیں اور آپ کا سر دھویا.اور زار زار رونے لگیں.آنحضرت ملالہ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا:.بیٹی رونہیں.اللہ تیرے باپ کی خود حفاظت کرے گا اور یہ سب تکلیفیں دور ہو جائیں گی.“ ( تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 80 مطبع استقامه قاهره 1939ء) ☆☆☆ -20 شجاعت اور عزم خطرہ میں سب سے آگے حضرت انس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم مطالعہ سب انسانوں سے زیادہ خوبصورت تھے اور سب انسانوں سے زیادہ بہادر تھے.ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا کسی طرف سے کوئی آواز آئی تھی ) لوگ آواز کی طرف دوڑے تو سامنے سے نبی کریم ملاقہ ان کو آتے ملے آپ بات کی چھان بین کر کے واپس آرہے تھے حضرت ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار تھے.گھوڑے کی پیٹھ منگی تھی اور آپ نے اپنی گردن میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی.لوگوں کو سامنے سے آتے دیکھا تو فرمایا ڈرو نہیں میں دیکھ آیا ہوں کوئی خطرہ کی بات نہیں.پھر آپ نے ابوطلحہ کے گھوڑے کے متعلق فرمایا ہم نے اس کو تیز رفتاری میں سمندر جیسا پایا.یا یہ فرمایا کہ یہ تو سمندر ہے.اشجع الناس (صحیح بخاری کتاب الجہاد باب الحمائل) ابو اسحاق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص حضرت براڈ کے پاس آیا اور آپ سے پوچھا کہ اے ابو عمارہ کیا آپ لوگوں نے جنگ حنین کے موقع پر دشمن کے مقابل پر پیٹھ پھیر لی تھی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں سب کے بارہ میں تو کچھ نہیں کہ سکتا لیکن میں آنحضرت ملالہ کے بارہ میں ضرور گواہی دوں گا کہ آپ نے دشمن کے شدید حملہ کے وقت بھی پیٹھ نہیں پھیری تھی.پھر انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ہوازن قبیلہ کے خلاف جب مسلمانوں کا لشکر www.alislam.org
51 50 50 نکلا تھا انہوں نے یا تو بہت ہلکے پھلکے ہتھیار پہنے ہوئے تھے یعنی ان کے پاس زر ہیں وغیرہ اور بڑا اسلحہ نہیں تھا اور ان میں بہت سے ایسے بھی تھے جو بالکل نہتے تھے لیکن اس کے مقابل پر ہوازن کے لوگ بڑے کہنہ مشق تیرانداز تھے.جب مسلمانوں کا لشکر ان کی طرف بڑھا تو انہوں نے اس لشکر پر تیروں کی ایسی بوچھاڑ کر دی جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر حملہ کرتی ہے.اس حملہ کی تاب نہ لا کر مسلمان بکھر گئے لیکن ان کا ایک گروہ آنحضرت ملالہ کی طرف بڑھا.حضور ایک خچر پر سوار تھے جسے آپ کے چا ابوسفیان بن حارث لگام سے پکڑے ہوئے ہانک رہے تھے.جب حضور نے مسلمانوں کو اس طرح بکھرتے ہوئے دیکھا تو آپ کچھ وقفہ کے لئے اپنی نچر سے اترے اور اپنے مولیٰ کے حضور دعا کی.پھر آپ خچر پر سوار ہو کر مسلمانوں کو مدد کے لئے بلاتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے اور آپ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ میں خدا کا نبی ہوں اور یہ ایک سچی بات ہے.لیکن ”میری غیر معمولی جرات دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی فوق البشر چیز ہوں نہیں میں وہی عبد المطلب کا بیٹا محمد ہوں.“ اور آپ یہ دعا کرتے جاتے تھے.اللَّهُمْ نَزِلُ نَصْرَكَ اے خدا اپنی مدد نازل کر.پھر حضرت براڑ نے کہا کہ حضور کی شجاعت کا حال سنو.جب جنگ جو بن پر ہوتی تھی تو اس وقت حضور سب سے آگے ہو کر سب سے زیادہ بہادری سے لڑ رہے ہوتے تھے اور ہم لوگ تو اس وقت حضور کو ہی اپنی ڈھال اور اپنی آڑ بنایا کرتے تھے اور ہم میں سے سب سے زیادہ وہی بہادر سمجھا جاتا تھا جو حضور کے شانہ بشانہ لڑتا تھا.( صحیح مسلم کتاب الجہاد باب فتح مکہ ) حضور عزم بے مثال ملاقہ جنگ احد سے پہلے خواب میں دیکھ چکے تھے کہ آپ کے کسی عزیز کا نقصان ہوگا یا آپ کی ذات کو گزند پہنچے گا اور کچھ صحابی بھی شہید ہوں گے.آپ منشاء الہی کے ماتحت صحابہ سے مشورہ کرتے ہیں.نوجوان صحابہ جوش و اخلاص میں مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیتے ہیں.حضور مقالہ ہتھیار پہن لیتے ہیں.اب نوجوان صحابہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اور وہ معذرت خواہ تھے لیکن خدا کے نبی مطالعہ نے فرمایا.نبی ہتھیار پہن کر اتارتا نہیں.“ ی تھی آپ کی بے مثال شجاعت اور یہی زندہ قوموں کا شیوہ ہونا چاہئے کہ جب عزم کر لیں تو (سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 6) پھر تذبذب کیا.اسے آنے دو جنگ اُحد میں آپ شدید زخمی ہوئے.چہرہ مبارک لہولہان تھا.ابی بن خلف ایک کافر مدت سے تیاری کر رہا تھا.اس نے ایک گھوڑا پالا ہی اس لئے تھا.اس کو روزانہ جوار کھلاتا کہ اس پر چڑھ کر محمد متلاقہ تو قتل کروں گا ( نعوذ باللہ ) اس بدبخت کی نظر جب حضور پر پڑی تو گھوڑے کو ایڑھ لگا کر آگے آیا اور یہ نعرہ لگایا اگر حمد ( متلاقہ ) بچ جائیں تو میری زندگی عبث ہے.صحابہ نے یہ دیکھا تو حضور ملالہ اور اس کے درمیان حائل ہونا چاہا.حضور نے فرمایا ہٹ جاؤ سے آنے دو اور میرے زخمی آقا نے جن کے زخم سے ابھی خون رس رہا تھا نیزہ تھام کر اس کی گردن پر وار کیا.وہ چنگھاڑتا ہوا واپس مڑا.کسی نے کہا بھئی معمولی زخم ہے کیا چیختا اور واویلا کرتا ہے.اس نے کہا یہ معمولی زخم نہیں محمد ( متلاقہ ) کا لگایا ہوا ہے.(سیرۃ ابن ہشام زیر عنوان قتل ابی بن خلف جلد 3 صفحہ 89) www.alislam.org
53 52 -21 حضور صفائی اور پاکیزگی منہ کی صفائی ر ملکانہ مسواک کے سختی سے پابند تھے.وضو کے وقت بھی مسواک کرتے اور رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تب بھی مسواک سے دانت ضرور صاف کرتے.( صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب السواک یوم الجمعة ) آپ کی زندگی کے آخری لمحات میں بھی آپ کو مسواک کا خیال تھا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور کی وفات سے کچھ دیر قبل میرا بھائی عبدالرحمان میرے حجرے میں داخل ہوا.اس کے ہاتھ میں مسواک تھی.میں نے اپنے سینے کے ساتھ حضور ملالہ کو سہارا دیا ہواتھا میری نظر حضور ملاقہ پر پڑی میں نے دیکھا کہ آپ تعبد الرحمان کی طرف دیکھ رہے ہیں.مجھے خیال آیا کہ حضور کو مسواک کرنا بہت پسند تھا اور صحت کے زمانے میں اس کا بہت اہتمام کرتے تھے جبکہ بیماری میں ایسا نہ کر سکتے تھے.شاید اس وقت مسواک کرنا چاہتے ہیں.اس لئے میں نے حضور مقالہ سے پوچھا عبد الرحمن سے مسواک لے کر آپ کو دوں؟ میرے سوال پر حضور نے سر سے اشارہ کیا ہاں.اس پر میں نے عبدالرحمان سے مسواک لے کر حضور مقالہ کو دے دی حضور مقالہ نے مسواک منہ میں رکھی لیکن ضعف بہت تھا.دانتوں سے چبانے کی طاقت نہ تھی.میں نے پوچھا.” میں مسواک آپ کے لئے اپنے دانتوں سے چبا کر نرم کر دوں؟ آپ نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں.پھر میں نے حضور سے مسواک پکڑی اور اس کو اپنے دانتوں میں خوب چبا کر آپ کے لئے بالکل نرم اور ملائم کر دیا.اور حضور اپنے دانتوں پر اچھی طرح پھیرا.( بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی و وفاتته ) ملالہ نے اسے خوشبو کی پسندیدگی آنحضرت ملالہ خوشبو کو بہت پسند فرماتے تھے آپ نے دنیا میں اپنی پسندیدہ ترین چیزوں میں سے ایک خوشبو کو قرار دیا ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص 128) مسجدوں کے آداب فرمایا:.مساجد کی صفائی اور نظافت کے متعلق تفصیلی تعلیم دیتے ہوئے رسول اللہ صلى الله اپنی مساجد اپنے ناسمجھ بچوں، مجانین ( دیوانے ، مجنوں) خرید وفروخت لڑائی جھگڑے اور شور سے محفوظ رکھو.مسجد کے دروازوں کے باہر طہارت خانے بناؤ اور جمعہ وغیرہ کے موقع پر مساجد میں خوشبو کی دھونی دیا کرو.“ (سنن ابن ماجہ کتاب المساجد باب ما يكره في المساجد ) www.alislam.org
55 54 54 -22 عاجزی وانکساری انکساری حضرت عائشہؓ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ کوئی شخص آنحضرت ملاقہ سے بڑھ کر حسن خلق کا مالک نہیں تھا.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صحابہ میں سے کسی نے یا اہل بیت میں سے کسی نے آپ کو بلایا ہو اور آپ نے اس کو لبیک یعنی حاضر ہوں کہہ کر جواب نہ دیا ہو.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اسی وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ - که تو علق عظیم کہ پر فائز کیا گیا ہے.اللہ کا بندہ ہوں حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ملالہ کو ہم نے دیکھا کہ حضور اپنی سوٹی کو زمین پر ٹیکتے ہوئے ہماری طرف آ رہے ہیں.ہم حضور کو دیکھ کر احتراماً کھڑے ہو گئے.حضور نے فرمایا کہ نہیں بیٹھے رہو اور دیکھو جس انداز میں عجمی ایک دوسرے کے احترام کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تم ایسے نہ کھڑے ہوا کرو.پھر آپ نے فرمایا:.کہ میں تو اللہ کا صرف ایک بندہ ہوں اس کے دوسرے بندوں کی طرح میں بھی کھاتا پیتا ہوں اور انہیں کی طرح اٹھتا بیٹھتا ہوں.( الشفاء لقاضی عیاض باب تواضعہ ) اسی طرح حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور ایک مجلس میں اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا حضور کے پاس آئی اور عرض کیا کہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے لیکن میں آپ سے ان لوگوں کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتی میرے ساتھ آکر میری بات علیحدگی میں سنیں.حضور نے اس کی بات سن کر فرمایا کہ اے فلاں تو مدینہ کے راستوں میں سے جس راستہ میں چاہے میں وہاں تیرے ساتھ جاؤں گا وہاں بیٹھ کر تیری بات سنوں گا اور جب تک تیری بات سن کر تیری ضرورت پوری نہ کر دوں وہاں سے نہیں ہٹوں گا.حضرت انس کہتے ہیں حضور کی بات سن کر وہ حضور " کو ایک راستہ پر لے گئی پھر وہاں جا کر بیٹھ گئی حضور بھی اُس کے ساتھ بیٹھ گئے اور جب تک اُس کی بات سن کر اُس کا کام نہیں کر دیا حضور تو ہیں بیٹھے رہے.(شفا عیاض باب تواضعہ ) انکساری کی انتہاء صلى الله آنحضرت جب دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے وہ دن آپ کے لئے بہت خوشی اور مسرت اور عظمت کے اظہار کا دن تھا.مگر حضور متق الله خدا کے ان فضلوں کے اظہار پر خدا کی راہ میں بچھے جاتے تھے.خدا نے جتنا بلند کیا آپ انکساری میں اور بڑھتے جارہے تھے یہاں تک کہ جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کا سر جھکتے جھکتے اونٹ کے کجاوے سے جالگا.اور اللہ کے نشانوں پر اس کی حمد وثناء میں مشغول تھے.(سیرۃ ابن ہشام باب وصول النبی ذی طوی جلد 2 صفحہ 405) www.alislam.org
57 56 56 -23 اپنے ہاتھ سے کام کرنا آنحضرت ملالہ کو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں بلند ترین مقام عطا فرمایا تھا.اور آپ کو ایسے خدام بھی بخشے تھے جو آپ کی خدمت پر ہمیشہ کمر بستہ تھے اور آپ کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کو تیار تھے مگر اس کے باوجود آپ اپنے لئے عام دنیاوی معاملات میں کوئی امتیازی حیثیت اختیار کرنا پسند نہ فرماتے اور اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنا پسند کرتے تھے.اور اس میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے.اپنے خادموں کا بوجھ ہلکا کرتے اور انہیں آرام پہنچانے کی اتنی کوشش فرماتے کہ وہ آپ پر جان فدا کرنے کے لئے مستعد رہتے تھے.امر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے عمل کو وقار بخشا اور ہاتھ سے کام کرنے میں عزت کی نوید سنائی.گھر میں کام حضور اکرم متلاقہ گھر کے جو کام کرتے تھے ان کا نقشہ حضرت عائشہ نے اس طرح کھینچا ہے کہ حضور اپنی جوتی خود مرمت کر لیتے تھے اور اپنا کپڑا اسی لیا کرتے تھے.(مسند احمد بن جنبل جلد 6 ص121'167) دوسری روایات میں ہے کہ آپ اپنے کپڑے صاف کر لیتے ان کو پیوند لگاتے بکری کا دودھ دوہتے اونٹ باندھتے ان کے آگے چارہ ڈالتے آٹا گوندھتے اور بازار سے سودا سلف لے آتے.(الشفاء لقاضی عیاض باب تواضعہ ) مزید بیان کیا گیا ہے کہ ڈول مرمت کر لیتے خادم اگر آٹا پیتے ہوئے تھک جاتا تو اس کی مدد کرتے اور بازار سے گھر کا سامان اُٹھا کر لانے میں شرم محسوس نہ کرتے تھے.( شرح الزرقانی علی المواهب اللدنیہ جلد 4 ص264 اسدالغابہ ) یہ حضور کی عمومی معاشرتی زندگی کا نقشہ ہے جس کی تائید میں صحابہ نے متفرق واقعات بیان کئے ہیں.چند ایک نمونہ کے طور پر پیش ہیں.سامان خود اٹھایا صلى الله حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت کے ساتھ بازار گیا جہاں سے حضور نے کچھ شلوار میں خریدیں اور پھر آپ کے ساتھ جو خزانچی تھا اسے فرمایا کہ اس دکاندار کو ان شلواروں کی قیمت ادا کر دو اور ہاں دیکھو پلڑا جھکا کر رکھنا اور ان شلواروں کی قیمت سے زیادہ قیمت دینا.پھر حضرت ابو ہریرہ نے اس سارے واقعہ کی تفصیل بیان فرمائی اور یہ بھی بتایا کہ جب حضور اس دکان سے واپس جانے لگے تو وہ دکاندار تیزی سے حضور کے ہاتھ کی طرف بوسہ دینے کو بڑھا لیکن حضور نے اپنا ہاتھ پرے کرلیا اور فرمایا دیکھو اس انداز میں تو تعظیم (تم) عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کی کرتے ہو اور میں تو بادشاہ نہیں (بادشاہ تو صرف اللہ ہی ہے) میں تو تم جیسا ایک آدمی ہوں.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ پھر حضور نے جو شلواریں خریدی تھیں اٹھا لیں میں نے چاہا کہ میں انہیں پکڑ لوں لیکن حضور نے فرمایا نہیں رہنے دو جس کی چیز ہو اس کو خود ہی اٹھانی چاہئے.الشفالقاضی عیاض.باب تو اصفہ) www.alislam.org
59 58 -24 اجتماعی کاموں میں شرکت حضور کی منکسرانہ اور متواضع زندگی کا ایک پہلو اجتماعی کاموں میں شرکت ہے.آنحضرت ملالہ نے قومی محنت کے امور میں براہ راست شریک ہو کر قومی خدمت کو ایک نیا شرف اور نئی عظمت عطا فرمائی.صلى الله تعمیر کعبہ کے بچپن میں کعبہ کی تعمیر ہورہی تھی اس میں حضور نے بھی بڑوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا اور اور پتھر اٹھا کر لاتے رہے.( صحیح بخاری باب بنیان الكعبة ) قریش نے آپ کی جوانی کے زمانہ میں جب کعبہ کو گرا کر از سرنو تعمیر کیا.آپ نے بھی اس میں حصہ لیا.اور حجر اسود کی تنصیب کے وقت قریش کے جھگڑے کو حکم بن کر عمدگی سے حل فرمایا.سیرت ابن ہشام جلد 1 ص 209 مطبع حجازی قاہرہ 1937 حدیث بنیان الکعبة ) تعمیر مسجد قبا مدینے سے تین میل کے فاصلہ پر ایک بستی تھی جس کا نام قبا تھا.رسول کریم ملالہ کی ہجرت سے قبل کئی مہاجرین مکہ سے آکر اس بستی میں ٹھہر گئے تھے.حضور مقالہ ملالہ نے جب خود ہجرت فرمائی تو مدینہ جانے سے قبل اس بستی میں قیام فرمایا.یہاں آپ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک مسجد کی بنیاد ڈالی جسے مسجد قبا کہتے ہیں.مسجد کی تعمیر میں آپ نے خود صحابہ کے ساتھ مزدوروں کی طرح حصہ لیا.روایت ہے کہ حضور صل اللہ نے صحابہ سے فرمایا قریب کی پتھریلی زمین سے پتھر جمع کر کے لاؤ پتھر جمع ہو گئے تو حضور نے خود قبلہ رخ ایک خط کھینچا.اور خود اس پر پہلا پتھر رکھا.پھر بعض بزرگ صحابہ سے فرمایا اس کے ساتھ ایک ایک پتھر رکھو.پھر عام اعلان فرمایا کہ ہر شخص ایک ایک پتھر رکھے.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ حضور خود بھاری پتھر اٹھا کر لاتے یہاں تک کہ جسم مبارک جھک جاتا.پیٹ پر مٹی نظر آتی صحابہ عرض کرتے.ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ یہ پتھر چھوڑ دیں ہم اٹھا لیں گے مگر آپ فرماتے نہیں تم ایسا ہی اور پتھر اٹھالا ؤ.موقع پر ہوا.الحجم الكبير للطبرانی جلد 24 ص 318 مکتبہ ابن تیمیة قاہر) جنگ خندق متلاقہ کے زمانے میں سب سے اہم اور سب سے مشکل وقار عمل جنگ خندق کے شوال 5ھ میں کفار مکہ کی سرکردگی میں پندرہ ہزار کا لشکر مدینہ پرحملہ آور ہوا.جس کی روک تھام کے لئے مدینہ کے غیر محفوظ حصہ کے سامنے خندق کھودنے کا فیصلہ ہوا.ملالہ نے خود اپنی نگرانی میں موقع پر نشان لگا کر پندرہ پندرہ فٹ کے ٹکڑوں کو دس حضور دس صحابہ کے سپر د فر ما دیا.فتح الباری شرح بخاری جلد 7 ص 397 از ابن حجر عسقلانی دار نشر الکتب الاسلامیہ لاہور 1981ء) ان ٹولیوں نے اپنے کام کی تقسیم اس طرح کی کہ کچھ آدمی کھدائی کرتے تھے اور کچھ کھدی ہوئی مٹی اور پتھروں کو ٹوکریوں میں بھر کر کندھوں پر لاد کر باہر پھینکتے تھے.حضور ملاقه بیشتر وقت خندق کے پاس گزارتے اور بسا اوقات خود بھی صحابہ کے ساتھ مل کر کھدائی اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے تھے.اور ان کی طبائع میں شگفتگی قائم رکھنے کے لئے بعض www.alislam.org
61 60 اوقات آپ کام کرتے ہوئے شعر پڑھنے لگ جاتے جس پر صحابہ بھی آپ کے ساتھ سُر ملا کر وہی شعر یا کوئی دوسرا شعر پڑھتے.ایک صحابی کی روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ملالہ کو ایسے وقت میں یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا کہ آپ کا جسم مبارک مٹی اور گردو غبار کی وجہ سے بالکل آٹا ہوا تھا.(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق) میں لکڑیاں لاؤں گا ایک سفر کے دوران کھانا تیار کرنے کا وقت آیا تو مختلف صحابہ نے اپنے اپنے کام بانٹ لئے تھے.کسی نے بکری ذبح کرنے کا کسی نے پکانے کا.حضور نے جنگل سے لکڑیاں اکٹھا کرنے کا کام اپنے ذمہ لیا.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کام بھی ہم کر لیں گے تو آپ نے فرمایا.میں جانتا ہوں تم یہ کام بھی کر سکتے ہو مگر میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میں خود کو تم سے ممتاز کروں اور الگ رکھوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کو پسند نہیں کرتا جو اپنے ہمراہیوں سے ممتاز بنتا ہے.(شرح المواهب اللدنيه جلد 4 صفحہ 265 دار المعرفہ بیروت 1933ء) -25 حب الوطنی قومی جذبه آنحضرت ملالہ کی عمر تقریبا ہمیں سال کی تھی کہ آپ کی قوم قریش کی بعض دوسرے قبائل سے جنگ چھڑ گئی جس کو حرب فجار کہتے ہیں.آنحضرت سلطانہ نے بھی قومی جذبہ کے تحت اسمیں شرکت کی اور گو خود قتال نہیں کیا مگر آپ اپنے چچاؤں کو تیر پکڑاتے تھے.مکہ سے محبت (سیرت ابن ہشام باب حرب الفجار ) وہ دن شاہ دو جہاں پر کتنا بھاری ہوگا جب آپ اپنے آبائی وطن مکہ کے ان گلی کوچوں سے نکلنے پر مجبور ہوئے.چنانچہ جس روز آپ مکہ سے نکلے ہیں تو اُس روز آپ کا دل اپنے وطن مکہ کی محبت میں خون کے آنسو رو رہا تھا.جب آپ شہر سے باہر آئے تو اس مقام پر جب مکہ آپ کی نظروں سے اوجھل ہورہا تھا ایک پتھر پر آپ کھڑے ہو گئے اور مکہ کی طرف منہ کر کے اسے مخاطب ہوکر فرمایا.”اے مکہ ! تو میرا پیارا شہر اور پیارا وطن تھا اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز نہ نکلتا.“ یہ کہا اور سفر ہجرت پر روانہ ہوئے.(سنن ترمذی کتاب المناقب باب فضل مكة ) www.alislam.org
63 29 62 26 شکر گزاری آنحضرت مقالہ اپنے رب کی صفت شکور کے بھی مظہر اتم تھے آپ کی سرشت شکر گزاری کے خمیر سے گوندھی گئی تھی.ہر احسان کی قدر اور اس پر شکریہ کے جذبات آپ کی ذات مبارک میں مسلسل تیز دھاروں کی طرح بہتے نظر آتے ہیں.خدا کا شکر آپ پر حقیقی اور واقعی احسان خدا تعالیٰ کا تھا جس نے آپ کو بلند ترین مقام عطا فرمایا.آپ نے اس کی عبودیت اور بندگی کا حق ادا کر دیا.وہ عبادت جو دوسروں کے لئے فرض کا رنگ رکھتی ہے آپ کے لئے بمنزلہ غذا کے تھی.عبد شکور حضور متلاقہ راتوں کو عبادت میں اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ پاؤں سوج جاتے.صحابہ عرض کرتے کہ آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں.آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ اللہ نے معاف کر رکھے ہیں.تو آپ فرماتے کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.( صحیح بخاری کتاب التهجد - باب قیام النبي مطلقه اللي....) آپ کے تعلق باللہ کے سارے جذبے اسی شکر گزاری اور وفاداری کے گردگھومتے ہیں.انسانوں کی شکر گزاری انسانوں کے لئے آپ سراپا سپاس تھے جس کسی نے آپ کی ذرہ بھر بھی خدمت کی یا کسی طرح کوئی فائدہ پہنچایا حضور نے اس کی قدر افزائی کی اور اس کی نیکی سے بڑھ کر اسے صلہ دیا.انسانوں میں سے کسی کے احسان کو آپ نے بغیر بدلہ کے نہیں چھوڑا.خدمت کرنے والے سے ہزاروں گنا بڑھ کر اسے صلہ دیا.مگر پھر بھی اس کا ذکر محسن کے طور پر کرتے رہے.حضرت ابوبکر رسول کریم مقالہ کا تراشا ہوا ہیرا تھے.اور آپ نے انہیں ابدالآباد تک کی روحانی زندگی بخش دی ہے مگر ان کے احسانات کا ذکر ہمیشہ ایک خاص پیار کے ساتھ فرماتے رہے.حضرت ابوبکر حضرت ابو بکر نے آغاز اسلام سے ہی خاص قربانیوں اور خدمت کی توفیق پائی تھی اس لئے حضور ہمیشہ ان کی خدمات کو یا در کھتے اور قدر فرماتے تھے.ایک دفعہ ایک صحابی سے حضرب ابو بکر کا اختلاف ہو گیا.حضور کو پتہ لگا تو فرمایا:.” جب اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تو تم سب نے مجھے جھوٹا کہا اور ابوبکر نے میری سچائی کی گواہی دی اور اپنی جان اور مال سے میری مدد کی.کیا تم میرے اس ساتھی کی دلآزاری سے باز نہیں رہ سکتے.“ اپنی وفات کے قریب عرصہ میں فرمایا لوگوں میں سے اپنی ہمہ وقت موجودگی اور مال کے ساتھ مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر نے کیا ہے.پھر فرمایا: ”مسجد نبوی میں کھلنے والی تمام کھڑکیاں بند کر دی جائیں سوائے ابوبکر کی کھڑی کئے“ ( بخاری کتاب المناقب باب فضائل ابی بکر ) www.alislam.org
65 64 حضرت خدیجہ حضرت ابوبکر جیسا ہی معاملہ حضرت خدیجہ کے ساتھ پیش آیا حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں که حضور متال اللہ جب بھی حضرت خدیجہ کا ذکر فرماتے تو بہت تعریف کرتے.ایک دن میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان سے بہتر بیویاں عطا کی ہیں.تو آپ نے فرمایا:.”جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تھا تو خدیجہ نے مجھے قبول کیا جب لوگوں نے میرا کفر کیا تو وہ ایمان لائیں جب لوگوں نے مجھے مال سے محروم کر دیا تھا انہوں نے مال سے میری مدد کی اور اللہ نے انہی سے مجھے اولاد بھی عطا فرمائی.“ ( مسند احمد بن حنبل جلد 6 ص 117 المكتب الاسلامی.بیروت) انصار مدینہ رسول کریم ملاقہ کی نبوت کے 13 ویں سال حضور کی ہجرت سے قبل مدینہ سے 70 لوگوں نے حضور کے ہاتھ پر بیعت کی.اور عہد کیا کہ جب حضور مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم اپنی جانوں کی طرح حضور" کی حفاظت کریں گے.اس موقع پر ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ مدینہ کے یہود کے ساتھ ہمارے پرانے تعلقات ہیں.آپ کا ساتھ دینے سے وہ منقطع ہو جائیں گے.ایسا نہ ہو کہ جب اللہ آپ کو غلبہ دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر مکہ واپس آجائیں.حضور نے فرمایا:.د نہیں نہیں.ہرگز ایسا نہیں ہوگا.تمہارا خون میرا خون ہوگا تمہارے دوست میرے دوست اور تمہارے دشمن میرے پیشمن.چنانچہ مدینہ جانے کے بعد حضور " کو اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان فتوحات عطا فرمائیں اور آپ فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے مگر چند دن قیام کے بعد مدینہ واپس چلے گئے.اور د ہیں دفن ہونا پسند فرمایا.جنگ حنین کے بعد مال غنیمت کی تقسیم پر ایک انصاری نے اعتراض کیا تو حضور نے انصار سے ایک درد ناک خطاب کیا اور اس میں فرمایا :.اگر تم یہ کہو کہ اے محمد ہمارے پاس تو اس حال میں آیا کہ تو جھٹلایا گیا تھا اور ہم نے اس وقت تیری تصدیق کی اور تجھے اپنوں نے دھتکار دیا تھا ہم نے اس وقت تجھے قبول کیا اور پناہ دی تھی.اور تو ہمارے پاس اس حال میں آیا کہ مالی لحاظ سے بہت کمزور تھا اور ہم نے تجھے غنی کر دیا اگر تم یہ کہو تو میں تمہاری تمام باتوں کی تصدیق کروں گا.اے انصار ا گر لوگ مختلف وادیوں یا گھاٹیوں میں سفر کر رہے ہوں تو میں اسی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا جس میں تم انصار چلو گے.اگر میرے لئے ہجرت مقدر نہ ہوتی تو میں تم میں سے کہلانا پسند کرتا تم تو میرے ایسے قریب ہو جیسے وہ کپڑے جو میرے بدن کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور باقی لوگ میری اوپر کی چادر کی (مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص 76) مطعم بن عدی طرح ہیں.جنگ بدر کے موقعہ پر جب مکہ کے قیدی حضور ملاقہ کی خدمت میں پیش کئے گئے تو حضور نے فرمایا:.اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان لوگوں کی سفارش کرتا تو میں ان کو ( صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر ) یونہی چھوڑ دیتا.(سیرت ابن ہشام جلد 2 ص 85 - مطبع مصطفى مصر - 1936ء) www.alislam.org
20 67 -27 سادگی اور بے تکلفی رسول اللہ کا بستر حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ملاقہ کا بستر چھڑے کا تھا جس کے اندر کھجور کے باریک نرم ریشے بھرے ہوئے تھے.( صحیح بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی) آخری لباس حضرت ابوبز دہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے ہمیں آنحضرت ملالہ کی موٹی کھدر کی چادر اور تہبند نکال کر دکھائی اور کہا کہ حضور متعلقہ نے وفات کے وقت یہ کپڑے پہن رکھے تھے.(صحیح بخاری کتاب اللباس باب الا کسیۃ ) آخرت کا طالب حضرت عمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں آنحضرت سلطانہ کی خدمت میں حضور کے حجرہ میں حاضر ہوا حضور ایک چٹائی پر تشریف فرما تھے میں بھی اُس چٹائی پر بیٹھ گیا اُس چٹائی پر صرف ایک چادر پڑی تھی اور گدا و غیرہ میں سے اس پر کچھ نہیں تھا اور میں نے دیکھا کہ حضور کے جسد مبارک پر چٹائی پر لیٹنے کی وجہ سے نشان پڑ گئے تھے.پھر میری نگاہ حضور کے کمرہ پر پڑی تو مجھے اُس چٹائی کے علاوہ وہاں صرف یہ چیزیں نظر آئیں.ایک طرف ایک صاع ( دوکلو) کے 66 مطعم بن عدی مکہ کا ایک شریف آدمی تھا.گو اس کو اسلام قبول کرنے کی توفیق نہیں ملی مگر اس کو بعض مواقع پر حضور ملالہ کی مدد کی سعادت حاصل ہوئی.جس کو حضور متل اللہ نے ہمیشہ یاد رکھا اور اس کی قدر کرتے رہے.www.alislam.org
69 69 68 برابر کچھ کو پڑے تھے اور کمرہ کے ایک کو نہ میں ایک درخت کے کچھ پتے جن سے جانوروں کی کھالوں کو رنگا جاتا تھا وہ پڑے تھے اور ایک تازہ کھال جسے ابھی رنگ کر تیار نہیں کیا گیا تھا وہ لٹک رہی تھی.یہ دیکھ کر بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے.حضور نے اس حالت میں مجھے دیکھا تو فرمایا کہ اے ابن الخطاب تجھے رونا کیوں آ گیا.میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی میں کیوں نہ روؤں یہ چٹائی آپ کا بستر ہے اور آپ کے جسم پر اس کے نشان پڑ گئے ہیں اور آپ کی ساری دولت بس یہی ہے کچھ کھو کچھ پتے اور ایک غیر تیار شدہ کھال جو مجھے اس کمرہ میں نظر آرہی ہے.یہ آپ " کی حالت ہے اور ادھر قیصر و کسری ہیں کہ دولت میں لوٹ رہے ہیں.باغوں کے مالک ہیں.دریاؤں پر قابض ہیں اور اللہ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے آپ اس کے نبی ہیں.اس کے برگزیدہ ہیں اور اُس کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر ہیں اور اس کے باوجود آپ کی ساری دنیوی دولت بس یہی کچھ ہے جو اس کمرہ میں ہے.حضرت عمر کہتے ہیں جب حضور نے میری یہ بات سنی تو فرمایا کہ اے ابن الخطاب کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ قیصر و کسریٰ کو اس دنیا کی دولتیں دے دی جائیں اور ہمیں آخرت کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا جائے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں یا رسول اللہ.(سنن ابن ماجہ کتاب الزهد باب ضباع آل محمد ) ☆☆☆ -28 پاک زبان انداز گفتگو حضرت حسن بن علی کا بیان ہے کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے آنحضرت مقالہ کی گفتگو کے انداز کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آنحضرت صل اللہ ہمیں یوں لگتے جیسے کسی مسلسل اور گہری سوچ میں ہیں اور کسی خیال کی وجہ سے کچھ بے آرامی سی ہے آپ اکثر چپ رہتے.بلا ضرورت بات نہ کرتے.آپ بات کرتے تو پوری وضاحت سے کرتے.آپ کی گفتگو مختصر لیکن فصیح و بلیغ ، پر حکمت اور جامع مضامین پر مشتمل اور زائد باتوں سے خالی ہوتی لیکن اس میں کوئی کمی یا ابہام نہیں ہوتا تھا.نہ کسی کی مذمت و تحقیر کرتے نہ تو ہین وتنقیص چھوٹی سے چھوٹی نعمت کو بھی بڑا ظاہر فرماتے.شکر گزاری کا رنگ نمایاں تھا.کسی چیز کی مذمت نہ کرتے.نہ اتنی تعریف جیسے وہ آپ کو بے حد پسند ہو.مزیدار یا بدمزہ ہونے کے لحاظ سے کھانے پینے کی چیزوں کی تعریف یا مذمت میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا آپ کی عادت نہ تھی.ہمیشہ میانہ روی شعار تھا.کسی دنیوی معاملے کی وجہ سے نہ غصے ہوتے نہ برا مناتے.لیکن اگر حق کی بے حرمتی ہوتی یا حق غصب کر لیا جاتا تو پھر آپ کے غصے کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا تھا.جب تک اس کی تلافی نہ ہو جاتی آپ کو چین نہیں آتا تھا.اپنی ذات کے لئے کبھی غصہ نہ ہوتے اور نہ آپ اس کے لئے بدلہ لیتے.جب اشارہ کرتے تو پورے ہاتھ سے کرتے صرف انگلی نہ ہلاتے جب آپ تعجب کا اظہار کرتے تو ہاتھ الٹا دیتے.جب کسی بات پر خاص طور پر زور دینا ہوتا تو ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے اس طرح ملاتے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر www.alislam.org
71 70 بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو مارتے.جب کسی ناپسندیدہ بات کو دیکھتے تو منہ پھیر لیتے.اور جب خوش ہوتے تو آنکھیں کسی قدر بند کر لیتے.آپ کی زیادہ سے زیادہ ہنسی کھلے تبسم کی حد تک ہوتی یعنی زور کا قہقہہ نہ لگاتے.انہی کے وقت آپ کے دندان مبارک ایسے نظر آتے جیسے بادل سے گرنے والے سفید سفید اولے ہوتے ہیں.پاک زبان (شمائل الترمذی باب کلام رسول اللہ ) مسروق کہتے ہیں کہ (ایک دن) ہم عبد اللہ بن عمرو کے پاس بیٹھے تھے (آنحضرت ملالہ کا تذکرہ ہورہا تھا ) عبداللہ بن عمرو ہمیں حضور کی باتیں بتا رہے تھے کہ دوران گفتگو عبد اللہ بن عمرو نے کہا کہ حضور " کی زبان پر کبھی کوئی ایسی بات نہیں آتی تھی جو نا پسندیدہ ہو.کبھی کوئی مخش کلمہ کوئی بے حیائی کی بات ہم نے حضور کی زبان سے نہیں سنی اور حضور کو ایسی عادت نہ تھی نہ حضور تکلفاً کوئی ایسی بات کرتے تھے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو تم میں سے اپنے اخلاق میں سب سے اچھا ہو.(بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق ) گواہی صحابہ کی گواہی ہے کہ:.آنحضرت ملالہ کوئی بے حیائی کی بات نہ خود کرتے تھے نہ اسے سننا پسند کرتے تھے.“ (بخاری کتاب الادب باب لم یکن النبی فاحشا و لا تحتا) كَانَ الْيَنَ النَّاسِ وَاكْرَمَ النَّاسِ وَكَانَ ضَحَّاكًا بَسَّامًا.سب سے نرم خوا خلاق کریمانہ کی بارشیں برسانے والے اور ہر تنگی وسختی میں تبسم ریز تھے.(طبقات اے بن سعد جلد اوّل صفحہ 365) -29 ور شگفتگی تبسم اور تبسم ریز چهره صلى الله حضرت عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی اور شخص کو نہیں دیکھا.( یعنی ہر وقت آپ کے چہرہ مبارک پر تبسم کھلا رہتا).( سنن ترمذی ابواب المناقب باب بشاشته النبی) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے آنحضرت ملالہ کو بھی زور سے قہقہہ لگا کر ہنتے ہوئے نہیں دیکھا.آپ کا ہنسنا تبسم کے انداز سے ہوتا تھا.( صحیح بخاری کتاب الادب باب التبسم) حضرت سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن سمرہ سے پوچھا کہ کیا آپ حضور کی مجالس میں بیٹھا کرتے تھے؟ فرمایا بہت کثرت کے ساتھ.حضور مفجر کی نماز پڑھانے کے بعد جائے نماز پر ہی سورج طلوع ہونے تک تشریف فرما رہتے تھے.صحابہ آپس میں زمانہ جاہلیت کی باتیں کر کے ہنسا کرتے تھے اور حضور بھی ان کے ساتھ قسم فرمایا کرتے تھے.( صحیح مسلم کتاب الفضائل باب تبسمه ) حضرت عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے کسی کو حضور سے زیادہ مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا.حضرت جریر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضور جب بھی مجھے دیکھتے تو مسکرا دیتے تھے.الشمائل المحمد سه لتر مذی باب فی محک رسول اللہ ) www.alislam.org
73 -30 72 مطہر مذاق مزاح اور مذاق میں بسا اوقات جھوٹ یا کم از کم مبالغہ آمیزی کا معمولی دخل ضرور ہوتا ہے.مگر ہمارے آقا و مولیٰ اس کیفیت میں بھی سچائی کے نقیب اور پیغمبر تھے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ نے حضور سے عرض کی.یا رسول اللہ آپ بھی ہم سے مذاق اور مزاح فرماتے ہیں.حضور نے فرمایا.میں سچ کے سوا اور کچھ نہیں کہتا“ ایک دفعہ ایک شخص حضور ملاقہ کے پاس آیا اور آپ سے اپنے لئے سواری مانگی.حضور نے فرمایا ٹھیک ہے میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دے دوں گا.اس نے کہا یا رسول اللہ میں اونٹنی کے بچہ کو کیا کروں گا.آپ نے فرمایا.کوئی اونٹ ایسا بھی ہے جو اونٹنی کا بچہ نہ ہو.“ (سنن ترمذی ابواب البر والصلۃ باب فی المزاح) ایک بوڑھی عورت نے عرض کیا کہ حضور" کیا میں جنت میں جاؤں گی.آپ نے فرمایا کہ جنت میں تو صرف جوان عورتیں جائیں گی وہ افسردہ ہوگئی تو فرمایا."جنت میں بوڑھے بھی جوان کر کے لیجائے جائینگے.“ حضور الشمائل الحمد يه لتر مذی صفتہ مزاح رسول الله ) کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی آپ نے اس کے شوہر کی بابت پوچھا تو اس نے نام بتایا.جس پر آپ نے فرمایا.وہی جس کی آنکھوں میں سفیدی ہے جو نبی وہ عورت گھر پہنچی تو اپنے شوہر کی آنکھوں کو غور سے دیکھنے لگی.اس کے خاوند نے کہا.تجھے کیا ہو گیا ہے.عورت نے جواب دیا کہ رسول کریم متقاطقہ نے مجھے بتایا ہے کہ تیری آنکھوں میں سفیدی ہے.یہ سن کر اس نے کہا میری آنکھوں میں سفیدی سیاہی سے زیادہ نہیں ہے.(شرف النبی از علامہ ابوسعید نیشا پوری مترجم ص 109) وسعت حوصلہ اسے دے دو حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ آنحضرت ملاقہ کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ نے نجران کی بنی ہوئی چادر اوڑھی ہوئی تھی جس کے کنارے بہت موٹے تھے کہ اتنے میں ایک اعرابی آپ کے قریب آیا اور آپ کو بڑی سختی سے کھینچنے لگا.یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اس کے سختی سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کی رگڑ کے ساتھ آپ کی گردن پر خراشیں پڑ گئیں.اس کے بعد اس نے کہا کہ آپ کے پاس جو مال ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی دلوائیں آپ نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرائے اور فرمایا کہ اسے کچھ دے دو.( صحیح بخاری کتاب الجہاد باب کان النبی یعطی ) پا کے دکھ آرام دو حضرت انس کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حضور کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا.حضور ایک ایسی چادر زیب تن کئے ہوئے تھے جس کا حاشیہ سخت اور کھردرا تھا.اتنے میں ایک بدواس مجلس میں آیا سیدھا حضور کی طرف بڑھا اور حضور کی چادر کو پکڑ کر بڑے زور سے اپنی طرف کھینچا اس قدر زور سے کھینچا کہ حضور کے کاندھوں کے کنارہ پر اس چادر کے حاشیہ کے نشان پڑ گئے.پھر حضور سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد میرے ان دو اونٹوں پر اللہ کے اس مال میں سے جو آپ کے پاس ہے کچھ میرے لئے لا دیجئے کیونکہ جو مال ان اونٹوں پر لد وائیں گے وہ نہ آپ کا ہے نہ آپ کے والد کا وہ تو صرف اللہ کا مال ہے.حضور نے اس بدو کی بات کو سنا اور www.alislam.org
75 74 کچھ دیر کے لئے خاموش رہے پھر اس بدو سے مخاطب ہوئے اور فرمایا ہاں یہ سب مال تو اللہ کا ہی مال ہے اور میں بھی تو اسی کا بندہ ہوں میرا تو سب کچھ اسی کا ہے.پھر آپ نے اسے کہا کہ اے اعرابی جو کچھ تو نے اس وقت میرے ساتھ کیا ہے اس کا تو تجھ سے بدلہ لیا جانا چاہئے.اس پر بدو نے کہا نہیں ایسا نہیں ہوگا.آپ نے فرمایا آخر کس لئے.بدو نے عرض کیا کہ حضور آپ تو کبھی بھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے.حضور بدو کی بات سن کر ہنس پڑے پھر حکم دیا کہ اس کے ایک اونٹ پر کو اور دوسرے پر کھجور میں لاد دی جائیں اور اس کو اس مال کے ساتھ رخصت کر دیا جائے.الشفاء لقاضی عیاض جلد اول ص 63) ☆☆☆ -31 معلم اخلاق حضرت مالک بن الحویرث بیان کرتے ہیں کہ ہم کچھ ہم عمر نوجوان آنحضرت ملالہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس دن حضور کے پاس رہے.حضور ملالہ بہت ہی نرم دل اور مہربان تھے.آپ سمجھ گئے کہ ہم اپنے گھر والوں کے لئے اداس ہو گئے ہیں تو حضور نے ہم سے ہمارے گھر والوں کے بارے میں پوچھا اور فرمایا:.اب تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ.ان کو دین سکھاؤ.نیکیوں کا حکم دو اور جیسے میں نماز پڑھتا ہوں ویسے ہی نماز پڑھا کرو.جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دیا کرے اور پھر جو بڑا ہے وہ نماز پڑھایا کرے.( صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس) طریق تربیت حضرت علی اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک موقعہ پر جبکہ حضرت علی نے آپ کو ایسا جواب دیا جس میں بحث اور مقابلہ کا طرز پایا جاتا تھا تو بجائے اس کے کہ آپ ناراض ہوتے یا خفگی کا اظہار کرتے آپ نے ایک ایسی لطیف طرز اختیار کی کہ حضرت علی غالبا اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس کی حلاوت سے مزا اٹھاتے رہے ہوں گے اور انہوں نے جو لطف اٹھایا ہوگا وہ تو انہیں کا حق تھا.اب بھی آنحضرت متقابلہ کے اس اظہار ناپسندیدگی کو معلوم کر کے ہر ایک بار یک بین نظر محو حیرت ہو جاتی ہے.حضرت علی فرماتے ہیں کہ نبی کریم متلاقہ ایک رات میرے اور فاطمہ الزہرہ کے پاس تشریف لائے جو رسول اللہ " کی صاحبزادی تھیں اور www.alislam.org
77 76 فرمایا کہ کیا تہجد کی نماز نہیں پڑھا کرتے.میں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ہماری جانیں تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں جب وہ اٹھانا چاہے اٹھا دیتا ہے.آپ اس بات کو سن کر لوٹ گئے اور آپ اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہہ رہے تھے کہ انسان تو اکثر باتوں میں بحث کرنے لگ پڑتا ہے.( صحیح بخاری کتاب التهجد باب تحريض النبي) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.اللہ اللہ کس لطیف طرز سے حضرت علی کو آپ نے سمجھایا کہ آپ کو یہ جواب نہیں دینا چاہئے تھا.کوئی اور ہوتا تو اول تو بحث شروع کر دیتا کہ میری پوزیشن اور رتبہ کو دیکھو.پھر اپنے جواب کو دیکھو کہ کیا تمہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ اس طرح میری بات کو رد کر دو.یہ نہیں تو کم سے کم بحث شروع کر دیتا کہ یہ تمہارا دعویٰ غلط ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں وہ جس طرح چاہے کرواتا ہے چاہے نماز کی توفیق دے چاہے نہ دے اور کہتا کہ جبر کا مسئلہ قرآن شریف کے خلاف ہے لیکن آپ نے ان دونوں طریق میں سے کوئی بھی اختیار نہ کیا اور نہ تو ان پر ناراض ہوئے نہ بحث کر کے حضرت علی کو ان کے قول کی غلطی پر آگاہ کیا بلکہ ایک طرف ہو کر ان کے اس جواب پر اس طرح اظہار حیرت کر دیا کہ انسان بھی عجیب ہے کہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی پہلو اپنے موافق نکال ہی لیتا ہے اور بحث شروع کر دیتا ہے.“ نرمی کے ساتھ (سيرة النبي ص 142) معاویہ بن حکم سلمی کہتے ہیں کہ جب میں حضور کی خدمت میں (قبول اسلام کے لئے ) حضور کی خدمت حاضر ہوا مجھے اسلام کی بہت سی باتیں سکھائی گئیں اور ایک بات جو مجھے سکھائی گئی وہ یہ تھی کہ حضور نے مجھے فرمایا کہ جب چھینک آئے تو الحمد للہ کہو اور جب کوئی دوسرا چھینک لے کر الحمد للہ کہے تو تم یرحمک اللہ کہا کرو.معاویہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں حضور کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص نے چھینک لی اور الحمد للہ کہا تو میں نے نماز ہی میں یرحمک اللہ کہ دیا اور بڑی اونچی آواز سے کہا.دوسرے نمازی (میری آواز سن کر ) مجھے گھورنے لگے جیسے اپنی نظروں سے مجھ پر تیر برسا رہے ہوں مجھے یہ بہت برا لگا اور میں نماز ہی میں بولا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے مجھے یوں کیوں گھورتے ہو.میرا یہ کہنا تھا کہ نمازی سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگے اور ساتھ ہی وہ مجھے چپ کراتے تو میں چپ ہو گیا جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا نماز میں کون بولتا تھا تو آپ سے (میری طرف اشارہ کر کے ) عرض کیا گیا کہ یہ بدو.اس پر حضور نے مجھے اپنے قریب بلایا اور میرے ماں باپ آپ پر قربان حضور نے مجھے مارا نہ جھڑ کا نہ گالی دی بس یہ فرمایا ”نماز قرآن کی تلاوت اور اللہ جل شانہ کے ذکر کے لئے ہوتی ہے اس لئے جب تم نماز پڑھو تو تمہاری حالت بھی اس کے مطابق ہونی چاہئے معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے آج تک حضور سے بڑھ کر نرمی کے ساتھ علم سکھانے والا کوئی اور نہیں دیکھا.(سنن ابوداود کتاب الصلوۃ باب تشميت العاطس) www.alislam.org
79 78 -32 خدمت والدین آنحضرت ملالہ کے والد محترم تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے.اور آپ چھ سال کے تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ بھی رحلت فرما گئیں.اس طرح حضور ملیاللہ کو تقدیر الہی کے ماتحت والدین کی براہ راست خدمت کا موقع تو نہیں ملا مگر ان کے لئے آپ کے دل میں محبت کے بے پناہ جذبات تھے جن کے ماتحت آپ مسلسل درد سے ان کے لئے دعا کرتے رہے.مگر ان کی خدمت کے جذبہ کی تسکین آپ نے رضاعی والدین کی خدمت کر کے حاصل کی.اور یہ نمونہ چھوڑا کہ اگر اصلی والدین زندہ ہوتے تو آپ ان کی خدمت میں کیا کیا کسر نہ اٹھا رکھتے.رضاعی ماں کی خدمت حضرت اسامہ بیان کرتے ہیں کہ:.آنحضرت ملالہ کی رضاعی والدہ حلیمہ مکہ میں آئیں اور حضور سے مل کر قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا.حضور ملالہ نے حضرت خدیجہ سے مشورہ کیا اور رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا.(طبقات ابن سعد جلد اوّل صفحہ 113 بیروت.1960ء) قیدیوں کی رہائی جنگ حنین میں بنو ہوازن کے قریباً چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے.ان میں حضرت حلیمہ کے قبیلہ والے اور ان کے رشتہ دار بھی تھے جو وفد کی شکل میں حضور صل اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کی رضاعت کا حوالہ دے کر آزادی کی درخواست کی.آنحضرت صل اللہ نے انصار اور مہاجرین سے مشورہ کے بعد سب کو رہا کر دیا.طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ 114 بیروت 1960ء) بہت تعظیم کی حضرت ابوالطفیل بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد حضور جعرانہ مقام پر گوشت تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک عورت آئی اور حضور کے قریب چلی گئی حضور نے اس کی بہت تعظیم کی اور اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی.میں نے پوچھا یہ عورت کون ہے تو لوگوں نے کہا یہ حضور کی رضاعی (سنن ابوداؤ د کتاب الادب باب برالوالدین) والدہ ہیں.رضاعی والد ایک بار حضور " تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے.حضور نے ان کے لئے چادر کا ایک پلو بچھا دیا.پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپ نے دوسرا پلو بچھا دیا.پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھالیا.☆☆☆ (سنن ابوداؤ د کتاب الادب باب بر الوالدین) www.alislam.org
81 08 80 -33 ازواج سے حسن سلوک رحیم و کریم حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ مطلقہ کبھی کوئی درشت کلمہ اپنی زبان پر نہ لائے.نیز فرماتی ہیں کہ آپ تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم.عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والئے آپ نے منہ پر کبھی تیوری نہیں چڑھائی ہمیشہ مسکراتے ہی رہتے تھے.حضرت عائشہ کا یہ بھی بیان ہے کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت نے اپنے کسی خادم یا بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا.(شمائل الترمذی باب فی خلق رسول اللہ ) حضرت خدیجہ کی یاد حضرت خدیجہ کی زندگی میں بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی آپ نے کئی سال تک دوسری بیوی نہیں کی اور ہمیشہ محبت اور وفا کے جذبات کے ساتھ حضرت خدیجہ کا محبت بھرا سلوک یاد کیا.آپ کی ساری اولاد جو حضرت خدیجہ کے بطن سے تھی اس کی تربیت و پرورش کا خوب لحاظ رکھا.نہ صرف ان کے حقوق ادا کئے بلکہ خدیجہ کی امانت سمجھ کر ان سے کمال درجہ محبت فرمائی.حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے خدیجہ کی بہن ہالہ آئی ہے.گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو اُس کا گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرماتے.الغرض آپ خدیجہ کی وفاؤں کے تذکرے کرتے تھکتے نہ تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں.و مجھے کبھی کسی زندہ بیوی کے ساتھ اتنی غیرت نہیں ہوئی جتنی حضرت خدیجہ کے ساتھ ہوئی حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پا چکی تھیں.کبھی تو میں اُکتا کر کہہ دیتی یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں اب اس بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں.آپ فرماتے:.و نہیں نہیں خدیجہ اس وقت میری سپر بنیں جب میں بے یارو مددگار تھا.وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پر فدا ہوگئیں.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولا دعطا کی.انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا.“ (مسلم کتاب الفضائل.فضائل خدیجہ.بخاری کتاب الادب باب حسن العبد من الایمان مسند احمد بن جنبل جلد 6 صفحہ 118) سراپا محبت حضرت عائشہؓ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جب میں بیاہ کر آئی تو میں حضور کے گھر میں بھی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی تھیں جو میرے ساتھ مل کر گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں.جب حضور گھر تشریف لاتے (اور ہم کھیل رہی ہوتیں ) تو میری سہیلیاں حضور کو دیکھ کر ادھر ادھر کھسک جاتیں لیکن حضور ان سب کو اکٹھا کر کے میرے پاس لے آتے اور پھر وہ میرے ساتھ مل کر کھیلتی رہتیں.( صحیح بخاری کتاب الادب باب الانبساط الی الناس) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جب حضور جنگ تبوک سے واپس آئے یا شاید یہ اس وقت کی بات ہے جب حضور خیبر سے واپس آئے تو میرے پاس تشریف لائے.ان کے صحن میں ایک جگہ پر دہ لٹک رہا تھا ہوا کا ایک جھونکا آیا تو اس پردہ کا ایک سراہٹ گیا.اس www.alislam.org
83 82 پردہ کے پیچھے حضرت عائشہ کی گڑیاں رکھی تھیں پردہ ہٹا تو وہ نظر آنے لگیں.آنحضرت ملالہ نے پوچھا عائشہ یہ کیا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ میری گڑیاں ہیں.حضور کی نظر پڑی تو دیکھا کہ ان گڑیوں کے درمیان میں ایک گھوڑا کھڑا ہے جس کے چڑے کے پر ہیں.آپ نے فرمایا مجھے ان گڑیوں کے درمیان کیا نظر آ رہا ہے.حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ گھوڑا ہے.آپ نے پوچھا( پروں کی طرف اشارہ کر کے ) کہ گھوڑے کے اوپر یہ کیا چیز ہے.حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ پر ہیں.آپ نے فرمایا بھی تعجب ہے پروں والا گھوڑا ہے.حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آپ نے سنا نہیں کہ حضرت سلیمان کا بھی ایک گھوڑا تھا جس کے بہت سے پر تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب میں نے یہ کہا تو حضور بے اختیار ہنس پڑے اور ایسی شگفتہ کھلی ہوئی بنی تھی کہ حضور نے تو دہن مبارک اتنا کھل گیا کہ مجھے حضور کے سامنے کے آخری دانت بھی نظر آنے لگے.( بخاری کتاب الادب باب اللعب بالبنات) کھیل دکھایا ایک عید کے موقع پر اہل حبشہ مسجد نبوی کے وسیع دالان میں جنگی کرتب دکھا رہے تھے رسول اللہ صل اللہ حضرت عائشہ سے فرماتے ہیں کہ کیا تم بھی یہ کرتب دیکھنا پسند کروگی اور پھر ان کی خواہش پر انہیں اپنے پیچھے کر لیتے ہیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں دیر تک آپ کے پیچھے کھڑی رہی اور آپ کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے آپ کے رخسار کے ساتھ رخسار ملا کے یہ کھیل دیکھتی رہی.آپ کو مجھ سہارے کھڑے رہے یہاں تک کہ میں خود تھک گئی.آپ فرمانے لگے اچھا کافی ہے تو پھر اب گھر چلی جاؤ.( بخاری کتاب العید بین باب الحراب والدرق يوم العيد ) -34 بچوں پر شفقت حضور بچوں کے ساتھ بہت زیادہ پیار کرتے تھے اور ان کے ساتھ انتہائی حسن خلق سے پیش آتے تھے.بچوں کے پاس سے گزرتے.بچوں سے ملتے تو ہمیشہ انہیں سلام کرتے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ کچھ بچے کھیل رہے تھے حضور ان کے پاس سے گزرے تو حضور ان کو پہلے سلام کیا.( سنن ابی داود کتاب السلام باب فی السلام علی الصبیان ) حضور بچوں سے بہت بے تکلف تھے.بچوں کو بڑا پیار اور توجہ دیتے.ان سے ہنسی مذاق کرتے انہیں چھیڑتے.ان سے دل لگی کرتے.ان کو بہلاتے.حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ملالہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی.نماز کے بعد حضور اہل خانہ کی طرف جانے لگے تو میں بھی حضور کے ساتھ چل پڑا.وہاں پہنچے تو آگے بچے حضور کے استقبال کے لئے کھڑے تھے حضور ان کے پاس رک گئے.ایک ایک بچے کے کلوں کو حضور نے اپنے ہاتھ سے سہلایا وہ کہتے ہیں کہ میں تو حضور کے ساتھ آیا تھا لیکن حضور نے پھر میرے کلوں کو بھی سہلایا.جب حضور اپنا ہاتھ میرے کلوں پر پھیر رہے تھے تو مجھے حضور کے ہاتھوں میں ایسی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس ہوئی گویا حضور نے انہیں کسی عطار کے تھیلے سے نکالا صحیح مسلم کتاب الفضائل باب طيب رائحة النبي) ہے.شفقت کا سمندر حضور باہر سے تشریف لاتے بچے آپ کو دیکھ کر آگے بڑھتے آپ ان کو سواری پر آگے www.alislam.org
85 84 پیچھے بٹھا لیتے ایک بار ایک بدو یعنی دیہات کا رہنے والا آیا.اس نے دیکھا آپ بچوں سے پیار کر رہے ہیں.اس نے عرض کی حضور میرے تو اتنے بچے ہیں.میں نے کبھی کسی سے پیار نہیں کیا.آپ نے فرمایا اگر خدا نے تمہارے دل سے شفقت لے لی ہو تو میں کیا کرسکتا ہوں.پھر فرمایا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا.خدا بھی اس پر رحم نہیں کرتا.بچوں سے دل لگی الادب المفرد للبخاری باب قبلۃ الصبیان) حضرت انس کہتے ہیں کہ آنحضرت ملالہ کا ہمارے گھر آنا جانا تھا.میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کو ابو عمیر کہہ کر پکارتے تھے.اس کی ایک سرخ چونچ والی بلبل تھی جس سے وہ کھیلا کرتا تھا وہ مرگئی.اس کے مرنے کے بعد حضور ہمارے ہاں آئے تو عمیر کو افسردہ دیکھا پوچھا اس کو کیا ہوگیا ہے.چپ چپ ہے.گھر والوں نے عرض کیا کہ اس کی تغیر یعنی بلبل مرگئی ہے.اس پر آپ نے ابو عمیر کو بہلانے کے لئے اس کو یہ کہہ کر چھیڑنا شروع کیا کہ یا ابا عمیر مافعل الفغیر کہ اے ابو عمیر تغیر تجھ سے کیا کر گئی.(سنن ابی داؤ د کتاب الادب باب فی الرجل تیکنی ) شفیق باپ آنحضرت ملالہ کے صحابی حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم ظہر یا عصر کی نماز کے لئے آنحضرت ملالہ کا انتظار مسجد نبوی میں کر رہے تھے.حضرت بلال محضور کو نماز کی اطلاع دے کر نماز کے لئے آنے کے لئے عرض کر چکے تھے لیکن دیر ہورہی تھی اور ہم انتظار میں بیٹھے تھے کہ حضور تشریف لائے اس طرح کہ حضور نے ابو العاص سے حضرت زینب کی بچی امامہ کو اپنی گردن پر اٹھایا ہوا تھا.حضور اسی طرح امامہ کو اٹھائے ہوئے آگے بڑھے اور اپنی نماز کی جگہ پہنچ کر کھڑے ہو گئے.ہم بھی حضور کے پیچھے کھڑے ہو گئے لیکن امامہ اسی طرح حضور کی گردن پر بیٹھی رہی اور اسی حالت میں حضور نے تکبیر کہی اور ہم نے بھی تکبیر کہی.حضور نے امامہ کو اٹھائے ہوئے قیام کیا اور جب رکوع کرنے لگے تو انہیں گردن سے اتار کر نیچے بٹھا دیا پھر رکوع کیا اور سجدے کئے.جب سجدوں سے فارغ ہو کر قیام کے لئے کھڑے ہونے لگے تو امامہ کو اٹھا کر پھر اپنی گردن پر بٹھالیا اور حضور ساری نماز میں اسی طرح کرتے رہے.رکوع کرنے سے پہلے اتار دیتے اور سجدوں کے بعد قیام کے وقت اٹھالیتے یہاں تک کہ حضور نماز سے فارغ (سنن ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب العمل في الصلوة ) رحم کا آسمانی جذبہ ہو گئے.حضرت اسامہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور کی صاحبزادی حضرت زینب نے حضور گوکہلا بھیجا کہ میرابیٹا آخری سانس لے رہا ہے تشریف لائیں.حضور نے ان کو سلام کہلایا اور کہلا بھیجا کہ صبر کرو جو کچھ اللہ دیتا ہے یا واپس لیتا ہے وہ سب اللہ کا ہی ہے.ہر چیز اس کے ہاں ایک معین مدت کے لئے ہے.حصول ثواب کے لئے صبر سے کام لو ( مجھے احساس ہوتا ہے کہ حضور کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ حضور بچے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے ) بہر حال حضرت زینب نے دوبارہ پیغام کہلا بھیجا اور قسم دی کہ حضور ضرور تشریف لے آئیں تب حضور" مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور حضور کے ساتھ اور صحابہ کے علاوہ سعد بن عبادہ معاذ بن جبل ابی بن کعب زید بن ثابت بھی اٹھے.جب آپ حضرت زینب کے ہاں پہنچے تو بچہ حضور کی گود میں دیا گیا.اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا اور سانس میں ایسی آواز پیدا ہورہی تھی جیسے پانی کی بھری مشک سے پانی نکلے تو پیدا ہوتی ہے.حضور نے بچے کو گود میں لے لیا.اس کی طرف دیکھا بے اختیار آنسو بہہ پڑے.سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ کیا ہے.آپ کیوں رونے لگے.آپ نے جواب دیا کہ یہ وہ www.alislam.org
87 92 86 رحم کا جذبہ ہے جو خدا نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہوتا ہے.خدا اپنے بندوں میں سے ان پر رحم کرتا ہے جو خود رحم کرنے والے ہوتے ہیں.(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب يعذب الميت ) حضرت فاطمہ سے پیار آنحضرت مطالعہ کی بیٹی حضرت فاطمہ جب حضور سے ملنے کے لئے آتیں تو حضور کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے.ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے.(سنن ترمذی کتاب المناقب باب مناقب فاطمه) زید سے محبت حضور کا منہ بولا بیٹازید تھا جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے یہ ایک غلام تھا اور عربوں میں غلام کی کوئی حیثیت نہ تھی یہ طبقہ بہت ہی مظلوم و مقہور تھا.مالک جو چاہتا اس سے سلوک کرتا.حالت مویشیوں سے بھی بدتر تھی.حضور نہ صرف زید کو بہت عزیز رکھتے تھے بلکہ ان کے بیٹے اسامہ سے بھی بہت پیار کرتے اپنے بچوں کی طرح اسے رکھتے.حضور اپنے نواسے حسین کو ایک زانو پر بٹھا لیتے اور اسامہ کو دوسرے پر اور دونوں کو سینہ سے لگا کر بھینچتے اور فرماتے اللہ میں ان سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کی جائیو.حضرت اُسامہ کا ناک خود صاف کرتے.( صحیح بخاری کتاب المناقب باب الحسن والحسین سنن ترمذی کتاب المناقب باب مناقب اسامه ) -35 حقوق ہمسایہ حق ہمسائیگی مکی دور میں ابولہب اور عقبہ بن ابی معیط حضور متلاقہ کے پڑوسی تھے جو آپ کے دونوں طرف آباد تھے.اور انہوں نے شرارتوں کی انتہاء کی ہوتی تھی.یہ لوگ بیرونی مخالفت کے علاوہ گھر میں بھی ایذا پہنچانے سے باز نہ آتے تھے اور اذیت دینے کے لئے غلاظت کے ڈھیر حضور کے دروازے پر ڈال دیتے.حضور جب باہر نکلتے تو خود اس غلاظت کو راستے سے ہٹاتے اور صرف اتنا فرماتے:.”اے عبد مناف کے بیٹو! یہ تم کیا کر رہے ہو کیا یہی حق ہمسائیگی ہے.“ ( طبقات ابن سعد جلد 1 صفحہ 201 بیروت 1960) ہمسایے کو اذیت نہ دو حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ:.آنحضرت مقالہ ایک دفعہ میرے ہاں استراحت فرمارہے تھے کہ ہمسایہ کی پالتو بکری آئی اور روٹی کی طرف بڑھی جو میں نے حضور کے لئے پکا کر رکھی ہوئی تھی.اس نے روٹی اٹھالی اور واپس جانے لگی.مجھے اس پر شدید غصہ آیا اور میں اسے روکنے کے لئے دروازے کی طرف جلدی سے جانے لگی تو حضور ملالہ نے فرمایا:.اس بکری کو تکلیف دے کر ہمسائے کو اذیت نہ دینا.“ الادب المفرد باب لا یوذی جاره از امام بخاری) www.alislam.org
89 88 -36 مہمان نوازی مہمان نوازی کا ایک منظر اصحاب الصفہ کے ایک فرد حضرت طخفہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله : ہمیں لے کر حضرت عائشہ کے گھر پہنچے اور فرمایا عائشہ ہمارے کھانے کے لئے کچھ لا دو.حضرت عائشہ حریسہ لے کر آئیں.یہ ایک کھانا ہے جو پیسے ہوئے آٹے سے بنایا جاتا ہے.اور اس پر گوشت یا کھجور رکھ دی جاتی ہے.ہم نے یہ کھانا کھالیا تو حضور نے پھر فرمایا.عائشہ اب ہمارے پینے کے لئے کچھ لاؤ اسپر حضرت عائشہ دودھ لے کر آئیں جو ہم نے پی لیا.حضور نے مزید پینے کے لئے ارشاد فرمایا تو حضرت عائشہ ایک چھوٹے سے پیالے میں دودھ لے کر آئیں ہم نے وہ بھی پی لیا.( سنن ابوداود کتاب الادب باب في الرجل من طح على بطنه ) کپڑے دھوئے ایک دفعہ ایک یہودی آپ کے پاس مہمان کے طور پر ٹھہرا.نظام ہضم کی خرابی کی وجہ سے اس کو اسہال شروع ہو گئے اور رات کو بستر کی چادر خراب ہوگئی.صبح وہ شرم کے مارے ملے بغیر ہی چلا گیا.اتفاق سے وہ اپنی تلوار حضور کے گھر بھول آیا تھا.جب اسے یاد آیا تو واپس لوٹا اور دیکھا کہ حضور اپنے ہاتھوں سے اس کپڑے کو دھو رہے ہیں.یہ دیکھ کر اس نے اسلام قبول کر لیا.اسلام قبول کر لیا ایک رات ایک غیر مسلم آنحضرت متلاقہ کے ہاں مہمان ہوا.آپ نے اسے بکری کا دودھ پیش کیا لیکن اس سے اس کی تسلی نہ ہوئی تو آپ نے دوسری بکری کا دودھ پیش کیا لیکن پھر بھی اس کی تسلی نہ ہوئی.اس پر تیسری، چوتھی یہاں تک کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا.اسی حسن اخلاق کا اثر تھا کہ صبح اس کا فر نے اسلام قبول کر لیا.اور پھر صرف ایک بکری کے دودھ پر قانع ہو گیا.( صحیح مسلم کتاب الاشر به باب المؤمن یا کل فی معی واحد ) دار الضیافت مدینہ اسلام کا مرکز تھا اور عرب میں مختلف اطراف اور صوبوں میں جوق در جوق لوگ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوتے تھے.ایسے مہمانوں کی سہولت کے لئے حضور کے گھر کے علاوہ کم از کم دو ایسے مقامات کا ذکر ملتا ہے جہاں مہمان ٹھہرائے جاتے تھے.چنانچہ ایک صحابی رملہ کا گھر دار لضیوف تھا.اور مہمان یہاں اترتے تھے.(زرقانی باب ذکر و فود) اسی طرح حضرت ام شریک جو نہایت دولت مند اور نہایت فیاض صحابیہ تھیں.انہوں نے اپنے مکان کو مہمان خانہ بنا دیا تھا.رسول اللہ متعلقہ کی خدمت میں باہر سے جو مہمان آتے تھے وہ اکثر ان ہی کے مکان پر ٹھہرتے تھے.(سنن نسائی کتاب النکاح باب الخطبة في النکاح) ☆☆☆ www.alislam.org
91 90 90 -37 حضور مریضوں کی عیادت بہترین عیادت کرنے والے ملالہ کے رحمتہ للعالمین ہونے کا ایک دائرہ مریضوں کی دنیا سے بھی تعلق رکھتا ہے.حضور نے مریض کی عیادت کی نہ صرف تعلیم دی بلکہ عملی نمونے سے اس کے سب پہلوؤں کو روشن فرمایا.حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ملاقہ تمام انسانوں میں سے بہترین عیادت کرنے والے تھے.(سنن نسائی کتاب الجنائر باب عدد التكبير على الجنازة) حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور صل اللہ کی مجلس میں حاضر تھے کہ ایک انصاری آیا تو حضور نے اس سے پوچھا میرے بھائی سعد بن عبادہ کا کیا حال ہے.اس نے کہا بہتر ہے.اس پر حضور نے فرمایا.اس کی عیادت کے لئے تم میں سے کون کون چلے گا.چنانچہ حضور اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم تیرہ کے قریب افراد حضور کے ساتھ چل پڑے اور حضرت سعد بن عبادہ کی خیریت معلوم کی.(صحيح مسلم كتاب الجنائز باب عيادة المرضى) غالباً یہ دوسرا واقعہ ہے کہ:.بدر کی جنگ سے پہلے قبیلہ خزرج کے رئیس حضرت سعد بن عبادہ بیمار ہو گئے تو حضور اپنی سواری پر سوار ہو کر ان کی عیادت کے لئے گئے.راستہ میں عبد اللہ بن ابی بن سلول بہت بدتمیزی سے پیش آیا مگر آپ نے اس سے اعراض فرمایا.( صحیح بخاری کتاب المرضى باب عيادة المريض) بلا امتیاز مریض کی عیادت کے لئے حضور ملاقہ رنگ ونسل اور مذہب کا کوئی امتیاز روانہ رکھتے اور امیر وغریب مسلم و غیر مسلم اور اعراب کے ساتھ یکساں ہمدردی کا سلوک فرماتے اور ہر ایک اس چشمہ ء رحمت سے سیراب ہوتا رہا.حضرت سہل بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ حضور صل اللہ غرباء اور مساکین کی عیادت کے لئے جایا کرتے تھے.اور ان کا خیال رکھتے تھے چنانچہ ایک غریب عورت بیمار ہوئی تو حضور اس کی عیادت کے لئے جاتے رہے.اور جب اس کا آخری وقت آیا تو حضور کی تکلیف کے خیال سے صحابہ نے آپ کو اطلاع نہیں کی اور جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا.صبح حضور ملالہ کو خبر ہوئی تو حضور ناراض ہوئے اور اس کی قبر پر جا کر جنازہ پڑھایا.(موطا امام مالک.کتاب الجنائز) حضرت انس بیان فرماتے ہیں کہ.ایک یہودی کا لڑکا آنحضرت ملالہ کی خدمت کرتا تھاوہ بچہ بیمار ہوگیا تو حضور اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت بھی دی.اس لڑکے نے اپنے والد کی طرف دیکھا تو اس کے والد نے کہا ابوالقاسم (رسول کریم ملالہ کی کنیت تھی) کی اطاعت کرو چنانچہ اس لڑکے نے اسلام قبول کر لیا.حضور جب وہاں سے نکلے تو بہت خوش تھے اور فرمارہے تھے الحمد للہ کہ خدا نے اس لڑکے کو آگ سے نجات بخشی.( صحیح بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم العمی ) عبداللہ بن ابی بن سلول منافقوں کا سردار اور حضور کا دلی دشمن تھا مگر جب وہ بیمار ہوا تو حضور اُس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.(سنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب العيادة ) www.alislam.org
93 92 -38 غریبوں اور کمزوروں سے حسن سلوک اف تک نہیں کیا حضرت انس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے دس سال حضور کی خدمت کی توفیق ملی.جب میں حضور کی خدمت میں آیا میں بچہ تھا اور میری ہر بات ایسی نہیں ہوتی تھی جیسے میرے صاحب یعنی آنحضرت مطالعہ چاہتے تھے کہ ہو لیکن حضور نے مجھے ایسی باتوں میں کبھی اف تک نہیں کہا اور مجھے کبھی نہیں کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور نہ بھی یہ کہا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا.حضرت انس کہتے تھے کہ حسن اخلاق میں آنحضرت صلالہ تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے.ایک دن تو ایسا ہوا کہ حضور نے مجھے کسی کام کو جانے کے لئے کہا تو میں نے صاف جواب دیا کہ اللہ کی قسم میں نہیں جاؤں گا حالانکہ میرے دل میں یہی تھا کہ وہ کام کر آؤں گا جو حضور نے مجھے کہا ہے.وہ کہتے ہیں کہ پھر میں گھر سے باہر آیا اور حضور کے کام کے لئے چل پڑا) لیکن راستہ میں بازار میں میرا گزر کچھ بچوں کے پاس سے ہوا جو کھیل رہے تھے ( میں بھی ان کے ساتھ کھیلنے لگا ) اچانک وہاں حضور ” تشریف لے آئے اور میری گدی کو پیچھے سے پکڑا میں نے پیچھے مڑکر دیکھا حضور مسکرا رہے تھے.پھر مجھے فرمایا انہیں ( پیار سے نام لیا ہے ) جہاں کام کے لئے بھیجا تھا وہاں چلے جاؤ نا.میں نے عرض کیا ہاں حضور جاتا ہوں.(سنن ابوداؤ د کتاب الادب باب فی الحکم ) خدا تیراخریدار ہے حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ زاہر بن حرام نامی ایک دیہاتی اکثر آنحضرت ملاقہ کے لئے گاؤں کی چیزیں تحفہ کے طور پر لایا کرتا تھا اور آپ سبھی اُس کی واپسی پر شہر کی کوئی نہ کوئی سوغات ضرور عنایت کیا کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ آپ نے فرمایا:.زاہر ہمارے لئے دیہات ہے اور ہم اس کے لئے شہر ہیں.حضور " کو زاہر سے بے حد انس تھا.زاہر کی شکل و صورت اچھی نہ تھی.ایک دن وہ اپنا سودا بیچ رہا تھا کہ حضور ملانہ پیچھے سے آئے اور بے خبری میں اس کی آنکھیں موند لیں.اس نے کہا کون ہے مجھے چھوڑ دے.مگر جب مڑ کر دیکھا تو آنحضرت ملالہ تھے جس پر وہ اپنی کمر حضور کے سینہ مبارک پر ملنے لگا.آپ نے فرمایا یہ غلام کون خریدتا ہے.زاہر کہنے لگا یا رسول اللہ ! تب تو آپ مجھے ناقص مال پائیں گے.آپ نے فرمایا مگر اللہ کے نزدیک تو تو ناقص مال نہیں ہے.☆☆☆ (شمائل الترمذی باب فی مزاح رسول الله ) www.alislam.org
95 94 -39 ساتھیوں کا خیال مشکلات میں شراکت آنحضرت ملالہ سفر میں اپنے ہمراہیوں اور ساتھیوں کا بہت خیال رکھتے تھے.اپنے آپ کو ان پر کوئی ترجیح نہ دیتے اور ان کے ساتھ مل کر مشکلات برداشت فرماتے.آنحضرت ملاقہ جب غزوہ بدر کیلئے مدینہ سے نکلے تو سواریاں بہت کم تھیں تین تین آدمیوں کے حصے میں ایک ایک اونٹ آیا.آنحضرت ملالہ خود بھی اس تقسیم میں شامل تھے اور آپ کے حصہ میں جو اونٹ آیا اس میں آپ کے ساتھ حضرت علیؓ اور حضرت ابولبابہ بھی شریک تھے اور سب باری باری سوار ہوئے.جب رسول کریم صل اللہ کے اترنے کی باری آتی تو دونوں جانثار عرض کرتے یا رسول اللہ صل اللہ آپ سوار رہیں ہم پیدل چلیں گے مگر آپ فرماتے تم دونوں مجھ سے زیادہ پیدل چلنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ میں تم دونوں سے زیادہ ثواب سے مستغنی ہوں.(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 411 المكتب الاسلامي للطباعه و النشر بيروت) غلام سوار.آقا پیدل حضرت عقبہ بن عامر جہنی ایک مرتبہ سفر میں حضور ملاقہ کی خدمت میں حاضر تھے.حضور نے اپنی سواری بٹھادی اور اتر کر فرمایا اب تم سوار ہو جاؤ.عرض کیا یا رسول اللہ مقالہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کی سواری پر سوار ہو جاؤں اور آپ پیدل چلیں.حضور ملالہ نے پھروہی ارشاد فرمایا اور غلام کی طرف سے وہی جواب تھا.حضور متلاحقہ نے پھر اصرار فرمایا تو اطاعت کے خیال سے سواری پر سوار ہو گئے اور حضور نے سواری کی باگ پکڑ کر اس کو چلانا شروع کر دیا.صلى الله ( کتاب الولاۃ کندی بحوالہ سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 216 از شاہ معین الدین احمد ندوی ادارہ اسلامیات لاہور ) حضور صلى الله سوار ہو جاؤ ایک دفعہ سواری پر سوار ہو کر قبا کی طرف جانے لگے.ابوہریرہ ساتھ تھے.حضور نے ان سے فرمایا کیا میں تمہیں بھی سوار کرلوں انہوں نے عرض کیا جیسے حضور کی مرضی تو فرمایا آؤ تم بھی سوار ہو جاؤ.حضرت ابو ہریرہ نے سوار ہونے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے اور گرتے گرتے حضور کو پکڑ لیا اور حضور کے ساتھ گر پڑے.حضور پھر سوار ہوئے اور ابو ہریرہ کو سوار ہونے کی دعوت دی مگر وہ دوسری دفعہ بھی حضور کو لے کر گر پڑے.حضور پھر سوار ہوئے اور ابو ہریرہ سے پوچھا کیا تمہیں بھی سوار کرلوں تو کہنے لگے اب میں آپ کو تیسری دفعہ نہیں گرانا چاہتا.(المواهب اللدنيه_زرقانی جلد 4 صفحہ 265 دار لمعرفہ بیروت) یہ واقعہ حضور کی صحابہ سے بے تکلفی بشاشت اور لطیف حس مزاح کا بہترین نمونہ ہے.www.alislam.org
97 96 96 -40 دشمنوں سے عفو و درگزر کوئی مواخذہ نہیں 23 سالہ ظلم کے دور کے بعد جب آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہورہے تھے اور خدا کے حضور آپ کی گردن عاجزی سے جھکتے جھکتے آپ کی اونٹنی کو جا لگی تھی.آج آپ " کا دل خدا کی حمد سے بھرا ہوا تھا اور آج بھی وہ ایسا ہی صاف تھا.آج بھی وہ خدا کے بندوں کے لئے اسی طرح محبت سے پر تھا جس طرح تیرہ سال قبل جب آپ اپنے عزیز شہر کو چھوڑنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے.اس وقت آپ بظاہر کمزور تھے اور آج آپ کے پاس غلبہ اور طاقت تھی اس لئے آج کفار مکہ کے دل خائف تھے لیکن ان کے دل کی چھپی ہوئی آواز بھی یہی تھی کہ محمد تو مجسم رحم ہے.اس لئے ابن عباس کی حدیث کے مطابق جب حضور مکہ فتح کر چکے تو آپ " منبر پر چڑھے اپنے اللہ کی حمد وثناء بیان کی پھر اہل مکہ سے کہا تمہارا کیا گمان ہے کہ میں تم سے کیا سلوک کروں گا اور تم کیا کہتے ہو کہ تم سے کیا سلوک ہونا چاہئے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو آپ سے نیکی کی امید رکھتے ہیں اور ہم یہی کہتے ہیں کہ آپ ہم سے نیک سلوک کریں.آپ ہمارے معزز چچازاد ہیں اور اس وقت آپ کو قدرت اور غلبہ حاصل ہے.اس پر آپ نے فرمایا میں ( بھی ) تم سے (وہی) کہتا ہوں (جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا کہ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوَمَ آج تم پر کوئی ملامت نہیں.آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا.(میں نے تمہیں معاف کیا) اللہ تمہیں معاف کرے.وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.( تفسیر در منشور - سورة يوسف) زہر دینے والی عورت کو معافی فتح خیبر کے موقع پر یہود نے رسول خدا کو زہر دے کر قتل کرنے کا منصو بہ بنایا اور ایک سریع الاثر زہر بہت بڑی مقدار میں ران کے گوشت میں پکا کر حضور " کو سلام بن مشکم کی بیوی زینب کے ذریعہ تحفہ بھجوا دیا گیا.حضور " کو یہ کھانا پیش کیا گیا.آپ نے پہلا نوالہ منہ میں ڈالا ہی تھا کہ زہر کا احساس ہو گیا.ایک صحابی حضرت بشر نے لقمہ نگل لیا جو کچھ عرصہ بعد اس زہر سے شہید ہو گئے.رسول اللہ نے اس عورت اور دوسرے یہودیوں کو بلایا اور پوچھا کہ اے یہودیو! سچ سچ بتاؤ تم نے اس گوشت میں زہر کیوں ڈالا ؟ وہ عورت کہنے لگی ہم نے کہا اگر آپ سچے نہیں تو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر بچے ہیں تو زہر آپ پر اثر نہیں کرے گا.رسول کریم نے بڑے جلال سے فرمایا خدا تعالیٰ تمہاری قتل کی تمام کوششوں کے باوجود تمہیں ہرگز میرے قتل کی طاقت نہیں دے گا.(السيرة المحمدیہ صفحہ 329) میرے آقا جب مرض الموت میں آخری سانس لے رہے تھے تو حضرت عائشہ سے فرمانے لگے اے عائشہ! میں اب تک اس زہر کی اذیت محسوس کرتا رہا ہوں جو خیبر میں یہودیوں نے مجھے دیا تھا اور اب بھی میرے بدن میں اس زہر کے اثر سے کٹاؤ اور جلن کی کیفیت ہے.مگر رسول اللہ اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا کرتے تھے.آپ نے اس پر بھی یہود کو بخش دیا اور اس عورت کو معاف کر دیا.( صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی وفاتته ) www.alislam.org
99 98 -41 دشمن کے مذہبی حقوق کا خیال تو رات واپس کرادی فتح خیبر کے دوران تو رات کے بعض نسخے بھی مسلمانوں کو ملے.یہودی آنحضرت کی نے خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہماری کتاب مقدس ہمیں واپس کی جائے اور رسول کریم صل اللہ صحابہ کوحکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں ان کو واپس کر دو.مذہبی رواداری کی یہ کتنی عظیم الشان مثال ہے.( السيرة الحلبیہ جلد 3 صفحہ 49) مشرکوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا طائف کا ایک دور وہ تھا کہ آنحضرت تبلیغ اسلام کے لئے پہنچے تو آپ کو لہولہان کر دیا گیا.دوسرا دور یہ تھا کہ ۸ھ میں طائف اسلام کی قوت سے مرعوب ہو چکا تھا چنانچہ اہل طائف کا ایک وفد حضور کی خدمت میں پہنچا.اس وفد کا رئیس عبدیالیل تھا.آنحضرت نے جب پہلی مرتبہ طائف میں قدم رکھا تھا تو یہی عبدیالیل آپ کی ایذاء رسانی میں پیش پیش تھا اور آج ایک وفد کارئیس بن کر جھکی ہوئی گردن اور جھکی ہوئی آنکھ کے ساتھ حاضر دربار تھا.لیکن معلوم ہے اس بدترین بد تہذیب اور آزار رساں دشمن کے ساتھ رسول اللہ نے کیا برتاؤ کیا اس کا فرکو آنحضرت نے دنیا کے سب سے مقدس مقام مسجد نبوی میں اتارا.صرف اسی کو نہیں اس کے ساتھیوں کو بھی صحن مسجد میں خیمے نصب کر دیئے گئے.اور یہ لوگ بلا تامل اس میں ٹھہرائے گئے اور ان کے ساتھ لطف و کرم کا برتاؤ کیا گیا.جب اس وفد کے لئے آپ نے خیمے نصب کرائے تو صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ یہ پلید مشرک قوم ہے مسجد میں ان کا ٹھہرانا مناسب نہیں.آپ نے فرمایا اس آیت میں دل کی بلندی کی طرف اشارہ ہے جسموں کی ظاہری گندگی مراد نہیں اور نہ کوئی انسان ان معنوں میں پلید ہے کیونکہ سب انسان پاک ہیں اور وہ ہر مقدس سے مقدس جگہ پر جاسکتے ہیں.مسجد نبوی میں عیسائی عبادت (احکام القران جلد ۳ صفحه ۱۰۹) جب نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو اسے آپ نے مسجد نبوی کا مکین بنالیا.یہی نہیں بلکہ جب مسیحی عبادت کا وقت آیا اور ان لوگوں نے مسجد میں نماز ادا کرنا چاہی تو صحابہ کرام نے منع کیا لیکن رسالت مآب نے اجازت مرحمت فرمائی (اسباب النزول صفحه ۵۳).یہود کا اسلام اور داعی اسلام کے ساتھ کیا رویہ تھا یہ بات ڈھکی چھپی نہیں.یہ یہود بھی نجرانی عیسائیوں سے ملنے مسجد نبوی آیا کرتے تھے اور گھنٹوں بات چیت کیا کرتے تھے.ان کی آمد پر بھی کسی طرح پابندی عائد نہیں کی گئی.ابن اسحاق کہتے ہیں جب نصاری کا گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور عصر کی نماز پڑھ کر بیٹھے تھے.ان کی نماز کا بھی وقت آیا یہ مسجد سے جانے لگے تو آپ نے فرمایا نماز یہیں پڑھ لو.تو ان لوگوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی.☆☆☆ www.alislam.org
101 100 -42 جانوروں کے لئے رحمت جانور بھی خدا کی مخلوق ہیں اور آنحضرت مطلقہ ہر چیز کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں.اس لئے آپ نے جانوروں سے بھی رحم اور شفقت کے بہترین نمونے دکھائے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی.حضور بلبلا تا اونٹ رمت کا ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے.وہاں ایک اونٹ حضور کو دیکھ کر بلبلایا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.آپ نے شفقت سے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ پرسکون ہو گیا.پھر آپ نے پوچھا یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری نے بتایا کہ میرا اونٹ ہے.فرمایا اس اونٹ نے میرے پاس شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور طاقت سے بڑھ کر کام لیتے ہو.خدا نے تمہیں اس کا مالک بنایا ہے.اس کے بارہ میں خدا سے ڈرو.(سنن ابوداؤد: کتاب الجہاد باب مایو مر به من القيام على الدواب والبهائم ) حضرت سہل بیان کرتے ہیں کہ:.حضور خدا سے ڈرو ر متلاقہ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کا پیٹ بھوک کی وجہ سے کمر کے ساتھ لگ چکا تھا.اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا ان بے زبان جانوروں کے متعلق خدا سے ڈرو.ان پر سواری بھی اس وقت کرو جب یہ صحت مند ہوں اور ان کا گوشت تب کھاؤ جب یہ صحت مند ہوں.(سنن ابوداؤد.کتاب الجہاد.باب مایو مر به من القيام على الدواب والبهائم ) نرمی اختیار کرو حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں ایک ایسے اونٹ پر سوار ہوئی جو اڑیل تھا اور مجھے تنگ کر رہا تھا تو میں نے اسے ادھر ادھر دوڑانا شروع کر دیا.حضور نے دیکھا تو فرمایا نرمی اختیار صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ : باب فی فضل الرفق ) کرو.بچے واپس رکھ دو ایک صحابی حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں:.ہم ایک سفر میں حضور کے ساتھ تھے کہ ایک چھوٹی چڑیا دیکھی جس کے ہمراہ دو بچے بھی تھے.ہم نے اس کے بچے اٹھائے تو چڑیا ہمارے قریب آ کر اڑنے لگی.حضور نے دیکھا تو فرمایا اس چڑیا کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تکلیف پہنچائی ہے.اس کے بیچے واپس رکھ دو.( سنن ابو داؤد.کتاب الادب باب قتل الذر) انڈہ رکھ دو حضور مقالہ صحابہ کے ساتھ سفر میں تھے.راستے میں ایک جگہ ایک پرندے نے انڈہ دیا ہوا تھا.ایک شخص نے وہ انڈا اٹھالیا.پرندہ آیا اور آنحضرت ملاقہ کے اوپر اضطراب اور تکلیف کے ساتھ اڑنا شروع کر دیا.حضور نے فرمایا تم میں کس نے اس کا انڈہ چھین کر تکلیف پہنچائی ہے.اس شخص نے کہایا رسول اللہ میں نے اس کا انڈہ اٹھالیا ہے.فرمایا اس پر رحم کرو اور انڈہ وہیں رکھ دو.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِو آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِک وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ www.alislam.org