Shan-eMasih-eMaud

Shan-eMasih-eMaud

شان مسیح موعود

شیخ عبدالرحمٰن مصری کے مضمون مندرجہ رسالہ 'رُوح اسلام لاہور' کے 'فضیلت نمبر' کا جواب
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات

مہتمم نشر و اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی طرف سے شائع کردہ قریباً اڑھائی صد صفحات کے اس قیمتی مقالہ میں شیخ عبدالرحمن مصری کی اس ناکام کوشش کا تجزیہ کیا گیا ہے جس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو غیر نبی بتایا تھا۔ اس کتاب کا مسودہ عہد خلافت ثانیہ میں مرتب کرلیا گیا تھا جب کہ اس کی اشاعت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے بابرکت عہد میں ہوئی تھی۔ اس کتاب میں دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ مسیح موعودعلیہ السلام تو نبی اللہ تھے، اور اپنی شان، عظمت اور مقام میں مسیح ابن مریم سے بڑھ کر تھے، ایسے میں آپؑ کو غیر نبی کہنا یا سمجھنا تو گویاحَکَم وعدل کے اوپر حَکَم بننے والی بات ہوگی۔ دراصل شیخ عبدالرحمن مصری صاحب کا ایک مضمون ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حقیقی مقام اور دعویٰ افضلیت بر مسیح ناصری والی عبارت کا صحیح مفہوم‘‘ کے طویل عنوان کے تحت ماہنامہ ’’روح اسلام‘‘ لاہور بابت ماہ مارچ 1965ء کے صفحہ 41 پر شروع ہوا۔ اس مضمون کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے اس رسالہ کو ’’فضیلت نمبر‘‘ کا نام دیا گیا۔ محترم فاضل قاضی محمدنذیر صاحب نے اس مضمون کے متن، دلائل، اس کے مصنف اور اس مضمون پرتعارفی ریویو لکھنے والوں کا خوب خوب تجزیہ کرکے موضوع کی اصل حقیقت ظاہر کی ہے جو کتاب کے نام ’’شان مسیح موعود‘‘ کےعنوان سے عیاں ہے۔ اس کتاب کا مسودہ محترم حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے سنا، اور مصنف کو بیش قیمت مشوروں سے نوازا، محترم قاضی محمدنذیر صاحب نے ستمبر 1972ء میں کتاب ہذا کا دوسرا ایڈیشن شائع کرتے ہوئے پیش لفظ میں لکھا کہ مکرم شیخ مصری صاحب سے اب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب نبوت کے متعلق اپنا عقیدہ تبدیل کرنے کی منطقی بحث کے حوالہ سے جواب کا انتظار ہے حالانکہ اس کتاب کی اشاعت پر کئی برس گزر گئے مگر مصری صاحب سامنے نہ آئے۔ دراصل مصری صاحب کا مذکورہ بالا مضمون میں مندرجہ نظریہ بابت نبوت مسیح موعود اس قدر جدید اور ’اوپرا‘ تھا کہ خود لاہوری جماعت کے عمائدین نے اس کی تائید و تصدیق کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔


Book Content

Page 1

ٹائٹل یار اول) رود.ه الله ورفع بعضهم درجات شان مسیح موعود شیخ عبد الرحمن مصری کے مضمون مندرجہ رسالہ رفح اسلام لاہور " فضیلت نمبر کا جواب : از رشحات قلم : کے قاضی محمد نذیر لائل پوری سابق پرنسپل جامد احیایه محوره بعهد خلافت ثاني و شایع شده بعہد خلافت ثالثه و

Page 2

بار دوم ستمبر ہے +1945 تعداد ضیاء الاسلام پریس ریوده

Page 3

فہرست مضامین شان مسیح موعود.مضمون پیش لفظ شیخ عبد الرحمن صاحب مصری کے مضمون کے متعلق چوہدی مور حسین چیمہ ایڈووکیٹ کی ایمیل کا جنواب اور میر سے تاثرات کا نتیجہ متن کتاب کی تمہید 14 KA نظریات مختلفہ مسیح موعود کی تبدیلی عقیدہ والی تحریر سے متعلق زیر بحث عبارت کا متن متعلقہ تبدیلی عقیده مشتمل بر سوال و جواب ہماری جماعت کا نظریہ مولوی محمد علی صاحب نظریه که تبدیلی عقیده محمد علی صاحب دیانی عقیدہ کوئی مسیح موعود سے پہلے ہو چکی مد تردید ۲۹ شیخ مصری صاحب که نظریه که تبدیلی صرف عقیدہ فضیلت میں ہوئی ہے اور یہ دھوئی مسیح موجود کے بعد ہوئی ہے اور ان کا مولوی محمد علی صاحب کے نظریہ سے اختلافات مولوی محمد علی صاحب کی اوائل کی تشریح میں خامی و شیخ صاحب کے نزدیک حضرت اقدس کی حضرت جینے سے انکار نسبت کی وجہ شیخ صاحب کا بیان ایک حد تک صحیح ہے.غلط حقہ کی تردید لفظ اوائل کی تشریح میں شیخ صاحب بیان مولوی محمد علی صاحب کی تردید میں ۵۴ ۱ شیخ مصری صاحب کے نظریہ کی مقامی دونوں عقیدوں میں تناقض کو مد نظر نہ رکھتے ہیں؟ دونوں عقیدں میں تناقض کی منطقی صورت ۱۴ شیخ صاحب کی دلیل کا ابطالی امل بجد ہے.فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی نبوت کے عقیدہ میں تبدیلی کی فرع ہے مسلمانوں کا عقیدہ صحیح ہے کہ دلی منی سے افضل نہیں ہو سکتا.iny YA

Page 4

HA شیخ مصری صاحب کی طرف سے اپنے نظریہ کی آپ تو دید 19 اہلسنت کے بعض حوالہ جات کا مفہوم کہ ولی نیکی سے افضل نہیں ہوتا اپنی تمام شان " سے حضرت مسیح موعود کی مراد * مصری صاحب کے نزدیک حضرت اقدس میں کامل صفت نبوت ۲۲ زمرہ اولیاء میں میسیج موجود کے نزدیک نبی اور رسول بھی داخل ہیں.شیخ مصری صاحب کی تضاد بیانی مجاز اور استعارہ کے طور پر نبی کہنے کی وجہ.خدا کے محکم و اصطلاح میں حضرت اقدس مبنی ہیں ۲۵ حضرت اقدس کے نزدیک نبوت کی تعریف خدا کے حکم اور اصطلاح میں حضرت اقدس نبی ہیں ۲۰ اینی کے حصریہ معنی ۲۸ انہی کے باتفاق انبیاء معنی قرآن مجید کے رو سے نبی کے معنیٰ اسلامی اصطلاح میں نبی کے معنیٰ کرلی اور عبرانی میں نہی کے معنی ۳۲ حضرت اقدس کا محارت کہلانے سے انکار ۳۳ حضرت اقدس نفوی معنوں کے لحاظ سے مصری صاحب کے نزدیک زمرہ انبیاء فرد ہونے چاہئیں.۳۴ ایک مغالطہ کا جواب اپنی تمام شان میں حضرت مسیح سے بڑھ کو ہوتا وہ جوئی فضیلت نہیں ہو سکتا جو غیر نبی کو نبی پر ہوتی ہے Ai M 4 ۹۵ i 1.0 1-4 ۳۵ اصل حقیقت.ریو یوشی ۱۹ء میں مسلسلہ محمدیہ کی سلسلہ موسویہ پر جوئی فضیلت مراد ہے.بوت محمیہ کا مکمل نبوت بھی ہے نہ کہ محض ولایت شیخ صاحب کے ایک مغالطہ کا جواب ۱۲۰ ۳۷ نبی تراش سے مراد ولی تراش نہیں رخاتم النبیین کے معنی بنی تراش کی حقیقت جو فضیلت کے بیان میں مصری حیات کا غلط تاثر دینا اور اس کا ازالہ

Page 5

۱۲۶ ۱۲۸ ١٣٠ ۱۳۱ ١٣ ۱۴۸ 10.101 149 14 170 ->> ۳۹ فضیلت کی شق اول دوسری شق تیسری شقی چوتھی شق پانچویں مشق +.م ۴۲ مصری صاحب کا اعتراف حقیقت " (یعنی نبوت کا افضلیت پر میسیج میں دخل تسلیم کر لینا مگر تضاد بیانی کا شکار ہوتا • حکم کہلانے کا افضلیت بر مسیح نہیں دخل (مصری صاحب کے نزدیک) ۴۶ نبوت کا افضلیت برسی میں دنقل ( مصری صاحب کے نزدیک) وفضل کی تشریح میں حضرت اقدس کا پہلا حوالہ اور ہماری تشریح خلقی نبوت ناقصہ وجہ افضلیت نہیں آ سکتی ۴۰ صبح کا پھولا شام کو گھر آگیا.A.دوسرا حوالہ نبوت کے افضلیت برسیح میں دخل کے متعلق معہ تشریح اہ علی کمالات کی حیثیت اور شین نصری صاحب کا ثبوت مسیح موعود کے میسج میں داخل کے متعلق تمیرا حوالہ ar مصری صاحب کے نزدیک صریح طور پر بنی کہلانے کا مفہوم ** ن کی علیہ سے.ان کی پہلی بات اسیح موعود، مسیح علیہ السلام سے مشابہت کی وجہ سے استعارہ اور تشبیہ بلیغ کے طور پر نبی ہیں.اس مغالطہ کا جواب (کچھ امور کے ذریعہ) امر اول الداردام امرسوم..در چهارم 44

Page 6

4.۶۵ 14 - انی مصری صاحب کی دوسری بات اوراس کا اب " مجاز مرسل کے طور پر نبی کی حقیق ہماری حقیق حضرت تدریس محبت کے معنوں میں نبی نہیں.اللہ آپ کی نبوت کے جاتے پرسنل کے طور پر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اس کالم کے بالمقابل کوئی بھی بھی کال ہی نہیں محدثین پر جزوی بینی کا اطلاق بطور مجاز مرسل شیخ صاحب کی ایک غلط فہمی ۶۸ غلط فہمی کا ازالہ 5 خاتم الاولیاء اور تخاتم الانبیاء کا حقیقی مفہوم.شیخ صاحب کے نزدیک مسیح موعود اور اولیاء میں فرق.شیخ صاحب کے ایک وہم کا ازالہ کہ ہر بی صاحب شریعت جدیدہ ہوتا ہے 194 14! 14F 140 TA..JAY JAJ JAN AB IAA ۷۲ شیخ صاحب کا ایک مغالطہ کہ نبی وہ ہوتا ہے جو ہر پہلو سے نبی ہو نگو مسیح موعود یک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے امتی ہیں لہذا بنی نہیں.اور اس کی تردید 191 ازالہ اور اہم کی عبارت کی حیثیت (محدث ایک پہلو سے امتی ہوتا ہے اور ناقص نہی) ۱۹۵ تعریف نبوت میں تبدیلی اس کا ثبوت ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم کی عبارت سے) ۱۹۹ تمام مستقل انبیاء بھی ایک پہلو سے امتی ہیں.شیخ صاحب کے نز دیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت دریا و کمال فیضان کی تشہر پیچ اور اس کا ہم پر اثر ۲۱۲ کے متعلق ۲۱۶ مصری صاحب کی ایک غلط فہمی کا ازالہ و حضرت موسی اور خضر علیہما السلام کے متعلق صاحب خطاطی اور مصری صاحب کی نا مناسب گفتار معه جواب و شیخ صاحب کی دوسری نامناسب گفتار دوسری از A- Al الجواب بانوت ترین صاحب کا خط اور شیخ صاحب کا مغالطہ ۸۲ مغالطہ کا جواب شیخ صاحب کا ایک شبہ PIA ۲۲۹ ۲۳۲ ۱۲۳۵

Page 7

پیش لفظ شیخ عبد الرحمن صاحب مصری کا ایک مضمون " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عبد حقیقی مقام اور دعوئی افضلیت بر سیج ناصری والی عبارت کا صحیح مفہوم کے طویل عنوان کے تحت ماہنامہ " روح اسلام لاہور بابت ماہ مارچ 1940ء کے اہم صفی پر شائع ہوا.اس مضمون کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے اس رسالہ کو " فضیلت نمیر کا نام دیا گیا.اس مضمون کے شروع میں چودھری محمد حسن صاحب جمیمہ ایڈوکیٹ گجرات کا اس مضمون کے تعلق ایک تعارفی نوٹ بھی شائع ہوا ہے جس میں چودھری صاحب موصوف نے شیخ مصری صاحب کے اس مضمون میں پیش کردہ نکات کی طرف اشارات کرتے ہوئے آخر میں ہمیں اس مضمون سے متعلق ان الفاظ میں اپیل کی ہے.ہید ہے کہ احباب ربوہ اسے پوری سنجیدگی اور پورے غور سے مطالعہ کہ میں گئے اور اگر اس میں انہیں صداقت نظر آئے تو اسے بغیر

Page 8

خوف لومتہ لائم قبول کر کے اللہ تعالے کی خوشنودی حاصل کریں گے.اور اپنے تاثر سے خاکسار کو بھی مشکور فرمائیں گئے " میکن نے محترم چیمہ صاحب کی اس اپیل پر شیخ مصری صاحب کے مضمون کا خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری سنجیدگی اور غور سے مطالعہ کیا ہے اور اس کے حسن و قبیح کو اچھی طرح بھانچا ہے.میں نے اس کتاب میں جس کا نام میں نے " رکھا ہے تفصیل کے ساتھ شیخ مصری صاحب کے مضمون سے متعلق اپنے تاثرات درج کر دیئے ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ محترم پیمہ صاحب اور دوسرے تمام احباب جو " پنجمین احمدیہ اشاعت اسلام لاہور سے تعلق رکھتے ہیں ، میرے اس مضمون کا بھی سنجیدگی اور غور سے مطالعہ فرمائیں گے تاکہ ہمارا اور ان کا استحاد بڑھے اور وہ معلوم کر سکیں کہ حضرت اقدس کے مقام نبوت سے متعلق ہم کس طرح اس حد تک متحد ہو سکتے ہیں کہ باہمی مناقشت بالکل ختم ہو جائے.تفصیلی تبصرہ تو اس مضمون کے متن میں آئے گا.لہذا میں پیش لفظ میں اپنے تاثرات کا نتیجہ بیان کر دینا چاہتا ہوں.میرے نزدیک ہم میں اور شیخ نصری صاحب میں حضرت مسیح موعود کے مقام نبوت کے متعلق کوئی حقیقی نزاع موجود نہیں بلکہ ہم میں اور اُن میں صرف ایک لفظی نزاع بنی موجود ہے.میں نے یہ تاثر بھی لیا ہے کہ شیخ مصری صاحب نے بھی اس مضمون میں یہ بات ملحوظ رکھی ہے کہ کس طرح احمدیوں کا لاہوری فرنی زیادہ سے زیادہ ہم سے قریب کہ سکتا ہے.انہوں نے اپنے اس مضمون میں یہ بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو

Page 9

نبی کا نام علی نبوت کو انتہائی کمال کے ساتھ پانے کی وجہ سے ملا ہے.اور آپ سے پہلے امت محمدیہ میں اولیاء اللہ بھی گو ظلی نبوت رکھتے تھے مگر ان میں شیخ صاحب کے نزدیک یہ صفت کامل طور پر موجود نہ تھی اس لیئے اُن میں نبوت مخفی رہی اور انہیں تعدا تعالے کی طرف سے ظاہرا اور کھلے کھلے طور پہ ہی کا نام نہ دیا گیا.شیخ صباح نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ علی بہوت میں انتہائی کمال پر حضرت اقدم اس نئے پہنچے ہیں کہ وحی الہی آپ پر اس انتہائی کمال کی حد تک نازل ہوئی ہے جیس درمانی کمال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی پر اس کا تزول ممکن ہو سکتا ہے.انہوں نے نہیں یہ بھی بتایا ہے کہ جس حد تک وکی حضرت میں موعود علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے اس کا عشر عشیر بھی آپ سے پہلے امت محمدیہ کے کسی ولی پر نازل نہیں ہوا.پس شیخ صاحب کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مل نے بتی بینی ہیں.اور امت محمدیہ میں آپ سے پہلے گزرے ہوئے اولیا ، آپ کے مقابلہ میں ناقصی علی بنی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل عکس حقیقت میں اُن کے نزدیک صرف مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں اور اولیاء اللہ آپ کے مقابلہ میں حقیقت میں کامل قبل اور کس نہیں بلکہ ناقص عکس ہیں.لہذا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی تعلق پیدا کرانے میں قیامت تک واسطہ ہیں.گھیا شیخ صاحب کے نزدیک آپ کو قبول کئے بغیر کسی شخص کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی تعلق نہیں ہو سکتا.انہیں یہ بھی مسلم ہے کہ حضرت اقدس نبی کہلانے کے مستحق ہیں اور آپ کی نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ مکالمہ مخاطبہ الہی مشتمل بر مورویید کو آپ نے انتہائی کمال کی حد تک حاصل کیا ہے.

Page 10

ہمیں جناب شیخ صاحب کی یہ تمام باتیں مسلم ہیں.لیکن اس کے علاوہ شیخ صاحب ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ ثبوت کی اس کیفیت سے جو حضرت مسیح موعود کو اصل ہے آپ زمرہ انبیاء کا فرد قرار نہیں پاتے کیونکہ آپ شریعت جدیدہ نہیں لائے.شیخ صاحب کی مسلمہ مخصوص اصطلاح میں نبی وہی ہوتا ہے جو شریعت کا ملہ یا نا قصہ لائے.شیخ صاحب کے نزدیک جن انبیاء کو غیر تشریعی نبی کہا جاتا ہے وہ سب زمرہ اولیاء کے فرد ہی ہوتے ہیں.زمرہ انبیاء کے فرد نہیں ہوتے.کیونکہ زمرہ انبیاء کا فرد اُن کی مخصوص اصطلاح میں صرف تشریعی نبی ہی ہوتا ہے.یہ وہ امر ہے جس میں ہمارا شیخ صاحب سے اختلاف ہے ورنہ میں حقیقت کو شیخ صاحب نبوت قرار دیتے ہیں ہم حضرت اقدس کو ہرگز اس کا مدگی نہیں جانتے.اور ہم جس حقیقت کو ثبوت قرار دیتے ہیں شیخ صاحب اس حقیقت کو تو حضرت مسیح موعود میں تحقق یقین کرتے ہیں مگر اس حقیقت کو دہ نبوت قرار نہیں دیتے لیکن شیخ صاحب اس کے باوجود حضرت اقدس کو تمام استمت محمدیہ میں سے نبی کہلانے کا مستحق ضرور یقین کرتے ہیں.بدیں وجہ کہ امت محمدیہ میں سے آپ ہی وہ شخص ہیں جس نے ظلی نبوت کو انتہائی کمال کے ساتھ حاصل کیا ہے اس طرح ہم دونوں ایک ہی حقیقت کو حضرت مسیح موعود علیدات لام کے وجود میں متحقق مانتے ہیں اور اسے کامل علی نبوت بھی جانتے ہیں.مگر شیخ صاحب نبوت کی اپنی مخصوص اصطلات میں اس کا مل خلقی نبوت کو نبوت نہیں سمجھتے مگر ہم اسے مطابق تحریر حضرت مسیح موعود علیه السلام مندرجة تمته " حقیقة الوحی صفحه ۱۸ و چشمہ معرفت ، صفحہ ۳۲۵ خدا تعالیٰ کے حکم اور اصطلاح کے رو سے نبوت سمجھتے

Page 11

ہیں.پس ہم میں اور شیخ صاحب میں حضرت اقدس کے مقام نبوت میں کوئی حقیقی نزاع موجود نہیں صرف لفظی نزاع ہی پائی بھاتی ہے یعنی شیخ صاحب جیس حقیقت کو حضرت اقدس کے وجود میں متحقق سمجھتے ہیں.ہم لوگ بھی اس حقیقت کو حضرت اقدس کے وجود میں تحقیق سمجھتے ہیں.مگر ہم اس حقیقت کو مطابق " پیشمر معرفت "صفحہ ۳۲۴ ایک قسم کی نبوت سمجھتے ہیں جو نبوت محمدیہ کی خالی ہے گویا ہوا ہے نزدیک کا عملی قلی ثبوت درجه نبوت ، مقام نبوت ، نفس نبوت ، یا نبوت مطلقہ کی ہی ایک قسم ہے.اور اسی بناء پر ہم حضرت اقدس کو زمرہ انبیاء کا فرد سمجھتے ہیں مگر بغیر شریعت جدیدہ کے شیخ صاحب اس حقیقت کے ایک قسم کی نبوت ہونے سے انکار نہیں کر سکتے کیونکہ اسے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک قسم کی نبوت قرار دیا ہے جو دراصل پیرایہ جدید میں نبوت محمدیہ ہی ہے.مگر ہم لوگ اسے درجہ ثبوت یا مقام نبوت کی ہی ایک قسم سمجھتے ہیں.کیونکہ حضرت اقدس نے اپنے آپ کو خدا کے حکم اور اصطلاح میں نبی قرار دیا ہے.اور خدا تعالے کی اصطلاح میں نہیں وہی ہوتا ہے جو درجہ نبوت یا مقام نبوت ضرور رکھتا ہو.پس ہم میں اور شیخ صاحب میں حضرت اقدس کی نبوت میں اختلات محض لفظی نزاع کی حیثیت کا رہ جاتا ہے.ہمارے نزدیک شیخ مصری صاحب اور اُن کے ہمخیال حضرت اقدام کو کامل ظلی نبی ماننے کی وجہ سے در حقیقت تو حضور کو مقام نبوت پر ہی فائز مانتے ہیں گو وہ آپ کو زمرہ اولیاء کا ہی فرد قرار دیں.کیونکہ الوصیت کے مطابق حضرت اقدس کی نبوت کی جو کیفیت ہم بیان کرتے ہیں یعنی مکالمہ مخاطیہ کا حملہ قامہ کی وجہ سے حضور کو نبی کا نام ملنا.اس کا شیخ صاحب بھی حضرت اقدس

Page 12

کے وجود میں پایا جانا یقینی سمجھتے ہیں.پس ہمارے اور شیخ صاحب کے درمیان حضرت اقدس کی نبوت میں صرف ایک لفظی نزاع ہی موجود ہے.تم حقیقۃ الوحی مش یہ تو حضرت اقدس دوسرے مسلمانوں کا بھی اس مکالمہ مخاطبیہ کثیرہ کو نبوت نہ قرار دینے میں ایک لفظی اجتماع ہی قرار دیتے ہیں چنانچہ حضورہ تحریر فرماتے ہیں:.”میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعوی کرتا ہوں.یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں.صرفت مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے محاصل ہے.سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں.پس یہ صرف قلی نزاع ہوئی کہ آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتے ہیں.میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم انہی (مندرجہ قرآن مجید - ناقل) نبوت رکھتا ہوں.ولاكن ان يضطلم " اور پیشمہ معرفت صفحہ ۳۲۵ میں تحریر فرماتے ہیں :- نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالٰی نے اپنی وحی میں میری نسبت صدا مرتبہ استعمال کیا ہے.مگر اس لفظ سے مکالمات مخاطبات الہیہ مراد ہیں جو بکثرت امور غیب پرمشتمل ہیں.اس سے بڑھ کر کچھ نہیں.ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتا ہے.يحل أن يَصْطَ لِم.سوخدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطیات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے

Page 13

اور اپنی کتاب الوصیت " میں تحریر فرماتے ہیں :- بھی کہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت و کمیت کے رُو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باتی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ مشتمل ہو تو وہی دوسر سے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے حسین پر تمام مکیوں کا اتفاق ہے“ اور تجلیات الہیہ صفحہ ۲۶ پہ نبوت کی تعریف حضر یہ الفاظ میں یہ لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک نبی اسی کو کہتے ہیں جس پر تعدا کا کلام قطعی اور یقینی اور بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا." پرتی اور اپنی تقریرہ حجتہ اللہ" میں فرماتے ہیں :- بخدا تعالے کی طرف سے ایک کلام یا کر جو غیب پر مشتمل ہوں، زہر است پیشگوئیاں ہوں، مخلوق کو پہنچانے والا انسو کی اصطلاح کے استوائی رو سے نبی کہلاتا ہے" تقریرحمه الله مندرجه الحكم او می شنشش اور قوم کے غافلوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :- اسے غافو یا تلاش تو کرد شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہے جس کی تم تکذیب کر رہے ہو تمنیات الہیہ ) حضرت اقدس کے مندرجہ بالا بیانات کے ماتحت جن میں نبوت کی تعریف بیان کی گئی ہے ہم لوگ حضرت اقدس کو بغدا کے حکم ، خدا کی مطرح

Page 14

۱۴ نیوں کی متفق علیہ تعریف ، حضرت اقدس کے نبوت کے متعلق حصر یہ معنوں مندرجہ تجلیات الہیہ " اور ایک اسلامی اصطلاح مندرجہ تقریر حمتہ اللہ کے رو سے نبی مانتے ہیں اور ان معنوں سے سوا اگر کوئی شخص نبوت کے یعنی کرے کہ نبی وہی ہوتا ہے جو شریعت بدیدہ لائے تو ایسے شخص کی اصطلاح میں ہم حضرت اقدس کو مدعی نبوت قرار نہیں دیتے بلکہ ایسے شخص کی اصطلاح میں آپ کو نبی قرار دینا کفر جانتے ہیں اور حضرت اقدس کی طرح ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا شخص تعریف نبوت میں در اصل ہم سے ایک لفظی نزاع ہی رکھتا ہے.پس شیخ صاحب جب حضرت اقدس کو اپنے ان تمام دعادی میں صادق اور راست باز سمجھتے ہیں تو جس امر کو حضرت اقدس خدا کے حکم اور خدا کی اصطلاح اور نبیوں کے اتفاق اور اپنی حصریہ تعریف اور ایک اسلامی اصطلاح میں نبوت کہتے ہیں شیخ صاحب کا اس نبوت کو اپنی مخصوص اصطلاح میں نبوت نہ سمجھنا بدیں وجہ کہ نبی ان کے نزدیک وہی ہوتا ہے جو شریعت جدیدہ کاملہ یا نا قصہ لائے شیخ صاحب کی غلطی تو قرار دیتے ہیں مگر ہم شیخ صاحب کا اپنے ساتھ کوئی حقیقی نزاع نہیں سمجھتے اور شیخ صاحب اور اُن کے ہم خیالوں کو حضرت اقدس کی نبوت کا منکر قرار نہیں دیتے.پس اگر یہ لوگ مسئلہ خلافت قبول کر لیں، تو دونوں احمدی جماعتوں میں اتحاد ہو سکتا ہے.خدا کرے کہ ہم سب ایک ہی تنظیم میں متحد ہو جائیں.میں ذیل کے امر کی طرف اس پیش لفظ میں توجہ دلانا ضروری ضروری امر سمجھتا ہوں کہ حضرت سیح موعود عملیات لام کے نزدیک

Page 15

بنی اسرائیل میں صدر انہی ایسے آئے جو کوئی بعد ید شریعت نہیں لائے تھے بلکہ وہ شریعت موسوی کے ہی خادم تھے (ملاحظہ ہو شہادۃ القرآن صفحہ ۴۴ و ۴۶) اور حضرت عیسی علیہ است نام کو بھی حضور نے صاحب شریعت نبی قرار نہیں دیا.چنا نچہ حضور نے ضمیمہ تحفہ گولڑویہ میں تورات کی پیشگوئی کو ہو مثیل مومنی کی آمد سے متعلق ہے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر چسپاں کرتے ہوئے عیسائیوں کے اس خیال کی تردید فرمائی ہے کہ عیسی علیہ اسلام اس پیشگوئی کے مصداق تھے.حضور نے اس جگہ حضرت مو سے علیہ اسلام کی تین خصوصیات بیان فرمائی ہیں.اولی مونٹی نے اس دشمن کو ہلاک کیا جو اُن کی شریعت کی پہنچ کنی کرنا چاہتا تھا.دوم موسی علیہ السلام نے کتاب اور خدا کی شریعت تو رات عنایت کی.سوم مینی اسرائیل کو حکومت اور بادشاہت عنایت کی.یہ خصوصیات بیان کر کے آپ لکھتے ہیں : در محضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ اسلام سے ایک ذرہ بھی مناسبت نہیں.نہ وہ پیدا ہو کر یہودیوں کے دشمن کو ہلاک کر سکے.نہ وہ ان کے لئے کوئی نئی شریعت لائے اور نہ انہوں نے ینی اسرائیل کے بھائیوں کو بادشاہت بخشی.انجیل کیا تھی.وہ صرف توربیت کے چند احکام کا خلاصہ ہے جس سے پہلے یہود بے خبر نہیں تھے گو اس پر کار بند نہ تھے " (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۹۹) پس جب حضرت عیسی علیہ السّلام جو ہمارے اور شیخ صاحب دونوں کے نزدیک مسلم نبی ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک کوئی نئی شہر ہیں

Page 16

نہیں ہوئے تھے تو شیخ صاحب کا یہ خیال ہمارے نزدیک درست نہیں کہ بی کے لئے شریعت بعدیدہ کا لانا ضروری ہے.حقیقۃ الوحی کے تبدیلی عقیدہ والے حوالہ کے متعلق شیخ صاحب کے تشر کی نظریہ پر تبصرہ اور میرا تا ثر آپ میری اس کتاب کے متن میں ملاحظہ فرمائیں.میں اپنے مخدوم محترم حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جما چوری کا تبہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت دے کر میرے اس مضمون کا مسودہ شستا اور مجھے اپنے بیش قیمت مشورہ سے نوازا، اللہ تعالی ان پر پیش کی حمتیں نازل فرمائے.اللهم آمین.نوٹ تبدئی عقیدہ کے متعلق جو منطقی بحث اس کتاب کے متن میں شائع کی گئی ہے اس کے جواب کا شیخ مصری صاحب کی طرف سے کٹھی سالی انتظار کے بعد اب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا بھا رہا ہے اور اس کی ایک کا پی شیخ مصر کا صاحب کو بھی نہ رکیسٹری بھیجوائی جا رہی ہے تاشیخ صاحب کو میر کی بحث کے جواب کی طرف توجہ پیدا ہو.مگر مجھے امید نہیں کہ وہ اس منطقی بحث کا کوئی معقول جواب دے سکیں گے.دیدہ باید.والسلام قاضی محمد نذیر و کلپوری سمبر عماد

Page 17

هُوَ الكَ خدا کے فضل اور رحم کیساتھ کھاؤ اللهُم إلينا الحق حقا وارزق القيامة وَأَرِنَا الْبَاطِنَ يَا عِدَّ وَارْزُقْنَا اجْتِتَابَهُ بعد الحمد والصلوۃ عرض ہے کہ شیخ عبدالرحمن صاحب کی نے اپنے ایک مضمون مندرجہ ماہنامہ روح اسلام لاہور ہایت ماہ مارچ ۱۹۶۵ء میں حضرت اقدس کی کتاب حقیقۃ الوحی" میں مقدر ہر عبادت کی جو شب ریلی عقیدہ سے متعلق ہے، تشریح کی ہے اور شیخ صاحب موصوف نے اپنے اس مضمون میں اس عبارت کی تشریح میں بالکل ایک جدید نظریہ اختیارہ کیا ہے اور بناب مولوی محمد علی صاحب مرحوم سابق پریذیڈنٹ احمدیہ انجیمین اشاعت اسلام لاہور کے اس عبارت کے متعلق تشریحی نظریہ سے اتفاق کرنے سے اجتناب کیا ہے.بلکہ اس کی درپردہ ریعنی مولوی صاحب موصوف کا نام لئے بغیر تردید کی ہے.گو مقصد دونوں کا یہ ہے کہ حضرت اقدسن کو بین کہلانے کا سختی سمجھانے ہوئے آپ کو محض ایک ولی قرار دیں.ہمارے نزدیکی یکی از نایب مولوی محویلی میں

Page 18

IA موصوف کا نظریہ واقعی قابل اجتناب تھا.مگر چونکہ خود شیخ مصری صاحب بھی حضرت اقدس کی اس عبارت کو صحیح رنگ میں سمجھ نہیں رہے.اس لئے انہوں نے اس عبارت کی تشریح کے متعلق ہمارے نظریہ سے کئی اختلاف کیا ہے بلکہ ہمیں اپنا غلط نظریہ منوانے کی کوشش کی ہے حقیقت یہ ہے کہ اس عبارت کی تشریح کے متعلق جس طرح مولوی محمد علی صاحب مرحوم اور شیخ صاحب کے نظریہ میں بعد المشرقین ہے.اسی طرح اس عبارت کے متعلق مہاری تشریح اور شیخ صاحب کی تشریح میں بھی بعد المشرقین ہے.اور جناب مولوی محمد علی صاحب کا نظریہ بھی اعتدال پر نہیں تھا اور شیخ صاحب کا نظریہ بھی اعتدال سے ہٹا ہوا ہے.اور حقیقی اور معقول منطقی تشریح جس سے انسان کو شیخ قلب حاصل ہوتا ہے وہی ہے جسے سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی زیادہ اللہ تعالے نے اپنی کتاب حقیقۃ النبوة " میں پیش فرمایا ہے بحضور نے اس کتاب میں حقیقۃ الوحی کی زیر بحت عبارت کے متعلق جناب مولوی محمد علی صاحب کے تشریحی نظریہ کی پچھہ زور تردید کرنے اور اس عبارت کا صحیح مفہوم بیان کرنے کے ساتھ ہی اس نظریہ کی بھی تردید فرما دی؟ ہے.ہجے سے اب شیخ مصری صاحب اس طرف پیش کرتے ہیں کہ اس عبارات کی تشریح یہ ہے کہ حضرت اقدس غیر بنی ہوتے ہوئے پہلے اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل نہیں کہتے تھے لیکن بعد میں یہ عقیدہ ترک کر کے آپ غیر نبی ہوتے ہوئے ہی اپنے آپ کو حضرت عیسے علیہ اسلام سے افضل کہنے لگے.چونکہ یہ تشریکا حضرت میسج موعود علیہات نام کی اس واضح عبارت کو غلط رنگ دینے کے مترادف ہے

Page 19

19 اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے حقیقۃ النبوة " میں اس غلط خیال کی تردید فرما دی تھی.جسے اب شیخ صاحب نے اس تردید کو نظر انداز کر کے اختیار کر لیا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحقیقة النبرة" میں پہلے اس خیال کو ذیل کے الفاظ میں درج فرمایا ہے :- کیوں نہ یہ خیال کر لیا جائے کہ پہلے حضرت مسیح موعود کا خیال تھا کہ غیر نبی نہی سے افضل نہیں ہو سکتا لیکن بعد میں آپ کا یہ خیال بدل گیا اور آپ نے یہ معلوم کر لیا کہ تغیر نہی بھی نبی سے افضل ہو سکتا ہے.اس لئے اپنے آپ کو با وجود غیر نبی ہونے کے نبی سے افضل قرار دیا " حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے اسے ایک شبہ قرار دیتے ہوئے اس کے ازالہ کے لئے تحریر فرماتے ہیں :- 15 یاد رہے کہ یہ مشبہ بھی قلب تدبر کا نتیجہ ہوگا کیونکہ حضرت پیچ موعود نے حقیقۃ الوحی " میں جہاں تبانی القلوب کے اس عقیدہ کو منسوخ فرمایا ہے کہ میں مسیح سے پریشان میں افضل نہیں وہاں اس عقیدہ کو کہ غیر نبی نبی سے افضل نہیں ہوتا ، مفسوخ نہیں فرمایا.اور معترض کے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ چونکہ بعد میں مجھے اس قاعدہ ہیں کہ غیر نبی نبی سے فصل نہیں ہو سکتا.غلطی معلوم ہوئی اور ثابت ہو گیا کہ ایسا ہو سکتا ہے.اس لئے میں نے میسی سے اپنے آپ کو افضل لکھ دیا.بلکہ اس کی بجائے فرماتے ہیں کہ " مگر بعد جو خدا

Page 20

تعالے کی وحی بارش کی طرح میر سے پر نازل ہوئی.اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی " اس حوالہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے آپ کو میسی سے افضل اس لئے نہیں قرار دیا کہ آپ کو معلوم ہو گیا تھا کہ غیر نبی ، نبی سے افضل ہو سکتا ہے بلکہ اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالے کی دھی نے صریح طور پر نبی کا خطاب دیا اور وہ بارش کی طرح آپ پر نازل ہوئی.اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ آپ نے " تریاق القلوب" والے عقیدہ کو بدل دیا.کیونکہ " تریاق القلوب " میں آپ نے لکھا تھا کہ میں صرف جزوی فضیلت رکھتا ہوں.اور بعد میں فرمایا.کہ میں تمام شان میں اس سے بڑھ کر ہوں “ (حقیقة النية - صفحه ۱۵ و ۱۹) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تحریہ سے ہی شیخ مقصری صاحب نے اپنا پیش کردہ خیال تو لے لیا مگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے اس کی جو تم دید فرمائی ہے اس کو محفوظ نہیں رکھا بلکہ اس غلط خیال کو ہی اپنے مضمون میں رنگ بھر کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے.نظریات مختلفہ مولوی محمدعلی صاحب مرحوم اور شیخ مصری صاحب کے نظریوں میں ہو تضاد پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ دونوں صاحب اس بات میں تو متفق ہیں کہ حضرت اقدس نبی کہلانے کے

Page 21

مستحق ہیں مگر آپ کی نبوت سے مراد محد ثیت ہے اس لئے آپ نبی نہیں بلکہ ایک ولی ہی ہیں.مگر اس بات میں باہم اختلاف رکھتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب تو یہ کہتے ہیں کہ حضرت اقدس کے فضیلت بر مسیح کے عقیدہ میں جو تبدیلی ہوئی وہ دعوی مسیح موعود سے پہلے ہی ہو گئی.دعوی مسیح موعود کے بعد حضور کے عقیدہ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور شیخ مصری صاحب اس کے خلاف یہ کہتے ہیں حقیقۃ الوحی کی زیر بحث عبارت یہ بتاتی ہے کہ حضرت اقدس کے فضیلت بر مسیح کے عقیدہ میں دعوی مسیح موعود کے بعد یہ تبدیلی واقع ہوئی ہے کہ پہلے حضور اپنے آپ کو غیر نبی یعنی دلی سمجھتے ہوئے حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل کہنا جائز نہیں سمجھتے تھے اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنے آپ کو جزئی فضیلت دیتے تھے افضل نہیں کہتے تھے لیکن بعد میں انشاء میں آپ نے اس میقیدہ میں تبدیلی فرمائی اور اپنے آپ کو غیر بنی یعنی ولی سمجھتے ہوئے "کشتی نوح " کے الہام میسج محمد می میسج موسوی سے افضل ہے نازل ہونے پر حضرت عیسی سے افضل سمجھنے لگے.مگر فضیلت آپ کو پھر بھی جزوی ہی رہی اور اس طرح بندی فضیلت اور افضلیت کو آپ نے اپنے وجود میں جمع کر لیا.میں نے شان مسیح موجود میں شیخ مصری صاحب کے اس نظریہ کی تعدا کے فضل سے پُر نور دلائل سے تردید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ جوئی فضیلت کے عقیدہ اور افضلیت کے عقیدہ کو حضرت اقدس نے ہر گز اپنے یجے میں جمع قرار نہیں دیا.کیونکہ ان دونوں عقیدوں میں حضور نے تن قض تسلیم فرمایا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ حضور پہلے عقیدہ پر قائم نہیں رہے اور

Page 22

اس کو ترک کر کے دوسرا عقیدہ اختیار فرمایا ہے اور یہ دوسرا عقیدہ جو صفر عیسی علیہ اسلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھے کہ ہونے کا اختیار فرمایا ہے یہ نبوت کے عقیدہ میں تبدیلی کی فرع ہے کیونکہ اپنی تمام شان میں حضرت میسیح بن مریم سے بڑھ کر ہونے کے عقیدہ کو آپ نے اپنے آپ کو صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ سمجھ لینے پر اختیار کر نا بیان فرمایا ہے ورنہ ایک غیر تنی ہرگز اپنی تمام شان میں ایک نبی سے افضل ہونے کا دعوے نہیں کر سکتا ہیں ہمارے نزدیک فضیلت کے عقیدہ میں تبدینی نبوت کے عقیدہ میں تبدیلی کی فرع ہے.پیشتر اس کے کہ میں تفصیلی طور پہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم اور شیخ مصری صاحب کے تشریحی نظریوں پر تبصرہ کروں اور اپنا نقطہ نظر تفصیل سے پیش کروں.میں پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حقیقة الوحی کی زیر بحث عبارت پیش کر دینا چاہتا ہوں تاکہ اُسے سامنے رکھ کر احباب کے لئے یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ کونسا نظریہ حضرت اقدس کی اس تحریہ کے مطابق ہے اور کون سے نظریئے جادہ اعتدائی سے منحرف ہیں.زیر محت عبارت زیر بحت عبارت میں حضرت اقدس نے تحقیقہ اوی صفحه به بها تا ۱۵۵ تک ایک سائل کے سوال کا جواب دیا ہے.سائل کا سوال پہلے حضور مسائل کا سوال یوں نقل فرماتے ہیں.و تریاق مقلوب کے صفحہ ۱۵۷ میں جو میری کتاب ہے، لکھا ہے اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ میں نے

Page 23

اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جوئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے.اور پھر ریویو جلد ا قول نمبر به صفحه ۷ ۲۵ میں مذکور ہے کہ تعدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے.پھر ریو یو صفحہ ۵ ہم میں لکھا ہے مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرسے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جوئیں کر سکتا ہوں وہ ہر گتہ نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہرگز نہ دکھنا سکتا.خلاصہ اعتراض یہ کہ دو تو عبادتوں میں تناقض ہے" (حقیقة الوحی صفحه ۱۴۷۸) یہ سوال نقل کرنے کے بعد حضرت اقدس اس کے جواب میں تحریہ فرماتے ہیں :." یاد رہے کہ اس بات کو اللہ تعالے خوب جانتا ہے الجواب کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے نہ کچھ عرض کہ نہ یں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہراؤں.تعدا نے میرے تعمیر کی اپنی اس پاک وحی میں آپ ہی تیروی ہے جیسا کہ فرماتا ہے.قل اجرد نفسى من ضروب الخطاب.یعنی ان کو کہ دے میرا تو یہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا.یعنی میرا مقصد اور میری مراد ان خیالات سے برتر ہے اور کوئی خطاب دینا یہ تعدا کا فعل ہے.میرا اس میں دخل نہیں ہے.رہی یہ بات کہ ایسا کیوں لکھا

Page 24

۲۴ گیا اور کلام میں دیو سائل نے تریاق القلوب اور ریویو سے پیش کیا ہے.ناقل) یہ تناقض کیوں پیدا ہو گیا.سو اس بات کو توجیہ کر کے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں ہیں نے لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا سیح میں ہی ہوں.اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسی رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیر سے آنے کی خیر خدا اور رسول نے دی تھی مگر چونکہ ایک گرود مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسی آسمان سے نازل ہوں گے.اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر مکمل کرنا نہ چاہا اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا.مگر بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے اور ساتھ اس کے صدہا نشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اور خدا کے چھکتے ہوئے نشان میرے پر بخیر کر کے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح موعود آنے والا میں ہی ہوں ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا.اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھے کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ

Page 25

۲۵ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جوئی فضیلت (جو غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے.ناقل ) قرار دیتا تھا.مگر بعد میں جو خدا تعالے کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا یعنی پہلا عقیده جزئی فضیلت والا تو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے ترک کرنے پر مجبور کیا.ناقل ) اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نہبی اور ایک پہلو سے انتی اور جیسا کہ میں نے نمونہ کے طور پر بعض عیار تیں بعدا کی وحی کی اس رسالہ میں بھی لکھی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم کے مقابل پر مخالف نے میری نسبت کیا فرمانا ہے.میں بعد افعالے کی تئیس برس کی متواتر وچی کو کیو نکہ رو کر سکتا ہوں.میں اس کی پاک وہی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہا تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے نازل ہو چکی ہیں.میں تو خدا کی وحی کی پیروی کرنے والا ہوں یعینک مجھے اس کی طرف سے علم نہ ہوا.میں نے وہی کہا جو اوائل میں میں نے کہا.اور جب مجھے اس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا.مجھے عالم الغیب ہونے کا دعوئی نہیں.(حقیقة الوحی صفحه ۱۴۰ تا ۱۵۰) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس نے حضرت عیسی علیہ السلام پر یسی جوئی فضیلت کا عقیدہ جو غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے بالکل ترک

Page 26

کر کے اس کے متناقض عقیدہ اپنی تمام شان میں حضرت مسیح ابن مریم سے بہت بڑھ کر ہونے کا اس وقت اختیار کیا ہے جب تعدا کی بارش کی طرح وحی دیعنی متواتر وحی ہیں آپ کو صریح طور پر (یعنی کھلے کھلے طور پر نبی" کا خطا دیا گیا.اور اس سے حضور یہ جان گئے کہ نبی اور رسول کے متعلق آپ کی پچھلی تئیس سالہ وحی میں خدا تعالے کی یہی مراد تھی کہ آپ مشروع دعوئی سے ہی صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ ہیں اور فضیلت سے متعلقہ سابقہ الہامی اشارات سے بھی در اصل خدا تعالے کی یہی مراد تھی کہ دراصل آپ اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بہت پڑھ کر ہیں نہ کہ جودی فضیات میں.ہاں اس جگہ آپ نے لوگوں کو اس غلط فہمی سے بچانے کے لئے کہ کیا آپ نے بھی حضرت عیسی علیہ است یام کی طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر براہ راست مقام نبوت پایا ہے اور ان کی طرح مستقل بنی ہیں.صریح طور پر نبی کا خطاب پایا کے بعد یہ تحریہ فرمایا " مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی اور حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۵ پر یہی الفاظ تحریر فرما کر کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی بھی“ کے آگے تحریر فرمایا " تا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہو گویا اس طرح آپ نے لوگوں کو غلط فہمی سے بچانے کے لئے نبی کے ساتھ ایک پہلو سے امتی " کا لفظ استعمال کر کے واضح کر دیا ہے کہ آپ نے مقام نبوت حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح حاصل نہیں کیا بلکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور قوت قدسیہ کے واسطہ سے حاصل کیا ہے تا اس

Page 27

۲۷ سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہو.جناب مولوی محمد علی صاحب جماعت احمدیہ میں 1910ء میں خلافت ثانیہ قائم ہو جانے پر اس سے اختلاف پیدا کر لینے پر انکار خلافت ثانیہ کی ایک وجہ وجیہہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا حضرت اقدس کو نبی سمجھنا قرار دینا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے حضرت اقدس کو نبی معنی محدث کہتا شروع کر دیا.حالانکہ وہ اس سے پہلے شام میں مولوی کرم دین جہانی کے استغاثہ والے مقدمہ میں بطور گواہ پیش ہو کہ یا قرار صالح مندالت میں یہ بیان دے چکے تھے کہ " مکذب مدعی نبوت کذاب ہوتا ہے.مرزا صاحب ملزم مدنی نبوت ہے.(مسبل استقاله مولوی کرم دین ہلامی) اور اسی طرح اپنی اور کئی تحریروں میں وہ حضرت اقدس کو نبی قرار دے چکے تھے مگر اب وہ آپ کو نبی پیش کرنا نہیں چاہتے تھے.لیکن تحقیقۃ الوحی" کی زیر بحث عبارت ان کے اس مقصد کے خلاف تھی.اس لئے سائل کے سوال کے جواب میں حضرت اقدس کی پیش کردہ عبارت کے متعلق انہوں نے یہ نظریہ اختیار کیا کہ حضرت اقدس نے دعوی مسیح موعود کے بعد عقیدہ نبوت و عقیدہ فضیلت میں کوئی تبدیلی نہیں کی.حضور کے عقیدہ میں جو تبدیلی بھی ہوئی وہ دعوی میں موجود سے پہلے پہلے ہی ہو چکی تھی.حالانکہ حضرت اقدس اس جواب میں تریاق القلوب" کے عقیدہ پر قائم نہ رہنے اور ریویو سے مشار یو یو ان پیجہ میں خواجہ غلام الثقلین سے بحث میں آپ کو مرگی نبوت لکھا نہ کہ محدث :

Page 28

کے عقیدہ کو اختیار کرنے کا ذکر فرما رہے ہیں.اور یہ دونوں کتابیں دعوئی مسیح موعود کے بعد کی ہیں.پس حقیقۃ الوحی کی یہ عبارت مولوی محمد علی صاحب کے اس خیالی نظریہ کی متحمل نہیں.ہماری جماعت حقیقۃ الوحی" کی زیر بحث عبارت سے یہ سمجھتی ہے کہ ھوٹی مسیح موعود کے بعد حضرت اقدس نے حضرت مسیح ابن مریم سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ اس وقت اختیار کیا جبکہ آپ پر خانہ ہے کی متواتر وحی سے یہ انکشاف ہو گیا کہ آپ کو صریح طور پر نبی کا خطاب دیا گیا ہے.اس انکشاف پر آپ نے حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کا اعلان بھی فرما دیا.ورنہ اس سے پہلے دھوئی میسج میشود کے بعد جب تک حضرت اقدس اپنے آپ کو نبی معنی محمدت سمجھتے رہے جو ناقص نبی ہونے کی وجہ سے غیر نبی ہی ہوتا ہے.حضرت مسیح علیات نام پر اپنی فضیلت کے متعلق الہامات کی تاویل کر کے حضرت عیسے علیہ السلام پر اپنی بہنوئی فضیلت کے ہی قائل رہے جو ایک غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.پس ہمارے نزدیک جب تک حضرت اقدس دعوئی میسج موجود کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام سے نبوت میں اپنی پوری نسبت نہیں سمجھتے تھے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو ناقص نبی اور محدث، اس وقت تک آپ اپنے الہامات میں اپنے متعلق نبی اور رسول کے الفاظ کی تاویل محدث یا ناقص نبی یا جزئی نہی کرتے تھے کیونکہ محمدت آپ کے نزدیک نبوت نا قصہ کا حامل ہوتا ہے اور غیر نبی ہوتا ہے.کیونکہ وہ پورانہی

Page 29

۲۹ نہیں ہوتا.لیکن بعد میں اپنے آپ کو خدا تعالے کی طرف سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے والا سمجھ لینے پر آپ نے اپنے متعلق نبی اور رسول کے الفاظ کی جو سابقہ الہامات میں وارد تھے ، یہ تاویلات با لکل ترک فرما دیں.اور چونکہ آپ پر یہ الہام بھی صاف لفظوں میں ہو گیا تھا کہ میسیج محمدی، میسج موسوی سے افضل ہے.لہذا آپ نے حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کا بھی اعلان فرما دیا.کیونکہ اپنے آپ کو بارش کی طرح وحی الہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے والا سمجھ لینے کے بغیر آپ حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں افضل ہونے کا اعلان کر ہی نہیں سکتے تھے.کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام تو آپ کے نزدیک کامل نبی تھے.اور آپ پہلے اپنے آپ کو ان کے بالمقابل ناقص نہی سمجھا کرتے تھے.اس لئے اپنے وجود میں شان نبوت نا قصہ سمجھتے ہوئے آپ اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ السلام سے جو کامل شان نبوت رکھتے تھے ، اپنی تمام شان میں فضل قرار نہیں دے سکتے تھے.کیونکہ اس صورت میں تو ایسا اعلان مضحکہ خیزین جاتا تھا.کیونکہ غیر نبی نبی سے افضل نہیں ہوتا.کیونکہ نبوت کا درجہ ولایت کے درجہ سے بڑا ہے.ترسیم کر لینے پر جناب مولوی محمد علی صاحب حضرت اقدس کو اپنے عدالتی بیان اور اپنی سابقہ تحریروں کے خلاف جن میں حضور کو نبی قرار دے چکے تھے اب حضور کو نبی پیش کرنا نہیں چاہتے تھے.

Page 30

اس لئے انہوں نے حقیقۃ الوحی کی تبدیلی عقیدہ والی زیر سحبت عید کی تشریح میں لکھا :- و جنس تبدیلی کا یہاں ذکر ہے اس کے دو زمانے کون سے ہیں؟ سائل کا سوال تو خود غلط ہے.تریاق القلوب اس کے پاس.اکتوبر ست میں پہنچتی ہے اور ریویو.جون سنہ میں ہیں اس کا یہ کہنا کہ پہلے تریاق القلوب میں یوں لکھا اور پھر ریویو میں یوں.واقعات سے چھوٹا ثابت ہوتا ہے.مگر کیسے موعود کا یہ کام نہ تھا کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر صفحات کے صفحات سیاہ کرنے بیٹھتے " " النبوة في الاسلام" مؤلفہ مولوی محمد علی صاب صفحہ 19) پھر آگے میں کر لکھتے ہیں :- غرض چونکہ زمانہ کی تقسیم کے لحاظ سے سائل کا سوال ہی غلط تھا اس لئے حضرت مسیح موعود نے زمانہ کی تقسیم کا جو ذکر سوال میں تھا اس کو بالکل ترک کر دیا اور عام پیرا یہ میں جواب دیا " النبوة في الاسلام صفحہ ٣٣٠٣١٩) حالانکہ حضرت اقدس نے سائل کے سوال کو غلط قرار نہیں دیا بلکہ صحیح قرار دیا ہے.چنانچہ حضور نے جواب میں تحریر فرمایا ہے.رہی یہ بات کہ ایسا از تریاق القلوب اور ریویو میں.ناقل ) کیوں لکھا گیا اور کلام میں یہ تناقض وجزئی فضیلت اور اپنی تمام شبان میں بہت بڑھ کر ہونے کا تناقض - ناقل) کیوں پیدا ہو گیا.سواس

Page 31

یات کو توجہ کر کے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے جیسے براہین احمدیہ میں میں نے لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں اسی طرح ، وائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسیت ہے.وہ نہی ہے اور تمدن کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی قضیات قرار دیتا تھا.مگر بعد میں ہو خدا تعالے کی رحمی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی" حقیقة الوحی صفحه ۱۴۸ تا ۱۵۰) پس جب حضرت اقدس نے سائل کا سوال درست تسلیم کر کے اور تریاق القلوب اور ریویو کی دونوں عبارتوں میں خود بھی تناقض تسلیم کر کے اسی تناقض کے متعلق مسائل کو یہ جواب دیا ہے کہ آپ پہلے عقیدہ پر جو جنگی فضیلت کا عقیدہ تھا قائم نہیں رہے اور خدا تعالے کی وحی سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانا معلوم کر کے آپ نے اپنی تمام نشان میں حضرت کی غیر اسلام سے فضل ہونے کا عقیدہ اختیار کیا ہے تو جناب مولوی محمد علی صاحب مرحوم کا یہ خیال تو بالکل درست نہیں تھا کہ سائل کا سوال زمانہ کی تقسیم کے لحاظ سے غلط تھا.اس لئے حضور نے زمانہ کی تقسیم کا ذکر ترک کر دیا اور عام پیرایہ میں

Page 32

۳۲ جواب دیا ہے.کیونکہ اگر سائل کا سوال ہی غلط تھا تو حضرت اقدس کو ایک غیر متعلق جواب دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ مولوی صاحب کا یہ کہنا درست نہیں کہ سائل کا سوال زمانہ کی تقسیم کے لحاظ سے غلط تھا کیونکہ سائل نے تو اپنا سوال زمانہ کی تقسیم کرتے ہوئے پیش ہی نہیں کیا تھا.اسے تو حضرت اقدس کی "تریاق القلوب" اور " ریویو " کی دو تحریروں میں تناقض دکھائی دیا اور اُس نے اعتراض کر دیا کہ آپ کی ان دو نو عیار توں میں تناقض ہے.اس نے یہ کہا ہی نہیں کہ پہلے آپ نے یہ کہا اور بعد میں یہ کہا.اسے اگر ریویو آفت المجنزر پہلے ملا اور تریاق القلوب بعد میں، تو اسے اس بات سے کیا غرض ؟ اسے تو درنو تحریروں میں تناقض نظر آیا اور اس نے تناقض کا اعتراض کر دیا.اگر اسے تیاق القلوب بعد میں ملی تو تب بھی اسے دو تو تحریروں میں تناقض کا اعتراض پیدا ہو سکتا تھا.ہاں حضرت اقدس کے جواب سے ظاہر ہے کہ " تریاق القلوب میں بیان کردہ حضرت مسیح بن مریم پر اپنی جزئی فضیلت کا عقیدہ جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے آپ کے نزدیک پہلے زمانہ کا تھا اور ریویو آف ریلیجنز کی تحریر جس میں آپ نے اپنی تمام شان میں حضرت مسیح بن مریم سے بہت بڑھ کر ہونے کا دعوئی کیا تھا بعد کے زمانہ کی تحریر تھی کیونکہ حضور نے اپنے جواب میں تریاق القلوب والے جوئی فضیلت کے عقیدہ کے متعلق یہ لکھا ہے.جب خدا تعالیٰ کی بارش کی طرح وحی الہی مجھ پر نازل ہوئی تو اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.گویا صریح طور پر نبی کا خطاب پانے کا انکشاف ہو جانے پر آپ نے جبرئی فضیلت کے عقیدہ کو جو تریاق القلوب

Page 33

۳۳ میں مذکور تھا ترک کر کے حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ اختیار کر نا ظاہر کیا ہے.یہ واضح رہے کہ تریاق القلوب بے شک دسمبر تالہ میں شایع ہوئی.مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ تریاق القلوب 199 ہی میں چھپ چکی ہوئی تھی.مگر حضرت اقدس کو ایک اور ضروری تصنیف میں مشغول ہو جانے کی وجہ سے اس کی اشاعت اس وقت روک دینی پڑی تھی.دسمبر ۱۹ ء میں صرف دوستوں کا مضمون ایک دوسرے کا تب سے لکھا کہ کتاب شائع کر دی گئی ہیں تیاق القلب کی زیر بحث تقریر در حقیقت ریویو آف ریجنز بجلد اول کی زیر سخت تحریر سے پہلے کی تھی اس لئے حضور نے سائل کے سوال کے جواب میں تریاق القلوب میں مندرجہ جودی فضیلت کے عقیدہ کو پہلے کا قرار دیا اور ریویو میں اپنی تمام شان میں مسیح ابن مریم سے بہت بڑھ کر ہونے کے عقیدہ کو بعد کا قرار دیا اور بارش کی طرح وحی الہی سے صریح طور پر نبی کے خطاب پانے کو تریاق القلوب کے عقیدہ پر قائم نہ رہنے کا موجب قرار دیا.کیونکہ اس کے بعد آپ پر کشتی کوٹا میں مندرج الہام میسج محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے ، ابھی نازل ہو چکا تھا.کشتی نوح بھی سات سالہ میں شائع کی گئی ہیں مولوی محمد علی صاحب کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ زمانہ کی تقسیم کے لحاظ سے سائل کا سوال ہی غلط تھا.اس لئے حضرت میں موجود نے زمانہ کی تقسیم کا جوذ کر سوال میں تھا اس کو بالکل ترک کر دیا اور عام پیرا یہ نہیں جواب دیا.اگر سائل کا سوال ہی بقول مولوی صاحب موصورت غلط تھا تو پھر عام پیرا میہ میں حضرت اقدس نے جواب کس بات کا دیا ؟ اگر سائل

Page 34

کا سوال غلط تھا تو پھر تو جواب کے لئے کوئی بانہیں نہیں رہتی.کیا موادی محمد علی صاحب کا کوئی ہم خیال ہمیں یہ بتا سکتا ہے کہ حضرت اقدس نے عام پیرایہ میں جواب کس بات کا دیا ؟ سیحی بات تو یہی ہے کہ حضرت اقدس نے سائل کے سوال کو درست تسلیم کرتے ہوئے ہیں تریاق القلوب" اور ریویو" کی دونوں تقریروں میں تناقض تسلیم کر کے مسائل کو یہ جواب دیا ہے کہ "تریاق القلوب کا جن کی فضیلت والا عقیدہ اپنے آپ کو مسیح علیہ السلام کے بالمقابل غیر بنی سمجھنے کی وجہ سے تھا اور نیو یو حملہ کے وقت آپ پر صریح طور پر نبی کے خطاب پانے کا انکشاف ہو گیا تو آپ نے جوئی فضیلت کا عقیدہ جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے ترک کر کے دیو کو والا یہ عقیدہ اختیارہ کر لیا ہے کہ خدا نے اس امت سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے.حضور کے جواب سے ظاہر ہے کہ حضور نے حضرت عیسی علیہ اریت نام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کو ہونے کا عقیدہ اپنے آپ کو نبی سمجھ لینے پر ہی اختیار کیا ہے کیونکہ جو شخص تھا نہ ہو بلکہ محدث یعنی دلی ہی ہو وہ ایک نبی سے اپنی تمام شان میں اصل ہونے کا دھوٹی کر ہی نہیں سکتا.اس کا ایسا دھوئی سراسر جھوٹ بن جاتا ہے کیونکہ ولی کی شان نبی کی شان سے کم درجہ کی ہوتی ہے.لہذا کم درجہ کی شان والا یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنی تمام شان میں ایک نبی سے بڑھ کر ہے.پس مولوی محمد علی صاحب کا بیان غلط ہے کہ سائلی کا سوال ہی غلط تھا.کیونکہ حضرت اقدس نے اسے درست قرارد ے کو جواب دیا ہے

Page 35

۳۵ پھر اگر حضور نے عقیدہ نبوت و عقیدہ فضیلت میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی تو حضور سائل کے سوال کو خود غلط قرار دے دیتے اور سائل کو غلط انہی میں مبتلا قرار د سے کر یہ جواب دیتے کہ میری دونوں تقریروں مندرجہ " تریاق القلوب " و " کر بولو" میں جن کو تم پیش کر رہے ہو کوئی تناقض موجود نہیں بلکہ اپنی تمام شان میں حضرت مسیح علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہونے سے بھی میری مراد یہی ہے کہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہوسکتی ہے مگر حضرت اقدس نے سائل کو یہ جواب نہیں دیا بلکہ سائل کی پیش کردہ رو تو عبادتوں میں تناقض تسلیم کر کے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ تریاق القلوب میں درج گروہ جوئی فضیلت کے عقیدہ کو جو ایک غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے" میں نے ترک کر کے اس کی جگہ اپنی تمام شان میں حضرت مسیح بن مریم سے بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ اختیار کر لیا ہے کیونکہ پہلا عقیدہ اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ السلام کے بالمقابل نبی نہ سمجھنے کی وجہ سے تھا اور دوسرا عقیدہ صریح طور پر نبی کے خطاب پر اختیار کیا گیا ہے.گر مولوی محمد علی صاحب سائل کے سوال پر حضرت اقدس کے جواب کی عبارت کو سوال سے غیر متعلق قرار دینے کے لئے یہ بھی لکھتے ہیں : اب اوائل کے لفظ کو لو.ایک شخص شیر میں ایک کتاب لکھتے بیٹھتا ہے.کیا وہ اس زمانہ کو جس پر ابھی پچار برس گزرے ہیں اوائل کا زمانہ کہہ سکتا ہے.کوئی عقلمند اس تاویل کو قبول نہیں کر سکتا.اوائل کے زمانہ سے مرجو کوئی بہت پہلا نہ مانہ اس

Page 36

شخص کا لیا جا سکتا ہے.پھر آگے لکھا ہے بعد میں جو خدا کی وحی بارش کی طرح نازل ہوئی " اب لازماً یہ بعد کی وحی سے مراد اوائل سے بعد کی وحی لینی پڑے گی جس کو نشانہ تک پانچ سال ہوتے ہیں.مگر آگے پھل کو آپ خود ہی اس وحی کی میعاد تئیس سال بیست ہیں تو معلوم ہوا کہ نہ صرف اوائل کا لفظ ہی لیے زمانہ کو چاہتا ہے.بلکہ حضرت صاحب کی کھلی تصریح اس بات کا قطعی فیصلہ کرتی ہے کہ اس سے مراد دعوی مسیحیت سے پہلے کا زمانہ ہے" اس کے آگے تھر یہ کرتے ہیں :- دوسرا نام جو اس زمانہ کا فیصلہ کرتا ہے وہ حضرت صاحب کے یہ لفظ ہیں کہ اس وقت یعنی اوائل کے زمانہ میں میرا یہ عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت.اب آؤ خدا کے خوف کو دل میں نے کر یہ فیصلہ کرو کہ وہ کونسا زمانہ تھا جب آپ اپنے کو مسیح ابن مریم سے کوئی نسبت نہ دیتے تھے.کیا یہ زمانہ دعوئی سے پہلے کا تھا یا دھوئی مسیحیت سے بعد کا.کیا عجب مسیح موجود ہونے کا دعوی کیا تو اس وقت اپنی مسیح ابن مریم سے کوئی نسبت نہ سمجھتے تھے.کیا انہی تاویلوں پر خوش ہوتے ہو کہ ہم نے نبوت نہ سہی ، فضیلت میں بعد دعوئی کے تبدیلی ثابت کر دی " ( القسوة في الاسلام صفحه ۳۲۰) جناب مولوی محمد علی صاحب کی ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ ان کے نظریہ

Page 37

کے مطابق حضرت اقدس کے دعوئی مسیحیت کے بعد یہ عقیدہ نبوت میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے نہ عقیدہ فضیلت میں.مولوی محمد علی صاحب مرحوم کی ادائل" کے لفظ کے متعلق اس تشریح کی خالی آگے شیخ مصری صاحب کے نظریہ کے بیان کے بعد ظاہر کی جائیگی ( انشاء اللہ تعالی) شیخ مصری صاحب نے مولوی محمد علی شیخ مصری صاحب نظریہ صاحب کے اس نظریہ کے مضرات خلاف یہ نظریہ اختیار کیا ہے کہ حضرت اقدس کے دعویٰ مسیح موعود کے بعد آپ کے عقیدہ فضیلت میں ضرور تبدیلی ہوئی ہے.چنانچہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۰ سے حضور کے مندرجہ ذیل الفاظ پیش کر کے کہ وئیں تو خدا کی وحی کی پیروی کرنے والا ہوں جب تک مجھے اس سے علم نہ ہوا ئیں وہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا اور جب مجھے کو اس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا.میں انسان ہوں.مجھے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں.بات یہی ہے کہ جو شخص چھا ہے قبول کرے یا نہ کرے " شیخ مصر کی صاحب اس کی تشریح میں لکھتے ہیں :.الخط کشیدہ الفاظ سے ظاہر ہے کہ مسیح ابن مریم سے کسی قسم کی نسیت نہ ہونے کا عقیدہ ابتدا میں ہی تھا.لیکن اظہار اس بات کا حضور اس وقت تک کرتے رہے جب تک خدا کی طرف سے

Page 38

حضور کو علم نہیں دیا گیا اور وہ علم حضور کو ان الفاظ میں دیا گیا.کہ میسج محمدی ، میسج میسوی سے بڑھ کر ہے.کہتا رہا " کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ کوئی وقت ہے جبتک حضور ابتدائی عقیدہ کا ہی معادہ فرماتے رہے.آپ صاحبان اسے تریاق القلوب کی تصنیف تک کا زمانہ قرار دیتے ہیں.اس وقت اس بحث میں پڑھنا کہ تریاق القلوب کب شروع ہوئی اور کب ختم ہوئی ، مناسب نہیں.بہر حال حضور کے اس ابتدائی عقیدہ میں تبدیلی کا آنا حضور کی عبارت مراقبہ بانا سے واضح ہے اور وہ تبدیلی یہی ہو سکتی ہے کہ غیر نبی یعنی ولی کسی نبی سے افضل ہو سکتا ہے یا نہیں.پہلے حضور مسلمانوں میں عام مروجہ عقیدہ کی وجہ سے اس کے قائل نہ تھے.بعد میں غذا کی وجی نے قائل کر وا دیا.سوال چونکہ افضل ہونے کے متعلق ہوا تھا اس لئے تبدیلی اسی عقیدہ میں ہی آتی تھی اور اسی میں آئی.نبی اور غیر نبی کے متعلق کوئی سوال ہی نہ تھا.اس لئے اس کو تہ یہ بحث لانے کی ضرورت ہی نہ تھی اور نہ حضور اس کو زیر بحث لائے.سوال تو صرف اتنا ہی تھا کہ غیر نبی یعنی ولی نبی سے افضل ہو سکتا ہے یا نہیں.حضور نے فرما دیا کہ ہو سکتا ہے گو فضیلت جزوی ہی رہے گی " ر روح اسلام صفحہ ۲۷) یہ ہے حقیقۃ الوحی کے زیر بحث حوالہ کی تشریح کے متعلق شیخ عبد الرحمن صاحب مصری کا نظریہ، شیخ صاحب کی اس تحریر سے ظاہر ہے کہ وہ جان بھی محمدعلی صالح

Page 39

۳۹ کے نظریہ کو غلط سمجھنے کی وجہ سے ترک کر چکے ہیں کیونکہ ان کا یہ نظریہ جناب مولوی محمد علی صاحب کے نظریہ سے صریح تضاد رکھتا ہے.مولوی محمد علی اصاب حضرت اقدس کے دعوی مسیح موعود کے بعد آپ کی فضیلت کے عقیدہ میں کسی تبدیلی کے قائل نہیں اور شیخ مصری صاحب جناب مولوی محمد علی صاحب کو اس بات میں غلطی پر سمجھتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ فضیلت کے عقیدہ سے متعلقہ عبارت میں مذکورہ تبدیلی حضرت اقدس نے مسیح موعود کا دعوی کرتے کے بعد کی ہے.شیخ مصری صاحب اس تبدیلی عقیدہ کا موجب "کشتی نوح" مطبوعہ مہ میں متدرج الہام "مسیح محمدی میسج موسوی سے افضل ہے کو قرار دیتے ہیں.گویا بقول شیخ مصری صاحب رائے اور میں جب حضرت اقدس نے بھونی مسیح موعود کیا حضور کو یہ علم نہ دیا گیا تھا کہ آپ مسیح ابن مریم سے فضل ہیں اس لئے حضرت اقدس کا حضرت مسیح ابن مریم پر جوئی فضیلت کے متعلق پہلا عقیدہ کشتی نوح کے اس الہام تک چلتا رہا کہ " مسیح محمدی میسج موسوی سے فضل ہے.پھر جب اس الہام کے ذریعہ حضرت اقدس کو حضرت مسیح ابن مریم سے افضل ہونے کا علم دیا گیا تو آپ نے فضیلت کے عقید میں یہ (یرا نام ناقل) تبدیلی کوئی کہ میں مسیح ابن مریم سے افضل ہوں مگر میری فضیلت نہ دی ہی ہے.میں نے اس تبدیلی کو شیخ صاحب کی طرف سے برائے نام اس لئے قرار دیا ہے کہ اس کے متعلق شیخ صاحب نے خود یہ لکھ دیا ہے کہ تبدیلی عقیدہ کے بعد بھی فضیلت جزوی ہی رہی.بہر حال شیخ صاحب کے بیان سے یہ امر تو واضح ہے کہ شیخ مصری صاحب کے نزدیک حضرت اقدس مسیح موعود کا دھونے کرنے

Page 40

م کے بعد ، اسال کے لمبے عرصہ تک اس پہلے عقیدہ پرت نم رہے کہ ایک ولی ایک نبی سے فضل نہیں کہلا سکتا اور پھر یہ الہام نازل ہونے پر کہ " مسیح محمدی میسج موسوی سے افضل ہے “ رکشتی نوح مطبوعہ شاہ صفحہ ۱۶ ) آپ نے اپنے اس پہلے عقیدہ میں تبدیلی کر لی اور یہ قرار دے دیا کہ میں ولی ہو کو ہی حضرت عیسی علیہ السلام سے جو نبی ہیں، فضل کہلا سکتا ہوں گو میری فضیلت پھر بھی جودی ہی ہے جو ایک غیر نبی یعنی ولی کو نبی پر ہو سکتی ہے.شیخ مصری صاحب کے نزدیک حضور کا پہلا عقیدہ مسلمانوں کے اس رسمی اور مروجہ عقیدہ کی بناء پر تھا کہ ایک ولی نبی سے افضل نہیں کہلا سکتا.اور دوسرا عقیدہ آپ نے کشتی نوح والے الہام کی بناء پر اختیار کیا اور مسلمانوں کے مروجہ اور رسمی عقیدہ کو کہ ایک ولی نبی سے افضل نہیں کہلا سکتا ، ترک کر دیا.اس نظریہ کی غلطی پر میں آگے پھل کو روشنی ڈالوں گا.اب پہلے میں مولوی محمد علی صاحب کے اوائل " کے لفظ کی تشریح کی خاصی بیان کر دینا چاہتا ہوں.مولوی محمد علی صاحب کی اوائل عما مولوی محمد علی صاحب کا " اوائل " کے لفظ کے متعلق یہ نظریہ کہ اوائل کے انتظام کی تشریح میں خامی سے مراد دعوئی مسیحیت سے پہلے کا زمانہ ہی ہو سکتا ہے جبکہ آپ حضرت مسیح سے اپنی کوئی نسبت نہ سمجھتے تھے بالکل غلط نظریہ ہے.کیونکہ ان کے اس خیال پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت اقدس نے حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام پر اپنی جزوی فضیلت کا عقیدہ ہو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے دعوئی مسیحیت پر تبدیل کر لیا تھا.اور

Page 41

اپنی تمام شان میں بہت بڑھے کو ہونے کا عقیدہ اختیار کر لیا تھا تو پھر آپ نے اپنی کتاب" تریاق القلوب" میں جو دعویٰ مسیح موعود سے بعد کی کتاب ہے پھر یہی تبدیل کر دہ عقیدہ کیوں لکھ دیا کہ اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گذرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جزو کی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے" ( تریاق القلوب صفحہ ۱۵۷) اس سوال کا کوئی معقول جواب مولوی محمد علی صاحب کے پاس نہ تھا اور نہ ان کے ہم خیالوں کے پاس کوئی جواب ہے.علاوہ ازیں مولوی محمد علی صاحب کے اس نظریہ پر یہ اعتراض بھی پڑتا ہے کہ حضرت اقدس کے الفاظ " اوائل میں میرا یہ عقیدہ تھا کہ مجھے مسیح ابن مریم سے کیا نسبت سے مطلق نسبت کی نفی مراد نہیں تھی.کیونکہ دعوی مسیح موعود سے پہلے ہی حضرت اقدس کو یہ الہام ہو چکا ہوا تھا.انتَ أَشَدُّ مُنَاسَبَةً بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاشْبَهُ النَّاسِ بِهِ خُلُقًا وَخَلقًا وَ زَمَانًا " و ازالہ اوہام صفحه ۱۴ جواله بر این احمدیه یعنی " تو عیسی ابن مریم سے شدید ترین مناسیت رکھتا ہے اور خلق اور تعلقت اور زمانہ کے لحاظ سے اس سے تمام لوگوں سے بہت بڑھ کر مشابہت رکھتا ہے“ اس الہام سے ظاہر ہے کہ دعوتی میسیج موجود سے پہلے ہی آپ حضرت علی علیا اسلام سے الہام کے ذریعہ اپنی نسبت اور مشابہت قرار دے چکے تھے.لہذا مجھے مسیح ابن مریم سے کیا نسبت " کے الفاظ میں مطلق نسبت کی نفی مراد نہیں.بلکہ نبوت

Page 42

۴۲ میں نسبت کی نفی مراد ہے کیونکہ اُن الفاظ کے بعد حضور تحریر فرماتے ہیں وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے.اس فقرہ سے مولوی محمد علی صاحب کے اس نظریہ کا سارا تانا بانا ٹوٹ جاتا ہے کہ اوائل" کے لفظ سے مراد دعوئی مسیح موعود سے پہلے کا زمانہ ہے جبکہ حضرت اقدس ، حضرت عیسی علیہ السّلام سے اپنی کوئی نسبت نہیں سمجھتے تھے.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری نے بھی اس وجہ سے مولوی محمد علی صاحب کے نظریہ کو درست نہیں سمجھا.اور اس کے خلاف ہماری طرح تبدیلی عقیدہ کا تعلق حضور کے دعوئی مسیح موعود کرنے سے پہلے کے زمانہ سے قرار نہیں دیا.بلکہ وچھوئی میسج موعود کے بعد کے زمانہ جسے قرار دیا ہے.اور " اوائل " کے لفظ سے دعوئی مسیح موعود سے پہلے کا زمانہ مراد نہیں لیا.بلکہ شائد سے رہو و خوئی مسیح موعود کا سن ہے ) بعد کا زمانہ مراد لیا ہے اور حضرت اقدس کے تبدیلی عقیدہ کی وجہ" کشتی نوح " مطبوعہ شاہ کا یہ الہام قرار دیا ہے کہ مسیح محمد می میسیج موسوی سے افضل ہے.اور اوائل" کے لفظ کو تک ممتد قرار دینے کے لئے جناب شیخ صاحب نے " حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵ سے حضرت اقدس کی ذیل کی عبارت سے استدلال کیا ہے کہ "جب تک مجھے اس کی طرف سے (تعدا تعالے کی طرف سے.قاتل) علیم نہ ہوائیں وہی کہتا رہا ہو ، اوائل میں میں نے کہا.اور جب مجھے اس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا.اس عبارت سے شیخ صاحب کا استدلال پہلے ذکر کیا جا چکا ہے.

Page 43

واقعی اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوائل دعوی والا عقیدہ (کہ آپ نبی نہیں جس کی وجہ سے فضیلت بر مسیح سے متعلق اپنے الہام کی آپ یہ توجیہہ کرتے رہے کہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.دعوئی مسیح موعود کے بعد لمبے عرصہ تک چلتا رہا.جس پر یکیں وہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا " کے الفاظ صریح الدلالت ہیں.اور تریاق القلوب کی اس تحریر کے وقت بھی جو دعوی مسیح موعود سے بعد کی کتاب ہے حضرت اقدس کا یہی عقیدہ تھا.اسی لئے حضور نے تریاق القلوب صفحہ ۱۵۷ پر یہ لکھا کہ اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت میسج پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جوئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے " شیخ مصری صاحب کے نزدیک یہ جوئی فضیلت کا عقیدہ اس الہام کے تفال تک چلتا رہا ہو کشتی نوح " مطبوعہ شاہ کے صفحہ 14 اپر ان الفاظ میں درج ہے کہ میسیج محمدی، میسیج موسوی سے افضل ہے، ہمیں اس سے انکار نہیں مگر ہمارے نزدیک حضرت اقدس کے اس کلام کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے.-: مگر بعد میں جو خدا تعالے کی بارش کی طرح وحی الہی میرے پر نازلی ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا." (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۰ )

Page 44

اس سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس نے جزوی فضیلت کا عقیدہ ، ہو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے، ترک کر سکے حضرت مسیح علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں افضل ہونے کا عقیدہ اپنے آپ کو متواتر وحی الہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ سمجھ لینے پر اختیار کیا ہے.بہر حال شیخ صاحب ہماری طرح اوائل کے لفظ سے متعلق مولوی محمد علی صاحب مرحوم کی تشریح کو درست نہیں سمجھتے.اس لئے وہ ان کے نظریہ کو ترک کر کے ان سے مختلف نظریہ اختیار کر رہے ہیں.مولوی محمد علی صاحب دعوئی میسج موعود کے بعد حضرت اقدس کے عقیدہ میں کسی تبدیلی کے قائل نہیں.اور شیخ صاحب حضرت اقدس کے دعویٰ مسیح موعود کے بعد عقیدہ فضیلت میں تبدیلی کے قائل ہیں.گو عقیدہ نبوت میں کسی تبدیلی کے قائل نہیں.شیخ صاحب نے حضرت اقدس کے الفاظ " مجھے مسیح ابن مریم سے کیا نیت ہے" سے ہماری طرح ہی مطلق نسبت کی نفی مراد نہیں کی بلکہ نبوت میں نسبت کی نفی مراد لی ہے.کیونکہ اس کے بعد حضرت اقدس نے لکھا ہے:.وہ (حضرت عیسی علیہ السلام) نہی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے.شیخ صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کے مطلق نسبت کی نفی مراد لینے کی اُن کا نام لئے بغیر رکے زور تردید کی ہے جیسا کہ آگے بیان ہوگا.ہمارے نزدیک تریاق القلوب" کی اس تحریر والا جزئی فضیلت کا عقیدہ جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے ، صریح طور پہ نبی کا خطاب یافتہ ہونے کے انکشا

Page 45

تک چلتا رہا ہے کیونکہ حضور نے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے کے جدید انکشاف کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام پر اپنی جزئی فضیلت کے عقیدہ کو جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے ، ترک کر کے اس کی بجائے اپنی تمام شان میں حضرت مینی علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ اختیار کیا ہے.ورنہ حضر سے اقدس پر بارش کی طرح وحی انہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے کا انکشاف نہ ہوتا تو حضرت اقدس " مسیح محمدی میسج موسوی سے افضل ہے " کے الہام کی بھی تاویل کر کے یہی تشریح کر سکتے تھے کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام سے ایسی ہی جزئی فضیلت میں افضل ہوں جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.اور اس صورت میں آپ سائل کو یہ جواب دیتے کہ میری دونوں تحریروں میں کوئی تناقض نہیں تمہیں صرف غلط نہیں واقع ہوئی ہے.اپنی تمام شان میں حضرت مسیح بن مریم سے بہت بڑھ کر ہونے سے بھی میری یہی مراد ہے کہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نہی پر ہو سکتی ہے.مگر حضرت اقدس علیہ السلام نے سائل کو یہ جواب نہیں دیا.بلکہ اس کی طرف سے دو نو پیش کردہ عبارتوں میں تن قض تسلیم کر کے جوئی فضیلت کے عقیدہ کو جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے بارش کی طرح وحی راہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ سمجھ لینے کی وجہ سے تبدیل کر کے اس کے متناقض عقیدہ ، حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کو اختیار فرمایا ہے.اس طرح گویا فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی کو نبوت کے عقیدہ میں تبدیلی کی فرع قرار دیا ہے.

Page 46

شیخ صاحب کے نزدیک انکار نسبت کی وجہ صفت تقدین نے تحریر فرمایا ہے کہ اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نہی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا " (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۴۹) شیخ مصری صاحب اس کی تشریح میں لکھتے ہیں :.مسیح ابن مریم سے کسی نسبت کے نہ ہونے کا عقیدہ بوجہ اس کے نبی ہونے کے اور بوجہ اپنے اتنی اور ولی ہونے کے تھا " ) روج اسلام صفحه (۲۶) گویا شیخ صاحب کے نزدیک حضرت اقدس کے دعوی مسیح موعود سے بعد اپنی مسیح سے کوئی نسبت نہ سمجھنے سے مراد یہ نہ تھی کہ اس وقت آپ حضرت مسیح علیدات کام سے مطلق کوئی نسبت نہیں سمجھتے تھے بلکہ مراد یہ تھی کہ آپ اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام سے نبوت میں اپنی قسمت نہیں سمجھتے تھے کیونکہ آپ اپنے کو دلی سمجھتے تھے ، نبی نہیں سمجھتے تھے.ہمیں شیخ مصری صاحب کے اس خیال سے اتفاق ہے اور نہیں اور شیخ مصری صاحب دونو کو مولوی محمد علی صاحب کے اس نظریہ سے اختلاف ہے کہ تبدیلی عقیدہ دعوی مسیح موعود سے بعد کے زمانہ سے متعلق نہیں بلکہ کسی

Page 47

۴۷ بہت پہلے کے زمانہ سے متعلق ہے جبکہ حضرت اقدس حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی مطلق کوئی نسبت نہیں سمجھتے تھے.ہمارے اور شیخ صاحب کے نزدیک مجھے میسح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے کی عبارت میں حضرت عیسی علیہ السلام سے مطلق نسبت کی نفی مراد نہیں.بلکہ نبوت میں نسبت کی تھی مراد ہے.چنانچہ شیخ مصری صاحب نے اس موقعہ پر حضرت اقدس کی کتابوں سے آٹھ عبارتیں پیش کر کے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ حضور کو مسیح ابن مریم علیہ اس کام سے معمولی نہیں بلکہ شدید مقامات بالکل ابتدائی زمانہ سے ہی تھی.یہ آٹھ عبارتیں پیش کرنے کے بعد جن میں سے ایک الہام براہین احمدیہ کے زمانہ کا ہے." انت اسد مُنَاسَبَة بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاشْبَهُ النَّاسِ بِهِ خُلُقًا وَ خَلْقًا وَ زَمَانا " یعنی تو مسیح ابن مریم سے شدید ترین مناسبت رکھتا ہے اور سب لوگوں سے بڑھ کر خلق ، خلقت اور زمانہ کے لحاظ سے اس سے مشابہت رکھتا ہے.شیخ صاحب ان عبارتوں کا نتیجہ یہ لکھتے ہیں :.رو اگر کمالات میں مشابہ ہونے اور ایک دوسرے سے بشرت مناسبت اور مشابہت رکھنے کے باوجود بھی حضرت مسیح سے کوئی مناسبت پیدا نہیں ہو سکتی تو پھر ایسی نسبت پیدا ہونے کی کیا صورت ہو سکتی ہے.واضح رہے کہ ان تمام سوالوں کے پیش کرنے سے عرض صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ حضور کو مسیح این مریم سے معمولی نہیں بلکہ شدید مشابہت با لکل ابتدائی زمانہ

Page 48

۴۸ (اوائل ناقل) سے ہی تھی لیکن حضرت اقدس " حقیقہ الوحی “ میں اس سے انکار فرمارہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ با وجود امور فضیلت ظاہر ہونے کے بھی حضور یہی سمجھتے رہے کہ حضور کو بھلا مسیح این مریم سے کیا نسبت ہو سکتی ہے " (روح اسلام صفحہ ۳۴۷) پھر آگے شیخ مصری صاحب یہ بیان کرتے ہیں :- جس کے یہ معنی ہوئے کہ مسیح ابن مریم کے مقابلہ میں آپ نبی نہیں بلکہ محض انتی اور ولی ہیں.اور ولی خواہ کتنی ہی بڑی شان کا مالک ہو جائے اور کتنے ہی بلند مقام قرب الہی تک پہنچ جائے ایک نبی کے مقابلہ پر اس کی وہ شان ہی ہوتی ہے.اور اس کے قرب کا مقام خواہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو نبی کے قرب کے مقام سے وہ بہت نیچا ہی سمجھا جاتا ہے.اس لئے جب تک کسی شخص کا کسی نبی کے مقابلہ میں امتی اور ولی ہونے کا عقیدہ رہے گا گو وہ کیسا ہی بلند مرتبہ تک پہنچ بھائے وہ یہی کہے گا کہ میری نبی سے کیا نسبت ہے.اور اس کا یہ کہنا یا الکل سچائی پر مبنی ہو گا.کیونکہ اس کا یہی عقیدہ اور یہی ایمان ہے" (روح اسلام صفحہ ۲۵) شیخ مصری صاحب کی حضرت اقدس کے الفاظ " مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے ؟ " کی تشریح حضور کے اپنے آپ کو ولی سمجھنے کے زمانہ تک کے لئے دوست ہے اور مجھے اس تشریح سے پورا اتفاق ہے کیونکہ امتی اور ولی واقعی نبی سے اپنی نبوت میں نسبت قرار نہیں دے سکتا.کیونکہ غیر نبی

Page 49

۴۹ جو ہوا.مگر مجھے شیخ صاحب کی اس عبادت کے بعد کی عبارت سے اختلاف ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے :.اب چونکہ حضرت اقدس اسی عقیدہ پر قائم تھے کہ گو حضور کے کمالات مسیح سے بڑھ کر تھے لیکن چونکہ وہ اصالتا نہیں تھے اور یسلے کے اصالتا تھے اس لئے حضور نے باوجود اس برتری کے میسج کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کچھ چیز ہی نہیں سمجھا.میرے نزدیک اصل وجہ حضرت اقدس کے یہ کہنے کی کہ " مجھ کو مسیح ابنِ مریم سے کیا نسبت ہے؟ تو یہی تھی جو شیخ مصری صاحب نے پہلے دی گئی بھارت میں بیان کی ہے کہ حضرت اقدس اپنے آپ کو نبی نہیں سمجھتے تھے بلکہ غیر نبی یا ولی سمجھتے تھے اور ولی خواہ کیسا ہی بلند مرتبہ تک پہنچ جائے وہ یہی کہے گا کہ میری نبی سے کیا نسبت ؟ مگر مجھے جناب شیخ صاحب کی یہ بات مسلم نہیں کہ حضرت اقدس کے کمالات چونکہ اصالتا نہیں گویا فلستی ہیں اس لئے گو حضرت اقدس کے کمالات مسیح سے بڑھ کر تھے ، آپ ان کے طبیعت کے واسطہ سے ملنے کی وجہ سے حضرت علی علیات لام کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کچھ چیز نہیں سمجھتے کہ یہ بات کہد کو شیخ صاحب نے دو متناقض اتو مو جمع کر دیا ہے جس سے اجتماع التقیضین لازم آرہا ہے جو ایک محال ہے کیونکہ حضرت اقدس کے کمالات کو شیخ صاحب کا حضرت میں علیہ اسلام کے کمالات سے بڑھ کر یعنی افضل بھی کہتا اور پھر ان کا یہ کہنا کہ جانے کے احالتانہ ہونے یعنی نقلی ہونے کی وجہ سے حضور نے اپنے آپ کو حضرت

Page 50

مسیح علیہ اسلام کے مقابلہ میں کچھ چیز نہیں سمجھا.دو مختلف اور نقیض باتوں کا قائل ہوتا ہے.کیونکہ کمالات کا بڑھے کہ یا افضل ہونا اور پھر اُن کے فلی ہونے کی وجہ سے شیخ صاحب کا حضرت اقدس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے مقابلہ میں کچھ چیز نہ سمجھنے کا موجب کہنا یعنی ادنی سمجھنے کا موجب قرار دینا صاف طور پر اجتماع التقیضین ہے.شیخ صاحب ! سنیئے یا حضرت اقدس کے قلمی کمالات واقعی حضرت عیسی علیہ سلام کے کمالات سے بڑھ کر یا افضل تھے.مگر ان افضل کمالات کے خلی ہونے کی وجہ سے حضرت اقدس نے یہ نہیں کہا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے ؟ " بلکہ یہ کہنے کی وجہ نہی درست ہے کہ جو شیخ صاحب آپ نے پہلے بیان کی ہے کہ ولی گو کیسے ہی بلند مرتبہ پر پہنچ جائے وہ پہنچی کہے گا کہ میری نبی سے کیا نسبت ہو سکتی ہے ؟ پس مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے کہہ کر حضرت اقدس نے حضرت مسیح علی اسلام سے کلیتہ نسبت رکھنے سے انکار نہیں کیا کیونکہ محدث بھی بنی کے مقابلہ میں ناقص نبی ہونے کی وجہ سے جزوی نسبت تو ضرور رکھتا ہے.ہاں کئی نسبت یا کامل نسبت نہیں رکھتا.ہیں کیا نسبت ہے کے الفاظ میں اس وقت حضرت اقدس نے حضرت عیسی علیہ السلام سے کامل نسبت رکھنے سے انکار کیا ہے ورنہ جوئی نسبت تو آپ حضرت عیسی علیہ اس نام سے اس وقت سے بھی پہلے اپنے آپ کو محدث جانے کی وجہ سے ضرور سمجھتے تھے تبھی تو حضرت عیسی علی ارت لام پس اس وقت اپنی جزئی فضیلت کا اظہار کرتے تھے خود

Page 51

اه جزئی فضیلت بھی تو ایک نسبت ہی ہے.ہاں یہ گھی یا کامل نسبت نہیں ہوتی.اس لئے حضرت اقدس اپنے حاصل کو وہ علی کمالات کو نبوت کے بغیر اس وقت حضرت عیسی علیہ اسلام سے افضل ہی سمجھتے تھے.تبھی انا پر جوئی فضیلت کے قائل تھے لیکن چونکہ آپ اپنے آپ کو محدث یا ناقص نبی سمجھتے تھے اس لئے نبوت میں حضرت عیسی علیات کلام سے ناقص نسبت سمجھنے کی وجہ سے آپ نے از راہ انکسار بصورت مبالغہ یہ فرمایا ہے کہ محمد کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے " جس طرح سیاللہ کے الفظ میں ہی شیخ صاحب نے کیا نسبت ہے " کا مفہوم یہ ستایا ہے کہ حضرت اقدس نے بیج کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کچھ چیز ہی نہیں سمجھا.ورنہ یہ تو شیخ صاحب کو بھی اعتراف ہے کہ حضرت اقدس اپنے کئی دوسرے کمالات میں اس وقت بھی رو حضرت عیسی علیہ اسلام سے بڑھ کر تھے.اس وقت الهام " انتَ اَشَدُّ مُنَاسَبَة بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاشْبَهُ النَّاسِ بِهِ خُلُقًا وَخَلْقًا وَنَمَانا " کے رُو سے آپ نبوت کے بغیر حضرت عیسی علیہ اسلام سے اپنی شدید مناسبت اور مشابہت ہی سمجھتے تھے، کیونکہ اس الہام کے یہ معنی ہیں کہ تو عیسی ابن مریم سے شدید ترین مناسبت رکھتا ہے اور خلق ، در خلقت اور زمانہ کے لحاظ سے اس سے سب لوگوں سے پڑھ کو مشابہت رکھتا ہے" حضرت اقدس نے حامتہ البشری " صفحہ ے پر لکھا ہے.لكم مِن كَمَالٍ يُوجَدُ فِي الْأَنْبِيَا بِالْقِصَالَةِ يَحْضُنُ لَنَا أفضَلَ مِنْهُ وَ أولى بالطَّرِيقِ الظَّلَيّة.

Page 52

At اس کا ترجمہ شیخ صاحب نے یہ لکھا ہے :- کتنے ہی کمالات ہو انبیاء میں اصالتا پائے بھاتے ہیں ہم کو اُن سے افضل اور اعلیٰ حاصل ہوتے ہیں.مگر خیلی طور پر د روح اسلام صفحه ۴۷۵ پس جب حضرت اقدس کے علی کمالات حضرت عیسی علیہ السلام کے اصالتا کمالات سے بڑھ کر تھے تو ان کمالات کی وجہ سے حضرت اقدس اپنی حضرت عیسی علیہ السلام سے نسبت رکھنے سے انکار نہیں کر سکتے تھے نسبت سے انکار آپ اسی وجہ سے کہ سکتے تھے کہ حضور اپنے آپ کو نبی نہیں سمجھتے تھے اور حضرت عیسی علیارات لام کو نبی سمجھتے تھے.ورنہ ان کمالات ظلیہ کی وجہ سے ہی تو آپ اس وقت بھی حضرت عیسی علیہ السلام پر اپنی جوئی فضیلت کے قائل تھے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.پس شیخ صاحب کی پہلی بیان کردہ وجہ ہی درست ہے کہ حضرت اقدس نے حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی اور اپنے آپ کو غیر نبی سمجھے کی وجہ سے مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے“ کے الفاظ لکھے ہیں چنانچہ حضرت اقدس کی اپنی تحریر بھی یہی بتاتی ہے کہ اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھے کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین سے ہے " (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۹) پس جب تک حضرت اقدس نبوت میں حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی کامل نسبت نہ سمجھ لیتے اس وقت تک آپ اپنی تمام شان میں حضرت علی علیہ السلام

Page 53

سے فضل ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے تھے چنا نچہ اسی لئے آپ نے تھر مگر بعد میں جو خدا تعالے کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اُس نے مجھے اس عقیدہ (جوئی فضیلت کے عقید تناقل) پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا 1 (حقیقة الوحی صفحه ۱۵۰) چونکہ اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہات سلام سے بڑھ کر ہونے کا عقیدہ آپ اپنے آپ کو دکھی الہی سے صریح طور پر نبی سمجھ لینے پر ہی اختیار کر سکتے تھے اس لئے اسی وقت ہی اختیار کیا.پس جب فعلی کمالات کے ساتھ حضرت اقدس کو نبوت میں حضرت عیسی علیہ السلام سے کامل نسبت رکھنے کا علم ہو گیا تو آپ نے اس خیال کو بھی ترک فرما دیا کہ مجھے مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے" اور حضرت عیسی علیہ اسلام سے جوئی فضیلت رکھنے کا عقیدہ بھی تحرک کر کے ان سے اپنی تمام نشان میں بہت بڑھ کر ہونے کا اعلان فرما دیا اور پھر اپیتی پچھلی تئیس سالہ وھی کو بھی جس میں آپ کے لئے نبی اور رسول کے الفاظ وارد تھے ، صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ ہونے کی تائید میں ہی پیش کر دیا.اور حقیقۃ الوحی" میں صاف طور سے تحریر فرما دیا کہ دو میں خدا تعالے کی تئیس سالہ متواتہ وحی کو کس طرح رہ کر سکتا ہوں " (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۵۰) گویا آپ کی پچھلی تئیس سالہ متواتر دھی میں بھی آپ کو نبی اور رسول خدا تعالے کی طرفت سے صریح طور پر ہی قرار دیا جاتا تھا مگر ابھی آپ پر یہ انکشاف نہیں

Page 54

۵۴ ہوا تھا کہ یہ الفاظ نبی اور رسول کے آپ کے لئے صریح نہیں اس لئے ان کی یہ تاویل کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ محترت ہیں جو ثبوت ناقصہ رکھتا ہے اور نبوت ناقصہ رکھنے کی وجہ سے آپ کو اپنے الہامات میں نبی اور رسول کے نام دیئے گئے ہیں.اسی طرح فضیلت سے متعلقہ سابقہ الہامات میں بھی حقیقت خدا تعالے کی یہی مرا تھی کہ آپ اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہیں.اس لئے ان الہامات کی یہ تاویل کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ حضرت عیسی علیہ اسلام پر جونئی فضیلت رکھتے ہیں جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.مگر اس وقت آپ یہ دھو اسے نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ابھی تک آپ پر صریح طور پر نبی کا خطاب دیا جانے کا انکشاف نہیں ہوا تھا جس کے بغیر انسا دعوی کرنے کا آپ اپنے آپ کو حقدار قرار نہیں دے سکتے تھے.لفظ اوائل کی تشریح تلفظ اوائل کی تشریح میں شیخ بصری صاحب کا یہ بیان بھی ہمارے نزدیک میں شیخ صاحب کا بیان درست ہے کہ حضور کا یہی عقیدہ چلا آتا تھا کہ ولی کو نبی کے ساتھ کوئی نسبیت نہیں ہو سکتی.اس واسطے حضور نے فرمایا کہ اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا یہ درست ہے کہ اس اوائل " کے زمانہ کو ایک خاص وقت تک لے گئے ہیں " و ترویج اسلام صفحه ۳۶) خاص وقت تک لے گئے“ کے الفاظ سے شیخ صاحب کی مراد یہ ہے کہ اس الہام کے زمانہ تک لے گئے جو کشتی نوح ، مطبوعہ شام میں حضور نے ان الفاظ

Page 55

میں درج فرمایا ہے کہ می محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے" کشتی نوح صفحہ ۱۶) شیخ صاحب کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ وہ اوائل کی تشریح میں اس اوائل کے زمانہ کے عقیدہ کو شائر کے مطبوعہ مندرجہ بالا الہام سے پہلے تک ممتد قرار دیتے ہیں اور اس طرح آپ حضرت اقدس کے دعوئی مسیح موعود کے بعد تبدیلی عقیدہ کے قائل ہیں.اور مولوی محمد علی صاحب مرحوم کی تحریروں سے آپ معلوم کر چکے ہیں کہ وہ اوائل کے زمانہ کو صرف دعوئی میسج موعود سے پہلے کے زمانہ سے ہی متعلق قرار دیتے ہیں اور دعوئی میسج موعود کے بعد حضرت اقدس کے عقیدہ فضیلت و عقیدہ نبوت میں کسی تبدیلی کے قائل نہیں لیکن شیخ صاحب دعوئے مسیح موعود کے بعد فضیلت کے عقیدہ میں تو ایک تبدیلی کے قائل ہیں.البتہ نبوت کے عقیدہ میں کسی تبدیلی کے قائل نہیں.بہر حال شیخ صاحب کا نظریہ اس لحاظ سے مولوی محمد علی صاحب کے بھی خلاف ہے اور ہمارے بھی خلاف ہے.قارئین کرام ! آپ پر سیلوی شم مصری صاحب کے نظریہ کی خامی یہ علی صاحب کے محمد سحقیقت الوحی کی زیر بحث عبارت کے متعلق تشریحی نظریہ کی خامی تو ظاہر ہو چکی ہے.اب شیخ مصری صاحب کے نظریہ کی خامی بیان کی جاتی ہے.آپ شیخ مقر کیا صاحب کے نظریہ سے متعلقہ عبارتوں سے جو پہلے درج کی جاچکی میں واقف ہو چکے ہیں.ان کی ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ شیخ صاحب موصوف تحقیقہ انوری

Page 56

کی زیر بحث عبارت کے ثبوت کے عقیدہ میں تبدیلی کے ذکر پرمشتمل ہونے کے قائل نہیں بلکہ وہ اس عبارت کو صرف فضیلت کے عقیدہ میں ہی ایک برائے نام تبدیلی واقع ہونے کے ذکر پشتمل سمجھتے ہیں.چنانچہ وہ بطور دلیل لکھتے ہیں:.و نبی اور غیر نبی ہونے کے متعلق کوئی سوال ہی نہ تھا.نہ ہی حضور اسے زیر بحث لائے.سوال تو صرف اتنا ہی تھا کہ غیر نبی یعنی ولی نبی سے افضل ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ حضور نے فرما دیا.ہو سکتا ہے کو فضیلت جزوی ہی رہے گی " ( روح اسلام صفحہ ۲۷) شیخ مصری صاحب کا اتنا بیان تو درست ہے کہ سوال نبی یا غیرتی سے متعلق نہ تھا.مگر ان کا یہ بیان بالکل غلط ہے کہ " سوال تو صرف اتنا ہی تھا کہ غیر نبی یعنی ولی نبی سے فضل ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ " سوال کا یہ مفہوم محض شیخ صاب کا خیالی اور اختراعی مفہوم ہے.ورنہ سوال کا مفہوم اس کے الفاظ کے لحاظ سے در اصل یہ ہے کہ " تریاق القلوب" کی عبادت میں حضرت اقدس نے حضرت عیسی علیہ السلام پر اپنی جوئی فضیلات کا اظہار کیا ہے جو غیر بی کو نبی پر ہوسکتی ہے اور ریویو کی عبادت میں آپ نے اپنے آپ کو اپنی تمام شان میں حضرت پینے علیات سلام سے بہت بڑھ کر قرار دیا ہے.آپ کی ان دو نو عبارتوں میں تناقض ہے.گویا سائل کو جزئی فضیلت کے عقیدہ میں اور اپنی تمام شان میں حضرت جیسے علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہونے کے عقیدہ میں تناقض دکھائی دیا ہے جسے اس نے بصورت اعتراض پیش کر دیا ہے.پس جناب شیخ صاحب کا یہ کہنا درست نہیں کہ " سوال تو صرف اتنا ہی تھا کہ غیر نبی ، نبی سے افضل،

Page 57

ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ واضح رہے کہ شیخ مصری صاحب نے سوال کا یہ غلط مفہوم لے کو ہی اس پر اپنے نظریہ کی عمارت قائم کی ہے.چونکہ سوال کا یہ مفہوم تھا ہی نہیں اس لئے شیخ مصری صاحب نے اپنا نظریہ محض ایک فاسد بنیاد پر قائم کیا ہے.اس لئے اس فاسد بنیاد پر انہوں نے جو عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھی بناء فاسد علی القاصد کی مصداق ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ سائل نے حضرت اقدس کی دونوں عبارتوں میں تناقض قرار دیا ہے.اس نے یہ سوال ہر گز نہیں کیا کہ غیر نبی ، نبی سے افضل ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ اور نہ حضرت اقدس نے اسے یہ جواب دیا ہے کہ افضل ہو سکتا ہے گو فضیلت اس کی جندگی ہی رہے گی" پس جس طرح سائل کا سوال یہ نہیں کہ غیر نبی ، نبی سے افضل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اسی طرح حضرت اقدس نے بھی اس جگہ یہ جواب نہیں دیا کہ افضل ہو سکتا ہے گو فضیلت اس کی جزوی ہی رہے گی بلکہ حفر قدس نے اپنے جواب میں سائل کی طرف سے پیش کردہ اپنی دو نو عبادتوں میں تناقض تسلیم کر کے اس سوال کے جواب میں اپنی دو تو عبارتوں میں سے پہلی عبارت کا تعلق نبی نہ ہونے اور دوسری عبادت کا تعلق بارش کی طرح وحی انہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے سے قرار دیا ہے.چنانچہ پہلے عقیدہ کے ذکر میں حضور کے جواب کا مفہوم یہ ہے کہ میرا حضرت عیسی علیہ السلام پر اپنی جزئی تقصیت کے عقیدہ کا اظہار جو ایک غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے اس وقت تک تھا جب تک میں نبوت میں حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی

Page 58

کابل نسبت نہیں سمجھتا تھا.اور دوسرے عقیدے کے اظہار میں حضور کے جواب کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے حضرت جیسے علیہ السلام پر اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کے عقیدہ کا اظہار اس وقت کیا جب بارش کی طرح وحی الہی میں مجھے صریح طور پر دکھلے کھلے طور پر نبی کا خطاب دیا گیا.یعنی کھلے کھٹے طور پر ثبوت میں حضرت عیسی علیہ السلام سے کابل نسبت رکھنے کا انکشاف ہو گیا.گویا یہ فرما رہے ہیں کہ جب مجھے عیسی علیدات کام سے نبوت میں پوری نسبت رکھنا سمجھ میں آگیا تو اس وقت سے میں حضرت کیلئے علیہ اسلام پراپنی جزئی فضیلت کے عقیدہ پر قائم نہیں رہا اور اس کی بجائے میں نے اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیات ہم سے افضل ہونے کا عقیدہ اختیار کر لیا ہے.چنانچہ حضور کے جواب کے الفاظ پر غور فرمائیں.بیو یہ ہیں کہ اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی اور میری فضیلت کے متعلق ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا.مگر بعد میں جو خدا تعالے کی بارش کی طرح چی الہی میرے پر نازل ہوئی.اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی" (حقیقة الوحی صفحہ ۱۵۰۰۱۴۹) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ مسائل کے سوال میں تو گو دو ایسی عبارتیں

Page 59

پیش کی گئی ہیں جن میں حضرت عیسی علیہ السلام پر حضرت اقدس کی فضیلت کا کہ قرآن مسئلہ بیان ہوا ہے اور ان دونوں عبارتوں میں سائل نے تناقض قرار دیا ہے گھر حضرت اقدس نے سائل کے جواب میں حضرت عیسی علیہات ہم پر اپنی جزئی فضیلت کے عقیدہ کو جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے ، اپنے نبی نہ ہونے اور حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کو ہونے کے عقید کو بارش کی طرح وحی الہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے سے وابستہ قرار دیا ہے اور بھوئی فضیلت کے عقیدہ کو پہلے زمانہ کا عقیدہ قرار دیا ہے جبکہ آپ حضرت سینی علیہ السلام سے نبوت میں اپنی کامل نسبت نہیں سمجھتے تھے کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی اور اپنے آپ کو محدث بمعنی ناقص نبی قرار دیتے تھے اور اپنی تمام شان میں حضرت مسیح ابن مریم سے بہت بڑھے کی ہونے کے عقیدہ کو بعد کا عقیدہ قرار دیا ہے جسے آپ نے پہلا عقیدہ ترک کر کے اختیار کرنا بیان فرمایا ہے.پس جب اس دوسرے عقیدہ کو آپ نے بارش کی طرح وحی الہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے سے وابستہ قرار دیا ہے تو علت موجبہ اس دوسرے عقیدہ کی صریح طور پر نبی کے خطاب پانے کا انکشاف ہے.ورنہ اگر صریح طور پر نبی کا خطاب پانے کا انکران نہ ہو چکا ہوتا اور یہ خطاب نبوت میں کامل نسبت کے مترادف نہ ہوتا تو کہ میں مطبوعہ الہام مقصد وہ کشتی نواح صفحه ۱۶ " مسیح محمدی، میسج موسوی) سے افضل ہے" کے الفاظ کی بھی آپ یہی توجیہہ کر لیتے کہ اس الہام میں مسیح مھدی کی سیج موسوی پر جوئی فضیلت کا ہی ذکر ہے.

Page 60

جیسے آپ اپنی فضیلت کے متعلق اس سے پہلے نازل شدہ الہامات کی یہ توجیہ کر لیتے تھے.لیکن اب جب آپ پر یہ انکشاف ہو گیا کہ آپ اپنے الہامات متواترہ میں صریح طور پر نبی قرار دیئے گئے ہیں تو آپ نے کشتی نوح کے اس الہام کی یہ تو یہ نہ کی کہ یہ الہام ہوئی فضیلت کے بیان پر مشتمل ہے جو غیر نبی یعنی بلی کو نبی پر ہو سکتی ہے.بلکہ اس الہام کو اپنی حضرت عیسی علیہ السلام پر علی الاطلاق ریعنی بلا قید جن کی فضیلت کے) افضلیت پرمشتمل یقین کر لیا اور پہلے عقیدہ کو ترک کو دیا جو ایسی جزئی فضیلت کا عقیدہ تھا جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے اور یہ اعلان فرما دیا کہ ”خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا تو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے “ ریویو جلد اقوال نمبر به صفحه ۲۵۷) پس عقیدہ نبوت میں تبدیلی ہی اپنی تمام شان میں حضرت علی علیہ اسلام سے بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ اختیار کرنے کی علمت موجبہ ہے اور افضلیت والا یہ الہام کہ میسیج محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے " صریح طور پر نبی سمجھنے کا موید ہے.لہذا فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی ، نبوت کے عقیدہ میں تبدیلی کی فرع ہے اور نبوت کے عقیدہ میں تبدیلی اس فرع کی اصل ہے.حضرت اقدس علیہ اسلام کے جواب دونوں عقیدوں میں سے ظاہر ہے کہ حضور نے حضرت تناقض کی منطقی صورت مینی ملی است لام پر اپنی جزئی تفصیلات عیسی علیہ السلام

Page 61

۶۱ کے عقیدہ اور اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہونے کے عقیدہ میں تناقض تسلیم فرمایا ہے اور اسے اس قسم کا تناقض قرار دیا ہے جس قسم کا تناقض حضرت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ آسمان سے نازل ہونے اور آپ کے اپنے آپ کو مسیح موعود مان لینے میں ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے اصالتا آسمان سے نازل ہونے کا عقیدہ حیات سیچ کو مستلزم ہے اور حضرت اقدس کا خود کو مسیح موعود مان لینا حضرت عیسی علیہ اسلام کی عدم حیات یعنی وفات کو مستلزم ہے.چونکہ حیات مسیح کی نقیض عدم حیات میں ہے جو اپنے لازم المساوی وفات مسیح کو مستلزم ہے.لہذا حضرت عیسی علیہ اسلام کے اصالتا آسمان سے نازل ہونے اور حضرت اقدس علیہ السلام کے اپنے آپ کو مسیح موعود مان لینے میں تناقض ہے اور دونوں عقیدوں میں تناقض ہونے کی وجہ سے یہ دونوں عقیدے بیک وقت صادق قرار نہیں دیئے بھا سکتے.اسی طرح حضرت مسیح ابن مریم سے حضرت اقدس کی بجوئی فضیلت کا عقیدہ اور حضرت مسیح علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ دو ایسے عقیدے ہیں جو حضرت اقدس کے بیان کے مطابق باہم تناقض رکھنے کی وجہ سے بیک وقت حضرت مسیح موعود کے وجود میں صادق نہیں آسکتے بلکہ پہلے عقیدہ کو ترک کرنے پر ہی دوسرا عقیدہ آپ کے وجود میں صادق آسکتا ہے اسی لئے آپ نے پہلے عقیدہ پر قائم نہ رہنا بالفاظ دیگر اس کا ترک کر دینا بیان کیا ہے.

Page 62

YH پہلا عقیدہ یہ تھا کہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی یا ہے.یہ عبارت ایک قضیہ موجبہ ہے منطقی طور پر اس قضیہ موجبہ کی اصل نقیض یہ ہے کہ یہ ایک ایسی جزئی فضیلت نہیں جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے، یہ قضیہ ساطیہ ہے.اس تقیض کا لازم المسادی یہ قضیہ موجبہ ہو گا.کہ " یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے ، جو امر نقیض کا لازم المسادی ہو، وہ بھی نقیض ہی ہوتا ہے.جیسے حیات مسیح کی نقیض تو عدم حیات میں ہے اور وفات سے عدم حیات کی لازم المساوی ہو کو نقیض ہے.لہذا جز کی تفصیلات جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے، کی لازم المساوی نقیض یہ ہوئی کہ " یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے اور اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہونا جوئی فضیلت کے عقیدہ کے متناقض عقیدہ اس لئے ہوا کہ جوئی فضیلت کا عقیدہ ایسی جزئی فضیلت کو چاہتا ہے جو غیر نبی یا دلی کو نبی پر ہو سکتی ہے اور حضرت مسیح موجود کو اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ ایسی فضیلت کو چاہتا ہے جو صرف ایک نہی کو نہی پر ہوتی ہے میں پہلا عقیدہ جزئی فضیلت والا غیر نبی ہونے کو مستلزم ہے اور دوسرا عقیدہ اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بہت پڑھ کہ ہونے کا حضرت اقدس کے نبی ہونے کو مستلزم ہے.لہذا حضرت اقدس کی نبوت اور حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت میں نفیس نبوت کے لحاظ سے تساوی کی نسبت ثابت ہوئی.اور حضرت اقدس علیہ السلام کی یہ نبوت آپ کے باقی

Page 63

فضائل مخصوصہ کے ساتھ مل کر حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کا موجب ہوئی.پس نبوت کے عقیدہ میں تبدیلی بطور جمل کے ہوئی اور فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی اس کی فرع ہوئی.اور شیخ مصری صاحب کا یہ دہم باطل ثابت ہوا کہ حضرت اقدس کے جواب کی عبارت میں عقیدہ ثبوت میں تبدیلی کا کوئی ذکر نہیں.ہذا جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے" کی نقیض یہ ہے کہ یہ ایک جزئی فضیلت نہیں جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے اور اس کے لازم المساوی نقیض یہ ہے کہ ” یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے، تو حضرت اقدس کا حضرت عیسی علیہ سلام پر اپنی تمام نشان میں بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ اس جوئی فضیلت کے عقیدہ سے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.متناقض عقیدہ ہونے کی وجہ سے آپ کی نبوت کو مستلزم ہوا.لہذا اب خواہ اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کو جزئی فضیلت کے پہلے عقیدہ امتیاز کے لئے کھلی فضیلت " کا نام دیا جائے.ان معنوں میں کہ آپ اپنی مجموعی نشان میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہیں یا اسے ایسی جزئی فضیلت قرار دیا جائے جو صرف نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.دونوں صورتوں میں حضرت اقدس علیہ اسلام کا نبی ہونا ثابت ہے.لہذا شیخ مصری صاحب کا یہ لکھنا کہ تبدیلی عقیدہ کے بعد بھی آپ کی فضیلت جاری ہی رہی.ان معنوں میں تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اسے ایسی جزئی فضیلت قرار دیا جائے سے

Page 64

۶۴ جو صرف نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.لیکن ان معنوں میں درست قرار نہیں دیا بھا سکتا کہ اس سے آپ کے مقام پر کوئی اثر نہیں پڑا.اور فضیلت پہلے کی طرح ایسی جزوی فضیلت ہی رہی جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے دونوں عقیدوں میں کوئی تناقض پیدا نہیں ہوتا.مگر شیخ مصری صاحب ہمیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ تبدیلی صرف افضل کا لفظ استعمال نہ کرنے اور بعد میں افضل کا لفظ استعمال کرنے میں ہوئی ہے.ورنہ حضرت اقدس کی حضرت عیسی علیہ السلام پر فضیلت پہلے کی طرح ایسی جزوی ہی رہی جو غیر بنی کو نبی پر ہو سکتی ہے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں :- " فضل کا لفظ استعمال نہ کرتا اور بعد میں کرنا اس لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا.کیونکہ اس تبدیلی سے حضور کے اصل مقام پر کوئی اثر نہیں پڑتا.حضور کا مقام بہر حال اولیاء اللہ کا فرد ہونے کا ہی رہتا ہے.اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی " ( روح اسلام صفحه ۳۶) شیخ مصری صاحب کی یہ بات ہم باور کرنے کو اس لئے تیار نہیں کہ حضر اقدس نے تریاق القلوب اور ریویو کی زیر بحث دونوں عبارتوں میں تخلق تسلیم فرمایا ہے.اور تناقض کی منطقی صورت پہچا ہے کہ پہلا متروک عقیدہ ایسی جزئی فضیلت کا ہو جو غیر نبی یعنی ولی کو نبی پر ہو سکتی ہے.اور دوسرا عقیدہ ایسی بوئی فضیلت کا نہ ہو جو غیر نبی کو تجھ پر ہو سکتی ہے بلکہ ایسی فضیلت کا ہو جو صرف نبی کو ہی نبی پر ہو سکتی ہے.لہذا حضرت اقدس

Page 65

۶۵ کا یہ عقیدہ کہ آپ اپنی تمام شان میں حضرت مسیح ابن مریم سے بہت بڑھ کر ہیں.آپ کی نبوت کو مستلزم ہے اور نبوت کے عقیدہ میں تبدیلی کی وجہ سے ہی آپ نے یہ اعلان فرمایا ہے کہ آپ حضرت جیسے ملیہ اسلام سے اپنی تمام نشان میں بہت بڑھ کر نہیں.اگر شیخ مصری صاحب علم منطق سے واقف نہیں تو پھر یہ ان کی بڑی فرد گذاشت ہے کہ دونوں عبارتوں میں تناقض تسلیم کرنے کے باوجود وہ یہ لکھ رہے ہیں کہ تبدیلی صرف پہلے افضل کا لفظ استعمال نہ کرنے اور بعد میں استعمال کرنے میں ہوئی ہے.اور اس تبدیلی سے آپ کے اصل مقام پر کوئی اثر نہیں پڑتا حضور کا مقام بہر حال اولیاء کا فرد ہونے کا ہی رہتا ہے.کیونکہ اس خیال کا نتیجہ وہ خود یہ بیان کرتے ہیں کہ " اب تبدیلی عقیدہ کے بعد.ناقل ) آپ نے جوئی فضیلت افضلیت دونوں کو اپنے وجود میں جمع کر لیا ہے" ( روح اسلام صفحه ۱۶) اور جب بقول شیخ مصری صاحب جزئی فضیلت اور انصلیت کے دونوں عقیدوں کو سفیر نے اپنے وجود میں جمع کر لیا ہے تو پھر دونوں عقیدوں میں کوئی تناقض نہیں رہتا.کیونکہ تناقض کی صورت تسلیم کرنے کی صورت میں تو فضیلت کا پہلا عقیدہ فضیلت کے دوسرے متناقض عقیدہ کے ساتھ سمجھے نہیں ہو سکتا کیونکہ دو متناقض بعقیدوں کے ایک زمانہ میں ایک وجود میں جمع پونے سے اجتماع النقیضین لازم آتا ہے تو امر محال ہے.لہذا منزوی فضیلت اور فضیلیت دونوں کا حضرت اقدس علیہ اسلام کے وجود میں جمع شدہ تسلیم کرنا

Page 66

۶۶ مستلزم محال ہونے کی وجہ سے باطل ہے.پس جزوی فضیلت اور افضلیت کے دونوں عقیدوں میں سے اب دوسرا عقیدہ ہی آپ کے وجود میں متحقق ہو سکتا ہے کیونکہ حضرت اقدس نے حقیقۃ الوحی کی زیر بحث عبادت میں پہلے عقیدہ پر قائم نہ رہنا اور دوسرے عقیدہ کو اختیار کرنا بیان فرمایا ہے نہ کہ دونوں عقیدوں کا اپنے وجود میں جمع ہونا.وفات پر جب دونوں عقیدوں میں آپ نے تناقض تسلیم کیا ہے جس قسم کا تناقض حضرت عیسی علیہ السلام کے اصالتا آسمان سے نازل ہونے کے عقیدے اور حضرت اقدس کے اپنے آپ کو مسیح موعود مان لینے میں ہے تو ظاہر ہے کہ تناقض کی وجہ سے یہ دونوں عقیدے جن میں ایک حیات مسیح اور دوسرا مشتمل ہے صادق نہیں ہو سکتے.ان میں سے آخری عقیدہ ہی صادق ہے جو وفات مسیح کو مستلزم ہے.اسی طرح جزئی فضیلت کا پہلا عقیدہ اور افضلیت کا دوسرا عقیدہ دونوں باہم تناقض رکھنے کی وجہ سے حضرت اقدس کے وجود میں جمع نہیں ہو سکتے کیونکہ ان دونوں کا آپ کے وجود میں جمع ہونا حضرت اقدس کے اس بیان کے خلاف ہے جس میں حضور نے پہلے عقیدہ پر قائم نہ رہتا اور اس کی بجائے دوسرے عقیدہ کو اختیار کرنے کا ذکر فرمایا ہے.دیکھئے حضور سائل کے جواب میں صاف تحریر فرماتے ہیں کہ اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ بنی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے.اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اسے سبزئی فضیلت

Page 67

قرار دیتا تھا ریعنی ایسی جزئی فضیلت ہو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے حسب تحریر تریاق القلوب صفحہ ۱۵۷- ناقل) مگر بعد میں جو خدا تعالی کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی.اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا مخطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی کیا ر تحقیقة الوحی صفحه ۱۴۴ ۱۵۰۰ پس حضرت اقدس کا بندگی فضیلت والے عقیدہ پر قائم نہ رہنا اور اس کے متناقض اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ اختیار کر لینا اس اکر کی روشن دلیل ہے کہ شیخ مصری صاحب کا یہ بیان سراسر باطل ہے کہ اب آپ نے جزئی فضیلت اور افضلیت دونوں کو اپنے وجود ر دور کا اس نام صفحه ۱۱۶ میں جمع کر لیا ہے فليتدبر مَنْ كَانَ لَهُ عَقْلُ سَليم شیخ صاحب دو از عقیدوں شیخ صاحب کے نظریہ میں تبدیلی صرف میں منائی بھی تسلیم افضل نہ کہنے اور افضل کہنے میں ہوئی ہے کرتے ہیں اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت اقدس نے تقید بھی دونوں عقیدوں میں تناقض تسلیم کیا ہے.مگر یہ تناقض کا وقوع صرف پہلے افضل نہ کہنے اور بعد میں افضل کہنے میں قرار دیتے ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں :- سائل کے سوال سے ظاہر ہے کہ اس کو حضور کی دونوں عبارتوں میں

Page 68

YA تناقض تو ضرور نظر آیا ہے.اور فی الحقیقت تناقض ہے بھی اور خود حضور نے بھی جواب دیتے وقت اس تناقض کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ احباب کرام پر جواب پڑھتے وقت ظاہر ہو جائے گا لیکن سائل کے ذہن میں یہ ہرگز نہیں آیا کہ حضور نے پہلی تحریروں کے خلاف جن میں حضور ا پنے آپ کو غیر نبی لکھا کرتے تھے اب اپنی مندرجہ بالا دونوں کتابوں میں اپنے آپ کو زمرہ انبیاء کے فرد کے طور پر ناقل) پیش کیا ہے.اس کے ذہن میں ہو تناقض آیا ہے وہ صرف یہی ہے کہ حضور پہلے اپنے آپ کو حضرت مسیح ناصری سے بڑھ کر یا افضل نہیں لکھا کرتے تھے مگر ان دونوں مذکورہ بالا کتابوں" دافع المبلار اور کشتی نوح میں بڑھ کر یا بالفاظ دیگر افضل لکھا ہے.اس نے یہ سوال ہرگز نہیں کیا کہ پہلے آپ اپنے آپ کو غیر نبی لکھا کرتے تھے اب آپ نے اپنے آپ کو نبی لکھ دیا ہے" روح اسلام صفحہ ۷) گویا شیخ صاحب کے نزدیک تناقض پہلے بھوئی فضیلت کے ساتھ فضل نہ کہنے اور بعد میں اسی جزوی فضیلت کے ساتھ فضل کہنے میں واقع ہوا ہے.شیخ صاحب کی دلیل کا ابطال اگر بدور تنزل ہم شیخ صاحب کی یہ بات درست تسلیم کرلیں کہ سائل کے ذہن میں صرف یہ بات آئی تھی کہ حضور پہلے اپنے آپ کو حضرت میسج ناصری سے بڑھ کر یا افضل نہیں لکھا کرتے تھے.مگر ان دونوں مذکورہ

Page 69

44 بالا کتابوں ( دافع البلاء اور کشتی نوح ) میں بڑھ کر یا بالفاظ دیگر " افضل" لکھا ہے.تو اس امر کو تسلیم کر کے بھی جب ہم حضرت اقدس کے جواب والی عبارت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں پہلے فضل نہ کہنے کی وجہ اس عبارت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ تبدیلی عقیدہ سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبوت میں حضرت کیسے علیہ السلام سے اپنی کامل نسبت نہیں سمجھتے تھے.کیونکہ اس زمانہ میں آپ اپنے آپ کو نبی محدث کے معنوں میں کہتے تھے جو ظلتی طور پر نبوت نا قصہ رکھتا ہے.نبی نہیں ہوتا.اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام سے ہوئی یا ناقص نسبت رکھنے کی وجہ سے جب حضور پر کسی الہام کے ذریعہ حضرت مسیح علیہ سلام پر فضیلت کا اظہار ہوتا تھا تو آپ اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ اسلام سے علی الاطلاق افضل نہیں کہتے تھے بلکہ ان پر صرف جزئی فضیلت رکھنے کا اظہار کرتے تھے ہو ایک غیر نبی یا ولی کو نبی بچہ ہو سکتی ہے.مگر جب متواتر وی میں آپ کو صریح طور پر نبی کا خطاب دیا جانا علم میں آیا تو پھر حضرت کیلئے علیہ اسلام سے نبوت میں اپنی کامل نسبت سمجھ لینے کی وجہ سے اس الہام کے نازل ہونے پر کہ میسج محمدی میسج موسدی سے افضل ہے“ رکشتی نوح صفحہ 14 مطبوعہ شائد آپ نے اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ سلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھے کو قرار دے دیا.یا بالفاظ دیگر ان سے افضل ہونے کا اعلان فرما دیا.چنانچہ یہ اعلان حضور نے اپنی کتاب " دافع البلاد" اور ریویو جلد اول میں فرمایا.پس بالفرض اگر حضرت اقدس پہلے اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ السلام

Page 70

سے فضل نہیں لکھتے اور کہتے تھے.تو نبوت میں حضرت عیسی علیہ اسلام سے اپنی کامل نسبت سمجھ لینے پہ آپ اپنے آپ کو اُن سے فضل لکھنے اور کہنے لگے ہیں پہلے فضل نہ کہنے اور نہ لکھنے کی علت یا وجود فضیلت کے الہامات ہوتے اور کے اپنے آپ کو حضرت عیسے علیہ السلام کے بالمقابل نبی نہ سمجھتا تھی.اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیاریت لام سے افضل ہونے کے اعلان کی علت حضرت عیسی علیہ السلام سے نبوت میں اپنی کامل نسبت سمجھ لیتا ہے.کیونکہ جو شخص ایک نبی سے نبوت میں کامل نسبت نہ رکھے وہ اس کے افضل ہونے کا دعوی کرے تو اس کا یہ دعویٰ محض کذب و افتراد بن جاتا ہے.کیونکہ کجا نبی اور کجا غیر نبی.پس حضرت اقدس کا پہلے اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل نہ کہنا اور نہ لکھنا اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ السلام کے بالمقابل ناقص اور جوئی نبی اور محض محدث سمجھنے کی وجہ سے تھا اور اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل کہنا اور لکھتا نبوت میں ان سے کامل نسبت کا علم حاصل ہو جانے کی وجہ سے ہے درنہ ناقص شان نبوت رکھنے والا ایک کامل شان نبوت رکھنے والے سکے مقابلہ میں اپنی تمام شان میں افضل ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا.کیونکہ ناقص کو کامل سے کیا نسبت ! پس حضور کا تب دینی عقیدہ کے وقت یہ لکھنا کہ خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے (یو لو جلد اول نمبر او رافع البلاء)

Page 71

اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ جب آپ اپنی تمام شان میں حضرت جیسے علیہ السلام سے افضل ہونے کا دعوی کر رہے ہیں تو حضور کی اپنی شان" میں حضور کی شان نبوت بھی داخل ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی شان نبوت سے کم درجہ کی ہر گز نہیں بلکہ مساوی درجہ کی ہے کیونکہ مساوی درجہ کی شان نبوت ہی باقی فضائل مخصوصہ کے ساتھ مل کر حضور کے اپنی تمام نشان میں حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہونے کی علت ہو سکتی ہے.چونکہ حضور تبدیلی عقیدہ کے بعد اپنے وجود میں کامل شان نبوت کا تحقق یقین کرتے تھے.اسی لئے اس زمانہ میں آپ نے یہ تحریر فرما دیا کہ دونو سلسلوں (سلسلہ موسوی و سلسله محمدی - ناقل) کا تقابل پورا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ موسوی مسیح کے مقابل پر محمدی میسج بھی شان نبوت کے ساتھ آوے تا اس نبوت عالیہ محمدیہ.ناقل ) کی کسر شان لازم نہ آوے " کی کی ) نزول مسیح صفحه ۴) اب اگر شیخ صاحب یہ کہیں کہ حضرت اقدس شان نبوت ناقص طور پر رکھتے تھے اور محض محدث تھے ، بنی نہ تھے تو اس سے دونو سلسلوں کا تقابل بھی پورا نہیں ہوتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عالیہ کی کسر شان بھی لازم آتی ہے.کیونکہ اس صورت میں بقول شیخ صاحب حضرت عیسی علیہ السلام تو نبی ہوئے ہو حضرت موسی علیہ السلام کے آخری

Page 72

خلیفہ تھے اور حضرت مسیح موعود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے آخری خلیفہ تو ہیں مگر غیر نبی ہیں.حالانکہ دونوں سلسلوں کا تقابل دو تو سلسلوں میں آنے دائے مسیح موعود کے نبی ہونے سے ہی پورا ہو سکتا ہے، ہیں سیح محمدی میسج موسوی کے بالمقابل کامل شان نبوت رکھنے والا ہوا.اور نفس نبوت کے لحاظ سے بنی ہوا.اور چونکہ پہلے مسیح نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر براہ راست مقام نبوت پایا تھا اور مسیح محمدی نے آنحت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ سے مقام نبوت پایا ہے.اس لئے اس طرح بالواسطہ نبوت پانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا کمال فیضان بھی ثابت ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُم مَنْ كَلَّمَ اللهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ یعنی بعض رسول بعض رسولوں سے افضل درجات میں ہی ہوتے ہیں ور نہ نفیس نبوت کے لحاظ سے وہ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن سلہ کے مصداق ہوتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا حضرت ملیئے علیہ السلام سے رسول ہونے میں مساوی ہو کر ہی باقی فضائل مخصوصہ میں بڑھ کر ہیں.اسی لئے آپ نے اپنے آپ کو اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بہت بڑھ کر قرار دیا ہے ایک غیر نبی بھلا ایک نبی کے بالمقابل اپنی تمام شان میں اُس نبی سے افضل ہونے کا دعوی کیسے کر سکتا ہے ؟

Page 73

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ تبدیلی پہلے افضل نہ کہنے اور بعد میں افضل کہنے میں ہوئی ہے تو حضرت اقدس کے جواب سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے افضل نہ کہنے کی علت اپنے آپ کو حضرت میسج علیہ السلام کے بالمقابل نبی نہ سمجھنا تھا اور بعد میں افضل کہنے کی علت حضر میسیح علیہ السلام کے بالمقابل وحی الہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے اور پوری شان نبوت رکھنے کا انکشاف تھا.شیخ مصری صاحب کو اس جگہ افغانستان کے بادشاہ اور وائسرائے کی مثال کوئی فائدہ نہیں دے سکتی کیونکہ وائسرائے بادشاہ نہیں ہوتا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے آخری خلیفہ (نائب بھی ہیں.اور حضرت علی نے علیہ اسلام کے بالمقابل ستان نیویت رکھنے کی وجہ سے نبی بھی ہیں.ہم لوگ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے خاتم انبیستین ہونے کی وجہ سے آپ کو حقیقتہ رُوحانی شہنشاہ کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں جن کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الت نام اُمت محمدیہ کے لئے ایک روحانی بادشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں.وائسرائے تو بادشاہ نہیں ہوتا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام تحریر فرماتے ہیں :- " میں نبی اور رسول ہوں.یعنی باعتبار طلبیت کا ملہ وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے" ) نزول مسیح صفحه ۳) پس وائسرائے کی مثال اس جگہ منطبق نہیں ہو سکتی کیونکہ حضر القدس

Page 74

خلی نبی اور رسول ہیں.اور ظلی نبوت کا ملہ کا ملتا براہ راست ملنے والی نبوت سے ادنی درجہ نہیں رکھتا.کیونکہ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- " کتنے ہی کمالات ہیں جو انبیاء میں اصالتاً پائے جاتے ہیں اور ہم کو اُن سے افضل اور اعلیٰ ملتے ہیں مگر فیستی طور پر دلعینی آنحضرت منے اللہ علیہ وسلم سے نبض پاک.ناقل ) (حمامته البشری صفحه (6) میں حضرت اقدس کا کامل قلی بینی یا امتی بنی ہونا حضرت عیسی علیہ السلام کے بالمقابل کامل شان نبوت رکھنے میں مانع نہیں.بلکہ آپ کے حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہونے میں دخیل ہے اور آپ کی نبوت حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہونے میں دخیل تبھی ہو سکتی ہے جب یہ نبوت حضرت عیسی علیہ اسلام کی نبوت سے کم درجہ کی نہ ہو.اگر آپ کی نبوت کو شیخ مصری صاحب حضرت عیسی علیہ اسلام سے کم درجہ کی قرار دیتے ہیں تو پھر معاذاللہ حضرت اقدس کا یہ دعوی باطل ہو جاتا ہے کہ آپ اپنی تمام شان میں حضرت مسیح ابن مریم سے بہت بڑھ کر ہیں.کیونکہ کم درجہ کی نبوت آپ کے فضل ہونے میں دخیل ہو ہی نہیں سکتی بلکہ آپ کے ادنیٰ ہونے کی متقاضی ہوگی اور اپنی تمام شان میں افضل ہونے میں روک ہوگی.پس حضرت اقدس کا سضرت مسیح ابن مریم سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہوتا آپ کے کامل خلقی نبی ہونے کو چاہتا ہے.اور آپ کا کامل خلی نبی ہونا آپ کے نبی ہونے کو مستلزم ہے.لہذا حضرت اقدسی

Page 75

کے جواب سے ظاہر ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو نبی سمجھ لینے پر ہی حضرت عیسی علیہ اسلام سے اپنی تمام شان میں افضل ہونے کا عقیدہ اختیار فرمایا ہے پس ماحصل اس بحث کا یہ ہوا کہ حضرت اقدس کے ماحصل بحث متعلق شیخ مصری صاحب کے اس نظریہ کو بطور تنزل تسلیم کر لینے کی صورت میں بھی کہ تبدیلی اس امر کی ہوئی ہے کہ پہلے حضرت اقدس اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ اسلام سے افضل نہیں کہتے تھے اور بعد میں افضل کہنے لگے.بالآخر حضرت اقدس کی جوابی تحریر پر غور کرنے سے ثابت یہی ہوتا ہے کہ فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی در اصل نبوت کے عقیدہ میں تبدیلی کی فرع ہے.وَعَدَ ا هُوَ الْمَرَامِ یہ جواب ہم نے شیخ صاحب کی اس بات کو فرض کر کے دیا ہے کہ تبدیلی پہلے فضل نہ کہنے اور بعد میں افضل کہتے ہیں ہوئی ہے.ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ تبدیلی حضرت صل حقیقت عیسی علیات سلام سے پہلے عقیدہ میں افضل نہ کہنے اور بعد میں افضل کہنے میں نہیں ہوئی بلکہ جوئی طور پر افضل ہونے کے عقیدہ کو ترک کرنے اور اپنی تمام شان میں افضل ہونے کا عقیدہ اختیار کرنے میں ہوئی ہے.کیونکہ جب " تریاق القلوب" میں حضور نے یہ لکھا تھا.اس جگہ کسی کو وہم نہ گزر ہے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے " تو حضور نے ان الفاظ کے ذریعہ حضرت مسیح علیہ السلام پر صرف اپنی افضلیت

Page 76

44 مطلقہ کی نفی کی تھی مگر اس کے بعد کے فقرہ میں کہ یہ ایک جندگی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے حضرت اقدس نے اپنے آپ کو میتونی طور پر حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہی قرار دیا تھا.کیونکہ کسی شخص کے بالمقابل ایک قسم کی فضیلت رکھنے سے مراد افضلیت ہی ہوتی ہے خواہ وہ افضلیت جزوی ہی ہو.پس مفہوم اس عبارت کا جو سائل کے ذہن میں آسکتا تھا یہی ہو سکتا ہے کہ اس عبارت میں حضور نے اپنے آپ کو حضرت مسیح سے جتوئی طور پر افضل قرار دیا ہے.لہذا دوسری ذیل کی عبادت سے جو تبدیل شدہ عقیدہ مشتمل ہے کہ " خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے“ سائل کے ذہن میں یہی بات آسکتی تھی کہ اس عبارت میں جزئی طور سے فضل ہونے سے متناقض عقیدہ اپنی تمام شان میں افضل ہونا بیان کیا گیا ہے اور اس طرح دو تو عبارتوں میں تناقض پیدا ہو گیا ہے.پس سائل کے ذہن میں یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ ایک عبارت میں آپ نے افضل نہیں کہا اور دوسری عبارت میں افضل کہہ دیا ہے.بلکہ سائل کے ذہن میں تناقض کی یہی صورت آ سکتی تھی کہ ایک عبارت میں آپ نے بوئی طور سے افضل قرار دیا ہے اور دوسری عبارت میں جزئی طور سے افضل قرار دیتے کی نفی کر دی ہے اور اس طرح دونوں عبارتوں میں تناقض پیدا ہو گیا ہے.

Page 77

مسلمانوں کا مروجہ عقیدہ صحیح ہے شیخ مصری صاحب لکھتے کہ ولی نبی سے فضل نہیں ہو سکتا.یورک ایل است و ابیات ہیں :- کا مسلمہ عقیدہ تھا کہ امتی اور ولی کو نبی سے کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی اس لئے حضرت اقدس کا بھی لازماً یہی عقیدہ ہونا تھا اور یہی وہ عقیدہ تھا جو حضور کو مجبور کر رہا تھا کہ حضور با وجود قضیات پر دلالت کرنے والے الہامات اور امور ظاہر ہونے کے یہی سمجھیں کہ حضور کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ؟ اور اس جوئی فضیلت کے قائل اہل السنت والجماعت تھے جس کے سات افضلیت جمع نہیں ہو سکتی " ( روح اسلام صفحه ۲۵ ) شیخ مصرکی صاحب کا یہ کہنا اس لئے غلط ہے کہ اہل السنت والجماعتہ کے علماء ہرگز اس بات کے قائل نہیں کہ ولی نبی سے جزوی امور میں بھی افضل نہیں ہو سکتا.کیونکہ جب وہ دلی کی نبی پر جتوئی فضیلت کے قائل ہیں تو جوئی فضیلت متقابلہ سے تو جزوی طور پر افضل ہوتا ہی مراد ہوتا ہے.لہذا وہ ولی کے نبی سے جزوی طور پر افضل ہونے کے ضرور قائل ہوئے.وہ صرفت ولی کے نبی سے علی الاطلاق (بلا شرط و قید جزئی فضیلت کے) افضل ہونے کے قائل نہیں.اور ان کا یہ عقیدہ جیسے پہلے درست تھا آج بھی درست ہے.پس حضرت اقدس تبدیلی عقیدہ سے پہلے حضرت مسیح علیہ السلام پر اپنی ہوئی فضیلت کے اظہار کے وقت اپنے آپ کو جزوی

Page 78

امور میں حضرت مسیح علیہ السلام سے اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق فضل ہی سمجھتے تھے اور جزوی فضیلت کا اظہار جزوی طور پہ افضل قرار دیتا ہی تھا لیکن آپ نے تریاق القلوب " والا جزئی فضیلت کا عقیدہ ترک کرنے پر اس کی بیجائے حضرت عیسی علیہ اسلام سے اپنی تمام نشان میں بہت بڑھ کر ہوئے کا عقیدہ صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ سمجھ لینے پر اختیار کیا.ورنہ جب تک آپ اپنے کو اس سے پہلے غیر نبی سمجھتے رہے اور اپنے الہامات میں نبی اور رسول کے الفاظ کی تاویل محدت کرتے رہے.اس وقت تک آپ مسلمانوں کے مروجہ عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام پر اپنی جوئی فضیلت کے ہی قائل رہے.پھر صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ سمجھ لینے پر آپ نے یہ تاویل ترک فرما دی اور خود کو صریح طور پر نبی سمجھ لیا.چونکہ اب آپ پر یہ الہام بھی نازل ہو چکا تھا کہ " مسیح محمدی مسیح موسومی سے افضل ہے “ اور یہ الہام آپ کو میسج موسوی سے علی الاطلاق افضل قرار دے رہا تھا اس لئے آپ نے حضر عیسی علیہ اسلام بچہ اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کا اعلان فرما دیا اور اس الہام کی یہ تاویل نہ کی کہ میسج محمدی مسیح موسوی سے جزوی طور پر افضل ہے کیونکہ وہ نبی نہیں بلکہ محض محدث ہے.پس یہ دوسرا عقیدہ آپ نے اس لئے اختیار نہیں کیا کہ مسلمانوں کے اس مروجہ عقیدہ کا غلط ہونا کہ ولی نی سے افضل نہیں ہوتا.آپ پر میسج محمدی میسج موسوی سے افضل ہے" کے الہام سے کھل گیا اور آپ یہ سمجھ گئے کہ ایک غیر بنی یا ولی کو نبی سے جوئی فضیلت کی قید اور شرط کے بغیر افضل کہنا سب ائز ہے.بلکہ حقیقت

Page 79

49 یہ ہے کہ اہل سنت کا یہ عقیدہ کہ ولی نبی سے افضل نہیں ہوتا بالکل صحیح عقیدہ ہے یہ جس طرح پہلے صحیح تھا اسی طرح مسیح مھدی میسج موسوی سے افضل ہے کا الہام نازل ہونے پر بھی صحیح ہے.حضرت اقدس نے اس عقیدہ کو غلط سمجھنے کی وجہ سے نہیں چھوڑا.بلکہ اپنا مقام حضرت مسیح علیہ السلام کے مساوی نبی سمجھے لینے پر چھوڑا کیونکہ آپ پر اس وقت علی الاطلاق فضلیت کا الہام بھی نازل ہو چکا تھا.پس شیخ مصری صاحب کا یہ خیال باطل ہے کہ حضرت اقدس کے عقیدہ میں تبدیلی پہلے فضل نہ کہنے اور بعد میں افضل کہنے میں ہوئی ہے اور یہ کہ حضرت اقدس کے فضیلت بہ مسیح کے دونوں عقیدوں کے وقت جزوی فضیلت ہی مراد ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے اور تبدیلی عقیدہ سے آپ کے مقام پر کوئی اثر نہیں پڑتا.کیونکہ اگر شیخ مصری صاحب کا یہ خیال درست ہوتا تو حضر اقدس جزوی فضیلت اور افضلیت کے دونوں عقیدوں میں تناقض کیوں تسلیم کرتے.انہیں تو پھر سائل کو یہ جواب دینا چاہئیے تھا کہ اس کی طرف سے سوال میں پیش کر وہ تریاق القلوب اور ریویو کی دونوں عبارتوں میں کوئی تناقض نہیں.کیونکہ اپنی تمام شان میں حضرت مسیح ابن مریم سے بہت بڑھ کو ہونے سے بھی میری یہی مراد ہے کہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.مگر حضرت اقدس نے تو دونوں عقیدوں میں تناقض تسلیم فرمایا ہے اور پہلے عقیدہ پر قائم نہ رہنے اور دوسرے عقیدہ کو صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ سمجھ لینے پر اختیار کیا ہے پر، یہ تبدیلی اپنے آپ کو نبی سمجھ لینے پر ہی کی جا سکتی تھی اور یہی سمجھ لینے پر ہی کی گئی.

Page 80

شیخ مصری بنا کی طرف سے مین میر صاحب نے اپنے مضمون میں خود تسلیم کیا ہے کہ حدیث اپنے نظریہ کی آپ تردید نبوی اور بعض آئمہ ، امام مہدی کو حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل قرار دیتے پہلے آئے ہیں.چنانچہ وہ اپنے اسی مضمون میں رقم طراز ہیں :- حدیث میں جہاں امت میں انبیاء کے مثیل پیدا ہونے کی پیشگوئی ہے وہاں ا مثل پیدا ہونے کی پیشگوئی بھی موجود ہے و هد پھر مہندی کے متعلق صراحت سے یہ الفاظ موجود ہیں.الذي يتقدم عيسى بن مريم رمي الكرام من ۳۵) الَّذِي یعنی مہدی وہ ہے جو عیسی ابن مریم سے بڑھ کر ہوگا.اسی طرح احمد میں سے ابن سیرین جیسے بزرگ کا مہدی کے متعلق یہ قول ہے وہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بہتر ہے.تو ایک شخص نے حیرت سے کہا.کیا وہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر سے بھی بہتر ہوگا.تو انہوں نے جواب دیا " قد كاد يفضلُ قَدْ على بعض الأنبياء حجم الکرامہ صفحہ ۳۸۶) اور ایک اور روایت میں ہے " هُوَ افْضَلُ مِنْ بَعْضِ الأَنْبِيَاءِ " ظاہر ہے کہ مہدی کے متعلق تو اُن کا یہی اعتقاد تھا کہ وہ غیر نبی ہوگا مگر با وجود اس کے وہ انہیں بعض انبیاء سے افضل ٹھہراتے ہیں.جس سے ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک غیر بی بی سے افضل ہو سکتا

Page 81

Al ہے اور اس میں کوئی استبعاد شرعی موجود نہیں “ (روح اسلام صفحه ۱۲ و ۱۳) بہت خوب! یہ باتیں کسی کو شیخ مصری صاحب نے اس تقاریہ کی اپنے قلم سے آپ ہی تردید کر دی ہے کہ حضرت اقدس پہلے اہل السنت کے رسمی اور مروجہ عقیدہ کے رُو سے ولی کو نبی سے افضل کہنا جائز نہیں سمجھتے تھے کیونکہ جناب مصری صاحب نے اپنے اس بیان میں خود تسلیم کر لیا ہے کہ حدیث نبوی امام مہدی کو حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل قرار دیتی ہے اور یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ بعض آئمہ نے امام مہدی کو غیر نبی سمجھتے ہوئے بھی بعض انبیاء سے افضل قرار دیا ہے.لہذا جن آئمہ نے امام مہدی کو بقول مصر کا صاحب غیرنی سمجھتے ہوئے بعض انبیاء سے افضل کہا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جزوی امور میں ہی افضل مراد لیا ہے نہ کہ علی الاطلاق افضل.کیونکہ ایک غیر نبی کو علی الاطلاق انبیاء سے افضل قرار دینے میں تو انبیاء کی ہتک عزت ہے جس کے یہ آئمہ مرتکب نہیں ہو سکتے تھے لیس حضرت اقدس کے تریاق القلوب" میں یہ لکھتے یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو بنی پر ہو سکتی ہے د تخريات القلوب صفحه 10) کا مفہوم مسلمانوں کے مروجہ عقیدہ کے مطابق یہی ہوا کہ اس عبارت میں حضر اقدس اپنے آپ کو جنہوی امور میں حضرت علئے علیہ السلام سے افضل ہی قرار د سے رہتے ہیں.

Page 82

AK ہمارے نزدیک حدیث نبوی " هُوَ الَّذِي يَتَقَدَّ مُ عِيسَى ابْنَ مریم" میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدی کو اسی وجہ سے علی الاطلاق افضل قرار دیا ہے کہ وہ اپنی تمام شان میں حضرت مسیح ابن مریم سے بہت بڑھ کر ہونے والا تھا اور یہ امر امام مہدی کے نبی ہونے کو مستلزم ہے.پھر حضرت اقدس نے تو تبدیلی عقیدہ سے پہلے زمانہ میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے خود تحریمہ فرمایا تھا :- تم تو قائل ہو کہ جوئی فضیلت ایک ادنی شہید کو ایک بڑے بینی پر جو سکتی ہے.اور یہ کیا ہے کہ میں خدا کا فضل اپنے پر میسج سے کم نہیں دیکھتا.مگر یہ کفر نہیں.خدا کی نعمت کا شکر ہے.تم خدا کے اسرار کو نہیں جانتے.اس کو کیا کہو گے جو کہہ گیا.هو افْضَلُ مِنْ بَعْضِ الأَنْبِيَاءِ " سراج منه صفحه ۴) لہذا حضرت اقدس کی اس عبارت سے ظاہر ہے کہ بعض مسلمان آپ کے حضرت مسیح علی انتظام پر اپنی جزئی تفضیلت کے اظہار کو بھی ناپسند کرتے تھے.اس لئے حضرت اقدس ان کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے اُن کے سامنے ان کے ایک سستم بزرنگ کا یہ قول پیش کرتے ہیں کہ امام مہدی بعض انبیاء سے افضل ہوگا.پھر ان کا یہ مسلمہ عقیدہ بھی ان کے سامنے رکھتے ہیں کہ جوئی فضیلت تو ایک ادنی شہید یعنی غیر نبی کو ایک بڑے نبی پر بھی ہو سکتی ہے.پس اس جگہ هُوَ افْضَلُ مِنْ بَعْضِ الأَنْبِيَاء كا

Page 83

قول پیش کر کے حضرت اقدس اپنے آپ کو حضرت ہے اسلام سے ایسی جزوی فضیلت میں افضل ہی قرار دے رہے ہیں جو ایک غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.پس شیخ صاحب کا یہ خیال باطل ہوا کہ تبدیلی عقیدہ پہلے افضل نہ کہنے اور بعد میں افضل کہنے میں ہوئی.فضیلت آپ کی بہر حال جزوی ہی رہی ہے اور اس تب دینی عقیدہ سے آپ کے مقام پر کوئی اثر نہیں پڑتا.کیونکہ اوپر کی عبارت میں حضرت اقدس نے اپنے آپ کو غیر نبی سمجھنے کے زہن میں حضرت عیسی علیہ السلام سے جزئی طور پر افضل ہی کہا ہے.پس مکہ ایسا حب کا یہ کہنا غلط ہوا کہ تبدیلی پہلے افضل نہ کہنے اور بعد میں افضل کہتے ہیں ہوئی ہے.بلکہ تبدیلی پہلے جزوی طور پر افضل کہنے اور بعد میں اپنی تمام شان میں افضل کہتے میں ہوئی ہے.اور یہ تبدیلی حضرت اقدس نے اپنے بیان کے مطابق اس وقت کی ہے جب آپ پر یہ امر کھل گیا کہ آپ نے صریح طور پر نبی کا خطاب پایا ہے.اس تبدیلئی عقیدہ سے پہلے حضرت اقدس پر جو الہامات آپ کی فضیلت کے متعلق نازل ہوئے حضرت اقدس اس وقت حضرت عیسی علیہ اسلام سے اپنی کامل نسبت نہ سمجھنے کی وجہ سے انہیں ایسی جزئی فضیلت پر ہی محمول فرماتے رہے ہو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.گویا جزوی طور پر اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہی قرار دیتے رہے.مگر بعد میں اپنے آپ کو صریح طور پر نہیں کا خطاب یافتہ ہوتا سمجھے لینے پر آپ نے ایسی جزئی فضیلت کے عقیدہ پر قائم نہ رہنے کا اعلان فرما دیا جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.اور اس کے خلاف یہ متناقض عقیدہ

Page 84

اختیار کر لیا کہ AN تخدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے" ر حقیقت الوحی صفحه ۱۴۳۸ جو ریویو آن را بیشتر اور خود اس عقیدہ کو بجزئی فضیلت والے پہلے عقیدہ سے تناقض رکھنے والا عقیدہ قرار دے دیا.اگر حضرت اقدس تبدیلی عقیدہ کے وقت اپنے آپ کو نبی نہ سمجھ لیتے تو کشتی نوح صفحہ 14 کے الہام " میسج محمدی مسیح موسوی کی بھی پہلے کی طرح یہ تاویل کر سکتے تھے کہ یہ ایک ایسی سے افضل ہے " ہوئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.مگر جزئی فضیلت سے متناقض عقیدہ اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ اسلام سے بہت بڑھ کر ہونے کا آپ اسی وقت اختیار کر سکتے تھے جبکہ آپ اپنے آپ کو نبی سمجھ لیتے.کیونکہ اپنی تمام شان میں " آپ کی نبوت بھی داخل ہے.اور یہ ثبوت محدثیت نہیں ہو سکتی کیونکہ محدثیت قبلی نبوت ناقصہ ہوتی ہے.اور ناقص شدن نبوت رکھنے والا ایک کامل شان نبوت رکھنے والے کے مقابلہ میں یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنی تمام شان میں ایک نبی سے افضل ہے.پس اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ استعلام سے بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ یقیناً حضرت اقدس کی چوت کو مستلزم ہے اور نبوت کے عقیدہ میں تبدیلی ہی دراصل فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی کا موجب ہوئی ہے.پس نبوت میں تبدیلی اصل ہے اور فضیلت

Page 85

۸۵ کے عقیدہ میں تبدیلی اس کی فرع ہے.شیخ مصری صاحب نے اہلسنت کے مستمر اہلسنت کے بعض علماء کے بعض حوالہ جات اس مضمون کے حوالہ جات کا مفہوم پیش کئے ہیں کہ ولی نبی سے افضل نہیں ہوتا.یا ولی نیوں کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا.یہ اقوال اپنی جگہ درست ہیں ان میں ولی کے نبی سے درجہ میں فضل ہونے کی نفی مقصود ہے.ولی کے نبی سے جزوی طور پر افضل ہونے کی نفی نہیں.پس حضرت اقدس نے حضرت میسج علیہ اسلام پر اپنی جزئی فضیلت کا عقیدہ جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے اس لئے ترک نہیں کیا کہ بعد میں آپ کو الہام سے یہ سمجھ آگئی کہ اہل سنت کا یہ عقید غلط ہے کہ ایک ولی نبی سے افضل نہیں ہو سکتا.شیخ مصری صاحب حضرت اقدس کی کسی عبادت میں اہل السنت کے اس عقیدہ کی تغلیط و تردید نہیں دکھا سکتے.یہ محض شیخ مصری صاحب کی ایجاد ہے کہ وہ حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف ایسی بات منسوب کر رہے ہیں کہ آپ کے نزدیک تبدیلی عقیدہ اس بات میں ہوئی ہے کہ پہلے آپ ولی کا نبی سے افضلی ہونا اہل سنت کے مروجہ عقیدہ کے مطابق بھائز نہیں سمجھتے تھے اور بعد میں ولی کانی سے افضل ہوتا الہام سے جائز سمجھنے لگے اور اہل السنت کے اس عقیدہ کو غلط سمجھنے لگے.هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُ صادقين

Page 86

شیخ مصری صاحب نے حضرت اقدسی اپنی تمام شان اسی عبارت کی ” خدا نے اس امت سے مسیح موعود بھیجا ہو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام نشان میں بہت بڑھ کر ہے " K کے الفاظ " اپنی تمام شان میں سے لفظ ” اپنی“ کی طرف ہمیں خاص توجہ دلائی ہے.مگر شیخ مصری صاحب پر واضح ہو کہ ہم تو پہلے ہی اپنی تمام شان " کے الفاظ میں لفظ " اپنی " پر اسے تمام شان " کے ساتھ ملا کہ پوری پوری توجہ دیا کرتے ہیں.اور ہم اسی توجہ کی وجہ سے ہی اس نقرہ کا مفہوم یہ سمجھتے ہیں کہ ہو شان بھی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو حضرت عیسی علیہ اسلام کے مقابلہ میں حاصل ہے اس میں سے کسی نشان میں بھی آپ حضرت عیسی علیہ السلام سے کم تم درجہ پر نہیں بلکہ اپنی تمام مجموعی شان میں حضرت عیسی علیا استسلام سے بہت بڑھ کر ہیں.اور اس اپنی شان میں حضرت اقدس کی شان نبوت بھی داخل ہے لہذا حضرت اقدس حضرت عیسی علیہ السلام کے بالمقابل شان نبوت میں بھی کم درجہ کے نہیں بلکہ شان نبوت یا درجہ نبوت یا نفس نبوت میں ان سے مساوی درجہ کے ہیں اور اپنے باقی کمالات مثلاً استعداد اور نشانات اور کارناموں میں اُن سے بڑھ کر ہیں.اور اس طرح آپ اپنی تمام شان میں یعنی مجموعی شان میں حضرت عیسی علیات نام سے افضل ہیں.حضرت اقدس نخود تخریبہ فرماتے ہیں.دو تو سلسلون (سلسلہ موسوی دور سلسلہ محمدی.ناقل ) کا تقابل پورا کرتے کے لئے ضروری تھا کہ موسوی مسیح کے مقابل پر محمدی مسیح بھی نشان

Page 87

نبوت کے ساتھ آوے تا اس نبوت عالیہ (محمدیہ.ناقل) کی کسر شان لازم نہ آئے “ ( نزول است) پس موسوی میرے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے بالمقابل حضرت سیم وعود کی شان نبوت کمتر درجہ کی نہیں کیونکہ کمتر درجہ کی صورت میں محمودی میسیج کا موسوی میسج سے نبوت میں تقابل بھی پورا نہیں اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت عالیہ کی کسر شان بھی لازم آتی ہے.کیونکہ موسوی سلسلہ کا آخری خلیفہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی تھے.لہذا اگر محمدی سلسلہ کے آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود نبی نہ ہوں تو اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت حالیہ کی بھی کہ شان ہے پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام شان نبوت میں حضرت عیسی علیہ السلام سے کم درجہ کے نہیں بلکہ شان نبوت میں اُن سے با لضرور مساد کی درجہ کے ہیں.اسی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بلندشان کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ کی امت کا مسیح آپ سے فیضیاب ہوئی موسوی مسیح کے مانو نبی ہے.پس شیخ مصری صاحب کا یہ کہنا باطل ہوا کہ در میسج ناصری خود مستقل رسول ہونے کی وجہ سے مستقل حیثیت رکھتے ہیں.اس لئے اس امر میں حضرت مسیح ناصری حضرت مسیح مودود ا سے بڑھ کر ہیں.اس کے علاوہ باقی تمام لحاظ سے حضرت مسیح موعود ان سے بڑھ کر ہیں." روح اسلام صفحه ) بے شک حضرت عیسی علیہ السلام منتقل رسول ہیں یعنی انہوں نے مقام نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر یعنی براہ راست صل کیا ہے.اور بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس طرح کے مستقل رسوئی نہیں بلکہ طبیعتی

Page 88

نبی اور رسول ہیں یعنی آپ نے مقام نبوت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور افاضہ رومانیہ کے واسطہ سے حاصل کیا ہے.مگر فلستی طور پر نبوت یا کمالات کا ملنا براہ راست یعنی مستقل طور پر کمالات محاصل کرتے سے کم درجہ نہیں رکھتا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام " حمامة البشرى صفحہ ۷ے پر تحریر فرماتے ہیں :- نَكُمْ مِنْ كَمَالِ يُوجَدُ فِي الْأَنْبِيَاءِ بِالْإِمَالَة حَملُ لنا افضل مِنْهُ وَأَولَى بِالطَّرِيقِ الظَّلَيّةِ " رحمامة البشري صفح على شیخ مصری صاحب نے خود اس کا ترجمہ اپنے مضمون میں یہ کیا ہے:.رکھتے ہی کمالات جو انبیاء میں اصالتاً پائے جاتے ہیں.ہم کو اُن سے افضل اور اعلیٰ حاصل ہوتے ہیں مگر خیلی طور پر ) روج اسلام صفحه ۴۵) شیخ صاحب! آپ بھانتے ہیں کہ حمامتہ البشری تب ریلی عقیدہ سے پہلے کی کتاب ہے لہذا اس کی عبارت بالا سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے جو علی کمالات حاصل تھے.ان کو آپ حضرت عیسی علیہ الست نام کو اصالتا ملنے والے کمالات سے ضرور افضل ہی سمجھتے تھے تبھی تو آپ اس زمانہ میں ان پر جھوئی فضیلت کے قائل تھے جو غیر نبی کو نبی پر موسکتی ہے اور جوئی فضیلت کے معنی جزئی طور پیر افضل ہوتا ہی ہیں بھلا بھی جب فضیلت کا کسی کے مقابلہ میں ذکر کیا

Page 89

AQ جائے تو اس سے مراد افضل ہوتا ہی ہو سکتا ہے کیونکہ دوسرے پر فضیلت کے معنی ہی دوسرے سے افضل ہونا ہیں.پس جزئی فضیلت کے اظہار سے حضرت اقدس اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ السلام سے جزوی طور پر افضل ہی قرار دیتے تھے.کیونکہ حمامتہ البشری " میں آپ اپنے فلقی کمالات کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم علاوہ باقی انبیاء کو ملنے والے کمالات سے افضل ہی جانتے تھے.البتہ یہ علی کمالات چونکہ آپ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے روھانی فیض سے حاصل کئے تھے اس لئے ان کمالات میں آپ کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اصالتا کمالات سے افضل قرار نہیں دیا جا سکتا.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسے شیخ صاحب! اہل السنت کا کوئی ایسا مروجہ عقیدہ موجود نہیں کہ ولی نبی سے جوئی کمالات میں بھی افضل نہیں ہو سکتا.اہل ست ولی کو صرف دربعد میں نبی سے افضل نہیں سمجھتے تھے یا دوسرے لفظوں میں وہ ولی کو نبی سے علی الاطلاق دیعنی بلا قید جزئی فضیلت کے افضل نہیں مجھتے تھے.مصری صاحب کے نزدیک شیخ صاحب ثابت تو یہ کرنے بیٹھے تھے کہ حضرت اقدسی حضرت اقدس میں کامل صفت نبوت زمرہ بنیاد کے فرنہیں بلکہ زمرہ اولیاء کے ہی فرد ہیں.مگر حضرت اقدس کی کتاب "کشتی نوح " کی ایک عبارت کی تشریح کرتے ہوئے ان کی زبان فسلم یہ سچائی جاری ہو گئی ہے کہ حضرت اقدس علیہ اسلام کو نبی کا نام صفت نبوت میں کمال حاصل کرنے پر ہی بلا ہے

Page 90

۹۰ کیونکہ ان کے نزدیک نام کسی کو صفت کے کمال پر ہی ملتا ہے.یہ قاعدہ انہوں نے حضرت اقدس کی ہی تین عبارتوں سے اخذ کیا ہے یعین کا ذکر انشاء اللہ آگے آئے گا تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضرت اقدس نے "کشتی نوح" میں تحریر فرمایا ہے.جس طرح حضرت مسیح کی دعا قبول ہو کر عیسا نیوں کو روٹی کا سان سب کچھ مل گیا ہے اسی طرح یہ قرآنی دعا ( احيانا الصراط المستقيم ناقل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قبول ہوا کہ اختیار و ابراز مسلمان بالخصوص اُن کے کامل فرد انبیاء علیہم السلام کے وارث ٹھہرائے گئے اور در اصل مسیح میجود کا اس است میں پیدا ہونا یہ بھی اسی دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے.کیونکہ معنی طور پر بہت سے اختیار و ابرار نے انبیاء بنی اسرائیل مماثلت کا حصہ لیا ہے مگر اس امت کا مسیح موعود کھنٹے کھلے طور کے حکم اور اذن سے اسرائیلی مسیح کے مقابل کھڑا تا موسوی سلسلہ اور محمدی سلسلہ کی مماثلت سمجھ آبھائے.اسی غرض سے اس کے کو ہر ایک پہلو سے شبیہہ دی گئی ہے." رکشتی نوح صفحه ۴۹) که خدا اس کی تشر یکے میں شیخ مصری صاحب لکھتے ہیں.نبی کا نام ہو اور کسی ولی کو نہیں دیا گیا صرف حضرت اقدس کو ہی دیا گیا وہ مماثلت نام کی وجہ سے ہی دیا گیا ہے.کیونکہ نام

Page 91

کسی صفت کے کمال پر ہی جا کر ملتا ہے" (روح اسلام صفحہ ۳۳) پس جب بقول شیخ مصری صاحب حضرت اقدس کو نبی کا نام حضرت اقدس کی اس تحریہ کے مطابق حضرت عیسی علیہ انت سلام سے مماثلبت تامہ رکھنے پرصفت نبوت کا بل طور پر حاصل کرنے کی وجہ سے بھی ملا ہے اور آپ سے پہلے اُمت محمدیہ کے تمام اولیاء اللہ کو نجی کا نام صفت نبوت کو کامل طور پر نہ رکھنے کی وجہ سے نہیں دیا گیا.تو اس سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس امت محمدیہ میں سے اس وقت تک صفت نبوت کامل طور پر رکھنے کی وجہ سے کامل فنی نبی ہیں.اور امت محمدیہ کے پہلے گزرے ہوئے اولیا ءاللہ صفت نبوت ناقص طور پر رکھنے کی وجہ سے جزوی طور پر ملی نبی ہیں.اسی لئے انہیں خدا تعالے کی طرف سے نبی کا نام نہیں دیا گیا.پس چونکہ وہ سب اولیاء اللہ صرف جزوی طور پر ظلی نبوت کے حامل ہیں.اس لئے ان میں نبوت مخفی رہی.اور حضرت مسیح موعود صفت نبوت کامل طور پر رکھنے کی وجہ سے صریح طور پر نبی کہلانے کے مستحق قرار پائے.شیخ مصری صاحب حضرت اقدس کے صفت نبوت کامل طور پر رکھنے کی وجہ سے ہی آپ کو تمام امت میں سے نبی کا نام دیا سجانے کے مستحق قرار دیتے ہیں.مگر وہ کہتے ہیں کہ چونکہ آپ کو نبی کا نام حضرت جیسے علیات سلام سے تکمیں مشابہت کی وجہ سے ملا ہے اس لئے آپ تشبیہ بلیغ اور استعارہ کے طور پر نبی ہیں اور بدیں وجہ زمرہ انبیاء کے فرد نہیں.صل بات یہ ہے کہ احادیث نبویہ میں حضرت اقدس ، حضرت بیے علیدات کام سے مشابہت تامہ رکھنے کی وجہ سے " این مریم " یا د عیسی بن مریم

Page 92

۹۴ تو بطور تشبیہ بلیغ اور استعارہ قرار دیئے گئے ہیں.مگر مسیح موعود اور ظلی نبی آپ فی الواقع ہیں اور ایک نبی کی دوسرے نبی سے مشابہت تامہ اُسے غیر نبی نہیں بنا دیتی.دیکھئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت موسی علیہ السلام سے مشابہت تامہ رکھنے کی وجہ سے موسی تو تشبیہ بلیغ اور استعارہ کے طور پر ہیں مگر رسول اللہ بطور حقیقت کے ہیں.اسی طرح حضرت اقدس کی حضرت عیسے علیہ اسلام سے مشابہت نامہ آپ کے فی الواقع میسج موجود اور نبی اللہ ہونے میں مانع نہیں.بہر حال شیخ مصری صاحب کو مسلم ہے کہ حضرت اقدس کو نبی کا نام صرت نبوت میں آپ کے کمال پر پہنچنے کی وجہ سے ملا ہے.اور آپ سے پہلے اولیاء اللہ کو اس لئے یہ نام نہیں ملا کہ ان میں سے کسی نے بھی صنفت نبوت کامل طور پر حاصل نہیں کی تھی.شیخ صاحب اس امر کے ثبوت میں کہ نام کسی شخص کو صفت کے کامل طور پر حاصل کرنے پر ملتا ہے.حضرت اقدس کی تین مندرجہ ذیل عبادتیں پیش کرتے ہیں :.(1) پہلے تمام ادیان بھی اسلام ہی تھے.لیکن چونکہ وہ ناقص حالت میں تھے اس لئے ان ادیان کو استلام کا نام نہیں دیا گیا جو دن حضر نبی کریم لائے وہ چونکہ کا مل ہو گیا تھا اس لئے اس کو استلام کا دست بچن صفحه ۱۴۷۹ - ۱۵۰) نام دیا گیا" (۲) " بقبال تو بہت ہوئے ہیں.لیکن پادریوں وغیرہ میں صفت دجالیت اپنے کمال کو پہنچ گئی اس لئے ان کا نام دیقبالی رکھا گیا." تتم حقیقة الوحی صفحه ۶۳)

Page 93

۹۳ (۳) " تمام انبیا مو خدا کی حمد کرنے والے تھے اور خدا نے بھی ان سب کی حمد کی تھی لیکن ان کا نام ” محمد “ اور ” احمد “ نہیں رکھا گیا لیکن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد چونکہ پورے کمال کو پہنچ گئی اس لئے آنجناب صلے اللہ علیہ وسلم کا نام " احمد“ رکھ دیا گیا.اسی طرح خدا نے جو حمد آپ کی کی ہے وہ بھی انتہائی کمال کو پہنچ گئی.اس لئے آپ کا نام " محمد " رکھا گیا " نجم ال) ان عبارتوں سے شیخ مصری صاحب نے یہ قاعدہ لیا ہے کہ نام کسی صفت کے کمال پر پہنچتے سے ہی ملتا ہے.پھر اس قاعدہ کو آپ نے حضر میسج موعود علیہ السلام کے نبی کا نام پانے پر چسپاں کیا ہے.اور ہمیں یہ سمجھانا چاہا ہے کہ حضرت اقدس کو نبی کا نام صفت نبوت کے کامل طور پر پانے کی وجہ سے اسی طرح ملا ہے جس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے دین کو اسلام کا نام دوسرے پہلے تمام ادیان کے مقابلہ میں کامل دین ہونے کی وحید سے ملا ہے اور دوسرے ادیان کو یہ نام اس وجہ سے نہیں ملا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے دین کے بالمقابل وہ ناقص دین تھے.شیخ مصری صاحب کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے گزرے ہوئے امت محمدیہ کے اولیاء اللہ کو نبی کا نام اس وجہ سے نہیں ملا کہ ان میں صفت نبوت کامل طور پر نہیں پائی گئی اور مسیح موعود علیہ السلام کو نبی کا نام صفت نبوت کے کامل طور پر پا یا بھانے کی وجہ سے ملا ہے.لہذا دوسرے اولیاء اللہ اور پایا مسیح موعود میں ظلی نبوت کے ناقص اور کامل طور پر پایا جانے کا فرق ہے

Page 94

۹۴ اسی وجہ سے اولیاء اللہ میں نبوت مخفی رہی اور حضرت مسیح موعود کو کھلے طور پر نبی کا نام دیا گیا.خدا کا شکر ہے کہ شیخ مصری صاحب نے اپنے اس بیان سے احمدیوں کے لاہوری فریق کو ایک ایسے موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ اگر وہ ذرا تدیر سے کام لیں تو انہیں حضرت اقدس کا درجہ نبوت ، نفس نبوت یا نبوت مطلقہ کے لحاظ سے زمرہ انبیاء کا فرد ہونا آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے.واضح رہے کہ زمرہ اولیار کے فرد بھی حضرت اقدس ضرور ہیں زمرہ اولیاء سنگر آپ ایسے اولیاء اللہ کے زمرہ کا فرد ہیں جو مامور ہوتے نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام تحریر فرماتے ہیں :- ایسے اولیاء اللہ خو مامور نہیں ہوتے یعنی نبی یا رسول یا محدث نہیں ہوتے اور ان میں سے نہیں ہوتے جو دنیا کو خدا کے حکم اور الہام سے تعدا کی طرف بلاتے ہیں اس لئے ایسے ولیوں کو کسی اعلیٰ خاندان یا اعلیٰ قوم کی ضرورت نہیں کیونکہ ان سب کا معاملہ اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے.لیکن ان کے مقابل پر ایک دوسری قسم کے ولی ہیں جو رسول یا نبی یا محترت کہلاتے ہیں.وہ تعدا تعالے کی طرف سے ایک منصب حکومت اور قضا کا لے کر آتے ہیں اور لوگوں کو حکم ہوتا ہے کہ ان کو اپنا امام اور سردار اور پیشوا سمجھ لیں اور جیسا کہ خدا تعالے کی اطاعت کرتے ہیں اس کے بعد ان نائیوں کی اطاعت کریں.اس منصب کے بزرگوں کے متعلق قدیم سے خدا تعالے کی یہی عادت ہے کہ ان کو اصلئے درجہ

Page 95

۹۵ کی قوم اور خاندان میں سے پیدا کرتا ہے تا ان کے قبول کرنے اور ان کی اطاعت کا جوا اُٹھانے میں کسی کو کراہت نہ ہو.ا تریاق القلوب صفحہ ۲۷- ایڈیشن مطبوعہ یکٹر پر قادیان صفحه ۱۳۲-۱۳۳) پس حضرت اقدس پہلی قسم کے اولیاء اللہ کے زمرہ کا فرد نہیں بلکہ دوسری قسم کے اولیاء اللہ کا فرد ہیں اور نبی اور رسول ہو کر فرد ہیں.کیونکہ تبدیلی عقیدہ پر حضور نے اپنی تمام شان میں حضرت مسیح بن مریم سے بہت بڑھ کر ہونے کا دعویٰ کیا ہے.اور یہ بات اپنے آپ کو نبی قرار دینے کے بغیر ناممکن اور محال ہے.شیخ مصری صاحب کی تضاد بیانی حقیقت کے قرین کے لیے اعتراف کہ حضرت اقدس کو نبی کا نام کا میں صفت کی وجہ سے ملا ہے ، پھر آپ کو زمرہ کاربن انبیاء سے خارج قرار دینے کے لئے لکھا ہے :- " گو ہر ایک محرکت حق رکھتا ہے کہ اس کو نبی کہا جائے.لیکن حکمت و مصلحت الہی نے اس لفظ کے مخفی رکھنے کو ترجیح دی.آنے والا سیح بھی محمد ثمین کی جماعت کا ہی ایک فرد تھا لیکن وہ کامل محدت تھا.اس کی مشابہت انبیاء سے نام تھی.دوسرے وقت آگیا تھا کہ عظمت اسلام کے اظہار کی معلوت کو بروئے کار لایا جائے اس لئے اس کے حق میں ظاہراً بھی نہیں کے استعمال کو جائز کر دیا لیکن اسی علمی نبوت ناقصہ اور جوئی نبوت

Page 96

محض لغوی معنی والی نبوت ، مجاز اور استعارہ والی نبوت کے مفہوم میں ، نہ کہ اسلامی اصطلاح والی نبوت کے مفہوم ہیں، صرف صراحت اور اختصار کا فرق ہے ورنہ جنس سب کی ایک ہی ہے.ر روح اسلام صفحه ۱۴۰۰ اس بیان سے ظاہر ہے کہ شیخ صاحب حضرت اقدس اور دوسرے محدثین امت میں کامل اور ناقص کا فرق قرار دیتے ہیں.کیونکہ وہ دوسرے محدثین کے مقابلہ میں صرف آپ کو ہی کامل محدث قرار دیتے ہیں لیکن وہ آپ کو کامل محدث کہہ کر صرف زمرہ محدثین کا فرد قرار دینا چاہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ کابل محقت تو صرف نبی ہی ہوتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حمامہ البشری " میں لکھتے ہیں :- " اس بات کا کہنا جائز ہے کہ نبی علی وجہ الکمال محدث ہے کیونکہ وہ علی وجہ الا تم کمالات کا جامع ہوتا ہے" (حمامة الشهرى صفر (٨) شیخ مصری صاحب حضرت اقدس کو محدثین کی جنس کا خود قرار دے کر صرف ولی قرار دینا چاہتے تھے کیونکہ محدثیت ولایت ہی ہے.مگر حضرت اقدس کی مندر بالا عبارت سے ظاہر ہے کہ نجی کامل محدث ہونے کی وجہ سے زمرہ محدثین کا فرد تو ضرور ہوتا ہے مگروہ زیرہ انبیاء کا بھی فرد ہوتا ہے.اور ہماری بحث جنس کے متعلق نہیں بلکہ جس کی انواع کے متعلق ہے اور ولائت کی جنس کی انواع میں نبوت کا ملہ بھی داخل ہے.ولائت جنس الاجناس ہے جنس نبوت کی آگے تین اقسام ہیں.اول تشریعی

Page 97

96 نبوت مستقله - دوم غیر تشریعی نبوت مستقله - سوتم - غیر تشریعی نبوت ظلیہ کاملہ حضرت اقدس تیسری قسم کی نبوت رکھتے ہیں.اور شیخ مصری صاحب یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ چونکہ حضرت اقدس کو حضرت عیسی علیہ السلام سے مشابہت تامہ حاصل ہے اس لئے صفت نبوت کو کامل طور پر پانے کی وجہ سے آپ کو نبی کا نام ظاہراً بھی دیا گیا اور آپ سے پہلے محدثین امت کو چونکہ صفت نبوت کامل طور پر نہیں ملی بلکہ ناقص طور پر ملی اس لیئے نبوت ان میں مخفی رہی.پس جب حضرت اقدس کو صفت نبوت کامل طور پر حاصل ہوئی اور اس لئے انہیں کھلے کھلے طور پر خدا تعالے کی طرف سے نبی کا نام دیا گیا تو پھر آپ سے پہلے محدثین امت تو ظلی نبوت نا قصہ رکھتے آن تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ اس نام ظلی نبوت کا منہ رکھتے ہیں پیس شیخ صاحب کے یہ کہنے کا مطلب کہ محدثین امت اور مسیح موعود میں صرف صراحت و اختیا کا فرق ہے ان کے پہلے دیئے گئے بیان کے مطابق یہ ہوا کہ محدثین میں اختصاص نبوت کامل صفت نہ پانے کی وجہ سے تھا اور مسیح موعود کے لئے اظہار نبوت کامل صفت پانے کی وجہ سے ہے.لہذا جنس دونوں کی ایک ہو تو ہمیں اس پر اعتراض نہیں اور نہ ہمارے نزدیک جنس کو نہ یہ بحث لانے کی ضرورت ہے.ہماری بحث تو نبوت کی اقسام میں ہے.اگر نبوت کو جنسی قرار دیا جائے تو اس کی تین انواع ہوں گی بھا و پر مذکور ہوئیں.اور اگر نبوت کو محدثیت کی محض ایک نوع قرار دیا جائے تو نبوت کا ملہ کی تینوں مذکورہ اقسام اس نوع نبوت کی اصنات ہوں گی.اور جب بقول مصری حصہ اسحب منظر میں

Page 98

۹۸ اقدس صفت نبوت کو کامل طور پر رکھتے ہیں تو آپ کی نبوت ، نبوت خلقیہ کاملہ ہی ہوئی.پس حضرت اقدس تمام محدثین امت کے بالمقابل کا مل ظلی نبی قرار پائے اور محدثین امت حضرت اقدس کے مقابلہ میں ناقص خلتی نبی.گویا محدثین بالقوہ نہیں تو ہیں مگر بالفعل بنی نہیں.کیونکہ بالفعل نہیں تو وہی ہو سکتا ہے جس پر کھلے کھلے طور پر اور ظاہر انہی کے لفظ کا اطلاق ہو.پس شیخ نصری صاحب کا پہلا بیان حضرت اقدس کو محد ثین امت کے بالمقابل کامل علمی بنی ثابت کرتا ہے لیکن چونکہ مصری صاحب حضرت اقدس کے زمرہ انبیاء کا فرد ہونے سے انکار کرنا چاہتے تھے.اس لئے انہوں نے اپنے پہلے بیان کے خلاف حضرت اقدس کی نبوت کو بھی ظلی نبوت نا قصہ قرار دے دیا ہے دروح اسلام صفحه بی تا ده حضرت اقدس کو غیر نبی محمد ثمین کے زمرہ کا فرد قرارہ دے سکیں کیونکہ ظلی نبوت، ناقصہ تمام محدثین امت کو حاصل ہوتی ہے میں شیخ صاحب کی اس تضاد بیانی پر سخت حیران ہوں.کیونکہ اس سے پہلے شیخ صاحب اپنے مضمون میں یہ بھی لکھ چکے ہیں :- اب ذیل میں لفظ صریح طور پر (نبی.ناقل) کی تشریح بھی عرض کر دی بھاتی ہے.واضح ہو کہ یہ لفظ در حقیقت دیگر اولیاء کرام کے مقابلہ میں ہی استعمال ہوا ہے.انہوں نے چونکہ کامل عکس نہیں لیا تھا اس لیئے ثبوت محمدیہ ان کے وجود میں گو موجود تھی مگر مخفی تھی.کامل عکس سے حضور کی مراد یہ ہے کہ حقیقت کے لحاظ سے کامل ہو.ورنہ ہر ولی یا ہر محدد و محمدت اپنے

Page 99

49 اپنے زمانہ اور اپنے دائرہ تجدید کی نسبت سے کامل عکس ہی رکھتا تھا.جس طرح نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے قبل تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لئے کامل ہی تھے.لیکن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل وہ ناقص ہی تھے.ٹھیک اسی طرح پہلے تمام اولیاء اپنے اپنے حلقہ کے لئے کامل عکس رکھنے والے ہی تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے مقابلہ میں ان کا اصل کر دہ عکس ناقص ہی تھا.حضور کا لیا ہوا انتہائی حد تک کسی امتی عکس اس انتہائی حد تک پہنچ کے لئے اپنے نبی متبوع کی نبوت کا لینا ممکن ہے.اس سے زیادہ کوئی امتی ہے ہی نہیں سکتا." روح اسلام صفحه ۳۲) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ شیخ صاحب محمد تین امت کو حضرت مسیح موعود علیہ استسلام کے مقابلہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا ناقص سکسی قرار دے رہے ہیں اور مسیح موعود کو حقیقت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل عکس اور پھر آپ کے لئے ہوئے عکس کو انتہائی حد تک پہنچا ہوا قرار دیتے ہیں.کیونکہ عکس کا لفظ اصطلاحاً خلل کے لفظ کا مترادف ہے لہذا ثابت ہوا کہ روح اسلام کے صفحہ ۳۲ پر شیخ صاحب حضرت اقدس کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا انتہائی حد تک پہنچا ہو ا طل قرار دے رہے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک حضرت اقدس عید است سلام کو

Page 100

علی نبوت کا ملہ حاصل ہے اور محدثین امت کو ظلی نبوت نا قصہ حاصل تھی پیس یہ امر قابل تعجیب ہے کہ یہ لکھنے کے بعد آگے چل کر شیخ صاحب حضرت اقدس کو محض زمرہ محدثین کا فرد قرار دینے کے لئے آپ کی نبوت کو بھی نکلتی نبوت نا قصد قرار دے رہے نہیں ( روج اسلام صفحہ ۲۰) پس یہ امر شیخ صاحب کا محض تکلف ہے جس سے وہ اپنے اس مضمون میں اپنی مقصد یہ آدمی کے لئے تصاد بیانی کا شکار ہو گئے ہیں.کیونکہ کامل عکس اور انتہائی حد تک پہنچا ہوا عکس سے انتہائی حد تک پہنچا ہو ا ظلی ہی مراد ہو سکتا ہے.کیونکہ فکس کا لفظ اصلا ما ظل کے لفظ کا مترادف ہے میری اس بات کی تائید خود شیخ صاحب کے ایک اور مضمون سے ہو جاتی ہے شیخ صاحب موصوف نے "پیغام صلح " مجریه ۱۵ ستمبر وار صفحه ۸ کا لمرو میں تحریر کو دیا ہے کہ تمام انبیاء علیهم السلام محمد اور احمد تو تھے لیکن یہ دونوں نام صرف حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو ہی دیئے گئے کیونکہ آنحضور کے وجود میں یہ دونوں صفتیں اپنے انتہائی کمال کو پہنچے گئیں.پس نام ملنے کی حکمت اور ہے اور قیمتی نبی ہوتا امر دیگر ہے.نام ملنے کی پیش گوئی صرف آنے والے مسیح کے لئے ہی تھی کیونکہ ملی نبوت کا انتہائی کمال آپ کے وجود میں ہی.ہوتا تھا.کیونکہ فیض محمدی سے انتہائی کمال تک وحی پانا ہی اسی کے لئے مقلد تھا.کیونکہ اس کے زمانہ مادہ پرستی میں

Page 101

اس کی ضرورت پیش آتی تھی تا اس کے ذریعہ مادہ پرستی کا بہر کچلا جائے.دیگر اولیاء یعنی ظلمی انبیاء کے زمانوں میں اس کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی.چنانچہ واقعات اس پر شاہد ناطق ہیں.فیض محمدی سے جس قدر وحی کا نزول حضرت مسیح موعود پر ہوا اس کا عشر عشیر بھی کسی اور ولی پر نہیں ہوا.دیکھئے، پہلی عبارت میں شیخ صاحب نے حضرت اقدس کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا حقیقت میں کامل عکس اور انتہائی کمال کی حد تک پہنچا ہو انکس قرار دیا ہے اور محدثین امت کو آپ کے مقابلہ میں ناقص عکس قرار دیا ہے اور اُن کے حقیقت میں کامل عکس ہونے کی نفی فرمائی ہے اور اس عبارت میں شیخ صاحب نے حضرت اقدس کے وجود میں خلقی نبوت کا انتہائی کمال کی حد تک پہنچ جانا تسلیم کر لیا ہے اور دیگر اولیا ء اللہ میں آپ کے مقابلہ میں ختی نبوت کا انتہائی کمال تسلیم نہیں کیا اور وجہ حضرت اقدس کے انتہائی کمال کے ساتھ ملتی نہی ہونے کی یہ بیان فرمائی ہے کہ حضرت اقدس پر فیض محمدی سے وھی انتہائی کمال کی حد تک پانا مقدر تھا اور دیگر اولیاء اللہ میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں پایا گیا.اس سے ظاہر ہے کہ شیخ صاحب کے نزدیک حضرت اق درس کامل خلقی نبوت کے حامل ہیں اور اولیاء اللہ آپ کے مقابلہ میں خلیلی نبوت ناقصہ کے حامل تھے.مگر افسوس ہے کہ یہ عقیدہ رکھنے کے ساتھ ہیں شیخ صاحب کے سامنے جب یہ سوال آیا کہ حضور محض زمرہ محدثین کے فرد ہیں یا زمرہ انبیاء کے فرد ہیں تو انہوں نے از راہ تکلف حضرت اقدس؟

Page 102

کی نبوت کو بھی خلقی نبوت ناقصہ قرار دے دیا تا حضرت اقدس کو محض زمرہ محدثین کا فرد قرار دے سکیں اور آپ کو زمرہ انبیاء سے خارج قرار دے سکیں.حالا نکہ جب شیخ صاحب حضرت اقدس کی خلقی نبوت کو انتہائی کمال کی حمد تک پہنچی ہوئی قرار دے چکے ہیں تو پھر اُن کا حضور کو محض محدثین کے زمرہ کا فرد قرار دینا جو ظلی نبوت کو نا قص طور پر رکھتے ہیں ایک غیر معقول بات ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول تھی.اسے معقول بنانے کے لئے ہی شیخ صاحب نے حضرت اقدس کی نبوت کو بھی ظلی نبوت ناقصہ قرار دے دیا اور یہ خیال نہ کیا کہ اس طرح وہ تعداد بیاتی سے کام لے رہے ہیں.شیخ صاحب ! سنیئے اظلی نبوت کا ملہ ہی دراصل حضرت اقدس کے نزدیک ایک قسم کی نبوت ہے تمہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے چشمه معرفت " میں تحریر فرمایا ہے." میں اس رسول (آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم تا قل پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس پر سختم ہیں.اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے.مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں.یعنی وہ نبوت جو اس کے چراغ سے نور کیتی ہے وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی ثبوت ہے یعنی اس کا خلیل ہے.اسی کے ذریعہ سے اسی کا مظہر ہے" رچشمه معرفت صفحه ۱۳۲۴ واضح ہو کہ نبوت محمدیہ کے چراغ سے نور لینے والی نبوت ناقصہ بھی ہو سکتی ہے اور کا ملہ بھی جو شخص ہمت محمدیہ میں نبوت محمدیہ کا حقیقت میں

Page 103

کامل نیلی ہو وہ تو خدا تعالے کی طرف سے نبی کا نام اور مقام پاتا ہے اور نیتی اور رسول ہوتا ہے مگر جو حقیقت میں کامل خیل نہ ہو اور ظلی نبوت، ناقص دیکھتا ہو وہ خدا تعالے کی طرف سے نبی کا نام نہیں دیا جاتا بلکہ وہ محض محدث ہی ہوتا ہے.نہیں حقیقت کے لحاظ سے علی نبوت کا ملہ ہی ایک قسم کی نبوت ہے.ناقص خلقی انبیا ر محدثین ہیں.چونکہ ظلی نبوت کی قسم ناقص طور پر پائی بھاتی ہے.لہذا وہ اس قسیم نبوت کو ناقص طور پر رکھنے والے سمجھے جائیں گے اور ان پر نبی کا اطلاق صرف غیر حقیقی طور پر ہی ہو سکے گا کیونکہ وہ حقیقت کے لحاظ سے کامل خلل نہیں گو اپنے دائرہ تجدید و اصلاح کے لحاظ سے انہیں بھی کامل کہہ دیا جائے.شیخ صاحب حضرت اقدس مجاز اور استعارہ کے طور پر نبی سر صرف لغوی معنوں میں طور تی نبی مانتے ہیں نہ کہ اسلامی اصطلاح میں.اسلامی اصطلاح کے مقابل وہ آپ کو مجانہ اور استعارہ کے طور پر نبی سمجھتے ہیں.اس کے متعلق واضح ہو کہ معروف اسلامی اصطلاح تو استقرائی ہے یعنی وہ انبیائے سابقین کے افراد کو ملحوظ رکھ کر وضع کی گئی ہے.چونکہ انبیائے سابقین میں سے کوئی علی نبی یا امتی نبی نہ تھا بلکہ وہ سب غیر امتی نبی تھے اس لئے اس اصطلاح میں جو استقرار سے اخذ کی گئی نبی کے لئے امتی نہ ہونا ضروری سمجھا گیا.اس اصطلاح کے مقابلہ میں تو بے شک حضرت اقدس کی نبوت کو مجاز اور استفادہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے تا تشریعی نبوت اور مستقلہ نبوت سے

Page 104

حضرت اقدس کی نبوت کا التباس نہ ہو کیونکہ اس اصطلاح میں نبی کے لئے کامل شریعت یا احکام جدیدہ لانا یا کسی دوسرے نبی کا امتی نہ کہلانا شروط ہے.(ملاحظه مو مکتوب مارا اگست شاه مندرجہ الحکم گر تبدیلی عقیدہ کے وقت حضرت اقدس کے اپنے آپ کو متواتر وجی سے صریح طور پر نبی سمجھ لینے کے اور اولیاء اللہ کے مقابلہ میں اپنی نبوت خلیہ کو کاملہ قرار دینے کے بعد حضرت اقدس نے نبی کی اسلامی اصطلاح میں ترمیم فرما دی ہے اور ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۳۸ پر نبی کے حقیقی معنی بیان کرنے کے بعد یہ تحریر فرما دیا ہے کہ ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے میں کوئی محذور لازم نہیں آتا اور نبی کے تحقیقی معنی اختیار غیبیہ اور مکالمہ و مخاطبہ الہیہ قرار دیتے ہیں.دوسری جگہ اسی امر کو اسلامی اصطلاح میں بھی نبوت اور خدا کے حکم (مندرجہ قرآن مجید میں بھی نبوت قرار دیا ہے اور خدا تعالے کی اصطلاح میں بھی نبوت قرار دیا ہے.اور نبیوں کے اتفاق سے بھی نبوت قرامہ دیا ہے.اور پھر اپنے نزدیک نبوت کے حضور یہ معنی بھی یہی بیان فرمائے ہیں.اب نبی کے لئے آپ نے مکالمہ مخاطبہ الہیہ کا ملہ میں امور غیبیہ کی کثرت کو شرط قرار دیا ہے اور اس کے لئے غیر امتی ہونا ضروری قرار نہیں دیا.پس حضرت اقدس علیہ السلام صرف لغوی معنوں میں ہی نبی نہیں بلکہ خدا کے حکم اور خدا کی اصطلاح میں بھی نبی ہیں.لہذا خدا کے حکم اور خدا کی اصطلاح کے لحاظ سے آپ کی نبوت مجازی نہیں بلکہ اس لحاظ سے آپ ایک قسم کے نبی ہی ہیں.تبھی تو آپ نے تحریر فرمایا :-

Page 105

۱۰۵ میں نبی اور رسول نہیں ہوں باعتبار نئی شریعت اور نئے کوئی اور نئے نام کے اور میں نبی اور رسول ہوں یعنی باعتبار طلیت کاملہ کے وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل 1 - محمدی نبوت کا ( نزول اسی صفحه ۳) کامل انعکاس ہے" پس آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا حقیقت میں جو کامل ظل ہو وہ صرف نبی کا نام ہی نہیں پاتا یا صرف نبی کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ نبی اور رسول ہوتا بھی ہے.پس جو نبی اور رسول ہو اسے شیخ مصری صاحب کا محض زمرہ محدثین کا فرد قرار دینا اور زمرہ انبیاء کا فرد نہ سمجھنا صریح غلطی ہے.حضرت اقدس کے یک نفقت کی تعریف حضرت اقدس " تم حقیقة الوحی ا نبی صفحہ ۶۸ ناک کے کم اور اصطلاح میں ہی اسکو را بر روی فرماتے ہیں.صرف مراد میری نبوت سے کثریت مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے.سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں.پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی.یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتے ہیں نیکیں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الہی نبوت رکھتا ہوں.ولكن ان تسال

Page 106

پر چشمہ معرفت " صفحہ ۳۲۵ میں تحریر فرماتے ہیں :- نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صدا مرتبہ استعمال کیا ہے مگر اس لفظ سے وہ مکالمات مخاطبات الہیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پر مشتمل ہیں.اس سے بڑھ کر کچھ نہیں.ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتا ہے.يحل ان يصطكم - سوخدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا" نبوت ورسالت کی جو تعریف تستمر حقیقۃ الوحی " اور " پیشمہ معرفت میں کی گئی ہے جو تبدیلی عقیدہ سے بعد کی کتابیں ہیں اس میں حضور نے اپنے آپ کو خدا کے حکم اور خدا کی اصطلاح میں بھی نبی قرار دیا ہے.نہ کہ صرف لغوی معنوں میں نبی.پھر تجلیات الہیہ صفحہ ۲۶ پر حصریہ الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں.میرے نزدیک نبی اسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام قطعی اور یقینی اور بکثرت نانول ہو جو غیب پر مشتمل ہو.اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا " پس آپ کے نزدیک نبی کے صرف یہی معنی ہیں نہ کچھ اور.اور ان معنوں کے آپ مصداق ہونے کی وجہ سے نبی ہیں.پھر " الصیت صفر ۱۲ پر اسی تعریف نبوت کو نبیوں کے اتفاق سے نبوت قرار دیا ہے.چنانچہ | تحریر فرماتے ہیں :.ہیکہ وہ مکالمہ مخاطیہ اپنی کیفیت و کمیت کے رُو سے کمال

Page 107

۱۰۷ درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے" نہیں باتفاق انبسیار بھی آپ نبی ہیں.پھر ایک غلطی کا ازالہ میں قرآنی آیت سے بھی نبوت کی یہی تعریفت قرار دی ہے.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں کہ قرآن شریعت بھر نبی اور رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے.جیسا کہ آیت لَا يُظهر على غيبه بحمام الامن ارتضی مِن رَّسُولٍ سے ظاہر ہے.پس مصرفی غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا.اور آیت انعمت عليهم گواہی دیتی ہے کہ اس مصفی غیب سے یہ امت محروم نہیں اور مصفی غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے.ہیں اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس موہیت کے لئے محض بروز ظلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے." اس تحریر سے ظاہر ہے کہ قرآنی معنوں یعنی خدا کے حکم کے لحاظ سے بھی آپ نبی ہیں.پھر حضرت اقدس اپنی تقریر حجۃ اللہ " میں فرماتے ہیں : " خدا تعالے کی طرف سے ایک کلام پا کو جو غیب پر مشتمل ہو

Page 108

زیر دست پیش گوئیاں ہوں، مخلوق کو پہنچانے والا اسلامی اصطلاح کے رُو سے نبی کہلاتا ہے" تری حجت الله من جو الحلم از من اشتاین پس حضرت اقدس اسلامی اصطلاح میں بھی نبی ہیں.پھر حضرت اقدس سب سے آخر میں مکتوب متدرجہ اختبار عام مورخہ ۲۳ مئی شاہ میں اپنی وفات سے تین دن پہلے تحریر فرماتے ہیں :- میں اس وجہ سے نبی کہلاتا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں بنی کے یہ معنی ہیں کہ بغداد سے الہام پا کر بکثرت پیشگوئی کرنے والا.اور بغیر کثرت کے یہ معنی متحقق نہیں ہو سکتے جیسا کہ ایک پیسہ سے کوئی مالدار نہیں ہو سکتا کیا کی اور اسی مکتوب میں یہ بھی لکھتے ہیں :- سوئیں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں.اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہو گا " پر حضرت اقدس اپنی ان تحریروں کی رو سے خدا کے حکم کے موافق بھی نبی ہیں.خدا کی اصطلاح میں بھی نبی ہیں.نبیوں کے متفق علیہ معنوں کے لحاظ سے بھی نبی ہیں اور ایک اسلامی اصطلاح میں بھی نبی ہیں اور عربی اور عبرانی لغت کے لحاظ سے بھی نبی ہیں.لہذا اگر آپ تبدیلی عقیدہ کے بعد اپنے آپ کو فی الواقع نبی نہ سمجھتے تو کبھی یہ نہ لکھتے کہ عذاب کا مستحق ہو جاتا اتمام حجت کے لئے نہی کو لاتا ہے اور

Page 109

1-9 اس کے قائم ہونے کی ضرورت پیدا کرتا ہے اور سخت عذاب بغیر قائم ہونے نبی کے آتا ہی نہیں.چنا نچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثُ رسولا.پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف طاعون ملک کو کھیا رہی ہے اور دوسری طرف ہیبت ناک زلزلے پیچھا نہیں چھوڑتے اے غافل با تلاش تو کرو.شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہے جس کی تم تکذیب کر رہے ہو " تجلی اہلیہ صفحہ ) شیخ مصری صاحب ! یہ نبی کون ہے ؟ آپ جانتے ہیں کہ یہ مسیح موعود علیہ السلام ہیں.اگر آپ فی الواقع نبی نہ ہوتے بلکہ محض محدث ہی ہوتے جیسا کہ شیخ مصری صاحب کا آئیکل کا خیال ہے تو آپ ایک غلطی کے ازالہ میں کبھی یہ نہ لکھتے " اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہیے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں.مگر نبوت کے متنے اظہار امر غیب ہے.لغوی معنوں کے مطابق ہی شرعی اصطلاح میں بھی محدث وہی ہوتا ہے خو مکالمہ مخاطیہ الہیہ سے مشرف ہو مگر اخبار غیبیہ سے اطلاع اس کے لئے شرط نہیں.پس حضرت اقدس نہ لغوی معنوں میں محض محدت ہیں نہ شرعی

Page 110

اصطلاح میں محض محدث ہیں.بلکہ حضرت اقدس ایک غلطی کا ازالہ " میں محض محدث کہلانے سے انکار کر رہے ہیں اور اسی جگہ لغوی معنوں میں نبی ہونے کے علاوہ قرآنی معنوں میں بھی اپنے آپ نبی قرار دینے کیلئے تحریر فرما رہے ہیں.جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِہ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا " ایک غلطی کا ازالہ ) شیخ مصری صاحب حضرت اقدس کے مکتوب ۷ ار اگست شہر میں مندر جہ نبوت کی اصطلاح کے رُو سے حضرت اقدس کو نبی نہیں سمجھتے کیونکہ اس تعریف نبوت کے رو سے نبی کے لئے اگر وہ شریعت کا ملہ یا احکام جدیده نہ لائے تو کم از کم اس کا دوسرے کسی نبی کا امتی نہ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے.اس عرفی تعریف نبوت یا اس معروف اصطلاح میں ہم لوگ بھی حضرت اقدس کو بی قرارنہیں دیتے مگر یہ تعریف نبوت حضرت اقدس کی بعد کی تحقیق کے رو سے نبوت کی جامع تعریف نہیں کیونکہ تبدیلی عقیدہ سے بعد کی کتابوں میں حضرت اقدس نے نبوت کی بتو تعریف پیش کی ہے.اس میں نبی کے لئے کامل شریعت لانا یا احکام بعدیدہ لانا یا کسی دوسرے نبی کا امتی نہ ہوتا ضروری قرار نہیں دیا بلکہ صرف مکالمه مخاطبہ الہیہ مشتمل بر امور غیبیہ کثیرہ کو ہی نبوت قرار دیا ہے اور اسی تعریف نبوت کے ماتحت اپنے آپ کو خدا کے حکم ، خدا کی اصطلاح، اسلامی اصطلاح اور نبیوں کی متفق علیہ تعریف میں نبی قرار دیا ہے.اب اگر شیخ مصری صاحب حضرت اقدس

Page 111

مسیح موعود کو خدا کے حکم اور اصطلاح (مندرجه تمه حقیقة الوحی صفحه ۱۲۸ چشمہ معرفت صفحه ۳۲۵) اور اسلامی اصطلاح (مندرجہ تقریر حجتہ اللہ) اور نیوں کے متفق علیہ معنوں (مندرجہ الوصیت کے مطابق نبی قرار نہ دیں تو یہ امر ان کے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے عقیدہ سے انحراف کے مترادف ہوگا.اگر وہ یہ کہیں کہ نبوت کی یہ تعریف جس پر صادق آئے وہ محض ولی ہوتا ہے نبی نہیں ہوتا تو یہ بات اُن کی محض تحکم ہوگی جو خدا تعالیٰ کے مقرود کرده حکم حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خود حکم بننے کے مترادف ہوگی اگر وہ یہ کہیں ، حضرت اقدس محض لغوی معنوں میں بنتی ہیں تو یہ کبھی ان کا تحکم ہوگا.کیونکہ حضرت اقدس نے اپنے آپ کو لغوی معنوں میں نبی کہنے کے ساتھ ہی اپنے آپ کو خدا کے حکم اور خدا کی اصطلاح بلکہ ایک اسلامی اصطلاح اور قرآنی معنوں میں بھی نبی کہا ہے.جائے.شیخ صاحب سینے !! جب آپ حضرت اقدس کو لغوی معنوں میں نبی مانتے ہیں تو لغت عربی میں نبوت کے جو معنی ہیں وہ تو آپ میں در حقیقت ئے گئے لغوی معنی کے بالمقابل تو آپ کی نبوت مجاز اور استعارہ کے طور پر نہ ہوئی.اب بتائیے کہ تمام انبیائے کرام بھی لغوی معنوں میں نبی ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ انکار کریں تو یہ خدا کے حکم پر شکم بننا ہو گا.کیونکہ حضرت پار مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.خدا تعالے کا اس اُمت سے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام.پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پاچکے ہیں اور منجملہ ان کے وہ

Page 112

نبوتیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام مینی کہلاتے کہ ہے" ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے نزدیک تمام انبیاء کرام علیہم السلام انہیں نبوتوں اور پیشگوئیوں کی وجہ سے نبی کہناتے رہے ہیں.جن کے اس امت میں ملنے کا وعدہ ہے.چونکہ لغت عربی خدا کی طرف پیشگوئیاں پانے کو ہی نبوت قرار دیتی ہے.لہذا یہ امر محقق ہو گیا کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام لغوی معنوں میں بھی نبی ہیں.جس طرح وہ اصطلاحی معنوں میں نبی ہیں.چونکہ شیخ مصری صاحب کے نزدیک حضرت اقدس بھی نغوی معنوں میں نہیں ہیں.لہذا لغوی معنوں میں حضرت اقدس بھی نہ مرہ انبیاء کے فرد قرار پائے اور شیخ مصری صاحب کا یہ خیال باطل ہوا کہ حضرت اقدس زمرہ انبیاء کے فرد نہیں.پس بعض انبیاء کا شریعت جدیدہ لاتا یا کسی دوسرے نبی کا امتی نہ ہونا.یا مسیح موعود علیہ السلام کا نبی کے ساتھ امتی بھی ہونا یہ ان کی علیحدہ علیحدہ خصوصیات ہیں جو لغوی نبوت پر امور زائدہ ہیں.یہ امور لغوی نبوت کا ضروری اور ذاتی جزو نہیں.پس لغوی معنوں کے لحاظ سے میں طرح پہلے انبیاء زمرہ انبیاء کے افراد ہیں اسی طرح لغوی ستنوں کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی زمرہ انبیاء سکے فرد ہیں.گو مصری صاحب اپنی مسلمہ اصطلاح نبوت کے لحاظ سے آپ کو نبی سمجھیں مگر لغوی معنوں میں تو حضور کے نبی ہونے سے شیخ مصری صاحب کو انکار نہیں ہو سکتا.

Page 113

ایک مغالطہ کا جواب اس جگہ شیخ مصری صاحب کے ایک مخاط را اس مغالطہ کا مضمون میں لکھتے ہیں :- جواب دینا ضروری ہے.شیخ صاحب اپنے اس " یہ الفاظ " اپنی تمام نشان میں بڑھ کہ دافع البلاد میں ہیں جو اپریل سن شاہ کی کتاب ہے." دافع السلام کے بعد حضور نے ایک مضمون ریویو کے پرچہ مئی ء میں شائع کروایا ہے.یعنی.واقع البلاء" والے مضمون کے ایک ماہ بعد اس میں مر کے الفاظ میں جزوی فضیلت کا ہی دعویٰ کیا ہے بحضور کے الفاظ یہ ہیں :- جیس طرح مشکیل مریسی بہت سی باتوں میں موسی سے بڑھ کر ہے ایسا ہی مشین مینی بھی بہت سی باتوں میں عیسی سے بڑھ کر یہ جوئی فضیلت ہے میں کو خدا چاہتا ہے دیتا ہے" اس مغالطہ میں شیخ صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرت الجواب نقرس کا اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ بھی ایسی ہی جوئی فضیلت کا عقیدہ ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے مگر شیخ صاحب کا ایسا استدلال درست نہیں کیونکہ اس جگہ شیخ صاحب نے ساری عبارت درج نہیں کی.ورنہ اس جگہ تو حضور کی مراد یہ ہے کہ سب مسلہ تو یہ سلسلہ موسویہ پر سبزئی فضیلت رکھتا ہے نہ کہ آپ حضرت علی علیہ السلام پر جتوئی فضیلت رکھتے ہیں لیکن اگر بالعرض شیخ مصری صاحب کے استدلال کو کسی حد تک درست بھی سمجھ لیا جائے تو ہمارا جواب یہ ہے کہ حقیقۃ الوحی کی زیر بحت عبارت

Page 114

۱۱۴ میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی جزئی فضیلت کے عقیدہ پر جو ایک غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے قائم نہ رہنے اور اس کے متناقض یہ عقیہ اختیا کو نا تسلیم فرمایا ہے کہ خدا نے اس امت سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے" لہذا جب حضرت اقدس نے خود ان دونوں عقیدوں میں تناقض تسلیم فرما لیا ہے تو اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ پہلے عقیدہ یعنی ایسی جزئی فضیلت کا عقیدہ ہو ایک غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے آپ نے بالکل ترک فرما دیا تھا لہذا اس عقیدہ کے ترک کر دینے کے بعد یہ محال ہے کہ حضرت اقدس اس سے اگلے مہینہ میں ہی حضرت عیسی علیہ السلام پر پھر اپنی ایسی ہی جتوئی فضیات قرار دے دیا ہو ایک غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے.پس اگر اپنی تمام ستان میں حضرت عیسی علی دات کام سے بہت بڑھ کر ہونے کو ریونیو مئی نشاہ کی محولہ عبارت میں بقول شیخ مصری صاحب حضرت اقدسی نے حضرت عیسی علیہ السلام پر اپنا تخصیات جزئی ہی قرار دی ہے تو تب دینی عقیدہ کے بعد اس ہوائی فضیلت کا مفاد یہ ہوگا کہ یہ ایسی ہوئی فضیلت نہیں جو ایک غیر دنیا کو نہی پر ہو سکتی ہے بلکہ یہ ایسی ہوئی تحسینت ہے جو عرف ایک نبی ہی کو نبی پر ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں عقیدوا، ہمیں میں اقض کا وجود ضروری ہے.پیس اس صورت میں ہوئی فضیلت کی دو قسمیں باہم متضاد متبائن

Page 115

lla بلکہ متناقض ماننی پڑیں گی.ایک قسم جوئی فضیلت کی تو ایسی ہوگی جو صرف ایک غیر نبی کو ایک نبی پر بھی ہو سکتی ہے.اور دوسری قسم ایسی ہوئی فضیلت کی ہوگی جو صرف ایک نبی کو دوسرے نبی پر ہو سکتی ہے.پس مئی سنہ کے ریویو میں مذکورہ جوئی فضیلت دوسری قسم کی ہی قرارد کی بجائے گی کیونکہ پہلی قسم کی جزئی فضیلت کے عقیدہ پر جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے ، حضرت اقدس نے قائم نہ رہنے کا اعلان فرما دیا ہے اور اس کی جگہ اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ رات سلام سے بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ اختیار کیا ہے.اور اس عقیدہ کو پہلے عقیدہ سے متناقض قرار دیا ہے جس کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ یہ ایسی فضیلت ہے جو صرف ایک نبی کو نبی پر ہوسکتی ہے.نہیں ریویو کی عبارت بہت سی باتوں میں حضرت جیسے عید است الزام ہے بڑھ کہ ہونے ہے، ایک نبی کی دوسرے نبی پر بہت سی باتوں میں فضیلت مراد ہو گی.اور بہت کا باتوں سے بہت سی جزئیات مراد لے کر اسے صرف دوسری قسم کی ہی جوئی فضیلت کہنا جائز ہوگا جو ایک نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.اب خواہ اس فضیلت کو ایسی جزئی فضیلت قرار دیا جائے جو ایک نہی کو نبی پر ہو سکتی ہے یا اسے اپنی مجموعی شان میں ایک نی سے بڑھ کر ہونے کے معنوں میں پہلی قسم کی جزئی فضیلت کے مقابلہ میں کی فضیلت کا نام دیا جائے.دونوں صورتوں میں حضرت اقدس نبی قرار پاتے ہیں اور شان نبوت ، دریعہ نبوت ، نفیس نبوت یا نبوت مطلقہ کے لفظ سے زمرہ انبیاء میں داخل قرار پاتے ہیں نہ کہ محض زمرہ اولیاء میں.

Page 116

×114 فَتَدَبَّرُوا يَا أُولِي الالباب اصل حقیقت پس حضرت اقدس کی ریویو مئی سنہ کی عبارت کے متعلق جناب مصری صاحب کے استدلال کو بالقرض تسلیم کرنے کی صورت میں بھی حضرت اقدس کو زمرہ انبیاء کا فرد مانا پڑتا ہے.لیکن اصل حقیقت جیسا کہ میں پہلے ذکر چکا ہوں یہ ہے کہ شیخ مصری صاحب نے ریویو مٹی شار کی عبادت پوری درج نہیں کی.پوری عبارت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس جگہ حضرت اقدس علیہ السلام سلسلہ موسویہ اور سلسلہ محمدیہ کا تقابل پیش فرما رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ جس طرح مشیل موسی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موسی علیات کام سے بہت سی ہاتوں میں بڑھ کر ہیں اسی طرح مثیل عیسی یعنی مسیح موعود بہت سی باتوں میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بڑھ کر ہیں.پس مثیل موسیٰ چونکہ نبی ہوتے ہوئے بہت سی باتوں میں حضرت موسی علیہ اسلام سے بڑھ کر ہیں.اسی طرح مثیل عیسی بھی نبی ہو کہ بہت سی باتوں میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بڑھ کہ قرار پاتے ہیں.یہ تقابل پیش کر کے حضرت اقدس کا اسے جزئی فضیلت قرار دینا در اصل سلسلہ محمدیہ کی سلسلہ موسویہ پر تنزئی فضیلت قرار دیتا ہے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موسے علیہ السلام پر جزئی فضیلت یا مسیح موعود کی عیسی علیمات لام سے جوئی فضیلت قرار دیتا.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی موسی علیہ السلام پیر کلی تفضیلات تو شیخ صاحب کو مسلم ہے اور جب میسج موجود اس عبارت میں اسی طرح

Page 117

115 مثیل میسی قرار دیئے گئے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موئے قرار دیئے گئے ہیں تو آپ کی فضیت بھی حضرت عیسی علیہ السلام پر کئی ہو گئی اس لئے آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ خدا نے اس امت سے مسیح موعود بھیجا ہو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے.خلاصہ کلام وہ ہے کہ اس عبارت میں پہلے دونوں سلسلوں کی مماثلت کا ذکر ہے، اور آخر میں جوئی فضیلت کا ذکر ہے.لہذا اس سے مراد محمدی مسلسلہ کی موسوی سلسلہ پر جتوئی فضیلت ہے.چنانچہ حضور تھر یہ فرماتے ہیں :- میں مسیح محمدی ہوں اور وہ (عیسی مسیح موسوی تھا.خدا کی تقدیر نے یہ مقرر کیا تھا کہ اسرائیلی سلسلہ کے آخر میں میں کی شریعت کی ابتدا موشی سے ہے ایک میسج آونے اور اس کے مقابل پہ یہ بھی مقدر تھا کہ اسماعیلی سلسلہ کے آخر میں بھی جس کی شریعت کی ابتدا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ایک میسج آوے.سو ایسا ہی ہوا.موسیسے خدا کا بندہ اسرائیل کے لئے شریعت لایا.خدا کو معلوم تھا کہ موسیٰ سے قریباً چودھویں صدی پر بنی اسرائیل شریعت کے حقائق اور رموز کو چھوڑ دیں گے اور نیز اخلاقی حالت ان کی بہتے ایتر ہو جائے گی.سو اسی غرض سے خدا نے حضرت موسیٰ سے چودھویں صدی پر مسیح ابن مریم کو پیدا کیا اور اس ملک میں نہیں

Page 118

HA میں جس میں بنی اسرائیل کی سلطنت بھی باقی نہیں رہی تھی مو جب توریت کتاب استثنا کے وعدہ کے مطابق دنیا میں مثیل موسی آیا یعنی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تو بندا نے آپ کے بعد بھی جب چودھویں صدی پہنچی تو پہلے مسیح کی مانند ایک میسج پیدا کیا اور وہ میں ہوں.اور جس طرح مثیل موسیٰ بہت سی ہاتوں میں موسی سے بڑھ کر ہے ایسا ہی مثیل مینی بھی بہت سی باتوں میں عیسی سے بڑھ کر ہے اور یہ جوئی فضیات ہے ریعتی سلسلہ مجموریہ کی سلسلہ موسویہ پر ناقل) جس (سلسلہ ناقل) کو بھدا چاہتا ہے.دیتا ہے".د ریویو - مئی ۱۹ شیخ صاحب ! یہ محال ہے کہ حضرت اقدس حمزئی فضیلت کے عقید کو تو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.تبدیل کر لینے کے ایک ماہ بعد ہی حضرت پیسے خلیات سلام پر اپنی ایسی ہی جوئی فضیلت کا ذکر کرنے لگیں جو غیر بنی کو نبی پہ ہو سکتی ہے کیونکہ حضرت اقدس نے اس جن کی فضیلت کے عقیدہ کو ترک کر کے اس کے بجائے اس کی نقیض اپنی تمام شان میں حضرت پیسے علیا اس کام سے بڑھ کر ہونے کا عقیدہ اختیار کر لیا ہے اور ریویو مٹی شاہ کی زیر بحث عبادت میں اپنا اسی طرح عیسی علیہ استلام سے بڑھ کر ہونا بیان کیا ہے.جس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے موسی علیہ السلام سے بڑھ کو ہونے کا ذکر فرمایا ہے.لہذا اس جگہ اس تشبیہ میں میں طرح نہی

Page 119

119 ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مو سے علیہ السلام سے بہت سی باتوں میں کر ہیں.اسی طرح میسیج موجود بھی نبی ہو کر عیسی علیہ اس کام سے بہت سی باتوں میں بڑھ کر ہوئے کیونکہ اس تشبیہ میں دونوں کے بہت سی باتوں میں بڑھ کر ہونے کا ذکر ہے.اور ایک نبی جب دوسرے نبی سے بہت سی یا توں میں بڑھ کر ہو تو اسے کلی فضیلت ہی قرار دیا جاتا ہے بچنا نچہ انے شیخ صاحب ؟ خود آپ نے اپنے مضمون میں اس عبارت کو زیر بحث لاتے ہوئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسے ملیہ اسلام پہ بہت سی باتوں میں فضیلت کی فضیلت ہی قرار دی ہے.پس یہ دونوں امر اس بات کے لئے قرینہ ہیں کہ ریویو مئی 119 کی عبارت میں " یہ جزئی فضیلت ہے جس کو خدا چاہتا ہے دیتا ہے" کے الفاظ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی موسے تعلیہ السلام پر اور حضرت میسج موعود علیہ اسلام کی حضرت عیسی علیہ السلام پر جوئی فضیلت مراد نہیں بلکہ سلسلہ اسما عیلی (سلسلہ محمدیہ) کی سلسلہ اسرائیلی (سلسلہ موسویہ) پیر بزئی فضیلت مراد ہے.کیونکہ مقصود اس عبارت کا دونوں سلسلوں میں مماثلت ثابت کرنا ہے.اور یہ مماثلت ثابت کرنے کے لئے آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل موسی ہونے اور اپنے مشیل نفیسی ہونے کا ذکر فرمایا ہے اور دونوں سلسلوں کی مماثلت میں جوئی فضیلت کا ذکر کیا ہے.پس یہ سلسلہ کی سلسلہ پر جتوئی فضیلت ہے.چونکہ سلسلہ موسویہ کے تمام خلفاء کی جزئیات (افراد) نہیں تھیں اور سلسلہ محمدیہ کے تمام مخلفاء کی بہت نیست

Page 120

نبی نہیں بلکہ اس وقت تک مسیح موعود ہی نبی ہیں اس لئے یہ ایک مسلہ دوسرے سلسلہ پر جزئی فضیلت ہی ہو سکتی ہے.مگر واضح رہے کہ سلسلہ محمدی کی یہ جوئی فضیلت بھی شان میں ہزار درجہ بڑھ کر ہے کوئی معمولی درجہ کی جزئی فضیلت نہیں کیونکہ حضرت اقدس کشتی نوح صفحہ ۳ پر تحریر فرماتے ہیں.اب محمدی سلسلہ موسبونی سلسلہ کے قائمقام ہے مگرشان میں ہزار درجہ بڑھ کو مثیل موسی جوسی سے بڑھ کر اور مشیل عیسی عیسی سے بڑھ کر نبوت محمدیہ کا نظل قوت شیخ مصری صاحب نے یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ حضرت اقدس علیہ السلام بھی ہے نہ کہ محض ولایت کو کئے گئے طور پر نبی کو تمام صفت نبوت کامل طور پر پانے کی وجہ سے ملا ہے.پھر آپ کی نبوت کو محض ولائیت قرار دینے کے لئے حضرت اقدس کی کتاب " لجہ النور" کی ایک عبارت کا غلط ترجمہ پیش کر کے سہارا تلاش کرنے کی کوشش کی ہے.چنانچہ شیخ صاحب لحة النور" کی عبارت ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں.قد اتَّفَقَ أَهْلُ الْقُلُوبِ عَلَى أَنَّ الْوَلَايَةَ ظِلُّ النبوة".نا صل عبارت " ظل النبوة " نہیں بلکہ " ظل النبوة " ہے.خیر! شیخ صاحب اس عبارت کا ترجمہ یہ لکھتے ہیں کہ تمام اہل دل اس بات پر متفق ہیں کہ نبوت کا ظل ولایت

Page 121

ہوتی ہے" (روح السلام صفحه (۳) شیخ صاحب یہ ترجمہ کر کے بتانا چاہتے ہیں کہ نبوت کا ظل محقق ولائت ہی ہوتی ہے.لیکن شیخ صاحب کا یہ ترجمہ بالکل غلط ہے.صحیح ترجمہ اس عبارت کا یہ ہے.ܽܝ تمام اہل دل اس بات پر متفق ہیں کہ ولایت نبوت کا طبل ہے ا نہ کہ نبوت کا طلح ولایت ہے ) ان دونوں ترجموں کے مفہوم میں بعد المشرقین ہے.شیخ صاحب کے ترجمہ سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبوت کا فعل صرف ولائیت ہی ہوتی ہے.یعنی نبوت کا ظل نبوت نہیں ہو سکتی.احمد ہمالیہ سے تر جمہ سے ظاہر ہے.ولائت نبوت کا ظل ہوتی ہے جس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ ہر نبی کا خلیل محض دلی ہی ہوتا ہے کیونکہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا طلق نبی بھی ہوتا ہے.ترجمہ کو شیخ صاحب نے اس طرح بگاڑا ہے کہ الولایة کے لفظ کو جو اس عبارت میں ان کا اسم ہے اپنے ترجمہ میں خیر بنا دیا ہے اور قلبی للبوة کو جو اصل جملہ میں خبر ہے ترجمہ میں مستندا بنا دیا ہے تاکہ اس غلط ترجمہ سے وہ اپنے مضمون پڑھنے والوں کے یہ ذہن نشین کرائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک ہر نبی کا ظل صرف ایک ولی ہی ہوتا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام خاتم انیشتین کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ :.اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم

Page 122

١٢٢ بنایا یعنی آپ کو افاضہ کہاں کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو بہ گز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبییسی ٹھہرا.سیتی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے.یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی" د حقیقة الوحی حاشیه صفحه ۱۹۷۰ پس حضرت مسیح موعود کے نزدیک ، آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم یو بعد تھا تم النبیین ہونے کے صرف ولی تراش ہی نہیں بلکہ نبی تراش بھی ہیں اور نبی تراش ہونے کی قوت قدسیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ باقی انبیاء کا خل تو صرف ولی ہی ہو تا تھا کیونکہ ان میں سے کوئی نبی خاتم امنیت تین نہ تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بوجہ خاتم النبی تین ہونے کے تمام انبیاء سے یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ کی پیروی سے آپ کی مطلقیت میں نہ صرف ہزار ہا اولیاء اللہ ہی پیدا ہوئے بلکہ ایک وہ بھی ہوا تو ایک پہلو سے امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی ہے اور وہ مسیح موعود ہے چنتا ہے حضرت مسیح موعود علی ایست نام مسلمانوں کے ذکر میں مندرجہ بالا عبارت کا خاتمہ ان الفاظ پر فرماتے ہیں :- نعود بعد میں پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت میں اسرائیلی نبیوں کے نشاید لوگ پیدا ہوں گے اور ایک ایسا ہو گا جو ایک پہلو سے نہی ہے حق تمہارا

Page 123

۱۲۳ اور ایک پہلو سے استی.وہی سے موجود کہلائے گا " (حاشیہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۰۱) پھر حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۸ پر تقریر فرماتے ہیں :- بھر اس (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں.ایک وہی ہے جس کی مدر سے ایسی نبوت بھی میں سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے " اور اسی جگہ معاشیہ میں یہ تحریر فرماتے ہیں :- اس امت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت اللہ سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے نبی بھی " د شقیقة الوحی حاشیه مشهد در خود جناب مصری صاحب کو اپنے اس مضمون میں مسلم ہے کہ حضرت اقدس کو نبی کا نام نبوت کی صفت کامل طور پر حاصل کرنے کی وجہ سے ملا ہے اور یہ بھی انہیں مسلم ہے کہ حضرت اقدس سے پہلے امت محمدیہ کے اولیاء اللہ کو نبی کا نام اس لئے نہیں ملا کہ انہیں صنفت نبوت کامل طور پر حاصل نہ تھی.چنانچہ وہ تحریر کرتے ہیں :.لانی کا نام جو اور کسی ولی کو امت محمدیہ میں.ناقل ) نہیں دیا گیا اور حضرت اقدس کو ہی دیا گیا.وہ (حضرت علیمی علی است سلام سے، ناقل حوثات نام کی وجہ سے بھی دیا گیا.کیونکہ نام کسی صفت کے کمال پر ہی بیا کو ملتا ہے.روح اسلام ، صفحہ ۳۳) ز با

Page 124

۱۲۴ خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا مل کو آنحضر صلے اللہ علیہ وسلم کی خاتم انیتین کی مہر کے فیض سے مقام ولائت کے علاوہ مقام نبوت بھی خدا تعالے کی طرف سے عطا ہو سکتا ہے پس بے شک ولایت نبوت کا فسق ہے لیکن تقویت تامہ کا ملہ محمدیہ کے فیض سے ولائت کے مرتبہ سے بڑھ کر مقام نبوت بھی مل سکتا ہے.کیونکہ خاتم انبیت مین صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم کو حضرت مسیح موعود نے نبی تراش بھی قرار دیا ہے.جناب مصری رضا بابا نبی تراش سے مراد ولی تراش نہیں اسی مدت میں عبارت آپ نبی تراشی سے مراد ولی تراش ہرگز نہیں لے سکتے.کیونکر اس صورت میں تمام انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف ماتم انیشتین میں شریک ہو جاتے ہیں.کیونکہ ولی تراش تو تمام انبیاء تھے مگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو حضرت مسیح موعود نبی تراش قرار دیتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ سے قوت قدسیہ اور کسی نبی کو نہیں ملی" (حقیقۃ الوحی است) پس حضرت مسیح موعود علی اسلام کو امت محمدیہ کے اولیاء اللہ میں سے ایک امتیاز حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ اتنی بھی ہیں اور نبی بھی اور امتی نبی بھیجنے امتی ولی نہیں کیونکہ اولیاء اللہ تو امت محمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک ہزار ہا ہوئے ہیں.اور ایک پہلو سے

Page 125

ira نبی اور ایک پہلو سے امتی صرف ایک ہی ہوا ہے جو مسیح موعود ہے.پس خاتم النبیین کے معنی نبی تراش کا مفہوم ولی تراش ہرگز نہیں ہو سکتا.لہذا خاتم انبیت من صلے اللہ علیہ وسلم کی نقلیت میں حضرت مسیح موعود نبی ہیں.اور مصری صاحب کا یہ خیال باطل ہے کہ نبوت محمدیہ کا حل بھی محض دلی ہی ہوتا ہے.وجوه فضيلت شیخ مصری صاحب نے اپنے اس مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے حضرت عیسی علیہ اسلام سے اپنی تمام شان میں افضل ہونے کی پانچ وجوہ لکھی ہیں.ہر وجہ کو انہوں نے شبق کے عنوان کے تحت لکھا ہے.اور ہر شق کے خاتمہ پر یہ لکھا ہے کہ حضرت اقدس نے اپنے نبی ہونے یا اپنی نبوت کو وجہ فضیلت نہیں بتلایا.حالانکہ نبوت کی وجہ فضیلت کو دیگر وجوہ فضیلت بیان کرتے ہوئے ہر فضیلت کے ذکر کے ساتھ دہرانا ضروری نہ تھا کیونکہ نبوت کا فضیلت کی وجوہ میں دخل ایک مرتبہ سائل کے جواب کے پہلے حصہ میں اور دوسری مرتبہ جواب کے آخری حصہ میں بیان فرما چکے ہیں اور درمیان میں دیگر وجوہ فضیلت بیان کی ہیں بچنا نچہ سائل کے سوال کے جواب والی عبارت کے پہلے حصہ میں ہی حضرت اقدس نے بتایا ہے کہ آپ نے فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی بارش کی طرح وحی

Page 126

الہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے پر کی ہے (ملاحظہ ہو حقیقہ اوجی صفح ۱۴۹ (۱۵۰) اور اسی طرح مسائل کے سوال کے جواب کے خاتمہ پر تحریر فرمایا ہے :- بو شخص پہلے میسیج کو افضل سمجھتا ہے اس کو نصوص سر یقیہ اور اور قرآنیہ سے ثابت کرنا چاہیئے کہ آنے والا مسیح کچھ چیز ہی نہیں نہ نبی کہلا سکتا ہے نہ حکم ہو کچھ ہے پہلا ہے.نہ د حقیقة الوحی صفحه ۱۵۵) پس دو جگہ حضرت اقدس نے اپنے جواب میں اپنی تمام شان میں حضر میں علیہ السلام سے افضل ہونے میں اپنی نبوت کا دل بھی بیان فرما دیا ہے.لہذا شیخ مصری صاحب باقی وجوہ فضیلت بیان کرتے ہوئے ہر شق پر ایسا نوٹ دے کر کہ حضور نے اپنے نبی ہونے یا نبوت کو وجہ فضیلت نہیں بتلایا.اس جگہ یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ گویا حضور نے حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے میں اپنی نبوت کا وغل قرار نہیں دیا.شق اول کے طور پر شیخ مصری صاحب نے حقیقة الوحی تنها کی یہ عبارت درج کی ہے :- اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مسیح ابن مریم آخری خلیفہ موسی علیہ السلام کا ہے اور میں آخری خلیفہ اس نتیجے کا ہوں جو خیرا ارسال ہے.اس لئے خدا نے چاہا کہ مجھے اس سے کم نہ رکھے "

Page 127

فضیلت پیش کرنے کے ساتھ ہی شیخ صاحب لکھتے ہیں.اس میں اپنی شان خیر الرسل حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آنوی خلیفہ چھونا بتلائی ہے لیکن نبوت نہیں بتلائی" (روح اسلام صفحہ ۱۴) لانکہ اس عبارت سے پہلے حضرت اقدس علیہ السلام بارش کی طرح وجی انہی سے نبی کا خطاب پانے کو فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی کا باعث قرار دے چکے ہیں.دوسری شق میں شیخ صاحب حقیقت الوحی کے اس سفر کی یہ بات پیش کرتے ہیں :- " بین خدا دکھلاتا ہے کہ اس رسول کے ادنی تقادم اسرائیلی مسیح ابن مریم سے بڑھ کر نہیں (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۰) اس کے بعد مصری صاحب یہ نوٹ لکھتے ہیں :- ان الفاظ میں بڑھ کر ہونے کی وہ حضرت نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا اونے تقادم ہونا ہی بتائی ہے نہی ہوتا نہیں بتلائی.روح اسلام صفحہ ۱۷) حالانکہ جب حضرت اقدس اس سے پہلے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے کو فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی موجب قرار دے چکے ہیں تو پھر دوسری وجوہ فضیلت کے بیان پر نبوت کے فضیلت میں دخل کے جب ان کو دہرانے کی ضرورت نہ تھی.

Page 128

۱۳۸ شیخ صاحب کا اس جگہ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اس عبارت میں محض اور نئے خادم ہونے کہ وجہ فضیلت بیان کیا گیا ہے بلکہ وجہ فضیلت تو دراصل اس سے پہلی متصلہ عبارت میں مذکور ہے جو یہ ہے کہ :- وہ سمان پر بخدا تعالے کی غیرت عیسائیوں کے مقابل پر بڑا جوش مار رہی ہے.انہوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شان کے مخالف وہ توہین کے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ قریب ہیں کہ اُن سے آسمان پھٹ جائیں." پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضرت عیسی علیہ اسلام سے بڑھ کر ہونے کی وجہ اس عبارت میں عیسائیوں کے بالمقابل خدا کی وہ غیرت اور جوش قرار دیئے گئے ہیں تو عیسائیوں کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے نتیجہ میں ظاہر ہوئے.اسی غیرت اور جوش کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اد نئے تصادم کے در جیر کو بلند کر کے حضرت علی سے علیہ اسلام سے افضل قرار دے دیا ہے اور خدا عیسے جب کسی کو کسی سے بہت بڑھ کر قرار دیتا ہے تو اسے در حقیقت فضل بنا بھی دیتا ہے.تیسری شق میں شیخ صاحب نے حقیقۃ الوحی صفحہ 100 کی یہ عبارت نے الوی صفوراہا پیش کی ہے.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جبکہ مجھ کو دنیا کی اصلاح کے لئے ایک مخدمت سپرد کی گئی ہے اس وجہ سے کہ ہمارا آق اول

Page 129

۱۲۹ مخدر وقتم تمام دنیا کے لئے تھا تو اس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے وہ قوتیں اور طاقتیں بھی دی گئی ہیں جو اس بوجھ کے اٹھانے کے لئے ضروری تھیں اور وہ معارف اور نشان بھی دیئے گئے بین کا دیا جاتا اتمام حجت کے لئے مناسب وقت تھا مگر ضروری نہ تھا کہ حضرت عیسی علیا اس نام کو وہ معارفت اور نشان دیئے جاتے کیونکہ اس وقت ان کی ضرورت نہ تھی “ حقیقة الوحی صفحه ۱۵۱ اس عبارت کی رو سے شیخ صاحب نے تین وجوہ قضیات بتائی ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ اس عبارت میں اپنے افضل ہونے کی تین وجوہ بتلائی ہیں.اول.تمام دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہونا.دوم - اس خدمت کے مناسب حال قوتوں اور طاقتوں کا دیا جاتا.سوم تمام دنیا پر اتمام حجت کے لئے معارف و نشانوں کا ملتا " ر روح اسلام صفحہ ۱۷) شیخ صاحب نے اس کے آخر میں پھر یہ نوٹ دیا ہے کہ احباب کرام غور کر لیں کہ نبوت کو افضلیت کی وجہ کہیں بھی نہیں بتلائی " ( نقل مطابق اصل - ناقل) (روح اسلام فی حد ہے کہیں بھی نہیں بتلائی" کے الفاظ تو سراسر غلط بیانی پر مشتمل ہیں کیونکہ

Page 130

حضرت اقدس علیہ السلام نبی ہونے کا اپنی فضیلت میں وصل حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۹ ۱۵۰ا پر بھی بیان کر چکے ہیں.اور آگے چل کو صفحہ ۱۵۵ پر کبھی بیان فرماتے ہیں حتیٰ کہ خود شیخ مصری صاحب کو صفحہ 100 کی عبارت سے مجبور ہو کہ بالا آخر حضور کی نبوت کا فضیلت میں دخل ماننا ہی پڑا ہے.اس کی تفصیل آگئے مصری صاحب کا اعترات حقیقت " کے عنوان کے تحت میان ہوگی ( انشاء اللہ تعالے) چوتھی شق میں شیخ صاحب نے حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۵۳ کی ایک عبارت پیش کی ہے جس کا آخری فقرہ یہ درج کیا ہے:.کیا انیس قادر مطلق نے حضرت عیسی علیہ السلام کو پیدا کیا وہ ایسا ہی ایک اور انسان یا اس سے بہتر پیدا نہیں کر سکتا ؟ اور اس کے بعد یہ نوٹ دیا ہے:.دیکھ لیجئے ! اس تحریر میں بھی نبوت کو افضلیت کی وجہ ہرگز بیان نہیں کی نقل مطابق اصل.ناقل ) و (روح اسلام صفحه ها) حالانکہ خود یہ عبارت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بنی ہونے پر روشن دلیل ہے کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام سے جو ایک بیٹی ہیں بہتر وہی ہو سکتا ہے جو خود بھی نہی ہو.اور آیت کریمہ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ کے مطابق نبوت کے ساتھ وہ ایسے خاص فضائل کا حامل بھی ہو جو حضرت پہلے علیہ اس کام کو حاصل نہیں تھے

Page 131

۱۳۱ شیخ صاحب ! حضرت اقدس کی اس عبارت میں درج شدہ سوالی کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ خدا تعالے قادر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جیسا یا اُن سے بہتر انسان پیدا کر سکے.نہیں حضرت علی علیدات سلام سے بہتر وسی ہو سکتا ہے جو نبی بھی ہو اور اس کے علاوہ بعض ایسے فضائل بھی رکھے جو حضرت عیسی علیہ السلام کو حاصل نہ تھے.لہذا اس عبارت میں جب حضرت اقدس نے استفہام استخباری کے طور پر خدا تعالے کی قدرت مطلقہ کو آپ کے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہونے کی وجہ قرار دیا ہے تو پھر نبوت کے بغیر آپ حضرت کیلئے علیہ السلام سے بڑھ کر کیسے ہو سکتے ہیں.پس تعدا تعالے کی قدرت مطلقہ سے یہ بعید نہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے نقل کامل کو نبی قرار دے اور وہ اپنی نبوت میں حضرت عیسی علیہ السلام سے کم درجہ کا نہ ہو.بلکہ نفیس نبوت میں مساوی ہو.اور دیگر وجوہ فضائل میں افضل ہونے کی وجہ سے حضرت حسینی علیمی سلام سے اپنی مجموعی شان میں بہت بڑھ کر ہو.پانچویں شق کے طور پر شیخ مصری صاحب نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۴ کی بعد عبادات پیش کی ہے :- تمام نبیوں کے نام میرے نام رکھے مگر مسیح ابن مریم کے نام سے خاص طور پر مجھے مخصوص کر کے وہ میرے پر رحمت و عنایت کی گئی ہے جو اس پر نہیں کی گئی.اس عبارت کو لکھنے کے بعد شیخ صاحب نے یہ نوٹ دیا ہے:.

Page 132

" اس عبارت میں بھی افضلیت کی وجہ نبوت نہیں بتلائی ہے ( روج اسلام صفحہ ۱۷) حالانکہ جب حضرت اقدس پر وہ عنایت اور رحمت کی گئی ہے جو حضرت مسیح پر نہیں کی گئی تو پھر نبوت پانے کی عنایت و رحمت سے ایک محروم قراند نہیں دیا جا سکتا.کیونکہ اس عبارت سے پہلے صفحہ ۱۲۹ ۱۵۰۰ میں اور اس عبارت کے بعد صفحہ ۱۵۵ میں دو جگہ فضیلت کے بیان میں حضور نے اپنی نبوت کا دشغل قرار دیا ہے.شیخ صاحب نے اس شق کے بعد شیق یا کا عنوان قائم کئے بغیر حقیقت الوحی صفحہ ۱۵۴ و ۱۵۵ کی ایک عبارت نا مکمل صورت میں پیش کر دی ہے.افسوس ہے کہ شیخ صاحب کے نفس نے ان کو یہ نامکمل عبارت پیش کرنے سے نہیں روکا.حالانکہ آگے چل کر وہ اس کے بعد کی عبارت سے نبوت کا قضیات میں دخل مانتے پر مجبور ہو گئے ہیں جیسا کہ آگے بیان ہوگا.(انشاء اللہ) شیخ صاحب کی پیش کردہ نامکمل عبارت یہ ہے :- یہودیوںکا عقیدہ ہے کہ دو مسیح ظاہر ہوں گے اور آخری مسیح دیں سے اس زمانہ کا مسیح مراد ہے پہلے میچ سے افضل ہوگا اور عیسائی ایک ہی مسیح کے قائل ہیں مگر کہتے ہیں کہ وہی سیح ابن مریم سجو پہلے ظاہر ہوا آمدثانی میں بڑی قوت اور جلال کے ساتھ ظاہر ہوگا اور دنیا کے فرقوں کا فیصلہ کرے گا اور کہتے ہیں کہ اس قدر جلال کے ساتھ ظاہر ہوگا کہ آید

Page 133

۱۳۳ اول کو اس سے کچھ نسبت نہیں.بہر حال یہ دونوں فرقے قائل ہیں کہ آنے والا جو آخری زمانہ میں آئے گا اپنے جلال اور قومی نشانوں کے لحاظ سے پہلے میسج یا پہلی آمد سے افضل ہے....غرض نہ اہل کتاب اور نہ اہل اسلام اس بات کے قائل ہیں کہ پہلا میچ آنے والے میسیج سے افضل ہے.یہود تو وہ مسیح قرار دے کو آخری میسج کو نہایت افضل سمجھتے ہیں.اور جو لوگ اپنی غلط فہمی سے صرف ایک میسج مانتے ہیں وہ بھی دوسری آمد کو نہایت جلال کی آمد قرار دیتے ہیں اور پہلی آمد کو اس کے مقابل پر کچھ چیز نہیں سمجھتے.پھر جبکہ ندائے اور اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے بیچ کو اس کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے.تو پھر یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں فضل قرار دیتے ہو ؟ " (حقیقة الوحی صفحه ۱۱۵۵۰۱۵۴ یہ نامکمل عبارت پیش کرنے کے بعد جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے کارناموں کو وجہ فضیلت قرار دیا ہے.شیخ صاحب وجوہ فضائل میں پیش کردہ سب عبارتوں کے متعلق یہ بجامع نوٹ دیتے ہیں :- یہ سب عبارتیں اس لئے فضل کی گئی ہیں تا آپ پر یہ روشن ہو جائے کہ ساری بحث حضرت مسیح سے افضل ہونے کی ہے." روح اسلام صفحه (۱۸)

Page 134

۱۳۹۴ گویا شیخ مصری صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ چونکہ ساری بحث صرف افضل ہونے کے متعلق ہے اس لئے حضرت اقدس کی نبوت اس جگہ زیر بحث نہیں.اس لئے نبوت مسیح موعود کا ان عبارتوں میں ذکر نہیں کیا گیا.مگر اس عبادت کے بعد کی عبارت شیخ صاحب نے اپنے مقصد کے خلاف پاکر اس بیگہ سے حذف کر دی ہے.بحالانکہ حضرت اقدس نے اس میں صاف طور پر اپنے حکم اور نہی کہلانے کا حضرت مسیح ناصری علیدات لام سے افضل ہونے میں دخل قرار دیا ہے.چنانچہ شیخ صاحب کی پیش کردہ سے عبارت سے متصلہ عبارت میں حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- عزیز و با جبکہ میں نے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آنے والا صیح میں ہوں.تو اس صورت میں جو شخص پہلے مسیح کو افضل سمجھتا ہے اس کو نصیص حدیثیہ اور قرآنیہ سے ثابت کرنا چاہیے کہ آنے والا میسج کچھ چیز ہی نہیں.نہ نبی کہلا سکتا ہے نہ حکم ہو کچھ ہے پہلتا ہے.خدا نے اپنے وعدہ کے موافق مجھے بھیج دیا.اب خدا سے لڑو.ہاں میں صرف نبی نہیں بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہوں تا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہو“ (حقیقة الوحی متو) دیکھ لیجئے ! اس عبارت میں جو شیخ مصری صاحب کی پیش کردہ و عبارات سے بعد کی مشعلہ عبادت ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے نبی

Page 135

۱۳۵ اور محکم کہلانے کا بھی حضرت پھیلے علیہ السلام سے افضل ہونے میں دخل قرار دیا ہے کیونکہ اس جگہ صاف لکھا گیا ہے کہ جو شخص پہلے میسج کو افضل سمجھتا ہے اس کو نصوص حدیثیہ اور قرآنیہ سے ثابت کرنا چا ہیئے کہ آنے والا مسیح کچھ چیز ہی نہیں.نہ نہیں کہلا سکتا ہے نہ محکم ہو کچھ ہے پہلا ہے؟ حقیقة الوحی صفحه (۱۵۵) پس پھیلی عبارت کے ساتھ ہو شیخ مصری صاحب پیش کر چکے ہیں اس عبارت کو ملا کر پڑھا جائے تو ساری عبادت کا مفاد یہ بنتا ہے کہ جو لوگ حضرت اقدس کو حضرت عیسے علیہ السلام سے افضل نہ سمجھیں ان کی یہ بات تب درست اور معقون ہو سکتی ہے جبکہ وہ قرآن اور حدیث سے دکھاویں کہ آنے والے میسج کا نہ حکم ہونا ثابت ہوتا ہے نہ نبی ہونا، گویا قرآن وحدیث اگر مسیح موعود کے حکم اور نبی قرار دیا جانے سے خاموش ہوں تو پھر ان لوگوں کو یہ کہنے کا حق ہے کہ حضرت اقدس کا حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے افضلیت کا دعوئی درست نہیں.لیکن اگر نصوص حدیثیہ و قرآنیہ سے مسیح موجود حکم اور نبی قرار پاتے ہوں تو پھر آپ کا حکم اور نبی ہونا آپ کے کارناموں کے ساتھ مل کر آپ کو حضرت عیسے علیہ السلام سے افضل ثابت کرے گا.پس حکمیت اور نبوت مع کارنا ہے وغیرہ افضلیت کی وجہ ہوئے.شان حکمیت اور شان نبوت کے بغیر محض آپ کے کارنامے وغیرہ اپنی تمام شان میں افضلیت قرار نہیں پاتے ہیں افضلیت میں آپ کی شان محکمیت تو

Page 136

IPY.شات ثبوت کا دخل بھی اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کیونکہ یہ عبارت بتاتی ہے که اگر حضرت مسیح موعود علیه السلام قرآن و حدیث کی نصوص کے رو سے حکم اور نبی نہ سمجھے جائیں تو پھر باقی وجود فضیلت رکھتے ہوئے بالضرور آپ کا حضرت علی علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کی بجائے کمتر درجہ پر ہونا لازم آئے گا اور اس صورت میں حضرت عیسی علیہ سلام آپ سے افضل قرار پائیں گے.حضرت مسیح موعود ہر گز حضرت عیسی علیہ السلام سے فضل قرار نہیں پائیں گے.نگھی اس نتیجہ کے خلاف شیخ مصری صاحب وجوہ فضیلت سے متعلق اپنے پیش کردہ بیان میں ہمیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعد د نبی ہوئے بغیر حضرت عیسی علیہ اسلام سے افضل ہیں کیونکہ شیخ مصری صاحب نے حضرت اقدس کی پیش کر دو شقوں کی عبادتوں کے بعد بار بارہ لکھا ہے کہ حضرت اقدس نے اپنے نبی ہونے یا نبوت کو وجہ افضلیت بیان نہیں کیا.حالانکہ اصل حقیقت یہ ثابت ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے مضمون کے پڑھنے والوں کے سامنے تحقیقۃ الوحی کی پیش کردہ عبارت اپنے مقصد کے خلاف پا کر ادھوری پیش کر دی ہے اور اس کے اگلے حصہ کو اپنا مضمون پڑھنے والوں سے اس جگہ چھپایا ہے کیونکہ اس میں حضرت اقدس نے اپنی حکمیت اور نبوت کا اپنی فضلیت میں ضروری مقتل قرار دے دیا تھا.اور شیخ مصری صاحب اس جگہ ہی ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ حضرت اقدس کی نبوت کا افضلیت میں کوئی دخل بیان نہیں ہوا.بہر حال ان عبارتوں کو سیاق اور سباق سے الگ پیش کرتے ہوئے شیخ مصری صاحب نے بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت اقدس نے نبی ہونے

Page 137

۱۴۳۷ یا اپنی نبوت کو وجہ فضیلت بیان نہیں کیا.گویا اس طرح آپ کی نبوت کا حضرت عیسی علیہ السلام سے افضلیت میں دخل تسلیم کرنے سے شیخ صاحب نے یا نہ یار انکار کیا ہے.لیکن اللہ تعالی کا تصرف مصری صاحب اعتراف حقیقت ملاحظہ ہو کہ ان عبارتوں کے پیش کرنے اور ان پر بار بار یہ نوٹ دینے کے بعد کہ حضرت اقدس نے نبی ہونے یا نبوت کو وجہ افضلیت قرار نہیں دیا خدا تعالیٰ نے شیخ صاحب کے قلم سے ان عبارتوں کے پیش کرنے کے ۲۲ صفحات بعد ان سے یہ اعترافت لکھا دیا ہے کہ حضرت اقدس نے اپنے منگم اور بنی کہلانے کو بھی ضمنا در فیلیت قرار دے دیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :.اس خلاصہ جواب میں حضور نے اگر چہ اپنے افضل ہونے کی وجہ اپنے کارنامے ہی بتاتے ہیں.لیکن ضمنا نہیں اور حکم کہلانے کا بھی چونکہ ذکر فرمایا ہے اس لئے ان دونوں کا افضلیت بر مسیح ناصری میں کیا دخل ہے اس کو واضح کیا بھاتا ہے “ ( روح اسلام صفحه ۴۰۴ و ۴۳) ان کا یہ اعتراف محض تصرف الہی کا ایک کرشمہ ہے ورنہ وہ تو ثبوت کو وجہ افضلیت نہ قرار دینے پر تلے بیٹھے تھے مگر ان کا دل چونکہ اب ایک غلط خیال ہہ جم چکا ہے اس لئے وہ حضرت اقدس کی نبوت کو وہ افضلیت تسلیم کرنے کے باد جو اب محض رکیک تاویل سے کام لے کہ آپ کی نبوت کو محض محدثیت

Page 138

۱۳۸ قرار دینے کی ناجائز کوشش کرتے ہوئے اسے علی نبوت کا قصہ ٹھہرا کہ ضمت حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہونے کی وجہ قرار دے رہے ہیں.مگر جب محدث خلی ثبوت ناقصہ رکھنے کی وجہ سے ایک نبی کی نبوت کے بالمقابل کمتر درجہ ہی رکھتا ہے تو کمتر یا ناقص در بعد ثبوت ایک کامل درجہ نبوت رکھنے والے نبی کے مقابلہ میں اپنی تمام شان میں افضلیت کی وجہ تو ہرگز نہیں بن سکتا البتہ کمر اور ادنی اور فضل نہ ہونے کی وجہ ضرور ہوتا ہے مگر حضرت اقدس اپنے نبی ہونے کا حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی تمام نشان میں بہت بڑھ کہ ہونے میں دخل بیان فرما رہے ہیں چنانچہ حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ہے کہ جو شخص پہلے مسیح کو افضل سمجھتا ہے اس کو نصوص حدیبیہ قرآنیہ سے ثابت کرنا چاہیے کہ آنے والا مسیح کچھ چیز ہی نہیں.نہیں کہلا سکتا ہے نہ حکم جو کچھ ہے پہلا ہے “ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۵) اور گور یا اگر مسیح موعود حکم اور نبی نہ ہوں تو ثابت یہ ہوگا کہ آپ میل سے عا عید اسلام کے مقابلہ میں افضل تو کجا کچھ چیز ہی نہیں چہ جائیکہ آپ نبی ہوئے بغیر حضرت یسے علیہ السلام سے جو ایک کامل نہی ہیں ، افضل ہوں.چنانچہ خود شیخ مصری صاحب بھی اپنے اسی مضمون میں حضرت میئے علیات سلام کی مستقلہ نبوت کے مقابلہ میں حضرت اقدس کی ظلی نبوت کمتر در جعد کی ہی قرار دے چکے ہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :- ر مسیح ناصری خود مستقل رسول ہونے کی وجہ سے مستقل

Page 139

۱۳۹ حیثیت رکھتے ہیں اس لئے اس ایک امر میں حضرت مسیح ناصری حضرت مسیح موعود سے بڑھ کر ہیں " د روح اسلام صفحه ۲۰) لہذا اگر حضرت اقدس کی ظلی نبوت حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت سے کم درجہ کی قرارد کی جائے تو یہ امر حضرت اقدس کے حضرت کیلئے علیہ السلام سے کم درجہ ہونے کی وجہ ہوگی نہ کہ مضمنا فضل ہونے کی وجہ کیونکہ شیخ مصری صاحب خود لکھ چکے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام مستقل رسول ہونے کی وجہ سے منتقل حیثیت رکھتے ہیں اس لئے حضرت اقدس سے اس امر میں بڑھ کر ہیں.مگو اس کے بر عکس حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں کہ "جو شخص پہلے مسیح کو افضل سمجھتا ہے اس کو نصوص حدیثیہ اور قرآنیہ سے ثابت کرنا چاہیئے کہ آنے والا سیے کچھ چیز ہی نہیں.نہ نہیں کہلا سکتا ہے نہ حکم جو کچھ ہے پہلا ہے" (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۵۵) پس شیخ مصری صاحب کا حضرت اقدس کی ظلی نبوت کو حضرت سیئے علیہ السلام کی مستقلہ نبوت سے شان نبوت یا درجہ نبوت میں کمتر درسیہ کی قرار دینا اور پھر اسے حضرت اقدس کے بحضرت جیسے علیہ السلام سے فضل ہونے کی وجہ بھی قرار دے دینا اجتماع نقیضین کو مستلزم ہے جو ایک امر محال ہے.اجتماع نقیضین اس لئے لازم آتا ہے کہ میں امر کو وہ خود کمتر ہونے کی وجہ قرار دے چکے ہیں اسی امر کو پھر فضل ہونے کی وجہ بھی قرار دے رہے ہیں.

Page 140

۱۴۰ شیخ صاحب چونکہ صحیح مسلک کو چھوڑ چکے ہیں اس لئے وہ اب پریشان خیالی میں میتلا ہو کہ نہ پائے رفتن نہ بھائے ماندن “ کے مصداق بن چکے ہیں کیونکہ وہ حضرت اقدس کی مندرجہ بالا تحریہ مندرجہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۵ کے رو سے حضرت فارس کے نبی کہلانے کو ضمنا حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہونے کی وجہ قرار دینے کے لئے بھی مجبور ہیں.لیکن وہ اپنے اس خیال کے ڈر سے کہ حضرت درس زیر انبیاء کا رد قرارنہ پا جائیں آپ کی قلعی نبوت کو حضرت عیسی علیہ اسلام کی مستقلہ ثبوت سے کمتر درجہ کی بھی قرار دینا چاہتے ہیں اور یہ غیر معقول بات ہم سے منوانا چاہتے ہیں کہ حضرت اقدس کی تعلی نبوت ہے تو ظلی نبوت نا قصہ مگر یہ حضرت عیسی علیرات نام کے مستقلہ نبوت رکھنے کے باوجود ان سے آپ کے افضل ہونے کی متمنی وجہ ضرور ہے.ہماری عقل میں تو یہ بات نہیں آتی که کمتر درجہ کی نبوت ایک نبوت کا ملہ رکھنے والے نبی کے مقابلہ میں اس کامل نہی سے افضل ہونے کی وجہ ہو سکتی ہے.ہارا اثر تو یہ ہے کہ شیخ مصری صاحب اس امر میں صریح تضاد بیانی کا شکار ہیں.اگر وہ حضرت اقدس کی ملکی نبوت کو نفس نبوت میں حضرت جینے علیہایت اہم کے درجہ کی مان لیں تو پھر اس صورت میں حضرت اقدس کی نبوت البتہ باقی وجودہ فضائل کے ساتھ مل کر ضمنا حضرت پہلے علیہ اس نام سے افضل ہونے میں دخل رکھ سکتی ہے لیکن اگر حضرت اقدس کی ظلی نبوت کو ناقصہ قرار دیا بھائے اور نفس نبوت اور درجہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت سے مساوی نہیں بلکہ کمتر درجہ کی سمجھی جائے تو پھر حضرت اقدس کی خلقی نبوت ہر گز حضرت

Page 141

جیسے علیہ اس کام سے فضل ہونے کی وجہ ہو ہی نہیں سکتی.شیخ صاحب نبوت کا دخل بیان کرنے سے حکمہ کہلانے کا دخل سے حضرت قدس کے علم کہلانے کا حضرت عینی علی رات سلام سے افضل ہونے میں دخل یوں بیان کرتے ہیں :- محکم کہلانے کو داخل کرنے کی حکمت سمجھنے سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ ہر نبی اور ہر مامور خدا تعالے کی طرف سے حکم بن کر رہی آتا ہے حضرت نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے قبل تمام انبیاء اور تمام مامورین خدا تعالے کی طرف سے حکم ہی تھے.لیکن وہ جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل کامل نبی نہ تھے (گویا حضرت نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے مقابل تمام کے تمام انبیا ء ناقص ہی تھے نا قتل) اسی طرح وہ کامل محکم بھی نہ تھے.کیونکہ وہ صرف اپنی اپنی قوم کے اختلافات کا فیصلہ کرنے والے تھے.تمام دنیا کے اختلافات کا فیصلہ کرنے والے نہ تھے.تمام دنیا کے اختلافات کا فیصلہ کرنے والے صرف ہمارے بنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے نتھنے پر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بے شمار مجددین اور محدثین امت میں پیدا ہوئے اور وہ سب کے سب حکم ہی تھے لیکن ان کا دائی بھی محدود ہی تھا.وہ اپنے اپنے علاقہ میں پیدا شدہ اختلافات کا فیصلہ کرنے والے تھے.ان میں سے کوئی بھی ساری دنیا کے لئے مجدد نہیں تھا کہ وہ ساری دنیا کے اختلافات کا فیصلہ کرتا اور نہ ہی ابھی

Page 142

۱۴۲ ایسا زمانہ آیا تھا کہ تمام امور دینیہ میں اختلافات نمودار ہوں.پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے مسیح اور مہدی کا زمانہ ہی ایسا تھا جس میں اندرونی اور بیرونی اختلافات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر امڈ آتا اور حضرت اقدس کے زمانہ میں ایسا ہی ہوا.حضرت یلئے علیہ السلام بھی بے شک اپنے زمانہ میں حکم تھے لیکن صرف بنی اسرائیل کے لئے نہ کہ ساری دنیا کے لئے.ان کے مقابلہ میں حضرت اقدس اپنے آقا و مطاع حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی طرح ساری دنیا کے لئے مجدد بھی تھے (مگر نبوت ظلیہ کاملہ کے ساتھ.ناقل) اور ساری دنیا کے لئے حکم بھی تھے.اس لئے ان کو تمام دنیا کے اندرونی اور بیرونی اختلافات مٹانے کے لئے وہ معانات اور نشان دیئے گئے جو حضرت مسیح کو بوجہ عدم ضرورت نہیں دیئے گئے جیسا کہ حضور خود حقیقة الوحی صفحہ ۱۵۱ پر افضلیت کی بحث کے ضمن میں فرماتے ہیں.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جبکہ مجھ کو شمام دنیا کی اصلاح کے لئے ایک خدمت سپرد کی گئی ہے اس وجہ سے کہ ہمارا آقا اور مخدوم تمام دنیا کے لئے آیا تھا تو اس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے مجھے وہ قوتیں اور طاقتیں بھی دی گئی ہیں جو اس بوجھ کو اُٹھانے کے لئے ضروری تھیں اور وہ معارف اور نشان بھی دیئے گئے جن کا دیا جانا اتمام حجت کے لئے مناسب وقت تھا مگر ضروری نہ تھا کہ حضرت

Page 143

۱۴۳ عیسی کو وہ معارف اور نشان دیئے جاتے کیونکہ اس وقت ان کی ضرورت نہ تھی " حضرت اقدس کی یہ عبارت پیش کرنے کے بعد شیخ مصری صاحب لکھتے ہیں :.پس حضور کی اس تحریر سے افضلیت بر مسیح میں محکم ہونے کو جو دخل ہے وہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے.گویا افضلیت کی جو وہ حضور نے پہلے تفصیل سے بیان کی آخر میں جواب کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اسی تفصیلی وجہ کو ایک لفظ حکم میں بیان کر دیا (شیخ مصری صاحب یہ کیوں نہیں کہتے ، دو لفظوں حکم اور نبی میں بیان کر دیا کیونکہ نشانات دکھانے کا تعلق تو نبوت سے ہی ہوتا ہے نہ حکمیت سے.ناقل) گویا بالفاظ دیگر یہ بتلایا کہ اگر حضرت مسیح حکم کہلاتا تھا.تو میں بھی حکم کہلا تا ہوں اور میرے حکم کہلانے کی شان حضرت مسیح کے حکم کہلانے کی شان سے بہت بڑھ کر ہے.اس لئے اس لحاظ سے میرا فعل ہونا ثابت ہوتا ہے" ر روح اسلام صفحه ۴۳) شیخ صاحب ! آپ نے جس خوبی سے حضرت اقدس کی نشان کیست بیانی کی ہے اور اس کا حضرت اقدس کی حضرت عیسی علی دات کام بچہ افضلیمت میں دخل بیریان کیا ہے کاش اسی خوبی سے آپ حضرت اقدس کی شان نبوت بھی بیان فرماتے اور اسی طرح اس کا افضلیت برسی میں دخل قرار دیتے اور یوں لکھتے کہ حضرت اقدس نے یہ بتایا ہے کہ اگر حضرت مسیح نہیں کہلاتا تھا تو

Page 144

میں بھی نبی کہلاتا ہوں اور میرے نبی کہلانے کی شان حضرت مسیح بھی ہوں کے نبی کہلانے کی شان سے بہت بڑھ کر ہے “ مگر شیخ صاحب چونکہ آپ حضرت اقدس کو زمرہ انبیاء سے خارج قرار دینا چاہتے تھے اس لئے آپ کو حضور کی نشان نبوت کے اس طرح بیان کرنے کی توفیق نہیں ملی بحالانکہ حضرت اقدس کی تحریہ نہ پر بحث میں حضرت اقدس کے علم اور نبی کہلانے کے دل میں کوئی فرق بیان نہیں کیا گیا.پھر حضرت اقدس کی جو عبارت شیخ صاحب ! آپ نے شان حکمیت کی تشریح میں پیش کی ہے وہ عبارت تو شان نبوت پر بھی مشتمل ہے کیونکہ حضور فرماتے ہیں :.جبکہ محمود کو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ایک خدمت سپرد کی گئی ہے اس وجہ سے کہ ہمارا آقا اور مفروم شمام دنیا کی اصلاح کے لئے آیا تھا تو اس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے مجھے وہ قوتیں اور طاقتیں بھی دی گئیں جو اس بوجھ کو اُٹھانے کے لئے ضروری تھیں اور وہ معارفت اور نشان بھی دیئے گئے جن کا دیا جانا اتھارا حجت کے لئے مناسب وقت تھا مگر ضروری نہ تھا کہ حضرت عینی کو وہ معارف اور نشان دیے جاتے کیونکہ اس وقت ان کی ضرورت نہ تھی" حضرت اقدس کو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے جو خدمت سپرد کی گئی.وہ صرف شان حکمیت پر ہی مشتمل نہیں بلکہ شان مسیحیت اور شان نبوت پر بھی مشتمل ہے اور اتمام حجت کے لئے آپ کو نشانات کا دیا جانا آپ کی

Page 145

۱۴۵ نبوت ہی ہے اور شان محکمیت تو شان نبوت کے بالتبع آپ کو حاصل ہے.پھر یہ شان حکمیت بھی آپ کو خلقی طور پر ہی حاصل ہے.پس جب آپ خلتی حکم ہو کہ شان حکمیت میں حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہیں تو آپ کی شان نبوت ظلیہ کا ملہ بھی ایسی بلندشان حکمیت کے ساتھ مل کر حضرت عیسی علیہ اسلام سے اپنی تمام نشان میں بہت بڑھ کر ہونے کا موجب ہوگی.شیخ صاحب ! آپ نے افضلیت بر شیح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حکمیت کے ساتھ حضور کی نبوت کا بھی ضمنی دخل مان لیا ہے اور حضرت اقدس کی حکمیت اور نبوت دونوں خلتی ہیں.تو جس طرح حضرت اقدس حضرت عیسی علیہ السلام کے بالمقابل فلی طور پر شان حکمیت رکھنے پر ان سے فضل ہیں اسی طرح حضرت اقدس اپنی شان حکمیت کے ساتھ کامل ظلی نبوت کی شان کھنے کی وجہ سے ہی حضرت عیسے عید اس نام سے اپنی تمام شان میں فضل ہیں مگر شیخ صاحب ! آپ ہمیں یہ غیر معقول بات منوانا چاہتے ہیں کہ حضرت اقدس رکھتے تو ظلی نبوت ناقصہ ہی ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت کے مقابلہ میں ایک ناقص درجہ کی نبوت ہے جس کا رکھنے والا آپ کے نزدیک نبی نہیں ہوتا مگر اس ناقص درجہ کی نبوت کا آپ کامل درجہ کی نبوت کے مقابلہ پر ضمنی طور پر کامل نبی سے افضلیت میں دخل بھی قرار دیتے ہیں.آپ کی اس بات کو کون عقلمند مان سکتا ہے کہ نبوت ناقصہ نبوت کا ملہ کے مقابلہ میں ضمنی وجہ فضلیت ہو سکتی ہے.نبوت ناقصہ ، نبوت کا ملہ کے مقابلہ میں کمتر درجہ پر ہونے کی وجہ سے ناقص اور ادنے ہونے کی وجہ تو ہو سکتی ہے، افضال ہونے کی وجہ

Page 146

پر رگڑا نہیں ہو سکتی.بہرحال شیخ مصری صاحب کے نزدیک جو حال ضمنی وجہ افضلیت ہونے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان حکمیت ظلیہ کا ہے وہی حال ہم افضلیت کی وجہ ہونے میں حضرت اقدس کی نبوت خلیہ کا سمجھتے ہیں جس طرح سنضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملکیت کلیہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حکمیت مستقلہ کے مقابلہ میں شیخ مصری صاحب کے نزدیک بہت بلند درجہ کی ہے.اسی طرح حضرت اقدس کی نبوت ظلمیہ اس شان حکمیت کے ساتھ مل کر حضرت جیسے علی است لام کی نبوت مستقلہ سے فضل ہے.شیخ صاحب یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت اقدس طی حکم ظلمی نہیں لہذا ظلی نبوت کا اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حضرت مسیح موعود ه است: مصاف تحریہ فرما پھٹے ہوئے ہیں :- اور کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت و قرب کا بھر بیچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کو ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے علی اور طفیلی طور پر ملتا ہے" ز ازالہ اوہام صفحہ ۱۳۸ ) پس حضرت اقدس کا حکم ہونا بھی جب ایک مرتبہ شرف و کمال ہے تو یہ مرتبہ بھی حضرت اقدس کو ظتی اور طفیلی طور پر ہی ملا ہے.براہ راست بغیر پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ملا.لہذا جب فلتی حکم ہونے میں شیخ مصری صاحب کے نزدیک حضرت اقدس کا مقام حضرت عیسی علیہ السلام سے بلند تر ہے اور نطقی حکومیت کی شان میں شیخ صاحب کے نزدیک حضرت اقدس حضر تحصیلی

Page 147

۱۴۷ علیہ اسلام سے فضل ہیں تو حضرت اقدس کی خلقی نبوت کا ملہ کو حضرت عیسی علیات سلام کی مستقلہ نبوت سے شیخ صاحب کا کم درجہ کی قرار دے کر پھر اس کا حضرت اقدس کے حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں افضل ہونے میں دخل قرار دیتا محض تحکم ہے.چونکہ حضرت اقدس اپنے نبی ہونے کا اپنی تمام شان میں افضل ہونے میں دخل قرار دیتے ہیں اس لئے حضرت اقدس کی شان نبوت حضرت عیسی علیہ السلام کی شان نبوت سے ناقص درجہ کی نہیں ہو سکتی کیو نکہ ناقص درجہ گی شان نبوت ایک کامل نبی کے مقابلہ میں اپنی تمام شان میں فضل ہونے کی ضمنی وجہ ہرگز نہیں ہو سکتی ہر گز نہیں ہوسکتی یا ہر گز نہیں ہو سکتی لیکن شیخ صاحب ہمیں یہی باور کرانا چاہتے ہیں کہ حضرت اقدس ہیں تو محدث اور ناقص نبی مگر آپ کی یا نقص درجہ کی نبوت حصہ بہت عیسی علیہ السلام کے بالمقابل جو کامل بنی ہیں افضل ہونے کی متمنی وجہ ہے.چنانچہ حضرت اقدس کی نبوت کا افضلیت حل بیان کرنے کے لئے نبوت کا دخل شیخ صاحب نبوت کا دخل نہ عنوان قائم کر کے " " یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ حضرت اقدس نے نبی کہلانے کو ضمناً افضلیت کی وجہ کیوں قرار دیا ہے اور اسے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور کمال فیضان ثابت کرنے کا ذریعہ کیوں شہرایا ہے" یہ سوال اٹھا کر شیخ صاحب جواب میں لکھتے ہیں :- اس کی حکمت حضور کی اپنی کتاب چشمہ مسیحی " کے مندرجہ ذیل حوالوں سے واضح ہو جاتی ہے.صفحہ ۱۴ پر حضور لکھتے ہیں :.

Page 148

۱۴۸ پہلا حوالہ : " مجھے کہتے ہیں کہ مسیح موعود ہونے کا کیوں دعوئے کیا.مگر میں سچ سمجھ کہتا ہوں کہ اس نبی کامل کی پیروی سے ایک شخص جیسے سے بڑھ کر بھی ہو سکتا ہے.اندھے کہتے ہیں.یہ کفر ہے.میں کہتا ہوں تم خود ایمان سے بے نصیب ہو.کیا جانتے ہو کہ کفر کیا چیز ہے؟ کثر تمہارے اندر ہے.اگر تم جانتے ہو کہ اس آیت کے کیا معنے ہیں کہ راهْدِنَا الصراط المستقيم صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.تو ایسا کلمہ منہ پر نہ لاتے خدا تو تمہیں ترغیب دیتا ہے کہ تم اس رسول کی کامل پیروی کی برکت سے تمام رسولوں کے متفرق کمالات اپنے اندر جمع کر سکتے ہو اور تم صرف ایک نبی کے کمالات حاصل کرنا کفر بجانتے ہو؟ شیخ مصری صاحب نے اس عبارت سے یہ استنباط کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود حدیث ورثة الانبیاء کے ماتحت حضرت نبی کریم کے واسطہ سے اور آنحضور کا کامل بروز اور کامل قتل ہونے کی وجہ سے ظلمی طور پر تمام انہ یار کے کمالات کے وارث تھے جن میں حضرت عیسے علیہ السلام کے کمالات بھی آجاتے ہیں کیونکہ نبی کریم جامع الکمالات تھے اور حضرت عیسے صرف اپنے ہی کمالات اپنے د روح اسلام صفحه ۱۴۴ بہت خوب! جب بقول شیخ صاحب "چشمہ مسیحی " کی اس عبارت میں اندر رکھتے تھے " حضرت اقدس نے اپنے نبی کہلانے کی افضلیت برسیح ناصری علیہ اسلام میں دخل

Page 149

۱۴۹ رکھنے کی وجہ اور حکمت بیان کی ہے تو وہ وجہ اور حکمت تو بقول ان کے حضرت انس کا فقلی طور پر تمام انبیاء کے کمالات کا جامع اور وارث ہوتا ہی ہوئی بھن نہیں حضرت عیسی علیہ السلام کے ذاتی کمالات بھی آجاتے ہیں.لہذا جب ظلمی طور پر حضرت میسج موعود علیہ السلام کا جامع کمالات انبیاء ہو کہ نبی کہلانا آپ کے اپنی تمام شان میں حضرت مسیح ناصری علیہ اسلام سے فضل ہونے کی وجہ اور حکمت ہے.تو حضرت اقدس کی طلقی نبوت تو پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی مستقلہ نبوت سے کم درجہ کی نہ ہوئی کیونکہ اگر حضرت اقدس کی ظلی نبوت آپ کے فلی طور پر جامع کمالات ہونے کے باوجود بوجہ طلبیت کم درجہ کی ہو تو پھر یہ نبوت حضرت اقدس کے حضرت عیسی علیہ السلام سے کمتر اور اونے اور افضل نہ ہونے کی وجہ تو ہو سکتی ہے اپنی تمام شان میں افضلیت کی وجہ ہرگز نہیں ہو سکتی کیونکہ نقص اور کمی تو بہر حال کمتر ہونے کی وجہ ہی ہو سکتی ہے افضل ہونے کی وجہ نہیں ہو سکتی.شیخ صاحب! آپ خدا را کچھ تو غور کریں کہ آپ کدھر سجارہے ہیں اور ہمیں کیا غیر معقول بات منوانا چاہتے ہیں بیجب آپ کے نزدیک حضرت اقدس نفلی طور پر بجائے کمالات انبیاء ہیں اور ان کمالات میں آپ کی نبوت بھی داخل ہے تو اگر آپ کی نبوت کو ختی نبوت ناقصہ قرار دیا جائے تو پھر آپ کو یہ دعویٰ کرنے کا حق کیسے رہتا ہے کہ ر خدا نے اس امت میں سے پیچ موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے " دیکھنے ! " اپنی تمام شان میں " آپ کی شان نبوت بھی داخل ہے.اگر یہ نشان تبرست حضرت مسیح علیہ السلام کے بالمقابل ناقص درجہ کی ہوتی تو آپ ہر گز یہ دعونی نہ کرتے

Page 150

۱۵۰ کہ آپ اپنی تمام شان میں حضرت جیسے علیہ اسلام سے افضل ہیں.علی نبوت نا قصہ وحید جب حضرت اقدس علی طور پر جانے کا روات کمالات انبیاء ہیں اور ان کمالات ظلیہ میں ناقص افضلیت نہیں ہوسکتی درجہ کے نہیں تو آپ کی علمی نبوت کا کمال حضرت علی سے علی است نام کے کمال نبوت سے کم درجہ کا کیسے ہوا ؟ اور اگر آپ کا یہ کمال کم در بعہ کا ہے تو یہ کم درجہ کا کمال آپ کی حضرت علی علا استسلام سے عمنا افضلیت کی وجہ کیسے ہوا ؟ اس طرح تو حضرت اقدس کا ظلی نبوت ناقصہ کے ساتھ افضلیت بسیج کا دعوی بالکل غیر منقول قرار پاتا ہے مگر شیخ صاحب ! آپ اپنے اس مضمون کے صفحہ ہم پر حضرت اقدس کی نبوت کو ظلی قرار دیتے ہیں تا آپ کو زمرہ اولیاء کا ہی فرد قرار دے سکیں اور اس کا حضرت اقدس کے اپنی تمام شان میں افضلیت بر شیح میں دخل بھی قرار دیتے ہیں.یا للعجب ! دیکھئے آپ لکھتے ہیں :- نافق کی آنے والا میسج بھی محدثین کی جماعت کا ہی ایک فرد تھا لیکن وہ کامل محدث تھا.اس کی مشابہت انبیاء سے نام تھی.دوسر وقت آگیا تھا کہ عظمت اسلام کے اظہار کی مصلحت کو بروئے کار لایا جائے اس لئے اس کے حق میں ظاہراً بھی لفظ نبی کا استعمال جائز کر دیا.لیکن اسی ظلمی نبوت ناقصہ اور بہتر ٹی نبوت محض اخوی معنی والی نبوت مجازی اور استعارہ والی نبوت کے مفہوم میں نہ کہ اسلامی اصطلاح والی نبوت کے مفہوم ہیں " ر روح اسلام صفحه ۴۷۰)

Page 151

میں تیران تھا کہ اسی مضمون میں شیخ مصری صاحب حضرت اقدس کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا کامل پر دنہ اور کامل قبل بھی قرار دے رہے ہیں اور پہلے اولیا کے متعلق آپ کے مقابلہ میں لکھ رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں ان کا حاصل کردہ عکس ناقص ہوا تھا اور حضور کا کیا ہوا عکس اس انتہائی حد تک پہنچ گیا تھا جس انتہائی تک کسی امتی کے لئے اپنے متبوع کا عکس لیتا ممکن تھا " د رورج اسلام صفحه ۱۳۲ تو پھر وہ آپ کی نبوت کو نفتی نبوت نا قصہ کس طرح لکھ رہے ہیں.یہ تو تضاد بیانی ا ہے مگر خدا کا مشکور ہے کہ شیخ نصری صبح کا بھولا شام کو گھر گیا.صاحب نے اپنے ایک بعد کے نمون میں حضرت اقدس کی طلقی نبوت کو انتہائی کمال پر پہنچا ہوا تسلیم کر لیا ہے لہذا اگر صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا ہوا نہیں سمجھنا چاہئیے کی ضرب المثل پر عمل کرتے ہوئے ہم ان کے خود ہی یہ اصلاح کو لینے پر خوش ہیں.دیکھنے شیخ صاحب پیغام ملے " مجریہ اس مہوٹہ کالم سو میں تحریر کرتے ہیں.ستمبر تمام انبیاء علیهم استلام محمد ا ور احمد تو سھتے لیکن یہ دونوں نام صرف حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیئے گئے کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں یہ دونوں صفتیں اپنے انتہائی کمال کو پہنچے گئیں پیس نام ملنے کی حکمت اور ہے اور ظلی نبی ہونا امر دیگر ہے.نام ملنے کی پیش گوئی صرف آنے والے میسج کے لئے ہی تھی.کیونکہ ظلی نبوت

Page 152

۱۵۲ کا انتہائی کمال آپ کے وجود میں ہی متحقق ہونا تھا کیونکہ فیض محمدی سے انتہائی کمال تک وحی پانا اسی کے لئے مقدر تھا کیونکہ اسی کے زمانہ مادہ پرستی میں اس کی ضرورت پیش آتی تھی تا اس کے ذریعہ مادہ پرستی کا سر کھیلا جائے.دیگر اولیاء لعینی فعلی انبیاء کے زمانوں میں اس کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی بچنا نچہ واقعات اس پر شاہد ناطق ہیں کہ فیض محمدی سے جس قدر وحی کا نزول حضرت مسیح موعود پر ہوا تھا اس کا عشر عشیر بھی کیسی اور ولی پر نہیں ہوا (پیغام صلح ۱۵ ستمبر 1 صفحه (۸) الحمدللہ کہ شیخ صاحب نے اپنے بیان میں صاف اعتراف کر لیا ہے کہ حضر مسیح موعود علیہ اسلام کے وجود میں قلی نبوت اپنے انتہائی کمال کے ساتھ متحقق ہوئی ہے کیونکہ فیض محمدی سے انتہائی کمال تک وحی پانے سے امت محمدیہ میں صرف آپ ہی مشرف ہوئے ہیں.آپ سے پہلے کے تمام اولیاء اللہ میں سے جنہیں شیخ مصری صاحب علی انبسیار لکھتے ہیں ان کے نزدیک کوئی ایک ولی بھی ایسا نہیں گذرا جس پر اس وحی کا عشر عشیر بھی نازل ہوا ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر انتہائی کمال کی حد تک نازل ہوئی کیونکہ انتہائی کمال تک دھی پانا شیخ صاحب کے نزدیک صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ہی مقدر تھا.اس سے ظاہر ہے کہ شیخ صاحب کے نزدیک حضرت اقدس سے پہلے اُمت محمدیہ کے اولیاء اللہ ظلی نبوت نا قصہ یہ کھتے تھے اور حضرت اقدس کے وجود میں ظلی نبوت انتہائی کمال کے ساتھ متحقق ہوئی.پس حضرت اقدس علا استلام کا بل ملتی ہی ہوئے اور آپ سے پہلے اولیاء اللہ صرف ناقص نظلی

Page 153

۱۵۳ نبی تھے.لہذا یہ بات طے ہو گئی کہ حضرت اقدس کا ظلی نبی انتہائی کمال کے ساتھ ہونا ہی ضمنا آپ کے حضرت علئے علیہ السلام سے فضل ہونے میں وفضل رکھتا ہے نہ کہ ناقص نکلتی نبی ہوتا تو شیخ صاحب کے نزدیک اولیاء اللہ بھی ہیں.پس ظلی نبوت کا ملہ رکھنے کی وجہ سے ہی حضرت اقدس کو خدا کی طرف سے نی کا نام دیا گیا ہے اور دوسرے اما اولیا اللہ کو ظلی نبوت ناقصہ رکھنے کی وجہے ہی خدا کی طرف سے نبی کا نام نہیں دیا گیا کیونکہ یہ امر شیخ صاحب سلیم کر چکے ہیں :.تی کا نام جو اور کسی ولی کو نہیں دیا گیا اور صرف حضرت اقدس کو دیا گیا وہ رحضرت عیسی علیہ السلام سے.ناقل مماثلت نام کی وجہ سے ہی اگیا.کیونکہ نام کسی صفت کے کمال پر جا کر ہی ملتا ہے" روح اسلام صفحه ۳۳).پس جب حضرت اقدس میں صفت نبوت ظلیہ کا مل طور پر پائی گئی تو آپ کا کامل صفت نبوت علیہ رکھنا دوسرے فضائل کے ساتھ مل کر حضرت اقدس کی حضر عیسی علیہ السلام پر افضلیت میں ضمنا دخل رکھتا ہے نہ کہ ظلی نبوت ناقصہ کیونکہ قص درجہ تو کامل درجہ رکھنے والے کے مقابلہ میں اس سے فضلیت کی وجہ ہو ہی نہیں سکتا.نت (بروا يا اولي الالباب ! شیخ صاحب خدا را تخلیہ میں بیٹھ کر سوچئے اور غور کیجئے.جب آپ کے نزدیک حضرت اقدس کی شان نبوت ضمنا حضرت عیسی علیہ اسلام سے افضلیت کی وجہ ہے تو یہ شان نبوت نفس نبوت میں حضرت عیسی علیات لام سے کم درجہ کی ہر گز نہیں ہو سکتی.ورنہ اپنی تمام مشان میں ” اپنی " کا لفظ بے معنی ہو جائیگا

Page 154

سلام اور اپنی اتمام شان میں حضرت عیسی عد یہ سلام سے فضل ہونے میں جب حضرت اقدس کی شان نبوت کا دخل آپ کو علم ہو چکا ہے تو اس میں اگر آپ حضرت مسیح سے بڑھ کر نہ ہوں تو کم از کم آپ کو مساوی تو ضرور ہونا چاہیئے تا آپ کی نبوت دینگے وجودہ فضائل کے ساتھ مل کر ضمن حضرت عیسی علیہ ارت سلام سے افضلیت کی وجہ بن سکے ورنہ ناقص درجہ کی شان نبوت کامل درجہ کی شان نبوت رکھنے والے نبی کے مقابلہ میں انضلیت کی وجہ تو نہیں ہوسکتی.صرف ناقص اور ادونی ہونے کی وجہ ہی ہو سکتی ہے.دوسرا حوالہ : شیخ مصری صاحب نے دوسرا حوالہ پیشم مسیحی تمنا سے نبوت مسیح موعود کے افضلیت میں دسنل کی وجہ اور حکمت ظاہر کرنے کے لئے یہ پیش کیا ہے :- بهدا مهم اقتده - یعنی تمام نبیوں کو جو ہدایتیں ملی تھیں اُن صعب کا اقتدار کو.پس ظاہر ہے جو شخص ان تمام متفرق ہدایتوں کو اپنے اندنہ جمع کر لے گا اس کا وجود ایک جامع وجود بن سجائے گا اور تمام نبیوں سے وہ افضل ہوگا گویا نہی ہوتے ہوئے جامع الکمالات ہونے کی وجہ سے نقل ہوگا کیونکہ اسی عبارت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا تمام انبیاء کرام پر فضیلت بیان ہو رہی ہے.ناقل ).پھر جو شخص اس نیٹی جامع الکمالات کی پیروی کرے گا ، ضرور ہے قلی طور پر وہ بھی جامع الکمالات ہو.پس اس دعا کے سکھلانے میں ہو سورہ فاتحہ میں ہے یہی راز ہے کہ تا کاملین امت ہو نبی حب مع الکمالات کے پیرو ہیں وہ بھی بجامع الکمالات ہو جائیں "

Page 155

اس عبارت سے تعلق شیخ مصری صاحب نے یہ وضاحتی نوٹ دیا ہے:.اور حضرت مسیح عیسی علیہ السلام - ناقل ، ظاہر ہے کہ بجامع الکمال نہیں تھتے ہیں، فرق ظاہر ہے ر زوج اسلام حد ۵ جب شیخ مصر کی مصاحب یہ مانتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام جامع الکمالا نہیں تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام کے بالمقابل جامع الکمالات ہیں تو پھر تو حضرت اقدس اپنی تمام نشان میں حضرت مسیح بن مریم سے بہت بڑھ کر سامع الکمالات ہونے کی وجہ سے ہوئے.اس لئے آپ کی نبیت بھی اپنی تمام شان و کمال میں حضرت عیسے عیادت اہم کی نبوت سے ناقص ورتیجہ کیا نہ ہوئی بلکہ کائل درسیہ کی ہوگی تابید کامل درجہ ثبوت دیگر مشخص می وجوہ فضائل کے ساتھ مل کر حضرت اقدس کی حضرت کیلئے علیہ السلام سے وجہ افضلیت ہو سکے اور آپ کا پورے طور پر جامع الکمالات ہونا ثابت ہو جائے.ناقص درجہ نبوت تو ضمنا ناقص اور کمتر ہونے کی وجہ ہی ہو سکتا ہے پس حضرت اقدس کی خلقی نبوت کا ملہ ایک عظیم الشان حقیقت ثابت ہوئی اور یہ اپنی تمام نشان میں حضرت عیسی علیہ السلام کی مستقلہ نبوت سے کم درجہ کی نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسے افضلیت بر مسیح کی ضمنی و جہ خود شیخ صاحب تسلیم کر چکے ہیں.پس چونکہ حضور کے وجود میں دیگر کمالات محمدی کے ساتھ نبوت محمدیہ بھی بطور کلیت شیخ صاحب کے نزدیک انتہائی کمال کے ساتھ موجود ہے اور آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کامل اور قلم کامل ہیں.اور آئت

Page 156

۱۵۶ وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے بھی مصداق ہیں تو آپ کا نبی ہونا ثابت ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تنمہ حقیقۃ الوحی میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :- اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نہی ہوگا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بر وز ہو گا.اس لئے اس کے اصحاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کہلائیں گے اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے رنگ میں خدا تعالے کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے.بہر حال یہ آئیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب رسول اللہ رکھا بھالے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والے تھے.جنہوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا “ (تعمیر حقیقة الوحی مثلا) شیخ مصری صاحب ، حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ آیت آخری زمانہ ایک محدث یا ولی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ر حال یہ آئت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبیت پیشگوئی ہے" یہ بنی مسیح موعود ہی ہیں جنہیں شیخ مصری صاحب غیر نبی قرار دینا چاہتے ہیں.

Page 157

۱۵۷ ایک نبی ہوگا اور وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا بروز ہوگا " کے فقرہ میں بروز کا لفظ نبوت کی نفی کے لئے استعمال نہیں ہوا بلکہ اس نبی کی خصوصیت بیان کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے.اسی لئے آگے فرمایا :- "بہر حال یہ آئت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت پیشگوئی ہے" خیلی کمالات کی حیثیت اور شیخ شیخ مصری صاحب نے حضرت اقدس کے نبی کہاں ہے مصری صاحب نبوت مسیح موعود کو حضرت اقدس کے اپنی کے افضلیت بریج میں دل تمام شانی میں حشر مینے علما اسلام سے افضل ہونے کے متعلق تیرا حوالہ میں دخل رکھنے کی تشریح میں تیسری عبادت حضرت اقدس کی کتاب حمامتہ البیشری صفحہ ، سے اپنے اس ترجمہ کے ساتھ پیش کی ہے کہ کتنے ہی کمالات جو انبیاء میں اصالتاً پائے جاتے ہیں ہم کو ان سے افضل اور اصلئے حاصل ہوتے ہیں مگر فلیستی طور پر “ ) روح اسلام صفحه ۲۵ ) شیخ صاحب جب اس عبارت کے رو سے حضرت اقدس کو ملنے والے ظلی کمالات انبیاء کو اصالتا ملنے والے کمالات سے افضل اور اعلی ہیں تو پھر آپ کی علی نبوت کا ملہ بھی جو حضرت اقدس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کابل برود

Page 158

۱۵۸ اور کامل فیل ہو کہ ملی ہے ، وہ بھی حضرت پھیلے علیہ السلام کو اصالتا ملنے والی نبوت سے کم درجہ کی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس نبوت کا اسے شیخ صاحب ! آپ نے حضرت اقدس کے حضرت عیسی علیہ اسلام سے افضل ہوتے ہیں وغل تسلیم فرما لیا ہے اگر یہ نبوت علیہ حضرت عیسی علیہ السلام کی اصالتا نبوت کے مقابلہ میں کم درجہ کی ہو تو پھر تو یہ حضرت اقدس کے حضرت علیمی علی اسلام سے افضل ہونے کی ضمتی وجہ ہونے کی بجائے ناقص درجہ کی نبوت ہونے کی وجہ سے حضرت عیسی علیہ اسلام سے حضرت اقدس کے ادنی ہونے کی دلیل ہوگی.ناقص درجہ کی نبوت کو کامل درسیہ کی نبوت رکھنے والے مقابلہ میں وجہ افضلیت قرار دینا تو بالکل ایک غیر مقبول بنات ہے حضرت اقدس کی نبوت حضرت عیسی علیات لام کے بالمقابل افضلیت کی ضمنی وجہ اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ حضرت اقدس کو بھی نفس نبوت یا درجہ قوت کے لحاظ سے نبی سمجھا جائے تاید نبوت دوسری وجوہ فضیلت کے ساتھ مل کو حفتر اقدس کے اپنی شان میں حضرت بسیج سے فضل ہونے کی وجہ ہو سکے بس آپ نبی ہیں نہ کہ محض ولی.مصری صاحب کے نزدیک شیخ مصری صاحب نے حضرت اقدس کے صریح طور پر نبی کہلانے صریح طورپر نبی کہلانے کا مفہوم کی تشریک میں دو باتیں لکھی ہیں.پہلی بات.پہلی بات وہ یہ رکھتے ہیں :- " اب تیلیوں کی مانند کہلانے اور صریح طور پر نبی کہلانے میں جو فرق ہے اسے ایک مثالی سے واضح کیا جاتا ہے" ان کی پیش کر دہ مثال یہ ہے.

Page 159

فرض کیجئے ایک شہر میں بیس بہادر شہرہ آفاق ہیں.انہیں ان میں سے ایسے ہیں جن کو بہادری میں شیر کی مانند کہا جاتا ہے اور ایک بہادر ایسا ہے جس کو شیر کہا جا سکتا ہے.ظاہر ہے کہ جس کو شیر کہا جاتا ہے وہ بہادروں کی جنس سے نکل کر شیروں کی سینس میں تو داخل نہیں ہو جاتا.محض اس واسطے کہ اس کا نام شیر رکھ دیا گیا.فرق صرف انہیں اور اس ایک میں یہ ہوگا کہ اُس ایک کی مشابہت شہر سے اتم اور اکمل ہوئی.اس کو تشبیہہ بلیغ یا استعارہ سے نامزد کریں گے اور باقی انہیں کو خالی تشبیہہ کے نام سے پکاریں گے.ٹھیک اسی طرح پہلے محمد دین اور محدثین کو بوہر ان کے انبیاء کے ساتھ مشابہت تامہ نہ ہونے کے ان انبیاء کے ساتھ مماثلت کو معالی تشبیہ کے نام سے پکارا جائے گا.اور حضرت مسیح موعود کی حمائت کو بوجہ اتم مشابہت کے شبہ یہ بلیغ یا استعارہ کے نام سے نامزد کیا جائے گا.اسی فرق کی وجہ سے میں طرح سے بہادر آدمی کو شیر کہا جاتا ہے اسی طرح تمام محدثین میں سے حضور کو صریح طور پریہی کہا جاتا ہے.باقی محدثین کو نبیوں کی مانند کہا جاتا ہے.اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حضور کو انبیاء کے زمرہ میں داخل کر ) روح اسلام صفحه ۳۹) دیا گیا ہے" مغالطہ کا جواب اس عبادت میں شیخ مصری صاحب نے بہادر کو استعارہ اور تشبیہ بلیغ کے طور پر شہر قرار دینے کی مثال دے کو ایک مغالطہ دیا ہے.لہذا اس مغالطہ کے جواب میں چند باتیں

Page 160

14.عرض ہیں :- بے شک بہادر کو شیر کہتا تشبیہ بلیغ اور استعارہ ہے جو مجاز کی امیر اول بنی ایک قسم ہے.مگر یہ مثال حضرت اقدس کی نبوت کے معالم ہی میں منطبق نہیں ہوسکتی.کیونکہ بہادر کو شیر کہنا تو می از لغوی کی مثال ہے اور حضرت اقدس شیخ مصری صاحب کے نزدیک لغوی معنوں کے لحاظ سے در حقیقت نبی ہیں کیونکہ لغت میں نبی کے جو معنی بیان کئے گئے ہیں شیخ مصری صاحب حضرت اقدس کو ان معنوں کا پورا مصداق سمجھتے ہیں.لغت میں نبی کے معنی ہیں :- الخبرُ عَنِ " تَقْبِلِ بِالْهَامِ مِّنَ اللهِ " رو (المنجد) یعنی مستقبل کے متعلق الہام الہی سے الور تغییہ پر اطلاع دیا بھانے والا ان لغوی معنوں کو مصری صاحب حضرت اقدس کے وجود میں متحقق جانتے ہیں.پس حضرت اقدس لغوی معنوں میں تو اُن کے نزدیک حقیقہ نبی ہوئے نہ کہ مجاز اور استعداد کے طور پر.پس بہادر اور شیر کی مثال حضرت اقدس کی نبوت پر سر گر منطبق ہی نہیں ہو سکتی.کیونکہ لغوی معنوں میں حضرت اقدس کا فی الواقع نبی ہونا فریقین کو مسلم ہے.شیخ صاحب اسلام کی معروف ، استقرائی تعریف اور اصطلاح کے القاب جس میں نبی کے لئے کسی دوسرے نبی کا امتی نہ ہونا شرط ہے حضرت اقدس کی نبوت کو مجانہ کی قرار دیتے ہیں اور ہم بھی اس اصطلاح میں حضرت اقدس اپنی قرار نہیں دیتے.تبدیلی عقیدہ کے بعد حضرت اقدس نے مضمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم

Page 161

141 میں نبی کے لئے امتی نہ ہونے کی شرط کو ضروری قرار نہیں دیا اور اس طرح عرفی اصطلاح میں ہو محض استقرائی تھی یعنی انبیاء سابقین کے حالات کے پیش نظر اختیار کی گئی تھی آپ نے ترمیم فرما دی ہے.شیخ صاحب ! آپ پر واضح ہو کہ شیر درندہ) اور بہادر انسان جیسے شیر کہا جائے نوع کے لحاظ سے بالکل ایک دوسرے کا غیر ہیں اور انبیار : در مسیح موعود علیہ السلام دونوں نوع انسانی کے فرد ہیں اور انسان بنبی بنتے رہے ہیں مگر بہادر جیسے شیر سے تشبیہ دی جائے وہ تو نوع انسانی کا فرد ہوتا ہے لیکن شیر جنگل کا درند؟ نوع انسانی کا فرد نہیں ہوتا.انسان تو نجی " وتے رہے ہیں مگر کبھی کوئی منگل کا دنده انسان نہیں ہوا.اس لئے بہادر اور شیر کی مثال نوع کے اس تفاوت کی وجہ سے بھی حضرت اقدس کی نبوت کے بارہ میں منطبق نہیں ہو سکتی.لیس اے شیخ صاحب ! اگر آپ اپنے عقیدہ کو ہی ملحوظ رکھتے تو اس بارہ میں صلوۃ اور نماز کی مثال دے سکتے تھے صلوۃ کے معنی لغت میں دعا کے ہیں.اور اصطلاح اسلام میں نماز کے بو عبادت کا ایک خاص طریق ہے اور قیام، رکوع سجدہ اور قعدہ پر مشتمل ہوتا ہے اور وضو اس کے لئے شرط ہے.اگر چہ صلوات کو ڈھا کے معنوں میں اصطلاحی صلوۃ (نماز) نہیں کہہ سکتے.لیکن صلاۃ بصورت دھا اور صلوۃ بصورت نمازہ دونوں ہی عبادت کی قسمیں ہیں اس لئے یہ دونوں صلوۃ مطلقہ کا فرد ہیں.اسی طرح شیخ صاحب کو اپنے اس عقیدہ کے لحاظ سے بھی کہ حضرت مسیح موعود لیدات لام لغوی معنوں میں نہیں ہیں اور اصطلاحی معنوں میں نبی نہیں حضرت اقدس

Page 162

۱۶۲ کو نبوت مطلقہ کے لحاظ سے زمرہ انبیاء کا فر یقین کرنا چاہیے.جس طرح ہماری صلوات دوعا ئیں ، عبادت مطلقہ کی افراد میں گو اصطلاحی صلوٰۃ وہی کہلاتی ہے جو قیام، رکوع ، سجدہ اور قعدہ پشتمل ہوا اور باوضو ہو کر ادا کی جائے گی نہیں شیخ صاحب اپنے مسلک کے مطابق صلوۃ اور نماز کی مثال تو دے سکتے تھے.اُن کی پیش کردہ بہادر اور شیر کی مثال حضرت اقدس کی نبوت پر شیخ صاحب کے اپنے مسلک کے لحاظ سے بھی منطبق نہیں ہو سکتی.حضرت اقدس نے اپنے آپ کو لغوی معنوں میں بنی قرار دینے کے امر دوم ساتھ ، خدا کے حکم میں بھی نبی کہا ہے تم حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۱۸ آخری خط بنام اخبار عام نیز حضور نے اپنے آپ کو خدا کی اصطلاح میں بھی بنی کیا ہے اتنی حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۰ و چشیر معرفت صفحہ ۳۲۵) اور نبیوں کی متفق علیہ تعریف کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو نبی کہا ہے (الوصیت اور قرآنی معنوں میں بھی بینی آیت لا يظهر على غيبه احدا الامن ارتضى من رسول کے مطابق بھی نبی اور رسول کہا ہے (ملاحظہ ہو اشتہار ایک غلطی کا ازالہ و حقیقت ایسی صفحہ ۳۹۱) پھر اپنی اسلامی اصطلاح میں بھی اپنے آپ کو نبی کہا ہے (تقریر حجتہ الله اور ان سب مقامات میں مکالمہ مخاطبہ الہیہ کا کیفیت اور کمیت میں کمال درجہ تک پہنچنا یا خالص غیب پر بکثرت اطلاع دیا جانا مراد ہے.اور ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۳۸ میں بھی نبی کے حقیقی معنی در اصل یہی مراد ہیں.لہذا لغوی معنوں میں بھی آپ بنی ہیں اور خدا کے حکم اور قرآنی معنوں میں بھی آپ نبی ہیں اور خدا کی اصطلاح میں بھی بنی ہیں اور نبیوں کی متفق علیہ تعریف توت

Page 163

۱۹۳ اور اپنی اسلامی اصطلاح میں بھی آپ بنی ہیں.لہذا آپ صرف معروف اسلامی اصطلات کے بالمقابل مجازی بنی قرار پاتے ہیں تاکہ تشریعی اور مستقلہ نبوت سے آپ کی نبوت کا القیاس نہ ہو.اور یہ معروفت اصطلاح بجامع تعریف نبوت نہیں.حضرت اقدس حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام سے اتم اور اکسل امر سوم مشابہت رکھنے کی وجہ سے ہی مسیح موعود کی پیشگوئی کے مصداق ہیں.پس اگر شیخ مصری صاحب کی مثال حضرت اقدس کے معاملہ پر منطبق سمجھی جائے تو حضرت اقدس نی الواقع میسج موعود بھی نہیں رہتے کیونکہ اس صورت میں آپ مسیح موعود بھی تشبیہ بلیغ اور استعارہ کے طور پر قرار پاتے ہیں.اب شیخ مصری صاحب بتائیں کہ وہ حضرت اقدس کو فی الواقع مسیح موجود مانتے ہیں یا استعارہ اور تشبیہ بلیغ کے طور پر.حضرت اقدس تو تحریہ فرماتے ہیں :- جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود اور جہد کا معہود نہیں مانتا وہ میری جماعت میں سے نہیں " (کشتی نوح صفحه ۲۰) اگر شیخ مصری صاحب کے نزدیک حضرت اقدس حضرت عیسی علیہ اسلام سے میسج ہونے میں اتم اور اکمل مشابہت رکھتے ہوئے امت محمدیہ کے لئے فی الواقع میسج موجود ہیں تو آپ حضرت عیسی علیہ السلام سے نبوت میں اتم اور امل مشابہت رکھتے ہوئے کیوں فی الواقع نبی نہیں.هَاتُوا بُرْهَانَكو إِن كُنتُم صَادِقِين.حضرت اقدس ازالہ اوہام صفحہ ۲۶۱ پر تحریمہ فرماتے ہیں :- امر چهارم یہ بھا نہ مجازی اور روحانی طور پہ رہتی ہیں موجود ہے

Page 164

14N جس کی قرآن وحدیث میں خبر دی گئی ہے " مگر حضور مسیح ہندوستان میں صفحہ ا ا پر اپنے آپ کو حقیقی مسیح موعود قرار دیتے ہیں اور کشتی نوح " صفحہ ۲۰ میں فی الواقع میسج موعود پس حضور کے اپنے آپ کو مجازی مسیح موعود اور حقیقی اور فی الواقع مسیح موعود قرار دینے میں بظاہر جو تناقض دکھائی دیتا ہے شیخ مصری صاحب اس میں کس طرح تطبیق دے سکتے ہیں ؟ جو جواب وہ مسیحیت کے دعوئی کے متعلق دے سکتے ہیں وہی ہماری طرف سے دعوی نبوت کے متعلق سمجھ لیا جائے.میرے نزدیک تو ان دونوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ مجازی اور روحانی طور پر مسیح موعود سے مراد تو مجازی مسیح ابن مریم ہے نہ بنی اسرائیل کا میسج ابن مریم.لہذا پیشگوئی نبوی میں مذکور مسیح ابن مریم تو آپ مجازی طور پر ہیں مگر اُمت محمدیہ کے لئے آپ مسیح موعود حقیقی اور واقعی طور پر نہیں.یہی حال حضرت اقدس کی نبوت کا ہے کہ مسیح ابن مریم یا عیسی علیہ السلام تو آپ حضرت یسے علیہ السلام سے تکمیل مشابہت کی بناء پر تشبیہ بلیغ اور استفادہ کے طور پر ہیں مگر ظلی نبی اور امتی نبی ہو کر اُمت محمدیہ کے لئے آپ نفی الواقع نبی ہیں کیونکہ آپ نے ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۳۸ میں نبی کے حقیقی معنی بیان کر کے اپنے آپ کو ان معنوں کا مصداق قرار دیا ہے.پس جس طرح مجازی مسیح موعود آپ اور بہت سے ہیں اور حقیقی اور فی الواقع مسیح موعود ایک دوسری جہت سے.اسی طرح مسیح ابن مریم کا اطلاق آپ پر اور جہت سے ہے یعنی تکمیل مشابہت کی بہت سے اور نبی کا اطلاقاً

Page 165

آپ پر خدا کے حکم اور اصطلاح میں نبی اللہ ہونے کی جہت سے ہے.پس خدا کے حکم اور اصطلاح اور نبی کے حقیقی معنوں میں آپ امت محمدیہ میں سے خلی طور پر فی الواقع نبی ہیں اور نبوت مطلقہ کی جہت سے زمرہ انبیاء کا فرد ہیں کیونکہ حضرت اقدس علیل استلام کا ظلی نبوت کی صفت کو کامل طور پر حاصل کرتا شیخ مصری صاحب کو بھی مسلم ہے اور ہمیں بھی.اور جس میں صفت نبوت کابل طور پر پائی جائے وہ نبی ہی ہو گا نہ کہ غیر نبی - لولا الاعتبارات لبطلت الحلمة قرآن مجید کی آیت شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ امر نجم کے لہ میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو مشیل موسی قرار دیا ہے اور مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم صاحب شریعت نبی اور بھلائی نبی ہونے میں حضرت موسی علیہ السلام سے مشابہت نامہ رکھتے ہیں اور اُن کے مثیل ہیں.سمالانکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شریعت موسوی شریعت سے مشابہت کے باوجود افضل ہے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اپنی جلالی نبوت میں بھی حضرت موسی علیہ السلام سے افضل ہیں.پس اس مشابہت اور ممانگت تامہ کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعیت تشبیہ بلیغ اور استعارہ کے طور پر شریعت نہیں قرار دی جا سکتی اور نہ آنحضرت سے اللہ علیہ وسلم کی نبوت جلالی کو مو سے علیزات لام کی نبوت ملالی کے بالمقابل تشبہہ بلیغ اور استعارہ کے طور پر ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے.اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب ایک حقیقت کو دوسری حقیقت سے تشبیہ دی بھائے تو وہ حقیقت

Page 166

144 ہو شبہ یہ حقیقت سے مشابہت رکھنے کے باوجود ہمیشہ استعارہ اور مجاز نہیں بن جاتی.بلکہ اس تشہیر کا مقصد کبھی یہ ہوتا ہے کہ مشبہر حقیقت کو ایک پہلی معروف حقیقت سے تشبیہ دے کو بذریعہ تشبیہ قریب الفهم بتا دیا جائے جیسے کہ ایک عالم کو دوسرے معروف عالم سے تشبیہ دی جانے کی یہی غرض ہو سکتی ہے کہ مشتبہ کی علمی شان کو مشتبہ یہ عالم سے تشبیہ دے کر اچھی طرح سے قریب الہم کر دیا جائے تو یہ کہ اس تشبیہہ سے مشتبہ عالم صرف مجازی عالم کیا جاتا ہے فی الحقیقت عالم نہیں رہتا.اسی طرح حضرت مسیح موعود که ترجیح طور پر نبی کا خطاب پا کر حضرت جیسے علیہ السلام سے ہو جب الہام میسج محمدی میسج موسوی سے افضل ہے“ افضل ہیں.لہذا آپ کو حضرت جیسے علما اسلام سے اُن کا مثیل ہو کر تشبیہہ دیا علیہ جانا آپ کو تشبیہہ بلیغ اور استعارہ کے طور پر نبی نہیں بنا دیتا.ہاں تشبیہہ بلیغ اور استعارہ کے طور پر آپ صرف عیسی ابن مریم یا ابن مریم قرار دیئے بھا سکتے ہیں جیسے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم موسے علی ارت سلام سے مانات مامہ کی وجہ سے تشبیہ بلیغ اور استعارہ کے طور پر تو مونتے ہیں.اور رسول اللہ آپ فی الواقع ہیں.نیز قرآن مجید میں وارد ہے.انا افينا اليك كَمَا اَوْحَيْنَا إِلَى نُوْمِ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بعد به رسوره نسار ۴ ۲۲ آیت ۱۷۴) کہ ہم نے اسے نبی تیری طرف وحی کی میں طرح ہم نے نوح اور اس کے بعد نبیوں پر وحی کی.اس آیت میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وحی کو نوح اور اس کے بعد کی وحی سے تشبیہ دی

Page 167

146 گئی ہے مگر اس کے معنے یہ نہیں ہو سکتے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وج) واقعی دحی نہیں بلکہ محض تشبیہہ کے طور پر مجازی وحی ہے.شیخ صاحب نے صریح طور پر نبی کہلانے کا مفہوم تشبیہہ بلیغ اور استعارہ کے طور پر نبی کہلانا قرار دیا ہے گویا حضرت اقدس کہ مجازی بنی قرار دیا ہے.مگر مجازی نبی تو حضرت اقدس اپنے آپ کو صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ سمجھ لینے سے پہلے ہی قرار دیتے رہے ہیں.پس اگر صریح طور پر نبی کا خطاب پانے کا مفہوم یہ ہوتا کہ آپ مجازی طور پر نبی ہیں تو پھر تو حضرت اقدس کو شروع دکوئی مسیحیت میں ہی اپنے آپ کو صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ قرار دے دینا چاہیے تھا مگر حضرت اقدس نے تو حقیقہ ہوگا کی زیر بحث عبارت میں افضلیت برسیم کے عقیدہ میں تبدیلی کے زمانہ میں اپنے آپ کو صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ سمجھنا قرار دیا ہے اور اس سے پہلے جوئی فضیلت برسیم کے عقیدہ کے وقت اس پہلے عقیدہ کو اختیار کرنے کی یہ وجہ قرار دی ہے کہ مجھے مسیح بن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے" اور اس طرح اس زمانہ میں اپنے آپ کو مجازی نبی سمجھتے ہوئے غیر نبی قرار دیا ہے اور اس کے بعد جمہ کی فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی کو صریح طور پونجی کا خطاب یافتہ سمجھ لینے سے وابستہ قرار دیا ہے.خود شیخ صاحب نے بھی مان لیا ہے کہ حضرت اقدس کے نبی کہلانے کا فضیلت کے عقیدہ میں منور

Page 168

دخل ہے.پس صریح طور پر نبی کہلانے سے مراد اگر مجاز اور استعارہ کے طور پر نجی کہلاتا ہی ہوتا تو پھر تو مجازی نبی کہنے کے زمانہ میں ہی حضور اپنے آپ کو متریح طور پر نبی کہہ دیتے کیونکہ حضرت اقدس پر حضرت جیسے علیات کام سے اشد مناسبت رکھنے کا الہام تو آپ کو تبدیلی عقیدہ سے بہت پہلے اپنی کتاب براہین احمدیہ کے زمانہ میں ہی اِن الفاظ میں ہو چکا ہوا تھا."انت است مناسبة يعني ابنِ مَرْيَمَ وَاشْبَهُ النَّاسِ بِه خُلُقًا و خَلقا و زمانًا " کہ تو جیسے بن مریم سے شدید ترین مناسبت رکھتا ہے اور اس سے تمام لوگوں سے بڑھے کہ خلق ، خلقت اور زمانہ کے لحاظ سے مشابہت رکھتا ہے.لیں صریح طور پر نبی کہلانے کا انکشاف چونکہ تبدیلی عقیدہ کے وقت کی بات ہے اس لئے اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہو سکتا کہ حضرت اقدس تشییہ بلیغ اور استعارہ کے طور پر بنی ہیں صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ ہونے کے اعلان کے زمانہ میں تو حضرت اقدس ضمیمه برا بین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۳۸ میں اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں نبی قرار دے رہے ہیں.بلکہ اس سے پہلے میں ہی اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں بھی حضور نبی کے انہی حقیقی معنی کو نبوت اور رسالت قرار دے چکے ہیں چنانچہ حضور اشتہارہ ہذا کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں :- یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے.پس منجملہ ان انعامات کے وہ نویں اور پیشگوئیاں ہیں جن کے رو سے

Page 169

149 انبیاء علیہم السلام نہیں کہلاتے رہے.لیکن قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لا يُظهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدَا الأَمَنِ ارتضى مِن رَّسُول سے ظاہر ہے.پس مصنفے غیب جانے کے لئے نہی ہونا ضروری ہوا.اور آیت انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ گواہی دیتی ہے کہ اس مصفحے اغیب سے یہ امت محروم نہیں.اور مصنے غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے.اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس موسیت کے لئے محض بروز طلبیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے" ایک غلطی کا انزالہ - حاشیہ) اس عبارت سے مندرجہ ذیل امور ظاہر ہیں :.(1) خدا تعالے کا اس امت سے وعدہ تھا کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پا ئیگی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے تھے.(۴) ان انعامات میں جو اُمت کو ملنے والے تھے نبوتیں اور پیشگوئیوں کا ملنا تھا.(۳) یہ ہوتیں اور پیشنگوئیاں ہی ایسا امر ہے جس کے رو سے تمام انبیاء کرام علیہم السلام نبی کہلاتے رہے (گویا وہ شریعت کے لانے یا براہ راست مقام نبوت پانے کی وجہ سے نبی نہیں کہلائے بلکہ ان نبوتوں اور پیشنگوئیوں کی وجہ سے نبی کہلائے چین کے اُمت محمدیہ میں بھی ملنے کا وعدہ ہے ) (۴) ان نبوتوں اور پیشگوئیوں سے مراد حسب آیت لا يظهر على

Page 170

1 غَيْبِهِ أَحَدَا الا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ مصفی غیب کا پانا ہے اور وہ مصفی غیب جو آیت لا يظهر علم غیبہ کے مطابق ہو ا یعنی کیفیت و کمیت میں کمال درجہ بچہ ہو) نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے.(۵) اس مصفی غیب پانے والے کے لئے نبی ہونا ضروری ہے امت کو اس مصفی غیب پانے کا وعدہ دیا گیا ہے جس کے لئے نبی ہونا (4) ضروری ہے.(4) نہیں ہونا براہ راست طریق سے بند ہے.(۸) چونکہ اُمت میں انہی ہونا ضروری ہے اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس موسمیت نبوت کو پانے کے لئے جو پہلے انبیاء کو براہ راست ملتی رہی اب صرف ظلیت ، بروز اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.(۹) خلیست ، بروز اور فنا فی الرسول امتی کی ترقی کی انتہائی منزل نہیں بلکہ انتہائی منزل خود نبوت ہے.(۱۰) ظلیت، بروز اور فنافی الرسول اس انتہائی منزل تک پہنچنے کا دروازہ یعنی ذریعہ ہے.نتیج ہر ہے کہ وہی موسبت نبوت جو پہلے انبیاء کو براہ راست ملتی رہی اب وہی نبوت خلیت ، بروٹہ اور فنافی الرسول کے دروازہ سے مل سکتی ہے پس براہ راست ملنے والی نبوت یعنی مستقلہ نبوت اور اس قلی نبوت میں نفس نبوت کے لحاظ سے کوئی فرق نہ ہوا بلکہ ظلی نبوت کا ملہ نفس نبوت میں وہی موسیرت نبوت ہونے کی وجہ سے جو پہلے انبیاء کو ملتی رہی سو فیصدی نبوت ہے

Page 171

141 ہاں اس موبیت نبوت کے حاصل کرنے کا ذریعہ اب بدل گیا ہے.پہلے یہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر براہ راست ملتی رہی ہے اور اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر اسی موہت ثبوت کے حاصل ہونے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور طلبیت شرط ہے.پس ملتی نبوت کا ملہ اپنی ذات میں نبوت ہی ہے نہ کہ محض ولایت.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کامل علی نبی ہیں لہذا آپ فی الواقع نہیں ہیں اور نفیس نبوت کے لحاظ سے زمرہ انبیاء کے فرد ہیں گو آپ تشریعی نبی یا مستقل نبی نہیں ہیں.ماں نبوت کے حصول کا طریق بدلی بجانے کی وجہ سے مستقلہ نبوت کے مقابلہ میں اگر آپ کی نبوت ہو نفس نبوت کے لحاظ سے وہی مہمیت ہے جو پہلے انبیاء کو براہ راست ملتی رہی ، طریق حصول کے لحاظ سے نہ کہ نفیس نبوت کے لحاظ سے علی طریق المجاز قرار دی جائے تو آپ کی نبوت تو فی الواقع نبوت ہو گی مگر اس کے حصول کا طریق پہلے طریق حصول کے مقابلہ میں مجازی قرار پائے گا اور اس سے حضرت اقدس کا تشبیہہ بلیغ اور استعارہ کے طور پر نبی رو.ہونا لازم نہیں آتا.نافہم و تدبر شیخ صاحب اشتہار ایک مغلطی کا نبی کہلاتے رہے " کا مفہوم بنالہ کی عبارت " منجملہ ان کے " وہ نیوئیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کی رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے کا مفہوم یہ بیان کیا کرتے ہیں کہ لوگ انہیں اس وجہ سے نبی کہ دیا کرتے تھے.مگر ان کی یہ تاویل سراسر باطل ہے کیونکہ اس عبارت کے بعد حضرت

Page 172

۱۷۲ اقدس نے آیت لا يُظهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى من رسول پیش کر کے اس آیت کے منطوق کے مطابق انہیں بنی قرار دیا ہے اور آیت کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ مصفی غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا" پس نبی کہلانا اور نبی ہونا ایک ہی بات ہے.چونکہ کسی کے نبی ہونے کا اعلان خدا ہی کر سکتا ہے لہذا " نبی کہلاتے رہے " کا مفہوم متعین ہو گیا کہ وہ عند اللہ بھی مصفی غیب یعنی نبوتوں اور پیشگوئیوں کی وجہ سے نبی کہلاتے رہے اور یہی امرنبوت کا ذاتی وصف ہے اور شریعت لانا یا یر امتی ہوتا یاکسی نبی کا امتی ہونا صفات عرضیہ میں جو نبیوں کی الگ الگ خصوصیات ہیں.پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ صریح طور پر نبی کہلانے کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت اقدس کیلئے کھلے طور پر نبی ہیں یعنی محدث کی تاویل کے بغیر نبی ہیں.اسی لئے تو آپ نے ایک غلطی کا ازالہ " میں لکھا ہے :- گر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نہی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتانا ٹوکس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو اس کا نام محدث ہے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار امر غیب نہیں.اور اس سے کچھ پہلے لکھتے ہیں :.ہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں بالضرورت اس پر مطابق آیت لا يظهر علی غیبہ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا "

Page 173

144 پس حضرت اقدس ان قرآنی معنوں میں نبی ہیں محض محدث نہیں محض محمد کہلانے کا حضور نے رو فرما دیا ہے.آپ کو نبی معنی محدث قرار دینا ایک غلطی کا ازالہ" کی اس تحریر کے بعد ہرگز جائز نہیں.شیخ صاحب یہ نہیں کہہ سکتے کہ لغوی معنی میں محدث ہونے سے انکار فرمایا ہے نہ کہ اصطلاحی معنی میں کیوں کہ اگر مرورت کے لغوی معنی میں اظہار امر غیب نہ ہو تو اصطلاحی محدث کے لئے بھی امر غیب پر اطلاع ضروری نہیں رہتی کیونکہ اصطلاح میں لغوی معنی ملحوظ ہوتے ہیں.ہاں نبی کے لئے امور غیبیہ پر بکثرت اطلاع پانا ضروری امر ہے.صریح طور پر ہی کہلانے کے مفہوم شیخ صاحب نے صریح طور پر نبی کہلانے کا مفہوم ظاہر سے تعلق شیخ صاحب کی دوسری بات کرنے کے لئے دوسری بات بیہ بیان کی ہے کہ حضور نے معاشیہ میں ان الفاظ کی تشریح کر دی ہے کہ میری نبوت اصالتا نہیں بلکہ ظلی طور پر ہے اور یہی امر دونوں جماعتوں کے درمیان متنازعہ فیہ امر ہے کہ ظلی نبی جماعت انبیاء کا فرد ہوتا ہے یا جماعت دلیار کا لیکن اس متنازعہ فیہ امر کو ہی آپ دوست اپنے دعوی کو صحیح ثابت کرنے کے لئے بطور دلیل پیش فرما رہے ہیں و روح اسلام صفحہ ۴۲) الجواب : اس عبادت میں شیخ صاحب نے ہم پر متنازعہ فیہ امر کو بطور دلیل پیش کرنے کا جو اترام دیا ہے وہ درست نہیں.بے شک یہ حاشیہ بتاتا ہے

Page 174

کہ حضرت اقدس کو نبوت اصالتا یعنی براہ راست نہیں ملی بلکہ ملی طور پر یعنی آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملی ہے فلمی نبوت کے معنی شیخ صاحب کو رفیض محمدی سے وجی پانا حقیقت الوحی صفحہ ہم مسلم میں اور شیخ صاحب کو پیغام صلح مجریہ ۵ استمبرشتہ صفحہ یہ کالم ۳ پر حضرت اقدس کا نفلی طور پر وحی الہی کو انتہائی کمال کے ساتھ پانا بھی مسلم ہے.لہذا خلیت ان معنوں میں تو ہمار ے اور آپ کے در میان متنازعہ فیہ امر نہیں.صل متنازعہ یہ امر تو ہار ہے اور شیخ صاحب کے درمیان یہ ہے کہ علی طور پر وحی انہی کو انتہائی کمال تک پانا شیخ صاحب کے نزدیک نبوت نہیں بلکہ ولائت ہے.حالانکہ حضرت اقدس چشمہ معرفت ہمیں اسے نبوت کی ایک قسم قرار دیتے ہیں گویا نفس نبوت کے لحاظ سے اسے نبوت ہی بیان فرماتے ہیں.پس ہمار کی دلیل ظلتی نبی کا لفظ نہیں ہوتی بلکہ ملی نبوی کی وہ حیثیت ہوتی ہے جو حضرت ہی سے موعود علی اسلام نے بیان فرمائی ہے جس کا ذکر قبل ازیں کیا جا چکا ہے." ایک غلطی کا ازالہ" میں حضرت اقدس نے نبوت براہ راست طریق سے ملنا بند قرار دے کر پھر اسی موسیت کے پانے کے لئے بروز ، ظلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا قرار دیا ہے اور نبوت کی حقیقت آیت لايُظمُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا من ارتضى مِن رَّسُول پیش کر کے مصطفے غیب پانا قرار دی ہے اور مصفی غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ٹھہرایا ہے.اس طرح مصفی غیب کو ہی موہبت ثبوت قرار دیا ہے اور اسی کی وجہ سے پہلے انبیاء کا بنی کہلانا بیان فرمایا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ کامل تلقی نبی جو انتہائی کمال پر وحی الہی پاتا ہے، نفیس نبوت کے لحاظ سے وہی موسیت نبوت رکھتا ہے جو

Page 175

140 پہلے انبیاء کو براہ راست ملتی رہی جس کی رو سے وہ نبی کہلاتے رہے.پس ہم حضرت اقدس کو نبی ثابت کرنے کے لئے صرف ظلی نبی کا لفظ ہی پیش نہیں کرتے کہ متنازعہ فیہ امر کو ہی بطور دلیل پیش کرنا لازم آئے بلکہ ہم علی نبی کے معنی اور حقیقت کو حضرت اقدس کی تحریروں کے رو سے پیش کر کے ثابت کرتے ہیں کہ ظلی نبی کو وہی موہبت نبوت حاصل ہوتی ہے جس کے میل کرنے کہ انبیاء سابقین نبی کہلاتے رہے.مجاز مرسل کے طور پر شیخ صاحب حضرت اقدس کے زمرہ انبیاء کا فرد ہونے سے انکار کے لئے اب نئی نئی باتیں نبی کی حقیقت ، سوچ رہے ہیں.چنانچہ "پیغام صلح " مجریہ میم ستمبر ۶۵ء میں وہ " توضیح مرام " کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں :." یہ عاجز خدا تعالے کی طرف سے اس امت کے لئے محدث ہو کر آیا ہے اور محنت بھی ایک معنی سے نبی ہی ہوتا ہے گو اس " کے لئے نبوت نامہ نہیں تاہم وہ جزوی طور پر ایک نبی ہی ہے یہ تحریر تب ریلی عقیدہ سے پہلے کی ہے مگر شیخ صاحب اس عبارت کو بطور تحت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- دیکھ لیجئے کمل اور جہد کے اصل کو ہی مد نظر رکھا گیا ہے جیسا کہ مجاز مرسل میں ہوتا ہے.اور مجاز مرسل کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جب حقیقی اور مجازی معنی کے درمیان علاقہ مشابہت کا ہو تو اس کا تو

Page 176

164 مجاز کو استفادہ کہتے ہیں.گویا استفاده در حقیقت مجاز کی ہی ایک قسم ہے.اگر مشابہت کے علاوہ علاقہ کسی اور قسم کا ہو تو اسے مجاز مرسل کہتے ہیں.یہ لکھنے کے بعد آگے یہ لکھتے ہیں :- تفظ بنی جو تین اجزاء سے مرکب ہوتا ہے ایک جزو اس کی مبشرات ہوتی ہے اور دوسری شریعیت کامل یا ناقص جس کو بعض اوقات کتاب ہدایت کے لفظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور تیرے بغیر کسی نبی کی اتباع کے براہ راست نبی بننا..........اس طرح لفظ.نبی بول کر بعض اوقات صرف اس کی جزو مبشرات ہی مراد ہوتی ہے جو محدث میں پائی جاتی ہے اس لئے محدت پہ مندرجہ بالا قاعدہ کے رو سے نبی کا اطلاق جو گل کا درجہ رکھتا ہے جائز ہے" شخص مر ہم ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ السلام محض محدث ہماری تھیں کہلانے کو ایک غلطی کا ازالہ میں رو کر چکے ہیں اور اس کی بجائے اپنے لئے نبی کا اطلاق ہی ضروری قرار دیتے ہیں.یہیں حضرت اقدس محدث کے معنوں میں بنی نہیں.اس لیئے آپ کی نبوت کے مجاز مرسل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.شیخ صاحب نے مندرجہ بالا عبارت میں نبوت کے ہو تین اجزاء بیان کئے ہیں.ان میں سے نبوت کے لئے امرذاتی صرف مبشرات کا علی وجہ الکمال پانا ہی ہے.شریعت ناقصہ یا کاملہ لانا نبوت کے لئے امر ذاتی نہیں اور نہ

Page 177

ہی اس کے لوازم ذاتیہ میں سے ہے بلکہ یہ ایک امر عارض ہے اسی لئے تو شریعت جدیدہ کسی نبی کو ملتی رہی ہے اور کسی نبی کو نہیں ملتی رہی.بلکہ غیر تشریعی قسم کے انبیاء پہلی شریعت کی تجدید و ترویج اور نفاذ ہی کے لئے آتے رہے ہیں.حضرت شیخ محی الدین ابن العربی علیہ الرحمة عَلِمْنَا اَنَّ التَّشْرِيحَ أَمْرُ عَارِضَ بِكَونِ عيسى يَنزِلُ فِيْنَا مِنْ غَيْرِ تَشْرِيعٍ وَ هُوَ نَبي فتوحات مکیہ جلد ا صفحه ۷ھ) بلاشب" کہ ہم نے جان لیا ہے کہ شریعت کا لانا ایک امر عارض ہے دینی یہ نبوت کے لئے امر ذاتی نہیں.ناقل ) کیونکہ عیلی علیدات لام ہم میں امر بغیر شریعت کے نازل ہوں گے اور وہ بلا شک نبی ہیں “ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تبدیلی تعقیدہ کے بعد نعیمہ برائین احمد جلسہ تیم ما پر نبی کے حقیقی معنی بیان کرتے ہوئے شریعت کا لانا نہی کے لئے ضروری قرار نہیں دیا بلکہ آپ نے ان حقیقی معنوں میں ہی امتی کا نبی ہو جانا بھی اپنی نبوت کے پیش نظر قابل اعتراض قرار نہیں دیا." ایک غلطی کا ازالہ میں حضرت اقدس نے نبوتوں اور پیش گوئیوں یعنی مبشرات کی رو سے ہی تمام انبیاء علیہم السلام کا نبی کہلانا بیان فرمایا ہے.پس مبشرات ، یعنی نیوتوں اور پیشگوئیوں کی بجائے اگر کوئی اصطلات میں معشرات منہ شریعت جدیدہ اور غیر امتی ہونے کو نبوت تا مر قرار دے تو پھر وہ تمام از بسیاء کرام

Page 178

IGA علیہم السلام جو شریعت بعد یدہ نہیں لائے حجاز مرسل کے طور پر نبی قرار پا جو بعدیہ طور جائیں گے.دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- د بنی اسرائیل میں کئی بنی ایسے ہوئے ہیں جن پر کوئی کتاب نازلی نہیں ہوئی صرف خدا کی طرف سے پیشگوئیاں کرتے تھے جن سے موسوی دین کی شرکت و صداقت کا اظہار ہو پس وہ نبی کہلائے" باید در مارچ ) نیز " شہادة القرآن صفحہ سو ہم میں تحریر فرماتے ہیں:.صدتا ایسے نبی بنی اسرائیل میں آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی.بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے یہ مطالب ہوتے تھے تاکہ ان کے موجودہ زمانہ میں جو لوگ تعلیم توریت سے دُور ہو گئے ہوں پھر ان کو توریت کے اصلی منشا کی طرف کھینچیں اور جن کے دلوں میں کچھ شکوک اور دہریت اور بے ایمانی پیدا ہو گئی ہو ان کو پھر زندہ ایمان بخشیں حضرت اقدس کا یہ بیان قرآن مجید کی آیت إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدى وَ نُورُ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ اسْلَمُوا للَّذِينَ هَادُوا (مائده آیت (۴۵) کے عین مطابق ہے.اور آیت وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الكِتاب والحكم والنُّبوة رجانیہ آیت ۱۱ سے ظاہر ہے کہ الکتاب (شریعت کی کتاب) المحکم (حکومت یا قوت فیصلہ) اور القبوۃ تین الگ الگ امر ہیں اور

Page 179

129 کیونکہ ان تینوں کا ایک دوسرے پر عطف کیا گیا جو اُن کے آپس میں ایک دوسرے کا خیر ہونے کو چاہتا ہے.پس النبوة کا تصور الكتاب اور الحکم سے الگ ہوا.اور ہر نبی کے لئے کتاب شریعت تجدیدہ کاملہ یا نا قصہ کا لانا ضروری امر نہ ہوا.اور شریعت جدید و نبوت کی جو و ذاتی قرار نہ پائی بلکہ جبہ و عارض قرار پائی.اسی لیئے نئی شریعت کسی نبی کو ملتی رہی ہے اور کئی انبیاء بغیر شریعت بعدیدہ کے پہلی شریعت کی تجدید کے لئے ہی آتے رہے ہیں.انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت قامہ کے مقابلہ میں تو شیخ صاحب کے کی نبوت نامه کامله نزدیک تمام انبیاء کرام ناقص نہی ہی تھے.کوئی اُن میں سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل کامل نہ تھا.چنانچہ شیخ صاحب لکھتے ہیں :.(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لئے کا میں ہی تھے.لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل ) روح اسلام ۳۲۰ ) وہ ناقص ہی تھے " (۲) تمام مامورین خدا تعالے کی طرف سے حکم ہی تھے.لیکن وہ جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل کال نبی نہ تھے نبی : اسی طرح وہ کامل احکم بھی نہ تھے و روج استلام من سالم) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر جب تمام انبیا میں کوئی بھی سے کامل بتی نہیں تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ان کے مقابل ہیں

Page 180

FA.شکل کی ہوئی اور ان انبیاء میں سے ہر نبی کی حیثیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل جزو کی ہوئی.اب کیا شیخ صاحب ان سب انبیاء کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل مجاز مرسل کے طور پر بنی قرار دینے کے لئے تیار ہیں ؟ کیونکہ ان میں اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم میں گل اور جزو کی نسبت انہیں مسلم ہے.اگر نہیں تو کیوں ؟ محدثین پر جزوی نبی کا اطلاق محمد میں کی نبوت پر کہ جس کی محبت کا ملہ کے مقابلہ میں طبیعی نبوت نا قصہ ہی ہوتی ہے اس محدث، کامل نظلی نبی کے مقابلہ میں بھی جو وہی حیثیت رکھتا ہے اسی لئے کسی محدث کو امت محمدیہ میں مقدرا نے نبی کے نام سے نہیں پکارا.اور سیح موعود علیہ اسلام کو جو کامل ظلی نبی ہیں ، انہی کے نام سے پکارا ہے.پس خلقی نبی کا لفظ اگر محدث کے لئے استعمال کیا جائے تو مسیح موعود کی ظلی نبوت کا ملہ کے مقابلہ میں محمد پر نبی کا اطلاق بطور مجاز مرسل کے ہوگا اور محدث کے مقابلہ میں مسیح موعود کے لئے نبی کا اطلاق کا مل ظلی نبی ہونے کی وجہ سے بطور حقیقت کے ہوگا.میرا یہ استدلال شیخ صاحب کے اگلے بیان کے عین مطابق ہے.مصری صاحب کے نز دیکھتے صریح طور پر کی تشریح این ایرانی لکھتے ہیں:.اب ذیل میں لفظ " صریح طور پر " کی تشریح بھی عرض کو دی جاتی

Page 181

1A1: ہے.واضح ہو کہ یہ لفظ " صریح طور پر نبی" ناقل ) در اصل اولیاء کرام کے مقابلہ میں ہی استعمال ہوا ہے.انہوں نے چونکہ دینی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا.ناقل ) کامل عکس نہیں لیا تھا اس لئے نبوت محمدیہ ان کے وجود میں گو موجود تھی مخفی تھی.کامل عکس سے حضور کی مراد (یعنی حضرت میسیج موجود کے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل عکس قرار دینے سے مراد - ناقل) ہے ہے کہ حقیقت کے لحاظ سے کامل ہو.ورنہ ہر ولی اور مجدد و محدت اپنے اپنے زمانہ اور اپنے اپنے دائیہ تجدید کی نسبت سے کامل عکس ہی رکھتا تھا جس طرح کہ حفتر نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے قبل تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لئے کا مل ہی تھے لیکن حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل وہ ناقص ہی تھے.ٹھیک اسی طرح پہلے تمام اولیا را اپنے اپنے حلقہ کے لئے کامل عکس رکھنے والے ہی تھے لیکن حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں ان کا حاصل کردہ ٹیکس ناقص ہی تھا حضور کا لیا ہو اکس اس انتہائی حد تک پہنچ گیا جس انتہائی حد تک کسی امتی کے لئے اپنے نبی متبوع کی نبوت کا عکس لینا ممکن ہے اس سے زیادہ کوئی امتی نے ہی نہیں سکتا.امتیوں کے لئے اتنا ہی لینا مقدر ہے اس سے وہ تیار نہ کر ہی نہیں سکتے میں طرح چاند کے لئے اتنا ہی تو ہے سورج سے لینا مقدر ہے جتنا وہ چودھویں رات کو لیتا ہے" و روح اسلام ص ۳۲)

Page 182

JAV شیخ مصری صاحب کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ اولیاء اللہ حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں ناقص عکس رکھتے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام سب اولیا اللہ کے مقابلہ میں انتہائی حد تک عکس رکھتے تھے.گویا مسیح موعود کل عکس کی حیثیت رکھتے تھے اور دوسرے اولیاء آپ کے مقابلہ میں ناقص عکس ہونے کی وجہ سے جزو کی حیثیت رکھتے ہیں.لہذا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب حقیقت کے لحاظ سے کامل عکس ہوئے تو اولیا ء اللہ آپ کے مقابلہ میں حجاز مرسل کے طور پر ٹکس ہوئے لہذا حضرت اقدس حقیقی علی بنی ہوئے اور اولیا اللہ مجازی ملتی نہیں اور یہ موعود علیہ السلام اور اولیاء میں نسبت حقیقت اور مجاز مرسل کی ہوئی.لہذا آپ کو محض محمد ثین کے زمرہ کا فرد قرائہ دیتا مجازی عکسوں اور حقیقی مکہ کو ایک ہی نوع قرار دینے کے مترادف ہے جنس ولائت میں تو سب انبیاء و اخل ہیں یا فہیم شیخ صاحب کی ایک غلط فہمی اپنے شیخ صاحب اب ادھار کھائے چونکہ بیٹھے ہیں کہ حضرت بی موعود علیہ السلام کو زمرہ انبیاء کا فرد ہرگہ قرار دیا جائے.اس لئے وہ، ولیاء اللہ اور حضرت مسیح موجود میں ناقص نظیل اور کامل نظل کا فرق تسلیم کرنے کے باوجود آگے یہ لکھتے ہیں :- بہ اس جگہ اس امر کو واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ اصلی تور تو اخلاق ہے کا ہی ہے جس پر آیت اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کھلی کھلی دلیل ہے.جب یہ نور کسی بشر میں داخل ہوتا ہے تو وہ خدا نہیں کہلا سکتا بلکہ اس کا نام نبی ہو جاتا ہے حالانکہ نور تو اللہ کا ہی ہوتا ہے، اور جب نہیں اور نہی کے واسطہ سے کسی بشر پہینکس

Page 183

ہوتا ہے تو وہ بشر نبی نہیں بلکہ ولی کہلاتا ہے.باوجود نور کے ایک ہی ہونے کے نام بدلنے جاتے ہیں (روح اسلام ص۳) شیخ صاحب کی جس عبارت پر ہم نے خط کھینچ دیا غلط فہمی کا ازالہ ہے اور حضرت صلی الہ علیہ وسلم سے علاوہ باقی ہے تمام انبیاء کی شان افاضہ کے لحاظ سے تو درست ہے مگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم جو خاتم النبیین ہیں ان کی شان افاضہ کے مناسب نہیں کیونکہ منظر اقدس نے خاتم انہین کی تفسیر میں لکھا ہے :- " آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نی کو نہیں ملی" (حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ ۹۷) پس خاتم النبیین کے افالیہ کو معانیہ سے جب یہ نور کسی بشر میں اس طرح داخل ہو کہ وہ بشر حقیقت کے لحاظ سے خاتم النبیین کا کامل عکس ہو جائے تو وہ نبی بن جاتا ہے اور اگر وہ بشر حقیقت کے لحاظ سے کامل عکس نہ ہو تو پھر وہ البتہ ولی بفتا ہے.جب شیخ مصری صاحب خود حضرت مسیح موعود اور اولیاء اللہ میں حقیقی کا بل عکس اور ناقص عکس کا فرق تسلیم کرتے ہیں تو پھر ان کے پاس حضرت اقدس کو محض زمرہ اولیاء کا فرد قرار دینے کے لئے مندر کے سوا کیا باقی رہ جاتا ہے ؟ شیخ صاحب اپنی مند پوری شیخ صاحب کے نزدیک حاتم الانبي کرنے کے لئے خاتم النبیین اور خاتم الاولیاء کا مفہوم کے صلے لہ علیہ وسلم کا اقاضیہ روحانیہ بھی صرف ولائت کے مرتبہ تک پہنچانے کی حد تک قرار دیتے ہیں

Page 184

JAN چنا نچہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے خاتم الاولیا ر ہونے کا مفہوم بیان کرتے کے ضمن میں لکھتے ہیں :- خاتم انا اولیاء کا مفہوم یہ ہے کہ ولائت کے تمام کمالات آپ (صقر مسیح موعود ناقل) نے حاصل کر لئے ہیں اور ولی کا جو کام ہوتا ہے یعنی اپنے مقبوع بنی سے تعلق پیدا کرنا اور اپنے متبوع نبی کی رسالت پر یقینی ایمان پیدا کرتا وہ صرف اس ولی کے ذریعہ قیامت تک ہوتا رہے گا یعنی جس طرح حضرت نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم پوجہ تخاتم الانبیاء ہونے کے قیامت تک ولی بناتے رہیں گے ٹھیک اسی طرح میسج موجود بوجہ خاتم الاولیاء ہونے کے قیامت تک حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان واسطہ رہیں گے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حقیقی تعلق امت کا آپ کے د روج اسلام منفجر ۳۱ ) ذریعہ ہی ہوگا " خاتم الاولیاء اور خاتم الانبیاء حضرت میں موجود میرا تم نے طلبہ الہامیہ میں اپنے آپ کو خاتم الاولیا و لکھ کر اس کا ا مفہوم یہ بیان فرمایا ہے کہ انكفائمُ الأَوْلِيَاء وَلَا عَلَى بَعْدِي إِلَّا الَّذِي هُوَ مِنِي وخطية الباميه صفحه ۳۵) یعنی بے شک میں خاتم الاولیاء ہوں میرے بعد کوئی ولی نہیں بجز اس شخص کے جو مجھ سے ہو اور میرے عہد پر ہو؟ گویا جو شخص آئیندہ آپ سے تعلق نہ رکھے وہ ولائت کا مرتبہ نہیں پاسکتا.اور

Page 185

۱۸۵ تھا تم الانبیاء کے معنی آپ نے یہ بیان فرمائے ہیں..: اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا.یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام معا تم انیتین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توقیہ روحانی نبی تراش ہے.یہ قوت قدسیہ کسی اور نہی کو نہیں ملی" (حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ ۹) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک خاتم الانبیاء کے یہ معنی نہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم صرف ولی بناتے ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ولی بنانے کے علاوہ نبی تراش بھی ہیں.اور یہ جامعہ قورت قدسیہ آپ کے سوا کسی اور نبی کو نہیں ملی.گو تمام انبیاء ولی تراش تو تھے اور اس وجہ سے وہ سب خاتم الاولیاء تھے مگر ان میں سے کوئی بھی نبی تراش " نہ تھا.اگر اس عبارت میں نبی تراش سے مراد ولی تراش لیں تو پھر تمام انبیاء کرام علیہم السلام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اس وضعت خوا تم اندبین میں شریک ہو جاتے ہیں.وَهَنا اكتب بَحْتُ أَعَادَنَا اللهُ مِنْهُ اس سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کا مقاتم الاولیاء ہوتا آپ کے نبی ہونے کے منافی نہیں.کیونکہ ہر نبی خاتم الاولیاء اور راس الاولیاء ہوتا ہے.یعنی اولیاء کا سر فہرست بھی ہوتا رہا ہے اور اس کی پیروی سے اولیاء بھی پیدا ہوتے رہے ہیں.

Page 186

(AY فات کے نزدیک اولیا امینی دی وی دی او لا اله امید اور مسیح موعود میں فرق میں موجود ہیں جو فرق ہے اسے ظاہر کرنے مسیح فرق کے لئے وہ لکھتے ہیں.نہیں طرح نیوں کے مدارج ہوتے ہیں اسی طرح اولیاء کے بھی مدارج ہیں کسی ولی نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بریت کا خفیف سا سایہ لیا اور کسی نے اس سے زیادہ.اولیا ء کے سایہ لینے کی کیفیت کو چند کی مختلف حالتوں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے بعض حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا عکس لینے میں بلال کے مشابہ اور بعض تمر کے لیکن حضرت مسیح موعود کی تشبیہہ چودھویں رات کے چاند یعنی بدر سے ہے جضور نے دوسرے اولیا ہے انت کے مقابلہ میں حضت نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا مکمل عکس لیا ہے جس طرح بد رسورج کے نور سے مکمل معتہ لیتا ہے.ہیں جس طرح پدر با وجود مکمل نور لینے کے چاند ہی رہتا ہے سورج نہیں بن جاتا اسی طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا مکمل نور لینے والا مہنگا جماعت اولیاء ہی کا فرد، جماعت انبیاء کا فرد نہیں بن جائے گا.بالفاظ دیگر جنس نہیں بدلے گی، مرتبہ میں فرق ضرور آجائے گا.یعنی جماعت اولیا میں سر فہرست ہو گا جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تہوں میں سر فہرست ہیں.یہ نہیں کہ معالم النبین ہونے کی وجہ سے آنحضور صلے اللہ - علیہ وسلم نبیوں کی جنس سے نکل کر کسی اور جس میں داخل ہو گئے ہیں اسی طرح حضور رحضرت مسیح موعود علیهات تمام تناقل) با وجود خاتم الاولياً

Page 187

JAZ ہونے کے اولیاء کی جماعت کے فرد ہی کہلائیں گے نہ کہ نبیوں کی جماعت کے ر روج اسلام صفحه ۳۱) شیخ صاحب کی عبارت کے خط کشیدہ الفاظ سے ہمیں پورا اتفاق نہیں.ہاں ان کی خط کشیدہ عبارت سے پہلی عبادت سے ہمیں پورا اتفاق ہے.خاتم الاولیا تو ہر بنی ہوتا رہا ہے ان معنوں میں بھی کہ ہر بنی کے ذریعہ ولی بنتے رہے ہیں اور ان معنوں میں بھی کہ ہرتی سر فہرست اولیاء ہوتا رہا ہے مگر ان کا خاتم الاولیاء ہونا منافی ثبوت نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے بھی نبی اللہ کہا ہے اور آپ کے الہامات میں بھی آپ کو نبی و رسول کہا گیا ہے بلکہ ياتها النبي ، مہر کو بھی مخاطب کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے." يَقُولُ العد و لست مرسلا کہ آپ کا دشمن کہے گا کہ آپ مرسل نہیں.اور حضرت اقدس کا کوئی الہام ایسا نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ تونبی اور رسول نہیں پس بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا مکمل عکس لینے کے لحاظ سے بطور شبیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں بدر کی ہی حیثیت رکھتے تھے اور تمام انبیاء النحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اظلال ہونے کی وجہ سے آپ کے مقابلہ میں چاند ہی ہیں مگر لوگوں کو فیض پہنچانے کے لحاظ سے اپنے حلقہ میں وہ شمس کی حیثیت ہی رکھتے رہے ہیں.اسی طرح مسیح موعود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا کامل ظل ہونے کے لحاظ سے تو بدر ہی ہیں عہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام فرماتے ہیں.پہلے تمام ایلیا وطن تھے نبی کریم کی خاص خاص صفات میں اور اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم کے فل ہیں" (حکم ۲۴ اپریل سی)

Page 188

JAA لیکن ہوا انوار نبوت آپ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے افاضہ رومانیہ سے حاصل گئے ہیں ان کو آگے امت محمدیہ تک پہنچانے کے لحاظ سے آپ شمس کی حیثیت بھی رکھتے ہیں.ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین کی حیثیت میں ایک بے عدیل اور بے مثل شمس ہیں اور باقی تمام انکھیا الشمس تو ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہے عدیل اور بے مثل شمس نہیں ہیں کیونکہ کوئی ان میں سے خاتم النبیت مین نہیں تھا حضرت مسیح موعود علیہات سلام کو جہاں آپ کے الہامات میں نبی اور رسول کہا گیا ہے وہاں الہام انہی میں ہی آپ کو قمر قرار دینے کے ساتھ ہی شمس بھی قرار دیا گیا ہے.چنانچہ آپ کو اللہ تعالے مخاطب کر کے الہا نا فرماتا ہے :- يَا قَمَرُ يَا شَمْسُ اَنتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ " پس حضرت مسیح موعود علیہ استسلام اگر ایک جہت سے قمر ہیں تو دوسری جہت سے آپ شمس بھی ہیں.لہذا آپ ایسے خاتم الاولیاء ہیں جو درجہ نبوت اور نبوت مطلقہ کے لحاظ سے زمرہ انبیاء کا فرد ہیں نہ کہ محض زمرہ اولیاء کا فرد.ہاں مامورین اولیاء اللہ کے زمرہ کا فرد تو ہر نبی اور رسول ہوتا ہے کیونکہ وہ راس الاولیا یعنی اولیاء کا سر فہرست ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء اور اولیاء کے سر فہرست ہیں کیونکہ آپ دلی تراش بھی ہیں اور نبی تراش بھی اللهم صل على محمد وعلى آل محمد شیخ صاحب حضرت اقدس کی ایک شیخ صالح کے ایک قسم کا ازالہ عبادت سے میں یہ بتانا چاہتے مہم

Page 189

#A9 ہیں کہ حضرت اقدس کے نزدیک ہر نبی صاحب شریعت ہی تھا.چنانچہ اس غرض کو ثابت کرنے کے لئے شیخ صاحب ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۹۳ سے ایک عبارت پیش کر کے اس کا غلط مفہوم لیا کرتے ہیں.وہ عبارت یہ ہے : پس میں اپنے مخالفوں کو یقینا کہتا ہوں کہ حضرت عیسی امتی ہرگز نہیں گو وہ بلکہ تمام انبیا و آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ایمان رکھتے تھے مگر وہ خدا کی ان ہدایتوں کے پیرو تھے جو اُن پر نازل ہوئی.تھیں اور براہ راست خدا نے ان پر تجلی فرمائی تھی.یہ ہر گز نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی روحانی تعلیم سے وہ نبی بنے تھے تا وہ امتی کہلاتے.ان کو خدا تعالٰی نے الگ کتابیں دی تھیں اور ان کو ہدایت دی کھتی کہ ان کتابوں پر مکمل کریں اور کوا دیں جیسا کہ قرآن شریف اس پر گواہ ہے " شیخ صاحب اس سے نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضرت اقدس کے نزدیک ہر ایک نبی الگ الگ کتاب شریعت رکھتا تھا.مگی اصل حقیقت یہ ہے کہ اس عبارت میں یہ نہیں کہا گیا کہ ہر نبی کو الگ الگ کتاب شریعیت دی گئی تھی بلکہ اس عبارت میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے انبیاء کوخدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی روحانی تعلیم سے الگ کتابیں دی تھیں.اس عبارت کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ ہرنی کو الگ الگ کتاب شریعیت دی گئی تھی.چنانچہ بنی اسرائیل میں کئی نبی گزرے ہیں جو حضرت موسے علیہ اسلام کی کتاب شریعیت یعنی تورات کے ہی تابع تھے.ان کو تورات کے علاوہ کوئی الگ کتاب شریعت نہیں دی گئی تھی چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام

Page 190

فرماتے ہیں :- 14.بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی صرف خدا کی طرف سے پیشگوئیاں کرتے تھے جن سے موسوی دین کی شوکت اور صداقت کا اظہار ہو" ا بدر هر بار شاه یہی مضمون حضور نے شہادۃ القرآن " صفحہ ۴۳ پھر بھی بیان فرمایا ہے اور حضرت عیسی علیہالسلام جو اولوالعزم انبیاء میں سے ہمیں ان کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود کا یہی عقید ہے کہ وہ کوئی جدید شریعت نہیں لائے تھے بچنا نچہ حضور عیسائیوں کے تورات کی مثیل مونٹی سے متعلقہ پیشگوئی کو یسوع مسیح پر چسپاں کرنے کی تردید میں فرماتے ہیں:.حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت مو سے علیہ السلام سے ایک ذرہ مناسبت نہیں.نہ وہ پیدا ہو کہ یہودیوں کے دشمنوں کو ہلاک کر سکے.نہ وہ ان کے لئے کوئی نئی شریعت لائے.انجیل کیا تھی وہ صرف تورات کار بند نہ تھے " کے چند اس کام کا خلاصہ ہے جس سے پہلے یہود بے خبر نہیں تھے گو اس پر ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۹۹) پھر ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنج صفحه ۱۳۸ پر حضرت اقدس نے نبی کے حقیقی معنی بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ نبی کے لئے شریعیت کا لانا ضروری نہیں.اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر گز یہ عقیدہ نہیں کہ ہر نبی کے لئے الگ الگ شریعت جدیدہ کا لانا ضرور کی ہے بلکہ حضور کے نزدیک بعض انبیاء شریعت لائے ہیں

Page 191

191 تو بعض انبیاء ایسے بھی ہوئے ہیں جو پہلے نبی کی شریعت کے ہی تابع تھے اور وہ کوئی جدید شریعت نہیں لائے تھے.پس شیخ صاحب کا یہ عقیدہ کہ ہر نبی الگ الگ شریعیت لاتا ہے حضرت مسیح موجود عملیات لام کی تقریبات کے خلاف ہے.پس اگر اس وجہ سے وہ حضرت اقدس کو زمرہ انبیاء میں شمار نہیں کرتے کہ ان کے نزدیک ہر نبی کے لئے الگ الگ شریعت لانا ضرور کیا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور شریعیت نہیں رکھتے تو یہ اُن کی صریح غلطی ہے.قرآن و حدیث اور مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک ہر نبی کے لئے الگ الگ شریعت کا لانا ضروری امر نہیں شیخ صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے اس عقیدہ پر نظرثانی فرمائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام شیخ مصری صاحب کے ایک مغالطہ نے بدی عقیدہ کا ذکر کرتے ہوئے حقیقۃ الوحی میں " صریح طور پر نبی کا خطاب پایا “ کے ذکر کے بعد تحریہ فرمایا ہے :- نگی اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی" حضور کے اس فقرہ سے شیخ مصری صاحب یہ مغالطہ دینا چاہتے ہیں کہ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ اپنے آپ کو ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی قرار دے رہے ہیں لہذا آپ ہر پہلو سے نہیں نہ ہوئے اور نبی تو وہ ہوتا ہے کہ اسے جس پہلو سے بھی دیکھا جائے وہ نبی ہو.الجواب: - حقیقة الوحی صفحہ ۵۵ پر حضرت اقارس نے ایک پہلو سے نبی

Page 192

997 اور ایک پہلو سے امتی کہنے کے بعد اس کی خود یہ تشریح فرما دی ہے:." تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہو.اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس نے نہی کے پہلو کے ساتھ امتی کا پہلو اپنی نبوت کی نفی یا اس میں کسی کمی کے پائے جانے کے اظہار کے لئے استعمال نہیں فرمایا بلکہ مرت یہ ظاہر کرنے کے لئے استعمال فرمایا ہے کہ آپ نے مقام نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بعد آپ کی قوت قدسیہ سے حاصل کیا ہے اور یہ امر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے کمال فیضان کا ثبوت ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اس درجہ کے نبی ہیں کہ آپ کا ایک امتی آپ کے فیض سے نبی ہو سکتا ہے.علاوہ ازیں نہی کے ساتھ امتی کا لفظ اس غلط فہمی کو بھی دور کرنے کے لئے استعمال فرمایا ہے کہ گویا آپ حضرت عیسی علیہ السلام وغیرہ انبیاء سابقین کی طرح براہ راست یعنی منتقل نہیں ہیں.پس حقیقۃ الوحی میں نبی کے ساتھ امتی کا لفظ آپ نے اپنی نبوت کو انبسیار کے بالمقابل ناقص درجہ کی نبوت جو محدثیت ہوتی ہے قرار دینے کے لئے بہتان نہیں فرمایا بلکہ صرف اپنی نبوت کے حصول کا ذریعہ ظاہر کرنے کے لئے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے.نہیں آپ کی نبوت بواسطہ فیضانِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملنے سے ناقص درجہ کی نہیں.اسی لئے حضور نے چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۷ پر اسے ایک قسم کی نبوت ہی قرار دیا ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی طبیعت میں مل سکتی ہے.تبدیلی عقیدہ سے پہلے کی کتابوں" ازالہ اوہام وغیرہ کی تصنیف کے وقت حضور اپنے الہامات میں وارد شدہ نبی اور رسول کے الفاظ کی تادیل محدث یا ناقص نہیں یا نہ ٹی نہی کیا کرتے تھے.مگر جب آپ پر وحی الہی کے ذریعہ یہ منکشف

Page 193

۱۹۳ ہو گیا کہ آپ کو خدا تعالے کی طرف سے صریح طور پر نبی کا خطاب دیا گیا ہے تو آپ نے اپنے الہامات میں وارد نبی اور رسول کے الفاظ کی یہ تاویلات بالکل ترک فرما دیں بچنا نچہ سات شانہ کے بعد حضور نے اپنی کسی کتاب اور رسالہ اور اشتہار میں اپنے آپ کو محض محدث یا بزئی نبی یا ناقص نبی نہیں لکھا مگر شیخ مصری صاحب تبدیلی عقیدہ کی اس حقیقت کو نظر انداز کر کے اب ازالہ اوہام کی ایک عبارت ہوتید کی عقیدہ سے پہلے کی ہے پیش کر کے حضرت اقدس کو ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی محدث کے معنوں میں قرار دینا چاہتے ہیں اور ازالہ اوہام کی یہ عبارت پیش کرتے سے پہلے شیخ مصری صاحب بطور تمہید لکھتے ہیں کہ ینی حقیقی تو حضور کے نزدیک وہی ہوتا ہے جو ہر پہلو سے بنی ہو.اس میں تو کوئی دوسرا پہلو ہوتا ہی نہیں.حضور نے صرف نبی کہنے سے ہمیشہ انکار کیا ہے یہاں تک کہ اس انکار کا اظہار اپنی کتاب الوصیتہ میں بھی کیا ہے جس کو منسوخ کہا ہی نہیں جاسکتا.اس سے صاف سے حضور نے صرف نبی کہنے سے انکار اس درجہ سے کیا ہے نا آپ کو مستقلہ نبوت کا مرضی سے سمجھ لیا جائے جو انبیاء کو خدا تعالے کی طرف سے براہ راست ملتی رہی کیونکہ آپ نے مقام نبوت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور آپ کی قوت قدسیہ کے فیضان کے واسطہ سے پایا تھا اس واسطہ کو ظاہر کرنے کے لئے آپ اپنے آپ کو صرف تبھی نہیں بلکہ ایک پہلو سے یبی اور ایک پہلو سے امتی قرار دیتے ہیں.اتنی کا لفظ "الوصیت میں نبوت کی نفی یا اس میں کسی کے لئے استعمال نہیں فرمایا بلکہ مقام نبوت کے پانے میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا واسطہ ظاہر کرنے کے لئے استعمال فرمایا ہے.منہ

Page 194

۱۹۴ ظاہر ہے کہ حضور نبوت تامہ کی صفت سے متصف نہیں تھے اور بدین وجہ آپ حقیقی طور پر نبیوں کے زمرہ میں بھی داخل نہیں ہو سکتے.زمرہ انبیاء میں وہی داخل ہو گا جو صرف نبوت کی شان ہی اپنے اندر رکھتا ہوگا.امتی کی شان سے وہ بکتی مبرا ہوگا جیسا کہ حضور اپنی کتاب ازالہ اوہام کے صفحہ ۵۳۲ ۵۳۳۱ پر آنے والے مسیح کے متعلق امتی ہونے کی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- اب ان تمام اشیاء سے صاحت ظاہر ہے کہ وہ ریعنی آنے والا سیح ناقل) واقعی اور حقیقی طور پر نبوت تامہ کی صفت سے متصف نہیں ہوگا ہاں نبوت ناقصہ اس میں پائی بھائے گئی ہو دوسرے لفظوں میں محدثیت کہلاتی ہے....سو یہ بات کہ اس کو امتی بھی کہا اور اس امتی نبی بھی ، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دونوں شانیں امتیت اور نبوت کی اس نہیں پائی جائیں گی جیسا کہ محدث میں ان دونوشانوں کا پایا جانا ضروری ہے.لیکن صاحب نبوت نامہ تو صرف ایک شان نبوت ہی رکھتا ہے.غرض محدثیت دو نو رنگوں سے رنگین ہوتی ہے اس لئے خدا تعالٰی نے براہین احمدیہ میں اس کابینہ کا نام امتی بھی رکھا اور نبی بھی." در ورخ اسلام صفحه ۲ (۲۹) محدث کے بالمقابل صاحب ثبوت نامہ سے مراد اس جگہ مستقل بنی اوار تشریعی نبی ہے.

Page 195

۱۹۵ ازالہ اوہام سے یہ عبارت درج کر کے شیخ مصری صاحب لکھتے ہیں :- اب خدا را غور فرمائیں کہ ازالہ اوہام اور حقیقۃ الوحی کی عبارتوں ( روح اسلام صفحہ ۲۹) میں کیا سر مو بھی فرق ہے ؟" اور آگے چل کر اس بحث کا یہ نتیجہ پیش کرتے ہیں:.پس ثابت ہوا کہ حضور نے ایک پہلو سے نہیں اور ایک پہلو سے امتی کے لفظ سے نبی کی تشریح فرما کر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ثبوت جس کا اظہار اس جگہ کیا گیا ہے وہ نبوت ناقصہ ہی ہے جس کا عامل اسلامی اصطلاح میں محدث ہی کہلاتا ہے نہ کہ صرف نبی" ( روح اسلام صفحه ۲۹-۳۰) اوہام کی شیخ صاحب ازالہ اوہام کی ازالہ او ہمت کی عبارت کی حیثیت اس قدامت سے ظاہر ہے کہ عبارت سے حضرت اقدس نے اس جگہ محدث کو امتی قرار دینے کے ساتھ نبی یہ نبوت ناقصہ قرار دیا ہے.اور یہ آپ خوب جانتے ہیں کہ یہ عبارت تبدیلی عقیدہ سے پہلے زمانہ کی ہے.پس یہ جانتے ہوئے اس کو پیش کرنے سے آپ کا مقصد حضرت اقدس کے لڑ پھر سے ناواقف لوگوں کو مغالطہ دینے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ، شیخ صاحب !! اگر آپ یہ کہنے میں بچتے ہیں کہ حضرت اقدس نے افضلیت کے عقیدہ میں تبدیلی کے ساتھ اپنی نبوت کے عقیدہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی تو پیچھے آپ ہمارے سامنے حضرت اقدس کی سلسلہ سے بعد کی کوئی تحریر پیش کریں نہیں میں حضور نے اپنی نبوت کو ناقصہ نبوت قرار دیا ہو.یا یہ لکھا ہو کہ میری ثبت سے

Page 196

194 مراد محض محدثیت ہے ورنہ آپ کا یہ کہنا کہ ازالہ اوہام اور حقیقت اوچی کی عیلات میں سر مو فرق نہیں محض ایک مغالطہ ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ سر مو فرق نہیں تو کجا ، ازالہ اوہام اور حقیقۃ الوحی کی عبارتوں ہیں تو بعد المشرقین ہے کیونکہ ازالہ اوہام میں تو حضرت اقدس نے صاف لفظوں میں اپنے آپ کو کامل امتی اور ناقص نبی بلفظ دیگر محمدت قرار دیا ہے اور محدثیت کو نبوت ناقصہ قرار دیا ہے.گویا تمام محدثین امت میں دو نو شانیں امقیت اور نبوت نا قصہ کی پائی جانا تسلیم کی ہیں اور محدثین امت محمدیہ میں بکثرت گذر چکے ہیں.جیسا کہ حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ہے :- " امت محمدیہ میں محدثیت کا منصب اس قدر بکثرت ثابت ہوتا ہے حسین سے انکار کرنا بڑ سے غافل اور بے خبر کا کام ہے" د براہین احمدیه حاشیه ۴ صفحه ۱۴۴۵ مگر تب دیہی عقیدہ کے بعد حقیقۃ الوحی میں حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- (1) " اس است میں ہزارہ اولیاء ہوئے اور ایک وہ بھی ہوا تو امتی بھی ہے اور نبی بھی " پھر مسلمانوں کو مخاطب فرما کر رکھتے ہیں :- (حقیقة الوحی صفحہ ۲۸) خود بعد یشین پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیلی نبیوں کے مشابہ لوگ پیدا ہوں گے اور ایک ایسا ہو گا کہ ایک پہلو سے نہیں ہے اور ایک پہلو سے امتی.وہی مسیح موعود کہلائے گا " (حقیقة الوحی حاشیه صفحه (۱۰)

Page 197

192 حقیقۃ الوحی کی ان دونوں عبارتوں سے ظاہر ہے کہ اولیاء اللہ یعنی محدثین تو اس امت میں ہزار ہا ہوئے مگر مستی نبی صرف ایک ہی ہوا ہے جو مسیح موعود ہے.اور ازالہ اوہام کی عبارت کے رو سے ان ہزارہا محدثین میں امتی ہونے کے ساتھ نبوت نا قصہ کا پا یا جان ستم ہے مگر حضرت اقدس کا حقیقۃ الوحی میں تیرہ سو سال میں اب تک ایک ہی امتی نبی کا آنا قرار دینا جو مسیح موعود ہے اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ سیح موعود کا مقام حصول ثبوت میں محدثین ہمت سے بالا ہے.محدثین ہمت تو نبوت نا قصہ رکھتے ہیں تار مسیح موعود ان کے مقابلہ میں کامل امتی نہیں ہے بچنا نچہ اسی وجہ سے حضرت اقدس اپنے سے پہلے اولیاء اللہ یعنی محمد تین کہ حقیقۃ الوحی میں بنی کہلانے کا مستحق نہیں سمجھتے اپنے آپ کو نبی کا نام پانے کے لئے تیرہ سو سال میں ایک فرد مخصوص قرار دیتے ہیں.دیکھئے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۳۹۱ پر حضور تحریر فرماتے ہیں:.غرض اس حصہ کثیر جی اپنی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں گئی" اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے نزدیک آپ سے پہلے اولیا الل میں سے کسی نے بھی مکالمہ مخاطیہ الہی مشتمل بر امور غیبیہ کو کامل طور پر حاصل نہیں

Page 198

14^ کیا ہو نبی کہلانے کے لئے ایک ضروری شروط ہے چونکہ تیرہ سو سال میں اس شرط کو اس وقت تک صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی پورا کیا ہے اس لئے تیرہ سو سال میں نبی کا نام پانے کے لئے آپ ہی ایک مخصوص فرد ہیں دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں.پس ازالہ اوہام کی تحریمہ کے مطابق تو ہر محدث امتی اور ناقص بنی ہے اور حقیقۃ الوحی میں تیرہ سو سال میں امتی اور نبی حضور نے صرف اپنے آپ کو ہی قرار دیا ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور حقیقۃ الوحی کے وقت اپنا مقام نبوت محدثین امت کی طرح امتی اور ناقص نبی نہیں سمجھتے بلکہ کامل امتی اور کامل نبی سمجھتے ہیں.اب شیخ مصری صاحب دیکھ لیں کہ ازالہ اوہام اور حقیقت الوحی کی عبارتوں میں سید مو فرق نہیں یا دونوں عبارتوں میں بعد المشرقین ہے.ازالہ اوہام میں تو حضور نے صاف طور پر اپنے آپ کو امتی اور ناقص نبی، یا محدث قرار دیا ہے مگر تحقیقۃ الوحی میں کسی جگہ بھی اپنے آپ کو ناقص نبی یا محض محدث قرار نہیں دیا.اگر شیخ مصری صاحب کا یہ قول درست ہے کہ ازالہ اوہام اور حقیقۃ الوحی کی تحریروں میں سبر مو فرق نہیں تو وہ ایک ہی عبارت تحقیقۃ الوحی سے ایسی پیش کر دکھائیں جس میں حضور نے اپنے آپ کو نبی معنی محدث یا نا قص نبی کہا ہو نا ممکن ہے کہ شیخ صاحب ایسی عبادت پیش کر سکیں.پس ان کا یہ کہنا کہ ازالہ اوہام اور حقیقۃ الوحی کی عبارتوں میں سرمو فرق نہیں محض ایک مغالطہ ہے.تبدیلی عقیدہ سے پہلے ازالہ اوہام کے زمانہ میں حضرت اقدس واقعی نبی حضرت

Page 199

194 تشریعی یا مستقل انبیاء کو سمجھتے تھے.چنانچہ تعریف نبوت میں تبدیلی تبدیلی عقیدہ سے پہلےحضرت اقدس اپنے مکتوب مند رعد الحکم کے ار اگست اور میں نبی کے لئے کابل شریعت یا احکام جدید لانا یا بلا استفادہ کسی نبی کے خدا سے تعلق رکھنا اور کسی دوسرے نبی کا امتی نہ کہلانا ضروری سمجھتے تھے.اس لئے اس زمانہ میں اس تعریف کو جامع سمجھنے کی وجہ سے حضرت اقدس اپنے آپ کو نبی یعنی محدث قرار دیتے تھے.مگر نبوت کی یہ تعریفت محض عرفی یا استقرائی تھی.لہذا جب حضرت اقدس پر یہ واضح ہو گیا کہ یہ تعریفت جامع نہیں تو آپ نے اس تعریف میں یہ ترمیم فرما دی کہ کسی دوسرے نبی کا امتی نہ ہوتا نہی کے لئے کوئی ضروری شرط نہیں بلکہ امتی بھی نبی ہو سکتا ہے.چنانچہ حضور نے تمیم بر این احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۳۸ پر ایک سوالی درج کر کے اس کے جواب میں بتا دیا ہے کہ نبی کے لئے استنی نہ ہونا کوئی ضروری شرط نہیں بلکہ ایک امتی بھی بنی ہو سکتا ہے.ذیل میں وہ سوال و جواب درج کیا جاتا ہے :.سوالی کی عبارت بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں لکھا ہے کہ آنے والا عیسی اسی امت میں سے ہوگا لیکن صحیح مسلم میں صریح لفظوں میں اس کا نام نبی اللہ رکھا ہے پھر کیونکہ ہم مان نہیں کہ وہ اسی امت میں سے ہو گا ؟ " اس سوال سے ظاہر ہے کہ سائل امنی کا نبی ہو سکتا محال سمجھتا ہے گویا اس کے نزدیک امتی اور نبی میں تبائن گلی کی نسبت پائی جاتی ہے یعنی اس کے نزدیک

Page 200

امتی نبی نہیں ہو سکتا اور نبی امتی نہیں ہو سکتا.پس نبی سے مراد اس کی اس سوال میں فی الحقیقت بجا ہے نہ کہ محض محدث کیونکہ محض محدث تو ایک امتی ہی ہوتا ہے امتی اور محدث میں تو تبائن گلی کی نسبت نہیں پائی جاتی.پس سائل اس خلجان میں ہے کہ جب صریح لفظوں میں صحیح مسلم میں مسیح موعود کو نبی اللہ قرار دیا گیا ہے توپھر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی یہ بات کیسے درست ہے کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہو گا؟ حضرت اقدس اس سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ جواب کی عبارت اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام بد قسمتی دھوکہ سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی شیر و امور غیبیہ.ناقل) پانے والا اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں.اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو پس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے میں کوئی محذور لازم نہیں آتا.بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امتی اپنے اسی نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو.“ دیکھئے حضرت اقدس مکتوب کاراگست عملے کے وقت تو نبی کے لئے اگر وہ شریعت یا احکام جدیدہ نہ لائے ، کم از کم یہ ضروری سمجھتے تھے کہ وہ کسی نبی کا امتی نہیں کہلاتا بلکہ سابق نبی سے استفادہ کے بغیر نبی کہلاتا ہے ، گویا سائل کی طرح آپ بھی یہی سمجھتے تھے کہ نبی امتی نہیں ہوتا.اور حضور کی یہ تحریر تبدیلئی

Page 201

۲۰۱ عقیدہ کے زمانہ سے پہلے کی ہے لیکن تبدیلی تحقیدہ کے بعد ضمیمہ بر این احمد رحمتہ یتیم کی محولہ بالا عبارت میں حضور نے نبی کے حقیقی معنی صرف یہ بتا کہ کہ وہ بذریعہ وحی شبرد امور غیبیہ تاقل، پانے والا اور شریف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشروف ہوا نہ تو شریعیت کا لانا اس کے لئے ضروری قرار دیا ، نہ اس کا دوسرے نبی کا امتی نہ ہونا ضروری قرار دیا ہے بلکہ امتی کے لئے ان حقیقی معنوں میں بنی ہو جانے کو قابل اعتراض نہیں سمجھا اور فرما دیا ہے کہ لیس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دیتے ہیں کوئی محذور لازم نہیں آتا.بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امتی اپنے اسی نبئی متبوع سے فیض پانے والا ہو ؟ اراگست شاہ والی تعریف نبوت میں حضرت اقدس نے تحقیقی نبی کے لئے شریعیت جدیده یا احکام جدیده لانا یا کم از کم کسی دوسرے نبی کا امتی نہ کہلانا ضروری قرار دیا تھا خواہ وہ نبی شریعت یا احکام جدیدہ نہ لائے لیکن تبدیلی عقیدہ کے بعد ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۳۸ میں حضرت اقدس نے نبی کے جو حقیقی سمنے بیان کئے ہیں ان کے رو سے پہلی تعریف ثبوت کی طرح ہی نبی کے لئے شریت یا احکام تجدیدہ لانا توضروری قرار نہیں دیا مگر اس زمانہ میں اب آپ نبی کے لئے دوسرے نی کا امتی نہ ہونا ضروری شرط نہیں سمجھتے اور یہ امر تعریف نبوت میں تبدیلی اور ترمیم کا ایک روشن ثبوت ہے اس طرح حضور نے سائل کو سمجھایا ہے کہ نبی اور امتی میں آپ کے نزدیک اس طرح تبائن کئی نہیں پایا جاتا کہ نبی کے لئے امتی نہ ہونا ضروری ہو.بلکہ اب

Page 202

۳۰۳ بر آپ کے نزدیک ایک امتی ان تحقیقی معنوں میں کہ وہ مکالمہ مخاطبہ الہی تمل ایک امتی ان غیبیہ سے مشرف ہو نبی ہو سکتا ہے.اسی لئے مسیح موعود کو احادیث نبویہ میں امتی بھی کہا گیا ہے اور نبی بھی.پس وہ مسیح موعود ان حقیقی معنوں میں نبی بھی ہے اور امتی بھی.ضمیمه بر این احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۳۸ میں بیان کردہ تعریف نبوت سے یہ ظاہر ہے کہ یہ تعریف نبی معنی محدث کی ہر گز نہیں بلکہ یہ فی الواقع نہی کی ایک جامع تعریف ہے کیونکہ سائل کو خلجان نبی بمعنی محدث کے متعلق نہیں تھا بلکہ اسے حقیقت میں نبی کے امتی ہونے کے متعلق مخلجان اور اعتراض تھا.کیونکہ اس کے نزدیک نبی اور امتی میں تبائن بھی پایا جاتا تھا یعنی اس کے نزدیک نبی کا امتی ہونا ایک محال امر تھا.حضرت اقدس نے ایسے سائل کو سمجھایا ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں کے لحاظ سے نہ تو اس کا شریعیت لانا ضروری ہے نہ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو.لہذا ایک امتی کا نبی ہو جانا قابل اعتراض امر نہیں حضور کا یہ فقرہ کہ " شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں" اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اس جگہ حقیقی معنوں میں نبی کی تعریف بیان ہو رہی ہے نہ کہ محدث کی تعریف جو ناقص نہی ہوتا ہے.کیونکہ یہ فقرہ بتاتا ہے کہ نبی شریعیت والا بھی ہو سکتا ہے اور بغیر شریعت کے بھی نہی ہو سکتا ہے مگر محدث تو ضروری طور پر شریعیت جدیدہ لا ہی نہیں سکتا.پس یہ فقرہ محض محدث کے لئے کہا ہی نہیں جا سکتا کہ شریعیت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں.یہ فقرہ تو حقیقی معنوں میں نبی کے لئے ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ نبی ہی نئی شریعت لانے والا ہو سکتا ہے

Page 203

اسی طرح اس فقرہ سے اگلا فقرہ بھی " اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعت رسول کا مبیع نہ ہو، محض محدث کے لئے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ محض محدث تو ضروری طور پر ایک نبی کے تابع ہی ہوتا ہے وہ نبی کا غیر تابع ہو ہی نہیں سکتا.مگر یہ فقر ویتا رہا ہے کہ نبی جس کے حقیقی معنی بیان کئے جار ہے ہیں وہ ایک نجی کے تابع بھی ہو سکتا ہے اور غیر تابع بھی.لہذا یہ قیقی نبی کی تعریف ہوئی نہ کہ محض محمدت کی ہو کہ بالضرور نبی کے تابع ہی ہوتا ہے تحقیقی نہی کی ہی یہ نشان بھی ہو سکتی ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا تابع نہ ہو ہاں اس جگہ تابع کا حقیقی معنوں میں نبی ہونا بھی جائزہ قرار دے رہے ہیں.اور ان حقیقی معنوں میں ایک امتی کا نبی ہو جانا اب قابل اعتراض قرار نہیں دیتے.پس حضرت اقدس کے بنی کے حقیقی معنی بیان کرتے ہوئے یہ دو فقرے اس بات کا روشن ثبوت ہیں کہ حضور نے اس جگہ نبی کے ہی حقیقی معنی بیان فرمائے ہیں نہ کہ محض محدث کے حقیقی معنی نبی کے حقیقی معنیٰ بیان کرنے کے بعد حضور نے صاف لکھ دیا ہے کہ ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے میں کوئی محذور لازم نہیں آتا جس کے یہ معنی ہیں کہ ایک امتی بھی بنی کے ان تحقیقی معنوں میں بنی کہلا سکتا ہے اس لئے مسائل کو یہ مجھ لینا چاہیے کہ مسیح موعود کو حقیقی معنی میں ہی نبی کہا گیا ہے کیونکہ امتی کے حقیقی معنے میں بنی ہو جانے میں کوئی محذور لازم نہیں آتا یعنی امتی کا نبی ہو جانا کوئی محال اور قابل اعتراض امر نہیں کیونکہ اسی اور نبی میں تنہائن کلی کی نسبت نہیں پائی جاتی بلکہ تبائن جزئی بصورت عموم خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے.پس ضمیمہ براھین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۳۸ میں بیان کردہ

Page 204

تعریف کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام احادیث کے موعود بسیج کو لیٹی اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں نبی قرار دیتے ہیں اور اس طرح حضور زمرہ انبیاء کا فرد ہیں نہ کہ محض زمره اولیا کا فرد چنانچہ تمیم بر این احمدیہ حصہ پنجم میں نبی کے حقیقی معنی بیان کرنے کے بعد حضرت اقدس آیہ تحریمہ فرماتے ہیں :- مجھے خدا تعالٰی نے میری وحی میں بار بانہ امتی کر کے بھی پکارا ہے اور نبی کر کے بھی پکارا ہے.ان دونوں ناموں کے سننے سے میرے دل میں نہایت لذت پیدا ہوتی ہے اور میں شکر کرتا ہوں کہ اس مرتب نام سے مجھے عزت دی گئی اور اس مرکب نام رکھنے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا عیسائیوں پر ایک سرزنش کا تازیانہ لگے کہ تم تو میسی بن مریم کو خدا بناتے ہو.مگر ہمارا نبی صلے اللہ علیہ وسلم اس درجہ کا نبی ہے کہ اس کی امت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور معیلی کہلا سکتا ہے حالانکہ وہ امتی ہے.د تمیمه بر این احمدیہ حصه بحجم صفحه ۱۸۴) دیکھئے اس جگہ خط کشیدہ الفاظ میں " امت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے" سے مراد بنی ہی ہے نہ کہ محض محدث کیونکہ محدثین جو نبوت نا قصہ رکھتے ہیں وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کے فیض سے بھی بنتے رہے ہیں.اور اس جگہ صرف نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی امتیاز کا نشان بیان ہو رہی ہے کہ آپ صلے اللہ علیہ وسلم ہی اس دربعہ کے نبی ہیں کہ آپ کی امت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور کسی نبی میں یہ قوت قدسیہ موجود نہیں تھی کہ اس کے

Page 205

۲۰۵ فیض سے کوئی امتی نبی بن سکتا کیونکہ یہ شرف بقول حضرت مسیح موعود صرف خاتم نبیین صلے اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں :.آپ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی.ناقل پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے.یہ قوت تدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی " (حقیقة الوحی حاشیہ صفحہ ۹۷) تیز تریہ فرماتے ہیں :- پھر اس (خاتم النبین ناقل) کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں.ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے ہمتی ہونا لازمی ہے" (حقیقة الوحی صفحه ۲۸) پس دلی یا محدث تراش تو سب پہلے انبیاء بھی تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سب انبیاء سے یہ امتیاز کی شان رکھتے ہیں کہ آپ کی پیروی کمالات نبوت بھی بخشتی ہے یعنی آپ کی قوت قدسیہ محدث تراش بھی ہے اور ساتھ ہی آپ کی توجہ روحانی نبی تماش بھی ہے اور یہ جامع قوت قدسیہ کسی اور نبی کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے پہلے حاصل نہیں تھی اس لئے آپ کو ہی خاتم النبیین قرار دیا گیا.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں بیان کردہ نبی کے حقیقی معنوں میں نبی ہیں، اور آپ کا امتی ہونا ان حقیقی معنوں میں نبی ہونے میں قابل اعتراض امر نہیں.پس جب آپ ستحقیقی معنوں میں بنی ہوئے تو آپ کی امتی نبوت، درجہ نبوت یا نبوت مطلقہ کی ہی ایک قسم قرار پائی جو خاتم النبیین صلے اللہ علیہ وسلم کی خاتم کا ایک

Page 206

فیض اور صلی اللہ ہے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور ور کے بعد اب غیر امتی نبی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے کے لئے کوئی گنجائش رہو نہیں کیونکہ غیر امتی نبی کے آنے میں آیت خاتم النبیین روک ہے لیکن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا عام انیشتین ہونا آپ کے امتی کے نبی ہو جاتے میں روک نہیں.پس یہ قسم نبوت پہلی اقسام نبوت سے ایک الگ قسم کی نبوت ہے جس کا ظہور صرفت سلسلہ محمدیہ میں ہی ہو سکتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :- و میں اس کے اخدا تعالیٰ کے.ناقل ) رسول پر دلی صدق سے ایمانی لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام ہوتیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے.مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ ثبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور ہو اس کے چراغ سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں ہوئی کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا خلیل ہے اور اسی کا مظہر اور اسی سے فیض یاب ہے" رچشمه معرفت صفحه ۳۲۷) اور یہ خود شیخ صاحب تسلیم کر چکے ہیں :.کرچ مذہبی کا نام ہو اور کسی ولی کو نہیں دیا گیا اور صرف حضرت اقدس کو ہی دیا گیا وہ مماثلت نام کی وجہ سے ہی دیا گیا کیونکہ نام کسی صفت کے کمال پر ہی جا کر ملتا ہے ؟ و روح اسلام میتھ ۳۳)

Page 207

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کامل خلقی نہیں ہیں اور کامل علی نبی محض نہیں ہوتا بلکہ وہ کامل امتی اور کامل نبی ہوتا ہے اور ظلی نبوت کا ملہ حقیقی معنی میں نبوت کی ایک قسم ہوئی کیونکہ ضمیمه بر این احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۳ کی تعریف نبوت کے لحاظ سے جس میں نبی کے حقیقی معنی بیان کئے گئے ہیں نبوت کی تین قسمیں قرار ہے اول :- شریعیت لانے والا نبی.دوم : غیر تشر یعنی بنی جو دو سر سے نبی کا امتی نہ ہو.سوم : غیر تشریعی امتی نبی یا بالفاظ دیگر ظلی نہیں.پس غیر تشریعی امتی نبوت ، نبوت مطلقہ کی ایک قسم ہونے کی وجہ سے اس کا مسایل حقیقی معنی میں بنی ہوا.اور درجہ نبوت کے لحاظ سے زمرہ انبیاء کا ر قرار پایا سنی کی تینوں قسمیں آپس میں تبائن رکھتی ہیں.لہذا دوسری قسم کا نی پہلی قسم کے نبیوں کے زمرہ میں داخل نہیں ہوتا.حالانکہ دو بھی حقیقی معنی میں بنی ہوتا ہے.تیسری قسم کا نبی پہلی دو قسموں کے نبیوں کے زمرہ میں داخل نہیں ہوتا.ہاں نبوت مطلقہ یا درجہ نبوت کے لحاظ سے یہ تینوں اقسام کے انبیاء زمرہ انبیاء کے افراد ہیں.فاحفظوا هذه النكتة يا اولى الالباب فانها تصونكم عن الاوهام پس حقیقۃ الوحی کے زمانہ میں حضرت تمام مستقل اب یار بھی اقدس حقیقی معنوں میں نہی کے لئے ایک پہلو سے اُمتی ہیں غیر امتی ہونا ضروری نہیں سمجھتے.لہذا ازالہ اوہام کی تحریرہ سے شیخ صاحب کا یہ استدلال اس موقعہ پر درست نہیں

Page 208

۲۰۰ کہ نبی وہی ہوتا ہے جو ہر پہلو سے نبی ہو نہ وہ جو ایک پہلو سے امتی بھی ہو کیونکہ اب حضرت اقدس نے نبی کے حقیقی معنی بیان کر کے فرما دیا ہے کہ ایک امتی کو نبی قرار دینے میں کوئی محذور لازم نہیں آتا.شیخ صاحب پر واضح ہو کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی کے مقابلہ میں بے شک مستقل انبیاء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کابل امتی ہونے کا وصف تو نہیں پایا جاتا مگر ایک پہلو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی تو تمام انبیائے کرام علیہم السلام بھی ہیں خواہ وہ تشریحی انبیاء جوں یا غیر تشریعی مستقل انبیاء.اور یہ پہلو ہے لتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَ لَتَنْصُرُنَّهُ.والی عمران) کا کیونکہ یہ آیت بتاتی ہے کہ ہرینی سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا اور اس میثاق النبتين کے لحاظ سے تو تمام انبیاء ایک پہلو میں آنحضرت کے امتی ہی ہیں.گو کامل امتی نہیں.ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امنیت کے پہلو میں بھی کامل ہیں اور نبی کے پہلو میں بھی کامل ہیں کیونکہ آپ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لحاظ سے بھی امتی ہیں اور کامل پیروگی کرنے کے لحاظ سے بھی امتی ہیں.نیز اپنے تمام کمالات اپنے نبی متبوع کے فیض سے پانے کے لحاظ سے بھی امتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لحاظ سے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہی قرار دیا ہے.چنانچہ حضرت اقدس تحریمہ فرماتے ہیں :

Page 209

۲۰۹ یوں تو قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہے.بجیسا کہ اللہ تعالے فرماتا ہے تو منت به ولتنصر نه پس اس طرح تمام انبیا علیہم السلام آ نحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت ہوئے اور پھر حضرت عیسی کو امتی بنانے کے کیا معنی ہیں اور کونسی خصوصیت کیا وہ اپنے پہلے ایمان سے برگشتہ ہو گئے تھے جو تمام نبیوں کے ساتھ لائے تھے تا نعوذ باللہ یہ سزا دی گئی کہ زمین پر اتار کر دوباره تجدید ایمان کرائی جائے مگر دوسرے نبیوں کے لئے وہی پہلا ایمان کافی نہ ہا.کیا ایسی کچھی باتیں اسلام سے تمسخر ہے یا نہیں ؟“ ضمیمه برا بین احمدیہ حصہ بنجم صفحه ۱۳۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر سے ظاہر ہے کہ امتیت کے ایک پہلو کے لحاظ سے تمام انبیاء آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں.لین اس طرح تمام انبیاء ایک پہلو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بھی ہیں اور دوسرے پہلو سے نبی بھی ہیں.لہذا شیخ صاحب کا یہ بیان درست نہ رہا کہ نبی کو جس پہلو سے دیکھا جائے وہ نبی ہی ہوتا ہے اور امتی اور نجا چونکہ ہر پہلو سے نبی نہیں ہوتا اس لئے وہ نبی نہیں بلکہ ولی ہی ہوتا ہے.کیونکہ تمام انبیاء کرام کا امتیت کے ایک پہلو سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونا انہ روئے قرآن ثابت ہے اور امنیت کا پہلو رکھنے کے باوجود وہ بنی ہی رہتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے لئے نبی کے

Page 210

۲۱۰ ساتھ امتی کی ترکیب اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند اور شاگرد بھی ہیں اور بھی بھی.یعنی جب آپ کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے دیکھا جائے تو آپ اُن کے امتی یعنی روحانی فرزند اور شاگرد ہیں اور جب آپ کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت کے مقابلہ میں دیکھا جائے تو آپ نبی ہیں مگر بغیر شریعت جدیدہ کے شیخ صاحب ! اگر کوئی شخص ایک دوسرے شخص کا شاگرد ہو.مگر بعض دوسروں کا وہ اُستاد ہو تو اس طرح وہ ایک پہلو سے شاگرد ہوگا اور ایک دوسرے پہلو سے اُستاد.اس کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ایک پہلو سے شاگرد ہے لہذا وہ اُستاد ہی نہیں.اس لئے کہ وہ ہر پہلو سے اُستاد نہیں.اگر یہ معنی نہیں ہو سکتے تو ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی کے بھی یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ حضرت مسیح موعود علیدات سلام نبی نہیں.کیونکہ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۳۸ میں حضرت اقدس نے بالتصریح بیان کر دیا ہے کہ ایک امتی کے نبی ہونے میں کوئی محذور لازم نہیں آتا " نہیں حضرت مسیح موعود علیہ اس نام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے شاگرد ہونے اور روحانی فرزند ہونے کے لحاظ سے امتی ہیں.مگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے استاد کامل ہونے کے لحاظ سے نبی ہیں.پھر نبی کے ساتھ امتی کا لفظ حضرت اقدس کے آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے علاوہ آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کا کمال فیضان ثابت کرنے کے لئے بھی استعمال ہوا ہے

Page 211

۲۱۱ یعنی ایسا کمال فیضان ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی سے ظہور میں نہیں آیا.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے :- وہاں میں صرف نبی نہیں بلکہ ایک پہلو سے نہبی اور ایک پہلو سے امتی ہوں تا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور کمانی فیضان ثابت ہو" (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۵۵) یہ قوت قدسیہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال فیضان پر دال ہے آپ کے خاتم النبیین ہونے کی قوت قدسیہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے " (حقیقة الوحی حاشیه صفحه 4) اسی قوت قدسیہ سے متعلق حضور آگے تحریر فرماتے ہیں.یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی " پینا نچہ اسی قوت قدسیہ کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں: آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولی نو ہوئے اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی " (حقیقة الوحی حاشیه صفحه ۲۸) پس اولیاء الله یا محدثین ( ایک پہلو سے امتی اور ایک پہلو سے ناقص انبیاء ) تو امت محمدیہ میں بکثرت ہوئے ہیں مگر کامل امتی نبی حقیقۃ الوحی تے ، بیان مندرجہ بالا کے مطابق تیرہ سو سال میں صرف ایک ہی ہوا ہے جو حصہ بہت سیح موعود علیہ اسلام ہیں.

Page 212

۲۱۲ اس شیخ صاحب کا یہ کہنا کہ ازالہ اوہام کی عبارت رجس میں حضرت اقدس نے خود کو امتی اور ناقص نبی قرار دیتے ہوئے محدث قرار دیا ہے.ناقل) اور حقیقۃ الوحی کی عبارت میں روحیں میں حضرت اقدس نے صرف اپنے ہی چود کو تیرہ سو سال میں امتی نبی قرار دیا ہے.تاقل، سر مو فرق ہمیں محض غلط بیانی اور مغالطہ رہی ہے کیونکہ حقیقۃ الوحی میں امتی کا لفظ نبوت کی نفی کے لئے استعمال نہیں ہوا بلکہ صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے کہ مقام نبوت پر آپ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور کمال فیضان سے فائز ہوئے ہیں.ازالہ اوہم میں محدث کو کامل امتی اور ناقص طور پر نبی کہا گیا ہے اور محدثین حضرت اقدس کے نزدیک امت محمدیہ میں بکثرت ہوئے ہیں جو امتی بھی ہیں اور تاقص نبی بھی لیکن امتی نبی یہ نبویت طبیہ کا ملہ تیرہ سو سال میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں.شیخ صاحب حمامة البشرى شخاک کے نزدیک قوت قدسیہ کی عربی عبارت کا ترجمہ :.اور کمال فیضان کی تشریح، " کتنے ہی حالات ہیں جو انبیاء میں اصالتاً پائے جاتے ہیں اور ہم کو ان سے افضل اور اعلیٰ سے اصل ہوتے ہیں“ صفحه ) درج کرنے کے بعد حقیقة الوحی کی عبارت ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی کے بعد کے تشریحی الفاظ : تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہو ایا میدان ثابت

Page 213

۲۱۳ کی تشریح میں لکھتے ہیں :.پس حقیقۃ الوحی کی عبارت " تا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیه را در کمال فیضان ثابت ہو“ کا مطلب صرف اتنا ہی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جامع الکمالات ہونے کی وجہ سے اپنے کابل متبع کو اپنے وارث ہونے کی وجہ سے مجامع الکمالات بنا سکتے ہیں اور یہ خصوصیت اور فضیلت سابق انبیاء میں سے کسی کو حاصل نہ تھی کیونکہ حضرت نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے قبل کوئی نبی مجامع الکمالات نہ تھا پھر وہ اپنے متبعین کو کس طرح جامع الکمالات بنا سکتا تھا.اب جبکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کے نتیجہ میں ایک شخص یعنی سیدنا مسیح موعود و راشته وظلاً جامع الکمالات بن گئے تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور کمال فیضان کا واضح ثبوت مل گیا.اور یہ حقیقت بالکل عربان ہو کر سامنے آگئی کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور آنحضور صلی ابعد اللہ علیہ وسلم کا فیضان دیگر انبیاء کے مقابلہ میں اس بلند درجہ کمال پیمر پہنچا ہوا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس انتی کے وجود میں ہجو اپنے قلب صافی میں آنجناب صل اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا کامل عکس حاصل کر لیتا ہے یہاں تک کہ نبوت محمدیہ علی صاحبہا الصلوة والسلام پوری طرح اس میں جلوہ گر ہو جاتی ہے.تمام انبیائے سابقین کے کمالات کو جمع کرا دیتے ہیں" و"روح اسلام صفحہ 4)

Page 214

۲۱۴ تعجب ہے کہ شیخ صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس زیر دست قوت قدسیہ کے اعتراف کے باوجود جن کی تاثیر سے امت کی نے مسیح موعود نے جامع کمانات ا تیار ہو کر بقول شیخ صاحب اپنے قلب صافی میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا کامل عکس حاصل کر لیا یہانتک کہ نبوت محمدیہ علی صاحبہا الصلوة والسلام پوری طرح اس (مسیح موعود) میں جلوہ گر ہوگئی ، پھر بھی اس بھا مع الکمالات مسیح موجود کو نبی ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ صرف ایسا مجازی اور لغوی نبی قرار دیتے ہیں جو بقول ان کے در اصل محدت ہی ہوتا ہے اور زمرہ انبیاء کا فرد نہیں ہوتا حا لانکہ محترت بنانے کی قوت قدسیہ تمام انبیائے کرام کو حاصل تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شان خاتم انبیین کی تشریح میں لکھ چکے ہیں :- آپ کی توجہ روحانی نبی تراکش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی" (حقیقة الوحی حاشیہ صفحہ 96) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ سے جامع کمالات انبیاء ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ آپ نبی ہیں کیونکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم جامع الکمالات جو کہ نبی تراش بھی ہیں.اسی لئے آپ نے حقیقۃ الوحی 1000 امیں سائل کے سوال کے جواب کے آخر میں فرمایا :- عزیز و اجبکہ میں نے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آنے والا سیح میں ہوں تو اس صورت میں جو شخص پہلے میسج کو فضل سمجھتا ہے اس کو نصوص حدیثیہ اور قر آنیہ سے

Page 215

۲۱۵ قیامت کرنا چا ہیئے کہ آنے والا میں کچھ چیز ہی نہیں نہ نہیں کہلا سکتا ہے نہ کم.جو کچھ ہے پہلا ہے.خدا نے اپنے وعدہ کے موافق مجھے بھیج دیا.اب خدا سے لڑو.ہاں میں صرف نبی نہیں، بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی بھی تا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہو " (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۵) پس یو شخص حضرت اقدس کو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے افضل سمجھتا ہے اسے حضرت اقدس کو سنگم اور نبی مانا چاہیے اور جو آپ کو نبی نہیں مانتا اسے یہ کہنے کا بھی حق نہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح ناصری علیه استلام سے اپنی تمام نشان میں افضل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۳ پر افضلیت پر مسیح کی بحث میں لکھا ہے :.انسانی مراتب پر وہ نجیب میں ہیں.اس بات میں بگڑتا اور منہ بتانا اچھا نہیں کیا جس قادر مطلق نے حضرت سے علیہ السلام کو پیدا کیا وہ ایسا ہی ایک اور انسان یا اس سے بہتر پیدا نہیں کر سکتا اگر قرآن شریف کی کسی آیت سے ثابت ہوتا ہے تو پیش کرنی چاہیئے.سخت مردود وہ شخص ہو گا جو قرآنی آیت سے انکار کی ہے" (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۵۳) حضرت اقدس اس عبارت سے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ قادر مطلق تعدا

Page 216

M14 حضرت عیسی علیہ السلام جیسا انسان بھی پیدا کر سکتا ہے جو مسیح اور نبی ہوا اور اس سے بہتر انسان بھی پیدا کر سکتا ہے جو میسج اور نبی ہونے کے علاوہ بجامع کمالات انبیاء بھی ہو یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے تمام کمالات بھی رکھتا ہو اور ان سے زیادہ کمالات بھی رکھتا ہو ، نہ یہ کہ صرف بعض جزوی امور میں مسیح سے بڑھ کر ہو.پھر حضرت اقدس اس جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ اگر قرآن مجید سے یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جیسا انسان یا ان سے بہتر انسان پیدا نہیں جو سکتا تو آپ اپنے تئیں حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہونے کی بجائے اپنا ادفی ہوتا تسلیم کر لیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک آیت خاتم النیستین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کے نبی ہونے میں مانع نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبی سے بڑا ہونے میں بھی مانع نہیں گویا نبوت طبیہ کا ملہ نیورت مستقلہ سے کم درجہ کی نہیں ہوتی.اس پر مصری صاحب کی ایک غلط فہمی کا ازالہ میں بات بحضرت ازالہ بھی دیا ہے جس میں تحریر فرماتے ہیں :- اقدس نے ایک حاشیہ مندا تعالیٰ کے کاموں کا کوئی انتہا نہیں پا سکتا.بنی اسرائیل میں حضرت مو نے علیہ اسلام عظیم الشان نبی گزرے ہیں جن کو خدا تعالے نے توریت دی اور جن کی عظمت اور وجاہت کی وجہ سے بلعم باعور بھی ان کا مقابلہ کر کے تحت الترکی میں ڈالا گیا اور کتے کے ساتھ پندا ! نے اس کی مشابہت دی.وہی موسے ہے جس کو ایک بادیہ نشین

Page 217

۲۱۷ شخص کے علوم روھانیہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا.اور ان غیبی اسرار کا کچھ پتہ نہ لگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فوجد العبدا مِن عِبَادِنَا أَتَيْنَهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمَنَهُ من لدنا علما و صفحه ۱۵۳) یہ حاشیہ صرف اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے دیا گیا ہے کہ بعض اسرایہ غیبہ کا پتہ ایک بنی کو بھی نہیں ہوتا لیکن ایک غیر نبی کو خدا کی طرف سے ان اسٹار کا علم دے دیا جاتا ہے.لہذا ان اسرار غیبیہ کے کسی پر ظاہر ہونے پر لوگ گنا یا منہ بنانا اچھی بات نہیں بلکہ کسی شخص کی طرف سے بعض اسرار و مراتب غیبیہ کے اظہار پر خاموشی ہی بہتر ہوتی ہے تا بعد میں حضرت موسی علیہ السلام کی طرح شرمندہ نہ ہونا پڑے.اس عبارت سے حضرت اقدس کا مقصود یہ نہیں کہ حضرت خضر علاوات نام جو غیر نبی تھے حضرت موسی علیہ السلام سے افضل تھے مگر شیخ مصر کی صاحب اپنا مطلب سیدھا کرنے کے لئے اس عبارت کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک غیر نبی بھی نبی سے افضل ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم مخضر کو جو غیر نبی تھا حضرت موسی سے جو ایک عظیم انسان نبی تھے افضل بتلا رہا ہے میں یہ کہنا کہ افضلیت بر نبی ثابت نہیں ہو سکتی اور تسلیم کی جا سکتی ہے جب تک افضل کہلانے والا نبی نہ ہو درست نہ رہا.امید ہے کہ اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا " ر روج اسلام صفحہ ۱۳) شیخ صاحب ! آپ پر واضح ہو کہ قرآن کریم نے تو حضرت خضر علیہ السلام

Page 218

۲۱۸ کہ حضرت موسی علیہ اسلام سے ہرگز فضل نہیں کہا.لیکن اگر اس واقعہ سے حضرت خضر کی حضرت موسی علیہ اسلام سے بعض جزوی امور میں فضل ہونے کا استنباط بھی کیا جائے تو یہ کہنا تو ہر گز درست نہ ہو گا کہ حضرت خضر علیہ السلام اپنی تمام شان میں حضرت موسی علیہ السلام سے بہت بڑھ کر تھے.وہ صرف ان بعض اسرار کے حصول میں حضرت موسی سے جزوی طور پر افضل قرار پا سکتے ہیں جن کا علم حضرت موسی علیہ السلام کو نہیں دیا گیا تھا.مگر حضرت اقدس کا دعو نے تو یہ ہے کہ آپ اپنی تمام نشان میں حضرت عیسے علیہ اسلام سے بہت بڑھ کر ہیں اور یہ عقیدہ آپ نے ہنوئی فضیلت کے عقیدہ کو جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے ترک کرنے کے بعد اختیار کیا ہے اور خود اس عقیدہ کو پہلے عقیدہ سے متناقض قرار دیا ہے.پس حضرت خضر علیہ السلام سے متعلقہ عبارت کو اس بات کے ثبوت میں پیش کرنے کا کسی کو حق نہیں کہ ایسی جوئی فضیلت کے عقیدہ پر قائم نہ اپنے کے بعد بھی حضرت اقدس نے اپنی ایسی جوئی فضیلت کے ثابت کرنے کے لئے اس واقعہ کو پیش کیا ہو جو ایک غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.الحمد للہ کہ میں نے شیخ مصری صاحب کے اپنی طرف سے تمام اوہام دور کرنے کی کوشش کی ہے پس اگر وہ اور اُن کے ہوا خواہ خدا کا خوف دل میں رکھ کر سنجیدگی سے میرے اس مضمون کا مطالعہ کریں گے تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالے ان کی صحیح راہنمائی فرمائے گا وما توفیقی الا بالله وهو نعم المولى ونعم النصيره اشیخ منصہ کی صاحب شیخ مصری صاحب کی نا مناسب گفتار نے مصری مقدسی حضرت

Page 219

۲۱۹ " کی شان کے خلاف ایک نامناسب بات لکھی ہے بیچنا نچہ وہ حضرت اقدس کی ایک عبارت کو حقیقۃ الوحی سے بطور اقتباس پیش کرنے سے پہلے اس میں اپنی طرف سے یہ عبارت اقتباس کی علامت " ڈال کو بڑھاتے ہیں کہ میں نے محض الہام کی بنا پر ہی حیات مسیح کے عقیدہ کو نہیں چھوڑا بلکہ اس کے بعد حضرت اقدس کی ذیل کی عبارت اوپر کی عبارت کے ساتھ ملا کر پیش کرتے ہیں اپنی وحی کو قرآن شریف پر عرض کیا تو آیات قطعی الدلالت سے بت ہوا کہ در حقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اسی امت میں سے آئے گا اور جیسا کہ جب دن چڑھ جاتا ہے تو کوئی تاریخی باقی نہیں رہتی.اسی طرح صدا نشانوں اور آسمانی شہادتوں سے اور قرآن شریف کی قطعی الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موجود مان لوں ر حقیقة الوحی صفحه ۱۴۹) پھر شیخ صاحب اس محروف عبارت کو پیش کرنے کے بعد یہ نا مناسب الفاظ لکھتے ہیں:.صاف ظاہر ہے کہ اگر قرآن کریم کی آیات آپ کے الہام کی تصدیق نہ کو تیں اور احادیث صریحہ اس کی موید نہ ہوئیں تو باوجود نشانوں کے بھی آپ اپنے الہام کو تعدا کا الہام ہرگز باور نہ کرتے.قرآن کریم اور احادیث سے حضور کو تائید لی تو حضور نے اپنے الہام کو من جانب اللہ باور کیا.آپ غور فرمائیں گے تو آپ پر یہی ایک بات اس حقیقت کو اظہر من الشمس کر دے گی کہ حضور زمرہ انبیاء کے فرد نہ تھے.بلکہ

Page 220

۲۲۰ زمرہ اولیاء کے ہی فرد تھے.کیونکہ کوئی نبی اپنی وحی کو سچا اور یقینی سمجھنے کے بارے میں کسی دوسرے نبی کا محتاج نہیں ہوتا لیکن حضور پنی وجی کو سچا اور یقینی سمجھنے میں اپنے آپ کو پہلے نبی کی وحی کی تصدیق کے محتاج سمجھ رہے ہیں اور یہ بات نبوت کے منافی ہے کہ ایک شخص نبی ہو اور وہ اس وقت اپنی وحی کو خدا کی طرف سے یقین نہ کرے جب تک کہ پہلے نبی کی وحی اس کے سچا ہونے کی تصدیق نہ کر دے بہر حال اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ جینگ حضور کی وحی کی تصدیق قرآن کریم اور احادیث صریحہ سے دستیاب نہ ہو اس وقت دو ستر گیا.حضور خود بھی اس پر اعتماد نہیں کر سکتے " د روس اسلام صفحه (۱) شیخ صاحب کے یہ الفاظ سخت نا مناسب ہیں.گو حضرت اقدس حیات میسج کے قائل ہونے کے زمانے میں اپنے آپ کو مسیح موعود اور نبی نہیں سمجھتے تھے اور وفات مسیح اور اپنے مسیح موجود ہونے کے بارہ میں جب آپ پر الہام ہوا تو آپ نے اسے قرآن و حدیت پر بھی عرض کیا.لیکن قرآن و حدیث پر اس الہام کو عرض کرنے سے مصر کا صاحب کا یہ نتیجہ نکالا کہ حضور اپنے الہام کے متعلق شک میں تھے اور اسے اس وقت تک باور نہیں کیا جب تک قرآن و حدیث پر اسے پیش کر کے شک دُور نہ ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے اپنے بیان کے صریح خلاف ہے.افسوس ہے کہ شیخ مصری صاحب نے حضور کے بیان کا پہلا حصہ دانستہ ترک کر دیا ہے جو ان کی اس نا مناسب گفتار کے صریح خوان ہے.حضور تحریمہ فرماتے ہیں :-

Page 221

۲۲۱ اگرچہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسی رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی.مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسے آسمان پر سے نازل ہوں گے اس لئے میں نے خدا کی وھی کو ظاہر پر عمل کرنا نہ چاہا یعنی وحی کو تو قبول کیا.اس میں شکست نہیں کیا.ناقل) بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود ہجو آنے والا تھا تو کہی ہے اور ساتھ اس کے صدع نشان ظہور میں آئے اور زمین آسمان دو تو میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کر کے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں میسج آنے والا میں ہی ہوں ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۹) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کو بارش کی طرح دھی انہی نازل ہونے یہ کہ وہ میسج موجود جو آنے والا تھا تو ہی ہے.اس وحی میں شک و تردد پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ اس وحی کے ساتھ خدا کے جو چمکتے ہوئے نشانات زمین و آسمان میں آپ کی تصدیق کے لئے ظاہر ہوئے.اُن سے آپ کو کامل یقین حاصل ہو گیا کہ آپ ہی سے موجود ہیں.ہاں اس کے بعد آپ نے اس وحی کو قرآن و حدیث پر عرض کرنے کا ذکر فرمایا ہے مگر اس کا معرض کرنا اپنی وحی کے سچا ہونے کے بارے میں اپنا کوئی شکک

Page 222

۲۲۲ دُور کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ آپ نے وفات مسیح کے عقیدہ اور اپنے میسج موجود ہونے کے بارے میں قرآن و حدیث سے اپنی اس وحی کی تائید حاصل کرنا چاہی.پس حضرت اقدس کو اس وحی کے منجانب اللہ ہونے کے بارے میں ایک لحظہ کے لئے بھی تو دو اور شک پیدا نہیں ہوا تھا.حضور ایک غلطی کا ازالہ میں خود تحریر فرماتے ہیں :- " مجھے اس خدا کی قسم ہے میں نے مجھے بھیجا ہے اور میں پر افتراء کرنا شتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بتا کہ مجھے بھیجا ہے اور مکن جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کہ یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک دھی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا کلام منزل کیا تھا.میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی.اس طرح پھر میرے لئے آسمان کبھی بولا اور زمین بھی کہ میں تخلیقہ اللہ ہوں" (ایک غلطی کا ازالہ) اسی طرح تجلیات الہیہ میں تحریر فرماتے ہیں:.یہ مکالمہ الہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے.اگر میں ایک قسم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آسمت تباہ ہو جائے.وہ کلام جو میرے پر نازل ہو ا یقینی اور قطعی ہے اور جیسا کہ

Page 223

۳۲۳ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے.ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خداتعالے کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر.یہ تو تمکن ہے کہ کلام الہی کے معنی کرتے میں بعض مواضع میں ایک وقت تک مجھ سے خطا ہو جائے مگر یہ ممکن نہیں کہ میں شک کروں کہ وہ خدا کا کلام نہیں “ پھر آگے پھل کر لکھتے ہیں :- تجلیات الہیہ صفحہ ۲۶-۲۷) پس وہ خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوتا ہے ایک خارق عادت کیفیت اپنے اندر رکھتا ہے اور اپنی نورانی شعاعوں سے اپنا چہرہ دکھلاتا ہے.وہ فولادی میچ کی طرح دل میں دھنس جاتا ہے اور اپنی روحانی قوتوں کے ساتھ مجھے پر کر دیتا ہے.وہ لذیذ اور فصیح اور حمایت بخش ہے اور ایک انہی مہیبت اپنے اندر رکھتا ہے اور غیب کے بیان کرنے میں تخیل نہیں بلکہ غیب کی نہریں اس میں پھیل رہی ہیں." K د تجلیات النبيه صفحه ۱۲۷ پھر حضور اپنے آخری خط مندرجہ اخبار "عام " میں تحریہ فرماتے ہیں :- یکن بعدا کے حکم کے مطابق نبی ہوں.اگر میں اس میں شک کروں تو یہ میرا گناہ ہو گا " پس حضرت اقدس کا اپنی وحی کو قرآن شریف پر عرض کرتا اس لئے نہ تھا

Page 224

۲۲۴ کہ آپ کو اس وحی کے منجانب اللہ ہونے کے بارے میں اس وقت کوئی شک و تردد پیدا ہوا تھا یا آپ کو اس کے منجانب اللہ ہونے کے بارہ میں اعتماد نہ تھا.شیخ مصری صاحب کا اس وحی کو قرآن شریف پر عرض کرنے سے اس کے متعلق شک اور عدم اعتماد کا نتیجہ نکالنا حضرت اقدس کی شان میں گستاخی نہیں تو کیا ہے ؟ شیخ صاحب چونکہ اس وحی کی آپ نے مسلمانوں میں تبلیغ کرنا تھی اس لئے آپ نے اس کی تائید قرآن و حدیث سے حاصل کرنے کے لئے اسے قرآن و حدیث پر عرض کیا تھا تا یہ دھی قرآن و حدیث سے تصدیق یافتہ ہو کر مسلمانوں کے لئے سخت ہو سکے.پھر جب آپ کو بارش کی طرح وحی الہی سے صریح طور پر نبی کے خطاب پانے کا علم ہو گیا تو آپ نے اپنے اس الہام میسح محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے" کا مفہوم خوب سمجھ لیا اور صاف اعلان فرما دیا کہ خدا نے اس امت میں مسیح موعود بھیجا ہو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے" حالانکہ قرآن مجید میں کوئی ایسی واضح اور صریح نفق موجود نہ تھی کہ مسیح محسندی بیچ موسوی سے افضل ہوگا.صرف إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَونَ رَسُولار مرن : ۱۶) اور آیت وَعَدَ الله الذين امنوا مِنكُم وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِم، وسورة النور آیت ه رکوچ سے یہ استنباط ہو سکتا تھا کہ جب مشیل موسے یعنی

Page 225

۲۲۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید مفاتم انہین دین قرار دینے کیوجہ سے حضرت موسی علیہ السلام سے افضل ٹھہراتا ہے تو مسیح محمدی کو بھی میسج موسوی سے فضل ہونا چاہیئے تا دو نوں سلسلوں موسوی اور محمدی میں تکمیل مشابہت متحقق ہو جائے.تذکرۃ الشہادتین میں آخری خلیفہ کے نبی کا نام پانے کو حضرت اقدس علیہ است ہم نے سلسلہ محمدیہ کی سلسلہ موسویہ سے تکمیل مشابہت کا موسب ٹھہرایا ہے کیونکہ جب سلسلہ محمدیہ کے اول نبی کی موسی علیہ سلام سے مشابہت تابہ اور مسلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ سے سلسلہ محمدیہ کے آخری تعلیفہ کی مشابہت تامہ متحقق ہو جائے تو سلسلہ محمدیہ کی سلسلہ موسویہ سے تکمیل مشابہت ہو جاتی ہے.پس جس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نبی ہو کہ حضرت موسی خیر السلام سے مشابہت قامہ رکھتے ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ التمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نلیت کا ملہ کی وجہ سے حضرت مسیح ناصری نیند اس نام سے مشابہت تامہ رکھتے ہیں.اور چونکہ سلسلہ محمدیہ کا اقول نبی مسلسلہ موسویہ کے اول نبی سے مشابہت تامہ رکھنے کے ساتھ موسی سے افضل بھی ہے اسی طرح سلسلہ محمدیہ کا آخری خلیفہ جو امتی ہی بھی ہے حضرت عیسی علیہ اس نام سے مشابہت تامہ رکھنے کے ساتھ ہی ان سے افضل بھی ہے.اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ سلسلہ محمدیہ سلسلہ موسویہ سے ان میں ہرا با درجہ بڑھ کر ہے جیسا که حضور نے کشتی نوح میں فرمایا ہے :- اب محمد کی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائمقام ہے مگر بنشان

Page 226

میں ہزار ہا درجہ بڑھے کہ مشیل مو سنے ہونے سے بڑھ کر اور شیل این مریم، ابن مریم سے بڑھ کر " ر کشتی نوح صفحه ۲۰- ایڈ مین الشركة الاسلامیه) حضور متحر میں فرماتے ہیں : اسے غافلو اتلاش تو کرد.شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہے" تجنيات الهیه صفحه ۱۱۱) مگر وائے قسمت که شیخ مصری صاحب اس نبی کو نبی نہیں سمجھتے.قلعہ بردا يا اولی الابصار شیخ مصری صاحب نے حضرت اقدس شیخ مصری صاحب کی کی شان میں ایک اور نامناسب بات دوسری نامناسب حفار بھی لکھی ہے تفصیل اس کی یہ ہے کہ ہم لوگ علی وجہ البصیرت یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت اقدس نے حضرت مسیح علیہ السلام پر جوئی فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی خدا تعالے کی متواتر وحی سے صریح طور پرنسی کا خطاب پانے کے متعلق انکشاف ہو جانے پہ کیا ہے مگر شیخ مصری صاحب ہماہ سے اس خیال کے خلاف لکھتے ہیں :- حضور نے اپنی کسی تحریر میں اسی قسم کے انکشاف کا قطعا ذکر نہیں کیا.اس لئے اس خیال کے متعلق دو امر وضاحت طلب ہیں.اول تو یہ کہ حضور نے صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ جنب تک صریح الفاظ میں خدا کا الہام نہ ہو ، آپ مسلمانوں میں مروجہ

Page 227

۲۲۷ عقیدہ کو چھوڑ نہیں سکتے.اس لئے ہمارے احباب کرام کو اپنے مزعومہ انکشاف کے متعلق حضور کا صریح الہام پیش کرنا چاہیے ٹھیک اسی طرح جس طرح کے افضل ہونے کے متعلق صریح الہام (مسیح مموری پیچ موسوی سے افضل ہے.ناقل ) آپ کی خدمت میں پیش ( روج اسلام صفحه ۱۱) یہ درست ہے کہ حضرت اقدس مسلمانوں کے مروجہ عقیدہ کو الجواب بغیر مرتے الہام کے نہیں چھوڑتے تھے اس لئے حضور نے حضرت کیا گیا ہے" جیسے علا السلام پر اپنی جزئی فضیلت کے عقیدہ کو صریح الہام کی بنا پر ہی کھڑا ہے مگر حضرت اقدس میں الہام کی بنا پر جنوبی فضیلت برسی کے عقیدہ کو چھوڑنے کا ذکر فریا رہے ہیں وہ میم محمدی میسیج موسوی سے فاضل ہے“ کا الہام ہی نہیں بلکہ زیر بحثت عبات میں آپ بتاتے ہیں کہ بارش کی طرح وحی الہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے پر آپ نے جزئی فضیلت برسی کا عقیدہ ترک کیا ہے گویا وحی الہی سے اگر صریح طور پر نبی کا خطاب کا اپنا آپ پر کشف نہ ہو جاتا تو آپ اپنے جوئی فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی نہ فرماتے کیونکہ اپنی فضیلت کے متعلق الہامات تو آپ پر پہلے بھی نازل ہوتے تھے جن کی آپ یہ تاویل کر لیتے تھے کہ ان میں جزئی فضیلت مراد ہے.اسی طرح میسج تعمدی میسیج موسوی سے افضل ہے" کے الہام کی بھی آپ یہی تاویل فرما سکتے تھے کہ میں نہیں نہیں ہوں اور حضرت مسیح پر صرف جزئی فضیلت رکھتا ہوں جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے مگر حضرت سے اقدس نے اس الہام کی یہ تاویل اس لئے نہیں کی کہ آپ پر بارش کی طرح وحی الہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب

Page 228

PPA پانا منکشف ہو گیا تھا.اس بات کے ثبوت میں کہ حضرت اقدس پر صریح طور پر نبی کہلانے کے متعلق انکشاف جدید ہوا تھا خود حقیقة الوحی کی یہ عبارت نص صریح ہے کہ ” اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کومسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا مگر بعد میں جو خدا تعالے کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور تشریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی " اور آگے چل کر لکھتے ہیں :- (حقیقۃ الو کی صفحہ ۱۴۹-۱۵۰) جب تک مجھے اس کی طرف سے علم نہ ہوائیں وہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا د یعنی یہ کہ میں نبی نہیں اور میری فضیلت حضرت مسیح پر تیز گیا ہے جو ایک غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.ناقل) اور جب مجھ کو اس کی طرف سے عام ہوا (یعنی صریح طور پر نبی اٹھنے گا.ناقل ) تو میں نے اس کے مخالف کہا دینی اپنے آپ کو نبی سمجھ لینے کی وجہ سے جوئی فضیلت کے مخالف سے کہا کہ خدا نے اس امت میں سے بیج موجود بھیجا جو اس پہلے میچ سے اپنی تمام

Page 229

شان میں بہت بڑھ کر ہے.تاقلم میں انسان ہوں.مجھے عالم الغیب حقیق راوی صفحه ۱۵۰ ساله ہونے کا دعوی نہیں.پس اپنی نبوت کے متعلق وحی الہی سے انکشاف جدید کا ہونا تو ان عبارتوں سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے مگر شیخ صاحب اس عبارت کو بز را تحکم انکشاف پر مشتمل نہیں سمجھتے اور ہم سے وہ الہام دریافت کرتے ہیں جس میں صریح طور پر نبی کا خطاب دیا گیا.یہ مطالبہ ایک غیر احمد می تذکر سکتا ہے جو حضرت اقدس کو اپنے بیانات میں صادق نہ سمجھتا ہو مگر ایک احمدی کی طرف سے ہو حضرت اقدس کو راست باز سمجھتا ہے ہم سے یہ مطالبہ کرنے کا حق نہیں.بارش کی طرح وسی الہی سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے کا حضرت اقدس نے ذکر کیا ہے.اگر حضور نے بالفرض اس وحی کو کسی جگہ ریکار ڈ نہ کیا ہو جس میں خدا تعالٰی نے آپ کو اُس زمانہ میں بار بار نبی کہا تو اس سے ایک احمدی کو تو حضرت اقدس علیہ السلام کے ذیل کے بیان میں شک نہیں ہونا چاہیے:.گر یہ ہیں جو خدا تعالے کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا دینی غیرتی ہونے اور حضرت مسیح پر جزئی فضیلت رکھنے کے عقیدہ پر ناقل) اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا" (حقیقۃ الوحی صفحہ (۱۵) اس سے ظاہر ہے کہ حضور کو فی الواقع متواتر وحی کے ذریعہ اپنے نبی ہونے کا خدا تعالے کی طرف سے یقین دلایا گیا.متواتر وحی کا بار بار نبی بینی نبی"

Page 230

لکھ کر حضرت اقدس کے لئے شائع کرنا ضروری نہ تھا.صرف لوگوں کو یہ بتا دیتا کافی تھا کہ بعد میں بارش کی طرح وحی الہی میں آپ کو نبی کا خطاب دیا گیا ہے چنا نچہ حقیقۃ الوحی سے پہلے آپ نے اشتہارہ ایک غلطی کا ازالہ " میں لکھ دیا :- ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے " بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعوے کرتا ہے.اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا.حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے.حق یہ ہے کہ خدا تعالے کی وہ پاک وحی ہو میرے پہ نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں.نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ.پھر کیونکر نے جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی قسمت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ سلسلہ سے آپ کو خدا تعالے کی طرفہ سے الہامات میں پہلے زمانہ کی نسبت بہت تفریح اور توضیح سے بنی اور رسول کہا گیا تھا.اسی تصریح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت اقدس" نے حقیقہ لوجی میں لکھا ہے :- نگر بعد میں جو مقدا تعالے کی وحی پارکش کی طرح میرے پہ نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا" (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۰)

Page 231

شاہدین صاحب کا خطا صاحب کا خط شیخ صاحب نے اپنے مضمون کے منفی ها پر یا پوشاہ دین صاحب کا ایک خط " ایک غلطی کا ازالہ والے اشتہار کے متعلق اس مضمون کا پیش کیا ہے کہ میاں حسین بخش ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے دریافت کرنے پر کہ سُنا ہے مرزا صاحب نے اپنا نیا دعویٰ پیش کیا ہے میں نے عرض کیا کہ کوئی نیا دعویٰ نہیں.وہی دعاوی ہیں جو ابتدا سے تھے.انہوں نے کہا میں نے سنا ہے ایک جدید اشتہار میں صاف طور پر نبوت کا دعوی کیا ہے.میں نے جواب دیا کہ آپ وہ اشتہار دیکھ سکتے ہیں.اس میں کوئی ایسی بات نہیں.چنانچہ ان کی درخواست پر میاں محمد یوسف صاحب گھر سے اشتہار بعنوان " ایک غلطی کا ازالہ کے آئے اور بڑی متانت اور سنجیدگی سے پڑھ کر سنایا جس سے سامعین کے دل پر بہت اثر ہوا.مگر میاں صاحب کی سمجھ میں نمروز کا مسئلہ نہ آیا " شیخ مصری صاحب اس سے یہ نتیجہ نکالتے شیخ صاحب کا مغالطہ ہیں کہ چونکہ حضرت اقدس نے اسے " الحکم" میں شائع کرا دیا.کیا حضور کا یہ فعل کھلے طور پہ اس خیال کی تردید نہیں کرتا کہ حضور نے اسلامی اصطلاح میں نبوت کی جو تعریف کی ہوئی ہے اسے اپنے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ" میں تبدیل کر دیا ہے اور یہ کہ اشتہار میں محدثیت کو چھوڑ کر نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے.

Page 232

۲۳۲ مغالطہ کا جواب با بو شاہدین صاحب کا یہ لکھنا ایک لحاظ سے صحیح تھا کہ حضرت اقدس نے ایک غلطی کا ازالہ" میں کوئی نیاد کوئی نہیں کیا.وہی دعا دی ہیں جو ابتدا میں تھے.کیونکہ حضرت اقدس نے ایک غلطی کا ازالہ" میں یہ بھی لکھا تھا کہ جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی نئی شریعیت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض عمل کر کے اور اپنے کھے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے “ (ایک غلطی کا ازالہ ) اس عبارت کے لحاظ سے بابو شاہدین صاحب کو یہ کہنے کا حق تھا کہ حضرت اقدس نے کوئی بنیاد کوئی نہیں کیا بلکہ وہی دعاوی ہیں جو ابتدا.میں تھے.یہ قول بابو صاحب کا معنوی لحاظ سے ہے کہ آپ نے کوئی بنیاد کوئی نہیں کیا.اور اس میں کیا شک ہے کہ حضرت اقدس ابتدائے دعوئے سے اپنے آپ کو ان معنوں میں بنی اور رسول قرار دیتے رہے ہیں گو اصطانی معنوں کے مطابق حضور نبی اور رسول ہونے سے انکار کرتے رہے ہیں.

Page 233

کیونکہ ان اصطلاحی معنوں میں شریعت لانے والے اور منتقل رسولوں کو محفوظ رکھ کر نبی کی تعریف کی گئی تھی.ہاں یہ بات مصری صاحب کی غلط ہے کہ حضرت اقدس نے ایک غلطی کا ازا نہ لکھنے کے وقت بھی اپنی نبوت سے مراد محدثیت ہی لی ہے.کیونکہ حضور اسی اشتہار میں نبی کے یہ حتی لکھتے ہیں : حسین کے ہاتھ پر اختبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے با ضرورت اس پر مطابق آت لا يظهر علی غیبہ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا اور آگے چل کر لکھا ہے:.گر بروزی معنوں کے رو سے بھی کوئی شخص نبی اور رسول نہیں.ہو سکتا تو پھر اس کے کیا معنی ہیں کہ اِهْدِنَا القرادا الستَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ سویاد رکھنا چاہیے کہ ان معنوں کے رو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں ہے.اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نہی رکھا گیا.اگر خدا تعالے کی طرف سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کیس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو اس کا نام محمدت رکھنا چاہیے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں.مگر نبوت کے معنی اظہایہ امر نجیب ہیں ( ایک غلطی کا ازالہ)

Page 234

کردم ۲۳ اس عبارت میں حضرت اقدس محدث کے نام سے پکارا بھانے کو رد کرتے ہیں اور اس سے انکار کرتے ہیں اور نبی کے نام سے پکارا جانا از روئے آیت قرآنیہ و نعت عربی ضروری سمجھتے ہیں.پس مصری صاحب کا بابو شاہدین صاحب کے خط سے جس میں محدثیت کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صرف یروزی نبوت کا ذکر ہے اس کے حضرت اقدس کے حکم سے شائع کئے جانے پر یہ نتیجہ نکالنا کہ ایک غلطی کا ازالہ" لکھنے کے وقت حضور نے اپنی نبوت سے محدثیت ہی مراد لی ہے محض ایک وہم ہے جو مندرجہ بالا عبارت النص کے صریح خلاف ہے جس میں حضور نے محدث کے نام سے پکارا جانے کو درست قرار نہیں دیا اور از روئے قرآن ولعت عربی آپ کا نبی کے ہم سے پکارا جاتا ہی ضروری سمجھا ہے.رہی یہ بات کہ شیخ صاحب نے یہ لکھا ہے کہ اسلامی اصطلاح میں غلطی کے ازالہ کے وقت آپ نے کوئی تبدیلی نہیں کی.سو ان کی یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ ایک غلطی کا ازالہ کے حاشیہ میں حضور نے صاف لکھا ہے :." ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے.پس منجملہ ان انعامات کے وہ بیوتیں اور پیش گوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نہی کہلاتے یہ ہے اس عبارت میں صاف بتا دیا گیا ہے کہ انبیاء سابقین بھی شریعیت یا احکام جدیدہ لانے کی وجہ سے یا خیر امتی ہونے کی وجہ سے نہی نہیں کہلائے.

Page 235

۲۳۵ بلکہ ان نبوتوں اور پیشگوئیوں کی وجہ سے نبی کہلائے ہیں جن کے اس امت میں ملنے کا وعدہ ہے.یہ بات اصطلاحی تعریف نبوت میں ترمیم کا روشن ثبوت ہے کیونکہ اسی وجہ سے ہی جس وجہ سے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نبی کہلاتے رہے آپ اپنے آپ کو نبی قرار دیتے ہیں.پس حسب منطوق آيت لا يظهر عَلَى غَيْبه مصفی غیب کا پانا یعنی بکثرت عظیم انشان امور غیبیہ پر اطلاع دیا جاتا ہی رہ نبوت ہے جس کے رو سے تشریعی اور غیر تشریعی مستقل انبیا انہی کہلاتے رہے ہیں اور اسی نبوت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظلی نبوت کا ملہ کے ساتھ نبی کہلانے کے مستحق ہیں.لہذا یہی امر نبوت مطلقہ ہے جس کی وجہ سے تمام انبیاء کرام زمرہ انبیاء کے فرد ہیں اور اسی نبوت مطلقہ کو پانے کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام زیرہ انبیاء کا فرد ہیں.شیخ صاحب کے ایک شبہ کا ازالہ ایشین مصری صاحب لکھتے ہیں :.ہمارے بھائیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ حضور نے تریاق القلوب" میں کمالات نبوت حاصل کرنے کا اقرار کرنے کے باوجود اپنے آپ کو غیر نبی کہا ہے اور کمالات نبوت حاصل کرنے پر قرآن کریم کی آیت مَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَا التَكَ مَعَ اللَّدِينَ العلم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَن اولئك رفيقاط کو ہی پیش کیا ہے

Page 236

Kry اندر کبھی بھی اس آیت سے اس کے خلاف نبوت کے اجراء پر استعمال نہیں کیا شیخ صاحب پر واضح ہو کہ کمالات نبوت جن کے حاصل کرنے پر الجواب حضرت اقدس نے تریاق القلوب میں آیت کریمہ مندرجہ بالا سے استدلال فرمایا ہے ان کمالات میں خود نبوت بھی وافضل ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ استسلام ایک غلطی کا ازالہ" میں آیت وَآخَرِينَ مِنْهُم ما يلحقوا بھم کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :- اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام پاک میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے کسی کے باپ ہونے کی نفی کی ہے لیکن بروز کی شہر دی ہے.اگر بروز صحیح نہ ہوتا تو پھر آیت وَآخَرينَ مِنْعم میں اس موجود کے رفیق آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کیوں ٹھہرتے اور نفی بروز سے اس آیت کی اتکا نیب لازم آتی ہے.جسمانی خیال کے لوگوں نے کبھی اس موعود کو حسن کی اولاد بنایا اور کبھی حسین کی اور کبھی عباس کی لیکن آخریت صل الدور لیہ وسلم کا صرف یہ مقصود تھا کہ وہ فرزندوں کی طرح اس کا وارث ہوگا.اس کے نام کا وارث ، اس کے خلق کا وارث، اس کے علم کا وارث، اس کی روحانیت کا وارث ، اور ہر ایک پہلو سے اپنے اندر اس کی تصویر دکھلائے گا اور وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ سب کچھ اس سے لیے گا اور اس میں فنا ہو کہ اس کے چہرے کو دکھائے گا پس جیسا کہ فلی طور پر اس کا نام لے گا ، اس کا تعلق لے گا، اس کا

Page 237

۲۳۷ علم لینگا ایسا ہی اس کا نبی نصب بھی لے گا کیونکہ بروزی تصویہ پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ تصویر ہر ایک پہلو سے اپنے اصل کے کمال اپنے اندر نہ رکھتی ہو نہیں چونکہ نبوت بھی نہی میں ایک کمال ہے اس لئے ضروری ہے کہ تصویر بروزی میں وہ کمال بھی نمودار ہو نہیں تریاق القلوب میں حضور کی مراد آیت کریمہ کے الفاظ مع النبيين سے کما با نبوت تھی اور اس کمال نبوت میں ہی آپ کی نبوت بھی داخل تھی.گو اس وقت آپ اپنی نبوت کو محدثیت قرار دیتے تھے.مگر تبدیلی عقیدہ کے بعد آپ نے محض محدث کہلانے کی تردید فرما دی ہے.چنانچہ ایک غلطی کا ازالہ میں تحریر فرماتے ہیں :."اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہئیے تو میں کہتا ہوں حدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار تغیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنی اظہالہ امر غیب ہے؟ اسی جگہ بھاس شیعہ میں تحریر فرماتے ہیں :.یر ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے (یہ بات من العلم الله و الرسول الامیہ کی روشنی میں ہی بیان فرما رہے ہیں.ناقل بین منجملہ ان انعامات کے وہ بیوتین اور پیش گوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے لیکن قرآن شریف بھر نہیں بلکہ رسول

Page 238

۲۳۸ ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لا يظهر على غَيْبِهِ أَحَدًا الآمَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ سے ظاہر ہے.لیس مصفی تغیب پانے کے لئے نہی ہونا ضروری ہوا.اور آیت العمتَ عَلَيْهِمْ رجس کی تفسیر میں مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ الرسول کی آیت ہے.ناقل) گواہی دیتی ہے کہ اس مصفی غیب سے یہ امت محروم نہیں اور صنفی تغیب حسب منطوق آیت نبوت اور راست کو چاہتا ہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے اس لئے مانا پڑتا ہے که این موسیبت رنبوت در سالت.ناقل) کے لئے محض بروز طلبیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے" اسی طرح کشتی نوح میں تحریر فرماتے ہیں :." بجز قرآن کس کتاب نے اپنی ابتدا میں ہی اپنے پڑھنے والوں کو یہ ڈھا سکھلائی اور یہ امید دی كه احيانا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ صِرَاط الدين العمتَ عَلَيْهِمْ رَاتِ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ اس آیت کی تفسیر ہے.ناقل) یعنی ہمیں اپنی ان نعمتوں کی راہ دکھلا ہو پہلوں کو دکھلائی گئی جو نبی اور رسول اور صدیق اور شہید اور صالح تھے.پس اپنی ہمتیں بلند کر لو اور قرآن کی دعوت کو رومت کرو کہ وہ تمہیں وہ نعمتیں دینا چاہتا ہے جو پہلوں کو دی تھیں (کشتی نوح صفحہ 120 ایڈیشن اول) پھر آیت انعمت علم کی روشنی میں ہی لیکچر سیالکوٹ میں تحریر فرماتے ہیں.پس ضروری ہوا کہ تمہیں یقین اور محمت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لئے کے پر

Page 239

۲۳۹ خدا کے انبیاء وقتاً بعد وقت آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ پھر اپنی شان میں تحریمہ فرماتے ہیں :- دلیکچر سیالکوٹ صفحه ۲ نی میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی بہتر ہے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید مولی فخر الانبیاء اور خیر اواری حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا " ر حقیقة الوحی صفحه ۶۲) اور غافلوں کو مخاطب کر کے تحریر فرماتے ہیں :- سے غافلو ا تلاش و کرد شاید تم میں بھارا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہے" (تجلیات النبيه صفحه 10-11) یہ نبی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جنہیں شیخ عبد الرحمن صاحب نے اپنے مضمون میں غیر نبی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے حالا نے مسیح موعود اپنی اس نبوت کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں :.بندا نے اس امت میں سے کسی موجود بھیجی جو اس پہنے سینے سے اپنی تمام شادن میں بہت بڑھ کر ہے" (ریونیو جلد اول صفحہ ۱۳۵۷ پس تو سیح موعود نبی بھی ہے اور مسیح ابن مریم سے اپنی تمام شانی میں فضل بھی اسے غیر نبی ثابت کرنے کی کوشش محض تحکم کی راہ ہے اور خدا تعالیٰ کے مسیح موعود پر خود حکم بننے کے متراد منہ ہے.

Page 240

ظاہر ہے کہ چونکہ حضرت اقدس نہی بھی ہیں اور حضرت مسیح ابن مریم سے اپنی تمام شان میں فضل بھی ہیں اس لئے آپ زمرہ انبیاء کے فرد ہیں.اگر آپ زمرہ انبیاء کا فرو نہ ہوتے تو اللہ تعالے آپ کو یا ایھا النبی کہہ کر مخاطب نہ کرتا.اولیا اللہ نے تو زمرہ انبیاء کے فرد محدثین کو بھی قرار دیا ہے جنوب میں خدا نے نبی نہیں کہا.مثلاً حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہا کی شان میں تحریر فرماتے ہیں :- این هر دو بزرگوار از بزرگی و کلافی در انبسیار محدود اند و بکوال ایشان محفوف (مکتوبات جلد اول صفحه ۲۵۱ مکتوب ما ۳۷ ) یعنی یہ دو تو بزرگوار اپنی بزرگی اور عظمت کی وجہ سے انبیاء میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے کمالات کے جامع ہیں.لہذا سے موعود علیہ السلام جنہیں خدا تعالیٰ نے بھی نبی و رسول کہا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نبی اللہ قرار دیا ہے بدرجہ اولیٰ زمرہ انبیاء کے فرد ہیں.میں خدا کے فضل سے ثابت کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علی است نام کی تفصیلات بریج کے عقیدہ میں تبدیلی ثبوت کے عقیدہ میں تبدیلی کی فرع ہے اور شیخ عبدالرحمن صاحب کا نظریہ درست نہیں.میں دعا کرتا ہو کہ اللہ تعالیٰ شیخ صاحب اور ان کے ہم خیالوں کو سنجیدگی اور غور سے میری کتاب کے مطالعہ کی توفیق دے اور ہم سب کو صراط مستقیم پر صلوات اللهم امین و اخرد عد بنا ان الحمد لله رب العالمین و النشر استم نشتر اشاعت نظارت اصلاح و ارشاد صدا امین احمد یه توده کتابت ، شاہ محمد علی اللہ عنہ ريجة ضیاء الاسلام پریس ریون

Page 240