Language: UR
بچوں بچیوں کے لئے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت وسوانح پر آسان زبان میں مختصر کتب کی تیاری کے سلسلہ یہ کتاب مکرمہ امت الباری ناصرصاحبہ کی مرتب کردہ ہے جس میں شعب ابی طالب کے پرآشوب زمانہ اور دل دہلادینے والے سفر طائف کے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جس کا مطالعہ آنحضور ﷺ اور آپ کے اصحا ب کی ثابت قدمی اور صبر واستقامت کا نقشہ مہیا کرتا ہے۔ سیرت خاتم النبیین ﷺ اور دیگر کتب سیرت سے استفادہ کرکے اس کتاب میں بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ تک کے واقعات درج کئے گئے ہیں۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن نظارت نشرو اشاعت قادیان کا شائع کردہ ہے۔
سيرة وسوانح حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه وسلم شعب ابی طالب سفرِ طائف
نام کتاب : شعب ابی طالب و سفر طائف مرتبہ امتہ الباری ناصر سابقہ اشاعت : 2009ء حالیہ اشاعت: 2016 ء تعداد ناشر مطبع 1000: : نظارت نشر و اشاعت قادیان ،ضلع گورداسپور صوبہ پنجاب، انڈیا -143516 فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان ISBN: 978-81-7912-194-8
شعب ابی طالب 1 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پیش لفظ بفضلہ تعالیٰ شعبہ اشاعت لوجشن تشکر کے سلسلہ کی 70 ویں کتاب بعنوان "سيرة وسوانح حضرت محمد مصطفی سالانا اسلم شعب ابی طالب وسفر طائف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.الحمد للہ ! یہ کتاب عزیزہ امتہ الباری ناصر نے مرتب کی ہے جو سیرت پر بچوں کے لئے سلسلہ دار آسان زبان میں چھوٹی چھوٹی کتب پیش کر رہی ہیں اس سے پہلے حضرت محمد مصطفیٰ صال لا الہ سلیم کا بچپن ، مشاغل تجارت اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ سے شادی، آغاز رسالت، دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ منظر عام پر آچکی ہیں.زیر نظر کتاب میں اُس پر آشوب زمانے کا ذکر ہے جس میں دشمنوں کی طرف سے ظلم وتشد داور پیارے آقا اور آپ کے صحابہ کرام کی طرف سے صبر و استقامت کی انتہا ہوگئی.کم فہم سمجھتے تھے کہ لالچ دے کر، ظلم کر کے، معاشی بائیکاٹ کر کے یہ چراغ بجھایا جا سکتا ہے مگر یہ تو الہی سلسلہ تھا جس کے ساتھ الہی وعدہ تھا.إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ( حجر : ١٠) اس ذکر کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم یقینا اس کی حفاظت کریں گے.آپ اور آپ کے جاں نثار صحابہ ہر آزمائش میں ثابت قدم رہے.شعب ابی طالب
شعب ابی طالب 2 میں محصوری کے زمانے کی سب سے بڑی تکلیف یہ تھی کہ دعوت الی اللہ کے کام کھل کر نہیں کئے جاسکتے تھے.خدا کے حضور آپ کی متضرعانہ دعائیں قبول ہوئیں آپ پر پابندیوں کا عہد نامہ ختم ہوا اور آپ نے اس محدود فضا سے نکل کر تبلیغ کے دائرے کو بڑھانے کے لئے طائف کا راستہ اختیار فرمایا.اس کتاب میں اس سفر کی تفصیل اور بیعت عقبہ اولی و ثانی تک کے واقعات درج ہیں.حسب معمول سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد سے استفادہ کیا گیا ہے اور دیگر کتب سے مفید معلومات بھی شامل ہیں.یہ کتا سے منظور شدہ ہے.قارئین کرام سے درخواست ہے کہ اپنے بچوں کو یہ کتا بیں ضرور پڑھائیں تا کہ اس خلق عظیم والی ہستی کی سیرت کے پہلو بچپن سے ہی اُن کے اخلاق پر اثر ڈالیں.عزیزہ امتہ الباری ناصر سیکرٹری اشاعت لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی اور اُن کی معاونات ہماری خاص دعاؤں کی مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ اپنی نصرت و تائید ان کے شامل حال رکھے تا کہ بہترین رنگ میں تادم آخر خدمات کے مواقع ملتے رہیں اللہ تعالیٰ خود ان کی جزا بن جائے.آمین اللهم آمين
شعب ابی طالب شعب ابی طالب 3 مکہ کے رہنے والے ایک معمول کے مطابق اپنے رسم ورواج کی پاسداری کرتے ہوئے زندگی گزار رہے تھے اُن کے لئے حضرت رسول کریم صلی ی ی یم کالا یا ہوا نیا دین ہرگز قابل قبول نہ تھا.وہ اُس کے عادی نہیں تھے.وہ دین اُن کے مزاج کے مطابق نہ تھا.اس لئے شدید رد عمل ہوا اور اُن کی ساری طاقتیں اس بات پر جمع ہو گئیں کہ کسی نہ کسی طرح حضرت محمد صلی یا ایک یتیم کے دین کو پھیلنے سے روکنا ہے.انہوں نے کوشش کی کہ اول تو حضور سل السلام کی آواز دوسروں تک نہ پہنچے اور اگر کوئی سن ہی لے تو مانے نہیں اور اگر مان لے تو اُس کو اتنی تکلیفیں اور سزائیں دی جائیں کہ وہ تنگ آکر نیا دین چھوڑ دے اور حضرت محمد صلی یا یہ تم اکیلے رہ جائیں اور بالآخر خود بھی اپنے ایک خدا کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں سب سے آگے آگے قریش کے سردار تھے جو مکہ کے طاقتور اور رئیس لوگ تھے اُن کا عوام پر بڑا اثر تھا وہ اپنے سرداروں کے پیچھے لگ کے مسلمانوں کو ستاتے اور دکھ دیتے تھے.جس رفتار سے مسلمانوں کی تعداد میں ترقی ہوتی اُسی رفتار سے مخالفین کا غم و غصہ بڑھتا اور وہ اپنی کوششوں کو تیز تر کر دیتے.نبوت کے ساتویں سال جب کفار مکہ نے دیکھا کہ اب تو حضرت حمزہ اور حضرت عمر جیسے بڑے بڑے لوگ بھی مسلمان ہو گئے ہیں کچھ مسلمان جو حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے وہاں سکون سے رہ رہے ہیں اور اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ سمجھدار لوگوں کا ایک وفد خود رسول اکرم سالی یا اسلام سے ملے اور مذاکرات کر کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرے چنانچہ ایک دن خانہ کعبہ کے صحن میں ولید بن مغیرہ عاص بن
شعب ابی طالب 4 وائل ابو جہل، امیہ بن خلف ، عقبه، شیبه، ابوسفیان ، اسود بن مطلب ،نضر بن حارث اور ابو اہمتری وغیرہ جمع ہوئے اور ایک شخص کو حضرت رسول اکرم صلی یا پیلم کو بلانے کیلئے بھیجا.آپ پیغام حق پہنچانے کے مواقع کی تلاش میں رہتے اور یہاں سب سردار جمع ہو کر بیٹھے تھے آپ تشریف لائے قریش نے اپنی بہت سوچی سمجھی سکیم کے مطابق آپ کے سامنے اپنے مطالبات رکھے.محمد تمہاری وجہ سے قوم میں اختلاف پیدا ہوا ہے.لوگ گروہوں میں بٹ رہے ہیں تم نے اپنے باپ دادا کا مذہب چھوڑ دیا ہے اپنے بزرگوں کی بات بھی تم نہیں مانتے.ہم جن بتوں کی پوجا کرتے ہیں انہیں تم بے جان اور بے عقل کہتے ہو.ہم نے ہر کوشش کر لی کہ تمہیں سمجھا ئیں اور ایسے غلط کاموں سے باز رکھیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہو سمجھ نہیں آتی کہ آخر تم نے یہ سارا جھگڑا کیوں کھڑا کیا ہے.اگر تمہیں دولت کی خواہش ہے تو ہم تمہیں اتنا مال جمع کر کے دینے کا وعدہ کرتے ہیں کہ مکہ میں سب سے زیادہ دولتمند ہو جاؤ.اگر تمہیں سرداری کا شوق ہے تو ہم تمہیں اپنا سردار مان لیتے ہیں.اگر اس سے بھی بڑھ کر بادشاہ بننا چاہتے ہو تو چلو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں.اگر تم یہ ساری باتیں اس لئے کرتے ہو کہ کسی بیماری میں مبتلا ہو یا کسی جن کا سایہ ہو گیا ہے تو ہم اپنے خرچ پر تمہارا علاج کرا دیتے ہیں.اگر تم کسی اچھی سی لڑکی سے شادی کرنے کی خاطر یہ سب کر رہے ہو تو ہم خود عرب کی بہترین لڑکی تلاش کر کے تمہاری شادی کرا دیتے ہیں آپ نے بڑے تحمل سے، خاموشی کے ساتھ ساری باتیں سنیں.جب وہ اپنی ساری تجاویز پیش کر چکے تو آپ نے فرمایا مجھے ان میں سے کسی چیز کی خواہش نہیں.نہ میں بیمار ہوں ، میں خدا کی طرف.
شعب ابی طالب 5 رسول ہوں اور اُس کا پیغام لے کر تمہارے پاس آیا ہوں.میرے دل میں تمہارے لئے ہمدردی ہے اگر تم اللہ تعالیٰ کی بات مان لو گے تو دین و دنیا میں فائدہ حاصل کر لو گے اگر نہیں مانو گے تو میں صبر کے ساتھ تمہیں بھلائی کی طرف بلاتا رہوں گا اور اپنے ربّ کے فیصلہ کا انتظار کروں گا“.قریش نے کہا :.ہم تم کو کیسے نبی مان لیں اگر تم نبی ہوتو کچھ ایسی بات دکھاؤ جس سے ہم سمجھ جائیں کہ واقعی تمہارا خدا سے تعلق ہے.ہماری خشک پتھریلی زمین کو سرسبز بنوا دیتے اس میں نہریں جاری کروا دیتے.تمہارے ساتھ کو ئی فرشتے ہوں تم محلات میں رہتے.تمہارے ہاتھوں میں سونے چاندی کے ڈھیر ہوتے تو ہم تمہیں نبی مان لیتے تم تو ہماری طرح بازاروں میں پھرتے ہو عام آدمی ہو.ہمارے نہ ماننے پر یہ بھی نہ ہوا کہ کوئی عذاب ہی آتا.آسمان کا ٹکڑا ہم پر گر جاتا یا فرشتوں کی کوئی فوج ہی آکر ہمیں سزا دیتی یہ سب نہیں ہے تو پھر ہم خود فیصلہ کریں گے کہ ہم زندہ رہتے ہیں یا تم زندہ رہتے ہو.آپ نے فرمایا ”میں تو خدا تعالیٰ کا رسول ہوں میں سچ اور جھوٹ بتانے کیلئے آیا ہوں میں نے ان سب چیزوں کا وعدہ ہی نہیں کیا جو تم مطالبے کرتے ہو ہاں اگر تم میری بات مان جاؤ تو خدا تعالیٰ کا طریق یہ ہے کہ وہ ماننے والوں کو دین اور دنیا کی نعمتوں سے نوازتا ہے“.آپ سی ایم کو تو پہلے ہی اندازہ تھا کہ قوم نے اصل حقیقت کو سمجھا ہی نہیں ہے بہت بوجھل دل کے ساتھ واپس تشریف لے گئے.ادھر قریش غصے کی آگ میں جلنے لگے اور فیصلہ کیا کہ اب آپ کو جان سے مار دیا جائے چنانچہ اگلے دن بد بخت ابو جہل بڑا سا پتھر لے کر صحن کعبہ میں ایک طرف کھڑا ہو گیا کہ آپ کے سر پر دے مارے گا مگر جب آپ تشریف لائے تو وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکا
شعب ابی طالب 6 پتھر اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا.(ابن ہشام ، طبری، زرقانی) سردارانِ قریش نے سوچا کہ آپ تو اپنی بات پر قائم ہیں مصالحت کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی چلو ایک پیش کش اور کرتے ہیں آپ کی خدمت میں پیش ہو کر کہا اختلاف دور کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم اور تم اپنی عبادت مشترک کر لیتے ہیں.تم اپنے خدا کے ساتھ ہمارے بتوں کی بھی عبادت کرو اور ہم اپنے بتوں کے ساتھ تمہارے خدا کی بھی عبادت کر لیں اس طرح دونوں کے معبودوں کا فائدہ دونوں کو پہنچے گا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا ذرا غور تو کرو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں اپنے خدا کو مانتے ہوئے تمہارے بتوں کی پو جا کروں اور تم بت پرست ہو کر میرے خدا کی عبادت کرو.انہیں ایام میں سورۃ الکافرون نازل ہوئی جس کا ترجمہ ہے ”اے کا فرو! میں تمہارے طریق کے مطابق عبادت نہیں کرتا اور نہ تم میرے طریق کے مطابق عبادت کرتے ہو اور نہ میں ( ان کی ) عبادت کرتا ہوں جن کی تم عبادت کرتے چلے آئے ہو اور نہ تم (اس کی) عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کر رہا ہوں.تمہارا دین 66 تمہارے لئے ہے اور میرا دین میرے لئے ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی رہنمائی فرماتا اور حفاظت کے وعدے بھی کرتا جس سے آپ کو قادر و توانا خدا کی ذات سے طاقت ملتی.اللہ تعالیٰ دشمنوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے بظاہر لا چاری کی حالت میں دن گزارنے والوں سے وعدہ فرماتا ہے.ہم نے ذکر اُتارا ہے ہم اس کی حفاظت کریں گے.( الحجر :۱۰)
شعب ابی طالب 7 اُن کے دل مضبوط ہو جاتے.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.دنیا والوں کی کوئی تکلیف ہمارے راستے نہیں روک سکتی.کفار مکہ نے یہ سوچا کہ آنحضرت سلائی یہ ہم ان کے آگے اس لئے نہیں جھکتے کہ آپ کو اپنے قبیلے والوں کی حمایت اور حفاظت حاصل ہے اگر اُن سے تعلقات تڑوا دئے جائیں تو آہستہ آہستہ کمزور ہو کر مجبور اوہ ہماری بات مان جائیں گے.چنانچہ محرم کنہ ء نبوی کو ایک معاہدہ لکھا گیا جس کا ایک حصہ یہ تھا.کوئی شخص بنو ہاشم اور بنو مطلب سے رشتہ نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کے پاس کوئی چیز فروخت کرے گا.نہ ان سے کچھ خریدے گا.نہ ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا.نہ اُن سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا جب تک کہ وہ محمد سے الگ ہو کر آپ کو اُن کے حوالے نہ کر دیں.اس معاہدہ پر بڑے بڑے رؤساء نے دستخط کئے اور کعبہ کی دیوار سے لٹکا دیا گیا.اس معاہدے کی رُو سے سب بنو ہاشم اور بنو مطلب کیا مسلم اور کیا کا فرایک پہاڑی درے میں قید ہو گئے سوائے آنحضور میلینیا ایام کے چار ابو لہب کے جس نے قریش کا ساتھ دیا.عربی میں شعب وادی یا گھائی کو کہتے ہیں.پہاڑیوں کے درمیان ایسی جگہ جس میں درے کی طرح داخلے کا راستہ ہومگر آگے سے بند ہو.مکہ میں بیت اللہ کے احترام کی وجہ سے پہلے لوگ مکانات نہیں بناتے تھے بلکہ ایسی ہی گھاٹیوں میں اپنے اپنے قبیلے کے ساتھ رہتے تھے.کوہ ابو تنیس میں بہت سی گھاٹیاں تھیں جن میں سے ایک شعب بنی ہاشم تھی جب اس خاندان کے سر براہ ابو طالب ہوئے تو یہ گھائی شعب ابو طالب کہلانے لگی.یہ کافی وسیع
شعب ابی طالب 8 جگہ تھی اسی گھائی کے ایک مکان میں آنحضور صلی ای ام پیدا ہوئے تھے.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مکان بھی یہیں تھا.اس حصے کو سوق اللیل کہتے تھے.کفار مکہ کا دباؤ بڑھا تو بنی ہاشم اور بنی مطلب نے اس گھائی کے ایسے حصے میں پناہ لے لی جو تنگ گلی سے مشابہ تھی مکہ والوں نے ان سے مکمل معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کر لیا.اس خشک وادی میں سبزہ اور پانی نہ تھا صرف خشک جھاڑیاں تھیں جہاں اونٹ اور دوسرے جانور چرتے تھے.شعب ابی طالب میں محصوری کے دن بڑے تکلیف دہ تھے کھانے کو کچھ نہ ہوتا بعض دفعہ درختوں کے پتوں پر گزارا کرنا پڑتا حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو سوکھا ہوا چمڑا ہا تھ آ گیا میں نے اس کو پانی سے دھو یا پھر آگ پر بھونا اور پانی کے ساتھ کھایا ایک دوسرے موقع پر رات کے وقت کسی نرم چیز پر پاؤں پڑا بھوک کا یہ عالم تھا کہ وہ چیز اٹھا کر منہ میں ڈال لی پتہ ہی نہیں وہ کیا چیز تھی ( روز الوقت ) جب بچے بھوک سے روتے تو اُن کی آواز سن کر متریش خوش ہوتے.(ابن سعد ) مشرکین اس بات کی سخت نگرانی رکھتے کہ کو ئی شخص کسی شکل میں بھی کھانے پینے کا سامان نہ پہنچا سکے.ایک واقعہ یوں بھی ہوا کہ ایک روز ابو جہل کو راستے میں حکیم بن حزام ملے اُن کے ساتھ ایک غلام تھا جو کچھ گیہوں اٹھائے ہوئے تھا.جو وہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے لے جانا چاہتے تھے.ابوجہل نے راستہ روک لیا اور کہنے لگا.کیا تم بنی ہاشم کے پاس کھانا لے کر جاؤ گے.خدا کی قسم میں تمہیں سارے مکہ میں رسوا کر دوں گا.
شعب ابی طالب ابوالبختر ی ابن ہشام نے ابو جہل سے پوچھا کیا بات ہے؟ ابوجہل نے کہا یہ بنی ہاشم کے پاس کھانا لیکر جانا چاہتا ہے“ ابوالبختر ی نے کہا 9 یہ کھانا تو یہ اپنی پھوپھی یعنی خدیجہ کے پاس لیکر جارہے ہیں تو کیا تم ان کو پھوپھی کے پاس جانے سے بھی روکو گے ان کا راستہ چھوڑ دو.مگر ابو جہل نے سننے سے انکار کر دیا اس پر دونوں کی ہاتھا پائی ہو گئی یہاں تک کہ ابوالبختری نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اُٹھا کر ابوجہل کے سر پر ماری جس سے اُس کا سر پھٹ گیا.ایک ہمدرد شخص ہشام بن عمرورات کے وقت اونٹوں پر غلہ لا دکر شعب ابی طالب کی طرف ہنکا دیتے بنی ہاشم غلہ اُتار کر اونٹوں کو واپس کر دیتے.(ابن ہشام) اُس زمانے میں ابو طالب آنحضرت مصلی یا یہ ستم کی حفاظت کے خیال سے آپ کو اپنے بستر پر سونے کیلئے لٹاتے جب سب لوگ سو جاتے تو آپ کو جگا کر دوسرے بستر پر جانے کو کہتے تا کہ کوئی دشمن چپکے سے آپ کو اغوا نہ کرلے.اس گھائی میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے گھائی سے باہر نکلنے پر شدید پابندی حج کے زمانے میں اُٹھالی جاتی.آپ اُس موقع سے فائدہ اُٹھاتے اور لوگوں کے درمیان گھوم پھر کر اللہ تعالیٰ کا پیغام دیتے.سختیوں کے اس زمانے میں جبکہ کفار آپ پر ہر طرح کی پابندیاں عائد کر کے آپ کو
شعب ابی طالب 10 جھکنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے اللہ تعالیٰ اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ آپ کے ساتھ تھا.اُس نے رہائی کے سامان اپنی جناب سے کئے.کچھ لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہونے لگا که شعب ابی طالب میں بنی ہاشم کو محصور کر کے ظلم کرنا خلاف تہذیب ہے ان لوگوں میں ہشام بن عمرو، زہیر بن امیہ مطعم بن عدی ، ابو البختر کی بن ہشام اور زمعہ بن الاسد شامل تھے یہ لوگ جب آپس میں ملتے تو ذکر کرتے کہ یہ قید ختم ہونی چاہئے.اسی طرح دبی دبی زبان سے دوسروں کو بھی قائل کرنے کی کوشش کرتے.ادھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اسلام کو اطلاع دی کہ دیمک نے قریش کے لکھے ہوئے اس حلف نامے کو چاٹ لیا ہے.( یہ دیمک ایک چیونٹی ہوتی ہے جو لکڑی کو کھالیتی ہے اگر یہ ایک سال تک زندہ رہ جائے تو اس کے پر نکل آتے ہیں اور یہ اڑ نے لگتی ہے ) آپ نے اپنے چا ابو طالب کو بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہمارے خلاف جو معاہدہ لکھ کر خانہ کعبہ کی دیوار سے لٹکایا گیا تھا اس کی ساری تحریر مٹ چکی ہے کاغذ کسی کیڑے نے کھالیا ہے صرف اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہوا باقی ہے.ابو طالب نے کہا روشن ستاروں کی قسم تم نے کبھی مجھ سے جھوٹ نہیں بولا.ایک روایت میں ہے کہ جب ابو طالب نے آنحضرت سالیا پی ایم کی دی ہوئی خبر اپنے گھر والوں کو سنائی تو انہوں نے کہا کہ پھر اب آپ کی کیا رائے ہے.ابو طالب نے کہا ” میری رائے ہے کہ تم سب اپنے بہترین لباس پہنو اور قریش کے پاس جاؤ اور اس سے پہلے کہ یہ بات اُن تک پہنچے تم ان کو جا کر اطلاع دو.
شعب ابی طالب 11 چنانچہ وہ لوگ گھائی سے روانہ ہوئے اور ڈرتے ڈرتے مسجد حرام تک پہنچے.قریش نے ان لوگوں کو دیکھا تو وہ یہ سمجھے کہ یہ لوگ مصیبتوں سے گھبرا کر نکل آئے ہیں تا کہ رسول کریم صلی یا پیام کوقتل کرنے کے لئے مشرکوں کے حوالے کر دیں یہاں پہنچ کر ابو طالب نے ان لوگوں سے گفتگو کی اور کہا ہمارے اور تمہارے درمیان معاملات بہت طول اختیار کر گئے ہیں اس لئے اب تم لوگ وہ حلف نامہ لے آؤ ممکن ہے تمہارے اور ہمارے درمیان صلح کی کوئی شکل نکل آئے.ابو طالب نے اصل بات بتانے کی بجائے یہ بات اس لئے کہی تھی کہ کہیں قریش حلف نامہ سامنے لانے سے پہلے اس کو دیکھ نہ لیں کیونکہ اس کے بعد وہ اس کو لے کر ہی نہ آتے غرض وہ لوگ حلف نامہ لیکر آگئے اور اب انہیں اس بات میں کوئی شک نہیں رہا تھا کہ رسول الله سلیس تم کو ان کے حوالے کر دیا جائے گا کیونکہ یہ تمام عہد و پیمان اور حلف نامے آنحضرت سالی یا یہ تم کی وجہ سے ہوئے تھے.حلف نامے کی تحریریں لا کر انہوں نے سامنے رکھ دیں اور ابوطالب اور ان کے ساتھیوں کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگئے ”تم لوگوں نے ہمارے اور اپنے اوپر جو مصیبت ڈالی تھی آخر اب اس سے پیچھے ہٹتے ہی بنی ابو طالب نے کہا میں تمہارے پاس ایک انصاف کی بات طے کرنے آیا ہوں جس میں نہ تمہاری بے عزتی ہے اور نہ ہماری.وہ یہ ہے کہ میرے بھتیجے یعنی آنحضرت صلی شما یہ تم نے بتایا ہے کہ اس حلف نامے پر جو تمہارے ہاتھوں میں ہے اللہ تعالیٰ نے ایک کیٹر ا مسلط فرما دیا ہے جس نے س کے تمام حصے چاٹ لئے ہیں سوائے اس کے جہاں اللہ تعالیٰ کے نام لکھے ہوئے
شعب ابی طالب 12 تھے اب اس میں صرف تمہارے ظلم و جفا اور زیادتیوں کا تذکرہ رہ گیا ہے.اگر اب بات اسی طرح ہے جیسے میرے بھتیجے نے بتائی ہے تو معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اور ایک اور روایت میں ہے کہ تو پھر تم اپنی رائے سے باز آجاؤ لیکن اگر تم باز نہ آئے تو بھی خدا کی قسم جب تک ہم میں سے آخری آدمی زندہ ہے ہم محمد کو تمہارے حوالے نہیں کریں گے اور اگر میرے بھتیجے کی بات غلط نکلی تو ہم اس کو تمہارے حوالے کر دیں گے پھر تم چاہے اس کو قتل کرو چاہے زندہ رکھو.اس پر قریش نے کہا ہمیں تمہاری بات منظور ہے اب انہوں نے عہد نامہ کھول کر دیکھا تو انہیں معلوم ہوا کہ ابو طالب جو خبر لائے تھے وہ بالکل صحیح ہے یہ دیکھ کر اکثر نے کہا.یہ تمہارے بھتیجے کا جادو ہے ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب مشرکوں نے حلف نامے کو ابو طالب کی اطلاع کے مطابق دیمک خوردہ پایا تو ان سے کہا ”اے گروہ قریش ہمیں کس بنیاد پر محصور کیا جا رہا ہے اور کس لئے اس گھاٹی میں قید کیا جا رہا ہے جبکہ معاملہ صاف ہو گیا اور یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ حقیقت میں اس ظلم وزیادتی اور سختی کے سزاوار تم ہو.اس کے بعد ابوطالب اور اُن کے ساتھی کعبے کے غلاف میں گھس گئے اور وہ یہ کہتے جاتے تھے.”اے اللہ جن لوگوں نے ہم پر ظلم کیا جنہوں نے ہماری حق تلفی کی اور ہم پر ناحق
شعب ابی طالب 13 زیادتیاں کیں ان کے مقابلے میں ہماری مدد فرما.اس کے بعد یہ سب گھائی میں واپس چلے گئے ادھر مشرکوں میں سے ایک جماعت اس حلف نامے کو پھاڑنے کیلئے آگے بڑھی یہ کل پانچ آدمی تھے یہ پانچوں آدمی رات کے وقت حجون کے مقام پر جمع ہوئے اور یہاں مشورہ کر کے فیصلہ کیا اور عہد کیا کہ ہم اس حلف نامے کو پھاڑنے کا بیڑہ اُٹھاتے ہیں اور اس کام کو پورا کر کے ہی دم لیں گے زہیر نے کہا کہ میں اس سلسلے میں پہل کروں گا.صبح یہ لوگ حرم میں قریشی مجلسوں میں پہنچے.ادھر زہیر نے صبح ہوتے ہی اپنا حلہ پہنا اور بیت اللہ میں طواف کیا اس کے بعد یہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے.کے والو کیا ہم اطمینان کے ساتھ اچھے سے اچھا کھاتے اور اچھے سے اچھا پہنتے رہیں اور بنی ہاشم اور بنی مطلب اس بے کسی کے ساتھ ہلاک ہو جا ئیں کہ وہ نہ کچھ خرید سکتے ہیں اور نہ بیچ سکتے ہیں خدا کی قسم میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک یہ ظالمانہ اور انسانیت سوز حلف نامہ پھاڑ نہیں دیا جائے گا.زمعہ ابن اسود، ابوالبختری مطعم ابن عدی اور ہشام بن عمرو نے اس کی تائید کی مطعم بن عدی نے بڑھ کر معاہدہ پھاڑ دیا.یہ پانچوں اور ان کے ساتھ بہت سے لوگ اپنے اپنے ہتھیار پہنے ہوئے گھائی میں گئے اور تلواروں کے سائے میں محصورین کو نکال لائے.(خلاصه از تاریخ صلبیه اردو جلد دوم تحریر مولانا دوست محمد صاحب شاہد ) محصوری کے زمانے کی سختیوں ، ناقص اور کم خوراک اور ضعیف العمری کی وجہ سے ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صحت بری طرح متاثر ہوئی.ابوطالب کے
شعب ابی طالب 14 آپ پر بہت سے احسان تھے آپ کو بچوں کی طرح پالا تھا ہر مشکل میں ساتھ دیا تھا مخالفین کومیانہ روی پر آمادہ کرتے رہے تھے اس وجہ سے آپ کو ابو طالب سے بہت محبت تھی آپ نے بہت کوشش کی کہ وہ کلمہ شہادت پڑھ لیں مگر ابوطالب نے آپ کو سچا اور اعلیٰ اخلاق پر قائم یقین کرنے کے باوجود واضح لفظوں میں اسلام قبول نہ کیا اور اسی حالت میں اشی (۸۰) سال سے زائد عمر میں آپ کا انتقال ہو گیا.وفات کے وقت حضرت ابوطالب نے وصیت کی ”اے قریش تم خدا کی مخلوق میں سے ایک برگزیدہ قوم ہو خدا نے تمہیں بڑی عزت دی ہے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ محمد کے ساتھ اچھا سلوک کرنا.کیونکہ وہ اعلیٰ اخلاق کا انسان ہے اور عربوں میں صدق وصفا کی وجہ سے ممتاز ہے اور بیچ یہ ہے کہ وہ ہماری طرف ایک ایسا پیغام لیکر آیا جس کا زبان نے انکار کر دیا مگر دل نے اسے تسلیم کیا میں نے عمر بھر اس کا ساتھ دیا اور ہر تکلیف کے موقع پر اس کی حفاظت کیلئے آگے بڑھا ہوں اور اگر مجھے مزید مہلت ملتی تو بھی ایسا ہی کرتا اے قریش ! میری تم کو بھی نصیحت ہے کہ اسے دکھ دینے کے در پے نہ رہو بلکہ اس کی نصرت واعانت کرو کہ تمہاری اسی میں بھلائی ہے.(زرقانی جلد اول صفحه ۲۹۵-۲۹۶) ابوطالب کی وفات کے چند دن بعد ا ا رمضان المبارک ۱۰ نبوی کو حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا بڑی صداقت اور وفاشعاری سے اپنے عظیم المرتبت شوہر کا ساتھ نبھانے کے بعد اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئیں وفات کے وقت آپ کی عمر پینسٹھ (۲۵) سال تھی حضور ساینا یہ تم پہلے خود قبر میں اُترے پھر آپ کے جسد فانی کو قبر میں اُتارا اُس وقت تک نماز جنازہ فرض نہ ہوئی تھی اس لئے آپ کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی.(سیرت الصحابیات صفحہ ۲۸)
شعب ابی طالب 15 یہ وہ خاتون تھیں جن سے رسول پاک سنی یا یہ تم کو بے حد محبت تھی دو ایسی ہستیاں جن سے آپ پیار کرتے تھے بہت کم وقفے سے آپ کا ساتھ چھوڑ گئیں آپ نے افسردہ دلی سے اس سال کو عام الحزن کا نام دیا ( یعنی غموں کا سال).حضرت خدیجہ نے بڑی دانشمندی اور فدائیت سے ہر قسم کے حالات میں ساتھ نبھایا تھا.آپ گھر تشریف لاتے تو کبھی یہ حالت ہوتی کہ خاک آلود ہوتے دشمنوں نے دورانِ نماز آپ پر مٹی ڈال دی ہوتی.کبھی آوارہ گر داڑ کے آپ کے پیچھے لگے ہوتے.آپ گھر میں داخل ہو جاتے تو بھی اُن کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوتا اور گھر کے اندر پتھر پھینکنے لگتے.گھر میں صرف پتھر ہی نہیں آتے تھے بلکہ بکروں اور اونٹوں کی انتڑیاں اور دوسری بد بودار آلائش بھی پھینک دی جاتی.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتیں.آنحضور صلی نیا پہ تم اور بچوں کی حفاظت کرتیں اور انہیں سمجھا تیں کہ یہ مشکلیں اللہ کے راستے میں چلنے والوں کو ہمیشہ پیش آتی ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بڑا حوصلہ دیا تھا بجائے اس کے کہ شوہر کے سامنے شکایتیں لیکر بیٹھتیں الٹا اپنی تکلیف کم کر کے بتا تیں اور آپ کو اطمینان دلا تیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے آپ آنحضور صلی اینم کی مخلص وزیر تھیں.آنحضرت صلی یا اسلام کو مشرکوں کی تکذیب یا تردید سے جو صدمہ پہنچتا حضرت خدیجہ کے پاس آکر دور ہو جاتا کیونکہ وہ آپ کی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں اور مشرکین کے معاملہ کو آپ کے سامنے بے وقعت کر کے پیش کرتی تھیں“.(ابن ہشام) آپ کو حضرت خدیجہ کی قربانیاں ہمیشہ یادر ہتیں ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا
شعب ابی طالب 16 اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی اچھی بیویاں دی ہیں پھر بھی آپ اُس ضعیف العمر مرحومہ بیوی کا ذکر کرتے رہتے ہیں گویا دنیا میں صرف ایک وہی عورت پیدا ہوئی تھیں“.آپ کی آنکھوں کے سامنے وہ سارا زمانہ آ گیا جس میں دُکھ اور تکلیفیں تھیں سب بزرگ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ایک غمگسار بیوی ہی سارے غم بانٹتی تھی آپ نے پر درد لہجے میں فرمایا.خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے مجھے خدیجہ کے بدلے اس سے بہتر کوئی بیوی نہیں دی وہ مجھ پر ایمان لائی جبکہ اوروں نے کفر کیا اُس نے میری تصدیق کی جب دوسروں نے مجھے جھٹلایا.اُس نے اپنے مال سے میری غم خورای کی جبکہ لوگوں نے مجھے محروم کیا اور خدا تعالیٰ نے اُس کے بطن سے مجھے اولا ذبخشی جبکہ دوسری ازواج کو اس سے محروم رکھا.(اسد الغابه جلد ۵ صفحه نمبر ۴۳۸، استیعاب جلد ۲ صفحه ۷۴۱) حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی آپ کی طرح خدمت خلق اور صلہ رحمی کا بہت شوق تھا اس ہم مزاجی کی وجہ سے حضور آپ سے مشورہ کر کے خوش ہوتے.حضرت اسامہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کی رضاعی والدہ حلیمہ مکہ آئیں اور آنحضور سے قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا.آنحضور نے حضرت خدیجہ سے مشورہ کیا اور باہم رضامندی سے رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور مال سے لدا ہوا ایک اونٹ تحفہ دیا.(طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ نمبر ۱۱۳، بیروت ۱۹۶۰) اس طرح آنحضور اور حضرت خدیجہ کو ثوبیہ کا بہت خیال رہتا وجہ یہ تھی کہ آپ کو ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے کچھ دن دودھ پلایا تھا.حضرت خدیجہ تو چاہتی تھیں کہ اُسے خرید کر آزاد کر دیں مگر ابولہب نہ مانا.جب حضور مدینہ تشریف لے گئے تو ابولہب نے انہیں آزاد کر دیا.حضور ہجرت کے بعد بھی اُن کا خیال رکھتے تھے.طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ نمبر ۱۰۹.بیروت ۱۹۶۰)
شعب ابی طالب 17 حضرت خدیجہ کی وفات کے کئی سال بعد رسول کریم سنی ہیں یہ ہم ایک دفعہ اپنے گھر میں تشریف رکھتے تھے کہ حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ آپ سے ملنے کیلئے آئیں اور دروازے پر کھڑے ہوکر انہوں نے کہا کیا میں اندر آ سکتی ہوں ؟ ہالہ کی آواز چونکہ اپنی بہن حضرت خدیجہ سے بہت کچھ ملتی جلتی تھی اس لئے اس آواز کے کان میں پڑتے ہی رسول کریم کے دل میں حضرت خدیجہ کی یاد تازہ ہو گئی اور آپ بے تاب ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا.آہ مرے خدا! یہ تو خدیجہ کی آواز معلوم ہوتی ہے.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ نمبر ۲۷) حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد بھی حضور جب کبھی گھر میں کوئی بکرا ذبح کرواتے تو حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو ضرور بھجواتے.( بخاری کتاب الادب باب حسن العهد من الایمان ) جنگ بدر میں جب رسول کریم صلی یا یتیم کے داما دابو العاص جو ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے قید ہو کر آئے تو آپ کی صاحبزادی حضرت زینب نے جو ابھی مکہ ہی میں تھیں اُن کے فدیہ کے طور پر اپنے گلے کا ہارا تارک بھیج دیا.یہ وہ ہارتھا جو حضرت خدیجہ نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا تھا رسول کریم نے اُس ہار کو دیکھا تو آپ کو حضرت خدیجہ یاد آگئیں اور آپ کی آنکھوں میں آنسوں ڈبڈبا آئے پھر آپ نے صحابہ سے فرمایا اگر تم چاہو تو خدیجہ کی یہ یادگار اس کی بیٹی کے پاس محفوظ رہے.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ نمبر ۲۶ ، صحیح مسلم جلد ۲ صفحہ نمبر ۳۳۳)
شعب ابی طالب 18 اس ملکہ عالم کا مزار مکہ کے شمال میں واقع پہاڑ جون کے دامن میں ہے.حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد کفار مکہ کی مخالفت میں تیزی آگئی راہ چلتے ہوئے آپ پر خاک ڈال دینا اُن کی تفریح تھی ایک دفعہ آپ کی ایک بیٹی آپ کا سر دھو رہی تھیں اور اس کسمپرسی پر زار زار رورہی تھیں تو آپ نے تسلی دی فرما یا.بیٹی رونہیں اللہ تیرے باپ کی خود حفاظت کرے گا اور یہ سب تکلیفیں دور ہو جائیں گی.(طبری) ایک دفعہ آپ صحن کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے آپ سجدے کی حالت میں تھے کہ ابو جہل کے اُکسانے پر عقبہ بن ابی معیط اُٹھا اور اونٹنی کا گندلا کر آپ کی کمر پر ڈال دیا یہ غلیظ خون آلود اور بوجھل تھا.اتنا وزنی کہ آپ خود سجدے سے اٹھ نہ سکے.لاڈلی بیٹی فاطمتہ الزہرا کو علم ہوا تو بھاگی ہوئی آئیں.اور بڑی مشکل سے اپنے ابا جان کی کمر سے یہ بوجھ اُٹھایا تو آپ نے سجدے سے سر اٹھایا.( بخاری باب تزویج النبی سایتم ) حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد آپ " کا بہت وقت گھر اور بچوں کی نگہداشت میں گزرتا آپ کو دعوت الی اللہ کا کام کرنا تھا.آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی که تو خودان حالات میں میری رہنمائی فرما میرا ہادی بن جا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاسنی آپ کو خواب آیا.خواب میں آپ نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور آپ کے سامنے ایک سبز رنگ کا ریشمی رومال پیش کر کے عرض کیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے دُنیا اور آخرت میں آپ نے رومال لیکر دیکھا تو اس پر حضرت عائشہ بنت ابوبکر کی تصویر تھی.( بخاری )
شعب ابی طالب 19 اس خواب سے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رہنمائی ملی کہ آپ دوسری شادی کر لیں.اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ایک صحابیہ خولہ بنت حکیم زوجہ عثمان بن مظعون آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے.آپ نے فرمایا.کس سے کروں؟ اُس نے عرض کیا کہ ” آپ چاہیں تو کنواری لڑکی بھی موجود ہے اور بیوہ عورت بھی“ آپ نے فرمایا کون خولہ نے عرض کیا ” کنواری تو آپ کے عزیز دوست ابوبکر صدیق کی لڑکی عائشہ ہے اور بیوہ سودہ بنت زمعہ ہے.جو آپ کے خادم سکران بن عمر مرحوم کی بیوہ ہے آنحضرت صلی لا یہی تم نے فرمایا اچھا تو پھر تم ان دونوں کے متعلق بات کرو خولہ نے دونوں جگہ بات کی دونوں کے عزیزوں نے کہا کہ اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہو سکتی ہے.اس طرح شوال ! نبوی میں آنحضرت صلی ای ایم کا ان دونوں سے چار چار سو درہم مہر پر نکاح پڑھا گیا.(زرقانی،اسدالغابہ ) حضرت سودہ تو نکاح کے ساتھ ہی رخصت ہو کر آپ کے گھر شریف لے آئیں لیکن حضرت عائشہ ابھی چھوٹی تھیں اس لئے رخصت نہ مؤخر کر دیا گیا.غالبا آپ ابھی شعب ابی طالب میں ہی تھے کہ شق القمر کا مشہور معجزہ ظاہر ہوا.( سیرت خاتم النبین صفحہ ۱۶۸) شق کہتے ہیں پھٹ جانا دو حصوں میں بٹ جانا اور قمر پورے چاند کو کہتے ہیں.چاند کا پھٹ جانا ایک معجزہ تھا جو رسول کریم مالی اسلم کواللہ تعالیٰ نے عطا فر مایا.کفار مکہ نے مطالبہ کیا کہ آپ ہمیں کوئی معجزہ دکھا ئیں.آپ نے اپنی انگلی اٹھا کر چاند کی طرف اشارہ فرمایا
شعب ابی طالب 20 تب ایسے لگا کہ چاند دوٹکڑے ہو گیا ہے.مگر یہ نشان دیکھ کر بھی انہوں نے حق کو نہ مانا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے.قرآنِ کریم میں سورۃ قمر میں اس واقعہ کا ذکر ہے.اللہ پاک سب قدرت رکھتا ہے وہ چاہے تو چاند دوٹکڑے ہو سکتا ہے مگر درحقیقت چاند دوٹکڑے نہیں ہوا تھا دیکھنے والوں کو ایسا نظر آیا تھا.اس کو ایک کشفی نظارہ کہتے ہیں جس میں زیادہ لوگ شریک ہو گئے.یا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محمد صلی ا یتم کی سچائی کا ثبوت دینے کیلئے زمین پر ایسے حالات پیدا فرمائے مثلاً آتش فشاں کے پھٹنے سے بخارات کا اُٹھنا یا کسی بگولے وغیرہ کا آسمان کی طرف بلند ہونا جس سے وقتی طور پر اس طرح لگا کہ چاند دو حصوں میں بٹ گیا ہے.اس نشان سے اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں کو یہ بھی بتایا کہ اب پرانی بادشاہتیں ختم ہوگئی ہیں سرداری صرف حضرت محمد سلی یا پیام کی ہو گی مکہ میں چاند سے ایک مطلب بادشاہت بھی لیا جاتا تھا.حضرت رسول اللہ صلی ا ستم کا سفر طائف نبوت کا دسواں سال تھا.یہ دس سال حضرت نبی کریم صلی شما یہ تم نے بدنصیب مکہ والوں کو خدائے واحد کی طرف بلانے کی ہر ممکن کوشش کی چند پاک نفوس آپ کے ساتھ شامل ہو گئے مگر زیادہ تر گمراہی میں غرق رہے.وہ نہ آپ کی آواز سنتے تھے اور نہ دوسروں کو سننے دیتے تھے.ان حالات میں آپ وہ فرض پوری طرح ادا نہیں فرما سکتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سونپا تھا.اس لئے شعب ابی طالب سے اپنا قدم باہر رکھتے ہی آپ نے فیصلہ فرمایا کہ مکہ سے باہر کسی شہر میں جا کر اسلام کی تبلیغ فرمائیں اللہ تعالیٰ کی زمین بہت وسیع ہے اور آپ کو تو کل عالمین کے لئے رحمت و برکت بنا کر بھیجا گیا ہے.ابوطالب اور حضرت
شعب ابی طالب 21 خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی وفات کا دوہرا صدمہ آپ کو غمگین رکھتا.ابو طالب آپ کے بزرگ تھے اور ہر قسم کی مخالفت میں آپ کا ساتھ دیا تھا اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہ صرف سب گھر یلو ذمہ داریاں اور بچوں کی پرورش کا بارا ٹھاتی تھیں بلکہ آپ " کا حوصلہ بھی بڑھاتی تھیں.ان دو مہربان ہستیوں کے بعد آپ خود کو تنہا محسوس فرماتے.ایک دن معمول کے مطابق آپ مکہ کی گلیوں میں تبلیغ کیلئے نکلے مگر وہ عجیب دن تھا نہ کسی نے آپ سے بات کی نہ آپ کی بات سنی بلکہ کوئی نیا دکھ بھی نہ دیا اس لاتعلقی سے آپ بہت دل گرفتہ ہوئے اور مکہ چھوڑنے کے فیصلہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ کے ساتھ شوال دس نبوی کو آپ مکہ سے طائف کیلئے روانہ ہوئے.(ابن سعد) طائف مکہ سے قریباً ساٹھ میل دور جنوب مشرق کی طرف ایک سرسبز شہر ہے یہاں کے لوگ دولت کی فراوانی کی وجہ سے تکبر اور عیش پسند تھے.بہت سے بتوں کی پوجا کرتے تھے تہواروں پر شان وشوکت کا اظہار کرنا بہت پسند تھا.یہ خبر ان کو ملی تھی کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.مگر اُن کے ذہن میں نبوت کے دعویدار کا تصور کسی پرشکوہ بادشاہ کا تھا.اگر رسول کریم مالی میں یہ تم دنیاوی وجب اہتوں کے ساتھ طائف تشریف لے جاتے تو اہل طائف اپنی ظاہری شان بڑھانے کیلئے ضرور آپ کی طرف توجہ دیتے مگر آپ تو سادہ غریب مزاج انسان تھے.جو ایک کمزور کم عمر ساتھی کے ساتھ گلیوں گلیوں گھوم کر لوگوں کو روک روک کر پیغام حق دیتے تھے.ایسے شخص کو مان کر کیا لطف آتا.آپ نے طائف کے رئیس اعظم ابن عبد یا لیل سے ملاقات کر کے اسلام کی دعوت دی اُس نے تکبر اور تمسخر سے کہا اگر آپ سچے ہیں تو مجھے آپ کے ساتھ گفتگو کی مجال نہیں اور اگر جھوٹے ہیں تو گفتگو
شعب ابی طالب 22 لا حاصل ہے.( بخاری کتاب بدء الخلق ذکر الملائکہ ) اُس نے لوگوں تک پیغام حق پہنچنے سے روکنے کیلئے کوشش کی کہ آپ طائف سے واپس چلے جائیں آپ کی حوصلہ شکنی کی کہ یہاں آپ کی کوئی بات نہ سنی جائے گی.اہل طائف کو اس میں تو کوئی عزت نظر نہ آئی کہ آپ کو سچا نبی تسلیم کر لیا جائے.مگر اس بات سے عزت بڑھانے کا خیال آیا کہ آپ کی مخالفت میں سبقت حاصل کی جائے.آپ نے دس دن طائف میں قیام فرمایا.یہ قیام کیا تھا آزمائش کا شدید ترین دور تھا بد بختوں نے آپ کے اوپر کتے چھوڑے.آوارہ لڑکوں کو اُکسایا کہ جھولیوں میں پتھر بھر کر آپ کا پیچھا کرو اور مار مار کر شہر سے نکال دو یہ بدتمیز لڑ کے نہ صرف آپ کو پتھر مارتے تھے بلکہ بری بری باتیں بولتے اور مذاق اُڑاتے تھے حضرت زید آپ کو بچانے میں ناکام رہے بلکہ خود بھی زخمی ہو گئے.پتھروں کی چوٹوں سے آپ کے جسم پر کئی زخم آئے جن سے خون رس رس کر بہتا رہا ظالموں نے اس قدر مارا کہ آپ کے جوتے آپ کے خون سے بھر گئے آپ چلتے تو جوتوں سے خون چھلکتا جب آپ زخموں سے چور ہو کر بیٹھ جاتے تولڑ کے بازو تھام کر کھڑا کر دیتے جب آپ چلنے لگتے تو پھر پتھر برسانے لگتے وہ بے دردلوگ تو آپ کو اسی بُری طرح مار رہے تھے مگر آپ کا دل ان کے لئے پریشان تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے مرسل کو اس ایذا دہی پر اس بستی پر کوئی عذاب آجائے.آوارہ لڑکوں نے نہ صرف آپ کو شہر سے نکال دیا بلکہ کئی میل دور تک وہ یہ تماشا دیکھنے کیلئے آپ کا پیچھا کرتے رہے اور مار پیٹ کا عمل جاری رکھا.احادیث میں لکھا ہے کہ اتنی شدید تکلیف میں پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی "جبار اور قہار خدا نے حکم دیا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو ارد گرد کے پہاڑوں کو اس بستی پر گرا کر صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے مگر رحمت مجسم نے فرمایا.
شعب ابی طالب 23 نہیں ایسا بالکل نہیں کرنا.اگر چہ یہ لوگ اپنی کم نصیبی کی وجہ سے ایمان نہیں لائے تاہم مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی نسلوں میں ایسے لوگ ضرور پیدا ہوں گے جو ایمان لائیں گے“.( بخاری کتاب بدء الخلق ) پھر آپ نے دعا کی اللهم اهد قومی فانهم لا يعلمون اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ جانتے نہیں ( کہ میری بات سے انکار کر کے وہ کس عذاب کو دعوت دے رہے ہیں ) آں ترحمها که خلق از دے بدید کس دیده در جہاں از مادری آپ کی رحمت و ہمدردی کے نظارے جو مخلوق خدا نے دیکھے ایسے لطف وکرم کے نظارے کسی نے دنیا میں اپنی ماں میں بھی نہ دیکھے ہوں گے.طائف شہر کے لوگ تھک ہار کر واپس جاچکے تھے آپ کو انگوروں کے باغ میں درخت کا سایہ میسر آیا وہیں رُک کر اللہ تعالیٰ کے حضور بڑی عاجزی سے دعا کی.اے میرے رب ! میں تیرے ہی پاس اپنی کمزوریوں اور اپنے سامانوں کی کمی اور لوگوں کی نظروں میں اپنے حقیر ہونے کی شکایت کرتا ہوں تو غریبوں اور کمزوروں کا خدا ہے اور تو میرا بھی خدا ہے.تو مجھے کس کے ہاتھوں میں چھوڑے گا کیا اجنبیوں کے ہاتھوں میں جو مجھے ادھر ادھر دھکیلتے پھریں گے یا اُس دشمن کے ہاتھ میں جو میرے وطن میں مجھ پر غالب ہے اگر تیرا غضب مجھ پر نہیں تو مجھے ان دشمنوں کی کوئی پرواہ نہیں.تیرا رحم میرے ساتھ ہے اور تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے.میں تیرے چہرے کی روشنی میں پناہ چاہتا
شعب ابی طالب 24 ہوں.یہ تیرا ہی کام ہے کہ تو تاریکی کو دنیا سے بھگا دے اور اس دنیا اور انگلی دنیا میں امن بخشے تیرا غصہ اور تیری غیرت مجھ پر نہ بھڑکیں.تو اگر ناراض بھی ہوتا ہے تو اس لئے کہ پھر خوشی کا اظہار کرے اور تیرے سوا کوئی حقیقی طاقت اور کوئی حقیقی پناہ کی جگہ نہیں.( ترجمه از دیباچه تفسیر القرآن صفحه ۱۲۸) آپ ایک درخت کے نیچے زخموں اور تھکان سے چورلوگوں کے ظلموں سے دل برداشتہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا میں مصروف تھے کہ آپ پر عتبہ اور شیبہ کی نظر پڑی جو آپ کے ہم وطن تھے اور کچھ رشتہ داری بھی تھی.اسی ناتے اُنکے دل میں آپ کے لئے کچھ ہمدردی پیدا ہوئی ایک ٹرے میں کچھ انگور رکھ کے اپنے عیسائی نوکر عداس کے ہاتھ آپ کو بھجوائے آپ نے قبول فرمائے انگور توڑا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کہ کر منہ میں رکھا.عداس اللہ اور رحمن ورحیم ناموں سے چونکا.آپ اُس سے باتیں کرنے لگے.تم کہاں کے رہنے والے ہو اور کس مذہب کے پابند ہو؟ اُس نے کہا : میں نینوا کا رہنے والا ہوں اور میرا مذہب عیسائیت ہے.آپ نے فرمایا: کیا وہی نینوا جو خدا کے صالح بندے یونس بن متی کا مسکن تھا.اُس نے کہا : جی ہاں مگر آپ کو یونس کا حال کیسے معلوم ہوا؟ آپ نے فرمایا: وہ میرا بھائی تھا کیونکہ وہ بھی اللہ کا نبی تھا اور میں بھی اللہ کا نبی ہوں.پھر آپ نے اُسے اسلام کی تبلیغ فرمائی جس کا اس پر بہت اثر ہوا اور اس نے آگے بڑھ کر جوشِ اخلاص میں آپ کے ہاتھ چوم لئے.اس نظارے کو دور سے کھڑے کھڑے عتبہ اور شیبہ نے بھی دیکھ لیا.چنانچہ جب عداس ان کے پاس واپس گیا تو انہوں نے کہا عداس یہ تجھے کیا ہوا تھا کہ اس شخص کے ہاتھ چومنے لگا یہ شخص تو تیرے دین کو خراب
شعب ابی طالب 25 کر دے گا حالانکہ تیرا دین اس کے دین سے بہتر ہے.(ابن ہشام وطبری وسیرۃ خاتم النبیین صفحه ۱۸۳) لیکن انہیں کیا خبر کہ عداس کو کون سی دولت ہا تھ لگی تھی اور عداس کی شکل میں ایک دین حق کی تائید کرنے والا پا کر رسول اللہ کس قدر خوش ہوئے ہوں گے.تھوڑی دیر اس باغ میں آرام فرمانے کے بعد آپ وہاں سے روانہ ہو کر نخلہ پہنچے جو مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ہے یہاں آپ نے کچھ دن قیام فرما یا پھر مکہ کی طرف روانہ ہوئے کوہ حرا تک پہنچے تو مکہ میں داخلے کا سوال در پیش تھا.مکہ قانون کے مطابق مکہ چھوڑ کر طائف جانے سے آپ مکہ کے شہری حقوق سے دستبردار ہو گئے تھے.مکہ چھوڑ دینے سے آپ مکہ کے باشندے نہیں رہے تھے اب مکہ والوں کا اختیار تھا کہ وہ آپ کو مکہ میں آنے دیتے یا نہ آنے دیتے اس لئے مکہ میں آنے کیلئے ضروری تھا کہ وہاں کوئی رئیس آپ کو پناہ دے آپ نے حضرت زید بن حارثہ کو ملکہ کے ایک رئیس مطعم بن عدی کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ اُسے کہو کہ محمد ( این این ) تم سے پناہ مانگتا ہے اور وہ مکہ کے دروازے پر کھڑا ہے اگر تم پناہ دو گے تو وہ شہر میں داخل ہو سکے گا ور نہ یہیں سے لوٹ جائے گا.مطعم باوجود شدید دشمن ہونے کے ایک شریف الطبع انسان تھا اُس نے کہا ” مکہ کی اس سے زیادہ بد بختی کیا ہوگی کہ محمد (صلی اینم ) جیسا آدمی اُسے چھوڑ کر باہر چلا جائے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا اور میرے ساتوں بیٹے جائیں گے لیکن محمد (سال شما این ) مکہ میں ہی رہے گا.پھر اُس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور انہیں کہا ” میرے بیٹو! محمد (سالم) نے مجھ سے پناہ مانگی ہے.اور وہ اس وقت شہر کے دروازے پر کھڑا ہے میں وہاں چلتا ہوں تم اپنی
شعب ابی طالب 26 تلواریں سونت لو اور میرے ساتھ چلو اور شہر میں اعلان کرتے جاؤ کہ مطعم نے محمد لیم ) کو پناہ دی ہے اگر کسی کی جرات ہو تو وہ ہم سے لڑے.اگر محد کو کوئی معمولی زخم بھی آیا اور تم میں سے کوئی زندہ بچ رہا تو میں زندگی بھر اس کی شکل نہیں دیکھوں گا“ چنانچہ وہ شہر کے دروازے پر گیا.وہ رئیس تھا اور شہر والوں پر اس کا رعب تھا.پھر اُس کے ساتوں بیٹے تلواریں سونتے ہوئے اُس کے ساتھ تھے اس لئے کسی شخص کو اُن کی مخالفت کی جرات نہ ہوئی اور اپنی حفاظت میں محمد ( سال شما پیام ) کو آپ کے گھر لے آئے جب آپ اپنے مکان میں داخل ہوئے تو مطعم بن عدی نے آپ سے دریافت کیا کہ آیا اُسے اپنے گھر جانے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا آپ کا شکریہ ،اپنے گھر جاسکتے ہیں.الازهار لذوات الخمار صفحه ۱۹۴) طائف کا سفر آنحضرت صلی ایتم کی زندگی کا ایک خاص واقعہ ہے اس سفر کے حالات سے آپ کی ارفع شان اور بلند ہمتی اور بے نظیر صبر و استقلال کا پتہ چلتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے آنحضرت صلی ایام سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو کبھی جنگ اُحد والے دن سے بھی زیادہ تکلیف پہنچی ہے؟ آپ نے فرمایا عائشہ تیری قوم کی طرف سے مجھے بڑی بڑی سخت گھڑیاں دیکھنی پڑی ہیں“.پھر آپ نے سفر طائف کے حالات سنائے اور فر ما یا اُس سفر سے واپسی پر میرے پاس پہاڑوں کا فرشتہ آیا اور کہنے لگا کہ مجھے خدا نے آپ کے پاس بھیجا ہے تا اگر ارشاد ہو تو
شعب ابی طالب 27 میں یہ پہلو کے دونوں پہاڑ ان لوگوں پر پیوست کر کے ان کا خاتمہ کر دوں آپ نے فرمایا نہیں نہیں مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں میں سے وہ لوگ پیدا کر دے گا جو خدائے واحد کی پرستش کریں گئے“.(سیرۃ خاتم النبین صفحہ ۱۸۳) سرولیم میور نے اپنی کتاب Life of Mohammad میں لکھا: حمد ملا لیا الیتیم کے سفر طائف میں عظمت اور شجاعت کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ایک تنہا شخص جسے اُس کی قوم نے حقارت کی نظر سے دیکھا اور رڈ کر دیا وہ خدا کی راہ میں دلیری کے ساتھ اپنے شہر سے نکلتا ہے اور جس طرح یونس بن متی نینوا کو گیا اسی طرح وہ ایک بت پرست شہر میں جا کر اُن کو توحید کی طرف بلاتا ہے اور تو بہ کا وعظ کرتا ہے اس واقعہ سے یقینا اس بات پر بہت روشنی پڑتی ہے کہ محمد (سالم) کو اپنے صدق دعویٰ پر کس درجه ایمان تھا“ (سیرۃ خاتم النبین صفحه ۱۸۴) اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے تبلیغ اسلام کے نئے دروازے کھولے اور ہجرت کے لئے تیار کرنا شروع کیا.۲ ۱۷ ربیع الاول ! نبوی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک کشف دکھایا.آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد اپنی چچا زاد بہن اُم ہانی جو ابو طالب کی بیٹی تھیں کے گھر تشریف فرما تھے.آپ کو ایک کشف میں بتایا گیا کہ آپ یروشلم گئے ہیں اور نبیوں نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے.یروشلم کی تعبیر مدینہ تھا جو آئندہ کیلئے خدائے واحد کی عبادت کا مرکز بنے والا تھا اور آپ کے پیچھے نبیوں کے نماز پڑھنے کی تعبیر یہ تھی کہ مختلف مذاہب کے لوگ آپ کے مذہب میں داخل ہوں گے اور آپ کا مذہب عالمگیر ہو جائے گا.یہ وقت
شعب ابی طالب 28 مسلمانوں کیلئے نہایت ہی سخت تھا اور تکالیف انتہا کو پہنچ چکی تھیں.اس کشف کا سنانا مکہ الوں کیلئے جنسی اور استہزاء کا نیا موجب ہو گیا اور انہوں نے ہر مجلس میں آپ کے اس کشف پر جنسی اُڑانی شروع کی مگر کون جانتا تھا کہ نئے یروشلم کی تعمیر شروع تھی.مشرق و مغرب کی قومیں کان دھرے خدا کے آخری نبی کی آواز سننے کے لئے متوجہ تھیں“.نبوت کا پیغام ملے دس سال ہو چکے تھے اہل مکہ اور اہل طائف نے دردناک مظالم کے ساتھ آپ کی طرف سے تبلیغ اسلام کی کوشش میں رکاوٹیں ڈالیں.آپ نے مکہ کے ارد گرد کے قبائل کی طرف توجہ مبذول فرمائی.حج کے موقع پر اور عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز کے میلوں میں آپ جہاں چار آدمی جمع ہوتے پیغام حق دینا شروع کر دیتے.قریش کے لوگ ہر ممکن روک بنتے.آپ کا چا ابولہب تو اتنا بے عقل تھا کہ اونچی اونچی بولنا شروع کر دیتا تا کہ آپ کی آواز شور میں دب جائے.وہ کہتا لوگو اس کی بات نہ سنو یہ اپنے دین سے پھر گیا ہے اور تمہارا دین بھی بگاڑ نا چاہتا ہے لوگ جب دیکھتے کہ آپ کے رشتے دار ہی جھٹلا رہے ہیں تو وہ کہتے کہ یہ لوگ ہم سے زیادہ جانتے ہیں اس لئے ٹھیک ہی کہتے ہوں گے.ابو جہل کی کوشش کے متعلق ایک صحابی کہتے ہیں.میں نے آپ کو ذوالحجاز میں دیکھا کہ آپ لوگوں کے مجمعوں میں گھس کر تو حید کا وعظ فرماتے پھر تے اُس وقت ابو جہل آپ کے پیچھے پیچھے تھا اور آپ پر خاک پھینکتا جاتا تھا اور کہتا تھا لوگو اس کے فریب میں نہ آنا یہ کہتا ہے کہ تم کولات وعربی کی پرستش سے پھیر دے.(مسند امام احمد بن حنبل جلد ۴.سیرت خاتم النبین ۲۱۸،۲۱۷) آنحضرت سان اسلام کا دورہ قبائل بھی عجیب منظر پیش کرتا ہے.ہر دو جہان کا بادشاہ جس کا نام لینے پر بعد کے مسلمان شہنشاہ ، جن کے نام سے دنیا کا نپتی تھی ، اپنے تختوں سے
شعب ابی طالب 29 نیچے اتر آتے تھے قبائل عرب کے بدوی رئیسوں کے خیموں میں جاتا ہے اور ایک ایک رئیس کے خیمہ پر دستک دے کر خالق کو نین کا پیغام پیش کرتا ہے اور پیچھے پڑپڑ کر استدعا کرتا ہے کہ یہ تمہارے بھلے کی چیز ہے اسے لے لومگر ہر دروازہ اس کیلئے بند کیا جاتا ہے اور ہر خیمے سے اس کو یہ آواز آتی ہے کہ جاؤ یہاں تمہارا کوئی نہیں اور خدا کا یہ بندہ اپنے مقدس مال کی گٹھڑی اُٹھا کر ا گلے خیمے کا راستہ لیتا ہے.گویا کہ (سیرت خاتم النبین صفحه ۲۱۸) ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار رجب یہ نبوی میں ایک دن معمول کے مطابق آپ حاجیوں میں تبلیغ اسلام کی کوشش میں تھے اور مکہ والے آگے پیچھے آپ کا مذاق اُڑاتے پھر رہے تھے.آپ منی کی وادی میں تھے کہ مدینہ کے کچھ آدمی آپ کو نظر آئے یہ اجنبی تھے آپ نے فورا اُن سے مخاطب ہوکر پوچھا.آپ کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا خزرج قبیلہ کے ساتھ آپ نے کہا وہی قبیلہ جو یہودیوں کا حلیف ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں آپ نے فرمایا : کیا آپ لوگ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری باتیں سنیں گے اُن لوگوں نے
شعب ابی طالب 30 چونکہ آپ کا ذکر سنا ہوا تھا اور دل میں آپ کے دعوی سے کچھ دلچپسی تھی انہوں نے آپ کی بات مان لی اور آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی باتیں سنے لگ گئے.آپ نے انہیں بتایا کہ خدا کی بادشاہت قریب آرہی ہے بت اب دنیا سے مٹادئے جائیں گے.تو حید کو دنیا میں قائم کر دیا جائے گا نیکی اور تقویٰ پھر دنیا میں قائم ہو جائیں گے کیا مدینہ کے لوگ اس عظیم الشان نعمت کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں؟ انہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور متاثر ہوئے.اور کہا: آپ کی تعلیم کو ہم مقبول کرتے ہیں.(استفاده دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۱۳۰) ابتدائی طور پر چھ افراد نے بیعت کی اور مدینہ چلے گئے.مدینہ پہلے یثرب کہلاتا تھا.ایک سال بعد حج پر دوبارہ ان احباب سے ملاقات متوقع تھی آپ سوچتے رہے کہ دیکھیں یثرب میں اسلام کے پیغام پر لوگ کیسا رد عمل دکھاتے ہیں.مکہ اور طائف والے تو ایک طرح حق بات سننے سے انکار کر ہی چکے تھے اب یثرب سے کیا خبر آتی ہے.ان دنوں کے حالات کے متعلق سرولیم میور (ایک انگریز جس نے بانی اسلام اور اسلام کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے ) نے لکھا ہے.ان ایام میں محمد (صلی شما یہ تم اپنی قوم کے سامنے اس طرح سینہ سپر تھے کہ انہیں بعض اوقات حرکت کی تاب نہیں ہوتی تھی اپنی بالآخر فتح کے یقین سے معمور مگر بظاہر بے بس اور بے یار و مددگار وہ اور اُس کا چھوٹا سا گروہ اُس زمانے میں گویا ایک شیر کے منہ میں تھے مگر اُس خدا کی نصرت کے وعدوں پر کامل اعتماد رکھتے ہوئے جس نے اُسے رسول بنا کر بھیجا تھا.محمد سا ہی ہم ایک عزم کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑا تھا جسے کوئی چیز اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی تھی اگلے سال ۱۲ نبوی حج کا موقع آیا جس کا آپ نے سال بھر انتظار کیا تھا تو آپ
شعب ابی طالب 31 بڑے شوق سے منی تشریف لے گئے عقبہ کے مقام پر کھڑے ہو کر بڑی امید سے ادھر اُدھر نظر دوڑانے لگے صرف آپ ہی یثرب کے مسلمانوں کے منتظر نہیں تھے وہ بھی بڑی محبت سے آپ کا انتظار کر رہے تھے مگر اب وہ بارہ افراد تھے.جن کا تعلق اوس اور خزرج دونوں قبیلوں سے تھا یہ احباب دل سے آپ پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی دید کے مشتاق تھے آپ نے مٹی میں ان سے بیعت لی انہوں نے کہا کہ وہ سوائے خدا کے اور کسی کی پرستش نہیں کریں گے وہ چوری نہیں کریں گے اور بدکاری نہیں کریں گے وہ اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے وہ ایک دوسرے کے او پر جھوٹے الزام نہیں لگائیں گے نہ وہ خدا کے نبی کی دوسری نیک تعلیمات میں نافرمانی کریں گئے.بیعت لینے کے بعد آپ نے نصیحت فرمائی اگر تم استقامت کے ساتھ اس عہد پر قائم رہے تو تمہیں جنت نصیب ہوگی اور اگر کمزوری دکھائی تو تمہارا معاملہ خدا کے سپر د ہو گا.( ابن ہشام جز واوّل جلد ثانی صفحہ ۲۹۶) یہ بیعت بیعت عقبہ اولی کہلاتی ہے جو یا نبوی میں ہوئی.یہ لوگ واپس جا کر اپنی بگڑی ہوئی قوم میں اسلام کا پیغام زیادہ زور شور سے دینے لگے بتوں سے نفرت کی عام رو پھیل گئی.سب انسان برابر ہیں اور صرف خدا کے آگے جھکنا ہے.یہ بات انہیں بہت پسند تھی.انہیں علم تھا کہ مدینہ میں اسلام سکھنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ نئے مسلمان ہونے والے سب کی تربیت نہ کر سکیں گے اس لئے اُن کی درخواست پر حضرت مصعب بن عمیر کو پہلے مبلغ اسلام کی حیثیت سے ساتھ بھجوایا.حضرت
32 کا گفتگو کا انداز بہت متاثر کرنے والا تھا دنوں میں مدینہ کے لوگ گروہ در گروہ آکر شعب ابی طالب صعب اسلام قبول کرنے لگے.(ابن ہشام جز واوّل جلد ثانی صفحه ۲۹۶) اگلے سال سلا نبوی کو ماہِ ذی الحجہ میں حج کے موقع پر اوس اور خزرج قبائل کے کئی سو آدمی مکہ آئے اُن میں ستر آدمی ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے یا اب مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت سیلانی اپی تم سے ملنے کیلئے مکہ آئے تھے.حضرت مصعب بن عمیر بھی اُن کے ساتھ تھے جو ایک سال کے بعد مکہ آئے تھے اُن کی والدہ حیات تھیں بیٹے کو کہلا بھیجا کہ مجھے آکر ملو مصعب نے جواب دیا میں ابھی رسول اللہ سے نہیں ملا آپ سے مل کر پھر تمہارے پاس آؤں گا“ چنانچہ وہ آنحضرت سلیم کے پاس حاضر ہوئے آپ سے مل کر اور ضروری حالات عرض کر کے پھر ا پنی ماں کے پاس گئے.آنحضرت صلی ایم کو مصعب نے انصار مدینہ کے متعلق مفصل بتایا تھا.اُن میں سے بعض لوگ الگ الگ آکر آپ سے ملے بھی تھے مگر آپ بعض وجوہات سے اُن سے اجتماعی ملاقات کرنا چاہتے تھے.کچھ عرصہ سے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا پیغام مل رہا تھا اور آپ کو اندازہ ہور ہا تھا کہ ہجرت مدینہ کی طرف ہوگی اس لئے آپ چاہتے تھے کہ اہل مدینہ کے مسلمانوں سے اُن کی رائے پوچھ لی جائے کہ وہ اتنی بڑی ذمہ داری اُٹھانے کیلئے تیار ہیں آپ کے ارشاد کے مطابق بڑی راز داری کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں مسلمان ۱۲ رذی الحجہ کو آدھی رات کے بعد پھر وادی عقبہ میں جمع ہوئے آپ بھی اپنے چا عباس کے ساتھ تشریف لائے اس دفعہ مدینہ کے مسلمانوں کی تعداد سے تھی اُن میں ۶۲ خزرج قبیلہ کے تھے اور گیارہ اوس قبیلہ کے ان میں دو خواتین بھی تھیں جن میں
شعب ابی طالب 33 سے ایک کا نام ام عمارہ تھا..........جب سب بیٹھ گئے تو حضور کے چچا حضرت عباس نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا.اے گروہ خزرج ہم نے محمد ( سال شما پی نہم) کی حفاظت کی اب ان کا ارادہ تمہارے ہاں آنے کا ہے اگر تم اس امانت کی حفاظت کرنا چاہتے ہو تو اس راہ کے خطرات کو سوچ لو.اگر تم نے کمزوری دکھانی ہے تو اس بوجھ کو نہ اُٹھاؤ.میٹرب سے آنے والے قافلہ کے سردار البراء اور اہل قافلہ نے بڑے غور سے حضرت عباس کی باتوں کو سنا اور بہت کچھ سمجھ گئے.معاملہ کی اہمیت محسوس کرتے ہوئے البراء نے خواہش ظاہر کی کہ آپ خود کچھ ارشاد فرمائیں.آنحضور نے بڑے دلنشین انداز میں قرآن پاک کی تلاوت کے بعد کچھ نصیحتیں فرمائیں اور فرمایا ، کیا تم اس طرح میری حفاظت کرو گے جس طرح اپنے اہل وعیال کی کرتے ہو، براء نے آپ کا ہاتھ تھام لیا اور جوش و جذبے سے عرض کی اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے ہم اپنی پوری قوت سے آپ کا دفاع کریں گے.یارسول اللہ ! ہماری بیعت لیجئے ہم جنگی سپوت ہیں ہم نے شجاعت ورثہ میں پائی ہے.“ ابولہیثم بن تیہان انصاری نے عرض کی یا رسول اللہ اگر ہم نے ایسا کر لیا اور خدا تعالیٰ نے آپ کو غالب کر دیا تو کیا آپ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف تو نہیں چلے جائیں گے.آپ مسکرا دیئے اور فرمایا
شعب ابی طالب 34 نہیں تمہارا اور میرا خون اکٹھا بہے گا تمہاری ذمہ داری میری ذمہ داری ہو گی تم میرے ہو گے اور میں تمہارا جس سے تمہاری لڑائی ہوگی میری بھی اُس سے جنگ ہوگی اور جس سے تمہاری صلح ہوگی میری بھی اُس سے صلح ہوگی.تاریخ میں یہ بھی آتا ہے کہ انصار نے عرض کی.یارسول اللہ اگر اجازت ہو تو کل ہی تلوار سونت کر مکہ والوں پر ٹوٹ پڑیں لیکن حضور نے فرمایا مجھےلڑنے کی اجازت نہیں مجھے دعا اور صبر کا ارشاد ہے“.اس موقع پر ایک انصاری نے کہا، اسے خزرج کے گروہ جانتے ہو تم اس شخص کی کس بات پر بیعت کر رہے ہو تم ہر شخص سے جنگ کی ٹھان رہے ہو.اگر جان ومال فدا کر سکتے ہو تو آگے بڑھوا گر نہیں تو دنیا و آخرت میں رسوائی ہوگی.اگر جائیداد قربان کرنے کیلئے تیار ہو تو دنیا و آخرت میں تمہارے لئے بھلائی ہی بھلائی ہے.اس پر عباس بن عبادہ انصاری نے کہا ” یارسول اللہ اگر ہم نے وفاداری کی تو ؟ رسول اللہ نے فرمایا تو تمہارے لئے جنت کا وعدہ کرتا ہوں انصاری نے کہا ہاتھ بڑھائیے یا رسول اللہ اور مدینے سے آنے والے لوگوں نے اس رات حضور" کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر وفاداری کا عہد باندھا.(ابن ہشام جز واول ، جلد ثانی صفحات ۳۰۳ تا ۳۰۵) یہ بیعت بیعت عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے.✰✰✰ اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وبارك وسلم انك حميد مجيد