Language: UR
1987ء میں مجلس انصاراللہ مرکزیہ بھارت کی درخواست پر مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مورخ احمدیت نے شان خاتم الانبیاء کے عنوان سے ظہور اسلام کے 23 برسوں کی منفرد تاریخ کے ایمان افروز واقعات کو جامع انداز میں ایک مختصر مقالہ کی صورت میں مرتب کیا تھا۔ جسے مجلس انصاراللہ بھارت نے مختصر کتابچہ کی شکل میں شائع کیا تھا۔
القرآن الحكيم شان خاتم الانبیاء صلى الله عليه وسلم ظہور اسلام میں سيرة النبي سيريز نمبر ٨ معلومة شائع كرده : مجلس انصاراللہ مرکز یہ قادیان، پنجاب (بھارت)
جمل الله الرحمن الرحيم پیش لفظ سید نا حضرت محمد مصطف صلی اللہ علیہ وسلم جب مہوٹ ہوتے تو جزیرہ عرب ، شرک و بت پرستی کا گویا منبع بنا ہوا تھا.لیکن تیس برس کے مختصر عرصے میں ایسا عظیم الشان انقلاب رونما ہوا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو سارا عرب توحید کا گہوارہ بن چکا تھا.تین سو ساٹھ بتوں کے پجاریوں کو خُدائے واحد کے آستانہ پر جھکا دینا اور سرکش و تمر طبیعتوں کو اسلام کے سانچے میں ڈھال کہ مبیع وفرمانبردار بنا دیا حضرت خاتم الانبیا محمد مصطفی صلی شد علیہ وسلم کا ایک اعجازی کارنامہ ہے.!! ور اسلام کے عظیم کا نام کی ادارے طور پر ایسی اشانی اصلح الوعود رضی شد عنہ نے ماہ اگست کا نام ہجری شمسی تقویم میں ظہور تجویز فرمایا.مجلس انصار اللہ مرکزی قادیان کی طرف سے شائع ہونے والی سیر قالبی سیریز کا یہ آٹھواں مقالہ جو ظہور اسلام کے ۲۳ سالہ سفر کے ایمان افروز واقعات پر مشتمل ہے ، ہماری درخواست پر محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت ، ربوہ نے مرتب فرمایا ہے.مجزاہ اللہ تعالیٰ خیرا.اللہ تعالیٰ اسے ہر بہت سے نافع الناس بنائے.آمین : خاکسار مورخه ۱۵ر ظهور ۳۶۶ آبش ۱۵ اگست ۶۱۹۴۷ محمد انعام غوری صدر مجلس انصار الله مرکز یہ قادیان
ذا ہر عالم کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہمارے سید ولی فضل الانبار خیرالاصفیا من ملے خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور ظہور اسلام ہے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسندِ رسالت کو اپنے وجود سے عزت دی تو وہ زمانہ ایک ایسا تا ریک زمانہ تھا کہ کوئی پہلو دنیاکی آبادی کا بدملیتی اور بد عقیدگی سے خالی نہ تھا.آریہ ورت میں بت پرستی نے خدا پرستی کی جنگلے لی تھی.یورپ میں جہالت و وحشت کا دور دورہ تھا.ایران میں مشرکی کا زور تھا.اور اخلاق، تہذیب اور انسانیت کا نام ونشان تک مٹ چکا تھا.چین میں ہر کام کے لئے جدا جدا بت مقرر تھے.اور اہل عرب تو انتہا درجہ کی وحشیانہ حالت تک جا پہنچے تھے.کوئی نظام انسانیت کا ان میں باقی نہ رہا تھا.تمام معانی ان کی نظر میں فخر کی جگہ تھے.ماؤں کے ساتھ نکاح کرنا حلال سمجھتے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے.بظاہر انسان تھے مگر عقلیں مسلوب تھیں.نہ حیا تھی نہ شرم نہ غیرت - شراب کو پانی کی طرح پیتے تھے.جس کا زنا کاری میں اول نمبر ہوتا، وہی قوم کا رتیں کہلاتا تھا.بے علمی اس قدر تھی کہ اردگرد کی تمام قوموں نے ان کا نام اُمتی رکھا ہوا تھا.ایسے وقت میں پیغمبر عالم حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ سلم کی عرب کے مرکزی شہر مکہ معظمہ میں ۲۰ اپریل سنکے بڑ کو ولادت با سعادت ہوئی.اس موقع پر حضور علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کو ایک حیرت انگیز کشفی نظارہ دکھلایا گیا.جوحضرت علامہ جلال الدین سیوطی
کی کتاب " الخصائص الکبری کی جلد اول میں بالتفصیل درج ہے.حضرت آمنہ فرماتی ہیں :.یکی نے اس وقت دنیا کے مشارق و مغارب کا معائنہ کیا، میں نے دیکھائیں جھنڈے نصب کئے گئے.ایک مشرق اور دوسرا مغرب میں اور تیسرا کعبہ کی چھت پر نصب کیا گیا.اس وقت مجھے در وزہ ہوا اور حضورصلی الہ علیہ کم پیدا ہوئے.ولادت کے بعد میں نے آپ کی طرف نظر کی تو دیکھا کہ سجدے کی حالت میں ہیں اور انگلیوں کو اس طرح اُٹھاتے ہوتے ہیں جیسے کوئی گریہ وزاری کرتے والا اٹھاتا ہے.پھر میں نے سفید ابہ دیکھا جو آسمان کی جانب سے آرہا تھا.یہاں تک کہ اس نے آپ کو مجھ سے روپوش کر لیا.پھر وہ غائب ہوگیا.پھرمیں نے ایک منادی کی آواز سنی جوکہ رہا تھا."محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کے مشارق و مغارب میں لے جاؤ.اور سمندروں کی سیر کہ او تاکہ وہ سب آپ کے نام نامی، اوصاف گرامی اور صورت گرامی کو پہچان لیں اور جان لیں کہ آپ کا اسم گرامی اور نام نامی دریاؤں میں مامی رقم کیاگیا ہے.کیونکہ شرک اور اس کے لوازمات و اسباب کو آپ کے زمانہ ہی مٹا دیا جائے گا.پھر وہ ابر جلد ہی آپ کے پاس سے ہٹ گیا.اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ سفید اون کے کپڑے میں ملبوس ہیں اور آپ کے نیچے سبز تریر کا بچھونا ہے.اور آپ آبدار موتیوں کی تین گنجیاں ہاتھ میں لئے ہوتے ہیں.اس وقت کسی کہنے والے نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ ولیم نے نصرت ، غلبہ اور نبوت کی کنجیاں دست مبارک میں لے رکھی ہیں.اس کے بعد ایک اور ابر سامنے آیا.اس میں گھوڑوں کے ہنہنانے اور پرندوں کے بازوؤں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں.یہاں تک کہ اُس نے بھی آپ کو مجھ سے پوشیدہ کر دیا.اور آپ میری نظر سے اوجھل ہو گئے میں نے منادی کو بلا کرتے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شرق و غرب اور انبیاء علیہم السلام کی مولدات پر لے جاؤ اور آپ کے حضور جن و انس اور دخوش وطیور کی روحوں کو پیش کرو.اور آپ کو حضرت آدم کی صفا، حضرت نوح کی رقت ، حضرت ابراہیم کی قلت ، حضرت اسماعیل کی
زبان ، حضرت یعقوب کی مسترنت ، حضرت یوسف کا جمال، حضرت داؤد کی آواز حضرت ایوب کا صبر، حضرت کی " کا زہد، اور حضرت عیسی کا کرم عطا کر و.اور تمام نبیوں کے اخلاق حمیدہ اور فضائل جلیلہ سے آراستہ کر دو علی نبینا وعلیہم السّلام.اس کے بعد وہ ابر چھٹ گیا.اور ہیں نے آپ کو موجود پایا.آپ لیٹے ہوئے سبز تویر کو تھامے ہوئے تھے.پھر سی کو کہتے سنا کہ خوشی ہے خوشی ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام دنیا کو تھامے رکھا ہے.اور کوئی مخلوق نہیں جو آپ کے حلقہ نبوت سے باہر ہو یا (ترجمہ) الخصائص الکبری جلد ۱ ص ۴۸ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم تام سلسلہ انبیاء میں واحد ہی ہیں جنہوں نےاللہ تعالی کے حکم سے یہ منادی فرمائی کہ آپ دنیا بھر کی تمام قوموں ، تمام نسلوں اور تمام ملکوں کی اصلاح کے لئے مبعوث کئے گئے ہیں.اورمشرق و مغرب میں کوئی ایک فرد بھی آپ کے دائرہ رسالت سے الگ نہیں.چنانچہ قرآن مجید میں اللہ جلشانہ فرماتا ہے :- وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَانَةٌ لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا (السبا: ٣٩) ہم نے تجھ کو تمام بنی نوع انسان کی طرف رجن میں سے ایک بھی تیرے حلقہ رسالت سے باہر نہ رہے ایسا، رسول بناکر بھیج ہے جو مومنوں کو خوشخبری دیتا اور کافروں کو ہوشیار کرتا ہے.قُلْ أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلكُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ : لا اله الاهو (الأعراف : ١٥٩) کہو کہ ، اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت حاصل ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں..هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ( التوبه : ۳۳ )
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تا کہ دباقی تمام دینوں پر اُسے غالب کر دے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے " اقرة بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (سُورَة على :۲) کی صدائے ربانی پر خدائے واحد کے پیغام کی منادی کا آغاز فرمایا جس پر مردوں میں سے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ، خواتین میں سے حضرت سیدہ خدیجہ الکبری ، بچوں میں سے سیدنا حضرت علی ابن ابی طالب اور غلاموں میں سے حضرت زید بن حارثہ سب سے پہلے داخل اسلام ہوئے.دنیا یں اسلام کا یہ پہلا قافلہ تھا.تین برس تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہایت خاموشی اور رازداری کے ساتھ فریضہ تبلیغ ادا فرمایا.بعد ازاں فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ (حجر : ۹۵) کا حکم ملتے ہی پہلے تو کوہ صفا پر قریش کے ایک بڑے اجتماع کو تبلیغی خطاب فرمایا.اور پھر حرم کعبہ میں بت پرستی کے خلاف علم جہاد بلند کرتے ہوئے توحید کا اعلان کیا جو کفار مکہ کے مذہب کے خلاف زبردست چیلنج تھا.اور ان کے نزدیک خدا کے گھر کی کھلی تو ہین تھی.لہذا انہوں نے فوراً ہنگامہ بیا کر دیا.چاروں طرف سے لوگ شہر لولاک حضرت محمدمصطفی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم پر ٹوٹ پڑے.آپ کے ربیب حضرت حارث بی ینالہ نے چاہا لیکن نہیں نہایت بیٹی سے شہید کردیاگیا اسلام کی راہیں یہ پہلا خون تھا جس سے خانہ کعبہ کی سرزمین پاک رنگین ہوئی.اس واقعہ کے بعد پورے عرب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مخالفت کا ہولناک حوفان اُٹھ کھڑا ہوا.اور نہ صرف حضرت بلال ، حضرت صہیب حضرت عمار ، حضرت عثمان نے ، حضرت زبیر بن العوام ، حضرت ابو ذر غفاری اور دوسرے بلند پایہ صحابہ اور صحابیات پر جور وتم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے بلکہ خود آنحضرت صلی الہ علیہ وقت پر مظالم کی انتہاکردی گئی.مسجد حرام میں عین وسلم نماز کے وقت آپ کی گردن مبارک میں پٹکا ڈال کر کھینچ گیا یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل له اصابه " حالات حارث بن ابی ہالہ و سیرت النبی جلد اول ص۲۱ از علامہ شبلی نعمانی مرحوم -
آئیں.ایک دوسرے موقعہ پر سجدہ کے دوران پشت مبارک پر اونٹ کی اوجھری ڈال دی گئی شہنشاہ دو عالم بازار سے گزرتے تو اوباش آواز سے کستے.ایک شہر میر نے ایک دفعہ حضور پر خاک ڈالی بحصور اسی حالت میں گھر پہنچے.آپ کی ایک صاحبزادی نے دیکھا تو زار و قطار رونے لگیں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو تسلی دی اور فرمایا بیٹی ! آہ وبکا نہ کرو اللہ تعالی تمہارے باپ کی خود حفاظت کریگا.تاریخ میں ہے کہ آنحضرت صفا پہاڑی پر بیٹھے تھے کہ ابوجہل نے آپ کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہو سے گالیاں دیں.حضور اُس کی مغلظات سُنتے رہے اور خاموشی سے اٹھ کر واپس گھر تشریف لے آتے.جوں جوں کا فروں کی آتش انتقام تیز اور وسیع ہو گئی آنحضور کے جذبہ بلی میں ہی حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوتا چلا گیا.بالآخر قریش مکہ کے ایک وفد نے حضرت ابوطالب سے شدید احتجاج کیا.لیکن جب اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تو اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو شعب ابی طالب کی گھائی میں اڑھائی تین سال تک ظالمانہ طور پر نظر بند کر دیا گیا.اسی زمانہ میں آپ نے حج کے موقعہ پر آنے والے قبائل سے ملاقاتیں کیں نیز عکاظ کے مشہور قومی میلہ میں تشریف لے گئے.اور بیرونی عربوں کی فرودگاہوں پر جا جا کر دعوت اسلام دی.ازاں بعد تب محاصرہ اٹھ گیا تو حضور نے طائف کے رؤساء پر اتمام حجت کرنے کے لئے چالیسں میں کا طویل سفر اختیار کیا.مگر ان بد بختوں نے گنتے اپنے ساتھ لئے.شہر کے اوباش لڑکوں کی جھولیوں میں پتھر ڈال کر آپ کے پیچھے لگا دیا.جنہوں نے آپ پر نہایت بیدردی سے پتھر برسانے شروع کر دیتے جس سے آپ کا سارا بدن ہو لہان ہوگیا اور زمین آپ کے اس مقدس خون سے گویا تر بزرگی جس کا ایک ایک قطرہ پوری کائنات سے زیادہ قیمتی اور بابرکت تھا.یہ لوگ برابر تین میل تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے اور سنگ باری کرتے رہے.اس دوران پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہوا کہ مجھے خدا نے بھیجا ہے تا اگر حکم ہو تو میں طائف کے دونوں پہاڑ پیوست کر کے اہل طائف کو صفحہ ہستی سے مٹاڈالوں.مگر رحمة للعالمین نے جواب دیا :-
ہرگز نہیں ! مجھے امید ہے کہ اللّہ تعالی انہی میں سے وہ لوگ پیدا کر دے گا جو خدائے واحد کے پیچھے پرستار ہوں گے.ردیا چه تفسیر القرآن ۱۹ ۱۹۶ ، سیرت خاتم النبیین حصہ اول ۲۳۵-۲۳۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس زیر دست یقین اور توکل کے پیچھے دراصل وہ آسمانی بشار میں جلوہ گر تھیں جو رب العالمین کی طرف سے آپ کو منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد وقتاً فوق دی گئی اور بتایا گیا کہ حالات بالآخر ایسے رنگ میں پیٹ کھائیں گے کہ اسلام کی اشاعت اور اس کے ہم گیر غلبہ کا خدائی منصوبہ بہرحال کامیاب ہو کر رہے گا.اور حق وصداقت کی آواز کو دبانے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے.مثلاً ان پر آشوب اور پر فتن ایام میں جبکہ حضور پیر اورحضور کے مخلص صحابہ پر انسانیت سوز اور شرمناک مظالم ڈھائے جارہے تھے اور حکومت کا کوئی واہمہ بھی ان کے ذہن میں نہیں تھا اور نہ مکہ والوں کے خواب وخیال میں بھی یہ بات آسکتی تھی کہ مظلوم اور نہتے مسلمان بادشاہ بن جائیں گے، اللہ تعالے نے سورۃ القمرمیں یہ حیرت انگیز خبردی کہ عنقریب اسلامی حکومت قائم ہوگی اور عرب کے تمام قبائل اسلام کے اثرات صفحہ ہستی سے بنا دینے کے لئے اس پر حملہ کر دیں گے.مگر شکست فاش کھائیں گے.چنانچہ فرمایا :- وَلَقَدْ جَاءَ الفِرْعَوْنَ النُّذُرُ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا كُلَّهَا فَاخَذْ نُهُمْ اخَذَ عَزِيرٍ مُّقْتَدِرٍ النَّارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَيْكُمْ أَمْ لَكُمْ بَراوَة فِي الزَّبُرِ أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَيْةَ مُنتَصِرُه سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَه (القمراية : ۲۲ - ۴۶ ) (ترجمہ :.اور آل فرعون کے پاس بھی نبی آتے تھے.مگر آل فرعون نے ہماری سب آیتوں کو جھٹلایا جس پر ہم نے اُن کو ایک غالب طاقتور کی طرح عذاب سے پکڑ لیا.
A ے مکہ والو ! کیا تم میں سے کفر کرنے والے ان پہلوں سے اچھے ہیں یا پہلی کتابوں میں تمہارے لئے عذاب سے حفاظت لکھی ہوتی ہے؟ کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جماعت ہیں جو غالب آکر رہیں گے.اُن کی جماعت کو عنقریب شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے.اس پر شوکت خبر کے بعد کفار عرب نے ہر طرف سے تبلیغ کے دروازے بند کر رکھے تھے کہ اسی دوران یثرب (مدینہ کے چھ آدمی حج کے ایام میں آپ کی تبلیغ سے متاثر ہوکر ایمان لے آئے.پھر واپس جا کہ اس بے جگری سے دعوت الی اللہ میں سرگرم عمل ہو گئے کہ مدینہ میں نہایت تیزی سے استلام پھیلنے لگا جب مدینہ میں لوگوں کی خاصی تعداد مسلمان ہوگئی تو کفار مکہ نے حضور کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنایا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ علم الہ تعالی کے حکم سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے.اس طرح خدائی پیشگوئی کے عین مطابق اسلامی بادشاہت معرض وجود میں آگئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں پہنچتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد نبوی کی صورت میں پہلے مرکزی دار تبلیغ کی تعمیر کی او مدینہ اور اس کے اردگر د اسلام کا ڈنکا بجنے لگا.ترش کو یہ معلوم ہوا تو ان کے فقہ کی کوئی انتہا نہ رہی.اور انہوں نے آپ کی جماعت کو تباہ کر دینے کا مصمم ارادہ کرلیا.اور قبیلہ خزرج کے سردارعبداللہ ان کو الٹی میٹم دیا تم نے ہماے آمید آخریت صلی الہ علیہ سلم کو اپنے ہاں پناہ دے کر کوئی اچھا کام نہیں کیا.یاتو تم اس کے خلاف جنگ کرو ، یا اپنے ہاں سے نکال دو.ورنہ خدا کی قسم ہم اپنے آدمیوں کولے کرتم پر چڑھ آئیں گے.تمہارے مردوں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے.اس کے علاوہ انہوں نے ایک خط مدینہ کے یہودیوں کوبھی لکھا جو پہلے ہی اسلام کے سخت دشمن تھے، اور آنحضرت صلی الہ علی قم کے خلاف سخت مشتعل کیا.ران ابتدائی کوششوں کے بعد قریش نے سنہ ہجری میں ایک بڑی فوج لے کر مدینہ پر
پڑھائی کر دی مسلمانوں کی تعداد صرف ۳۱۳ تھی.بدر کی پہاڑی پر مقابلہ شروع ہوا.اتنی بڑی فوج کے مقابلہ میں گنتی کے چند نہتے اور کمزور لمانوں کی بساط ہی کیا تھی کہ رسول علی صلی اللہ علیہ وتم بارگاہ الوہیت میں سجدہ ریز ہو گئے.اور گڑ گڑا کر دعا مانگی چند گھنٹوں کے اندر اندر فریش کو مکمل شکست ہوتی اور اُن کے بڑے بڑے آزمودہ کار جرنیل کام آئے.قریش مکہ اگلے سال احد کے میدان میں پھر بر سیر پیکار ہوئے.اس دفعہ بھی ان کے حملہ کا اصل مقصد آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کو شہید کرنا تھا.لڑائی کے دوران انہوں نے آنحضور کو چاروں طرف سے گھیر لیا.مگر جاں نثار صحابہ نے آپ کی حفاظت کے لتے اپنی جانیں لڑا دیں اور دوشمن اپنے مقصد میں بری طرح ناکام رہا.اس کے بعد انہوں نے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ مل کر زبر دست سازش کی.اور شب میں عرکے تمام قبائل سمیت جو میں ہزار کی تعداد میں اسلامی حکومت پر حملہ آور ہوگئے.تا مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں.اور اسلام کی تبلیغ واشاعت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے.مسلمان عورتوں اور بچوں سمیت مسلمانوں کے لشکر کی تعداد کوئی تین ہزار ہوگی.اتنے بڑے لشکر جبار کی آمد نے اُن پر زلزلہ طاری کر دیا.شن کی کامیاب بنابراین می گرحملہ آور قبائل میں یکایک پھوٹ پڑگئی.رات کو سخت آندھی چلی.آگین بجھ گئیں.ہر طرف بھگڈر مچ گئی.اور سپاہیوں نے بدحواس ہو کر بھاگنا شروع کر دیا.او جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے برسوں قبل بتلا دیا تھا، رات کے آخری تلت میں جنگ کا وہ میدان جس میں کفار کے ۲۲ ہزار سپاہی خیمہ زن تھے ، جنگل کی طرح ویران ہوگیا.اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے و بنی علی الت علیہ سلم کو بذریعہ امام خبرو کہ ہم نے تمہارے دشمن کو بھگا دیا ہے.اور سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُولُونَ الدُّبُرَ کی پیشگوئی پوری ہوگئی ہے ) غزوہ بدر ، احد اور غزوہ احزاب کی بڑی لڑائیوں کے علاوہ قریبا ۲۵ چھوٹی بڑی مہمات میں آنحضور صلی الہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مجبورا مشغول ہونا پڑا جس سے اشاعت سلام کی راہ میں سخت رکاوٹ پیدا ہوگئی.لیکن غزوہ احتراب کا یہ خوشگوار نتیجہ بر آمد ہوا
کہ عرب کے وہ قبائل جو دل سے صداقت اسلام تسلیم کر چکے تھے اور قریش اور ان کے حامیوں کی طاقت وسطوت سے مرعوب تھے ، مدینہ میں آآکر اسلام قبول کرنے لگے.سنہ ہجری کی صلح حدیبیہ سے اشاعت اسلام کا سنہری باب شروع ہوا جبکہ قریش کے ساتھ صلح کا معاہدہ ہو جانے کے نتیجہ میں ملک میں عاصی امن کی صورت پیدا ہوگئی یہ آنحضرت نے اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک ایسا اشاعتی کارنامہ سرانجام دیا جس کی مثال پہلے نیوں میں نہیں ملتی.آپ سے قبل کسی اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوت کے خط نہیں لکھے.کیونکہ وہ دوسری قوموں کی دعوت کے لئے مامور نہ تھے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہلو سے بھی عالمگیر بلین کا حق ادا کر دیا.اور عرب وعجم کے مندرجہ ذیل بڑے بڑے شہنشاہوں اور بادشاہوں اور حاکموں کے نامتبلیغی خطوط لکھوا کر بھجوائے.(۱) ہر قتل قیصر روم.یہ دنیا کا عظیم طاقتور عیسائی شہنشاہ تھا جس کی سلطنت ایشیاء یورپ اور افریقہ کے تین براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی.قیصر روم نے گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول نہیں کی مگر بہت عزت اور ادب سے پیش آیا.اسی لئے محضور نے فرمایا کہ گندا رومی سلطنت کو کچھ مہلت دے گا یہ چنانچہ ایسا ہی ہوا.اگرچہ اس کے بہت سے علاقے مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں چھین کر اسلامی حکومت میں شامل ہو گئے ، تاہم رومی سلطنت قسطنطنیہ اور اس کے گردو نواح میں سینکڑوں سال تک قائم رہی.(۲) خسرو پرویز کیسر کی شاہ ایران - ساسانی سلطنت کا تاجدار ) شان و شوکت اور جاہ و جلال میں دنیا کا کوئی دوسرا بادشاہ اسکے ہم پلہ نہ تھا.اس نے قیصر روم کو پہلے در پہلے شکستیں دے کہ اس کا بہت سا علاقہ چھین لیا تھا.اس ظالم بادشاہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک کو یہ کہتے ہوئے پارہ پارہ کر دیا کہ میرا غلام ہوکر مجھے اس طرح مخاطب کرتا ہے.کتاب الاموال بحوالہ زرقانی جلد ۳ صفحه ۳۴۲
اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت جلال سے پیشگوئی فرمائی کہ خدا اس کی حکومت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا بلے چنانچہ حضرت عمرہ کے عہد خلافت میں اس پر شکوہ ایرانی مملکت کے پر نچے اڑ گئے اور ہر طرف اسلامی پرچم لہرانے لگا.خسرو پرویز نے برگستاخانہ حرکت بھی کی کہ اس نے مین کے گورنر باذان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا.اس کی تعمیل کے لئے باذان کا سیکرٹری بانو یہ ایک مضبوط سوار کے ساتھ مدینہ پہنچا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ناصحانہ انداز میں کہا کہ بہتر ہے ہمارے ساتھ چلیں ورنہ کسری آپ کے ملک اور قوم کو تباہ کر دے گا.آنحضرت یہ سن کر مسکراتے اور جواب میں اسلام کی تبلیغ کی اور فرمایا ، آج رات ٹھہر جاؤ کل جواب دوں گا.اگلے روز آپ نے فرمایا ابْلِغَا صَاحِبَكُمَا أَنَّ رَبِّي قَتَلَ رَبَّهُ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ " یعنی والی یمین سے جاکر کہدو کہ میرے رب نے اس کے رب (کسرٹی) کو آج رات قتل کر دیا ہے.بانو یہ اور اس کے ساتھی نے باذان کو آنحضرت کا پیغام پہنچا دیا.چند روز بعد باذان کو خسرو پرویز کے بیٹے شیرویہ کا شاہی فرمان ملا کہ میرے نام پر اپنے علاقہ کے لوگوں سے اطاعت کا عہد لو.میں نے اپنے ظالم باپ کو قتل کر دیا ہے اور قتل کا یہ واقعہ ٹھیک اسی رات ہو ا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بغدا سے اطلاع پائی تھی.اس عظیم الشان معجزہ کو دیکھ کر نہ صرف گورنر باذان بلکہ مین کے کئی اور لوگ بھی مسلمان ہو گئے.تے (۳) جريح بن مینا - مفقوقی مصر - شخص قیصر کے ماتحت مصر اور سکندریہ کا موروثی حاکم اور سیمی تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرا تبلیغی خط اسے بھجوایا.مقوقس مصر آنحضرت کے سفیر کے ساتھ بہت عزت سے پیش آیا اور اظہار عقیدت کے طور پر اس نے کئی مخالف بھی حضور کی خدمت میں بھجوائے.ه کتاب الاموال بحوالہ زرقانی جلد ۳ صفحه ۲۲۲ - سے " طبری جلد ۳ صفحه ۱۵۷۲-۱۵۷۴
(۴) اصحو نجاشی ( ایسے سینیا کی عیسائی حکومت کا فرمانروا ).اس پارسا بادشاہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وقت سے تبلیغی خط پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کر لیا.نشہ میں اُس کا انتقال ہوا تو آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کو اس کی وفات پر الہاما اطلاع دی گئی اور آپ نے مدینہ میں اُس کا جنازہ غائب پڑھایا.(۵) حارث بن ابی شمر والی غنستان - غستان کی ریاست عرب کے متصل جانب شمال واقع تھی.یہ شخص اسلام سے محروم رہا.موزہ بن علی نہیں یمامہ.اس منکسر مزاج نے بھی دعوت اسلام کو ٹھکرا دیا.(6) مندر تیمی.فرمانروائے بحرین.مندر تبلیغی خط پانے پر فور حلقہ بگوش اسلام ہو گیا.محکمران کے مسلمان ہوتے ہی اس علاقہ کے تمام عرب بلکہ بعض مجھ بھی مسلمان ہو گئے.(۸) حارث بن عبد کلال قبیلہ میر کا امیر کے نام کی ایک بینی و روانہ فریایالے (۹) عرب کے بعض قبائل مثلا عبد القیس، بکر اور تمیم بحرین کی وادیوں میں آباد قبائل انی کی کمی یا اللہ تم نے بینی خط مجھے جس کے اثر انگیز لفظ سےعبدالقیس کا پور قبیلہ مسلمان ہو گیا.(۱۰) سی بخت (ریاست کا والیان نے بیان کیانی یا اسلام کو کیا.اس کے علاوہ آنحضور نے عمان کے بادشاہ یمن کے قبیلہ بنی تہد اور قبیلہ ہمدان کے سٹرار بنی علیم کے سردار اور حضر می قبیلہ کے رؤسا کی طرف بھی خطوط لکھے جن میں سے اکثر مسلمان ہو گئے.اس زمانہ میں قلوب و اذبان پر آسمانی فرشتوں کا اس کثرت سے نزول ہوا کہ عرب ریاستوں کے کئی فرمانروا از خود داخل اسلام ہو گئے.مثلاً فروہ بن عم حاکم معان بجرير بنعبدالله بن بجلی قبیلہ بجلیہ کے فرمانروا ) عدی بن حاتم (قبیلہ طے کے حاکم ) ذی الکلاع جمیری دقبیلہ حمیر کے بادشاہ ہے ه سیرت ابن ہشام له سیرت النبی از شبلی جلد دوم
ملک میں روز بروز اسلام کا اثر و نفوذ بڑھتا جارہا تھا کہ الہ تعالی نے خود قریش مکہ کی معاہدہ شکنی کے نتیجہ میں ایسے غنی سامان پیدا کر دینے کہ خدا کا مقدس نبی دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ شان کے ساتھ داخل ہو گیا.یہ رمضان سنہ مطابق دسمبر کا واقعہ ہے.اس موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام خونی اور خطرناک مجرموں کے لئے جنہیں دنیا کا کوئی قانون معاف نہیں کر سکتا تھا ، بے نظیر اور محیر العقول حلم ورحم سے کام لے کر عفو عام کا شاہی اعلان کر دیا.یہ ایک بے مثال عملی تبلیغ تھی جس نے قریش مکہ کے عقیدہ کفرو شرک کو پاش پاش کرکے رکھ دیا.اور اُن کی اکثریت ن ایک ہی دن میںمسلمان ہو کر آنحضو صلی للہ علیہ وقت کی بعیت کرلی خانہ کعبہ سے تین سو ساٹھ بنوں کو نکال کر پھینک دیا گیا.ماحول کعبہ کے بت خانے منہدم کر دیتے گئے.اور تمام جزیرہ نمائے عرب میں اسلام نہایت مسرعت کے ساتھ پھیلنے لگا.فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی کثرت کے ساتھ عرب کے مختلف حصوں اور علاقوں میں دین اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے مبلغ اور واعظ روانہ فرمائے جنہوں نے ہر قبیلہ کا دورہ کر کے خدا کا پیغام پہنچایا.ان تبلیغی مہمات کے نتیجہ میں قبول اسلام کے لئے اس کثرت سے مختلف قبائل کے وفود مدینہ آنے لگے کہ ملک کے ہر طرف يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ ازْوَاجًا کا ایسا نظارہ سامنے آگیا کہ چیم فلک نے اس سے پہلے کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلاب انگیز شخصیت نے اسلام لانے والوں میں ایسی بجلیاں بھر دیں کہ وہ آپ کے بعد دیوانہ وار دنیا کے شرقی اور غربی ملک میں اسلام پھیلانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے.اور ہر جگہ حق و صداقت کے جھنڈے گاڑ دیئے.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :." اب دیکھو کہ اس نبی کی کیسی بلندشان ہے جس نے تھوڑے سے عرصہ میں ہزاروں انسانوں کی اصلاح کی اور فساد سے صلاحیت کی طرف اُن کو منتقل کیا.یہاں تک
کہ اُن کا کفر پاش ہوگیا اور صدق اور راستی کے تمام اجزا یہ ہیئت اجتماعی اُن کے وجود میں جمع ہو گئے.اور ان کے دلوں میں پر ہیزگاری کے نور چمک اٹھے اور اُن کی پیشانی کے نقشوں میں محبت مولی کے بھید ایک تکنیکی صورت میں نمودار ہو گئے اور ان کی تہمتیں دینی خدمات کے لئے بلند ہوگئیں.اور وہ دعوت اسلام کے لئے مالک مشرقی اور مغر بیزن پہنچے اور ملت محمدی کی اشاعت کےلئے بلاد جنوبی اور شمالی کی طرف انہوں نے سفر کیا.اور انکی عقلیں علوم الہتہ میں منور ہوئیں.اور ان کے قومی یہ اسمرارہ ربانیہ کے سمجھنے کے لئے باریک ہوگئیں اور نیک باتیں بالطبع آن و بیاری لگنے گیں.اور بد باتوں اور گناہوں سے بالطبع اُن کو نفرت پیدا ہوئی.اور رشد اور سعادت کے خیموں میں وہ اتارے گئے.بعد اس کے جوتوں پر پرستش کے لئے سرنگوں تھے.اور انہوں نے اپنی کوششوں اور تگ و دومیں کوئی دقیقہ اسلام کے لئے اٹھا نہ رکھا.یہاں تک کہ دین کو فارس اور چین اور روم اور شام تک پہونچایا اور جہاں جہاں گھر نے اپنا بازو پھلا رکھا تھا اور شرک نے اپنی تلور کیچ رکھی تھی ہیں پہونچے.انھوں نے موت کے سامنے سے منہ نہ پھیرا.اور ایک بالشت بھی پیچھے نہ ہے ، اگرچہ کاروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے.وہ لوگ جنگ کے وقتوں میں اپنی قدم گاہوں پر استوار اور قائم رہتے تھے.اور خدا کے لئے موت کی طرف دوڑتے تھے.وہ ایک قوم ہے جنہوں نے کبھی جنگ کے میدانوں سے تخلف نہ کیا اور زمین کی انتہائی آبادی تک زمین پر قدم مارتے ہوئے پہونچے.ان کی عقلیں آزمائی گئیں ملک داری کی لیاقتیں جانچی گئیں.سو وہ ہر ایک امرمیں خالق نکلے اور علم اور مل میں سبقت کرنے والے ثابت ہوئے.اور یہ معجزہ ہمارے رسول خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور در حقیقت اسلام پر ایک صریح دلیل ہے " نجم الہدی ) اور
نیز فرماتے ہیں :- کیا یہ حیرت انگیز ماجرا نہیں کہ ایک بے زر، بے زور، بے کس ، مقی، تیم ، تن تنہا ، غریب ، ایسے زمانے میں کہ جس میں ہر ایک قوم پوری پوری طاقت مال اور فوجی اورعلمی رکھتی تھی، اسی رشت علی لایا کہ براہین قاطعہ اور بیج واضحہ سے سب کی زبان بند کر دی.اور بڑے بڑے لوگوں کو تو حکیم بنے پھرتے تھے اور فیلسوف کہلاتے تھے ، فاش غلطیا سے نکالیں اور پھر باوجود بے کسی اور غریبی کے زور بھی ایسا دکھایا کہ بادشاہوں کو تختوں سے گرا دیا اور انہی تختوں پر غریبوں کو بٹھایا.اگر یہ خدا کی تائید نہیں تھی تو اور کیا تھی؟ کیا تمام طاقت اور زور میں غالب آجانا بغیر تائید اہل سے بھی محور کرتا ہے ؟ خیال رکھنا چاہتے کہ جب آنحضرت نے پہلے پہل کے کے لوگوں میں منادی کی کہ میں نبی ہوں، اُس وقت اُن کے ہمراہ کون تھا اورکس بادشاہ کا خزانہ ان کے قبضہ میں آگیا تھا کہ جس سے اعتماد کر کے ساری دنیا سے مقابلہ کرنے کی نہ گئی ، یا کسی فون کٹھی کرنی تھی کہ جس پر بھروسہ کر کے تمام بادشاہوں کے حملے سے امن ہو گیا تھا ، ہمارے مخالف بھی جانتے ہیں کہ اُس وقت آنحضرت زمین پر اکیلے اور بے کس اور بے سامان تھے.صرف اُن کے ساتھ خدا تھا " برا این احمدیہ حصہ دوئم صفحه ۱۲۷ - ۱۳۸ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قریب چھ سو سال قبل حضرت سیے جیسے برگزیدہ نبی نے دعا کی تھی کہ " اے گھدا! جس طرح آسمان پر تیری بادشاہت ہے، اسی طرح زمین پر بھی ہو " آج دنیا کی ایک کثیر آبادی میسوع مسیح کی اطاعت کا دم بھرتی ہے.اٹلی، افغانستان، فرانس ، سپین، مومنی فلپائن، امریکہ اور آسٹریلیا، برطانیہ اور دیگر حکومتیں آپ کے سامنے عقیدت سے اپنا سر جھکاتی ہیں مگر انہیں سو سال گزر گئے ، حضرت مسیح کے ذریعہ آج تک مخدا کی بادشاہت ہو آسمان پر ہے ، زمین پر قائم نہیں ہو سکی.لیکن آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کی دعوت الی اللہ کا یہ کمال انجاز ہے کہ
حضور اس دنیا سے رخصت نہیں ہوتے جب تک کہ خدا کی بادشاہت دوبارہ زمین پر قائم نہیں ہوگئی.اور ایسا انقلاب عظیم رونما ہوا کہ لاکھوں دل حقی اور راستی کی طرف کھینچے گئے.اور لاکھوں سے سینوں پر لا اله الا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا نقش جم گیا.اور وہ جزیرہ عرب جو بجز بت پرستی کے اور کچھ نہیں جانتا تھا، سمندر کی طرح خُدا کی توحید سے بھر گیا ہے أحْيَيْتَ أَمْوَاتَ الْقُرُونِ بِجَلُوةِ مَاذَا يُمَاتِلُكَ بِهَذَا الشَانِ فداك آبی واقی یا رسول اللہ ! آپ نے صدیوں کے مردے ایک ہی جلوہ سے زندہ کر دیتے.کون ہے جو اس شان میں آپ کا مقابلہ کر سکے.―ii اللّهُمَّ صَلِّ وَسَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ.وَأَخِرُ دَعونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ TITLE: THE 8 th ISSUE OF THE SEERAT UN NABI SERIES OF SHAN-E-KHATAMUL ANBIYA +1 WRITER:- MOULANA DOST MOHAMMAD SHAHID.CAHMADI HISTORIAN, RABWAH) SUBJECT THE MANIFESTATION AND PROPAGATION OF ISLAM.PRINTER & PUBLISHER-- MAJLIS ANSARULLAH MARKAZIYYA, QADIAN (INDIA) EDITION :- AUGUST 1987.له وفات : یکم ربیع الاول سالن ہجری بمطابق ۲۶ مئی سند (سیرت النبی جلد دوم از شبلی نعمانی ) ر مطبوعہ : - ہمدر و آفسیٹ پرنٹنگ پریس جالندھر )