Sharh-ul-Qaseeda

Sharh-ul-Qaseeda

شرح القصیدہ

یا عین فیض اللہ و العرفان
Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف لطیف آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ میں ایک قصیدہ حضرت نبی کریم ﷺ کی مدح میں 70 اشعار پر مشتمل درج فرمایا ہے جس کے اعلیٰ معانی اور  عمدہ ، دلچسپ ، عجیب و غریب اور فصیح الفاظ رب کریم کے عطا کردہ تھے، اس قصیدہ کی قبولیت اور مقبولیت سے زمانہ آگاہ ہے۔ مبلغ بلاد عربیہ مولانا جلال الدین شمس صاحب نے ستمبر 1956ء میں اس قصیدہ کے مشکل الفاظ کے معانی، اردو ترجمہ اور اشعار کی شرح واقعات اور اقتباسات کتب حضر ت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے اخذ کرکے مرتب کی جو آپ کی اس قصیدہ انیقہ سے محبت اور وارفتگی کا بھی ثبوت ہے نیز اس بے مثل کلام کے نہاں در نہاں معانی اور مطالب کی جھلکیاں بھی پیش کر رہا ہے۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن قریبا 200 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں پروف ، پیشکش اور حوالہ جات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

شرح القصيدة يا عين فيض الله والعرفان از قلم جلال الدين شمس مبلغ بلاد عربیه و غربیه

Page 2

شرح القصيده يَا عَيْنٍ فَيْضِ اللَّهِ وَ الْعِرْفَانِ از قلم جلال الدین شمس سابق مبلغ بلادِ عربیه و غربيه

Page 3

شرح القصيده بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ تمهيد دو روایتیں یہ قصیدہ جس کی شرح لکھنے کا میں نے ارادہ کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصے کے آخر میں مندرج ہے.جب میں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مَتَظِلُّهُ الْعَالِی سے اس قصیدہ کی شرح لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپ نے اس کے متعلق مجھے مندرجہ ذیل روایت سنائی:.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین رضی اللہ عنہ بیان فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قصیده " يَا عَيْنَ فَيْضِ اللَّهِ وَ الْعِرْفَانِ“ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اس قصیدہ کو حفظ کرے گا اس کے حافظہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت دی جائے گی اسی قصیدہ کے متعلق ایک اور روایت مرحوم و مغفور حضرت پیر سراج الحق رضی اللہ عنہ کی ہے کہ:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب یہ قصیدہ تصنیف فرما چکے تو آپ

Page 4

شرح القصيده کا چہرہ مبارک خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا کہ یہ قصیدہ جناب الہی میں قبول ہو گیا اور خدا نے مجھ سے فرمایا کہ جو اس قصیدہ کو حفظ کرے گا اور ہمیشہ پڑھے گا میں اس کے دل میں اپنی اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دوں گا اور اپنا قرب عطا کروں گا.“ میرے دل میں اس مبارک قصیدہ کی شرح لکھنے کا شوق تو اب سے تقریباً تیں سال پہلے پیدا ہوا تھا لیکن میں اس طویل عرصہ میں اپنے اس شوق کو پورا کرنے کی ابتدا بھی نہ کر سکا.گزشتہ سال ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ارادہ کیا اور مشکل الفاظ کے معانی بھی نوٹ کئے لیکن شرح شروع کرنے کی نوبت پھر بھی نہ آئی.اس سال ماہ فروری میں بعارضہ پلورسی اور ذیا بیطس بیمار ہو گیا اور سوا دو مہینے تک میو ہسپتال لاہور میں زیر علاج رہ کر طبی مشورہ کے مطابق موسم گرما گزارنے کے لئے کوئٹہ میں آگیا.یہاں میں نے آج ( ۲۹ جون ۱۹۵۶ء مطابق ۱۹ / ذیقعده ۱۳۷۵ھ بروز جمعۃ المبارک دورکعت نفل اور نماز عصر ادا کرنے کے بعد اپنے آقا ومولیٰ سید المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ستر مرتبہ درود پڑھ کر اس قصیدہ کی شرح لکھنے کی نیت سے یہ الفاظ بطور تمہید سپر قلم کئے ہیں اور یہ عزم کیا ہے کہ اس قصیدہ انیقہ کی شرح لکھنے سے پہلے دو رکعت نفل اور ستر مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج لیا کروں.میں اللہ تعالیٰ سے نہایت عجز والحاح سے دعا کرتا ہوں کہ اے مولیٰ ! جس طرح تو نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں قصیدہ لکھنے پر حضرت علامہ محمد البوصیری رحمتہ اللہ علیہ کو ایک لمبی بیماری سے شفا عطا فرمائی تھی اسی طرح اس

Page 5

شرح القصيده عاجز کو بھی اس مبارک قصیدہ کی شرح لکھنے پر جو تیرے پیارے نبی سیدنا وشفیعنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت میں حضور کے ایک عاشق صادق نے لکھا تھا لمبی بیماری سے کامل شفا بخش اور خدمت اسلام کی زیادہ سے زیادہ تو فیق عطا فرما کہ حقیقی شفا اور کام کی توفیق بخشنا تیرے ہاں تیرے ہی ہاتھ میں ہے.اللهم آمین.اب ذیل میں پہلے پورا قصیدہ مع ترجمہ لکھا جاتا ہے پھر اس کی شرح.وَ مَا تَوْفِيقِى إِلَّا بِاللهِ الْعَلِي الْعَظِيمِ.خاکسار جلال الدین شمس کوٹھی مکرم جناب شیخ کریم بخش صاحب چھاؤنی کوئٹہ ) نوٹ: اس شرح میں جہاں جہاں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں سے اپنے الفاظ میں ملخص پیش کیا ہے وہاں حضور کی کتاب کا حوالہ نہیں دیا.مگر جہاں پوری عبارت نقل کی ہے وہاں حوالہ دے دیا ہے.تاریخی واقعات زیادہ تر میں نے حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی کتاب ”نبیوں کا سردار سے لئے ہیں.مشکل الفاظ کے معانی لکھتے وقت جہاں میں نے لغت کی کتاب کا نام نہیں لکھا وہ سب ”منجد" سے ماخوذ ہیں.شمس

Page 6

شرح القصيده القصيدة عنوان بالا کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قصیدہ رقم فرمانے سے پہلے مندرجہ ذیل عبارت لکھی ہے :." هَذِهِ الْقَصِيْدَةُ آنِيَقَةُ ، رَشِيْقَةٌ مَمْلُوةٌ مِّنَ اللَّطَائِفِ الْآدَبِيَّةِ وَ الْفَرَائِدِ الْعَرَبِيَّةِ فِي مَدْحِ سَيْدِ الثَّقَلَيْنِ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدٍ الَّذِي وَصَفَهُ اللهُ فِي الْكِتَابِ الْمُبِينِ اللَّهُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ عَلَيْهِ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ وَلَيْسَتْ هَذِهِ مِنْ فَرِيحَتى " الْجَامِدَةِ * وَ فِطْنَتِي * الْخَامِدَ ةِ - وَمَا اے عمدہ.پسندیدہ سے رشيق القيّ - جس کا قد نہایت عمدہ اور لطیف ہو اور ہلکا پھلکا ہو.الرشيقُ مِنَ اللفظ أو الخط: الظريف.یعنی جب لفظ یا خط کے لئے ریشیق کا لفظ بولا جائے تو مراد خوبی اور عمدگی ہوتی ہے.سے الْفَرَائِدُ الفرید کی جمع ہے جس کے معنے یکتا اور بے مثل کے ہیں.نیز موتی اور نفیس جو ہر کو بھی کہتے ہیں.الفَرِيدَةُ واحد مؤنث ہے جس کے معنے نفیس جوہر کے ہیں.اس کی جمع بھی القرائد ہے.سے الْقَرِيحَةُ - طبیعت ، شاعر اور کاتب کی قريحة سے مراد عمدہ نظم ونث لکھنے کا ملکہ ہے اس کی جمع قرائج ہے.لے جامِدَةٌ.خشک، غیر متحرک.کہتے ہیں جَمَدَتِ اللَّهُ آئی يَبِسَت یعنی خون خشک ہو گیا.اور جمدَ الْمَاءُ : قام یعنی پانی جم گیا اور ایک جگہ ٹھہر گیا ت الفظنة فہم، ذہانت و طباعی، دانائی عقلمندی.اس کی جمع فطن ہے.کے الخامِدَةُ - خَمَدَتِ النَّارُ اس وقت کہتے ہیں جب آگ میں شعلہ نہ ہے لیکن انگارہ بھی بجھانہ و عمدت الحملی اس وقت کہتے ہیں جب بخارکی تیزی اور جوش ٹھنڈا پڑ جائے.

Page 7

شرح القصيده لے كَانَتْ رَوِيَّتِي النَّاضِبَةُ " ضَلِيْعَ هَذَا الْمِضْمَارِ ".وَمَنْبَعَ تِلْكَ الْأَسْرَارِ بَلْ كُلَّمَا قُلْتُ فَهُوَ مِن رَّبِّي الَّذِي هُوَ قَرِيْنِي وَ مُؤْيْدِيَ الَّذِي هُوَ مَعِيَ فِي كُلِّ حِينِي الَّذِي يُطْعِمُنِي ويَسْقِيْنِي وَ إِذَا ضَلَلْتُ فَهُوَ يَهْدِيْنِي وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِي مَا كَسَبْتُ شَيئًا مِنْ مُلَحِ الْآدَبِ وَ توَادِرِ هِ وَلَكِن جَعَلْنِي اللهُ غَالِباً عَلَى قَادِرِهِ.وَهَذِهِ آيَةٌ مِّنْ رَّبِّي لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ.وَ إِنِّي أَظْهَرْتُهَا وَ بَيَّنُهَا لَعَلَّى أَجْزِى جَزَاءَ الشَّاكِرِينَ.- وَلَا أَلْحَقُ بِالَّذِينَ لَا يَشْكُرُونَ 66 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۰ ) ترجمہ.یہ ایک عمدہ اور لطیف قصیدہ ہے جو ادبی لطائف اور عربی زبان کے نفیس جواہر ریزوں سے پر ہے اور میرے آقا اور سردار دو جہان حضرت خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں لکھا گیا ہے جن کی تعریف اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین میں بیان فرمائی ہے اے اللہ! ان پر قیامت تک تیری رحمت اور سلامتی نازل ہو.اور یہ قصیدہ میری رُکی ہوئی طبیعت اور کبھی ہوئی ذہانت و فطانت کا رہین منت نہیں اور نہ میرا خشک ملکہ غور و خوض ل الرَّويَّةُ الروٹی کی مؤنث ہے.باتوں میں غور و خوض کرنے کی قوت سے النَّاضِب خشک غَدِير ناب - وہ تالاب جس میں پانی نہ رہے.اس کی جمع نُصب ہے.سے الضَّلِيعُ.قوی مضبوط پسلیوں والا.اس کی جمع ضلع ہے.سہ المضمار.گھوڑ دوڑ کے لئے کھلی وسیع جگہ.وہ مقام جہاں گھوڑے سدھائے جاتے ہیں.میدان.ه الملح - عمدہ اور لذیز باتیں.اس کی واحد ملعةٌ ہے.1 النَّوَادِرُ.اس کا واحد نادر اور نَادِرَةٌ ہے.النَّادِرُ مِنَ الْكَلِمِ : کمیاب کلمات جو شاذ اور خلاف قیاس ہوں.توادِرُ الْكَلَام سے مراد وہ عجیب وغریب کلام ہے جو صیح ہو اور اپنے اندر جذت رکھے.کہتے ہیں هُوَ نَادِرَةُ الزَّمَانِ آنی وَحِيْدُ عَصْرِہ.یعنی وہ یکتائے روزگار ہے.

Page 8

شرح القصيده اس میدان کا مرد اور ان اسرار کا منبع ہے.بلکہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ میرے رب کی طرف سے ہے جو میرا رفیق ہے.اور ایسا مؤید ہے جو ہر وقت میرے ساتھ ہے.جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے.اور جب میں غلطی کرتا یا راستہ سے بھٹک جاتا ہوں تو وہ میری راہنمائی فرماتا ہے اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے.میں نے ادب کے عمدہ اور دلچسپ کلمات اور اس کے عجیب وغریب اور فصیح الفاظ جن میں جدت اور ندرت پائی جاتی ہے بزور محنت حاصل نہیں کئے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے قادر الکلام ادیبوں پر غلبہ بخشا ہے.اور میرے رب کی طرف سے اہلِ علم لوگوں کے لئے ایک نشان ہے.اور میں نے اس امر کا اظہار صرف اس نیت سے کیا ہے تا شکر کرنے والوں کی طرح مجھے بدلہ دیا جائے اور ان لوگوں میں میرا شمار نہ ہو جو ناشکر گزار ہیں.

Page 9

شرح القصيده ابیات قصیدہ مع ترجمه - يَا عَيْنَ فَيْضِ اللهِ وَ الْعِرْفَانِ ے اللہ تعالیٰ کے فیض اور عرفان کے چشمے يسعى إِلَيْكَ الْخَلْقُ كَالظُّمانِ لوگ سخت پیاسوں کی طرح تیری طرف دوڑتے ہیں - يا بخرَ فَضْلِ الْمُنْعِمِ الْمَنَانِ اے انعام دینے اور احسان فرمانے والے خدا کے فضل کے سمندر تهوى إِلَيْكَ الزُّمَرُ بِالْكِيزَانِ لوگ فوج در فوج گوزے لئے تیری طرف تیزی سے آ رہے ہیں يَا شَمْسَ مُلْكِ الْحُسْنِ وَ الْإِحْسَانِ ملک حسن و احسان کے آفتاب تورتَ وَجْهَ الْبَرِ وَ الْعُمْرَانِ تو نے بیابانوں ، صحراؤں اور آبادیوں کو منور کر دیا ہے

Page 10

شرح القصيده قَوْمُ رَأَوكَ وَ أُمَّةٌ قَد أُخْبِرَتْ ایک قوم تیرے دیدار سے مشرف ہوئی اور ایک جماعت نے مِنْ ذلِكَ الْبَدْرِ الَّذِي أَصْبَانِي اُس بدر کی خبر سنی جس نے مجھے اپنا فریفتہ اور شیدا بنا لیا ہے يَبْكُونَ مِنْ ذِكْرِ الْجَمَالِ صَبَابَةً وہ تیرے جمال کی یاد میں بوجہ شوق و محبت کے روتے ہیں وَ تَأَلُّهَا مِنْ لَّوْعَةِ الْهِجْرَانِ اور جدائی کی جلن اور فراق کی سوزش سے اُن کے آنسو بہتے ہیں و أَرَى الْقُلُوبَ لَدَى الْحَنَاجِرِ كُرْبَةً اور میں دیکھتا ہوں کہ دل بے قراری سے گلے تک آگئے ہیں وَ أَرَى الْغُرُوبَ تُسِيلُهَا الْعَيْنَانِ اور میں آنسو دیکھتا ہوں جو آنکھیں بہا رہی ہیں يَا مَنْ غَدًا فِي نُورِهِ وَ ضِيَائِهِ نور اور روشنی میں اپنے نور وہ النَّبِرَيْنِ وَ نَورَ الْمَلَوَانِ مہر و ماہ کی طرح ہو گیا ہے اور اس کے نور سے رات دن منور ہو گئے ہیں

Page 11

شرح القصيده - يا بدرَنَا يَا آيَةَ الرَّحْمَنِ اے ہمارے چودھویں کے چاند اور اے خدائے رحمان کے نشان أهْدَى الْهُدَاةِ وَ اشْجَعَ الشُّجَعَانِ اے سب ہادیوں سے بڑے ہادی اور سب بہادروں سے بڑے بہادر - إني أرى في وَجْهِكَ الْمُتَهَدِّل میں تیرے خنداں و درخشاں چہرے میں ایک ایسی شَأْنَا تَفُوقُ شَمَائِلَ الْإِنْسَانِ شان دیکھتا ہوں جو انسانی شمائل پر فوقیت رکھتی ہے -١٠ وَقَدِ اقْتَفَاكَ أُولُو اللهى و بِصِدقِهِمْ دانشمندوں نے تجھے چن لیا اور تیری پیروی کی اور اپنے صدق کی وجہ سے وَ دَعُوا تَذَكُرَ مَعْهَدِ الْأَوْطَانِ انہوں نے اپنے وطنوں کی یادگاروں کی یاد بھی ترک کر دی قد اترُوكَ وَ فَارَقُوا أَحْبَابَهُم انہوں نے تجھے اختیار کیا اور اپنے دوستوں سے جُدا ہو گئے وَ تَبَاعَدُوا مِنْ حَلْقَةِ الْإِخْوَانِ اور اپنے بھائیوں کے دائرہ سے دوری اختیار کر لی

Page 12

شرح القصيده - قَد وَذَعُوا أَهْوَاءَهُمْ وَ نُفُوسَهُمْ انہوں نے اپنی خواہشوں اور نفسوں کو الوداع کہہ دیا و تَبَرَّءُوا مِنْ كُلِّ نَشْبٍ فَانٍ اور ہر قسم کے فانی مال و منال سے بیزار ہو گئے ظَهَرَتْ عَلَيْهِمْ بَيِّنَاتُ رَسُولِهِمْ جب رسول کریم کے واضح اور روشن دلائل اُن پر ظاہر ہوئے فَتَمَزَّقَ الْأَهْوَاء الْأَهْوَاء كَالأَوْثَانِ وہ تو اُن کی نفسانی خواہشیں جُنوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں في وَقْتِ تَرْوِيقِ اللَّيَالِي نُورُوا راتوں کی تاریکی و ظلمت کے وقت منوّر ہوئے وَالله نَجَاهُم مِّنَ القُوْفَانِ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو طوفانِ ظلمت و ضلالت سے بچا لیا -۱۵ قَد هَاضَهُمْ ظُلْمُ الْأَنَاسِ وَ ضَيْبُهُم مخالف جماعتوں کے ظلم و ستم نے انہیں پیں ڈالنے کی کوشش کی فتليتوا بعناية الْمَثَّانِ مگر وہ خدائے محسن کی عنایت سے ثابت قدم رہے

Page 13

شرح القصيده -١٢ نَهَبَ اللّقَامُ نُشُوبَهُمْ وَعَقَارَهُم ذلیل اور کمپینہ اوباشوں نے ان کے مال اور ان کی جائدادکوٹ لی فَتَهللوا بجواهر الْفُرْقَانِ لیکن فرقان کے موتیوں سے اُن کے چہرے چمک اُٹھے كَسَحُوا بُيُوتَ نُفُوسِهِمْ وَ تَبَادَرُوا انہوں نے اپنے نفسوں کے گھروں کو خوب صاف کیا لِتَمَتِّعِ الْإِيْقَانِ وَ الْإِيْمَانِ اور یقین اور ایمان کی دولت لینے کو جلد آگے بڑھے - قَامُوا بِأَقْدَامِ الرَّسُولِ بِغَزُوهِمْ وہ رسول کریم کے حکم ”آگے بڑھو“ پر میدانِ جنگ میں كَالْعَاشِقِ الْمَشْغُوفِ فِي الْمَيْدَانِ ایک عاشق صادق کی طرح ڈٹ گئے - فَدَمُ الرِّجَالِ لِصِدقِهِمْ فِي حُبّهِم سو اُن جوانمردوں کے خون اُن کی خلوص محبت کے باعث تحت السُّيُوفِ أَرِيقَ كَالْقُرْبَانِ تلواروں کے نیچے قربانیوں کی طرح بہائے گئے

Page 14

شرح القصيده ۲۰- ۲۱- ۲۲.۱۲ جَاءُوكَ مَنْهُوبِينَ كَالْعُرْيَانِ وہ تیرے پاس لئے پیٹے مانند برہنہ آئے فَسَتَرْتَهُمْ يَمَلاحِفِ الْإِيْمَانِ پس تو نے انہیں ایمان کی چادریں اوڑھا دیں صَادَفَتَهُمْ قَوْمًا كَرَوُثٍ ذِلَّةٌ محمو نے انہیں گوبر کی طرح ذلیل قوم پایا فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبيكَةِ الْعِقْيَانِ پھر تو نے انہیں خالص سونے کی ڈلی کی مانند بنا دیا حَتَّى انْثَى بَر كَمِثْلِ حَدِيقَةٍ یہاں تک کہ عرب کا خشک ملک اُس باغ کی مانند ہو گیا عَلْبِ الْمَوَارِدِ مُثيرِ الْأَغْصَانِ جس کے چشمے خوشگوار وشیریں اور جس کے درختوں کی ڈالیاں پھلوں سے لدی ہوں ۲۳- عَادَتْ بِلادُ الْعُرْبِ نَحْوَ نَضَارَةِ عرب کے شہروں میں پھر رونق اور تر و تازگی آگئی بعْدَ الْوَلِي وَ الْمَحْلِ وَ الْخُسْرَانِ خستہ حالی ، خشکی ، قحط اور تباہی کے بعد

Page 15

شرح القصيده ۲۴- كان الْحِجَازُ مَغَازِلَ الْغِزُلَانِ اہل حجاز جو خوبصورت عورتوں سے عشق بازی میں محو تھے فَجَعَلْتَهُمْ فَانِينَ فِي الرَّحْمَانِ لیکن تو نے انہیں فانی فی اللہ بنا دیا -۲۵ شَيْئَانِ كَانَ الْقَوْمُ عُمُيَّا فِيهِمَا دو باتیں تھی جن میں عرب قوم اندھی ہو رہی تھی حَسْوُ الْعُقَارِ وَ كَثْرَةُ النِّسْوَانِ مزے لے لے کر شراب نوشی اور عورتوں کی زیادت ٢- اما النِّسَاءُ فَحْرِمَتْ إِنْكَاحُهَا عورتوں کا پوچھو تو اُن کی نسبت یہ حکم ہوا کہ اُن کا نکاح زوجًا لَهُ التَّحْرِيمُ فِي الْقُرْآنِ اُن مردوں سے حرام کر دیا گیا ہے جن کی حرمت قرآن میں آگئی ۲۷- وَ جَعَلْتَ دَسْكَرَةَ الْمُدَامِ مُخَرّبا اور تو نے شراب خانے ویران کر دیئے وَ أَذَلْتَ حَانَتَهَا مِنَ الْبُلْدَانِ اور شراب کی دوکانیں شہروں سے ہٹا دیں

Page 16

شرح القصيده ۱۴ - كَم شَارِبِ بِالرِّشْفِ دَنا طَافِحا بہت تھے جو گم کے کم پی جاتے تھے فَجَعَلْتَهُ فِي الدِّينِ كَالنَّشْوَانِ لیکن تو نے ان کو دین کا متوالا بنا دیا كَمْ مُحْدِنٍ مُّسْتَنْطِقِ الْعِيْدَانِ کتنے بدعتی عُود بجانے والے تھے قد صَارَ مِنْكَ مُحَدَّثَ الرَّحْمٰنِ جو تیرے طفیل خدائے رحمان سے ہمکلام ہوئے - كَمْ مُسْتَهَامٍ لِلرَّشُوْفِ تَعَقُها بہت تھے جو معطر دہن عورتوں کے عشق میں سرگرداں تھے فَجَدِّيعَهُم جنبا إلَى الْفُرْقَانِ پھر تو نے انہیں فرقان کی طرف کھینچ ا أَحْيَيْتَ اَمْوَاتَ الْقُرُونِ بِجَلوَة تو نے صدیوں کے مُردے ایک جلوہ سے زندہ کر دیئے و ماذا يُمَائِلُك بهذا الشان کون ہے جو اس شان میں تیرا ہو سکے

Page 17

شرح القصيده ۳۲.۱۵ تَرَكُوا الْغَبُوقَ وَبَدِّلُوا مِنْ ذَوقِهِ اُنہوں نے شام کی شراب چھوڑ دی اور اس کے ذوق کی جگہ ذَوقَ الدُّعَاءِ بِلَيْلَةِ الْأَحْزَانِ غم کی راتوں میں دعا کی لذت اختیار کی - كَانُوا برئاتِ الْمَقَانِى قَبْلَهَا بِرَيَّاتِ اس سے پہلے وہ سرنگیوں اور دو تاروں کی سُروں اور نغموں قد أحْصِرُوا فِي شُحِهَا كَالعَانِي اور رُوں رُوں کی آوازوں کی حرص میں قیدی کی طرح محبوس یا گرفتار تھے -۳۴ قد كَانَ مَرْتَعُهُمْ أَغَانِي دَائما ان کی محفلیں اور مجلسیں ہمیشہ راگ و رنگ تھیں طورًا بِغِيْد تَارَةٌ بيتان کبھی نازک اندام عورتوں کے ساتھ دل لگی ہوتی اور بھی کے کے حکم کنڈھائے جاتے -۳۵ مَا كَانَ فِكْرُ غَيْرَ فِكْرِ غَوَانِي انہیں خوبصورت گانے والی عورتوں او شُرْبِ رَاحِ أَوْ خَيَالِ جِفَانٍ یا شراب نوشی اور کا سہ ہائے شراب کے تصور کے سوا اور کوئی فکر نہ تھی

Page 18

شرح القصيده ۱۶ كَانُوا كَمَشْخُوفِ الْفَسَادِ بِجَهْلِهِمْ وہ اپنی بیوقوفی سے فساد کے شیفتہ تھے راضِينَ بِالْأَوْسَاحُ وَ الْأَحْرَانِ میل کچیل اور ناپاکی ناپاکی پر خوش تھے -٣٧ عَيْبَانِ كَانَ شِعَارَهُمْ مِنْ جَهْلِهِمْ ۳۹.جہالت سے دو عیب اُن کے شامل حال تھے حمق الْحِمَارِ وَ وَثُبَةُ السّرحَانِ اڑ گدھے کی اور حملہ بھیڑیے کا فَطَلَعْتَ يَا شَمْسَ الْهُدَى نُصْعًا لَّهُمْ اتنے میں اے آفتاب ہدایت ان کی خیر خواہی کے لئے تو نے طلوع کیا لِتُضِيْنَهُمْ مِنْ وَجْهِكَ النُّوْرَانِي تا کہ اپنے نورانی چہرے سے انہیں منور کرے أُرْسِلْتُ مِنْ ذَبٍ كَرِيمٍ مُحْسِنِ مو محسن رب کریم کی طرف في الْفِتْنَةِ الصماء والطغيان خوفناک فتنے اور طغیانی کے وقت بھیجا گیا

Page 19

شرح القصيده ۴۰- ۱۷ يا للفَتَى مَا حُسْنُه وجَمَالُهُ واہ کیا ہی صاحب حسن و جمال مرد ہے ريَّاهُ يُصْبِي الْقَلْبَ كَالرِّيْحَانِ جس کی خُوشبو دل کو ریحان کی طرح شیفتہ کر لیتی ہے -١ وَجْهُ الْمُهَيْنِ ظَاهِرٌ فِي وَجْهِهِ اللہ تعالیٰ کا چہرہ اس کے چہرے میں نظر آتا ہے وَشُئُونُهُ لَمَعَتْ بِهَذَا الشّانِ اور اس کے تمام حالات اُسی شان کے ساتھ چپکتے ہیں.فلذا يُحِبُّ وَيَسْتَحِقُ جَمَالُهُ اسی لئے تو وہ محبوب ہے اور اس کا جمال اس لائق ہے 9 شَغَفَّا بِهِ مِنْ زُمْرَةِ الْأَخْدَانِ کہ دوستوں کی جماعت کو چھوڑ کر اس سے دل بستگی پیدا کی جائے -۳- شجع كَرِيمٌ بَاذِلٌ خِل التقى سُجُع وہ خوش خلق ، معزز ، صاحب جود و عطا ، تقومی دوست ہے خِرْقٌ وَ فَاقَ طَوَائِفَ الْفِتْيَانِ کریم اور سخی اور سب جوانوں پر فائق ہے

Page 20

شرح القصيده ۱۸ -۴۴- فَاقَ الْوَرى بِكَمَالِهِ وَ جَمَالِهِ وہ سب مخلوقات سے اپنے اپنے کمال اور اپنے جمال و جَلالِهِ وَ جَنَانِهِ الرَّيَّانِ اور اپنے جلال اور اپنے شاداب دل کے ساتھ فوقیت لے گیا ہے ۴۵ لا شك أنَّ مُحَمَّدًا خَيْرُ الْوَرى بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہترین مخلوقات رَيْقُ الْكِرَامِ وَ مُحبَةُ الْأَعْيَانِ اور صاحب کرم و عطا اور شرفا لوگوں کی روح اور ان کی قوت اور چیدہ اعیان ہیں -٤٦ تَمَتُ عَلَيْهِ صِفَاتُ كُلّ مَزيَّةٍ ہر قسم کی فضیلت کی صفات آپ میں علی الوجہ الا تم موجود ہیں خُتِمَتْ بِهِ نَعْمَاءُ كُلِّ زَمَانٍ اور ہر زمانے کی نعمت آپ کی ذات پر ختم ہے.۴۷.وَاللهِ اِنَّ مُحَمَّدًا مُحَمَّدًا كَرِدَافَةٍ اللہ تعالیٰ کی قسم یقینا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت خلیفہ اللہ کی ہے وَ بِهِ الْوُصُولُ بِسُنَّةِ السُّلطان اور آپ ہی کے ذریعہ دربارِ شاہی تک رسائی ہوسکتی ہے.

Page 21

شرح ۴۸.القصيده 19 هُوَ فَخْرُ كُلِّ مُطَهَّرٍ وَ مُقَدَّسِ آپ ہر مطہر و مقدس کے لئے باعث فخر ہیں وَ بِهِ يُبَاهِي الْعَسْكَرُ الرُّوحَانِي اور روحانی لشکر آپ ہی کے وجود باجود پر منفتخر و نازاں ہے.هُوَ خَيْرُ كُلِّ مُقَرَّبٍ مُتَقَلَّمٍ آپ ہر پہلے مقترب سے افضل ہیں وَ الْفَضْلُ بِالْخَيْرَاتِ لَا بِزَمَانٍ اور فضیلت کا رہائے خیر پر موقوف ہے نہ کہ زمانہ پر.٥٠ و الظُّلُ قَد يَبْدُو أَمَامَ الْوَابِلِ -۵۱ اور ملکی ہلکی بارش ( پھوار ) موسلا دھار بارش سے پہلے ہوتی ہے فَالظَّلُ هَلْ لَيْسَ كَالتَهْتَانِ لیکن ہلکی بارش اور موسلا دھار میں بہت بڑا فرق ہے.بطل وَحِيدُ لَا تَطِيشُ سِهَامُهُ آپ ہی ایک پہلوان ہیں جس کے تیر کبھی خطا نہیں جاتے ذُو مُصْيَاتٍ مُؤ بِقُ الشَّيْطن آپ کبھی نشانہ خطا نہ کرنے والے مہلک تیروں کے مالک اور شیطان کے ہلاک کنندہ ہیں

Page 22

شرح القصيده ۵۲- هو قَنَّةٌ إِنِّي أَرى أَثْمَارَةً آپ ایک باغ ہیں میں دیکھتا ہوں کہ اس کے پھل وَ قُطُوفَهُ قَد ذُلِلَتْ لِجَنَانِي اور اس کے خوشے جھکا کر میرے دل کے قریب کئے گئے ہیں.- الْفَيْتُةَ بَحْرَ الْحَقَائِقِ وَ الْهُدَى میں نے آپ کو حقائق اور ہدایت کا سمندر پایا وَ رَأَيْتُهُ كَالدم في اللمَعَانِ اور آب و تاب میں آپ کو موتی کی مانند دیکھا.-٥٣ قَد مَاتَ عِيسَى مُطرِفًا وَ نَبِيُّنا ۵۴ حضرت عیسی تو چپ چاپ سر جھکائے وفات پاگئے اور ہمارے نبی حَى وَ رَبِّي إِنَّهُ وَافَانِي زندہ ہیں اور بخدا وہ مجھ سے ملے بھی ہیں ۵۵- والله إِنِّي قَد رَأَيْتُ جَمَالَهُ اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے آپ کا جمال دیکھا ہے بِعُيُونِ جِسْمِي قَاعِدًا بمكاني اپنی جسمانی آنکھوں سے اپنے مکان میں بیٹھے.

Page 23

شرح القصيده ۲۱ -٥٦ هَا إِن تَظَنَّيْتَ ابْنَ مَرْيَمَ عَائِشَا دیکھو اگر تم بھی ابن مریم کو زندہ خیال کرتے ہو فَعَلَيْكَ إِثْبَاتًا مِّنَ الْبُرْهَانِ تو دلیل سے ثابت کرنا تمہارا فرض ہے - ه - أَفَأَنتَ لَاقَيْتَ الْمَسِيحَ بِيَقْظَةٍ کیا تم بھی بیداری میں حضرت مسیح سے ملے ہو ؟ او جَاءَكَ الْأَنْبَاءُ مِنْ يَقْظَانِ یا کسی جیتے جاگتے نے تمہیں خبر دی ہے کہ وہ زندہ ہیں ؟ ٥- أنظرُ إِلَى الْقُرْآنِ كَيْفَ يُبَيِّنُ قرآن کو دیکھو کہ وہ اُن کی وفات کیسے واضح طور پر بیان کرتا ہے أ فَأَنْتَ تُعْرِضُ عَنْ هُدَى الرَّحْمنِ کیا تم رحمان کی ہدایت سے منہ پھیرتے ہو ؟ وه فَاعْلَمُ بِأَنَّ الْعَيْشَ لَيْسَ بِقَابِتِ جان لو کہ (کسی کی زندگی قائم و دائم نہیں.بل ماتَ عِيسَى مِثْلَ عَبْدِ فَانٍ بلکہ عیسی بھی ایک فانی بندے کی طرح فوت ہو چکے ہیں

Page 24

شرح القصيده ۲۲ ٢٠ وَ نَبِيُّنَا حَقٌّ وَ إِنِّي شَاهِدٌ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور میں گواہ ہوں وَ قَدِ اقْتَطَفْتُ قَطَائِفَ اللَّقْيَانِ اور میں آپ کی ملاقات کے ثمرات سے بہرہ مند ہوا ہوں.- وَ رَأَيْتُ فِي رَيْعَانِ عُمْرِى وَجْهَهُ اور میں نے آغاز جوانی میں آپ کا روئے مبارک دیکھا ثُمَّ النَّبِيُّ بِيَقَظَتِي لَا قَانِي پھر آپ نے عین بیداری کی حالت میں مجھے شرف ملاقات بخشا الي لَقَد أُحْيِيتُ مِنْ احْيَائِهِ یقیناً میں آپ کے زندہ کرنے سے زندہ ہوا ہوں واها لاعجازِ فَمَا أَحْيَانِي سبحان اللہ ! کیا اعجاز ہے اور مجھے کیا خوب زندہ کیا ہے - يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيَّكَ دَائِمًا اے میرے اپنے نبی بھیج ہمیشہ درود في هذِهِ الدُّنْيَا وَ بَعْثٍ ثَانٍ اس دنیا میں بھی اور دوسرے عالم میں بھی

Page 25

شرح القصيده ۲۳ - يَا سَيِّدِى قَدْ جِئْتُ بَا بَكَ لَاهِفًا اے میرے آقا ئیں مظلوم ومعطر ہونے کی حالت میں فریادی بن کر تیرے دروازے پر حاضر ہوا ہوں وَ الْقَوْمُ بِالْإِكْفَارِ قَد أَذَانِي بحالیکہ قوم نے مجھے کافر کہہ کر سخت ایذا دی ہے.-٢٥ يَفْرِى سِهَامُكَ قَلْبَ كُلّ مُحَارِبٍ تیرے تیر ہر محارب کے دل کو چیرتے ہیں وَ يَشْخُ عَزْمُكَ هَامَةَ القُعْبَانِ اور تیرا عزم اژدہے کے سر کو کچل ڈالتا ہے -٢٦ لِلهِ دَرُكَ يَا إِمَامَ الْعَالَمِ آفرین مقتدائے أنتَ السَّبُوقُ وَ سَيِّدُ الشُّجَعَانِ تو سب سے آگے بڑھا ہوا ہے اور تمام بہادروں کا سردار ہے - انظر انْظُرْ إِلَى بِرَحْمَةٍ وَ تَحَلُّنٍ مجھ پر رحم اور شفقت کی نظر کرنا ! يا سيدي أنا أَحْقَرُ الْغِلْمَانِ اے میرے آقا میں ایک ناچیز غلام ہوں

Page 26

شرح القصيده يَا حب ۲۴ إِنَّكَ قَد دَخَلْتَ مَحَبَّةً میرے پیارے تیری محبت میرے في مُهْجَتِى وَ مَدَارِكِي وَ جَنَانِي خون ، میری جان ، میرے حواس اور میرے دل میں رچ گئی ہے من ذكرٍ وَجُهِكَ يَا حَدِيقَةً بَهْجَتِي اے میری مسرت کے باغ تیرے منہ کی یاد سے لَمْ اَلحل في لحظ ولا في أن میں ایک آن اور ایک لحظہ بھی خالی نہیں ہوتا چشمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا میرا جسم شوق غالب کے سبب تیری طرف اُڑا جاتا ہے يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوَّةُ الطَّيَرَانِ اے کاش ! مجھ میں قوتِ پرواز ہوتی

Page 27

شرح القصيده ۲۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ شرح القصيدة محبوب اپنے مُحِب کی نظر میں حضرت مصنف قصیدہ اپنے مدوح سید الاولین والآخرین شفیع المذنبین محبوب رب العالمین حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا عشق و محبت رکھتے تھے.آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں یگانہ و منفرد ہے اسی طرح اس کے حبیب خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے کمالات اور اپنی صفات کے لحاظ سے تمام بنی نوع میں یکتا و بے ہمتا ہے.نہ آپ سے پہلے کوئی آپ کے مقام رفیع تک پہنچ سکا ہے، نہ آپ کے بعد اور نہ قیامت تک پہنچ سکے گا.اسی لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کے بعد آپ کو سب سے زیادہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے تھی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: بعد از خدا گر کفر ایں بود تار ہر و بعشق محمدم مخمرم بخدا سخت کافرم پود من برائد بعشق أو از خود تهی از غم آن دلستاں پُرم (ازالہ اوہام صفحہ ۱۷۶ طبع اوّل.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۸۵)

Page 28

شرح القصيده دو ۲۶ د یعنی اللہ تعالیٰ کے بعد میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے عشق میں سرشار ہوں.اگر یہ کفر ہے تو اللہ تعالیٰ کی قسم میں سخت کا فر ہوں.میرا ہر رگ وریشہ اس کے عشق کے راگ گا رہا ہے ، میں اپنی خواہشات سے خالی اور اس محبوب کے غم سے پر ہوں.66 یہی وجہ ہے کہ آپ نے جس انداز میں اللہ تعالیٰ سے اپنے عشق و محبت کا اظہار کیا ہے اُسی انداز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی.مثلاً آپ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں: در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کسے کہ لاف تعشق زند منم آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۵۸) د یعنی اگر تیرے کوچے میں عاشقوں کے سر اُتارے جائیں، تو وہ پہلا شخص جو تیرے عشق کا نعرہ مارے گاوہ میں ہوں گا.“ اسی طرح آپ اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر میں فرماتے ہیں: تیغ گر بارد بکوئے آن نگار آن منم کاول کند جان را ثار (سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۹۷ ) و یعنی اگر محبوب ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی گلی میں تلوار چلے تو وہ میں ہوں جو سب سے پہلے اپنی جان قربان کرے گا.“

Page 29

شرح القصيده ۲۷ دوسروں پر محبت میں سبقت لے جانا جب کسی محبوب سے محبت کرنے والے بہت سے ہوں تو سب سے زیادہ محبت کرنے والے کا باقی محبت کرنے والوں سے جاں نثاری میں سبقت لے جانے کا جذ بہ ایک قدرتی امر ہے.اسی جذبہ محبت کی ترجمانی کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: می بینم رخ آں دلیری منکہ جاں فشانم گر دہد دل دیگرے سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۹۷) د یعنی میں اس دلبر کا چہرہ دیکھ رہا ہوں ، اگر کوئی اسے دل دے تو میں جاں نثار کر دوں.“ نیز فرماتے ہیں: منکه ره بُردم بخوبی ہائے بے پایانِ تو جان گدازم بہر تو گر دیگرے خدمت گزار آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶) میں کہ (اے میرے محبوب ) تیری بے انتہا خوبیوں سے آگاہی پاچکا ہوں.اگر دوسرا تیرا خدمت گزار ہے تو میں تیرے لئے جاں فدا کرنے والا ہوں.“ ان اشعار میں آپ نے اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ میرے محبوب سے جو محبت رکھنے والے ہیں ان میں سے کوئی مجھ پر سبقت نہیں لے جاسکتا.

Page 30

شرح القصيده ۲۸ اپنے محبوب کے لئے غیرت دکھانا اسی وفور محبت کی وجہ سے آپ کو اپنے محبوب کی عزت و عظمت کے خلاف ایک لفظ سنا بھی گوارا نہیں تھا اور اس سے آپ کو دلخراش تکلیف اور روح فرسا اذیت پہنچتی تھی.چنانچہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس کے خلاف کور چشم و دریدہ دہن پادریوں کی یاوہ سرائیوں اور ہرزہ درائیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی قسم اگر میرے سب لڑکے ، بچے اور پوتے میرے انصار اور خدام میرے سامنے قتل کر دیئے جاتے اور میرے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جاتے اور میری آنکھوں کی پتلیاں نکال دی جاتیں اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاتا تو یہ سب کچھ مجھ پر ان کے اس توہین آمیز استہزاء سے زیادہ شاق نہ گزرتا.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵ ترجمه از عربی عبارت) ایک دفعہ جب آپ لا ہور میں تشریف فرما تھے ، پنڈت لیکھرام نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سخت بد زبانی کر چکا تھا آپ کو سلام کہا مگر آپ نے کچھ جواب نہ دیا.پھر اُس نے دوبارہ سلام کیا لیکن آپ نے پھر بھی توجہ نہ فرمائی.اس پر آپ کے ایک مرید نے عرض کیا کہ پنڈت لیکھر ام سلام کہتا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ وہ میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کہتا ہے.آپ کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ جو شخص آپ کے محبوب آقا کا بدگو ہے اس کو اس کے سلام کا جواب دیا جائے.

Page 31

شرح القصيده ۲۹ جوش عشق آپ کی تحریروں کو پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے گویا آپ کے دل میں اپنے مطاع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کا ایک سمندر موجزن ہے.اور جب اس میں جوش آتا ہے اور تلاطم کی صورت پیدا ہوتی ہے تو کوئی چیز اس کی بلند اور تیز موجوں کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی.اشعارِ ذیل سے آپ کے جوشِ عشق و وفور محبت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.تا بمن نور رسول پاک را بنموده اند عشق او در دل ہے جوشد چو آب از آبشار آتشِ عشق از دم من ہیچو برقے مے جہد یک طرف اے ہمدمان خام از گرد رد و جوار ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷) یعنی جب سے مجھے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نور دکھایا گیا ہے حضور کا عشق میرے دل میں یوں جوش مارتا ہے جیسے آبشار سے پانی.آپ کے عشق کی آگ میرے سانس سے بجلی کی طرح نکلتی ہے.اے خام طبع رفیقو! میرے آس پاس سے ہٹ جاؤ.“ محبوب کے رنگ میں رنگین ہونا پھر کمال محبت کی حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے وہ اس کے

Page 32

شرح القصيده انداز اور اس کے طور و طریق اور اس کے شمائل واخلاق کے رنگ سے رنگین ہو جاتا ہے اور جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اسی قدر اپنے محبوب کی صفات کی طرف کھینچا جاتا ہے حتی کہ وہ اُسی کا نمونہ بن جاتا ہے.اور جب یہ کیفیت ہو جاتی ہے تو محبت اور محبوب کے درمیان سے دوئی کا پردہ اُٹھ جاتا ہے.جیسا کہ ایک بزرگ نے کہا ہے.من تو شدم تو من شدی شدی من تن شدم جاں تموید بعد ازیں تا دیگری من دیگرم اسی طرح حضرت امام ربانی مجد دالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مقتضائے کمال محبت رفع اثنینیت ست و اتحاد محب و محبوب یعنی کمال محبت کا مقتضا یہ ہے کہ محبت اپنے محبوب کے رنگ میں رنگین ہو کر دوئی کو اٹھا دیتا ہے اور محب و محبوب آپس میں متحد ہو جاتے ہیں.چنانچہ محبوب سبحانی حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اپنے متعلق فرماتے ہیں:.566 " هَذَا وُجُودُ جَدّى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا وُجُودَ عَبْدَ الْقَادِرِ یعنی یہ عبدالقادر کا وجود نہیں بلکہ یہ میرے جد امجد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے.ے مکتوبات امام ربانی جلد ۳ صفحه ۱۵ مکتوب نمبر ۸۸ صفحه ۱۴۷ مطبوعه در مطبع نامی گرامی منشی نول کشور واقع کانپور سے.کتاب مناقب تاج الاولیاء مطبوعہ مصر صفحه ۳۵

Page 33

شرح القصيده ۳۱ مؤلف گلدستۂ کرامت مفتی غلام سرور صاحب حضرت شیخ کا مندرجہ بالا ارشاد نقل کر کے لکھتے ہیں: اس کلام فیض التیام سے ثابت ہوا کہ غوث الاعظم کی ذات رسول کی ذات میں فن تھی اور آپ ذاتا وصفا تا وقولاً وفعلاً وحالاً وكمالا فنافی الرسول تھے.“ ( گلدستۂ کرامت مطبوعہ مطبع مفید عام لاہور ) حضرت احمد علیہ السلام مصنف قصیدہ کو بھی اپنے محبوب حضرت احمد صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عشق اور کمال محبت کی وجہ سے مقامِ اتحاد حاصل تھا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.محو روئے او شدست ایں روئے من ہوئے او آید زبام و کوئے من بسکه من در عشق ہستم نہاں من همانم 6 من همانم من ہماں جان من از جان یابد غذا از گریبانم عیاں شد آں وکا احمد اندر جان احمد پدید وحید من گردید آں (سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۹۷) یعنی یہ میرا چہرہ اس کے چہرہ میں محوا ور گم ہو گیا اور میرے مکان اور گوچہ سے اس کی خوشبو آ رہی ہے.از بسکہ میں اس کے عشق میں غائب ہوں.میں وہی ہوں ، میں وہی ہوں، میں وہی ہوں.میری روح اس کی رُوح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریبان سے وہی سورج نکل آیا ہے.

Page 34

شرح القصيده احمد کی جان کے اندر احمد ظاہر ہو گیا.اس لئے میرا وہی نام ہو گیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے.حیات جاودانی اس حالت میں عاشق صادق اور محبت کامل اپنے محبوب میں فنا ہو کر وہ زندگی پاتا ہے جو محبوب کو حاصل ہوتی ہے اور اس شعر کا مصداق بن جاتا ہے.ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق ثبت است بر جریده عالم دوام ما اور ایسے فنا فی الحبوب کی محبت دائم و قائم رہتی ہے اور موت وفنا سے آزاد ہو جاتی ہے.مصنف قصیدہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کو اپنے محبوب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی غیر فانی محبت تھی جو حضور کے اس شعر کی مصداق ہے.اِنّي آموتُ وَ لَا تَمُوتُ مَحَبَّتِي يدرى بِذِكْرِكَ فِي التُّرَابِ نِدَائِي یعنی اے میرے محبوب ! اگر چہ میں وفات پا جاؤں گا لیکن میری محبت ہمیشہ زندہ رہے گی اور اس پر کبھی موت وارد نہ ہو گی اور زمین میں پڑے ہوئے لوگوں کی جب آواز میں سنائی دیں گی تو میری آواز تیرے ذکر سے شناخت کی جائے گی.دوسرے لوگ تو اپنے اور دلبروں کا نام لے رہے ہوں گے لیکن میری زبان پر تیرا نام ہوگا اور وہ

Page 35

شرح القصيده ۳۳ اے میرے پیارے محمد ، اے میرے محبوب محمد ، اے میرے معشوق محمد کا نعرہ بلند کر رہی ہوگی.“ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَاشِقِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَ بَارِكَ وَسَلِّمْ 谢谢谢

Page 36

شرح القصيده ۳۴ - يَا عَيْنَ فَيضِ اللهِ وَ الْعِرْفَانِ يسعى إِلَيْكَ الْخَلْقُ كَالظَّمَانِ - معانی الالفاظ.عین.اس لفظ کے عربی زبان میں قریباً ساٹھ معنے ہیں لیکن یہاں اس کے معنے بہنے والے چشمہ یا منبع کے ہیں اور اس کی جمع آغین اور عیون ہے اور اس کے ایک معنے ذَاتُ الشّيء و نَفْسُۂ ہوتے ہیں.ا.اس قصیدہ کی بحر الرجز ہے اور اس کا وزن مُسْتَفْعِلُن مُسْتَفْعِلُنَ مُسْتَفْعِلُن مزر ہے.اس بحر کے مشہور چار عروض اور پانچ ضربیں ہیں.پہلے شعر میں عروض اوّل اور ضرب مقطوع ہیں.مقطوع سے مراد یہ ہے کہ اس کا آخری حرف کاٹ دیا گیا ہے یعنی مُسْتَفْعِلُن کانون گرا دیا گیا ہے باقی مُسْتَفْعِل رہ گیا ہے.پھر اسے مَفْعُولُن بنادیا گیا.پہلے شعر کی تقطیع یوں ہے:.يَا عَلَى نَفَى ضِلَّ لَا هِ وَلْ عِرْفَانِي يَسْعَى إِلَى كَلْ خَلْ قُكَظ ظَمْ أَنِي مُسْتَفْعِلُن مُسْتَفْعِلُن مَفْعُولُن مُسْتَفْعِلُن مُسْتَفْعِلُنَ مَفْعُولُن اس قصیدہ کے ابیات کے عروض میں کبھی نہین واقع ہو کر مُسْتَفْعِلُنْ مَفَاعِلُن کی صورت میں تبدیل ہو گیا ہے اور کبھی زحاف طی واقع ہو کر مُسْتَفْعِلُن اور زحاف قطع داخل ہو کر مَفْعُولُن بن گیا ہے.وَ عَلى هَذَا الْقِيَاس اور بعض موقعوں پر اسکان و تحریک اور بعض جگہ تخفیف حروف و حرکات سے بھی جنہیں شعرائے عرب نے جائز قرار دیا ہے ، کام لیا گیا ہے.شعرائے عرب کے کلام میں ایسے تصرفات بکثرت موجود ہیں کبھی وہ متحرک کو ساکن کر دیتے ہیں.جیسے شعر ؎ تَامَتْ فُؤَادَكَ لَوْ يَحْزُنُكَ مَا صَنَعَتُ إحدى نِسَاءِ بَنِي ذُهْلِ ابْنُ شَيْبَانًا

Page 37

شرح القصيده ۳۵ یعنی بعینہ وہی چیز.اس معنے کے لحاظ سے پہلے مصرعہ کا یہ ترجمہ ہو گا.اے اللہ کے مجسم فیض و عرفان.فَيْضٌ : فَاضَ السَّيْلُ فَيْضًا اس وقت کہا جاتا ہے جب سیلاب کا پانی زیادہ ہو کر وادی کے کناروں پر سے بہہ پڑے.مَاءً فَيْضٌ کے معنے ہیں بہت پانی.اور اصطلاح میں فیض اللہ سے مراد وہ روحانی علوم اور ربانی اسرار ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنے فضل سے بکثرت عطا فرماتا ہے.بقیہ حاشیہ: اس میں تیخون کانون جو متحرک تھا ساکن کر دیا گیا ہے.اسی طرح امرئ القیس کے شعر فَالْيَوْمَ أَشْرَبُ غَيْرَ مُسْتَحْقِبٍ انها مِّنَ الله وَ لَا وَاغِلِ میں اشرب کی تباء جو متحرک تھی ساکن کر دی گئی ہے اور کبھی قافیہ کی موافقت کی خاطر متحرک کو ساکن کر دیتے ہیں.جیسے مقامات ہمدانی کے مقاله المغزلية میں الشبل کی متحرک باء ساکن کی گئی ہے.مَلِيحُ الشكل ضَاءِ زَهِيدُ الاكل رام كَثِيرُ القبل خَوْفُ اللَّحَى وَ السَّبُلِ اور کبھی تخفیف کے لئے ایک حرف حذف کر دیا جاتا ہے.جیسا کہ کعب بن زہیر کے شعرے فَمَا تَدُومُ عَلَى حَالٍ تَكُونُ بِهَا كَمَا تَلَوَّنُ فِي اثْوَابِهَا الْغُولُ میں تتلون کی تاء حذف کر دی گئی ہے.اور کبھی غیر منصرف کو منصرف کی طرح پڑھا جاتا ہے.جیسا کہ کعب بن زہیر کے شعر میں ؎ تخلى على يسَرَاتٍ وَ هِيَ لَاحِقَةُ او ذَوَابِل مُسْهَنِ الْأَرْضِ تَخْلِيل ل ذَوَابِل تنوین کے ساتھ باندھا گیا ہے.(شمس)

Page 38

شرح القصيده ۳۶ يسعى : سعی ماضی سے مضارع کا صیغہ ہے جس کے معنے کوشش کرنے ، چلنے اور دوڑنے کے ہیں.سعی الیہ کے معنے ہیں قصدۂ اس کا قصد کیا.الْخَلْقُ : النَّاسُ یعنی لوگ.الظمانُ : مفرد ہے.اس کی جمع ظماء ہے.ظمی کے معنے ہیں اُسے سخت پیاس لگی.الظُّمُان سخت پیاسا.ظَمی الیہ کے معنے ہیں اشتاق، اس کا مشتاق ہوا، اس کی طرف شوق کا اظہار کیا.ترجمہ.اس شعر کے اردو میں دو ترجمے ہو سکتے ہیں.ا.اے اللہ تعالیٰ کے فیض اور عرفان کے چشمے ! لوگ سخت پیاسوں کی مانند تیرا قصد کر رہے ہیں.۲.اے اللہ تعالیٰ کے مجسم فیض و عرفان ! لوگ تیری طرف مشتاق وار دوڑے آتے ہیں.شرح.اس شعر سے جو قصیدہ کا مطلع ہے مصنف قصیدہ کا اپنے ممدوح سے کمال درجہ کا عشق ظاہر ہوتا ہے.اکثر شعراء کے قصائد کے ابتدائی اشعار میں تشبیب پائی جاتی ہے جس میں وہ اپنے محبوب کے متعلقات اور اس کی ظاہری صفات کا ذکر کرتے ہیں جو شاعر کے دل میں محبوب کی یاد پیدا کرتی اور اس کی آتشِ محبت کو تیز کرتی ہیں.مثلاً امرئ القیس کے قصیدہ میمیہ کا مطلع یہ.ایہ ہے.قف بِالرِّيَارِ الَّتِي لَمْ يَعْفُهَا الْقَدَمُ غَيْرَهَا الْأَرْوَاحُ وَ بلى الريم

Page 39

شرح القصيده ۳۷ ”اے امرئ القیس ! تو ان بستیوں میں جو محبوب کی بستیاں ہیں ذرا ٹھہر جا جنہیں زمانہ نے مٹایا تو نہیں البتہ ہواؤں اور بارش نے ان کی حالت تبدیل کر دی ہے.“ اسی طرح کعب بن زہیر نے جو قصیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کہا جو بَانَتْ سُعاد‘ کے نام سے مشہور ہے اس میں انہوں نے پہلے سُعاد کی جدائی اور اس کی ظاہری خوبصورتی اور اس کے سفر اور سوار یوں وغیرہ کے وصف بیان کر کے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی ہے.اور علامہ محمد البوصیری رحمہ اللہ کا مشہور قصیدہ بردہ اس طرح شروع ہوتا ہے.أَمِنْ تَذَكُرِ جِيرَانٍ بِذِى سَلَم مَزَجْتَ دَمْعًا جَرَى مِنْ مُقْلَةٍ بِدَمٍ ام هَبَّتِ الرِّيحُ مِنْ تِلْقَاءِ كَاظِمَةِ أَوْ أَوْ مَضَ الْبَرْقُ فِي الْظُّلُمَاءِ مِنْ إِضَمِ کیا ذی سلم کے ہمسائیوں (یعنی اہل مدینہ ) کی یاد سے تو نے آنسوؤں کو جو تیری آنکھوں سے رواں ہیں خون سے ملا دیا ہے یا مدینہ منورہ کی طرف سے ہوا چلی ہے یا اندھیری رات میں اضم پہاڑ سے بجلی چمکی ہے جس نے تجھے محبوب کی یاد دلائی ہے.“ لیکن مصنف قصیدہ کی جذب محبت کا یہ عالم ہے کہ گویا آپ کا محبوب ہر گھڑی آپ کے رو برو موجود ہے اور آپ بغیر تشبیب کے اُسے مخاطب کر کے اس کی مدح میں یوں رطب اللسان ہیں.

Page 40

شرح القصيده ۳۸ يَا عَيْنَ فَيْضِ اللَّهِ وَ الْعِرْفَانِ يسعى إِلَيْكَ الْخَلْقُ كَالظُّمان اس شعر میں جو قصیدہ کا مطلع ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بے نظیر کمال کا ذکر پایا جاتا ہے.جس طرح دنیا میں مصفا پانی چشموں سے حاصل ہوتا ہے اسی طرح فیض روحانی اور برکات آسمانی اور عرفانِ الہی حاصل کرنے کا سر چشمہ اور منبع آپ کی ذات ستودہ صفات ہے.اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ کی بعثت کے وقت وو دنیا شرک اور بت پرستی سے بھری ہوئی تھی.کوئی پتھر کی پوجا کرتا تھا اور کوئی آگ کی پرستش میں مشغول تھا اور کوئی سورج کے آگے ہاتھ جوڑتا تھا.کوئی پانی کو اپنا پر میشر خیال کرتا تھا اور کوئی انسان کو خدا بنائے بیٹھا تھا.علاوہ اس کے زمین ہر قسم کے گناہ اور ظلم اور فساد سے بھری ہوئی تھی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی موجودہ حالت کے بارے میں قرآن شریف میں خود گواہی دی ہے اور فرماتا ہے ظهَر الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (الروم : ۴۲).یعنی دریا بھی بگڑ گئے اور خشک زمین بھی بگڑ گئی.مطلب یہ کہ جس قوم کے ہاتھ میں کتاب آسمانی تھی وہ بھی بگڑ گئی اور جن کے ہاتھ کتاب آسمانی نہیں تھی اور خشک جنگل کی طرح تھے وہ بھی بگڑ گئے.اور یہ امر ایک ایسا سچا واقعہ ہے کہ ہر ایک ملک کی تاریخ اس پر گواہ ناطق ہے.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۷۹)

Page 41

شرح القصيده ۳۹ ساری زمین پر خطر ناک ظلمت چھائی ہوئی تھی.زمانہ شب تاریک و بیم موج و گرداب چنیں بائل کا نقشہ پیش کر رہا تھا.ہندوستان جو زمانہ قدیم میں مذہب کا گہوارہ رہ چکا تھا ن بیت تو کیا انسانیت بھی کھو بیٹھا تھا.برہمنوں نے جو مذہبی لیڈر تھے ایک بہت بڑے طبقہ کو جو کروڑوں نفوس پر مشتمل تھا اچھوت قرار دے دیا تھا.وہ ابدی ناپاک سمجھے جاتے تھے.برہمنوں کا دور دورہ تھا وہ جو چاہتے کرتے تھے.ان کا گناہ گناہ نہیں بلکہ ثواب سمجھا جاتا تھا.مندروں کے مہنت اور پجاری دیوتاؤں کی طرح پوجے جاتے تھے اور عیش وعشرت میں مست تھے.رقص و موسیقی کو انہوں نے عبادت میں داخل کر لیا تھا.اس لئے مندروں کی حالت حد درجہ نا گفتہ بہ تھی.وہ فسق و فجور کے اڈے تھے.اور عوام الناس کی بھی دینی حالت حد درجہ گر چکی تھی.پتھروں اور درختوں وغیرہ کی پرستش سے تسلی نہ پا کر عورتوں اور مردوں کے شہوانی قومی تک کی پرستش جاری ہو چکی تھی.عیسائیوں کے گرجوں کی حالت ہندوؤں کے مندروں سے بہتر نہ تھی.وہ بھی فسق و فجور کے اڈے تھے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان راہبوں اور راہبات کی حالت جنہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے دنیا کو تیاگ دینے کا عہد کیا تھا آكثَرُهُمْ فَاسِقُونَ بیان فرمائی ہے.یعنی ان کی اکثریت بدکار ہو چکی ہے اور نحن ابناء الله وَاحِباءُ کا نعرہ لگانے والوں کے متعلق فرماتا ہے.جعل مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتِ (المآئدۃ: ۶۱) کہ وہ بندروں کی طرح نقال اور ذلیل اور اخلاقی لحاظ سے خنزیروں کی طرح بے حیا اور شہوت پرست تھے.یہ تو علماء کی حالت تھی.عوام کی حالت یہ تھی کہ وہ طاغوت یعنی حدود الہی توڑنے اور اللہ تعالیٰ سے سرتابی کرنے والوں کے پرستار اور عبد بن چکے تھے.

Page 42

شرح القصيده روحانیت مفقود ہو چکی تھی.تعلق باللہ کے نشانات کسی مذہب میں موجود نہ تھے.روحانیت کے سب چشمے ختم ہو چکے تھے.یہ حالات تھے جن میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کی طرف مبعوث کر کے اعلان فرمایا..وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا لِنُحْيِيَ بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا وَنُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِي كَثِيرًا - (الفرقان: ۵۰،۴۹) یعنی ہم نے آسمان سے مصفا اور مطہر پانی اتارا ہے تا کہ ہم اس کے ذریعہ مردہ شہر کو زندہ کریں.مراد یہ ہے کہ مردہ قوم عرب اس پانی سے روحانی زندگی پائے گی.فرمایا اور اسی طرح ہم یہ پانی ایسی قوموں کو پلائیں گے جو اس وقت حیوانات کی سی زندگی بسر کر رہی ہیں.اور اسی طرح بہت سے اُن لوگوں کو بھی پلائیں گے جن میں تمدن و تہذیب پائی جاتی ہے.جس سے انہیں عرفانِ الہی حاصل ہوگا اور وہ اپنی زندگیوں میں ایک روحانی انقلاب پیدا کر کے اپنے ازلی محبوب سے تعلق پیدا کر لیں گے.چنانچہ آپ ہی کی غلامی اختیار کر کے دنیا کی مختلف اقوام کے لوگ فیوض روحانیہ اور مکاشفات اور مکالمات و مخاطبات الہیہ سے مشرف ہوئے.اور آپ کی بعثت کے بعد قیامت تک کے لئے یہ قرار پایا کہ اب کوئی شخص خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو بجز آپ کی مطابعت اور پیروی کے انعامات الہیہ سے حصہ نہیں پاسکتا اور انعام پانے والے گروہ میں شامل نہیں ہو سکتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ

Page 43

شرح القصيده ۴۱ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَ الصَّلِحِينَ (النساء:۷۰) یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت سے آئندہ روحانی انعامات ملیں گے اور روحانیت کے مراتب اربعہ نبوت ، صدّیقیت ، شہادت اور صالحیت صرف انہیں کو حاصل ہوں گے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری اطاعت کریں گے اور وہ کامل علم کا ذریعہ جس سے تمام شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں اور جس سے عرفانِ الہی حاصل ہوتا ہے یعنی انعام مکالمہ ومخاطبہ الہیہ وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو حاصل ہوگا.دوسرے تمام اہلِ مذاہب ہندو ہوں یا موسائی ، زرتشتی ہوں یا بدھ کے شیدائی ، عیسائی ہوں یا کسی اور مذہب کے پیرو ہوں اس نعمت عظمی سے محروم رہیں گے.اور واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے سوا باقی سب مذاہب مکالمہ و مخاطبہ الہیہ کا دروازہ بند کر چکے ہیں اور اپنے آپ کو اس نعمت عظمیٰ سے محروم قرار دے چکے ہیں.لیکن یا درکھنا چاہئے کہ ان کا یہ محروم رہنا خود انہی کی کرتوت یعنی صراط مستقیم سے گریز و اجتناب کے نتیجہ میں ہے.کیونکہ ظاہر ہے کہ انسان کے دل میں اپنے محبوب کے دیدار اور اس کا پُر لذت اور پر شوکت کلام سننے کی زبر دست خواہش پائی جاتی ہے.اور کامل معرفت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اپنے کانوں سے اپنے ازلی محبوب کی میٹھی اور پیاری آواز نہ سُن لی جائے.اور اللہ تعالیٰ کے نیچے عاشق اور اس کے حقیقی دلدادہ اس بات پر کہاں راضی ہو سکتے ہیں کہ وہ اس کے آستانہ پر سر رکھ کر شب و روز روئیں اور گڑ گڑا ئیں اور نہایت تضرع اور عاجزی سے دعائیں کریں، چیچنیں چلائیں اور انتہائی سوز و گداز سے اُس کو پکاریں لیکن اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پائیں.اللہ تعالیٰ کا کوئی عاشق صادق

Page 44

شرح القصيده ۴۲ کبھی اس کو گوارا نہیں کر سکتا.اس کی عاشقانہ فطرت سے کبھی یہ طلب دُور نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے محبوب از لی کا روح افزا اور تسلی بخش کلام سُنے.اس کے دل کی گہرائیوں سے یہ صدائے خاموش بلند ہوتی رہتی ہے.چنانچہ کہا گیا ہے.عشق مے خواهد کلام یار را رو پرس از عاشق این اسرار را اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا عاشق اور اس کے اسرار عشق کا واقف اور اس کے طالبوں کو اس کے ملانے کا ماہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کوئی نہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور سے اپنے طالبوں کی فطرتی آواز کا یہ جواب دلوایا ہے:.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( ال عمران : ۳۲) اے اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت کا دعویٰ کرنے والو! اگر تم اپنے دعوی میں صادق ہو اور تمہارے دلوں میں اس ازلی محبوب سے ملنے کی تڑپ ہے تو آؤ میری پیروی کرو میں تمہیں تمہارے محبوب سے ملا دوں گا اور اس وصل و تقرب کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ تمہیں اپنا محبوب بنالے گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ ، أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.(البقرة: ۱۸۷) اے محمد رسول اللہ ! جب میرے بندے مضطر ہو کر اور ہمہ تن التجا بن کر تجھ سے میرے بارہ میں دریافت کریں تو تو ان سے کہہ دے کہ میں یقیناً قریب ہوں.جب پکارنے والا مجھے پکارے تو میں اُسے جواب دیتا ہوں.

Page 45

شرح القصيده ۴۳ ان آیات سے بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے سب دروازے بند ہو گئے ،صرف ایک ہی دروازہ کھلا ہے جو محمدی دروازہ ہے اور تمام روحانی چشمے خشک ہو گئے.صرف ایک ہی چشمہ جاری ہے جو کبھی خشک نہ ہوگا اور وہ محمدی چشمہ ہے.اس لئے حضرت احمد علیہ السلام مصنف قصیدہ نے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اپنے اس قصیدہ کے مطلع میں فرمایا کہ چونکہ آسمانی فیض اور روحانی معرفت حاصل کرنے کا آپ کے سوا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا اس لئے آپ ہی اللہ تعالیٰ کے فیض اور عرفان کا سر چشمہ ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت ومعرفت کے پیاسے اور اس محبوب از لی کی جستجو میں سرگردان و پریشان ہیں وہ سخت پیاسے کی طرح انتہائی اشتیاق سے آپ کا قصد کرتے اور بڑی تیزی سے آپ کی طرف دوڑتے ہیں تا جلد سے جلد آپ تک جو چشمہ فیض و عرفانِ الہی ہیں پہنچ جائیں اور جی بھر کر پیاس بجھا ئیں اور سیراب ہو جا ئیں.- يا بحر فَضْلِ الْمُنْعِمِ الْمَثَّانِ تهوى إِلَيْكَ الرُّمَرُ بِالْكِيزَانِ معانى الالفاظ - البخرُ : سمندر، ہر بڑا دریا اور نہر.اس کی جمع آنجر اور بحور اور بخار ہے.

Page 46

شرح القصيده ۴۴ الْمَنَّانُ : كَثِيرُ الْمَنِ وَ الْإِحْسَانِ - الْمَنُ ہر ایک چیز جو بطور انعام دی جائے.یعنی بہت احسان کرنے والا اور بہت انعام دینے والا.تَهْوى : هَوَ تِ النَّاقَةُ بِرَاكِبھا کے معنے ہیں اونٹنی سوار کو تیزی سے لے گئی.هَوَی النھی وہ چیز بلندی سے نیچے کو گری.هَوى في الْأَرْضِ زمین میں سفر کیا.الؤُمَرُ : زُمْرَةٌ کی جمع ہے جس کے معنے جماعت اور فوج کے ہیں.الْكِيزَانِ : كُوز کی جمع ہے.گوزے.ترجمہ.اے منعم ومنان خدائے تعالیٰ کے فضل کے سمندر ! لوگ فوج در فوج گوزے لئے تیزی سے تیری طرف آ رہے ہیں.شرح.پہلے شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائی حالت کے لحاظ سے چشمہ قرار دیا تھا.اور چشمہ ایک چھوٹی سی جگہ میں بھی ہو سکتا ہے جس سے ایک وقت میں تھوڑے سے آدمی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اور اس دوسرے شعر میں حضور کی وسعت دعوت کو ملحوظ رکھ کر سمندر کہا ہے.مطلب یہ ہے کہ حضور کی فیض رسانی چشمہ کی فیض رسانی کی طرح محدود نہیں بلکہ سمندر کی طرح وسیع ہے.جس طرح سمندر سے بیک وقت گروہ در گروہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں

Page 47

شرح القصيده اسی طرح حضور سے بھی.۴۵ - يَا شَمْسَ مُلْكِ الْحُسْنِ وَ الْإِحْسَانِ نورت وجهَ الْبَر وَ الْعُمْرَانِ معانی الالفاظ - البر : خشک زمین.جنگل اور صحرا.مراد غیر آباد جگہیں.العُمرَانُ : آبادی جہاں لوگ ایک نظام اور تمدن کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں.ترجمہ.اے ملک حسن و احسان کے آفتاب ! تو نے غیر آباد اور آباد جگہوں کو یکساں طور پر روشن کر دیا ہے.شرح.اس شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو با عتبار فیضانِ عام کے سورج سے تشبیہ دے کر ظاہر فرمایا ہے کہ جس طرح سورج سے غیر آباد علاقے ، دشت و صحرا وغیرہ اور آباد مقامات شہر و دیہات وغیرہ روشنی پاتے ہیں بجز ان لوگوں کے جو اپنے اور سورج کے درمیان کوئی پردہ حائل کر لیں اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے جو عالم روحانی کے سورج ہیں تمام اقوامِ عالم خواہ وہ اہلِ کتاب ہوں یا غیر اہلِ کتاب مستفید ہو رہے ہیں بجز ان لوگوں کے جنہوں نے خود کوئی پردہ حائل کر لیا ہے اور جو دل کے اندھے ہیں.وَمَن لمْ يَجْعَلِ اللهُ لَهُ نُورًا أَنا لَهُ مِن تُورٍ - اسی طرح ایک اور مقام پر آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان

Page 48

شرح القصيده کے متعلق فرماتے ہیں ۴۶ صد ہزاراں یوسفے بینم دریں چاہ ذقن و آن مسیح ناصری شد از دم او بے شمار آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کا یہ عالم ہے کہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی مثل ( جوحسن و جمال میں ضرب المثل ہیں ) لاکھوں یوسف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہ ذقن میں دیکھتا ہوں.ایک مطلب تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن لاکھوں یوسف پر فائق ہے.دوسرا یہ کہ لاکھوں یوسف باوجود اپنے کمال حسن کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن پر نثار اور حضور کی محبت کے اسیر ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا احسانِ روحانی اس قدر عام اور بلند ہے کہ حضور کے دم یعنی انفاس طیبہ کی برکت سے آپ کی امت میں سے بے شمار مسیح ہو چکے اور ہوں گے اور جو روحانی شربت موسیٰ اور عیسی “ اور دوسرے انبیاء کو پلایا گیا آپ کے کامل متبعین.وہی شربت نہایت کثرت سے ، نہایت لطافت سے ، نہایت لذت سے پیتے ہیں اور پی رہے ہیں.اسرائیلی ٹوران میں روشن ہیں.بنی یعقوب کے پیغمبروں کی اُن میں برکتیں ہیں.سُبْحَانَ اللهِ ثُمَّ سُبحان الله حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کس شان کے نبی ہیں اللہ اللہ کی عظیم الشان نور ہے جس کے ناچیز خادم ، جس کی ادنیٰ سے ادنی امت ، جس کے احقر سے احقر چاکر مراتب مذکورہ بالا تک پہنچ جاتے ہیں.(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۴۶، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۷۲ حاشیہ نمبر ۱۱)

Page 49

شرح القصيده ۴۷ اور جیسے مسیح ناصری علیہ السلام روحانی مردے زندہ کرتے تھے ویسے ہیں آپ کے پیر و مُردہ دلوں کو زندہ کرتے اور انہیں روحانی زندگی بخشنے والے جام پلاتے ہیں.چنانچہ حضرت شیخ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ علیہ اپنے عیسی ثانی ہو جانے کے متعلق اپنے دیوان میں فرماتے ہیں ؎ دید دمبدم روح القدس اندر معینے مے من نمی گوئم مگر من عیسی ثانی شدم اور مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ مثنوی میں فرماتے ہیں عیسیم لیکن ہر آن کو یافت جاں از دم من او بماند جاوداں شد ز عیسی زنده لیکن باز مرد شاد آں کو جاں بدیں عیسی سپرد ان اشعار میں مولانا رومی نے اپنے آپ کو عیسی قرار دے کر کہا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے تو جو مُردے زندہ کئے تھے وہ تو پھر مر گئے لیکن وہ خوش ہو جس نے اپنے آپ کو مجھ عیسی کے سپرد کیا کیونکہ وہ ہمیشہ زندہ رہے گا.چونکہ صاحب قصیدہ کے ممدوح ملک حُسن و احسان کے سورج تھے اس لئے دنیا کی کوئی چیز آپ کی محبت کے راستے میں روک نہیں بن سکتی تھی اور نہ دنیا کا کوئی اور دلبر آپ کی محبت میں رخنہ انداز ہوسکتا تھا.اس لئے آپ فرماتے ہیں.بسے سہل ست از دنیا بریدن بیاد حسن و احسان محمد بدیگر دلبری کاری ندارم که هستم کشته آن محمد آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۹)

Page 50

شرح القصيده ۴۸ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان یاد کر کے ساری دنیا سے قطع تعلق کر لینا میرے لئے بہت آسان ہے اور کسی اور معشوق سے مجھے کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ میں تو محمد کی آن کا کشتہ ہوں.۴.قَوْم رَءَوكَ وَ أُمَّةٌ قَد أُخْبِرَتْ مِنْ ذلِكَ الْبَدرِ الَّذِي أَصْبَانِي معانی الالفاظ - أضبان : أضفى القيء فلانا کے معنے ہیں اس أَصْبَى چیز نے فلاں کو اپنا مشتاق اور فریفتہ بنالیا.ترجمہ.ایک قوم تیری رؤیت سے مشرف ہوئی اور ایک جماعت نے اس بدر کی خبر سُنی جس نے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا ہے.شرح.سوال پیدا ہوتا ہے کہ جبکہ آپ عالم روحانی کے سورج ہیں تو پھر وہ تو میں جو آپ سے پہلے گزر چکیں اور وہ جو آپ سے پیچھے آئیں گی آپ کے نور سے کیوں محروم کی گئیں ؟ اس سوال کا اس شعر میں یہ جواب دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات ہر زمانے سے تعلق رکھتی ہیں.زمانہ ماضی کے ساتھ اس طرح که گزشتہ اقوام کے انبیاء نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر آپ کے ظہور کی خبر دی.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (استثناء ۱۸/۱۸ ) میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسمعیل میں سے میری مانند ایک نبی مبعوث فرمائے

Page 51

شرح القصيده ۴۹ گا اور وہ اس سے ہم کلام ہوگا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ کے عالی شان مقام اور شریعتِ کاملہ دیے جانے کے متعلق علم دیا گیا تھا.اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں اس عظیم الشان محلی الہی کے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہونے والی تھی اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی ربّ ارتي انظُرُ إِلَيْكَ “ (الاعراف : ۱۴۴) اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھا یا جائے گا.اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اس تعلیمی کی تم تاب نہیں لا سکتے.کیونکہ وہ محلی مقام محمد آیت سے مخصوص ہے لیکن ہم اس مجتبی کو پہاڑ پر ظاہر کرتے ہیں.اگر پہاڑ اُسے برداشت کر سکے اور اپنی جگہ پر قائم رہے تو تم بھی اس تجلی کو دیکھ سکو گے.فَلَا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ پھر جب پہاڑ پر اس محلی کا ظہور ہوا جَعَلَهُ دَ لَّا وَ خَرٌ مُوسَى صَعِقًا (الاعراف: ۱۴۴) تو پہاڑ میں زلزلہ پیدا ہو کر وہ زمین پر آرہا اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے.جب ہوش میں آئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہوئے اُس کے حضور توبہ کی اور کہا وانا اَوَّلُ الْمُؤْمِنین کہ میں اُس نبی پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں جو اس عظیم الشان محلی کا مورد ہوگا.چنانچہ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس ایمان کا تذکرہ کیا ہے.فرمایا :.وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَاءِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَأَمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ.(الاحقاف: ١١) کہ بنی اسرائیل کے ایک عظیم الشان شاہد نے شہادت دی تھی کہ

Page 52

شرح القصيده اس کی مانند ایک نبی آئے گا.پس وہ اس پر ایمان لے آیا اور تم تکبر کر رہے ہو اور ایمان نہیں لاتے.یہی بات امام شرف الدین ابو عبد الله محمد بن السعید البوصیری رحمہ اللہ نے اپنے قَصِيدَةُ الْهَمْزِيَّةُ فِي مَدْ حِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ “ کے اس شعر میں بیان کی ہے.مَا مَضَتْ فَتْرَةٌ مِنَ الرُّسُلِ إِلَّا بَشَرَتْ قَوْمَهَا بِكَ الْأَنْبِيَاءُ یعنی رسولوں کی فترت کا کوئی زمانہ نہیں گزرا مگر انبیاء نے اپنی اپنی قوم کو تیرے آنے کی بشارت دی تھی.“ اور آئندہ زمانہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروزی رنگ میں آنے کی خبر قرآن مجید کی آیت وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ ( الجمعه : ۴ ) میں دی گئی ہے.اور اس شعر میں آپ کو بدر اس لئے کہا گیا ہے کہ آپ کی بعثت اولی گو جمالی اور جلالی دونوں رنگ کی تھی مگر اس میں زیادہ تر اسم محمد کی تلی ہوئی تھی جو جلالی نام ہے اور آپ کی بعثت ثانیہ جمالی رنگ میں ہونے والی تھی.اور جو شخص بروزی رنگ میں آپ کے نام پر ظاہر ہونے والا تھا اُسے بدر کی صورت میں ظاہر ہونا تھا.اس لئے اس شعر میں مجازی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدار قرار دیا جو سورج سے روشنی حاصل کر کے لوگوں کو منو رکرتا ہے.اس شعر میں علم بدیع کی صنعت التفات استعمال کی گئی ہے.پہلے مصرعہ میں ممدوح سے خطاب کیا گیا ہے اور دوسرے مصرعہ میں اس کا ذکر بصیغہ غائب کیا گیا ہے.

Page 53

شرح القصيده ۵۱ يَبْكُونَ مِنْ ذِكْرِ الْجَمَالِ صَبَابَةٌ و تَأْ ثُمَّا مِنْ لَّوْعَةِ الْهِجْرَانِ - و أرَى الْقُلُوبَ لَدَى الْحَنَاجِرِ كُرْبَةً و أَرَى الْغُرُوبَ تُسِيلُهَا الْعَيْنَانِ معانى الالفاظ - يَنكُونَ.جمع مذکر غائب مضارع کا صیغہ ہے.اس کی ماضی بکی ہے جس کے معنے ہیں، اس کے آنسو ہے.صَبَابَةٌ - شوق اور شدت محبت.لَوْعَةُ سوزِ غم اور جدائی کی جلن.کہتے ہیں فِي قَلْبِهِ لَوْعَةٌ.یعنی اس کے دل میں سوز اور جلن پائی جاتی ہے.الهجران - جدائی علیحدگی.الْحَنْجَرَةُ : الْخَلْقُوْمُ - گلا حلق ترجمہ نمبر ۵.لوگ آپ کے جمال کی یاد میں شوق و محبت کے مارے روتے ہیں اور جدائی کی جلن اور فراق کی سوزش سے ان کے آنسو بہ رہے ہیں.نمبر ۶.میں دیکھتا ہوں کہ دل بے قراری سے گلے تک آگئے ہیں اور میں آنسو دیکھتا ہوں جنہیں آنکھیں بہا رہی ہیں.

Page 54

شرح القصيده ۵۲ شرح.جب کسی شخص سے انسان کو شدید محبت ہوتی ہے تو اُس پر اپنے محبوب کی جدائی سخت گراں گزرتی ہے.بسا اوقات شدت آلم فراق سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں.علامہ بوصیری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے قصیدہ بردہ کے مطلع میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے اسی حالت کا اظہار کیا ہے.فرماتے ہیں.أَمِنْ سَلَّم ا مِن تَذكُرِ جِيرَانٍ بِذِي مَزَجْتَ دَمْعًا جرى مِنْ مُقْلَةٍ بِدَم کیا ذی سلم مقام کے ہمسائیوں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ مدینہ کی یاد میں تو اس قدر رو رہا ہے کہ تو نے آنسوؤں کو جو آنکھ سے جاری ہیں خون سے ملا دیا ہے.اس میں کثرتِ گریہ کی طرف اشارہ ہے.کیونکہ جو چیز ملائی جاتی ہے وہ تھوڑی ہوتی ہے اور جس میں ملائی جاتی ہے وہ زیادہ.چنانچہ کہتے ہیں نمک آٹے میں ملا دیا.اسی طرح آنسوؤں کو خون میں ملا دینے سے مراد یہ ہے کہ کثرت گریہ کی وجہ سے آنسو باقی نہیں رہے اگر کچھ رہے بھی تو وہ خون سے مل گئے اور اب تیری آنکھیں جو چیز بہا رہی ہیں وہ خون ہے.اگر آنسوؤں کی اس میں شمولیت ہے تو برائے نام جیسے آئے میں نمک.يَا مَن غَدًا فِي نُورِهِ وَ ضِيَائِهِ التيرينِ وَ نَورَ الْمَلَوَانِ

Page 55

شرح القصيده ۵۳ معانی الالفاظ - الرئین: سورج اور چاند الملوان : تثنیہ کا صیغہ ہے اس کا مفرد ملا ہے.رات اور دن.ترجمہ.اے وہ جو اپنے ٹور اور روشنی میں مہر و ماہ کی مانند ہو گیا ہے اور جس کے نور سے رات اور دن منو ر ہو گئے ہیں.شرح.قرآن مجید کی آیت هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءٌ وَ الْقَمَرَ نُورًا (بونس : ٢ ) میں سورج کے لئے ضیاء کا لفظ اور چاند کے لئے نُور کا لفظ استعمال ہوا ہے.اس شعر میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی کمال کا ذکر ہے.آپ چونکہ عالم روحانی کے سورج ہیں اس لئے جب کبھی دنیا میں ظلمت چھائے گی تو اس کا تدارک آپ کے ہی نور سے کیا جائے گا.جس طرح نظامِ ظاہری میں سورج نقطۂ مرکز یہ ہے اسی طرح عالم روحانی کے نقطۂ مرکز یہ آپ ہیں.اس لئے آپ کی دنیا میں عدم موجودگی کی حالت میں روحانی تاریکی آپ کی روشنی سے بعض ایسے وجودوں کے ذریعے دُور کی جائے گی جو آپ کے لئے بمنزلہ ماہ وانجم ہوں گے.اللہ تعالیٰ سورۃ فرقان میں فرماتا ہے:.تبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّبِيرًا.(الفرقان : ۲۲) وہ خدا بہت برکت والا ہے جس نے آسمان میں برج بنائے اور اُس میں

Page 56

شرح القصيده سورج اور روشن چاند بنایا.۵۴ پس جیسے ظاہری نظامِ عالم میں سورج اور چاند کے علاوہ بارہ برج پائے جاتے ہیں جن کے نام یہ ہیں.الْحَملُ - القَوْرُ " - الْجَوْزَاء " - الشَّرْطَانُ "- الْأَسَدُ السُّنْبُلَةُ " - الْمِيزَانُ - الْعَقَرَبُ - الْقَوْسُ - الْجَدَى " - التَّلْو "- الْحُوتُ ".اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نظام روحانی میں سورج اور چاند اور بارہ برج بنائے ہیں.قرآن مجید میں سورج کو سراج سے تعبیر کیا گیا ہے.جیسا کہ فرمایا: وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا - (نوح:۱۷) پھر سورة النبأ میں اس کی صفت وَھاج بیان فرمائی ہے.یعنی جو ذاتی طور پر بہت روشنی دینے والا ہے اور اس کی گرمی دور دُور تک محسوس ہوتی ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا:.وَدَاعِيًا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا منيرا - (الاحزاب : ۴۷) کہ آپ سراج منیر ہیں یعنی ایسے سورج ہیں جو دوسروں کو اپنے ! نور سے منور کرتے ہیں“ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر امت محمدیہ میں سے کسی ایک شخص کو مبعوث کرتا رہے گا جو دینِ اسلام کو تازہ کرے گا.اور چودھویں صدی کا مجد د مسیح اور مہدی کہلائے گا.پس پہلی صدی کو چھوڑ کر جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اور چودھویں صدی کو جس کا مجدد

Page 57

شرح القصيده ۵۵ بدر تام اور قمر منیر کی طرح ہوگا.باقی بارہ صدیوں میں بارہ مجد دآئیں گے جو بارہ برجوں کی طرح ہوں گے اور جس طرح ظاہری چاند سورج کی روشنی سے منورہوتا ہے اسی طرح مجد دینِ امت محمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نور حاصل کریں گے.گویا اُن کا ٹو را پنا ذاتی ٹور نہیں ہوگا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مُكتسب ہوگا اور ہر ایک اُن میں سے مجد دصدی چہار دہم کی طرح یہی کہے گا.ای آتشم ز آتش مهر محمد بیست و این آب من ز آب زلال محمد است آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۵) اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اقرار کرے گا کہ : ” وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.......اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۹) پس در حقیقت روحانی لحاظ سے رات ہو یا دن وہ آپ ہی کے نور سے منور ہیں.

Page 58

شرح القصيده -^ يَا ۵۶ بَدَرَنَا يَا آيَةَ الرَّحْمَنِ أهْدَى الْهُدَاةِ وَ اشْجَعَ الشُّجُعَانِ - إلى أرى فِي وَجْهِكَ الْمُتَهَلل شأنا تَفُوقُ شَمَائِلَ الْإِنْسَانِ معانی الالفاظ - المذی و المجمع - اسم تفضیل کے میلے ہیں.یعنی سب سے بڑا ہادی اور سب سے بڑا بہادر.سو مُتَهَلَّل - تهلل سے اسم فاعل کا صیغہ ہے.تَبَلَّلَ الْوَجْهُ أَوِ السَّحَابُ کے معنے ہیں چہرہ یا بادل چمک اُٹھا.تهلل فُلَانٌ کے معنے ہیں تَلَ لَا وَجْهُهُ مِن الشرور کہ اس کا چہرہ خوشی سے چمک اُٹھا.شَمَائِلُ - شَمِيلَةٌ کی جمع ہے جس کے معنے طبیعت اور خصلت کے ہیں.ترجمہ نمبر ۸.اے ہمارے چودھویں کے چاند اور اے رحمن خدا کے نشان! اے سب ہادیوں سے بڑے ہادی اور سب بہادروں سے بڑے بہادر! نمبر ۹.میں تیرے مسرور اور فرحان و درخشاں چہرے میں ایک ایسی شان دیکھتا ہوں جو انسانی شمائل سے بڑھ کر ہے.شرح.آپ کو بدر اس لحاظ سے بھی کہا گیا ہے کہ انسانی نسل کی ہدایت

Page 59

شرح القصيده ۵۷ کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ اعلیٰ درجہ کا نور عطا کیا جو کسی اور مخلوق کو عطا نہ ہوا.وہ کامل نور نہ فرشتوں میں تھا نہ ستاروں میں.نہ قمر میں تھا نہ آفتاب میں.وہ نہ لعل و یا قوت اور زمرد میں تھانہ الماس اور موتی میں.الغرض وہ کسی چیز میں بھی نہ تھا.ارضی ہو یا سماوی.اور آپ کا نور اللہ تعالیٰ کے نور سے مُكتسب تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ آپ کے لئے بمنزلہ شمس اور آپ بمنزلہ بدر تھے.پھر آپ آیت الرحمن تھے اس لئے آپ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن کا کامل مظہر تھے.جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت کے مطابق عالم ظاہری میں سورج، چاند ، پانی، ہوا اور دیگر اشیاء جن پر انسان کی زندگی موقوف ہے انسان کے لئے پیدا کیں اسی طرح اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی صفت کے مطابق قرآن مجید نازل کیا جس پر انسان کی روحانی زندگی موقوف ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیغام رحمانی کو اپنے جذ بہ فطری کے مطابق لوگوں تک پہنچایا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:." قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (ص:۸۷) اے رسول ! تو ان سے کہہ دے کہ اس ہدایت کے کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف اور تصنع سے یہ کام کرتا ہوں.“ پس آپ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن کے ایک نشان تھے.آپ آهْدَى الْهُدَاةِ اس لئے تھے کہ دنیا میں جس قدر ہادی آئے ہیں اُن

Page 60

شرح القصيده ۵۸ سب میں اول درجہ انبیاء علیہم السلام کے گروہ کا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل وقتاً فوقتاً جس قدر انبیاء آئے وہ خاص قوم یا خاص ملک کے لئے ہی آتے رہے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام اقوام اور تمام ممالک کے لئے مبعوث ہوئے.اس لئے آپ کے سوا کوئی بھی یہ نہ کہہ سکا کہ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: ۱۵۹) کیونکہ اس اعلان کا مطلب دنیا کی تمام اقوام اور تمام مذاہب کو چیلنج کرنا تھا اور انہیں وہ کامل اور زبر دست قوت نہیں دی گئی تھی جو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ضروری تھی.یہ منصب شان و شوکت اور یہ مقام عظمت و جلال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو نہ ملا اور جو کامیابی آپ کو حاصل ہوئی وہ کسی کو بھی حاصل نہ ہوئی.سیدنا حضرت احمد علیہ السلام اپنے محبوب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد بعثت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.وو وہ ایک خارستان تھا جس میں نبی کریم نے قدم رکھا اور ظلمت کی انتہا ہو چکی تھی.میرا مذ ہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اُس وقت تک گزر چکے تھے سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ ہرگز نہ کر سکتے.اُن میں وہ دل اور وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبی کو ملی تھی.اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذ اللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افترا کرے گا.میں نبیوں کی عزت و حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت گل انبیاء پر میرے ایمان کا

Page 61

شرح القصيده ۵۹ مجد واعظم اور میرے رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے.یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں.بدنصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہو سکتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل 66 ہے.ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ “ الحکم مؤرخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۱و۲) اشجع الشُّجَعَانِ.آپ کی بعد از بعثت ۲۳ سالہ زندگی کی ایک ایک ساعت اور ایک ایک لمحہ آپ کی بے نظیر شجاعت کی دلیل ہے.میں یہاں آپ کی شجاعت کا ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں.غزوہ حنین میں ایک ایسا وقت آیا جبکہ اسلامی لشکر جو بارہ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا بے تحا شا میدانِ جنگ سے بھاگ پڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف بارہ آدمی میدانِ جنگ میں رہ گئے اور دشمن بے تحاشا تیر برسا رہا تھا.اس اثناء میں حضرت ابو بکر نے اپنی سواری سے اتر کر آپ کی خچر کی باگ پکڑ لی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! تھوڑی دیر کے لئے آپ پیچھے ہٹ جائیں یہاں تک کہ اسلامی لشکر جمع ہو جائے.آپ نے فرمایا.ابوبکر ! میری خچر کی باگ چھوڑ دو اور خچر کو ایڑ لگاتے ہوئے اُس تنگ راستہ میں آگے بڑھنا شروع کیا جس کے دائیں بائیں کمین گاہوں میں بیٹھے ہوئے دشمن کے تیرانداز تیر برسا رہے تھے.اس دہشت خیز اور ہولناک حالت میں آپ فرما رہے تھے.انا النبي لا گنب انا ابن عبد المطلب

Page 62

شرح القصيده میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے.میں عبد المطلب کا پوتا ہوں.ایسے وقت میں کہ دشمن کا پلہ بھاری ہو اور اس کی فتح کا منظر سامنے تو بڑے بڑے بہادروں کے بھی اوسان خطا اور پتہ پانی ہو جاتا ہے.اس کے لئے موت ہی خطر ناک نہیں ہوتی بلکہ زندگی موت سے بھی زیادہ خطر ناک ہو جاتی ہے.وہ یہی چاہتا ہے کہ دشمن کے ہاتھ نہ آئے اور کسی طرح میدان سے سلامت نکل جائے.وہ دشمن کے ہاتھ آجانے کو موت سے بڑھ کر مصیبت خیز جانتا ہے.دوسری عالمگیر جنگ میں جب روسی فوجیں برلن میں داخل ہو گئیں تو ہٹلر نے خود کشی کر لی تھی اور علی محمد باب کو جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہونے کا دعویٰ کیا تھا جب یہ معلوم ہوا کہ وہ قتل کیا جائے گا تو اس نے اپنے دوستوں سے کہا کہ کل یہ لوگ مجھے نہایت بے عزتی سے قتل کریں گے اس لئے تم میں سے کوئی شخص مجھے قتل کر دے کیونکہ میں بہ نسبت دشمنوں کے ہاتھ سے قتل ہونے کے دوستوں کے ہاتھ سے قتل ہونے کو پسند کرتا ہوں.لیکن برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہی نہیں کہ میدان سے ہٹنا گوارا نہیں فرمایا اور آگے سے آگے ہی بڑھتے رہے بلکہ رجز خوانی بھی فرماتے جاتے تھے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا آپ دشمنوں پر یہ واضح فرما دینا چاہتے تھے کہ یہ خیال نہ کرنا کہ مسلمانوں کے لشکر کا پیچھے ہٹ جانا میرے دعوائی مبوّت کے صحیح نہ ہونے کی دلیل ہے.میں یقیناً نبی ہوں اور ضرور کامیاب ہوں گا اور اسلامی لشکر کا پیچھے ہٹ جانا ایک عارضی امر ہے.آخر غلبہ اُسی کو حاصل ہوگا اور میرا دشمن کے اتنے بڑے لشکر میں تنِ تنہا اقدام انسانی شجاعت سے خواہ کتناہی بالا نظر آئے اور پھر اس ہولناک

Page 63

شرح القصيده ۶۱ ہنگامہ میں میرا ہر قسم کے ضرر و گزند سے محفوظ رہنا کتنا ہی مافوق العادت سمجھا جائے لیکن اس کے یہ معنے ہرگز نہیں کہ الوہیت مجھ میں سرایت کر گئی ہے یا کوئی حصہ الوہیت مجھ میں آگیا ہے.میں ایک انسان اور عبد المطلب کا پوتا ہوں.تاریخ میں صحابہ رضوان اللہ عنہم کا اقرار موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُن سب سے زیادہ بہادر تھے.پس مذکورہ بالا دوشعروں میں آپ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ حقائق تاریخیہ ہیں.١٠ وَقَدِ اقْتَفَاكَ أُولُو النُّهى وَ بِصِدْقِهِمْ وَ دَعُوا تَذَكُرَ مَعْهَدِ الْأَوْطَانِ معانی الالفاظ - افتقاه - اتبعۂ.اس کی پیروی کی.اقتفى الشيء اخْتَارَہ.اسے چن لیا اور پسند کیا.مَعْهَد.وہ مقام جس میں کوئی ایسی چیز ہو جس کا خیال رکھا جاتا ہے یا وہ جگہ جہاں لوگ آتے جاتے ہیں.اس کی جمع مَعَاهِدُ ہے.مراد یادگاریں ، زیارت گا ہیں اور گھر وغیرہ.ترجمہ.دانشمندوں نے پیروی کے لئے تجھے منتخب کر لیا اور اپنے صدق کی وجہ سے انہوں نے اپنے وطنوں کی یادگاروں کی یاد بھی ترک کر دی.شرح.حضرت عیسی علیہ السلام کا مقولہ ہے درخت اپنے پھل ہی سے

Page 64

شرح القصيده ۶۲ پہچانا جاتا ہے (متی ۳۳/ ۱۲) اس لئے مصنف قصیدہ اپنے محبوب کے ذاتی اوصاف وکمالات کا ذکر کر کے آپ کی صداقت اور آپ کی عظمت اور جلالتِ شانِ رسالت کی دلیل کے طور پر اس شعر سے لے کر انیسویں شعر تک آپ کی جماعت کے اعلیٰ درجہ کے نمونے کو پیش کرتے ہیں.میور جیسے متعصب دشمن اسلام نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے دانا، زیرک اور معزز تھے.اسی طرح بعض اور صحابہ بھی اپنے خاندان اور شہر میں صاحب الرائے اور معزز سمجھے جاتے تھے.پھر صحابہ نے جس رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی پہلے انبیاء کی جماعتوں میں اس کی نظیر تلاش کرنا بے سود ہے.بنی اسرائیل کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ فرعون کے پنجہ استبداد سے نجات بخشی تھی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بوجب وعدہ الہی ارضِ مقدسہ میں داخل ہو جانے کا حکم دیا تو انہوں نے تعمیل حکم نہیں کی بلکہ گستاخانہ رویہ اختیار کر کے کہ دیا کہ تم اور تمہارا خدا جائیں اور دشمن سے جنگ کریں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.لیکن جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر انصار سے جنہوں نے مدینہ کے اندر رہ کر مہاجرین کی حفاظت کا معاہدہ کیا تھا مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کے متعلق دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ! ہم موسیٰ “ کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب جا کر دشمن سے جنگ کریں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی ، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ ہماری لاشوں پر

Page 65

شرح القصيده ۶۳ سے گزرتا ہوا نہ جائے.یا رسول اللہ ! اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دو تو ہم بے دریغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے.( السيرة النبوية لابن بشّام غزوة بدر الكبری، استيثاق الرسول صلى الله عليه وسلم من أمر الأنصار) صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی پیروی عاشقانہ رنگ میں کی ہے اور آپ کے ہر حکم کی تعمیل اپنے لئے سعادت دارین سمجھی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مسجد نبوی میں وعظ فرما رہے تھے اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ جو قبیلہ خزرج کے مشہور شاعر اور اول درجہ کے مخلصین میں سے تھے مسجد کے پاس سے ایک گلی میں گزرر ہے تھے کہ مسجد کے اندر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی.بیٹھ جاؤ.یہ وہیں بیٹھ گئے اور بیٹھے رہے حتی کہ آپ نے خطبہ ختم فرمالیا.ممکن ہے آج کل کا خدا فراموش اور مادہ پرست انسان ان کے اس فعل کو قابل اعتراض ٹھہرائے کیونکہ اس کے دل میں وہ ایمان اور وہ اخلاص نہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں میں تھا.حضرت عبد اللہ بن رواحہ کے اس فعل کے پیچھے یہ جذ بہ کار فرما تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی آواز میرے کان میں پہنچ گئی تو میرا فرض ہے کہ فی الفور اس کی تعمیل کروں.ایسا نہ ہو کہ اس حکم کی تعمیل سے قاصر رہنے والوں میں شمار کیا جاؤں.الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کی پیروی میں صحابہؓ نے نہایت صدق و ثبات اور کامل محبت و اخلاص کا مظاہرہ کیا ہے.انہوں نے اپنے مولد، وطن اور مسکن کو آپ کی خاطر ایسا چھوڑا کہ اُن کی یاد تک بھلا دی.جب مکہ مکرمہ فتح ہو گیا اور عرب کے ریگستانوں اور میدانوں ، پہاڑوں اور ان کی چوٹیوں اور اُن کے

Page 66

شرح القصيده ۶۴ دڑوں اور وادیوں اور دیہاتوں اور شہروں میں اللہ اکبر کی صدا گونجنے لگی تو بھی مہاجرین نے آپ کے ہمراہ مدینہ میں ہی اپنی سکونت ضروری سمجھی.یہ شعر میری طبیعت میں بھی ایک زبردست انقلاب کا باعث ہوا.ہم مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پاتے تھے.جب جمعہ کی تعطیل ہوتی تو ہم فوراً اپنے گاؤں سیکھواں میں چلے جاتے تھے جو قادیان سے جانب مغرب تین کوس کے فاصلہ پر واقع ہے.ایک دفعہ شیخ عبد الرحمن صاحب مصری جو اُس وقت مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر تھے ہمارے گاؤں گئے اور والد صاحب مرحوم و مغفور سے کہا کہ دوسرے لوگ تو جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان جاتے ہیں لیکن یہ اپنے گاؤں میں آ جاتے ہیں ایسا کرنا ٹھیک نہیں.مگر ہم طالب علموں کو اپنے گاؤں سے جو ہمارا مولد ومسکن تھا شدید محبت تھی.اس لئے شیخ صاحب کی نصیحت کا ہم طالب علموں پر کوئی اثر نہ ہوا.لیکن ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ء کا واقعہ ہے کہ میں حضرت حافظ روشن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایک جلسہ پر لا ہور گیا.اُس وقت لاہور میں حضرت میاں چراغ دین صاحب مرحوم کے مکان واقعہ بیرون دہلی دروازہ میں نماز ہوا کرتی تھی.ایک دن نماز مغرب کے بعد حضرت حافظ صاحب مرحوم و مغفور نے اس قصیدہ کے ابتدائی چند اشعار خوش الحانی سے سنائے.جب اس شعر پر پہنچے تو اس شعر کوشن کر میرے دل پر ایسا اثر ہوا کہ اپنے گاؤں کی محبت بالکل کا فور ہو گئی.اس کے بعد شاذ و نادر ہی گاؤں جایا کرتا اور پھر اس کا بھی خاتمہ ہو گیا اور بالآخر میرے والد مرحوم نے بھی گاؤں چھوڑ کر قادیان ہی میں سکونت اختیار کر لی.

Page 67

شرح القصيده قد اثرُوكَ وَ فَارَقُوا أَحْبَابَهُمُ وَ تَبَاعَدُوا مِنْ حَلْقَةِ الْإِخْوَانِ معانی الالفاظ.اثَرَهُ : اكْرَمَهُ - اخْتَارَهُ - فَضَّلَهُ یعنی اس کی عزت کی.اُسے دوسروں سے چن لیا اور ان پر فضیلت دی.حَلْقَةُ الْإِخْوَان.بھائی بندوں کا دائرہ.ترجمہ.انہوں نے تجھے اختیار کیا اور دوسروں پر ترجیح دی اور اپنے پیاروں سے جدا اور اپنے بھائیوں کے دائرہ سے دُور ہو گئے.شرح.تاریخ شاہد ہے کہ آپ پر ایمان لانے والوں نے اپنا وطن، اپنا گھر بار اور اپنے رشتہ دار آپ کی خاطر چھوڑ دیئے اور آپ کو ہر رنگ اور ہر حال میں دوسروں پر مقدم کیا.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کے حق میں یہ شہادت دی کہ : " لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَا ذُوْنَ مَن حَادٌ الله.....الآية (المجادلة : ٢٣) کہ تو ان لوگوں کو جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ایسا نہیں پائے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مخالفوں سے محبت رکھیں خواہ وہ ان کے باپ دادا ہوں یا بیٹے ، پوتے یا ان کے بھائی بند ہوں

Page 68

شرح القصيده 66 یا اُن کا کنبہ اور خاندان.“ ۶۶ اس کے ثبوت میں دو تاریخی واقعات کا ذکر کرتا ہوں:.(۱) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبدالرحمن جو غزوہ اُحد تک ایمان نہیں لائے تھے مسلمان ہونے کے بعد ایک دن آپ سے کہنے لگے کہ آپ ایک مرتبہ جنگ میں میری زد میں تھے لیکن اس خیال سے کہ آپ میرے باپ ہیں میں نے آپ پر وار نہ کیا.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فی الفور جواب دیا کہ بخدا اگر تم میری زد میں آجاتے تو میں ضرور تم کوقتل کر دیتا اور کچھ لحاظ نہ کرتا.کیونکہ تم اُس وقت خدا کے رسول سے جنگ کرنے کے لئے آئے تھے.(۲) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی والدہ سے بہت حسنِ سلوک کرتے تھے.آپ کے مسلمان ہو جانے پر اُس نے سخت مخالفت کی اور جب دیکھا کہ میری کوئی نصیحت کارگر نہیں اور سعد کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آتی تو اُس نے کھانا چھوڑ دیا اور کہا کہ میں اس وقت تک کھانا نہ کھاؤں گی جب تک کہ تم اسلام کو ترک نہ کر دو.اور ایسا نہ ہوا تو میں اس حالت میں مرجاؤں گی اور لوگ تمہیں اپنی ماں کا قاتل کہیں گے.آپ نے ہر چند کوشش کی کہ وہ کھانا کھا لے مگر اُس نے نہ کھایا.تب آپ نے تیسرے دن اُس سے کہا کہ وَاللهِ لَوْ كَانَتْ لَكِ مِائَةُ نَفْسٍ فَخَرَجَتْ نَفْسًا نَفْسًا مَا تَرَكْتُ دِينِي هَذَا لِشَيْءٍ - اللہ تعالیٰ کی قسم اگر تیری ایک جان کی جگہ سو جانیں ہوں اور ایک ایک جان کر کے نکل جائیں تو بھی میں اپنے دین کو کسی چیز کی خاطر نہیں چھوڑوں گا.اب تو کھانا کھا یا نہ کھا.جب اُس

Page 69

شرح القصيده ۶۷ نے اپنے بیٹے کا یہ عزم دیکھا تو اُس نے کھانا شروع کر دیا.تاریخ کے صفحات ایسے واقعات سے پر ہیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کی بے پایاں محبت اور انتہائی اخلاص کا ثبوت ملتا ہے.بع دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار ١٢ قَد وَدَّعُوا أَهْوَاءَهُمْ وَ نُفُوسَهُمْ و تبرَّءُوا مِنْ كُلِّ نَشَبٍ فَان معانی الالفاظ - اغراء - قوی کی جمع ہے.ایسی چیز کی خواہش جس سے لذت حاصل ہو.اس کا غالب استعمال مذموم خواہشات کے لئے ہوتا ہے.نُفُوس - نَفْس کی جمع ہے اور نَفْسُ الشّيء کے معنے عینه اس چیز کی ذات کے بھی ہیں.نشب.ہر قسم کا مال نقد ہو یا از قبیل جائیداد.ترجمہ.انہوں نے اپنی خواہشات اور اپنے نفسوں کو الوداع کہہ دیا اور ہر قسم کے فانی مال اور جائیدادوں سے بیزار ہو گئے.شرح.اسلام اختیار کر کے انہوں نے اپنی نفسانی خواہشات ہی کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی خیر باد کہ دیا.یعنی ان کا اپنانہ کوئی ارادہ باقی رہا اور نہ کوئی خواہش.اور حقیقی مسلمان انسان اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں

Page 70

شرح القصيده ۶۸ قربانی دے کر اور اپنے وجود کو اس کے لئے وقف کر کے اور اس کی رضا میں محو ہو کر ایسے صدق اور اخلاص سے اُس کی طرف جھک جائے کہ اُس محبوب حقیقی کے سوا کوئی اُس کا نہ رہے.اور اس کی نفسانی زندگی اور نفسانی جذبات پر موت وارد ہو جائے اور اس کے وجود کے تمام پرزے اور نفس کی تمام قوتیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں لگ جائیں اور اُس کی ہر حرکت اور سکون اور اس کی زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جائے ے اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش پیئے مرضی خدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اسلام کیا چیز ہے ؟ وہی جلتی ہوئی آگ جو ہماری سفلی زندگی کو بھسم کر کے اور ہمارے باطل معبودوں کو جلا کر بچے اور پاک معبود کے آگے ہماری جان اور ہمارے مال اور ہماری آبرو کی قربانی پیش کرتی ہے.ایسے چشمہ میں داخل ہو کر ہم ایک نئی زندگی کا پانی پیتے ہیں اور ہماری تمام روحانی قوتیں خدا سے یوں پیوند پکڑتی ہیں جیسا کہ ایک رشتہ دوسرے رشتہ سے پیوند کیا جاتا ہے.بجلی کی آگ کی طرح ایک آگ ہمارے اندر سے نکلتی ہے اور ایک آگ اُوپر سے ہم پر اُترتی ہے.ان دونوں شعلوں کے ملنے سے ہماری تمام ہوا و ہوس اور غیر اللہ کی محبت بجسم ہو جاتی ہے اور ہم اپنی پہلی زندگی سے مرجاتے ہیں.اس حالت کا نام قرآن شریف کی رُو سے اسلام ہے.اسلام سے ہمارے نفسانی جذبات

Page 71

شرح القصيده ۶۹ کو موت آتی ہے اور پھر دُعا سے ہم از سر نو زندہ ہو جاتے ہیں.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۴) غرض صحابہ نے اسلام کی خاطر اپنے مالوں اور جائیدادوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور جب ہجرت کے لئے حکم ملا تو اپنے تمام رشتہ داروں اور مادی مفاد سے بے پرواہ ہوکر اپنے وطن چھوڑ دیئے.حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مالدار تاجر تھے اور مکہ مکرمہ کے باحیثیت آدمیوں میں سے سمجھے جاتے تھے مگر باوجود اس کے کہ وہ مالدار بھی تھے اور آزاد بھی ہو چکے تھے قریش ان کو مار مار کر بے ہوش کر دیتے تھے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے تو حضرت صہیب نے بھی چاہا کہ ہجرت کر کے مدینہ کو چلے جائیں.مگر اہلِ مکہ نے ان کو روکا اور کہا کہ جو دولت تم نے مکہ میں کمائی ہے تم اسے مکہ سے باہر نہیں لے جا سکتے.ہم تمہیں مکہ سے نہیں جانے دیں گے.صہیب نے کہا اگر میں یہ سب دولت چھوڑ دوں تو کیا پھر تم مجھے جانے دو گے؟ وہ اس بات پر رضامند ہو گئے اور آپ اپنی ساری دولت مکہ والوں کے سپر د کر کے خالی ہاتھ مدینہ چلے گئے اور رسول کریم اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا.صہیب ! تمہارا یہ سودا سب پہلے سودوں سے نفع مند ہوا.یعنی پہلے اسباب کے مقابلہ میں تم روپیہ حاصل کیا کرتے تھے مگر اب روپیہ کے مقابلہ میں تم نے ایمان حاصل کیا ہے.(اسد الغابة - صهيب بن سنان )

Page 72

شرح القصيده -.ظَهَرَت عَلَيْهِمْ بَيِّنَاتُ رَسُولِهِمْ فَتَمَزَّقَ الْأَهْوَاء الْأَهْوَاء كَالْأَوْثَانِ معانی الالفاظ.الروقان - وذن کی جمع ہے.بت.الوَثْنِی - بُت پرست.بينات - بینة کی جمع ہے.روشن دلیل اور حجت.ترجمہ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے واضح دلائل اُن پر ظاہر ہوئے تو ان کی خواہشات بنوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں.شرح.قبولیت حق کے راستہ میں سب سے بڑی روک انسان کی مقامِ انسانیت سے گرانے والی خواہشیں اور ارادے ہوتے ہیں اور وہ اُن کی ایسی ہی پرستش کرتا ہے جیسے بت پرست بنوں کی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوْهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا - أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا (الفرقان : ۴۵٫۴۴) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کر کے جو اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں فرماتا ہے کہ ان میں سے اکثر انسانی امتیاز کھو بیٹھے ہیں.نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں وہ تو محض چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر.

Page 73

شرح القصيده 21 اس شعر میں نفسانی خواہشات کے مٹانے کو بنوں سے تشبیہ دی گئی ہے جو نہایت نادر و نفیس تشبیہ ہے.بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے اور فرمایا ہے وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ (بنی اسراء بل:۷۱).ہم نے انسانوں کو بہت معزز اور مکرم بنایا ہے اور اُسے عظیم الشان طاقتیں عطا کی ہیں.آسمانوں اور زمینوں ، سورج چاند اور ستاروں ، نہروں دریاؤں اور سمندروں ،ٹیلوں اور سر بفلک پہاڑوں کو اس کے لئے مسخر کر دیا ہے.اور جو چیزیں بھی آسمان وزمین میں پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب انسان کے فائدے کے لئے پیدا کی گئی ہیں.گویا وہ اللہ تعالیٰ کا محکوم ہے اور باقی سب کا ئنات اس کی محکوم ہے.جیسا کہ کارگاہ عالم پر کسی گہری نظر رکھنے والے نے انسان کو مخاطب کر کے کہا ہے.ابر و باد و مه و خورشید و و فلک در کارند تا تو نانے بکف آری و غفلت نه خوری ہمہ از پہر تو سرگشته سرگشته و فرماں بردار شرط انصاف نه باشد که تو فرماں نہ بری مگر اس پر بھی حالت یہ ہے کہ انسانوں ہی کا ایک حصہ اپنے ہاتھوں طرح طرح سے انسانیت کی مٹی پلید کرتا چلا آیا ہے.کوئی پتھروں کے آگے ماتھا ٹیکتا ہے، کوئی سورج کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہے، کوئی چاند یا کسی اور چیز کو حاجت روا سمجھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شرک کرنے والوں کی مثال ایک ایسے شخص سے دی ہے جو آسمان سے زمین پر گر پڑے.کیونکہ شرک کرنے والا مخدوم ہو کر خود خادم

Page 74

شرح القصيده ۷۲ بننا چاہتا ہے اور بلندی کو چھوڑ کر پستی کو اختیار کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی فتح مکہ بھی ایک واضح دلیل ہے.جب حضور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ فاتحانہ شان سے اس میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تین سو ساٹھ (۳۶۰) بنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے انسان کے قعر مذلت سے نکل کر اوج عزت تک جو اس کا اصل مقام ہے پہنچنے کا راستہ کھول دیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ سَيّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلِّمْ - جس طرح حضور کا بتوں کو توڑ نانسلِ انسانی کی رفعت شان کا موجب ہوا اسی طرح نفسانی خواہشات کو مٹانا اس کی روحانی ترقیات اور تعلق باللہ کے رشتہ کی مضبوطی کا باعث.فِي وَقْتِ تَرْوِيقِ اللَّيَالِي نُورُوا وَالله نَجَاهُم مِّنَ القُوْفَانِ معانی الالفاظ.تَرْوِيْقُ رَوَّقَ اللَّيْلُ : مَدَّ رُوَاقُ ظُلْمَتِهِ کہ رات نے اپنی تاریکی کا پردہ لمبا کیا.ترجمہ.وہ راتوں کی تاریکی کے وقت منو ر ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں طوفان ( ظلمت وضلالت ) سے نجات دی.

Page 75

شرح القصيده ۷۳ شرح.اس شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت کی ظلمت و تاریکی کی شدت کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ حقیقت موافق و مخالف دونوں کو مسلم ہے کہ آپ کے زمانے میں ایک عالمگیر تاریکی پھیلی ہوئی تھی.(دیکھو شرح شعر نمبر ) ١٥ قَد هَاضَهُمْ ظُلْمُ الأنَاسِ وَ ضَيْبُهُمْ فَتَتَبَّتُوا بِعِنَايَةِ بِعِنَايَةِ الْمَثَّانِ معانی الالفاظ - قاضه : كشرة و قشته.اُس کو ٹکڑے ٹکڑے اور چور چورکرد یا.ضَيْم ظلم.اس کی جمع ضُیوم ہے.عِنَايَة : حفاظت.کہتے ہیں عَلَى اللهُ بِهِ عِنَايَةً أَى حَفِظَهُ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی.ترجمہ.مخالف جماعتوں کے ظلم وستم نے اُن کو چور چور کر دیا.مگر وہ خدائے متان کی حفاظت سے ثابت قدم رہے.شرح.اوائل میں اسلام کے حلقہ بگوش ہونے والوں پر جس قدر ظلم وستم ہوئے ان کی نظیر پہلی قوموں میں شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہے.پرکاش دیو جی جو برہمو سماج لاہور کے پر چارک تھے اپنی کتاب ”سوانح عمری حضرت محمد ”صاحب“ میں لکھتے ہیں :

Page 76

شرح القصيده وو ۷۴ ان غریب مومنوں پر ظلم وستم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا.لوگ انہیں پکڑ کر جنگل میں لے جاتے اور برہنہ کر کے شدت کی دھوپ میں جلتی تپتی ریت پر لٹا دیتے اور ان کی چھاتیوں پر پتھر کی سلیں رکھ دیتے.وہ گرمی کی آگ سے تڑپتے.مارے بوجھ کے زبان باہر نکل پڑتی.بہتیروں کی جانیں اس عذاب سے نکل گئیں.......انہیں مظلوموں میں ایک شخص عماد تھے جسے اس حوصلہ وصبر کی وجہ سے جو اُس نے ظلموں کی برداشت میں ظاہر کیا حضرت عمار کہنا چاہیے.ان کی مشکیں باندھ کر انہیں پتھر یلی تپتی زمین پر لٹاتے تھے...اور حکم دیتے تھے کہ محمد کو گالیاں دو.یہی حال ان کے بڑھے باپ کا کیا گیا.اس مظلوم کی بی بی سے جس کا نام شمیہ تھا یہ ظلم نہ دیکھا گیا اور وہ عاجزانہ فریا د زبان پر لائی.اس پر وہ بے گناہ ایماندار عورت جس کی آنکھوں کے رُو برواس کے شوہر اور جوان بچے پر ظلم کیا جاتا تھا بر ہنہ کی گئی اور اسے سخت بے حیائی سے ایسی تکلیف دی گئی جس کا بیان کرنا بھی داخل شرم ہے.آخر اس عذاب شدید میں تڑپ تڑپ کر اس ایماندار بی بی کی جان نکل گئی.“ سوانح عمری حضرت محمد جی صفحه ۳۴، ۳۵) ایمان لانے والوں پر تیرہ برس کی مدت تک ایک باقاعدہ سکیم کے ماتحت درد ناک مظالم کئے گئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر ان شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجزا اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے.اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شر کا ہرگز مقابلہ نہ کرو.چنانچہ اُن برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا.اُن کے خونوں سے گوچے سُرخ ہو گئے

Page 77

شرح القصيده ۷۵ پر انہوں نے دم نہ مارا.وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی.خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بار با پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اُس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کو دلی انشراح اور محبت سے برداشت کیا اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا.تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گزر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اُس کا غضب شریروں پر بھڑ کا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں میں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا.یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا.“ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۶۵) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اُن کے مظلوم ہونے کی شہادت دی.فرمایا: وو " أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ، وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى b نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ و الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ.(الحج:۴۱،۴۰)

Page 78

شرح القصيده اللہ تعالیٰ ان مومنوں کو جنہیں قتل کرنے کے لئے کا فر چڑھ چڑھ کر آتے ہیں حکم دیتا ہے کہ وہ کافروں کا مقابلہ کریں کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر قدرت رکھتا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وطن سے صرف اس لئے نکال دیئے گئے کہ انہوں نے یہ کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے.“ اللہ اللہ ! ان پر کتنے ظلم کئے گئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی مظلوم ٹھہرے اور مخلوق کی نظر میں بھی.اس لئے ان کا ثابت قدم رہنا اللہ تعالیٰ کی عنایت خاص کا نتیجہ تھا.-١٢ نَهَبَ اللّقَامُ نُشُوبَهُمْ وَعَقَارَهُمْ دو فتهللوا بجواهر الْفُرْقَان معانی الالفاظ - العقار - آقاتُ الْبَيْتِ اور غیر منقولہ جائیداد و زمین ، گھر وغیرہ.نُشُوبْ - نَسَب کی جمع ہے.اس کے اور تہلل کے معنے کے لئے دیکھو شعر نمبر ۱۲٫۹.ترجمہ.ذلیل و کمینہ اوباشوں نے اُن کے مال اور اُن کی جائیدادیں لوٹ لیں.لیکن فرقان کے قیمتی موتی پاکر ان کے چہرے خوشی سے چمک اُٹھے.

Page 79

شرح القصيده LL شرح.مخالفین اسلام نے ان کی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد چھین لی لیکن قرآن مجید کے انمول موتی حاصل کر کے وہ بہت خوش ہوئے کیونکہ وہ ایک بے نظیر جائیداد تھی جو غیر فانی تھی.نہ اُسے اُن سے کوئی چھین سکتا تھا نہ کوئی قزاق ٹوٹ سکتا تھا اور نہ کوئی چور چر اسکتا تھا.وہ اس بیش بہا خزانہ کو لے کر جس ملک میں گئے اور جس قوم کے پاس پہنچے اُن کی بے حد عزت و تکریم کی گئی اور اسی دنیا میں اُنہوں نے اپنے خالق و مالک اللہ تعالیٰ سے بھی رضی اللہ عنہم کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا.- كَسَحُوا بُيُوتَ نُفُوسِهِمْ وَ تَبَادَرُوا لِتَمَتُعِ الْإِيْقَانِ وَ الْإِيمَانِ معانی الالفاظ - گسحُوا - گسیح سے ماضی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے.كَسَحَ الْبَيْتُ کے معنے ہیں گھر میں جھاڑو دی.تبادَرُوا - تَبَادَر سے ماضی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے.تَبَادَرَ الْقَوْمُ کے معنے ہیں کہ لوگوں نے ایک دوسرے سے کسی کام کے کرنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کی.ترجمہ.انہوں نے اپنے نفسوں کی کوٹھریوں کو خوب صاف کیا اور یقین اور ایمان کی دولت لینے کے لئے وہ جلدی سے آگے بڑھے.شرح.اس شعر میں صحابہ کی ایک اور خوبی کا ذکر کیا ہے.وہ یہ کہ انہیں اس

Page 80

شرح القصيده LA امر کا پورا احساس تھا کہ ایمان اور یقین کی دولت بغیر صفائی باطن نہ حاصل ہوسکتی ہے اور نہ کوئی فائدہ دے سکتی ہے.اس لئے انہوں نے اپنے باطن کو حد درجہ صاف اور پاک کیا تھا.ان کی صفائی باطن کا اندازہ اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک شخص زنا کا مرتکب ہوتا ہے اور اُسے معلوم ہے کہ اُس کی سزا رجم ہے لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور زنا کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے طهرني يَا رَسُولَ الله - اے اللہ تعالیٰ کے رسول میں گناہ کا ارتکاب کر کے نا پاک ہو گیا ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ یہ ناپاکی کا داغ مجھ پر قائم رہے اس لئے اس کی حد قائم کر کے مجھے پاک کیجئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے دریافت فرماتے ہیں.کیا تو مجنون تو نہیں؟ وہ نفی میں جواب دیتا ہے.جب چار دفعہ وہ اس گناہ کا اقرار کر چکا تو آپ نے اس پر زنا کی حد قائم کرنے کا حکم دیا.اس مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں طہارت باطنی کا کس قدر خیال تھا.قَامُوا بِأَقْدَامِ الرَّسُولِ بِغَزُوهِم كَالْعَاشِقِ الْمَشْخُوفِ فِي الْمَيْدَانِ -١٩ فَدَمُ الرِّجَالِ لِصِدْقِهِمْ في حَيْهِم تحت السُّيُوفِ أُرِيقَ كَالْقُرْبَانِ معانى الالفاظ - الْمَشْعُوفُ : شَعَفَ حُبَّهُ اس کی محبت سویدائے

Page 81

شرح القصيده ۷۹ قلب میں داخل ہو گئی.الشَّغْفُ : أَقْصَى الْحُتِ انتہائی محبت.الْقُرْبَانُ : كُلُّ مَا يُتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللهِ تَعَالَى مِنْ ذَبِيحَةٍ وَ غَيْرُهَا - ہر چیز جس سے تقرب الہی مطلوب ہوذ بیجہ وغیرہ.ترجمہ نمبر ۱۸.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش قدمی کے ساتھ یا آپ کے حکم آگے بڑھو پر میدان جنگ میں ایک عاشق صادق کی مانند دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئے.ترجمہ نمبر ۱۹.سوان جواں مردوں کے خون محبت میں صادق ہونے کے باعث تلواروں کے نیچے قربانیوں کی طرح بہائے گئے.شرح.ان دونوں شعروں میں صحابہ کی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور اُن کی میدانِ جنگ میں ثابت قدمی اور اُن کے اپنے نفسوں کی قربانی کا ذکر ہے.گوجنگ بدر میں مسلمان سپاہیوں کی تعداد ۳۱۳ تھی اور دشمن کی تعداد ایک ہزار تھی لیکن مسلمان سپاہیوں کی اپنے صدق اور اخلاص اور عشق و محبت کی وجہ سے جو حالت تھی وہ دشمن کے ایک بدوی سردار عمیر بن وہب کی زبانی سنیے جو مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ لینے کے لئے متعین ہوا تھا.جب اُس نے کفار مکہ کو خبر دی کہ مسلمان تین سوا تین سو کے قریب ہوں گے اور کفار نے خوشی کا اظہار کیا تو اُس نے کہا.اے مکہ والو! میرا مشورہ یہی ہے کہ تم ان لوگوں سے مقابلہ نہ کرو.کیونکہ میں نے

Page 82

شرح القصيده ۸۰ اونٹوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں.یعنی ان میں سے ہر ایک شخص مرنے کے لئے میدان میں آیا ہے.زندہ واپس جانے کے لئے نہیں آیا.پھر میدانِ جنگ میں صحابہ کے عشق و محبت کا مظاہرہ بھی محیر العقول ہے.غزوہ اُحد میں جب مسلمانوں کی فتح کے بعد ایک جماعت کی غلطی کے نتیجہ میں بظاہر شکست کا منظر پیش آیا اور کفار تیر انداز ٹیلوں پر چڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے تحاشا تیر برسانے لگے تو حضرت طلحہ نے یہ دیکھ کر اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے آگے کر دیا.تیر کے بعد تیر حضرت طلحہ کے ہاتھ پر لگتا تھا مگر وہ جانباز اور وفادار صحابی اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہ دیتا تھا.تیر پڑتے گئے اور حضرت طلحہ کا ہاتھ زخموں کی وجہ سے بے کار ہو گیا اور صرف ایک ہی ہاتھ اُن کا باقی رہ گیا.سالہا سال بعد حضرت علی کی خلافت کے زمانے میں جب مسلمانوں میں خانہ جنگی ہو رہی تھی کسی دشمن نے طنز کے طور پر حضرت طلحہ کو ٹنڈا کہہ دیا.اس پر ایک دوسرے صحابی نے کہا ہاں وہ ٹنڈا تو ہے مگر کیسا مبارک ٹنڈا ہے.تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ طلحہ کا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی حفاظت میں ٹنڈا ہوا تھا.جنگ اُحد کے بعد ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ جب تیر آپ کے ہاتھ پر لگتے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتا تھا اور کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ درد بھی ہوتا تھا اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی لیکن میں اس ڈر سے اُف نہیں کرتا تھا کہ مبادا اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہل جائے اور تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر آ لگے.ایک اور عاشق رسول کا واقعہ ہے کہ جب غزوہ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 83

شرح القصيده ΔΙ زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے اور آپ کے ارد گر دلڑتے ہوئے بہت سے صحابہ شہید ہوئے ، ان میں سے آپ کی حفاظت کرنے والے صحابہ کی لاشیں آپ پر آگریں جن سے آپ کا جسم مبارک چھپ گیا.اس پر کفار نے شور ڈال دیا کہ آپ مقتل کر دیئے گئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس غم سے ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے زار زار رو ر ہے تھے کہ حضرت مالک جن کو فتح کے بعد پیدا ہو جانے والے حالات کا کوئی علم نہیں تھا اور اس خیال میں تھے کہ ہم کو فتح حاصل ہو چکی ہے کھجوریں کھاتے ہوئے اُدھر سے گزرے اور حضرت عمرؓ سے رونے کا سبب پوچھنے پر یہ جواب سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو بولے کہ اگر یہ خبر صحیح ہے تو آپ یہاں بیٹھے رو کیوں رہے ہیں جس دنیا میں ہمارا محبوب گیا ہے ہم کو بھی اُسی میں جانا چاہئے.اس کے بعد وہ آخری کھجور جو اُن کے ہاتھ میں تھی اور جسے وہ منہ میں رکھنا چاہتے تھے یہ کہ کر کہ مالک اور جنت کے درمیان تیرے سوا اور کونسی چیز روک ہے وہ کھجور ہاتھ سے زمین پر پھینک دی اور تلوار کھینچ کر قریباً تین ہزار کفار کے لشکر میں گھس گئے اور اس طرح سر ہتھیلی پر رکھ کر جنگ کی کہ دشمن دنگ رہ گیا.آپ اسی آن بان اور جوش و خروش سے لڑتے ہوئے زخمی ہوکر گرے.لیکن اس حالت میں بھی قریب آنے والوں پر وار پر وار کئے جاتے تھے.آخر بہت سے کفار نے آپ پر یک دفعہ ایسی تلوار برسائی کہ جسم پارہ پارہ ہو گیا.جنگ کے بعد آپ کی لاش کے ستر ٹکڑے ہو جانے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھی.ایک انگلی کے نشان کی بناء پر آپ کی ہمشیرہ نے بتایا کہ یہ میرے بھائی کی لاش ہے.جنگوں میں صحابہ کی محبت و فدائیت ، خلوص و وفا اور صدق وصفا کی مثالیں اتنی کثیر ہیں جن کے لئے یہ مختصر تحریر کافی نہیں.

Page 84

شرح القصيده ۸۲ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد الْجَنَّةُ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ (بخاری کتاب الجهاد والسير باب لا تمنوا لقاء العدوّ ) پر صحابہ کا پختہ ایمان تھا.وہ سمجھ گئے تھے اور اُن کے دلوں پر نقش ہو گیا تھا کہ جنت راحت و آسائش اور عیش و عشرت کی زندگی سے نہیں بلکہ دشمن کی کچھی ہوئی تلواروں کے سایہ میں زندگی بسر کرنے سے حاصل ہوتی ہے اور انہوں نے میدانِ جنگ میں اپنی جانوں کی جو قربانی پیش کی وہ اپنے اصل معنی میں قربانی ثابت ہوئی کیونکہ صرف یہی نہیں کہ وہ شہادت کا درجہ حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے مقرب ہو گئے بلکہ اُن کی یہ قربانیاں دوسرے لوگوں کے لئے بھی مقرب الہی حاصل کرنے کا موجب بنیں اور بنتی چلی جائیں گی.جنگوں میں اُن کا جو خون بہا اُس کے بیش بہا نتائج وفوائد اُن کی ذات تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ اُس نے اسلامی باغ کو سینچا، سرسبز و شاداب کیا اور مثمر ثمرات بنادیا.۲۰- جَاءُوكَ مَنْهُوبِينَ كَالْعُرْيَانِ فَسَتَرْتَهُمْ يَمَلَاحِفِ الْإِيْمَانِ معانی الالفاظ - ملاحِف - مِلْحَقَةٌ کی جمع ہے.ہر وہ چیز جو اوڑھی جاتی ہے.لباس اور جو لباس کے اوپر ہو.چادر وغیرہ.ترجمہ.وہ تیرے پاس لئے ہوئے مانند بر ہنہ آئے.اور تو نے انہیں ایمان کے لباس پہنائے اور چادریں اوڑھا دیں.

Page 85

شرح القصيده ۸۳ شرح.عرب لوگ جو اسلام سے پہلے ہر قسم کی بھلائی سے محروم اور ہر قسم کی بُرائی سے ملوث تھے.جن سے بڑھ کر اُجڈ اور جن سے زیادہ اگھڑ رُوئے زمین پر اور کوئی قوم نہیں تھی جو تہذیب و تمدن سے بالکل عاری ، جن میں تقویٰ اللہ کا نام و نشان بھی نہیں تھا.جو نام و نمود اور شہرت کے دلدادہ تھے.اُن کی حالت ان لوگوں کی سی تھی جن کے مال و متاع ڈاکوؤں نے لوٹ لئے ہوں اور جن کے پاس بدن ڈھانکنے کے لئے بھی کوئی کپڑا نہ بچا ہو.ایسے حالات میں وہ اے میرے سید و مولیٰ تیری خدمت میں حاضر ہوئے.تُو نے انہیں دولت اسلام بخشی اور تقویٰ کا لباس عطا فرمایا اور ایمان کی چادریں اوڑھا ئیں اور نیکیوں کے میدان میں ایک دوسرے سے گوئے سبقت لے جانے کی کوشش کرنے والا بنادیا اور تیری پیروی کی برکت سے ان کالباس ایمان اور تقویٰ ہو گیا.وَلِبَاسُ التَّقوى ذلِكَ خَيْرٌ.اس شعر سے لے کر شعر نمبر ۳۹ تک اس انقلاب عظیم کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ عرب قوم میں ظہور پذیر ہوا.-٢١ صَادَفَتَهُمْ قَوْمًا كَرَوْثٍ ذِلَّةٌ فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبيكَةِ الْعِقْيَانِ معانی الالفاظ - روٹ.لید.گوبر.اس کی جمع آروان ہے.الشبيكة.چاندی یا سونے کی صاف کی ہوئی ڈلی.اس کی جمع سبائك ہے.

Page 86

شرح القصيده الْعِقْيانُ - خالص سونا.۸۴ ترجمہ.تو نے انہیں ایسی قوم پایا جو گو بر کی طرح ذلیل تھی.پھر تو نے انہیں خالص سونے کی ڈلی کی مانند بنادیا.شرح.اس شعر میں اہل عرب کی قبل از اسلام حالت کولید یا گوبر سے تشبیہ دی ہے یعنی حد درجہ ذلیل تھے.اقوامِ عالم میں ان کی کوئی قدرو قیمت نہ تھی لیکن اے میرے آقا ! تیری صحبت ، تیری رفاقت اور تیری متابعت نے ان کو خالص سونے کی ڈلی کی مانند بنا دیا اور اقوام عالم میں انہیں وہ درجہ اور مقام حاصل ہوا جس کی نظیر پہلوں اور پچھلوں میں تلاش کرنا بے سود ہے.۲۲.حَتَّى انْثَى بَةٌ كَمِثْلِ حَدِيقَةٍ عَلبِ الْمَوَارِدِ مُقيرِ الْأَغْصَانِ معانی الالفاظ - حديقة - باغ یا باغیچہ کو کہتے ہیں جس کی حفاظت کے لئے چاروں طرف دیوار ہو.اس کی جمع حدائقی ہے.عد ب.ہر کھانے اور پینے کی چیز جو بہ آسانی حلق سے نیچے اُتر جائے.مَاءٍ عَذَب - نہات اچھا پانی - اَلْمَوَارِدُ.مَورڈ کی جمع ہے.پانی کے لئے وارد ہونے کی جگہ یعنی گھاٹ، پانی تک پہنچنے کا رستہ ، مراد پانی ہے.ترجمہ.یہاں تک کہ عرب کا چٹیل میدان اُس باغ کی مانند ہو گیا جس کے

Page 87

شرح القصيده ۸۵ چشمے خوشگوار اور شیریں اور درختوں کی شاخیں پھلدار ہوں.شرح.اس شعر میں اہلِ عرب کی اس حالت کو جو اسلام سے پہلے تھی ایک بیابان بے آب و گیاہ سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں یہی نہیں کہ کوئی دلکشی و دلچسپی اور امن و آرام کی جگہ پائی نہیں جاتی بلکہ ہر طرف مصیبت ہی مصیبت اور ہلاکت ہی ہلاکت نظر آتی ہے.نہ کھانے کو غذ امل سکتی ہے، نہ پینے کو پانی اور نہ ٹھہرنے کو سایہ.لیکن حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے پر وہ دہشت انگیز بیابان ایک ایسے دلکش و فرحت خیز باغ میں تبدیل ہو گیا جس میں نہایت صاف وشفاف پانی کی نہریں جاری ہوں.جس کے سرسبز و شاداب درختوں میں ایسی کشش ہو کہ دل بے اختیار اس کی طرف بھیجیں اور اس کے پھولوں میں ایسی مہک اور پھلوں میں ایسا ذائقہ ہو کہ مشامِ جان اس سے معطر اور کام و زبان وہ لذت پائیں جس کی نظیر نہ مل سکے.باغ اسلام کا ایک لذیذ پھل حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے.بیت المقدس کے پادریوں کی درخواست پر جب آپ کنیسہ القیامۃ میں جو عیسائیوں کا سب سے بڑا قابل تعظیم گر جا ہے تشریف لے گئے اور نماز کا وقت آگیا تو پادریوں نے درخواست کی کہ یہیں گرجے میں نماز ادا کر لیں تو آپ نے اس بناء پر انکار کر دیا کہ اگر میں نے یہاں نماز پڑھی تو ممکن ہے آئندہ آنے والے مسلمان اس بہانہ سے اس پر قبضہ کر کے مسجد نہ بنالیں پھر عیسائیوں کو تکلیف ہو.پھر آپ نے گر جا سے نکل کر سیڑھیوں کے قریب نماز ادا کی جہاں چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی ہے.

Page 88

شرح القصيده ۸۶ اسی طرح باغ اسلام کا ایک اور لذیذ پھل حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے.حمص اور شام کے دوسرے شہروں کو جب مرکز کے حکم سے مسلمان فوج خالی کر کے دوسرے محاذ پر جانے لگی تو حضرت ابو عبیدہ نے عیسائیوں کے سرداروں کو بلوا کر کہا چونکہ اب ہم آپ کی حفاظت نہیں کر سکیں گے اس لئے آپ سے جو سال کا جزیہ لیا گیا تھا وہ آپ کو واپس کیا جاتا ہے.اس حسن معاملکی کو دیکھ کر اس علاقہ کے عیسائی زار زار روئے اور کہا ایسا سلوک تو ہم نے اپنی ہم مذہب حکومت سے بھی نہیں دیکھا.اور دعائیں دینے لگے کہ آپ پھر واپس آئیں.الغرض باغ اسلام کے پھل ایسے لذیذ اور خوش ذائقہ تھے کہ وہ آپ ہی اپنی نظیر تھے.-٣٣ عَادَتْ بِلادُ الْعُرْبِ نَحْوَ نَضَارَةٍ بعْدَ الْوَجْى وَ الْمَحْلِ وَ الْخُسْرَانِ معانى الالفاظ - الْعُزبُ وَالْعَرَبُ.ان کی جمع آغرُبُ و عُرُوبٌ ہے.بحر احمر کے مشرق میں جزیرہ نما علاقہ کے رہنے والے لوگ.نَضَارَةٌ.حسن و جمال ، رونق و تر و تازگی ، دولت وغنا.الو جی بکثرت ننگے پاؤں چلنے سے پاؤں کا گھس جانا.الو جی : بے نفع اور بے خیر.ابن السکیت کہتے ہیں کہ وجا یہ ہے کہ اونٹ اپنے پاؤں کے اندر اور گھوڑا اپنے گھر کے اندر در دمحسوس کرے (لسان العرب) الْمَحْلُ : قحط ، خشک سالی - رَجُل عمل : بے فیض اور بے نفع شخص.

Page 89

شرح القصيده ۸۷ الخسران : نقصان ہلاکت ، نا کامی ، ضلالت ، تباہی.ترجمہ.عرب کے شہروں میں پھر حسن و بہار اور رونق و تر و تازگی آگئی خستہ حالی و خشک سالی اور تباہی و ویرانی کے بعد.شرح.عرب قوم کے شہر جو دیرانی و قحط اور خشک سالی کا منظر پیش کر رہے تھے اور ایسے خستہ حال تھے کہ اُن سے کسی فائدہ یا بھلائی کی توقع نہ رہی تھی.ذلّت اور نحوست کے بادل اُن پر چھائے ہوئے تھے.تباہی اور ہلاکت ہر گھڑی اُن پر منڈلا رہی تھی.لیکن اے بارانِ رحمت ! تیری آمد سے اُن کی خشک سالی دُور ہو گئی.خشکی کی جگہ تر و تازگی نے لے لی.ذلّت و نحوست جاتی رہی.بیابان گلستان میں تبدیل ہو گئے.ریگستان مرغزار بن گئے.ویران جگہیں آباد ہوگئیں اور ہر طرف چہل پہل ، بہار اور رونق نظر آنے لگی.-۲۴- كَانَ الْحِجَارُ مَغَازِلَ الْغِزْلَانِ فَجَعَلْعَهُمْ فَانِينَ فِي الرَّحْمَانِ معانی الالفاظ - مَغَازِلُ - غَازَل سے اسم ظرف ہے.غازل الْمَرْأَةُ عورت سے دل لگی اور محبت و عشق کی باتیں کیں.الغزل : عورت سے خوش وقت ہونا اور خوش طبعی کی باتیں کرنا.غزلان : غزال کی جمع ہے.ہرن.ترجمہ.اہلِ حجاز جو خو بصورت عورتوں سے بے محابا عشق بازی میں محو

Page 90

شرح القصيده تھے تو نے انہیں رحمن میں فانی بنادیا.۸۸ شرح.یہاں سے چند مذموم اجتماعی برائیوں کا ذکر شروع ہوتا ہے جو عرب میں بکثرت پھیلی ہوئی تھیں.اور وہ ایسی برائیاں ہیں کہ جو قوم ان میں مبتلا ہو جاتی ہے وہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے تباہ ہو جاتی ہے اور ان کا مداوا نہایت مشکل ہوتا ہے اور وہ فحاشی اور زنا کاری ، شراب نوشی ، عیاشی اور موسیقی ہیں.تالمود سے ظاہر ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں بھی یہ تینوں برائیاں بدرجہ کمال پائی جاتی تھیں.جب ان کی اصلاح نہ ہو سکی تو وہ قوم تباہ ہو گئی.اس وقت یورپین اقوام میں بھی یہ تینوں برائیاں کافی حد تک موجود ہیں مگر ان پر حکومتوں کا کافی حد تک احتساب بھی ہے اور اسی نسبت سے وہ اُن کے بد عواقب کی سزا بھگت رہی ہیں.بعض حکومتیں ان کے ازالہ کے لئے کوشاں ہیں لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوتی.کیونکہ ایسے بدا فعال کی کھلے بندوں اشاعت کی جاتی ہے اور جنسی جذبات کو اُبھارنے اور برانگیختہ کرنے والے قصے اور کہانیاں اور بیانات آزادانہ اخبارات و رسالجات میں شائع ہوتے ہیں اور ان پر کوئی احتساب نہیں.ایکٹروں اور خوش گلونغمہ سنج عورتوں اور مردوں کا بے حد احترام کیا جاتا ہے.ان کے رائٹرز اور مؤلّفین کو اعتراف ہے کہ فحاشی اور زنا کاری ہماری سوسائٹی میں ایسی صورت میں سرایت کر چکی ہے جس کو دُور کرنا ممکن نہیں.عربوں میں یہ تینوں برائیاں اُن کی تہذیب و تمدن کا جزوِ لا ینفکی بن چکی تھیں اور وہ فخریہ طور پر اپنے قصائد اور مجالس میں ان کا ذکر کرتے تھے.بطور مثال عرب کا

Page 91

شرح القصيده ۸۹ مشہورشاعر لبید بن ربیعہ اپنے معلّقہ میں اپنی محبوبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے.بَلْ أَنْتِ لَا تَدُرِينَ كُمْ مِّنْ لَيْلَةٍ طَلْقٍ لَذِيدٍ لَهُرُهَا وَ نِدَامُهَا قد بتُ سَامِرَهَا وَ غَايَةِ تَاجِرٍ وَافَيْتُ إِذْ رُفِعَتْ وَ عَزَّ مُدَامُهَا اغْلِي السَّبَاءِ بِكُلِ اذْكَنَ عَاتِقِ أَوْ جَوْنَةٍ قُدِحَتْ وَ فُضَّ خِتَامُهَا وَ صَبُوْحٍ صَافِيَةٍ وَ جَلْبٍ كَرِينَةٍ يَمُوثَرٍ تَأْتَا لَهُ ابْهَامُهَا یعنی اے میری محبوبہ ! تو نہیں جانتی کہ کتنی ہی خوشگوار راتیں جن کی خوش رنگی اور ئے نوشی کی مجلس نہایت لذیذ تھی ندماء کے ساتھ گزاریں.اور کتنی ہی دفعہ میں میخانہ میں آیا اور خمار کا جھنڈا دکان پر بلند کیا گیا اور میں نے اتنی شراب پی اور پلائی کہ اس کا ملنا مشکل ہو گیا.میں ہر قدیم مشکیزے کی پرانی شراب کے مہنگا ہونے یا بڑے مٹکے کی شراب کی جس کی مہر توڑی گئی ہو گرانی کا باعث ہوتا ہوں.صبح کی مصفا اور خالص شراب اور نو جوان لڑکی کے اپنے انگوٹھے سے سرنگی کی تاروں کے تاتا کی آواز نکالنے کی کشش سے ( یعنی گانے سے بار ہا متمتع ہوا.اسی طرح عمرو بن العبد البکر کی اپنے معتلقہ میں کہتا ہے.فَلَوْلا ثَلَاثُ هُنَّ مِنْ عِيْشَةِ الفَتَى وَجَيكَ لَمْ أَحْفِلْ مَتَى قَامَ عُوَّدِى فَمِنْهُنَّ سَبْقَى الْعَاذِلَاتِ بِشَرْبَةٍ حُمَيْتٍ مَتَى مَاتُعَلَ بِالْمَاءِ تُزيد وَ كَرِى إِذَا نَادَى الْمُضَافُ مُجَنَّبًا كَسِيدِ الْغَضَا نَبَّبْتَهُ الْمُتَوَرِّدِ وَتَقْصِيرِ يَوْمِ الدَّجْنِ وَالدَّجْنُ مُعْجِبْ بِبَهكَنَةٍ تَحْتَ الْخِبَاءِ الْمُعَمَّدِ یعنی اگر تین باتیں جو ان کی لذت زندگی سے نہ ہوتیں تو میں اپنی موت کی قطعاً کوئی پرواہ نہ کرتا.ان میں سے ایک تو سرخ شراب کے پینے میں سبقت لے جانا

Page 92

شرح القصيده ہے جسے پانی کے ساتھ ملا کر جوش دیا جائے تو وہ جھاگ دینے لگے.دوسری تیز رو گھوڑے کی عنان کو ایک خائف مظلوم کی نصرت کے لئے پھیرنا اور تیسری ستونوں والے خیمہ کے اندر خوبصورت نازک اندام تنومند محبوبہ کے ساتھ خوشگوار ابر والے دن کا چھوٹا ہونا.اسی طرح عرب جاہلیت کا مشہور شاعر امرئ القیس کہتا ہے.وَ بَيْضَةٍ خِدْرٍ لَا يُرَامُ خِبَاءُهَا تمعْتُ مِنْ لَهْوِ بِهَا غَيْرَ مُعْجَلٍ تَجاوَزُتُ أَحْرَاسًا إِلَيْهَا وَ مَعْشَرًا عَلَى حِرَاصًا لَوْ يُسِرُونَ مَقْتَلِي فَجِئْتُ وَ قَد نَضَّتُ لِنَوْمٍ ثِيَابَهَا لَدَى السَّارِ إِلَّا لِبُسَةَ الْمُتَفَضْلِ خَرَجْتُ بِهَا تَمْشِي تَجُرُّ وَرَاءَنَا عَلَى أَثَرَيْنَا ذَيْلَ مِرْطٍ مُرَخَل فَلَمَّا أَجَزْنَا سَاحَةَ الْحَي وَانْتَحَى بِنَا بَطْنُ خَبْتٍ ذِي حِقَافٍ عَقَنَقَل هَصَرْتُ بِفَوْدَى رَأْسِهَا فَتَايَلَتْ عَلَى هَضِيمَ الْكَشْحِ رَيًّا الْمُخَلْخَلِ یعنی کتنی ہی خوبصورت نوجوان لڑکیاں ہیں جن کے خیمے کا قصد نہیں کیا جاتا.لیکن میں یہ اطمینان اُن سے خوش طبعی کر کے متمتع ہوا.میں اس کے پاس محافظوں اور ایک ایسی جماعت کے پاس سے گزر کر گیا کہ اگر وہ چھپا سکتے تو وہ میرے قتل کے بے حد حریص تھے.اور میں اُس کے پاس اس وقت پہنچا جبکہ اس نے صرف سونے کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور دن کا لباس اُتار دیا تھا.اگلے شعروں کا ترجمہ نہ کرنا ہی مناسب ہے.ایسے ننگے طور پر اشاعت فحشاء کی جاتی اور اس پر فخر کیا جاتا.یہ وہ قصائد تھے

Page 93

شرح القصيده ۹۱ جنہیں عمدہ اور اعلیٰ پایہ کا کلام سمجھ کر خانہ کعبہ میں لڑکا یا گیا تھا.اور یہی بدیاں جب عیسائیت میں ایک حد تک داخل ہو گئیں تو اُن سے بھی روحانیت مفقود ہو گئی.چنانچہ اخطل جو پہلی صدی ہجری میں مشہور عیسائی شاعر گزرا ہے گو اپنی حالت بیان کرتا ہے لیکن اُس وقت کے عیسائیوں کی اندرونی حالت کی خرابی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.وہ کہتا ہے.بَانَ الشَّبَابُ وَ رُبَّمَا عَلَّلْتُهُ بِالْغَانِيَاتِ وَ بِالشَّرَابِ الْأَصْهَبِ یعنی جوانی مجھ سے جُدا ہو گئی اور میں نے اس کے روکنے کے لئے کئی مرتبہ اور بہت دفعہ یہ حیلہ کیا ہے کہ پیکر حسن و جمال عورتوں اور سُرخ شراب کے ساتھ اپنا شغل رکھا ہے.اس شعر میں اخطل نے جو اپنی قوم میں نہایت معزز اور مکرم تھا اپنی زندگی کے واقعات کا صحیح نقشہ کھینچ دیا ہے اور بدکاری کے لوازمات یعنی خوبصورت عورتیں اور ارغوانی شراب کا ذکر کر کے اپنی بدکاری کا اعتراف کیا ہے.الغرض یہ تنوں بدیاں یعنی عورتوں سے عشق بازی اور شراب نوشی جو بد معاشی کے لوازمات میں سے ہیں اور موسیقی یعنی گانا بجانا جو اس کے توابع میں سے ہے عیاشی کی بنیادی چیزیں ہیں.اس شعر میں عربوں کی برائی کا ذکر کیا ہے کہ وہ خوبصورت عورتوں سے بے محابا عشق بازی کرتے تھے اور ہر دم عورتوں کا بھوت اُن کے دماغوں پر سوار رہتا تھا.وہ آزاد تھے، فراغت حاصل تھی اس لئے وہ رنگ رلیوں میں مشغول رہتے.اس شعر میں خوبصورت

Page 94

شرح القصيده ۹۲ عورتوں کو غزلان کہا گیا ہے کیونکہ عرب لوگ حسین و جمیل عورت کو ہرن یا نیل گائے سے تشبیہ دیتے تھے.چنانچہ اخطل اپنے گر جے کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے.ان مَنْ يَدْخُلُ الْكَنِيسَةَ يَوْمًا يُلْقَى فِيهَا جَاذِرًا وَ ظِبَاء اگر ہمارے گھر جا میں کسی دن کوئی جائے تو بہت سے گوزن بچے اور ہرن اس میں پائے گا.یعنی بہت سی خوبصورت ، جوان اور باجمال چست عورتوں کو دیکھ کر حظ اُٹھائے گا.پس اہل حجاز جو رات دن حسین عورتوں کے عشق میں فنا تھے وہ تیری صحبت سے اے میرے محبوب خدائے رحمان کے عشق میں فنا ہو گئے.اُن کے خیالات ، اُن کے افکار، اُن کے احساسات، اُن کے جذبات، اُن کی حرکات وسکنات ، اُن کا قیام وقعود، اُن کا کھانا اور پینا ، اُن کے اقوال و افعال اور اُن کے ارادات و خواہشات سب خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہو گئے.انہوں نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ایسے سونپ دیا جیسے کہ مردہ بدست زندہ ہو.-٢٥ شَيْتَانِ كَانَ الْقَوْمُ عُميَّا فِيهِمَا حَسْوُ الْعُقَارِ وَ كَثْرَةُ النِّسْوَانِ معانی الالفاظ.غمی.انمی کی جمع ہے.اندھے.حسو تھوڑ اتھوڑا مزے لے لے کر پینا.عُقارُ : شراب.نسوان.جمع ہے.اس لفظ کی مفرد کوئی نہیں ہے.عورتیں.

Page 95

شرح القصيده ۹۳ ترجمہ.دو چیز میں تھیں جن میں عرب قوم اندھی ہورہی تھی.شراب کا مزے لے لے کر پینا اور عورتوں کی بہتات.شرح.اس شعر میں پہلی برائی کے ساتھ دوسری برائی یعنی کے نوشی کا بھی ذکر کیا گیا ہے.یہاں عورتوں کی کثرت سے مراد رقاصات ، مغنیات اور عشق بازی کرنے والی عورتیں ہیں.اور ان دونوں برائیوں میں عرب قوم نتائج سے بے پرواہ ہوکر از سر تا پا غرق تھی.٢- اما النِّسَاءُ فَحْرِمَتْ إِنْكَاحُهَا زوجًا لَهُ التَّحْرِيمُ فِي الْقُرْآنِ معانی الالفاظ - زومج.عربی زبان میں جوڑے کو کہتے ہیں اور یہ لفظ مرد عورت دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے.ترجمہ.عورتوں کا پوچھو تو اُن کی نسبت یہ حکم ہوا کہ اُن کا نکاح ایسے زوج سے منع ہے جس کی تحریم قرآن میں آگئی ہے.شرح.جنسی تعلقات کی بدی روکنے کے لئے یہ قانون جاری ہوا کہ کوئی مرد وعورت جن کا باہمی نکاح قرآن مجید میں حرام کر دیا گیا ہے وہ آپس میں کسی حالت میں اور دوسرے بغیر عقد نکاح کے جنسی تعلقات قائم نہیں کر سکتے.اور وہ

Page 96

شرح القصيده ۹۴ آیات جن میں مخصوص عورتوں سے نکاح حرام کیا گیا ہے یہ ہیں." وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ أَبَاءُ كُمْ سے لے کر غَيْرَ مُسَافِحِينَ تک اور ان کا ترجمہ یہ ہے.(النساء: ۲۳ تا ۲۵) اور جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے تم اُن کے ساتھ نکاح مت کرو.اور جو ہو چکا اس پر کچھ مؤاخذہ نہیں ( یعنی جاہلیت کے زمانہ کی خطا معاف کی گئی ) اور پھر فرماتا ہے کہ باپ کی منکوحہ عورت کو اپنے عقد نکاح میں لانا بڑی بے حیائی اور غضب کی بات ہے اور بہت ہی برا دستور تھا.تم پر یہ سب رشتے حرام کئے گئے ہیں.جیسے تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور دائیاں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا.اور دُودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری عورتوں کی وہ لڑکیاں جو تمہاری گودوں میں پرورش پائیں اور تمہارے گھروں میں رہیں.مگر عورتوں سے وہ عورتیں مراد ہیں جو تم سے ہم بستر ہو چکی ہوں.اور اگر تم نے ان عورتوں سے صحبت نہ کی ہو تو اس صورت میں تمہیں نکاح کرنے سے مضائقہ نہیں.اور ایسا ہی تمہارے بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں مگر وہ بیٹے جو تمہارے صلبی بیٹے ہوں.متینی مراد نہیں ہیں.اور یہ حرام ہے کہ تم دو : دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرو اور دونوں تمہارے نکاح میں ہوں مگر جو پہلے اس سے گزر گیا اس پر کچھ مؤاخذہ نہیں.بے شک

Page 97

شرح القصيده ۹۵ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے.اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو دوسروں کے نکاح میں ہوں سوائے ان کے جو شرعی طور پر ظالم کافروں کی لڑائی میں قید ہو کر تمہارے قبضہ میں آئی ہوں.یہ خدا کا حکم تحریری ہے جو تم پر لازم کیا جاتا ہے.ان عورتوں کے سوا جن کا ذکر کیا گیا باقی سب عورتیں تم پر حلال ہیں مگر اس شرط سے کہ وہ تعلق صرف شہوت رانی کا ناجائز تعلق نہ ہو بلکہ نیک اور پاک مقاصد کی بناء پر نکاح ہو.“ ہوا اور جو مرد کسی عورت سے اور جو عورت کسی مرد سے ناجائز تعلق قائم کرے گی اس کے لئے قرآن مجید میں سزا مقرر کر دی گئی ہے.۲۷- وَ جَعَلْتَ دَسْكَرَةَ الْمُدَامِ مُخَرِّيَّا وَ ازَلْتَ حَانَتَهَا مِنَ الْبُلْدَانِ معانی الالفاظ - دَسْكَرةٌ واحد ہے اس کی جمع دَسا کیڑ ہے.وہ مقامات جہاں شراب اور لہو ولعب ہو.المُدَامُ شراب - الْحَانُ وَ الْحَانَةُ - شراب فروخت ہونے کی جگہ.ترجمہ.تونے میخانے ویران کر دیئے اور شراب کی دُکانیں شہروں سے ہٹا دیں.شرح.شعر نمبر ۲۶ ونمبر ۲۷ میں علم بدیع کی صنعت لف و نشر غیر مرتب

Page 98

شرح القصيده ۹۶ استعمال کی گئی ہے.کیونکہ شعر نمبر ۲۵ میں پہلے شراب کا ذکر تھا پھر عورتوں کی بہتات کا.لیکن تفصیل بیان کرتے ہوئے پہلے عورتوں کا ذکر کیا پھر شراب کا.جیسے سورۃ الدھر کی آیت إِمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا (الدهر : ۴) کہہ کر پہلے کا فروں کا ذکر کیا پھر ابرار کا.اس شعر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم الشان کارنامہ کا ذکر ہے جو معجزہ سے کسی طرح کم نہیں.عرب قوم کے نوشی کی سخت عادی تھی اور اُن کی شراب نوشی زبان زدِ خلائق تھی.وہ کے نوشی اور اس کے نشہ سے مدہوش ہونے کو فخر یہ بیان کیا کرتے تھے.ان کے قصائد کے نوشی کے ذکر سے پر ہیں.لبید بن ربیعہ اپنی شراب نوشی پر فخر کرتے ہوئے کہتا ہے.بادرت حَاجَتها الدجاج بسخرة لا عَلَّ مِنْهَا حِيْنَ هَبَ نِيَامُها یعنی میں نے مرغ سے بھی جو بہت صبح سویرے اٹھتا ہے سبقت کرتے ہوئے سحری کے وقت شراب پی.اس لئے نہیں تا لوگ مجھے دیکھ کر شراب نوشی کا طعنہ نہ دیں بلکہ اس لئے کہ جب رات کے سوئے ہوئے صبح کو میخانے میں آکر شراب نوش کریں تو میں اُن سے فخریہ کہہ سکوں کہ تم تو پہلی بار شراب پی رہے ہو اور میں دوسری بار.اور عمرو بن كلثوم تغلبی اپنے معلّقہ میں کہتا ہے.أَلا هُتِى بِصَحْنِكِ فَاصْبَحِينَا وَ لَا تُبْقِى خُمُورَ الْأَنْدَرِينَا وَكَأْسٍ قَدْ شَرِبْتُ بِبَعْلَبَكَ وَ أُخْرَى فِي دِمَشْقَ وَ قَاصِرِينَا یعنی اے محبوبہ ! شراب کا پیالہ لے کر اُٹھ اور قصبہ اندرین کی

Page 99

شرح القصيده ۹۷ بنی ہوئی جس قدر شرا میں ہیں وہ سب مجھے پلا دے اور ایسا کر کہ شراب کے ذخیرہ سے کچھ باقی نہ رہ جائے.پھر کہتا ہے کہ میں نے مقام بعلبک میں بھی بہت شراب پی ہے اور پھر اسی قدر دمشق میں بھی.اور ایسا ہی مقام قاصرین میں بھی پیتا رہا.قدیم مذاہب میں سے یہودیت اور عیسائیت میں بھی شراب کا استعمال کسی نہ کسی صورت میں جائز قرار دیا گیا.سب سے زیادہ عیسائیوں نے شراب نوشی کی.اس زمانہ میں بھی شراب کشیدگی اور شراب نوشی کا مرکز عیسائی ممالک ہی بنے.اور جس ملک میں بھی اُن کا اثر اور نفوذ ہوا وہاں کے نوشی میں اضافہ ہوتا گیا.موجودہ زمانہ میں امریکہ جیسی عظیم الشان طاقت نے جو اس وقت حُسنِ انتظام اور ظاہری طاقت اور دولت و ثروت کے لحاظ سے دنیا میں نمبر اول ہے امتناع شراب نوشی اور کشیدگی کے لئے قوانین بنائے اور پولیس ، فوج اور ٹیکس کے محکموں نے مل کر متحدہ طور پر اپنے ملک سے ئے نوشی کی لعنت دُور کرنے کے لئے کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے بلکہ امتناع شراب کے قوانین کے نفاذ کے بعد شراب نوشی پہلے سے بھی زیادہ ہوگئی.اسی طرح حکومت بھارت نے موجودہ سال جزوی پابندی لگائی.اس کا جو نتیجہ نکلاوہ نمائندہ نوائے وقت مقیم دہلی کے الفاظ میں یہ ہے.وو دہلی میں یکم اپریل ۱۹۵۶ء سے جزوی طور پر شراب نوشی پر پابندی عائد ہے.دیسی شراب کے سات ٹھیکے تھے جن میں سے گنجان آبادی والے ختم کر دیئے گئے اور افتادہ جگہوں پر تین ٹھیکے رہنے دیئے

Page 100

شرح القصيده ۹۸ گئے.انگریزی شراب خانوں میں اوقات کار مے نوشی میں کمی کر دی گئی.اب وہاں صبح بارہ بجے سے تین بجے تک اور رات کے سات بجے سے دس بجے تک ہی شراب مل سکتی ہے اور وہ بھی لازمی طور پر کھانے کے ساتھ.پہلے ہفتے میں منگل کے روز شراب خانے بند رہتے تھے اب منگل اور جمعہ دوروز بند رہتے ہیں لیکن لطف یہ ہے کہ ان پابندیوں کے باجود اپریل کے مہینے میں شراب کی کھپت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے.بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال اپریل کے مہینے میں دہلی میں جتنی شراب اور بیئر استعمال ہوئی تھی اس سال اپریل کے مہینے میں اس سے ۶۳۴ گیلن شراب اور ۲۵۵۹ گیلن بیر زیادہ استعمال ہوئی.دیسی شراب کے ٹھیکوں پر بھی کھپت میں اضافہ ہوا بلکہ بہت زیادہ اضافہ.اپریل ۱۹۵۵ء میں جہاں ۱۸۰۰ بوتلیں فروخت ہوئی تھیں وہاں اپریل ۱۹۵۶ء کے صرف پہلے ہفتے میں تین ہزار بوتلیں فروخت ہوئیں.“ (نوائے وقت“ ۱۰ / جولائی ۱۹۵۶ء صفحه ۲ مکتوب دہلی ) لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیر قدسی کا یہ عالم تھا کہ جب ہجرت کے چوتھے سال شراب کی تحریم کا حکم نازل ہوا تو اس حکم کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں نے شراب پینا بالکل ترک کر دیا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جس وقت مدینے کے گلی کوچوں میں اس حکم کا اعلان کیا جا رہا تھا اُس وقت ایک انصاری کے گھر میں شراب کی محفل گرم تھی.دور چل رہا تھا.ایک کم لنڈھا یا جا چکا تھا دوسرے کی نوبت

Page 101

شرح القصيده ۹۹ آنے کو تھی کہ اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب پینا ممنوع قرار دے دیا ہے.محفل میں سے ایک نص اُٹھ کر بولا کہ یہ شراب کی ممانعت کا حکم معلوم ہوتا ہے.ٹھہر جاؤ معلوم کر لیں.اس پر ایک اور شخص اٹھا اور اس مٹکے کو جوشراب سے بھرا ہوا تھا ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہا کہ پہلے حکم کی تعمیل کرو اور پھر دریافت کرو.(بخاری کتاب الاشربه ) حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جس دن شراب کے حرام ہونے کا اعلان کیا گیا اُس دن مدینہ کی گلیوں میں شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی.جن مسلمانوں نے یہ اعلان سنا تھا اُس کے بعد اُنہوں نے کبھی شراب نہیں پی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محض ایک اعلان ہی عرب قوم سے شراب نوشی جیسے حمد نی مزمن مرض کو معدوم کرنے کے لئے کافی ہوا.اس اعلان سے شراب خانے ویران اور شراب کی د کا نہیں مقفل ہو گئیں اور نہ شراب کشیدگی باقی رہی اور نہ شراب نوشی.یہ فوری انقلاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیر قوت قدسیہ سے ظہور میں آیا ایسا عظیم الشان و رفیع القدر انقلاب ہے جس کی نظیر نہ آپ سے پہلے کی اقوامِ عالم میں پائی گئی ہے نہ آپ کے بعد پیدا ہونے والی کسی قوم میں.-۲۸ كَمْ شَارِبِ بِالرَّشْفِ دَنَّا طَافِحًا لجعلته في الدِّينِ كَالنَّفَوَانِ معانی الالفاظ - التشف.ہونٹوں سے چوس چوس کر پینا.رشف

Page 102

شرح القصيده الإناء.برتن میں جو کچھ تھا وہ سارا پی لیا.دن.بڑا مرتبان یا مٹکا جسے مٹی کھود کر کھڑا کیا جاتا ہے.طافح.بھرا ہوا.النَّشْوَانُ : سَكْران - مدہوش.اس کی مؤنث نشوی ہے.ترجمہ.بہت تھے جو ٹم کے کم پی جاتے تھے.لیکن تو نے اُن کو دین کا متوالا بنا دیا.شرح.جس طرح شراب کے نشہ میں ایک مست و مدہوش شخص کے افعال فکر عواقب سے آزاد ہوتے ہیں.اسی طرح اے میرے محبوب تو نے انہیں شراب کے نشہ سے نجات دلا کر دین کا ایسا متوالا بنادیا کہ انہوں نے دین کی خاطر عواقب سے بے فکر ہو کر قربانیاں کیں.چنانچہ منافق لوگ انہیں یہی طعنہ دیتے تھے کہ وہ عواقب سے بے فکر ہو کر قربانی کرتے ہیں.مال خرچ کرتے ہیں تو ایسے رنگ میں گویا انہیں کل کی فکر ہی نہیں.اپنی جانیں قربان کرتے ہیں تو ایسے گویا کہ ے شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی ۲۹- كَمْ مُحْدِدٍ مُسْتَنْطِقِ الْعِيْدَانِ قد صَارَ مِنْكَ مُحَدَّثَ الرَّحْمَنِ معانی الالفاظ.مُحْدِثٌ : مُبْتَدِعٌ - بدعتی.

Page 103

شرح القصيده 1.1 مُسْتَنْطِقُ اسْتَنْطَقَهُ : كَلَّمَه - یعنی اُس سے کلام کیا ، اس سے خواہش کی کہ وہ بولے.العِيْدَانُ - عُود کی جمع ہے.سُرنگی یا عُود.ترجمہ.کتنے ہی بدعتی عود یا سرنگی بجانے والے تیرے طفیل خدائے رحمن سے ہم کلام ہوئے.شرح.بہت سے ایسے بھی تھے جو سرنگی ، عود اور رباب بجاتے اور اُن کی سروں پر راگ گاتے تھے.لیکن اے میرے مطاع تیری متابعت کے ذریعے وہ اپنے محبوب ازلی سے ہمکلام ہوئے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا.پہلی امتوں میں محدث گزرے ہیں.جن سے خدا ہمکلام ہوتا تھا.اور اُن کی زبان پر فرشتے بولتے تھے.میری اُمت میں بھی ایسے افراد ہوں گے.اُن میں سے ایک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قرار دیا.اس شعر کے لفظ مُحدث اور مُحدّث میں علم بدیع کی صنعت متجانس لفظی پائی جاتی ہے.كُمْ مُسْتَهَامٍ لِلرَّسُوْفِ تَعَشُها فَجَذَبْعَهُمْ جَنْبَا إِلَى الْفُرْقَانِ معانی الالفاظ - مُسْتَہاه کہتے ہیں اسْتَغْيَمَ فُؤَا دُہ.اس کا دل اور عقل محبت و عشق میں کھوئے گئے.اور ایسے شخص کو مُسْتَهَامُ الْفُؤَادِ کہتے ہیں.

Page 104

شرح القصيده ۱۰۲ رَسُوْفٌ الْمَرْأَةُ الطَّيِّبَةُ الْفَمِ.یعنی معطرد من عورت.(لسان العرب ) ترجمہ.بہتیرے تھے جو معطر دہن عورتوں کے عشق میں سرگردان تھے لیکن تُو نے انہیں فرقان کی طرف کھینچ لیا.شرح.یعنی پہلے وہ خوبصورت عورتوں کے عشق میں سرگردان تھے لیکن اے میرے محبوب ! تو نے انہیں اللہ تعالیٰ کے کلام فرقان مجید کا ایسا گرویدہ اور عاشق بنا دیا کہ وہ اُسی کے ہور ہے اور مطابق حدیث الدُّنْيَا سِجْنُ لِلْمُؤْمِنِ قرآن مجيد کے احکام کی چار دیواری میں انہوں نے اپنی زندگی بسر کی.ا أَحْيَيْتَ اَمْوَاتَ الْقُرُونِ بِجَلوَة مَاذَا يُمَائِلُكَ بِهَذَا الشّانِ معانی الالفاظ - آموَات - میت اور میت کی جمع ہے.مردے.الْقُرُونَ - قَرْن کی جمع ہے.صدی - جَلْوَةٌ: جَلَا الْعُرُوسُ عَلَى زَوْجِهَا جلُوةً اُس وقت کہتے ہیں جب دُلہن دولہا کو پہلی دفعہ چہرہ دکھاتی ہے اور جلوةٌ وہ تحفہ ہے جوز فاف کے وقت دولہا دلہن کو پیش کرتا ہے.ترجمہ.تو نے صدیوں کے مردے ایک جلوہ سے زندہ کر دیئے.کون ہے جو اس شان میں تیرا نظیر ہو سکے.

Page 105

شرح القصيده ۱۰۳ شرح.اس شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے کہ پہلے نبی اپنی اپنی قوم کو اس رنگ کی پائیدار اور کامل روحانی زندگی عطانہ کر سکے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قوم عرب کو حاصل ہوئی.دنیا میں جس قدر رسول و نبی آئے اُن سب کا اہم مقصد اور عظیم الشان مشن تو حید الہی کی تبلیغ تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُوْلًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ (النحل:۳۷) یقیناً ہم نے ہر قوم کی طرف رسول بھیجے اور اُن میں سے ہر رسول نے یہی تعلیم دی کہ تم اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اور تمام طاغوتی طاقتوں سے اجتناب اختیار کرو.“ رسولوں کے اس مشترکہ مشن کو ملحوظ رکھ کر جب اُمتِ محمدیہ کا دوسری اُمتوں سے مقابلہ کیا جائے تو جس رنگ میں کیفیت و کمیت کے لحاظ سے امت محمدیہ توحید پر قائم رہی اس کی نظیر کسی اور رسول کی اُمت میں نہیں پائی جاتی.حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں سے چندلوگ ایمان لائے اور باقی قوم بت پرستی اور فسق و فجور پر قائم رہی.آخر ہلاک کی گئی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کی یہ حالت تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ہی ایک بت پرست قوم کو دیکھ کر کہنے لگی اجْعَل لَّنَا الهَا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ (الاعراف : ۱۳۹) ہمارے لئے بھی ایک معبود بنادو جیسے اس قوم کے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبود ہیں.اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن

Page 106

شرح القصيده ۱۰۴ سے چند دن کے لئے علیحدگی اختیار کی تو وہ بچھڑے کو پوجنے لگ گئے.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والے بھی تھوڑی ہی مدت کے بعد شرک میں مبتلا ہو گئے اور خود مسیح کی عبادت کرنے لگے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ و انفاس طیبہ سے صدیوں کے مُردے یکدفعہ زندہ ہو گئے اور دنیا نے ایک بے نظیر انقلاب دیکھا.وہ جزیرہ عرب جو بت پرستی کے سوا کچھ نہ جانتا تھا وہ تھوڑے ہی دنوں میں ایک سمندر کی طرح توحید الہی سے بھر گیا.اور آپ نے اپنی اُمت کو ایسے رنگ میں توحید الہی کا سبق پڑھایا کہ وہ اُسے کبھی فراموش نہ کر سکی اور شب و روز مساجد کے بلند میناروں سے لا إلهَ إِلَّا اللہ کا اعلان کرتی رہی.الغرض اللہ تعالیٰ کے کامل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جس قسم کا احیاء عرب میں رونما ہوا اس کی نظیر دنیا کی کسی قوم اور ملک میں نہیں پائی گئی.حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.آپ جس قوم میں مبعوث ہوئے اُس پر ایسی تباہی و بربادی آئی ہوئی تھی جس کی نظیر دنیا میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے.مگر پھر خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ ہی آپ کے ہاتھ پر اس مردہ قوم کو زندہ کر دیا اور اُسے دنیا کا فاتح اور حکمران بنادیا.عجیب بات یہ ہے کہ اور بیمار تندرست ہونا چاہتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علاج کے لئے جو بیمار ملاوہ ایسا تھا جو اپنی زندگی کا خواہاں نہیں تھا بلکہ چاہتا تھا کہ مرجائے اور اس کا وجود دنیا سے مٹ جائے.مگر پھر وہی بیمار جو مر جانا چاہتا تھا، جو زندگی کا ملنا ناممکن سمجھتا تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اچھا ہوا.زندہ ہوا

Page 107

شرح القصيده ۱۰۵ اور اُس نے دنیا کے اور ہزاروں لاکھوں لوگوں کو زندہ کر دیا.مکہ کے لوگ جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی معمولی تاجر تھے.نہ ان کو حکومت حاصل تھی ، نہ اُن میں کوئی نظام موجود تھا ، نہ انہیں کوئی عزت اور شہرت حاصل تھی ، انتہائی کس مپرسی کی حالت میں ایک گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے.مگر دیکھو وہ لوگ آپ کے ذریعہ سے کس طرح زندہ ہو کر دنیا میں پھیل گئے.جس طرح چیل جھپٹا مار کر اپنے شکار کو قابو میں کر لیتی ہے اسی طرح وہ دیوانہ وارد نیا میں نکلے اور بڑی بڑی حکومتوں کو اُنہوں نے تہ و بالا کر دیا.اہلِ عرب کی حیثیت اس قدر معمولی تھی کہ ہمسایہ حکومتوں کے ادنی ادنی تحصیلدار بھی اُن کو ڈانٹ ڈپٹ کر دیا کرتے تھے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آنے کے بعد اُن کی طاقت کا یہ حال ہو گیا کہ وہ بڑی بڑی حکومتوں کے ساتھ ٹکرانے لگے.قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں ان کے مقابلہ میں پاش پاش ہو گئیں اور بڑے بڑے بادشاہ گردن جھکائے اور ہتھیار ڈالے اُن کے سامنے حاضر ہوئے.یہ نمونہ تھا اس احیاء کا جو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا.“ ( تفسیر کبیر تفسیر سورۃ الاعلیٰ زیر آیت نمبر ۲) - تَرَكُوا الْغَبُوْقَ وَ بَدَّلُوا مِنْ فَوْقِهِ ذوقَ الدُّعَاءِ بِلَيْلَةِ الْأَحْزَانِ معالی الالفاظ - الْغَبُوتی.وہ شراب جو اہلِ عرب پچھلے پہر شام کے

Page 108

شرح القصيده 1.4 قریب پیتے تھے.اس کے مقابلہ میں صبوح ہے جو صبح کے وقت پیتے تھے.الْأَحْزَانُ حَزَن اور حزن کی جمع ہے.ہم وتم.ترجمہ.انہوں نے شام کی شراب ترک کر دی اور اس کی لذت کے بدلے انہوں نے غم کی راتوں میں دُعا کی لذت اختیار کر لی.شرح.کتنا عظیم الشان انقلاب ہے.یا تو وہ وقت تھا کہ وہ اپنی راتیں راگ و رنگ لہو ولعب اور اکل و شرب میں گزارتے تھے یا یہ حالت ہو گئی کہ وہ شب ہائے تاریک و تار میں اپنے معبود کے حضور سجدہ ریز ہو کر سوز و گداز سے دعاؤں کا لطف اٹھانے لگے.سبحان اللہ ! کیسا نعم البدل اختیار کیا! عرب میں شراب پینے کے پانچ وقت مقرر تھے جن میں مہمانوں وغیرہ کو بھی شراب پیش کی جاتی تھی.جالمیریہ اس شراب کو کہتے تھے جو صبح قبل طلوع آفتاب پی جاتی تھی.اور صبوح جو بعد طلوع آفتاب پیتے تھے.دوپہر کے وقت کی شراب کو قيل کہتے تھے.جو پچھلے پہر شام کے قریب پیتے تھے اُس کا نام غبوق تھا.اور رات کے وقت شراب پینا فحمہ کہلاتا تھا.اسلام نے ظہور فرما کر پانچوں وقت لے لسان العرب میں لکھا ہے فَحَمَةُ اللَّيْلِ رات کے پہلے حصہ کو اور بعض کے نزدیک پہلے حصے میں جو سخت اندھیرا ہوتا ہے اُسے اور بعض سورج کے غروب ہونے سے لے کر سونے کے وقت تک کو فخمه کہتے ہیں.اور ان اوقات میں شراب پینے کو بھی قتحمہ کہا جاتا مگر شراب کا نام فخمه نہیں تھا جیسے جَاشَرِيَّة ، صَبُوحُ ، غَبوق اور قیل شراب کے نام ہیں.منہ

Page 109

شرح القصيده ۱۰۷ شراب نوشی کی بجائے پانچ نمازیں مقرر کر دیں اور ہر ایک بدی کی جگہ نیکی رکھ دی.كَانُوا بِرَئَاتِ الْمَقَالِي قَبْلَهَا قد أحْصِرُوا فِي شُحِهَا كَالعَانِي معانی الالفاظ - الزناک - رله کی جمع ہے اور تیں ایسی آواز کو کہتے ہیں جس میں سوز و غم پایا جائے.الْمَقَانِی مُثلی کی جمع ہے.عود یا سرنگی کی پہلی تار کے بعد کی دوسری تاریں.اُحْصِرُوا : أَحْصَرَهُ عَنِ الشَّفَرِ کے معنے ہیں اُسے سفر سے روک لیا.مجمع حرص و بخل - العاني مطیع و ذلیل قیدی.اس کی جمع غناتی ہے اور مؤنث عَانِيَةُ کی جمع عَانِيَاتٌ اور عَوَانٍ ہے.ترجمہ.اس سے پہلے وہ سرنگیوں اور دو تاروں کی سروں اور نغموں اور ڑوں ڑوں کی آواز کی حرص میں ذلیل و مطبع قیدی کی طرح تھے.-۳۴- قَد كَانَ مَرْتَعُهُمْ آغَانِي دَائما طورًا بِغِيْدٍ تَارَةً بِدِنَانِ معانی الالفاظ - مرتع.ہر وہ خوشحال جگہ جس میں اس کے مناسب حال ضروری سامان موجود ہو.موضعُ الرَّنْع - چراگاہ - رتع - خوشحالی کے بہ افراط ہونے اور فارغ البالی کی زندگی کو کہتے ہیں.آغانِي أُغْنِيَةٌ ( یاء کی تخفیف اور

Page 110

شرح القصيده 1+A تشدید کے ساتھ ) کی جمع ہے.راگ جو گا یا جائے اور ترنم کے ساتھ پڑھا جائے.طور کبھی کہتے ہیں آتَيْتُهُ طَوْرًا بَعْدَ طَوْرٍ أَيْ تَارَةً بَعْدَ تَارَةٍ - غِيْدُ أَغْيَدُ اور غید آؤ کی جمع ہے.نازک اندام.ترجمہ.ان کی محفلیں اور پکنکیں ہمیشہ راگ ورنگ تھیں.کبھی تو نازک اندام نازنینوں کے ساتھ دل لگی اور کبھی کے کے حکم لنڈھائے جاتے.-۳۵ مَا كَانَ فِكْر غَيرَ فِكْرِ غَوَانِي او شُرْبِ رَاعٍ أَوْ خَيَالِ جِفَانٍ معانی الالفاظ - غواني - غانِيَةٌ کی جمع ہے.وہ عورت جو اپنے ذاتی حسن و جمال کی وجہ سے آرٹیفیشل زینت سے بے پرواہ ہو.متنبی کہتا ہے.حُسْنُ الْحِضَارَةِ مَجْلُوبُ بِتَطْرِيَةٍ وَ فِي الْبَدَاوَةِ حُسْنُ غَيْرُ مَجْلُوْبٍ یعنی شہریوں کا حسن تو بال سنوار نے اور سنگار کا رہین منت ہے اور بدویوں کا حسن قدرتی اور طبعی ہوتا ہے.رائع.شراب - جِفَانُ - جَفْنَةٌ کی جمع ہے.بڑے پیالے.ترجمہ.انہیں خوبصورت گانے والی عورتوں یا شراب نوشی اور کاسہ ہائے شراب کے تصور کے سوا اور کوئی فکر نہ تھی.

Page 111

شرح القصيده 109 شرح.مذکورہ بالا تینوں شعروں میں انہی تینوں برائیوں کا مختلف پیرایوں میں ذکر کیا گیا ہے جن کی تفصیل او پر گزر چکی ہے.كَانُوا كَمَشْغُوفِ الْفَسَادِ بِجَهْلِهِمْ رَاضِينَ بِالْأَوْسَاحُ وَ الْأَدْرَانِ معانی الالفاظ.اوساخ.وسع کی جمع ہے.اخران - کرن کی جمع ہے میل کچیل.ترجمہ.وہ اپنی بے وقوفی اور جہالت سے فساد کے شیفتہ تھے اور میل کچیل اور نا پا کی پر خوش تھے.-٣٧ عَيْبَانِ كَانَ شِعَارَهُمْ مِنْ جَهْلِهِمْ تحمق الْحِمَارِ وَ وَثْبَةُ اليَرحَانِ معانی الالفاظ - شعار : بیٹ اللَّيْلِ’واج ورڈ کو کہتے ہیں.یعنی وہ کلمہ جس کے ساتھ دوست اور دشمن کی تمیز کی جاتی ہے.جنگ یا سفر میں کوئی علامت جو مقرر کر لی جائے.جسم کے ساتھ لگے ہوئے لباس کو بھی کہتے ہیں.اس کے مقابل کا لفظ دگار ہے.اوپر کا کپڑا انہیں معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.

Page 112

شرح القصيده الْأَنْصَارُ شِعَارِي وَالنَّاسُ دِثَارِي حُحمق کم عقلی.الشرحَانُ.بھیڑیا یا شیر.اس کی جمع سرامح اور ستر احين ہے.ترجمہ.جہالت سے دو عیب ان کے شامل حال تھے.اڑ گدھے کی اور حملہ بھیڑ یئے کا.شرح.آخری دو شعروں میں آپ نے عرب قوم کی بعض حمد نی برائیوں کے اسباب و علل کا ذکر فرمایا ہے.مولانا الطاف حسین حالی مرحوم نے ان برائیوں کا ذکر مسدس میں یوں کیا ہے.چلن اُن کے جتنے تھے سب وحشیانہ ر اک ٹوٹ اور مار میں تھا یگانہ فسادوں میں کتنا تھا اُن کا زمانہ نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے نہ ٹلتے تھے ہرگز جو اڑ بیٹھتے تھے سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے تو صدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے بلند ایک ہوتا تھا گر واں شرارا تو اُس سے بھڑک اُٹھتا تھا ملک سارا

Page 113

شرح القصيده وہ بکر اور کے تغلب کی باہم لڑائی صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی قبیلوں کی کر دی تھی جس نے صفائی تھی اک آگ ہر سُو عرب میں لگائی نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا لپ جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا یونہی روز ہوتی تھی تکرار اُن میں یونہی چلتی رہتی تھی تلوار اُن میں جوا اُن کی دن رات کی دل لگی تھی شراب اُن کی گھٹی میں گویا پڑی تھی تعیش تھا غفلت تھی دیوانگی تھی غرض ہر طرح اُن کی حالت بری تھی بہت اس طرح اُن کو گزری تھیں صدیاں کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھیں بدیاں لے بکر اور تغلب عرب کے دو قبیلوں کا نام ہے جن کے درمیان یہ لڑائی ہوئی تھی اور اس جنگ کو حرب بسوس اس لئے کہتے تھے کہ بکر خاندان کی ایک عورت کے ہاں جس کا نام بسوس تھا ایک مہمان آیا.اس مہمان کی اونٹنی چرتی ہوئی گلیب کی چراگاہ میں جو خاندان بنی تغلب سے تھا چلی گئی اور کلیب نے اس کے تھنوں کو تیر سے زخمی کر دیا.یہ بات بنی بکر کو نا گوار خاطر ہوئی اور ان میں سے ایک شخص مُهَلهَل نے گلیب کو بر چھے سے مار ڈالا.اس سے دونوں قبیلوں میں جنگ چھڑ گئی جو عرصہ تک قائم رہی.

Page 114

شرح القصيده ۱۱۲ - فَطَلَعْتَ يَا شَمْسَ الْهُدَى نُصْعًا لَّهُمْ لِتُضِيْنَهُمْ مِنْ وَجْهِكَ النُّوْرَانِي - أُرْسِلْتَ مِنْ رَّبٍ كَرِيمٍ مُحْسِنِ في الْفِتْنَةِ الصَّمَّاءِ وَالطَّغْيَانِ ترجمہ نمبر ۳۸.اتنے میں اسے آفتاب بدایت کو ان کی خیر خواہی کے لئے طلوع ہوا تا اپنے نورانی چہر سے انہیں منور کر دے.ترجمہ نمبر ۳۹.تو خدائے کریم محسن کی طرف سے سخت خوفناک فتنے اور طغیانی کے وقت مبعوث کیا گیا.شرح.ان دو شعروں میں اُس انقلاب عظیم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ایک اگھڑ اور اُجڈ ننگ انسانیت قوم میں خدا تعالیٰ کے رسول محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے رُونما ہوا.یہاں حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اس تقریر کا درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جو انہوں نے قریش کے اُس وفد کی موجودگی میں جس نے نجاشی شاہ حبشہ سے اُن مسلم مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا جنہوں نے قریش کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ میں پناہ لی تھی.آپ نے شاہ نجاشی کے دریافت کرنے پر نہایت رقت انگیز پیرایہ میں فرمایا :-

Page 115

شرح القصيده ۱۱۳ اے بادشاہ ! ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جہالت اور گمراہی کے گڑھے میں گرے ہوئے تھے.ہم بتوں کو پوجا کرتے تھے.مُردار کھایا کرتے تھے.گندی فحش باتیں بکتے تھے.ہم میں کوئی انسانیت کی خوبی نہ تھی.خداوند تعالیٰ نے جس کا فضل عام جہان پر چھایا ہوا ہے محمد کو اُس پر اللہ کی رحمت اور عنایت ہو ہمارے لئے رسول کر کے بھیجا.اُس کی شرافت نسب اور راست گفتاری ، صفا باطنی اور دیانتداری سے ہم خوب آگاہ ہیں.اُس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی ظاہر فرمائی اور وہ اللہ کا یہ پیغام لے کر ہمارے پاس آیا کہ سرف ایک خدا پر ایمان رکھو.اس کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ.بتوں کی پرستش مت کرو.راست گفتاری اپنا شعار ٹھہراؤ.امانت میں کبھی خیانت نہ کرو.اپنے تمام ابنائے جنس سے ہمدردی رکھو.پڑوسیوں کے حقوق کی نگہداشت کرو.عورت ذات کی عزت کرو.یتیموں کا مال نہ کھاؤ.پاکیزگی اور پر ہیز گاری کی زندگی اختیار کرو.خدا کی عبادت کرو.اُس کی یاد میں کھانا پینا تک بھول جاؤ.راہ خدا میں غریبوں کی مدد کے لئے خیرات کرو.اے بادشاہ! صرف اس ایمان لانے پر ہمیں وہ ایذائیں دی گئیں کہ ہمیں بال بچے ، گھر بار تک چھوڑ کر جلا وطن ہونا اور راہ غربت اختیار کرنا پڑا ہے.ہمیں اپنے دیس میں کہیں پناہ نہ ملی.آخر ہم سب پر دیسیوں نے تیرے ملک میں آکر پناہ لی ہے.تیرے انصاف اور رحم سے ہمیں اُمید ہے کہ تو غریبوں پر ظلم نہ ہونے دے گا.“ سوانح عمری حضرت محمد صاحب مؤلّفہ پر کاش دیو جی صفحه ۳۶، ۳۷)

Page 116

شرح القصيده ۱۱۴ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس تقریر میں عرب کی قبل از اسلام حالت اور انقلاب پیدا کرنے والی اسلامی تعلیم کا مختصر ذکر کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس عظیم الشان انقلاب کا جو عرب قوم میں ایک نہایت قلیل عرصہ میں پیدا ہوا سورۃ فرقان کے آخری رکوع میں یوں ذکر فرمایا ہے:.وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا.(الفرقان : ۶۴) یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت کے ماتحت اپنے رسول کے ذریعہ تیار کئے ہیں اُن میں متکبرانہ روش کی جگہ تواضع اور انکساری آگئی ہے.پہلے تو وہ نشہ میں مدہوش ہو کر تبخترانہ انداز میں چلنے پر فخر محسوس کرتے تھے.جیسے سمول بن عاد یا کہتا ہے ھے وَ إِذَا مَا اصْطَبَحْتُ اَرْبَعًا خَطَ مِيزَرِى یعنی جب میں صبح کو شراب کے چار گلاس پی لیتا ہوں تو میں نہایت متکبرانہ انداز میں چلتا ہوں اور میرا نہ بند زمین پر لکیر کھینچتا جاتا ہے.“ لیکن اب اُن کی یہ حالت ہے کہ وہ زمین پر نہایت سکینت اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں اور وہ پہلی سی پٹھوں پھوں اور تکبر اُن میں نہیں رہا اور وہ لوگوں سے لطف اور نرمی سے پیش آتے ہیں.اسلام سے پہلے وہ جہالت یعنی لڑائی اور جنگ پر فخر کرتے تھے.جیسے کہ عمرو بن كلثوم تغلبی کہتا ہے.الا لا يَجْهَلَن اَحَدٌ عَلَيْنَا فَتَجْهَلُ فَوْقَ جَهْلِ الْجَاهِلِينَا

Page 117

شرح القصيده ۱۱۵ ”خبردار کوئی ہم پر جہالت نہ کرے.یعنی ہم سے نہ الجھے ورنہ ہم جاہلوں کی جہالت سے بڑھ کر جہالت کا مظاہرہ کریں گے.“ لیکن عباد الرحمن کے گروہ میں داخل ہونے کے بعد وہ جہالت کا جواب سلام سے دیتے ہیں.وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (الفرقان: ۶۴) کہ جب انہیں جاہل یعنی لڑائی پر اکسانے والے یا موجب غضب و اشتعال حرکات کرنے والے خطاب کرتے ہیں تو وہ جوابا کہتے ہیں کہ ہم تو صلح و سلامتی اور امن کے خواہاں ہیں اور کسی حالت میں بھی شر پسند نہیں کرتے.پھر فرمایا کہ وہ لوگ جو زمانہ جاہلیت میں کے نوشی ، قمار بازی ، عورتوں سے معاشقہ ، رقص وغنا اور لہو و لہب میں اپنی راتیں گزارتے تھے اب انہوں نے مصائب سے کنارا ہی نہیں کیا بلکہ يَبِيتُونَ لِرَتِهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (الفرقان: ۲۵) یعنی وہ اپنی راتیں عبادت الہی اور اپنے مولیٰ کے حضور قیام اور سجود میں گزارتے ہیں.اور ایک دوسری آیت میں فرمایا :- تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا.(السجدة: ۱۷) کہ اُن کے پہلو اپنے بستروں سے الگ ہوتے ہیں اور وہ اپنے رب کے حضور گڑ گڑاتے اور دعائیں کرتے ہیں.

Page 118

شرح القصيده جاہلیت میں انہیں آخرت کا کوئی خیال نہ تھا.ان کا مقولہ تھا.کھاؤ پیو اور عیش اڑاؤ کل تو مر ہی جانا ہے.یا پنجابی مثل ایہہ جگ میٹھاتے اگلا کن ڈھا“ کے مطابق اپنی زندگی گزارتے تھے.اس لئے ان کے نزدیک گناہ کوئی قابل سزا چیز ہی نہ تھی لیکن اسلام لانے کے بعد اُن کی حالت یہ ہو گئی کہ وہ اپنے رب سے دُعا کرتے ہیں.ربَّنَا اصْرِفُ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ (الفرقان : ۶۶ ) اے ہمارے رب ہمیں جہنم کے عذاب سے بچانا.گویا اب انہیں ہر وقت آخرت کا خیال رہتا ہے.جاہلیت میں تو وہ رسم و رواج ، راگ و رنگ ، نام و نمود اور عیاشی و بد قماشی میں مال برباد کرنے میں تو آنا و لا غیرتی کا دم بھرتے تھے.لیکن غریبوں اور مسکینوں، بیواؤں اور یتیموں پر خرچ کرنے سے مرتے تھے.یہی تھے جو اسلام کے بعد آخر يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا (الفرقان :۶۸) کہ نہ وہ بے جا خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی نیکی کے کاموں میں بخل سے کام لیتے ہیں.اب اُن کا انفاق مال دونوں حالتوں کے درمیان حد اعتدال پر ہے.زمانہ جاہلیت میں سارا جزیرۂ عرب بت پرستی و بدمستی ، دغا و فریب اور قتل و غارت وغیرہ کے بحر ذخار میں از سرتا پا غرق تھا بت پرستی کی یہ حالت تھی کہ ہر قبیلہ کا ایک علیحدہ بہت تھا.تین سو ساٹھ بت تو خانہ کعبہ میں نصب تھے اور قریش بت پرستی کو اپنی زندگی اور موت کا سوال سمجھتے تھے.وہ کہتے تھے إِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدَى مَعَكَ نُتَخَطَّفُ مِنْ أَرضِنَا (القصص : ۵۸).اگر ہم اسلام قبول کر لیں اور بت پرستی چھوڑ دیں تو پھر ہمارا زمین میں کوئی ٹھکانا ہی نہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بت پرستی سرزمین عرب سے ایسی نابود

Page 119

شرح القصيده 112 ہوئی کہ چودہ سو سال کے لمبے عرصے میں پھر کبھی رونما نہیں ہوسکی.اور توحید الہی اُن کے رگ وریشہ میں ایسی سرایت کر گئی کہ انہوں نے دین کی اشاعت کے لئے ہر قسم کے مظالم اور مصائب برداشت کئے.حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشرکوں نے ایک موقعہ پر قید کر لیا تھا.جب اُن کے قتل کئے جانے کا مقررہ وقت آ گیا اور انہوں نے اپنا سر قتل کے لئے جلا د کے سامنے رکھ دیا تو جلا د کے تلوار چلانے سے پہلے انہوں نے یہ اشعار پڑھے.وَ لَسْتُ أَبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا على آتِي جَنبِ كَانَ لِلهِ مَصْرَعى و ذلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَ إِنْ يَشَا يُبَارِك على أَوْصَالِ شِلُو مُمَزَّع جبکہ میں مسلم ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے اس امر کی کچھ پرواہ نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کی خاطر قتل کے وقت کس پہلو پر گرتا ہوں اور یہ میرا قتل ہونا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے ہے اگر وہ چاہے تو میرے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکت نازل فرمائے گا.“ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آخری شعر کو ختم کرنا تھا کہ جلاد کی تلوار اُن کی گردن پر پڑی اور سرتن سے جُدا ہو گیا.یہ بڑا ہی دردناک و دلگد از منظر تھا.جولوگ اس واقعہ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئے تھے اُن میں سے ایک سعید بن عامر بھی تھے جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے.جب کبھی اُن کے سامنے حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کا ذکر ہوتا تو اُن پر غش آجایا کرتا تھا.حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے

Page 120

شرح القصيده ۱۱۸ والے تو مٹ گئے ، اُن کا کوئی نام و نشان نہ رہا لیکن حضرت خبیب ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں.کشتگان خنجر تسلیم را ہر زمان از غیب جان دیگر است پھر جاہلیت میں وہ رہزن اور قزاق تھے.معمولی معمولی باتوں پر اُن میں جنگ چھڑ جاتی جو مہینوں اور سالوں تک جاری رہتی لیکن اسلام اختیار کرنے کے بعد ان کی یہ حالت ہوگئی وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ (الفرقان :۶۹) که وہ کسی ایسے نفس کو جس کا قتل اللہ تعالیٰ نے اس شریعت میں جائز قرار نہیں دیا قتل نہیں کرتے.پہلے اُن کے نزدیک زنا، بدکاری وغیرہ باعث فخر تھے.لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد وہ زنا کے قریب بھی نہیں جاتے.مرشد الغنوی ایک مضبوط جوان مرد تھے.مکہ سے مسلمان قیدی چھڑا کر مدینہ لے جایا کرتے تھے.ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جب انہوں نے ایک قیدی کو آواز دی تو مکہ کی ایک کنچنی جس کا نام عناق تھا اور مرتد کی دوست رہ چکی تھی ادھر آنکلی.مرشد کو دیکھ کر اُسے اھلاً وَ مَرْحَبًا کہا اور بصد اصرار کہا کہ آج رات میرے پاس گزارو.مرشد نے اُسے جواب دیا.اے عناق ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا حرام کر دیا ہے.جب اُس نے دیکھا کہ مرشد انکار پر مُصر ہے تو اُس نے شور مچا دیا اور کہا لوگو! یہ ہے وہ شخص جو تمہارے قیدی چرا کر لے جاتا ہے.مرثد وہاں سے بھاگ کر خنذ مہ پہاڑ کی ایک غار میں چھپ گئے.آٹھ شخص آپ کی تلاش میں نکلے اور وہ اُس غار کے پاس پہنچے اور بعض نے اُن میں سے وہاں پیشاب کیا جو مر حمد پر گرا

Page 121

شرح القصيده 119 لیکن وہ اُسے دیکھ نہ سکے اور واپس چلے گئے.بعد میں مرشد دوبارہ اُس قیدی کے پاس گیا اور اُسے اپنے ساتھ مدینہ لے آیا.یہ واقعہ ” لا يَزْنُونَ “ کی ایک زبردست شہادت ہے.ایک عورت جو کنچنی ہے اور اسلام سے پہلے اُس کی یارِ غار رہ چکی تھی ، وہ اپنے پاس شب باشی کے لئے ملاتی ہے اور وہ اپنی جان کو خطرے میں دیکھتے ہوئے بھی انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا حرام کر دیا ہے اس لئے اب میں اس کے قریب نہیں جاسکتا.(سنن نسائی کتاب النکاح باب تزويج الزانية ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (الفرقان : ۷۳) وہ لوگ جن کی یہ حالت تھی کہ جھوٹ اور سچ میں کوئی تمیز نہیں کرتے تھے اب وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور نہ ہی جھوٹے معاہدات کرتے ہیں.اور جب لوگ لغو کاموں میں مشغول ہوں تو وہ اُن کے ساتھ شامل نہیں ہوتے.پھر فرمایا کہ وہ لوگ جو پہلے نہ حق بات سنتے تھے نہ اُسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے اب اُن کی یہ حالت ہے.وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِأَيْتِ رَبِّهِمُ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّا وَعُمْيَانًا (الفرقان : ۷۴) کہ جب اُنہیں اُن کے رب کی آیات یاد دلائی جاتی ہیں تو وہ خوب غور و فکر سے اُن پر عمل کرتے ہیں بہروں اور اندھوں کی طرح اُن پر نہیں گرتے.جاہلیت میں وہ ناپاکی کی زندگی بسر کر رہے تھے.روحانیت کا نام ونشان نہ تھا لیکن اب وہ پاکیزگی، روحانیت ،تقویٰ، پرہیز گاری اور طہارت کے ایسے عاشق ہیں

Page 122

شرح القصيده ۱۲۰ کہ کہتے رہتے ہیں.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان : ۷۵ ) یعنی اے ہمارے رب ! تو ہماری بیویوں اور ہماری اولادوں کو روحانیت کے سانچے میں ایسا ڈھال کہ وہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کا موجب ہوں اور ہمیں متقیوں کا امام اور پیشوا بنا.اس آیت میں اُن کے روحانی کمال کا ذکر کیا ہے کہ اُن کی زندگی تقوی اور روحانیت کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچ چکی ہے کہ غیر متقی کی صحبت اُن کے لئے ناقابلِ برداشت ہے.وہ اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں کہ اُن کے ساتھی ، ان کے رشتہ دار اور تعلق و قرابت والے سب متقی اور پاک ہوں.اس انقلاب نے اُن کے ذہنوں کے تصورات اور نگاہوں کے زاویے اور فکر ونظر کے اسلوب یکسر بدل دیئے.اُن کی صدیوں سے مری ہوئی قوتیں زندہ ہوگئیں اور ایک عالم کی زندگی کا باعث بنیں.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ ذیل شعروں میں اسی غیر معمولی اور بے نظیر انقلاب کا ذکر فرمایا ہے.کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ معنی راز نبوت ہے اسی سے آشکار نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک ٹور تھے قوم وحشی سے اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار روشنی میں مہر تاباں کی بھلا کیا فرق ہو گرچہ نکلے روم کی سرحد سرحد سے یا از زنجبار

Page 123

شرح القصيده ۱۲۱ ۴۰ - يَا لَلْفَتَى مَا حُسْنُه عمالة ريَّاهُ يُصْبِي الْقَلْبَ كَالرِّيْحَانِ معانی الالفاظ - اکرمی.راء کی زیر سے حسین و جمیل منظر.راء کی زبر سے، خوشبو - يُصبئی - آصبی سے مضارع کا صیغہ ہے.أَصْبَى الشَّيْءُ فُلَانًا اس چیز نے فلاں کو اپنا مشتاق اور فریفتہ بنالیا.اگر نیجان ہر خوشبور رکھنے والا پودا.ترجمہ.واہ کیسا خوبصورت اور صاحب جمال مرد ہے جس کی خوشبو دل کو ریحان کی طرح شیفتہ کر لیتی ہے.- وَجْهُ الْمُهَيْمِن ظَاهِرُ في وَجْهِهِ و شُعُونُهُ لَمَعَث بهذا الشَّانِ معانى الالفاظ - قجة - عربی زبان میں اس کے بہت سے معانی ہیں.چہرہ ، قصد اور نیت.عمل جو انسانی توجہ کا مقصود ہو.رضا اور پسندیدگی وغیرہ.شُئُون شَأْن کی جمع ہے.کوئی عظیم الشان امر یا حالت.کہا جاتا ہے مِنْ شَأْنه كَذَا أَوْ أَنْ يَفْعَلَ كَذَا.یعنی اس کی طبیعت یا خُلق ایسا ہے یا اُس کی عادت ہے کہ ایسا کرے.ترجمہ.اُس کے چہرہ میں خدا کا چہرہ نظر آتا ہے اور اُس کے تمام احوال اور

Page 124

شرح القصيده امور اسی شان کے ساتھ چمکتے ہیں.۱۲۲ شرح.پہلے مصرعہ کے معنے لغت کے لحاظ سے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اُس کی رضا میں اللہ تعالیٰ کی رضا ظاہر ہے اور اس کی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات کی مظہر ہے اور اس کے تمام عظیم الشان کاموں میں یہی شان دکھائی دیتی ہے.اس شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور فضیلت کا ذکر فرمایا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی ذات کے کامل مظہر ہیں.انبیائے سابقین اور صالحین علی قدر المراتب مظہر صفات الہیہ بنے لیکن اُن میں سے کوئی اُس کی صفات کا کامل مظہر نہ ہوا.کامل مظہر صرف آپ ہی تھے.سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی چار عظیم الشان صفات کا ذکر ہے.مالکیت ، رحیمیت ، رحمانیت اور رب العالمین ہونا.ظاہر ہے کہ آپ سے پہلے جس قدر انبیاء آئے وہ خاص خاص قوم یا علاقے کے لئے مبعوث ہوئے تھے ، وہ ان چاروں صفات کے مظہر بنے لیکن نہ کامل طور پر بلکہ جزوی لحاظ سے.مثلاً وہ صفت ربوبیت کے مظہر تھے لیکن صفت رب العالمین کے مظہر نہ تھے کیونکہ وہ تمام قوموں کے لئے مبعوث نہ ہوئے تھے.اُن کی بعثت کا زمانہ بھی محدود تھا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام قوموں اور تمام آئندہ آنے والے زمانوں کے لئے مبعوث ہوئے اس لئے آپ ہی صفت ربّ العالمین کے کامل مظہر ہوئے.یہی صورت بقیہ صفات کی ہے.مثلاً صفت رحمانیت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے جو چیز میں سورج، چاند ، ہوا ، آسمان وزمین وغیرہ پیدا کی ہیں وہ ایسی ہیں جن سے سب کا فرو مومن یکساں مستفید ہوتے ہیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برخلاف پہلے انبیاء کے تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے اور آپ کی روشنی اور آپ کا

Page 125

شرح القصيده ۱۲۳ نور سورج کے ٹور کی طرح کسی خاص قوم تک محدود اور آپ کا فیض کسی جہت اور مکان و زمان سے مخصوص نہیں بلکہ تمام لوگوں کے لئے عام علی سبیل الدوام جاری ہے اور کبھی منقطع نہ ہو گا.اُن کے لئے بھی جو اہل کتاب تھے اور اُن کے لئے بھی جن کے پاس کوئی کتاب نہ تھی.لیکن آپ سے پہلے جس قدر نبی آئے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے کامل مظہر نہ ہوئے.اسی لئے مسیح علیہ السلام نے صرف بنی اسرائیل سے خطاب کیا اور فرمایا کہ میں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئے مبعوث ہوا ہوں.دوسری قومیں جو اس وقت فلسطین میں موجود تھیں اُن کو اُن کی حالت کے لحاظ سے سور اور کتے تو قرار دیا لیکن تبلیغ نہیں کی.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنا دائرہ تبلیغ بنی اسرائیل تک محدود رکھا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قوم اور ہر ملک کے لوگوں کو تبلیغ کی.قیصر روم کو بھی دعوت دی، کسر مٹی کو بھی ، مصر اور دیگر ممالک کے بادشاہوں کو بھی تبلیغی خطوط لکھے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ شان عطا فرمائی تھی کہ ے آفتاب ہر زمین و هر زمان رہبر ہر اسود و ہر احمرے براہین احمدیہ حصہ اوّل روحانی خزائن جلد اصفحہ ۱۹) اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کے صرف آپ ہی مظہر بنے.مصنف قصیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.زاں نمط شد محو دلبر کز کمال اتحاد پیکر او شد سراسر صورت ربّ رحیم بوئے محبوب حقیقی مید ہدزاں روئے پاک ذات حقانی صفاتش مظہر ذات قدیم توضیح مرام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۲)

Page 126

شرح القصيده ۱۲۴ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دلبر (اللہ تعالیٰ ) میں اس طرح محو ہو گئے کہ کمال اتحاد کی وجہ سے آپ کی صورت بالکل رب رحیم کی صورت بن گئی.آپ کے رُوئے پاک سے محبوب حقیقی کی مہک آ رہی ہے.آپ کی ذات حقانی صفات ذات قدیم ( اللہ تعالیٰ ) کا مظہر بن گئی.۲۲ فلذا يُحِبُّ وَيَسْتَحِقُ جَمَاله شَغَفَّا بِهِ مِنْ زُمْرَةِ الْأَخْدَانِ معانى الالفاظ - الشَّغْفُ : أَقْصَى الْحُبَّ- انتہائی محبت اخدان - خذن کی جمع ہے.صالح دوست.زُهْرَةٌ.گروہ ، جماعت.اس کی جمع زمر ہے.ترجمہ.اسی لئے وہ محبوب ہے اور اُس کا جمال اس لائق ہے کہ دوستوں کی جماعت کو چھوڑ کر اس سے دل بستگی پیدا کر لی جائے.شرح.آپ فرماتے ہیں.جب کہ میرا محبوب محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ذات کا مظہر کامل ہے تو اس کامل وجود کو چھوڑ کر کوئی دوسرا محبوب کیوں بنایا جائے.کہتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسری شادی کا ارادہ کیا.اس کی بیوی نے قاضی سے درخواست کی کہ اُسے دوسری شادی کی اجازت نہ دی جائے.تاریخ پیشی پر جب اُس کی بیوی سے دلیل طلب کی گئی تو اُس نے اپنے چہرہ سے نقاب اٹھادی اور کہا کہ

Page 127

شرح القصيده ۱۲۵ ایسی خوبصورت اور حسین عورت کے ہوتے ہوئے اُسے دوسری شادی کی اجازت قطعاً نہ ملنی چاہیے.ایک صوفی صاحب بھی اُس مجلس میں موجود تھے.ان کو یہ ٹن کرغش آ گیا.حاضرین میں سے کسی نے طنزاً کہا.لو ان کے تصوف کی حقیقت بھی آشکار ہوگئی.ایک عورت کے حسن کی تاب نہ لا کر غش کھا گئے.صوفی صاحب نے ہوش میں آکر کہا کہ مجھے تو ایک عورت کے حسن سے اللہ تعالیٰ کے حسن کا جلوہ نظر آ گیا.جب ایک حسین عورت کو اپنے حسن پر اتنا ناز ہے کہ وہ اپنا شریک برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تو اللہ تعالیٰ نے جو تمام حسینوں سے بڑھ کر حسین اور مخزن ومصدرِ جمال و رعنائی ہے اپنے لئے شریک کیونکر گوارا کر سکتا ہے اور اس کی غیرت کس طور پر برداشت کر سکتی ہے کہ اُس کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے.پس آپ فرماتے ہیں کہ جب میرا محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام بنی آدم میں سب سے زیادہ حسین اور سب سے زیادہ جمیل اور خوبصورت ہے تو پھر دوسروں کو چھوڑ کر اُسی سے محبت کیوں نہ کی جائے.۴۳.سُجُحٌ كَرِيمٌ بَاذِلُ خِلُ التَّقَى خِرْقٌ وَ فَاقَ طَوَائِفَ الْفِتْيَانِ معانی الالفاظ.شیخ.نرم مزاج ، سہل الوصول ، خوش خلق.بَاذِل - خرچ کرنے والا سخاوت کرنے والا.خل.دوست.خزقی سخی ، کریم.اس کی جمع آخَرَاقُ وخِرَاق ہے.طوائف - گروہ.طَائِفَةٌ کی جمع ہے.

Page 128

شرح القصيده ۱۲۶ ترجمہ.وہ خوش خلق ، معز ز ، صاحب جود وعطا، تقومی دوست ، کریم وسخی ہے اور سب جوانوں پر فائق ہے.شرح.اس شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چند اور خوبیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی تعریف میں فرمایا ہے:.إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:۵) کہ آپ اخلاق کے انتہائی کمال سے متصف ہیں.۴۴- فَاقَ الْوَرَى بِكَمَالِهِ وَ جَمَالِهِ و جَلالِهِ وَ جَنَانِهِ الرَّيَّانِ معانی الالفاظ - الريان : عظمان یعنی پیاسے کی ضد ہے.سیراب و شاداب.ترجمہ.وہ سب مخلوقات سے اپنے کمال اور اپنے جمال اور اپنے جلال اور اپنے شاداب دل کے ساتھ فوقیت لے گیا ہے.شرح.یعنی ان اوصاف میں آپ کا کوئی ہمسر اور شریک نہیں.آپ کے جلال کا یہ حال تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ آپ سے لرزتے تھے.آپ نے فرمایا أُعْطِيتُ الرُّعْبَ مَسِيرَةَ شَهَرَيْن که دو مہینے کے سفر پر رہنے والی حکومتیں بھی

Page 129

شرح القصيده ۱۲۷ مجھ سے مرعوب ہیں.صحیح بخاری میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط قیصر روم کو ملا اور اُس نے ابو سفیان کو بلا کر کچھ حالات دریافت کئے تو اُس کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے : لَقَد أَمِرَ أَمْرُ ابْنُ أَبِي كَبْشَةَ أَنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ کہ اس شخص کا معاملہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ رومیوں کا بادشاہ بھی اس سے خوف کھاتا ہے.اسی طرح ایک شخص آپ کے روبرو پیش ہوا تو وہ آپ کے رعب سے تھر تھر کانپنے لگا تو آپ نے اُسے تسلی دیتے ہوئے فرما یا کہ مرعوب مت ہو ئیں تو ایک عورت کا بیٹا ہوں جو قدید یعنی سوکھا ہوا گوشت کھاتی تھی.ان دو شعروں میں مصنف قصیدہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ عالیہ کو جمع کر دیا ہے.اسی طرح آپ ایک اور قصیدہ میں فرماتے ہیں ؎ وَ في مُهْجَتِى قَوْرٌ وَجَيْشُ لِأَمْدَحَا سُلالَةَ انْوَارِ الْكَرِيمِ مُحَمَّدًا كَرِيمُ السَّجَايَا اكْمَلُ الْعِلْمِ وَالنُّهى شَفِيعُ الْبَرَايَا مَنْبَحُ الْفَضْلِ وَ الْهُدَى تَبَطَّرُ خَلِيلِي هَلْ تَرَى مِنْ مُشَاكِهِ بِتِلْكَ الصَّفَاتِ الصَّالِحَاتِ بِأَحْمَدَا بشير نَذِيرُ آمِرٌ مَانِعُ مَعا حَكِيمُ بِحِكْمَتِهِ الْجَلِيلَةِ يُقْتَدى اور میرے دل میں جوش اور ولولہ ہے کہ میں مدح کروں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو خدائے کریم کے انوار کا خلاصہ ہے.اعلیٰ خصائل والا ہے.علم و عقل میں کامل ہے.مخلوق کا شافع اور فضل و ہدایت

Page 130

شرح القصيده ۱۲۸ کا چشمہ ہے.اے مدعی ! دیکھ کوئی اور شخص تجھ کو ان صفاتِ حسنہ میں احمد کا شریک نظر آتا ہے.وہ ایک ہی وقت میں بشیر و نذیر ہے اور آمرو نا ہی یعنی حکم دینے والا اور منع کرنے والا ہے.صاحب حکمت ہے اور ا پنی روشن حکمت سے دنیا کا پیشوا بنا ہے.“ ایک شارع نبی میں اور ہادی کامل میں جن صفات کا پایا جانا ضروری ہے وہ آخری شعر میں نہایت خوبصورت اور دلفریب انداز میں جمع کر دی گئی ہیں.-۴۵ لا شَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا خَيْرُ الْوَرى ريق الْكِرَامِ وَ نُخْبَةُ الْأَعْيَانِ معانی الالفاظ - ریق.قوت وروح.اس کی جمع آریاقی اور ریاقی ہے.اور ریق بفتح الراء کے معنے اول اور افضل کے ہیں.مخبةٌ.چیدہ.جمع نُحب ہے.اغیان منتخب لوگ.عین کی جمع ہے.ترجمہ.یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خیر الورٹی اور جانِ کرام اور ان کی قوت اور چیدہ اعیان ہیں.

Page 131

شرح القصيده ۱۲۹ تمت عَلَيْهِ صِفَاتُ كُلَّ مَرِيَّةٍ خُتِمَتْ بِهِ نَعْمَاءُ كُلِّ زَمَانٍ معانى الالفاظ - مزيّةٌ.ہر وہ فضیلت جو علم ، سخاوت ، شجاعت یا شرافت وغیرہ صفات سے حاصل ہو جن کے ذریعہ سے انسان دوسروں سے ممتاز ہوتا ہے.اس کی جمع مَزایا ہے.نَعْمَاءُ - احسان ، آرام و آسائش ، خوشحالی ، مال.اس کی جمع انعم ہے.صِفَات - صِفَةٌ کی جمع ہے.وہ علامات جن کے ساتھ موصوف کی شناخت ہوتی ہے.ترجمہ ہر قسم کی فضیات کی صفات آپ میں علی الوجہ الاتم پائی گئیں اور ہر زمانے کی نعمت آپ کی ذات پر ختم ہے.شرح.اس شعر کی تشریح میں ایک مبسوط کتاب لکھی جا سکتی ہے.اس میں مصنف قصیدہ نے اپنے محبوب آقا کی چند الفاظ میں ایسی جامع تعریف فرمائی ہے گو یا دریا کو گوزہ میں بند کر دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ وہ کمالات اور فضائل جن کے ساتھ انسان دوسری مخلوقات سے ممتاز ہوتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں اور ہر زمانے کی نعمت آپ کو کامل طور پر عطا کی گئی.پہلے مصرعہ میں تو آپ کے بنی آدم میں سے کامل انسان ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بحیثیت انسان جس قدر فضائل و کمالات بلحاظ کمیت و کیفیت کسی انسان

Page 132

شرح القصيده میں ممکن طور پر جمع ہو سکتے تھے وہ آپ کی ذات بابرکات میں باحسن وجوہ پائے گئے.گویا اس مصرعہ میں حدیث قدسی لَوْلا كَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ كا مضمون ادا کیا گیا ہے.اس حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دائرہ انسانیت کا نقطہ مرکز یہ قرار دیا ہے جس پر تمام انسانی کمالات ختم ہو جاتے ہیں.۱۹۲۸ء کا ذکر ہے جبکہ میں بمقام حیفا ایک ہوٹل میں مقیم تھا.ایک روز جبکہ میں اس کی دوسری منزل کی بلکنی ( شہ نشین ) پر بیٹھا ہوا تھا نا بلس کے مشہور دو تاجر جو اسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے مجھ سے ملے اور دورانِ گفتگو میں اُن میں سے ایک نے اس حدیث کے متعلق سوال کیا.میں نے اس کا عام مفہوم بتا یا لیکن اُس کی تسلی نہ ہوئی.اُس نے کہا یہ بات غیر معقول نظر آتی ہے کہ اگر ایک شخص پیدا نہ ہوتا تو ساری دنیاہی پیدا نہ کی جاتی.اس کے اعتراض سے میں نے اپنے دل میں ایک اضطراب کی سی کیفیت محسوس کی اور یہ خواہش زور سے پیدا ہوئی کہ کوئی ایسا حل معلوم ہو جائے جس سے ان کی تسلی ہو جائے.الحمد للہ ! کہ میرے دل میں دفعتہ ایک مضمون ڈالا گیا جو میں نے تفصیل سے اُن کے سامنے بیان کیا.میں نے کہا جب انسان کسی چیز کی ساخت شروع کرتا ہے تو اُس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اُس کو ایسا مکمل بنائے کہ اُس میں کوئی نقص باقی نہ رہے اور وہ اپنی طرف سے اس میں کوشش کا کوئی پہلو اُٹھا نہیں رکھتا.لیکن انسانی کاموں میں نقص رہ جانے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ نہ تو انسان کا علم کامل ہوتا ہے اور نہ اُسے ہر چیز پر قدرت حاصل ہوتی ہے.مثلاً ایک گھڑی ساز جو اپنے فن میں کیسا ہی ماہر کیوں نہ ہوا یسی گھڑی ہرگز نہیں بنا سکتا جو ہر وقت چلتی رہے اور اس میں نقص کبھی پیدا نہ ہو.وہ ایسی گھڑی کیوں نہیں بنا سکتا ؟ اس لئے کہ اس کو علم تام نہیں اور وہ ایسا مٹیریل

Page 133

شرح القصيده ۱۳۱ پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا جو ہمیشہ ہمیش کام دے اور کوئی خرابی اور نقص کبھی اس میں دخل نہ پا سکے.پس انسانی کاموں کا نقص عدم علم کامل اور عدم قدرت کا ملہ کا نتیجہ ہوتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ علیم بھی ہے اور قدیر بھی.اس کا علم بھی کامل ہے اور اس کی قدرت بھی کامل.پس جب وہ کسی چیز کے بنانے کا ارادہ کرے تو وہ ناقص کس طرح رہ سکتی ہے.اس حدیث قدسی کا مفہوم یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جب میں نے مخلوقات کا سلسلہ شروع کیا اور تمام مخلوقات میں سے انسان کو اشرف ٹھہرایا تو ضروری تھا کہ میں اس اعلیٰ اور کامل انسان کو بھی پیدا کرتا جس پر دائرہ کمالات انسانی ختم ہو جا تا اور اس سے بڑھ کر کسی انسان میں کمالات انسانی کا پایا جانا متصور نہ ہوسکتا.اور وہ کامل انسان تو ہے جو ختم شد برنفس پاکش ہر کمال کا مصداق اور دائرہ انسانیت کا نقطه مرکز یہ ہے.اس لئے اگر تیرا پیدا کر نامہ نظر نہ ہوتا تو میں سلسلہ مخلوقات کو شروع ہی نہ کرتا.جب شروع کیا تو تیرا ( جو کامل انسان ہے ) پیدا کرنا بھی ضروری تھا.یہ ٹن کر وہ دونوں تا جر خوش ہوئے اور کہا کہ آج اس حدیث کا صحیح مفہوم معلوم ہوا ہے.انسانی کمالات میں سے ایک کمال اخلاق فاضلہ سے متصف ہونا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: ۵) کہ اے رسول تو خلق عظیم پر ہے یعنی اپنی ذات میں تمام مکارمِ اخلاق کا ایسا مستم و مکمل ہے کہ اس پر زیادت متصوّ رنہیں.کیونکہ لفظ عظیم محاوہ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو.اخلاق فاضلہ میں سے ایک خُلق باوجود سزا دینے کی مقدرت رکھنے کے عفو ہے

Page 134

شرح القصيده ۱۳۲ اور اس خُلق کا جس رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور ہوا وہ غایت درجہ کامل اور بے نظیر ہے.ایک دفعہ آپ ایک جنگ سے واپس آرہے تھے.دوپہر کے وقت لشکر نے ایک جگہ قیام کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علیحدگی میں ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے.آپ کے ساتھ جو صحابہ تھے وہ بھی اپنی اپنی جگہ تلاش کر کے آرام کرنے لگے.آپ اپنی جگہ پرا کیلے تھے.اچانک د غفور نامی ایک دشمن آپ کے پاس جا پہنچا.اور آپ کی تلوار جو درخت میں لٹک رہی تھی اُس نے اپنے قبضہ میں کر لی.اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے.اور وہ بولا.اے محمد ! بتا تمہیں اس وقت مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ ایسے وقت میں بڑے سے بڑے بہادر کے بھی اوسان خطا ہو جاتے ہیں.لیکن آپ کے توکل علی اللہ اور شجاعت کا تو عالم ہی اور تھا.آپ نے فرمایا.اللہ ! یہ اللہ کا لفظ ایسی جلالی شان اور رعب ناک آواز میں آپ کی زبان سے نکلا کہ اُس کا دل لرزا ، جسم کا نیا اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ پڑی.اب وہی تلوار آپ نے اُٹھا کر فرمایا.بتا مجھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟ اُس نے آپ ہی سے معافی چاہی اور آپ نے اس جانی دشمن کو معاف کر دیا.یہ عفو کی کتنی اعلیٰ اور کتنی شاندار مثال ہے.اسی طرح فتح مکہ کے دن وہ دشمن آپ کے سامنے پیش کئے گئے جنہوں نے آپ اور آپ کے ساتھیوں پر تیرہ سال تک انسانیت سوز مظالم کئے اور تین سال تک مکمل مقاطعہ جاری رکھا.جائیدادیں چھین لیں.اموال لوٹ لئے اور وطن سے نکال دیا.اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ اب وہ سب کے سب ایسے آپ کے قابو میں تھے

Page 135

شرح القصيده ۱۳۳ کہ آپ کا ایک ادنی سا اشارہ اُن کے سر قلم کر دیئے جانے کے لئے کافی تھا لیکن آپ نے انہیں کوئی سخت لفظ بھی نہ کہا بلکہ صرف یہ دریافت فرمایا." مَاذَا تَظُنُّونَ أَنِّي فَاعِلُ بِكُمْ “ بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے.میں تم سے کیسا معاملہ کروں گا؟ انتہائی شرم و ندامت سے سر جھکائے ہوئے انہوں نے جواب دیا ہم آپ سے اُسی سلوک کی توقع رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.اس جواب پر آپ نے ان کی تمام ستمگاریوں اور ایذاء رسانیوں کو نظر انداز کر کے فرمایا:." لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَ هُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ - اذْهَبُوا أَنْتُمُ الطَّلَقَاءِ جاؤ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں.اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرمائے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑا رحم کرنے والا ہے.جاؤ ! تم سب آزاد ہو.“ حدیث میں آتا ہے کہ وہ مسجد الحرام سے ایسے نکے لَا نَمَا خَرَجُوا مِنَ الْقُبُورِ گو یا وہ قبروں سے نکلے ہیں.اور سب کے سب مسلمان ہو گئے.فاتحین ممالک میں اس قسم کے عفو عام کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی.اسی طرح دشمن سے حسن سلوک ، بددُعا کی جگہ اس کے لئے دُعا.اس کی بدی کے بدلے میں نیکی و احسان نہایت بلند پایہ اخلاق میں سے ہیں.لندن میں ۱۹۴۵ء سے اوائل ۱۹۴۶ ء تک تقریباً ایک سال سے زائد مدت تک مسٹر گرین اور میرے درمیان ہائیڈ پارک میں ہر جمعہ کو مباحثہ ہوتارہا.مسٹر گرین کا بائیبل کے حسابات کی رُو

Page 136

شرح القصيده ۱۳۴ سے یہ عقیدہ تھا کہ یسوع مسیح ۱۹۵۴ء میں آسمان سے اُتریں گے.وہ اس کے متعلق بہت سے اشتہارات بھی شائع کر چکے تھے.شرائط مباحثہ مختصراً یہ طے پائی تھیں کہ ایک جمعہ کو وہ قرآن مجید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر جو اعتراضات کرنا چاہیں کریں میں اُن کا جواب دوں گا اور ایک جمعہ کو میں عیسائیت پر اعتراضات کروں گا اور وہ جواب دیں گے.یہ مباحثہ ہر دفعہ تین گھنٹہ ہوا کرتا تھا.تقریریں دس دس منٹ کی ہوتی تھیں.حاضرین کو بھی سوال کرنے کا حق ہوتا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مباحثات نہایت کامیاب رہے اور آخر کار مسٹر گرین نے اپنی شکست تسلیم کر لی اور مباحثہ کرنا چھوڑ دیا.ایک دن انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یسوع کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یسوع مسیح نہایت بلند پایہ اخلاق رکھتے تھے.چنانچہ انہوں نے جبکہ وہ صلیب پر لٹکائے جاچکے تھے یہود کے لئے جو آپ کے جانی دشمن تھے ان الفاظ میں دعا کی.”اے میرے باپ تو انہیں بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے“.یعنی عدم علم کی وجہ سے وہ مجھ سے ایسا سلوک کر رہے ہیں.اس قسم کا اخلاق کا نمونہ کسی نبی نے نہیں دکھایا اور ن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے.میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام جنہیں ہم اللہ تعالیٰ کا رسول اور نبی مانتے ہیں اخلاق فاضلہ رکھتے تھے لیکن یہ کہنا کہ دوسرے انبیاء اخلاق فاضلہ میں اُن کے ہم پلہ نہ تھے درست نہیں.مسٹر گرین کا یہ کہنا کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسی کوئی مثال قائم نہیں کی تاریخ اسلامی سے ناواقفیت کے سبب سے ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی غزوہ اُحد میں پتھروں سے زخم آئے اور آپ بیہوش ہو کر گر پڑے اور کفار نے مشہور کر دیا ”قتل محمد “ کہ

Page 137

شرح القصيده ۱۳۵ (صلی اللہ علیہ وسلم ) قتل کر دیئے گئے ہیں.ہوش میں آنے پر آپ اپنے زخموں سے خون پونچھتے جاتے اور یہ کہتے جاتے تھے اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ اے میرے اللہ ! تُو میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ نہیں جانتے یعنی عدم علم کی وجہ سے مجھ سے ایسا سلوک کر رہے ہیں.دونوں مقدس نبیوں کی دعا ئیں اس لحاظ سے تو یکساں معلوم ہوتی ہیں کہ اُن میں اپنے اپنے دشمنوں کی بھلائی چاہی گئی ہے لیکن درحقیقت دونوں میں بہت بڑا فرق ہے.حضرت مسیح کی دعا تو ان یہود کا قصور بخش دیئے جانے کے متعلق ہے جو اُن کے صلیب پر لٹکائے جانے کا موجب تھے.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا صرف یہی نہیں تھی کہ جن دشمنوں نے آپ کو مجروح کیا تھا اُن کا گناہ بخش دیا جائے بلکہ آپ کی دعا یہ تھی کہ اے میرے رب تو ان کو ہدایت عطا فرما.یعنی جو نعمت مجھے بخشی ہے وہی انہیں بھی بخش.سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا پر جتنی عظیم الشان فوقیت رکھتی ہے وہ ” عیاں را چہ بیاں“ کی مصداق ہے اور جب ہم دونوں دعاؤں کے نتائج کو دیکھتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی اور زیادہ شان بڑھ جاتی ہے.انجیل سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح سے یہود نے جو سلوک کیا تھا اُس کی سزا آنجناب نے یہ بتائی کہ اُن سے آسمانی بادشاہت چھین لی جائے گی اور وہ فی الحقیقت چھین لی گئی تو اس سے یہ کیسے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح کی دُعا قبول ہو کر یہود کا گناہ بخش دیا گیا تھا.بلکہ اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ حضرت مسیح کے آڑے وقت کی دعا بھی قطعا قبول نہیں ہوئی اور یہود کا گناہ ہرگز نہیں بخشا گیا.اگر بخش دیا گیا ہوتا تو آسمانی بادشاہت اُن سے کیوں چھینی جاتی ؟ اور

Page 138

شرح القصيده چونکہ آسمانی بادشاہت یقیناً اُن سے چھینی جا چکی ہے اس لئے مانا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح کی دعا جو آپ نے اُن سے گناہ بخشے جانے کے لئے کی تھی قبول نہیں ہوئی ہے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کہ اے میرے رب ! میری قوم کو ہدایت دے قبول ہوگئی اور اس کی مقبولیت فتح مکہ کے روز بڑی شان و شوکت اور ایسی صفائی سے ظاہر ہوگئی کہ سارے عالم میں کسی دشمن کے لئے گنجائش انکار باقی نہ رہی.یعنی جب نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اپنے تمام دشمنوں کو معاف فرما دیا تو وہ سب کے سب ایمان لے آئے اور ہدایت یاب ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ آپ کی دعا کی مقبولیت کا عظیم الشان نشان بن گئے.(شرح زرقانی الفصل الثانی فیما اکرمه الله تعالى به من الاخلاق الزكية....جلد ۲ صفحه ۹ ۱ مطبوعه دارالکتب العلمية بيروت - لبنان طبع اولی) اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف عفو و درگزر اور حسن سلوک ہی میں بے نظیر تھے بلکہ انسانی کمالات میں شمار کی جانے والی تمام صفات مثلاً جرات و شجاعت ، غیرت و حمیت ، رافت و رحمت ، جود و سخا، صدق و صفا، لطف و عطا ، ایثار و وفا ، استقلال و استقامت ، صبر و قناعت ، توکل علی اللہ ، شفقت علی خلق اللہ وغیرہ میں انتہائی نقطہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے.جو دوست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ اور ان نعمتوں کے متعلق جو آپ کو دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں بڑھ کر میں مفصل دیکھنا چاہیں تو وہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی تفسیر کبیر سورۃ کوثر کی تفسیر مطالعہ فرمائیں.

Page 139

شرح القصيده ۱۳۷ دوسرے مصرعہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ پر ہر زمانے کی نعمت ختم کی گئی.قرآن مجید میں ظاہری لحاظ سے بڑی نعمت بادشاہت اور روحانی لحاظ سے بڑی نعمت نبوت بیان کی گئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس رنگ کی ظاہری بادشاہت عطا ہوئی اور جس قسم کی وفادار اور جاں نثار رعیت ملی تمام دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی زندگی میں آپ کو جزیرہ عرب ، یمن ، نجد اور بحرین کی حکومت بخشی اور فرمایا رِزْقُ رَبِّكَ خَيْرُ و ابقى“ (طه :۱۳۲ ) کہ تیرے رب نے جو کچھ تجھے عطا کیا ہے وہ بہت عمدہ اور اچھا اور دیر پا ہے.آپ نے مکہ معظمہ و مدینہ منورہ کے متعلق خاص طور پر پیشگوئی فرمائی کہ وہ غیر مسلم قوم کے قبضے میں نہیں جائیں گے جو اُن کی تقدیس کی قائل نہ ہو.چودہ سوسال سے اس پیشگوئی کی صداقت ظاہر ہورہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو ملک آپ کی زندگی میں آپ کو عطا فرمایا تھا وہ آپ کے پیروؤں کے پاس ہی رہا اور کوئی غیر مسلم حکومت اس پر قابض نہ ہوسکی.کیا اس نعمت کی کوئی مثال ساری دنیا میں سے پیش کی جاسکتی ہے؟ روحانی نعمت نبوت بھی آپ کو نہایت اکمل صورت میں ملی اور آپ کو خاتم النبیین کا لقب عطا کیا گیا اور نبوت کی نعمت کے آپ پر ختم ہونے سے بھی یہی مراد ہے کہ آپ پر کمالات نبوت ختم ہیں یعنی نبوت کے جو کمالات دوسرے انبیاء میں جزوی طور پر پائے گئے تھے وہ آپ میں کلی طور پر پائے گئے ہیں اور آپ مستجمع جمیع کمالات نبوت ہیں یعنی نبوت کا کوئی درجہ اور کوئی مقام ایسا نہیں جو کسی اور نبی کو تو حاصل ہوا ہو لیکن آپ کو حاصل نہ ہوا ہو.پھر آپ کا خاتم النبیین ہونا آپ کے جامع کمالات اور تمام انبیاء سے افضل

Page 140

شرح القصيده ۱۳۸ ہونے کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اس لئے بھی ہے کہ آپ کا فیض تمام نبیوں کے فیض سے زیادہ ہے.پہلے کسی نبی کو یہ مقام حاصل نہیں ہوا کہ اس کے فیض سے کسی کو نبوت کی نعمت ملی ہو اور وہ امتی نبی کہلایا ہو.یہ اعزاز بوجہ خاتم النبیین ہونے کے صرف آپ ہی کو حاصل ہوا ہے.ایک آپ ہی ہیں جن کی کامل اطاعت سے ایک مومن کو بوقت ضرورت مقامِ نبوت بھی حاصل ہو سکتا ہے.اور یہ امر منافی آیت خاتم النبیین نہیں.چنانچہ حضرت امام ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب ” موضوعات کبیر میں فرماتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے یا حضرت عمر کو منصب نبوت حاصل ہو جاتا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروہی رہے - وَ هَذَا لَا يُناقِضُ قَوْلَهُ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذَا الْمَعْلَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي بَعْدَهُ نَبِيٌّ يَنْسِحُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُن مِّنْ أُمته اور یہ اس کے قول خاتم النبین کے مخالف نہیں ہے کیونکہ خاتم النبین ہونے سے مراد یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.اسی طرح آپ نے لا نبی بعدی “ کے متعلق بھی یہی فرمایا ہے کہ اس کے معنے علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی ناسخ شریعت محمد یہ نہیں ہوگا.اور امام محمد طاہر السندی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول ” قُولُوا إِنَّهُ 66 خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِى بَعده “ کے یہی معنے کئے ہیں کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین تو کہولیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا کیونکہ لا نبی بعدی سے مراد یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو شریعت محمدیہ کو منسوخ کرے.

Page 141

شرح القصيده ۱۳۹ انبیائے سابق کے فیض سے اُن کے متبعین روحانیت کے صرف تین مراتب حاصل کر سکتے تھے.وہ صدیق بن سکتے تھے ، شہید بن سکتے تھے ، صالح بن سکتے تھے.لیکن سید الانبیاءمحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ کے وسیلہ و طفیل سے آپ کے ایک امتی کو عند الضرورت مقام نبوت بھی حاصل ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے سید ومولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر خدا تعالیٰ کی طرف سے نشان اور معجزات ملے وہ صرف اُس زمانہ تک محدود نہ تھے بلکہ قیامت تک اُن کا سلسلہ جاری ہے اور پہلے زمانوں میں جو کوئی نبی ہوتا تھا وہ کسی گزشتہ نبی کی اُمت نہیں کہلاتا تھا گواُس کے دین کی نصرت کرتا تھا اور اُس کو سچا جانتا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ایک خاص فخر دیا گیا ہے کہ وہ ان معنوں سے خاتم الانبیاء ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت اُن پر ختم ہیں اور دوسرے یہ کہ اُن کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں اور نہ کوئی ایسا نبی ہے جو اُن کی اُمت سے باہر ہو بلکہ ہر ایک کو جو شرف مکالمہ الہیہ ملتا ہے وہ انہیں کے فیض اور انہیں کی وساطت سے ملتا ہے اور وہ امتی کہلاتا ہے نہ کوئی مستقل نبی.“ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸۰)

Page 142

شرح القصيده ۴۷- ۱۴۰ والله إنَّ مُحَمَّدًا كَرِدَافَةٍ وَ بِهِ الْوُصُولُ بِسُدَّةِ السُّلْطَانِ معانى الالفاظ - رِدَافَة : الْإِسْمُ مِنْ أَرْدَافِ الْمُلُوكِ فِي زَمَنِ الجاهلية.یعنی جاہلیت میں بادشاہ جو اپنا ردف بناتے تھے اس سے اسم ہے اور اس کے ایک معنے اُس سوار کے ہیں جو دوسرے سوار کے پیچھے سوار ہو.اور زمانہ جاہلیت میں ردف بادشاہ کا جلیس ہوتا تھا جو اُس کے دائیں جانب بیٹھتا اور بادشاہ کے پینے کے بعد پیتا.اور جنگ کے زمانہ میں بادشاہ کا قائم مقام ہوتا تھا اور جب بادشاہ کا کوئی لشکر فتح پا کر واپس آتا تو اس سے غنیمت کا چوتھا حصہ وصول کرتا تھا.اور اس کی جمع ارداف ہے.لسان العرب میں ہے.اِرْدَافُ الْمُلُوكِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يُخْلِفُوْنَهُمْ فِي الْقِيَامِ بِأَمْرِ الْمَمْلَكَةِ بِمَنْزِلَةِ الْوُزَرَاءِ في الإسلام یعنی زمانہ جاہلیت میں بادشاہوں کے ارداف امور مملکت کے سرانجام دینے میں اُن کے قائم مقام یا جانشین ہوتے تھے جیسے کہ وزراء زمانہ اسلام میں.اس کی واحد ردف اور اسم رِدَافَةٌ ہے.جیسے وزیر سے وزارت.سُنَّةٌ : بَابُ الدَّارِ - گھر کا دروازہ.دہلیز.ترجمہ.اللہ تعالیٰ کی قسم ایقینا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت خلیفہ اللہ کی ہے اور آپ ہی کے ذریعہ در باریشا ہی تک رسائی ہوسکتی ہے.

Page 143

شرح القصيده ۱۴۱ شرح.یہ شعر در حقیقت آيت دَنا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او آڈٹی ( النجم : ۹ ، ۱۰ ) کی تفسیر ہے.یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیر الی اللہ کرتے کرتے کامل طور پر متخلق باخلاق اللہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گئے.پھر آپ کی ترقی ہوئی یعنی خلق اللہ کی طرف نزول کیا اور لوگوں کی اصلاح اور اُن کی بھلائی میں بدل و جان مصروف ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اس جگہ ایک ہی دل میں ایک حالت اور نیت کے ساتھ دو قسم کا رجوع پایا گیا.ایک خدائے تعالیٰ کی طرف جو وجود قدیم ہے اور ایک اُس کے بندوں کی طرح جو وجود محدث ہے.اور دونوں قسم کا وجود قدیم اور حادث ایک دائرہ کی طرح ہے جس کی طرف اعلیٰ وجوب اور طرفِ اسفل امکان ہے.اب اس دائرہ کے درمیان میں انسانِ کامل بوجہ دنو اور تدلی کی دونوں طرف سے اتصال محکم کر کے یوں مثالی طور پر صورت پیدا کر لیتا ہے جیسے ایک وتر دائرے کے دو قوسوں میں ہوتا ہے.یعنی حق اور خلق میں واسطہ ٹھہر جاتا ہے.پہلے اس کو دنو اور قرب الہی کی خلعت خاص عطا کی جاتی ہے اور قرب کے اعلیٰ مقام تک صعود کرتا ہے اور پھر خلقت کی طرف اس کو لایا جاتا ہے.پس اس کا وہ صعود اور نزول دو قوس کی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے اور نفس جامع التعلقین انسان کامل کا ان دونوں قوسوں میں قاب قوسین کی طرح ہوتا ہے اور

Page 144

شرح القصيده ۱۴۲ قاب عربی کے محاورہ میں کمان کے چلہ پر اطلاق پاتا ہے.پس آیت کے بطور تحت اللفظ یہ معنے ہوئے کہ نزدیک ہوا.یعنی خدا سے پھر اُترا یعنی خلقت پر.پس اپنے اس صعود اور نزول کی وجہ سے دو قوسوں کے لئے ایک ہی و تر ہو گیا.“ ( براہین احد یہ ہر چہار تص روحانی خزائن جلدا صفحه ۵۹۰،۵۸۹ حاشیه درحاشیه نمبر ۳) اس شعر میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ آپ مخلوق اور خالق کے درمیان بطور واسطہ کے ہیں.اب نہ تو کوئی شخص آپ کے دین کو اختیار کئے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے اور نہ کوئی عمل اس کے نزدیک قابل قبول ہوسکتا ہے جب تک کہ آپ کی شریعت کے مطابق نہ ہو اور آپ کے طریقہ پر نہ کیا جائے.اور قصیدہ کے مطلع میں یہ بتایا تھا کہ اب فیضِ الہی کے حصول کا ذریعہ صرف آپ کا وجو د باجود ہے جو آپ کے چشمہ فیض سے نہیں پیتا وہ محروم از لی ہے کیونکہ باقی تمام چشمے خشک ہو چکے ہیں.گویا آپ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان ایسے مقام پر فائز ہیں کہ نہ کوئی شخص بغیر آپ کو واسطہ بنائے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے اور نہ فیض الہی کا مورد ہو سکتا ہے.گو یا اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونے کی آپ کو واسطہ بنائے بغیر کوئی صورت نہیں.میرے نزدیک یہ شعر اور اس سے پہلا شعر اس قصیدہ کے بَيْتُ الْقَصِيد ہیں.

Page 145

شرح القصيده ۱۴۳ و هُوَ فَخَرُ كُلِّ مُطَهَّرٍ وَ مُقَدِّسٍ وِ بِهِ يُبَاهِي الْعَسْكَرُ الرُّوحَانِي معانى الالفاظ - يباهي باھی سے مضارع کا صیغہ ہے.بَاهَاهُ في الحُسْنِ.اس نے حسن میں دوسرے پر مفاخرت کی.ترجمہ.آپ مہر مطہر و مقدس کے فخر ہیں اور روحانی لشکر آپ ہی کے وجود پر مفتخر اور نازاں ہے.۹ - هُوَ خَيْرُ كُلِّ مُقَرَّبِ مُتَقَلَّمٍ وَ الْفَضْلُ بِالْخَيْرَاتِ لَا بِزَمَانِ معانی الالفاظ - لفظ.جس میں بہت بھلائی پائی جائے.کسی چیز کا مع اپنے ضروری لوازمات اور کمالات کے پایا جانا.بہتر اور افضل.اس کی جمع خیرات ہے.ترجمہ.آپ ہر گزشتہ مقرب سے افضل ہیں اور فضیلت کا رہائے خیر پر موقوف ہے نہ کہ زمانہ پر.شرح.پہلے مصرعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ مقربانِ بارگاہِ الہی سے افضل اور بہتر ہونے کا ذکر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے محبوب

Page 146

شرح القصيده ۱۴۴ سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتے ہیں: ” ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار ، رسولوں کا فخر ، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اُس سے ہزار برس 66 تک نہیں مل سکتی تھی.(سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۸۲) اور دوسرے مصرعہ میں فضیلت کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے کہ پہلے یا پیچھے ہونا کوئی فضیلت کا باعث نہیں بلکہ فضیلت کمالات اور اعلیٰ درجہ کے نافع اعمال پر موقوف ہے.یہی بات خَاتَمَ النَّبِيِّين کے معنے بیان کرتے ہوئے مولا نا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیو بند نے اپنی کتاب ”تحذیر الناس میں لکھی ہے.آپ فرماتے ہیں.اول معنے خاتم النبیین کے معلوم کرنے چاہئیں تا کہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو.سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں.مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقامِ مدح میں وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے.ہاں اگر

Page 147

شرح القصيده الدو اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہیے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تا نظر زمانی صحیح ہوسکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہلِ اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی.“ تحذیر الناس صفحہ کے شائع کردہ مکتبہ قاسم العلوم ہے.ون ۱۴۰ کراچی نمبر ۳۱، اشاعت یکم جولائی ۱۹۷۶ء) پھر آیت خاتم النبیین کا یہ حاصل مطلب لکھتے ہیں: ابوت معروفہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے.انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے.انبیاء کی نسبت تو لفظ خاتم النبیین شاہد ہے.“ ( تحذیر الناس صفحہ ۱۸ شائع کردہ مکتبہ قاسم العلوم ہے.ون ۱۴۰ کراچی نمبر ۳۱، اشاعت یکم جولائی ۱۹۷۶ء) پھر لکھتے ہیں.اگر خاتمیت بمعنی اوصاف ذاتی بوصف نبوت لیجئے جیسا اس ہیچمدان نے عرض کیا ہے تو پھر سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی کو افراد مقصود با خلق میں سے مماثل نبوی نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاء کی افراد خارجی ہی پر آپ کی افضلیت ثابت نہیں ہوگی بلکہ افراد مقدرہ پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہو گی.بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.“ ( تحذیر الناس صفحہ ۴۶ شائع کردہ مکتبہ قاسم العلوم ہے.ون ۱۴۰ کراچی نمبر ۳۱، اشاعت یکم جولائی ۱۹۷۶ء) اس شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل ہونے کا ذکر ہے کیونکہ آپ

Page 148

شرح القصيده ۱۴۶ مستجمع جمیع صفات کا ملہ مقربانِ الہی ہیں اور افضلیت میں زمانہ کو دخل نہیں بلکہ فضیلت کمالات اور اچھے کارناموں پر موقوف ہے.اس لئے آپ خواہ کسی زمانہ میں ہوتے اور آپ کے بعد کتنے ہی مقربانِ الہی ہوتے آپ اُن سب سے افضل ہی رہتے.٥٠- وَ الظُّلُ قَدْ يَبْدُو أَمَامَ الْوَابِلِ فَالظُّلُ طَلْ لَيْسَ كَالتَّهْتَانِ معانی الالفاظ الکل.ہلکی بارش یا شبنم.اس کی جمع طلال اور ظلل ہے.وَابِل : سخت بارش - الفتانُ : موسلا دھار بارش کا ہونا جو پے در پے ہوتی ہے.ترجمہ.اور موسلا دھار بارش سے پہلے ہلکی بارش (پھوار ) آتی ہے لیکن پھوار پھوا رہی ہے وہ موسلا دھار کی مانند نہیں ہوسکتی.شرح.اس شعر میں اس سوال کا جواب دیا ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تمام مقتر بانِ بارگاہ الہی سے افضل ہیں تو پھر ان انبیاء کے متعلق کیا کہتے ہیں جو آپ سے پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کئے گئے ؟ آپ فرماتے ہیں ان کی مثال اس ہلکی بارش کی سی ہے جو بڑی بارش کے آنے کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور وہ بتاتی ہے کہ اب بڑی بارش ہونے والی ہے.اسی طرح پہلے انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری دینے کے لئے آئے تھے اور ان کا وجود علامت تھی اس امر کی کہ نبیوں کا سردار ، رسولوں کا سرتاج خاتم الانبیاء سید الانس والجان حضرت محمد مصطفیٰ

Page 149

شرح القصيده ۱۴۷ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہونے والا ہے.اه بطل وَحِيْلٌ لَا تَطِيشُ سِهَامُهُ ذُو مُصْيَاتٍ مُؤ بِقُ الشَّيْطن معانی الالفاظ - بطل - پہلوان - الَّذِي تَبَطَلَ عِنْدَهُ الدِّمَاءُ وَ تَذْهَبَ هَدَدًا.یعنی جس سے خون کا بدلہ نہیں لیا جا سکتا.اور اس کے یہ معنے بھی کئے جاتے ہیں.جس تک پہنچنے کے تمام حیلے ناکام ہو جاتے ہیں.مُضیات.مُصْمِيَّةٌ کی جمع ہے.اضمی سے اسم فاعل ہے.اضمَى الصَّيْدَ کے معنے ہیں شکار کو تیر چلا کر اس کی جگہ اُسے مار گرایا اس حال میں کہ وہ اُسے دیکھتا ہو.مُوبِقٌ - أَوبَق سے اسم فاعل کا صیغہ ہے.اوبقہ کے معنے ہیں اُسے ہلاک کر دیا.ترجمہ.آپ ہی ایک پہلوان ہیں جس کے تیر کبھی خطا نہیں جاتے.آپ کبھی نشانہ خطا نہ کرنے والے مہلک تیروں کے مالک اور شیطان کے ہلاک کنندہ ہیں.شرح.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی بیت اور ایسا رعب عطا فرمایا تھا کہ دشمن کو مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی.ایک دفعہ ابوجہل نے جو کہ مکہ والوں میں بہادر مانا جاتا تھا ایک شخص کا کچھ روپیہ دینا تھا اور ادانہیں کرتا تھا.مکہ والوں میں سے بعض نے اُس سے کہا کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاؤ.یہ ایک شرارت تھی.اُن کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ اس کے ساتھ نہ جائیں گے تو

Page 150

شرح القصيده ۱۴۸ حلف الفضول کی قسم توڑنے والے قرار پائیں گے اور اگر چلے گئے تو ایذا اٹھائیں گے.جب وہ قرض خواہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی تو آپ بلا تامل اس کے ساتھ ہو لئے اور ابو جہل کے دروازے پر جا پہنچے.جب دستک دینے پر وہ باہر آیا تو آپ نے اُسے فوراً قرض ادا کر دینے کی طرف توجہ دلائی.اور اس نے بلا چون و چرا اُسی وقت اُس کا قرض ادا کر دیا.رؤسائے مکہ نے اس کو ملامت کی کہ تم ہم سے تو یہ کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تنگ کرو اور اس کی کوئی بات نہ مانو اورخوداس کی بات مان لی.ابو جہل نے جوابا کہا کہ خدا کی قسم اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی یہی کرتے.میں نے دیکھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دائیں اور بائیں دومست اونٹ کھڑے ہیں جو میری گردن مروڑ کر مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہیں.(ابن ہشام جلدا ) آپ جو حق کا رعب رکھتے تھے وہ شرارت کی رُوح کو کچل دیتا تھا.اور دوسرے کو صدق کے آگے سر جھکانا پڑتا تھا.-٥٢ هُوَ جَنَّةٌ إِنِّي أَرَى اثْمَارَةَ ود و قطوفَهُ قَد ذُلّلَتْ لِجَنَانِي معانی الالفاظ.اتمار.ثَمرن کی جمع ہے.پھل.قطوف.قِطف کی جمع ہے.خوشہ یا گچھا.اس کی جمع قطاف بھی ہے.ذُلّلتْ - ذُلِلَ الْكَرَمُ کے معنے ہیں.اس کے گچھے لٹکے ہوئے ہیں.

Page 151

شرح القصيده ۱۴۹ ترجمہ.آپ ایک باغ ہیں میں دیکھتا ہوں کہ آپ کے پھل اور کچھے اور خُوشے جھکا کر میرے دل کے قریب کئے گئے.قطوف ، ذُلّلتْ کا نائب فاعل بھی ہوسکتا ہے.شرح.اس شعر میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ کے دل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے شدید مناسبت ہے.جس کی وجہ سے آپ مور دفیض محمدی ہیں.یہ مناسبت آپ کے الہام میں یوں ظاہر فرمائی گئی ہے.كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ.یعنی ہر ایک برکت کا مصدر و منبع حمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود ہے.پس مبارک ہے وہ جس نے سکھایا اور مبارک ہے وہ جس نے سیکھا.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے استاد اور مربی ہیں اور آپ حضور کے شاگرد.۵- الْفَيْتُةَ بَحْرَ الْحَقَائِقِ وَ الْهُدَى وَ رَأَيْتُهُ كَالتُرِ فِي اللَّمَعَانِ ترجمہ.میں نے آپ کو حقائق و ہدایت کا سمندر پایا اور آب و تاب میں موتی کی مانند دیکھا.شرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ علوم سکھائے اور وہ حقائق آپ پر منکشف فرمائے جو دنیا کی نظروں سے بالکل پوشیدہ تھے.مثلاً آپ

Page 152

شرح القصيده ۱۵۰ نے فرما یا مَا مِنْ دَاءٍ إِلَّا لَهُ دَوَاءُ إِلَّا الْمَوْتَ کہ موت کے سواہر بیماری کا علاج موجود ہے.یہ بات آپ نے ایسے وقت فرمائی جبکہ بہت سی بیماریاں لاعلاج خیال کی جاتی تھیں.لیکن سالہا سال کی تحقیق کے بعد اب بعض لا علاج بیماریاں قابل علاج ثابت ہو گئی ہیں.اسی طرح آپ نے بالہام الہى فرما يا خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْأَرْضِ جميعًا (البقرة: ۳۰) اور رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا (ال عمران : ۱۹۲) که دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بہت سی ان چیزوں کے فوائد معلوم کر لئے گئے ہیں جو پہلے محض ضرر رساں خیال کی جاتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ؎ بر لبش جاری از حکمت چشمه در دلش پر از معارف کوثرے اُمّی و در علم و حکمت بے نظیر زیں چہ باشد حجتے روشن ترے ( براہین احمدیہ حصہ اوّل روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۹۹۱۸) یعنی اُس کے منہ سے حکمت کا چشمہ جاری ہے اور اس کا دل معارف سے پر ایک کوثر ہے.وہ آتی ہے مگر حکمت میں بے نظیر ہے.اس سے زیادہ اس کی صداقت پر اور کیا دلیل ہوگی.۵۴- قد مَاتَ عِيسَى مُطرِقًا وَ نَبِيُّنَا حتى وَ رَبِّي إِنَّهُ وَافَانِي معانی الالفاظ.وَ افَانِي - وافی مَوَافَاةٍ حَقَّهُ یعنی اس کا حق اُسے

Page 153

شرح القصيده ۱۵۱ پورا پورا دے دیا.وَ افَى الْمَكَانَ.اس جگہ آیا.وافانی کے یہ معنے ہیں کہ انہوں نے اپنی شرف ملاقات سے نوازا.ترجمہ.حضرت عیسی علیہ السلام تو چپ چاپ اپنا سر جھکائے وفات پاگئے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں.اور بخدا انہوں نے مجھے اپنی شرف ملاقات سے بھی نوازا ہے.شرح.پہلے اشعار میں یہ بتایا گیا ہے کہ انبیاء سابق تو ایک ہلکی بارش کی مانند آپ کے ظہور کی جو بڑی بارش کی مانند تھا ایک علامت تھے اور جامع جمیع کمالات انبیاء صرف آپ ہی کی ذات رفیع الدرجات تھی.اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عیسائیوں کا یہی عقیدہ حضرت مسیح کے متعلق ہے.وہ انہیں تمام انبیاء سے افضل اور خاتم النبیین کے ل آيت أو كَصَيْبٍ مِّنَ السَّمَاءِ (البقرة :۲۰) میں اسلام اور آپ کے ظہور کو موسلا دھار بارش سے تشبیہ دی گئی ہے.سے دیکھور سالہ خاتم النبیین مؤلفہ پادری بوٹامل.جسے پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی نے بار دوم ۱۸۵۳ء میں شائع کیا.اس میں مؤلّف لکھتا ہے وحی آسمانی کی امانت کے لئے صرف بنی اسرائیل ہی مخصوص ہیں اور خاتم النبیین کا ظہور بھی اسی موعود نسل سے ہونے والا تھا اور وہ آخری نبی یسوع مسیح ہے.......اسی آخری نبی نے سلسلہ نبوت اور الہام پر یہ کہہ کر مہر کر دی کہ تمام ہوا.(صفحہ ۵) اور دنیا کے ایمان کی آزمائش کے لئے مسیح خداوند کی دوسری آمد تک جھوٹے نبیوں کے لئے میدان خالی چھوڑ گئے" (صفحہ ۱۰) پس ہماری تحقیق نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم دنیا میں اس بات کا اعلانیہ اظہار کریں کہ توریت اور نبیوں اور انجیل مقدس میں مسیح خدا وند اور اس کے حواریوں کے بعد کسی بچے نبی کی آمد کی کوئی خبر نہیں ہے.اس لئے مسیح اور اس کے حواریوں کے بعد کسی کا دعوی نبوت حق اور قابل وثوق نہیں.“ (صفحہ ۲۱).

Page 154

شرح القصيده ۱۵۲ جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ آسمان پر زندہ اُٹھائے گئے ہیں اور قریباً دو ہزار سال سے زندہ ہیں.آخری زمانہ میں نازل ہوں گے اور ساری دنیا کو راہِ راست پر لائیں گے.اور یہی عقیدہ مسلمانوں کا بھی ہے کہ وہ دجال کو قتل کریں گے.یا جوج ماجوج کو تباہ کریں گے اور انہیں وہ کامیابی حاصل ہو گی جو کسی نبی کو پہلے نہیں ہوئی.اس لئے کسی اور کو اُن پر فضیلت دینا درست نہیں ہے.اس شعر میں اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں.اس جگہ ایک مکالمہ کا ذکر کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں جو مجھ سے اور علاقہ شام کے انچارج مشنری الفریڈ نیلسون ڈاینمر کی کے وکیل ابراہیم نامی سے جو شامی تھا ۱۹۲۶ ء کے اوائل میں دمشق کے مقام پر ہوا تھا.وہ مجھ سے ملنے کے لئے میرے مکان پر آیا اور مذہبی گفتگو کرنی چاہی.میرے دریافت کرنے پر کہ آپ کس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں اُس نے کہا.کیا خداوند یسوع مسیح افضل تھے یا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ).میں نے پوچھا آیا قرآن مجید کی رُو سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں یا انجیل کی رُو سے.اُس نے جواب دیا قرآن مجید کی رُو سے.میں نے کہا قرآن مجید کی رُو سے تو حضرت مسیح کا درجہ ایسا ہی ہے جیسے اُستاد کے مقابل میں شا گرد کا.اُس نے حیرانی کا اظہار کیا.میں نے کہا آپ وہ آیت پیش کریں جس سے آپ مسیح" کا افضل ہونا سمجھتے ہیں.اُس نے کہا قرآن میں ہے کہ فرشتہ نے حضرت مریم“ کو بشارت دی که لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيا تجھے پاک لڑکا دیا جائے گا.قرآن مجید میں کسی اور نبی کے حق میں ایسا نہیں کہا گیا کہ وہ گناہوں سے پاک اور بے عیب ہوگا.ذکی کے لفظ کا کسی اور نبی کے حق میں استعمال نہ ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ مسیح “ ہی بے عیب

Page 155

شرح القصيده ۱۵۳ اور معصوم تھے اور کوئی نبی اس صفت میں اُن کا شریک نہ تھا.میں نے جواب دیا اگر قرآن مجید میں یہی لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی استعمال ہوا ہوتا تو اس سے صرف یہ ثابت ہوتا کہ آنحضرت اور حضرت مسیح درجہ میں مساوی ہیں مگر میں نے یہ کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُستاد کی طرح ہیں اور مسیح علیہ السلام شاگرد کی طرح.چنانچہ قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اسی مادہ سے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ میرے دعویٰ کی تائید کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِم ( الجمعة : ٣) کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں خدا تعالیٰ نے امیوں کی طرف انہی میں سے رسول کر کے مبعوث کیا وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سناتا اور انہیں پاک کرتا ہے.اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزگی ہونا ظاہر کیا گیا ہے.یعنی دوسروں کو مسیح جیسا پاک بنا دینے والا.آپ کا خیال تھا کہ قرآن مجید سے حضرت مسیح علیہ السلام کا تمام انبیاء حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل ہونا ثابت ہے لیکن قرآن مجید کی اس آیت کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُستاد کا مرتبہ رکھتے ہیں اور حضرت مسیح “ شاگرد کا.حضرت مسیح علیہ السلام زکی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مزگی یعنی زکی بنانے والے.دوسری آیت.میرے دریافت کرنے پر اس نے دوسری بات یہ پیش کی کہ قرآن مجید میں حضرت مسیح" کے نسب کے بے عیب ہونے کا ذکر کیا گیا ہے.

Page 156

شرح القصيده ۱۵۴ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حسب و نسب کا مطلقاً ذکر نہیں کیا گیا.میں نے اُس سے پوچھا آپ قرآن مجید کو خدا کا کلام مانتے ہیں یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ؟ اُس نے جواب دیا.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا.میں نے کہا.کس مسیح کے نسب کو بے عیب ثابت کیا.اس طرح بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ مزگی کا ہوا.جو اُستاد کا مرتبہ ہے.میں نے کہا.آپ کا استدلال درست نہیں.قرآن مجید انساب کی کتاب تو ہے نہیں کہ سب انبیاء کے حسب و نسب کا ذکر کیا جاتا.حضرت مسیح کے ماں باپ اور ان کے سلسلہ نسب کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے نسب پر طعن کی گئی تھی.خود آپ کی مقدس کتاب انجیل متی کے باب اول میں مسیح کا جو نسب نامہ لکھا گیا ہے اُس میں اُن کی دو دادیاں زنا کار بتائی گئی ہیں.جب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اُن کے نبی ہونے کا ذکر کیا تو ساتھ ہی یہ بھی ذکر کر دیا کہ اُن کا سلسلہ نسب بھی پاک اور بے عیب تھا.ظاہر ہے کہ سفید بے داغ کپڑے کو دھونے کی ضرورت نہیں ہوتی.ہاں اگر میلا ہو یا اُس میں کوئی دھبہ لگا ہو تو وہ دھویا اور صاف کیا جاتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب و نسب تمام لوگوں کے نزدیک بے داغ اور پاک وصاف تھا اس لئے اس کے ذکر کی ضرورت نہ تھی.اگر آپ کی طرز استدلال اختیار کی جائے تو آیتو مَا كَفَرَ سُلَيْمن “ ( البقرة : ۱۰۳) سے بآسانی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح کافر تھے کیونکہ اُن سے کفر کی نفی ایسے رنگ میں نہیں کی گئی جس رنگ میں حضرت سلیمان علیہ السلام سے کی گئی ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے نفی کفر کی وجہ بھی یہی تھی کہ اُن پر کفر و شرک کا الزام لگا یا گیا تھا.(دیکھو ا.سلاطین باب ۱۱)

Page 157

شرح القصيده ۱۵۵ تیسری آیت اُس نے یہ پیش کی کہ قرآن مجید میں حضرت مسیح کے متعلق ایده بِرُوحِ مِنْهُ آیا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی رُوح القدس سے تائید کی تھی.میں نے کہا حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (الحجر:٣٠) کہ میں نے اُس میں اپنی رُوح پھونکی اور سب فرشتے اس کے لئے سجدہ میں اگر پڑے.حالانکہ مسیح کے لئے کبھی فرشتوں نے سجدہ نہیں کیا.البتہ انجیل متی میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ شیطان نے مسیح سے کہا تھا کہ تم مجھے سجدہ کرو.اور رُوح سے مراد حضرت جبرائیل ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت سے فرمایا.آنْشِدُ وَ رُوحُ الْقُدُسِ مَعَكَ کہ تم شعر پڑھو اور روح القدس تمہارے ساتھ ہے.اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ صحابہ کے حق میں فرماتا ہے وَأَيَّدَ هُمُ بِرُوحِ مِنْهُ ( المجادلة : ۲۳ ) کہ اللہ تعالیٰ نے رُوح القدس سے اُن کی تائید کی ہے.اور صحابہ کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد تھے اس لئے مسیح علیہ السلام بھی جن کی روح القدس سے تائید ہوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں بمنزلہ شاگرد ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى (النجم : ۶) کہ انہیں شدید القویٰ نے سکھایا.شید ید القویٰ حضرت جبرائیل کی ایک تعلی کا نام ہے جیسے روح القدس.انجیل میں آتا ہے کہ مسیح" پر روح القدس کبوتری کی شکل میں نازل ہوئی لیکن حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جبرائیل کے ظاہر ہونے کے وقت سارا

Page 158

شرح القصيده ۱۵۶ افق ان کی تجلی سے معمور تھا.کہاں یہ عظیم الشان تجلی اور کہاں کبوتر ی! پھر اُس نے کہا آپ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی آیت بَلْ رَّفَعَهُ الله کے مطابق آسمان پر اُٹھائے گئے اور اب تک زندہ ہیں اور آخری زمانہ میں آسمان سے نازل ہوں گے مگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عام انسانوں کی طرح وفات پا گئے.میں نے کہا آپ کو میرے عقیدے کا علم نہیں.میں تو یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں.وہ حیران ہو کر پوچھنے لگا.یہ کیسے؟ میں نے کہا ظاہری لحاظ سے تو سب نبی وفات پاگئے اور آیت بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ (النساء :۱۵۹) میں رفع سے مراد بلندی درجات اور تقرب الی اللہ ہے.یہود نے کہا تھا کہ انہوں نے مسیح کو صلیب پر لٹکا کر مار دیا جس سے ان کا لعنتی ہونا ثابت ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ یہود نے اُسے صلیب پر لٹکا کر مارا نہ کسی اور طریق سے قتل کیا اس لئے وہ لعنتی نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کا مقرب تھا.اور رفع کا فاعل جب اللہ تعالیٰ ہو اور مفعول کوئی ذی روح انسان تو زبان عرب میں اس کے معنے سوائے تقرب الی اللہ اور رفع درجات کے اور کچھ نہیں ہوتے.آسمان پر اُٹھانے کے تو کیا کسی پہاڑی یا ٹیلے پر اُٹھانے کے بھی نہیں.چنانچہ قرآن مجید میں بلعم باعور کے متعلق آتا ہے وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَ لَكِنَّةَ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوَاهُ (الاعراف: ۱۷۷) یعنی ہم چاہتے تو ان آیات کے ساتھ اُس کا رفع کرتے لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی.اس آیت میں تو رفع کے مقابلے

Page 159

شرح القصيده ۱۵۷ میں ارض (زمین) کا لفظ بھی موجود ہے پھر بھی کوئی مفسر اس آیت میں رفع کے معنی آسمان پر لے جانے کے نہیں لیتا.اور حدیث میں آتا ہے إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ (كنز العمال) کہ جب کوئی بندہ خاکساری اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ساتویں آسمان تک رفع کرتا ہے.اس حدیث میں باوجود آسمان کا لفظ موجود ہونے کے کوئی شخص یہ معنے نہیں لیتا کہ خاکساری کرنے والا فی الحقیقت آسمان پر اُٹھا لیا جاتا ہے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ، عربی زبان میں رفع الی اللہ کے معنے تقرب الہی اور رفع درجات کے ہیں.مع جسم آسمان پر اٹھانے کے نہیں.پس رفع کے لفظ سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے.پھر میں نے کہا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ظاہری لحاظ سے تو وفات پاچکے ہیں لیکن روحانی افاضہ اور اثر و تاثیر کے لحاظ سے آپ زندہ ہیں اور مسیح مردہ.کیونکہ ان کی پیروی سے اب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتانہ مکالمہ ومخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو سکتا ہے.نہ ان کا دین زندہ ہے، نہ ان کی شریعت زندہ ہے اور نہ اب اُن کی رُوحانی تاثیر باقی ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا افاضہ روحانی اور تاثیر قدسی جاری ہے.اور بندگانِ الہی اس سے مستفید ہو رہے ہیں.آپ کا دین زندہ ، آپ کی کتاب زندہ، آپ کی شریعت زندہ ، آپ کا افاضۂ روحانی و تاثیر روحانی زندہ ہے.اس لئے آپ اور صرف آپ زندہ نبی ہیں.اُس نے یہ سن کر کہا کہ یہ تو نئی بات ہے اور کچھ دیر گفتگو کر کے چلا گیا.

Page 160

شرح القصيده ۱۵۸ -۵۵ والله اني قَد رَأَيْتُ جَمَالَهُ بِعُيُونِ جِسْمِي قَاعِدًا بمكاني ترجمہ اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے آپ کا جمال ظاہری آنکھوں سے اپنے مکان میں بیٹھے دیکھا.-۵۶ هَا إِن تَظَنَّيْتَ ابْنَ مَرْيَمَ عَائِشَا فَعَلَيْكَ إِثْبَاتًا مِّنَ الْبُرْهَانِ ترجمہ.دیکھو اگر تم بھی ابن مریم کو زندہ خیال کرتے ہو تو دلیل سے ثابت کرنا تمہارا فرض ہے.-٧-٥ أَفَأَنْتَ لاقَيْتَ الْمَسِيحَ بِيَقظَةٍ اَو جَاءَكَ الْأَنْبَاءُ مِنْ يَقْظَانِ ترجمہ.کیا تم بھی بیداری میں مسیح سے ملے ہو ؟ یا کسی جیتے جاگتے نے تمہیں خبر دی ہے کہ وہ زندہ ہیں؟ -۵۸ أنظرُ إِلَى الْقُرْآنِ كَيْفَ يُبَيِّنُ أَفَأَنْتَ تُعْرِضُ عَنْ هُدَى الرَّحْمٰنِ ترجمہ.قرآن کریم کو دیکھو کہ وہ اُس کی وفات کیسے واضح طور پر بیان کر رہا ہے.کیا تم رحمان کی ہدایت سے منہ پھیر تے ہو ؟

Page 161

شرح القصيده ۱۵۹ شرح.ان اشعار میں زیادہ تر روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانتے ہیں اور کسی نامعلوم زمانے میں اُن کے آسمان سے اُترنے کے قائل ہیں.اور یہ عقیدہ عیسائیوں کولوگوں کے گمراہ کرنے میں پوری مدد دینے والا ہے.صاحب قصیدہ اپنے ایک فارسی قصیدہ میں فرماتے ہیں ؎ مسیح ناصری را تا قیامت زنده می فهمند مگر مدفون میثرت را ندادند این فضیلت را ز بوئے نافہ عرفاں چو محروم ازل بودند پسندیدند در شان شر خلق این مذلت را ہمہ ڈر ہائے قرآن را چو خاشا کے بیفکندند علم ناتمام شاں چہا گم گشت ملت را ہمہ عیسائیاں را از مقال خود مرد دادند دلیری با پدید آمد پرستاران میت را آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶) یعنی یہ لوگ مسیح ناصری کو قیامت تک زندہ سمجھتے ہیں.مگر مدفون یثرب یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت نہیں دیتے.چونکہ یہ لوگ نافۂ عرفان کی خوشبو سے ازلی محروم تھے.اس لئے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ ذلت پسند کر لی.قرآن کریم کے تمام موتیوں کو کوڑے کرکٹ کی طرح پھینک دیا.ان کے ناقص علم کی وجہ سے ملتِ اسلام کا کس قدر نقصان ہوا.انہوں نے اپنے اس عقیدہ سے تمام عیسائیوں کی مدد کی اس وجہ سے مردہ پرستوں میں بھی دلیری آگئی.

Page 162

شرح القصيده 14.وفات مسیح حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات قرآن مجید کی متعدد آیات سے ثابت ہے.ایک دو آیات بطور مثال درج ذیل ہیں.پہلی آیت وَ إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَ أَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَ أُتِيَ الْهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ.(المائدة: ۱۱۷) - اللہ تعالیٰ حضرت عیسی علیہ السلام سے قیامت کے روز سوال کرے گا کہ کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سواد و معبود بنالو.تو وہ جواب میں کہیں گے:.مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبِّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمُ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ - (المائدة : ۱۱۸) کہ میں نے تو ان سے وہی کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا.اور وہ بالکل صاف اور واضح حکم تھا کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور میں اُن کا نگران اور محافظ تھا جب تک میں اُن میں رہا.مگر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی اُن کا رقیب و محافظ تھا ( اس لئے مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے مجھے اور میری والدہ کو کب معبود بنایا اور کیونکر بنایا بہر حال میری زندگی میں ایسا نہیں ہوا.)

Page 163

شرح القصيده ۱۶۱ اس آیت سے قطعی طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے دو زمانوں کا ذکر کریں گے.قوم میں موجودگی کا زمانہ اور عدم موجودگی کا زمانہ ان دنوں زمانوں کے درمیان توفیتنی یعنی وفات بطور حد فاصل ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی" کے اپنی قوم سے جدا ہونے کا باعث ان کی وفات ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ وفات پاچکے ہیں.اس استدلال کی صحت اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو حضرت امام بخاری نے اس آیت کی تفسیر کرنے کے لئے اپنی صحیح میں درج کی ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حشر کے دن میرے چند صحابہ پکڑ کر لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا کہ یہ میرے صحابہ ہیں." فَيُقَالُ إِنَّكَ لَا تَدْرِى مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ) فَيُقَالُ إِنَّ هُوَ لَاءِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِيْنَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ 66 (بخاری کتاب التفسیر، تفسير سورة المائدة آیت نمبر (۱۱۸) تو یہ کہا جائے گا کہ تجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے تیرے بعد کیا کچھ کیا اور کیا کیا بدعات نکالیں.آپ فرماتے ہیں تو میں وہی قول کہوں گا جو کہ عبد صالح ( یعنی حضرت عیسی علیہ السلام) کا قرآن مجید کی اس آیت میں مذکور ہے کہ میں اس قوم پر نگران اور شہید تھا جب تک اُن میں رہا لیکن جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ہی اُن پر

Page 164

شرح القصيده ۱۶۲ رقیب ونگران تھا.اور یہ کہا جائے گا کہ جب سے تو ان سے جُدا ہوا وہ اُس وقت سے مرتد ہو گئے تھے.اس حدیث سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کی تشریح ہو گئی اور ظاہر ہو گیا کہ جیسے مرتد ہونے والے صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہوئے اسی طرح عیسائیوں میں الوہیت مسیح کا عقیدہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد پھیلا.لہذا اس آیت سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ نہیں بلکہ وفات یافتہ ہیں.دوسری آیت وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَائِنَ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (آل عمران:۱۴۵) یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) صرف ایک رسول ہیں.آپ سے پہلے کے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.پس اگر آپ بھی فوت ہو جا ئیں یا قتل کئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام رسولوں کی نسبت جن میں حضرت عیسی علیہ السلام بھی شامل ہیں وفات پا جانے کی خبر دی ہے.اور رسولوں کے دنیا سے گزرجانے کے صرف دو طریق قرار دیئے ہیں ، موت اور قتل.اگر کوئی تیسری صورت گزرنے کی ہوتی جیسے آسمان پر چلے جانا ، تو اس کا بھی اِس آیت میں ذکر ہوتا.پس اس آیت سے بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت

Page 165

شرح القصيده ۱۶۳ ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی اُن رسولوں میں شامل ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہو چکے ہیں.اجماع صحابہ صحیح بخاری میں لکھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور آپ کی وفات کی خبر مدینہ میں پھیلنی شروع ہوگئی تو صحابہ کو آپ کی وفات کا یقین نہیں آتا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ جوکوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت شدہ کہے گا میں اس کی گردن اڑا دوں گا.تب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اُس روز ایک خطبہ پڑھا جس میں آپ نے فرمایا:.وو مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ قَالَ اللهُ وو 66 " وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ الآية.یعنی جو تم میں سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عبادت کرتا تھا تو وہ سُن لے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو فوت ہو چکے ہیں.اور جو تم میں سے اللہ کا پرستار ہے تو اللہ تعالیٰ یقیناً ہمیشہ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو اللہ تعالیٰ کے ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے جس قدر رسول آئے وہ وفات پاچکے ہیں.(اور یہ آیت پوری پڑھ کر سنائی ) بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے فَتَلَقَّاهَا النَّاسُ كُلُّهُمْ فَمَا اسْمَعُ بَشَرًا مِّنَ النَّاسِ إِلَّا يَتْلُوهَا کہ یہ آیت تمام لوگوں نے حضرت

Page 166

شرح القصيده ۱۶۴ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سُن کر یا دکر لی.پس میں ہر ایک شخص کو اس دن اس آیت کو تلاوت کرتے ہوئے سنتا تھا.اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے جب یہ آیت پڑھی تو اُسے سُن کر مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ میں کھڑا نہ رہ سکا اور زمین پر گر گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فی الواقع وفات پاچکے ہیں.رض اگر اُس وقت حضرت عمرؓ یا کسی اور صحابی کا یہ ایمان ہوتا کہ حضرت عیسی آسمان پر بجسد عصری زندہ موجود ہیں تو وہ یہ کہنے سے کس طرح رک سکتے تھے کہ حضرت عیسیٰ بھی تو رسول ہی تھے وہ کیسے زندہ ہیں ؟ لیکن کسی صحابی نے یہ نہیں کہا اور تمام صحابیوں خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ نہ کہنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا اس دلیل سے کہ آپ سے پہلے آنے والے تمام رسول وفات پاچکے ہیں یقین کر لینا اس امر کی دلیل قطعی ہے کہ تمام صحابہ جس طرح ان سب رسولوں کی وفات کے قائل تھے اسی طرح حضرت مسیح کی وفات کے بھی.تاریخ جب ہم تاریخ اسلامی پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے اگر کوئی شخص عیسائی خیالات کے اثر سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بارے میں شبہ بھی رکھتا ہو تو رکھتا ہولیکن آپ کی وفات پر تو کسی کو بھی یہ شبہ باقی نہیں رہا اور تمام صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی وفات کا پوری صفائی کے ساتھ کامل یقین ہو گیا.

Page 167

شرح القصيده ۱۶۵ مرتدین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو آپ کی تکذیب کی وجہ بنالیا تھا اور وہ کہتے تھے لَو كَانَ مُحَمَّدٌ نَبِيًّا لَمَا مَاتَ - اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نبی ہوتے تو وفات نہ پاتے.اس کا جواب قرآن مجید سے یہی دیا گیا کہ آپ سے پہلے جس قدر بھی انبیاء آئے وہ سب وفات پاچکے ہیں.اس لئے آپ کا وفات پا جانا بھی آپ کی شانِ نبوت کے منافی نہیں.مر مخالفین کا فتنہ تمام قبائل میں پھیل گیا.اور اس بناء پر کہ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) نبی تھے تو فوت کیوں ہو گئے ؟ اہلِ بحرین وحظم وغیرہ قبائل مرتد ہو گئے.چنانچہ مشہور مؤرخ ابن جریر الطبری جارود بن معلی کے قبیلے عبد القیس کے متعلق لکھتے ہیں کہ :- ” انہیں اسلام میں داخل ہوئے تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو ان کے قبیلے عبدالقیس نے کہا کہ اگر محمد نبی ہوتے تو وہ کبھی فوت نہ ہوتے اور سب مرتد ہو گئے.جب اس کی اطلاع جارود کو ہوئی تو انہوں نے سب کو جمع کیا اور کہا.اے گروہ عبد القیس ! میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں اگر تم اسے جانتے ہو تو بتانا.انہوں نے کہا جو چاہو پوچھو.جارود نے کہا جانتے ہو کہ گزشتہ زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے نبی دنیا میں آچکے ہیں.انہوں نے کہا.ہاں.جارود نے کہا پھر کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا وہ فوت ہو گئے.جارود نے کہا.اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی انتقال فرما گئے جس طرح سابقہ انبیاء دنیا سے اُٹھ گئے.میں اعلان کرتا ہوں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ أَنَّ

Page 168

شرح القصيده ۱۶۶ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اُن کی قوم نے کہا ہم بھی شہادت دیتے ہیں کہ سوائے اللہ کے کوئی حقیقی معبود نہیں اور بے شک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اُس کے بندے اور رسول ہیں.اور ہم تم کو اپنا برگزیدہ اور سردار تسلیم 66 کرتے ہیں.اس طرح وہ اسلام پر ثابت قدم ہو گئے.“ ( ترجمه تاریخ طبری جلد اول حصہ چہارم صفحه ۹۴، ۹۵ مطبوعہ حیدرآباد دکن ) اس تاریخی واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتدین نے اپنے ارتداد کی وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وفات پا جانا قرار دیا تھا.اور ان کی یہ وجہ آپ سے پہلے تمام نبیوں کی وفات پیش کر کے رڈ کی گئی اور ظاہر ہے کہ یہ دلیل صرف اسی صورت میں درست ہو سکتی تھی جب کہ آپ سے پہلے گزرے ہوئے گل نبیوں کی وفات تسلیم کی جاتی.اگر ایک کو بھی وفات یافتہ نہ مانا جا تا تو پھر یہ دلیل درست نہ رہتی.پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع تھا اس امر پر کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں لیکن بعد میں جب مسلمانوں کو پے در پے فتوحات ہوئیں اور عیسائی جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور اُن کی تربیت دینی کما حقہ نہ ہو سکی تو اُن کے ذریعہ مسلمانوں میں وہ خیالات پھیلنے شروع ہو گئے جو وہ اسلام لانے سے پہلے رکھتے تھے.اور چونکہ عیسائی اور یہودی اہلِ کتاب اور اہلِ علم سمجھے جاتے تھے اُن کے ایمان لے آنے پر عام مسلمان اُن کی باتوں کو توجہ سے سننے لگے اور آہستہ آہستہ قرآن مجید کی آیتوں کا مطلب ان کے خیالات کے مطابق لیا جانے لگا.چنانچہ تفاسیر میں وہب بن منبہ سے آیت إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى کی تفسیر کی ذیل میں یہ قول نقل کیا ہے.

Page 169

شرح القصيده ۱۶۷ اما تهُ اللهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ثُمَّ رَفَعَهُ.66 کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو تین دن تک وفات دی ، پھر انہیں زندہ کیا، پھر انہیں اٹھا لیا.“ اسی طرح سعید بن المسیب نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے.رُفِعَ عِيسَى وَ هُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَ ثَلَاثِينَ سَنَةً رَفَعَهُ اللهُ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ.(فتح البیان تفسیر ال عمران آیت ۵۶) کہ عیسی تینتیس سال کی عمر میں اُٹھائے گئے اور اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس سے اُن کا رفع کیا.اِن دونوں قولوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ موجودہ اناجیل میں بالصراحت موجود ہے ( دیکھو مرقس باب ۴۵ ولوقا باب ۲۴ ورسولوں کے اعمال باب۱) اور صاحب تفسیر فتح البیان بحوالہ زاد المعاد مؤلفہ ابن القیم یہ لکھ کر کہ یہ جو کہا جاتا بيلكو ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ۳۳ سال کی عمر میں آسمان پر اُٹھائے گئے اس کے متعلق کوئی صحیح روایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی نہیں.تحریر فرماتے ہیں کہ امام شامی نے کہا ہے :." وَ هُوَ كَمَا قَالَ فَإِنَّ ذلِكَ إِنَّمَا يُرْوَى عَنِ النَّصَارَى وَ الْمُصَرَّحُ بِه فِي الْأَحَادِيثِ النَّبَوِيَّةِ أَنَّهُ رُفِعَ وَ هُوَ ابْنُ مِائَةٍ وَ عِشْرِينَ سنة (فتح البيان تفسير سورة آل عمران آیت نمبر ۵۶) کہ امام ابن قیم کی بات درست ہے کیونکہ یہ بیان عیسائیوں کا ہے

Page 170

شرح القصيده ۱۶۸ اور احادیث نبویہ میں تصریح سے آیا ہے کہ ان کا رفع اُس وقت ہوا جب کہ اُن کی عمر ایک سو بیس سال تھی.ہم کہتے ہیں کہ احادیث میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ایک سو بیس سال کی عمر پانے کا ذکر تو ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ میری عمر اُن سے نصف ہو گی.لیکن اُن کے رفع کا احادیث میں کوئی ذکر نہیں.یہ عقیدہ تو در حقیقت نو مسلم عیسائیوں کے ذریعہ مسلمانوں میں آیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں.اور جیسا کہ ہم نے تفصیل سے اوپر بیان کر دیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا یہ عقیدہ ہر گز نہیں تھا.وہ سب حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے اور دوسری صدی میں حضرت امام مالک بھی جو چار ائمہ فقہ میں سے پہلے امام ہیں جن کی وفات ۱۷۹ھ میں ہوئی حضرت عیسی علیہ السلام کے فوت ہو جانے کے قائل تھے.چنانچہ امام محمد طاہر لکھتے ہیں : دو وَ الْأَكْثَرُ أَنَّ عِيسَى لَمْ يَمْتُ وَ قَالَ مَالِكَ مَاتَ 66 (مجمع البحار جلد ا صفحه ۲۸۶ مطبوعہ مطبع العالی منشی نولکشور ۱۳۱۴ھ ) کہ اکثر تو یہی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نہیں مرے لیکن امام مالک نے فرمایا ہے کہ وہ وفات پاچکے ہیں.شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے سچ فرمایا.بدنیا گر کسے پائندہ بودے ابوالقاسم محمد زندہ بودے

Page 171

شرح القصيده ۱۶۹ - فَاعْلَمُ بِأَنَّ الْعَيْشَ لَيْسَ بِثَابِتٍ بَلْ مَاتَ عِيسَى مِثْلَ عَبْدٍ فَانٍ معانی الالفاظ.کالیت - ہمیشہ رہنے والا..ترجمہ.جان لو کہ زندگی قائم و دائم نہیں.بلکہ عیسیٰ بھی ایک فانی بندے کی طرح وفات پاگئے ہیں.شرح.دیوان خنساء میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت خنساء اپنے بھائی کو رو رہی تھیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُن کے گھر کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا." لَوْ خَلَد أَحَدٌ تَخَلَّدٌ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “ کہ اگر کوئی زندہ چھوڑا جا سکتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص تھے جو زندہ رکھے جاتے.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ آفَائِن مَّتَ فَهُمُ الْخَلِدُونَ.(الانبياء: ۳۵) کہ اے رسول ! ہم نے تم سے پہلے کسی بشر کو غیر طبعی زندگی عطا نہیں کی.بھلا ہو سکتا ہے کہ تو تو مر جائے اور وہ زندہ رہیں.اس آیت میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ رکھی تو وہ چیز جاتی ہے

Page 172

شرح القصيده جو سب سے زیادہ نافع ہو.اس لئے اگر کوئی زندہ رکھا جا سکتا تھا تو وہ تیرا وجو د باجود تھا.جب تجھے غیر طبیعی زندگی نہیں دی گئی تو اور کسی کو کیسے دی جاسکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ؎ وَ لَوْ أَنَّ إِنْسَانًا يَطِيرُ إِلَى السَّمَاءِ لكَانَ رَسُولُ اللهِ أولى § أجدر کہ اگر کوئی انسان آسمان تک پرواز کر سکتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ لائق اور مستحق ہوتے.٢٠ وَ نَبِيُّنَا حَقٌّ وَ إِنِّي شَاهِدٌ وَقَدِ اقْتَطَفْتُ قَطَائِفَ اللُّقْيَانِ معالى الالفاظ - اقتطف القمر.درخت سے میوہ توڑا.اقْتَطَفَ الشني - جلدی سے چیز کو لیا.اقتطف الكلام - کلام کا خلاصہ نکال لیا.ترجمہ.اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور میں گواہ ہوں.اور میں آپ کی ملاقات کے ثمرات سے بہرہ مند ہوا ہوں.وَ رَأَيْتُ فِي رَيْعَانِ عُمْرِى وَجْهَهُ ثُمَّ النَّبِيُّ بِيَقظَتى لاقاني معانی الالفاظ.تیعان کسی چیز کا اول اور افضل حصہ.- رَيْعَانُ الشَّبَابِ عنفوان جوانی.

Page 173

شرح القصيده 121 ترجمہ.میں نے آغاز جوانی میں آپ کا روئے مبارک دیکھا پھر آپ نے بیداری کی حالت میں مجھے شرف ملاقات بخشا.شرح.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے محبوب ، اپنے سید و مولا فخر الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بارخواب اور کشفی حالت میں دیکھا ہے.یہاں میں آئینہ کمالات اسلام سے جس میں یہ قصیدہ درج ہے آپ کا ایک خواب نقل کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں :.اوائل ایام جوانی میں ایک رات میں نے دیکھا کہ میں ایک عالیشان مکان میں ہوں جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور چرچا ہو رہا ہے.میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضور کہاں تشریف فرما ہیں ؟ انہوں نے مجھے اس مکان کے ایک کمرہ کا پتہ دیا.میں اس کے اندر چلا گیا.اور جب میں حضور کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا تو حضور بہت خوش ہوئے اور آپ نے مجھے سلام کا بہترین طور پر جواب دیا.آپ کا حسن و جمال اور ملاحت اور مجھ پر آپ کی شفقت و محبت کی نگاہ مجھے اب تک یاد ہے اور وہ کبھی بھول نہیں سکتی.آپ کی محبت نے مجھے فریفتہ کر لیا اور آپ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا.اُس وقت آپ نے مجھے فرمایا اے احمد! تیرے ہاتھ میں کیا چیز ہے؟ جب میں نے ہاتھ کی

Page 174

شرح القصيده ۱۷۲ طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور وہ مجھے اپنی ہی ایک تصنیف معلوم ہوئی.میں نے عرض کیا کہ حضور یہ میری ایک تصنیف ہے.“ ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۴۸ ( ترجمه از عربی عبارت) براہین احمدیہ میں فرماتے ہیں : " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے؟ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے.جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب ( یعنی براہین احمدیہ شمس) کی تالیف ہونے پر کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے.جس کے کامل استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے.غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کے ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا.آنحضرت نے جب اُس میوہ کی تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اُس میں سے شہد نکالا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا.تب ایک مُردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے

Page 175

شرح القصيده ۱۷۳ سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ وجلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبر دست پہلوان کی طرح گرسی پر جلوس فرمارہے تھے.پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تائیں اُس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی اور اُس نے وہیں کھالی.پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت کی گرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی.تب اُسی ٹور کو مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ محل گئی.والحمدينه على عليك " (براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۷۶،۲۷۵ حاشیه در حاشیه نمبرا) اور آپ نے ایک فارسی قصیدہ میں جو اسی ” آئینہ کمالات اسلام میں درج ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا اِن الفاظ میں ذکر کیا ہے.یاد کن وقتیکه در کشتم نمودی شکل خویش یاد کن ہم وقت دیگر کآمدی مشتاق وار یاد کن آن لطف و رحمتها که با من داشتی و آں بشارتها که میدادی مرا از کردگار یاد کن وقتے چوبنمودی به بیداری مرا آں جمالے آں رُنے آں صورتے رشک بہار یعنی اے میرے محبوب! آپ وہ وقت یاد فرما ئیں جب آپ نے کشف میں مجھے اپنی شکل دکھائی تھی.اور ایک اور موقع بھی یاد فرما ئیں جب آپ میرے

Page 176

شرح القصيده ۱۷۴ پاس مشتاقانہ تشریف لائے تھے.ان مہربانیوں اور رحمتوں کو بھی یاد فرمائیں جو آپ نے مجھ پر فرمائی تھیں.اور اُن بشارتوں کو بھی آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے دیتے تھے.وہ وقت بھی یاد فرما ئیں جب بیداری میں آپ نے مجھے اپنا وہ جمال ، وہ چہرہ اور وہ صورت دکھائی تھی جو رشک بہا رتھی.٢٢ - انّي لَقَد أُحْيِيتُ مِنْ اِحْيَائِهِ وَاهَا لِاعْجَارٍ فَمَا أَحْيَانِي ترجمہ.یقیناً میں آپ کے زندہ کرنے سے زندہ ہوا ہوں سبحان اللہ ! کیا اعجاز ہے اور آپ نے کیا ہی اچھا مجھے زندہ کیا ہے.شرح.اوپر کے چند اشعار میں اس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے زندہ نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، حضرت عیسی علیہ السلام نہیں.وہ وفات پاچکے ہیں اور اُن کی تاثیر قدسی اور روحانیت کا دور ختم ہو چکا ہے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور تاثیر روحانی ہمیشہ کے لئے زندہ اور جاری وساری ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس روحانی زندگی کے ثبوت میں آپ نے اپنے وجود کو پیش کیا ہے اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت دیگر تمام انبیاء پر اور اسلام کی صداقت دیگر ادیان پر ثابت کی ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.” اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کا نام لے کر

Page 177

شرح القصيده ۱۷۵ جھوٹ بولنا سخت بد ذاتی ہے کہ خدا نے مجھے میرے بزرگ واجب الاطاعت سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی دائمی زندگی اور پورے جلال اور کمال کا یہ ثبوت دیا ہے کہ میں نے اس کی پیروی سے اور اس کی محبت سے آسمانی نشانوں کو اپنے اوپر اُترتے ہوئے اور دل کو یقین کے نور سے پُر ہوتے ہوئے پایا اور اس قدر نشان غیبی دیکھے کہ اُن کھلے کھلے نوروں کے ذریعہ سے میں 66 نے اپنے خدا کو دیکھ لیا ہے.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۴۰) سوئیں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے بزرگوں کو دی گئی تھی.اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولیٰ فخر الا نبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا.اُس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پاسکتا ہے “ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۵،۶۴) اور فرماتے ہیں:.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اسلام ایسے بدیہی طور پر سچا ہے کہ اگر تمام کفار روئے زمین دعا کرنے کے لئے ایک طرف کھڑے ہوں اور ایک

Page 178

شرح القصيده طرف صرف میں اکیلا اپنے خدا کی جناب میں کسی امر کے لئے رجوع کروں تو خدا میری ہی تائید کرے گا مگر نہ اس لئے کہ سب سے میں ہی بہتر ہوں بلکہ اس لئے کہ میں اس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اُس پر ختم ہیں اور اُس کی شریعت خاتم الشرائع ہے.مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اُس کے چراغ میں سے ٹور لیتی ہے وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل ہے ، اور اُسی کے ذریعہ سے ہے اور اُسی کا مظہر ہے اور اُسی سے فیضیاب ہے.خدا اُس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتا بلکہ آپ کچھ بنا چاہتا ہے مگر خدا اس شخص سے پیار کرتا ہے جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اس کے رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو در حقیقت خاتم الانبیاء سمجھتا ہے اور اس کے فیض کا اپنے تئیں محتاج جانتا ہے.پس ایسا شخص خدا تعالیٰ کی جناب میں پیارا ہو جاتا ہے اور خدا کا پیار یہ ہے کہ اُس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کو اپنے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کرتا ہے اور اس کی حمایت میں اپنے نشان ظاہر کرتا ہے اور جب اس کی پیروی کمال کو پہنچتی ہے تو ایک ظلی نبوت اس کو عطا کرتا ہے جو نبوت محمدیہ کا ظل ہے.“ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۳۹، ۳۴۰)

Page 179

شرح القصيده اور فرماتے ہیں:.122 ” پادریوں کی تکذیب انتہا تک پہنچ گئی تو خدا نے حجت محمد یہ پوری کرنے کے لئے مجھے بھیجا.اب کہاں ہیں پادری تا میرے مقابل پر آویں.میں بے وقت نہیں آیا.میں اس وقت آیا کہ جب اسلام عیسائیوں کے پیروں کے نیچے کچلا گیا.......اور کئی لاکھ مسلمان مرتد ہو کر خدا اور رسول کے دشمن ہو گئے.........بھلا اب کوئی پادری تو میرے سامنے لاؤ جو یہ کہتا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی پیشگوئی نہیں کی.یادرکھو کہ وہ زمانہ مجھ سے پہلے ہی گزر گیا.اب وہ زمانہ آ گیا جس میں خدا یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ رسول محمد عربی جس کو گالیاں دی گئیں ، جس کے نام کی بے عزتی کی گئی ، جس کی تکذیب میں بدقسمت پادریوں نے کئی لاکھ کتا ہیں اس زمانہ میں لکھ کر شائع کر دیں وہی سچا اور سچوں کا سردار ہے.اس کے قبول میں حد سے زیادہ انکار کیا گیا مگر آخر اُسی رسول کو تاج عزت پہنایا گیا اس کے غلاموں اور خادموں میں سے ایک میں ہوں جس سے خدا مکالمہ مخاطبہ کرتا ہے اور جس پر خدا کے غیبوں اور نشانوں کا دروازہ کھولا گیا ہے.اے نادانو! تم کفر کہو یا کچھ کہو تمہاری تکفیر کی اس شخص کو کیا پروا ہے جو خدا کے حکم کے موافق دین کی خدمت میں مشغول ہے اور اپنے پر خدا کی عنایات کو بارش کی طرح دیکھتا ہے.“ (حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۸۶) اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور تاثیر قدسی کی برکت

Page 180

شرح القصيده IZA سے جو تازہ نشانات آپ کے ہاتھ پر ظاہر کئے انہیں پیش کر کے آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ نبی ہونا اور اسلام کا زندہ مذہب ہونا اور قرآن مجید کا زندہ کتاب ہونا ثابت کیا ہے.- يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيَّكَ دَائما في هذِهِ الدُّنْيَا وَ بَعْثٍ ثَانٍ ترجمہ.اے میرے رب ! اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیج.اس دُنیا میں بھی اور دوسرے عالم میں بھی.شرح.چونکہ گزشتہ اشعار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا ذکر تھا اور اُن انعامات الہیہ کا جو آپ کے ذریعہ مصنف قصیدہ پر ہوئے اس لئے اُن کے خیال سے طبعی طور پر آپ کے دل میں دُعا کا جوش پیدا ہوا اور آپ نے اس شعر میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کی کہ وہ اس دُنیا میں بھی آپ کے درجات بلند کرے اور آخرت میں بھی.اور آپ پر ہمیشہ اپنی رحمت کی بارش نازل فرماتا رہے.اور درود کا ذکر اس لئے بھی کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور محبت کرنے کے صلہ ہی میں آپ کو تمام برکات رُوحانی عطا ہوئی ہیں.چنانچہ مندرجہ ذیل الہام کی تشریح میں جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم دیا تحریر فرماتے ہیں: صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ

Page 181

شرح القصيده 129 اور درود بھیج محمد اور آل محمد پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے.سبحان اللہ ! اُس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اُس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے........اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اِس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اُسی رات خواب میں دیکھا کہ (فرشتے) آپ زُلال کی شکل پر ٹور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں.اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی 66 تھیں.صلی اللہ علیہ وسلم.“ ( براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلدا صفحه ۵۹۸،۵۹۷ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) يَا سَيِّدِى قَدْ جِئْتُ بَابَكَ لَاهِفًا وَ الْقَوْمُ بِالاكْفَارِ قَد أَذَانِي معانی الالفاظ - لاول.بے بس.فریادی جود اوری کا خواہاں ہو.مظلوم - لاهفُ الْقَلْبِ سوختہ دل.دل جلا.

Page 182

شرح القصيده ۱۸۰ ترجمہ.اے میرے آقا !میں بے بس مظلوم فریادی بن کر تیرے دروازے پر حاضر ہوا ہوں بحالیکہ قوم نے مجھے کافر کہہ کر سخت ستایا ہے.شرح.غور کرو اس شخص کے دل کی کیفیت کیا ہوگی جو ایک بار نہیں صد ہا بار وو اقرار کرتا ہے کہ مجھے جو کچھ ملا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ملا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ نبی ہونے اور اسلام کے زندہ مذہب ہونے اور قرآن مجید کے زندہ کتاب ہونے کی دلیل ہے اور اس نے اپنی ساری زندگی خدمتِ اسلام اور دیگر مذاہب پر اس کی فوقیت اور برتری ثابت کرنے میں گزاری ہو لیکن پھر بھی وہ ان لوگوں کی طرف سے جو اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں بے حد و بے نہایت ستایا گیا.لعنت و ملامت کے تیروں کا نشانہ بنایا گیا.کذاب ومفتری و کافر ٹھہرایا گیا.اُس کا نام دقبال اور شیطان رکھا گیا.مجلسوں میں نفرین کے ساتھ پکارا گیا.ہر ایک نے اُسے گالی دینا اجر عظیم سمجھا.آخر وہ اپنے محبوب سے شکوہ کرتا ہے کہ اے میرے محبوب! اِن لوگوں نے جو اپنے آپ کو تیری طرف منسوب کرتے ہیں میری حد درجہ تکفیر و تکذیب کی ہے.اسلئے میں تیرے دربارِ عالی سے دادرسی کا خواہاں ہوں.آپ کے وقت کے مشہورا کا بر علماء کے چند فقرات ملاحظہ ہوں.جو انہوں نے اپنے فتووں میں ۱۸۹۱ء میں استعمال کئے ہیں.شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین اور دیگر علماء نے لکھا:.

Page 183

شرح القصيده ΙΔΙ " مرزا قادیانی تھیں دجالوں میں سے ایک ہے جن کی خبر حدیث میں موجود ہے اور اس کے پیروذ زیات دجال ہیں.مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے دقبال سے احتراز کریں.اور اس سے دینی معاملات نہ کریں جو اہلِ اسلام میں باہم ہونے چاہئیں.نہ اس کی صحبت اختیار کریں.نہ اس کی دعوت قبول کریں.نہ اس کے پیچھے اقتدا کریں اور نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں......وہ اور اس جیسے لوگ دین کے چور ہیں.اور دجالین کذابین ملعون شیاطین سے ہیں........اس کذاب قادیانی کے کفر میں کوئی شک نہیں وہ قطعا کا فر و مرتد ہے........وہ بڑا بھاری دجال ہے.......وہ دائرہ اسلام سے خارج اور ملحد اور زندیق ہے........وہ کافر ہے اور بدکردار.....بدترین خلائق اور خدا کا دشمن..جو اس کے گمراہ ہونے میں شک کرے وہ بھی ایسا ہی گمراہ ہے.وہ کا فر بلکہ اکفر ہے......وہ اس شیطان سے بھی زیادہ گمراہ ہے جو اس سے کھیل رہا ہے.اس کو مسلمانوں کی قبر میں دفن نہ کیا جائے...وہ نبیوں کا دشمن ہے اور خدا اس کا دشمن ہے و شخص کا دیانی کے موافق اعتقاد رکھتا ہے وہ بھی مردود ہے.مرزا کا دیانی دجال اور مضل بلکہ دجاجلہ کا راُس رئیس ہے.ان کی عورتوں کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان سے نکاح کر سکتا ہے.“ فتویٰ علمائے ہند و عرب وفتویٰ علمائے لدھیانہ.اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر ۶ و۷) ابوسعید مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپ کو سخت گالیاں دیں.نمونہ ملاحظہ ہو.اسلام کا چھپا دشمن.مسیلمہ ثانی.دقبال زمانی.نجومی.رملی وو

Page 184

شرح القصيده ۱۸۲ جوتشی.جفری.بھنگڑ.ارڈ پوپو.مکار.جھوٹا.فریبی.ملعون.- اعور الدجال.بے ایمان.روسیاہ.ظلام - افاک - مفتری علی اللہ.مور د ہزار لعنت.دہریہ.جہان کے احمقوں سے زیادہ احمق.جس کا خدا شیطان.یہودی.جس کی جماعت بدکردار.زانی.شرابی.حرامخور.اس کے پیر وخران بے تمیز وغیرہ.(اشاعۃ السنہ جلد ۱۴، ۱۸۹۳ء) آپ فارسی قصیدہ میں اس تکفیر و تکذیب کی شکایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اس طرح کرتے ہیں.آنچه ما را از دو شیخ شوخ آزاری رسید یا رسول الله بپرس از عالم ذو الاقتدار حال ماؤ شوخی ایس ہر دو شیخ بد زبان جمله میداند خدائے حال دان و بردبار نام من دجال و ضال و کافرے نہاده اند نیست اندر زعم شاں چوں من پلید وزشت و خوار بهیچ کس را بر من مظلوم و همگیں دل نہ سوخت جز تو کاندر خوابها رحمت نمودی بار بار آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۸) یعنی ہمیں ان دو موذی مولویوں ( یعنی مولوی نذیر حسین دہلوی اور محمد حسین بٹالوی) سے جو آزار پہنچے ہیں اے رسول اللہ ! آپ اس کا حال بڑے اقتدار والے علیم وخبیر سے پوچھ لیجئے ہمارے حال اور ان دونوں شیخوں کی شوخی سب کو واقف الحال و بردبار خدا خوب جانتا ہے.انہوں نے میرا نام دجال و گمراہ اور کا فر رکھ چھوڑا ہے.اور ان کے خیال میں میری طرح اور کوئی ناپاک ، بد اور ذلیل نہیں.مجھ مظلوم اور غمگین کے لئے کسی کا دل نہ جلا سوائے تیرے جس نے خوابوں میں مجھ پر بار بارمہر بانی فرمائی.

Page 185

شرح القصيده ۱۸۳ يَفْرِى سِهَامُكَ قَلْبَ كُلِّ مُحَارِبٍ وَ يَشُجُ عَزْمُكَ هَامَةَ النُّعْمَانِ معانی الالفاظ - يفری - قری سے مضارع کا صیغہ ہے.اس نے کا ٹایا چیرا پیشنج.زخمی کرتا ہے یا پھوڑتا ہے.هَامَةٌ کھو پری یاجہ.الشُّعْبَانُ - اثر رہا.سانپ نرومادہ دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے.اس کی جمع ثعابين ہے.ترجمہ.تیرے تیر ہر محارب کے دل کو چیرتے ہیں اور تیرا عزم اثر د ہے کے سر کو کچل ڈالتا ہے.شرح.اس شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کرنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا تعلق اس قسم کا ہے کہ آپ کا کوئی دشمن سزا سے نہیں بچ سکتا.مجھے کا فر کہنے والے اور آپ کا دشمن قرار دینے والے اگر صادق ہیں تو میں تباہ ہو جاؤں گا لیکن اگر وہ میری تکفیر و تکذیب میں جھوٹے ہیں اور میں تیرا عاشق صادق ہوں تو تیری عنایات و تو جہات انہیں بے سزا نہیں چھوڑیں گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.آج ان مکفرین علماء کا کوئی نام لیوا نہیں.وہ دنیا سے ایسے مٹ گئے کہ ان کا نام ونشان بھی باقی نہ رہا.مولوی محمد حسین بٹالوی جس نے تکفیر کا بیڑا اٹھایا تھا اور علمائے پنجاب و ہندوستان سے شہر بہ شہر جا کر فتوای تکفیر حاصل کیا تھا

Page 186

شرح القصيده ۱۸۴ اُسے اللہ تعالیٰ نے حد درجہ ذلیل کیا.حضرت امام جماعت احمد یہ تفسیر کبیر میں اس کے متعلق فرماتے ہیں:." انہوں نے ایک دفعہ بڑی تعلی کے ساتھ کہا تھا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو اونچا کیا تھا اور اب میں ہی ان کو نیچے گراؤں گا.مگر اس کے بعد انہوں نے حضرت مرزا صاحب کو کیا گرانا تھا خود ہی ذلیل ہوتے گئے یہاں تک کہ اُن کے دو بیٹے بھاگ کر قادیان میں میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا باپ اتنا بے غیرت ہے کہ وہ ہمیں کہتا ہے ہم کسی یتیم خانہ میں داخل ہو جائیں.وہ ہمیں ہر وقت مارتا پیٹتا ہے اور ہم سے ذلیل کام لیتا ہے.ہم اب اُس کے پاس نہیں رہنا چاہتے.میں نے ان دونوں کا وظیفہ لگادیا اور انہیں قادیان میں تعلیم دلائی.مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ اس میں میری بڑی ذلت ہے ان کو قادیان سے نکال دیں.مگر میں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ میرے پاس مدد کے لئے آئیں اور میں اُن کو نکال دوں.اس کے بعد وہ دونوں احمدی ہو گئے.اور آخر مولوی صاحب زور دے کر اُن کو واپس لے گئے.مگر پھر بھی اُن سے ایسا سلوک کیا کہ اُن میں سے ایک تو مر گیا ہے اور دوسرا عیسائی ہو گیا اور اب تک زندہ ہے اور ریاست میسور میں کاروبار کرتا ہے.“ ( تفسیر کبیر - تفسیر سورۃ الغاشیه زیر آیت ۵)

Page 187

شرح القصيده ۱۸۵ مكفّر علماء کے جاہ و جلال اور شان و شوکت کا فتوای کفر دینے کے بعد سے لے کر ان کے فوت ہونے تک جو حشر ہوا وہ دنیا دیکھ چکی ہے.اور احمدیت کے خلاف ان کی ساری کوششوں کے رائیگاں جانے کا تو احمدیت کے اشد ترین دشمنوں کو بھی علی الاعلان اقرار کرنا پڑا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دی اور آپ کی جماعت کو فوق العادت ترقی عطا فرمائی.وہ آج اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہے.واشنگٹن ، شکاگو، اور دیگر امریکن ریاستوں اور شہروں میں لنڈن اور دیگر یورپین ممالک میں ، افریقہ اور ایشیا کے مختلف بلا دمیں پائی جاتی ہے اور بفضلہ تعالیٰ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے.٢٦- للهِ دَرُكَ يَا إِمَامَ الْعَالَمِ انت السَّبُوقُ وَ سَيْدُ الشُّجَعَانِ ترجمہ.آفرین اے پیشوائے عالم ! تو سب سے آگے بڑھا ہوا ہے اور تمام بہادروں کا سردار ہے.( تشریح کے لئے دیکھو شعر نمبر ۹) -- أَنْظُرُ إِلَى بِرَحْمَةٍ وَ تَحَلُّنٍ يَا سَيِّدِى أَنَا أَحْقَرُ الْغِلْمَانِ معانی الالفاظ - تعلن - ترنم - شفقت.

Page 188

شرح القصيده ۱۸۶ ترجمہ.مجھ پر رحم اور محبت و شفقت کی نظر کیجئے.اے میرے آقا! میں ایک نا چیز غلام ہوں.- يَا حِبْ إِنَّكَ قَد دَخَلْتَ مَحَبَّةٌ في مُهْجَتِي وَ مَدَارِي وَ جَنَانِي معانی الالفاظ - المُهْجَةُ - خون خونِ دل - مُهْجَةُ كُلُّ شَيْءٍ - ہر چیز کا خالص اور بہترین حصہ.اس کی جمع مُهَجٌ اور مُهَجَاتٌ ہے.مَدَارِكُ - حواس ، اور وہ پانچ ہیں.جنان.دل.ترجمہ.اے میرے پیارے! تیری محبت میرے خون میں ، میری جان میں ، میرے حواس اور میرے دل میں رچ گئی ہے.شرح.اس شعر میں کمال محبت کا اظہار کیا گیا ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کی محبت تصنع اور تکلف سے نہیں بلکہ طبعی اور ائم اور اکمل درجہ کو پہنچی ہوئی ہے.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شدت جذب محبت سے آپ کے دل اور آپ کی جان اور آپ کے رگ وریشہ میں داخل ہو چکے ہیں.حقیقت یہی ہے کہ سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اُسے پی جاتا ہے یا کھا جاتا ہے یا اُسے اپنے وجود میں داخل کر لیتا ہے.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت کا ہے اور آپ کی یہی محبت خدا تعالیٰ کو پسند آئی کہ آپ کو

Page 189

شرح القصيده ۱۸۷ اس زمانہ میں احیائے دین کی خدمت پر مامور کیا گیا.آپ فرماتے ہیں کہ:.ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں.یعنی ارادہ الہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص محیی کی تعین ظاہر نہیں ہوئی اس لئے وہ اختلاف میں ہے.اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا هُذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُولُ اللهِ.“ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے.سو وہ اس شخص میں متحقق ہے.“ ( براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۹۸ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) ایک اور عربی قصیدہ میں آپ فرماتے ہیں:.أَنْتَ الَّذِي شَغَفَ الْجَنَانُ بِحْتِهِ أَنْتَ الَّذِي كَالرُّوحِ فِي حَوْبَائِي أنتَ الَّذِي بِعِدَادِهِ وَ بِحُبِّهِ أَيَّدُتُ بِالْإِلْهَامِ وَ الْأَلْقَاءِ تو وہ ہے جس کی محبت سے میرا دل معمور ہے.تو میری جان میں بمنزلہ رُوح کے ہے.تو وہ ہے جس کی محبت والفت کے باعث میں الہام اور القاء الہی سے تائید کیا گیا ہوں.

Page 190

شرح القصيده ۱۸۸ -٢٩ مِنْ ذِكْرِ وَجْهِكَ يَا حَدِيقَةً بَهْجَتِى لَمْ اَخْلُ فِي لَحْرٍ وَ لَا فِي ان معانی الالفاظ - البنجةُ حسن تر و تازگی.خوشی یا ظہور خوشی.ترجمہ.تیرے منہ کی یاد سے اے میرے مسرت کے باغ میں ایک آن اور ایک لحظہ بھی فارغ نہیں ہوتا.شرح.اس شعر میں مشہور محل لمن أحب شيئًا أكثر ذكره " كه انسان کو جس چیز سے محبت ہو اس کا بکثرت ذکر کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی شرت محبت کا اظہار کیا ہے.چشمى يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوَّةُ الطَّيَرَانِ ترجمہ.میرا جسم شوق غالب کے سبب تیری طرف اُڑ نا چاہتا ہے.کاش مجھ میں قوت پرواز ہوتی! شرح.اس شعر میں مصنف قصیدہ نے اپنی وفور محبت اور کمال عشق کا نہایت خوش اسلوبی سے اظہار فرمایا ہے.فرماتے ہیں اگر چہ رُوح کو رُوح سے

Page 191

شرح القصيده ۱۸۹ مناسبت ہے اور میری اور میرے محبوب کی مثال یک جان و دو قالب کی ہے لیکن یہ مادی قالب بھی غلبہ محبت و جوشِ عشق سے اُڑنا چاہتا ہے تا وہ اپنے محبوب کے قالب سے متحد ہو جائے.کاش اُسے قوت پرواز حاصل ہوتی ! اسی مضمون کو آپ نے ایک فارسی قصیدہ میں یوں ادا کیا ہے.پریدم سوئے کوئے او مدام من اگر مے داشتم بال و پرے اگر میرے پر ہوتے تو میں اُس کے گوچہ کی طرف ہمیشہ اڑتا رہتا.حسن الختام اس قصیدہ کے آخری اشعار حسنِ خاتمہ کا بہترین نمونہ ہیں.آپ نے ابتدائے قصیدہ میں بجائے اظہار محبت اپنے محبوب کے اوصاف عالیہ و کار ہائے جلیلہ اور کمالات کا ذکر کر کے یعنی بواعث محبت بیان کر کے آخر میں اپنی محبت غیر فانی کا ذکر فرمایا ہے اور ایسے رنگ میں قصیدہ کو ختم کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا کہ آپ کی زندگی کا ہر لحہ محبت رسول میں گزر رہا ہے اور آپ عالم محبت کی نا پیدا کنار فضاؤں اور حدود فراموش وسعتوں میں محو پرواز ہیں.

Page 192

شرح القصيده 190 اعتذار اس قصیدہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جن کمالات اور اوصاف عالیہ کا ذکر پایا جاتا ہے اس کی تفصیل اس مختصر شرح میں بیان کرنا ممکن نہ تھا، اس لئے میں اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جو شرح کا حق تھا وہ نہ مجھ سے ادا ہوا ہے اور نہ ادا ہو سکتا ہے.مگر جس قدرلکھا بھی گیا ہے وہ بھی محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے جس نے مجھے بیماری کی حالت میں اس کی توفیق بخشی.فَالْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي وَ فَقَنِي لِهَذَا - آخری بات جو میں لکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کا خلاصہ اور کپ کباب کلمہ طیہ لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ یعنی توحید الہی اور رسالت محمد یہ ہے.کلمہ طیبہ کی پہلی مجز جو توحید الہی پر مشتمل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جس رنگ میں اس کا ظہور ہوا اور جس طرح توحید الہی کی تعلیم پر آپ نے زور دیا اور اپنے قول و فعل سے خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کا اظہار کیا اس کی نظیر پہلے کسی نبی میں نہیں ملتی.آپ نے کھاتے پیتے ، آتے جاتے ، سوتے جاگتے ، لباس پہنتے ، ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا.آپ کو آبشاروں کے گرنے ، بجلیوں کے چمکنے ، بادلوں کے گرجنے ، آندھیوں کے طوفانوں اور بارشوں کے سیلابوں ، دریاؤں اور سمندروں کے اُتار چڑھاؤ ، زمین کے جھٹکوں اور زلزلوں سے پہاڑوں کے لرزنے میں خدائے واحد کا جلال نظر آتا تھا.توحید الہی کی خاطر آپ نے سارے عرب کو اپنا دشمن بنالیا تھا.آپ

Page 193

شرح القصيده ۱۹۱ نے اس رنگ میں توحید الہی کی اشاعت کے لئے قربانیاں کیں کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے شہادت دی کہ آپ کی نماز اور آپ کی ہر قسم کی قربانیاں اور آپ کی زندگی اور آپ کی موت سب خدائے رب العالمین کے لئے تھیں اور دوسری طرف آپ کے مخالفوں نے بھی اعتراف کیا ” قَدْ عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّهُ “ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو اپنے ربّ کے عاشق زار ہیں.لیکن کلمہ کی دوسری مجز جو رسالت محمدیہ پر مشتمل ہے جس میں ”محمد“ نام کا ذکر ہے جس کے معنے ہیں کثرت سے تعریف کیا گیا اس میں جو حقیقت پائی جاتی ہے اس کا کامل ظہور اس زمانہ میں مقدر تھا.جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پادریوں اور مغربی فلاسفروں کی طرف سے اور آریوں کی طرف سے ہر قسم کے ناپاک حملے اور گندے اعتراضات کئے گئے اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ”محمد“ کی تعریف اور آپ پر حملہ کرنے والوں کے مقابلہ کے لئے آپ کے روحانی فرزند حضرت میرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام مصنف قصيدة لهذا کو مبعوث فرما یا تا دنیا سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیسی عظمت وشان عطا فرمائی ہے اور کیسا عالی مرتبہ نبی بنایا ہے.تا دنیا کو معلوم ہو جائے کہ آپ اس کے کتنے بڑے محسن ہیں اور آپ کو قبول کرنے اور آپ کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے میں کیا کیا فوائد ہیں.تا دنیا پر گھل جائے کہ قرب الہی جس پر فلاح اخروی موقوف ہے صرف آپ کی پیروی سے حاصل ہوسکتا ہے اور تا یہ امر دنیا کے ذہن نشین ہو جائے کہ آپ دنیا کے لئے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہیں اور پھر دنیا آپ کی تعریفوں سے ایسی بھر جائے جیسا کہ پانی سے سمندر.

Page 194

شرح القصيده ۱۹۲ چنانچہ بانی سلسلہ احمد یہ اپنی بعثت کی غرض بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب تریاق القلوب صفحہ ے میں رقمطراز ہیں :.”اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی رو جو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اُس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۴۱) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.جلال الدین شمس بمقام کوئٹہ ۸ ستمبر ۱۹۵۶ء

Page 195

شرح القصيده ۱۹۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ قصيدة لے الْقُرْآنِ الْعَظِيمُ وَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ الْكَرِيمِ قصیدہ جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس قصیدہ کی جس کی میں نے شرح لکھی ہے برکات کا ثمرہ ہے.( خاکسار جلال الدین شمس) إِنْ شِئْتَ بَحْرَ الْعِلْمِ وَالْعِرْفَانِ فَاقْرَأْ كِتَابَ اللهِ بِالْإِمْعَانِ اگر تو علم و عرفان کے سمندر کا خواہاں ہے تو اللہ تعالیٰ کی کتاب کو غور سے پڑھ سفَرٌ كَرِيمٌ كَامِل وَ مُكَمَّلُ فَرْدْ وَ لَمْ يُوجَدُ لَهُ مِنْ ثَانِي وہ ایک قابل قدر صحیفہ اور کامل ومکمل کتاب ہے یگانہ ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ہے.نُورٌ مُبِينٌ سَاطِعٌ مِنْ رَّبَّنَا ضَوْءُ مُضِيعُ سَائِرَ الْبُلْدَانِ وہ ہمارے رب کی طرف سے ایک روشن بلند نور مین ہے اور ایک ایسی عظیم الشان روٹی ہے جو تمام شہروں کو روشن کر رہی ہے تَاجُ الْهُدَى فَخَرُ الشَّرَائِحِ كُلِّهَا وَ الْحَقُ كُلُّ الْخَيْرِ فِي الْقُرْآنِ وہ ہدایت کا تاج اور تمام شریعتوں کا فخر ہے اور حق بات یہ ہے کہ سب خیر قرآن میں ہے لے یہ قصیدہ میں نے نومبر ۱۹۵۱ء میں لکھا تھا اور الفضل جلسہ سالانہ نمبر اور رسالہ الفرقان ماہ دسمبر ۱ ۵ء میں شائع ہوا تھا.

Page 196

شرح القصيده ۱۹۴ كَالسّمْطِ تَبْدُوا أَيُّهَ مَنْظُومَةٌ الْفَاظُهُ كَالنُّةِ فِي اللَّمْعَانِ اس کی آیتیں سلک مروارید کی طرح پروئی ہوئی ہیں اس کے الفاظ چمک دمک میں موتیوں کی مانند ہیں اياته تُلْفِى إِذَا دَبَّرْتَهَا بَحْرَ الْحَقَائِقِ مَنْبَعَ الْعِرْفَانِ اس کی آیات میں اگر تو غور کرے گا تو انہیں حقائق کا سمندر اور عرفان کا سر چشمہ پائے گا فِي لَيْلَةٍ ظَلْمَاءَ كَانَ نُزُولُه أَرْخَتْ سُدُولَ الْغَيِّ وَالطُغْيَانِ اس کا نزول ایک شب تاریک و تار میں ہوا جس نے گمراہی اور طغیان کے پردے ڈالے ہوئے تھے الْعُرْبُ مِنْ ظُلْمٍ وَ مِنْ جَهْلٍ غَلَتْ مِثْلَ السَّبَاعِ بِهَيْكَلِ الْإِنْسَانِ عرب لوگ ظلم و جہالت کی وجہ سے انسان کی شکل میں درندے بنے ہوئے تھے كَانَتْ كَخَافِيَةِ الْغُدَافِ قُلُوبُهُمْ مِنْ كَثْرَةِ الْأَثَامِ وَ الْعِصْيَانِ ان کے دل کالے کوے کے پروں کی طرح گناہوں اور نافرمانی کی کثرت سے سیاہ ہور ہے تھے كَانُوا كَغَرْقَى فِي هَوَاءِ نُفُوسِهِمْ وَ اللَّهُوِ بِالنُّدَمَاءِ وَ النِّسْوَانِ وہ خواہشات نفسانی اور عورتوں اور رندان بادہ خوار کے ساتھ لہو و لعب میں غرق تھے صَارُوا كَأَنْعَامٍ كَثِيرٌ مِّنْهُمْ مَذْكُورَةٌ فِي سُوْرَةِ الْفُرْقَانِ اُن میں سے اکثر مواشی کی مانند ہو چکے تھے جیسا کہ سورۃ فرقان میں مذکور ہے زَالَ الْعَمَى بَعْدَ الْهُدَى مِنْ قَلْبِهِمْ وَ تَشَبَعُوا بِالْقِسْطِ وَ الْمِيزَانِ اُن کے دلوں سے ہدایت پانے کے بعد اندھا پن جاتا رہا اور انہوں نے انصاف اور میزان پر مضبوطی سے پنجہ مارا تقُوا بِمَاءِ الْوَحْيِ جَذْرَ جَنَانِهِمُ مِنْ رِجْسِ أَوْثَانٍ وَ مِنْ أَضْغَانِ انہوں نے وحی کے پانی سے اپنے دلوں کو بتوں کی ناپا کی اور کینوں سے صاف کیا ل أو بِصُورَة -

Page 197

شرح القصيده ۱۹۵ فَاقُوا الْوَرَى دُنْيَا وَ دِينًا كُلُّهُمْ لَمَّا آتَوُا بِأَوَامِرِ الْقُرْآنِ وہ سارے دنیا و دین میں باقی مخلوق پر فوقیت لے گئے جب وہ قرآن کے احکام کو بجالائے وَ اظَهَرُوا حَتَّى تَبَرَّأَ كُلُّهُمْ مِنْ كُلِّ نَوْعِ الذَّنْبِ وَ الْعِصْيَانِ وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوئے کہ اُن میں سے ہر ایک ہر قسم کے گناہ و معصیت سے بیزار ہو گیا هُمْ جَاهَدُوا الْكُفَّارَ طُولَ نَهَارِهِمْ وَ اللَّيْلَ بَاتُوا طَالِبِي الْغُفْرَانِ وہ دن کو کفار سے جہاد کرتے اور رات خدا تعالیٰ سے استغفار کرتے گزارتے زَكُوا نُفُوسَهُمْ فَكَانَ فُؤَادُهُمْ كَالْكَوْكَبِ اللَّذِي فِي اللَّمْعَانِ انہوں نے اپنی جانوں کو ایسا پاکباز بنایا کہ ان کے دل چمک دمک میں روشن ستاروں کی مانند ہو گئے هَارُوا الْمَكَارِمَ وَ الْفَضَائِلَ جُمَّةً مَا حَازَهَا جِيْلٌ مِّنَ الْإِنْسَانِ انہوں نے کثرت سے فضیلتوں اور مکارم کو حاصل کیا جن کو انسانوں کی کوئی جماعت نہ حاصل کر سکی تھی وَ اسْتَمْسَكُوا بِالذِكرِ حَتَّى جَاءَهُمْ وَحَى يُبَيِّرُهُمْ مِّنَ الرَّحْمنِ انہوں نے قرآن مجید کو اس مضبوطی سے پکڑا کہ اُن کے پاس خدائے رحمن سے بشارت دینے والی وحی آئی أجْرٌ وَ مَغْفِرَةٌ لَهُمْ مِنْ رَّبَّهِمْ طُوبَى لَهُمْ فَضْلًا مِّنَ الْمَثَّانِ کہ ان کے لئے اُن کے رب کی طرف سے اجر اور مغفرت ہے اور اُن کے لئے خدائے منان سے طوبی یعنی ہرقسم کی خیر ہے تالُوا مِنَ الرَّحْمَنِ كُلَّ كَرَامَةِ فَازُوا بِفَضْلِ اللهِ وَ الرَّضْوَانِ انہوں نے خدائے رحمن سے ہر قسم کی عزت پائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا کو حاصل کیا طَارُوا بِأَمْرِ نَبِيَّهِمُ فِي الْعَالَمِ مِثْلَ الْحَمَائِمِ حَامِلِي الْقُرْآنِ وہ اپنے نبی کے حکم سے قرآن مجید اُٹھائے کبوتروں کی مانند اڑے اور ساری دنیا میں پھیل گئے

Page 198

شرح القصيده ۱۹۶ لِلْولدان ربِّي النَّبِيُّ مُحَمَّد أَصْحَابَهُ بِتَعَلُّنِ كالام محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی ماں کی مانند نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ اپنے صحابہ کی پروریش کی هُمْ اقْتَدَوْا بِمُحَمَّدٍ خَيْرِ الْوَرَى عَيْنِ الْهُدَى ذِي الْحُسْنِ وَ الْإِحْسَانِ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی جو بہترین خلائق چشمہ ہدایت اور صاحب حسن و احسان ہیں يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ اے میرے رب! تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیج خَيْرٍ الْخَلَائِقِ مَهْبَطِ الْقُرْآنِ جو سب مخلوقات سے افضل اور بہتر ہیں جن پر قرآن اترا تھا

Page 198