Language: UR
حضرت سید میر مسعود احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ نے شیخ عجم حضرت صاجزادہ سید محمد عبداللطیف شہید رضی اللہ عنہ ، آپ کے شاگردان اور ان کو پیش آنے والے واقعات کی تاریخ بڑی محنت اور جدوجہد سے جمع کرکے مرتب کی ہے۔ 400 صفحات پر مشتمل یہ ٹائپ شدہ کتاب 6 ابواب میں منقسم ہےجس سے شہید اول افغانستان جواں سال صالح مولوی عبدالرحمنؓ، شیخ عجم صاجزادہ عبداللطیف شہید کی سوانح عمری، شہید مرحوم کا خاندان، واقعہ شہادت اور اس کے بعد امیران کابل کی طرف سے ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم و مصائب، سوانح حیات مولوی نعمت اللہ شہید، قاری نور علی اور مولوی عبدالحلیم، مولوی عبدالستار خان معروف بہ بزرگ صاحب ، مولوی عبدالغفار صاحب اور ملا میرو صاحب کے حالات زندگی آئندہ نسلوں کی ترقی ایمان کے لئے کتابی شکل میں محفوظ ہوگئے ہیں ۔
شیخ عجم اور آپ کے شاگرد سید مسعود احمد ابن حضرت سید میر محمد اسحق صاحب
صفحه ۱۲ ۱۲ ۲۸ 1 نمبر شمار فہرست مضامین عناوین باب اوّل: | شہید اول افغانستان جوان صالح مولوی عبدالرحمن واقعہ شہادت در کابل ۲۰ / جون ۱۹۰۱ء مولوی عبدالرحمن مرحوم کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات مولوی عبدالرحمن مرحوم کے بارہ میں دوسرے احباب کی تحریرات اور روایات پر مبنی واقعات مولوی عبد الرحمن کی شہادت کی اطلاع قادیان میں ملنا مولوی عبدالرحمن کی شہادت کے بعد حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کا شہر کا بل میں قیام بلیو گرافی ، یعنی رسالہ شہید اول کے ماخذ رف پیچ ، افغانستان صوبه سرحد وصوبہ پنجاب باب دوم | شیخ عجم حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ال شہید افغانستان کی سوانح حیات (۱۸۵۳ء-۱۹۰۳ء) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف کا وطن ، خاندان اور پیدائش افغانستان کے سیاسی حالات حالات زمانہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب کو کسی مصلح کے ظہور کا انتظار تھا ۲۸ ۳۱ ۳۴ ۳۶ ۴۴ ۵۲ L σ
صفى 2 عناوین نمبر شمار واقعہ شہادت میاں عبدالرحمن صاحب شاگر د حضرت صاحبزادہ محمد عبد اللطیف صاحب ۵۹ امیر عبدالرحمن خان کی بیماری اور وفات حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف کی قادیان میں آمد اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات وطن میں آمد اور رشتہ داروں کو تبلیغ حضرت صاحبزادہ صاحب کی گرفتاری اور کابل بلائے جانے کا فیصلہ امیر حبیب اللہ خان کی طرف سے ملانوں کے فتویٰ کی توثیق اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کئے جانے کا فیصلہ ۶۳ ۹۰ ۹۳ I+A بیان واقعہ ہائلہ شہادت مولوی صاحبزادہ عبدالطیف رئیس اعظم خوست غفر الله له ۱۱۱ حضرت صاحبزادہ صاحب کا مقام شہادت شہادت کے بعد کا بل میں وباء ہیضہ اور بعض دیگر نشانات کا ظہور حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انذاری و تبشیری پیشگوئیاں حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کی نعش کا پتھروں سے نکالا جانا ، نماز جنازہ اور تدفین حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کے تابوت کا کابل سے ان کے گاؤں سید گاہ لایا جانا اور وہاں پر تدفین ۱۱۴ ۱۱۵ 112 ۱۲۰ ۱۳۰ ۱۳۱ ۱۳۹ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کے بارہ میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات حضرت سید محمد عبد اللطیف کی شہادت کا ذکر سلسلہ احمدیہ کے اخبارات میں عنوان خون یعنی حضرت مولانا مولوی عبداللطیف کی شہادت ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ 17 لا ۱۸ ۱۹ ۲۲ ۲۳
3 نمبر شمار ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ عناوین باب سوم | حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید رضی اللہ عنہ کا خاندان واقعہ شہادت کے بعد امیران کابل کے ہاتھوں ان کے مصائب اور مشکلات ارشادات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صفى ۱۵۲ دیگر احباب کی روایتیں اور تحریریں.خاندان کی خوست میں گرفتاری اور کا بل روانگی ۱۵۳ کابل میں آمد کا بل سے جانب ترکستان جلا وطنی کا حکم کا بل سے ترکستان کی جانب سفر ترکستان میں آمد اور قیام مزار شریف کے پاس قلعہ قرہ بنجله در علاقہ نہر عبد اللہ و ہر وہ نہر میں قیام جلا وطنی میں روپیہ کا ختم ہو جانا اور اخراجات کی سبیل امیر حبیب اللہ خان کی مزار شریف میں آمد اور رہائی کی کوشش برٹش انڈیا اور افغانستان کے مابین ۱۹۰۹ء میں خوست کی سرحد کے بارہ میں جھگڑا اور اس کے نتیجہ میں رہائی کی سبیل ۱۵۵ ۱۵۵ ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۵۹ ۱۶۰ ۱۶۱ ۱۶۲ ۳۴ کابل میں قیام کے دوران صاحبزادگان کی گرفتاری اور شیر پور جیل میں اذیت ناک قید ۱۶۶ ۳۵ ۳۶ ۳۷ کے لالے ۳۹ ۴۰ سردار امان اللہ خان کے ذریعہ رہائی کی سبیل صاحبزادہ محمد عمر جان کی وفات صاحبزادہ محمد سعید جان کی وفات امیر حبیب اللہ خان کا قتل اور امیر امان اللہ خان کی تخت نشینی امیر امان اللہ خان کی تخت نشینی کے بعد صاحبزادگان کے حالات حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف شہید کا گھرانہ واپس اپنے وطن خوست میں ۱۶۸ ۱۷۲ ۱۷۲ ۱۷۳ ۱۷۵
4 نمبر شمار ۴۱ ۴۲ عناوین افغانستان کی تیسری جنگ اور امیر امان اللہ خان کی طرف سے انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان سمت جنوبی کے حکمرانوں کا صاحبزادگان سے سلوک ۴۳ احمدیوں کے بارہ میں حکومت افغانستان کے رویہ میں سختی اور مظالم اور تشدد ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲ کی کارروائیاں حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کے خاندان کے افغانستان سے نکلنے ، ہندوستان آنے اور قادیان کی زیارت کرنے کے حالات حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کے صاحبزادہ سید محمد طیب جان کا ایک خواب ” مبایعین حق پر ہیں 66 صاحبزادہ سید محمد طیب جان کی سرائے نورنگ ضلع بنوں کو واپسی اور صاحبزادہ سیدا بوالحسن قدسی کا تعلیم دین کی غرض سے قادیان میں قیام محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کا انتقال ہمارے استادسید احمد ابوالحسن قدسی صاحب مصادر و منابع (Sources) باب چهارم | سوانح حیات مولوی نعمت الله خان شهید افغانستان واقعہ شہادت به زمانه سید نا خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۳۱ را گست ۱۹۲۴ ء مولوی نعمت اللہ خان کا وطن - خاندان - پیدائش - قبول احمدیت افغانستان کے سیاسی و مذہبی حالات امیر حبیب اللہ خان کا قتل اور امیر امان اللہ خان کی تخت نشینی ۵۳ سردار نصر اللہ خان اور اس کے ساتھیوں کا انجام صفى ۱۷۸ ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۳ ۱۸۷ ۱۸۸ ۱۸۹ 190 ۱۹۱ ۱۹۷ ۱۹۷ ۱۹۸ ۲۰۱ ۵۴ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف کے خاندان سے امیر امان اللہ کا سلوک ۲۰۴
صفح ۲۰۵ ۲۰۸ ۲۱۰ ۲۱۲ ۲۱۴ ۲۱۵ ۲۱۶ ۲۱۹ ۲۱۹ ۲۲۰ ۲۲۲ ۲۲۵ ۲۲۸ ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۳۰ 5 نمبر شمار ۵۵ افغانستان کی تیسری جنگ عناوین ۵۶ افغانستان میں نیشنل ازم اور آزادی خیال کے رجحانات کا فروغ ۵۷ افغانستان کی حکومت کی طرف سے مذہبی آزادی کا واضح اعلان ۵۸ امیر امان اللہ خان کی ابتدائی زمانہ میں حکومت افغانستان کی جانب سے یقین 59 ۵۹ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ دہانی کے خطوط کہ احمدیوں کو افغانستان میں آزادی ہے اور حکومت ان کی حفاظت کرے گی مولوی نعمت اللہ خان کا کا بل میں بطور مبلغ تقرر کا بل میں آمد اور مشن کا قیام افغانستان کی سمت جنوبی خوست اور ملحقہ علاقوں میں بغاوت اور احمدیوں کے لئے مشکلات و تکالیف سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی روانگی برائے سفر یورپ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو انگلستان جاتے ہوئے عدن میں اطلاع ملی که مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو گر فتار کر لیا گیا ہے عدن سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا تار مولوی نعمت اللہ خان شہید افغانستان کا کابل کے قید خانہ سے خط مولوی نعمت اللہ خان کی گرفتاری اور افغانستان کے دوسرے احباب کو ایذا دیئے جانے پر اخبار الفضل قادیان کا احتجاج ۶۷ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی لندن تشریف آوری ۶۸ ۶۹ مولوی نعمت اللہ خان کی گرفتاری کے بعد ان پر چلائے گئے مقدمہ کے کوائف محکمہ شرعیہ ابتدائیہ کا فیصلہ قادیان میں مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کی اطلاع مولوی نعمت اللہ خان کو کیسے شہید کیا گیا
نمبر شمار 6 عناوین صفى ง مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے اسباب کے متعلق افغانستان کے سرکاری اخبار ”حقیقت کا بیان ۷۲ جب حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کی اطلاع لندن میں ملی سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا تار برقی پیغام "شہید کی شہادت کا سچا جواب اس کام کو جاری رکھنا ہے جس کے لیے وہ شہید ہوا“ ۲۳۰ ۲۳۱ ۲۳۳ ۲۳۶ ۲۳۸ ۷۴ امیر کابل کے خلاف انسانیت فضل کے خلاف ڈول یورپ و امریکہ سے اپیل ۲۳۵ ۷۵ لندن میں سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا خطبہ جمعہ جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا خط افغانستان کے سفیر کے نام ۷۷ مولوی شیر علی صاحب امیر جماعت ہندوستان کا امیر امان اللہ خان کے نام ٹیلیگرام ۲۳۹ ۷۸ مولوی شیر علی صاحب کا قادیان میں خطہ جمعہ و ہریجیسٹی امیر کا بل کو ناظر امور عامہ جماعت احمدیہ کی طرف سے تار ”ہم ہر یجیسٹی کے سامنے علماء کے ساتھ اختلافی مسائل پر گفتگو کے لیے تیار ہیں ۲۴۲ ۸۰ ΔΙ جلسئہ احتجاج کے بارہ میں مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کے بارہ میں لندن کے احتجاجی جلسہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقریر مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت پر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کا احباب جماعت کے نام ایک پیغام ۸۳ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی افغانستان جانے پر آمادگی شہداء کابل کی قربانیوں کی یاد تازہ رکھنے کے بارہ میں سید نا حضرت خلیفتہ امسح الشافی کے ارشادات ۸۵ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی لندن سے قادیان کو واپسی ۲۴۱ ۲۴۳ ۲۴۵ ۲۵۳ ۲۵۶ ۲۵۶ ۲۵۶
صفى ۲۶۳ ۲۷۹ ۲۸۱ ۲۸۱ ۲۸۳ ۲۸۳ ۲۸۷ ۲۸۹ ۲۹۱ ۲۹۱ ۲۹۲ ۲۹۵ ۲۹۷ ۲۹۷ ۲۹۹ 7 عناوین نمبر شمار ۸۶ مولوی نعمت اللہ خان احمدی شہید کی سنگساری پر ہندوستان اور بیرون ہند اخبارات و رسائل کے تبصرے کا بل میں قابل فخر نعمت اللہ کی شہادت، کابل کی سنگلاخ زمین میں ایک اور بے گناہ کا خون ، احمدیوں کے ساتھ کا بل کا وحشیانہ سلوک ۸۷ مخالف اخبارات اور متعصب علماء کا نا گوار رویہ ۱۰۸ / فروری ۱۹۲۵ء کو افغانستان میں دو احمد یوں قاری نور علی صاحب اور مولوی عبدالحلیم صاحب کی شہادت بذریعہ سنگساری ، کابل میں دو اور بیگنا ہوں کا خون ہمارے دو احمدی بھائی سنگسار کر دیئے گئے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا پر لیس کو پیغام ۸۹ ۹۰ ۹۱ ۹۲ جماعت احمدیہ کا جلسہ احتجاج سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشادات فروری ۱۹۲۵ء امیر امان اللہ خان کی سیاحت بیرون افغانستان ۹۳ سیاحت بیرون کے دوران حفاظتی اور سیاسی انتظامات ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۷ ۹۸ ۹۹ روانگی از افغانستان ہندوستان کے سفر کے دوران امیر امان اللہ خان شاہ کابل کی طرف سے ملاؤں سے بیزاری کا اظہار ہر میجسٹی شاہ کا بل کا خیر مقدم جماعت احمدیہ کی طرف سے ۱۱؍ دسمبر ۱۹۲۷ء امیر امان اللہ خان کی شہر بمبئی میں مصروفیات اور بحری جہاز راجپوتانہ کے ذریعہ بیرونی سیاحت کو روانگی پیرس میں ملکہ ثریا کا پریس کو انٹرویو شاہ کا بل کا پُر تپاک خیر مقدم جماعت احمد یہ لنڈن کی طرف سے ترکی میں مصطفیٰ کمال اتا ترک سے ملاقات اور گفتگو
8 نمبر شمار 1+1 عناوین امیر امان اللہ خان کی وطن واپسی اور افغانستان میں اپنے سفر اور مجوزہ اصلاحات کے بارہ میں بیانات صفى ۳۰۱ ۱۰۲ قدامت پسند ملاؤں اور نئی اصلاحات کے خوگر امیر امان اللہ خان کے مابین تنازعات ۳۰۲ ۱۰۳ افغانستان کے جشنِ آزادی اور لوئی جرگہ کے انعقاد کا فیصلہ ۱۰۴ لوئی جرگہ کے نمائندگان پر کابل کے بدلے ہوئے ماحول کا منفی اثر ۱۰۵ سمت مشرق میں بغاوت کا آغاز ۱۰۶ سمت شمالی یعنی جبل السراج اور کوہ دامن کے علاقہ میں شورش کا آغاز اور اس کا سمت مشرقی کی بغاوت پر اثر ۳۰۵ ۳۰۶ ۳۱۰ ۳۱۲ ۳۱۳ ۳۱۴ ۱۰۷ افغانستان کے بڑے بڑے پیرا اور ملا جن سے امیر امان اللہ کا واسطہ پڑا ۱۰۸ سمت شمالی میں بچہ سقاؤ کی بغاوت کے حالات ۱۰۹ کابل میں امیر امان اللہ خان کے آخری دن دستبرداری اور کابل سے فرار ۳۱۷ امیر عنایت اللہ خان اور بچہ سقاؤ کے درمیان گفت و شنید کے لئے ایک وفد کی ترسیل ۳۲۰ 11.۳۲۲ ۳۲۴ دستبردار بادشاہ امان اللہ خان قندھار میں عنایت اللہ خان کی پشاور روانگی ۱۳ افغانستان کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں ۳۲۵ ۱۱۴ افغانستان میں احمدیت پھیل جانے کی عظیم الشان پیشگوئی ۳۳۵ ۱۱۵ بعض احمدی بزرگ شعراء کے کلام کا انتخاب مولوی نعمت اللہ خان شہید کے بارہ میں ۳۳۶ 117 112 ببلیوگرافی رف سکیچ افغانستان وصو به سرحد وصو به پنجاب باب پنجم قاری نور علی اور مولوی عبد الحلیم کی شہادت کے حالات ۱۱۸ کابل میں دو اور بے گناہوں کا خون ہمارے دو احمدی بھائی سنگسار کر دیے گئے ۳۴۷ ۳۴۹
کچھ ۳۴۹ ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۲ ۳۵۴ ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۵ ۳۵۶ ۳۵۸ စ 9 نمبر شمار عناوین 119 افغانستان میں تھیں اور احمدی گرفتار کر لئے گئے اور دو شہید کر دیئے گئے ۱۲۰ سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا پریس کو پیغام ۱۲۱ ۱۲۲ جماعت احمدیہ کا جلسہ احتجاج سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ارشادات ۱۲۳ قاری نور علی صاحب شہید نورعلی ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۶ مولوی عبد الحلیم صاحب شہید وزیر خارجہ مملکت افغانستان کے نام احتجاجی تار سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا وائسرائے ہند کے نام تار ۱۲۷ آل انڈیا نیشنل کانگریس کے صدر کے نام تار ۱۲۸ افغانستان کے شہدا کا معاملہ لیگ آف نیشنز کو بھجوایا گیا اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لا ہور مورخہ ۱۷ فروری ۱۹۲۵ء کو رقمطراز ہے ۱۳۰ شہیدانِ کابل کی سنگساری کا خونی منظر ایک چشم دید گواہ کا بیان ۱۳۱ مکذبین کا انجام ۱۳۲ تین بکروں کے ذبح کئے جانے کی پیشگوئی ۱۳۳ | حوالہ جات باب ششم حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف شہید افغانستان کے شاگرد مولوی عبدالستار خان معروف بہ بزرگ صاحب اور ان کے بھائی مولوی عبدالغفار صاحب اور ملا میر وصاحب کے حالات ۱۳۴ مولوی عبد الستار خان صاحب کا خاندان قوم اور وطن ۱۳۵ ابتدائی حالات بزرگ صاحب کا قبول احمدیت ۳۵۹ ۳۶۲ ۳۶۶ ۳۷۰ ۳۷۲
10 نمبر شمار ۱۳۷ قادیان میں قیام کے حالات ۱۳۸ آخری بیماری اور وفات ۱۳۹ عناوین مولوی عبدالستار خان صاحب کے بارہ میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے ارشادات ۱۴۰ بعض روایات ۱۴۱ مقدمہ کے متعلق ایک اور بات ۱۴۲ مولوی عبد الغفار خان صاحب صحابی بر ا د ر ا کبر بزرگ صاحب صفح ۳۷۴ ۳۷۵ ۳۷۸ ۳۸۳ ۳۹۱ ۳۹۴ ۱۴۳ مولوی عبد الغفار خان صاحب کے افغانستان میں قیام کے دوران حالات ۱۳۹۴ ۱۴۴ ملا میر و صاحب صحابی برا د ر اصغر بزرگ صاحب ۱۴۵ ایک گمنام فدائے احمدیت کی وفات محمد میر وصاحب افغان کی زندگی کا ایک عظیم الشان واقعہ ۱۴۶ قدوقامت اور حلیہ ۱۴۷ محمد میرو صاحب پر مظالم ۳۹۶ ۳۹۷ ۳۹۷ ۴۰۰ ۱۴۸ ملا محمد میر و صاحب کی حضرت صاحبزادہ صاحب کے خاندان سے ہمدردی ۴۰۱ ۴۰۱ ۴۰۳ ☆ ☆ ۱۴۹ جاں نثاری کی مثال ۱۵۰ حوالہ جات
باب اوّل 11 شهید اول افغانستان جوان صالح مولوی عبد الرحمن واقعہ شہادت در کابل ۲۰ / جون ۱۹۰۱ء رض
12 مولوی عبدالرحمن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب انجام آتھم میں اپنے تین سو تیرہ صحابہ کی فہرست شائع فرمائی تھی.اس فہرست میں مولوی عبدالرحمن صاحب کا بلی کا نام ایک سو گیارہ نمبر پر اس طرح درج فرمایا ' شیخ محمد عبد الرحمن صاحب ، عرف شعبان کا بلی“ انجام آتھم ۲۲ جنوری ۷ ۱۸۹ء کو شائع ہوئی تھی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی عبد الرحمن خان صاحب ۱۸۹۷ء سے قبل قادیان آچکے تھے اور حضوراقدس کی بیعت سے مشرف ہو چکے تھے.(1) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں : واضح رہے کہ براہین احمدیہ کی پیشگوئی میں دو شہادتوں کا ذکر ہے.اور پہلی شہادت میاں عبدالرحمن ، مولوی صاحب موصوف ( یعنی حضرت صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب - ناقل ) کے شاگرد کی تھی.جس کی تکمیل امیر عبدالرحمن یعنی اس امیر کے باپ سے ہوئی.اس لئے ہم بلحاظ ترتیب زمانی پہلے میاں عبدالرحمن مرحوم کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں (۲) بیان شهادت میاں عبد الرحمن مرحوم شاگرد مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب رئیس اعظم خوست ملک افغانستان مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم کی شہادت سے تخمینا دو برس پہلے ان کے ایماء اور ہدایت سے.میاں عبد الرحمن شاگر درشید اُن کے قادیان میں شاید دو یا تین دفعہ آئے.اور ہر ایک مرتبہ کئی کئی مہینہ تک رہے اور متواتر صحبت اور تعلیم اور دلائل کے سننے سے ان کا ایمان شہدا کا رنگ پکڑ گیا.اور آخری دفعہ جب کابل واپس گئے تو وہ میری تعلیم سے پورا حصہ لے چکے تھے اور اتفاقاً ان کی حاضری کے ایام میں بعض کتابیں میری طرف سے جہاد کی ممانعت میں چھپی تھیں جن سے ان کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ سلسلہ جہاد کا مخالف ہے.پھر ایسا
13 اتفاق ہوا کہ جب وہ مجھ سے رخصت ہو کر پشاور میں پہنچے تو اتفاقاً خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر سے جو پشاور میں تھے اور میرے مرید ہیں ملاقات ہوئی اور انہیں دنوں میں خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک رسالہ جہاد کی ممانعت میں شائع کیا تھا.اس سے ان کو بھی اطلاع ہوئی اور وہ مضمون ایسا ان کے دل میں بیٹھ گیا کہ کابل میں جا کر جابجا انہوں نے یہ ذکر شروع کیا کہ انگریزوں سے جہاد کرنا درست نہیں کیونکہ وہ ایک کثیر گروہ مسلمانوں کے حامی ہیں اور کئی کروڑ مسلمان امن و عافیت سے ان کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں.تب یہ خبر رفتہ رفتہ امیر عبدالرحمن کو پہنچ گئی اور یہ بھی بعض شریر پنجابیوں نے جو اُس کے ساتھ ملا زمت کا تعلق رکھتے ہیں.اس پر ظاہر کیا کہ یہ ایک پنجابی شخص کا مرید ہے جو اپنے تئیں مسیح موعود ظاہر کرتا ہے اور اس کی یہ بھی تعلیم ہے کہ انگریزوں سے جہاد درست نہیں.بلکہ اس زمانہ میں قطعاً جہاد کا مخالف ہے.تب امیر یہ بات سن کر بہت برافروختہ ہو گیا اور اس کو قید کرنے کا حکم دیا تا مزید تحقیقات سے کچھ زیادہ حال معلوم ہو.آخر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ضرور یہ شخص مسیح قادیانی کا مرید اور مسئلہ جہاد کا مخالف ہے.تب اس مظلوم کو گردن میں کپڑا ڈال کر اور دم بند کر کے شہید کیا گیا.کہتے ہیں کہ اس کی شہادت کے وقت بعض آسمانی نشان ظاہر ہوئے.(۳) موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جنگ اور قتال کے جہاد کی ممانعت میں فتویٰ اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آگیا صحیح جو دیں کا امام ہے دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
14 کیوں چھوڑتے ہو لوگو! نبی کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اُس خبیث کو کیوں بھولتے ہو تم يَضَعُ الحَرُب کی خبر یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر کیا فرما چکا ہے سید کونین مصطفى عیسی مسیح جنگوں کا کردے گا التوا ہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا پیشگوئی ہے اک معجزہ کے طور سے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے القصه : مسیح کے آنے کا ہے نشاں کردے گا ختم آ کے وہ دیں کی لڑائیاں ایسا گماں کہ مہدی خُونی بھی آئے گا اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا اے غافلو ! باتیں سراسر دروغ ہیں بہتاں ہیں ، بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں یارو! جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا
15 تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار اب اسکا فرض ہے کہ وہ دل کر کے اُستوار لوگوں کو بتائے کہ وقت مسیح جنگ اور جہاد حرام اور ថ្មី ہے ہے ہم اپنا فرض دوستو! اب کرچکے ادا اب بھی اگر نه سمجھو تو سمجھائیگا خدا سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں : عبد الرحمن شہید کے وقت سے یہ بات امیر اور مولویوں کو خوب معلوم تھی کہ قادیانی جو مسیح موعود کا دعوی کرتا ہے.جہاد کا سخت مخالف ہے اور اپنی کتابوں میں بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس زمانہ میں تلوار کا جہاد درست نہیں اور اتفاق سے اس امیر کے باپ نے جہاد کے واجب ہونے کے بارے میں ایک رسالہ لکھا تھا جو میرے شائع کردہ رسالوں کے بالکل مخالف ہے اور پنجاب کے شر انگیز بعض آدمی جو اپنے تئیں موحد یا اہلِ حدیث کے نام سے موسوم کرتے تھے امیر کے پاس پہنچ گئے تھے.غالبا ان کی زبانی امیر عبدالرحمن نے جوامیر حال کا باپ تھا.میری اُن کتابوں کا مضمون سُن لیا ہوگا.اور عبدالرحمن شہید کے قتل کی بھی یہی وجہ ہوئی تھی کہ امیر عبدالرحمن نے خیال کیا تھا کہ یہ اُس گروہ کا انسان ہے.جولوگ جہاد کو حرام جانتے ہیں.(۴) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں : ذکر اُس پیشگوئی کا جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۱ میں درج ہے مع اُس پیشگوئی کے جو براہین کے صفحہ ۵۱۰ میں مندرج ہے.یعنی وہ پیشگوئی جو صاحبزادہ مولوی محمد معبداللطیف صاحب مرحوم اور میاں عبد الرحمن مرحوم کی شہادت کی نسبت ہے اور وہ پیشگوئی جو میرے محفوظ رہنے کی نسبت ہے.واضح ہو کہ براہین احمدیہ کے صفحہ پانچ سو دس اور صفحہ پانچ سو گیارہ میں یہ پیشگوئیاں ہیں.
16 وَإِن لم يَعصِمكَ النَّاسُ - يعصمك الله من عِنده - وَإِنْ لَّمْ يعصمك النَّاسُ - شَاتَانِ تُذبَحَانِ و كُلُّ مَن عَلَيْهَا فَانٍ وَلَا تَهِنوا وَلَا تَحْزَنُوا - اليس اللهُ بِكَافٍ عبده - أَلَمْ تَعلَم أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ قـدِيـر - وَجِتَنَا بِك على هؤلاء شهيدًا....وعسى أن تُحبوا شيا هو شر لكم وعَسى ان تَكْرَهُوا شَيْئاً وَهُوَ خَيْرُ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعلَمُ وهو وأَنْتُمْ لَا تعلمون ترجمہ:- اگر چہ لوگ تجھے قتل ہونے سے نہ بچا ئیں لیکن خدا تجھے بچائے گا.خدا تجھے ضرور قتل ہونے سے بچائے گا.اگر چہ لوگ نہ بچائیں.و, یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ لوگ تیرے قتل کے لئے سعی اور کوشش کریں گے.خواہ اپنے طور سے اور خواہ گورنمنٹ کو دھوکا دے کر.مگر خدا اُن کو ان کی تدبیروں میں نامرا در کھے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر چہ میں تجھے قتل سے بچاؤں گا مگر تیری جماعت میں سے دو بکریاں ذبح کی جائیں گی.اور ہر ایک جو زمین پر ہے آخر فنا ہوگا.یعنی بے گناہ اور معصوم ہونے کی حالت میں قتل کی جائیں گی.یہ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں محاورہ ہے کہ بے گناہ اور معصوم کو بکرے یا بکری سے تشبیہ دی جاتی ہے...سوخدا تعالیٰ نے اس جگہ انسان کا لفظ چھوڑ کر بکری کا لفظ استعمال کیا.کیونکہ بکری میں دو ہنر ہیں.وہ دودھ بھی دیتی ہے.اور پھر اس کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے.اور یہ پیشگوئی شہید مرحوم مولوی محمد عبد اللطیف اور ان کے شاگر دعبدالرحمن کے بارے میں ہے کہ جو براہین احمدیہ کے لکھے جانے کے بعد پورے تئیں برس بعد پوری ہوئی...جیسا کہ ابھی میں نے لکھا ہے کہ بکری کی صفتوں میں سے ایک دودھ دینا ہے...مولوی صاحب موصوف نے مباحثہ کے وقت انواع و اقسام کے معارف اور حقائق بیان کر کے مخالفوں کو دودھ دیا.گو بد قسمت مخالفوں نے وہ دودھ نہ پیا اور پھینک دیا اور پھر شہید مرحوم نے اپنی جان کی قربانی سے اپنا گوشت دیا اور خون بہایا....اور میاں
17 عبدالرحمن بھی بکری سے مشابہت رکھتا تھا.اس لئے ان کو بکری کے نام سے یاد کیا گیا.اور چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ اس راقم اور اس کی جماعت پر اس ناحق کے خون سے بہت صدمہ گزرے گا.اس لئے اس وحی کے مابعد آنیوالے فقروں میں تسلی اور عزا پرسی کے رنگ میں کلام نازل فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس مصیبت اور اس سخت صدمہ سے تم غمگین اور اداس مت ہو کیونکہ اگر دو آدمی تم میں سے مارے گئے تو خدا تمہارے ساتھ ہے.وہ دو کے عوض ایک قوم تمہارے پاس لائے گا اور وہ اپنے بندہ کے لئے کافی ہے.کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے اور یہ لوگ جوان دومظلوموں کو شہید کریں گے.ہم تجھ کو ان پر قیامت میں گواہ لائیں گے کہ کس گناہ سے انہوں نے شہید کیا تھا..پھر بعد اس کے فرمایا کہ ان شہیدوں کے مارے جانے سے غم مت کرو ان کی شہادت میں حکمت الہی ہے اور بہت باتیں ہیں جو تم چاہتے ہو کہ وہ وقوع میں آویں.حالانکہ ان کا واقع ہونا تمہارے لئے اچھا نہیں ہوتا اور بہت امور ہیں جو تم چاہتے ہو کہ وہ واقع نہ ہوں.حالانکہ ان کا واقع ہونا تمہارے لئے اچھا ہوتا ہے اور خدا خوب جانتا ہے کہ تمہارے لئے کیا بہتر ہے.مگر تم نہیں جانتے.اس تمام وحی الہی میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ صاحبزادہ مولوی عبداللطیف مرحوم کا اس بے رحمی سے مارا جانا اگر چہ ایسا امر ہے کہ اس کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے.لیکن اس خون میں بہت برکات ہیں کہ بعد میں ظاہر ہوں گی اور کابل کی زمین دیکھ لے گی کہ یہ خون کیسے کیسے پھل لائے گا.یہ خون کبھی ضائع نہیں جائے گا.پہلے اس سے غریب عبدالرحمن میری جماعت کا ظلم سے مارا گیا.اور خدا چپ رہا.مگر اس خون پر اب وہ چپ نہیں رہے گا اور بڑے بڑے نتائج ظاہر ہوں گے.‘‘ (۵) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ حصہ پنجم میں تحریر فرماتے ہیں : پیشگوئی کر کے فرمایا کہ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی.یعنی میاں عبدالرحمن اور مولوی عبد اللطیف جو کابل میں سنگسار کئے گئے اور ہر ایک جو زمین پر ہے آخر مرے گا.پران
18 دونوں کا ذبح کیا جانا آخر تمہارے لئے بہتری کا پھل لائے گا.....اور ان واقعات شہادت کے مصالح جو خدا کو معلوم ہیں جو تمہیں معلوم نہیں یعنی خدا جانتا ہے کہ ان موتوں سے اس ملک کا بل میں کیا کیا بہتری پیدا ہوگی.(۶) وو پیشگوئی میں جو دو بکریوں کے ذبح کئے جانے کا ذکر ہے.یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے.جو سر زمین کابل میں ظہور میں آیا.یعنی ہماری جماعت میں سے ایک شخص عبدالرحمن نام جو جوان صالح تھا اور دوسرے مولوی عبد اللطیف صاحب جو نہایت بزرگوار آدمی تھے.امیر کابل کے حکم سے سنگسار کئے گئے.محض اس الزام سے کہ کیوں وہ دونوں ہماری جماعت میں داخل ہو گئے.(۷) ’واقعہ شہادت اخویم مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم اور شیخ عبدالرحمن صاحب مرحوم ایک ایسا دور از قیاس واقعہ تھا کہ جب تک وقوع میں نہ آ گیا.ہمارے ذہن کا اس طرف التفات نہ ہوا کہ دراصل وحی الہی کے یہ معنی ہیں کہ دو ہمارے صادق مرید سچ مچ ذبح کئے جائیں بلکہ اس حالت کو مُستعد سمجھ کر محض اجتہاد کے طور پر تاویل کی طرف میلان ہوتا رہا.اور تاویلی مصداق خیال میں گذرتے رہے کیونکہ انسان کا اپنا علم اور اپنا اجتہاد غلطی سے خالی نہیں لیکن جب یہ دونوں واقعات بعینہ ظہور میں آگئے اور دو بزرگ اس جماعت کے بڑی بے رحمی سے کا بل میں شہید کئے گئے.تو حق الیقین کی طرح وحی الہی کے معنی معلوم ہو گئے اور جب اس وحی کی تمام عبارت کو نظر اٹھا کر دیکھا تو آنکھ کھل گئی اور عجیب ذوق پیدا ہوا اور معلوم ہوا کہ جہاں تک تصریح ممکن ہے.خدا نے تصریح سے اس پیشگوئی کو بیان کر دیا ہے اور ایسے الفاظ اختیار کئے ہیں اور ایسے فقرات بیان فرمائے ہیں کہ وہ دوسرے پر صادق آ ہی نہیں سکتے -سبحان اللہ! اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیسے اس نے ان پوشیدہ باتوں کو ایک زمانہ دراز پہلے براہین احمدیہ میں بتفریح بیان کر دیا.(۸) ” میری جماعت میں اکثر لوگ ایسے ہیں.جنہوں نے اس سلسلہ کے لئے بہت دکھ اٹھائے ہیں...اور جان دینے تک فرق نہیں کیا.کیا وہ ابدال نہیں ہیں؟
19 شیخ عبدالرحمن ، امیر عبدالرحمن کے سامنے اس سلسلہ کے لئے گلا گھونٹ کر مارا گیا.اور اس نے ایک بکری کی طرح اپنے تئیں ذبح کرالیا.کیا وہ ابدال میں داخل نہ تھا؟ ایسا ہی مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف جو محدث اور فقیہ اور سر آمد علماء کا بل تھے اس سلسلہ کے لئے سنگسار کئے گئے اور بار بار سمجھایا گیا کہ اس شخص کی بیعت چھوڑ دو.پہلے سے زیادہ عزت ہو گی.لیکن انہوں نے مرنا قبول کیا اور بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی بھی کچھ پرواہ نہ کی.اور چالیس دن تک پتھروں میں ان کی لاش پڑی رہی.کیا وہ ابدال میں سے نہ تھے؟‘ (9) براہین احمدیہ کی یہ پیشگوئی ہے.شَاتَانِ تُذبَحَانِ ، وَكُلُّ مَن عَلِيهَا فَأَن یعنی دو بکریاں ذبح کی جائیں گی اور ہر ایک جو زمین پر ہے آخر مرے گا.یہ پیشگوئی براہین احمدیہ میں درج ہے.جو آج سے پچیس برس پہلے شائع ہو چکی ہے.مجھے مدت تک اس کے معنی معلوم نہ ہوئے بلکہ اور اور جگہ کو محض اجتہاد سے اس کا مصداق ٹھہرایا.لیکن جب مولوی صاحبزادہ عبداللطیف مرحوم اور شیخ عبد الرحمن ان کے تلمیذ سعید امیر کابل کے ناحق ظلم سے قتل کئے گئے.تب روز روشن کی طرح کھل گیا کہ اس پیشگوئی کے مصداق یہی دونوں بزرگ ہیں.کیونکہ شاۃ کا لفظ نبیوں کی کتابوں میں صرف صالح انسان پر بولا گیا ہے اور ہماری تمام جماعت میں ابھی تک بجز ان دونوں بزرگوں کے کوئی شہید نہیں ہوا.‘ (۱۰) ”صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی شہادت بھی میری سچائی پر ایک نشان ہے کیونکہ جب سے خدا نے دنیا کی بنیاد ڈالی ہے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ کوئی شخص دیدہ دانستہ ایک جھوٹے مکار مفتری کے لئے اپنی جان دے اور اپنی بیوی کو بیوہ ہونے کی مصیبت میں ڈالے اور اپنے بچوں کا یتیم ہونا پسند کرے اور اپنے لئے سنگساری کی موت قبول کرے.یوں تو صد ہا آدمی ظلم کے طور پر قتل کئے جاتے ہیں.مگر میں جو اس جگہ صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کی شہادت کو ایک عظیم الشان نشان قرار دیتا ہوں.وہ اس وجہ سے نہیں کہ ظلم سے قتل کئے گئے اور شہید کئے گئے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ شہید ہونے کے وقت انہوں نے وہ استقامت دکھائی کہ اس سے بڑھ کر کوئی کرامت نہیں ہوسکتی.اسی طرح شیخ عبدالرحمن بھی کا بل میں ذبح کیا
20 گیا اور دم نہ مارا اور یہ نہ کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں بیعت کو توڑتا ہوں.اور یہی سچے مذہب اور بچے امام کی نشانی ہے کہ جب کسی کو اُس کی پوری معرفت حاصل ہو جاتی ہے اور ایمانی شیرینی دل و جان میں رچ جاتی ہے تو ایسے لوگ اس راہ میں مرنے سے نہیں ڈرتے.“ (۱۱) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : وو ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک وہ بزدلی کو نہ چھوڑے گی اور استقلال اور ہمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہر ایک راہ میں ہر مصیبت و مشکل کو اٹھانے کے لئے تیار نہ رہے گی وہ صالحین میں داخل نہیں ہو سکتی.صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت کا واقعہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے.تذکرۃ الشہادتین کو بار بار پڑھو اور دیکھو کہ اس نے اپنے ایمان کا کیسا نمونہ دکھایا.اس نے دنیا اور اس کے تعلقات کی کچھ بھی پرواہ نہ کی.بیوی بچوں کا غم اس کے ایمان پر کوئی اثر نہ ڈال سکا.دنیوی عزت اور تم نے اس کو بزدل نہیں بنایا.اس نے جان اور دینی گوارا کی مگر ایمان کو ضائع نہیں کیا...براہین احمدیہ میں ۲۳ برس پہلے سے اس شہادت کے متعلق پیشگوئی تھی.وہاں صاف لکھا ہے.شَاتَان تُذبَحانِ ، وَ كُلَّ مَن عَليها فان کیا اس وقت کوئی منصوبہ ہو سکتا تھا کہ ۲۳ یا ۲۴ سال بعد عبد الرحمن اور عبداللطیف افغانستان سے آئیں گے اور پھر وہاں جا کر شہید ہوں گے...پہلے عبدالرحمن جو مولوی عبد اللطیف کا شاگر د تھا.سابق امیر نے قتل کروایا.محض اس وجہ سے کہ وہ اس سلسلہ میں داخل ہے اور یہ سلسلہ جہاد کے خلاف ہے اور عبدالرحمن جہاد کے خلاف تعلیم افغانستان میں پھیلا تا تھا اور اب اس امیر نے مولوی عبد اللطیف کو شہید کرا دیا.(۱۲) رسالہ شہید اول افغانستان اس رسالہ کے پہلے باب میں مولوی عبد الرحمن صاحب مرحوم کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور ملفوظات درج کئے گئے ہیں.اب اس دوسرے باب میں دیگر اصحاب کی تحریرات اور روایات پر مبنی واقعات
21 224 درج کئے جائیں گے.سید احمد نور کا بلی بیان کرتے ہیں کہ شہید عبدالرحمن خوبصورت نوجوان تھے ، میانہ قد ، جسم کچھ پہلا تعلیم یافتہ تھے.آپ کو مولوی کہ کر پکارا جا تا تھا.(۱۳) عبد الرحمن سرکاری ملازم تھے اُن کو ایک سو میں روپیہ سالا نہ سرکار کی طرف سے ملتے تھے.قوم منگل کے معزز خاندان سے تھے.(۱۴) سید محمود احمد احمدی افغانی جو شگہ صوبہ پکتیا کے رہنے والے ہیں.بیان کرتے ہیں کہ مولوی عبد الرحمن صاحب کا آبائی وطن قریہ گند رخیل، غتمہ و نہ سید کرم تھا.یہ بستی شہر گردیز کے متصل ہے.جو آج کل صوبہ پکتیا کا ہیڈ کوارٹر ہے.مولوی عبدالرحمن صاحب کا قبیلہ احمد زئی تھا - (۱۵) ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ ۱۸۹۳ء میں امیر عبدالرحمن خان اور انگریزوں کے درمیان افغانستان اور برٹش انڈیا کی سرحدات کا معاہدہ کا بل میں طے پا گیا تھا.جس میں دونوں فریق ان علاقوں کی تقسیم پر راضی ہو گئے تھے.جو معاہدہ کے مطابق ان کے حصہ میں آئے تھے.اس معاہدہ کے لئے سرمار ٹیمر ڈیورنڈ نے کابل کا سفر کیا اور امیر عبدالرحمن خان سے مل کر معاہدہ کی تمام تفصیلات طے کرلیں.اس سے اگلے سال ۱۸۹۴ء میں اس معاہدہ کے مطابق دونوں حکومتوں کے نمائندوں نے سرحد کی نشان دہی کی.اس غرض کے لئے ایک کمیشن کا قیام کیا گیا.جس کی نمائندگی انگریزوں کی طرف سے.سر مار ٹیمر ڈیورنڈ ، صاحبزادہ سر عبدالقیوم خان آف ٹوپی صوبہ سرحد، مسٹر جے ایس ڈونلڈ سی آئی ای آفیسر اون پیشل ڈیوٹی کرم - کمشنر صاحب پشاور ڈویژن اور بعض دیگر افسران نے کی.افغانستان کی طرف سے جب بنوں ، کو ہاٹ ،ٹل، پاڑہ چنار، کرم اور پیواڑ کوتل کے
22 22 علاقہ کی نشان دہی کی گئی تو خوست کے گورنر سردار شیر میں دل خان اور حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف شہید نمائندہ مقرر ہوئے.پشاور میوزیم میں ایسا ریکارڈ موجود ہے.جس سے اس کام میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی شرکت ثابت ہوتی ہے.تاریخ احمدیت جلد نمبر ۳ میں ایسے تین خطوط کی نقل موجود ہے.ان میں سے ایک خط سردار شیر میں دل خان گورنرخوست کا ہے.جس کی تاریخ ۱۸ جون ۱۸۹۴ء ہے.دوسرا خط ، مسٹر جے ایس ڈونلڈ کا ہے.جو کمشنر پشاور ڈویژن کے نام ہے.اس کی تاریخ ۲۸ جولائی ۴ ۱۸۹ء ہے.تیسرا خط بھی مسٹر ڈونلڈ کا ہے اور وہ بھی پشاور ڈویژن کے کمشنر کے نام ہے اور اس کی تاریخ ستمبر ۱۸۹۴ء کی ہے.ان تینوں خطوں میں حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف کا ذکر موجود ہے.(۱۶) ڈیورنڈ لائن کی حد بندی کا سید احمد نور صاحب نے بھی ذکر کیا ہے.وہ بیان کرتے ہیں : میں اس زمانہ میں صاحبزادہ صاحب کے پاس چلا گیا تھا اور ان سے سبق پڑھتا تھا.خوست ،ٹل ، دوڑ کی سرحد بندی کے بعد آپ پیواڑ کو تل اور پاڑہ چنار کے علاقہ میں پہنچے.اس دوران ٹل کے مقام پر ایک شخص نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب حضرت صاحبزادہ صاحب کو دی.میں اس وقت موجود نہیں تھا یہ کتاب میرے سامنے نہیں دی گئی تھی.حضرت صاحبزادہ صاحب یہ کتاب لے کر اپنے گاؤں سید گاہ آئے اور بڑی خوشی کا اظہار کیا اور اپنے شاگردوں سے کہا کہ اسی کی ہمیں انتظار تھی.اس کتاب کے اند رسب باتیں بالکل سچ ہیں.ہمارے ساتھ اس وقت شہید مولوی عبد الرحمن بھی بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے بھی یہ باتیں سنیں مولوی عبدالرحمن نے کہا کہ میں جاؤں گا اور پتہ لاؤں گا.اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے مولوی عبد الرحمن کو قادیان بھیج دیا اور تاکید کی کہ پوری تفتیش کرو اور پتہ لے کر آؤ.(۱۷) چنانچہ مولوی عبد الرحمن صاحب قادیان گئے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے اور چند ماہ بعد خوست واپس گئے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو تمام حالات سنائے اور حضور کی جو کتب وہ قادیان سے لے گئے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب
23 کو دیں.اس کے بعد بھی مولوی عبد الرحمن صاحب متعدد بار قادیان آئے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.اور حضور علیہ السلام نے ان کو اپنے تین سو تیرہ صحابہ میں شامل فرمایا - (۱۸) (1 مولوی عبد الرحمن صاحب کے قادیان آنے کے بارہ میں سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر اور روایات میں ذکر ملک غلام حسین صاحب رہتا سی کا رکن لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روایت ہے کہ مولوی عبدالرحمن صاحب شہید افغانستان سے آئے.حضور سے ملاقات کرنی چاہی.کسی شخص نے ان کو بتایا کہ میاں غلام حسین صاحب ملاقات کروا دیں گے ان کو کہیں.چنانچہ وہ مجھے ملے.میں نے انہیں کھانا کھلایا.اس وقت ایک بجے کا وقت تھا.میں اندر گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا.کسی لڑکے نے ایک کھڑ کی کھولی.میں نے عرض کیا.حضرت جی ! اس پر حضور نے فرمایا.جی.میں نے عرض کیا کہ ایک صاحب کا بل سے آئے ہیں.ان کا نام مولوی عبدالرحمن ہے.حضور کو ملنا چاہتے ہیں.فرمایا.ابھی اذان ہو گی.مسجد میں مل لیں گے.میں نے عرض کیا حضور وہ الگ ملنا چاہتے ہیں.حضوڑ اندر تشریف لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر فرمایا کہ جاؤ انہیں بلا لو.میں ان کو اندر لے گیا.وہ ڈرتے ڈرتے اندر گئے.ان کے ساتھ ایک بڑا سر دا کچھ بادام کچھ چلغوزے اور کچھ اور میوہ جات تھے.وہ انہوں نے حضور کی خدمت میں پیش کئے.حضور اس وقت ایک تخت پوش پر تشریف فرما تھے.آپ نے فرمایا.مولوی صاحب اتنی تکلیف آپ نے کیوں کی.آپ کو تو بہت فاصلہ سے یہ چیزیں اٹھانی پڑی ہونگی.انہوں نے عرض کیا کہ حضور ! ہرگز کوئی تکلیف نہیں ہوئی.میں تو بڑی خوشی سے آیا ہوں.ریل گاڑی پر بھی کم ہی سوار ہوا.حضور نے دریافت فرمایا کہ مولوی صاحب چائے پیئیں گے یا شربت.انہوں نے کہا کہ حضور اس وقت میں کھانا کھا چکا ہوں.
24 آپ تکلیف نہ کریں.آپ نے فرمایا.نہیں تکلیف بالکل نہیں.پھر مجھے فرمایا.میاں غلام حسین ان کو شربت پلاؤ.میں اندر گیا.حضرت اُم المومنین سے عرض کی.انہوں نے فرمایا.اس وقت ٹھنڈا پانی نہیں ہے.بڑی مسجد کے کوئیں سے لے آئیں.میں نے پانی لا کر دیا.حضرت اُم المومنین نے شربت بنا کر مجھے دیا.میں نے باہر آ کر مولوی صاحب کو پیش کیا.انہوں نے ایک گلاس پیا تو حضور نے فرمایا اور پیئیں.چنانچہ انہوں نے ایک گلاس اور پی لیا.کچھ شربت بچ گیا تھا.میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ آپ بھی پی لیں.فرمایا نہیں لے جاؤ.حضرت صاحب نے بعد میں مجھے فرمایا کہ یہ بہت دور سے آئے ہیں ان کے لئے کھانا الگ تیار کیا کرو اور اچھا کھانا ان کو کھلایا کرو.مولوی صاحب قریباً دو ماہ قادیان رہے.میں ان کے لئے ایک وقت پلاؤ پکا یا کرتا تھا.میں نے ان کی خوب اچھی خاطر مدارات کی.مولوی صاحب مجھ سے بہت خوش تھے اور حضرت صاحب بھی ان کی خاطر کی وجہ سے مجھ پر بہت خوش تھے.پھر مولوی صاحب واپس چلے گئے.‘ (۱۹) ۲) ملک غلام حسین صاحب رہتا سی کی ایک اور روایت ہے کہ مولوی عبد الرحمن صاحب کا بلی قریباً چھ ماہ یا ایک برس کے بعد پھر قادیان تشریف لائے.اس دفعہ بھی حضور کے لئے بہت سی چیزیں لائے.ان میں سے ایک پوستین بھی تھی.میں نے ان کے آنے کی حضور کو اطلاع کی.حضرت صاحب نے انہیں اندر ہی بلا لیا.انہوں نے وہ چیزیں اور پوستین حضور کی خدمت میں پیش کی.حضرت صاحب نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا.اور فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نے بہت تکلیف کی.انہوں نے عرض کیا کہ حضور ! یہ پوتین حضور کی خاطر لایا ہوں اور دل چاہتا ہے کہ حضور میرے سامنے پہنیں.حضرت صاحب کھڑے ہو گئے اور وہ پوستین پہنی وہ حضور کے ٹخنوں تک آتی تھی.شام کے کھانے کے دوران خواجہ کمال الدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور ! مولوی عبد الرحمن صاحب ایک پوستین لائے ہیں.بڑا قیمتی اور گرم ہے اور نہایت اعلیٰ درجہ کی تیار ہوئی ہے.حضور نے فرمایا.خواجہ صاحب ! آپ کو بہت پسند ہے.آپ ہی لے لیں.خواجہ صاحب نے عرض کیا حضور بڑی.
25 مہربانی ہوگی.چنانچہ حضور نے وہ پوستین خواجہ صاحب کو دے دی.‘ (۲۰) ۳) محمد رحیم الدین صاحب احمدی ، متوطن حبیب والا ضلع بجنور یو پی بیان کرتے ہیں کہ وہ ماہ اگست ۶ ۱۸۹ء میں قادیان حاضر ہو کر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے.اور ایک ہفتہ قادیان میں قیام کیا تھا.ان دنوں میں مولوی عبد الرحمن کا بلی بھی قادیان آئے تھے اور حضوڑ کے واسطے ایک جوڑا جوتا جو کامدار اور قیمتی تھا ، لائے تھے.محمد رحیم الدین صاحب نے احباب سے ان کے بارہ میں پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو انہیں بتایا گیا کہ یہ مولوی عبد الرحمن صاحب ہیں جو کا بل سے آئے ہیں.(۲۱) مولوی عبد الرحمن صاحب گورداسپور میں (۴) اگست ۷ و ۸اء میں عیسائی پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک جھوٹا فوجداری مقدمہ کیا اور یہ شکایت کی کہ مرزا نے مجھے قتل کرنے کے لئے ایک آدمی بھجوایا ہے.اس موقعہ پر آریہ سماج کے لیڈ ر لالہ رام بھیج دت اور پنجاب کے اہل حدیث کے لیڈر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے عیسائیوں سے تعاون کیا اور ہر ممکن کوشش کی کہ حضور کو سزا دلوائیں.لالہ جی نے پادری صاحب کی پیروی خود خواہش کر کے مفت کی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے رضا کارانہ طور پر عدالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں بیان دینے پر کمر باندھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام انّى مهينٌ مَنْ اَرَادَ اهَانتک کے مطابق مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی ذلت کا سامان کمرہ عدالت میں ہی کر دیا.جو نہی مولوی محمد حسین صاحب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو انہوں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسٹرولیم مانٹیگو ڈگلس سے اپنے بیٹھنے کے لئے گر سی کا مطالبہ کیا.جسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے منظور نہ کیا.لیکن مولوی صاحب نے اصرار کیا.اس پر ڈگلس صاحب نے مولوی صاحب کو اونچی آواز میں نہایت سخت الفاظ میں ڈانٹ پلائی.اس وقت عدالت میں اور اس
26 کے کمرہ کے باہر بہت سے احمدی احباب اور دیگر لوگ موجود تھے.جنہوں نے یہ توہین آمیز الفاظ سنے اور مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت کے بارہ میں پیشگوئی کے پورا ہونے کے گواہ بن گئے.اس موقعہ پر منجملہ اور احمدی احباب کے مولوی عبد الرحمن صاحب کا بلی بھی عدالت کے باہر موجود تھے.اخبار الحکم میں اس کا ذکر ہے اور دیگر احباب کے ناموں کے ساتھ جواس موقعہ پر موجود تھے.مولوی عبد الرحمن صاحب کا نام بھی اخبار میں درج ہے.(۲۲) اخبار الحکم قادیان مؤرخہ ۱۹ مئی ۱۸۹۹ء میں ایک فہرست اُن احباب کی شائع ہوئی ہے.جنہوں نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ ہاؤس کی تعمیر کے لئے چندہ دیا تھا.اس فہرست میں ایک نام اس طرح درج ہے: میاں عبد الرحمن صاحب کا بلی اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مولوی عبدالرحمن صاحب ۱۸۹۹ء میں بھی قادیان آئے تھے.(۲۳) جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمد یہ صوبہ سرحد تحریر کرتے ہیں کہ آخری دفعہ مولوی عبد الرحمن صاحب دسمبر ۱۹۰۰ ء میں قادیان آئے اور واپسی پر براستہ پشاور افغانستان گئے.قیام پشاور کے دوران جناب خواجہ کمال الدین صاحب وکیل کے بالا خانہ پر بیرون کا بلی دروازہ رہائش رکھی اور کچھ عرصہ قیام کر کے وطن روانہ ہوئے.ان دنوں میں سرحدی علاقوں کے قبائلی جہاد کے نام پر بے گناہ انگریزوں کو جو سرحد میں مختلف مقامات پر رہائش رکھتے تھے.ان کے ناحق قتل و خون میں مصروف رہتے تھے اور اپنے آپ کو غازی قرار دیتے تھے.یہ حالات دیکھ کر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رسالہ لکھ کر شائع فرمایا تھا.جس میں اسلامی تعلیم کی رو سے جہاد کی حقیقت واضح کی گئی تھی اور مسلمانوں کو غلط قسم کے جہاد بالسیف سے منع کیا گیا تھا.اسی طرح انجمن حمایت اسلام لا ہور اور بعض غیر احمدی علماء نے بھی اس قسم کے قتل و غارت کو غلط اور ناجائز قرار دیا تھا اور اپنے موقف کی اشاعت کے لئے فتاوی عربی ، فارسی
27 27 اور اردو، زبانوں میں چھوٹے چھوٹے رسالوں کی صورت میں چھاپ کر انہیں قبائلی علاقوں میں تقسیم کروانے کا انتظام کیا تھا.مولوی عبد الرحمن صاحب افغانستان جاتے ہوئے یہ رسائل اور پمفلٹس اپنے ساتھ لے گئے اور افغانستان جا کر ان کو وہاں پر تقسیم کیا اور وہاں کے علماء سے بھی اس زمانہ میں جہاد بالسیف کے بارہ میں گفتگو کی.اس کی رپورٹ امیر عبدالرحمن خان کو کی گئی.اس نے مولوی عبد الرحمن کو بلا کر بیان لیا اور پھر ان کو جیل میں ڈال دیا اور مولوی صاحب کے عقائد اور ان کتابوں کے مضمون کو اپنے خیالات کے خلاف پا کر ان کے قتل کا حکم دے دیا.چنانچہ مولوی عبد الرحمن صاحب کو جیل میں ہی دم بند کر کے شہید کر دیا گیا.(۲۴) سید محمود احمد افغانی شنگہ صوبہ پکتیا کی تحقیق کے مطابق حضرت مولوی عبد الرحمن (< صاحب کی شہادت ۲۰ جون ۱۹۰۱ء کو ہوئی.(٨ مولوی عبد الرحمن صاحب کی شہادت کے بارہ میں سید احمد نور صاحب بیان کرتے ہیں: ا میر عبدالرحمن کے پاس کسی نے رپورٹ کی کہ مولوی عبدالرحمن جو منگل قوم کے ہیں اور جو آپ سے دو سو چالیس روپیہ پاتے ہیں.کسی غیر ملک میں چلے گئے ہیں.امیر عبدالرحمن خان کی طرف سے گورنر خوست کے نام حکم پہنچا کہ مولوی عبدالرحمن کو گرفتار کیا جاوے.گورنر نے شہید مرحوم کو اطلاع دی کہ ایسا حکم امیر کی طرف سے آیا ہے.جب مولوی عبدالرحمن کو معلوم ہوا تو وہ چھپ گئے.اس کے بعد دوبارہ حکم ہوا کہ اس کا مال واسباب ضبط کیا جاوے اور اس کے تمام اہل و عیال کو یہاں بھیج دیا جائے.جب مال و اسباب ضبط ہو گیا اور اہل وعیال کو کا بل بھیجا گیا.تو عبد الرحمن شہید خود امیر کے پاس چلا گیا.امیر نے پوچھا کہ غیر علاقہ میں کیوں گئے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ سرکار کی خدمت کے لئے قادیان گیا تھا اور جس شخص نے دعوی مسیحیت کا کیا ہے.اس کی کتابیں اپنے ساتھ لایا ہوں.امیر نے ان سے کتابیں لے کر ان کو قید میں بھیج دیا.اس کے بعد کچھ معلوم نہیں ہوا کہ وہ کہاں گئے اور کیا حال ان کا ہو یا اندر ہی غائب ہو گئے.اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے.اور افواہ اس کی یہ ہے کہ ان کے منہ پر تکیہ رکھ کر ان کا سانس بند کر کے مار دیا گیا.‘ (۲۵) 66
28 سید احمد نور نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ ڈیڑھ دو ماہ قید خانہ میں رہے اور پھر قید خانہ میں ہی شہید کر دیئے گئے.‘ (۲۶) مولوی عبد الرحمن صاحب کی شہادت کی اطلاع قادیان میں ملنا اگر چه مولوی عبد الرحمن صاحب کو ۲۰ جون ۱۹۰۱ء کو کابل میں شہید کر دیا گیا تھا.لیکن ان کی شہادت کی اطلاع قادیان آکر مولوی عبد الستار خان معروف به بزرگ صاحب نے نومبرا ۱۹۰ء میں دی اسبارہ میں اخبار الحکم رقمطراز ہے کہ خوست علاقہ غزنی سے حضرت اقدس کے ایک مخلص مرید مولوی عبدالستار صاحب مع اپنے تین رفیقوں کے تشریف لائے.مولوی عبدالستار صاحب کی زبانی ہمیں معلوم کر کے از بس افسوس ہوا کہ ہمارے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک مخلص دوست مولوی عبد الرحمن صاحب جو اس علاقہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اشاعت کا موجب ہوئے.کسی ناخدا ترس کے اشارہ سے شہید کئے گئے - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اليهِ رَاجِعُونَ (۲۷) مولوی عبد الرحمن صاحب کی شہادت کے بعد حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف کا شہر کا بل میں قیام سید احمد نور کا بیان ہے کہ مولوی عبدالرحمن صاحب کی شہادت کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب کی شکایت بھی امیر عبدالرحمن خان کے پاس کی گئی کیونکہ مولوی عبدالرحمن صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب کے شاگرد تھے.امیر عبدالرحمن خان نے آپ کو کابل بلوالیا اور آپ نے وہاں رہائش اختیار کر لی.مستوفی الملک مرزا محمد حسین کو تو ال آپ کا نگران تھا.کابل میں آپ کے شاگرد اور اہل و عیال بھی ساتھ تھے.کابل میں آپ نے تدریس کا کام جاری رکھا.آپ ایک مسجد میں تعلیم دیا کرتے تھے جو شور بازار کے آخر میں واقع تھی.(۲۸) مولوی عبدالستار خان صاحب کا بیان آپ کے کا بل جانے کے بارہ میں کچھ مختلف ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز والئی خوست نے صاحبزادہ صاحب سے ذکر کیا کہ اس
29 ملک میں بڑا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے.لوگ شیطان سیرت ہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا کوئی دشمن آپ کی شکایت امیر عبدالرحمن خان کے پاس کر دے.اور وہ آپ کو کابل بلوائے اس لئے بہتر ہے کہ آپ خود ہی امیر کے پاس ہو آئیں.تا کہ کوئی آپ کی رپورٹ نہ کر سکے.آپ معزز اور پوزیشن والے آدمی ہیں.آپ سے مل کر امیر بہت خوش ہو گا اور آپ سے عزت و احترام سے پیش آئے گا.چنانچہ آپ کچھ آدمیوں کے ساتھ کابل چلے گئے.وہاں ان دنوں امیر کا در بار رات کو ہوا کرتا تھا.آپ چند دن کا بل میں ٹھہرے.جب دربار میں حاضر ہوئے تو امیر عبدالرحمن خان آپ سے مل کر بہت خوش ہوا اور کہا کہ آپ کے بارے میں مجھے رپورٹیں تو ملی تھیں مگر میں نے ان کو نظر انداز کر دیا اور میں آپ کے آنے سے بہت خوش ہوا ہوں.جب امیر سے ملاقات ہو چکی تو صاحبزادہ صاحب کو گھر واپس جانے کا خیال آیا لیکن بعض درباریوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ یہ امیر قابو میں نہیں.ایسا نہ ہو کہ آپ گھر پہنچیں اور پیچھے آپ کو واپس بلانے کے لئے آدمی بھجوا دئیے جائیں.اسلئے بہتر ہے کہ آپ یہیں ٹھہر جائیں.اس پر آپ نے امیر عبدالرحمن خان سے کہا کہ میں کا بل میں ہی رہنا چاہتا ہوں.یہ سن کر امیر نے اس پر بہت پسندیدگی کا اظہار کیا اور آپ کا بل میں رہنے لگے.(۲۹) امیر عبدالرحمن خان کی وفات مولوی عبد الرحمن ۲۰ جون ۱۹۰۱ء کو شہید کئے گئے.اس کے جلد بعدا میر عبدالرحمن خان پر فالج کا حملہ استمبر ۱۹۰۱ء کو ہوا.جس سے اس کا داہنا پہلو بے کار ہو گیا.ماہر ڈاکٹروں اور طبیبوں نے اس کے علاج میں بہت کوشش کی لیکن اس کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی.امیر عبدالرحمن خان ، حضرت صاحبزادہ صاحب کو بزرگ سمجھتا تھا.اس واسطے اس بیماری میں اس کی خواہش تھی کہ آپ اس کے پاس موجود رہا کریں.چنانچہ آپ روزانہ امیر کو ملنے جایا کرتے تھے.ایک روز آپ امیر کو دیکھ کر آئے تو سید احمد نور سے فرمایا کہ امیر سخت بیمار ہے.جانے والا ہے صرف آج کی رات زندہ رہے گا.صبح حضرت صاحبزادہ صاحب کو بلوایا گیا.ان دنوں
30 50 امیر کی رہائش باغ بالا میں تھی.آپ اندر گئے اور جلدی باہر آگئے اور سید احمد نور سے فرمایا کہ امیر تو سچ سچ مر گیا.اسی روز امیر حبیب اللہ خان کو دلکشا سلام خانہ میں دستار بندی کے لئے لایا گیا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے امیر حبیب اللہ کی خواہش پر اس کے سر پر دستار باندھی آخر میں چند بل قاضی نے باندھے.یہ کاروائی ایک خاص دربار میں ہوئی.لوگوں کی تعداد محدود تھی.عام لوگوں کو نہ بلایا گیا تھا.سید احمد نور صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ اندر چلے گئے تھے.امیر عبدالرحمن خان کی وفات سے حضرت صاحبزادہ صاحب کی کابل میں نظر بندی ختم ہو چکی تھی.جو مولوی عبد الرحمن کی شہادت کے بعد شروع ہوئی تھی.امیر حبیب اللہ خان نے آپ سے کہا کہ اگر آپ وطن جانا چاہتے ہیں.تو خوشی سے جا سکتے ہیں اور آپ کی درخواست پر آپ کو حج پر جانے کی اجازت بھی دے دی.چنانچہ آپ امیر عبدالرحمن خان کی وفات کے قریباً چار ماہ بعد کا بل سے اپنے وطن سید گاہ واپس آگئے.(۳۰)
31 4 ببلیوگرافی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تذكرة الشهادتين ، انجام آتھم ، براہین احمد یہ حصہ پنجم ، حقیقۃ الوحی ، کتاب البریہ ملفوظات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ، جلد سوم ( حضرت صاحبزادہ عبداللطیف ( شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات ، حصہ اوّل مصنفہ سید احمد نور کا بلی شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ دوم بیان کرده مولوی عبدالستار صاحب معروف به بزرگ صاحب شائع کردہ سید احمد نور کا بلی قلمی مسوده روایات ،سید احمد نور صاحب، صاحبزادہ ابوالحسن قدسی صاحب، مولوی شان محمد صاحب بتوسط مولوی شہزادہ خان صاحب یہ مسودہ قادیان میں ۳۱ را گست ۱۹۴۷ء کو مکمل کیا گیا.تاریخ احمدیت افغانستان مرتبه سید محمود احمد افغانی ،۱۹۹۳ء بزبان پشتو، بصورت مسوده اخبار الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء تاریخ احمدیت ، جلد سوم
32 32 حوالہ جات (۱) انجام آتھم صفحه ۴۲ روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۲۶ (۲) تذکرۃ الشہا دتین صفحه ۴۵ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۷ (۳) تذكرة الشہادتین صفحه ۴۵ - ۴۶ مطبوعه روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۴۷ - ۴۸ (۴) تذکرۃ الشہادتین صفحه ۵۱ روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ ، صفحه ۵۳ (۵) تذکرۃ الشہا دتین صفحه ۶۷-۷۲، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۶۹-۷۴ (۶) براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۶۶ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۱ صفحه ۸۵ ( ۷ ) براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۶۶ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۱ ، صفحه ۸۵ (۸) براہین احمدیہ حصہ پنجم حاشیہ صفحہ ۶۶ - ۶۷ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۱ ، صفحه ۵ ۸-۸۶ (۹) ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۸۶ روحانی خزائن جلد نمبر ۲۱ صفحه ۳۵۷ (۱۰) حقیقۃ الوحی صفحه ۲۶۲ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحه ۲۷۴ (۱۱) حقیقۃ الوحی صفحه ۳۴۶ - ۳۴۷، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحه ۳۵۹ - ۳۶۰ (۱۲) اخبار الحکم مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۴ء ملفوظات جلد سوم صفحه۵۱۱-۵۱۲ (۱۳) قلمی مسوده صفحه ۱۶ (۱۴) قلمی مسوده صفحه ۱۵ (۱۵) تاریخ احمدیت افغانستان بزبان پشتو قلمی مسوده (۱۶) تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۱۶۶ - ۱۶۷ (۱۷) ملخص از قلمی مسوده صفحه ۱۲ تا صفحه ۱۴ (۱۸) ملخص از رساله ضمیمه انجام آنقم صفحه ۴۱ ، و تذکره الشہا دتین صفحه ۴۶ - ۴۷ ، وقلمی مسوده روایات ، و تاریخ احمدیت افغانستان مصنفه سید محمود احمد افغانی به زبان پشتو (۱۹) رجسٹر روایات صحابه جلد نمبر ۱۰، صفحه ۳۶۵-۳۲۶
33 (۲۰) رجسٹر روایات صحابه جلد نمبر ۱۰ ، صفحه ۳۲۶ - ۳۲۷ (۲۱) رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر ۵، صفحه ۱۶۰ - ۱۶۵ (۲۲) اخبار الحکم ۲ مارچ ۱۸۹۸ء و کتاب البریہ صفحه ۲۹ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۱۳، صفحه ۲۹-۳۰ (۲۳) اخبار الحکم ۱۹ مئی ۱۸۹۹ء (۲۴) ملخص از رساله عاقبة الممکن بین حصہ اول صفحه ۳۱-۳۲، مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب (۲۵) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحه ۴ - ۵ (۲۶) قلمی مسوده صفحه ۱۶ (۲۷) اخبار الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء، صفحه ۱۵ (۲۸) ملخص از قلمی مسوده صفحه ۱۶- ۱۷ (۲۹) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ دوم صفحه ۱۴ - ۱۵ (۳۰) ملخص از قلمی مسوده صفحه ۱۶-۱۹
34 رف سکیچ افغانستان صوبه سرحد صوبه پنجاب ه سیدو سمرقند بخارا از بکستان تاخان قدر مزار شریف یخ افغانستان قندھار قادیان راولپنڈی دریائے جہلم دریائے چناب دریائے راوی دریائے بیاس ملتان بہاولپور صوبہ پنجاب یا کپور صوبہ سرحد کوئٹہ صوبہ بلوچستان ایران ہ ہرات
باب دوم 35 شیخ عجم حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید افغانستان کی سوانح حیات (۱۹۰۳-۶۱۸۵۳ء)
36 حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف کا وطن، خاندان اور پیدائش حضرت صاحبزادہ صاحب افغانستان کے صوبہ پکتیا کے علاقہ خوست کے رہنے والے تھے.اُن کے گاؤں کا نام سید گاہ ہے جو دریائے عمل کے کنارہ پر آباد ہے.پکتیا میں چند گاؤں آپ کی ملکیت تھے.زرعی اراضی کا رقبہ سولہ ہزار کنال تھا.اس میں باغات اور پن چکیاں بھی تھیں.اس کے علاوہ ضلع بنوں میں بھی بہت سی زمین تھی.آپ کے والد صاحب کا نام سید محمد شریف تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا شجرہ نسب تو جل کر ضائع ہو گیا لیکن میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ہم حضرت سید علی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش کی اولاد ہیں.ہمارے آباء دہلی کے بادشاہوں کے قاضی ہوتے تھے.خاندان کی ایک بڑی لائبریری تھی جس کی قیمت نو لاکھ روپیہ بتائی جاتی ہے.جب ہمارے بزرگوں نے حکومت میں عہدے حاصل کر لئے تو ان کی توجہ کتب خانہ کی طرف نہ رہی اور یہ کتا بیں ضائع ہوگئیں.میرا اپنا یہ حال ہے کہ جائیداد چونکہ مجھے ورثہ میں ملی ہے اس لئے اسے رکھنے پر مجبور ہوں ورنہ میرا دل دولت کو پسند نہیں کرتا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ صاحبزادہ صاحب کی عمر ۵۰ سال تھی.حضور فرماتے ہیں : قریباً پچاس برس کی عمر تک تنعم اور آرام میں زندگی بسر کی تھی.(1) حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت ۱۹۰۳ء میں ہوئی اس طرح ان کا سن پیدائش ۱۸۵۳ء بنتا ہے.جناب قاضی محمد یوسف صاحب مرحوم امیر جماعت احمد یہ صوبہ سرحد نے ۱۹۰۲ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر قادیان میں حضرت صاحبزادہ صاحب کو دیکھا تھا.وہ لکھتے ہیں : حضرت شہید مرحوم کا قد درمیانہ تھا.ریش مبارک بہت گھنی نہ تھی.بال اکثر سیاہ تھے اور ٹھوڑی پر کچھ کچھ سفید تھے.(۲)
37 حضرت صاحبزادہ صاحب کے شاگر دسید احمد نور صاحب کا بلی نے محرم ۱۳۴۰ھ مطابق ۱۹۲۱ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے حالات شائع کئے تھے.انہوں نے آپ کی عمر ساٹھ اور ستر سال کے درمیان لکھی ہے.میری رائے میں یہ اندازہ کی غلطی ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب کی عمر شہادت کے وقت جیسا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیه السلام.تذکرۃ الشہادتین میں تحریر فرمایا ہے پچاس سال ہی تھی.(۳) تحصیل علم کے سفر نے حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف نے ہندوستان میں مندرجہ ذیل مقامات پر علوم مروجہ کی تعلیم حاصل کی : امرتسر، لکھنؤ ، دیو بند اور ضلع پشاور - ان جگہوں پر ان کا مجموعی قیام کئی سال رہا.حضرت صاحبزادہ صاحب عربی ، فارسی ، پشتو اور اردو زبانیں جانتے تھے.جب آپ کا حصول علم کے لئے سفر کا ارادہ ہوا تو پہلے بنوں آئے.یہاں کچھ عرصہ قیام کیا اس دوران میں علاقہ کے نمبردار آپ کے پاس آیا کرتے تھے اور آپ کی خاطر گھڑ سواری اور نیزہ بازی وغیرہ کھیل کھیلا کرتے تھے.آپ نے ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے عرض کی کہ اب برسات کا موسم ہے اسے گزر لینے دیں.بارشوں کے بعد ہندوستان کا سفر کریں.آپ نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا اور اسی موسم میں روانہ ہو گئے.آپ کے پاس بہت سا سامان اور نقدی تھی.جب گرم دریا پر پہنچے تو وہ بہت چڑھا ہوا تھا.پانی نہایت گدلا تھا.آپ نے کپڑے اور سامان گھوڑے پر رکھا اور تہہ بند باندھ کر سوار ہو گئے اور گھوڑا دریا میں ڈال دیا.ہم سفروں کے گھوڑے تو دریا عبور کر گئے لیکن آپ کا گھوڑا لہروں کی تاب نہ لا سکا اور ڈوبنے لگا.آپ دریا میں کود گئے.آپ کو تیرنا نہ آتا تھا، غوطے کھانے لگے.اس دوران آپ کے لبوں پر یہ الفاظ تھے یا رحیم، یا رحیم، یا رحیم“.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور آپ دوسرے کنارے تک پہنچ گئے.سامان اور نقدی سب ضائع ہو گئی.
38 پاس ہی ایک گاؤں تھا جس میں ایک صاحب مولوی جان گل رہتے تھے وہ آپ کے واقف تھے.ان کے ہاں چلے گئے.صاحبزادہ صاحب نے ان سے حصول علم کے لئے سفر کرنے کا ذکر کیا.مولوی صاحب نے عرض کی کہ میں بھی ساتھ چلتا ہوں.آپ نے فرمایا میرے پاس تو اس وقت ایک تہہ بند ہے.فقیرانہ بھیس میں جاؤں گا اگر آپ میرے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو ایسے ہی لباس میں جانا ہوگا اور ملنگ بن کر سفر کرنا ہو گا.حضرت صاحبزادہ صاحب کو سینہ نگا رکھنا پسند نہ تھا اس لئے دوران سفر ایک رومال سے سینہ ڈھانک لیا کرتے تھے.امرتسر میں کشمیری محلہ کے ایک حنفی المذہب مولوی صاحب کے پاس قیام کیا.وہاں ایک بڑی لائبریری تھی اس سے آپ نے بہت استفادہ کیا.رات دن مطالعہ میں مصروف رہتے تھے.امرتسر میں عام لوگوں سے واقفیت نہیں پیدا کی.گمنامی کی حالت میں رہتے تھے.کبھی کبھی تارک الدنیا فقراء کے پاس چلے جاتے تھے.صاحبزادہ صاحب کو گھر سے خرچ کے لئے روپیہ آیا کرتا تھا اس سے غریبوں کی مدد کر دیا کرتے تھے اور خود سادہ زندگی بسر کرتے تھے.امرتسر میں آپ پر عجیب و غریب حالات گزرتے تھے فرماتے تھے وہاں مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک کی ایسی خوشبو آتی تھی جیسے کسی بار یک رومال میں کوئی خوشبو پاس ہی رکھی ہوئی ہو.خاکسار کی رائے میں یہ خوشبو قُرب قادیان کی وجہ سے آتی تھی جہاں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنفس نفیس موجود تھے.فرمایا کرتے تھے کہ امرتسر کے مولوی صاحب سے میں نے تدریس کے طور پر نہیں پائی البتہ ان کی لائبریری سے بہت استفادہ کیا اور کبھی کوئی بات پوچھنی ہوتی تو ان سے پوچھ لیا کرتا تھا.ایک دفعہ ایک اہل حدیث مسلک کے کسی عالم کی طرف سے دہلی سے ایک رسالہ حنفی مولوی صاحب کے نام آیا.انہوں نے صاحبزادہ صاحب سے اس کا ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ دہلی سے بعض علماء اختلافی مسائل پر بحث کرنے کے لئے امرتسر آ رہے ہیں کیا کرنا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ مجھے اپنا وکیل بنا دیں.ان کے آنے پر میں خود ہی انہیں جواب دے لوں
39 گا.جب دہلی سے اہل حدیث مولوی صاحبان آئے تو آپ ان سے بحث کرنے کے لئے تیار ہو کر آ گئے.اس موقعہ پر جو سوالات کئے گئے حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان کے ایسے جواب دئے کہ آنے والے مولوی حیران رہ گئے اور خاموشی سے دہلی واپس چلے گئے.لکھنو میں حضرت صاحبزادہ صاحب مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلی کے شاگرد تھے.مولا نا عبدالحی صاحب دوسرے طالبعلموں کی نسبت آپ کی طرف زیادہ توجہ فرماتے تھے.اس کا دوسرے شاگروں نے شکوہ کیا اس پر مولانا نے فرمایا: اس کا نام لطیف، قوم لطیف، زمین لطیف ، رنگ لطیف - جب اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنے لطف جمع کر دئے ہیں تو ایک لطف میرا بھی سہی.تم کیوں برا مانتے ہو.اس موقعہ پر ضمنا یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مولانا عبدالحی فرنگی محلی کے ممتاز شاگردوں میں دو اور احمدی بزرگ بھی تھے جو کسی زمانہ میں ان سے تعلیم پاتے رہے.یعنی حضرت مولانا سید عبدالواحد صاحب امیر بنگال اور حضرت مولانا سید عبدالماجد صاحب امیر بہار.حضرت صاحبزادہ صاحب ایام طالب علمی میں صوبہ سرحد کے ایک مقام بازید خیل میں بھی مقیم رہے تھے.یہ گاؤں جناب صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب مرحوم کا ہے.بازید خیل میں بہت سے بزرگ عالم گزرے ہیں اور تحصیل علم کے لئے دور دور سے طالب علم یہاں آتے تھے.جناب صاحبزادہ غلام احمد صاحب نے بتایا کہ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب سے ان کے خاندان کی جدی رشتہ داری بھی ہے.(۴) تحصیل علم کے بعد وطن میں قیام اور مصروفیات تحصیل علم کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے وطن واپس آ گئے اور سید گاہ میں قیام کر کے علوم دینیہ کی تعلیم و تدریس، اصلاح احوال، قیام سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور تربیت خلق میں مصروف ہو گئے.اس وقت وہاں کے رواج کے مطابق ان کی سوتیلی مائیں ان کے آبائی گھر میں بیوگی کی حالت میں اپنا وقت گزار رہی تھیں.ان کو کہیں آنے جانے کی
40 اجازت نہ تھی.پہلا کام آپ نے یہ کیا کہ ان سے کہا کہ اگر وہ شادی کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں اور اگر اپنے گھروں کو جانا چاہیں تو جتنا سامان چاہیں ساتھ لے کر جاسکتی ہیں، ان کی طرف سے اجازت ہے.اس پر وہ اپنی خواہش کے مطابق رخصت ہو گئیں.جب آپ کی برادری کے لوگوں کو اس کا علم ہوا تو وہ آپ سے ناراض ہوئے اور کہا کہ آپ نے تو ہماری ناک کاٹ ڈالی ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ اگر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر عمل کرنے سے ناک کٹتی ہے تو کٹے مجھے ایسی ناک کی ضرورت نہیں.سید احمد نور بیان کرتے ہیں کہ آپ کے مہمان خانہ میں عموماً تھیں چالیس آدمی رہتے تھے.آپ بہت مہمان نواز تھے.ان سب لوگوں کے کھانے کا انتظام آپ کی طرف سے ہوتا تھا.آپ کی ایک وسیع بیٹھک تھی جس میں دوصد افراد بیٹھ سکتے تھے.جب لوگ نماز کے لئے آتے تو پہلے بیٹھک میں مجلس ہوتی ، قرآن وحدیث کا درس دیا جاتا تھا اور دینی امور پر گفتگو ہوتی تھی.جب نماز کا وقت ہوتا تو سب مسجد میں آ جاتے اور نماز ادا کرتے تھے.مسجد میں نماز سے پہلے یا بعد میں کوئی بات چیت نہیں ہوتی تھی.مسجد کے احاطہ میں حجرے بنے ہوئے تھے جن میں آپ کے شاگر درہا کرتے تھے.جانب شمال ایک نہر تھی جو آپ کے گھر کے صحن میں سے گزرتی تھی.آپ نہایت سخی تھے اور غرباء کا خاص خیال رکھتے تھے.جب قحط سالی ہوتی تو آپ اپنا تمام غلہ فروخت کر کے اس سے حاصل شدہ آمد غریبوں کی امداد میں صرف کر دیا کرتے تھے.اس زمانہ میں خوست میں تین قسم کے لوگ تھے.ایک طبقہ حاکموں کا تھا، دوسرے عام مولوی اور تیسرے شیخان جو تصوف کا رنگ رکھتے تھے اور اپنے آپ کو قادری سلسلہ کی طرف منسوب کرتے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے جب میں نے ان تینوں گروہوں کو دیکھا
41 تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے خلاف پایا.حاکم نہایت ظالم تھے اور لوگوں سے نا جائز طریق سے روپیہ وصول کر کے دولت سمیٹتے تھے.مولویوں کو دیکھا تو انہیں ایسا پایا کہ ہر ایک سے جھگڑتے ہیں اور فتوی بازی کرتے رہتے ہیں.شیخان کو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں میں لمبی لمبی تسبیجیں پائیں.وہ بہت سے امور میں قرآن وحدیث کے خلاف تعلیم دیتے تھے مثلاً یہ کہ پیٹے رکھنا حرام ہے.نسوار کا استعمال حرام ہے جس زمین میں نسوار کا پودہ کاشت کیا جائے پلید ہو جاتی ہے اور تین سال تک اس میں لگائی گئی فصل کا استعمال حرام ہوتا ہے.نسوار استعمال کرنے والے کی بیوی بغیر اس کے کہ اسے طلاق دی جائے مطلقہ ہو جاتی ہے.وہ لوگ مانڑ کی (مانکی) کے پیر صاحب کے متبع تھے.ان کا عقیدہ تھا کہ ان کے پیر کو آسمان میں ، زمین کے نیچے اور دریاؤں کے اندر جس قدر بھی مخلوق ہے اس کا علم ہے.آپ کے شاگر دمولانا عبدالستار خان بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی صحبت میں آنے سے پہلے میں بھی شیخان سے تعلق رکھتا تھا لیکن جب میں نے اپنے پہلے استاد کو چھوڑ کر حضرت صاحبزادہ صاحب کی شاگردی اختیار کی اور آپ سے بہت سے حقائق و معارف سنے تو ان کا میرے دل پر بہت اثر ہوا.ایک مرتبہ میں نے آپ سے شیخان کے عقائد کے بارہ میں سوال کیا تو آپ نے ان کی تردید فرمائی اور سمجھایا کہ جو بھی پیر و مرشد دنیا میں ہیں وہ خدا تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کے حکم کے تابع ہیں وہ خدا کے رسول کے قدم پر ہوتے ہیں اور یہی ان کی بزرگی ہے.ولایت ، قطبیت یا غوثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں.مولانا عبدالستارخان صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب اور دوسرے عالموں کے کلام میں یہ امتیاز ہوتا تھا کہ جب عام مولویوں سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو وہ یوں جواب دیتے تھے کہ ان کے خیال میں یہ مسئلہ اس طرح ہو گا.وہ لوگ ظنی باتیں کرتے تھے ، انہیں یقین حاصل نہیں تھا.لیکن آپ جب جواب دیتے تو پورے یقین اور وثوق کے ساتھ دیا کرتے تھے.چونکہ شیخان افغانستان میں بکثرت پھیلے ہوئے تھے اس لئے حضرت صاحبزادہ
42 صاحب نے ان کے حالات کی تحقیق کی ضرورت محسوس کی.چنانچہ آپ نے ان سے نرمی اور محبت کا تعلق رکھنا شروع کیا.جو لوگ آپ کے پاس آتے آپ انہیں قرآن و حدیث کی طرف دعوت دیا کرتے تھے.ایک مرتبہ شیخان کا ایک عالم آپ کے پاس آیا اور عرض کی کہ صاحبزادہ صاحب آپ کو ہمارے استاد پیر صاحب مانڑ کی سے ملنا چاہئے جو اس وقت سوات کے آخون صاحب کے مؤذن ہیں.چنانچہ صاحبزادہ صاحب ان سے ملنے کے لئے روانہ ہوئے.اثناء سفر میں جگہ جگہ شیخان آپ کو ملتے رہے.وہ آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور اس بات پر خوش ہوتے تھے کہ اتنا بڑا آدمی ہمارے پیر کا شاگرد بننے کے لئے جا رہا ہے.حالانکہ آپ کا مقصد ان کے حالات معلوم کرنا تھا.وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا شیخان کے مولوی جن مخصوص عقائد کی افغانستان میں تعلیم دیتے ہیں وہ واقعی پیر صاحب مانٹر کی کے عقائد ہیں یا یہ امور ان کی طرف غلط منسوب کئے جاتے ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے تھے کہ جب میں پیر صاحب سے ملا تو معلوم ہوا کہ بظاہر وہ اچھے آدمی ہیں اور ان کے منہ سے میں نے کوئی ایسی بات نہیں سنی جو شیخان ان کی طرف منسوب کیا کرتے تھے.میں چند روز ان کے پاس رہ کر واپس آ گیا.جب حضرت صاحبزادہ صاحب واپس آئے تو شیخان پہلے سے زیادہ تعداد میں آپ کے پاس آنے لگے.ان کا خیال تھا کہ آپ ان کے پیر سے مل کر آئے ہیں اس لئے ان کی باتیں سننی چاہیں.جب شیخان کے مخصوص مسائل کے بارہ میں فتویٰ پوچھا جاتا تو حضرت صاحبزادہ صاحب کی رائے سن کر ان کو تعجب ہوتا اور وہ کہتے کہ مانکی کے پیر صاحب تو یوں کہتے ہیں لیکن آپ اُن کی رائے کے خلاف فتوی دیتے ہیں.اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک دفعہ پھر سفر کیا.آپ اس امر کی تحقیق کرنا چاہتے تھے کہ آیا ان باتوں کی پیر صاحب خود تعلیم دیتے ہیں یا یہ لوگ ان کی طرف غلط طور پر منسوب کرتے ہیں.جب آپ دوسری مرتبہ ان کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ مانکی صاحب کے پاس ایک اور مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں جو سوٹا کے پیر صاحب کے نام سے مشہور
43 ہیں.سوٹا صوبہ سرحد میں صوابی کے نزدیک ایک مقام ہے.ان دونوں پیروں کے درمیان مذکورہ بالا اختلافی مسائل پر جھگڑا ہو رہا تھا.بحث کے مقام پر دونوں فریقوں کے ہزار ہا حامی موجود تھے.بالآ خر با ہم یہ طے پایا کہ تصفیہ کے لئے کسی تیسری جگہ جانا چاہئے اور صحیح مسلک معلوم کرنا چاہئے.دریں اثنا حضرت صاحبزادہ صاحب وہاں پہنچ گئے.انہوں نے جھگڑ اسن کر کہا کہ یہیں پر کتا بیں دیکھ کر معلوم کر لیتے ہیں کہ صحیح راستہ کون سا ہے ، جھگڑا کرنے کی کیا ضرورت ہے.آپ نے متنازع فیہ مسائل کے حل کے لئے بہت سی کتابوں کے حوالے پیش کئے لیکن پیر صاحب مانکی نے انہیں ماننے سے انکار کر دیا.تب حضرت صاحبزادہ صاحب کا دل ان سے پھر گیا اور ان کو یقین ہو گیا کہ وہ صداقت کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہو نگے.مجلس مباحثہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان مولویوں کو کشفاً بندروں کی شکل میں دیکھا تھا.انگریزی حکومت کو رپورٹ ملی کہ جھگڑا بڑھ گیا ہے، ہزاروں لوگ جمع ہیں اور فساد کا اندیشہ ہے تو اس نے حکم دے کر تمام مجمع منتشر کر وا دیا.حضرت صاحبزادہ صاحب بھی واپس روانہ ہو گئے.پشاور میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رویا میں دیکھا ، حضور نے فرمایا کہ یہ لوگ تو مبتدع ہیں ان کو یونہی کیوں چھوڑ کر آ گئے.اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب واپس گئے اور ان کو یہ پیغام پہنچایا کہ میں تمہارے غلط عقائد اور تمہاری لمبی لمبی تسبیحوں سے بیزار ہوں.یہ پیغام دے کر واپس وطن کی طرف روانہ ہو گئے.راستہ میں جابجا شیخان کے غلط عقائد کی تردید بیان کرتے رہے.بعض لوگوں نے آپ سے عرض کی کہ آپ کی باتیں تو درست ہیں لیکن شیخان اس علاقے میں بکثرت پھیلے ہوئے ہیں ان کی مخالفت کرنا خطرناک دشمنی مول لینا ہے لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے طریق پر جرات سے قائم رہے.جب آپ وطن پہنچے تو شیخان کی تردید میں بہت کام کیا.اپنے شاگردوں کو متعلقہ مسائل لکھوا دئے تا کہ وہ ضرورت پڑنے پر شیخان سے گفتگو کرسکیں اور ان کے غلط اور خلاف اسلام عقائد کا رد کر سکیں.شیخان آپ کے شاگردوں کو بہت تنگ کرتے تھے.
44 پیر صاحب مانکی کا ایک شاگرد مولوی الہ دین ملا ء لنگ تھا جو خلاف قرآن وحدیث فتوے دینے میں پیش پیش تھا.اس کی رپورٹ امیر عبدالرحمن خان کو کی گئی تو اس نے اسے شریعت کے مطابق تصفیہ کرنے کے لئے کا بل بلوایا لیکن اس نے جانے سے انکار کر دیا.ایک مرتبہ مقامی حکام نے اسے گرفتار بھی کیا لیکن وہ دھوکہ دے کر فرار ہو گیا اور حکومت کابل سے باغیانہ زندگی گزار نے لگا.(۵) افغانستان کے سیاسی حالات اس زمانے میں امیر عبدالرحمن خان ابن امیر محمد افضل خان ابن امیر دوست محمد خان افغانستان کا بادشاہ تھا.اس کا تعلق ابدالی، بارک زئی، محمد زئی قبیلہ سے تھا.۱۸۳۰ء میں ނ کابل میں پیدا ہوا.اور کئی سال روس میں جلا وطن رہا بالآخر روسی حکومت کی مدد سے ۳۰ جولائی ۱۸۸۰ء کو افغانستان کا بادشاہ بنا لیکن انگریزوں سے تعلقات استوار کر لئے اور ان سے وظیفہ لینے لگا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مارچ ۱۸۸۲ء میں اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر اپنے مامور من اللہ اور نذیر ہونے کا اعلان فرمایا اور ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا اعلان فرمایا.بیان کیا جاتا ہے کہ جب امیر عبدالرحمن خان کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اطلاع دی گئی تو اس نے کہا کہ : مارا عمر یا بد نہ عیسی - عیسی در زمان خود چه کرده بود که یارے دیگر خواہد کر.یعنی ہمیں تو اس وقت حضرت عمر کی ضرورت ہے.حضرت عیسی کی ضرورت نہیں.حضرت عیسی نے اپنے وقت میں کیا کر لیا تھا کہ اب دوبارہ آکر کریں گے.یہ امر نا قابل یقین ہے کہ ایک مسلمان کہلانے والے بادشاہ نے ایسا گستاخانہ کلمہ حضرت عیسی کی شان میں کہا ہو.اگر یہ بات صحیح ہے تو یہ نہ صرف حضرت مسیح ناصرٹی پر حملہ ہے
45 بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کا بھی استخفاف ہے جو حضور نے مسیح کی آمد ثانی کی بابت فرمائی تھی.معلوم ہوتا ہے اگر چہ امیر عبدالرحمن خان انگریزوں کا وظیفہ خوار تھا اور اُسے اُن کی فوجی مدد بھی حاصل تھی لیکن در حقیقت وہ جہاد بالسیف کے ان غلط تصورات کا دلدادہ تھا جو اس زمانہ میں مسلمانوں میں رواج پاچکے تھے اور جن کی تردید سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی متعدد کتب میں فرمائی ہے.یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ امیر عبدالرحمن خان کے منشاء کے مطابق ایک رسالہ تقویم الدین کے نام سے شائع کر کے سرحدی قبائل میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں انہیں انگریزوں سے جہاد بالسیف کرنے کی ترغیب دی گئی تھی جس سے یہ لوگ بے گناہ انگریزوں کو قتل کر کے اپنے زعم میں غازی بنتے تھے.(4) افغانستان کے جنوبی علاقوں میں بغاوت اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی پر حکمت کا رروائی افغانستان کی زازی ، منگل، جدران اور چمکنی اقوام، کابل کی مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کرتی رہتی تھیں.منگل قبیلہ کی بغاوت کے دوران جب یہ شورش بہت زور پکڑ گئی تو امیر عبدالرحمن خان نے اپنے ایک رشتہ دار سردار شیر میں دل خان کو اس کے رفع کرنے کے لئے لشکر دے کر بھجوایا.اس نے خوست آکر بڑے رعب اور دبدبہ سے بغاوت فرو کرنا شروع کی.حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب نے ہر طرح اس سے تعاون کیا.سردار شیر میں دل خان بھی آپ سے مشورہ اور مد دلیا کرتا تھا.بعض اوقات لڑائی کے دوران سرکاری فوج کو مشکلات کا سامنا ہوتا اور سردار صاحب پریشان ہو جاتے اور تذبذب میں پڑ جاتے کہ ان حالات میں کیا کارروائی کی جائے.ایسے موقعہ پر حضرت صاحبزادہ صاحب ایسی کاروائی کرتے کہ سردار صاحب کی عقل دنگ رہ جاتی.ایک مرتبہ ایک تنگ درّہ میں
46 سرکاری فوج اتری ہوئی تھی.جدران قبیلہ کے لوگ بڑی تعداد میں جمع ہو گئے اور فوج کو گھیرے میں لے لیا.رات کا وقت تھا جہاں بھی روشنی ہوتی قبائلی وہاں فائر کرتے اور کچھ لوگوں کو زخمی کر دیتے.آخر تمام روشنیاں اور آگیں بجھا دی گئیں.جدران قبیلہ کے لوگ قریب آگئے اور گھیرا تنگ کر دیا.وہ لوٹ مار کرنا چاہتے تھے.سردار شیر میں دل خان پریشان ہو گیا.اس موقعہ پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے فوری کاروائی کی ہدایت دی.فوج کے چاروں طرف تو ہیں نصب کروا دیں اور باغیوں پر فائز کر نے کا حکم دیا.باغی اس قدر بدحواس ہوئے کہ انہوں نے فرار کا راستہ اختیار کیا اور فوج محفوظ ہوگئی.اس طرح کی پر حکمت کا رروائیوں سے وہ تمام قبائل جو کبھی بھی رعایا بن کر نہ رہتے تھے بالآ خر مطیع ہو گئے.اس کام میں مولوی عبد الرحمن صاحب شہید جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے شاگرد تھے ساتھ شامل ہوتے تھے.جب امیر عبدالرحمن خان کو بغاوت کے فرو ہونے کی اطلاع ملی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے کردار سے باخبر ہوا تو اس نے حضرت صاحبزادہ صاحب اور مولوی عبد الرحمن صاحب کے لئے سالانہ انعام کی رقم مقرر کئے جانے کا حکم دیا.سید احمد نور لکھتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب بندوق چلانے میں بہت ماہر تھے.(۷) ڈیورنڈ لائن کا تصفیہ امیر عبدالرحمن خان نے انگریزوں کے ساتھ سرحدات کی تقسیم کا معاہدہ ۱۸۹۳ء میں کا بل میں کیا تھا - Sir Olaf Caroc نے اپنی کتاب "The Pathans" میں اس معاہدہ کے واقعات امیر عبدالرحمن خان کے حوالہ سے بیان کئے ہیں جن کا مختصر ذکر درج ذیل ہے : امیر نے لکھا کہ ڈیورنڈ ، پشاور سے کابل کے لئے ۱۹ ر ستمبر ۱۸۹۳ء کو روانہ ہوا.کابل میں جرنیل غلام حیدرخان چرخی نے مشن کا استقبال کیا.ان کو میرے بیٹے حبیب اللہ خان کے مکان میں ٹھہرایا گیا.روایتی دربار کے بعد ہم نے جلد ہی معاملہ پر گفتگو شروع کر دی.ڈیورنڈ ایک ہوشیار سیاست دان تھا اور فارسی زبان خوب جانتا تھا.اس لئے گفتگو اچھے طریق سے
47 ہونے لگی.میں نے اپنے میر منشی سلطان محمد خان کو پردہ کے پیچھے اس طرح بٹھا دیا کہ اسے میرے سوا کوئی نہ دیکھ سکتا تھا.اس نے تمام گفتگو خواہ وہ انگریزی میں تھی یا فارسی میں اُس کو لفظاً لفظاً لکھ لیا.یہ کاغذات ہمارے ریکارڈ آفس میں محفوظ ہیں.ہمارے مابین سرحدات کا جو تصفیہ ہوا اسکی رو سے واخان ، کافرستان ، اسمار، لال پورہ کے مہمند علاقے اور وزیرستان کا ایک حصہ اور بر مال میری حکومت میں شامل ہوئے اور میں نے چمن ، چاغائی ، بقیہ وزیری علاقہ ، بلند خیل کرم ، آفریدیوں کے علاقہ ، سوات ، باجوڑ ، بنیر ، دیر، چیلاس اور چترال پر اپنا دعوئی چھوڑ دیا.انگریزی مشن ۱۴ نومبر ۱۸۹۳ء کو کابل سے واپس چلا گیا.سرحد کے بارہ میں تمام غلط فہمیاں اور تنازعات ختم کر دئے گئے اور بعد میں اوپر بیان شدہ معاہدہ کے مطابق دونوں حکومتوں کے مقرر کردہ کمشنروں نے سرحد کی نشان دہی کر دی.اس طرح ایک عام امن اور اتفاق رائے عمل میں آگیا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ یہ ہمیشہ جاری رہے.(۸) اس معاہدہ کے مطابق جب گرم اور پاڑا چنار کے پاس حد بندی ہوئی تو گورنمنٹ ہند کی طرف سے سر مار ٹیمر ڈیورنڈ اور نواب سر عبدالقیوم خان آف ٹوپی نمائندے مقرر ہوئے اور افغانستان کی طرف سے سردار شیر میں دل خان گورنر سمت جنوبی اور حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف کا تقرر ہوا.جب یہ کمیشن ضلع بنوں اور کوہاٹ کے علاقہ میں حد بندی کا کام کر رہا تھا تو انگریزوں نے ایک نقشہ پہلے ہی تیار کروایا ہوا تھا جس میں اس علاقے کی حدود کی نشان دہی کی ہوئی تھی.جب حضرت صاحبزادہ صاحب نے یہ نقشہ دیکھا تو انہیں معلوم ہوا کہ کابل کے معاہدہ کے خلاف سینکڑوں میل علاقہ نا جائز طور پر انگریزوں کے حوالہ کر دیا گیا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس نقشہ کے مطابق سرحد کی نشان دہی کرنے سے انکار کر دیا.جب یہ امر انگریز نمائندوں کو بتایا گیا تو انہوں نے اس غلطی کی درستی پر آمادگی کا اظہار کیا اور ایک نیا نقشہ تیار کر وانے کا وعدہ کیا.سردار شیر میں دل خان کی طبیعت میں غصہ بہت تھا لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب
48 حلیم طبیعت کے تھے اس لئے مصلحتی بعض اوقات حضرت صاحبزادہ صاحب ہی انگریزوں سے مل کر سرحد کی نشان دہی کا کام کیا کرتے تھے.سردار شیریں دل خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے کہا جب تک ہمیں ترمیم شدہ صحیح نقشہ نہیں مل جاتا ہم اس زمین پر قابض نہیں ہو سکتے جو افغانستان کے حصہ میں آئی ہے.پرانے نقشہ کی بنا پر جھگڑا شروع ہو جائے گا کچھ کرنا چاہئے.اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب کچھ سواروں کے ساتھ پاڑہ چنار آئے اور یہاں کے انچارج انگریز افسر سے ملے.وہ اس نے آپ کا بہت احترام کیا اور نیا نقشہ تیار کروا کر آپ کے حوالہ کر دیا.(۹) سردار شیر میں دل خان، حاکم خوست سے حضرت صاحبزادہ صاحب کے تعلقات جب سردار شیر میں دل خان سمت جنوبی کا حاکم ہو کر آیا تو اس کا رابطہ حضرت صاحبزادہ صاحب سے ہوا.اس نے آپ کا پر اثر کلام سنا، آپ کے علم اور تقویٰ کا مشاہدہ کیا ، آپ کی مہمان نوازی کی شان دیکھی اور آپ کی سیاسی اور فوجی بصیرت سے آگاہ ہوا تو ان باتوں نے اس کے دل پر گہرا اثر کیا.اس کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں اور وہ ان کی نیک صحبت سے متمتع ہوتا رہے.جب وہ کہیں جاتا تو حضرت صاحبزادہ صاحب کو گھر سے بلوا کر ساتھ لے جایا کرتا تھا.اس کو آپ سے ایسی محبت ہو گئی کہ آپ کے بغیر چین نہ آتا تھا اور ایک بچہ کی طرح آپ کے زیر سایہ رہتا تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مجھے حکام کی صحبت پسند نہیں.یہ لوگ ظلمت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور لوگوں پر ظلم کرتے ہیں.لیکن میں شیریں دل خان کے ساتھ اس لئے رہتا ہوں کہ جب غریبوں پر ظلم ہوتا ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے پنجہ ظلم سے بچ جائیں.جب آپ شیر میں دل خان کے پاس جاتے اور اس کی صحبت میں وقت گزارتے تھے تو اپنا کھانا ساتھ لے جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ آپ لوگ حرام و حلال مال میں فرق نہیں کرتے اس لئے میں آپ کے ہاں کھانا نہیں کھاتا.
49 ایک مرتبہ سردار شیر میں دل خان نے بہت اصرار کیا کہ آپ اس کے ہاں چائے پیئیں.ہندو تاجر اپنی خوشی سے ہمیں چائے کی پتی دیتے ہیں ، ہم زبر دستی ان سے نہیں لیتے اس لئے آپ کبھی کبھی اس کے ساتھ چائے پی لیا کرتے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب جب حکام سے ملتے تو ان کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ تم کہتے تو یہ ہو کہ ہم شریعت کے مطابق عدل کے ساتھ حکومت کرتے ہیں.اگر یہ صحیح ہے تو رعایا تم سے ناراض کیوں رہتی ہے اور کس لئے تنگ آئی ہوئی ہے.شریعت تو اس قدر نرم ہے کہ اگر اس پر قائم رہ کر حکومت کی جائے تو حکومت انگریزی کے ماتحت رہنے والے ہندو بھی پکار اٹھیں کہ کاش ہم پر یہ مسلمان حکومت کرتے.اس کے برعکس آپ کی اپنی رعایا تو یہ کہتی ہے کہ اگر انگریزی حکومت ہم پر ہوتی تو اچھا ہوتا.ایک دفعہ سردار شیر میں دل خان نے ایک کوٹھی بنوائی اور حضرت صاحبزادہ صاحب سے عرض کیا کہ اگر اس میں کوئی نقص نظر آئے تو بتا ئیں.آپ کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا کہ میں کیا بتاؤں اگر کوئی نقص نکالوں گا تو آپ جبراً کسی کا ریگر کو بلا کر درست کروالیں گے.اس وقت افغانستان میں کاریگروں سے بیگار لینے کا عام رواج تھا.جب آپ نے یہ بات کی تو باہر ایک نجار کھڑا ہوا تھا اس نے آپ کی بات سن لی.وہ حاضر ہوا اور عرض کی صاحبزادہ صاحب آپ نقص بتادیں میں اپنی خوشی سے درست کر دوں گا.تب آپ نے عمارت کے بعض نقائص بتائے.ایک دفعہ ایک غریب آدمی کا قاضی کے ساتھ تنازع ہوا.حاکم نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو فیصلہ کے لئے مقرر کر دیا.وہ آدمی تاریخ مقررہ پر حاضر ہوا اور صاحبزادہ صاحب سے لجاجت سے کلام کرنے لگا.اسے خوف تھا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب قاضی سے رعایت برتیں گے اور اس کے حق میں فیصلہ کر دیں گے.اس پر آپ جوش میں آگئے اور اسے کہا کہ اگر کسی غریب ہندو کا گورنر کے ساتھ تنازع ہو اور اس کا مقدمہ پیش ہو تب بھی میں کسی کی طرفداری یا رعایت نہیں کروں گا.
50 ایک بار گورنر نے ایک بوڑھے آدمی کو سزا دینے کے لئے بلایا.اس نے حکم دیا کہ اس بوڑھے کو لٹا کر بید ماریں جائیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے خیال کیا کہ یہ بوڑھا اس سخت سزا کی برداشت نہیں کر سکے گا اور گورنر بھی غصہ میں ہے سزا دے کر ہی رہے گا.آپ نے اپنے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ لیا اور اس بوڑھے کے اوپر رکھ دئے تا کہ بید آپ کے ہاتھوں پر لگیں.گورنر نے یہ دیکھا تو اپنے بیٹے سے کہا کہ اس شخص کو باہر لے جا کر سزا دلوائے تا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نہ دیکھ سکیں.بیٹے نے اس خیال سے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب اسے سزا نہیں دلوانا چاہتے ، اسے باہر لے جا کر چھوڑ دیا.ایک دفعہ خوست کے ایک جرنیل نے رعایا پر بہت مظالم کئے.لوگوں سے رشوت لی اور اطراف میں بہت سے لوگوں کے زبر دستی ختنے بھی کروا دئے.ان کاموں سے فارغ ہوکر اس نے سید گاہ کے قریب ڈیرہ آ لگایا.جمعہ کے روز اس نے پیغام بھجوایا کہ میرا انتظار - کیا جائے تاکہ میں شامل ہو سکوں لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب نے پرواہ نہیں کی اور وقت پر جمعہ شروع کر دیا.جرنیل خطبہ کے دوران پہنچا.بعد میں اس نے صاحبزادہ صاحب سے عرض کی میں نے دین کی بہت خدمت کی ہے.ختنے کروا کے اتنے لوگوں کو مسلمان بنایا.آپ نے فرمایا کہ خدمت دین کی ہے تو کیا ہوا.تم نے ظلم کیا ، رشوت لی ،غریبوں کی چمڑی اتاری، تمہارا لباس بھی حرام مال سے تیار ہوا ہے.اس میں نماز نہیں ہوتی.وہ جرنیل شرمندہ ہوکر خاموش سا رہ گیا.سردار شیر میں دل خان کے علاوہ اس کے اہل وعیال بھی حضرت صاحبزادہ صاحب سے عقیدت رکھتے تھے.ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ صاحب سردار شیر میں دل خان کے پاس بیٹھے تھے کہ اندرون خانہ سے ایک خادم کے ہاتھ شیرینی کی ایک قاب آپ کے لئے بھجوائی گئی.آپ نے خوان پوش اٹھایا تو دیکھا کہ شیرینی کے اوپر ایک لفافہ پڑا ہے.آپ نے لفافہ کھولا تو اس میں ایک خط تھا جو سردار صاحب کی بیگم صاحبہ نے آپ کے نام لکھا تھا جس میں یہ تحریر تھا کہ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ مجھے اپنی بیعت سے مشرف فرمائیں.حضرت
51 صاحبزادہ صاحب نے یہ خط سردار شیر میں دل خان کو دکھایا تو وہ بہت خوش ہوا اور کہا الحمد للہ ہمارے گھر والوں کو بھی خدا سے ملنے کا شوق پیدا ہوا.سردار شیر میں دل خان کے دو بیٹوں کے نام معلوم ہو سکے ہیں.ایک کا نام سردار عطاء اللہ جان تھا جو امیر امان اللہ خان کے زمانہ میں خوست کا گورنر تھا.دوسرے کا نام سردار عبدالرحمن جان تھا جو امیر حبیب اللہ خان کا برادر نسبتی تھا.اس نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے بعد جب آپ کی نعش پتھروں سے نکالی گئی تو کابل کے ایک قبرستان میں تدفین سے قبل آپ کا جنازہ پڑھایا تھا اور انہی دنوں میں احمدیت قبول کر لی تھی.اس کا مفصل ذکر آگے آئے گا.(۱۰) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف کی وجاہت اور بلند علمی وروحانی مقام (11)-66 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”وہ امیر کابل کی نظر میں ایک برگزیدہ عالم اور تمام علماء کے سردار سمجھے جاتے اسی طرح فرمایا : یه بزرگ معمولی انسان نہیں تھا بلکہ ریاست کا بل میں کئی لاکھ کی ان کی اپنی جاگیر تھی اور انگریزی عملداری میں بھی بہت سی زمین تھی اور طاقت علمی اس درجہ تک تھی کہ ریاست نے تمام مولویوں کا ان کو سردار قرار دیا تھا.وہ سب سے زیادہ عالم علم قرآن اور حدیث اور فقہ میں سمجھتے جاتے تھے.اور نئے امیر کی دستار بندی کی رسم بھی انہی کے ہاتھ سے ہوتی تھی.ریاست کابل میں پچاس ہزار کے قریب ان کے معتقد اور ارادتمند ہیں.جن میں سے بعض ارکان ریاست بھی تھے.غرض یہ بزرگ ملک کا بل میں ایک فرد تھا.اور کیا علم کے لحاظ سے اور کیا تقوی کے لحاظ سے اور کیا جاہ اور مرتبہ کے لحاظ سے اور کیا خاندان کے لحاظ سے اُس ملک میں اپنی نظیر نہیں رکھتا تھا اور علاوہ مولوی کے خطاب کے صاحبزادہ اور اخون
52 زادہ اور شاہزادہ کے لقب سے اُس ملک میں مشہور تھے اور شہید مرحوم ایک بڑا کتب خانہ حدیث اور تفسیر اور فقہ اور تاریخ کا اپنے پاس رکھتے تھے اور نئی کتابوں کے خریدنے کے لئے ہمیشہ حریص تھے اور ہمیشہ درس تدریس کا شغل جاری تھا اور صد ہا آدمی ان کی شاگردی کا فخر حاصل کر کے مولویت کا خطاب پاتے تھے.لیکن با ایں ہمہ کمال یہ تھا کہ بے نفسی اور انکسار میں اس مرتبہ تک پہنچ گئے تھے کہ جب تک انسان فنافی اللہ نہ ہو یہ مرتبہ نہیں پاسکتا.ہر ایک شخص کسی قدر شہرت اور علم سے محجوب ہو جاتا ہے اور اتنے تئیں کچھ چیز سمجھنے لگتا ہے اور وہی علم اور شہرت حق طلبی سے اس کو مانع ہو جاتی ہے.مگر یہ شخص ایسا بے نفس تھا کہ باوجود یکہ ایک مجموعہ فضائل کا جامع تھا مگر تب بھی کسی حقیقت حقہ کے قبول کرنے سے اس کو اپنی علمی اور عملی اور خاندانی و جاہت مانع نہیں ہوسکتی تھی“.(۱۲) جناب قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ امیر عبد الرحمن خان نے آپ کے متعلق ایک فرمان میں اپنے قلم سے لکھا ہے کہ کاش افغانستان میں آپ جیسے ایک دو عالم اور بھی ہوتے اور خوست کے تمام خوانین، وکلاء اور معتبرین کا آپ کے متعلق اقرار نامہ موجود ہے کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو ہم پر ہر لحاظ سے فوقیت حاصل ہے اور انہیں ہم اپنا سرکردہ تسلیم کرتے ہیں.(۱۳) سیدا حمد نور بیان کرتے ہیں کہ : ”حضرت صاحبزادہ صاحب کو کئی ہزار حدیثیں یاد تھیں.امیر عبدالرحمن خان بھی اس بات کا معترف تھا کہ ہمارے ملک میں آپ ہی ایسے عالم با عمل ہیں جن کو اتنی حدیثیں یاد ہیں.حالات زمانہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب کو کسی مصلح کے ظہور کا انتظار تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : وو ” جب وہ میرے پاس پہنچا تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ کن دلائل سے آپ
53 نے مجھے شناخت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے قرآن ہے جس نے آپ کی طرف میری رہبری کی اور فرمایا کہ میں ایک ایسی طبیعت کا آدمی تھا کہ پہلے سے فیصلہ کر چکا تھا کہ یہ زمانہ جس میں ہم ہیں اس زمانہ کے اکثر مسلمان اسلامی روحانیت سے بہت دور جا پڑے ہیں.وہ اپنی زبانوں سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے مگر اُن کے دل مومن نہیں.اور اُن کے اقوال اور افعال بدعت اور شرک اور انواع و اقسام کی معصیت سے پُر ہیں.ایسا ہی بیرونی حملے بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں.اور اکثر دل تاریک پردوں میں ایسے بے حس و حرکت ہیں کہ گویا مر گئے ہیں اور وہ دین اور تقویٰ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے ، جس کی تعلیم صحابہ رضی اللہ عنہم کو دی گئی تھی اور وہ صدق اور یقین اور ایمان جو اس پاک جماعت کو ملا تھا بلا شبہ اب وہ باعث کثرت غفلت کے مفقود ہے اور شاذ نادر حکم معدوم کا رکھتا ہے.ایسا ہی میں دیکھ رہا تھا کہ اسلام ایک مردہ کی حالت میں ہو رہا ہے اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ پردہ غیب سے کوئی منجانب اللہ مجدد دین پیدا ہو.بلکہ میں روز بروز اس اضطراب میں تھا کہ وقت تنگ ہوتا جا تا ہے.انہی دنوں میں یہ آواز میرے کانوں تک پہنچی کہ ایک شخص نے قادیان ملک پنجاب میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے.(۱۴) 66 سیداحمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب بڑے محقق انسان تھے.آپ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ زمانہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس وقت کوئی مصلح مبعوث کیا جائے.مولوی شان محمد صاحب سے روایت ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ، حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ اور علامات کا ذکر فرمایا کرتے تھے.فرماتے تھے زمانہ تو یہی ہے اب دیکھو خدا تعالیٰ کسے مامور کرتا ہے.بعض دفعہ یہ بھی فرماتے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے دانتوں کے درمیان کچھ فاصلہ ہوگا پھر مسکرا کر کہتے کہ فاصلہ تو میرے دانتوں کے درمیان بھی ہے مگر پتہ نہیں خدا کو کیا منظور ہے.آپ یہ باتیں اپنی خاص مجلسوں میں اپنے خاص خاص شاگردوں سے کیا کرتے تھے.(۱۵)
54 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اطلاع ملنا اور حضرت صاحبزادہ صاحب کا بلا توقف ایمان لانا سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فستق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا...بذریعہ وحی الہی میرے پر بتصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس امت کے لئے ابتداء سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے سے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الہی میں مقرر کیا گیا تھا.جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ میں ہی ہوں...پھر فرمایا: 66 انہیں دنوں میں جبکہ متواتر یہ وحی خدا کی مجھ پر ہوئی اور نہایت زبر دست اور قوی نشان ظاہر ہوئے اور میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا دلائل کے ساتھ دنیا میں شائع ہوا خوست علاقہ حدود کا بل میں ایک بزرگ تک جن کا نام اخوندزادہ مولوی عبداللطیف ہے کسی اتفاق سے میری کتا ہیں پہنچیں چونکہ وہ بزرگ نہایت پاک باطن اور اہل علم اور اہل فراست اور خدا ترس اور تقویٰ شعار تھے اس لئے ان کے دل پر ان دلائل کا قومی اثر ہوا اور ان کو اس دعویٰ کی تصدیق میں کوئی دقت پیش نہ آئی اور ان کی پاک کانشنس نے بلا توقف مان لیا کہ یہ شخص من جانب اللہ ہے اور یہ دعویٰ صحیح ہے.تب انہوں نے میری کتابوں کو نہایت محبت سے دیکھنا شروع کیا اور ان کی روح جو نہایت صاف اور مستعد تھی میری طرف کھینچی گئی.یہاں تک کہ ان کے لئے بغیر ملاقات کے دور بیٹھے رہنا نہایت دشوار ہو گیا.وو...جب وہ میرے پاس پہنچا تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ کن دلائل سے
55 آپ نے مجھے شناخت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے قرآن ہے جس نے آپ کی طرف میری رہبری کی...میں دیکھ رہا تھا کہ اسلام ایک مردہ کی حالت میں ہو رہا ہے اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ پردہ غیب سے کوئی منجانب اللہ مجد ددین پیدا ہو....انہیں دنوں میں یہ آواز میرے کانوں تک پہنچی کہ ایک شخص نے قادیان ملک پنجاب میں مسیح موعود ہونے کا دعوئی کیا ہے اور میں نے بڑی کوشش سے چند کتابیں آپ کی تالیف کردہ بہم پہنچائیں اور انصاف کی نظر سے ان پر غور کر کے پھر قرآن کریم پر ان کو عرض کیا تو قرآن شریف کو ان کے ہر ایک بیان کا مصدق پایا - (۱۶) حضرت قاضی محمد یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ : جن ایام میں ڈیورنڈ لائن کے معاہدہ کے مطابق حد بندی کا کام ہو رہا تھا ان دنوں دونوں طرف کے نمائندے دن کو تو حد بندی کا کام کرتے تھے اور رات کو باہم ملاقات اور دعوتوں کی مجلسیں ہوتی تھیں جن میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیالات بھی ہوتا تھا.جب پاڑہ چنار کے علاقہ میں کام ہو رہا تھا تو پشاور کے ایک صاحب جن کا نام سید چن بادشاہ تھا اور جو بطور محر ر انگریزی وفد کے ساتھ منسلک تھے ان کی حضرت صاحبزادہ صاحب سے ملاقات ہوئی.انہوں نے آپ سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور اور دعویٰ کا ذکر کیا.اس میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے بہت دلچسپی لی اور حضور کی کوئی تصنیف دیکھنے کی خواہش کی.یہ واقعہ غالباً ۱۸۹۴ء کا ہے کیونکہ ڈیورنڈ لائن کی حد بندی کا کام ۲۹ رمئی ۱۸۹۴ء سے شروع ہو کر ۳ رستمبر ۱۸۹۴ ء تک جاری رہا تھا.سیداحمد نور کا بیان ہے کہ حد بندی کے دوران جب دوڑ ، خوست اور ٹل وغیرہ کی سرحدات متعین ہو گئیں اور پاڑہ چنار اور پیواڑ کوتل کے علاقہ میں کام ہور ہا تھا تو ٹل کے مقام پر ایک شخص نے حضرت مولانا غلام حسن صاحب پشاوری کی دی ہوئی ایک کتاب حضرت صاحبزادہ صاحب کو دی جو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف تھی.یہ کتاب میری موجودگی میں نہیں دی گئی.بعد میں آپ یہ کتاب سید گاہ لے آئے اور ہم سے اس کا ذکر کیا
56 اور بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اسی کا مجھے انتظار تھا.اس کتاب میں بیان فرمودہ تمام باتیں کی ہیں.یہ وہی شخص ہے جس کا انتظار د نیا کر رہی تھی.وہ آ گیا ہے.خدا نے مصلح بھیج دیا ہے.یہ وہی ہے جس کے بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ جہاں بھی نازل ہو اس کی طرف دوڑو اور آپ نے اس پر سلام بھیجا تھا.میں زندہ رہوں یا فوت ہو جاؤں لیکن جو شخص میری بات مانتا ہے میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ ضرور اس کے پاس جائے.یہ بات آپ نے اپنی مجلس میں اپنے خاص دوستوں سے کی تھی.آپ نے اپنے شاگردوں کو اشتیاق دلایا کہ وہ جائیں اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملیں اور آپ کے حالات معلوم کر کے واپس آئیں.اس مجلس میں مولوی عبدالرحمن خان صاحب بھی موجود تھے.صاحبزادہ صاحب کی باتیں سن کر انہوں نے کہا کہ میں جاؤں گا اور پتہ پتہ لاؤں گا.صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ ہاں تم جاؤ اور تاکید کی کہ پوری تفتیش کر کے لے کر آؤ.اس پر مولوی عبد الرحمن خان صاحب قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ.السلام سے ملے اور آپ کے حالات معلوم کر کے اور آپ کی بعض کتب لے کر واپس آئے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو جملہ حالات سے خبر دی.مولوی عبدالرحمن خان صاحب متعدد بار قادیان آئے.ان کے علاوہ صاحبزادہ صاحب کے شاگردوں میں سے مولوی عبدالستار خان صاحب معروف به بزرگ صاحب، مولوی سید غلام محمد صاحب اور سید حکیم صاحب بھی مختلف اوقات میں چند بار قادیان گئے اور وہاں کئی ماہ قیام کر کے واپس ہوئے.واپس آ کر یہ لوگ حضرت صاحبزادہ صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات بتاتے تھے اور حضور کی نئی شائع شدہ کتب ساتھ لے کر آتے تھے.بعض دفعہ یہ شاگرد بعض سوال بھی پیش کرتے جن کے جواب حضرت صاحبزادہ صاحب ان کو سمجھایا کرتے تھے.غالباً ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی بیعت کا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھجوایا اور بعض تحائف بھی حضور کی
57 خدمت میں پیش کرنے کے لئے ارسال کئے.آپ کے بعض شاگردوں نے بھی اپنی بیعت کے خطوط لکھے اور ارسال کئے.ان میں مولوی عبدالستار خان صاحب، سید حکیم صاحب ، سید احمد نور صاحب اور مولوی سید غلام محمد صاحب شامل تھے.(۱۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بعض اور مواقع اور ذرائع سے بھی حضرت صاحبزادہ صاحب کو ملیں ان کا ذکر بعض روایات میں آتا ہے.مولوی عبدالستار خان صاحب کا بیان ہے کہ ڈیورنڈ لائن کی حد بندی کے دوران ایک شخص حضرت صاحبزادہ صاحب کو ملا.وہ پڑھا لکھا تھا اس نے ایک کتاب حضرت صاحبزادہ صاحب کو دی اور عرض کی کہ میں نے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے لیکن اس کتاب کا مجھے پتہ نہیں چلتا.ایک شخص نے مسیح زمان ہونے کا دعوی کیا ہے.میں نے اس کتاب کا کچھ ر دلکھا ہے.آپ بڑے عالم و فاضل ہیں آپ اس کا بہتر جواب لکھ سکیں گے.آپ نے فرمایا کہ یہاں تو مصروف ہوں گھر جا کر یہ کتاب دیکھوں گا.(۱۸) حضرت صاحبزادہ صاحب کے ایک شاگرد کا حج پر جانا اور راستہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سن کر قادیان جانا مولوی عبدالستار خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے ایک شاگرد براستہ ہندوستان حج کے لئے روانہ ہوئے.جب دہلی پہنچے تو کسی شخص نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اطلاع دی اور حضور کی بہت تعریف و توصیف کی.اس شاگرد کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا اور وہ قادیان آگئے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے ، آپ کی باتیں سن کر اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے حضور کی بیعت کر لی.جب وہ اپنے ملک واپس جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے افغانستان کے امیر عبدالرحمن خان کے نام ایک تبلیغی خط لکھنے کی آرزو کی.حضور نے پہلے تو یہ فرمایا کہ تمہارا امیر نا فہم اور ظالم ہے وہ ایمان نہیں لائے گا.لیکن اس شاگرد کے اصرار پر حضور نے انہیں ایک خط فارسی
58 زبان میں لکھ دیا.اس کا کچھ حصہ عربی میں تھا.اس خط کا اردو ترجمہ سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۶۱۷ میں چھپا ہوا ہے.اس خط میں حضور نے امیر عبدالرحمن خان کو لکھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مامور و مصلح بنا کر مبعوث کیا ہے.جو کچھ میں کہتا ہوں وہ خود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت کہتا ہوں.میں اس زمانہ کا مجدد ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح و مہدی بنا کر بھیجا گیا ہوں.اس کے علاوہ آپ نے امیر عبدالرحمن خان کو اس خط میں بعض نصائح بھی فرمائیں.یہ خط ماہ شوال ۱۳۱۳ھ مطابق مارچ ۱۸۹۶ء میں لکھا گیا تھا.جب یہ شاگر د خوست پہنچے تو انہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو وہ خط دے دیا.آپ نے فرمایا کہ یہ بات تو سچی ہے اور یہ کلام ایک عظیم الشان کلام ہے لیکن امیر عبدالرحمن خان اتنی سمجھ نہیں رکھتا کہ وہ اسے سمجھ سکے اور ایمان لے آئے اس لئے یہ خط اس کو بھجوانا بے سود ہوگا.یہ خط حضرت صاحبزادہ صاحب کے پاس پڑا رہا.ایک موقعہ پر آپ نے یہ خط سردار شیریں دل خان کو دکھایا تو اس نے خط پڑھ کر کہا کہ یہ بات تو سچی ہے مگر امید نہیں کہ امیرا سے مانے.سردار شیریں دل خان نے یہ بھی بتایا کہ ایک شخص انگریزوں کی طرف سے سفیر بن کر آیا.امیر اس وقت قندھار میں تھا اس نے امیر کو بہت سی باتیں بتائیں اور مرزا صاحب کا بھی ذکر کیا امیر ناراض ہو گیا اور اس نے سفیر کو واپس بھجوا دیا اور انگریزی حکومت کو لکھا کہ ایسا شخص میری طرف سفیر بنا کر کیوں بھیجا گیا ہے جو مجھے میرے دن سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے سردار شیر میں دل خان نے یہ واقعہ سنا کر کہا کہ میں یہ خط امیر عبد الرحمن خان کو پیش نہیں کر سکتا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملوں لیکن سردار نے کہا کہ جس طرح میں اپنے بیٹے کو اجازت نہیں دے سکتا آپ کو بھی اجازت نہیں دے سکتا.آپ بڑے آدمی ہیں ، امیر ہی اجازت دے تو دے.
59 یہ شاگرد کون تھے اور کب قادیان آئے اس بارہ میں وضاحت نہیں مل سکی.عام طور پر معروف تو یہی ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے وہ شاگرد جو پہلی دفعہ قادیان گئے وہ مولوی عبد الرحمن خان صاحب شہید تھے جن کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے خود تحقیق احوال کے لئے قادیان بھجوایا تھا.(۱۹) افغانستان کے دوصحابی جو ۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں شامل ہیں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جنوری ۱۸۹۷ء میں اپنی کتاب انجام آتھم شائع فرمائی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اپنے ۳۱۳ صحابہ کے نام درج فرمائے.اس فہرست میں نمبر 111 پر ایک نام یوں درج ہے: شیخ محمد عبد الرحمن صاحب عرف شعبان کا بلی“.یہ صحابی مولوی عبد الرحمن خان صاحب شہید اول افغانستان معلوم ہوتے ہیں.دوسرا نام نمبر ۳۱۶ پر یوں درج ہے: مولوی شہاب الدین صاحب غزنوی کا بلی“.یہ دوسرے صحابی کون تھے اور کب قادیان آئے اور احمدی ہوئے اس بارہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے.ممکن ہے یہ وہی شاگرد ہوں جن کا ذکر مولوی عبدالستار خان صاحب نے کیا ہے کہ وہ حج کرنے گئے تھے اور دہلی میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سن کر قادیان چلے گئے اور حضوڑ کی بیعت کا شرف حاصل کیا اور قادیان سے واپس آتے ہوۓ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے درخواست کر کے امیر عبدالرحمن خان کے نام خط لے کر واپس آئے اس کا ذکر پہلے آچکا ہے.(۲۰) واقعہ شہادت میاں عبدالرحمن صاحب شاگر د حضرت صاحبزادہ محمد عبداللطیف صاحب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب مرحوم کی شہادت سے تخمینا دو برس پہلے ان
60 کے ایماء اور ہدایت سے میاں عبد الرحمن شاگر در شیدان کے قادیان میں شاید دو یا تین دفعہ آئے اور ہر یک مرتبہ کئی کئی مہینے تک رہے.اور متواتر صحبت اور تعلیم اور دلائل کے سننے سے ان کا ایمان شہداء کا رنگ پکڑ گیا اور آخری دفعہ جب کا بل واپس گئے تو وہ میری تعلیم سے پورا حصہ لے چکے تھے اور اتفاقا ان کی حاضری کے ایام میں بعض کتابیں میری طرف سے جہاد کی ممانعت میں چھپی تھیں جن سے ان کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ سلسلہ جہاد کا مخالف ہے...جب وہ مجھ سے رخصت ہو کر پشاور میں پہنچے تو اتفاقاً خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر سے جو پشاور میں تھے اور میرے مرید ہیں ملاقات ہوئی اور انہیں دنوں میں خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک رسالہ جہاد کی ممانعت میں شائع کیا تھا اس سے ان کو بھی اطلاع ہوئی اور وہ مضمون ایسا ان کے دل میں بیٹھ گیا کہ کابل میں جا کر جابجا انہوں نے یہ ذکر شروع کیا کہ انگریزوں سے جہاد کرنا درست نہیں کیونکہ وہ ایک کثیر گروہ مسلمانوں کے حامی ہیں اور کئی کروڑ مسلمان امن و عافیت سے اُن کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں.تب یہ خبر رفتہ رفتہ امیر عبد الرحمن کو پہنچ گئی اور یہ بھی بعض شریر پنجابیوں نے جو اس کے ساتھ ملا زمت کا تعلق رکھتے ہیں اس پر ظاہر کیا کہ یہ ایک پنجابی شخص کا مرید ہے جو اپنے تئیں مسیح موعود ظاہر کرتا ہے اور اس کی یہ بھی تعلیم ہے کہ انگریزوں سے جہاد درست نہیں بلکہ اس زمانہ میں قطعاً جہاد کا مخالف ہے.تب امیر یہ بات سن کر بہت برافروختہ ہو گیا اور اس کو قید کرنے کا حکم دیا.تامزید تحقیقات سے کچھ زیادہ حال معلوم ہو.آخر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ضرور یہ شخص مسیح قادیانی کا مرید اور مسئلہ جہاد کا مخالف ہے.تب اس مظلوم کو گردن میں کپڑا ڈال کر اور دم بند کر کے شہید کیا گیا.کہتے ہیں اس کی شہادت کے وقت بعض آسمانی نشان ظاہر ہوئے“.(۲۱) سید احمد نورصاحب بیان کرتے ہیں کہ مولوی عبدالرحمن خان جب آخری دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت سے واپس افغانستان آئے تو پہلے سید گاہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں حضور کی وہ تصنیفات دیں جو وہ قادیان سے لے کر آئے تھے.اسکے بعد وہ اپنے وطن چلے گئے جو قبیلہ منگل کے علاقہ میں ہے.اس پر
61 کسی شخص نے امیر عبدالرحمن خان کے پاس ان کی شکایت کی اور ان کے قادیان جانے کا بھی ذکر کیا.امیر عبدالرحمن خان نے حاکم کے نام حکم بھیجا کہ مولوی عبدالرحمن خان صاحب کو گرفتار کر کے کا بل بھیجوایا جائے.حاکم خوست نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو اطلاع دی - کہ ایسا حکم آیا ہے.جب مولوی عبد الرحمن خان صاحب کو علم ہوا تو وہ روپوش ہو گئے.اس پر امیر عبدالرحمن خان نے حکم دیا کہ ان کا تمام مال و اسباب ضبط کر لیا جائے اور ان کے اہل وعیال کو گرفتار کر کے کا بل بھجوا دیا جائے.جب مولوی عبد الرحمن خان صاحب کو اپنے اہل و عیال کی گرفتاری کے متعلق حکم کا علم ہوا تو خود ہی کا بل چلے گئے اور امیر عبدالرحمن خان کے پیش ہو گئے.امیر نے ان سے پوچھا کہ تم افغانستان سے بلا اجازت باہر کیوں گئے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں سرکار کی خدمت کے لئے قادیان گیا تھا اور وہاں سے آپ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں لایا ہوں.امیر نے ان سے کتابیں لے کر انہیں قید خانہ بھجوا دیا.امیر عبدالرحمن خان کو شکایت کئے جانے کا سبب یہ تھا کہ مولوی صاحب نے علی الاعلان حاکموں ، افسروں اور عوام تک یہ خبر پہنچا نا شروع کر دی تھی کہ قادیان میں ایک مصلح کا ظہور ہو گیا ہے.مجھے صحیح معلوم نہیں کہ ان سے قید میں کیا سلوک کیا گیا.سنا یہی ہے کہ ان کے منہ پر تکیہ رکھ کر دم بند کر کے مار دیا گیا.(۲۲) جناب قاضی محمد یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ مولوی عبدالرحمن صاحب آخری دفعه دسمبر 12ء میں قادیان گئے تھے اور واپسی پر پشاور کے راستہ اپنے ملک گئے.پشاور میں وہ جناب خواجہ کمال الدین صاحب احمدی وکیل کے بالا خانہ پر بیرون کا بلی دروازہ میں مقیم رہے.ان دنوں میں سرحدی علاقوں میں افغان غازی جہاد بالسیف کے غلط تصور کی وجہ سے بے گناہ انگریزوں کے ناحق قتل میں مصروف رہتے تھے.انہیں ایام میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رسالہ جہاد کے بارہ میں لکھا تھا جس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں جہاد کی حقیقت واضح کی گئی تھی اور اس قسم کے قتال کو خلاف منشاء اسلام ثابت کیا تھا.
62 مولوی عبدالرحمن خان صاحب یہ رسالہ اپنے ساتھ لے گئے تھے.اس کے علاوہ اور بھی لٹریچر موجودہ زمانہ میں جہاد بالسیف کے خلاف ان کے پاس تھا اور انہوں نے افغانستان جا کر یہ لٹریچر اور کتا بیں تقسیم کی تھیں.اس پر امیر عبدالرحمن خان نے ان کے لئے قید کا حکم دیا اور تحقیقات کے بعد مولوی صاحب کے عقائد اور ان کتب اور رسائل کے مضمون کو جو وہ اپنے ساتھ لے گئے تھے اپنے عقیدہ جہاد کے خلاف پایا تو ان کو شہید کر وا دیا.سید محمود احمد صاحب افغانی کا بیان ہے کہ مولوی صاحب کی شہادت ۲۰ /جون ۱۹۰۱ء کو ہوئی تھی.(۲۳) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف کا کابل شہر میں قیام مولوی عبدالرحمن خان صاحب کی شہادت کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب کو مشورہ دیا گیا کہ وہ مصلحتا کا بل چلے جائیں اور امیر عبدالرحمن خان کو ملیں.صاحبزادہ صاحب ابھی سید گاہ میں ہی تھے کہ ایک روز سردار شیریں دل خان حاکم خوست نے ان سے کہا کہ ہمارے ملک میں بہت فساد پڑا ہوا ہے.لوگ شیطان سیرت ہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی دشمن مولوی عبدالرحمن خان کی طرح آپ کی رپورٹ بھی امیر کے پاس کر دے اور امیر خود آپ کو تحقیقات کی غرض سے بلوائے.آپ بڑی عزت اور پوزیشن والے ہیں جب آپ خود اس کے پاس جائیں گے تو امید ہے کہ وہ آپ سے مل کر بہت خوش ہو گا اور عزت و توقیر سے پیش آئے گا چنانچہ آپ اپنے بعض شاگردوں کے ساتھ کا بل تشریف لے گئے.کابل میں دربار رات کو ہوا کرتا تھا.جب آپ دربار میں حاضر ہوئے اور امیر سے ملے تو وہ بہت خوش ہوا اور کہا کہ آپ کے بارہ میں مجھے بعض رپورٹیں ملی تھیں لیکن میں نے انہیں نظر انداز کر دیا اور میں آپ کے یہاں آنے سے بہت خوش ہوں.حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے تھے کہ کچھ عرصہ کے بعد میں نے گھر واپس جانے
63 کا ارادہ کیا تو دربار کے بعض معزز لوگوں نے مجھے مشورہ دیا کہ یہ امیر کسی کے قابو میں نہیں ، ایسا نہ ہو کہ آپ گھر پہنچیں اور آپ کو واپس کا بل لانے کے لئے آدمی بھجوا دئے جائیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ آپ کا بل ہی میں قیام کریں.تب میں امیر کو ملا اور اسے کہا کہ میں کابل میں ہی آپ کے پاس رہنا چاہتا ہوں.امیر نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ بہت اچھا آپ کا بل ہی میں قیام رکھیں.بعد میں آپ کے اہل وعیال بھی کا بل آگئے.کابل میں آپ نے درس و تدریس کا شغل جاری رکھا.آپ امیر عبدالرحمن خان اور اس کے بیٹے سردار حبیب اللہ خان سے ملتے رہتے تھے.ان کے علاوہ حاجی باشی اور بریگیڈئر مرزا محمد حسین کوتوال سے بھی آپ کی ملاقات رہتی تھی.(۲۴) امیر عبدالرحمن خان کی بیماری اور وفات امیر عبدالرحمن خان کی صحت پہلے بھی اچھی نہیں تھی لیکن اب اس کا مرض شدت اختیار کر گیا.وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو بزرگ سمجھتا تھا اور اس کی خواہش کے مطابق حضرت صاحبزادہ صاحب اکثر اس کو ملنے جایا کرتے تھے.ایک دن جب آپ امیر کو مل کر آئے تو فرمایا کہ امیر سخت بیمار ہے.اچھا ہے چلا ہی جائے اس طرح لوگ اس کے مظالم سے محفوظ ہو جائیں گے.ان دنوں میں امیر باغ بالا میں مقیم تھا.ایک دن صبح کے وقت آپ کو بلوایا گیا.وہاں پہنچے اور اپنا گھوڑ ا سید احمد نور کے حوالے کر کے خود اندر چلے گئے.لوگوں پر خاموشی اور خوف کی حالت طاری تھی.آپ اندر جا کر فوراً باہر آگئے اور سید احمد نور کو بتایا کہ امیر فوت ہو گیا ہے اور یہ کہ نماز جنازہ ظہر کے بعد ہوگی.سردار حبیب اللہ خان کی خواہش تھی کہ اس کے باپ کا جنازہ حضرت صاحبزادہ صاحب پڑھائیں.مصلی امیر عبدالرحمن خان کی وفات کو خفیہ رکھا گیا تھا.آپ واپس اپنی رہائش گاہ پر آگئے.رستہ میں سید احمد نور سے فرمایا کہ اگر حبیب اللہ خان نے جنازہ پڑھانے کے لئے پھر کہا تو دیکھا جائے گا ورنہ کیا پڑھانا ہے.ظہر کے وقت
64 حضرت صاحبزادہ صاحب جنازہ کے لئے چلے گئے.جنازہ میں محدود تعداد میں لوگ شامل ہوئے.عام لوگوں کو نہیں بلایا گیا تھا.جنازہ کی امامت سردار حبیب اللہ خان نے کی.امیر عبدالرحمن خان پر ۱۰ ستمبر ۱۹۰۱ء کو فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے اس کا دایاں پہلو بیکار ہو گیا تھا.باوجود ہر قسم کے علاج کے حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی گئی آخر کار ۳ اکتو برا ۱۹۰ ء کو انتقال کر گیا اور شہر کابل ده افغانان کے بازارشاہی کے بستان سرائے میں دفن کیا گیا - (۲۵) امیر حبیب اللہ خان کی دستار بندی امیر عبدالرحمن خان نے اپنے بیٹے سردار حبیب اللہ خان کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا لیکن چونکہ بغاوت کا خطرہ تھا اسلئے امیر حبیب اللہ خان نے اپنی امارت کا عام اعلان فوری طور پر نہیں کیا.لاکھوں روپیہ فوجی افسران اور سپاہیوں میں تقسیم کروایا.دو تین دن شور رہا اس کے بعد فوج نے حبیب اللہ خان کو امیر تسلیم کر لیا.امیر حبیب اللہ خان نے دلکشا سلام خانہ میں خاص در بار کیا.جب لوگ نئے امیر کی بیعت کے لئے آئے تو اس نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو بھی بیعت کے لئے بلایا آپ نے فرمایا کہ میں اس شرط پر بیعت کروں گا کہ آپ اقرار کریں کہ شریعت کے خلاف کچھ نہیں کریں گے.جب حبیب اللہ خان نے اس کا اقرار کر لیا تو آپ نے اس کی بیعت کی.تبر کا حضرت صاحبزادہ صاحب کو شاہی دستار باندھنے کے لئے کہا گیا.چنانچہ آپ نے امیر حبیب اللہ خان کو دستار باندھی.جب دو تین بیچ باندھے جانے سے رہ گئے تو قاضی القضاۃ نے عرض کی کہ کچھ بیچ میرے لئے باقی رکھے جائیں تا کہ میں بھی کچھ برکت حاصل کرلوں.تب کچھ پیچ قاضی القضاۃ نے باندھے.(۲۶) امیر حبیب اللہ خان کی دربار عام میں تخت نشینی حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف نے ۳ / اکتو برا ۱۹۰ء کو دربار خاص میں امیر
65 حبیب اللہ خان کی رسم دستار بندی ادا کی تھی.اس کے بعد مورخہ ۶ راکتو بر کو ایک دربار عام منعقد کیا گیا اس میں جملہ امراء و اراکین سلطنت جو کابل میں موجود تھے نے امیر حبیب اللہ خان کو اپنا امیر تسلیم کر لیا.امیر حبیب اللہ خان امیر عبدالرحمن خان کا بڑا بیٹا تھا جو ملکہ گل ریز ساکن واخان کے بطن سے سمرقند میں ۱۸۷۲ء میں پیدا ہوا تھا.اس کی عمر تخت نشینی کے وقت تیں برس کی تھی.سردار نصر اللہ خان اس کا چھوٹا بھائی تھا.اس کی عمر اس وقت ۲۷ سال تھی.سردار نصر اللہ خان کو امیر حبیب اللہ خان نے اسی دربار عام میں اپنا نائب السلطنت مقر ر کر نے کا اعلان کیا.اس دربار میں تاج پوشی کی رسم سردار نصر اللہ خان نے ادا کی.(۲۷) حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب کی کا بل سے وطن واپسی کچھ عرصہ کے بعد امیر حبیب اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے کہا کہ میرے والد آپ کی بہت عزت کرتے تھے اس لئے میں بھی آپ کی عزت کرتا ہوں.آپ ہمارے محسن اور مہربان ہیں.اگر آپ اپنے وطن جانا چاہتے ہیں تو خوشی سے جاسکتے ہیں.اس پر آپ نے یہ ارادہ کر لیا کہ وطن واپس جا کر حج کے لئے ہندوستان کے راستہ سے روانہ ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے لئے قادیان بھی ہوتے جائیں.پہلے آپ نے سید احمد نور کی ہمراہی میں اپنے اہل وعیال کو کابل سے سید گاہ بھجوایا.سیداحمد نوران کو وطن چھوڑ کر واپس آگئے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے امیر حبیب اللہ خان سے حج پر جانے کی اجازت مانگی تو امیر نے خوشی سے اجازت دی اور آپ کو سواری کے لئے دو اونٹ اور نقد روپیہ دیا اور بڑی عزت واحترام کے ساتھ رخصت کیا - (۲۸) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ان کی روح جو نہایت صاف اور مستعد تھی میری طرف کھینچی گئی یہاں تک کہ ان کے لئے بغیر ملاقات کے دور بیٹھے رہنا نہایت دشوار ہو گیا.آخر اس زبر دست کشش اور محبت اور اخلاص کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس غرض سے کہ ریاست کا بل سے اجازت حاصل ہو
66 جائے حج کے لئے مصمم ارادہ کیا اور امیر کابل سے اس سفر کے لئے درخواست کی.چونکہ وہ امیر کا بل کی نظر میں ایک برگزیدہ عالم اور تمام علماء کے سردار سمجھے جاتے تھے اس لئے نہ صرف ان کو اجازت ہوئی بلکہ امداد کے طور پر کچھ روپیہ بھی دیا گیا‘ - (۲۹) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب کی حج کے ارادہ سے روانگی سید احمد نور صاحب کا بیان ہے کہ کابل سے سید گاہ واپس آنے کے قریباً ایک ماہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب حج کے ارادہ سے روانہ ہوئے.ان کے ہمراہ مولوی عبدالستار خان ، مولوی سید غلام محمد صاحب، آپ کے خادم خاص مولوی عبدالجلیل صاحب اور وزیری ملا صاحب تھے.سید احمد نور روانگی کے وقت ساتھ نہیں تھے کیونکہ وہ صاحبزادہ صاحب کی اجازت سے اپنے گاؤں گئے ہوئے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ضلع بنوں والا راستہ اختیار کیا جہاں سرائے نورنگ میں آپ کی ملکیت جائیداد تھی.لکی مقام پر ایک صاحب علم آدمی آپ کو ملا جو تحصیلدار تھا اس سے آپ کی گفتگو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں ہوئی.اس شخص کے بشرہ سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ وہ حضور پر ایمان لے آیا ہے.اس نے آپ کی باتوں پر بہت خوشی کا اظہار کیا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی سواری کا گھوڑا اس کو تحفہ دے دیا.لکی میں ایک اور مولوی صاحب آپ کو ملے.انہوں نے آپ کی بہت عزت اور احترام کیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب سے چند روز ان کے مہمان کے طور پر ٹھہرنے کی خواہش کی.ان مولوی صاحب نے آپ کی خدمت میں بعض مسائل پیش کئے اور کہا کہ لوگ ان کی وجہ سے مجھے کافر ٹھیراتے ہیں.آپ نے ان کو ایک تحریر لکھ کر دے دی کہ یہ مسائل درست ہیں اور اس پر اپنے دستخط کر دئے.کچھ عرصہ کے بعد آپ لاہور کی طرف روانہ ہوئے.لاہور پہنچنے پر آپ کو معلوم ہوا کہ ہندوستان میں طاعون کی وجہ سے قرنطینہ (Quarantine) کی پابندی لگی ہوئی ہے اور حج
67 کے لئے روانہ ہونے میں مشکلات پیدا ہو گئی ہیں.لاہور میں کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ قادیان روانہ ہو گئے.(۳۰) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف کی قادیان میں آمد اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : وہ اجازت حاصل کر کے قادیان میں پہنچے اور جب مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی تو قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ان کو اپنی پیروی اور اپنے دعوی کی تصدیق میں ایسا فنا شدہ پایا کہ جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں اور جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے.ایسا ہی میں نے ان کو اپنی محبت سے بھرا ہوا پایا اور جیسا کہ ان کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی ان کا دل مجھے نورانی معلوم ہوتا تھا“.(۳۱) اخبار البدر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ۱۸/ نومبر ۱۹۰۲ء کو قادیان پہنچے تھے اور ظہر و عصر کی نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.اخبار میں لکھا ہے کہ : چند ایک احباب مع مولوی عبدالستار صاحب جو آج تشریف لائے تھے ان سے حضور نے ملاقات فرمائی.ان کے تحفے تحائف لے کر جو انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کئے تھے فرمایا: 'ان کا آنا بھی ایک نشان ہے اور اس الہام يَاتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيق کو پورا کرتا ہے.(۳۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: سعادت از لی مولوی صاحب ممدوح کو کشاں کشاں قادیان میں لے آئی اور چونکہ وہ ایک انسان روشن ضمیر اور بے نفس اور فراست صحیحہ سے پورا حصہ رکھتا تھا اور علم حدیث اور علم قرآن سے ایک وہی طاقت ان کو نصیب تھی اور کئی رویائے صالحہ بھی وہ میرے بارے
68 میں دیکھ چکے تھے اس لئے چہرہ دیکھتے ہی مجھے انہوں نے قبول کر لیا اور کمال انشراح سے میرے دعوئی مسیح موعود ہونے پر ایمان لائے اور جاں شاری کی شرط پر بیعت کی.اور ایک ہی صحبت میں ایسے ہو گئے کہ گویا سال ہا سال سے میری صحبت میں تھے اور نہ صرف اس قدر بلکہ الہام الہی کا سلسلہ بھی ان پر جاری ہو گیا اور واقعات صحیحہ ان پر وارد ہونے لگے اور ان کا دل ماسوی اللہ کے بقایا سے بکتی دھویا گیا.پھر وہ اس جگہ سے معرفت اور محبت الہیہ سے معمور ہو کر واپس اپنے وطن کی طرف گئے“.(۳۳) که ملک خان با دشاہ صاحب ولد گل با دشاہ صاحب سکنہ درگئی ، خوست بیان کرتے ہیں میں 190 ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے همراه قادیان دارالامان میں آیا.یہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جب ہم آئے اسی دن بیعت کی یا دوسرے دن کی.ہاں یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ظہر کی نماز کے بعد ہم بیعت کے لئے پیش ہوئے.حضرت شہید مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور پھر دوسرے نمبر پر خاکسار نے ہاتھ رکھا.بیعت کرنے کے بعد اس خاکسار نے غالباً دو تین دن گزارے ہونگے کہ شہید مرحوم نے مجھے فرمایا کہ میں نے رؤیا دیکھی ہے کہ آپ کو خوست کے حاکم تکلیف دیں گے اس لئے تم فوراً وطن واپس چلے جاؤ.چنانچہ میں دو تین یوم بعد واپس چلا گیا.میرے ساتھ ایک ملا سپین گل صاحب بھی واپس چلے گئے.‘ (۳۴) حضرت صاحبزادہ صاحب کے قیام قادیان کے بعض حالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : وہ کئی مہینہ تک میرے پاس رہے اور اس قدر ان کو میری باتوں میں دلچسپی پیدا ہوئی کہ انہوں نے میری باتوں کو حج پر ترجیح دی اور کہا کہ میں اس علم کا محتاج ہوں جس سے
69 ایمان قوی ہوا اور علم عمل پر مقدم ہے سو میں نے ان کو مستعد پا کر جہاں تک میرے لئے ممکن تھا اپنے معارف ان کے دل میں ڈالے‘ - (۳۵) وو وہ بار بار کہتے تھے کہ کیسے نادان وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ مسیح موعود کی پیشگوئی صرف حدیثوں میں ہے حالانکہ جس قدر قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسی فوت ہو گیا اور مسیح موعود اسی امت میں سے آنے والا ہے اس قدر ثبوت حدیثوں سے نہیں ملتا.غرض خدا تعالیٰ نے ان کے دل کو حق الیقین سے پر کر دیا تھا اور وہ پوری معرفت سے اس طرح پر مجھے شناخت کرتے تھے جس طرح در حقیقت ایک شخص کو آسمان سے اترتا مع فرشتوں ،، کے دیکھا جاتا ہے.(۳۶) مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب جب قادیان میں آئے تو صرف ان کو یہی فائدہ نہ ہوا کہ انہوں نے مفصل طور پر میرے دعوی کے دلائل سنے بلکہ ان چند مہینوں کے عرصہ میں جو وہ قادیان میرے پاس رہے اور ایک سفر جہلم تک بھی میرے ساتھ کیا.بعض آسمانی نشان بھی میری تائید میں انہوں نے مشاہدہ کئے.ان تمام براہین اور انوار اور خوارق کے دیکھنے کی وجہ سے وہ فوق العادت یقین سے بھر گئے اور طاقت بالا ان کو کھینچ کر لے گئی‘ - (۳۷) سید احمد نور صاحب نے جب اپنے گاؤں میں سنا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب حج کے لئے روانہ ہو گئے ہیں تو ان کو یقین ہوا کہ آپ راستہ میں قادیان بھی جائیں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کریں گے اس پر سید احمد نور بھی قادیان جانے کے لئے چل پڑے.جب بٹالہ پہنچے تو ایک مخالف مولوی انہیں ملا اور پوچھا کہ تم کہاں جا رہے ہو.سید احمد نور نے جواب دیا کہ قادیان جا رہا ہوں.اس پر اس مولوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں بعض ناشائستہ کلمات کہے اور سید احمد نور کو قادیان جانے سے منع کیا.انہوں نے مولوی کو جواب دیا کہ تم خدا کی باتوں سے روکتے ہو میں ہزاروں میل سے قادیان جانے کے ارادہ سے آیا ہوں.قادیان قریب ہے کیسے نہ جاؤں.اس مولوی نے یکہ والے کو
70 کہہ دیا کہ ان کو قادیان نہ لے جائے.اس پر سید احمد نور پیدل ہی قادیان روانہ ہو گئے.سید احمد نور حضرت صاحبزادہ صاحب کے قادیان پہنچنے کے دس پندرہ دن بعد عصر کے وقت قادیان پہنچے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو ملے.آپ نے ان کو مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کی کہ حضور ان کی بیعت لے لیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کچھ دن ٹھہریں.اس پر صاحبزادہ صاحب نے عرض کی کہ حضور یہ اس قسم کا آدمی نہیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سید احمد نور کی بیعت لے لی - (۳۸) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکٹی کا بیان ہے کہ : ” جب سید عبداللطیف صاحب قادیان میں تشریف فرما تھے میں بھی قادیان میں گیا ہوا تھا.حضرت سید عبداللطیف صاحب اور میں دونوں ایک ہی کمرہ میں ٹھہرے ہوئے تھے.میرے پاس ایک چھوٹی سی حمائل ہو ا کرتی تھی.میں اس کی تلاوت کیا کرتا.حضرت مولوی صاحب بھی قرآن مجید یا حضرت صاحب کی کتب کا مطالعہ کرتے.حضرت اقدس جب نماز کے وقت تشریف لاتے تو بعض دفعہ سید عبداللطیف کی خاطر فارسی زبان میں بھی کچھ فقرات فرما دیتے." ” جب حضور جہلم تشریف لے گئے تو وہاں بھی حضرت سید عبدالطیف صاحب حضرت اقدس کے ساتھ تھے.میں بھی تھا.عدالت کی کوٹھیوں کے پاس لوگوں کی درخواست پر حضرت اقدس نے تقریر فرمائی تو پہلے حضرت سید صاحب کی خاطر فارسی زبان میں تقریر شروع فرمائی تھی لیکن فارسی سمجھنے والے چونکہ بہت کم لوگ تھے اس لئے حضرت مولوی عبد اللطیف نے عرض کیا کہ حضور میں اردو سمجھ لیتا ہوں، حضور اردو میں تقریر فرمائیں ، دوسرے لوگوں کی بھی یہی خواہش تھی.حضرت مولوی عبداللطیف صاحب کا یہ شیوہ تھا کہ حضرت اقدس کی طرف منہ کر کے بیٹھتے تھے اور ہمہ تن گوش ہو کر حضور کی باتوں کے سننے میں محو ہو جاتے.کبھی کبھی آپ کی
71 آنکھوں سے تاثرات کی وجہ سے آنسو بہنے لگ جاتے‘ - (۳۹) حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی مزید بیان کرتے ہیں : حضور کی کتاب مواہب الرحمن، جو جہلم کے مقدمہ کی پیشی سے پہلے ہی چھپ کر شائع ہو چکی تھی.سید عبداللطیف صاحب نے بھی اس کو پڑھ لیا تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ حضرت اقدس کی طرف سے اس میں یہ پیشگوئی جو ذیل کے الفاظ وحی سے شائع کی گئی تھی یعنی قُتِلَ خَيْبَةً وَ زِيْد هَيْبَةٌ" يه سيد عبد اللطیف کے ہی متعلق تھی.“ ( ۴۰ ) سید احمد نور بیان کرتے ہیں کہ : حضرت صاحبزادہ صاحب چند ماہ قادیان میں ٹھہرے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سیر کو بھی جایا کرتے تھے.جب واپس آتے اور حضور اپنے گھر تشریف لے جاتے تو حضرت صاحبزادہ صاحب فوری طور پر اپنے کپڑوں سے گردوغبار صاف نہیں کرتے تھے جو سیر کے دوران ان پر پڑ جاتا تھا بلکہ کچھ عرصہ انتظار کرتے تھے اور جب ان کو اندازہ ہو جاتا کہ اب حضور نے اپنا لباس صاف کر لیا ہوگا تب اپنے کپڑوں سے گرد جھاڑتے تھے‘ - (۴۱) جناب قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ میں ۲۳ / رمضان المبارک ۱۳۲۰ھ بمطابق ۲۴ / دسمبر کو جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان آیا اور مہمان خانہ میں کنویں کے پاس والے کمرہ میں جو شمالی جانب تھا قیام کیا.ان دنوں میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب بھی قادیان میں موجود تھے اور مہمان خانہ میں جنوب کی طرف پہلے کمرہ میں ٹھہرے ہوئے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب ہر صبح کو کنویں کے پاس چار پائی پر رو بہ قبلہ ہو کر بیٹھ جاتے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے.نماز با جماعت کے لئے مسجد مبارک میں حاضر ہوتے تھے.مسجد مبارک ان دنوں بہت چھوٹی ہوتی تھی.ایک صف میں زیادہ سے زیادہ پانچ نمازی کھڑے ہو سکتے تھے.حضرت مولانا عبدالکریم صاحب امام الصلوۃ ہوتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کھڑکی کے پاس جو حضور کے گھر میں کھلتی تھی جانب شمال نماز ادا
72 کرتے تھے.صاحبزادہ صاحب عمو ماً صف اول کے جنوبی کونے میں ہوتے تھے.نماز کے بعد صاحبزادہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھتے تھے اور موقعہ یہ موقعہ کچھ کلام بھی کرتے تھے.باتیں بہ آواز بلند کرتے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب کا قد درمیانہ تھا.بدن موٹا نہ تھا.ریش بہت گھنی نہ تھی.اس کے بال اکثر سیاہ تھے.ٹھوڑھی پر کچھ کچھ سفید تھے.حالت نہایت گداز تھی.اکثر حصہ رات کا بیدار رہتے.تلاوت قرآن مجید کا عشق تھا.اسے ہر وقت حرز جان بنائے رکھتے تھے.اپنے ساتھیوں کی تربیت میں مصروف رہتے تھے.(۴۲) میاں نظام الدین صاحب ٹیلر ماسٹر جہلم کی روایت ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین بھیں والے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لائے تو جماعت جہلم نے دریا کے کنارے حضور اور ساتھ کے مہمانوں کے لئے ایک کوٹھی کا انتظام کیا ہوا تھا.اس سفر میں صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب بھی حضور کے ساتھ شامل تھے.مقدمہ والے دن حضور ان سے عدالت کے احاطہ میں فارسی زبان میں گفتگو فرما رہے تھے اور اردگر دلوگوں کا ہجوم تھا.اس موقعہ پر ایک دوست نے درخواست کی کہ حضور اردو زبان میں تقریر فرما ئیں تا کہ عام لوگوں کو بھی فائدہ ہو.اس پر حضور نے اردو میں تقریر شروع کر دی.(۴۳) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۷ ارجنوری ۱۹۰۳ء کو بمقام جہلم ارشاد فرمایا: " حضرت ابو بکڑ نے کوئی نشان نہیں مانگا یہی وجہ تھی کہ آپ کا نام صدیق ہوا.سچائی سے بھرا ہوا.صرف منہ دیکھ کر ہی پہچان لیا کہ یہ جھوٹا نہیں ہے.پس صادقوں کی شناخت اور ان کا تسلیم کرنا کچھ مشکل امر تو نہیں ہوتا.ان کے نشانات ظاہر ہوتے ہیں لیکن کور باطن اپنے آپ کو شبہات اور خطرات میں مبتلا کر لیتے ہیں.وہ لوگ بڑے ہی بدقسمت ہوتے ہیں جو انتظار ہی میں اپنی عمر گزار دیتے ہیں اور پردہ برانداز ثبوت چاہتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ جیسا خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے انکشاف کے بعد ایمان نفع نہیں دیتا.نفع میں وہی لوگ ہوتے ہیں اور سعادت مند وہی ہیں جو مخفی ہونے کی حالت میں شناخت کرتے ہیں.عنقریب وقت
73 آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی سچائی کو آفتاب سے بھی زیادہ روشن کر دکھائے گا وہ وقت ہوگا که ایمان ثواب کا موجب نہ ہوگا.ایمان یہ ہے کہ کچھ مخفی ہو تو مان لے.جو ہلال کو دیکھ لیتا ہے تیز نظر کہلاتا ہے لیکن چودھویں کے چاند کو دیکھ کر شور مچانے والا دیوانہ کہلائے گا.اس موقع پر مولانا مولوی عبداللطیف صاحب کا بلی نے عرض کی کہ حضور میں نے ہمیشہ آپ کو سورج ہی کی طرح دیکھا ہے کوئی امر مخفی یا مشکوک مجھے نظر نہیں آیا پھر مجھے کوئی ثواب ہوگا یا نہیں؟ فرمایا آپ نے اس وقت دیکھا جب کوئی دیکھ نہ سکتا تھا.آپ نے اپنے آپ کو نشانہ ابتلاء بنا دیا اور ایک طرح سے جنگ کے لئے تیار کر دیا.اب بچ جانا یہ خدا کا فضل ہے.ایک شخص جو جنگ میں جاتا ہے اس کی شجاعت میں تو کوئی شبہ نہیں اگر وہ بچ جاتا ہے اور اسے کوئی گزند نہیں پہنچتا تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اسی طرح آپ نے اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا اور ہر دکھ اور ہر مصیبت کو اس راہ میں اٹھانے کے لئے تیار ہو گئے اس لئے اللہ تعالیٰ آپ کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا.(۴۴) میاں عبدالرزاق صاحب ولد میاں رحیم بخش صاحب سکنہ سیالکوٹ شہر بعدۂ دار الفضل قادیان بیان کرتے ہیں : ” جب حضرت صاحب جہلم تشریف لے گئے تو اس موقعہ پر ایک دن پہلے جہلم چلا گیا تھا.جب اسٹیشن پر گاڑی پہنچی تو وہاں بہت خلقت دیکھنے آئی ہوئی تھی.سٹیشن سے حضور کو ایک انتظام کے ساتھ اس کوٹھی میں پہنچایا گیا جو دریائے جہلم کے کنارہ پر حضور کی رہائش کے لئے تھی.مولوی عبداللطیف صاحب شہید مرحوم کا بل والے بھی حضرت صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.‘‘ (۴۵) ملک عطاء اللہ صاحب ولد ملک محمد رمضان صاحب گجرات بیان کرتے ہیں کہ : جہلم مولوی کرم دین بھیں والے مقدمہ کے سلسلہ میں جب حضرت صاحب تشریف لے گئے تو میں اس گاڑی میں یہاں سے (گجرات سے ) سوار ہوا.ہر سٹیشن پر بے شمار ہجوم تھا.جہلم میں بھی بہت بھیڑ تھی جب حضور کچہری تشریف لے گئے تو عدالت کے
74 سامنے میدان میں حضرت مسیح موعود کے لئے ایک کرسی بچھائی گئی ، اردگر د ا حباب کا حلقہ تھا جس میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا بل اور عجب خان تحصیلدار آف زیدہ بھی شامل تھے.حضرت نے گفتگو کی ابتدا اپنے فارسی شعر سے آسمان بار دنشاں الوقت می گوید زمین این دو شاہد از پئے تصدیق من ایستاده اند سے شروع کی اور فرمایا کہ ”میرے لئے آسمان نے بھی گواہی دی اور زمین نے بھی گواہی دی مگر یہ لوگ نہیں مانتے.فرمایا کہ مانیں گے اور ضرور مانیں گے مگر میرے مرنے کے بعد میری قبر کی مٹی بھی کھود کر کھا جائیں گے اور کہیں گے کہ اس میں بھی برکت ہے مگر اس وقت کیا ہوگا ے جب مرگئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم تیرے ایسے پیار پر حضرت کا یہ فرمانا تھا کہ صاحبزادہ صاحب.....زار زار رونے لگے - (۴۶) فیروز الدین صاحب سیالکوٹی کی روایت ہے کہ : ”جب حضور جہلم تشریف لے گئے تو میں ساتھ تھا.حضرت شہزادہ عبداللطیف شہید بھی ساتھ تھے.اس وقت حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے فرمایا کہ: حضور میرا 666 خون ٹپک رہا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میرا خون کا بل میں آبپاشی کا کام دے گا.“ ( ۴۷ ) مرزا محمد افضل صاحب ولد مرزا محمد جلال الدین صاحب مرحوم ساکن بلانی ضلع گجرات بیان کرتے ہیں کہ : ” جب ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہلم تشریف لائے تھے تو میں بھی وہاں گیا تھا.وہاں بے پناہ ہجوم تھا.اس سفر میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید بھی ساتھ تھے.ایک موقعہ پر صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ: خدا نے مجھے تین بار سر دینے کو فرمایا ہے پس میں دوں گا.‘ (۴۸) جناب ماسٹر اللہ دتہ صاحب محلہ دار الرحمت قادیان بیان کرتے ہیں کہ : جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین بھین والے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے تھے تو صاحبزادہ سید عبداللطیف رضی اللہ عنہ حضور کے ساتھ تھے.احاطہ
75 کچہری میں حضور ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے ، دری بچھی ہوئی تھی اور بہت سے دوست دری پر تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحبزادہ صاحب سے فارسی میں گفتگو فرماتے تھے.گفتگو کے دوران صاحبزادہ صاحب نے عرض کی کہ حضور ! دل من میخواہد کہ پیش محمد حسین پر دم کہ مرا از کابل نظر آمد و شما را که نزدیک ترین هستید نظر نیامد - یعنی حضور میرا دل چاہتا ہے کہ مولوی محمد حسین ( بٹالوی) کوملوں اور ان سے کہوں کہ جو چیز مجھے کا بل میں نظر آ گئی وہ آپ کو نظر نہیں آئی حالانکہ آپ تو ( قادیان سے ) نزدیک ترین مقام پر رہتے ہیں.(۴۹) سید احمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ قادیان میں قیام کے دوران انہوں نے یہ بات دیکھی کہ قادیان کے رہنے والے احباب حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ بہت عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں.(۵۰) ان ایام میں صوبہ سرحد کے ایک احمدی دوست خان عجب خان آف زیده تحصیلدار بھی قادیان آئے ہوئے تھے.انہوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واپس جانے کی اجازت مانگی تو حضور نے انہیں اجازت دے دی.عجب خان صاحب نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے ذکر کیا کہ میں نے حضور سے تو اجازت لے لی ہے لیکن حضرت مولانا نورالدین صاحب سے رخصت نہیں ہوا اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ ان سے ضرور رخصت لینا کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کے خلیفہ اول ہونگے.قادیان میں قیام کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضرت مولانا نورالدین صاحب سے درخواست کر کے حدیث بخاری کے دو تین صفحے پڑھے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ میں نے اس لئے کیا کہ میں حضرت مولانا صاحب کے شاگردوں میں شامل ہو جاؤں کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ اول ہو نگے.(۵۱) مولوی عبدالستار خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان سے فرمایا کہ قادیان شریف میں وہی آرام سے رہتا ہے جو درودشریف بہت پڑھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت سے محبت رکھتا ہے.مسجد مبارک میں
76 اللہ تعالیٰ نے مکہ اور مدینہ کی برکتیں نازل کی ہیں.جب منارۃ المسیح مکمل ہو جائے گا تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کمالات اور فیضان کا نزول ہوگا.ایک روز حضرت صاحبزادہ صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے.آپ نے فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ ملائکہ نے میرے سبب بہت سے لوگوں کو قتل کیا ہے.میں کیا کروں میں نے تو کسی کو قتل نہیں کیا.(۵۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک صریح وحی الہی صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم کی نسبت ہوئی تھی جبکہ وہ زندہ تھے بلکہ قادیان میں ہی موجود تھے...جو مولوی صاحب کے مارے جانے کے بارے میں ہے اور وہ یہ ہے کہ: قُتِلَ خَيْبَةٌ وَ زِيْدَ هَيْبَةٌ“ یعنی ایسی حالت میں مارا گیا کہ اس کی بات کو کسی نے نہ سنا اور اس کا مارا جانا ایک ہیبت ناک امر تھا یعنی لوگوں کو بہت ہیبت ناک معلوم ہوا اور اس کا بڑا اثر دلوں پر ہوا.(۵۳) با بو غلام محمد صاحب ثانی لاہور بیان کرتے ہیں کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب نے ایک بہت قیمتی چونہ حضور کی خدمت میں تحفہ پیش کیا.خواجہ کمال الدین صاحب موجود تھے.انہوں نے درخواست کی کہ حضور یہ چوغہ مجھے دے دیں چنانچہ حضور نے یہ چوغہ ان کو دے دیا - (۵۴) مولا نا حکیم عبید اللہ صاحب بسمل کی روایت ہے کہ وہ احمدی ہونے سے پہلے رافضی شیعہ تھے.انہیں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب 'ستر الخلافہ ملی.اس کے پڑھنے سے ان کے عقیدہ میں انقلاب عظیم پیدا ہو گیا.رات کے گیارہ بجے تھے وہ کتاب پڑھتے پڑھتے سو گئے.خواب میں انہوں نے حضرت امام حسین کو دیکھا کہ بلند جگہ پر کھڑے ہیں اور کسی سے کہہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب کو جا کر خبر کر دو کہ میں آ گیا ہوں.صبح میں قادیان کے لئے روانہ ہو گیا.قادیان میں ان دنوں حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب مہمان خانہ میں مقیم تھے.ان سے ملاقات ہوئی تو ان کا چہرہ دیکھتے ہی
77 حضرت امام حسین کی خواب والی شکل آنکھوں کے سامنے آ گئی.دوسرے دن مولانا حکیم عبید اللہ صاحب در مشین پڑھنے لگے.کتاب کھولتے ہی اس شعر پر نگاہ جاانکی.کر بلا ئیست سیر ہر آنم صد حسین است در گریبانم اس شعر پر غور کر رہے تھے تو مہمان خانہ کے دروازہ پر نظر پڑی.دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف تشریف لا رہے ہیں.مولا نا بسمل صاحب اٹھ کر ملے.جب کا بل میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت ہوئی تو مولانا سمل صاحب کی رؤیا کی تعبیر اور حضرت امام حسین کے بارہ میں شعر کا مطلب واضح ہو گیا.(۵۵) حضرت مولوی شیر علی صاحب سے روایت ہے کہ : ایک دفعہ ایک ہندوستان کا رہنے والا مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگا کہ وہ ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر حضور کے دعویٰ کی تحقیق کے لئے آیا ہے اور پھر اس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کر دی.وہ گفتگو کے دوران بڑے تکلف سے خوب بنا بنا کر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتا تھا.اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کر بولا کہ آپ کو صحیح و مہدی ہونے کا دعویٰ ہے مگر الفاظ کا تلفظ اچھی طرح ادا نہیں کرتے.اس وقت مولوی عبد اللطیف صاحب شہید حضور کے پاس بیٹھے تھے.ان کو مولوی کی بات پر بہت غصہ آیا اور انہوں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی زبان میں گفتگو شروع کر دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی عبد اللطیف صاحب کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور پھر کسی دوسرے وقت جب مولوی عبداللطیف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے حضور نے فرمایا کہ اس وقت مولوی صاحب کو بہت غصہ آ گیا تھا اس لئے میں نے اس ڈر سے کہ وہ کہیں غصہ میں اس مولوی کو مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا.‘(۵۶)
78 کشفی واقعات حضرت صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں بارہا آسمان پر گیا ہوں اور لوگ جو سات آسمان بتاتے ہیں ان سے کہیں زیادہ آسمان ہیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آسمان میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر دیکھا.پھر آپ نے فرمایا کہ میں جنت میں بہت دفعہ داخل ہوتا ہوں اور میوے کھاتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ تمہارے واسطے بھی پھل لاؤں.میخواهم از جنت چیز ہائے برائے شما آوردم مگر فرمایا مجھے اجازت نہیں.(۵۷) مولوی عبدالستار خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ میں جو باتیں لوگوں کو سناتا ہوں اس سے بہت کم درجہ کی باتوں پر بھی لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے کیونکہ خدا کی قدرت سے جب میں یہ باتیں کرتا ہوں ( تو حکمت کے طریق پر کرتا ہوں ) مجھ پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا.پھر فرمایا لیکن جب اللہ تعالیٰ کو میرا مار نا منظور ہوگا تو یہ حکمت کا طریق مجھ سے چھین لیا جائے گا - (۵۸) مولوی عبدالستارخان صاحب معروف به بزرگ صاحب کی روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ ہم نے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کو پہچانا تھا اور اس کے دروازے کی زنجیر کھٹکھٹاتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں کھٹکھٹانے کی ترکیب بتائی ہے کہ اس طرح کھٹکھٹاؤ تو دروازہ کھولا جائے گا.ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ پہلے بھی کبھی کبھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز مجھ پر آتا تھا مگر مقدر یہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملوں گا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی مجھ سے جدا نہیں ہو نگے.سواب بالکل یہی حالت ہے.حضور مجھ سے جدا نہیں ہوتے - (۵۹)
79 سید احمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ قادیان میں حضرت صاحبزادہ صاحب کو کشوف والہامات ہوتے تھے.ایک دن سو کر اٹھے تو بتایا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور پھر یہ الہام ہوا: جِسْمُهُ مُنَوَّرٌ مُعَذِّبَرٌ مُعَطَّرٌ يُضِي مَا الْمُوْلُوءِ الْمَكْنُونَ ایک روز حضرت صاحبزادہ صاحب نے مولوی عبدالستار خان سے کہا کہ میرے چہرے کی طرف دیکھو.مولوی صاحب دیکھنے لگے لیکن دیکھ نہ سکے اور نظریں نیچی ہو گئیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کا چہرہ سورج کی طرح روشن تھا.اسے دیکھنے سے آنکھیں چندھیا جاتی تھیں.مولوی عبدالستار خان صاحب نے سُبحان الله، سُبحان اللہ کہنا شروع کر دیا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سیر کو گئے.جب واپس آئے تو اپنے ساتھیوں کو مہمان خانہ میں ایک کشف سنایا کہ جنت کی ایک حور جو بہت اچھے لباس میں تھی میرے سامنے آئی اور کہا کہ آپ میری طرف دیکھیں تو میں نے اس سے کہا کہ جب تک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہوں تیری طرف نہیں دیکھ سکتا تب وہ روتی ہوئی چلی گئی - (۶۰) مولوی عبدالستار خان صاحب کی روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے حضرت شہید کو بڑی محبت تھی.ان کا رنگ عاشقانہ رنگ تھا اور جب وہ حضور کی مجلس میں بیٹھتے تھے تو ان کی حالت اور کی اور ہو جاتی تھی.فرمایا کرتے تھے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس رنگ میں دیکھا ہے کسی نے نہیں دیکھا.صاحبزادہ صاحب کا شعر ہے عطرے نورے دہم اعظم سرمہ چشم کرم برقی تیغے روئے خوباں شکر شاہ ارم صاحبزادہ صاحب جب حضور کی مجلس میں بیٹھتے تو حضور کے پاؤں دبایا کرتے (41)-2 مولوی عبدالستار خان صاحب کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ صاحبزادہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ کی طرف سیر کو جارہے تھے تو راستہ میں مجھے اور عبدالجلیل سے کہا کہ میرے ماتھے کی طرف دیکھو کہ تم اس کو دیکھنے کی طاقت رکھتے ہو.جب ہم نے دیکھا
80 تو وہ ایسا چمکتا تھا جیسے آفتاب - ہماری آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور ہم نے نظر نیچی کر لی.ایک مرتبہ رات کے وقت بھی ایسا واقعہ ہوا.آپ مہمان خانہ میں کوٹھڑی میں تشریف رکھتے تھے.اور یہ زمانہ ان کے کمال عشق کی حالت کا تھا.آپ نے فرمایا میرے ماتھے کی طرف دیکھو.جب میں نے اور عبدالجلیل نے نظر کی تو ایک بہت بڑے روشن ستارے کی طرح معلوم ہو ا بلکہ اس سے بھی زیادہ.ہمارے ساتھ وزیر محمد ( وزیری ملا ) بیٹھا ہوا تھا.اس نے کہا کہ مجھے نظر نہیں آیا.اس پر آپ نے فرمایا شما تقومی نه دارید (یعنی تمہیں تقوی نصیب نہیں ) - (۶۲) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب کے قادیان آنے کے بارہ میں ایک انگریز انجینئر کا بیان اور ایک کشفی واقعہ کا ذکر ایک انگریز انجینئر جس کا نام Mr.Frank A.Martin تھا ان دنوں کابل میں موجود تھا.یہ آٹھ سال تک یہ سلسلہ سرکاری ملازمت کے افغانستان میں مقیم رہا اور امیر عبدالرحمن اور امیر حبیب اللہ خان کا مقرب تھا.اس نے انگلستان واپس جا کر ایک کتاب "Under The Absolute Amir" کے نام سے لکھ کر شائع کروائی.اس میں وہ اپنے زمانہ اقامت کابل کے حالات لکھتا ہے.اس نے حضرت صاحبزادہ صاحب کا ذکر بھی کیا ہے اس کی تحریر بعض تفاصیل میں دیگر روایات سے اختلاف رکھتی ہے لیکن کافی حد تک صداقت اس کے اندر موجود ہے.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے بارہ میں اس بیرونی شہادت کو بھی درج کر دیا جائے - Mr.Frank A.Martin بیان کرتا ہے کہ : افغانستان کے ایک بہت بڑے اور اثر و رسوخ رکھنے والے ملا (صاحب) مکہ مکرمہ کے حج کے لئے روانہ ہوئے.ہندوستان میں سفر کرتے ہوئے انہوں نے ایک مقدس شخصیت کے بارہ میں سنا جو حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے بارہ میں تبلیغ کرتے تھے.اور کہتے تھے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے.
81 ملا ( صاحب ) اس مقدس شخصیت کو ملنے گئے.مقامی لوگوں نے ان کے بارہ میں عجیب و غریب امور بیان کئے.نبوت کے اس مدعی کے کلمات اتنا یقین دلانے والے تھے کہ ملا ( صاحب ) ان پر ایمان لے آئے اور ان کو یقین ہو گیا کہ جو کچھ وہ اپنے بارہ میں دعویٰ کرتے ہیں وہ درست ہے.یہ امر معلوم ہونے پر کہ ملا ( صاحب ) حج کے ارادہ سے جا رہے تھے ( حضرت ) نبی ایک مرتبہ ان کو ایک اندرونی کمرہ میں لے گئے اور وہاں اُن دونوں نے اکٹھے مکہ کی زیارت کی.حاجیوں کے ہجوم کو مسجد حرام میں دیکھا.اس کے صحن میں داخل ہوئے اور اس میں تمام قابل ملاحظہ مقامات دیکھے اور خانہ کعبہ پہنچنے تک تمام مسنون دعائیں Mr.Frank A.Martin لکھتے ہیں کہ یہ مسمریزم کے نتیجہ میں تھا یا ملا (صاحب) کے اس نظارہ کو دیکھنے کی کوئی اور وجہ تھی اس بارہ میں تو ہر شخص اپنا قیاس کر سکتا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ سزائے موت بھی ان کے اس یقین کو متزلزل نہیں کر سکا کہ ان کے ہادی ایک سچے نبی تھے اور یہ کہ واقعی انہوں نے مکہ مکرمہ کی زیارت کی تھی.کشفی واقعہ کے بارہ میں وضاحت 66 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس کشف کا مسٹر مارٹن نے ذکر کیا ہے اس کا ہو بہوذ کر تو سلسلہ کے لٹریچر میں نہیں مل سکا لیکن حضرت پیر سراج الحق نعمانی کی روایت میں ایک ملتے جلتے واقعہ کا ذکر آتا ہے.حضرت پیر صاحب نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی حصہ دوم میں لکھا ہے کہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: ہمیں بھی ایک بار حج کے روز کشف میں حج کا نظارہ دکھایا گیا یہاں تک کہ سب کی باتیں اور لبیک اور تسبیح و تحلیل ہم سنتے تھے.اگر چاہتے تو لوگوں کی باتیں لکھ لیتے.“ اس مقام پر ایک احمدی صحابی کی ایک رؤیا کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے.جناب غلام حیدر صاحب ولد میاں خدا بخش صاحب سکنہ احمد نگر ضلع گوجرانوالہ
82 کا بیان ہے کہ ۱۹۰۳ء میں وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے ، زیر تبلیغ تھے.اور احمدیت کی تعلیم سے کافی متاثر تھے.ان ایام میں انہوں نے رویا میں دیکھا کہ وہ ایک بزرگ کے ہمراہ اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں.کچھ عرصہ بعد ان کو ایک احمدی دوست نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو دکھایا تو وہ یہ معلوم کر کے حیران رہ گئے کہ یہ اسی بزرگ کی شکل ہے جن کے ساتھ انہوں نے حج کیا تھا.(۶۳) غلام حیدر صاحب کی یہ رویا ۱۹۰۳ ء کی ہے اور یہ وہی سال ہے جب حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب بھی ذوالحجہ کے مہینہ میں قادیان میں مقیم تھے.اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے جس کشفی واقعہ کا مسٹر مارٹن.اے.فرینک نے ذکر کیا ہے وہ بھی ۱۹۰۳ ء کا ہی بنتا ہے.یہ تمام تشریحات یا وضاحتیں خاکسار کی ذوتی ہیں.اصل حقیقت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے.(مرتب) صاحبزادہ محمد عبداللطیف صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واپس اپنے وطن جانے کی اجازت مانگنا اور حضور علیہ السلام کے ارشادات ۵ / مارچ ۱۹۰۳ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی زبان میں بعض ارشادات فرمائے تھے جن کا اردو تر جمہ اخبار الحکم اور البدر میں شائع ہوا.لکھا ہے کہ: ایک خادم نے حضرت اقدس سے رخصت طلب کی ان کا وطن یہاں سے دور دراز تھا اور ایک عرصہ سے آ کر حضرت اقدس کے قدموں میں موجود تھے.ان کے رخصت طلب کرنے پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ انسان کی فطرت میں یہ بات ہوتی ہے اور میری فطرت میں بھی ہے کہ جب کوئی دوست جدا ہونے لگتا ہے تو میرا دل غمگین ہوتا ہے کیونکہ خدا جانے پھر ملاقات ہو یا نہ ہو.اس عالم کی یہی وضع پڑی ہے.خواہ کوئی ایک سو سال زندہ رہے آخر پھر جدائی ہے.مگر مجھے یہ امر پسند ہے کہ عید الاضحیٰی نزدیک ہے وہ کر کے آپ جاویں.جب
83 تک سفر کی تیاری کرتے رہیں.باقی مشکلات کا خدا حافظ ہے“.(۶۴) 66 - ۶ / مارچ ۱۹۰۳ء بروز جمعه- مجلس قبل از عشاء جس صاحب نے کل حضرت اقدس سے رخصت طلب کی تھی ان سے مخاطب ہو کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ” یہی مناسب ہے کہ عید کی نماز کے بعد روانہ ہوں کیونکہ پھر سخت گرمی کا موسم آنے والا ہے.سفر میں بہت تکلیف ہوگی.میں نے جیسا آپ سے وعدہ کیا ہے دعا کرتا رہوں گا.مجھے کسی امیر یا بادشاہ کا خطرہ نہیں.میرا کام دعا کرنا ہے اسی طرح فرمایا ” جب آدمی سلوک میں قدم رکھتا ہے تو ہزار ہا بلا اس پر نازل ہوتی ہیں جیسے جنات اور دیو نے حملہ کر دیا ہے مگر جب وہ شخص فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں اب واپس نہ ہوں گا اور اسی راہ میں جان دے دوں گا تو پھر وہ حملہ نہیں ہوتا اور آخر کار وہ بلا ایک باغ میں متبدل ہو جاتی ہے اور جو اس سے ڈرتا ہے اس کے لئے وہ دوزخ بن جاتی ہے.اس کا انتہائی مقام بالکل دوزخ کا تمثل ہوتا ہے تا کہ خدا تعالیٰ اسے آزماوے.جس نے اس دوزخ کی پروانہ کی وہ کامیاب ہوا.یہ کام بہت نازک ہے.بجز موت کے چارہ نہیں“.(۶۵) سید احمد نور صاحب کا بیان ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب امیر حبیب اللہ خان سے چھ ماہ کی رخصت لے کر آئے تھے.جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واپسی کی اجازت کی درخواست کی تو حضور نے فرمایا کہ آپ کا ارادہ حج پر جانے کا تھا اور حج کا وقت تو گزر چکا ہے.آپ ایک سال اور قادیان ٹھہر جائیں اور آئندہ سال حج کر کے افغانستان واپس چلے جائیں.اس پر صاحبزادہ صاحب نے عرض کی کہ میں وطن واپس جا کر آئندہ سال حج کے لئے آ جاؤں گا.اس پر حضور نے ان کو اجازت دے دی - (۶۶)
84 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مدح میں صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب کا قصیدہ اخبار البدر و الحکم سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبزادہ صاحب نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مدح میں فارسی زبان میں ایک قصیدہ لکھا تھا جو یہاں درج کیا جاتا ہے.اس قصیدہ میں کتابت کی بے احتیاطی سے بعض غلطیاں رہ گئی ہیں.لاہور کے بعض صحابہ کی روایت ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے یہ قصیدہ لا ہور میں فی البدیہہ سنایا تھا.اور ان کی شہادت کے بعد اخبار الحکم والبدر میں شائع ہوا.نمونیہ چندا شعار درج ذیل ہیں : بسم الله الرحمن الرحيم نور شمع جمال نحمده ونستعينه ونصلى على رسوله الكريم العظيم نہ جائے حرف و نہ جائے مقال دوائے در داثقال عجب کہ احمد اطہر بہ ایں گزر آمد محمد لیست به گیسوئے معطر آمد عجب کہ احمد اطہر بہ ایں گزر آمد هلال ماه جبینش به ادب باید دید عجب مبارک اطہر ہماں قمر آمد محمد لیست به گیسوئے معطر آمد زحسن و ورع و جمالش ملک بحیرت ماند که آفتاب شریعت به بحر و بر آمد عجب کہ احمد اطہر بہ ایں گزر آمد
85 رخش زگلشن رضواں عرق می ریزد به مه رویان ارم داغ بر جگر آمد محمد لیست به گیسوئے معطر آمد ز برق تیغ جنپیش شرر همی بارد خور سماء على لا بجال خطر آمد عجب کہ احمد اطہر بہ ایں گزر آمد ز ظلم و ظلمت دوراں نجات ممکن نیست بجز لقائے جنبیش کہ معتبر آمد محمد لیست به گیسوئے معطر آمد (۶۷) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب کی قادیان سے افغانستان کو واپسی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: مولوی صاحب خوست علاقہ کا بل سے قادیان میں آ کر کئی مہینہ میرے پاس اور میری صحبت میں رہے.پھر بعد اس کے جب آسمان پر یہ امر قطعی طور پر فیصلہ پا چکا کہ وہ درجہ شہادت پاویں تو اس کے لئے یہ تقریب پیدا ہوئی کہ وہ مجھ سے رخصت ہو کر اپنے وطن کی طرف واپس تشریف لے گئے.(۶۸) اسی طرح فرمایا: '' اور عجیب بات یہ ہے کہ ان کے بعض شاگر د بیان کرتے ہیں کہ جب وہ وطن کی طرف روانہ ہوئے تو بار بار کہتے تھے کہ کابل کی زمین اپنی اصلاح کے لئے میرے خون کی محتاج ہے“.(۶۹) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب مع ایک گروہ کثیر الوداع کہنے کے لئے دور تک بٹالہ کی سڑک پر تشریف لے گئے.آخر جب حضرت صاحبزادہ صاحب رخصت ہونے لگے تو
86 وہ سڑک پر حضور کے قدموں میں گر پڑے اور جدائی کے غم کے مارے ان کی چیخیں نکل گئیں اور زار زار رونے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بڑی مشکل سے اٹھایا اور تسلی دی اور رخصت کیا.(۷۰) حضرت مولانا شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب صاحبزادہ صاحب واپس افغانستان جانے لگے تو وہ کہتے تھے کہ میرا دل یہ کہتا ہے کہ میں اب زندہ نہیں رہوں گا.میری موت آن پہنچی ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس ملاقات کو آخری ملاقات سمجھتے تھے.رخصت ہوتے وقت وہ حضور کے قدموں پر گر کر زار زار رونے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں اٹھنے کے لئے کہا اور فرمایا کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے.مگر وہ حضور کے قدموں پر گرے رہے.آخر آپ نے فرمایا الأمرُفَوق الادب اس پر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑی حسرت کے ساتھ رخصت ہوئے.(اے) جب صاحبزادہ صاحب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت ہوئے تو اس وقت سید احمد نور بھی موجود تھے.انہوں نے اس وقت حضور کی خدمت میں عرض کی کہ وہ تو حضور کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے قادیان میں ہی رہنا چاہتے ہیں.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تم صاحبزادہ صاحب کے ساتھ چلے جاؤ.بعد میں تم قادیان آ جاؤ گے.(۷۲) حاجی محمد صدیق صاحب پٹیالوی بیان کرتے ہیں : صاحبزادہ شہید عبداللطیف مرحوم جب قیام دار الامان سے واپس کا بل جانے لگے تو ان کی سواری کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رتھ منگوایا.حضور خدام کے ساتھ ان کو وداع کرنے کے لئے پیدل چلے اور خالی رتھ ساتھ آتا گیا.جب حضور نہر کی طرف پہنچے تو رتھ کو ٹھہرا لیا اور اس کے پاس کھڑے ہو کر صاحبزادہ صاحب سے گفتگو کر تے رہے.اس دوران میں صاحبزادہ صاحب نے عرض کی کہ مجھے مرنے کا تو کچھ فکر نہیں ہاں میرے لئے استقلال کی دعا فرمائیں تا اللہ تعالیٰ مجھے ثابت قدم رکھے.وہ باتیں کرتے جاتے تھے اور زار زار رور ہے تھے.اس دوران دفعہ حضور کے پاؤں پر گر پڑے.اس پر حضور خود جھکے اور شہید.
87 مرحوم کے دونوں شانوں کے نیچے اپنے دست مبارک ڈال کر انہیں اٹھایا اور فرمایا.صاحبزادہ صاحب ایں جائز نیست.ان کے اٹھنے پر حضور نے دعا کی اور انہیں رخصت فرمایا - (۷۳) میاں اللہ یا رصاحب ٹھیکیدا رسا کن بٹالہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو الوداع کہنے موڑ تک گئے تو واپسی پر ایک جو ہڑ کے پاس آ کر ٹھہر گئے اور اپنے اصحاب سے کہا کہ وہ شہزادہ صاحب کے خاتمہ بالخیر کے لئے دعا مانگیں.چنانچہ حضور نے ان کے لئے بڑی لمبی دعا کی.(۷۴) جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے حضرت صاحبزادہ صاحب کو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ عیدالاضحیٰ کے بعد قادیان سے روانہ ہوں.اس سال عید ار مارچ ۱۹۰۳ء کو ہوئی تھی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب قادیان السلام سے واپس اپنے وطن کی طرف اار مارچ کو یا اس کے بعد روانہ ہوئے تھے.(۷۵) جناب قاضی محمد یوسف صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف قادیان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت ہو کر براستہ لا ہور، کیمبل پور، کوہاٹ ،ٹل اپنے وطن خوست واپس گئے تھے.(۷۶) مولوی عبدالستار خان صاحب نے بیان کیا کہ جب صاحبزادہ عبداللطیف صاحب قادیان سے خوست واپس جا رہے تھے تو راستہ میں میں نے ان سے کہا کہ وہاں آپ کو قتل کر ڈالیں گے.اس پر آپ نے فرمایا ”من نہ میرم“ اور یہ بھی کہا ” موت بامن نہ آئید.جب آپ شہید ہو گئے تو رویا میں مجھے ان کی زیارت ہوئی.میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ تو کہتے تھے موت با من نہ آئید.انہوں نے جواب میں فرمایا ” کار ہائے خدا ازیں ہم عظیم است واقعه سنگساری کے متعلق میں نے دریافت کیا کہ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی فرمایا مجھے کوئی دکھ نہیں ہوا اور میں نے کوئی تکلیف محسوس نہیں کی.
88 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ مجھے خواب میں نظر آئے تو میں نے انہیں پہلے سے زیادہ خوش پایا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت کی ملاقات کا نتیجہ تھا.(۷۷) سید احمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب واپسی کے سفر میں قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہتے تھے.لاہور چند روز گمٹی بازار کی ایک مسجد میں ٹھہرے جو میاں چراغ الدین صاحب کے مکان کے پاس تھی.لاہور میں بعض لوگ آپ کو ملنے آئے.وہ چکڑالوی عقیدہ رکھتے تھے اور اپنے عقائد پیش کر کے آپ کی رائے دریافت کی.آپ نے فرمایا ایسا عقیدہ رکھنے والا مجنون ہے اور اگر قصداً ایسا عقیدہ کرتا ہے تو کافر ہے.لا ہور میں آپ نے بعض کتابیں خریدیں اور ان کی جلد میں بندھوا لیں.لاہور میں چند روز قیام کیا پھر وہاں سے بذریعہ ریل روانہ ہوئے.(۷۸) راستہ میں جہاں بھی قیام ہوتا تو جن لوگوں سے ملاقات ہوتی ان سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر ضرور کرتے.(۷۹) کوہاٹ سے بنوں کا سفر ٹم ٹم کے ذریعہ کیا.ٹم ٹم میں بھی قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہے.عصر کی نماز کا وقت ہوا تو اتر کر باجماعت نماز پڑھائی.اس دوران میں شدید بارش شروع ہو گئی لیکن آپ نے پرواہ نہ کی اور نماز پڑھتے رہے.خرم مقام میں ایک سرائے میں قیام کیا.وہاں آپ نے ایک بکری منگوا کر ذبح کی اور کھانا تیار کر وایا.خود بھی کھایا اور سرائے میں مقیم لوگوں کو بھی کھلایا.صبح آگے روانہ ہوئے یہاں تک کہ بنوں پہنچ گئے.بنوں میں آپ نے چند روز قیام فرمایا.واپسی کے سفر کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحب نے ہمیں بتایا کہ مجھے الہام ہوتا ہے کہ اذْهَبُ إِلَى فِرْعَوْنَ (۸۰) حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ : مولوی صاحب جب سرزمین علاقہ ریاست کابل کے نزدیک پہنچے تو علاقہ انگریزی میں ٹھہر کر بریگیڈیئر محمد حسین کو توال کو جو ان کا شاگرد تھا ایک خط لکھا کہ آپ امیر صاحب سے میرے آنے کی اجازت حاصل کر کے مجھے اطلاع دیں.تو امیر صاحب کے
89 پاس بمقام کا بل میں حاضر ہو جاؤں.بلا اجازت اس لئے تشریف نہ لے گئے کہ وقت سفرا میر صاحب کو یہ اطلاع دی تھی کہ میں حج کو جاتا ہوں.مگر وہ ارادہ قادیان میں بہت دیر تک ٹھہرنے سے پورا نہ ہو سکا اور وقت ہاتھ سے جاتا رہا.قبل اس کے کہ وہ سر زمین کا بل میں وارد ہوں اور حدو د ریاست کے اندر قدم رکھیں احتیاطاً قرین مصلحت سمجھا کہ انگریزی علاقے میں رہ کر امیر کا بل پر اپنی سرگزشت کھول دی جائے کہ اس طرح پر حج کرنے سے معذوری پیش آئی.انہوں نے مناسب سمجھا کہ بریگیڈیئر محمد حسین کو خط لکھا تا وہ مناسب موقعہ پر اصل حقیقت مناسب لفظوں میں امیر کے گوش گزار کر دیں اور اس خط میں یہ لکھا کہ اگر چہ میں حج کرنے کے لئے روانہ ہوا تھا مگر مسیح موعود کی مجھے زیارت ہوگئی اور چونکہ مسیح کے ملنے کے لئے اور اس کی اطاعت مقدم رکھنے کے لئے خدا اور سول کا حکم ہے اس مجبوری سے مجھے قادیان میں ٹھہرنا پڑا اور میں نے اپنی طرف سے یہ کام نہ کیا بلکہ قرآن اور حدیث کی رو سے اسی امر کو ضروری سمجھا.جب یہ خط بریگیڈیئر محمد حسین کو توال کو پہنچا تو اس نے وہ خط اپنے زانو کے نیچے رکھ لیا اور اس وقت پیش نہ کیا مگر اس کے نائب کو جو مخالف اور شریر آدمی تھا کسی طرح پتہ لگ گیا کہ یہ مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کا خط ہے اور وہ قادیان میں ٹھہرے رہے.تب اس نے وہ خط کسی تدبیر سے نکال لیا اور امیر صاحب کے آگے پیش کر دیا.امیر صاحب نے بریگیڈیئر محمد حسین کو تو ال سے دریافت کیا کہ کیا یہ خط آپ کے نام آیا ہے.اس نے امیر - کے موجودہ غیظ و غضب سے خوف کھا کر انکار کر دیا.مولوی صاحب شہید نے کئی دن پہلے خط کے جواب کا انتظار کر کے ایک اور خط بذریعہ ڈاک محمد حسین کو توال کو لکھا.وہ خط افسر ڈاکخانہ نے کھول لیا اور امیر صاحب کو پہنچا دیا.چونکہ قضاء و قدر سے مولوی صاحب کی شہادت مقدر تھی اور آسمان پر وہ برگزیدہ بزمرۂ شہداء داخل ہو چکا تھا اس لئے امیر صاحب نے ان کے بلانے کے لئے حکمت عملی سے کام لیا اور ان کی طرف خط لکھا کہ آپ بلا خطرہ چلے آؤ.اگر یہ دعوی سچا ہوگا تو میں بھی مرید ہو جاؤں گا.بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ خطا میر صاحب نے ڈاک میں بھیجا تھا یا دستی روانہ کیا تھا.بہر حال اس خط کو دیکھ
90 کر مولوی صاحب موصوف کا بل کی طرف روانہ ہو گئے اور قضا و قدر نے نازل ہونا شروع کر دیا‘ - (۸۱) اسی طرح فرمایا ”مولوی صاحب فرماتے تھے کہ مجھے بار بارالہام ہوتا ہے اذْهَبُ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنِّى مَعَكَ - اسْمِعُ وَ اَرى - وَأَنْتَ مُحَمَّدٌ مُعَذِّبَرٌ مُعَطَّرٌ، اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوتا ہے کہ آسمان شور کر رہا ہے اور زمین اس شخص کی طرح کانپ رہی ہے جو تپ لرزہ میں گرفتار ہو.دنیا اس کو نہیں جانتی یہ امر ہونے والا ہے.اور فرمایا کہ مجھے ہر وقت الہام ہوتا ہے کہ اس راہ میں اپنا سر دے دے اور دریغ نہ کر کہ خدا نے کابل کی زمین کی بھلائی کے لئے یہی چاہا ہے“.(۸۲) سیداحمد نور صاحب کی روایت ہے کہ آپ بنوں میں کچھ عرصہ قیام کر کے سید گاہ کی طرف روانہ ہوئے.دوڑ کے مقام تک ٹم ٹم میں سفر کیا.یہاں کے نمبر دار نے آپ کی آمد پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور آپ کی ضیافت کی.صبح سید گاہ سے کچھ آدمی گھوڑے لے کر استقبال کے لئے آئے وہاں سے سوار ہو کر وطن کی طرف روانہ ہوئے.(۸۳) وطن میں آمد اور رشتہ داروں کو تبلیغ جب حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب اپنے گاؤں سید گاہ کے قریب پہنچے تو آپ کے عزیز واقارب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ صاحبزادہ صاحب حج کر کے واپس آئے ہیں.آپ نے فرمایا کہ میں حج سے نہیں آیا بلکہ قادیان سے آیا ہوں جہاں ایک مقبول الہی مستجاب الدعوات شخصیت ہے جس نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور آپ لوگوں کو یہ خبر دیتا ہوں کہ وہ اپنے دعوی میں صادق ہے اس کا انکار نہ کرو بلکہ اسے تسلیم کر کے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جاؤ اور اس کی رحمتوں کے مور د اور وارث بن جاؤ.اس پر آپ کے رشتہ دار ناراض ہو گئے اور کہنے لگے اس شخص کی بابت ہم کو خبر ملی ہے کہ وہ کا فر ہے (نعوذ باللہ ) اور
91 اس کے پیر بھی.قادیان جانا بھی کفر ہے.آپ ان باتوں سے باز آ جائیں ورنہ اگر یہ امیر حبیب اللہ خان کے علم میں آیا تو وہ ہم سب کو قتل کروادے گا.آپ نے فرمایا کہ مناسب ہے کہ تم یہ ملک چھوڑ کر بنوں چلے جاؤ وہاں ہماری زمین بھی ہے.یہ امر تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مامور کا انکار کرو ورنہ میں تمہارے لئے ایک ایسی بلا لایا ہوں کہ کبھی بھی تم اس سے بچ نہیں سکتے.میں تو اس بات سے ہرگز نہیں ٹلوں گا.یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے مجھے اس کا پہنچا نا لا زم ہے.میں نے اپنا نفس ، اپنا مال اور اپنی اولاد اس راہ میں دے دی ہے اور تم دیکھ لو گے کہ میں اور میرے اہل وعیال کس طرح اس راہ میں فدا ہوتے ہیں لیکن وہ لوگ آپ کی بات نہ مانے اور انکار کرتے رہے.(۸۴) علی الاعلان تبلیغ کا آغاز حضرت صاحبزادہ صاحب کی واپسی کی خبر سن کر اس علاقہ کے رؤسا آپ کو ملنے آۓ.آپ نے انہیں بھی بتایا کہ میں اس سال حج نہیں کر سکا بلکہ حج کو جاتے ہوئے ہندوستان میں ایک مقام قادیان میں گیا تھا وہاں ایک شخص نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے.اس کا فرمان ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور اس نے مجھے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے.میرا آنا خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہے.میں وقت مقررہ پر آیا ہوں.اسے دیکھا اور اس کے حالات معلوم کئے.اس کے تمام اقوال اور افعال قرآن مجید کے مطابق ہیں اور اس کا دعوی سچا ہے.تمہیں چاہئے کہ اس کو مان لو اس سے تمہیں فائدہ ہوگا.اگر نہ مانو تو تمہارا اختیار ہے میں تو مان چکا ہوں.اس پر حاضرین نے کہا کہ صاحبزادہ صاحب آپ یہ باتیں نہ کریں اس سے پہلے امیر عبدالرحمن خان نے ان باتوں کو پسند نہیں کیا تھا اور مولوی عبد الرحمن خان کو قتل کروا دیا تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ تمہارے دو خدا ہیں.جتنا خدا سے ڈرنا
92 چاہئے اتنا تم امیر سے ڈرتے ہو.کیا میں خدا کے حکم کو امیر سے ڈر کر نہ مانوں؟ کیا قرآن سے تو بہ کرلوں یا حدیث سے دستبردار ہو جاؤں.اگر میرے سامنے دوزخ بھی آ جائے تو اس بات سے ہرگز باز نہیں آؤں گا.خوست کے حاکم نے بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ یہ باتیں نہ کریں لیکن آپ دلیری سے اپنے مؤقف پر قائم رہے.(۸۵) آپ کے رشتہ داروں اور برادری نے اعلان کیا کہ ہم صاحبزادہ صاحب سے متفق نہیں.ان کے عقیدہ کے خلاف ہیں اور بیزاری کے خطوط بھی لکھے.اس پر آپ نے فرمایا کہ تم ایسا اعلان کرنے سے بچ نہیں سکتے.بہتر ہے کہ تم یہاں سے انگریزی علاقے میں بنوں چلے جاؤ اور نہ تمہیں میری وجہ سے بلا وجہ تکلیف ہوگی.لیکن برادری نے بیزاری کے اعلان کو کافی سمجھا اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے مشورہ کی پرواہ نہیں کی.(۸۶) سردار ان کا بل کو تبلیغی مخطوط حضرت صاحبزادہ صاحب نے سید گاہ سے سرداران کا بل کو پانچ تبلیغی خطوط تحریر کئے ان میں سے ایک خط مستوفی الملک بریگیڈئیر مرزا محمد حسین خان کوتوال کے نام تھا.دوسرا سردارشاه خاصی عبد القدوس خان اعتمادالدولہ کو لکھا.تیسرا مرزا عبدالرحیم خان دفتری کو.چوتھا حاجی باشی شاہ محمد کو اور پانچواں خط قاضی القضاۃ عبد العزیز کے نام تھا.ان خطوط میں آپ نے تحریر فرمایا کہ میں حج کے ارادہ سے روانہ ہوا تھا لیکن ہندوستان میں میری ملاقات حضرت مرزا غلام احمد صاحب سے ہوئی جو قادیان میں رہتے ہیں.انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت کے لئے بھیجا گیا ہوں اور قرآن شریف اور احادیث کے مطابق وقت مقررہ پر آیا ہوں.میں نے قادیان میں چند ماہ گزارے، ان کا دعویٰ سنا، ان کے افعال و اقوال کو غور سے دیکھا.میں نے انہیں
93 سچا پایا.ان کے ملنے سے مجھے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل ہوا.سو میں آپ کو آگاہ کرتا ہوں کہ یہ وہی ہے جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے کی پیشگوئی فرمائی تھی اور جس کے آنے کا لوگ انتظار کیا کرتے تھے.میں اس پر ایمان لے آیا ہوں.آپ کو بھی چاہئے کہ اسے مان لیں تا اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بیچ جائیں ، آپ کی بہتری اسی میں ہے.میرا فرض آپ کو یہ پیغام پہنچانا تھا.میں اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں.یہ خطوط آپ نے عبد الغفار خان صاحب برادر مولوی عبدالستار خان صاحب کو دئے جو انہیں لے کر بلا توقف کا بل روانہ ہو گئے.اس وقت سردی کا موسم تھا اور برف پڑی ہوئی تھی.مولوی عبدالغفار صاحب نے کابل جا کر یہ خطوط مکتوب الیہم کو پہنچا دئے.مولوی صاحب ان تمام لوگوں کو خوب جانتے تھے.مرزا محمد حسین خان کو توال نے مولوی عبدالغفار خان صاحب سے کہا کہ تم واپس چلے جاؤ خط کا جواب صاحبزادہ صاحب کو ڈاک کے ذریعہ بھیجوا دیا جائے گا.مولوی عبد الغفار خان صاحب نے واپس آ کر حضرت صاحبزادہ صاحب سے عرض کی کہ مجھے تو ان خطوط کا کوئی جواب نہیں دیا گیا.البتہ مرزا محمد حسین خان نے کہا تھا کہ تم واپس چلے جاؤ جواب ڈاک کے ذریعہ بھجوا دیا جائے گا.یہ سن کر حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو خطرہ معلوم ہوتا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب کی گرفتاری اور کا بل بلائے جانے کا فیصلہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے جو خطوط سرداران کابل کے نام بھجوائے تھے وہ تمام امیر حبیب اللہ خان اور سردار نصر اللہ خان کو پہنچا دئے گئے.امیر نے اپنے با اعتما دمولویوں کو بلا کر دکھائے اور ان کی رائے دریافت کی تو انہوں نے عرض کی کہ یہ مدعی جس کا ان خطوط میں ذکر ہے آدھا قرآن مانتا ہے اور آدھا نہیں مانتا اس لئے (نعوذ باللہ ) کا فر ہے اور جو شخص
94 اسے مانتا ہے وہ بھی کافر اور مرتد ہے.اور اگر مولوی عبد اللطیف صاحب کو ڈھیل دی گئی تو خطرہ ہے کہ اور بہت سے لوگ مرتد ہو جائیں گے.چنانچہ امیر حبیب اللہ خان نے خوست کے حاکم کے نام حکم جاری کیا کہ صاحبزادہ صاحب کو گرفتار کر کے پچاس سواروں کی حفاظت میں کا بل بھجوا دیا جائے.اس دوران انہیں کوئی ملنے نہ آئے اور نہ ان سے کلام کرے.ایک روز حضرت صاحبزادہ صاحب سیر کو جا رہے تھے اور سید احمد نور صاحب اور عبدالجلیل خان صاحب ساتھ تھے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور فرمایا کہ کیا تم ہتھکڑیوں کی طاقت رکھتے ہو.پھر سید احمد نور سے فرمایا کہ جب میں مارا جاؤں تو تم میرے مرنے کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں کرنا.اس پر سید احمد نور رو پڑے اور عرض کی کہ میں بھی تو آپ کے ساتھ ہی ہوں میں کب آپ سے جدا ہونگا.اس پر آپ نے فرمایا کہ نہیں نہیں جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت ہوئے تھے تو تم نے عرض کی تھی کہ حضور میں تو قادیان سے باہر نہیں جاسکتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تم سے فرمایا تھا کہ اس وقت تم صاحبزادہ صاحب کے ساتھ چلے جاؤ تم بعد میں قادیان واپس آ جاؤ گے.حضور نے یہ تمہارے بارہ میں ارشاد فرمایا تھا ، میرے بارہ میں تو نہیں فرمایا تھا.جب کچھ عرصہ تک آپ کے خطوط کا جواب نہ آیا تو بعض دوستوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر آپ یہاں سے جانا چاہیں تو ہم آپ کو اہل وعیال سمیت لے جائیں گے.اس وقت موقعہ ہے آپ بتوں چلے جائیں.آپ نے فرمایا کہ نہیں میں ہرگز نہیں جاؤں گا.مجھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا ہے اِذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ میں یہاں سے ہر گز نہیں جاؤں گا.(۸۷) سیدا حمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ گرفتاری سے ایک روز پیشتر صاحبزادہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں آپ نے تمام واقعات تحریر کئے اس خط میں جو القاب آپ نے حضور کے لئے استعمال کئے تھے وہ بہت اعلیٰ
95 اور شیریں تھے.مجھے اتنے پسند آئے کہ میں نے عرض کی کہ یہ خط مجھے دے دیں میں نقل کر کے واپس کر دوں گا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے خط اپنی جیب میں ڈال لیا اور مجھے فرمایا کہ یہ خط تمہارے ہاتھ میں آجائے گا - (۸۸) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: جب گھر میں تھے اور ا بھی گرفتار نہیں ہوئے تھے اور نہ اس واقعہ کی کچھ خبر تھی اپنے دونوں ہاتھوں کو مخاطب کر کے فرمایا اے میرے ہاتھو! کیا تم ہتھکڑیوں کی برداشت کر لو گے؟ ان کے گھر کے لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات آپ کے منہ سے نکلی ہے؟ تب فرمایا کہ نما ز عصر کے بعد تمہیں معلوم ہوگا کہ یہ کیا بات ہے.تب نماز عصر کے بعد حاکم کے سپاہی آئے اور گرفتار کر لیا.اور گھر کے لوگوں کو انہوں نے نصیحت کی کہ میں جاتا ہوں اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم کوئی دوسری راہ اختیار کر و.جس ایمان اور عقیدہ پر میں ہوں چاہئے کہ وہی تمہارا ایمان اور عقیدہ ہو.گرفتاری کے بعد راہ میں چلتے وقت کہا کہ میں اس مجمع کا نوشاہ ہوں“.(۸۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ”سنا ہے کہ جب ان کو پکڑ کر لے جانے لگے تو ان سے کہا گیا کہ اپنے بال بچوں سے مل لو ان کو دیکھ لو مگر انہوں نے کہا کہ اب کچھ ضرورت نہیں یہ ہے بیعت کی حقیقت اور غرض و غائیت - (۹۰) سید احمد نور صاحب کا بیان ہے کہ گرفتاری کے روز عصر کا وقت قریب آیا تو گورنر نے پچاس سوار بھجوائے جو یکے بعد دیگرے سید گاہ آنے لگے.حضرت صاحبزادہ صاحب مسجد میں آئے اور نماز عصر پڑھائی.نماز کے بعد ان سواروں نے عرض کی کہ گورنر صاحب نے پیغام دیا ہے کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں.آپ خود آئیں گے یا میں حاضر ہو جاؤں.آپ نے فرمایا نہیں وہ ہمارے سردار ہیں میں خودان کے پاس چلتا ہوں.آپ نے اپنا گھوڑا منگوایا لیکن گورنر کے بھجوائے ہوئے سواروں میں ایک اپنے گھوڑے سے اتر پڑا اور گھوڑا آپ کو سواری کے لئے پیش کر دیا.
96 سوار ہونے سے پہلے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام خط مجھے دے دیا اور کوئی بات نہ کی.آپ سپاہیوں کے ساتھ روانہ ہوئے.میں بھی ساتھ ہولیا.جب گاؤں سے باہر نکلے تو مجھ سے باتیں کرنے لگے فرمایا کہ جب آپ مجھے ملے تھے تو میں بہت خوش ہوا تھا اور خیال آیا تھا کہ ایک باز میرے ہاتھ آ گیا ہے.اسی طرح میرے ساتھ گفتگو کر تے رہے.میں دور تک آپ کے ساتھ چلتا رہا پھر آپ نے فرمایا اب اپنے گھر چلے جاؤ.میں نے عرض کی میں آپ کی خدمت کے لئے ساتھ چلتا ہوں.آپ نے مجھے منع فرمایا اور کہا کہ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمُ اليَ التَّهْلُكَة - تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو.اس گاؤں سے اپنے گھر چلے جاؤ.اس پر میں آپ سے رخصت ہو گیا.(۹۱) صاحبزادہ سیدابوالحسن صاحب قدسی بیان کرتے ہیں کہ جب امیر حبیب اللہ خان کی طرف سے خوست کے حاکم عبد الرحمن خان کو حضرت صاحبزادہ صاحب کو گرفتار کر کے کابل بھجوانے کا حکم آیا تو اس نے آپ کو لکھا کہ آپ سے بات کرنی ہے.آپ چھاؤنی میں آ جائیں.چھاؤنی خوست سے چند میل کے فاصلہ پر ہے.یہ حکم سات آدمی لے کر آئے تھے.اس پر آپ نماز عصر پڑھنے کے لئے مسجد چلے گئے اور نماز سے فارغ ہو کر ان کے ساتھ روانہ ہوئے روانگی کے وقت رخصت ہونے کے لئے گھر نہ تشریف لے گئے بلکہ مسجد سے ہی روانہ ہو گئے.ایک آدمی کو کہہ کے گھر سے قرآن مجید اور چھڑی منگوا لی اور اپنا گھوڑا منگوانے کی ہدایت کی.حضرت صاحبزادہ صاحب خوست چھاؤنی میں گورنر سے ملے.اس نے آپ کو بتایا کہ آپ کے بارہ میں کابل سے حکم آیا ہے کہ آپ کو کوئی نہ ملے اور نہ آپ سے کلام کرے اس لئے آپ کو علیحدہ کمرہ دیا جاتا ہے.کمرہ پر پہرہ لگا دیا گیا.گورنر نے یہ رعایت برتی کہ جب آپ کے عزیز ورشتہ دار ملنے کو آتے تھے تو ان کو اجازت دے دی جاتی تھی.ایک روز آپ کے کچھ مرید ملنے آئے
97 اور عرض کی کہ ہم آپ کو اور آپ کے اہل وعیال کو یہاں سے نکال کر لے جائیں گے.گورنر ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا.ہماری تعداد زیادہ ہے لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے دین کی خدمت ضرور لے گا اس لئے تم ایسا کوئی منصوبہ نہ باندھو.یہ نہ ہو کہ اس جگہ بھی ہم سے زیادتی ہو.(۹۲) حضرت صاحبزادہ صاحب کے بڑے بیٹے صاحبزادہ محمد سعید جان صاحب جن کی عمر ۱۵/ ۱۶ سال تھی وہ اور آپ کے ایک غیر احمدی رشتہ دار صاحبزادہ سید مزمل صاحب حاکم خوست کو ملے اور حضرت صاحبزادہ صاحب سے ملنے کی اجازت چاہی.حاکم نے اجازت دے دی اور ایک کپتان کو مقرر کیا کہ وہ ملاقات کروا دے.وہ اندر گئے تو دیکھا کہ آپ ایک چھوٹے سے کمرے میں محبوس ہیں اور ہتھکڑی پڑی ہوئی ہے.آپ نہایت سکون اور تضرع کے ساتھ نماز ادا کر رہے ہیں.صاحبزادہ سید مزمل ایک بارسوخ سردار تھا.جب نماز سے فارغ ہوئے تو اس نے عرض کی کہ میں اس واسطے آیا ہوں کہ آپ کو قید سے نکلواؤں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ میرا یہاں سے نکالنا ناممکن ہے.صاحبزادہ مزمل نے کہا کہ آپ اس کی فکر نہ کریں.اگر آپ اجازت دیں تو میں حاکم خوست کو بتا کر علی الاعلان آپ کو نکلوا سکتا ہوں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ میں خود ہی نکلنا نہیں چاہتا.میں کابل جا کر امیر حبیب اللہ خان کو تبلیغ کرنا چاہتا ہوں اس لئے تم مجھے نکالنے کی کوشش نہ کرو.صاحبزادہ مزمل نے عرض کی کہ امیر آپ کی بات نہیں سنے گا.وہ آپ کو قتل کروا دے گا لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب نے اجازت دینے سے انکار کر دیا.(۹۳) اسی طرح وزیری قوم کا ایک سردار جو آپ کا مخلص معتقد تھا آپ کو ملنے آیا.اس نے عرض کیا کہ میرے لئے آپ کو رہا کرانا کوئی مشکل امر نہیں ہے.اگر آپ اجازت دے دیں تو میں آپ کو علی الاعلان اس قید سے نکال سکتا ہوں لیکن آپ نے اس سے بھی یہی فرمایا کہ میں یہ نہیں چاہتا.(۹۴)
98 خوست سے کا بل لایا جانا خوست کے گورنر عبدالرحمن خان کو یہ ڈر تھا کہ اگر حضرت صاحبزادہ صاحب کو فوری طور پر کا بل بھجوایا گیا تو شاید راستہ میں آپ کے مرید حملہ کر کے آپ کو چھڑا کر لے جائیں اس لئے اس نے آپ کو خوست کی چھاؤنی میں ہی زیر حراست رکھا.کچھ عرصہ کے بعد اس کی تسلی ہو گئی کہ حضرت صاحبزادہ صاحب خود ہی کا بل جانے پر آمادہ ہیں اور لوگوں کو اس امر سے منع کرتے ہیں کہ وہ آپ کو آزاد کروا ئیں تو اس نے چند محافظوں کے ساتھ آپ کو کا بل روانہ کر دیا.مولوی عبدالجلیل خان صاحب جو آپ کے خادمِ خاص تھے بھی آپ کے ہمراہ کا بل روانہ ہوئے.جو محافظ سوار آپ کے ساتھ کا بل گئے تھے وہ آپ کی بعض کرامات بیان کیا کرتے تھے.ان کا بیان تھا کہ دو مرتبہ حضرت صاحبزادہ صاحب ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے.بعد میں آپ نے فرمایا کہ میں اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ جا رہا ہوں تم مجھے میری مرضی کے خلاف زبردستی نہیں لے جا سکتے.چنانچہ آپ کے محافظ نہایت ادب اور احتیاط کے ساتھ آپ کو کابل لے گئے.حضرت صاحبزادہ صاحب کو کم و بیش ایک مہینہ یا ڈیڑھ مہینہ خوست کی چھاؤنی میں رکھا گیا تھا.(۹۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو راویوں نے بیان کیا ہے کہ جب شہید مرحوم کابل کے بازار سے گزرے تو گھوڑے پر سوار تھے اور ان کے پیچھے آٹھ سرکاری سوار تھے اور ان کی تشریف آوری سے عام طور پر کابل میں مشہور تھا کہ امیر صاحب نے اخوند زادہ صاحب کو دھوکہ دے کر بلا یا ہے.اب بعد اس کے دیکھنے والوں کا یہ بیان ہے کہ جب اخوند زادہ صاحب مرحوم بازار سے گزرے تو ہم اور دوسرے بہت سے بازاری لوگ ساتھ چلے گئے اور یہ بھی بیان کیا کہ آٹھ سرکاری سوارخوست سے ہی ان کے ہمراہ کئے گئے تھے.کیونکہ ان کے خوست میں پہنچنے سے پہلے حکم سرکاری ان کے گرفتار کرنے کے لئے حاکم خوست کے نام آچکا تھا.(۹۶)
99 60 حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی کا بل میں قید اور مافوق العادت استقامت جب حضرت صاحبزادہ صاحب کابل پہنچے تو پہلے ان کو سردار نصر اللہ خان نائب السلطنت کے پاس لے جایا گیا.اس نے بغیر کسی تحقیقات کے حکم دیا کہ آپ کا تمام سامان زاد راہ اور گھوڑا وغیرہ ضبط کر لیا جائے اور ارک یعنی قلعہ شاہی کے قید خانہ جو تو قیف خانہ کہلاتا تھا میں قید کر دیا جائے.آپ کے خادم خاص عبدالجلیل خان صاحب کو عام جیل میں قید کر دیا گیا - (۹۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.” جب امیر صاحب کے روبرو پیش کئے گئے تو مخالفوں نے پہلے سے ہی ان کے مزاج کو بہت کچھ متغیر کر رکھا تھا اس لئے وہ بہت ظالمانہ جوش سے پیش آئے اور حکم دیا کہ مجھے ان سے بُو آتی ہے ان کو فاصلہ پر کھڑا کرو.پھر تھوڑی دیر کے بعد حکم دیا کہ ان کو اس قلعہ میں جس میں خو دا میر صاحب رہتے ہیں قید کر دو اور زنجیر غراغراب لگا دو.یہ زنجیر وزنی ایک من چوبیس سیر انگریزی کا ہوتا ہے.گردن سے کمر تک گھیر لیتا ہے اور اس میں ہتھکڑی بھی شامل ہے.اور نیز حکم دیا کہ پاؤں میں بیٹری وزنی آٹھ سیر انگریزی کی لگا دو.پھر اس کے بعد مولوی صاحب مرحوم چار مہینہ قید میں رہے اور اس عرصہ میں کئی دفعہ ان کو امیر کی طرف سے فہمائش ہوئی کہ اگر تم اس خیال سے تو بہ کرو کہ قادیانی در حقیقت مسیح موعود ہے تو تمہیں رہائی دی جائے گی.مگر ہر ایک مرتبہ انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں صاحب علم ہوں اور حق و باطل کی شناخت کرنے کی خدا نے مجھے قوت عطا کی ہے، میں نے پوری تحقیق سے معلوم کر لیا ہے کہ یه شخص در حقیقت مسیح موعود ہے.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میرے اس پہلو کے اختیار کرنے میں میری جان کی خیر نہیں ہے اور میرے اہل وعیال کی بربادی ہے مگر میں اس وقت اپنے ایمان کو اپنی جان اور ہر ایک دنیوی راحت پر مقدم سمجھتا ہوں.شہید مرحوم نے نہ ایک دفعہ بلکہ قید
100 ہونے کی حالت میں بارہا یہی جواب دیا.اور یہ قید انگریزی قید کی طرح نہیں تھی جس میں انسانی کمزوری کا کچھ کچھ لحاظ رکھا جاتا ہے بلکہ ایک سخت قید تھی جس کو انسان موت سے بدتر سمجھتا ہے.اس لئے لوگوں نے شہید موصوف کی اس استقامت اور استقلال کو نہایت تعجب سے دیکھا.اور در حقیقت تعجب کا مقام تھا کہ ایسا جلیل الشان شخص کہ جو کئی لاکھ روپیہ کی ریاست کا بل میں جا گیر رکھتا تھا اور اپنے فضائل علمی اور تقویٰ کی وجہ سے گویا تمام سرزمین کا بل کا پیشوا تھا اور قریباً پچاس برس کی عمر تک تنختم اور آرام میں زندگی بسر کی تھی اور بہت سا اہل وعیال اور عزیز فرزند رکھتا تھا.پھر یکدفعہ وہ ایسی سنگین قید میں ڈالا گیا جوموت سے بدتر تھی اور جس کے تصور سے بھی انسان کے بدن پر لرزہ پڑتا ہے.ایسا نازک اندام اور نعمتوں کا پروردہ انسان وہ اس روح کے گداز کرنے والی قید میں صبر کر سکے اور جان کو ایمان پر فدا کرے.بالخصوص جس حالت میں امیر کابل کی طرف سے بار بار ان کو پیغام پہنچتا تھا کہ اس قادیانی شخص کی تصدیق دعویٰ سے انکار کر دو تو تم ابھی عزت سے رہا کئے جاؤ گے.مگر اس قوی الایمان بزرگ نے اس بار بار کے وعدہ کی کچھ بھی پرواہ نہ کی اور بار بار یہی جواب دیا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں ایمان پر دنیا کو مقدم رکھ لوں اور کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس کو میں نے خوب شناخت کر لیا اور ہر ایک طرح سے تسلی کر لی اپنی موت کے خوف سے اس کا انکار کر دوں.یہ انکار تو مجھ سے نہیں ہوگا.میں دیکھ رہا ہوں کہ میں نے حق پالیا اس لئے چند روزہ زندگی کے لئے مجھ سے یہ بے ایمانی نہیں ہوگی کہ میں اس ثابت شدہ حق کو چھوڑ دوں.میں جان چھوڑ نے کے لئے تیار ہوں اور فیصلہ کر چکا ہوں.مگر حق میرے ساتھ جائے گا.اس بزرگ کے بار بار کے یہ جواب ایسے تھے کہ سرزمین کا بل کبھی ان کو فراموش نہیں کرے گی اور کابل کے لوگوں نے اپنی تمام عمر میں یہ نمونہ ایمانداری اور استقامت کا کبھی نہیں دیکھا ہو گا.اس جگہ یہ بھی ذکر کرنے کے لائق ہے کہ کابل کے امیروں کا یہ طریق نہیں ہے کہ اس قد ر بار بار وعدہ معافی دے کر ایک عقیدہ کے چھڑانے کے لئے توجہ دلائیں.لیکن مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی یہ خاص رعایت اس وجہ سے تھی کہ وہ ریاست کا بل کا گویا ایک
101 باز و تھا اور ہزار ہا انسان اس کے معتقد تھے وہ امیر کا بل کی نظر میں اس قدر منتخب عالم فاضل تھا کہ تمام علماء میں آفتاب کی طرح سمجھا جاتا تھا پس ممکن ہے کہ امیر کو بجائے خود یہ رنج بھی ہو کہ ایسا برگزیدہ انسان علماء کے اتفاق رائے سے ضرور قتل کیا جائے گا اور یہ تو ظاہر ہے کہ آج کل ایک طور سے عنان حکومت کا بل کی مولویوں کے ہاتھ میں ہے اور جس بات پر مولوی لوگ اتفاق کر لیں پھر ممکن نہیں کہ امیر اس کے برخلاف کچھ کر سکے.پس یہ امر قرین قیاس ہے کہ ایک طرف اُس امیر کو مولویوں کا خوف تھا اور دوسری طرف شہید مرحوم کو بے گناہ دیکھتا تھا.پس یہی وجہ ہے کہ وہ قید کی تمام مدت میں یہی ہدایت کرتا رہا کہ آپ اس شخص قادیانی کو مسیح موعود مت مانیں اور اس عقیدہ سے تو بہ کریں تب آپ عزت کے ساتھ رہا کر دئے جاؤ گے.اور اسی نیت سے اس نے شہید مرحوم کو اس قلعہ میں قید کیا تھا جس قلعہ میں وہ آپ رہتا تھا تا متواتر فہمائش کا موقعہ ملتا ر ہے.(۹۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ان کی جب مخبری کی گئی اور ان کو امیر کے روبرو پیش کیا گیا تو امیر نے ان سے یہی پوچھا کہ کیا تم نے ایسے شخص کی بیعت کی ہے؟ تو اس نے چونکہ وہ ایک راستباز انسان تھا صاف کہا کہ ہاں میں نے بیعت کی ہے.مگر نہ تقلیداً اندھا دھند بلکہ علی وجہ البصیرۃ اس کی اتباع اختیار کی ہے.میں نے دنیا بھر میں اس کی مانند کوئی شخص نہیں دیکھا مجھے اس سے الگ ہونے سے اس کی راہ میں جان دے دینا بہتر ہے.(۹۹) سید احمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے قید خانہ سے اپنے اہل وعیال کو پیغام بھجوایا کہ انہیں کچھ رقم اور بعض ضرورت کی اشیاء بھجوا دی جائیں.سید احمد نور اس وقت اپنے گاؤں سے سید گاہ آئے ہوئے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب کے بیٹوں نے ان سے کہا کہ ابا نے خرچ کے لئے روپیہ منگوایا ہے کوئی لے جانے والا نہیں آپ لے جائیں.سید احمد نور نے کہا کہ ہاں میں لے جاؤں گا.چنانچہ وہ ہ روپیہ اور دیگر اشیاء لے کر کابل روانہ ہو گئے.سردی کا موسم تھا اور پہاڑی راستہ تھا بارش ہو رہی تھی.پیدل
102 ہی روا نہ ہو گئے.راستہ میں آٹھ کوس کے بعد اپنے ایک دوست کے ہاں ٹھہرے.صبح ہوئی تو آگے روانہ ہوئے.راستہ میں انہوں نے دیکھا کہ شدت سردی سے سینکڑوں اونٹ اور بھیٹر بکریاں مرے پڑے ہیں.جب غڑک کے پہاڑ پر پہنچے تو شام قریب تھی بارش اور اولوں کا زور تھا.انہوں نے ایک غار میں پناہ لی.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ بادل چھٹ گئے اور سورج نکل آیا تو آگے روانہ ہوئے.شام ہونے تک ایک گاؤں خوشے میں پہنچ گئے اور رات گاؤں کی مسجد میں بسر کی.اگلے روز کابل پہنچ گئے.سردار شاہ محمد حاجی باشی کو ملے جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے دوست تھے.ان کے ذریعہ روپیہ اور ضرورت کا سامان حضرت صاحبزادہ صاحب کو جیل میں بھجوا دیا.سید احمد نور دوروز کابل میں حاجی باشی صاحب کے پاس رہے پھر اپنے گاؤں میں واپس آگئے.(۱۰۰) جناب قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ جب حضرت صاحبزادہ صاحب ارک شاہی کے تو قیف خانہ میں زیر حراست تھے تو آپ کو کھانا سردار عبدالقدوس خان شاہ خاصی اور بریگیڈئیر مرزا محمد حسین خان صاحب کو توال کی طرف سے بھجوایا جاتا تھا.(۱۰۱) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب کا افغانستان کے علماء سے مباحثہ اور علماء کی ناکامی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” جب چار مہینے قید کے گزر گئے تب امیر نے اپنے رو برو شہید مرحوم کو بلا کر پھر اپنی عام کچہری میں تو بہ کے لئے فہمائش کی اور بڑے زور سے رغبت دی کہ اگر تم اب بھی قادیانی کی تصدیق اور اس کے اصولوں کی تصدیق سے میرے رو بروانکار کرو تو تمہاری جان بخشی کی جائے گی اور تم عزت کے ساتھ چھوڑے جاؤ گے.شہید مرحوم نے جواب دیا کہ یہ تو غیر ممکن ہے کہ میں سچائی سے تو بہ کروں.اس دنیا کے حکام کا عذاب تو موت تک ختم ہو جاتا ہے لیکن میں اس سے ڈرتا ہوں جس کا عذاب کبھی ختم نہیں ہوسکتا.ہاں چونکہ میں سچ پر ہوں اس لئے
103 چاہتا ہوں کہ ان مولویوں سے جو میرے عقیدے کے مخالف ہیں میری بحث کرائی جائے.اگر میں دلائل کے رو سے جھوٹا نکلا تو مجھے سزا دی جائے.راوی اس قصہ کے کہتے ہیں کہ ہم اس گفتگو کے وقت موجود تھے.امیر نے اس بات کو پسند کیا اور مسجد شاہی میں خان ملا خان اور آٹھ مفتی بحث کے لئے منتخب کئے گئے اور ایک لاہوری ڈاکٹر جوخود پنجابی ہونے کی وجہ سے سخت مخالف تھا بطور ثالث کے مقرر کر کے بھیجا گیا.بحث کے وقت مجمع کثیر تھا اور دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس بحث کے وقت موجود تھے.مباحثہ تحریری تھا.صرف تحریر ہوتی تھی اور کوئی بات حاضرین کو سنائی نہیں جاتی تھی...جب شاہزادہ مرحوم کی ان بدقسمت مولویوں سے بحث ہورہی تھی تب آٹھ آدمی بر ہنہ تلواریں لے کر شہید مرحوم کے سر پر کھڑے تھے‘ - (۱۰۲) میاں احمد نور کہتے ہیں کہ مولوی صاحب موصوف ڈیڑھ ماہ تک قید میں رہے اور پہلے ہم لکھ چکے ہیں کہ چار ماہ تک قید میں رہے یہ اختلاف روایت ہے.اصل واقعہ میں سب متفق ہیں.(۱۰۳) جناب قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ یہ مباحثہ جامع مسجد واقعہ بازار کتب فروشی کے مدرسہ سلطانیہ کے احاطے میں طے پایا تھا.آپ کے مقابل پر جو علماء تھے ان کے سرکردہ قاضی عبدالرزاق خان رئیس مدارس و ملائے حضور امیر اور قاضی عبدالرؤوف قندھاری تھے.مباحثہ کا سرپنچ اور منصف ایک شخص ڈاکٹر عبدالغنی اہل حدیث باشندہ جلال پور جٹاں ضلع گجرات مقرر ہوا تھا.ان دنوں میں کابل میں تین بھائی ڈاکٹر عبد الغنی ، مولوی نجف علی اور مولوی محمد چراغ موجود تھے.یہ تینوں مقربان امیر تھے اور مختلف عہدوں پر مقرر تھے ان کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بوجہ اہل حدیث سے تعلق رکھنے کے خاص بغض تھا کیونکہ حضور کے اول المکفرین اہل حدیث فرقہ کے لیڈر ہی تھے.انہوں نے اس موقعہ پر بہت سی غلط بیانیاں کر کے امیر کے کان بھرے.چند سال پہلے جلال آباد کے علاقے کا ایک مولوی پشاور آیا تھا.دوران گفتگو اس
104 نے بتایا کہ وہ اس مباحثہ میں موجود تھا.وہ بتاتا تھا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے دلائل زیادہ تر قرآن مجید اور سنت اللہ پر مبنی تھے اور مخالف علماء تفسیر میں اور اقوال سلف پیش کر سکتے تھے.اس وجہ سے وہ حضرت صاحبزادہ صاحب پر غالب نہ آ سکے.علماء کا علم بھی اتنا زیادہ نہ تھا جتنا حضرت صاحبزادہ محمد عبد اللطیف صاحب کا تھا.اس سے اس بات کی تصدیق جناب مغل باز خان رئیس بغدارہ نے بھی کی جو اس وقت مدرسہ سلطانیہ میں بطور طالبعلم موجود تھے.وہ بھی حضرت صاحبزادہ صاحب کے تبحر علمی کے قائل تھے اور بتاتے تھے کہ قاضی عبد الرزاق ملاء حضور امیر بھی اقرار کرتا تھا کہ ہمیں حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرح نہ تو قرآن مجید پر عبور ہے اور نہ مباحثات کا تجربہ ہے.(۱۰۴) صاحبزادہ سیدابوالحسن قدسی صاحب بیان کرتے ہیں کہ مباحثہ کے دوران ایک عالم جن کا نام غالباً مولوی احمد جان قندھاری تھا جب انہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے دلائل پر غور کیا تو وہ ان کی قوت اور برتری کے قائل ہو گئے اور احمدیت کی صداقت ان پر ظاہر ہوگئی اور انہوں نے فتنہ کے خوف سے کچھ عذرات پیش کر کے اپنے آپ کو مباحثہ سے الگ کر لیا - (۱۰۵) جب بحث کرنے والے علماء پر اپنی کمزوری واضح ہوگئی اور وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے سوالات کے جواب دینے سے عاجز آ گئے اور ان کے دلائل کا رد نہ کر سکے تو انہوں نے سردار نصر اللہ خان کو اطلاع دی کہ صاحبزادہ صاحب پر پورے طور پر کوئی الزام لگا نا مشکل ہے.اس نا کامی کو معلوم کر کے سردار نصر اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو اپنے پاس بلوایا.جب آپ وہاں تشریف لے گئے تو سردار نصر اللہ خان نے کہا کہ یہ شخص میرے دربار کو پلید کر رہا ہے اسے دور کھڑا کرو.اس پر سپاہیوں نے آپ کو زنجیروں سے پکڑ کر پیچھے پھینچ لیا.سردار نصر اللہ خان اٹھا اور دربار میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا پھر حاضرین سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ یہ شخص کہتا ہے کہ میں اگلے جہان سے آیا ہوں اور بتاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ
105 السلام آسمان پر نہیں ہیں وہ فوت ہو چکے ہیں.اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ میں تو آسمان سے نہیں آیا اگر میں وہاں سے آیا ہوتا تو تمہارے باپ کے بارہ میں خبر دیتا کہ وہ کس ہاویہ میں پڑا ہے.اس پر سردار نصر اللہ خان حضرت صاحبزادہ صاحب سے مخاطب ہوا کہ تم اس طرح مت کہو اور میرزا کی بات چھوڑ دوور نہ میں تمہیں مار دوں گا.اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی: فَتَمَنَّوُ الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِين - اس پر سردار نصر اللہ خان بولا کہ یہ شخص تو ابھی تک قرآن پڑھتا ہے اسے میرے دربار سے دور کرو.سردار نصر اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب پر کفر کا فتویٰ لگوانے کی بہت کوشش کی اور پراپیگنڈا کیا اور مختلف طریقوں سے امیر حبیب اللہ خان پر دباؤ ڈالتا اور اس کو ڈراتا رہا.سردار نے امیر سے کہا کہ یہ شخص جنوبی علاقوں میں بڑا اثر ورسوخ رکھتا ہے اگر اسے جلد قتل نہ کیا گیا تو افغانستان میں احمدیت پھیل جائے گی اور بالآ خر آپ کو افسوس ہو گا.امیر نے کہا کہ میں نے یہ معاملہ میزان التحقیقات میں بھجوا دیا ہے وہاں سے کاغذات آجائیں تو پھر فیصلہ کروں گا.اس پر سردار نصر اللہ خان نے کہا کہ اگر آپ اس کو ملزم قرار دینے کے لئے کاغذات کا انتظار کرتے رہے تو یہ سن لیں کہ جو حالات مجھے بتائے گئے ہیں ان کے مطابق نہ اس شخص پر کوئی الزام لگتا ہے اور نہ ہی اس پر کفر کا فتو ی لگایا جا سکتا ہے.اس پرا میر حبیب اللہ خان نے کہا کہ پھر اب کیا ہو گا.اس پر سردار نصر اللہ خان نے کہا کہ اگر سیاسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا اب بندوبست نہ کیا گیا تو بڑا نقصان ہوگا.(۱۰۶) سردار نصر اللہ خان کی مخالفت کی وجہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ صوبہ سرحد میں اخوند صاحب سوات ملا عبد الغفور کے دو مشہور مرید تھے.ایک کا نام ملا نجم الدین ہڈہ تھا جو مہمند علاقے میں
106 رہتے تھے اور دوسرے پیر مانڑ کی شریف سجادہ نشین علاقہ خٹک تھے جن کا نام ملا عبدالوہاب تھا.اگر چہ یہ دونوں اخوند صاحب سوات کے مرید تھے لیکن باہم اختلاف اور عداوت پیدا ہو گئی تھی.پیر صاحب مانڑ کی شریف کی یہ تعلیم تھی کہ چلم اور نسوار کا استعمال حرام ہے اور نماز میں تشہد میں رفع سبابہ درست نہیں.سرحد کے قبائلی جو اپنے زعم میں بے قصور انگریزوں کو قتل کرتے ہیں اور اسے جہاد قرار دیتے ہیں ان کا یہ فعل حرام ہے کیونکہ جہاد بالسیف مسلمان بادشاہ کے بغیر درست نہیں.اس کے بالمقابل ملا صاحب ہڑہ قبائلی قتل و غارت کو جو وہ انگریزوں کے خلاف کرتے تھے جہاد کے نام سے موسوم کرتے تھے اور لڑنے والوں کو غازی قرار دیتے تھے.انہوں نے رفع سبابہ کو اپنے مریدوں پر لازمی قرار دے دیا تھا اور چلم اور نسوار کے استعمال کو حرام نہیں قرار دیتے تھے.ان دونوں پیروں کے اختلافات باہمی عداوت اور قتل و غارت تک پہنچ گئے اور اس کا اثر سوات، بنیر ، باجوڑ ، علاقہ مہمند ، آفریدی و خٹک تک پہنچ گیا اور افغانستان میں بھی ان اختلافات نے خصومت کی شکل اختیار کر لی.سردا ر نصر اللہ خان کا تعلق ملا صاحب ہڑہ سے تھا کیونکہ وہ بھی انگریزوں سے جنگ و جہاد کا شائق تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب چونکہ احمدی تھے اور اس بناء پر ظالمانہ قتل و غارت کے مخالف تھے اس لئے سردار نصر اللہ خان حضرت صاحبزادہ صاحب کا مخالف ہو گیا اور ان کو نقصان پہنچانے کے لئے تاک میں رہتا تھا.(۱۰۷) سردار نصر اللہ خان کے اصرار اور دباؤ میں آکر دو ملا حضرت صاحبزادہ صاحب کے خلاف فتویٰ دینے پر آمادہ ہو گئے.ان کے نام قاضی عبدالرزاق ملائے حضور امیر اور قاضی عبدالرؤوف قندھاری تھے.ان ملانوں نے اپنے فتوی میں یہ لکھا کہ اس سے قبل عبدالرحمن نام ایک شخص کو امیر عبدالرحمن خان نے قتل کروایا تھا اس پر بھی یہی الزام تھا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مرید ہے جن پر ہندوستان کے علماء نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے اس لئے اس کے ماننے والے بھی کافر ہیں لہذا ہم بھی یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ مولوی عبد اللطیف کو بھی کافر
107 سمجھا جائے اور اس جرم میں سنگسار کیا جائے - (۱۰۸) وو انگریز انجینئر Mr.Frank A.Martin جس کا پہلے ذکر آچکا ہے بیان کرتا ہے کہ: ” جب امیر حبیب اللہ خان کو ملا (صاحب) کے قادیان جانے اور ایک نئے عقیدہ کے قبول کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا علم ہوا تو اس کے حکم کے مطابق ان کو قید کر کے کابل لایا گیا جہاں امیر نے اس کے بیان لئے لیکن انہوں نے ایسے معقول جوابات دئے کہ وہ ان میں کوئی ایسا امر نہ پاسکا جو انہیں کافر اور واجب القتل ٹھہرا تا ہو.اس کے بعد ملا (صاحب) کو سردار نصر اللہ خان کے پاس بھیجوایا گیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا مذہبی علم ایک ملا سے بھی زیادہ ہے لیکن سردار نصر اللہ خان بھی ان پر کوئی الزام نہ قائم کر سکا.اس پر بارہ ملاؤں کی ایک جیوری قائم کی گئی جس نے آپ سے سوالات کئے لیکن یہ لوگ بھی کوئی ایسی بات معلوم نہ کر سکے جس کی بنا پر ان کو سزائے موت دی جاسکتی.اس کی رپورٹ امیر کو کی گئی لیکن اس نے کہا کہ اس شخص کو سزا دی جانی ضروری ہے.چنانچہ ان کو بعض ملاؤں کے پاس بھجوایا گیا جنہیں یہ ہدایت کی گئی کہ انہیں ایک کاغذ پر دستخط کرنے ہونگے جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ یہ شخص مرتد اور سزائے موت کا مستحق ہے لیکن ملاؤں کی اکثریت اس رائے پر قائم رہی کہ اس کا قصور ثابت نہیں ہوتا.اس پر ان ملاؤں میں سے دوکو سردار نصر اللہ خان نے سمجھا بجھا کر آمادہ کر لیا اور انہوں نے سزائے موت کا فتویٰ دے دیا.‘ (۱۰۹) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” جب عصر کا آخری وقت ہوا تو کفر کا فتویٰ لگایا گیا.اور آخر بحث میں شہید مرحوم سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر مسیح موعود یہی قادیانی شخص ہے تو پھر تم عیسی علیہ السلام کی نسبت کیا کہتے ہو.کیا وہ واپس دنیا میں آئیں گے یا نہیں.تو انہوں نے بڑی استقامت سے جواب دیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اب وہ ہرگز واپس نہیں آئیں گے.قرآن کریم ان کے مرنے اور واپس نہ آنے کا گواہ ہے.تب تو وہ لوگ ان مولویوں کی طرح جنہوں نے حضرت عیسی کی بات کو سن کر اپنے کپڑے پھاڑ دئے تھے گالیاں دینے لگے اور کہا اب اس
108 شخص کے کفر میں کیا شک رہا اور بڑی غضبناک حالت میں یہ کفر کا فتو ی لکھا گیا.(۱۱۰) امیر حبیب اللہ خان کی طرف سے ملانوں کے فتویٰ کی توثیق اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کئے جانے کا فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : بعد اس کے کہ فتویٰ کفر لگا کر شہید مرحوم قید خانہ میں بھیجا گیا.صبح روز دوشنبہ کو شہید موصوف کو سلام خانه یعنی خاص مکان در بارا میر صاحب میں بلایا گیا.اس وقت بھی بڑا مجمع تھا.امیر صاحب جب ارک یعنی قلعہ سے نکلے تو راستہ میں شہید مرحوم ایک جگہ بیٹھے تھے.ان کے پاس سے ہوکر گزرے اور پوچھا کہ اخوند زادہ صاحب کا کیا فیصلہ ہوا.شہید مرحوم کچھ نہ بولے.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان لوگوں نے ظلم پر کمر باندھی ہے مگر سپاہیوں میں سے کسی نے - 66 کہا کہ ملامت ہو گیا یعنی کفر کا فتویٰ لگ گیا.(۱۱۱) اسی طرح آپ فرماتے ہیں : وہ فتویٰ کفر رات کے وقت امیر صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا اور یہ چالا کی کی گئی کہ مباحثہ کے کاغذات ان کی خدمت میں عمداً نہ بھیجے گئے اور نہ عوام پر ان کا مضمون ظاہر کیا گیا.یہ صاف اس بات پر دلیل تھی کہ مخالف مولوی شہید مرحوم کے ثبوت پیش کردہ کا کوئی رد نہ کر سکے.مگر افسوس امیر پر کہ اس نے کفر کے فتویٰ پر ہی حکم لگا دیا اور مباحثہ کے کاغذات طلب نہ کئے.حالانکہ اس کو چاہئے تو یہ تھا کہ اس عادل حقیقی سے ڈر کر جس کی طرف عنقریب تمام دولت و حکومت کو چھوڑ کر واپس جائے گا خود مباحثہ کے وقت حاضر ہوتا.بالخصوص جبکہ وہ خوب جانتا تھا کہ اس مباحثہ کا نتیجہ ایک معصوم بے گناہ کی جان ضائع کرنا ہے.تو اس صورت میں مقتضی خدا ترسی کا یہی تھا کہ بہر حال افتان و خیزاں اُس مجلس میں جاتا.اور نیز چاہئے تھا که قبل ثبوت کسی جرم کے اس شہید مظلوم پر یہ بختی روا نہ رکھتا کہ ناحق ایک مدت تک قید کے عذاب میں ان کو رکھتا اور زنجیروں اور ہتھکڑیوں کے اس شکنجہ میں اُس کو دبایا جاتا اور آٹھ -
109 سپاہی بر ہنہ شمشیروں کے ساتھ اس کے سر پر کھڑے کئے جاتے اور اس طرح ایک عذاب اور رعب میں ڈال کر اسکو ثبوت دینے سے روکا جاتا.پھر اگر اس نے ایسا نہ کیا تو عادلانہ حکم دینے کے لئے یہ تو اس کا فرض تھا کہ کا غذات مباحثہ کے اپنے حضور میں طلب کرتا.بلکہ پہلے سے یہ تاکید کر دیتا کہ کاغذات مباحثہ کے میرے پاس بھیج دینے چاہئیں.اور نہ صرف اس بات پر کفایت کرتا کہ آپ ان کا عذات کو دیکھتا بلکہ چاہئے تھا کہ سرکاری طور پر ان کا غذات کو چھپوا دیتا کہ دیکھو کیسے یہ شخص ہمارے مولویوں کے مقابل پر مغلوب ہو گیا اور کچھ ثبوت قادیانی کے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں اور نیز جہاد کی ممانعت میں اور حضرت مسیح کے فوت ہونے کے بارہ میں نہ دے سکا.‘ (۱۱۲) جناب قاضی محمد یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ : حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب کو مباحثہ کے اختتام کے بعد جامع مسجد بازار کتب فروشی سے ایک جلوس کی صورت میں روانہ کیا گیا.پا پیادہ چوک پل خشتی میں سے ہو کر بازار ارک شاہی میں سے گزر کر دروازہ نقار خانہ تک پہنچے اور شاہی قلعہ میں داخل ہوئے.جب انہیں امیر حبیب اللہ خان کے دربار میں لایا گیا تو مولویوں اور عوام کا جم غفیر موجود تھا.سردار نصر اللہ خان نے دریافت کیا کہ کیا فیصلہ ہوا.اس پر لوگوں نے شور مچایا کہ صاحبزادہ ملامت شد امیر حبیب اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے کہا کہ مولویوں کا فتویٰ تو کا فر قرار دئے جانے کا ہے اور سنگسار کرنے کی سزا تجویز کی گئی ہے اگر آپ کوئی صورت تو بہ کی پیدا کر لیں تو نجات مل سکتی ہے.اس موقعہ پر سردار نصر اللہ خان نے اپنے قلبی بغض و عناد کا مظاہرہ کیا اور خود علماء کا فتویٰ تکفیر در حجم پڑھ کر سنایا اور حاضرین سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ آپ اطمینان رکھیں امیر صاحب آپ کی مرضی اور علماء کے فتویٰ کی ہی تصدیق و تائید کریں گے مگر وہ چاہتے ہیں کہ بطور اتمام حجت صاحبزادہ عبداللطیف کو کسی قدر مہلت دے کر تو بہ کا موقعہ دیں.
110 اس وقت دربار میں ڈاکٹر عبدالغنی اور اس کے دو بھائی بھی موجود تھے.انہوں نے دل کھول کر احمدیت کی مخالفت کی اور جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا.امیر حبیب اللہ خان نے اس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب کو تو قیف خانہ بھجوا دیا‘ - (۱۱۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : امیر صاحب جب اپنے اجلاس میں آئے تو اجلاس میں بیٹھتے ہی پہلے اخوند زادہ صاحب مرحوم کو بلایا اور کہا کہ آپ پر کفر کا فتویٰ لگ گیا ہے.اب کہو کہ کیا تو بہ کرو گے یا سزا پاؤ گے تو انہوں نے صاف لفظوں میں انکار کیا اور کہا کہ میں حق سے تو یہ نہیں کر سکتا.کیا میں جان کے خوف سے باطل کو مان لوں.یہ مجھ سے نہیں ہو گا.تب امیر نے دوبارہ تو بہ کے لئے کہا اور تو بہ کی حالت میں بہت امید دی اور وعدہ معافی دیا.مگر شہید موصوف نے بڑے زور سے انکار کیا اور کہا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں سچائی سے تو بہ کروں.ان باتوں کو بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ ہم خود اس مجمع میں موجود تھے اور مجمع کثیر تھا.شہید مرحوم ہر ایک فہمائش کا زور سے انکار کرتا تھا اور وہ اپنے لئے فیصلہ کر چکا تھا کہ ضرور ہے کہ میں اس راہ میں جان دوں.تب اس نے یہ بھی کہا کہ میں بعد قتل چھ روز تک پھر زندہ ہو جاؤں گا.یہ راقم کہتا ہے کہ یہ قول وحی کی بناء پر ہوگا جو اس وقت ہوئی ہوگی.کیونکہ اس وقت شہید مرحوم منقطعین میں داخل ہو چکا تھا اور فرشتے اس سے.مصافحہ کرتے تھے.تب فرشتوں سے یہ خبر پا کر ایسا اس نے کہا.اور اس قول کے یہ معنی تھے کہ وہ زندگی جو اولیاء اور ابدال کو دی جاتی ہے چھ روز تک مجھے مل جائے گی اور قبل اس کے جو خدا کا دن آوے یعنی ساتواں دن میں زندہ ہو جاؤں گا.اور یادر ہے کہ اولیاء اللہ اور وہ خاص لوگ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں وہ چند دنوں کے بعد پھر زندہ کئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : و لا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احیاء یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندے ہیں.پس شہید مرحوم کا اسی مقام کی طرف اشارہ تھا.
111 وو...جب شہید مرحوم نے ہر ایک مرتبہ تو بہ کرنے کی فہمائش پر تو بہ کرنے سے انکار کیا تو امیر نے ان سے مایوس ہو کر اپنے ہاتھ سے ایک لمبا چوڑا کا غذ لکھا اور اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کیا اور اس میں یہ لکھا کہ ایسے کافر کی سنگسار کرنا سزا ہے تب وہ فتویٰ اخوند زادہ مرحوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا‘- (۱۱۴) بیان واقعہ ہائکہ شہادت مولوی صاحبزادہ عبدالطیف رئیس اعظم خوست غفر الله له سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: امیر نے حکم دیا کہ شہید مرحوم کے ناک میں چھید کر کے اس میں رسی ڈال دی جائے اور اسی رسی سے شہید مرحوم کو کھینچ کر مقتل یعنی سنگسار کرنے کی جگہ تک پہنچایا جائے.چنانچہ اس ظالم امیر کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا اور ناک کو چھید کر سخت عذاب کے ساتھ اس میں رتی ڈالی گئی تب اس رستی کے ذریعہ شہید مرحوم کو نہایت ٹھیٹھے ہنسی اور گالیوں اور لعنت کے ساتھ مقتل تک لے گئے.اور امیر اپنے تمام مصاحبوں کے ساتھ اور مع قاضیوں، مفتیوں اور دیگر اہل کاروں کے یہ درد ناک نظارہ دیکھتا ہوا مقتل تک پہنچا اور شہر کی ہزار ہا مخلوق جن کا شمار کرنا مشکل ہے اس تماشا کے دیکھنے کے لئے گئی.جب مقتل پر پہنچے تو شاہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر اس حالت میں جبکہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دئے گئے تھے امیر اُن کے پاس گیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے انکار کرے تواب بھی میں تجھے بچا لیتا ہوں.اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقعہ ہے جو تجھے دیا جاتا ہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر.تب شہید مرحوم نے جواب دیا کہ نعوذ باللہ سچائی سے کیونکر انکار ہوسکتا ہے اور جان کیا حقیقت ہے اور عیال واطفال کیا چیز ہیں جن کے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں مجھ سے ایسا ہرگز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا.
112 ’تب قاضیوں اور فقیہوں نے شور مچایا کہ کافر ہے، کا فر ہے، اس کو جلد سنگسار کر و.اس وقت امیر اور اس کا بھائی نصر اللہ خان اور قاضی اور عبدالاحد کمیدان یہ لوگ سوار تھے اور باقی تمام لوگ پیادہ تھے.” جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بارہا کہہ دیا کہ میں ایمان کو جان پر مقدم رکھتا ہوں تب امیر نے اپنے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤ کہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے.قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں آپ چلاویں.تب امیر نے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں.تب قاضی نے گھوڑے سے اتر کر ایک پتھر چلایا جس پتھر سے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی.پھر بعد اس کے بدقسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا.پھر کیا تھا اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر اُس شہید پر پڑنے لگے اور کوئی حاضرین میں سے ایسا نہ تھا جس نے اس شہید مرحوم کی طرف پتھر نہ پھینکا ہو.یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہید مرحوم کے سر پر ایک کو ٹھہ پتھروں کا جمع ہو گیا.پھرا میر نے واپس ہونے کے وقت کہا کہ یہ شخص کہتا تھا کہ میں چھ روز تک زندہ ہو جاؤں گا اس پر چھ روز تک پہرہ رہنا چاہئے.بیان کیا گیا ہے کہ یہ ظلم یعنی سنگسار کرنا ۱۴ جولائی کو وقوع میں آیا.اس بیان میں اکثر حصہ ان لوگوں کا ہے جو اس سلسلہ کے مخالف تھے جنہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ ہم نے بھی پتھر مارے تھے اور بعض ایسے آدمی بھی اس بیان میں داخل ہیں کہ شہید مرحوم کے پوشیدہ شاگرد تھے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس سے زیادہ دردناک ہے جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کیونکہ امیر کے ظلم کو پورے طور پر ظاہر کرنا کسی نے روا نہیں رکھا اور جو کچھ ہم نے لکھا ہے بہت سے خطوط کے مشترک مطلب سے ہم نے خلاصہ لکھا ہے.ہر ایک قصہ میں اکثر مبالغہ ہوتا ہے لیکن یہ قصہ ہے کہ لوگوں نے امیر سے ڈر کر اس کا ظلم پورا پورا بیان نہیں کیا اور بہت سی پردہ پوشی کرنی چاہی“.(۱۱۵)
113 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک گھنٹہ تک برابر ان پر پتھر برسائے گئے حتی کہ ان کا جسم پتھروں میں چھپ گیا مگر انہوں نے اف تک نہ کی ، ایک شیخ تک نہ ماری‘ - (۱۱۶) سید احمد نور صاحب کا بیان ہے کہ جب حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کرنے کے لئے لے جایا جار ہا تھا تو ہا تھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں.آپ راستہ میں تیزی سے اور خوش خوش جا رہے تھے.ایک مولوی نے پوچھا کہ آپ اتنے خوش کیوں ہیں ابھی آپ کو سنگسار کیا جانے والا ہے؟ - آپ نے فرمایا یہ ہتھکڑیاں نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا زیور ہے اور مجھے یہ خوشی ہے کہ میں جلد اپنے پیارے مولیٰ سے ملنے والا ہوں.(۱۱۷) حضرت صاحبزادہ صاحب کو کابل کے باہر شرقی جانب ہند وسوزان کے ایک میدان موسومه به سیاہ سنگ میں سنگسار کیا گیا تھا.(۱۱۸) جناب قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ جب امیر حبیب اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ پر لگائے گئے فتویٰ کفر اور سنگساری کی سزا کے کاغذ پر دستخط کر دئے تو سردار نصر اللہ خان نے کابل میں موجود ملاؤں کو اطلاع کروا دی اور وہ ارک شاہی کے سامنے جمع ہونے شروع ہو گئے.تب حضرت صاحبزادہ صاحب کو مقتل کی طرف لے جایا گیا.یہ ہجوم وزارت حربیہ کے سامنے سے گزر کر اس سڑک پر روانہ ہوا جو بالا حصار کو جاتی ہے.کابل کے شیر دروازہ سے گزر کر شہر سے باہر آئے.بالا حصار کا قلعہ کو ہ آسامائی پر واقعہ ہے.یہ قلعہ اس وقت بطور میگزین استعمال ہوتا تھا.اس کی جانب جنوب ایک پرانا قبرستان ہے جس میں افغانستان کے امراء ورؤسا کی قبریں ہیں.اس کے قریب حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کرنے کے لئے ایک گڑھا قریباً اڑھائی فٹ گہرا کھودا گیا جس میں حضرت صاحبزادہ صاحب کو گاڑ دیا گیا.گاڑے جانے کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا.حضرت صاحبزادہ صاحب پر پہلا پتھر سردار نصر اللہ نے چلایا.مگر ایک روایت یہ بھی
114 ہے کہ پہلا پتھر قاضی عبدالرزاق ملائے حضور نے پھینکا تھا اور اس کے ساتھ اس نے جوش میں آ کر کہا تھا کہ آج جو آدمی اس پر پتھر پھینکے گا وہ جنت میں مقام پائے گا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی پیشانی پر پہلا پتھر لگا تو آپ کا سر قبلہ رخ جھک گیا اور آپ نے یہ آیت پڑھی: اَنْتَ وَلِي فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الحِقْنِي بالصَّالِحين...آپ کی شہادت کے ار ربیع الاول ۱۳۲۱ھ مطابق ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۳ ء واقعہ ہوئی.(119) مکرم رحمت اللہ صاحب باغانوالے بنگہ ضلع جالندھر کی روایت ہے کہ: خاکسار دار الامان میں گیا ہوا تھا کہ نماز ظہر کے بعد مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اخبار وطن لا ہور میں حضرت مولوی عبداللطیف صاحب افغانی کو شہید کئے جانے کی خبر شائع ہوئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ اخبارا اکثر احتیاط کرتا ہے یعنی بالعموم غلط خبر شائع نہیں کرتا.اس پر آپ نے فرمایا کہ ابھی ہمارے اخبار اس پر کچھ شائع نہ کریں.انشاء اللہ ہم خود لکھیں گے“.(۱۲۰) حضرت صاحبزادہ صاحب کا مقام شہادت مختلف روایات میں جائے شہادت کا ذکر ہے.ایک روایت میں اسے ہند وسوزان بتایا گیا اور ایک روایت میں سنگ سیاہ کا میدان کہا گیا ہے.یہ دونوں مقامات ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں تھے.جناب قاضی محمد یوسف صاحب اگست ۱۹۳۴ء میں ظاہر شاہ کے زمانہ میں کا بل گئے تھے ان کی تحقیق درج ذیل ہے : کوہ آسامائی کے دامن میں شہر کابل واقع ہے.کابل شہر کے شیر دروازہ کے باہر بجانب پشاور آدھ میل کے فاصلہ پر جنوب کی طرف ایک ٹیلہ پر بالا حصار واقع ہے.اس قلعہ میں گزشتہ زمانہ میں امیر شیر علی رہا کرتا تھا.اس کے بعد انگریزی سفیر کی رہائش تھی.اس کو
115 افغانوں نے قتل کر دیا اور انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کر کے فتح حاصل کی تو انگریزی فوج نے اس قلعہ کو توڑ پھوڑ دیا.اس کے بعد یہ میگزین کے طور پر استعمال ہوتا رہا.اس کے جنوب میں ایک پرانا قبرستان ہے جس میں کابل کے امراء ورؤساء کی قبریں ہیں.اس جگہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کیا گیا تھا.(۱۲۱) - حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ جب حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کی خبر قادیان پہنچی تو اس سے ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت صدمہ پہنچا کہ ایک مخلص دوست جدا ہو گیا.اور دوسری طرف آپ کو خوشی ہوئی کہ آپ کے متبعین میں سے ایک شخص نے ایمان واخلاص کا یہ اعلیٰ نمونہ دکھا یا کہ سخت سے سخت دکھ اور مصائب جھیلے اور بالآ خر جان دے دی مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ چھوڑا - (۱۲۲) سید ناظر حسین صاحب ساکن کالو والی سیداں ضلع سیالکوٹ کا بیان ہے کہ انہوں نے اگست ۱۹۰۳ ء میں ماسٹر عبدالحق صاحب مرحوم کے ساتھ قادیان جا کر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت کی تھی.اس سے پہلے حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب کی شہادت کا واقعہ ہوا تھا اور آپ کی شہادت کا قادیان میں بہت چرچا تھا.اور یہ بات بھی مشہور تھی کہ امیر حبیب اللہ خان نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قتل کے لئے بھی بعض آدمی قادیان بھجوائے ہیں.اگر چہ حضور کا محافظ اللہ تعالیٰ تھا مگر حضور نے ہدایت دی ہوئی تھی کہ احتیا طا رات کو حضور کے گھر کی ڈیوڑھی میں دو آدمی پہرے کے لئے سویا کریں.چنانچہ ایک رات میں اور ماسٹر عبدالحق صاحب حضور کی ڈیوڑھی میں پہرے کی غرض سے سوئے تھے.(۱۲۳) شہادت کے بعد کا بل میں وباء ہیضہ اور بعض دیگر نشانات کا ظہور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: صبح ہوتے ہی کابل میں ہیضہ پھوٹ پڑا اور نصر اللہ خان حقیقی بھائی امیر حبیب اللہ
116 خان کا جو اصل سبب اس خونریزی کا تھا اس کے گھر میں ہیضہ پھوٹا اور اس کی بیوی اور بچہ فوت ہو گیا اور چارسو کے قریب ہر روز آدمی مرتا تھا.اور شہادت کی رات آسمان سرخ ہو گیا.(۱۲۴) ” سنا گیا ہے کہ جب شہید مرحوم کو ہزاروں پتھروں سے قتل کیا گیا تو انہیں دنوں میں وو سخت ہیضہ کا بل میں پھوٹ پڑا اور بڑے بڑے ریاست کے نامی اس کا شکار ہو گئے اور بعض امیر کے رشتہ دار اور عزیز بھی اس جہان سے رخصت ہوئے.‘ (۱۲۵) 66 انگریز انجینئر Mr.Frank A.Martin نے لکھا ہے کہ قتل کئے جانے سے پہلے ملا (صاحب) نے امیر کی موجودگی میں یہ پیشگوئی کی کہ اس ملک پر ایک بڑی تباہی آنے والی ہے جس کے نتیجہ میں امیر حبیب اللہ خان اور سردار نصر اللہ خان کو بھی دکھ پہنچے گا.جس روز ملا (صاحب) کو قتل کیا گیا اس دن اچانک شام کو نو بجے کے قریب آندھی کا ایک زبر دست طوفان آیا جو بہت زور شور سے آدھے گھنٹے تک جاری رہا پھر اچانک جس طرح شروع ہوا تھا تھم گیا.رات کے وقت اس طرح آندھی کا آنا غیر معمولی بات تھی.عام لوگ اس آندھی کے بارہ میں کہنے لگے کہ یہ ملا (صاحب) کی روح کے نکلنے کی وجہ سے ہوا ہے.اس کے بعد ہیضہ کی وباء آ گئی.سابقہ وباؤں کو مد نظر رکھ کر ہیضہ ابھی چار سال تک متوقع نہیں تھا.اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ہیضہ کی وباء بھی ملا ( صاحب) کی پیشگوئی کے مطابق آئی ہے.اسی وجہ سے امیر حبیب اللہ خان اور شہزادہ نصر اللہ خان شدید خوف میں مبتلا ہو گئے.انہیں یقین تھا کہ اب ان کی موت بھی آنے والی ہے.جب شہزادہ نصر اللہ خان کی ایک پیاری بیوی ہیضہ سے فوت ہوگئی تو وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور غم سے نیم پاگل ہو گیا.مقتول ملا ( صاحب) کے مریدوں کی بڑی تعدا د تھی اور وہ بہت رسوخ اور طاقت والے بھی تھے.جن دو ملاؤں نے ان کے قتل کئے جانے کا فتویٰ دیا تھا وہ بھی نہایت خوف کی حالت میں زندگی بسر کرنے لگے کیونکہ انہیں ان کے مریدوں کی جانب سے انتقام لئے جانے کا خوف رہتا تھا.ان میں سے ایک ملا کو ہیضہ ہوا اور وہ مرتے مرتے بچا.جب ۱۹۰۳ء میں وبا پھوٹی تو امیر حبیب اللہ خان نے اپنے والد امیر عبدالرحمن خان
117 کے طریق پر فوراً اپنا سامان یعنی فرنیچر اور قالین وغیرہ کابل سے باہر پغمان بھجوانا شروع کر دیا.اس کا ارادہ تھا کہ خود بھی اگلے روز کابل سے نکل جائے گا.جب کا بل شہر کے گورنر کو اس کے ارادہ کا علم ہوا تو وہ امیر کے پاس آیا کہ عام پھیلی ہوئی بے اطمینانی اتنی زیادہ ہے کہ اگر وہ اس موقعہ پر شہر سے باہر چلا گیا تو فوج اور رعایا بغاوت کر دے گی اور وہ پھر کبھی واپس نہ آ سکے گا.امیر نے گورنر کا مشورہ مان لیا اورا سے بہ امر مجبوری اپنے محل ارک میں ہی رہنا پڑا.اس نے اپنے آپ کو دو کمروں تک محدود کر لیا.جہاں صرف نصف درجن منظور نظر درباریوں اور نوکروں کو آنے کی اجازت تھی جو لوگ اسے ملنے آتے انہیں یہ اجازت نہ تھی کہ محل سے باہر نکلیں.اسے ڈر تھا کہ وہ باہر سے ہیضہ کا مرض لے آئیں گے.چونکہ امیر کابل سے باہر نہیں جا سکا تھا اسلئے سردار نصر اللہ خان کو بھی شہر میں اپنے محل میں رہنا پڑا.وہ اپنا اکثر وقت جائے نماز پر گزارتا تھا.(۱۲۶) مسٹرانکس ہملٹن اپنی کتاب ”افغانستان میں بیان کرتے ہیں کہ : ۱۹۰۳ء میں افغانستان کے شہر کابل اور شمال و مشرق کے صوبہ جات میں زور شور سے ہیضہ پھوٹ پڑا جو اپنی شدت کے لحاظ سے ۱۸۷۹ء کے وباء ہیضہ سے بدتر تھا.سردار نصر اللہ خان کی ایک بیوی اور بیٹا اور شاہی خاندان کے کئی افراد اور ہزا رہا باشندگان کا بل اس وباء سے لقمہ اجل ہوئے اور شہر میں افرا تفری پڑگئی.ہر شخص کو اپنی جان کا فکر لاحق ہو گیا اور دوسرے کے حالات سے بے فکر اور بے خبر ہو گیا.‘ (۱۲۷) وو حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انذاری و تبشیری پیشگوئیاں ” صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف مرحوم کا اس بے رحمی سے مارا جانا اگر چہ ایسا امر ہے کہ اس کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے وما رأينا ظلما اغيظ من هذا لیکن اس خون میں بہت
118 برکات ہیں کہ بعد میں ظاہر ہوں گے اور کابل کی زمین دیکھ لے گی کہ یہ خون کیسے کیسے پھل لائے گا.یہ خون کبھی ضائع نہیں جائے گا.پہلے اس سے غریب عبد الرحمن میری جماعت کا ظلم سے مارا گیا اور خدا چپ رہا مگر اس خون پر اب وہ چپ نہیں رہے گا اور بڑے بڑے نتائج ظاہر ہوں گے مگر ا بھی کیا ہے یہ خون بڑی بے رحمی کے ساتھ کیا گیا ہے اور آسمان کے نیچے ایسے خون کی اس زمانہ میں نظیر نہیں ملے گی.ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم شخص کو کمال بیدردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کر لیا.اے کا بل کی زمین تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا.اے بد قسمت زمین تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے‘ - (۱۲۸) میں خوب جانتا ہوں کہ جماعت کے بعض افراد ابھی تک اپنی روحانی کمزوری کی حالت میں ہیں یہاں تک کہ بعض کو اپنے وعدوں پر بھی ثابت رہنا مشکل ہے لیکن جب میں اس استقامت اور جانفشانی کو دیکھتا ہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبد اللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے اس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودہ ہوں جیسا کہ میں نے کشفی حالت میں واقعہ شہادت مولوی صاحب موصوف کے قریب دیکھا کہ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سرو کی کاٹی گئی اور میں نے کہا کہ اس شاخ کو زمین میں دوبارہ نصب کر دو تا وہ بڑھے اور پھولے.سو میں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا.سو میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جائے گی‘ - (۱۲۹) میں یقیناً جانتا ہوں کہ اب وقت آنے والا ہے کہ اس کی شہادت کی حکمت نکلنے والی ہے اور میں نے سنا ہے کہ اس وقت چودہ آدمی قید کئے گئے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ
119 عبداللطیف کو ناحق شہید کرایا گیا ہے اور یہ ظلم ہوا ہے، وہ حق پر تھا.اس پر امیر نے ان آدمیوں کو قید کر دیا ہے اور ان کے وارثوں کو کہا ہے کہ وہ ان کو سمجھائیں کہ ایسے خیالات سے وہ باز آ جائیں.مگر وہ موت کو پسند کرتے ہیں اور اس یقینی بات کو وہ چھوڑ نا نہیں چاہتے.اگر عبداللطیف شہید نہ ہوا ہوتا تو یہ اثر کس طرح پیدا ہوتا اور یہ رعب کس طرح پر پڑتا."یقیناً سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے کسی بڑی چیز کا ارادہ کیا ہے اور اس کی بنیا د عبداللطیف کی شہادت سے پڑی ہے.یہ موت موت نہیں یہ زندگی ہے اور اس سے مفید نتیجے پیدا ہونے والے ہیں...یہ نشان ہزاروں لاکھوں انسانوں کے لئے ہدایت اور ترقی ایمان کا موجب ہوگا....عبد اللطیف کے اس استقلال اور استقامت سے بہت بڑا فائدہ ان لوگوں کو ہو گا جو اس واقعہ پر غور کریں گے.چونکہ یہ موت بہت سی زندگیوں کا موجب ہونے والی ہے.اس لئے یہ ایسی موت ہے کہ ہزاروں زندگیاں اس پر قربان ہیں.عبد اللطیف کی موت پر جو موت نہیں بلکہ زندگی ہے تم کیوں خوش ہوتے ہو.آخر تمہیں بھی مرنا ہے.عبداللطیف کی موت تو بہتوں کی زندگی کا باعث ہو گی مگر تمہاری جان اکارت جائے گی اور کسی ٹھکانے نہ لگے گی.....یہ ہماری جماعت کے ایمان کو ترقی دینے کا موجب ہوگی.اس کے سوا اب یہ خون اٹھنے لگا ہے اور اس کا اثر پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے جو ایک جماعت کو پیدا کر دے گا.‘ (۱۳۰) یہ خون کبھی خالی نہیں جائے گا.اللہ تعالیٰ اس کے مصالح اور حکمتوں کو خوب وو جانتا ہے.اس خون کے بہت بڑے بڑے نتائج پیدا ہونے والے ہیں.‘ (۱۳۱) عجیب بات یہ ہے کہ ان کے بعض شاگرد بیان کرتے ہیں کہ جب وہ وطن کی طرف روانہ ہوئے تو بار بار کہتے تھے کہ کابل کی زمین اپنی اصلاح کے لئے میرے خون کی محتاج ہے.اور در حقیقت وہ سچ کہتے تھے کیونکہ سرزمین کابل میں اگر ایک کروڑ اشتہار شائع کیا جاتا اور دلائل قویہ سے میرا مسیح موعود ہونا ان میں ثابت کیا جاتا تو ان اشتہارات کا ہرگز ایسا اثر نہ ہوتا جیسا کہ اس شہید کے خون کا اثر ہوا.کا بل کی سرزمین پر یہ خون اس تخم کی مانند پڑا ہے جو تھوڑے عرصہ میں بڑا درخت بن جاتا ہے اور ہزار ہا پرندے اس پر اپنا بسیرا کر لیتے ہیں.(۱۳۲)
120 ” شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہو چکی.اب ظالم کا پاداش باقی ہے.انـه مـن يـات ربه مجرما فان له جهنم لايموت فيها و لا يحى - افسوس كه يه امیر زیر آیت من يقتل مومنا مُتَعَمِّدًا داخل ہو گیا.اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کر نالا حاصل ہے.(۱۳۳) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کی نعش کا پتھروں سے نکالا جانا ،نماز جنازہ اور تدفین سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: میاں احمد نور جو حضرت صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کے خاص شاگرد ہیں.۸ / نومبر ۱۹۰۳ ء کو مع عیال خوست سے قادیان پہنچے ان کا بیان ہے کہ مولوی صاحب کی لاش برا بر چالیس دن تک ان پتھروں میں پڑی رہی جن میں سنگسار کئے گئے تھے.بعد اس کے میں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر رات کے وقت ان کی نعش مبارک نکالی اور پوشیدہ طور پر شہر میں لائے اور اندیشہ تھا کہ امیر اور اس کے ملازم کچھ مزاحمت کریں گے مگر شہر میں وہائے ہیضہ اس قدر پڑ چکا تھا کہ ہر ایک شخص اپنی بلا میں گرفتار تھا اس لئے ہم اطمینان سے مولوی صاحب مرحوم کا قبرستان میں جنازہ لے گئے اور جنازہ پڑھ کر وہاں دفن کر دیا.یہ عجیب بات ہے کہ مولوی صاحب جب پتھروں میں سے نکالے گئے تو کستوری کی طرح ان کے بدن سے خوشبو آتی تھی اس سے لوگ بہت متاثر ہوئے.‘ (۱۳۴) سید احمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب انہیں اپنے گاؤں آئے ہوئے قریباً تین ماہ کا عرصہ ہو گیا تو ایک روز گاؤں کی مسجد میں تلاوت قرآن مجید کرتے ہوئے انہیں القاء ہوا: وعقر والناقة لو تسوّى بهم الارض لكان خيراًلهم - يعنی ان لوگوں نے (خدا کی ) اونٹنی کو مار دیا ہے مگر ان کی یہ حرکت اچھی نہ تھی.اگر زمین ان پر ہموار کر دی جاتی تو ان کے لئے بہتر ہوتا.
121 اس کی انہیں یہ تفہیم ہوئی کہ حضرت صاحبزادہ کو شہید کر دیا گیا ہے انہوں نے بعض لوگوں سے اس کا ذکر کیا لیکن انہوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ صاحبزادہ صاحب جیسے انسان کو قتل کر دیا جائے ان کا گاؤں جدلان نامی دریا کے کنارے پر واقعہ ہے اس کے قریب ایک جگہ مخیل ( ہاشم خیل) ہے جہاں پر کابل سے تاجر آتے جاتے ہیں سید احمد نور معلومات حاصل کرنے کے لئے مخیل گئے تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کر دیا گیا ہے اور اب تک ان کے جسم کے اوپر ایک درخت جتنا اونچا پھروں کا ڈھیر پڑا ہے.سید احمد نور صاحب نے یہ سن کر عزم کیا کہ وہ کا بل جائیں گے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے جسم کو ان پتھروں کے نیچے سے نکالیں گے خواہ اس کی پاداش میں ان کو بھی سنگسار کر دیا جائے وہ کابل کے ارادے سے روانہ ہوئے جب تخیل پہنچے تو مقامی حاکم کو ان کے ارادے کا علم ہو گیا اس نے ان کو بلوا کر کہا کہ تم فوراً اپنے گاؤں چلے جاؤ ورنہ تمہیں سخت سزا دی جائے گی پھر ان سے دو صد روپیہ کی ضمانت لی اور گاؤں واپس جانے کی ہدایت دے کر ان کو چھوڑ دیا.سید احمد نورا ایک دوسرے راستہ سے کابل کی طرف روانہ ہو گئے.(۱۳۵) سید احمد نور صاحب نے کابل پہنچ کر بعض دوستوں سے اپنے ارادہ کا ذکر کیا اور ان سے سنگساری کی جگہ دریافت کی انہوں نے بتایا کہ صاحبزادہ صاحب کو ہندوسوزان کے قریب سنگسار کیا گیا ہے.سید احمد نو ر اس جگہ گئے اور دیکھ کر واپس آگئے انہیں یہ خیال پیدا ہوا کہ معلوم نہیں کہ صاحبزادہ صاحب ان کی نعش کے نکالے جانے پر راضی بھی ہیں یا نہیں.انہوں نے رات کو دعا کی کہ اے مولا کریم میری راہنمائی فرما کہ صاحبزادہ صاحب اپنی نعش کے نکالے جانے پر راضی ہیں یا نہیں.انہوں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ایک کمرے میں ہیں.انہوں نے دروازہ کھولا اور سید احمد نور کو اندر بلا لیا وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے پاؤں دبانے لگے انہوں نے دیکھا کہ آپ کے پاؤں زخمی ہیں آنکھ کھلنے پر سید احمد نور نے اس کی یہ تعبیر مجھی کہ حضرت صاحبزادہ صاحب چاہتے ہیں کہ ان کی لاش پتھروں سے نکال لی جائے.
122 سید احمد نور یہ سوچتے رہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے آخر وہ ایک فوجی حوالدار سے ملے جو حضرت صاحبزادہ صاحب کا معتقد تھا وہ ان کی بات سن کر رو پڑا اور کہا کہ میں نے بہت دفعہ ارادہ کیا کہ لاش نکالوں لیکن میں اکیلا تھا مجھ میں اس کی طاقت نہ تھی اب آپ آگئے ہیں میں انشاء اللہ ضرور آپ کی مدد کروں گا.سید احمد نور نے حوالدار صاحب سے کہا کہ وہ کچھ آدمی اپنے ساتھ لے کر رات بارہ بجے مقام شہادت پر پہنچیں میں تابوت ، کفن اور خوشبو وغیرہ لے کر وہاں آ جاؤں گا.چنانچہ وہ ایک مزدور سے تابوت اٹھوا کر وقت مقررہ پر ایک قبرستان میں پہنچ گئے جو مقام شہادت کے قریب ہی تھا.ان دنوں ہیضہ کی وباء پھیلی ہوئی تھی ، لوگ کثرت سے مر رہے تھے.قبرستان میں میت کے بعد میت تدفین کے لئے لائی جاتی تھی افرا تفری کا عالم تھا اس لئے ان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ وہاں کیسے آئے ہیں اور یہ کہ تابوت میں کوئی لاش ہے یا نہیں.حوالدار نے آنے میں کچھ دیر کی یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی سید احمد نور نے سوچا کہ وہ اکیلے ہی پتھروں کو ہٹا کر لاش نکالتے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد حوالدار صاحب بھی کچھ لوگوں کو لے کر آ گئے.یہ سب لوگ تابوت لے کر مقام شہادت پر پہنچے.چاندنی رات تھی ایک آدمی کو پہرہ پر مقرر کیا اور باقی سب پتھر ہٹانے لگے یہاں تک کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی لاش نظر آنے لگی اس وقت اس میں سے نہایت تیز خوشبو آ رہی تھی یہ دیکھ کر حوالدار کے ساتھی کہنے لگے کہ شاید یہ وہی آدمی ہے جس کو امیر حبیب اللہ خان نے سنگسار کروایا تھا سید احمد نور نے کہا ہاں یہ وہی آدمی ہے یہ شخص اکثر قرآن شریف کی تلاوت کرتا رہتا تھا اور ذکر الہی میں مصروف رہتا تھا یہ وہی خوشبو ہے.جب نعش کو کفن پہنایا گیا تو سید احمد نور نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک پہاڑی کے پیچھے سے پچاس پیدل پہرہ دار اور ایک سوار گشت کرتے ہوئے آ رہے ہیں ان دنوں کا بل میں رات کے وقت پہرہ ہوتا تھا اور کسی کو باہر پھرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی اگر رات کو کوئی شخص باہر پھرتا نظر پڑتا تھا تو اسے قتل کر دیا جاتا تھا.سید احمد نور نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ پہرہ والے آ رہے ہیں یہاں سے ہٹ جاؤ.تب سب وہاں سے ہٹ کر چھپ گئے.تھوڑی دیر میں
123 پہرہ والے سڑک پر چلتے نظر آنے لگے وہ قلعہ بالا حصار ( میگزین ) تک گئے اور کچھ دیر کے بعد اسی سڑک سے شہر کی طرف واپس چلے گئے.تب میاں احمد نور اور ان کے ساتھی حضرت شہید مرحوم کی نعش کے پاس آئے اور اسے اٹھا کر تابوت میں رکھ دیا اس وقت سید احمد نور نے حضرت شہید مرحوم کے کچھ بال اور کپڑا تبرک کے طور پر لے لئے.تابوت بہت بھاری ہو گیا تھا جب اسے اٹھانے کی کوشش کی تو سب مل کر بھی نہ اٹھا سکے.سید احمد نور نے لاش کو مخاطب ہو کر کہا کہ جناب یہ بھاری ہونے کا وقت نہیں آپ ہلکے ہو جائیں اس کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اکیلے ہی تابوت اٹھا سکتے ہیں.لیکن حوالدار نے کہا کہ میں اٹھاتا ہوں.اس نے سید احمد نور کی پگڑی لی اور اس سے تابوت باندھ کر اسے اپنے کندھے پر ڈال لیا.وہاں سے وہ تابوت ایک مقبرہ میں لے گئے جو نز دیک ہی تھا اس جگہ چند فقیر رہتے تھے سید احمد نور نے حوالدار صاحب اور ان کے آدمیوں کو رخصت کر دیا اور خود ان فقیروں کے پاس چلے گئے ان سے کہا کہ ایک جنازہ آیا ہے اسے یہاں رکھنا ہے انہوں نے تسلی دی اور تابوت ان کے پاس رکھ دیا گیا حوالدار نے جاتے وقت کہا تھا کہ وہ صبح کسی سواری یا مزدوروں کا انتظام کرے گا تا کہ تابوت وہاں سے شہر لے جایا جا سکے.صبح ہو گئی لیکن حوالدار نہ آیا آخر سید احمد نور نے ان فقیروں میں سے ایک آدمی کو اجرت دے کر شہر بھجوایا کہ وہ مزدور تلاش کر کے لائے وہ فقیر چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد واپس آ گیا اور کہا کہ مزدور تو نہیں ملے شہر میں ہیضہ کی وباء کا زور ہے کثرت سے آدمی مر رہے ہیں میں ہی آپ کی مدد کرتا ہوں.فقیر نے سرہانے کی طرف سے جنازہ اٹھایا اور سید احمد نور نے پاؤں کی طرف سے اور شہر کی طرف روانہ ہوئے.وہ سبز کو جانے والی مشرقی سڑک سے شہر میں آئے جب لکڑ منڈی پہنچے تو کچھ مزدور مل گئے جنہوں نے جنازہ اٹھالیا شور بازار سے ہوتے ہوئے مقبرہ طاؤس آئے اس کے قریب ہی غلام جان کا مکان تھا وہاں سردار عبدالرحمن جان ابن سردار شیر میں دل خان موجود تھے سید احمد نور نے سردار عبد الرحمان جان سے پہلے سے بات کی ہوئی
124 تھی اور تمام پروگرام ان کے علم میں تھا.سید احمد نور نے ان کو اشارہ سے اپنی طرف بلایا اور جنازہ کے مقبرہ طاؤس میں بھجوائے جانے کا ذکر کیا.سردار عبدالرحمن جان نے کہا کہ آپ چلیں اور میرا انتظار کریں میں گھوڑے پر سوار ہو کر آتا ہوں سید احمد نور جنازہ اٹھوا کر مقبرہ طاؤس کے پاس ایک قبرستان میں لے گئے جو حضرت صاحبزادہ صاحب کا آبائی قبرستان تھا اور مزدوروں کو رخصت کر دیا تھوڑی دیر میں سردار عبد الرحمن جان بھی پہنچ گئے انہوں نے گھوڑا اپنے نوکر کے حوالہ کیا اور خود آگے بڑھے.سردار عبدالرحمن جان نے سرہانے کی طرف سے جنازہ اٹھایا اور پاؤں کی طرف سے سید احمد نور نے پکڑا اتنے میں حوالدار صاحب بھی آگئے اب ظہر کا وقت ہو گیا تھا.تینوں نے نماز جنازہ ادا کی سردار عبدالرحمن جان ابن سردار شیر میں دل خان امام بنے اور سید احمد نور اور حوالدار پیچھے کھڑے ہوئے نماز جنازہ کے بعد تدفین کر دی گئی مقبرہ والوں کو سردار عبدالرحمن جان نے کچھ رقم دی اور کہا کہ یہ ایک بزرگ تھے ہم انہیں امامتاً دفن کرتے ہیں اگر کوئی شخص ان کے بارہ میں دریافت کرتا ہوا آئے تو اسے قبر کا پتہ دے دینا.سردار عبدالرحمن جان کی والدہ صاحبہ بھی حضرت صاحبزادہ صاحب سے بہت عقیدت رکھتی تھی سردار عبد الرحمن جان کی ایک بہن امیر حبیب اللہ خان کی بیوی تھیں.سید احمد نور کا بل میں سردار صاحب کے مکان پر ایک ماہ کے قریب مقیم رہے.ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر حضرت صاحبزادہ صاحب کی لاش نکالے جانے کا امیر کو علم ہو جائے اور وہ کوئی کاروائی ان کے خلاف کرنا چاہے تو انہیں کابل میں ہی گرفتار کر لیا جائے ان کے اہل وعیال کو اس سلسلہ میں کوئی تکلیف نہ دی جائے.انہی دنوں میں سردار عبد الرحمن جان نے احمدیت قبول کر لی جنازہ کے چند روز کے بعد سردار صاحب نے دربار سے آکر بتایا کہ امیر حبیب اللہ خان کے پاس رپورٹ پہنچائی گئی ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی لاش پتھروں سے نکال لی گئی ہے لیکن اس نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی.
125 سردار صاحب اور ان کی والدہ محترمہ نے سید احمد نور سے بہت اچھا سلوک کیا ان کو جب علم ہوا کہ سید احمد نور قادیان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہوں نے ایک گھوڑا اور جائے نماز ان کو دیا کہ وہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سردار صاحب کی طرف سے بطور تحفہ پیش کر دیں.سید احمد نور نے جائے نماز تو لے لی اور گھوڑا نہ لیا.انہوں نے کہا کہ میں چھپ کر پہاڑوں میں سے جانے کا ارادہ رکھتا ہوں.سردار عبدالرحمن جان نے سید احمد نور کو ایک خط لکھ دیا کہ یہ میرا آدمی ہے اس کو تکلیف نہ دی جائے جب سید احمد نور کو تسلی ہو گئی کہ ان کی گرفتاری نہیں ہوگی تو وہ کا بل سے روانہ ہوئے.(۱۳۶) سید احمد نور صاحب کی کابل سے روانگی سردار عبدالرحمن جان صاحب اور ان کی والدہ محترمہ نے سید احمد نور صاحب کو سفر خرچ کے طور پر کچھ رقم دی انہوں نے بازار جا کر ایک خچر کرایہ پر لی اور خوست روانہ ہوئے جب ایک منزل طے کی تو دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب کے اہل وعیال اور رشتہ داروں کو قید کر کے کا بل لے جایا جا رہا ہے مستورات اور بچے بھی ساتھ تھے سید احمد نور جب ان کے پاس سے گزرے تو محافظ سپاہیوں نے ان کی خچر چھین لی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے اہل وعیال کی ضرورت کے لئے استعمال میں لے آئے ان کے متعلق سرکاری حکم یہ تھا کہ جس چیز کی ضرورت ہو راستہ میں بیگار کے طور پر حاصل کر لی جائے.سید احمد نور نے مصلحتا حضرت شہید مرحوم کے کسی عزیز یا رشتہ دار سے کوئی بات نہیں کی راستہ میں ایک جگہ بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد انہوں نے ملا میر و صاحب کو دیکھا جو مولوی عبدالستارخان صاحب معروف بہ بزرگ صاحب کے بھائی تھے وہ قافلہ کے پیچھے کچھ فاصلہ پر آ رہے تھے.سید احمد نور نے ان کو اشارہ سے بلایا اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت اور ان کی تدفین اور قبر کے متعلق بتایا اور یہ کہا کہ قبر کا مقام سردار عبدالرحمن جان سے دریافت کر لیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کے اہل و عیال کو اس وقت تک آپ کی شہادت کا علم نہیں
126 ہو ا تھا.ملا میر وصاحب اپنی محبت اور اخلاص میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے اہل وعیال کے ساتھ ہو لئے تھے ورنہ ان کی گرفتاری کا کوئی حکم نہ تھا.سید احمد نور پیدل اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے.شیخیل ( ہاشم خیل ) میں رات گزاری صبح علی خیل آئے جہاں چھاؤنی تھی اور مقامی حاکم سردار عطا محمد خان رہتا تھا اسے سردار عبد الرحمن جان کا خط دکھایا اور پھر اپنے گاؤں میں آگئے.- پندرہ میں دن کے بعد انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو بتایا کہ وہ اب قادیان جائیں گے پھر خدا معلوم کب واپس آئیں یا نہ آسکیں.آپ کی والدہ محترمہ اور بھائی سید صاحب نور صاحب ساتھ جانے کو آمادہ ہو گئے گاؤں کے نمبر دار کو پتہ لگا تو اس نے حاکم سردار عطا محمد خان کو اطلاع کر دی کہ یہ شخص اپنے رشتہ داروں سمیت قادیان جا رہا ہے اور بے دین ہو جائے گا.ظاہر یہ کرتا ہے کہ حج کرنے کو جاتا ہے یہ ہمارے گاؤں کے معزز لوگوں میں سے ہیں ان لوگوں کے جانے سے ہمارا گاؤں اجڑ جائے گا.حاکم نے کچھ سپاہی گرفتاری کے لئے بھجوائے اس وقت سید صاحب نور گھر پر نہیں تھے.سپاہی سید احمد نور اور ان کے چچا سید محمد نور کو گرفتار کر کے لے گئے.سردار عطا محمد خان کو چونکہ سید احمد نور صاحب سردار عبدالرحمن جان کا خط دکھا چکے تھے اس لئے اس نے ان کو گرفتار تو کر لیا لیکن کوئی سختی ان پر نہیں کی گئی حاکم نے سید محمد نور صاحب سے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے انہوں نے جواب دیا کہ میرا ارادہ تو کہیں جانے کا نہیں میرے متعلق کسی نے جھوٹی رپورٹ کر دی ہے.سید احمد نور صاحب نے بھی حاکم سے کہا کہ میرے چچا کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں رپورٹ تو میرے بارہ میں کی گئی ہے اس لئے میرے چا کو چھوڑ دیا جائے اس پر حاکم نے سید محمد نور صاحب کو رہا کر دیا.پھر حاکم نے سید احمد نور سے کہا کہ ان کے بارہ میں اسے اطلاع دی گئی ہے کہ وہ حج کو جا رہے ہیں حالانکہ حج کو نہیں بلکہ قادیان جا رہے ہیں اور اس طرح ان کا تمام خاندان قادیانی ہو جائے گا.حاکم کو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر اس امر کی رپورٹ کسی نے کا بل میں کر دی تو اس پر بھی سختی ہوگی.سید احمد نور نے حاکم سے کہا کہ اگر وہ حج کو جاتے تو جائیدا دفروخت کرتے
127 یا روپیہ حاصل کرنے کے لئے کوئی اور صورت کرتے یہ درست نہیں ، وہ حج کو نہیں جار ہے اور نہ ان کے پاس حج کے سفر کے اخراجات کے لئے کوئی رقم ہے اس بات کا حاکم پر اچھا اثر پڑا اور اس نے سید احمد نور کو بیٹھنے کو کہا اور انہیں چند روز علی خیل میں نظر بند رکھا کچھ آدمی آ کر انہیں ملے اور کہا کہ ہم تمہارے ضامن بننے کے لئے تیار ہیں تا کہ انہیں رہائی مل جائے سید احمد نور نے انہیں کہا کہ وہ ان کے ضامن نہ بنیں کیونکہ ان کا تو پختہ ارادہ قادیان جانے کا ہے ان کے جانے کے بعد ان کے ضامنوں کو بلا وجہ تکلیف ہوگی.انہوں نے کہا کہ میرے اردگرد اگر لوہے کی دیوار میں بھی ہوں تو وہ بھی مجھے راستہ دیں گی میں انشاء اللہ چلا جاؤں گا مگر اس طرح دھوکہ سے کسی کو ضمانت میں پھنسا کر نہیں جانا چاہتا.سید احمد نور صاحب کے یقین کی وجہ دراصل یہ تھی کہ وہ جب قادیان سے روانہ ہونے والے تھے تو انہوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں یہ عرض کیا تھا کہ وہ قادیان سے باہر نہیں جانا چاہتے تو حضور نے ان کو فرمایا تھا کہ اس وقت تم صاحبزادہ صاحب کے ساتھ چلے جاؤ تم بعد میں واپس قادیان آ جاؤ گے.علی خیل میں سید احمد نور صاحب کے بھائی سید صاحب نور بھی ان کو ملنے آئے انہیں سید احمد نور نے کہا کہ تم پہاڑوں میں سے ہو کر انگریزی علاقہ میں چلے جاؤ.میں بعد میں آ جاؤں گا مجھے کوئی چیز روک نہیں سکتی.سید احمد نور صاحب کی نظر بندی ایسی تھی کہ انہیں ایک کمرہ رہائش کے لئے دیا گیا تھا.ہتھکڑی وغیرہ نہیں لگائی گئی تھی.ایک روز وہ اپنے کمرے سے باہر نکلے.چھاؤنی میں ایک جگہ نماز پڑھی وہاں ایک فوجی جرنیل آیا اس نے سید احمد نور کو پہچان لیا اور ان سے چھاؤنی میں آنے کی وجہ دریافت کی سید احمد نور نے کہا کہ میں یہاں نظر بند ہوں سردار عطا محمد خان نے مجھے یہاں روکا ہوا ہے.اس پر اس جرنیل نے خفگی کا اظہار کیا کہ تمہارے جیسے نیک آدمی کو نظر بند رکھنا بہت بری بات ہے.دونوں نے چھاؤنی کی ایک مسجد میں نماز پڑھی.جرنیل نے سید احمد نور کو تحفہ چائے وغیرہ دی اور پھر وہ چلا گیا.
128 سید احمد نور صاحب عصر کے وقت چھاؤنی علی خیل سے نکلے اور شام کو اپنے گھر پہنچ گئے گھر والے ان کو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ کس طرح نظر بندی سے نکل آیا.سید احمد نور نے رشتہ داروں سے مشورہ کیا تو سب نے خوشی سے قادیان جانے کی اجازت دے دی یہ طے پایا کہ اسی رات کو نکل چلیں تا کہ حاکم کی طرف سے روک پیدا کر نے کی نوبت نہ آئے رات کو بارہ بجے کے قریب روانہ ہوئے اس وقت بعض آدمی باہر کام میں مصروف تھے انہوں نے دیکھ لیا اور نمبر دار کو اطلاع کر دی.گاؤں کے لوگ مسلح ہو کر نکل آئے اور ان کو جانے سے روک دیا اور کہا کہ جب اس کی خبر حکومت کو ملے گی تو ہم سب گرفتار کر لئے جائیں گے.ہم آپ کو نہیں جانے دیں گے.- سید احمد نور صاحب نے ان سے کہا کہ تم نے حاکم کو رپورٹ کرنی تھی سو وہ تم کر چکے ہو.اب ہمارے نکلنے سے تم پر کیا الزام آئے گا.میں تو اس ملک میں واپس نہیں آؤں گا سید احمد نور نے گاؤں والوں سے کہا کہ میرے باپ نے تمہیں دین سکھایا اور میں نے بھی تمہاری ضرورت پڑنے پر ہر طرح مدد کی اب اگر تمہارے رپورٹ کرنے پر حکومت حضرت شہید مرحوم کی طرح مجھے بھی مار دے گی تو تمہیں کیا فائدہ ہوگا.کافی دیر بحث ہوتی رہی لیکن وہ لوگ نہ مانے اور روکنے پر اصرار کرتے رہے اسی حالت میں سید احمد نور صاحب کو کشف ہوا وہ بیان کرتے ہیں کہ : میں نے دیکھا زمین مجھے کہتی ہے کہ تم جاؤ اگر تم کہو تو ان میں سے ایک ایک آدمی کو پکڑ لوں.پھر میں نے دیکھا کہ میرا گھر ، زمین ، ساز و سامان اور مال مویشی سب ایک طرف کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا ہمیں چھوڑ کر چلے جاؤ گے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ذات تھی پھر سب کچھ غائب ہو گیا اور محض اللہ تعالیٰ کی ذات باقی رہ گئی جب یہ حالت دور ہوئی تو دیکھا کہ گاؤں والے کھڑے ہیں میں نے ان کو پختہ یقین اور دھڑتے سے کہا کہ اب ہم ضرور جائیں گے ہمیں کوئی نہیں روک سکے گا.میری بات کا ان لوگوں پر بہت اثر ہوا اور نمبر دار میرے پاؤں پر گر پڑا اور بولا کہ بے شک تم لوگ چلے جاؤ مگر ہمارے خلاف بددعا نہ کرنا.میں نے ان سے کہا کہ اب
129 میں تمہیں اس شرط پر معاف کروں گا کہ تم سب مسلح ہو کر ہمارے ساتھ چلو اور اپنی حفاظت میں ہمیں سرحد پار کروا دو اس پر گاؤں والے بندوقیں لے کر ہمارے ساتھ چلے اور ہمیں افغانستان کی سرحد سے گزار دیا وہاں ہم نے ان کو رخصت کر دیا.(۱۳۷) انگریزی عملداری میں داخلہ اور قادیان کو روانگی انگریزی علاقہ میں آکر سید احمد نور نے قیام کیا ، آگ جلائی اور رات گزارنے کا اہتمام کیا وہ خود تو جاگتے رہے لیکن ان کے بھائی سید صاحب نور صاحب سو گئے.آنکھ کھلنے پر انہوں نے بتایا کہ خواب میں انہوں نے یہ الفاظ سنے ہیں ”وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا سید احمد نو رصا حب نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی خواب ہے.صبح آگے روانہ ہوئے اس سفر میں ان لوگوں کے ساتھ تھوڑا سا ضرورت کا سامان بستر وغیرہ ہی تھے باقی تمام اثاثہ اور سامان پیچھے چھوڑ آئے تھے راستہ میں ایک گاؤں آیا جہاں کا نمبر دار سید احمد نور کو جانتا تھا.اس نے اپنے پاس عزت و احترام سے ٹھہرایا.یہاں سے آگے روانہ ہوئے پاڑہ چنار پہنچے جہاں انگریزوں کی چھاؤنی تھی.یہاں پر ایک ہندوسید احمد نور کا دوست تھا اس کے پاس قریباً ایک ماہ ٹھہرے.سید احمد نور کے پاس تمام ہمراہیوں کے لئے ریل کے کرایہ کی رقم نہیں تھی اس لئے قادیان تک پیدل سفر کا ارادہ تھا.ڈاک کا پتہ بھی معلوم نہ تھا اس لئے قادیان خط نہ لکھ سکے لاہور میں وہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے واقف تھے ان کے نام خط لکھا کہ میں اہل وعیال سمیت پاڑہ چنار پہنچ گیا ہوں اس وقت سفر خرچ کے لئے رقم نہیں ہے روپیہ کا انتظام ہونے پر قادیان پہنچوں گا جب یہ خط ڈاکٹر صاحب کو ملا تو انہوں نے فوراً بذریعہ تار اتی (۸۰) روپے بھجوا دئے رقم ملنے پر سید احمد نور صاحب پاڑہ چنار سے روانہ ہوئے اور ۸/ نومبر ۱۹۰۳ء کو مع اہل و عیال قادیان پہنچ گئے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تمام حالات حضور کی خدمت
130 میں عرض کئے حضرت شہید مرحوم کے بال اور کچھ لباس کا ٹکڑا جو وہ ساتھ لائے تھے حضور کو دئے ان بالوں میں سے اس وقت بھی خوشبو آتی تھی.(۱۳۸) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی روایت ہے کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کے بعد ان کا کوئی مرید ان کے کچھ بال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لایا آپ نے وہ بال ایک کھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر اور اس کے اندر کچھ مشک رکھ کر اس بوتل کو سر بمہر کر دیا اور اس میں تاکہ باندھ کر اسے اپنے بیت الدعا کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیا اور یہ سارا عمل حضور نے ایسے طور پر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے یہ بال بیت الدعا میں اس غرض سے لٹکائے ہونگے کہ دعا کی تحریک ہوتی رہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ یہ بوتل کئی سال تک بیت الدعا میں لٹکی رہی لیکن اب ایک عرصہ سے نظر نہیں آئی - (۱۳۹) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کے تابوت کا کابل سے ان کے گاؤں سید گا و لا یا جانا اور وہاں پر تدفین جب حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب کی شہادت کو ایک سال کا عرصہ گزر گیا تو ان کے ایک ممتاز شاگر د ملا میر و اُن کا تابوت کا بل سے سید گاہ لے آئے اور وہاں دفن کر کے نامعلوم سی قبر بنادی.کچھ عرصہ گزرنے کے بعد خان عجب خان صاحب آف زیدہ ضلع پشاور کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے سید گاہ والوں کو پیغام بھجوایا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی قبر اچھی طرح بنائی جائے انہوں نے کچھ مالی مدد بھی کی چنانچہ آپ کے معتقدین نے ایک بڑی پختہ قبر تعمیر کر وادی.جب یہ بات مشہور ہوئی تو دور دراز سے لوگ زیارت کے لئے آنے لگے اور چڑھاوے چڑھنے لگے اس کی رپورٹ حکومت کا بل کو کی گئی تو سردار نصر اللہ خان نے گورنر سمت جنوبی سردار محمد اکبر خان خاصی کو حکم بھجوایا کہ صاحبزادہ صاحب کا تابوت وہاں سے نکلوا
131 لیا جائے چنانچہ گورنر نے سرکاری آدمی بھیجوا کر رات کو تابوت نکلوا لیا بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے خفیہ طور پر کسی اور جگہ دفن کر دیا گیا اور بعض بتاتے ہیں کہ اسے دریا میں پھینک دیا گیا.ملاً میر وصاحب کو جو کابل سے تابوت لے کر آئے یہ سزا دی گئی کہ ان کا چہرہ سیاہ کر کے اور گدھے پر بٹھا کر تمام گاؤں میں پھرایا گیا اس طرح اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کی قبر کو شرک کا ذریعہ بننے سے روک دیا - (۱۴۰) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات ’ شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہو چکی اب ظالم کا پاداش باقی ہے.افسوس کہ یہ امیر زیر آیت مَنْ يَقْتُلُ مُؤمِناً مُتَعَمِّدًا داخل ہو گیا اور ایک ذرہ خدا تعالیٰ کا خوف نہ کیا.اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کرنا لا حاصل ہے.ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں اور زن و فرزند کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے.”اے عبداللطیف ! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد ر ہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے.‘ (۱۴۱) شہید مرحوم نے مرکز میری جماعت کو ایک نمونہ دیا ہے اور درحقیقت میری جماعت ایک بڑے نمونہ کی محتاج تھی.اب تک ان میں سے ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جو شخص ان میں سے ادنی خدمت بجالاتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے بڑا کام کیا ہے اور قریب ہے کہ وہ میرے پر احسان رکھے.حالانکہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ اس خدمت کے لئے اس نے اس کو توفیق دی.بعض ایسے ہیں کہ وہ پورے زور اور پورے صدق سے اس طرف نہیں آئے اور جس قوتِ ایمان اور انتہا درجہ کے صدق وصفا کا وہ دعویٰ کرتے ہیں آخر تک اس پر قائم
132 نہیں رہ سکتے اور دنیا کی محبت کے لئے دین کو کھو دیتے ہیں اور کسی ادنیٰ امتحان کی بھی برداشت نہیں کر سکتے.خدا کے سلسلہ میں بھی داخل ہو کر ان کی دنیا داری کم نہیں ہوتی.لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ایسے بھی ہیں کہ وہ سچے دل سے ایمان لائے اور سچے دل سے اس طرف کو اختیار کیا اور اس راہ کے لئے ہر ایک دکھ اٹھانے کے لئے تیار ہیں.لیکن جس نمونہ کو اس جوانمرد نے ظاہر کر دیا اب تک وہ قو تیں اس جماعت کی مخفی ہیں.خدا سب کو وہ ایمان سکھا دے اور وہ استقامت بخشے جس کا اس شہید مرحوم نے نمونہ پیش کیا ہے.یہ دنیوی زندگی جو شیطانی حملوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے کامل انسان بننے سے روکتی ہے اور اس سلسلہ میں بہت داخل ہونگے مگر افسوس کہ تھوڑے ہیں کہ یہ نمونہ دکھائیں گے.(۱۴۲) ” جب میں اس استقامت اور جانفشانی کو دیکھتا ہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبد اللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے.کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے.اس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودہ ہوں.(۱۴۳) ” براہین احمدیہ کے صفحہ پانچ سو دس اور صفحہ پانچ سو گیارہ میں یہ پیشگوئیاں ہیں.وان لم يعصمك الناس يعصمك الله من عنده يعصمك الله من عنده و ان لم یعصمک الناس شاتان تذبحان و كلّ من عليها فان - ولا تهنوا ولا تحزنوا - اليس الله بکاف عبده - الم تعلم ان الله على كلّ شيءٍ قدير - و جئنا بک على هؤلاء شهيدا و فی الله اجرک و یرضی عنک ربک ویتم اسمک و عسی ان تحبوا شيئا و هو شر لكم و عسى ان تكرهوا شيئا وهو خير لكم و الله يعلم و انتم لا تعلمون
133 ترجمہ.اگر چہ لوگ تجھے قتل ہونے سے نہ بچائیں لیکن خدا تجھے بچائے گا.خدا تجھے ضرور قتل ہونے سے بچائے گا.اگر چہ لوگ نہ بچائیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ لوگ تیرے قتل کے لئے سعی اور کوشش کریں گے خواہ اپنے طور سے اور خواہ گورنمنٹ کو دھو کہ دے کر.مگر خدا ان کو ان کی تدبیروں میں نا مرا در کھے گا....خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر چہ میں تجھے قتل سے بچاؤں گا مگر تیری جماعت میں سے دو بکریاں ذبح کی جائیں گی.ہر ایک جوز مین پر ہے آخر فنا ہوگا.یعنی بے گناہ اور معصوم ہونے کی حالت میں قتل کی جائیں گی.یہ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں محاورہ ہے کہ بے گناہ اور معصوم کو بکرے یا بکری سے تشبیہ دی جاتی ہے...پیشگوئی شہید مرحوم مولوی محمد عبد اللطیف اور ان کے شاگر دعبدالرحمن کے بارہ میں ہے کہ جو براہین احمدیہ کے لکھے جانے کے بعد پورے تئیس برس بعد پوری ہوئی...بکری کی صفتوں میں سے ایک دودھ دینا ہے اور ایک اس کا گوشت ہے جو کھایا جاتا ہے.یہ دونوں بکری کی صفتیں مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی شہادت سے پوری ہوئیں کیونکہ مولوی صاحب موصوف نے مباحثہ کے وقت انواع اقسام کے معارف اور حقائق بیان کر کے مخالفوں کو دودھ دیا.گو بد قسمت مخالفوں نے وہ دودھ نہ پیا اور پھینک دیا اور پھر شہید مرحوم نے اپنی جان کی قربانی سے اپنا گوشت دیا اور خون بہایا تا مخالف اس گوشت کو کھاویں اور اس خون کو پیویں یعنی محبت کے رنگ میں.اور اس طرح اس پاک قربانی سے فائدہ اٹھا دیں اور سوچ لیں کہ جس مذہب اور جس عقیدہ پر وہ قائم ہیں اور جس پر ان کے باپ دادے مر گئے کیا ایسی قربانی کبھی انہوں نے کی؟ کیا ایسا صدق اور اخلاص کبھی کسی نے دکھلایا ؟ کیا ممکن ہے کہ جب تک انسان یقین سے بھر کر خدا کو نہ دیکھے وہ ایسی قربانی دے سکے؟ بے شک ایسا خون اور ایسا گوشت ہمیشہ حق کے طالبوں کو اپنی طرف دعوت کرتا رہے گا جب تک کہ دنیا ختم ہو اور چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ اس راقم اور اس کی جماعت پر اس ناحق کے خون سے بہت صدمہ گزرے گا اس لئے اس وحی کے ما بعد آنے والے فقروں میں تسلی اور عزا پرسی کے رنگ میں کلام نازل فرمایا جو ابھی عربی میں لکھ چکا ہوں.جس کا یہ ترجمہ ہے کہ اس مصیبت
134 اور اس سخت صدمہ سے تم غمگین اور اداس مت ہو کیونکہ اگر دو آدمی تم میں سے مارے گئے تو خدا تمہارے ساتھ ہے.وہ دو کے عوض ایک قوم تمہارے پاس لائے گا اور وہ اپنے بندہ کے لئے کافی ہے.کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے اور یہ لوگ جو ان دو مظلوموں کو شہید کریں گے ہم تجھ کو ان پر قیامت میں گواہ لائیں گے اور کہ کس گناہ سے انہوں نے شہید کیا تھا.اور خدا تیرا اجر دے گا اور تجھ سے راضی ہو گا اور تیرے نام کو پورا کرے گا یعنی احمد کے نام کو.جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کی بہت تعریف کرنے والا.اور وہی شخص خدا کی بہت تعریف کرتا ہے جس پر خدا کے انعام اکرام بہت نازل ہوتے ہیں.پس مطلب یہ ہے کہ خدا تجھ پر انعام اکرام کی بارش کرے گا.اس لئے تو سب سے زیادہ اس کا ثنا خواں ہوگا.تب تیرا نام جواحمد ہے پورا ہو جائے گا.پھر بعد اس کے فرمایا کہ ان شہیدوں کے مارے جانے سے غم مت کرو.ان کی شہادت میں حکمت الہی ہے اور بہت باتیں ہیں جو تم چاہتے ہو کہ وہ وقوع میں آویں حالانکہ ان کا واقع ہونا تمہارے لئے اچھا نہیں ہوتا اور بہت امور ہیں جو تم چاہتے ہو کہ واقع نہ ہوں حالانکہ ان کا واقع ہونا تمہارے لئے اچھا ہوتا ہے اور خدا خوب جانتا ہے کہ تمہارے لئے کیا بہتر ہے مگر تم نہیں جانتے.اس تمام وحی الہی میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف مرحوم کا اس بے رحمی سے مارا جانا اگر چہ ایسا امر ہے کہ اس کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے وَمَا رَأَيْنَا ظُلْمًا أغْيَظ مِنْ هذَا - لیکن اس خون میں بہت برکات ہیں کہ بعد میں ظاہر ہوں گے.(۱۴۴) مولوی عبداللطیف صاحب شہید مرحوم کا نمونہ دیکھ لو کہ کس صبر اور استقلال سے انہوں نے جان دی ہے.ایک شخص کو بار بار جان جانے کا خوف دلایا جاتا ہے اور اس سے بچنے کی امید دلائی جاتی ہے کہ اگر تو اپنے اعتقاد سے بظاہر تو بہ کر دے تو تیری جان نہ لی جاوے گی مگر انہوں نے موت کو قبول کیا اور حق سے روگردانی پسند نہ کی.اب دیکھو اور سوچو کہ اسے کیا کیا تسلی اور اطمینان خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہو گا کہ وہ اس طرح پر دنیا و مافیہا
135 پردیده دانسته لات مارتا ہے اور موت کو اختیار کرتا ہے.اگر وہ ذرا بھی تو بہ کرتے تو خدا جانے امیر نے کیا کچھ اس کی عزت کرنی تھی.مگر انہوں نے خدا کے لئے تمام عزتوں کو خاک میں ملایا اور جان دینی قبول کی.کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آخر دم تک اور سنگساری کے آخری لمحہ تک ان کو مہلت تو بہ کی دی جاتی ہے اور وہ خوب جانتے تھے کہ میرے بیوی بچے ہیں ، لاکھ ہا روپے کی جائداد ہے، دوست یار بھی ہیں.ان تمام نظاروں کو پیش چشم رکھ کر اس آخری موت کی گھڑی میں بھی جان کی پروا نہ کی.آخر ایک سرور اور لذت کی ہوا ان کے دل پر چلتی تھی جس کے سامنے یہ تمام فراق کے نظارے بیچ تھے.اگر ان کو جبر اقتل کر دیا جاتا اور جان کے بچانے کا موقعہ نہ دیا جاتا تو اور بات تھی مگر ان کو بار بار موقعہ دیا گیا با وجود اس مہلت ملنے کے پھر موت اختیار کرنی بڑے 66 ایمان کو چاہتی ہے.‘ (۱۴۵) وہ ایک اسوۂ حسنہ چھوڑ گئے ہیں...عبد اللطیف صاحب مقید تھے زنجیر میں ان کے ہاتھ پاؤں میں پڑی ہوئی تھیں، مقابلہ کرنے کی ان کو قوت نہ تھی اور بار بار جان بچانے کا موقعہ دیا جاتا تھا.یہ اس قسم کی شہادت واقع ہوئی ہے کہ اس کی نظیر تیرہ سوسال میں ملنی محال ہے.عام معمولی زندگی کا چھوڑ نا محال ہوا کرتا ہے.حالانکہ ان کی زندگی ایک تنعم کی زندگی تھی.مال ، دولت ، جاہ و ثروت سب کچھ موجود تھا.اور اگر وہ امیر کا کہنا مان لیتے تو ان کی عزت اور بڑھ جاتی.مگر انہوں نے ان سب پر لات مار کر اور دیدہ دانستہ بال بچوں کو کچل کر موت کو قبول کیا.انہوں نے بڑا تعجب انگیز نمونہ دکھلایا ہے.اور اس قسم کے ایمان کو حاصل کرنے کی کوشش ہر ایک کو کرنی چاہئے.جماعت کو چاہئے کہ اس کتاب ( تذکرۃ الشہا دتین ) - کو بار بار پڑھیں اور فکر کریں اور دعا کریں کہ ایسا ہی ایمان حاصل ہو.(۱۴۶) ” ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک وہ بزدلی کو نہ چھوڑے گی اور استقلال اور ہمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہر ایک راہ میں ہر مصیبت و مشکل کے اٹھانے کے لئے تیار نہ رہے گی وہ صالحین میں داخل نہیں ہو سکتی..
136 ’صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت کا واقعہ تمہارے لئے اسوۂ حسنہ ہے.تذکرۃ الشہا دتین کو بار بار پڑھو اور دیکھو کہ اس نے اپنے ایمان کا کیسانمونہ دکھایا ہے اس نے دنیا اور اس کے تعلقات کی کچھ بھی پروا نہیں کی.بیوی یا بچوں کا غم اس کے ایمان پر کوئی اثر نہیں ڈال سکا.دنیوی عزت اور منصب اور تنعم نے اس کو بزدل نہیں بنایا.اس نے جان دینی گوارا کی مگر ایمان کو ضائع نہیں کیا.عبد اللطیف کہنے کو مارا گیا یا مر گیا مگر یقینا سمجھو کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا.اگر چہ اس کو بہت عرصہ صحبت میں رہنے کا اتفاق نہیں ہوا.لیکن اس تھوڑی مدت میں جو وہ یہاں رہا اس نے عظیم الشان فائدہ اٹھایا.اس کو قسم قسم کے لالچ دیئے گئے کہ اس کا مرتبہ و منصب بدستور قائم رہے گا مگر اس نے اس عزت افزائی اور دنیوی مفاد کی کچھ بھی پروانہیں کی.ان کو بیچ سمجھا.یہاں تک کہ جان جیسی عزیز شئے کو جو انسان کو ہوتی ہے اس نے مقدم نہیں کیا بلکہ دین کو مقدم کیا جس کا اس نے خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.میں بار بار کہتا ہوں کہ اس پاک نمونہ پر غور کرو کیونکہ اس کی شہادت یہی نہیں کہ اعلیٰ ایمان کا ایک نمونہ پیش کرتی ہے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے جو اور بھی ایمان کی مضبوطی کا موجب ہوتا ہے کیونکہ براہین احمدیہ میں تئیس برس پہلے سے اس شہادت کے متعلق پیشگوئی موجود تھی.وہاں صاف لکھا ہے شَاتَانِ تُذْبَحَانِ وَ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ - کيا اس وقت کوئی منصو بہ ہو سکتا تھا کہ تئیس یا چوبیس سال بعد عبدالرحمن اور عبد اللطیف افغانستان سے آئیں گے اور پھر وہاں جا کر شہید ہوں گے...یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل ہے اور اپنے وقت پر آ کر یہ نشان پورا ہو گیا.اس سے پہلے عبدالرحمن جو مولوی عبد اللطیف شہید کا شاگرد تھا ، سابق امیر نے قتل کرایا محض اس وجہ سے کہ وہ اس سلسلہ میں داخل ہے اور یہ سلسلہ جہاد کے خلاف ہے اور عبدالرحمن جہاد کے خلاف تعلیم افغانستان میں پھیلاتا تھا.اور اب اس امیر نے مولوی عبداللطیف کو شہید کرا دیا.یہ عظیم الشان نشان جماعت کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
137 عيسى ان تكرهوا شيئاً وهُوَ خَيْرٌ لَكُم یہ ایک قسم کی تسلی ہے یعنی جب ایسا معاملہ ہو تو غم نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو تم پسند کرتے ہو اور وہ اچھی نہیں ہوتیں اور بہت سی ایسی ہوتی ہیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو اور وہ درحقیقت تمہارے لئے مفید ہوتی ہیں.(۱۴۷) ” ہمارے دو معزز دوست کا بل میں شہید ہو چکے ہیں.انہوں نے وہاں کوئی بغاوت نہیں کی ، خون نہیں کیا اور کوئی سنگین جرم نہیں کیا.صرف یہ کہا کہ جہاد حرام ہے...وہ نہایت نیک ، راستباز اور خاموش تھے.مولوی عبد اللطیف صاحب تو بہت ہی کم گو تھے مگر کسی خود غرض نے جا کر امیر کابل کو کہ دیا اور انہیں ان کے خلاف بھڑ کا یا کہ یہ شخص جہاد کا مخالف ہے اور آپ کے عقائد کا مخالف ہے.اس پر وہ ایسی بے رحمی سے قتل ہوئے کہ سخت سے سخت دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.اور اس امر پر غور کر کے کہ وہ کیا گناہ تھا جس کے بدلے میں وہ حل کئے گئے بے اختیار ہر شخص کو کہنا پڑے گا کہ یہ سخت ظلم ہے جو آسمان کے نیچے ہوا (ICA)-" عربی اشعار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وَ كَم مِّنْ عِبَادٍ آثَرونى بِصِدقهم عَلَى النفس حَتَّى خُوِّفُوا ثُمَّ دُمِّرُوا وَ مِنْ حِزينا عبداللطيف فَإِنَّهُ اراى نُورُ صِدْقٍ مِنْهُ خَلَقَ تَهَكَّرُوا جَزَى الله عَنّا دَائِمًا ذَلِكَ الفَتَى قَضَى نَحْبَهُ لِلَّهِ فَاذْكُر وَ فكر عِبَادٌ يكونُ كمبسرَاتٍ وُجُودُهُمْ إِذَا مَا أَتَوا فَالْغَيْثُ يَأْتِي وَ يَمُطر اتعلم ابدالاً سِوَاهُمْ فَإِنَّهُمْ رُمُوا بِالحِجَارَةِ فَاسْتَقَامُوا وَأَجْمروا ان عربی اشعار کا ترجمہ یہ ہے: (۱۴۹) بہت سے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جان پر مجھ کو اختیار کر لیا.یہاں تک کہ ڈرائے گئے اور قتل کئے گئے.اور ہمارے گروہ میں سے مولوی عبداللطیف ہیں کیونکہ اس نے
138 اپنے صدق کا نور ایسا دکھلایا کہ اس کے صدق سے لوگ حیران ہو گئے.خدا ہم سے اس جوان کو بدلہ دے.وہ اپنی جان خدا کی راہ میں دے چکا.پس سوچ اور فکر کر.یہ وہ بندے ہیں کہ مان سون ہوا کی طرح ان کا وجود ہوتا ہے.جب آتے ہیں پس ساتھ ہی بارش رحمت کی آتی ہے.کیا تو ان کے سوا کوئی اور لوگ ابدال جانتا ہے.کیونکہ وہ لوگ وہ لوگ ہیں جن پر پتھر چلائے گئے.پس انہوں نے استقامت اختیار کی اور ان کی جمعیت باطنی بحال رہی..“ اسی طرح فرمایا: جس سلسلہ میں عبداللطیف شہید جیسے صادق اور ملہم خدا نے پیدا کئے جنہوں نے جان بھی اس راہ میں قربان کر دی اور خدا سے الہام پا کر میری تصدیق کی ایسے سلسلہ پر اعتراض کرنا کیا یہ تقویٰ میں داخل ہے.ایک پارسا طبع صالح اہل علم کا ایک جھوٹے انسان کے لئے اس قدر عاشقانہ جوش کب ہو سکتا ہے؟ کس بہر کیسے سر ندید جاں نفشاند عشق است که این کار به صد صدق کناند عشق است که در آتش سوزاں بنشاند عشق است که برخاک مذلت غلطاند بیعشق دلے پاک شود من نه پذیرم عشق است کزیں دام به یک دم بر ہاند " صاحبزادہ مولوی عبداللطیف شہید نے اپنے خون کے ساتھ سچائی کی گواہی دی.عبداللطیف شہید مرحوم وہ صادق اور متقی خدا کا بندہ تھا جس نے خدا کی راہ میں نہ اپنی بیوی کی پروا کی نہ بچوں کی نہ اپنی جانِ عزیز کی.یہ لوگ ہیں جو حقانی علماء ہیں جن کے اقوال و اعمال پیروی کے لائق ہیں جنہوں نے اخیر تک خدا کی راہ میں اپنا صدق نباہ دیا.‘(۱۵۰) صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب شہید کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فارسی نظم کے چند اشعار آں جواں مرد و حبیب کردگار جوہر خود کرد آخر آشکار نقد جان از بہر جاناں باخته دل ازیں فانی سرا پرداخته
139 پر خطر هست این بیابان حیات صد ہزاراں اثر دہائش در چہات صد ہزاراں آتش تا آسماں صد ہزاراں سیل خونخوار و دماں صد ہزاراں فرسخے تا کوئے یار دشت پر خار و بلائش صد ہزار بنگر این شوخی ازاں شیخ عجم ایں بیاباں کرد طے از یک قدم را بنده دلدار خود افگنده پنے این چنین باید خدا اوئے دلدار از خود مُرده بود از پئے تریاق زہرے خورده بود تا نه نوشد جام این زہرے کسے کے رہائی یابد از مرگ آں جسے زیر این موت است پنہاں صدحیات زندگی خواهی بخور جام ممات ہیں کہ ایں عبداللطیف پاک مرد چوں پئے حق خویشتن برباد کرد تا کنون در سنگها افتاده است جاں بصدق آن داستان را داده است صدق و وفا ره این بود رسم و این بود مردانِ حق را انتہا از پئے آں زنده از خود فانی اند جاں فشاں بر مسلک ربانی اند فارغ افتاده ز نام و عزّ و جاه دل زکف و ز فرق افتاده کلاه دور تر از خود به یار آمیخته آبرو از بیر روئے ریخته ذکر شاں هم می دهد یاد از خدا صدق ورزان جناب کبریا در حضرت سید محمد عبد اللطیف کی شہادت کا ذکر سلسلہ احمدیہ کے اخبارات میں عنوان خون یعنی حضرت مولانا مولوی عبد اللطیف کی شہادت حضرت ناله نمیدانم که چون است ہمیں بینم که عنوانش به خون است (101) معزز ناظرین الحکم اس خونی خبر کے سننے کے لئے ہرگز تیار نہ ہو نگے جو ہم ان کو
140 سوگوار اور معاً امید افزا دل کے ساتھ سناتے ہیں.اگر چہ یہ خبر ایک عرصہ سے اخبارات میں شائع ہو چکی ہے.لیکن ہم نے مزید تحقیقات اور تصدیق کے خیال سے اس وقت تک خاموشی اختیار کی اور اب جبکہ پورے طور پر اس خبر کی تصدیق ہو چکی ہے.ہم اس کی اشاعت کی جرات کرتے ہیں.”عالی جناب اخوندزاده مولا نا مولوی عبد اللطیف صاحب، رئیس اعظم خوست شیخ اجل افغانستان اور سرآمدہ علماء کابل کے نام سے ہمارے ناظرین بخوبی واقف ہیں.مولوی صاحب موصوف اپنے علم و فضل تقوی وطہارت ، ورع اور خدا ترسی کے لئے کابل اور اس کے نواح میں ایک مشہور و معروف عالم تھے.یہاں تک کہ در بار کا بل میں آپ کی جو عزت اور عظمت تھی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ امیر عبدالرحمن کے مرض الموت میں وہ حاضر تھے اور موجودہ امیر صاحب کے سر پر تاج شاہی رکھتے وقت حاضر.غرض اپنے ملک، اپنی قوم ، اپنے فرمانروا کی نظر میں ہر طرح سے عزت اور خصوصیت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے ان کو حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت عطا فرمائی اور صدق دل اور پوری ارادت و نیاز مندی کے ساتھ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونے کی عزت بخشی..آپ حضرت امام الملۃ علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور حاضر بھی ہوئے.دارالامان میں وہ ایک مدت تک رہے اور حضرت اقدس کی پاک سے مستفید ہوئے...آخر آپ دار الامان سے ایک پاک جوش اور عقیدت کے ساتھ اپنے وطن مالوف کو تشریف لے گئے اور دربار کابل کے سر بر آوردہ اور ذمہ دار حکام اور آفیسرز کو انہوں نے وہ پاک اور راحت بخش پیغام پہنچایا جو زمینی نہیں بلکہ آسمانی تھا.اس پیغام میں چونکہ وہ شہزادہ امن (مهدی) کی دعوت اور تبلیغ پر مشتمل تھا مولوی صاحب موصوف نے اپنے ملک میں جہاد کی حرمت کے فتویٰ کی بھی اپنی تقریروں کے ذریعہ اشاعت کی.کیونکہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے يَضَعُ الْحَرب کے پاک الفاظ میں بیان کی ہے.
141 اس پاک تعلیم کی اشاعت پر سر زمین کا بل کے میڈ ملاؤں نے جن کے سر میں جہاد کے خیالات خام کی کھچڑی پکتی رہتی ہے ایک شور مولوی صاحب موصوف کے خلاف پیدا کر دیا.یہاں تک کہ امیر کا بل نے باوجود اس عزت و احترام کے جو وہ مولوی صاحب موصوف کی اپنے دل میں رکھتے تھے.مولوی صاحب موصوف کو گرفتار کر لیا اور آخران...ملاؤں نے اخوندزادہ صاحب موصوف کے سنگسار کرنے کا حکم اور فتویٰ دے دیا اور ملاؤں کے محکوم امیر نے اس کو منظور کر لیا.اور اس طرح پر ہمارے معزز ومحترم بھائی مولوی عبداللطیف صاحب رضی اللہ عنہ خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کے مطابق جو بہت عرصہ پیشتر براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۰ پر درج ہے شہید ہو گئے.....حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شہادت کے متعلق ایک عظیم الشان رساله تذکرۃ الشہادتین کے نام سے لکھا ہے“.(۱۵۲) Mad
142 حوالہ جات (۱) تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۱ (۲) عاقبتہ المکذبین حصہ اول صفحه ۴۰ سن اشاعت ۱۹۳۶ء (۳) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحہ ۲۱ - حصہ دوم صفحه ۵- عاقبته المکذبین حصہ اول صفحه ۴۰ (۴) قلمی مسودہ صفحہ ۷۷ و چشم دید واقعات حصہ دوم صفحه ۱۸، ۱۹- تاریخ احمد یہ سرحد مصنفہ قاضی محمد یوسف صاحب صفحه ۲۳۶ (۵) قلمی مسودہ صفحہ ۷۸ - شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحه ۱ تا ۳- شهید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ دوم صفحه ۲ ،۳، ۸ تا ۱۲ (۶) انگریزی کتاب ”افغانستان، مصنفہ مسٹر انگس ہملٹن مطبوعہ لندن ۱۹۰۲ ، صفحه ۴۱۵ بحوالہ عاقبة المکذبین حصہ اول صفحه ۲۹ (۷) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات‘ حصہ اول صفحہ ۲ تا ۴ اور صفحہ ۱۳،۱۲ (۸) ملخص از کتاب "The Pathans" صفحه ۳۸۲،۳۸۱ (۹) "The Pathans" مصنفہ Caroc ایڈیشن ۱۹۷۱ ء آ کسفورڈ یونیورسٹی پریس صفحہ ۳۸۲،۳۸۱ - عاقبۃ المکذبین صفحہ ۳۰.شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحہ ۲ تا ۴ (۱۰) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ دوم صفحه ۳ ۱۲ ۱۳۰ ،۲۳ تا ۲۶- و قلمی مسوده صفحه ۷۹ (۱۱) تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۰ (۱۲) تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۶ ، ۴۷ , 66 (۱۳) عاقبۃ المکذبین حصہ اول - مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب صفحه ۳۰ (۱۴) تذکرۃ الشہا دتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۰-۱۱ (۱۵) قلمی مسوده صفحه ۸۷، ۸۸
143 (۱۶) تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳ تا ۱۱ (۱۷) عاقبة الممکذبین حصہ اول صفحه ۳۰ ، ۳۱ - قلمی مسوده صفحه ۱۴، ۲۱،۲۰،۱۵، ۲۷ تا ۳۵ - شهید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحه ۳ ، ۴ (۱۸) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ دوم صفحہ ۴ ، ۵ (۱۹) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ دوم صفحہ ۱۴، ۱۵ - سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۶۱۷ (۲۰) انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ اصفحہ ۲۳۶ (۲۱) تذکرۃ الشہا دتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۷ ، ۴۸ (۲۲) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحه ۴ ، ۵ (۲۳) عاقبة الممکذبین حصہ اول صفحہ ۳۱ ۳۲ - مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب.و قلمی مسودہ تاریخ احمدیت افغانستان مصنفه سید محمود احمد افغانی (۲۴) قلمی مسود صفحه ۱۶ تا ۲۰ - شہید مرحوم کے چشم دید حالات حصہ دوم صفحہ ۱۴، ۱۵ (۲۵) قلمی مسوده صفحه ۱۹ - عاقبه المکذبین حصہ اول صفحه ۳۲ ،۳۳ - و تاریخ افاغنه حصہ اول صفحه ۹۹ مؤلفہ شہاب الدین ثاقب مطبوعہ حمید یہ پریس لاہور (۲۶) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحه ۳ - قلمی مسوده صفحه ۱۹ (۲۷) عاقبة المکذبین حصہ اول صفحه ۳۵ ۳۶ - و The Pathan" by Caroe "Under" The Absolute Amir" by Frank A.Martin (۲۸) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ دوم صفحه ۱۵- و قلمی مسوده صفحه ۲۰،۱۹ (۲۹) تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۹ تا ۱۰ (۳۰) شهید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول و عاقبۃ المکذ بین حصہ اول مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت صوبہ سرحد (۳۱) تذکرۃ الشهادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۰
144 (۳۲) البدر ۲۸ / نومبر و ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ ء و ملفوظات جلد ۴ صفحه ۲۱۷، ۲۱۸ - (۳۳) ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم - روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۳۰،۳۲۹ (۳۴) رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۵ صفحه ۸۲ (۳۵) تذکرۃ الشہا دتین صفحه، اروحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲،۱۱ (۳۶) تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۹۳ (۳۷) تذکرۃ الشهادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۵ (۳۸) قلمی مسوده صفحه ۲۱ تا ۲۳ (۳۹) رجسٹر روایات صحابہ جلد ۱۰ صفحه ۷۴ ، ۷۵ (۴۰) رجسٹر روایات صحابہ جلده اصفحہ ۷۶ (۴۱) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحہ ۶ ، ۷ (۴۲) عاقبة الممکذبین حصہ اول مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت صوبہ سرحد - صفحه ۴۰ تا ۴۲ - تاریخ اشاعت ۲۰ ا کتوبر ۱۹۳۶ء (۴۳) سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۷۵۳ (۴۴) الحکم ۱۰ را گست ۱۹۰۳ء ملفوظات جلد سوم صفحه ۱۶، ۱۷ (۴۵) رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۵ صفحه ۹۲ (۴۶) رجسٹر روایات صحابه جلد ۱۰ صفحه ۸۱٬۸۰ ( ۴۷ ) رجسٹر روایات صحابه جلد ۲ صفحه ۱۰۶،۱۰۵ (۴۸) رجسٹر روایات صحابہ جلد ۶ صفحه ۲۲۶،۲۲۵ (۴۹) رجسٹر روایات صحابہ نمبر۷ صفحه ۳۰۴ (۵۰) قلمی مسوده صفحه ۲۱ (۵۱) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحہ ۶ تا ۸ (۵۲) شہید مرحوم کے چشم دید حالات حصہ دوم صفحہ ۲۰
145 (۵۳) تذکرۃ الشہا دتین حاشیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۷۵ (۵۴) رجسٹر روایات صحابہ جلد ۹ صفحه ۶۸ (۵۵) سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۶۳۱ - (۵۶) سیرت المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۶۳۴ (۵۷) روایت مولوی عبدالستار خان صاحب - اخبار الحکم ۱۴ / دسمبر ۱۹۳۵ء (۵۸) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ دوم صفحہ ۱۴ (۵۹) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ دوم صفحہ ۱۷ (۶۰) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحہ ۶ تا ۸ (۶۱) اخبار الحکم ۲۱ / مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۳ (۶۲) الحکم ۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۵ء (۶۳) رجسٹر روایات صحابہ (۶۴) البدر ۱۳ / مارچ ۱۹۰۳ء ملفوظات جلد ۵ صفحه ۱۳۳ حاشیه (۶۵) البدر ۱۳/ مارچ ۱۹۰۳ء ملفوظات جلد سوم صفحه ۱۴۰، ۱۴۱ (۶۶) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحہ ۹،۸ (۶۷) یہ ایک لمبا قصیدہ ہے جو اخبار البدر نمبر ۹ جلد ۲ - ۱۶ / اکتوبر ۱۹۰۳ء میں شائع ہوا.(۶۸) تذکرۃ الشہا دتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۹ (۶۹) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۴۵۳ (۷۰) سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۱۴۱- روایت نمبر ۷۱۵- (۷۱) سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر ۳۶۰ (۷۲) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحه ۱۴ (۷۳) رجسٹر روایات صحابہ جلدے صفحہ ۲۲۵ (۷۴) رجسٹر روایات صحابہ جلد ۲ صفحه ۱۹۶
146 ( ۷۵ ) البدر ۱۳ / مارچ ۱۹۰۳ ء - و ۲۰ / مارچ ۱۹۰۳ء - ملفوظات جلد پنجم (۷۶) تاریخ احمد یہ سرحد صفحه ۹۲ - مطبوعه ۱۹۵۹ء (۷۷) الحکم ۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۵ء (۷۸) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحہ ۹، ۱۰ (۷۹) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ دوم صفحہ ۲۰ (۸۰) بیان سید احمد نور صاحب شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحہ ۹ تا ۱۱ (۸۱) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن ، جلد ۲۰ صفحه ۵۰،۴۹ (۸۲) تذکرۃ الشہادتین- روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲۷ (۸۳) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحه ۹ تا ۱۱ (۸۴) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحه ۱۲،۱۱ (۸۵) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحہ ۱۲۱۱ (۸۶) قلمی مسودہ صفحه ۱۲ - شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحہ ۱۲،۱۱ (۸۷) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصه اول صفحه ۱۲ تا ۱۶ (۸۸) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحہ ۱۶ (۸۹) تذکرۃ الشہا دتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲۶، ۱۲۷ ( ۹۰ ) الحکم ۶ / مارچ ۱۹۰۸ء- ملفوظات جلد پنجم صفحه ۷ ۴۵ ، ۴۵۸ (۹۱) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحه ۱۵ و ۱۶ (۹۲) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحه ۱۵ تا ۱۶ - و قلمی مسوده صفحه ۳۴ (۹۳) قلمی مسوده صفحه ۳۴ تا ۴۰ (۹۴) قلمی مسوده صفحه ۳۹ (۹۵) قلمی مسوده صفحه ۳۹ - ۴۰ (۹۶) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۱،۵۰
147 (۹۷) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحه ۱۷- و قلمی مسوده صفحه ۴۲ (۹۸) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۱ تا ۵۳ (۹۹) الحکم ۱۸ رجون ۱۹۰۸ ء - ملفوظات جلد پنجم صفحه ۵۸۴، ۵۸۵- حضور کے یہ ارشادات ۲ مئی ۱۹۰۸ ء کے ہیں جو آپ نے بمقام لا ہور فرمائے تھے.(۱۰۰) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحه ۱۳ (۱۰۱) عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحه ۴۴ (۱۰۲) تذکرۃ الشہا دتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۵،۵۴ (۱۰۳) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲۸ (۱۰۴) عاقبة المكذ بین حصہ اول صفحه ۴۴ تا ۴۶ (۱۰۵) قلمی مسوده صفحه ۴۳ (۱۰۶) قلمی مسوده صفحه ۴ ۴ تا ۴۷ (۱۰۷) عاقبة المكذ بین حصہ اول صفحه ۳۷، ۳۸ (۱۰۸) قلمی مسوده صفحه ۴۴ تا ۴۷ (۱۰۹) ملخص از کتاب Under The Absolute Amir by Frank A Martin" صفحه ۲۰۴،۲۰۱ (۱۱۰) تذکرۃ الشہا دتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۵،۵۴ (۱۱۱) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۶ (۱۱۲) تذکرۃ الشہا دتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴ ۵۵،۵ (۱۱۳) عاقبة المكذ بین حصہ اول صفحه ۴۶ تا ۵۰ (۱۱۴) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶ ۵ تا ۵۸ (۱۱۵) تذکرۃ الشہا دتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۸ تا ۶۰ (۱۱۶) الحکم ۶ / مارچ ۱۹۰۸ ء - ملفوظات جلد پنجم صفحه ۷ ۴۵
148 (۱۱۷) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحه ۲۴ (۱۱۸) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحه ۲۴ و قلمی مسوده صفحه ۴۸ (۱۱۹) عاقبة المكذ بین حصہ اول صفحه ۵۰ تا ۵۳ (۱۲۰) ملخص از رجسٹر روایات صحابه جلد ۲ صفحه ۴۲ (۱۲۱) عاقبۃ المکذبین حصہ اول مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر صوبہ سرحد - شائع شده ۲۰ /اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحه ۵۲،۵۱ (۱۲۲) سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر ۲۵۹ (۱۲۳) رجسٹر روایات صحابہ جلد کے صفحہ ۲۲۶ (۱۲۴) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲۷ (۱۲۵) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۷۴ (۱۲۶) ملخص مفهوم از کتاب Under The Absolute Amir مصنفہ Mr.Frank A Martin صفحه ۲۰۱ تا ۲۰۴ (۱۲۷) افغانستان، مصنفہ مسٹرانکس ہملٹن صفحه ۴۵۰ - بحوالہ عاقبة المذ بین حصہ اول صفحه ۵۷ (۱۲۸) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۷۴ (۱۲۹) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۷۶،۷۵ (۱۳۰) الحکم ۲۴ / جنوری ۱۹۰۴ء - ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۱۴،۵۱۳ (۱۳۱) ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۱۴، ۵۱۵ (۱۳۲) تذکرۃ الشہا دتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۴،۵۳ (۱۳۳) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۰ (۱۳۴) تذکرۃ الشہا دتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲۶ (۱۳۵) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحہ ۱۹ (۱۳۶) قلمی مسوده صفحه ۲ تا ۵ شهید مرحوم کے چشمد ید واقعات صفحہ ۲۱،۲۰
149 (۱۳۷) قلمی مسودہ صفحہ ۵ تا ۱۰- شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحہ ۲۱ تا ۲۳ (۱۳۸) قلمی مسودہ صفحہ ۱۱،۱۰- و شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحه ۲۲، ۲۳ - تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲۶ حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱۱ (۱۳۹) سیرت المہدی حصہ سوم روایت ۳۶۸ (۱۴۰) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات صفحہ ۲۵ (۱۴۱) تذکرۃ الشہا دتین- روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۰ (۱۴۲) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۷-۵۸ (۱۴۳) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۷۵-۷۶ (۱۴۴) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۹ تا ۷۴ (۱۴۵) البدر یکم دسمبر ۱۹۰۳ ء - ملفوظات جلد سوم صفحه ۴۷۱،۴۷۰ (۱۴۶) البدر ۸/ جنوری ۱۹۰۴ ء - ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۱۲ (۱۴۷) الحکم ۲۴ / جنوری ۱۹۰۴ء - ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۱۳،۵۱۲ (۱۴۸) الحکم ۲۴ / جنوری ۱۹۰۷ ء- ملفوظات جلد ۹ صفحه ۱۳۳ (۱۴۹) ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۲۹، ۳۳۰ (۱۵۰) حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱۲ (۱۵۱) تذکرۃ الشہادتین- روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۰ تا ۶۲ (۱۵۲) الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۳ء
150 ببلیوگرافی رساله شیخ عجم (۱) کتب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایڈیشن ۱۹۸۵ء (۲) سیرت المہدی مصنفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ.(۳) اخبارات سلسلہ احمدیہ - البدر، الحکم.(۴) شهید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول مصنفہ سید احمد نور صاحب کا بلی.(۵) شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ دوم مشتمل بر روایات مولوی عبدالستار خان صاحب معروف به بزرگ صاحب.(۶) عاقبۃ المکذبین حصہ اول مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمد یہ صوبہ سرحد (۱۹۳۶ء) - (۷) رجسٹر ز روایات صحابہ ( قلمی مسودات ) - (۸) قلمی مسوده مشتمل بر روایات صاحبزاده ابوالحسن قدسی صاحب، سیداحمد نور صاحب، مولوی محمد شاہزادہ خان صاحب، مولوی شان محمد صاحب ( ۱۹۴۷ء ) - (۹) تاریخ احمدیت افغانستان مصنفہ سید محمود احمد صاحب افغانی - غیر مطبوعہ (۱۹۹۳ء) - "Under the Absolute Amir" by Mr Frank A.Martin.London (۱۰) (1907) "The Pathans" by Sir Olaff Caroe.Oxford University Press (11) (1976) (۲۱) تذکرۃ المہدی - مصنفہ حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب.(۳۱) تاریخ احمد یہ سرحد - مرتبہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب مطبوعه ۱۹۵۹ء-
باب سوم 151 حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید رضی اللہ عنہ کا خاندان واقعہ شہادت کے بعد امیر ان کا بل کے ہاتھوں ان کے مصائب اور مشکلات
152 ارشادات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف کے واقعہ شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- افسوس امیر پر کہ اُس نے کفر کے فتویٰ پر ہی حکم لگا دیا.ہائے وہ معصوم اُس کی نظر کے سامنے ایک بکرے کی طرح ذبیح کیا گیا...اس کا پاک جسم پتھروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور اُس کی بیوی اور اُس کے یتیم بچوں کو خوست سے گرفتار کر کے بڑی ذلت اور عذاب کے ساتھ کسی اور جگہ حراست میں بھیجا گیا.(۱) جب مقتل پر پہنچے تو شاہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر اس حالت میں جب کہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دیئے گئے تھے تو امیر ان کے پاس گیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے انکار کرے تو اب بھی میں تجھے بچا لیتا ہوں.اب تیرا آخر وقت ہے اور یہ آخری موقعہ ہے جو تجھے دیا جاتا ہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر.تب شہید مرحوم نے جواب دیا کہ نعوذ باللہ سچائی سے کیونکر ا نکار ہوسکتا ہے اور جان کی کیا حقیقت ہے اور عیال واطفال کیا چیز ہیں جن کے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں.مجھ سے ایسا ہر گز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا.تب قاضیوں اور فقیہوں نے شور مچایا کہ کافر ہے.کافر ہے اس کو جلد سنگسار کرو (۲) شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہو چکی...ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں اور زن و فرزند کی کچھ بھی پروا نہیں کرتے‘ (۳) میاں احمد ثور جو حضرت صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کے خاص شاگرد ہیں ۸ نومبر ۱۹۰۳ء کو مع عیال خوست سے قادیان پہنچے اُن کا بیان ہے.جب گھر میں تھے اور ابھی گرفتار نہیں ہوئے تھے.اپنے دونوں ہاتھوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے
153 میرے ہاتھو! کیا تم ہتھکڑیوں کی برداشت کر لو گے؟ اُن کے گھر کے لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات آپ کے منہ سے نکلی ہے.تب فرمایا کہ نماز عصر کے بعد تمہیں معلوم ہوگا کہ یہ کیا بات ہے.تب نما ز عصر کے بعد حاکم کے سپاہی آئے اور گرفتار کر لیا اور گھر کے لوگوں کو انہوں نے نصیحت کی کہ میں جاتا ہوں اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم کوئی دوسری راہ اختیار کرو.جس ایمان اور عقیدہ پر میں ہوں چاہیئے کہ وہی تمہارا ایمان اور عقیدہ ہو.(۴) 66 دیگر احباب کی روایتیں اور تحریریں خاندان کی خوست میں گرفتاری اور کا بل روانگی صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب جو حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے وقت اُن کے بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے تھے بیان کرتے ہیں کہ جب صاحبزادہ صاحب کو سنگساری کا حکم سنایا گیا.اُس کے بعد یہ حکم صادر ہوا کہ اُن کے تمام رشتہ داروں اور تمام خاندان کو گرفتار کر کے کابل لایا جائے.ان کی تمام جائداد ضبط کر لی جائے.اُن کی اس زمین کے بدلہ میں کابل میں زمین دی جائے گی.اور ان کو نظر بندی کی حالت میں کابل میں رکھا جائے گا یہ حکم حاکم خوست کو پہنچا یہ حاکم جس چھاؤنی میں رہتا تھا وہ چھاؤنی سید گاہ سے تقریباً پانچ میل کے فاصلہ پر تھی.حاکم خوست نے جس کا نام عبدالرحمن یا عطاء الرحمن خان تھا کچھ فوجی سپاہی گرفتاری کے واسطے بھیجے.اُس وقت شہید مرحوم کی دو بیویاں اور پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں پانچ لڑکوں میں سے سب سے بڑے جن کی عمر قریباً بائیس برس کی ہو گی محمد سعید مرحوم تھے باقی بچے چھوٹے تھےمحمد سعید سے چھوٹے عبدالسلام - پھر محمدعمر پھر ابوالحسن پھر محمد طیب -محمد طیب کی عمر تقریباً ڈیڑھ سال تھی - (۵) جس وقت حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف کی شہادت کا جانکاہ واقعہ کا بل کی خون ریز اور سفاک سرزمین میں رونما ہوا اس وقت صاحبزادہ ابوالحسن کی عمر تین سال کے
154 قریب اور صاحبزادہ محمد طیب کی عمر ڈیڑھ سال کے قریب تھی.(1) صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی بیان کرتے ہیں کہ گرفتاری اور کا بل لے کر جانے کا حکم حضرت صاحبزادہ صاحب کے تمام رشتہ داروں کے نام تھا کہ برادر و برادر زادہ حاضر کئے جائیں اُس وقت خوست کا حاکم ہمارے خلاف تھا اس لئے اُس نے ہم سب کو قید کر لیا.(۷) صاحبزادہ سیدا بو الحسن قدسی کا بیان ہے کہ اُس وقت سید گاہ میں اُن کے خاندان کے چار بڑے گھرانے تھے جن میں سے صرف ایک گھرانہ احمدی تھا مگر حکم چاروں کی گرفتاری کا ہوا.اب یہ باقیوں کے واسطے مفت میں مصیبت تھی وہ کچھ مخالف بھی تھے.یہ تمام خاندان تقریباً ساٹھ نفر پر مشتمل تھا.تمام سامان جو لے سکتے تھے لے کر چل پڑے.پہلے پانچ میل کے فاصلہ پر چھاؤنی میں ٹھہرے اور کچھ دن قیام کیا اور پھر کا بل روانہ ہو گئے.تمام خرچ وغیرہ کا انتظام ذاتی تھا.پہرہ کے ساتھ کا بل روانہ کیا گیا کیونکہ اس خاندان میں پردہ بہت سخت تھا اس لئے عورتوں کی سواری کے واسطے اونٹوں کا انتظام کیا گیا ان کو ہو د جوں میں لے جایا گیا.مردوں کے واسطے گھوڑوں کا انتظام کیا گیا.یہ تمام اخراجات صاحبزادگان کے ذمہ تھے حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہ ملی.(۸) کابل روانہ ہوئے تو صاحبزادگان کے گھوڑے اپنے تھے لیکن ( فوج کے ) افسروں نے اپنے رڈی گھوڑے اُن کو دے کر اُن کے اچھے گھوڑے خود لے لئے.ابھی تک خاندان کو معلوم نہ تھا کہ صاحبزادہ صاحب شہید ہو گئے ہیں.راستہ میں جب کہ کابل شہر قریب تھا معلوم ہوا.سید احمد نور صاحب نے اطلاع دی کہ حضرت والد صاحب شہید ہو گئے ہیں اور میں فلاں جگہ ان کی لاش دفن کر آیا ہوں.(۹) سید احمد نور بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی لاش پتھروں سے نکالی تو ان کی تدفین کے بعد کچھ عرصہ کا بل میں سردار عبدالرحمن جان ابن سردار شیرین دل خان کے پاس مقیم رہے پھر انہوں نے کابل سے روانگی کا پروگرام بنایا اور ایک نیچر
155 کرایہ پر لی اور اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے.جب ایک منزل طے کی تو دیکھا کہ حضرت شہید مرحوم کے اہل و عیال کو حکومت کے سپاہی کا بل لے جارہے ہیں.مستورات اور بچے بھی ساتھ ہیں.محافظ سپاہیوں نے سید احمد نور سے خچر چھین لی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے اہل وعیال کی ضرورت کے لئے استعمال میں لے آئے.سید احمد نور نے حضرت شہید مرحوم کے کسی عزیز یا رشتہ دار سے مصلحنا بات نہیں کی راستہ میں ایک جگہ بیٹھ گئے تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ملا میر و جو مولوی عبد الستار خان معروف بہ بزرگ صاحب کے چھوٹے بھائی تھے قافلہ کے پیچھے کچھ فاصلہ پر آ رہے ہیں.سید احمد نور نے ان کو اشارہ سے بلایا اور شہادت کے متعلق بتا دیا اور یہ کہا کہ قبر کا مقام سردار عبدالرحمن جان سے دریافت کر لیں.ملا میر و اپنی محبت اور اخلاص کی وجہ سے حضرت صاحبزادہ صاحب کے اہل وعیال کے پیچھے پیچھے ہو لئے تھے ورنہ ان کی گرفتاری یا کابل لے جائے جانے کا کوئی سرکاری حکم نہ تھا اس کے بعد سید احمد نور پیدل اپنے گاؤں کی طرف چلے گئے.(۱۰) کابل میں آمد چند دن راستہ میں صرف کر کے کابل پہنچے اور چہار باغ مقام پر ڈیرہ لگا دیا.جتنے دن کابل شہر میں قیام کیا خوراک وغیرہ کا انتظام ہمارا اپنا تھا.(۱۱) واقعہ شہادت کے بعد حضرت شہید مرحوم کے تمام بال بچوں اور سارے خاندان کو جس کے افراد کی تعداد مع خدام کے ایک سو کے قریب تھی فوج اور رسالہ کی حراست میں کابل لے جایا گیا جہاں سب کو تو چی باغ میں نظر بند کر دیا گیا.یہ شروع سردی کا موسم تھا وہاں مہینہ ڈیڑھ مہینہ نظر بند رکھنے کے بعد سب کو ترکستان کے علاقہ میں جلا وطن کر دیا گیا.اس وقت سخت سردی پڑ رہی تھی اور سامان کی کمی کی وجہ سے اس قافلہ کو سخت تکالیف اور مصائب برداشت کرنا پڑی.(۱۲) کابل سے جانب ترکستان جلا وطن کئے جانے کا حکم وو ” جب ہم کابل پہنچے تو کابل کی حکومت نے حاکم خوست کو لکھا کہ ان کی جائداد کی
156 مفصل رپورٹ لکھوتا کہ کابل میں سرکاری طور پر ان کی زمین کے بدلہ زمین دے دی جائے.اُس زمانہ میں افغانستان کا نائب السلطنت سردار نصر اللہ خان تھا جو امیر حبیب اللہ خان کا چھوٹا بھائی تھا.یہ شخص پرلے درجہ کا ظالم تھا.جس کو تمام افغانستان کے لوگ ظالم کے نام سے یاد کرتے تھے اس نے ہزار ہا بے گناہ کئی مواقع پر مروا دیئے اور سینکڑوں مسلمان بے گناہ قید خانوں میں ڈالے اور سالہا سال تک ان کی پڑتال نہ ہوا کرتی تھی.اُس کو اس خاندان کے ساتھ بڑی دشمنی تھی.جب اُس نے دیکھا کہ ان کی جائداد اس قدر زیادہ ہے کہ تمام سرکاری زمین کا بل کی دے دی جائے تو پوری نہیں ہوگی تو اس پر اس نے حکم دیا کہ ان کو جلا وطن کر کے جانب ترکستان بھجوا دیا جائے چنانچہ اس حکم کے صادر ہونے پر ہمیں سخت مصیبت کا سامنا ہوا.”ہمارے خاندان کے علاوہ باقی تین خاندان جن کا احمدیت سے کوئی تعلق نہ تھا صرف رشتہ داری کی وجہ سے گرفتار تھے انہوں نے مشورہ کیا کہ ہم یہ درخواست بادشاہ کو پیش کرتے ہیں کہ مرنے والا مر گیا اور اس نے سزا بھگت لی ہم بالکل اس کے مذہب کے ساتھ متفق نہیں اس لئے ہمیں معاف فرما دیں.باقی تین خاندانوں کے لوگوں نے میرے بھائی محمد سعید سے کہا کہ درخواست میں آپ بھی شریک ہو جائیں ورنہ اس طرح تو ہمارا تمام خاندان در بدر ہو جائے گا مگر بھائی ان کی باتوں میں نہ آئے.محمد سعید نے باوجود کم عمری کے موت کو ( سامنے) دیکھتے ہوئے کہہ دیا کہ آپ بے شک لکھ دیں کہ آپ واقعہ میں شریک نہیں ہیں.ہم بھگت لیں گے اور آپ لوگ اس پر رہا ہو جائیں گے.اس درخواست سے قبل کو توال نے باقی تین خاندانوں کے نام اس فہرست سے نکال دیئے تھے اور لکھا تھا کہ صرف ان کے خاص رشتہ داروں کو بھیجنا ہے.انہوں نے بیزاری نامہ بغیر احتیاط کے حکومت میں پیش کیا تھا تا کہ جلا وطنی سے بیچ جائیں مگر عجیب اتفاق ہوا کہ حکومت میں ان کی درخواست پیش ہوئی تو کچھ فائدہ نہ ہوا نا منظور ہو گئی.اس پر مجبوراً کوتوال نے ان کے نام بھی شامل کر دیئے اور تمام خاندان کو ( جانب )
157 ترکستان جانے کا حکم ہوا.‘‘ (۱۳) سید احمد نور بیان کرتے ہیں ” جس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب کے اقارب گرفتار ہوئے اس وقت آپ کا خاندان خوست میں تھا سنگساری کے حکم کے بعد تمام خاندان کے متعلق حکم ہوا کہ جلا وطن کر کے ( جانب ) بلخ بھیج دیا جائے اور تمام جائدا وضبط کر لی جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا.بلخ کے راستہ میں بہت تکلیف پہنچی خوست سے کا بل پچاس میل کا ( فاصلہ ہے ) اور کابل سے بلخ (جو ترکستان کی سرحد پر واقعہ ہے ) تقریباً تین سومیل کے فاصلہ پر ہوگا سخت سردی تھی چھوٹے چھوٹے بچے ساتھ تھے.‘(۱۴) کا بل سے جانب ترکستان کا سفر حضرت صاحبزادہ صاحب کے تمام خاندان یعنی چاروں گھرانوں کو جن کا پہلے ذکر آچکا ہے حکومت افغانستان کی طرف سے جانب ترکستان سفر کر نے کا حکم ہوا.صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی بیان کرتے ہیں کہ سردی کا موسم تھا سخت سردی تھی ترکستان کا بل سے قریباً تین سو میل کے فاصلہ پر (جانب شمال ) واقعہ تھا.راستہ نہایت دشوار گزار اور بلند و خطر ناک پہاڑوں میں سے جاتا تھا.کوئی ریل یا موٹر نہ جاتی تھی.مسلح فوجی سپاہی ساتھ روانہ کئے گئے.حکومت کی طرف سے خوراک وغیرہ کا کوئی انتظام نہ کیا گیا تمام خرچ خاندان نے اپنی طرف سے کیا.(۱۵) ( فوجیوں کا نگران ) جمعدار سلطان علی کو مقرر کیا گیا تھا یہ شخص شیعہ تھا.صاحبزادہ صاحب سید تھے اور انہوں نے ایک زمانہ میں شیعوں کے متعلق یہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ یہ کا فرنہیں ہیں.ان کا ذبیحہ جائز ہے.جب کہ صاحبزادہ صاحب کے علاوہ افغانستان کے دیگر علماء کا فتویٰ یہ تھا کہ شیعہ کا فر ہیں.اور ان کا ذبیحہ حرام ہے.اس سفر میں جمعدار سلطان علی کی وجہ سے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی اور اس نے ہماری خاصی مدد کی ( جب قیام ہوتا ) تو رات کو خود گاؤں سے ( ضرورت کے مطابق ) سامان کا
158 - انتظام کر دیتا تھا کیونکہ راستہ غیر آباد تھا.چونکہ راستہ میں خوراک وغیرہ کا خرچ ہمیں خود کرنا ہوتا تھا.اس واسطے جمعدار سلطان علی کو خرچہ ( میں کفایت ) کا بھی بڑا خیال رہتا تھا.(۱۶) ترکستان میں آمد اور قیام ترکستان سے مراد اس جگہ افغانستان کی مملکت کا وہ علاقہ ہے جو جانب شمال روسی ترکستان (ازبکستان ) سے متصل تھا.سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس علاقہ کے لوگ اگر چه افغانستان کی حکومت کے ماتحت تھے لیکن ان کی زبان اور ثقافت پر ترکستان کے اثرات تھے.اس بناء پر اس کو ترکستان کہہ دیا جاتا تھا ( نوٹ از مرتب ) صاحبزادہ سیدابوالحسن قدسی بیان کرتے ہیں کہ تقریباً مہینہ ڈیڑھ مہینہ سفر کرنے کے بعد آخرمشکل سے ترکستان پہنچے.وہاں مزار شریف کے شہر میں پہنچے تو بارغ از غر ( یا باغ اصغر ) میں ڈیرہ لگا دیا.سردی کا موسم اس میں گزارا چار ماہ اس باغ میں رہے.یہاں با قاعدہ سرائے وغیرہ تھی.اس جگہ بھی اخراجات ہمارے اپنے تھے.کابل سے چودہ (فوجی ) آدمی ہمارے ساتھ آئے تھے انہوں نے مزار شریف کی حدود میں آنے کی وجہ سے ہمیں یہاں کی کو توالی کے سپر د کر دیا.جنہوں نے سات آدمی ہماری نگرانی پر مقرر کر دیئے اور جمعدار سلطان علی اور اس کے ساتھی فوجی وہاں سے واپس چلے گئے.جب ہم ترکستان میں پہنچے تو یہاں کا نائب الحکومت مر چکا تھا اور دوسرا نیا حاکم ابھی نہیں آیا تھا.اس وقت سرور نام ایک شخص جو ( پہلے ) وزیر مال تھا قائمقام نائب السلطنت بنا تھا.یہ شخص پہلے سے صاحبزادگان کا واقف تھا کیونکہ صاحبزادگان کے پہلے سے حاکموں کے ساتھ تعلقات تھے.اس نے ہم سے بڑا اچھا سلوک کیا اور کچھ غلہ بھی بطور امداد کے دیا.اس شخص نے صاحبزادگان سے کہا کہ اس علاقہ میں جو جگہ آپ لوگوں کو آب و ہوا وغیرہ کے لحاظ سے پسند
159 ہو میں وہ جگہ آپ کی رہائش کے لئے دے دوں گا اس طرح اس نے خاص امداد کی.اس پر ہم لوگوں نے اِدھر اُدھر آدمی بھیجے تا کہ جگہ تلاش کریں.ایک جگہ ہر دہ نہر کا علاقہ پسند آیا اس کے اندر نہر عبداللہ کی جگہ پسند کی گئی اس میں ایک مقام قلعہ قر بنجلہ کو پسند کیا قائمقام نائب السلطنت سرور نے اس کی منظوری دے دی.اس اثناء میں اس علاقہ کے واسطے نا ئب الحکومت سردار عبداللہ خان طوخی مقرر ہو کر آیا.یہ شخص حضرت صاحبزادہ صاحب کے حالات سے واقف تھا اور سخت مخالف تھا.(۱۷) مزار شریف کے پاس قلعہ قرہ مجلہ در علاقہ نہر عبد اللہ و ہر وہ نہر میں قیام ” یہاں جہاں ہم نے قیام کیا وہ امیر کا بل کی حکومت کی آخری سرحد تھی.وہاں کے باشندوں نے پہلے تو ہمیں رہائش کے لئے مکان دینے سے انکار کر دیا اور گاؤں کے لوگ اس جگہ کے حاکم کے پاس گئے اور کہا کہ ہم ان لوگوں کو ر ہائش کے لئے جگہ نہیں دے سکتے.انکار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ہم سے پہلے جو لوگ جلا وطن ہو کر کسی جرم کی سزا میں آتے تھے ان میں سے اکثر اصل باشندوں کے لئے کئی طرح کی تکالیف کا باعث بن جاتے تھے اور ان کوٹنگ کرتے تھے ہمارے متعلق بھی شروع میں ان کا اچھا خیال نہ تھا اس پر حاکم نے یہ فیصلہ کیا کہ جس طرح ہو سکے ہم لوگ خرگا ہوں یعنی خیموں کا انتظام کریں اور ان کے اندر گزارہ کریں.مُخالف حاکم نے اس بارہ میں کوئی مدد نہ کی اس پر ہم نے خیموں کا انتظام خود کیا اور ان میں رہنے لگے.ہماری حالت اس وقت ایک ایسے مسافر کی تھی جس کو گھر سے دور نکال دیا گیا ہو کوئی خوراک وغیرہ نہ دی جائے.نہ آبادی میں رکھا جائے.قریباً دو ماہ اسی طرح گزرے.کچھ مدت کے بعد جب وہاں کے لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ ہم اچھے اور شریف لوگ ہیں تو گاؤں کے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ لوگ ہم سے مکان لے لیں.اس پر ہم نے ان سے چند مکان گروی لے لئے.جو مکان ہم نے لئے ان کے اندر باغ تھا.اور ہر طرح
160 با آرام تھے.کچھ مدت کے بعد حکومت افغانستان نے ہمارے لئے بالکل قلیل رقم منظور کی اور وہ بھی بطور قرضہ - (۱۸) جلا وطنی میں روپیہ کا ختم ہو جاتا اور اخراجات کی سبیل " کچھ عرصہ کے بعد جو تم ہمارے پاس تھی سب کی سب ختم ہو گئی گورنمنٹ کی طرف سے کوئی انتظام خرچ کا نہ ہوا.اس لئے ہم نے مشورہ کر کے اپنا ایک نوکر پرائیویٹ طور پر علاقہ بنوں میں بھجوایا جو انگریزی حکومت میں تھا اور جہاں ہماری جائداد تھی باقی خاندان نے بھی ہمارے نوکر کو خط دے دیئے تا کہ تمام خاندان اپنے لئے خرچ اپنے اپنے رشتہ داروں سے منگوالیں.اس وقت تک ان لوگوں کو جو بتوں میں تھے ہمارے حالات کا کچھ پتہ نہ تھا نہ ان کو علم تھا کہ ہم کس مصیبت میں گرفتار ہیں.جب ہمارا آدمی وہاں پہنچا تب انہیں حالات اور ہماری مصیبت اور خرچ کی ضرورت کا پتہ چلا.ان کو بہت رنج ہوا انہوں نے فوراً روپیہ کا بند و بست کیا.تمام غلہ وغیرہ فروخت کر کے تقریباً تین ہزار روپیہ مہیا کیا اسی طرح باقیوں نے بھی روپیہ جمع کیا.اور یہ تمام روپیہ بنوں میں جمع کر دیا گیا.یہاں کے ہندوؤں کا کابل کے ساتھ کافی کا روباری تعلق تھا وہاں کے لئے چیک لے لیا کہ اتنی رقم دے دی جائے اور کچھ نقدی نوٹوں کی صورت میں ساتھ لے لی اس طرح ہمارے گزارہ کا بندو بست ہو گیا ورنہ جب تک یہ رقم نہ ملی ہم مکان بھی رہائش کے لئے نہ لے سکتے تھے.کیونکہ جلا وطنی کی حالت میں جیسا کہ پہلے بھی ذکر آچکا ہے حکومت نے نہ صرف یہ کہ خود کوئی مدد نہ کی بلکہ حکومت کا یہ حکم بھی تھا کہ ان کو کسی قسم کی مدد نہ دی جائے.اس لئے افغانستان کی حکومت میں بڑے بڑے لوگ جو ہمارے واقف تھے جو ہماری مدد اور خدمت نہایت شوق سے کرتے مگر حکومت کے حکم اور احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے یہ بہت ڈرے ہوئے تھے اس لئے وہ جرات نہ کر سکے اور جتنا
161 ہی کوئی امیر ہوتا احمدیوں یا احمدیت سے دور بھاگتا تھا.‘ (۱۹) خاندان کے ایک فرد جو گرفتاری کے وقت علاقہ انگریزی میں تھے اور بنوں کے ضلع میں خاندان کی جو جائداد ہے اس کا انتظام کرتے تھے وہ اس جائداد کی آمدنی وہاں پہنچاتے رہے جس سے گزارہ ہوتا تھا.‘ (۲۰) امیر حبیب اللہ خان کی مزار شریف میں آمد اور رہائی کی کوشش صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی بیان کرتے ہیں کہ ہم قریباً چار سال جلا وطنی میں جانب ترکستان مقیم رہے.پانچویں سال یعنی 19ء میں امیر حبیب اللہ خان افغانستان کے دورہ پر نکلا - کابل سے قندھار آیا.قندھار سے ہرات آیا اور ہرات سے فراح اور وہاں سے میمنہ اور پھر مزار شریف آیا.,, وہ مقام جہاں ہم مقیم تھے مزار شریف سے پندرہ میل کے فاصلہ پر جانب بلخ تھا جو قبلہ کی جہت بھی ہے.امیر کے مصاحبین میں سے ایک شخص سلطان جان تھا جو ہماری برادری کے آدمی مزمل شاہ کا واقف تھا.مزمل شاہ نے سلطان جان کی معرفت ایک درخواست امیر حبیب اللہ خان کے پیش کی جس میں یہ لکھا تھا کہ اب ہمیں چھوڑ دیا جائے یعنی ہماری جلا وطنی ختم کر دی جائے اور ہمیں وطن واپس جانے کی اجازت دے دی جائے.امیر نے درخواست پڑھی اور جب اس میں حضرت شہید مرحوم کا نام دیکھا تو درخواست پھاڑ دی اور پھٹی ہوئی درخواست لفافہ میں بند کر کے واپس کر دی.پھٹی ہوئی درخواست ملنے پر ہمیں بڑا رنج ہوا اور ہم لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اب ہمیں خوست نہ بھیجا جائے گا کیونکہ خود بادشاہ نے ہمارا عریضہ پھاڑ دیا ہے.(۲۱) ان حالات میں سات سال کے قریب یہ خاندان ترکستان میں رہا‘ (۲۲) سید ابوالحسن صاحب قدسی بیان کرتے ہیں کہ ملا میر و صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب کی لاش کو کابل سے نکال کر ان کا تابوت ان کے گاؤں سید گاہ میں لے آئے تھے اور
162 وہاں دفن کر دیا تھا جب کابل کی حکومت کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے خوست کے حاکم محمد اکبر خاں شاہ غاصی کو حکم دیا کہ رات کو کچھ سپاہی لے کر حضرت شہید مرحوم کی لاش نکال کر کہیں اور لے جائے اور ملا میرو کو سزا دے چنانچہ ان کو شدید اذیتیں پہنچائی گئیں مارا پیٹا اور گھسیٹ کر قید خانہ میں لے جایا گیا ان کا منہ کالا کر کے گاؤں میں پھرایا گیا بالآ خر جب ملا میر و قید سے رہا ہوئے تو اس وقت شہید مرحوم کا خاندان ترکستان کی جانب جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا تھا.ان کی خوست والی جائداد حکومت نے ضبط کر لی تھی.جو جائداد بنوں کے علاقہ میں تھی اس کی آمد سے گزارہ ہوتا تھا.اس وقت ملا میرو کا وجود تھا جن کو خاندان سے ہمدردی اور ان کی خدمت کا احساس تھا قریباً پندرہ سال تک وہ ہی ہمارے خرچ کا انتظام کرتے رہے.بنوں جا کر زمین کی آمد لے کر جلا وطنی میں پہنچا دیتے تھے.راستہ کی دوری برفوں اور پہاڑوں کی مشکلات ان کے راستہ میں حائل نہ ہوئیں وہ یہ دور دراز کا سفر پیدل طے کرتے رہے.پھر جب ہم کا بل میں جلا وطن تھے اور جیل خانہ میں قید تھے وہاں بھی آپ کا وجود ہمارے لئے مفید ثابت ہوا اور ہم خدا کے فضل سے عزت و آبرو کے ساتھ رہتے رہے.خلاصہ یہ کہ جب تک ہمیں ضرورت تھی اس وقت تک انہوں نے ہمیں نہ چھوڑا اور جب ہم کو شاہ امان اللہ خان نے ستید گاہ آنے کی اجازت دے دی اور ہماری جائداد بھی ہم کومل گئی تو وہ عمر کے آخری حصہ میں ہجرت کر کے قادیان آگئے.(۲۳) برٹش انڈیا اور افغانستان کے مابین ۱۹۰۹ء میں با ہمی سرحد کے بارہ میں جھگڑا اور رہائی کی سبیل امیر حبیب اللہ خان کے دورہ مزار شریف کے دو سال بعد یعنی تقریباً ۱۹۰۹ء میں برٹش انڈیا کی حکومت اور افغانستان کے مابین دونوں ملکوں کی سرحد کے بارہ میں کچھ جھگڑا پیدا ہو گیا.اس اختلاف کو طے کرنے کے لئے حکومت افغانستان کی طرف سے دو افسر مقرر ہوئے جن میں سے ایک امین الانتظام تھا جس کا نام محمود تھا اور دوسرا امین الکاتب تھا جس کا
163 نام غالباً ابراہیم تھا.یہ دونوں افسران فارسی جانتے تھے ان کو پشتو زبان سے واقفیت نہ تھی کیونکہ سمت جنوبی یعنی خوست وغیرہ کے لوگ جن سے واسطہ پڑنا تھا کی زبان پشتو تھی اس لئے مذکورہ بالا دونوں افسران کو ایک معاون دیا گیا جو پشتو جانتا تھا اس کا نام خواجہ گل خان تھا.جب مذکورہ بالا دونوں افسران خوست آئے اور سرحد کے بارہ میں فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو جب کا بل واپس گئے تو اس علاقہ کے بڑے بڑے لوگوں کو ( جنہوں نے فیصلہ کروانے میں مدد دی تھی ) اپنے ساتھ کا بل لے گئے اور انہیں کہا کہ تمہیں بادشاہ کی طرف سے انعامات دیئے جائیں گے.کابل میں ان کی ایک یا دو دن شاہی مہمان نوازی ہوئی.سردار نصر اللہ خان ان کا مہمان نواز مقرر تھا.جب کھانا کھانے کا وقت آیا اور بادشاہ دستر خوان پر بیٹھا تو خوست سے آنے والے سرداروں نے کھانا نہیں کھایا اس بارہ میں وہ پہلے باہم مشورہ کر کے خواجہ گل خان کو بتا چکے تھے کہ ہم اس طرح کرنے والے ہیں.بادشاہ نے جب دیکھا کہ مہمان کھانا نہیں کھا رہے تو اس نے پوچھا کہ کیا بات ہے آپ کھانا کیوں نہیں کھاتے خواجہ گل خان کی معرفت انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگوں میں یہ دستور ہے کہ جب کوئی مُراد پوری کروانی ہوتی ہے تو کھانا نہیں کھایا جاتا جب تک مُراد پوری نہ ہو اس کے بعد کھانا کھاتے ہیں.بادشاہ نے کہا کہ کیا مراد ہے.ہم پوری کریں گے اس پر خواجہ گل خان نے بتایا کہ خوست کے صاحبزادگان قدیم سے پیر خانہ اور شریف لوگ ہیں اور ہم سب ان کی عزت کرتے ہیں ہماری عرض ہے کہ انہیں ترکستان سے واپس بلا لیا جائے.اس پر امیر حبیب اللہ خان نے فوراً حکم کر دیا کہ اچھا وہ واپس آجائیں چونکہ یہ صرف زبانی حکم تھا اور اس کے ساتھ کوئی تحریر نہ تھی اس واسطے صاحبزادگان کے واپس آنے میں دیر ہوگئی بعض بڑے بڑے لوگوں نے صاحبزادوں کو لکھا کہ تمہارے بارہ میں امیر نے یہ حکم دے دیا ہے اس واسطے اب تم واپس آ جاؤ مگر ہمیں حکومت کی طرف سے کوئی حکم نہیں ملا - اس پر ہمارے کچھ رشتہ داروں نے اس معاملہ کو اٹھایا کہ بادشاہ کے اس حکم پر
164 با قاعدہ کارروائی ہونی چاہئیے ان رشتہ داروں میں ایک مولوی محمد صدیق صاحب تھے جو ہندوستان میں تعلیم حاصل کر چکے تھے انہوں نے ایک موقعہ پا کر امیر حبیب اللہ خان کے حضور پیش ہو کر کہا کہ اس طرح آپ نے حکم دیا تھا لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا.اس پر بادشاہ نے کہا کہ میں اب پھر حکم کرتا ہوں کہ واپس آجائیں اور ان کو کرایہ بھی دیا جائے اور خادم بھی دیئے جائیں اور اپنے وطن واپس چلے جائیں.کچھ عرصہ بعد سردار عبداللہ خان طوخی کی معرفت ہمیں یہ حکم مل گیا اور ان سے کرایہ وغیرہ کی رقم بھی مل گئی.اس پر ہم نے اپنی واپسی کا انتظام کر لیا اور کا بل واپس آگئے.ابھی تک یہ فیصلہ نہ ہوا تھا کہ ہمیں ہماری زمین واپس کی جائے.ہم نے کابل واپس آکر زمین کی واپسی کے سلسلہ میں درخواست دی لیکن اس پر کئی ماہ گزر گئے اس عرصہ میں ایک ماہ تک تمام خاندان کا بل ہی میں رہا اس کے بعد دو آدمی کابل میں رہے اور باقی سب خوست چلے گئے.در ایں اثناءا میر حبیب اللہ کو جائداد کی فہرست پیش ہوئی باقی تین گھرانوں کو تو زمین دے دی گئی لیکن ہماری زمین جو سولہ ہزار کنال تھی اور جس میں باغ اور پن چکیاں تھیں ان کے متعلق حکم ہوا کہ یہ ہمیں واپس نہ کی جائیں.بلکہ یہ لوگ خوست سے کابل واپس آجائیں اور ہم ان کو یہاں کا بل میں زمین دے دیں گے.(۲۴) خوست میں عارضی قیام کے دوران صاحبزادوں کے دوسرے گھرانوں کو تو ان کی جاندا دوا پس کر دی گئی.د مگر حضرت شہید مرحوم کے صاحبزادگان کو ان کی جائداد نہ دی گئی اور امیر کے نہ دینے کی وجہ یہ بتائی کہ ان کی بہت بڑی جائداد ہے نہیں دی جاسکتی اس پر ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے ان سے کہا کہ پھر یہ لوگ گزارا کیونکر کریں گے تو سردار نصر اللہ خان نے یہ جواب دیا کہ جس طرح ان کی مرضی ہو کریں ہم کچھ نہیں دیں گے.چونکہ اس خاندان سے عقیدت رکھنے والے اس علاقہ میں بکثرت لوگ تھے اور وہ اس حال میں ان کو نہ دیکھ سکتے تھے اس لئے حکومت نے یہ خیال کر کے کہ وہ لوگ اس ظلم کے باعث جو شہید مرحوم کے بال بچوں پر روا رکھا جا رہا تھا.کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائیں.اس خاندان کو زیر حراست کا بل بلا لیا اس وقت
165 اس قافلہ کی تعداد مع خدام ۱۴ رہ گئی جنہیں کابل میں رہنے کے لئے دو بہت ہی تنگ کوٹھڑیاں دی گئیں.اس کے متعلق درخواست دی گئی کہ اتنی تنگ جگہ میں گزارا مشکل ہے اور خدام کے لئے علیحدہ رہنے کی جگہ کا ہونا ضروری ہے لیکن اس کے جواب میں کہا گیا.ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے.آخر ایک مکان اپنے (خرچ ) پر کرایہ پر لیا گیا.تب جا کر گزارا ہونے لگا.ان ایام میں ہفتہ میں دو بار کو تو الی جا کر اطلاع دینی پڑتی تھی کہ ہم لوگ اسی جگہ پر ہیں اور گھر محلہ کا نمبر دار دن رات نگرانی کرتا تھا اس حالت میں سارا خاندان پانچ سال رہا (۲۵) جیسا کہ پہلے ذکر آیا ہے امیر حبیب اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے اپنے گھرانہ کے بارہ میں یہ حکم دیا کہ یہ خوست میں نہ رہیں بلکہ واپس کا بل آجائیں.جب یہ حکم پہنچا تو حاکم خوست نے اس فرمان پر عمل کچھ دیر روکے رکھا کیونکہ وہ سخت سردی کا موسم تھا اور راستے برف سے بھرے ہوئے تھے.جب برف ختم ہوئی تو حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کے گھرانہ کو کابل واپس بھجوا دیا.اور وہ وہاں مقیم ہو گئے.حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ جب یہ کا بل میں آجائیں گے تو ان کو زمین دے دی جائے گی.صاحبزادہ ابوالحسن قدسی بیان کرتے ہیں کہ کابل میں ہمیں اس حساب سے زمین دی گئی جو مجاہدین کو دی جاتی تھی.بالغ مجاہد کے لئے فی کس بارہ کنال مقررتھی اور چھوٹی عمر والوں کے لئے چھ کنال مقرر تھی.اس حساب سے تمام گھرانہ کو مجموعی طور پر اکیس کنال زمین دی گئی یہ زمین اس قد ر تھوڑی تھی کہ اس سے گزارے کے لئے غلہ بھی پورا نہ ہوتا تھا اس لئے گزارہ کے لئے بنوں کی زمین سے روپیہ منگوانا پڑتا تھا.اس طرح قریباً دس سال کا عرصہ کا بل میں گزارا - (۲۶) جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمد یہ صوبہ سرحد کا بیان ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے اہل وعیال کا قیام ( تخمیناً ) ۱۹۱۱ء سے ۱۹۲۰ء تک کا بل میں رہا.وہاں رہائش کے لئے ایک معمولی سامکان شور بازار میں متصل چہاردہ معصوم کرایہ پر لیا ہوا تھا.(۲۷)
166 کا بل قیام کے دوران صاحبزادگان کی گرفتاری اور شیر پور جیل میں ایک اذیت ناک قید کا بل میں قیام پر تقریباً ۷، ۸ سال گزرے تھے کہ بعض وجوہات سے سردار نصر اللہ خان اور امیر حبیب اللہ خان ان کے بارہ میں بعض شکوک وشبہات میں مبتلا ہو گئے جس کے نتیجہ میں صاحبزادگان کو ایک اذیت ناک قید میں ڈال دیا گیا.واقعہ یہ ہے کہ ضلع گجرات ( شادیوال ) کا ایک احمدی فضل کریم نامی مجذوب الاحوال تھا.قادیان سے پشاور آیا اور کچھ عرصہ انجمن احمد یہ پشاور میں مقیم رہا.انہی ایام میں حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف شہید کا تیسرا بیٹا صاحبزادہ سید محمد عمر جان جو ایک خوبصورت نوجوان تھا اور جس کی عمر قریباً بیس سال ہوگی وہ بھی پشاور آیا اور جماعت پشاور کے پاس بطور مہمان مقیم رہا کچھ دن کے واسطے سرائے نو رنگ ضلع بنوں بھی گیا جہاں اس خاندان کی زرعی جائداد تھی وہاں سے حاصلات زراعت وصول کر کے پشاور واپس آ گیا.اس دوران میں کابل سے ایک احمدی دوست حضرت شہید مرحوم کی زوجہ محترمہ کا پیغام لائے کہ عزیز محمد عمر جان کو کابل واپس بھجوا دیا جائے ورنہ اُن کے خاندان کو بڑے مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا اگر چہ عزیزم محمد عمر جان کا ابھی کا بل واپس جانے کا پروگرام نہیں تھا لیکن والدہ محترمہ کے تعمیل ارشاد میں کا بل واپس چلا گیا.فضل کریم احمدی مجذوب جو اس وقت پشاور میں ہی موجود تھا اس نے صاحبزادہ عمر جان کو دیکھ لیا تھا.لیکن وہ پورے طور پر ان کے حالات سے واقف نہ تھا وہ ان کو حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف شہید کا بڑا بیٹا سمجھتا رہا.فضل کریم مجذوب صاحب کی ذہنی حالت بھی بہت اچھی نہ تھی جس کی وجہ سے غلطی لگنے کا بھی امکان تھا.صاحبزادہ محمد عمر جان کے پشاور سے چلے جانے کے کچھ عرصہ بعد فضل کریم مجذور بھی ایک روز بلا حصول اجازت انجمن احمد یہ پشاور سے غائب ہو گئے.بعد میں یہ معلوم ہوا کہ وہ پشاور سے کو ہاٹ اور گرم کی راہ سے درّہ پیواڑ کو تل میں سے گزر کر جاجی علاقہ میں جواب
167 صوبہ پکتیا میں واقعہ ہے افغانستان میں داخل ہو گئے اور پھر وہاں سے کا بل کا رخ کر لیا ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ افغانستان میں تبلیغ احمدیت کریں گے اور قیاس ہے کہ وہ کابل میں احمدی احباب کو بھی ملے جو ان ایام میں حکومت کے خوف سے مخفی طور پر رہتے تھے بالآخر انہوں نے احمدیت کے شدید ترین دشمن سردار نصر اللہ خان کو درخواست بھجوائی کہ میں احمدی ہوں اور کا بل میں احمدیت کی تبلیغ کے لئے آیا ہوں.سردار نصر اللہ خان نے فضل کریم صاحب کو تو گرفتار کر وا دیا.اور حاکم شہر کابل نے اس معاملہ کی تحقیق کی.حاکم شہر نے فضل کریم صاحب سے دریافت کیا کہ کیا تم یہاں کسی احمدی سے واقف ہو.اس نے کہا کہ ہاں میں صاحبزادہ سید محمد لطیف شہید کے بڑے فرزند کو جانتا ہوں اور چند اور احمدیوں کے نام لئے اس طرح وہ تمام احمدی جن کے فضل کریم نے نام لئے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے تمام لڑکے گرفتار کر کے شیر پورجیل میں ڈال دیئے گئے اس وقت صاحبزادہ محمد سعید جان صاحب.صاحبزادہ عبد السلام جان صاحب صاحبزادہ محمد عمر جان صاحب صاحبزادہ احمد ابوالحسن قدسی صاحب اور صاحبزادہ محمد طیب جان صاحب مقید کر دیئے گئے ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں (۲۸) مکرم سید ابوالحسن قدسی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب کا بل میں جلا وطنی کو سات سال گزر گئے تو فضل کریم صاحب احمدی افغانستان آگئے اور احمدیت کی وجہ سے انہیں قید کر لیا گیا تحقیقات کے دوران اس کو سید حسین شاہ نے جو افغانستان کے پولیٹیکل محکمہ میں افسر تھا کہا کہ اگر تم احمدی ہو تو کابل میں جو احمدی ہیں ان کے نام بتا دو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے.اس پر فضل کریم نے کہا کہ میں شہید مرحوم کی اولاد کو جانتا ہوں جو قادیان گئے تھے.حالانکہ اس وقت تک ہم میں سے کوئی قادیان نہ گیا تھا.اس طرح بن بلائے یہ مصیبت ہم پر آپڑی اور ہم سب بھائیوں کو قید کر لیا گیا اور پانچوں کو بیڑیاں ڈال دی گئیں جن میں سے ہر ایک کا وزن ساڑھے چھ سیر کے قریب تھا ہمارے پاؤں زخمی ہو گئے.اب ہمارے بارہ میں تحقیقات شروع ہوئی.قریباً چھ ماہ کے بعد صرف چالان مکمل ہوا کہ ان کو دربار میں حاضر کیا جائے اس عرصہ میں بیڑیوں سمیت آٹھ بار در بار گئے لیکن پیشی نہ ہوئی کبھی یہ کہا جاتا کہ امیر صاحب بیمار
168 ہیں کبھی یہ کہ آج تو فلاں معاملہ پیش ہے وغیرہ ذالک جیل خانہ میں ہمیں کھانے کا انتظام بھی خود کرنا پڑا.(۲۹) آٹھ نو ماہ تک جیل خانہ کی سخت تکالیف میں مبتلا ر ہے اور تمام صاحبزادے بیمار ہو گئے جیل فیور یا تپ زندان میں مبتلا ہو گئے (۳۰) اخبار الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء میں سید احمد ابوالحسن قدسی صاحب کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ ایک پنجابی احمدی دوست جن کا نام فضل کریم تھا اور جو گجرات کے رہنے والے تھے کابل گئے اور احمدی ہونے کی وجہ سے پکڑے گئے ان سے جب پوچھا گیا کہ یہاں کوئی اور بھی احمدی ہے تو انہوں نے ہمارا نام لیا.اس پر پانچوں بھائی اور ایک اور رشتہ دار جو بطور مہمان ہمارے پاس آئے ہوئے تھے گرفتار کر لئے گئے.”ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر ہمیں جیل خانہ میں ڈال دیا گیا اور یہاں تک ہم پر تشدد اور سختی کی گئی کہ انہی ایام میں جب ہماری والدہ صاحبہ فوت ہوئیں تو ہمیں ان کا آخری دفعہ چہرہ دیکھنے کی اجازت نہ دی گئی.آخر ہمارے یہ کہنے پر کہ ان کی تجہیز و تکفین کرنے والا سوائے ہمارے کوئی نہیں تو صرف ہمارے بڑے بھائی کو اجازت دی گئی کہ وہ جا کر دفن کر آئیں.باقی کسی اور کو چہرہ دیکھنے کی بھی اجازت نہ ملی.اس قید میں ہم لوگ آٹھ ماہ کے قریب رہے ہم سب خرچ اپنا کرتے تھے.کیونکہ حکومت ہمیں قید میں ڈال کر اور بیڑیاں پہنا کر کھانے پینے کے لئے کچھ دینے پر تیار نہ تھی.“ (۳۱) سردار امان اللہ خان کے ذریعہ صاحبزادگان کی رہائی آخر اللہ تعالیٰ نے یہ اسباب پیدا کر دیئے کہ امیر حبیب اللہ خان ، سردار امان اللہ خان سے ان کی والدہ علیاء حضرت کی وجہ سے ناراض ہو گیا.اس سے قبل جب بھی وہ کابل سے موسم سرما گذار نے باہر جاتا تھا تو سردار امان اللہ خان اس کے ساتھ جا تا تھا.جوامیر حبیب اللہ خان کا تیسرا بیٹا تھا اور سردار عنایت اللہ خان جو حضرت علیا کے بطن سے اس کا بڑا بیٹا تھا کا بل میں اپنا قائمقام بنا کر چھوڑ جاتا تھا.
169 علیا حضرت سے ناراضگی کی وجہ سے وہ جب ۱۹۱۸ء کی سردیوں میں سیر و تفریح اور شکار کے لئے پغمان کونٹر اور جلال آباد کے علاقہ میں گیا تو سردار عنایت اللہ خان کو اپنے ساتھ لے گیا اور سردار امان اللہ خان کو کابل میں چھوڑ گیا.چونکہ سردار امان اللہ خان کا بل کا والی اور امیر حبیب اللہ خان کا قائمقام تھا اس لئے من جملہ دیگر امور کے کابل کے قید خانے بھی اس کے ماتحت ہو گئے.سردار امان اللہ خان کی بیگم ثریا تھی جو سردار محمود خان طرزی کی بیٹی تھی اور امان اللہ سردارمحمود خان سردار محمود خان طرزی کے زیر اثر تھا.سردار محمود خان طرزی ایک جدید خیالات والا آزادی ضمیر کا دلدادہ اور جمہوری سیاست میں یقین رکھنے والا سردار تھا اور کئی سال ملک شام میں رہ چکا تھا اُس کی کوشش اور خواہش تھی کہ افغانستان کا نظام بھی جدید ترقی یافتہ ممالک کے رنگ میں چلا یا جائے چونکہ سردار امان اللہ خان اس سے متاثر تھا اس لئے وہ بھی ان خیالات کا دلدادہ ہو گیا اور افغانستان میں حریت خیالات اور مذہبی آزادی پھیلانے کا خواہاں تھا.اس لئے وہ انتظامی اور سیاسی امور میں نرمی برتا تھا.اس نے کابل کے کوتوال کو حکم دیا کہ تمام قیدیوں کی فہرست پیش کرے تا کہ وہ قیدی جو سالوں سے جیلوں میں بند پڑے ہیں اور ان کے کیسز پر نہ غور ہوتا ہے اور نہ انہیں انصاف کے نقطہ نگاہ سے رہائی کی امید ہے.ایسے قیدیوں کو اس کے حضور پیش کیا جائے تا کہ اُن کے بارہ میں جلد فیصلہ کر دیا جائے.اس طرح تقریباً دوصد آدمی اس کے دربار میں حاضر کئے گئے وہ سارا دن دربار لگا تا.اس طرح اس نے بہت سے قیدی رہا کر دیئے اور بعض قیدیوں کو انعامات سے بھی نوازا.اس وجہ سے دوسرے قیدیوں اور ان کے دوستوں اور رشتہ داروں نے بھی کوششیں شروع کر دیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو سردار امان اللہ خان کے دربار میں ان کی پیشی ہو جائے اور ان کے کیسز کا فیصلہ ہو کر وہ قید کی مصیبت سے نجات پائیں.صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بھی کوشش کی اور دربار میں حاضر ہو گئے ہم نے سردار امان اللہ خان کے ماموں ابراہیم جان کی معرفت یہ کوشش کی تھی.
170 اس کوشش کی وجہ سے اس نے ہمارے اس مہمان کو جو ہمارے ساتھ بلا وجہ قید کرلیا گیا تھا رہا کر دیا اور ہمیں یہ کہا کہ تم لوگوں کو تو سردار نصر اللہ خان نے قید کیا تھا اس لئے میں تمہارے واسطے ان سے ہی فیصلہ کرواؤں گا اور اس کو فون کر کے تم لوگوں کے بارہ میں حکم لے لوں گا.آج جمعرات ہے میں پیر کے روز تک تمہاری رہائی کا حکم لے کر چھوڑوں گا.اس پر ہم واپس آ گئے اور ہمیں (فوری رہائی نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی ہوئی.صاحبزادہ سیدابوالحسن قدسی کا بیان ہے کہ سردار امان اللہ خان نے ہم سے اپنے سیکرٹری فقیر محمد خان کے توسط سے گفتگو کی تھی گفتگو کے وقت امان اللہ خان نے اپنا سر نیچے کیا ہوا تھا وہ ہماری یہ حالت دیکھ کر برداشت نہ کر سکا تھا.اس وقت ہمارے بھائی محمد سعید صاحب کی عمر بائیس سال - محمد عبد السلام صاحب کی سولہ سال، محمد عمر صاحب کی پندرہ سال میری ( یعنی سید ابوالحسن قدسی کی ) چودہ سال اور محمد طیب کی ۱۲ سال تھی.نوٹ : - سید احمد ابوالحسن قدسی کے اس بیان میں عمروں کی تفصیل غلطی سے درست نہیں لکھی گئی.۱۹۱۸ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کو ۱۵ سال گزر چکے تھے اُس وقت بعض صاحبزادگان کی جو عمریں بتائی گئی تھیں وہ رسالہ کے شروع میں درج شدہ ہیں ان کو محوظ رکھتے ہوئے صاحبزادگان کی عمر میں ۱۹۱۸ء میں یہ ہونی چاہئیں.صاحبزادہ سید محمد سعید جان ۳۷ سال- صاحبزادہ محمد عبد السلام جان اور صاحبزادہ محمد عمر جان صاحبزادہ سید محمد سعید جان سے چھوٹے تھے اور ان سے چھوٹے صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی تھے جن کی عمر ۱۷، ۱۸ سال اور صاحبزادہ محمد طیب جان ۱۶، ۱۷ سال کے ہوں گے.بدھ کے روز ابراہیم جان نے اپنا اردلی عظیم گل نامی ہمارے پاس جیل میں بھجوایا اس نے ہمیں بتایا کہ ابراہیم جان نے مجھے بھیجا ہے کہ مبارکباد دے دوں کہ آپ رہا ہو جائیں گے.قید خانہ کے افسران میں سے ایک بادشاہ خان حوالدار تھا.جس کا حضرت صاحبزادہ صاحب سے اچھا تعلق تھا ہم نے اس کو کہلا بھیجا کہ وہ معلوم کرے کہ کیا فیصلہ ہوا پہلے ہم اس کا
171 انتظار کرتے رہے لیکن وہ تین روز تک نہیں آسکا.اس کے بعد اس کے اردلی نے بتایا کہ تمہارے بارہ میں کو توال کو حکم آیا ہے.اور کو تو ال کو صرف ان لوگوں کے بارہ میں حکم آتا ہے جن کو قتل کرنا مقصود ہو تب ہم نے یہ یقین کر لیا کہ ہمیں زندہ نہیں چھوڑا جائے گا اور موت کے ذریعہ ہماری رہائی ہو گی.یہ معلوم کر کے ہمارا کھانا پینا سونا سب ہم پر حرام ہو گیا.عجیب غم میں مبتلا ہو گئے.اس کے بعد کو تو ال نے جیل کے داروغہ کو حکم بھجوایا کہ ان کو مسلح پہرہ میں جلدی کو توالی بھجوا دیا جائے.ہم روانہ ہوئے اور ہمیں بالکل یقین تھا کہ اب ہمارے لئے موت کے علاوہ کچھ نہیں رہا.جیل میں عبد السلام ، محمد طیب اور ابوالحسن قدسی متینوں کو نمونیہ ہو گیا تھا اور باقی سب بھی بیمار تھے.کیونکہ قید خانہ میں سخت سردی تھی اور اس سے بچاؤ کا کوئی انتظام نہ تھا اور بڑی تعداد میں لوگ مر چکے تھے.جب کو تو الی کو روانہ ہوئے تو ہمارے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں اور ہم بیماری کی وجہ سے ایک دوسرے پر گرتے تھے.ہم سب میں محمد سعید کچھ بچے ہوئے تھے یعنی ان کی حالت قدرے بہتر تھی باقی سب بیمار تھے.عبد السلام کی حالت تو نازک تھی.کو توالی ، جیل سے تقریباً دو میل کے فاصلہ پر تھی.بیٹریوں کی وجہ سے ہم سب کے پاؤں زخمی ہو چکے تھے.ایک عجیب منظر تھا.محمد عمر جان بخار کی تیزی کی وجہ سے گر پڑے ان کو عبدالسلام نے پکڑنے کی کوشش کی لیکن پکڑ نہ سکے اس پر ایک سپاہی نے مدد دی.راستہ میں ہم کہتے تھے کہ کوتوالی جانے سے پہلے ہی اگر موت آجائے تو اچھا ہو.جب کوتوالی پہنچے تو مرزا عبدالخالق جو کوتوال کا سیکرٹری تھا اس نے حکم دیا کہ بیڑیاں فوراً اتار دی جائیں.اب ہمیں کچھ امید پیدا ہوئی.جب بیڑیاں توڑنے لگے تو لوہار کا سامان خراب ہو گیا اس واسطے پھر ایک میل کا فاصلہ طے کر کے لوہار کی دوکان پر بیٹریاں تڑوائیں.ابھی تک ہمارے اوپر پہرہ برقرار تھا.اس کے بعد ہمیں محکمہ شرعیہ میں حاضر کیا گیا.محکمہ شرعیہ میں قاضی عبدالشکور کی عدالت میں پیش کیا گیا قاضی نے پوچھا کہ تم فضل کریم قادیانی جو پنجابی ہے اس کو جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں.پھر پوچھا کہ تم لوگ قادیان گئے تھے ہم نے کہا نہیں.تحقیقات مکمل ہونے پر پھر کو تو الی حاضر ہوئے اور وہاں رہا کئے جانے
172 کا حکم ملا.اس پر ہم آزاد ہوئے اور کابل میں اپنے گھر آئے صرف محمد سعید واپس قید خانہ میں گئے اور بستر وغیرہ سارا سامان دوسرے قیدیوں میں تقسیم کر دیا.(۳۲) سید ابوالحسن قدسی کا جو بیان اخبار الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء میں شائع ہوا ہے اس.میں لکھا ہے کہ آخرامان اللہ خان کے ایک سیکرٹری کو ہم نے تین سو روپیہ دیا اور اس نے امان اللہ خان سے سفارش کروا کر ہمیں رہا کرا دیا.(۳۳) - صاحبزادہ محمد عمر جان کی وفات قید خانہ میں صاحبزادہ محمد عمر جان بہت بیمار ہو گئے تھے اور رہائی کے وقت بھی بیمار تھے انہیں شدید بخار تھا.اسی وجہ سے وہ رہائی کے بعد گھر پر چودہ دن بیمار رہ کر فوت ہو گئے.إنا لله و انا اليه راجعون - (۳۴) اس آٹھ ماہ کے عرصہ میں اس قدر تکلیف دی گئی کہ جیل خانہ کی تکالیف کی وجہ سے ہمارے ایک بھائی محمد عمر صاحب بیمار ہو گئے اور آخر اسی بیماری سے فوت ہو گئے.میں ابوالحسن بھی بیمار ہو گیا گو میں رہائی کے ایک ماہ بعد اچھا ہو گیا لیکن ان تکالیف کے اثرات تا حال میرے جسم پر موجود ہیں.‘ (۳۵) صاحبزادہ محمد سعید جان کی وفات صاحبزادگان کی رہائی کے بعد سردار امان اللہ خان والی کا بل نے ہمارے گھرانے کو بعض شرائط پر اپنے وطن علاقہ خوست میں بھیجنا چاہا.اس بارہ میں جو گفت شنید ہوئی اس میں صاحبزادہ محمد سعید جان نے کہا کہ جب تک ہماری جائداد واپس نہ کی جائے ہم اپنے وطن واپس نہیں جا سکتے ابھی یہ معاملہ زیر غور ہی تھا کہ صاحبزادہ محمد سعید جان فوت ہو گئے.انا للہ و انا اليه راجعون (۳۶) قید خانہ سے نکلنے کے ایک سال بعد ہمارے سب سے بڑے بھائی محمد سعید صاحب فوت ہو گئے ان کے فوت ہونے کے بعد ۱۵، ۶ ا دن کے اندرا میر حبیب اللہ خان قتل ہو گئے (۳۷)
173 نوٹ : - جیسا کہ آگے ذکر آئے گا امیر حبیب اللہ خان ۲۰ فروری ۱۹۱۹ء کو قتل ہوا تھا.(۳۸) امیر حبیب اللہ خان کا قتل اور امیر امان اللہ خان کی تخت نشینی پہلے ذکر آچکا ہے کہ ۱۹۱۸ء کے موسم سرما میں امیر حبیب اللہ خان سیر و تفریح اور شکار کے لئے کابل کی سمت مشرق میں جلال آباد - کونٹر اور پغمان کے سرسبز و شاداب علاقے میں گیا ہوا تھا اور کابل میں اپنے بیٹے سردار امان اللہ خان کو اپنا قائمقام والی بنا کر چھوڑ گیا تھا جو افسران اور رؤسا اس کے ساتھ تھے ان میں جنرل محمد نادرخان-سردار نصر اللہ خان مستوفی الملک مرزا محمد حسین برگیڈئیر شامل تھے سیر و تفریح کرتے ہوئے ایک مقام کلہ گوش میں ٹھہرا اور کیمپ لگانے کا حکم دیا.چند روز وہاں قیام کا ارادہ کیا ۲۰ فروری ۱۹۱۹ء بروز جمعرات اپنے خیمہ میں اپنی ملکہ علیاء حضرت کے ساتھ محو استراحت تھا کہ کسی نامعلوم دشمن نے باوجود پہرہ اور حفاظتی انتظامات کے خیمہ میں گھس کر اس کے کان میں پستول رکھ کر چلا دیا اور اس سے اس کی موت واقعہ ہوگئی.امیر حبیب اللہ خان کے بعد اصولاً اس کا بڑا بیٹا سردار عنایت اللہ خان مستحق تاج و تخت تھا لیکن اس کے چا سردار نصر اللہ خان نے اس کا حق غصب کر لیا اور خود بادشاہ بن گیا اور جلال آباد کے علاقہ میں دربار کر کے اس کا اعلان عام کر دیا.جب کابل میں سردار امان اللہ خان اور دیگر سرداران کو یہ خبر ملی تو وہ شک وشبہ میں مبتلا ہو گئے.سردار امان اللہ خان نے سردار عبدالقدوس خان شاہ عاصی کے مشورہ سے کابل میں موجود اراکین سلطنت رؤسا اور علماء کا اجلاس طلب کیا اور علاقہ جلال آباد میں ہونے والے تمام واقعات کا با چشم تر تذکرہ کیا.اور کہا کہ میرا باپ اور ملک کا بادشاہ کس مپرسی کی حالت میں قتل کر دیا گیا.سردار نصر اللہ خان نے نہ تو قاتل کی گرفتاری کے لئے تگ دو کی اور نہ ولی عہدی کے بارہ میں امیر حبیب اللہ خان کی وصیت کی پرواہ کی بلکہ سردار عنایت اللہ خان کو محروم کر کے اپنے بادشاہ ہونے کا اعلان کروا دیا.کیا ان حالات سے نتیجہ نہیں نکلتا کہ دراصل یہ قتل سردار نصر اللہ خان نے کروایا ہے کیا جو کچھ ہوا درست ہوا اس پر حاضرین نے کہا کہ نہیں درست نہیں ہوا.اس پر
174 امان اللہ خان نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ لوگ میرا ساتھ دیں اور قصاص لینے میں میری اعانت کریں.حاضرین نے اس سے اتفاق کیا اور امیر امان اللہ خان کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کو افغانستان کا بادشاہ تسلیم کر لیا امیر امان اللہ خان نے ان اراکین سلطنت کے اہل و عیال کو اپنے زیر نگرانی کر لیا جو سردار نصر اللہ خان کے حامی تھے اور ان کے گھروں اور جائدادوں پر قبضہ کر لیا علاوہ ازیں اس نے کابل میں موجود اسلحہ کے ذخائر اور خزانہ بھی اپنے تصرف میں لے لئے.اُس نے ایک فرمانِ شاہی کے ذریعہ سردار نصر اللہ خان اور اس کے حامیوں.سردار عنایت اللہ خان اور مستوفی الملک مرزا محمد حسین برگیڈئیر جو کا بل کا مستقل گورنر امیر عبدالرحمن خان اور امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ سے چلا آ رہا تھا کونوٹس دیا کہ وہ لوگ حکومت کے باغی اور امیر حبیب اللہ خان کے قاتل ہیں اس لئے فوراً سر دار نصر اللہ خان دعوی بادشاہی سے دستبردار ہوا اور وہ اور اس کے ساتھی پا بجولان کا بل میں حاضر ہوں اور اپنی صفائی پیش کریں.اب سردار نصر اللہ خان اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو بے بس پایا.سردار نصر اللہ خان نے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور تینوں اور ان کے دیگر حامی سردار پابجولان کا بل لائے گئے.تحقیقات کے بعد سردار نصر اللہ خان کو عمر قید اور سردار عنایت اللہ خان اور سردار ہدایت اللہ خان کو کابل میں نظر بند کر دیا گیا اور مرزا بر گیڈیئر محمد حسین مستوفی الملک کو قتل کروا دیا اس کے علاوہ بھی بعض افسروں کو سزائے موت اور سزائے قید دی گئی.کچھ عرصہ بعد پر سردار نصر اللہ خان کو خفیہ طور پر دم بند کر کے مروا دیا.امیر حبیب اللہ خان کی بیوی علیاء حضرت جوامیر امان اللہ خان کی والدہ تھیں قندھار کے ایک صاحب رسوخ خاندان سے تھیں اور امیر حبیب اللہ خان کی چہیتی اور صاحب اثر و رسوخ بیوی تھیں اور ان کو اس کے عہد میں بڑا اقتدار حاصل تھا.جب امیر حبیب اللہ خان ۱۹۰۹ء میں ہندوستان کے دورہ پر آئے تو بیان کیا جاتا ہے کہ انگریزوں نے ان کو رنگین مزاج بنا دیا تھا اور ان میں یہ تبدیلی ان کے قتل کا باعث بن گئی.علیاء حضرت کو امیر حبیب اللہ
175 خان کی رنگین مزاجی پسند نہ تھی اس وجہ سے امیران سے ناراض رہنے لگا اور علیا حضرت - امیر کی نظروں سے گر چکی تھی اور امیر نے ان کو شاہی محل سے بھی نکلوا دیا تھا.سنا جاتا ہے کہ وہ اس بے عزتی کو برداشت نہ کر سکیں اور انہوں نے امیر مقتول کے خلاف سازشیں شروع کر دی تھیں.جن کا انجام بالآ خرا میر حبیب اللہ خان کے قتل پر منتج ہوا.اور ان کی پس پردہ کوششوں سے ان کا اپنا بیٹا امیر امان اللہ خان بادشاہ بن گیا.امیر امان اللہ خان فوج کی امداد حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا اس نے فوجیوں کی تنخواہیں بھی بڑھا دیں.جلال آباد کے علاقہ میں فوج نے نہ صرف امیر امان اللہ خان کی بادشاہت کو تسلیم کیا بلکہ ان لوگوں کو بھی گرفتار کیا جو امیر امان اللہ خان کے خلاف تھے اور جن پر امیر حبیب اللہ خان کے قتل کا الزام تھا.امیر امان اللہ خان نے بادشاہ بن کر تمام صوبوں کے گورنر بدل دیئے اور ان میں سردارانِ پشاور کے خاندان کے آدمی لگائے جو عرف عام میں مصاحبین کہلاتے تھے سردار جنرل محمد نادر خان بھی مصاحبین میں شامل تھا.قندھار کے صوبہ میں امیر امان اللہ خان نے سردارانِ قندھار میں سے ایک شخص لوہ ناب خوش دل خان کو گورنر مقرر کیا.یہ شخص امیر امان اللہ خان کی والدہ علکیاء حضرت کا سوتیلا بھائی تھا اور ویسے بھی امیر حبیب اللہ خان اور امیر عبدالرحمن خان کے خاندان کا جدی رشتہ دار تھا جیسا که امیران افغانستان کے شجرہ نسب سے واضح ہو گا جو اس رسالہ میں دیا گیا ہے.(۳۹) امیر امان اللہ خان کی تخت نشینی کے بعد صاحبزادگان کے حالات جب امیر امان اللہ خان بادشاہ بن گیا تو اس نے سات دن تک امیر حبیب اللہ خان کا سوگ منایا.اُس کے بعد کئی ماہ تک تخت نشینی کا جشن منایا گیا.کا بل کے باہر سے بڑے بڑے لوگ اور سرداران قبائل نئے امیر کی بیعت کے لئے بلائے گئے اور ان کے اعزاز میں دعوتوں کا اہتمام کیا گیا.سمت جنوبی یعنی خوست وغیرہ سے بھی لوگ بلائے گئے ان میں ایک بڑا آدمی خان
176 ببرک خان بھی تھا جو حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید سے عقیدت رکھتا تھا جب وہ بیعت کے لئے پیش ہوا تو اس کے ساتھ صاحبزادہ عبد السلام بھی بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے تھے.اس موقعہ پر خان ببرک خان نے بادشاہ سے صاحبزادگان کے بارہ میں درخواست کی کہ ان کو ان کے وطن خوست بھجوا دیا جائے اس پر بادشاہ نے حکم دیا کہ صاحبزادگان خوست واپس چلے جائیں اور اُن کی جائداد بھی ان کو واپس کر دی جائے.(۴۰) ” جب امیر امان اللہ خان صاحب حکمران ہوئے تو ان کی حکومت کے ابتدائی ایام میں علاقہ خوست کے سرکردہ لوگوں نے جن کا ہیڈ ایک مشہور و معروف شخص ببرک خان تھا (اس نے ) درخواست دی...اس پر امیر امان اللہ خان صاحب نے ہم کو رہا کر دیا اور ساتھ ہی یہ حکم دے دیا کہ ان کو ان کی جائداد مل جائے اس امر کے متعلق ہمیں امیر امان اللہ صاحب کی طرف سے ایک فرمان بھی ملا جو ہم نے علاقہ خوست کے گورنر کو لا کر دے دیا.....اس طرح ایک دفعہ پھر ہمارا خاندان اپنے وطن آ گیا اور زندگی بسر کر نے لگا “ (۴۱) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کا گھرانہ واپس اپنے وطن خوست میں جب با دشاه امان اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے گھرانہ کو خوست واپس جانے کی اجازت دی اور ان کی جائداد کے واپس کئے جانے کا حکم دے دیا تو تین دن کے اندر یہ لوگ خوست روانہ ہو گئے.سردار شیریں دل خان جو امیر عبدالرحمن خان اور امیر حبیب اللہ خان کے ابتدائی زمانہ میں حاکم خوست تھا.اب اس کا بیٹا سردار عطا محمد خان حاکم خوست تھا سردار شیرین دل خان کا سارا خاندان حضرت صاحبزادہ صاحب سے عقیدت رکھتا تھا اس کی بیوی نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی بیعت کی ہوئی تھی اس کا ایک بیٹا سردار عبدالرحمن جان حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے وقت کا بل میں موجود تھا.جب سید احمد نور کا بلی نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی نعش پتھروں کے نیچے سے نکالی اور انہیں تابوت میں رکھ کر کابل کے ایک قبرستان میں
177 امانتاً دفن کیا تو اس سارے کام میں سردار عبدالرحمن جان نے مدد کی اور سید احمد نور کو رقم بھی دی تا کہ وہ تابوت اور کفن وغیرہ خرید لیں.جب تابوت قبرستان میں لایا گیا تو سردار عبدالرحمن جان نے ان کا جنازہ بھی پڑھایا اور انہی دنوں اس نے احمدیت بھی قبول کر لی اور سید احمد نور کے ہاتھ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک جائے نماز بھی تحفہ بھجوائی.اس وجہ سے سردار عطاء محمد خان حاکم خوست کو بھی صاحبزادگان سے ہمدردی تھی جب صاحبزادگان کی ملاقات عطا محمد خان سے ہوئی تو اس نے اپنے سیکرٹری کو کہا کہ ان کو دو خط دیئے جائیں ایک خط برگٹ خوست کے نام دیا جائے جس کا نام شاہ بزرگ تھا اور اس کو ہدایت دی گئی کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے گھرانہ کو ان کی زمین دے دی جائے.دوسرا خط حاکم چمکنی کے نام تھا جس کا نام محی الدین تھا چمکنی میں بھی ان کی زمین تھی.خوست والی زمین ان کو فوراً واپس مل گئی حاکم چمکنی کے نام خط لے کر صاحبزادہ عبد السلام جان گئے انہوں نے یہ خط چمکنی میں حوالدار بادشاہ خان کو دیا جو پہلے کا بل میں رہتا تھا اس کے ساتھ اس خاندان کے پرانے تعلقات تھے اس نے چمکنی والی زمین کا بھی انتظام کر دیا یہ زمین بارہ حصوں میں منقسم تھی جن میں ایک حصہ صاحبزادگان کا تھا.جب زمین واپس مل گئی تو یہ خاندان آرام سے اپنے وطن میں رہنے لگا.صاحبزادگان کی واپسی کی خبر سن کر دور دور سے رشتہ دار آنے لگے اور انہوں نے تحائف پیش کئے.علاوہ ازیں احمدیوں نے بھی دُنبے وغیرہ پیش کئے.(۴۲) صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی بیان کرتے ہیں کہ کسی رشتہ دار نے ہماری رپورٹ برگیڈئیر سے کر دی کہ صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کے خاندان کے لوگوں کا تعلق خوست کے احمدیوں سے ہے اور ان کو ان کی طرف سے تحائف اور مال آنا شروع ہو گیا ہے.اس واسطے ان کی نگرانی رکھنی ضروری ہے.وہاں ایک ایسا آدمی تھا جس کا صاحبزادہ عبدالسلام جان سے تعلق تھا.اس نے عبد السلام جان کو اس شکایت کی اطلاع کر دی.اس پر عبدالسلام جان ملاقات کے لئے گئے اور برگیڈئیر کو کہا کہ ہر آدمی کے کچھ دشمن ہوتے ہیں.ہمارے بھی بڑے
178 دشمن ہیں اس واسطے اگر ہمارے خلاف کوئی شکایت ہو تو اس کی تحقیق ضرور کریں برگیڈئیر کے عبد السلام جان سے اچھے تعلقات تھے اس نے بڑے ادب و احترام سے جواب دیا کہ شکایت کی صورت میں ضرور تحقیق کی جائے گی.اگر بغیر تحقیق کے کوئی کاروائی کرنی ہوتی تو اب تک میں کچھ کر چکا ہوتا کیونکہ جب سے تم لوگ خوست آئے ہو تمہارے بارے میں بہت سی رپورٹیں پہنچی ہیں لیکن میں نے ان سب کو رد کر دیا ہے کیونکہ میں خود انہیں غلط سمجھتا ہوں.(۴۳) افغانستان کی تیسری جنگ اور امیر امان اللہ خان کی طرف سے انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان امیر امان اللہ خان نے بادشاہ بنتے ہی انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی جو افغانستان کی تیسری جنگ کہلاتی ہے.اس جنگ میں علاوہ افغانستان کی باقاعدہ فوج کے قبائل اور عوام میں بھی جہاد کا اعلان کیا گیا اور افغانوں نے تین محاذوں پر برٹش انڈیا پر حملہ کیا.ایک حملہ تو ڈکہ کے علاقے میں یعنی کا بل سے پشاور آنے والی سڑک کے راستہ کیا گیا دوسرا حملہ قندھار کی جانب سے کیا گیا.اور تیسرا حملہ افغانستان کی سمت جنوبی خوست وغیرہ کی جانب سے کو ہاٹ کی جانب کیا گیا.اس حملہ کی کمان جنرل محمد نادرخان نے سنبھالی ہوئی تھی.چونکہ حملہ کی پہل افغانستان نے کی تھی اس لئے ابتداء میں ان کو کامیابی ہوئی اور وہ برٹش انڈیا کے اندر گھس گئے جنرل محمد نادر خان فوج اور قبائل حامیوں کی مدد سے مل ضلع کو ہاٹ تک پہنچ گیا.عطا محمد خان حاکم خوست جو سردار شیر میں دل خان کا بیٹا تھا اس نے صاحبزادہ عبد السلام جان کو تحریک کی کہ وہ بھی اس جہاد میں شامل ہوں چنانچہ صاحبزادہ عبد السلام صاحب اپنے پچاس خدام کے ساتھ مل کے محاذ پر جنگ میں شامل ہوئے اور ٹل کو افغانوں نے
179 فتح کر لیا اور افغان فوجیں ٹل پر قابض ہو گئیں یہ رمضان المبارک کے ایام تھے اس جنگ میں انگریزوں نے فوری کارروائی کی اور پیچھے سے فوجیں لا کر افغان حملہ کا مقابلہ کیا اور ان کو روک دیا بعض پرانے ہوائی جہاز بھی انگریزوں نے استعمال کئے چنانچہ مل اور کابل وغیرہ پر بمباری کی گئی اس سے افغانوں میں دہشت پھیل گئی اور ان کا خاصہ جانی نقصان ہوا اس پر امیر امان اللہ خان لڑائی بند کرنے پر تیار ہو گیا اور اس بارہ میں اس نے وائسرائے ہند کو لکھا کہ وہ سیز فائر یعنی جنگ بندی کے لئے تیار ہے پہلے تو انگریزوں نے پرواہ نہیں کی بالآخر وہ بھی جنگ بندی کے لئے تیار ہو گئے اور دونوں طرف کے نمائندے راولپنڈی میں جنگ بندی کا فیصلہ کرنے کے لئے جمع ہوئے.افغانستان کی طرف سے سردار علی جان خان جنگ بندی اور صلح کے لئے راولپنڈی گیا.اور دونوں فریقوں کا جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا.افغانستان کو اس جنگ کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا.امیر امان اللہ خان کا خیال تھا کہ اس کے نتیجہ میں وہ ڈیورنڈ لائن سے جانب شرق بعض علاقے جو صوبہ سرحد یا بلوچستان میں شامل تھے افغانستان میں شامل کروانے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن انگریز اپنے موقف پر سختی سے قائم رہے اور انہوں نے برطانوی ہند کا کوئی علاقہ افغانستان کو دینے سے انکار کر دیا.اس وقت امیر عبدالرحمن خان اور امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ سے افغانستان کو خارجی خود مختاری حاصل نہ تھی اور دفاع اور امور خارجہ میں افغانستان انگریزوں کے ماتحت تھا اور اس کے عوض افغانستان کے اُمراء کو لاکھوں روپیہ وظیفہ ملتا تھا.انگریزوں نے صلح اور جنگ بندی کی گفت و شنید میں افغانستان کی خارجی خود مختاری تسلیم کر لی اور اس کے نتیجہ میں افغانستان ایک آزاد مملکت کی صورت میں منصہ ظہور پر آیا.انگریزوں نے وظیفہ کی وہ رقم جو اُمراء افغانستان کو دیا کرتے تھے اس کی ادائیگی بند کر دی.سردار علی جان خان نمائندہ افغانستان کو یہ امور تسلیم کرنے پڑے اور اس نے جنگ بندی کے معاہدہ پر دستخط کر دیئے امیر امان اللہ خان حسب خواہش تمام مقاصد کے حصول میں
180 نا کامی کی وجہ سے جنگ میں افغانوں کی فوج کے انگریزوں کا کامیاب مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو گیا اور سردار علی جان سے اس وجہ سے ناراض ہو گیا کہ اس کی رائے میں اس صلح کے کرنے میں وہ ناکام ثابت ہوا اور ڈیورنڈ لائن میں کوئی ترمیم افغانستان کے حق میں نہ کروا سکا.جب سردار علی جان خاں واپس کا بل آیا تو ا میرا امان اللہ خان کی نظروں سے گر چکا تھا اسی طرح افغانستان کی آزادی اور جمہوریت کی دلدادہ پارٹی سردار محمود خان طرزی کی قیادت میں سردار علی جان خان سے ناراض ہو گئی جنگ بندی کا معاہدہ ۱۶ اگست ۱۹۱۹ء راولپنڈی میں مکمل ہوا.اس کے نتیجہ میں امیر امان اللہ خان نے سردار علی جان خان کو کابل میں نظر بند کر دیا یہ نظر بندی کئی سال جاری رہی - (۴۴) اس زمانہ میں سمت جنوبی کے حکمرانوں کا صاحبزادگان سے سلوک کچھ مدت کے بعد شاہ محمود خان برا در جنرل محمد نادر خان کی شادی امیر امان اللہ خان کی ہمشیرہ قمر النساء سے ہو گئی یہ شخص سمت جنوبی کا حاکم مقرر ہو کر آیا اور گردیز میں قیام کیا جو صوبہ پکتیا کا ہیڈ کوارٹر ہے.دورہ کرتے ہوئے خوست بھی آیا کیونکہ یہ شکار و تفریح کا دلدادہ تھا سید گاہ کے قریب ایک باغ میں ڈیرہ لگایا.بعض وجوہات سے شاہ محمود خان اور اس کی بیوی حضرت صاحبزادہ صاحب کے خاندان سے ناراض ہو گئے چنانچہ وہ راتوں رات ڈیرہ اٹھا کر چلا گیا اور جاتے وقت صاحبزادگان کو دھمکی دے گیا کہ اب میں تمہیں درست کر دوں گا.تھوڑے عرصہ بعد کا بل سے اطلاع آئی کہ شاہ محمود خان پکتیا سے کا بل واپس چلا گیا اور افغانستان کے ایک اور مقام پر اس کو بغاوت کے فرو کرنے کے لئے بھجوا دیا گیا.اور یہ خطرہ ٹل گیا.اس کے بعد ایک شخص امیر الدین خان حاکم مقرر ہو کر آئے یہ دراصل گجرات کے رہنے والے تھے اور بڑے اچھے آدمی تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ تمہارے خاندان میں سے
181 کچھ افرا د حکومت میں ملازم ہونے ضروری ہیں.اس پر میں ( یعنی صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب) سیکرٹری اور صاحبزادہ سید محمد طیب جان صاحب بطور صندوق دار یعنی خزانچی مقرر ہو گئے.امیر الدین صاحب قریباً تین سال تک خوست میں حاکم رہے اور ہمیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہوئی.اس دوران میں امیر امان اللہ خان نے سمت جنوبی کا دورہ کیا اور گردیز مقام پر اس نے تقریر کی کہ احمدی اچھے لوگ ہیں کیونکہ جس حکومت کے ماتحت رہتے ہیں اس کی فرماں برداری کرتے ہیں میں ان لوگوں کو پسند کرتا ہوں.نوٹ از مرتب : یہ غالبا ۱۹۲۲ء کا ذکر ہے جب کہ حکومت افغانستان آزادی ضمیر مذہبی رواداری اور جمہوریت کی دلدادہ تھی اور نہ صرف اس کا اعلان کرتی تھی بلکہ اس کی عملی کوشش بھی تھی کہ افغانستان کے ملا نوں کو جو تعصب مذہبی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں دبایا جائے اور ایسے قوانین نافذ کئے جائیں جن سے عوام میں آزادی کا شعور ترقی کرے افغانستان کے بعض وزراء اور سیاسی لیڈر جن کے سر فہرست سردار محمود خان طرزی تھے اس پالیسی کو تیار کرنے والے اور اسے پروموٹ کرنے والے تھے اور ان کا اثر امیر امان اللہ خان بھی قبول کرتا تھا.(۴۵) احمدیوں کے بارہ میں حکومت افغانستان کے رویہ میں سختی اور مظالم اور تشدد کی کارروائیاں افغانستان کے سمت جنوبی یعنی خوست پکتیا اور ملحقہ علاقوں میں آباد اقوام منگل، جدران چمکنی وغیرہ نے امیر امان اللہ خان کی آزاد پالیسیوں اور اصلاحات کو اپنے خیالات فرسودہ کے مطابق خلاف شریعت و قرآن قرار دے دیا اور امیر امان اللہ خان پر نہ صرف فتویٰ کفر لگایا بلکہ اپنے خیال میں اس کو قادیانی قرار دے دیا اس بغاوت کا سرغنہ ملائے عبداللہ ، ملائے لنگ اور اس کا داماد ملا عبد الرشید ملائے دنیگ تھا انہوں نے سمت جنوبی کے دوسرے ملاؤں اور پیروں سے مل کر کھلم کھلا آتش فساد اور بغاوت بلند کر دی.انہوں نے خوست کے
182 احمدیوں کو بھی اس بغاوت میں شریک ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن احمدیوں نے اپنے اس اصول کے تحت کہ حکومت وقت کے خلاف بغاوت کرنا ان حالات میں جائز نہیں اس میں شمولیت سے معذرت کر دی اور اس بغاوت سے الگ رہے اس پر باغیوں نے اس علاقہ کے احمدیوں کی جائدادوں اور املاک کو لوٹا اور احمدیوں کو لتاڑا اور اُن کو ایذائیں دینے لگے اس پر بہت سے احمدی برطانوی ہند کی طرف جانے پر مجبور ہو گئے باغیوں نے یہ بھی مشہور کیا کہ دراصل امیر امان اللہ خان خود بھی قادیانی ہے اسی لئے احمدی اس کے خلاف بغاوت میں شریک نہیں ہوتے اور یہ کہ کابل میں احمدیوں کا مشن مولوی نعمت اللہ خان کی سرکردگی میں موجود ہے.اگر امان اللہ خان قادیانی نہیں تو اسے چاہیے کہ چند احمد یوں کو قتل کروائے جیسا کہ اس کے باپ امیر حبیب اللہ خان اور دادا میر عبدالرحمن خان نے قتل و سنگسار کروائے تھے.اس پر امیر امان اللہ خان نے سردار علی احمد جان کو نظر بندی سے نکال کر سمت جنوبی بغاوت رفع کرنے کے لئے بھجوایا سردار علی احمد جان نے باغیوں سے گفت و شنید کی اور ان کی شرائط قبول کرلیں اور امیر امان اللہ خان نے بھی قرآن مجید پر قسم کھا کر یہ اقرار کیا کہ باغیوں کے لیڈروں کو کچھ نہیں کہا جائے گا چنانچہ وہ کابل جانے پر رضا مند ہو گئے امیر امان اللہ خان نے احمدیوں پر مظالم شروع کروا دیے چنانچہ پہلے تو ۱۹۲۴ ء میں احمدی مبلغ مولوی نعمت اللہ خان کو سنگسار کروا کے شہید کروا دیا پھر دو اور احمد یوں مولوی عبد الحلیم صاحب اور قاری نور علی صاحب کو مورخہ ۶ فروری ۱۹۲۵ء کو ایک ہی دن میں سنگسار کر وا دیا.خدا کے فضل سے ان تینوں نے احمدیت کی خاطر بڑی بہادری سے جان دی.اگر چہ اس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب کا خاندان براہِ راست ایذا دہی سے بچا رہا لیکن آئندہ ان کو بھی ظلم وستم کا شکار بنا پڑا جس کا ذکر آگے آئے گا.(۴۶)
183 حضرت صاحبزادہ صاحب سید محمد عبد اللطیف شہید کے خاندان کے افغانستان سے نکلنے اور ہندوستان میں آنے اور قادیان کی زیارت کرنے کے حالات اس بارہ میں اخبار الفضل رقم طراز ہے کہ جیسا کہ احباب کرام کو اطلاع دی جا چکی ہے احمدیت پر قربان ہونے والے شہید صادق حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب مرحوم کے دو صاحبزادے جن کے نام سید ابوالحسن صاحب و محمد طیب صاحب ہیں چند دن سے قادیان تشریف لائے ہیں جنہیں دیکھ کر خوشی اور مسرت کے جذبات کے ساتھ ان کے والد بزرگ کی شہادت کا واقعہ تازہ ہو جاتا اور اس سے خاص جوش پیدا ہوتا ہے.صاحبزادگان موصوف کے چہروں پر نجابت اور شرافت کے آثار نمایاں ہیں اور سلسلہ احمدیہ سے اخلاص اور محبت واضح طور پر مشاہدہ کی جاسکتی ہے.چونکہ ان کے والد بزرگ کی احمدیت کے لئے قربانی اور جاں شاری کے واقعہ کے ساتھ جماعت احمدیہ کے پاک جذبات وابستہ ہیں.نیز ان کے اس وقت تک کے حالات زندگی بھی احمدیت کی خاطر ایثار اور قربانی کے بے نظیر واقعات سے مملو ہیں اس لئے ایڈیٹر الفضل نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر خواہش کی کہ وہ اپنے حالات مختصر طور پر بیان فرمائیں.تا جماعت احمدیہ ان سے آگاہ ہو کر ایمانی لذت اور سرور حاصل کر سکے اور....اس کے اندر جوش اور ولولہ پیدا ہو.ایک مختصر سی ملاقات میں بوساطت برادرم نیک محمد خان صاحب صاحبزادگان موصوف نے اپنے جو حالات بیان کئے وہ احباب کرام کے از دیا دایمان کے لئے درج ذیل کئے جاتے ہیں.صاحبزادہ سید احمد ابوالحسن قدسی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب ہمارا خاندان امیر امان اللہ خان کے فیصلہ کے مطابق خوست آگیا اور زمینیں بھی ہمیں واپس مل گئیں تو اس حالت میں چار سال کا عرصہ گزرا ہوگا کہ امیر امان اللہ خان کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی ہم
184 چونکہ حکومت کے خیر خواہ تھے اور سرکاری آدمیوں کے ساتھ علاقہ میں پھر کر بغاوت فروکر نے کی کوشش کر رہے تھے اس لئے باغیوں نے ہماری عدم موجودگی میں ہمارے مکانات جلا دیئے اور باغات کاٹ ڈالے لیکن چونکہ بغاوت احمدیت کے خلاف کی گئی تھی اور ہم احمدی مشہور تھے اس لئے حکومت نے سید میرا کبر صاحب سیدا بوالحسن قدسی ، شیخ عبد الصمد صاحب اور امین گل صاحب کو پکڑ کر قید کر دیا.سات دن کے بعد مؤخر الذکر دو شخصوں کو تو رہا کر دیا اور باقی کو قید رکھا گیا.ہم 19 ماہ تک قید میں رہے.اس اثناء میں چونکہ درگئی کے علاقہ میں امن تھا.کیونکہ اس علاقہ کے لوگ امیر کے حامی تھے اس لئے باقی ماندہ خاندان کو بھی اس علاقہ میں پہنچا دیا گیا.ان دنوں صاحبزادہ محمد طیب جان صاحب آزاد تھے ان کی کوشش اور سعی سے خوست کے سر بر آوردہ لوگوں نے حکومت کو اس قسم کی درخواست دی جو پہلے بھی ہمارے بارہ میں حکومت کو کر چکے تھے.اس پر وزیر حربیہ نے ایک طرف تو یہ حکم لکھ دیا کہ ان کو رہا کر دیا جائے دوسری طرف اس مقامی حاکم کو جس کی نگرانی میں ہمیں رکھا گیا تھا یہ لکھا کہ انہیں رہا نہ کرو بلکہ میرے پاس بھجوا دو میں ان کو کابل لے جاؤں گا اس حاکم کا نام گل محمد تھا.اور وزیر تربیہ نے یہ بھی ہدایت دی کہ صاحبزادہ محمد طیب جان اور صاحبزادہ عبد السلام جان کو بھی گرفتار کر لو مع ان کے تمام خاندان کے.جب حاکم کو یہ دو متضا حکم ملے تو اس نے صاحبزادہ محمد طیب جان سے کہا کہ میں وزیر حربیہ سے دریافت کرتا ہوں کہ ان دو مختلف باتوں کا کیا مطلب ہے؟ کس پر عمل کیا جائے ان کا جواب آنے پر میں جواب دوں گا.یہ حالت دیکھ کر صاحبزادہ محمد طیب جان صاحب راتوں رات وہاں سے چل کر اپنے لواحقین کے پاس درگئی پہنچ گئے وہاں انہوں نے دیکھا کہ ان کے بھائی صاحبزادہ عبدالسلام کی گرفتاری کے لئے تین فوجی سوار آئے ہوئے ہیں.اس پر انہوں نے تمام خاندان سمیت نکل کر کہیں اور جانے کی تیاری شروع کر دی.جو بھائی قید تھے انہوں نے بھی کہہ دیا تھا کہ ہمیں بحوالہ خدا کر کے کہیں دور چلے جاؤ.اس تجویز کے ماتحت رات کو بارہ بجے سید عبد السلام صاحب مع سارے خاندان کے
185 مکان کے ایک طرف سے نکل کھڑے ہوئے اس وقت فوجی سوار مکان کے دوسری طرف تھے اور صاحبزادہ محمد طیب صاحب گھر کے بقیہ سامان و اسباب کو سنبھال کر صبح ایک دوسرے راستہ سے روانہ ہوئے.جب ان تین سواروں کو ہمارے نکل جانے کا علم ہوا تو وہ گاؤں کے نمبر داروں اور سر بر آوردہ لوگوں کو لے کر ہمارے تعاقب میں چلے اور ایک مقام پر جس کا نام گریز ہے.صبح کے وقت سب کو گرفتار کر لیا اور واپس گاؤں میں لے آئے عورتوں اور بچوں کو تو ایک شریف آدمی جس کا نام بہرام خان تھا کی ضمانت پر چھوڑ دیا اور مردوں کو قید کر کے خوست کی چھاؤنی میں لے گئے.کچھ عرصہ کے بعد خوست کا حاکم بدل گیا اور اس کی جگہ دوسرا حاکم آگیا اس پر ہم نے اس کو درخواست دی کہ ہم بے قصور ہیں ہمیں چھوڑ دیا جائے اس پر اس نے ہماری مسل منگوائی جسے پڑھ کر اس نے کہا کہ صاحبزادہ عبد السلام جان کو تو میں خود رہا کرتا ہوں باقی دو کی رہائی کے لئے حاکم اعلیٰ کو لکھ کر مسل اسے بھجوا دی اس نے جواب بھجوایا کہ ان لوگوں نے چونکہ احمدیت کی وجہ سے بغاوت کی تھی اور احمدیت کے باعث ان کو گرفتار کیا گیا تھا اس لئے ان کے متعلق خوست کے سرداروں سے مشورہ کیا جائے کہ ان کو رہا کر دیا جائے یا نہ خوست کے سر کر دہ لوگوں نے کہا کہ ہم ان کا کوئی قصور نہیں سمجھتے یہ لوگ خودشریف ہیں اور شریف زادے ہیں انہوں نے کبھی حکومت کے خلاف کسی فساد میں حصہ نہیں لیا.اپنے باپ کے وقت سے حکومت کے خیر خواہ اور مددگار چلے آئے ہیں اس پر ہمیں رہا کر دیا گیا.اس کے بعد ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ خوست کے گورنر نے حکم بھیجد یا کہ ان کو گرفتار کر کے کا بل بھیج دیا جائے اس پر سید ابوالحسن قدسی کو گرفتار کر کے خوست کی چھاؤنی میں لے گئے وہاں حاکم ضلع سے حاضری کی ضمانت لے کر اس لئے رہا کر دیا کہ اپنے باقی بھائیوں کو بھی جا کر لے آؤ.سید ابوالحسن قدسی کے واپس آنے پر سارے خاندان نے مل کر مشورہ کیا کہ ب کیا کرنا چاہیئے.آخر یہ تجویز ہوئی کہ چونکہ ہمارے متعلق حکومت کی نیت بخیر نہیں معلوم ہوتی اس لئے ہمیں یہ ملک چھوڑ کر باہر چلے جانا چاہئیے.چنانچہ ۲ فروری ۱۹۲۶ء کو وہاں سے
186 چل کر علاقہ بنوں میں جہاں خاندان کی اپنی جاگیر ہے پہنچ گئے.آخری دفعہ جب صاحبزادگان کو قید کیا گیا تھا تو اس کا علم ہونے پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میاں نیک محمد صاحب غزنوی کو قادیان سے ان کے حالات دریافت کرنے کے لئے بھجوایا تھا اب جب سارا خاندان بنوں کے علاقہ میں آ گیا تو حضور نے ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے نیک محمد خان صاحب غزنوی کو بنوں کے علاقہ میں بھجوایا.چنانچہ حضرت صاحبزادہ محمد عبداللطیف صاحب کے دو صاحبزادے سید ابوالحسن قدسی اور سید محمد طیب جان نیک محمد خان صاحب غزنوی کے ساتھ قادیان آگئے.۱۹۲۶ء میں خاندان کے وہ افراد جو افغانستان سے نکل کر بنوں کے علاقہ میں سرائے نورنگ مقام پر آئے ان میں حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب شہید کے خاندان کے مندرجہ ذیل تیرہ افراد تھے.(۱) صاحبزادہ سید محمد عبد السلام جان صاحب (۲) صاحبزادہ سید احمد ابوالحسن قدسی صاحب (۳) صاحبزادہ سید محمد طیب جان صاحب (۴) اہلیہ محترمہ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف شہید جو صاحبزادہ سید محمد طیب جان کی والد تھیں.(۵) صاحبزادہ سید محمد ہاشم جان ابن صاحبزادہ سید محمد سعید جان شہید کا بل (۶) اہلیہ صاحبہ سید محمد ہاشم جان صاحب (۷) (۸) صاحبزادہ سید محمد ہاشم جان کی دو بیٹیاں (۹) (۱۰) صاحبزادہ سید محمد عبد السلام جان صاحب کے دو بیٹے جن کے نام سید ہبت اللہ اور سید حمایت اللہ ہیں (۱۱) ہمشیرہ صاحبہ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب شہید (۱۲) (۱۳) ہمشیرہ صاحبہ کے دو بیٹے عبد الرب صاحب وعبد القدوس صاحب
187 ۱۹۲۶ء میں ان میں سے دو صاحبزادگان یعنی صا حبزادہ سید احمد ابوالسن قدی اور صاحبزادہ سید محمد طیب جان قادیان آ کر سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملے.ان کا بیان ہے کہ ” حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پہلی ہی ملاقات کرنے پر حضور نے ہم پر اس قدر شفقت اور نوازش فرمائی ہے کہ ہمیں اپنی تمام تکالیف اور مصائب بھول گئے ہیں اور ہم حضور کے لطف و کرم کا شکریہ ادا کرنے سے اپنے آپ کو قطعاً قاصر پاتے ہیں یہ ہماری انتہائی خوش قسمتی اور نیک بختی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس ارضِ مقدس کی زیارت کا شرف بخشا.جہاں سے ہمارے والد محترم نے ٹو ر حاصل کیا تھا اور جہاں ہم حضرت خلیفۃ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی قدم بوسی سے مشرف ہوئے“ اس کے بعد اخبار الفضل تحریر کرتا ہے کہ احباب کرام نے اس سرگزشت کو پڑھ کر اندازہ لگایا ہو گا کہ صاحبزادگان نے اپنے حالات بیان کرتے ہوئے اپنی ذاتی تکالیف کا بہت کم ذکر کیا ہے حالانکہ ان سے عرض کر دیا گیا تھا کہ چونکہ ان کے مصائب اور مشکلات جماعت کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث ہوں گے.اس لئے وہ افغانی حجاب کو قطع نظر کرتے ہوئے وضاحت سے ان کا ذکر کریں بہر حال جس قد ر حالات انہوں نے بیان کئے ہیں وہ بھی کوئی کم مؤثر نہیں ہیں.ان کی ہمت اور جرات و استقلال کا ثبوت ہیں احباب دعا فرمائیں کہ شہید مرحوم کے ان نو نہالوں کو اپنے والد محترم کی شاندار یادگار بنائے اور اُن برکات و فیوض سے بہرہ وافر بخشے جن کی خاطر انہوں نے اس قدر مشکلات اور تکالیف کا مردانہ وار مقابلہ کیا.(۴۷) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کے صاحبزادہ سید محمد طیب جان کا ایک خواب ” مبایعین حق پر ہیں“ ترجمه از فارسی : - ۳۱ / مارچ ۱۹۲۶ء کی رات کو میں شہر پشاور میں سویا ہوا تھا.میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں دیکھا کہ حضور جنوب کی طرف منہ کئے بیٹھے ہیں اور حضوڑ کے ارد گرد تمام افغان لوگ ہیں.جن میں بعض بیٹھے ہیں اور بعض کھڑے
188 ہیں اور حضور کے سامنے ہم تینوں بھائی عبدالسلام واحمد ابوالحسن ومحمد طیب بیٹھے ہوئے ہیں.مگر سب سے زیادہ حضور کے قریب ابوالحسن صاحب جو کہ اس وقت قادیان میں سکونت پذیر ہیں بیٹھے ہیں.اسی اثناء میں ہم تینوں نے حضور سے بیعت کی درخواست کی مگر حضور نے فرمایا کہ میں نے ایک اور شخص کو تمہاری بیعت لینے کی اجازت دی ہے اس پر ہم نے فوراً ان افغانوں سے کہا کہ تم اردو میں حضور کی خدمت میں ہماری طرف سے عرض کرو کہ ہم حضور کی بیعت کو مقدس سمجھتے ہیں.یہ کہنے پر حضور نے ہمیں اردو میں یہ جواب دیا کہ میری اور اس شخص کی بیعت میں کوئی فرق نہیں.اس وقت فوراً میری زبان سے یہ نکلا کہ اس شخص سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہیں.پھر ہم خاموش ہو گئے.اسی اثنا میں ان افغانوں میں سے جو حضور کی خدمت میں حاضر تھے ایک نے آنحضور کا نام مبارک صرف ان الفاظ میں لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے سوا کچھ نہ کہا.اس کے کہنے سے مجھے پختہ یقین ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر راضی ہیں حالانکہ آپ نے اس شخص کی طرف غور سے بھی دیکھا.میں خواب میں ہی اپنے دل میں کہتا ہوں کہ حضور پر درود پڑھنے پر حضور کے خاموش رہنے اور منع نہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب اور صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب پشاوری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خلافت کے انکار کی وجہ سے غلطی پر ہیں کیونکہ در و درسولوں اور انبیاء پر کہنے کی سنت ہے.‘ (۴۸) صاحبزادہ سید محمد طیب جان کی سرائے نو رنگ ضلع بنوں کو واپسی اور صاحبزادہ سیدابوالحسن قدمی کا تعلیم دین کی غرض سے قادیان میں قیام اخبار الفضل لکھتا ہے کہ ” صاحبزادہ سید محمد طیب صاحب ابن حضرت مولوی عبداللطیف صاحب شہید واپس تشریف لے گئے ہیں کیونکہ گھر کا انتظام و دیگر کاروبارا نہی کے سپرد ہے.
189 ان کے دوسرے بھائی صاحبزادہ سید ابوالحسن صاحب حصول تعلیم کی غرض سے ٹھہر گئے ہیں، (۴۹) محتر مہ اہلیہ صاحبہ حضرت صاحبزادہ محمد عبد اللطیف شہید کا انتقال اخبار الفضل قادیان ۱۲ نومبر ۱۹۳۹ء کو رقمطراز ہے کہ یہ خبر نہایت رنج و افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ حضرت سید محمد عبداللطیف صاحب شہید کا بل کی اہلیہ محترمہ جن کا نام شاہجہان بی بی تھا یکم نومبر بعد نماز عصر تین ماہ کے قریب علیل رہ کر انتقال فرما گئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.وو " مرحومہ نہایت مخلص اور پُر جوش احمدی تھیں جب حضرت سید عبداللطیف صاحب کی شہادت کا نہایت دل دوز اور روح فرسا واقعہ سرزمین کابل میں وقوع پذیر ہوا تو انہوں نے اس وقت نہایت استقلال اور صبر کا نمونہ دکھایا اور اس کے بعد اپنی چھوٹی اور بڑی سب اولا د کو احمدیت کی تعلیم دینے اور اس کی صداقت پر پختہ کرنے میں منہمک ہو گئیں اور باوجود اس کے کہ حکومت کے علاوہ خاندان کے بعض لوگ بھی ہر رنگ میں دکھ اور تکالیف پہچانے اور مخالفت کرنے میں کمی نہ کرتے تھے مرحومہ ہر موقعہ پر یہی فرماتیں کہ اگر احمدیت کی وجہ سے میرے چھوٹے چھوٹے بچے اور میں خود بھی قتل ہو جاؤں تو اس پر خدا تعالیٰ کی بے انتہا شکر گزار ہوں گی اور بال بھر بھی اپنے عقائد میں تبدیلی نہ کروں گی مرحومہ کے اس عزم واستقلال کے مقابلہ میں مصائب و آلام کے کوہ گراں آئے لیکن خدا کے فضل سے پر کاہ کی طرح اُڑ گئے اور وہ اپنے مدعا میں کامیاب ہو گئیں چنانچہ حضرت سید عبداللطیف صاحب کے خاندان میں خدا کے فضل سے احمدیت پختہ ہوگئی اور ان کی ساری اولا دحضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ قابل رشک اخلاص و محبت رکھتی ہے.مرحومہ صوم وصلوٰۃ کی پوری پوری پابند تھیں.انہوں نے اپنے ورثہ کے ۱/۳ حصہ کی وصیت بھی کی ہوئی تھی.۱۹۲۶ ء میں جب سے یہ خاندان خوست سے سرحد میں آیا.ہر سال سالانہ جلسہ پر تشریف لاتی تھیں.بیماری کی حالت میں بھی ان کی
190...خواہش تھی کہ قادیان پہنچیں اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں...ہم حضرت سید عبد اللطیف صاحب مرحوم کے خاندان کی اس بزرگ خاتون کے انتقال پر تمام خاندان سے نہایت ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ مرحومہ کو اپنے قرب کے بلند درجات عطاء فرمائے.اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے.نیز یہ بھی تحریر کرتے ہیں کہ احباب نماز جنازہ پڑھ کر محترمہ مرحومہ کے لئے دعائے مغفرت کریں.‘‘ (۵۰) ہمارے استادسیدابوالحسن قدسی صاحب خدا کے فضل سے قادیان میں قیام کے دوران صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب نے دینی تعلیم حاصل کی اور اردو سیکھی اور اس میں تحریر کا ملکہ پیدا کیا.بعد ازاں مدرسہ احمدیہ قادیان و جامعہ احمدیہ قادیان اور تقسیم ہند کے بعد احمد نگر میں بھی استاد کے فرائض سرانجام دیتے رہے.پاکستان میں انتقال کیا اور بہشتی مقبرور بوہ میں دفن ہوئے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ان کی شادی حضرت مولانا عبد الماجد بھاگلپوری کے خاندان میں کروا دی تھی.خدا کے فضل سے آپ صاحب اولا د تھے.(۵۱)
191 مصادر و منابع Sources تذکرۃ الشہا دتین- روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ قلمی مسوده به روایت سید محمد نور ۱۹۴۷ء اخبار الفضل قادیان عاقبة المكذبين حصہ اول سن اشاعت ۲۰ / اکتوبر ۱۹۳۶ء مطبوعہ در اللہ بخش سٹیم پرلیں.قادیان کتاب زوال غازی مصنفہ عزیز ہندی صاحب A History of Afghanistan By Brig.General Sir Percy Sykes اخبار پائیز الہ آباد - یو پی ہندوستان اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور تاریخ احمدیت افغانستان بزبان پشتو بصورت مستوده مصنفہ سید محمود احمد افغانی خلافت لائبریری میں موجود ہے.Under The Absolute Amir by Frank A.Martin
192 حوالہ جات (۱) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۵۵ (۲) تذکرۃ الشہا دتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۹ (۳) تذکرۃ الشہادتین - روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۶۰ (۴) تذکرۃ الشہادتین - رُوحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۱۲۶ (۵) قلمی مسوده به روایت سید محمد نور صاحب جو ۱۹۴۷ء میں مرتب کیا گیا صفحہ ۲۸ - بیان سید ابوالحسن قدسی صاحب مطبوعہ اخبارالفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء (۶) اخبار الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء (۷) بیان سید ابوالحسن قدسی صاحب مو ده قلمی روایات صفحه ۴۹ (۸) قلمی مسوده روایات صفحه ۲۷ ، صفحه ۲۸ (۹) روایت صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب مستو ده روایات صفحه ۴۹-۵۰ (۱۰) قلمی مسودہ صفحه ۵ و شهید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اوّل صفحہ ۲۱ (۱۱) روایت صاحبزادہ سیدابوالحسن قدسی - قلمی مسو ده روایات صفحه ۲۸ صفحه ۲۹ (۱۲) الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء (۱۳) روایت سیدابوالحسن قدسی صاحب قلمی مسوده ۱۹۴۷ء صفحه ۲۹ تا ۳۱ (۱۴) قلمی مسوده روایت سید احمد نورصاحب صفحه ۱۱ و صفحه ۱۲ (۱۵) قلمی مسو ده روایات صفحه ۳۱ (۱۶) قلمی مسوده صفحه ۵۲ و صفحه ۵۳ (۱۷) قلمی مسوده صفحه ۵۳ و صفحه ۵۴ (۱۸) قلمی مسوده صفحه ۳۳،۳۲ ،۵۳ تا ۵۵ (۱۹) روایت سیدابوالحسن قدسی صاحب از قلمی مسوده صفحه ۳۱ تا ۳۴
193 (۲۰) اخبار الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء (۲۱) قلمی مسوده صفحه ۵۶،۵۵ (۲۲) الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء (۲۳) ملحض از مضمون سید ابوالحسن قدسی صاحب بحوالہ اخبار الفضل قادیان ۱۷/ جنوری (۲۴) مسوده صفحه ۵۸ تا صفحه ۶۰ (۲۵) بیان سید احمد ابو الحسن قدسی صاحب مطبوعہ اخبار الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء یہ بیان مکرم نیک محمد خان صاحب غزنوی کی معرفت الفضل کو دیا گیا (۲۶) روایت سیدابوالحسن قدسی صاحب قلمی مسوده صفحه ۶۱ (۲۷) عاقبتہ المکذبین حصہ اول صفحه ۵۹ سن اشاعت ۲۰ / اکتوبر ۱۹۳۶ء مطبوعہ چوہدری اللہ بخش سٹیم پر لیس قادیان (۲۸) عاقبة المکذبین جلد اول صفحه ۶۰،۵۹ (۲۹) قلمی مسوده صفحه ۶۲ ۶۳ (۳۰) عاقبة المكذ بین صفحه ۶۰ ، ۶۱ (۳۱) اخبار الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء بیان صاحبزادہ سید ابولحسن قدی صاحب (۳۲) بیان سیدابوالحسن قدسی صاحب قلمی مسوده صفحه ۶۲ تا صفحه ۶۸ (۳۳) الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء (۳۴) قلمی مسوده روایت سید ابوالحسن قدسی صاحب (۳۵) الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء بیان صاحبزادہ سیدابوالحسن قدسی صاحب (۳۶) قلمی مسوده - روایت صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب بذریعہ سید محمد نور صاحب (۳۷) اخبار الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب بذریعہ محترم نیک محمد خان صاحب غزنوی
194 (۳۸) تاریخ احمدیت افغانستان بزبان پشتور بصورت مسوده - مصنفہ سید محمود احمد افغانی (۳۹) قلمی مسوده صفحه ۶۹ بیان سید ابوالحسن قدسی صاحب و Under Absolute Amir by Frank Martin و عاقبتہ المکذبین مصنفہ قاضی محمد یوسف صاحب سن اشاعت ۲۰ / اکتوبر ۱۹۳۶ء در قادیان صفحه ۶۸ و ۷۲ و ۷۵ و کتاب زوالِ غازی مصنفہ عزیز ہندی صاحب صفحه ۲۳ تا ۲۵ و ۳۰ و مضمون قاضی مظہر الحق صاحب احمدی کوٹ نجیب اللہ صوبہ سرحد - الفضل ۴ مارچ 1919ء و History of Afghanistan by Brig General sir Percy Sykes P.P.265to268 و اخبار پائیپیر الہ آباد ۱/۲۳اپریل ۱۹۱۹ء بحوالہ اخبار الفضل قادیان ۱۰ مئی ۱۹۱۹ء صفحه ۴ ( ۴۰ ) قلمی مسوده بیان سیدا بوالحسن قدسی صاحب صفحہ ۶۹ وصفحه ۷۰ (۴۱) اخبار الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء بیان صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب بذریعہ محترم نیک محمد خان غزنوی صاحب (۴۲) قلمی مسو دو روایت سید صاحبزادہ ابوالحسن قدی صاحب صفحہ ۷۱۰۷ (۴۳) ماخوذ از قلمی مسودہ خلاصۂ صفحه ا۷۲،۷ (۴۴) زوال غازی مصنفہ عزیز ہندی صفحه ۳۱۴، عاقبة المکذبین حصہ اوّل مصنفہ قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد صفحه ۷۹ و ۸۰، قلمی مسودہ صفحہ اے و۷۲ روایت صاحبزادہ سید مـ ابوالحسن قدسی صاحب History of Afghanistan by Sir Percy Sykes صفحه ۲۶۸ تا ۲۸۴ و صفحه ۳۵۹,۳۵۸ (۴۵) قلمی مسودہ صفحه ۳ ۷ تا ۷۶ روایت صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب، عاقبة المکد بین جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت صوبہ سرحد حصہ اوّل صفحہ ۷۹ تا صفحه ۸۲، کتاب زوالِ غازی مصنفه عزیز ہندی صاحب صفحه ۳۱۴- (۴۶) عاقبة المکذبین حصہ اول صفحه ۸۳ تا صفحه ۱۰۱ مصنفہ قاضی محمد یوسف صاحب امیر صوبه سرحد، کتاب زوال غازی مصنفه عزیز ہندی صاحب صفحه ۴۳ و صفحه ۲۳۸، اخبار الفضل ۲۴ فروری ۱۹۲۵ء
195 صفحہ ۲ ، الفضل ۲۸ فروری ۱۹۲۵ء ، اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لا ہور مورخہ ۱۷ فروری ۱۹۲۵ء ( ۴۷ ) ماخوذ از اخبار الفضل قادیان ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء ملخص (۴۸) محمد طیب احمدی بقلم خود یوم چهار شنبه ۳۱ مارچ ۱۹۲۶ء مطابق ۱۶ رمضان المبارک ۱۳۴۴ھ، اخبار الفضل ۱۴ رمئی ۱۹۲۶ء (۴۹) اخبار الفضل قادیان ۳۰ مارچ ۱۹۲۶ء (۵۰) اخبار الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۳۹ء (۵۱) نوٹ : - خاکسار سید مسعود احمد مرتب رسالہ ہذا
باب چهارم 196 سوانح حیات مولوی نعمت اللہ خان شہید افغانستان واقعہ شہادت به زمانه سید ناخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۳۱ اگست ۱۹۲۴ء
197 مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کا وطن، خاندان پیدائش، قبول احمدیت مولوی نعمت اللہ خان موضع خوجہ تحصیل - رخہ ضلع پنجشیر افغانستان کے رہنے والے تھے.آجکل کی صوبائی تقسیم میں پنجشیر افغانستان کے صوبہ پروان میں شامل ہے.(۱) آپ کے والد صاحب کا نام امان اللہ خان تھا آپ کی شہادت ۱۹۲۴ء مطابق ۱۳۴۳ ء ھ میں ہوئی اس وقت ان کی عمر ۳۴ سال کے قریب تھی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش ۱۸۹۰ ء یا ۱۸۹۱ ء میں ہوئی.مولوی نعمت اللہ خان صاحب نو جوانی میں خلیفہ عبدالرحمن صاحب مرحوم افغانی کے ذریعہ احمدی ہوئے خلیفہ عبدالرحمن صاحب حضرت صاحبزادہ عبدالطیف صاحب شہید کے شاگرد تھے.ان کا تعلق قبیلہ صافی افغان سے تھا قریہ دہ سبز صوبہ کابل کے رہنے والے تھے خلیفہ صاحب کی وفات ۱۷ار دسمبر ۱۹۶۵ء کو ہوئی.مولوی نعمت اللہ خان جوانی میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے قادیان آگئے تھے اور مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پاتے تھے (۲) افغانستان کے سیاسی و مذہبی حالات اس زمانہ میں افغانستان میں امیر حبیب اللہ خان کی حکومت تھی یہ دور افغانستان کے احمدیوں کے لیے شدید مشکلات کا زمانہ تھا.ان پر ہر طرح کے مظالم ہوتے تھے.بہت سے احباب قید کر لیے جاتے تھے اور انہیں قید خانوں میں طرح طرح کی ایذائیں دی جاتی تھیں.جس کی وجہ سے بعض احمدی قید خانوں میں یا ان سے رہا ہونے کے بعد ان مصائب کے نتیجہ میں جن کا ان کو جیل خانوں میں سامنا کرنا پڑتا تھا فوت ہو گئے ان کی موت شہادت کی موت - امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ میں ہی حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد الطیف کو ۱۹۰۳ ء میں ނ سنگسار کر کے شہید کیا گیا.اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے خاندان کو اپنے وطن سینکڑوں میل دور مزار شریف کے علاقہ میں اور اس کے بعد شہر کا بل میں سالہا سال جلا وطن رکھا گیا ان کی جڑی جائیداد کو جو خوست میں تھی ضبط کر لیا گیا علاوہ ازیں ان کے صاحبزادگان
198 کو ۱۹۱۸ء میں شیر پور جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور جیل خانہ کی سختیوں کی وجہ سے صاحبزادگان بیمار ہو گئے اور ان میں سے دور ہائی کے کچھ عرصہ بعد کا بل میں فوت ہو گئے ان کے نام صاحبزادہ محمد سعید جان صاحب اور صاحبزادہ محمد عمر صاحب تھے.جب صاحبزادگان جیل میں تھے تو کابل میں ان کی ایک والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا لیکن حکومت نے صاحبزادگان کو جنازہ میں شرکت یا مرحومہ کا چہرہ دیکھنے کا موقعہ بھی نہیں دیا صرف بڑے صاحبزادے کو اصرار کرنے پر یہ اجازت دی گئی کہ وہ اپنی والدہ صاحبہ کی تجہیز و تکفین و تدفین کا انتظام کرے.امیر حبیب اللہ خان کے علاوہ اس کا چھوٹا بھائی سردار نصر اللہ خان اور افغانستان کے ملا اور قاضی احمدیوں کو ایذا دینے میں پیش پیش تھے.اسی طرح بعض ہندوستانی جو ہجرت کر کے کا بل آگئے تھے اور جن کا تعلق پنجاب کے اہل حدیث فرقہ سے تھا بسلسلہ ملازمت امیر افغانستان میں رہتے تھے.یہ لوگ بھی احمدیوں سے بہت تعصب اور عناد رکھتے تھے اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت احمدیہ کے بارہ میں غلط باتیں امیر کا بل اور افغانستان کے ملاؤں کے کانوں میں ڈالتے رہتے تھے.اور ان کو احمد یوں کو قتل کرنے اور دکھ دینے پر ابھارتے تھے ان میں نمایاں تین شخص تھے ایک ڈاکٹر عبدالغنی اور اس کے دو بھائی مولوی نجف علی اور مولوی محمد چراغ یہ جلالپور جٹاں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے اور امیر عبدالرحمن خان اور امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ سے افغانستان میں مقیم تھے اور امراء افغانستان کے ہاں رسوخ رکھتے تھے.سردار نصر اللہ خان سے ان کے خاص تعلقات تھے.(۳) افغانستان کے بادشاہ امیر حبیب اللہ خان کا قتل اور امیر امان اللہ خان کی تخت نشینی اور امیر حبیب اللہ خان کی عادت تھی کہ وہ عموماً موسم سرما میں کا بل سے باہر کسی پر فضا مقام پر سیر و تفریح و شکار کے لیے جایا کرتا تھا اس کے خاندان کے افراد.بعض وزراء اور سرداران کا بل اس کے ساتھ ہوتے تھے اس کی غیر حاضری میں بالعموم اسکا بڑا بیٹا سردار عنایت اللہ
199 خان کا بل میں اس کا قائمقام ہوتا تھا.اپنی زندگی کے آخری سال ۱۹۱۹ء میں امیر حبیب اللہ خان کا بل کی سمت مشرق میں جلال آباد - کونڑ اور پغمان کے سرسبز و شاداب علاقہ میں سیرو تفریح کے لیے گیا اس موقعہ پر وہ اپنے بڑے بیٹے سردار عنایت اللہ خان کو اپنے ساتھ لے گیا اور اپنے تیسرے بیٹے سردار امان اللہ خان کو بجائے اپنے ساتھ لے جانے کے کابل کا گورنر بنا کر پیچھے چھوڑ گیا.جو افسران اس کے ساتھ تھے ان میں جنرل محمد نادر خان - سردار نصر اللہ خان اور مستوفی الملک مرزا محمد حسین برگیڈیئر شامل تھے.جب سیر و شکار کرتے ہوئے ایک مقام کلہ گوش میں پہنچا جو ایک خوبصورت تفریحی مقام اور شا ہی شکارگاہ ہے تو کیمپ لگانے کا حکم دیا اور چند روز وہاں قیام کرنا چاہا.۲۰ فروری 1919 ء بروز جمعرات امیر اپنے خیمہ میں اپنی ملکہ علیاء حضرت کے ساتھ محو استراحت تھا کہ کسی نا معلوم دشمن نے باوجود پہرہ کے اور ہر قسم کے حفاظتی انتظامات کے اس کے کان میں پستول رکھ کر چلا دیا اور اس سے اسکی موت واقعہ ہو گئی.امیر حبیب اللہ خان کی وفات کے بعد اصولاً اس کا بڑا بیٹا سردار عنایت اللہ خان مستحق تاج و تخت تھا.لیکن سردار نصر اللہ خان نے جو امیر حبیب اللہ خاں کا چھوٹا بھائی اور سردار عنایت اللہ خان کا چا تھا اپنے بھتیجے کا حق غصب کر لیا - امیر حبیب اللہ خان کی لاش جلال آباد کے قریب دفن کروا کر اپنی بادشاہت کا اعلان کروایا.اسنے امیر حبیب اللہ خان کے قتل کیسے جانے کی اطلاع اور اپنے بادشاہ بن جانے کی خبر وائسرائے ہند کو بھی کر دی اور ان کی تائید و توثیق کا خواہاں ہوا.سردار امان اللہ خان کو جب یہ علم ہوا کہ اسکا باپ اور ملک کا بادشاہ با وجود سردار نصر اللہ خان اور دیگر سرداروں کی موجودگی کے کسمپرسی کی حالت میں مارا گیا اور نصر اللہ خان بجائے قاتل کی گرفتاری کے لیے تگ و دو کرنے کے ولی عہد کا حق غصب کر کے خود بادشاہ بن بیٹھا ہے تو سردار امان اللہ خان اور کابل میں موجود دیگر سرداران شک وشبہ میں مبتلا ہو گئے سردار امان اللہ خان نے سردار عبد القدوس خان شاہ عاصی کے مشورہ سے کابل میں موجود اراکین سلطنت - رؤسا اور علماء کا اجلاس طلب کیا اور ان کے اجتماع میں علاقہ
200 جلال آباد میں ہونے والے تمام واقعات کا با چشم تر تذکرہ کیا اور کہا کہ ملک کا بادشاہ اور ہما را باپ کمپرسی کی حالت میں قتل کر دیا گیا ہے سردار نصر اللہ خان نے نہ تو قاتل کی گرفتاری کے لیے کوشش کی اور نہ ولی عہدی کے بارہ میں امیر حبیب اللہ خان کی وصیت کی پرواہ کی بلکہ پ اپنے بادشاہ ہونے کا اعلان کروا دیا کیا ان حالات سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ دراصل یہ قتل سردار نصر اللہ خان نے کروایا ہے کیا جو کچھ ہوا درست ہوا ؟ اس پر حاضرین نے کہا کہ درست نہیں ہوا.اس پر امان اللہ خان نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ لوگ میرا ساتھ دیں ہم مظلوم ہیں اور قصاص لینے میں ہماری اعانت کریں.حاضرین نے اس سے اتفاق کیا اور اس موقعہ پر امیر امان اللہ خان کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کو افغانستان کا بادشاہ تسلیم کر لیا.امیر امان اللہ خان نے امیر بن کر ان اراکین سلطنت کی اولادوں کو اپنے زیر نگرانی رکھ لیا جو اس وقت سردار نصر اللہ خان کے حامی تھے اور ان کے گھروں اور جائیدادوں پر قبضہ کر لیا.علاوہ ازیں اس نے کابل میں موجود اسلحہ کے ذخائر اور خزانہ بھی اپنے تصرف میں لے لئے.اس نے جلال آباد میں ایک فرمان شاہی بھجوایا اور سردار نصر اللہ خان اور اس کے حامیوں سردار عنایت اللہ خان اور مستوفی الملک مرزا محمد حسین کو مطلع کیا کہ وہ لوگ حکومت کے باغی اور امیر حبیب اللہ خان کے قاتل ہیں اس لیے فور اسردار نصر اللہ خان دعوای بادشاہی سے دستبردار ہو اور وہ اور اس کے ساتھی پابجولاں کا بل میں حاضر ہوں اور اپنی صفائی پیش کریں اس فرمان کے ملنے پر سردار نصر اللہ خان اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو بے بس پایا.سردار نصر اللہ خان نے اپنی دستبرداری کا اعلان کر دیا اور یہ تینوں پابجولاں کابل لائے گئے.
201 سردار نصر اللہ خان اور اس کے ساتھیوں کا انجام جب سردار نصر اللہ خان اور دوسرے سردار کابل لائے گئے تو ان کے بارہ میں تحقیقات کروائی گئی اور ان پر جرم ثابت کر کے امیر امان اللہ خان نے سردار نصر اللہ خان کو تو ایک بُرج میں قید کر وا دیا.مستوفی الملک مرزا محمد حسین کو قتل کروا دیا گیا اور اس کی تمام جائیداد اور مال ضبط کر لیا گیا اور سردار عنایت اللہ خان کو کابل میں نظر بند کر دیا گیا.بیان کیا جاتا ہے کہ صدمہ سے سردار نصر اللہ خان کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور وہ مخبوط الحواس ہو گیا کچھ عرصہ بعد اسے رات کے وقت سانس بند کر کے مار دیا گیا.یہ واقعہ ۱۹۱۹ ء یا ۱۹۲۰ ء کا ہے.سردار نصر اللہ خان کو کسی جگہ دفن کر کے اس کی قبر معدوم کر دی گئی.سردار نصر اللہ خان کے قتل کے بعد اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی عالیہ بیگم زندہ تھی.کچھ عرصہ بعدا میر امان اللہ خان نے اپنے چچا کے بیٹے کو بھی مخفی طور پر قتل کروا دیا.سردار نصر اللہ خان کی بیٹی کافی عرصہ زندہ رہی امیر امان اللہ خان نے اسے شادی کا پیغام دے دیا لیکن عالیہ بیگم نے اس بناء پر کہ وہ اپنے والد اور بھائی کے قاتل کے ساتھ شادی نہیں کر سکتی انکار کر دیا.لیکن امیر امان اللہ خان کا اصرار جاری رہا بالآخر عالیہ بیگم مان گئی اور امیر امان اللہ خان نے اپنی پہلی ملکہ ثریا بیگم کی مخالفت کے سبب اس سے خفیہ نکاح کر لیا.ملکہ تر یا سردار محمود خان طرزی کی بیٹی تھی.امیر امان اللہ خان کے دو بھائی سردار عنایت اللہ خان اور سردار حیات اللہ خان دونوں کافی عرصہ نظر بندر ہے.عزیز ہندی صاحب جو اس وقت افغانستان میں موجود تھے اور ان واقعات کے شاہد ہیں لکھتے ہیں کہ سردار عنایت اللہ خان دستور بادشاہی کے مطابق افغانستان کے تاج و تخت کے حقیقی وارث تھے یہ اپنے والد امیر حبیب اللہ خان کے قتل ہونے کے وقت ان کی معیت میں تھے اور اپنے چا سردار نصر اللہ خان کے زیر اثر تھے.اور اپنے چچا کے حق میں جلال آباد میں سلطنت افغانستان سے دستبردار ہو چکے تھے اگر اس وقت وہ اپنے چچا کے بجائے بادشاہ بن
202 جاتے تو امیر امان اللہ خان کے بادشاہ بننے کی بظاہر کوئی امید نہ تھی لیکن قدرت چونکہ افغانستان کی عنان حکومت امیر امان اللہ خان کو دینا چاہتی تھی اس لیے واقعات بھی اسی کے مطابق پیش آئے.سردار عنایت اللہ خان کافی عرصہ تک اپنے محل میں نظر بند ر کھے گئے جب ان کو نظر بندی کی قیود سے آزاد کیا گیا تو وہ یکہ و تنہا تھے.برگیڈئیر جنرل Sir Per Sykes اپنی کتاب A History of Afghanistan میں بیان کرتا ہے امیر حبیب اللہ خان شکا رکا شوقین تھا خاص طور پر Snipe Shooting پسند کرتا تھا وہ اس غرض سے پغمان کے علاقہ میں گیا ہوا تھا اس کے ساتھ جو محافظ تھے ان کا کمانڈ ر احمد شاہ خان تھا جو جنرل محمد نادر خان کے خاندان سے تھا یہ خاندان بالعموم مصاحبین یا سرداران پشاور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.۲۰ فروری 1919ء کی صبح کو معلوم ہوا کہ کوئی نا معلوم قاتل بادشاہ کے خیمہ میں گھس آیا اور اس نے اسے کان کے راستہ شوٹ کر دیا.اس وقت بعض ملا ؤں پر بھی شک کیا گیا تھا جن کے بعض بڑے مولویوں کو امیر حبیب اللہ خان نے اس بناء پر موت کی سزا دی تھی کہ وہ اس کی حکومت کے خلاف ایک سازش میں شریک تھے اس لیے امکان تھا کہ شاید ان کے مریدوں نے انتقام کے لیے قتل کیا ہو.جب امیر حبیب اللہ خان قتل ہوا تو اس وقت امیر کی بیوی علیا حضرت جو امان اللہ خان کی والدہ تھی اور سردار نصر اللہ خان اور جنرل محمد نادر خان وغیرہ کیمپ میں یا اس کے آس پاس موجود تھے نئے بادشاہ کا انتخاب سردار نصر اللہ خان اور سردار عنایت اللہ خان کے مابین ہونا تھا.نصر اللہ خان قدیمی خیالات کی پارٹی کا نمائندہ تھا اور افغانستان کے ملا اور سرحد کے قبائلی اس کے حق میں تھے.سردار عنایت اللہ خان امیر حبیب اللہ خان کا بڑا بیٹا تھا اسکی عمر ۲۱ سال تھی لیکن کوئی پارٹی اسکی مددگار نہ تھی ۲۱ فروری 1919ء کو جلال آباد میں عام در بار ہوا جس میں سردار عنایت اللہ خان نے سردار نصر اللہ خان کے امیر افغانستان مقرر کیے جانے کی توثیق کر دی.وائسرائے ہند کو جب اس انتخاب کی اطلاع دی گئی تو یہ بھی لکھا گیا کہ سردار نصر اللہ خان افغانستان کے ملاؤں اور قبائلیوں میں بہت مقبول ہے.سردار امان اللہ خان جو
203 امیر حبیب اللہ خان کا تیسرا بیٹا تھا اس نے شاہی خزانہ اور آرمی ہیڈ کوارٹر اور اسلحہ خانہ اپنے قبضہ میں لے لئے.اور خود بادشاہ بننے کے لیے کوششیں شروع کر دیں اس وقت سردار نصر اللہ خان جلال آباد میں بیٹھا رہا اس کو مشورہ دیا گیا کہ کابل روانہ ہو جائے لیکن وہ نہ مانا.امان اللہ خان نے فوج کی امداد حاصل کرنے کی بھی کوشش کی فوجیوں کو یہ پیش کش کی گئی کہ آئندہ سے ان کی ماہوار تنخواہ گیارہ روپیہ سے بڑھا کر بیس روپیہ کر دی جائیگی.امان اللہ خان کی والدہ علیا حضرت کا اثر و رسوخ بھی اس کے حق میں مفید ثابت ہوا.مندرجہ بالا وجوہ کی بناء پر کا بل میں موجود فوج نے امان اللہ خان کو فوراً امیر تسلیم کر لیا.جلال آباد کے علاقہ میں فوجیوں نے نہ صرف امیر امان اللہ خان کی بادشاہت کو تسلیم کیا بلکہ ان لوگوں کو بھی گرفتار کر لیا جن پر امیر حبیب اللہ خان کے قتل کا شبہ تھا.اس پر سردار نصر اللہ خان دستبردار ہو گیا اور اس کو قیدی بنا کر کابل لے جایا گیا.ایک بات بہت نمایاں نظر آتی ہے کہ امیر امان اللہ خان نے اپنی امارت کا جو اعلان کیا تھا اس میں قوم کو مخاطب کیا گیا تھا اور اس کے دوسرے حصہ میں فوج مخاطب تھی لیکن اس اعلان میں مذہبی علماء سے خطاب نہیں تھا.یو امیر امان اللہ خان کی حکومت بغیر کسی ظاہری مخالفت کے تمام ملک میں تسلیم کر لی گئی.امیر امان اللہ خان نے تمام صوبوں کے گورنر بدل دیئے.اور ان میں مصاحبین کے خاندان کے آدمی لگائے گئے.سوائے صوبہ قندھار کے اس میں لوہ ناب خوش دل خان کو گورنر مقر ر کیا گیا.یہ شخص امیر امان اللہ خان کی والدہ علیا حضرت کا سوتیلا بھائی تھا.عزیز ہندی علیا حضرت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ وہ قندھار کے ایک اثر و رسوخ والے خاندان سے تھیں اور امیر حبیب اللہ خان کی چہیتی بیوی تھیں اور ان کو اس کے عہد میں بڑا اقتدار حاصل تھا.لیکن بعد میں علیا حضرت امیر کی نظروں سے گر چکی تھیں.یہاں تک کہ اس نے ان کو شاہی محل سے بھی نکلوا دیا تھا.سنا جاتا ہے کہ وہ اس بے عزتی کو ملا یہ بات لکھنے سے Sir Percy کا یہ منشاء معلوم ہوتا تھا کہ امیر امان اللہ خان شروع سے ہی آزاد خیال تھا اور ملاؤں کے سیاسی اثر ورسوخ کا مخالف تھا.
204 برداشت نہ کر سکیں.اور انہوں نے امیر مقتول کے خلاف سازشیں شروع کر دی تھیں.جن کا انجام بالآخر امیر حبیب اللہ خان کے خاتمہ پر منتج ہوا اور علیا حضرت کا اپنا بیٹا امان اللہ خان با دشاہ بن گیا.آپ شروع میں اپنے بیٹے امان اللہ خان کے کاروبار حکومت میں بہت دخیل رہیں.آپ کی ایک لڑکی ان کے بھتیجے سردار علی احمد جان سے بیاہی گئی تھی.اور منجھلی صاحبزادی جنرل محمد نادر خان سپہ سالا را افغانستان کے چھوٹے بھائی سردار شاہ ولی خان سے شادی شدہ تھی.علیا حضرت کو سردار محمود خان طرزی وزیر خارجہ کے خاندان سے کچھ کر تھا.سردار محمود خان طرزی امیر امان اللہ خان کے خسر اور ملکہ ثریا کے والد تھے.ملکہ ثریا بھی امیر کے مزاج پر بہت حاوی تھیں.عزیز ہندی صاحب نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جب امیر حبیب اللہ خان انگریزوں کی دعوت پر 1906ء میں ہندوستان کی سیاحت کو گئے تھے تو واپس آکر ان میں ایک تبدیلی آگئی تھی اور وہ یہ کہ وہ سیاحت کے بعد رنگین مزاج ہو گئے تھے.اور یہ رنگین مزاجی ہی ان کے قتل کا باعث بن گئی تھی.(۴) سردار نصر اللہ خان برادر امیر حبیب اللہ خان کے بارہ میں اخباری رپورٹ ۲۳ اپریل ۱۹۱۹ ء کا اخبار پائینیر الہ آبا در قم طراز ہے کہ ۱۳ اپریل کو کابل میں ایک در بار عام امیر امان اللہ خان کے حکم سے منعقد کیا گیا.اس میں سردار نصر اللہ خان کے متعلق یہ بیان کیا گیا.کہ وہ امیر حبیب اللہ خان کے قتل میں ملوث تھا اور اس کو حبس وام کی سزا دی گئی.اس قسم کی سزا اس کے پیش خدمت لڑکے کو بھی دی گئی.جو شریک جرم تھا.ایک افغانی کرنل کو جس نے قتل کیا تھا.سزائے موت دی گئی.(۵) حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کے خاندان سے امان اللہ خان کا سلوک حضرت صاحبزادہ صاحب کا خاندان امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ میں ۱۹۰۳ء سے کئی سال جلا وطن رہا پہلے ان کو مزار شریف کے علاقہ میں جو جانب ترکستان واقع ہے رکھا
205 گیا پھر ان کو بعض سفارشات کی بناء پر کابل آنے کی اجازت دی گئی اور وہ کا بل میں جلا وطنی کی زندگی گزارتے رہے.۱۹۱۸ء میں امیر حبیب اللہ خان اور سردار نصر اللہ خان ان کے بارہ میں بعض شبہات میں مبتلا ہو گئے اور امیر حبیب اللہ خان نے پانچوں صاحبزادوں یعنی محمد سعید جان صاحب عبد السلام صاحب جان محمد عمر جان صاحب، محمد طیب جان صاحب اور ابوالحسن قدسی صاحب کو شیر پور کی جیل میں ایک نہایت تکلیف دہ قید میں ڈال دیا.بالآخر سردار امان اللہ خان نے جب وہ کابل کا گورنر تھا ان کی رہائی کی کوشش کی اور سردار نصر اللہ خان سے بات کر کے ان کو ۱۹۱۸ء میں رہا کر دیا.لیکن افسوس کہ شہید مرحوم کے دو صاحبزادے محمد سعید جان جو سب سے بڑے تھے اور محمد عمر جان جو آپکے تیسرے بیٹے تھے رہائی کے کچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گئے ان کی وفات ان عوارض کے نتیجہ میں ہوئی جو ان کو قید کے دوران لاحق ہو گئے تھے.فروری ۱۹۱۹ ء میں امیر امان اللہ خان بادشاہ بن گیا تو اس نے کچھ عرصہ بعد خوست کے علاقہ کے بعض سرداروں کی سفارش پر جو اس کی بیعت کے لیے اپنے وطن سے آئے تھے تینوں صاحبزادگان اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد کو اپنے وطن خوست جانے کی اجازت دے دی اور ان کی جائیدادیں بھی واپس کر دیں اس طرح یہ لوگ ۱۹۲۳ء تک نسبتاً امن و امان سے اپنے گھروں میں رہتے رہے.(1) افغانستان کی تیسری جنگ امیر امان اللہ خان نے امیر بننے کے کچھ عرصہ بعد ہندوستان کی سرحد پر انگریزوں کی حکومت سے جنگ چھیڑ دی جسے افغانستان کی تیسری جنگ کہا جاتا ہے.لڑائی مئی 1919 ء میں شروع ہوئی مؤرخین کی رائے ہے کہ امیر امان اللہ خان جن حالات میں بادشاہ بنا ان کی وجہ سے وہ کئی خطرات سے دو چار تھا.پہلی بات تو یہ تھی کہ شاید تمام افغانی قوم ان کی بادشاہت تسلیم نہ کرے اور سلطنت کے مختلف دعویدار کھڑے ہو جائیں.اور امیر کو ان سے جنگیں لڑنی
206 ـران افغانستان از قبیله ابدالی ( درانی) بارک زکی محمد زکی نا محمد زئی پیچی خیل حاجی جمال خان مصاحبین سرداران پشاور یار محمد خان پیر محمد خان سردار محمد خان غلام محمد طرزی محمود خان طرزی خوش دل خان سرداران قندهار رحم دل خان مهردل خان پردل خان سردار پائنده خان سرداران کابل امیر دوست محمد خان امیر شیر علی خان امیر محمد افضل خان امیر عبدالرحمن خان نصر اللہ خان امیر حبیب اللہ خان غلام علی خان شیر میں دل خان حیات اللہ خان امیر امان اللہ خان - امیر عنایت اللہ خان والی خوست سردار عبدالرحمن جان شہزادہ محمد ابراهیم خان لاہوری خوش دل خان شہزادہ عبدالحمید خان شہزادہ عبدالمجید خان سردار محمد معینی خان سردار محمد یوسف خان ہاشم خان شاہ ولی خان محمد عزیز خان امیر نادرشاه داؤد خان امیر ظاہر شاہ نجیب اللہ خان
207 پڑیں.پھر یہ بھی امکان تھا کہ انگریز جو اس وقت افغانستان کے سیاسی امور میں دخیل تھے اور خارجہ پالیسی انہی کے اختیار میں تھی اس کی امارت کو تسلیم نہ کریں.ان خطرات سے بچنے کے لیے اور افغان قوم کی توجہ بدلنے کے لیے اس نے جہاد کا اعلان کر کے انگریزوں سے جنگ چھیڑ دی جس میں نہ صرف افغانستان کی فوج شامل تھی بلکہ قبائلی لشکر بھی اپنے ملاؤں کے زیر اثر جہاد کے لیے نکل پڑے تھے غرض یہ تھی کہ ایک تو افغان قوم اور قبائلی علاقوں کے لوگوں کی مدد اس کو حاصل ہو جائے دوسرے انگریزوں کو مجبور کر کے خارجی خود مختاری منوالی جائے تیسرے یہ کہ ڈیورنڈ لائن میں رد و بدل کر کے افغانستان کو صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ کا کچھ زائد حصہ مل جائے.جنگ عظیم ثانی کے بعد ہندوستان میں انگریزی فوج کی طاقت معمول سے کم تھی نفری بھی تھوڑی تھی اور سامان حرب بھی تھوڑا تھا.چونکہ افغانستان نے پہلے حملہ کیا تھا اس لیے شروع میں ان کو کامیابی ہوئی اور تینوں محاذوں پر افغانی چند میل آگے بڑھ گئے.ان میں سے ایک خیبر کا محاذ تھا جس کی کمان سردار محمد صالح خان کر رہے تھے.دوسرا گرم اور ٹل کا محاذ تھا جس کے قائد جنرل محمد نادر خان تھے جس کی قیادت سردار عبدالقدوس خان شاہ خاصی کے سپر دتھی.لیکن چند ہفتوں کے اندراندر انگریزی فوج بہت سرعت سے دوسرے مقامات سے سرحدوں پر جمع ہو گئی اور ان کے جوابی حملہ سے افغان فوج کو پیچھے ہٹنا پڑا انگریز چند پرانے ہوائی جہاز بھی جنگ میں لے آئے اور کابل - جلال آباد اور بعض دوسرے مقامات پر بم گرائے جن سے دہشت پھیل گئی اور جانی و مالی نقصان بھی ہوا.اور تھوڑے عرصہ میں لڑائی کا پانسہ پلٹ گیا.اس پر امیر امان اللہ خان نے جنگ بندی کا فیصلہ کر لیا چنانچہ امیر کی طرف ۲۱ مئی 1919 ء کو وائسرائے ہند کو لکھا گیا کہ افغانستان لڑائی ختم کرنے کو تیار ہے کچھ عرصہ خط و کتابت کے بعد دونوں فریق جنگ بندی پر راضی ہو گئے اور اس بات پر متفق ہوئے کہ طرفین کے نمائندے راولپنڈی میں جنگ بندی کی گفت و شنید کے لیے اکٹھے ہوں اس صلح میں افغانستان کا نمائندہ سردار علی احمد جان تھا جو امیر امان اللہ خان کی والدہ علیا حضرت کا بھتیجا
208 اور داماد تھا.اگست 1919ء میں جنگ بندی کے دستخط ہوئے جس کی رو سے انگریزوں نے افغانستان کی خارجہ خود مختاری تسلیم کر لی اور افغانستان بطور ایک آزاد مملکت کے منصہ ظہور پر آ گیا.جہاں تک نئی سرحدات کے تعین کا معاملہ تھا افغانستان اسمیں ناکام رہا اور انگریزی نمائندوں کے اصرار پر ڈیورنڈ لائن ہی ہندوستان کی سرحد تسلیم کی گئی اس میں افغانستان کے حق میں کوئی تبدیلی نہ کی جاسکی.چونکہ اب افغانستان ایک آزاد ملک بن چکا تھا اس لیے وہ امدادی رقم جو انگریزوں کی طرف سے افغانستان کے امیروں کو ادا کی جاتی تھی اس کی ادائیگی بند کر دی گئی.امیر امان اللہ خان کی خواہش تھی کہ انگریزوں سے کچھ وہ علاقے حاصل کیے جائیں جو ڈیورنڈ لائن کے تحت انگریزوں کے زیر اثر آگئے تھے.سردار احمد علی جان کو اس میں ناکامی ہوئی چونکہ مذاکرات کے دوران اس نے ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم کر لیا تھا اس لیے جب وہ راولپنڈی سے واپس آیا تو شاہی معتوب قرار پایا اور اسے کابل میں نظر بند کر دیا گیا.لیکن چونکہ وہ علیا حضرت والدہ صاحبہ امیر امان اللہ خان کا داماد تھا اس لیے کچھ عرصہ کے بعد نظر بندی سے آزاد کر دیا گیا.افغانستان کی نوجوان پارٹی جو آزادی کی دلدادہ تھی اور جن کا رہنما سردار محمود خان طرزی سمجھا جاتا تھا اس کے نقطہ نگاہ سے بھی سردار احمد علی جان راولپنڈی کا نفرنس میں بالکل ناکام رہا تھا.امیر امان اللہ خان بھی سردار محمود خان طرزی کے زیر اثر تھا.اس کا آگے ذکر نسبتاً تفصیل سے آئے گا.(۷) افغانستان میں نیشنل ازم اور آزادی خیال کے رحجانات کا فروغ سردار محمد خان طرزی پسر سردار غلام محمد طرزی امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ میں سراج الاخبار کابل کا مدیر تھا.وہ امیر امان اللہ خان کا خسر اور ملکہ ثریا کا والد تھا.امیر عبدالرحمن خان نے اسکو افغانستان سے ملک بدر کر دیا تھا وہ ملک شام میں رہنے لگا اور عرب
209 ممالک میں نیشنل ازم اور آزادی کی لہر کا گہرا اثر لے کر افغانستان واپس آیا.اس نے امیر امان اللہ خان کو مشورہ دیا کہ افغانستان کا نظام دیگر متمدن اور مہذب ممالک کے اصولوں کے مطابق بنایا جائے.امیر امان اللہ خان ان خیالات سے متاثر ہوا اور اس کے مطابق ملکی نظام کے ڈھانچے میں تبدیلی لانا چاہتا تھا اس نے اس بات کا اعلان عام کیا کہ میری مملکت میں ہر مذہب اور فرقہ کے پیر و کمل آزادی سے زندگی بسر کر سکتے ہیں.یہ بات قابل ذکر ہے کہ سردار محمود خان طرزی اپنے دو دامادوں یعنی امیر امان اللہ خان اور سردار عنایت اللہ خان میں سے امان اللہ خان کو زیادہ عزیز جانتا تھا کیونکہ وہ امان اللہ خان کو ایک عالی خیال اور حریت پسند جوان یقین کرتا تھا جبکہ سردار عنایت اللہ خان ایک رجعت پسند اور پرانے خیالات والا شخص تھا اس لیے امیر حبیب اللہ خان کی زندگی میں ہی امان اللہ خان کے گہرے تعلقات سردار محمود خان طرزی سے قائم ہو گئے تھے اور جب کبھی امان اللہ خان کو کابل کا گورنر مقرر کیا جاتا تو وہ آزادی پسند نو جوانوں کو سیاسی سرگرمیاں کرنے کی ترغیب دیا کرتا تھا اور ان کی مالی مدد بھی کیا کرتا تھا.جب امیر امان اللہ خان بادشاہ بن گیا تو یہ آزادی پسند افرادا میر کی حمایت کے لیے آموجود ہوئے اور امیر امان اللہ خان نے بھی ان لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر سرفراز کر دیا.(۸) مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو 1919ء میں قادیان سے افغانستان بھجوایا گیا جیسا کہ ذکر آچکا ہے کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ میں قادیان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے.1919ء میں جب یہ خبر آئی کہ امیر حبیب اللہ خان کو قتل کر دیا گیا ہے اور نیا امیر امان اللہ خان مقرر ہوا ہے اور اخباروں میں اس امر کا ذکر بھی آیا کہ افغانستان کا نیا امیر آزادی پسند نوجوان ہے اور اس کو سردار محمود خان طرزی اور آزاد نوجوان پارٹی کی حمایت حاصل ہے جو افغانستان کو مہذب اور آزاد ممالک کے رنگ پر چلانا چاہتی ہے تو طبعاً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو افغانستان میں بسنے والے احمدیوں کا خیال آیا کہ اللہ چاہے تو افغانستان کے احمدیوں کو بھی آزادی ملے گی اور ان کے لیے کچھ سہولتیں پیدا ہو
210 جائیں گی.اس پر حضور رضی اللہ عنہ نے نو جوان افغان طالب علم نعمت اللہ خان کو کا بل جانے کی ہدایت فرمائی تا کہ وہ افغانستان اور افغانستان کے احمدیوں کے حالات معلوم کریں اور حضور کو اس سے اطلاع کریں.جیسا کہ حضور نے بعد میں ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ نعمت اللہ ایک طالب علم تھا اور اسے دراصل وہاں جماعت کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا مگر بعد میں اس کو مبلغ مقرر کر دیا گیا (۹) نیز فرمایا کہ ”مولوی نعمت اللہ خان کا بل کے پاس ایک گاؤں کے رہنے والے تھے.ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ سلسلہ کی تعلیم بھی حاصل کریں اور وہ قادیان چلے آئے جہاں وہ احمد یہ دینی کالج میں داخل ہوئے وہ ابھی کالج ہی میں تعلیم پار ہے تھے کہ کابل کے احمدیوں کی تعلیم کے لیے ان کو وہاں بھیجنا پڑا چنا نچہ 1919 ء میں وہ وہاں چلے گئے اور چونکہ افغانستان میں احمدیوں کی لیے امن نہ تھا مخفی طور پر اپنے بھائیوں کو سلسلہ کی تعلیم سے واقف کرتے رہے‘ (۱۰) افغانستان کی حکومت کی طرف سے ملک میں مذہبی آزادی کا واضح اعلان سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس عرصہ میں گورنمنٹ افغانستان نے کامل مذہبی آزادی کا اعلان کیا اور ہم نے سمجھا کہ اب احمد یوں کو اس علاقہ میں امن ہو گا.مگر پیشتر اس کے کہ وہاں کی جماعت کے لوگ اپنے آپ کو علی الاعلان ظاہر کرتے مناسب سمجھا گیا کہ گورنمنٹ سے اچھی طرح دریافت کر لیا جائے.....چنانچہ جب محمود طرزی صاحب سابق سفیر پیرس کی امارت میں افغان گورنمنٹ کا ایک مشن برٹش گورنمنٹ سے معاہدہ صلح کرنے کے لیے آیا تو اس وقت میں نے ان کی طرف ایک وفد اپنی جماعت کے لوگوں کا بھیجا تا کہ وہ ان سے دریافت کرے کہ کیا مذ ہبی آزادی دوسرے لوگوں کے لیے ہے یا احمدیوں کے لئے بھی.اگر احمدیوں کے لیے بھی ہے تو وہ لوگ جو اپنے گھر چھوڑ کر قادیان میں آگئے ہیں واپس اپنے گھروں کو چلے میاں نیک محمد خان صاحب نے بتایا کہ اس وفد میں ان کے علاوہ مولانا..بلال پوری بھی تھے اور بات چیت ڈیرہ دون میں ہو سکتی تھی.
211 جاویں.محمود طرزی صاحب نے میرے بھیجے ہوئے وفد کو یقین دلایا کہ افغانستان میں احمدیوں کو اب کوئی تکلیف نہ ہوگی کیونکہ ظلم کا زمانہ چلا گیا ہے اور اب اس ملک میں کامل مذہبی آزادی ہے.اسی طرح دوسرے ممبران وفد نے بھی یقین دلایا.ان لوگوں میں سے جو اپنے ملک کو چھوڑ کر قادیان آگئے ہیں ایک نوجوان نیک محمد بھی ہے جو احمدیت کے اظہار کی آزادی نہ پا کر چودہ سال کی عمر میں اپنا وطن چھوڑ کر چلا آیا تھا.اس نوجوان کا والد غزنی کے علاقہ کا رئیس تھا.اس کو دیکھ کر کئی ممبران وفد کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ ایسے معزز خاندانوں کے بچے اس عمر میں اپنے عزیزوں سے جدا ہو کر دوسرے وطنوں کو جانے پر مجبور ہوں یہ بہت بڑا ظلم ہے جو ہر میجسٹی امان اللہ خان کے وقت میں نہ ہوگا.اور ایشیائی طریق پر اپنے سینوں پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ تم واپس وطن کو چلو دیکھیں تو تم کو کون ترچھی نظر سے دیکھتا ہے؟ اس ملاقات کے نتیجہ میں ہمارا وفد اپنے نز دیک نہایت کامیاب واپس آیا.مگر مزید احتیاط کے طور پر میں نے چاہا کہ امیر افغانستان کو اپنے عقائد سے بھی مطلع کر دیا جائے اور ہماری امن پسند عادت سے بھی آگاہ کر دیا جائے.تا کہ پھر کوئی بات نہ پیدا ہو اور میں نے مولوی نعمت اللہ خان کو ہدایت کی کہ وہ محمود طرزی صاحب سے ان کی واپسی پر ملیں اور ان سے بعض احمد یوں پر جو ظلم ہوا ہے اس کا تذکرہ کریں اور امیر کے سامنے اپنے خیالات پیش کرنے کی بھی اجازت لیں.محمود طرزی صاحب نے ان احمدیوں کی تکلیف کا ازالہ کر دیا اور اس امر کی ضمانت دی کہ جو خط امیر کے نام آئے وہ اس کو غور سے پڑھیں گے.اس موقعہ پر ہمارے مبلغ نے اپنے آپ کو جس طرح گورنمنٹ کے سامنے ظاہر کر دیا تھا.پبلک پر بھی ظاہر کر دیا.چونکہ افغانستان کے بعض علاقوں سے یہ خبریں برا بر آ رہی تھیں کہ احمدیوں پر برا بر ظلم ہو رہا ہے.ان کو بلا وجہ قید کر لیا جاتا ہے.پھر ان سے روپیہ لے کر چھوڑا جاتا ہے.اس لئے میں نے اپنے صیغہ دعوت و تبلیغ کے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس کے متعلق افغان گورنمنٹ سے خط و کتابت کریں.چنانچہ انہوں نے ایک چٹھی وزیر خار جیہ افغانستان کو لکھی.
212 اس چٹھی کے جواب میں وزیر خار جیہ افغانستان کی ایک چٹھی مئی ۱۹۲۱ ء میں آئی.جس میں لکھا تھا کہ احمدی اسی طرح اس ملک میں محفوظ ہیں جس طرح دوسرے وفا دار لوگ ، ان کو احمدیت کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ دی جاوے گی اور اگر کوئی احمدی ایسا ہے جسے مذہب کی وجہ سے تکلیف دی جاتی ہو تو اس کا نام اور پتہ لکھیں.گورنمنٹ فوراً اس کی تکلیف کو دور کر دے گی.اس کے کچھ عرصہ بعد خوست کے علاقہ میں بعض احمد یوں کو پھر تکلیف ہوئی تو احمد یہ جماعت کی شملہ کی لوکل شاخ نے سفیر کا بل متعینہ ہندوستان کو اس طرف توجہ دلائی اور ان کی معرفت ایک درخواست گورنمنٹ کا بل کو بھیجی جس کا جواب مؤرخہ ۲۴ مئی ۱۹۲۳ء کو سفیر کا بل کی معرفت ان کو یہ ملا کہ وہ احمدی امن کے ساتھ گورنمنٹ کے ماتحت رہ سکتے ہیں.ان کو کوئی تکلیف نہیں دے سکتا.باقی وفا دار رعایا کی طرح ان کی حفاظت کی جائے گی.اس خط میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ معاملہ ہر میجسٹی امیر کے سامنے پیش کیا گیا تھا.اور ان کے مشورہ سے جواب لکھا گیا ہے.شملہ کی لوکل احمدی انجمن کی درخواست میں احمد یہ عقائد کا بھی تفصیلاً ذکر کیا گیا تھا اور گورنمنٹ افغانستان نہیں کہ سکتی کہ اسکو پہلے احمدی عقائد کا علم نہ تھا.ނ اس طرح متواتر یقین دلانے پر کابل اور اس کے گرد کے احمدی ظاہر ہو گئے.مگر کابل.ڈور علاقوں کے لوگ پہلے کی طرح مخفی ہی رہے.کیونکہ گورنمنٹ افغانستان کا تصرف ان علاقوں پر ایسا نہیں کہ اس کی مرضی پر پوری طرح عمل کیا جائے.وہاں لوگ قانون اپنے ہاتھ ہی میں رکھتے ہیں اور بارہا حکام بھی لوگوں کے ساتھ مل کر کمزوروں پر ظلم کرتے رہتے ہیں.ہم خوش تھے کہ افغانستان میں ہمارے لیے امن ہو گیا ہے (۱۱) امیر امان اللہ خان کی ابتدائی زمانہ میں حکومت افغانستان کی جانب سے یقین دہانی کے خطوط کہ احمدیوں کو افغانستان میں آزادی ہے اور حکومت ان کی حفاظت کرے گی ۱۹۲۱ء : - (۱) جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان سے صدرانجمن احمدیہ کی نظارت امور عامہ کی
213 رف سے سلطنت افغانستان کو خط لکھا گیا جس میں افغانستان میں رہنے والے احمدیوں کی تکالیف اور مصائب کی طرف توجہ دلائی گئی جو انھیں محض احمدی ہونے کی وجہ سے اٹھانا پڑتے ہیں.اس کے جواب میں سردار محمود خان طرزی وزیر خارجہ افغانستان نے اپنے خاص سرکاری لیٹر ہیڈ پر جو جواب بھجوایا اس میں تحریر تھا کہ مکتوب شما ۳۰ ماہ اپریل ۱۹۲۱ء - - بنام این خدمتگار عالم اسلام رسیدہ مضامین و مطالب آن را مطالعه کرد - الی آخیره دانسته شدیم - جوابا می نگارم که در سلطنت اعلیٰ حضرت غازی پادشاہت معظمه افغانستان پیچ یک زحمت یا تکلیفی از طرف حکومت - درباره تابعین و متعلقین شما در خاک افغانستان ابرار نیافته اس کا ترجمہ یہ ہے کہ آپ کا خط ۳۰ / اپریل ۱۹۲۱ء جناب جلالت مآب جمال پاشا اور عالم اسلام کے اس خدمتگار کے نام پہنچا جس کے تمام مطالب و مضامین سے آگا ہی ہوئی جوا با لکھا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت غازی کے عہد حکومت میں کسی قسم کی زحمت یا تکلیف حکومت کی طرف سے کا بل کی سرزمین میں رہنے والے آپ کے ساتھیوں اور متعلقین کو نہیں پہنچائی جاتی “ اس مکتوب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر سیاہہ اشخاص تابعین خود را که در خاک افغانستان سکونت دارند برائے ما بفرستید ممکن است اگر تکلیفی درباره شاں وارد شده با شد رفع شود اس حصہ کا اردو تر جمہ یہ ہے کہ اگران احمدیوں کی فہرست جو ملک افغانستان میں سکونت رکھتے ہیں ہمارے پاس بھیج دی جائے تو ممکن ہے کہ اگر انھیں کوئی تکلیف پیش آئے تو رفع کر دی جائے‘ (۱۲) (۲) ایک اور مکتوب جو افغانستان کے قونصل جنرل مقیم ہندوستان نے جماعت احمدیہ شملہ ہندوستان کے ایڈریس کے جواب میں لکھا اس میں درج ہے کہ
214 شما نفرے عارضاں را اطمینان بدهید که از طرف افغانستان و اهالی هیچ گاه بدون سبب و واسطه - اذیت برا قوام شال نخواهد رسید اس کا ترجمہ یہ ہے کہ آپ احمدیوں کو اطمینان دلا دیں کہ افغانستان اور اہالیان افغانستان کی طرف سے کسی وقت بلا سبب اور وجہ کوئی اذیت و تکلیف ان لوگوں کو نہیں پہنچے گی (۱۳) مولوی نعمت اللہ خان صاحب کا بطور مبلغ تقر ر اور کابل میں قیام جب جماعت احمدیہ کو حکومت افغانستان کی طرف سے بار بار تحریری اور زبانی طور پر یقین دہانی کروائی گئی کہ احمدیوں کو افغانستان میں مکمل مذہبی آزادی دی جائے گی اور ان کی حفاظت کی جائے گی تو سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو دوبارہ افغانستان بطور مبلغ بھجوانے کا فیصلہ فرمایا اور ۱۹۲۲ء میں ان کو جناب عبدالاحد خان صاحب افغان کی معیت میں براستہ پشاور افغانستان بھجوایا گیا اس سے قبل حضور اقدس نے ایک مبسوط کتاب دعوۃ الا میر کے نام سے تحریر فرمائی.جو امیر امان اللہ خان کو مخاطب کر کے لکھی گئی تھی.اور اس میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوئی اور مقام نیز اس کے اثبات کے دلائل قرآن مجید اور احادیث نبویہ اور کتب علماء اسلام سے بڑی وضاحت اور عمدہ پیرا یہ میں بیان فرمائے اور ان غلط فہمیوں کا ازالہ فرمایا جو جماعت احمدیہ اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں بعض مسلمان ملا پھیلاتے رہتے ہیں.اس کتاب کا فارسی میں ترجمہ کروایا گیا.جسے زیور طبع سے آراستہ کیا گیا.دعوۃ الا میر کی بہت سی جلد میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب اور عبدالاحد خان صاحب افغان اپنے ساتھ لے گئے تا کہ اسے مناسب طریق سے افغانستان میں تقسیم کیا جائے.اور احمدیت کا پیغام پہنچانے میں مدد ملے.جب مولوی نعمت اللہ خان صاحب اور جناب عبدالاحد خان صاحب افغان پشاور پہنچے تو جماعت احمد یہ پشاور کے مرکز واقعہ جہاں گیر پورہ میں کچھ عرصہ مقیم رہے.اور احباب صوبہ سرحد سے ملتے رہے.اس بارہ میں جناب
215 قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمد یہ صوبہ سرحد لکھتے ہیں کہ اس وقت مولوی نعمت اللہ خان صاحب درمیانہ قد کے خوبصورت نو عمر نوجوان تھے.اور تازہ خط ریش چہرہ پر آیا ہوا تھا.انداز بیس یا پچیس سال عمر ہوگی.وہ نہایت پاکیزہ کم گو پر جوش، متدین نوجوان تھے.گفتگو میں شیرینی تھی.خدا تعالیٰ شاہد ہے کہ ان کے ایام قیام پشاور میں ہم پر یہ اثر ہوتا تھا کہ وہ اپنے اخلاق حسنہ اور صلاحیت کی وجہ سے انسان نہیں بلکہ فرشتہ مجسم معلوم ہوتے ہیں.وہ شیریں کلام مؤثر لہجہ میں کلام کرنے والے سرخ و سفید خوبصورت چہرے والے سیاہ چشم سڈول وجود کشادہ پیشانی ، سیاہ بال سیاہ بادام نما آنکھوں والا انسان تھا.زبان فارسی تھی اور پشتو بھی بولتے تھے.اردو بھی قدرے سیکھ لی تھی.برا در نعمت اللہ خان کی ملائم طبع اور نرم مزاج کو دیکھ کر ہم نے دریافت کیا کہ اگر خدانخواستہ افغانستان حکومت اپنے عہد پر قائم نہ رہے اور آپ کو کوئی ابتلاء یا امتحان پیش آئے.تو کیا آپ مصائب و شدائد باز پرس و دار و گیر برداشت کر سکیں گے؟ برادر موصوف ( نعمت اللہ خان ) پر ہمارے اس سوال کا ایک خاص اثر ہوا اور انہوں نے آبدیدہ ہو کر کہا کہ انشاء اللہ آپ دیکھ لیں گے.میں اس وقت کیا لاف و گزاف کرسکتا ہوں.“ مولوی نعمت اللہ خان کی کابل میں آمد اور مشن کا قیام بالآخر برا در نعمت اللہ خان صاحب عبدالاحد خان افغان کی معیت میں پشاور سے احباب جماعت سے مل کر رخصت ہوئے.دعا کی اور براستہ جمرود درۂ خیبر و جلال آباد کابل چلے گئے.وہاں کے احمدی ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے.ایک مکان کرایہ پر لیا گیا اور جماعت احمد یہ کابل کو درس القرآن دینے لگے.احباب جماعت کی ترقی علم دین و تربیت
216 اخلاق میں مشغول ہو گئے.جب بھی موقعہ ملتا.خط و کتابت کر کے اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہتے تھے.عبدالاحد خان صاحب افغان کچھ عرصہ بعد قادیان واپس آگئے.(۱۴) افغانستان کی سمت جنوبی خوست اور ملحقہ علاقوں میں بغاوت اور احمدیوں کے لئے مشکلات و تکالیف افغانستان کی سمت جنوبی میں رہائش رکھنے والے قبائل، منگل، چمکنی، جدران وغیرہ میں ۱۹۲۳ ء اور ۱۹۲۴ء میں امیر امان اللہ خان کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی.اس کے بانی مبانی بعض ملا اور پیر تھے.بالخصوص ملا عبداللہ ملائے لنگ اور اس کا داما دعبدالرشید ملائے دبنگ اس بغاوت کے پھیلانے میں سرگرم تھے.بغاوت کے برپا ہونے کے اسباب یہ تھے کہ امیر امان اللہ خان اور اس کے آزادی پسند وزیروں نے ملک افغانستان کے قوانین اور نظام دولت میں بعض ایسی تبدیلیاں اور اصلاحات شامل کی تھیں.جن کی بعض دفعات ملاؤں کے نزدیک بدعت اور خلاف اسلام تھیں اور اس طرح امیر امان اللہ خان ان کے نزدیک کا فراور بے دین قرار پاتا تھا.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ جب 1919ء میں امیر امان اللہ خان برسراقتدار آیا تو اس نے افغانستان میں مذہبی آزادی دیئے جانے کا عام اعلان کیا اور اس کے نتیجہ میں احمدیوں کے لئے کچھ آرام اور سہولت کا زمانہ آیا.جب خوست کے علاقہ میں امیر امان اللہ خان کے خلاف بغاوت ہوئی تو باغیوں نے احمدیوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر امیر امان اللہ خان کے خلاف بغاوت میں شریک ہوں.اس پر خوست کے احمدیوں نے جواب کے لئے مہلت مانگی اور اپنا ایک نمائندہ پشاور کی جماعت احمدیہ کے پاس روانہ کیا اور ان سے مشورہ مانگا کہ ایسی صورت میں جماعت احمد یہ کیا تعلیم دیتی ہے.پشاور کی جماعت نے اس نمائندہ کو تفصیل سے بتایا کہ احمدیت کی تعلیم یہ ہے کہ احمدی بالعموم اپنی حکومت اور بادشاہ وقت کے وفادار ر ہیں اور اس کے خلاف بغاوت یا شورش میں
217 حصہ نہ لیں.اس بناء پر احمدیانِ خوست امیر امان اللہ خان کے خلاف بغاوت سے الگ رہے اور باغیان کو بتا دیا کہ وہ اپنے مذہبی اصولوں کی وجہ سے اس بغاوت میں شامل نہیں ہو سکتے.باغیوں نے جب یہ دیکھا کہ احمدی ان کا ساتھ نہیں دے رہے تو انہوں نے وہاں کے احمدیوں کے خلاف کا رروائی شروع کر دی.احمدیوں کو مارا پیٹا اور لتاڑا ان کی جائدادوں کو لوٹا اور مکانوں کو جلایا.اس وجہ سے بعض احمدی خوست کا علاقہ چھوڑ کر ہندوستان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے.باغی اب تک تو امیر امان اللہ خان کو دیگر وجوہات کی بناء پر کافر قرار دے رہے تھے.اب انہوں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ دراصل امیر امان اللہ خان بھی احمدی ہے.یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے احمدی اس کے خلاف ہمارے ساتھ بغاوت میں شامل نہیں ہوتے اور یہ کہ کابل میں احمد یہ مشن کھلا ہوا ہے اور حکومت اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی.امیر امان اللہ خان نے باغیوں کو سمجھانے اور بغاوت فرو کرنے کے لئے سردار علی جان اور بعض دیگر سرداروں کو خوست بھجوایا تھا.ان لوگوں نے ملا عبداللہ عرف ملائے لنگ اور ملا عبدالرشید عرف ملائے دبنگ کو سمجھا بجھا کر کابل آنے اور بغاوت کا راستہ چھوڑنے پر آمادہ کر لیا.اس موقعہ پر باغیوں نے یہ مطالبہ پیش کیا تھا کہ امیر امان اللہ خان کو چاہئے کہ جس طرح امیر عبدالرحمن اور امیر حبیب اللہ خان نے بعض احمد یوں کو قتل کروا دیا تھاوہ بھی افغانستان کے احمدیوں کو قتل کروائے.اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ خود احمدی نہیں ہے جیسا کہ اس کے بعض کا موں اور پالیسیوں سے سمجھا جاتا ہے مثلاً اس نے کابل میں احمدیوں کو مذہبی آزادی دے رکھی ہے اور ان کا مبلغ بھی کا بل میں موجود ہے.سردار علی احمد جان نے بھی اس کی تائید کی امیر امان اللہ خان نے اس ظالمانہ شرط کو تسلیم کرلیا اور امیر نے اپنے ماتحت کارکنوں اور پولیس وغیرہ کو اجازت دیدی کہ وہ احمدیوں کو گرفتار کریں ان پر مقدمات بنائیں اور اگر کابل کی عدالتیں ان کے قتل کے فیصلے کریں تو اس کو
218 عملی جامہ پہنا ئیں.یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ امیر نے احمدیوں کے معاملہ میں بدعہدی کی اور ایسے احکامات دیئے جو ان وعدوں اور یقین دہانیوں کے سراسر خلاف تھے جو اسکی حکومت مسلسل احمدیوں سے کرتی چلی آئی تھی کہ ان کی حفاظت اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے اور حکومت اس بارہ میں ہر ممکن کا روائی کرے گی.افسوس کہ باوجود اس کے کہ احمدیان سمت جنوبی نے بادشاہ کی اطاعت اور وفاداری کے لیے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا اور باغیوں نے بغاوت میں نہ شامل ہونے کی بناء پران پر طرح طرح کے مظالم کیئے لیکن امیر نے بجائے اس کے کہ ایسی وفا دار رعایا کی قدر کرتا اور احمدیوں کی حفاظت اور ان کے ساتھ انصاف کرتا اس نے الٹا باغیوں کو خوش کرنے کے لیے احمد یوں پر مظالم ڈھانے کی ٹھان لی افسوس کہ امیر حبیب اللہ خان کا بیٹا اور امیر عبدالرحمن کا پوتا اپنے باپ دادا سے احمدیوں پر ظلم و تعدی کرنے میں کم نہ نکلا - (۱۵) خوست کی بغاوت کے بارہ میں اخبار پاؤ نیر الہ آباد نے یہ لکھا کہ اگر چه حکومت افغانستان خوست میں بغاوت فرو کرنے کی کوشش کر رہی ہے.لیکن بعض قبائلی لشکر امیر کی فوج کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں.امیرامان اللہ خان کی جدید اصلاحات اور نئے قوانین کی وجہ سے یہ بغاوت برپا ہوئی ہے کیونکہ جدید نظام کے نافذ کئے جانے سے قبائل کا سیاسی اور اقتصادی نظام تہہ و بالا ہو جاتا ہے.علاوہ ازیں جدید ضابطہ فوجداری کی تعزیری دفعات کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ وہ قدیم اور اسلامی قانون کے خلاف ہیں....ان امور کے بارہ میں خوب پراپیگنڈا کیا گیا اور دور دراز علاقوں میں اس امر کی اشاعت کی گئی ہے کہ حکومت افغانستان بد نیت ہو گئی ہے اور اس بارہ میں انواع واقسام کے جھوٹوں سے حاشیہ آرائی کی گئی ہے.یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ امیر امان اللہ خان احمدی ہو گئے ہیں.اس پراپیگنڈا کا پہلا اثر یہ ہوا کہ خوست کے علاقہ میں رہنے والے احمدیوں کے دیہات اور افراد پر حملے کئے گئے.(۱۶)......
219 سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۱۹۲۴ء میں لندن میں ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ ۱۹۲۳ء کے آخر میں اطلاع ملی کہ دو احمدیوں کو افغانستان کی گورنمنٹ نے قید کر لیا ہے جن میں سے ایک کا بیٹا بھی ساتھ قید کیا گیا ہے.ان دو میں سے ایک تو دے دلا کر اپنے بیٹے سمیت چھٹ گیا لیکن دوسرا میری قادیان سے روانگی تک قید تھا اور مجھے معلوم نہیں کہ اس کا اب کیا حال ہے؟ دوسرا جو آزاد ہو گیا تھا اس کو ایام گرفتاری میں اس قدر مارا گیا کہ وہ آزاد ہونے کے بعد م اون کے اندرفوت ہو گیا‘ (۱۷) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی روانگی برائے سفر یورپ افغانستان میں بغاوت ابھی کلیۂ رفع نہیں ہوئی تھی.اور احمد یوں پر مظالم شروع ہو گئے تھے کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو انگلستان کا سفر کرنا پڑا اس سفر کا مقصد ایک تو لندن کی مذاہب کی کانفرنس میں شمولیت اور احمدیت کے بارہ میں اپنا مقالہ سنوانا تھا اور دوسری غرض لندن میں سب سے پہلی احمد یہ مسجد کی بنیاد رکھنا تھا حضور کے دورہ لندن کی مفصل رپورٹ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی کتاب تاریخ مسجد فضل لندن اور ا اس زمانہ کے سلسلہ احمدیہ کے اخبارات و رسائل میں محفوظ ہے.حضور مؤرخہ ۱۲ جولائی ۱۹۲۴ء بروز ہفتہ قادیان سے روانہ ہوئے.(۱۸) انہ ہوئے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو انگلستان جاتے ہوئے عدن میں اطلاع ملی کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو گرفتار کر لیا گیا ہے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی جولائی ۱۹۲۴ء میں قادیان سے روانہ ہو کر بذریعہ ریل بمبئی پہنچے اور وہاں سے بذریعہ بحری جہاز یورپ کے لئے روانہ ہوئے آپ کے ساتھ بارہ رفقاء سفر تھے.جب حضور عدن پہنچے تو حضرت مولوی شیر علی صاحب قائمقام امیر قادیان کے تار
220 سے مولوی نعمت اللہ خان کی گرفتاری کی اطلاع ملی.اس بارہ میں شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تحریر کرتے ہیں کہ ۲۳ جولائی (۱۹۲۴ء) کی صبح کو ہمارا جہاز عدن ۹ بجے کے بعد پہنچا جہاز کے پہنچتے ہی حضرت کے ہاتھ میں ایک تار اور خط آیا.جس نے حضرت کے چہرہ پر خوشی اور فکر کی ملی ہوئی لہر پیدا کر دی ان میں خوشی کی خبر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے گھر بیٹا ہونے کی تھی.اور فکر افزاء خبر مولوی نعمت اللہ خان صاحب مبلغ کے کابل میں قید کئے جانے کی تھی.کابل میں نعمت اللہ خان کے قید کئے جانے نے...حضرت کو تکلیف دی ہے.اس لیے نہیں کہ اس سے احمدیت کو کوئی نقصان پہنچے گا.بلکہ کابل کی سنگلاخ زمین میں اس سے پیشتر ہم اپنے خون سے احمدیت کا اعلان کر چکے ہیں اور ان بے گناہوں کے خون نے احمدیت کے پودے کو سیراب کیا ہے آئندہ بھی احمدیت کے لئے اگر کسی کو تکلیف دی جائے گی تو وہ احمدیت کی اشاعت میں روک کا موجب نہ ہوگی.حضرت کی تکلیف نعمت اللہ خان کی ذاتی تکلیف کی وجہ سے تھی اور ہے.آپ نے نعمت اللہ خان کی رہائی کے لئے مستقل اور پیہم کوشش کے لئے ہدایات جاری کی ہیں.امیر کا بل نے ملانوں کے ڈر سے اپنی غیر احمدیت کا ثبوت دینے کے لئے یہ راہ اختیار کی ہے جو کسی صورت میں مبارک نہیں ہو سکتی.(14) عدن سے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا تار حضرت مولوی شیر علی صاحب قائم مقام امیر ہندوستان کے نام حضور کا عدن سے تار مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۲۴ء کو موصول ہوا مولوی نعمت اللہ خان کا بلی کو مذہبی اختلاف کی وجہ سے قید کئے جانے کے خلاف احتجاج کیا جائے اور ان کی آزادی کے لئے جد و جہد کی جائے (۲۰) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں شروع جولائی میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو بھی حکام نے بلایا اور بیان لیا
221 کہ کیا وہ احمدی ہیں.انہوں نے حقیقت کو ظاہر کر دیا اور ان کو بیان لے کر چھوڑ دیا گیا.اس کے چند دن بعد ان کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر علماء کی کونسل کے سامنے پیش کیا گیا.جس نے ۱۱ / اگست کو ان سے بیان لیا کہ وہ احمد کو کیا سمجھتا ہے انہوں نے اپنے عقائد کا اظہار کیا.جس پر علماء کی کونسل نے ان کو احمدی قرار کر مرتد قرار دیا اور موت کا فتویٰ دیا اس کے بعد ۱۶؎ اگست ۱۹۲۴ ء کو ان کو علماء کی اپیل کی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جس نے پھر بیان لے کر ماتحت عدالت کے فیصلہ کی تائید کی اور فیصلہ کیا کہ نعمت اللہ کو ایک بڑے ہجوم کے سامنے سنگسار کیا جائے.(۲۱) حضرت مولوی شیر علی صاحب قائمقام امیر قادیان نے ۱۵/اگست ۱۹۲۴ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ حضرت سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے روانگی سے پہلے ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں حضور نے یہ خبر سنائی تھی کہ کابل سے مولوی نعمت اللہ خان صاحب کا خط آیا ہے جو ایک تشویش ناک خط ہے.اس میں وہ لکھتے ہیں کہ مجھے پولیس نے بلایا ہے اور پوچھا ہے کہ کیوں یہاں رہتے ہو اور احمدیت کے متعلق بھی سوالات کئے ہیں جس سے مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس کے نتیجہ میں مجھے قید کریں گے یا قتل کریں گے.اس پر حضور نے فرمایا تھا کہ احباب دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے یا اگر موت ہی ان کے لئے مقد رہے تو انہیں استقامت دے...حضرت صاحب کی روانگی کے بعد ایک دوست کا خط کا بل سے آیا جس سے معلوم ہوا کہ گورنمنٹ کا ہل نے مولوی نعمت اللہ خان کو قید کر لیا ہے.یہ خبر ہم نے بذریعہ تار حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو عدن پہنچائی.جس کے جواب میں حضور نے تار دیا کہ ہر ممکن صورت نعمت اللہ خان کی رہائی کے متعلق کی جائے.اس تار کے آنے پر ہم نے رہائی کے لئے کوشش کی اور ایک تارا میر کا بل کو نعمت اللہ خان کی رہائی کے متعلق دیا.جس کا کوئی جواب امیر نے نہ دیا.قونصل کا بل متعینہ شملہ کے ذریعہ بھی کوشش کی گئی اور قونصل کی معرفت مولوی نعمت اللہ خاں مرحوم کے متعلق امیر کو چٹھی بھی لکھی گئی.مگر ان
222 کوششوں کا کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوا.اس کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایک دوست نے مولوی نعمت اللہ خان کا ایک پنسل کا دستخطی خط قید خانہ سے لکھا ہوا قادیان روانہ کیا جس سے آپ ان کے دل کی حالت کا اندازہ لگا سکیں گے کہ ان کے اندر احمدیت کے متعلق کس قدر اخلاص تھا اور کس طرح وہ احمدیت پر قربان ہونے کیلئے تیار تھے.اس خط کے بعد چند روز ہوئے کابل سے ایک اور خط آیا جس میں لکھا ہوا تھا کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو پابہ زنجیر ایک اور سنگین قید خانہ میں قید کر دیا گیا ہے.نہ معلوم اس کا نتیجہ کیا ہو...اب وہ خط جو پنسل کا لکھا ہوا قید خانہ سے ایک دوست کو نعمت اللہ خان نے بھیجا تھا.اور انہوں نے قادیان روانہ کیا تھا میں سناتا ہوں.(۲۲) مولوی نعمت اللہ خان شہید افغانستان کا کابل کے قید خانہ سے خط مولوی نعمت اللہ خان نے کابل میں گرفتاری کے بعد قید خانہ سے جو خط فارسی زبان میں لکھا تھا.اس کا اردو تر جمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم بخدمت جناب معظم مکرم حضرت محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته مشرف و مکرم با داما بعد عرض ہے کہ یہ کمبینہ داعی اسلام تئیس روز سے تو قیف خانہ میں قید ہے جس کا دروازہ اور روشن دان بھی بند رہتے ہیں اور صرف ایک حصہ کا دروازہ کھلتا ہے.کسی کے ساتھ بات کرنے کی جب میں وضوء اور طہارت کے لئے جاتا ہوں تو ساتھ پہرہ ہوتا ہے.خادم کو قید خانہ میں آنے کے دن سے لے کر اس وقت تک چار کو ٹھریوں میں تبدیل کر چکے ہیں لیکن جس قدر بھی زیادہ اندھیرا ہوتا ہے خدا تعالیٰ مجھے روشنی اور اطمینان قلب دیتا ہے، جس دن میں قید خانہ میں آیا ہوں اس دن اخراجات کے لئے ایک پیسہ بھی میرے پاس نہ تھا.بلکہ مبلغ پچاس روپیہ کا مقروض تھا اور اس دن سے اب تک میرے لئے خرچ بھیجتا ہے میں نہیں جانتا کہ اب ان کا میں کس قدرقر ضدار ہو چکا ہوں اور یہ
223 عاجز اس سے پہلے اور لوگوں کا بھی قرضدار تھا.آپ کو چاہیے کہ آپ مہربانی کر کے ملا بیچارہ سے دریافت کریں کہ انہوں نے کس قدر میرے لئے خرچ کیا ہے.اس سے خط لے کر حضرت خلیفہ المسح رضی اللہ تعالیٰ کے حضور بھیج دیں.علاوہ ازیں بذریعہ تاریا خط میرے احمدی بھائیوں کو میرے حال سے اطلاع دے دیں تا وہ دعا فرما دیں کہ خدا تعالیٰ مجھے دین متین کی خدمت میں کامیاب کرے.میں ہر وقت قید خانہ میں خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگتا ہوں.الہی اپنے نالائق بندہ کو دین کی خدمت میں کامیاب کر.میں یہ نہیں چاہتا کہ مجھے قید خانہ سے رہائی بخش اور قتل سے نجات دے.بلکہ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ الہی اس بندہ نالائق کے وجود کا ذرہ ذرہ اسلام پر قربان کر.پس اگر قضاء الہی میں خاکسار کی موت مقد رہے تو یہ عرض ہے کہ براہ کرم و مہر بانی حقیر خادم نابکار کا کتبہ اصحاب مسیح موعود علیہ السلام کے زمرہ میں مقبرہ بہشتی میں لگا دیا جائے.خادم کا نام...عمر ۳۴ سال ، والد کا نام امان اللہ ضلع پنجشیر - تحصیل رخہ موضع خوجہ - میرے احمدی بھائی آگاہ رہیں کہ خاکسار کی موت سے نہ ڈریں.اس وقت آزادی کی نسبت قید خانہ میں ہزار ہا درجہ زیادہ لذت حاصل ہو رہی ہے.اور خدا تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ موت سے مجھے زیادہ لذت حاصل ہو گی.اس وقت تک سہ شنبہ دو مرتبہ اس خادم کا بیان لیا گیا ہے.سنا ہے کہ میری کتابیں قبضہ میں لے لی گئی ہیں میں نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا کیا منشاء ہے.فقط والسلام مؤرخه سه شنبه ۲۸ ذی الحج ۱۳۴۲ھ خاکسار نعمت اللہ خان احمدی از قید خانه ملا عبداللہ صاحب کو چاہیے کہ یہ خط محمد عظیم کو دے دیں.(۲۳)
224 مولوی نعمت اللہ خان صاحب کے اصل فارسی خط کی فوٹوسٹیٹ (1) لم الله الرحمن الرحم نحمدہ و نصل على رسول را براء من خرج روان میکند نمیدانم که بجدت جناب معظم مکرم حضرت اسلام علیکم و رحمت استر و برکاته شرف و یکرم یاد.دیگر قرض دار ملا مذکور شده با شیم و خود این عاجز نیز قرضی دارد مردم میباشد و کمیته ان امام شاف ان نزد عاجز بر نود و کانش چیز آید ندارد باید که شما اما بعد عرض اینکه اینکه این کمینه به دای خادمی هربانی گرد از نزد ما به بیچاره پرسان بکند که چقدر دروازه و روشن دان ما نیز بند باشد مگر یک ۲۲ بیست تار و ز میشود که در توقیف خانه قیقات خرج کرد اند و از نزدشی خط گرفته بحضور حضرت طبقه دروازه خلا من میباشد و سختی کردن بهمرا به دیر خلیفه الجمع علیه سلام میفرستند و دیگر ه بندریور وفا ها ہم منع است و هر گا بہت نقض وضو و طاہر تار یا خط برادر با را از احوال خرید بید که دو عافر بر من پیره میباشد از روز آمدن خادم در قیر خانه مایند که خدا و بر تعالی ما را در خدمت دین متین تا امروز به چهار کوٹ کا تبدیل کرداند هر چند که تاریک کامیاب و همیشه از خدا و نداشته در فر را طلب میکنم خداوند نو با شد خداوند تعابراء من روشنی و اطمینان خاطر میدهد که اپنی کی بندہ نالائق خود در جو خدمت دروز آمدن محمد یک پیرس فرجه نداشته و مبلغ دین کامیاب کن و این نیرو رو نمی خواهم که مرا از پنجاه روسیه قرض دار بز بوم و از ان روز تا حال نبری خانه خلاص کن و از کشتن نجات بده باشد (۳) (بقیه از صفحه ۳ ) ترت.محمله عرض میکنے کی اپنی قدات وجودم و از مرگ حضرتر سید تا حال از خواص گردی بند این بنده نالائقی و گناه کار را فوئی اسلام گری ہزار ہا درجہ کے بزت زیاد حاصل شد یکن اگر قضا الہی ہمرت حضر رفته باشد از خداوند گناه امید که موتم کو کروکر زیاد داد باید که از رویز کرم دہربانی کنه حضر فارم حاصل شود تا البوم دانستند و مرتب از خادم تاب کار را در مقبره نیستی در زمره اصحاب صبح افراد گرفته شنیدم که کتاب با من نیز باکره موعود غیر اسلام تو نوشته کنید و نام خادم در محکم برداند نهوانم که از جانب خداوند نگاه و عمر سنتی بر سر دو والد امان الله و ضلع بختر چه خواهد فقط و سلام مورخہ یوم سکه به یوم استاسیہ و ہے محال رخہ وده خوجه و خر دار یا شود که نبوت دین خود را در سلام خود را نشویم اک اور نعمت الله احمدی از قید خانه
225 وو مولوی نعمت اللہ خان کی گرفتاری اور افغانستان کے دوسرے احباب کو ایذا دیے جانے پر اخبار الفضل قادیان کا احتجاج سرزمین کا بل میں بعض نہایت مقتدر اور قابل احترام ہستیاں جس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بن چکی ہیں.اس سے ساری دنیا واقف ہے.یہی وہ سرزمین ہے جسے سب سے پہلے افراد جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ کے مقدس دین کی خاطر اور اس کے فرستادہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کی وجہ سے اپنے خون سے سرخ کرنا پڑا.اس طرح شہادت کا جام پینے والے تو پی گئے اور اپنی مظلومی اور بیکسی کے کبھی نہ مٹنے والے نشانات چپہ چپہ پر ثبت کر گئے لیکن افسوس کہ انہیں کافی نہیں سمجھا جا رہا پچھلے دنوں جب خوست میں بغاوت پھوٹی تو اس شورش میں بھی احمدیوں کو ہدف جفا کاری بننا پڑا.اور انہیں جانی و مالی مصائب میں مبتلا کیا گیا.ا سے اگر عوام کے جاہلانہ اور وحشیانہ جوش و غضب کا نتیجہ قرار دیا جائے تو اس کے متعلق کیا کہا جائے گا کہ خاص دار السلطنت کا بل میں بعض احمد یوں کو محض احمدی ہونے کی وجہ سے طوق وسلاسل میں جکڑ دیا گیا اور انہیں اپنے عقائد بدلنے پر مجبور کیا گیا ہے.ا بھی پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ ایک احمدی نے قید خانہ کے مصائب و آلام کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے داعی اجل کو لبیک کہا اور قید کرنے والوں پر ثابت کر گیا کہ تمہارے ظلم اور تمہاری سختیوں کی رسائی صرف جسم تک محدود ہے میری روح تاریک سے تاریک اور خطرناک سے خطر ناک جیل خانہ میں بھی آزاد ہے اسے گرفتار کرنا تمہارے بس میں نہیں ہے اور لواب وہ اپنے اصل مقام کی طرف پرواز کرتی ہے.اگر تمہیں ہمت ہے تو پکڑ لو (۲۳) اس وقت تک احمدیت کی تاریخ میں سب سے زیادہ درد ناک اور روح فرسا مظلومیت کی مثال سرزمین کا بل کے اندوہ ناک واقعات ہیں.جہاں نہایت مقتدر اور قابل احترام ہستیوں کو محض اس لئے زمین میں زندہ گاڑ کر اور پتھر مار مار کر شہید کر دیا گیا.کہ انہوں
226 نے کیوں خدا تعالیٰ کے سچے اور راستباز فرستادہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت کی توفیق پائی اور کیوں وہ اس راہ حق پر قائم ہو گئے.جس پر خدا تعالی ساری دنیا کو قائم کرنا چاہتا ہے.لیکن افسوس اور صد افسوس کہ اپنے اس رویہ میں اصلاح کر کے انہیں مدہم کرنے اور ان کی عقوبت سے بچنے کی کوشش کرنے کی بجائے روز بروز انہیں زیادہ چپکایا جا رہا ہے.اور کوئی دن نہیں گذرتا جس میں بے گناہ احمدیوں کی مظلومیت میں اضافہ نہیں کیا جاتا.حالانکہ جس امن پسندی اور حکومت کی اطاعت شعاری کا وہ ثبوت دے رہے ہیں اس کی مثال اور کوئی پیش نہیں کر سکتا.ایک مسلمان حکومت میں اور ایک مسلمان حکمران کے ماتحت جس کا دعوی ہو کہ اس نے ہر مذہب وملت کے لوگوں کو آزادی دے رکھی ہے جس کی سلطنت میں غیر مذاہب کے لوگ آرام و اطمینان سے بستے بلکہ بڑے بڑے عہدوں پر مامور ہوں.اس کی رعایا اور نہایت وفا دار اور جاں نثار رعایا ہو کر اسلام کے بچے متبع بن کرفتنہ وفسا دشورش و بغاوت کی تمام را ہوں سے بیچ کر رہنے والے احمدیوں کو چین نصیب نہیں ہے.وہ ایک طرف تو عوام کی وحشت اور درندگی کا شکار ہوتے رہتے ہیں سنا گیا تھا کہ موجودہ والئے کابل نے ہر مذہب کے لوگوں کو مذہبی آزادی دے رکھی ہے.اور کسی سے اختلاف عقائد کی وجہ سے تعرض نہیں کیا جاتا.ممکن ہے دیگر مذاہب کے متعلق یہ بات درست ہو لیکن احمدیوں کے متعلق تو اس میں ذرا بھی شائبہ صداقت نہیں.احمدی اسی طرح ستائے اور دکھ دیے جا رہے ہیں جس طرح پہلے ستائے جاتے تھے.احمدیوں کے لیے اب بھی جہنم سے بدتر جیل کا بل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیاں اسی طرح کھلی ہیں.جس طرح پہلے کھلی تھیں..ناظرین اخبار اپنے اس مجاہد بھائی کا حال سن چکے ہیں جس کا نام نعمت اللہ خان ہے اور جو ان دنوں کا بل کے جیل خانہ کی ایسی تیرہ و تارکوٹھڑی میں بند ہے جہاں روشنی کا گذر بھی ناممکن ہے.ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے صبر اور استقلال عطا فرمائے اس پر صبر اور سکینت نازل کرے اور اس کے وجود کو احمدیت کے لیے مفید ترین وجود قرار دے.جس جگہ کا
227 نام قید خانہ ہو وہ ہر ملک کی ہی تکلیف دہ جگہ ہوتی ہے لیکن وہ لوگ جنہوں نے ہندوستان کے جیل خانوں کی حالت کو دیکھا وہ کابل کے جیل خانہ کی حالت کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.چہ جائیکہ اس کا کوئی نام تجویز کر سکیں یکے بعد دیگرے نہایت تنگ اور تاریک کوٹھڑیاں ہوتی ہیں.جن میں ہوا اور روشنی کا قطعاً گذر نہیں ہوتا.ان میں بند رکھا جاتا ہے.اور اس مصیبت پر مصیبت یہ ہوتی ہے کہ قیدی کو اپنی خوراک کے لیے خودا نتظام کرنا ہوتا ہے اگر باہر سے کسی نے اس کے لیے کچھ بھیج دیا اور اس تک پہنچ گیا تو اس نے کھا لیا ور نہ بھوکا پڑا ر ہیگا یا اس سے گداگری کرائی جائے گی.....والٹی کا بل اپنے ملک کی ترقی اور بہبودی کے لیے کوشاں ہیں یہ بہت مبارک بات ہے لیکن ترقی کے تمام ذرائع سے بڑھ کر بیکس رعایا کو مظالم سے نجات دینا اور تشد دسے بچا کر آرام پہنچانے کی کوشش کرنا ہے.ورنہ بعض اوقات کسی ایک مظلوم کی آہ بڑی بڑی پائدار اور باعظمت سلطنتوں کا تختہ الٹ سکتی ہے.پس ہم والٹی کا بل کی خدمت میں نہایت ادب مگر اصرار کے ساتھ یہ عرض کریں گے کہ وہ مظلوم احمدیوں اور اس وقت خاص کر نعمت اللہ خان کے حال زار پر رحم فرما دیں اور اسے قید سے آزاد کر دیں.یہ گذارش ہم اس لیے بھی کر رہے ہیں کہ ہمارے دل اپنے اس محترم اور عزیز بھائی کی تکالیف اور مصیبتوں سے پاش پاش ہو رہے ہیں.اور ہمیں اس قدر رنج اور صدمہ پہنچ رہا ہے جسے الفاظ کے ذریعہ ظاہر کرنا ناممکن ہو رہا ہے...احمد یوں پر محض اس لیے ظلم کرنا کہ کیوں انہوں نے اس برگزیدہ خدا کو قبول کیا جو دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے اور صداقت اسلام کا ڈنکا بجانے کے لیے آیا خدا کے غضب کو بھڑ کا نیوالا اور دین ود نیا اور جسم و روح دونوں کو تباہ کر نیوالا ہے.وو پس ہماری اس مخلصانہ درخواست پر نہایت تحمل اور دور اندیشی سے غور کرنا چاہیے اور ہمیں ممنون کرتے ہوئے اپنی بہتری اور بھلائی کا بھی خیال رکھنا چاہیے.(۲۴)
228 سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی لندن میں تشریف آوری ۲۲ اگست ۱۹۲۴ ء کو حضور لندن میں خیریت سے پہنچ گئے تھے یہ اطلاع پرائیویٹ سیکرٹری مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے بذریعہ تار۲۳ / اگست کولندن سے بھجوائی جو مولانا شیر علی صاحب امیر ہندوستان کے نام تھی اور ۲۶ اگست ۱۹۲۴ء کو بٹالہ کے راستہ قادیان پہنچی - (۲۵) مولوی نعمت اللہ خان کی گرفتاری کے بعد ان پر چلائے گئے مقدمہ کے کوائف محکمہ شرعیہ ابتدائیہ کا فیصلہ ۲۰ ماه اسد ۱۳۰۳ شمسی هجری مطابق 9 محرم الحرام ۱۳۴۳ھ کو کوتوالی شہر کا بل کے قوماندان ( کوتوال ) کے چالان کرنے پر ملا نعمت اللہ ولد امان اللہ ولد میرزا سا کن موضع خوجہ رخہ علاقہ پہنچ شیر جو مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروؤں میں سے تھا.محکمہ شرعیہ ابتدائیہ کابل میں حاضر ہوا.جب اس سے دریافت کیا گیا تو باوجود اس کے کہ وہ اپنے آپ کو حنفی المذہب کہتا تھا.اس نے اقرار کیا کہ مرزا غلام احمد مذکور مسیح موعود و مہدی معہود اور ظلی نبی ہیں اور حضرت عیسی روح اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام جسمانی طور پر زندہ نہیں اور آسمان سے ان کا جسمانی نزول درست نہیں ہے.علاوہ ازیں شخص مذکوران تمام معتقدات کا پیرو اور ماننے والا ہے.جن کا معتقد مرزا غلام احمد قادیانی تھا اور ان کی تمام تالیفات و تصانیف کو حق سمجھتا ہے اور کہتا ہے میں خود بھی ان عقائد کو جو ان کی مذکورہ کتابوں میں مندرج ہیں.درست اور صحیح سمجھتا ہوں اور مرزا غلام احمد مذکورا گر چہ نبی صاحب شریعت جدیدہ نہیں ہے لیکن ظلی نبی یعنی فناء فی الرسول ہے.یہی باتیں جن کا اس (ملا نعمت اللہ ) نے اپنی زبان سے اقرار کیا ہے اور اپنے قلم سے لکھ دی ہیں.حسب اصول مذہب حنفی اور مطابق عقائد اہل سنت و جماعت ( ملا نعمت اللہ ) مذکور کو اس کے ان صاف الفاظ کی وجہ سے اور اس کے اس اعتقاد کی وجہ سے...کافر قرار دیا جا تا ہے...اور ایسے شخص کی تو بہ اس کے قتل کے حکم کو ساقط نہیں کرسکتی...66
229 عدالت مرافعہ کا بل کا فیصلہ چونکہ قاعدہ کی رو سے محکمہ شرعیہ کے قوماندان کے ذریعہ مندرجہ بالا فیصلہ کی نسبت مرافعہ کیا گیا.اس لئے نعمت اللہ مذکور نے بھی اس محکمہ میں حاضر ہو کر مندرجہ بالا باتوں کے مطابق اقرار کیا اور اس کے علاوہ اس نے یہ بھی اقرار کیا کہ میں اہل سنت و جماعت کے ان علماء کو جنہوں نے مسئلہ نزول عیسی روح اللہ کو بصورت جسمانی بتا یا ہے.اس مسئلہ میں غلطی خوردہ سمجھتا ہوں.گویا اہل تفاسیر اسلام میں سے جو لوگ عیسی روح اللہ علی نبینا وعلیہ السلام کے رفع کے معتقد ہیں اور ایسا کہتے ہیں ان کو وہ غلطی پر سمجھتا ہے.پس اس بناء پر یہ خادم شرع شریف اس فیصلہ کے حکم کو صحیح سمجھتا ہوا اس کی درستی کی تصدیق کرتا ہے.فقط تحریر بروز دوشنبه ۱۶ محرم ۱۳۴۳ھ بمطابق ۲۷ ماه اسد ۱۳۰۳ هجری شمسی عدالت عالیہ تمیز کی تصدیق فیصلہ مذکورہ بالا عدالت عالیہ تمیز میں پیش ہوا اور علم میں آیا.فیصلہ مذکورہ حسب اصول محاکمات شرعیہ درست نہیں.نعمت اللہ کو جم غفیر کی موجودگی میں سنگسار کرایا جائے.(۲۶) قادیان میں مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کی اطلاع اخبار الفضل قادیان رقم طراز ہے کہ بذریعہ خاص تارمعلوم ہوا کہ ہمارے مکرم معظم احمدی بھائی مولوی نعمت اللہ خان کو جس کے متعلق مفصل حالات الفضل میں چھپ چکے ہیں.محض اس جرم میں کہ وہ احمدی ہے کا بل میں ۳۱ اگست ۱۹۲۴ء کو سنگسار کر دیا گیا - إِنَّ لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (۲۷) قادیان میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کی نماز جنازہ غائب حضرت امیر مولوی شیر علی صاحب نے ۵ ستمبر ۱۹۲۴ء کو خطبہ جمعہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کی شہادت پر فرمایا اور دوران خطبہ میں اکثر سامعین کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں.
230 نماز جمعہ کے بعد شہید موصوف کا جنازہ غائب پڑھا گیا اور دعائے مغفرت کی گئی.(۲۸) مولوی نعمت اللہ خان کو کیسے شہید کیا گیا خاص کا بل کی ایک تازہ اطلاع مظہر ہے کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو ۳۱ اگست بعد نماز عصر بروز اتوار کو بمقام شیر پور چھاؤنی کا بل سنگسار کر کے شہید کیا گیا.شہید مرحوم کو مرتد کرنے کی از بس کوشش کی گئی لیکن اس کوہ و قار کو ایمان سے متزلزل نہ کر سکے.آخرا تو ار کو ظہر کے وقت بازاروں میں شہید مرحوم کو پھرا کر اور محض احمدی عقائد رکھنے کے سبب سنگسار کرنے کی تشہیر کر کے عصر کے وقت شہید کر دیا گیا - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون شہید مرحوم نے آخری وقت دو رکعت نماز پڑھی.اس کے بعد پھر اسے اپنے عقائد حقہ بدلنے کے لئے کہا گیا لیکن اس نے قطعاً انکار کر دیا اس پر اُسے زمین میں گاڑ کر اتنے پتھر مارے گئے کہ جسم مبارک ان کے نیچے چھپ گیا.شہید کی لاش ورثاء کو دینے سے انکار کر دیا گیا.اور اس پر پہرہ لگا دیا گیا.(۲۹) 66 مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے اسباب کے متعلق افغانستان کے سرکاری اخبار ”حقیقت کا بیان اخبار حقیقت کی اصل عبارت فارسی زبان میں ہے.جس کا اردو ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے: و, مرزا غلام احمد قادیانی کے ایک مرید کی سنگساری ’ چند دنوں کا واقعہ ہے کہ شیر پور ( کابل ) میں ایک شخص ملا نعمت اللہ قادیانی کو جو اسلامی عقائد اور شریعت محمدیہ کے اصول اور حنفی مذہب کی تعلیمات کے خلاف خیالات کا اظہار کرتا تھا.اور لوگوں کو اپنے قادیانی عقائد باطلہ کی اتباع کی دعوت کیا کرتا تھا مطابق
231 فیصلہ علماء اعلام وفضلائے کرام محکمہ شرعیہ ابتدائیہ حقوق و جزا و فیصله مرافعہ مرکزی کابل و فیصله عدالت عالیہ تمیز وزارت جلیلہ عدلیہ سنگسار کیا گیا ہے.اس سیاہ روزگار بدکردار کی سنگساری کے موقع پر ملکی اور فوجی لوگوں کی ایک بڑی جماعت اور ایک جم غفیر موجود تھا.یه بد بخت تا دم آخرین اپنی ان ہرزہ سرائیوں اور یاوہ گوئیوں سے جن کا وہ معتقد تھا ( نعوذ باللہ من ذالک ناقل ) باز نہ آیا.اور اگر چہ ایسے مجرموں کی تو بہ بھی شرعاً قابل پذیرائی نہیں ہے لیکن یہ بد آئین تو اپنے اقرارات باطلہ پر پختگی سے قائم رہا اور تا دم مرگ تا ئب نہ ہوا.آخر چند لمحوں کے اندر ہمارے احکام دینیہ و قواعد شرعیہ کے مطابق ایسے طور پر پتھروں کی بارش ہونے لگی اور وہ سنگسار کر دیا گیا کہ اس کے وجود سرا پا مطرود پر پتھروں کا ایک بڑا ڈھیر لگ گیا.“ جب حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کی اطلاع لندن میں ملی لندن ۳ ستمبر ۱۹۲۴ء " آج عصر کی نماز سے قبل حضرت مولوی شیر علی صاحب کا تارنعمت اللہ خان شہید کابل کی خبر شہادت لے کر آیا.حضرت کو اس خبر کے سننے سے سخت صدمہ ہوا.ہم محسوس کرتے تھے کہ حضرت کو اس قدر تکلیف اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی ہم نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے کہ آپ کے بچے نے وفات پائی اور آپ ایک نہایت سکون اور اطمینان کے ساتھ اسے دفن کر رہے ہیں.مگر اس خبر نے آپ کے قلب پر جو اثر کیا وہ بہت بڑھ کر تھا اور حقیقت میں یہی ایک چیز ہے جو ہماری زندگی کا موجب ہے.حضرت کو نعمت اللہ خان کی ایمانی قوت مستقل مزاجی.وفاداری اور خدا کے لیے کامل قربانی پر تو اطمینان تھا اور ہے اور جو نمونہ اس نے جماعت کے لیے قائم کیا وہ ایک
232 نشان ملتی ہے.مگر اس کی بیکسی اور ایذارسی کا تصور انسان کی بنیاد حیات کو ہلا دیتا ہے.آپ کے دل میں اس خبر کی اشاعت اور اس کے متعلق دنیا کی مہذب حکومتوں اور شریف انسانوں کو توجہ دلانے کے لیے اس قدر جوش ہے کہ میں اس کا نقشہ نہیں کھینچ سکتا.آپ چاہتے ہیں کہ آسمان پر جیسا یہاں ہوتا ہے بجلی کے ذریعہ بہت جلی اشتہار دیا جاوے تا کہ تمام لندن کے باشندے اس سے واقف ہوں.بڑے بڑے پوسٹر چھپوا کر موٹروں پر رکھ کر شہر میں گشت کروائے جائیں.اس ظلم عظیم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھا گیا اور نہ رکھا جائے گا.وو حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز خاموشی کے ساتھ دروازہ بند کر کے اندر بیٹھ گئے.ہم یہی یقین کرتے ہیں.کہ اس شہید کا بل کی درجات کی بلندی اور اجر کے لیے خدا جانے کس کس رنگ میں دعائیں کی ہونگی (پھر) ” فور أمولوی عبدالرحیم صاحب (درد) ایم.اے.اور چوہدری فتح محمد صاحب کو ہدایات دے کر اخبارات کے دفتروں میں بھیجا اور نیر صاحب کو بھی اشاعت کے لیے مامور کیا اور آپ عصر کی نماز پڑھ کر انہی تجاویز میں مصروف ہو گئے.آپ نے عزم کر لیا ہے کہ وہ اس صدائے احتجاج کو ہر آئینی طریقہ سے بلند کریں گے.اور اس ظلم اور خون ناحق کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی سے حق کو ظاہر نہ کر دے.(۳۰) ٹھیک پورے چار بجے ہیں کہ ایک ارجنٹ تار قادیان سے پہنچا جس نے اس حقیقت کو آشکار کیا اور اس ظلم کی کہانی کو ہم تک پہنچایا جو سرزمین کا بل میں ۳۱ را گست ۱۹۲۴ء کے دن ایک خون ناحق کے رنگ میں واقع ہوئی اناللہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - فَصَبَرٌ جَمِيلٌ وَاللهُ المُسْتَعَانُ - إِنَّمَا أَشْكُوا بَنِي وَحُزْنِي إِلَى اللَّه ظالم مظلوموں کو قتل کر کے حق کو مٹانا چاہتے ہیں مگر یقین رکھیں کہ ان مظلوموں کے خون کا ایک ایک قطرہ لاکھوں طالبان حق پیدا کرے گا.حضور کی طبیعت کئی دن سے پہلے ہی کمزور اور نا ساز تھی سیر تک کو گھر سے نہ نکل سکتے
233 تھے...آج اس صدمہ نے حضور کے قلب پر کیا اثر کیا ہو گا اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے مگر ہم جانتے ہیں یہ لوگ بڑے ہی مہربان اور ہمدرد ہوتے ہیں غلاموں کے ایک کانٹے کی تکلیف ان کو دو بھر گذرتی ہے.چہ جائیکہ ان کا ایک غلام.ہاں بے گناہ اور معصوم خادمِ دین ایسا خادم جس نے حق کے لیے جان تک کی پرواہ نہ کی اس کے قتل کی اچانک خبر حضور کو پہنچی (۳۱) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کا تار برقی پیغام "شہید کی شہادت کا سچا جواب اس کام کو جاری رکھنا ہے جس کے لیے وہ شہید ہوا“ لنڈن سے ۴ ستمبر کو ے بجکر ۵ منٹ پر چلا ہوا تار بنام مولوی شیر علی صاحب ۵ ستمبر ۱۰ بجے صبح بٹالہ پہنچا اور مغرب کے وقت قادیان ایک آدمی لایا.حضور اس تار میں تحریر فرماتے ہیں: ظالم امیر کے مولوی نعمت اللہ خان کو بے رحمانہ قتل کرنے کی افسوس ناک خبر پہنچی.اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کو اپنا قرب عطا فرمائے.اور ہمیں اس بڑی مصیبت پر صبر کرنے کی توفیق بخشے.ا میر نے ہمارے بہادر بھائی کو قتل کیا ہے لیکن وہ اس کی روح کو قتل نہیں کر سکتا.وہ زندہ ہے.اور ہمیشہ زندہ رہے گا.کیونکہ کوئی شخص ایک سچے مسلمان کو قتل نہیں کر سکتا.برادران ! غم کے اس وقت میں ہمیں اپنے فرض کو نہیں بھلا نا چاہیے جو ہمارے اس مبارک بھائی کی طرف سے ہم پر عاید ہوتا ہے جس نے اپنی جان خدا کے لیے قربان کر دی ہے.اس نے اس کام کو شروع کیا ہے جسے ہمیں پورا کرنا ہے.آؤ ہم اس لمحہ سے یہ مصمم ارادہ کر لیں کہ ہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک کہ ہم ان شہیدوں کی زمین کو فتح نہ کر لیں گے.( یعنی وہاں احمدیت نہ پھیلا لیں گے ) صاحبزادہ عبداللطیف - نعمت اللہ خان اور عبد الرحمن کی روحیں آسمان سے ہمیں ہمارے فرائض یا د دلا رہی ہیں.اور میں یقین کرتا ہوں کہ احمد یہ جماعت ان کو نہیں بھولے گی.امیر کے اس قابل نفرت فعل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے متعلق جو کچھ تم ضروری خیال کرتے
234 ہو کر ولیکن ایک ہی سچا جواب جو احمدی دے سکتے ہیں یہ ہے کہ وہ اس کام کو جاری رکھیں جس کے لیے نعمت اللہ خان شہید کیا گیا.براہ مہربانی مقبرہ بہشتی کے خاص احاطہ میں صاحبزادہ عبداللطیف اور نعمت اللہ خان کے لیے کتبے لگادیں.اور تمام احمدیوں سے درخواست کریں کہ وہ شہید مرحوم کے لیے خصوصیت کے ساتھ دعا کریں ہیں.محمود احمد (۳۲) حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے لندن سے خط لکھا اس میں تحریر کرتے ہم ستمبر کی شام کی نماز کے بعد حضور نے کھانا کھایا اور پھر اپنے کمرے میں تشریف لے گئے حضور کی طبیعت اداس تھی اور چہرے پر غم اور رنج کے آثار موجود تھے.نما ز عشاء کے لیے عرض کرنے کو میں حاضر ہوا تو حضور کچھ خط لکھ رہے تھے اور نہایت مشغول تھے.دو ایک مرتبہ عرض کرنے پر فرمایا بہت اچھا! مولوی رحیم بخش صاحب کو بھیج دو.مولوی رحیم بخش صاحب ( مولوی عبد الرحیم صاحب درد.ناقل ) گئے اور کوئی پندرہ منٹ کے بعد واپس آئے اور نیچے چلے گئے مجھے کہا کہ عرفانی صاحب کو لیتے آنا.ہم نیچے گئے تو معلوم ہوا کہ حضرت نے ایک تار قادیان کے لیے لکھا ہے.اور اس کو مولوی صاحب نے ٹائپ کیا اور اسی وقت بڑے تا رگھر میں تار دینے کو چلے گئے (۳۳) حضرت صاحب نماز کے لیے تشریف لائے نماز پڑھائی اور پھر بیٹھ گئے.چند منٹ کی خاموشی کے بعد حضور نے حافظ روشن علی صاحب کو قرآن شریف سنانے کا حکم دیا.حافظ صاحب نے سورہ مومنون شروع کی اور ختم کر دی.حضور سر جھکائے چہرہ پر رومال رکھے ایک ہی حالت میں بیٹھے رہے جب سورۃ ختم ہوئی تو چند لمحات کے بعد حضور نے سراٹھایا اور آنکھوں کو رومال سے پو نچھا.جس سے معلوم ہوتا تھا کہ حضور کی آنکھوں میں رقت اور سوز سے نمی یا آنسو آئے ہوئے تھے.
235 تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں اتنے میں مولوی رحیم بخش صاحب واپس آگئے.پھر حضور نے ان سے مختلف نظمیں سنیں اور اس کے بعد پھر اور اذکار جاری رہے حتی کہ رات کے ٹھیک دس بجے حضور مسجد کے کمرہ سے اٹھے (۳۴) امیر کابل کے خلاف انسانیت فعل کے خلاف دول یورپ و امریکہ سے اپیل لنڈن ۴ ستمبر - حضرت خلیفہ المسیح نے جمیعۃ الاقوام کے صدر- برطانیہ عظمی.فرانس اور اٹلی کے وزرائے اعظم اور اضلاع متحدہ امریکہ کے صدر کو برقی پیغامات بھیجے ہیں.جن میں نعمت اللہ خان احمدی کو احمدی ہونے کی وجہ سے حکومت کا بل کے حکم سے سنگسار کرنے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے.اور توقع ظاہر کی ہے.کہ یہ حکومتیں حکومت افغانستان کے اس خلافِ انسانیت فعل کے خلاف احتجاج کریں گی جو کہ دغا بازی پر مبنی ہے.کیونکہ افغانستان میں مذہبی آزادی کا اعلان کیا گیا تھا.اور احمدیوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے گا‘ (۳۵) مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کے بارہ میں لندن میں ایک بنگالی صاحب کے سوال کے جواب میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشادات ۵ ستمبر ایک بنگالی صاحب جو بہت بااثر اور با رسوخ ہیں حضور سے ملنے کے لیے آئے.مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کے ذکر پر کہنے لگے اس واقعہ کے خلاف آواز اٹھانے پر ہندوستان کے مسلمان بھی اور حکومت کا بل بھی آپ کے سخت خلاف ہو جائیگی.اور آپ کو مشکلات کا سامنا ہو گا.حضور نے فرمایا کچھ پرواہ نہیں.پہلے کونسے یہ لوگ ہمارے دوست ہیں.اب مظلوم ہو کر بھی اگر آواز نہ اٹھا ئیں تو کیا کریں.اس پر اس نے کہا کہ اگر حکومت کا بل کو اس سے کوئی نقصان ہوا تو آپ کو تکلیف تو نہ ہوگی.آخر اسلامی حکومت ہے.
236 حضور نے فرمایا کہ اسلامی حکومت کے نقصان کو تو ہم لوگ کسی صورت میں بھی گوارا نہیں کر سکتے.اور باوجود مخالفت اور تکالیف کے بھی ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی وقار جہاں تک ممکن ہو اور اسلامی شوکت جہاں تک رہ سکے.قائم رکھنے میں مدد کریں.مگر جہاں حق اور صداقت کا سوال آ جائے اور ان چیزوں کو کسی وجود سے نقصان پہنچے یا حق وصداقت کے راستہ میں اگر کوئی چیز روک ہو تو اس کی ہم لوگ پھر بالکل پرواہ نہیں کرتے.ان باتوں کو سن کر وہ شخص بڑا متاثر ہوا اور اسنے کہا کہ آپ لوگ حق پر ہیں میں آپ کے ساتھ ہوں اور پوری خدمت اور مدد کے لیے حاضر ہوں ڈیڑھ بجے کے قریب حضور اس کی ملاقات سے فارغ ہوئے (۳۶) ۱۲ ستمبر ۱۹۲۴ء لندن میں سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا خطبہ جمعہ وو اگر کوئی شخص خدا کے لیے جان دیتا ہے تو وہ جان دے کر اس کے فضل کو پہلے سے زیادہ پاتا ہے.اور اس کے قریب تر ہو جاتا ہے.سب سے بڑی قربانی جان دے دینا ہے یا جان دیدینے کے خوف سے مرعوب نہ ہونا.مگر حقیقت کیا ہے کیا اس قربانی سے ہم نقصان اٹھاتے ہیں یا ترقی کرتے ہیں.خدا کے لئے جان دے کر انسان خدا کے اور قریب ہو جاتا ہے.پس کوئی زمانہ اور کوئی قربانی ہماری راہ میں روک نہیں.ایک شاعر کہتا ہے.وو جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو ہے کہ حق ادا نه ہوا.پس جب یہ صورت ہے تو مومن کو چاہئے کہ اس کی ساری قربانیاں خدا ہی کے لئے ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ کے انعامات کا سلسلہ اور اس کے صحیح بدلہ کا خاتمہ نہیں ہوتا.مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے.خدا کی طرف سے جو انعام مرنے والوں کو ملتا ہے.وہ
237 وو غیر منقطع ہوتا ہے.خدا تعالیٰ ان کی عزت ہمیشہ کرتا ہے ان کو حیات ابدی ملتی ہے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسی ابدی زندگی اور دائمی عزت کے لئے کوشش کریں.اور اس کے لئے وہ اپنے اعمال میں اس کلیہ کو یا درکھیں.جو الحمد للہ رب العالمین میں بیان کیا گیا ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا.دو پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کریں.ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں.خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو خالی نہیں رکھا.ہم کو ایسے ملک میں پیدا کیا.جہاں قتل اس طرح پر نہیں ہوتے.مگر خدا تعالیٰ نے ایسے ملک میں بھی ہماری جماعت کو پیدا کر دیا جہاں قتل ہوتے ہیں اور اس طرح پر ٹریڈیشن کو قائم کر دیا.ٹریڈیشن بڑا کام کرتی ہے اور اس کا بڑا اثر ہوتا ہے.اس سے جوش پیدا ہوتا ہے ابتدا مشکلات ہوتی ہیں لیکن جو شخص پہلے جاتا ہے وہ راستہ کھول دیتا ہے.اسی طرح ہمارے لئے راستہ کھل گیا ہے.افغانستان کے بعض دوستوں نے اس راستہ کو کھولا ہے.انہوں نے خدا کے لئے موت کو آسان کر دیا ہے....خطرناک راستہ میں اگر ایک چل پڑے تو سب چل پڑتے ہیں.پہلے ہی کے لئے مشکل ہوتا ہے.اس طرح اس راستہ کو ہمارے دوستوں نے آسان کر دیا ہے.دو بعض تقومی اور علم کے لحاظ سے کم سمجھے جاتے تھے.مثلاً نعمت اللہ ایک طالب علم تھا.اور اسے دراصل وہاں جماعت کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا.مگر بعد میں اس کو مبلغ مقرر کر دیا گیا.اس نے اپنی جان دے کر ثابت کر دیا کہ خدا کی راہ میں قربانی کرنا اس کے لئے بہت آسان تھا.اس نے اپنے بھائیوں کے لئے اس راستہ کو جان دے کر کھولا ہے.تار آیا ہے کہ اس نے بڑی بہادری سے جان دی.اس کو اصرار سے کہا گیا کہ تو بہ کرلو مگر وہ چٹان کی طرح قائم رہا.پھر اس کو شہر میں پھرایا گیا اور اعلان کیا گیا کہ اسے ارتداد کی وجہ سے قتل کیا جائے گا اور چھاؤنی میں جا کر سنگسار کیا گیا.اب گورنمنٹ افغان کوئی اور حیلہ تراش نہیں سکتی.خود اس کے ہاتھ کٹے ہوئے
238 ہیں.ان مرنے والوں کے لئے بڑا درجہ ہے کیونکہ انہوں نے ثبات ایمان کا مقام پالیا تھا اور اس کا ثبوت انہوں نے جان دے کر دے دیا....ہم کو اس مقام کے حاصل کرنے کے لئے طیار ہونا چاہئے.اور اس کے لئے قربانی کے لئے طیار رہنا ضروری ہے.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس کی محبت اور عظمت کے سوا اور کسی کی محبت یا عظمت ہمارے دلوں میں نہ رہے.آمین‘ (۳۷) جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مقیم لندن کا خط افغانستان کے سفیر کے نام ۵ ستمبر کو حسب ذیل خط جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے افغانی سفیر کو لکھا: " ” جناب عالی ! بذریعہ تار برقی قادیان سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ نعمت اللہ خان احمدی مبلغ کا بل کو محض اس جرم کی پاداش میں سنگسار کیا گیا ہے.کہ اس نے ایک ایسے شخص کی وو صداقت کو قبول کیا جو دنیا کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اس زمانہ میں مبعوث کیا گیا ہے.” جناب عالی ! یہ خبر ان لوگوں کے لئے جو اسلامی رواداری و آزادی ضمیر کی تعلیم سے واقف ہیں.حیرت انگیز ہے.کیونکہ ایک بادشاہ کو جو مسلمان ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے اور ایک ایسی سلطنت کو جو اس کوشش میں ہے کہ مہذب تسلیم کی جائے.ایسے بدترین جرم کا اپنے آپ کو مجرم ٹھہراتی ہے.جو نہایت ہی خلاف انسانیت ہے اور یہ وجہ بھی کہ کوئی زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ آپ کی قوم وحشت کے ظلمت کدہ سے نمودار ہوئی ہے.ہمیں اس بات پر آمادہ نہیں کرتی کہ ہم یہ خیال کر لیں کہ ان میں ابھی اس قدر درندگی باقی ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں.جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے متعلق ان سے اعلیٰ اور ارفع خیال رکھتا ہو.” جناب عالی ! آپ کی قوم اور آپ کے فرماں روا نے اسلامی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کچھ بھی استفادہ حاصل نہیں کیا.لیکن آپ کے مغربی اقوام سے میل جول نے اگر چہ وہ قلیل عرصہ سے ہی ہو.آپ کو بتا دیا ہو گا.کہ وہ قوم جو مذہبی اختلاف کی بناء پر دوسرے کے
239 خون کا مطالبہ کرے اور وہ بادشاہ جو ایسے مطالبہ کو پورا کرے.دنیا کی نظروں میں ہمیشہ ذلیل رہیں گے.حیات بعد الموت کے متعلق میں یقین رکھتا ہوں کہ والی افغانستان اس آیت قرآنی کا مطلب سمجھنے کے لئے کا فی عربی جانتے ہیں.مَنْ قَتَلْ مُؤْمِناً مُتعِمِّداً فَجزاهُ جَهَنَّم ’ جناب عالی ! یہ امر کہ افغان گورنمنٹ نے زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ آزادی ضمیر کا ممالک محروسہ میں اعلان کیا تھا اور یہ کہ جماعت احمدیہ کو بھی اس امر کا یقین دلایا تھا.۳۱ اگست کے واقعہ کی کمینگی اور دھوکہ دہی میں اور بھی اضافہ کر دیتا ہے.” جناب عالی ! یہ پہلا ہی واقعہ نہیں کہ آپ کے ملک میں بادشاہ کی منظوری سے خدا اور اس کی مخلوق کے خلاف ایسی بزدلانہ اور ذلیل غداری کو روا رکھا گیا ہو.یہ خیال کیا جا سکتا تھا کہ وہ سزائے آسمانی جو سابق مجرم کو اس کے بدلہ میں دی گئی اس کے جانشینوں کو ایسے افعال سے باز رکھے گی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس سے کہیں سخت عذاب الہی فرمانروایان افغانستان کو انسانیت اور انصاف کے اصول ذہن نشین کرانے کے لیے درکار ہے.” جناب عالی ! آج آپ کی قوم غالبا اس انسانیت سوز فعل پر شاداں و نازاں ہے.جس نے والٹی افغانستان کے ہاتھوں کو ایک بے گناہ کے خون سے رنگ دیا ہے.لیکن چاہیئے کہ خائف ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنے فرمانروا کے گناہوں کی معافی چاہیں.کیونکہ خدا کی چکی آہستہ پیستی ہے.لیکن اس کا پسا ہوا بہت باریک ہوتا ہے‘ (۳۸) حضرت مولانا شیر علی صاحب قائمقام امیر جماعت احمد یہ ہندوستان کا امیر امان اللہ خان کو ٹیلی گرام مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کی خبر ملنے پر حضرت مولانا شیر علی صاحب نے جماعت احمدیہ کی طرف سے حسب ذیل ٹیلی گرام دیا:
240 و ہمیں خبر موصول ہوئی ہے کہ یوریجیسٹی کی گورنمنٹ نے ہمارے بھائی مولوی نعمت اللہ خان کو سنگسار کر کے شہید کر دیا ہے کابل کے سرکاری اخبار حقیقت مورخہ ۲ /صفر نمبر گیارہ میں ہم نے پڑھا ہے کہ ہمارے بھائی کے جرم کی بناء سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ احمد یہ عقائد کا معتقد اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی موعود کا متبع تھا.سلطنت کا بل کا یہ فعل انسانیت اور انصاف کے حد درجہ خلاف ہونے کے علاوہ یور میجیسٹی کی گورنمنٹ کے اعلانات اور ذمہ وار افغان افسروں کے وعدوں کے بھی صریح خلاف ہے.ہمارے بھائی نعمت اللہ خان کے شہید کئے جانے سے لاکھوں احمدیوں کے جذبات کو سخت صدمہ پہنچا ہے جو دنیا کے تمام حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں.ہم یوریجیسٹی کے اس فعل پر سختی کے ساتھ اظہار نفرت کرتے ہیں.اور یوریجیسٹی اور آپ کی سلطنت کے اراکین کو یاد دلاتے ہیں کہ گوسلطنت کا بل اپنے آپ کو کیسا خود سر اور طاقتور سمجھتی ہو کہ جو بھی اس کے جی میں آئے کر گزرے.لیکن وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے.اس سے بڑھ کر حقیقت نہیں رکھتی جو کہ اس کی کمزور ترین مخلوق کی ہو سکتی ہے اور سلطنت کا بل یقیناً خدا کے حضور اپنے اس فعل کے لیے جواب دہ ہوگی.ہمیں اپنے مرحوم بھائی کے شہید ہونے کا افسوس نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی مراد کو پہنچ گیا اور اب اس کی روح اپنے خالق و مالک کی گود میں آرام پا رہی ہے.دد لیکن سلطنت کا بل کا یہ فعل یقیناً اس کے نام پر سیاہ ترین دھبہ رہے گا.اور تمام مہذب دنیا اس فعل کو ایک وحشیانہ فعل قرار دیتی ہے، اور دے گی.حق کی فتح ہو کر رہے گی اور کوئی دنیاوی بادشاہ اس کا استیصال نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اس خدا کی طرف سے آیا ہے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے.وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِ الْعَالِمِينَ - (۳۹)
241 خطبہ جمعہ حضرت مولوی شیر علی صاحب ا میر امان اللہ خان نے تخت نشین ہوتے وقت...اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ کابل......میں ہر مذہب والوں کو آزادی ہو گی.اس اعلان سے اصل مقصود احمدی ہی تھے کیونکہ افغانستان میں ایک احمدی ہی ایسی قوم تھی جس کو مذہبی آزادی حاصل نہ تھی.اس اعلان عملی طور پر بھی احمدی جماعت کو فائدہ پہنچا.- مگر رعایا نے امیر کا یہ رویہ دیکھ کر بغاوت کا علم بلند کیا اور یہ افواہ ملک میں پھیل گئی کہ امیر صاحب احمدی ہو گئے ہیں.اس الزام کو دور کرنے کے لیے امیر نے لوگوں سے ڈر کر اور ان کو خوش کرنے کے لیے ایک بے گناہ کو قتل کر دیا.اور اس آزادی کے اعلان کو جس کی رو سے احمدیوں کو مذہبی آزادی کی امید دلائی گئی تھی منسوخ کر دیا اور کہا گیا کہ آزادی سے مراد مذہبی آزادی نہ تھی بلکہ شخصی آزادی تھی مذہبی آزادی نہ کبھی اس ملک میں ہوئی نہ اب ہے.یہ کام اس نے لوگوں کو خوش کرنے کے واسطے کیا.اور اپنی رعایا کے دیوتا کے آگے ایک بے گناہ احمدی نوجوان کی قربانی پیش کی.اس نے رعایا کا خوف کیا لیکن اس خدائے قہار کا خوف نہ کیا جس نے فرمایا ہے وَمَنْ يَقْتُلُ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءُ هُ جَهَنَّمُ - اس نے رعایا کے خوش کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کا یا اب دیکھئے کہ وہ رعایا کو خوش کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہے.امیر کو یہ طاقت تو نہیں کہ وہ کسی غیر سلطنت کی رعایا کو خواہ وہ سلطنت کیسی ہی کمزور ہو قتل کر سکے لیکن ایک بے گناہ احمدی پر بڑی دلیری سے ہاتھ چلا دیا.اس نے سمجھا کہ یہ ایک بیکس انسان ہے اس کے متعلق کون باز پرس کرنے والا ہے ان لوگوں کو تکلیف پہنچانے سے تو وہ ڈرتا ہے جن کی حمایت کرنے کے لئے کوئی غیر حکومت موجود ہے لیکن وہ نہ ڈرا تو ایک بے گناہ اور بے ضرر اور امن پسند احمدی کے قتل سے نہ ڈرا جو اس کے پایہ تخت میں درویشانہ زندگی بسر کرتا تھا.اس نے سمجھا کہ اس غریب کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں اور نہایت دلیری
242 اور بے رحمی کے ساتھ اس فرشتہ سیرت انسان کو سنگسار کیا.لیکن اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بیکس نہیں.اس کی حمایت میں بھی ایک سلطنت ہے اور وہ آسمانی سلطنت ہے جو ضر ور اس خون کا بدلہ لے گی.بجز اس کے کہ سچی توبہ کر کے آسمانی بادشاہت میں پناہ حاصل کی جائے.( ۴۰ ) ہریجیسٹی امیر کا بل کو ناظر امور عامہ جماعت احمدیہ کی طرف سے تار ہم ہریجیسٹی کے سامنے علماء کے ساتھ اختلافی مسائل پر گفتگو کے لیے تیار ہیں“ بخدمت وزیر خارجیہ دولت افغان کابل ایک احتجاج کا تار ہریجیسٹی امیر کابل کے نام ۱ ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضرت امیر جماعت احمد یہ قادیان ( یعنی حضرت مولوی شیر علی صاحب ناقل ) کی طرف سے بھیجا گیا تھا.جس کا اس وقت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا.میں ادب کے ساتھ آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ ہر مجھیسٹی کی توجہ ہمارے مذکورہ بالا تار کی طرف منعطف کرائیں اور ہمیں جلد سے جلد جواب سے سرفراز کریں.مولوی نعمت اللہ خان احمدی کی شہادت نے تمام مہذب دنیا کو چونکا دیا ہے اور مخالفین اسلام کی نظر میں اسلام کو بدنام کیا ہے.خصوصاً اس وجہ سے کہ ہمیں وزارت کا بل نے متفرق تحریرات کے ذریعہ یقین دلایا تھا کہ افغانستان میں احمدیوں کو احمدیت کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ دی جائے گی اور دوسری رعایا کی طرح ان کی بھی حفاظت کی جائے گی.اگر مولوی نعمت اللہ خان کسی سیاسی اور کسی جرم میں مجرم ثابت ہوکر سزا دیے جاتے تو اور بات تھی لیکن ایک وفادار اور امن پسند شہری کو نہایت ظالمانہ طور پر اس بناء پر قتل کر دینا کہ وہ بعض مخصوص مذہبی عقائد رکھتا ہے.حد درجہ صدمہ پہنچانے والا فعل ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا فعل قرآن کریم کی شریعت کے بالکل خلاف ہے.وو چند متعصب ملانوں کی آواز جو کہ ہر وقت اس بات پر تلے رہتے ہیں کہ کفر و
243 ارتداد کے فتوے جاری کریں.اگر انصاف سے دیکھا جائے تو ہر گز اس قابل نہیں کہ ایک روشن دماغ حکمران کو انصاف اور سلامت روی کے راستہ سے ہٹا سکے.کیا ہم ان حالات میں یہ امید نہ رکھیں کہ افغان گورنمنٹ اپنے اس فعل پر تائب ہوگی اور ایک پبلک اعلان کے ذریعہ اپنی تمام رعایا کو کامل مذہبی آزادی دے گی.اگر ہز میجیسٹی معلی القاب رضا مند ہوں تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کے لیے تیار ہیں کہ ہم میجیسٹی کے سامنے کا بل کے مولویوں کے ساتھ رُو در رو بیٹھ کر تمام اختلافی مسائل پر بحث کریں.تا کہ ہر مکھیسٹی ذاتی طور پر اس بات کا فیصلہ کر سکیں کہ کابل کے ملا کہاں تک احمدیوں کے خلاف کفر و ارتداد کے فتوے جاری کرنے میں حق بجانب ہیں.یہ ایک نہایت اہم امر ہے.اور افغان گورنمنٹ کو اپنی مذہبی پالیسی طے کرنے سے قبل اس بارے میں کامل غور و خوض کرنا چاہیے.اگر اس نے اس معاملہ میں جلد بازی سے اور بلا سوچے سمجھے کام لیا تو ہم خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتے ہیں کہ تمام ان لوگوں کا خون جو اس کی پالیسی کے بے گناہ شکار ہوں گے اس کی گردن پر ہو گا.بہی خواہ دولت کا بل زین العابدین ولی اللہ شاہ ناظر امور عامہ جماعت احمدیہ قادیان (۴۱) جلسہ احتجاج کے بارہ میں لندن سے آمدہ رپورٹ ۷ ستمبر ۱۹۲۴ ء - آج شام کو مولوی نعمت اللہ خان شہید کا بل کے واقعہ شہادت کے متعلق پروٹسٹ کا جلسہ ہے جس میں حضرت اقدس کی تقریر واقعات شہادت پر ہوگی.اس جلسہ کے لیے ایک اشتہار شائع کیا گیا تھا (اشتہار کی اصل کاپی بھی ملاحظہ کریں) اور اس کے ساتھ انگلستان کے اخبارات کے بعض اقتباسات ایک ہینڈ بل کی
244 A SPECIAL GATHERING WILL BE HELD AT ESSEX HALL, Essex Street, Strand, W.C.2.On WEDNESDAY, 17th SEPT., 1924, AT 8.15 P.M.where a protest will be made against the outrageous persecution of Maulvi Nematullah Khan, an Ahmadi Priest who was stoned to death in Kabul, on 31st August Last, Solely on account of religious differences.His Holiness The KHALIFATUL MASIH, Head of the Ahmadiyya Community, will throw further light on what has been hitherto published in the London Press.You are cordially invited to attend with friends.ADMISSION FREE.ARTHUR S.FLOWERS K.N.DAS GUPTA ZAFRULLAH KHAN for the Committee.
245 صورت میں شائع کر دیے گئے تھے.یہ جلسہ پہلے سنٹر ہال میں تجویز کیا گیا تھا مگر سنٹر ہال والوں نے یہ کہہ کر کہ چونکہ تم نے عیسویت پر دھاوا بول دیا ہے.آپ کو نہیں دیا جائے گا انکار کر دیا تھا.اس لیے ایسکس ہال تجویز ہوا.حضرت نے اس موقعہ پر اپنی تقریر.قلم برداشتہ لکھی اور چوہدری صاحب ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ کرتے جاتے تھے.وو وقت مقررہ پر یہ جلسہ اسیکس ہال میں زیر صدارت ریورنڈ ڈاکٹر والٹر واش منعقد ہوا جلسہ میں ممتاز اور سر بر آوردہ پختہ رائے لوگ شریک تھے اور بڑی خصوصیت اس جلسہ کی یہ ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ تھے.جلسہ میں صرف دو ریزولیشن پیش ہونے تجویز ہوئے تھے مگر لوگوں میں اس قدر جوش تھا کہ دو اور ریزولیشن بھی ساتھ شامل ہو گئے جن میں ایک شہید مرحوم کے ورثا کے ساتھ ہمدردی کا اظہار اور دوسرا اس میں جلسہ کی پروسیڈنگ کی کاپی لارڈ میئر اور لیبر کونسل کو بھیجے جانے کے متعلق تحریک تھی.پریذیڈنٹ اور دوسرے مقررین نے جو انگریز تھے احمد یہ موومنٹ کی عظمت اور اس کے امن آفرین طریق کا نہایت شاندار الفاظ میں ذکر کیا (۴۲) مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کے بارہ میں لندن کے احتجاجی جلسہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقریر حضور نے فرمایا پریذیڈنٹ ! بہنو اور بھائیو! میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ہمارے صدمہ میں ہم سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے.آپ لوگ یہ تو پڑھ چکے ہوں گے کہ مولوی نعمت اللہ خان احمدی کو ۳۱ راگست (۱۹۲۴ء) کے دن کابل گورنمنٹ نے سنگسار کرایا ہے.صرف اس وجہ سے کہ اس نے
246 احمدیت کو کیوں قبول کیا.مگر آج آپ کو اختصار کے ساتھ اس واقعہ کی تمام کیفیت سنانا چاہتا ہوں تا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ فعل کیسا نا روا تھا.مولوی نعمت اللہ خان کا بل کے پاس ایک گاؤں کے رہنے والے تھے.ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ سلسلہ کی تعلیم بھی حاصل کریں اور وہ قادیان چلے آئے جہاں وہ احمد یہ دینی کالج میں داخل ہوئے وہ ابھی تعلیم پارہے تھے کہ کابل کے احمدیوں کی تعلیم......کے لیے ان کو وہاں بھیجنا پڑا.چنانچہ 1919ء میں وہ وہاں چلے گئے اور چونکہ افغانستان میں احمدیوں کے لیے امن نہ تھا مخفی طور پر اپنے بھائیوں کو سلسلہ کی تعلیم سے واقف کرتے رہے.اس عرصہ میں گورنمنٹ افغانستان نے کامل مذہبی آزادی کا اعلان کیا اور ہم نے سمجھا کہ اب احمد یوں کو اس علاقہ میں امن ہو گا.مگر پیشتر اس کے کہ وہاں کی جماعت کے لوگ اپنے آپ کو علی الاعلان ظاہر کرتے.مناسب سمجھا گیا کہ گورنمنٹ سے اچھی طرح دریافت کر لیا جائے.....جب محمود طرزی صاحب سابق سفیر پیرس کی امارت میں افغان گورنمنٹ کا ایک مشن برٹش گورنمنٹ سے معاہدہ صلح کرنے کے لیے آیا تو اس وقت میں نے ان کی طرف ایک وفد اپنی جماعت کے لوگوں کا بھیجا تا وہ ان سے دریافت کرے کہ کیا مذہبی آزادی دوسرے لوگوں کے لیے ہے یا احمدیوں کے لیے بھی.اگر احمدیوں کے لیے بھی ہے تو وہ لوگ جو اپنے گھر چھوڑ کر قادیان میں آگئے ہیں واپس اپنے گھروں کو چلے جاویں.محمود طرزی صاحب نے میرے بھیجے ہوئے وفد کو یقین دلایا کہ افغانستان میں احمدیوں کو اب کوئی تکلیف نہ ہوگی.کیونکہ ظلم کا زمانہ چلا گیا ہے اور اب اس ملک میں کامل مذہبی آزادی ہے اسی طرح دوسرے ممبران وفد نے بھی یقین دلایا.ان لوگوں میں سے جو اپنے ملک کو چھوڑ کر قادیان آگئے ہیں ایک نو جوان نیک محمد بھی ہے.جو احمدیت کے اظہار کی آزادی نہ پا کر چودہ سال کی عمر میں اپنا وطن چھوڑ کر چلا آیا
247 تھا اس نوجوان کا والد غزنی کے علاقہ کا رئیس تھا.اور غزنی کا گورنر بھی رہا ہے یہ نوجوان بھی وفد کے ساتھ تھا.اس کو دیکھ کر کئی ممبران وفد کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ ایسے معزز خاندانوں کے بچے اس عمر میں اپنے عزیزوں سے جدا ہو کر دوسرے وطنوں کو جانے پر مجبور ہوں.یہ بہت بڑا ظلم ہے جو ہر میچیسٹی امیر امان اللہ خان کے وقت میں نہ ہوگا.اور ایشیا ئی طریق پر اپنے سینوں پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ تم واپس وطن کو چلو.دیکھیں تو تم کو کون ترچھی نظر سے دیکھتا ہے.اس ملاقات کے نتیجہ میں ہمارا وفد اپنے نزدیک نہایت کامیاب واپس آیا.....مزید احتیاط کے طور پر میں نے چاہا کہ امیر افغانستان کو اپنے عقائد سے بھی مطلع کر دیا جائے.اور ہماری امن پسند عادت سے بھی آگاہ کر دیا جائے تا کہ پھر کوئی بات پیدا نہ ہو اور میں نے مولوی نعمت اللہ خان کو ہدایت کی کہ وہ محمود طرزی صاحب سے ان کی واپسی پر ملیں.اور ان سے بعض احمد یوں پر جو ظلم ہوا ہے اس کا تذکرہ کریں.اور امیر کے سامنے اپنے خیالات پیش کرنے کی بھی اجازت لیں.محمود طرزی صاحب نے ان احمدیوں کی تکلیف کا تو ازالہ کرا دیا اور اس امر کی ضمانت دی کہ جو خط امیر کے نام آئے وہ اس کو غور سے پڑھیں گے.اس موقعہ پر ہمارے مبلغ وو نے اپنے آپ کو جس طرح گورنمنٹ کے سامنے ظاہر کر دیا تھا.پبلک پر بھی ظاہر کر دیا.چونکہ افغانستان کے بعض علاقوں سے یہ خبریں برا بر آ رہی تھیں کہ احمدیوں پر برابر ظلم ہورہا ہے.ان کو بلا وجہ قید کر لیا جاتا ہے پھر ان سے روپیہ لے کر چھوڑا جاتا ہے.اس لیے میں نے اپنے صیغہ دعوۃ والتبلیغ کے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس کے متعلق افغان گورنمنٹ سے خط و کتابت کریں چنانچہ انھوں نے ایک چٹھی وزیر خار جیہ افغانستان کو لکھی اور ایک جمال پاشا تر کی مشہور جنرل کو جو سیکرٹری دعوۃ والتبلیغ کے ذاتی طور پر واقف تھے اور اس وقت افغانستان میں تھے ان سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی اس امر کے متعلق افغانستان کی گورنمنٹ سے سفارش کر یں.
248 اس چٹھی کے جواب میں وزیر خارجیہ افغانستان کی ایک چٹھی مئی ۱۹۲۱ ء میں آئی جس میں لکھا تھا کہ احمدی اسی طرح اس ملک میں محفوظ ہیں جس طرح دوسرے وفا دار لوگ.ان کو احمدیت کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ دی جائے گی اور اگر کوئی احمدی ایسا ہے جسے مذہب کی وجہ سے تکلیف دی جاتی ہو تو اس کا نام اور پتہ لکھ دیں گورنمنٹ فوراً اس کی تکلیف کو دور کر دے گی.اس کے کچھ عرصہ بعد خوست کے علاقہ میں بعض احمد یوں کو پھر تکلیف ہوئی تو احمد یہ جماعت کی شملہ کی لوکل شاخ نے سفیر کا بل متعینہ ہندوستان کو اس طرف توجہ دلائی اور ان کی معرفت ایک درخواست گورنمنٹ کا بل کو بھیجی جس کا جواب مؤرخہ ۲۴ مئی ۱۹۲۳ء کو سفیر کا بل کی معرفت ان کو یہ ملا کہ احمدی امن کے ساتھ گورنمنٹ کے ماتحت رہ سکتے ہیں.ان کو کوئی تکلیف نہیں دے سکتا.باقی وفا دار رعایا کی طرح ان کی حفاظت کی جائے گی.اس خط میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا.کہ یہ معاملہ ہنریجیسٹی امیر کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور ان کے مشورہ سے جواب لکھا گیا ہے.شملہ کی لوکل احمدی انجمن کی درخواست میں احمد یہ عقائد کا بھی تفصیلاً ذکر کیا گیا تھا اور گورنمنٹ افغانستان نہیں کہہ سکتی کہ اس کو پہلے احمدی عقائد کا علم نہ تھا.اس طرح متواتر یقین دلانے پر کابل اور اس کے گرد کے احمدی ظاہر ہو گئے.مگر علاقوں کے لوگ پہلے کی طرح مخفی ہی رہے کیونکہ گورنمنٹ افغانستان کا تصرف علاقوں پر ایسا نہیں کہ اس کی مرضی پر پوری طرح عمل کیا جائے.وہاں لوگ قانون اپنے ہی ہاتھ میں رکھتے ہیں.اور بار ہا حکام بھی لوگوں کے ساتھ مل کر کمزوروں پر ظلم کرتے رہتے ہیں.ہم خوش تھے کہ افغانستان میں ہمارے لیے امن ہو گیا ہے کہ ۱۹۲۳ء کے آخر میں اطلاع ملی کہ دو احمدیوں کو افغانستان کی گورنمنٹ نے قید کر لیا ہے جن میں سے ایک کا بیٹا بھی ساتھ ہی قید کیا گیا ہے.ان دو میں سے ایک تو دے دلا کر اپنے بیٹے سمیت چھٹ گیا لیکن دوسرا میری قادیان سے روانگی تک (یعنی ۱۹۲۴ ء جولائی ) تک قید تھا اور مجھے معلوم نہیں کہ اس کا اب کیا حال ہے؟ دوسرا جو آزاد ہو گیا تھا اس کو ایام گرفتاری میں اس قدر مارا گیا کہ وہ
249 آزاد ہونے کے بعد ۴ ا دن کے اندرفوت ہو گیا.شروع جولائی میں مولوی نعمت اللہ خان کو بھی حکام نے بلایا اور بیان لیا کہ کیا وہ احمدی ہیں.انھوں نے حقیقت کو ظاہر کر دیا اور ان کو بیان لے کر چھوڑ دیا گیا.اس کے چند دن بعد ان کو گرفتار کر لیا گیا.اور پھر علماء کی کونسل کے سامنے پیش کیا گیا.جس نے اار اگست (۱۹۲۴ء) کو ان سے بیان لیا کہ وہ احمد کو کیا سمجھتا ہے.انھوں نے اپنے عقائد کا اظہار کیا جس پر علماء کی کونسل نے ان کو احمدی قرار دے کر مرتد قرار دیا اور موت کا فتویٰ دیا.اس کے بعد ۱۶ / اگست ۱۹۲۴ء کو ان کو علماء کی اپیل کی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جس نے پھر بیان لے کر ماتحت عدالت کے فیصلہ کی تائید کی اور فیصلہ کیا کہ نعمت اللہ خان کو ایک بڑے ہجوم کے سامنے سنگسار کیا جائے.۳۱ راگست کو پولیس نے ان کو ساتھ لے کر کابل کی تمام گلیوں میں پھرایا.اور وہ ساتھ ساتھ اعلان کرتی جاتی تھی.کہ اس شخص کو ارتداد کے جرم میں سنگسار کیا جائے گا.لوگوں کو چاہیے کہ وہاں چلیں اور اس نیک کام میں شامل ہوں.اسی دن شام کے وقت کا بل کی چھاؤنی کے ایک میدان میں ان کو کمر تک گاڑا گیا اور پہلا پتھر کا بل کے سب سے بڑے عالم نے مارا اس کے بعد ان پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش شروع ہوگئی.یہاں تک کہ وہ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے دب گئے....اس کے بوڑھے باپ نے جو احمدی نہیں ہے گورنمنٹ سے درخواست کی کہ وہ اس کو لاش دے دیں تا کہ وہ اس کو دفن کر دے مگر گورنمنٹ نے اس کی لاش کو دفن کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا.د کابل گورنمنٹ نے مولوی نعمت اللہ خان کو سنگسار کرنے سے پہلے بار بار احمدیت کے چھوڑ دینے کی صورت میں آزادی کا انعام پیش کیا.مگر مولوی نعمت اللہ شہید نے ہر دفعہ اسے حقارت سے رد کر دیا اور ضمیر کی آزادی کو جسم کی آزادی پر ترجیح دی.وو جب ان کو سنگسار کرنے کے لیے گاڑا گیا تب پھر آخری دفعہ ان کو ارتداد کی تحریک
250 کی گئی.مگر انھوں نے جواب دیا کہ جس چیز کو میں حق جانتا ہوں اس کو زندگی کی خاطر نہیں چھوڑ سکتا.جس وقت ان کو گلیوں میں پھرایا جا رہا تھا اور ان کی سنگساری کا اعلان کیا جا رہا تھا.اس وقت کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بجائے گھبرانے کے مسکرا رہے تھے.گویا کہ ان کی موت کا فتویٰ نہیں بلکہ عزت افزائی کی خبر سنائی جا رہی ہے.جب ان کو میدان میں سنگسار کرنے کے لیے لے گئے تو انھوں نے اس وقت ایک خواہش کی جسے افغان حکام نے منظور کر لیا.اور ہم اس کے لیے اس کے ممنون ہیں...یہ خواہش تھی کہ اس دنیا کی زندگی کے ختم ہونے سے پہلے ان کو ایک دفعہ اپنے رب کی عبادت کرنے کا پھر موقع دیا جائے.حکام کی اجازت ملنے پر انھوں نے اپنے رب کی عبادت کی اور اس کے بعد ان کو کہا کہ اب میں تیار ہوں جو چاہو سو کر و.کابل کا نیم سرکاری اخبار جس سے شہادت کے واقعات کا اکثر حصہ لیا گیا ہے اپنی ستمبر کی اشاعت میں حالات شہادت لکھتے ہوئے لکھتا ہے کہ مولوی نعمت اللہ بڑے زور سے احمدیت پر پختگی سے مصررہا اور جس وقت تک اس کا دم نہیں نکل گیا سنگساری کے وقت بھی وہ اپنے ایمان کو بآواز بلند ظاہر کرتا رہا...ایسوسی ایٹڈ پریس پشاور کا ۴ ستمبر کا تار جو ہندوستان کے سب اخبارات میں چھپا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ سنگساری سے پہلے مولوی نعمت اللہ خان شہید کو قید خانہ میں بھی کئی قسم کے عذاب دیے گئے.”ہندوستان کا سب سے وسیع الاشاعت اینگلو انڈین روزانہ پاؤ نیر لکھتا ہے کہ یہ معاملہ معمولی نہیں بلکہ نہایت اہم ہے وہ اپنے تازہ ایشو میں یہ بھی لکھتا ہے کہ امیر نے نعمت اللہ خان کو صرف آرتھوڈوکس پارٹی کے خوش کرنے کے لیے قتل کیا ہے.کابل کی آمدہ خبروں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گورنمنٹ کا بل نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ بھی احمدیوں سے ایسا ہی معاملہ کرے گی.اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے ملک کا قانون مرتد سے ایسے ہی سلوک کا مطالبہ کرتا ہے.
251 ”اے بہنو! اور بھائیو! گو یہ واقعہ اپنی ذات میں بھی نہایت افسوس ناک ہے مگر یہ واقعہ منفرد نہیں ہے.یہ تیسرا خون ہے جو گورنمنٹ افغانستان نے صرف مذہبی اختلاف کی بناء پر کیا ہے.” سب سے پہلے مولوی عبدالرحمن صاحب کو امیر عبدالرحمن خان نے احمدیت کی بناء پر گلا گھونٹا کر مروا دیا.پھر صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب کو جو خوست کے ایک بڑے رئیس تھے اور تہیں ہزار آدمی ان کے مرید تھے اور علم میں ان کا ایسا پا یہ تھا کہ امیر حبیب اللہ خان کی تاجپوشی کے موقعہ پر انھوں نے ہی اس کے سر پر تاج رکھا تھا.امیر حبیب اللہ خان نے سنگسار کر وا دیا اور باوجود اس عزت کے جو ان کو حاصل تھی.ان کو پہلے چار ماہ تک قید رکھا گیا اور زمانہ قید میں طرح طرح کے دکھ دیئے گئے لیکن جب انھوں نے اپنے عقائد کو ترک نہ کیا تو ان پر سنگساری کا فتویٰ دیا اور حکم دیا کہ ان کی ناک چھید کر اس میں رہتی ڈالی جائے اور پھر اس رسی سے گھسیٹ کر ان کو سنگسار کرنے کی جگہ تک لے جایا جائے.مسٹر مارٹن اپنی کتاب UNDER THE ABSOLUTE AMIR میں ان کی شہادت کا واقعہ لکھتے ہوئے اس امر پر خاص طور سے زور دیتے ہیں کہ ان کے قتل کا اصل سبب احمد یہ جماعت کی وہ تعلیم ہے کہ دین کی خاطر جہاد جائز نہیں ہے.امیر ڈرتا تھا کہ اگر یہ تعلیم پھیلی تو ہمارے ہاتھ سے وہ ہتھیار نکل جائے گا جو ہم ہمیشہ ہمسایہ قوموں کے خلاف استعمال کیا کرتے ہیں...مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ افغان گورنمنٹ کے بعض سفیر اب یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس قتل کو پولیٹکل رنگ دیں مگر وہ ان واقعات کو کہاں تک چھپا سکتے ہیں...کابل کے بازاروں میں اس امر کا اعلان کیا گیا ہے کہ مولوی نعمت اللہ خان کو ارتداد کی وجہ سے سنگسار کیا جائے گا اور آخر میں کابل کے نیم سرکاری اخبار ”حقیقت کو وہ کہاں لے جائیں گے جس نے مقدمہ کی پوری کا رروائی چھاپ دی ہے.اور تسلیم کیا ہے کہ شہید مرحوم کے سنگسار کئے جانے کا باعث اس کا مذہب تھا.مگر میں مضمون کو ختم کرنے سے پہلے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ باوجود اس کے
252 لمبے عرصہ ظلم کے میں اپنے دل میں افغان گورنمنٹ اور اس کے حکام کے خلاف جذبات نفرت نہیں پاتا.اس کے فعل کو نہایت برا سمجھتا ہوں.مگر میں اس سے ہمدردی رکھتا ہوں اور وہ میری ہمدردی کی محتاج ہے اگر کوئی شخص یا اشخاص اخلاقی طور پر اس حد تک گر جائیں کہ ان کے دل میں رحم اور شفقت کے طبعی جذبات بھی باقی نہ رہیں.تو وہ یقینا ہماری ہمدردی......کے زیادہ محتاج ہیں.میں نے آج تک کسی سے عداوت نہیں کی اور میں اپنے آپ کو اس واقعہ کی بناء پر خراب کرنا نہیں چاہتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ میرے بچے متبع بھی اسی طریق کو اختیار کریں گے..میں جانتا ہوں کہ ظلم نہ ظلم سے مٹتے ہیں اور نہ عداوت سے.پس میں نہ ظلم کا مشورہ دوں گا اور نہ عداوت کے جذبات کو اپنے دل میں جگہ دوں گا....میری اغراض اس میٹنگ میں شمولیت سے یہ ہیں.اول اس امر کا اظہار کہ امیر کے اس فعل کو اسلام کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے.یہ فعل اسلام کے بالکل خلاف ہے.اسلام کامل مذہبی آزادی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ حق اور باطل ظاہر امور ہیں.پس کسی پر زبر دستی کرنے کی کوئی وجہ نہیں.ہر شخص کے لئے اس کا اپنا دین ہے.حضرت ابو بکر کے زمانہ میں جو لوگ مرتد ہوئے ان کو کسی نے نہیں قتل کیا.صرف اس وقت تک ان سے جنگ کی گئی جب تک کہ انہوں نے حکومت سے بغاوت جاری رکھی.پس کسی شخص کو حق نہیں کہ وہ اس فعل کو اسلام کی طرف منسوب کرے.ایسے افعال ہر مذہب کے لوگوں سے ہوتے رہتے ہیں.وو دوم اس امر کا اظہار کہ ہم لوگ امیر کے اس فعل کو درست نہیں سمجھتے.اور اس اظہار کی یہ غرض ہے کہ جب کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کے فعل کو دنیا عام طور پر نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو اس کی آئندہ اصلاح ہو جاتی ہے.پس بلا جذبات عداوت کے اظہار کے جن کو میں اپنے دل میں نہیں پاتا.میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کابل گورنمنٹ کا یہ فعل اصول اخلاق و مذہب کے خلاف تھا اور ایسے افعال کو ہم لوگ نا پسندیدہ سمجھتے ہیں.
253 مگر یہ افعال ہمیں اپنے کام سے پیچھے نہیں ہٹا سکتے.نہ پہلے شہیدوں کی موت سے ہم ڈرے ہیں اور نہ یہ واقعہ ہمارے قدم کو پیچھے ہٹا سکتا ہے.چنانچہ اس دل ہلا دینے والے واقعہ کی اطلاع ملتے ہی، مجھے تار کے ذریعہ سے بائیس آدمیوں کی طرف سے درخواست ملی ہے کہ وہ افغانستان کی طرف مولوی نعمت اللہ خان کا کام جاری رکھنے کے لئے فوراً جانے کو تیار ہیں.اور ایک اور درخواست یہاں انگلستان میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بارایٹ لاء، ایڈیٹر انڈین کیسز نے اسی مضمون کی دی ہے.وو پس جو غرض ان قتلوں سے ہے وہ ہرگز پوری نہ ہو گی.ہم آٹھ لاکھ آدمیوں میں سے ہر ایک خواہ مرد ہو خواہ عورت خواہ بچہ اس راستہ پر چلنے کے لئے تیار ہے.جس پر نعمت اللہ خان شہید نے سفر کیا.اب میں اس امید پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ مذہبی آزادی کے دلدادہ اس موقع پر وہ کم سے کم خدمت کر کے جو آزادی کی راہ میں وہ کر سکتے ہیں.اپنے فرض سے سبکدوش ہو نگے.یعنی اس فعل پر نا پسندیدگی کا اظہار کریں گے.قو میں الگ ہوں ، حکومتیں الگ ہوں مگر ہم سب انسان ہیں.ہماری انسانیت کو کوئی نہیں مارسکتا.ہماری ضمیر کی آزادی کو کوئی نہیں چھین سکتا.پس کیا انسانیت اس وقت ظلم پر اپنی فوقیت کو بالا ثابت کر کے نہیں دکھائے گی (۴۳) مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت پر سید نا حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کا احباب جماعت کے نام ایک پیغام مورخه ۱۸ اکتو بر ۱۹۲۴ء کو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لندن سے ایک ٹیلی گرام بھجوایا جو ۱۲ را کتوبر کو قادیان پہنچا.اس میں منجملہ دیگر امور کے حضور نے احباب جماعت کے نام یہ پیغام دیا کہ تمام بھائیوں کو اطلاع دے دی جائے کہ میں ان کا شکر یہ ادا کرتا ہوں جو انہوں
254 نے ( مولوی ) نعمت اللہ خان کی شہادت پر مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے.اور اس عزم نے کہ وہ نعمت اللہ خان کے کام کو جاری رکھیں گے.مجھ پر بہت اثر کیا ہے.بعض اوقات میں فخر محسوس کرنے لگتا ہوں کہ میری امامت میں ایسے بہادروں کی جماعت ہے.(۴۴) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کے مکتوب از لندن میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کا ذکر اور جماعت احمدیہ کو نصائح میں اس تکلیف دہ واقع کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو کا بل میں ہوا.مولوی نعمت اللہ صاحب کی شہادت معمولی بات نہیں ہے کیونکہ افغانستان کے پہلے فعل اگر جہالت کے ماتحت تھے.تو یہ دیدہ دانستہ ہے.اب افغانستان کی گورنمنٹ ہمارے اصول سے اچھی طرح واقف ہوگئی ہے.اور اس کا یہ فعل نہایت قابل افسوس ہے.مگر مسلمان لڑنے کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے لئے قربان ہونے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس لئے ہمیں اپنے خیالات کی رو کو صلح اور امن کی طرف پھیرنا چاہئے نہ کہ بغض اور فساد کی طرف.وو پس ہمیں افغانستان کی گورنمنٹ اور اس کے فرمانروا کے خلاف دل میں بغض نہیں رکھنا چاہئے.بلکہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اب بھی ان کو ہدایت دے." بے شک یہ کام مشکل ہے مگر اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ صبر مشکل ہے.ہمیں اپنی پوری توجہ اس کام کے جاری رکھنے کے لئے کرنی چاہئے.جس کی خاطر مولوی نعمت اللہ صاحب نے جان دی ہے.ہمیں افغانستان میں تبلیغ کے سوال پر خاص غور کرنا چاہئے.وہاں کھلی تبلیغ کا دروازہ تو سر دست بند ہے.مگر ہمیں اس ملک کو ایک دن کے لئے بھی نہیں چھوڑ نا چاہئے.وو چاہئے کہ ہمارے مخلص دوست اپنے اپنے علاقوں میں جا کر وہاں سے بااثر
255 خاندانوں کے نوجوانوں کو ہندوستان میں لاویں.پھر قادیان میں ان کو کچھ عرصہ تک رکھا جائے اور ان کو سلسلہ سے واقف کر کے ، چھ سات ماہ بعد ان کے وطن واپس کر دیا جائے.جو شخص ایک ماہ بھی قادیان میں رہے گا.اس کا بغیر احمدی ہونے کے واپس جانا ، بظا ہر خلاف توقع ہے.اور ہمیں یہی امید کرنی چاہئے کہ ان میں سے سو فی صدی ہی احمدی ہو کر جائیں گے.یہ لوگ جب واپس جائیں گے تو اپنے اپنے علاقہ کے لئے مبلغ کا کام دیں گے اور صرف اپنے رشتہ داروں میں تبلیغ کریں گے اور اس طرح چند سال میں ہی ایک معقول تعداد نو احمدیوں کی افغانستان میں پیدا ہو جائے گی.یہ ضروری ہے کہ ایسے لوگ مختلف علاقوں اور شہروں سے آئیں تا ایک ہی وقت میں سب طرف احمدیت کا اثر پھیل جائے.اس کے لئے ہمیں تین چار آدمی مقرر کرنے چاہئیں جو ہر وقت افغانستان میں چکر لگاتے رہیں.میں امید کرتا ہوں کہ اگر افغانستان کے باشندوں میں سے جو اس کام کے پہلے حقدار ہیں.اس بات کے لئے آدمی نہ ملیں تو پنجابیوں اور خصوصاً سرحد یوں کو اس کام کے لئے تیار ہو جانا چاہئے.....افسوس کے میری ذمہ داریاں مجھے اجازت نہیں دیتیں اور نہ میری کوئی بالغ اولاد ہی ہے کہ وہ میری دلی تڑپ کو پورا کرے.اس لئے میں خونِ دل پی کر خاموش ہوں.اور چونکہ کسی کو دل کھول کر نہیں دکھایا جا سکتا.اس لئے اپنی حالت کا اظہار بھی نہیں کر سکتا ورنہ خدا شاہد ہے اس کی راہ میں مرنے کی خواہش میں مرا ہر ذرہ تن جھک رہا ہے التجا ہو کر اے عزیز و ! اب وقت تنگ ہے اور میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں.طبیعت میری ابھی تک بیمار ہے مگر میں اپنے رب کے ہاتھ میں ہوں اور آپ کو بھی اسی کے سپر د کرتا ہوں.نعم المولى ونعم النصير و السلام خاکسار مرزا محمود احمد (۴۵)
256 چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی افغانستان جانے پر آمادگی سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی لندن سے اپنے ایک مکتوب میں جو احباب جماعت کے نام ہے تحریر فرماتے ہیں : میں نہایت خوشی سے اعلان کرتا ہوں کہ بغیر اس تجویز کے علم کے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اپنے نام کو اس لئے پیش کیا ہے.اور لکھا ہے کہ میں صرف نام دینے کے لئے ایسا نہیں کرتا بلکہ پورا غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مجھے اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے.‘ (۴۶) شہداء کابل کی قربانیوں کی یاد تازور کھنے کے بارہ میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشادات ہمیں ان لوگوں کی یاد کو تازہ رکھنا چاہئے.تا کہ ہمارے تمام افراد میں قربانی کا جوش پیدا ہو.میری رائے ہے کہ جس قدر سلسلہ کے شہید ہوں.ان کے نام ایک کتبہ پر لکھوائے جائیں.اور اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کی طرف لگوایا جائے تا کہ وہ ہراک کی دعا میں شامل ہوتے رہیں اور ہراک کی نظر ان کے ناموں پر پڑتی رہے.فی الحال اس کتبہ پر مولوی شہزادہ عبداللطیف صاحب اور مولوی نعمت اللہ صاحب کا نام ہو.اگر آئندہ کسی کو یہ مقام عالی عطا ہو تو اس کا نام بھی اس کتبہ پر لکھا جائے.اسی طرح ایک کتاب تیار ہو.جس میں تاریخی طور پر تمام شہداء کے حالات جمع ہوتے رہیں.تا آئندہ نسلیں ان کے کارناموں پر مطلع ہوتی رہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں.( ۴۷ ) ١٩٢٤ء حضرت خلیفت مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی لندن سے قادیان کو واپسی مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کے بارہ میں جماعت کو نصائح اور افغانستان میں تبلیغ کا پروگرام حضور کی خدمت میں قادیان میں مقیم احمدی افغانستان کا سپاس نامہ اور اس پر حضور کے ارشادات
257 ۲۶ نومبر ۱۹۲۳ء کو قادیان میں مقیم افغان احمدیوں نے ایک سپاس نامہ حضور کی خدمت میں پیش کیا جو خان گل محمد صاحب نے اردو زبان میں پڑھ کر سنایا.بعد میں مولوی عبدالستارخان صاحب افغان نے یہ سپاس نامہ حضور اقدس کی خدمت میں پیش کیا.اس سپاس نامہ میں افغان احباب نے اپنے اخلاص کا اظہار کیا تھا اور مولوی نعمت اللہ خان اور حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب کی شہادت کا ذکر کر کے منجملہ اور امور کے یہ بھی بیان کیا تھا کہ سید نا ! ہماری جانیں آپ پر قربان ، ہم سلسلہ حقہ کی خاطر ہر مصیبت جھیلنے پر آمادہ وو.ہیں اپنے شہداء کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں اور اپنی جانوں کو حضور کے سپر د کر تے ہیں.افغانوں میں وہ شخص نہایت ہی ذلیل خیال کیا جاتا ہے.جو اپنا بدلہ نہیں لے سکتا.حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کی سنگساری کے بعد واقعی ہم اپنے آپ کو ذلیل خیال کرتے ہیں.ہمیں کا بل سے بہت بدلے لینے ہیں.ہمارے بھائیوں کو سنگسار کر دیا گیا.ان کو قید خانوں میں ڈال کر تکلیفوں کے ساتھ مار ڈالا گیا مالی نقصانات پہنچائے گئے.ہمارے دل میں یہ جذبہ موجزن ہے کہ ہم بھی اپنا بدلہ لے کر سرخرو ہوں...مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہم کو ہدایت دی.اب ہم اپنے جذبات پر قابور رکھتے ہیں جوش تو موجود ہے.مگر رخ دوسرا ہے.یعنی بجائے اس کے کہ ہم کسی کا خون کریں.ہمارے اندر سے یہ آواز نکلتی ہے کہ ہم انتقام لینے والے جوشوں کے ساتھ اس کام کو جاری رکھیں.جس کے دبانے کے لئے کابل کوشش کر رہا ہے.اور اس راستہ پر چلیں جس پر ہمارے شہداء چلے.سے لڑے گی.کابل میں ایک میدان ہے.جس کی بابت مشہور ہے کہ یہاں مہدی کی فوج کفار سو وہ میدان ہمارا انتظار کر رہا ہے.اور ہم حضور کی فوج ، اسی میدان میں کفار کے ساتھ لڑنے کے لئے بالکل آمادہ ہیں.جس طرح حکم ہو.اس پر عمل کرنا اپنا ایمان خیال کرتے
258 ہیں.شہید مرحوم مولوی عبداللطیف صاحب نے اپنی شہادت سے بہت پہلے فرمایا تھا کہ کابل کی زمین میرا خون چاہتی ہے اور اسی سے ہمیں ترقی نصیب ہوگی.بغیر خون کے کابل کی زمین میں اصلاح نہیں ہو سکتی.جب ہم خوشی خوشی جانیں دیں تب وہاں ترقی ہوگی....سو حضور ہمارے لئے ایسی تجاویز فرمائیں کہ جن سے ہماری دلی آرزو پوری ہو اور احمدیت کا بول بالا ہو.ہم ہیں حضور کے غلام احمدی افغانان قادیان دارالامان اس ایڈریس کے پڑھے جانے کے بعد سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے جو تقریر فرمائی.اس کے بعض اقتباسات یہاں درج کئے جاتے ہیں : فرمایا: مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت اس قسم کے واقعات میں سے ایک واقعہ ہے.جس نے اس وقت دنیا میں شور اور تہلکہ مچا دیا ہے.حتی کہ وہ لوگ جو ہمارے مذہب کے مخالف ہیں وہ بھی ایسے رنگ میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسطرح کوئی احمدی بھی نہیں کر سکا.لندن میں جب اس ظلم کے خلاف اظہار نفرت کا جلسہ ہوا تو اس جلسہ میں یکے بعد دیگرے تین معزز اور بااثر پادریوں نے تقریریں کیں.ان میں سے ایک نے کہا ۱۹ سوسال ہوئے جب حضرت مسیح آئے تھے اس وقت ان کے حواریوں نے جو قربانیاں کیں.ان کی مثال اگر کہیں نظر آتی ہے تو اس زمانہ کے احمدیوں میں.اسی طرح سب نے نہایت زور دار تقریریں کیں اور انہوں نے کہا کہ یہ شہادت صرف احمدیت کے لئے نہیں بلکہ اس اصل کی خاطر ہے کہ انسان سچائی کو کسی دوسرے کے کہنے اور جبر کرنے پر نہیں چھوڑ سکتا.یہ تو اس واقعہ کا موجودہ اثر ہے.آئندہ کے لئے میرے نزدیک یہ واقعہ اور بھی زیادہ اثر اور اہمیت پیدا کرنے والا ہے.اور اس کے متعلق حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی
259 بھی ہے.جس کی طرف اب میرا خیال نہیں گیا بلکہ جب وہ شائع کی گئی تھی اسی وقت میرا یہی خیال تھا جواب ہے.وہ پیشگوئی یہ ہے." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تذکرۃ الشہا دتین صفحہ ۵۵ میں سید عبداللطیف صاحب شہید کے واقعہ شہادت ذکر کر کے فرماتے ہیں.و میں نے ایک کشفی نظر میں دیکھا کہ ایک درخت سرو کی ایک بڑی لمبی شاخ جو نہائیت خوبصورت اور سرسبز تھی ہمارے باغ میں سے کاٹی گئی اور وہ ایک شخص کے ہاتھ میں ہے تو کسی نے کہا کہ اس شاخ کو کو اس زمین میں جو میرے مکان کے قریب ہے اُس بیری کے پاس لگا دو جو اس سے پہلے کائی گئی تھی اور پھر دوبارہ اُگے گی اور ساتھ ہی مجھے یہ وحی ہوئی کہ کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب کی شہادت کے بعد ہوا.اور اس میں ایک خبر دی گئی ہے.” جب یہ الہام لکھا گیا.اس وقت بھی اور بعد میں بھی جتنی دفعہ میں نے اسے پڑھا یہی سمجھا کہ یہ اور واقعہ کے متعلق ہے.صاحبزادہ صاحب مرحوم کے متعلق نہیں.کیونکہ وہ تو شہید ہو چکے تھے اور جب شہید ہوئے ہماری طرف ہی تھے.اس وجہ سے میرا خیال تھا کہ کوئی اور واقعہ ہوگا.وو چنانچہ اب جبکہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کا واقعہ ہوا تو خدا تعالیٰ نے سامان بھی ایسے پیدا کئے کہ وہ بہشتی مقبرہ جس کے بنانے کی یہ غرض ہے کہ جماعت کے صلحاء اس جگہ جمع ہوں.اس میں شہید کا کتبہ لگا دیا گیا.اور اس طرح ثابت ہو گیا کہ موجودہ زمانہ میں صلحاء جہاں جمع ہیں.وہاں اسے لایا گیا...حضرت مسیح موعود کو جو رویا دکھائی گئی وہ بھی عجیب ہے.اس میں آپ کو سرو کی شاخ دکھائی گئی اور کہا گیا کہ اسے اس بیری کے پاس لگا دو.جو اس سے پہلے کائی گئی تھی.اس سے بھی ظاہر ہے کہ سرو کی شاخ اور تھی اور اس سے پہلے ایک بیری کاٹی گئی تھی.سرو کی شاخ
260 اور بیری کا درخت بھی اپنے اندر عجیب حکمت رکھتے ہیں.بیری جو پہلے کاٹی گئی تھی اس سے مراد سید عبداللطیف صاحب تھے.انہیں بیری قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ پھل دار یعنی صاحب اولاد تھے.اور سرو کی شاخ سے یہ مراد تھی کہ بیری کے بعد جو شاخ کاٹی جائے گی وہ پھل دار نہیں ہوگی.چنانچہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی ابھی شادی تک بھی نہ ہوئی تھی کہ شہید کر دیئے گئے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سرو کی شاخ جو کائی گئی اس سے مراد یہی تھے.پھر الہام کے یہ الفاظ کہ کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا یہ بھی عجیب ہیں.بائیل میں آتا ہے کہ جب حضرت لوط کی قوم کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ تباہ ہونے والی ہے.تو انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کی.کیا تو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا.شاید پچاس صادق اس شہر میں ہوں.کیا تو اسے ہلاک کرے گا.اور ان پچاس صادقوں کی خاطر جو اس کے درمیان ہیں اس مقام کو نہ چھوڑے گا.ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہو جائیں.یہ تجھ سے بعید ہے کہ تمام دنیا کا انصاف کرنے والا انصاف نہ کرے گا.اور خداوند نے کہا کہ اگر میں شدوم میں شہر کے درمیان پچاس صادق پاؤں تو میں ان کے واسطے تمام مکان کو چھوڑ دوں گا.تب ابرہام نے جواب دیا اور کہا کہ اب دیکھ میں نے خداوند سے بولنے میں جرات کی اگر چہ میں خاک اور راکھ ہوں.شاید پچاس صادقوں سے پانچ کم ہوں کیا ان پانچ کے واسطے تو تمام شہر کو نیست کرے گا اور اس نے کہا اگر میں وہاں پینتالیس پاؤں تو نیست نہ کروں گا...تب اس نے کہا میں منت کرتا ہوں کہ خداوند خفا نہ ہوں.تب میں فقط اب کی بار پھر کہوں.شاید وہاں دس پائے جائیں.وہ بولا میں دس کے واسطے بھی اُسے نیست نہ کروں گا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک بندوں کے اپنی قوم سے تعلقات قائم رہتے ہیں اور ان کی وجہ سے قوم عذاب الہی سے بچ سکتی ہے.حضرت مسیح موعود کے الہام میں جو کاٹا گیا
261 ، کے الفاظ ہیں.ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کے لئے ایک وقفہ ہے.جس کے بعد اس کے لئے عذاب مقدر ہے.ورنہ شہید اپنی قوم سے کاٹے نہیں جاتے بلکہ ان کا تعلق قائم رہتا ہے.یہ قطع تعلق وقفہ پر دلالت کرتا ہے.اور اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ وقفہ ہو جس میں آبپاشی ہوا ور اور شاخیں پیدا ہوں.پھر اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاخیں یہاں تیار ہوں کیونکہ یہ کہا گیا ہے کہ اس شاخ کو یہاں لگا دو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بارے میں اسکیم یہاں سے تیار کر کے بھیجنی پڑے گی.پس یہ رویا نہ صرف ایک عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے.اور یہ الہام نہ صرف ایک اور واقعہ شہادت کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ایک وقفہ ہوگا.اور اس بارے میں یہاں سکیم تیار کرنی چاہئے.اب موجودہ زمانہ میں ایسا ہی ہے.گو مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کا واقعہ ایسا درد ناک واقعہ ہے.کہ جب بھی اس کی طرف خیال کیا جائے.طبیعت بے چین ہو جاتی ہے.لیکن اگر کام کرنے والا انسان ہو تو اس کا فرض ہے کہ اپنے جذبات کو سنبھالے اور انہیں قابو میں رکھے.اسی طرح اگر کسی قوم نے کام کرنا ہو تو اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنے جذبات اور احساسات کو روک کر رکھے.آنکھوں کے آنسو خدا تعالیٰ نے ایسا پانی پیدا کیا ہے کہ جو دل کی آگ کو بجھائے.مگر جب انسان کا منشا یہ ہو کہ دل کی آگ کو بجھانا نہیں بلکہ اور زیادہ بھڑکانا ہے تو ضروری ہے کہ آنسوؤں کو روکے.بے شک بچہ کی موت پر انسان روسکتا ہے کیونکہ بچہ کی یاد کو قائم رکھنے والی کوئی چیز نہیں.اور اس وجہ سے اس کی موت نے جو آگ پیدا کی ہے.اسے بجھنے دینا چاہئے.اسی طرح میاں بیوی کے مرنے پر اور بیوی میاں کے مرنے پر رو سکتے ہیں.اور اپنی آنکھ کے آنسوؤں سے جدائی کی آگ کو کم کر سکتے ہیں.مگر وہ شخص جس نے خدا کو جان دی وہ خدا کے رستہ میں مارا گیا اس کے نام اور کام کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا.اس کا یاد رکھنا ہمارا فرض اور بہت بڑا فرض ہے.اور جن لوگوں نے جن خیالات اور احساسات نے جس گندی تربیت نے ، جن غلط عقائد نے اس کے قتل کی
262 تحریک کی.اگر ان خیالات ، اس تربیت اور ان عقائد کو مٹانا ہمارا فرض ہے تو ضروری ہے کہ ہم اس واقعہ کو ہر وقت یا درکھیں.اور اس کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ اس کے ذریعہ اپنے اندر جوش پیدا کریں اور پھر اس جوش کو دبائیں نہ کہ آنسوؤں کے ذریعہ نکل جانے دیں..چونکہ نعمت اللہ خان صاحب شہید کی شہادت دین کی خدمت کے لئے ہوئی ہے اس لئے باوجود طبائع میں جوش اور طبیعت کے رقت کی طرف فطرتاً مائل ہو جانے کے جہاں ایسا موقعہ ہو.وہاں اس جوش اور رقت کو دبانا چاہئے.ورنہ اس کے یہ معنی ہونگے کہ ہم اس جوش کو مٹانا چاہتے ہیں جو اس واقعہ نے پیدا کیا ہے.”دیکھو دوران لڑائی میں کوئی شخص نہیں روتا.خواہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا بیٹا ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہو یا اس کا بھائی ریزہ ریزہ ہو رہا ہو یا اس کے باپ کی گردن دشمن اتار رہا ہو.ہاں لڑائی کے بعد اس کے آنسو نکلیں گے کیونکہ آنسو اسبات کی علامت ہیں کہ کام ہو چکا.اب آرام کا وقت ہے.پس ہمیں اپنے آنسوؤں کو اس وقت تک روکنا چاہئے.جب تک ہم اس واقعہ کے حقیقی انتقام سے فارغ نہ ہو لیں جس کا لینا ہر ایک مومن کا فرض ہے..”خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَلَا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتاً بل احیاء کہ شہید مرتا نہیں.جہاں خدا تعالیٰ کے اس کلام میں ایک نہایت لطیف امر کی طرف اشارہ ہے.وہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جن کے کام کی شراکت کرتے ہوئے شہید جان دیتا ہے.وہ چونکہ اس کے کام کو جاری رکھتے ہیں.اس لئے وہ زندہ ہوتا ہے.پس ہمیں اپنے جوشوں اور جذبات کا مفید استعمال کرنا چاہئے.نہ کہ آنسو بہا کر آرام حاصل کرنا چاہئے.یا د رکھو کہ وہ پانی جو بہ گیا وہ بہ گیا لیکن جسے روک لیا جائے وہ بڑے بڑے عظیم الشان کام کرتا ہے.پس یہ جذبات جو واقعہ شہادت سے ہمارے اندر پیدا ہوئے ہیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور وہ خیالات نا پاک، وہ عقائد باطلہ اور وہ تربیت خراب جس کی وجہ سے اس قسم کے واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں ان کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جانا چاہئے.میرے نزدیک کابل کے علماء یا امیر امان اللہ خان صاحب یا امیر حبیب اللہ خان
263 صاحب یا امیر عبدالرحمن خان صاحب مولوی نعمت اللہ خان صاحب ، صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب اور ملا عبد الرحمن کے قتل کرنے والے نہیں ہیں.بلکہ ان کے اصل قاتل وہ گندے خیالات اور وہ غلط عقیدے اور وہ خراب تربیت ہے جو ان لوگوں کی ہوئی.اگر ان باتوں کو بدل دو تو کیا اس کے ساتھ ہی یہ لوگ بھی بدل نہ جائیں گے....ہمارے جو بھائی کابل میں شہید کئے گئے ہیں ان کا انتقام لینا ہم پر فرض ہے.مگر آدمیوں سے نہیں بلکہ وہ انتقام ان بد خیالات اور ان جہالتوں سے لینا ہے.جو کابل میں پھیلی ہوئی ہیں.اور وہ انتقام یہی ہے کہ ان غلط خیالات اور بد عقائد کو مٹائیں جن کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں.‘ (۴۸) مولوی نعمت اللہ خان احمدی شہید کی سنگساری پر ہندوستان اور بیرون ہند اخبارات ور سائل کے تبصرے کا بل میں قابل فخر نعمت اللہ کی شہادت، کابل کی سنگلاخ زمین میں ایک اور بے گناہ کا خون، احمدیوں کے ساتھ کابل کا وحشیانہ سلوک اخبار الفضل 9 ستمبر ۱۹۲۴ ء یوم سہ شنبہ لکھتا ہے کہ کابل کی جابر اور ظالم حکومت نے ہمارے نہایت ہی عزیز اور مکرم بھائی نعمت اللہ خان کو محض احمدی ہونے کی وجہ سے نہایت وحشیانہ طریق سے سنگسار کر کے شہید کر دیا.اس وقت تک ہمیں جو اطلاع پہنچی ہے یہ ہے کہ...یکم اگست ۱۹۲۴ء کو یہ ظالمانہ قتل کیا گیا.اس معصوم اور بے گناہ قتل کی تفاصیل جب معلوم ہوں گی.اس وقت بیان کی جائیں گی.حکومت کا بل اپنی بداعمالیوں اور بد کرداریوں کی وجہ سے ان دنوں جن مصائب اور آلام میں گھری ہوئی ہے اور جن کا کچھ نہ کچھ اخبارات میں ذکر آتا رہتا ہے.ان سے مخلصی پانے اور عوام کو جنہوں نے امیر کابل کے احمدی ہونے کی افواہ بھی اڑائی تھی.مطمئن کرنے کے لئے ہمارے بھائی کے خونِ ناحق سے اپنے ہاتھ رنگے گئے ہیں.اور اس غریب اور بیکس کے متعلق یہ سمجھ کر کہ دنیا میں اس کی داد فریاد سننے والا کون ہے.اپنی بداعمالیوں کی پردہ پوشی کے لئے اسے قربان کیا گیا ہے.
264 لیکن جابر اور ظالم قاتلوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ گو اس وقت دنیاوی لحاظ سے اس بے گناہ کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے والا کوئی نہیں ہے.لیکن اس خون کے دھبے تاقیامت ان کی آستینوں سے چھٹ نہیں سکتے اور یہ قتل رنگ لائے بغیر نہیں رہے گا.کیا سرزمین کا بل کو یاد نہیں کہ حضرت سید عبداللطیف صاحب کو شہید کرنے والوں کا کیا انجام ہوا اور ان کی ہلاکت اور تباہی کیسے عبرت ناک طریق سے ہوئی...سید صاحب شہید تو خوشی اور مسرت کی حالت میں نہایت اطمینان اور سکینت کے ساتھ اپنی جان جان دینے والے کے سپرد کرتے ہیں اور اس میں ایسی لذت اور اتنا سرور پاتے ہیں کہ کسی قسم کی تکلیف اور رنج کے آثار بھی ان کے بشرہ پر ظاہر نہیں ہوتے لیکن ان کے قاتل اور قتل میں مؤید نہایت حسرت اور اندوہ کے ساتھ کیفر کردار کو پہنچتے ہیں.شہید مرحوم کے قاتلوں کو دنیا جانتی ہے اور تا قیامت ان کی جفا کاری اور ستم شعاری پر لعنت بھیجتی رہے گی...اس نمونہ اور اس عبرت ناک مثال کے موجود ہوتے ہوئے موجودہ والٹی کا بل نے وہی راہ اختیار کی جو اس کے باپ اور دادا نے اختیار کر کے اپنی عاقبت خراب کر لی تھی اور نہایت بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ نعمت اللہ خان کو قتل کرا دیا ہے.اس قتل پر ہماری ساری جماعت کو صدمہ ہوا ہے اور بے انتہاء صدمہ ہوا ہے کیونکہ ہمارا ایک ایسا بھائی ہم سے جدا ہو گیا جو دین کی خاطر اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر کابل کی سنگلاخ زمین میں مردانہ وار داخل ہوا تھا اور خاص دارالسلطنت میں رہ کر حق کی اشاعت اور صداقت کی تبلیغ کرنے پر کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی اسے مرعوب نہ کر سکی.اس کی یہ مثال یہ جرات ، یہ حوصلہ اور یہ فدا کاری، ہمارے اندر جوش اور ولولہ پیدا کرتی اور ہماری ہمتوں اور ارادوں کو خطرات کے مقابلہ میں بلند ہونے کی دعوت دیتی تھی.لیکن اس شہادت نے..ہمارے دلوں میں کسی قسم کا خوف ، کوئی خطرہ ، کوئی ڈریا کسی نوع کی مایوسی پیدا کرنے کے بجائے ایسی پر زور لہر پیدا کر دی ہے جو....حضرت سید عبداللطیف صاحب مرحوم کی شہادت سے پیدا ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
265 کو جب حضرت سید صاحب شہید کی شہادت کی خبر پہنچی تو حضور کو بہت ہی صدمہ اور تکلیف ہوئی.لیکن اس لمحہ جن اصحاب نے حضور کی حالت دیکھی.انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس خبر سے آپ کو ایک قسم کی مسرت اور خوشی بھی تھی اور وہ اس لئے کہ ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے ایسے ثابت قدم اور جری انسان ہیں.جو دین کے مقابلہ میں دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے نہ تو مرعوب ہو سکتے ہیں اور نہ اپنی جان کے خوف سے حق کو چھوڑ سکتے ہیں.ان کے لئے جان دے دینا آسان ہے.بہ نسبت اس کے کہ جو صداقت انہوں نے قبول کی ہے.اسے ترک کریں اور یہ بات جماعت کے لئے نہایت ہی فخر اور خوشی کی بات ہے.دوسری وجہ حضور کی مسرت کی یہ تھی کہ سچی جماعتیں دنیا میں اسی وقت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں.جب ان پر مصائب آئیں تو ثابت قدمی دکھائیں اور خدا کے لئے جان تک قربان کر دینا ان کے لئے کوئی بڑی بات نہ ہو...آج ہم اس الم ناک واقعہ کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں.اور جب کبھی خدا کی راہ میں جان دینے والوں کا ذکر ہو گا.اس مبارک وجود کو پیش کریں گے..ہمارے محترم بھائی کو قتل کرنے والے ظالموں اور سفاکوں نے سمجھا ہو گا کہ ہم نے اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا.اور اس کا نام ونشان دنیا سے مٹا دیا لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے.کیونکہ شہید مرحوم مرا نہیں بلکہ زندہ ہو گیا اور ایسا زندہ ہوا کہ ہماری جماعت کے ہر ایک مرد و عورت میں زندگی کی روح پھونک گیا.اور بتا گیا کہ حقیقی زندگی اور ہمیشہ کی زندگی وہی ہے جو مجھے حاصل ہوئی ہے.جیسا کہ ہر ایک کو زندگی بخشنے والا اور زندہ رکھنے والا خدا فرماتا ہے.وَلَاتَّقُولُوا لِمَن يُقْتَل فِي سَبِيلِ الله اَمْوَات بَلْ أَحْيَاء (سورة البقره آیت ۱۴۹) خدا کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ مت کہو.وہ زندہ ہیں.پس جس موت کو خدا تعالیٰ حیات قرار دے اور جس قتل کو خدا تعالیٰ زندگی فرمائے.اس کے متعلق کیا شک وشبہہ رہ جاتا ہے.(۴۹) اگر چہ حکومت کا بل نے ہمارے نہایت ہی محترم اور عزیز بھائی مولوی نعمت اللہ خان
266 صاحب کو بغیر کسی جرم اور قصور کے محض احمدی ہونے کی وجہ سے سنگساری جیسی...مزا دے کر ہمارے کلیجوں کو چھلنی اور ہمارے سینوں کو زخمی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور اس حادثہ جا نگاہ اور اس واقعہ روح فرسا سے ہمیں بے حد رنج وغم پہنچا ہے.لیکن اس الم ناک واقعہ کے بعض پہلو ایسے بھی ہیں جو ہمارے لئے نہایت ہی فخر اور خوشی کا موجب ہیں.اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ یہ خونِ ناحق ہماری جماعت اور سلسلہ کے لئے نہایت ہی بابرکت اور مفید ثابت ہوگا.انشاء اللہ تعالی - خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ عسی آن تـکــر هوا شيئاً وهو خير لكم کہ بہت ممکن ہے کہ ایک بات جو تمہیں....ناگوار معلوم ہوتی ہو.اپنے انجام اور اثرات کے لحاظ سے تمہارے لئے خیر اور بھلائی کا موجب ہو.یہ ارشاد خداوندی ایسے ہی واقعات کے متعلق ہے جو اپنی ظاہر شکل وصورت میں سخت تکلیف دہ اور رنج افزا ہوں لیکن ان کے پس پردہ کامیابی و کامرانی و شادمانی اور با مرادی چھپی ہوئی ہو.انسان اپنے جذبات اور احساسات کے لحاظ سے ان سے دکھ اور تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن وہ دراصل قوم اور جماعت کی سر بلندی اور سرافرازی کی بنیا د ہوں وہ اپنے فوری اور ظاہری اثر کے لحاظ سے دل کو پژمردہ اور روح کو بے چین کر دینے والے ہوتے ہیں لیکن انجام اور عاقبت کے لحاظ سے خوشی اور مسرت کا مژدہ سناتے ہیں.اس قسم کے واقعات میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کا واقعہ سنگساری بھی ہے...حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ان چند الفاظ نے جو حضور نے اس حادثہ کے متعلق لندن سے تحریر فرمائے ہیں اور جو ۴ اکتوبر کے الفضل میں شائع ہو چکے ہیں.ہمارے سامنے اس کے روشن پہلوؤں کو نمایاں کر دیا ہے اور ہم پر ظاہر کر دیا ہے.کہ ہمارا کام سلطنت کا بل کے اس....فعل کے خلاف اظہار رنج و غم ہی نہیں بلکہ اصل اور حقیقی کام اور ہے.جو یہ ہے کہ ہمیں اپنی پوری توجہ اس کام کے جاری رکھنے کے لئے کرنی چاہئے جس کی خاطر مولوی نعمت اللہ خان صاحب نے جان دی ہے اور ہمیں ان لوگوں کی یاد کو تازہ رکھنا ہے.تا کہ ہمارے تمام افراد میں قربانی کا جوش پیدا ہو...
267 ہمیں افغانستان کی گورنمنٹ اور اس کے فرمانروا کے خلاف دل میں بغض نہیں رکھنا چاہئے بلکہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اب بھی ان کو ہدایت دے (۵۰) ’’ان ہی ایام میں....کابل کے علاقہ میں بغاوت پھیلی ہوئی ہے.باغی ، حکومت کے خلاف باقاعدہ جنگ و جدال کر رہے ہیں.اور حکومت کو بہت کچھ نقصان پہنچا چکے ہیں.جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے.اس کے مقابلہ میں سلطنت جو کچھ کر رہی ہیں.وہ یہ ہے کہ بار بار ان کی منتیں کرتی ہے.اور باغیوں کی اسے اس قدر خاطر منظور ہے کہ چند ہی دن ہوئے اخبارات میں جب یہ خبر شائع ہوئی کہ سلطنت کا بل باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی تیاری کر رہی ہے.تو اس کی خاص طور پر تردید کی گئی اور کہا گیا کہ اس قسم کا کوئی ارادہ نہیں ہے.' حکومت کابل کا باغیوں کے مقابلہ میں اور ان باغیوں کے مقابلہ میں جو سلطنت کا تختہ الٹ دینے اور موجودہ حکمران کو مٹا دینے کے لئے کوشش کر رہے ہیں یہ حال ہے.لیکن ایک با امن اور حکومت کی اطاعت اپنا مذہبی فرض سمجھنے والے احمدی کو نہایت دردناک طریق سے قتل کیا جاتا ہے کیوں؟ کیا ان باغیوں کی نسبت جو موجودہ امیر کا بل کی جگہ ایک اور شخص کو تخت پر بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور موجودہ حکومت کو الٹ کر اس کی جگہ نئی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں.ایک اکیلا احمدی مولوی نعمت اللہ خان مسکینی اور بے چارگی کی حالت میں بسر اوقات کرتا ہوا زیادہ خطرناک اور زیادہ نقصان رساں تھا کہ اسے وحشیانہ طریق سے قتل کرنا ضروری سمجھا گیا.نہیں ! بلکہ اس کی بیکسی اور بے بسی نے ہی ظالموں اور سفاکوں کو قتل کی جرات دلائی اور اس کے احمدی ہونے کی وجہ سے ہی اسے باغیوں کو خوش کرنے کے لئے قربان کر دیا گیا.ورنہ اگر حکومت کابل میں کچھ بھی انسانیت ہوتی اور ذرا بھی جو ہر مردانگی رکھتی تو ایسا شرمناک اور بزدلانہ فعل کبھی اس سے سرزد نہ ہوتا وہ باغیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتی اور ان کی شورش کو جرات اور دلیری سے دباتی لیکن شمشیر به کف باغیوں اور جانباز فسادیوں کے مقابلہ میں اس وقت تک جن حیلہ بازیوں سے وہ کام لے رہی ہے.انہی میں سے ایک ہمارے
268 بے گناہ اور معصوم بھائی نعمت اللہ خان کا قتل بھی ہے جو باغیوں کی اس افواہ کی تردید کے لئے کیا گیا ہے کہ امیر کا بل احمدی ہو گیا ہے.لیکن اسے یادر ہے یہ خونِ ناحق اسے تباہی اور بربادی کے گڑھے سے بچانے کا موجب نہیں ہو گا.بلکہ اور زیادہ قریب کر دے گا اور وہ دن آئے گا جب اس قسم کی ستم رانیوں کا اسے دردناک خمیازہ بھگتنا پڑے گا.(۵۱) سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور نے اپنے ۱۵ ستمبر ۱۹۲۴ء کے پرچہ میں جو کچھ انگریزی زبان میں شائع کیا.اس کا اردو تر جمہ درج ذیل ہے: افغان عدالتوں کا اصل فیصلہ جس میں مولوی نعمت اللہ خاں احمدی کو سزائے موت کے قابل مجرم قرار دیا گیا ہے ہم نے گذشتہ اشاعت میں ایک افغان اخبار سے نقل کیا تھا.یہ فیصلہ جس کے اصلی ہونے میں شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں.مقدمہ کو پہلے سے بھی بدتر رنگ میں ظاہر کرتا ہے اور ان لوگوں کے لئے جو افغانستان کی ترقی اور نئی روشنی سے متاثر ہونے کے معتقد ہیں.یقیناً بہت بڑی نا امیدی کا باعث ہوگا.اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ سزا یافتہ مولوی امیر کے خلاف ضرور کسی پولیٹکل سازش میں مبتلا پایا گیا ہو گا.مگر فیصلہ عدالت میں اس قسم کے کسی الزام کا ہرگز ذکر نہیں بلکہ اسے صرف اس کے مذہبی خیالات اور عقائد کی بناء پر مجرم قرار دیا گیا ہے.حقیقت تو یہ ہے کہ سارا فیصلہ ایک ایسے جاہلانہ مذہبی تعصب سے لبریز نظر آتا ہے.کہ جس کے امکان کا تصور بھی بیسوی صدی میں مشکل سے ہوسکتا ہے.یہ بات بے شک باور کی جاسکتی ہے کہ اس مقدمہ کی تہہ میں ایک پولیٹکل تحریک تھی یعنی در حقیقت اس کا موجب وہ عنصر ہوا جس کو خوش کرنے اور جس کی مخالفت کو موافقت سے بدلنے کا امیر کو خاص فکر ہے.کیونکہ اس کی اصلاحات پر ان بے حد متعصب لوگوں کی طرف سے خلاف شرع اسلام ہونے کا الزام لگایا گیا ہے.ہم کہتے ہیں کہ اگر امیر کا منشاء اپنی سلطنت کے ان بڑھتے ہوئے متعصب لوگوں کو خوش کرنا ہی تھا تو یہ بات اس نے اس نیک نامی کو قربان کر کے حاصل کی ہے جو اس کی
269 گورنمنٹ کو ترقی یافتہ ہونے اور مذہبی رواداری کے لئے حاصل ہو سکتی تھی.ہمیں احمد یہ جماعت کے مختلف مرکزوں سے احتجاج کے جلسے ہونے کی متواتر رپورٹیں آ رہی ہیں اور ہمیں اس بات پر ہر گز حیرانگی نہیں کہ ان کے لئے یہ واقعہ ایک گہرے صدمے اور بے چینی کا موجب ہے.....افغانستان کو احمدیوں کے خلاف جو یہ عناد ہے اس کا سمجھنا ایک مشکل امر ہے.خصوصاً جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ فرقہ جو احمد یوں کے نام سے ہندوستان میں موسوم ہے ایک امن پسند اور اشتعال انگیزی سے بالکل متبر ا فرقہ ہے (۵۲) اخبار وکیل نے اپنے ۲۷ ستمبر ۱۹۲۴ ء کے پرچہ میں مولوی نعمت اللہ خان کی سنگساری کے صحیح واقعات کا علم ہونے پر بہت جرات سے ایک پر زور لیڈنگ آرٹیکل شائع کیا اور اظہار حق اور تائید صداقت بہت واشگاف الفاظ میں کی.اس نے لکھا: - ”ہم نے وکیل کی کسی گذشہ اشاعت میں ایک احمدی کو سنگسار کیا گیا“ کے عنوان سے ایک نوٹ سپر د قلم کیا تھا.جس میں افغانستان کے روشن دل اور آزاد خیال حکمران سے محض احمدیت کی بناء پر کسی کو رجم جیسی انتہائی سزا دینا مستعبد بتایا تھا.افغانستان کے طول و عرض میں ہندوؤں کے مذہبی جذبات وحیات کا احترام کرتے ہوئے گاؤ کشتی کے امتناع ، سکھوں کو رسوم مذہبی کے ادا کرنے میں کافی آزادی وغیرہ روا دارانہ امور کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا گیا تھا کہ اسلامی فرقوں سے اس درجہ سخت گیری کا برتاؤ کیونکر روا رکھا گیا ہے.اس کے علاوہ یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ شائد تبلیغ احمدیت کی وجہ سے جسے افغانی قوم کی اشتعال پذیر طبائع کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں ممنوع قرار دیا گیا ہے.یہ سنگساری عمل میں آئی ہوگی.یہ جو کچھ ہم نے لکھا تھا اس حسن ظن کی بناء پر لکھا تھا جو ہمارے دل میں شہر یار افغانستان کی نسبت جاگزین ہے.لیکن ہنوز کوئی مقامی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی.
270 اس کے بعد افغانستان کی شرعی عدالت کا فیصلہ اخبار ”حقیقت“ کی وساطت سے پہنچا.جس کا مخلص ہم ذیل میں درج کرتے ہیں: دود کچھ عرصہ سے شیر پور کی حدود میں ایک شخص مسمی نعمت اللہ قادیانی اسلام اور شریعت و مذہب حنفیہ کے مسلمہ عقائد کے خلاف خیالات بیان کر رہا تھا.اور لوگوں کو اپنے باطل عقائد کی طرف دعوت بھی دیتا تھا.یہ شخص محکمہ شرعیہ ابتدائیہ ومحکمہ مرافعہ مرکزی کابل کے علماء اعلام کے فیصلہ کے مطابق سنگسار کر دیا گیا.ور محکمہ شرعیہ ابتدائیہ کابل میں ملا نعمت اللہ ولد امان اللہ کو قوماندان کو توالی نے پیش کیا.اس پر مرزا غلام احمد کے پیرو ہونے کا الزام لگایا گیا.اس شخص نے مذہب حنفی کے پیرو ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود کہا کہ مرزا غلام احمد مذکور مسیح موعود اور مہدی معہود اور نبی ظلی یعنی فنافی الرسول ہے.اور حضرت عیسی روح اللہ علی نبینا وعلیہ السلام جسمانی صورت میں زندہ نہیں ہیں.نہ وہ نازل ہو نگے.اس شخص نے ان تمام معتقدات کا پیرو ہونے کا اقرار کیا جن کے معتقد مرزا غلام احمد قادیانی تھے ملا نعمت اللہ کا ان کتابوں کی حقیقت پر ایمان رکھنا.امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے مذہب کی رو سے کفر و الحاد ہے پس مذہب ابو حنیفہ کے اصول کے مطابق ایسے شخص کی سزا قتل ہے.اس کے بعد عدالت مرافعہ نے بھی یہی فیصلہ بحال رکھا اور ہیئت عالیہ تمیز نے بھی مصرحہ تحت الفاظ میں تصدیق کی محاکمات شرعیہ کے مطابق یہی فیصلہ صحیح ہے.نعمت اللہ مذکور کو جم غفیر کے سامنے رجم و سنگسار کیا جائے یہ ہے خلاصہ اس فیصلہ کا جو افغانستان کے مفتیوں اور قاضیوں نے یا دوسرے الفاظ میں شرعی عدالتوں نے نعمت اللہ خان احمدی کے خلاف صادر کیا ہے اور جس کے متعلق ہندوستان کے حاملین شریعت نے استحسان کا اظہار کیا ہے.جمیعۃ العلماء دہلی اور علماء دیو نبد نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے.اس فیصلہ کو عین
271 اسلام کے متعلق قرار دیتے ہوئے امیر افغانستان کو تحسین و آفرین کے تار ارسال کئے ہیں.علماء کی شان تو اس سے بالا تر ہے کہ ہم ان کے متعلق کسی قسم کی لب کشائی کی جرات کر سکیں.البتہ ہمیں افسوس ان جرائد اسلامیہ پر ہے.جنہوں نے حکومت افغانستان کی بے جاطر فداری کے جوش میں اس امر کو قطعاً فراموش کر دیا ہے کہ اس غیر اسلامی فیصلہ کو مطابق اسلام قرار دینے سے دین الفطرۃ کے دامن پر بد نما دھبہ تو نہیں لگے گا.یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ افغانستان کے اس فیصلے سے پہلے مسلم معاصرین فرقہ احمدیہ کو ایک اسلامی فرقہ تسلیم کرتے تھے.اور فتنہ ارتداد کے متعلق اس کے افراد کی مساعی حسنہ کو اپنے کالموں میں انتہائی استحسان کے ساتھ درج کیا کرتے تھے.ممالک غیر میں اشاعت اسلام کے متعلق ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان اختلافات کو فرعی قرار دیتے تھے جو احمدی و غیر احمدی مسلمانوں کے عقائد میں موجود ہیں.پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کونسا نیا تغیر فرقہ احمدیہ کے عقائد میں رونما ہو گیا ہے کہ وہ ایک احمدی کو مرتد قرار دینے لگے ہیں.ہم پوچھتے ہیں کہ جو لوگ خدائے قدوس کی توحید پر ایمان رکھتے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے قائل ہیں.قرآن پاک کو کتاب اللہ مانتے ہیں.کعبہ مقدسہ کی جانب نمازیں ادا کرتے ہیں.ہمارے ہاتھ کا ذبیحہ کھا لیتے ہیں.غرض تمام ارکان اسلام میں ہمارے ساتھ متفق ہیں کیا صرف اس بناء پر کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے عصری جسم کے ساتھ آسمان پر جانے کے قائل نہیں اور مرزا صاحب کو فناء فی الرسول شریعہ محمدیہ کا تابع اور ظلی نبی سمجھتے ہیں.انہیں مرتد یا کا فرقرار دینا جائز ہے؟ کیا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادعُلَماءُ أُمتى كَانبیاء بنی اسرائیل کو آپ فراموش کر چکے ہیں.قرآن حکیم کی یہ آیت کہ يا ايها الذين آمنو إِذَا ضربتم في سبيل الله فتبينوا ولا تلقوا لِمَنْ القَى عليكم السلام لست مومنا.....الخ (سورة النساء
272 اس امر کی اجازت دیتی ہے کہ ایسے گروہ کی تکفیر کی جائے.جو سلام کرنا تو در کنار ، قرآن پڑھتا ہے ، نمازیں ادا کرتا ہے، روزے رکھتا ہے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے اسوہ حسنہ پر مواظبت کے ساتھ عامل ہے.اشاعت اسلام کے لیے ہم سے زیادہ بے چین ہے.کیا ایسے شخص کو جو اس قسم کے ایک اسلامی فرقہ کا ہم خیال ہو جائے اسے مرتد قرار دینا قرین انصاف ہے؟ اگر بفرض محال تھوڑی دیر کے لیے یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ احمدیت ارتداد کے مترادف ہے.تاہم یہ سوال پیدا ہوتا ہے.کہ کیا محض ارتداد کی سزا قتل یا رحم اسلامی تعلیم کی رو سے ثابت ہے؟ قرآن کریم میں تو ارتداد کے لیے کوئی دنیوی سزا نہیں بتائی گئی.البتہ آخرت کی سزا کا ذکر آیا ہے.ارشاد ہوتا ہے: ومن يرتدد منكم عن دينيه - فيمت وهو كافر فاولئك حبطت اعمالهم في الدنيا والآخرة نأو لئک اصحاب النار هم فيها خالدون جو شخص تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے یا مرتد ہو جائے اور اسی حالت میں مر جائے.ایسے لوگوں کے اعمال دنیا و آخرت میں ضائع ہو جاتے ہیں.اور یہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے.’ بجائے اس کے کہ مرتد کی سزار جم یا قتل ثابت ہو.اس آیت میں فیمت کے لفظ پر غور کیا جائے تو رحم وقتل کی صریح نفی نکلتی ہے.یعنی آخرت کی سزا بھی اسی صورت میں اس کو ملے گی کہ وہ ارتداد ہی کی حالت میں فوت ہو جائے اور اگر اپنی طبعی موت سے پہلے دوبارہ تائب ہو کر ایمان لے آئے تو سزائے آخرت سے بھی محفوظ ہو جائے گا.رہی فقہ حنفیہ سوہ بھی...اس خصوص میں رجم وقتل کی موید نہیں اس میں بھی جن حالات میں مرتد کے لیے قتل کی سزا تجویز کی گئی ہے وہ سیاسی ہیں مذہبی نہیں.ہدایہ میں یہ الفاظ ہیں
273 ولا قتل الا بالحراب یعنی مرتد کو قتل کرنا اس حالت میں جائز ہوگا جبکہ وہ حربی ہو.حاشیہ پر اس کی تشریح میں لکھا ہے فَـكـأن القتل ههنا مستزلِمًا للحراب لان الكفر ليس بمبح القتل، قتل کے لیے حربی ہونا ضروری ہے.کیونکہ محض کفر قتل کو مباح نہیں بنا تا.اس سے صاف ظاہر ہے کہ فقہ حنفیہ بھی محض ارتداد کو مستو جب قتل نہیں ٹھہراتی.ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مرتد کی سز اقتل یا رجم کہاں سے نکالی گئی ہے.د و اگر حکومت افغانستان نے کسی سیاسی امر کی بناء پر ایک احمدی کا قتل مناسب خیال کیا تھا تو اسلام کے دامن کو اس سیاہ دھبے سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے تھا.(۵۳) الہ آباد یوپی کے مشہور انگریزی اخبار لیڈر نے اپنے پر چہ مؤرخہ ۲۵ ستمبر ۱۹۲۴ ء میں لکھا کہ نعمت اللہ خان کی ہلاکت کے لیے جو خلاف انسانیت اور انتہائی درجہ کا سفا کا نہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے.وہ یقیناً ساری دنیا کی مہذب اقوام کے دل کو ہلا دیگا.ایک احمدی نامہ نگار کا بیان ہے کہ اس غریب کو کابل کی تمام گلیوں میں پھر ایا گیا پولیس اس کے ساتھ ساتھ اعلان کرتی گئی کہ اسے کفر کے جرم میں سنگسار کیا جائے گا.لوگ اکٹھے ہو کر اس کی خوفناک ہلاکت کا مشاہدہ کریں پھر اسے کابل چھاؤنی میں ایک کھلی جگہ لے جا کر کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا تب کابل کے مفتی نے اس پر پہلا پتھر پھینکا.اس کے بعد چاروں طرف سے اس بیچارے پر پتھروں کی بارش ہونے لگی.جو اس وقت تک برابر جاری رہی جب تک کہ وہ پتھروں کے ایک بڑے ڈھیر کے نیچے دب نہ گیا.قتل کا یہ وحشیانہ طریقہ کا بل کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم سے عمل میں لایا گیا.جس نے حکم دیا تھا کہ عوام الناس کی موجودگی میں اسے سنگسار کر کے ہلاک کیا جائے.جس ملک میں لوگوں کو ضمیر کی آزادی حاصل نہ ہو اور جہاں انسان کو مذہبی اختلاف کی وجہ سے ایسی وحشیانہ اور انتہائی سزا دی جائے وہ ملک ہرگز مہذب
274 کہلانے کا دعویٰ نہیں کرسکتا ،‘ (۵۴) سردار محمود طرزی سابق وزیر خارجہ افغانستان کا بمبئی میں بیان سردار محمود طرزی جو پیرس میں افغانی سفیر مقرر تھے 19 ستمبر کو وہ بمبئی پہنچے ہیں.مولوی نعمت اللہ صاحب شہید کے قتل کے متعلق انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک اختلاف عقا ئد قتل کی وجہ نہیں ہوسکتی کیونکہ کابل میں تمام مذاہب کے لوگوں کو آزادی دی گئی ہے.(۵۵) انگلستان کے اخبار ڈیلی میل کے نامہ نگار کابل کی رپورٹ مولوی نعمت اللہ خان شہید کا آخری دم تک استقلال اخبار ڈیلی میل تحریر کرتا ہے....." کابل ۲۶ ستمبر.چند دن گزرے کا بل کی چھاؤنی شیر پور کی حدود میں ایک شخص جس کا نام نعمت اللہ قادیانی تھا.جو اپنے مذہبی خیالات عام اسلامی عقائد اور امام ابوحنیفہ کے فیصلہ کے خلاف رکھتا تھا اور قادیانی عقائد کی تلقین کرتا تھا.عدالت ما تحت- عدالت اپیل اور عدالت اعلیٰ کے علماء کے فتویٰ کے مطابق جو اس پر لگایا گیا.سنگسار کر کے ہلاک کر دیا گیا ایک بہت بڑا مجمع اس فتوی کو عمل میں لانے کا نظارہ دیکھنے کے لیے جمع ہو گیا.مگر وہ شخص با وجود اپنے نہایت ہی خوفناک انجام کے جو اس کا انتظار کر رہا تھا.نہایت مضبوطی اور پختگی کے ساتھ اپنے عقائد کا اظہار کرتا رہا اور اپنے آخری سانس تک اپنے عقیدہ پر قائم رہا.اسی حالت میں کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کر رہا تھا.اس پر اس کثرت سے پتھروں کی بوچھاڑ برسنی شروع ہو گئی کہ چندلمحوں میں ہی اس کا جسم کلّی طور پر پتھروں کے بہت بڑے تو دے کے نیچے دب گیا.“ کابل کی عدالتوں کی کارروائی کی تفصیل دے کر آخر میں لکھتا ہے : اس کا رروائی کے بعد امیر نے ملک کے دستور کے مطابق اس فیصلہ کی بذات خود تصدیق کی جس کے بعد یہ فیصلہ عمل میں لایا گیا‘ (۵۶)
۱۲ اکتوبر ۱۹۲۴ء 275 سید ممتاز علی صاحب مالک اخبار تہذیب نسواں کا مضمون مولوی نعمت اللہ خان شہید کے بارہ میں بہنوں نے تہذیب میں مولوی نعمت اللہ خان کے سنگسار کئے جانے کی درد ناک خبر بڑے رنج و افسوس سے پڑھی ہوگی.ہر چند یہ خبر کئی اخباروں میں شائع ہوئی.مگر مجھے اس کی صداقت میں شبہہ رہا اور کبھی کبھی یہ خیال دل میں گذرا کہ چونکہ اس زمانہ میں کابل میں بغاوتِ خوست کا فتنہ بپا ہے ممکن ہے مولوی صاحب مرحوم کا کوئی تعلق باغیانِ خوست سے پایا گیا ہو.مگر اب متواتر خبروں کے علاوہ عدالت کا بل کا وہ فیصلہ بھی شائع ہو گیا ہے جس کے رُو سے ان کے خلاف حکم رجم سنگساری عمل میں لایا گیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہاں کی عدالت عالیہ اپیل کے مفتی نے بھی عدالتِ ما تحت کے خونی حکم کو بحال رکھا.مہذب دنیا میں جہاں کہیں بھی اس واقعہ ہائلہ کا ذکر سنا گیا ہوگا اس سے سننے والوں کے دل کانپ گئے ہوں گے اور بدن پر رونگٹے کھڑے ہو گئے ہوں گے.تہذیب و تمدن کے اس زمانے میں جب کہ دنیا کے کونے کونے میں علم و انسانیت کی روشنی پھیلتی جارہی ہے اور امن و امان قائم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں.افغانستان کے اس فرمانروا کے عہد میں جس کا نام امان اللہ خان ہے یہ ہولناک ظلم ہونا.ایسا واقعہ ہے جس نے خلائق کے دلوں کو حیرت اور خوف سے مرعوب کر دیا ہے.سوچنا چاہیے بے چارے نعمت اللہ خان کا کیا قصور تھا.بس یہی نا کہ وہ احمدی عقیدہ رکھتا تھا اور اس عقیدے کا وعظ کہتا تھا ؟ ”ہم نے مانا کہ اس کا عقیدہ غلط تھا اور اسلام کے عقائد مُسلَّمہ کے خلاف تھا.مگر اپنے دلی یقین کو بدل دینا انسان کے بس کی بات نہیں.
276 وو حدیث شریف میں آیا ہے کہ آدمی کا دل مقلب القلوب کی انگلیوں میں ہے.ایسی بے بسی کی حالت کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.لكم دينكم ولى دين تمہارے لئے تمہارا دین میرے لئے میرا دین کابل کی سلطنت میں آخر ہندو بھی تو بستے ہیں عیسائی بھی وہاں جا کر رہتے ہیں.کسی کے عقائد مذہبی سے کچھ تعرض نہیں کیا جا تا...خود اعلیٰ حضرت امیر صاحب کابل نے تخت نشینی کے موقع پر اپنی سلطنت میں ہر قوم کو پوری مذہبی آزادی دینے کا بڑے زور سے اعلان فرمایا تھا.ایسے اعلان کے بعد اس قسم کے دردناک واقعہ کا ظہور میں آنا بے انتہا افسوس کی بات ہے.احمدی فرقے کے مسلمان بالعموم دیندار ، امن پسند ، مرنج و مرنجاں لوگ ہیں.عقائد میں ان کا ہم سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو مگر اسلام کی خدمت جو یہ لوگ کر رہے ہیں سچ تو یہ ہے کہ وہ خدمت ہم مسلمانوں کے کسی اور فرقے سے نہیں ہو سکتی.ملکانہ راجپوتوں میں فرائض تبلیغ جس خوبی سے ان خادمان دین نے ادا کئے ہیں وہ اب تک کسی دوسرے فرقے سے ادا نہیں ہو سکے.پھر ان خدمات کے علاوہ انگلستان اور امریکہ میں احمدی فرقے کے مبلغین خدمات اشاعت اسلام کے باب میں بالکل منفرد ہیں.یہ خدمات مسلمانوں کے اور کسی فرقے سے نہیں ہو سکیں اور اب کوئی کرے گا تو انہیں کی تقلید کرنے والا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ثواب ان نیک بندوں کی مساعی جمیلہ کے لئے لکھا گیا ہو گا وہ اب دوسروں کو ملنا مشکل ہوگا.ایسے مفید و نیک دل گروہ کے مبلغ کو یوں بے دردی سے پتھراؤ کر کے ہلاک کر دیا جائے کتنے شدید و خوفناک ظلم کی بات ہے.اس واقعہ جانکاہ کا ذرا تصور دل میں لاؤ کہ جس وقت اس بے گناہ مظلوم کو میدان میں کھڑا کر کے اُس پر پتھر مارنے شروع کئے ہوں گے اور وہ اس کے منہ اور آنکھوں پر لگے ہوں گے اور سر کی ہڈیاں ٹوٹ کر ہر طرف خون کی دھار میں فواروں کی طرح چل رہی ہوں گی اس وقت اس عاجز بے بس و بیکس کا کیا حال ہوا ہو گا لکھا ہے کہ اس شدید عذاب سے ان کی روح جسم سے مفارقت کر گئی تو ان کے دلفگار رفیقوں نے پتھروں میں سے
277 ان کی نعش نکالنی چاہی تو اشقیا نے انہیں اس کی بھی اجازت نہ دی.نعمت اللہ خان پر جو مصائب اور شدائد گزرنی تھیں گزر چکی وہ اب اپنے مالک حقیقی کے حضور میں اور احکم الحاکمین کے قدموں میں ہے.جہاں شریروں کی شرارت کا کوئی اثر نہیں پہنچ سکتا وہ اب پورے آرام میں ہے.مگر منتقم حقیقی کی بارگاہ میں یہ خون رائیگاں نہیں خاکسار- سید ممتاز علی (۵۷) جائے گا.شیعہ معاصر ذوالفقار اپنے ۱۸ اکتو بر ۱۹۲۳ء کے پرچہ میں لکھتا ہے کہ ” معاصر فرشتہ اس بات پر سیخ پا ہو رہا ہے کہ ہم امیر افغانستان کو متعصب کہتے ہیں.ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کیونکہ اس نے مولوی نعمت اللہ ایک احمدی مسلمان کو صرف احمدی ہونے کی وجہ سے قتل کرنے کا بے رحمی کے ساتھ حکم دیا اور وہ سنگسار کر دیا گیا.اس لئے کہ وہ احمدی مذہب کی کابل میں تبلیغ کرتا تھا.معاصر فرشتہ کا یہ لکھنا کہ وہ احمدی ہونے کی وجہ سے سنگسار نہیں ہوا.یہ معاصر کی بے علمی کی دلیل ہے.مولوی نعمت اللہ خان کا مقدمہ اور تینوں عدالتوں کے فیصلہ جات افغانی اور یورپ اور انڈیا کے تمام اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں کہ مولوی نعمت اللہ خان صرف احمدی ہونے کی وجہ سے سنگسار ہوا ہے اور معاصر خدا جانے کس سوراخ میں بیٹھا ہوا یہ راگ رٹ رہا ہے کہ خوست والوں کا جاسوس تھا اس لئے سنگسار ہوا ہے.ہمیں احمدی صاحبان سے مذہباً کوئی اتفاق رائے نہیں ہے مگر انسانی ہمدردی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم امیر افغانستان کے اس ظالمانہ اور بے رحمانہ فعل پر اظہار رنج اور نفرین کریں اور اس کو متعصب اور مذہبی دیوانہ اور نا قابلِ حکومت اور سلطنت کہیں.کسی والی ملک کا یہ فرض منصبی نہیں ہے کہ وہ اپنے مذہب سے اختلاف رائے رکھنے والے کمزور کسی فرقہ یا شخص کو موت کے گھاٹ اتارتا جائے اور زبر دست قوم کے دباؤ سے دبتا رہے.ہم بحیثیت ایک اخبار نویس ہونے کے امیر افغانستان کے اس فعل کے خلاف یہی الفاظ استعمال کرتے اگر مولوی نعمت اللہ خان کی جگہ پر کوئی ہندو یا سکھ یا یہود و نصاری بھی ہوتا
278 کیونکہ امیر افغانستان اور اس کے علماء صاحب شریعت نہیں ہیں.اس کے مقابلہ میں اسلام کے ۷۲ فرقہ کے مسلمان تصدیق کرتے ہیں کہ امیر اور اس کے علماء اور دیگر اس کے ہم مذہبوں نے شریعت اسلام کو سمجھا ہی نہیں.اندریں حالات وہ کسی کو سنگ باری کی موت مار دینے کا کیا حق رکھتا ہے.جو اس کے مذہب کی تائید نہیں کرتے‘ (۵۸) بمبئی کے اخبار انڈین ڈیلی میل مورخہ ۲۰ ستمبر ۱۹۲۴ء میں یہ خبر شائع ہوئی : لنڈن ۱۸ ستمبر.آج ایک جلسہ ہوا جو انگریزوں اور ہندوستانیوں پر مشتمل تھا.ایسکس ہال ایسکس سٹریٹ سٹرینڈ لنڈن میں نعمت اللہ خان کے کابل میں سنگسار کئے جانے کے متعلق منعقد ہوا.ڈاکٹر والٹر واش نے جو کہ صدر جلسہ تھے بیان کیا کہ ہر وہ شخص جس میں ایک ذرہ بھر بھی انسانیت کا مادہ ہو وہ مذہبی بناء پر تشدد کئے جانے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے گا.خواہ تشدد کیسا ہی ضعیف کیوں نہ ہو.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے نعمت اللہ خان کے قتل کے واقعات بیان کر کے فرمایا کہ شہید مرحوم کے خلاف یہ جرم لگایا گیا ہے.کہ وہ اسلام میں احمدیت سے تعلق رکھتا تھا.شہید کا جسم اس وقت تک پتھروں کے بڑے ڈھیر کے نیچے دبا ہوا ہے اور اس کے والد کو یہ اجازت افغان گورنمنٹ نے نہیں دی کہ وہاں سے اس کے جسم کو نکال کر با قاعدہ دفن کرے.”اس کے بعد ایک ریزولیوشن صدر جلسہ کی طرف سے پیش کیا گیا جس کی کرنل ویلکر اور دو ہندوستانی بیرسٹروں نے تائید کی.اس ریزولیوشن میں جو بہ اتفاق رائے (سے) پاس ہوا یہ قرار پایا کہ ضمیر کی آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے.اور یہ کہ افغان گورنمنٹ کو یہ اطلاع بھیجی جائے کہ یہ مجلس اس گورنمنٹ کے اس فعل کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتی اور نہایت درجہ قابل ملامت سمجھتی ہے تا کہ آئندہ گورنمنٹ کا بل ایسے طریق کے اختیار کرنے سے اجتناب کرے جو کہ دنیا کی
279 مہذب اقوام کی نظر میں حد درجہ قابل نفرین ہے.یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ اس جلسہ کی کارروائی کی اطلاع افغان گورنمنٹ اور لیگ آف نیشن کے پریذیڈنٹ کو دی جائے.‘ (۵۹) بعض مسلمان اخبارات اور متعصب علماء کا نا گوار رویہ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں نا قابلِ تردید ثبوت بہم پہنچائے گئے کہ یہ امر شک و شبہہ سے بالا ہے کہ افغانستان کی حکومت نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب احمدی کو محض ان کے احمدی عقائد اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان رکھنے کی وجہ سے سنگسار کروا دیا تھا لیکن ہندوستان کے بعض اخبارات جو احمدیت سے عناد رکھتے تھے اپنی دشمنی کے اظہار میں حد سے باہر نکل گئے اور انہوں نے باوجود ہر قسم کے ثبوت موجود ہونے کے مندرجہ بالا حقیقت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور دیانتدارانہ صحافت کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر امیر امان اللہ خان کے ظلم و ستم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور قتل کی اس سزا کی ایسی وجوہات تلاش کرنے لگے جن کا وجود ان کے اپنے ذہنوں کی پیداوار تھا.اس سلسلہ میں بعض حوالہ جات قابل ملاحظہ ہیں : اخبار زمیندار لا ہورا اپنے ۱۰ ستمبر ۱۹۲۴ ء کے پرچہ میں لکھتا ہے : وو یہ دعویٰ ہرگز قابل اعتبار نہیں کہ نعمت اللہ خان محض احمدی ہونے کی وجہ سے سنگسار کیا گیا.جہاں تک ہمارا قیاس کام دیتا ہے.اس کی سنگساری کی وجوہ سیاسی ہوں گی اور وہ کسی ایسی سازش یا کسی ایسے منصوبے میں مصروف پایا گیا ہو گا جس سے حکومت افغانستان کو بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی نقصان پہنچنے کا احتمال ہو“ اسی طرح اخبار سیاست لاہور اپنے ۸ ستمبر ۱۹۲۴ء کے شمارہ میں لکھتا ہے : کیسے خیال میں آ سکتا ہے کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو محض میاں محمود صاحب کے مرید ہونے کی وجہ سے قتل کرا دیا گیا ہو.ضرور ہے کہ مولوی نعمت اللہ صاحب نے کوئی
280 ایسی حرکت کی ہوگی جس کی سزا یہی ہوگی کہ اُن کو سنگسار کر دیا جائے (۶۰) اخبار مسلم راجپوت اپنے ۱۰ ستمبر ۱۹۲۴ ء کے شمارہ میں اس شہادت پر رائے زنی کرتے ہوئے لکھتا ہے: افغانستان میں جب سے امیر امان اللہ خان تخت نشین ہوئے ہیں پہلا سا مذہبی تعصب نہیں رہا.سب مذہب کے لوگوں کو آزادی حاصل ہے.ہندو اور سکھ آزادانہ اپنی مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں اور اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کرتے ہیں کسی قسم کا تعرض نہیں.تو باور نہیں آتا کہ کسی شخص کو محض اس وجہ سے کہ وہ احمدی عقیدہ رکھتا ہے.سنگسار کرنے کا حکم صادر ہوا ہو.ممکن ہے کہ اس سے کوئی اور شدید جرم سرزد ہوا ہوا اور احمدی ہونے کی وجہ سے یہ خیال کر لیا گیا ہو کہ اس کو احمدی ہونے کی وجہ سے یہ سزا دی گئی ہے (۶۱) بعد میں اخبار سیاست نے ۸ ستمبر ۱۹۲۴ء کو حکومت افغانستان کو مشورہ دیا کہ ' حکومت افغانستان مرزائیوں کو حدو د افغانستان سے نکال دے (۶۲) ار ستمبر ۱۹۲۴ء مولوی نعمت اللہ صاحب کو شہید کرنے کے بارہ میں جمعیۃ العلماء دیوبند کا امیر امان اللہ خان کو تار اور اس کا امیر کی طرف سے جواب جمعیۃ العلماء دیو بند کو ان کے پیغام کے جواب میں امیر کا بل نے لکھا ہے: آپ کا پیغام برقی مورخہ ۶ ار ستمبر موصول ہوا جس میں آپ نے ایک فیصلہ شرعی کی تائید کی ہے اور اس سے موافقت کا اظہار کیا ہے.حکومت افغانستان اس تائید اور موافقت کے لئے آپ حضرات کا شکر یہ ادا کرتی ہے (۶۳)
281 ۱۰ فروری ۱۹۲۵ء کو افغانستان میں دو احمد یوں قاری نور علی صاحب اور مولوی عبد العلیم صاحب کی شہادت بذریعہ سنگساری کابل میں دو اور بیگناہوں کا خون ہمارے دو احمدی بھائی سنگسار کر دیئے گئے پشاور ۱۲ / فروری - کابل سے خبر پہنچی ہے کہ.مذہبی جنون کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ دو سیدھے سادھے قادیانی (احمدی ) دکاندار ۱۰ر فروری کو سپرنٹنڈنٹ پولیس اور پندرہ کانسٹیبلوں کی موجودگی میں سنگسار کئے گئے.(۶۴) تفصیلی حالات کا انتظار ہے ہمیں افسوس ہے کہ حکومت کا بل اپنے سراسر خلاف شریعت طرز عمل سے اسلام کو بد نام کر رہی ہے اور اس خدائے قہار و توانا کا خوف نہیں کرتی جو بے گناہوں کے خون کا انتقام لینے والا ذوبطش شدید ہے (۶۵) کابل میں دو احمدیوں کے سنگسار کئے جانے کی خبر پہنچنے پر حضور نے مجلس شوریٰ منعقد فرمائی....عصر کے وقت تمام احمدیان قادیان کا ایک جلسہ ہوا جس میں احمدیوں کی مظلومانہ سنگساری پر حکومت کابل کے ظالمانہ فعل پر اظہار ملامت کیا گیا کیونکہ یہ اسلام پر خطر ناک حملہ اور اُسے بد نام کرنے والا ہے حکومت کا بل اس طرح احمدیت کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روک نہیں سکتی خدا کے فضل سے ہر ایک احمدی کو وہ صراط عشق پر ثابت قدم پائے گی.اس مضمون کا ریزولیوشن بہ اتفاق پاس ہوا.اخیر میں حضرت خلیفقہ اس نے صبر وسکون کی ہدایت فرمائی (۲۱) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا پریس کو پیغام ایسوسی ایٹڈ پریس کو آج مورخہ ۱۹ / فروری ۱۹۲۵ء کو حضور ایدہ اللہ نے مندرجہ ذیل پیغام لکھ کر دیا جو اخبارات کو بھجوایا گیا.” مولوی نعمت اللہ صاحب کی سنگساری کا زخم ابھی مندمل نہیں ہوا تھا کہ کابل گورنمنٹ نے دو اور احمدی تاجروں کو صرف احمدیت کی وجہ سے ۱۰ / فروری کو سنگسار کر دیا
282 ہے.یہ خلاف انسانیت فعل جس کا کابل میں بار بار اعادہ کیا جارہا ہے.ضرور کوئی عظیم الشان نتیجہ پیدا کر کے چھوڑے گا.میں کابل کی گورنمنٹ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کا یہ فعل ہم کو سچائی سے پھیر نہیں سکتا ظلم نے کبھی سنجیدگی اور ایمان پر فتح نہیں پائی اور نہ اب وہ فتح پائے گا.’ہر ایک سچا احمدی سچائی کے قیام اور ضمیر کی آزادی کی بحالی کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ میری جماعت میں سے ایک شخص بھی حریت ضمیر کی خاطر جان دینے سے دریغ کرے گا.کابل گورنمنٹ بے شک ایک ایک کر کے سب احمدیوں کو سنگسار کر دے مگر وہ دیکھے گی کہ اس کا یہ فعل احمدیت کی اشاعت کا اور زیادہ موجب ہوگا.اس کے یہ افعال مجھے ڈراتے نہیں بلکہ خوش کرتے ہیں کیونکہ گو جو لوگ مارے جا رہے ہیں وہ میرے روحانی بیٹے ہیں اور ان کی موت مجھے جسمانی بیٹوں کی موت سے بہت زیادہ صدمہ پہنچاتی ہے مگر پھر بھی میرا دل فخر سے بھر جاتا ہے.جب میں دیکھتا ہوں کہ بانی سلسلہ کی قوت قدسیہ نے کس طرح ایمان کو ان لوگوں کے دلوں میں راسخ کر دیا ہے اور کس طرح دنیا کو خیالات کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے یہ لوگ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں.مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا بھی اور ساری مہذب دنیا کا فرض ہے کہ وہ اس احسان کے بدلہ میں جو کابل کے احمدی شہداء نے بنی نوع انسان پر حریت ضمیر کے قائم رکھنے کے لئے ایسی ظالمانہ موت قبول کر کے کیا ہے.ان کی اس جان بازی پر صدائے تحسین اور ان کے قانون کے خلاف صدائے نفرین بلند کرے.میں ہرگز ہر گز گورنمنٹ کا بل یا وہاں کے متعصب ملانوں کے خلاف کینہ نہیں رکھتا.مگر میں سمجھتا ہوں کہ خود ان کو اُس روحانی اندھے پن سے بچانے کے لئے جس میں وہ مبتلا ہیں.ضروری ہے کہ ان کو یہ محسوس کرایا جائے کہ ہر یک شریف انسان ان کے اس فعل کو نا پسند کرتا ہے اور اس سے بہت شدت سے متاثر ہے.
283 پس میں آپ کے اخبار کے ذریعہ سے تمام ان لوگوں سے جو دنیا میں امن کے خواہاں ہیں.اور انسانی اخلاق کی درستی کے متمنی ہیں اور حریت ضمیر کی قدر کرتے ہیں اپیل کرتا ہوں کہ وہ کابل گورنمنٹ کے اس خلاف انسانیت فعل کے خلاف ہر ممکن طریق سے صدائے احتجاج بلند کریں اور حریت ضمیر کو جو صدیوں کی جانباز کوششوں کے بعد دنیا کو حاصل ہوئی تھی.پاؤں کے نیچے مسلے جانے سے بچائیں.‘ (۶۷) جماعت احمدیہ کا جلسہ احتجاج مندرجہ ذیل ریزولیوشن مرکزی جماعت احمد یہ قادیان نے ایک بھاری جلسے میں بہ اتفاق رائے پاس کیا معلوم ہوا ہے کہ دیگر جماعتہائے احمد یہ بھی اس مضمون کے ریزولیوشن پاس کر کے بذریعہ ڈاک اخبارات و گورنمنٹ اور حکومت کا بل کو بھیجیں گی.(1) ہم احمدیان قادیان اس خبر کو سن کر کہ حکومت افغانستان نے پھر دو احمد یوں کوصرف مذہبی اختلاف کی وجہ سے سنگسار کر دیا ہے نہایت متاسف ہوئے ہیں اور حکومت افغانستان کے اس ظالمانہ و سفا کا نہ فعل پر اظہار ملامت کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلام کے سخت خلاف ہے اور شریعت اسلام کو بدنام کرنے والا فعل شنیعہ ہے حکومت افغانستان احمدیت کی روز افزوں ترقی کو ایسی سفیہا نہ حرکات سے ہر گز نہیں روک سکتی وہ ہر ایک احمدی کو اس شاہراہ صداقت پر ثابت قدم پائے گی.(۲) یہ ریزولیوشن تمام اخبارات اور گورنمنٹ ہند و گورنمنٹ افغانستان کو بذریعہ تار بھیجا جائے (۶۸) سیدناحضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشادات حکومت کابل کی ظالمانہ کارروائیوں پر صبر وسکون سے کام لو ’ دو احمدیوں کے کابل میں سنگسار کئے جانے کی خبر جب قادیان میں پہنچی تو احمد یوں
284 نے ایک پروٹسٹ میٹنگ کی.حضرت خلیفہ امیج بھی تشریف لائے اور میٹنگ کی کارروائی ختم ہونے پر مندرجہ ذیل تقریر فرمائی...وو یہ بات متواتر تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ ظالم کے ظلم کا وبال آخر ظالم پر ہی پڑتا ہے.آج تک کوئی ایک نظیر بھی ایسی دنیا میں نہیں ملتی کہ کوئی ظالم ظلم کر کے پھر کامیاب ہو گیا ہو.ہمیشہ ظالموں نے اپنے ظلم سے صداقت اور راستی کو دنیا سے مٹانا چاہا مگر وہ اپنے ا مقصد میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئے.ہزار ہا سال گزر گئے اور اس میں ہزاروں ہی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے دل میں یہ شک اور شبہ پیدا نہیں ہوسکتا کہ شاید اب کوئی ظالم ظلم کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے اور اس کے ظلم سے صداقت اور راستی دنیا سے مٹ جائے..کسی کا اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ میں کسی کو مارڈالنا یا قتل کر دینا صداقت میں شک اور شبہات کا موجب نہیں بن سکتا اور نہ اس سے ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ ہمارا کیا حال اور انجام ہو گا.صداقت اپنے آپ اپنی جڑ پکڑتی ہے.کسی انسان کی مدد کی وہ محتاج نہیں.جو اپنے پاؤں پر آپ کھڑا ہونے والا ہو.اس کو اس امر کی ضرورت نہیں ہوتی کہ کوئی چھوٹی یا بڑی طاقت اس کی امداد میں کھڑی ہو.” مجھے اس بات کا خیال نہیں اور نہ ہمارے دلوں میں اس قسم کا خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ جس کام اور جس صداقت کے قیام کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے یا وہ لوگ جو احمدی ہیں اور حضرت مسیح موعود کی طرف منسوب ہیں.وہ کامیاب نہیں ہوں گے اور صداقت دنیا میں پھیلنے سے رک جائے گی.بلکہ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ امیر کی یہ بالکل بچوں کی سی حرکات ہیں جس طرح بچہ اسکول جانے سے انکار کرتا ہے اور باپ اس کو پکڑ کر اسکول میں لے جاتا ہے کہیں وہ کاتا ہے اور کہیں وہ لاتیں مارتا ہے کہیں کپڑے پھاڑتا ہے.یہی حالت حکومت کا بل کی ہے وہ لاتیں مارتی اور ہمیں کاٹتی ہے مگر وہ اخلاقی سکول جو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے ذریعہ کھولا گیا اس میں اس کو ضرور داخل ہونا پڑے گا....ان کو بھی اس
285 اخلاقی اسکول میں داخل ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا...یا گورنمنٹ افغانستان کی مثال اُس نئے بیل کی ہے جو گردن پر جو ا ر کھنے سے پہلو تہی کرتا اور دولتیاں چلاتا ہے مگر آخر اُس کو جوئے کے نیچے گردن رکھنی پڑتی ہے.پہلے بھی آخر جو تے ہی گئے اور یہ بھی آخر جو تے ہی جائیں گے.اور خدا کا کام ان کو بھی کرنا ہی پڑے گا.مگر مجھے جو خیال آتا ہے وہ یہ آتا ہے کہ ان کی ان بد بختیوں اور وحشیانہ حرکات اور بے وقوفیوں کا نتیجہ ان کے حق میں کیسا ہو گا.مجھے جس وقت گورنمنٹ کا بل کی اس ظالمانہ اور اخلاق سے بعید حرکت کی خبر ملی.میں اُسی وقت بیت الدعا میں گیا اور دعا کی کہ الہی تو ان پر رحم کر اور ان کو ہدایت دے اور ان کی آنکھیں کھول - تا وہ صداقت اور راستی کو شناخت کر کے اسلامی اخلاق کو سیکھیں اور انسانیت سے گری ہوئی حرکات سے وہ باز آ جائیں میرے دل میں بجائے جوش اور غضب کے بار بار اس امر کا خیال آتا تھا کہ ایسی حرکت ان کی حد درجہ کی بیوقوفی ہے.امیر اور اس کے اردگرد بیٹھنے والے گذشتہ تاریخ تو جانتے ہوں گے اور تاریخی حالات اس میں انہوں نے پڑھے ہوں گے اگر اس سے بے خبر ہیں تو کم از کم مسلمان کہلانے کی حیثیت سے وہ قرآن تو پڑھتے ہوں گے اور ان حالات کو بھی پڑھتے ہوں گے کہ ظالموں نے اپنے ظلموں سے صادقوں اور راستبازوں کو ذلیل کرنا چاہا.اور صداقت اور راستی کے مٹانے کے لئے سر سے پاؤں تک زور مارا.دد مگر آخر کا رمٹائے جانے والے وہی ہوئے جو کہ ظالم تھے.انہوں نے اس قرآن میں پڑھا ہوگا کہ ظالموں نے راستبازوں کی جماعتوں کو حقیر اور کمزور سمجھا اور اپنی قوت اور طاقت کے گھمنڈ میں ان کو ہر طرح دکھ دینے کی کوشش کی.لیکن خدا نے ان کو یہی جواب دیا کہ تم کیا طاقت رکھتے ہو تم سے پہلے تم سے زیادہ طاقتیں رکھنے والی قو میں گزری ہیں جنہوں نے خدا کے راستبازوں کو نابود کرنا چاہا اور جو صداقت وہ لائے اس کو دنیا سے مٹانا چاہا مگر باوجود اس کے وہ راستبازوں کا وجود دنیا سے مٹا نہ سکے اور صداقت دنیا میں پھیل کر رہی...اس لئے ان تجربات اور واقعات کی بناء پر اس تقریر کے ذریعہ میں آئندہ آنے
286 والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ طاقت اور قوت کے زمانہ میں اخلاق کو ہاتھ سے نہ دیں کیونکہ اخلاق اصل وہی ہیں جو قوت اور طاقت کے وقت ظاہر ہوں.ضعیفی اور ناتوانی کی حالت میں اخلاق اتنی قدر نہیں رکھتے جتنی کہ وہ اخلاق قدر رکھتے ہیں جب کہ انسان برسر حکومت ہو.اس لئے میں آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ ان کو ہماری ان حقیر خدمات کے بدلے میں حکومت اور بادشاہت عطا کرے گا تو وہ ان ظالموں کے ظلموں کی طرف توجہ نہ کریں جس طرح ہم اب برداشت کر رہے ہیں وہ بھی برداشت سے کام لیں اور وہ اخلاق دکھانے میں ہم سے پیچھے نہ رہیں بلکہ ہم سے بھی آگے بڑھیں.‘ (۶۹) ناظر امور عامہ صدر انجمن احمد یہ قادیان کی طرف سے ۱۹؍ فروری ۱۹۲۵ء کو احمدی اخبارات کے نام یہ اطلاع بھجوائی گئی کہ کابل کی سنگساریوں کے متعلق جو اطلاع موصول ہوئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو احمدی کابل میں سنگسار کئے گئے ہیں ان کا نام مولوی عبدالحلیم اور قاری نور علی تھا یہ دونوں کا بل کے مضافات کے رہنے والے تھے مقدم الذکر ایک عمر رسیدہ آدمی تھے اور ایک بے ضرر عالم دین تھے اور موخر الذکر ایک امن پسند نوجوان تھے قرآن مجید کے حافظ تھے اور کابل شہر میں دوکان کرتے تھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کے علاوہ تھیں اور احمدی زیر حراست ہیں اور عدالت افغانیہ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں.امیر امان اللہ خان نے ان مظالم کی اس لئے اجازت دی ہے کہ وہ باغیوں کی ہمدردی حاصل کر سکے.جنکا تعلق قدیم خیالات کے ملانوں سے ہے اس بات کی ضرورت ہے کہ تمام مہذب دنیا کی طرف سے ان مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہو.تا کہ آئندہ ان ظالمانہ کارروائیوں کا سدِ باب کیا جا سکے.ہم تمام محبانِ امن و انصاف سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ حکومت کا بل کی اس ظلم اور تعدی کے خلاف آواز اٹھائیں.(۷۰)
287 افغانستان میں تمہیں اور احمدی گرفتار کر لئے گئے ہیں اور دو شہید کر دیئے گئے ہیں پشاور سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ کابل میں مولا نا عبد الحلیم ساکن چہار آسیہ اور قاری نور علی صاحب کو ۵ فروری ۱۹۲۵ء کو سنگسار کر کے شہید کر دیا گیا ہے اس کے علاوہ تمیں اور احمدی احباب اس وقت جیل خانوں میں محبوس ہیں.مولا نا عبد العلیم صاحب پرانے مخلص.اور فاضل دوست تھے اور ان کو حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ نے سلسلہ احمدیہ میں بیعت لینے کے لئے مقرر کیا تھا.(۷۱) خوست کے باغی ملاؤں ملا عبد اللہ مشہور بہ ملائے لنگ اور اس کے داماد کو جن کی انگیخت پر مولوی نعمت اللہ صاحب کو سنگسار کیا گیا تھا معافی کا وعدہ دے کر کا بل لا یا گیا تو کچھ عرصہ تو امیر امان اللہ خان نے ان کو عزت و احترام کے ساتھ ٹھہرایا.لیکن جب بغاوت رفع ہو گئی اور منگل.چمکنی جدران وغیرہ قبائل کو دبا دیا گیا اور اس علاقہ میں مرکزی حکومت کی حکومت دوبارہ قائم ہو گئی اور فوجیں واپس چلی گئیں تو امیر امان اللہ خان کی نیت بدل گئی اور اس نے ان لوگوں سے بھی بدعہدی کی ان ملاؤں کو امیر امان اللہ خان کے دربار میں پیش کیا گیا تو اس نے ان کی موجودگی میں کہا کہ ” خدا کا شکر ہے کہ میرا غیورلشکران ملعون غدا رکتوں کی گردنوں میں پٹہ ڈال کر میرے سامنے لے آیا.میں خدا سے دعا گو ہوں کہ آپ ہمیشہ اس قسم کے کتوں کو پکڑ کر شیروں کی طرح اپنے پدر عاجز کے پاس لایا کریں.“ بالآ خرا میرامان اللہ خان نے ان کو قتل کرا دیا.(۷۲) امیر امان اللہ خان کی سیاحت بیرون افغانستان امیر امان اللہ خان افغانستان کی ترقی اور بہبود کی آرزو رکھتے تھے اور افغانستان کو ایک ایسے دستور العمل کے ماتحت چلانا چاہتے تھے جو ساحرانہ کرشمہ گری کے ساتھ ایک قلیل عرصہ میں ایک پس ماندہ ملک کو ترقیات کے میدان میں کہیں سے کہیں لے جائے اور جدید ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دے.
288 اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے اول یورپین ممالک میں افغانستان کی با قاعدہ سفارتیں قائم کیں.تا کہ حکومت افغانستان کا رابطہ ترقی یافتہ ممالک سے حکومتی لیول پر زیادہ سے زیادہ ہو.دوسرے افغان طلبہ کی ایک بڑی تعداد فرانس، جرمنی ، اٹلی ، ترکی اور روس و غیرہ ممالک میں مختلف علوم وفنون کی تحصیل کے لئے روانہ کی تاکہ ان کے ملک میں بہت کم عرصہ میں ہر فن وعلم کے ماہرین موجود ہوں اور وہ اس ضمن میں اغیار کا دست نگر نہ رہے.اس کے علاوہ انہوں نے مختلف اوقات میں اپنی حکومت کے بہت سے کارندوں کو مختلف مقاصد کے لئے یورپ کی سیاحت کا موقعہ دیا تا کہ وہ جدید خیالات سے مانوس ہوں اور اپنے کہنہ اور فرسودہ خیالات کو بدل سکیں اور دنیا کے متمدن ممالک کے حالات کو دیکھ کر ان میں بھی اپنے ملک کو جدید لائنوں پر ترقی دینے کا جذبہ اور خواہش پیدا ہو جب ایسے اشخاص کچھ عرصہ باہر قیام کر کے اپنے ملک میں واپس لوٹتے تو نئے خیالات سے متاثر ہو کر نئی نئی تجاویز ملک کی بہبودی کے لئے بادشاہ کے پاس پیش کرتے تھے.جن میں سے اکثر ایسی ہوتی تھیں کہ امیر امان اللہ خان کو بھی عجیب معلوم ہوتی تھیں اور اسے ان کی حقیقت سمجھنے میں مشکل پیش آتی تھی اس لئے نوبت یہاں تک پہنچی کہ امیر نے محسوس کیا کہ وہ جب تک خود ایک دفعہ یورپ کی سیاحت نہ کر آئیں نہ تو وہ ان جدیدا مور کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور نہ ان پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں.اس لئے اپنی دور حکومت کے آخری چند سالوں میں اکثر بیرون ممالک کی سیاحت کا ذکر کیا کرتے تھے.جہاں تک افغان پبلک کا تعلق تھا وہ بیرون ممالک کے سفر کو ایک بے بنیا د تصور یقین کرتی تھی.کیونکہ اس سے پہلے کبھی افغانستان کا کوئی بادشاہ مغربی ممالک کی سیر کو نہ گیا تھا یہی وجہ تھی کہ امیر امان اللہ نے آخری سالوں میں اپنی توجہ اور وقت ان معترضین کے دلائل کی تردید اور ان کے اعتراضوں کے جوابات میں صرف کیا جو ان کے دورہ بیرون کے خلاف تھے.اگر چه امیر امان اللہ خان افغانستان کے خود مختار بادشاہ تھے لیکن دنیا کے دوسرے
289 مہذب ممالک کے سامنے اپنے آپ کو محض آئینی بادشاہ ثابت کرنا چاہتے تھے.اسی وجہ سے یورپ روانگی سے قبل مجلس وزاراء اور شورائے ملتی میں معاملہ پیش کر کے ان کی منظوری کے خواہش مند تھے.دراصل یہ بھی ایک رسمی کارروائی تھی ورنہ بیرونی سیاحت کے متعلق ان کا ارادہ اٹل صورت اختیار کر گیا تھا.انہوں نے یورپ کے تمام سفراء سے استمزاج بھی کر لیا تھا اور سب کی طرف سے ان کو ان کے ملک کا دورہ کرنے کی دعوت بھی موصول ہو چکی تھیں اور وزارت خارجہ نے امیر کے دورہ کا پروگرام بھی طیار کر لیا تھا امیر کے ساتھ جو اہم شخصیات سیاحت پر جارہی تھیں ان کا انتخاب ہو چکا تھا ان میں ملکہ ثریا صاحبہ، سردار علی احمد جان، سردار محمود خان طرزی اور بعض دیگر سرداران اور افسران شامل تھے.(۷۳) سیاحت بیرون کے دوران افغانستان میں حفاظتی اور سیاسی انتظامات امیر امان اللہ خان نے اپنی روانگی کے وقت محمد ولی خان کو اپنی قائمقامی میں سب - سے اہم کام پر مامور کیا.محمد ولی خان امیر امان اللہ خان کے خاص آدمی تھے اور اپنی غیر حاضری کے دوران انہیں یہ کھٹکا نہیں تھا کہ محمد ولی خان ان کے خلاف کسی سازش میں شریک ہوسکیں گے چنانچہ ان کو اپنا قائم مقام یا وکیل مقرر کر لیا محمد ولی خان کی افغانستان میں کوئی قومی حیثیت نہیں تھی اور نہ ان کا کوئی قبیلہ تھا کیونکہ یہ افغان نہیں تھے بلکہ سنٹرل ایشیاء سے تعلق رکھنے والے ازبک تھے.وہاں سے بچپن میں امیر عبدالرحمن خان کے زمانہ میں پکڑ کر لائے گئے تھے اور غلام بچہ کہلاتے تھے اگر چہ وہ ترکستان کے ایک سرکردہ خان کی اولاد تھے لیکن افغانوں کے زاویہ نگاہ سے وہ صاحب قوم شمار نہ ہوتے تھے ان کی وفاداری بادشاہ تک محدود تھی کوئی افغان قبیلہ ان کی پشت پر نہ تھا.محمود خان یاور کو ولایت کابل کا گورنر مقرر کیا گیا اس کے ساتھ با دشاہ کو روزانہ خفیہ رپورٹیں بذریعہ وائر لیس بھجوانا بھی ان کے سپر د تھا.ایک سردار محمد عزیز خان محمد زئی تھے جن کی امیر امان اللہ خان سے کچھ رشتہ داری بھی تھی ان کو وزیر داخلہ سے ہٹا کروزیر تربیہ مقرر کر دیا گیا.اپنے چھوٹے بھائی سردار حیات اللہ خان کو وزارت عدلیہ سے
290 وزارت داخلہ میں منتقل کر دیا.وزارتِ عالیہ میرمحمد ہاشم خان ایک سید مدبر کے ہاتھوں میں تھی جو بادشاہ کے بڑے خیر خواہ شمار ہوتے تھے.ایک حفاظتی تدبیر یہ کی گئی کہ تمام ڈول خارجہ (جہاں جہاں کا دورہ امیر امان اللہ خان نے کرنا تھا) سے وعدہ لیا گیا کہ اگر امیر امان اللہ خان کی سیاحت بیرون کے دوران افغانستان میں کوئی شورش رُونما ہو تو وہ امیر امان اللہ خان کو کم سے کم عرصہ میں افغانستان کی سرحد پر پہنچانے کا اہتمام کریں گے.اب صرف علیا حضرت یعنی امیر امان اللہ خان کی والدہ صاحبہ کا وجود باقی تھا جو شروع حکومت میں اپنے بیٹے کے کاروبار حکومت میں بہت دخیل رہی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ امیر امان اللہ خان بہت تجربہ کار ہو چکا تھا اور اپنی والدہ صاحبہ کے دخل کو نا پسند کرنے لگا تھا اگر چہ امان اللہ خان اپنی والدہ کا احترام بجالانے میں کوئی کوتا ہی نہ کرتا تھا لیکن اپنی حکومت کے کام از خود ادا کرنا پسند کرتا تھا.اس وجہ سے اس کی والدہ کی اس سے نا چاقی ہو گئی تھی.اور جس وقت امیر امان اللہ خان بیرونی سیاحت کی تیاریوں میں مصروف تھا وہ اس سے کچھ ناراض تھیں.وہ یہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا اپنی بادشاہت کو خطرہ میں ڈال کر کہیں باہر جائے.اس لئے اوّل اوّل تو انہوں نے زبان سے روکنے کی کوشش کی اور جب امیر امان اللہ خان نہ مانا تو یہ دھمکی دی کہ وہ اس کی غیر حاضری میں دارالسلطنت کا بل میں نہیں رہیں گی بلکہ اپنے آبائی شہر قندھار جا کر سکونت اختیار کر لیں گی لیکن بعد ازاں وہ اپنے بیٹے کے بے حد اصرار پر کابل میں رہنے پر راضی ہو گئیں.بادشاہ کا مقصد اصرار کر کے ان کو اپنی غیر حاضری میں کا بل رہنے پر مجبور کرنے میں یہ تھا کہ اگر اُس کی عدم موجودگی میں اس کی بادشاہت پر کوئی آڑا وقت آیا تو اس کی صاحب رسوخ و احترام والدہ اپنے بیٹے کی بادشاہت کی حفاظت میں تمام مخالفوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑی ہو جائیں گی.
291 ان تمام اقدامات سے واضح ہو جاتا ہے کہ امیر امان اللہ خان نے اپنی غیر حاضری میں اپنی حکومت کی حفاظت کے لئے تمام ممکن قدم اٹھا لئے تھے اور اب امیر بہ کمالِ اطمینانِ خاطر چند ماہ کے لئے کابل سے غیر حاضر رہ سکتا ہے.(۷۴) روانگی از افغانستان ۱۹۲۷ء کے آخر میں امیر امان اللہ خان اپنے سٹاف اور رفقاء سفر کے ہمراہ بیرونی دوره پر براستہ قندھار، چمن ، کوئٹہ، کراچی روانہ ہوئے پھر دہلی آئے اور کچھ عرصہ دہلی رہ کر بمبئی کی بندرگاہ سے بحری جہاز راجپوتانہ کے ذریعہ یورپ روانہ ہوئے اس سفر میں انہوں نے جن ممالک کا دورہ کیا ان کے ثقافتی، سیاسی، معاشی، صنعتی اور تجارتی حالات کا بغور مطالعہ کیا اور ان امور سے تعلق رکھنے والے ادارہ جات دیکھے اور وہاں کے افسران، وزراء اور سر بر اہانِ ممالک سے گفتگو کی.جن ممالک میں ان کو جانے کا موقعہ ملا ان میں مصر، اٹلی ، جرمنی ، فرانس، انگلستان، روس اور ترکی تھے.ان ممالک میں جو کارروائیاں ہوئیں ان کی تفصیلات لکھنے کا تو یہ موقعہ نہیں لیکن ان ممالک میں اُن کا شان و شوکت سے استقبال ہوا اور ہر ایک حکومت نے اپنی طاقت اور حیثیت کے مطابق حق مہمان نوازی ادا کیا اور ان کی وہ عزت کی جو اس سے پہلے ایک مشرقی حاکم کے بارہ میں کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتی تھی.ہندوستان کے سفر کے دوران امیر امان اللہ خان شاہ کابل کی طرف سے ملاؤں سے بیزاری کا اظہار اخبار الفضل ۲۳ / دسمبر ۱۹۲۷ ء لکھتا ہے : ہر میجسٹی شاہ کا بل نے سر زمین ہند میں پہلی دفعہ رونق افروز ہونے پر جو پہلی تقریر کراچی میں فرمائی اس میں جہاں رعایا پروری اور اپنی ذاتی حیثیت کے متعلق نہایت زریں خیالات کا اظہار کیا وہاں اس طبقہ اور گروہ کا خاص طور پر ذکر کیا جو ہر ملک اور ہر علاقہ میں
292 مسلمانوں کے لئے سخت فتنہ کا باعث بن رہا ہے یعنی مولوی اور ملاں لوگ.ہر میجسٹی نے فرمایا اگر کوئی برا نہ منائے تو میں ایک خاص بات کہنا چاہتا ہوں جس کی نسبت میں نے کا بل اور قندھار میں بھی لوگوں کو سمجھایا تھا اور وہ بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے نادان اور ناسمجھ ملاؤں نے ایک نہایت افسوسناک حالت پیدا کر دی ہے.ان ملاؤں نے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے ان کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا.میں اس قسم کی ملائیت سے بیزار....ہوں.ان لوگوں کا یہ فرض ہے کہ اپنے ملک وقوم کی ترقی کے لئے کوشاں ہوں.اور جو ملا صرف اپنی اغراض پوری کرنے کا آرزو مند ہو وہ کبھی اپنے ملک کی اصل خدمت انجام نہیں دے سکتا ہر میجسٹی کے یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کے ملاؤں سے بیزار ہیں.بلکہ ہر ملک کے ایسے ملاؤں سے نفرت رکھتے ہیں.ہم اس جواں ہمت اور جواں بخت تاجدار کے لئے دست بہ دُعا ہیں.کہ وہ اپنے ملک کو ایسے ملاؤں سے پاک وصاف کر سکے.تا کہ ایسے افعال کا ظہور ناممکن ہو جائے جو کابل کے لئے باعث بدنامی ہوں‘ (۷۵) ہر میجسٹی شاہ کابل کا خیر مقدم جماعت احمدیہ کی طرف سے اردسمبر ۱۹۲۷ء حسب ذیل تار ہر میجسٹی شاہ افغانستان کے پرائیویٹ سیکرٹری کو حضرت مولانا شیر علی صاحب چیف سیکرٹری حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے ورودِ ہند کی تقریب میں خیر مقدم کے طور پرا دسمبر کو دیا گیا.” جماعت احمدیہ اور اس کے مقدس امام کی طرف سے میں ہر میجسٹی امیر کابل کی خدمت میں ان کے سرزمین ہند میں ( جو کہ جماعت احمدیہ کے مقدس بانی کی جائے پیدائش ہے ) ورود کے موقعہ پر نہایت خلوص سے خیر مقدم کہتا ہوں.
293 ہم ہر میجسٹی کی وفا دار احمدی رعایا ئے افغانستان کے ساتھ اس دعا میں متحد ہیں کہ ہر میجسٹی کا سفر یورپ نہایت کامیابی کے ساتھ سر انجام پائے اور آپ اپنی مملکت میں سالماً خانماً وا پسی تشریف لائیں.سفر رفتنت مبارک باد بسلامت روی و باز آئی شیر علی سیکر ٹری حضرت خلیفۃ المسیح سیکرٹری امام جماعت احمدیہ قادیان (۷۶) اخبار انقلاب لاہور کا اداریہ اعلیٰ حضرت شہر یار افغانستان اور جماعت احمدیہ ۲۰ دسمبر ۱۹۲۷ ء کو اخبار انقلاب لا ہور لکھتا ہے کہ ہمیں یہ معلوم کر کے بے انتہا مسرت ہوئی کہ جماعت احمد یہ قادیان کے امام صاحب نے اعلیٰ حضرت شہر یار غازی افغانستان کے ورود ہند پر اعلیٰ حضرت کی خدمت میں خیر مقدم کا محبت آمیز پیغام بھیج کر اپنی فراخدلی کا ثبوت دیا ہے اور قادیان کے جرائد نے اس پیغام کو نہایت نمایاں طور پر شائع کیا ہے." آج سے کچھ مدت پیشتر دو تین احمدیوں کے رحم پر جماعت احمد یہ اعلیٰ حضرت شہر یار افغانستان کی حکومت کی سخت مخالف ہو گئی تھی اور اُن دنوں میں امام جماعت اور جرائد قادیان نے نہایت تلخ لہجے میں حکومت افغانستان کے خلاف احتجاج کیا تھا...یہ نہایت قابلِ تعریف بات ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے اُس ہنگامی وجہ اختلاف کو فراموش کر کے مہمانِ محترم کا خیر مقدم کیا.اس طرز عمل کا اثر ایک طرف عام مسلمانانِ ہند پر بہت اچھا ہو گا.دوسری طرف افغانستان میں رہنے والے احمدیوں کے تعلقات اپنے بادشاہ اور اس کی حکومت کے ساتھ زیادہ خوشگوار ہو جائیں گے (۷۷)
294 جماعت احمدیہ اور امیر امان اللہ خان شاہ افغانستان کے بارہ میں ہند و آریہ سماجی اخبار پر کاش کی غلط بیانی اور اس کی تردید اخبار الفضل مورخہ ۲۳ / دسمبر ۱۹۲۷ ء لکھتا ہے کہ ” جماعت احمدیہ کی طرف سے ہر میجسٹی شاہ کابل کا جو خلوص دل سے خیر مقدم کیا گیا ہے.اس کے متعلق نہ صرف ۱۶/ دسمبر کے الفضل میں نمایاں طور پر تار چھپ چکا ہے.بلکہ لاہور کے سر بر آوردہ اخبارات ”زمیندار“ اور ”انقلاب‘ میں بھی اس کا ذکر آچکا ہے جس سے آریہ اخبار پر کاش کا ایڈیٹر نا واقف نہیں ہوسکتا لیکن ۱۸؍ دسمبر کے پر کاش میں لکھتا ہے: امیر کا بل سفر یورپ پر جاتے ہوئے ہندوستان سے گزرے.ہندو مسلمان تمام لوگوں نے آپ کا خیر مقدم کیا.لیکن احمدی جو ایسے موقعوں کی ہمیشہ تاک میں رہتے ہیں.یہ امر موجب حیرت ہے کہ وہ خاموش رہے.وہ نہ خود امیر کی خدمت میں حاضر ہوئے.نہ خیر مقدم کا تا رہی ارسال کیا حالانکہ تار گھر قادیان میں موجود ہے.وجہ صاف ہے قادیانیوں کا تو ایک مولوی افغانستان میں محض مذہبی اختلافات رائے کی وجہ سے.سنگسار کیا گیا تھا.بھلا قادیانی اس شخص کا خواہ وہ مسلمان ہی اور مقتدر مسلمان کیوں نہ ہو استقبال کیسے کر سکتے ہیں.“ معلوم ہوتا ہے.پرکاش نے دیدہ دانستہ یہ سطور ایک ناگوار اور رنج افزا واقعہ کی یاد تازہ کرنے اور اسے شہرت دینے کے لئے لکھی ہیں.ورنہ جب جماعت احمدیہ کی طرف سے شاہ کا بل کے استقبال کی خبر اخباروں میں شائع ہو چکی ہے تو پر کاش کی غلط بیانی کی اور کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی...”بے شک کابل میں ایک نہیں بلکہ کئی احمد یوں کو سنگسار کیا گیا ہے.لیکن ہمارے نزدیک اس سنگدلانہ فعل کے ذمہ وار وہ مولوی اور مُلاں ہیں جن سے بیزاری کا اعلان حضور شاہ کا بل نے سرزمین ہند پر قدم رکھتے ہوئے سب سے اولین موقعہ پر کر دیا...
295 آئے.ہم ان حالات اور مشکلات سے اچھی طرح آگاہ ہیں.جن میں یہ واقعات پیش اسلام نے ہر صاحب عزت و اقتدار کی تو قیر کرنے اور اس کی شان کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا ہے.اس لئے ہمارا بھی فرض تھا کہ ہم اپنے ملک میں شاہ کا بل کی تشریف آوری پر اپنے مخلصانہ جذبات کا اظہار کرتے.‘ (۷۸) امیر امان اللہ خان کی شہر بمبئی میں مصروفیات اور بحری جہاز راجپوتانہ کے ذریعہ بیرونی سیاحت کو روانگی بمبئی میں ۱۶ / دسمبر کو جامعہ مسجد میں امیر امان اللہ خان جمعہ کے لئے تشریف لائے اس وقت پچاس ہزار آدمیوں کا اجتماع تھا.نمازیوں کی درخواست پر ہر میجسٹی نے خطبہ پڑھا.جس کا موضوع دوسرے مذاہب سے رواداری کا برتاؤ کرنے کے متعلق تھا.اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے سخت شرم کی بات ہے کہ وہ مسئلہ گاؤ کشی کے متعلق بھی ہندوؤں کے جذبات کا احترام نہیں کر سکتے.بعد دو پہر بلد یہ بمبئی کا سپاس نامہ پیش ہوا.اس کا جواب ہر میجسٹی نے فارسی زبان میں دیا.اور فرمایا کہ مخلصانہ خیر مقدم کے اظہار نے میرے دل پر اثر کیا ہے.جب سے میں نے سر زمین ہندوستان پر قدم رکھا ہے.ہر جگہ اخلاص اور محبت کا اظہار کیا گیا ہے اور میں اس سرگرمی اور جوش و خروش کے نظارے کو جو میں نے دیکھا کبھی فراموش نہ کروں گا.اس کے بعد اعلیٰ حضرت نے تاکید فرمائی کہ فرقہ وارانہ اختلافات کو ترک کر دو.مندر میں پوجا کرو یا مسجد میں عبادت یا گرجے میں دعا.لیکن پھر بھی تم بھائیوں کی طرح زندگی بسر کر سکتے ہو.۱۷ دسمبر کو اعلیٰ حضرت شہر یا را افغانستان کی خدمت میں تین سپاس نامے پیش کئے گئے ایک سپاس نامہ ایرانیوں اور پارسیوں کی طرف سے مشترکہ طور پر پیش کیا گیا.دوسرا وفد جسے باریابی حاصل ہوئی مسلم سٹوڈنٹس یونین کا وفد تھا اس کے سپاس نامہ
296 کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے عورتوں کی تعلیم پر زور دیا.تیسرا وفدان افغانوں کی طرف سے تھا جو ہندوستان میں مقیم ہو چکے ہیں.اس سپاس نامہ میں اعلیٰ حضرت کی مذہبی رواداری کا شکر یہ ادا کیا گیا.اعلیٰ حضرت نے انہیں تاکید کی وہ ہندوؤں کے ساتھ دوستانہ طور پر رہیں اور اپنے آپ کو عام مسلمانوں بلکہ عام ہندوستانیوں سے علیحدہ قوم تصور نہ کیا کریں.آپ نے فرمایا کہ افغانستان مذہبی رواداری میں کسی ملک سے پیچھے نہیں اور جاہل مسلمانوں کا اثر روز بروز کم ہو رہا ہے.۱۷ دسمبر کو بعد دو پہر حضرت شاہ افغانستان گھوڑ دوڑ میں سرکاری جاہ و جلال کے ہمراہ تشریف لے گئے.تو وہاں اس قدر مجمع تھا جس کی نظیر کورس کی تاریخ میں نہیں ملتی.ہر میجسٹی نے شیو برت گھوڑے کے بازی لے جانے پر مہاراجہ کو ہلہ پور کے پرائیویٹ سیکرٹری کو ارون کپ عطا کیا اور شاہی جلوس کے ہمراہ رخصت ہو گئے.اس کے بعد اعلیٰ حضرت گورنر بمبئی کی معیت میں اور علیا حضرت لیڈی ارون کے ہمراہ باب الہند (India Gate تشریف لے گئے وہاں گارڈ آف آنر کا معائنہ کرنے کے بعد ہر میجسٹی نے لیڈی اِرون اور گورنر کو رخصت کیا اور خود موٹر کشتی پر سوار ہو گئے اور بحری جہاز راجپوتانہ کو تشریف لے گئے.جہاز راجپوتانہ کا ایک حصہ اعلیٰ حضرت بادشاہ غازی اور علیا حضرت ملکہ معظمہ کے استعمال کے لئے مخصوص کیا گیا تھا.جہاز باب الہند کے مقابل کھڑا تھا.جب اعلیٰ حضرت جہاز پر سوار ہوئے انڈین میرین (ہندوستانی بحریہ کے جہازوں نے سلامی کی تو ہیں سرکیں.ائیر فورس کے جہا ز سر پر حلقہ کئے ہوئے تھے.جب جہاز راجپوتانہ روانہ ہوا تو سب نے سلامی اُتاری - (۷۹)
297 پیرس میں ملکہ ثریا کا پریس کو انٹرویو پیرس میں ملکہ ثریا نے ایک پریس انٹرویو دیا.جس میں یہ بیان کیا کہ وہ افغانستان میں پہلی عورت ہے جو عورتوں کی آزادی کے لئے کام کر رہی ہے.باوجود اس کے کہ دقیا نوسی مسلمانوں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت ہوتی ہے.اس نے بچیوں کے لئے ایک سکول قائم کیا ہے جس میں ۸۰۰ طالبات کے لئے گنجائش رکھی گئی ہے.اور ملکہ کی والدہ کی ہدایات کے ماتحت ان بچیوں کی تربیت یورپین طریق پر کی جارہی ہے (۸۰) شاہ کا بل کا پُر تپاک خیر مقدم جماعت احمدیہ لنڈن کی طرف سے ہر میجسٹی شاہ کا بل اور ملکہ کابل کے لندن میں ورود پر جماعت احمد یہ لندن نے جس میں نو مسلم انگریز مرد اور عورتیں بھی شامل تھیں مولا نا عبد الرحیم صاحب در دایم.اے امام مسجد لندن کی قیادت میں حسب استطاعت نہایت پر تپاک خیر مقدم کیا.اس موقعہ پر نہایت جلی اور خوبصورت انگریزی الفاظ میں ” خوش آمدید“ کا نہایت دل کش اور شاندار بہت بڑا پوسٹر شائع کیا گیا جس کے وسط میں مسجد احمد یہ لندن کی تصویر اسلامی شان ظاہر کر رہی تھی.علاویں ازیں ایڈریس بھی پیش کیا جس کا ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.یور میجسٹی ! ہم جماعت احمدیہ انگلستان کے ممبران یور میجسٹی اور ہر میجسٹی ملکہ افغانستان کے جزائر برطانیہ میں تشریف آوری کی سعید تقریب پر صدق دل سے خوش آمدید عرض کرتے ہیں.یو رمیجسٹی ! آپ کے سفر مغرب نے تمام دنیا میں ایک خاص دلچسپی پیدا کر دی ہے اس کی توقع تو پہلے ہی تھی.مگر اس حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ پہلا موقعہ ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار مسلمان بادشاہ نے مغربی حکومتوں کے مراکز کی سرکاری طور پر سیاحت فرمائی.مزید برآں ہم اس حقیقت کو زیادہ وضاحت سے بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس طریق
298 سے مختلف یورپین حکومتوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا ہے اور جو نہ صرف آپ کے شاہانہ اعزاز کے شایاں ہے.بلکہ اس میں دوستانہ مہمان نوازی کی روح بھی پائی جاتی ہے وہ سب یور میجسٹی کی ان عملی اور سرگرم کوششوں کی خوبیوں کا کھلا کھلا اعتراف ہے جو آپ اپنے ملک کو دوسرے مہذب ممالک کا ہم پلہ بنانے کے لئے کر رہے ہیں اور وہ اصلاحات جو اندرونِ ملک جاری فرما ر ہے ہیں.جس حیرت انگیز طریق سے یور میجسٹی نے اپنی قوم کی جو کہ پرانی لکیر کی فقیر اور آبائی رسم و رواج عادات و اطوار اور خیالات کی نہایت سختی سے پابند چلی آتی تھی.طرز معاشرت تھوڑے سے عرصہ میں بدل دی ہے.یقیناً یہ ایک ایسا کارنامہ ہے.جس نے یور میجسٹی کے لئے موجودہ زمانہ کے روشن دماغ حکمرانوں کی صف اول میں...جگہ پیدا کر دی ہے.جس اخلاص اور عقیدت کا ان ممالک کے لوگوں نے جہاں کی یور میجسٹی نے سیاحت فرمائی ہے ثبوت پیش کیا ہے وہ نہ صرف یور میجسٹی کی افغان رعایا کے لئے ہی بلکہ جملہ پیروان اسلام کے لئے بھی باعث افتخار و اطمینان ہے تمام دنیا کے مسلمان یور میجسٹی کو اپنا ایک لیڈر اور حامئی اسلام یقین کرتے ہیں.یور میجسٹی اسلام کی تعلیم کی بے شمار خوبیوں میں سے اپنے اثرات اور نتائج کے لحاظ سے غالباً سب سے زیادہ اہم وہ عالمگیر اُخوت اور مساوات کی تعلیم ہے جس میں ایک حکمران اور مزدور برابر سمجھے جاتے ہیں.اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ یور میجسٹی اس بیش قیمت اصل کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں.یہ بھی ایک وجہ ہے جس سے ہمارے دلوں میں یور میجسٹی کی تو قیر اور بھی زیادہ ہے.ہمیں وہ الفاظ اچھی طرح یاد ہیں.جو یور میجسٹی نے ہندوستان میں ایک ایڈریس کے جواب میں فرمائے اور جو یہ ہیں : ”میری مملکت میں ہندوستانی افغانوں کے ساتھ محبت و آشتی سے رہتے ہیں.ہندؤں کو مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں.اور وہ بھائی بھائی کی طرح رہتے ہیں.
299 افغانستان میں قوم و مذہب کی کوئی تفریق نہیں.میں اپنے ملک میں ہر ہندوستانی کو خوش آمدید کہتا ہوں اور ہماری مہمان نوازی ہر ایک کے لئے کشادہ ہے ان سے بھی زیادہ انمول ، نا قابلِ فراموش وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل یور میجسٹی کے حسب ذیل الفاظ ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ خداوند ذوالجلال تمام دنیا کے مسلمانوں سے خوش ہو.وہ ایک دوسرے کو یکساں سمجھیں اور تمام بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردانہ اور برادرانہ سلوک کریں.اور بار بار متنبہ کروں گا کہ مذہبی جنون اور جاہل ملا نے تم کو راہِ راست سے بہکا نہ دیں مذہبی جنون اور تعصب نے دنیا کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے اس کے بیان کی یہاں ضرورت نہیں...یور میجسٹی اس امر سے ضرور آگاہ ہوں گے کہ مغرب میں یہ غلط خیال موجود ہے کہ اسلام نے اپنی اشاعت کے لئے تلوار کے استعمال کی اجازت دی ہے.یور میجسٹی ایسی مقتدر ہستی اور مسلم حکمران کی وہ تقریر جس سے ہم نے مذکورہ بالا الفاظ نقل کئے ہیں اس الزام کی پوری طرح تردید کرتی ہے.مگر ہم پھر عرض کریں گے کہ مغرب میں آپ اسلام کی عالمگیر اخوت پر جتنا بھی زیادہ زور دیں گے اتنا ہی ہمارے اور تمام دنیا کے لئے مفید ہوگا.اخیر میں ہم دعا کرتے ہیں کہ یور میجسٹی اور ہر میجسٹی ملکہ کا یہ سفر کا میاب ہو.آپ کی قوم اور تمام مسلمانوں کے لئے موجب خیر و برکت اور جاری رہنے والے فوائد کا باعث ہو.ہم ہیں یور میجسٹی کے نہایت ہی فرمانبردار خدام ممبران جماعت احمد یہ انگلستان - مسجد لندن ۱۳ مارچ ۱۹۲۸ء (۸۱) ترکی میں مصطفی کمال اتاترک سے ملاقات اور گفتگو ترکی میں قیام کے دوران علاوہ اور مصروفیات کے امیر امان اللہ خان نے صدر جمہوریہ ترکیہ مصطفیٰ کمال سے ایک الگ پرائیویٹ ملاقات کی.گفتگو کا موضوع وہ اصلاحات
300 تھیں جن کو امیر افغانستان میں جاری کرنا چاہتا تھا چونکہ مصطفیٰ کمال ایک مسلمان انقلابی لیڈر تھا اور چند سال پہلے ترکی میں مذہبی ملاؤں کا زور ختم کر کے اس نے جمہور یہ ترکی میں قومی اور سیاسی بنیادوں پر نیا نظام قائم کیا تھا اس لئے ان سے بات چیت اور مشورہ ایک طبعی تقاضا تھا جسے امیر امان اللہ خان نے پورا کرنا چاہا.اس گفتگو کا مختصر خلاصہ درج کیا جاتا ہے مصطفیٰ کمال اتاترک نے کہا کہ : اگر آپ ترکی کی طرح اپنے ملک میں اصلاحات نافذ کرنے کا خیال رکھتے ہیں تو اعلیٰ حضرت میرے بھائی کو کامل احتیاط کے ساتھ بہت سے امور متعلقہ کی نسبت پہلے اپنا اطمینان کر لینا چاہئیے.اُمید ہے کہ اعلیٰ حضرت اس مسئلہ کی نزاکت کو اچھی طرح محسوس کرتے ہوں گے کہ جب پبلک کی ناپسندیدگی کی وجہ سے اصلاحات نا کام ہو رہی ہوں تو بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ناپسندیدگی بغاوت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے.اس لئے مقدم امر یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اصلاحات جاری کرنے والا ہردل عزیزی کے اعتبار سے پبلک میں کیا درجہ رکھتا ہے؟ اگر اس کی محبت اور ہر دل عزیزی مسلم ہے اگر ایسا ہے تو پبلک اصلاحات سے ناراض ہونے پر بھی بغاوت اور شورش اور فتنہ انگیزی کی جرات نہ کر سکے گی.امیر امان اللہ خان : میں بغاوت منگل کے دوران بہت حد تک ملاؤں کا زور توڑ چکا ہوں.اب ان میں اتنی طاقت نہیں رہی کہ وہ حکومت افغانستان کے خلاف سراٹھاسکیں.مصطفی کمال اتاترک : لیکن اگر ملاؤں کا گروہ اعلیٰ حضرت کے خلاف پبلک کو اکسانے میں کامیاب ہو جائے تو کیا آپ کے پاس اتنی فوجی قوت ہے کہ اسے کچل سکیں.امیر امان اللہ خان : ہاں میں اپنی فوج کے ذریعہ بآسانی ایسی شورش اور فتنہ کو دبانے میں کامیاب ہو جاؤں گا میں اپنی فوج میں بے حد ہر دل عزیز ہوں اور مجھے اپنی فوج کی وفا شعاری پر پورا اعتماد ہے.
301 مصطفیٰ کمال اتاترک کیا اعلیٰ حضرت کی سلطنت کے تعلقات ہمسایہ حکومتوں سے خوشگوار ہیں اور وہ بغاوت کی صورت میں آپ کی حکومت کے خلاف ریشہ دوانیوں میں تو مصروف نہ ہو جائیں گے.امیر امان اللہ خان مجھے اس امر پر یقین و تسلی ہے ایسی صورت میں انگریز اور روس دونوں ہی اپنے معاہدوں کا احترام کرتے ہوئے کوئی معاندانہ رویہ اختیار نہ کریں گے.مصطفی کمال اتاترک: جب یہ ساری صورتیں اعلیٰ حضرت کی موافقت میں ہیں تو بسم اللہ میرا مشورہ یہی ہے کہ اپنے ملک میں اصلاحات نافذ کیجئے.ترکیہ میں اصلاحات کو کبھی بھی خوش آمدید نہیں کہا گیا بلکہ ہم نے بہ نوک سنگین ان کو جاری کیا ہے کسی ملک کے باشندے اپنے پرانے عقائد و خیالات ورسم ورواج کی پابندیوں کو از خود خیر باد نہیں کہا کرتے.تا آنکہ حکومت ان پر جبر وقوت استعمال نہ کرے.- معلوم ہوتا ہے کہ مصطفیٰ کمال اتاترک سے مشورہ کے بعد امیر امان اللہ خان پہلے سے زیادہ اپنے اس عزم میں مضبوط ہو چکا تھا کہ ان اصلاحات کو جو وہ جاری کرنا چاہتا تھا اگر ضرورت پڑے تو بزور قوت جاری کرے گا اور مخالفت کی پرواہ نہ کرے گا.(۸۲) امیر امان اللہ خان کی وطن واپسی اور افغانستان میں اپنے سفر اور مجوزہ اصلاحات کے بارہ میں بیانات ۱۹۲۸ء میں امیر امان اللہ خان ایران سے براستہ مشہد و ہرات افغانستان میں داخل ہوا.کابل میں اس کے آنے کی خوشی میں تین دن تعطیل کی گئی اور شاندار استقبال کیا گیا.چراغاں اور دعوتوں کا اہتمام تھا کیونکہ افغان بادشاہ تاریخ میں پہلی دفعہ اتنے یورپین ممالک کی سیاحت کر کے آیا تھا اور اُسے بہت سی باتوں میں حسبِ خواہش کا میابی اور کامرانی حاصل ہوئی تھی اس وجہ سے اہالیان کا بل نے یہ خوشی کا موقعہ بہت زور شور سے منایا.افغانستان میں ایک لمبے سفر سے واپسی کے بعد ا میر امان اللہ خان کی طبعی خواہش تھی
302 کہ اپنی قوم کو اپنی سیاحت بیرون کے بارہ میں مطلع کرے.یورپین ممالک کے بارہ میں اپنے تاثرات بتائے اور جو اصلاحات وہ اپنے ملک میں جاری کرنا چاہتا تھا ان سے متعارف کروائے.مختلف استقبالیہ تقریبات کے دوران بادشاہ نے پانچ دن تک ایک لمبی تقریر کی جس میں ان ممالک میں ہونے والے واقعات کا تذکرہ کیا جہاں اسے جانے کا موقعہ ملا تھا اور ان اصلاحات کا تذکرہ کیا جن کو وہ جاری کرنا چاہتا تھا تقریر کے آخر میں امیر امان اللہ نے ایک سپاہی ، ایک سرکاری افسر، ایک عام شہری اور ایک طالب علم سے سب کے سامنے معانقہ کیا یہ افراد جن سے معانقہ کیا گیا ان کا انتخاب کر کے گویا اس نے اپنی تمام رعایا کے نمائندگان کو ملحوظ رکھا.قدامت پسند ملاؤں اور نئی اصلاحات کے خُوگر امیر امان اللہ خان کے مابین تنازعات امیر امان اللہ خان کے سفر یورپ کے دوران افغانستان کے ملا امیر کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے اگر چہ ان کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ کوئی شورش بر پا کر سکیں اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ خوست کی بغاوت کے بعد سمت جنوبی کے ملاؤں کا زور توڑ دیا گیا تھا اور ان کے لیڈروں کو عبرتناک سزائیں دی گئی تھیں.جب امیر امان اللہ خان واپس آیا تو ملاؤں کو معلوم ہو چکا تھا کہ ملکہ ثریا صاحبہ سیاحت یورپ کے دوران پردہ کے اس معیار پر قائم نہیں رہی تھیں جو ملا ؤں کے خیال میں اسلام کی تعلیم اور قرآنی شریعت کے مطابق ہر مسلمان عورت کے لئے لازمی ہے اور اس وجہ سے وہ امیر امان اللہ خان سے ناراض تھے.افغانستان میں آنے کے بعد بھی ملکہ ثریا صاحبہ کے بارہ میں یہ رپورٹیں ملتی رہتی تھیں کہ وہ مغربی طرز کی پارٹیوں میں شامل ہوتی ہیں جن میں غیر مرد بھی ہوتے ہیں اور ان موقعوں پر ان کا چہرہ بے نقاب ہوتا ہے.
303 ملاؤں کا ایک وفدا میر امان اللہ خان کو ملا اور انہوں نے اس امر پر احتجاج کیا کہ ملکہ صاحبہ اور دوسری مسلمان خواتین جو ان کے ساتھ ہوتی ہیں وہ غیر مردوں کے سامنے اپنا چہرہ ظاہر کرتی ہیں جب کہ اس کا ڈھانپنا ضروری ہے.بادشاہ نے جواب دیا کہ افغانستان کے دیہات میں اس قسم کا پردہ نہیں ہوتا جیسا ملاؤں کے نزیک مسلم خاتون کے لئے کرنا ضروری ہے.ملاؤں نے جواب دیا کہ دیہات کی غریب عورتوں کو نقاب ترک کرنا پڑتا ہے کیونکہ انہیں کام کرنا پڑتا ہے.اس پر امیر امان اللہ خان نے جواب دیا کہ جب دیہات کی عورتیں نقاب لینے لگیں گی تو ملکہ بھی نقاب اوڑھ لے گی.بادشاہ کے اس جواب پر ملا بہت جزبز ہوئے اور نا راضگی کی حالت میں چلے گئے.یورپ کی سیاحت اور مصطفیٰ کمال اتاترک کی ملاقات کے بعد امیر امان اللہ خان پہلے سے زیادہ اصلاحات کے بارہ میں اپنے عزم میں پختہ ہو چکا تھا یور بین رابطہ سے اس کے اپنے خیالات میں ایک عظیم تغیر آگیا تھا اب وہ معاملات ملکی کو کسی اور انداز میں دیکھنے لگا تھا یورپ نے بطور مہمان کے اس کا جس رنگ میں استقبال کیا تھا اس کا قدرتی طور پر اس کی ذات پر یہ اثر پڑا کہ وہ اپنے آپ کو پہلے سے بہت زیادہ ذہین قابل اور صائب رائے والا سمجھنے لگا تھا اور ملک کی ترقی اور اصلاحات کے بارہ میں جو خیالات اور تجاویز اس کے ذہن میں تھیں اب وہ اس کی نگاہ میں اٹل اور نا قابل ترمیم قرار پا چکی تھیں اور ان کے خلاف کوئی ا مرسننا پسند نہیں کرتا تھا.ان دنوں میں اس نے وزارت خارجہ میں ایک تقریر کرتے ہوئے اپنے بارہ میں بیان کیا کہ وہ ایک انقلابی بادشاہ ہے اور اپنے ملک کی اصلاحی مہم کو انقلابی جد و جہد کے ساتھ مکمل کرے گا.ایک موقعہ پر وزارت حربیہ میں اس نے نوجوان فوجی افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ملک میں جس انقلاب کے دیکھنے کا خواہش مند ہوں اگر ضرورت پڑی تو تمہاری سنگینوں کے زور سے پیدا کیا جائے گا.ملک کے ملاؤں کے متعلق امیر امان اللہ خان
304 کی رائے میں بہت تبدیلی آچکی تھی اور وہ ان کی ذہنیت اور رسوخ کو اپنی قوم کی ذہنی اور معاشرتی ترقی کی راہ میں روک محسوس کرتا تھا اس لئے ان کا زور کم سے کم عرصہ میں تو ڑ دینا چاہتا تھا.ایک مرتبہ جب وزارت خارجہ میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی اور اس میں بیرون ممالک کے سفیروں اور دوسرے غیر ملکیوں کو مدعو کیا گیا تو افغانستان کے ملاؤں جن کا اندرون ملک اور سرحدی قبائل پر گہرا اثر تھا کو بھی دعوتی کارڈ بھجوا کر بلوایا گیا جس میں لکھا تھا کہ اعلیٰ حضرت امیران کو وزارت خارجہ میں شرف باریابی بخشیں گے.جب یہ قدیم الخیال ملاؤں کا گروہ ایک بڑے ہال میں جمع ہوا تو امیر مع اپنے سٹاف اور جملہ سفراء اور مہمانوں کے ٹھیٹھ یورپین لباس میں ہال میں داخل ہوا اور افغانی دستور کے خلاف السلام علیکم کہنے اور مصافحہ و معانقہ کرنے کے بجائے اپنا ہیٹ اتار کر سب حاضرین کے سلام کا جواب دیا اور مغربی انداز میں ہر ایک سے سادہ طور پر مصافحہ کرتا ہوا گزرتا گیا یہ نیا طریق ملاؤں کے نزدیک نا قابل برداشت تھا اور انہوں نے امیر کے اس طریق کو اس کی لا مذہبیت پر محمول کیا.انہی ملاؤں میں ایک ملا صاحب چکنور بھی تھے جن کا افغانستان کے مشرقی قبائل میں بہت اثر و رسوخ تھا اتفاق سے ملا صاحب کے ہاتھ میں موٹے دانوں کی ایک تسبیح تھی جس کو وہ اپنے ہاتھ میں پھیرتے جاتے تھے.ملا کے ہاتھ میں تسبیح دیکھ کر امیر امان اللہ خان کی بھنویں تن گئیں اور وہ تمسخرانہ انداز میں مُلا صاحب کو دیکھنے لگا اور اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ یہ کیا آپ اُونٹ کی مینگنیوں سے کھیل رہے ہیں.امیر یہ کہہ کر گزر گیا تو مصاحبوں میں سے کسی نے عرض کیا کہ اعلیٰ حضرت نے یہ کیا کہہ دیا یہ تو ملا صاحب چکنور تھے.اس پر امیر امان اللہ خان خوش ہو کر بولا کہ کوئی سا ریچھ ہو پرواہ نہیں میں ان سب کو آدمی بنا دوں گا.یہ اور اس طرح کہ اور بہت سے کلمات جو خلوت اور جلوت میں امیر کے منہ سے نکلے تھے ان سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنی پسند کی اصلاحات جاری کرنے پر تلا ہوا ہے اور ان کی راہ
305 میں کوئی مخالفت خواہ وہ بڑے بڑے ملاؤں یا پیروں کی طرف سے ہو برداشت نہیں کرے گا.افغانستان کے جشن آزادی اور لوئی جرگہ کے انعقاد کا فیصلہ افغانستان اب اپنی حکومت کے دس سال پورے کر چکا تھا اور اس کا گیارھواں جشن استقلال پغمان میں منایا جانے والا تھا بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ اس موقعہ پر تمام افغانستان سے لوئی جرگہ بھی بلایا جائے اور اس میں اصلاحات کا اعلان بھی کر دیا جائے.صوبوں کی حکومتوں کو ہدایات ارسال کی گئیں کہ وہ مناسب اشخاص کو جرگہ میں بطور وکیل یا نمائندہ شامل ہونے کے لئے نامزد کریں اور ان کی فہرستیں مرکزی حکومت کو برائے منظوری بھجوائیں.لوئی جرگہ میں شامل ہونے والے نمائندگان کے استقبال اور قیام کا بہت اعلیٰ انتظام کیا گیا تھا نمائندگان کی تعداد کئی سو تھی ان سب کے لئے یورپین طرز کے لباس اور بُوٹ مہیا کئے گئے تھے ان کے لئے مہمان نواز مقرر تھے اور کھانے اور فواکہات کا بہت عمدہ انتظام تھا.مناسب جیب خرچ کی رقم ان کو روزانہ دی جاتی تھی.اور سرکاری موٹروں پر سیر و تفریح کروائی جاتی تھی.امیر امان اللہ خان کی طرف سے ان اقدامات کا مقصد تو واضح تھا کہ ان نمائندگان میں ایسی جماعت پیدا کی جائے جو امیر کی جدید اصلاحات کی تائید وحمایت کرے.لیکن ہوا یہ کہ وہ نمائندگان جو حاضر تھے امیر کی موجودگی میں تو اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور اس کے اقدامات کی تائید کرتے رہے اور جب جر گہ سے فارغ ہو کر اپنے علاقوں میں پہنچے تو امیر امان اللہ کے خلاف دہریت اور لامذہبیت کے الزامات لگا کر عوام کو اس کے خلاف اکسانے لگے ان کے اس طریق عمل کی وجہ بعض وزراء حکومت کا رویہ بھی تھا جو بوجوہ امیر امان اللہ سے ناراض تھے ان کو وزارتوں اور عہدوں کی تقسیم پر جوامیر نے کئے تھے اعتراض تھا کیونکہ اس میں ان کے ذاتی اقتدار اور حقوق پر زد پڑتی تھی ان میں با ہم بھی رنجش تھی اور بادشاہ سے بھی ناراضگی تھی.اس وجہ سے یہ وزراء بھی نمائندگان لوئی جرگہ کو الٹے سیدھے
306 مشورے دینے لگے کہ جرگہ میں تو بادشاہ کی تائید کرو اور واپس جا کر مخالفت جاری رکھنا.لوئی جرگہ کے نمائندگان پر کابل کے بدلے ہوئے ماحول کا منفی اثر لوئی جرگہ کے نمائندگان جو ایک قدیم خیالات رکھنے والی قوم کے نمائندہ تھے اور ہر جدید تبدیلی ان کے لئے نا قابل قبول اور تعجب انگیز تھی انہوں نے جدید خیالات والے بادشاہ کے زیر اثر کابل کے ماحول میں تبدیلی کا مشاہدہ کیا انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کابل اور پغمان میں افغان عورتیں فیشن ایبل یورپین لباس میں بیبا کا نہ ادھر ادھر باغوں اور بازاروں میں سیریں کرتی پھر رہی ہیں ان کے چہرے ننگے ہیں اور وہ سنگھار کئے ہوئے ہیں.یہ خواتین یا تو شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں یا ان وزراء اور افسران سے تعلق رکھتی تھیں جو جدید خیالات کے تھے اور نئے فیشن اور برہنہ روئی کو پسند کرتے تھے.بعض ایسے لوگوں کے خاندانوں سے تھیں جن کا مقصد جدید اطوار اپنا کر بادشاہ کی رضا مندی حاصل کرنا اور اس کا منظور نظر بننا تھا.یہ لوگ اس طریق سے حکومت میں عہدے حاصل کرنے کے خواہش مند تھے کابل میں عام مردوں کو بھی یہ ہدایت تھی کہ وہ مغربی لباس اور ہیٹ پہنا شروع کر دیں.عورتوں کے لئے یہ امر ضروری کیا گیا کہ وہ پرانے طرز کا برقعہ جس میں سر سے لے کر پاؤں تک تمام جسم ڈھانپا جاتا تھا نہ پہنیں بلکہ اسکی جگہ جدید طرز کا مکتبی برقعہ جو ترکی میں استعمال ہوتا تھا اوڑھیں اسطرح وہ روایتی شلوار جسے دلاق کہا جاتا ہے کے پہنے کی ممانعت تھی.ایک حکم یہ جاری کیا گیا تھا کہ جشن استقلال کی تقریبات میں نہ تو وہ مر د شامل ہو سکتے ہیں جو یوروپین طرز کا لباس نہ پہنتے ہوں اور نہ وہ عورتیں جنہوں نے پرانے طرز کا برقعہ یا دلاق پہنا ہو.جشنِ استقلال سے کچھ دن پہلے لوئی جرگہ شروع ہو چکا تھا.تا کہ جشن استقلال کے خاتمہ کے ساتھ ہی جرگہ بھی ختم ہو جائے.
307 امیر امان اللہ خان خود لوئی جرگہ کا صدر تھا اور جملہ تجاویز حکومت کے اراکین کی طرف سے منظور ہو کر بحث کے لئے پیش ہوتی تھیں ناظم جرگہ کی اجازت سے عام نمائندگان بھی ملک کی خیر و بہبودی کے لئے تجاویز پیش کرنے کے مجاز تھے.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے بعض وزیروں اور نمائندگان جرگہ میں باہم خفیہ اتحاداس امر پر ہو چکا تھا کہ جرگہ میں ناگوار امور کو بھی برداشت کر لیا جائے اور بادشاہ کی جدید اصلاحات سے اتفاق کر کے ہاں میں ہاں ملاتے رہیں.لیکن جب لوئی جرگہ سے فارغ ہو کر نمائندگان اپنے اپنے حلقہ میں پہنچیں تو عامة الناس میں امیر امان اللہ خان اور اس کی اصلاحات کے خلاف زور شور سے ایجی ٹیشن شروع کر دیں.اس جرگہ میں جو فیصلے کئے گئے اور جو افغانستان کے علماء پیروں اور عوام کے لئے ناگوار ہو سکتے تھے ان میں سے بعض یہاں درج کئے جاتے ہیں.(الف) بیرق کی تبدیلی ، افغانستان کا جھنڈا جس کا رنگ سیاہ تھا اور اس پر مسجد و محراب و ممبر کا نقشہ تھا.بادشاہ اس کو بدل دینا چاہتا تھا اب اس کے بجائے بعض یورپین ممالک کی تقلید میں سے رنگا جھنڈا بغیر کسی نقش کے تجویز کیا گیا تھا.نمائندگان چاہتے تھے کہ اس جھنڈے پر اللہ اور محمد م ، ضرور لکھا جائے لیکن بادشاہ کو یہ منظور نہ تھا آخر کافی بحث کے بعد بادشاہ نے جھنڈے پر اللہ لکھوانا منظور کر لیا اور محمد” ، “ لکھوانا کسی طرح منظور نہ کیا.اس واقعہ سے نمائندگان کے دلوں پر بادشاہ کی لامذہبیت اور دہریت کا نقشہ بیٹھ گیا.بادشاہ کا خیال تھا کہ ملک کی معاشرتی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ مردوں کو ایک بیوی کی اجازت ہو.جب کہ بالعموم امیر لوگ دو دو، تین تین، چار چار بیویاں کر لیا کرتے تھے اس کے علاوہ لونڈیوں کا بھی دستور تھا اور افغانستان کے مذہبی لیڈ ر لونڈیاں رکھنے کو اسلام کی تعلیم کے مطابق اور جائز قرار دیتے تھے.امیر امان اللہ خان نے لونڈی غلام رکھنے کے طریق
308 کو نا جائز قرار دیا اور اُن کو آزادی دے دی تھی.جشن استقلال کا افتتاح کرتے ہوئے امیر امان اللہ نے جو تقریر کی اس میں خلاصہ ان اصلاحات کا ذکر ہے اس تقریر میں امیر نے کہا کہ افغانستان اپنا دس سالہ دور ختم کر چکا ہے.اور آج ہم گیارھویں جشن کا آغاز کر رہے ہیں.اگر چہ ہم نے اس ختم ہونے والے دور میں بہت کچھ حاصل کیا ہے لیکن بہ ایں ہمہ ہم اُس کا عشر عشیر بھی مکمل نہیں کر سکے جو میرے پیش نظر ہے.میرے عزائم پہاڑوں کی مانند بلند ہیں اور مقصد بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ میں افغانستان کو دنیا کی عظیم الشان ترقی یافتہ ممالک کے دوش بدوش لاؤں میں نے گذشتہ دس سالوں میں افغانستان کے فرزندوں کو تعلیم حاصل کرنے یورپ بھیجا اب میں آئندہ سے اس ملک کی بچیوں کو بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں بیرون ممالک میں حصول تعلیم کے لئے بھجواؤں گا.تا کہ نہ صرف ہمارے بچے بلکہ ہماری بچیاں بھی زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر ملک وقوم کی خدمت کرنے کے قابل ہوسکیں کوئی قوم بغیر تعلیم کے ترقی نہیں کر سکتی افغانستان کی ترقی بھی نوجوانوں کے تعلیم یافتہ ہونے پر موقوف ہے میں لڑکیوں کے والدین کو تلقین کرتا ہوں کہ وہ اس مبارک اور اہم کام میں اپنی حکومت کا ہاتھ بٹائیں اور جس وقت اُن کی بچیوں کو بیرون ملک تعلیم کے لئے بھجوایا جائے تو وہ ہرگز پس و پیش نہ کریں.لڑکیوں کا پہلا گروپ عنقریب حکومت کے خرچ پر تر کی بھجوایا جائے گا اور بعد ازاں تھوڑے تھوڑے وقفوں سے مزید گروپ بھی بھیجے جائیں گے.دوسرا مسئلہ جس کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ایک سے زائد بیویاں کرنے کا ہے میں نے حکم دے دیا ہے کہ آئندہ اس شخص کو حکومت کی ملازمت میں نہ لیا جائے جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں کیونکہ جو شخص دو یا زائد بیویاں رکھے گا وہ لا محالہ اپنے اخراجات جائز ذریعہ سے پورا نہ کر سکے گا اور رشوت کے ذریعہ دولت حاصل کرنے پر مجبور ہو گا.لوگ پوچھتے ہیں کہ شریعت میں چار بیویاں تک رکھنے کی اجازت ہے پھر کیا سبب ہے کہ حکومت ہمیں اس سے منع کرتی ہے.میں کہتا ہوں کہ قرآن میں صرف ایک ہی بیوی رکھنے کا حکم آیا ہے دویا
309 زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں ایسی کڑی شرط لگا دی گئی ہے جس پر عمل کرنا انسان کے بس کی بات نہیں اور وہ شرط یہ بیان ہوئی ہے کہ ”بشر طیکہ تم ان میں عدل قائم رکھ سکو اس لئے اصل میں خدا کی مرضی یہی ہے کہ ایک مرد ایک وقت میں ایک ہی بیوی پر قانع رہے.مردوں کو غور کرنا چاہئے کہ جس طرح وہ دو دو تین تین بیویاں رکھنے کے مشتاق ہیں اسی طرح اگر عورتیں بھی ایک سے زیادہ شوہر بیک وقت رکھنا چاہیں تو کیا وہ اس صورت حال کو برداشت کر سکیں گے؟ پس اگر مرد عورتوں کے اس فعل کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کے بالمقابل عورتیں بھی مردوں کی ایک سے زائد بیویوں کو کیوں برداشت کریں؟ میری حکومت میں عورتیں آج سے بالکل آزاد ہیں اور میرا قانون اُن کے حقوق اور آزادی کی حفاظت کے لئے تیار ہے اور عورتوں کو اختیار ہے کہ اگر اُن پر شو ہر ظلم کریں تو وہ عدالت میں ان کے خلاف چارہ جوئی کر کے اگر چاہیں تو طلاق بھی لے سکتی ہیں.(۸۳) امیر امان اللہ خان کی حکومت کے خلاف مخالفت کی ابتداء امیر امان اللہ خان نے یورپ سے واپسی کے بعد لوئی جرگہ اور گیارھویں یوم استقلال کے موقعہ پر کابل اور پغمان میں اصلاحات جاری کرنے کے بارہ میں جو تقاریر کیں ان کا پہلے ذکر آ چکا ہے.وہ نمائندگان جو لوئی جرگہ کی کارروائی کا برا اثر لے کر اپنے وطنوں کو لوٹے اب وہ اپنے تاثرات اور منفی خیالات دور دراز علاقوں میں منتشر بکھرے ہوئے قبائل کو پہنچا رہے تھے جن کو سن کر یہ علم سے نا آشنا قبیلے اپنی حکومت کی لامذہبیت اور خلاف شریعت احکام و قوانین پر سخت چین بجبین ہو رہے تھے.اس طرح ہر جگہ حکومت کے خلاف ناراضگی بڑھتی جا رہی تھی اور حکومت کے وہ وزیر جو کسی وجہ سے امیر سے ناراض تھے اپنی منافقانہ چالیں چل کر حالات کو سنوارنے کی بجائے بگڑنے میں مدد دے رہے تھے اور انگاروں پر تیل چھڑک رہے تھے وہ اپنے مفاد کی خاطر جرگہ کے نمائندگان سے رابطہ رکھے ہوئے تھے اور ان کو شورش پر اکساتے
310 رہتے تھے.سمت مشرق میں بغاوت کا آغاز شنواری قبیلہ جو کا بل کے جانب مشرق جلال آباد کے قریب آباد ہے اس میں سب سے پہلے بغاوت کا آغاز ہوا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ امیر امان اللہ خان کی حکومت افغانستان کی نوجوان دوشیزہ لڑکیوں کو تعلیم کے لئے بیرونی ممالک میں بھجوانا چاہتی تھی جسے عام افغان بے غیرتی سمجھتے تھے.ان لڑکیوں میں سے بعض کے والدین نے بہ رضاء و رغبت یا بادشاہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی بچیوں کو باہر بھیجا جانا قبول کر لیا تھا لیکن اکثر اسے ناپسند کرتے تھے.ان لڑکیوں کے پہلے گروپ کو موٹروں پر سوار کروا کے ہندوستان کے راستے بیرون ممالک بھجوایا جا رہا تھا.جب شنواریوں کو اس کا علم ہوا کہ لڑکیوں کی موٹروں کا قافلہ ان کے قبیلہ کے حدود سے گزرے گا تو انہوں نے اپنے ملاؤں کے اکسانے پر اس قافلہ کو روکنے کا پروگرام بنالیا اور قبیلہ کے سینکڑوں مسلح آدمی سڑک پر آ کر بیٹھ گئے ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ قافلہ کو روک لیں گے اور حکومت افغانستان پر اپنی ناراضگی واضح کر دیں گے تاکہ وہ اس فیصلہ کو بدل دے لیکن چونکہ یہ قافلہ تیز رفتار موٹروں پر سوار تھا اس لئے وقت کا اندازہ کرنے میں غلطی لگی اور قافلہ ان کے ہاتھ نہ آ سکا اور شنواریوں کو ایک دل شکن نا کامی کا سامان کرنا پڑا وہ حکومت کے خلاف غیظ و غضب سے بھر گئے.شنواریوں نے اپنے علاقہ میں واپس جا کر ایک کہرام برپا کر دیا اور حکومت کے خلاف تخریب کاری کے منصوبے بنانے لگے ملاؤں نے ان کا جوش و خروش دیکھ کر بادشاہ کے خلاف اعلانِ جہاد کر دیا.رفتہ رفتہ یہ خبر اس علاقہ میں متعین فوج میں بھی پھیل گئی اس علاقے میں ایک شنواری پلٹن بھی تھی انہوں نے عوام کے ساتھ مل کر چھاؤنیوں کو لوٹ لیا اس طرح با قاعدہ علم بغاوت بلند کر دیا گیا.جب شنوار کی بغاوت کی اطلاع کابل میں پہنچی تو حکومت نے مصلحی چند دن اس کو پوشیدہ رکھا لیکن بالآخر کابل کے عوام کو اس کی خبر ہو گئی اور جو لوگ حکومت کی جدید اصلاحات
311 سے تنگ آئے ہوئے تھے اور اسے خلاف اسلام سمجھتے تھے وہ اس بغاوت پر بہت خوش ہوئے اور عواقب سے قطع نظر کر کے اسے سراہنے لگے.امیر امان اللہ خان نے شنواریوں کی بغاوت فرو کرنے کے لئے یکے بعد دیگرے متعد د سرداروں کو لشکر دے کر بھیجوایا چنانچہ باری باری آقائے شیر احمد خان میر زمان خان کری اور سردار محمود خان یاور کو بھجوایا لیکن بغاوت بڑھتی اور پھیلتی گئی.باغیوں نے میر زمان خان کنری کو قتل کر دیا.کیونکہ وہ ایک ظالم اور بددیانت شخص تھا اور شنواری اس کو خوب جانتے تھے کیونکہ وہ اسی علاقے کا رہنے والا تھا.باغیوں نے جلال آباد پر حملہ کر کے اسے لوٹ لیا اور شہر کو آگ لگا دی اس تمام علاقہ میں طوائف الملو کی پھیل گئی عام طور پر لوٹ مار اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں شنواریوں کے علاوہ دیگر قبائل مثلاً صافی مومند اور آفریدی قبیلہ کے بعض لوگ بھی شامل ہو گئے.اب جلال آباد، نملہ، پغمان وغیرہ کے علاقے باغیوں کے پاس تھے اور مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول ان پر نہیں تھا باغیوں کے پاس کافی لوٹا ہوا اسلحہ موجود تھا.ایک بات قابل ذکر ہے کہ جب شنواریوں نے جلال آباد کو تباہ کیا تو امیر حبیب اللہ خان کے مقبرہ پر بھی حملہ آور ہوئے اور اس کی قبر کو سنگسار کیا.امیر امان اللہ خان کو اس بغاوت کی وسعت اور تباہ کاری کا احساس ہوا اور ضرورت محسوس ہوئی کہ وسیع پیمانہ پر لشکر کشی کر کے کسی مناسب اور قابل سردار کو روانہ کیا جائے اس غرض کے لئے اس نے سردار علی احمد جان کو چنا.اگر چہ امیر امان اللہ خان اور سردار علی احمد جان میں باہم نا راضگی تھی لیکن اس نازک موقعہ پر علیا حضرت یعنی امیر امان اللہ خان کی والدہ اور سردار علی احمد جان کی خوش دامن نے اصرار کر کے سردار علی احمد جان کو راضی کر لیا اور اس نے بغاوت فرو کرنے کا بیڑہ اٹھا یا وہ ایک لشکر لے کر روانہ ہوا اور آگے بڑھ کر جد لک مقام پر اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کر لیا اور باغیوں کے لیڈروں سے بات چیت شروع کر دی - باغی امیر امان اللہ خان کے وعدہ معافی پر ہتھیار ڈالنے کو تیار نہ ہوئے اس لئے کہ انہیں یہ علم تھا کہ امیر امان
312 اللہ خان بدعہدی کا عادی ہے.خصوصاً بغاوت سمت جنوبی کے بعد جب بغاوت کے لیڈراس کے تحریری وعدہ پر کہ اگر وہ بغاوت ترک کر دیں گے تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا کا بل آگئے تھے تو ان کے قابو آ جانے کے بعد امیر امان اللہ خان نے اپنے قرآن مجید پر لکھے ہوئے وعدہ کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کی تھی اور باغیوں کے لیڈروں یعنی ملا عبد اللہ ملآئے لنگ اور اس کے داماد ملا عبدالرشید ملائے دبنگ کو قتل کروا دیا تھا.شنواری باغیوں کا مطالبہ تھا کہ وہ امیر امان اللہ خان کی بادشاہت قبول کرنے کے لئے ہر گز تیار نہ ہوں گے.البتہ اگر کوئی اور بادشاہ مقرر ہو جائے تو اس پر غور کر سکتے ہیں.اس پر سردار علی احمد جان نے امیر امان اللہ خان کے مشورہ کے مطابق اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا اور لوگوں کو اپنی بیعت کے لئے بلایا.سمت شمالی یعنی جبل السراج اور کوہ دامن کے علاقہ میں شورش کا آغاز اور اس کا سمت مشرقی کی بغاوت پر اثر ابھی سردار احمد علی جان اور سمت مشرقی کے قبائلیوں میں گفت و شنید جاری تھی کہ حالات نے ڈرامائی انداز میں پلٹا کھایا اور کابل کی سمت شمالی میں ایک اور بغاوت شروع ہو گئی یہ بغاوت ایک تا جک ڈاکو مسمی حبیب اللہ عرف بچہ سقاؤ اور سید حسین ڈاکو جو پہاڑی علاقے کا رہنے والا تھانے شروع کی.بچہ سقا ؤ پہلے حکومت کی فوج میں تھا اس کی پلٹن قطعہ نمونہ کہلاتی تھی اور اس کے تیار کرنے میں ترکی جرنیل جمال پاشا کا ہاتھ تھا.اس نے بغاوت منگل فرو کرنے میں کافی حصہ لیا بعد میں یہ کابل آگئی کچھ عرصہ بعد بچہ سقاؤ کا جھگڑا بعض فوجی افسروں سے ہو گیا اور اس کے ہاتھ سے چند فوجی مارے گئے.اس پر بچہ سقاو فرار ہو گیا اور اپنے علاقے میں جا کر ڈاکہ زنی کا پیشہ اختیار کر لیا.بچہ سقاؤ کا ذکر آگے زیادہ تفصیل سے آئے گا.ہم سمت مشرقی کی بغاوت کا ذکر کر رہے تھے اس علاقہ میں سردار علی احمد جان نے اپنی بادشاہت کا اعلان کیا ہوا تھا اور بعض قبائل کے لوگ جن میں خوگیانی، شنواری، مومند آفریدی وغیرہ تھے اس کے گرد اکٹھے ہونا
313 شروع ہو گئے تھے کہ اس عرصہ میں یہ خبر آئی کہ باغی بچہ سقاؤ نے اکتوبر ۱۹۲۸ء کے آخر میں کابل پر حملہ کر دیا.اگر چہ اس کو پسپا ہونا پڑا لیکن ایک باغی ڈاکو کا کا بل پر حملہ کرنا ہی اتنا اہم واقعہ تھا کہ جس سے افغانستان کی حکومت کی رہی سہی وقعت بھی باغیوں کی نظر سے جاتی رہی اور ان کا ایک حصہ بجائے سردار علی احمد جان کی بادشاہت کو تسلیم کرنے کے بچہ سقاؤ کے گن گانے لگا.کیونکہ اب بچہ سقاؤ کا دعوئی خادمِ اسلام ہونے کا تھا اور وہ لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشس کرتا تھا کہ وہ عام ڈاکو نہیں ہے بلکہ امیر امان اللہ خان کے خلاف مصروف جہاد ہے.اس طرح شنواریوں کا رویہ بدل گیا اور سمت مشرقی کے دوسرے باغی بھی سردار علی احمد جان کا ساتھ چھوڑ گئے اور اس کو اپنی جان بچانے کے لئے پشاور کی طرف بھا گنا پڑا.اسکے بعد سمت مشرقی کے ملاؤں اور قبائلیوں کا ایک حصہ بچہ سقاؤ کے ساتھ مل گیا.افغانستان کے بڑے بڑے پیر اور ملا جن سے امیر امان اللہ خان کا واسطہ پڑا افغانستان کے مختلف علاقوں کے بڑے بڑے ملا اور پیر اب تک امیر امان اللہ خان کےخلاف ہو چکے تھے اور ذہنی طور پر ان لوگوں کے ہم آہنگ تھے جو امیر امان اللہ خان کو ہٹانا چاہتے تھے.بڑے بڑے ملا جن سے امیر امان اللہ خان کا مختلف اوقات اور علاقوں میں واسطہ پڑا ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں.(۱) ملا عبد اللہ ملائے لنگ اور اُس کا داماد ملا عبدالرشید انہوں نے امیر امان اللہ خان کے خلاف بغاوت منگل میں نمایاں حصہ لیا تھا.امیر نے صلح کے بہانے ان کو سردار علی احمد جان کی معرفت و عدہ معافی دے کر کا بل بلا کر گرفتار کر والیا تھا اور بالآخر ان کو قتل کرا دیا تھا.(۲) ملا صاحب چکنور جن کا تسبیح کے دانوں والا واقعہ پہلے گزر چکا ہے.(۳) ملا صاحب شور بازار اور ان کے چھوٹے بھائی صاحبزادہ ملا شیر آ قا صاحب - ملا صاحب شور بازار کو امیر امان اللہ خان نے سمت جنوبی کی طرف بغاوت رفع کرنے کے لئے
314 بھجوایا تھا لیکن وہ اس بات میں بالکل ناکام ثابت ہوئے تھے جب وہ واپس آئے تو ان میں اور بادشاہ کے درمیان مخالفت اور ناراضگی قائم ہو گئی اس لئے ملا صاحب شور بازار عواقب سے بچنے کے لئے حج کرنے چلے گئے اور جب واپس آئے تو کابل آنے کی بجائے سرہند چلے گئے اور وہاں حضرت مجدد الف ثانی کے مزار کے پاس مقیم ہو گئے تھے اور افغانستان کے حالات کا انتظار کرتے تھے.سمت جنوبی میں ان کے کردار اور نا کامی کی وجہ غالبا یہ ہو سکتی ہے که ملا صاحب شور بازار ایک تجربہ کار اور ہوشیار آدمی تھے انہوں نے امیر امان اللہ خان کے عزائم کو بھانپ لیا تھا اور وہ سمجھ گئے تھے کہ جس قسم کی آزادی اور اصلاحات امیر افغانستان میں نافذ کرنا چاہتا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ کسی نہ کسی موقعہ پر حکومت اور افغانستان کی روایتی مذہبی لیڈرشپ کا ٹکراؤ ہوگا اور دونوں کے درمیان جو جنگ ہوگی وہ اپنی survival کی جنگ ہو گی جس میں ایک فریق اپنے بچاؤ کے لئے دوسرے فریق کو کالعدم کرنا چاہے گا.اس لئے ملا صاحب شور بازار نہیں چاہتے تھے کہ سمت جنوبی کی مذہبی لیڈر شپ یعنی ملاء لنگ اور ملاء عبدالرشید صلح کروا کے حکومت کے حوالے کر دیں.سمت شمالی میں بچہ سقاؤ کی بغاوت کے حالات اس کا کچھ ذکر پہلے آچکا ہے اکتوبر ۱۹۲۸ء کے آخر میں اس نے جب کا بل پر حملہ کیا تھا تو اگر چہ اس کو پسپا ہونا پڑا تھا لیکن اس حملہ سے عوام پر حکومت امان اللہ کی کمزوری واضح ہو گئی اور اس حملے نے حکومت کے دفاعی انتظامات کو بھی کھوکھلا کر دیا تھا.اب سید حسین بھی بچہ سقاؤ کے ساتھ مل چکا تھا اور ان دونوں کے ملنے سے باغیوں کی طاقت میں اضافہ ہو چکا تھا.کابل پر حملہ کی پسپائی کے بعد امیر امان اللہ خان کو احساس ہوا کہ اس کے دفاعی انتظامات بہت کمزور ہیں اس نے بعض لوگوں کے مشورہ سے یہ تجویز کی کہ قطعہ نمونہ کی فوج کو دوبارہ قائم کیا جائے کیونکہ یہ ترک جرنیل جمال پاشا کی تربیت یافتہ تھی اور اس کا معیار دوسرے فوجیوں کی نسبت بہت بہتر تھا.
315 ایک عام اعلان کے ذریعہ ان سپاہیوں اور افسروں کو دعوت دی گئی کہ وہ اس فوج میں شامل ہو جائیں اس اعلان کو بچہ سقا ؤ نے بھی سنا چونکہ وہ بھی اس فوج کا ممبر تھا گواب وہ باغی اور ڈاکو تھا لیکن اس نے اس فوج میں شامل ہو کر خوست کے علاقہ میں جنرل محمد نادر خان کی سرکردگی میں خدمات ادا کی تھیں.اس زمانہ میں سردار احمد علی خان سمت شمالی کا حکومت کا بل کی طرف سے والی تھا جس کا ہیڈ کوارٹر جبل السراج میں تھا.امیر امان اللہ خان نے اس کو مشورہ کے لئے کابل بلایا اور اسے خفیہ طور پر ہدایات دیں کہ بچہ سقاؤ اور سید حسین سے بات چیت کر کے ان دونوں کو بغاوت کے ختم کرنے پر آمادہ کرے اور اس کے بدلے میں علاوہ معافی کے ان دونوں کو فوج میں کرنل کا عہدہ دیئے جانے کی پیش کش کرے.چنانچہ سردار احمد علی خان نے حسب ہدایت امان اللہ خان دونوں سے الگ الگ خفیہ بات چیت کی اور ان کو بغاوت ختم کرنے اور فوج میں بھرتی ہونے پر راضی کرلیا.دو ڈاکوؤں سے یہ معاہدہ نشان دہی کرتا ہے کہ اس وقت حکومت اپنی کمزوری کی وجہ سے خوف زدہ تھی.اب بچہ سقاؤ کی اہمیت بڑھ گئی تھی اور وہ بغیر کسی خوف و خطر کے کھلم کھلا سرائے خوجہ میں بیٹھ کر قطعہ نمونہ کے ساتھ فوجیوں اور کوہ دامن کے رہنے والے دوسرے لوگوں کو سرکاری فوج میں بھرتی کر رہا تھا.اس کے علاوہ سردا را احمد علی خان جبل السراج میں بھرتی کا کام کر رہا تھا.حکومت خوش تھی کہ اس نے ایک تیر سے دو شکار کر لئے ایک تو ڈاکوؤں کی رہزنی سے عوام کو محفوظ کر لیا اور دوسرے حکومت کی فوج اور دفاع کے انتظام میں بھی بہتری پیدا ہو گئی.اب سمت مشرقی کے باغیوں پر بھی بخوبی قابو پایا جا سکے گا کابل کے اخبارات بچہ سقاؤ کی تعریفوں میں اپنے صفحات سیاہ کر رہے تھے.ادھر بچہ سقا ؤ بظا ہر تو حکومت سے تعاون کر رہا تھا لیکن اس کے دل میں خدشات باقی تھے کہ کہیں اس موقعہ پر بھی امیر امان اللہ خان بد عہدی نہ کرے.اس نے اپنے جی میں یہ
316 بات ٹھان لی کہ کوئی ایسا طریق اختیار کرے جس سے بادشاہ کا اصل ارادہ اور مقصد معلوم ہو جائے اس غرض سے اس نے ایک روز بادشاہ کو فون کر ڈالا اور جب بادشاہ نے دریافت کیا کہ کون بول رہا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں احمد علی خان سمت شمالی کا والی بول رہا ہوں.پھر اس نے بادشاہ کو بتایا کہ اس نے بچہ سقاؤ پر قابو پا کر اسے گرفتار کر لیا ہے.اس پر بادشاہ نے ایک بار پھر بد عہدی کا ارادہ کر لیا اور جوش سے بھری ہوئی آواز میں جواب دیا کہ اس کتے کو فور أموت کے گھاٹ اتار دو اور اس کا سرکاٹ کر کابل روانہ کرو“ اس طرح بچہ سقاؤ کو بادشاہ کے عزم غداری کا علم ہو گیا اس نے فون پر اپنی اصلیت بتا دی اور بادشاہ کو برا بھلا کہتے ہوئے فون بند کر دیا.یہ خبر آن کی آن میں کوہ دامن اور جبل السراج کے علاقہ میں پھیل گئی کہ بادشاہ ہم لوگوں سے غداری کرنا چاہتا ہے اور بغاوت جو پہلے نسبتاً محدود تھی تمام سمت شمالی میں پھیل گئی.ڈاکوؤں نے جبل السراج پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا.اور بچہ سقا ؤ نے کا بل پر حملہ کرنے کا پروگرام بنالیا.حالات اس سرعت سے بدلے اور واقعات کے رخ نے ایسا پلٹا کھایا کہ امیر امان اللہ کو خبر ہونے تک چند دن کے اندر اندر ڈاکوؤں نے کابل کی طرف دھاوا بول دیا شہر آراء کے دروازے سے متصل کابل سے ایک دوفر لانگ سمت شمال میں مکتب حربیہ اور اس کے انگریزی سفارت خانے کے درمیان ایک پہاڑی پر ایک قلعہ ہے جہاں گولہ بارود رکھا جاتا ہے اس لئے اس کو میگزین کا نام دیا جاتا ہے.بچہ سقاؤ کی فوج نے انگریزی سفارت خانہ کو گھیر لیا اور سرکاری پہرہ داروں سے بندوقیں چھین کر وہاں اپنے پہرہ دار مقرر کر دیئے.پھر قلعہ میگزین کے پہرہ داروں کو قتل کر کے تمام گولہ بارود پر قبضہ کر لیا پھر دفعہ مکتب حربیہ پر حملہ کر کے اس پر قابض ہو گیا.جب اس حملہ کی اطلاع کابل میں ہوئی تو شاہی فوج بھی مقابلہ پر آ گئی اور دونوں فوجوں میں باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی.اب بچہ سقاؤ کے قبضہ میں کچھ تو ہیں بھی آگئی تھیں اس لئے اس نے کا بل پر گولہ
317 باری بھی شروع کر دی.شہر میں دہشت پھیل گئی عوام نے جس طرح بھی ممکن ہو سکا اپنی جانوں اور اموال کو محفوظ کرنے کے لئے ہر کوچہ و بازار میں حفظ ما تقدم کے لئے دیوار بندیاں کر لیں اور دروازے بند کر کے محصور ہو گئے.تمام وزراء بڑے بڑے سردار اور شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے لوگ ارک شاہی میں جمع ہو گئے خوف کے مارے بچوں اور عورتوں میں ایک گہرام مچ گیا.کابل میں شہر کی حفاظت کے لئے میر غوث الدین خان احمد ز کی ایک لشکر جمع کر رہا تھا جسکا مقصد امیر امان اللہ خان کی حفاظت اور مدد کرنا تھا اس لشکر کو بادشاہ کی طرف سے بھی اسلحہ دیا گیا تھا.بچہ سقاؤ کے حملہ کرنے پر میر غوث الدین خان چپ کر کے اپنے لشکر سمیت کابل چھوڑ کر اپنے وطن روانہ ہو گیا.صبح ہوتے ہوتے اسکے چلے جانے کی شہرت پھیل چکی تھی.کابل میں امیر امان اللہ خان کے آخری دن دستبرداری اور کابل سے فرار بادشاہ اپنے آپ کو چاروں طرف سے محصور پا کر اپنے خاندان کے ساتھ تن بہ تقدیر رہنے پر مجبور تھا بادشاہ اور دیگر خاندان شاہی کی بے بسی اور آہ بکا کا عجیب نظارہ تھا.ارک کا محافظ دستہ اور شاہی رسالہ کے کچھ فوجی جوارک کے آس پاس اور اندر موجود تھے اپنے بادشاہ اور اپنے ملک پر اپنا آخری قطرہ خون نچھاور کرنے کے لئے تڑپ رہے تھے اور وہ تمام ڈسپلن کو بالائے طاق رکھ کر باہر جا کر بچہ سقاؤ کے فوجیوں پر یک لخت حملہ کرنے کے لئے بے چین ہورہے تھے لیکن امیر امان اللہ خان کی والدہ علیا حضرت ان کی بلائیں لے کر ان کو روک رہی تھیں اور با چشم زار ان کو کہہ رہی تھیں کہ خدا کے لئے تم ارک چھوڑ کر نہ جاؤ ہم یہیں اکٹھے مریں گے وہ کون سا دل ہو گا جو ان کی یہ حالت دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا تھا.شہر سے باہر قریب مقام پر جہاں بچہ سقاؤ کا لشکر موجود تھا شاہی فوج سے لڑائی جاری تھی قلعہ بلند میں جو میگزین تھا بچہ سقاؤ کے ساتھیوں نے اس پر قبضہ کر لیا وہاں سے اسلحہ دوسرے مقامات پر منتقل کر نے لگے تھے.
318 لڑائی کچھ دن جاری رہی اس دوران میں سرکاری فوجوں نے جوابی حملے کر کے بہت سے مقامات کو سقاویوں سے واپس چھین لیا اور اب زیادہ تر لڑائی کابل سے نسبتاً دور کچھ فاصلے پر ہورہی تھی امیر امان اللہ خان کی گورنمنٹ نے تمام حالات کا جائزہ لے کر کاظم پاشا ترکی جرنیل کے مشورہ سے سقاویوں پر ایک حملے کا پروگرام بنایا.تمام فوج جو کابل یا اس کے نواح میں موجود تھی اس کا کمانڈر محمد عمر خان سور جرنیل کو بنایا گیا جو شمالی سمت کا باشندہ تھا اور ایک بہادر جرنیل مانا جاتا تھا.یہ شخص نہایت ظالم اور راشی تھا اور ان جرموں میں کئی مرتبہ ماخوذ بھی ہو چکا تھا اسے قید خانہ سے نکال کر یہ کمان دی گئی تھی.محمد عمر خان فوج لے کر باہر نکلا اور قریباً دس میل آگے نکل گیا.اس فوج کو دیکھ کر بچہ سقاؤ بھی گھبرا گیا لیکن قدرت نے اس کی مدد کی شاہی فوج میں اختلاف پھیل گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ محمد عمر خان سور جرنیل سمت جنوبی کی بغاوت میں سرکاری جرنیل تھا اور بغاوت کو رفع کرنے میں اس نے قبائلیوں پر کافی مظالم کئے تھے بالخصوص منگل قبیلہ کے لوگ اس کے مظالم کا خاص نشانہ بنے تھے.ان کا محمد عمر خان سُور جرنیل سے جھگڑا ہو گیا اور بات تو تو میں میں سے بندوقوں تک جا پہنچی میدان جنگ میں اس جھگڑے کی خبر سن کر محمد ولی خان (جوسفر یورپ کے دوران بادشاه امان اللہ کا کا بل میں وکیل تھا ) موقعہ پر پہنچ گیا اور مشتعل فریقین کو سمجھا بجھا کر راضی کیا اور تنازع رفع ہو گیا لیکن ذہنوں پر اس کا اثر باقی رہا اسی جھگڑے میں سور جرنیل کو پاؤں پر گولی بھی لگ گئی.اس روز رات کو بچہ سقاؤ کے بھائی حمید اللہ نے صرف پچاس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر سرکاری فوج پر ہر چہار طرف سے شب خون مارا جو نہی شبخون پڑا سرکاری فوج کے ایک حصہ نے تو یہ سمجھا کہ باغی لشکر نے ان پر حملہ کر دیا ہے اور ایک حصہ لشکر نے یہ خیال کیا کہ ان کے اپنے قبائلی لشکر نے دن کے تنازع کا بدلہ لینے کے لئے حملہ کر دیا ہے بس پھر کیا تھا.سرکاری فوج جو سردی کی وجہ سے آرام سے اپنے خیموں میں پڑی ہوئی تھی ایک عالم اضطراب میں خیموں سے باہر نکل آئی اور اندھیرے میں یہ جان کر کہ چاروں طرف گولیاں چل رہی ہیں
319 سخت بے دل ہو گئی اور رات کی تاریکی میں جس کا جس طرف منہ اٹھا بھاگ کر فوجی کیمپ سے غائب ہو گیا بھگوڑے اپنا بہت سا سامان اور ہتھیار چھوڑ کر بھاگ گئے.صبح بچہ سقاؤ کی فوج کو سینکڑوں بندوقیں.گولا بارود، بوٹ کپڑے، خیمے، مشین گنیں اور چند تو ہیں ہاتھ آگئیں.سردار محمد عمر خان سور کی فوج کی اس تباہ کن اور رسوائی آمیز شکست سے سقایوں کا کا بل پر حملہ بہت آسان ہو گیا.اس شکست کی اطلاع امیر امان اللہ خان کو رات کے وقت ملی اور اسی خبر کے ملنے پر اس نے افغانستان پر آئندہ حکومت کرنے کی جملہ توقعات کو فراموش کر دیا ان حالات میں جب کہ سمت مشرقی میں بغاوت جاری تھی اور وہاں ابھی تک سکون نہیں ہوا تھا اور دوسری طرف بچہ سقاؤ کی فوج جانب شمالی سے حکومت کے بیرونی دفاع کو توڑ کر کابل آن پہنچی تھی امیر امان اللہ خان کا تذبذب بالکل فطرتی تھا اسے چاروں طرف سے مایوسی گھیرے ہوئے تھی.اس کے خیالات کچھ اس قسم کے تھے کہ سمت شمالی کے باغی اگر کل تک کابل کی دیواروں کے ساتھ پہنچ گئے اور پھر انہوں نے کابل پر قبضہ کر لیا تو میرا حشر کیا ہوگا.وہ مجھے گرفتار کر کے مار دیں گے مجھے فوراً جان بچا کر کابل سے نکل جانا چاہیے.میں اپنے بال بچوں کو قندھار بھجوا چکا ہوں اس لئے سوائے قندھار کے کسی اور مقام کی طرف نہ جانا چاہیے قندھاریوں کو ہم قوم ہونے کی وجہ سے مجھ سے کچھ ہمدردی ہو سکتی ہے.اس رات ان خیالات کی وجہ سے امیر امان اللہ خان ایک لمحہ کے لئے بھی آرام نہ کر سکا.آخر اس نے اپنے بڑے بھائی سردار عنایت اللہ خان کو بلا کر کا بل سے چلے جانے کا عندیہ ظاہر کیا.اس نے دستبرداری کے اعلان پر بھی دستخط کر دیئے اور سردار عنایت اللہ خان کو افغانستان کی بادشاہت قبول کرنے پر راضی کر لیا.صبح ہوتے ہی امیر امان اللہ خان کابل سے قندھار کی طرف با حسرت یاس رخصت ہو چکا تھا اور امیر عنایت اللہ خان افغانستان کا برائے نام امیر اور بے اختیار بادشاہ تھا.امیر امان اللہ خان صبح آٹھ بجے کے قریب چلا آیا تھا.اُس وقت ارک کے دروازے بند تھے ایک دو گھنٹوں کے بعد تمام عمائدین وا کا برین شہر کو ارک کے اندر طلب کیا گیا اس وقت لوگوں
320 کو معلوم ہوا کہ امیر امان اللہ خان بادشاہت چھوڑ کر کابل سے جاچکا ہے اور امیر عنایت اللہ خان بادشاہ مقرر ہوا ہے.نئے بادشاہ کی تخت نشینی کی رسم ملا صاحب شور بازار کے چھوٹے بھائی نے ادا کی جن کو کچھ دن پہلے امان اللہ خان نے قید خانہ سے رہا کیا تھا.کابل میں نئے بادشاہ کے تقرر پر تو ہیں چھوڑیں گئیں تو عوام کو یقین ہو گیا کہ امیر امان اللہ خان کے اقتدار کا دور ختم ہو چکا ہے اس کی حکومت کا آخری سورج ڈوب چکا ہے اور اب امیر عنایت اللہ خان ابن امیر حبیب اللہ خان بادشاہ مقرر ہوا ہے.امیر عنایت اللہ خان اور بچہ سقاؤ کے درمیان گفت و شنید کے لئے ایک وفد کی ترسیل جب امان اللہ خان بادشاہت سے دستبردار ہو کر قندھار چلا گیا اور امیر عنایت اللہ خان کی بادشاہت کا اعلان ابھی نہیں ہوا تھا اور ارک سے باہر کے سپاہی اور کا بل کے عوام اس سے بے خبر تھے اور نہ ان کو امان اللہ خان کے چلے جانے کا علم تھا.تو ارک میں اس بات پر مشورہ ہوا کہ بچہ سقہ کے پاس ایک وفد بھیج کر اس کو اس تبدیلی سے باخبر کیا جائے اور اس پر زور دیا جائے کہ امیر امان اللہ خان جس کی خلافِ اسلام اصلاحات کی وجہ سے اکثر علماء افغانستان اور پیر صاحبان اس سے ناراض تھے اور اس کو کافر و ملحد قرار دیتے تھے اور اس کی حکومت کو ختم کرنا چاہتے تھے اب وہ تو دستبردار ہو کر چلا گیا ہے اور اس کی جگہ سردار معین السلطنت عنایت اللہ خان افغانستان کا بادشاہ بن چکا ہے.ظاہر ہے کہ اب وجہ تنازع باقی نہیں رہی اور بچہ سقاؤ کو امیر عنایت اللہ خان سے تو کوئی شکایت نہیں اس لئے اس کو نئے بادشاہ کے خلاف بغاوت ترک کر دینی چاہئیے اب اس کے لئے لڑائی جاری رکھنے اور مسلمانوں کے قتل سے خون میں ہاتھ رنگنے کا کوئی شرعی عذر باقی نہیں رہا لہذا اس کو نئے امیر کی اطاعت کرنی چاہئیے.چنانچہ علماء کا ایک وفد ترتیب دیا گیا جس کا لیڈر ملا شور بازار کا چھوٹا بھائی ملا شیر آقا تھا.اس وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی لیکن یہ وفد سفید جھنڈا لہرا تا ہوا کا بل سے نکلا اور
321 باغ بالا کے پاس سرکاری دفاعی لائن کے قریب آ کر ٹھہر گیا اس وقت تک سرکاری فوجیوں کو فائر بند کرنے کی ہدایت دی جا چکی تھی تا کہ صلح کی گفت و شنید پر امن ماحول میں ہو.ملا شیر آقا نے کا بل کا دفاع کرنے والے سپاہیوں کے پاس جا کر موٹر رکوائی اور قریب کے سپاہیوں کو مخاطب ہو کر فارسی زبان میں یہ جملے کہے.وو او بچہ ہا! حالا شما برائے چہ جنگ می کنید ؟ اگر برائے امان اللہ خان جنگ مے کنید من بشما گویم که اوگر یخته است جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے بچو! تم اب کس کے لئے جنگ کر رہے ہو؟ اگر تم امان اللہ خان کے لئے جنگ کر رہے ہو تو میں تم کو کہتا ہوں کہ وہ تو بھاگ چکا ہے.ملا شیر آقا نے یہ فقرے تو کہہ دیئے اور سپاہیوں کو صاف الفاظ میں بتا دیا کہ امان اللہ خان تو اب بادشاہ نہیں رہا وہ تو کابل سے بھاگ گیا ہے اور تم جنگ کیوں اور کس کی خاطر کر رہے ہو؟ لیکن یہ نہیں بتایا کہ امان اللہ خان کی جگہ اب امیر عنایت اللہ خان معین السطنت بادشاہ بن چکا ہے اور یہ کہ میں اس کی جانب سے بچہ سقاؤ کے پاس وفد لے کر جا رہا ہوں تا کہ وہ اب جنگ بند کر دے اور نئی حکومت کی ماتحتی قبول کر لے.لیکن یہ اس نے نہیں کہا.ملا شیر آقا کے طلسماتی کلمات نے سرکاری فوج پر فوری طور پر عجیب اثر کیا اور سپاہی یہ جان کر کہ اب کوئی بادشاہ نہیں رہا اور ان کے سر پر کوئی وجود ایسا نہیں جس کی کمان اور جس کی ملازمت میں وہ لڑائی جاری رکھ سکیں اپنے مورچے چھوڑ کر تر بتر ہوگئیں اور سرکاری دفاع کا خانہ خالی ہو گیا.دوسری طرف بچہ سقاؤ نے جب دیکھا کہ سرکاری فوج کے فائر بند ہو چکے ہیں اور فوج اپنے دفاعی مورچے چھوڑ کر منتشر ہو گئی ہے اور افراتفری میں بھاگ رہی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ قدرت نے اسے اب ایسا موقعہ دیا ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھا کر خود امیر بن سکتا ہے.چنانچہ اس نے ملا شیر آقا کی تجاویز ماننے سے صاف انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ اب عنایت اللہ خان بھی بادشاہت سے دستبردار ہو جائے اب وہ خود افغانستان کا امیر ہے چنانچہ اس نے
322 اسی روز کابل میں داخل ہو کر ارک پر قبضہ کر لیا.اور امیر عنایت اللہ خان نے دستبرداری کا اعلان کر دیا.بچہ سقا ؤ نے عنایت اللہ خان کو یہ پیش کش کی کہ اگر وہ چاہے افغانستان میں رہ سکتا ہے اس کا وہی درجہ اور مرتبہ بحال رہے گا جو امیر امان اللہ خان کے وقت میں تھا اور اگر افغانستان میں نہ رہنا چاہے تو بحفاظت افغانستان سے باہر جا سکتا ہے اس صورت میں اس کو تین لاکھ روپیہ سے زیادہ باہر لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور اس کی جملہ جائداد و جا گیر بچہ سقاؤ کی حکومت ضبط کر لے گی بچہ سقاؤ کے اس نوٹس کے بعد سردار عنایت اللہ خان نے ایک ڈاکو اور باغی کے ماتحت رہنا گوارا نہ کیا اور سر کا رانگریزی سے درخواست کی گئی کہ کابل سے نکلنے کے لئے سردار عنایت اللہ خان اور اس کے خاندان کے لئے ہوائی جہازوں کا انتظام کر دیں سردار عنایت اللہ خان اور انگریزوں کے مابین ملا شیر آقاہی کے ذریعے گفتگو ہوئی.انگریزی سفارت خانے نے بخوشی خاطر یہ امداد دنیا قبول کر لی جملہ امور کے طے پانے کے بعد معین الطنت کی بادشاہت کے تیسرے دن صبح قریباً دس بجے محروم قسمت با دشاہ اور اس کے ہمرا ہی روتے دھوتے پشاور کی طرف پرواز کر گئے دُرانی پھر میرا جو ارک کے مشرقی برج پر اب تک لہرا رہا تھا اُتار دیا گیا.(۸۴) دستبر دار بادشاہ امان اللہ خان قندھار میں امان اللہ خان جب سفر کی صعوبتیں اٹھاتا ہوا قندھار پہنچا تو اس سے قندھار کے لوگوں کو بے حد تعجب ہوا.قلعہ قندھار کے محافظین نے چاہا کہ علم شاہی بلند کیا جائے تو امان اللہ خان نے ان کو روک دیا اور قندھار کے خوانین و معتبرین کی مجلس بلا کر کابل میں گزرا ہوا ماجرا سنایا جس میں بچہ سقاؤ کے حملے اپنے دستبردار ہونے اور برا در عنایت اللہ خان کے بادشاہ بننے کا تذکرہ تھا.قندھار میں اس کو ابھی تین دن ہی ہوئے تھے کہ سردار عنایت اللہ خان کی دستبرداری
323 اور پشاور کی طرف روانگی اور بچہ سقاؤ کے امیر بننے کی خبریں قندھار میں پہنچ گئیں اس پر امان اللہ خان نے دوبارہ اپنے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا اور علم شاہی کو بلند کرنے کا حکم دے دیا امان اللہ خان کے اس اعلان کو بیرونی حکومتوں نے تسلیم نہ کیا اور غالباً اسے امان اللہ خان کی تلون مزاجی اور عدم استقلال پر محمول کیا.امان اللہ خان نے اپنی فوج تیار کرنے کی کوششیں شروع کر دیں اس نے سردار عبد العزیز خان بارک زئی کو اپنا وزیر جنگ مقرر کیا جو ایک نہایت مرتشی اور بددیانت افسر تھا اور جس کی بدانتظامی اور رشوت خوری کے سبب حکومت کو سمت مشرقی اور سمت شمالی کے باغیوں کے مقابلہ پر نا کامی ہوئی تھی.کچھ فوج اور سامانِ حرب ہرات سے منگوایا گیا اور کچھ اسلحہ ہندوستان کی راہ سے یورپ سے لایا گیا تھا اور اب تک قندھار میں پڑا تھا رفتہ رفتہ ہیں پچیس ہزار کے درمیان قبائلی اور سرکاری فوج جمع ہوگئی.اس طرح کل تقریباً تمہیں ہزار کس کا لشکر لے کر امان اللہ خان اپنا کھویا ہوا تخت دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جانب کا بل روانہ ہوا راستہ میں کچھ مزاحمت ہوئی لیکن بالآ خر غزنی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا.یہاں بچہ سقاؤ کی فوج کا قبضہ تھا لیکن ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی اس لئے وہ بجائے کھلے میدان میں آکر جنگ کرنے کے غزنی میں قلعہ بند ہو گئے اور قریب تھا کہ امان اللہ خان غزنی فتح کر لیتا لیکن عین وقت پر قبیلہ سلیمان خیل کا لشکر سقاویوں کی مدد کے لئے آ گیا اور اس نے ایک گھمسان کی جنگ کے بعد امان اللہ خان کی فوج کو پیچھے دھکیل دیا.قبیلہ سلیمان خیل کا لشکر اس لئے سقاویوں کی امداد کے لئے آیا کہ اس قبیلہ کے لوگ ملاً شور بازار کے مرید اور ملا شیر آقا کے ہم نوا تھے.چونکہ یہ لوگ امان اللہ خان سے بیزار ہو چکے تھے اور امان اللہ خان بھی ان سے متنفر تھا اس لئے یہ قبیلہ بچہ سقاؤ سے جاملا تھا اور اس کے ساتھ مل کر سرکاری فوجوں سے لڑ رہا تھا.اس شکست سے امیر امان اللہ خان بے دل ہو گیا.اس کو ہزار سمجھایا گیا کہ وہ اپنے حامی قبیلہ وردک کے علاقہ میں داخل ہو جائے جو برابر سقاویوں سے جنگ کر رہے ہیں مگر
324 جان کا خوف امان اللہ خان پر اس قدر غالب آچکا تھا کہ اس نے اس بیش قیمت مشورہ کو قبول نہ کیا اور اپنی فوج کو مقر کی طرف ہٹ جانے کا حکم دے دیا.امان اللہ خان مقر میں بھی نہ ٹھہرا کیونکہ سلیمان خیل اس کے تعاقب میں بڑھ رہے تھے.امان اللہ خان کا ہندوستان کی طرف فرار وہاں سے امان اللہ خان قلات زابل کی طرف ہٹ گیا اور وہاں سے اپنے سب حامیوں کو اسی حال میں چھوڑ کر خفیہ خفیہ انتظام کر کے اپنے اہل و عیال سمیت انگریزی علاقہ چمن میں جا پہنچا اور انگریزوں کی پناہ کا طالب ہوا.جب اس کے ہندوستان کی طرف بھاگ جانے کی خبر اس کی اپنی قندھاری فوج کو ملی تو وہ نہایت بد دل اور شکستہ خاطر ہوئی اور امان اللہ خان کو برا بھلا کہتے ہوئے واپس قندھار چلی گئی.(۸۵) امان اللہ خان پہلے تو چمن آیا اور وہاں سے کوئٹہ اور پھر بمبئی پہنچا.وہاں چند روز قیام کیا اور پھر بحری جہاز میں ۲۲ جون ۱۹۲۹ء کو اطالیہ کا راستہ لیا جہاں وہ پناہ گزین کے طور پر اپنی وفات تک مقیم رہا - (۸۶) عنایت اللہ خان کی پشاور روانگی عنایت اللہ خان کی حکومت صرف دوشنبه و سه شنبہ ماہ شعبان ۱۳۳۷ھ تک جاری رہی یہ جنوری کا مہینہ ۱۹۲۹ ء سن تھا ۵ شعبان ۱۳۳۷ھ بروز چہارشنبہ وہ بذریعہ ملا شیر آقا مجددی افغانستان کا تخت ترک کر کے دستبردار ہو گیا.اور ۱۶ / جنوری ۱۹۲۹ء کو بذریعہ ہوائی جہاز پشاور آ گیا.جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمد یہ صوبہ سرحد اس وقت گورنمنٹ ہاؤس پشاور میں بعہدہ نظارت مقرر تھے.اور کابل سے آنے جانے والے ہوائی جہازوں کی نگرانی ان کے سپرد تھی پشاور ائیر پورٹ پر سفر کرنے والوں کے لئے موٹروں اور لاریوں اور سامان کی نگرانی کا انتظام وہی کرتے تھے ان کا بیان ہے کہ جس دن سردار عنایت اللہ خان نے
325 پشاور آنا تھا.پشاور سے تین بڑے جہاز کابل روانہ ہوئے اور ایک بجے کے قریب واپس آئے.محترم قاضی صاحب نے عنایت اللہ خان کو دیکھا اس کا قد درمیانہ تھا قریباً ۵۰ سال کی عمر تھی داڑھی سفید اور فرنچ کٹ مشین سے کٹی ہوئی تھی.سر پر سفید پگڑی ململ کی بندھی ہوئی تھی.جہاز سے اتر کر نہایت حسرت سے آسمان کی طرف نگاہ کی سب ساتھی اور حاضرین سن ہو گئے اور سب پر رقت کی حالت طاری ہو گئی.پھر موٹروں پر سوار ہوکر ڈین ہوٹل پشاور کا راستہ لیا.حضرت احمد مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک خادم جس کو افغانستان میں ہونے والے واقعات سے دلچسپی تھی خاموش کھڑا اس نظارے کو دیکھ رہا تھا کہ کس طرح خدائے غیور نے امیر عبدالرحمن خان اور اُس کے خاندان کو ان کے ظلم وستم کے باعث سبب عبرت بنا دیا اور وہ خدائے قدوس کی حمد اور استغفار کر رہا تھا.چند دن پشاور رہ کر براستہ کوئٹہ قندھار روانہ ہوا اور قندھار میں نا کام ہو کر واپس بمبئی گیا اور وہاں سے عراق گیا اور پھر ایران میں اقامت اختیار کر لی - (۸۷) افغانستان کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وحی و الہام کے ذریعہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے بعض امور سے اطلاع دی تھی جن میں ایسے واقعات کا ذکر تھا جو بطور پیشگوئی تھے ان پیشگوئیوں میں سے بعض تو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پوری ہو چکی ہیں اور ان کے پورا ہونے کا ذکر حضور نے اپنی کتب یا ملفوظات میں کر دیا ہے.بعض پیشگوئیاں ایسی ہیں جن میں ایسے امور کا ذکر ہے جو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد پیش آئے بالخصوص بعض پیشگوئیاں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں پوری ہوئیں.اس طرح بعض پیشگوئیاں ایسی ہیں جن کا ظہور بار بار ہوتا رہتا ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پوری ہوئیں اور پھر بعد میں بھی پوری ہوئیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی پوری ہوتی رہیں گی ایسی پیشگوئیوں میں سے جن کا
326 تعلق مولانا نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے قریب عرصہ سے یا اس زمانہ کے بادشاہ امیر امان اللہ خان سے ہے ان کا تذکرہ بھی اب کیا جائے گا.انشاء اللہ ظالم کا یا داش کی پیشگوئی (1) جب امیر حبیب اللہ خان نے شہزادہ عبداللطیف مرحوم کو شہر کا بل میں شہید کروایا تو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رسالہ تذکرۃ الشہا دتین تحریر فرمایا اس رسالہ میں حضور علیہ السلام نے شہید اول افغانستان مولوی عبد الرحمن خان اور حضرت شہید مرحوم مولوی سید محمد عبد اللطیف صاحب کے واقعات شہادت تحریر کر کے یہ فرمایا کہ شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہو چکی اب ظالم کا پاداش باقی ہے (۸۸) صاحبزادہ مولوی عبد الطیف مرحوم کا اس بے رحمی سے مارا جانا اگر چہ ایسا امر ہے کہ اس کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن اس خون میں بہت برکات ہیں کہ بعد میں ظاہر ہوں گی اور کابل کی زمین دیکھ لے گی کہ یہ خون کیسے کیسے پھل لائے گا یہ خون کبھی ضائع نہیں جائے گا.پہلے اس سے غریب عبدالرحمن میری جماعت کا ظلم سے مارا گیا اور خدا چپ رہا مگر اس خون پر اب وہ چپ نہیں رہے گا اور بڑے بڑے نتائج ظاہر ہوں گے..ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم شخص کو کمال بے دردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کر لیا.اے کا بل کی زمین تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا.اے بد قسمت زمین تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے (۸۹) اس عظیم الشان پیشگوئی میں ایک تو امیر حبیب اللہ خان کے متعلق ظلم کی پاداش کا ذکر ہے.یہ پیشگوئی 1919 ء میں پوری ہوئی جیسا کہ پہلے مفصل ذکر آچکا ہے امیر حبیب اللہ خان پغمان کے علاقہ میں جہاں وہ سیر و تفریح کے لئے گیا ہوا تھا اور رات کو اپنے خیمہ میں اپنی بڑی بیگم معروف بہ علیا حضرت کے ساتھ محو استراحت تھا کہ کسی نامعلوم قاتل نے اس کے سر پر
327 پستول کا فائر کر کے اس کو قتل کر دیا.بہت تحقیقات کی گئی لیکن اس کا اصل قاتل ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا اگر چہ بہت سے لوگوں پر شبہات کئے گئے اور بعض لوگوں کو سزائیں بھی دی گئیں لیکن یقینی طور پر کسی پر جرم ثابت نہیں ہو سکا مسبب الاسباب خدا نے ” ظالم کا پاداش“ والی پیشگوئی کے پورا کرنے کے اسباب اپنی جانب سے پیدا فرما دیے.اور ظالم امیر کو بغیر سزا کے نہیں چھوڑا فاعتبروايا اولی الابصار دوسرا واقعہ ظلم کی پاداش کا امیر حبیب اللہ خان کے چھوٹے بھائی سردار نصر اللہ خان سے تعلق رکھتا ہے جو حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب سے شدید دشمنی رکھتا تھا اور دراصل اسی کی کوشش اور تگ و دو سے امیر حبیب اللہ خان ان کو سنگسار کرنے پر راضی ہوا تھا.اس کی گرفتاری اور قتل کا ذکر پہلے مفصل آچکا ہے.امیر حبیب اللہ خان کے قتل ہونے کے بعد اس نے جلال آباد کے علاقہ میں دربار منعقد کیا اور حاضر درباریوں اور افسران کی موجودگی میں سردار نصر اللہ خان کی بادشاہت کا اعلان کیا گیا حالانکہ ولی عہد سردار عنایت اللہ خان موجود تھا لیکن اس کا حق سردار نصر اللہ خان نے غصب کر لیا اور اسے محروم کر کے خود بادشاہ بن بیٹھا لیکن اس کی بادشاہت چند دن رہی امیر امان اللہ خان کو کابل میں بادشاہ بنایا گیا اور فوج اور سرداران کی اکثریت کی امداد سے حاصل ہو گئی.اس پر امان اللہ خان نے ایک اعلان کے ذریعہ سردار نصر اللہ خان سے اس کی دستبرداری کا مطالبہ کیا اور اس کو اور اس کے حامی سرداروں کے متعلق حکم جاری کیا کہ انہیں پابجولان کا بل لایا جائے.سردار نصر اللہ خان اس حکم کی تعمیل پر مجبور ہوا.جب سردار نصر اللہ خان کا بل لا یا گیا تو اس کو تو ایک برج میں جوارک کے پاس تھا قید کر دیا گیا اور اس کے ساتھیوں مثلاً مستوفی الملک مرزا محمد حسین برگیڈئیر کو قتل کروا دیا گیا اور اس کی تمام جائیداد ضبط کر لی گئی.مرزا محمد حسین وہ شخص تھا جس کو حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف نے اپنی گرفتاری سے قبل ایک تبلیغی خط لکھا تھا لیکن اس نے دنیا کو ترجیح دی اور حق کے قبول کرنے کی توفیق اس کو نہ ملی.سردار نصر اللہ خان کچھ عرصہ قید رہا.
328 بیان کیا جاتا ہے کہ قید میں اس کے حواس مختل ہو گئے تھے کچھ عرصہ بعد اسے امیر امان اللہ خان کے حکم سے دم بند کر کے قتل کر دیا گیا جس طرح اس کے دادا میر عبدالرحمن خان نے افغانستان کے شہید اول مولوی عبد الرحمن خان کو قید خانہ میں دم بند کر کے شہید کر وا دیا تھا.سردار نصر اللہ خان کا ایک بیٹا تھا جسے امیر امان اللہ خان نے خفیہ طور پر قتل کروا دیا.جب حضرت سید محمد عبد اللطیف شہید کا تابوت کا بل سے ملا میر و صاحب سید گاہ لے آئے اور وہاں دفن کر دیا تو کچھ عرصہ کے بعد سردار نصر اللہ خان کو اس کا علم ہو گیا اور اس نے خوست کے حاکم اعلیٰ شاہ محمد اکبر خاصی کو حکم بھجوایا کہ آخون زادہ سید محمد عبد اللطیف کا تابوت رات کو نکال کر اسے غائب کر دیا جائے.چنانچہ اس نے کچھ سپاہی بھجوا کر سردار نصر اللہ خان کے حکم کی تعلیم کر دی.اور اب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو کہاں دفن کیا گیا اور ان کی قبراب کہاں ہے.یہی حال سردار نصر اللہ خان کا ہوا اس کی قبر کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ کہاں ہے.رجم قبرا میر حبیب اللہ خان جب امیر حبیب اللہ خان 1919 ء میں جلال آباد کے علاقہ میں قتل کیا گیا تو سردار نصر اللہ خان نے اس کو جلال آباد کے قریب ایک باغ میں دفن کروا دیا امیر امان اللہ خان کے زمانہ میں جب شنواری قبیلہ نے اس کے خلاف بغاوت کی تو انہوں نے جلال آباد پر بھی حملہ کیا اسے لوٹ لیا اور شہر کو تباہ و برباد کر دیا انہیں دنوں میں باغیوں نے امیر حبیب اللہ خان کی قبر کو سنگسار کیا.جس طرح امیر حبیب اللہ خان نے اپنی زندگی میں حضرت صاحبزادہ محمد عبداللطیف شہید کو سنگسار کر وایا تھا.اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کر دیا کہ امیر حبیب اللہ خان کی قبر بھی سنگسار کی گئی.امیر حبیب اللہ خان کے خلاف فتاویٰ کفر امیر حبیب اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف کو سردار نعمت اللہ خان کی
329 تحریک پر اور قاضیوں اور مفتیوں کے فتاویٰ کی بناء پر کہ نعوذ باللہ آپ کا فر ہیں شہید کر وایا تھا.امیر حبیب اللہ خان ک19ء میں انگریز وائسرائے کی دعوت پر ہندوستان کے دورہ کے لئے آیا.ہندوستان میں اس سے بعض امور ایسے سرزد ہوئے کہ افغانستان کے بعض ملا اس کے خلاف ہو گئے اور اس کو کا فر ملحد اور واجب القتل قرار دینے لگے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا تھی کہ جن ملاؤں کے فتوؤں پر تکیہ کر کے تم نے ہمارے ایک معصوم بندے کو شہید کروایا تھا اب وہی ملا تمہارے خلاف بھی اسی طرح کے فتوے دے رہے ہیں.ڈاکٹر عبد الغنی اہل حدیث جب حضرت شہید مرحوم کا مباحثہ کابل میں قرار پایا تو ڈاکٹر عبد الغنی اہل حدیث جو جلال پور جٹاں ضلع گجرات کا باشندہ تھا اور کابل میں اپنے دو بھائیوں مولوی نجف علی اور مولوی محمد چراغ کے ہمراہ مقیم تھا.اس کو امیر حبیب اللہ خان نے مباحثہ کا سر پنج مقرر کیا.جب ملاؤں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے خلاف فتویٰ تکفیر دے دیا اور آپ کیلئے سنگساری کی سزا تجویز کی تو ڈاکٹر عبدالغنی ، مولوی نجف علی اور مولوی محمد چراغ نے امیر حبیب اللہ خان اور سردار نصر اللہ خان کے رو بر و حضرت صاحبزادہ صاحب کے خلاف شدید مخالفانہ باتیں کیں اور ان کو کافر اور واجب القتل قرار دیا.عجیب بات ہے کہ باوجودیکہ کہ ڈاکٹر عبدالغنی اور اس کے بھائی امیر حبیب اللہ خان کے ملازم اور سردار نصر اللہ خان کے منظور نظر تھے.کچھ سالوں کے بعد امیر حبیب اللہ خان ان سے بدظن ہو گیا اور ان کو جیل میں قید کر وا دیا جہاں وہ گیارہ سال رہے اور امیر امان اللہ خان کے زمانہ میں انہیں رہائی نصیب ہوئی.ڈاکٹر عبد الغنی خان کی بیوی نہایت بے سروسامانی کی حالت میں اپنے وطن واپس آنے کے لئے روانہ ہوئی راستہ میں لنڈی کوتل میں مرگئی وہاں کے مسلمانوں نے چندہ جمع کر کے اس کی تجہیز و تدفین کے اخراجات ادا کئے اور اسے وہاں دفن کر دیا گیا.ڈاکٹر عبدالغنی خان کا نوجوان بیٹا عبد الجبار ا یک روز شہر کا بل میں سودا لے کر گھر
330 جار ہا تھا تو کسی نا معلوم شخص نے تلوار مارکر اس کا سرتن سے جدا کر دیا.مولوی نجف علی اس کے قید کئے جانے کا ذکر پہلے آچکا ہے یہ امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ کا واقعہ تھا.گیارہ سال قید رہنے کے بعد امیر امان اللہ خان کے زمانہ میں رہائی ملی.اور محمد نادرشاہ کے زمانہ میں اس شخص نے ایک کتاب فارسی نظم میں درہ نادرہ کے نام سے لکھی جس میں افغانستان کے ملاؤں کی مذمت کی تھی.جب امیر محمد نادر شاہ کو اس کا علم ہوا تو اس نے یہ کتاب عدالت عدلیہ کے افسر اعلیٰ کو بھجوا دی کہ عدالت اپنی رائے تحریر کرے.انہوں نے بعد مطالعہ فیصلہ کیا کہ یہ شخص کافر اور مرتد ہے کیونکہ اس نے اپنی اس کتاب میں تو ہین علماء دین کا.- ارتکاب کیا ہے اور اس کو سنگسار کیا جانا چاہئیے.آخر کار برطانیہ کے سفیر کی سفارش پر اس کو اجازت ملی کہ وہ کابل سے نکل کر ہندوستان چلا جائے اور اس کے ساتھ اس کے بھائی محمد چراغ کو بھی افغانستان سے نکلوا دیا گیا.یہ انجام ان پنجابی اہل حدیث ملاؤں کا ہوا جنہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے خلاف امیر حبیب اللہ خان کو اکسایا تھا اور آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا تھا جس کے نتیجہ میں بادشاہ نے آپ کو شہید کر وا دیا تھا.قاضی عبدالرزاق خان رئیس مدارس و ملائے حضور امیر اور قاضی عبدالرؤف قندھاری نے اپنے ضمیر کے خلاف سردار نصر اللہ خان کے دباؤ میں آکر حضرت صاحبزادہ صاحب کے خلاف کفر وارتداد کا فتویٰ دیا تھا.جس کے نتیجہ میں امیر حبیب اللہ خان نے ان کی سنگساری کی سزا کی توثیق کی تھی اور قاضی عبد الرزاق نے ہی آپ پر پہلا پتھر چلایا تھا.کچھ عرصہ بعد قاضی عبدالرزاق امیر کی نظروں سے گر گیا اور اس کی وہ وقعت اور رسوخ باقی نہ رہا جو پہلے تھا.اس ضمن میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے امیر حبیب اللہ خان نے اپنے وقت میں جو اصلاحات جاری کی تھیں ان میں یہ بھی ایک حکم تھا کہ لوگ سڑک پر بائیں طرف چلا کریں اور کوئی شخص اس کے خلاف نہ کرے.ایک دن امیر حبیب اللہ خان ایک
331 سڑک سے گذر رہا تھا کہ اس نے دیکھا ملا عبدالرزاق سڑک پر داہنی طرف چلا جا رہا ہے اور ڈیوٹی کا سپاہی اس کو اس سے روک رہا ہے اور وہ رکتا نہیں بلکہ اسے دائیں طرف چلنے پر اصرار کر رہا ہے اس پر امیر حبیب اللہ خان نے مُلا عبد الرزاق کو ایک ہزار روپیہ جرمانہ کر دیا.اس سزا کے بعد وہ کا بل سے غائب ہو گیا معلوم نہیں کہاں گیا نہ وہ مدارس کی افسری رہی اور نہ ملائے حضور امیر کا عہدہ رہا.پھر اس کا حشر کیا ہوا یہ معلوم نہیں ہو سکا.اس ملا کے انجام کے بارہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے.امیر حبیب اللہ کا بڑا بیٹا سردار عنایت اللہ خان تھا جو ولی عہد بھی تھا امیر حبیب اللہ خان کے قتل پر سردار نصر اللہ خان نے پغمان کے علاقہ میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا اور سردار عنایت اللہ خان کو امارت سے محروم کر دیا.امیر امان اللہ خان کے عہد میں جب اس کے خلاف بچہ سقاؤ نے بغاوت کی تو امیر امان اللہ خان نے بادشاہت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور سردار عنایت اللہ خان سے درخواست کی کہ وہ افغانستان کی باشاہت قبول کر لے اس پر مجبور اسردار عنایت اللہ خان نے اس کی بات مان لی اور چند دن برائے نام امیر بنا رہا.یہاں تک کہ بچہ سقاؤ کے اصرار پر اس کو امارت سے دستبرداری کا اعلان کرنا پڑا اور حکومت بچہ سقاؤ کے حوالہ کرنی پڑی.سردار عنایت اللہ خان انگریزوں کے ہوائی جہاز پر پشاور آ گیا پھر کچھ عرصہ ہندوستان اور قندھار ٹھہر کر ایران چلا گیا.امیر حبیب اللہ خان اور اس کے بھائی سردار نصر اللہ خان نے اپنے دور حکومت کے آخر میں حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب کے تمام بیٹوں کو شیر پور جیل میں ایک نہایت تکلیف دہ قید میں ڈالے رکھا تھا جو کئی ماہ تک ممتد تھی.یہ ۱۹۱۸ء سے ۱۹۱۹ء کا واقعہ ہے.پانچ صاحبزادگان جن کو جیل میں ڈالا گیا تھا.ان کے نام یہ ہیں صاحبزادہ محمد سعید جان ، صاحبزادہ عبدالسلام خان - صاحبزادہ محمد عمر جان.صاحبزادہ ابوالحسن قدسی اور صاحبزادہ محمد طیب جان - سردی کی شدت اور جیل کی تکالیف سے تمام صاحبزادگان بیمار پڑ گئے بلآخر سردار امان اللہ خان کی کوشش سے جو اس وقت والی کا بل تھا صاحبزادگان کو رہائی
332 ملی.جیل سے نکلنے کے تھوڑے عرصہ بعد ان میں سے دو یعنی صاحبزادہ محمد سعید جان اور صاحبزادہ محمد عمر جان کی وفات ہو گئی اور وہ جیل کی تکالیف کے نتیجہ میں شہید ہو گئے صاحبزادگان کی جیل کے دوران حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب کی ایک زوجہ محترمہ کا انتقال ہو گیا لیکن صاحبزادگان کو باوجود درخواست کے ان کے جنازہ میں شمولیت کی اجازت نہ دی گئی آخر میں صرف صاحبزادہ محمد سعید جان کو اجازت ملی کہ والدہ صاحبہ کی تجہیز و تکفین اور تدفین کا انتظام کر سکیں.گویا امیر حبیب اللہ خان اور سردار نصر اللہ خان کے احکامات کے نتیجہ میں حضرت شہید مرحوم کے دو صاحبزادے بھی درجہ شہادت کو پہنچے.جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاداش ظلم کی چکی چلائی گئی تو خاندان شاہی کے دو جوان شہزادے قتل کئے گئے پہلے امیر امان اللہ خان نے اپنے چچا سردار نصر اللہ خان کا نوجوان لڑکا قتل کروا دیا.پھر بچہ سقا ؤ نے اپنے دور میں امیر حبیب اللہ خان کا بیٹا خفیہ طور پر قتل کروا کے ارک شاہی کی ایک دیوار کے نیچے اس کی نعش دفن کر وادی.قاضی عبدالروف قندھاری.جس نے حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف کی سنگساری کے فتویٰ پر دستخط کئے تھے اس کے اپنے انجام کے متعلق ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا لیکن اس کے بیٹے قاضی عبدالواسع ( یا قاضی عبد الرحمن ) کو جس نے بچہ سقاؤ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا.والی کا بل ملک محسن نے بچہ سقاؤ کے حکم کے مطابق گرفتار کر لیا اور کابل کے ایک چوک میں نہایت بے رحمی سے ہلاک کروا دیا.ملا عبداللہ معروف بہ ملائے لنگ اور اس کے داماد عبدالرشید نے افغانستان کے سمت جنوبی میں منگل اقوام کی بغاوت میں امیر امان اللہ خان کے خلاف حصہ لیا تھا اور اس پر فتاوائے کفر وارتداد لگائے تھے.امیر امان اللہ خان نے اس بغاوت کو رفع کرنے کے لئے سردار احمد علی جان کو بھجوایا تھا.جس نے گفت و شنید کے بعد ان شرائط پر ان ملاؤں سے ہتھیار ڈلوائے تھے کہ امیر امان اللہ خان جیسا کہ اس پر الزام لگایا جاتا ہے اگر احمدی نہیں ہے تو چند احمد یوں کو قتل کروائے اس سمجھوتہ میں سردار احمد علی جان بھی شریک تھا اور اسی کی سفارش پر
333 امیر امان اللہ خان نے اسے قبول کیا تھا.چنانچہ اس سفارش پر عمل کرتے ہوئے امیر امان اللہ خان نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب اور قاری نور علی صاحب اور مولوی عبد الحلیم صاحب کو سنگسار کروا دیا تھا.اب ان ملاؤں کا انجام یہ ہوا کہ امیر امان اللہ خان نے مقصد براری کے بعد ان ملاؤں سے بھی بد عہدی کی اور ان کو گرفتار کر کے قتل کروا دیا.سردار احمد علی جان کو امیر امان اللہ خان نے شنواریوں کی بغاوت کے رفع کرنے کے لئے لشکر دے کر سمت مشرقی بھجوایا تھا لیکن وہ با وجود پوری کوشش کے اس میں ناکام رہا اور بالآخر ہندوستان کی طرف بھاگ گیا وہاں سے پھر سمت جنوبی میں قندھار آ گیا اور امیر امان اللہ خان کی دستبرداری کے بعد اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا.لیکن بچہ سقاؤ سے جنگ کر کے شکست کھا گیا اور اس کے قابو میں آ گیا.بچہ سقا ؤ نے اس کو بھی قتل کروا دیا.جب مولوی نعمت اللہ صاحب شہید کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا تو ان پر کفر کا فتوی دینے والے دو ملا قاضی عبدالرحمن کو ہ دامنی اور قاضی عبدالسمیع قندھاری تھے جنہوں نے امیر امان اللہ خان کے حسب منشاء ان کے لئے سنگساری کی سزا تجویز کی تھی.قاضی عبدالسمیع کے بارہ میں تو اب تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا لیکن قاضی عبدالرحمن کو ہ دامنی کو بچہ سقاؤ نے اپنے عہد حکومت میں ملک محسن کے ذریعہ نہایت بے رحمانہ طریق پر قتل کروا دیا.شاہ خاصی محمد اکبر خان ۱۹۱ء کے قریب سمت جنوبی کا گورنر تھا اسی نے سردار نصر اللہ خان کی ہدایت پر امیر حبیب اللہ کے زمانہ میں سید گاہ میں حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید کے تابوت کو قبر سے نکلوا کر کسی غیر معلوم جگہ پر دفن کروا دیا تھا.یہ شخص نہایت مرتشی اور ظالم شخص تھا.امیر امان اللہ خان کے زمانہ میں اس کو اس کے عہدے سے برطرف کیا گیا اس پر بہت سے الزام رشوت ستانی کے تھے لیکن یہ ان الزامات سے انکار کرتا رہا اور بالآخر اپنی بریت کے لئے جھوٹا حلف اٹھا گیا نتیجتا ایک مہلک بیماری اس کو لاحق ہوگئی جس سے جاں بحق ہو گیا.امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ میں اس کے سمت جنوبی کے گورنر سردار محمد عمر خان
334 معروف بہ سُور جرنیل نے دو احمدی برادران کو قید میں ڈال دیا تھا ان میں سے ایک کا نام سیّد سلطان شہید تھا قید خانہ میں ان پر بہت سختی کی گئی اور ان کو نان نمک کھلا کھلا کر بیمار کر دیا اس کے نتیجہ میں ان کی وفات واقعہ ہو گئی اور اس طرح مقام شہادت کو پہنچے.دوسرے صاحب جن کا نام سید حکیم احمدی تھا ان کو بھی قید خانہ میں ڈالا گیا جہاں کی تکالیف کے نتیجہ میں وہ بھی شہید ہو گئے.یہ کام سردار محمد عمر خان نے امیر نصر اللہ خان کی ہدایت پر کئے تھے اس کا حال پہلے بیان ہو چکا ہے.محمد عمر سور جرنیل ظالم اور مرتشی تھا.اکثر ہوشیاری اور چالا کی سے سزاؤں سے بیچ جاتا تھا آخرا میر امان اللہ خان کے زمانہ میں پکڑا گیا اور قید خانہ میں ڈال دیا گیا.جب بچہ سقا ؤ نے کا بل پر پہلا حملہ کیا تو اس کے بعد حکومت نے اس کو قید خانہ سے نکال کر باغیوں سے لڑنے کے لئے ایک لشکر دے کر بھجوا دیا لیکن لڑائی میں اس نے شکست فاش کھائی اور میدان جنگ سے بھاگ گیا اور اپنے ماتھے پر ذلت کا داغ لگا لیا پھر اس کو کوئی عہدہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی اس کی کوئی عزت افغان سوسائٹی میں باقی رہی.تین بکروں کے ذبح کئے جانے کی پیشگوئی خدا تعالیٰ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام خبر دی تھی کہ شَاتَانِ تُذبَحَانِ یعنی دو بکرے یا بکریاں ذبیح کی جائیں گی یہ الہام حضور کی زندگی میں ہی پورا ہوا یہ الہام براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۰ وصفحہ ۵۱۱ میں طبع شدہ موجود ہے نیز اس کی تشریح حضور نے اپنی کتاب تذکرۃ الشہادتین کے صفحہ ۶۹ وصفحہ ۷۰ میں فرما دی ہے کہ اس سے مراد مولوی عبدالرحمن خان شہید اوّل افغانستان اور حضرت صاحبزادہ سید مولوی محمد عبد اللطیف شہید کی شہادت ہے جو حضور کے زمانہ میں علی الترتیب ۱۹۰۱ء و۱۹۰۳ء میں کا بل میں ہوئیں.اس کے بعد حضور کو یکم جنوری ۱۹۰۶ ء کو الہام ہوا کہ تین بکرے ذبح کئے جائیں گے
335 اخبار بدر ۵ / جنوری ۱۹۰۶ ء و اخبار الحکم ۱۰ / جنوری ۱۹۰۶ ء آپ نے فرمایا کہ ” ظاہر پر حمل کر کے ہم نے تین بکرے ذبح کروا دئے ہیں.“ جیسا کہ بعد کے واقعات سے ظاہر ہوا ہے کہ تین بکروں کے ذبح کئے جانے کی پیشگوئی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ کے زمانہ میں ۱۹۲۴ ء اور ۱۹۲۵ء میں کابل میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید - قاری نور علی صاحب شہید اور مولوی عبدالحلیم صاحب شہید کی سنگساری سے پوری ہوئی.افغانستان میں احمدیت پھیل جانے کی عظیم الشان پیشگوئی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب شہید کے بارہ میں ارشادفرماتے ہیں : عجیب بات یہ ہے کہ ان کے بعض شاگرد بیان کرتے ہیں کہ جب وہ وطن کی طرف روانہ ہوئے تو بار بار کہتے تھے کہ کابل کی زمین اپنی اصلاح کے لئے میرے خون کی محتاج ہے.اور درحقیقت وہ سچ کہتے تھے کیونکہ سرزمین کابل میں اگر ایک کروڑ اشتہار شائع کیا جاتا اور دلائل قویہ سے میرا مسیح موعود ہونا ان سے ثابت کیا جاتا تو ان اشتہارات کا ہرگز ایسا اثر نہ ہوتا جیسا کہ اس شہید کے خون کا اثر ہوا.کابل کی سرزمین پر یہ خون اس تخم کی مانند پڑا ہے جو بہت تھوڑے عرصہ میں بڑا درخت بن جاتا ہے اور ہزار ہا پرندے اس پر اپنا بسیرا کر لیتے ہیں.‘ (۹۰) حضور فرماتے ہیں: میں نے ایک کشفی نظر میں دیکھا.کہ ایک درخت سرو کی ایک بڑی لمبی شاخ....جو نہایت خوبصورت اور سرسبز تھی.ہمارے باغ میں
336 سے کاٹی گئی ہے اور وہ ایک شخص کے ہاتھ میں ہے.تو کسی نے کہا کہ اس شاخ کو اس زمین میں جو میرے مکان کے قریب ہے اس بیری کے پاس لگا دو جو اس سے پہلے کاٹی گئی تھی اور پھر دوبارہ اُگے گی اور ساتھ ہی مجھے یہ وحی ہوئی کہ کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ تخم کی طرح شہید مرحوم کا خون زمین پر پڑا ہے اور وہ بہت بار ور ہو کر ہماری جماعت کو بڑھا دے گا‘ (۹۱) بعض احمدی بزرگ شعراء کے کلام کا انتخاب مولوی نعمت اللہ خان شہید کے بارہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب زندہ عشق ہوئے داخل زنداں ہو کر قرب دلدار ملا یار پہ قرباں ہو کر سنگ ساری نے کیا حسن دو بالا تیرا خوب تر ہوگئی یہ زلف پریشاں ہو کر کشت اسلام کو سینچا ہے لہو سے اپنے تو نے مخمور خم بادۂ عرفاں ہو کر دیکھنا! گشته محبوب چلا مقتل کو پابہ جولاں بہ سر شوق خراماں ہو کر سنگ باری سے ترا نور بجھایا نہ گیا ذرہ ذرہ چمک اٹھا مہ تاباں ہو کر حرف آنے نہ دیا صدق و وفا پر اپنے سہہ لیا جور عدا خرم و خنداں ہو کر مذہب عشق کی دنیا سے نرالی ہیں رسوم زندگی ملتی ہے اس راہ میں بے جاں ہو کر سرخرو دونوں جہانوں میں ہوئے تم والله داخل میکده بزم شہیداں ہو کر لوگ کہتے تھے کہ رہ قُرب الہی کیا ہے نعمت اللہ نے دکھلا دیا قرباں ہو کر حق بھی مٹتا ہے تعدی سے کہیں اے ظالم خود ہی مٹ جائے گا تو دست وگریباں ہو کر تو نے کہلا کے مسلمان وہ غداری کی رہ گئے گبر بھی انگشت بہ دنداں ہو کر ہرگز اس حزب الہی سے نہ رکھنا امید ترک کر دیں گے یہ تبلیغ ہراساں ہو کر سالک راہ محبت سے یہ ممکن ہی نہیں جان دینے سے ڈرے عاشق جاناں ہو کر
337 آرہی ہے یہ ہمیں خونِ شہیداں کی صدا آئے امدادِ خدا ہمت مرداں ہو کر وہ بھی دن آتے ہیں جب ڈھونڈیں گے شاہانِ جہاں برکتیں رحتِ مسیحا سے مسلماں ہو کر مرحبا جاج حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہ جہاں پوری انتخاب کلام اے نعمت اللہ خان ذیشاں مرحبا مرحبا اے میرے لذت آشنائے قادیاں (۹۲) ہر طرف چرچا ہے تیرا ہر طرف ہے تیری یاد گونجتی ہے تیرے قصوں سے فضائے قادیاں تو نے حق سے منہ نہ پھیرا ہو گیا کو سنگسار آفریں اے شیر میدانِ وفائے تو نے قادیان تازہ کر دیا پھر قصہ عبد اللطیف دیکھ لی کابل نے پھر شانِ وفائے قادیان سر دیا لیکن سلامت لے گیا سودائے سر جان دی لیکن نہ دی آن وفائے قادیان بشیر احمد صاحب ابن حضرت حقانی مرحوم از لا ہور (۹۳) جانِ شیرینت فدائے راه مولی کرده آفرین بادا برین رسمے کہ پیدا کرده خویش راه در قصاباں مثال گوسفند داده و ظالماں را خوب رسوا کرده
338 اے ناز قوم.اے فر ملت- مرحبا وہ خوش تصدیق الهام مسیحا کرده ایں تن خاکی نہ بود آخر حجاب روئے دوست پارہ پارہ کردہ ہاں خوش مداوا کرده راز ہائے عشق کاندر برسر سینہ پنہاں داشتی ہر کوچه خوش بود دامن خوں غلطیدہ لیکن کے رسد ༤ تا به آں بازار افشا کرده گریباں کا شکارا کا شکارا کرده چاک گریباں ہاں بگو احمد کہ بادا گور نعمت عنبریں این چه افغا نہائے سوزاں بے محابا کرده جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت صوبه سرحد انتخاب کلام (۹۴) اے شہید امت احمد نبی صد مرحبا بیعت را وفا بنمودی از صدق و صفا عهد نعمت اللہ خاں تو گشتی ثانئے عبداللطیف در کربلا فدائے حق نمودی چون حسین یاد ایا میکه گفتی جاں فدائے دیں کنم از عمل ثابت نمودی آنچه بد قول شما جاں بدادی و نه دادی گوھر ایمان ز دست آنچہ تو کردی ہمیں کردند مردان خدا
339 می سزد گربر تو نازد سر زمین شیر کم بزانکہ مادرے ڈرے بمثلت بے بہا! نوجوان خوب وضع و خوب شکل و خوب رو نیک سیرت پاک خو , خوش کلام و خوش لقا سنگ باریدند باریدند افغاناں افغاناں کہ وہ بودے احمدی خوش ثابت قدم ثابت شدی در ابتلا چه صد ہزاراں رحمتے نیز صد عبد اللطيف فخر ہزاراں رحمتے نیز بر روح سعید صد ہزاراں رحمتے حق عبد رحمان شهید امت با صفا سید سلطان شہید و ہم عمر جاں باصفا بر روان پاک تو نعمت الله خاں شہید نوجواں مرد خدا آه نه گر فتنه است ظالم عبرت از حال پدر کرد تجدید تظلم تا خود سزا بیند خونِ ناحق ریختن گاہے نماندے بے بدل سنت الله باشد بہر ہر فعل جزا (۹۵)
340 (۱) دیکھیں افغانستان کا آف سیکیچ صفحہ حوالہ جات (۲) خط مولوی نعمت اللہ خان صاحب مطبوعہ اخبار الفضل استمبر ۱۹۲۴ ء - سید محمود احمد افغانی کی کتاب تاریخ احمدیت افغانستان بصورت مسودہ - عاقبۃ المکذبین حصّہ اوّل صفحہ ۸۱ حاشیہ مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمد یہ صوبہ سرحد (۳) تذکرۃ الشہادتین مصنفہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں متعدد مقامات پر ان امور کا ذکر ہے.ورسالہ عاقبۃ المکذبین حصّہ اوّل صفحہ ۴۷ مصنفہ قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد - و کتاب UNDER THE ABSOLUTE AMIR BY.Mr.FRANK A.MARTIN و کتاب زوال غازی امان اللہ خان مصنفہ عزیز ہندی صاحب (۴) کتاب زوال غازی مصنفہ عزیز هندی صاحب صفحه ۲۳٬۱۱ تا ۲۵ ۳۰، مضمون اخبار الفضل ۴ مارچ 1919 ء قاضی مظہر الحق صاحب احمدی کوٹ نجیب اللہ A History of Afghanistan by 268 Brig.Gen.Sir Percy Sykes p.p.265 to کتاب عاقبة المكذ بین حصّہ اوّل صفحہ ۷۵۷۲٬۶۸ مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد اخبار پائنیر الہ آباد ۱۲۳ اپریل ۱۹۱۹ء بحوالہ اخبار الفضل قادیان ۰ امئی ۱۹۱۹ء صفحریم (۵) بحوالہ اخبار الفضل ۱۰ مئی ۱۹۱۹ ء صفحه ۴ (۶) اخبار الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء A History of Afghanistan by Brig.Gen.Sir Percy Sykes (4) p.p268 to284&p.p358to359، کتاب زوال غازی امان اللہ خان مصنفہ عزیز ہندی صفحه ۱۱-۹، صفحه ۳۱۴-۳۱۳ (۸) خلاصہ مفہوم عبارت زوال غازی امان الله خان صفحه ۱۴، ۱۵، کتاب عاقبته المکذبین حصّہ اوّل صفحہ ۸۰ مصنفہ قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمد یہ صوبہ سرحد
341 (۹) خطبه جمعه فرموده ۷ ستمبر ۱۹۲۴ ء اخبار الفضل ۱٫۲۵ کتو بر ۱۹۲۴ء صفحه ۶ (۱۰) ماخوذ از تقریر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ- در لندن ۱۷ستمبر ۱۹۲۴ء منقول از اخبار الفضل ۲۵اکتوبر ۱۹۲۴ء (1) ماخوذ از تقریر سید نا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالی- در لندن- مطبوعہ اخبار الفضل ۲۵ را کتوبر ۱۹۲۴ء (۱۲) یہ خط ماہ اپریل ۱۹۲۱ء کا لکھا ہوا ہے، اخبار الفضل ۲۵ستمبر ۱۹۲۴ء (۱۳) بحواله الفضل ۲۵ستمبر ۱۹۲۵ء صفحه ۴-۳ (۱۴) ماخوذ از کتاب عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحه ۸۱ تا ۸۳ مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمد یہ صوبہ سرحد خاکسار مرتب کتاب ہذا نے بھی عبدالاحد صاحب کا بلی سے دو دفعہ یہ واقعہ کہ وہ مولوی نعمت اللہ خان کے ساتھ کا بل گئے سنا.سید مسعود احمد (۱۵) ماخوذ از عاقبة المكذ بین حصّہ اوّل صفحه ۸۷-۸۳ (۱۶) محض ماخوذ از اخبار الفضل ۶ائی ۱۹۳۴ء صفحہ۱۲ (۱۷) تقریر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی در لندن ستمبر ۱۹۲۳ء بحوالہ اخبار الفضل ۲۵/اکتوبر ۱۹۲۴ء (۱۸) اخبار الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۲۴ء (۱۹) خط جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی از لندن مطبوعه الفضل ۱۹ را گست ۱۹۲۴ء صفحه ۴ (۲۰) اخبار الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۲۴ء صفحه ۲ (۲۱) تقریر در لندن ۷ استمبر ۱۹۲۴ء منقول از اخبار الفضل ۲۵ /اکتوبر ۱۹۲۴ء (۲۲) خطبه ۱۵ را گست ۱۹۲۴ء قادیان منقول از اخبار الفضل ۱ استمبر ۱۹۲۴ء (۲۳) اخبار الفضل ۹ را گست ۱۹۲۴ء (۲۴) اخبار الفضل ۲۳ /اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۲ (۲۵) منقول از اخبار الفضل ۲۸ را گست ۱۹۲۴ء (۲۶) اخبار حقیقت کا بل جلد اول شماره ۱۴۴۱ سنه ۱۳۰۳ هجری شمسی مطابق ۶ صفر ہجری قمری صفحه ۶
342 بحوالہ اخبار الفضل قادیان ۱۸ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵ (۲۷) اخبار الفضل ۴ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۶ (۲۸) اخبار الفضل ۹ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ا (۲۹) الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۲۴ء یوم شنبه صفحه ا (۳۰) منقول از اخبار الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۲۴ ء صفحه ۵ (۳۱) خط بھائی عبدالرحمن قادیانی از لندن- اخبار الفضل ۱٫۱۴ اکتوبر ۱۹۲۴ صفحه۱۰ (۳۲) انگریزی سے ترجمہ - الفضل ۱ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۲ (۳۳) یہ تارا استمبر کے الفضل میں شائع ہو چکا ہے.ناقل ۱۶ راکتو بر۱۹۲۴ء (۳۴) الفضل ۱/۱۶اکتو بر ۱۹۲۴ء - رپورٹ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی (۳۵) ترجمه از انگریزی الفضل ۱ ستمبر ۱۹۲۴ ء صفحه ۲ (۳۶) منقول از الفضل ۱۶ / اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۷ (۳۷) خطبه فرموده ۲ ستمبر ۱۹۲۴ ء لندن منقول از اخبار الفضل ۱۴ را کتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۶-۵ (۳۸) انگریزی سے ترجمہ منقول از الفضل ۱۶ / اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۷ (۳۹) منقول از الفضل ۶ استمبر ۱۹۲۴ء صفحرم (۴۰) خطبہ جمعہ حضرت مولانا شیر علی صاحب بیان فرموده ۱۵ را گست ۱۹۲۴ء بحواله اخبار الفضل ۲۳ستمبر ١٩٢٤ء (۴۱) انگریزی سے ترجمہ.بحوالہ اخبار الفضل مؤرخه ۴ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۲۱ (۴۲) رپورٹ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب شعر فانی.منقول از اخبار الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۴ صفحه ۴ (۴۳) الفضل ۱۲۵ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳ تا ۵ (۴۴) منقول از اخبار الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۷ (۴۵) خط سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رحمہ اللہ تعالی آمده از لندن - مطبوعه الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۵
343 (۴۶) منقول از الفضل ۱۴اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵ ( ۴۷ ) مکتوب سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ از لندن مطبوعہ اخبار الفضل ۱۴ کتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵ (۴۸) منقول از اخبار الفضل مؤرخداا دسمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۴ تا ۷ (۴۹) اخبار الفضل ۹ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳-۴ (۵۰) منقول از اخبار الفضل ۱۱ را کتوبر ۱۹۲۴ صفه ۳ (۵۱) اخبار الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳ (۵۲) منقول از اخبار الفضل مؤرخه ۳۰ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۶ (۵۳) اخبار وکیل ۲۷ ستمبر ۱۹۲۴ء- بحوالہ اخبار الفضل ۱/۷اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۸،۷ (۵۴) اخبار لیڈ ر الہ آباد ۲۵ستمبر ۱۹۲۴ء بحواله الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۸ (۵۵) بحواله الفضل مؤرخہ ۳۰ ستمبر ۱۹۲۴ ء صفحه ۸ (۵۶) انگریزی سے ترجمہ - بحوالہ اخبار الفضل ۲۸ /اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ا (۵۷) اخبار الفضل ۲۳ /اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۹ (۵۸) منقول از اخبار الفضل ۱۶ /اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۲ (۵۹) منقول از الفضل ۲۵ستمبر ۱۹۲۴ ء صفحه ۱و۲ ( ۲۰ ) منقول از الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۴ (۶۱) منقول از اخبار الفضل ۱۸؍ ستمبر ۱۹۲۴ء صفه ۳ (۶۲) بحوالہ اخبار الفضل-۲۵ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۴ (۶۳) منقول از اخبار الفضل مورخه ۲ اکتوبر ۱۹۲۴ء (۶۴) سول اینڈ ملٹری گزٹ ۱۳ فروری ۱۹۲۵ء الفضل ۷ افروری ۱۹۲۵ء صفحه ۸ (۶۵) منقول از اخبار الفضل ۱۷ / فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۸ (٢٦) الفضل ۷ار فروری ۱۹۲۵ء صفحه ا
344 (۶۷) اخبار الفضل ۱۹؍ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۲ (۶۸) الفضل ۱۹ / فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۲ (۶۹) اخبار الفضل ۱۹؍ فروری ۱۹۳۵ء صفحه ۶ و صفحه ۷ (۷۰) الفضل ۲۱ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۲ (اے ) بحواله اخبار الفضل ۲۱ فروری ۱۹۲۵ء صفحها (۷۲) زوال غازی امان اللہ خان مصنفہ عزیز ہندی و اخبار الفضل ۱۰ر فروری ۱۹۳۵ء صفحریم (۷۳) ماخوذ از کتاب زوال غازی مصنفہ عزیز ہندی صفحه ۱ تا ۸ (۷۴) ماخوذ از زوال غازی مصنفه عزیز هندی صفحه ۱۸ تا صفحه ۲۷ (۷۵) منقول از اخبار الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۲۷ء صفحه ۳ (۷۶) اخبار الفضل ۱۶؍ دسمبر ۱۹۲۷ء صفحه ۲ (۷۷) اخبارا نقلاب لاہور ۲۰ دسمبر ۱۹۲۷ء الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۲۳ء (۷۸) اخبار الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۲۷ء صفحه ۴۳ (۷۹) بحوالہ اخبار الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۲۷ء صفحه ۱۲ A History of Afghanistan by Brig- Gen Sir Percy Sykes (^) 304.P الفضل ۶ / اپریل ۱۹۲۱ء صفحه ۱-۲ (۸۱) الفضل ۶ / اپریل ۱۹۲۱ء صفحه ۲۰۱ (۸۲) خلاصه از کتاب زوال غازی صفحه ۳۵ تا ۳۹ (۸۳) ماخوذ از کتاب زوالِ غازی مصنفه عزیز هندی از صفحه ۴۰ تا ۶۰ و A History of Afghanistan by Brig Gen.Percy Sykes P.310-311, Amanullah Ex King of Afghanistan by Roland Wild, Edition Published by Nisa Traders Quetta.Pakistan P 122, 150 to 155, 164 to 186 Amanullah Ex King of Afghanistan by Roland wild (^) 226-234.published by Nisa Traders Quetta Pakistan P.P- کتاب
345 زوال غازی خلاصه از صفحه ۲۹۰ تا ۳۵۵ - عاقبة المکذبین حصہ اوّل مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد ایڈیشن ۱۹۳۱ء صفحه ۱۱۵ تا ۱۲۶- A History of Afghinstan Volume II by Sir Percy Sykes P.P.311-313 (۸۵) کتاب زوال غازی مصنفہ عزیز ہندی صفحه ۳۹۸ تا ۴۰۰ - Ex King of Afghanistan by Roland Wild, Edition Published by Nisa Traders Quetta.Pakistan P.P.235-247- A history of Afghnistan P.P.315-316 (۸۶) عاقبۃ المکذبین حصہ اوّل مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب صفحہ ۱۲۰ - A History of Afghanistan by Sir Percy Sykes P.136- Ex-King of Afghanistan by Ronald Wild P.P.250 to 258 (۸۷) خلاصه منقول از عاقبة المكذ بین حصّہ اوّل صفحه ۱۲۳ و صفحه ۱۲۴ (۸۸) تذکرۃ الشہادتین صفحه ۵۸ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۰ (۸۹) تذکرۃ الشہادتین صفحه ۷۲ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۷۴ (۹۰) تذکرۃ الشہادتین صفحه ۵۲ و صفحه ۵۳ - روحانی خزائن جلده اصفحه ۳ ۵ و صفحه ۵۴ (۹۱) تذکرۃ الشہادتین صفحه ۶ ۵ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۷ (۹۶) اخبار الفضل قادیان ۱۸ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه او صفحه ی۲ (۹۳) اخبار الفضل ۲۰۱۸ نومبر ۱۹۲۴ء (۹۴) اخبار الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۲۴ء (۹۵) الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۲۴ء
346 ببلیوگرافی ۱- براہین احمدیہ حصہ اول تا پنجم- تذکرۃ الشہادتین ۲ - اخبار الفضل قادیان ۱۹۱۹ تا ۱۹۲۹ء - دعوة الامیر مصنفہ سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ۴ - اخبارات ہندوستان و انگلستان جن میں شہادت اور امیر امان اللہ خان بادشاہ افغانستان کا ذکر ہے جن کے حوالے ساتھ ساتھ درج ہیں.۵- زبانی روایات مولوی عبدالاحد خان افغان ( سید مسعود احمد ) ۶ - اخبار حقیقت کا بل ۷- عاقبۃ المکذبین مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر صوبہ سرحد - تاریخ احمدیت افغانستان مصنفه سید محمود احمد افغانی Under the Absolute Amir By Mr.Frank Martin-9 History of Afghanistan by Brig Genral Sir Percy Sykes-1* Amanullah Ex King of Afghanistan.Nisa Traders (Quetta)—|| The Pathorns by Sir Doyd Caroe (Oxford University Press - 1976
347 رف سکیج افغانستان صوبه سرحد صوبه پنجاب دوشنبه سمرقند از بکستان صبح فیض آباد قدر مزار شریف میان بخارا ایران قادیان مظفر آباد سیدو کو ہاٹ افغانستان ہرات آ راولپنڈی شہر دریا ئے جہلم دریائے چناب ریائے راوی دریائے بیاس مالتان ڈیرہ اسماع صوبه سرحد کونٹ صوبہ بلوچستان
باب پلیم 348 قاری نور علی اور مولوی عبد الحلیم کی شہادت کے حالات ان دونوں کو احمدی ہونے کی وجہ سے ۶ فروری ۱۹۲۵ء کو افغانستان میں بہ زمانہ سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی سنگسار کیا گیا
349 کابل میں دو اور بے گناہوں کا خون ہمارے دو احمدی بھائی سنگسار کر دیئے گئے " اخبار الفضل قادیان ۱۷ فروری ۱۹۲۵ء کے شمارہ میں اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور مورخہ ۱۳ فروری ۱۹۲۵ء کے حوالہ سے لکھتا ہے: پشاور ۱۲ فروری (۱۹۲۵ء) کابل سے خبر پہنچی ہے کہ...مذہبی جنون کا یہ نتیجہ ہوا کہ دوسیدھے سادھے قادیانی (احمدی ) دوکاندار ۱۰ فروری کو سپرنٹنڈنٹ پولیس اور پندرہ کانسٹیبلوں کی موجودگی میں سنگسار کئے گئے.( صحیح تاریخ ۶ فروری ۱۹۲۵ء ہے.) (۱) اس کے بعد اخبار الفضل لکھتا ہے کہ و تفصیلی حالات کا انتظار ہے.ہمیں افسوس ہے کہ حکومت کا بل اپنے سراسر خلاف شریعت طرز عمل سے اسلام کو بدنام کر رہی ہے.اور اس خدائے قہار کا خوف نہیں کرتی.جو بے گناہوں کا انتقام لینے والا ذوبکش شدید ہے.‘(۲) افغانستان میں تمہیں اور احمدی گرفتار کر لئے گئے اور دو شہید کر دئیے گئے اخبار الفضل لکھتا ہے کہ پشاور سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ کابل میں مولوی عبد الحلیم ساکن چہار آسیہ اور قاری نور علی کو فروری ۱۹۲۵ء کو سنگسار کر کے شہید کر دیا گیا ہے.اس کے علاوہ تہیں اور احمدی احباب اس وقت جیل خانوں میں محبوس ہیں.مولانا عبدالحلیم صاحب پرانے مخلص اور فاضل دوست تھے اور ان کو حضرت خلیفتہ امسیح اول نے سلسلہ احمدیہ میں بیعت لینے کے لئے مقرر کیا تھا.(۳) اخبار الفضل قادیان مزید لکھتا ہے کہ کابل میں دو احمدیوں کے سنگسار کئے جانے کی خبر پہنچنے پر حضور نے مجلس شوری منعقد فر مائی...عصر کے وقت تمام احمدیان قادیان کا ایک جلسہ ہوا.جس میں دو احمدیوں کی مظلومانہ سنگساری پر حکومت کابل کے ظالمانہ فعل پر اظہار
350 ملامت کیا گیا..حکومت کا بل اس طرح احمدیت کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روک نہیں سکتی.خدا کے فضل سے ہر ایک احمدی کو وہ صراط مستقیم پر ثابت قدم پائے گی.اس مضمون کا ریزولیوشن به اتفاق پاس ہوا.غیر میں حضرت علیہ اس نے مرد سکون کی ہدایت فرمائی.(۲) سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا پریس کو پیغام ایسوسی ایٹڈ پریس کو آج مؤرخہ ۱۹ فروری ۱۹۲۵ء کو حضور نے مندرجہ ذیل پیغام لکھ کر دیا جو اخبارات کو بھجوایا گیا: مولوی نعمت اللہ صاحب کی سنگساری کا زخم ابھی مندمل نہیں ہوا تھا کہ کابل گورنمنٹ نے دو اور احمدی تاجروں کو صرف احمدیت کی وجہ سے...سنگسار کر دیا ہے.یہ خلاف انسانیت فعل جس کا کابل میں بار بار اعادہ کیا جا رہا ہے.ضرور کوئی عظیم الشان نتیجہ پیدا کر کے چھوڑے گا.میں کابل کی گورنمنٹ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کا فعل ہم کو سچائی سے پھیر نہیں سکتا.ظلم نے کبھی سنجیدگی اور ایمان پر فتح نہیں پائی اور نہ اب وہ فتح پائے گا.’ہر ایک سچا احمدی سچائی کے قیام اور ضمیر کی آزادی کی بحالی کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ میری جماعت میں سے ایک شخص بھی حریت ضمیر کی خاطر جان دینے سے دریغ کرے گا.کابل گورنمنٹ بے شک ایک ایک کر کے سب احمدیوں کو سنگسار کر دے مگر وہ دیکھے گی کہ اس کے یہ افعال مجھے ڈراتے نہیں.بلکہ خوش کرتے ہیں.کیونکہ گو جو لوگ مارے جاتے ہیں وہ میرے روحانی بیٹے ہیں اور ان کی موت مجھے جسمانی بیٹوں کی موت سے بہت زیادہ صدمہ پہنچاتی ہے.مگر پھر بھی میرا دل فخر سے بھر جاتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ بانی سلسلہ کی قوت قدسیہ نے کس طرح ایمان کو ان لوگوں کے دلوں میں راسخ کر دیا ہے اور کس طرح دنیا کو خیالات کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے یہ لوگ اپنی
351 جانیں قربان کر رہے ہیں.مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا بھی اور ساری مہذب دنیا کا فرض ہے کہ وہ اس احسان کے بدلہ میں جو کا بل کے احمدی شہداء نے بنی نوع انسان پر حریت ضمیر کے قائم رکھنے کے لئے ایسی..موت قبول کر کے کیا ہے.ان کی اس جانبازی پر صدائے تحسین اور اُن کے قانون.....کے خلاف صدائے نفرین بلند کرے.میں ہر گز ہر گز گورنمنٹ کا بل یا وہاں کے متعصب ملا نوں کے خلاف کینہ نہیں رکھتا مگر میں سمجھتا ہوں کہ خودان کو ان کے روحانی اندھے پن سے بچانے کے لئے جس میں وہ مبتلا ہیں ضروری ہے کہ ان کو یہ محسوس کرایا جائے کہ ایک شریف انسان ان کے اس فعل کو نا پسند کرتا ہے اور اس سے بہت شدت سے متاثر ہے.پس میں آپ کے اخبار کے ذریعہ سے تمام ان لوگوں سے جو دنیا میں امن کے خواہاں ہیں اور انسانی اخلاق کی درستی کے متمنی ہیں اور حریت ضمیر کی قدر کرتے ہیں.اپیل کرتا ہوں کہ وہ کابل گورنمنٹ کے اس خلافِ انسانیت فعل کے خلاف ہر ممکن طریق سے صدائے احتجاج بلند کریں اور حریت ضمیر کو جو صدیوں کی جانباز کوششوں کے بعد دنیا کو حاصل ہوئی تھی.پاؤں تلے مسلے جانے سے بچائیں.(5) جماعت احمدیہ کا جلسہ احتجاج مندرجہ ذیل ریزولیوشن مرکزی جماعت احمدیہ قادیان نے ایک بڑے جلسے میں با اتفاق رائے پاس کیا.معلوم ہوا ہے کہ دیگر جماعت ہائے احمد یہ بھی اس مضمون کے ریزولیوشن پاس کر کے بذریعہ ڈاک اخبارات و گورنمنٹ ہندوستان اور حکومت کا بل کو بھیجیں گی.ہم احمدیان قادیان اس خبر کو سن کر کہ حکومت افغانستان نے پھر دو احمدیوں کو صرف مذہبی اختلاف کی وجہ سے سنگسار کر دیا ہے.نہایت متأسف ہوئے ہیں اور حکومت افغانستان کے اس ظالمانہ و سفا کا نہ فعل پر اظہار ملامت کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلام کے سخت
352 خلاف ہے اور شریعت اسلام کو بد نام کرنے والا فعل شنیعہ ہے.حکومت افغانستان احمدیت کی روز افزوں ترقی کو ایسی سفیہا نہ حرکات سے ہرگز نہیں روک سکتی وہ ہر ایک احمدی کو اس شاہراہ صداقت پر صادق قدم پائے گی.یه ریز ولیوشن تمام اخبارات اور گورنمنٹ ہند و گورنمنٹ افغانستان کو بذریعہ تار بھیجا (۲ جائے.(1) سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشادات حکومت کابل کی ظالمانہ کارروائیوں پر صبر وسکون سے کام لو....یہ بات متواتر تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ ظالم کے ظلم کا وبال آخر ظالم پر ہی پڑتا ہے.آج کل کوئی ایک نظیر بھی ایسی دنیا میں نہیں ملتی.کہ کوئی ظالم ظلم کر کے پھر کامیاب ہو گیا ہو.ہمیشہ ظالموں نے ظلم سے صداقت اور راستی کو دنیا سے مٹانا چاہا مگر وہ اپنے مقصد میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئے ہزار ہا سال گذر گئے اور اس میں ہزاروں ہی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے دل میں یہ شک اور شبہ پیدا نہیں ہو سکتا کہ شاید اب کوئی ظالم ظلم کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے اور کہ ظلم سے صداقت اور راستی دنیا سے مٹ جائے..کسی کا اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ میں کسی کو مار ڈالنا یا قتل کر دینا صداقت میں شک اور شبہات کا موجب نہیں بن سکتا اور نہ اس سے ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ ہمارا کیا حال اور انجام ہوگا ؟ صداقت اپنے آپ اپنی جڑ پکڑتی ہے.کسی انسان کی مدد کی محتاج نہیں جو اپنے پاؤں پر آپ کھڑا ہو نے والا ہو اس کو اس امر کی ضرورت نہیں ہوتی کہ کوئی چھوٹی یا بڑی طاقت اس کی امداد میں کھڑی ہو.” مجھے اس بات کا خیال نہیں اور نہ ہمارے دلوں میں اس قسم کا خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ جس کام اور جس صداقت کے قیام کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے یا وہ لوگ جو احمدی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں وہ کامیاب نہیں ہوں گے.
353 اور صداقت دنیا میں پھیلنے سے رک جائے گی بلکہ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ امیر کی یہ بالکل بچوں کی سی حرکات ہیں.جس طرح بچہ سکول جانے سے انکار کرتا ہے اور باپ اس کو پکڑ کر اسکول لے جاتا ہے.کہیں وہ کا نتا ہے اور کہیں وہ لاتیں مارتا ہے اور کہیں کپڑے پھاڑتا ہے.یہی حالت حکومت کا بل کی ہے وہ لاتیں مارتی ہے.مگر وہ اخلاقی سکول جو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے ذریعہ کھولا گیا ہے.اس میں اس کو ضرور داخل ہونا پڑے گا....ان کو....اس اخلاقی اسکول میں داخل ہوئے بغیر کوئی چارہ نہ ہوگا...یا گورنمنٹ افغانستان کی مثال اس بیل کی ہے جو گردن پر جو ا ر کھنے سے پہلو تہی کرتا اور دولتیاں چلاتا ہے مگر آخر اس کو جوئے کے نیچے گردن رکھنی پڑے گی.پہلے بھی آخر جوتے گئے اور یہ بھی آخر جوتے ہی جائیں گے اور خدا کا کام ان کو بھی کرنا پڑے گا.مگر مجھے جو خیال آتا ہے وہ یہ آتا ہے.ان کی بد بختیوں اور وحشیانہ حرکات اور بیوقوفیوں کا نتیجہ ان کے حق میں کیسا ہوگا." مجھے جس وقت گورنمنٹ کا بل کی اس ظالمانہ اور اخلاق سے بعید حرکت کی خبر ملی.میں اس وقت بیت الدعاء میں گیا اور دعا کی کہ الہی تو ان پر رحم کر اور ان کو ہدایت دے اور ان کی آنکھیں کھول تا کہ وہ صداقت اور راستی کو شناخت کر کے اسلامی اخلاق کو سیکھیں.اور انسانیت سے گری ہوئی حرکات سے وہ باز آئیں میرے دل میں بجائے جوش اور غضب کے بار بار اس امر کا خیال آتا تھا کہ ایسی حرکت ان کی حد درجہ بیوقوفی ہے.امیر اور اس کے اردگرد بیٹھنے والے گذشتہ تاریخ تو جانتے ہونگے اور تاریخی حالات اس میں انہوں نے پڑھے ہوں گے.اگر اس سے بے خبر ہیں.تو کم از کم مسلمان کہلانے کی حیثیت سے وہ قرآن تو پڑھتے ہونگے.اور ان حالات کو بھی پڑھتے ہونگے کہ ظالموں نے اپنے ظلموں سے صادقوں اور راستبازوں کو ذلیل کرنا چاہا اور صداقت اور راستی کے مٹانے کے لئے.سر سے پاؤں تک زور مارا.مگر آخر مٹائے جانے والے وہی ہوئے جو کہ ظالم تھے.انہوں نے اسی قرآن میں پڑھا ہو گا کہ ظالموں نے راستبازوں کی جماعت کو حقیر اور کمزور سمجھا اور اپنی قوت اور طاقت کے گھمنڈ میں ان کو ہر طرح دکھ دینے کی کوشش کی لیکن خدا نے ان کو یہی جواب دیا کہ تم کیا
354 طاقت رکھتے ہو تم سے پہلے تم سے زیادہ طاقتیں رکھنے والی قو میں گذری ہیں.جنہوں نے خدا کے راستبازوں کو نابود کرنا چاہا اور جو صداقت وہ لائے اس کو دنیا سے مٹانا چاہا...مگر با وجود اس کے وہ راستبازوں کا وجود دنیا سے مٹا نہ سکے اور صداقت دنیا میں پھیل کر رہی..اس لئے ان تجربات اور واقعات کی بناء پر اس تقریر کے ذریعہ میں آئندہ آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ طاقت اور قوت کے زمانہ میں اخلاق کو ہاتھ سے نہ دیں.کیونکہ اخلاق اصل وہی ہیں جو قوت اور طاقت کے وقت ظاہر ہوں.ضعیفی اور نا توانی کی حالت میں اخلاق اتنی قدر نہیں رکھتے جتنی کہ وہ اخلاق قدر رکھتے ہیں جبکہ انسان بر سر حکومت ہو.اس لئے میں آئندہ آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ ان کو ہماری ان حقیر خدمات کے بدلے میں حکومت اور بادشاہت عطا کرے گا تو وہ ان ظالموں کے ظلموں کی طرف توجہ نہ کریں.جس طرح ہم اب برداشت کر رہے ہیں.وہ بھی برداشت سے کام لیں اور وہ اخلاق دکھانے میں ہم سے پیچھے نہ رہیں.(2) قاری نو ر علی صاحب شہید یہ صوبہ کابل کے رہنے والے تھے.تجارت کرتے تھے.کہابی کہلواتے تھے.یعنی ان کی دوکان کبابوں کی تھی.ان کی قوم تاجک تھی.ان کو امیرا امان اللہ خان کے زمانہ میں شیر پور کابل میں سنگسار کر دیا گیا.ان کے بارہ میں قاضی القضاۃ کے فیصلہ پر عمل کیا گیا اور اسی نے سنگسار کرتے ہوئے پہلا پتھر چلایا.مولوی عبد الحلیم صاحب شهید یہ مقام چہار آسیاب ، صوبہ کابل کے رہنے والے تھے.ان کو امیر امان اللہ خان کے
355 زمانہ میں قاضی القضاۃ کے فیصلہ کے مطابق احمدی ہونے کی وجہ سے ۶ / فروری ۱۹۲۵ء کو - بمقام شیر پور کابل شہید کیا گیا.قاضی القضاۃ نے سنگساری کے وقت پہلا پتھر چلایا.مولوی عبد الحلیم صاحب کی عمر سنگساری کے وقت ۵۰ سال سے زیادہ تھی.گویا ان کی تاریخ پیدائش ۱۸۷۵ء کے قریب تھی.مولوی سید عبد الحلیم صاحب کے متعلق سید محمود احمد افغانی کی تحقیق ہے کہ آپ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.اس بارہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے.ان کے والد محترم کا نام عبد القیوم صاحب تھا.جن کی ایک تصنیف کتاب سیف الصارم تھی.عبد القیوم صاحب ، مولوی مرزا عبدالقیوم صاحب کہلاتے تھے.وزیر خارجہ مملکت افغانستان کے نام احتجاجی تار اخبار الفضل نے اپنے ۲۴ فروری ۱۹۲۵ء کے پرچہ میں وہ تار درج کی ہے.جو قادیان سے وزیر خارجہ مملکت افغانستان کے نام بھجوائی گئی ہے.اطلاع موصول ہوئی ہے کہ دو اور احمدی حکومت افغانستان کے حکم سے سنگسار کر دیئے گئے ہیں.اور تمہیں آدمی زیر حراست ہیں.جو اپنے بارہ میں فیصلہ کا انتظار کر رہے ہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت افغانستان باغیوں اور ملانوں کو خوش کرنے کے لئے ان مظالم کو روا رکھ رہی ہے.یادر ہے کہ تمام مہذب دنیا حکومت افغانستان کے اس وحشیانہ فعل کو کہ اس نے ایک امن پسند سلسلہ کے دو آدمیوں کو سنگسار کیا ہے.نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.حکومت کا بل کو خدا سے ڈرنا چاہئے اور اسے ایسے ظالمانہ اور وحشیانہ افعال سے رکنا چاہئے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا وائسرائے ہند کے نام تار جناب کو مولوی نعمت اللہ صاحب کا واقع تو معلوم ہی ہے.جب ان کو سنگسار کیا گیا اس وقت میں لندن میں تھا اور میں نے وہاں سے آپ کو اس کی طرف توجہ دلائی تھی.اب تازہ خبر ہے کہ فروری ۱۹۲۵ء میں دو اور احمدی تاجر محض احمدیت کی وجہ سے کا بل میں سنگسار
356 کئے گئے ہیں.اگر حکومت ہند نعمت اللہ صاحب کی شہادت کے موقعہ پر اس ذمہ داری کو ادا کرتی.جو ہر انسان پر ایسے موقعہ پر عائد ہوتی ہے تو میں سمجھتا ہوں ان ظالمانہ افعال کی تکرار نہ ہوتی.بے شک کا بل گورنمنٹ کا یہ فعل اندرونی انتظام سے تعلق رکھتا ہے لیکن تاریخ اس پر شاہد ہے کہ یوروپین حکومتوں نے اس قسم کے اندرونی امور کے خلاف جو انسانیت کے خلاف تھے احتجاج کیا ہے.جب میں لندن میں تھا تو مجھے سیکرٹری آف سٹیٹ کی طرف سے اطلاع ملی تھی کہ گورنمنٹ برطانیہ انفارمل طور پر اس معاملہ کے خلاف پروٹسٹ کرے گی.مجھے معلوم نہیں کہ اس وعدہ کے مطابق کیا کارروائی کی گئی.مگر بہر حال یہ تازہ واقعہ بتا تا ہے کہ یا تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی...یا اس کا کابل گورنمنٹ پر کوئی اثر نہیں ہوا میں ایک دفعہ پھر آپ سے انسانیت کے نام پراپیل کرتا ہوں کہ اس خلاف انسانیت فعل کے خلاف کوئی موثر کارروائی کریں.میں نہیں سمجھ سکتا کہ جب ایک حصہ دنیا میں ایسے صریح ظالمانہ فعل ایک حکومت کی طرف سے ہو رہے ہوں.دوسرے لوگ جو طاقت رکھتے ہوں کس طرح بلا اس کے کہ اس کو دور کرنے کی کوشش کریں آرام کی نیند سو سکتے ہیں.اگر دنیا کا یہی رویہ ہے تو امن انصاف اور عدل کبھی بھی دنیا میں قائم نہیں ہو سکے گا.آل انڈیا نیشنل کانگریس کے صدر کے نام تار مولوی نعمت اللہ صاحب کا بلی جن کو اکیس اگست ۱۹۲۴ء کو کا بل کی گورنمنٹ نے محض مذہب کی وجہ سے سنگسار کر دیا تھا.ابھی ان کا غم تازہ ہی تھا کہ کابل میں دو اور احمدی تاجر فروری ۱۹۲۵ء میں محض احمدی ہونے کی وجہ سے سنگسار کر دیے گئے.یہ خلاف انسانیت فعل...ایسا بھیانک، ایسا ظالمانہ اور ایسا مکروہ ہے کہ اگر اُس روحانی تعلق کو جو مجھے ان لوگوں سے ہے نظر انداز بھی کر دوں تب بھی میرا دل اس کے
357 خیال سے کانپ جاتا ہے.میرے نزدیک اس خلاف انسانیت فعل کے ذمہ دار صرف حکام کابل یا وہ ہندوستان کے مولوی نہیں ہیں.جنہوں نے مولوی نعمت اللہ صاحب کی شہادت پر کابل گورنمنٹ کے فعل کو سراہا تھا.بلکہ ہندوستان کے دوسرے مذہبی لیڈر بھی ہیں جنہوں نے پچھلے اجلاس کانگرس پر نعمت اللہ صاحب کی شہادت کے ظالمانہ فعل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے انسانی فعل کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا.اگر کابل کی حکومت اس امر کو اچھی طرح محسوس کر لیتی کہ باقی دنیا اس کے اس ظالمانہ فعل کو انتہائی درجہ کی نفرت سے دیکھتی ہے.تو وہ یقیناً دوبارہ اس قسم کے کام کرنے کی جرات نہ کرتی.مگر اس نے اس امر کو دیکھ کر کہ مذہبی اختلاف لوگوں کو ایسا اندھا کر سکتا ہے اور قلیل التعداد ہونے کا جرم بالکل نا قابل معافی ہے.یہ سمجھ لیا کہ احمدیوں کے ساتھ جو کچھ بھی سلوک کیا جائے وہ جائز اور درست ہے.اس سے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.ان کا یہ ظالمانہ فعل ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا.ہم سنگساریوں سے نہیں ڈرتے.کابل گورنمنٹ دیکھ لے گی.کہ اس کی یہ سنگساریاں ہمارے قدم کو اور بھی آگے بڑھائیں گی.اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ صداقت جسے لے کر ہم کھڑے ہوئے ہیں افغانستان میں پھیل کر رہے گی.مگر میرے نزدیک وہ لیڈ ر خواہ سیاسی ہوں یا مذہبی جو اس موقع پر اپنی پوری طاقت ان ظالمانہ افعال کے روکنے کے خلاف خرچ نہیں کرتے وہ دنیا کے امن اور صلح کے قیام کو پیچھے ڈال رہے ہیں.ایسے واقعات جب تک دنیا سے مٹائے نہ جائیں تو کوئی صلح نہیں ہو سکتی ظلم اور صلح ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.پس میں آپ کو اس فرض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں ورنہ میں اور میری جماعت اس یقین کے ساتھ کہ آخر ہم ہی جیت کر رہیں گے.اس راستہ پر چلنے کے لئے جس پر ہمارے یہ بھائی گئے ہیں.بالکل تیار ہیں اور یقیناً خدا کی مدد ہمارے ساتھ ہوگی.(۸)
358 افغانستان کے شہدا کا معاملہ لیگ آف نیشنز کو بھجوایا گیا جنیوا سوئٹزر لینڈ سے رائٹر نے ۲۰ فروری ۱۹۲۵ء کو یہ تارا اخبارات میں شائع کرنے کے لئے بھجوایا جماعت احمدیہ کے امام میرزا بشیر الدین محمود احمد نے لیگ آف نیشنز سے پُر زور اپیل کی ہے کہ حال ہی میں حکومت کا بل نے پندرہ پولیس کانسٹیبلوں اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کی موجودگی میں دو احمدی مسلمانوں کو محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے سنگسار کر دیا ہے.اس کے لئے دربار افغانستان سے باز پرس کی جائے.(۹) اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور مورخہ ۷ افروری ۱۹۳۵ء کور قمطراز ہے کابل میں دو بیکس قادیانی افغان دوکانداروں کے قتل نے ہندوستان میں خوفناک خیالات کی رو پیدا کر دی ہے.اور ضرور ہے کہ غیر ممالک میں بھی اس پر سخت حرف گیری ہو چند ماہ قبل نعمت اللہ خان کے سنگسار کئے جانے کی خبر ہندوستان میں پہنچی....صاف ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی طرح افغانستان کے مذہبی متعصبین نے کا بل میں حکومت پر اپنا اثر جمالیا ہے.یہ بات اس گفت و شنید پر افسوس ناک روشنی ڈالتی ہے.جو کہ خوست کے باغی ملائے لنگ کے پروانہ راہداری اور حفاظت کے ساتھ کا بل میں پہنچنے کا باعث ہوئی.کابل میں جو دو احمدی دوکاندار قتل کئے گئے ہیں.ان کو کسی قسم کی سیاسی وقعت حاصل نہ تھی.ان میں اور ان کے ہم پیشہ باقی تاجروں میں صرف یہ فرق ہے کہ وہ قادیانی مذہب سے تعلق رکھتے تھے.دوسری طرف ہم اس ملائے لنگ کو دیکھتے ہیں.جو خوست کی بغاوت کا روح رواں تھا کہ اسے کا بل میں حفاظت کا عہد دے کر لے جایا گیا.حکومت افغانستان کے سرکاری عمائد نے اسے بڑے راہ و رسم سے خوش آمدید کہا.کابل میں ایک مغلوب باغی کی....اس طرح آؤ بھگت کی گئی.گویا وہ گورنمنٹ کا معزز مہمان ہے.اس کے بعد سرکاری اخبارات میں خوست سے آنے والے فوجیوں کی فاتحانہ پریڈ کا ذکر شائع ہوا.اس پریڈ کے موقع پر ملائے لنگ اور
359 اس کے ساتھی ملا کو ہاتھوں اور پاؤں میں زنجیر میں ڈال کر پیش کیا گیا....پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ملا لنگ زیر حراست ہے.یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ اس کو چھوڑ دیا جائے گا.اس خیال سے کہ موسم بہار میں پھر خوست میں بے چینی نمودار نہ ہو ( احمدیوں کے ) یہ تازہ قتل اس کی بغاوت کی طرف رجحان کو روکنے کے لئے کئے گئے ہیں.کچھ بھی ہو اس کی حالت نا مرغوب ہے.اگر چہ یہ بات یقینی ہے کہ (ملا نے ) اس پروا نہ راہداری اور وعدہ حفاظت سے اس وقت فائدہ اٹھایا ہو گا جبکہ اس کو پختہ یقین ہو گیا ہو گا کہ اس کی حفاظت کا وعدہ اور ضمانت ایسی پختہ ہے کہ اسے توڑا نہیں جا سکتا...ہم یہ باور نہیں کر سکتے کہ دو قا دیانیوں کا قتل حالات کو درست کر دے گا....کیونکہ اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ حکومت افغانیہ ان ملانوں سے ڈرتی ہے اور وہ سلطنت کے اسی خوف کی وجہ سے اپنی روش میں قدم آگے بڑھاتے چلے جائیں گے پچھلے چند ماہ میں جو گفت و شنید حکومت کے ارباب اختیار نے ان ( ملاؤں ) سے کی تھی.وہ اس حد تک قابل اعتبار نہیں تھی.جتنا افغان حکومت ظاہر کرتی ہے.ان حالات میں ( بغاوت و بے چینی کا ) خطرہ خوست کی حدود سے بہت باہر تک پھیلا ہوا ہے.افغانستان ایک غریب ملک ہے اور اس کا سرکاری خزانہ ظاہری و خارجی زیبائشوں مثلاً لندن، برلن، پیرس اور ماسکو کے سفارت خانوں کے اخراجات کی وجہ سے خالی ہو چکا ہے...امیر امان اللہ خان کی طرف سے تمدنی صنعتی اور انتظامی اصلاحات کی کوششیں ہمدردانہ رنگ میں دیکھی جاتی ہیں.لیکن ان قدامت پسند لوگوں کے لئے نا قابل قبول ثابت ہوئیں.(۱۰) شہید ان کا بل کی سنگساری کا خونی منظر ایک چشم دید گواہ کا بیان فضل کریم صاحب سرگودھا بیان کرتے ہیں : بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را
360 جس شخص نے مجھے واقعات حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب اور مولوی عبداللہ خان صاحب ( صحیح نام قاری نور علی ہے ) کے بتلائے اس نے مجھ سے یہ وعدہ کیا کہ میں اس کا نام ظاہر نہ کروں.”اس نے یہ واقعات خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کئے اور میں جہاں تک ممکن ہے.اس کے الفاظ میں بیان کروں گا.یہ حالات میں اور میرا ایک عزیز جو احمدی ہے.سن رہے تھے.ہم دونوں اپنے جذبات قابو کئے ہوئے تھے.بیان اس کا ایسی طرز پر تھا کہ احمدی تو درکنار کوئی اور سخت سے سخت دل انسان بھی سن کر کانپ جاتا.چنانچہ بیان کرنے والے کی ایک قریبی رشتہ دار خاتون پاس بیٹھی سن رہی تھیں.ان کے آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور بے اختیار وہ الامان الامان اور الہی تو یہ الہی تو بہ کرنے لگی.کہنے لگی.خدا جانے یہ کیسے سنگدل اور ظالم ہیں.کیا انہیں سزا نہیں ملے گی.ان کو ذرا رحم نہ آیا کہ انسانوں کو بھیٹر بکرے کی طرح ذبح کر دیا.بہت بُرا کیا اور کئی گھنٹے تک انکی یہی حالت رہی اور بار بار کانوں پر ہاتھ دھر کر الہی تو بہ الہی تو بہ کہتی رہیں.(۱۱) ” میری دوکان کے پاس دس پندرہ پولیس والے دو آدمیوں کو گرفتار کئے ہوئے لئے جا رہے تھے.ایک ان میں سے نوجوان قریباً تمہیں سال کا تھا اور ایک عمر رسیدہ پچاس سے زیادہ عمر کا تھا.دونوں پابجولاں تھے.دونوں کے سروں پر عمامے بدن پر کوٹ شلوار پیروں میں جوتے تھے.......پیچھے پیچھے ایک بڑا ہجوم تھا جو کہ بڑھتا چلا جا رہا تھا اور لوگ اس میں شامل ہوتے جا رہے تھے.اور وہ لوگ آپس میں ہنس ہنس کر اور مسکرا مسکرا کر باتیں کرتے ہوئے چلے جارہے تھے.گویا کہ کسی تماشہ کو دیکھنے جارہے تھے.منادی کرنے والا جگہ بہ جگہ کھڑا ہو کر اعلان کرتا تھا کہ ان دونوں قادیانیوں کو بحکم قاضی القضاة آج بعد نماز عصر سنگسار کیا جائے گا.دونوں خاموش تھے چہرے کا رنگ زرد تھا.بڑھے کے ہاتھ میں تسبیح تھی اور کچھ پڑھتا جا رہا تھا.میں اپنے چند دوستوں کے وو
361 همراه ای مقام پر گیا.جہاں سنگساری ہوتی تھی یعنی شیر پور چھاؤنی کے مقام پر وہاں جا کر ایک جم غفیر دیکھا.اور لوگ جوق در جوق چلے آرہے تھے.تھوڑی دیر کے بعد قاضی القضاۃ ایک ٹانگے پر آئے.ٹانگے سے اترتے ہی حکم دیا کہ جولان تو ڑ دیئے جائیں اور مجرمان سے کہا گیا کہ اگر وہ کچھ نوافل یا نماز پڑھنا چاہیں تو پڑھ لیں.دونوں نے دو دو یا چار چار رکعت نماز ادا کی.مخلوق ہر طرف پہاڑوں کی ڈھلوان پر اونچی جگہ کھڑی تھی.اور مجرمان نچلی جگہ تھے.بعد نما ز...ان کے عمامے کوٹ اور جوتے اتروا دیئے گئے اور صرف کرتے اور شلوار میں بدنوں پر رہنے دیئے گئے.پھر پولیس کے آدمیوں نے دونوں کو دھکیل کر اور نچلی طرف کر دیا.میں نے خود نہیں سنا مگر لوگ کہتے تھے کہ وہ دونوں یہ کہہ رہے تھے کہ روز محشر میں ( معلوم ) ہو گا کہ کون حق پر تھا.آخر کار قاضی نے پتھر اٹھا کر مارا.اور اس کا مارنا تھا کہ لوگوں نے جو پہلے سے - پتھروں سے جھولیاں بھرے کھڑے تھے.بارش کی طرح پتھر برسانے شروع کر دیئے...میں ان سے پندرہ میں قدم پر تھا اور بعض لوگ دس پندرہ قدم پر تھے.یہاں پر میں نے ایک سوال کیا کہ کیا انہوں نے کوئی شیخ پکار کی تو اس کے جواب میں بیان کرنے والے نے کہا کہ میں ان کے نزدیک ہی تھا مگر کوئی چیخ پکار ان کی نہ سنی جب بڑھے ( مولوی عبد الحلیم صاحب) کو پتھر پڑنے شروع ہوئے تو اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر سر بسجو د ہو گیا.حتی کہ اسی حالت میں وہ آدھا پتھروں کے نیچے دب گیا.پھر ایک پتھر اس کے سر پر ایسا لگا کہ وہ بے قرار ہو کر منہ پر ہاتھ دھرے دوزانو بیٹھ گیا.جیسے کوئی نماز میں بیٹھتا ہے.چہرہ اور سر بالکل لہولہان تھے.آخر اسی حالت میں اس کی جان نکل گئی.وو دوسرا....جو کہ نو جوان تھا ( قاری نور علی صاحب) کھڑا رہا.مگر جب اسے کوئی پتھر لگتا تو وہ گر پڑتا.پھر کھڑا ہوتا پھر پتھر کھا کر گر پڑتا.پھر اٹھتا پھر گرتا پھر اٹھنے کی کوشش کرتا.پھر سنبھل نہ سکا.آخر کا راسی طرح اس کی بھی جان نکل گئی.دونوں پر اتنے پتھر برسائے گئے کہ دونوں کے جسم نیچے دب گئے اور سوائے
362 پتھروں کے ڈھیر کے کچھ نظر نہ آ سکتا تھا.سوال کیا کہ کیا آپ نے بھی پتھر پھینکے تھے.کہا ہاں میں نے بیں چھپیں پھینکے ہوں گے.پھر پوچھا کہ وہ پتھر کتنے بڑے بڑے ہوں گے.جولوگوں نے ان پر برسائے.کہا کہ بعض دو دو تین تین سیر وزن کے ہونگے.پہاڑی ہے.اس لئے جو کسی کے ہاتھ آیا وہی دے مارا.پھر جب یہ سوال کیا کہ آپ کے پتھر پھینکنے کے وقت کیا خیالات تھے.تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس وقت تو کچھ اور ہی خیالات تھے.‘ (۱۲) جناب فضل کریم صاحب سرگودھا مزید لکھتے ہیں کہ ضمنا میں ایک واقعہ بھی بیان کر دیتا ہوں جس کا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی اپنی ایک تقریر میں ذکر فرمایا تھا: ایک شخص نے جو شاید راولپنڈی کے علاقے کا رہنے والا ہے.اپنے ایک دوست کو کا بل سے.....خط لکھا کہ وہ دونوں قادیانی جن کی سنگساری کے لئے آپ اتنی مدت انتظار کرتے رہے اور اپنی واپسی ہندوستان ( کا ) التواء کرتے رہے.فلاں فلاں تاریخ کوسنگسار کئے گئے.میں نے آپ کی طرف سے بھی چار پتھر پھینکے تا کہ آپ بھی اس ثواب سے محروم نہ رہیں.آپ کو مبارک ہو.جب یہ خبر اس شخص نے پڑھی تو (اپنے ) دوستوں سے خوشی خوشی اس کا ذکر کیا.اور ہمیں بھی (یعنی احمدی احباب کو ) طنز آیہ خبر سنائی گئی.گویا کہ ان لوگوں کو ایک فتح عظیم نصیب ہوئی.(اس وقت تک ہمیں قادیان سے اطلاع نہ پہنچی تھی ) (۱۳) الله و انا اليهِ رَاجِعُون مکذبین کا انجام ۱۹۲۹ء میں سردار علی جان کو بچہ سقاؤ کے حکم سے کابل میں ، سپاہیوں کی زیر نگرانی پھرایا گیا.اور اس کے بعد توپ کے منہ میں ڈال کر اڑا دیا گیا جس سے وہ فوت ہو گیا.سردار علی جان کو امیر امان اللہ خان نے خوست کی بغاوت رفع کرنے کے لئے باغیوں کے لیڈر یعنی ملا عبد اللہ معروف بہ ملائے لنگ اور اس کے داماد ملا عبدالرشید معروف
363 بہ ملائے دبنگ سے گفت شنید کرنے کے لئے بھجوایا تھا.باغیوں نے مطالبہ کیا کہ امیر امان اللہ خان قادیانی ہو گیا.اگر یہ درست نہیں ہے تو اس کو چاہئے کہ اپنے دادا امیر عبدالرحمن خان اور والدا میر حبیب اللہ خان کی طرح چند احمدیوں کو قتل کر وائے.سردار علی جان نے باغیوں کا یہ مطالبہ تسلیم کر کے امیر امان اللہ خان کو اس پر عمل کرنے کا مشورہ دیا.جس پر امیر امان اللہ خان نے انصاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تین احمدیوں کو یعنی مولوی نعمت اللہ خان، مولوی عبد الحلیم اور قاری نور علی کو شہید کر وا دیا تھا.قاضی عبد الرحمن کوہ دامنی نے مولوی نعمت اللہ خان شہید کی سنگساری کا فتویٰ دیا تھا.اسے بچہ ستاؤ نے ۱۹۲۹ء میں قتل کروا دیا.بچہ سقا ؤ تا جک قوم سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا وطن کو ہ دامن کے علاقہ میں خوجہ سرائے تھا.(۱۴) ملآ یان خوست جنہوں نے حکومت افغانستان کو احمدیوں کو شہید کرنے کی ترغیب دی تھی.ان کے متعلق لکھا ہے کہ خوست کے باغی ملا عبداللہ مشہور بہ ملائے لنگ اور اس کے داماد ملا عبدالرشید ملائے دبنگ کو جب معافی کا وعدہ دے کر کا بل لایا گیا تھا تو کچھ عرصہ تو امیر امان اللہ خان نے ان کو عزت اور احترام کے ساتھ ٹھہرایا لیکن جب بغاوت رفع ہو گئی اور منگل چمکنی جدران وغیرہ قبائل کو دبا دیا گیا اور علاقہ میں مرکزی حکومت افغانستان دوبارہ قائم ہوگئی.فوجیں واپس چلی گئیں تو امیر امان اللہ خان نے ان لوگوں سے بھی بدعہدی کی.ان ملاؤں کو دربار میں پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ میرا غیور لشکران ملعون اور غدار کتوں کی گردنوں میں پٹہ ڈال کر میرے سامنے لے آیا.میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اس قسم کے کتوں کو پکڑ کر شیروں کی طرح اپنے پد رعاجز کے پاس لا یا کریں.بالآ خرا میر امان اللہ خان نے ان کو قتل کروا دیا.(۱۵)
364 امیر امان اللہ خان جس نے اپنا تخت بچانے کے لئے احمدیوں سے بدعہدی کی اور تین احمد یوں مولوی نعمت اللہ خان صاحب پنجشیری ، مولوی عبد الحلیم صاحب اور قاری نور علی صاحب کو سنگسار کروا کر شہید کروا دیا.اس کا انجام یہ ہوا کہ ۱۹۲۹ء میں باغی ڈاکو حبیب اللہ خان معروف بچہ سقاؤ سے شکست کھا کر اپنے بڑے بھائی امیر عنایت اللہ خان کے حق میں دستبردار ہو کر قندھار کی طرف بھاگ گیا.وہاں اگر چہ اس کا لشکر اور حامی موجود تھے.لیکن دوبارہ شکست کھائی اور بالآخر اپنے حامی لشکر جو اس کے وطن قندھار سے تعلق رکھتا تھا.اس کو بتائے بغیر خفیہ طور پر پھر فرار کا راستہ اختیار کیا.جب امیر امان اللہ خان کا بل سے بھاگ کر قندھار پہنچا تو.قبیلہ سلیمان خیل بچہ سقاؤ کے ساتھ مل گیا.اور امیر امان اللہ خان سے لڑائی کرنے کو لشکر لے کر آ گیا.اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ قبیلہ ملا شور بازار کے مرید تھے اور ملا شیر آقا کے ہمنوا تھے.چونکہ یہ لوگ امان اللہ خان سے بیزار ہو چکے تھے اس لئے وہ بھی ان سے متنفر تھا.اس سے امان اللہ خان بے دل ہو گیا.اس کو ہزار سمجھایا گیا کہ وہ قبیلہ وردک کے علاقہ میں داخل ہو جائے یہ لوگ اس کے حامی تھے اور اب تک سقاویوں سے جنگ کر رہے تھے.لیکن امان اللہ خان پر خوف اس قدر غالب آچکا تھا کہ اس نے یہ مشورہ بھی قبول نہ کیا اور اپنی فوج کو مقر کی طرف ہٹ جانے کا حکم دیا.وہ مقر میں بھی نہ ٹھہرا کیونکہ قبیلہ سلیمان خیل کا لشکر اس کے تعاقب میں تھا.وہاں سے امیر امان اللہ خان قلات زابل چلا گیا.اور وہاں سے اپنے سب حامیوں - کو اسی حال میں چھوڑ کر خفیہ خفیہ انتظام کر کے اپنے اہل و عیال سمیت بلوچستان میں چمن آیا اور انگریزوں کی پناہ کا طالب ہوا.(۱۶) اس ضمن میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کابل میں شہر کی حفاظت کے لئے میر غوث الدین خان احمد زئی ، ایک لشکر جمع کر رہا تھا.جس کا مقصد امیر امان اللہ خان کی حفاظت اور مدد کرنا تھا اس کو بادشاہ کی طرف سے اسلحہ بھی دیا گیا تھا.جب بچہ سقا ؤ نے کا بل پر حملہ کیا تو میر غوث الدین خان احمد زئی نے بجائے اس کے کہ باغیوں کا مقابلہ کرے اپنے لشکر
365 کا بل چھوڑ کر اپنے وطن روانہ ہو گیا.اس کا وطن سمت جنوبی میں گردیز کے پاس تھا.نئے بادشاہ امیر عنایت اللہ خان کی تخت نشینی کی رسم ملا صاحب شور بازار کے چھوٹے بھائی ملا شیر آقا نے ادا کی تھی.کابل میں نئے بادشاہ کے تقرر پر تو ہیں چھوڑی گئیں تو عوام کو یقین ہو گیا کہ امیر امان اللہ خان کا دور اقتدار ختم ہو چکا ہے.امیر عنایت اللہ خان نے صلح کی خاطر بچہ سقاؤ کے پاس ایک وفد بھجوایا.جس کا لیڈر ملا شیر آقا تھا.اس وقت افغان فوج اور باغیوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی.یہ وفد سفید جھنڈا لہراتا ہوا نکلا اور باغ بالا کے پاس سرکاری دفاعی لائن کے قریب آ کر ٹھہر گیا.ملا شیر آ قانے کا بل کا دفاع کرنے والے سپاہیوں کے پاس جا کر اپنی موٹر رکوائی اور قریب کے سپاہیوں کو مخاطب ہو کر فارسی زبان میں کہا.او بچہ ہا حالا شما برائے چہ جنگ می کنید ؟ اگر برائے امان اللہ خان خان جنگ مے کنید - من بشما گویم که اوگر بخته است جس کا مفہوم یہ ہے کہ بچو ! تم اب کس کے لئے جنگ کر رہے ہو.اگر تم امان اللہ خان کے لئے لڑ رہے ہو تو میں تمہیں بتا تا ہوں کہ وہ تو بھاگ چکا ہے.ملاً شیر آقا نے یہ فقرے تو کہہ دیئے اور سپاہیوں کو صاف الفاظ میں بتا دیا کہ امان اللہ خان اب بادشاہ نہیں رہا اور کابل سے بھاگ گیا ہے.لیکن اس نے سپاہیوں کو یہ نہیں بتایا کہ اب امان اللہ خان کی جگہ معین السلطنت عنایت اللہ خان بادشاہ بن چکا ہے.اور یہ کہ میں نئے بادشاہ کی جانب سے بچہ سقاؤ کے پاس وفد لے کر جا رہا ہوں تا کہ اب وہ جنگ بند کر دے اور نئی حکومت کو قبول کر لے.لیکن ملا شیر آقا نے ایسا نہیں کیا.ملا کے ان طلسماتی کلمات نے سرکاری فوج پر عجیب اثر کیا اور سپاہی یہ سمجھ کر اب کوئی بادشاہ نہیں رہا اور ان کے سر پر کوئی وجود ایسا نہیں جس کی ماتحتی اور ملازمت میں وہ لڑائی جاری رکھ سکیں.اپنے اپنے مورچے چھوڑ کر تتر بتر ہو گئے
366 اور سرکاری دفاع اس محاذ پر ختم ہو گیا.بچہ سقا ؤ نے جب دیکھا کہ سرکاری فوج کی طرف سے فائر بند ہو چکے ہیں اور فوج اپنے مورچے چھوڑ کر منتشر ہو گئی ہے.تو وہ سمجھ گیا کہ قدرت نے اسے اب ایسا موقعہ دیا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر وہ خود امیر بن سکتا ہے.چنانچہ جب اس نے سرکاری وفد سے ملاقات کی تو ملا شیر آقا کی تجاویز ماننے سے صاف انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ عنایت اللہ خان بھی دستبردار ہو جائے.اب وہ خود افغانستان کا امیر ہے.چنانچہ اسی روز باغیوں نے کابل میں داخل ہو کر ارک پر قبضہ کر لیا.اور امیر عنایت اللہ خان نے دستبرداری کا اعلان کر دیا.عنایت اللہ خان کی طرف سے سفارت خانہ انگریزی کو درخواست کی گئی کہ عنایت اللہ خان اور اس کے خاندان کے لئے ہوائی جہازوں کا انتظام کر دیں.یہ درخواست بھی ملا شیر آقا کے ذریعہ سفیر برطانیہ کو کی گئی.انگریزوں نے اسے منظور کر لیا.جملہ امور طے پانے کے بعد عنایت اللہ خان نے تیسرے دن صبح قریباً دس بجے روتے دھوتے پشاور کی طرف پرواز کی.درّانی پھریرا جوارک کے مشرقی برج پر لہرا رہا تھا.اتار دیا گیا.(۱۷) تین بکروں کے ذبح کئے جانے کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاما خبر دی تھی کہ شـــــــانِ تذبحان یعنی دو بکرے یا بکریاں ذبح کی جائیں گی.یہ الہام حضور کی زندگی میں مولوی عبدالرحمن شہید اول اور حضرت مولانا محمد عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت سے پورا ہوا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف تذکرۃ الشہادتین میں وضاحت سے اس پیشگوئی کا ذکر فرمایا ہے.
367 مولوی عبدالرحمن خان کی شہادت مئی 1901ء میں اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی جولائی ۱۹۰۳ء میں واقعہ ہوئی.اس کے بعد سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یکم جنوری ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا کہ دو تین بکرے ذبح کئے جائیں گے.‘ (۱۸) چنانچہ جیسا کہ مفصل لکھا جا چکا ہے کہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی کے زمانہ میں ۱۹۲۴ ء میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب اور ۱۹۲۵ء میں قاری نور علی صاحب اور مولوی عبد الحلیم صاحب کو سنگسار کیا گیا.اور اس طرح خدا کے مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی لفظا لفظاً پوری ہوئی.
368 حوالہ جات (۱) عاقبۃ المکذبین مصنفہ قاضی محمد یوسف صاحب حصہ اوّل صفحہ ۹۸ (۲) اخبار الفضل قادیان ۱۷ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۸ (۳) الفضل ۲۱ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ، عاقبة الممکن بین مصنفہ قاضی محمد یوسف صاحب حصہ اوّل صفحہ ۹۸ (۴) الفضل ۷ افروری ۱۹۲۵ء صفحه ا (۵) اخبار الفضل ۱۹ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۲ (4) اخبار الفضل ۱۹ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۲ (۷) اخبار الفضل ۱۹ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۶ تا ۷ (۸) ماخوز از اخبار الفضل ۲۴ فروری ۱۹۲۵ء، صفحه ۲ (۹) بحوالہ اخبار الفضل ۲۸ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۱ (۱۰) انگریزی سے اردو ترجمہ، بحوالہ اخبار الفضل ۲۶ مئی ۱۹۲۵ء، صفحه ۵ (۱۱) اخبار الفضل قادیان ۱۷دسمبر ۱۹۲۶ء (۱۲) اخبار الفضل قادیان ۱۷ دسمبر ۱۹۳۶ء (۱۳) تفصیل کے لئے زوال غازی مصنفہ عزیز ہندی ملا حظہ کریں.(۱۴) ملخص از کتاب زوال غازی مصنفه عزیز هندی و اخبار الفضل، افروری ۱۹۲۵ء صفحریه (۱۵) کتاب زوال غازی مصنفہ عزیز ہندی صفحه ۳۹۸ تا ۴۰۰ ، Amanullah Ex King of Afghanistan by Ronald Wild Page 247, A History of Afghanistan by Sir Percy Sykes volume II page 235-247, P.P 315-316 Amanullah Ex.king of Afghanistan, by Ronald Wild (Nisa (17) A History of Traders) Quetta, Pakistan, P.P 226-234,.311-313 Afghanistan Volume ii by Sir Percy Syek page کتاب زوال غازی خلاصه از صفحه ۳۵۵-۲۹۰ مصنفه عزیز ،ہندی، عاقبة المکد بین حصہ اول مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد ۱۹۳۶ء،صفحه ۹۸ ، صفحه ۱۲۶-۱۱۵ مطبوعه قادیان (۱۷) اخبار بدر ۵ جنوری ۱۹۰۶ء واخبار الحکم ۱۰ جنوری ۱۹۰۶ء (۱۸) تذکره صفحه ۵۳۵ ایڈیشن اوّل
369 حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف شہید افغانستان کے شاگردمولوی عبدالستارخان معروف بہ بزرگ صاحب اور ان کے بھائی مولوی عبدالغفار صاحب اور ملا میر وصاحب کے حالات
370 مولوی عبدالستارخان صاحب کا خاندان - قوم اور وطن مولوی عبدالستار خان صاحب کے والد صاحب کا نام دیندار خان تھا.وہ موضع بل خیل خوست صوبہ پکتیا افغانستان کے رہنے والے تھے.اُن کا قبیلہ منگل تھا جس کی ایک شاخ، شریف زئی سے تعلق رکھتے تھے.بزرگ صاحب کا خیال تھا کہ شریف زئی دراصل سادات میں سے ہیں.آپ کے والد صاحب تو آپ کے احمدی ہونے سے قبل فوت ہو چکے تھے لیکن والدہ صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے قبول احمدیت کا شرف عطاء فرمایا.(۱) ابتدائی حالات مولا نا عبدالستار خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے باپ دادا اچھے عالم تھے اور لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے.اُس زمانہ میں دوستم کے لوگ تھے.ایک وہ جو اچھے عالم تھے وہ شیخان کہلاتے تھے.دوسرے وہ جو طالب علمی کی حالت میں تھے.مجھے شیخان کو دیکھ کر خیال آیا کہ یہ لوگ صاحب حیثیت معلوم ہوتے ہیں.ان کا لباس بھی اچھا اور سفید ہے.اس لئے مجھے طلب علم کا شوق ہوا.اس پر میں نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے باہر جانے پر کمر باندھی اور میرا ساتھ ان لوگوں سے ہو گیا جن کا تعلق قادری سلسلہ سے تھا.بالآ خر میں ایک ایسے مولوی کا شاگرد بن گیا جو حضرت صاحبزادہ محمد عبد اللطیف کو جانتا تھا.میرے اس استاد نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی ایسی تعریف کی کہ مجھے ان سے ملنے کا شوق پیدا ہو گیا اور میں انہیں ملنے کی خاطر چل پڑا.میں ابھی انہیں نہیں مل سکا تھا کہ مستون مقام پر ایک مولوی صاحب کے پاس پہنچ گیا.یہ مقام خوست میں ہے.اس مولوی کے پاس ٹھہر گیا اور اس کی شاگردی اختیار کر لی.اس زمانہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب سید گاہ میں تھے اور ان کے پاس بکثرت لوگ تعلیم کے لئے آیا کرتے تھے اور قرآن شریف
371 اور حدیث کا بیان ان کے ہاں ہوتا تھا.میں ایک دو جمعے اُن کا درس سننے کے لئے جاتا رہا.اُن کے کلام اور وعظ نے میرے دل پر ایسا اثر کیا کہ میں مستون کو چھوڑ کر سید گاہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے پاس رہنے لگا.کچھ دنوں کے بعد میرے استاد کا پیغام آیا کہ تم میری اجازت کے بغیر چلے گئے ہو میں تم سے بہت ناراض ہوں.تمہیں ہرگز معاف نہیں کرونگا.اُس وقت میرے دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ میرا استاد ہے کہیں مجھے بد دعا نہ دے.ایک طرف تو صاحبزادہ صاحب سے جدا ہونے کو دل نہیں چاہتا تھا، دوسری طرف اُس استاد کا خوف تھا.آخر میں نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے بات کی اور سارا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے فرمایا: اگر کوئی شخص کسی مولوی کی شاگردی اختیار کر لے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ استاد کا غلام بن گیا ہے.یہ آپ کی مرضی ہے جہاں آپ کا دل چاہے تعلیم حاصل کریں.“ یہ بات سن کر میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں رہنے اور تعلیم پانے لگا.میں نے ان سے بہت سے حقائق و معارف سنے.ان کی باتیں میرے دل پر بہت اثر کرتی تھیں.اُس زمانہ میں جو شیخان خوست میں رہتے تھے وہ پیر صاحب مانکی کے مرید تھے اور اُن کا عقیدہ تھا کہ ان کا پیر آسمان و زمین اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے اُس تمام مخلوق کا علم رکھتا ہے.چونکہ میں پہلے اسی عقیدہ پر تھا میں نے اس کا ذکر حضرت صاحبزادہ صاحب سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ: و, یہ بالکل غلط ہے جو بھی پیر ومرشد اس دنیا میں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور خدا اور اس کے رسول کے حکم کے پابند ہیں اور اس کے قدم بقدم چلتے ہیں.قطبیت غوشیت ، ولایت بزرگی بس یہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں.(۲) صاحبزادہ ابوالحسن قدسی بیان کرتے ہیں کہ آپ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت میں کچھ ایسے کھوئے گئے تھے کہ دنیاوی کاروبار کی طرف آپ نے کبھی توجہ نہ دی.روزی کمانے
372 کی کبھی آپ نے مشقت نہ اٹھائی.اللہ تعالی نے اپنے فضل سے آپ کو ہر قسم کی تنگی وهذت سے بچائے رکھا.بظا ہر آمدنی کی کوئی صورت نہ تھی.لوگ خود بخود آپ کی امداد کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے.آپ حضرت صاحبزادہ صاحب کے مخلص دوستوں میں سے تھے.یہ دوستی کا تعلق اس وقت پیدا ہوا جب خوست کے بدعتی فرقے حضرت صاحبزادہ صاحب کے مخالف ہو گئے کیونکہ آپ ہمیشہ قرآن وحدیث کی اشاعت میں کوشاں رہتے تھے.اور اس کے مطابق عمل کی تلقین کرتے تھے.بدعتی فرقے آپ کے قتل کے درپے رہتے تھے.اس وقت بزرگ صاحب نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اور سب تعلقات توڑ کر آپ کی صحبت میں رہنا اختیار کر لیا تھا.جب حضرت صاحبزادہ صاحب سفر پر جاتے تو مولوی عبدالستار خان صاحب ساتھ ہوتے تھے.جب حضرت شہید مرحوم نے کابل جا کر رہائش اختیار کی تو وہ وہاں بھی ساتھ تھے.شہر کا بل میں افغانستان کے بڑے بڑے آدمیوں سے ان کی واقفیت پیدا ہوگئی تھی.چنانچہ اعتماد الدوله سردار عبدالقدوس خان شاه خاصی ، مستوفی الممالک محمد حسین خان اور مرزا عبد الاحد خان کمیدان آپ سے خوب واقف تھے.بزرگ صاحب کا قبول احمدیت آپ اپنے احمدی ہونے کے متعلق یوں بیان کرتے تھے کہ جب ابھی صاحبزادہ سید عبداللطیف تک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ نہیں پہنچا تھا ان دنوں آپ قرآن و حدیث کا درس دیتے تھے تو بیان فرمایا کرتے تھے کہ مہدی کے آنے کا یہی زمانہ ہے کیونکہ اس کی تمام علامات پوری ہو چکی ہیں.تعجب ہے کہ مہدی کے ظہور کی کوئی اطلاع نہیں ملی- جب انگریزوں سے افغانستان کی سرحد کی نشان دہی ہو رہی تھی ( یہ ۱۸۹۴ء کا ذکر
373 ہے.مرتب ) تو گورنر خوست شیر میں دل خان سرحد کے تصفیہ کے لئے جایا کرتے تھے اور ان کے ہمراہ حضرت صاحبزادہ صاحب بھی جاتے تھے.ان دنوں ایک موقع پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصنیف آئینہ کمالات اسلام صاحبزادہ صاحب تک پہنچی.آپ نے اس کتاب کو پڑھ کر حضور کے دعویٰ کی تصدیق کی اور اپنے واقف کارلوگوں کو اس بارہ میں سمجھا نا شروع کر دیا.شیریں دل خان گورنر اور ان کے عملہ کو بھی پیغام پہنچایا.بزرگ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ سردار شیر میں دل خان اچھے آدمی تھے اور انہوں نے انکار نہیں کیا تھا بلکہ غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی تصدیق کی تھی.اس کے علاوہ صاحبزادہ صاحب مرحوم نے سید گاہ میں اپنے چند مخلص دوستوں کو جمع کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کی اطلاع دی اور سب نے اسے مان لیا.مولوی عبدالستار خان صاحب نے اُس وقت کچھ سوالات کئے تھے جن کے حضرت صاحبزادہ صاحب نے تسلی بخش جواب دیئے تھے.مولوی عبدالستار خان صاحب کے چھوٹے بھائی ملا میر و صاحب اس بات پر کبھی کبھی طنز کیا کرتے تھے لیکن بزرگ صاحب فرماتے تھے کہ میں نے انکار کی وجہ سے نہیں بلکہ مزید اطمینان حاصل کرنے کے لئے کچھ باتیں پوچھی تھیں.حضرت صاحبزادہ صاحب قادیان آنے سے قبل اپنے بعض شاگردوں کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھجوایا کرتے تھے اور حضور کی خدمت میں خطوط بھی لکھتے رہتے تھے ان شاگردوں میں مولوی عبدالستار خان صاحب اور مولوی عبد الرحمن خان صاحب شامل تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی اور اپنے بعض شاگردوں کی بیعت کے خطوط بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھ دیئے تھے.مولوی عبدالستار خان صاحب بتایا کرتے تھے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی یہ خواہش تھی کہ وہ افغانستان سے ہجرت کر کے مع اہل و عیال قادیان آجائیں لیکن آپ کا شہید ہونا ہی مقدر تھا.
374 جب حضرت صاحبزادہ صاحب شہید ہو گئے تو مولوی عبدالستار صاحب ۱۹۰۴ء میں ہجرت کر کے قادیان آگئے.(۳) قادیان میں قیام کے حالات صاحبزادہ سید ابوالحسن صاحب قدسی نے مولوی عبدالستار بزرگ صاحب کو اپنے افغانستان سے قادیان آنے کے بعد ۱۹۲۶ء میں پہلی دفعہ دیکھا تھا.قدسی صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ کا قد درمیانہ اور بدن چھریرا تھا.پیشانی روشن تھی.چہرہ نورانی تھا ، داڑھی سفید تھی.آپ کی طبیعت میں شیفتگی اور نرمی اور تواضع اور خاکساری تھی.مسکراتے رہتے تھے مگر کبھی قہقہہ مار کر نہیں ہنستے تھے.مخلوق خدا کی ہمدردی اور دوسروں کی تکالیف کا بے حد احساس تھا.آپ کو گوشہ نشینی اور گمنامی پسند تھی لیکن اکثر لوگ آپ کی دعا کی قبولیت کا مشاہدہ کر چکے تھے.جماعت احمدیہ میں آپ کی شہرت اور آپ سے واقفیت بہت تھی.آپ کی مادری زبان پشتو تھی.فارسی اور عربی میں بھی گفتگو کر سکتے تھے.اُردو زبان بھی خوب پڑھتے اور سمجھتے تھے مگر بولنے کی زیادہ مشق نہ تھی.آپ نے اپنے حجرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا درس جاری کیا ہوا تھا.قرآن و حدیث کی تعلیم دیا کرتے تھے اور قرآن مجید کے بعض نہایت لطیف معنے بیان کرتے تھے.تصوّف کی اکثر کتابوں پر عبور تھا اور صوفیوں کے حالات سے خوب واقف تھے.آپ کا تصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رنگ میں رنگین تھا.حضور اقدس کی روایات بھی بیان کرتے تھے.آپ کا حافظہ بہت اچھا تھا.ایک ایک روایت میں نے کئی کئی دفعہ آپ سے سنی.جہاں تک مجھے علم ہے آپ کی ہر روایت کے الفاظ ہر دفعہ ایک ہی ہوتے تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کو آپ سے خاص تعلق تھا.
375 آخری بیماری اور وفات جب آپ بہت ضعیف ہو گئے تو اپنے حجرہ سے کم باہر آتے تھے.نماز کے لئے مسجد میں یا کبھی کبھی بہشتی مقبرہ جانے کے سوا کہیں نہ جاتے تھے.آپ سال بھر بیمار رہے.سخت بیماری کی حالت میں بھی نماز کے پابند رہے.نوافل بھی کثرت سے پڑھتے تھے.مرض کے آخری دنوں میں درود شریف اور یہ دعا بار بار زور سے نماز میں پڑھتے تھے اللَّهُمَّ دَمْرِ الظَّالِمِينَ تَدْمِيرًا - اللَّهُمَّ مَزَقَهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ “ جب آپ کی حالت نازک ہو گئی تو ایک شخص نے آپ سے کہا : '' آپ کے جدا ہونے سے ہمیں بڑی تکلیف ہوگی.آپ نے فرمایا: ” خدا کرے قیامت میں جدا نہ ہوں.اللہ تعالیٰ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت شہید مرحوم سے جدا نہ کرے.“ آخر مؤرخه ۱۸ اکتو بر۱۹۳۲ء کو وفات پا کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے - رَضِيَ اللَّهُ وَاَرْضَاهُ بِمَا يَرْضَى بِهِ عِبَادِهِ الْمُقَرَّبِين - آمین (۴) حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر فرماتے ہیں: حضرت مولوی عبدالستار صاحب افغان المعروف بزرگ صاحب جو ایک عرصہ سے مہمان خانہ قادیان کی خاص رونق اور برکت تھے ۱۷ / اکتوبر ۱۹۳۲ء مطابق ۱۶ جمادی الآخر ا۱۳۵ھ کو اس جہان فانی سے رحلت کر کے ہمیشہ کے واسطے مقبرہ بہشتی میں جاگزین ہو گئے.آپ کی وفات ہمارے لئے ایک قومی صدمہ ہے.کیونکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے خادم ، عالم با عمل، صاحب کشوف والہامات تھے.آپ کی دعائیں اکثر احباب کے واسطے موجب تشفی اور برکات ہوتی تھیں.آپ کا درس کئی طالبعلموں کے واسطے حصول علم کا موجب تھا.عاجز اکثر آپ کی صحبت میں تسکین اور روحانی راحت حاصل کرنے کے واسطے جا
376 بیٹھتا تھا.افغانی احمدیوں کا آپ کے گرد ہمیشہ ایک مجمع رہتا تھا.اور آپ ان کی تعلیم و تربیت و ترقی کی طرف خاص توجہ کرتے تھے.مرحوم حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے خاص شاگردوں اور دوستوں میں سے تھے.’ حضرت شہید مرحوم نے مولوی عبدالستار صاحب کو قادیان بھجوایا تھا تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملیں اور آپ کے حالات معلوم کر کے واپس آئیں.مولوی عبدالستار صاحب قادیان آئے ، کچھ مدت یہاں رہے....واپس حضرت شہید مرحوم کے پاس گئے اور تمام حالات قادیان سے انہیں آگاہ کر کے قادیان آنے کا مشتاق بنایا.میں اُس وقت ہنوز ریاست جموں کے ہائی سکول میں ملازم تھا مگر قادیان اکثر آتا رہتا تھا.اس واسطے ابتداء سے ہی مجھے مرحوم کے ساتھ واقفیت اور محبت کا تعلق تھا.مرحوم ابتدائی زمانہ میں اپنے استاد حضرت شہید مرحوم کے حکم سے کئی بار قادیان آئے.....حضرت صاحبزادہ صاحب مرحوم ۱۹۰۲ء میں خود ایک قافلہ شاگردان کے ساتھ قادیان آئے تو اس وقت بھی مولوی عبدالستار صاحب و سید احمد نور آپ کے ہمراہ تھے اور ان کے ساتھ ہی خوست واپس گئے تھے.پھر ۱۹۰۴ء میں قادیان ایسے آئے کہ ۲۸ سال گذشتہ برابر یہاں مقیم رہے آپ کی عمر بوقت وفات قریباً نوے (۹۰) سال تھی.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں بلند مقامات عطا فرمائے اور اپنے قرب میں خاص جگہ دے.‘ (۵) آپ کے انتقال کے بارہ میں اخبار الفضل رقم طراز ہے: ” نہایت ہی رنج اور افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالستار صاحب افغان المعروف بزرگ صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اولین صحابہ اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے شاگردانِ خاص میں سے تھے.طویل علالت کے بعد ۱۸ / اکتوبر ۱۹۳۲ء کو ساڑھے آٹھ بجے صبح دنیائے فانی سے رحلت فرما حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے الفضل ۳۰ /اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸ پر تاریخ وفات ۱۷/ اکتو بر ۱۹۳۲ لکھی ہے.
377 گئے-انالله و انا اليه راجعون وو مرحوم قادیان میں سب سے پہلے ۱۸۹۷ء میں تشریف لائے.اس کے بعد دو تین مرتبہ اپنے علاقہ خوست سے آتے رہے.آپ نہایت منکسر المزاج، پاک طینت اور اعمال صالحہ بجالانے والے انسان تھے.صاحب مکاشفات بھی تھے.آپ عمر بھر مہمان خانہ کے ایک چھوٹے سے حجرہ میں نہایت صبر وشکر کے ساتھ فقیرانہ رنگ میں اقامت گزیں رہے.و, حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے بہت بڑے مجمع کے ساتھ باغ میں آپ کا جنازہ پڑھایا.پھر باغ سے لے کر بہشتی مقبرہ تک نعش کو کندھا دیا.چہرہ دیکھ کر حضور تشریف لے آئے.وو واپسی پر مرحوم کے خصائل حمیدہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو غصہ کے وقت اپنے نفس پر بہت قابو تھا.بلکہ اس خصوص میں آپ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب سے بھی بڑھے ہوئے تھے.حضور نے یہ بھی فرمایا کہ یہ ان کے روحانی تعلق کا ثبوت ہے کہ جب تک میں ڈلہوزی سے واپس نہیں آیا ان کی وفات نہیں ہوئی پھر آپ نے ایک رؤیا کا ذکر فرمایا جو ڈلہوزی میں دیکھا تھا کہ قادیان میں ایک ایسے شخص کی وفات ہوئی ہے جس سے زمین و آسمان ہل گئے ہیں.مرحوم بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے." اُن کی عمر کا صحیح اندازہ نہیں.اغلبا ۷۰ برس کے قریب تھی.’ احباب سے درخواست ہے کہ جنازہ غائب پڑھیں اور آپ کی بلندی درجات کے لئے خصوصیت سے دعا مانگیں.‘ (1)
378 مولوی عبدالستار خان صاحب کے بارہ میں حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے ارشادات حضور ا یک خطبہ جمعہ میں ارشادفرماتے ہیں کہ : ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ایمان کی ادنی علامت یہ ہے کہ اگر مومن بندے کو آگ میں بھی ڈال دو تب بھی وہ ایمان ترک کرنا گوارا نہ کرے.جب ادنی سے ادنی بشاشت ایمان دل میں پیدا ہو جانے پر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے اور اس قدر اُس کے اندر عزم اور استقلال راسخ ہو جاتا ہے تو اعلیٰ ایمان پر جو کچھ انسانی قلب کی کیفیت ہو سکتی ہے وہ ظاہر ہے.اس قسم کے لوگوں میں سے جو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف رکھتے ہیں اور جن کی وجہ سے مجھے اس خطبہ کی تحریک ہوئی.مولوی عبدالستار صاحب افغان تھے جو ابھی پچھلے ہی ہفتہ فوت ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک غیر ملک سے لا کر اس نعمت سے متمتع کیا وہ سید عبداللطیف صاحب شہیڈ کے شاگرد تھے اور ان کے ساتھ ہی سلسلہ میں داخل ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کو کچھ اس قسم کا ایمان اور اخلاص عطا کیا تھا.جو بہت ہی کم لوگوں کو میسر آتا ہے.مجھے بچپن سے ہی جب وہ قادیان آئے اُن سے اُنس رہا ہے.اور میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی خاص موقعوں پر انہیں دعا کے لئے کہہ دیتے تھے.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعض دفعہ دوسروں کو دعا کے لئے کہہ دیتے اور جیسا کہ ہر مومن دوسرے مومن کو اپنے لئے دعا کی تحریک کرتا ہے.چونکہ اللہ تعالیٰ کے مامورین میں کبر نہیں ہوتا اور وہ خدا کی استغناء ذاتی سے واقف ہوتے ہیں اس لئے دعا کے موقع پر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم مامور ہیں اور دوسرا غیر مامور - بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سارے ہی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور نہ معلوم اس وقت اللہ تعالیٰ کس منہ کی دعا قبول کر لے.مولوی عبدالستار صاحب کے متعلق میرا ایک تجربہ ہے جس کا میرے قلب پر آج
379 تک اثر ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا مقام عطا فرمایا تھا کہ وہ صحیح الہام پاتے تھے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب میں نے دیکھا کہ جماعت میں تبلیغ کا پہلو نہایت کمزور ہو رہا ہے تو اس وقت میں نے تجویز کی کہ ہم ایک ایسی جماعت بنا ئیں جس کا فرض ہو کہ وہ دنیا میں تبلیغ کرے.میں نے اس تجویز کا علم اس وقت کسی کو نہ دیا.یہاں تک کہ اپنے گہرے دوستوں سے بھی اس کا ذکر نہ کیا.” جہاں تک میرا خیال ہے صرف میں نے حضرت خلیفتہ امیج اول رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کر دیا تھا لیکن بالکل ممکن ہے میں نے ان سے بھی ذکر نہ کیا ہو.کیونکہ مجھ پر اثر یہی ہے کہ میں نے ابھی اس تجویز کا کسی سے ذکر نہیں کیا تھا.پھر میں نے بعضوں کو استخارہ کے لئے اور بعض کو دعا کے لئے کہا جنہیں مجملا بتا دیا کہ کوئی دینی بات ہے اس کے لئے دعا کریں.اس سے زیادہ میں نے کسی کے سامنے وضاحت نہ کی.مولوی عبدالستار خان صاحب افغان کو بھی میں نے لکھا کہ میرے دل میں ایک مقصد ہے آپ اس کے لئے دعا کریں اور اگر آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ معلوم ہو تو اس سے مجھے مطلع کریں.دو تین روز کے بعد انہوں نے مجھے جواب دیا.اگر چہ میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا تھا کہ میرے دل میں کیا مقصد ہے آیا وہ میرا ذاتی کام ہے یا دینی اور اگر دینی کام ہے تو کیا؟ لیکن جواب میں اوّل انہوں نے مختلف الہامات لکھے جو سارے کے سارے تبلیغ کے متعلق تھے اور پھر ایک روڈ یا لکھی کہ ایک میدان میں تمام لوگ کھڑے ہیں اور مفتی محمد صادق صاحب بھی وہیں ہیں.پھر لکھا آپ نے یہ کہنے کے بعد (انہیں) کسی پہاڑی سرد علاقہ میں تبلیغ کے لئے بھیج دیا.گویا جو تبلیغ کا نقشہ میرے ذہن میں تھا وہ خدا تعالیٰ نے سارے کا سارا بتا دیا.پھر جزئیات بھی بتا دیں جواب تک پوری ہو رہی ہیں.وو چنا نچہ مفتی محمد صادق صاحب کو عرصہ تک با ہر تبلیغ کے لئے میں نے بھیج دیا اور اب بھی پہاڑوں پر انہیں مختلف کاموں کے لئے بھیجنا پڑتا ہے.دد بعض اور امور میں بھی میرا اُن کے متعلق تجربہ ہے مگر اس واقعہ کا میرے دل پر
380 خاص اثر ہے.اُس زمانہ میں مجھے تبلیغ کی کمی کا اس قدر احساس تھا اور میرے دل پر اس قدر اثر تھا کہ وہ دیوانگی کی حد کو پہنچا ہوا تھا.یہ رویا میرے لئے بہت اُمیدا فزا ثابت ہوئی اور پھر خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے لئے راستے کھول دیئے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مولوی صاحب کا بہت بڑا درجہ تھا.ان کی وفات سے دو اڑھائی مہینے پہلے کی بات ہے میں نے ڈلہوزی میں ایک رویا دیکھا کہ کوئی شخص نہایت گھبرائے ہوئے الفاظ میں کہتا ہے دوڑ و! دوڑو ! قادیان میں ایک ایسا شخص فوت ہوا ہے جس کے فوت ہونے سے آسمان و زمین ہل گئے ہیں.جب میری نظر اٹھی تو میں نے دیکھا کہ واقعی آسمان ہل رہا تھا اور مکان بھی ہل رہے ہیں گویا ایک زلزلہ آیا ہے.” میرے قلب پر اس کا بڑا اثر ہو امیں گھبرا کر پوچھتا ہوں کہ کون فوت ہوا ہے؟.اس رؤیا کے سات آٹھ دن بعد تار پہنچا کہ حضرت ام المومنین سخت بیمار ہیں.اُس وقت تار کے پہنچنے پر میں نے بعض دوستوں کو جن میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور غالباً مولوی شیر علی صاحب بھی تھے بتایا کہ میں نے اس طرح رویا دیکھا ہے جس کی وجہ سے مجھے گھبراہٹ ہے شاید اس سے مراد حضرت اُم المومنین ہی ہوں میں فوراً روانہ ہو گیا لیکن میرے آنے تک بہت حد تک انہیں صحت ہو گئی تھی.پھر جلد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہیں کامل صحت ہوگئی.اس کے چند ہی دنوں کے بعد مولوی عبد الستار صاحب بیمار ہو گئے اور مجھے ان کی بیماری کی اطلاع پہنچی.گو میں اس عرصہ میں ان کی صحت کے لئے دعا کرتا تھا مگر دل میں خدشہ تھا کہ اس خواب سے مراد انہی کی وفات نہ ہو.اور اب جب کہ وہ فوت ہو چکے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ رو یا انہی کے متعلق تھی جو پوری ہوگئی.جب کوئی شخص ایسا فوت ہوتا ہے جو مقبول الہی ہو تو ان کی وفات کا زمین و آسمان پر اثر ضرور ہوتا ہے.حدیثوں میں بھی اس قسم کا مضمون آتا ہے کہ جب مومن بندے کی جان نکالنے کا وقت آتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کو بہت تردد ہوتا ہے.تر ڈ داور پھر اللہ تعالیٰ کا تر ڈو یقیناً زمین و آسمان کو ہلا دینے والا ہوتا ہے.
381 میں نے ذکر کیا تھا کہ بعضوں کے لئے الہام ٹھوکر کا موجب ہو جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سے کئی لوگ ایسے ہیں جو الہام کو اپنی شہرت کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں اور اس طرح انہیں ٹھوکر لگ جاتی ہے.مگر مولوی عبدالستار صاحب کو کثرت سے الہامات ہوتے تھے.باوجود اس کے انہوں نے کبھی الہامات کو اپنی بڑائی کا ذریعہ نہ بنایا.خلافت کی اطاعت اور سلسلہ کے نظام کا احترام ان کے اندر پورے طور پر پایا جاتا تھا اور وہ ہمیشہ اپنے آپ کو سلسلہ کا جزو سمجھتے تھے.میں نے انہیں دیکھا کہ اگر چہ وہ عبادات کی کثرت اور صحت کی کمزوری کی وجہ سے مخفی اور کمزور رہتے تھے.مگر جب کبھی کوئی ایسا واقعہ ہوا جس میں غیروں سے مقابلہ کی ضرورت پیش آئی وہ با وجود کمزوری کے جوانوں کی طرح وہاں پہنچ جاتے ابھی پچھلے دنوں میری موجودگی میں سکھوں سے جب فساد ہوا تو ایک نوجوان پٹھان نے بتلایا کہ میں کمرے سے کوئی چیز تلاش کر رہا تھا.مولوی صاحب کہنے لگے کیا کام ہے.میں نے کہا کہ سکھوں سے احمدیوں کی لڑائی ہوگئی ہے.آپ اس وقت بیمار اور سخت کمزور تھے سنتے ہی گھبرا کر چار پائی پر ملنے لگے اور کہنے لگے پھر تم یہاں کیا دیکھ رہے ہو جلدی کیوں نہیں جاتے...” وہ اپنے آپ کو نظام سے بالا نہیں سمجھتے تھے میں نے ان میں ہمیشہ یہ خوبی دیکھی کہ وہ اطاعت اور سلسلہ کے نظام کا احترام پوری طرح ملحوظ رکھتے تھے.پٹھانوں کے لئے تو ان کا وجود ایک نعمت غیر مترقبہ تھا.وہی انہیں پڑھایا کرتے اور وہی لڑائی جھگڑے کے موقع پر انہیں نصیحت کرتے اور سمجھاتے.غرض بغیر اس کے کہ افغانستان سے آنے والے احمدیوں کی خبر گیری کے لئے ہمیں کچھ کرنا پڑتا وہ خود ہی ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کر دیتے.پھر خدا نے ان کو تو کل کا مقام عطا فرمایا تھا.وہ نہایت ہی سیر چشم واقع ہوئے تھے.اتنے عرصہ میں کہ وہ قادیان میں رہے.مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے کبھی ایک دفعہ بھی اپنی ذاتی ضروریات کے لئے مجھے کسی قسم کی تحریک کی ہو.اور میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے سامان پیدا فرما دیا کرتا تھا کہ خود بخود ان کی ضروریات پوری ہو جاتیں کیونکہ وہ شخص
382 جو خدا پر توکل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے لئے لوگوں کے دلوں میں خود الہام کرتا ہے کہ وہ اس.کی مدد کریں.غرض اللہ تعالیٰ الہام کے ذریعہ ان کی امداد بھی کرا دیتا تھا.” میں نے الہام کے بارہ میں جس قدر اپنی جماعت کے اشخاص دیکھے ہیں ان میں سے میں نے انہیں زیادہ ثابت قدم غیر متزلزل اور مضبوط دیکھا.الہام ہماری جماعت میں سے اور بھی بہت سے لوگوں کو ہوتے ہیں مگر بعض ان میں سے ایسے ہیں جو ایک وقت میں آ کر ٹھو کر کھا جاتے ہیں اور پھر تو کئی ایسے بھی ملہم ہیں جو مجھے دھمکیاں دینے لگ جاتے ہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ میں نے کبھی اپنے الہامات یا کشوف بیان نہیں کئے اس لئے مجھے الہامات ہوتے ہی نہیں اور اس طرح وہ اپنے کشوف اور الہامات سنا سنا کر مجھے ڈرانا چاہتے ہیں.وو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن شریف کا جو علم دیا ہے اس کے ماتحت انسانوں کی دھمکیاں مجھ پر اثر ہی نہیں کرتیں.چاہے دھمکی دینے والا ہم کے لباس میں آئے ، چاہے مامور کے لباس میں ، چاہے بادشاہ کے لباس میں اور چاہے فقیر کے لباس میں.میں جانتا ہوں کہ کلام اور کلام کے پانے والوں کے کیا درجے اور مراتب ہوتے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان درجوں کو خوب سمجھتا ہوں.اس لئے مجھے پر ہمیشہ وہی چیز اثر کرتی ہے اور اُتنا ہی اثر کرتی ہے جو اثر والی ہو اور جتنی اُس میں تا خیر پائی جاتی ہو.اس سے اوپر اور نیچے مجھ پر کوئی چیز اثر نہیں ڈال سکتی.مولوی عبدالستار صاحب افغان کو میں نے دیکھا ہے کہ انہیں کثرت سے الہامات ہوتے تھے.مگر باوجود اس کے وہ خلافت کا انتہائی ادب کرتے اور سوائے ایک دفعہ کے میرے اور ان کے درمیان کبھی غلط فہمی پیدا ہونے کا موقع نہیں آیا.وہ بھی اس طرح کہ ایک شخص نے میرے پاس بیان کیا کہ مولوی صاحب ایسی ایسی باتیں بیان کرتے ہیں.میں نے کہا کہ مولوی صاحب ایسا تو نہیں کہتے ہوں گے ،تمہیں غلطی لگی ہو گی.چنانچہ اس کے فوراً بعد مولوی صاحب کو پتہ لگا تو انہوں نے میرے پاس تردید کی اور کہا کہ میں
383 نے کوئی ایسی بات نہیں کہی...پس میں تاریخ میں جماعت کے ایک نیک اور اچھے شخص کے نمونے کو قائم کرنے کے لئے یہ خطبہ کہہ رہا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ کو بھی آپ کا اتنا خیال تھا کہ جن چند لوگوں کو آپ نے امام الصلوۃ کے طور پر مقرر کیا ہوا تھا اُن میں سے ایک آپ بھی تھے.غرض جہاں میں چاہتا ہوں کہ تاریخ میں ان مخلص اور خدا رسیدہ لوگوں کے نام رہ جائیں وہاں میں نو جوان احمدیوں اور نئے احمدی بننے والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس قسم کا اخلاص اور ایمان پیدا کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ پر ایسا یقین معرفت اور تو کل ہو کہ اللہ تعالیٰ ان سے براہ راست ہمکلام ہو اور وہ اس مقام پر کھڑے ہوں کہ ان کی وفات آسمان اور زمین کو ہلا دینے کا موجب ہو.’یا د رکھو کہ یقین کے مقام پر وہ شخص ہوتا ہے جو کامل تعشق ، کامل عبودیت اور کامل تو کل پیدا کرتا ہے اور یہاں تک اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں گداز ہو جاتا ہے.(۷) بعض روایات حضرت بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ : ایک دفعہ یورپ سے کسی شخص نے کوئی کھانے کی چیز از فتسم حلوہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بجھوائی.حضور نے اسے اپنے موجود احباب میں تقسیم کر دیا.مولوی عبدالستار خان صاحب اُس وقت موجود نہ تھے حضور نے ان کے لئے دُگنا حصہ رکھ لیا.جب وہ حاضر خدمت ہوئے تو انہیں ان کا حصہ دے دیا.مولوی صاحب ان دنوں جسم میں درد اور کھانسی کے عارضہ سے بیمار تھے.وہ حلوہ کھانے سے ان کی شکایت جاتی رہی اور وہ بالکل تندرست ہو گئے.(۸) ☆ مکرم محمد فاضل ابن نور محمد سکنہ کبیر والا ، ضلع ملتان ( حال ضلع خانیوال ) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ قادیان گئے.اُس وقت موسم سرما تھا.اُن کے پاس اوڑھنے کو کوئی کپڑا نہ
384 تھا.ان دنوں مولوی عبدالستار خان صاحب کا بلی بھی موجود تھے.ہم دونوں حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب (خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے مطب میں سوئے.حضرت مولانا حکیم صاحب نے انہیں دو لحاف دے دئے.رات کو اٹھ کر دونوں تہجد پڑھتے تھے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صبح کو جب سیر کے لئے تشریف لے جاتے تو دونوں سردی کی وجہ سے پہلے ہی دھوپ میں جا بیٹھتے تھے.حضور جب باہر تشریف لاتے تو ہماری طرف دیکھتے تھے.جب ہماری نظریں اٹھتیں تو حضورا اپنی نظریں نیچی کر لیتے تھے.اُس وقت مولوی عبدالستار خان صاحب کی حالت ایک مجذوب کی سی تھی.ان میں جذبہ محبت انتہاء تک پہنچا ہوا تھا.(۹) ی اخبار الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء رقم طراز ہے کہ خوست علاقہ غزنی سے حضرت اقدس کے ایک مخلص مُرید مولوی عبد الستار صاحب مع اپنے تین رفیقوں کے تشریف لائے.مولوی عبدالستار صاحب کی زبانی ہمیں معلوم کر کے از بس افسوس ہوا کہ ہمارے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک مخلص دوست مولوی عبدالرحمن صاحب جو اس علاقہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اشاعت کا موجب ہوئے کسی ناخدا ترس کے اشارہ سے شہید کیئے گئے.انا للہ وَإِنَا إليه رَاجِعُون - (١٠) بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب کی شہادت کے بعد میرا دل گھبرا رہا تھا بوقت خواب میری زبان پر جاری ہوا و آتش عشق آمد و اگر دو جوار من بسوخت کابل کے بارہ میں (القاء ہوا) قَاتَلَهُمُ اللَّهُ قَتَلُوهُ بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت شہید مرحوم نے فرمایا کہ میری زبان پر جاری ہوا کہ درویشان سنگ بر میدارند - یعنی جو درویش ہوتے ہیں اگر اُن پر پتھر
385 برسائے جائیں تو پرواہ نہیں کرتے.بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ امیر حبیب اللہ خان کو میں نے خواب میں دیکھا تو میری زبان پر آیا.اِنِّی لَاظنكَ يَا فِرعونُ مَشْبُورًا اے فرعون میں تجھے ہلاک شدہ یقین کرتا ہوں.بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ ابھی آپ کو شہید نہیں کیا گیا تھا کہ میری زبان پر یہ جاری ہواعَقَرُوا النّاقةَ وَعَصَوُا الرَسُولَ لَوْتُسَوَّ بِهِم الْأَرْضُ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ - بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ کابل کے بارہ میں القاء بواخَرِبتِ الخيبر و ☆ هَلَكَتِ الاعداء فَغَشَهَا مَاغَشْى فِبَايِّ الآءِ رَبِّكَ تَتَمارِي بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ جب حضرت شہید مرحوم کی لاش کو قبر سے نکالا گیا.تو اُن کی زبان پر یہ جاری ہوا.وَجَاؤُا بِأَمْرٍ عَظِيمٍ فَاغْرِقْنَاهُم أَجمعين - (۱۱) وضاحت از مرتب : یہ اُس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب سردار نصر اللہ خان برادر امیر حبیب اللہ خان کے حکم پر والی خوست سردار محمد اکبر خان شاہ خاصی چند سپاہی لے کر رات کو سید گاہ آیا اور حضرت شہید مرحوم کا تابوت اُس مقام سے جہاں اُن کو مُلا میر و نے کابل سے لا کر دفن کیا تھا.نکال کر غائب کر دیا.( سید مسعود احمد ) بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ قادیان میں قیام کے دوران ایک مرتبہ حضرت شہید مرحوم نے بیان کیا کہ قادیان میں وہی آرام سے رہتا ہے جو درود شریف بہت پڑھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت سے محبت رکھتا ہے.مسجد مبارک میں اللہ تعالیٰ نے مکہ اور مدینہ کی برکتیں نازل کی ہیں.جب منارة امسیح مکمل ہو جائے گا تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کمالات اور فیضان کا نزول ہوگا.(۱۲) بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ ایک روز حضرت صاحبزادہ صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے.آپ نے فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ ملائکہ نے میرے سبب بہت سے لوگوں کو قتل
386 کیا ہے میں کیا کروں میں نے تو قتل نہیں کیئے.(۱۳) بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں بارہا آسمان پر گیا ہوں اور لوگ جو سات آسمان بتاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ آسمان ہیں.میں نے حضرت مرزا صاحب کو آسمان میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر دیکھا ہے.(۱۴) بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ میں جنت میں بہت دفعہ داخل ہوتا ہوں اور میوے کھاتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ تمہارے واسطے بھی پھل لاؤں.مے خواہم از جنت چیز ہا برائے شما آوردم - مگر مجھے اجازت نہیں - (۱۵) بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ میں جو باتیں لوگوں کو سناتا ہوں اس سے بہت کم درجہ کی باتوں پر لوگ مارے جاتے ہیں خدا کی قدرت میں اگر کوئی بات سناتا ہوں تو کوئی اعتراض مجھ پر نہیں کرسکتا.پھر فرمایا کہ یا درکھو کہ جب خدا تعالیٰ کو میرا مار نا منظور ہوگا تو یہ حکمت مجھ سے چھینی جائے گی.(۱۶) بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ ہم نے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کو پہچانا تھا.اُس کے دروازے کی زنجیر کھٹکھٹاتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں کھٹکھٹانے کی ترکیب بتائی ہے کہ اس طرح کھٹکھٹاؤ تو دروازہ کھولا جائے گا - (۱۷) بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ شہید مرحوم نے فرمایا کہ پہلے بھی کبھی کبھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بُروز مجھ پر آتا تھا.مگر مقدر یہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملوں گا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی مجھ سے جدا نہیں ہوں گے.سواب بالکل یہی حالت ہے.حضور مجھ سے جدا نہیں ہوتے.(۱۸) سید احمد نور نے بیان کیا کہ ایک روز حضرت صاحبزادہ صاحب نے مولوی عبدالستار خان صاحب سے کہا کہ میرے چہرے کی طرف دیکھو.مولوی صاحب دیکھنے لگے لیکن دیکھ نہ سکے اور نظریں نیچی ہو گئیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کا چہرہ سورج کی طرح روشن تھا، اسے
387 دیکھنے سے آنکھیں چندھیا جاتی تھیں.مولوی عبد الستار خان صاحب نے سُبحَانَ الله سُبْحَانَ اللہ کہنا شروع کر دیا - (۱۹) بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ میں گواہی کے طور پر خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا......ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو آسمان وزمین کا مالک ہے اور جو قادرم ر مطلق خدا ہے کہ میں نے احمد قادیانی اور محمد عربی علیهما الصلوۃ والسلام کو ایک وجو د میں دیکھا.اور بار بار دیکھا.کہ کوئی فرق ان دونوں وجودوں میں نہیں پایا.حضرت صاحبزادہ مولا نا عبداللطیف شہید مرحوم نے بھی یہی فرمایا تھا.(۲۰) بزرگ صاحب بیان کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے حضرت شہید کو بڑی محبت تھی.ان کا رنگ عاشقانہ رنگ تھا.جب وہ حضور کی مجلس میں بیٹھتے تھے تو ان کی حالت اور کی اور ہو جاتی تھی.وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس رنگ میں دیکھا ہے اس رنگ میں کسی نے نہیں دیکھا چنانچہ آپ کا ایک شعر بھی اس کی تصدیق کرتا ہے.عطرے نورے دہم اعظم سرمہ چشم کرم برقی تیغے روئے خوباں لشکر شاہ ارم تھے.(۲۲) (۲۱) صاحبزادہ صاحب جب حضور کی مجلس میں بیٹھتے تو حضور کے پاؤں دبایا کرتے بزرگ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک مرتبہ صاحبزادہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ کی طرف سیر کو جا رہے تھے تو راستہ میں مجھے اور عبدا لجلیل سے کہا کہ میرے ماتھے کی طرف دیکھو کہ تم اس کو دیکھنے کی طاقت رکھتے ہو.جب ہم نے دیکھا تو وہ ایسا چمکتا تھا جیسے آفتاب - ہماری آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور ہم نے نظر نیچی کر لی.ایک مرتبہ رات کے وقت بھی ایسا واقعہ ہوا.آپ مہمان خانہ کی کوٹھڑی میں تشریف
388 رکھتے تھے.اور یہ زمانہ ان کے کمال عشق کی حالت کا تھا.جب میں نے اور عبدالجلیل نے نظر کی تو ایک بہت بڑے روشن ستارے کی طرح معلوم ہوا.بلکہ اس سے بھی زیادہ - ہمارے ساتھ وزیر محمد ( وزیری ملا ) بیٹھا ہوا تھا.اُس نے کہا کہ مجھے نظر نہیں آیا.اس پر آپ نے فرما یا شما تقومی نه دارید یعنی تمہیں تقوی نصیب نہیں.(۲۳) بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ جب صاحبزادہ عبداللطیف قادیان سے خوست واپس جا رہے تھے تو راستہ میں میں نے کہا کہ وہاں آپ کو قتل کر ڈالیں گے.اس پر آپ نے فرمایا دد من میرم اور یہ بھی کہا موت با من نه آئید جب آپ شہید ہو گئے تو رویا میں مجھے ان کی زیارت ہوئی.میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ تو کہتے تھے کہ موت با من نه آئید انہوں نے جواب میں فرمایا : کا رہائے خدا ازیں ہم عظیم است - (۲۴) نوٹ از مرتب: صاحبزادہ صاحب کے اس قول کی وضاحت کہ موت مجھ پر نہ آئے گی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد سے ہوتی ہے.حضور فرماتے ہیں : اولیاء اللہ اور وہ خاص لوگ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں وہ چند دنوں کے بعد پھر زندہ کئے جاتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندے ہیں.پس شہید مرحوم کا اسی مقام کی طرف اشارہ تھا.(۲۵) بزرگ صاحب بیان کرتے ہیں کہ واقعہ سنگساری کے متعلق ( رویا میں ) میں نے
389 دریافت کیا کہ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی.فرمایا مجھے کوئی دکھ نہیں ہوا اور میں نے کوئی تکلیف محسوس نہیں کی.(۲۶) بزرگ صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک دفعہ ( سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کی مجلس میں کہا کہ لوگ قرآن کریم کی ان آیات کو متشابہات میں سے سمجھتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفات کے بارہ میں آئی ہیں.مگر میرے لئے اس قسم کی آیت متشابہ ہیں جیسے رب العالمین.میں عالم کو مانتا ہوں اس لئے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ورنہ میں اسے دیکھا نہیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسکرائے اور فرمانے لگے وجودی اسی مقام سے پھسل گئے ہیں کیونکہ جب وہ فانی ہو کر عالم کو نہیں دیکھ سکتے تو انکار کر دیتے ہیں.(۲۷) ہے بزرگ صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا کہ بعض صوفیاء کہتے ہیں که ادراک کنه باری تعالیٰ محال ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ممکن ہے.ان میں سے کون سا فریق حق پر ہے.آپ نے فرمایا ادراک کنہہ باری تعالیٰ کے یہ معنی نہیں کہ یہ معلوم کیا جائے کہ خدا تعالیٰ کیا چیز ہے اور یہ ناممکن ہے.جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول ہو کر آیا ہوں.تو فرعون نے سوال کیا کہ وَمَارَبِّ الْعَالَمِین خدا کیا چیز ہے.اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرما یارَبُّ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِنْ كنتم مُوقِنِينَ یعنی آسمانوں اور زمین کا اور سب کا وہ رب ہے بشرطیکہ تم یقین کر و.تو فرعون نے کہا که الا تسمعُون.یعنی اے لوگو تم سنتے ہو؟ اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ رب العالمین کیا چیز ہے.پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا رَبُّكُمْ وَرَبُّ ابْاءِ كُمُ الْأَوَّلِينَ یعنی تمہارا اور تمہارے باپ دادوں کا بھی وہی رب ہے.اس پر فرعون کہنے لگا ان رسولكم الذي ارسل اليكم لمجنون کہ یہ رسول یقیناً مجنون ہے کیونکہ میں ذات باری تعالیٰ کی کنہہ پوچھتا ہوں اور وہ افعال باری تعالی بیان کرتا ہے.
390 یہ بیان کر کے حضور نے فرمایا کنہہ معلوم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کا احاطہ کیا جائے اور یہ نہیں ہو سکتا.اگر ایسا ہوتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام افعال باری تعالیٰ سے کیوں جواب دیتے.دلیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ آیت تلاوت فرمائی لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَيُدْرِكُ الْأَبْصَارِ (۲۸) بزرگ صاحب نے بیان کیا میں نے دیدار باری تعالیٰ کے متعلق ایک دفعہ حضرت خلیفہ امسیح الاول سے بھی سوال کیا تھا میں پسند کرتا ہوں کہ میں اُس جواب کو بھی بیان کر دوں.حضرت خلیفہ اسی اول نے فرمایا تھا کہ رویت (دیدار ) الگ چیز ہے اور ادراک الگ چیز ہے اور دلیل میں یہ آیت ( بیان ) فرمائی.فَلَمَّا تَرَاءَ الجَمُعَانِ قَالَ اصْحَابٌ مُوسى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ - قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِين - سوره الشعراء آیت ۶۲) فرمایا.دیکھو اس آیت شریف میں دو باتیں ہیں ایک رویت اور دوسرا ادراک.دیدار تو تراء کے لفظ سے ثابت ہے لیکن ادراک ثابت نہیں ہوتا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کلا نہیں ہم مدرک نہیں.یہاں کلا سے دیدار کی نفی مراد نہیں تھی اس سے معلوم ہوا ادراک اور ہے اور دیدار اور دیدار کے معنی ہیں دیکھنا اور ادراک کے معنی ہیں احاطہ کرنا.اگر دونوں کے ایک ہی معنی ہوتے تو موسیٰ علیہ السلام لفظ کلا کہہ کر انکار کیونکر کرتے (۲۹) بزرگ صاحب فرماتے تھے کہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھتا - تو میرے منہ سے بے اختیار نکلتا تھا ہیں (۳۰) اللهم صل على محمد اور مجھے اس بات کا خیال بھی نہ ہوتا تھا کہ آپ سوائے رسول کریم کے کوئی اور آدمی بزرگ صاحب فرماتے تھے کہ کرم دین کا مقدمہ جب بہت لمبا ہو گیا تو حضرت مسیح
391 موعود علیہ السلام گورداسپور ہی میں مقیم ہو گئے.مقدمے کے آخری ایام میں میں بھی گورداسپور چلا گیا تھا.ان دنوں میں کچھ بیمار تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت ہوئی تو آپ نے بہت محبت سے میرا حال دریافت فرمایا اور فرمایا تم بیمارمعلوم ہوتے ہو حضرت خلیفہ اسیح اول نے بھی فرمایا کہ چہرے کا رنگ متغیر ہے.حضور کی عادت تھی کہ کوئی چھوٹا آدمی بھی ملنے کے لئے آتا تھا تو یوں اس کا حال دریافت فرماتے تھے جیسے کسی بڑے آدمی کا حال دریافت کیا جاتا ہے.پرسان حال کے وقت آپ کا لہجہ نہایت شیر میں ہوا کرتا تھا.الغرض میں بھی وہیں مقیم ہو گیا.ایک دن بذریعہ ڈاک ایک جرمن عورت نے حضور کو حلوہ بھیجا اور ساتھ ہی ایک خط لکھا کہ آپ سچے مسیح ہیں اور آپ وہی مسیح ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا.حلوہ بہت ہی مقوی چیزوں سے بنا ہوا تھا.حضور کی عادت تھی کہ جب آپ کے پاس کوئی چیز آتی تھی تو اس کو اپنے دوستوں میں بھی تقسیم فرمایا کرتے تھے اور اس میں ہر چھوٹے بڑے کا خیال رکھا کرتے تھے اگر چہ اس وقت میں وہاں موجود نہ تھا مگر حضور نے میرے لئے بھی حلوے میں سے عام تقسیم سے دُگنا حصہ رکھوایا.جب میں نے اس حلوے کو کھایا تو میری بیماری اس حلوے سے دور ہو گئی.مقدمہ کے متعلق ایک اور بات مقدمہ کرم دین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر لوگوں کو فرمایا کرتے تھے کہ یہ مقدمہ ہمارے حق میں ہو گا.یہ مقدمہ دو سال تک لمبا ہو گیا.اور اس کی طوالت کی وجہ سے طبیعتیں تنگ ہو رہی تھیں کہ کب فیصلہ ہو.ایک دن کشفی حالت میں میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے.انا لتنصر رسلنا.میں نے اس کشفی حالت میں ہی کہا کہ مددکب دی جائے گی تو جواب میں یہ الفاظ جاری ہوۓ - اليوم ننصر رسلنا.
392 میں نے حضرت اقدس کو اس کشف کی اطلاع دے دی تھی.خدا کے فضل کی یہ بات ہے کہ اسی دن اس مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا.جو ہمارے حق میں تھا.(۳۱) بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ کرم دین کے مقدمہ سے واپسی پر حضور نے بعض کو حکم دیا کہ تم چھینہ سٹیشن پر اتر کر قادیان پہنچو اور بعض کو یکوں پر اپنے ساتھ آنے کا حکم دیا اور بعض کو ( سامان والے ) گڑوں کے ساتھ آنے کا حکم دیا.میں پیدل روانہ ہو گیا.نہر کے قریب جب ہم پہنچے تو حضور کا رتھ آ گیا.حضور...جب واپس آرہے تھے تو ہم نے...چادرتان کر حضوڑ کے لئے سایہ کر دیا اور حضور سایہ میں چلنے لگے.حضور نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ تم پیدل کیوں آ رہے ہو تم کو یکہ پر سوار ہونا چاہیئے.میں نے عرض کی کہ حضور میں پیدل چل سکتا ہوں.نہر کے دوسری طرف ( حضرت ) خلیفہ اول اور بہت سے اصحاب یکوں پر انتظار کر رہے تھے.حضرت خلیفہ اول کو جب معلوم ہوا کہ حضور نے ایسا فرمایا ہے تو (انہوں ) نے مجھے بلایا اور حکم دیا کہ یکے پر بیٹھو اور فرمایا کہ تم کو لازماً بیٹھنا پڑے گا.چنانچہ میں بیٹھ گیا - (۳۲) حمید بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے نکاح کی تقریب پر حضرت خلیفۃ امسیح الاول نے خطبہ پڑھا اور خطبہ میں حضرت نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کے بخت آپ کے دادا صدر جہاں سے بہت اچھے ہیں.کیونکہ ان کے نکاح میں ایک بادشاہ کی لڑکی آئی تھی اور آپ کے نکاح میں ایک نبی کی لڑکی آئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت خود بھی تشریف فرما تھے.(۳۳) وضاحت از مرتب: مالیر کوٹلہ کے ایک بزرگ شیخ صدر جہاں تھے بادشاہ بہلول لودھی ان کو ملا تو اس نے اپنی بیٹی کی شادی شیخ صدر جہاں سے کر دی - سید مسعود احمد مرتب رسالہ ھذا بزرگ صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام بیمار ہوئے.میں بھی حضور کی عیادت کے لئے گیا.حضور ایک لوہے کی چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ چار پائی کے دوسری طرف بیٹھے تھے.
393 میں جب اندر داخل ہوا تو ایک کرسی پر بیٹھ گیا.میرے بعد میاں چراغ الدین صاحب مرحوم لا ہوری تشریف لے آئے.وہ میرے پیچھے ایک کرسی پر بیٹھ گئے.پھر مولوی محمد احسن صاحب امروہوی تشریف لائے تو ان کے لئے اندر سے ایک چھوٹی سی چار پائی لائی گئی.وہ اس پر بیٹھ گئے.ان کے پاس ایک کتاب تھی.انہوں نے اس کتاب کو کھول کر کہا کہ یہ کتاب حسن اشعری ہے اور اس میں ایک جگہ سے یہ پڑھا کہ نبوت تشریعی منع ہے مطلق نبوت منع نہیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ متغیر ہو گیا.حضور نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ کہنا کہ مطلق نبوت جاری ہے کفر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شریعت بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی اور برکت بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی.نہ کوئی اپنی شریعت لا سکتا ہے اور نہ کوئی اپنی برکت سے نبوت کا دعویٰ کر سکتا ہے.بلکہ یہ سب کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہو سکتا ہے.(۳۴) ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب مسجد مبارک میں داخل ہوئے.بحث یہ تھی کہ مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک مضمون سلسلہ کے مخالفوں کے متعلق لکھا تھا.مولوی محمد احسن صاحب کہتے تھے کہ آپ نے یہ مضمون بہت سخت لکھا ہے.مولوی عبدالکریم صاحب فرماتے تھے کہ میں نے تو کہا تھا کہ مجھ سے مضمون مت لکھوا ؤ.میں سخت لکھوں گا.یہ گفتگو بڑھتے بڑھتے تیز ہو گئی.اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے.آپ نے دیکھتے ہی فرمایا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتَ النَّبِيِّ اس پر وہ دونوں خاموش ہو گئے.تب حضور دونوں کو نصیحت فرمانے لگے جس میں اختلاف سے اپنی نفرت کا اظہار فرمایا (۳۵) نوٹ: اس مضمون کی روایت سیرت المہدی مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب میں بھی درج ہے لیکن دونوں میں الفاظ اور راویوں کا اختلاف ہے.سید مسعود احمد مرتب رسالہ ھذا
394 ☆ بزرگ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ ( یعنی حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید ) مجھے خواب میں نظر آئے تو میں نے انہیں پہلے سے زیادہ خوش پایا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت کی ملاقات کا نتیجہ تھا.(۳۶) مولوی عبدالغفارخان صاحب صحابی برا د یا کبر بزرگ صاحب آپ منگل قوم کی شریف زئی شاخ سے تعلق رکھتے تھے.موضوع بل خیل، خوست، بہ پکتیا کے رہنے والے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے بعد قادیان ہجرت کر کے آگئے تھے.ان کے بیٹے عبداللہ خان صاحب صحابی قادیان میں بطور محافظ مختلف دفاتر میں کام کرتے رہے.تقسیم ملک کے بعد قادیان میں بطور در ولیش مقیم رہے.عبداللہ خان صاحب کے بیٹے عبد الرحیم عادل صاحب پاکستان میں مقیم ہیں.مولوی عبد الغفار خان صاحب کے افغانستان میں قیام کے دوران حالات جب حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب شہید ۱۹۰۳ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مل کر اپنے وطن واپس گئے تو سید گاہ - خوست آنے کے کچھ عرصہ کے بعد آپ نے علی الاعلان تبلیغ احمدیت کا آغاز کر دیا.اور علاوہ مقامی طور پر تبلیغ کرنے کے سرداران کا بل کو تبلیغی خطوط لکھے.ان میں سے ایک خط مستوفی الملک برگیڈئیر مرزا محمد حسین خان کو توال کے نام تھا.دوسرا خط سردار شاہ خاصی عبد القدوس خان اعتماد الدولہ کو لکھا.تیسرا خط مرزا عبدالرحیم خان دفتری کو.چوتھا خط حاجی باشی شاہ محمد کو اور پانچواں خط قاضی القضاۃ عبد العزیز کے نام تھا.ان خطوط میں آپ نے تحریر فرمایا کہ میں حج کے ارادہ سے روانہ ہوا تھا.لیکن ہندوستان میں میری ملاقات حضرت مرزا غلام احمد صاحب سے ہوئی جو قادیان میں رہتے ہیں.انہوں نے دعوی کیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے
395 مبعوث کیا گیا ہوں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت کے لئے بھیجا گیا ہوں اور قرآن شریف اور احادیث کے مطابق وقت مقررہ پر آیا ہوں.میں نے قادیان میں چند ماہ گزارے ان کا دعویٰ سنا ان کے افعال اور اقوال کو غور سے دیکھا.میں نے انہیں سچا پایا.ان کے ماننے سے مجھے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل ہوا.سو میں آپ کو آگاہ کرتا ہوں کہ یہ وہی ہے جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے کی پیشگوئی فرمائی تھی اور جس کے آنے کا لوگ انتظار کیا کرتے تھے.میں اُس پر ایمان لے آیا ہوں آپ کو چاہئیے کہ اُسے مان لیں تا اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں آپ کی بہتری اسی میں ہے.میرا فرض آپ کو یہ پیغام پہنچانا تھا.میں اپنے فرض سے سبگد وش ہوتا ہوں.یہ خطوط آپ نے مولوی عبد الغفار خان صاحب کو دیئے جو انہیں لے کر بلا توقف کا بل روانہ ہو گئے اس وقت سردی کا موسم تھا اور برف پڑی ہوئی تھی لیکن مولوی عبد الغفار صاحب نے اس کی پرواہ نہ کی اور حسب ہدایت حضرت صاحبزادہ صاحب فوراً کا بل روانہ ہو گئے.مولوی عبدالغفار خان صاحب ان تمام لوگوں کو خوب جانتے تھے کیونکہ وہ اس سے قبل حضرت صاحبزادہ صاحب کی معیت میں چند سال کابل رہ چکے تھے.انہوں نے یہ پانچوں خطو ط مکتوب الیھم کو پہنچا دیئے.مستوفی الملک مرزا محمد حسین خان نے اپنے نام خط وصول کر کے مولوی عبد الغفار خان صاحب سے کہا کہ تم واپس چلے جاؤ خط کا جواب صاحبزادہ صاحب کو ڈاک کے ذریعہ بھیجوا دیا جائے گا.مولوی عبد الغفار خان صاحب نے واپس آ کر حضرت صاحبزادہ صاحب سے عرض کی کہ مجھے تو ان خطوں کا کوئی جواب نہیں ملا البتہ مرزا محمد حسین خان نے یہ کہا تھا کہ تم واپس چلے جاؤ جواب ڈاک کے ذریعہ بھجوا دیا جائے گا.یہ سُن کر حضرت صاحبزادہ صاحب نے
396 فرمایا کہ مجھے تو خطرہ معلوم ہوتا ہے.یہ تمام خطوط امیر حبیب اللہ خان اور اس کے چھوٹے بھائی سردار نصر اللہ خان کو پہنچا دیئے گئے.نتیجہ حکومت کا بل نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو خوست سے بلوا کر تو قیف خانہ میں ڈال دیا اور پھر جولائی ۱۹۰۳ء کو ان کو سنگسار کر دیا گیا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے بعد مولوی عبد الغفا ر صاحب ۱۹۰۴ء میں قادیان آگئے اور یہیں رہنے لگے.ان کے بیٹے عبداللہ خان صاحب بھی قادیان آگئے اور شرف صحابیت حاصل کیا.مولوی عبد الغفار صاحب کی بیٹی.عائشہ صاحبہ کچھ عرصہ خوست میں رہیں اور حضرت خلیفۃ اصیح اوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قادیان آ گئیں.ان کی شادی مولوی غلام رسول خان افغان صحابی شیر فروش سے ہوئی تھی.مولوی عبدالغفار خان صاحب قادیان میں بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.(۳۷) خاکسار مرتب رسالہ ھذا سید مسعود احمد خاکسار نے قادیان اور ربوہ میں مولوی غلام رسول صاحب افغان اور محترمہ عائشہ صاحبہ کو دیکھا ہے اسی طرح عبداللہ خان صاحب سے بھی بارہا ملاقات کی ہے.یہ تینوں بہت مخلص اور نیک وجود تھے ہمارے استاد مولوی محمد شہزادخان صاحب افغان مولوی غلام رسول صاحب کے داماد تھے.) ملا میر وصاحب صحابی برادر اصغر بزرگ صاحب ان کا نام محمد مہروز خان (یا) امیر احمد خان تھا یہ دونوں نام مختلف روایات میں درج ہیں.ملا میرو کے والد صاحب کا نام دیندار خان تھا جو احمدیت سے پہلے فوت ہو چکے تھے.ان کا وطن بل خیل، خوست صوبہ پکتیا افغانستان تھا.آپ کی قوم منگل تھی اس کی ایک شاخ شریف زئی سے آپ کا تعلق تھا جب حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے بعد ان کی اولاد اور خاندان کے دوسرے افراد کو حکومت کابل کے حکم پر خوست سے گرفتار کر کے فوجی پہرہ میں کا بل لے جایا
397 گیا.تو ملا میر و از خودان کے پیچھے پیچھے کا بل آگئے.کابل کے قریب آکر ان کو سید احمد نور ملے اور انہوں نے بتایا کہ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب کو سنگسار کر دیا گیا ہے اور یہ کہ سید احمد نور صاحب نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو بعض آدمیوں کی مدد سے رات کے وقت پتھروں سے نکال کر خفیہ طور پر کابل کے ایک قبرستان میں دفن کر دیا ہے.اس طرح ملا میر و اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے خاندان کو آپ کی شہادت کا علم ہوا.اس واقعہ کے قریباً ایک سال کے بعد ملا میر و صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب کا تابوت کا بل سے نکال کر ان کے گاؤں سید گاہ میں لے آئے اور وہاں ان کو دفن کر دیا.ملا میرو کے بارہ میں صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب نے ایک مضمون ان کی وفات پر اخبار الفضل میں لکھا تھا جو درج کیا جاتا ہے.ایک گمنام فدائے احمدیت کی وفات محمد میر وصاحب افغان کی زندگی کا ایک عظیم الشان واقعہ أن فدایان ملت میں سے جن کی سرگذشت قوم کے نوجوانوں کے لئے سبق آموز ہوتی ہے ایک یہ شخص بھی ہے جس کے حالات صدق وصفاء شجاعت و ایثار کا اس وقت میں ذکر کرنا چاہتا ہوں اور جس کا نام نامی محمد میر و صا حب تھا.یہ جناب مولوی عبدالستار صاحب افغان عرف بزرگ صاحب) کے برا در خورد تھے آپ والد بزرگوارم ( حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید ) کے مخلص دوستوں میں.تھے اور آپ ہی کے ذریعہ انہوں نے دعویٰ سنتے ہی احمدی ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت مبارک میں رہنے کا شرف حاصل کیا.قد وقامت اور حلیہ آپ کا قد لمبا پتلا خوش نما چہرہ ڈاڑھی چھوٹی اور باریک تھی.بدن کے اعضاء مضبوط
398 تھے لیکن کثرت زدو کوب اور قیدوں کی وجہ سے جو آپ احمدیت کی وجہ سے حکامِ افغانستان کے ہاتھوں کئی سال تک بھگتتے رہے.آپ کے قویٰ میں ضعف اور اضمحلال پیدا ہو گیا تھا.نیز پیٹھ کبڑی ہوگئی تھی.آپ کی طبیعت میں جوانمردی سنجیدگی اور بشاشت ودیعت کی گئی تھی.میں نے آپ کو ملتے وقت ہمیشہ مسکراتے ہوئے دیکھا.آپ آخری عمر میں ہجرت کر کے قادیان دارالامان تشریف لے آئے تھے اور نہایت گمنامی اور فقر کی حالت میں زندگی بسر کرتے رہے.مگر ساتھ ہی ہمیشہ خوش و خرم نظر آتے.باوجود اس کے کہ انہیں ضروریات بھی پیش آتیں لیکن انہوں نے استغنائے قلبی کے سبب کبھی کسی پر اپنی احتیاج کو ظاہر نہ ہونے دیا.قرآن کریم سے ان کو بے حد محبت تھی دن رات نہایت شیر میں لہجہ میں تلاوت کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض فارسی نظمیں ان کو یاد تھیں جنہیں اکثر پڑھا کرتے.تبلیغ احمدیت کا اتنا جوش تھا کہ اپنی وفات سے پیشتر کسی شخص کو بہ سبب قدیم دوست ہونے کے تبلیغ کرنے کے لئے پشاور گئے وہیں نمونیا ہو گیا اور پھر اس بیماری میں وہاں سے واپس قادیان روانہ ہو گئے جب قادیان تشریف لائے تو پہلے مرض کی کچھ تخفیف ہوگئی تھی.پھر بیماری نے عود کیاشتی کہ ایک ہفتہ کے بعد مؤرخہ ے دسمبر ۱۹۳۱ء کو فوت ہو گئے انا للہ و انا الیه راجعون - ۸ دسمبر کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے جنازہ پڑھایا اور آپ بہشتی مقبرہ میں اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار مبارک کے شرقی جانب دفن ہوئے.مرحوم کی کوئی اولا د نہیں صرف بیوی زندہ ہے.یوں تو آپ کی زندگی کا ہر ایک شعبہ اس قابل ہے کہ تاریخ احمدیت کے صفحہ پر سنہری حروف میں ثبت رہے لیکن اس وقت مختصراً ان میں سے ایک اہم واقعہ سپر د قلم کر کے پیش کر دیتا ہوں.اس بات سے تو غالبا اکثر احمدی بھائی واقف ہوں گے کہ جس وقت والد بزرگوارم ( سید عبداللطیف صاحب) کابل میں شہید کئے گئے تو کچھ مدت کے بعد آپ کی نعش پتھروں سے نکال کر کابل کے کسی قبرستان میں دفن کر دی گئی تھی ہم ( یعنی والد صاحب کا خاندان ) کو
399 اس وقت ترکستان جلا وطن کر دیا گیا تھا اور ہم میں سے کسی کو سوائے آپ کی شہادت کے اور کسی بات کا علم نہ تھا اس وقت جناب محمد میر و صاحب سید گاہ ( جو ہماری اصلی جائے پیدائش کا نام ہے ) خوست میں رہا کرتے تھے.چونکہ وہ فطرتاً شجاع اور بہادر تھے اور احمدیت کے رنگ نے تو اور بھی ان کو دلیر بنا دیا تھا.پھر جذ بہ محبت تھا جو آپ کے دل میں اپنے پیارے دوست کے متعلق تھا.ان حالات میں آپ نے وفاداری کا ایسا نمونہ پیش کیا.جو نہایت ہی قابل تعریف تھا.محمد میر و صاحب نے فیصلہ کیا کہ نعش کو سر زمین کا بل سے لا کر سید گاہ میں دفن کرنا چاہیئے.آپ کے اس ارادہ کا اور کسی کو علم نہ تھا.آپ سفر کی ضروریات مہیا کر کے کا بل روانہ ہو گئے اور وہاں پہنچ کرکسی واقف کار دوست سے مزار کا پتہ لگایا اور ایک دوسرے سپاہی کی مدد سے تابوت کو نکال لیا.پھر اپنی پشت پر اٹھا کر کہیں دور کسی تنہائی کی جگہ میں رکھ آئے.چونکہ اس سے تھوڑی مدت ہی پیشتر کا بل میں سخت ہیضہ پڑ چکا تھا اس لئے کوئی کرایہ دار کسی نعش کو اس وقت تک لے جانے کے لئے تیار نہ تھا.جب تک یہ ثابت نہ ہو جا تا کہ متوفی مرض ہیضہ سے فوت نہیں ہوا اور محمد میر و صا حب کے لئے یہ ثبوت بہم پہنچانا ایک امر ناممکن تھا.آپ یہ فرمایا کرتے تھے جب میں کسی سواری ملنے سے مایوس ہو گیا تو ایک دفعہ یہ ارادہ کیا کہ تابوت کو میں خود اپنی پشت پر سید گاہ پہنچا دوں.( کابل سے سید گاہ تک ایک مضبوط آدمی کے لئے چار روز کا راستہ ہے ) اور یہ کام میرے لئے کوئی مشکل نہیں تھا لیکن بعد میں خیال آیا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو راز افشاء ہو جائے گا اور میرے راستے میں رکاوٹ پیدا ہو جائے گی.جب مجھے ہر طرف سے نا کا می نظر آئی اور میں کثرت غم والم سے بے تاب ہو رہا تھا تو رات کو خواب میں مجھے حضرت شہید صاحب شان وشوکت کے ساتھ نہایت عمدہ کپڑے پہنے نظر آئے.میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور آنکھ سے ایک ایسا اشارہ کیا جس سے مجھے اطمینان حاصل ہو گیا.صبح کو اٹھا تو دل بالکل مطمئن ہو چکا تھا فوراً شہر کو چلا.شہر پہنچتے ہی ایک نچر والا ملا اور وہ فوراً تابوت لے جانے پر طیار ہو گیا.دوسرے دن تابوت لے کر ہم چل
400 پڑے آخر تابوت کو خوست پہنچا کر سید گاہ میں دفن کر دیا گیا اور قبر کو زمین کے ساتھ ہموار رہنے دیا تا کہ مخالفوں کو پتہ نہ چلے.نعش کو سید گاہ میں دفن ہوئے جب کافی عرصہ گزر گیا تو والد صاحب کے بعض دوستوں نے یہ مشورہ دیا کہ اب قبر کو چھپائے رکھنے کی ضرورت نہیں اس کو نمایاں کر دیا جائے.نوٹ از مرتب : یہ حضرت خلیفہ المسح الاول کے زمانہ کا واقعہ ہے اور مشورہ دینے والوں میں عجب خان صاحب تحصیلدار آف زیدہ بھی تھے انہوں نے قبر کو پختہ اور نمایاں بنانے کے لئے کچھ رقم بھی بجھوائی تھی عجب خان صاحب اس وقت کو ہاٹ میں ملازم تھے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے وصال کے بعد عجب خان صاحب غیر مبائعین میں شامل ہو گئے تھے.محمد میرو صاحب نے ایسا ہی کیا قبر ظاہر ہوتے ہی جب لوگ کثرت سے فاتحہ خوانی کے لئے آنے لگے.بعض اشرار نے اس واقعہ کی رپورٹ کا بل میں ( سردار نصر اللہ خان کو.سید مسعود احمد ) کر دی.اور وہاں سے نعش کو نکالنے اور نعش کو لانے والے کو سخت سزا دینے کا حکم ہوا.محمد میرو صاحب پر مظالم اس پر حاکم خوست نے نعش مبارک کو نکلوایا اور اس کو لانے والے یعنی محمد میرو صاحب کو بلا کر طرح طرح کے عذاب دیئے.آپ کو اس قدر مارا پیٹا گیا کہ آپ کا تمام بدن زخمی ہو گیا.اس کے بعد آپ کو گدھے پر باندھ کر نہیں بائیس دن تک تمام علاقہ میں پھرایا جاتا رہا.اسی اثناء میں ملا اور محتسب لوگ آپ پر ایسے ظلم کرتے رہے جن کے ذکر سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.کوئی آپ کے منہ پر تھوکتا کوئی پتھر مارتا کوئی گالی دیتا.آخر کانوں میں کیلیں گاڑ کر آپ کو خوست کے ایک بازار کے دروازہ پر ایک تختہ کے ساتھ دھوپ میں لٹکا دیا گیا.چند دن تک یہی سلوک کیا گیا.پھر قید خانہ میں گھسیٹ کر لے جایا گیا اور قید بامشقت کی سزا دی گئی ایک لمبے عرصہ تک جیل میں رکھا گیا.
401 ملا محمد میر وصاحب کی حضرت صاحبزادہ صاحب کے خاندان سے ہمدردی جب جناب محمد میر و صاحب قید سے رہا ہو گئے تو اس وقت ہم (یعنی حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید کا خاندان ) ترکستان میں جلا وطنی کی حالت میں تھے.افغانستان کی حکومت میں جو جائدادیں تھیں وہ حکومت نے ضبط کر لی تھیں اور سوائے اس کے بنوں علاقہ انگریزی میں جہاں ہماری کچھ جائداد ہے وہاں سے کسی قدر آمدنی آتی.اس سے ہمارا گذارا ہوتا اور کوئی گزارا کی صورت نہ تھی.اس وقت ہماری یہ حالت تھی کہ لوگ حکومت کے خوف کی وجہ سے ہمارا نام تک لینا اپنے لئے مضر سمجھتے اور جو دوست تھے ان میں سے بھی اکثر کئی سرگردانیوں میں گرفتار ہو چکے تھے.اس وقت محمد میر و صاحب ہی کا وجو د تھا جس کو ہماری ہمدردی اور خدمت کا احساس تھا.قریباً پندرہ سال تک وہ ہمارے خرچ وغیرہ کا انتظام کرتے رہے.بنوں جا کر ہماری زمین کی آمدنی لے کر ترکستان پہنچا دیتے راستے کی دُوری برفوں اور پہاڑوں کی مشکلات آپ کے راستہ میں حائل نہ ہو سکتی تھیں.اور ایک مدت دراز تک وہ ان دور دراز سفروں کو پیدل طے کرتے رہے.پھر جب ہم کا بل کے جیل خانوں میں تھے وہاں بھی آپ ہی کا وجود ہمارے لئے نہایت مفید ثابت ہوا.اور ہم خدا کے فضل سے آپ کی کوشش سے نہایت با آبرو اور عزت کے ساتھ رہتے.خلاصہ یہ کہ جب تک ہمیں ضرورت تھی اس وقت تک انہوں نے ہمیں نہ چھوڑا.اور جس وقت ہم کو شاہ امان اللہ خان نے اپنے ملک میں آنے کی اجازت دی اور ہم سید گاہ میں آگئے ( یہ ۱۹۱۹ ء کا واقعہ ہے مرتب ) اس وقت انہوں نے کہا اب عمر کے آخری حصہ کو قادیان میں ہی ختم کرنا چاہئیے چنانچہ وہ قادیان آگئے اور پھر آخری دم تک قادیان میں ہی رہے.جاں نثاری کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ایسی جاں شاری کی مثالوں کے
402 ہوتے ہوئے کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کی جماعت میں بھی ایسے وجود ہیں جو کہ صحابہ کی طرح خدا کی راہ میں جاں شاری کرنے والے ہیں اور آپ کی جماعت کی قوتِ ایمانی اور قربانی کا نمونہ صحابہ کی قربانیوں کا نمونہ ہے مبارک ہے وہ جماعت جس میں ایسے مخلص اور جاں نثار اصحاب ہوں جو خدا کی راہ میں بڑی سے بڑی مصیبتوں کی کوئی پرواہ نہ کریں اور جنہیں جادہ صدق سے کوئی چیز ہٹا نہ سکے احباب خاص طور پر محمد میر و صاحب کے لئے دعا مغفرت کریں اور ان کی روح کو ثواب پہنچائیں.(۳۸)
403 حوالہ جات (۱) اخبار الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ مضمون صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب (۲) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصّہ دوم صفحه ۱ تا صفحه ۳ (۳) اخبار الفضل ۲۰/اکتوبر ۱۹۳۲ ء صفحه به مضمون صاحبزادہ سیدابوالحسن قدسی صاحب (۴) الفضل ۱۷/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحه ۹ ( ۵ ) الفضل ۳۰ /اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحه ۸ (1) اخبار الفضل مورخه ۱/۲۰ اکتو بر ۱۹۳۲ء صفحه ۲ (۷) خطبہ جمعہ حضرت خلیفة اصبح الثاني...فرموده ۲۶ اکتو بر۱۹۳۲ء مطبوعه روز نامه الفضل ۳ / نومبر ۱۹۳۲ء (۸) اخبار الفضل ۱۷/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحه ۲ (۹) ملخص از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر۷ صفحه ۲۳۶ (۱۰) اخبار الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱۵ (۱۱) رسالہ شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ دوم صفحہ ۲۴ - ۲۶/ دسمبر ۱۹۲۱ء کو شائع ہوا باراول (۱۲) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ دوم صفحه ۱۹-۲۰ باراول (۱۳) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ دوم صفحه ۲۰ با را وّل (۱۴) اخبار الحکم ۱۴ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحه ۱۲ (۱۵) اخبار الحکم ۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحه ۱۲ (۱۶) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ دوم صفحه ۱۶ بار اول ۱۹۲۱ء (۱۷) چشم دید واقعات شہید مرحوم حصہ دوم صفحہ ۷ ابارا قول (۱۸) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصّہ دوم صفحہ ۱۷ (۱۹) شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات حصہ اول صفحہ ۶
404 (۲۰) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ دوم صفحہ ۲۹ و ۳۰ (۲۱) اخبار الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۴ (۲۲) الحکم ۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۵ ء صفحه ۱۱ ( ۲۳ ) الحکم ۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۵ء (۲۴) تذکرۃ الشہا دتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۷ (۲۵) الحکم ۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحه ۱۱ (۲۶) الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۴ (۲۷) الحکم ۲۱ / مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۴ (۲۸) الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۴ (۲۹) الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۴ (۳۰) الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۴ (۳۱) اخبار الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۴ (۳۲) الحکم ۲۶ مئی ۱۹۳۵ ء صفحه ۵ (۳۳) الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۳ (۳۴) الحکم قادیان ، ۲۱ / مارچ ۱۹۳۵ء صفه ۳ (۳۵) الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۳ ، ۴ (۳۶) الحکم ۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۵ ء صفحه ۴ (۳۷) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحه ۱۲ و صفحه ۱۳ (۳۸) الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۹