Language: UR
جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک صدی سے زائد عرصہ سے معاندین کے سوالات کے جوابات پیش کئے جارہے ہیں، لیکن بعض مخالفین سستی شہرت کی خواہش میں یا محض اپنی بے نصیبی کی وجہ سے وہی اعتراضات معمولی لفظی فرق یا جدید اضافوں کے ساتھ دہراتے چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سید راشد علی اور سید عبدالحفیظ بھی غالباً اس زمرہ دشمنان سے ہیں جو صرف اعتراض کرنے کے عادی ہیں، جواب سننے اور اس پر غور کرنے کی حس سے عاری ہیں۔ زیر نظر کتاب ساڑھے چھ صد صفحات سے بھی ضخیم ہے اوراس میں معاندین کے اعتراضات کے مدلل اور مبسوط جوابات قرآن کریم، احادیث نبویہ، مسلمہ اور مستند اسلامی لٹریچر سے دیا گیا ہے۔
شیطان کے چیلے ( جن کو فخر ہے کہ ان پر شیطان نازل ہوتا ہے ) ڈاکٹر سید راشد علی اور سید عبدالحفیظ نیز الیاس ستار کے اعتراضات کے جوابات از ہادی علی چوہدری لندن
بسم الله الرحمن الرحيم ” ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے ك لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے، یہ ہے کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی علله خاتم علوسام النبيين وخير المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا.اب وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راه راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.‘ 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام
الهام النبي لا نبقى لك من المخزيات ذكرا ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کا نام و نشان نہیں چھوڑیں گے جن کا ذکر تیری رسوائی کا موجب ہو.( تذکرہ.صفحہ 583) لا نبقى لك من المخزيات شيئا ہم تمام اعتراض دور اور دفع کر دیں گے اور کچھ بھی ان میں سے باقی نہیں رکھیں گے.( تذکرہ - صفحہ 583) اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے نا کام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور نا کامی اور نامرادی میں مریں گے.“ ( تذکرہ - صفحہ 141)
((ها) الله ) صلی هذا رجل يحب رسول الله علي العلي صلى الله (یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھتا ہے ) بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد سیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام
عرض حال ڈاکٹر راشد علی اور اس کے پیر سید عبدالحفیظ کا مشترکہ لٹریچر بعض نئے اعتراضوں اور اضافوں کے علاوہ عموماً انہی روایتی گھسے پٹے اعتراضوں پر مشتمل ہے جو معاندین احمدیت ابتداء سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر، آپ کے مقدس خلفاء اور آپ کی جماعت پر کرتے چلے آ رہے ہیں.جماعت احمدیہ کی طرف سے ان اعتراضات کے مدلل و مبسوط جواب قرآن کریم، حدیث نبوی اور مسلمہ و مستند اسلامی لٹریچر کی روشنی میں بار بار دیئے گئے ہیں.اسلئے خاکسار نے اس کتاب میں بعض جگہ جماعت کے لٹریچر میں پہلے سے موجود جوابات کو ہی درج کر دیا ہے.جماعت احمدیہ کے پیش کردہ جوابات اپنے اندر دلائل اور سچائی کا نا قابل رڈ ٹھوس علمی مواد رکھتے ہیں.اس لئے آج تک اُن جوابات کے ردّ کی استطاعت کسی کو نہیں ملی.یہ محض ایک دعوی نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے جس کا ثبوت خود معاندین احمدیت کا لٹریچر مہیا کرتا ہے.اس لٹریچر میں اُن جوابات کے رڈ کی بجائے پھر انہی پٹے ہوئے اعتراضات کو دوبارہ ، سہ بارہ اور بار بار پیش کر دیا جاتا ہے.معترضین کی یہ روش ان کی دلائل کے لحاظ سے بے بضاعتی اور علمی شکست خوردگی کی نمایاں دلیل ہے.اُن کے شکست خوردہ ہونے کا کھلا کھلا ثبوت اور جماعت احمدیہ کے دلائل کے نا قابل تسخیر ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ان کا جہاں بس چلتا ہے وہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر پر پابندیاں لگوانے اور اسے بین کرانے کی کوششیں کرتے ہیں.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر کی اشاعت ان کے جھوٹے اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کی قلعی کھولنے والا ہے.معترضین کے شکست خوردہ ہونے اور جماعت احمدیہ کے جوابات کے نا قابل رڈ ہونے کی تیسری دلیل یہ ہے کہ مخالفین احمدیت اپنے اعتراضات کو علم کلام کے مسلمہ اصولوں پر مبنی دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی بجائے اپنے خود ساختہ، بے بنیاد معیاروں پر استوار کر کے اشتعال انگیزی اور دشنام طرازی سے آلودہ کر کے پیش کرتے ہیں.جیسا کہ احمدیت کے ایک مخالف مصنف ، ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب نے
جماعت احمدیہ کے خلاف اپنی ایک تصنیف میں یہ اعتراف کیا کہ د, آج تک احمدیت پر جس قدر لٹریچر علمائے اسلام نے پیش کیا ہے، اس میں دلائل کم تھے اور گالیاں زیادہ.ایسے دشنام آلودہ لٹریچر کو کون پڑھے اور مغلظات کون سنے.“ ( حرف محرمانہ (احمدیت پر ایک نظر ، صفحہ 11 12.مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز.لاہور ) اس کی تصدیق خود راشد علی نے بھی اپنی ” بے لگام کتاب میں کی ہے.وہ یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین نے آپ کے خلاف اسقدر بدزبانی اور دشنام دہی کی کہ آپ تنگ آگئے.چنانچہ وہ لکھتا ہے.بالآخر مخالفین کی ہرزہ سرائیوں سے تنگ آکر مرزا صاحب نے اللہ تعالیٰ کی جناب 66 میں دعا کی...ظاہر ہے کہ ایسے لٹریچر کا مقصد اخفائے حق تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ افراد جماعت کی دلآ زاری بھی ضرور ہے.اس دلآزاری کو سید عبدالحفیظ اور راشد علی نے ایک زاویہ یہ بھی دیا ہے کہ وہ کھلی کھلی ژاثر خائی اور ہرزہ سرائی کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کے مقدس بانی کے کارٹون بنا کر شائع کرتے ہیں.اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں نکلتا کہ ایسا کرنے والوں کا اپنا خبث باطن ہی ظاہر و باہر ہو جاتا ہے.آخر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تصویر میں بنانے والے بد بخت بھی تو پیدا ہوئے اور تحریروں میں تصویر کشی کرنے والے بھی اپنے ہی نفس کا گند ظاہر کر گئے.لیکن ہر ایک جانتا ہے کہ ایسا کرنے والے کس قماش کے لوگ تھے.آج اسی گروہ میں سید عبد الحفیظ اور اس کا مرید راشد علی بھی نمایاں طور پر نظر آنے کے لئے ایڑیاں اونچی کر رہے ہیں.ان کی طرف سے مسلسل ایسے دلآزار اور تکلیف دہ رویہ پر قرآن کریم کی حسب ذیل اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، اس کتاب میں ان کا حربہ ایک حد تک انہیں پر الٹایا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَا يُحِبُّ اللهُ الجَهَرَ بِالسُّوءِ مِنَ القَول إِلَّا مَن ظُلِمَ (النساء: 149) ترجمہ: اللہ بری بات کہنا پسند نہیں کرتا، مگر وہ مستفی ہے جس پر ظلم کیا گیا ہو.یہ حکم اس لئے ہے کہ بعض لوگ جب ایسے ظلم میں حد سے بڑھ جائیں تو اُن کو روکنے کے لئے وہ ظلم
ان پر لوٹا نالازمی ہو جاتا ہے.کیونکہ جب تک ان کو ان کی فطرت کے مطابق جواب نہ ملے وہ سمجھنا نہیں چاہتے.چنانچہ ان کے ظالمانہ ہاتھ کو روکنے کے لئے بعض اوقات ایسا کرنا قرآن حکیم کے حکم کے تحت لا بدی ہو جاتا ہے.پس خاکسار نے اپنی جوابی کتاب میں نہ چاہتے ہوئے بھی قدرے درشتی کے ساتھ ان کا کذاب اور بدیانت ہونا ثابت کیا ہے.اس درشتی میں در اصل بل انہوں نے کی ہے اس لئے ان عُدتُم عُدنا “ (بنی اسرائیل :9 ) ( کہ تم اگر لوٹے تو ہم بھی لوٹیں گے ) کے تحت خاکسار نے صرف ایک پہلو میں ان کا حربہ انہیں پر لوٹایا ہے.خاکسار ان لوگوں سے تہہ دل سے معذرت خواہ ہے جن کو یہ طرز پسند نہیں.ان سے امید ہے کہ خاکسار کو اشد مجبوری کی بناء پر قرآنی حکم کی اس رخصت سے فائدہ اٹھانے پر ضرور معاف کر دیں گے.جیسا کہ پہلے عرض کی گئی ہے کہ راشد علی اور اس کے پیر سید عبدالحفیظ نے بھی بعض جگہ اعتراضات کو بار بار پیش کیا ہے جو تقریبا گذشتہ ایک صدی سے پیٹتے چلے آ رہے ہیں.گوانہوں نے اعتراضات کی کچھ طرز بھی بدلی ہے اور نئے اعتراض بھی اٹھائے ہیں.چنانچہ ان لوگوں کو مخاطب کر کے ہمارے ایک بھائی مکرم نعیم عثمان صاحب مرحوم نے ان کے 1992 ء تک کے اعتراضات کا علمی اور مدلل جواب انگریزی میں اپنی کتاب” Three in One میں دیدیا تھا.اس کا نہ تو انہوں نے کوئی علمی طور پر جواب دیا اور نہ ہی وہ اپنے جھوٹے اور غلیظ پروپیگنڈے سے باز آئے.اس لئے ان پر حجت پوری کرنے کے لئے ، ان کے بعد کے جملہ اعتراضات کو اکٹھا کر کے خاکسار نے کوشش کی ہے کہ اس جوڑی کا مکمل ادہارا تار دے اور خاکسار نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کریم، حدیث نبوی کی نصوص سے مدلل بنائے اور امت کے مسلّمہ اور مستندلٹریچر نیز عقلی و نقلی استدلالات اور واقعات کے قریب تر رہ کر اپنی جوابی دلیل کو پیش کرے.راشد علی نے کراچی کے ایک شخص الیاس ستار کے لایعنی اعتراضات کو بھی مسلسل بڑی تحدی اور چیلنج کے ساتھ پیش کیا ہے.اس کتاب میں اس کی تحدی اور چیلنج کا بھی علمی اور بھر پور جواب دیا گیا ہے.الیاس ستار اپنے پمفلٹ " کیا احمدی جواب دے سکتے ہیں“ کو ہی معمولی کمی بیشی کے ساتھ بار بار شائع کرتا رہتا ہے.اس کے رسالے بے تاریخ ہیں اور ان رسالوں کے صفحات بغیر نمبر کے ہیں.اس لئے جہاں پورا
حوالہ درج کر نا ممکن نہیں تھا وہاں صرف رسالے کا ذکر ہی کیا گیا ہے.پیر اور مرید کی اس جوڑی کا لٹریچر اس قدر دل آزار اور بے لگام ہے کہ بعض جگہ ان کی کتاب یا رسالے کا نام تک تحریر کرنا تکلیف دہ تھا.مثلاً انہوں نے ایک کتاب کا نام ” امام بے لگام کے منہ میں لگام رکھا ہے.اس کا حوالہ دیتے ہوئے خاکسار نے اس کا نام ” بے لگام کتاب“ لکھا ہے.انہوں نے اپنے ایک انگریزی فولڈر کا نام BEWARE OF THE EVIL OF AHMADIYYA" وو "MOVEMENT AGAINST ISLAM رکھا ہے جس کا حوالہ دیتے ہوئے خاکسار نے صرف.....Beware“ ہی لکھا ہے.علاوہ ازیں ان کا یہ مذکورہ بالا لٹریچر اور اسی نوع کے دوسرے گندے چیتھڑے بیحد پراگندہ تھے.نیز اکثر جگہ انہوں نے صفحات بھی تحریر نہیں کئے.جس کی وجہ سے حوالہ بھی مکمل نہیں ہوتا.اس لئے بعض جگہ مکمل حوالے درج نہیں کئے جا سکے، لیکن ان کی تحریر میں من و عن درج کر کے ان کا جواب دیا گیا ہے.بعض جگہ جہاں تحریر اپنی گندگی کے باعث درج کرنے کے قابل نہ تھی وہاں صرف اس اعتراض کی نوعیت کے ذکر پر ہی اکتفا کیا گیا ہے.بہر حال ان کی سب اصل تحریریں خاکسار کے پاس محفوظ ہیں.اللہ کرے کہ خاکسار کی یہ پیشکش اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہو اور متلاشیان حق کے لئے معاندین احمدیت کے جھوٹ اور احمدیت کی صداقت تک پہنچنے کا ذریعہ بنے.آمین والسلام مسیح پاک علیہ السلام کا غلام ابن غلام خاکسار ہادی علی چوہدری لندن
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الشَّيطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ إِلَى أَوْلِيَتِهِمْ شیطان یقیناً اپنے دوستوں کو وحی کرتے ہیں.(الانعام :122) ☆☆☆ ڈاکٹر راشد علی پر شیطان کا نزول اور اس کی وحی جو اس نے اپریل 1992ء میں عید کارڈ پر تحریر کر کے بھجوائی وو مرزا طاہر احمد ابلیس کا نوٹس.ایک سال اور پھر لقوہ وفالج جماعت احمد یہ اور مرزا طاہر احمد کے جھوٹ کا نشان“ To Wish a Eid That's Richly Blest With the thing That make you the happiest.EID MUBARAK هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيْطِيْنُ O تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّابٍ أَثِيمٍ O (الشعراء: 222 223 ) ترجمہ:.کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں.(شیطان ) ہر جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں.
عناوین انڈیکس دعاوی پر اعتراضات 1 - مختلف دعاوی اور ناموں پر اعتراض.2.جس نے مہدی کی تکذیب کی اس نے کفر کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہ لانے والے.4.میں ہی مسیح منتظر ہوں.5.میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا الله ا.پہلے خود نبوت کا دروازہ کھولا.پھر اس میں داخل ہو کر اندر سے بند کر لیا.ii.قرآن کریم پر اور آنحضرت ﷺ پر ایمان مسیح موعود کے ذریعہ ملا.iii.احمدیت کی توجہ کا محور آ نحضرت نہیں بلکہ مرزا غلام احمد کی ذات ہے.1 خردجبال ، دابتہ الارض ، دجال.ا.خر و قال.ii.دآبۃ الارض.iii.دجال.2..2.کیا عقیدہ تناسخ برحق ہے.3.سورج کا مغرب سے طلوع کرنا.4.عذاب قبر.5.قیامت اور روزِ جزا و سزا اور تقدیر.تحریرات پر اعتراضات صفحہ 2 8 13 14 15 16 16 19 22 22 25 29 37 39 44 47
46 48 54 65 69 71 ه م مه که ته که م 71 74 79 78 86 91 91 93 98 98 6 - مسجد اقصیٰ.7.ایک غیور قوم کا حسب ونسہ 50.آنحضرت ﷺ کے روضہ مبارک کی توہین کا ناپاک الزام.9.اسلام پر تنقید ، اسے لعنتی ، شیطانی اور قابل نفرت قرار دینا.10.حضرت مسیح موعود کی کتب نہ پڑہنے والے کے ایمان میں مشبہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذات پر اعتراضات 1.شراب اور افیون وغیرہ کے استعمال کا الزام 2.رقم کی چوری اور نوکری ا.رقم کی چوری ii.نوکری 3.زر، زن، زمین اور نام و نمود 4 مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کا اعتراض 5.راشد علی اور اس کے پیر کی فحش گوئی اور لچر الزام.6.شعر ” کرم خاکی ہوں.....“ پر ہرزہ سرائی..‘پر 88 7.وفات پر اعتراض کا جواب.i.وصال کا سبب.ii.آخری الفاظ.منافقت کا الزام 1 - دروغ گوئی.
105 106 109 111 112 113 114 119 121 125 129 132 134 136 139 140 143 147 153 2.وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت ا.وعدہ خلافی.ii.امانت میں خیانت.iii.پانچ اور پچاس.۱۷.لاکھوں افرد کی جماعت احمدیہ میں شمولیت 3 _لعنت بازی.i_لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں.ii.ہزار لعنت.گستاخانِ رسول پر لعنت اور راشد علی کی غیرت 1 - گستاخ رسول و قرآن متنصر مولویوں کا...ہم مشرب راشد علی.2 - شاتم رسول ، ڈاکٹر ڈوئی پر لعنت اور راشد علی کا جوش غیرت.3- گستاخان رسول ، پنڈت دیانند و غیرہ پر لعنت اور راشد علی کا غیظ و غضب.4.سخت کلامی کی حقیقت و وضاحت.ا.جوابی گالی.ii.مولوی جھوٹے ہیں.ili سخت الفاظ.اناجیل وقرآنِ کریم کے آئینہ میں.iv.علماء کی دو قسمیں.قرآن کریم کی بابت الزام 1 - قرآن کریم گندے الفاظ سے بھرا ہوا ہے.2 - قرآن کریم میں بیان شدہ معجزات از نوع مسمریزم ہیں 3 تحریف قرآن کا الزام.
153 162 163 171 174 176 176 180 180 191 214 220 221 223 224 227 227 230 231 241 لفظی تحریف.ii.ترجمہ و معانی میں تحریف.(1) کیا نام نہاد عقیدہ ختم نبوت کو مستند حدیث کی تائید حاصل ہے؟ Seal of Approval() ( ج ) ختم نبوت کا دروازہ کھولا iii.انطباق کے لحاظ سے آیات قرآنیہ میں تحریف iv.احکام قرآن کی تنسیخ کے لحاظ سے تحریف الہامات و پیشگوئیوں پر اعتراضات پیشگوئیوں کی تکذیب، ایک وضاحت.پیشگوئیوں کے اصول 1 - محمدی بیگم سے شادی کی پیشگوئی.2.پادری عبد اللہ آتھم.3.دو عورتوں ( بیوہ اور باکرہ) سے شادی کا الہام.4.مکہ اور مدینہ میں مرنے کی پیشگی اطلاع.5.مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل گاڑی کی پیشگوئی.6.منظور محمد کے ہاں بیٹا.7 انا انزلناه قريبا من القاديان.8 - مکہ ، مدینہ اور قادیان کے نام قرآن کریم میں....درج ہیں.9 - قرآن مجید خدا کا کلام ہے اور میرے منہ کی باتیں.10.دعوت اعجاز نمائی پر اعتراض اور پنڈت دیا نند کی وکالت.11.تین لاکھ الہامات.
1.ٹیچی ٹیچی.2.خیراتی.3.ایل.فرشتوں پر استہزاء پرا رسول اللہ علی کی تو ہین و گستاخی کا الزام -1 آنحضرت ﷺ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کا دوبارہ نزول.2.نبی کریم ﷺ کے پہلو بہ پہلو.244 247 248 251 260 نبی کریم ﷺ کے لئے صرف چاند گرہن اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا گرہن.262 4.بدر اور ہلال کی تشبیہ.5.نبی اللہ ، رسول محمد اور احمد نام.آنحضرت ﷺ سے الگ نہ ہونے پر اعتراض.7 محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں“.8.میرے دعوے کی حدیث بنیاد نہیں.9.تمام نبیوں کا مظہر ہونے پر اعتراض.10.کیا رسول اللہ ﷺ آخری نبی نہیں ہیں؟ 11.آنحضرت ﷺ کوسورۃ الزلزال کے معنے سمجھنے میں غلطی لگی.12.آنحضرت کے الہامات بھی غلط نکلے.13 - بعض حقائق کا قبل از وقت انکشاف نہ ہونا.14 - رسول اللہ علیہ کے زندہ معجزات مشک اور عنبر.15.درودشریف پر اعتراض.16 - محمد رسول اللہ ہونے ، آپ کے برابر اور آخری نبی ہونے کا دعوی.262 269 276 279 282 286 290 292 293 300 302 305 310
322 327 342 344 345 350 357 364 378 386 392 395 397 397 410 412 مقدسوں کی تحقیر کا الزام 1.انبیاء،صحابہ ، علماء، بزرگان دین کی تحقیر کے الزام کا جواب.2.توہین عیسی علیہ السلام کے الزام کا جواب.3 - حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات از قبیل مسمریزم تھے.4 - حضرت مسیح علیہ السلام یوسف نجار کے بیٹے تھے.5.حضرت علی رضی اللہ عنہ کی توہین کے الزام کا جواب.6.حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی تو ہین کے الزام کا جواب.انگریز اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1.جھوٹ کی بنیاد ایک خود ساختہ اور جعلی رپورٹ.2.سرکاری خدمات یا وضع حرب.3.ملکہ وکٹوریہ کو خراج عقیدت.4.خود کاشتہ پودا.جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمان احمد 1.انگریزوں کی پشت پناہی اور کرم نوازیاں.2 نئی امت رجسٹر کرائی.3.صرف وہ اور ان کے پیروکار مسلمان.4.نماز نماز جنازہ اور مناکحت وغیرہ سے علیحد متوازی امت یا حقیقی اسلام 1.غالب خدا تعالیٰ ہے،انگریز نہیں.2.دیگر انبیائے کرام کی جگہ لے لی.
413 413 414 415 416 417 420 422 423 424 426 429 433 442 447 449 449 452 460 3 صحابہ ، ام المومنین اور خلیفہ کی اصطلاحات.ا.صحابہ ii.ام المومنین.iii.خلیفہ.4.براہین احمدیہ، خدا کا کلام.5.نئے کلمہ کی ضرورت نہیں.6.سرزمین قادیاں، ارض حرم.7 مسجد اقصیٰ.8.بیت الفکر، حرم کعبہ.9.قادیان جا ناظتی حج.10 بہشتی مقبرہ.چندہ کے ذریعہ بلنگ.11.ذرية البغايا.12.بیابانوں کے خنزیر.حدیث خسوف و کسوف ،مہدی معہود کی صداقت 1.دعوئے مہدویت و مسیحیت.کا نا قابل رڈ آفاقی نشان 2 خسوف و کسوف ،مهدینا اور چودہویں صدی.ا.اس نشان کے مصداق صرف حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ہیں.ii.آج تک رمضان میں کسوف و خسوف کا ایسا اجتماع نہیں ہوا iii.چودھویں صدی میں امام مہدی کی آمد.3.حدیث کسوف و خسوف کے صحیح معنے.
470 472 493 503 504 507 512 522 524 526 530 535 536 4.چاند کی پہلی رات کوگر ہن.23-5 سالہ معیارِ صداقت.جماعت احمدیہ اور امت مسلمہ کا موقف 1.امت کا متفقہ فیصلہ جماعت احمد یہ مرتد...دائرہ اسلام سے خارج.2- کافروں کی آغوش میں پناہ.3.جماعت احمدیہ مسلمانوں سے انتقام لے رہی ہے.عصرِ حاضر اور جماعت احمدیہ کا کردار 1.مغربی طاقتوں کے لئے خطرہ ؟ 2.جاسوسی کا الزام.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے آقا و مولی حضرت محمد مصطفی میانه 1 - عشق رسول.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کفر 2.نبی ورسول سالک نہیں ہوتے !!.آج تک کوئی نبی دوسرے نبی پر فنا نہیں ہوا!!! 4.میثاق النبیین اور نبی اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ.متفرق اعتراضات 1 - جماعت احمدیہ کی ترقی اور اس کے مالی وسائل.2.ہیروئن کی اسمگلنگ.
539 540 541 549 552 555 557 570 589 591 594 608 609 615 618 622 623 625 626 3.راشد علی اور اس کے پیر کا ایک اندھا افتراء.4.راشد علی اور اس کے پیر کا ایک مضحکہ خیز جھوٹ.5.خلافت رابعہ، انتخاب و ہجرت ایک خدائی تقدیر.1.اصل منافق.2.شریعت سے فرار.دگر یہی دیں ہے.3.قرآن کے پارے، عبدالحفیظ کی گفتگو.6 شیطان چوکڑی، سوالوں کے آئینہ میں الیاس ستار کے اعتراضات کے جوابات 1 عیسی علیہ السلام، پولوس اور شرک.2 کشمیر جانا تو بہت آسان ہے.عیسی علیہ السلام کی ہجرت اور بدھ مت.4.شریعت موسویہ میں لکڑی پر لٹکایا ہو لعنتی.5.وفات مسیح کا معاوضہ.ہے.6 - حدیث نبوی ( حضرت عیسی ۰۲۱ سال زندہ رہے ) کی تضحیک.7 - برنباس کی انجیل پر الیاس ستار کا تکیہ.8.برنباس کی انجیل.الیاس ستار کے لئے مایوسی کا پیغام.A.D_9 10.مجرد رہنے کی ترغیب.11.بدی اور شر کا مقابلہ.12.دل میں کچھ، زبان پر کچھ.
628 629 631 636 640 13.اخفائے حق کے لئے کذب صریح.14.ایک کے بدلہ میں لاکھوں.15.ہمارا قرض تو اتاریں.16.”یا رو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آپکا" آخری بات
دیباچه ازل سے یہی مقدر ہے کہ الہی سلسلوں کو ان کے مخالفین کی طرف سے لازماً جھوٹ اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ كَذلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِي عَدُوّاً شَيْطِيْنَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْر أَن (الانعام :۳۱۱) ترجمہ :.اور ہم نے انسانوں اور جنوں میں سے سرکشوں کو اسی طرح ہر اک نبی کا دشمن بنا دیا تھا ان میں سے بعض بعض کو دھوکا دینے کے لئے (ان کے دل میں ) برے خیال ڈالتے ہیں جو محض ملمع کی بات ہوتی ہے.شیطان اور اس کے ساتھیوں کی یہ دشمنی اور مخالفت الہی سلسلوں کے لئے کھاد کا کام دیتی ہے اور ان کے لئے ایک طرح کی سرسبزی اور شادابی کی موجب بنتی ہے لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ - وہ لوگ جوسلسلہ عالیہ احمدیہ کی مخالفت کے میدان میں ان بدنصیبوں کے زمرہ میں داخل ہوئے ہیں جن کا ذکر مذکورہ بالا آیت کریمہ میں ہے.اگر وہ اس زمانہ کا جائزہ لیں جو انہوں نے اس خدائی سلسلہ کی مخالفت میں ضائع کیا ہے، تو حقیقت افروز تجزیہ ان کو اس الہی تقدیر کی طرف لے جائے گا جس کا ذکر خدا تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے : أَفَلا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الانباء: ۵۴)....ترجمہ:.کیا یہ دیکھتے نہیں کہ ہم ان کے ملک کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کو اس کے کناروں سے کم کرتے چلے جارہے ہیں.صرف گزشتہ چند سالوں کا جائزہ ہی ہمیں اس حقیقت سے ہمکنار کرتا ہے کہ جماعت احمد یہ ترقیات کے اوج کمال کو پہنچ رہی ہے.اس کا اقرار جیسا کہ ہر دور میں مخالفین کرتے آئے ہیں، اس دور میں خود راشد علی اور اس کے پیر نے اپنی ” بے لگام کتاب“ میں پانچویں کالم اور احمد یہ مذہبی ٹریڈنگ کارپوریشن کے عنوان کے تحت بھی کیا ہے.جماعت احمدیہ کے مخالفین، جماعت کی روز افزوں ترقی سے لرزہ براندام ہیں کیونکہ اس دور میں جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد ہزاروں کے حساب سے نکل کر لاکھوں میں سے ہوتی ہوئی کروڑوں کے دائرے میں داخل ہو چکی ہے.وہ اس حقیقت سے بھی
آشنا ہیں کہ یہ نظارہ وَرَأَيْتَ الَّذِيْنَ يَدْخُلُونَ فِى دِینِ اللهِ أَفْوَاجا کے سوا کوئی اور نظارہ نہیں.پس فتوحات نمایاں تواتر نشاں کیا یہ ممکن ہیں بشر سے کیا مکاروں کا کار ایسی سرعت سے شہرت ناگہاں سالوں کے بعد کیا نہیں ثابت کرتی صدق قول کردگار اب گئے خیلے تمہارے کہو کس ہو گئی تحجبت تمام ہوئی اے منکر و لعنت کی مار پر اس صورتحال میں سید عبدالحفیظ اور اس کے مرید راشد علی اور دیگر مخالفین جماعت احمدیہ کے لئے تو قرآن کریم کا یہی پیغام باقی رہ جاتا ہے کہ وَاسْتَفْزِرْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَاَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ (بنی اسرائیل : ۵۶ ) کہ جس حد تک تیرا بس چلتا ہے، اپنی آواز سے فریب دے کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر دیکھ اور بے شک اپنے سواروں کو بھی اور پیادوں کو بھی ان پر چڑھا دے ☆ لیکن سعید فطرت اور سچائی کو قبول کرنے والوں پر تم کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.راشد علی نے مباہلہ ، مباہلہ کی رٹ لگا رکھی ہے.اس کے ساتھ تو مباہلہ کی ضرورت ہی باقی نہیں کیونکہ وہ اس کے لئے کوالیفائی ہی نہیں کرتا.وہ خود اقرار کرتا ہے کہ اس پر شیطان نازل بھی ہوتا ہے اور وحی بھی کرتا ہے.یعنی مباہلہ کی وجہ سے جو عنت جھوٹے پر اترتی ہے وہ پہلے ہی اس پر نازل ہو چکی ہے.قرآنِ کریم شیطان کو رجیم، اور جس پر وہ نازل ہوتا اسے افاک اور اشیم، قرار دیتا ہے.مباہلہ مباہلہ کی تکرار کر کے را شد علی اس سے بڑھ کر اور کس دھتکار، پھٹکار اور لعنت کا طلب گار ہے؟ اللہ تعالیٰ بعض اوقات بعض گستاخ مخالفوں کو بھی چھٹی دیتا ہے.اس کی دو وجوہات ہیں.☆ ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
أَفَلا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَلِبُوْنَ (الانبياء: ۵۴) ترجمہ:.کیا یہ دیکھتے نہیں کہ ہم ان کے ملک کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کو اس کے کناروں سے کم کرتے چلے جارہے ہیں تو کیا ( اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ) وہ غالب آئیں گے؟ ان کو چھٹی دی جاتی ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنی نامرادی اور حرماں نصیبی کا مشاہدہ کرسکیں اور وہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کی تائید یافتہ جماعت کس طرح یکے بعد دیگرے ترقیات کی منازل طے کرتی چلی جاتی ہے.اس کی ترقی کا ہر قدم اور ہر سنگ میل مخالفین اور مکذبین کی جہاں شکست و نامرادی کے ثبوت فراہم کرتا ہے ، وہاں یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ یہ مخالفت کرنے والے خدا تعالیٰ سے دور ومهجور ہیں اور اسکی مرضی کے مخالف ہیں.چنانچہ دیکھیں ایک معاند احمدیت مولوی عبدالرحیم اشرف صاحب کیا کہتے ہیں.انہوں نے لکھا ”ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی.مرزا صاحب کے مقابل جن لوگوں نے کام کیا ان میں سے اکثر تقوی، تعلق باللہ، دیانت، خلوص، علم اور اثر کے لحاظ سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے.سید نذیر حسین صاحب دہلوی.مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی، مولانا قاضی سید سلیمان صاحب منصور پوری، مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی،مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر رحمہم اللہ وغفر لہم کے بارہ میں ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثر و رسوخ بھی اتنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں جو ان کے ہم پایہ ہوں.اگر چہ یہ الفاظ سنے اور پڑھنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گے اور قادیانی اخبار اور رسائل چند دن انہیں اپنی تائید میں پیش کر کے خوش ہوتے رہیں گے.لیکن ہم اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے.متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھتے رہے.تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کا یہ حال ہے کہ ۳۵۰۰۰۰ ء کے عظیم تر ہنگامہ کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس ۱۶۵۹۱۷۷۵ء کا بجٹ پچیس لاکھ روپیہ کا ہو.“ (المنیر.لائل پور ۲ ۳ فروری ۶۵۹۱ء) یہ بیان تو ڈھیل کی اس وجہ کی ایک ہلکی سی تصدیق ہے جو خدا تعالیٰ نے مخالفین انبیاء کو دی ہوتی
ہے.اس بیان میں مولوی عبد الرحیم اشرف صاحب نے جن لوگوں کا ذکر کیا ہے، سیّد عبدالحفیظ اور راشد علی ان کی خاک کو بھی نہیں پہنچتے ، نہ تکذیب کے لحاظ سے نہ ان صفات کے لحاظ سے جو اُن کی ذکر کی گئی ہیں.بہر حال ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اب جماعت احمدیہ کا بجٹ اربوں روپے سے آگے نکل چکا ہے اور جہانتک جماعت کی عددی ترقی کا تعلق ہے تو وہ گنتی سے باہر ہورہی ہے.جماعت کی ترقیات، بیعتوں کی تعداد، نیز قرآن کریم کے تراجم، کتب ، ہفت روزہ اور ماہانہ مجلوں کی اشاعت اور مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے ذریعہ پانچوں بر اعظموں میں ۴ سے ۳۱ زبانوں میں کئی کئی گھنٹوں پر مشتمل پروگراموں پر راشد علی اور اس کے پیر نے جس یاس و حرمانی کا اقرار اپنی ” بے لگام کتاب“ میں کیا ہے ، وہ مولوی عبدالرحیم اشرف صاحب کے بیان کو بہت ہی پیچھے چھوڑ دیتا ہے.اب کچھ تو سوچو ہوش کر کے کیا معمولی ہے بات جس کا چرچا کر رہا ہے ہر بشر اور ہر دیار دوسری وجہ مکفرین کو ڈھیل دینے کی خدا تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے.وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِايَتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ أَمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِی متین (الاعراف: ۴۸۱،۳۸۱) ترجمہ:.اور وہ لوگ جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں، ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسے راستوں سے جن کو وہ جانتے نہیں کھینچتے لائیں گے.اور میں انہیں ڈھیل دیتا ہوں.میری تدبیر بڑی مضبوط ہے.اس تقدیر کی فلاسفی کو معاندِ احمدیت مولوی ثناء اللہ امرتسری نے یوں پیش کیا ہے کہ قرآن تو کہتا ہے کہ بدکاروں کو خدا کی طرف سے مہلت ملتی ہے.سنو! مــن کـــــان فـــی الضلالة فليمدد له الرحمن مدا (پ) (۸۶) اور انّما نملى لهم ليزدادوا اثما(پ۹۴۴)اور و يمدهم في طغيانهم يعمهون (پ (۲۶) و غیره آیات.....اور سنو! بل متعنا هؤلاء واباء هم حتى طال عليهم العمر (۴۴۴۱) جن کے صاف معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ جھوٹے ، دغا باز، مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے، تاکہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں.“ (اہلحدیث.۶۲ اپریل ۷۰۹۱ صفحہ ۴ حاشیہ )
پس راشد علی اور اس کے پیر سید عبدالحفیظ کے لئے مباہلہ نے تو ہر لحاظ سے لعنت کے سامان کئے ہوئے ہیں.وہ اپنی آنکھوں سے جماعت کی دن دونی رات چوگنی ترقی کو اسی طرح دیکھتے رہیں گے جس طرح بلا استثناء ہر معاندِ احمدیت نے دیکھا.اسی طرح انشاء اللہ ان کا انجام بھی مذکورہ بالا آیات میں بیان شدہ تقدیر کے مطابق ہی ہوگا.سوائے اس کے کہ وہ تو بہ کے دروازہ میں داخل ہو جائیں لیکن یاد رکھیں کہ مرنے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے.☆ راشد علی اور اس کے پیر نے الیاس ستار کے پمفلٹ بھی اپنے لٹریچر میں شائع کئے ہیں.اس کے اعتراضات کا جواب بھی اس کتاب میں دلائل کے ساتھ دیا گیا ہے.وآخر دعوانا لك الحمد لله رب العالمين.
دعاوی پر اعتراضات
2 (1) مختلف دعاوی اور ناموں پر اعتراض راشد علی اور اس کے پیر نے ایک جاہلانہ اور خبیثانہ استہزاء کرتے ہوئے زیر عنوان ” تھالی کے بینگن“ لکھا ہے.غرضیکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خود کاشتہ پودا پروان چڑھتا رہا.مرزا صاحب ایک کے بعد دوسری قلابازیاں کھاتے رہے.مجد د بنے مسیح موعود بنے ، لارڈ کرشنا اور جے سنگھ بہادر بنے.کبھی خدا تو کبھی خدا کا بیٹا ہونے کے الہام ہونے لگے، الغرض کبھی بنتے کبھی بگڑتے رہے.کبھی مغل کبھی فارسی النسل کبھی اسرائیلی تو کبھی چینی.جدھر جھکاؤ دیکھا تھالی کے بینگن کی طرح ادھر ہی لڑھک پڑے.“ ( بے لگام کتاب ) دراصل یہ ایک استہزاء ہے جو راشد علی نے اپنے خبیث ذہن کی تھالی میں رکھ کر پیش کیا ہے.ورنہ یہ باتیں ہرگز محل اعتراض نہیں ہیں.راشد علی تو بظاہر پڑھا لکھا، ایک ڈاکٹر ہے جبکہ ایک ان پڑھ اور جاہلِ مطلق شخص بھیجانتا ہے کہ ایک انسان اپنی ذاتی حیثیت اور حسب ونسب اور رشتوں کے اعتبار سے کئی حیثیتوں اور کئی صفات کا حامل ہوتا ہے.اگر یہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے اور MRCP بننے کے بعد اپنی ذات پر ہی غور کر لیتا تو ذہن پر کافی زور دینے سے اسے شاید یہ علم ہو ہی جاتا کہ وہ ایک ہی وقت میں ڈاکٹر بھی ہے اور MRCP کا مقام بھی اسے حاصل ہے.وہ غالبا سید بھی ہے اور پنجابی بھی اور ساتھ ہی پاکستانی اور ایشین بھی اور فجیرہ میں رہنے کی وجہ سے فجیر وی یا فجوری بھی، وغیرہ وغیرہ.چنانچہ جب وہ اچھی طرح اپنی ذاتی حیثیت پر غور کر لیتا تو پھر اسے یقین ہو جاتا کہ در حقیقت تھالی کا اصل بینگن تو وہ خود ہے.مامور من اللہ، خدا تعالیٰ کے پاک مسیح اور مہدی علیہ السلام کو تو اس نے محض اپنے نفس کے آئینہ میں دیکھا ہے جو اسے اپنی ہی شکل نظر آئی ہے.کیونکہ وہ کبھی ڈاکٹر ہے تو کبھی سید، کبھی پاکستانی اور کبھی.....وغیرہ وغیرہ را شد علی اور اس کے پیر کی حالت پر ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک مرتبہ سرور دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ نے ایک بچے سے بڑے پیار سے پوچھا کہ تمہاری والدہ کا بھائی کون ہے؟ بچہ سوچ میں پڑ گیا تو آپ
3 نے اس کی سوچ سے محظوظ ہوتے ہوئے مسکرا کر فرمایا کہ کیا وہ تمہارا ماموں نہ ہوا.اگر خدانخواستہ یہ پیر اور مرید وہاں ہوتے تو نجانے کیا کیا تبصرے اس شخص کے بارہ میں کر جاتے جو ایک پہلو سے اس بچے کا ماموں تھا اور ایک پہلو سے اس کی ماں کا بھائی تھا.وہ عرب بھی تھا اور حجازی بھی ان پیرومرید کے نزدیک کسی کے بکثرت دعاوی اور اس کے مراتب ومناصب اور صفاتی نام اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہیں.حضرت مرزا صاحب پر ان کے اس نوع کے حملہ سے یہ تو قطعی طور پر واضح ہے کہ ان پر صرف عقل کی مار ہی نہیں پڑی، بلکہ ان کے دل میں ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بھی ذرہ بھر محبت نہیں اور نہ ہی آپ کے مقام بلند ، آپ کے دعاوی ، آپ کے منصب اور صفاتی ناموں کا کوئی پاس ہے.ورنہ حضرت مرزا صاحب کی دشمنی میں آپ پر حملہ کرتے ہوئے یہ ضرور سوچتے کہ اس کی زد در اصل مظہر ذات خدا محبوب کبریا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات بابرکات پر پڑتی ہے.قبل اس کے کہ اس کی تفصیل بیان کریں، ہم قارئین کی خدمت میں چند بزرگانِ امت کے دعاوی پیش کرتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان دعاوی اور ناموں کی کثرت سے ان کے مقام و مرتبہ کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے ،ان کے منصب و مقام میں کمی واقع نہیں ہوتی.اگر یہ دعوے ایسے ہی قابلِ اعتراض ہیں اور مدعی کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہیں جس طرح راشد علی اور اس کا پیر بیان کرتے ہیں اور ان پر وہی نام صادق آتا ہے جو انہوں نے اس اعتراض کو دیا ہے تو ہم تو اس سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں لیکن اس پیر اور اس کے مرید سے یہ پوچھتے ہیں کہ وہ حضرت شمس الدین تبریز کو کیا کہیں گے جو فر ماتے ہیں ہم نوح و ہم آدم تو کی ہم عیسی کمریم توئی ہمراز و ہم محرم توئی چیزے بدہ درویش را دیوان حضرت شمس تبریز صفحه 6 مطبع نامی منشی نولکشور لکھنو ) کہ تو ہی نوح ہے، تو ہی آدم ہے اور تو ہی عیسی مریمی ہے.اور پھر حضرت ابن عزلی پر کیا فتویٰ صادر فرما ئیں گے.جنہوں نے فرمایا:
4 السبع المثاني انا القرآن و وروح الروح لا روح الاوانی کہ میں قرآن کریم ہوں اور میں سبع المثانی ہوں.(فتوحات مکیہ - جلد 1 صفحہ 9.مطبوعہ دار صادر بیروت ) نیز کیا عنوان لگائیں گے حضرت بایزید بسطامی کے ان فرمودات پر کہ ان سے جب پوچھا عرش کیا ہے؟ کہا میں ہوں ! پوچھا کرسی کیا ہے؟ کہا میں ہوں ! پوچھالوح وقلم کیا ہے؟ کہا میں ہوں ! پوچھا خدا عز وجل کے بندے ہیں ابراہیم و موسیٰ محمد علیہم الصلوۃ والسلام؟ کہا وہ سب میں ہوں ! پوچھا کہتے ہیں خدا عز وجل کے بندے ہیں جبرائیل، میکائیل، اسرافیل ، عزرائیل علیہ السلام؟ کہا ( تذکرۃ الاولیاء اردو.باب 14 ص 128 شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز ) وہ سب میں ہوں ! اور پھر یہ پیر اور مرید کیا نام دیں گے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو جنہوں نے دعوے کئے کہ تعلیم اسماء مردم را من بودم و آنچه برنوح طوفان شد و سبب نصرة او شد من بودم آنچه ابراهیم را گلزار گشت من بودم توریت موسی من بودم احیاء عیسی میت را من بودم قرآن مصطفیٰ من بودم والحمد لله ربّ العالمین (التفہیمات الالہیہ.جلد نمبر 1 صفحہ 18.مطبوعہ مدنیہ برقی پریس بجنور ) ترجمہ.میں اسماء کی تعلیم تھا اور طوفان نوح کے وقت جو نصرت آئی وہ میں تھا، ابراہیم پر جب آگ گلزار ہوئی تو وہ میں تھا، موسیٰ کی توریت میں تھا، میسی کا احیائے موتی میں تھا اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کا قرآن میں تھا.قارئین کرام ! راشد علی اور اس کے پیر کی الٹی منطق کا آپ نے ایک حد تک اندازہ تو لگالیا ہوگا.لیکن اصل حقیقت یہ ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ "كثرة الاسماء تدلّ على شرف المسمى وفضله ( تفسیر الخازن.جزو اول صفحہ 1 تفسیر سورہ الفاتحہ) کہ ناموں کی کثرت مسمی کے بلند مقام ، بزرگی اور اس کی فضیلت کا ثبوت ہے.اسی وجہ سے
5 سرتاج انبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو سب سے زیادہ اسمائے مبارکہ سے نوازا گیا جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السّلام فرماتے ہیں: دو وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا.نجوم میں نہیں تھا.قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یاقوت اور زمر داور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں، جس کا انتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی عے ہیں.سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں.اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیڈ ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی امتی صادق مصدوق محمد مصطفی ﷺ میں پائی جاتی تھی.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 160 161 ) چنانچہ قرآن کریم میں آپ کے جو نام اور منصب بیان فرمائے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں.1.آپ احمد ہیں وَمُبَشِّرًا رَسُوْلِ يَأْتِي مِنْ بَعدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ ( الصف:7) 2.آپ محمد ہیں مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ( الفتح: 30) 3.آپ یس ہیں.يسَ وَالْقُرْآنِ الْحَكِيْمِ إِنَّكَ لَمِن المُرْسَلِين ( يس :472) 4.آپ طہ ہیں.طه مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى 5.آپ مریمل ہیں.يَأْيُّهَا الْمُزَّمِّلُ 6.آپ مدظر ہیں.يَأَيُّهَا الْمُدقِّرُ 7.آپ نبی امی ہیں.الرَّسُولَ النَّبِيِّ الأُمِّي 8.آپ داعی الی اللہ ہیں.وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهُ بِإِذْنِهِ 9.آپ سراج منیر ہیں.وَسِرَاجًا مُّبِيرًا 10 - 11 آپ مندر اور ہادی ہیں.إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (3.2:b) ( المرة مثل :2) ( المدقر :2) ( الاعراف: 158) (الاحزاب:47) ( الاحزاب:47) (الرعد:8) 14-13-12 آپ شاہد ہیں ، مبشر ہیں اور نذیر ہیں.اِنَّا اَرْسَلْنكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَّنَذِيرًا.
6 (الاحزاب :4) 15.آپ مزکی ہیں يُزَكِّيْهِمْ 16.آپ معلم کتاب و حکمت ہیں يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ 17.آپ تو رہیں قَدْ جَاءَ كُمْ مِّنَ اللَّهِ نُوْرٌ 18.آپ برہان ہیں.جَاءَ كُمْ بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ ( الجمعة (3) (الجمعه : (3) (المائدہ: 16) (النساء:170) 19 20.آپ سرا پاہدایت ہیں اور رحمۃ للمومنین ہیں.وَإِنَّهُ لَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ (انمل:78) 21.آپ رحمۃ للعالمین ہیں.وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ (الانبياء:107) 22، 23، 24.آپ امت کے لئے حریص ہیں ، رؤوف ہیں اور رحیم ہیں.حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ 25.آپ گواہ نگران ہیں.لِيَكُونَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُم شَهِيدًا 26.آپ صاحب خلق عظیم ہیں.إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ 27.آپ اول المسلمین ہیں.وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ( التوبة :128) (الحج :78) (القلم:5) (الانعام:164) 28، 29.آپ رسول اللہ ہیں اور خاتم النبین ہیں.وَلكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ (الاحزاب:40) 30.آپ عبد اللہ ہیں.وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ 31.آپ صاحب کوثر ہیں.إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الكَوْثَرَ (الحجن : 20) ( الكوثر :2) 32.آپ " محی ہیں.إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ 33.آپ صاحب اسراء ہیں.سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ 34.آپ صاحب مقام قاب قوسین ہیں.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى الله (الانفال: 25) ( بنی اسرائیل :2 ) (النجم :10) قرآن کریم میں بیان شدہ اسمائے مبارکہ کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے اپنے بہت سے نام بھی بیان فرمائے جو کتب احادیث میں مذکور ہیں.ان کی تفصیل میں ہم نہیں جاتے.البتہ یہ ذکر ضروری ہے کہ للنبي الله الف اسم (زاد المعاد الجزء الاول صفحہ 21.دار الكتاب العربی بیروت) کہ آنحضرت ﷺ کے ایک ہزار نام ہیں.امام ابن قیم نے ان اسماء کے بارہ میں یہ وضاحت بھی
7 کی ہے: وكـلـهـا نـعـوت ليست اعلاماً محضة لمجرد التعريف بل اسماء مشتقة من صفات قائمة به توجب المدح والكمال (ايضا) کہ یہ ( اسماء العمی ) محض نام ہی نہیں بلکہ در حقیقت سب کے سب ہی صفات ہیں اور ایسی صفات سے مشتق ہیں کہ جن کی بناء پر آپ کی مدح اور کمال کا ثبوت ملتا ہے.ہم نے یہاں نمونہ چند اسمائے مبارکہ قارئین کی خدمت میں پیش کئے ہیں جبکہ ہمارے آقا ومولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ لے جامع جمیع صفات الہیہ ہیں.آپ کے یہ اسماء آپ کے دعاوی کی صداقت اور عظمت اور رفعت شان کے آئینہ دار ہیں.پس ہم راشد علی اور اس کے پیر کی تعلی کو انہیں پر الٹا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ اس کے مطابق کیا ان کے نزدیک آنحضرت ﷺ کے بکثرت نام یا دعاوی آپ کو (نعوذ باللہ، نعوذ باللہ ) جھوٹا ثابت کرتے ہیں؟ ہمارا جواب تو یہ ہے کہ نہیں ہرگز نہیں.خدا کی قسم ہرگز نہیں.بلکہ آپ کا ایک ایک نام اور ایک ایک دعوئی آپ کی بلندشان کی عکاسی کرتا ہے.......ہاں راشد علی اور.اس کے پیر نے یقیناً ایک ایسی اختراع کی ہے جو خود انہیں ایک مرتبہ نہیں ، ہزار ہزار مرتبہ جھوٹا ثابت کرتی ہے.اس شخص سے بڑا احمق کون ہوسکتا ہے جو اسی شاخ کو کاٹے جس پر وہ خود بیٹھا ہو یا جو عناد اور دشمنی میں اندھا ہو کر دوسرے پر حملہ کرتے ہوئے اپنے ہی پیاروں کا خون کر دے.ان پیر ومرید کے دل میں اگر حب پیغمبر ﷺ کا ایک ذرہ بھی ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرنے سے پہلے یہ سوچتے کہ کہیں ان کے حملہ کی زد ہمارے آقاو مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر تو نہیں پڑتی؟ ان کے حملوں کی جو طرز ہے اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نہ تو نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کی ذات ان سے بچ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی اور ہستی.
8 (2) جس نے مہدی کی تکذیب کی اس نے کفر کیا را شد علی نے اپنی کتاب ”Ghulam Vs Master “ کے صفحہ 30 پر، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب حقیقۃ الوحی میں سے ایک سوال اور اس کے جواب پر مشتمل اقتباس میں سے کچھ کا انگریزی ترجمہ لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کلمہ گو مسلمانوں کو کا فرقرار دیا ہے.راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکمل جواب پیش کرنے کی بجائے صرف چند سطور ہی تحریر کی ہیں اس لئے ہم وہ مکمل جواب ہدیہ قارئین کریں گے.لیکن اس سے پہلے ایک وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ.در حقیقت امت محمدیہ کے تمام بڑے بڑے فرقے باوجود اس کے کہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کلمہ گو بھی مسلمان ہیں اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت کے قائل ہیں پھر بھی دیگر وجوہات اور اختلافات عقائد کی بناء پر ایک دوسرے پر فتوے لگاتے ہیں.جبکہ احمدی جب دوسرے مسلمانوں پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں تو محض اس بناء پر کہ وہ خود حضرت مرزا صاحب کو آپ کے دعاوی کی بناء پر کافر قرار دیتے ہیں.اور حدیث نبوی کی رو سے ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو کافر قرار دے تو یہ کفر اسی پر الٹ آتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: " ايما رجل مسلم كفر رجلاً مسلماً فان كان كافر او الا كان هو الكافر (سنن ابی داؤد.کتاب السنه ) یعنی جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کا فرٹھہرائے تو اس کی بجائے وہ خود کا فر ہو جاتا ہے پس عقلاً ونقلاً احمدیوں کے لئے کوئی اور راہ ہی باقی نہیں رہتی کہ وہ جس کو خدا کا بھیجا ہوا امام تسلیم کرتے ہیں، اس کی تکفیر کرنے والے کو کافر قرار نہ دیں.یہ کوئی غلط بات دوسروں کی طرف منسوب نہیں کی جا رہی.یہ ایسی بات ہے جس پر دوسرے خود فخر کرتے ہیں کہ وہ اس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر کفر کا
9 فتوی صادر کرتے ہیں.پس اگر راشد علی اور اس کا پیر اس پر فخر کرتے ہیں تو ان کا اپنا کفر کے فتوای حدیث کے مطابق ان پر ہی التا ہے تو پھر ان کو اس سے تکلیف نہیں ہونی چاہئے.انہیں تو یہ کہنا چاہئے کہ اگر یہ کفر ہے تو ہم اس پر فخر کرتے ہیں.دیکھئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نوع کے کفر پر کس شان سے فخر فرمایا ہے.آپ نے فرمایا: بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 18 ) نیز فرمایا: مجھ اے واعظ! نظر کی یار نے پر نہ کی حیف اس ایماں جس کفر بہتر لاکھ بار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 143) اس وضاحت کے بعد اب ملاحظہ فرمائیں وہ سوال اور اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تفصیلی جواب جس پر راشد علی نے اعتراض اٹھایا ہے.دو سوال...: - حضور عالی نے ہزاروں جگہ تحریر فرمایا ہے کہ کلمہ گو اور اہلِ قبلہ کو کافر کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ علاوہ ان مومنوں کے جو آپ کی تکفیر کر کے کافر بن جائیں صرف آپ کے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا.لیکن عبدالحکیم خان کو آپ لکھتے ہیں کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے.اس بیان اور پہلی کتابوں کے بیان میں تناقض ہے.یعنی پہلے آپ تریاق القلوب وغیرہ میں لکھ چکے ہیں کہ میرے نہ مانے سے کوئی کا فرنہیں ہوتا اور اب آپ لکھتے ہیں کہ میرے انکار سے کافر ہو جاتا ہے.الجواب :.یہ عجیب بات ہے کہ آپ کا فر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھیراتے ہیں حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا پر افتراء کرنے والا سب کافروں سے بڑھ کر کافر ہے جیسا کہ فرماتا ہے
10 فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بايته (الاعراف:38) یعنی بڑے کا فرد وہی ہیں، ایک خدا پر افتراء کرنے والا ہے.دوسرا خدا کی کلام کی تکذیب کرنے والا.پس جبکہ میں نے ایک مکذب کے نزدیک خدا پر افتراء کیا ہے.اس صورت میں نہ میں صرف کا فر بلکہ بڑا کا فر ہوا.اور اگر میں مفتری نہیں تو بلاشبہ وہ کفر اس پر پڑے گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خود فرمایا ہے.علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشگوئی موجود ہے یعنی رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں میری امت میں سے ہی مسیح موعود آئے گا اور آنحضرت ﷺ نے یہ بھی خبر دی تھی کہ میں معراج کی رات میں مسیح ابن مریم کو ان نبیوں میں دیکھ آیا ہوں جو اس دنیا سے گذر گئے ہیں اور سیکھی شہید کے پاس دوسرے آسمان میں ان کو دیکھا ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں خبر دی کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے اور آسمان پر کسوف خسوف رمضان میں ہوا.اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمداً خدا تعالیٰ کے نشانوں کو رڈ کرتا ہے اور مجھ کو باوجود صد ہا نشانوں کے مفتری ٹھیرا تا ہے تو وہ مومن کیونکر ہوسکتا ہے.اور اگر وہ مومن ہے تو میں بوجہ افتراء کرنے کے کافر ٹھیرا کیونکہ میں ان کی نظر میں مفتری ہوں اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے قَالَتِ الأعْرَابُ امَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلَكِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات :15) یعنی عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے.ان سے کہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے.ہاں یوں کہو کہ ہم نے اطاعت اختیار کر لی ہے اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.پس جبکہ خدا اطاعت کر نیوالوں کا نام مومن نہیں رکھتا.پھر وہ لوگ خدا کے نزدیک کیونکر مومن ہو سکتے ہیں جو کھلے کھلے طور پر خدا کے کلام کی تکذیب کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہزار ہا نشان دیکھ کر جو زمین اور آسمان میں ظاہر ہوئے پھر بھی میری تکذیب سے باز نہیں آتے.وہ خود اس بات کا اقرار رکھتے ہیں کہ اگر میں مفتری نہیں اور مومن ہوں.تو اس صورت میں وہ میری تکذیب اور تکفیر کے بعد کافر ہوئے اور مجھے اکفر ٹھیرا کر اپنے کفر پر مہر لگا دی.یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ مومن کو کافر ظالم سے مراد اس جگہ کا فر ہے.اس پر قرینہ یہ ہے کہ مفتری کے مقابل پر مکذب کتاب اللہ کو ظالم تھہرایا ہے اور بلا شبہ وہ صح و شخص جو خدا تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرتا ہے کافر ہے.سو جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کا فرٹھہراتا ہے.اس لئے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کافر بنتا ہے.منہ
11 کہنے والا آخر کا فر ہو جاتا ہے.پھر جب کہ دو سو مولوی نے مجھے کا فرٹھیرایا اور میرے پر کفر کا فتو ی لکھا گیا اور انہیں کے فتوے سے یہ بات ثابت ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے اور کافر کو مومن کہنے والا بھی کافر ہوجاتا ہے.تو اب اس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخم دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو ان کو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کر دیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کا فر بنایا.تب میں ان کو مسلمان سمجھ لوں گا.بشرطیکہ ان میں نفاق کا شبہ نہ پایا جاوے.اور خدا کے کھلے کھلے معجزات کے مکذب نہ ہوں ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ) (النساء: 146) یعنی منافق دوزخ کے نیچے کے طبقے میں ڈالے جائیں گے اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ ما زنا زان و هو مومن و ما سرق سارق و هو مومن یعنی کوئی زانی زنا کی حالت میں اور کوئی چور چوری کی حالت میں مومن نہیں ہوتا.پھر منافق نفاق کی حالت میں کیونکر مومن ہو سکتا ہے.اگر یہ مسئلہ صحیح نہیں ہے کہ کسی کو کافر کہنے سے انسان خود کا فر ہو جاتا ہے تو اپنے مولویوں کا فتوی مجھے دکھلا دیں میں قبول کرلوں گا اور اگر کافر ہو جاتا ہے تو دوسومولوی کے کفر کی نسبت نام بنام ایک اشتہار شائع کر دیں.بعد اس کے حرام ہو گا کہ میں ان کے اسلام میں شک کروں بشر طیکہ کوئی نفاق کی سیرت ان میں نہ پائی جائے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 167تا169) اس مسئلہ کی مزید وضاحت بھی آپ نے فرمائی کہ ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہ کر خود کا فرنہ بن جائے.جو ہمیں کا فرنہیں کہتا ہم اسے ہر گز کا فرنہیں کہتے لیکن جو ہمیں کا فر کہتا ہے اسے کا فر نہ سمجھیں تو اس میں اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اور یہ ہم سے نہیں ہو سکتا.“ ( ملفوظات.جلد 10 صفحہ 377،376) صحیح بخاری میں اسی معنی کی روایت اس طرح مذکور ہے.لایزنـي الـزانـي حـيـن يزني وهو مومن ولا يسرق حين يسرق وهو مومن جیسا کہ میں نے بیان کیا کافر و مومن قرار دینے سے انسان کا فر ہو جاتا ہے کیونکہ جوشخص در حقیقت کا فر ہے وہ اس کے کفر کی نفی کرتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ جس قدر لوگ میرے پر ایمان نہیں لاتے وہ سب کے سب ایسے ہیں کہ ان تمام لوگوں کو وہ مومن جانتے ہیں جنہوں نے مجھ کو کا فر ٹھہرایا ہے پس میں اب بھی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتا لیکن جن میں خود انہیں کے ہاتھ سے ان کی وجہ کفر کی پیدا ہوگئی.ان کو کیونکر مومن کہ سکتا ہوں.منہ
12 تکفیر میں ابتداء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین نے کی جس کی وجہ سے وہ خود اس کے مورد بنے اور حدیث نبوی کے فیصلہ کے تحت کا فر ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود کسی کو کا فرقرار نہیں دیا.آپ فرماتے ہیں: کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کا فرٹھہرایا تھا.اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوی کفر سے پہلے شائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کا فرٹھہرایا ہے تو پیش کریں.ورنہ خود سوچ لیں کہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو خود ٹھہر اویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگائیں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 120) فرمایا: مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کا مسلک تو بڑا واضح اور شریعت کے عین مطابق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی کو کا فرقرار نہیں دیا بلکہ آنحضرت ﷺ نے کلمہ گو مسلمان کو کافر کہنے والے کو کافر قرار دیا ہے.پس راشد علی اور اس کا پیرسخت جھوٹے ہیں.اس مکمل جواب کے بعد حسب ذیل امور بھی قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش ہیں.چنانچہ لکھا ہے: قال رسول الله صلى الله عليه وسلّم من انكر خروج المهدى فقد انكر بما انزل ینابیع المودة - الباب الثامن والسبعون - از علامہ الشیخ سلیمان بن الشيخ ابراھیم.المتوفی 1294ء) على محمد.ترجمہ: نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس نے مہدی کے ظہور کا انکار کیا اس نے گویا ان باتوں کا انکار کیا جو محمد پر نازل ہوئیں.اسی طرح اہلحدیث کے مستند اور مسلمہ بزرگ یہ فتوی تحریر کر چکے ہیں کہ "من كذب بالمهدى فقد كفر“ نج الکرامہ صفحہ 351- از نواب صدیق حسن خان بھوپالوی مطبع شاہجہان پر لیس بھوپال) کہ جس نے مہدی کی تکذیب کی اس نے یقیناً کفر کیا.
13 یہ فتوے جماعت احمدیہ کے نہیں بلکہ راشد علی اور ان کے ہم مشربوں کے بزرگوں کے ہیں جو انہی لوگوں کے لئے تجت کے طور پر پیش کئے گئے ہیں.جماعت احمد یہ جن عقائد پر قائم ہے وہ قرآن کریم کی محکم آیات اور واضح احادیث ہیں، جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ پیش فرمایا اور انہیں اپنے مؤقف کی بنیاد ٹھہرایا.الغرض راشد علی اور اس کے پیر کے لئے راستہ کھلا ہے کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام کی تکفیر کریں یا تصدیق، تصدیق کریں گے تو ہر حال میں مسلمان ہی رہیں گے لیکن تکفیر کریں گے تو ان کی تکفیر الٹ کر انہی کو کا فر بنائے گی.البتہ ان کا کفر ویسے ہی دوہرا ہے.ایک اس وجہ سے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے سچے مسیح و مہدی نبی اللہ کا انکار کیا ہے اور دوسرے اس وجہ سے کہ انہوں نے اسے کا فرٹھہرایا ہے.پس انہیں اپنی فکر کرنی چاہئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اس کفر کا حساب دینا ہے.(3) مسیح موعود پر ایمان نہ لانے والے...؟ راشد علی نے یہ اعتراض کیا ہے کہ "He who does not believe on Mirza is disobedient to God and Prophet and will go to Hell." ( Beware....) اس اعتراض کا ایک حد تک جواب تو گزشتہ صفحات میں آچکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہرگز کسی کو جہنمی قرار نہیں دیا.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام وہ موعود مسیح اور معہود مہدی ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے صحف سابقہ کی نیز آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق مبعوث فرمایا ہے.اس لئے آپ کا انکار لازماً خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہے اور آنحضرت ﷺ کے فرمودات کا انکار قرار پاتا ہے.آنحضرت ﷺ نے اپنے مسیح و مہدی کے بارہ میں فرمایا تھا: اذا رايتموه فبايعوه کہ تم جب بھی اس کو پاؤ تو اس کی بیعت میں داخل ہو جانا.(ابن ماجہ.کتاب الفتن باب خروج المهدی)
14 یہاں سوال حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی ذات کا نہیں بلکہ اس مسیح اور مہدی کا ہے جس کے منصب پر آپ کو خدا تعالیٰ نے فائز فرمایا.اس مسیح و مہدی پر ایمان لانے کا اور اس کی بیعت کرنے کا ارشاد آنحضرت ﷺ کا ہے اور ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ " ” من مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة الجاهلية (مسلم کتاب الامارة باب وجوب الملازمة جماعة السلمين ) یعنی جو شخص اپنے زنانہ کے امام کو شناخت نہ کرے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے.یہ حدیث ایک منتفی کے دل کو امام الوقت کا طالب بنانے کے لئے کافی ہوسکتی ہے کیونکہ جاہلیت کی موت ایسی جامع شقاوت ہے جس سے کوئی بدی اور بدبختی باہر نہیں.وقت کے مامور کے انکار کا معاملہ خدا تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا ہے.اس لئے اس سلسلہ میں کچھ مزید کہنے کی حاجت ہی کوئی نہیں.پس قرآن کریم کی آیات بینہ اور نبی اکرم ﷺ کی واضح احادیث پر مبنی یہ وہ عقیدہ ہے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے.اس لئے جماعت احمدیہ پر ایسا اعتراض معترض کی جہالت کا آئینہ دار ہے.(4) میں ہی مسیح منتظر ہوں راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسیح ہونے کے دعوئی کو بھی ہدف اعتراض بنایا ہے.اس دعوئی کو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف ان الفاظ کے ساتھ منسوب کیا ہے کہ "I claim that I am the awaited Messiah about whom there are prophesies in all the Holy Books that he will apear in the last days." ( Beware....) ہم ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ دعوی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ، سچا اور برحق ہے.آپ کے دعویٰ کی تائید میں خدا تعالیٰ نے ہر وہ نشان اور ثبوت ظاہر فرمایا جو آپ
15 کے لئے پیشگوئیوں میں مذکور تھا.اور پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے مطابق آپ کی صداقت کو علی منہاج النبوة ثابت فرمایا.پس آپ پر ایمان لانا ہر شخص کے لئے ضروری ہے.مذاہب عالم میں آخری زمانہ میں ایک موعود کی آمد کی خبر ملتی ہے ، اس کا مصداق آپ کے سوا اور کوئی نہیں.یہ خبر ایسی ہے کہ جسے ہرحال میں وصول اور قبول کرنا ضروری ہے.کیونکہ ہمارے سید و مطاع، آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ایک سے زائد مرتبہ تاکید بیان فرمایا ہے کہ "كيف انتم اذا نزل ابن مريم فيكم و امامكم منكم ( بخاری.کتاب بدء الخلق باب نزول عیسی ) کہ تم میں مسیح ابن مریم نازل ہوگا اور وہ تمہارا امام تمہیں میں سے ہوگا.اور فرمایا: "فاذار ايتموه فبايعوه ولو حبواعلى الثلج فانّه خليفة الله المهدى ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المهدی) ترجمہ :.پس جب تم اس کو پاؤ تو اس کی بیعت کرو.اس کے لئے خواہ تمہیں برف کے پہاڑوں پر گھٹنوں کے الله بل جانا پڑے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مہدی موعود ہے اور خدا کا خلیفہ ہے.پھر آنحضرت ﷺ نے ہر مسلمان کو یہ تاکید بھی فرمائی: کہ اس کو میر اسلام کہنا فليقراه منى السلام (الدر المنكور صفحه 245 - دار المعرفة للطباعة والنشر بيروت) (5) ” میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا“ را شد علی اور اس کے پیر نے تحریر کیا ہے قادیانی محور :.غرضیکہ قادیانیت/ احمدیت کی صورت میں ایک ایسی جماعت پیدا کر دی گئی ہے جس کی تمام تر توجہ کا محور حضور ے سے ہٹ کر مرزا غلام احمد کی ذات ہوگئی ہے.آپ اس سے مرزا کی ذات کے بارہ میں کوئی گفتگو کریں وہ سیدھا سرکار دو عالم ﷺ کی ذات پر لے جائے گا.انگریزوں کی سر پرستی و تحفظ میں مرزا غلام احمد قادیانی نے قرآن وحدیث میں اپنی
16 مرضی کے مطابق اپنے لئے تحریف کا دروازہ کھولا اور پھر اندر داخل ہو کر وہ دروازہ بند کر لیا کہ اللہ تعالیٰ کی بعض مصلحتوں کا تقاضا ہے کہ اب میرے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا.“ اب جو ان کی نبوت پر ایمان نہ لائے کا فرجہنمی اور طوائف کی اولاد! ہم قرآن کریم کو خدا کا کلام اس لئے یقین کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ آپ ( مرزا صاحب) کی نبوت ثابت ہوتی ہے.ہم محمد ﷺ کی نبوت پر اسلئے ایمان لاتے ہیں کہ اس سے آپ کی نبوت کا ثبوت ملتا ہے.66 ( تقریر میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان اخبار الفضل قادیان ج 13 نمبر 3 مورخہ 11 جولائی 1945 ).‘ ( بے لگام کتاب) یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے جو انہوں نے جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کیا ہے.سچ یہ ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ اور آپ کی جماعت کے ہر فرد کی توجہ کا محور خدا تعالیٰ کے بعد سید المرسلین ، خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات بابرکات ہے.حضرت بانی جماعت احمدیہ کے ساتھ ہر احمدی اپنی روح کی گہرائیوں سے ہمنوا ہے کہ پیشوا وہ ہمارا 6 ، جس نام اس کا ہے سب ہم نے اس وہ جس نے حق دکھایا محمد دلبر مرا یہی ہے سے پایا شاہد ہے نور سارا ہے تو خدایا وہ لقا یہی مه ہے اس نور اور وہ فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم ہے براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 20) -- پہلے نبوت کا دروازہ کھولا.پھر اس میں داخل ہو کر اندر سے بند کر لیا جہانتک آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کے دروازہ کا تعلق ہے، اس کو کھولنے کا سوال تو تب پیدا ہوتا ، اگر یہ پہلے بند ہوتا.اس دروازہ کو خود آنحضرت ﷺ نے ایک طرح کی نبوت کے لئے کھلا رکھا ہے اور
17 ایک طرح کی نبوت کے لئے ہمیشہ ہمیش کے لئے بند کر دیا ہے.یعنی آپ کے بعد کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آسکتا.ایسے نبی کے لئے دروازہ بند ہے.لیکن ایسا نبی جو آپ کا امتی ہو، آپ کا تابع اور مطیع ہو، اس کے لئے آپ نے یہ ایک دروازہ کھلا رکھا ہے.امت میں ایسے امتی نبی کا آنا قرآن کریم میں بھی مذکور ہے اور آنحضرت ﷺ کے فرمودات میں بھی.چنانچہ انہی سچائیوں کی بناء پر شیخ اکبر حضرت امام محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں: " فالنبوّة سارية الى يوم القيامة في الخلق و ان كان التشريع قد انقطع فالتشريع جزء " ( فتوحات مکیہ.جلد 2 صفحہ 100 باب 37 سوال28) من اجزاء النبوة ترجمہ:.نبوت مخلوق میں قیامت کے دن تک جاری ہے گوتشریعی نبوت منقطع ہوگئی ہے.پس شریعت ، نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے.اسی طرح دنیائے اسلام کے مشہور صوفی اور ممتاز متکلم حضرت امام عبدالوہاب شعرائی فرماتے ہیں : وو صلى الله اعلم أنّ النبوة لم ترتفع مطلقاً بعد محمد له وانما ارتفع نبوة التشريع فقط- الیواقیت والجواہر الجزء الثانی صفحہ 39 - طبعہ مصطفی البابی الحلمی مصر) کہ جان لو محمد ﷺ کے بعد مطلق طور پر نبوت نہیں اٹھی ( بند نہیں ہوئی ) صرف تشریعی نبوت منقطع ہوئی ہے.حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم، احادیث نبویہ اور اقوالِ آئمہ سلف سے یہ قطعی ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد غیر تشریعی نبوت کا دروازہ ایک امتی کے لئے کھلا رکھا گیا تھا جسے مسیح اور مہدی کا عالی نام اور ارفع مقام بھی عطا کیا گیا.اگر راشد علی اور اس کے پیر کو اس بات پر اعتراض ہے کہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کے بعد کوئی اور نبی کیوں نہیں تو وہ خود ثابت کر کے دکھائیں کہ مسیح موعود و مہدی معہود کے بعد بھی کسی نبی کا ذکر موجود ہے.اگر وہ ایسا ثبوت پیش نہیں کر سکتے تو انہیں ایسے اعتراض کا حق ہی کوئی نہیں اور نہ ہی انہیں قرآنِ کریم اور آنحضرت ﷺ کی پیش کردہ سچائیوں پر اور آئمہ سلف کی پیش کردہ وضاحتوں پر کوئی تکلیف ہونی چاہئے.
18 li: - قرآن کریم پر اور آنحضرت ﷺ پر ایمان مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ملا اپنے اعتراض میں انہوں نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے جس خطبہ جمعہ کا اقتباس پیش کیا ہے، وہ سیاق و سباق کو ہٹا کر پیش کیا ہے.نیز اس میں بریکٹ بھی انہوں نے خود ڈالی ہے.حالانکہ دعوای وہ یہ کرتے ہیں کہ وہ حوالہ جات کو نہ سیاق وسباق سے الگ کر کے پیش کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں توڑتے مروڑتے ہیں.بہر حال مذکورہ بالا اقتباس سے پہلے کی عبارت یہ ہے.حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: دو ' ہم نے اس ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام.ناقل ) کے کلام میں وہ صداقت دیکھی جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی چیز نہیں کر سکتی اور اگر سچ پوچھو تو ہمیں قرآن کریم پر ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی اسی کے ذریعہ ایمان حاصل ہوا.“ اور اس زیر بحث اقتباس کا سباق یہ ہے.فرمایا: نادان ہم پر اعتراض کرتا ہے کہ ہم کیوں حضرت مسیح موعود کو نبی مانتے ہیں اور کیوں اس کے کلام کو خدا کا کلام یقین کرتے ہیں.وہ نہیں جانتا کہ قرآن پر یقین ہمیں اس کے کلام کی وجہ سے حاصل ہوا اور محمد 66 صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی نبوت پر یقین اس کی نبوت کی وجہ سے ہوا ہے.“ اس سیاق و سباق میں اس مضمون پر کوئی اعتراض نہیں اٹھ سکتا کیونکہ قرآن کریم اور رسول اللہ علی پر ایمان ، آخری زمانہ میں مسیح و مہدی کے بغیر ممکن نہ تھا.چنانچہ جب سورۃ جمعہ کی آیت وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْابِھم نازل ہوئی تو صحابہ نے عرض کی.یا رسول اللہ! وہ کون ہیں؟ ( جو بعد میں آنے والے ہیں ).آپ نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: " ” لو كان الايمان عند الثريا لناله رجلٌ او رجال من هؤلاء ( بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الجمعه )
19 ترجمہ:.اگر ایک وقت ایمان ثریا تک بھی اُڑ گیا تو ان میں سے ( یعنی عجمیوں میں سے ) ایک یا اس سے زیادہ لوگ اسے واپس لے آئیں گے.لہذا ہمیں تو اسی کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ ، آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم پر ایمان نصیب ہوا ہے جس کے بارہ میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیشگوئی تھی.بس فرق یہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے قرآنِ کریم پر ایمان اور عمل اور آنحضرت ﷺ سے عشق اور آپ کی اعلیٰ وارفع ذات کا عرفان اور آپ کی سنت مبارکہ پر عمل آپ ہی کی پیشگوئیوں کے مطابق ، آپ ہی کے امتی اور غلام، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل کیا ہے.جبکہ راشد علی نے ماہی گیروں کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے، روٹی دیر سے ملنے پر مغلوب الغضب ہو کر روٹی لانے والے بچے پر چاقو نکال لینے والے اور دن رات سگریٹ نوشی کرنے والے پیر ، عبد الحفیظ سے جھوٹ اور تلبیس کے سوا اور کچھ نہیں ili: احمدیت کی تمام تر توجہ کا محور آنحضرت یہ نہیں بلکہ مرزا غلام احمد - مرزا غلام کی ذات ہے راشد علی اور اس کے پیر نے لکھا ہے کہ " غرضیکہ قادیانیت/ احمدیت کی صورت میں ایک ایسی جماعت پیدا کر دی گئی جس کی تمام تر توجہ کا محور حضور علی سے ہٹ کر مرزا غلام احمد کی ذات ہو گئی ہے ہر قادیانی اس ماض میں گرفتار ہے.آپ اس سے مرزا کی ذات کے بارہ میں گفتگو کریں وہ سیدھا سرکار دو عالم ﷺ کی ذات پر لے جائے گا.“ راشد علی کا یہ بیان اس کی خود تر دیدی اور تضاد بیانی کا شاہکار ہے.ایک طرف تو وہ یہ کہتا ہے کہ تمام تر توجہ کا محور حضور ہے سے ہٹ کر مرزا غلام احمد کی ذات ہوگئی.“ اور ساتھ ہی وہ اس کو ر ڈ کرتے ہوئے یہ بھی لکھ رہا ہے کہ ہر قادیانی اس مرض میں گرفتار ہے آپ اس سے مرزا کی ذات کے بارہ میں گفتگو کریں وہ سیدھا سرکار دو عالم ﷺ کی ذات پر لے جائے گا.“ اس کا یہ بیان اس کے اس اقرار کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہر احمدی کی تمام تر توجہ کا محور دراصل رسول
20 اللہ ﷺ کی ہی ذات بابرکات ہے کیونکہ ہر احمدی کو یہ مرض لاحق ہے کہ وہ ہر بات کو رسول اللہ ﷺ کی ذات پر لے جاتا ہے.البتہ راشد علی معترض ایسا ہے کہ اپنی باتوں کو شیطان کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ اس کی توجہ کا وہی محور ہے.ہراحمدی ہر بات کو اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات پر کیوں لے کر جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ سچائی اور صداقت کا ایک ایسا معیار ہیں کہ آپ کے بغیر کسی کی سچائی اور صداقت کا ثبوت قائم نہیں ہوسکتا.آپ ہی کی تصدیق کسی کی صداقت پر مہر ثبت کرتی ہے.اسلئے جب کوئی مسیح زماں و مہدی دوراں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام پر کوئی اعتراض کرتا ہے یا آپ پر کوئی الزام لگاتا ہے تو احمدی فوراً اس کیس کو اپنے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے پاس لے جاتا ہے.جب آپ کی جناب سے اس اعتراض کے جھوٹا ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے تو وہ اس معترض کو جھوٹا قرار دے کر مردود کر دیتا ہے.پس راشد علی کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بھی اس مرض میں گرفتار ہو جائے تو جھوٹ اور شیطان سے آزاد ہو سکتا ہے.اور اگر اپنی ہر بات ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ کے پاس لے جائے تو ہدایت حاصل کر سکتا ہے.بہر حال راشد علی نے از خود احمدی کی ایک ایسی خوبی اور صفت کو بیان کر دیا ہے جس پر سید المرسلین خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی مہر تصدیق ثبت ہے.کیا خوب فرمایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہ بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر این بود بخند اسخت کا فرم ترجمہ خدا تعالیٰ کے بعد میں محمد ﷺ کے عشق میں سرشار ہوں.اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں.اور اگر یہ مرض ہے تو یہ بہت ہی برکتوں والا مرض ہے جو ہمیں بہت ہی پیارا اور عزیز از جان ہے.
21 تحریرات پر اعتراضات
22 22 (1) ختر دخال، دابتہ الارض ، دجال احادیث میں بیان فرمودہ ان مذکورہ بالا اصطلاحات کی جو تو جیہات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرما ئیں.راشد علی نے ان کو مورد اعتراض ٹھہراتے ہوئے اس طرح درج کیا ہے."Khar-e-Dajjal is the railway train, dabbatul ard is Muslim religious scholars and Dajjal is the christian priests etc." (Beware...) ترجمہ :.خر دجال سے مراد ریل گاڑی، دابتہ الارض سے مراد مسلمان مذہبی علماء اور دجال سے مرد عیسائی متاد ہیں.راشد علی کی دانست میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان امور کی غلط تو جیہات کی ہیں لہذا یہ قابلِ اعتراض ہیں.اگر اس کو ان تو جیہات پر اعتراض ہے یا اس کے نزدیک یہ تو جیہات درست نہیں ہیں تو اسے چاہئے تھا کہ ان کو دلائل کے ذریعہ رد کرتا اور اپنی نام نہاد تو جیہات بھی پیش کرتا تا کہ قارئین اس کی جہالت کا اندازہ تو لگا سکتے.بہر حال ان مذکورہ بالا امور کا ایک حقیقت افروز جائزہ قارئین کے استفادہ کے لئے پیش ہے.وہ اس سے بھی راشد علی کی جہالت اور آنحضرت ﷺ کی پیش فرمودہ پیشگوئیوں کی حقیقت کا اندازہ کرسکیں گے.خرد قال:.دقبال کے گدھے کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی سے کیا مراد ہے؟ جب ہم اس گدھے کی تفصیلی نشانیوں کے بارہ میں جستجو کرتے ہیں تو احادیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے: " يَخْرُجُ الدَّجَّالُ عَلَى حِمَارٍ أَقْمَرَ مَا بَيْنَ أَذْنَيْهِ سَبْعُوْنَ بَاعَاً المشکوۃ المصابیح.باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الہ جال - الفصل الثالث.مطبوعہ دینی کتب خانہ اردو بازار لا ہور ) کہ دجال ایک ایسے گدھے پر سوار ہو کر خروج کرے گا ، جو روشن سفید رنگ والا ہو گا ( جو چاند کے
23 وو نشان والا ہوگا ) اور اس کے دونوں کانوں کے درمیان ستر باغ کا فاصلہ ہوگا.اور ایک اور روایت میں ہے: " تَحْتَهُ حِمَارٌ أَقْمَرُ طُوْلُ كُلُّ أُذُنِ مِنْ أُذُنَيْهِ ثَلَاثُوْنَ ذِرَاعًا مَابَيْنَ حَافِرِ حِمَارِهِ إِلَى الْحَافِرِ مَسِيْرَةُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، تَطْوِى لَهُ الْأَرْضُ مَنْهَلاً يَتَنَاوَلُ السَّحَابَ بِيَمِيْنِهِ وَيَسْبِقُ الشَّمْسَ إِلَى مَغِيْبِهَا يَخُوضُ الْبَحْرَ إِلَى كَعْبَيْهِ أَمَامُهُ جَبَلْ دُخَانِ وَخَلْفُهُ جَبَلْ أَخْضَرُ يُنَادِي بِصَوْتٍ لَّهُ يَسْمَعُ بِهِ مَا بَيْنَ الْخَافِقَيْنَ إِلَيَّ أَوْلِيَائِي إِلَيَّ أَوْلِيَائِي إِلَيَّ أَحِبَّائِي إِلَيَّ أَحِبَّائِي.“ (منتخب کنز العمال.برحاشیہ مسند احمد بن حنبل - الجزء السادس - صفحہ 35.دارالذکر للطباعة والنشر بيروت) یعنی اس ( دقبال) کی سواری ایک ایسا گدھا ہوگا جس کا رنگ سفید ہوگا اور اس کے ایک کان اور دوسرے کان کے درمیان تمیں ہاتھ کا فاصلہ ہوگا اس کے ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں کے درمیان ایک رات اور ایک دن مسافت کا فاصلہ پڑے گا.اس کے لئے زمین سمیٹی جائے گی (یعنی وہ بڑی سرعت سے سفر کرے گا) وہ سورج کے غروب ہونے کے مقام پر اس سے پہلے پہنچ جائے گا.سمندر کا پانی اس کے ٹخنوں تک پہنچے گا.اس کے آگے سیاہ دھوئیں کا پہاڑ ہوگا تو پیچھے سبز رنگ ( کے دھوئیں ) کا.وہ ایسی آواز دے کر بلائے گا کہ اس کو زمین و آسمان کے درمیان سب سنیں گے.وہ کہے گا اے میرے دوستو! براہ کرم آ جاؤ.اے میرے پیارو! براہ مہربانی آجاؤ.یہ اس گدھے کی نشانیوں میں سے ہیں جس پر دجال سوار ہوگا.اگر یہ خیال کیا جائے کہ فی الحقیقت ایک ایسا گدھا ظاہر ہو گا جس میں یہ صفات پائی جائیں گی تو یہ بات بعید از عقل ہوگی.کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایک ایسا گدھا پیدا ہو جس کے دونوں کانوں کے درمیان کا فاصلہ میں ہاتھ ہو اور جو رات دن بغیر تھکاوٹ اور ماندگی کے چلتا رہے.وہ سواریوں کو اونچی آواز سے آواز بھی دیتار ہے.وہ سمندر میں چلے تو سمندر کا پانی اس کے ٹخنوں تک ہو.یعنی اس کی اونچائی کا اندازہ کریں کہ ایک عمیق سمندر کا پانی اگر صرف اس کے ٹخنوں تک پہنچے گا تو اس کی ٹانگوں کی اصل لمبائی کتنی ہوگی ؟ اور وہ اتنی تیزی سے چلے کہ سورج سے بھی پہلے اس کے غروب ہونے کی جگہ پہنچ جائے.پھر یہ سوال بھی ہے کہ اس دنیا میں وہ گدھی کہاں سے آئے گی جو اس قسم کا عجیب و غریب اور طویل و عریض گدھا جنے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں ایک نئی سواری کی طرف اشارہ تھا.جس
24 نے آخری زمانہ میں ایجاد ہونا تھا اور اس کی وجہ سے سفر میں آسانی اور سرعت پیدا ہوئی تھی.پیشگوئی کے مطابق اس سواری کی آواز بھی اس قدر بلند ہوئی تھی کہ جوزمین و آسمان میں سنائی دینی تھی.اس پیشگوئی میں یہ واضح اشارہ بھی تھا کہ اس سواری کی تیز رفتاری اور اس پر سفر کی سہولت کی وجہ سے لوگ دوسری سواریوں سے بے نیاز ہو جائیں گے.یہاں تک کہ اونٹ جو کہ پہلے عموما لمبے سفروں کے لئے استعمال ہوتے تھے ان کو بھی ترک کر دیا جائے گا.چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِذَا الْعِشَارُ عُطْلَت “ (التكوير : 5) ترجمہ: اور جب اونٹنیاں معطل ہوں گی.اور فرمایا: وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةٌ وَيَخْلُقُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ “ (أَحْل:9) ترجمہ: اور اس نے گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو تمہاری سواری کے لئے اور زینت کے لئے ( پیدا کیا ہے) اور وہ ( تمہارے لئے سواری کا مزید سامان بھی ) جسے تم جانتے نہیں، پیدا کرے گا.یعنی اللہ تعالیٰ بعض ایسی سواریاں پیدا کرے گا جن کی حقیقت و ماہیت کا ابھی علم نہیں ، وہ بعد میں ظاہر ہوں گی.اور حدیث میں بھی آیا ہے کہ ليُتْرَكُنَّ القَلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا مسلم کتاب الفتن باب نزول عیسی بن مریم) کہ اونٹنیاں ترک کر دی جائیں گی اور ان سے تیزی کے کام نہیں لئے جائیں گے.اس بارہ میں صاحب مرقاۃ شرح مشکوۃ نے لکھا ہے: ” وَالْمَعْنَى أَنَّهُ يُتْرَكُ الْعَمَلُ عَلَيْهَا اسْتِغْنَاءٌ عَنْهَا لِكَثْرَةِ غَيْرِهَا.“ (مرقاة المفاتح - الجزء الخامس صفحہ 122 - مکتبہ میمنیہ مصر ) کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان سے کام لینا چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ اور بہت سی سواریاں پیدا ہو جائیں گی جو اُن سے مستغنی کر دیں گی.حقیقت یہ ہے کہ یہ پیشگوئیاں اس قدر حقیقت افروز اور سچی ہیں کہ واقعہ آج لوگ اونٹوں سے مستغنی ہو چکے ہیں.کیونکہ يَخْلُقُ مَالَا تَعْلَمُونَ کے مطابق قسم قسم کی نئی سواریاں ایجاد ہو چکی ہیں، ریل
25 25 گاڑیاں ، بحری جہاز ، ہوائی جہاز وغیرہ وغیرہ سواریوں نے ان کی جگہ لے لی ہے.یہ سب سوار بڑی تیزی سے چلتی ہیں.دھواں اگلتی ہیں، بڑی اونچی آواز سے اپنے مسافروں کو بلاتی ہیں ، نہ وہ تھکتی ہیں اور نہ ماندہ ہوتی ہیں.رہاد قبال کے گدھے کا سمندر میں داخل ہونا اور پانی کا اس کے ٹخنوں تک پہنچنا تو یہ ہ شخص جانتا ہے کہ بحری جہاز جب سمندر میں چلتا ہے تو پانی میں مخنوں تک ہی جاتا ہے جبکہ اس کا باقی حصہ او پر رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی اس مذکورہ بالا پیشگوئی کی جو تو جیہ اور تفسیر بیان فرمائی ہے ، صرف وہی تشریح ہے جو اسے سچا اور برحق ثابت کرتی ہے.وہی حقیقت افروز تو جیہہ ہے.آپ فرماتے ہیں: از انجملہ ایک بڑی بھاری علامت دقبال کی ، اس کا گدھا ہے جس کے بین الا ذنین کا اندازہ ستر باع کیا گیا ہے اور ریل کی گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طولانی ہوتا ہے اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ وہ دخان کے زور سے چلتی ہے جیسے بادل ہوا کے زور سے تیز حرکت کرتا ہے.اس جگہ ہمارے نبی ﷺ نے کھلے کھلے طور پر ریل گاڑی کی طرف اشارہ فرمایا ہے چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجاد ہے جن کا امام و مقتدا یہی دقبالی گروہ ہے اس لئے ان گاڑیوں کو دقبال کا گدھا قرار دیا گیا.اب اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوگا کہ علامات خاصہ دجال کے انہیں لوگوں میں پائے جاتے ہیں.انہیں لوگوں نے مکروں اور فریبوں کا اپنے وجود پر خاتمہ کر دیا ہے اور دین اسلام کو وہ ضرر پہنچایا ہے جس کی نظیر دنیا کے ابتداء سے نہیں پائی جاتی اور انہیں لوگوں کے متبعین کے پاس وہ گدھا بھی ہے جو دخان کے زور سے چلتا ہے جیسے بادل ہوا کے زور سے.“ 66 (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 493) دابتہ الارض :- دابتہ الارض یعنی زمین کے کیڑے کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے جو معنے اس کی سچائی کو ثابت کر سکتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہی معنے کئے ہیں چنانچہ آپ نے جہاں اس کے تعبیری معنے یہ کئے کہ اس سے مراد ز مینی علوم سے آراستہ مگر آسمانی روح سے عاری انسان مراد ہیں وہاں اس کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے زمین کا ایک کیڑا مراد ہے جو طاعون کی شکل میں ظاہر ہوا.چنانچہ آپ کے پیش فرمودہ دونوں معنوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں.آپ فرماتے ہیں:
26 دابتہ الارض سے مراد کوئی لا یعقل جانور نہیں بلکہ بقول حضرت علی رضی اللہ عنہ آدمی کا نام ہی دآئبتہ الارض ہے.اور اس جگہ لفظ د آئبتہ الارض سے ایک ایسا طائفہ انسانوں کا مراد ہے جو آسمانی روح اپنے اندر نہیں رکھتے لیکن زمینی علوم وفنون کے ذریعہ سے منکرین اسلام کو لا جواب کرتے ہیں اور اپنا علم کلام اور طریق مناظرہ تائید دین کی راہ میں خرچ کر کے بجان و دل خدمت شریعت غر ابجالاتے ہیں سو وہ چونکہ در حقیقت زمینی ہیں آسمانی نہیں.اور آسمانی روح کامل طور پر اپنے اندر نہیں رکھتے اس لئے دابتہ الارض کہلاتے ہیں اور چونکہ کامل تزکیہ نہیں رکھتے اور نہ کامل وفاداری.اس لئے چہرہ ان کا انسانوں کا ہے مگر بعض اعضاء ان کے بعض دوسرے حیوانات سے مشابہ ہیں.اسی طرف اللہ جلشانہ اشارہ فرماتا ہے: وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَةٌ مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِايْتِنَا لَا يُوْقِنُونَ (النمل:38) یعنی جب ایسے دن آئیں گے جو کفار پر عذاب نازل ہو اور ان کا وقت مقدر قریب آ جائے گا تو ہم ایک گروہ دابتہ الارض کا زمین سے نکالیں گے وہ گروہ متکلمین کا ہوگا جو اسلام کی حمایت میں تمام ادیان باطلہ پر حملہ کرے گا.یعنی وہ علماء ظاہر ہوں گے جن کو علم کلام اور فلسفہ میں یدطولیٰ ہوگا.وہ جابجا اسلام کی حمایت میں کھڑے ہو جائیں گے اور اسلام کی سچائیوں کو استدلالی طور پر مشارق مغارب میں پھیلائیں گے اور اس جگہ اخرجنا کا لفظ اس وجہ سے اختیار کیا کہ آخری زمانہ میں ان کا خروج ہوگا نہ حدوث یعنی تخمی طور پر یا کم مقدار کے طور پر تو پہلے ہی سے تھوڑے بہت ہر یک زمانہ میں وہ پائے جائیں گے لیکن آخری زمانہ میں بکثرت اور نیز اپنے کمال لائق کے ساتھ پیدا ہوں گے اور حمایت اسلام میں جا بجاواعظین کے منصب پر کھڑے ہو جائیں گے اور شمار میں بہت بڑھ جائیں گے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 370،369) دابتہ الارض کے دوسرے معنوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دو, بالآخر میں ایک اور رویا لکھتا ہوں جو طاعون کی نسبت مجھے ہوئی اور وہ یہ کہ میں نے ایک جانور دیکھا جس کا قد ہاتھی کے قد کے برابر تھا مگر منہ آدمی کے منہ سے ملتا تھا اور بعض اعضاء دوسرے جانوروں سے ا نوٹ : آثار القیامہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا گیا کہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دابتہ الارض آپ ہی ہیں اور آپ نے جواب دیا کہ دابتہ الارض میں تو کچھ چارپایوں اور کچھ پرندوں کی بھی مشابہت ہو گی مجھ میں وہ کہاں ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ دابتہ الارض اسم جنس ہے جس سے ایک طائفہ مراد ہے.منہ
27 مشابہ تھے اور میں نے دیکھا کہ وہ یوں ہی قدرت کے ہاتھ سے پیدا ہو گیا اور میں ایک ایسی جگہ پر بیٹھا ہوں جہاں چاروں طرف بن ہیں جن میں بیل گدھے گھوڑے کتنے سو ر بھیڑیے اونٹ وغیرہ ایک قسم کے موجود ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ سب انسان ہیں جو بد عملوں سے ان صورتوں میں ہیں.اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ ہاتھی کی ضخامت کا جانور جو مختلف شکلوں کا مجموعہ ہے جو محض قدرت سے زمین میں سے پیدا ہو گیا ہے وہ میرے پاس آبیٹھا ہے اور قطب کی طرف اس کا مونہہ ہے خاموش صورت ہے آنکھوں میں بہت حیا ہے اور بار بار چند منٹ کے بعد ان بنوں میں سے کسی بن کی طرف دوڑتا ہے اور جب بن میں داخل ہوتا ہے تو اس کے داخل ہونے کے ساتھ ہی شور قیامت اٹھتا ہے اور ان جانوروں کو کھانا شروع کرتا ہے اور ہڈیوں کے چاہنے کی آواز آتی ہے.تب وہ فراغت کر کے پھر میرے پاس آ بیٹھتا ہے اور شاید دس منٹ کے قریب بیٹھا رہتا ہے اور پھر دوسرے بن کی طرف جاتا ہے اور وہی صورت پیش آتی ہے جو پہلے آئی تھی اور پھر میرے پاس آ بیٹھتا ہے.آنکھیں اس کی بہت لمبی ہیں اور میں اس کو ہر ایک دفعہ جو میرے پاس آتا ہے خوب نظر لگا کر دیکھتا ہوں اور وہ اپنے چہرہ کے اندازہ سے مجھے یہ بتلاتا ہے کہ میرا اس میں کیا قصور ہے میں مامور ہوں اور نہایت شریف اور پر ہیز گار جانور معلوم ہوتا ہے اور کچھ اپنی طرف سے نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو اس کو حکم ہوتا ہے.تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی طاعون ہے اور یہی وہ دابتہ الارض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَإِذَا وَقَعَ القَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةٌ مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِايْتِنَا لَا يُوْقِنُونَ اور جب مسیح موعود کے بھیجنے سے خدا کی حجت ان پر پوری ہو جائے گی تو ہم زمین میں سے ایک جانور نکال کر کھڑا کریں گے وہ لوگوں کو کاٹے گا اور زخمی کرے گا اس لئے کہ لوگ خدا کے نشانوں پر ایمان نہیں لائے تھے.دیکھوسورۃ النمل الجز ونمبر 20.اور پھر آگے فرمایا ہے : وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً مِمَّنْ يُكَذِّبُ بِايَتِنَا فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ حَتَّى إِذَا جَاءُ وَقَالَ أَكَذِّبْتُم بِايَتِى وَلَمْ تُحِيْطُوْا بِهَا عِلْماً أَمَّا ذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ، وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَهُمْ لَا يَنْطِقُونَ 0 ترجمہ.اس دن ہم ہر ایک امت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہمارے نشانوں کو جھٹلاتے تھے اور ان کو ہم جدا جدا جماعتیں بنا دیں گے
28 یہاں تک کہ جب وہ عدالت میں حاضر کئے جائیں گے تو خدائے عز وجل ان کو کہے گا کہ کیا تم نے میرے نشانوں کی بغیر تحقیق کے تکذیب کی یہ تم نے کیا کیا اور ان پر بوجہ ان کے ظالم ہونے کے حجت پوری ہو جائے گی اور وہ بول نہ سکیں گے.سورۃ النمل الجز و نمبر 20.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہی دابتہ الارض جو ان آیات میں مذکور ہے جس کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونا ابتداء سے مقرر ہے یہی وہ مختلف صورتوں کا جانور ہے جو مجھے عالم کشف میں نظر آیا اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ طاعون کا کیڑا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کا نام دابتہ الارض رکھا کیونکہ زمین کے کیٹروں میں سے ہی یہ بیماری پیدا ہوتی ہے اسی لئے پہلے چوہوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ انسان کو.ایسا ہی ہر ایک جانور کو یہ بیماری ہوسکتی ہے اسی لئے کشفی عالم میں اس کی مختلف شکلیں نظر آئیں اور اس بیان پر کہ دابتہ الارض در حقیقت مادہ طاعون کا نام ہے جس سے طاعون پیدا ہوتی ہے مفصلہ ذیل قرائن اور دلائل ہیں.(1) اول یہ کہ دابتہ الارض کے ساتھ عذاب کا ذکر کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَةٌ مِّنَ الْأَرْضِ یعنی جب ان پر آسمانی نشانوں اور عقلی دلائل کے ساتھ حجت پوری ہو جائے گی تب دابتہ الارض زمین میں سے نکالا جائے گا.اب ظاہر ہے کہ دابتہ الارض عذاب کے موقع پر زمین سے نکالا جائے گا نہ یہ کہ یوں ہی بیہودہ طور پر ظاہر ہوگا جس کا نہ کچھ نفع نہ نقصان اور اگر کہو کہ طاعون تو ایک مرض ہے مگر دابتہ الارض لغوی معنوں کے رو سے ایک کیڑا ہونا چاہئے جو زمین میں سے نکلے.اس کا جواب یہ ہے کہ حال کی تحقیقات سے یہی ثابت ہوا ہے کہ طاعون کو پیدا کرنے والا وہی ایک کیڑا ہے جو زمین میں سے نکلتا ہے بلکہ ٹیکا لگانے کے لئے وہی کیڑے جمع کئے جاتے ہیں اور ان کا عرق نکالا جاتا ہے اور خوردبین سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی شکل یوں ہے (۰۰) یعنی بہ شکل دو نقطہ.گویا آسمان پر بھی نشان کسوف خسوف دو کے رنگ میں ظاہر ہوا اور ایسا ہی زمین میں.(۲) دوسرا قرینہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے بعض مقامات بعض کی تفسیر ہیں.اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف میں جہاں کہیں یہ مرتب لفظ آیا ہے اس سے مراد کیٹر الیا گیا ہے مثلا یہ آیت فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ المَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَانَہ یعنی ہم نے سلیمان پر جب موت کا
29 حکم جاری کیا تو جنات کو کسی نے ان کے مرنے کا پتہ نہ دیا.مگر گھن کے کیڑے نے کہ جو سلیمان کے عصا کو کھاتا تھا.سورۃ سبا الجز و نمبر 22.اب دیکھو اس جگہ بھی ایک کیڑے کا نام دآتبتہ الارض رکھا گیا.بس اس سے زیادہ دابتہ الارض کے اصلی معنوں کی دریافت کے لئے اور کیا شہادت ہوگی کہ خود قرآن شریف نے اپنے دوسرے مقام میں دابتہ الارض کے معنے کیٹر ا کیا ہے.سو قرآن کے برخلاف اس کے معنی کرنا یہی تحریف اور الحاد اور دجل ہے.(۳) تیسرا قرینہ یہ ہے کہ آیت میں صریح معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نشانوں کی تکذیب کے وقت میں کوئی امام الوقت موجود ہونا چاہئے کیونکہ وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِم کا فقرہ یہی ہے کہ اتمام حجت کے بعد یہ عذاب ہو اور یہ تو متفق علیہ عقیدہ ہے کہ خروج دابتہ الارض آخری زمانہ میں ہوگا جبکہ مسیح موعود ظاہر ہوگا تاکہ خدا کی حجت دنیا پر پوری کرے.پس ایک منصف کو یہ بات جلد تر سمجھ آ سکتی ہے کہ جبکہ ایک شخص موجود ہے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور آسمان اور زمین میں بہت سے نشان اس کے ظاہر ہو چکے ہیں تو اب بلاشبہ دآئبته الارض یہی طاعون ہے جس کا مسیح کے زمانہ میں ظاہر ہوناضروری تھا اور چونکہ یاجوج ماجوج موجود ہے اور مِنْ كُلِّ حَدَب يَنْسِلُونَ کی پیشگوئی تمام دنیا میں پوری ہو رہی ہے اور دجالی فتنے بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں اور پیشگوئی يُشْرَكُنَّ القَلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا بھی بخوبی ظاہر ہو چکی ہے.اور شراب اور زنا اور جھوٹ کی بھی کثرت ہو گئی ہے اور مسلمانوں میں یہودیت کی فطرت بھی جوش مار رہی ہے تو صرف ایک بات باقی تھی جو د آبتہ الارض زمین میں سے نکلے سو وہ بھی نکل آیا.اس بات پر جھگڑ نا جہالت ہے کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ پھٹے گی اور دابتہ الارض وہاں سے سر نکالے گا پھر تمام دنیا میں چکر مارے گا کیونکہ اکثر پیشگوئیوں پر استعارات کا رنگ غالب ہوتا ہے جب ایک بات کی حقیقت کھل جائے تو ایسے اوہام باطلہ کے ساتھ حقیقت کو چھوڑ نا کمال جہالت ہے اسی عادت سے بد بخت یہودی قبول حق سے محروم رہ نزول مسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 415 تا418) گئے.دقال :.آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی تھی کہ آخری زمانہ میں جو کہ مسیح موعود کا زمانہ ہے، دجال کا خروج ہو
30 گا.چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا: " مَا مِنْ نَبِيِّ إِلَّا قَدْ أَنْذَرَ أُمَّتَهُ الأعْوَرَ الْكَذَّابَ، أَلَا أَنَّهُ أَعْوَرُ وَ أَنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ک ف ر ، وَفِي رَوَايَةٍ وَأَنَّهُ يَجِيءُ مَعَهُ بِمِثْلِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَالَّتِى يَقُوْلُ أَنَّهَا الْجَنَّةُ هِيَ النَّارُ وَفِي رَوَايَةٍ أَنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ وَأَنَّ مَعَهُ مَاءً وَنَارًا فَأَمَّا الَّذِي يَرَاهُ النَّاسَ مَاءًا فَنَارٌ تُحَرِّقُ وَأَمَّا الَّذِي يَرَاهُ النَّاسُ نَاراً فَمَاء بَارِدٌ وَعَذْبٌ وَأَنَّ الدَّجَّالَ مَمْسُوْحُ الْعَيْنِ عَلَيْهَا ظَفِرَةٌ غَلِيْظَةٌ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ يَقْرَاهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ كَاتِبٍ وَغَيْرَ كَاتِبٍ وَفِي رَوَايَةٍ أَنَّ الدَّجَّالَ أَعْوَرُالْعَيْنِ الْيُمْنَى فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأُ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُوْرَةِ الْكَهْفِ فَإِنَّهَا جَوَارُكُمْ مِنْ فِتْتِهِ - وَفِي رَوَايَةٍ وَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتَمْطُرُ وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَنْبُتُ وَيَمُرُّ بِالْخَرَبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ فَتَتَّبِعَهُ كُنُوزَهَا وَفِي رَوَايَةٍ يَقُوْلُ الدَّجَّالُ أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ هَلْ تَشْكُوْنَ فِي الْأَمْرِ فَيَقُولُوْنَ لَا فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيْهِ وَفِي رَوَايَةٍ أَنَّ مَعَهُ جَبَلُ خُبْرٍ وَنَهْرُ مَاءٍ وَفِي رَوَايَةٍ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ عَلَى حِمَارٍ أَقْمَرَ مَا بَيْنَ أَذُنَيْهِ سَبْعُونَ بَاعاً ـ ،، ( مشکوۃ کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعة وذكر الدجال.مطبوعہ دینی کتب خانہ لاہور ) یعنی کوئی نبی نہیں گزرا.جس نے اپنی امت کو یک چشم کذاب سے نہ ڈرایا ہو.خبردار! ہوشیار ہوکرسن لو کہ وہ یک چشم ہے.مگر تمہارا رب یک چشم نہیں.اس کی آنکھوں کے درمیان کف رلکھا ہوگا.اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے ساتھ مثل جنت اور نار کے لائے گا.مگر جسے وہ جنت کہے گا وہ دراصل نار ہوگی اور ایک روایت میں ہے کہ دقبال خروج کرے گا اور اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوں گے مگر وہ جولوگوں کو پانی نظر آئے گا دراصل جلانے والی آگ ہوگی اور جسے لوگ آگ سمجھیں گے وہ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہوگا اور دقبال کی ایک آنکھ بیٹھی ہوئی ہوگی اور اس پر ایک بڑا ناخنہ سا ہوگا اور اس کی آنکھوں کے درمیان کا فرلکھا ہوا ہوگا جسے ہر مومن پڑھے گا خواہ وہ لکھا پڑھا ہو یا نہ ہو اور ایک روایت میں ہے کہ دجال دائیں آنکھ سے کانا ہوگا.پس جب تم میں سے کوئی اسے پائے تو اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے.کیونکہ سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات اس کے فتنے سے تم کو بچانے والی ہوں گی.اور ایک روایت میں ہے کہ دجال آسمان کو حکم دے گا کہ پانی برسا تو وہ برسائے گا اور زمین کو حکم دے گا کہ اُگا تو وہ اُگائے گی.اور وہ ویرانے پر گزرے گا اور اسے حکم
31 دے گا اپنے خزانے باہر نکال تو اس کے خزانے باہر نکل کر اس کے پیچھے ہو لیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ درقبال لوگوں سے کہے گا کہ دیکھو اگر میں اس شخص کو قتل کر دوں اور پھر زندہ کر دوں.تو کیا تم میرے امر میں شک کرو گے لوگ کہیں گے نہیں پھر وہ اسے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے ساتھ ایک پہاڑ روٹیوں کا ہوگا اور نہر پانی کی ہوگی اور ایک روایت میں ہے کہ دجال ایک سفیدا گدھے پر ظاہر ہوگا اور وہ گدھا ایسا ہو گا کہ اس کے دونوں کانوں کے درمیان ستر گز کا فاصلہ ہوگا.“ دجال کی یہ تفصیل ہے اور اس کی علامات ہیں جنہیں حدیث کی کتاب المشکوۃ کی مختلف روایتوں سے بطور اختصار کے جمع کیا گیا ہے.ان کے علاوہ صحیح مسلم میں حضرت نواس بن سمعان کی ایک روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے صحابہ کے سامنے دجال کی بعض اور علامات اور اس کے انجام وغیرہ کا بھی الله ذکر فرمایا ہے.ان کا مختصر اذکر یہ ہے کہ : آپ نے فرمایا: " مجھے تمہارے متعلق دجال کے فتنہ کا کوئی ڈر نہیں.اگر وہ اب ظاہر ہوا جبکہ میں تم میں موجود ہوں تو تمہارے لئے میں اس کا مقابلہ کروں گا.مجھے دجال کا نظارہ اس طرح دکھایا گیا جیسے وہ ایک گھنگریالے بالوں والا نوجوان ہے.جس سے اس کی مٹھ بھیٹر ہو وہ اس کے شر سے بچنے کے لئے سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے.وہ شام اور عراق کے درمیان سے ظاہر ہوگا.دائیں بائیں جدھر رُخ کرے گا قتل و غارت اور فتنہ وفساد کا بازار گرم کرتا چلا جائے گا.سواے خدا کے بندو! تم ثابت قدم رہنا.صحابہ نے عرض کی:” یارسول اللہ !وہ دنیا میں کتنا عرصہ رہے گا ؟ آپ نے فرمایا: ” چالیس دن.کہیں ایک دن سال کے برابر ہو گا.کہیں ایک دن مہینہ کے برابر اور کہیں ایک دن ہفتہ کے برابر ہوگا اور باقی علاقوں میں ایسے ہی دن ہوں گے جیسے تمہارے دن ہوتے ہیں.صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ! جہاں دن سال کے برابر ہوگا وہاں کیا اس ایک دن کی نمازیں کافی ہوں گی ؟“ آپ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ اس کے لئے تمہیں اندازہ سے کام لینا ہو گا.صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ! وہ زمین میں کتنی جلدی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچے گا؟ آپ نے فرمایا ” اس میں ایسے ار باراں کی سی تیزی ہوگی جسے پیچھے سے تیز ہوا دھکیل رہی ہو.وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں اپنی طرف بلائے گا.وہ لوگ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کا ہر حکم مانیں ا بحری جہازوں اور تجارتی ہوائی جہازوں کا رنگ عموماً سفید ہوتا ہے.
32 32 گے.اس پر وہ بادل کو حکم دے گا کہ وہ ان پر بارش برسائے اور زمین کو کہے گا کہ وہ ان کی فصلیں اگائے اور ان کے کھلے چرنے والے جانور جب شام کو گھر لوٹیں گے تو ان کی کو ہا نہیں اونچی اور کھیر یاں دودھ سے بھری ہوئی ہوں گی اور ان کی کوکھیں خوب بھری اور تنی نظر آئیں گی.پھر دجال کچھ اور لوگوں کے پاس جائے گا اور انہیں اپنی طرف بلائے گا لیکن وہ اس کی دعوت کو ر ڈ کر دیں گے اور اس کا کہا نہیں مانیں گے.دجال ان سے ناراض ہو کر واپس لوٹے گا تو وہ سخت قحط کی مصیبت سے دو چار ہو جائیں گے اور ان کے پاس کچھ نہیں رہے گا.ادھر د قبال ویران مقامات سے گزرے گا تو ان سے کہے گا.اے ویرانو! اپنے خزانے اُگل دو.تب ان جگہوں کے خزانے اس طرح اس کے پیچھے بھاگیں گے جس طرح شہد کی مکھیاں اپنی ملکہ کے پیچھے اُڑتی ہیں.پھر وہ ایک جوان رعنا کو بلائے گا اور اسے تلوار سے دوٹکڑے کر دے گا.اور ان دونوں ٹکڑوں کو علیحدہ علیحدہ رکھ کر ان کو آواز دے گا تو وہ ٹکڑے تیزی سے آکر آپس میں جڑ جائیں گے اور وہ نوجوان ہنستا ہوا شاداں و فرحاں دجال کے سامنے آکھڑا ہوگا.دجال اسی قسم کے شعبدے دکھا رہا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اسی اثناء میں نبی اللہ صیح ابن مریم کو مبعوث فرمائے گا....وہ دجال کی تلاش میں نکلیں گے اور اسے باب لد پر جالیں مسلم کتاب الفتن باب ذكر الدجال...) گے.دقبال کے ظہور ، اس کی تفصیلات اور علامات کی حقیقت جاننے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم دجال کے لفظ پر غور کریں کہ عربی زبان میں اس کے کیا معنی ہیں.چنانچہ عربی زبان میں دجال کا لفظ چھ مفہوم پر مشتمل ہے.: اوّل:.دجال کے معنے کذاب یعنی سخت جھوٹے کے ہیں.دوسرے :.دجال کے معنے ڈھانپ لینے والے کے ہیں کیونکہ عربی میں کہتے ہیں دَجَلَ البَعِير یعنی اس نے اونٹ کے جسم پر ھناء کومل دیا ایسے طور پر کہ کوئی جگہ خالی نہ رہی.چنانچہ عربی لغت ” تاج العروس“ میں لکھا ہے کہ دجال اسی سے نکلا ہے لِأَنَّهُ يَعُمُّ الْأَرْضَ كَمَا أَنَّ الْهَنَاءَ يَعُمُّ الْجَسَدَ کیونکہ وہ زمین کو ڈھانپ لے گا جس طرح ھناء سارے بدن کو ڈھانک لیتی ہے.تیسرے.دجال کے معنی زمین میں سیر و سیاحت کرنے والے ہیں چنا نچہ کہتے ہیں دَجَلَ الرَّجُلُ إِذَا قَطَعَ نَوَاحِى الْأَرْضِ سَيْراً یعنی دَجَلَ الرَّجُلُ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کسی نے تمام روئے زمین کو
33 33 اپنی سیر و سیاحت سے قطع کرلیا ہو.چوتھے.دجال کے معنی بڑے مالدار اور خزانوں والے کے ہیں کیونکہ دجال سونے کو کہتے ہیں.پانچویں.دقبال ایک بڑے گروہ کو کہتے ہیں الَّتِی تُغَطّى الْأَرْضَ بِكَثْرَةِ أَهْلِهَا جو اپنے اہل کی کثرت سے روئے زمین کو ڈھانک لے.چھٹے.دجال اس گروہ کو کہتے ہیں ، الَّتِي تَحْمِلُ الْمَتَاعَ لِلْتِجَارَةِ - جواموال تجارت اٹھائے پھرے.یہ تمام معنی لغت کی نہایت مستند اور مشہور اور مبسوط کتاب ” تاج العروس میں بیان ہوئے ہیں پس ان معنوں کے لحاظ سے دجال کے جامع معنے ہوئے کہ ایک کثیر التعداد جماعت جو تجارت پیشہ ہو.اور اپنا تجارتی سامان دنیا میں اٹھائے پھرے اور جو نہایت مالدار اور خزانوں والی ہو اور جو تمام دنیا کو اپنی سیر و سیاحت نیز تسلط سے قطع کر رہی ہو اور ہر جگہ پہنچی ہوئی ہو اور گویا کوئی جگہ اس سے خالی نہ رہی ہو اور وہ مذہب کے لحاظ سے ایک نہایت جھوٹے عقیدہ پر قائم ہو.66 اس جامع مفہوم کے ساتھ اُس کیفیت کو ملایا جائے جو حدیث نبوی میں بیان ہوئی ہے اور جس کو اختصار سے اوپر درج کیا گیا ہے تو عقل فوراً اور بلا تامل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ دجال سے مراد مغربی ممالک کی مسیحی اقوام ہیں جو اس زمانہ میں تمام روئے زمین پر چھا گئی ہیں اور جن میں تمام مذکورہ بالا حالات پائے جاتے ہیں.ان کا یک چشم ہونا ان کی مادیت ہے جس نے ان کے دین کی آنکھ کو بند کر رکھا ہے.ہاں ان کی دنیا کی آنکھ خوب کھلی اور روشن ہے.ان کی آنکھوں کے درمیان کا فرلکھا ہونے سے ان کا ” الوہیت مسیح کا انتہائی باطل عقیدہ مراد ہے جسے ہر سچا مومن ، خواہ خواندہ ہو یا نا خواندہ پڑھ سکتا ہے اور ان کا زمین و آسمان میں تصرفات کرنا اور خزانے نکالنا اور امانت واحیاء کرنا وغیرہ ظاہر ہے کہ ان کے علوم جدیدہ اور میڈیکل سائنس وغیرہ کی طاقتوں کی طرف مجازی طور پر اشارہ ہے ورنہ از روئے حقیقت تو یہ امور سب اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور ان کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا کفر ہے.دجال کے ساتھ جنت اور دوزخ کا ہونا یہ ہے کہ جو شخص ان کے ساتھ ہو جاتا ہے ان کی بات مانتا ہے اور ان کے مذہب کو اختیار کرتا ہے وہ ظاہراً ایک جنت میں داخل ہو جاتا ہے گو در اصل وہ دوزخ ہے اور جو اُن کے بدخیالات سے الگ رہتا ہے اس کو ظاہرا
34 ایک دوزخ کو برداشت کرنا پڑتا ہے مگر دراصل وہ دوزخ نہیں ، جنت ہے.اور اُن کے ساتھ روٹیوں کے پہاڑ اور پانی کی نہر تو ایک بین بات ہے جس کی تشریح کی ضرورت نہیں.اور دقبال کے گدھے سے جس کا طول کم و بیش ستر گز ہے، عام ظاہری گدھا مراد نہیں بلکہ اس سے جدید طرز کی سواریاں مراد ہیں جو ان لوگوں کی ایجاد کردہ ہیں.اب دیکھیں کہ کس طرح یہ تمام باتیں ان میں پائی جاتی ہیں اور یہ جو کہا گیا کہ دقبال آخری زمانہ میں خروج کرے گا تو اس سے یہ مراد ہے کہ گو وہ پہلے سے موجود ہو گا مگر پہلے وہ اپنے وطن میں گویا محصور ہو گا لیکن موعود وقت پر وہ زور کے ساتھ باہر نکلے گا اور تمام روئے زمین پر چھا جائے گا.بعینہ اسی طرح ہوا کہ مغربی قو میں پہلے اپنے محدود وطنوں میں سوئی پڑی تھیں.مگر اب بیدار ہو کر تمام روئے زمین پر چھا گئی ہیں.آنحضرت اللہ نے تو دجال کو ایک آدمی کی شکل میں دیکھا تھا.اسے ایک جماعت یا گروہ قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ نظارے بصورت کشف اور خواب دیکھے تھے جیسا کہ مثلاً حدیث بخاری کتاب الفتن باب ذکر الہ جال کے بعض الفاظ یعنی بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ أَطُوْفُ بِالْكَعْبَةِ يعنى میں نے خواب میں کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا“ کے الفاظ سے ظاہر ہے.اور ظاہر ہے کہ خواب عموما تاویل طلب ہوتی ہے اور اس میں کئی دفعہ ایک فرد دکھایا جاتا ہے مگر مراد ایک جماعت ہوتی ہے مثلاً سورہ یوسف میں آتا ہے کہ عزیز مصر نے سات سالہ قحط کے متعلق سات دہلی گائیں دیکھیں.جس کی تعبیر ی تھی جیسا کہ حضرت یوسف نے خود بیان کیا ہے کہ ایک گائے ایک سال کے تمام مویشیوں بلکہ تمام جانداروں کے قائم مقام ہے اور اس کا دبلا ہونا قحط کو ظاہر کرتا ہے اور سات دبلی گائیوں کا ہوناسات سالہ قحط کو ظاہر کرتا ہے.گویا ایک گائے تمام مویشیوں کے قائم مقام ہو کر دکھائی گئی اسی طرح آنحضرت ﷺ کود قبال کا نظارہ ایک آدمی کی شکل میں دکھایا گیا.پس اسے ایک گروہ یا جماعت قرار دینے کی وجوہات یہ ہیں کہ (1) لغت میں دجال ایک بڑی جماعت کو کہتے ہیں.پس وہ ایک فرد نہیں ہوسکتا.(۲) جو فتنے دجال کی طرف منسوب کئے گئے ہیں اور جو طاقتیں اس کے اندر بیان کی گئی ہیں ان کا ایک فرد واحد میں پایا جانا عقلاً محال ہے.(۳) دجال کی کیفیت جن الفاظ میں بیان کی گئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس
35 پیشگوئی میں مجاز اور استعارہ کا دخل ہے ورنہ نعوذ باللہ دجال کو بعض خدائی صفات اور قدرتوں میں شریک ماننا پڑتا ہے.(۴) دجال کی تمام کیفیات عملا عیسائی اقوام میں پائی جاتی ہیں.(۵) دجال کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ بتایا گیا ہے.اور ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی اقوام کی مادیت اور فلسفہ نے جو فتنہ اس زمانہ میں برپا کیا ہے، ایسا فتنہ دین و ایمان کو نقصان پہنچانے کے لئے نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ کبھی تصور میں آسکتا ہے.نیز سورہ الفاتحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ سب سے بڑا فتنہ عیسائیت کا فتنہ ہے.کسی قوم پر اقتصادی و معاشی پابندیاں لگانا اور ان کے مادی وسائل پر قابض ہونا اور اس کے برعکس اپنی اغراض کی تکمیل کے لئے از راہ ظلم جارحیت پسند قوموں کی ہر ممکنہ مددکرنا اور ان کے ظالمانہ اقدامات کی تائید کرنا، دجال کی خاص علامات میں سے ہیں جو فی زمانہ عیسائی اقوام کے ایک خاص کردار کے طور پر ظاہر ہوئی ہیں.اسی طرح ان اقوام کی سیاسی جارحیت، عسکری بربریت ، اخلاق سوزی اور اشاعتِ فحشاء کے ذرائع ان کے دجل اور ان کی دجالیت کی کھلی کھلی داستانیں ہیں جو آنحضرت ﷺ کی بیان فرمودہ پیشگوئی کی صداقت کا اظہر من الشمس ثبوت ہیں.(1) حضرت تمیم داری نے (بحالت کشف یا رویا ) دجال کو گرجے میں بندھا ہوا د یکھا تھا اور آپ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اسے تفصیلاً بیان بھی کیا تھا اور پھر آنحضرت ﷺ نے مسجد میں صحابہ کو جمع کر کے انہیں اس سے آگاہ بھی کیا تھا.(مسلم کتاب الفتن باب في خروج الدجال...) یہ روایت بھی واضح کرتی ہے کہ گرجے سے نکلنے والا کون ہے اور گر جا عیسائیت کی علامت کے طور پر دجال کی حقیقت کی طرف واضح اشارہ ہے.اس روایت میں دجال کے بندھے ہونے کا منظر بھی دجال کے ایک اور خاص پہلو کو نمایاں کرتا ہے.جانور کا بندھا ہونا اس کے مالک کی نیز اس پر اس کے تصرف کی نشاندہی کرتا ہے.اس کا گرجے میں بندھے ہونے میں بتایا گیا ہے کہ دجال مسیحی نظام کے ہاتھ میں آلہ کار ہوگا.اس منظر میں اس کے فری میسن تنظیموں کے تصرف میں کام کرنے کی حکمت عملی کی پوری پوری نشاندہی کی گئی ہے.
36 (۷) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دجال کے فتنے سے بچنے کے لئے سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات مطالعہ کرنی چاہئیں.آپ کی اس ہدایت کے تحت جب ان آیات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں وہاں عیسائیت کے باطل خیالات کے رڈ کا کھلا کھلا مضمون ملتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: " الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَب وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهُ عِوَجاً قيماً لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيداً مِّنْ لَّدُنْهُ وَيُبَيِّرَ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْراً حَسَناً مَّاكِثِينَ فِيْهِ أَبَداً وَيُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَداً مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِآبَاءِ هِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِباً فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بهذَا الْحَدِيْثِ أَسَفاً O إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِيْنَةٌ لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَإِنَّا لَجَاعِلُوْنَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزاً (الكيف :2 تا9) ترجمہ: سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی.مضبوطی سے قائم اور قائم رکھنے والا تا کہ وہ اس کی طرف سے سخت عذاب سے ڈرائے اور مومنوں کو جو نیکیاں بجالاتے ہیں خوشخبری دے کہ ان کے لئے بہت اچھا اجر (مقدر) ہے.وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں.اور وہ اس گروہ کو ڈرائے جنہوں نے کہا اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے.ان کو اس کا کچھ بھی علم نہیں، نہ ہی ان کے آباء واجداد کو تھا.بہت بڑی بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے.وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہتے.پس کیا تو شدت غم کے باعث ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں.یقینا ہم نے جو کچھ زمین پر ہے اس کے لئے زینت کے طور پر بنایا ہے تا کہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سے کون بہترین عمل کرنے والا ہے.اور یقیناً ہم جو کچھ اس پر ہے اسے خشک بنجر مٹی بنادیں گے.یہ آیات بتاتی ہیں کہ دجال سے مراد مسیحی اقوام کے علاوہ اور کوئی نہیں.جنہوں نے اس زمانہ میں غیر معمولی طاقت حاصل کر کے ساری دنیا پر سیاسی ، اقتصادی اور جغرافیائی لحاظ سے برتری بلکہ تسلط قائم کر لیا ہے اور دنیا کے تقریباً ہر قابل ذکر ملک کے سیاسی نظام اور معاشرتی و اقتصادی ذرائع اور قدرتی وسائل اور ذخائر پر قابض ہو چکی ہیں.ان کی مادیت ، ان کا فلسفہ اور باطل عقائد وغیرہ ان کی دیگر علامات ہیں جو چشم بینا کے لئے کافی ہیں.
37 پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو معنے دجال، فرِ دجال اور دآنتہ الارض کے کئے ہیں وہی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کی حقانیت کا ثبوت مہیا کرتے ہیں.انہی معنوں میں یہ پیشگوئیاں اپنی پوری تفصیل کے ساتھ پوری ہو چکی ہیں اور ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی صداقت کو ثابت کر چکی ہیں.اور یہ راشد علی اور اس کے پیر کے اعتراض کے جھوٹا ہونے کا ناقابل تردید ثبوت ہے.(2) کیا عقیدہ تناسخ برحق ہے؟ را شد علی نے اپنا یہ جھوٹ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہے "Tanasukh (Transmigration of soul, a Hindu belief) is true" (Beware...) یہ بات لکھتے ہوئے بھی اس نے جھوٹ کے گند پر منہ مارا ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس زور سے ہندوؤں کے اس عقیدہ تناسخ کا عقلی و نقلی طور پر رد فرمایا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی.پھر ایسی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا، کسی ایسے انتہائی بددیانت اور جھوٹے شخص کا ہی کام ہو سکتا ہے جو عملاً شیطان کی گود میں سکونت پذیر ہو اور اسی کے ہاتھ میں کھیل رہا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تناسخ کے ہر پہلوکورڈ فرمایا ہے.حتی کہ وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایسی آمد کے قائل ہیں کہ جس کا تصور تناسخ کے اوہام میں الجھ کر رہ جاتا ہے ، ان کے خیالات کا رڈ کرتے ہوئے بھی آپ فرماتے ہیں : اور یہ خیال کہ تناسخ کے طور پر حضرت مسیح ابن مریم دنیا میں آئیں گے سب سے زیادہ رڈی اور شرم کے لائق ہے.تناسخ کے ماننے والے تو ایسے شخص کا دنیا میں دوبارہ آنا تجویز کرتے ہیں جس کے تزکیہ نفس میں کچھ کسر رہ گئی ہو لیکن جو لوگ بکنی مراحل کمالات طے کر کے اس دنیا سے سفر کرتے ہیں وہ بزعم ان کے ایک مدت دراز کے لئے مکتی خانہ میں داخل کئے جاتے ہیں.ماسوائے اس کے ہمارے عقیدہ کے موافق خدائے تعالیٰ کا بہشتیوں کے لئے یہ وعدہ ہے کہ وہ کبھی اس سے نکالے نہیں جائیں گے.پھر تعجب ہے کہ
38 ہمارے علماء کیوں حضرت مسیح کو اس فردوس بریں سے نکالنا چاہتے ہیں.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 147 ،148) جہاں تک ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کا تعلق ہے تو اس کے مطابق روحیں اپنے اعمال کے نتیجہ میں مختلف جنم لیتی رہتی ہیں اور اس جنم کے چکر سے پوری طرح آزاد نہیں ہوتیں.اگر کوئی شخص اچھے عمل کرتا ہے تو اسے اچھا جنم دیا جاتا ہے اور بد اعمال شخص برے جنم میں ڈالا جاتا ہے اور جب سے کائنات ہے یہ دور جاری چلا آیا ہے اور اسی طرح جاری چلا جائے گا اور اگر کسی کو مکتی یعنی نجات ملتی بھی ہے تو محض عارضی طور پر ملتی ہے اور پھر وہ روح اواگوان یعنی تناسخ کے چکر میں ڈال دی جاتی ہے کیونکہ ان کے زعم میں محدود عمل کی غیر محدود جز انہیں مل سکتی.ہندوؤں کے اس عقیدہ تناسخ کو باطل قرار دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا کلیه رد فرمایا ہے.آپ ہندوؤں کے عقائد کی اس شاخ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وو وہ بھی خدا کے رحم اور فضل پر سخت دھبہ لگاتی ہے کیونکہ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دوتین بالشت جگہ میں مثلاً چیونٹئیں اتنی ہوتی ہیں کہ کئی ارب سے زائد ہو جاتی ہیں اور ہر ایک قطرہ پانی میں کئی ہزار کیڑا ہوتا ہے اور دریا اور سمندر اور جنگل طرح طرح کے حیوانات اور کیڑوں سے بھرے ہوئے ہیں جن کی طرف ہم انسانی تعداد کو کچھ بھی نسبت نہیں دے سکتے.اس صورت میں خیال آتا ہے کہ اگر بفرض محال تناسخ صحیح ہے تو اب تک پر میشر نے بنایا کیا ؟ اور کس کو مکتی دی اور آئندہ کیا امید رکھی جائے؟ ماسوا اس کے یہ قانون بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ سزا تو دی جائے مگر سزایافتہ شخص کو جرم پر اطلاع نہ دی جائے اور پھر ایک نہایت مصیبت کی جگہ یہ ہے کہ کتی تو گیان پر موقوف ہے اور گیان ( یعنی علم.ناقل ) ساتھ ساتھ برباد ہوتا رہتا ہے اور کوئی کسی جون میں آنے والا خواہ کیسا ہی پنڈت کیوں نہ ہو کوئی حصہ وید کا یاد نہیں رکھتا.پس اس سے معلوم ہوا کہ جونوں کے ذریعہ مکتی پانا محال ہے اور جو جونوں میں پڑ کر مرد اور عورتیں دنیا میں آتی ہیں ان کے ساتھ کوئی ایسی فہرست نہیں آتی جس سے ان کے رشتوں کا حال معلوم ہوتا کوئی بیچارہ کسی ایسی نوزاد کو اپنی شادی میں نہ لائے جو دراصل اس کی ہمشیرہ یا ماں ہے.“ (لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 231 ،232) حیرت ہے کہ راشد علی اور اس کا پیر اس طرح بے باکی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ گویا ان کی جان خدا تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں نہیں.وہ شخص جس نے ہندوؤں کے عقائد کو کلیۂ باطل ثابت کر کے اسلام کی
39 سچائی کو دنیا پر ثابت کر کے دکھایا اس کی طرف جھوٹ منسوب کر کے در اصل خود انہوں نے اپنے جھوٹ کا ہی ثبوت مہیا کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ، خصوصاً چشمہ معرفت ، قادیان کے آریہ اور ہم ، براہین احمدیہ ، سرمه چشم آریہ اور شحنہ حق و غیرہ ، تناسخ اور ہندوؤں کے دیگر عقائد کے رڈ میں ایسی لاجواب کتب ہیں کہ ان کی نظیر مسلمانوں کے لٹریچر میں مفقود ہے.ان کتب کے بارہ میں مسلمان لیڈروں نے جو تبصرے اور ر یو یو تحریر کئے ان کے نمونے آئندہ صفحات میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں.(3) سورج کا مغرب سے طلوع کرنا را شد علی نے یہ بات بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کی ہے کہ "Sun will not rise from the west" (Beware....) اس نے اس کا حوالہ آپ کی کتاب ” ازالہ اوہام کا دیا ہے اور حسب معمول اس نے یہ بھی جھوٹ ہی لکھا ہے.کیونکہ اسی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر فرمایا ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں: ’ ایسا ہی طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہو گا اس پر بہر حال ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنے رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر وضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 377) ملے گا.یعنی سراج منیر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی صداقت اور آپ کے نور سے مغرب بھی منو ر ہوگا.پس راشد علی اور اس کے پیر کا یہ قطعی جھوٹ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ سورج مغرب سے طلوع نہیں کرے گا.اگر آنحضرت ﷺ کی اس عظیم الشان پیشگوئی کے ظاہری اور بدیہی معنے لئے جائیں تو قرآن
40 کریم کی نص صریح کے خلاف ٹھہرتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورج کے طلوع کے متعلق اپنی سنت یہ بیان فرمائی ہے کہ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ (البقرہ:259) کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لاتا ہے.پس اس کے پیش نظر ضروری ہے کہ استعارہ پر مشتمل آنحضرت ﷺ کی اس پیشگوئی کے تو جیہی معنے ہی کئے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ہر فرمان پر کامل ایمان اور آپ کی ہر پیشگوئی کے پورا ہونے پر مکمل یقین رکھتے تھے.آنحضرت ﷺ نے قرب قیامت کی جو نشانیاں بیان فرمائیں ، آپ نے ان کی وہ تو جیہ پیش فرمائی جو حقیقی ہے اور خدا تعالیٰ کے طبعی قوانین قدرت کے عین مطابق ہے.چنانچہ آپ نے اپنی عربی کتاب ” حمامۃ البشری میں اپنی پیش کردہ تو جیہات کے جو دلائل پیش فرمائے ان کا ترجمہ قارئین کے استفادہ کے لئے پیش ہے.آپ فرماتے ہیں: اس ضمن میں تفصیلی کلام یہ ہے کہ قیامت کی علامات کی دو قسمیں ہیں.علامات صغریٰ اور علاماتِ کبری.دو علامات صغری یا تو اپنی ظاہری صورت میں ہی ظاہر ہوں گی یا پھر ان کا وجود استعارات کے پیرایہ میں منکشف ہوگا.لیکن علامات کیرئی اپنی ظاہری صورت میں ہرگز ظاہر نہ ہوں گی بلکہ لازمی طور پر استعارات اور مجازات کے پیرا یہ میں ہی ظاہر ہوں گی.اس میں راز یہ ہے کہ وہ گھڑی یقینا اچانک آئے گی جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرسَهَا قُل إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلَت فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرض لَا تَاتِيكُم إِنَّا بَعْتَةٌ ، يَسْئَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنهَا قُل إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ O (الاعراف (188: ط ترجمہ :.(اے رسول) تیرے مخالف تجھ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ وہ کب آئے گی.تو کہہ دے کہ اس کا علم صرف میرے رب کو ہے اس کو اپنے وقت پر صرف وہی ظاہر کرے گا.وہ بھاری ہوگی آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی.وہ تمہارے پاس صرف اچانک آئے گی وہ تجھ سے قیامت کے متعلق
41 اس طرح سوال کرتے ہیں گویا تجھے بھی اس کے وقت کی دریافت کی لوگی ہوئی ہے.تو کہ دے کہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے لیکن اکثر لوگ اسے جانتے نہیں.اور ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَفَأَمِنُوا أَن تَأْتِيَهُم غَاشِيَةٌ مِّن عَذَابِ اللَّهِ أَو تَأْتِيَهُم السَّاعَةُ بَعْتَةٌ وَّهُم لَا يَشعُرُونَ O قُل هَذِهِ سَبِيلى أدعُوا إِلَى اللهِ بن عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي (يف (109,108: قف ترجمہ.تو کیا یہ اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ان پر اللہ کے عذابوں میں سے کوئی سخت عذاب آ جائے یا اچانک ان پر وہ گھڑی آ جائے اور انہیں پتہ بھی نہ لگے.تو کہہ دے کہ یہ میرا طریق ہے.میں تو اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور جنہوں نے میری پیروی اختیار کی ہے میں اور وہ سب بصیرت پر قائم ہیں : بَل تَاتِيْهِمْ بَعْتَةٌ فَتَبهَتُهُم فَلا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُم يُنظَرُوْنَ (الانبياء:41) ترجمہ :.لیکن وہ ان کے پاس اچانک آئے گی اور ان کو حیران کر دے گی پس وہ اس کو ر ڈ کرنے کی طاقت نہیں رکھیں گے اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی.اور فرمایا: گذلِکَ سَلَكنهُ فِي قُلُوبِ المُجْرِمِينَ O لَا يُومِنُونَ بِهِ حَتَّى يَرَوُا العَذَابَ الأَلِيْمَ O فَيَاتِيَهُم بَعْتَةٌ وَّهُم لَا يَشْعُرُونَ (الشعراء: 201 (203) ترجمہ :.اسی طرح ہم نے مجرموں کے دلوں میں یہ بات داخل کر چھوڑی ہے.پس وہ ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھ لیں پس وہ ان کی لاعلمی میں ان کے پاس اچانک آجائے گا.اور فرمایا: هَل يَنظُرُونَ إِلا السَّاعَةَ أَن تَاتِيَهُم بَغتَةً وَّهُم لَا يَشْعُرُونَ (الزخرف: 67) ترجمہ:.وہ فقط قیامت کا انتظار کر رہے ہیں جس کے لئے اچانک آنامقد رہے.مگر وہ اسے سمجھتے نہیں.اور فرمایا: وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْيَاتِيَهُمْ
42 عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ ( الج:56) ترجمہ :.اور کافر اس کے متعلق اس وقت تک کہ گھڑی اچانک آجائے یا ان کے پاس اس دن کا عذاب آ جائے جو اپنے پیچھے کچھ نہیں چھوڑتا، شبہ میں پڑے رہیں گے.پس اللہ تعالیٰ کے اس قول لَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِريَةٍ مِّنْهُ “ سے یہ ثابت ہوا کہ انکار کرنے والے اس کے بارہ میں ہمیشہ شک میں رہیں گے کہ علامات قطعیہ جو شک کو ختم کرنے والی ہیں اور ظاہری علامات جو قرب قیامت کی نشاندھی کرتی ہیں وہ کبھی بھی ظاہر نہ ہوں گی بلکہ صرف نظریاتی نشانیاں ظاہر ہوں گی جو تاویلات کی محتاج ہوتی ہیں اور وہ بھی سوائے استعارات کے رنگ کے ظاہر نہ ہوں گی.ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آسمان کے دروازے کھل جائیں اور عیسی لوگوں کی نظروں کے سامنے اتر آئیں اور ان کے ہاتھ میں ہتھیار بھی ہو اور ان کے ساتھ فرشتے بھی اتریں اور زمین پھٹ جائے اور اس میں سے ایک عجیب قسم کا کیڑا نکلے جولوگوں سے کلام کرے کہ یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ( پسندیدہ اور ) اصل دین اسلام ہی ہے اور یا جوج و ماجوج بھی اپنی مغربی صورت اور لمبے کانوں کے ساتھ خروج کریں اور دقبال کا گدھا بھی نکلے اور لوگ اس کے کانوں کے درمیان ستر ہاتھ کا فاصلہ بھی دیکھیں اور دقبال بھی خروج کرے اور لوگ اس کے ساتھ جنت اور آگ نیز اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے خزانے دیکھیں اور سورج مغرب سے طلوع کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خبر دی اور لوگ آسمان سے متواتر آوازیں سنیں کہ یقیناً مہدی خلیفہ اللہ ہے ان سب کے باوجود کافروں کے دل میں شک وشبہ باقی رہے.اسی لئے میں نے متعدد بار اپنی کتب میں لکھا ہے کہ یہ سب استعارے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کی آزمائش چاہتا ہے تا کہ وہ جان لے کہ کون اپنے نور قلب سے اس کو پہچانتا ہے اور کون گمراہ ہونے والوں میں سے ہے.اگر ہم فرض کر لیں کہ یہ علامات اپنی ظاہری شکل میں ظاہر ہوں گی تو کوئی شک نہیں کہ اس کے لازمی نتائج یہ کھلیں گے کہ تمام کے تمام لوگوں کے دلوں سے شک وشبہ اور تردد دور ہو جائے گا جس طرح کہ قیامت کے دن دور ہوگا.پس جب شکوے دور ہو جائیں اور پر دے اٹھ جائیں تو مغرب سے تعلق رکھنے والی خوفناک علامات کے منکشف ہو جانے کے بعد ان ایام میں اور قیامت کے دن میں کیا فرق باقی رہ جائے گا.
43 اے صاحب عقل ! غور کر کہ جب لوگ ایک شخص کو آسمان سے نازل ہوتا دیکھیں جب کہ اس کے ہاتھ میں ہتھیار ہو اور اس کے ساتھ ملائکہ بھی ہوں جو کہ ابتدائے دنیا سے غائب تھے جبکہ لوگ ان کے وجود کے بارہ میں شک کرتے تھے.پس وہ نازل ہوں گے اور گواہی دیں گے کہ یقینا رسول سچا ہے.اسی طرح لوگ آسمان سے خدا تعالیٰ کی آواز میں سنیں گے یقیناً مہدی خلیفہ اللہ ہے اور وہ لفظ ” کافر دجال کی پیشانی سے پڑھ لیں اور وہ دیکھ لیں کہ سورج مغرب سے طلوع ہوا ہے اور زمین پھٹ گئی ہے اور اس میں سے دآئبہ الارض نکلا ہے جس کے پاؤں زمین پر اور سر آسمان کو چھوتا ہے اور وہ مومن اور کافر کو نشان لگائے گا اور ان کی آنکھوں کے درمیان مومن یا کافر لکھے گا اور بلند آواز سے گواہی دے گا کہ اسلام سچا ہے اور حق کھل گیا ہے اور ہر طرف روشن ہو گیا ہے اور اسلام کی سچائی کے انوار ظاہر ہو گئے ہیں.حتی کہ چوپائے ، درندے اور بچھو بھی اس کی سچائی پر گواہی دیں گے تو یہ کیسے ممکن ہو گا کہ ان عظیم الشان نشانیوں کو دیکھنے کے بعد سطح زمین پر کوئی کافر باقی رہ جائے یا خدا تعالیٰ کے بارہ میں اور اس گھڑی کے بارہ میں کوئی شک باقی رہ جائے.پس حتی اور ظاہری علوم ایسی چیز ہیں کہ اسے کافر اور مومن ( یکساں) قبول کرتے ہیں اور جن کو انسانیت کے قومی عطا ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ان کے بارہ میں اختلاف نہیں کرتا.مثلاً جب دن چڑھا ہوا ہو اور سورج طلوع ہو چکا ہو اور لوگ بیدار ہوں تو اس سے نہ کوئی کافر اور نہ ہی کوئی مومن انکار کرے گا.بالکل اسی طرح جب سب پر دے اٹھ جائیں اور متواتر گواہیاں موجود ہوں اور نشانات ظاہر ہو جائیں اور مخفی امور آشکار ہو جا ئیں اور فرشتے اتر آئیں اور آسمان کی آوازیں سنی جائیں تو ان ایام میں اور روز قیامت میں کیا فرق باقی رہ جائے گا اور انکار کرنے والوں کے لئے کیا مقررہ جائے گا؟ ایسی صورت میں تو لازم ہے کہ ان ایام میں سب کے سب کافر مسلمان ہو جائیں اور اس گھڑی کے بارہ میں کوئی شک باقی نہ رہے لیکن قرآن کریم نے بار بار بیان فرمایا ہے کہ کفار یوم قیامت تک اپنے کفر پر قائم رہیں گے وہ ساعة کے بارہ میں اپنے شک وشبہ میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ وہ گھڑی ایسی حالت میں اچانک آ جائے گی کہ انہیں اس کا شعور بھی نہ ہوگا اور لفظ بغتةً واضح طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ یہ قطعی علامات جن کے بعد قیامت کے بارہ میں کوئی شک باقی نہ رہ سکے گا ، کبھی بھی ظاہر نہ ہوں گی اور نہ ہی اللہ تعالیٰ انہیں ایسے طور پر ظاہر کرے گا کہ سب پردے اٹھ جائیں اور وہ علامات قیامت کو دیکھنے کا یقینی آئینہ بن جائے بلکہ یہ معاملہ یوم قیامت تک نظریاتی ہی رہے گا.یہ تمام
44 نشانیاں ظاہر تو ہوں گی لیکن بدیہی طور پر نہیں کہ ان کو قبول کئے بغیر چارہ ہی نہ رہے بلکہ ایسے طور پر کہ عاقل تو اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور متعصب جاہل ان کو محسوس نہ کر سکیں گے.پس اس بارہ میں تدبر سے کام لے کیونکہ یہ معاملہ تدبر کرنے والوں کے لئے بصیرت افروز ہے.“ (4) عذاب قبر ( حمامۃ البشری.روحانی خزائن جلد 7 صفحه 302 تا 305 ) راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے یہ بھی لکھا ہے کہ "There is no punishmet in grave" (Beware...) یہ بات بھی اس کے کذب و افتراء کا شاہکار ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کی ہے.وہ لکھتا ہے کہ قبر میں عذاب نہیں ہو گا ہم کہتے ہیں کہ اگر اس نے توبہ نہ کی اور زمانہ کے مامور من اللہ کی تکذیب اور اس کی شان میں گستاخیوں سے باز نہ آیا تو اسے بہر حال قبر میں عذاب ملے گا.اس کے لئے خدا تعالیٰ کے پاک مسیح نے پیغام یہ دیا ہے کہ میت خبیث کے لئے روزخ کی طرف قبر میں ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے جس کی راہ سے دوزخ کی ایک جلانے والی بھاپ آتی رہتی ہے اور اس کے شعلوں سے ہر وقت وہ خبیث روح جلتی رہتی ہے لیکن ساتھ اس کے یہ بھی ہے کہ جو لوگ اپنی کثرت نافرمانی کی وجہ سے ایسے فنافی الشیطان ہونے کی حالت میں دنیا سے جدا ہوتے ہیں کہ شیطان کی فرمانبرداری کی وجہ سے بکلی تعلقات اپنے مولی حقیقی سے توڑ دیتے ہیں ان کے لئے ان کی موت کے بعد صرف دوزخ کی طرف کھڑ کی ہی نہیں کھولی جاتی بلکہ وہ اپنے سارے وجود اور تمام قومی کے ساتھ خاص دوزخ میں ڈال دیئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے مِمَّا خَطِيئَتِهم أغرقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا (نوح: 26) مگر پھر بھی وہ لوگ قیامت کے دن سے پہلے اکمل اور اتم طور پر عقوبات جہنم کا مزہ نہیں چکھتے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 283 ،284 ) راشد علی کا اقرار ہے کہ اس کا شیطان کے ساتھ خاص تعلق ہے اور شیطان کے بارہ میں مشہور ہے کہ وہ ارواح خبیثہ سے اپنا تعلق اور رشتہ رکھتا ہے.اس رشتہ کے نتیجہ میں راشد علی عذاب قبر کا مشاہدہ تو مرنے
45 کے بعد ہی کر سکتا ہے البتہ جو جھوٹ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہے اس کو سب نے مشاہدہ کر لیا ہے.لہذا ہم اس کے کھلے کھلے جھوٹ کی وجہ سے فی الحال اسے "لعنة الله على الكاذبين“ کا قرآنی سرٹیفکیٹ پیش کرتے ہیں.(5) قیامت، روز جزاوسزا اور تقدیر کوئی چیز نہیں را شد علی نے از راہ کذب وافتراء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف یہ بات بھی منسوب کی ہے کہ گویا آپ نے فرمایا ہے."Qiyamah or the day of judgment is nothing and there is no such things as destiny."(Beware....) یہ بھی اس بد بخت معترض کا ایسا جھوٹ ہے جس پر دنیا بھر کی سینکڑوں اقوام کے کروڑوں احمدی لعنت بھیجتے ہیں.ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حسب ذیل فرمان پر پوری طرح ایمان رکھتا ہے اور آپ کے ساتھ ساتھ یہ اقرار کرتا ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سید نا حضرت محمد اے اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور محشر اجسادحق اور روز حساب حق اور جنت حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے.“ 66 ایام اصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 323) جہاں تک تقریر کا تعلق ہے تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قدر قوی ایمان تھا کہ راشد علی اور اس کے پیر جیسے منکرین کے ایمان لانے پر بھی یقین رکھتے تھے چنانچہ آپ فرماتے ہیں.قبضہء تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا پھیر دے میری طرف آجائیں پھر بے اختیار گر کرنے معجز نمائی یک دم میں نرم ہو وہ دل سنگیں جو ہو دے مثل سنگ کو ہسار
46 46 (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 128) ای طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : وو ” ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص الخاص تقدیر کو دنیا میں جاری کرتا رہتا ہے.صرف یہی قانونِ قدرت اس کی طرف سے جاری نہیں جو طبعی قانون کہلاتا ہے بلکہ اس کے علاوہ اس کی ایک خاص تقدیر بھی جاری ہے جس کے ذریعہ سے وہ اپنی قوت اور شوکت کا اظہار کرتا ہے اور اپنی قدرت کا پتہ دیتا ہے.یہ وہی قدرت ہے جس کا بعض نادان اپنی کم علمی کی وجہ سے انکار کر دیتے ہیں اور سوائے طبعی قانون کے اور کسی قانون کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے قانون قدرت کہتے ہیں.حالانکہ وہ طبعی قانون تو کہلا سکتا ہے مگر قانون قدرت نہیں کہلا سکتا.کیونکہ اس کے سوا اس کے اور بھی قانون ہیں جن کے ذریعے سے وہ اپنے پیاروں کی مدد کرتا ہے اور ان کے دشمنوں کو تباہ کرتا ہے.بھلا اگر ایسے کوئی قانون موجود نہ ہوتے تو کس طرح ممکن تھا کہ ضعیف و کمزور موسی فرعون جیسے جابر بادشاہ پر غالب آ جاتا.یہ اپنے ضعف کے باوجود عروج پا جاتا اور وہ اپنی طاقت کے باوجود برباد ہو جاتا ، پھر اگر کوئی اور قانون نہیں تو کس طرح ہوسکتا تھا کہ سارا عرب مل کر محمد رسول اللہ ﷺ کی تباہی کے در پے ہوتا مگر اللہ تعالیٰ آپ کو ہر میدان میں غالب کرتا اور ہر حملہ دشمن سے محفوظ رکھتا اور آخر دس ہزار قد وسیوں سمیت اس سرزمین پر آپ چڑھ آتے جس میں سے صرف ایک جان نثار کی معیت میں آپ گونکلنا پڑا تھا.کیا قانونِ طبعی ایسے واقعات پیش کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.وہ قانون تو ہمیں یہی بتاتا ہے کہ ہر ادنیٰ طاقت اعلی طاقت کے مقابل پر توڑ دی جاتی ہے اور ہر کمزور طاقتور کے ہاتھوں ہلاک ہوتا ہے.“ ( دعوۃ الامیر - صفحہ 7 ، 8 مطبوعہ الشركة الاسلامیہ.مطبوعہ لندن 1993 ء) پس راشد علی اور اس کے پیر کا جھوٹ اظہر من الشمس ہے.انہوں نے از راہ کذب وافتراء ایسی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کی ہے جو آپ نے نہیں کہی.(6) مسجد اقصیٰ را شد علی لکھتا ہے Verse of Holy Quran"
47 سُبحنَ الَّذِي أسرى بِعَبْدِهِ لَيلاً مِّنَ المَسجِدِ الْحَرَامِ إِلَى المَسجِدِ الأقصى (سورة 17 آیت 1) "Its literal and real application is the Mosque built by Mirza Ghulam Ahmad Qadian`s father." یہ بات لکھتے ہوئے راشد علی نے لفظ Literal اور real لکھ کر پھر بدیانتی کا ارتکاب کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ کی ایک ایسی توجیہہ کی ہے جس کی سچائی سے کوئی صاحب بصیرت مسلمان انکار نہیں کرسکتا کیونکہ یہ توجیہہ، حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کے معراج کی ایک الگ شان پیش کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین تو ویسے ہی سچائی کے دشمن بن کر آپ کی تحریرات پر حملے کرتے ہیں اس لئے ان کے سامنے یہ سچائی بھی قابل اعتراض ہے.ان کا جب عرفان و معارف کے کوچے سے گذر ہی نہیں تو انہیں آنحضرت ﷺ کے معراج کی راہوں کی سمجھ کس طرح آ سکتی ہے.مزید برآں یہ بات بھی غلط ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف اپنی ہی تشریح کو قائم فرمایا ہے اور باقی تشریحات کا لعدم کر دی ہیں.ایسا بالکل نہیں بلکہ آپ نے دیگر تو جیہات کے ساتھ ایک اور حقیقت افروز توجیہہ پیش فرمائی ہے وبس.پس یہ معترضین کی بدیانتی ہے جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہ فرماتے ہیں کہ: وو ” سُبحَنَ الَّذِى أسرى بِعَبدِه لَيلاً مِّنَ المَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى المَسْجِدِ الأقصى الَّذِي بَارَکنَا حَولَهُ.اس آیت کے ایک تو وہی معنے ہیں جو علماء میں مشہور ہیں یعنی یہ کہ آنحضرت کے مکانی معراج کا یہ بیان ہے مگر کچھ شک نہیں کہ اس کے سوا آنحضرت ﷺ کا ایک زمانی معراج بھی تھا جس سے یہ غرض تھی کہ تا آپ کی نظر کشفی کا کمال ظاہر ہواور نیز ثابت ہو کہ مسیحی زمانہ کے برکات بھی درحقیقت آپ ہی کے برکات ہیں جو آپ کی توجہ اور ہمت سے پیدا ہوئی ہیں.اسی وجہ سے مسیح ایک طور سے آپ ہی کا روپ ہے.اور وہ معراج یعنی بلوغ نظر کشفی دنیا کی انتہا تک تھا جو سیح کے زمانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس معراج میں جو آ نحضرت ﷺ مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر فرما ہوئے وہ مسجد اقصیٰ یہی ہے جو قادیان میں بجانب مشرق واقع ہے جس کا نام خدا کے کلام نے مبارک
48 رکھا ہے یہ مسجد جسمانی طور پر مسیح موعود کے حکم سے بنائی گئی ہے اور روحانی طور پر مسیح موعود کے برکات اور کمالات کی تصویر ہے جو آنحضرت ﷺ کی طرف سے بطور موہبت ہے.“ (خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 21، 22 حاشیہ) اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے علماء کے معنوں کی بھی تصدیق کی ہے اور خود جو پُر از معارف معانی بیان فرمائے ہیں، وہ آنحضرت ﷺ کی نظر کشفی کے کمال اور آپ کے زمانی معراج کو ظاہر کرنے والے بیان فرمائے ہیں.پس کسی غیرتمند مسلمان کو ایسے معانی جو آنحضرت ﷺ کے کمال اور مرتبہ نیز زمانی وسعتوں پر محیط آپ کے فیوض و برکات کو ظاہر کرنے والے ہوں، اعتراض نہیں کرنا چاہئے.کجا یہ کہ وہ ان کو ر ڈ کرے.جب مسیح موعود کے زمانہ کی برکات بھی آنحضرت ﷺ کی ہی برکات ہیں تو پھر مسیح موعود کی مسجد اقصیٰ بھی دراصل آنحضرت ﷺ کی ہی برکتوں سے معمور ہے.حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت مسیح موعود تک تمام کی تمام برکتیں آنحضرت ﷺ کی ہی ہیں جو ہمیشہ اور ہر زمانہ میں کسی نہ کسی وجود کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوتی ہیں.كلّ بركة من محمد ﷺ فتبارك من علم و تعلم (7) ایک غیور قوم کا حسب ونسب ایک غیور قوم کی توہین : کے عنوان کے تحت راشد علی اور اس کے پیر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں یہ جھوٹ بھی بولا ہے کہ آپ نے بعض قوموں کی توہین کی ہے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں.افغان/ پٹھان / کشمیری / قندهاری وغیرہ یہودی نسل سے ہیں کیونکہ:.ا.وہ اپنے باپ دادا سے سنتے آئے ہیں کہ وہ اسرائیلی ہیں.“ ان کی شکلیں یہودیوں سے اتنی ملتی ہیں کہ اگر ساتھ ساتھ کھڑا کیا جائے تو ایک ہی خاندان کے لگیں گے.“ ان کا لباس بھی یہودیوں سے ملتا جلتا ہے.“ ۴.ان کی رسومات بھی یہودیوں جیسی ہیں.” مثلاً ان کی عورتیں شادی سے پہلے اپنے منسوبوں کے ساتھ بلا تکلف ملتی جلتی اور باتیں کرتی ہیں حتی کہ بعض اوقات اگر عورت حمل سے ہو جاتی ہے تو اس کو نسی مذاق میں اڑا دیا جاتا ہے.حضرت مریم
49 صدیقہ کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ گھومنا اس رسم پر پختہ شہادت ہے.“ ۵.ان کی اخلاقی حالت بھی یہودیوں سے ملتی ہے.سرحدی پٹھانوں / افغانوں کی زود رنجی ، تلون مزاجی ، خود غرضی ، گردن کشی ، سج مزاجی ، کج روی ، دوسرے جذبات نفسانی ، خونی خیالات، جاہل اور بے شعور ہونا، یہ تمام صفات وہی ہیں جو تو ریت اور دوسرے صحیفوں میں اسرائیلی قوم کی لکھی گئی ہیں اور اگر قرآن شریف کھول کر سورہ بقرہ سے بنی اسرائیل کی صفات اور عادات اور اخلاق اور افعال پڑھنا شروع کرو تو ایسا معلوم ہوگا کہ سرحدی افغانوں (پٹھانوں) کی اخلاقی حالتیں بیان ہو رہی ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 201 تا 299 ) ہیں.“ یہ فہرست بڑی طویل ہے.مگر ان چند حوالہ جات سے قارئین کو مرزا غلام احمد قادیانی کی ذہنی پستی اور خباثت کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا.“ ( بے لگام کتاب ) یہ تو راشد علی اور اس کے پیر کی ذہنی پستی اور خباثت ہے کہ ایک پوری غیور قوم کے حسب ونسب کو بدلنے کی کوشش کی ہے.یہود حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولا دہونے کے باعث بنی اسرائیل کہلاتے ہیں.صحیح النسل ہونا کیونکر توہین کا موجب ہوسکتا ہے.اس قوم کے لئے یہودی النسل ہونا شاید تب تو ہین کا الله موجب ہوتا جب وہ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ایمان نہ لاتے.یہ تو ان کی غیرت کی بلندی اور ایمان کی عظمت کا نشان ہے کہ جب انہوں نے اس عظیم الشان عالمگیر نبی کی آمد کا سنا جس کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خبر دی تھی تو وہ رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ پر ایمان لے آئے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے یہودی النسل ہوتے ہوئے بھی حضرت محمد مصطفی ﷺ کو قبول کیا اور ایسا بلند مقام حاصل کیا کہ ہر مسلمان کے لئے قابل تقلید ہے.یہ تو راشد علی اور اس کے پیر کی اپنی بے غیرتی ہے کہ وہ کسی قوم کے حقیقی حسب و نسب کو تبدیل کر رہے ہیں.لیکن در حقیقت تاریخی حقائق اور قائم شدہ سچائیوں کو پرلے درجہ کے جھوٹے اور کذاب کبھی بھی نہیں بدل سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ اور ” راز حقیقت میں ٹھوس تاریخی ، واقعاتی اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ مذکورہ بالا حقیقت کو تحریر فرمایا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: چونکہ بنی اسرائیل بخت النصر کے حادثہ میں متفرق ہو کر بلا دہند اور کشمیر اور تبت اور چین کی وو طرف چلے آئے تھے اس لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے ان ہی ملکوں کی طرف ہجرت کرنا ضروری سمجھا اور
50 تواریخ سے اس بات کا بھی پتہ ملتا ہے کہ بعض یہودی اس ملک میں آکر اپنی قدیم عادت کے موافق بدھ مذہب میں بھی داخل ہو گئے تھے.چنانچہ حال میں جو ایک مضمون سول ملٹری گزٹ پر چہ تاریخ 23 نومبر 1898ء میں چھپا ہے اس میں ایک محقق انگریز نے اس بات کا اقرار بھی کیا ہے اور اس بات کو بھی مان لیا ہے کہ بعض جماعتیں یہودیوں کی اس ملک میں آئی تھیں اور اس ملک میں سکونت پذیر ہوگئی تھیں اور اسی پر چہ سول میں لکھا ہے کہ ” دراصل افغان بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں.“ نیز آپ نے تحریر فرمایا کہ: وو را از حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 162 حاشیہ ) ڈاکٹر بر نیر صاحب فرانسیسی اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں کہ کئی انگریز محققوں نے اس رائے کو بڑے زور کے ساتھ ظاہر کیا ہے کہ کشمیر کے مسلمان باشندے دراصل اسرائیلی ہیں جو تفرقہ کے وقتوں میں اس 66 ملک میں آئے تھے اور ان کے کتابی چہرے اور لمبے گرتے اور بعض رسوم اس بات کے گواہ ہیں.“ راز حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 168 حاشیہ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو مزید تفصیلات اس حقیقت کے ثبوت کے لئے بیان فرما ئیں ان کے لئے کتاب ” مسیح ہندوستان میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو ایک سچی بات تحریر کی ہے جس کو بدلنے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا.مگر راشد علی اور اس کا پیرافغانوں اور کشمیریوں کے حسب و نسب پر حملہ کر رہے ہیں.جس کو کوئی افغانی یا کشمیری ہرگز برداشت نہیں کرے گا.(8) صلى الله آنحضرت ﷺ کے روضہ مبارک کی توہین کا جھوٹا اور ناپاک الزام را شد علی نے بہت ہی کمینی حرکت کی ہے.وہ لکھتا ہے.رسول اللہ ﷺ کی قبر ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے لیکن مرزا نے
51 اپنی دلیل کو ثابت کرنے کے لئے اسے بھی نظر انداز نہیں کیا.چنانچہ وہ اس طرح بے ادبی کرتا ہے اللہ تعالیٰ مجھے ایسی بے حرمتی کا حوالہ دینے سے معاف فرمائے) یہ لکھنے کے بعد وہ لکھتا ہے."And God chose such a despicable place to bury the Holy prophet (P.B.O.H) Which is extremely stiking and dark and cramped and was the (Roohani Khazain vol.17.p.205) placeace of the excreta of insects...." الله جس عبارت کا حوالہ راشد علی نے دیا ہے اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حیات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی جو تو ہین اور آپ کے مقام میں جو تخفیف لازم آتی ہے اس سے مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے اور ان کو جھنجھوڑا ہے کہ اگر وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانتے ہیں تو پھر آپ کئی اعتبار سے سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے بہتر ثابت ہوتے ہیں.اس دلیل کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ مذکورہ بالا حوالہ میں اور نہ ہی کسی اور جگہ کوئی ایسی بات تحریر کی ہے جس میں آنحضرت ﷺ کی تدفین یا آپ کے روضہ اطہر کی تو ہین کا شائبہ تک بھی ہو.یہ راشد علی کی انتہائی ظالمانہ اختراع ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کی ہے.حقیقت یہ ہے کہ حیات مسیح کا عقیدہ ایک ایسا زہرناک عقیدہ ہے کہ جس کی آڑ میں عیسائی متاد ہمارے آنحضرت ﷺ کی شان میں ایسی گستاخیاں کرتے تھے کہ جو ایک سچے مسلمان کو خون کے آنسو رلاتی تھیں مگر وہ اپنے اس عقیدہ کی وجہ سے بے بس تھا.عیسائی پادری اپنے دلائل میں یہ بھی بیان کرتے تھے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام آنحضرت سے افضل تر اور خدا تعالیٰ کے زیادہ محبوب ہیں اس کی دلیل وہ یہ دیتے تھے کہ جب آپ پر مصیبت کا صلى الله وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے آپ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور اپنے قرب میں جگہ دی مر محمد ﷺ پر جب مشکل کا وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے کوئی پرواہ نہ کی چنانچہ آپ کو حشرات الارض کی آماجگاہ غار ثور میں پناہ لینی پڑی.وغیرہ وغیرہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کی ایسی گستاخیوں پر اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے لئے اپنی طبعی غیرت سے معمور ہو کر ان منہ پھٹ پادریوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے مگر مسلمانوں کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے ان کی غیرت کو جھنجھوڑا اور کہا مسلمان ہوتے ہوئے بھی تمہارا یہ
حال ہے کہ.52 559 و مسیح ناصری را تا قیامت زنده فهمند مگر مدفون یثرب را نه دادند این فضیلت را کہ تم مسیح ناصری علیہ السلام کو قیامت تک زندہ سمجھتے ہو مگر مدفون میشرب محبوب کبریا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو یہ فضیلت نہیں دیتے.تم رسول خدا ﷺ سے کس محبت کا دعوی کرتے ہو؟ چنانچہ اسی تسلسل میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کو اتنی بڑی خصوصیت ، آسمان پر زندہ چڑھنے اور اتنی مدت تک زندہ رہنے اور پھر دوبارہ اترنے کی جو دی گئی ہے اس کے ہر ایک پہلو سے ہمارے نبی ﷺ کی توہین ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک بڑا تعلق جس کا کچھ عدد حساب نہیں حضرت مسیح سے ہی ثابت ہوتا ہے مثلاً آنحضرت ﷺ کی سو برس تک بھی عمر نہ پہنچی مگر حضرت مسیح اب قریباً دو ہزار برس سے زندہ موجود ہیں.اور صلى الله خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے چھپانے کے لئے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ اور تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی مگر حضرت مسیح کو آسمان پر جو بہشت کی جگہ اور فرشتوں کی ہمسائیگی کا مکان ہے بلا لیا.اب بتلاؤ محبت کس سے زیادہ کی ؟ عزت کس کی زیادہ کی ؟ قرب کا مکان کس کو دیا اور پھر دوبارہ آنے کا شرف کس کو بخشا ؟“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحه 205 حاشیه در حاشیه ) یہ عبارت خود بول رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ کے لئے جس غیرت کا اظہار فرمایا ہے اور اس مضمون کو راشد علی نے نہ صرف از راه دجل چھپایا ہے بلکہ بڑی بے غیرتی سے عبارت کا ترجمہ بدل کر پیش کیا ہے اور اس بہانے ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی اللہ کی واضح تو ہین اور صریح گستاخی کی جسارت کی ہے.اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ تو قبر کا ذکر فرمایا ہے اور نہ ہی وہاں تدفین کا کوئی ذکر کیا ہے.لیکن یہاں ”چھپانے کا ترجمہ راشد علی نے از راہ فسق ودجل ” Bury“ کیا ہے.ہم تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بغض میں اس قدر بھی گندا اور گستاخ ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے روضہ مبارک پر گندا چھالنے لگے.نعوذ بالله من هذا المفترى الكذاب."
53 53 صلى الله حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذکورہ بالا عبارت میں ہجرت کے وقت آنحضرت ﷺ کے غارِ ثور میں چھپنے کا ذکر فرمایا ہے.غار ثور کی حالت کو روضہ اطہر سے ملانا ایک ایسا فسق اور دجل ہے اور آنحضرت ﷺ کی شان میں ایسی گستاخی ہے کہ جو ایک متعفن اور مسخ شدہ لعنتی دماغ شخص راشد علی ہی کر سکتا ہے.رسول اکرم ﷺ سے ذرہ بھر محبت کرنے والا شخص روضہ مبارک کے بارہ میں ایسا تصور بھی ذہن میں نہیں آنے دیتا.پس لعنت ہے ایسے شخص پر جس نے ایسی بات کی.اسے کچھ تو حیا کرنی چاہئے تھی.اسے بغض اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہے تو اس کا بدلہ رسول اللہ ﷺ کے روضہ مبارک پر گندا چھال کر کیوں لے رہا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں روضہ مبارک کا تقدس اور اس کی فضیلت ایسی عظیم تھی کہ اس کی مثال ممکن نہیں.آپ فرماتے ہیں : ان قبر نبينا صلى الله عليه واله وسلّم روضة عظيمة من روضات الجنة وتبوء كلّ ذروة الفضل والعظمة واحاط كل مراتب السعادة والعزة (ستر الخلافہ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 344) ترجمہ.ہمارے نبی ﷺ کی قبر یقیناً جنت کے باغات میں سے ایک عظیم باغ ہے وہ ہر فضل اور عظمت کی چوٹی کا مقام ہے اور اس نے سعادت اور عزت کے ہر مرتبہ کا احاطہ کیا ہوا ہے.آنحضرت ﷺ کے وطن کی یاد اور آپ کے روضہ مبارک کا ذکر ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل کو غم بھری یاد سے اور آنکھوں کو ہجر کے آنسوؤں سے بھر دیتی تھی.چنانچہ آپ کی نظم ونثر ایسی مثالوں سے لبریز ہے.صرف ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں.آپ کی بیٹی حضرت نواب مبار کہ بیگم رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں.بالکل گھریلو ماحول کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت کچھ ناساز تھی اور آپ گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت اماں جان نور الله مرقدها اور ہمارے نانا جان یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہو گیا.حضرت نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لئے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہورہی ہے حج کو چلنا چاہئے اس وقت زیارت حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعود کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور
54 آپ اپنے ہاتھ کی انگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے.حضرت نانا جان کی بات سن کر فر مایا:.یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں وو 66 آنحضرت علیہ کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا.“ (سیرت طیبہ.از حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ.مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ 1960ء) یہ ایک خالصہ گھریلو ماحول کی بظاہر چھوٹی سی بات ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں اُس اتھاہ سمندر کی طغیانی ہر یں کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں جو عشق رسول سے حضرت مسیح موعود کے قلب صافی میں موجزن تھا.حج کی کس بچے مسلمان کو خواہش نہیں مگر ذرا اس شخص کی بے پایاں محبت کا اندازہ لگاؤ جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسول پاک ﷺ ( فدا نفسی) کے مزار پر پہنچ جاتی ہے اور وہاں اس کی آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بند ہونی شروع ہو جاتی ہیں.اور ان سے تڑپتے ہوئے آنسو چھل اچھل پڑتے ہیں.ایسے عاشق صادق کی طرف ایسی گستاخی کی بات منسوب کرنا راشد علی کا فسق اور افتراء ہے اور رسول اللہ ﷺ کی شان میں حد درجہ کی گستاخی ہے.خدا تعالیٰ خود ہی ایسے لعنتی شیطان سے نیٹے.(9) اسلام پر تنقید اور اسے لعنتی ،شیطانی اور قابل نفرت قرار دینا را شد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک گھناؤنا الزام یہ بھی لگایا ہے کہ نعوذ باللہ آپ نے اسلام کو صرف گہری تنقید کا نشانہ ہی نہیں بنایا بلکہ اسلام کو منتی ، شیطانی اور قابل نفرت بھی قرار دیا ہے.اپنے الزام کو ثابت کرنے کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریریں پیش کی ہیں.چونکہ ان میں کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں اس لئے بعض جگہ خود قو میں ڈال کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مضمون کو اپنے خود ساختہ معنے پہنانے کی کوشش کی ہے اور بعض جگہ ادھوری عبارت تحریر کر کے غلط مطلب نکالنے کی
55 تلیس کی ہے.وہ اصل عبار تیں ہم آگے جا کر پیش کریں گے.بہر حال یہ ایک لعنتی ، شیطانی اور قابل نفرت جھوٹا الزام ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگایا ہے.اس کا جامع اور دو ٹوک جواب تو ہماری طرف سے یہی ہے کہ لعنة الله علی الکاذبین لیکن ایسا نہ ہو کہ دھو کہ شیطاں کسی کو دے دے.ہم اس کے اس اعتراض کا منہ توڑ جواب تفصیل کے ساتھ پیش کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں ایسی تنقید کی ہے وہ اسلام اور دین محمدی پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے ان غلط تصورات اور بگڑے ہوئے عقائد پر کی ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں.آپ نے یہ تنقید اسلام کی عظمت اور اس کی شان کو ظاہر کرنے کے لئے کی ہے.جہاں تک امت محمدیہ کی اکثریت کے بگڑ جانے اور اس کے باہم اختلافات کا شکار ہو جانے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق پیشگوئیاں خود احادیث نبویہ میں موجود ہیں.اسلامی شریعت تو بہر حال قیامت تک محفوظ رہے گی.وہ نہ زائل ہو سکتی ہے نہ اس پر زوال آ سکتا ہے.لیکن اس شریعت کے ماننے والوں کے گمراہی سے محفوظ ہونے اور فرقہ بندی سے بچے رہنے کی خبر کہیں موجود نہیں.افسوس تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر مسلمانوں کو ان کے گمراہ کن اور بگڑے ہوئے عقائد سے آگاہ کریں تو راشد علی اور اس کے پیر کے نزدیک یہ چیز اسلام کو لعنتی ، شیطانی اور قابل نفرت بنا دیتی ہے.حالانکہ ان باتوں کی طرف تو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی نے بڑے واضح اور غیر مبہم الفاظ میں آگاہ فرما چکے ہیں.چنانچہ سورہ جمعہ کی آیت وَآخَرِينَ مِنهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم کی تشریح میں آپ نے فرمایا.ا."لو كان الايمان معلقاً بالثّريا لناله رجل او رجال من هولاء “ ( بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة الجمعه ) ترجمہ:.اگر ایمان زمین سے پرواز کر کے ثریا ستارے تک بھی جا پہنچا تو اس قوم میں سے ایک شخص یا بعض اشخاص اسے وہاں سے بھی حاصل کر لیں گے.دو ۲.یـاتـی عــلـى الناس زمان لا يبقى من الاسلام الا اسمه ، ولا يبقى من القرآن الَّا
56 56 رسمه، مساجد هم عامرةٌ وهى خراب من الهدى علماء هم شرّ من تحت اديم السماء ، من عندهم تخرج الفتنة وفيهم تعود “ (مشکوۃ کتاب العلم - صفحہ 316 مکتبہ امدادیہ.ملتان طبع اول ) ترجمہ :.لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے.ان کی مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہوں گی لیکن ہدایت کے لحاظ سے بالکل ویران ہوں گی.اس زمانہ کے لوگوں کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.انہی سے فتنے نکلیں گے اور انہی میں واپس جائیں گے.٣- لتتبعن سنن من قبلكم شبراً شبراً و ذراعاً ذراعاً حتى لو دخلوا جحر ضب تبعتموهم قلنا يا رسول الله اليهود والنصارى قال فمن ؟ ( بخاری کتاب الاعتصام.باب قول النبی اتبعن سنن من كان قبلكم ) ترجمہ: اے مسلمانو! تم پہلی قوموں کے حالات کی پیروی کرو گے جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے مشابہ ہوتی ہے اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے مشابہ ہوتا ہے اس طرح تم پہلی قوموں کے نقش قدم پر چلو گے.صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا ہم یہود و نصاری کے نقش قدم پر چلیں گے؟ آپ نے فرمایا اور کس کے؟.ان بنی اسرائیل تـفـرقـت عـلـى ثنتين وسبعين ملةً وستفترق امتى على ثلاث وسبعين ملةً كلّهم فى النار الا ملةً واحدةً “ (ترندی.ابواب الایمان.باب افتراق هذه الامة ) ترجمہ:.بنی اسرائیل کے بہتر فرقے ہو گئے تھے اور میری امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے ان تہتر میں سے سوائے ایک فرقہ کے باقی سب فرقے آگ میں ہوں گے.۵."خير الناس قرنى ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يفشو الكذب ( ترندی.ابواب الشہادات.باب ماجاء فی شہادۃ النرور ) ترجمہ :.بہترین لوگ میری صدی کے ہیں پھر دوسری اور پھر تیسری صدی کے اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا.
57 ان احادیث میں جھوٹ کا پھیل جانا، مسلمانوں کا یہود کے مشابہ ہو جانا، قرآن کے صرف حروف کا باقی رہ جانا اور اسلام کا صرف نام باقی رہ جانا.یہی وہ باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں کہ اسلام سے اگر خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق نکل جائے تو اس کا صرف نام باقی رہ جاتا ہے.قرآن کریم سے مسلمانوں کا عمل اٹھ جائے تو اس کے صرف حروف باقی رہ جاتے ہیں.وغیرہ وغیرہ.یہ وہ باتیں ہیں جن میں حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے خود آخری زمانہ میں امت میں ظاہر ہونے والے فسادات کا بڑی تفصیل سے نقشہ کھینچا ہے.ان باتوں کو ہدف ملامت بنانے والا کم بخت خود کیا کہلائے گا؟ جہالت اور حماقت جب مرکب ہوتی ہے تو ایسے ایسے شیطانوں کو جنم دیتی ہے جو حملہ کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس کا رخ کس طرف ہے.دوسری بات یہ ہے کہ بگڑے ہوئے مسلمانوں کے گمراہ کن عقائد کی وجہ سے اسلام کی جس حالت کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہے اور پھر اس کا علاج بھی بتایا ہے.اسی حالت کا بلکہ اس سے بہت بڑھ کر بُری حالت کا رونا مسلمان اکابرین نے خوب رویا ہے.لیکن اس کا علاج نہیں بتایا.چنانچہ آئیں، جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کون کون سے مسلمان، راشد علی کے اس لا یعنی اعتراض کے نیچے آتے ہیں جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر باندھا ہے.ا.مولانا الطاف حسین حالی مرحوم نے 1879ء میں اپنی مشہور مسدس میں لکھا.وو ربادین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی“ پھر اسلام کو ایک باغ سے تشبیہہ دے کر فرماتے ہیں.(مسدس حالی بند نمبر 108 ) پھر اک باغ دیکھے گا اجڑا سراسر جہاں خاک اڑتی ہے ہر برابر نہیں زندگی کا کہیں جس پر ہری ٹہنیاں جھڑ گئیں جس کی جل کر
58 نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل ہوئے صدا روکھ جس کے جلانے کے قابل (مسدس حالی بند نمبر 111) اور ہے بلبل نغمہ خواں کی کوئی دم میں رحلت ہے اب گلستان کی (مسدس حالی.صفحہ 53.مطبوعہ کشمیر کتاب گھر اردو بازار لاہور ) ۲.ڈاکٹر علامہ اقبال ، جن کا نام جیتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی وہ مسلمانوں کی اس طرح ” تذلیل“ کرتے ہیں کہ ہاتھ بے زور ہیں الحاد دل خوگر ہیں امتی باعث رسوائی شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت ہیں گر ہیں تھا براهیم پدر اور پسر آذر ہیں بانگ درا زیر عنوان جواب شکوہ) اسی طرح وہ لکھتے ہیں.ره فلسفه گئی ره اذال روح بلالی رہی تلقین غزالی رہی رہے وہ صاحب اوصاف حجازی نه رہے شور ہے ہو گئے دنیا مسلماں نابود مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نه یعنی کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
59 59 وو بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو یوں تو سید بھی تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو بانگ درا - زیر عنوان جواب شکوہ) مشہور اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان صاحب کے فرزند مولوی نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں.یہ بڑے بڑے فقیہ ، یہ بڑے بڑے مدارس، یہ بڑے بڑے درویش، جوڈ نکا دینداری، خدا پرستی کا بجارہے ہیں رو حق تائید باطل تقلید مذہب و تقید مشرب میں مخدوم عوام کا الانعام ہیں.سچ پوچھو تو دراصل پیٹ کے بندے نفس کے مرید، ابلیس کے شاگرد ہیں.چندیں شکل از برائے اکل ان کی دوستی دشمنی ان کے با ہم کار ڈوکر فقط اسی حسد و کینہ کے لئے ہے نہ خدا کے لئے نہ امام کے لئے نہ رسول کے لئے علم میں مجتہد مجد د ہیں.لاکن حق ، باطل ، حلال ، حرام میں کچھ فرق نہیں کرتے.غیبت ، سب وشتم ، خدیعت و زور ، کذب و فجور، افتراء کو گویا صالحات باقیات سمجھ کر رات دن بذریعہ بیان و زبان خلق میں اشاعت فرماتے ہیں.“ ( اقتراب الساعة - صفحہ 8 - مطبع سعید المطابع الكائنة.بنارس ) ۴.جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:.یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے 999 فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں.نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے.باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آ رہا ہے اسلئے یہ مسلمان ( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش.حصہ سوم.صفحہ 130 مطبوعہ آرمی پریس دہلی ) ہیں.“ دیو بندیوں کے بزرگ سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب مسلمانوں کی اکثریت کو باطل پر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں.ہے.66 ” ہم نام نہاد اکثریت کی تابع داری نہیں کریں گے.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثریت باطل پر (روز نامہ رزم لاہور 3 اپریل 1929ء وسوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ 116 ز خان حبیب الرحمن خان کا بلی) دیو بندیوں کے ایک اور بزرگ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی اپنے ایک دوست کی بات کو لطیف بات قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں.
60 اگر سواد اعظم کے معنی یہ بھی مان لئے جائیں کہ جس طرف زیادہ ہوں تو ہر زمانہ کے سواد اعظم مراد نہیں بلکہ خیر القرون کا زمانہ مراد ہے جو غلبہ خیر کا وقت تھا ان لوگوں میں سے جس طرف مجمع کثیر ہو وہ مراد ہے نه كه ثم يفشو الكذب “ کا زمانہ.یہ جملہ ہی بتا رہا ہے کہ خیر القرون کے بعد شر میں کثرت ہوگی (ماہنامہ البلاغ.کراچی جولائی 1976ء صفحہ 59) راشد علی اور اس کا پیر چونکہ اپنے اعتراض میں جھوٹے ہیں اس لئے ان کو نہ ان لوگوں پر کبھی طیش آیا نہ ان پر کبھی انہوں نے کوئی اعتراض اٹھایا.کیونکہ یہ سب خود اسی بات پر یقین رکھتے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح کر کے بیان فرمائی.اسی بات پر عبدالحفیظ اینڈ کو، کا اپنا عمل شاہد ناطق ہے کہ جب یہ اسلام کی تعلیم کو چھوڑ کر اپنے خودساختہ اذکار کی مجالس میں ساری ساری رات سردھن دھن کر تھک جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ سے دور کے دور ہی رہتے ہیں اور پھر راشد علی تو خود کہتا ہے کہ اس پر شیطان نازل ہوتا ہے.الغرض اسی حالت کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھینچا اور بتایا کہ اگر خدا تعالیٰ سے انسان زندہ تعلق قائم نہ کر سکے تو مذہب کا کوئی فائدہ ہی نہیں لیکن اسلام ایک ایسا مذ ہب ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ سے ملاتا ہے اور اس سے زندہ تعلق قائم کراتا ہے.اس کے بالمقابل پیر عبدالحفیظ کا اسلام یہ ہے کہ اس کا لٹریچر قرآن کریم کی اتباع کے ذکر سے خالی اور نماز کے قیام کی تلقین سے عاری ہے.اس کے برعکس اس کا سارا زور راتوں کو جاگ جاگ کر اس کے اپنے بنائے ہوئے اذکار میں سر دھننے پر ہے.اس کا رسالہ الحفیظ عورتوں اور نو جوان دوشیزاؤں کے عریاں چہروں کی تصاویر سے مزین ہیں اور جیسا کہ ہم بار بار ثابت کر چکے ہیں، جھوٹ درجھوٹ سے پر ہیں.آنحضرت ہو تو یہ دین لے کر نہیں آئے تھے جو آج عبدالحفیظ اور راشد علی پیش کر رہے ہیں.اسی لئے آپ نے وہ پیشگوئیاں کیں جن کا اوپر ذکر آچکا ہے.آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے پہلے سے بتا دیا تھا کہ ضلوا وأضلوا“ کے مصداق ایسے لوگ دین کو برباد کر دیں گے اور ایمان کو اس طرح دلوں سے نکال دیں گے کہ وہ ثریا ستارے پر پہنچ جائے گا اس کو دوبارہ لانے کے لئے ، دین کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اور اسلام کو غلبہ سے ہمکنار کرنے کے لئے مہدی معہود اور مسیح موعود آئے گا.یعنی آخری زمانہ میں دینِ
61 محمدی کا احیاء اس کی عظمت اور اس کا امتیازی غلبہ بہر حال اور لاز ما مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہی وابستہ ہے.سید عبدالحفیظ اور راشد علی کی طرح اپنے خود ساختہ، بدعتی از کار جپ جپ کر اور بالآخر جھوٹ سے آٹے ہوئے چیتھڑے شائع کر کے اسلام کو غلبہ نصیب نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسلام اس طرح زندہ ہوسکتا ہے.الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایا وہ سچ ہے اور وہ اسلام کی عظمت کا ایک نشان ہے جس کی آپ نے صرف نشاندہی کی ہے.چنانچہ جن عبارتوں پر راشد علی نے اعتراض کا تبر چلایا ہے، اب وہ ہم مکمل صورت میں پیش کرتے ہیں تا کہ یہ بات کھل کر قارئین پر واضح ہو جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فر مایا وہ اسلام کو دوسرے ادیان پر ممتاز اور بلند و بالا ثابت کرتا ہے.آپ فرماتے ہیں.بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں یہ لکھا ہے کہ آنے والا عیسی اسی امت میں سے ہوگا.لیکن صحیح مسلم میں صریح لفظوں میں اس کا نام نبی اللہ رکھا ہے.پھر کیونکر ہم مان لیں کہ وہ اسی امت میں سے ہوگا.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام بدقسمتی دھوکہ سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.پس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے سے کوئی محذور لازم نہیں آتا بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امتی اپنے اسی نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو بلکہ فساد اس حالت میں لازم آتا ہے کہ اس امت کو آنحضرت ﷺ کے بعد قیامت تک مکالمات الہیہ سے بے نصیب قرار دیا جائے.وہ دین، دین نہیں ہے اور نہ وہ نبی نبی ہے جس کی متابعت سے انسان خدا تعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہوسکتا کہ مکالمات الہیہ سے مشرف ہو سکے.وہ دین لعنتی اور قابل نفرت ہے جو یہ سکھلاتا ہے کہ صرف چند منقولی باتوں پر انسانی ترقیات کا انحصار ہے اور وحی الٹی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے اور خدائے حتی وقیوم کی آواز سننے اور اس کے مکالمات سے قطعی نومیدی ہے اور اگر کوئی آواز بھی غیب سے کسی کے کان تک پہنچتی ہے تو وہ ایسی مشتبہ آواز ہے کہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا کی آواز ہے یا شیطان کی.سوالسا دین بہ نسبت اس کے کہ اس کو رحمانی کہیں ، شیطانی کہلانے کا زیادہ مستحق ہوتا ہے.دین وہ ہے جو تاریکی سے نکالتا اور نور میں داخل کرتا ہے اور انسان کی خدا شناسی کو صرف
62 قصوں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ ایک معرفت کی روشنی اس کو عطا کرتا ہے.سو بچے دین کا منبع اگر خود نفس امارہ کے حجاب میں نہ ہو، خدا تعالیٰ کے کلام کو سن سکتا ہے.سو ایک امتی کو اس طرح کا نبی بنانا سچے دین کی ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 306،305) ایک لازمی نشانی ہے.جہاں اس مضمون میں کوئی اعتراض کا پہلو نہیں ہے.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس جواب سے اسلام سے یہ اعتراض دور ہوتا ہے کہ اسلام زندہ مذہب نہیں ہے.آپ نے ایک ٹھوس محکم اور نا قابلِ تردید دلیل کے ساتھ اسلام کی زندگی اس میں قوتِ احیاء اور اس کے امتیاز کو ثابت کیا ہے.لیکن افسوس ہے کہ عبد الحفیظ اور راشد علی جیسے ” يميل الهالكون الى الدخان “ ہلاک ہونے والے ہمیشہ دھوئیں کی طرف ہی رخ کرتے ہیں) دوسری عبارت جس کو راشد علی نے ہدف اعتراض بنایا ہے.وہ مکمل عبارت یہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ایسا نبی کیا عزت اور کیا مرتبت اور کیا تاثیر اور کیا قوت قدسیہ اپنی ذات میں رکھتا ہے جس کی پیروی کے دعویٰ کرنے والے صرف اندھے اور نا بینا ہوں.اور خدا تعالیٰ اپنے مکالمات و مخاطبات سے ان کی آنکھیں نہ کھولے.یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت ﷺ کے وحی الہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے اور آئندہ کو قیامت تک اس کی کوئی بھی امید نہیں.صرف قصوں کی پوجا کرو.پس کیا ایسامذہب کچھ مذہب ہو سکتا ہے جس میں براہ راست خدا تعالیٰ کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا.جو کچھ ہیں قصے ہیں.اور کوئی اگر چہ اس کی راہ میں اپنی جان بھی فدا کرے اس کی رضا جوئی میں فنا ہو جائے اور ہر ایک چیز پر اس کو اختیار کر لے تب بھی وہ اس پر اپنی شناخت کا دروازہ نہیں کھولتا اور مکالمات اور مخاطبات سے اس کو مشرف نہیں کرتا.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں مجھ سے زیادہ بیزار ایسے مذہب سے اور کوئی نہ ہوگا.میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں نہ کہ رحمانی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسا مذہب جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور اندھا رکھتا ہے اور اندھا ہی مارتا اور اندھا ہی قبر میں لے جاتا ہے.مگر میں ساتھ ہی خدائے کریم ورحیم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اسلام ایسا مذ ہب نہیں ہے بلکہ دنیا میں صرف اسلام
63 ہی یہ خوبی اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ بشرط نیچی اور کامل اتباع ہمارے سید مولی آنحضرت ہ کے مکالمات الہیہ سے مشرف کرتا ہے.اسی وجہ سے تو حدیث میں آیا ہے کہ علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل یعنی میری امت کے علماء ربانی بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں.اس حدیث میں بھی علماء ربانی کو ایک طرف امتی کہا اور دوسری طرف نبیوں سے مشابہت دی ہے.“ الله (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 354) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر کسی طرح بھی اعتراض کا نشانہ نہیں بن سکتی.آپ نے بڑے زور کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ اسلام میں یہ خوبی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ہمکلام کراتا ہے اور اب ہمارے سید و مولی رسول کریم ﷺ کی کامل اور تیچی اتباع سے خدا تعالیٰ انسان سے کلام کرتا ہے.مگر راشد علی کا تو کام ہی ہر حال میں سچ کو دبانے کی کوشش کرنا ہے ، خواہ وہ اصل عبارتیں چھپا کر یہودیانہ خصلت کا ہی مرتکب کیوں نہ ہو.اسی لئے اس نے آدھی عبارت پیش کی اور انگلی عبارت جو اسلام کی زندگی کا ثبوت مہیا کرتی تھی اس پر ہاتھ رکھ لیا.پس راشد علی کا جھوٹ اور دجل واضح ہے.قارئین سے اس کا فریب ، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے اس کی بدیانتی اظہر من الشمس ہے.جہاں تک اسلام کی سچائی ، اس کی حقانیت ، اس کی زندگی ، اس کی قوت احیاء اور عظمت کا تعلق ہے، اس کا اظہار اور اس کا ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے.آپ اس کا ثبوت دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: قرآن شریف نے باوجود اس کے کہ اس کے عقائد کو دل مانتے ہیں اور ہر ایک پاک کانشنس قبول کرتا ہے پھر بھی ایسے معجزات پیش نہیں کئے کہ کسی آئندہ صدی کے لئے قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ہو جائیں بلکہ ان عقائد پر بہت سے عقلی دلائل بھی قائم کئے اور قرآن میں وہ انواع واقسام کی خوبیاں جمع کیں کہ وہ انسانی طاقتوں سے بڑھ کر مجزہ کی حد تک پہنچ گیا اور ہمیشہ کے لئے بشارت دی کہ اس دین کی کامل طور پر پیروی کرنے والے ہمیشہ آسمانی نشان پاتے رہیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہم یقینی اور قطعی طور پر ہر ایک طالب حق کو ثبوت دے سکتے ہیں کہ ہمارے سید و مولا آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے با خدا لوگ ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھلا
64 کر ان کو ہدایت دیتا رہا ہے.جیسا کہ سید عبدالقادر جیلانی اور ابو الحسن خرقانی اور ابو یزید بسطامی اور جنید بغدادی اور محی الدین ابن العربی اور ذوالنون مصری اور معین الدین چشتی اجمیری اور قطب الدین بختیار کا کی اور فرید الدین پاک پٹنی اور نظام الدین دہلوی اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ اسلام میں گذرے ہیں اور ان لوگوں کا ہزار ہا تک عدد پہنچا ہے اور اس قدران لوگوں کے خوارق علما ء اور فضلاء کی کتابوں میں منقول ہیں کہ ایک متعصب کو باوجود سخت تعصب کے آخر ماننا پڑتا ہے کہ یہ لوگ صاحب خوارق و کرامات تھے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے نہایت صحیح تحقیقات سے دریافت کیا ہے کہ جہاں تک بنی آدم کے سلسلہ کا پتہ لگتا ہے سب پر غور کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جس قدر اسلام میں ، اسلام کی تائید میں اور آنحضرت ﷺ کی سچائی کی گواہی میں آسمانی نشان بذریعہ اس امت کے اولیاء کے ظاہر ہوئے اور ہور ہے ہیں ان کی نظیر دوسرے مذاہب میں ہرگز نہیں.اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی ترقی آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ہوتی رہی ہے اور اس کے بیشمار انوار اور برکات نے خدا تعالیٰ کو قریب کر کے دکھلا دیا ہے.یقیناً سمجھو کہ اسلام اپنے آسمانی نشانوں کی وجہ سے.کسی زمانہ کے آگے شرمندہ نہیں.زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس پر ہمیشہ کے لئے زندہ خدا کا ہاتھ ہو سو وہ اسلام ہے.“ پھر آپ فرماتے ہیں: ( کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 92،91) ” میں صرف اسلام کو سچا مذہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پتلا خیال کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبت رسول اللہ علیہ کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے جو کہ بجز سچے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا اور اگر ہندو اور عیسائی وغیرہ اپنے باطل معبودوں سے دعا کرتے مر بھی جائیں تب بھی ان کو وہ مرتبدیل نہیں سکتا اور وہ کلام الہی جو دوسرے طنی طور پر اس کو مانتے ہیں میں اس کو سن رہا ہوں اور مجھے دکھلایا اور بتلایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے
59 65 اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ بہ برکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء یہ تجھ کو ملا ہے اور جو کچھ ملا ہے اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں کیونکہ وہ باطل پر ہیں.“ نیز فرمایا: آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 275 276) اسلام سے نہ بھا گو راہ ہدی یہی ہے اے سونے والو جا گوشمس الضحی یہی ہے مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا اب آسماں کے نیچے دین خدا یہی ہے دنیا کی سب دکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں آخر ہوا یہ ثابت دارالشفا یہی ہے سب خشک ہو گئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے ہر طرف میں نے دیکھا بستاں ہرا یہی ہے اسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن بلا یہی ہے ملتی ہے بادشاہی اس دیں سے آسمانی اے طالبانِ دولت ! ظل ہما یہی ہے سب دیں ہیں اک فسانہ شرکوں کا آشیانہ اس کا ہے جو یگانہ چہرہ نما یہی ہے کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں کو تازہ اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب تلک ہے زندہ اے گرنے والو دوڑ و دیں کا عصا یہی ہے کس کام کا وہ دیں ہے جس میں نشاں نہیں ہے دیں کی مرے پیارو! زریں قبائیہی ہے در شین - صفحہ 71 - مطبوعہ لندن 1996ء) اب ہم اس بحث کو ختم کرتے ہیں اور آخر میں ایک دفعہ پھر خدا تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ راشد علی اور سید عبدالحفیظ نے جو بھی اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یا آپ کی جماعت پر کیا ہے وہ سراسر باطل جھوٹا اور حقیقت کے خلاف ہے ہم ان کا معاملہ حوالہ بخدا کرتے ہیں.(10) کتب نہ پڑھنے والے کے ایمان میں شبہ مشبہ
99 66 راشد علی لکھتا ہے "Please read the books of your Messiah with a open mind It is all there in black and white.He said: " Anyone who has not read my books at least three times, his faith (upon me) is in doubt." (Seerat-ul-Mahdi, No 407 vol2, p.78, by Mirza Bashir Ahmad) I am sure none of you have read his books even once.After all how many of you know Urdu, Arabic and persian?........" (Ghulam Vs Master) " را شد علی نے کتاب ”سیرت المہدی“ کی ایک روایت کا غلط ترجمہ کیا ہے اور پھر اس کے ذریعہ افراد جماعت کو متہم کرنے کی کوشش کی ہے.اور پھر اس نے پیچھے کٹنی بن کر انہیں نصیحت بھی کی ہے.حضرت مولوی شیر علی رضی اللہ عنہ کی جس روایت کا اس نے ترجمہ پیش کیا ہے اس کے اصل الفاظ یہ ہیں.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.” ہماری جماعت کے آدمیوں کو چاہئے کہ کم از کم تین دفعہ ہماری کتابوں کا مطالعہ کریں.اور فرماتے تھے کہ جو ہماری کتب کا مطالعہ نہیں کرتا اس کے ایمان کے متعلق مجھے محبہ ہے.“ ہے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 78.روایت 407) اس روایت کے سرسری مطالعہ سے ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ اس میں دو الگ الگ باتوں کا ذکر ہورہا اول یہ کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریریں اور کتب گہرے علم، دقیق مسائل اور لطیف معارف سے پُر ہیں.اس لئے آپ نے پسند فرمایا کہ انہیں سمجھنے کے لئے آپ کے متبعین کو کم از کم تین باران کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے.آپ نے ”چاہئے" کے لفظ سے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا ہے.یعنی اس 66 میں ”ایمان میں محبہ “ والے حصہ کا ذکر نہیں ہے.
67 ظاہر ہے کہ آپ کے اس ارشاد اور اس خواہش کے تحت وہ لوگ نہیں آتے جو اختلاف زبان، کتب کے دستیاب نہ ہو سکنے، ان پڑھ ہونے یا ایسی ہی کسی مجبوری کی وجہ سے ان کا مطالعہ نہ کر سکتے ہوں.کیونکہ وہ اس کے مکلف نہیں ہو سکتے.اور جو مکلف نہ ہوا سے شریعت نے معاف رکھا ہے.پس اس روایت کے اس زیر بحث فقرہ سے یہ نتیجہ نکالنا قطعی غلط ہے کہ جو آپ کی کتب کا تین بار مطالعہ نہیں کرتا اس کے ایمان میں آپ کو شبہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ایمان میں مشبہ کا اظہار فرمایا ہے وہ اس شخص کے متعلق ہے جو باوجود مطالعہ کر سکنے کے غفلت یا تکبر وغیرہ کی وجہ سے عمداً آپ کی کتب کا مطالعہ نہیں کرتا.کیونکہ اس روایت کا دوسرا فقرہ یہ ہے کہ جو ہماری کتب کا مطالعہ نہیں کرتا اس کے ایمان کے متعلق مجھے محبہ ہے.“ اس فقرہ میں ایمان کے شبہ کے ساتھ صرف کتب کے مطالعہ کی شرط ہے.تین بار کے مطالعہ کی شرط نہیں ہے.پس ایسا شخص جو کسی مخفی یا ظاہری تکبر کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا عمداً مطالعہ نہیں کرتا، اس کے ایمان میں محبہ لازمی امر ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.وو وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.“ ( نزول مسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 304) لیکن اس کے برعکس وہ جو کسی بھی مجبوری کی وجہ سے آپ کی کتب کا مطالعہ کرنے سے قاصر ہے، اس کے ایمان میں طیبہ کا آپ نے بالکل ارشاد نہیں فرمایا.اس پر دلیل آپ کا حسب ذیل عمومی ارشاد ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ” سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں.کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے.جس کو علم نہیں ہوتا، مخالف کے سوال کے آگے 66 حیران ہو جاتا ہے." ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 8) اس ارشاد میں آپ نے مطالعہ کی وجہ علم کا حصول بتائی ہے جو ہر احمدی کے لئے ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش ہوتی تھی کہ آپ کی جماعت کے افراد ان روحانی خزائن سے مالا مال
68 ہوں جو آپ تقسیم فرمارہے تھے.اس کے لئے آپ تاکید بھی فرماتے تھے.اس سلسلہ میں آپ کے ارشادات کی تعمیل میں آپ کے پیش فرمودہ علوم اور حقائق و معارف ، افرادِ جماعت کو بچپن سے لے کر آخری عمر تک ذہن نشین کرانے کے لئے جماعت میں با قاعدہ نظام موجود ہے.پس راشد علی کو پھیپھے کٹنی بن کر احمدیوں کے ایمان یا علم کے فکر کی ضرورت نہیں.وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار براتین احمدیہ حصہ پنجم )
5 69 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر اعتراضات
70 70 (1) شراب اور افیون وغیرہ کے استعمال کا الزام را شد علی نے جھوٹ کی شراب میں مدہوش ہو کر خدا تعالیٰ کے پاک مسیح پر سراسر بہتان اور افتراء کرتے ہوئے اپنی ” بے لگام کتاب میں لکھا ہے.وو مرزا صاحب دیگر رئیسوں کی طرح شراب اور افیون کا استعمال کرتے تھے.بلکہ افیون کو نصف طب قرار دیتے تھے حتی کہ ” خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت تیار کردہ تریاق الہی نامی دوا کا ایک بڑا جز وافیون تھا.اس دوا کومرزا صاحب مختلف دوروں کے وقت استعمال کیا کرتے تھے.چنانچہ ایک تو ذہنی مریض اور سونے پر سہاگہ، افیون اور شراب !! جو کچھ نہ " ہوجا تا کم تھا ! ! مضمون میاں محموداحمد خلیفہ قادیان مندرجہ افضل جلد 17 نمبر 6 مورخہ 19 جولائی 1949ء) “ را شد علی اور اس کے پیر کی یہ کھلی کلی تلی ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی عبارت میں اپنی طرف سے فقرات داخل کر کے اسے آپ کی عبارت کے طور پر پیش کیا ہے.جہاں تک راشد علی کی پیش کردہ ان دو خبیث چیزوں کا تعلق ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: شراب جو ام الخبائث ہے وہ عیسائیوں میں حلال سمجھی جاتی ہے مگر ہماری شریعت میں اس کو قطعاً منع کیا گیا ہے اور اس کو رجس مِّن عَمَلِ الشَّيطن کہا گیا ہے.“ ( ملفوظات.جلد 5 صفحہ 450) اور افیون کے بارہ میں لکھا ہے: جولوگ افیون کھاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں موافق آ گئی ہے.وہ موافق نہیں آتی.دراصل وہ وو اپنا کام کرتی رہتی ہے اور قومی کو نابود کر دیتی ہے.“ لمفوظات.جلد 3 صفحہ 416) پس راشد علی پر یہ لعنت خداوندی کی مار ہے کہ وہ جھوٹ کو اس طرح مرغوب سمجھتا ہے جس طرح اس کا پیر عبدالحفیظ مور مارکہ سگریٹ کو.حقیقت یہ ہے کہ خالی افیون تو نشہ پیدا کرتی ہے مگر دیگر دوائیوں میں مرتب کی صورت میں یہ نشہ پیدا نہیں کرتی.جس طرح اکیلی الکحل یعنی خالص شراب نشہ پیدا کرتی ہے مگر تھوڑی مقدار میں دیگر دوائیوں
71 کے ساتھ مل کر اپنی اصلی حیثیت کھو دیتی ہے اور نشہ آور نہیں رہتی.چنانچہ وہ ایلو پیتھک دوائیوں میں اکثر استعمال ہوتی ہے.اور شریعت کے مطابق ایلو پیتھک ادویہ کو منع نہیں سمجھا گیا.پس اپنے خود ساختہ اصول کے مطابق جو اعتراض راشد علی نے افیون پر اٹھایا ہے وہی ایلو پیتھک ادویہ پر زیادہ زور کے ساتھ اٹھتا ہے.را شد علی خود بھی تو الکحل ملی ایلو پیتھک ادویہ استعمال کرتا ہے اور کثرت سے لوگوں کو بھی دیتا ہے.آنحضرت کے ارشاد کے مطابق شراب استعمال کرنے والے اور پیش کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے.پس اس کے اپنے مسلمہ قانون کے مطابق بھی اس پر لعنت ہی وارد ہوتی ہے.جہاں تک اس عبارت کا تعلق ہے جو راشد علی نے پیش کی ہے اس میں یہ فقرہ کہ مرزا صاحب دیگر رئیسوں کی طرح شراب اور افیون کا استعمال کرتے تھے بلکہ افیون کو نصف طب قرار دیتے تھے“ راشد علی اور اس کے پیر کا اپنا اختراع ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ نے ایسا کوئی فقرہ تحریر نہیں فرمایا.آپ نے اتنا فر مایا ہے کہ ہے." حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ بعض اطباء کے نزدیک وہ نصف طب اس فقرہ سے یہ مطلب کس طرح اخذ کر لیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود بھی اسے نصف طب سمجھتے تھے.یعنی بعض اطباء کے نزدیک تو ایسا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بالکل نہیں فرمایا کہ آپ بھی ایسا ہی سمجھتے تھے.بلکہ اس بیان کو اگر آپ کے دوسرے فرمان کے سامنے رکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ ایسا نہیں سمجھتے تھے یہ صرف بعض اطباء کا خیال ہے.پس یہ راشد علی کا اختراع ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اس نے آخری فقرہ میں افتراء کیا ہے یعنی و, 66 چنانچہ ایک تو ذہنی مریض اور سونے پر سہاگہ ، افیون اور شراب....پیر ومرید کی یہ جوڑی نہ جانے جھوٹ اور تکلیس کی کون کونسی حدیں پھلانگتی رہے گی اور اپنے اوپر لعنت وارد کرتی رہے گی.جہاں تک دوا تریاق الہی کا تعلق ہے وہ الہامی نسخہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تیار کی تھی.جس میں افیون بھی استعمال ہوتی تھی.یہ کوئی ایسا راز نہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو
72 چھپایا تھا مگر ان لوگوں کو معلوم ہو گیا جس پر یہ بغلیں بجانے لگے ہیں.اس دوا کے تمام اجزاء کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علی الاعلان کیا اور اسے شائع بھی کیا.کیونکہ جس طرح ایلو پیتھک ادویہ میں ایک مخصوص مقدار الکحل کی استعمال ہوتی ہے اسی طرح بعض دیسی دواؤں کے ساتھ افیون کی معمولی مقدار کا استعمال بطور دوا ، نہ کہ برائے نفقہ، کسی رنگ میں بھی قابلِ اعتراض نہیں ہے.ہاں خالی افیون ضرور قابلِ اعتراض ہے.جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح طور پر نفرت اور کراہت کا اظہار فرمایا.اصل بات یہ تھی کہ اس مسئلہ پر چونکہ کوئی اعتراض نہیں اٹھ سکتا تھا اس لئے راشد علی اور اس کے پیر نے ایک عبارت میں تحریف و تلیس کر کے اسے اپنی طرف سے صریح جھوٹ بنا کر پیش کیا ہے.(2) رقم کی چوری اور نوکری را شد علی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لکھتا ہے کہ وہ گھر سے سالانہ پینشن کے پیسے چرا کر بھاگے اور اس کو اپنی عیاشی کی نظر کر دیا.کچھ عرصے بعد جب کنگے ہو گئے تو سیالکوٹ میں کچہری میں نوکری کر لی.بے لگام کتاب ) ا:.چوری راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ ایک سراسر افترا باندھا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ من ذالک اس زمانہ میں چوری کی تھی.جس کی وجہ سے آپ گھر سے نکلے.اس کے متعلق ہم نے تلاش کیا کہ کہیں کوئی ایسا واقعہ ملتا ہو جس پر انہوں نے اس اعتراض کی بنا کی ہے تو ہمیں سیرۃ المہدی ( جلد 1 صفحہ 43 44 روایت نمبر 49) کی یہ روایت ملی کی ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے والد کی پینشن لینے سیالکوٹ گئے تو مرزا امام دین جو آپ کے خاندان ہی کا ایک فرد تھا وہ آپ کے پیچھے پڑ گیا اور قادیان لانے کی بجائے ادھر ادھر پھر ا تا رہا.پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کرختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس شرم سے قادیان واپس نہ گئے.چونکہ آپ کے والد صاحب کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی
73 کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملا زم ہو گئے.یہ واقعہ ہے عنفوانِ شباب کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھول پن کا ، آپ کے تقویٰ اور حیا کا.لیکن جہاں تک دھوکہ دینے والے کا تعلق ہے وہ دھوکہ دینے والا نہ صرف یہ کہ پھر بعد میں احمدی نہیں ہوا تھا بلکہ شدید مخالف تھا یعنی راشد علی کی قماش کا تھا.چوری اس نے کی اور الزام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر.پس روایت میں امام دین کے دھوکہ باز ہونے کا ذکر ہے.مجرم دھوکہ دینے والا ہوتا ہے دھو کہ کھانے والا نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَدَلَهُمَا بِغُرُورِ شیطان نے ان دونوں کو دھوکہ دیا.یعنی دھو کہ باز اور مجرم ابلیس ہے ، حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت تو انہیں.بلکہ حضرت آدم کو تو خدا تعالیٰ نے مقام نبوت عطا فر مایا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ سراسر جھوٹ ہے اور آپ پر یہ اتہام بے بنیاد ہے.آپ ابتدائے عمر سے ہی پاکبازی اور تقویٰ کے اعلی ترین مقام پر قائم تھے.آپ فرماتے ہیں : ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار آپ کے اس تقویٰ کا ذکر زبان زد عام تھا.حتی کہ اس کی گواہی ایک ایسے شخص نے بھی دی جو بعد میں آپ کا شدید مخالف بنا.اس کی اپنی گواہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام عمر انتہائی تقویٰ کے ساتھ گزاری.قبل اس کے کہ ہم اس گواہی کو تحریر کریں، یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں نے آپ پر چوری کا یہ الزام کیوں لگایا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ پہلے نبیوں پر بھی چوریوں کے الزام لگانے کے عادی ہیں.پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ اس شخص کو جس مفتری سمجھتے ہوں اور اس کی تکذیب پر ادھار کھائے بیٹھے ہوں ، بڑھ بڑھ کر الزام نہ لگاتے.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق جو یہ واقعہ آتا ہے کہ آپ کے بھائیوں نے بن یامین کے معاملہ میں کہا کہ اس سے پہلے اس کے بھائی (یعنی حضرت یوسف ) نے بھی چوری کی تھی تو یہاں یہ بات ظاہر ہے کہ قرآنِ کریم نے اس واقعہ کو ایک جھوٹے الزام کے طور پر پیش کیا ہے.نہ یہ کہ اسے
74 تسلیم کیا ہے.بلکہ اس واقعہ کا ذکر صرف یہ بتانے کے لئے کیا گیا ہے کہ انبیاء پر ہمیشہ جھوٹے الزام لگا کرتے ہیں اور ان کی دل آزاری کی جاتی ہے.بدقسمتی سے بعض مسلمان مفسرین نے خود اس واقعہ کو تسلیم کر لیا ہے اور پھر با قاعدہ اس چوری کی چھان بین بھی شروع کر دی کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے کیا چوری کی ہوگی.مختلف تفاسیر میں جن میں سے مثلاً تفسیر جلالین زیر آیت فَقَد سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ - (يف:78) تفسیر الخازن الجزء ثالث زیر آیت فَقَد سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قبل.اس طرح تفسیر فتح القدیر او تفسیر روح المعانی ، میں بھی اس آیت کے تابع حضرت یوسف علیہ السلام کی فرضی چوری کی جستجو کی گئی ہے.ان سب مفسرین میں یہ اختلاف ہے کہ کیا چیز چوری کی تھی؟ لیکن ان سب کا اس پر بہر حال اتفاق ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک حضرت یوسف چور تھے اور پھر خدا کے نبی بھی بنے.حیرت ہے کہ باوجود اس چوری کے اقرار کے نہ ان کے دین کو کوئی خطرہ ہوا اور نہ عالم اسلام کو.اب دیکھئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی چوری سے متعلق کیا کیا اختلافات ہیں.بعض کہتے ہیں کہ سونے کا بت تھا بعض کہتے ہیں کہ مرغی تھی.بعض کہتے ہیں کہ نہیں اتنی بڑی چیز نہیں تھی ، انڈا تھا مرغی نہیں تھی.بعض کہتے ہیں کہ کھانا چرایا تھا لیکن فقیروں کو دینے لئے چرایا تھا.الغرض یہ لوگ پہلے انبیاء کے متعلق ایسی ظالمانہ باتیں تسلیم کرتے ہیں اور پھر بھی ان کی نبوت پر شک کی کوئی گنجائش نہیں سمجھتے تو ان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جھوٹا الزام لگانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کردار کا تعلق ہے.سیالکوٹ کے زمانہ میں ،جس کا اس الزام میں ذکر کیا گیا ہے مولوی ظفر علی خان کے والد محترم منشی سراج الدین صاحب کی گواہی سنئے.وہ آپ کو اس زمانہ میں جانتے تھے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.کاروبارِ ملازمت کے بعد ( یعنی آپ نے سیالکوٹ میں ملازمت کی تھی) ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا عوام سے کم ملتے تھے، ( اخبار زمیندار مئی 1908 ء بحوالہ بدر 25 جون 1908 صفحہ 13 ) مولوی محمد حسین بٹالوی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اول المخالفین تھے، آپ کے بارہ میں یہ گواہی دیتے ہیں.
75 اشاعۃ السنية جلد نمبر 9 صفحہ 284) مولف براہین احمدیہ مخالف اور موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے والله حسيبه شریعت محمدیہ پر قائم ، پرہیز گار اور صداقت شعار ہے.“ ii.نوکر جہاں تک نبی کے نوکری کرنے کا تعلق ہے اس کے متعلق اس معترض کے پیش رو دیو بندی اور اہل حدیث خود تسلیم کرتے ہیں اور انہیں ماننا پڑتا ہے کہ نبی کسی غیر نبی کی نوکری کر سکتا ہے.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی نوکری کا کھلم کھلا ذکر فرمایا ہے.علاوہ ازیں یہ کہنا ویسے ہی بڑی بے عقلی کی بات ہے کہ نبی نوکری نہیں کر سکتا.آخر کیوں نہیں کر سکتا ؟ یہ لوگ اس کی کوئی دلیل نہیں دیتے، کوئی بنیاد نہیں بتاتے اور نہ ہی کسی کتاب کا حوالہ مہیا کرتے ہیں.لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ قران کریم نے ایک ایسے نبی کا واضح طور پر ذکر کیا ہے جس نے غیر قوم کی نوکری کی اور خود اپنی خواہش سے مال کا شعبہ طلب کیا.حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق اہلِ حدیث کے ایک عالم مولوی ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ:.وو ہم قرآن مجید میں یہ پاتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا فر بادشاہ کے ماتحت انتظامِ سلطنت کرتے تھے.کسی ایک نبی کا فعل بھی ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.“ وو اہلحدیث امرتسر 16 نومبر 1945ء صفحہ 4) پھر اہل حدیث اپنی اشاعت 25 اکتو بر 1946 ء ،صفحہ 3 میں لکھتا ہے: حضرت یوسف علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک کئی رسول اور نبی ایسے ہوئے ہیں جو اپنے زمانہ کی حکومتوں کے ماتحت رہے.“ 66 ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ان کے حملوں کی زد سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ پر بھی پڑتی ہے اور دیگر سابقہ انبیاء علیہم السلام پر بھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ اعتراض کرنے سے پہلے اگر یہ آنحضرت ﷺ کے دربار میں حاضر ہوتے تو آپ ان کو بتاتے کہ تمہارا یہ حملہ درست نہیں کیونکہ كنت ارعاها على قراريط لاهل مكة “ ( بخاری.کتاب الاجارہ.باب رعی الغنم ) کہ میں کچھ قیراط لے کر مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا.آنحضرت ﷺ کے بکریاں چرانے کا ذکر خود سید عبدالحفیظ نے ” ہم اللہ کو کیوں مانیں“ کے صفحہ 78 پر بھی کیا.قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا
76 اپنے خسر کی بکریاں چرانے کا ذکر ہے.اور انجیل مرقس 3/6 میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو بڑھتی ہونے کا طعنہ دیا گیا.پس راشد علی کا اعتراض براہِ راست انبیاء علیہم السلام پر ہے اور سب سے بڑھ کر اس کی زد ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ پر پڑتی ہے.اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ اعتراض کلیۂ قابل رڈ ہے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو خدا تعالی کی نوکری اختیار کر چکے تھے.در مولی کو چھوڑ کر آپ کو نہ کسی نوکری کی خواہش تھی نہ ضرورت.خدا تعالیٰ نے آپ کو سنت انبیاء سے حصہ عطا فرمانا تھا.البتہ اس کا سبب سید عبدالحفیظ جیسا ایک غاصب شخص بن گیا جس نے آپ سے آپ کے والد کی پنشن کی رقم اڑا لی تھی.(3) زن ، زر، زمین اور نام ونمود مسیح پاک علیہ السلام پر زبان طعن دراز کرتے ہوئے راشد علی لکھتا ہے.سخت مایوسی کے اس دور نے مرزا صاحب کو مذہب کی طرف دھکیلا اور پھر مذہب کو انہوں نے اپنی دبی ہوئی خواہشات ( زن، زر، زمین اور نام و نمود ) کے حصول کا ذریعہ بنالیا.“ (بےلگام کتاب) را شد علی کی ان خرافات کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچپن اور جوانی کے زمانہ کی پاک سیرت پر مشتمل بیسیوں روایات میں سے صرف تین روایات پیش ہیں.ان سے ایک قاری کے لئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ راشد علی اور اس کے ہم مشرب یقیناً جھوٹے ہیں اور اس دور میں مکذبین انبیاء کے حقیقی مثیل ہیں." حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے آپ کے بچپن کا ایک عجیب واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ آپ چھوٹی عمر میں ہی اپنی ایک ہم عمر سے ( جو بعد میں آپ سے بیاہی گئی ) فرمایا کرتے تھے کہ دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے“ وو ( حیات طیبہ.مصنفہ شیخ عبدالقادر سابق سوداگرمل.صفحہ 10 مطبوعہ 1959ء)
77 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایک سکھ زمیندار کا بیان درج کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.ایک دفعہ ایک بڑے افسر یا رئیس نے ہمارے دادا صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضرت والد صاحب) سے پوچھا کہ سنتا ہوں کہ آپ کا ایک چھوٹا لڑکا بھی ہے مگر ہم نے اسے کبھی دیکھا نہیں دادا صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ہاں میرا ایک چھوٹا لڑکا تو ہے مگروہ کم ہی نظر آتا ہے.اگر اسے دیکھنا ہوتو مسجد کے کسی گوشہ میں جا کر دیکھ لیں.وہ تو مسیت ہے اور اکثر مسجد میں ہی رہتا ہے اور دنیا کے کاموں میں اسے کوئی دلچسپی نہیں.“ (سیرت طیبہ.از حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ - صفحہ 11 - مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ 1960ء) حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جوانی کا عالم تھا جبکہ انسان کے دل میں دنیوی ترقی اور مادی آرام و آسائش کی خواہش اپنے پورے کمال پر ہوتی ہے اور حضور کے بڑے بھائی صاحب ایک معز ز عہدہ پر فائز ہو چکے تھے اور یہ بات بھی چھوٹے بھائی کے دل میں ایک گونہ رشک یا کم از کم نقل کا رجحان پیدا کر دیتی ہے.ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب نے علاقہ کے ایک سکھ زمیندار کے ذریعہ جو ہمارے دادا صاحب سے ملنے آیا تھا حضرت مسیح موعود کو کہلا بھیجا کہ آجکل ایک بڑا افسر برسر اقتدار ہے جس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں اس لئے اگر تمہیں نوکری کی خواہش ہو تو میں اس افسر کو کہہ کر تمہیں اچھی ملازمت دلا سکتا ہوں.یہ سکھ زمیندار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہمارے دادا صاحب کا پیغام پہنچا کر تحریک کی کہ یہ ایک بہت عمدہ موقع ہے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے.حضرت مسیح موعود نے اس کے جواب میں بلا توقف فرمایا: حضرت والد صاحب سے عرض کر دو کہ میں ان کی محبت اور شفقت کا ممنون ہوں مگر ” میری نوکری کی فکر نہ کریں میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں.“ یہ سکھ زمیندار حضرت دادا صاحب کی خدمت میں حیران و پریشان ہو کر واپس آیا اور عرض کیا کہ آپ کے بچے نے یہ جواب دیا ہے کہ ” میں نے جہاں نو کر ہونا تھا ہو چکا ہوں دادا صاحب کچھ دیر خاموش رہ کر فرمانے لگے کہ اچھا غلام احمد نے یہ کہا ہے کہ میں نوکر ہو چکا ہوں؟ تو پھر خیر ہے.اللہ اسے
78 ضائع نہیں کرے گا.اور اس کے بعد کبھی کبھی حسرت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ سچا رستہ تو یہی ہے جو غلام احمد نے اختیار کیا ہے ہم تو دنیا داری میں الجھ کر اپنی عمریں ضائع کر رہے ہیں.“ (سیرت طیبہ - صفحہ 8،7 از حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ ) ایک معتمر ہندو کی روایت ہے کہ آپ کے والد محترم آپ کے تقوی اور تعلق باللہ کو دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ.” جو حال پاکیزہ غلام احمد کا ہے وہ ہمارا کہاں.پیشخص زمینی نہیں، آسمانی ہے.یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے.“ ( تذکرۃ المہدی.جلد 2 صفحہ 302.از پیر سراج الحق نعمانی.مطبوعہ قادیان 1915ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا یہ صرف ایک ورق ہے جو آپ کی پاکیزگی طبع اور ذوق عبادت کا آئینہ دار ہے.نیز دنیا داری زن ، زر، زمین اور نام و نمود قسم کی اشیاء سے بیزاری اور کنارہ کشی کی تصویر پیش کرتا ہے.لیکن جو الزام راشد علی نے مذکورہ بالا سطور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگایا ہے.دراصل اس کی حقیقی اور اصل تصویر ہے اس کا پیر سید عبدالحفیظ.چنانچہ ملاحظہ فرمائیں.اس کے متعلقسندھی اخبار ” پاک“ کی 3 دسمبر 1999ء کی خبر.گجو کے شہر میں ایک غیر سندھی مرشد عوام کے لئے مصیبت بن گیا.سالوں سے آباد مقامی باشندوں کو جھوٹے مقدموں میں پھنسا کر تنگ کرنے لگا.خالی ہاتھ آنے والا پیر زمیندار بن گیا.عبد الحفیظ نامی یہ مذہبی ملاں جو اس وقت 87 سال کا بوڑھا ہے 1962 ء میں خالی ہاتھ گجو شہر میں آیا تھا جسے یہاں کے لوگوں نے لاچار سمجھ کر رہنے کی جگہ دی اور کھانا دیتے مقامی باشندے جن میں علی اکبر میر گل محمد میر نے صحافیوں کے سامنے بیان دیا ہے کہ..عبدالحفیظ نے آنے کے بعد ہمارے گاؤں کی زمین حاصل کرنے کے لئے کیس پر کیس بنا کر ہمارے لئے جنجال بنا دیا ہے.قبضہ کرنے کی خاطر طرح طرح سے تنگ کر رہا ہے.“ ( ترجمه از سندھی عبارت) یہ ہے کہانی جس پر راشد علی کا پیش کردہ اعتراض بڑے احسن اور خوبصورت عنوان کے طور پر
12 79 (4) چسپاں ہوتا ہے.مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کا اعتراض را شد علی از راہ تلبیس لکھتا ہے.جیسا کہ مرزا صاحب نے خود اعتراف کیا ہے وہ ایک ایسے ذہنی مریض تھے جو مالیخولیا، مراق اور پیرا نا ئے جیسے امراض میں مبتلا تھا.ان امراض کی خاص نشانی خبط عظمت کے وسوے (Delusions of Grandeur) ہیں.بے لگام کتاب) را شد علی کا یہ لکھنا کہ جیسا کہ مرزا صاحب نے خود اعتراف کیا ہے وہ ایک ایسے ذہنی مریض تھے“ بالکل جھوٹ ہے اور راشد علی کی تلمیس کا ایک شاہکار ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی بھی یہ نہیں فرمایا کہ آپ ایک ذہنی مریض تھے.پس ہمارا مختصر جواب تو یہ ہے کہ " لعـنـة الله على الكاذبين “ اور اس کا تفصیلی جواب یہ ہے کہ:.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام جس توجہ اور انہماک کے ساتھ فرض منصبی کی ادائیگی میں مصروف تھے اس کی تفصیل کسی سے مخفی نہیں.تزکیہ نفوس ، تلاوت آیات تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف ،اشاعت کتب، پیروی مقدمات، بے شمار خط و کتابت، مهمانوازی و غیره نیز عبادات و ذکر الہی اور اس کے ساتھ ساتھ خوراک اور آرام سے بے فکری اور اوپر سے مہمات اسلام کا فکر اور دفاع اسلام کی تڑپ ایسی تھی کہ آپ کو قدم قدم پر بے قرار کئے جاتی تھی.چنانچہ ایک چھوٹا سا واقعہ ملاحظہ فرمائیں.حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ شیخ غلام حسین صاحب لدھیانوی کی روایت بیان کرتے ہیں کہ ان سے مولوی فتح دین صاحب دھرم کوئی نے بیان کیا.کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اکثر حاضر ہوا کرتا تھا اور کئی مرتبہ حضور کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا.ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بیقراری
80 سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کو نہ سے دوسرے کو نہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں ، جیسے کہ ماہی بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدت درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے میں اس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا اور دل میں کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اس وقت میں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ حالت جاتی رہی.صبح میں نے اس واقعہ کا حضور علیہ السلام سے ذکر کیا کہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے.کیا حضور کوکوئی تکلیف تھی یا در دگردہ وغیرہ کا دورہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ” میں فتح دین کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آ رہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے اور یہ اسلام ہی کا درد ہے جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے.“ (سیرت المہدی.حصہ سوم.صفحہ 29 روایت 516) اسی طرح اگر کوئی اسلام یا بانی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کے خلاف یاوہ گوئی کرتا تو آپ کی روح تڑپ اٹھتی تھی چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.جن دنوں میں وہ موذی اور خبیث کتاب ” امہات المومنین، جس میں بجز دلآزاری کے اور کوئی معقول بات نہیں ، چھپ کر آئی ہے، اس قدر صدمہ اس کے دیکھنے سے آپ کو ہوا کہ زبانی فرمایا کہ ہمارا آرام تلخ ہو گیا ہے.(سیرت حضرت مسیح موعو علیہ اسلام مروا عبدالکریم سیالکوٹ رضی الله عن) صلى الله یہ درد اور یہ زخم تھے جو آپ کو اسلام اور حضرت بانی اسلام ﷺ پر اٹھنے والے ہر اعتراض پر پہنچتے تھے اور اس کی جوابی کاروائی کے لئے آپ کو بے چین کر دیتے تھے.لہذا دن رات علمی کام اور دماغی محنت میں مصروف رہتے تھے چنانچہ سالہا سال کی مسلسل اور انتھک محنت نے آپ کو سر درد اور دورانِ سر کی امراض میں مبتلا کر دیا تھا چنانچہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل رضی اللہ عنہ والی روایت، جس کو بعض لوگوں نے ہدف اعتراض بنایا ہے، میں بھی واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ امراض، دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے تھیں.چونکہ یہ دفاع اسلام اور ناموس رسول کی حفاظت کی وجہ سے تھیں اس لئے یہ بیماریاں ہر گز عیب کا موجب نہیں ہوسکتیں.یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی خوبیوں کو روشن کرتی ہیں جن کی نظیر امت میں
81 نہیں ملتی.جہاد کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے والی یہ بیماریاں اسی طرح قابلِ تعریف ہیں جس طرح آنحضرت ﷺ کے صحابہ جنگوں میں پہنچے ہوئے زخموں کو قابلِ تعریف سمجھتے تھے اور ان پر ناز کرتے تھے اور امت کے لئے بھی وہ ناز کا موجب تھے.اصل بات یہ ہے کہ وہ محنت اور جہاد جو ایک انسان کی ہستی کو گو بظاہر مٹا کر رکھ دے لیکن اس کے نتیجہ میں ایسی فتوحات عطا کر دے کہ طغیانیوں میں امت کی ڈوبتی کشی نہ صرف دوبارہ اپنی پوری جولانیوں کے ساتھ آگے بڑھنے لگے بلکہ اسلام کو ہر مذہب پر غالب کر کے دکھا دے، کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں.ایسی محنت اور ایسے جہاد کی تو فیق تو صرف اور صرف ”فتح نصیب جرنیل“ کا نصیا ہے.اسلام کا ایسا فتح نصیب جرنیل جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رحمت و تائید ایسی غیر معمولی ہے کہ وہ اس کی بیماریوں کو اذن نہیں دیتا کہ اسے مغلوب کر سکیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ فتح نصیب جرنیل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام ، اعصاب وجوارح ، عقل و دانش اور روحانیت ونور بصیرت کے لحاظ سے ہر روز مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ وفات والی رات سے منسلکہ سارا دن بھی وہ مسلسل خدمت و تائید دین میں ہی بسر کرتا ہے.ہمارا دل تو نہیں چاہتا کہ محبوب خدا ، ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تکالیف کا ذکر کریں مگر تکذیب و استہزاء پر کمر بستہ لوگ چونکہ انبیاء کی صفات اور ان کے حواس اور خواص کے بنیادی عرفان سے ہی عاری ہیں اس لئے ان کو یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ بھی بحیثیت بشر عام انسان ہی ہوتے ہیں.ان پر بھی محنت و مشقت اور غم و الم اگر اسی طرح اثر کرتے ہیں جس طرح ایک عام انسان پر تو وہ ان کی سیرت کا ایک روشن پہلوشمار ہوتا ہے نہ کہ عیب.چنانچہ حضرت رسول کریم ﷺ کی کتاب زندگی کو کھولیں تو اس کا ایک روشن باب یہ بھی نظر آتا ہے کہ آپ کو ہر طرف سے مہمات در پیش ہیں اور آپ ہر مہم کو ایک فاتح اور غالب جرنیل کی طرح سر کر رہے ہیں لیکن ایسے عالم میں کہ نہ آپ کو اپنے آرام کا فکر تھا نہ طعام کا مسلسل اور یکے بعد دیگرے جنگیں مسلط ہیں جبکہ مسلمان بالکل نہتے اور بے کسی کے عالم میں ہیں.ذرا جنگ خندق کے حالات ملاحظہ کریں کہ آپ خود پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں لیکن اپنی بھوک کا کسی کو احساس تک نہیں ہونے دیتے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارے گھر میں کئی کئی روز چولہا نہیں جلتا تھا.دن کا یہ عالم تھا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبحاً طويلاً (المزمل:8) کہ تیرا سارا دن کاموں
82 میں انتہائی مصروف گذرتا ہے.رات کو چندلحات آرام کے میسر آئے بھی تو فوراً اٹھے اور خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری میں ہی ساری رات گزار دی.رات کو نماز میں بعض اوقات اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے.بنی نوع انسان کے لئے دعائیں کرتے اور ان کے غم میں حالت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُومِنِينَ (الشعرا :4) ترجمہ:.کہ تو کہیں اس غم میں اپنی جان ہلاک نہ کر دے کہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے.مہمات اسلامیہ کا یہ حال تھا کہ ایک دستہ مشرق کی جانب بھیجوایا ہوا ہے اور دوسرا مغرب کی طرف ، تیسرا شمال کی جہت تو چوتھا جنوب کی سمت.مسلمان فدائیوں کی تعداد اتنی تھوڑی تھی کہ اکثر اوقات ہزاروں دشمنوں کی طرف محض گنتی کے چند فدائی بھجوائے جاسکتے تھے جن میں سے ایک ایک کی جان کا اور پیچھے ان کے ورثاء کا فکر بھی بشدت دامنگیر ہے.ادھر مدینہ پر قریش اور دیگر قبائل کے حملوں کا خدشہ ہر وقت ہے.ارد گرد کے قبائل حملوں کی گھر کیاں دے رہے ہیں اور بار بار جنگیں مسلط کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ کسرای جیسے پرشکوہ بادشاہ بھی دھمکا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ.نیز انہی حالات میں کئی بادشاہوں اور سرداروں کے سفیر بھی آ رہے ہیں.وفود پر وفود اتر رہے ہیں اور مہمان نوازیاں بھی ہو رہی ہیں.قرآن کریم کا بھی نزول ہو رہا ہے اور احکام بھی نازل ہورہے ہیں جن کی تعمیل کے لئے عملی نمونہ بھی دکھایا جارہا ہے.تدوین قرآن اور حفظ قرآن کا کام بھی ساتھ ساتھ ہو رہا ہے.تلاوت آیات ، تزکیہ نفس تعلیم کتاب و حکمت بھی مسلسل جاری ہے.گھر کے کاموں میں بھی مسلسل حصہ لے رہے ہیں اور باہر بیکسوں کے بوجھ بھی اٹھا رہے ہیں.الغرض ہزاروں ایسے کام اور معاملات ہیں جن کا بوجھ صرف اور صرف ایک جان پر ہے.یہ جان ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی جان ہے جو ہر لحہ بنی نوع انسان کی بہبود اور ان کی بھلائی کے لئے ہلکان ہو رہی ہے.بالآخران افکار و مصروفیات کہ نتیجہ میں آنحضرت لیے درد سر کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے.جس کے علاج کے لئے آپ نے سر میں پچھنے لگوائے.چنانچہ لکھا ہے: عن ابن عباس رضي الله عنهما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم احتجم في رأسه
83 ( بخاری.کتاب الطب.بالحجامة من الراس ) ترجمہ:.حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہا بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے سر پر پچھنے لگوائے.ابتدائے رسالت کی بات ہے کہ جب پہلی وحی کے بعد کچھ عرصہ کے لئے اس میں وقفہ پڑا اور وحی کا نزول نہ ہوا تو آپ بیتاب ہو گئے.یہ ایام آپ نے سخت گھبراہٹ اور بے چینی میں گزارے.عشق خدا کا یہ عالم تھا کہ ایک تھوڑے سے وقفہ سے آپ کی حالت غیر ہوگئی.حدیث میں آتا ہے کہ ان ایام میں آپ کو اتنی گھبراہٹ تھی کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور ارادہ کیا کہ وہاں سے اپنے آپ کو گرا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیں مگر ہر ایسے موقع پر الہی فرشتہ آواز دیتا کہ اے محمد ! ایسا نہ کریں.آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.یہ آواز سن کر آپ رک جاتے مگر بے چینی اور اضطراب کی حالت پیدا ہوتی تو بے اختیار ہو کر پھر اپنے آپ کو ہلاک کر دینے کے لئے تیار ہو جاتے.( بخاری.باب بدء الوحی.حامد اینڈ کمپنی اردو بازارلاہور.مطبوعہ 1982ء) پھر ایک زمانہ وہ بھیآ یا کہ ہجوم مہمات وافکار نوع انسانی کے باعث آپ کی حالت ایسی بھی ہوئی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.انه ليخيل اليه انه يفعل الشّى وما فعله - ( بخاری.کتاب بدء الخلق.باب فی ذکر ابلیس وجنوده) کہ آپ کو خیال گذرتا تھا کہ آپ نے گویا کوئی کام کیا ہے حالانکہ آپ نے کیا نہ ہوتا تھا.پس انبیاء علیہم السلام کے ہم و غم اور ان کے درد والم کی وجوہات ہی اور ہیں جن کی بناء پر ان کی بیماری کی نوعیت الگ ہی ہوتی ہے.جسے دنیا دار لوگ ہمیشہ طعن کا نشانہ بنا کر انہیں مسحور و مجنون قرار دیتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.گذلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلا قَالُوا سَاحِرٌ أَو مَجْنُونٌ ( الدريت :35) ترجمہ.اسی طرح ان سے پہلے جو رسول آتے رہے ہیں ان کو لوگوں نے یہی کہا کہ وہ سحر زدہ ہیں یا مجنون ہیں.چنانچہ انبیاء علیہم السلام کو سحر زدہ اور مجنون قرار دینے والوں نے سب سے بڑے صاحب عقل و
84 بصیرت اور حکمت و دانش کے بادشاہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بھی نہیں چھوڑا.صحیح بخاری ، کتاب الطبّ باب السحر میں ایک روایت مذکور ہے.جس کی بناء پر مستشرقین آج تک یہ کہتے ہیں کہ آپ پر جادو کا اثر ہو گیا تھا (نعوذ باللہ ) حالانکہ خدا تعالیٰ نے اس بارہ میں آپ " کو وحی کے ذریعہ اطلاع بھی دے دی تھی کہ جس جادو کے بارہ میں مشہور کیا گیا ہے اس کی ذرہ برابر بھی حیثیت نہیں.واقعہ یہ تھا ایک یہودی نے اپنے زعم میں آپ پر جادو کرنے کے لئے کنگھی پر بال لپیٹ کر اس پر اپنا مزعومہ جادو پھونک کر مدینہ کے ذروان نامی ایک کنویں میں پھینکی.جب اس کی خبر آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے دی تو لوگوں نے دیکھ لیا کہ اس یہودی کے جادو کی کوئی حقیقت ہی نہیں تھی.ان دنوں آنحضرت ہ علیل بھی تھے.یہ مرض محض قدرتی طور پر ایک انسان کو لاحق ہونے والے عوارض میں سے ایک تھا جو آپ کو بھی ایک بشر ہونے کی وجہ سے لاحق ہوا اور جس سے خدا تعالیٰ نے آپ کو محض اپنے فضل سے محفوظ فرمایا.لیکن بد بخت منکرین و مکفرین آپ پر اس مذکورہ بالا روایت اور بعض دیگر روایات کی بناء پر آج تک زبان طعن دراز کرتے ہیں.چنانچہ سب سے پہلے یہ جھوٹ ایک بدبخت باز نطینی مؤرخ Died 817 AD) Theophanes) نے بڑی بے باکی سے تراشا تھا کہ جب آنحضرت ﷺ کی زبان سے غار حرا میں پیش آنے والے واقعہ کا ذکر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سنا تو ( نعوذ باللہ نعوذ باللہ ) انہیں سخت دکھ ہوا کہ ایک معزز خاندان کی ہوتے ہوئے بھی وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ منسلک کر دی گئی ہیں جو نہ صرف یہ کہ غریب آدمی ہے بلکہ مرگی کا مریض بھی ہے.(نعوذ باللہ من ذالک) اس بات کا پھر دسمبر 1976ء کے Journal Epilepsia میں Frank R Freemason.نے بھی حوالہ دیا ہے.اس کے بعد پادری فانڈر نے احادیث کی کتب میں مذکور روایات کا حوالہ دیتے ہوئے آنحضرت پر بالکل اسی طرح بہتان باندھے ہیں جس طرح راشد علی اور اس کے پیر نے بعض روایات کے حوالے دے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجنون اور مالیخولیا وغیرہ کا مریض ثابت کرنے کی کوشش کی ہے.چنانچہ ملاحظہ فرمائیں، پادری فنڈر کی قلم کذلک زہر اگلتی ہے.وہ لکھتا ہے : دو " قرآن اور عربی کی کتابوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمد نے اوائل حال میں گمان کیا کہ فی
85 الحقیقت خدا نے اسے بھیجا ہے کہ عربستان میں سچا دین مقرر کرے اور ان خواب و خیالات سے جو کبھی کبھی اسے دکھائی دیئے اپنے اس گمان کی تائید پائی.غالبا بے خواب وخیالات صرع کی بیماری سے تھے جو عہدِ جوانی سے محمد کو لاحق تھی.بعض مورخین نے اسے اٹھی کی بیماری کہا ہے چنانچہ کتاب ” انسان العیون“ میں مرقوم ہے کہ ابن اسحاق نے اپنے مشائخوں سے نقل کی ہے کہ نزول قرآن سے پہلے جن ایام میں کہ محمد کاملہ میں نظر بد کے رفع ہونے کا علاج کیا گیا اور جبکہ قرآن نازل ہوا تو پھر اس کی وہی حالت ہوئی یعنی کبھی کبھی ایک قسم کی بے ہوشی مثل اٹھی ایک خوف ولرزہ کے ساتھ اس کو ہوئی ایسا کہ انکھیں بند ہوگئیں اور منہ سے کف نکلی اور جوان اونٹ کی سی آواز دی.پس ان حدیثوں کے مضمون کے مطابق شک نہیں کہ محمد کو صرع کی بیماری تھی.( میزان الحق.باب 3 فصل 4 صفحہ 326، 327) مصنفہ: پادری سی جی فانڈر در مطبع : امریکن مشن باہتمام پادری روڈ الف.لدھیانہ.1861ء) اسی قسم کے گندے جھوٹ اور طعن مستشرقین نے کثرت سے باندھے ہیں اور آنحضرت ﷺ سے اپنے اندرونی بغض کا اظہار کیا ہے.ہم ہر ایک کا بیان درج کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ہمارے لئے یہ امر تکلیف دہ ہے کہ ہم اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بارہ میں ایسی باتیں لکھیں.محض مجبوری کے تحت ایک دو حوالے پیش کئے ہیں تا کہ سنت مکفرین پر عمل کرنے والے آج کے انسان ان آئینوں میں انی شکل دیکھ سکیں اور شاید وہ اس سے کچھ سبق بھی حاصل کرسکیں.یہ لوگ مذکورہ بالا اقتباس کے علاوہ اور بھی کئی کتب مثلاً پادری ٹھا کر د اس کی کتاب ” سیرت اسیح والحمد “ اور پادری ارونگ واشنگٹن کی کتاب ” سوانح عمری محمد صاحب وغیرہ میں بھی اپنی شکلیں دیکھ سکتے ہیں.مذکورہ بالا آیت قرآنی کو سامنے رکھ کر ایک طرف پادریوں اور مستشرقین کے بیانات کو رکھیں اور دوسری طرف راشد علی اور اس کے پیر کے اعتراضات کو تو صاف نظر آتا ہے کہ اعتراض کرنے والے بھی ایک ہیں اور ان کی شکلیں بھی ایک.اعتراض بھی وہی ہیں اور ان کے الفاظ بھی وہی.وہ بھی ہرزہ سرائی اور یہ بھی بے با کی اور جھوٹ کی پوٹ.ہاں صرف نام مختلف ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بَل قَالُوا مِثلَ مَا قَالَ الاَوَّلُونَ (المومنون :82 ) کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ وہی بات کہتے ہیں جو ان سے پہلوں نے کہی تھی.
86 یہ خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ انبیاء کے مخالفین ہمیشہ ایک ہی طرز اور ایک ہی طریق پر کار بند ہوتے ہیں اور دوسری طرف انبیاء کے ساتھ خدا تعالیٰ کا سلوک بھی ایک ہی جیسا ہوتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کی یہ سنت جس طرح حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ کام کر رہی تھی ویسے ہی آپ کے غلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے ساتھ بھی کام کر رہی تھی.چنانچہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بیماریوں کے بداثرات سے محفوظ رکھا اسی طرح آپ کے غلام کو بھی محفوظ رکھا.☆ صلى الله جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول کریم ﷺ کی امراض کو آپ کے فرائض منصبی کی ادائیگی میں حائل نہ ہونے دیا اسی طرح آپ کے غلام کے فرائض کی ادائیگی میں عوارض حائل نہ ہو سکے.جس طرح اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حضرت نبی اکرم ﷺ کو بیماری کی بے حقیقتی سے خبردی ویسے ہی آپ کے غلام کو الہا ما بتایا کہ بیماری بے حقیقت بنادی جائے گی اور پھر آپ کو اس سے محفوظ فرما دیا.جس طرح آنحضرت ﷺ کی امراض کا ذکر گھر کے ایک فرد کی روایت میں مذکور ہے اسی طرح ☆ آپ کے غلام کی امراض کے بارہ میں روایات بھی گھر کے افراد سے مذکور ہیں.جس طرح رسول خدا ﷺ کے دعوئے نبوت سے قبل ہر شخص آپ کے اخلاق سے متاثر تھا اور آپ کی حکمت و دانش کے بارہ میں رطب اللسان تھا اسی طرح لوگ آپ کے غلام کے دعوئے ماموریت سے پہلے اس کی سیرت اور اس کے علم و دانش کے مداح تھے.☆ جس طرح دعوائے نبوت کے بعد نبی کریم ﷺ کو سحر زدہ ، مجنون اور مرگی کا مریض قرار دیا گیا الله اسی طرح آپ کے غلام کو بھی دعوئے ماموریت کے بعد مجنون ، ہسٹریا اور مالیخولیا وغیرہ کا مریض قرار دیا گیا.جس طرح آقا ﷺ پر لگائے گئے الزامات جھوٹے تھے اسی طرح آپ کے غلام علیہ السلام پر لگائے گئے الزامات بھی کلیۂ جھوٹے ہیں.
87 (5) راشد علی اور اس کے پیر کی مخش گوئی اور پھر الزام راشد علی اور اس کے پیر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلے تکذیب کی ، پھر مخالفت پر اترے، پھر ان کے شیطان نے ان کو مزید ترقی دی تو بیہودہ گوئی اختیار کر گئے اور اب شیطان نے ان کو مزید سانٹالگایا ہے تو یہ شرم وحیا کی جملہ حدود پھلانگتے ہوئے بخش کلامی پر اتر آئے ہیں اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام پر نعوذ باللہ نعوذ باللہ زنا کی تہمت لگانے لگے ہیں اور ایسے ہی بہتان حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر لگاتے ہیں.نعوذ بالله من ذلك ، ولعنة الله على الكاذبين - ہم ان کی فحش کلامی اور بے حیائی کا جواب نہیں دے سکتے.بس اتنا عرض کرتے ہیں کہ ہر نبی کے دشمن شیطان انسانی شکل میں بھی ضرور پائے جاتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًا شَيَاطِيْنَ الإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُورًا (الانعام :113) ترجمہ:.اور ہم نے انسانوں اور جنوں میں سے سرکشوں کو اسی طرح ہر اک نبی کا دشمن بنا دیا تھا ان میں سے بعض بعض کو دھوکہ دینے کے لئے ان کے دل میں برے خیالات ڈالتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اس زمرہ کے راشد علی اور اس کے پیر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ خود اقراری ہی نہیں اصراری بھی ہیں کہ ان پر شیطان نازل ہوتا ہے اور انہیں با قاعدہ پیغام بھی دیتا ہے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الشَّيطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ إِلَى أَوْلِيَتِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ (الانعام:122) کہ شیطان یقینا اپنے دوستوں کے دل میں ایسے خیالات ڈالتے رہتے ہیں تا کہ وہ تم سے جھگڑیں.اس کلیہ کے تحت ازل سے ہی یہ شیطان انبیاء علیہم السلام پر پخش الزامات لگاتے چلے آئے ہیں.حضرت لوط علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام و غیر ہم
88 پر جوشخش الزامات لگائے گئے وہ مسلمانوں کے اپنے لٹریچر میں موجود ہے.حتی کہ سب سے بڑھ کر پاکباز ، سب سے بڑھ کر طاہر و مطہر ،سید المعصومین حضرت محمد مصطفی ﷺ پر بھی گندا اچھالا گیا.جو الزام آج راشد علی اور اس کا پیر حضرت مسیح پاک علیہ السلام پر لگا رہے ہیں ویسے ہی اتہام حضرت نبی کریم سید الاتقیاء والاصفیاءمحمد مصطفی ﷺ پر شیطان صفت سیاہ کاروں نے بھی لگائے ہیں.ان صلى الله کی کتب کی فہرست قارئین کے علم کے لئے پیش ہے.پادری عمادالدین.کتاب ہدایتہ المسلمین پادری را نکلین.کتاب دافع البهتان پادری ٹھاکر داس.کتاب سیرت المسیح والحمد اپنی عبد اللہ آتھم.کتاب اندرونه بائیبل پادری ولیم.کتاب محمد کی تواریخ کا اجمال ارونگ واشنگٹن.کتاب سوانح عمری محمد صاحب امریکن مشن پر لیس لودہا نہ اخبار نورافشاں پادری را جرس کتاب تفتيش الاسلام امریکن مشن پریس لودہانہ.کتاب نبی معصوم اندر من مراد آبادی.کتاب پاداش اسلام سلمان رشدی.کتاب شیطانی آیات وغیر ہم ہیں جن کی تقلید راشد علی اور اس کے پیر نے کی ہے، یہ ایسے رذیلہ صفات شیاطین ہیں جنہوں نے اپنی نفسانی تصویر کو خدا تعالیٰ کے مقرب اور پاک اور معصوم مامورین کی طرف منسوب کر دیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے تمام نبی معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں.وہ سچائی کا زندہ نمونہ اور وفا کی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں اور صفائی اور خوبصورتی سے اللہ تعالیٰ کی سبوحیت اور قدوسیت اور اس کے بے عیب ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں.درحقیقت وہ ایک آئینہ ہوتے ہیں جس
89 66 میں بدکار بعض دفعہ اپنی شکل دیکھ کر اپنی بدصورتی اور زشت روئی کو ان کی طرف منسوب کر دیتا ہے.“ (دعوۃ الا میر صفہ 149.از حضرت خلیفة المسیح الثانی مطبوع لندن - 1993ء) صفحہ (6) 66 شعر کرم خا کی ہوں “ پر ہرزہ سرائی راشد علی نے لکھا ہے."Mirza Ghulam Ahmad himself declares his position in the following poetry.I am an earthworm My dear! Not a human being.I am the obscene part of men and the shameful place of humans.(Insaan ki Jaaye sharam).(NOTE: The meaning of the words used in urdu is private parts of men.Author)" (Ghulam Vs Master) معزز قارئین ! یہ سب راشد علی کی بکواس ہے.جس طرح سؤ رگندگی کے ڈھیر میں اپنی تھو تھنی دھنسا کر گند کھاتا ہے اسی طرح راشد علی نے بھی جھوٹ کے گند میں اپنی تھوتھنی داخل کر کے انتہائی گند اور غلاظت سے بھرے ہوئے خیالات سے اپنا منہ بھرا ہے.اس کا ثبوت یہی مذکورہ بالا گند ہے جو اس نے بکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی جگہ بھی اردو میں ایسا نہیں فرمایا کہ جس کا وہ ترجمہ ہو سکے جو راشد علی کے گندے ذہن نے اختراع کیا ہے.کہ "I am the obscene part of men and the shamful place of humans.(Insaan ki Jaaye sharam) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس شعر پر راشد علی نے جھوٹ کا گند کھایا ہے وہ یہ ہے.کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر، کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 127)
90 اس شعر کے ساتھ کے اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں.آپ فرماتے ہیں.کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا مجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف وکرم ہے بار بار تیرے کاموں سے مجھے حیرت اے میرے کریم کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعت قرب وجوار کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار یہ سراسر فضل واحساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمتگذار " " ان اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ ” کرم خاکی“ والے شعر میں’ مرے پیارے“ کے الفاظ خدائے کریم کو مخاطب کر کے کہے گئے ہیں.اور یہ شعر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مناجات میں سے ہے جو آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور کیں.نیز یہ شعر آپ کے عجز وانکسار اور خدا تعالیٰ کے حضور تذلیل کا آئینہ دار ہے جو کہ شانِ نبوت کا ایک خاصہ ہے.جس طرح ہمارے آقا و مولیٰ نے جب خدا تعالیٰ کے حضور اپنے عجز وانکسار اور تذلل کا اظہار کیا تو عرض کی " انّى ذليل فاعزّنی “ (جامع الصغير للسيوطی ".الجزء الثانی.صفحہ 86 - المکتبہ الاسلامیہ سمندری.مطبوعہ 1394ھ) " کہ میں ذلیل ہوں مجھے عزت عطا فرما.“ اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں اپنے آپ کو عبد ذلیل قرار دیا.(تفسیر کبیر لامام رازی جلد 6 صفحه 181 مصری) لیکن جہاں تک مذکورہ بالا زیر بحث شعر کا تعلق ہے اس کے الفاظ ویسے ہی ہیں جیسے حضرت داؤد علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حضور مناجات کرتے ہوئے پیش کئے.آپ فرماتے ہیں: ”اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.پر میں تو کیڑا ہوں ،انسان نہیں.آدمیوں میں انگشت نما ہوں اور لوگوں میں حقیر ہے: حضرت داؤد علیہ السلام کی ان مناجات کا انگلش ترجمہ بائیل (زبور نمبر 22 آیات 1 تا6) میں یہ لکھا "But I am a worm, and no man a reproach of men and
91 despised of the people." بعینہ یہی ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر کا ہے.اس کا صاف اور صحیح مطلب تو یہ ہے کہ میں ایک بشر ہی تو ہوں ،اس وجہ سے انسانوں کی طرف سے مجھے نفرت اور حقارت کا ملنا ایک لازمی امر ہے.پس خدا تعالیٰ کے حضور یہ عجز و انکسار اور تذلیل کا اظہار تو شانِ نبوت کا خاصہ ہے اور خاص طور پر شانِ داؤ دہی بھی ہے.نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت داؤدعلیہ السلام سے ایک مشابہت بھی ہے.مناجات کے ان الفاظ پر اگر راشد علی نے گندا اچھالا ہے تو اس کی زد حضرت داؤد علیہ السلام کی مناجات پر تو پڑتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ آنحضرت ﷺ اور حضرت ایوب علیہ السلام کی منکسرانہ التجا ئیں بھی اس کی لپیٹ میں آتی ہیں.نعوذ باللہ من ذلک پس راشد علی سے ہماری یہی درخواست ہے کہ جو گند اس نے اچھالا ہے اسے خود ہی رنگل لے.ورنہ وہ تو ہین انبیاء کا کھلا کھلا مرتکب ہے.کیونکہ اس کے اس حملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دوسرے نبی بھی حصہ دار بنتے ہیں.دیکھئے کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمان بار بار اپنی سچائی کو ظاہر کرتا ہے کہ انبیاء کے طور پر حجت ہوئی ان تمام ان کے جو حملے ہیں ان میں سب نبی ہیں حصہ دار میری نسبت جو کہیں کہیں ނ وہ آتا ہے چھوڑ دیں گے کیا وہ کو کفر کر کے اختیار اس باب میں آخر میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ راشد علی نے یہ بھی صریح جھوٹ بولا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں اس کے اردو میں معانی انسان کے عضو نہانی کے ہیں.کسی لغت میں ” عار“ کے معنے نہ انسان کی جائے شرم کے ہیں اور نہ ہی اس کے معنے ہیں Private" "parts of men.اور اگر اس نے الفاظ کی جائے نفرت سے یہ مطلب نکالا ہے تو یہ اس کی غلیظ حماقت پر دلیل ہے.کیونکہ شعر میں اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ” نفرت کی جائے یعنی لفظ ” جائے“
92 سے مراد کیا جانا ہے جگہ مراد نہیں ہے.اور نہ ہی جائے نفرت کا معنی ” جائے شرم ہوتا ہے.پس راشد علی یقیناً جھوٹا اور گندا ہے.(7) وفات پر اعتراض کا جواب راشد علی اور اس کا پیر اپنی ” بے لگام کتاب میں لکھتے ہیں.موت کا شکنجہ :.بالاخر مخالفین کی ہزرہ سرائیوں سے تنگ آ کر مرزا صاحب نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں دعا کی کہ اگر جھوٹے مفتری ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ہیضہ اور طاعون سے موت دے دے.چنانچہ یہ دعا مقبول بارگاہ ایز دی ہوئی اور ایک سال بھی گزرنے نہ پایا کہ مرزا صاحب بصد حسرت و یاس اپنی منہ مانگی موت یعنی ہیضہ کا شکار ہو کر چل بسے.مرتے وقت کلمہ تک نصیب نہ ہوسکا.زبان سے جو آخری الفاظ نکلے وہ یہ تھے بناتی ہے.میر صاحب (مرزا صاحب کے خسر ) مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے.(حیات ناصر مرتبه شیخ یعقوب علی قادیانی صفحه ۴۱۱) یہ بھی حسب معمول را شد علی اور اس کے پیر کی خیرہ سری ہے جو انہیں بار بار جھوٹ کی لعنت کا مورد i:- وصال کا سبب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس درد اور کرب کے ساتھ اسلام پر حملوں کے دفاع میں مصروف تھے.اس کے لئے دن رات کی علمی محنت شاقہ ، آرام میں کمی اور غذا کی طرف سے لا پرواہی کے نتیجہ میں آپ کو اعصابی کمزوری کی وجہ سے اسہال کا مرض اکثر ہو جاتا تھا.امر واقعہ یہ ہے کہ جس صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی ہے اس سے ملحقہ کئی دن آپ مسلسل دن رات تحریر و تقریر میں مصروف رہے حتی کہ وفات سے ہیں گھنٹے قبل بھی آپ نے لاہور میں صاحب علم افراد کے سامنے ایک طویل تقریر فرمائی.اس کی وجہ سے آپ کو اعصابی کمزوری لاحق ہوئی پھر رات کو اسی وجہ سے اسہال بھی آئے.اس کیفیت کا ہیضہ سے دُور کا بھی تعلق نہیں.نہ ہی روایات میں ڈاکٹروں کی طرف سے اس کا ذکر ملتا
93 ہے.حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کی صرف ایک روایت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکڈ مین ایسے رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ گویا آپ کی وفات کی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے دعوی میں صادق نہ تھے.حقیقت حال یہ ہے کہ حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وبائی ہیضہ ہوگیا تھا بالکل غلط بات ہے.اس فقرے کا مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت میر صاحب سے استفسار کیا کہ ” مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے؟“ اور محض پوچھنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ واقعہ وہ بات ہو بھی گئی ہو.ایسی حالت میں جبکہ اعصابی کمزوری ہو اور اس کی وجہ سے اسہال کی مرض بھی لاحق ہو تو نقاہت بے حد بڑھ جاتی ہے.اس پر مستزاد یہ کہ سر پر چوٹ آنے کی وجہ سے حالت دگرگوں ہو تو متاثر شخص سے یہ توقع رکھنا کہ اس کے ذہن میں ایک صحت مند شخص کے صحت مند ذہن کی طرح ہر بات پوری تفصیلات کے ساتھ متحضر ہو، انصاف کے خلاف ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ پر بھی ایک مرض کی وجہ سے ایسا وقت آیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.انه ليخيل اليه انه يفعل الشّى وما فعله ( بخاری.کتاب بدء الخلق.باب فی ابلیس وجنودہ) ترجمہ :.آپ کو خیال گذرتا تھا کہ آپ نے گویا کوئی کام کیا ہے حالانکہ آپ نے ایسا کیا نہ ہوتا تھا.یہاں خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ حضرت امام بخاری اس حدیث کو ابلیس اور اس کے لشکر کے باب میں لائے ہیں.شاید نظر کشفی میں انہیں ان لوگوں کا علم ہو گیا ہو کہ ابلیس اور اس کے چیلے کون ہیں.) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ایسے فقرہ پر راشد علی اور اس کے پیر کا بغلیں بجانا بعینہ اسی طرح ہے جس طرح آنحضرت ﷺ کے بعض بشری عوارض پر مستشرقین نے استہزاء کئے ہیں.اس فقرے میں وبائی ہیضہ کا ذکر ہے.جبکہ تاریخی ریکارڈ شاہد ہے کہ اپریل مئی 1908ء میں پنجاب میں یہ و ہاتھی ہی نہیں.علاوہ ازیں یہ بھی تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ لاہور میں اس وجہ سے کوئی موت نہیں ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی ہیضہ کی کوئی علامت موجود نہ تھی.اس لئے اس
94 وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معالج میجر ڈاکٹر سدرلینڈ پر نیل میڈیکل کالج لاہور نے آپ کی وفات کے سرٹیفکیٹ میں لکھا تھا کہ آپ کی وفات اعصابی اسہال کی بیماری سے ہوئی ہے.چنانچہ اس وقت جتنے بھی اطبا ء اور ڈاکٹر آپ کے معالج تھے یا آپ کے ارد گرد تھے وہ سب ڈاکٹر سدرلینڈ کی رائے سے متفق تھے کیونکہ اس کے علاوہ سچائی اورتھی ہی کوئی نہیں.اسی طرح ڈاکٹر سنگھم سول سرجن لاہور نے جوسرٹیفیکیٹ جاری کیا اس میں اس نے تحریراً یہ تصدیق کی کہ مرزا صاحب کی وفات عام اسہال کی شکایت سے ہوئی ہے.اس اسہال کی وجہ اعصابی کمزوری تھی نہ کہ ہیضہ.اس پر مزید گواہی کے سامان خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمائے کہ جب آپ کی نعش مبارک ، قادیان لے جانے کے لئے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی اور گاڑی میں رکھی گئی تو را شد علی اور اس کے پیر کی قماش کے لوگوں نے محض شتر پیدا کرنے کے لئے یہ جھوٹی شکایت اسٹیشن ماسٹر کے پاس کی کہ مرزا صاحب ہیضہ کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں.چونکہ ہیضہ کی وبائی مرض کی وجہ سے وفات پانے والے کو دوسرے شہر لے جانا قانو نامنع تھا اس لئے اسٹیشن ماسٹر نے نعش بھجوانے سے انکار کر دیا.اس پر آپ کے ایک صحابی ، شیخ رحمت اللہ صاحب نے سول سرجن کا سرٹیفیکیٹ دکھایا تو پھر اسٹیشن ماسٹر کو حقیقت حال کا علم ہوا کہ یہ شکایت کرنے والے کہ حضرت مرزا صاحب کی وفات ہیضہ سے ہوئی ہے، جھوٹے ہیں.چنانچہ اس نے اجازت دی اور آپ کی نعش مبارک قادیان لائی گئی.یہ سب واقعات تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 562 پر تفصیل کے ساتھ درج ہیں.پس بیماری کی کیفیت ، علاج ، وفات اور پھر بعد کے تمام واقعات راشد علی اور اس کے پیر کے جھوٹ کوطشت از بام کرتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ایک طبعی موت تھی جس میں کوئی غیر طبعی عوامل کارفرما نہیں تھے.آخری الفاظ را شد علی اور اس کے پیر نے ایک اختراع یہ بھی کی ہے کہ وو مرتے وقت کلمہ تک نصیب نہ ہو سکا.زبان سے جو آخری الفاظ نکلے وہ یہ تھے.” میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے.“
95 دیتے ہیں.میدان دونوں کا جھوٹ ہے.یہ خود بخود ایک جھوٹ تراشتے ہیں اور اسے بڑی بے شرمی سے پیش کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے وقت کے تمام حالات اور لح لمحہ کی تفصیلات جماعتِ احمدیہ کی کتب میں درج ہیں جو راشد علی اور اس کے پیر کو پرلے درجہ کا جھوٹا اور فریبی ثابت کرتے ہیں.چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کی کیفیات کی تفصیل لکھتے ہوئے فرماتے ہیں.جو کلمہ بھی اس وقت آپ کے منہ سے سنائی دیتا تھا وہ ان تین لفظوں میں محدود تھا.اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا.اللہ ! میرے پیارے الله صبح کی نماز کا وقت ہوا تو اس وقت جبکہ خاکسار موقف ( یعنی حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ ) بھی پاس کھڑا تھا.نحیف آواز میں دریافت فرمایا کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے.“ وو ایک خادم نے عرض کیا ہاں حضور ہو گیا ہے.اس پر آپ نے بستر کے ساتھ دونوں ہاتھ تیم کے رنگ میں چھو کر لیٹے لیٹے ہی نماز کی نیت باندھی مگر اسی دوران بیہوشی کی حالت ہوگئی.جب ذرا ہوش آیا تو پھر پوچھا " کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ عرض کیا گیا ہاں حضور ہو گیا ہے پھر دوبارہ نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی.اس کے بعد نیم بیہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب ہوش آتا تھا وہی الفاظ.وو اللہ ! میرے پیارے الله سنائی دیتے تھے.آخر ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دو لمبے لمبے سانس لئے اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقا اور محبوب جاودانی کی خدمت میں پہنچ گئی.انا لله وانا اليه راجعون.( سلسلہ احمدیہ صفحہ 183، 184 مطبوعہ نظارت تالیف و تصنیف قادیان 1939ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن میں دیکھ کر آپ کے والد صاحب نے فرمایا تھا کہ یہ زمینی نہیں بلکہ آسانی ہے یعنی آپ کی ابتداء بھی خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور رحمت کے سایہ میں تھی ، باقی زندگی بھی جیسا
96 96 کہ آپ فرماتے ہیں: ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار اسی طرح آپ کی وفات بھی خدا تعالیٰ کے نام پر ہی ہوئی.آپ کی زبان پر اسی کا نام تھا اور اسی کے نام کو زبان پر لے کر اس کے حضور حاضر ہو گئے.لعنت ہے.اس ابدی سچائی کے برخلاف جو بھی کوئی دوسری بات کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور جھوٹے پر خدا تعالیٰ کی
96 96 منافقت کا الزام
97 اپنے مختلف فولڈرز وغیرہ میں راشد علی بار بار امام جماعت احمد یہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ المسیح الربع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو مباہلہ کا چیلنج دیتا ہے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ہے: دو مباہلے کا موجودہ چیلنج سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی مندرجہ ذیل حدیث پاک کی روشنی میں دیا گیا جس شخص میں چار حصلتیں ہوں گی وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک موجود ہوگی تو اس میں نفاق کی ایک خصلت تو ہے جب تک کہ اس کو چھوڑ نہ دے.ا.جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے.۲.جب بات کرے تو جھوٹ بولے..جب وعدہ کرے تو وعدہ توڑ ڈالے.۴.جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے.( بخاری ومسلم ) قال رسول الله صلى الله عليه وسلّم اربع من كن فيه كان منافقاً خالصاً ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها : ا ـ اذا اوتمن خان : ٢ ـ واذا حدث كذب : ٣ـ واذا عاهد غدر : ۴ ـ واذا خاصم فجر (رواه البخارى والمسلم) معزة زقارئین ! مندرجہ بالا حدیث میں سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے نہ صرف معیار منافقت مقررفرمایا بلکہ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایک عام مسلمان کیسا ہونا چاہئے.اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب ، بانی جماعت احمدیہ ، منافقت کے کس درجہ میں فٹ ہوتے ہیں.واضح رہے کہ مرزا صاحب نبی ورسول مسیح موعود اور امام مہدی ہونے کے دعویدار تھے.ان دعووں کی موجودگی میں ان کو کس حد تک جھوٹ بولنے کی یا امانت میں خیانت کرنے کی یا وعدہ خلافی کرنے کی یا اپنے مخالفین کو گالیاں دینے کی اجازت ہونی چاہئے اس کا فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں.ذیل میں میں مرزا صاحب کی زندگی کے دونوں پہلوا جاگر کرنے کی کوشش کروں گا.قارئین یقینا مرزا صاحب کے ان دعاوی سے واقف ہوں گے جن میں گستاخانہ جسارت کے ساتھ انہوں نے سرکار دو عالم ﷺ کے خل و بروز
98 ہونے اور برابری کے دعوے کئے ہیں اور اپنے آپ کو اخلاق کے اس اعلیٰ ترین مقام پر فائز سمجھتے ہیں جو حضور ﷺ کا طرہ امتیاز تھا.مگر ان کی شخصیت کا دوسرا رخ ان کے ان دعاوی کا پول کھولنے کے لئے کافی ہے.آئیے فرداً فرداً منافقت کی چاروں نشانیوں کو سامنے رکھ کر مرزا صاحب کی زندگی کا جائزہ لیں.“ اپنی اس تعلی کے ثبوت کے طور پر راشد علی نے تین عناوین قائم کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر حملہ کیا ہے.(1) دروغ گوئی راشد علی ، دروغ گوئی کا الزام لگاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حسب ذیل تحریریں پیش کرتا ہے.و بچپن کے زمانے میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خوان معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھا ئیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا.“ (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 180 ) ” اور جب میری عمر تقریبا دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا.جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا.ان کا نام گل علی شاہ تھا.ان کو بھی میرے والد صاحب نے نو کر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا.“ اور اب تصویر کا دوسرا رخ :- (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 190 ) مہدی.قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوتا سو میں حلفاً کہتا ہوں کہ میرا حال یہی ہے.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہو.“ یہ اقتباس پیش کرنے کے بعد بے باک ہو کر راشد علی لکھتا ہے.(روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 394) " سبحان اللہ! جھوٹ اور وہ بھی حلفیہ!! غالبا مرزا صاحب کو یاد ہی نہ تھا کہ دوسری جگہ کیا لکھ چکے ہیں.حکماء نے
99 سچ کہا ہے کہ جھوٹ کا حافظہ نہیں ہوتا.“ قارئین کرام! راشد علی نے حسب معمول اعتراض کرتے وقت علمائے بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے از راہ تحریف کتاب ایام اصلح ، صفحہ 394 کی نصف عبارت پیش کی ہے.اصل حقیقت کو واضح کرنے کے لئے عبارت زیر بحث کا مکمل حصہ درج ذیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” سو آ نے والے کا نام جو ” مہدی“ رکھا گیا.سواس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگر دنہیں ہوگا.سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا یہی حال ہے.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے انسان سے قرآن ، حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے.پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے.“ ایام اسلح.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 394) راشد علی کی پیش کردہ عبارت کے سیاق میں ” علم دین اور سیاق میں اسرار دین“ کے الفاظ صاف طور پر مذکور ہیں.جن سے ہر اہل انصاف پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس عبارت میں قرآن کریم کے ناظرہ پڑھنے کا سوال نہیں.بلکہ اس کے معانی و مطالب ، حقائق و معارف کے سیکھنے کا سوال ہے اور عبارت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.آنحضرت علی نے آنے والے موعود کا نام جو مہدی رکھا.وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ علوم واسرار دین کسی انسان سے نہیں سیکھے گا.گویا حقائق و معارف قرآن مجید میں اس کا کوئی استاد نہیں ہوگا.چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس لحاظ سے آپ کا بھی کوئی استاد نہیں.جس سے آپ نے علوم دین یا اسرار دین کی تعلیم پائی ہو اور ظاہر ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ کا بلا ترجمہ و تشریح کسی شخص سے پڑھنا، علم واسرار دین سیکھنے کے مترادف نہیں ہے کیونکہ الفاظ قرآن اور علم قرآن میں خود قرآن مجید نے فرق کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيينَ رَسُولاً مِّنهُم يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتَابَ وَالحكمة.“ ( الجمعه 3) که رسول عربی ﷺ کو اللہ تعالی نے مبعوث فرمایا ہے.آپ لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات (یعنی الفاظ قرآن) پڑھتے ، ان کا تزکیہ نفس کرتے اور ان کو کتاب (یعنی قرآن مجید ) اور حکمت کا علم بھی دیتے ہیں.
100 اس آیت میں يَتلُوا عَلَيهِم آیاتہ کے الفاظ میں الفاظ قرآن کا ذکر فرمایا ہے اور يُعَلِّمُهُمُ الكِتاب فرما کر قرآن مجید کے مطالب و معانی اور حقائق و معارف کا تذکرہ فرمایا ہے.پس مندرجہ بالا آیت صاف طور پر بتا رہی ہے کہ صرف ” قرآن کا پڑھنا علم قرآن حاصل کرنا نہیں ہے.لہذا کسی شخص سے کسی کا الفاظ قرآن پڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس نے علوم دین بھی اس شخص سے حاصل کئے ہیں.66 دوسری عبارت جو راشد علی نے ”کتاب البریہ صفحہ 180 (روحانی خزائن جلد 13) حاشیہ سے پیش کی ہے.اس میں صرف اس قدر ذکر ہے کہ چھ برس کی عمر میں ایک استاد سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید پڑھا.اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حضور نے علم دین یا’ اسرار دین یا قرآن مجید کے حقائق ومعارف یا معانی و مطالب کسی شخص سے پڑھے، تا یہ خیال ہو سکے کہ حضرت مسیح موعود کی دونوں عبارتوں میں تناقض ہے.ہمارا دعویٰ ہے کہ " کتاب البریہ کی عبارت میں چھ برس کی عمر میں ایک استاد سے قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کا ذکر ہے اور ایام اصلح.صفحہ 394 روحانی خزائن جلد 14 کی عبارت میں کسی شخص سے قرآن مجید کے مطالب و معارف سیکھنے کی نفی کی گئی ہے.گویا جس چیز کی نفی ہے وہ اور ہے اور دوسری جگہ جس چیز کا اثبات ہے وہ اور ہے.ممکن ہے راشد علی یہ کہے کہ سیاق و سباق دیکھنے کی کیا ضرورت ہے دونوں عبارتوں میں قرآنِ مجید ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے.ہم تو دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنے لیں گے.اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک جگہ ایک لفظ بول کر نفی کی ہو.اور دوسری جگہ اسی لفظ کا استعمال کر کے اس کا اثبات کیا گیا ہومگر اس کے باوجود مفہوم اس لفظ کا دونوں جگہ مختلف ہو.چنانچہ بغرض تشریح دو مثالیں پیش ہیں.قرآن مجید کی رو سے بحالت روزہ بیوی سے مباشرت ممنوع ہے مگر بخاری مسلم ومشکوۃ تینوں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مندرجہ ذیل روایت درج ہے: - 1 الله عن عائشة رضى عنها قالت كان النبى الله يقبل ويباشر وهو صائم وكان املككم لاربه.( بخاری.کتاب الصوم - باب المباشرة الصائم و مشکوۃ.کتاب الصوم باب تنزیہ الصوم ) کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت روزہ میں ازواج کا بوسہ لے
101 لیا کرتے تھے.اور ان سے مباشرت کرتے تھے.اس حالت میں کہ آپ کا روزہ ہوتا تھا.مگر آپ اپنی خواہش پر تم سب سے زیادہ قابور رکھتے تھے.اب کیا قرآن کریم کے حکم لَا تُبَاشِرُوهُنَّ (البقرة:188 )کومندرجہ بالا روایت کے الفاظ وو يباشر وهو صائم کے بالمقابل رکھ کر کوئی ایماندار شخص یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ دونوں جگہ ایک ہی چیز کی نفی اور ایک ہی چیز کا اثبات کیا گیا ہے.ظاہر ہے کہ حدیث مندرجہ بالا میں ” مباشرت سے مراد مجامعت نہیں.بلکہ محض عورت کے قریب ہونا ہے اور اس پر قرینہ اسی روایت کا اگلا جمله و کـــان امــلـکـکـم لا ربہ ہے.لیکن ان معنوں کے بر عکس قرآن مجید میں جو لفظ مباشرت آیا ہے، اس سے مراد ” مجامعت“ ہے.پس گو دونوں جگہ لفظ ایک ہی استعمال ہوا ہے مگر اس کا مفہوم دونوں جگہ مختلف ہے اور سیاق وسباق عبارت سے ہمارے لئے اس فرق کا سمجھنا نہایت آسان ہے.-2 قرآن مجید میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا ضَلَّ صَاحِبُكُم وَمَا غَوَى (انجم:3) که رسول خدا عضال نہیں ہوئے اور نہ راہ راست سے بھٹکے لیکن دوسری جگہ فرمایا وَوَجَدَگ ضَالاً فَهَدی (الضحی : 8) کہ اے رسول ! ہم نے آپ کو ضال‘ پایا اور آپ کو ہدایت دی.دونوں جگہ ” ضال“ ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے.ایک جگہ اس کی نفی کی گئی ہے مگر دوسری جگہ اس کا اثبات ہے.کیا کوئی ایماندار کہہ سکتا ہے کہ ان دونوں عبارتوں میں تناقض ہے.ہرگز نہیں.کیونکہ ہر اہلِ علم دونوں عبارتوں کے سیاق وسباق سے سمجھ سکتا ہے کہ دونوں جگہ لفظ ” ضال‘ ایک معنے میں استعمال نہیں ہوا.بلکہ دونوں جگہ اس کا مفہوم مختلف ہے.ایک جگہ اگر مراد گمراہ ہونا ہے اور اس کی نفی ہے تو دوسری جگہ تلاش کرنے والا قرار دینا مقصود ہے اور وہاں اس امر کا اثبات ہے.پس کسی کا یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرنا کہ لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے ، سیاق و سباق عبارت دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ حد درجہ کی نا انصافی ہے.قرآن کریم کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی سے نہیں پڑھا ہم راشد علی کی پیش کردہ دونوں عبارتوں پر ان کے سیاق وسباق کے لحاظ سے جب غور کرتے ہیں تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ " کتاب البریہ صفحہ 180 کی عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ
102 ذکر فرمایا ہے کہ میری چھ سات سال کی عمر میں میرے والد صاحب نے میرے لئے ایک استاد مقرر کیا.جن سے میں نے قرآن مجید پڑھا.ایک ادنی سمجھ والا انسان بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ چھ سات سال کے عرصہ میں بچہ قرآن مجید کے معانی و مطالب اور حقائق و معارف سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا.پس یہ امرتسلیم ہی نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد بزرگوار نے چھ سات سال کی عمر کے بچہ کو معارف قرآنیہ سکھانے کے لئے ایک استاد مقرر کیا ہو.پس اس عبارت میں چھ سات سال کی عمر کا قرینہ ہی اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ حضور نے اس حوالہ میں قرآن مجید کے مجر دالفاظ کا استاد سے پڑھنا تسلیم فرمایا ہے.مگر حضور کی کسی تحریر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن کریم کے معانی و مطالب بھی حضور نے خدا تعالیٰ کے سوا کسی استاد سے پڑھے ہوں.اس کے بالمقابل راشد علی کی پیش کردہ عبارت از ایام الصلح ، (روحانی خزائن جلد 14 صفحه 394) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف لفظوں میں یہ فرمایا ہے کہ علم دین اور اسرار دین کے لحاظ سے قرآن مجید کسی سے نہیں پڑھا.اور یہ حقیقت ہے جس کی نفی کسی دوسری عبارت میں نہیں کی گئی.اس امر کے ثبوت میں کہ ایام الصلح کی عبارت میں قرآن مجید کے الفاظ کا ذکر نہیں.بلکہ قرآن مجید کے معانی ومطالب کے کسی انسان سے سیکھنے کی نفی ہے.ہم ایام الصلح “ کی عبارت کا سیاق وسباق اور اس کا مضمون دیکھتے ہیں.ایام الصلح کو دیکھنے سے یہ معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس موقع پر 6 66 اپنے دعویٰ مہدویت کی صداقت کے دلائل کے ضمن میں ایک دلیل ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں.(0) آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا ہے سو اس میں یہی اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگر دنہیں ہوگا.سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا یہی خیال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ کسی شخص سے میں نے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلا واسطہ مجھ پر کھولے گئے.“ ( ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 394) وو () اس مضمون پر بحث کرتے ہوئے ذرا آگے چل کر فرماتے ہیں:.مہدویت سے مراد وہ بے انتہا معارف الہیہ اور علوم حکمیہ اور علمی برکات ہیں جو آنحضرت کو بغیر واسطه کسی استاد کے علم دین کے متعلق سکھائے گئے.“ ( تیام اصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 396)
103 اس عبارت میں بعینہ وہی مضمون ہے جو معترض کی پیش کردہ عبارت میں ہے اور اس کے ساتھ ہی اس میں ان الفاظ کی مکمل تشریح بھی موجود ہے جن کے اجمال سے معترض نے ناجائز فائدہ اٹھانے کی بیہودہ اور ناکام کوشش کی ہے.(ج) پھر اگلے صفحہ پر اسی مضمون کو مندرجہ ذیل الفاظ میں سہ کر ر بیان فرمایا ہے.” روحانی اور غیر فانی برکتیں جو ہدایت کاملہ اور قوت ایمانی کے عطا کرنے اور معارف اور لطائف اور اسرار الہیہ اور علوم حکمیہ کے سکھانے سے مراد ہے.ان کے پانے کے لحاظ سے وہ مہدی کہلائے گا.“ ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 397) اس عبارت میں بھی ” مہدویت کی تعریف کو دوہرایا گیا ہے.'معارف' 'لطائف اور اسرار الہیہ اور علوم حکمیہ کے الفاظ اس بات کی قطعی دلیل ہیں کہ معترض کی پیش کردہ صفحہ 394 والی عبارت میں بھی انہی امور کا ذکر ہے.قرآن مجید کے الفاظ پڑھنے کا ذکر نہیں.جیسا کہ اس عبارت میں ” علم دین اور اسرار دین کے الفاظ اس پر گواہی دے رہے ہیں اور جن کے متعلق او پر لکھا جا چکا ہے.(9) اسی دلیل کو اور زیادہ وضاحت سے بیان کرتے ہوئے صفحہ 404 پر حضرت اقدس فرماتے ہیں:.ہزار ہا اسرار علم دین کھل گئے.قرآنی معارف اور حقائق ظاہر ہوئے.کیا ان باتوں کا پہلے نشان تھا؟ اس عبارت میں بھی حضور نے جن چیزوں کے خدا تعالیٰ سے سیکھنے کا ذکر فرمایا ہے وہ قرآنی معارف وحقائق ہیں نہ کہ الفاظ قرآنی! (1) آگے چل کر بطور نتیجہ تحریر فرماتے ہیں : ” سو میری کتابوں میں ان برکات کا نمونہ بہت کچھ موجود ہے.براہینِ احمدیہ سے لے کر آج تک جس قدر متفرق کتابوں میں اسرار اور نکات دین خدا تعالیٰ نے میری زبان پر باوجود نہ ہونے کسی استاد کے جاری کئے ہیں.اس کی نظیر اگر موجود ہے تو کوئی صاحب ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 406) پیش کریں.(1) پھر فرماتے ہیں:
104 جو دینی اور قرآنی معارف حقائق اور اسرار مع لوازم بلاغت وفصاحت کے میں لکھ سکتا ہوں.دوسرا ہرگز نہیں لکھ سکتا.اگر ایک دنیا جمع ہو کر میرے اس امتحان کے لئے آئے تو مجھے غالب پائے گی.( ایضا صفحہ 406) (ن) اس عبارت پر حاشیہ میں لکھتے ہیں : ” مہوتسو کے جلسہ میں بھی اس کا امتحان ہو چکا ہے.“ (ایضاً حاشیہ) (ع) اسی طرح صفحہ 407 پر بھی حقائق و معارف اور نکات اور اسرار شریعت کے الفاظ موجود ہیں.غرضیکہ ایام اصلح کے مندرجہ بالا اقتباسات سے جو سب کے سب راشد علی کی پیش کردہ عبارت کے ساتھ ملحق ہیں، یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی انسان سے جس چیز کے پڑھنے کی نفی فرمائی ہے.وہ قرآنی الفاظ نہیں بلکہ حقائق و معارف قرآنیہ ہیں.حضرت اقدس نے ایام الصلح یا کسی اور کتاب میں ایک جگہ بھی یہ تحریر نہیں فرمایا کہ میں نے قرآن مجید ناظرہ بھی کسی شخص سے نہیں پڑھا.نہ یہ چیلنج دیا ہے کہ میں استاد نہ ہونے کے باوجود قرآن مجید کے الفاظ اچھی طرح پڑھ سکتا ہوں اور یہ کہ فن قرآت میں میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.ہاں حضور نے یہ دعوئی فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف ، مطالب اور نکات آپ کے الہام الرحمنُ عَلَّمَ القُرآن “ (تذکرہ صفحہ 44 ایڈیشن سوم ) کے مطابق آپ کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوئے اور اس لحاظ سے یقیناً آپ نے قرآنِ مجید کسی انسان سے نہیں پڑھا.اور اس امر کا دعویٰ آپ نے ایام الصلح ،صفحہ 394 پر بھی کیا ہے.جس کو معاندین جماعت احمدیہ انتہائی نا انصافی سے بطور اعتراض پیش کر کے ناواقف لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں.و من تلبيسهم قد حرّفوا الالفاظ تفسيراً و قد بانت ضلالتهم ولو القوا معاذيرا نور الحق جلد اول.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 178 ) کہ ان کی ایک تلبیس یہ ہے کہ الفاظ کی تفسیر میں انہوں نے تحریف کر دی ہے اور ان کی گمراہی ظاہر ہو چکی ہے اگر چہ اب عذر بھی پیش کریں.اس حقیقت کا ثبوت کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنِ کریم کے رموز و معارف محض خدا
105 ย تعالیٰ سے پائے، ایک یہ بھی ہے کہ حضرت خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف والے حضرت مولوی حکیم نور الدین خلیفتہ اسیح الاوّل کی ایک شہادت قلمبند کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: قرآن شریف کے معانی کے رموز جو کچھ ہم لوگوں کو معلوم ہیں وہ عموماً صوفیاء کی کتابوں ہی سے ہیں.خصوصاً فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی سے.مگر قرآن شریف کے وہ اسرار اور معانی جو ہم نے حضرت مرزا صاحب سے سنے ہیں نہ پہلے کسی کتاب میں دیکھے ہیں اور نہ سوائے 66 حضرت مرزا صاحب کے کسی اور شخص سے سنے ہیں.“ ( اشارات فریدی جلد سوم صفحه 43,42 مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ بحوالہ حیاۃ نور صفحہ 204 مطبوعہ 1963) (2) وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت راشد علی نے بڑی تعلی کے ساتھ عنوان باندھا ہے." مرز اغلام صاحب قادیانی اور وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت اس کے تحت وہ لکھتا ہے.1879ء میں مرزا صاحب نے اعلان فرمایا کہ وہ خدا کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں کہ اسلام کی حقانیت ثابت کریں.اس مقصد کے لئے وہ پچاس جلدوں میں براہین احمدیہ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں.چونکہ مرزا صاحب ایک غریب آدمی ہیں اس لئے مسلمان بھائیوں اور مخیر حضرات سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ مرزا صاحب کی مالی اعانت کریں اور پیشگی کتاب کی قیمت ادا کر دیں تو جیسے جیسے چھپتی جائے گی ان کو روانہ کر دی جائے گی.(مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 18، 19) چاروں اطراف سے مسلمانوں نے پیسہ روانہ کرنا شروع کر دیا.اگلے چار سالوں میں چار جلدیں شائع کرنے کے بعد مرزا صاحب کو چکر آنے لگے.پچاس جلدوں کا مطلب تھا کہ بقایا عمر اب صرف کتاب لکھنے ، چھاپنے اور تقسیم کرنے میں ہی صرف ہوگی.اکثر حضرات سے قیمت پیشگی وصول ہو چکی تھی گویا کہ کمائی کا دروازہ تو بند ہو گیا.اب تو کتا بیں چھاپو اور تقسیم کرو.چنانچہ چوتھی جلد کے بعد براہین احمدیہ کی تالیف اور چھپائی کا سلسلہ موقوف کر دیا گیا.پیشگی خریداروں کے بے پناہ احتجاجات کے باوجود اگلے 23 سال میں مرزا صاحب نے 80 دیگر کتا ہیں لکھ کر فروخت کیں.براہین احمدیہ کی پانچویں جلد بالآخر 23 سال بعد شائع کی گئی ( ملاحظہ فرمائیے روحانی خزائن جو مرزا صاحب کی ان کم و بیش 80 کتابوں کا مجموعہ ہے
106 جسے جماعت احمدیہ کے صدر دفتر واقع لندن سے شائع کیا گیا ہے.) ہیں: مگر آیا یہ ڈھٹائی کی انتہا تھی یا مرزا صاحب کی پیغمبر آ نہ شان کہ براہین احمدیہ حصہ پنجم کے دیباچہ میں فرماتے یہ وہی براہین احمدیہ ہے کہ جس کے پہلے چار حصے طبع ہو چکے ہیں.بعد اس کے ہر ایک سر صفحہ پر براہین احمدیہ کا حصہ پنجم لکھا گیا.پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا.اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہو گیا.“ (روحانی خزائن جلد 12 صفحه 9) سبحان اللہ ! کیا حساب ہے.پچاس کا وعدہ بھی پورا ہو گیا اور پیسے بھی ہضم ! کیا یہی مرزائی پیغمبر آنہ معیار دیانتداری ہے؟ نقطوں کا یہ ہیر پھیر قادیانی تحریک کا امتیازی نشان بن چکا ہے.کیوں نہ ہو آ خر ان کے پیغمبر کی سنت جو ہوئی.غالبا یہ اسی قسم کے نقطوں کی ہیرا پھیری کا کمال ہے کہ مرزا طاہر احمد ہر سال دس سے پچاس لاکھ افراد کی جماعت احمدیہ میں شمولیت کا دعوی کر کے اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں اپنے پیروکاروں کو دھوکہ دیتے ہیں.“ دو اپنی اس تحریر میں راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وعدہ خلافی “ اور ” امانت میں خیانت کا الزام لگایا ہے نیز ” پچاس اور پانچ پر بھی زبان استہزا دراز کی ہے اور ہر سال جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والوں کی کثرت پر بھی طعن کیا ہے.ذیل میں ان امورکارڈ ملاحظہ فرمائیں.ا.وعدہ خلافی وعدہ خلافی کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا ارادہ تو فی الواقع تین سو دلائل و براہین احمدیہ نامی کتاب ہی میں لکھنے کا تھا.مگر ابھی چار حصے لکھنے پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مامور فرما دیا.اور تالیف و تصنیف سے زیادہ عظیم الشان کام کی طرف متوجہ کر دیا.اس لئے حضور کو مجبوراً محض ” براہین احمدیہ کی تالیف کا کام چھوڑنا پڑا.اور یہ بات اہلِ اسلام کے ہاں مسلم ہے کہ حالات کے تبدیل ہونے کے ساتھ وعدہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبدیلی حالات کا ذکر وو براہین احمدیہ کے حصہ چہارم کے آخری صفحہ پر بعنوان ” ہم اور ہماری کتاب“ صاف لکھا کہ ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اس کے قدرت الہیہ کی نا گہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ
107 غیب سے اِنِّی اَنَا رَبُّكَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتم ظاہر و باطناً حضرت رب العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیقت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں.(براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد 1 - آخری صفحہ ) گویا اب حالات بدل گئے اور مشیت ایزدی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارادہ کو ایک اعلیٰ مقصد کی ادائیگی کی طرف پھیر دیا.یہ تو ہر مسلمان کو علم ہے کہ ایک رؤیا کی بنا پر نبی کریم حج پر تشریف لے گئے اور اپنے ہمراہ قربانیاں بھی لے گئے.لیکن حج کی بجائے عمرہ ہی کر سکے تو فرمایا " لو استقبلت من امری ما استدبرت ما سقت الهدى معى 66 (مشکوۃ کتاب الحج.باب قصة حجۃ الوداع ) کہ اگر مجھے اس معاملہ کی پہلے خبر ہوتی تو میں اپنے ساتھ قربانی کے جانور نہ لاتا.“ ( یعنی حالات کی تبدیلی کی وجہ سے مجبوراً عمرہ پر ہی اکتفا کرنا پڑا.) پس یہ مسلمہ سچائی ہے کہ حالات کے بدلنے سے پروگرام بدل جایا کرتے ہیں.خصوصاً اعلیٰ مقاصد کے لئے ادنی وعدے کا لعدم قرار پا جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک اعلیٰ منصب پر مامور فرما کر آپ کے حالات بدل دیئے.اس لئے براہین احمدیہ بھی اس صورت میں مکمل نہ ہوسکی جس طرح حضور پہلے ارادہ رکھتے تھے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک ادنی وعدہ تھا جو منشائے الہی سے حالات بدل جانے کے باعث بہت اعلیٰ رنگ میں پورا ہوا.اس کا نام خلاف وعدہ رکھنا غلطی ہے.تین سو (300) دلائل کے متعلق حضور نے تحریر فرمایا ہے کہ ” میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثبات حقیقت اسلام کے لئے تین سو دلائل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل ( اعلیٰ تعلیمات اور زندہ معجزات.ناقل ) ہزار ہا نشانوں کے قائم مقام ہیں.پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا.“ (دیباچه براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21)
108 چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقانیت اسلام کے متعلق بلحاظ اعلیٰ واکمل تعلیمات اور زندہ معجزات اتنی (80) سے زائد کتب تصنیف فرما ئیں اور ان تمام دلائل کا بالتفصیل ذکر فرمایا ہے.پس وہ ارادہ بہر حال ایک اعلی رنگ میں پورا ہو گیا.افسوس ہے کہ یہ لوگ جو قرآن کریم کی محکم کی آیات میں بھی نسخ کے قائل ہیں اور مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بعض آیات کو بعض کے ذریعہ منسوخ کر دیا ہے وہ اتنی سی بات پر معترض ہورہے ہیں کہ حضرت اقدس نے براہین احمدیہ کی تکمیل کے متعلق جو ارادہ ظاہر فرمایا تھاوہ مزید وسعت اور جامعیت کے ساتھ کیوں پورا ہوا ، بعینہ اسی طرح ابتدائی رنگ میں کیوں سرانجام نہ پایا؟ روایت ہے: " عن مجاهد أنه قالت اليهود لقريش اسئالوه عن الروح وعن اصحاب الكهف وذى القرنين فسالوه فقال ائتونى غداً اخبركم ولم يستثن فابطا عنه الوحى بضعة عشر يوماً حتى شق عليه و كذبته قريش ( تفسیر کمالین.برحاشیہ تفسیر جلالیں مجتبائی صفحہ 241) کہ قریش نے آنحضرت ﷺ سے ایک سوال کیا.آپ نے فرمایا کل آؤ میں تم کو اس کا جواب بتاؤں گا.آپ نے انشاء اللہ نہ کہا.لیکن دس پندرہ دن گزر گئے اور اس بارہ میں آپ پر کوئی وحی نازل نہ ہوئی.جس سے قریش نے آپ کی تکذیب کی (یعنی آپ کو خلاف وعدہ کا الزام دیا ) اور یہ بات آپ پر بہت شاق گزری.بہت سے مفسرین اس واقعہ کو قتل کیا ہے اور بتایا ہے کہ چونکہ حضور ﷺ نے اس وعدہ کے وقت انشاء اللہ نہ کہا تھا اس لئے ایسا ہوا.مانتے ہیں.ہمیں اس واقعہ کی صحت کے متعلق کوئی بحث نہیں.کیونکہ کثرت سے غیر احمدی علماء اسے درست پس کیا را شد علی اور اس کے ہمنوا کہیں گے کہ (نعوذ باللہ) رسول کریم ﷺ نے خلاف وعدہ کیا ؟ اگر یہ خلاف وعدہ نہیں اور یقینا نہیں کیونکہ اس کا سرانجام پانا اللہ کی مشیت پر موقوف تھا تو پھر برائلین احمدیہ کی تعمیل کا ارادہ ظاہر کرنے میں حضرت اقدس پر وعدہ خلافی کا الزام کیونکر عائد ہوسکتا ہے؟ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ
109 حضرت جبریل علیہ السلام آنحضرت ﷺ سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ رات کو ضرور آئیں گے لیکن رات گزر جاتی ہے اور وہ نہیں آتے.پھر جب دوسرے وقت آئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا :.صورة “ " لقد كنت وعد تنى ان تلقاني البارحة قال اجل ولكنا لا ندخل بيتا فيه كلب ولا ( مشکوۃ.باب التصاویر مطبوعہ دینی کتب خانہ لاہور ) کہ آپ نے گذشتہ رات آنے کا وعدہ کیا تھا مگر نہ آئے؟ اس نے کہا وعدہ تو ٹھیک کیا تھا لیکن ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوا کرتے جہاں کتا یا صورت ( بت وغیرہ ) ہو.“ پس کیا راشد علی، اس کا پیر اور ان کے ہمنوا اب حضرت جبریل علیہ السلام پر بھی وعدہ خلافی کا الزام لگائیں گے.( نعوذ باللہ ) حقیقت یہ ہے کہ مشیت الہی کے تحت نئی صورت حال پیدا ہونے سے اور خصوصاً اعلی صورت کی طرف حالات بدل جانے سے اگر پروگرام بدل جائیں اور اعلیٰ مقاصد پیش نظر ہوں تو ان پر وعدہ خلافی کا الزام لگانا سخت نا انصافی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اعلیٰ صورت کی طرف بدل دیئے تو آپ کو وہ وعدہ بھی اعلیٰ رنگ میں اور بڑھا چڑھا کر پورا کرنے کی توفیق ii.امانت میں خیانت راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنے صریح بہتان ”امانت میں خیانت“ کی دلیل کے طور پر کتاب براہین احمدیہ کے لئے لوگوں سے رقوم کی وصولی کو پیش کیا ہے.را شد علی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بغض و عناد میں ابولہب کی طرح ادھار کھاتے بیٹھا ہے.انبیاء علیہم السلام کے دشمنوں کی طرح وہ ہر حال میں نیش زنی کرتا ہے.حالانکہ براہین احمدیہ کی رقوم کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کوئی بہتان لگایا ہی نہیں جاسکتا.آپ نے حالات بدل جانے کی وجہ سے رقوم کی واپسی کے لئے وہی انتہائی اقدام کئے جو ایک دیانتدار اور امین شخص کر سکتا ہے.آپ نے خاص طور پر دو مرتبہ سے زائد اشتہار دیا کہ جو جولوگ اپنی قیمتیں واپس لینا چاہتے ہیں وہ وصول شدہ کتاب واپس بھیج کر قیمت واپس منگوالیں.
110 آپ نے اپنے اشتہار زیر عنوان ” براہین احمدیہ اور اس کے خریدار میں بڑی وضاح کے ساتھ لکھا :.” ایسے لوگ جو آئندہ کسی وقت جلد یا دیر سے اپنے روپیہ کو یاد کر کے اس عاجز کی نسبت کچھ شکوہ ا کرنے کو تیار ہیں یا ان کے دل میں بھی بدظنی پیدا ہو سکتی ہے وہ براہ مہربانی اپنے ارادہ سے مجھ کو بذریعہ خط مطلع فرما دیں اور میں ان کا روپیہ واپس کرنے کے لئے یہ انتظام کروں گا کہ ایسے شہر میں یا اس کے قریب اپنے دوستوں میں سے کسی کو مقرر کر دوں گا کہ تا چاروں حصے کتاب کے لے کر رو پید ان کے حوالے کرے.اور میں ایسے صاحبوں کی بدزبانی اور بدگوئی اور دشنام دہی کو بھی محض اللہ بخشتا ہوں.کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے لئے قیامت میں پکڑا جائے اور اگر ایسی صورت ہو کہ خریدار کتاب فوت ہو گیا ہو اور وارثوں کو کتاب بھی نہ ملی ہو تو چاہئے کہ وارث چار معتبر مسلمانوں کی تصدیق خط میں لکھوا کر کہ اصلی وارث وہی ہے وہ خط میری طرف بھیج دے تو بعد اطمینان وہ روپیہ بھی بھیج دیا جائے گا.‘“ (تبلیغ رسالت جلد 3 صفحہ 35) اس کے بعد کیا ہوا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: ا.لی ۲." ” پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس (دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 7 طبع اول) ” ہم نے.دو مرتبہ اشتہار دے دیا کہ جو شخص برا مین احمدیہ کی قیمت واپس لینا چاہے وہ ہماری کتابیں ہمارے حوالے کرے اور اپنی قیمت لے لے.چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے تھے انہوں نے کتابیں بھیج دیں اور قیمت واپس لے لی.اور بعض نے تو کتابوں کو بہت خراب کر کے بھیجا.مگر پھر بھی ہم نے قیمت دے دی خدا کا شکر ہے کہ ایسے دنی طبع لوگوں سے خدا تعالیٰ نے ہم کو فراغت بخشی (تیام اصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 196) یہ حتمی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک بھی ایسا شخص باقی نہ رہا تھا جس نے قیمت کی واپسی کا مطالبہ کیا ہو اور اسے واپس ادا نہ کی گئی ہو.اور جو دنی الطبع لوگ تھے وہ بھی سب کے سب فارغ کر دیئے گئے تھے.ورنہ ان اشتہارات اور تحریروں کی اشاعت پر وہ ضرور بول اٹھتے کہ ان کی 66
111 پیشگی رقم واپس نہیں کی گئی.را شد علی کوئی ایک ثبوت بھی پیش نہیں کر سکتا کہ کسی نے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا ہو اور اسے واپس نہ دی گئی ہو.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تو دنی الطبع لوگ ایسے تھے کہ انہوں نے گالیاں بھی دیں اور قیمتیں بھی واپس لیں لیکن آج کل ایسے ہیں کہ جنہوں نے رقم بھی کوئی نہیں دی اور گالیاں بھی دیتے ہیں اور جھوٹے الزام بھی لگاتے ہیں !!! بالآخر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ دنیا کے اکثر لوگ جو تاریکی میں پیدا ہوتے اور اسی میں مرجاتے ہیں خدا کے نبیوں پر مالی معاملات میں بھی زبان طعن دراز کیا کرتے ہیں.رسول اللہ ﷺ کو بھی غنیمتوں کی تقسیم میں مطعون کیا گیا.ایسا طعن کرنے والوں کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمِنهُم مَّن يُلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَتِ (التوبه: 58) کہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ جو تجھ پر صدقات کے سلسلہ میں الزام لگاتے ہیں.یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار iii.پچاس اور پانچ جہائیک پانچ اور پچاس پر راشد علی کے استہزاء کا تعلق ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پانی کو جو پچاس کے برابر قرار دیا ہے.یہ آپ نے حساب اپنی طرف سے نہیں لگایا.بلکہ خدا تعالیٰ کا بتایا ہوا حساب ہے.چنانچہ بخاری میں ہے: فقال هي خمس وهي خمسون ( بخاری.کتاب الصلوۃ.باب کیف فرضت الصلوۃ فی المعراج) کہ معراج کی رات جب آنحضرت ﷺ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے پچاس نمازوں میں تخفیف کرانے کے لئے آخری مرتبہ اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوئے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا لیجیئے یہ پانچ ! یہ پچاس ہیں.اور مشکوۃ کتاب الصلوۃ میں حدیث معراج کے یہ الفاظ ہیں : وو قال انهن خمس صلوات كل يوم و ليلة لكلّ صلواة عشر فذلك خمسون صلوة“ ( مشکوۃ.باب فی المعراج)
112 ترجمہ :.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر دن اور رات میں یہ پانچ نمازیں ہیں.اور ان میں سے ہر ایک دس کے برابر ہے.پس یہ پچاس نمازیں ہوگئیں.راشد علی کی بڑی ہی جہالت ہے جو اس نے یہ لکھا ہے کہ ” نقطوں کا یہ ہیر پھیر قادیانی تحریک کا امتیازی نشان بن چکا ہے.کیوں نہ ہو آخر ان کے پیغمبر کی سنت جو ہوئی.“ یہ نقطوں کا ہیر پھیر نہیں بلکہ پچاس کے فیض اور برکت کو پانچ میں سمونے کا امتیازی نشان ہے جو ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پاک سنت ہے.گوراشد علی نے اپنا بغض تو نکالا ہے لیکن جہالت میں بات ٹھیک ہی کر گیا ہے.یہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت ہے.جس کی پیروی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے.۱۷.لاکھوں افراد کی جماعت احمدیہ میں شمولیت را شد علی لکھتا ہے نقطوں کا یہ ہیر پھیر قادیانی تحریک کا امتیازی نشان بن چکا ہے.کیوں نہ ہو آ خر ان کے پیغمبر کی سنت جو ہوئی.غالباً یہ اس قسم کے نقطوں کی ہیرا پھیری کا کمال ہے کہ مرزا طاہر احمد ہر سال دس سے پچاس لاکھ افراد کی جماعت احمدیہ میں شمولیت کا دعویٰ کر کے اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں اپنے پیروکاروں کو دھوکہ دیتے ہیں.“ اول تو راشد علی کی یہ بات جھوٹی ہے کہ مرزا طاہر احمد ہر سال دس سے پچاس لاکھ افراد کی جماعت احمدیہ میں شمولیت کا دعوی کر کے اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں اپنے پیروکاروں کو دھوکہ دیتے ہیں.“ کیونکہ ہر سال لاکھوں نہیں اب کروڑوں لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو رہے ہیں.چنانچہ گزشتہ چند سال کی بیعتوں کا ریکارڈ یہ ہے: 1,602,721 1996-1997 3,004,584 1997-1998 5,004,591 1998-1999
113 41,308,975 81,006,721 1999-2000 2000-2001 پس را شد علی اس لحاظ سے بھی جھوٹا ہی ثابت ہوا.باقی جہانتک اس کی جھوٹی تسلیوں والی بات کا تعلق ہے تو واقعات ہی اس کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں.دراصل جماعت کی روز افزوں ترقی دیکھ کر راشد علی کو اس کا شیطان جھوٹی تسلیاں دیتا ہے کیونکہ ” يُمنيهم“ اسی کا کام ہے کہ وہشیطان اپنے چیلوں کو جھوٹی تسلیاں دیتا ہے.چنانچہ راشد علی پر خدا تعالیٰ کا یہ فرمان بالکل سچ بیٹھتا ہے کہ وَمَا يَخْدَعُوْنَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وہ محض خود اپنے آپ کو ہی دھو کے میں مبتلا کر رہا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمد یہ الہی وعدوں کے مطابق ایسی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ ہر طرف ” يَدْخُلُونَ فِي دِيْنِ اللهِ أَفْوَاج " کا نظارہ نظر آتا ہے.اور بادشاہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈتے ہیں.فالحمد للہ رب العالمین.اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے کہ یہ جلد تمام علام پر محیط ہو جائے گا اور کوئی نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کو روک سکے.(3) لعنت بازی را شد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” ازالہ اوہام سے ، سیاق وسباق سے الگ کر کے یہ فقرہ درج کیا ہے..لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں مومن لعان نہیں ہوتا.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 456) اس کے بعد اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” انجام آتھم کے ضمیمہ سے یہ عبارت درج کی ہے کہ عبدالحق غزنوی بار بار لکھتا ہے کہ آتھم والی پیشنگوئی میں پادریوں کی فتح ہوئی ، ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا لکھیں؟ کہ اے بدذات ، یہودی صفت، پادریوں کا اس میں منہ کالا ہوا اور اس کے ساتھ ہی تیرا بھی.خبیث، کب تک تو جیئے گا.خاص کر اس رئیس الدجالين عبد الحق غزنوی اور اس کا تمام گروه عليهم نعال لعن الله
114 الف الف مرة.ان پر خدا کی لعنت کے دس لاکھ جوتے برسیں.اے پلید دجال ! تعصب نے تجھ کو اندھا کر دیا.“ (ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 329 ،330) اس کے بعد راشد علی لکھتا ہے کہ ” مرزا صاحب نے اپنی کتاب نورالحق میں اپنے بعض عیسائی مخالفوں پر ہزار لعنتیں بھیجیں ہیں.یہ کوئی عجیب بات نہیں.مرزا صاحب ہمیشہ سے ہی لعنتوں کی مشین گن چلانے کے عادی تھے لیکن اس جگہ تو انہوں نے حد ہی کر دی تھی.کتاب کے چار سے زیادہ صفحات پر گفتی کر کے ایک ہزار لعنتوں سے سیاہ کر دیئے.لعنت 1 لعنت 2 لعنت 3 لعنت 999 لعنت 1000 66 ا لعنت بازی صد یقوں کا کام نہیں“ معز زقارئین ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "كَيفَ يَهْدِى اللَّهِ قَوْمًا كَفَرُوا بَعدَ إِيمَانِهِم وَشَهدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَ هُمَ البَيِّنَتُ وَاللهُ لَا يَهدِى القَومَ الظَّلِمِينَ ) أُولَئِكَ جَزَاءُ هُم أَنَّ عَلَيْهِم لَعَنَةَ اللَّهِ وَالمَلئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (آل عمران : 88،87) ترجمہ : اللہ تعالیٰ اس قوم کو کیونکر ہدایت دے گا کہ جس نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا اور انہوں نے گواہی دی تھی کہ یقینا رسول سچا ہے اور ان کے پاس روشن دلائل بھی آئے.اور اللہ تعالی ظلم کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا.یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر یقینا اللہ تعالی کی اور اس کے فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن لوگوں کو مخاطب کر کے یہ فرمایا تھا کہ دو جزئی اختلافات کی وجہ سے لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں.مومن لعان نہیں ہوتا.“ ان کی کیفیت اور صورتِ حال کا پورا نقشہ مذکورہ بالا آیات میں کھینچا گیا ہے.ان لوگوں نے ان روشن اور واضح نشانات کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے مہدی اور مسیح کے لئے پیشگوئیوں کی صورت میں بیان فرمائے تھے.وہ نشانات رسول اللہ ﷺ کے حق میں ہونے کی شہادت تھے اور مسیح موعود علیہ السلام کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل تھے.ان نشانات کو ان لوگوں نے نہ صرف رد کیا تھا
115 بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکفیر، تکذیب اور آپ پر سب و شتم اور لعنت بازی کی با قاعدہ مہم شروع کر دی تھی.ایسے لوگ جو خدا تعالیٰ کے ماموروں پر لعنت بازی کا بازار گرم کرتے ہیں وہ خود خدا تعالیٰ کی لعنت کے ساتھ ملائکہ اور سب لوگوں کی طرف سے لعنت کے مورد بنتے ہیں.اس طرح یہ لعنت لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ان پر برستی ہے.پس اگر یہ لعنت کی مشین گن ہے تو پھر یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ چلائی ہے اور ایک ہی بار میں اپنے علاوہ اپنے ان گنت فرشتوں اور بے شمار انسانوں کی لعنت ان پر پھینک دی ہے.ایسی ہی لعنت کا ذکر قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان سے بھی ملتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف ان لوگوں کو مخاطب کیا جنہوں نے آپ پر لعنت بازی اپنا فرض منصبی سمجھ رکھا تھا.آپ نے انہیں سمجھایا کہ لعنت بازی سے باز آ ئیں کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ جزئی اختلافات کی وجہ سے لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں اور یہ کہ مومن لغان نہیں ہوتا.ان لوگوں میں مولوی عبد الحق غزنوی بھی تھے.ان کا ایک اشتہار ” ضرب التعال علی وجہ الہ جال، مطبوعہ 3 شعبان 1314ھ اپنے نام سے ہی اپنا سارا مضمون واضح کر رہا ہے لیکن اس اشتہار کے اندر انہوں نے بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لعنت بھیجی.آپ کو لعنتی کہا اور یہ بھی لکھا کہ " لعنت کا طوق اس کے گلے کا ہار ہے.“اور ” لعنت کا بوت اس کے سر پر پڑا.اور اللہ کی لعنت ہو وغیرہ وغیرہ اسی طرح مولوی محمد حسین بٹالوی نے تو حد ہی کر دی.انہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ ا لستہ میں سنت کی اشاعت چھوڑ کر دشنام طرازی اور لعنت بازی کا طومارکھول دیا.ان کے رسالہ کے صرف ایک ہی پر چہ یعنی ” اشاعۃ السنہ نمبر کیم لغایت ششم جلد شانز دہم 1893ء کو ہی دیکھیں کہ گالیوں کی گردان کے علاوہ انہوں نے کس طرح لعنت بازی کی ہے اور بار بار ملعون لعنت کا مستحق اور مور د ہزار لعنت خدا و فرشتگان و مسلمانان وغیرہ وغیرہ تحریر کیا ہے.یہی حال شیخ الکل مولوی نذیرحسین دہلوی ، مولوی عبد الجبار غزنوی اور ان کے ہم مشرب لوگوں کا تھا.انہوں نے جو عنتیں خدا تعالیٰ کے مامور مسیح و مہدی پر پھینکی تھیں مسیح موعود علیہ السلام نے وہی ان کی طرف لوٹا دی تھیں.اور انہیں کا نمونہ راشد علی نے ” ضمیمہ انجام آتھم سے نکالکر پیش کیا ہے.اس اقتباس
116 میں مولوی عبدالحق غزنوی پر جن لعنتوں کا ذکر ہے وہ لعنتیں انہیں کی تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں کو واپس کر دیں.دوسری بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” ازالہ اوہام، جس سے راشد علی نے مذکورہ بالا فقرہ اٹھایا ہے.وہاں صاف نظر آ رہا ہے کہ آپ کی پوری کوشش تھی کہ کسی پر لعنت نہ ڈالی جائے.جیسا کہ اگلی سطور میں آپ نے اس کا واضح الفاظ میں ذکر فرمایا ہے.لیکن مخالفین ایسے تھے کہ جو لعنت بازی میں ظلم کی حدود پھلانگ چکے تھے.آپ نے انہیں ایک ایسا طریق پیش کیا جو ہر معقول انسان کے نزدیک تو قابل قبول تھا مگر چند لعان مولوی ایسے تھے جنہوں نے اسے بھی قبول نہ کیا.اس پر آپ نے انہیں فرمایا.تمہیں معلوم ہو کہ مسلمانوں کے ساتھ جزئی اختلافات کی وجہ سے لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں.مومن لعان نہیں ہوتا.لیکن ایک طریق بہت آسان ہے اور وہ درحقیقت قائم مقام مباہلہ ہی ہے جس سے کا ذب اور صادق اور مقبول اور مردود کی تفریق ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے جو ذیل میں موٹی قلم سے لکھتا ہوں.اے حضرات مولوی صاحبان ! آپ لوگوں کا یہ خیال کہ ہم مومن ہیں اور یہ شخص کا فراور ہم صادق ہیں اور یہ شخص کا ذب اور ہم متبع اسلام ہیں اور یہ شخص ملحد اور ہم مقبول الہی ہیں اور یہ شخص مردود اور ہم جنتی ہیں اور یہ شخص جہنمی.اگر چہ غور کر نیوالوں کی نظر میں قرآن کریم کی روسے بخوبی فیصلہ پاچکا ہے اور اس رسالہ کے پڑھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون.لیکن ایک اور بھی طریق فیصلہ ہے جس کی رو سے صادقوں اور کا ذبوں اور مقبولوں اور مردودوں میں فرق ہو سکتا ہے.عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر مقبول اور مردود اپنی اپنی جگہ پر خدا تعالیٰ سے کوئی آسمانی مدد چاہیں تو وہ مقبول کی ضرور مددکرتا ہے اور کسی ایسے امر سے جو انسان کی طاقت سے بالا تر ہے اس مقبول کی قبولیت ظاہر کر دیتا ہے.سو چونکہ آپ لوگ اہل حق ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور آپ کی جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو ہم ہونے کے مدعی ہیں
117 جیسے مولوی محی الدین و عبد الرحمن صاحب لکھو والے اور میاں عبدالحق صاحب غزنوی جو اس عاجز کو کافر اور جہنمی مظہر اتے ہیں.لہذا آپ پر واجب ہے کہ اس آسمانی ذریعہ سے بھی دیکھ لیں کہ آسمان پر مقبول کس کا نام ہے اور مرد و دکس کا نام.میں اس بات کو منظور کرتا ہوں کہ آپ دس ہفتہ تک اس بات کے فیصلہ کے لئے احکم الحاکمین کی طرف توجہ کریں تا اگر آپ سچے ہیں تو آپ کی سچائی کا کوئی نشان یا کوئی اعلیٰ درجہ کی پیشگوئی جو راستبازوں کو ملتی ہے آپ کو دی جائے.ایسا ہی دوسری طرف میں بھی توجہ کروں گا اور مجھے خدا وند کریم وقدیر کی طرف سے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ نے اس طور سے میر امقابلہ کیا تو میری فتح ہوگی.میں اس مقابلہ میں کسی پر لعنت کرنا نہیں چاہتا اور نہ کروں گا اور آپ کا اختیار ہے جو چاہیں کریں.لیکن اگر آپ لوگ اعراض کر گئے تو گریز پر حمل کیا جائے گا.میری اس تحریر کے مخاطب مولوی محی الدین عبد الرحمن صاحب لکھو والے اور میاں عبد الحق صاحب غزنوی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی اور مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی ہیں اور باقی انہیں کے زیر اثر آجائیں گے.“ را شد علی نے صرف اس مکمل عبارت کو ہی پس پردہ نہیں رکھا بلکہ اس نے جو فقرہ اس میں سے اُچک کر ہدف اعتراض بنایا ہے وہ بھی پورا پیش نہیں کیا.ایسی ہی اس کی بدیانتیاں ہیں جو ہر جگہ رنگ لاتی ہیں اور اس کے گلے میں اس کے اپنے ہی جھوٹ کی وجہ سے لعنت کا طوق ڈالتی ہیں اور خود اسے امانت میں خیانت کرنے والا ثابت کرتی چلی جاتی ہیں.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 458 تا460) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ صاف اور واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ” مسلمانوں کے ساتھ جزئی اختلافات کی وجہ سے لعنت بازی صد یقوں کا کام نہیں.راشد علی نے اس کا پہلا حصہ چھپا کر اگلے فقرہ کو قاعدہ کلیہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے.گویا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ بچے لوگ ہر گز لعنت نہیں بھیجتے.جبکہ آپ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بچے لوگ محض جزئی اختلاف
118 کی بناء پر لعنت نہیں بھیجتے.دوسری بدیانتی اس نے اگلی متعلقہ عبارت چھپا کر کی ہے کیونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واضح موقف جو آپ کی سچائی کو ظاہر کرتا تھا درج تھا.آپ نے فرمایا کہ اگر آپ نے اس طور سے میرا مقابلہ کیا تو میری فتح ہوگی میں اس مقابلہ میں کسی پر لعنت کرنا نہیں چاہتا اور نہ کروں گا اور آپ کا اختیار ہے جو چاہیں کریں.“ اس دعوت کے بعد وہی ہوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ” میری فتح ہوگی ان مذکورہ بالا مولویوں نے اس مقابلہ سے گریز کر کے عملاً اپنی شکست اور سچائی کی فتح کو ثابت کیا.وہ سب دنیا سے ناکام و نامراد اور خائب و خاسر رخصت ہوئے.تاریخ نے ان کا نام ونشان تک مٹا دیا.ان کا آج اگر کہیں نام ملتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کی مہربانیوں کی وجہ سے ملتا ہے جو آپ نے اپنی کتابوں میں ان کا ذکر محفوظ کر دیا.جنہیں سامنے لا کر راشد علی پھر ان کا ملعون و مردود ہونا ثابت کر رہا ہے.ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے اس قدر نصرت اور فتوحات عطا کیں کہ دنیا کے کناروں تک آپ کا اور آپ کی جماعت کا نام عزت و تکریم کے ساتھ لیا جاتا ہے.اور ہر سال کروڑوں لوگ آپ کی اتباع میں آکر حقیقی اسلام سے ہمکنار ہورہے ہیں.جو متقی ہے اس کا خدا خود نصیر ہے انجام فاسقوں کا عذاب سعیر ہے کیوں ایک مفتری کا وہ ایسا آشنا ہے یا بے ہے عیب سے دھوکے میں آگیا آخر کوئی تو بات ہے جس بدکار سے تو کوئی بھی کرتا نہیں ނ ہوا وہ یار ہے پیار تم بد بنا بنا کے پھر بھی گرفتار ہو گئے
119 یہ بھی تو ہیں نشاں جو نمودار ہو گئے ii ہزار لعنت در شین - صفحہ 123 مطبوعہ 1996ء) جہاں تک کتاب ” نور الحق میں ہزار لعنت کا تعلق ہے جس کا ذکر راشد علی نے بڑے غیظ وغضب کے اظہار کے ساتھ کیا ہے تو یہ اس کو علم ہے کہ جن پر یہ ہزار لعنت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی تھی، ان لوگوں کا جرم کیا تھا اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ یقیناً ملعون تھے.اس کے باوجود کہ وہ جانتا ہے کہ ان لوگوں نے نہ صرف قرآن کریم کی تکذیب کی تھی بلکہ وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو گالیاں بھی دینے والے تھے.اس وجہ سے وہ لاکھوں لعنتوں کے مستحق تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محض نمونہ کے طور پر ہزار لعنت ہی کے ذکر پر ان کا معاملہ قارئین پر چھوڑ دیا تا کہ وہ ان کی حرکتوں کی تفصیل پڑھ کر خود باقی لعنتیں بھیجیں.مکذبین قرآن و شاتمین رسول پر راشد علی چاہتا ہے تو بے شک دعا ئیں بھیجے.مگر ایسے لوگوں پر اس کا تلملانا بہر حال معنی خیز ہے.راشد علی کے اس اعتراض کا باقی تفصیلی جواب آئندہ صفات میں گستاخان رسول پر لعنت اور راشد علی کی غیرت کے باب میں پیش کیا گیا ہے.
120 گستاخان رسول لعنت اور راشد علی کی غیرت
121 (1) گستاخ رسول و قرآن متنصر مولویوں کا غیرت مند ہم مشرب را شد علی، متنقر ( یعنی عیسائیت قبول کرنے والے) مولویوں کا دفاع کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لکھتا ہے.وو اسی طرح ایک دفعہ کتاب ” نور الحق (روحانی خزائن جلد 8) میں لعنت لکھنے بیٹھے تو افیون کی پینک میں ایک ہزار بار لعنت لعنت لعنت لکھتے رہے ( جیسے گراموفون کی سوئی اٹک جاتی ہے ).وہ کس قسم کی ذہنیت کا انسان ہو سکتا ہے کہ کتاب کے ساڑھے چار صفحات کو با قاعدہ نمبر ڈال کر لعنت لعنت لعنت لعنت لعنت لعنت لعنت لعنت سیاہ کرتا رہے؟ ( بے لگام کتاب) بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” نور الحق“ کے جو صفحات اس نے پیش کئے ہیں اور ان میں مذکور جس لعنت کو اس نے ہرزہ سرائی کا نشانہ اور ہدف اعتراض بنایا ہے وہ صرف اور صرف ان بد بخت ملعون مولویوں کے لئے مخصوص تھی جو اسلام ترک کر کے عیسائی ہو چکے تھے، وہ قرآن کریم پر حملے کرتے تھے ، اور آنحضرت ﷺ کی شان میں صرف گستاخیاں ہی نہیں کرتے تھے بلکہ (نعوذ باللہ ) آپ کو گالیاں بھی دیتے تھے.ان ملعونوں کو دعوت مقابلہ دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: واوّل مـخـاطبـنـا في هذه الدعوة ومدعونا لهذه المعركة صاحب التوزين عماد الدين فـانـه يـنـكـر بلاغة القرآن وفصاحته ويرى فى كل كتاب وقاحته ويقول اني عالم جليل ذهين وان القرآن ليس بفصيح بل ليس بصحيح وما ارى فيه بلاغة ولا اجد براعة كما هو زعم الزاعمين ويقول اني ساكتب تفسيره و كذلك نسمع تقاريره فهو يدعى كماله في العربية ويسب رسول الله صلى الله عليه وسلم بكمال الوقاحة والفرية ويتزرّى على كتاب الله وعلى فصاحته كانه عمّ امرء القيس او ابن خالته ويسمّى نفسه مولوياً ويمشى كالمستكبرين “
122 ترجمہ :.اور اس دعوت میں ہمارا اول مخاطب اور اس معرکہ میں ہمارا اول مدعو پادری عمادالدین ہے کیونکہ وہ قرآن شریف کی فصاحت اور بلاغت سے انکاری ہے اور اپنی ہر ایک کتاب میں بے حیائی دکھلاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ایک عالم بزرگ ہوں اور قرآن فصیح نہیں ہے بلکہ صحیح بھی نہیں ہے اور میں اس میں کوئی بلاغت نہیں دیکھتا اور نہ فصاحت جیسا کہ خیال کیا گیا ہے.اور کہتا ہے کہ میں عنقریب تفسیر شائع کروں گا اور ایسی ہی اور باتیں ہم اس کی سنتے ہیں اور وہ کمال عربی دانی کا دعویٰ کرتا ہے اور آنحضرت کو باعث بے شرمی اور دروغگوئی کے گالیاں نکالتا ہے اور قرآن شریف کی فصاحت کے ایسے دعویٰ اور غرور سے عیب جوئی کرتا ہے کہ گویاوہ امرء القیس کا چھایا خالہ زاد بھائی ہے اور اپنا نام مولوی رکھتا ہے اور متکبروں کی طرح چلتا ہے.صلى الله علوسام ثم بعد ذلك نـخـاطـب كل متنصر ملقب بالمولوي الذي كتبنا اسمه في الها مش حمل وندعوا كلهم للمقابلة ولهم خمسة آلاف انعاما منا اذا اتوا بكتاب كمثل هذا الكتاب كما كتبنا من قبل فى هذا الباب والمهلة منا ثلاثة اشهر للمعارضين فان لم يبارزوا 66 ولن يبارزوا فاعلموا انهم كانوا من الكاذبين “ ترجمہ :.پھر اس کے بعد ہم ہر ایک کرشٹان کو جو اپنے تئیں مولوی کے نام سے موسوم کرتا ہے مخاطب کرتے ہیں اور ان سب کے نام ہم نے حاشیہ میں لکھ دیئے ہیں اور ہم ان سب کو مقابلہ کے لئے بلاتے ہیں اگر وہ ایسی کتاب بنادیں تو ہماری طرف سے ان کو پانچ ہزار روپیہ انعام ہے جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں اور بالمقابل کتاب تالیف کر نیوالوں کے لئے ہماری طرف سے تین مہینہ مہلت ہے اور اگر مقابل پر نہ آویں اور ہرگز نہ آویں گے پس یقیناً جانو کہ وہ جھوٹے ہیں.واعلموا ان هذا الانعام فى صورة اذا اتوا برسالة كمثل رسالتنا وعجالة كمثل عجالتنا واثبتوا انفسهم كمماثلين ومشابهين - واما اذا ابو و ولوا الدبر كالثعالب وما استطاعوا على هذه المطالب وما تركوا عادة توهين القرآن وما امتنعوا من قدح كتاب مولوی کرم الدین، مولوی نظام دین ، مولوی الهی بخش ، مولوی حمید اللہ خان ، مولوی نور الدین ، مولوی سید علی مولوی عبداللہ بیگ ، مولوی حسام الدین بمبئی ، مولوی حسام الدین ، مولوی نظام الدین ، مولوی قاضی صفدر علی ، مولوی عبد الرحمن، مولوی حسن علی وغیرہ وغیرہ.منہ
123 الله الفرقان وما تابوا من ان يسموا نفسهم مولويين وما ازدجروا من سب رسول الله صلى الله عليه وسلم خاتم النبيين وما ازدجروا من قولهم ان القرآن ليس بفصيح وما تركوا سبيل التحقير والتوهين فعليهم من الله الف لعنة فليقل القوم كلّهم آمين ترجمہ:.اور یاد رکھنا چاہئے کہ یہ انعام اس صورت میں ہے کہ جب بالمقابل رسالہ بنا ئیں ، جو بعینہ ہمارے اس رسالہ کے مشابہ ہو اور مماثلت اور مشابہت کو ثابت کریں.لیکن اگر بنانے سے نکار کریں اور لو نبریوں کی طرح پیٹھیں دکھلاویں اور ان مطالب پر قدرت نہ پاسکیں اور نہ توہین قرآن شریف کی عادت کو چھوڑیں اور کتاب اللہ کی جرح وقدح سے باز نہ آویں.اور نہ رسول اللہ ﷺ کی دشنام دہی سے رکیں اور نہ اس بیہودگی سے اپنے تئیں روکیں کہ قرآن فصیح نہیں ہے اور نہ تو ہین اور تحقیر کے طریق کو چھوڑیں پس ان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہزار لعنت ہے پس چاہئے کہ تمام قوم کہے کہ آمین.1 لعنت 2 لعنت 3 لعنت 4 لعنت 5 لعنت 6 لعنت 7 لعنت 8 لعنت ولعنت 10 لعنت 11 لعنت 12 لعنت 13 لعنت 14 لعنت 15 لعنت 16 لعنت 17 لعنت 18 لعنت 19 لعنت 20 لعنت 21 لعنت 22 لعنت 23 لعنت 24 لعنت 25 لعنت 26 لعنت 27 لعنت 979 اللعنة 980 اللعنة 981 اللعنة 982 اللعنة 983 اللعنة 984 اللعنة 985 اللعنة 986 اللعنة 987 اللعنة 988 اللعنة 989 اللعنة 990 اللعنة 991 اللعنة 992 اللعنة 993 اللعنة 994 اللعنة 995 اللعنة 996 اللعنة 997 اللعنة 998 اللعنة 999 اللعنة 1000 اللعنة “ نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 156 تا 158 )
124 اس مذکورہ بالا عبارت میں حضرت بانی جماعت احمد یہ سیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے اسلام کا دفاع کرتے ہوئے قرآنِ کریم کے حسن و اعجاز کو چیلنج کے طور پر ان مولویوں کے سامنے رکھا تھا جو مسلمانوں کی ذریت ہوکر عیسائیت کے آغوش میں جا گرے تھے.اور قرآن کریم کی تکذیب وتخفیف اور سید المرسلین صلى الله خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺ پر سب و شتم کے لئے صف آراء ہو کر کتابیں لکھنے لگے تھے.آپ نے واضح طور پر صرف ان بد بخت مولویوں کے نام لکھ لکھ کر اور انہیں مخصوص کرتے ہوئے، انہیں کو چیلنج دیئے ہیں کہ وہ قرآن کریم کے حسن و جمال کی نظیر تو لا کر دکھائیں ، اس کے اعجاز کا مقابلہ تو کریں.بالآخر اس چیلنج کو قبول نہ کرتے ہوئے ، اور اس مقابلہ سے پیٹھ دکھاتے ہوئے ، اپنی بدزبانیوں پر قائم رہنے والوں پر آپ نے ہزار بار لعنت کی ہے.کتاب ” نور الحق کی تحریر ثابت کرتی ہے کہ راشد علی نے یا تو حضرت بانی جماعت احمد یہ علیہ السلام سے بغض کی بناء پر آپ کے خلاف محض جیھ بڑھائی ہے یا درحقیقت وہ اس فہرست میں شامل ہے جو کتاب ” نور الحق کے صفحہ 157 پر حاشیہ میں درج ہے.گو بعد میں پیدا ہونے کی وجہ سے اس کا نام اس فہرست میں نہیں آسکا.ان ملعون منتصر مولویوں کے لئے اس کی ایسی غیرت کا اظہار اور ان کا دفاع تو یہی ثابت کرتا ہے کہ وہ انہیں کا ہم مشرب و ہم پیالہ ہے، جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے آقا صلى الله و مولی آنحضرت ﷺ اور کلام اللہ کے لئے غیرت اور ان کا دفاع یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ انہیں کے فیض کے چشمہ سے سیراب ہیں.راشد علی کی اس تعلی سے یہ تو قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اسے یہ ہرگز منظور نہیں کہ کوئی سید الاتقیاء والاصفیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کے ناموس کی حفاظت کرتے ہوئے اور کلام اللہ پر طعن اور اس پر حملوں کا دفاع کرتے ہوئے ایسا کرنے والے دشمنان اسلام پر لعنت بھیجے.البتہ اسے یہ بہت ہی مرغوب اور پسند ہے کہ وہ ان دریدہ دہن اور بد زبان گستاخ متنصر مولویوں کی نہ صرف یہ کہ صف میں کھڑا ہو بلکہ ان کا دفاع اور ان کی وکالت بھی کرے پس یہ ایسی اعلیٰ درجہ کی لعنت ہے جو راشد علی پر ہی سجتی ہے.ایک ادنیٰ سے ادنی مسلمان بھی اس سچائی کو اپنا ایمان سمجھتا ہے کہ تکذیب قرآن اور سب وشتم
125 رسول کرنے والوں پر خدا تعالیٰ بھی یقیناً ہزار ہزار لعنت بھیجتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے فرشتے اور تمام وہ مسلمان بھی جو سید کو نین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام اور قرآن پاک کے پیروکار ہیں، لعنت بھیجتے ہیں.لیکن تف ہے راشد علی پر کہ وہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کے بغض میں اندھا ہوکر ، قرآن صلى کریم کی تحقیر و تکذیب کرنے والوں اور سر کار دو عالم حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کو گالیاں دینے والے ملعونوں کی صف میں بڑی چستی کے ساتھ آ کھڑا ہوا ہے.اس نے اپنے اس عمل سے واقعہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کی اصل جگہ بھی یہی ہے.اس ثابت شدہ حقیقت کے باوجود ہم راشد علی کو ایک دفعہ یہ اختیار دیتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ اس کے سامنے صرف اور صرف دو ہی راستے ہیں.وہ یا تو خود یہ اقرار کر لے کہ اس نے محض جھوٹ کی لعنت میں ڈوب کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زبان طعن دراز کی تھی.یا پھر یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب ” نور الحق “ میں جن ملعونوں پر ہزار لعنت کی ہے ان میں اس کا نام یعنی ڈاکٹر راشد علی بھی بطور ملعون شامل ہے.گو اس کا نام ، تاخیر پیدائش کی وجہ سے ضبط تحریر میں آنے سے رہ گیا ہے.وہ یہ دونوں راستے بیک وقت بھی اختیار کر سکتا ہے.اب فیصلہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے کیونکہ ان کے علاوہ کوئی اور راہ اس نے اپنے لئے باقی نہیں چھوڑی.اب دیکھتے ہیں کہ وہ کونسی راہ اختیار کرتا ہے.(2) شاتم رسول، ڈاکٹر ڈوئی پر لعنت اور راشد علی کا اظہار غیرت ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی امریکہ کا ایک جھوٹا نبی تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق خدا تعالیٰ کی لعنت اور اس کے قہر کا نشانہ بن کر ۷۰۹۱ء میں مر گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب حقیقۃ الوحی“ میں اس کی دو قلمی تصویریں ہیں.جن میں سے ایک اس کی صحت کی حالت اور اس کی
126 شان وشوکت کو ظاہر کرتی ہے اور دوسری اس کی وہ حالت پیش کرتی ہے جو اسلام کی تحقیر، رسول اللہ ﷺ کی تو ہین اور توحید خداوندی کے مقابل پر کھڑا ہونے کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق خداتعالی کی قہری متخلفی کی وجہ سے ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان قلمی تصویروں کے ساتھ ڈاکٹر ڈوئی کے بارہ میں یہ باتیں بڑی وضاحت کے ساتھ تحریر فرمائی ہیں کہ وہ وو حضرت سید النبيين واصدق الصادقین و خیرالمرسلین و امام الطيبين جناب تقدس مآب محمد مصطفیٰ کو کاذب اور مفتری خیال کرتا تھا اور اپنی خباثت سے گندی گالیاں اور مخش کلمات سے آنجناب کو یاد کرتا تھا.غرض بغض دین متین کی وجہ سے اس کے اندر سخت ناپاک خصلتیں موجود تھیں اور جیسا کہ خنزیروں کے آگے موتیوں کا کچھ قدر نہیں ایسا ہی وہ توحید اسلام کو بہت حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور اس کا استیصال چاہتا تھا.“ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 504) وہ نہایت درجہ پر ہمارے نبی کریم ﷺ کا دشمن تھا.“ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 505) " کہتا تھا کہ میری دعا سے تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام نابود ہو جائے گا.اور خانہ کعبہ ویران ہو جائے گا.“ الاكرام وو ئمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 513) وكـان يــدعــى الـرسـالة والنبوة مع اقرار الوهية ابن مريم ويسب ويشتم رسولنا (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 685) ترجمہ :.وہ رسالت ونبوت کا دعویدار تھا اور ابن مریم" کی خدائی کا اقرار کرتا تھا.اور ہمارے رسول اکرم پر سب وشتم کرتا تھا.انه كان عدوّ الاسلام وكان يسب نبينا خير الانام “ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 686) ترجمہ :.وہ یقیناً اسلام کا دشمن تھا اور ہمارے نبی خیر الانام ﷺ کو گالیاں دیا کرتا تھا.وو وكـان يـقـول انــی ســاقتـل كـلّ مـن كان من المسلمين ولا اترك نفسا من
127 الموحدين المومنين - تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 686) ترجمہ:.وہ کہتا تھا کہ میں تمام مسلمانوں کو قتل کر دوں گا اور ایک بھی تو حید پرست مومن نہ رہنے دوں گا.دو ان ڈوئى كان شر الناس وملعون القلب ومثيل الخناس وكان عدو الاسلام بل اخبث الاعداء و كان يريد ان يجيح الاسلام حتى لا يبقى اسمه تحت السماء وقد دعا مراراً في جريدته الملعونة على اهل الاسلام والملة الحنيفية - وقال اللهم اهلك المسلمين كلهم ولا تبق منهم فرداً في اقليم من الاقاليم - وارنى زوالهم واستيصالهم واشع في الارض كلها ا مذهب التثليث وعقيدة الاقانيم وقال ارجو ان ارى موت المسلمين كلّهم وقلع دين الاسلام وهذا اعظم مراداتى فى حياتى وليس لى مراد فوق هذا المرام - وكل هذه الكلمات موجودة في جرائده التي موجودة عندنا في اللسان الانكليزية - “ تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 691 ،692) ترجمہ:.یقینا ڈوئی شر الناس ملعون دل والا اور خنّاس کا مثیل تھا وہ اسلام کا ایک بدترین دشمن تھا.وہ چاہتا تھا کہ اسلام کو جڑ سے اکھاڑ دے حتی کہ آسمان کے نیچے اس کا نام تک باقی نہ رہے اس کے اپنے لعنتی اخبار میں اہل اسلام اور ملت حنیفیہ کے خلاف بار بار بدعا کی.اس نے کہا اے خدا! تمام مسلمانوں کو ہلاک کر دے اور کسی مملکت میں ایک مسلمان بھی باقی نہ چھوڑ.مجھے ان کا زوال اور ان کی تباہی دکھا.اور تمام روئے زمین پر تثلیثی مذہب اور عیسائی عقیدہ اقانیم پھیلا دے.اس نے کہا میں تمام مسلمانوں کی موت اور دین اسلام کی بربادی کی امید رکھتا ہوں اور میری زندگی کی سب سے بڑی مراد یہی ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی مراد نہیں.اس کے یہ تمام بیانات اس کے اخبارات میں جو کہ انگریزی زبان میں ہیں ، ہمارے پاس موجود ہیں: ” وقد عرف الناظرون في كلامه توهين الاسلام فوق كل توهين وشهد الشاهدون وو على ملعونيته فوق كل لعين حتى انه صار مثلاً بين الناس في الشتم والسب (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 694) ترجمہ :.پس دیکھنے والوں نے اس کے کلام میں ہر تو ہین سے بڑھ کر اسلام کی تو ہین ملاحظہ کی اور پھر گواہی دینے والوں نے ہر لعنت سے بڑھ کر اس پر لعنت کی گواہی دی.یہاں تک کہ وہ لوگوں میں گالی گلوچ اور دشنام
128 طرازی میں مثل بن گیا.را شد علی کتاب ” حقیقۃ الوحی کی ان تحریروں سے بخوبی واقف ہے اور وہ جانتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ واضح طور پر تحریر فرمایا ہے کہ ڈوئی کی ان تعلیوں کی وجہ سے آپ نے اس کے ساتھ روحانی مقابلہ کیا.آپ نے اسلام کے دفاع، حضرت سید خیر الانام ﷺ کے ناموس کی حفاظت کی خاطر اور توحید باری تعالیٰ کے لئے غیرت کی وجہ سے اس سے مقابلہ کیا.اسی مقابلہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جو اس بد بخت انسان کو لعنت کی مار پڑی اس کا آپ نے کارٹون نہیں بلکہ قلمی تصویر میں اس کی دو حقیقی حالتوں کو بیان فرمایا.ان میں سے ایک وہ حالت تھی جو اسلام کے خدا ، حضرت محمد مصطفی ﷺ کے لئے غیرت رکھنے والے اور اپنی توحید کی حفاظت کرنے والے خدا نے اپنے قہر کی بجلی ظاہر فرما کر اس کی بنائی تھی.لیکن اپنے جھوٹ کے پلندے الفتوی“ کے شماروں میں ابلیس لعین کا چیلہ راشد علی کہتا ہے کہ وہ عاشق اسلام، عشق خدا و عشق رسول میں مخمور، ان کے ناموس کے لئے غیور، اس زمانہ کے مامور، اسلام کے مظفر ومنصور جرنیل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے کارٹون اس وجہ سے بناتا ہے کہ آپ نے کتاب حقیقۃ الوحی میں ڈاکٹر ڈوئی کی تصویر بنائی تھی.اول تو یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا کارٹون نہیں بنایا کہ جس کا مقصد مضحکہ خیزی ہو بلکہ مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر خدا تعالیٰ کی غیرت کی مار کا اظہار فرمایا ہے جو ڈوئی پر نازل ہوئی.پس تمسخر اور تضحیک کے لئے شکل بگاڑ کر کارٹون بنانا بالکل اور بات ہے اور خدا تعالیٰ کی مار کی سچائی اور حقیقت کا اظہار اور بات.دوسرے یہ کہ راشد علی سے کوئی پوچھے کہ اس خنز بر صفت شاتم رسول دشمن اسلام و توحید باری تعالیٰ سے تمہاری کیا رشتہ داری ہے کہ اس کی لعنت زدہ تصویر پر تم لعنتی غیرت میں منہ سے جھاگ نکال رہے ہو.آخر وہ تمہارا کیا لگتا تھا کہ جب خدا تعالیٰ نے اسے ملعون کر کے مسخ کیا تو تم اس کا بدلہ لینے کے لئے اس شخص کے در پے آزار ہو گئے جس نے خدا تعالیٰ کی غیرت ، حضرت محمد مصطفیٰ علیہ کے ناموس کی حفاظت کی خاطر اس خنز بر صفت انسان سے مقابلہ کیا.راشد علی کو یہ بھی کوئی بتائے کہ لعنت اس کو بھی کہتے ہیں کہ کوئی توحید کے دشمن ، شاتم رسول ﷺ اور دشمن اسلام سے لاشعوری طور پر اتنی محبت رکھے کہ اس کے لئے
129 غیرت میں اندھا ہی ہو جائے اور عاشق رسول ، عاشق خدا اور اسلام کے فتح نصیب جرنیل پر حملے کرنے لگے.(4) گستاخان رسول یعنی پنڈت دیانند و غیر ہم ی پر لعنت اور راشد علی کا غیظ و غضب راشد علی کی تلبیس اور اس کے دجل کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارتوں کو اپنی تحریفی کارروائیوں کا نشانہ اس طرح بناتا ہے کہ کسی ایک کتاب کی عبارت کا جوڑ کسی دوسری کتاب کی ایسی عبارت کے ساتھ ملاتا ہے کہ جس کا اس سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا.ایسا کر کے وہ اپنے بغض اور عناد کی آگ کو ہوا تو دیتا ہے لیکن عملاً خود ہی اس میں بھسم ہو جاتا ہے.ا ایسی ہی ایک کوشش میں وہ اسی قدر اندھا ہو گیا کہ ان آریوں کا بھی وکیل بن گیا.جو آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنے والے تھے.مثلاً پنڈت دیانند کی زہر آ شام تحریریں کس سے مخفی ہیں جو اس نے آنحضرت ہے ، اسلام اور قرآن کریم کے خلاف لکھیں.ان تحریروں کا رڈ اور پنڈت دیانند کے ہر حملے کا علمی منطقی ، معقولی اور منقولی جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے رنگ میں دیا کہ آریوں کے نہ صرف دانت کھٹے کئے بلکہ ہمیشہ کے لئے ان کی کچلیاں بھی توڑ دیں.چنانچہ دہلی کے اخبار ” کرزن گزٹ کے ایڈیٹر نامور صحافی وادیب مرزا حیرت دہلوی نے آپ کی وفات پر لکھا: دو مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ.واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کی یہ مجال نہ تھی وہ مرحوم
130 کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.وو 66 ہندوستان کے عظیم مذہبی لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا: کرزن گزٹ.دہلی.مورخہ یکم جون 1908ء) " مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدرو عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو." وو اخبار صادق الاخبار ریواڑی نے لکھا: (وکیل.امرتسر.جون 1908ء) " مرزا صاحب نے اپنی پر زور تقاریر اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے پیچر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا اور ثابت کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے.اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کا کماحقہ ادا کر کے خدمتِ اسلام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم حامی اسلام اور معین المسلمین ، فاضلِ اجل، عالم بے بدل کی ناگہانی موت اور بے وقت موت پر افسوس کیا جائے.“ ( صادق الاخبار.ریواڑی جون 1908ء) اور شمالی ہند کے مشہور صحافی، مدیر سیاست مولانا سید حبیب صاحب نے اپنی کتاب تحریک قادیان میں لکھا.اس وقت کہ آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے.اسے دُگے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہو گئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا.اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کر لیا..مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیئے.“
131 ( تحریک قادیان.صفحہ 207 تا210.مصنفہ سید حبیب ) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے غیر مسلموں کے حملوں کے جواب میں جو کچھ لکھا اور اسلام کا جس شان اور قوت سے دفاع کیا اس کو عالم اسلام خراج تحسین پیش کرتا ہے ،سوائے چند حاسدوں اور بغض میں اندھوں کے کہ انہیں سوائے جھوٹے اور لغو اعتراضات کے اور کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا.مثلا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک نظم ، شان اسلام میں اسلام کی حقانیت اور دیگر مذاہب پر اس کی فوقیت کو ثابت کیا نیز اسلام پر آریوں کے حملوں کا ذکر کر کے اپنے درد اور کرب کا اظہار فرمایا اور لکھا.اسلام سے نہ بھا گوراہ ھدیٰ یہی ہے اے سونے والو جا گوشمس الضحی یہی ہے مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا اب آسماں کے نیچے دین خدا یہی ہے اک دیں کی آفتوں کا غم کھا گیا ہے مجھ کو سینہ پر دشمنوں کے پتھر پڑا یہی ہے کیونکر تبہ وہ ہووے کیونکر فناوہ ہووے ظالم جوحق کا دشمن وہ سوچتا یہی ہے آنکھیں ہر ایک دیں کی بے نور ہم نے پائیں سرمہ سے معرفت کے اک سرمہ سا یہی ہے پر آریوں کی آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ایسی وہ گالیوں پر اترے دل میں پڑا یہی ہے بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بد زباں ہے جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا یہی ہے اس دیں کی شان و شوکت یا رب مجھے دکھا دے سب جھوٹے دیں مٹا دے میری دعا یہی ہے ) در شین صفحه 71 تا88 مطبوعہ لندن 1996ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آریوں کے لچر اور گالیوں سے بھرے گندے اعتراضات کے بارہ میں جو یہ لکھا ہے کہ بد تر ہر ایک بد ނ وہ ہے جو بد زباں ہے جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا یہی ہے یہ راشد علی کے نزدیک سخت قابل اعتراض ہے.وہ اس پر تلملا اٹھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، اسلام اور قرآن کریم پر بد زبانی کرنے والوں کی بدزبانی اور دلی نجاست کو بیت الخلا کیوں کہا گیا ہے.شاید اس کو اس شعر کے آئینہ میں اپنے دل کی نجاست کا نقشہ نظر آ گیا ہو لیکن ہمیں اس سے غرض نہیں.ہمیں تردد اس
132 بات پر ہے کہ آریوں اور رسول خدا ﷺ کی شان میں دشنام طرازی کرنے والوں سے اسے اتنی ہمدردی کیوں ہے؟ علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب پنڈت دیانند کی بدزبانیوں اور گالی گلوچ کو مد نظر رکھ کر یہ لکھا کہ دو ” صرف گالیاں دینے سے کام نہیں نکلتا.ہر یک حقیقت مقابلہ کے وقت معلوم ہوتی ہے اور ناحق 66 ست بچن.روحانی خزائن جلد۱، صفحہ ۳۳۱) گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے.“ تو اس پر بھی راشد علی کو طیش آ گیا کہ پنڈت دیانند کو آخر یہ کیوں لکھا کہ ” گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے.راشد علی کے خیال میں پنڈت دیانند جیسے شاتم رسول ﷺ کو رسول اللہ ﷺ کی شان میں بدکلامی کرنے پر شاباش دینی چاہئے تھی !! اور اسے اعلیٰ اوصاف کا مالک قرار دینا چاہئے تھا !!! (نعوذ باللہ ) حیرت تو اس بات پر ہے کہ باوجود مسلمان ہونے کے یہ شخص رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک ذرہ بھر غیرت بھی نہیں رکھتا.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بغض میں بالکل ہی اندھا ہو چکا ہے کہ اسے آنحضرت ﷺ کا بھی خیال نہیں آیا؟ کیا یہ بدبختی کو لعنت نہیں ہے؟ (4) سخت کلامی کی حقیقت و وضاحت راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریریں پیش کی ہیں جن میں مسلمان مخالف علماء کے لئے سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریرات کے مخاطب وہ چند گنتی کے مولوی تھے.جو آپ کو نہایت فخش اور ننگی گالیاں دیتے تھے چنانچہ ان بد باطن مولویوں نے راشد علی اور عبدالحفیظ کی طرح، آپ کے اہل بیت کے گندے اور توہین آمیز کارٹون بھی بنا کر شائع کئے اور سفلوں اور کمینوں کی زبان بھی استعمال
133 کی.راشد علی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیگر کتب کو چھان چھان کر دیکھتا ہے ، تو اس کی بدکلامی وشتم کی کسی قدر تفصیل ، کتاب ” کتاب البریہ اور کشف الغطاء میں دیکھ سکتا تھا.لیکن شاید وہ ان کتابوں کے ان ابواب کو اس لئے نہیں دیکھتا کہ ان میں اسے اپنا چہرہ نظر آتا ہے.بہر حال مذکورہ بالا چند گنتی کے مولویوں میں محمد بخش جعفر زنگی ، شیخ محمد حسین بٹالوی ، سعد اللہ لدھیانوی ، عبدالحق امرتسری خاص طور پر گالیاں دینے میں پیش پیش تھے.اسی طرح چند پادری ، چند متنصر مولوی اور چند آریہ تھے جو دشنام دہی میں فلم کی حدیں پاٹ چکے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت الفاظ اس قسم کے بدزبان لوگوں کی نسبت بطور جواب تھے.یعنی جو گند انہوں نے آپ کی طرف پھینکا آپ نے وہ انہی کی طرف لوٹا دیا.ابتدائی طور پر سخت الفاظ کا استعمال مخالفوں کی طرف سے ہوا جس کا جواب حکمت کے تقاضوں کے تحت ضروری تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس صورت حال کا ذکر کر کے فرمایا: مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے.بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں.مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے.جن کے مقابل پر کسی قد رسختی مصلحت تھی.اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مسل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہیں.جن کا نام میں نے " کتاب البریہ“ رکھا ہے اور بایں ہمہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں.ابتداء تختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا.لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا.اول یہ کہ تا کہ مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کا تختی میں جواب پا کر اپنی روش بدلا لیں.اور آئندہ تہذیب سے گفتگو کریں.دوم یہ کہ مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں سے عام مسلمان جوش میں نہ آئیں اور سخت الفاظ کا جواب بھی کسی قدر سخت پا کر اپنی پر جوش طبیعتوں کو اس طرح سمجھا لیں کہ اس طرف سے سخت الفاظ استعمال ہوئے تو ہماری طرف سے بھی کسی قد رسختی کے ساتھ ان کو جواب مل گیا.اور اس طرح وہ وحشیانہ انتقاموں سے دست کش رہیں..یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر سخت الفاظ
134 کے مقابل پر دوسری قوم کی طرف سے کچھ سخت الفاظ استعمال نہ ہوں تو ممکن ہے اس قوم کے جاہلوں کا غیظ وغضب کوئی اور راہ اختیار کر لے.مظلوموں کے بخارات نکلنے کے لئے یہ ایک حکمت عملی ہے کہ وہ بھی مباحثات میں سخت حملوں کا سخت جواب دیں.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 12،11) بہر حال امر واقع یہ ہے کہ ان مخالفین کی طرف سے ایذا رساں سخت الفاظ اور دشنام دہی کی مسلسل اور موسلا دھار بارش جب ظلم کی حدود کے دوسرے کنارے بھی پاٹ گئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے حسب ذیل حکم کے تحت ان کو جواب دیا: لَا يُحِبُّ اللَّهُ الجَهرَ بِالسُّوءِ مِنَ القَولِ إِلَّا مَن ظُلِمَ “ (النساء: ۹۴۱) ترجمہ: اللہ تعالیٰ بری بات کے اظہار کو پسند نہیں کرتا سوائے اس کے کہ جس پر ظلم کیا گیا ہو.پس اس صورتحال میں اگر راشد علی کو کوئی اعتراض ہے تو اس کا ہدف اس کے اپنے پیش رو مسلمان مولوی ،متنصر مولوی، پادری اور آریہ لیڈر ہیں.بہر حال یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہیں اٹھ سکتا.(i) جوابی گالی را شد علی ایک اور تحریفکر تے ہوئے لکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے ” میں نے جوابی طور پر بھی کسی کو گالی نہیں دی“ یہ ایک معنوی تحریف ہے جو راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت سے کی ہے.آپ کی اصل عبارت یہ ہے: اعلم ان موضوع امرنا هذا هو الدعوى الذى عرضت على الناس وقلت اني انا المسيح الموعود والامام المنتظر المعهود - حكمنى الله لرفع اختلاف الامة ـ وعلمني من لدنه لادعو الناس على البصيرة - فما كان جوابهم الا السب والشتم والفحشاء ، والتكفير والتكذيب والايذاء ـ وقد سبّونى بكل سبّ فمارددت عليهم جوابهم وما عبات بمقالهم وخـطـابهـم ـ ولم يزل امر شتمهم يزداد ويشتعل الفساد وراوا ايات فكذبوها......ودعوا
135 النصارى لتائيدهم و غيرهم من اعداء الدين وافتى علماؤهم لتكفيرنا.......وفسقونى وجهلوني بالكذب والافتراء وبالغوا فى السبّ الى الانتهاء - وانى لاجبتهم بقول حق لولا صيانة النفس من الفحشاء (مواہب الرحمان.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 236 تا 238) ترجمہ :.ہمارا موضوع یہاں وہ دعوی ہے جو میں نے لوگوں کے سامنے پیش کیا.میں نے بتایا کہ میں ہی مسیح موعود اور معہود امام منتظر ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے امت کے اختلافات دور کرنے کے لئے حکم بنایا ہے اور مجھے اپنی جناب سے علم عطا کیا ہے تا کہ لوگوں کو بصیرت کی طرف بلاؤں.تو ان کا جواب سوائے گالی گلوچ ، مخ کلامی تکفیر، تکذیب اور ایذارسانی کے اور کچھ نہ تھا.انہوں نے مجھے ہر طرح کی گالی دی لیکن میں نے انہیں کوئی جواب نہ دیا اور ان کی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی.پھر ان کا سب وشتم بڑھتا ہی گیا اور فساد بھڑکتا ہی گیا.انہوں نے نشانات دیکھے مگر انہیں جھٹلایا.انہوں نے عیسائیوں کو بھی اپنی مدد کے لئے بلایا اور دین کے دوسرے دشمنوں کو بھی.ان کے علماء نے ہماری تکفیر کے فتوے دیئے اور انہوں نے مجھے محض از راه کذب وافتراء فاسق اور جاہل قرار دیا.اور اگر میرا انفس فحش کلامی سے محفوظ نہ ہوتا تو میں بھی انہیں جو اُن کا حق تھا، جواب دیتا.اس عربی عبارت کا ترجمہ ہرگز وہ نہیں ہے جو راشد علی نے کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو فرمایا ہے.وقد سبونى بكلّ سبّ فمارددت عليهم جوابھم.کہ انہوں نے مجھے ہر طرح کی گالی دی مگر میں نے ان کی گالیوں کا جواب نہیں دیا.یہ مکمل عبارت خود ظاہر کر رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتدائی زمانہ یعنی اپنے دعوی مسیحیت کے اعلان کے زمانہ کی بات کر رہے ہیں.اس زمانہ میں جب تکفیر اور سب وشتم کا بازار آپ کے خلاف گرم ہوا تو آپ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیانتی کہ یظلم جب اپنی تمام حدوں کو پار کر چکا تو جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، تب آپ نے قرآنی حکم کی تعمیل میں ظلم کرنے والوں کو ان کی قلم اور زبان کی مرارت اور تلخی کا مزہ چکھانے کے لئے سختی کے ساتھ ٹھوس علمی دلائل کی ساتھ جواب دیئے.پس راشد علی نے انتہائی عیاری سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کو ایسے معنے دینے کی کوشش کی ہے جو نہ اس تحریر کا مطلوب ہیں نہ منطوق.” گالیوں کا جواب نہ دینا“ اور ” جوابی طور پر گالی نہ دینا“ میں
136 زمین و آسمان کا فرق ہے.یہ فرق راشد علی کے فریب کا پول کھولتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی بھی کسی کو گالی نہیں دی.ہاں مخالفوں ہی کی گالیاں ان کو واپس لوٹائی ہیں یا ان کی گالیوں کا جواب اس لئے سخت الفاظ میں دیا ہے کہ جو زبان وہ آپ کے خلاف استعمال کرتے تھے، وہ خود بھی اس کی مرارت کا کسی قد رمزہ چکھ سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس کو دشنام دہی کہا جائے.بڑے دھوکہ کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوں مختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے بلکہ ایسی ہر ایک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اور اپنے محل پر چسپاں ہو محض اس کی کسی قدر مرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام ہی تصور کر لیتے ہیں حالانکہ دشنام اور سب وشتم فقط اس مفہوم کا نام ہے جو خلاف واقعہ اور دروغ کے طور پر حض آزار رسانی کی غرض سے استعمال کیا جائے.“ ii.مولوی جھوٹے ہیں 66 (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 109 ) راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک اور عبارت میں تحریف کر کے اسے اور اپنے معنے پہنانے کی کوشش کی ہے.راشد علی کی پیش کردہ وہ عبارت یہ ہے.مولوی جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح مردار کھاتے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 309) قارئین کرام ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مکمل اور اصل عبارت حسب ذیل ہے.آپ پادری عبداللہ آ نتم والی پیشگوئی کی تکذیب کرنے والے بعض مخصوص مولویوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں.’اب ڈھونڈ و آتھم کہاں ہے.کیا پیشگوئی کے الفاظ کے مطابق وہ قبر میں داخل نہیں ہوا.کیا وہ ہاویہ میں نہیں گرایا گیا.اے اندھو! میں کب تک تمہیں بار بار بتلاؤں گا کیا ضرور نہ تھا کہ خدا اپنی شرط کے موافق اپنے پاک الہام کو پورا کرتا.آ ھم تو اسی وقت مر گیا تھا.جب کہ میری طرف سے چار ہزار کے انعام کے ساتھ متواتر اس پر
137 تجت پوری ہوئی اور وہ سر نہ اٹھا سکا.پھر خدا نے اس کو نہ چھوڑ ا جب تک قابض ارواح کے اس کو سپرد نہ کر دیا.پیشگوئی ہر ایک پہلو سے کھل گئی.اب بھی اگر جہنم کو اختیار کرنا ہے تو میں عمد ا گر نے والے کو پکڑ نہیں سکتا.یہ تمام واقعات ایسے ہیں کہ ان سب پر پوری اطلاع پا کر ایک متقی کا بدن کانپ جاتا ہے اور پھر وہ خدا سے شرم کرتا ہے.کہ ایسی کھلی کھلی پیشگوئی سے انکار کرے.میں یقیناً جانتا ہوں کہ اگر کوئی میرے سامنے خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اس پیشگوئی کے صدق سے انکار کرے تو خدا تعالیٰ اس کو بغیر سزا نہیں چھوڑے گا.اوّل چاہئے کہ وہ ان تمام واقعات سے اطلاع پاوے تا اس کی بے خبری اس کی شفیع نہ ہو.پھر بعد اس کے قسم کھاوے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور جھوٹی ہے.پھر اگر وہ ایک سال تک اس قسم کے وبال سے تباہ نہ ہو جائے اور کوئی فوق العادت مصیبت اس پر نہ پڑے تو دیکھو کہ میں سب کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ اس صورت میں میں اقرار کروں گا کہ ہاں میں جھوٹا ہوں.اگر عبدالحق اس بات پر اصرار کرتا ہے تو وہی قسم کھاوے اور اگر محمد حسین بطالوی اس خیال پر زور دے رہا ہے تو وہی میدان میں آوے.اور اگر مولوی احمد اللہ امرتسری یا ثناء اللہ امرتسری ایسا ہی سمجھ رہا ہے.تو انہیں پر فرض ہے کہ قسم کھانے سے اپنا تقومی دکھلاویں اور یقیناً یا درکھو کہ اگر ان میں سے کسی نے قسم کھائی کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور عیسائیوں کی فتح ہوئی.تو خدا اس کو ذلیل کرے گا.روسیاہ کرے گا.اور لعنت کی موت سے اس کو ہلاک کرے گا کیونکہ اس نے سچائی کو چھپانا چاہا.جو دین اسلام کے لئے خدا کے حکم اور ارادہ سے زمین پر ظاہر ہوئی.مگر کیا یہ لوگ قسم کھالیں گے؟ ہر گز نہیں.کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھا رہے ہیں.“ انجام آتھم.جلد 11 صفحہ 308 تا 310 حاشیہ) اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چار مولویوں کا نام لے کر اور انہیں مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ اگر ان کی دانست میں پادری عبداللہ تم کو خدا تعالی نے پیشگوئی کے مطابق اپنی قبری تجلی کا نشانہ نہیں بنایا تو وہ قسم کھاویں اور قسم کھا کر یہ اعلان کر دیں کہ یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.چونکہ مذکورہ بالا مولوی پیشگوئی کی تکذیب میں قطعی جھوٹے تھے اور انہیں علم تھا کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا کہ.مگر کیا یہ لوگ قسم کھالیں گے؟ ہر گز نہیں.کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار
138 کھارہے ہیں.“ ظاہر ہے کہ یہ فقرہ عام نہیں جیسا کہ راشد علی نے اپنی تلبیس سے اسے عام بنا کر سارے مولویوں کو اس کا مصداق کر دیا ہے.غالبا یہ راشد علی کا اپنا کوئی انتقام ہے جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کی آڑ میں سب مولویوں سے لے رہا ہے اور انہیں بلا استثناء مردار کھانے والا بنا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر تو صاف طور پر چند معتین مذکور مولویوں تک محدود تھی.جہاں تک ان مولویوں یعنی مولوی محمد حسین بٹالوی ، عبد الحق، احمد اللہ امرتسری اور ثناء اللہ امرتسری کا تعلق ہے انہوں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بار بار چینج پر بھی تم نہیں کھائی اور اپنی فعلی شہادت سے یہ ثابت کر دیا کہ پادری عبد اللہ آتھم والی پیشگوئی سچی تھی.ساتھ ہی انہوں نے اپنے اس طریق سے یہ بھی ثابت کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے بارہ میں بھی جو لکھا تھا وہ سچ تھا اور وہ جھوٹ کا مردار ہی کھا رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارتوں سے قطعا یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ آپ نے نیک عوام اور صالح علماء کے خلاف کبھی سخت الفاظ استعمال فرمائے.اس مسئلہ کو آپ نے خود بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں." ليس كلا منا هذا في اخيارهم بل فى اشرارهم 66 (الہدی حاشیہ.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 314) کہ ہم نے یہ جو کچھ لکھا ہے، صرف شریر علماء کی نسبت لکھا ہے، جو علماء شریر نہیں بلکہ اخیار میں سے ہیں، ہم نے ان کی نسبت یہ نہیں لکھا.پھر فرماتے ہیں : ”نعوذ بالله من هتك العلماء الصالحين وقدح الشرفاء المهذبين ـ سواء كانوا 66 من المسلمين او المسيحين او الآرية “ لحة النور.روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 409) ہم نیک علماء کی ہتک اور شرفاء کی توہین سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں.خواہ ایسے لوگ مسلمان ہوں یا عیسائی یا آریہ.نیز فرمایا: " صرف وہی لوگ ہمارے مخاطب ہیں خواہ وہ بگفتن مسلمان کہلاتے یا عیسائی ہیں جو حد اعتدال
139 سے بڑھ گئے ہیں اور ہماری ذاتیات پر گالی اور بدگوئی سے حملہ کرتے یا ہمارے نبی کریم ﷺ کی شان بزرگ میں تو ہین اور ہتک آمیز باتیں منہ پر لاتے اور اپنی کتابوں میں شائع کرتے ہیں.سو ہماری اس کتاب اور دوسری کتابوں میں کوئی لفظ یا کوئی اشارہ ایسے معززلوگوں کی طرف نہیں ہے جو بدزبانی اور کمینگی کے طریق کو اختیار نہیں کرتے.“ اشتہار مشموله ایام الصلح - روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 228) پس دجل اور ظلم راشد علی کا ہے کہ وہ اندھا دھند سب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان عبارتوں کا ہدف بناتا ہے.iii.سخت الفاظ : انا جیل وقرآن کے آئینہ میں ہم اناجیل و قرآن کریم کے بعض بظاہر سخت الفاظ ذیل میں نقل کرتے ہیں.تا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کرنے والے یہ سوچ سکیں کہ ان کے جھوٹے فتووں کی زد گذشتہ انبیا علیہم السلام پر بھی پڑتی ہے.انا جیل میں حضرت مسیح نے اپنے مخاطبین کو جن ناموں سے یاد فرمایا، ان میں سے بعض یہ ہیں : (1) تم بڑے گمراہ ہو.مرقس 12/27 (2) اے بدکارو ! لوقا 13/27 (3) اے نادانو ! لوقا 24/25(4) اے ریا کار فقیہو ! اور فریسیو ! متی 13 /23(5) اے اندھے راہ بتانے والو ! متی 23/16(6) اے احمقو! اور اندھو! متی 17 / 23 (7) اے ملعونو ! امتی 25/41(8) اے شیطان.متی 23 / 12 (9) اے سانپ کے بچو.متی 34 /12 (10) برے اور زنا کارلوگ متی 12/39 (11) اے سانپو! اے افعی کے بچو امتی 23/33 (12) تم اپنے باپ ابلیس سے ہو.یوحنا 8/44(13) جا کر اس لومڑی ( ہیرودیس) سے کہد و.لوقا32 / 13 (14) کتے اور سور متی 6/7،15/16 قرآن مجید میں مکذبین مکفرین اور منافقین وغیرہ کے لئے حسب ذیل الفاظ بھی مذکور ہیں: (1) القردة - بندر (المائدہ: 61) (2) الخنازير - سؤر ( المائدہ:16) (3)حمر گدھے (المدثر : 51)(4) شر الدواب.حیوانات میں سے بدترین (انفال:56 ) (5)صم بكم عمی.بہرے ، گونگے، اندھے (البقرہ:19) (6) مھین - ذلیل(القلم:11)(7)هماز - نکته چین
140 (القلم: 21 (8) مشاء بنمیم - چغلخور (القلم: 21) (9) مناع للخير.بھلائی سے روکنے والے (القلم:21)(8) (القلم :13) (10) معتد.حد سے بڑھنے والا ( القلم : 13 ) ( 11 ) اٹیم.فاسق و فاجر ( القلم : 13) (12) عتل.سرکش ( القلم :14) (13) زنیم ولد الزنا ( القلم :14 ) (14) نــجـــس.ناپاک (التوبہ : 28) (15) رجس - مجسم گند (التوبه :125) (16) شــر البــريـة سب مخلوق سے بدتر (البینہ: 7)(17) الكلب.کتا (الاعراف: 177) ہمارے مخالفین کا فرض ہے کہ ان بر حل نازل شدہ الفاظ کو پڑھ کر قرآن مجید کا صحیح اخلاقی معیار سمجھ لیں.اور سوچیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بعض مواقع پر برمحل الفاظ استعمال کرنا کیونکر قابل اعتراض ہوسکتا ہے؟ ۱۷.علماء کی دو قسمیں آنحضرت ﷺ نے علماء کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں.ا.وہ علماء جور بانی ہیں.ان کے بارہ میں فرمایا: علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل“.(کشاف الخفاء ومزيل الالباس از اسماعیل بن محمد العجلو فی دار الکتب العلمیة بیروت 1988ء) کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کے مشابہ ہیں.ایسے علماء کی قرآن کریم نے یہ تعریف بیان فرمائی.إِنَّمَا يَخشَى اللَّهَ مِن عِبَادِهِ العُلَمَوءُ (الفاطر:29) ترجمہ:.یقینا اللہ کے بندوں میں سے علماء اس سے ڈرتے ہیں.۲.دوسرے علماء وہ ہیں جن کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا علماء هم شرّ من تحت اديم السماء “.کہ اُن کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.- ( المشلوة - كتاب العلم - مطبع احمدی) جہاں تک لوگوں کے اُن علماء کا تعلق ہے.ان میں سے جو چند ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام
141 سے مقابلہ کے لئے آپ کے سامنے آئے انہوں نے علمی شکست کے بعد سب وشتم کی پٹاری ہی کھول دی تو ان کے ظلم سے تنگ آکر محض مجبوری کی بناء پر آپ نے صرف انہی کو سخت الفاظ سے مخاطب کیا.علماء هم کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کچھ کہنے کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ ان کے بارہ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مجد دبارہویں صدی کا یہ قول ہی کافی تھا کہ وو اگر تم مسلمانوں میں یہود کا نمونہ دیکھنا چا ہوتو علماء سوء کو دیکھو جو دنیا کے طالب ہیں...کتاب وسنت سے منہ پھیر چکے ہیں...اور معصوم شارع کے کلام سے منحرف ہیں.“ ( الفوز الکبیر.اردو تر جمہ - صفحہ 52.ناشر اردواکیڈمی سندھ کراچی) یہ بارہویں صدی کے مجد د کا قول ہے.لیکن اصل فتویٰ تو بانی اسلام سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلى الله کا ہے.آپ فرماتے ہیں: تكون في امتى فزعة فيصير الناس الى علمائهم فاذا هم قردة وخنازير.(منتخب کنز العمال.برحاشیہ مسند احمد بن حنبل.جلد 6 صفحہ 28.دارالذکر للطباعة والنشر مصر ) کہ میری امت پر ایک ایسا گھبراہٹ کا زمانہ آئے گا کہ لوگ اپنے علماء کے پاس رہنمائی کی امید سے جائیں گے تو دیکھیں گے کہ وہ تو بندر اور سو رہیں.پس ہم نے سارا معاملہ قارئین کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے.راشد علی اب جوفتوی بھی لگانا چاہتا ہے، لگائے.ایسے علماء جن کو آنحضرت ﷺ نے بندر ہو ر اور ردائے فلک کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیا ہے.راشد علی ہزار بار بھی ان کی وکالت کرتا ہوا انہیں انسان ثابت کرنا چاہے وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکتا اور آنحضرت ﷺ کی بات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرنے والا یقیناً ابلیس لعین کا غلام ہی ہوسکتا ہے.
142 قرآن کریم کی بابت اعتراضات
143 (1) قرآن کریم گندے الفاظ سے بھرا ہوا ہے (نعوذ باللہ ) حق کا بد بخت دشمن راشد علی، اپنے دماغ کا گندا اپنی ایک جھوٹی تحریر میں ڈھال کر اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہوئے اور آپ کی کتاب ازالہ اوہام کا ایک نام نہاد حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے: "Holy Quran is full of filthy words."( Beware...) یہ لکھتے ہوئے اسے کچھ تو حیا کرنی چاہئے تھی کہ یہ بات وہ ایک ایسے شخص کی طرف منسوب کر رہا ہے جو قرآن کریم کا مقام اور مرتبہ دنیا پر ظاہر اور ثابت کرنے کے لئے مبعوث ہوا تھا.اس کی ساری زندگی قرآن کے حقائق و معارف کے بیان اور اس کے اعلیٰ درجہ کے نور کی اشاعت میں بسر ہوئی.اس کو جو عرفان قرآن کریم کے مطالب کا دیا گیا اس کو چیلنج کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس نے لکھا.میں قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.(ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 496) آپ نے اپنے عربی ، اردو اور فارسی کلام نظم و نثر میں جس عرفان کے ساتھ قرآن کے حقائق و معارف بیان کئے اور جس طرح قرآن کریم کے نور کے سمندر میں ڈوب کر اس کے حسن و جمال کو بیان فرمایا ہے وہ لاثانی ہے.اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتا.آپ فرماتے ہیں: نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے پاک وہ جس اجلی نکلا ނ انوار کا دریا نکلا جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا
144 کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد ا صفحہ ۵۰۳ ) جہاں تک اس حوالے کا تعلق ہے ، جس کا ذکر راشد علی نے کیا ہے تو اس عبارت میں کہیں بھی یہ درج نہیں کہ قرآن کریم گندے الفاظ سے بھرا ہوا ہے.یہ ایک جھوٹا نتیجہ ہے جو اس نے اپنی طرف سے نکالا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہر وہ بات جو گو سخت ہو لیکن درحقیقت وہ امر واقع ہو اور اپنا ثبوت ساتھ رکھے وہ تو پھر ماننا پڑے گا کہ قرآن میں گالیاں ہیں.حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم تو کافروں کے سب پر دے کھول کر رکھ دیتا ہے.اسے گالی قرار دینا خود حماقت ہے کیونکہ اظہار واقعہ اور چیز ہے اور گالی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ مطلق طور پر نہیں لکھا بلکہ شرطی طور پر لکھا ہے کہ اگر ایسا ہو تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے.اس کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے قرآن کریم میں آتا ہے.قُل إِن كَانَ لِلرَّحمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ العَبدِينَ (الزخرف:82) ترجمہ:.تو کہہ دے کہ اگر خدائے رحمن کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں اس کی سب سے پہلے عبادت کرتا.یہ ایک امکانی اور مشروط بیان ہے کہ اگر ایسا ہو تو اس کے نتیجہ میں یہ ہوتا.مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے.اسی طرح فرمایا: وو لَو كَانَ فِيهِمَا أَلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَنَا (الانبياء : 23 ) ترجمہ.اگر دونوں (یعنی زمین و آسمان ) میں اللہ کے سوا اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہو جاتے.بعینہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دلیل قائم فرمائی ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: بڑے دھو کہ کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوں مختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے.بلکہ ایسی ہر ایک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اور اپنے محل پر چسپاں ہو محض اس کی کسی قدر مرارت کی وجہ سے جوحق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام ہی تصور کر لیتے ہیں حالانکہ دشنام اور سب اور شتم فقط اس مفہوم کا نام ہے جو خلاف واقعہ اور دروغ کے طور پر محض آزار رسانی کی غرض سے استعمال کیا جائے.اور اگر ہر ایک سخت اور آزار دہ تقریرکو محض بوجہ
145 اس کے کہ مرارت اور تلخی اور ایذا رسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں تو پھر اقرار کر نا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پُر ہے.کیونکہ جو کچھ بچوں کی ذلت اور بت پرستوں کی حقارت اور ان کے بارہ میں لعنت ملامت کے سخت الفاظ قرآن شریف میں استعمال کئے گئے ہیں یہ ہرگز ایسے نہیں ہیں جن کے سننے سے بُت پرستوں کے دل خوش ہوئے ہوں بلکہ بلا شبہ ان الفاظ نے ان کے غصہ کی حالت کی بہت تحریک کی ہوگی.کیا خدائے تعالیٰ کا کفار مکہ کو مخاطب کر کے یہ فرمانا کہ إِنَّكُم وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (الانباء:99) معترض کے من گھڑت قاعدہ کے موافق گالی میں داخل نہیں ہے.کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں کفار کو شر البریہ قرار دینا اور تمام رذیل اور پلید مخلوقات سے انہیں بدتر ظاہر کرنا یہ معترض کے خیال کے رو سے دشنام دہی میں داخل نہیں ہوگا ؟ کیا خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں واغلظ عَلَيهِم (التوبه 73) نہیں فرمایا کیا مومنوں کی علامات میں أَشِدَّاءُ عَلَى الكُفَّارِ (الفتح: 30) نہیں رکھا گیا.کیا حضرت مسیح کا یہودیوں کے معزز فقیہوں اور فریسیوں کو سو راور کتے کے نام سے پکارنا اور گلیل کے عالی مرتبہ فرمانروا ہیرو لیس کا لونبری نام رکھنا اور معز ز سردار کاہنوں اور فقیہوں کو کنجری کے ساتھ مثال دینا اور یہودیوں کے بزرگ مقتداؤں کو جو قیصری گورنمنٹ میں اعلیٰ درجہ کے عزت دار اور قیصری درباروں میں کرسی نشین تھے ان کر یہہ اور نہایت دلازار اور خلاف تہذیب لفظوں سے یاد کرنا کہ تم حرامزادے ہو حرامکار ہوشریر ہو بد ذات ہو، بے ایمان ہو، احمق ہو، ریا کار ہو، جہنمی ہو تم سانپ ہو،سانپوں کے بچے ہو.کیا یہ سب الفا ظ معترض کی رائے کے موافق فاش اور گندی گالیاں نہیں ہیں...دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گووہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شئے ہے.ہر ایک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالف گم گشتہ کے کانوں تک پہنچا دیوے پھر اگر وہ سچ کوسنکر افروختہ ہوتو ہوا کرے ہمارے علماء جو اس جگہ لَا تَسُبُّوا (الانعام: 109) آیت پیش کرتے ہیں میں حیران ہوں کہ اس آیت کو ہمارے مقصد اور مدعا سے کیا تعلق ہے.اس آیت کریمہ میں تو صرف دشنام دہی سے منع فرمایا گیا ہے نہ یہ کہ اظہارِ حق سے روکا گیا ہو اور اگر نادان مخالف حق کی مرارت اور تخی دیکھ کر دشنام دہی کی صورت میں اس کو سمجھ لیوے اور پھر مشتعل ہو کر گالیاں دینی شروع کر دے تو کیا اس سے امر معروف کا دروازہ بند کر دینا چاہئے ؟ کیا اس قسم کی گالیاں پہلے کفار نے کبھی نہیں دیں.آنحضرت ﷺ نے حق کی تائید کے لئے صرف الفاظ سخت ہی
146 استعمال نہیں فرمائے بلکہ بت پرستوں کے ان بچوں کو جو ان کی نظر میں خدائی کا منصب رکھتے تھے اپنے ہاتھ سے تو ڑا بھی ہے.سو جاننا چاہئے کہ جن مولویوں نے ایسا خیال کیا ہے کہ گویا عام طور پر ہر ایک سخت کلامی سے خدائے تعالیٰ منع فرماتا ہے.یہ ان کی اپنی سمجھ کا ہی قصور ہے ورنہ وہ تلخ الفاظ جو اظہارحق کے لئے ضروری ہیں اور اپنے ساتھ اپنا ثبوت رکھتے ہیں وہ ہر ایک مخالف کو صاف صاف سنا دینا نہ صرف جائز بلکہ واجبات وقت سے ہے تامداہنہ کی بلا میں مبتلا نہ ہو جائیں.خدائے تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ایسی سخت تبلیغ کے وقت میں کسی لائن کی لعنت اور کسی لائیم کی ملامت سے ہرگز نہیں ڈرے.کیا معلوم نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں جس قدر مشرکین کا کینہ ترقی کر گیا تھا اس کا اصل باعث وہ سخت الفاظ ہی تھے جوان نادانوں نے دشنام کی صورت پر سمجھ لئے تھے جن کی وجہ سے آخراسان سے سنان تک نوبت پہنچی.ورنہ اول حال میں تو وہ لوگ ایسے نہیں تھے بلکہ کمال اعتقاد سے آنحضرت ﷺ کی نسبت کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلى رَبِّه يعنى محمد ﷺ اپنے رب پر عاشق ہو گئے." صلى الله 66 (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 109 تا 115 ) سیہ وہ بحث ہے جس پر مشتمل عبارت میں آپ نے ایک مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے اور قرآنِ کریم سے گندے اعتراضات کو دور فرمایا ہے مگر راشد علی نے اس میں سے ایک فقرہ کو از راہ رجل سیاق وسباق سے الگ کر کے اور غلط معنے چڑھا کر اپنے نفس کا گند ظاہر کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دل عشق قرآن کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا اور آپ کا سینہ اس کے نور سے جگ مگ جگ مگ کرتا تھا.لیکن جہانتک ان اعتراض کرنے والوں کا تعلق ہے، قرآن کریم کے بارہ میں ان لوگوں کے کیا عقائد ہیں؟ ملاحظہ فرمائیں.بحالت خواب قرآن پر پیشاب کرنا اچھا ہے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب سے ایک شخص نے کہا کہ ” میں نے ایسا خواب دیکھا ہے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ میرا ایمان نہ جاتا رہے.حضرت نے فرمایا بیان تو کرو.ان صاحب نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ قرآن مجید پر پیشاب کر رہا ہوں.حضرت نے فرمایا یہ تو بہت اچھا خواب ہے.“ (افاضات یومیہ تھانوی.صفحہ 133.فتاویٰ رشیدیہ صفحہ 109 ومزیدالمجید تھانوی صفحہ 66 سطر 23 ) خدا کے کلام لفظی یعنی قرآن مجید کا جھوٹا ہونا ممکن ہے
147 اس کے لئے کافی بحث موجود ہے.دیکھئے’ الحمید المقل “ از صدر دیو بند صفحه 44 ، بوادر النوادر از تھانوی صفحه 210 صفحہ 481 - -:+ قرآن کو پاؤں تلے رکھنا جائز ہے کسی عذر سے قرآن مجید کو قارورات ( یعنی پیشاب) میں ڈال دینا کفر نہیں ، رخصت ہے اور کوئی اور چیز نہ ہو تو قرآن شریف کو پاؤں کے نیچے رکھ کر اونچے مکان سے کھانا اتار لینا درست ہے اور بوقت حاجت قرآن شریف کو کسی کے نیچے ڈال لینا روا ہے.“ تحریف اور اق صفحہ 4 بحوالہ وہابی نامہ صفحہ 35) (2) قرآن کریم میں مذکور معجزات از نوع مسمریزم ہیں را شد علی نے قرآن کریم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف یہ بھی بات منسوب کی ہے کہ گویا آپ نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں یہ لکھا ہے کہ "Miracles mentioned in Holy Quran are mesmerism"(Beware.....) ایسے جھوٹے پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہو جس نے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو جو معجزہ عطا فرمایا ہے وہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم اور اصول تمدن کا ہے.اور اس کی بلاغت اور فصاحت کا ہے جس کا مقابلہ کوئی انسان کر نہیں سکتا.اور ایسا ہی معجزہ غیب کی خبروں اور پیشگوئیوں کا ہے.“ نیز فرمایا: ( ملفوظات جلد 10 صفحہ 172) جانا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک اہلِ زبان پر روشن ہوسکتا
148 ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر ایک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یورپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہو ملزم وساکت ولا جواب کر سکتے ہیں.وہ غیر محدود معارف و حقائق وعلوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں اور ہر ایک زمانہ کے خیالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلح سپاہیوں.کی طرح کھڑے ہیں.کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف و دقائق اپنے اندر رکھتا ہے.جو شخص قرآن شریف کے اس اعجاز کو نہیں مانتاوہ علم قرآن سے سخت بے نصیب ہے.ومن لم يومن بذلك الاعجاز فوالله ما قدر القرآن حق قدره وما عرف الله حق معرفته وما وقر الرّسول حق (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 255 تا 257) توقیره“ یہ حقیقت ہے کہ کتاب 'ازالہ اوہام میں اور نہ ہی کسی اور کتاب میں کی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں مذکور منجزات از نوع مسمریزم ہیں.آپ کی طرف ایسی بات منسوب کرنا راشد علی اور اس کے پیر کا کھلا کھلا جھوٹ ہے.ہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کا ذکر فرمایا ہے وہاں ان معجزات کی ظاہری و باطنی دونوں تو جیہات بیان فرمائی ہیں.چونکہ عامتہ المسلمین حضرت عیسی علیہ السلام کو خدائی صفات کا مالک قرار دیتے ہوئے ان کو پرندوں کا خالق مانتے ہیں اور ان کے معجزات کی ظاہری صورت پر ہی ایمان رکھتے ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو ان کی غلطی سے آگاہ کرنے کے لئے ان معجزات کی ایک ایسی توجیہ فرمائی جو شرک کے خیالات سے دور اور عقل کے قریب تر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان معجزات کو ظاہری صورت کے اعتبار سے مسمریزم کے عمل سے مشابہ قرار دیا ہے.چونکہ راشد علی اور اس کے پیر کو ابلیس کی پیروی اور تلبیس کی مہارت حاصل ہے اس لئے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جھوٹا الزام یہ لگا دیا کہ گویا آپ نے (نعوذ باللہ ) یہ کہا ہے کہ قرآن کریم میں مذکور مجزات از نوع مسمریزم ہیں.راشد علی اور اس کے پیر کے اس فعل پر ہم لعنة الله علی الکاذبین کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں؟ جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تو جہیہ کا تعلق ہے تو ہم اس مضمون کو پوری تفصیل کے ساتھ ہدیہ قارئین کریں ہیں تا کہ حق کھل جائے.امر واقع یہ ہے کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام مبعوث ہوئے اس وقت یہود میں طب اور دیگر
149 شعبدہ بازی وغیرہ کے کام بہت رائج تھے.اس لئے اس بات کے ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر ایسے معجزات عقلیہ ظاہر فرمائے جن سے یہود کی طب اور ان کے دیگر امور مغلوب ہو گئے.چنا نچہ علامہ سعد الدین تفتازانی اپنی شہرہ آفاق کتاب ” تلویح میں تحریر فرماتے ہیں: ” وقد حقق فى الكتب الكلامية ان معجزة كل نبي بما يتباهى به قومه بحيث لا يتصوّر المـزيـد عـلـيـه كـالسحر في زمن موسى عليه السلام والطب في زمن عيسى عليه السلام والبلاغة في زمن سيّدنا محمد علیه السلام.“ ( تلویح شرح توضیح.مطبوعہ مصر.جلد اول صفحہ 52) ترجمہ علم کلام کی کتابوں میں با تحقیق بتایا گیا ہے کہ ہر نبی کو اسی رنگ کا معجزہ دیا گیا جس پر اس کی قوم کو فخر تھا.اور اس کیفیت و کمیت کی صورت میں دیا گیا جس پر زیادتی ناممکن تھی.جیسا کہ حضرت موسی کے زمانہ میں سحر اور جادو تھا اور حضرت مسیح کے وقت میں طب تھی اور آنحضرت ﷺ کے ظہور پر بلاغت تھی.“ سلسلہ احمدیہ کے اشد مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی لکھا ہے ” خدا تعالیٰ کی قدیم سے عادت ہے کہ ہر زمانہ میں اس قسم کے معجزات و خوارق منکرین کو دکھاتا ہے جو اس زمانہ کے لئے مناسب ہوں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں سحر کا بڑا زور تھا اسلئے ان کو ایسا معجزہ دیا جو سحر کا ہم جنس یا ہم صورت تھا اور وہ سحر پر غالب آیا.حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں طب کا بڑا چرچا تھا اس لئے ان کو ایسا معجزہ دیا گیا جس نے طبیبوں کو مغلوب کیا.آنحضرت ﷺ کے مخاطبین وقت کو فصاحت کا ایسا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے سوا کسی کو اہل سخن نہ جانتے تھے.یہی وجہ ہے کہ وہ بلا دغیر کے لوگوں کا عجم ( گونگے ) نام رکھتے تھے.“ ان پر حقیقت وضاحتوں کو سامنے رکھ کر اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کو پڑھیں.آپ فرماتے ہیں: اشاعۃ السنہ.جلد 7 نمبر 10 صفحہ 289) مخالف لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص حضرت مسیح علیہ السلام کے خالق طیور اور کئی اموات ہونے کا منکر ہے اور اس کو نہیں مانتا.مگر میرا جواب یہ ہے کہ میں حضرت مسیح کے اعجازی احیاء اور اعجازی خلق کو مانتا ہوں.ہاں اس بات کو نہیں مانتا کہ حضرت مسیح نے خدا تعالیٰ کی طرح حقیقی طور پر کسی مردہ کو زندہ کیا ہو یا حقیقی طور پر کسی پرندہ کو پیدا کیا ہو.کیونکہ اگر حقیقی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مردہ زندہ کرنے اور پرندہ پیدا
150 کرنے کو تسلیم کیا جائے تو اس سے خدا تعالیٰ کی خلق اور اس کا احیاء مشتبہ ہو جائے گا.مسیح علیہ السلام کے پرندوں کا حال عصائے موسیٰ کی طرح ہے جیسے وہ سانپ کی طرح دوڑتا تھا مگر ہمیشہ کے لئے اس نے اپنی اصلی حالت کو نہ چھوڑا تھا.ایسا ہی محققین نے لکھا ہے کہ مسیح کے پرندے لوگوں کے نظر آنے تک اڑتے تھے لیکن جب نظر سے اوجھل ہو جاتے تو زمین پر گر پڑتے اور اپنی پہلی حالت پر آ جاتے تھے.“ فرمایا: ( ترجمه از عربی عبارت کتاب" حمامۃ البشری.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 315 316) واضح ہو کہ انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں (۱) ایک وہ محض سماوی امور ہوتے ہیں جن میں انسان کی تدبیر اور عقل کو کچھ دخل نہیں ہوتا.جیسے شق القمر ، جو ہمارے سید و مولی نبی ﷺ کا معجزہ تھا اور خدا تعالیٰ کی غیر محدود قدرت نے ایک راستباز اور کامل نبی کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اس کو دکھایا تھا.(۲) دوسرے عقلی معجزات ہیں جو اس خارق عادت عقل کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو الہام الہی سے ملتی ہے.جیسے حضرت سلیمان کا وہ معجزہ جو صرحٌ مُمَرَّدٌ من قواریر ہے جس کو دیکھ کر بلقیس کو ایمان نصیب ہوا.اب جاننا چاہئے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت مسیح کا معجزہ ، حضرت سلیمان کے معجزہ کی طرح صرف عقلی تھا.“ نیز فرمایا: (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 253 ، 254 حاشیہ) وہ لوگ جو فرعون کے وقت میں مصر میں ایسے ایسے کام کرتے تھے جو سانپ بنا کر دکھلا دیتے تھے اور کئی قسم کے جانور تیار کر کے ان کو زندہ جانوروں کی طرح چلا دیتے تھے.وہ حضرت مسیح کے وقت میں عام طور پر یہودیوں کے ملکوں میں پھیل گئے تھے اور یہودیوں نے ان کے بہت سے ساحرانہ کام سیکھ لئے تھے جیسا کہ قرآن کریم بھی اس بات کا شاہد ہے.سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دے دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دہانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۲ حاشیه ) ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے ظاہری پرندے مانیں گے انہیں لازمی طور پر اسی
151 قسم کی کوئی تو جیہ کرنی پڑے گی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ تو جیبہ فرمائی ہے جو واقعات کے مطابق اور انسانی عقل کے موافق ہے.نیز معجزہ بھی ہے.کیونکہ اس صورت پر حضرت مسیح علیہ السلام کو منجانب اللہ اطلاع دی گئی اور آپ کے اس طریق کے سامنے باقی لوگ مغلوب ہو گئے.اور چونکہ وہ پرندے باتفاق مفترین عارضی اور وقتی زندگی پاتے تھے اس لئے اس کو عمل النثرب کا نتیجہ قرار دینا بھی درست ہے.مسمریزم یعنی عمل النرب کی حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: اس جگہ یہ بھی جاننا چاہئے کہ سلپ امراض کر نا یا اپنی روح کی گرمی جماد میں ڈال دینا درحقیقت یہ سب عمل الترب کی شاخیں ہیں.ہر ایک زمانہ میں ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں.اور مفلوج ، مبروص ، مدقوق وغیرہ ان کی توجہ سے اچھے ہوتے رہے ہیں.جن لوگوں کے معلومات وسیع ہیں وہ میرے اس بیان پر شہادت دے سکتے ہیں کہ بعض فقراء نقشبندی و سہروردی وغیرہ نے بھی ان مشقوں کی طرف بہت توجہ کی تھی اور بعض ان میں یہاں تک مشاق گذرے ہیں کہ صدہا بیماروں کو اپنی یمین و یسار میں بٹھا کر صرف نظر سے اچھا کر دیتے تھے اور محی الدین ابن عربی صاحب کو بھی اس میں خاص درجہ کی مشق تھی.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 256 ، 357 حاشیہ ) یعنی عمل الترب بالذات کوئی بری چیز نہیں ، ہاں جو اس کا برا استعمال کرتا ہے اور مسمریزم وغیرہ کی صورت میں اس کا ناجائز طریق و استعمال اختیار کرتا ہے وہ غلطی کرتا ہے.البتہ بلند روحانیت کے لحاظ سے یہ کوئی اعلیٰ کمال نہیں.اسی لئے حضرت اقدس نے اپنے لئے اس کو نا پسند فرمایا ہے.اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق بھی تحریر فرمایا کہ " حضرت مسیح نے بھی اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جوان کی فطرت میں مرکوز تھے باذن وحکم الہی اختیار کیا تھا ورنہ دراصل مسیح کو بھی یہ عمل پسند نہ تھا.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۸۵۲ حاشیہ ) ہمارے اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزہ خلق الطيور كو عمل الترب کہہ کر اس کی توہین نہیں فرمائی بلکہ آپ نے صرف اسی حقیقت کو جس کا تمام مفسرین
152 کو اقرار ہے ایک جدید اصطلاح ” عمل الترب“ کے ذریعہ بیان فرما دیا ہے.پس اس مضمون پر یہ عنوان لگانا پرلے درجہ کا جھوٹ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گویا یہ فرمایا ہے کہ ” قرآن کریم میں مذکور معجزات از نوع مسمریزم ہیں.“ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح کے معجزہ خلق الطیور کو قرآنی الفاظ میں نہ صرف یہ کہ تسلیم کیا ہے بلکہ حسب حدیث لكلّ آية ظهر وبطن، اس کی دو تو جیہات بیان فرمائی ہیں.(۱) ظاہری.جواو پر مذکور ہوئی.اور جس کا ماحصل یہی ہے کہ بے شک وہ پرندے بن گئے تھے مگر حقیقی نہ تھے.بلکہ یا تو عمل القرب کا نتیجہ تھے یا پھر کسی کل وغیرہ کی وجہ سے تھے جس کی حضرت مسیح کو منجانب اللہ تعلیم کی گئی تھی.(۲) باطنی.اس تشریح میں آپ نے تحریر فرمایا ہے: دو چونکہ قرآن شریف اکثر استعارات سے بھرا ہوا ہے اس لئے ان آیات کے روحانی طور پر یہ معنی بھی کر سکتے ہیں کہ مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ امی اور نادان لوگ ہیں جن کو حضرت عیسی نے اپنار فیق بنایا.گویا اپنی صحبت میں لے کر پرندوں کی صورت کا خاکہ کھینچا پھر ہدایت کی روح ان میں پھونک دی جس سے وہ پرواز کرنے لگے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 255 حاشیہ ) پس دونوں تشریحات ہو سکتی ہیں.ظاہری بھی باطنی بھی.مگر جیسا کہ واضح ہے ظاہری تشریح ایک خفیف امر ہوگا جو پائیدار نہیں ہوگا.لیکن باطنی تشریح ایک مستقل اور اہم صورت ہے اور انبیاء کے شایانِ شان اور ان کے فرضِ منصبی کے عین مطابق ہے.آیات قرآنیہ کی متعدد تفاسیر کرنا تمام اہل علم کا طریق ہے کیونکہ قرآن مجید جوامع الکلم ہے.الغرض اس تمام بحث سے یہ کھل کر واضح ہو گیا ہے کہ راشد علی اور اس کے پیر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو یہ الزام لگایا ہے کہ آپ نے گویا یہ فرمایا کہ "Miracles Quran Holy in mentioned are mesmerism" قطعی جھوٹا ہے اور کذب صریح ہے.بالآ خر یادر ہے کہ ہم اس بات کو کھلا کھلا شرک سمجھتے ہیں کہ جو صفت محض ذات باری کے لئے مختص
153 ہے وہ اس کے غیر کو دی جائے اور حضرت مسیح علیہ السلام کو واقعی خالق یقین کیا جائے.درحقیقت ہمارے مخالفین کی نظر میں ہمارا یہی جرم ہے کہ ہم اس بات کو توحید کامل کے خلاف سمجھتے ہیں اور اسی کے باعث ہم اُن اصحاب کی نظروں میں مورد عتاب ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق غالیانہ خیالات رکھتے ہیں.افسوس تو یہ ہے کہ اس معجزہ میں غلو کر کے یہ لوگ نصاری سے بھی چار قدم آگے نکل گئے ہیں.تمام انا جیل کو پڑھ جائیں لیکن آپ وہاں یہ معجز حقیقی پرندوں کی پیدائش کا کہیں نہ دیکھیں گے.اگر یہ واقعہ تھا تو کیا ممکن تھا کہ انجیل نولیس مزید مبالغہ کی چادر چڑھا کر اس کو ذکر نہ کرتے؟ ان کا ذکر نہ کرنا صاف دلالت کرتا ہے کہ یہ پرندے حقیقی پرندے نہیں تھے یا تو روحانی پرندے مراد ہیں یا مجازی.کما مر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کیوں بنایا ابن مریم کو خدا سنّت اللہ سے وہ کیوں باہر رہا ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا اس خدا دانی پہ تیرے مرحبا مولوی صاحب ! یہی تو حید ہے سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے؟“ (3) تحریف قرآن کا الزام چھلنی کیا بولے جس میں بہتر سو چھید ) لفظی تحریف : راشد علی نے اپنے رسالہ ”Ghulam Vs Master “ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قرآن کریم میں لفظی تحریف کا الزام لگایا اور اس کے ثبوت کے طور پر تین آیات پیش کی ہیں.عملاً تو اس کا یہ اعتراض ( نعوذ باللہ خدا تعالیٰ پر ہے کہ اس نے تو حفاظت قرآن کا قطعی فیصلہ اور حتمی وعدہ فرمایا تھا مگر اس میں حضرت مرزا صاحب نے (نعوذ باللہ ) تحریف کر دی ہے اور وہ وعدہ حفاظت ( نعوذ باللہ ) پورا نہیں ہوا.ہمارے نز دیک تو را شد علی کا دعویٰ جھوٹا ہے بلکہ کلیہ جھوٹا ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ بہر حال سچا اور تا قیامت قائم رہنے والا ہے.کسی کی مجال نہیں کہ اس الہی وعدہ کی طرف ٹیڑھی آنکھ کر کے بھی دیکھ سکے.حضرت مسیح موعود
علیہ السلام فرماتے ہیں: 154 قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اولین اور آخرین کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا.وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو پاش پاش کر دے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہو جائے گا.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 257 حاشیہ ) اس تمہید کے بعد ہم یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ کتابت کی غلطیاں کسی بھی ضابطے کے تحت تحریف نہیں کہلا تھیں.یہ بات علمائے فن کے مسلمہ اصولوں میں سے ہے.تحریف کرنے والا اگر اصل متن کے الفاظ کو جانتے بوجھتے ہوئے تبدیل کرے اور پھر تبدیل کردہ الفاظ کے مطابق اپنا عقیدہ یا موقف بنائے تو وہ تحریف کہلاتی ہے.اس لئے کسی بھی کتاب یا تحریر میں خصوصا الہی کتب میں تحریف ایک بڑا گناہ ہے.علاوہ ازیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُردو کے کا تب عموماً عربی زبان اور علم الاعراب سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کی کتابت کی غلطیاں ہوں اور باوجود سواحتیاط کے پروف ریڈنگ میں بھی وہ نہ پکڑی جاسکیں، انہیں تحریف قرار دینا سخت نا انصافی ہی نہیں صریح زیادتی بھی ہے.حضرت مرزا صاحب کی کتب میں بھی معدودے چند جگہ کتابت کی غلطیاں رہ گئیں لیکن کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں ہوا کہ ترجمہ اصل آیت کے مطابق نہ تھا اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی جگہ آپ کا استدلال اصل آیات کے مخالف تھا.دوسرے یہ کہ وہی آیت جس پر تحریف کا الزام دھرا گیا جب اسی کتاب میں دوسری جگہ یا کسی اور کتاب میں درج کی گئی تو بالکل درست ہیچ اور اصل الفاظ میں درج کی گئی.مزید برآں یہ کہ جب کبھی بھی علم ہوا کہ کسی جگہ سہو کتابت ہوئی ہے تو اگلے ایڈیشن میں اس کو درست کر دیا گیا.ضرور ہے.پس ایسی صورت میں کتابت کی کسی غلطی کو تحریف قرار دینا اخفائے حق تو ہے ہی مگر کذب صریح بھی اس وضاحت کے بعد ہم اب ان آیات کا ایک ایک کر کے جائزہ لیتے ہیں جو راشد علی نے بطور اعتراض کے تحریر کی ہیں.وہ لکھتا ہے :
155 پہلی آیت : و ما ارسلنا من رسول ولا نبى الا اذا تمنى القى الشيطان في امنيته.(انج:53) (ازالہ اوہام ص 629 ، دافع الوساوس ، مقدمہ حقیقت اسلام ص 33 روحانی خزائن جلد 3 ص439) مرزا غلام احمد صاحب نے قرآن شریف کی آیت سے من قبلک خارج کر دیا ہے کیونکہ اگر من قبلک یہاں رہتا تو مرزا صاحب کی نبوت کا ٹھکانا نہ بنتا“ قارئین کرام! حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت سے اپنی نبوت کا استدلال نہیں کیا اس لئے راشد علی کا یہ کہنا کہ اگر من قبلک یہاں رہتا تو مرزا صاحب کی نبوت کا ٹھکانا نہ بنتا ، محض راشد علی کی زبان درازی ہے.اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں.باقی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب نے قرآن شریف کی آیت سے من قبلک خارج کر دیا ہے تو اس بارہ میں حقیقت حال یہ ہے کہ واقعہ یہاں یہ آیت درج کرتے ہوئے من قبلک کے الفاظ سہو کتابت کی وجہ سے رہ گئے ہیں جبکہ یہی آیت اسی کتاب میں دوسری جگہ من قبلک کے الفاظ کے ساتھ لکھی گئی ہے.پھر ایک اور کتاب براہین احمدیہ حصہ چہارم کے صفحہ 549 طبع اول کے حاشیہ در حاشیہ نمبر 4 میں بھی یہ آیت اپنے پورے الفاظ کے ساتھ تحریر شدہ ہے.اس لئے اسے تحریف قرار دینا کھلا کھلا جھوٹ ہے.ہے.نیز بعد کے ایڈیشن میں مذکورہ بالاصفحہ 439 (روحانی خزائن جلد 3) پر کتابت کی اس غلطی کی تصحیح کر لی گئی دوسری آیت ان يجاهدوا في سبيل الله باموالهم وانفسهم (التوبة: 20) جنگ مقدس صفحہ 194.5 جون 1893ء) مرزا صاحب نے ان یجاهدوا باموالهم وانفسهم اپنی طرف سے داخل کیا ہے اور وجاهدوا باموالكم وانفسکم کو خارج کر کے فی سبیل اللہ کو آخر سے اٹھا کر درمیان میں رکھ دیا ہے.“ راشد علی کا یہ فقرہ ان کی بد دیانتی اور بدنیتی کا منہ بولتا ثبوت ہے.قارئین کرام ! حضرت مرزا صاحب نے سورہ توبہ کی آیت 20 کا حوالہ دیا ہے.نہ کہ آیت 41 کا.آیت 20 میں نہ تو باموالكم وانفسکم ہے اور نہ ہی فی سبیل اللہ آخر میں ہے بلکہ وہاں الفاظ ” فی سبيل الله باموالهم وانفسهم “ ہی ہیں.یعنی فی سبیل اللہ پہلے ہے اور باموالکم
156 وانفسکم کی بجائے باموالهم وانفسھم اس کے بعد ہے.اب را شد علی کا یہ کہنا کہ یہاں باموالهم وانفسھم کی بجائے باموالکم وانفسکم لکھ دیا جاۓ اور فی سبیل اللہ کے الفاظ شروع سے اٹھا کر بعد میں لکھے جائیں، قرآن کریم میں تحریف کی جسارت نہیں تو اور کیا ہے؟ راشد علی جو قرآن کریم کی آیات کو بدلنے پر دوسروں کو ترغیب دے رہا ہے، کیا خود سورہ توبہ کی اس آیت میں اسی طرح تبدیلی کرنے کی بے باکی کرے گا جس طرح کہ دوسروں سے کرانا چاہتا ہے؟ یہ لوگ تعصب اور بے باکی میں حد سے اس قدر تجاوز کر چکے ہیں کہ قرآنِ کریم کی آیات میں تبدیلی کی تحریص سے بھی گریز نہیں کرتے.پھر راشد علی لکھتا ہے : تیسری آیت: وما ارسلنا من قبلک من رسول و لا نبى و لا محدث الا انا تمنى القى الشيطن في امنيته فينسخ الله ما يلقى الشيطان ثم يحكم الله اياته ( براہین احمدیہ 348 ) ناظرین دیکھئے اصل آیت من رسول تک تحریر کی گئی آگے اپنی طرف سے ساری عبارت لگائی اور محدث کا لفظ جو سارے قرآن مجید میں نہیں ہے داخل کر دیا.یہ سارا ڈھونگ مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو محدث وملهم من الله ثابت کرنے کے لئے رچایا.“ قارئین کرام! براہین احمدیہ صفحہ 655 روحانی خزائن جلد ا کی جس عبارت کو راشد علی نے نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد جو حملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کیا ہے دیکھئے یہ حملہ آپ پر نہیں بلکہ حضرت عبداللہ ابن عباس پر کیا گیا ہے.آپ کی بیان فرمودہ عبارت ملاحظہ فرماویں کہ "آپ لوگ کیوں قرآن شریف میں غور نہیں کرتے اور کیوں سوچنے کے وقت غلطی کھا جاتے ہیں.کیا آپ صاحبوں کو خبر نہیں کہ صحیحین سے ثابت ہے کہ آنحضرت یہ اس امت کے لئے بشارت دے چکے ہیں کہ اس امت میں بھی پہلی امتوں کی طرح محدّث پیدا ہوں گے اور محدث بفتح دال وہ لوگ ہیں جن سے مکالمات و مخاطبات الہیہ ہوتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ ابن عباس کی قرات میں آیا ہے، وما ارسلنا من قبلك من رسول ولا نبى ولا محدث الا اذا تمنى القى الشيطان في امنيته فينسخ الله ما يلقى الشيطان ثم يحكم الله آیاته (الحج:۳۵) پس اس آیت کی رُو سے
157 بھی جس کو بخاری نے بھی لکھا ہے محدث کا الہام یقینی او قطعی ثابت ہوتا ہے (براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 655) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت میں ولا محدث کے لفظ کا از خود ذ کر نہیں فرمایا بلکہ اس آیت کی ایک دوسری قرآت کا ذکر فرمایا ہے جو حضرت ابن عباس سے مروی ہے اور اسے تفسیر روح المعانی میں حضرت علامہ الوی نے اور تفسیر الدر المنظور میں حضرت امام جلال الدین سیوطی کے علاوہ متعدد کتب تفاسیر میں دیگر مفسرین نے بھی درج فرمایا ہے.پس راشد علی کا حملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہیں بلکہ حضرت ابن عباس پر ہے یا پھر ان مفسرین پر جن کی بزرگی کے یہ خود بھی قائل ہیں.معزز قارئین! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ راشد علی نے جو الزام لگایا وہ جھوٹا تھا.اس نے کہیں خود قرآنی آیات میں تحریف کی تحریض کی ہے تو کہیں سہو کتابت کو اور کہیں صحابی رسول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ قرآت کو تحریف کا نام دیا ہے اور اس طرح اپنے گستاخ صحابہ ہونے کا ثبوت دیا ہے.راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اسی (80) سے زائد کتب میں سے صرف تین آیات ایسی پیش کی ہیں جنہیں وہ از راہ جہالت یا محض ظالمانہ طور پر تحریف قرار دیتا ہے.اس کی پیش کردہ تینوں آیات کے متعلق ہم نے وضاحت کر دی ہے اور قطعی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ تحریف ہرگز نہیں.قبل اس کے کہ ہم قارئین پر یہ واضح کریں کہ آیات قرآنیہ میں ایسی غلطیاں ہر مصنف سے ممکن ہیں اور اس کے ثبوت کے لئے چند نمونے مشتے از خروارے پیش کریں، یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنے جس رسالہ میں راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قرآن مجید میں تحریف کا الزام لگایا ہے ،1998ء میں شائع کیا گیا ہے جبکہ اس سے کئی سال قبل حضرت مرزا صاحب کی کتب میں ایسی آیات جن میں کتابت کی غلطی ہوئی تھی ، ان کی تصحیح کر لی گئی تھی اور اس کے بعد وہ درست شکل میں تحریر ہیں.پس اس درستی کے بعد اس کا شور و غوغا اس کی بددیانتی کا واضح ثبوت ہے.اب قارئین کی تسلی کے لئے چند نمونے تحریر کئے جاتے ہیں تا کہ انہیں یہ علم ہو سکے کہ ایسی غلطیاں ہر جگہ ہوتی ہیں.ملاحظہ ہو.1 - حضرت مجد دالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں :
158 اما ان الظن لا يغني عن الحق شيئا جبکہ اصل آیت ہے:.وان الظن لا يغنى من الحق شيئا 2.علامہ سید محمد سلیمان صاحب ندوی لکھتے ہیں : ( جلدا صفحه 156 مکتوب 153) (النجم : 29) فان الله بالشمس من المشرق فات بها من المغرب - (ہفت روزہ الاعتصام لاہور 5 دسمبر 1954 ء صفحہ 5) اصل :آیت: فان الله ياتى بالشمس من المشرق فات بها من المغرب - 3.مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں: فای تصریق احق بالامن اصل آیت.فاى الفريقين احق بالامن (البقره:259) ( مضامین البلاغ) (الانعام:82 ) 4.مولوی اشرف علی صاحب تھانوی دیوبندی مسلمانوں کے روحانی ودینی پیشوائے طریقت و مجد د سمجھے جاتے ہیں.اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:.يحلون فيما من اسارور اصل آیت يحلون فيها من اساور بہشتی زیور پہلا حصہ صفحہ 5 مطبوعہ نومبر 1953ء) (کہف:31) 5.امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی تقریروں کا ایک مجموعہ مکتبہ تبصرہ لاہور نے ” خطباتِ امیر شریعت“ کے نام سے شائع کیا تھا جس کے دیباچہ میں لکھا ہے.” شاہ جی اپنی تقریر کے دوران آیات قرآنی کی تلاوت کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ قرآن کی آیات آسمان سے نازل ہو رہی ہیں.“ ( شاید ان پر غلط ہی نازل ہوتی تھیں.بہر حال ) کئی ایک میں سے صرف ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں ولا تخط بيمينه وما تدرى الكتاب ( خطبات صفحہ 35) (العنکبوت :48) اصل آیت ولا تخطه یمینک اذا لا رتاب المبطلون O 6.ایک ممتاز محقق و مولف علامہ سید مناظر احسن گیلانی نے حضرت شاہ اسمعیل مجددصدی سیز دہم کی شہرہ آفاق تصنیف ” طبقات“ کا ترجمہ شائع کیا ہے.اس میں سے چند حوالے مع اصل آیت کے درج ذیل ہیں: وارسينا الى ام موسى ان ارضعيه اصل آیت: واوحينا الى ام موسى ان ارضعيه ( طبقات - صفحہ 14 - ناشر اللجنة العلمية - حیدر آباد ) (القصص:8)
159 7.مولانا کوثر نیازی صاحب کی کئی کتابیں ہیں ، صرف ایک کتاب میں سے ایک آیت ملاحظہ فرمائیں جو یوں درج ہے: وما يتز غفك من الشيطان نزخ - اصل آیت: واما ينز غنك من الشيطان نزغ - 8.مولوی احمد رضا خان بریلوی آیت قرآنی کو اس طرح لکھتے ہیں: -9 تخلیق آدم - صفحہ 75 ناشر فیروز سنز لمیٹیڈ ) (الاعراف: 201) عالم الغيب فلا يظهر على غيبه احدا الا من ارتضى من رسول الله (الملفو ظ حصہ اول صفحہ 88) اصل آیت: علم الغيب فلا يظهر على غيبه احدا - الامن ارتضى من رسول (سورة الجن : 25، 26) کلیہ عربی و علوم اسلامیہ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے حال ہی میں شائع شدہ کتاب اسلامی تحریکات عہدِ جدید میں برائے تخصص ایم اے علوم اسلامیہ، جس کی ترتیب وتحریر ایک حافظ قرآن، حافظ محمد سجاد نے کی ہے.اس کے صفحہ ۲۹ پر یعنی ایک ہی صفحہ پر سات (7) غلطیاں ہیں.اب راشد علی اور اس کا پیر ان کا کیا کریں گے؟ لگائیں تحریف کا الزام ان پر بھی.10 سنن ابی داؤد.الجزء الثانی.کتاب النکاح - صفحہ 239 - ( مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ) میں سورۃ النساء کی آیت 2 ،اس طرح لکھی ہوئی ہے.ياتها الذين امنوا اتقوا الله الذى تساءلون به والارحام.انّ الله كان عليكم رقيباً.جبکہ اصل آیت اس طرح ہے.یا تها النّاس اتقوا ربكم الذى خلقكم من نفس واحدة و خلق منها زوجها و بثّ منهما رجالاً كثيراً و نساء واتقوا الله الذي تساء لون به والارحام.ان الله كان عليكم رقيباً.اگر راشد علی اور اس کے پیر میں ذرہ بھر بھی دیانتداری اور انصاف کی رمق باقی ہو تو اپنے اصول کے مطابق حضرت امام ابو داؤد پر بھی وہی الزام لگا کر دیکھیں جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگایا ہے.ایسی بیسیوں مثالیں ہیں جن میں سے یہاں صرف ۰۱ آیات جو مصنفین کی کتب میں غلط طور پرلکھی گئیں، پیش کی گئی ہیں تاکہ حقیقت حال سمجھ آسکے.
160 راشد علی اور اس کا پیر چونکہ اپنے حملہ میں جھوٹے ہیں اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں اور نادانستہ یا محض سہو کتابت کی وجہ سے آیت میں اتفاقا ہو جانے والی کسی غلطی کو حقیقی تحریف قرار دیتے ہیں.اس لئے جب اس نکتہ نظر سے ان کی کتب ورسائل کا جائزہ لیا گیا تو یہ حقیقت حیرت انگیز طور پر سامنے آئی کہ اس چھلنی میں بجائے خود بہتر سوچھید ہیں.چنانچہ یہ اپنے ہی مسلمات کی رو سے حقیقی محرف قرآن و کلمہ ثابت ہوتے ہیں.راشد علی نے اپنے پیر عبدالحفیظ کا ایک مضمون اپنے ” الفتوی نمبر 23 جو جنوری 2000ء میں شائع کیا جس میں پانچ آیات کریمہ میں اس نے اس طرح تحریف کی.ان کی تحریر کردہ آیات کا عکس پیش ہے." لا انا اعطينك الكوثر يس والقرآن الحكيم وما ينتق عن الهوى ان هو الا وحي يوحى وما ارسلنک الا رحمته اللعالمين محمد الرسول الله والذين معها ، ان میں تیسری آیت اس طرح ہے وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى“ اور چوتھی آیت اس طرح ہے.وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ اور پانچویں آیت اس طرح ہے.مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهُ - یعنی انہوں نے پانچ آیات میں سے تین میں چار جگہ ” تحریف کر دی ہے.اسی طرح اپنی تنظیم ” الحفیظ ذاکرین تنظیم پاکستان“ کے تعارف ہمنشور، ترتیب ذکر اور دعا پر جو انہوں نے جو رسالہ شائع کیا ہے وہ ان کی تنظیم کے بنیادی نقوش کونمایاں کرتا ہے اور ان کے بنیادی اصول بیان کرتا ہے.اس میں انہوں نے صرف آٹھ آیات درج کی ہیں جن میں سے پانچ یعنی تقریباً ۵۶ فیصد آیات میں تحریف کر دی ہے.چنانچہ ملاحظہ ہو کہ 1.سورہ الحج کی آیت نمبر 12 - خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ کو انہوں نے لکھا ہے.خسرة الدنيا في الآخرة (رساله - الحفیظ ذاکرین تنظیم پاکستان صفحه (12) یعنی ایک آیت میں دو غلطیاں.2.سورہ التوبہ کی آیت نمبر 130- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ فقل - کو لکھا ہے.فان تولو وا (رساله...صفحه 14)
161 3.سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۳۵.فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ میں ۱ واشكروالى کو بدل کر والشکرولی کردیا ہے.(صفحہ 14) 4.اس مذکورہ بالا آیت کو صفحہ 23 پر واشکرولی ولا تکفرون کردیا ہے.وو 5.سورۃ لیس کی آیت نمبر 16 - قَالُوْا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا میں کلمہ قالوا میں سے ۱ ‘‘ نکال کر قالو ما انتم.کر دیا ہے.اس کے باوجود بہتر سو چھید والی چھلنی بولتی ہے اور جماعت احمدیہ کو اپنے جھوٹے اور بے بنیاد اعتراضات کا نشانہ بناتی ہے جبکہ عملاً تحریف قرآن خود اس کے اپنے بنیادی تعارف ، منشور، ترتیب ذکر، اور دعا میں موجود ہے.علاوہ ازیں ان کے ماہوار رسالہ الحفیظ کے شمارہ مئی 99 ء کے صفحہ 40 پر پانچ آیات درج ہیں جن میں سے چار میں انہوں نے تحریف کی ہے.چنانچہ وہ آیت کریمہ يسَ وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ O کی بجاۓ يس والقرن اور ” وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى “ کی بجائے ” وما يتنطق عن الهوى “ اور وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ کی بجائے وما ارسلنک الا رحمتہ اللعالمین اور مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهُ کی بجائے محمد الرسول الله والذين معه ، تحریر کر کے انہوں نے واضح طور پر آیات قرآنیہ میں تحریف کا ارتکاب کیا ہے.نیز کتاب ” ہم اللہ کو کیوں مانیں، میں صفحہ 103 پر وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا میں تحریف کر کے وجعل شمس سراجا لکھا ہے.اور اسی کتاب میں صفحہ 105 اور ص 93 اور ص 83 پر کلمہ طیبہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ میں تبدیلی کر کے لا اله الا الله محمد الرسول اللہ کر دیا ہے.اسی کتاب میں صفحہ 35 پر آیت کریمہ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً “ میں تحریف کر کے اسے ” رب انی جاعل في الارض خلیفة “ بنادیا ہے.یعنی رب کا لفظ اپنی طرف سے داخل کر دیا ہے.الغرض انہوں نے اپنے لٹریچر میں آیات قرآنیہ کے دشمن بن کر ان سے اس کثرت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے کہ اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی.انہوں نے تو کلمہ طیبہ میں بھی حروف کا رد و بدل کر چھوڑا ہے.یہ اسلام، کلمہ طیبہ اور قرآن کریم سے دشمنی نہیں تو اور کیا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب قرآن کریم کی تخفیف اور
162 تحقیر کرنے والے پادری مولویوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لعنت بھیجی تو راشد علی اور اس کے پیر کو صرف تکلیف ہی نہیں ہوئی بلکہ وہ تلملا اٹھے گویا ان کی چار پائی تلے آگ بھڑک اٹھی ہو.معزز قارئین اتحریف قرآن کا الزام مکمل طور پر ان پر الٹانے اور ان پر ثابت کر دینے کے باوجود بھی ہم اس یقین پر قائم ہیں راشد علی اور اس کا پیر جس قدر بھی کوشش کر لیں قرآن کریم کی کسی آیت کو نہ بدل سکتے ہیں نہ اسے بگاڑ سکتے ہیں.ا.ترجمہ و معانی میں تحریف را شد علی نے قرآن کریم میں تحریف کے سلسلہ میں دوسرا الزام یہ لگایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنی آیات کے ترجمہ و معانی میں تحریف و تبدیلی کی ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں نے آیت خاتم النبیین کا ذکر کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جوتر جمہ وہ صحیح سمجھتے ہیں وہی درست ہے، اور جو ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہے وہ تحریفی ترجمہ ہے.چنانچہ وہ لکھتا ہے طلوع اسلام سے لے کر آج تک تمام مسلمان اس آیت کو آنحضرت ﷺ کی نبوت کے آخری ہونے کا ایک غیر مبدل اعلان سمجھتے آئے ہیں.اس عقیدہ کو مستند احادیث کی تائید حاصل ہے لیکن مرزا غلام احمد نے اس کی یہ عجیب و غریب تاویل کر لی کہ یہ آخری ہونے کی مہر (Seal of finality) نہیں بلکہ آئندہ آنے والے نبیوں کے لئے تصدیق کی مہر (Seal of Approval) ہے.گویا کہ پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی تو خدا تعالیٰ نے بھیجے تھے لیکن اب یہ اختیار رسول اللہ ﷺ کو دے دیا گیا.اس کے بعد انہوں ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) نے یہ دعویٰ کر دیا کہ اب صرف وہی ایک ہی نبی ہیں خدا تعالیٰ کے سب نوروں میں سے آخری نور ہیں.خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب فضول تشریحات اس وجہ سے تھیں کہ وہ اپنے دعویٰ نبوت کو ثابت کر سکیں.انہوں نے ختم نبوت کا دروازہ کھولا ، اس میں داخل ہوئے اور پھر اسے بند کر دیا.“ (Ghulam Vs Master) یہ لب لباب ہے اس کے اس کی تحریر کا کہ جس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے معانی میں تبدیلی کی ہے.“ جہاں تک قرآن کریم کے معانی کی تبدیلی کے الزام کا تعلق ہے تو یہ الزام فی ذاتہ غلط ہے قرآن کریم کے معانی میں تحریف اس وقت قرار پاتی ہے جب وہ قواعد لغت محاورہ عرب اور دیگر آیات قرآنیہ کے مخالف و معارض ہوں.لیکن ان کے مطابق و موافق ایک سے زائد معانی پر معنوی تحریف کا الزام نہیں لگ
163 سکتا.کیونکہ قرآن کریم کے اسرار و معارف اور رموز و حقائق ہر زمانہ میں الگ الگ ظاہر ہوتے ہیں.نیز ہر مترجم اور مفسر کے علم ، پاکبازی ، تقومی تعلق باللہ اور عرفان کے لحاظ سے بھی اس کے معانی ومطالب بڑھ چڑھ کر جلوہ گری کرتے ہیں.لیکن مذکورہ بالا راشد علی کے اس اعتراض کو سچا سمجھ لیا جائے تو امت میں نہ کوئی مفسر قرآن اس کی زد سے بچ سکتا ہے نہ ہی کوئی تفسیر قرآن.حضرت امام رازی رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر کا رنگ اور ہے اور حضرت امام ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر کا رنگ اور علی ھذا القیاس ہر تفسیر میں معانی ومطالب الگ الگ جلوہ گر ہیں.پس یہ اعتراض ویسے ہی بالبداہت غلط اور جھوٹا ہے.لیکن جہاں تک امت میں آنے والے مسیح و مہدی کے عرفان کا تعلق ہے اس کے بارہ میں حضرت مجد دالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تنبیہہ راشد علی اور اس کے پیر وغیرہ کے لئے کافی روشنی کے سامان رکھتی ہے.آپ فرماتے ہیں وو علمائے ظواہر مجتہدات اور اعلی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام از کمال دقت و غموض ماخذ انکار نمائند و مخالف کتاب و سنت دانند (مکتوبات.امام ربانی حضرت مجد دالف ثانی.دفتر دوم.حصہ ہفتم صفحہ 14 مکتوب نمبر 55) عجب نہیں کہ علمائے ظاہر حضرت عیسی علیہ السلام کے مجتہدات کا ان کے ماخذ کے کمال دقیق اور پوشیدہ ہونے کے باعث انکار کر جائیں گے اور انہیں کتاب وسنت کے مخالف جانیں.“ ( ترجمه از: المکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی.اردوترجمه دفتر دوم مطبوعه باهتمام ملک محمد عارف خان پرنٹر بن محمدی پریس لاہور ) حضرت مجد دالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کے آئینہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرموده معانی و معارف کا انتہائی درجہ دقیق ، گہرا اور بلند پایہ ہونا اور راشد علی وغیرہ کا ظاہر پرست اور پست خیال ہونا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے پس ایک ظاہر پرست اور پست خیال انسان کا خدا تعالیٰ کے مامور، اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت اور آپ کی ذات کے کمال درجہ عرفان کے حامل وجود پر اعتراض، ایک کوڑی کی بھی حیثیت نہیں رکھتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم اور عرفان ،اس کی پہنچ سے بالا ، دسترس سے ورے اور بساط سے باہر ہے.لہذا اسے اس طرف رخ کرنا ہی مناسب نہ تھا.ہے.(1) کیا عقیدہ تم بہوت کو مستند احادیث کی تائید حاصل ہے؟ راشد علی کی یہ بات بھی جھوٹی ہے کہ ان کے نام نہاد عقیدہ ختم نبوت کو مستند احادیث کی تائید حاصل
164 امر واقعہ یہ ہے کہ ان کے غلط عقیدہ کو احادیث نبویہ کی بالکل تائید حاصل نہیں ہے.ایسی احادیث جن کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ وہ سید المرسلین خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو آخری نبی ثابت کرتی ہیں ، درحقیقت وہی احادیث مبارکہ آپ کو مقام و مرتبہ اور کمال کے لحاظ سے اور ایک بلند تر درجہ کےلحاظ سے آخری مقام پر فائز کرتی ہیں.ایسا مقام و مرتبہ کہ جس کے آگے اور کوئی مقام نبوت نہیں.چنانچہ احادیث مثلاً انی آخر الانبیاء “ اور ” لا نبی بعدی “ آپ کے اسی مقام اعلیٰ وارفع کو ثابت کرتی ہیں جس کا ایک نظارہ ہمیں آپ کے معراج میں نظر آتا ہے.جب آپ تمام انبیاء کے مدارج سے سبقت لے جاتے ہوئے ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سب انبیاء مقام کے لحاظ سے آپ سے نیچے رہ گئے.جس جگہ سے پھر الوہیت کی قوس شروع ہو جاتی ہے.یہی مقام ہے جو ” آخر الانبیاء‘اور لا نبی بعدی میں مذکور اعلیٰ وارفع مقام بیان ہوا ہے.یعنی آپ سب انبیاء کے مقابلہ میں سب سے آخری مقام پر ہیں جہاں آپ کے بعد نہ اور کوئی نبی ہے اور نہ ہی کوئی مقام نبوت.اس سے آگے کوئی مقام ہے تو وہ مقامِ الوہیت ہے.صرف بعثت کے لحاظ سے آپ کا سب سے آخر میں ہونا، یا زمانی لحاظ سے آپ کے بعد کسی اور نبی کا نہ آنا ایک ایسا نظریہ ہے جسے نہ احادیث نبویہ کی تصدیق حاصل ہے نہ تائید.بلکہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے لے کر اب تک آئمہ سلف ، بزرگان امت اور علمائے دین اس نظریہ کور ڈ کرتے ہوئے ایک ایسے نبی کی آمد کی خبر دیتے ہیں جو اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا امتی اور آپ کی شریعت کا تابع ہے.یہ وہی مسیح موعود ہے جس کو خود آنحضرت ﷺ نے ایک ہی حدیث میں چار مرتبہ نبی الله “ قرار دیا ہے.(ملاحظہ ہومسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وصفته ومن معه ) اسی طرح اور احادیث میں بھی آپ نے الله امت میں آنے والے اس ایک نبی کی خبر دی.پس یہ بات تو قطعی طور پر جھوٹی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد امت میں کوئی نبی نہیں آئے گا.اسی غلطی کے امکان کو دور کرنے کے لئے کہ آنحضرت ﷺ کے بعثت کے لحاظ سے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ( معلمہ نصف الدین) فرماتی ہیں: " قولوا انه خاتم الانبياء ولا تقولوا لا نبی بعدہ.“ 66
165 (الدر المنظور.جلد 5 صفحہ 221 تفسیر سورۃ الاحزاب - مطبعة الانوار المحمدیہ القاهره) ترجمہ :.یعنی اے لوگو یہ تو کہا کرو کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبین ہیں مگر یہ نہ کہا کرو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.الشیخ الامام حضرت ابن قتیبہ (المتوفی 267ھ ) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول نقل کر کے فرماتے ہیں:.." ليس هذا من قولها ناقضا بقول النبى صلى الله عليه وسلم لا نبی بعدی لانه اراد لا نبی بعدی ینسخ ماجئت به ـ 66 تاویل مختلف الاحادیث.صفحہ 236 ) ترجمہ:.(حضرت عائشہ) کا یہ قول آنحضرت ﷺ کے فرمان لا نبی بعدی کے مخالف نہیں کیونکہ حضور کا مقصد اس فرمان سے یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کو منسوخ کر دینے والا ہو.برصغیر پاک وہند کے مشہور محدث اور عالم حضرت امام محمد طاہر ( متوفی 1578ء 986ھ) حضرت عائشہ کے اس ارشاد کی تشریح فرماتے ہوئے تکملہ مجمع البجار میں لکھتے ہیں:.ينسخ شرعه “ "هذا ناظر الى نزول عيسى وهذا ايضاً لا ينافي حديث لا نبى بعدى لانه اراد لا نبى (تکملہ مجمع البحار المجلد الرابع صفحہ 85 المطبع العالی منشی نول کشور ) ترجمہ :.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول اس بناء پر ہے کہ عیسی علیہ السلام نے بحیثیت نبی اللہ نازل ہونا ہے اور یہ قول حدیث لا نبی بعدی کے خلاف بھی نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کی مراد اس قول سے یہ ہے کہ آپ کے بعد ایسا نبی نہیں ہو گا جو آپ کی شریعت منسوخ کرے.امام عبدالوہاب شعرانی (متوفی 1568ء 976ھ ) حدیث لا نبی بعدی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " وقــولــه صلى الله عليه وسلم لا نبى بعدى ولا رسول بعدى اى ما ثم من يشرع بعدى شريعة خاصة.“ ( الیواقیت والجواہر جلد 2 صفحہ 35 - الطبقہ الاولی 1351ھ مصر طبعہ عباس بن عبدالاسلام بن شقرون ) ترجمہ: کہ آنحضرت ﷺ کے قول لا نبی بعدی اور لا رسول بعدی سے مراد یہ ہے کہ آپ کے بعد
166 شریعت لانے والا نبی نہیں ہوگا.برصغیر پاک و ہند کے مایہ ناز محدّث و شارح مشکوۃ شریف اور مشہور امام اہلِ سنت حضرت ملا علی قارئ (المتوفی 1606 / 1014ھ) فرماتے ہیں: "ورد" لا نبی بعدی“ معناه عند العلماء لا يحدث نبی بشرع ينسخ شرعه - الاشاعة فى اشراط الساعة - صفحہ 226) ترجمہ:.حدیث میں لا نبی بعدی کے جو الفاظ آئے ہیں اس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ کوئی نبی ایسی شریعت لے کر پیدا نہیں ہوگا جو آنحضرت ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرتی ہو.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (متوفی 1176ھ ) تحریر فرماتے ہیں: فعلمنا بقول عليه الصلوة والسلام لا نبى بعدى ولا رسول ان النبوة قد انقطعت والرسالة انما يريد بها التشريع.“ قرة العينين في تفضيل الشيخين صفحه 319) صلى الله ترجمہ :.آنحضرت ﷺ کے قول لا نبی بعدی و لا رسول سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ جو نبوت ورسالت منقطع ہوگئی ہے وہ آنحضرت کے نزدیک نئی شریعت والی نبوت ہے.“ طریقہ نوشاہیہ قادریہ کے امام و پیشوا حضرت شیخ نوشاہ گنج قدس سرہ کے فرزند عالیجاہ اور خلیفہ آگاہ حضرت حافظ برخوردار ( متوفی 1093ھ ) اس کی شرح فرماتے ہیں: " والمعنى لا نبى بنبوّة التشريع بعدى الا ما شاء الله من الانبياء والأولياء “ ( شرح الشرح لعقائد النسفی النبر اس صفحہ 445 حاشیہ.ناشر مکتبہ رضویہ لاہور ) ( ترجمہ:.اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو نئی شریعت لے کر آئے ہاں جو اللہ چاہے انبیاء اور اولیاء میں سے.وو اہل حدیث کے مشہور و معروف عالم نواب صدیق حسن خانصاحب لکھتے ہیں: حديث لا وحى بعد موتی بے اصل ہے البتہ لا نبی بعدی آیا ہے جس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہیں لائے گا.“ اقتراب الساعة - صفحہ 162 - از نواب نور الحسن خان.مطبعة سعید المطابع بنارس.1322ھ )
167 آئمہ سلف اور علمائے امت کے ان اقوال کی روشنی میں قطعی طور پر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ راشد علی کا دعویٰ محض جھوٹا ہی نہیں عقائد اسلامیہ کے بھی منافی ہے.راشد علی کا اصل اعتراض یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے معانی میں تحریف کی ہے اس کی مثال اس نے آیت ” خاتم النبیین “ کی پیش کی ہے.امر واقع یہ ہے کہ ” خاتم النبیین “ کے معنوں کے محترف یہ لوگ خود ہیں.یہ خود اس عظیم الشان لقب کے معنے ایسے کرتے ہیں جو سید الکونین ، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مقام و مرتبہ ، قرآن کریم ، احادیث نبویہ محاورہ ولغت عرب اور اقوالِ آئمہ سلف کے منافی ہیں.عربی زبان میں اس کے محاورات میں جب کبھی خاتم النبیین کے طریق پر کوئی مرکب اضافی کسی کی مدح میں استعمال ہو تو ایسے مرکب اضافی کے معنے ہمیشہ اس جماعت مضاف الیہ کے اعلیٰ ، کامل اور انتہائی افضل فرد کے ہوتے ہیں اور وہ فرد اپنے کمال میں بے مثال اور عدیم النظیر ہوتا ہے.اسی وجہ سے لفظ خاتم کے معنے نفی کمال کے لئے جاتے ہیں.نفسی جنس کے نہیں.کیونکہ خاتم کا لفظ مذکورہ بالا صورت میں کبھی بھی نفئی جنس کے ساتھ استعمال نہیں ہوا.اگر ہوا ہو تو راشد علی ، اس کا پیر یا ان کے ہم مشرب اس کی مثال پیش کریں.انہیں ہمارا چیلنج ہے کہ عربی لغت میں خاتم النبیین کے طریق پر مرکب اضافی جو کسی کی مدح میں استعمال ہوئی ہو، وہاں خاتم کے معنے نفسی جنس کے دکھا دیں تو ہم انہیں انعام دیں گے.یہ یادر ہے کہ یہ لوگ ایسی ایک بھی مثال پیش نہیں کر سکتے.لیکن اس کے برعکس خاتم النبیین کے وہ معنے جو بیچ ہیں اور آنحضرت کے بلند مقام ومرتبہ کو ثابت کرنے والے ہیں، جماعت احمد یہ وہ معنے پیش کرتی ہے اور انہیں کی تائید میں کثرت سے مثالیں بھی موجود ہیں.چنانچہ ان میں سے چند ایک ملاحظہ فرمائیں.خاتم النبیین کے طریق پر خاتم مرکب اضافی کی مثالیں.1.ابو تمام شاعر کو خاتم الشعراء لکھا ہے.2.ابوالطبیب کو خاتم الشعراء کہا گیا ہے.ی).ابو العلاء المعری و خاتم الشعراء قرار دیا گیا ہے.( وفیات الاعیان.جلد اول) (مقد مہ دیوان منتهی.مصری صفحهی) (حوالہ مذکورہ بالا حاشیہ صفحہ
168 4.حبیب شیرازی کو ایران میں خاتم الشعراء سمجھا جاتا ہے.5.حضرت علی خاتم الاولیاء ہیں.6.امام شافعی خاتم الاولیاء تھے.7 - شیخ ابن العربی خاتم الاولیاء تھے.8.امام محمد عبدہ مصری خاتم الائمہ تھے.9.ابوالفضل الالوی کو خاتمة المحققین کہا گیا ہے.10.امام سیوطی کو خاتمة المحققین لکھا گیا ہے.11.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، خاتم المحد ثین تھے.12.سب سے بڑا ولی خاتم الاولیاء ہوتا ہے.13.ترقی کرتے کرتے ولی خاتم الاولیاء بن جاتا ہے.14 - افضل ترین ولی خاتم الولاية ہوتا ہے.15.شاہ عبدالعزیز خاتم المحدثين والمفسرين تھے.16.انسان خاتم المخلوقات الجسمانية ہے.17 - الشيخ محمد بن عبداللہ خاتم الحفاظ تھے.18.علامہ سعد الدین تفتازانی خاتمة المحققین تھے.19.مولوی محمد قاسم صاحب کو خاتم المفسرین ہیں.20.امام سیوطی خاتمة المحدثین تھے.21.بادشاہ خاتم الحكّام ہوتا ہے.(حیات سعدی - صفحہ 87) (تفسیر صافی.سورہ الاحزاب ) ( التحفة السنية - صفحہ 45) (سرورق فتوحات مکیہ ) ( تفسیر الفاتحہ - صفحہ 148) ( سرورق تفسیر روح المعانی ) (سرورق تفسیر الاتقان ) ( عجالہ نافعہ.جلد اول) ( تذکرۃ الاولیاء.صفحہ 422) (فتوح الغیب - صفحہ 34) (مقد مہ ابن خلدون - صفحہ 271) ( بدية الشريعه - صفحه 4) (تفسیر کبیر.جلد 6 صفحہ 22 مطبوعہ مصر ) (الرسائل النادرہ - صفحہ 30) ( شرح حدیث الاربعین - صفحہ 1) (اسرار قرآنی.ٹائیٹل پیج ) ( ہدیۃ الشیعہ - صفحہ 210) (حجۃ الاسلام - صفحہ 35 ) 22.انسانیت کا مرتبہ خاتم المراتب ہے اور آنحضرت صلعم خاتم الکمالات ہیں.( علم الكتاب - صفحه 140 ) 23.حضرت عیسی خاتم الاصفیاء الائمۃ ہیں.24.حضرت علی خاتم الاوصیاء تھے.صلى الله 25.رسول مقبول علي خاتم المعلّمین تھے.(بقیة المتحد میں.صفحہ 184) ( منار الہدی صفحہ 106 ) الصراط السوی.مصنفہ علامہ محمد سبطین)
169 26 - الشيخ الصدوق کو خاتم المحدثين كم لکھا ہے.27.ابوالفضل شہاب الالوی کو خاتم الادباء لکھا ہے.28.مولوی انورشاہ کاشمیری کو خاتم المحدثین لکھا گیا ہے.29.مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم مدرسہ دیو بند لکھتے ہیں : وو (کتاب من لا یحضره الفقيه) ( سرورق - روح المعانی ) (رئیس الاحرار.صفحہ 99) آپ ہی منتہائے علوم ہیں کہ آپ ہی پر علوم کا کارخانہ ختم ہو جاتا ہے.اس لئے آپ کو خاتم الانبیاء بنایا گیا ہے.“ 30.امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں : (شانِ رسالت - صفحہ 48) و الخاتم يجب ان يكون افضل الا ترى انّ رسولنا صلى الله عليه وسلم لما كان 66 خاتم النبيين كان افضل الانبياء عليهم الصلوة والسلام.“ ( تفسیر کبیر رازی.جلد 6 صفحہ 34 مصری) کہ خاتم لازما افضل ہوتا ہے جس طرح ہمارے نبی ﷺ کو جب خاتم النبیین قرار دیا گیا تو آپ سب نبیوں سے افضل ٹھہرے.“ 31.حضرت فرید الدین عطار، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کہتے ہیں ختم کرده عدل و انصافش بحق تا فراست برده از مردم سبق منطق الطير - صفحه 25 مطبع منشی نول کشور لکھنو.1933 ء ) 32.جناب مولانا حالی حضرت شیخ سعدی کے متعلق لکھتے ہیں: ” ہمارے نزدیک جس طرح طعن وضرب اور جنگ وحرب کا بیان فردوسی پر ختم ہے اسی طرح اخلاق نصیحت و پند عشق و جوانی ، ظرافت و مزاح، زہد دور یا وغیرہ کا بیان شیخ پر ختم ہے.“ 33.حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی تحریر فرماتے ہیں:.وو (رسالہ حیات سعدی ص 108) سوجس میں اس صفت کا زیادہ ظہور ہو جو خاتم الصفات ہو یعنی اس سے اوپر اور صفت ممکن الظہور یعنی لائقِ انتقال وعطائے مخلوقات نہ ہو وہ شخص مخلوقات میں خاتم المراتب ہوگا اور وہی شخص سب کا سردار اور سب سے افضل ہو گا.“ 66 (رسالہ انتصار الاسلام صفحہ 45)
170 34.جناب قاری محمد طیب صاحب دیوبندی لکھتے ہیں : انبیاء و دجاجلہ میں بھی ایک ایک فرد خاتم ہے جو اپنے دائرہ میں مصدر فیض ہے.انبیاء علیہم السلام میں وہ فرد کامل اور خاتم مطلق جو کمالات نبوت کا منبع فیض ہے اور جس کے ذریعہ سارے ہی طبقہ انبیاء کو علم و کمالات تقسیم ہوئے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.“ ( تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام.مطبوعہ دلی پرنٹنگ پریس دہلی.صفحہ 223 224 ) 35.مولوی شبیر احد صاحب عثمانی دیوبندی ( شیخ الاسلام پاکستان ) نے لکھا ہے کہ: جبکہ صفت علم تمام ان صفات کی خاتم ہے جو مربی عالم ہیں تو جس کا اعجاز علمی ہوگا گویا اس پر تمام کمالات علمی کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور اسی کو ہمارے نزدیک خاتم الانبیاء کہنا مناسب ہوگا.“ (اعجاز القران - صفحہ 61) 36.حضرت مولانا روم فرماتے ہیں: ” بہر این خاتم شد او که بجود او نے بود نے خواهند 66 بود کہ آنحضرت ﷺ اس لئے خاتم ہیں کہ آپ بے مثل و بے نظیر ہیں.( مثنوی مولانا روم - دفتر ششم - صفحہ 18 19 مطبوع محمود المطابع کانپور ) ان استعمالات سے ظاہر ہے کہ اہلِ عرب اور دوسرے محققین علماء کے نزدیک جب بھی کسی مدوح کو خاتم الشعراء ا ختم الفقهاء یا خاتم المحدثین یا خاتم المفترین کہا جاتا ہے تو اس کے معنے بہترین شاعر ،سب سے بڑا فقیہ ،اور سب سے بلند مرتبہ محدث یا مفسر کے ہوتے ہیں.کیونکہ یہی معنے صحیح اور سچے ہیں.ان معانی کوتحریف کا نام دینا ایک بدترین جھوٹ ہے..خاتم النبيين، حضرت محمد ﷺ کا ایک ایسا لقب ہے جو کمالات نبوت کے لحاظ سے آپ کے آخری مقام پر فائز ہونے کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ بلحاظ رفعت وشان اور بلحاظ علو مرتبت آخری ہیں بعثت کے لحاظ سے آخری نہیں ہیں.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ا لا شك ان محمداً خير الورى ريق الكرام و نخبة الاعيان
171 ۲.تمت عليه صفات كلّ مزيّة هو خير كل مقرب متقدم يا ربّ صلّ على نبيك دائماً ختمت به نعماء كل زمان والفضل بالخيرات لا بزمان في هذه الدنيا و بعث ثان ترجمہ (۱) بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہتر مخلوقات اور صاحب کرم وعطاء اور شرفاء لوگوں کی روح اور ان کی قوت اور چیدہ اعیان ہیں.(۲) ہر قسم کی فضیلت کی صفات آپ میں علی الوجہ الائتم موجود ہیں.ہر زمانے کی نعمت آپ کی ذات پر ختم ہے.(۳).آپ ہر پہلے مغرب سے افضل ہیں اور فضیلت کار ہائے خیر پر موقوف نہ کہ زمانہ پر.(۴).اے میرے رب اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیج اس دنیا میں بھی اور دوسرے عالم میں بھی.حضرت سید عبد القادر جیلانی (م561ھ) کے مرشدِ طریقت اور پیر خرقہ ، برہان الاصفیاء، سلطان الاولیاء ، حضرت ابوسعید مبارک ابن علی محرومی ( وفات 513 ھ ) فرماتے ہیں: و الاخرة منها اعنى الانسان اذا عرج ظهر فيه جميع مراتب المذكوره مع انبساطها ويقال له الانسان الكامل والعروج و الانبساط على الوجه الأكمل كان في نبينا صلى الله عليه وسلم ولهذا كان صلى الله عليه وسلم خاتم النبين.( تحفہ مرسلہ شریف مترجم - ص 51) ترجمہ :.( کائنات میں ) آخری مرتبہ انسان کا ہے جب وہ عروج پاتا ہے تو اس میں تمام مراتب مذکورہ اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ ظاہر ہو جاتے ہیں اور اس کو انسان کامل کہا جاتا ہے اور عروج کمالات اور سب مراتب کا پھیلاؤ کامل طور پر ہمارے نبی ﷺ میں ہے اور اسی لئے آنحضرت ﷺ خاتم النبین ہیں.راشد علی نے یہ بھی لکھا ہے کہ Seal of Approval() " ( حضرت ) مرزا غلام احمد (علیہ السلام) نے یہ عجیب و غریب تاویل کر لی کہ یہ آخری ہونے کی مہر ( Seal of Finality) نہیں بلکہ آئندہ آنے والے نبیوں کے لئے تصدیق کی مہر Seal of Approval)) ہے.گویا کہ پہلے ایک
172 1 لاکھ چوبیس ہزار نبی تو خدا تعالیٰ نے بھیجے تھے لیکن اب یہ اختیار رسول اللہ ﷺ کو دے دیا گیا.“ یہ راشد علی کا ایک طنزیہ جھوٹ ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی جگہ یہ نہیں لکھا کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ علیہ صرف آنے والے نبی کے لئے مہر ہیں.بلکہ آپ نے فرمایا کہ جمیع انبیاء کے لئے آپ بطور مصدق ہیں.آپ ہی کی مہر تصدیق سے انبیاء کی صداقت اور ان کی تعلیمات کی صداقت ثابت ہوتی ہے.آپ فرماتے ہیں: وو و مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلين فخر لنبين جناب محمد مصطفیٰ ہیں.اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملا کئی اور کئی اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہ تھی.اگر چہ سب مقرب اور وجیہہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے یہ اسی نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے اتمام الحجۃ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 308) سمجھے گئے.“ حضرت ابوالحسن شریف رضی (متوفی 406 ھ ) جو حضرت امام موسیٰ کاظم کی اولاد میں سے ایک عالی پا یہ عالم تھے.خاتم النبیین کے یہ معنی بیان فرماتے ہیں: "هذه استعارة والمراد بها ان الله تعالى جعله صلّى الله عليه وسلّم واله حافظاً لشرائع الرسل عليهم السلام وكتبهم وجامعاً لمعالم دينهم واياتهم كالخاتم الذي يطبع : 66 به على الصحائف وغيرها لحفظ ما فيها ويكون علامة عليها ، تلخيص البيان في مجازات القرآن صفحه 191) ترجمہ:.یہ استعارہ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو تمام رسولوں کی شریعت اور کتابوں کا محافظ بنایا ہے اور ان کے دین کی اہم تعلیمات اور ان کے نشانات کا بھی اس مہر کی طرح جو خطوط پر ان کو محفوظ رکھنے اور ان کی علامت کے طور پر ثبت کی جاتی ہے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ فرماتے ہیں : آنحضرت ﷺ کے اخلاق کا دونوں طور ( مصائب و تکالیف میں اور فتح واقبال میں.ناقل )
173 علی وجہ الکمال ثابت ہونا.تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے.کیونکہ آنجناب نے ان کی نبوت اور ان کی کتابوں کو تصدیق کیا اور ان کا مقرب اللہ ہونا ظاہر کر دیا ہے.(براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 285 حاشیہ 11) اسی طرح آپ یہ بھی فرماتے ہیں : وو وہ خاتم الانبیاء بنے.مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا اور اس کی امت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا.اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونالازمی ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 29، 30 ) مولا نا محمد قاسم نانوتوی کے نواسے قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں: " حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نبوت بخشی بھی نکلتی ہے کہ جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آ گیا نبی ہو گیا.(آفتاب نبوت.صفحہ 109 ناشر دار اسلامیات لاہور ) نیز آپ نے فرمایا: وو اللہ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ گوا فاضئہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100 حاشیہ ) (۲) جناب مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی ” شیخ الاسلام پاکستان لکھتے ہیں : وو بدیں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے آپ کی مہر لگ کر ملی ہے." ( قرآن مجید مترجم - علامہ عثمانی زیر آیت خاتم النبین ) ان اقتباسات سے راشد علی کا جھوٹ دو طرح سے طشت از بام ہوتا ہے.اول یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف مستقبل کے نبی کے لئے آنحضرت ﷺ کی مہر تصدیق کا کام کرے گی.بلکہ آپ نے فرمایا کہ پہلے سب انبیاء کی صداقت اور ان کی تعلیمات کی
174 صداقت بھی آنحضرت ﷺ کی مہر کی تصدیق سے ہی ثابت ہوتی ہے.دوم یہ کہ آنحضرت ﷺ کا مصدق جمع انبیاء ہونا صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی نہیں بیان فرمایا بلکہ امت کے دیگر بکثرت آئمہ و علمائے سلف بھی یہی عقیدہ رکھتے تھے.پس سچائی تو یہی ہے کہ نبی اور رسول تو خدا تعالیٰ ہی بھیجتا ہے لیکن ان کے مصدق ازل سے ابد تک ہمارے آقا و مولیٰ ، سید المرسلین، خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺے ہیں.(ج) ختم نبوت کا دروازہ کھولا....باقی رہارا شد علی کا مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ طنز کہ انہوں نے ختم نبوت کا دروازہ کھولا، اس میں داخل ہوئے اور پھر اسے بند کر دیا.“ تو حقیقت یہ ہے کہ اس کا یہ طنز حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہیں بلکہ آپ کے مصدق اور آپ کے بارہ میں پیشگوئی کرنے والے آقا پر ہے.اس امت میں آنے والے مسیح ومہدی کے بارہ میں پیشگوئی خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کی تھی اور اسے نبی اللہ قرار دیا تھا.لہذا اگر ختم نبوت کا کوئی دروازہ تھا تو وہ آپ ہی نے کھولا تھا اور اس میں آپ ہی نے اپنے مہدی ومسیح کو داخل کیا تھا اور آپ ہی نے امت کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کی بیعت کریں اور اسے آپ کا سلام پہنچائیں.آپ نے اس ایک وجود کو ہی اس دروازہ میں داخل فرمایا تھا لیکن راشد علی کو تکلیف یہ ہے کہ آپ نے امت میں صرف ایک یعنی مسیح موعود و مہدی معہود کو کیوں نبی قرار دیا.پس دیکھئے کہ اس کے اس طنز کی تان کہاں جا کر ٹوٹتی ہے.ایسا اعتراض کرنے کا ویسے بھی راشد علی کو تب حق تھا جب وہ پہلے یہ ثابت کرتا کہ امت میں ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد نبیوں کی بعثت مقدر ہے مرزا صاحب نے تو خواہ مخواہ صرف اپنے پر ہی دروازہ بند کر دیا.اس دروازے میں ابھی اور نبی بھی داخل ہونے باقی ہیں.آخر میں ہم راشد علی اس کے پیر اور ان کے ہم عقیدہ لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں کہ کیا وہ اکابرین اسلام جن کے متعدد اقتباسات پہلے بھی گزر چکے ہیں، ان کے علم میں یہ حدیث نہیں تھی ؟ یا نعوذ باللہ وہ عہدِ حاضر کے علماء سے کم متقی تھے؟ کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے باوجود کہ کسی قسم کا کوئی نبی نہیں
175 آسکے گا ، یہ مسلک اختیار کر لیا کہ صرف نئی شریعت لانے والے نبی کا آنا ممکن نہیں البتہ اتنی یا تابع نبی کا آنا نہ صرف جائز اور ممکن ہے بلکہ مسیح کے نزول کی بابت آنحضرت کی پیشگوئیوں کی صداقت کے ثبوت کے لئے لابدی ہے.اس غور و فکر کے وقت حسب ذیل اقتباسات بھی ضرور مدنظر رہنے چاہئیں تا کہ راشد علی اس کا پیر اور ان کے ہم عقیدہ لوگ اپنے بارہ میں بھی غور و فکر کر سکیں.دنیائے اسلام کے مشہور و معروف صوفی اور مصنف اور ممتاز متکلم حضرت امام عبدالوہاب شعرانی (متوفی 1568ء 976ھ) فرماتے ہیں: وو ،، اعلم ان النبوة لم ترتفع مطلقاً بعد محمد الله وانما ارتفع نبوة التشريع فقط “ (الیواقیت والجواہرالجزء الثانی صفحہ 39.طبعہ مصطفی البابی لعلم مصر ) ترجمہ :.جان لو محمد ﷺ کے بعد مطلق طور پر نبوت نہیں اٹھی ( بند نہیں ہوئی) صرف تشریعی نبوت منقطع ہوئی ہے.چھٹی صدی ہجری کے ممتاز ہسپانوی مفسر اور پیشوائے طریقت صوفی الشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربی ( متوفی 1240 /638ھ) فرماتے ہیں: " فالنبوة سارية الى يوم القيامة فى الخلق وان كان التشريع قد انقطع - فالتشريع جزء من اجزاء النبوة ـ “ (فتوحات مکیہ.جلد 2 صفحہ 100 باب 73 سوال نمبر 82 مطبوعہ دار صادر بیروت ) ترجمہ :.کہ نبوت مخلوق میں قیامت کے دن تک جاری ہے گوتشریعی نبوت منقطع ہوگئی ہے پس شریعت نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے.جناب الشیخ عبد القادر الکر دستانی تحریر فرماتے ہیں : ان معنى كونه خاتم النبيّن هو انه لا يبعث بعده نبی آخر بشريعة اخراى ـ “ (تقریب المرام جلد 2 صفحہ 233 ) ترجمہ: کہ آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نئی شریعت لے کر مبعوث نہ ہوگا.
176 فرمایا: اور توجہ فرمائیں کہ نامور صوفی حضرت ابو عبد اللہ محمد بن علی حسین الحکیم التر مندی (م308ھ) نے " 66 الجهلة “ يظن ان خاتم النبین تاويله انه آخرهم مبعثا فاى منقبة في هذا ؟ هذا تاويل البله کتاب ختم الاولیاء صفحہ 341.المطبعہ الکاتولیکیۃ بیروت) ترجمہ:.یہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ خاتم النبیین کی تاویل یہ ہے کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں بھلا اس میں آپ کی کیا فضیلت وشان ہے؟ اور اس میں کونسی علمی بات ہے؟ یہ تو احمقوں اور جاہلوں کی تاویل ہے.وو بانی دارالعلوم دیو بند مولانامحمد قاسم صاحب نانوتوی (متوفی 1880ء/1297ھ) فرماتے ہیں: عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں.مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخیر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقامِ مدح میں وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے.ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقامِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخیر زمانی صحیح ہوسکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہلِ اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی." نوٹ :.جلی الفاظ خاص توجہ سے پڑھنے کے لائق ہیں.آخر وہ کیا فرق ہے جو عوام اور اہلِ فہم کے مذہب میں ہے اور اہلِ اسلام کو کیا بات گوارا نہیں ؟ اور موازنہ فرمائیے کہ کیا مولا نا قاسم نانوتوی صاحب کے بیان کردہ معیار کے مطابق جماعت احمدیہ کا مذہب اہلِ فہم اور اہلِ اسلام والا ہے یا راشد علی اور اس کے پیر کا ؟ iii.انطباق کے لحاظ سے آیات قرآنیہ میں تحریف ( تحذیر الناس - ص 7 مکتبہ قاسم العلوم کراچی.ایڈیشن 1976 ء ) اس عنوان کے تحت راشد علی نے لکھا ہے کہ وہ آیات قرآنیہ جو آنحضرت ﷺ کی مدح میں تھیں وہ ( حضرت ) مرزا صاحب نے اپنے اوپر چسپاں کر لیں.راشد علی کا یہ اعتراض مسلمات دین کے منافی ہے.اس کا جواب آئندہ صفحات میں تو ہین
177 و گستاخی رسول ﷺ کے الزام کے جواب میں اعتراض نمبر 1 کے تحت تفصیلاً دیا جا رہا ہے.وہاں بدلائلِ حقہ و شواہد قطعیہ ثابت کیا جائے گا کہ راشد علی اپنے اس اعتراض میں قطعی جھوٹا ہے.۱۷.احکام قرآن کی تنسیخ کے لحاظ سے تحریف اس عنوان کے تحت راشد علی نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے.چنانچہ اس نے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم کا ایک مصرع’اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال بھی درج کیا ہے اور بعض تحریروں کو بھی پیش کیا ہے.معزز قارئین ! جہاد کے بارہ میں ہم مفصل بحث آئندہ صفحات میں باب ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور انگریز میں زیر عنوان ”سرکاری خدمات یا وضع حرب“ کر رہے ہیں.براہِ مہربانی تفصیل اس جگہ ملاحظہ فرمائیں.یہ جھوٹا الزام ہے جو راشد علی نے لگایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنی حکم جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قطعاً جہاد کو منسوخ قرار نہیں دیا بلکہ جہاد کے صرف ایک پہلو یعنی قتال کو موقوف قرار دیا ہے.جس نظم سے ایک مصرع راشد علی نے تحریر کیا ہے اسی نظم میں ہی اس کی تفصیل اور وضاحت بھی موجود ہے.چند شعر ملاحظہ فرمائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اب چھوڑ رو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آگیا میسیج جو دیں کا امام ہے دیں کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو کیوں بھولتے ہو تم يضع الحرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری کو دیکھو تو کھول کر
178 فرما دل سید کونین مصطفی عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا صلح کو وہ ساتھ لائے گا جب آئے گا تو صلح کو جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا ( ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 ص78،77) صاف ظاہر ہے کہ اس نظم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ میں دین کے لئے صرف جنگ اور قتال کو ممنوع قرار دیا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ رسول اللہ علیہ کی مسیح موعود کے لئے یہ واضح پیشگوئی ہے کہ يضع الحرب “ وو ( بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم) یعنی مسیح موعود جنگ اور لڑائی کو اٹھا دے گا یعنی مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا.اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف مذہبی جنگوں کو ممنوع قرار دیا جو دین کا نام لے کر لڑی جائیں.اپنے اس فیصلہ کی بنیاد آپ نے حدیث نبوی کو بنایا ہے جو سیح موعود کے ظہور کی بیشتر علامتوں کو کھول کر بیان کرتی ہے.پس راشد علی کا حملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہیں در حقیقت حدیث نبوی "پر ہے.کیونکہ ایسی لڑائیوں کی ممانعت کا حکم حدیث نبوی میں دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فی ذاتہ جہاد کو ہرگز ممنوع قرار نہیں دیا بلکہ اس کے وسیع تر معنوں کے پیش نظر اسے ہر وقت جاری قرار دیا ہے.اور آپ نے خود جہاد کو مزید زور اور سرعت کے ساتھ شروع فرمایا.اس سلسلہ میں مفصل جواب ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور انگریز کے باب میں ملاحظہ فرمائیں.
179 الہامات اور پیشگوئیوں اعتراضات
180 ☆ پیشگوئیوں کی تکذیب.ایک وضاحت را شد علی اور اس کے پیر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں کی بھی تکذیب کی ہے.پس واضح ہو کہ ☆ یہ ایک ابدی سچائی ہے کہ خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہر بات سچی ہوتی ہے خواہ وہ آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئیوں کی صورت میں ہو یا ماضی کے واقعات کے بارہ میں خبروں کی صورت میں.☆ ☆ اللہ تعالیٰ نے پیشگوئیوں کے بارہ میں بعض معیار مقرر فرمائے ہیں جنہیں مد نظر رکھنا ضروری ہے.بعض پیشگوئیاں مشروط ہوتی ہیں اور ایک شرط کے عدم تحقق کی وجہ سے پیشگوئی ٹل جاتی ہے.بعض پیشگوئیاں وعید کی ہوتی ہیں جو رجوع اور تو بہ کی وجہ سے ٹل جاتی ہیں.بعض میں نام کسی شخص یا قوم کا ہوتا ہے مگر اس کا اطلاق کسی اور پر ہوتا ہے.بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ مکذبین کی سمجھ سے بہر حال بالا ہوتی ہیں مگر بسا اوقات ملہم بھی ان کے وہ معنے سمجھ لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی منشاء میں نہیں ہوتے.☆ اسی طرح بعض پیشگوئیاں مستقبل بعید سے تعلق رکھتی ہیں جن کے پورے ہونے کا قبل از وقت مطالبہ نا معقول اور ناجائز ہوتا ہے.وغیرہ وغیرہ.پیشگوئیوں کے اصول پہلا اصول بنیادی طور پر پیشگوئیاں دوستم کی ہوتی ہیں.بعض وعدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور بعض وعید پر یعنی ان میں کسی عذاب یا سزا کی خبر ہوتی ہے.:.وہ پیشگوئیاں جو کسی وعدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اگر ان کے ساتھ کوئی شرط مذکور نہ ہوتو وہ وعدہ لفظاً لفظ پورا کر
181 دیا جاتا ہے.لیکن اگر وہ مشروط ہو اور جس شخص یا قوم سے وہ وعدہ ہو وہ اس شرط کو پورا نہ کرے جس شرط سے وہ مشروط ہے تو وہ پورا نہیں کیا جاتا یا اس میں اس وقت تک تاخیر ڈال دی جاتی ہے جب تک کہ مذکورہ شرط پوری نہیں کر دی جاتی.قرآنِ کریم میں اس کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ذکر میں موجود ہے.اللہ تعالیٰ نے انہیں کنعان کی (مقدس) سرزمین دینے کا وعدہ دیا اور فرمایا يُقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلَى أَدْبَارَكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَسِرِينَ (المائدة:22) ترجمہ:.اے میری قوم! ارض مقدس میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھی ہے اور اپنی پیٹھیں دکھاتے ہوئے مُڑ نہ جاؤ ورنہ تم اس حال میں لوٹو گے کہ گھاٹا کھانے والے ہو گے.اس آیت کریمہ سے ظاہر ہے کہ یہ وعدہ پیٹھ نہ پھیر نے سے مشروط تھا.چونکہ بنی اسرائیل نے یہ کہہ کر پیٹھ پھیر دی کہ " يمُوسَى اِن فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ..“ (المائدہ:23) ترجمہ :.اے موسیٰ ! یقیناً اس میں ایک بہت سخت گیر قوم ہے."....إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُوْنَ (المائدہ:25) ترجمہ :.ہم تو ہر گز اس ( بستی ) میں کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں.پس جا تو اور تیرا رب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے.اس پر اللہ تعالیٰ نے وہ علاقہ ان پر چالیس برس کے لئے حرام کر دیا.فرمایا فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِيْنَ سَنَةٌ يَتِيْهُوْنَ فِي الْأَرْضِ“ (المائده:27) で ترجمہ:.پس یقیناً یہ ( ارض مقدس) ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی.وہ زمین میں مارے مارے پھریں گے.یعنی ان کے منفی رویہ کی وجہ سے وہ وعدہ تاخیر میں ڈال دیا گیا.ب:.دوسری قسم کی پیشگوئیاں وعیدی ہیں.جو ہمیشہ عدم عضو کی شرط سے مشروط ہوتی ہیں.چنانچہ عقائد میں
182 یہ ستم ہے کہ ان جميع الوعيدات مشروطة بعدم العفو فلا يلزم من تركها دخول الكذب في كلام الله تعالى 66 ( تفسیر کبیر.جلد 2 صفحہ 904.مصری) ترجمہ:.وعیدی پیشگوئیوں میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے معاف نہ کر دیا ہوتو وہ لفظاً لفظاً پوری ہوتی ہیں.لہذا اگر وعیدی پیشگوئی ( خدا تعالیٰ کے عفو کی وجہ سے) پوری نہ ہو تو اس سے خدا تعالیٰ کے کلام کا جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا.(صفحہ 82) اہلِ سنت کے عقائد کی معروف کتاب ”مسلم الثبوت“ میں لکھا ہے " ان الايعاد في كلامه تعالى مقيد بعدم العفو ترجمہ :.خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر وعید عدم عضو کی شرط سے مقید ہوتی ہے.پھر تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے ان وعيد الفساق مشروط بعدم العفو ( تفسیر البیضاوی تفسیر سورۃ آل عمران.زیر آیت ان اللہ لا یخلف المیعاد ) ترجمہ:.فاسقوں کے متعلق عذاب کی پیشگوئی کا پورا ہونا اس شرط سے مشروط ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ معاف نہ کرے.وعیدی پیشگوئیوں کے متعلق یہ اصول بنیادی طور پر حدیث نبوی سے ماخوذ ہے.چنانچہ لکھا ہے: ان الله تعالى يجوز ان يخلف الوعيد و امتنع ان يخلف الوعد و بهذا وردت السنّة فـفــی حدیث انس رضی الله عنه ان النبي الله قال من وعد الله على عمله ثواباً فهو منجز له ومن اوعد على عمله عقاباً فهو بالخيار و من ادعية الائمة الصادقين يا من اذا وعد وفا و اذا اوعد عفا.“ ( تفسیر روح المعانی.جلد دوم صفحہ 55 مصری) ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے لئے جائز ہے کہ وہ وعید ( یعنی عذاب کی پیشگوئی) میں تخلف کرے اگر چہ وعدہ کے خلاف کرنا ممتنع ہے اور اسی طرح سنت میں بھی وارد ہوا ہے.چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.اگر خدا تعالیٰ انسان کے عمل پر کسی ثواب ( انعام ) کا وعدہ کرے تو اسے پورا
183 کرتا ہے.اور جس سے اس کے عمل پر عذاب کی وعید کرے اسے اختیار ہے( چاہے تو اسے پورا کرے اور چاہے تو اسے معاف کر دے) اور آئمہ صادقین کی دعاؤں میں سے ایک دعا یوں ہے کہ اے وہ اللہ! کہ جب وعدہ کرتا ہے تو پورا کرتا ہے اور جب وعید کرے تو معاف کر دیتا ہے.“ عذاب ادنی رجوع سے ٹل سکتا ہے قرآن کریم خدا تعالیٰ کے اس قانون کو کھول کر بیان کرتا ہے کہ ادنی رجوع سے بھی وہ عذاب ٹال دیتا ہے.چنانچہ جب قوم فرعون پر موعود عذاب آتا تھا تو وہ کہتے تھے: يَأَيُّهَا السَّاحِرُادْعُ لَنَارَبَّكَ بِمَاعَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَا هُمْ يَنْكُتُونَ ( الزرف : 51،50) ‘ كَشَفْنَاعَنْهُمُ ترجمہ :.اے جادو گر ! ہمارے لئے اپنے رب سے وہ مانگ جس کا اس نے تجھ سے عہد کر رکھا ہے.یقیناً ہم ہدایت پانے والے ہو جائیں گے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ عذاب ادنی رجوع سے بھی ٹل جاتا ہے.قوم فرعون نہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاتی ہے.نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبی نہیں مانتی ہے اور نہ ہی آپ کی اتباع میں آتی ہے بلکہ آپ کو جادوگر کہتی ہے مگر صرف دعا کی درخواست کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ ان سے عذاب دور کر دیتا ہے حالانکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ لوگ عہد شکنی کریں گے.پھر قرآن کریم میں یہ بھی ہے کہ ”مَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال: 34) ترجمہ :.اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں.پس اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ بخشش طلب کرنے والوں سے عذاب دور کر دیتا ہے بلکہ ادنیٰ رجوع سے بھی ان سے عذاب ٹال دیتا ہے.دوسرا اصول پیشگوئی میں اجتہادی غلطی بعض اوقات ملہم اپنے الہام کا اپنے اجتہاد سے ایک مفہوم قائم کرتا ہے لیکن بعد میں اس کا یہ اجتہاد
184 درست ثابت نہیں ہوتا.یعنی اس کے اپنے اجتہادی معنوں میں تو وہ غیب کی خبر پوری نہیں ہوتی البتہ اصل الہامی الفاظ میں وہ بہر حال پوری ہوتی ہے اور خود واقعات الہامی الفاظ کی صحیح تشریح و تعبیر ظاہر کر دیتے ہیں.قرآن کریم میں ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا کہ میں تیرے اہل کو غرق ہونے سے بچالوں گا.جب ان کا بیٹا غرق ہونے لگا تو انہوں نے اپنے اجتہاد کے مطابق اپنے بچے کو بچائے جانے کی درخواست کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کو اس کا وعدہ یاد دلایا اور عرض کی کہ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ (هود: 46) ترجمہ:.یقیناً میرا بیٹا بھی میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ ضرور سچا ہے.مقصد یہ تھا کہ وعدہ کے مطابق اسے تو بچنا چاہئے لیکن اس پر خدا تعالیٰ نے جواب دیا إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ، فَلَا تَسْتَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ ج.عِلْمٌ ، إِنِّي أَعِظُكَ اَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ 0 (هود:47) ترجمہ:.یقینا وہ تیرے اہل میں سے نہیں.بلاشبہ وہ تو سراپا ایک ناپاک عمل تھا.پس مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے کچھ علم نہیں.میں تجھے نصیحت کرتا ہوں مبادا تو جاہلوں میں سے ہو جائے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے غرق ہونے والے بیٹے کو اپنے اجتہاد سے پیشگوئی میں مذکور لفظ اھل میں داخل سمجھا کیونکہ جسمانی لحاظ سے وہ بہر حال آپ کے اہل میں شامل تھا لیکن علم الہی میں اہل کو بچائے جانے کے وعدہ میں وہ داخل نہ تھا کیونکہ خدا کے نزدیک وہ ” اہل مراد تھے جو روحانی لحاظ سے بھی اہل ہوں اس لئے نوح علیہ السلام نے اجتہادی غلطی سے اسے بچائے جانے والے اہل کے وعدہ میں داخل سمجھا حالانکہ وہ خدا کے وعدہ میں شامل نہ تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو اس سے بچائے جانے کی درخواست پر ان کو ان کی غلطی سے متنبہ کر دیا.اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ملہم الہام کے جو معنے سمجھے وہ ضرور صحیح ہوں یا جس امر کو وہ خدائی وعدہ سمجھے وہ ضرور خدائی وعدہ ہو اور اس میں تخلف جائز نہ ہو.ایسے خیالی وعدہ کو پورا کرنے کا خدا تعالیٰ ذمہ دار نہیں ہوتا.اسلامی عقائد کی کتابوں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ " ان النبي لما لم يجتهد فيكون خطأ ،، 66 (النمر اس شرح الشرح لعقا مد نسلی صفحه 392)
185 ترجمہ: نبی ﷺ بھی اجتہاد کرتے تو اس میں خطا ہو جاتی.پھر اس کے ثبوت میں آگے ایک حدیث نبوی درج کی گئی ہے کہ " المجتهد يخطى و يصيب فإن اصاب فله اجران و ان اخطأ فله اجرٌ واحدٌ.(حوالہ مذکورہ بالا ) ترجمہ: مجتہد اجتہاد میں غلطی بھی کرتا ہے اور وہ صحیح اجتہاد بھی کرتا ہے.اگر اس کا اجتہاد درست ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں اور اگر وہ اجتہاد میں غلطی کرے تو اسے ایک اجر ملتا ہے.امر واقع یہ ہے کہ ملہم بعض اوقات ایک وعیدی پیشگوئی کو قضائے مبرم سمجھ لیتا ہے لیکن عند اللہ وہ قضائے معلق ہوتی ہے.ایسی مبرم سمجھی جانے والی قضاء بعض اوقات صدقہ و دعا وغیرہ سے مل جاتی ہے.چنانچہ حدیث میں ہے: 66 اكثر من الدعاء فان الدّعا يردّ القضاء المبرم (کنز العمال.جامع الصغیر.جلد اوّل صفحہ 54.مطبوع مصر ) ترجمہ:.کثرت سے دعا کیا کرو کیونکہ دعا تقدیر مبرم ( یعنی مبرم مجھی گئی تقدیر ) کو بھی ٹال دیتی ہے.اسی طرح صدقہ کے بارہ میں ہے کہ ان النبي عل الله قال ان الصدقة تدفع البلاء النازل من السماء “ روض الریاضین برحاشیہ قصص الانبیاء.صفحہ 364) ترجمہ:.صدقہ و خیرات اس بلاء کو دور کر دیتا ہے جو مبرم طور پر آسمان سے نازل ہونے والی ہو.( یعنی جسے بظاہر مبرم سمجھا گیا ہو ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ يَعِبَادِ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ ، إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيْعًا (الزمر:54) ترجمہ: تو کہہ دے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو.یقینا اللہ تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے.یقیناً وہی بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تفسیر در منثور اور دیگر تفاسیر میں لکھا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم پر چالیس دنوں
186 کے اندر عذاب نازل ہونے کی پیشگوئی فرمائی.اپنی پیشگوئی کے متعلق انہیں اتنا یقین تھا کہ شہر سے باہر ڈیرہ ڈال کر عذاب کا انتظار کرنے لگے.ادہر قوم نے ٹاٹ پہن لئے اور عورتوں اور بچوں نے عذاب کے ٹلانے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور واویلا شروع کر دیا تو خدا تعالیٰ نے قوم کے رجوع کی وجہ سے ان سے عذاب ٹال دیا.لیکن حضرت یونس علیہ السلام اس خیال سے بھاگ کھڑے ہوئے کہ میری پیشگوئی پوری نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مجھے جھٹلائیں گے.اس بھاگ جانے کی پاداش میں انہیں تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہنا پڑا.اللہ تعالیٰ آپ کی قوم کے بارہ میں فرماتا ہے.فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيْمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ، لَمَّا امَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ“ (يونس:99) ترجمہ:.پس کیوں یونس کی قوم کے سوا ایسی کوئی بستی والے نہیں ہوئے جو ایمان لائے ہوں اور جن کو ان کے ایمان نے فائدہ پہنچایا ہو.جب وہ ایمان لائے تو ہم نے ان سے ذلت کا عذاب دور کر دیا.حضرت یونس علیہ السلام کے بارہ میں ایک اور جگہ آتا ہے وو " وَذَا النُّوْن إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ “ (الانبياء: 88) ترجمہ :.اور مچھلی والا، جب وہ غصے سے بھرا ہوا چلا اور اس نے گمان کیا کہ ہم اس پر گرفت نہیں کریں گے.الغرض حضرت یونس علیہ السلام سے یہ اجتہادی غلطی سرزد ہوئی کہ وہ یہ سمجھ کر بھاگ نکلے کہ ان کی پیشگوئی لفظاً پوری نہیں ہوئی.حالانکہ یہ پیشگوئی وعیدی پیشگوئیوں کے قاعدہ کے ماتحت قوم کی تو بہ اور اس کے رجوع سے ٹل گئی تھی.اس کی وجہ سے یونس علیہ السلام پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا تھا.وہ محض اپنے اجتہاد کی وجہ سے بھاگے تھے.اس لئے ان کے اس طرح بلا وجہ بھاگ نکلنے کے واقعہ کو یاد دلا کر اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو نصیحت فرماتا ہے کہ آپ " بھی کسی وعیدی پیشگوئی کے متعلق ایسا نمونہ نہ دکھلا ئیں جو یونس علیہ السلام نے دکھایا تھا.فرمایا 66 فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُوْم “ (القلم:49) ترجمہ:.سو اپنے رب کے فیصلے کے انتظار میں صبر کر اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جب اس نے (اپنے رب کو
187 ) پکارا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس واقعہ کو بیان کر کے امت محمدیہ کے ملہمین کو بھی بالواسطہ نصیحت فرماتا ہے کہ وعیدی پیشگوئیاں اگر لفظاً پوری نہ ہوں اور جس کے بارہ میں پیشگوئی ہو اس کے تو بہ کر لینے سے اگر پیشگوئی ٹل جائے تو یہ گھبراہٹ کی جگہ نہیں.نیز اللہ تعالیٰ نے امت کے علماء اور دوسرے لوگوں کو اس واقعہ کے ذکر سے متنبہ کیا ہے کہ وہ وعیدی پیشگوئی پر بلا وجہ کسی ملہم پر زبان طعن دراز نہ کریں کیونکہ وعیدی پیشگوئیاں ہمیشہ تو بہ کی شرط سے مشروط ہوتی ہیں اور تو بہ کر لینے والوں سے ان میں بیان کردہ عذاب ٹل جایا کرتا ہے اس لئے یہ بات محل اعتراض نہیں.اجتہادی خطا کا ایک واقعہ آنحضرت یہ فرماتے ہیں رأيت في المنام أنّى اهاجر من مكة الى ارض ذات نخل فذهب وهلى انها اليمامة او الحجر فإذا هي مدينة يثرب.“ ( بخاری.کتاب التعبیر.باب اذار أى بقرأ تنخر ) ترجمہ:.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایک کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں تو میرا خیال (اجتہاد ا) اس طرف گیا یہ سرزمین یمامہ یا حجر ہوگی لیکن اچانک وہ سرزمین میٹر ب نکلی.آنحضرت ﷺ کے ایک ایسے ہی اجتہاد کا نمونہ صلح حدیبیہ والے واقعہ میں بھی موجود ہے.اس واقعہ کا تفصیلی ذکر ہم نے آئندہ سطور میں باب " رسول اللہ ﷺ کی توہین و گستاخی کے عنوان نمبر 12 کے تحت کیا ہے.یہ ایسے واقعات ہیں جو قطعی طور پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ اجتہادی غلطی اگر نبی سے سرزد ہو تو یہ نبوت میں حارج نہیں اور اس پر اعتراض کرنا دیانتداری نہیں.تقدیر مبرم کی اقسام وہ تقدیر مبرم کہ جس کے دعا وصدقہ سے مل جانے کا ذکر احادیث نبویہ کی رو سے قبل ازیں پیش کیا جاچکا ہے ایسی تقدیر مبرم ہوتی ہے جو دراصل خدا تعالیٰ کے ہاں تو مبرم نہیں ہوتی بلکہ معلق ہی ہوتی ہے لیکن
188 ملہم پر اس کا معلق ہونا ظاہر نہیں کیا جاتا اور وہ اجتہاد اس کے قطعی مبرم ہونے کا حکم لگا دیتا ہے اور پھر خبر کے پورا نہ ہونے پر پتہ لگ جاتا ہے کہ دراصل وہ معلق تھی.چنانچہ حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں.باید دانست که اگر پرسند که بسبب چیست که در بعضی از کشوف کوئی کہ از اولیاء اللہ صادر می گردد غلط واقع مے شود و خلاف آں ظہور مے آید.مثلاً خبر کردند که فلاں بعد از یکماه خواهد مرد یا از سفر بوطن مراجعت خواهد نمود اتفاقا بعد از یکماه ازیں چیز بیچ کدام بوقوع نیامد - در جواب گوئم که حصول آن مکشوف و مخبر عنه مشروط بشرائط بوده است که صاحب کشف در آن وقت به تفصیل اطلاع نیافته و حکم کرده بحصول آں شی ء مطلقاً یا آنکہ گویم کلی از احکام لوحِ محفوظ بر عارفے ظاہر نشد کہ آں حکم فی نفسہ قابل محو واثبات است و از قضائے معلق اما ازاں عارف را از تعلیق و قابلیت محو و بے خبر نے دریں صورت اگر بمقتضائے علم خود حکم کند نا چار احتمال تخلف خواهد شد (مکتوبات امام ربانی.جلد اوّل صفحہ 233 مکتوب 217 - مطبع منشی نول کشور لکھو ) ترجمہ : ” جاننا چاہئے کہ اگر یہ سوال کریں کہ اس بات کا کیا سبب ہے کہ بعض آئندہ ہونے والے واقعات کی خبر دینے سے متعلق بعض کشوف جو خدا کے پیاروں سے صادر ہوتے ہیں غلط واقع ہو جاتے ہیں اور ان کے خلاف ظہور میں آتا ہے مثلاً خبر دیتے ہیں کہ فلاں شخص ایک ماہ کے اندر مر جائے گا یا سفر سے وطن واپس آ جائے گا.اتفاقاً ایک ماہ کے بعد دونوں میں سے کوئی بات وقوع میں نہیں آتی.66 اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ یہ کشف اور اس کی خبر مشروط بشرائط ہوتی ہے جس پر اس وقت صاحب کشف کو ان شرائط کی تفصیل سے اطلاع نہیں ملتی وہ اس کے مطلق پورے ہونے کا حکم لگا دیتا ہے یا یہ کہ لوح محفوظ کے احکام کلی طور پر اس عارف پر ظاہر نہیں ہوئے کہ وہ حکم فی نفسہ محو واثبات کے قابل ہے اور قضائے معلق میں سے ہے.لیکن اس عارف کو اس کی تعلیق اور محو کی قابلیت کی خبر نہیں ہوتی.اس صورت میں اپنے علم کے تقاضا کے مطابق وہ حکم لگا دیتا ہے.ناچار ایسی خبر کے پورا نہ ہونے کا احتمال ہوگا.“ حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمہ اسی مکتوب میں اگلے صفحہ پر قضائے معلق کی دو قسمیں بیان فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں.کہ قضائے معلق بر دو گونه است قضائے است که تعلیق اور ا د ر لوحِ محفوظ ظاهر ساخته اند و ملائکه را بر آن اطلاع داده و قضائے کہ تعلیق او نزد خدا است جل شانه و بس در لوح محفوظ صورت قضائے مبرم دارد و
189 اس قسم اخیر از قضائے معلق نیز احتمال تبدیل دارد در رنگ قسم اول.“ مکتوبات جلد اوّل صفحہ 224.مطبع منشی نول کشور لکھنو ) ترجمہ : ” قضائے معلق کی دو قسمیں ہیں.ایک قضائے معلق وہ ہے کہ جس کا معلق ہونا لوحِ محفوظ میں ظاہر کر دیا گیا ہوتا ہے.اور فرشتوں کو اس ( تعلیق) پر اطلاع دیدی جاتی ہے.اور ایک قضائے معلق وہ ہے جس کا معلق ہونا صرف خدا تعالیٰ جل شانہ ہی جانتا ہے.اور لوحِ محفوظ میں وہ قضائے مبرم کی صورت میں ہوتی ہے.یہ آخری قسم قضائے معلق کی بھی (جو صورۃ مبرم ہوتی ہے ) پہلی قسم کی قضا کی طرح تبدیلی کا احتمال رکھتی ہے.“ حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمہ اس جگہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ کا ایک واقعہ اور جبریل علیہ السلام کی پیشگوئی درج کرتے ہیں جس میں ایک شخص کی موت کی خبر دی گئی تھی مگر صدقہ دینے کی وجہ سے بچ گیا.وو اسی طرح کا ایک واقعہ تفسیر روح البیان میں بھی درج ہے کہ (مکتوبات.جلد اوّل صفحہ 232) ان قصارًا مرّ على عيسى عليه السلام مع جماعة من الحواريين فقال لهم عيسى احضروا جنازة هذا الرجل وقت الظهر فلم يمت هذا القصار فقال نعم ولكن تصدق بعد ذلک ثلاثة ارغفة فنجا من الموت ( تفسیر روح البیان جلد 1 صفحہ 257 مطبوعہ دار الفكر العربي ) ترجمہ : ” ایک دھوبی حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا جب کہ ایک حواریوں کی جماعت ان کے پاس تھی.حضرت عیسی علیہ السلام نے حواریوں سے کہا کہ اس آدمی کے جنازہ پر ظہر کے وقت حاضر ہو جانا.لیکن وہ نہ مرا تو جبریل نازل ہوا.حضرت عیسی علیہ السلام نے اسے کہا.کیا تو نے مجھے اس دھوبی کی موت کی خبر نہ دی تھی ؟ جبریل نے کہا.ہاں لیکن اس نے تین روٹیاں صدقہ میں دے دیں تو موت سے نجات پا گیا.“ پس جیسا کہ احادیث میں آیا ہے صدقہ و دعا سے مبرم تقدیر بھی مل جاتی ہے.یہ وہی مبرم تقدیر ہوتی ہے جو دراصل تو معلق ہوتی ہے لیکن ملہم اسے مبرم سمجھتا ہے کیونکہ اس پر اس کے معلق ہونے کی وضاحت خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوئی ہوتی.
190 تعبیر کا ایک اور رنگ میں ظہور ایک اصل پیشگوئیوں کا یہ بھی ہے کہ کبھی ایک بات دکھائی جاتی ہے مگر وہ پوری کسی اور رنگ میں ہوتی ہے.چنانچہ لکھا ہے.قال اهل التعبير ان رسول الله الا الله رأى فى المنام أسيد ابن ابى العيص والياً على مكة مسلماً، فمات على الكفر و كانت الرؤيا لولده عتاب اسلم (تاریخ الخمیس - جلد 2 صفحہ 121) ترجمہ :.اہل تعبیر کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں اسید بن ابی العیص کو مسلمان ہونے کی حالت میں مکہ کا والی دیکھا.وہ تو کفر پر مر گیا اور رویا اس کے بیٹے عتاب کے حق میں پوری ہوئی جو مسلمان ہو گیا.اسی طرح حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: وو " بينما انا نائم البارحة اذا اتيت مفاتيح خزائن الارض حتى وضعت في يدي قال صلى الله ابوهريرة فذهب رسول الله علم و انتم تنتقلونها “ (بخاری.کتاب التعبیر.باب رؤیا الیل ) ترجمہ:.اس دوران جب کہ میں سورہا تھا مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں.یہانتک کہ وہ میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں.ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ تو تشریف لے گئے اور (اے صحابہ!) اب تم ان خزانوں کو لا رہے ہو.معزز قارئین! پیشگوئیوں کے بارہ میں ان اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اب پیشگوئیوں پر راشد علی اور اس کے پیر کے اعتراضات کے جواب ملاحظہ فرمائیں.دراصل پیشگوئیوں کے بارہ میں اصولوں اور معیاروں کو نہ جاننے کے باعث یا ان کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے مکذبین ان پیشگوئیوں کی تکذیب کا نعرہ بلند کرتے ہیں.ایسا کرنے والے لازما جھوٹے ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام لازما سچا ہوتا ہے.راشد علی اور اس کے پیر نے بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے خدا تعالیٰ کے اس کلام کی تکذیب کی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں میں سے ان بے شمار محکم پیشگوئیوں کو نظر انداز کر دیا جو معین اور محکم رنگ میں پوری ہوئیں اور ہو رہی ہیں.لیکن گفتی کی چند ایک ایسی پیشگوئیوں کو چن لیا جن کے پورے ہونے کا ابھی زمانہ نہیں آیا یا وہ ان کی کوتاہ سمجھ سے بالا تھیں.بہر حال وہ پیشگوئیاں جن کی انہوں نے تکذیب کی ، ان کے بارہ
191 میں راشد علی لکھتا ہے.ذیل میں چند معروف پیشگوئیاں تحریر کر رہا ہوں.آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ وہ پیش گوئیاں ( ہیں ) جن کے بارہ میں مرزا صاحب نے بڑی شد ومد سے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اللہ کا فیصلہ اٹل ہے اور وحی الہی کے مطابق یہ پیشنگوئیاں ضرور پوری ہوں گی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا.جد محمدی بیگم سے شادی کی پیشنگوئی.( آئینہ کمالات اسلام ) آتھم کی موت سے متعلق پیشنگوئی.( جنگ مقدس) دو عورتوں ( بیوہ اور باکرہ) سے شادی کا الہام.( تریاق القلوب) حمد اپنے مرید منظور احمد کے گھر لڑکا پیدا ہونے کی پیشگوئی جو کہ خدا کا نشان ہوگا.( ریویو مارچ 1906ء ص 122 ) مگر لڑکا تو نہ پیدا ہوالٹر کی پیدا ہوئی وہ بھی مرگئی.پھر پیشتر اس کے کہ مرزا صاحب کوئی تاویل پیش کرتے خاتون بھی انتقال کر گئیں.مکہ اور مدینہ میں مرنے کی پیشگی کی اطلاع.( تذکرہ مجموعہ الہامات مرزا 5911) مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل گاڑی کی پیشگوئی.(روحانی خزائن جلد 17 ص195) یہ چند نمونے ہیں ورنہ جھوٹی پیشگوئیوں کی ایک طویل فہرست ہے.“ الفتوی نمبر 23.جنوری 2000 جو پیشگوئیاں راشد علی نے اپنی تکذیب کی دلیل کے طور پر پیش کی ہیں ان میں سے تین وہ ہیں جن پر اعتراض کا جواب قبل ازیں کتاب Three in One میں تفصیل سے دیا جا چکا ہے.وہاں بدلائل یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان پیشگوئیوں کی نوعیت کیا تھی اور ثابت کیا جا چکا ہے کہ وہ پیشگوئیاں خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق پوری ہوئیں.اور ان کی تکذیب کرنے والے قطعی جھوٹے ہیں.ان جوابات کا علمی رڈ چونکہ ناممکن تھا اس لئے انہوں نے وہی اعتراض دوبارہ پیش کئے ہیں.لہذا دوسری پیشگوئیوں پر اعتراض کے جواب کے ساتھ ان کے جوابات یہاں بھی پیش کئے جار ہے تا کہ ایک بار پھر یہ معترض جھوٹے ثابت ہوں.(1) محمدی بیگم سے شادی کی پیشنگوئی محمدی بیگم والی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو اپنی تمام
192 شرائط اور تفصیلات کے ساتھ لفظاً لفظاً پوری ہوئی.نیز اس پیشگوئی کا مقصود بھی کماحقہ حاصل ہوا.اس پیشگوئی پر اعتراض کا جواب را شد علی کو پہلے بھی کتاب Three in One میں دیا جا چکا ہے.اس کے باوجود یہاں اس نے اسے دوبارہ پیش کیا ہے.جس کا مقصد سنتِ مکذبین کے مطابق محض استہزاء ہے.معززقارئین ! خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ فَلَمَّا قضى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجُنگها (الاحزاب : 38) کہ جب زیڈ نے حضرت زینب کو طلاق دیدی تو ہم نے آپ کے ساتھ ( آسمان پر ) اس کا نکاح پڑھ دیا.یہی کلمہ یعنی دو جنگها خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محمدی بیگم کے بارہ میں الہام فرمایا.وہاں شرائط کے تحقیق کے باعث حضرت زینب کا نکاح ہو گیا.مگر پھر بھی مخالفین اس پر اعتراض کرنے سے باز نہ آئے اور آج تک اس پر ہرزہ سرائی کرتے ہیں.یہاں شرائط کے عدم تحقق کی وجہ سے محمدی بیگم کا نکاح نہ ہوا، تو مخالفین اس پر بھی اعتراضات کرتے ہیں.پس نکاح کا ہونا یا نہ ہونا باعث اعتراض نہیں بلکہ اس کا باعث وہ فطری بغض ہے جو روز اول سے معاندین و مکذبین کے شاملِ حال رہا ہے.لیکن جہاں تک اہل بصیرت کا تعلق ہے انہوں نے اس پیشگوئی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت وحقانیت کی ایک بین دلیل سمجھا اور آپ پر ایمان لائے.حتی کہ اس خاندان سے تعلق رکھنے والے بیسیوں افراد بھی حلقہ بگوشِ احمدیت ہوئے.مگر راشد علی اور ” علماء ہم اپنے شیوہ استہزاء و تمسخر سے باز نہ آئے.اس پیشگوئی کے بارہ میں یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ یہ ایک وعیدی پیشگوئی تھی جو لازماً تو بہ اور رجوع سے مشروط تھی.اور اس کا اصل مقصود متعلقہ لوگوں کے لئے عبرت اور اصلاح کے سامان مہیا کرنا تھا.پیشگوئی کا پس منظر اس پیشگوئی کا سبب محمدی بیگم کے والد مرزا احمد بیگ اور اس کے دوسرے رشتہ دار تھے.یہ لوگ چا کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی رشتہ دار تھے.ان کی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام میں یوں بیان فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ نے میرے چیرے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں ( احمد بیگ وغیرہ) کو ملحدانہ
193 خیالات اور اعمال میں مبتلا اور رسوم قبیحہ اور عقائد باطلہ اور بدعات میں مستغرق پایا اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے تابع ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود کے منکر اور فسادی ہیں.“ پھر فرمایا: ( ترجمه عربی عبارت.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 566) ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص روتا ہوا آیا میں اس کے رونے کو دیکھ کر خائف ہوا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کسی کے مرنے کی اطلاع ملی ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت بات ہے.میں ان لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو دین خداوندی سے مرتد ہو چکے ہیں.پس ان میں سے ایک نے آنحضرت ﷺ کو نہایت گندی گالی دی.ایسی گالی کہ میں نے اس سے پہلے کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی تھی اور میں نے انہیں دیکھا کہ وہ قرآن مجید کو اپنے پاؤں تلے روندتے اور ایسے کلمات بولتے ہیں جن کے نقل کرنے سے زبان کا نپتی ہے.اور وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی خدا نہیں.خدا کا وجود محض ایک مفتریوں کا ( ترجمہ عربی عبارت.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 568) جھوٹ ہے.“ نشان طلبی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ان لوگوں نے خط لکھا جس میں رسول کریم ﷺ اور قرآن مجید کو گالیاں دیں اور وجودِ باری عز اسمہ کا انکار کیا اور اس کے ساتھ ہی مجھ سے میری سچائی اور وجودِ باری تعالیٰ کے نشانات طلب کئے اور اس خط 66 کو انہوں نے دنیا میں شائع کر دیا ہے اور ہندوستان کے غیر مسلموں کی بہت مدد کی اور انتہائی سرکشی دکھائی.“ ( ترجمه عربی عبارت.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 568) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا ان کی نشان طلبی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائے قادر مطلق کے حضور ان لفاظ میں دعا 66 کی: یا رب انصر عبدک و اخذل اعدائک......( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 568) ترجمہ:.میں نے کہا اے میرے خدا! اپنے بندے کی مدد کر اور اپنے دشمنوں کو ذلیل کر..یہ خط عیسائی اخبار چشمہ نور.اگست 1887ء میں شائع ہوا تھا.
194 خدا تعالیٰ کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس دردمندانہ دعا کو قبول کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما اطلاع دی ” میں نے ان کی بدکرداری اور سرکشی دیکھی ہے.پس میں عنقریب ان کو مختلف قسم کے آفات سے ماروں گا اور آسمان کے نیچے انہیں ہلاک کروں گا اور عنقریب تو دیکھے گا کہ میں ان سے کیا سلوک کرتا ہوں اور ہم ہر چیز پر قادر ہیں.میں ان کی عورتوں کو بیوائیں، ان کے بچوں کو یتیم اور گھروں کو ویران کر دوں گا.تاکہ وہ اپنے کئے کی سزا پائیں لیکن میں انہیں یک دم ہلاک نہیں کروں گا بلکہ آہستہ آہستہ تا کہ وہ رجوع کریں اور تو بہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور میری لعنت ان پر اور ان کے گھر کی چار دیواری پر ، ان کے بڑوں پر، اور ان کے چھوٹوں پر ، ان کی عورتوں اور مردوں پر اور ان کے مہمانوں پر جو ان کے گھروں میں اتریں گے، نازل ہونے والی ہے اور وہ سب کے سب ملعون ہونے والے ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ان سے قطع تعلق کریں اور ان کی مجلسوں سے دور ہوں وہ رحمت الہی کے تحت ہوں گے.“ (ترجمه از عربی عبارت.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 569,570) اس خاندان کے بارہ میں یہ ایک عمومی اندار پر مبنی الہام تھا.لیکن اس کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان لوگوں کے بارہ میں جس معین پیشگوئی پر اطلاع بخشی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا انہی ایام میں مرزا احمد بیگ والد محمدی بیگم صاحبہ نے ارادہ کیا کہ اپنی ہمشیرہ کی زمین کو جس کا خاوند کئی سال سے مفقود الخبر تھا اپنے بیٹے کے نام ہبہ کرائے، لیکن بغیر ہماری مرضی کے وہ ایسا کر نہیں سکتا تھا.اس لئے کہ وہ ہمارے چچازاد بھائی کی بیوہ تھی.اس لئے احمد بیگ نے ہماری جانب بعجز و انکسار رجوع کیا.اور قریب تھا کہ ہم اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیتے لیکن حسب عادت استخارہ کیا تو اس پر وحی الہی ہوئی جس کا ترجمہ یوں ہے.” اس شخص کی بڑی لڑکی کے رشتہ کے لئے تحریک کر اور اس سے کہہ! کہ وہ تجھ سے پہلے دامادی کا تعلق قائم کرے اور اس کے بعد تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے.نیز اس سے کہو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ زمین جو تو نے مانگی ہے دیدونگا اور اس کے علاوہ کچھ اور زمین بھی ، نیز تم پر کئی اور رنگ میں احسان
195 کروں گا بشرطیکہ تم اپنی لڑکی کا مجھ سے رشتہ کر دو اور یہ تمہارے اور میرے درمیان عہد و پیمان ہے جسے تم اگر قبول کرو گے تو مجھے بہترین قبول کرنے والا پاؤ گے.اور اگر تم نے قبول نہ کیا تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس لڑکی کا کسی اور شخص سے نکاح نہ اس لڑکی کے حق میں مبارک ہوگا اور نہ تمہارے حق میں.اور اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آئے تو تم پر مصائب نازل ہوں گے اور آخری مصیبت تمہاری موت ہوگی اور تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مر جاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے جو تم پر غفلت کی حالت میں وارد ہوگی اور ایسا ہی اس لڑکی کا شوہر بھی اڑ ہائی سال کے اندر مر جائے گا اور یہ قضائے الہی ہے.پس تم جو کچھ کرنا چاہو کرو میں نے تمہیں نصیحت کر دی ہے.“ (ترجمہ عربی عبارت.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 572,573 ) قارئین کرام ! جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ کو اس کی تو حید سب سے پیاری ہے اور اس کے بعد پھر وہ ذات سب سے پیاری ہوتی ہے جو اس دنیا میں اس کی توحید کی علمبر دار ہوتی ہے.ان سب کے لئے وہ بیحد غیرت دکھاتا ہے.اور جہانتک اس معاشرے کا تعلق ہے جس کی یہاں بحث ہو رہی ہے جس میں یہ خاندان تھا، تو اس میں ایک مرد کے لئے سب سے زیادہ جائے غیرت اس کے گھر کی عورت ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے کاموں کی حکمتیں تو وہی جانتا ہے لیکن اس جگہ جو حالات نظر آتے ہیں.ان کے پیش نظر یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی غیرت کو بھڑ کانے کے سامان کئے تھے بعینہ اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی غیرت کی جگہوں کو ضرب لگائی تا کہ وہ نصیحت اور عبرت حاصل کریں اور توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف رجوع کریں.ان لوگوں نے چونکہ ذاتِ باری تعالیٰ اور محبوب باری تعالیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخیاں کی تھیں جن کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح میں غیرت کا ایک الاؤ بھڑک رہا تھا.آپ کے دل سے خدا تعالیٰ کی توحید کے لئے اور اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی کے لئے ناموس کے لئے التجائیں اٹھتی تھیں.بالآخر خدا تعالیٰ نے آپ کو الہاما یہ خبر دی كذبوا بآيتنا وكانوا بها يستهزء ون فسيكفيكهم الله و يردّها الیک لا تبدیل (اشتہار 10 جولائی 1888ء) لكلمات الله
196 ترجمہ:.ان لوگوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا ہے اور ان کے ساتھ ٹھٹھا کرتے رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ ان کے مقابلہ میں تیرے لئے کافی (سپر ) ہو گا.( یعنی انہیں عذاب دے گا ) اور اس عورت کو تیری طرف 66 لوٹائے گا.خدا کے کلمات بدل نہیں سکتے.“ پھر 15 جولائی والے اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حسب ذیل الہام بھی درج کرتے ہوئے فرمایا کہ وو رأيت هذه المرأة و أثر البكاء على وجهها فقلت أيتها المرأة توبى توبى فان البلاء على عقبك والمصيبة نازلة عليك يموت و يبقى منه كلاب متعدّدة.(اشتہار 15 جولائی 1888ء.حاشیہ تبلیغ رسالت جلد 1 صفحہ 120) ترجمہ:.میں نے اس عورت ( یعنی محمدی بیگم کی نانی کو ( کشفی حالت میں ) دیکھا اور رونے کے آثاراس کے چہرے سے ظاہر تھے.پس میں نے اس سے کہا کہ اے عورت تو بہ کر ! تو بہ کر ! کیونکہ بلا تیری اولاد پر ہے.اور مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے.ایک مرد مر جائے گا اور اس کی طرف کتنے باقی رہ جائیں گے.پس اس امر کو بنیادی طور پر یا درکھنا چاہئے کہ الہام "يردّها اليك لا تبديل لكلمات الله تو بہ نہ کرنے کی شرط سے مشروط ہے.اس کی وضاحت 15 جولائی والے الہام سے ہوتی ہے.یعنی تو بہ کے وقوع میں آنے سے پیشگوئی کا یہ حصہ جو محمدی بیگم کی واپسی سے تعلق رکھتا ہے مل سکتا تھا.چنانچہ جب محمدی بیگم کے باپ نے ان کا نکاح دوسری جگہ کر دیا تو پیشگوئی کے مطابق محمدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ نکاح کرنے کے بعد چھ ماہ کے عرصہ میں پیشگوئی کی میعاد کے اندر ہلاک ہو گیا.اس کی ہلاکت کا اس خاندان پر گہرا اثر پڑا اور وہ پہلے سے بتائی ہوئی تقدیر الہی سے بیحد خوفزدہ ہوئے.اسی اثر کے تحت محمدی بیگم کے خاوند مرزا سلطان محمد نے بھی توبہ کی اور رجوع الی اللہ کیا.اس پیشگوئی میں ابتدائی طور پر ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات داخل فرمائی تھی کہ وو....میں انہیں یک دم ہلاک نہیں کروں گا.بلکہ آہستہ آہستہ تا کہ وہ رجوع کریں اور تو بہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں.“ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض اس خاندان کی تو بہ اور اصلاح تھی.اور یہی
197 اس پیشگوئی کا حقیقی محور تھا.جب تک شرط قائم رہی خدا تعالیٰ کی تقدیر قہری رنگ میں پوری ہوئی اور مرزا احمد بیگ اس کا نشانہ بنا.اس سے عبرت حاصل کر کے رجوع الی اللہ کرنے والوں پر خدا تعالیٰ کی تقدیر عفو جاری ہوئی.لاتبديل لكلمات اللہ کا یہی معنی ہے کہ جب کوئی تو بہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اس کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اس کو معاف کرتا ہے.اس کی اس تقدیر میں تبدیلی نہیں ہوتی.پس اس خاندان کی تو بہ اور رجوع الی اللہ سے خدا تعالیٰ کے نہ تبدیل ہونے والے کلمات قائم رہے اور اس پیشگوئی کا مقصود پورا ہو گیا.اور اس کے دوسرے حصے جو مشروط تھے وہ ٹل گئے.چونکہ محمدی بیگم کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف واپسی عدم تو بہ کی شرط سے مشروط تھی اور یہ واپسی اس کے خاوند کے مرنے اور محمدی بیگم کے بیوہ ہونے کے بعد ہی ممکن تھی اس لئے پیشگوئی میں اس سے نکاح کی شق غیر مشروط نہ تھی.جب اس کے خاوند نے شرط توبہ سے فائدہ اٹھایا تو خدا تعالیٰ کے عفو کے تحت آکر موت سے بچ گیا.اسی وجہ سے نکاح جو اس کی موت سے معلق اور مشروط تھا وہ ضروری الوقوع نہ رہا.اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا یہ اجمالی نقشہ ہے.جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے، میعاد کے اندر مرزا سلطان محمد کی موت نہ ہونے کا سبب اس کی تو بہ اور رجوع الی اللہ تھا.الہی قوانین میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وعید کی پیشگوئی، خواہ اس میں شرط کا بیان نہ بھی ہو، ہمیشہ عدم تو بہ کے ساتھ مشروط ہوتی ہے.لہذا وہ لا ز ما تو بہ اور رجوع سے مل جاتی ہے.لیکن جہانتک اس پیشگوئی کا تعلق ہے، اس میں خدا تعالیٰ نے تو بہ کی شرط بیان فرما دی تھی.اس لئے محمدی بیگم کے خاوند کی تو بہ اور رجوع الی سے نکاح والی شق مل کر کالعدم ہو گئی.پس خدا تعالیٰ کے الہامات پر کسی شخص کو یہ اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں کہ نکاح کیوں وقوع میں نہ آیا.مرزا احمد بیگ اور اس کے داماد کی موت کی میعاد میں اختلاف کی حکمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا احمد بیگ کو مخاطب کر کے لکھا تھا کہ آخر المصائب موتک تموت الى ثلاث سنين بل موتک قریب 66 آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن.جلد 5 صفحہ 375)
198 ترجمہ:.آخری مصیبت تیری موت ہے اور تو تین سال بلکہ اس سے قریب مدت میں مر جائے گا.اسی جگہ محمدی بیگم کے خاوند کے لئے اڑ ہائی سال کی مدت بیان کی گئی ہے.واقعات کے لحاظ سے موتک قریب“ کا الہام اس طرح پورا ہوا کہ مرزا احمد بیگ اپنی لڑکی کا نکاح مرزا سلطان محمد سے کرنے کے بعد پیشگوئی کے مطابق چھ ماہ کے عرصہ میں ہی ہلاک ہو گیا.یہ ہلاکت اس کی بیبا کی اور شوخی میں بڑھ جانے کا نتیج تھی.ورنہ ممکن تھا کہ اس کا داماد پہلے مرجاتا.نیز اس میں یہ اشارہ تھا کہ اگر مرزا احد بیگ کی موت اپنے داماد سے پہلے واقع ہو جائے تو پھر مرزا سلطان محمد تو بہ کر کے ضرور بچ جائے گا اور اس کے بارہ میں پیشگوئی مل جائے گی.” آخر المصائب موتک“ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا احمد بیگ کی موت اس خاندان پر مصیبتوں میں سے آخری مصیبت ہوگی اور اس سے عبرت کے سامان ہونگے اور وہ خاندان دیگر مصیبتوں سے بچ جائے گا اور پیشگوئی کی اصل غرض یعنی تو بہ اور رجوع الی اللہ اور اصلاح پوری ہوگی.مرز اسلطان محمد کی تو بہ مرزا سلطان محمد کی تو بہ کی وجہ سے جب اس کی موت نہ ہوئی تو بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ اس کی موت پیشگوئی کے مطابق واقع نہیں ہوئی تو اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا ” فیصلہ تو آسان ہے.احمد بیگ کے داماد سلطان محمد سے کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں.“ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 32 حاشیہ ) (ب) ” ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھی رہے جب تک کہ وہ گھڑی نہ آ جائے کہ اس کو بیباک کر دے.سواگر جلدی کرنا ہے تو اٹھو اس کو بے باک اور مکذب بناؤ اور اس سے اشتہار دلا ؤ اور خدا کی قدرت کا انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 32 حاشیہ ) تماشا دیکھو.“ یہ دونوں اعلان ظاہر کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کے بعد اگر مرزا سلطان محمد کسی وقت شوخی اور بے باکی دکھاتے یا مخالفین ان سے تکذیب کا اشتہار دلانے میں کامیاب ہو جاتے تو پھر اس کے بعد اس کی موت کے لئے جو میعاد خدا تعالیٰ قائم فرما تاوہ قطعی فیصلہ کن اور تقدیر مبرم ہوتی اور اس
199 کے مطابق لازماً اس کی موت واقع ہوتی.اور پھر اس کے بعد محمدی بیگم کا نکاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ضروری اور اٹل ہو جاتا.اس تفصیل کو جاننے کے بعد کسی کا یہ کہنا کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی بالکل بے بنیاد اور جھوٹ ہے.مرز اسلطان محمد کی تو بہ کا قطعی ثبوت مرزا سلطان محمد نہ صرف یہ کہ حقیقہ تو بہ کر چکے تھے بلکہ اس پیشگوئی کی صداقت کے مصدق بھی تھے.نیز یہ بھی کہ اس کی تصدیق پر نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قائم رہے بلکہ صدقِ دل سے اپنی موت تک اس پر ثبات دکھایا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ کتاب انجام آتھم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا چینج کے شائع ہونے پر آریوں اور عیسائیوں میں سے بعض لوگ ان کے پاس پہنچے اور انہیں ایک خطیر رقم دینے کا وعدہ کیا تاوہ حضرت اقدس پر نالش کریں.مرزا سلطان محمد جن سے محمدی بیگم کی شادی ہوئی انہوں نے نہ صرف یہ کہ تو بہ کی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقیدتمند بن گئے اور اس پیشگوئی کی صداقت کے گواہ بنے.ان کی گواہی انتہائی وزنی اور حتمی اس لئے ہے کہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی موت اور پھر اس کی بیوہ کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی کی تھی اور اپنی متعدد کتب و اشتہارات میں ان کا ذکر بھی فرمایا تھا ، ان کو تو آپ سے طبعا دشمنی اور عناد ہونا چاہئے تھا.لیکن وہ چونکہ حق پرست اور نیک فطرت انسان تھے اس لئے انہوں نے کسی منفی جذبے کو اپنی فطری سچائی پر غالب نہ آنے دیا.اس کا نا قابل رو ثبوت یہ ہے کہ حافظ جمال احمد صاحب فاضل مبلغ سلسلہ نے ان کا ایک انٹر ویو لیا جو اخبار الفضل.13/9 جون 1921 ء میں ” مرزا سلطان محمد صاحب کا ایک انٹرویو کے عنوان سے شائع ہوا.اس میں انہوں نے بیان کیا کہ وو ” میرے خسر جناب مرزا احمد بیگ صاحب واقع میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے ،مگر خدا تعالیٰ غفور الرحیم ہے، اپنے دوسرے بندں کی بھی سنتا ہے اور رحم کرتا ہے.......میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ نکاح والی پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے بھی شک وشبہ کا باعث نہیں ہوئی.باقی رہی بیعت کی بات سو میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جو ایمان اور اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں اتنا نہیں ہوگا.......باقی میرے دل کی حالت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے
200 وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا، تا میں کسی طرح مرزا صاحب پر نائش کروں.اگر میں وہ روپیہ لے لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا.مگروہی ایمان اور اعتقاد تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا.“ الفضل 9 / 13 جون 1921ء) مرزا سلطان محمد صاحب کا یہ بیان ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو مومنانہ سوچ اور بصیرت کی نظر سے دیکھا تو باوجود ایک طرح سے فریق مخالف ہونے کے خود اس کی صداقت کے گواہ بن گئے.چونکہ وہ حقیقی تو بہ کر چکے تھے اور پیشگوئی کی صداقت کے قائل تھے اس لئے وہ اس گراں بہالالچ دئے جانے پر بھی کسی قسم کی بے باکی اور شوخی کے لئے تیار نہ ہوئے.اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد کی مرزا سلطان محمد صاحب سے ملاقات کے بارہ میں حلفیہ شہادت ہے.اس ملاقات میں انہوں نے بعینہ انہی جذبات کا اظہار کیا جو مذکورہ بالا انٹرویو میں بیان ہوئے ہیں.حضرت مولوی ظہور حسین مجاہد بخارا نے مرزا سلطان محمد سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے یہ حلفیہ شہادت دی کہ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی آئے تھے اور شدید اصرار کیا کہ وہ انہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک ایسی تحریر دیدیں جس میں یہ بیان ہو کہ یہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی.مرزا سلطان محمد نے بیان کیا کہ ” مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب یہی رٹ لگاتے رہے جس پر میں نے ایسی تحریر دینے سے صاف طور پر انکار کر دیا اور وہ بے نیل مرام واپس چلے گئے.صاحب کے متعلق میری عقیدت ہی تھی جس کی وجہ سے میں نے ان کی ایک بھی نہ مانی.....عیسائی اور آریہ قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے بھی مجھ سے اس قسم کی تحریر لینے کی خواہش کی مگر میں نے کسی کی نہ مانی اور صاف ایسی تحریر دینے سے انکار کرتا رہا.“.حضرت مرزا علاوہ ازیں انہوں نے اپنے ایک احمدی دوست کے نام اپنے ایک خط میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا.وہ لکھتے ہیں : دو از انبالہ چھاؤنی 21.3.1913
201 برادرم سلمه نوازش نامہ آپ کا پہنچا.یاد آوری کا مشکور ہوں.میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک.بزرگ.اسلام کا خدمت گذار.شریف النفس.خدا یاد پہلے بھی اور اب بھی خیال کر رہا ہوں.مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے.بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند ایک امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کر سکا.نیازمند سلطان محمد از انباله رسالہ نمبر 9 پیشگوئی کی عین مطابق محمدی بیگم کے والد مرزا احمد بیگ کی موت سے اس خاندان کی تو بہ اور رجوع الی اللہ کا نتیجہ تھا کہ اس میں سے بہت سے افراد اس پیشگوئی کے مصدق ہو کر حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.جن کی تفصیل ذیل میں درج ہے.1.اہلیہ مرزا احمد بیگ صاحب ( والدہ محمدی بیگم.یہ موصیبہ تھیں) 2.ہمشیرہ محمدی بیگم 3.مرز امحمد احسن بیگ، جو مرزا احمد بیگ کے داماد تھے اور اہلیہ مرزا احمد بیگ کے بھانجے تھے.4.عنایت بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم 5.مرز امحمد بیگ صاحب پسر مرزا احمد بیگ صاحب 6.مرز امحمود بیگ صاحب پوتا مرزا احمد بیگ صاحب 7 - دختر مرزا نظام دین صاحب اور ان کے گھر کے سب افراد 8.مرزا گل محمد پسر مرزا نظام دین صاحب 9.اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب (موصیہ تھیں ) 10 - محمودہ بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم صاحبہ 11 - مرز امحمد اسحاق بیگ صاحب ابن مرزا سلطان محمد صاحب.یہ سب محمدی بیگم کے بالکل قریبی رشتہ دار ہیں اور یہ سب اس پیشگوئی کے بعد اس کی صداقت کو
202 دیکھ کر حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.ان میں سے مرزا الحق بیگ صاحب، محمدی بیگم کے بیٹے ہیں.انہوں نے نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کی منشا کے عین مطابق اس پیشگوئی کے عملاً وقوع کی شہادت دی بلکہ اس کے علمی پہلوؤں پر بھی ایک جامع بحث کی.چنانچہ وہ لکھتے ہیں بسم اللہ الرحمن الرحیم احباب کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدعا ظاہر کروں، یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ واللہ میں کسی لالچ یا دنیوی غرض یا کسی دباؤ کے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیق حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب اپنے ہر دعوی میں صادق اور مامور من اللہ ہیں اور اپنے قول و فعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا.آپ کی تمام پیشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں.یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں.مثلاً ان میں سے ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے.اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو.حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہوگئی.میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک انداری پیشگوئی تھی اور ایسی انذاری پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے.چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ ما نُرْسِلُ بالایتِ إِلَّا تَحْوِيْفًا کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں.اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں.جب وہ قوم اللہ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی صلاحیت کی طرف رجوع کرے تو اللہ تعالیٰ اپنا معلق عذاب بھی ٹال دیتا ہے.جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ نیز حضرت موسی کی قوم کے حالات وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرّجز سے ظاہر ہے.اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا.یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے کہ جب مرزا صاحب کی قوم اور رشتہ داروں نے گستاخی کی ،
203 الله یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا ، نبی کریم ﷺ اور قرآن پاک کی ہتک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی.اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا.جس کا نا قابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی.تو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غفور الرحیم کے ماتحت قہر کو رحم میں بدل دیا.میں پھر زور دار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.میں ان لوگوں سے جن کو احمدیت قبول کرنے میں یہ پیشگوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان“ پر ایمان لے آئیں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، یہ وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی اور ان کا انکار نبی کریم ﷺ کا انکار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا درست فرمایا ہے: صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار خاکسار مرزا محمد الحق بیگ پٹی ضلع لاہور حال وارد چک 2165 بی.66 ( مطبوعہ.الفضل 26 فروری 1932 صفحہ 9) الغرض یہ پیشگوئی وعیدی پیشگوئیوں کے اصولوں کے عین مطابق ، خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تفصیلات کے ساتھ پوری ہوئی.نیز اس کی اصل غرض بھی پوری ہوئی یعنی اس خاندان کی اصلاح ہوئی اور وہ اللہ تعالی کی طرف لوٹ آئے.ایک ہی فرد کی ہلاکت سے باقی سارے خاندان نے عبرت حاصل کی.ان میں سے بعض نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عجز و نیاز سے خط بھی لکھے اور دعا کی درخواست کی.ان خطوط کا ذکر آپ نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی (روحانی خزائن.جلد 2 صفحہ 195) میں کیا ہے.
204 دو پیشگوئی کا تجزیہ اس پیشگوئی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو عملاً اس کے پانچ حصے ہیں.جن میں سے پہلے تین حصے لفظاً پورے ہوئے اور وعیدی پیشگوئی ہونے کی وجہ سے باقی دو حصے مرزا سلطان کی تو بہ اور رجوع الی اللہ سے ٹل گئے.کیونکہ وعیدی پیشگوئیوں کے بارہ میں سنت اللہ یہ ہے کہ وہ تو بہ کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں.لہذا پیشگوئیوں کے اصول اور ان کے بارہ میں سنت اللہ کی رو سے نفس پیشگوئی پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا.پیشگوئی کے یہ پانچ حصے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام“ اور شہادۃ القرآن سے ماخوذ ہیں ، درج ذیل ہیں.حصہ اول:.اگر مرزا احمد بیگ اپنی بڑی لڑکی کا نکاح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے نہ کرے گا تو پھر وہ اس وقت تک زندہ رہے گا کہ اپنی اس لڑکی کا نکاح کسی دوسری جگہ کرے.حصہ دوم :.نکاح تک وہ لڑکی بھی زندہ رہے گی.حصہ سوم :.دوسری جگہ نکاح کرنے کے بعد مرزا احمد بیگ تین سال کے اندر بلکہ بہت جلد ہلاک ہو جائے گا.حصہ چہارم :.دوسری جگہ نکاح کے بعد اس لڑکی کا خاوند اڑ ہائی سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا.(بشرطیکہ وہ تو بہ اور رجوع الی اللہ نہ کرے کیونکہ وعیدی پیشگوئی لازما مشروط بعدم تو بہ ہوتی ہے.) حصہ پنجم :.خاوند کی ہلاکت کے بعد وہ لڑکی بیوہ ہوگی.اور بیوہ ہونے کے بعد حضرت اقدس کے نکاح میں آئے گی.یعنی پیشگوئی کا یہ آخری حصہ اس لڑکی کے خاوند کی موت سے مشروط تھا.نشان اوّل:.پیشگوئی کا پہلا حصہ بطور نشان اوّل پورا ہو گیا.اگر محمدی بیگم کا باپ اس کا نکاح کرنے سے پہلے وفات پا جاتا تو پیشگوئی کا حصہ اوّل پورا نہ ہوتا مگر یہ صفائی کے ساتھ پورا ہوا.کیونکہ پیشگوئی یہ تھی کہ ” تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مر جاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے.“ نشان دوم :.پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے مطابق لڑکی نکاح تک زندہ رہ کر نشان بنی.اگر وہ نکاح سے پہلے مرجاتی تو پیشگوئی کا دوسرا حصہ بھی پورا نہ ہوتا.مگر یہ حصہ بھی نہایت صفائی کے ساتھ پورا ہوا.
205 نشان سوم :.دوسری جگہ نکاح کے بعد لڑکی کا باپ چھ ماہ کے عرصہ میں ہلاک ہو گیا.اگر اس کی موت تین سال سے تجاوز کر جاتی تو پیشگوئی کا یہ حصہ بھی پورا نہ ہوتا.لیکن یہ حصہ بھی نہایت صفائی کے ساتھ پورا ہوا.اس طرح یہ تینوں حصے پورے ہو کر اس پیشگوئی کی صداقت کے نشان بن گئے.باقی دو حصوں کا ظہور پچھلے دو حصے اس طرح ظہور پذیر ہوئے کہ محمدی بیگم کے خاوند مرزا سلطان محمد پر اپنے خسر کی موت سے سخت ہیبت طاری ہوئی اور اس نے تو بہ اور استغفار کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور وعیدی پیشگوئی کی شرط تو بہ سے فائدہ اٹھا کر موت سے بچ گیا.شرط تو بہ سے فائدہ اٹھانے کے باعث اس سے موت تو ٹل گئی لیکن پیشگوئی کی اصل غرض یعنی تا کہ وہ رجوع کریں اور تو بہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں بڑے جلال اور کمال کے ساتھ پوری ہوئی.جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی تو بہ اور رجوع الی اللہ کی وجہ سے ان سے وہ عذاب ٹل گیا تھا جو حضرت یونس علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ان پر چالیس دن پورے ہو جانے کے بعد لازماً وارد ہونے والا تھا.چونکہ مرزا سلطان محمد کی تو بہ اور رجوع الی اللہ سے اس سے موت ٹل گئی اور حضرت اقدس سے محمدی بیگم کا نکاح اس کے بیوہ ہو جانے سے مشروط تھا اس لئے اب اس کا وقوع میں آنا ضروری نہ رہا.اس طرح پیشگوئی کے یہ آخری دو حصے اس کی اصل غرض کے حاصل ہو جانے کے رنگ میں پورے ہوئے.اب نکاح کا وقوع صرف اس بات سے معلق ہو کر رہ گیا کہ مرزا سلطان محمد از خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں کسی وقت بیبا کی اور شوخی دکھائے اور پیشگوئی کی تکذیب کرے.یہ تکذیب محض امکانی تھی ، ضروری الوقوع نہ تھی.اور نکاح کے اس طرح معلق ہونے کی حد بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی تک ہی تھی.مگر محمدی بیگم کا خاوند مرزا سلطان محمد ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی تو بہ پر قائم رہا اور بعد میں بھی.اسی طرح اس خاندان کے دوسرے افراد نے بھی اصلاح کرلی تو اس وعیدی پیشگوئی کی اصل غرض جو اس خاندان کی اصلاح تھی پوری ہوگئی.کیونکہ اس خاندان کے افراد نے الحاد اور دہریت کے خیالات کو ترک کر دیا اور اسلام کی عظمت کے قائل ہو گئے اور ان میں سے اکثر نے
206 احمدیت کو قبول کیا.یہاں خدا تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ ” مَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال : 34) ترجمہ:.اللہ ان لوگوں کو عذاب دینے والا نہیں ہے اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں.خدا تعالیٰ کے اس قانون کے مطابق اب مرزا سلطان محمد پر عذاب صرف اسی صورت میں نازل ہوسکتا تھا کہ وہ تو بہ کوتوڑ دیتا اور پیشگوئی کی تکذیب کر دیتا اور پھر اس کی موت کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے نئی میعاد مقرر ہوتی.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب انجام آتھم کے صفحہ 23 پر نکاح کی پیشگوئی کو مرزا سلطان محمد کی طرف سے آئندہ اس پیشگوئی کی تکذیب کرنے اور بیبا کی اور شوخی دکھانے سے اور اس کے لئے نئی میعاد مقرر ہونے سے معلق قرار دے دیا.ایسا ہونا اس لئے ضروری تھا کہ یہ امکان ابھی باقی تھا کہ مرزا سلطان محمد کسی وقت اگر تکذیب کر دیتا تو پیشگوئی میں لوگوں کے لئے اشتباہ پیدا ہو جاتا.وعیدی پیشگوئی کی اصل غرض چونکہ تو بہ اور استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع دلا نا اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا سکہ دلوں پر بٹھانا اور اصلاح ہوتی ہے اس لئے جب یہ شرط پوری ہو جائے تو پھر سنت اللہ کے مطابق عذاب بالکل ٹل جایا کرتا ہے.اور اگر انہوں نے تو بہ پر قائم نہ رہنا ہو تو پھر سنت اللہ یوں ہے کہ عذاب میں اس وقت تک تاخیر ہو جاتی ہے کہ وعیدی پیشگوئی کے متعلقین پھر بے باکی اور شوخی دکھاتے ہوئے تو بہ توڑ دیں.چنانچہ ملاحظہ فرمائیں حضرت یونس علیہ السلام اور وعیدی پیشگوئی کتب تفاسیر میں لکھا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کو وعید کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کی تھی: " ان اجلكم اربعون ليلة کہ تمہاری مدت چالیس راتیں ہیں.لیکن قوم نے تو بہ کر لی اور عذاب ٹل گیا.چنانچہ لکھا ہے: 66 فتضرعوا الى الله و رحمهم و كشف عنهم (تفسیر کبیر از حضرت امام رازی - جلد 5 صفحہ 42) ترجمہ :.وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے تو اس نے ان پر رحم کیا اور ان سے عذاب دور کر دیا.ایسا ہی مضمون تفسیر فتح البیان.سورہ الصافات.زیرآیت ”فســــاهـــم فـــكـــان
207 المدحضین“ بھی بیان ہوا ہے.( ملاحظہ فرمائیں.جلد 8 صفحہ 128.مطبوعہ دارالفکر العربی ) چونکہ یہ لوگ اپنی تو بہ اور رجوع الی اللہ میں مخلص تھے اور اس پر پھر ہمیشہ قائم رہے اس لئے ان سے عذاب بھی مستقلاً ٹلا رہا اور خدا تعالیٰ نے ان سے اپنی پہلی سنت کے مطابق معاملہ کیا.خدا تعالیٰ کی دوسری سنت کا سلوک فرعون اور آل فرعون میں دکھائی دیتا ہے کہ آل فرعون جب عذاب آنے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کرتی تھی اور ایمان لانے کا وعدہ کرتی تھی تو خدا تعالیٰ ان سے عذاب ٹال دیتا تھا.پھر چونکہ وہ اپنے وعدہ پر قائم نہیں رہتی تھی اس لئے پھر عذاب میں پکڑی جاتی تھی.بالآخر آل فرعون مع فرعون تو بہ پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا تعاقب کرنے پر موعودہ عذاب میں پکڑی گئی اور سمندر میں غرق ہو گئی.اس قوم سے خدا تعالیٰ نے اپنی دوسری سنت یعنی تأخیر عذاب کے مطابق سلوک کیا.پیشگوئی میں اجتہادی خطا بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرط کے مذکور نہ ہونیکی وجہ سے یا شرط کی طرف سے بھول ہو جانے کے باعث پیشگوئیوں میں اجتہادی خطا واقع ہو سکتی ہے.ایسی اجتہادی خطا قابلِ اعتراض نہیں ہوتی.چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام سے وحی الہی کے سمجھنے میں اجتہادی غلطی ہوئی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حَتَّى إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ.(بود: 41) ترجمہ:.یہانتک کہ جب ہمارا فیصلہ آپہنچا اور بڑے جوش سے چشمے پھوٹ پڑے تو ہم نے (نوح سے ) کہا کہ اس (کشتی) میں ہر قسم کے جوڑوں میں سے دو دو سوار کر اور اپنے اہل کو بھی سوائے اس کے جس کے خلاف فیصلہ گزر چکا ہے اور (اسے بھی سوار کر ) جوایمان لایا ہے.اور اس سے قبل حضرت نوح علیہ السلام کو یہ حکم دیا جا چکا تھا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا إِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ 0 ( بود:38) ترجمہ:.اور جن لوگوں ظلم کیا ان کے بارہ میں مجھ سے کوئی بات نہ کر.یقیناً وہ غرق کئے جانے والے ہیں.
208 حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا جب غرق ہونے لگا تو انہوں نے خدا تعالیٰ کو اس کا وعدہ یاد دلایا اور کہا إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِيْ وَ إِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ (هود: 46) ترجمہ:.یقیناً میرا بیٹا بھی میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ ضرور سچا ہے.( یعنی اسے وعدہ کے مطابق بچنا چاہئے) یہ وعدہ یاد دلانے میں حضرت نوح علیہ السلام کو پیشگوئی کی اس شرط سے ذہول ہو گیا جو الا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ اور وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا إِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ “ کے الفاظ میں بیان ہوئی تھی.اور وہ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ خدائی وعدہ کے مطابق میرا یہ بیٹا بھی غرق ہونے سے بچنا چاہئے لیکن ان کا یہ اجتہاد درست نہ تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے وعدہ یاد دلانے پر انہیں یہ جواب دیا کہ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ، فَلَا تَسْتَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ج إِنِّى أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَهِلِيْنَ 0 (هود:47) ترجمہ:.یقینا وہ تیرے اہل میں سے نہیں.بلاشبہ وہ تو سراپا ایک نا پاک عمل تھا.پس مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے کچھ علم نہیں.میں تجھے نصیحت کرتا ہوں مبادا تو جاہلوں میں سے ہو جائے.پس پیشگوئی کرنے والے سے کسی شرط کا نظر انداز ہو جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اپنے دعاوی میں من جانب اللہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا سلطان محمد کے متعلق اڑہائی سالہ میعاد گزر جانے کے بعد اس پیشگوئی کے شرط تو بہ والے الہام یعنی "أيتها المرأة تـوبـي تـوبى فان البلاء على عقبك و الـمـصـيـبـة نـازلـة علیک“ کے نظر انداز ہو جانے کی وجہ سے اصل پیشگوئی کے الہامی الفاظ لا مبدل لكلمات الله کے پیش نظر اجتہاد کیا کہ پیشگوئی میں تاخیر ڈال دی گئی ہے، یہ لی نہیں.اس لئے آپ نے اس قسم کی عبارتیں یقین اور وثوق پر مشتمل تحریر فرما ئیں کہ محمدی بیگم کا خاوند ضرور مرے گا اور وہ بیوہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئے گی.ایسی عبارتیں کسی جدید الہام پر مبنی نہ تھیں کیونکہ پیشگوئی کی اڑ ہائی سالہ میعاد گزر جانے کے بعد 1906ء تک آپ کو اس بارہ میں کوئی نیا الہام نہیں ہوا اور الہام "لا تبديل لكلمات اللہ جس اشتہار میں درج تھا اسی کے تتمہ میں پیشگوئی کی الہامی شرط تو بہ بھی ايتها المرأة توبى توہی....“ والے الہام میں درج تھی مگر اس شرط کی طرف عدم توجہ کی وجہ سے حضرت اقدس نے یہی
209 اجتہاد کیا کہ سلطان محمد کسی وقت ضرور تو بہ توڑ دے گا.پھر اس کے نتیجہ میں وہ ہلاک ہو گا اور اس کے بعد محمدی بیگم ضرور آپ کے نکاح میں آئے گی.یہ اجتہاد کرنے کا آپ کو بہر حال حق تھا اور آپ نے الہامات کے الفاظ کوملحوظ رکھتے ہوئے یہ اجتہاد فرمایا کہ سلطان محمد کا تو بہ کو توڑ نا ضروری ہے.اس لئے پیشگوئی فی نفسہ ملی نہیں بلکہ اس کی موت میں صرف تأخیر ہوئی ہے، مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو اس اجتہاد پر قائم نہ رہنے دیا اور 16 فروری 1906 ء کو آپ پر یہ الہام نازل فرمایا: تكفيك هذه الامرأة“ ( تذکرہ - صفحہ 596.ایڈیشن 1969ء.مطبوعہ الشركة الاسلامیہ ربوہ ) کہ تمہارے لئے یہ عورت جو تمہارے نکاح میں ہے کافی ہے.اس الہام کے نزول پر آپ نے اپنے اجتہاد میں اصلاح فرمالی اور تمہ حقیقۃ الوحی میں صاف لکھ دیا کہ وو جب ان لوگوں نے شرط ( تو بہ.ناقل ) کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گی یا تاخیر میں پڑ گیا.“ اس جدید اجتہاد سے جو نئے الہام کی روشنی میں کیا گیا اب حضرت اقدس کا درمیانی زمانہ کا اجتہاد جس میں آپ نے محمدی بیگم کے خاوند کے تو بہ توڑنے کو اور اس کے بعد نکاح کو ضروری قرار دیا تھا، قابلِ تجبت نہ رہا.پس یہ پیشگوئی اپنی الہامی شرائط کے مطابق ظہور پذیر ہوئی.لہذا اس کے بارہ میں الہامات پر کسی قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری اجتہاد بھی سنت اللہ کے عین مطابق تھا.اس لئے اس پر بھی کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا.اس نئے الہام کی وجہ سے درمیانی زمانہ کے اجتہاد جو سلطان محمد کی موت کو ضروری اور اس کے بعد نکاح کو مبرم قرار دیتے تھے ، اس شرط کے ساتھ مشروط سمجھے جائیں گے کہ اگر کسی وقت سلطان محمد از خود تو بہ توڑ دے تو اس کی ہلاکت اور پھر اس کے بعد حضرت اقدس کا محمدی بیگم سے ضرور نکاح ہوگا ورنہ نہیں.پس جدید اجتہاد کی بنا پر پیش کردہ عبارتیں اوپر کی شرط سے مشروط ہو گئیں.اس لئے اب عبارتوں کی ترتیب حسب ذیل ہوگی.عبارتوں کی ترتیب 1: اگر مرزا سلطان محمد کسی وقت تو بہ تو ڑ کر پیشگوئی کی تکذیب کرے ) تو اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آجانا یہ تقدیر مبرم ہے.جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی.کیونکہ اس کے لئے الہام الہی میں یہ کلمہ موجود
210 ہے.لا تبديل لكلمات اللہ یعنی میری بات ہر گز نہیں ملے گی.پس اگرٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے.(اعلان 6 ستمبر 1896ء) 2.ایک حصہ پیشگوئی کا یعنی احمد بیگ کا میعاد کے اندر فوت ہو جانا حسب منشائے پیشگوئی صفائی سے پورا ہو گیا اور دوسرے کی انتظار ہے.“ (بشرطیکہ مرزا سلطان محمد تو بہ توڑ دے اور پیشگوئی کی تکذیب کرے) (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد 17 صفحہ 154) : ( اگر کسی وقت سلطان محمد تو بہ تو ڑ کر میری زندگی میں پیشگوئی کی تکذیب کرے تو ) یا درکھو کہ اس کی دوسری جزو پوری نہ ہوئی تو میں ہر یک بد سے بدتر ٹھہروں گا.اے احمقو! یہ کسی انسان کا افتراء نہیں ، یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں.یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے.وہی خدا جس کی باتیں نہیں ملتیں.“ (ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 338) 4 (اگر کسی وقت میری زندگی میں سلطان محمد نے تو بہ توڑ دی تو) جس وقت یہ سب باتیں پوری ہو جائیں گی.....اس دن......نہایت صفائی سے ( مخالفین کی ) ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سؤروں کی طرح کر دیں گے.“ (ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 337) 5: وحی الہی میں یہ نہیں تھا کہ دوسری جگہ بیاہی نہیں جائے گی.یہ تھا کہ ضرور ہے اوّل دوسری جگہ بیاہی جائے.....خدا اس کو تیری طرف لے آئے گا.“ (بشرطیکہ اس کا خاوند توبہ نہ کرے یا تو بہ کر کے توڑ دے) پیشگوئی پر اعتراضات کے جوابات (احکام.30 جون 1905ء) اعتراض اول :.حضرت مرزا صاحب نے ازالہ اوہام میں 1891ء میں لکھا کہ خدا تعالیٰ ہر طرح سے اس کو ( یعنی محمدی بیگم کو ) تمہاری طرف لائے گا.باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا.کوئی نہیں جو اس کام کو روک سکے.“ تو ایسا لکھنے کے باوجود درمیانی روکیں کیوں نہ اٹھائی گئیں؟ الجواب : محمدی بیگم باکرہ ہونے کی حالت میں اس وجہ سے نکاح میں نہ آئی کہ اس کے باپ نے شوخی کی راہ اختیار کر کے اس کا نکاح مرزا سلطان محمد آف پٹی سے کر دیا.اس کا یہ عمل پیشگوئی کے اس حصہ کو پورا
211 کرنے کی بنیاد بن گیا جو ایسی صورت میں اس کی ہلاکت کے بارہ میں تھا.چنانچہ وہ چھ ماہ کے اندر مر گیا.اس سے محمدی بیگم کے خاوند پر پیشگوئی کی ہیبت طاری ہو گئی اور اس نے تو بہ اور استغفار سے کام لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی اپنی اس تو بہ پر قائم رہا اور آپ کے بعد بھی.پس اس کے اس شرط تو بہ سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے نکاح والا حصہ منسوخ ہو گیا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اجتہاد تھا کہ سب روکیں اٹھا دی جائیں گی، نہ کہ الہام.جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال: 34) کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان کو عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں.یعنی تو بہ واستغفار کی روک کو جبراً اٹھانا اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے.چونکہ مرزا سلطان محمد نے اس شرط سے فائدہ اٹھا کر اس پیشگوئی کی اصل غرض کو پورا کر دیا تھا اس لئے اس کے دوسرے حصے کے نفوذ کی ضرورت نہیں تھی لہذاوہ حصہ مل گیا.اعتراض دوم :.مرزا صاحب اسی کتاب میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ” اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی.یہانتک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی.اس وقت گویا یہ پیشگوئی آنکھوں کے سامنے آ گئی اور یہ معلوم ہو رہا ہے کہ آخری دم ہے کل جنازہ نکلنے والا ہے.تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنے ہوں گے جو میں نہ سمجھ سکا.تب اسی حالت میں قریب الموت مجھے الہام ہوا.الـحـق مــن ربّک فلا تكن من الممترین.یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے.‘“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 798) میں نہ آیا ؟ اس سے ظاہر ہے کہ اس الہام نے تصدیق بھی کر دی تھی کہ نکاح ضرور ہو گا مگر پھر نکاح کیوں وقوع الجواب :.اس الہام کے الفاظ سے صاف واضح ہے کہ اس کا مقصود صرف یہ ہے کہ پیشگوئی کا اللہ تعالی کی طرف سے ہونا برحق امر ہے ، اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں.لہذا آپ کو نفس پیشگوئی میں شک نہیں کرنا چاہئے.اس الہام سے یہ ظاہر کرنا مقصود نہ تھا کہ پیشگوئی کا ظہور کس رنگ میں ہوگا.کیونکہ ازالہ اوہام
212 1891ء کی کتاب ہے.اس کے بعد مرزا احمد بیگ ہلاک ہو گیا اور پیشگوئی کے اس حصہ کا سچا اور برحق ہونا روز روشن کی طرح ثابت ہو گیا.دوسرا حصہ یعنی مرزا احمد بیگ کے داماد کی موت اور اس کی لڑکی کا بیوہ ہو جانے کے بعد حضرت اقدس سے نکاح، پیشگوئیوں کے اصول کے مطابق ٹل گیا اور اس طرح پیشگوئی کی اصل غرض یعنی اس خاندان کی اصلاح وقوع میں آئی.ایسی پیشگوئیوں میں مخفی شرائط کے باعث محوداثبات ہوتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 66 يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَ يُثْبِتُ “ (الرعد: 40) کہ اللہ جو چاہے مٹا دیتا ہےاور ( جو چاہے ) قائم بھی رکھتا ہے.اعتراض سوم :.نکاح آسمان پر پڑھا جا چکا تھا تو تا خیر میں کیسے پڑ گیا.الجواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ نکاح آسمان پر پڑھا گیا الہام زوجـنـکـها‘ کا یہ مفہوم ظاہر کرنے کے لئے کہے گئے تھے کہ نکاح اس وعیدی پیشگوئی کا ایک حصہ ہے.آپ اجتہاداً ا سے مبرم سمجھتے رہے یعنی یہ امر کہ محمدی بیگم کا خاوند مرزا سلطان محمد کسی وقت تو بہ توڑ دے گا.حالانکہ اس بارہ میں آپ کو کوئی جدید الہام نہیں ہوا تھا.آخری الہام جو ہو اوه تکفیک هذه الإمرأة “ تھا.کہ یہ عورت جو آپ کے نکاح میں ہے، آپ کے لئے کافی ہے.اس سے یہ قوی فیصلہ ہو گیا کہ محمدی بیگم سے نکاح کا وقوع منسوخ ہو گیا ہے.چونکہ تکذیب کرنے اور تو بہ توڑنے کا عقلی امکان ابھی باقی تھا اس لئے آپ نے تمہ حقیقۃ الوحی میں یہ توجیہ کی کہ نکاح فسخ ہو گیا ہے یا مؤخر ہو گیا ہے.لیکن بعد کے واقعات نے یہ شہادت دی کہ عند اللہ سیہ پیشگوئی مل چکی تھی.اس لئے بعد میں آپ نے اخبار بدر 23 اپریل 1908ء میں یہ شائع فرما دیا کہ یہ پیشگوئی وہ ٹل گئی ہے.اور وعیدی پیشگوئی کامل جانا آیت ” يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَ يُثْبِتُ “ کے تحت ہوا ہے.ماسوا اس کے کہ الہام ” زو جنگھا“ کا مفہوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ قرار دیا کہ بعد واپسی کے ہم نے اس سے تیرا نکاح کر دیا.(انجام آتھم صفحہ 60) اور یہ نکاح سلطان محمد کی تو بہ کی وجہ سے وقوع میں نہ آیا تا ہم ایک دوسری تعبیر سے بھی یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوگئی کہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسیح موعود کا منصب جلیل عطا ہوا.نکاح کے تعبیری معنے منصب جلیل کے ملنے کے ہیں.
213 چنانچہ ” تعطیر الا نام میں لکھا ہے: “ وو النكاح في المنام يدلّ على المنصب الجليل“ کہ خواب میں نکاح کسی بڑے منصب کے ملنے پر دلالت کرتا ہے.نیز اس کے طبرانی اور ابن عسا کرنے ابوامامہ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ وو ان رسول الله الله قال لخديجة اما شعرتِ انّ الله زوجنى مريم ابنة عمران و کلثوم اخت موسی و امرأة فرعون قالت هنيئاً لک یا رسول الله“ ( تفسیر فتح البیان.جلد 7 صفحہ 100.مطبوعہ دارالفکر العربی ) ترجمہ:.رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ نے میرا نکاح ( حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ) مریم بنت عمران، موسیٰ علیہ السلام کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی کے ساتھ کر دیا ہے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو.نبی کریم ﷺ کے یہ تینوں نکاح آسمانی تھے جن کی تعبیر اس رنگ میں پوری ہوئی کہ ان عورتوں کے خاندانوں کے بہت سے لوگ آنحضرت ﷺ پر ایمان لے آئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی پر ایمان لا کر مرزا احمد بیگ کے خاندان کے بہت سے افراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع میں آگئے جن میں سے بعض کے اسماء پہلے درج کئے جاچکے ہیں.پس جس خاندان کے ساتھ اس پیشگوئی کا براہ راست تعلق تھا وہ تو اس پیشگوئی کے مصدق ہو گئے مگر دوسرے اس پر محض اپنا بغض ظاہر کر رہے ہیں اور اس پیشگوئی کی آخری شق کو پورا کرنے میں مصروف ہیں.اعتراض چہارم :.یہ پیشگوئی الہامی تھی تو نکاح کے لئے حضرت مرزا صاحب نے خطوط وغیرہ کے ذریعہ کوشش کیوں کی ؟ الجواب:.پیشگوئی کو پورا کرنے کی کوشش کر نا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے.مثلاً آنحضرت ﷺ کو جنگ بدر کی فتح کا وعدہ دیا گیا تھا.اس کے باوجود آپ نے مقابلہ کے لئے ہر ممکن تیاری اور کوشش بھی کی اور دعا ئیں بھی انتہائی تفرع وابتہال اور گریہ وزاری کے ساتھ کیں.
214 ب: حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ کنعان کی زمین انہیں دی جائے گی.لیکن اس زمین کے حصول کیلئے آپ کی قوم نے کوشش نہ کی.یہ ایک ناپسندیدہ امر تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ زمین ان پر چالیس سال کے لئے حرام کر دی گئی.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ يَقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدِّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ “ (المائده: 22) ترجمہ :.اے میری قوم ! ارضِ مقدسہ ( کنعان ) میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ چھوڑی ہے.یہاں’كتب الله لکم“ کے الفاظ صریحاً پیشگوئی پر دلالت کر رہے ہیں.مگر قوم نے جواب یہ دیا کہ فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُونَ “ (المائده:25) ترجمہ :.پس جاتو اور تیرا رب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے.اس پر خدا تعالیٰ نے ان پر وہ زمین چالیس سال کے لئے حرام کر دی اور ان کیلئے سرگردان پھرنا مقدر کر دیا.کیا معترضین کے نزدیک ان کا یہ جواب ایک پسندیدہ امر ہے؟ سچ یہ ہے کہ پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے کوشش نہ کرنا یقیناً ناپسندیدہ امر ہے.اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنا خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق اور اس کی تقدیر کے رُخ پر چلنے کے مترادف ہے اور یہی سنتِ انبیاء ہے.پس پیشگوئی پر یہ اعتراض کہ اس کو پورا کرنے کے لئے کوشش کیوں کی ؟ بہر حال ایک ناپسندیدہ سوال ہے.(2) آتھم کی موت سے متعلق پیشنگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی پر راشد علی وغیرہ کے اعتراض کا مکمل جواب کتاب Three in One میں دیا جا چکا ہے.اس کے باوجود اس کو پھر پیش کرنا ان کی معقولیت پر نہیں ، اندھی تکذیب میں ہٹ دھرمی پر دلالت کرتا ہے.اگر تو یہ اس جواب پر علمی طور پر دلائل کے ساتھ بحث کرتے اور یہ ثابت کرتے کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو ایسی صورت میں ہم علمی دلائل کے ساتھ اس کا رڈ کرتے.چونکہ
215 وہ علمی طور پر اس جواب کو ر ڈ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے ایک ہی نامعقول رٹ لگا کر تکذیب پر مصر ہیں.بہر حال با وجود اس کے کہ اس کا جواب انہیں پہلے دیا جا چکا ہے، یہاں قدرے اختصار سے ہم اس کے بعض پہلو ہدیہ قارئین کرتے ہیں تا کہ ایک حد تک حقیقت حال کا عمومی خاکہ ان کے سامنے آجائے.پادری عبداللہ آ تم وہ بد بخت شخص ہے جس نے اسلام کو اور بانی اسلام ﷺ کو نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مناظرہ کیا تھا، جو جنگ مقدس“ کے نام سے کتابی صورت میں شائع شدہ ہے.اس مناظرے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام اور بانی اسلام کی حقانیت کو عقلی نفلی ، تاریخی ، واقعاتی اور روحانی دلائل کے ساتھ کما حقہ ثابت فرمایا.اس طرح اسلام کو ایک کھلا کھلا غلبہ نصیب ہوا.اسی شکست خوردہ پادری عبداللہ آتھم نے ،جس کی وکالت آج ڈاکٹر راشد علی، اور اس کے ہمنو اوغیرہ کرتے ہیں، ایک کتاب ” اندرونہ بائیبل “ بھی لکھی تھی جس میں اس نے ہمارے آقاو مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو ( معاذ اللہ ) دجال لکھا تھا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا کی غیرت میں تڑپ کر خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ایک پیشگوئی کا انکشاف فرمایا.آپ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے.سواس نے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور بچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی.بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.اور جو شخص سچ پر ہے اور نیچے خدا کو مانتا ہے اس کی عزت ظاہر ہوگی....66 ( جنگ مقدس.آخری پر چہ.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 292,291) الہامی الفاظ ہادیہ میں گرایا جائے گا“ کا مفہوم اجتہاد کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سمجھا کہ عبداللہ آتھم بسزائے موت ہاویہ ( دوزخ) میں گرایا جائے گا.چنانچہ اسی پیشگوئی کے آخر میں آپ
216 فرماتے ہیں: میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ آج کی تاریخ سے پندرہ ماہ میں بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں.مجھے ذلیل کیا جائے.روسیاہ کیا جائے.میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے.مجھ کو پھانسی دی جائے.میں ہر سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں.“ یہ پیشگوئی ایسی پر ہیبت تھی کہ پادری عبد اللہ آتھم لرز کر رہ گیا.یہ اس کی طرف سے رجوع الی الحق کا آغاز تھا.اور اس کے بعد، مرتے دم تک اس نے ایک لفظ بھی اسلام یا آنحضرت ﷺ کے خلاف نہ لکھا.اس نے اس حد تک رجوع الی الحق کیا کہ وہ دلی طور پر عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح سے بھی متفق نہ رہا.چنانچہ اس نے اخبار ” نور افشاں 21 ستمبر 1894ء کی اشاعت میں یہ اعلان بھی شائع کرایا کہ وہ عیسائیوں کے عقیدہ ابنیت والوہیت کے ساتھ متفق نہیں.اس کے خوف سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اطلاع دی.جس کا ذکر آپ نے اپنی کتاب انوار الاسلام صفحہ 2 ،3 پر تحریر فرمایا.پس عبد اللہ آتھم نے پیشگوئی کے الہامی الفاظ بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے“ سے فائدہ اٹھایا اسلئے خدا تعالیٰ نے اسے مہلت دی اور وہ پندرہ ماہ کے اندر نہ مرا.اس عرصہ میں وہ انتہائی ہم وغم میں مبتلا رہا یہانتک کہ اس پر دیوانہ پن کی حالت طاری ہوگئی اور وہ مسلسل اسی اذیت ناک حالت میں رہا.اس کی اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: الہامی پیشگوئی کے رعب نے اس کے دل کو ایک کچلا ہوا دل بنادیا.یہانتک کہ وہ سخت بے تاب ہوا اور شہر بشہر اور ہر ایک جگہ ہراساں اور ترساں پھرتا رہا اور اس مصنوعی خدا پر اس کا تو کل نہ رہا جس کو خیالات کی کجی اور ضلالت کی تاریکی نے الوہیت کی جگہ دے رکھی ہے.وہ کتوں سے ڈرا اور سانپوں کا اس کو اندیشہ ہوا اور اندر کے مکانوں سے بھی اس کو خوف آیا اور اس پر خوف اور وہم اور دلی سوزش کا غلبہ ہوا اور پیشگوئی کی پوری ہیبت اس پر طاری ہوئی اور وقوع سے پہلے ہی اس کا اثر اس کو محسوس ہوا اور بغیر اس کے کہ کوئی اس کو امرتسر سے نکالے آپ ہی ہراسان و ترسان و پریشان اور بے تاب ہو کر شہر بشہر بھاگتا پھرا.اور خدا نے اس کے دل کا رام چھین لیا اور پیشگوئی سے سخت متاثر ہو کر سراسیموں اور خوفزدوں کی طرح جا بجا بھٹکتا
217 پھرا اور الہام الہی کا رعب اور اثر اس کے دل پر ایسا مستولی ہوا کہ راتیں ہولناک اور دن بیقراری سے بھر گئے........اس کے دل کے تصوروں نے عظمت اسلامی کورڈ نہ کیا بلکہ قبول کیا.اس لئے وہ خدا جو رحیم و کریم اور سزا دینے میں دھیما ہے اور انسان کے دل کے خیالات کو جانچتا اور اس کے تصورات کے موافق اس سے عمل کرتا ہے اس نے اس کو اس صورت پر بنایا جس صورت میں فی الفور کامل ہاویہ کی سزا یعنی موت بلا توقف اس پر نازل نہ ہوتی.اور ضرور تھا کہ وہ کامل عذاب اس وقت تک تھمار ہے جب تک کہ وہ بے باکی اور شوخی سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا نہ کرے اور الہام الہی نے بھی اسی طرف اشارہ 66 کیا تھا کیونکہ الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کے آنے کا وعدہ تھا.نہ مطلق بلاشرط وعدہ.“ نیز تحریر فرمایا: وو (انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 5,4) یہ غیر ممکن ہے کہ خدا اپنے قرار دادہ وعدہ کو بھول جائے کیونکہ شرائط کا لحاظ رکھنا صادق کے لئے ضروری ہے اور خدا اصدق الصادقین ہے.ہاں جس وقت مسٹر عبد اللہ آتم اس شرط کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور اپنے لئے شوخی اور بے باکی سے ہلاکت کے سامان پیدا کرے تو وہ دن نزدیک آجائیں گے اور سزائے ہادیہ کامل طور پر نمودار ہوگی اور یہ پیشگوئی عجیب طور پر اپنا اثر دکھائے گی.“ 66 (انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 5) ان تحریروں سے یہ بات بالکل کھل جاتی ہے کہ عبد اللہ آتھم نے پیشگوئی میں مذکور شرط بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے“ سے فائدہ اٹھایا اور ابتدائی طور پر خدا تعالیٰ کے رحم کے نیچے آ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو اس صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے غیر مبہم الفاظ میں تنبیہ کر دی تھی کہ اب اس پیشگوئی کی معین اور آخری صورت یہ ہے کہ بے باکی اور شوخی کے ظہور پر یعنی رجوع الی الحق کے ماننے سے انکار کرنے پر یا رجوع الی الحق کی صورت کو کسی تدبیر سے مشتبہ بنانے کی صورت میں اس کی ہلاکت کے دن نزدیک آجائیں گے اور پھر موت کے ذریعہ سزائے ہاویہ کا وہ جلد شکار ہو جائے گا.اور پیشگوئی کا اثر غیر معمولی رنگ میں ظاہر ہوگا.گویا اب یہ پیشگوئی پادری ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی بے باکی اور شوخی سے معلق ہوگئی.ادھر حالات یہ پیدا ہوئے کہ جب عبد اللہ آتھم رجوع الی الحق کی شرط سے فائدہ اٹھا کر پندرہ ماہ
218 کے اندر مرنے سے بچ گیا تو عیسائیوں نے اپنی جھوٹی فتح کا نقارہ بجایا، جلوس نکالے اور خوب شور وشتر اور ہنگامہ آرائی کی اور مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ رویہ اختیار کیا اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی اور آپ سے بغض رکھنے والے راشد علی جیسے لوگ بھی ان کے ہمنوا بن گئے.ان حالات میں خدا تعالیٰ سے الہام پا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عبد اللہ آتھم کو مباہلہ کا چیلنج دیا اور اس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی رکھا.اس دعوت مباہلہ میں آپ نے اسے یہ بھی لکھا کہ اگر وہ وو...تین مرتبہ ان الفاظ کا اقرار کریں کہ اس پیشگوئی کے عرصہ میں اسلامی رعب ایک طرفہ العین کے لئے بھی میرے دل پر نہیں آیا اور میں اسلام اور نبی اسلام " کو ناحق سمجھتا رہا اور سمجھتا ہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسی کی ابنیت اور الوہیت پر یقین رکھتا رہا اور رکھتا ہوں اور ایسا ہی یقین جو فرقہ پروٹسٹنٹ عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلاف واقعہ کہا ہے اور حقیقت کو چھپایا ہے تو اے قادر! مجھ پر ایک برس میں عذاب موت نازل کر.اس دعا پر ہم آمین کہیں گے اور اگر دعا کا ایک سال تک اثر نہ ہوا اور وہ عذاب نازل نہ ہوا جو جھوٹوں پر نازل ہوتا ہے تو ہم ہزار روپیہ مسٹرعبداللہ آتھم صاحب کو بطور تاوان دیں گے.“ (انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 6) یہ ایک فیصلہ کن اور جامع پیشکش تھی جس سے نہ فرار کی کوئی راہ اس کے لئے باقی رہتی تھی اور نہ حق کو چھپانے کا کوئی حیلہ.اس پیشکش کے آخر میں آپ نے یہ اعلان بھی فرمایا: پس یقینا سمجھو کہ اسلام کو فتح حاصل ہوئی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ بالا ہوا اور کلمہ اسلام اونچا ہوا اور عیسائیت نیچے گری.“ پادری عبد اللہ آتھم نے اس سے گریز کی راہ اختیار کی تو آپ نے اسے دو ہزار روپیہ کا چیلنج دیا.اس کو بھی قبول کرنے کی اس میں جرات نہ ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے رجوع الی اللہ کو ظاہر کرنے کی بھی ہمت نہ کر سکا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو تیسرا چیلنج دیا جو تین ہزار روپیہ کا تھا.اس میں آپ نے اس پر تجبت تمام کرنے کے لئے اسے مؤکد بعذاب قسم کھانے کی بھی تحریض کی.پادری عبد اللہ آتھم نے اس چینج پر اپنے دو عذر پیش کئے.اوّل یہ کہ قسم کھانا ان کے مذہب میں ممنوع ہے.دوم یہ کہ پیشگوئی کے زمانہ میں وہ ڈرے تو ضرور ہیں مگر پیشگوئی کے اثر سے نہیں بلکہ اس لئے کہ
219 کہیں ان کو قتل نہ کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے دونوں عذرات اپنے ایک اور اشتہار میں جس میں چار ہزار انعام دینے کا وعدہ تھا، توڑ دیئے.پادری عبداللہ آتھم اس کا کوئی جواب نہ دے سکا.اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ میں اپنا آخری الہام درج فرمایا کہ ” خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ میں بس نہیں کروں گا جب تک قومی ہاتھ نہ دکھلا دوں اور شکست خوردہ گروہ کی سب پر ذلت ظاہر نہ کر دوں.“ آپ نے اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے یہ حتمی نوٹ لکھا کہ ” اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرما نہیں اور تقدیر مبرم ہے.اور اگر تم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالی ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا.جس نے حق کا اخفاء کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا....6 (اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ.مندرجہ انوار الاسلام ) اس چار ہزار روپیہ کے انعامی اشتہار کے بعد عبد اللہ انتقم مقسم کھانے پر آمادہ نہ ہوا بلکہ اس کا مقسم سے انکار کمال کو پہنچ گیا.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یکے بعد دیگرے تین اشتہار اور بھی دیئے جن میں سے آخری اشتہار 30 دسمبر 1895ء کو دیا گیا.اس میں آپ نے آخری اور فیصلہ کن الفاظ تحریر فرمائے کہ اگر پادری صاحبان ملامت کرتے کرتے ان ( آتھم ) کو ذبح بھی کر ڈالیں ، جب بھی وہ میرے مقابل پر قسم کھانے کے لئے ہر گز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہو گئی.میری سچائی کے لئے یہ نمایاں دلیل کافی ہے کہ آتھم صاحب میرے مقابل پر میرے مواجہہ میں ہر گز ختم نہیں اٹھا ئیں گے اگر چہ عیسائی لوگ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں.اگر وہ قسم کھا لیں تو یہ پیشگوئی بلا شبہ دوسرے پہلو پر پوری ہو جائے گی.خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.“ (اشتہار - 30 دسمبر 1895 ء.مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 204) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آتھم کو تم کھانے کے علاوہ نالش کرنے کی بھی ترغیب دی تھی لیکن
220 آتھم نے نہ قسم کھائی اور نہ نائش کی اور اس طریق سے بتادیا کہ ضرور اس نے رجوع بحق کیا تھا اور چونکہ اس نے علانیہ طور پر زبان سے اس رجوع کا اظہار نہیں کیا اس لئے خدا نے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑا.اور اخفائے حق کی سزا میں آخری اشتہار سے جو 30 دسمبر کو شائع ہوا، سات ماہ کے اندر الہی گرفت میں آ گیا اور 26 جولائی 1896ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کی سچائی اور عیسائیت کی شکست کو ظا ہر کر گیا.یہ پیشگوئی چونکہ رجوع الی الحق کی شرط کے ساتھ مشروط تھی اس لئے اس نے جس حد تک اس شرط سے فائدہ اٹھایا، اس حد تک اسے بصورت موت ہاویہ میں گرنے سے مہلت مل گئی گو جب تک وہ زندہ رہا عملاً ایک دوزخ میں ہی رہا اور ہر پل ہاویہ میں سلگتا رہا.لیکن حق کو چھپانے کی وجہ سے بالآخر وہ خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہ سکا اور پیشگوئی کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہوا بسزائے موت فی الحقیقت ہادیہ میں گرایا گیا.آخر میں ہم راشد علی کی توجہ اس بحث کی طرف مبذول کرا دیتے ہیں جو گستاخان رسول پر لعنت اور راشد علی کی غیرت کے باب میں جواب نمبر ۴ میں ” مولوی جھوٹے ہیں“ کے عنوان کے تحت مذکور ہے.اس جگہ اس کے پیش رو مولویوں نے بھی آتھم کی پیشگوئی کی بابت قسم نہ کھا کر اس کی صداقت پر مبر تصدیق ثبت کی تھی اور آج راشد علی ان کے ساتھ شامل ہو کر اپنے جھوٹے ہونے کا کھلا کھلا ثبوت پیش کر رہا ہے.(3) دو عورتوں ( بیوہ اور باکرہ ) سے شادی کا الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس الہام کا راشد علی کے پیر عبدالحفیظ نے ذکر کیا ہے اور اس کے وو الفاظ کی ترتیب کو بدل کر دھوکا دینا چاہا ہے، وہ ہے ” بكر وثيب، جس کا ترجمہ ہے ” کنواری اور بیوہ اس الہام کی توجیہ شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی کبھی کہ یہ الہام ایک کنواری سے اور ایک بیوہ
221 سے شادی کے بارہ میں ہے.اس کا ذکر آپ نے اپنی کتاب ” تریاق القلوب میں فرمایا ہے.اس الہام سے بیوہ سے شادی کا اجتہاد اس وجہ سے تھا کہ تو بہ توڑ دینے کی وجہ سے محمدی بیگم کے شوہر سلطان محمد صاحب کی موت ہوگی اور وہ بیوہ ہو جائے گی.ایسی صورت میں اس سے شادی ہوگی.چونکہ سلطان محمد صاحب نے حقیقی توبہ کی او مخالفین کے بار بار انگیخت کرنے پر بھی تو بہ نہ توڑی تو وہ اس موت سے بچ گئے جو ان کے لئے عدم تو بہ کے ساتھ مشروط تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت مستمرہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اس اجتہاد پر قائم نہ رہنے دیا جو عدم تو بہ کی وجہ سے سلطان محمد صاحب کی موت ، اور اس کی موت کے بعد اس کی بیوہ سے شادی کے بارہ میں تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے 16 فروری 1906ء کو آپ پر یہ الہام نازل فرمایا تـكـفـیـک هـذه الامراة “ کہ تمہارے لئے یہ عورت ( جو تمہارے نکاح میں ہے ) کافی ہے.اس الہام کے نازل ہونے پر آپ نے اپنے پہلے اجتہاد میں اصلاح فرمالی.اس جدید اجتہاد سے جو الہام جدید کی روشنی میں کیا گیا آپ کا پہلا اجتہاد جس میں آپ محمدی بیگم کے خاوند کے تو بہ توڑنے کو اور اس کے بعد نکاح کو ضروری قرار دیتے تھے قابل حجت نہ رہا.پس یہ پیشگوئی اپنی الہامی شرط کے مطابق ظہور پذیر ہوگئی.مذکورہ بالا الہام ” بکر و ثیب “ کا اطلاق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب ” نزول اسیح ย 66 (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 524 525) میں حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم پر کیا.جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں جب آئیں گی کنواری ہوں گی ، مگر بیوہ رہ جائیں گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.علاوہ ازیں اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پہلے ہوگی اور آپ حضور علیہ السلام کی زندگی میں فوت نہ ہوں گی.پس یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اور بعینہ الہام میں بیان شدہ الفاظ کی ترتیب ” بکر و تیب “ کے مطابق پوری ہوئی.(4) مکہ اور مدینہ میں مرنے کی پیشگی اطلاع اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے.جس دن آپ کو یہ الہام ہوا
222 ، اس دن آپ کو حسب ذیل دو اور الہام بھی ہوئے.1 ـ كتب الله لا غلبن انا ورسلى - سلام قولا من رب رحیم.ان کے ساتھ تیسرا الہام یہ تھا کہ ” ہم مکہ میں مریں گے یا مد ینہ میں“ اس کی وضاحت کرتے ہوئے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: 1.خدا نے ابتداء سے مقدر کر چھوڑا ہے کہ وہ اور اس کے رسول غالب رہیں گے.2.خدا کہتا ہے کہ سلامتی ہے یعنی خائب و خاسر کی طرح تیری موت نہیں ہوگی.اور یہ کلمہ کہ ” ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں اس کے یہ معنے ہیں کہ قبل از موت مگی فتح نصیب ہوگی جیسا کہ وہاں کے دشمنوں کو قہر کے ساتھ مغلوب کیا گیا تھا.اسی طرح یہاں بھی دشمن قہری نشانوں سے مغلوب کئے جائیں گے.دوسرے یہ معنے ہیں کہ قبل از موت مدنی فتح نصیب ہوگی خود بخو دلوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہو جائیں گے.فقرہ كَتَبَ اللهُ لاَ غْلِبَنَّ انَا وَرُسُلِی مکہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فقرہ سلاماً سلاماً مدینہ کی طرف.“ البشری.جلد 2 صفحہ 106.و تذکرہ.صفحہ 591) پس اس تشریح کے مطابق یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات تک پوری شان سے پورا ہو چکا تھا.اس جگہ ملکہ اور مدینہ کے لفظ حقیقہ استعمال نہیں ہوئے بلکہ مجازاً استعمال ہوئے ہیں اور مجازی استعمال میں بڑی وسعت ہے.مجاز میں کبھی جگہ کا ذکر کر کے اس کے مکین مراد ہوتے ہیں اور کبھی اس جگہ کی حالت مراد ہوتی ہے.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَسَئَلَهُم عَنِ القَرْيَةِ الَّتِي كَانَت حَاضِرَةَ البَحرِ (الاعراف:164) یہاں قریہ سے بستی نہیں بلکہ بستی والے مراد ہیں.اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا: انا مدينة العلم.کہ میں علم کا شہر ہوں.اس سے مراد یہ ہے کہ شہر کی بھر پور حالت کی طرح میری علمی حالت ہے یعنی میں علم سے بھر پور ہوں.پس پیشگوئی مذکورہ بالا میں بھی لفظ مکہ اور لفظ مدینہ مجازی طور پر حالت اور کیفیت کے لئے استعمال ہوا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی بیان فرمودہ تشریح سے ظاہر ہے اور واقعات کی شہادت سے ثابت ہے.پس یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے لیکن تقاصر عنه افهام الرجال
223 را شد علی اور اس کے پیر کی سوچ اور سمجھ ہی اس تک نہیں پہنچی.(5) مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل گاڑی کی پیشگوئی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی نہیں بلکہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کا ایک تصوراتی اور توقعاتی نقشہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا ہے.کیونکہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا: "ولیتــركـن الـقـلاص فلا يسعى عليها کہ لازماً اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی.ہے کہ اس حدیث کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ریل کی ایجاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ” ذرا اس وقت کو سوچو کہ جب مکہ معظمہ سے کئی لاکھ آدمی ریل کی سواری میں ایک ہیئت مجموعی میں مدینہ کی طرف جائیگا یا مدینہ سے مکہ کی طرف آئیگا.پس اس بیان میں (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 196 ) ۱.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی پیشگوئی کوئی نہیں بلکہ اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیشگوئی کے پورا ہونے کی آرزو ہے جو انشاء اللہ پوری ہوگی.گولاکھوں آدمیوں کیمکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ جانے والا حصہ تو پورا ہو چکا ہے.۲.راشد علی اور اس کے پیر کا اعتراض حضرت نبی اکرم ﷺ کی اس مذکورہ بالا پیشگوئی پر پڑتا ہے نیز یہ اعتراض ہے بھی قبل از وقت.اس لئے قابل توجہ نہیں..یہ پیشگوئی ایک اور رنگ میں پوری ہو بھی چکی ہے کہ حاجیوں کے قافلے نئی ایجادوں یعنی بسوں وغیرہ پر
224 قطار در قطار ایک ریل کی صورت میں مدینہ سے مکہ اور مکہ سے مدینہ آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں.وو (6) منظور محمد کے ہاں بیٹا را شد علی اپنی ” بے لگام کتاب“ میں لکھتا ہے." مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے 19 جون 1906ء میں ان کے ایک عقیدتمند میاں منظور محمد صاحب کے اس بیٹے کے نام بذریعہ الہام بتائے جو بطور نشان پیدا ہو گا.وہ نام یہ تھے.1- كلمة العزیز 2 کلمتہ اللہ خان - 3 - وارڈ.4.بشیر الدولہ - 5- شادی خان - 6 - عالم کباب - 7 - ناصر الدین.8.فاتح الدین -9-هذا يوم مبارک مگر اللہ تعالیٰ کومرزا صاحب کی یہ پیشنگوئی پوری کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی.چنانچہ اس ” بطور نشان لڑکے کے بجائے لڑکی پیدا ہوئی جو کچھ ہی دنوں بعد مر گئی.یہی نہیں بلکہ کچھ عرصے بعد ان خاتون کا ہی انتقال ہو گیا تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے (تذکرہ:.مجموعہ الہامات مرز اصفحہ 646 ، 647 ، 656 طبع سوم ) بانسری !! وو "(656.647 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے بارہ میں تذکرہ کی اصل عبارت یہ ہے: دیکھا کہ منظور محمد صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اور دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی اور یہ معلوم ہوا بشیر الدولہ.آپ نے فرمایا: کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے.ممکن ہے کہ بشیر الدولہ کے لفظ سے یہ مراد ہو کہ ایسا لڑکا میاں منظور محمد کے پیدا ہو گا جس کا پیدا ہونا موجب خوشحالی اور دولتمندی ہو جائے اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ وہ لڑکا خودا قبال مند اور صاحب دولت ہو لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ کب اور کس وقت یہ لڑکا پیدا ہو گا.خدا نے کوئی وقت ظاہر نہیں فرمایا ممکن ہے کہ جلد ہو یا خدا اس میں کئی برس کی تاخیر ڈال دے.“ ( تذکر صفحہ 598 مطبوعہ 1969ء الشركة الاسلامیہ ربوہ ) اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف اور غیر مبہم الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ” معلوم نہیں منظور محمد سے کس کی طرف اشارہ ہے.“
225 آپ کی اس قطعی عبارت کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر آپ پر منظور محمد کی تعین نہیں فرمائی تھی.اس حقیقت سے کوئی معقول انسان انکار نہیں کر سکتا کہ الہامات الہیہ میں مذکور امور تعبیر طلب ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تعبیر کے لحاظ سے ” منظور محمد سے ظاہری طور پر پیر منظور محمد صاحب لدھیانوی بھی مراد لئے.مگر کسی ایک جگہ بھی ان کو الہام الہی کا حتمی مصداق قرار نہیں دیا.یعنی آپ نے کسی جگہ یہ ضروری قرار نہیں دیا کہ ” منظور محمد“ سے مراد پیر منظور محمد لدھیانوی ہی ہیں بلکہ فرمایا: ممکن ہے کہ بشیر الدولہ کے لفظ سے یہ مراد ہو کہ ایسا لڑکا میاں منظور محمد کے پیدا ہو گا.“ یعنی آپ نے ایک امکانی پہلو کے لحاظ سے میاں منظورمحمد کا نام بطور ایک مصداق کے اس پیشگوئی کی تعبیر میں لیا.حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک روئی تھی اور رویا ہیہ تعبیر کی محتاج ہوتی ہے.رویا میں اکثر نام صفات کے اعتبار سے بیان کئے جاتے ہیں جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے رویا میں دیکھا کہ دنیا کے خزانوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں فرمایا وضعت فی یدی کہ وہ میرے ہاتھ پر رکھی گئیں.( بخاری کتاب الرؤيا والتعبير باب المفاتيح في اليد ) اب اس موقع پر راشد علی کی سرشت کا انسان تو صاف کہہ دے گا کہ (نعوذ باللہ نعوذ باللہ ) آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی جھوٹی نکلی کیونکہ آپ کے ہاتھ میں وہ چابیاں نہیں آئیں.جبکہ پیشگوئی کے الفاظ میں آپ کے ہاتھ میں ہی ان چابیوں کا آنامذکور ہے.ہمارے عرفان کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کی یہ پیشگوئی پوری شان سے پوری ہوئی.کیونکہ تعبیر کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آنحضرت ﷺ کا نام صفاتی طور پر دیا گیا تھا اور آپ کو کنجیاں ملنے سے یہ مرا تھی کہ آپ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس زیر بحث رویا میں بھی صفاتی نام ہی مذکور تھا جس کی تعبیر بعد میں یہ ظاہر ہوئی کہ منظور محمد سے مراد صفاتی لحاظ سے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جو اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد ﷺ کے منظور نظر ہیں کیونکہ آپ کو آنحضرت ﷺ نے سلام “ بھیجا آپ ہی کے بارہ
226 میں فرمایا ” اِسْمُهُ اِسْمِی“ کہ اس کا نام میرا نام ہے اور فرمایا "رَجُلٌ مِنِی“ کہ وہ میرا آدمی ہے.پس اس پیشگوئی میں مذکور بچے کی تعبیر بعد میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے وجود میں ظہور میں آئی.چونکہ اس پیشگوئی کی تعبیر کا ظہور صفاتی اور معنوی رنگ میں ہونا مقد رتھا اس لئے بیٹے کی ولادت بھی اس کی صفات اور اس کے اوصاف کے ظہور کے ساتھ مقد تھی.جیسا کہ صوفیاء نے اس کو ولادت معنوی سے تعبیر کیا ہے.اس ولادت سے جسمانی طور پر بیٹے کی پیدائش مقصود نہ تھی.اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کے ذریعہ یہ خبر دی تھی کہ وہ کلمہ اللہ اور سلسلہ احمدیہ کی اقبال مندی کا نشان عنقریب اپنی عظیم الشان صفات کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہونے والا ہے.اس کی موعودہ صفات جو 1906 ء تک دنیا کی نظر سے مخفی تھیں اب ان کے ظہور کا وقت قریب آیا ہے.چنانچہ 1906ء ہی میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ پسر مسیح موعود یہ السلام نے عملی دنیا میں قدم رکھا اور آپ نے رسالہ تفخیذ الاذہان جاری فرمایا اور پھر کئی کلیدی فرائض سرانجام دیئے 1914ء میں 25 سال کی عمر میں آپ خلیفہ مسیح ہوئے اور اسی سال زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی جنگ عظیم کی صورت میں پوری ہوئی اور پھر پیشگوئی میں جو جو صفاتی نام اس بچہ کے بیان ہوئے تھے ان سب کا ظہور آپ کے وجود میں ہوا اور ان کی تعبیر آپ ہی کی ذات میں جلوہ گر ہوئی.راشد علی نے یہ بھی استہزاء کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی پوری کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی چنانچہ اس ” بطور نشان لڑکے کے بجائے لڑکی پیدا ہوئی جو کچھ ہی دنوں بعد مرگئی یہی نہیں بلکہ کچھ عرصے بعد ان خاتوں کا ہی انتقال ہو گیا تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری.“ یہ راشد علی کی محض بے با کی ہے.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواب کا ذکر فرمایا ہے وہاں یہ بھی واضح الفاظ میں تحریر فرمایا کہ ” ہم نہیں کہہ سکتے کہ کب اور کس وقت یہ لڑکا پیدا ہو گا خدا نے کوئی وقت ظاہر نہیں فرمایا ممکن ہے کہ جلد ہو یا خدا اس میں کئی برس کی تاخیر ڈال دے.“ پس در حقیقت پیشگوئی میں نہ منظور محمد سے لازمی طور پر میاں منظور محمد ، مراد تھے اور نہ ہی فوری طور پر بیٹے کی پیدائش کی تعین کی گئی تھی.
227 (8.7) ہم نے اسے قادیان کے قریب اتارا ہے.مکہ ، مدینہ اور قادیان کے نام قرآن کریم میں عزت کے ساتھ درج ہیں.راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حسب ذیل دو کشوف کو بھی اپنے فولڈر...Beware‘ میں ہدف اعتراض بنایا ہے.(i) No Doubt we have revealed it (Quran) in Qadian "انا انزلناه قريباً من القاديان“ (ii) Names of Makkah,Madina and Qadian are mentioned in Holy mentioned in Holy Quran with respect.' اس میں ایک بدیانتی تو راشد علی نے یہ کی ہے کہ Quran کو اپنی طرف سے بریکٹوں میں تحریر کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا قرآن کریم قادیان میں نازل ہوا ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کشف کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے قادیان میں اپنی بعثت کا ذکر فرمایا ہے.پس ایک تو یہ شیطانی ہے جو راشد علی نے کی ہیں.دوسرے یہ کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف ہے.جس کو اس شیطان نے اس ڈھنگ سے پیش کیا ہے کہ جس سے یہ تاثر ملے کہ گویا یہ ایک ظاہری واقعہ تھا ، لہذا قابلِ اعتراض ہے.امر واقع یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلی الفاظ میں لکھا ہے کہ یہ کشف تھا.آپ نے کبھی بھی اسے ظاہری واقعہ کے طور پر پیش نہیں کیا اور نہ ہی جماعت احمدیہ کا کوئی فردا سے ظاہری واقعہ کے طور پر پیش کرتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
228 " کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر مرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ انا انزلناہ قريباً من القادیان تو میں نے سنکر بہت تعجب کیا کہ کیا قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے؟ تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے.تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے.تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے.مکہ اور مدینہ اور قادیان.یہ کشف تھا جو کئی سال ہوئے کہ مجھے دکھلایا گیا تھا.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 140 حاشیہ ) ہر صاحب فہم انسان جانتا ہے کہ عموما کشوف تعبیر طلب ہوتے ہیں.چنانچہ ایک کشف کو لازمی طور پر ظاہری واقعہ کی شکل میں پیش کر کے موردِ الزام بنانا صرف اور صرف جھوٹوں اور شیطانوں کا کام ہے.کشوف کی عموما تعبیر ہوتی ہے.اگر انہیں ظاہر پر محمول کر کے اور ظاہری واقعہ قرار دے کر مور وطعن بنایا جائے تو نہ صرف یہ کہ عالم اسلام میں کوئی بزرگ ایسے طعن سے بچ نہیں سکتا بلکہ خدا تعالیٰ کے مقدس انبیاء بھی اس شیطان را شد علی کی کچلیوں کی زد میں آتے ہیں.اس کے ثبوت کے لئے ذیل میں صرف چند آئمہ اور بزرگوں کے کشوف درج کئے جاتے ہیں.ا.حضرت امام ابوحنیفہ نے دیکھا کہ: آنحضرت ﷺ کی استخوان مبارک لحد میں جمع کر رہے ہیں.ان میں سے بعض کو پسند کرتے 66 ہیں اور بعض کو نا پسند.چنانچہ خواب کی ہیبت سے بیدار ہو گئے.“ ۲.اور حضرت سید عبدالقادر جیلانی " فرماتے ہیں: وو (تذکرۃ الاولیاء.باب 18 - کشف المحجوب مترجم ارد صفحه 106) رايـت فـي الـمـنـام كـانـي في حجر عائشة ام المؤمنين رضى الله عنها وانا ارضع 66 ثديها الايمن ثم اخرجت ثديها الايسر فارضعته فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم “ (قلائد الجواهر فی مناقب الشيخ عبد القادر جیلانی".مطبوعہ مصرصفحہ 57)
229 ترجمہ:.میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عائشہ کی گود میں ہوں اور ان کے دائیں پستان کو چوس رہا ہوں.پھر میں نے بایاں پستان باہر نکالا اور اس کو چوسا.اس وقت آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے.یہ تو امت کے مسلمہ بزرگوں کے کشوف میں سے صرف دوکشف نمونہ کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کئے گئے ہیں.اب دیو بندیوں کے مشہور بزرگ حضرت شاہ محمد آفاق (متوفی 14 اگست 1835ء ) کے اس کشف کو بھی پڑھ لیں جو انہوں نے اپنے ایک مرید فضل الرحمان گنج مراد آبادی کو بتایا.چنانچہ حضرت...ہادی شریعت وطریقت ، واقف اسرار حقیقت و معرفت ، مرجع خواص وعوام ، قطب دوران ، غوث زمان مرشد نا و مولانا فضل الرحمان صاحب دامت برکاتہم و علمت فیوضاتہم کی زبان فیض ترجمان سے ارشاد ہوا کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ ہمارے گھر میں جاؤ.مجھے جاتے ہوئے شرم آئی.اس لئے تامل کیا.حضرت نے مکتر رفرمایا کہ جاؤ.ہم کہتے ہیں.میں گیا.اندر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف رکھتی تھیں.آپ نے سینہ مبارک کھول کر مجھے سینہ سے لگالیا اور بہت پیار کیا.“ دو ارشا در حمانی و فضل یزدانی.صفحہ 50.شائع کردہ درویش پر لیس دہلی 1945ء) پس تعجب ہے راشد علی اور اس کے پیر کی عقل پر کہ اگر کوئی کشف میں مکہ ، مدینہ اور قادیان کے نام قرآن کریم میں دیکھ لے تو یہ شور مچادیتے ہیں لیکن مولا نا فضل الرحمان کے اس ارشاد مذکورہ بالا کو پڑھ کر انہیں شرم تک نہیں آتی.حقیقت یہ ہے کہ کشوف تعبیر طلب ہوتے ہیں اور اگر ان کی عقل و سمجھ اور بصیرت کے مطابق مناسب تعبیر نہ کی جائے تو نتائج انتہائی بھیا نک ہو جاتے ہیں جس کے ذمہ دار صاحب رؤیا و کشوف بزرگ نہیں بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان کشوف کی غیر مناسب تعبیر کرتے ہیں یا تعبیر کی بجائے اسے ظاہر پر محمول کر کے پھر اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہیں.
230 (9) قرآن خدا کا کلام اور میرے منہ کی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اردو الہام " قرآن خدا کا کلام اور میرے منہ کی باتیں ہیں“ کا ترجمہ، راشد علی یہ کرتا ہے کہ."Quran is Gods book and words of my mouth".(Beware...) یہ تحریر کر کے وہ نامعلوم کیا ثابت کرنا چاہتا ہے.اس الہام کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود یہ بیان فرمائی کہ ” خدا کے منہ کی باتیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے منہ کی باتیں.اس طرح ضمائر کے اختلاف ( ملفوظات جلد 9 صفحہ 308 ) کی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں.“ اس الہام میں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے بے نظیر، خالص اور محفوظ ہونے کی وضاحت فرمائی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام، جن پر یہ الہام نازل ہوا ہے، خود اس کی تشریح یہ بیان کرتے ہیں کہ اس میں ” میرے منہ سے مراد خدا تعالیٰ کا منہ ہے.اور ” میرے“ کی ضمیر خدا تعالیٰ کی طرف راجع ہے.تو اس وضاحت کے بعد کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ آپ کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو آپ نے کہی ہی نہیں.قرآن شریف میں انصراف ضمائر کی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے.وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَى بَلَدٍ مَيِّتٍ (فاطر:10) ترجمہ :.اور اللہ وہ ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے جو بادل کو اٹھاتی ہیں.پھر ہم اس کو ایک مردہ ملک کی طرف ہانک کر لے جاتے ہیں.یہاں پہلے اللہ تعالیٰ کے لئے غائب کی ضمیر کا استعمال کیا گیا ہے.پھر اچانک انصراف کر کے اسے متکلم کی طرف پھیر دیا گیا ہے.چنانچہ فَسُقْناہ میں ”نا“ کی ضمیر بظاہر انسانوں کی طرف معلوم ہوتی 66 ہے مگر دراصل یہاں ”نا“ سے مراد بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے.پس ایسی مثالیں خدا تعالیٰ کے کلام میں پائی جاتی
231 ہیں مگر راشد علی کو خدا تعالے کا یہ طرز کلام صرف پسند ہی نہیں بلکہ اس کے نزدیک سخت قابلِ اعتراض بھی ہے.(10) دعوت اعجاز نمائی پر اعتراض اور پنڈت دیا نند کی وکالت را شد علی اور اس کا پیر پھر اپنی ” بے لگام کتاب میں از راہ تبلیس رقمطراز ہیں.وو قادیانی معجز نمائیاں :.مرزا صاحب نے اعلان کیا کہ جو کوئی اسلام کی حقانیت کا نشان دیکھنا چاہے وہ ایک سال قادیان میں ان کے ساتھ قیام کرے.اس عرصے میں کچھ نہ کچھ دیکھ لے گا.اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہوا تو 100 روپے حرجانہ مرزا صاحب ادا کریں گے مگر اللہ کے فضل سے یہ نام نہاد مسیح موعود چونکہ خود کسی قسم کے معجزات دکھانے پر قادر نہ تھے اس لئے ہر وہ ہتھکنڈہ تاویل پیش کرتے تھے جس سے ان کی جان چھوٹ جائے اور ان کو کسی قسم کا خارق عادت معجزہ نہ دکھلانا پڑے.مرزا صاحب کی بدقسمتی سے آریہ سماج کے پنڈت دیانند صاحب تیار ہو گئے کہ 100 روپے مرزا صاحب کسی بینک میں جمع کرا دیں.وہ ایک سال قادیان میں رکیں گے.جب مرزا صاحب نے دیکھا کہ یہ بلا تو گلے ہی پڑ گئی ہے تو نت نئی اور غیر معقول شرائط عائد کرنا شروع کر دیں.مثلاً اس ایک سال میں پورے ہندوستان سے کوئی دوسرا آریہ ہندو مرزا صاحب سے شرط کے مطابق پیسوں کا مطالبہ نہیں کرے گا.دوسری شرط یہ عائد کی کہ نشان دیکھنے کے بعد اگر مسلمان نہ ہو تو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا.تیسری شرط یہ تھی کہ نشان دیکھنے کے بعد پنڈت صاحب کے تمام معتقدین اسلام کی حقانیت کا اقرار کریں ورنہ جرمانہ ادا رئیس قادیان ج اول ص 100 ) و کریں.اگر حضور ملکہ معظمہ میرے تصدیق دعوے کے لئے مجھ سے نشان دیکھنا چاہئیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہو کہ وہ نشان ظاہر ہو جاوے.لیکن اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور میں جھوٹا نکلوں تو میں اس سزا میں راضی ہوں کہ حضور ملکہ معظمہ کے پایہ تخت کے آگے پھانسی دیا جاؤں.“ (تحفہ قیصر بدروحانی خزائن جلد 12 صفحہ 276 حاشیہ “ (i) حقیقت یہ ہے کہ راشد علی اور اس کے پیر کا خون کھول اٹھتا ہے جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کے فتح نصیب جرنیل کی شان میں دیکھتے ہیں اور وہ بہت ہی تلملاتے ہیں جب آپ دیگر مذاہب کے مذہبی اور سیاسی راہنماؤں اور بادشاہوں کو مخاطب کر کے، ان پر اسلام کی حجت قائم فرماتے ہیں.
232 پہلے تو یہ پیر اور مرید عیسائیوں کے لئے اپنی غیرت کا اظہار کرتے تھے اب ہندوؤں کی وکالت میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف منہ میں کف بھرنے لگے ہیں.اول تو مذکورہ بالا کتاب ” رئیس قادیان ، جس کا انہوں نے حوالہ دیا ہے، ہرگز جماعت احمدیہ کے لئے تجت نہیں ہے.اسکی کسی عبارت کو وجہ اعتراض نہیں بنایا جاسکتا.دوم یہ کہ جو کچھ راشد علی اور اس کے پیر نے اس کتاب کے حوالہ سے لکھا ہے تلبیس کو بروئے کار لاتے ہوئے حقائق کو چھپا کر لکھا ہے.اصل واقعہ کیا تھا؟ اسلام کو اس موقع پر ہندوؤں پر کیا فوقیت حاصل ہوئی اس کی مختصر اور کچی روئیداد یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پنڈت دیانند صاحب بانی آریہ سماج سے روحوں کے بے انت ہونے پر ایک تحریری مباحثہ اخبارات میں 1878ء سے چل رہا تھا.پنڈت دیانند جی نے بالمواجہ مباحثہ کے لئے بھی پیغام بھیجا.چنانچہ ان کے الفاظ یہ تھے.اگر ہمارے اس جواب میں کچھ شک ہو تو بالمواجہ بحث کرنی چاہئے.اس بارہ میں ان کا ایک خط بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آیا.اس خط میں انہوں نے بحث کا شوق ظاہر کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر یہ اعلان فرمایا کہ یہ بحث بالمواجہہ ہم کو بسر و چشم منظور ہے ! سوامی جی کو مقام بحث اور ثالث بالخیر اور انعقاد جلہ کی تجویز بذریعہ اخبار مشتہر کرنے کی دعوت دی گئی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا.یہ تمام خطوط مکتوبات احمد - جلد دوم میں چھپ چکے ہیں.اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سوامی جی نے پہلے تو روحوں کے بے انت ہونے کے مسئلہ کو ترک کر دیا اور دوسرے یہ کہ مباحثہ کے لئے انہیں ہمت اور حوصلہ نہ ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اعلان میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اگر سوامی صاحب نے اس اعلان کا کوئی جواب مشتہر نہ کیا تو بس یہ سمجھو کہ سوامی صاحب وو.صرف باتیں کر کے اپنے موافقین کے آنسو پونچھتے ہیں“ باوجود غیرت دلانے والے ان الفاظ کے بھی سوامی جی میدان میں نہ آئے.ان کی شکست کا متین ثبوت یہ بھی ہے کہ ان کی زندگی کے حالات لکھنے والے ان واقعات کوسرے سے ہی ہضم کر گئے.بہرحال حضرت اقدس نے یہ اعلان 10 جون 1878ء کو کیا تھا جس پر سوامی جی خاموش رہے.بالآخر 9 فروری
233 1979ء کو اخبارسفیر ہند میں حضرت اقدس نے پانسور و پیہ کا ایک انعامی اشتہار دیا جو متعدد بار متواتر شائع ہوا.اس اعلان میں حضرت اقدس نے سوامی دیانند صاحب کے متبعین کو بھی چیلنج دیا کہ دو ” وہ روحوں کا بے انت ہونا ثابت کریں اور نیز یہ کہ پر میشر کو ان کی تعداد معلوم نہیں“ اس اعلان پر آریہ سماج میں ایک کھلبلی سی پیدا ہوئی.اس وقت لاہور کی آریہ سماج بہت بڑی نمایاں سماج تھی.منشی جیوند اس صاحب اس کے سیکرٹری تھے.انہوں نے ایک اعلان کے ذریعہ انکار کر دیا کہ: آریہ سماج والے سوامی دیانند کے تو ابعین سے نہیں ہیں“ اور انہوں نے مسئلہ مذکورہ کے متعلق بھی لکھ دیا کہ آریہ سماج کے اصولوں میں داخل نہیں جو اس کا دعویدار ہو اس سے سوال کرنا چاہئے.“ پس آریہ سماج پر یہ اسلام کی ایک بین فتح تھی.جس کا راشد علی اور اس کے پیر کو بہت دُکھ ہے.ان کے موکل سوامی دیانند جی کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے قلم سے بھی حقیقت حال ملاحظہ فرمائیں.آپ فرماتے ہیں: اس احقر نے ان کو ان کی وفات سے ایک مدت پہلے راہ راست کی طرف دعوت کی اور آخرت کی رسوائی یاد دلائی اور ان کے مذہب اور اعتقاد کا سراسر باطل ہونا براہین قطعیہ سے ان پر ظاہر کیا اور نہایت عمدہ اور کامل دلائل سے بادب تمام ان پر ثابت کر دیا کہ دہریوں کے بعد تمام دنیا میں آریوں سے بدتر اور کوئی مذہب نہیں کیونکہ یہ لوگ خدائے تعالیٰ کی سخت درجہ پر تحقیر کرتے ہیں کہ اس کو خالق اور رب العالمین نہیں سمجھتے اور تمام عالم کو یہاں تک کہ دنیا کے ذرہ ذرہ کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں اور صفت قدامت اور ہستی حقیقی میں اس کے برابر سمجھتے ہیں.اگر ان کو کہو کہ کیا تمہارا پر میشر کوئی روح پیدا کر سکتا ہے یا کوئی ذرہ جسم کا وجود میں لا سکتا ہے یا ایسا ہی کوئی اور زمین و آسمان بھی بتا سکتا ہے یا کسی اپنے عاشق صادق کو نجات ابدی دے سکتا ہے اور بار بار کتا بلا بنے سے بچا سکتا ہے یا اپنے کسی محب خالص کی تو بہ قبول کرسکتا ہے تو ان سب باتوں کا یہی جواب ہے کہ ہر گز نہیں.اس کو یہ قدرت ہی نہیں کہ ایک ذرہ اپنی طرف سے پیدا کر سکے اور نہ اس میں یہ رحیمیت ہے کہ کسی اوتار یا کسی رکھی یا منی کو یا کسی ایسے کو بھی کہ جس پر ویدا تر اہو ہمیشہ کے لئے نجات دے اور پھر اس کا مرتبہ ملحوظ رکھ کر مکتی خانہ سے باہر دفع نہ کرے اور اپنے اس پیارے کو جس کے دل میں پر میشر کی
234 پر بیت اور محبت رچ گئی ہے بار بار کتا بلا بننے سے بچاوے.مگر افسوس کہ پنڈت صاحب نے اس نہایت ذلیل اعتقاد سے دست کشی اختیار نہ کی اور اپنے تمام بزرگوں اور اوتاروں وغیرہ کی اہانت اور ذلت جائز رکھی مگر اس ناپاک اعتقاد کو نہ چھوڑا.اور مرتے دم تک یہی ان کا ظن رہا کہ گو کیسا ہی اوتار ہو رام چندر ہو یا کرشن ہو.یا خود وہی ہو جس پر ویدا ترا ہے پر میشور کو ہرگز منظور ہی نہیں کہ اس پر دائمی فضل کرے.بلکہ وہ اوتار بنا کر پھر بھی انہیں کو کیڑے مکوڑے ہی بناتا رہے گا.وہ کچھ ایسا سخت دل ہے کہ عشق اور محبت کا اس کو ذرا پاس نہیں.اور ایسا ضعیف ہے کہ اس میں خود بخود بنانے کی ذرہ طاقت نہیں.یہ پنڈت صاحب کا خوش عقیدہ تھا جس کو پُر زور دلائل سے رڈ کر کے پنڈت صاحب پر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ خدائے تعالیٰ ہرگز ادھورا اور ناقص نہیں بلکہ مبدء ہے تمام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور مجمع ہے جمیع صفات کاملہ کا اور واحد لا شریک ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور مسعودیت میں اور پھر اس کے بعد دو دفعہ بذریعہ خط رجسٹری شده حقیقت دین اسلام سے بدلائل واضحہ ان کو متنبہ کیا گیا اور دوسرے خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ اسلام وہ دین ہے جو اپنی حقیقت پر دوہرا ثبوت ہر وقت موجود رکھتا ہے.ایک معقولی دلائل جن سے اصولِ حقہ اسلام کی دیوار روئیں کی طرح مضبوط اور مستحکم ثابت ہوتی ہیں.دوسری آسمانی آیات وربانی تائیدات اور غیبی مکاشفات اور رحمانی الہامات و مخاطبات اور دیگر خوارق عادات جو اسلام کے کامل متبعین سے ظہور میں آتے ہیں جن سے حقیقی نجات ایسے جہان میں بچے ایماندار کوملتی ہے.یہ دونوں قسم کے ثبوت اسلام کے غیر میں ہر گز نہیں پائے جاتے اور نہ ان کو طاقت ہے کہ اس کے مقابلہ پر کچھ دم مار سکیں.لیکن اسلام میں وجوداس کا متحقق ہے.سواگر ان دونوں قسم کے ثبوت میں سے کسی قسم کے ثبوت میں شک ہو تو اسی جگہ قادیان میں آکر اپنی تسلی کر لینی چاہئے اور یہ بھی پنڈت صاحب کو لکھا گیا کہ معمولی خرچ آپ کی آمد ورفت کا اور نیز واجبی خرچ خوراک ہمارے ذمہ رہے گا اور وہ خط ان کے بعض آریوں کو بھی دکھلایا گیا اور دونوں رجسٹریوں کی ان کی دستخطی رسید بھی آگئی پر انہوں نے جب دنیا اور ناموسِ دنیوی کے باعث اس طرف ذرا بھی توجہ نہ کی یہاں تک کہ جس دنیا سے انہوں نے پیار کیا اور ربط بڑھایا تھا آخر بصد حسرت اس کو چھوڑ کر اور تمام درہم و دینار سے مجبوری جدا ہو کر اس دار الفنا سے کوچ کر گئے اور بہت سی غفلت اور ظلمت اور ضلالت اور کفر کے پہاڑ اپنے سر پر لے گئے اور ان کے سفر آخرت کی خبر بھی کہ جوان
235 کو تمیں اکتوبر 1883ء میں پیش آیا تخمینا تین ماہ پہلے خداوند کریم نے اس عاجز کو دیدی تھی چنانچہ یہ خبر بعض آریہ کو بتلائی بھی گئی تھی.خیر یہ سفر تو ہر ایک کو در پیش ہی ہے اور کوئی آگے اور کوئی پیچھے اس مسافر خانہ کو چھوڑنے والا ہے مگر یہ افسوس ایک بڑا افسوس ہے کہ پنڈت صاحب کو خدا نے ایسا موقع ہدایت پانے کا دیا کہ اس عاجز کو ان کے زمانہ میں پیدا کیا مگر وہ با وصف ہر طور کے اعلام کی ہدایت پانے سے بے نصیب گئے.روشنی کی طرف ان کو بلایا گیا.مگر انہوں نے کم بخت دنیا کی محبت سے اس روشنی کو قبول نہ کیا اور سر سے پاؤں تک تاریکی میں پھنسے رہے.ایک بندہ خدا نے بارہا ان کو ان کی بھلائی کے لئے اپنی طرف بلایا مگر انہوں نے اس طرف قدم بھی نہ اٹھایا اور یونہی عمر کو بیجا تعصبوں اور نخوتوں میں ضائع کر کے حباب کی طرح ناپدید ہو گئے.حالانکہ اس عاجز کے دس ہزار روپیہ کے اشتہار کا اوّل نشانہ وہی تھے اور اسی وجہ سے ایک مرتبہ رسالہ برادر ہند میں بھی ان کے لئے اعلان چھپوایا گیا تھا مگر ان کی طرف سے کبھی صدا نہ اٹھی یہاں تک کہ خاک میں یا راکھ میں جاملے.“ یہ اصل روئیداد ہے راشد علی اور اس کے پیر کے پنڈت دیا نند کی.اسلام کی اس فتح پر اور پنڈت دیا نند کی شکست پر کسی کو صدمہ پہنچتا ہے یا تکلیف ہوتی ہے تو وہ خواہ بھاڑ میں جائے یا جہنم میں ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں.ہمیں تو یہ خوشی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے آریہ سماج کے مقابل پر اسلام کا بول بالا فر مایا.یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوؤں کی آریہ سماج اور برہموسماج کی تحریکوں نے ، جو اپنے شباب پر تھیں، اسلام کو اپنے اعتراضات کا نشانا بنایا ہوا تھا.گویا اسلام دشمنوں کے نرغہ میں گھر کر رہ گیا تھا.ان سب تحریکوں کا مقصد وحید اسلام کو کچل ڈالنا اور قرآن مجید اور بانی اسلام کی صداقت کو دنیا کی نگاہوں میں مشتبہ کرنا تھا.آریہ سماج دیدوں کے بعد کسی الہام الہی کی قائل نہ تھی اور برہموسماج والے سرے سے الہام الہی کے منکر تھے.اور مجر دعقل کو حصول نجات کے لئے کافی خیال کرتے تھے اور تعلیم یافتہ مسلمان یورپ کے گمراہ گن فلسفہ سے متاثر ہوکر اور عیسائی ملکوں کی ظاہری و مادی ترقیات کو دیکھ کر الہام الہی کے منکر ہورہے تھے اور ان حالات میں علماء کے گروہ کا حال یہ تھا کہ وہ آپس میں تکفیر بازی کی جنگ لڑ رہا تھا.(براہین احمدیہ.روحانی خزائن.جلد 1 صفحہ 635 تا 641 حاشیہ نمبر 1) اس ماحول میں جب کہ قرآن مجید کی حقیت اور آنحضرت ﷺ کی صداقت خود مسلمان کہلانے
236 والوں پر بھی مشتبہ ہو رہی تھی اور کئی ان میں سے عیسائیت کی آغوش میں بھی گر رہے تھے ، آپ نے براہین احمد یہ کتاب لکھی.جس میں آپ نے قرآن مجید کا کلام الہی اور مکمل کتاب اور بے نظیر ہونا اور آنحضرت کا اپنے دعوی نبوت ورسالت میں صادق ہونا، نا قابل تردید دلائل سے ثابت کیا اور ان دلائل کے مقابل پر کسی دشمن اسلام کے ایسے دلائل کے ثلث یار بع یا شمس پیش کرنے والے کے لئے دس ہزار روپیہ کا انعام مقرر کیا اور ہر مخالف اسلام کو مقابلہ کی کھلی کھلی دعوت دی.اس کتاب سے مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے جو سردار اہل حدیث تھے اس کتاب کا خلاصہ مطالب لکھنے کے بعد اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کی.” اب ہم اپنی رائے نہایت مختصر اور بے مبالغہ الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں.ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی.اور آئندہ کی خبر نہیں لعل الله يحدث بعد ذلک امراً.اور اس کا مولف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.ہمارے ان الفاظ کوکوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو.اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بیڑا اٹھا لیا ہو.اور مخالفین اسلام و منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام میں شک ہو وہ ہمارے پاس آ کر اس کا تجربہ و مشاہدہ کرلے اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھا دیا ہو.“ (اشاعۃ السنہ جلد 7 صفحہ 196 - مطبع ریاض ہند امرتسر ) 'براہین احمدیہ وہ عظیم الشان کتاب ہے جو اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اثبات صداقتِ
237 اسلام میں بے نظیر کتاب ثابت ہوئی جس کے مقابلہ سے تمام منکرین اسلام عاجز آ گئے اور اسلام کو فتح عظیم حاصل ہوئی.(ii) راشد علی اور اس کے پیر نے اس نشان نمائی پر بھی اعتراض کیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی حقانیت کے ثبوت کیلئے ملکہ وکٹوریہ کو پیش کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد وحیدا شاعت توحید الہی اور تبلیغ پیغامِ خداوندی تھا.اس لئے آپ نے ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کی تقریب پر بھی جو ماہ جون 1891ء میں بڑی دھوم دھام سے منائی جانے والی تھی.تبلیغ اسلام کا پہلو نکال لیا اور تحفہ قیصریہ" کے نام سے ایک رسالہ 25 مئی 1897 ء کو شائع فرمایا.اس رسالہ میں جو بلی کی تقریب پر مبارکباد کے علاوہ نہایت لطیف پر امیہ اور حکیمانہ انداز میں آنحضرت ﷺ اور اسلام کی صداقت کا اظہار اور ان اصولوں کا ذکر فرمایا جو امن عالم اور عالمگیر اخوت کی بنیاد بن سکتے ہیں.آپ نے اسلامی تعلیم کا خلاصہ بیان کر کے ملکہ معظمہ کولندن میں ایک جلسئہ مذاہب منعقد کرانے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ اس سے انگلستان کے باشندوں کو اسلام کے متعلق صحیح معلومات حاصل ہوں گی.پھر آپ نے عیسائیوں کے اس عقیدہ کی کہ مسیح صلیب پر مرکر ان کے لئے ملعون ہوا‘شناعت وقباحت ظاہر کی اور آپ نے ملکہ معظمہ کو یہ بتا کر کہ پیلاطوس نے یہودیوں کے رعب سے ایک مجرم قیدی کو تو چھوڑ دیا اور یسوع کو جو بے گناہ تھا نہ چھوڑا، درخواست کی کہ اے ملکہ! اس شصت سالہ جوبلی کے وقت جو خوشی کا وقت ہے تو یسوع کو چھوڑنے کے لئے کوشش کر.اور یسوع مسیح کی عزت کو اس لعنت کے داغ سے جو اس پر لگایا جاتا ہے اپنی مردانہ ہمت سے پاک کر کے دکھلا.آپ نے اپنے دعوی کی صداقت میں ملکہ موصوفہ کو نشان دکھانے کا وعدہ کیا.بشرطیکہ نشان دیکھنے کے بعد آپ کا پیغام قبول کر لیا جائے اور نشان ظاہر نہ ہونے کی صورت میں اپنا پھانسی دے دیا جانا قبول کر لیا اور فرمایا اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور میں جھوٹا نکلوں تو میں اس سزا پر راضی ہوں کہ حضور ملکہ معظمہ کے پایہ تخت
238 کے آگے پھانسی دیا جاؤں اور یہ سب الحاح اس لئے ہے کہ کاش ہماری محسنہ ملکہ معظمہ کو آسمان کے خدا کی طرف خیال آ جائے جس سے اس زمانے میں عیسائی مذہب بے خبر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ معظمہ کو اپنے اس رسالہ ” تحفہ قیصریہ“ میں پادریوں کے غلط عقائد سے آگاہ کیا اور خدا تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر لکھا کہ دو ” اس نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع دی ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح، خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے.لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے.ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کا ملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں.اور خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو میں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے یسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے اور اس سے باتیں کر کے اس کے اصل دعوئی اور تعلیم کا حال دریافت کیا ہے.یہ ایک بڑی بات ہے جو توجہ کے لائق ہے کہ حضرت یسوع مسیح ان چند عقائد سے جو کفارہ اور تثلیث اور ابنیت ہے.ایسے متنفر پائے جاتے ہیں کہ گویا ایک بھاری افترا جو اُن پر کیا گیا ہے وہ یہی ہے.یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں ہے بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے ان سے باتیں بھی کر سکتا ہے اور ان کی نسبت ان سے گواہی بھی لے سکتا ہے.کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے.یہ ایک ایسا تحفہ ہے جو حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ انگلستان و ہند کی خدمت عالیہ میں پیش کرنے کے لائق ہے.دنیا کے لوگ اس بات کو نہیں سمجھیں گے.کیونکہ وہ آسمانی اسرار پر کم ایمان رکھتے ہیں.لیکن تجربہ کرنے والے ضرور اس سچائی کو پائیں گے.میری سچائی پر اور بھی آسمانی نشان ہیں جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں اور اس ملک کے لوگ ان کو دیکھ رہے ہیں اب میں اس آرزو میں ہوں کہ جو مجھے یقین بخشا گیا ہے وہ دوسروں کے دلوں میں کیونکر اتارا
239 جائے.میرا شوق مجھے بیتاب کر رہا ہے کہ میں ان آسمانی نشانوں کی حضرت عالی قیصرہ ہند میں اطلاع دوں.میں یسوع مسیح کی طرف سے ایک سچے سفیر کی حیثیت میں کھڑا ہوں.میں جانتا ہوں کہ جو کچھ آجکل عیسائیت کے بارے میں سکھایا جاتا ہے یہ حضرت یسوع مسیح کی حقیقی تعلیم نہیں ہے.مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح دنیا میں پھر آتے تو وہ اس تعلیم کو شناخت بھی نہ کر سکتے.“ پھر آپ نے اسے یہ بھی لکھا کہ تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد 12 صفحه 272 تا274) کیا خوب ہو کہ جناب کو اس چھپی ہوئی تو ہین پر بھی نظر ڈالنے کے لئے توجہ پیدا ہو جو یسوع مسیح کی شان میں کی جاتی ہے.کیا خوب ہو کہ جناب مدوحہ دنیا کی تمام لغات کے رو سے عموما اور عربی اور عبرانی کے رو سے خصوصاً لفظ لعنت کے مفہوم کی تفتیش کریں.اور تمام لغات کے فاضلوں کی اس امر کے لئے گواہیاں لیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ملعون صرف اس حالت میں کسی کو کہا جائے گا جب کہ اس کا دل خدا کی معرفت اور محبت اور قرب سے دور پڑ گیا ہو.اور جبکہ بجائے محبت کے اس کے دل میں خدا کی عداوت پیدا ہوگئی ہو.اسی وجہ سے لغت عرب میں لعین شیطان کا نام ہے.پس کس طرح یہ نا پاک نام جو شیطان کے حصہ میں آ گیا.ایک پاک دل کی طرف منسوب کیا جائے.میرے مکاشفہ میں مسیح نے اپنی بریت اس سے ظاہر کی ہے اور عقل بھی یہی چاہتی ہے کہ مسیح کی شان اس سے برتر ہے.لعنت کا مفہوم ہمیشہ دل سے تعلق رکھتا ہے.اور یہ نہایت صاف بات ہے کہ ہم خدا کے مقرب اور پیارے کو کسی تاویل سے ملعون اور لعنتی کے نام سے موسوم نہیں کر سکتے.یہ یسوع مسیح کا پیغام ہے.جو میں پہنچاتا ہوں.اس میں میرے سچے ہونے کی یہی نشانی ہے جو مجھ سے وہ نشان ظاہر ہوتے ہیں جو انسانی طاقتوں سے برتر ہیں.اگر حضور ملکہ معظمہ قیصرہ ہند و انگلستان توجہ کریں تو میرا خدا قادر ہے کہ ان کی تسلی کی لئے بھی کوئی نشان دکھا دے.جو بشارت اور خوشی کا نشان ہو.بشرطیکہ نشان دیکھنے کے بعد میرے پیغام کو قبول کر لیں اور میری سفارت جو یسوع مسیح کی طرف سے ہے.اس کے موافق ملک میں عملدرآمد کرایا جائے مگر نشان خدا کے ارادہ کے موافق ہوگا نہ انسان کے ارادہ کے موافق ہاں فوق العادت ہو گا.اور عظمت الہی اپنے اندر رکھتا ہو گا.
240 اگر حضور ملکہ معظمہ میرے تصدیق دعوای کیلئے مجھ سے نشان دیکھنا چاہیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہو کہ وہ ظاہر ہو جائے.اور نہ صرف یہی بلکہ دعا کر سکتا ہوں کہ یہ تمام زمانہ عافیت و صحت سے بسر ہو.لیکن اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہو.اور میں جھوٹا نکلوں تو میں اس سزا میں راضی ہوں کہ حضور ملکہ معظمہ کے پایہ تخت کے آگے پھانسی دیا جاؤں.یہ سب الحاح اس لئے ہے کہ کاش ہماری محسنہ ملکہ معظمہ کو اس آسمان کے خدا کی طرف خیال آ جائے جس سے اس زمانہ میں عیسائی مذہب بے خبر ہے.منہ حضور ملکہ معظمہ اپنی روشن عقل کے ساتھ سوچیں کہ کسی کا خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن نام رکھنا جو لعنت کا مفہوم ہے.کیا اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور بھی تو ہین ہوگی؟ پس جس کو خدا کے تمام فرشتے مقر ب مقر تب کہہ رہے ہیں اور جو خدا کے نور سے نکلا ہے اگر اس کا نام خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن رکھا جائے تو اس کی کس قدر اہانت ہے؟ افسوس اس توہین کو یسوع کی نسبت اس زمانہ میں چالیس کروڑ انسان نے اختیار کر رکھا ہے.اے ملکہ معظمہ !ایسوع مسیح سے تو یہ نیکی کر.خدا تجھ سے بہت نیکی کرے گا.میں دعا مانگتا ہوں کہ اس کا رروائی کے لئے خدا تعالیٰ آپ ہماری محسنہ ملکہ معظمہ کے دل میں القا کرے.پیلا طوس نے جس کے زمانہ میں یسوع تھا.نا انصافی سے یہودیوں کے رعب کے نیچے آ کر ایک مجرم قیدی کو چھوڑ دیا.اور یسوع جو بے گناہ تھا اس کو نہ چھوڑا لیکن اے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند ہم عاجزانہ ادب کے ساتھ تیرے حضور میں کھڑے ہو کر عرض کرتے ہیں کہ تو اس خوشی کے وقت میں جو شصت سالہ جو بلی کا وقت ہے یسوع کے چھوڑنے کے لئے کوشش کر.اس وقت ہم اپنی بہایت پاک نیت سے جو خدا کے خوف اور سچائی سے بھری ہوئی ہے تیری جناب میں اس التماس کے لئے جرات کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کی عزت کو اس داغ سے جو اس پر لگایا جاتا ہے اپنی مردانہ ہمت سے پاک کر کے دکھلا.“ تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 275 ،276) پس رسالہ تحفہ قیصریہ ملکہ وکٹوریہ کے نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے ایک خط تھا جو اسلام اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سچائی ، عیسائیت کے مروجہ عقائد کے بطلان اور اسلام کے زندہ اور روحانی تاثیرات سے پُر اور زندہ نشانون کے اعجاز سے مزین تھا.یہ رسالہ ملکہ معظمہ کو اسلام قبول کرنے اور شہنشاہ دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں آنے کی ایسی کھلی کھلی دعوت تھی جس کی توفیق صرف مامورزمانہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کوملی.آپ نے جس شانِ حق کے ساتھ یہ دعوت دی اس کی نظیر ہمیں صرف اور صرف اسوہ نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ میں ملتی ہے.جس طرح آپ
241 نے ایک ادب اور سچائی اور دعاؤں کے ساتھ بادشاہوں کو خط لکھے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ کو خط لکھا اور اسے یہ دعا بھی دی: ” اے قادر توانا! ہم تیری بے انتہا قدرت پر نظر کر کے ایک اور دعا کے لئے تیری جناب میں جرات 66 کرتے ہیں کہ ہماری محسنہ قیصرہ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھوڑا کر لا اله الا الله محمد رسول الله پر اس کا خاتمہ کر “ ( تحفہ قیصریہ.جلسہ احباب.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 290) پس راشد علی اور اس کا پیر جس طرح خود خدا تعالیٰ کے نشانوں سے تہی دست ہیں اسی طرح اسلام کو بھی نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے نشانوں سے خالی اور بے فیض مذہب سمجھتے ہیں مگر ہم خدا تعالیٰ کے نشانوں کا روز مشاہدہ کرتے ہیں جو وہ اپنے دین اور حضرت محمد مصطفی اللہ کے دین کی تائید کے لئے اپنے ادنی غلاموں کو عطا کرتا ہے.اور ہم دیکھتے ہیں آج اسلام موسی کا طور ہے جہاں خدا بولتا ہے.فالحمد للہ وو (11) تین لاکھ الہامات راشد علی اپنے اوپر پھر جھوٹ کی لعنت ڈالتے ہوئے لکھتا ہے کہ مرزا صاحب کو بڑا زعم تھا کہ ان پر تین لاکھ الہامات نازل ہوئے.“ یہ راشد علی کا ایک اور جھوٹ ہے جس پر ہمارا جواب یہ ہے کہ لعنة الله على الكاذبين اس جھوٹے پر تو جھوٹ کی لعنت کا طوق پڑا ہوا ہے.اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ لعنت کے اس طوق کی ایک کڑی ہی کم ہو جائے تو اسے چاہئے کہ تین لاکھ الہامات نازل ہونے کے زعم پر مبنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی بیان تو پیش کرے.ہے.ہمارا چیلنج ہے کہ وہ کبھی بھی کوئی ایسا بیان پیش نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنے اس بیان میں کلیۂ جھوٹا
242 اس قدر ظا ہر ہوئے ہیں فضل حق سے معجزات دیکھنے سے جن کے شیطاں بھی ہوا ہے دلفگار صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کر دگار (برائین احمد یہ حصہ پنجم ) J
243 فرشتوں پر استهزاء
244 پیر عبدالحفیظ نے لکھا ہے.مرز اصاحب کا دعوی تھا ان کے پاس وحی آتی ہے ! سوال یہ ہے کہ وہ کون فرشتہ تھا جو وحی لاتا تھا اور اس وحی کی حقیقت کیا تھی؟ ٹیچی ٹیچی ، درشانی ، خیراتی اور ایل ان کے بعض فرشتوں کے نام تھے.“ ( الفتوی نمبر 23) اس مختصر عبارت میں پیر عبدالحفیظ نے جھوٹ بھی بولا ہے اور استہزاء بھی کیا ہے سوال یہ نہیں کہ وہ کون فرشتہ تھا جو وحی لاتا تھا؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کا اپنا یہ اقرار ہو کہ ان پر شیطان نازل ہوتا ہے ان کو فرشتوں کے بارہ میں کلام کا کیا حق ہے؟ جس طرح آنحضرت ﷺ نے کفار مکہ کو جب خدائے رحمن کو سجدہ کرنے کے لئے کہا تو وہ سوال کرنے لئے مَا الرَّحمن ؟ (الفرقان : 61) کہ رحمن کیا ہے؟ بعینہ آج اسی طرح یہ لوگ جن پر نازل تو شیطان ہوتا ہے مگر یہ باتیں کرتے ہیں فرشتوں کی اور استفسار کرتے ہیں کہ ” سوال یہ ہے کہ وہ کون فرشتہ تھا ؟“ (1) انہوں نے از راہ استہزاء ایک فرشتہ کا نام نیچی نیچی بتایا ہے.1 - حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی ایسا الہام نہیں.ایک خواب ضرور ہے جس میں حضور نے ایک آدمی دیکھا جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا.اور اس نے اپنا نام ” ٹیچی بتایا.پنجابی زبان میں ' ٹیچی کے معنے ہیں ” وقت مقررہ پر آنے والا پس اس خواب کی تعبیر یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بروقت امداد فرمائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جو مشکلات لنگر کے اخراجات کی نسبت اس خواب کے دیکھنے سے پہلے در پیش تھیں وہ اس خواب کے بعد جلد ہی دور ہو گئیں.پس یہ کہنا کہ مرزا صاحب کو نیچی نیچی الہام ہوا حض شرارت ہے.دوسرے ان کا یہ کہنا کہ وہ فرشتہ تھا.یہ بھی بالکل جھوٹ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں بھی یہ تحریر نہیں فرمایا کہ وہ فرشتہ تھا.بلکہ اسے فرشتہ نما انسان قرار دیا ہے، لیکن یہ پیر اور مرید ذرا یہ تو بتائیں کہ کیا فرشتے کانے بھی ہوا کرتے ہیں؟ بخاری میں ہے: عن ابي هريرة رضى الله عنه ارسل ملک الموت الى موسى عليه السلام فلما
245 جاءه صـگـه فـوضع عينه فرجع الى ربه فقال ارسلتنى الى عبد لا يريد الموت فردّ الله عليه عينه وقال ارجع فقل له يضع يده على متن ثور فله بكلّ ما غطت به يده بكل شعرة سنة قال اى ربّ ثم ماذا قال الموت.( بخاری کتاب الصلوۃ باب من احب الدفن في الارض المقدسة مطع البيه مصر و بخاری کتاب بدء الخلق باب وفات موسیٰ وذکرہ بعدہ).نیز مسلم مطبع العامرہ مصری کتاب الفضائل باب فضائل موسیٰ.نیز مشکوۃ باب بدء الخلق وذكر الانبیاء ) کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ملک الموت حضرت موسی کے پاس بھیجا گیا جب وہ آیا تو موسیٰ نے اسے ایک طمانچہ مارا جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی.پس وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا.اللہ نے اس کی آنکھ دوبارہ عنایت کی اور ارشاد ہوا پھر جا کر ان سے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں.پس جس قدر بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے.ہر بال کے عوض میں انہیں ایک ایک سال زندگی دی جائیگی.حضرت موسی بولے اے پروردگار ! پھر کیا ہوگا اللہ نے فرمایا پھر موت آئیگی.(ترجمه از تجرید بخاری اردو شائع کرده مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور ) پس ” ٹیچی تو محض ایک نام ہے.مگر اپنی منطق کے مطابق تو یہ عمل عزرائیل کو بھی ( نعوذ باللہ ) کچھ وقت کے لئے کا نا مانتے ہیں.2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فرشتہ تھا بلکہ فرمایا ہے کہ فرشتہ معلوم ہوتا تھا.“ (مکاشفات صفحہ 38) نیز خواب میں اس فرشتہ نما انسان نے جو اپنا نام بتایا ہے وہ صرف ” ٹیچی ہے.مگر راشد علی وغیرہ محض شرارت سے ٹیچی ٹیچی کہتے ہیں جو یہود کی مثل " يُحَرِّفُونَ الكَلِمَ عَن مَوَاضِعِه “ کا مصداق بنتا ہے.3 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا یہ ترجمہ بیان فرمایا ہے کہ دو 66 پیچی پنجابی (زبان) میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں.یعنی عین ضرورت کے وقت آنے والا.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 332) -4 اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وہ کوئی فرشتہ تھا تو اس پر کیا اعتراض ہے.یہ تو ایک صفاتی نام ہے.
246 چنانچہ.بخاری شریف کے پہلے باب کی دوسری حدیث میں ہے:." 66 ” فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم احیانا یاتینی مثل صلصلة الجرس.“ که اکثر دفعه فرشته وحی لیکرٹن ٹن ٹلی کی آواز کی طرح آتا ہے.( بخاری.کتاب کیف کان بدء الوحی ) یہ اب ” ٹلی کی طرح “ یا ” گھنٹی کی طرح کوئی فرشتہ نہیں.بلکہ اس کی آمد کی کیفیت بیان کی گئی ہے.اسی طرح یہاں بھی اس کا نام صفت کے طور پر ” نیچی ہے.یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ فرشتوں کے نام ” صفاتی“ بھی ہوتے ہیں جواُن کے ذاتی نام (علم) کے سوا ہوتے ہیں.ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا.جب میں بیت المقدس سے فارغ ہوا.اس وقت مجھے معراج ہوا جبرائیل جو میرے ساتھی تھے انہوں نے مجھ کو آسمان دنیا کے دروازہ پر چڑھایا جس کا نام باب الحفظ ہے اور اس کا دربان ایک فرشتہ اسمعیل نام ہے اس کے ماتحت بارہ ہزار فرشتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے ماتحت بارہ بارہ ہزار فرشتے ہیں.“ (سیرت ابن ہشام - الجزء الثانی - صفحہ 7 قصة المعراج - المكتبه التوفيقيه القاہرہ) ظاہر ہے کہ فرشتوں کے صفاتی نام بھی ہوتے ہیں جو ان کی ڈیوٹیوں کے اعتبار سے لگائے گئے ہیں.اگر کوئی از راہ تمسخر، شرارت سے اس فرشتے کے متعلق یہ کہے کہ ”میاں اسمعیل صاحب وہاں کھڑے تھے وغیرہ وغیرہ.تو جو جواب یہ دیں گے وہی ہمارا جواب ہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے اصولی طور پر فرشتوں کے بارہ میں یہ بتایا ہے کہ وہ اس کے بے شمار لشکروں کی طرح ہیں اور آسمانوں اور زمین میں اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں.فرمایا: وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَواتِ وَالأَرض - (الفتح : 5) ترجمہ:.اور اللہ کے آسمانوں میں بھی لشکر ہیں اور زمین میں بھی.لیکن خدا تعالیٰ کے ان لشکروں کی تفصیل کا کسی کو علم نہیں.کیونکہ فرمایا: وَمَا يَعلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلا هُوَ (المد : 32)
247 ترجمہ:.اور تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا.البتہ ان فرشتوں کے لشکر میں سے چند ایک وہ ہیں جن کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے پاک رسولوں کو خبر دی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے غیب میں سے کچھ کی اپنے رسولوں کو خبر دیتا ہے.فرمایا: فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاه إِلا مَنِ ارتَضَى مِن رَّسُول - (لجن 27 ،28 ) ترجمہ:.وہ اپنے غیب پر کسی کو غلبہ عطا نہیں کرتا سوائے اپنے برگزیدہ رسول کے.پس خدا تعالیٰ کے عطا کردہ علم کی بناء پر اس کے رسول بعض فرشتوں پر بھی اطلاع پاتے ہیں جس کا وہ ذکر کرتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض فرشتوں سے آگا ہی عطا فرمائی.ان پر اعتراض کرنا یا تمسخر کرتے ہوئے ان کے نام بگاڑنا اور تضحیک کرنا ، تو خدا تعالیٰ کی خدائی پر حاوی ہونے کے دعوی کے مترادف ہے اور اس کے جنود پر پوری اطلاع رکھنے کے دعوی کے برابر ہے.ہاں اگر ایسے معترضین کے پاس خدا تعالیٰ کے لشکروں کا رجسٹر ہوتا اور فرشتوں کی مکمل فہرست موجود ہوتی اور اس میں سے چیک کر کے وہ بتاتے کہ فرشتوں کے وہ نام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں وہ اس فہرست میں نہیں ہیں تو پھر تو بات بن سکتی تھی.اور اگر ایسی کوئی فہرست ان کے پاس نہیں ہے تو پھر یہ اپنے اعتراض میں محض جھوٹے اور بے باک ہیں.(2) انہوں نے ایسا ہی ایک اور فرشتے کے نام پر اعتراض کیا ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السا نے اپنی کتاب تریاق القلوب میں فرماتے ہوئے اس کا نام ” خیراتی بتایا.یہ ایک رؤیا تھی.اس رؤیا کا متعلقہ حصہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.آپ نے دیکھا کہ اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے.ایک کا نام ان میں سے خیراتی تھا.تب میں نے ان فرشتوں کو کہا کہ آ میں ایک دعا کرتا ہوں تم آمین کرو.تب میں نے دعا کی کہ ربّ اذهب عنى
248 الرجس وطهرني تطهيراً.اس کے بعد وہ تینوں فرشتے آسمان کی طرف اٹھ گئے.اور میری آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک طاقت بالا مجھ کو ارضی زندگی سے بلند تر کھینچ کر لے گئی اور وہ ایک ہی رات تھی جس میں خدا نے تمام و کمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں وہ تبدیلی واقع ہوئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہو سکتی.“ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 352،351) اس رویا میں مذکور فرشتے کا نام ” خیراتی در حقیقت ہندی، پنجابی یا اردو کا خیراتی “ نہیں بلکہ یہ 66 عربی زبان کا لفظ ہے جو ” خَیرَاتِی “ ہے جو خیر سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں” نیکیوں والا اس میں دی نسبتی ہے.یہ اس فرشتے کا صفاتی نام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ بالا رویا بھی انہیں معنوں کی تائید کرتی ہے.کیونکہ آپ کی یہ رویا 1874 ء کی ہے یعنی ماموریت سے پہلے کی ہے.جو آپ کے اندر ایک مافوق البشر اور خارق عادت خیر اور اصلاح کی موجب تھی.لیکن جو لوگ اس پر استہزاء کرتے ہیں وہ خود بھی تو انسان کے ساتھ خیر اور شتر کا حساب رکھنے والے دو فرشتوں کو مانتے ہیں.جو خیرات یعنی نیکیوں کا حساب رکھنے والا ہے اسے یہ کیا کہیں گے؟ (3) را شد علی اور اس کے پیر نے ایک نام درشانی بھی لکھا ہے.اس کا انہوں نے حوالہ نہیں دیا اس لئے ہم اس پر بحث کرنے سے قاصر ہیں.علاوہ ازیں ایک فرشتے کا نام انہوں نے ” ایل“ بھی درج کیا ہے.اور لکھا ہے کہ ان کے بعض فرشتوں کے نام تھے.“ فرشتے تو خدا تعالیٰ ہی کے ہیں جن کو وہ مختلف ناموں سے اپنے پاک بندوں پر ظاہر فرماتا ہے.مذکورہ بالا نام خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر فرمایا لیکن وہ ”ایل نہیں تھا 66 بلکہ ”ایل “ ہے.جس کا معنی ہے ” بار بار آنے والا چنانچہ الہام الہی کے الفاظ یہ ہیں." جاء نی ایل واختار - وادار اصبعه واشار ـ ان وعد الله الى 66 (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 106) ترجمہ:.میرے پاس آیل آیا اور اس نے مجھے چن لیا اور اپنی انگلی کو گردش دی اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ
249 اس نام "ئیل“ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس جگہ آئیل خدا تعالیٰ نے جبرئیل کا نام رکھا ہے.اس لئے کہ بار بار رجوع کرتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 106 حاشیہ ) پس اس پر اعتراض کرنا جہالت ہے کیونکہ یہ جبرئیل کا ہی صفاتی نام ہے جو اس کے بار بار رجوع کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر فرمایا.
250 صلى الله رسول علية رسول اللہ ﷺ کی تو ہین اور گستاخی کا الزام
251 (1) رسول اللہ ﷺ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کا دوباره نزول اپنی ” بے لگام کتاب میں قادیانی اخلاق“ کے عنوان کے تحت راشد علی اور اس کا پیر لکھتے باوجود اس کے کہ مرزا صاحب حضور ﷺ کی محبت کے دعویدار تھے مگر ان کی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور اور دیانتدار شخص اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ مرزا صاحب کی سب سے زیادہ رقابت جن دو ہستیوں سے تھی وہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی علے تھے.چنانچہ کہیں تو ان کے فضائل پر ڈا کہ مارنے کی سعی نا کام تھی تو کہیں ان کو ان کے مقام سے گرانے کی مزموم کوششیں.“ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی توہین کے بدترین الزام کے ثبوت کے لئے راشد علی اور اس کا پیر حسب ذیل دلیل دیتے ہیں.وو (نقل بمطابق اصل ) ہر وہ آیت جو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں نازل فرمائی وہ مرزا صاحب کا ٹیچی ٹیچی فرشتہ ان کے حق میں لے کر نازل ہوا.مثلاً محمد رسول الله والذين معه اشداء على الكفار رحماء بينهم کے الہام میں محمد رسول اللہ سے ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207) مراد میں ہی ہوں اور رسول اللہ خدا نے مجھے کہا ہے.لانا اعطینک الکوثر انک لعلی خلق عظیم ا وما ينطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحى وما ارسلنک الا رحمة للعالمين لايس والقرآن الحكيم (روحانی خزائن جلد 22 صفحه 105 ) (روحانی خزائن ملفوظات جلد 1 ص 141) (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 426) (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 411) (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 110) سبحان الذي اسرى بعبده من المسجد الحرام الى المسجد الاقصى (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 81)
252 جب انسان بغض و عناد میں اندھا ہو جائے تو وہ ایسی ہی حرکتیں کرتا ہے جن کا ذکر اس مثال میں بیان ہوا ہے کہ گیدڑ کی موت آئے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے.‘ ایک جھوٹا اور کذاب جب دین کے معاملات میں دخل دے گا اور معرفت و سلوک کی پاک راہوں کو گندہ کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے فرشتوں اور عوام الناس کی لعنت کا موردتو ضرور بنے گا.مذکورہ بالا اعتراض میں اوّل تو یہ پیر اور مرید بالکل جھوٹے ہیں.دوسرے یہ کہ اپنے جھوٹ کو سچ باور کرانے کے لئے انہوں نے یہودیانہ تحریف کی لعنت اختیار کی ہے.مذکورہ بالا آیات میں سے آخری دو آیات انہوں نے واضح طور پر تحریف کر کے تحریر کی ہیں.وہ لکھتے ہیں: ” يس والقرآن الحكیم“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 110) وو جبکہ اصل کتاب میں لکھا ہے.” يس ـ انك لمن المرسلين - کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے.سورہ یس کا شروع نہیں ہے.الاقصى - پھر انہوں نے لکھا ہے.سبحان الذي اسرى بعبده من المسجد الحرام الى المسجد (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 81) جبکہ اصل کتاب میں لکھا ہے.سبحان الذی اسرى بعبده ليلاً خلق آدم فاكرمه گویا ایک تو آیت تحریف کی اور اس میں سے ” لیلا “ کا لفظ نکال دیا اور دوسرے الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محر "ف کر کے تحریر کیا.ایسے شاطروں سے سچائی اور دیانتداری کی امید کون رکھ سکتا ہے؟ اسی طرح راشد علی نے یہودیانہ خصلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عبارت میں تحریف کر کے اسے مور د طعن قرار دیا ہے.اس نے حسب ذیل عبارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کی." ( محمد رسول الله والذين معه اشداء على الكفار رحماء بينهم ) کے الہام میں محمد رسول اللہ سے مراد میں ہوں اور محمد رسول اللہ خدا نے مجھے کہا ہے.“ یہ عبارت راشد علی کی خودساختہ ہے جبکہ اصل عبارت یہ ہے.(روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207)
253 وو حمد رسول الله والذين معه اشداء على الكفار رحماء بینھم.اس وحی الہی میں 66 میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی.“.ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207) را شد علی کا شیطان نامعلوم اسے کون کون سی ہیرا پھیریاں سکھاتا ہے جن کی بناء پر وہ ہر تحریف ، ہر جھوٹ اور ہر تلبیس کو شیر مادر سمجھتا ہے.اس مذکورہ بالا عبارت کو اس نے تبدیل کرنے کے بعد قابل اعتراض بنانے کی جسارت کی ہے.ورنہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل عبارت پر کوئی اعتراض نہیں اٹھ سکتا.کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نام ”محمد“ دیا ہے.ظاہر ہے کہ کسی کو محمد نام دینے سے کوئی اعتراض نہیں اٹھ سکتا.اس دنیا میں کروڑوں مسلمان ایسے ہیں جن کو ان کے والدین نے محمد نام دیا ہے اور عرب تو عام طور پر ہر اس شخص کو ”محمد“ کہہ کر بلاتے ہیں جس کا وہ نام نہ جانتے ہوں.جس جگہ راشد علی رہتا ہے وہاں بھی اس کے اردگر دروزانہ اس کا مظاہرہ ہوتا ہے، ان پر تو راشد علی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا مگر اعتراض ہے تو خدا تعالیٰ پر کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محمد نام کیوں دیا.باقی جہاں تک ”رسول“ بنانے کا تعلق ہے تو اس پر راشد علی جس قدر بھی سیخ پا ہو، خدا تعالیٰ کو اس کی کیا پرواہ ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (الانعام:125) اللہ تعالیٰ سب سے بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے.چنانچہ امت مسلمہ کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ آنے والا مسیح رسول ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس زیر بحث عبارت میں آنحضرت ﷺ سے نہ برابری کے دعوئی کا استنباط ہوسکتا ہے اور نہ بعینہ محمد رسول اللہ علی ہونے کا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مذکورہ بالا زیر بحث آیت کریمہ کے بارہ میں فرماتے ہیں: 66 ہمارے نبی ﷺ کے دو نام ہیں (1) ایک محمد ﷺ اور یہ نام توریت میں لکھا گیا ہے جو ایک آتشی شریعت ہے.جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے.مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى صلى الله الكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُم....ذِلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ (2) دوسرا نام احمد ہے ﷺ اور یہ نام انجیل میں ہے جو ایک جمالی رنگ میں تعلیم الہی ہے جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے.وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ يَّاتِي
254 مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ.اور ہمارے نبی ہے جلال اور جمال دونوں کے جامع تھے.“ نیز فرمایا: وو اربعین نمبر 4.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 344) مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ میں حضرت رسول کریم ﷺ کی مدنی زندگی (الحکم 3 جنوری 1901 ، صفحہ 11) کی طرف اشارہ ہے.“ اس وضاحت کے بعد ہم راشد علی اور اس کے پیر کی اس بے باک تعالی کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہر وہ آیت جو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں نازل فرمائی وہ مرزا صاحب کا ٹیچی " ٹیچی فرشتہ ان کے حق میں لے کر نازل ہوا.“ یعنی یہ وہ وجہ ہے کہ اس سے سردار انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تو ہین ہوگئی ہے.اس الزام کے پیش نظر د یکھنا یہ ہے کہ 1 کیا آیات قرآنیہ کسی امتی پر الہام نازل ہو سکتی ہیں یا نہیں؟ 2.کیا وہ آیات جن میں خاص طور پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا ہے ، وہ کسی امتی پر الہاما نازل ہوسکتی ہیں یا نہیں.وہ آیات جن میں خاص طور پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا ہے اگر وہ کسی امتی پر الہاما نازل ہوں تو کیا اس سے رسول خدا ﷺ کی تو ہین ہو جاتی ہے؟ پس 1.جہاں تک امر اوّل کا تعلق ہے، ہمیں سرتاج صوفیاء حضرت شیخ محی الدین ابن العربی بتاتے ہیں : تنزل القرآن على قلوب الاولياء ما نقطع مع كونه محفوظاً لهم ولكن لهم ذوق 66 الانزال وهذا لبعضهم “ (فتوحات مکیہ.جلد 2 صفحہ 285 باب 159.مطبوعہ دارصا در بیروت ) یعنی قرآن کریم کا ولیوں کے دل پر نازل ہونا منقطع نہیں ہوا ، باوجود یکہ وہ ان کے پاس اصلی صورت میں محفوظ ہے،لیکن اولیاء کو نزولِ قرآنی کا ذائقہ چکھانے کی خاطر ان پر نازل ہوتا ہے اور یہ شان بعض کو عطا کی جاتی ہے.
255 حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ہر سالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اے انسان! اگر تو نیکی میں ترقی کرتا چلا جائے تو اللہ تعالیٰ تجھے اتنی عزت دے گا کہ تخاطب بانک اليوم لدينا مكين امين - فتوح الغیب - مقالہ 28 ، صفحہ 171 سورہ یوسف مطبع ہوپ لا ہور - 1383ھ ) " 66 إِنَّكَ اليَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنَ آمِيْنَ “ سورہ یوسف کی آیت 55 ہے جس کا ترجمہ ہے.’ تو آج سے ہمارے ہاں معز زمرتبہ والا اور قابل اعتماد آدمی شمار ہوگا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تجھے اس آیت قرآنی سے مخاطب فرمائے گا.پس یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے پاک بندوں پر بعض اوقات آیات قرآنیہ الہاماً نازل فرماتا ہے.اسی طرح حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ پر بھی آیت قرآنیہ الہام ہوئی چنانچہ بیٹے کی پیدائش سے قبل انہیں الہام ہوا.’انا نبشرک بغلام اسمۂ یحی“ مکتوبات امام ربانی.فارسی.جلد دوم - صفحہ 126 مطبوعہ دہلی ) یہ سورۃ مریم کی آٹھویں آیت ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ” ہم تجھے ایک ہونہار بچے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام بھی ہے چنانچہ حضرت مجد دالف ثانی کے گھر بیٹا پیدا ہوا اور اس کا نام آپ نے تیجی رکھا.معرفت اور سلوک کی شاہراہ پر آویزاں ان الواح سے یہ حقیقت تو بہر حال اظہر من الشمس ہوگئی کہ آیات قرآنیہ رسول اللہ ﷺ کے امتیوں پر الہاما نازل ہوتی ہیں اور امت میں آنے والے مسیح موعود کے بارہ میں تو حضرت امام عبد الوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یوں بیان فرماتے ہیں : فيُرسل ولياً ذا نبوّة مطلقة ويلهم بشرع محمد 660 الیواقیت والجواہر جلد 2 صفحہ 89 بحث 47 ، الطبعة الثانيه المطبعة الازھر یہ 1321ھ ) کہ مسیح موعود ایسے ولی کی صورت میں بھیجا جائے گا جو نبوت مطلقہ کا حامل ہوگا اور اس پر شریعت محمد یہ الہاما نازل ہوگی.پس اس حد تک تو راشد علی اور اس کا پیر کلیۂ جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں.اب آگے دیکھئے.2.جہاں تک کسی امتی پر ان آیات قرآنیہ کے الہاما نزول کا تعلق ہے جن میں خالصہ رسول اللہ
256 میہ کو مخاطب فرمایا گیا ہے تو (۱) حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کی سوانح میں درج الہامات سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں.یہ سب وہ آیات ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا ہے.نیسرک پلیسرای بار بار الہام ہوئی (صفحہ 5) ولئن اتبعت اهواء هم بعد الذى جاءك من العلم مالک من الله من ولى ولا واق (صفحه 15) واصبر نفسك مع الذين يدعون ربهم بالغداة والعشى يريدون وجهه فاذا قرانه فاتبع قرآنه ثم ان علينا بيانه (صفحه 35) لا تمدن عينيك الى ما متعنا به ازواجا منهم زهرة الحيواة الدنيا ـ ولا تطع من اغفلنا قلبه عن ذكرنا واتبع هواه وكان امره فرطا - (صفحه 36) ولسوف يعطيك ربك فترضی (صفحہ 37) الم نشرح لک صدرک (صفحہ 37) (سوانح مولوی عبد اللہ غزنوی - مؤلفہ مولوی عبدالجبار غزنوی و مولوی غلام رسول مطبع القرآن السنة امرتسر ) ان الہامات کی وجہ سے اس وقت کے مولویوں نے شدید طوفان برپا کیا تھا.مثلاً مولوی غلام علی قصوری نے سخت مخالفت کی لیکن حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی کے صاحبزادے نے بڑے متوازن اور سلجھے ہوئے انداز سے حسب ذیل الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی کہ.اگر الہام میں اس آیت کا القاء ہو جس میں خاص آنحضرت گو خطاب ہو تو صاحب الہام اپنے حق میں خیال کر کے اس مضمون کو اپنے حال کے مطابق کرے گا اور نصیحت پکڑے گا اگر کوئی شخص ایک آیت کو جو پروردگار نے جناب رسول اللہ ﷺ کے حق میں نازل فرمائی ہے اسے اپنے پر وار کرے اور اس کے امر و نہی اور تائید و ترغیب کو بطور اعتبار اپنے لئے سمجھے تو بے شک وہ شخص صاحب بصیرت اور مستحق تحسین ہوگا.اگر کسی پر ان آیات کا القاء ہو جن میں خاص آنحضرت کو خطاب ہے مثلاً الم نشرح لک صدرک کیا نہیں کھولا ہم نے واسطے ترے سینہ ترا، ولسوف یعطیک ربک فتـرضـی.فسیکفیکهم الله ـ فاصبر كما صبر اولوالعزم من الرسل - واصبر نفسك مع الذين يدعون ربهم بالغداة
257 - اثبات الالهام والبيعة - صفحہ 143،142) والعشى يريدون وجهه ـ فصل لربک وانحر ـ ولا تطع من اغفلنا قلبه عن ذكرنا واتبع هواه ووجدک ضالا فهدی.تو بطریق اعتبار یہ مطلب نکالا جائے گا کہ انشراح صدر اور رضا اور انعام ہدایت جس لائق یہ ہے علی حسب المنز لہ اس شخص کو نصیب ہوگا اور اس امر و نہی وغیرہ میں اس کو آنحضرت کے حال میں شریک سمجھا جائے گا.“ (ب) حضرت خواجہ میر درد مرحوم نے اپنی کتاب ” علم الکتاب میں اپنے الہامات درج فرمائے ہیں.ان میں دو درجن سے زائد الہامات آیات قرآنیہ پرمشتمل ہیں.ان میں سے ایک الہام یہ بھی ہے.وانذر ( علم الكتاب.صفحہ 64) عشیرتک الاقربین “ 66 (ج) حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کوکئی مرتبہ آیت قرآنی الہام ہوئی: وَمَا أَرْسَلْنَكَ الأَرَحِمَةً لِّلْعَالَمِينَ چنانچہ حضرت مخدوم گیسو دراز لکھتے ہیں : وو حضرت شیخ فرماتے تھے کہ کبھی کبھی کسی ماہ میرے سرہانے ایک خوب رو اور خوش جمال لڑکا نمودار ہو کر مجھے اس طرح مخاطب کرتا : وما ارسلنک الا رحمة للعالمین میں شرمندہ سر جھکا لیتا اور کہتا یہ کیا کہتے ہو؟ یہ خطاب حضرت پیغمبر ﷺ کے لئے مخصوص ہے.یہ بندہ نظام کس شمار میں ہے جو اس کو اس طرح مخاطب کیا جائے.“ ( جوامع الکلم - ملفوظات گیسو دراز - صفحہ 226 ڈائری بروزشنبه 26 شعبان 802ھ ) تمام مسلمان جانتے ہیں کہ مندرجہ بالا الہامات آیات قرانیہ ہیں.اور ایسی آیات قرآنیہ ہیں کہ جن میں خاص طور پر آنحضرت ﷺ کو خطاب ہے.اب کیا راشد علی اور اس کا پیر ، ان بزرگانِ امت پر بھی توہین رسول کا فتویٰ صادر کریں گے؟؟ باقی رہا تیسرا سوال تو مذکورہ بالا سچائیاں کھول کھول کر بتا رہی ہیں کہ نہ تو قرآن کریم کی آیات کا محمد رسول اللہ ﷺ کے امتیوں میں سے کسی پر نازل ہونا اعتراض کا موجب ہے نہ ہی ایسی آیات کا نازل ہونا محل اعتراض ہے جو خاص حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں نازل ہوئی ہیں یا آپ کو مخاطب کر کے نازل فرمائی گئی ہیں اور نہ ہی ان آیات کا کسی امتی پر نزول آنحضرت ﷺ کی توہین کا موجب ہے.بلکہ یہ رسول اللہ ﷺ کا فیض ہے جس سے راشد علی اور اس کا پیر اگر قطعی محروم اور دُور ہیں تو اس میں ان خوش
258 نصیبوں کا کیا قصور ہے جو اس موعودہ انعام سے فیض یافتہ ہیں.لیکن اس کے بعد بھی اصل سوال یہ باقی رہے گا کہ جس شخص کے دل پر ایسی آیات قرآنیہ الہام ہوئی ہوں وہ آنحضور ﷺ کی نسبت سے خود اپنی نظر میں اپنا کیا مقام سمجھتا ہے اور کیا مرتبہ تصورکرتا ہے.اگر وہ یہ اعلان کرے کہ میں محمد ﷺ کا ثانی بن کر پیدا ہوا ہوں (نعوذ باللہ ) اور پرانے محمد رسول اللہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی.اور اب نیا محمد دنیا میں پیدا ہو چکا ہے تو اس کا یہ اعلان کفر صریح پر مشتمل ہوگا.لیکن ایسے الہامات کے باوجود اگر ایسا شخص آنحضرت ﷺ کے مقابل پر بے انتہاء انکسار اور خاکساری سے کام لیتار ہے اور کامل یقین رکھتا ہو اور اسی کا برملا اظہار کرتا ہو کہ جو فیض بھی اس کو عطا ہوا ہے، محمد رسول اللہ علیہ کے صدقے عطا ہوا ہے اور آپ کی محبت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اس پر مہربان ہے.نیز قیامت تک کوئی شخص پاک محمد مصطفی ﷺ کے وسیلہ کے بغیر کوئی فیض کسی سے پانہیں سکتا.اور امت محمدیہ میں جو بکثرت فیض رساں وجود نظر آتے ہیں وہ اپنا نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا فیض بانٹنے والے ہیں جو خود محمد رسول اللہ ﷺ سے فیض یاب ہیں تو ایسے شخص پر اگر راشد علی اور اس کے پیر کی اوقات کا انسان بڑھ چڑھ کر گند بولے اور لعنتیں ڈالے، تو وہ خود اپنے ہاتھوں صرف اور صرف اپنی عاقبت برباد کر رہا ہو گا.وہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور محمد رسول اللہ ﷺ کے فیض کو تو نہیں روک سکتا.اللہ کرے کہ ان کے ہاتھوں سے عاقبت کی بربادی ان کے اپنے تک ہی محدودر ہے اور دوسرے بندگانِ خدا اس سے محفوظ رہیں.دیکھئے حضرت مرزا صاحب کے جس الہام پر اعتراض کرتے ہوئے راشد علی اور اس کا پیرا اپنی دانست میں یہ ثابت کر رہے ہیں کہ گویا آپ نے (نعوذ باللہ ) حضرت محمد مصطفی ﷺ سے رقابت کی ہے اور جس کے بعد ہر فیضان، محمد مصطفی ﷺ کی بجائے انہوں نے اپنی ذات سے جاری کرنے کا دعویٰ کر دیا ہے.وہ خود حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مقابل پر اپنی حیثیت کیا بیان کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: وہ پیشوا ہمارا جس ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے اس نور فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں پر وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
259 سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے فرمایا: وو ( قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 465) خداوند کریم نے اس رسول مقبول کی متابعت اور محبت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خاص کیا ہے اور علوم لدنیہ سے سرفراز فرمایا ہے اور بہت سے اسرار مخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اس ناچیز کے سینہ کو پُر کر دیا ہے اور بار ہا بتلا رہا ہے کہ یہ سب عطیات اور عنایات اور یہ سب تفضلات اور احسانات اور یہ سب تلطفات اور توجہات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیمن متابعت ومحبت حضرت خاتم الانبیاء ہر اور فرمایا: وو جمال ہمنشیں در من اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم ( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 263 264 حاشیہ نمبر 11) سو میں نے خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پا نا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی عملے کی راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی ﷺ ، خدا تک نہیں پہنچے سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصہ پاسکتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 64) نیز فرمایا: ایس چشمه روال که روان که بخلق خدا دہم یک قطره قطره ز بحرِ کمال محمد است
260 صلى الله یعنی معارف و حقائق کا جو چشمہ میں خدا کی مخلوق میں تقسیم کر رہا ہوں یہ میر امال نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی اللہ کے کمالات کے سمندر کے بے شمار قطروں میں سے ایک قطرہ ہے.یہ تحریریں بتاتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو پایا، وہ بھی اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ سے پایا اور جو دیا وہ بھی آپ ہی کا دیا.پس یہ سچائی ہے جو ہم نے تحریر کی ہے! اور جو راشد علی اور اس کے پیر نے لکھا ہے وہ جھوٹ ہے کہ کسی امتی پر آنحضرت ﷺ کی اتباع کی وجہ سے آیات قرآنیہ کا نزول آپ کی توہین کا موجب ہے.اور یہ بھی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ راشد علی اور اس کا پیر عملاً اور عمداً جھوٹ کی غلاظت پر منہ مارتے ہیں.(2) نبی اکرم ﷺ کے پہلو بہ پہلو نبی اکرم ﷺ کی توہین کے الزام کے تحت راشد علی اور اس کے پیر نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کی حسب ذیل تحریر پیش کی ہے.پس ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا ہے اور اس قدر آگے بڑھایا نبی کریم کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا." اس مضمون میں آنحضرت ﷺ کی معیت کا مضمون بیان کیا گیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے ساتھ ختم تو نہیں ہوگئی.قرآن کریم تو صاف صاف بتا رہا ہے کہ آخری زمانہ میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کو محمد رسول اللہ ﷺ کی معیت حاصل ہوگی.فرمایا.وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمع:4) ترجمہ : اور ان کے سوا ایک دوسری قوم ( میں بھی وہ اس کو بھیجے گا ) جو ابھی تک ان سے ملی نہیں.یعنی بعد کے زمانہ کے کچھ اور لوگ بھی ہیں جو صحابہ میں شامل ہو جائیں گے جو ابھی تک ان صحابہ سے نہیں ملے.پس قرآنِ کریم جس معنیت اور فیض کا ذکر فرماتا ہے، اس سے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود
261 ہ السلام کو فیضیاب فرمایا ہے اور یہ سب فیض حضرت محمد مصطفی ﷺ کے در کی غلامی کا ثمرہ ہے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں: نور ملا نور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفیٰ ترا ہے حد ہو سلام اور رحمت اس نور لیا بار خدایا ہم نے ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے قدم آگے بڑھایا ہم نے (درمین صفحه 17،16 مطبوعہ لندن.1996ء) جس طرح آنحضرت ﷺ کے صحابہ آپ کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہوتے تھے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کی معیت نصیب تھی.جنگ بدر کے موقع پر صحابہ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہ ! ہم موسی کے اصحاب کی طرح نہیں ہیں کہ آپ کو یہ جواب دیں کہ جا تو اور تیرا خدا جا کر لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں.بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ جہاں بھی چاہتے ہیں چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم آپ کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے ہو کر لڑیں گے.‘ ( بخاری.کتاب المغازی.باب قول’ اذتستعیون ربگم معلوم ہوتا ہے کہ راشد علی اور اس کے پیر کو اس واقعہ کا علم نہیں ورنہ یہاں وہ صحابہ پر توہین رسول کا الزام ضرور لگا دیتے کہ انہوں نے نہ صرف آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہونے بلکہ آپ سے آگے ہونے کا عزم ظاہر کیا.قارئین کرام ! آپ کو معلوم ہے کہ یہ سب محاورے ہیں اور پہلو میں کھڑا ہونا تو خدائی صحیفوں کا ایک محاورہ ہے جو ہر گز کسی کو ہم مرتبہ نہیں بناتا.برابری کے لئے ہم مرتبہ اور ہم پلہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ راشد علی اور اس کے پیر کو اردو محاوروں کا بھی علم نہیں یا پھر یہ جانتے بوجھتے ہوئے لوگوں کو
262 دھوکہ دے رہے ہیں.در حقیقت پہلو میں کھڑے ہونا تو قرب کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ مرتبے کی برابری کو، جس طرح ایک بچہ ، باپ کے پہلو میں کھڑا ہوتا ہے.اس قربت کو انا جیل کے ایسے محاورے بھی ظاہر کرتے ہیں کہ جن میں لکھا ہے کہ مسیح، خدا تعالیٰ کے دائیں ہاتھ بیٹھ گئے چنانچہ دیکھیں : متی باب 26،آیت 64 - مرقس باب 16 ، آیت 19.لوقا باب 22، آیت 69 وغیرہ وغیرہ گو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا کلام جماعت احمد یہ پر مجبت کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا.لیکن جو لوگ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریرات سے واقف ہیں وہ کامل یقین رکھتے ہیں کہ آپ حضرت مرزا صاحب کو کبھی خواب و خیال میں بھی آنحضرت ﷺ کے ہم مرتبہ نہیں سمجھتے تھے اور ایسے خیال کو کفر قرار وو دیتے تھے.پس ” پہلوؤں کے لفظ سے صرف حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قرب کا مضمون بیان کیا گیا ہے کہ یہ مقد رتھا کہ باقی لوگ جہاں پیچھے پیچھے آرہے تھے، امام مہدی کو خدا تعالیٰ کمال خلوص کے ساتھ متابعت میں قدم مارنے کی برکت سے اتنا قریب کر دے گا کہ جیسے ایک ہونہار شاگرد اپنے استاد کے پہلو میں چلتا ہے یا ایک فرمانبردار بیٹا اپنے بزرگ باپ کے پہلو میں چلنے کی سعادت پاتا ہے.بعینہ حضرت مرزا صاحب اپنے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہونے کی سعادت پاگئے.پس اگر یہ قابل اعتراض ہے تو پھر خدا کے پہلو میں اس کے دائیں ہاتھ بیٹھنے پر اس سے بھی زیادہ اعتراض پیدا ہوتا ہے.اور صلى الله اگر پہلو بہ پہلو ہو جانے سے توہین رسول کا الزام لا گو ہوتا ہے تو پھر یہ الزام سب سے پہلے آنحضرت و کے صحابہ پر صادر ہوتا ہے (نعوذ باللہ من ذلک) (3.4) صرف چاند کا گرہن اور زمانہ ہلال سے مشابہ گستاخی رسول ص کے عنوان کے تحت راشد علی کے پیر عبدالحفیظ نے لکھا ہے.مرزا صاحب کو یہ بھی خبط تھا کہ اپنے آپ کو دیگر انبیائے کرام کا ہم پلہ بلکہ ان سے بہتر سمجھتے تھے.چنانچہ اپنے
263 آپ کو حضور ﷺ سے افضل قرار دینے کی جدو جہد میں پہلے تو ان آیتوں کو اپنے اوپر چسپاں کیا جو اوپر دی گئیں ہیں.پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو کہا.له خسف القمر المنير وان لى غسا القمران المشرقان اتنكر اس کے لئے صرف چاند گرہن کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا.اب کیا تو انکار کرے گا.(روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 183 ) اپنی دوسری کتاب خطبہ الہامیہ میں حضور ﷺ کے زمانے کے اسلام کو ہلال اور اپنے اسلام کو بدر سے تعبیر کیا.روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 184) (الفتوى) راشد علی اور اس کا پیر اتنے کور باطن انسان ہیں کہ انہیں پتہ نہیں چلتا کہ اعتراض کس پر کر رہے ہیں.حقیقت میں یہ آنحضرت ﷺ کی حدیث پر اعتراض کر رہے ہیں.تمام علماء جانتے ہیں کہ چاند ، سورج گرہن کی پیشگوئی حضرت مرزا صاحب نے نہیں کی بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی تھی.اور یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے وقت میں چاند کا گرہن ہوا تھا.یہی بات حضرت مرزا صاحب نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت کے اظہار کے لئے بیان کی ہے.اور چاند اور سورج کے گرہن کو نہ تو کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور نہ ہی کبھی آپ کے کسی خلیفہ نے ، نہ ہی کسی احمدی عالم دین نے اور نہ ہی کسی عام احمدی نے آج تک آنحضرت ﷺ پر حضرت مرزا صاحب کی فضیلت کے طور پر پیش کیا.آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی پر ، جو ایک روشن حقیقت کی طرح چلی آ رہی ہے، گزشتہ چودہ سو سال میں دین کے مفکرین میں سے بھی کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے تو ایک چاند ہی کو گرہن لگا تھا تو مہدی کے لئے دونوں کو کیوں گرہن لگے گا اور کسی نے اس وجہ سے مہدی کی حضرت محمد پر فضیلت کا نہیں سوچا.لیکن پیر عبدالحفیظ اور اس کے مرید کے ذہن میں یہ فتنہ کو ندا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی تائید میں یہ نشان پیش کر کے محمد رسول اللہ ﷺ پر اپنی فضیلت کا اعلان کیا ہے یہ پیر ومرید کی نیت کی کبھی نہیں تو اور کیا ہے حملہ تو بظاہر حضرت مرزا صاحب پر کرتے ہیں لیکن عملاً ان کا یہ حملہ ان باتوں پر ہے جو حضرت مرزا صاحب کی تخلیق نہیں بلکہ وہ مسلمہ مسائل دینیہ ہیں جن کی سند محد مصطفی ﷺ سے ہے.اگر چہ کثرت کے ساتھ علماء نے چاند سورج گرہن کی پیشگوئی والی حدیث کو قبول کیا ہے اور ہندو الله
264 پاکستان میں حضرت مرزا صاحب سے پہلے اس کا خوب چرچا تھا کہ چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.لیکن اب آپ کے بعد یہ اسے امام باقر " کا قول قرار دینے لگے ہیں تا کہ آپ سے کسی نہ کسی طریق سے چھٹکارامل جائے جن کے زمانہ میں 1894ء میں معینہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن لگا.یہ تو ایک الگ بحث ہے، لیکن اس وقت بحث یہ ہے کہ چاند اور سورج ہر دو کا گرہن ہونا حضرت مرزا صاحب کی ایجاد نہیں کہ ان پر الزام دیا جائے کہ اپنی فضیلت کی خاطر ایک کی بجائے دوگر ہن بنالئے ہیں.اسے اگر حدیث نبوی نہ بھی مانیں تو یہ امام باقر " جو تقریباً چودہ سوسال قبل گزرے ہیں، کی پیشگوئی تو ثابت ہے جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے اور امام زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ کے بیٹے تھے.کروڑ ہا شیعہ انہیں امام مانتے ہیں ان کی طرز روایت یہ نہیں تھی کہ سلسلہ وار واقعات سناتے تھے کہ انہوں نے فلاں سے سنا اور فلاں نے فلاں سے سنا بلکہ اہل بیت نبوی ﷺ میں ان کی پرورش ہوئی اور جو باتیں وہ وہاں سنتے تھے وہی بیان فرما دیتے تھے اس لئے ان کی بیان فرمودہ روایت کو دوسرے پیمانے سے نہیں پرکھا جائے گا.بلکہ ان بزرگ آئمہ کے مقام اور ان کی نیکی اور تقویٰ کے اعلیٰ مقام اور مرتبہ کولو ظ ر کھتے ہوئے ، جو یہ آنحضرت کی طرف منسوب کریں اسے بدرجہ اولیٰ ملحوظ رکھنا ہوگا.اب راشد علی اور عبدالحفیظ مانیں یانہ ما نہیں کروڑ ہا شیعہ امام باقر کی اس روایت کو ہی ماننے پر مجبور ہیں اور سنی علماء میں سے بھی ایک بڑی تعداد اس روایت کا نہ صرف احترام کرتی آئی ہے بلکہ اس کے پورا ہونے کی منتظر بھی رہی ہے.اور ان پیر ومرید جیسے کج بحث بھی اس حقیقت سے بہر حال انکار نہیں کر سکتے کہ یہ حضرت مرزا صاحب کی بنائی ہوئی پیشگوئی نہیں.اگر بنائی ہے تو پھر ضرور امام باقر نے بنائی ہے.پس سوال یہ ہے کہ کیا امام باقر نے امام مہدی علیہ السلام کی رسول اللہ ﷺ پرفضیلت ثابت کرنے کے لئے ایسا کیا تھا؟ ضمناًیہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ روایت حدیث کی کتاب دار قطنی میں موجود ہے.جسے نہ صرف یہ کہ سنی علماء ایک پائے کی کتاب تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس مذکورہ بالا حدیث پر کبھی کسی نے کلام نہیں کیا.علاوہ ازیں سید عبدالحفیظ نے اس شعر سے آگے جو شعر اس زیر بحث شعر کی وضاحت کرتا تھا ، جاننے کے باوجود اس کو نظر انداز کیا ہے تا کہ وہ قارئین کو گمراہ کر سکے.اس اگلے شعر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.
265 ہے.وانى لظل ان يخالف اصله فمافيه في وجهي يلوح ويزهر یعنی سایہ کیونکر اپنے اصل سے مخالف ہو سکتا ہے پس وہ روشنی جو اس میں ہے وہی مجھ میں چمک رہی نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.وو جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت ﷺ کے معجزات ہیں.“ تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 496) پس اس باب میں آخری کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ مذکورہ بالا تحریر فیصلہ کن ہے جور اشد علی اور اس کا پیرلوگوں سے چھپاتے ہیں اور ان کے لئے گمراہی کے سامان کرتے ہیں.اسی ذیل میں انہوں نے گستاخی رسول “ کی دلیل کے طور پر لکھا ہے کہ ” خطبہ الہامیہ میں حضور کے زمانے کے اسلام کو ہلال اور اپنے اسلام کو بدر سے تعبیر کیا ہے.اس کا حوالہ انہوں نے روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 184 دیا ہے.یہ حقیقت افروز تفصیلی مضمون صفحہ 184 پر نہیں بلکہ صفحہ 273 سے لیکر آگے چند صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں سے ایک حصہ کو لے کر اس پیر نے ہدف اعتراض بنایا ہے یہ ان لوگوں کی بدیانتی ہے کہ مضمون کی تفصیل کو چھوڑ کر صرف ایک حصہ کو اچک لیتے ہیں اور اپنے جھوٹے اعتراضات کا نشانہ بناتے ہیں نیز یہ بھی کہ اعتراضات کرتے وقت یہ اپنے سے پہلے جھوٹوں کی نقل کرتے ہیں اور جو غلط سلط حوالہ پہلوں نے درج کیا ہوتا ہے وہی یہ بھی درج کر دیتے ہیں.مذکورہ بالا مسئلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آیت کریمہ "وَلَقَد نَصَرَكُم الله بِبَدرِ وَأَنتُم أَذِلَّةٌ “ کی تشریح میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ فانظر الى هذه الآية كالمبصرين ـ فانها تدلّ على البدرين باليقين - بدر مضت لنصر الاولين - وبدر كانت آية للاخرين “ پھر آگے جا کر یہ تحریر فرماتے ہیں کہ فان للآية وجهين، والنصر نصران، والبدر بدران - بدر تتعلق بالماضي وبدر تتعلّق بالاستقبال من الزمان “
266 اسی کتاب میں اس کا ترجمہ یہ تحریر ہے کہ " پس بیناؤں کی طرح اس آیت میں نگاہ کر.کیونکہ یہ آیت یقیناً دو بدر پر دلالت کرتی ہے.اوّل وہ بدر جو پہلوں کی نصرت کے لئے گزرا اور دوسرا وہ بدر جو پچھلوں کے لئے ایک نشان ہے.کیونکہ اس آیت کے دو رخ ہیں اور نصرت دو نصر تیں اور بدرد و بدر ہیں.ایک بدر گذشتہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا بد ر آ ئندہ زمانہ سے.“ پھر فرمایا.وكان الاسلام بدء كالهلال - وكان قدّر انّه سيكون بدراً في اخر الزمان والمآل باذن الله ذي الجلال - صفحه 275) کہ اسلام ہلال کی طرح شروع ہوا اور مقد رتھا کہ انجام کار آخر زمانہ میں بدر ہو جائے خدا تعالیٰ کے حکم سے.اس مذکورہ بالا ساری عبارت میں اور سارے مضمون میں کہیں بھی یہ مضمون نہیں ہے کہ حضور کے زمانہ کے اسلام کو ہلال اور اپنے زمانے کے اسلام کو بدر سے تعبیر کیا.یہ راشد علی اور اس کے پیر کی خرافات ہیں اور ان کی تلبیس کا شاہکار ہے کہ انہوں نے ایک پر معارف عبارت کو اپنے تلبسیا نہ معنے پہنانے کی کوشش کی ہے.اس مضمون سے جو ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ سارا زمانہ اسلام ہی کا زمانہ ہے.اس کا پہلا دور بھی بدر تھا اور دوسرا بھی بدر کیونکہ اسلام کو ملنے والی خاص نصرتیں بھی دو ہیں.ایک بدر کے موقع پر اور دوسری اس صدی کے موقع پر جو بدر سے مشابہہ ہے یعنی چودھویں صدی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی ایک عمومی تقدیر کا ذکر فرمایا ہے جس کے تحت ہر چیز اپنی ارتقائی منازل طے کرتی ہے.چنانچہ اسلام نے بھی اسی قانون قدرت کے تحت ترقی کی منازل طے کیں.وہ مکہ سے نکل کر مدینہ آیا اور پھر وہاں سے اردگرد کے علاقوں میں پھیلا اور پھر رفتہ رفتہ دنیا کے کناروں تک محیط ہو گیا.اسلام کی حدود کی ان وسعتوں پر چودہ صدیوں کا زمانہ صرف ہوا.اسلام کی ترقی کے اس ارتقائی سفر کے مضمون کو بزرگانِ امت نے بھی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے.مثلا یہ تفسیر روح المعانی تفسیر کبیر رازی اور تفسیر قرطبی وغیرہ میں زیر آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه ملاحظہ کیا جا سکتا ہے.اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضرت مولانامحمد اسماعیل
267 شہید (بالاکوٹ ) ، آیت لِيُظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله “ کے متعلق فرماتے ہیں." و ظاہر است کہ ابتدائے ظہور دین در زمان پیغمبر علاه بوقوع آمده و تمام آن از دست حضرت مهدی واقع خواهد گردید ( منصب امامت از مولانامحمداسماعیل شہید.صفحہ 70.آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور 1967ء) یعنی ظاہر ہے کہ دین کی ابتداء حضرت رسول مقبول ﷺ سے ہوئی لیکن اس کا اتمام مہدی کے ہاتھ پر ہوگا.پھر آیت ” قُل يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم جَمِيعًا“ کے تحت لکھتے ہیں: و ظاہر است که تبلیغ رسالت به نسبت جمیع ناس از آنجناب متحقق نکشته بلکه امر دعوت از شروع گردیده یوم فیومأ بواسطه خلفاء راشدین و ائمه مهدتین رو به تزاید کشید تا اینکه بواسطه امام مهدی با تمام خواهد رسید (منصب امامت - صفحہ 71) یعنی آنحضرت ﷺ کی رسالت کی تبلیغ حضور ﷺ کے زمانہ میں تمام لوگوں کو نہیں ہوئی بلکہ آہستہ آہستہ خلفاء راشدین اور دیگر ائمہ کے ذریعہ بڑھتی رہی اور اب امام مہدی کے ذریعہ اس کی تکمیل ہو گی.یہ عبارت ایک حقیقت افروز عبارت ہے.لیکن اس کے تناظر میں اگر راشد علی کے اعتراض کو دیکھا جائے تو وہ خلفائے راشدین، اور ان تمام آئمہ سلف کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے جو اسلام کی ترقی اور اشاعت کے لئے کام کرتے تھے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت کو ہدف اعتراض بنایا جا سکتا ہے تو مذکورہ بالا عبارتیں بدرجہ اولی قابل اعتراض ہیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے لئے یہی مقد رتھا کہ وہ بھی قانونِ قدرت کے تحت ارتقائی منازل طے کرے.ترقی اسلام کے اس سفر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چاند کے سفر سے تشبیہہ دی ہے کہ وہ گویا ہلال کی طرح طلوع ہوا اور آسمان زمانہ کی وسعتوں پر اپنی پوری کر نیں پھیلا دینے میں اس نے چودہ راتوں کا سفر طے کیا.یہ چودہ راتیں، چودہ صدیوں کے لئے بطور تمثیل کے ہیں مگر را شد علی اور اس کا پیر یہ تاثر پیدا کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نعوذ باللہ اپنے آپ کو بدر قرار دے رہے ہیں اور مقابل پر آنحضرت ﷺ کو ہلال.ہم ایسا بہتان لگانے والے پر اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں
268 اور تمام انسانوں کی لعنت بھیجتے ہیں اور تف بھیجتے ہیں ان کی اس جسارت پر.یہ اس شخص کے بارہ میں بات کر رہے ہیں کہ جب وہ اپنے لئے چاند کی تشبیہ بیان کرتا ہے تو مقابل پر محمد ﷺ کو سورج قرار دیتا ہے اور خود کو محمد رسول اللہ ﷺ سے روشنی اخذ کرنے والا چاند قرار دیتا ہے.ناممکن ہے کہ راشد علی یا اس کے پیر کی نظر سے یہ عبارتیں نہ گذری ہوں جو اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ یہاں ہلال سے رسول اللہ ﷺ اور بدر سے اور حضرت مرزا صاحب مراد نہیں بلکہ سراجاً منیرا کی وہ روشنی مراد ہے جس نے اسلام کو ہلالی حالت سے بدر میں تبدیل کرنا ہے.چنانچہ مرزا صاحب فرماتے ہیں: وان رسول الله شمس منيرة وبعد رسول الله بدر وكوكب کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحہ 103 ) ترجمہ :.رسول الله علی تو یقینا روشنی دینے والے سورج ہیں اور آپ کے بعد تو بدر اور کوکب کا زمانہ ہے.ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ’ وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرارا فاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور جس وقت تک ہم پر پڑتی ہے.اسی وقت تک ہم منو ررہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 119) نیز فرماتے ہیں: ” ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی ﷺ کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجز اقتداء اس امام الرسل کے حاصل ہو
269 سکیں کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی ﷺ کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے فلمی اور طفیلی طور پر ملتا ہے.“ (ازالہ اوہام حصہ اول.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 170) (5) نبی اللہ ، رسول ، محمد اور احمد را شد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حسب ذیل عبارت کو بھی ہدف اعتراض بنایا ہے.اس عبارت پر اعتراض اس کی کم عقلی اور نا سمجھی کا آئینہ دار ہے.اگر وہ اصل عبارت کو غور سے پڑھ لیتا تو شایداس پر اعتراض نہ کرتا.کیونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا.مگر بروزی صورت میں.میر انفس درمیان نہیں ہے.بلکہ محمد مصطفی یہ ہے.اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا.پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی.محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی.علیہ الصلوۃ والسلام.“ ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 216) اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بروزی صورت میں میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا ہے.جبکہ صاحب بروز اور اصل محمد مصطفی ﷺ ہیں.میر انفس درمیان میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اگر ایک بروز ہے تو دوسرا صاحب بروز.یعنی اصل تو محمد مصطفی اللہ ہی ہیں.میری حیثیت تو محض بروزی ہے.پس اس میں نہ تو حضرت محمد مصطفی ﷺ سے مقام ومرتبہ میں مقابلہ پایا جاتا ہے نہ ہی بعینہ حضرت محمد مصطفی کے ہونے کا مفہوم.پھر اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید کھول کر بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں: بروز کے لئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحب بروز کا بیٹا یا نواسہ ہو.ہاں یہ ضرور ہے کہ وو روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص مورد بروز صاحب بروز میں سے نکلا ہوا ہو.“ (صفحہ 213، ایضا) پس اس لحاظ سے بروز کا مقام صاحب بروز کے سامنے شاگر دیا بیٹے کا قرار پاتا ہے نہ یہ کہ وہ دونوں
270 ہم مرتبہ اور ہم مقام ہو جاتے ہیں.چنانچہ اپنے اس مقام کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی کتاب میں فرمایا ہے : ”ہاں یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ سے پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر 66 نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے.یعنی محمد مصطفیٰ.ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 112) بروز کی حقیقت بروز کا مسئلہ امت میں ایک مسلمہ حیثیت کا حامل ہے اور امت کے آئمہ اور صوفیاء اس مسئلہ پر متفق ہیں کہ بعض کاملین اس طرح دوبارہ دنیا میں آجاتے ہیں کہ ان کی روحانیت کسی اور میں تجلی کرتی ہے اور اسی وجہ سے دوسر الشخص گویا پہلا شخص ہی بن جاتا ہے.چنانچہ مشہور صوفی خواجہ غلام فرید آف چاچڑاں شریف نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں پیش فرمایا کہ ” والبروز ان يفيض روح من ارواح الكمل على كامل كما يفيض عليه التجليات 66 وهو يصير مظهره ويقول انا هو “ ( اشارات فریدی صفحہ 110 حصہ دوم.مولفہ رکن الدین صاحب.مطبوعہ مطبع مفید عام پریس آگرہ 1321ھ ) ترجمہ:.کاملین کی ارواح میں سے کوئی روح کسی کامل انسان پر افاضہ کرے جیسا کہ اس پر تجلیات کا افاضہ ہوتا ہے اور وہ اس کا مظہر بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں وہی ہوں.اسی طرح حضرت عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کا بروز قرار دیتے ہوئے اپنے وجود کو آنحضرت ﷺ کا وجود بیان کیا.فرمایا: وو ” هذا وجود جدى محمد علي الله لا وجود عبد القادر ( گلدسته کرامات - صفحه 8 از مفتی غلام سرور.مطبوعہ مفید عام لاہور ) کہ میرا وجود میرے دادا محمد ﷺ کا وجود ہے عبد القادر کا وجود نہیں.
271 بروز کے مسئلہ پر صوفیاء کے اتفاق کو بیان کرتے ہوئے قطب العالم شیخ المشائخ شیخ محمد اکرم صابری الحضی القد وی * لکھتے ہیں.روحانیت کمل گا ہے برار باب ریاضت چناں تصرف می فرماید که فاعل افعال شاں مے گردد و 66 ایس مرتبہ را صوفیاء بروز می گویند “ (اقتباس الانوار.صفحہ 52 مطبع اسلامیہ لاہور ) کہ کامل لوگوں کی روحانیت ارباب ریاضت پر ایسا تصرف کرتی ہے کہ وہ روحانیت کے ان افعال کی فاعل ہو جاتی ہیں.اس مرتبہ کو صوفیاء بروز کہتے ہیں.پس صوفیاء کے نزدیک بعض ارواح کی مناسبت سے جسم کو اسی کا نام دیا جاتا ہے.جس ہے جس سے وہ روح مناسبت رکھتی ہے.دیو بندیوں کے بزرگ جناب قاری محمد طیب صاحب مہتم دارالعلوم دیو بند ، اسی مناسبت سے مسیح موعود کے بارہ میں بیان فرماتے ہیں." بہر حال اگر خاتمیت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضور سے کامل مناسبت دی گئی تھی تو اخلاق خاتمیت اور مقام خاتمیت میں بھی مخصوص مشابہت و مناسبت دی گئی.جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسوی کو بارگاہ محمدی سے خلقاً و خُلقاً رتباً ومقاماً ایسی ہی مناسبت ہے جیسی کہ ایک چیز کے دوشریکوں میں یا باپ بیٹوں میں ہونی چاہئے.“ تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام - صفحه 129 - از قاری محمد طیب ماتم دار العلوم دیوبند.1986 نفیس اکیڈمی کراچی ) اس مسئلہ کو پوری طرح کھولنے کے بعد اب ہم مزید ثبوت کے لئے بزرگانِ امت کے بعض ایسے اقوال ذیل میں درج کرتے ہیں جن میں امت محمدیہ میں آنے والے مہدی معہود اور مسیح موعود کو آنحضرت ﷺ کی دوسری بعثت کا مظہر اور آپ کا ظلت اور بروز قرار دیا گیا ہے.معزز قارئین ! ان تحریرات سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ راشد علی اور اس کا پیر بزرگانِ امت کے ان عقائد اور تعلیمات سے بالکل آشنا نہیں.پھر ان کو مذہبی امور میں ایسے دعوے کرنے کا کوئی حق نہیں یا پھر ان سب باتوں کا علم رکھنے کے باوجود محض جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ایسی تحریریں امت مسلمہ کے لٹریچر میں کثرت سے موجود ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کی حضرت شیخ محمد اکرم صابری ابن محمد علی بر اسہ کے رہنے والے تھے اور ان کا تعلق حنفی مذہب سے تھا اور مسلک کے لحاظ سے قدوسی کہلاتے
272 تھے آپ نے اپنی تصنیف ” اقتباس الانوار میں آنحضرت ﷺ اور خلفائے راشدین اور اولیائے کرام کے حالات درج کئے ہیں.اور تصوّف کے مسائل بیان کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی روحانی تا شیرات کا ذکر فرمایا ہے.بعثت ثانیہ کا ذکر ہے اور آنے والے موعود کو اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا حل اور بروز قرار دیا گیا ہے.(1) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی جو کہ بارہویں صدی ہجری کے مجد دتھے ، فرماتے ہیں : اعظم الانبياء شانامن له نوع اخر من البعث ايضاً وذلك ان يكون مراد الله تعالى فيه ان يكون سبباً لخروج الناس من الظلمات الى النوروان يكون قومه خير امة اخرجت للناس فيكون بعثه يتناول بعثاً اخر “ (حجۃ اللہ البالغہ.جلد اول.باب حقیقۃ النبوۃ وخواصها.صفحہ 83 مطبوعہ مصر 128ھ ) یعنی شان میں سب سے بڑا نبی وہ ہے جس کی ایک دوسری قسم کی بعثت بھی ہوگی اور وہ اس طرح ہے کہ مراد اللہ تعالیٰ کی ، دوسری بعثت میں یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لانے کا سبب ہو اور اس کی قوم خیر امت ہو جو تمام لوگوں کے لئے نکالی گئی ہو لہذا اس نبی کی پہلی بعثت دوسری بعثت کو بھی لئے ہوئے ہوگی.“ ہیں: اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بروز حقیقی کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے امـا الـحـقـيـقـي فعلى ضروب.......وتارةً اخرى بان تشتبك بحقيقة رجل من آله او المتوسلين اليه كما وقع لنبينا بالنسبة الى ظهور المهدى “ تفہیمات الہیہ.جزو ثانی تفہیم نمبر 228 صفحہ 198، مطبوعہ مدینہ برقی پریس.بجنور 1936ء) یعنی حقیقی بروز کی کئی اقسام ہیں.کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک شخص کی حقیقت میں اس کی آل یا اس کے متوسلین داخل ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ کی مہدی سے تعلق میں.اس طرح کی بروزی حقیقت وقوع پذیر ہوگی.یعنی مہدی آنحضرت ﷺ کا حقیقی بروز ہے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اپنی کتاب ” الخير الكثير “ میں فرماتے ہیں: "حق له ان ينعكس فيه انوار سيّد المرسلين صلى الله عليه وسلّم ويزعم العامة انّه اذا نزل الى الارض كان واحداً من الامة كلاً بل هو شرح للاسم الجامع المحمّدى ونسخةً
273 منتسخة منه فشتان بينه وبين احد من الامة “ الخير الكثير صفحه 72 مطبوعہ مدینہ پریس بجنور ) یعنی امت محمدیہ میں آنے والے مسیح کا حق یہ ہے کہ اس میں سید المرسلین آنحضرت ﷺ کے انوار کا انعکاس ہو.عوام کا خیال ہے کہ میچ جب زمین کی طرف نازل ہوگا تو وہ صرف ایک امتی ہوگا.ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہو گا اور اس کا دوسرا نسخہ ہوگا.پس اس میں اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے.اس عبارت میں حضرت شاہ صاحب نے آنے والے مسیح کو آنحضرت ﷺ کے انوار کا پورا عکس اور آپ کا کامل ظل و بروز قرار دیا ہے.(2) حضرت امام عبدالرزاق قاشانی رحمتہ اللہ علیہ کی شرح فصوص الحکم میں لکھا ہے: وسلم 66.الله عليه " المهدى الذى يجئى فى اخر الزمان.....بـاطـنـه بـاطـن محمد صلی ( شرح فصوص الحکم.مطبوعہ مصرصفحہ 52) یعنی آخری زمانے میں آنے والے مہدی......کا باطن محمد رسول اللہ ﷺ کا باطن ہے.یہ قول انہوں نے سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا درج کیا ہے.اس میں بھی انہوں نے امام مہدی کے باطن کو آنحضرت ﷺ کا باطن قرار دے کر انہیں آپ کا عکس اور ظل و بروز ہی قرار دیا ہے.(3) شیخ محمد اکرم صابری صاحب لکھتے ہیں: صلى الله محمد بود که بصورت آدم در مبداء ظهور نمود یعنی بطور بروز در ابتداء آدم، روحانیت محمد مصطفی علی در آدم متجلی شد.وہم او باشد که در آخر بصورت خاتم ظاہر گردد یعنی در خاتم الولایت که مهدی است نیز روحانیت محمد علی بروز و ظهور خواهد کرد و تصرفها خواهد نمود (اقتباس الانوار.صفحہ 52 مولفہ شیخ محمد اکرم صابری.مطبعہ اسلامیہ لاہور ) - یعنی وہ محمد ﷺ ہی تھے جنہوں نے آدم کی صورت میں دنیا کی ابتدا میں ظہور فرمایا.اور ابتدائے عالم میں محد مصطفی ﷺ کی روحانیت بروز کے طور پر حضرت آدم میں ظاہر ہوئی اورمحمد ﷺ ہی ہوں گے جو آخری زمانہ میں خاتم الولایت امام مہدی کی شکل میں ظاہر ہوں گے یعنی محمد مصطفی ﷺ کی روحانیت مہدی میں بروز اور ظہور کرے گی.پس یہاں بھی امام مہدی کو آنحضرت ﷺ کا بروز قرار دیا گیا ہے.
274 (4) حضرت ملا جامی خاتم الولایت امام مہدی کے درجہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 66 فمشكوة خاتم الانبياء هي الولاية الخاصة المحمدية وهي بعينها مشكوة خاتم الاولياء لانه قائم بمظهريتها - “ ( شرح فصوص الحکم ہندی.صفحہ 69- از عبد الرحمن بن احمد الجامی.مطبع فیض بخش فیروز پور ) یعنی حضرت نبی کریم ﷺ کا مشکورہ باطن ہی محمدی ولایت کا خاصہ ہے اور وہی بجنسہ خاتم الاولیاء حضرت امام مہدی علیہ السلام کا مشکوۃ باطن ہے.کیونکہ امام موصوف آنحضرت ﷺ کے ہی مظہر کامل ہیں.اس عبارت میں بھی امام مہدی کو آنحضرت ﷺ کی صفات کا مظہر اور بروز قرار دیا گیا ہے.(5) عارف ربانی حضرت سید عبدالکریم جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وو " اس ( یعنی امام مہدی.ناقل ) سے مراد وہ شخص ہے جو صاحب مقام محمدی ہے اور ہر کمال کی بلندی میں کامل اعتدال رکھتا ہے.“ (انسانِ کامل.اردو.باب 61.علامات قیامت کے بیان میں صفحہ 270.مطبوعہ اسلامیہ ٹیم پریس لاہور ) (6) حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وو حضرت آدم صفی اللہ سے لے کر خاتم الولایت امام مہدی تک حضور حضرت محمد مصطفی ﷺ بارز ہیں.پہلی بار آپ نے حضرت آدم علیہ السلام میں بروز کیا ہے اور پہلے قطب حضرت آدم علیہ السلام ہوئے ہیں.دوسری بار حضرت شیث علیہ السلام میں بروز کیا ہے اس طرح تمام انبیاء اور رسل صلوات اللہ علیھم میں بروز فرمایا ہے یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ اپنے جسد عصری ( جسم ) سے تعلق پیدا کر کے جلوہ گر ہوئے اور دائرہ نبوت کو ختم کیا.اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق میں بروز فرمایا ہے پھر حضرت عمرہ میں بروز فرمایا پھر حضرت عثمان میں بروز فرمایا.اس کے بعد حضرت علی میں بروز فرمایا ہے.اس کے بعد دوسرے مشائخ عظام میں نوبت بہ نوبت بروز کیا ہے اور کرتے رہیں گے حتی کہ امام مہدی میں بروز فرماویں گے.پس حضرت آدم سے امام مہدی تک جتنے انبیاء اور اولیاء قطب مدار ہوئے ہیں.تمام روح محمد ﷺ کے مظاہر ہیں.اور روح محمدی نے ان کے اندر بروز فرمایا ہے.پس یہاں دو روح ہوئے ہیں ایک حضرت محمد ﷺ کی روح جو بارز ہے دوسری اس نبی یا ولی کی روح میں جو مبروز فیہ اور مظہر ہے.“ ( مقابیس المجالس.المعروف بہ اشارات فریدی.حصہ دوم صفحہ 111 112 موقہ رکن دین.مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ 1321ھ.زیر انتظام صوفی قادر علی خان )
275 اس عبارت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور آنحضرت ﷺ کے خلفاء اور امت میں پیدا ہو نیوالے جملہ اولیاء اور مجددین سب کے سب آنحضرت ﷺ کے بروز تھے.اسی طرح امام مہدی بھی بروز محمد ع ہوگا.(7) دیوبندی فرقہ کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ کے نواسے قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیو بند آنے والے مسیح کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: دو لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الد جالین کا اصلی مقابلہ تو خاتم النبیین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لئے نہ حضور گا دنیا میں تشریف لا نا مناسب نہ صدیوں باقی رکھا جانا شایانِ شان ، نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم قرار دیا جانا مصلحت اور ادھر ختم دجالیت کے استیصال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت تو کیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی.عام مجد دین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برآنہ ہو سکتے تھے جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے.بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک موثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو تو پھر شکست دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہوسکتی تھی کہ اس دقبال اعظم کو نیست و نابود کرنے کے لئے امت میں ایک ایسا خاتم الحجز دین آئے جو خاتم النبیین کی غیر معمولی قوت کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتم النبیین سے ایسی مناسبت تامہ رکھتا ہو کہ اس کا مقابلہ بعینہ خاتم النبیین کا مقابلہ ہو.مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجد د کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو.محض مرتبہ ولایت میں یہ حمل کہاں کہ وہ درجہ نبوت بھی برداشت کر سکے.چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے نہیں بلکہ اس انعکاس کے لئے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جو فی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو.تا کہ خاتم مطلق کے کمالات کا عکس اس میں اتر سکے اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے.اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہوسکتی تھی کہ انبیائے سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حد تک خاتمیت کی شان رکھتا ہو اس امت میں مجد د کی حیثیت سے لایا جائے.جو طاقت تو نبوت کی لئے ہو مگر اپنی نبوت کا منصب تبلیغ اور مرتبہ تشریح لئے نہ ہو بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اس امت میں کام کرے اور خاتم النبیین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے.“
276 تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام - صفحہ 228 229.ایڈیشن اول.مطبوعہ مئی 1986 ء نفیس اکیڈمی کراچی ) اس مسئلہ پر تفصیلی بحث سے ہم نے راشد علی اور اس کے پیر کے اعتراض کو کلیۂ جھوٹا ثابت کر دیا ہے لیکن مذکورہ بالا سچائیوں کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ کے سامنے اپنا جو مقام سمجھتے تھے وہ کیا تھا.آپ فرماتے ہیں: انظر الى برحمة و تحنن يا سيدى انا احقر الغلمان ترجمہ:.اے میرے آقا! میں آپ کا ادنی غلام ہوں، مجھ پر محبت اور شفقت کی نظر ڈالیں.اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے حضور یہ آپ کا وہ مقام غلامی ہے جس کا ابتداء سے تادم واپسیں آپ مسلسل اظہار فرماتے رہے.چنانچہ اپنی وفات سے چند دن پہلے آپ نے فرمایا: ہم پر جواللہ تعالیٰ کے فضل ہیں یہ سب رسول اکرم کے فیض سے ہی ہیں.آنحضرت سے الگ ہو کر ہم سچ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں اور خاک بھی نہیں.آنحضرت کی عزت اور مرتبہ دل میں اور ہر رگ وریشہ میں ایسا سمایا ہے کہ ان کو اس درجہ سے خبر تک بھی نہیں کوئی ہزار تپسیا کرے، چپ کرے، ریاضت شاقہ اور مشقتوں سے مشت استخوان ہی کیوں نہ رہ جائے مگر ہر گز کوئی سچا روحانی فیض بجز آنحضرت کی پیروی اور اتباع کے کبھی میسر آ سکتا ہی نہیں اور ممکن ہی نہیں.“ (الحکم 18 مئی 1908 صفحہ 4) سب ہم نے اس پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ لقا میں ہے ہم ہوئے غیر اہم تجھ ހނ تیرے بڑھنے ہی اے خیر رسل قدم آگے بڑہایا ہم نے (6) صلى الله آنحضرت ﷺ سے الگ نہ ہونے پر اعتراض را شد علی کے پیر خرافات سید عبدالحفیظ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک عارفانہ بیان کو
277 ہدف اعتراض بناتے ہوئے بڑی بدتمیزی سے یہ لکھا ہے.وو صد افسوس کہ مرزا غلام احمد قادیانی جیسے یہودی صفت لوگ ہمیشہ سرکار دو عالم ﷺ کی اس عظمت وشان کو گھٹانے کی فکر میں رہتے ہیں.ملاحظہ فرمائیے.مرزا صاحب فرماتے ہیں: من فرق بيني وبين المصطفى فما عرفني و ما راني - " جس نے مجھ میں اور مصطفیٰ میں فرق کیا اس نے مجھے نہیں دیکھا مجھے نہیں پہچانا.“ خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 259) کہاں حضرت محمد ﷺ جیسی عظیم ہستی اور کہاں مرزا غلام کہ نماز میں ایک چھوٹی سی سورۃ پڑھنے سے اختلاج ہونے لگتا تھا.چہ نسبت خاک را به عالم پاک !! (الفتوی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ جس پر اس پیر کو اعتراض ہے، دراصل ایک عارفانہ بیان ہے جو ہر امتی کی منزل اور ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ سے ہرگز الگ نہیں ہوسکتا بلکہ آپ کے ساتھ ملا ہوا ہے.لیکن اس پر اعتراض کر کے پیر عبدالحفیظ نے اپنی حیثیت بہر حال واضح کر دی ہے کہ وہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ سے بالکل الگ بھی ہے اور مخالف بھی.دوسری بات یہ مدنظر رکھنی ضروری ہے کہ پیر عبد الحفیظ نے جعلی پیروں والی وہی حرکت یہاں بھی کی ہے جس کی اسے عادت ہے.وہ کہیں اصل عبارتوں میں تحریف کرتا ہے تو کہیں معنوں میں.یہاں مذکورہ بالا عبارت کے معنوں میں اس نے تحریف کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” خطبہ الہامیہ میں لفظ فرق کا ترجمہ ” فرق نہیں بلکہ ” تفریق درج ہے.جبکہ پیر مذکور نے یہ ترجمہ بدل کر تفریق کی بجائے فرق کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت کے اصل معنی یعنی ” اور جو شخص مجھ میں اور مصطفیٰ میں تفریق کرتا ہے.“ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مجھے اور آنحضرت ﷺ کو الگ سمجھتا ہے یعنی ایک دوسرے کا غیر سمجھتا ہے تو اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے.لیکن پیر عبدالحفیظ نے لفظ ” تفریق کو فرق“ میں بدل کر یہ تاثر دیا ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعینہ محمد ہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور ان دونوں کا وجود ایک ہی ہے.نیز راشد علی نے لفظ ” رای “ کو ” رانی “ میں بھی بدلا ہے.صلى الله
278 بہر حال اس عبارت سے چند فقرے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود کو غلام کے مقام پر رکھ کر آنحضرت ﷺ کو اپنا آقا قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: ” سيدى خير المرسلين “ یعنی ( میرا آقا) میرا سردار خیرالمرسلین ﷺ اسی طرح اس سے کچھ پہلے یہ بھی لکھا ہے.وو صلى الله " والنسبة بينى وبينه كنسبة من علّم وتعلم “ (خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 259) کہ میری نسبت اس جناب ( حضرت محمد مصطفی علی ) کے ساتھ استاد اور شاگرد کی نسبت ہے.پس پیر عبدالحفیظ کا جھوٹا اعتراض محض بغض کی بناء پر ہے اس کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.باقی جہاں تک ایک وجود کا دوسرے وجود میں ہو جانے کے دعویٰ کا تعلق ہے.تو پیر عبدالحفیظ نے اپنے اسی زیر بحث مضمون میں یہ مسئلہ خود واضح کیا ہوا ہے اور اس نے ”فـنـا فـي الرسول“ کے مقام کی فلاسفی بھی بیان کی ہے.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ انس آگے چل کر یگانگت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور یہ محبت کی ابتداء ہے.جب اس محبت میں اضافہ ہوتا ہے تو الفتوی نمبر 23-جنوری 2000ء) محبت کو ہر لمحہ یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ تو من شدم من تو شدی.“ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فی الواقعہ عشق رسول ﷺ میں یہ انتہائی مقام حاصل تھا اور آپ اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت میں ہر لمحہ یہ محسوس کرتے تھے کہ تو من شدم من تو شدی.تو اس پر پیر عبدالحفیظ کا چیں بجیں ہونا چہ معنی دارد؟ اس مضمون کے بعض پہلو (۹) میں تمام نبیوں کے مظہر ہونے پر اعتراض کے باب میں ملاحظہ فرمائیں، جن میں بعض بزرگانِ امت آنحضرت ﷺ کے برابر تو کیا آپ میں مدغم ہوتے بیان ہوئے ہیں.اس مضمون کو ایک دوسرے زاویہ سے اگر دیکھا جائے تو رسولوں میں تفریق نہ کرنے کا اصول ایمان کا بنیادی جزو ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: امَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِهِ وَالمُومِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَينَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ (البقره:268)
279 ترجمہ:.رسول اس پر ایمان لے آیا جو اس کے رب کی طرف سے اس کی طرف اتارا گیا اور مومن بھی.(ان میں سے ) ہر ایک ایمان لے آیا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر (یہ کہتے ہوئے کہ ) ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کریں گے.اسی طرح فرمایا: " قُل أَمَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِم لَانُفَرِّقُ بَينَ أَحَدٍ مِّنهم وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (آل عمران : 85 ) ترجمہ:.تو کہہ دے ہم ایمان لے آئے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور جوابراہیم پر اتارا گیا اور اسماعیل پر اور الحق پر اور یعقوب پر اور (اس کی) نسلوں پر اور جو موسیٰ اور عیسی کو اور جو نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا.ہم ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور ہم اس کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں.پس ان آیات قرآنیہ کے تحت خدا تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام میں کوئی تفریق نہیں اور خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری اور ایمان کے اس لازمی رکن کا تقاضا یہ تھا کہ راشد علی اور اس کا پیر حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلام ، پاک مسیح کے درمیان بھی تفریق نہ کرتے اور جس سچائی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا ہے اسے قبول کرتے.(7) وو " محمد " پھر اتر آئے ہیں ہم میں گستاخی رسول “ کے عنوان کے تحت راشد علی کے پیر عبدالحفیظ نے مضمون میں سے حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب کے یہ دوشعر محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں محمد د یکھنے ہوں جس نے اکمل غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
280 درج کئے ہیں تا کہ یہ ثابت کریں کہ گویا جماعت احمد یہ آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتی ہے.معزز قارئین! یہ وہ اشعار ہیں جو جماعت احمدیہ کے عقائد سے ہرگز تعلق نہیں رکھتے نہ ہی یہ شاعر جماعت کی طرف سے مجاز سمجھے جاسکتے ہیں کہ وہ جماعتی مسلک کو بیان کریں.لیکن صرف یہی بات نہیں.اگر اس طرح ہر کس و ناکس کے خیالات پر فرقوں اور قوموں کو پکڑا جائے تو پھر تو دنیا میں کسی قوم اور فرقے کا امن قائم نہیں رہ سکتا.اب غور سے سن لیں جناب پیر ومرید صاحبان! اگر اکمل صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ شخص جو قادیان میں بروز محمد کے طور پر ظاہر ہوا، وہ اس محمد ﷺ سے اپنی شان میں بڑھ کر تھا جو مکہ میں پیدا ہوئے تو ہر گز یہ عقیدہ نہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے اور نہ ہی کوئی شریف النفس جو حضرت مرزا صاحب کی تحریرات سے واقف ہوا اسے احمدیت کی طرف منسوب کر سکتا ہے.حضرت مرزا صاحب تو زندگی بھر آنحضرت ﷺ کے حضور اس طرح عجز سے بچے رہے جس طرح قوموں کے لئے راہ بچھی ہو ہشی کہ آپ نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کی آل کے کوچے کی خاک کے برابر قرار دیا ہے.دیکھئے کس طرح والہانہ عشق کے ساتھ یوں گویا ہیں.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است اب سنئے اکمل صاحب کے ان اشعار کی بات کہ واقعہ کیا ہوا تھا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا.درحقیقت شاعر اپنی شعری دنیا میں بسا اوقات ایسی باتیں بیان کر جاتا ہے جو دراصل اس کے مافی الضمیر کو پوری طرح بیان نہیں کر پاتیں.اور بار ہا ایسا ہوا ہے کہ بعض اوقات شاعر کو خود اپنے شعروں کی وضاحت کرنی پڑتی ہے.بہر حال ان اشعار سے بھی جو غلط تاثر پیدا ہوتا ہے وہ غلط تاثر یقیناً ہر احمدی کے لئے جس نے یہ پڑھا سخت تکلیف کا موجب بنا.جب شاعر سے اس بارہ میں جواب طلبیاں ہوئیں اور مختلف احمدی قارئین نے ان اشعار کی طرز پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو ان صاحب نے ان اشعار کا جو مضمون اور مطلب خود پیش کیا وہ حسب ذیل تھا: وو مندرجہ بالا شعر دربار مصطفوی میں عقیدت کا شعر ہے.اور خدا جو علیم بذات الصدور ہے شاہد ہے کہ میرے واہمہ نے بھی کبھی اس جاہ وجلال کے نبی حضرت ختمیت مآب کے مقابل پر کسی شخصیت کو تجویز
281 نہیں کیا.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ بات میرے خیال تک میں نہ آئی کہ میں یہ شعر (آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں ) کہہ کر حضرت افضل الرسل کے مقابل میں کسی کو لا رہا ہوں.بلکہ میں نے تو یہ کہا کہ محمد مکا نزول ہوا یعنی بعثت ثانیہ اور یہ تمام احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ نہ تو تناسخ صحیح ہے نہ دوسرے جسم میں روح کا حلول بلکہ نزول سے مراد اس کی روحانیت کا ظہور ہے اور جو کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَلآخِرَةُ خَيرٌ لكَ مين الأولى.ہر آنے والے دن میں تیری شان پہلے سے زیادہ نمایاں اور افزوں ہوگی.بوجہ درودشریف اور اعمال حسنہ امت محمدیہ جن کا ثواب جیسا کہ عمل کرنے والے کے نام لکھا جاتا ہے ویسا ہی محترک و معلم کے نام بھی.اس لئے کچھ شک نہیں کہ نبی کریم ﷺ کی شان ہر وقت بڑھ رہی ہے اور بڑھتی رہے گی اور خدا کے وسیع خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں پس میں نے صرف یہی کہا کہ یہ سیدنا محمد مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی برکات و فیوض کا نزول پھر ہو رہا ہے اور آپ کے اترنے سے یہی مراد ہو سکتی ہے اور آپ کی شان پہلے سے بھی بڑھ کر ظاہر ہورہی ہے.اس شعر میں کسی دوسرے وجود کا مطلق ذکر نہیں ہے بلکہ اسی نظم میں آخری شعریہ ہے.غلام احمد مختار ہو کر یہ رتبہ تو نے پایا ہے جہاں میں یعنی حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام نے جو رتبہ مسیح موعود ہونے کا پایا ہے وہ حضرت احمد مجتبی محمد مصطفیٰ کی غلامی کے طفیل اور ان کی اتباع کا نتیجہ ہے.“ ( الفضل 13 اگست 1944 ء ) ظاہر ہے کہ یہ مفہوم قابل اعتراض نہیں.حضرت قاضی صاحب کے اس بیان کی صداقت آپ کے دوسرے کلام سے بھی ظاہر ہے.آپ فرماتے ہیں.اک پیامی وعظ کرتا تھا ہمارا میرزا امتی تھا یا مجدد اس سے بڑھ کر کچھ نہ تھا وه ه مسیح و مہدی موعود ہوں جس کے لئے نبی اللہ ہے فرمان محمد مصطفى ان اشعار میں آپ نے بڑے صاف لفظوں میں یہ بیان فرمایا ہے کہ آپ کے نزدیک حضرت مسیح
282 موعود علیہ السلام کا مقام آنحضرت ﷺ کے ارشادات کے مطابق اور آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق ، آپ کا امتی ہو کر مجد در موعود مسیح ، معہود مہدی اور نبی اللہ کا تھا.اس وضاحت کے باوجود اگر پھر بھی کوئی کہے کہ یہ مفہوم بعد میں شاعر نے بنالیا ہے اور دراصل اس کا اصل مفہوم وہ تھا جو بظا ہر دکھائی دیتا ہے اور جس پر پیر عبدالحفیظ نے حملہ کیا ہے تو بے شک ایسا سمجھے.مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ شاعر نے خود جو تشریح پیش کی ہو وہی دراصل اہلِ علم کے نزدیک قابل قبول ہوا کرتی ہے اور اگر یہ بات بھی کوئی تسلیم نہیں کرتا تو اسے یہ حق تو ہو سکتا ہے کہ اکمل صاحب کی طرف گستاخی منسوب کر کے ان پر بے شک ملامت کرے لیکن ان کی طرف منسوب شدہ گستاخی کو ہرگز جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کرنے کا اسے حق نہیں.ہم ایک بار پھر یہ اعلان کرتے ہیں کہ قاضی ظہور الدین اکمل صاحب کی بیان کردہ تشریح قابل اعتراض نہیں ہے لیکن اس کے باوجود معترض اپنے بنائے ہوئے معنے ہی اس شعر کو پہنانے پر مصر ہو تو یہ شعر تو ملامت کا سزاوار ہو سکتا ہے لیکن احمدیت ہرگز اس ملامت کا نشانہ نہیں بن سکتی.ایک دفعہ پھر ہم اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اکمل صاحب سمیت ہر احمدی کا عقیدہ آنحضرت ﷺ کی نسبت یہی تھا ، ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ : سب پاک ہیں پیمبراک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوری یہی (8) میرے دعوے کی حدیث بنیاد نہیں ہے راشد علی نے اپنی ” بے لگام کتاب“ میں ” نبوت کی بنیاد توہین رسالت یا عشق رسول؟ کے عنوان کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” نزول المسیح ،، کے ضمیمہ سے حسب ذیل عبارت پیش کی ہے اور شاید یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس عبارت میں (نعوذ باللہ ) رسول اللہ ﷺ کی توہین کی گئی ہے.وو ” میرے دعوے کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی ہاں تائیدی طور پر ہم وہ
283 حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم رڈی کی طرح پھینک دیتے ہیں.اگر حدیثوں کا دنیا میں وجود بھی نہ ہوتا تب بھی میرے اس دعوے کو کچھ حرج نہ پہنچتا تھا ہاں خدا نے میری وحی میں جابجا قرآن کریم کو پیش کیا ہے.چنانچہ براہین احمدیہ کو اٹھا کر دیکھو گے کہ اس دعوے کے متعلق کوئی حدیث نہیں بیان کی گئی.جابجا میری وحی میں خدا تعالیٰ نے قرآن کو پیش کیا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 140) اس جگہ بھی راشد علی نے تلبیسانہ کارروائی کی ہے اور اس عبارت سے پہلے کی چند سطور تحریر نہیں کیں.جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی ثناء اللہ امرتسری کی طرف سے پیش کردہ ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے مذکورہ بالا وضاحت کی ہے.اسی وجہ سے جو عبارت را شد علی نے پیش کی ہے، اس کے پہلے دو الفاظ کے درمیان سے حرف ” اس کو حذف کر دیا ہے.اصل عبارت اس طرح ہے.” میرے اس دعوی کی..چونکہ لفظ اس اس مخصوص مسئلہ کی وضاحت کی طرف اشارہ کرتا تھا اس لئے راشد علی نے اس کی تحریف کر دی.ہیں.وو اب ملاحظہ فرمائیں مذکورہ بالا عبارت سے پہلے کی چند سطور.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے پھر مولوی ثناء اللہ صاحب کہتے ہیں کہ آپ کو مسیح موعود کی پیشگوئی کا خیال کیوں دل میں آیا.آخر وہ حدیثوں سے ہی لیا گیا پھر حدیثوں کی اور علامات کیوں قبول نہیں کی جاتیں.یہ سادہ لوح یا تو افتراء سے ایسا کہتے ہیں اور یا محض حماقت سے ، اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ نزول المسح ضمیمہ.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 140) میرے اس دعوی اس عبارت میں صاف واضح ہے کہ یہاں صرف مسئلہ مسیح موعود کی بابت حدیثوں کا تھا.اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ میرے اس دعویٰ کی بنیا د حدیث نہیں.ہاں جو احادیث اس دعوئی کی تائید میں قرآن کریم کے مطابق ہوں یا الہام الہی کے مطابق ہوں ان کو آپ نے جگہ جگہ بار بار اپنی تائید میں پیش کیا.اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آنحضرت ﷺ کی احادیث مبارکہ نہ قرآن کریم کے منافی ہو سکتی ہیں اور نہ ہی بعد میں کسی ملہم من اللہ بزرگ کی وحی کے معارض.ہاں وہ وضعی باتیں جو بعد میں آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کی گئیں اور انہیں احادیث قرار دیا گیا وہ واقعہ رڈی کی طرح پھینکی جانے والی ہیں کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے فرمودات ہی نہیں ہیں.آخر ایسی وضعی احادیث کو تحفظ
284 دینے پر راشد علی وغیرہ مصر کیوں ہیں؟ یہ بیچارے اس حد تک مسخ ہو چکے ہیں کہ ایک طرف قرآن کریم کے منافی حدیثوں پر ان کی غیرت بھڑک اٹھتی ہے لیکن اسی لمحے یہ ان احادیث رسول کو جو قرآن کریم کے عین مطابق ہیں اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت بھی ان پر مہر تصدیق ثبت کر چکی ہے ، بڑی دیدہ دلیری سے رڈی کوڑے کرکٹ کی طرح نہ صرف حقیر سمجھ کر ترک کرتے ہیں بلکہ اسے نشانہ تضحیک و تمسخر بھی بناتے ہیں.چنانچه دارقطنی والی حدیث کسوف و خسوف پر جس طرح انہوں نے اپنی تحریروں میں استہزاء کیا ہے اور اسے رڈی قرار دیا ہے، بجائے خود وہ ان کے جھوٹا ہونے کا کھلا کھلا ثبوت ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعصب اور بغض نے ان کو اندھا کیا ہوا ہے اس لئے یہ اصل بحث کو نظر انداز کر کے عبارت کا ایک ایسا ٹکڑا چن لیتے ہیں جو ان کی دانست میں مور داعتراض ٹھہر سکتا ہے.حالانکہ اس پیش کردہ اقتباس میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس پر توہین رسالت کا عنوان لگایا جا سکے.بلکہ یہ تو توقیر رسالت کا مسئلہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے والی ہر اس وضعی بات کو دلائل و بصیرت کے ساتھ قرآن کریم کے آئینہ میں پرکھ کر رو کر دیا جائے اور کوئی بات آپ کی طرف ایسی منسوب نہ ہونے دی جائے جو آپ کے مقام برتر گمان و وہم کے خلاف ہو.اگر راشد علی کو اعتراض اس بات پر تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنِ کریم سے مخالف و معارض حدیثوں کو رڈی کی طرح پھینک دینے کے بارہ میں لکھا ہے تو پھر انہیں چاہئے کہ یہ بھی ساتھ لکھتے کہ اس کے برخلاف ان کا اپنا مسلک یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے خلاف حدیث کو قبول کرتے ہیں اور قرآن کریم کورڈی کی طرح چھوڑ دیتے ہیں (نعوذ باللہ ).اگر وہ اپنے موقف میں بچے ہیں تو ایسا اعلان کر دیں.یا یہ اعلان کر دیں کہ وہ قرآن کریم سے مخالف و معارض وضعی حدیثوں کو ر ڈ نہین کرتے بلکہ انہیں اپنے ایمان و عقائد کی بنیاد بناتے ہیں.چونکہ یہ لوگ اپنی کارروائیوں میں جھوٹے اور فریبی ہیں اس لئے انہوں نے اسی کتاب میں سے ارد گرد کی دیگر عبارتیں پیش نہیں کیں جو ان کے پیش کردہ اقتباس کی وضاحت بھی کرتی ہیں.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عبارت سے پہلے یہ بھی فرمایا ہے کہ دو علاوہ اس کے ان حدیثوں کے درمیان اس قدر تناقض ہے کہ اگر ایک حدیث کے برخلاف
285 دوسری حدیث تلاش کرو تو فی الفور مل جائے گی.پس اس سے قرآن شریف کے بینات کو چھوڑ نا اور ایسی متناقض حدیثوں کے لئے ایمان ضائع کرنا کسی اللہ کا کام ہے نہ عقلمند کا.پھر یہ بھی سوچو کہ اگر قرآن کے مخالف ہو کر حدیثیں کچھ چیز ہیں تو نماز کی حدیثوں کو تو سب سے زیادہ وقعت ہونی چاہئے تھی اور تو اتر کے رنگ میں وہ ہونی چاہئے تھیں مگر وہ بھی آپ لوگوں کے تنازع اور تفرقہ سے خالی نہیں ہیں.یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں اور رفع یدین اور عدم رفع اور فاتحہ خلف امام اور آمین بالجبر وغیرہ کے جھگڑے بھی اب تک ختم ہونے میں نہیں آئے اور بعض بعض کی حدیثوں کو رد کر رہے ہیں.اگر ایک وہابی حنفیوں کی مسجد میں جا کر رفع یدین کرے اور امام کے پیچھے فاتحہ پڑھے اور سینہ پر ہاتھ باندھے اور آمین بالجبر کرے تو گواس عمل کی تائید میں چارسو صحیح حدیث سنادے تب بھی وہ ضرور مارکھا کر آئے گا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء سے ہی حدیثوں کو بہت عظمت نہیں دی گئی اور امام اعظم جو امام بخاری سے پہلے گزر چکے ہیں بخاری کی حدیثوں کی کچھ پروا نہیں کرتے اور انکا زمانہ اقرب تھا.چاہئے تھا کہ وہ حدیثیں ان کو پہنچتیں.اس لئے مناسب ہے کہ حدیث کے لئے قرآن کو نہ چھوڑا جائے.ور نہ ایمان ہاتھ سے جائے گا.اِنَّ الظَّنَّ لَا يُعْنِي مِنَ الحَقِّ شَيئًا.پھر اگر حکم کا فیصلہ بھی نہ مانا جائے تو پھر وہ حکم کس چیز کا.ماسوا اس کے اگر نہایت ہی نرمی کریں تو ان حدیثوں کو ظن کا مرتبہ دے سکتے ہیں اور یہی محدثین کا مذہب ہے.اور ظن وہ ہے جس کے ساتھ کذب کا احتمال لگا ہوا ہے پھر ایمان کی بنیاد محض ظن پر رکھنا اور خدا کے قطعی یقینی کلام کو پس پشت ڈال دینا کونسی عقلمندی اور ایمانداری ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام حدیثوں کورڈی کی طرح پھینک دو بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ان میں سے وہ قبول کرو جو قرآن کے منافی اور معارض نہ ہوں تا ہلاک نہ ہو جاؤ.ماسوا اس کے مولوی محمد حسین صاحب جو موحدین کے ایڈوکیٹ کہلاتے ہیں اپنے اشاعۃ السنہ میں جس میں انہوں نے براہین احمدیہ کار یو یولکھا ہے تحریر فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کو بذریعہ کشف کے آنحضرت ﷺ کی حضوری ہوتی ہے وہ محد ثین کی تنقید کے پابند نہیں ہو سکتے بعض حدیثیں جو محدثین کے نزدیک صحیح
286 ہیں وہ اپنے کشف کے رو سے ان کو موضوع قرار دیتے ہیں اور بعض حدیثیں جو محد ثین کے نزدیک موضوع ہیں وہ ان کی نسبت اپنے کشف کی شہادت سے صحت کا یقین رکھتے ہیں.پس جبکہ یہ بات ہے تو پھر وہ جو سیح موعود اور حکم ہونے کا دعوی کرتا ہے کیوں مولوی صاحب اس پر اس قدر ناراض ہیں کہ اس کا کشف دوسروں کے کشف کے برابر بھی نہیں مانتے حالانکہ وہ قرآن کے مطابق ہے جب قرآن و کشف کا تظاہر ہو گیا بلکہ بعض حدیثوں نے بھی اس کی تائید کی تو پھر تو اس کے قول کو قبول کرنا چاہئے ورنہ مسیح موعود کا نام حکم رکھنا کیا ضمیمہ نزول مسیح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 137 1397 ) فائدہ امت میں آنے والے مسیح موعود کا مقام و مرتبہ تو بہت بلند ہے.اس پر خدا تعالی کی وحی پر راشد علی چیں بجیں ہے لیکن ادھر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے تو احادیث کی چھان پھٹک کی بناء بزرگانِ امت کے کشوف پر ہی رکھدی ہے.نہ صرف یہ بلکہ اس اصول سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے خود اپنے اختیار سے مہدی کے بارہ میں ساری احادیث کور د بھی کر دیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : بھی تھوڑے دن گزرے ہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب نے سرکار انگریزی کو مہدی کے بارے میں ایک کتاب پیش کر کے خوش کر دیا ہے جس میں لکھا ہے کہ مہدی کے بارے میں کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں ہوئی اور زمین کا انعام بھی پایا ہے معلوم نہیں کہ کس صلہ میں.مگر خدمت تو یہی ہے کہ مہدی کے وجود پر قلم نسخ پھیر دیا ہے.“ ضمیمه نزول مسیح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 136) را شد علی نے از راہ تلبیس ، سیاق و سباق سے الگ کر کے صرف اس تحریر کو لیا ہے جو اس کے زعم میں اعتراض کے قابل تھی.اگر اس میں ذرہ برابر بھی دیانتداری ہوتی تو اپنے بزرگوں کے کارناموں کو دیکھ کر شرم کرتا نہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض.(9) تمام نبیوں کا مظہر ہونے پر اعتراض راشد علی اور اس کے پیر نے اپنی ” بے لگام کتاب میں فریب و افتراء کی ایک اور ادا کا اظہار
287 آنحضرت ﷺ کی توہین کے الزام کے تحت یوں کیا ہے کہ حسب ذیل عبارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کی ہے.دنیا میں کوئی نبی ہی نہیں گذرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا.سوجیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایا ہے کہ میں آدم ہوں.میں نوح ہوں ، میں ابراہیم ہوں ، میں الحق ہوں ، میں یعقوب ہوں ، میں اسماعیل ہوں ، میں عیسی ہوں.میں ابن مریم ہوں ، میں محمد علی ہوں یعنی بروزی طور (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 76) وو اس حوالہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل تحریر دیکھیں تو وہ کچھ یوں ہے: 66 اس وحی الہی میں خدا نے میرا نام رسل رکھا کیونکہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے خدا تعالیٰ 66 ، نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں.میں آدم ہوں، میں شیث ہوں ، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں الحق ہوں، میں اسمعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں ، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسی ہوں اور آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر اتم ہوں یعنی ظامی طور پر محمد اور احمد ہوں.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 76 حاشیہ ) دیکھئے! یہ پیر اور مرید کس طرح اصل عبارتوں کے ساتھ صرف بدیانتی ہی نہیں کرتے بلکہ کھلا کھلا دجل بھی کرتے ہیں.اصل عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف لکھا ہے کہ ” خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے.اور یہ بات ہر صاحب فہم اچھی طرح جانتا ہے کہ مظہر ہونے کا مطلب اصل ہونا ہرگز نہیں ہوتا.بلکہ اس کا لازمی خاصہ یہ ہے کہ مظہر اور اصل الگ الگ وجود ہوں.جیسا کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہیں تو اس کا لازمی اور قطعی نتیجہ یہ ہے کہ آپ خدا نہیں ہیں.بعینہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گذشتہ انبیاء علیہم السلام کے مظہر ہیں بجنسہ وہ نہیں ہیں.یہ مضمون جس لفظ سے پھوٹ پھوٹ رہا ہے وہ راشد علی اور اس کا پیراز راہ دجل چھپا گئے ہیں.علاوہ ازیں انہوں نے لکھا ہے ” میں محمد ﷺے ہوں یعنی بروزی طور پر لیکن یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہیں لکھا.بلکہ آپ نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ.صلى الله ،، آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر اتم ہوں یعنی ظلمی طور پر محمد اور احمد ہوں.“
288 آپ کی اس عبارت کو ہدف اعتراض نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ یہاں دعوی یہ نہیں کہ میں محمد تہوں بلکہ دعوی یہ ہے کہ میں آپ کے نام کا مظہر اتم ہوں یعنی آپ کا نام بالکل الگ ہے اور اس کا مظہر بالکل الگ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعینہ حضرت محمد مصطفیٰ نہیں ہیں بلکہ ان کے نام کے مظہر ہیں اور آپ کو جو نام محمد اور احمد دیا گیاوہ مظہریت کا آئینہ دار ہے اور ظل اور سایہ کے طور پر ہے اور اس کا صاف مفہوم یہی ہے کہ آپ بجنہ محمد ﷺ نہیں ہیں.پس مظہریت کا مقام اور مرتبہ قابلِ اعتراض نہیں ہے.ہاں عبارتیں بدلنے کی جو بدیانتی راشد علی اور اس کا پیر کرتے ہیں وہ قابل مذمت ولعنت ہے.اسی نوع کے ایک اور اعتراض کے جواب میں کچھ بحث ہم باب اوّل میں بھی کر آئے ہیں یہاں اس مضمون کو مزید کھولنے کے لئے ذیل میں چند اقتباس درج کئے جاتے ہیں.ملاحظہ فرمائیں.تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ کسی نے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا: ” عرش کیا ہے؟ فرمایا میں ہوں.پوچھا کرسی کیا ہے؟ فرمایا میں ہوں.پوچھا لوح وقلم کیا ہے؟ 66 فرمایا میں ہوں.پوچھا کہتے ہیں ابراہیم ، موسی اور محمد ﷺ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں؟ فرمایا میں ہوں.“ ( تذکرۃ الاولیاء.اردو.باب 14 صفحہ 128.شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز ) حضرت مولانا شاہ نیاز احمد دہلوی نے تمام نبیوں کا بروز ہونے کا دعویٰ کیا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں: آدم و شیث و نوح و ہود غیر حقیقتم بود صاحب ہر عصر منم من نه منم نه من منم عیسی مریکی منم احمد ہاشمی منم حیدر شیر نرمنم من نه منم نه من منم یعنی آدم، شیث ، نوح، ہود، عیسی مریمی ، احمد ہاشمی ، حیدر شیر خدا بلکہ ہر صاحب عصر میں ہوں.دیوان نیاز صفحہ 22 مطبوعہ 1290ھ ) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں.
289 ' کا تب الحروف نے حضرت والد ماجد کی روح کو آنحضرت ﷺ کی روح مبارک کے سائے (ضمن ) میں لینے کی کیفیت کے بارے میں دریافت کیا تو فرمانے لگے یوں محسوس ہوتا تھا، گویا میرا وجود 66 آنحضرت ﷺ کے وجود سے مل کر ایک ہو گیا ہے.خارج میں میرے وجود کی کوئی الگ حیثیت نہیں تھی.“ (انفاس العارفین.اردو.صفحہ 103 - از حضرت شاہ ولی اللہ ترجمہ سید محمد فاروق القادری ایم اے ناشر المعارف گنج بخش روڈ لا ہور ) پھر فرماتے ہیں کہ میرے چچا حضرت شیخ ابوالرضا محمد رضی نے فرمایا کہ حضرت پیغمبر ﷺ کو میں نے خواب میں دیکھا جیسے مجھے اپنی ذات مبارک کے ساتھ اس انداز سے قرب واتصال بخشا کہ جیسے ہم متحد الوجود ہو گئے ہیں اور اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کا عین پایا.(انفاس العارفین - صفحہ 192 - حصہ دوم در حالات شیخ ابوالرضا محمد ) راشد علی اور اس کے پیر کو چاہئے کہ جس دریدہ دہانی سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر گندے حملے کرتے ہیں امت کے ان بزرگوں پر بھی کر کے دکھا ئیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ وہ ان حملوں میں کس حد تک سنجیدہ ہیں.باقی رہا اعتراض دیگر انبیاء علیہم السلام کے ناموں کے ملنے پر اور ان کے مظہر ہونے پر تو اس کا کچھ جواب تو راشد علی اور اس کے پیر کے پیش کردہ عنوان ” متوازی امت“ کے تحت آچکا ہے.اب مزید عرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس امت کے وہی موعود مسیح اور مہدی معہود ہیں جن کے بارہ میں قرآنِ کریم فرماتا ہے.وَإِذَا الرُّسُلُ اقْتَت (المرسلت :12 ) کہ اس وقت تمام رسول ایک وقت مقررہ پر ا کٹھے کئے جائیں گے.اسی وجہ سے حضرت امام باقر کو ، جو اہلِ بیت نبوی میں سے تھے اور مسلمانوں کے مسلمہ آئمہ میں سے تھے، خدا تعالیٰ نے امام مہدی کے حالات سے جب آگاہی بخشی تو آپ نے اس کے بارہ میں فرمایا کہ وہ جب آئے گا تو اعلان کرے گا کہ ”اے لوگو! اگر تم میں سے کوئی ابراہیم اور اسمعیل کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی ابراہیم اور اسمعیل ہوں اور اگر تم میں سے کوئی موسی اور یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی موسیٰ اور یوشع ہوں اور اگر تم میں سے کوئی محمد ﷺ کو اور امیر المومنین کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ محمد مصطفیٰ ﷺے اور 66 امیر المومنین میں ہی ہوں.“ ( بحارالانوار از محمد تقی محمد باقر مجلسی جلد 13 صفحہ 202.مطبوعہ ایران )
290 پھر اسی کتاب میں امام مہدی کی یہ شان بھی بیان کی گئی ہے کہ ياتي بذخيرة الانبياء “ 66 ( بحارالانوار جلد 13 - باب ماورد من اخبار اللہ ) کہ وہ اپنے ساتھ انبیاء علیہم السلام کا ذخیرہ لے کر آئے گا یعنی ان کے مجموعہ کی صورت میں آئے گا.پس ملا حظہ فرمائیں کہ یہ پیشگوئی اور امام مہدی کی علامت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زیر بحث بیان ، آیت قرآنی وَإِذَا الرُّسُلُ أفتت کے کس قدر مطابق اور کس قدر قریب ہے مگر سچائی کے دشمنوں کے لئے قابل اعتراض ہے.یاللعجب !! (10) کیا رسول اللہ ﷺ آخری نبی نہیں ہیں؟ را شد علی نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب ازالہ اوہام میں فرمایا ہے کہ "Hazrat Rasool -e- Akram is not the last and final Messenger of God." ( Beware....) اس بارہ میں ہم قبل ازیں ” ترجمہ و معانی میں تحریف“ کے عنوان (ii) کے تحت سیر حاصل بحث کر آئے ہیں.یہاں صرف اتنا عرض ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بالکل ایسا نہیں فرمایا بلکہ آپ نے اپنی کتب میں عربی ، اردو اور فارسی زبان میں نظم میں بھی اور نثر میں بھی یہ بدلائل قومیہ یہ ثابت فرمایا ہے کہ آنحضرت مقام و مرتبہ کے لحاظ سے بھی آخری نبی ہیں اور شریعت کے لحاظ سے بھی.یہی وہ درست عقیدہ ہے جو امت کے بزرگانِ سلف کا بھی تھا.جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوری منطق اور عرفان کے ساتھ ثابت فرمایا ہے اسی سے آنحضرت ﷺ کا روحانی کمال اور بلند مقام ومرتبہ ثابت ہوتا ہے جیسا کہ حضرت
291 مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خاتم النبین ہونا ہمارے نبی ﷺ کا کسی دوسرے نبی کے آنے سے مانع ہے.ہاں ایسا نبی جو مشکوۃ نبوت محمدیہ سے نور حاصل کرتا ہے اور نبوت تامہ نہیں رکھتا جس کو دوسرے لفظوں میں محدّث بھی کہتے ہیں وہ اس تحدید سے باہر ہے کیونکہ وہ باعث اتباع اور فنافی الرسول ہونے کے جناب ختم المرسلین کے وجود میں ہی داخل ہے جیسے جز کل میں داخل ہوتی ہے.“ نیز فرمایا: (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 140) ” مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین نہیں صلى الله مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے.ہم جس قوت ، یقین ، معرفت اور بصیرت سے آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف بھی نہیں ہے.وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں ، انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) آنحضرت ﷺ کو ختم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں.“ ( ملفوظات.جلد اول صفحہ 342) وقت اور زمانے کے لحاظ سے سب سے آخر میں مبعوث ہونے میں کسی کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہو سکتی.چنانچہ مولانامحمد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں.وو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب سے آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخیر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقامِ مدح میں وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ
292 دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخیر زمانی صحیح ہوسکتی ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی." ( تحذیرالناس صفحہ 7.مطبوعہ مکتبہ قاسم العلوم کورنگی کراچی.1396ھ ) اسی طرح نامور صوفی حضرت ابو عبداللہ محمد بن علی حسین الحکیم الترندی (المتوفی 308ھ) فرماتے ہیں: 66 الجهلة “ " يظن ان خاتم النبيّن تاويله انه آخرهم مبعثاً فاى منقبة في هذا ؟ هذا تاويل البله (کتاب.خاتم الاولیاء.صفحہ 341 - المكتبه الكاثولیکیة بیروت) ترجمہ:.یہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ خاتم النبیین کی تاویل یہ ہے کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں.بھلا اس میں آپ کی کیا فضیلت وشان ہے؟ اور اس میں کونسی علمی بات ہے؟ یہ تو احمقوں اور جاہلوں کی تاویل ہے.پس آنحضرت یہ مقام اور مرتبہ اور شان اور صفات کے اعتبار سے اور شریعت کے اعتبار سے سب سے آخری نبی ہیں لیکن زمانہ اور وقت اور بعثت کے اعتبار سے نہیں کیونکہ فضیلت اور کمال ، مقام ومرتبہ کے لحاظ سے ہوتا ہے زمانہ کے لحاظ سے نہیں.(11) آنحضرت ﷺ کوسورۃ الزلزال کے معنے سمجھنے میں غلطی لگی راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ اتہام بھی لگایا ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ حضرت محمد نے سورۃ الزلزال کے معنے غلط سمجھے تھے (نعوذ باللہ ).چنانچہ وہ لکھتا ہے: "Mohammad Prophet misunderstood the meaning of surah Alzilzal." (Beware.....) اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں لعنة الله علی الکاذبین.یہ راشد علی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کھلا کھلا افتراء ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی کوئی بات کسی جگہ بھی بیان نہیں کی بلکہ فرمایا
293 ہے کہ سب سے زیادہ قرآن کریم کے معنے سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ نبی حضرت رسول اللہ تھے.پس اگر آنحضرت ﷺ سے کوئی تفسیر ثابت ہو جائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلا توقف اور بلا دغدغہ قبول کرے.نہیں تو اس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہوگی.“ ( برکات الدعا.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 18 ) نیز فرمایا: 66 تھے."كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعلم الناس بمعانی القرآن ورموزه واسراره حمامة البشری.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 260) که رسول کریم ﷺ قرآن کریم کے معانی اور اس کے اسرار و رموز کے سب سے بڑے عالم پس را شد علی پرلے درجہ کا جھوٹا اور بہتان تراش ہے.(12) آنحضرت کے الہامات بھی غلط نکلے (نعوذ باللہ ) جھوٹا را شد علی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف نعوذ باللہ یہ بات بھی منسوب کرتا ہے کہ آپ نے ازالہ اوہام میں لکھا ہے کہ صلى الله "Hazrat also Mohammad revelations became wrong." (Beware....) کہ حضرت محمد علیہ کے الہامات بھی غلط ثابت ہوئے.یہ قطعی جھوٹ ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہے.اس پر ہم کہتے ہیں لعنة الله على الكاذبين “
294 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب 'ازالہ اوہام الف سے لے کر یاء تک پڑھ ڈالیں.کسی ایک جگہ بھی آپ کو یہ بات نہیں ملے گی کہ نعوذ باللہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے الہامات غلط ہو گئے تھے.جس نے بھی ایسی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کی ہے وہ لعنتی ہے.کیونکہ سید الانبیاء حضرت محمد صلى الله رسول اللہ ﷺ کے بارہ میں ایسی بات لکھنا انسان کو خدا تعالیٰ کی لعنت کا مورد بنا دیتا ہے.پس یہ لعنت راشد علی نے خود اپنے لئے پسند کی ہے.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقاومولی آنحضرت ﷺ کے بارہ میں اپنا عقیدہ اور مذہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرا یہ مذہب ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خالص کلام لعل کی طرح چمکتی ہے لیکن بایں ہمہ قرآن شریف آپ کی خالص کلام سے بالکل الگ اور ممتاز نظر آتا ہے.“ ( الحکم 24 اپریل 1903ء) جہاں تک آنحضرت ﷺ کا اپنے الہامات پر اجتہاد کا تعلق ہے تو اس بارہ میں سورہ انفتح کی الله آیت نمبر 28 میں جس رؤیا کا ذکر ہے اس میں آنحضرت ﷺ کے اپنے عمل سے ایک ایسا راہنما اصول قائم ہوا ہے، جسے ہر مسلمان تسلیم کرتا ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے رویا میں دکھایا کہ مسلمان بے خوف ہوکر بالکل امن سے خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور سرمنڈوا کر احرام کھول رہے ہیں اس پر آنحضرت صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق چودہ سوصحابہ کی جماعت کے ساتھ عمرہ (چھوٹے حج) کے لئے روانہ ہو گئے جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو مشرکین مکہ نے آپ کا داخلہ روک دیا.چونکہ رویا بتاتی تھی کہ مکہ میں داخلہ امن سے ہوگا اور کوئی خوف نہیں ہوگا.اس لئے صحابہ کو تلوار کے علاوہ دیگر اسلحہ ساتھ لے جانے کی اجازت نہ تھی.حدیبیہ کے مقام پر آنحضرت ﷺ کو مشرکین مکہ سے ان کی خواہش پر صلح کا ایک معاہدہ کرنا پڑا جس میں شرط تھی کہ مسلمان اگلے سال آئیں تو انہیں عمرہ کی اجازت دی جائے گی.صلح کی شرائط میں مشرکین نے یہ شرط بھی پیش کی کہ اگر مکہ کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو اسے واپس کرنا پڑے گا اور اگر مدینہ سے کوئی ملکہ آئے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا یہ شرط مساویانہ نہ تھی.اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ مسلمان اگر اس شرط کو قبول کر لیں تو گویا وہ مشرکین سے دب کر صلح کرنے والے ہوں گے مگر آنحضرت ﷺ نے منشاء الہی سے یہ شرطیں مان لیں.اور مشرکین سے صلح کا معاہدہ ہو گیا.اس وقت الله
295 آنحضرت ﷺ پر خدا تعالیٰ نے منکشف فرمایا کہ یہ شرائط مسلمانوں کے لئے کوئی نقصان دہ نہیں.چنانچہ بالآخر یہی شرائط خود مشرکین کے لئے وبال بن گئیں.انہوں نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور اس کے نتیجہ میں مکہ پر آنحضرت ﷺ نے چڑھائی کی اور مکہ فتح ہو گیا.لیکن شرائط سے بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ صلح دب کر کی جارہی ہے اس لئے بعض صحابہ کرام پر یہ معاہدہ بہت شاق گذرا.چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر آنحضرت ﷺ سے ایسی گفتگو کی جس کا وہ بعد میں کفارہ دیتے رہے چنانچہ صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الفتح میں لکھا ہے: صلى الله جاء عمر فقال السنا على الحق وهم على الباطل؟ اليس قتلانا في الجنة وهم في النار؟ قال بـلـى ـ قال ففيما اعطى الدنية في ديننا؟ ونرجع ولم يحكم الله فينا فقال يا ابن الخطاب اني رسول الله ولن يضيعني الله ابدا فرجع متغيظاً - کہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ کیا ہم سچائی پر اور وہ لوگ ( مشرکین مکہ ) باطل پر نہیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہاں (یعنی ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر ) حضرت عمرؓ نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مقتولین جنتی اور ان کے مقتولین ناری نہیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہاں.(یعنی ہمارے مقتولین جنتی اور ان کے ناری ہیں ) حضرت عمرؓ نے کہا تو پھر کس وجہ سے ہمارے دین کے معاملہ میں کمزوری دکھائی گئی ہے ( یعنی جنگ نہیں کی جارہی اور ایسی شرائط پر صلح کی جارہی ہے جس میں مشرکین کی طرف سے ہم پر ناجائز دباؤ ڈالا گیا ہے ) اور ہم واپس جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کیا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب ! میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے ہر گز ضائع نہیں کرے گا.پس حضرت عمرؓ ناراضگی کی حالت میں واپس ہوئے.“ پھر ان کی یہی گفتگو صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشرط فی الجہاد والمصالحۃ میں یوں درج ہے: " حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے کہا الست نبی ست نبی الله حقاً.کیا آپ سچے نبی نہیں ؟ آپ نے فرمایا: بلی ہاں میں سچا نبی ہوں.پھر کہا کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں یعنی ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر ہے.میں نے کہا فـلــم نـعـطـى الدنية في ديننا اذا کہ ہم اپنے دین میں کیوں کمزوری دکھائیں (یعنی کیوں دب کر صلح کریں).آنحضرت علی
296 نے فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی کرنے والا نہیں وہ میرا مددگار ہے.میں نے کہا اوليس كنت تحدثنا انا سناتى البيت فنطوف کہ آپ ہم سے بیان نہیں کرتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ میں آئیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا.ہاں تو کیا میں تمہیں یہ خبر دیتا تھا کہ ہم اسی سال ہی آئیں گے؟ میں نے کہا نہیں.تو آپ نے فرمایا تم بیت اللہ میں آنے والے ہو اور اس کا طواف کرنے والے ہو اس کے بعد اسی مضمون کی گفتگو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر سے بھی کی اور انہوں نے ایسے ہی جوابات دیئے جیسے رسول اللہ علیہ نے دیئے تھے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں اس گفتگو کے بعد مجھے کئی اعمال کرنے پڑے.( یعنی کفارہ ادا کرنا پڑا) امام ابن قیم کی روایت بھی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے کہا: ما شككت منذ اسلمت الا يومئذ (زادالمعاد - جلد اول الجزء الثانی.صفحہ 203.ناشر المکتبہ القیمہ القاہرہ) " کہ میں جب سے مسلمان ہوا مجھے صرف اسی دن شک پیدا ہوا تھا.“ پھر بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا اٹھو قربانی دو اور سرمنڈواؤ.راوی کا بیان ہے.فوالله ما قام منهم رجل حتى قال ذلك ثلاث مرّات کہ خدا کی قسم کوئی صحابہ سے نہ اٹھا یہاں تک کہ آپ نے تین دفعہ یہ حکم دیا.جب کوئی بھی نہ اٹھا تو آپ حضرت ام سلمہ (اپنی زوجہ ) کے پاس گئے اور لوگوں کے اس معاملہ کا ذکر کیا.ام سلمہ نے کہا.اے نبی اللہ کیا آپ ایسا چاہتے ہیں؟ تو پھر آپ ان میں سے کسی سے کچھ بھی نہ کہیں.اپنی قربانی دیں اور پھر مونڈنے والے کو بلایئے کہ وہ آپ کا سرمونڈ دے.اس مشورہ پر آپ نے ایسا ہی کیا.آپ باہر نکلے کسی سے کوئی کلام نہ کیا اپنی قربانی دی اور سرمنڈایا جب صحابہ نے یہ دیکھا تو وہ بھی اٹھے اور انہوں نے اپنی اپنی قربانیاں دیں اور ایک دوسرے کے سرمونڈنے لگے.کــاد بـعـضـهـم يقتل بعضا عما حتیکہ قریب تھا کہ غم کے مارے ( یعنی بد حواسی میں ) ایک دوسرے کو قتل کر دیں کیونکہ ان کے دل ان شرائط کی وجہ سے مغموم تھے ).پس آنحضرت ﷺ کا رویا کے بعد عمرہ کے لئے چلے جانا محض اپنے اجتہاد کی بناء پر تھا آپ نے
297 اپنی رؤیا کی تعبیر بھی یہی کی تھی کہ عمرہ امن سے ہو جائے گا.گو اس سال تو عمرہ نہ ہو سکا مگر یہ اجتہادی سفر بھی بہت لطیف حکمتوں کا حامل ثابت ہوا گو اس سال طواف و زیارت کعبہ تو نہ ہوسکی مگر مشرکوں سے صلح کا معاہدہ ہو گیا.جس کے نتیجہ میں بالآ خرمشرکین کے خود معاہدہ کی شرائط توڑ دینے پر یہ معاہدہ، فتح مکہ پر منتج ہوا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَقَدْ صَدَقَ اللهُ رَسُوْلَهُ الرُّه يَا بِالْحَقِّ (الفتح: 27) کہ خدا تعالیٰ نے رسول کو جور و یا دکھائی تھی اسے سچا کر دکھایا ہے کہ تم ضرور مسجد حرام میں امن سے داخل ہو گے اپنے سرمنڈاتے ہوئے یا بال تراشتے ہوئے اور کسی سے نہ ڈرتے ہوئے فَعَلِمَ مَالَمْ تَعْلَمُوا اللہ تو وہ کچھ جانتا تھا ( یعنی وقت میں تاخیر کی مصلحت ) جو تمہارے علم میں نہ تھا تو خدا تعالیٰ نے قریب ہی کے زمانہ میں فتح دیدی.پس نبی کی اجتہادی خطا میں بھی بعض اوقات خدا تعالیٰ کی کوئی لطیف حکمت ہوتی ہے.گواس اجتہادی خطا کے نتیجہ سے مسلمانوں کے دل ٹوٹ گئے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کو بھی سخت دھکا لگا تھا.مگر آخر خدا کی حکمت ظاہر ہوئی اور اس کے رسول کی بات بھی پوری ہوئی اور اس صلح کے نتیجہ میں جو مسلمانوں کا دل تو ڑ رہی تھی ، خدا تعالیٰ نے مکہ فتح کرا دیا چونکہ یہ وعدہ کی پیشگوئی تھی اس لئے ٹل نہیں سکتی تھی.الغرض یہ رویا جو طواف کعبہ کے متعلق تھی.اس میں آنحضرت ﷺ کو اگلے سال اس کے پورا ہونے کی شرط سے اطلاع نہیں دی گئی تھی.ہاں اللہ تعالیٰ کے مد نظر یہی تھا کہ صلح واقعہ ہو جانے کے بعد اگلے سال یہ رویا پوری ہوگی.اس شرط پر اطلاع نہ دیئے جانے کی وجہ سے ہی لوگوں کو ابتلاء پیش آیا.اس سے ظاہر ہے بعض اوقات وعدہ عنداللہ مشروط ہوتا ہے مگر ملہم کو خاص مصلحت کے تحت شرط سے آگاہ نہیں کیا جاتا.صلح حدیبیہ کے متعلق مفسرین کے اقوال 1- امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ تفسیر جلالین تفسیر سورۃ الفتح میں سورۃ الفتح کے شان نزول میں لکھتے ہیں: وو رای رسول الله صلى الله عليه وسلّم في النوم عام الحديبية قبل خروجه انه يدخل مكة هو واصحابه آمنين يحلقون و يقصرون فاخبر بذلك الصحابة ففرحوا فلما
298 خرجوا مـعـه وصدهم الكفار بالحديبية رجعوا وشق عليهم بذلک و راب بعض المنافقين فنزلت.“ 66 ترجمہ :.رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ والے سال (سفر پر) باہر نکلنے سے پہلے خواب میں دیکھا کہ آپ مع صحابہ مکہ میں امن سے داخل ہوئے سر منڈاتے یا تراشتے ہوئے تو آپ نے اس امر کی صحابہ کو خبر دی جس پر وہ خوش ہوئے پس جب وہ آپ کے ساتھ نکلے اور کفار نے انہیں حدیبیہ پر روک دیا تو وہ ایسی حالت میں واپس ہوئے کہ یہ امر ان پر شاق تھا اور بعض منافقوں نے شک کیا تو سورۃ الفتح نازل ہوئی.2 امام ابن قیم آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں: " اخبر سبحانه انه صدق رسوله رؤياه في دخولهم المسجد - آمنين وانه سيكون ولا بد ولكن لم يكن قد آن وقت ذلك فى العام والله سبحانه علم من مصلحة تاخيره الى وقته مالم تعلموا انتم فانتم احببتم استعجال ذلك والربّ تعالى يعلم مصلحة التاخير.(زاد المعاد جلد اول الجزء الثانی صفحہ 215 - المکتبہ القیمہ القاہرہ) ترجمہ:.اللہ سبحانہ نے اپنے رسول کو سچی خواب دکھائی جو ان کے مسجد ( حرام ) میں امن سے داخل ہونے کے متعلق تھی کہ ایسا عنقریب ہوگا.یہ ضرور واقع ہو گا لیکن اس سال ابھی اس کا وقت نہ آیا تھا اور اللہ سبحانہ اس کے وقت کی تاخیر کی مصلحت جانتا تھا جو تم لوگوں نے نہ جانی پس تم نے تو اس بات کا جلدی وقوع میں آنا چاہا اور خدا تعالیٰ اس میں تاخیر کی مصلحت جانتا ہے.3 تفسیر روح البیان جلد 4 صفحہ 501 میں لکھا ہے:.ان رسول الله صلى الله عليه وسلّم راى فى المنام انه دخل مكة واصحابه آمنين واخبـر بـذلك الصحابة ففرحوا ثم اخبر اصحابه انه يريد الخروج للعمرة كان المسلمون لا يشكون في دخلولهم مكة وطوافهم البيت ذلك العام للرؤيا التي راها الله 66 النبي صلى ا الله عليه وسلم فلما راوا الصلح دخلهم من ذلک امر عظیم.“ ترجمہ:.کہ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ تو اور صحابہ ملکہ میں امن سے داخل ہورہے ہیں آپ نے اس کی خبر صحابہ کو دی وہ خوش ہوئے پھر آپ نے بتایا کہ آپ عمرہ کے لئے جانا چاہتے
299 ہیں.مسلمانوں کو نبی کریم ﷺ کے اس رویا کی وجہ سے اسی سال مکہ میں داخل ہونے اور بیت اللہ کا طواف کرنے کے بارہ میں کوئی شک نہ تھا.جب انہوں نے صلح کا وقوع دیکھا تو اس سے انہیں سخت صدمہ ہوا.66 پس اس اجتہادی غلطی سے گو مسلمانوں کو بہت سخت صدمہ ہوا لیکن اجتہادی غلطی کوئی قابل اعتراض امر نہیں بلکہ اس پر اعتراض کرنا قابلِ اعتراض ہے.اجتہادی خطا کا ایک اور واقعہ ملاحظہ الله ہو.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: " رايت" فى المنام اني اهاجر من مكة الى ارض ذات نخل فذهب وهلى انها اليمامة او الحجر فاذا هي مدينة يثرب.66 ( بخاری کتاب التفسير - باب اذارای بقر أنتحر ) ترجمہ:.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایک کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں تو میرا خیال (اجتہادا) اس طرف گیا کہ یہ سرزمین یمامہ یا حجر ہوگی لیکن در حقیقت وہ یثرب (مدینہ) کی زمین ثابت ہوئی.پس اجتہادی غلطی اگر نبی سے سرزد ہو تو یہ شانِ نبوت میں حارج نہیں اور اس پر اعتراض کرنا درست نہیں.چنانچہ اسلامی عقائد میں یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ وو ان النبي صلى الله عليه وسلم قد يجتهد فيكون خطأ ، ،، نبر اس.شرح الشرح العقائد نسفی صفحہ 392.ناشر مکتبہ رضویہ لاہور ) ترجمہ: نبی کریم ﷺہ بعض اوقات اجتہاد فرماتے تھے تو اس میں غلطی بھی ہو جاتی تھی.ظاہر بات ہے کہ راشد علی اور اس کا پیر اسلامی لٹریچر سے کلیہ ناواقف ہیں جو ایسے اعتراض کرتے ہیں کہ خود اپنے ہاتھوں اپنی ہی جہالت کی قلعی کھول کر رکھ دیتے ہیں.چنانچہ اس مذکورہ بالا کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ: وفي الحديث قال صلى الله عليه وسلم ما حدثتكم عن الله سبحانه فهو حق وما 66 قلت فيه من قبل نفسى فانما انا بشر اخطى واصيب نبراس شرح الشرح العقائد نسفی.صفحہ 392) ترجمہ :.حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو بات میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے
300 کہوں وہ بات بہر حال بچی ہے لیکن جو میں اپنی طرف سے اس کی تشریح بیان کروں تو چونکہ میں بشر ہوں اس لئے مجھ سے غلطی بھی ہو سکتی ہے اور اسی طرح میری بیان کردہ تشریح درست بھی ہوسکتی ہے.اسی بات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقاومولی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان بلند کا خیال رکھتے ہوئے کمال ادب کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور یہ صرف اجتہاد کی بات کی ہے.لیکن جہاں تک الہام و کلام الہی کا تعلق ہے اس بارہ میں آپ کا مذہب اوپر کی سطور میں بیان کیا جا چکا ہے.مذکورہ بالا امرکو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید واضح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ " جس حالت میں ہمارے سید ومولی محمد مصطفی ﷺ کے دس لاکھ کے قریب قول و فعل میں سراسر خدائی کا ہی جلوہ نظر آتا ہے اور ہر بات میں حرکات میں سکنات میں ، اقوال میں ، افعال میں روح القدس کے چمکتے ہوئے انوار نظر آتے ہیں تو پھر اگر ایک آدھ بات میں بشریت کی بھی بو آوے تو اس سے کیا نقصان.بلکہ ضرور تھا کہ بشریت کے تحقق کے لئے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا.تالوگ شرک کی بلا میں مبتلا نہ ہو آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 116 ) جائیں.“ (13) قبل از وقت بعض حقائق کی تفصیلات کا انکشاف نہ ہونا مکذب مذکور ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے یہ بات بھی تحریر کرتا ہے کہ "Revelation did not inform Hazrat Mohmmad about Ibn-e- Maryam, Dajjal, Khar-e-Dajjal, Yajooj Majooj and Dabbatul Ard." (Beware...) یہ بھی صریح جھوٹ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی جگہ ایسا تحریر نہیں فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جس تحریر سے اس نے غلط اور جھوٹا نتیجہ نکال کر سادہ لوح عوام کے لئے گمراہی کا جالا بنا چاہا ہے اس میں وہ خود ہی پھنس کر اپنے جھوٹا ہونے کا ثبوت مہیا کر رہا ہے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جس تحریر سے اپنا جھوٹ تراشا ہے، غالباوہ یہ ہے کہ
301 ” جس قدر الفاظ وحی کے ہوتے ہیں وہ تو بلا شبہ اول درجہ کے سچے ہوتے ہیں مگر نبیوں کی عادت ہوتی ہے کہ کبھی اجتہادی طور پر بھی اپنی طرف سے ان کی کسی قدر تفصیل کرتے ہیں اور چونکہ وہ انسان ہیں.اس لئے تفسیر میں کبھی احتمال خطا کا ہوتا ہے.لیکن امور دینیہ ایمانیہ میں اس خطا کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ ان کی تبلیغ میں منجانب اللہ بڑا اہتمام ہوتا ہے اور وہ نبیوں کو عملی طور پر سکھلائی بھی جاتی ہے.چنانچہ ہمارے نبی کو بہشت اور دوزخ بھی دکھایا گیا اور آیات متواترہ محکمہ بینہ سے جنت اور نار کی حقیقت بھی ظاہر کی گئی ہے پھر کیونکر ممکن تھا کہ اس کی تفسیر میں غلطی کر سکتے.غلطی کا احتمال صرف ایسی پیشگوئیوں میں ہوتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ خود اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے مبہم اور مجمل رکھنا چاہتا ہے اور مسائل دینیہ سے ان کا کچھ علاقہ نہیں ہوتا.یہ ایک نہایت دقیق راز ہے جس کے یادرکھنے سے معرفت صحیحہ مرتبہ نبوت کی حامل ہوتی ہے اور اسی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آنحضرت ﷺ پر ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمومنکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجال کے ستر باغ کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یا جوج ماجوج کی عمیق تہہ تک وحی الہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دآئبتہ الارض کی ماہیت کما ھی ھی ظاہر فرمائی گئی اور صرف امثلہ قریبہ اور صور متشابہ اور امور متشاکلہ کے طرز بیان میں جہاں تک غیب محض کی تفہیم بذریعہ انسانی قومی ممکن ہے اجمالی طور پر سمجھایا گیا ہوتو کچھ تعجب کی بات نہیں اور ایسے امور میں اگر وقت ظہور کچھ جزئیات غیر معلومہ ظاہر ہو جائیں تو شان نبوت پر کچھ جائے حرف نہیں.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 472 473) غالبا یہ ہے وہ تحریر جسے معترض نے اپنے بغض کا نشانہ بنایا ہے.اوّل تو اس پر معارف تحریر کو سمجھنے کے لئے بصیرت اور نو ر قلب درکار ہے.دوم یہ کہ اگر اس کا عمومی طور پر بھی یا سرسری طور پر بھی تجزیہ کیا جائے تو اس سے حسب ذیل امور واضح طور پر نظر آتے ہیں.۲.وحی الہی کے الفاظ بلا شبہ اول درجہ کے سچے ہوتے ہیں.انبیاءہ بعض اوقات جب اجتہادی طور پر اس وحی الہی کی تفصیل اپنی طرف سے بیان فرماتے ہیں تو انسان ہونے کی وجہ سے اس اجتہاد میں غلطی کا امکان ہوتا ہے..لیکن امور دینیہ ایمانیہ میں ایسی خطا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی.ایسی پیشگوئیاں جن کو اللہ تعالیٰ خود اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے مہم اور مجمل رکھنا چاہیے، نبی سے ان
302 کی تفصیل کے بیان میں یا معنوں کے بیان میں اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے.خدا تعالیٰ کی کسی خاص مصلحت کی وجہ سے اگر آنحضرت ﷺ پر کسی نمونہ کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے موبمو پوری تفصیلات ابن مریم، دجال، خرد جبال، یا جوج ماجوج اور دابتہ الارض وغیرہ کی نہ کھلی ہوں اور جس حد تک بذریعہ انسانی قومی کے ممکن ہے آنحضرت ﷺ نے ان چیزوں کی تفصیل بیان فرمائی ہو تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ان پیشگوئیوں کے ظہور کے وقت اگر کچھ تفصیلات و جزئیات جو پہلے معلوم نہ تھیں مزید ظاہر ہو جائیں.معززقارئین ! ملاحظہ فرمائیں کہ اس عبارت میں کہاں ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر مذکورہ بالا چیزوں کی حقیقت نہ کھولی گئی تھی.اس عبارت سے تو یہ واضح ہے کہ ان چیزوں کی حقیقت واصل کیفیت آنحضرت صلى الله پرکھولی گئی تھی مگر اب وقت ظہور ان کی تفصیلات زیادہ ظاہر ہوئی ہیں اور اس سے آپ کی شانِ نبوت پر کچھ جائے حرف نہیں بلکہ ہر زیادہ ظاہر ہونے والی تفصیل اور حقیقت آنحضرت ﷺ کی صداقت اور آپ کی پیشگوئیوں کے عظیم الشان ہونے پر واضح ثبوت مہیا کرتی ہے.اور یہ امر راشد علی کے نزدیک سخت اعتراض کا موجب ہے اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ خود ان لوگوں کا اپنا عقیدہ یہ ہے کہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ وم نحضرت ﷺ کا علم بچوں ، مجنونوں اور جانوروں کے برابر ہے.“ نیز یہ کہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ ' شیطان کا علم حضور علیہ السلام سے وسیع تر تھا“ ( حفظ الایمان.مصنفہ اشرف علی تھانوی.مطبوعہ دیو بند صفحہ 9) ( براہین قاطعہ.مصنفہ خلیل احمد.مصدقہ رشید احمد گنگوہی صفحہ 15) اس کا ثبوت پیر عبدالحفیظ نے یہ تحریر کرتے ہوئے پیش کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا تو روح کی 66 بابت علم یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ ” کہہ دو کہ روح میرا حکم ہے چنانچہ اس سے زیادہ آپ نے کچھ نہیں بتایا.لیکن اس پیر کا اپنا علم اس سے کہیں زیادہ ہے.چنانچہ کہتا ہے کہ ” میں سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ روح کیا ہے.( اس بارہ میں تفصیل آئندہ صفحات میں سوال نمبر Xvi کے تحت ملاحظہ فرمائیں ) یعنی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کون آنحضرت ﷺ سے وسیع تر علم کا دعویدار ہے.( نعوذ باللہ)
303 (14) رسول اللہ ﷺ کے زندہ معجزات مشک اور عنبر آنحضرت ﷺ کی توہین کے الزام کے تحت را شد علی اور اس کا بیر، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” نزول اسیح “ سے حسب ذیل عبارت درج کرتے ہیں.اس جگہ اکثر گذشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ منجزات اور پیشگوئیاں موجود ہیں بلکہ بعض گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی معجزات اور پیش گوئیوں سے کچھ نسبت ہی نہیں اور نیز ان کی پیشگوئیوں اور معجزات اس وقت محض بطور قصوں اور کہانیوں کے ہیں.مگر یہ منجزات ( یعنی مرزا صاحب کے نام نہاد منجزات ) ہزار ہا لوگوں کے لئے واقعات چشم دید ہیں قصے تو ہندوؤں کے پاس بھی کچھ کم نہیں.قصوں کو پیش کرنا تو ایسا ہے جیسا کہ ایک گوبر کا انبار مشک اور عنبر کے مقابل پر نزول المسیح.روحانی خزائن.جلد 18 صفحہ 460) ( لاحول ولا قوة الا بلا.براہ کرم نوٹ فرمائیے کس توہین آمیز انداز میں قرآن پاک کے واقعات کا اپنے قصوں سے موازنہ کیا جارہا ہے ! ) ( نقل بمطابق اصل از " بے لگام کتاب) بددیانتی اور عبارت تراشی تو ان جھوٹے پیر ومرید کی گھٹی میں رچی ہوئی ہے انہوں نے اس جگہ اکثر“ سے لیکر چشم دید ہیں، تک عبارت ایک جگہ سے اٹھائی ہے اور قصے تو ہندوؤں سے لے کر کے مقابل پر تک کی عبارت دوسری جگہ سے اور دونوں کو ایسے دجل کے ساتھ جوڑ دیا ہے کہ عام قاری کو ان کی یہودیانہ تحریف کا پتہ نہیں چلتا.ان کے اس قبیح فعل سے ہر قاری اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ نہ صرف بدیانتی کرتے ہیں بلکہ عوام الناس کو بھی چکھے دیتے ہیں.جس عبارت کو محترف ومبدل کر کے انہوں نے اعتراض اٹھایا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو جیسا کہ وحی تمام انبیاء علیھم السلام کی آدم سے لے کر آنحضرت له تیک از قبیل اضغاث احلام وحدیث النفس نہیں ہے ایسا ہی یہ وحی بھی ان شبہات سے پاک اور منز ہ ہے اور اگر کہو کہ اس وحی کے
304 عليا ساتھ جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو ہوئی تھی مجزات اور پیشگوئیاں ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ اکثر گذشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ معجزات اور پیشنگوئیاں موجود ہیں بلکہ بعض گذشتہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور پیشگوئیوں کو ان معجزات اور پیشگوئیوں سے کچھ نسبت ہی نہیں اور نیز ان کی پیشگوئیاں اور معجزات اس وقت محض بطور قصوں اور کہانیوں کے ہیں مگر یہ منجزات اور پیشگوئیاں ہزار ہا لوگوں کے لئے واقعات چشم دید ہیں اور اس مرتبہ اور شان کے ہیں کہ اس سے بڑھ کر متصور نہیں یعنی دنیا میں ہزار ہا انسان ان کے گواہ ہیں مگر گذشتہ نبیوں کے معجزات اور پیشگوئیوں کا ایک بھی زندہ گواہ پیدا نہیں ہوسکتا باستثناء ہمارے نبی ے کے کہ آپ کے معجزات اور پیشگوئیوں کا میں زندہ گواہ موجود ہوں اور قرآن شریف زندہ گواہ موجود ہے اور میں وہ ہوں جس کے بعض معجزات اور پیشگوئیوں کے کروڑ ہا انسان گواہ ہیں.پھر اگر درمیان میں تعصب نہ ہو تو کون ایماندار ہے جو واقعات پر اطلاع پانے کے بعد اس بات کی گواہی نہ دے کہ در حقیقت اکثر گذشتہ نبیوں کے معجزات کی نسبت یہ معجزات اور پیشگوئیاں ہر ایک پہلو سے بہت قوی اور بہت زیادہ ہیں.اور اگر کوئی اندھا انکار کرے تو ہم موجود ہیں اور ہمارے گواہ موجود ہیں ولیـــس الـــخـبـر کـا لمعائنة ـ پھر جس حالت میں صدہا نبیوں کی نسبت ہمارے معجزات اور پیشگوئیاں سبقت لے گئی ہیں تو اب خودسوچ لو کہ اس وحی الہی کو اضغاث احلام اور حدیث النفس کہنا درحقیقت انبیاء علیہم السلام کی نبوت سے انکار کرنا ہے.اور اگر شک ہو تو خدا تعالیٰ کا خوف کر کے ایک جلسہ کرو اور ہمارے معجزات اور پیشگوئیاں سنو اور ہمارے گواہوں کی شہادت رویت جو حلفی شہادت ہوگی قلمبند کرتے جاؤ اور پھر اگر آپ لوگوں کے لئے ممکن ہو تو باستثناء ہمارے نبی علیہ کے دنیا میں کسی نبی یا ولی کے معجزات کو ان کے مقابل پیش کرو لیکن نہ قصوں کے رنگ میں بلکہ رویت کے گواہ پیش کرو.کیونکہ قصے تو ہندووں کے پاس بھی کچھ کم نہیں.قصوں کو پیش کرنا تو ایسا ہے جیسا کہ ایک گوبر کا انبار مشک اور عنبر کے مقابل پر “ ( نزول المسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 460 تا462) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس عبارت میں کسی ایک جگہ بھی قرآن پاک کے واقعات سے اپنے معجزات ونشانات کے موازنہ کا ذکر نہیں ملتا.یہ صرف راشد علی اور اس کے پیر کا جھوٹ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بہتان ہے.ایک سرسری تجزیہ سے ہی اس عبارت سے یہ امور واضح ہوتے ہیں کہ
305 حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت ﷺ تک تمام انبیاء علیہم السلام کی وحی اضغاث احلام اور حدیث النفس نہیں ہے.۲.اس بحث میں ہمارے نبی ﷺ کا استثناء ہے کیونکہ آپ کے معجزات اور پیشگوئیوں کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ گواہ موجود ہیں.آپ نے جلی حروف میں آنحضرت ﷺ کا استثناء کیا ہے.اس لئے یہ کہنا کہ قرآنِ پاک کے واقعات کا اپنے قصوں سے موازنہ کیا جا رہا ہے بالکل جھوٹ ہے..اس عبارت سے یہ صاف ظاہر ہے کہ وہ قصے کہانیاں جن کو دوسرے مذاہب والے معجزات اور صلى الله پیشگوئیوں کے طور پر پیش کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے زندہ معجزات اور جاری پیشگوئیاں جو مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوئیں اور ہورہی ہیں کے مقابل پر ان کی حیثیت ہی کوئی نہیں.اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہندوؤں کے قصوں کی مثال دی ہے.قرآنِ کریم کے واقعات کا یہاں کوئی ذکر ہی نہیں.پس راشد علی اور اس کے پیر نے یہ جو تحریر کیا ہے کہ لاحول ولا قوة الا بلا ـــ براہ کرم نوٹ فرمائیے کس توہین آمیز انداز میں قرآن پاک کے واقعات کا اپنے قصوں سے موازنہ کیا ہے.‘خالصہ جھوٹ اور دجل ہے جس کی توقع اس جھوٹے جوڑے سے ہی رکھی جاسکتی ہے.معزز قارئین - لا حول ولا قوة الا بالله.براہ کرم نوٹ فرمائیے یہ لوگ الزام تو یہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ توہین رسول کا ارتکاب کیا ہے اور ان کی اپنی حالت ایسی خبیثانہ ہے کہ لاحول ولا قوة الا بالله “ کی بجائے لا حول ولا قوۃ الا بلا لکھتے ہیں.یعنی یہاں اللہ کی بجائے قوت و قدرت بلا کی طرف منسوب کر رہے ہیں.کیا اُن کے اپنے مسلمات کی رُو سے یہ خدا تعالیٰ کی تو ہین نہیں؟ اور کیا یہ اسلام کے پاک کلمات سے جو نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمائے استہزاء نہیں؟ (نوٹ) ہم کتابت کی ایسی غلطیوں کو نہیں مانتے.چونکہ ان لوگوں نے خود ایسی غلطیوں پر جماعت احمدیہ کی کتب پر الزام عائد کیا ہے اس وجہ سے ہم نے ان کو ملزم کیا ہے.
306 (15) درود شریف پر اعتراض راشد علی نے قادیانی درود شریف" کے عنوان کے تحت رسالہ ” درود شریف سے دو اقتباسات کا حسب ذیل انگلش ترجمہ پیش کیا ہے.وہ لکھتا ہے.Allah has ordered every Muslim to invoke salaat and salaam on Holy Prophet Muhmmad.This honour was also stolen by Mirza & Co."Thus according to the verse (of Quran)'O poeple of the faith! send your salaat on Him and salute Him with the salutation (33:56) and according to those Hediths in which there are instructions to send Durood on Holy Prophet pbuh, sending Durood on Hazrat Maseeh Mowood is just as necessary as it is on the Holy Prophet (Risala Durood Shareef by Mohd Ismael Qadiani P.136) pbuh." "According to the traditions in Islam and hadith, it is necessary to clearly include his (Holy Prophet pbuh) Family in Durood; Similarly, albeit more importantly it is necessary to clearly send Durood on Maseeh Mowood and not to be contended with that General Durood which reaches him (Mirza) as well when one sends Durood on Holy Prophet pbuh, Thus Hazrat Maseeh Mowood says; " One of the objections of the ignorants is also this that the followers of this man (Mirza) apply on him the words [alaiha assalato wa assalam] and to say this is HARAM.The answer to this is th at I am the Promised Messiah, and leave aside the saying of Salaat and Salaam, Holy Prophet himself said that he who finds him, convey his salaam to him; and in all
307 Hadiths at hundreds of places Salaat-o-sallam is mentioned for the Promised Messiah.When such words about me are said by The Prophet, Sahaba has said, rather God has said, then how can it be Haram for my Jamaat to say such words for me." (Risala Durood Shareef, Arba`een No 2 Roohani Khazain vol, 17 p.349) ہے.راشد علی نے یہ سب اپنے رسالہ " Ghulam Vs Master " میں صفحہ 14 ،15 پر تحریر کیا انمیں سے پہلا اقتباس رسالہ درود شریف کے صفحہ 136 پر نہیں بلکہ 165 پر ہے.اس اقتباس کو درج کرتے وقت راشد علی نے اگلا فقرہ از راه خیانت چھپا لیا ہے تاکہ شاید اس طرح اعتراض کی وجہ پیدا کر سکے.اس عبارت سے آگے یہ لکھا ہوا ہے کہ وو کیونکہ آپ کا وجود دوسرے پیرا یہ میں آنحضرت ﷺ ہی کا وجود مبارک ہے.“ اس فقرہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود کی وجہ کھولی گئی ہے کہ آپ کی بعثت چونکہ سورہ الجمعہ کی آیت وَآخَرِينَ مِنهم “ کے مطابق دوسرے پیرا یہ میں رسول اللہ ﷺ کی ہی بعثت ہے اس لئے آپ پر درود بھیجنا بھی ضروری ہے.دوسرا اقتباس جو لفظ According سے شروع ہو کر Says پر ختم ہوتا ہے وہ رسالہ درود شریف میں اس عبارت کے ساتھ نہیں ہے جو راشد علی نے اس کے آگے تحریر کی ہے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جس عبارت کا انگریزی ترجمہ تحریر کیا ہے وہ یہ ہے.وو " بعض بے خبر ایک یہ اعتراض بھی میرے پر کرتے ہیں کہ اس شخص کی جماعت اس پر فقرہ ” علیہ الصلوۃ والسلام اطلاق کرتے ہیں اور ایسا کرنا حرام ہے اس کا جواب یہ ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور دوسروں کا صلوۃ یا سلام کہنا تو ایک طرف خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس کو پاوے میر اسلام اس کو کہے اور احادیث اور تمام شروح احادیث میں مسیح موعود کی نسبت صد ہا جگہ صلوۃ اور سلام کا لفظ لکھا ہوا موجود ہے.پھر جبکہ میری نسبت نبی علیہ السلام نے یہ لفظ کہا.صحابہ نے کہا بلکہ خدا نے کہا تو میری جماعت کا میری نسبت یہ فقرہ بولنا کیوں حرام ہو گیا.اربعین نمبر 2 و رساله درود شریف صفحه 168،167)
308 اس عبارت کا ترجمہ کرتے وقت راشد علی نے جلی فقرہ کا ترجمہ غلط کیا ہے اس نے لکھا ہے: And in all Hadiths at hundreds of places Salaat-o- Salaam is mentioned for the Promised Mesiah.ظاہر ہے کہ یہ ترجمہ غلط نہی پیدا کرتا ہے اور اعتراض کا موجب ہوسکتا ہے کیونکہ صرف احادیث میں ایسا نہیں فرمایا گیا بلکہ احادیث کے ساتھ شروح احادیث میں ایسا لکھا ہوا ہے پس یہ بھی راشد علی کی ایک تلبیسانہ کارروائی ہے.راشد علی اور اس کا پیر از راہِ کذب و افتراء اپنی طرف سے ہی عقیدے تراش تراش کر جماعتِ احمدیہ کی طرف منسوب کرتے چلے جاتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ نعوذ باللہ ایک بھی احمدی یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتے ہمارے آقا و مولیٰ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نہیں بلکہ حضرت مرزا صاحب پر سلام اور درود بھیجتے ہیں.دوسرے نمبر پر راشد علی نے اس دجل سے کام لیا ہے کہ گویا قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آنحضرت ﷺ پر درود اور سلام بھیجتے ہیں لیکن آپ کے امتیوں کی طرف اس کو منسوب کرنا گویا آنحضرت ﷺ کا اعزاز چرانے کے مترادف ہے.پتہ نہیں یہ مرید اور اس کا پیرکس مدرسہ میں قرآن کریم پڑھے ہیں یا پڑھے بھی ہیں کہ نہیں کہ جن کو اس آیت کا علم تک نہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَّئِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّوْرِ وَكَانَ بالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيمًا 0 ( الاحزاب :44) کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے مومنوں پر درود بھیجتے ہیں تا کہ وہ انہیں اندھیروں سے روشنی میں نکالیں.اللہ تعالیٰ مومنوں پر ہمیشہ رحم کرنے والا ہے.پس عرش کے خدا اور اس کے فرشتوں کا سب سچے مومنوں پر درود بھیجنا نہ صرف یہ کہ قرآن سے ثابت ہے بلکہ اس درود کے نتیجہ میں وہ عملاً قسماقسم کی ظلمتوں سے نکل کر نور میں داخل ہوتے ہیں.جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے مومنوں پر درود بھیجتے ہیں وہاں ایمان کے لحاظ سے امت کا مسیح موعود ایک اعلیٰ ترین
309 مقام پر فائز ہے.لہذا اس پر مومنوں کی نسبت درود بدرجہ اولیٰ ثابت ہوتا ہے.پس راشد علی کا یہ کہنا کہ یہ اعزاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت نے چرالیا ہے بالکل جھوٹ اور افتراء ہے.یہ اعزاز تو رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ اور آپ کے طفیل تمام مومنوں کو عطا ہوا ہے اور وہ ہر نماز میں الـسـلام عـلـيـنـا وعلى عباد الله الصالحین کہ کر خود پر اور خدا تعالیٰ کے صالح بندوں پر درود بھیجتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ” علیہ السلام“ اور ” علیہ الصلوۃ والسلام کے کلمات کی ادا ئیگی مذکورہ بالا آیت کریمہ اور نماز کی دعا کی حد تک تو ہے ہی لیکن ایک بات ان سے الگ اور امتیازی یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں مسیح موعود کو آپ کا سلام پہنچانا ہر مومن پر فرض ہے.آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل سے راشد علی اور اس کا پیرا نکاری ہیں.نیز راشد علی اور اس کی پیر کے یہ بدنصیبی ہے کہ نہ انہیں ایسے مومنون کا علم ہے کہ جن پر خدا اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اور نہ کبھی خود خدا اور اس کے فرشتوں کے درود کے مورد بنے ہیں.پس انہوں نے ہمیشہ کے اندھیروں کی جو زندگی قبول کر لی ہے انہیں کو مبارک ہو.جہاں تک رسول اللہ ﷺ پر خدا کے درود کا تعلق ہے تو وہ مومنوں پر درود سے بہت ارفع اور اعلیٰ ہے اور حسب مراتب اپنی ایک الگ شکل رکھتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گذرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم.اِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ - يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيمًاه “ ( الاحزاب : 57) پھر آپ فرماتے ہیں : وو چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 302،301) درود شریف..اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوند کریم اپنی برکات اپنے نبی کریم پر نازل کرے...اور اس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اس عالم اور اُس عالم میں ظاہر کرے اور اس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے (مکتوبات احمد یہ.جلد اول صفحہ 13.بحوالہ رسالہ درود شریف) نیز فرمایا: 66
310 آپ نے اپنی بیعت میں داخل ہونے والوں کے لئے یہ شرط بھی رکھی کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا.اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے یہ بھی فرمایا: وو (اشتہار 12 جنوری 1889ء.بحوالہ رسالہ درود شریف صفحہ 72) درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے.اللهمّ صلّ على محمّدٍ وعلى آل محمد كما صليت على ابراهيم وعلى آل ابراهيم انک حمید مجید ـ اللهم بارک علی محمّدٍ وعلی آلِ محمد كما باركت على ابراهيم وعلى آل ابراهیم انک حمید مجید “ جو الفاظ ایک پر ہیز گار کے منہ سے نکلتے ہیں ان میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے.پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پر ہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے.اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے.غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیاد ہمبارک ہے.یہی اس عاجز کا ورد ہے.اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں.اخلاص اور محبت اور حضور اور تضر ع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے.“ ( مکتوبات احمدیہ.جلد اول.صفحہ 18 بحوالہ رسالہ درود شریف صفحہ 98) رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کی برکتوں کے بارہ میں آپ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان معطر ہو گیا.اس رات خواب میں دیکھا کہ فرشتے آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں.صلی اللہ علیہ وسلم.(براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ا صفحه 576 حاشیه در حاشیه (3) پس درود شریف پر ڈاکہ کے الزام میں راشد علی اور اس کا پیر کا جھوت انتہائی فتیح ہے اور وہ خود
311 (16) بدترین جھوٹے ہیں.محمد رسول اللہ ہونے ، آپ کے برابر ہونے اور آخری نبی ہونے کا دعویٰ صل الله Mirza Ghulam claims to be Mohmmad Mirza is equal to Holy prophet Mohmmad Claims to be the final prophet.صلى الله صلى الله ان عناوین کے تحت اپنے رسالہ (Ghulam Vs Master) میں راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف تحریرات درج کی ہیں اور اپنے تبصروں کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف محمد رسول اللہ ﷺہ ہونے کا ہی نہیں بلکہ خاتم الانبیاء ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے (نعوذ باللہ ) معزز قارئین! راشد علی نے یہاں بھی بڑی بے باکی سے بہت بڑا افتراء کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریروں کا نہ وہ مطلب ہے جو راشد علی از راه دجل وافتراء آپ کی طرف منسوب کرتا ہے اور نہ ہی جماعت احمد یہ وہ عقائد رکھتی ہے.جیسا کہ پہلے بھی بروز وغیرہ کی بحث میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ اول تو یہ بات بالکل جھوٹ ہے کہ احمدی ، اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ کے بنفسہ دوبارہ دنیا میں آنے کے قائل ہیں.دوسرے یہ بات بھی قطعی جھوٹ ہے کہ اگر معنوی بعثت مراد لی جائے تو دوسرے مسلمان محمد رسول اللہ ﷺ کے معنوی طور پر دوبارہ آنے کے قائل نہیں.یہ دونوں باتیں غلط ہیں.جہاں تک بنفسہ آنحضرت ﷺ کے دوبارہ آنے کا سوال ہے، تو نہ دوسرے مسلمان اس کے قائل ہیں اور نہ احمدی اس کے قائل ہیں.اگر کسی پرانے رسول کا بنفسہ آنے کا کوئی قائل ہے تو خود راشد علی
312 اس کا پیر اور ان کے ہمنوا ہیں.جو محمد رسول اللہ ﷺ کے نہیں بلکہ عیسی علیہ السلام کے بنفسہ پرانے جسم سمیت دوبارہ دنیا میں آنے کے قائل ہیں.اور باقی جہاں تک معنوی بعثت کا تعلق ہے، جو کامل غلامی کی صورت میں یا فنافی الرسول کی صورت میں ہونی ممکن ہے تو نہ صرف یہ کہ احمدی اس کے قائل ہیں بلکہ وہ قرآن کریم کی رو سے اس پر کامل یقین رکھتے ہیں.اور اگر یہ عقیدہ کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا کوئی نائب آپ کی غلامی میں آپ کی بعثت ثانیہ کا مظہر بنے گا ، راشد علی کے نزدیک قابل قبول نہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کو قرآنِ کریم سے ہی انحراف ہے.اس لئے اسے احادیث صحیحہ کی بھی پرواہ نہیں.دیکھئے سورۃ الجمعہ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی امتین میں ایک بعثت کا ذکر ہے اور دوسری بعثت کا آخرین میں.اس دوسری بعثت کی پیشگوئی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَاخَرِينَ مِنهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهم - (الجمع :4) ترجمہ: اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی ( وہ اسے بھیجے گا ) جو ابھی تک ان سے ملی نہیں.ان آیات کے نزول پر صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کی ـ مـن هـم يــا رسول الله ؟ یا رسول اللہ ! یہ دوسرے لوگ کون ہیں ( جن میں یہ دوسری بعثت ہوگی ) ؟ تو اس پیشگوئی کی تشریح میں خود حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ گواہی موجود ہے کہ آپ نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا." لو كان الايمان معلقا بالقريا لناله رجل أو رجال من هولاء ( بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الجمعہ ) کہ اگر آخری زمانہ میں ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو سلمان فارسی ( یعنی عجمیوں ) میں سے ایک شخص یا ایک اور روایت کے مطابق بعض اشخاص اسے واپس زمین پر کھینچ لائیں گے.اب بتائیں کہ یہاں اگر محمد رسول اللہ ﷺ کی معنوی بعثت ثانی کا ذکر نہیں تو پھر اور کیا ذکر ہے؟ کیا محمد رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر عبدالحفیظ اور راشد علی کو فہم قرآن کا دعویٰ ہے؟ کیا یہ قطعی اور سب سے بالا گواہی سننے کے باوجود یہ پیر اور مرید
313 اب بھی یہ دعوی کرنے کی جرات کریں گے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی معنوی اور تمثیلی بعثت کا دنیا میں کوئی مسلمان قائل نہیں؟ کیا محمد رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر بھی اور کوئی گواہی ہوگی ؟ اس وضاحت کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے جب محمد “ کا لفظ بروزی اور ظلمی طور پر اپنے پر چسپاں کیا.تو کن معنوں میں استعمال کیا ؟ عقلاً ان اصطلاحوں کے تین ہی معنے ممکن ہیں.اول یہ کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے آپ کو یہ اصطلاح استعمال کر کے حضرت محمد رسول اللہ کا ہم مرتبہ ظاہر کیا ( نعوذ باللہ ) اور یہ بتایا کہ میں آپ کے درجہ کے برابر ہوں اگر چہ محمد رسول اللہ نہیں ہوں.پس ہم مرتبہ ہونے کی وجہ سے نام محمد دیا گیا.دوسرا یہ معنی قرار دیا جا سکتا ہے کہ (نعوذ باللہ ) دنیا میں ایک محمد ” نہیں بلکہ دو محمد ہیں.یعنی ایک عرب میں پیدا ہوا تھا.اور ایک ہندوستان قادیان میں.اور اس طرح ہم مرتبہ ہونے کا ہی دعویٰ نہیں بلکہ کلی علیحدہ محمد ہونے کا دعویٰ کر دیا.تیسرا یہ معنی ہو سکتا ہے کہ ان معنوں میں اسم محمد کا اپنے اوپر اطلاق کیا جن معنوں میں اللہ کے لفظ کا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اوپر اطلاق کیا گیا جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمی (الانتقال :18) یعنی اے محمد جب تو نے مٹھی بھر کنکریاں کفار کی طرف پھینکیں تو تو نے نہیں بلکہ اللہ نے پھینکیں اور پھر فرمایا کہ إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِم (الفتح: 11) کہ یہ لوگ جو تیری بیعت کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے.(وہ ہاتھ جو ان کے ہاتھوں پر تھا یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ تھا ) ظاہر ہے کہ ان دونوں مواقع پر خدا تعالیٰ ہرگز یہ بیان نہیں فرما تا کہ نعوذ باللہ ، رسول اللہ ﷺ ، اللہ تعالیٰ کے ہم مرتبہ ہیں ، نہ ہی یہ دعوی فرمایا صلى الله ہے کہ دو خدا ہیں.ایک وہ جو مکہ میں ظاہر ہوا اور ایک وہ اللہ جو زمین و آسمان میں ہر جگہ ہے.اگر کوئی شخص ان آیات کا یہ مطلب نکالے تو یقیناً مفسد اور شیطان ہوگا.اور اسی طرح جو شخص کلام اللہ کو اس کے محل سے الگ کر کے نہایت خبیثانہ معنے اس کی طرف منسوب کرے تو اُس کا یہ فعل انتہائی مفسدانہ اور شیطانی فعل کہلائے گا.پس اگر آریوں ، عیسائیوں یا بہائیوں میں سے کوئی قرآن کریم پر اس قسم کا بے با کا نہ حملہ کرے تو یقینا اس کی جسارت نہایت مکر وہ اور مردود ہوگی.
314 صلى اللهم جماعت احمد یہ بغیر کسی شک کے قطعی طور پر اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی تحریروں میں جہاں جہاں بھی لفظ محمد" ظلی و بروزی طور پر استعمال کیا گیا ہے بعینہ ان معنوں میں ہے، جن معنوں میں آیات مذکورہ میں اللہ کے لفظ کا حضرت محمد رسول اللہ علے پر اطلاق ہوا ہے.جس کے معنی تمام شرفاء اور متقیوں کے نزدیک یہ بنتے ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کامل طور پر اپنے رب میں فنا ہو گئے اور آپ کی اپنی کوئی مرضی نہ رہی.آپ کا اٹھنا بیٹھنا.آپ کی حرکت و سکون کچھ بھی اپنا نہ رہا.یہ تعلق ایسا کامل ہو گیا تھا کہ آپ نے اپنا سب کچھ خدا میں مٹا دیا.آپ کا ہر عمل اور ہر ارادہ اس طرح خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو گیا کہ دیکھنے والے کو آپ کے ہر ارادہ میں خدا کا ارادہ دکھائی دینے لگا اور ہر عمل میں خدائی عمل.پس اسی کامل غلامی کی ایک نہایت ہی حسین تصویر ان آیات میں کھینچی گئی ہے.اسی وجہ سے قرآن کریم نے آپ کو عبد اللہ کا لقب عطا فر مایا یعنی اللہ کا کامل غلام.پس جب آقا کا لقب غلام کو عطا ہوتا ہے.تو نہ ہم مرتبہ بنانے کے لئے ، نہ دو الگ وجود بنانے کے لئے.بلکہ ان معنوں میں کہ غلام نے کلیہ اپنے آپ کو اپنے آقا میں مٹادیا.پس عجز بتانے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے، کبر بتانے کے لئے نہیں.اس مضمون کو ہم اچھی طرح سمجھانے کے بعد اب بڑی تحدی کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ راشد علی ،عبدالحفیظ اور ان کے ہم فکر معترضین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے ویسی ہی زیادتی کر رہے ہیں جس طرح دشمنانِ اسلام قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے کرتے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے رسول اللہ سے اپنی جو نسبت بیان فرمائی ہے وہ ایک دو جگہ تو نہیں نظم اور نثر کے سینکڑوں صفحات پر پھیلی ہوئی اتنی واضح اور قطعی ہے اور یہ ایک ایسا کھلا کھلا کلام ہے کہ ایک ادنی سی سمجھ رکھنے والا انسان بھی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کے ہم مرتبہ وجود کے طور پر پیش کیا ہے.یا آپ سے بھی بڑا ہونے کا کوئی نظریہ پیش کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایسی تحریرات میں جو نظریہ پیش کیا، یا مسیح موعود و مہدی معہود کے جس مقام کے اظہار کے لئے جن اصطلاحات کا استعمال فرمایا ، وہ امت مسلمہ کے مسلمہ عقائد میں سے ہیں اور آئمہ سلف نے بھی آنے والے مسیح و مہدی کے لئے بعینہ انہیں اصطلاحات کا استعمال کر کے اس مسئلہ کو واضح کیا ہے.اس لئے ایسی تحریرات پر اعتراض اٹھ ہی نہیں سکتا بلکہ اعتراض کرنے والا یقیناً جھوٹا ٹھہرتا ہے.اس سلسلہ میں کچھ بحث، عنوان 9 " تمام نبیوں کا مظہر ہونے پر
315 اعتراض“ کے تحت بھی کی گئی ہے.اب یہاں بھی دیکھیں، کیا فرماتے ہیں؟ 1 حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ چاچڑاں شریف والے جن کے مرید سرائیکی علاقہ میں کثرت سے موجود ہیں، فرماتے ہیں: وو بروز یہ ہے کہ ایک روح دوسرے اکمل روح سے فیضان حاصل کرتی ہے.جب اس پر تجلیات کا فیضان ہوتا ہے.تو وہ اس کا مظہر بن جاتی ہے اور کہتی ہے کہ میں وہ ہوں.“ (مقا میں الجالس المعروف بہ اشارات فریدی.مولف رکن الدین حصہ دوم صح 111 مطوعه منفی عام پریس آگرہ 1321ھ) 2.دیوبندیوں کے پیرومرشد، مدرسہ دارالعلوم دیو بند کے بانی حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی فرماتے ہیں.دیا ہے.66 انبیاء میں جو کچھ ہے وہ ظل اور عکس محمدی ہے.“ تحذیر الناس.از مولانا قاسم نانوتوی صفحہ 53 مطبوعہ مکتبہ قاسم العلوم کورنگی کراچی ) اس عبارت میں حضرت مولانا موصوف نے تمام انبیاء کو آنحضرت ﷺ کا حل اور بروز قرار شاہ محمد مبارک علی صاحب نے " خزائن اسرار الکم مقدمہ فی شرح فصوص الحکم“ میں یہ عنوان باندھا ہے.اٹھارواں مراقبہ مسئلہ بروز اور تمثل کے بیان میں، جس میں یہ لکھا ہے.بروز کو تناسخ نہیں سمجھنا چاہئے.یہ نہیں ہوتا کہ پرانی روح ایک نئے وجود میں آجائے اسے تناسخ کہا جاتا ہے.انہوں نے بات کھول دی ہے کہ بروز تناسخ نہیں ہے.مثال پیش کرتے ہوئے ہم ان کی یہ عبارت من وعن نقل کرتے ہیں.دیکھئے اس بزرگ کی سوچ کتنی عمدہ اور صاف تھی.کہتے ہیں کہ بروز کی مراد ایسی ہے جیسے ایلیا کے دوبارہ آنے کا عقیدہ یہودیوں میں رائج تھا.جب سکئی آگئے تو صفات کے لحاظ سے ایلیا کہلائے.ایسا ہی عیسی کا نزول ہوگا.گویا ان کے نزدیک نہ وہی عیسی بدن آخر میں حلول کریں گے.بلکہ بصورت صفات جلوہ گر ہوں گے اور ان کے نزدیک صفات کی جلوہ گری یہ نہیں کہ وہ تمام صفات میں ہو بلکہ چند صفات کی جلوہ گری بروز بنانے میں کافی ہے.حتی کہ بعض اوقات ایک صفت کی وجہ سے بروز ہو جاتا ہے.فرمایا:
316 اور ایسا ہی حکم بروز ادریس علیہ السلام کا بنا مزد الیاس علیہ السلام کے.اور نزول عیسی علیہ السلام کا ع آسمان سے اور یہ کبھی یہ سب غلبہ کسی ایک صفت کے ہوتا ہے.اور کبھی بغل بہ جمیع صفات کمالیہ کے.اس صورت میں کمال اتحاد مظہر کا بارز کے ساتھ ہوگا اور یہ قسم اعلیٰ مرتبہ بروز کا ہے.“ ( خزائن اسرار الكلم مقدمہ فی شرح فصوص الحکم.صفحہ 47 مصنفہ شاہ محمد مبارک علی صاحب حیدر آبادی) ۴:.امام ربانی حضرت مجد دالف ثانی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " كمل تابعان انبياء عليهم الصلوۃ والتسلیمات بہت کمال متابعت وفرط محبت بلکہ محض عنایت و موهبت جمیع کمالات انبیاء متبوعه خود را جذب می نمایند و بکلیت برنگ ایشاں منصبغ می گردند حتی که فرق نمی ماند درمیان متبوعان و تابعان الا بالاصالت والتبيعة والاولية والاخرية ترجمہ :.انبیاء علیهم السلام کے کامل متبح بہ سبب کمال متابعت محبت انہیں میں جذب ہو جاتے ہیں اور ان کے رنگ میں ایسے رنگین ہوتے ہیں کہ تابع اور متبوع یعنی نبی اور امتی میں کوئی فرق نہیں رہتا سوائے اوّل و آخر اور سوائے اصل اور تابع ہونے کے.“ مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر 248 حصہ چہارم دفتر اول صفحہ 49 مطبوعه مجد دی پریس امرتسر ) یہ من و عن حضرت مجد دالف ثانی کی تحریر ہے.اگر کوئی مفتریا نہ ذہنیت سے یہ تحریر پڑھے تو بھڑک اٹھے اور اول و آخر کے بارہ میں یہ کہے کہ محض زمانی ہے.لیکن ہم سمجھتے ہیں.مجد دالف ثانی کی اس تحریر میں اوّل اوّل ہی ہے.خواہ کوئی کتنی ہی مشابہت رکھے مگر مشابہت والا بعینہ اوّل کا ہم مرتبہ نہیں ہوسکتا ہم صفات تو بن سکتا ہے ہم مرتبہ نہیں.بہر حال راشد علی اور عبدالحفیظ کیونکہ ایسی ذہنیت رکھتے ہیں کہ اس قسم کی تحریرات پر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں.اس لئے ان پر لازم ہے کہ حضرت مرزا صاحب پر زبان دراز کرنے کی بجائے حضرت مجددالف ثانی " پر زبان دراز کر کے دیکھیں.حضرت مجددالف ثانی کی محبت تو ایسے دلوں میں بھی جاگزیں ہے جو صبر وضبط نہیں جانتے.اس لئے ہمیں یہ یقین ہے کہ راشد علی وغیرہ حضرت مجد دالف ثانی پر ہرگز ایسی بیبا کی نہیں کریں گے اور مصلحت آمیز خاموشی کی وجہ سے اپنا جھوٹا اور دوغلہ ہونا ثابت کر دیں گے.پس اگر ان پیر ومرید کو اسلامی لٹریچر میں کہیں بروز کی اصطلاح دکھائی نہیں دی تو ان کی نظر کا قصور
317 ، اسلامی لٹریچر کا قصور نہیں ہے.لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی.اسلامی لٹریچر میں تو بروز سے آگے بڑھ کرد عین کی اصطلاح بھی موجود ہے.اور ایسے بزرگ موجود ہیں جن کے متعلق ان سے عقیدت رکھنے.والوں نے عین محمد " کے لفظ لکھے ہیں.ان پر یہ لوگ کیوں اپنی قلم کا زہر نہیں اگلتے ؟ دیکھئے حضرت بایزید کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ قطب زمانہ تھے.اس لئے آپ عین رسول علیہ السلام تھے.چنانچہ بحر العلوم مولوی عبدالعلی مثنوی مولا نا روم کے شعر، گفت زین سو ہوئے یار میر سد کاندریں در شهر یارے میر کی شرح میں فرماتے ہیں : آن سرور صلعم و عین آن سرور بود 66 ابو یزید قدس سره قطب الاقطاب بود و قطب نمی باشد مگر بر قلب آن سرور صلعم پس بایزید قلب ( شرح مثنوی دفتر چهارم صفحہ 51) ترجمہ :.حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ چونکہ قطب زمانہ تھے اس لئے آپ عین رسول علیہ السلام تھے.کیونکہ قطب وہی ہوتا ہے جو محد مصطفی ﷺ کے دل پر رہتا ہو.اور جو بھی کسی کے دل پر ہو وہ اس کا عین ہوتا ہے.اور حضرت بایزید بسطامی عین رسول اللہ علے تھے.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: ’ کا تب الحروف نے حضرت والد ماجد کی روح کو آنحضرت ﷺ کی روح مبارک کے سائے (ضمن) میں لینے کی کیفیت کے بارے میں دریافت کیا تو فرمانے لگے یوں محسوس ہوتا تھا.گویا میرا وجود آنحضرت ﷺ کے وجود سے مل کر ایک ہو گیا ہے.خارج میں میرے وجود کی کوئی الگ حیثیت نہیں تھی.(انفاس العارفین.اردو.صفحہ 103.از حضرت شاہ ولی اللہ ترجمہ سید محمد فاروق القادری ایم اے ناشر المعارف گنج بخش روڈ لا ہور ) ضمناً ہم ان پیر ومرید کو بتاتے چلیں کہ سائے کو ہی عربی زبان میں ظل، کہتے ہیں.پھر فرماتے ہیں کہ میرے چا شیخ ابوالرضا محمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وو حضرت پیغمبر ﷺ کو میں نے خواب میں دیکھا جیسے مجھے اپنی ذات مبارک کے ساتھ اس انداز سے قرب واتصال بخشا کہ جیسے ہم متحد الوجود ہو گئے ہیں اور اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کا عین پایا
318 (انفارس العارفین.صفحہ 196 حصہ دوم در حالات شیخ ابوالرضا محمد ) اب اس کے بعد ہم حضرت مرزا صاحب کی وہ تحریرات پیش کرتے ہیں.جن سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ حضرت مرزا صاحب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابل پر اپنا کیا مقام ومرتبہ سمجھتے تھے.ان تحریروں پر غور فرما لیجئے.اگر پھر بھی راشد علی وغیرہ بہتان طرازی سے باز نہ آئے تو خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے.اور یاد رکھیں کہ موت کے بعد تو بہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبوں کا مجھے وارث بنا دیا.اور یہ دونوں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے.سو میں ان معنوں کے رو سے عیسی مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی.اور یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں.سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں.بروز عیسی اور بروز محمد 66 آپ اپنے ایک شعر میں اسی مضمون کو یوں بھی بیان فرمایا: (ضمیمہ رسالہ جہاد روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 28) لیک آئینه ام رب غنی مدنی نزول مسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 478) کہ میں مدینہ کے چاند حضرت محمد عربی ﷺ کی تصویر دکھانے کے لئے خدا کی طرف سے آئینہ بن کر آیا ہوں.نیز فرماتے ہیں: یقین مصطفی شدم وارث حسین شدم رنگین رنگ (نزول مسیح روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 477) کہ میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا وارث بن کر آیا ہوں ( آپ کا امتی اور روحانی بیٹا ہونے کے سبب ) اور میں اپنے اس حسین محبوب کے رنگ میں رنگین ہو کر آیا ہوں.نیز فرمایا: "آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا
319 اس کا ظہور بعینہ آنحضرت ا کا ظہور تھا.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 263) جیسا کہ پانی یا آئینہ میں ایک شکل کا جو عکس پڑتا ہے اس عکس کو مجاز آ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے.ایسے شخص کو مثیل ہلکس، ہم صفت ہونے کے سبب بروزی طور پر اصل کا نام دینے کا محاورہ امت میں ابتداء سے آج تک مستعمل ہے.چنانچہ اس محاورہ کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے بارے میں استعمال فرمایا ہے.را شد علی اور اس کے پیر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریروں سے سخت تکلیف ہے جن میں آپ نے خود کو آنحضرت ﷺ کا فلن اور بروز اور پھر اپنی بعثت کو آنحضرت ﷺ کی دوسری بعثت قرار دیا.اس لئے ان کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے ان کی توجہ ہم ایک بار پھر آئمہ سلف اور بزرگانِ امت کے ان اقوال کی طرف مبذول کراتے ہیں جو ہم اسی باب میں نمبر ۵ میں نبی اللہ محمد اور احمد“ کے عنوان کے تحت درج کر آئے ہیں.تا کہ یہ مسئلہ ایک بار اچھی طرح ان کی سمجھ میں داخل ہو جائے.قارئین کرام! ایسی تحریریں امت مسلمہ کے لٹریچر میں کثرت سے موجود ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے.اور آنے والے موعود کو اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی اللہ کا فضل اور بروز قرار دیا گیا ہے.معزز قارئین ! راشد علی وغیرہ کو چونکہ امت محمدیہ میں ایسی شان کے آدمی پیدا ہونے پر شدید اعتراض ہے.اس لئے ہم اب دیو بندیوں کے بزرگ قاری محمد طیب صاحب مہتمم دار العلوم دیو بند کے الفاظ یاد دلاتے ہیں کہ ان سب کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائے تو نہ صرف حضرت محمد کے عین اور بروز ہوں گے بلکہ مناسبت کاملہ کی وجہ سے شانِ خاتمیت بھی رکھتے ہوں گے.چنانچہ آپ امت میں آنے والے مسیح کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : صلى اللهم وو بہر حال اگر خاتمیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کو حضور سے کامل مناسبت دی گئی تھی تو اخلاق خاتمیت اور مقام خاتمیت میں بھی مخصوص مشابہت و مناسبت دی گئی جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسوی کو بارگاہ محمدی سے خـلـقـاً وخلقاً رتباً ومقاماً ایسی ہی مناسبت ہے جیسی کہ ایک چیز کے دو شریکوں میں یا باپ بیٹوں میں ہونی چاہئے.“
320 ( تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام - صفحه 129 از قاری محمد طیب مہتم دارالعلوم دیو بند پاکستان ایڈیشن اول مطبوعہ مئی 1986ء) پس اب تو راشد علی وغیرہ کے سارے رنگ ڈھل جانے چاہئیں اور طبیعت صاف ہو جانی چاہئے الله کیونکہ جس ذات کو اپنے آقا و مولیٰ رسول اللہ ﷺ سے خلقاً، خُلقاً،رتب اور مقاماً منا سبت ہواس پران کا اعتراض جھوٹا ہی نہیں منافی اسلام بھی ہے.حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو خلقاً، خُلقاً، رتباً اور مقاماً جو کچھ بھی میسر آیا وہ آپ کے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ہی فیض تھا جس کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں: ” وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسا نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے؟ ہم کا فرنعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 119 ) میسر آیا ہے.“ اسی طرح آپ اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا.“ نیز آپ فرماتے ہیں: (سراج منیر.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 28) یہ تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اور مراتب سے دنیا بے خبر ہے یعنی سید نا حضرت محمد مصطفی ہے پھر آپ فرماتے ہیں: (چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 354) ” میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی.اور میرے لئے اس نعمت کا پاناممکن نہ تھا اگر میں
321 صلى الله اپنے سید و مولی فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پاسکتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 65،64) قارئین کرام ! آپ خود ہی اندازہ فرمائیں کہ راشد علی وغیرہ تو سالہا سال سے جماعت احمدیہ کے خلاف جھوٹ اگل رہے ہیں اور بزعم خویش حضرت بانی جماعت احمدیہ کی تحریرات سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں اور جن کتب کے اقتباسات ہم نے درج کئے ہیں وہ کتب انہوں نے پڑھی ہوئی ہیں اور ان میں سے بعض فقرات کو اچک کر اپنے مضامین میں اعتراضات کے لئے درج کرتے رہتے ہیں.وہ حقیقت حال سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود محض لوگوں کو احمدیت سے متنفر کرنے اور انہیں دھوکہ دینے کے لئے کس طرح کھلم کھلا جھوٹ بول رہے ہیں.
321 مقدسوں کی تحقیر کے الزام
322 (1) ہے.انبیاء ،صحابہ ،علماء اور بزرگان دین کی تحقیر کے الزام کا جواب راشد علی اور اس کے پیر نے اپنی ” بے لگام کتاب“ میں ” قادیانی اخلاق“ کے عنوان کے تحت لکھا یہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ علماء تو علماء بزرگان دین، حتی کہ انبیائے کرام، صحابہ کرام تک مرزا صاحب کی اس دریدہ دہنی کا شکار ہو چکے ہیں.یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اسلام کی ہر مقدس شخصیت کی تحقیر کرنے اور ان کی ہستی کو گرانے میں مرزا غلام احمد قادیانی کو ایک خاص قسم کی لذت محسوس ہوتی تھی.فہرست بڑی طویل ہے.یہاں پر صرف چند حوالوں پر اکتفا کیا جا رہا ہے." اپنے اس بیان کی تائید میں، انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں سے چند اقتباسات پیش کئے ہیں.ان کو عند الجواب الگ الگ زیر بحث لایا جائے گا اور معترضین کے جھوٹ کی نقاب کشائی کی جائے گی.انشاء اللہ ظاہر ہے کہ اپنی مفتریانہ اور شیطانی چالوں سے راشد علی اور اس کا پیر عامۃ الناس میں اشتعال پھیلانا چاہتے ہیں.کیونکہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر انبیا علیہم السلام کی تو ہین وتحقیر کا الزام سراسر جھوٹا اور مبنی بر افتراء ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فرماتے ہیں: پاک ہیں پیمبر، اک دوسرے سے بہتر نیز فرمایا: لیک از خدائے برتر خیر الورثی یہی ہے ( در مشین.صفحہ 83 مطبوعہ اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ لندن 1996ء)
323 یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے.خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑ ہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی.اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا.یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا.اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آ گئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے.‘ تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 259) اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ، انبیاء علیہم السلام کی بابت جماعت احمدیہ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ کے تمام نبی معصوم عن الخطا ہوتے ہیں.وہ سچائی کا زندہ نمونہ اور وفا کی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں اور صفاتی خوبصورتی سے اللہ تعالیٰ کی سبوحیت اور قد وسیت اور اس کے بے عیب ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں.درحقیقت وہ ایک آئینہ ہوتے ہیں جس میں بدکار بعض دفعہ اپنی شکل دیکھ کر اپنی بدصورتی اور زشت روئی کو ان کی طرف منسوب کر دیتا ہے.“ ( دعوۃ الامیر.صفحہ 149.مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹیڈ لندن) ظاہر ہے کہ راشد علی اور اس کے پیر کو اپنے گندے ذہن کے اسی آئینہ میں اپنی شکل دکھائی دی ہے جس کے نتیجہ میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اپنی زشت روئی منسوب کرتے ہیں.جس زور اور قوت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ پر ایمان لانے والوں کو انبیاء علیہم السلام، صحابہ رضوان اللہ علیہم اور دیگر مقدس ہستیوں کے ساتھ باندھا ہے اور ان کی تعظیم و تکریم کا عرفان دیا ہے وہ عدیم المثال ہے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں: انبیاء علیہم السلام طبیب روحانی ہوتے ہیں.اس لئے روحانی طور پر ان کے کامل طبیب ہونے کی یہی نشانی ہے کہ جو نسخہ وہ دیتے ہیں یعنی خدا کا کلام.وہ ایسا تیر بہدف ہوتا ہے کہ جو شخص بغیر کسی اعراض صوری یا معنوی کے اس نسخہ کو استعمال کرے وہ شفا پا جاتا ہے اور گناہوں کی مرض دور ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ
324 کی عظمت دل میں بیٹھ جاتی ہے اور اس کی محبت میں دل محو ہو جاتا ہے.“ (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 135) کاش اس زمانہ میں بغیر کسی اعراض صوری یا معنوی کے اس نسخہ کو استعمال کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انبیاء علیہم السلام کی بابت یہ بھی فرمایا: وو وہ زمین پر خدا کے قائمقام ہوتے ہیں.اس لئے ہر ایک مناسب وقت پر خدا کی صفات ان سے ظاہر ہوتی ہیں اور کوئی امران سے ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ خدا کی صفات کے برخلاف ہو.“ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحه 296) کوئی مسلمان یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ انبیاء کا خدا تعالیٰ کا قائمقام ہونا اور ان سے اسکی صفات کا ظاہر ہونا، انبیاء کے مقام کو گراتا ہے؟ پس صاف ظاہر ہے کہ راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر محض ایک افتراء باندھا ہے.اہلِ بیت نبوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام، اہلِ بیت نبوی کے متعلق فرماتے ہیں: جان و دلم فدائے جمال محمد خاکم ثار کوچه آل محمد است در ثمین فارسی - صفحہ 89 - نظارت اشاعت ربوہ ) کہ میری جان اور دل محمد مصطفی عملے کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمد کے کوچہ پر قربان ہے.فرمایا: جنتے ہست آں رسول جلال آل او بست جملہ چوں گل آل کہ صاحب جلال رسول ﷺ تو ایک جنت ہیں اور آپ کی اولا دسب کی سب گلاب کے پھول کی طرح ہیں.و" الله آنحضرت ﷺ اور آپ کی آل پر درود بھیجتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: هم لشجرة النّبوّة كالاغصان و لشامة النبي كالريحان“
325 ( نور الحق.الجزء الثانی.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 188 ) کہ وہ نبوت کے درخت کی شاخیں اور نبی کی قوت شامہ کے لئے ریحان کی طرح ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں: افاضہ انوارالہی میں محبت اہل بیت کو بھی عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے.66 ( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ 598 حاشیه در حاشیہ 3) صحابه رسول ع على الله آنحضرت ﷺ کی جماعت نے اپنے رسول مقبول کی راہ میں ایسا اتحاد اور ایسی روحانی یگانگت پیدا کر لی تھی کہ اسلامی اخوت کی رو سے سچ سچ عضو واحد کی طرح ہو گئی تھی اور ان کے روزانہ برتاؤ اور زندگی اور ظاہر اور باطن میں انوار نبوت ایسے رچ گئے تھے کہ گویا وہ سب آنحضرت ﷺ کی عکسی تصویریں تھے.( فتح اسلام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 12 ) ملاحظہ فرمائیں کس طرح صحابہ کی محبت میں ڈوبا ہوا کلام ہے.فرمایا: إِنَّ الصَّحَابَةَ كُلُّهُمْ كَذكَاءِ قَدْ نَوَّرُوْا وَجْهَ الْوَرَى بِضِيَاءٍ إنِّي أَرَى صَعْبَ الرَّسُوْلِ جَمِيعَهُمْ عِنْدَ الْمَلِيْكِ بِعِزَّةٍ قَعْسَاءِ کہ یقیناً صحابہ شب کے سب سورج کی مانند ہیں.انہوں نے اپنی روشنی سے مخلوقات کا چہرہ روشن کر دیا.میں رسول ﷺ کے تمام کے تمام صحابہ کو خدا تعالیٰ کے حضور دائمی عزت کے مقام پر پاتا ہوں.ستر الخلافہ.روحانی خزائن جلد ۸) یہ پورا قصیدہ ہی صحابہ کی محبت کے شہد سے لبریز ہے.نیز آنحضرت ﷺ کی بلندشان اور صحابہ کے روشن مقام کے ذکر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بھری پڑی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ آپ پر صحابہ کی تو ہین کا الزام صرف کوئی ازلی ابدی اندھا ہی لگا سکتا ہے.
326 آئمہ اثناعشر آئمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راستباز اور ان لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں.“ فرمایا: " (ازالہ اوہام حصہ دوم - روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 344) ” و كان الامام محمّد الباقر من آئمة المهديين و فلذة الامام الكامل زين العابدين“ ( نور الحق - الجزء الثانی.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 206) که امام محمد باقر ، آئمہ مہدیتین میں سے تھے اور امام کامل حضرت زین العابدین کے جگر گوشہ تھے.و, ข آئمہ اربعہ یہ چار امام اسلام کے واسطے مشکل چاردیواری کے تھے." (البدر 3 نومبر 1905 ، صفحہ 4) صلحائے امت ข فرمایا: الله ”ہمارے سید مولی آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے باخدا لوگ ہوتے رہے جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھلا کر ان کو ہدایت دیتا رہا ہے.جیسا کہ سید عبدالقادر جیلانی اور ابوالحسن خرقانی اور ابو یزید بسطامی اور جنید بغدادی اور محی الدین ابن العربی اور ذوالنون مصری اور معین الدین چشتی اجمیری اور قطب الدین بختیار کا کی اور فریدالدین پاک پٹنی اور نظام الدین دہلوی اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سر ہندی رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ اسلام میں گزرے ہیں اور ان لوگوں کا ہزار ہا تک عدد پہنچا ہے اور اس قدر ان لوگوں کے خوارق علماء اور فضلاء کی کتابوں میں منقول ہیں کہ ایک متعصب کو با وجود سخت تعصب کے آخر ماننا پڑا ہے کہ یہ لوگ صاحب خوراق وکرامات تھے.جس قد راسلام میں، اسلام کی تائید میں اور آنحضرت ﷺ کی سچائی کی گواہی میں آسمانی نشان بذریعہ اس امت کے اولیاء کے ظاہر ہوئے اور ہورہے ہیں ان کی نظیر دوسرے مذاہب میں ہرگز نہیں.“
327 پھر فرمایا: ہیں.“ وو (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 91،90) درمیانی زمانہ کے صلحائے امت محمد یہ بھی باوجود طوفانِ بدعات کے ایک دریائے عظیم کی طرح (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 226) یہ وہ تعلیم اور عقیدہ ہے جس پر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ عمل پیرا تھے اور اسی پر اپنی جماعت کو کار بند فرمایا.وہ نہ کسی نبی کی تحقیر گوارا کرتے تھے اور نہ ہی اسلام کی بزرگ اور مقدس شخصیات کی ، یہی طریق ہے جس پر آپ کی جماعت بھی بڑے التزام کے ساتھ عمل کرتی ہے.اس کے خلاف جو شخص جماعت احمدیہ پر یا بانی جماعت احمدیہ پر اتہام باندھتا ہے وہ ثابت شدہ جھوٹا ہے.(2) توہین عیسیٰ علیہ السلام کا الزام را شد علی اور اس کے پیر سید عبد الحفیظ نے ” قادیانی اخلاق“ کے عنوان کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حضرت عیسی علیہ السلام کو ان کے مقام سے گرانے کا الزام لگایا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ آپ نے عیسی علیہ السلام کے بارہ میں یہ لکھا ہے کہ کرنے والا.“ مسیح کا چال چلن کیا تھا.ایک کھاؤ پیو یا شرابی ، نہ زاہد نہ عابد، نہ حق کا پرستار متکبر ،خود بین ،خدائی کا دعویٰ (مکتوبات احمد یہ جلد 3) ہاں آپ کو ( عیسی علیہ السلام) کو گالیاں دینے اور بدزبانی کرنے کی اکثر عادت تھی.ادنی ادنی باتوں میں اکثر غصہ آ جاتا.اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے.“ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 289 حاشیہ) دوسری فرار کی راہ:.عیسائیوں نے بہت سے معجزات آپ کے لکھے ہیں مگر حق یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا.“ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 290 حاشیہ ) ی معجزہ ( پرندے بنا کر اڑا ناجیسا کہ قرآن پاک میں لکھا ہے ) صرف ایک کھیل کی قسم میں سے تھا.“
328 (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 260) " حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات عمل الترب یعنی مسمریزم کا نتیجہ تھے.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدائے تعالیٰ کے فضل و توفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان معجو بہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 258 ، 259) آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے.تین دادیاں اور نانیاں آپکی زنا کار اور کسی عور تیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا.آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 290) ہے.یہ تحریریں ہیں جو راشد علی اور اس کے پیر نے اپنے الزام کو ثابت کرنے کے لئے پیش کی ہیں.لہذا آئندہ سطور میں یہ ثابت کیا جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان مذکورہ بالا تحریروں میں حضرت مسیح عیسی ابن مریم علیہ السلام کی ہرگز کوئی توہین نہیں کی اور نہ ان کو ان کے مقام سے گرایا ہے.راشد علی ، اس کا پیر اور اسی قماش کی شرّ من تحت اديم السماء مخلوق ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا گہری عیار نظر سے مطالعہ کرتے ہیں.ان کی نظر سے وہ تحریر میں بھی گذرتی ہیں جن سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ 1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی تحریریں اپنے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ناموس کی حفاظت کی خاطر غیرت میں ڈوب کر لکھی ہیں.آپ نے یہ تحریر میں چالیس سال کے صبر کے بعد ایسی بے بسی کی حالت میں مجبور ہو کر لکھی ہیں کہ آپ کے لئے پھر خاموش رہنا ناممکن تھا.اس کی تفصیل آپ نے انہیں تحریروں کے اردگرد بیان فرمائی ہے جہاں سے یہ محبت رسول ﷺ کے جھوٹے دعویدار درمیان سے عبارتیں اچک کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کے تیر چلاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل تحریریں اس تفصیل کے بیان کے لئے پیش ہیں.آپ فرماتے ہیں: بالاخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی.انہوں نے ناحق ہمارے نبی ﷺ کوگالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں.چنانچہ اسی پلید نالائق فتح مسیح نے اپنے خط میں جو میرے نام بھیجا ہے.آنحضرت ﷺ کوزانی لکھا ہے اور اس کے علاوہ اور بہت گالیاں دی ہیں.پس اسی طرح اس مردار اور خبیث فرقہ نے جو مردہ پرست
329 ہے ہمیں اس بات کے لئے مجبور کر دیا ہے کہ ہم بھی ان کے یسوع کے کسی قدر حالات لکھیں.اور مہ کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا.اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا.جس نے خدائی کا دعوی کیا اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو اور بٹمار رکھا.اور آنے والے مقدس نبی کے وجود سے انکار کیا اور کہا کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے.پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راستبازوں کے دشمن کو ایک بھلا مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے.چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں.نادان پادریوں کو چاہئے کہ بدزبانی اور گالیوں کا طریق چھوڑ دیں.ورنہ نامعلوم خدا کی غیرت کیا کیا ان کو دکھلائے گی.“ (ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 292، 293 حاشیہ ) فرمایا: ” ہمارے پاس پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صد ہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لے.“ تبلیغ رسالت جلد چہارم صفحه 66،65) ایسی کتابیں اب بھی دنیا کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں اگر راشد علی اور اس کا پیر بھی انہیں دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھ لیں.ان کی راہنمائی کے لئے چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں.ہدایۃ المسلمین از پادری عمادالدین اور اس کے علاوہ ( 1 ) دافع البهتان مصنفہ پادری رانکلین.(2) رسالہ مسیح الدجال مصنفہ ماسٹر رام چندر عیسائی.(3) سیرت ابیح والحمد مصنفہ پادری ٹھاکر داس.(4) اندرونہ بائیبل مصنفہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم.(5) کتاب محمد کی تواریخ کا اجمال.مصنفہ پادری ولیم.(6) ریویو براہین احمدیہ مصنفہ پادری ٹھا کر داس.(7) سوانح عمری محمد صاحب.مصنفہ ارونگ واشنگٹن.(8) اخبار نور افشاں.امریکن مشن پریس لودھیانہ.(9) تفتیش الاسلام مصنفہ پادری را جرس.(10) نبی معصوم.مطبوعہ امریکن پر لیس لودھیانہ.وغیرہ وغیرہ الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کارروائی اپنے محبوب آقا ﷺ کی غیرت میں تلملا کر مجبوراً کی.اس زمانہ میں عیسائیوں نے امام المطہرین، افضل المعصومین سید الاولین والآخرین، حبیب خدا حضرت احمد مجتبی محمد مصطفی ﷺ کی ذات مقدس پر نہایت دریدہ دہانی سے زبان طعن دراز کر کے گندے سے گندے حملے کئے ، نا پاک سے ناپاک الزام دیا ، کوئی برائی نہیں جو آپ کی طرف منسوب نہیں کی اور
330 کوئی گندی گالی نہیں جو آپ کو نہیں دی.ان کے اس گندے اور غلیظ حربے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کاری ضرب لگائی اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اگر پادری اب بھی اپنی پالیسی بدل دیں اور عہد کر لیں کہ آئندہ ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں نہیں نکالیں گے تو ہم بھی عہد کریں گے کہ آئندہ نرم الفاظ کے ساتھ ان سے گفتگو ہوگی.ور نہ جو کچھ کہیں گے اس کا جواب سنیں گے.“ (ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 292 حاشیه در حاشیه ) 2.جیسا کہ اوپر اجمالاً ذکر گذر چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس ذات کو عیسائیوں کے حملے روکنے کے لئے ڈھال بنایا وہ اناجیل کا یسوع اور اناجیل کا مسیح تھا.جس پر عیسائیوں کے مسلمات کے مطابق اور انہیں کی اناجیل کے مطابق ایسے اعتراض اٹھتے ہیں جو رسول خدا حضرت محمد مصطفی ﷺ پران کے حملوں کا براہ راست جواب ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس یسوع کو زیر بحث لائے جو عیسائیوں کا یسوع اور اناجیل کا مسیح ہے اس کا قرآن کریم میں بیان شدہ حقیقی عیسی مسیح ابن مریم سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وضاحتیں ملاحظہ فرمائیں.آپ نے ایک اشتہار مورخہ 20 دسمبر 1895 ء کو شائع کیا جس میں یہ وضاحت فرمائی: i.” ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسی ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے.بعض نادان مولوی جن کو اندھے اور نا بینا کہنا چاہئے.عیسائیوں کو معذور رکھتے ہیں کہ وہ بے چارے کچھ بھی منہ سے نہیں بولتے اور آنحضرت ﷺ کی کچھ بے ادبی نہیں کرتے.لیکن یادر ہے کہ در حقیقت پادری صاحبان تحقیر اور تو ہین اور گالیاں دینے میں اول نمبر پر ہیں.ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارات کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آ کر دیکھ لیوے اور یادر ہے کہ آئندہ جو پادری صاحب گالی دینے کے طریق کو چھوڑ کر ادب سے کلام کریں گے ہم بھی ان کے ساتھ ادب سے پیش آویں گے اب تو وہ اپنے یسوع پر آپ حملہ کر رہے ہیں.کہ کسی طرح سب و شتم
331 سے باز ہی نہیں آتے ہم سنتے سنتے تھک گئے.“ فرمایا: ii.(نورالقرآن.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 375،374) ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی.انہوں نے ناحق ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں...اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا.اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع و شخص تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا.الخ (ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 292 ،293 حاشیہ ) iii.” اسی طرح اشتہار ” قابل توجہ ناظرین میں فرماتے ہیں: وو اس بات کو ناظرین یا درکھیں کہ عیسائی مذہب کے ذکر میں ہمیں اس طرز سے کلام کرنا ضروری تھا.جیسا کہ وہ ہمارے مقابل پر کرتے ہیں.عیسائی لوگ در حقیقت ہمارے اس عیسی علیہ السلام کو نہیں مانتے جو اپنے تئیں صرف بندہ اور نبی کہتے تھے اور پہلے نبیوں کو راستباز جانتے تھے اور آنے والے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ پر سچے دل سے ایمان رکھتے تھے.اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں پیشگوئی کی تھی.بلکہ ایک شخص یسوع نام کو مانتے ہیں جس کا قرآن میں ذکر نہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے خدائی کا دعوی کیا.اور پہلے نبیوں کو بٹمار وغیرہ ناموں سے یاد کرتا تھا.یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص ہمارے نبی کا سخت مکذب تھا.اور اس نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے.سو آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف نے ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے ہمیں تعلیم نہیں دی بلکہ ایسے لوگوں کے حق میں صاف فرما دیا ہے کہ اگر کوئی انسان ہو کر خدائی کا دعوی کرے تو ہم اس کو جہنم میں ڈالیں گے.اسی سبب سے ہم نے عیسائیوں کے یسوع کے ذکر کرنے کے وقت اس ادب کا لحاظ نہیں رکھا جو سچے آدمی کی نسبت رکھنا چاہئے.پڑھنے والوں کو چاہئے کہ ہمارے بعض سخت الفاظ کا مصداق حضرت عیسی علیہ السلام کو نہ سمجھ لیں.بلکہ وہ کلمات اس یسوع کی نسبت لکھے گئے ہیں جس کا قرآن وحدیث میں نام ونشان نہیں.“ ( مجموعہ اشتہارات - جلد 2 صفحہ 295 296 )
332.اور پادری فتح مسیح کو جس نے آنحضرت ﷺ کے متعلق حد درجہ نا پاک اتہام لگائے تھے مخاطب کر کے فرماتے ہیں: ہم کسی عدالت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نہ کریں گے.مگر آئندہ کے لئے سمجھاتے ہیں کہ ایسی ناپاک باتوں سے باز آ جاؤ اور خدا سے ڈرو جس کی طرف پھرنا ہے.اور حضرت مسیح کو بھی گالیاں مت دو.یقیناً جو کچھ تم جناب مقدس نبوی کی نسبت برا کہو گے وہی تمہارے فرضی مسیح کو کہا جائے گا.مگر ہم اس بچے مسیح کو مقدس اور بزرگ اور پاک جانتے اور مانتے ہیں جس نے نہ خدائی کا دعویٰ کیا نہ بیٹا ہونے کا اور جناب محمد مصطفی احمد مجتبی علیہ کے آنے کی خبر دی اور ان پر ایمان لایا.فرمایا: -V نور القرآن نمبر 2.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۵۹۳) " حضرت مسیح کے حق میں کوئی بے ادبی کا کلمہ میرے منہ سے نہیں نکلا یہ سب مخالفوں کا افتراء ہے.ہاں چونکہ در حقیقت کوئی ایسا یسوع مسیح نہیں گذرا جس نے خدائی کا دعوی کیا ہو اور آنے والے نبی خاتم الانبیاء کو جھوٹا قرار دیا ہو اور حضرت موسی کو ڈا کو کہا ہو.اس لئے میں نے فرض محال کے طور پر اس کی نسبت ضرور بیان کیا ہے کہ ایسا مسیح جس کے یہ کلمات ہوں راستباز نہیں ٹھہر سکتا.لیکن ہمارا مسیح ابن مریم جو اپنے تئیں بندہ اور رسول کہلاتا ہے اور خاتم الانبیاء کا مصدق ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں.“ ان تحریروں سے حسب ذیل امور بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آتے ہیں.پادریوں کی طرف سے آنحضرت ﷺ پر مسلسل چالیس سال تک نا پاک حملے کئے گئے ، گالیاں ا.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 305 حاشیہ ) دی گئیں.حتی کہ زنا کی تہمت لگائی گئی اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الزامی رنگ میں کارروائی کی.آپ نے جو کچھ لکھا وہ پادریوں کے یسوع کی بابت لکھا.تھا.آپ نے جو کچھ لکھا اس یسوع یا مسیح کے متعلق لکھا جس کی قرآن کریم نے کوئی خبر نہیں دی کہ وہ کون
333.آپ نے جو کچھ لکھا وہ اس یسوع یا مسیح کے لئے تھا جس کی بابت پادری کہتے ہیں کہ وہ خدائی کا دعوی کرتا تھا، حضرت موسی“ کا نام نعوذ باللہ بٹ مار رکھتا تھا اور یہ کہہ کر کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے حضرت نبی اکرم ﷺ کی بھی تکذیب کرتا تھا.آپ نے پادریوں کے مسلمات کے لحاظ سے ان کی خیالی وہ ہمی تصویر کے متعلق لکھا جس کا آپ کے نزدیک خارج میں کوئی وجود نہیں تھا.ان مذکورہ بالا امور میں سے جو بات بھی لے لی جائے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر توہین عیسی علیہ السلام کے الزام کو رد کرتی ہے.رڈ تعجب تو اس بات پر ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ سب تحریریں راشد علی اور اس کے پیر نے ضرور کھنگالی ہیں اور باوجود اس کے کہ مسلمان کہلاتے ہیں ، بڑے ہی بے غیرت ہو کر عیسائیوں کی زبان.ہمارے آقا ومولیٰ رسول اللہ ﷺ کی ہر تو ہین اور تذلیل کو برداشت کرتے ہیں.آپ پر زنا کی تہمت کو بھی گوارا کر لیتے ہیں اور آپ کے لئے ہر گالی برداشت کر لیتے ہیں مگر پادریوں کے فرضی یسوع کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے اور اس کے لئے تو ایسی غیرت ظاہر کرتے ہیں کہ پادری بھی شرما جائیں.ان کی ہمدردیاں اور ان کی غیر تیں جب عیسائیوں کے لئے بھڑکتی ہیں تو عیسائی ہی کیوں نہیں ہو جاتے.انہیں پادری عبد اللہ آتھم سے محبت ہے، ڈاکٹر ڈوئی کا بدلہ لینے کے لئے ان کی کچلیاں نکل نکل پڑتی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینے والوں اور قرآن کریم کی توہین کرنے والوں پر بھیجی ہوئی ہزار لعنت ان کو چھتی ہے تو پھر ان کا محمد رسول اللہ ﷺ سے وابستگی کا دعویٰ کیسا ہے؟ انہوں نے اپنے اوپر اسلام کا خول کیوں چڑھایا ہوا ہے؟؟ وو ہمارا مسیح ابن مریم" حضرت عیسی علیہ السلام جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ” ہمارا مسیح ابن مریم “ لکھا ہے اور اپنا بھائی کہا ہے اور خود کو ان کا مثیل قرار دیا ہے.اس مسیح علیہ السلام کی آپ نے تکریم و تعظیم فرمائی ہے.آپ نے اس بچے مسیح عیسی ابن مریم کی توہین کے الزام کو بار بار فرمایا ہے.آپ نے فرمایا:
334 ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راستباز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہمارے قلم سے ان کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 119) ” ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں.سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شان بزرگ کے برخلاف ہو.اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھو کہ کھانے والا اور جھوٹا ہے.“ 14 صفحہ 228).( ایام الصلح نائیٹیل پہنچ.روحانی خزائن جلد و مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے.ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کا ملوں میں سے ہے جو تھوڑے تحفہ قیصریہ ، روحانی خزائن جلد 12 صفحه (272) ہیں.." حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسی مسیح خدا کا پیارا ،خدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کا آفتاب اور جناب الہی کا مقرب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑ ہا انسان جو اس سے سچی محبت رکھتے ہیں اور اس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایات کے کار بند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے.(ضمیمہ رسالہ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 26) میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں اور میں نے اسے بارہا دیکھا ہے ایک بار میں نے اور مسیح نے دو ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا تھا.اس لئے میں اور وہ ایک ہی جو ہر کے دوٹکڑے ہیں.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 330).میں نے بار ہا عیسی علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور بار ہاکشفی حالت میں ملاقات ہوئی.اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اس نے کھایا اور ایک دفعہ میں نے اس کو دیکھا اور اس فتنہ کے بارے میں پوچھا جس میں اس کی قوم مبتلا ہوگئی ہے.پس اس پر دہشت غالب ہوگئی اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا اس نے ذکر کیا
335 اور اس کی تسبیح اور تقدیس میں لگ گیا اور زمین کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میں تو صرف خا کی ہوں اور ان تہمتوں سے بری ہوں جو مجھ پر لگائی جاتی ہیں.پس میں نے اس کو ایک متواضع اور کسر نفسی کرنے والا آدمی پایا.( نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 57،56) انا نكرم المسيح ونعلم انه كان تقياً ومن الانبياء الكرام “ البلاغ فریا د درد.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 451 حاشیہ) ترجمہ.ہم یقیناً مسیح علیہ السلام کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ پاکباز تقوی شعار تھا اور انبیاء کرام علیہم السلام میں سے تھا.مذکورہ بالا ان وضاحتوں کے ہوتے ہوئے کوئی منصف مزاج یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ قرآن کریم میں مذکور حضرت مسیح عیسی بن مریم کی توہین کی ہے اور ان کو ان کے مقام سے گرایا ہے.متکلمین کا ہمیشہ سے یہ طریق چلا آیا ہے کہ وہ فریق مخالف کے مسلمات کی بنا پر بطور الزامی جواب کلام کرتے ہیں جبکہ ان کا اپنا وہ عقیدہ نہیں ہوتا.مثال کے طور پر چند علماء اہل سنت والجماعت کے اقوال ذیل میں درج کئے جاتے ہیں جو اہل سنت کے مقتداء مانے جاتے ہیں.ان کی تحریروں میں عموما ان سب عبارتوں کا جواب مل جاتا ہے جو راشد علی اور اس کے پیر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کے لئے پیش کی ہیں.ملاحظہ فرمائیں.(۱) کتاب ازالۃ الا وہام جو علمائے اہلِ سنت کے مقتدا مولوی رحمت اللہ مہاجر مکی کی تصنیف ہے اور سینیوں میں ایک مستند مقام کی حامل ہے.اس میں وہ لکھتے ہیں: (1) اکثر معجزات عیسویه را معجزات ندانند زیرا که مثل آنها ساحراں ہم میسازند و یہود آنجناب را چوں نبی نمے دانند و همچو معجزات ساحر میگویند کہ اکثر معجزات عیسویہ کو معجزات قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ایسے کام تو جادوگر بھی کر لیتے ہیں.اسی وجہ سے (صفحہ 129 ) یہود آپ کو نبی تسلیم نہیں کرتے اور ان کے معجزات کو ساحروں کے معجزے قرار دیتے ہیں.(ii) ” جناب مسیح اقرار میفرمایند که یکی زنان میخوراندند نه شراب مے آشامیدند و آنجناب شراب ہم دو
336 مے نوشیدند و یکی در بیابان می ماندند و ہمراہ جناب مسیح بسیار زنان همراه می گشتند ند و مال خود را می خورانیدند وزناں فاحشہ پائها آنجناب را بوسیدند و آنجناب مرتا و مریم را دوست میداشتند و خود شراب برائے نوشیدند دیگر (صفحہ 370) کساں عطام فرمودند “ کہ جناب مسیح خود اقرار فرماتے ہیں کہ کسی بیابان میں قیام پذیر تھے.نہ عورتوں سے میل رکھتے تھے اور نہ شراب پیتے تھے لیکن میسیج خود شراب پیتے تھے.اور آپ کے ہمراہ کئی عورتیں چلتی پھرتی تھیں اور آپ ان کی کمائی سے کھاتے تھے اور بد کار عورتیں آپ کے پاؤں کو بوسے دیتی تھیں اور مرتا اور مریم آپ کی دوست تھیں.آپ خود بھی شراب پیتے اور دوسروں کو بھی دیتے تھے.(صفحہ 405) (iii) و نیز وقتیکه یهودا فرزند سعادت مندشان از زوجه پسر خود ز نا کر دو حامله گشت و فارض را که از آباء و اجداد و سلیمان و عیسی علیہما السلام بود کہ یہودا نے اپنے بیٹے کی بیوی سے زنا کیا.جس سے وہ حاملہ ہوگئی اور فارض پیدا ہوا جو کہ حضرت سلیمان اور حضرت عیسی کے آباء واجداد میں سے ہے.(۲) یہ کتاب ایسی باتوں سے بھری ہوئی ہے اور عیسائیوں کو الزامی جواب دینے کی غرض سے مرتب کی گئی.اس کتاب کے حاشیہ پر اہلسنت والجماعت کے جید عالم مولوی آل حسن صاحب نے کتاب استفسار لکھی.جس میں وہ رقمطراز ہیں: (i) اور ذرے گریبان میں سر ڈال کر دیکھو کہ معاذ اللہ حضرت عیسی کے نسب نامہ مادری میں دو جگہ تم آپ ہی زنا ثابت کرتے ہو.“ ( یعنی تامار اور اور یا ) (صفحہ 73) (ii) دوسرے یہ کہ حضرت عیسی اپنے مخالفوں کو کہتا کہتے تھے.اگر ہم بھی ان کے مخالفوں کو کتا کہیں تو دینی تہذیب اخلاق سے بعید نہیں بلکہ عین تقلید عیسوی ہے.“ (ii) ' عیسی بن مریم که آخر در ماندہ ہوکر دنیا سے انہوں نے وفات پائی.“ (صفحہ 98) (صفحہ 232) (iv) ” اور سب عقلاء جانتے ہیں کہ بہت سے اقسام سحر کے مشابہ ہیں.معجزات سے خصوصاً معجزات 66 موسویہ اور عیسویہ سے.“ (صفحہ 336)
337 (۷) یسوع نے کہا.میرے لئے کہیں سر رکھنے کی جگہ نہیں.دیکھو یہ شاعرانہ مبالغہ ہے اور صریح دنیا کی تنگی سے شکایت کرنا کہ افتح ترین ہے.“ (صفحہ 34) (vi) ان ( پادری صاحبان ) کا اصل دین و ایمان آکر یہ ٹھیرا ہے کہ خدا مریم کے رحم میں جنین بن کر خون حیض کا کئی مہینے تک کھاتا رہا اور علقہ سے مضغہ بنا، مضغہ سے گوشت اور اس میں ہڈیاں بنیں اور اس کے مخرج معلوم سے نکلا اور ہگتا موتتا رہا.یہاں تک کہ جوان ہو کر اپنے بندے سجی کا مرید ہوا.اور آخر کار ملعون ہو کر تین دن دوزخ میں رہا.“ (351.350 (صفحه (vi) انجیل اول کے باب یاز دہم کے درس نوز دہم میں لکھا ہے کہ بڑے کھاؤ اور بڑے شرابی تھے.“ (صفحه 353) (صفحہ 366) (صفحہ 369) (vii) ” جس طرح اشعیاہ اور عیسی علیہما السلام کی بعضی بلکہ اکثر پیشگوئیاں ہیں جوصرف بطور معمے اور خواب کے ہیں جس پر چاہو منطبق کرلو یا باعتبار ظاہری معنوں کے محض جھوٹ ہیں.یامانند کلام یوحنا کے محض مجذوبوں کی سی بڑیں.ویسی پیشگوئیاں البتہ قرآن میں نہیں ہیں.“ (ix) پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسی کا سب بیان معاذ اللہ جھوٹ ہے اور کرامتیں اگر بالفرض ہوئی بھی ہوں تو ایسی ہی ہوں گی.جیسی مسیح دجال کی ہونے والی.“ (x) " تیسری انجیل کے آٹھویں باب کے دوسرے اور تیسرے درس سے ظاہر ہے کہ بہتیری رنڈیاں اپنے مال سے حضرت عیسی کی خدمت کرتی تھیں پس اگر کوئی یہودی از راہ خباشت اور بد باطنی کے کہے کہ حضرت عیسی خوشرو نو جوان تھے.رنڈیاں ان کے ساتھ صرف حرامکاری کے لئے رہتی تھیں اس لئے حضرت عیسی نے بیاہ نہ کیا اور ظاہر یہ کرتے تھے کہ مجھے عورت سے رغبت نہیں کیا جواب ہوگا؟ اور پہلی انجیل کے باب یاز دہم کے درس نوز دہم میں حضرت عیسی نے مخالفوں کا خیال اپنے حق میں قبول کر کے کہا کہ میں تو بڑا کھاؤ اور شرابی ہوں.پس دونوں باتوں کے ملانے سے اور شراب کی بدمستیوں کے لحاظ سے جو کوئی کچھ بدگمانی نہ کرے سو تھوڑا ہے اور دشمن کی نظر میں کیسی تن آسانی اور بے ریاضتی حضرت عیسیٰ کی بو بھی جاتی ہے.“ (391.390)
338 (۳) اور بریلوی مسلک کے بانی عظیم البرکت امام اہلسنت مجد د ماتہ حاضرہ مؤید ملت طاہرہ اعلی حضرت مولنا مولوی شاہ احمد رضا خاں صاحب قبلہ قادری اپنی کتاب ” العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ، جلد اول میں تحریر فرماتے ہیں:.دو ہاں ہاں عیسائیوں کا خدا مخلوق کے مارے سے دم گنوا کر باپ کے پاس گیا اس نے اکلوتے کی یہ عزت کی کہ اس کی مظلومی و بے گناہی کی یہ داد دی کہ اسے دوزخ میں جھونک دیا اوروں کے بدلے اسے تین دن جہنم میں بھونا.ایسے کو جو روٹی اور گوشت کھاتا ہے اور سفر سے آ کر اپنے پاؤں دھلوا کر درخت کے نیچے آرام کرتا ہے.درخت اونچا اور وہ نیچا ہے.ایسے کو جس کا بیٹا اسے جلال بخشتا ہے آریوں کے ایشور کی تو ماں اس کی جان کی حفاظت کرتی تھی.عیسائیوں کے خدا کا بیٹا اسے عزت بخشا ہے کیوں نہ ہو سپوت ایسے ہی ہوتے ہیں.پھر اسے بے خطا جہنم میں جھونکنا کیسی محسن کشی ناانصافی ہے.ایسے کو جو یقیناً دعا باز ہے پچتا تا بھی ہے.تھک جاتا بھی ہے ایسے کو جس کی دو جور میں ہیں.دونوں پکی زناکار ، حد بھر کی فاحشہ.ایسے کو جس کے لئے زنا کی کمائی فاحشہ کی خرچی کہاں مقدس پاک کمائی ہے.“ ( العطايا النبوي في الفتاوی الرضویہ جلدا کتاب الطہارت باب التیم صفحہ 741،740 ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور ) (۴) امرتسر سے اہلحدیث مسلک کے نامور عالم مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری صاحب کا اخبار اہلحدیث اپنی 31 مارچ 1939ء بروز جمعہ کی اشاعت میں یہ لکھتا ہے:.دو (i) ” صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح خود اپنے اقرار کے مطابق کوئی نیک انسان نہ تھے.شاید کوئی کہے کہ کسر نفسی سے مسیح نے ایسا کہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عیسائیوں کے اعتقاد کے مطابق مسیح کی انسانیت سب انسانوں کی انسانیت سے برتر ہے اور اس میں گناہ اور خطا کاری کا کوئی شائبہ نہیں تو پھر جب وہاں کسی طرح کا نقص اور گناہ نہیں تو پھر مسیح کا اپنے آپ کو نیک کا مصداق نہ قرار دینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے.کیونکہ کسر نفسی سے وہی قول صحیح ہو سکتا ہے جس کی صحت کسی طرح سے ہو سکے.مثلا اور لوگ کیسے ہی نیک ہوں مگر چونکہ ان کی انسانیت میں نقص ہے تو بنا بریں وہ اپنے کو ناقص کہہ سکتا ہے مگر حضرت مسیح کی انسانیت ہر برائی سے منزہ ہے اس لئے وہاں کوئی کی نفی کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی.پس جب کسر نفسی کا عذر باطل ہوا تو نکوئی کی نفی کرنے سے
339 مسیح کا اور انسانوں کی طرح غیر معصوم ہونا بداہتہ ثابت ہوا.اسی طرح انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اجنبی عورتوں سے اپنے سر پر عطر ڈلوایا.(دیکھو متی 22/6 مرقس 14/3 یوحنا 12/6) یوحنا میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ آدھ سیر خالص عطر استعمال اس عورت سے آپ نے کرایا.اس نے کچھ سر پر ڈالا (مرقس ) کچھ پاؤں پر ملا.لوقا میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ (يوحنا ) ایک عورت نے جو اس شہر کی بدچلن اور فاحشہ عورت تھی مسیح کا پاؤں دھو یا پھر اپنے بالوں سے پونچھا پھر انہیں چوما اور ان پر عطر ملا.(لوق 7/37).یہ واقعہ صرف لوقا میں مذکور ہے.ظاہر ہے کہ اجنبی عورت بلکہ فاحشہ اور بدچلن عورت سے سرکو اور پاؤں کو ملوانا اور وہ بھی اس کے بالوں سے ملا جانا کس قدر احتیاط کے خلاف کام ہے اس قسم کے کام شریعت الہیہ کے صریح خلاف ہیں.امثال میں کیا خوب لکھا ہے کہ ” بے گا نہ عورت تنگ گڑھا ہے اور فاحشہ گہری خندق ہے وہ راہزن کی طرح گھات میں لگی ہے اور (امثال باب 23 فقره 28 ) بنی آدم میں بدکاروں کا شمار بڑھاتی ہے.“ (ii) اسی طرح انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معجزہ سے شراب سازی کا کام لے کر اپنا جلال ظاہر کرتے تھے.(دیکھو انجیل یوحنا2/9) ( یہ واقعہ صرف یو حتا میں ہے) دیکھو شراب جیسے ام الخبائث چیز کا بنانا اور شادی کی دعوت کے لئے اس شراب کو پیش کرنا اور خود شرابی اہل مجلس کی دعوت میں معہ والدہ کے شریک ہونا اسی یوحنا میں موجود ہے.حالانکہ شراب عہد عتیق کی کتابوں میں قطعی حرام قرار پا چکی تھی.حضرت یسعیاہ شراب پینے والوں کی بابت فرماتے ہیں : ان پر افسوس جو مے پینے میں زور آور اور شراب پلانے میں پہلوان ہیں.حضرت ہوشیع فرماتے ہیں: وو بد کاری اور مے اور نئی مے سے بصیرت جاتی رہتی ہے.“ (دیکھو یسعیاہ باب 5 فقر 22) (ہوشیع 4/11) دانی ایل نبی بھی شراب کو نجس اور نا پاک کرنے والی بتاتے ہیں.دانی ایل باب اول فقرہ 8)
340 باوجود اس کے کہ اکثر عہد عتیق کی کتابوں میں اس کی ممانعت اور مذمت مذکور تھی.لیکن مسیح نے شرائع انبیاء سابقہ کی کچھ پرواہ نہ کی اور بقول یوحنا شراب بنائی اور شرابی مجلس میں معہ والدہ کے شریک ہوئے.حالانکہ خود ہی فرماتے ہیں: یہ نہ سمجھو کہ میں تو رات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.“ ان حالات میں مسیح کی شراب سازی خلاف شریعت فعل ہے.“ (5/17) (iii) انجیل کے مطالعہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے کذب کو روا رکھا ہے.چنانچہ حضرت مسیح کا قول سردار کی لڑکی کی بابت اس طرح منقول ہے:.وو 66 تم کیوں غل مچاتے اور روتے ہولڑ کی مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے.“ ( متی 9/18، مرقس 5/29 ، لو قا8/54) اس کے بعد مسیح نے کہا اے لڑکی اٹھ.وہ لڑکی اٹھ کر چلنے پھرنے لگی.اس موقع پر عیسائی کہتے ہیں کہ وہ لڑ کی مرگئی تھی.حضرت مسیح کے معجزہ سے زندہ ہوئی.چنانچہ لوقا سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے.لوقا کے الفاظ یہ ہیں : اس کی روح پھر آئی اور وہ اسی دم اٹھی “ اس بیان میں لوقا منفرد ہے).روح پھر آنا دلالت کرتا ہے کہ اس کی روح نکل چکی تھی دوبارہ زندہ ہوئی.لہذا ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسیح نے اس جگہ ناراست بات کہی اور خلاف واقعہ شہادت دی.حالانکہ مسیح نے خلاف واقعہ بات کرنے سے خود ہی شاگردوں کو منع کیا ہے.(مرقس 10/19) خون نہ کر ، زنانہ کر ، چوری نہ کر جھوٹی گواہی نہ دے.امثال 19/5 میں ہے کہ جھوٹا گواہ بے سزا نہ چھوٹے گا اور جھوٹ بولنے والا رہائی نہ پائے گا.“ اسی طرح یوحنا میں ہے.مسیح نے لوگوں سے کہا کہ " تم عید میں جاؤ میں ابھی اس عید میں نہیں جاتا.لیکن جب اس کے بھائی عید میں چلے گئے اس وقت وہ بھی گیا.“ (یوحنا7/8 تا 11)
341 دیکھو حضرت مسیح نے عید میں جانے سے انکار کیا اور پھر چھپ کے گئے.اور منتی کے حوالہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح نے جھوٹ بولنے اور کتمان حق کرنے کی اجازت بھی دی ہے.چنانچہ متی میں ہے: تب اس وقت اس نے حکم دیا کہ کسی کو نہ بتانا کہ یہ یسوع مسیح ہے.“ یہ مضمون لوقا اور مرقس میں بھی ہے.(متی16/20) ظاہر ہے کہ جب امر حق کے پوشیدہ کرنے کا حکم فرمایا تو صراحتہ ثابت ہوا کہ اگر کہیں بتانے ہی کی ضرورت پڑے تو خلاف حق نار است بات کہ دو.ان واقعات سے مسیح کی تعلیم متعلقہ صدق و کذب ظاہر و باہر ہے.(صفحہ 9،8)‘ یادر ہے کہ اس اخبار ” اہلحدیث کی اشاعت کے اغراض و مقاصد میں یہ لکھا ہے کہ دین اسلام اور سنت نبوی علیہ السلام کی اشاعت کرنا) را شد علی اور اس کا پیر کہتا ہے کہ یہ توہین عیسی علیہ السلام ہے، ان کو ان کے مقام سے گرانا ہے مگر ان کے بڑے کہتے ہیں کہ یہ دین اسلام اور سنت نبوی علیہ السلام کی اشاعت ہے.بہر حال یہ تو ان کے اپنے گھر کے جھگڑے ہیں.انہیں یہ خود حل کریں.لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ ا.مذکورہ بالا علماء اہل سنت کی تحریروں میں وہ تفریق بھی نظر نہیں آتی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں مذکور اپنے مسیح عیسی ابن مریم علیہ السلام اور پادریوں کے یسوع اور مسیح کے درمیان کی ہے.اس لحاظ سے ان علماء کی تحریروں کے حضرت عیسی علیہ السلام ہی براہ راست نشانہ بنتے ہیں..ان علماء کی تحریریں ان تحریروں سے کہیں زیادہ سخت اور بر ہنہ ہیں جن کو پیش کر کے راشد علی اور کے پیر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر طعن زنی کی ہے.اب اس باب کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوٹوک فیصلہ ملاحظہ فرمائیں آپ فرماتے ہیں: موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں.سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہم نام ہوں.اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی
342 عزت نہیں کرتا.“ کشتی نوح.خزائن جلد 19 صفحہ 17 ،18 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر ہمیں اس منطقی نتیجہ پر بھی پہنچاتی ہے کہ آپ چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ہم نام ہو کر آئے ہیں اور آپ کا دعوی مثیل مسیح ہونے کا ہے تو آپ ان کی تو ہین نہیں کر سکتے اگر آپ نعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام کو برا کہیں گے تو اپنے آپ کو نعوذ باللہ ایک برے کا مثیل قرار دیں گے.پس مثیل مسیح ہونے کا دعویدار مسیح علیہ السلام کو برا کہ ہی نہیں سکتا اور جو شخص آپ پر ایسا الزام لگا تا ہے جیسا کہ راشد علی اور اس کے پیر نے لگایا ہے تو وہ لازما مفسد اور مفتری ہے.اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ راشد علی اور اس کا پیر ایک طرف تو کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کو انگریز نے کھڑا کیا اور ساتھ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ آپ نے (نعوذ باللہ ) حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کی ہے ان کے ان دونوں دعووں میں واضح تضاد ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزوں نے کھڑا کیا تھا تو آپ انگریزوں کے پیشوا بلکہ خدا کو برا کہہ ہی نہیں سکتے تھے ورنہ لازم تھا کہ انگریز آپ کی سر پرستی چھوڑ دیتا.پس دونوں میں سے ایک الزام تو ان جھوٹے پیر ومرید کو واپس لینا ضروری ہے اور جو اعتراض باقی بچے گا وہ ویسے جھوٹ ہے افتراء ہے، جس کا ثبوت ہم گزشتہ سطور میں پیش کر چکے ہیں.(3) حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات از قبیل مسمریزم تھے را شد علی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام کی ایک تحریر کو اپنے اعتراض کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتا ہے."Hazret Maseeh (1) buse to practice mesmerism and was quite expert in it."(Beware...)
343 بغض و عناد میں یہ معترض اس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوری عبارت بھی نہیں پڑھ سکا.اور نہ یہ سوچ سکا ہے کہ مسمریزم وغیرہ کے عمل کو شریعت اسلامیہ میں مکر وہ سمجھا جاتا ہے لیکن پہلی شریعتوں میں ایسا نہیں تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کو جن مخالف یہودیوں کے ساتھ واسطہ تھا وہ ایسے ہی کاموں سے تسلی پاتے تھے.ان کو لا جواب کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو اس عمل کی طاقت عطافرمائی تھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مکمل عبارت ملاحظہ فرما ئیں تو اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کا مؤید من اللہ ہونا ثابت کیا گیا ہے.آپ فرماتے ہیں : ” مجھے وہ طریق پسند ہے جس پر ہمارے نبی کریم ﷺ نے قدم مارا ہے.حضرت مسیح نے بھی اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جو ان کی فطرت میں مرکوز تھے باذن الہی و حکم الہی اختیار کیا تھا ورنہ در اصل مسیح کو بھی یعمل پسند نہ تھا.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 258 حاشیہ) اس عبارت میں کونسی ایسی بات ہے جس پر راشد علی کو اعتراض ہے.حضرت مسیح علیہ السلام نے تو کوئی بُرا کام نہیں کیا جس کا ذکر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کیا ہے.حضرت مسیح نے جو کچھ کیا وہ باذن الہی وبحکم الہی کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا کہ وو سو واضح ہو کہ انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں.(۱) ایک وہ جو محض سماوی امور ہوتے ہیں جن میں انسان کی تدبیر اور عقل کو کچھ دخل نہیں ہوتا جیسے شق القمر جو ہمارے سید و مولی نبی ﷺ کا معجزہ تھا اور خدا تعالیٰ کی غیر محدود قدرت نے ایک راستباز اور کامل نبی کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اس کو دکھایا تھا.(۲) دوسرے عقلی معجزات ہیں جو اس خارق عادت عقل کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو الہام الہی سے ملتی ہے جیسے حضرت سلیمان کا وہ معجزہ جو صَرْحُ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِیر ہے جس کو دیکھ کر بلقیس کو ایمان نصیب ہوا.
344 اب جاننا چاہئے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت مسیح کا معجزہ حضرت سلیمان کے معجزے کی طرح صرف عقلی تھا.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 254 حاشیہ ) اگر کسی کے اندر بغض نہ بھرا ہوا ہو تو وہ اس پر اعتراض نہیں اٹھا سکتا بلکہ وہ اس کو ملج قلب کے ساتھ قبول کرے گا کیونکہ اس سے ایک طرف تو آنحضرت ﷺ کے معجزات کی عظمت اور بے نظیری ثابت ہوتی ہے اور دوسری طرف حضرت عیسی علیہ السلام اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے معجزات کی حقانیت کا ایسا معقول اور منطقی ثبوت ملتا ہے جو قرآنِ کریم کے عین مطابق ہے.(4) حضرت مسیح علیہ السلام یوسف نجار کے بیٹے تھے؟ معترض لکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ "Hazret Masee how was the son of yousef Najjar (Joseph the carpenter)" (Beware...) اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جہاں بھی یوسف ختبار کا بیٹا لکھا ہے وہاں عام اور عرفی لحاظ سے لکھا ہے کیونکہ یوسف نجار نے حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ سے بیاہ کیا تھا جس کی وجہ سے آپ ان کے سوتیلے بیٹے بنتے ہیں اور عرفی طور پر آپ یوسف نجار ہی کے بیٹے تھے.جیسا کہ اناجیل میں بھی درج ہے.لوگ آپ کو یوسف نجار کی طرف ہی منسوب کرتے تھے اور اسی کے پیشہ کی مناسبت سے کہتے تھے کہ ( متی باب 13 آیت 55) " کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں“ پس یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہیں انا جیل پر اٹھتا ہے.باقی جہاں تک حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا عقیدہ یوں بیان فرماتے ہیں:
345 ” ہمارا یہی مذہب ہے کہ وہ بن باپ ہوئے.اس کا زبردست ثبوت یہ ہے کہ یحی اور عیسی کا قصہ ایک ہی جگہ بیان کیا ہے پہلے یحی کا ذکر کیا جو بانجھ سے پیدا ہوئے.دوسرا قصہ مسیح کا اس کے بعد بیان فرمایا جو اس سے ترقی پر ہونا چاہئے تھا اور وہ یہی ہے کہ وہ بن باپ ہوئے اور یہی امر خارق عادت ہے.“ لملفوظات جلد 8 صفحہ 267) (5) حضرت علی کی تو ہین کے الزام کا جواب راشد علی اور اس کے پیر سید عبدالحفیظ نے اپنی ” بے لگام کتاب میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ کی حسب ذیل عبارت کو ہدف اعتراض بنایا ہے.پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو.اب نئی خلافت لو ایک زندہ علی تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کی تلاش کرتے ہو.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 142) یہ عبارت ہرگز حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تو ہین پر مشتمل نہیں.یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک غلور رکھنے والے شخص سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گفتگو پر مشتمل ڈائری ہے جو اخبار الحکم میں بھی شائع ہوئی اور ملفوظات کی جلد دوم میں بھی درج ہے.یہ غالی شیعہ شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کا حامی تھا.اسے نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ” جب تک یہ اپنا طریق چھوڑ کر مجھ میں ہو کر نہیں دیکھتے یہ حق پر ہرگز نہیں پہنچ سکتے....اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ میرے پاس آؤ.میری سنوتا کہ تمہیں حق نظر آ وے.میں تو سارا ہی چولا اتارنا چاہتا ہوں.سچی توبہ کر کے مومن بن جاؤ.پھر جس امام کے تم منتظر ہو میں کہتا ہوں وہ میں ہوں.اس کا ثبوت مجھ سے لو.اس لئے میں نے اس خلیفہ بلا فصل کے سوال کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا.دیکھو !استی ان حدیثوں کو لغو ٹھہراتے ہیں.یہ
346 اپنی حدیثوں کو مرفوع متصل اور ائمہ سے مروی ٹھہراتے ہیں.ہم کہتے ہیں یہ سب جھگڑے فضول ہیں اب مردہ باتوں کو چھوڑو اور ایک زندہ امام کو شناخت کرو کہ تمہیں زندگی کی روح ملے.اگر تمہیں خدا کی تلاش ہے تو اس کو ڈھونڈ و جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے.میں تو بار بار یہی کہتا ہوں کہ ہمارا طریق تو یہ ہے کہ نئے سرے سے مسلمان بنو ، پھر اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو خود کھول دے گا.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر وہ امام جن کے ساتھ یہ اس قدر محبت کا غلو کرتے ہیں زندہ ہوں تو ان سے سخت بیزاری ظاہر کریں.جب ہم ایسے لوگوں سے اعراض کرتے ہیں تو پھر کہتے ہیں ہم نے ایسا اعتراض کیا جس کا جواب نہ آیا اور پھر بعض اوقات اشتہار دیتے پھرتے ہیں مگر ہم ایسی باتوں کی کیا پرواہ کر سکتے ہیں.ہم کوتو وہ کرنا ہے جو ہمارا کام ہے.اس لئے یاد رکھو کہ پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑ دو.اب نئی خلافت لو.ایک زندہ علی تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو.“ (الحکم 17 نومبر 1900ء.ملفوظات جلد 2 صفحہ 142،141) اس تفصیلی بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس غالی شیعہ کے سامنے جو تقریر فرمائی اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی تحقیر مقصود نہیں ، نہ ہی آپ کی شان میں کوئی تخفیف ہے بلکہ ایک ایسی حقیقت کا اظہار ہے جس پر ابتدائے افرینش سے عمل ہو رہا ہے.زندہ خلیفہ کی موجودگی میں وفات یافتہ خلیفہ کا معاملہ لے بیٹھنا اور اس کی خلافت پر زور دینا اور زندہ امام کی خلافت اور اطاعت کا انکار کرنا اسلام کے بنیادی اصولوں ہی کا انکار ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ بات ہے.اسی اہم بات کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں توجہ دلائی ہے.اس عبارت میں مردہ " کا لفظ بھی تحقیر کے لئے استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اس سے غالی شیعوں کے اس باطل تصور کو جنجھوڑا گیا ہے اور اس پر چوٹ لگائی گئی ہے جو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں رکھتے ہیں مثلاً وہ آپ کو تمام صحابہ سے افضل حتی کہ آنحضرت ﷺ سے بھی بلند و برتر ، نیز مشکل کشا ہی کہ خدا تسلیم کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ.ایسے ہی اور بھی باطل تصورات ہیں جو عقائد کے طور پر اکثر شیعوں نے اختیار کئے ہوئے ہیں.یہی وہ غلو ہیں جو انہیں ہدایت اور سچائی قبول کرنے میں مانع ہیں.ان تصورات پر کاری ضرب لگانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لفظ اختیار فرمایا ہے.بالکل اسی طرح جس طرح قرآن کریم توحید کے مقابل پر قائم کی جانے والی ہستیوں کے لئے اموات غير احیاء “ کے الفاظ
347 ستعمال فرماتا ہے کہ وہ مردے میں زندہ نہیں ہیں.ان ہستیوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات بابرکات بھی ہے مگر مردے کے لفظ سے قرآن کریم نے ان کی تحقیر یا تخفیف نہیں کی بلکہ اس مشر کا نہ تصور کو پاش پاس کیا ہے جو آپ کے بارہ میں عیسائیوں نے عقیدہ کے طور پر قائم کیا.پس یہ الفاظ تحقیر کے لئے ہرگز نہیں ہیں بلکہ لوگوں کے غلط تصورات کی تردید کے لئے ہیں.وہ علی رضی اللہ عنہ جو سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ہے کے بچے اور جانثار خادم تھے اور ان کی عظمت و رفعت اپنے آقا ومولیٰ کے قدموں کو چھونے کی وجہ سے تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں ان کا مرتبہ بہت بلند تھا اور ان کی بے حد عزت و عظمت تھی ، جو آپ کی زبان سے بھی متر قیح تھی اور قلم سے بھی پھوٹتی تھی.اس پر آپ کی کتاب ”ستر الخلافہ اور دیگر تحریرات و فرمودات شاہد ناطق ہیں.لیکن وہ غلط تصور جو غالی شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان کرتے ہیں اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حقیقی شخصیت سے دور کی بھی نسبت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی تصوراتی علی“ کا ذکر کرتے ہوئے مردہ“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں.لیکن حقیقی علی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں اسی بیان میں آپ نے فرمایا کہ میں سچ کہتا ہوں کہ اگر وہ امام جن کے ساتھ یہ اس قدر محبت کا غلو کرتے ہیں ، زندہ ہوں تو ان دو سے سخت بیزاری ظاہر کریں.“ یعنی حقیقی حضرت علی رضی اللہ عنہ اگر ان میں زندہ موجود ہوں تو چونکہ وہ ان کے باطل تصورات کے مطابق نہیں ہوں گے اس لئے یہ انہیں بھی رد کریں گے اور ان سے بیزاری ظاہر کریں گے.را شد علی اور اس کے پیر کا مقصد صرف اور صرف شر اور جھوٹ پھیلانا ہے ورنہ ان کو یہ معلوم ہے کہ اہل اسلام خواہ وہ کسی بھی مسلک کے پیروکار ہوں، حضرت علی رضی اللہ عنہ پر درود و سلام تو بھیجتے ہیں مگر ان کی آمد کے منتظر نہیں کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ وفات پاچکے ہیں لہذا وہ امام منتظر اور ہے جس کی انتظار میں اہل سنت یہ مناجاتیں کرتے تھے کہ دین احمد کا زمانہ ނ جاتا ہے نام ہے اے میرے الله ! ہوتا کیا ہے کس لئے مہدی برحق نہیں ظاہر ہوئے
348 دیر عیسی کے اترنے میں خدایا کیا ہے الحق الصریح في حياة اسبح صفحہ 133 مطبوعہ 1309 هـ از مولوی محمد بشیر بھوپالوی) اور اہل تشیع ان الفاظ میں اسے تڑپ تڑپ کر بلا رہے تھے کہ اب انتظار کرتے ہوئے تھک گئے ہیں ہم ڈھلنے لگا سایه دیوار آئے اب بھی جائیے میرے منتظر امام مدت منتظر ہیں عزادار آئے (رساله معارف اسلام صاحب الزمان نمبر 36 ) فطرت کی اسی آواز کی نشاندہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے اور اس شیعہ شخص کو مہدی و مسیح کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ اب وہ امام منتظر آچکا ہے اور اسے ہی قبول کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کی بیعت اور اطاعت کی تاکید بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے.اسی اصول کے تحت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت اور اطاعت کی گئی پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان کی اور آپ کے بعد حضرت علی کی.پس زندہ خلیفہ کی موجودگی میں اس کو چھوڑ کر کسی وفات یافتہ خلیفہ کی خلافت کا مسئلہ چھیڑ نا خلاف اسلام ہے.اسی وجہ سے مسلمانوں کا ہر مکتبہ فکر گذشتہ خلفائے راشدین کی بجائے نئے امام کے منتظر تھا.پس وہ آواز جو فطرتی طور پر ہر مسلمان کی آواز میں موجود ہے اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں تو راشد علی اور اس کا پیر چیخنے چلانے لگتے ہیں.اس حقیقت حال کے بیان کے بعد کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت علی رضی اللہ کی تو ہین نہیں کی ، ہم محض سمجھانے کی غرض سے دیو بندیوں کے مقتداء و پیشوا بانی مدرسہ دیو بند مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کی ایک تحریر پیش کرتے ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں: اہل ہند جو تمام ولایتوں کے لوگوں کے نامردے پن میں امام ہیں ان میں ان کا بھنگی اور چمار بھی اس سہولت سے بیٹی نہیں دیتا جس طرح حضرت امیر نے اپنی دختر مطہر ہ کو حضرت عمر کے حوالے کر دیا.آپ بھی دیکھتے رہے اور صاحبزادے بھی.پھر صاحبزادوں میں بھی ایک وہ تھے کہ جنہوں نے تمہیں ہزار فوج جزار کا مقابلہ کیا حالانکہ وہ زمانہ ضعیفی اور تحمل کا تھا اور بہن کے نکاح کے وقت عین شباب تھا اور تسپر تماشہ یہ
349 ہے کہ ہنگامہ کربلا میں جو دشمنان سفاک نے حرم محترم اور زنانِ اہلِ بیت کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو کیا کچھ غضب اور جوش آیا.شیعوں کو تو شہادت نامہ کر بلا از بر ہی ہوگا.لکھنے کی کیا حاجت.“ ( ہدیۃ الشیعہ - صفحہ 127 از مولا نا محمد قاسم نا تو توی مطبوعہ مطبع احمدی دہلی ) ہمارا دل تو نہیں چاہتا کہ ایسی خوفناک عبارتوں کو دوہرائیں جن میں دیو بندی راہنماؤں نے اہل بیت کا بھنگیوں اور چماروں سے صرف موازنہ ہی نہیں کیا بلکہ ان کا حال ( نعوذ باللہ ) اس سے بھی بڑھ کر بڑا پیش کیا ہے.لیکن راشد علی اور اس کے پیر کی بے باکیاں اور سفاکیاں ایسیسرکش ہیں کہ ان کی زبان کو لگام دینے کے لئے انہیں کے پیشواؤں اور راہنماؤں کی تیار کردہ باگیں ہی کام آ سکتی ہیں.اس مذکورہ بالا عبارت میں ان کے پیشوا نے اہلِ بیت کے لئے جو بظاہر ہتک آمیز الفاظ استعمال کئے ہیں ان کا عشر عشیر بھی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں نہیں پائیں گے.لیکن ہم جانتے ہیں کہ مولا نا محمد قاسم نانوتوی صاحب ایک بزرگ اور نیک انسان تھے.انہوں نے حضرت علی اور حسنین رضی اللہ عنہم کے بارہ میں جو کچھ لکھا ہے.ان غالی شیعوں کے خلاف علی سبیل الالزام لکھا ہے جو خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی توہین کرتے ہیں.اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی عبارتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارتوں سے سینکڑوں گنا سخت اور ترش ہیں.راشد علی اور اس کے پیر صاحب !تم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حوالہ دے کر جو بے باکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کی ہے، اگر اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ واقعۂ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت کے لئے غیرت رکھتے ہیں تو اب آپ پر فرض ہے کہ اپنی سرکش شعلہ فگن لمبی جیٹھ دیو بندیوں کے مقتداء و پیشوا مولا نا محمد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ دارالعلوم دیو بند پر بھی نکالیں.ہم پورے یقین سے کہتے ہیں کہ آپ اہلِ بیت کی شان میں دیو بندیوں کے پیر ومرشد کی بظاہر گستاخ عبارت کو پڑھ کر ضرور اپنی جھوٹی غیرت کو سلا دیں گے اور ایک حرف بھی بولنے کی جرات نہ کریں گے کیونکہ آپ جھوٹے ہیں، آپ کی تحریریں جھوٹی ہیں اور آپ کے دعوے بنیادی طور پر جھوٹے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام بہت بلند تھا جس کی وجہ اللہ سے آپ کا دل ان کی محبت سے سرشار تھا.چنانچہ آپ نے اپنی کتاب ”ستر الخلافہ“ میں ان کے اوصاف
350 حمیدہ اور اخلاق عالیہ کا تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ وو ولى مناسبة لطيفة بعلى والحسنين ولا يعلم سرّها الا ربّ المشرقين والمغربين 66 (ستر الخلافہ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 359) وانى احب عليّاً وابناه واعادى من عاداه ـ “ کہ مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حسنین رضی اللہ عنہما سے ایک لطیف مناسبت ہے اور اس کے راز کو صرف دو مشرقوں اور مغربوں کا رب ہی جانتا ہے.اور میں علی رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں بیٹوں سے محبت رکھتا ہوں اور جو آپ سے دشمنی رکھے اس کا دشمن ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جس تحریر پر راشد علی اور اس کے پیر نے اعتراض کیا ہے وہ تحریر بنیادی طور پر حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کی پیشگوئی کے مطابق ہے اور اسی کی عکاسی کرتی ہے.چنانچہ وہ پیشگوئی گیارہویں صدی کے مشہور شیعہ مجہتد علامہ باقر مجلسی اپنی مشہور کتاب ” بحار الانوار میں درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: " يقول (المهدى) يا معشر الخلائق الا ومن اراد ان ينظر الى ابراهيم واسمعيل فها انا ذا ابراهيم واسمعيل الا ومن اراد ان ينظر الى موسى ويوشع فها انا ذا موسى ويوشع ـ الاً ومن اراد ان ينظر الى محمد وامير المؤمنين صلوات الله عليه) فها انا ذا محمّد صلّى الله عليه وسلّم وامير المؤمنین.“ (بحار الانوار جلد 13 صفحہ 202 از علامہ محمد باقر مجلسی.مطبوعہ دار احیاء التراث العربي بيروت) 66 ترجمہ :.جب امام مہدی آئے گا تو اعلان کرے گا کہ اے لوگو! اگر تم میں سے کوئی ابراہیم اور اسمعیل کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی ابراہیم و اسمعیل ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی موسیٰ اور یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی موسیٰ اور یوشع ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی محمد ﷺ اور امیر المومنین (علی) کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ محمد مصطفی ﷺ اور امیر المومنین میں ہی ہوں.پس حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے آکر یہی اعلان فرمایا کہ اب نئی خلافت لو.ایک زندہ علی تم میں موجود ہے.“
351 (6) حضرت امام حسین کی تو ہین کے الزام کا جواب راشد علی اور اس کے پیر نے اپنی ” بے لگام کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل عبارت اور اس شعر کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کے الزام کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے.گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لکھ کر حضرت امام حسین کی توہین کی ہے کہ وو ” اے قوم شیعہ اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا نجی ہے کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک (مرزا صاحب) ہے کہ حسین سے بڑھ کر ہے.“ کر بلائیست سیر ہر آنم صد حسین است در گریبانم در نشین صفحه 287 مجموعه کلام مرز اغلام قادیانی.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 477) قارئین کرام ! راشد علی اور اس کے پیر کی یہ ایسی ہی بدیانتی ہے جیسے کوئی سورۃ النساء کی آیت نمبر 44 کا یہ پہلا حصہ.لَا تَقْرَبُوا الصَّلوۃ تو پڑھ دے کہ نماز کے قریب نہ جاؤ اور اگلے حصہ وَأَنْتُمْ سگاری کے ذکر کو چھوڑ دے.یہ شعر جو راشد علی اور اس کے پیر نے یہاں اعتراض کے طور پر پیش کیا ہے اس سے پہلے اشعار کا مضمون عشق الہی کی کیفیات پر مشتمل ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا ہے کہ آپ بھی ان کشتگانِ حب خدا میں شامل ہیں اور اس زمانہ میں اس کا رزار عشق کے قتل ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: بالخصوص آن سخن که از خاصیت دارد اندریس دلدار اسرار دلدار کی وہ باتیں جو اسرار کے طور پر عشق پیدا کرنے والی خاصیت اپنے اندر رکھتی ہیں
352 او نه یک دو ہزار ایں قتيلان او بروں ز شمار اس دلدار کے فدائی صرف ایک دو یا ہزار انسان ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے کشتے بے شمار ہیں.ہر زمانے قتل تازه غازه روئے او دم بخواست شهداست ہر وقت وہ ایک نیا قتیل چاہتا ہے اس کے چہرہ کا غازہ شہیدوں کا خون ہوتا ہے این سعادت رفته رفته بود قسمت رسید نوبت یہ سعادت چونکہ ہماری قسمت میں تھی رفتہ رفتہ ہماری نوبت بھی آ پہنچی.ان سے اگلا شعر یہ ہے کر بلائے صد حسین آنم سیر ہر گریبانم در اواواواواواواواواواں.میں ہر وقت گو یا کربلا میں پھرتا ہوں اور سینکڑوں حسین میرے دل میں پنہاں ہیں.( نزول امسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 476) اس آخری شعر میں آپ نے میدانِ کربلا کے کرب و بلا اور اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ثبات قدم اور قربانیوں کی کیفیات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں ان کیفیات میں سے آپ گذر رہے ہیں.پس یہاں نہ اس میدان کربلا کا ذکر ہے نہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا.بلکہ یہ دونوں نام مستعار لے کر بطور استعارہ استعمال کئے ہیں.اور شعر و ادب میں استعارہ کو ظاہر پرمحمول کرنا جائز نہیں ہے.اسی طرح شعر کا قرینہ بتاتا ہے کہ اس میں لفظ ” گریبان کا استعارہ دل کے لئے استعمال کیا گیا ہے.گریبان سے مراد قمیض و کر نہ کا گلا نہیں بلکہ عشق خدا سے معمور وہ دل ہے جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ جیسے کشتگانِ جب خدا کی محبت سینکڑوں دفعہ نہیں، ہزار ،لاکھ بار بسی ہوئی ہے.شعر وادب کا یہ خاصہ اور حسن ہے کہ چاہے کسی زبان کے ہوں ان میں مجاز اور استعارے استعمال
353 ہوتے ہیں اور ان میں بقول شاعر حسن کو چاند ، جوانی کو کنول کہتے ہیں“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان اشعار میں رہ عشق خدا میں اپنی مشکلات و تکالیف کے بیان کے لئے کربلا اور حسین اور گریبان کے استعارے اسی طرح استعمال فرمائے ہیں جس طرح علامہ ملا نوعی نے اپنے اس شعر میں استعمال فرمائے کہ کر بلائے عشقم تش سرتا پائے من صد حسین در ہر گوشہ صحرائے من (دیوان علامه نوعی ) کہ میں عشق کا کربلا ہوں اور سرا پا تشنہ محبت ہوں اور میرے دل کے ہر گوشے میں سینکڑوں حسین قتل ہوتے ہیں.اس شعر میں بھی کر بلا اور حسین کے استعاروں سے مراد میدانِ کربلا کے کرب و بلا اور حسین سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی استقامت اور قربانیوں کی کیفیات ہی کا اظہار مقصود ہے نہ کہ حضرت حسین پر فضیلت کا دعویٰ کیا گیا ہے.اور دل کے لئے صحرا کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے.ان استعاروں کو ظاہر پر محمول کر کے ان کو نا جائز قرار دینے والا یا ان کی وجہ سے صاحب شعر کو ہدف اعتراض بنانے والا کوئی جاہل ہی ہو سکتا ہے.کہ جس کو شعر و ادب کا ادراک ہی نہیں یا پھر ایسا کور باطن ہوسکتا ہے جو دن کو بھی رات ہی سمجھتا ہے.جہاں تک کتاب دافع البلاء روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 233‘ کی مذکورہ بالا عبارت کا تعلق ہے جس پر راشد علی اور اس کے پیر نے اپنے اعتراض کی بنیاد رکھی ہے تو اس میں ان دونوں نے بدیانتی سے کام لیا ہے اور ادھوری عبارت پیش کی ہے اور اس عبارت کا پس منظر بھی نہیں بتایا.قارئین اگر اس عبارت کا سیاق وسباق پڑھیں تو حقیقت حال واضح ہو جائے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ غالی شیعوں کے اس رجحان کو بدلنے کی کوشش کی ہے جس کا رخ شرک کی طرف تھا.وہ خدا تعالیٰ کی بجائے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کومشکل کشا اور بلاؤں کو ٹالنے والا جانتے تھے.آپ نے ان کو خدائے قادر مطلق سے وابستہ ہونے
354 کے لئے اپنی طرف متوجہ فرمایا ہے.لیکن یہاں اس تفصیل میں جائے بغیر ہم آپ کی خدمت میں صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اس پیر اور مرید نے محض فتنہ اور فساد کی غرض سے اسے جذباتی مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے.بحث حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نہیں.بحث اس موعود مسیح و مہدی کے مقام کی ہے جس کے بارہ میں یہ پیر اور مرید اور ان کے بزرگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ سید الانبیاء ﷺ کا خلیفہ ہوگا اور نبی ہوگا.جیسا کہ اس کتاب میں ہم یہ دوسری جگہ درج کر آئے ہیں.پس خلیفتہ الرسول اور نبی اللہ سے کسی دوسرے کے مقام کا موازنہ کرنا اور اسے جذباتی مسئلہ بنانا ،فتنہ پیدا کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ اہل حدیث کے مشہور اور نامور عالم نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب پر حضرت امام محمد ابن سیرین کی یہ روایت درج کی ہے." تكون في هذه الامة خليفة خير من ابى بكر وعمر ، 66 نج الکرامہ فی آثار القیامہ - صفحہ 386 - مطبع شاہ جہان بھوپال) کہ اس امت میں ایک خلیفہ ایسا ہو گا جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر سے بھی افضل ہوگا.جہاں تک بزرگان سلف کا تعلق ہے آنے والے مہدی کے بارہ میں یہ بیان ان کے عقیدہ کی پوری عکاسی کرتا ہے.چنانچہ حضرت امام عبدالرزاق قاشائی کی شرح میں حضرت پیرانِ پیر سید عبد القادر جیلانی کا یہ قول درج ہے.آپ بیان فرماتے ہیں: " المهدي الذي يجئي في آخر الزمان فانّه يكون في الاحكام الشرعية تابعاً لمحمد صلعم وفى المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الانبياء والاولياء تابعين له كلّهم لانّ باطنه باطن محمد صلعم.“ ( شرح فصوص الحکم صفحہ 43،42 مطبع مصطفی السبابی الحلمى مصر ) که امام مہدی علیہ السلام جو آخری زمانہ میں ہوں گے چونکہ وہ احکام شرعی میں آنحضرت ﷺ کے تابع ہوں گے.اس لئے معارف اور علوم اور حقیقت میں تمام کے تمام ولی اور نبی اس کے تابع ہوں گے کیونکہ ان کا باطن آنحضرت ﷺ کا باطن ہوگا.پس ہمارے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہی مہدی برحق ہیں جن کی آمد کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی اس لئے ان کا وہی مقام ہے جو انہیں آنحضرت ﷺ نے عطا فرمایا اور
355 اس کی تشریح بزرگانِ امت نے کی.اب آخر میں ہم ان پیرو مرید سے یہ پوچھتے ہیں کہ اگر آپ نے یہ مسئلہ محض چالا کی اور شرارت کی غرض سے نہیں اٹھایا اور اسے جذباتی مسئلہ بنانا مد نظر نہیں تھا تو بتا ئیں کہ ا.آپ کے پاس کونسی آیت قرآنیہ ہے جس میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہو کہ حضرت امام حسین علیہ السلام افضل ہیں تمام انبیاء سے.۲.کسی حدیث صحیح میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہو کہ امام حسین افضل ہیں تمام انبیاء سے.۳.امام حسین نے کبھی خود فر مایا ہو کہ وہ افضل ہیں تمام انبیاء سے سوائے آنحضرت ﷺ کے.۴.یا باقی آئمہ اہل بیت میں سے کسی امام نے فرمایا ہو کہ امام حسین افضل ہیں تمام انبیائے سابقہ سے سوائے رسول اکرم ﷺ کے.صلى الله اگر راشد علی اور اس کے پیر کے پاس مذکورہ بالا مطلوبہ ثبوت موجود ہوں تو پیش کریں.وان تم تفعلوا ولن تفعلوا.....نہ وہ ایسے ثبوت پیش کر سکتے ہیں نہ کریں گے.تو ایک غلط اور جھوٹا دعوای اعتراض کیوں کرتے ہیں؟ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: حسین رضی اللہ عنہ ظاہر مطہر تھا اور بلاشبہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کرتا ہے.اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے ، موجب سلپ ایمان ہے اور اس امام کا تقویٰ اور محبت اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اس شخص کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو ملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقوی اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں، کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے.دنیا کی آنکھ ان کو شناخت
356 نہیں کرسکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین رضی اللہ عنہ سے بھی محبت کی جاتی.“ پھر فرمایا: وو (فتاوی احمدیہ.حصہ دوم صفحہ 42) حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب 66 عفت اور عصمت اور ائمۃ الہدی تھے اور وہ بلا شبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت ﷺ کے آل تھے.“ تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 364، 365 حاشیہ) اللهم صل على محمد و على آل محمد.
357 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور انگریز
358 (1) جھوٹ کی بنیاد ایک خودساختہ اور جعلی رپورٹ را شد علی لکھتا ہے.مسلمان ہندوستان پر ہزار سال سے حکمرانی کر رہے تھے انگریز تاجر بن کر آئے اور بالآخر ہندوستان کے مالک بن بیٹھے.جگہ جگہ ان کو مسلمانوں کی طرف سے جہاد کی صورت میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا.جہاد کی اس روح کا خاتمہ کرنے کے لئے جو کمیشن انگلستان بھیجا گیا اس نے 1870ء میں اپنی رپورٹ THE ARRIVAL OF" "BRITISH EMPIRE IN INDIA میں برطانوی سرکار کو مشورہ دیا گیا کہ وو ” ہندوستان کے مسلمانوں کی ذہنیت ایسی ہے کہ جب کسی کو اپنامذہبی رہنما تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر آ نکھ بند کر کے اس کی ہر بات کو مان لیتے ہیں.اگر کوئی ایسا شخص تیار کیا جائے جو امتی نبی ہونے کا دعویٰ کر دے تو ہمارا مسئلہ حل ہوسکتا ہے.“ مرزا غلام احمد قادیانی کی بھرتی :.چنانچہ تلاش و جستجو کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر اس کام کے لئے چنا گیا:.ا.وہ انگریزوں کے قدیمی خاندانی پکے نمک خوار اور بچے وفادار تھے.۲.ایک ایسے رئیس خاندان کے چشم و چراغ تھے جس کی ساری ریاست تو چھن چکی تھی مگر جس میں پیسے اور جاہ و منصب کی طلب اور نام و نمود کی خواہش بڑی شدت سے تھی.( گو یاری تو جل چکی تھی پر بل نہیں گیا تھا ) ( بے لگام کتاب ) مذکورہ بالا رپورٹ کا ذکر اس نے اپنے انگلش پمفلٹ MUSLIM PLEASE WAKE" "UP میں بھی یوں کیا ہے "To tackle this spirit of Jehad, A commission of inquiry of MPs, journalists and church officials came from london in 1868.After spending two
359 years,They went back and submitted their report THE ARRIVAL OF BRITISH EMPIRE IN INDIA to the british parliament.In this report they recommended that "We should create an apostolic prophet, who would abrogate the concept of Jehad among the Muslims." را شد علی کے اس جھوٹ پر ہمارا بنیادی جواب تو یہی ہے کہ لعنة الله على الكاذبين جہاں تک اس رپورٹ کا تعلق ہے تو اس نام کی یا اس نوع کی کوئی رپورٹ برطانیہ وامریکہ تو کیا دنیا کی کسی لائبریری میں موجود نہیں.نہ ہی برٹش پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں ہے اور نہ ہی یہاں کے چرچ کے ریکارڈ میں.یہ رپورٹ تو تب کسی ریکارڈ میں محفوظ ہوتی اگر اس کا حقیقیہ کوئی وجود بھی ہوتا.شیطان کی گود میں بیٹھ کر ایک جھوٹ گھڑ لینا اور پھر اسے خدا کے پاک مامور کی تکذیب میں اچھال دینا شیطان مرید کے کسی مُرید کا ہی افتراء ہوسکتا ہے.جب راشد علی کو ایک انگریز متلاشی حق Mr Cox نیتا یا کہ برطانیہ تو کیا دنیا کی کسی لائبریری یا دنیا کے کسی ریکارڈ میں ایسی کسی رپورٹ کا ذکر تک نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا وفد اس غرض کے لئے برصغیر پاک و ہند گیا تھا.تو راشد علی نے جواب دیا کہ مشہور مؤرخ آغا شورش کا شمیری نے اس دستاویز کی موجودگی کا ذکر اپنی کتاب The story of Khatm e Nabuwat میں کیا ہے.انہوں نے اس کے مصدر کا ذکر نہیں کیا لیکن مجھے ان کی اس بات پر شک کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی.“ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے.بے بنیاد اور بے حوالہ مؤرخ کی بے حوالہ بات کو راشد علی نے اپنی بنیاد بنا کر اپنے کذاب ہونے کا ثبوت دیا ہے.اس رپورٹ کے جھوٹا اور جعلی ہونے کا اندرونی ثبوت یہ بھی ہے کے راشد علی اور اس کے پیر نے
360 اپنی ” بے لگام کتاب میں یہ 1870ء کی رپورٹ بتائی ہے جبکہ فولڈر "...Beware " میں اس کا سال 1868ء بتایا ہے.اس قطعی جھوٹ کی قلعی تو صرف اسی ایک ثبوت سے ہی کھل جاتی ہے.لیکن جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ اس جعلی اور جھوٹی رپورٹ کا سطح ارض پر وجود ہی کوئی نہیں.تو آئیے اب اس رپورٹ کا کچھ اندرونی تجزیہ بھی ملاحظہ فرمائیں.1.اس نام نہادر پورٹ کا عنوان ہی اسے جھوٹا اور جعلی ثابت کرتا ہے کیونکہ اس کا عنوان ان جھوٹوں نے خود یہ رکھا ہے."The arrival of British Empire in India" یہ اختراع کرنے والوں کو یہ بھی علم نہیں کہ برٹش ایمپائر تو حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام سے بیسیوں سال پہلے برصغیر میں پوری طرح قائم ہو چکی تھی.وہ 1868ء میں برٹش MPs ، جرنلسٹس اور چرچ کے نمائندوں کے وہاں جانے اور اپنی تجزیاتی رپورٹ پیش کرنے کی وجہ سے وہاں قائم نہیں ہوئی تھی..اس جعلی رپورٹ کی عبارت کا تجزیہ کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ انگریز کی بنائی ہوئی رپورٹ ہی نہیں ہے بلکہ کسی دیسی جھوٹے کی اختراع ہے.اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس میں جو Apostolic Prophet کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اس کا انگریزی میں وجود ہی کوئی نہیں.عربی یا اردو اصطلاح کا ترجمہ کرنے کی یہ ایک ایسی کوشش ہے جو خود اس کے جعلی ہونے کا راز افشاء کر رہی ہے.راشد علی نے اس رپورٹ کے حوالہ کے طور پر آغا شورش کاشمیری کی کتاب کا نام لکھا ہے.شورش کاشمیری نے جعلسازی کی شاہکار یہ رپورٹ کہاں سے پکڑی ؟ اس کا راشد علی کو علم نہیں.چونکہ جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانا ضروری ہے اس لئے ہم اسے بتاتے ہیں کہ اس رپورٹ نے جنم کہاں لیا.اصل واقعہ یہ ہے کہ اس جعلی رپورٹ کی اختراع 1967ء میں جمعیۃ العلماء اسلام سرگودہانے کی اور خالد پر لیس سرگودہا سے اسے طبع کرایا گیا.یہ کوئی 1868 ء یا 1870ء کی بات نہیں بلکہ پورے سوسال بعد 1967ء کی بات ہے جب یہ جعلی اور خود تراشیدہ رپورٹ سرگودہا میں جمعیۃ العلماء اسلام نے افتراء اور شائع کی.اس جھوٹی اور مفتریا نہ رپورٹ کو پھر 1973 ء میں شورش کا شمیری نے اپنی کتاب ” عجمی اسرائیل میں
361 درج کیا.یہ معیار اور یہ حال ہے راشد علی کے مشہور مؤرخ کا جس نے ایک جھوٹ ، جعلسازی اور افتراء کو جانتے بوجھتے ہوئے تشہیر دی اور یہ شیطنت ہے راشد علی کی کہ وہ جھوٹے حربہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ایک مامور کی تکذیب کرنے لگا ہے!!! 4 حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کی دعوت اسلام اور مذاہب عالم کو للکار ایک آسمانی قرنا اور صورِ اسرافیل تھی جس نے ایک طرف مسلمانوں کے مردہ جسم میں زندگی کی ایک زبردست روح پھونک دی تھی تو دوسری جانب صلیبی افواج تاب مقابلہ نہ لا کر بدحواس ہو چکی تھیں.ان کے قدم اکھڑ گئے اور ترقی کی رفتار یکا یک رک گئی ، اسلام کو مٹا دینے کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے اور اسلام کی ابھرتی ہوئی نئی قوت وطاقت نے ان کو بہت جلد احساس دلا دیا کہ صلیبی مذہب شکست سے دو چار اور خطرہ کے حصار میں ہے.چنانچہ 1894ء میں پادریوں کی ایک عالمی کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی جس میں لارڈ بشپ آف گلوسیسٹر دی رائٹ ریورنڈ چارلس جان ایلی کوٹ LORD BISHOP OF CLOUCESTER THE) (RIGHT REVEREND CHARLES JOHN ELLICOT نے نہایت درجہ تشویش و اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے پوری مسیحی دنیا کو مطلع کیا کہ: "I learn from those who are exprienced in these things that there is now a new kind of Mohammadanism showing itself in many parts of our empire in India, and even in our own island here at home, Mohammadanism now speaks with reverence of our blessed Lord and Master, but is not the less more intensely monotheistic than ever.It discards many of these usages which have made Mohammadanism hateful in our eyes, but the False prophet holds his place no less pre-eminently than before.Changes are plainly to be recognised; but Mohammadanism is not the less aggressive,
362 and alas! to some minds among us (God grant that they be not many) ( The even additionally of the Missionary Conference Official report of communion.1894, page 64) attractive.the Anglican ترجمہ: اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں.مجھے ان لوگوں نے جو صاحب تجر بہ ہیں بتایا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی مملکت میں ایک نئی طرز کا اسلام ہمارے سامنے آ رہا ہے...اس نئے اسلام کی وجہ سے محمد کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی جا رہی ہے یہ نئے تغیرات بآسانی شناخت کئے جاسکتے ہیں.پھر یہ نیا اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ جارحانہ حیثیت کا حامل بھی ہے.افسوس ہے تو اس بات کا کہ ہم میں سے بعض کے ذہن اس کی طرف مائل ہو رہے ہیں.راشد علی سے کوئی پوچھے کہ کیا ان برطانوی پادریوں نے حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو اس لئے نبی بنانے کا پروگرام بنایا تھا کہ آپ ان کے حکومتی مذہب کی ایسی بیخ کنی کریں کہ اسے ہمیشہ کے لئے مردہ ثابت کر دیں؟ بہر حال لارڈ بشپ آف گلوسٹر کا مذکورہ بالا بیان راشد علی کے جھوٹ کو کلیۂ بے نقاب ، اور اس مفتر یانہ اور جعلی رپورٹ کو بھی خوب ننگا کرتا ہے..5 راشد علی کی اس رپورٹ کو برصغیر پاک و ہند کے ایک نامور عالم جناب مولانا نورمحمد صاحب نقشبندی چشتی مالک اصح المطابع دہلی کی یہ گواہی بھی قطعی جھوٹا اور جعلی ثابت کرتی ہے.جس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ، عیسائیت کے مقابل پر اسلام کی اس نمایاں فتح کا ذکر نہایت ولولہ انگیز اور پر جوش الفاظ میں فرمایا ہیکہ وو......اسی زمانہ میں پادری لیفر ائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا.ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لیکر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا حضرت عیسی کے آسمان پر جسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور اس کی
363 جماعت سے کہا کہ عیسیٰ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو.اس ترکیب سے اس نے لیفرائے کو اس قدرتنگ کیا کہ اس کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی.(دیباچہ قرآن صفحہ 30 از حافظ نور محمد نقشبندی چشتی.اصبح المطابع دہلی) 6:.باقی جہاں تک جہاد کے نام پر بغاوت اور جنگ وجدل کی روک تھام کا تعلق ہے تو تاریخی حقائق راشد علی کو جڑھ سے جھوٹا اور سرے سے کذاب ثابت کرتے ہیں.را شد علی 1868ء میں برصغیر میں برطانوی کمشن کی آمد کی بات کرتا ہے حالانکہ 1868ء سے بہت پہلے ہی انگریزی حکومت ملک کے طول و عرض میں ایک مثالی امن و امان قائم کر چکی تھی اور پورا عالم اسلام برٹش انڈیا کے دارالاسلام ہونے اور انگریزی حکمرانوں کی شرعی اطاعت پر متحد ہو چکا تھا.وہ ان کے خلاف جہاد کو حرام قرار دے کر شرعی فتوے جاری کر چکا تھا.لہذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ برطانوی حکومت کو استحکام بخشنے کا جو دینی فریضہ خلیفۃ المسلمین ترکی، مرکز اسلام مکہ معظمہ کے مفتیانِ عظام، امیر افغانستان، برٹش ہند کے چوٹی کے دیوبندی، اہلِ حدیث اور حنفی علماء و آئمہ کرام، نیز بہاولپور، بھوپال، رام پور اور حیدر آباد دکن کے وفادار حکمران اور پنجاب کے بہت سے نامور اور ممتاز مسلمان خاندان کمال خوبی سے انجام دے چکے تھے.اس کے لئے برسوں بعد کسی شخص کو نبی بنا کر کھڑا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟؟ مذکورہ بالا تاریخی حقائق دنیا کی لائبریریوں میں کثرت کے ساتھ موجود ومحفوظ ہیں اور یہ ایسا تاریخی ریکارڈ ہے جسے کوئی شیطان ختم نہیں کر سکتا.اور یہ ریکارڈ ہمیشہ شیطان کی ذریت کو جھوٹا ثابت کرتارہے گا.انشاء الله حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام سے پہلے ہی نہیں ، آپ کے ہم عصر اور آپ کے بعد بھی امت کے بڑے بڑے سیاسی و مذہبی لیڈر برطانوی حکومت کے استحکام کے لئے پوری قوم کو ساتھ لے کر مصروف عمل رہے.سرسید احمد خان ، مولوی محمد حسین بٹالوی ، مولانا نذیر احمد دہلوی ، مولوی ظفر علی خان،
364 مولوی ابوالاعلی مودودی اور علامہ اقبال وغیر ہم قابل ذکر ہیں.جو برطانوی حکومت کو ماں سے بڑھ کر شفیق ، اسلامی سلطنتوں سے بڑھ کر فخر کا محل ، اور ایک غنیمت قرار دیتے تھے اور اس کے باغی کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے.وہ بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرے کی بجائے اپنے جسم کا خون بہا دینے کے لئے تیار تھے.اس کے آگے فرط عقیدت سے ان کا سر جھکا ہوا تھا.وہ اس کی نگاہ فیض اثر کے ملتجی تھے اور اسے اپنے دلی جذبات کے ساتھ سایہ خدا قرار دیتے تھے.الغرض اس قسم کی وفادار قوم اور خوشامدی لیڈروں کے ہوتے ہوئے انگریز کو کسی اور چال کی بہر حال ضرورت نہیں تھی.جہاں تک جہاد کی صورت میں مزاحمت کا تعلق ہے تو انگریز تو 1857ء کے غدر میں باغی مسلمانوں کو پوری طرح شکست دے چکا تھا.اس کے بعد اس کی راہ میں تو مزاحمت کا کوئی سوال ہی نہیں تھا.ویسے بھی مکہ مکرمہ کے بڑے بڑے مفتیوں سے لے کر برصغیر کے چھوٹے چھوٹے علماء تک جہاد کے حرام ہونے اور اس کی دل و جان سے اطاعت کے شرعی فتوے دے چکے تھے.اس صورتحال میں اسے کسی ایسی کارروائی کی ضرورت نہیں تھی جو راشد علی کے شیطان نے یا اس کے آقاؤں نے اختراع کی ہے.علاوہ ازیں ایک ادنی عقل کا انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر انگریز نے کسی کو کھڑا کرنا تھا تو کسی بڑے پیر اور گڈی نشین کو کھڑا کرتا جس کے لاکھوں مرید اس کے ہمنوا موجود ہوتے.یہ اس نے کیا کیا کہ ایسے شخص کو کھڑا کیا جو نہ ڈگری یافتہ تھا اور نہ وہ کسی بڑے اور مرکزی شہر میں آباد عوام سے رابطہ رکھ سکتا تھا.اس نے ایک غیر مشہور اور زاویہ خمول میں مستور شخص سے دعویٰ نبوت کرایا اور اس سے وفات مسیح کا اعلان کرا کے مسیح موعود ہونے کا مدعی بنایا کہ جسے اکثریت قبول کرنے کو تیار ہی نہیں تھی.آخر انگر یز مد برین را شد علی جیسے بیوقوف تو نہیں تھے کہ ان کے منصوبے ایسے غیر معقول ہوتے ؟ اگر تو ہندوستان کے مسلمان امتی نبی پیدا ہونے کا عقیدہ رکھتے ، وفات مسیح کے قائل اور امت میں مثیل مسیح کے پیدا ہونے کے منتظر ہوتے تو پھر تو یہ سکیم شاید کامیاب بھی ہوتی اور قابلِ عذر بھی ! پس قطعی شواہد اور تاریخی دستاویزات سے یہ الم نشرح ہے کہ راشد علی اور اس کے ہم مشرب ایک نامعقول جعلی اور جھوٹی رپورٹ پر تکیہ کر کے اپنے مکذب ہونے کا کھلا کھلا ثبوت پیش کر چکے ہیں.ان کا یہ
365 جھوٹ تو بہت ہی کھل چکا ہے اور انہیں ذلیل و خوار کر چکا ہے.اس لئے اب انہیں چاہئے کہ کوئی اور جھوٹی رپورٹ اختراع کریں.(2) دو سرکاری خدمات یا وضع حرب را شد علی کی تعلی ملاحظہ فرمائیں.وہ اپنی ” بے لگام کتاب میں لکھتا ہے.سرکاری خدمات :.غرضیکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے ذہنی بیماری ، افیون اور شراب کے زیر اثر اپنے مالکوں کے لئے وہ خدمات انجام دیں جو امت مسلمہ کے غذاروں میں سے آج تک کسی نے انجام نہیں دیں.مرزا صاحب کو خود بھی اپنی اس کارگزاری پر بہت ناز تھا.“ اپنی اس یاوہ گوئی کے ثبوت کے طور پر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر پیش کرتا ہے.( میری کتابوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلط خیالات چھوڑ دیئے جو نافہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے.یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکا ستارہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 114‘ چونکہ جہاد کا مسئلہ ایک وسیع مضمون ہے اس لئے یہاں بھی راشد علی کی یاوہ گوئی کے جواب میں اس تفصیلی روشنی ڈالنی ضروری ہے اور کھول کر بتانا ضروری ہے کہ جہاد کے تو مختلف پہلو ہیں مثلاً تلوار کا جہاد ہے ، وقت کی قربانی پیش کرنے کا جہاد ہے تبلیغ اسلام کا جہاد ہے اور نفس کا جہاد ہے وغیرہ وغیرہ.بہر حال دیکھنا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس جہاد کو منسوخ قرار دیا؟ نیز یہ کہ کیا اسلامی جہاد کے تصور کو منسوخ کہا یا لوگوں کے بگڑے ہوئے تصویر جہاد کو حرام قرار دیا؟ تو آئیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی زبان سے اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں.لیکن قبل اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پیش کیا جائے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس اقتباس میں جس پادری کا ذکر ہے اس کا پس منظر کیا ہے؟
366 اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پادری خصوصاًوہ جومسلمانوں سے مرتد ہوئے تھے اسلام پر شدید حملے کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اسلام تلوار کے جہاد کی تلقین کرتا ہے اور ادھر انگریزی حکومت کو انگیخت کر رہے تھے کہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دو.ان میں اٹھنے کی طاقت سلب کر لو.یہ وہ دور تھا جبکہ عیسائی پادری بڑھ بڑھ کر انگریزوں کو مسلمانوں کے عقیدہ جہاد کی وجہ سے بھڑ کاتے تھے.یہ پادریوں کا ظالمانہ حملہ تھا اور ان کی اسلام دشمنی کا ثبوت تھا.وہ چاہتے تھے کہ اس بہانے سے مسلمانوں کو ہندوستان میں کچل دیا جائے اور ہند و طاقت کی سر پرستی کی جائے اور اسے ابھارا جائے جبکہ ہندوؤں کا بھی یہی طریق تھا کہ وہ بار بار انگریز حکام کو مخاطب کر کے توجہ دلاتے تھے کہ اصل خطرہ تمہیں مسلمانوں سے ہے اس لئے ان مرے مٹوں کو اور بھی بالکل مٹا دو، بر باد کر دو، اٹھنے کی طاقت کا خیال ہی ان کے دل سے نکال دو.پادری عماد الدین سابق واعظ و خطیب جامع مسجد آگرہ جس کا پہلے بھی ذکر آ چکا ہے اس کے ایسے ہی الزامات کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس نکتہ چین نے جو جہاد اسلام کا ذکر کیا ہے اور گمان کرتا ہے کہ قرآن بغیر لحاظ کسی شرط کے جہاد پر برانگیختہ کرتا ہے سو اس سے بڑھ کر اور کوئی جھوٹ اور افترا نہیں.اگر کوئی سوچنے والا ہو.سو جاننا چاہئے کہ قرآن شریف یوں ہی لڑانے کے لئے حکم نہیں فرما تا بلکہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بندوں کو اس پر ایمان لانے سے روکیں اور اس کے دین میں داخل ہونے سے روکتے ہیں ހނ اور اس بات سے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر کار بند ہوں اور اس کی عبادت کریں اور وہ ان لوگوں.لڑنے کے لئے حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مومنون کو ان کے گھروں اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اللہ کو جبراً اپنے دین میں داخل کرتے ہیں اور دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو مسلمان ہونے سے روکتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے اور مومنون پر واجب ہے کہ ان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آویں نور احق حصہ اول - ترجمه از عربی عبارت.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 62) یعنی بنفسہ جہاد نہیں، جہاد کے غلط تصورات اسلام کے لئے خطر ناک تھے.یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ” تنسیخ جہاد اب اور سنئے ! کس چیز کو حرام قرار دیا ،کس چیز کے یه مفصل مضمون امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ فرمودہ ۵۱ فروری ۵۸۹۱ ء سے ماخوذ ہے.
367 خلاف آپ نے جہاد کا علم بلند کیا.سو واضح ہو کہ بعض جاہل علماء اور پادریوں کے غلط تصورات تھے جن کے خلاف آپ نے آواز بلند کی ہے.ان علماء کے غلط تصورات کے نتیجہ میں اسلام کو تو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچنا تھا کیونکہ ان میں لڑنے کی کوئی طاقت ہی نہیں تھی ہاں نقصان کے بہت سے اندیشے اور خطرات تھے جو ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " سبحان اللہ ! وہ لوگ کیسے راست باز اور نبیوں کی روح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں ان کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگر چہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ.پس وہ اس حکم کو پا کر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے گویا نہ ان کے ہاتھوں میں زور ہے نہ ان کے بازوؤں میں طاقت.بعض ان میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کر کے ان کی ٹانگیں مضبوط طور پر ان اونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اونٹوں کو مخالف سمت میں دوڑایا گیا.پس وہ اک دم میں ایسے چر گئے جیسے گا جریا مولی چیری جاتی ہی.مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دنیا ان کا شکار ہے اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقع پا کر بندوق کا فائر کرتا ہے یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں.انہوں نے انسانی ہمدردی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بھی نہیں پڑھا بلکہ ان کے نزد یک خواہ مخواہ ایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے...وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں.کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم خواہ مخواہ بغیر ثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو کہ نہ ہم اسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے غافل پا کر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں.کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہوسکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ ، بے جرم ، بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جاؤ ، اس سے تم بہشت میں داخل ہو جاؤ گے.افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم نے بے وجہ بے تعلق اس پر پستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنادیا.یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا
368 جواب دے؟ نادانوں نے جہاد کا نام سن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے.“ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 12، 13 ) جہاد بالسیف کی شرائط مفقود ہیں پس یہ وہ جہاد کا تصور ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حرام قرار دیا ہے علماء میں سے آج کون ہے جو اس کو آج بھی حلال کہ سکتا ہے.اس لئے جھوٹے الزام لگا رہے ہیں.جس چیز کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حرام کیا ہے وہ مخالفین کے اپنے تصورات تھے.لیکن ان کے یہ تصورات اب ظاہر ہورہے ہیں اس وقت وہ خفیہ باتیں کیا کرتے تھے اور جہاں تک انگریزی حکومت کا تعلق ہے اس کو مخاطب کر کے جہاد کا وہی تصور بتاتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے، اس مضمون کے متعلق ابھی چند اقتباس آگے پیش کئے جائیں گے تب آپ اندازہ کر سکیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کیسے کیسے مخالفین سے واسطہ پڑا تھا.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو یونہی تو نہیں چنا کرتا اور ان سے پیار کیا کرتا بلکہ وہ انہیں نہایت ہی دکھوں اور مصیبتوں کے ابتلاء میں ڈالتا ہے، انہیں نہایت ہی ظالموں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے اور وہ صبر سے کام لیتے ہیں تب خدا کے حضور مقدس اور پاکیزہ گنے جاتے ہیں اور ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو خدا کو پیارے ہوا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: 66 " فرفعت هذه السنة برفع اسبابها في هذه الايام “ کہ تلوار کے ساتھ جہاد کے شرائط پائے نہ جانے کے باعث موجودہ ایام میں تلوار کا جہاد نہیں رہا.پھر فرمایا: " وأمرنا ان نعد للكافرين كما يعدّون لنا ولا نرفع الحسام قبل ان نقتل بالحسام “ اور ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم کافروں کے مقابل میں اس قسم کی تیاری کریں جیسی وہ ہمارے مقابلہ کے لئے کرتے ہیں یا یہ کہ ہم کافروں سے ایسا ہی سلوک کریں جیسا وہ ہم سے کرتے ہیں اور جب تک وہ ہم پر تلوار نہ اٹھا ئیں اس وقت تک ہم بھی ان پر تلوار نہ اٹھائیں.“ (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 454) پھر فرماتے ہیں: 66 اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ میں جہاد یہی ہے کہ اعلاء
369 کلمہ اسلام میں کوشش کریں.“ مکتوب بنام حضرت میر ناصر نواب.مندرجہ پیش لفظ صفحہ 17 روحانی خزائن جلد 17 ) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صرف جہاد کا وہ تصوّر منسوخ فرمایا ہے جو علماء نے حقیقی تصویر جہاد کے منافی اپنی طرف سے گھڑ لیا تھا.جب تک شرائط جہاد پوری نہ ہوں اس وقت تک جہاد کرنا منع ہے اور وہ بھی جہاد کا صرف ایک حصہ ہے جو شرط پوری نہ ہونے کی وجہ سے منع ہے.اعلائے کلمہ اسلام کا میدان کھلا ہے جہاں تک جہاد کے وسیع تر مضمون کا تعلق ہے جہاد فی ذاتہ تو کبھی منسوخ ہو ہی نہیں سکتا.وہ ہر حال میں لازما ہمیشہ جاری رہے گا اور اس کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور ایسی ہوگی جسے مومن سرانجام دے سکتا ہے.چنانچہ آپ مزید فرماتے ہیں: اعلاء کلمہ اسلام میں کوشش کریں، ہمخالفوں کے الزامات کا جواب دیں، دین متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں.آنحضرت ﷺ کی سچائی دنیا پر ظاہر کریں.یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کرے.“ (مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بنام حضرت میر ناصر نواب.حوالہ مذکورہ بالا ) یعنی جہاد کی یہ صورت ہمیشہ کے لئے نہیں.” دوسری صورت“ سے مراد یہ ہے کہ جب دشمن اسلام مذہب کے خلاف جبر سے کام لے گا تو تمہیں بھی اجازت ہو جائے گی لیکن جب تک ایسی صورت ظاہر نہیں ہوتی اس وقت تک جہاد کی دوسری شکلیں ہیں جو تمہارے سامنے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے (ہر جہاد کا نہیں.وہ کیوں ؟ اس کی وضاحت پہلے فرما چکے ہیں.ناقل ) مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے.یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے.صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یض الحرب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا.“ ) گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 15)
370 ہیں: دو جہاد کے بارہ میں قرآنی تعلیم سے منحرف تصورات تو پس یہ تو آنحضرت ﷺ کا ہی ارشاد ہے.پھر آپ " تحفہ قیصریہ کے صفحہ 10 پر تحریر فرماتے اور دوسرا اصول جس پر مجھے قائم کیا گیا ہے وہ جہاد کے اس غلط مسئلہ کی اصلاح ہے جو بعض نادان مسلمانون میں مشہور ہے.سو مجھے خدا تعالیٰ نے سمجھا دیا ہے کہ جن طریقوں کو آجکل جہاد سمجھا جاتا ہے وہ قرآنی تعلیم سے بالکل مخالف ہیں.بیشک قرآن شریف میں لڑائیوں کا حکم ہوا تھا جو موسیٰ کی لڑائیوں سے زیادہ معقول اور بیشوع بن نون کی لڑائیوں سے زیادہ پسندیدگی اپنے اندر رکھتا تھا اور اس کی بناء صرف اس بات پر تھی کہ جنہوں نے مسلمانوں کے قتل کرنے کے لئے ناحق تلوار میں اٹھا ئیں اور ناحق کے خون کئے اور ظلم کو انتہا تک پہنچا یا ان کو تلواروں سے ہی قتل کیا جائے." تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 262) یہ ہے خلاصہ اس قرآنی تعلیم کا جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ملتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَانَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرٌ الَّذِيْنَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقَّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ - ( ج:۱۳،۰۳) ترجمہ:.وہ لوگ جن سے ( بلا وجہ ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی ( جنگ کرنے کی ) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ( یہ وہ لوگ ہیں ) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا.کوئی عالم دین ہے؟ جو ان باتوں میں سے آج بھی کوئی غلط ثابت کر کے دکھائے اور بتائے کہ کہاں اعتراض کی گنجائش ہے محض ایک فرضی اور جھوٹی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف دیدہ دانستہ منسوب کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے خود آپ کی کتابوں کو پڑھا ہوا ہے مگر پھر بھی یہ سارے پہلو چھپاتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو انگریزوں نے جہاد کی تنسیخ کے لئے کھڑا کیا تھا اور اگر آپ کھڑے نہ ہوتے تو انگریز مارا جاتا اور مسلمانوں نے سلطنت انگریزی کو تباہ کر کے رکھ دینا تھا اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان سے جہاد کر نامنع نہ فرماتے.
371 انگریزوں سے لڑنے والے مفسد اور باغی اب ان کے بڑوں کا حال سنیئے.جو آج بڑھ بڑھ کر یہ الزام لگا رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس وقت یہی باتیں مسلمانوں میں خفیہ طور پر پھیلایا کرتے تھے جہاں تک دنیا کے سامنے باتوں کا تعلق ہے وہ کچھ اور کہا کرتے تھے لیکن انگریزی حکومت کو اپنے عقائد سے بالکل مختلف زبان میں آگاہ کرتے تھے، ان کے سامنے ان کے عقائد بالکل کچھ اور نظر آتے تھے.مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سب سے بڑے دشمن اور جہاد کے معاملہ میں معترض تھے لکھتے ہیں : مفسدہ 1857ء میں جو مسلمان شریک ہوئے تھے وہ سخت گناہ گار اور بحکم قرآن وحدیث وہ مفسد وو باغی بدکردار تھے.“ پھر فرماتے ہیں: اس گورنمنٹ سے لڑنا یا ان سے لڑنے والوں کی (خواہ ان کے بھائی مسلمان کیوں نہ ہوں ) کسی 66 نوع سے مدد کر نا صریح غدر اور حرام ہے.“ (4910 پھر اپنی کتاب اقتصاد فی مسائل الجہاد کے صفحہ 25 پر رقم طراز ہیں : وو (اشاعۃ الستة - جلد 9 نمبر اس مسئلہ اور اس کے دلائل سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ملک ہندوستان باوجود یکہ عیسائی سلطنت کے قبضہ میں ہے دارالاسلام ہے اس پر کسی بادشاہ کو عرب کا ہو خواہ عجم کا مہدی سوڈانی ہو یا حضرت سلطان شاہ ایرانی خواہ امیر خراسان ہو مذہبی لڑائی و چڑھائی کرنا ہرگز جائز نہیں.“ یعنی ملک کے اندر جو بستے ہیں ان پر تو بادشاہ وقت کی اطاعت کرنا اور حکومت وقت کی بات ماننا فرض ہے ہی لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہ فتویٰ دوسرے ممالک کے لئے بھی دے رہے ہیں کہ تم جو انگریزی حکومت سے باہر بس رہے ہو تم بھی اگر انگریزی حکومت سے لڑو گے تو یہ تمہارے لئے بھی حرام ہے.پھر فرماتے ہیں:
372 اہل اسلام کو ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت و بغاوت حرام ہے.66 اشاعۃ السنة جلد 6 نمبر 10 صفحہ 386) اس زمانہ میں بھی شرعی جہاد کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ اس وقت نہ کوئی مسلمانوں کا امام الاقتصاد فی مسائل الجهاد صفحه (72) موصوف بصفات وشرائط امامت موجود ہے اور نہ ان کو ایسی شوکت جمعیت حاصل ہے جس سے وہ اپنے مخالفوں پر فتح یاب ہونے کی امید کرسکیں.“ سرسید احمد خان صاحب نے 1857ء کے غدر میں جو لوگ شریک ہوئے ان کے متعلق فرمایا کہ: البتہ چند بد ذاتوں نے دنیا کی طمع اور اپنی منفعت اور اپنے خیالات پورا کرنے اور جاہلوں کے بہکانے کو اور اپنے ساتھ جمعیت جمع کرنے کو جہاد کا نام لے دیا.پھر یہ بات مفسدوں کی حرام زدگیوں میں سے ایک حرامزدگی تھی نہ واقع جہاد.“ دو 66 (رسالہ بغاوت ہند.مؤلفہ سرسید احمد خان صفحہ 104) اعلیٰ حضرت سید احمد رضا خان صاحب بریلوی امام اہل سنت بریلوی فرقہ فرماتے ہیں: ہندوستان دار الاسلام ہے اسے دار الحرب کہنا ہرگز صحیح نہیں.“ (نصرت الابرار.صفحہ 29 مطبوعہ لا ہور ) انگریزوں کے خلاف جہاد نہ کرنے کا شرعی عذر حضرت سید احمد صاحب بریلوی شہید جنہوں نے جہاد کیا اور جہاد کے لئے آپ سرحد کی طرف روانہ ہوئے اور سکھوں سے بھی لڑائی کی وہ ایک مقدس دل ضرور تھا جس میں مسلمانوں کی غیرت موجزن تھی لیکن جہاں تک انگریزی حکومت کا تعلق ہے اس کے متعلق وہ کیا سمجھتے تھے اس بارہ میں آپ کے سوانح نگار محمد جعفر تھانیسری کی زبانی سنئے.وہ سوانح احمدی کلاں“ کے صفحہ 71 پر لکھتے ہیں:.کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ آپ اتنی دور سکھوں پر جہاد کر نے کیوں جاتے ہو؟ انگریز جو اس ملک پر حاکم ہیں اور دین اسلام سے کیا منکر نہیں ہیں؟ گھر کے گھر میں ان سے جہادکر کے ملک ہندوستان کو لے لو.آپ نے فرمایا سر کار انگریزی گومنکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی...اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے ہم ان کے ملک میں اعلانیہ وعظ کہتے ہیں اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی...ہمارا اصل کام اشاعت توحید الہی ہے.اور احیاء سنن سید المرسلین ہے.سوہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں.پھر ہم سرکار انگر یزی پر کس سبب سے جہاد
373 کریں اور خلاف اصول طرفین کا خون بلا سبب گرادیں یہ جواب باصواب سن کر سائل خاموش ہو گیا اور اصل غرض جہاد کی سمجھ لی.“ لیکن ان علماء کو جو آج احمدیت کے خلاف بول رہے ہیں ان کو آج تک سمجھ نہیں آئی.علامہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں: وو رسول اللہ ﷺ کے عہد زریں سے لے کر آج تک مسلمانوں کا ہمیشہ یہ شعار رہا کہ وہ جس حکومت کے زیر سایہ رہے اس کے وفادار اور اطاعت گزار رہے یہ صرف ان کا طرز عمل نہ تھا بلکہ ان کے مذہب کی تعلیم تھی جو قرآن مجید ، حدیث ، فقہ سب میں کنایہ اور صراحنا مذکور ہے.“ خواجہ حسن نظامی صاحب فرماتے ہیں: وو ( مقالات شبلی.جلد اول صفحہ 171 مطبع معارف اعظم گڑھ 1954ء ) الصلوة جہاد کا مسئلہ ہمارے ہاں بچے بچے کو معلوم ہے.“ ( یعنی جب تک انگریزی حکومت تھی اس وقت بچے بچے کو وہی مسئلہ معلوم تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ ا والسلام فرمایا کرتے تھے.لیکن جس دن سے وہ حکومت گئی اس دن سے سارا مسئلہ ہی بدل گیا ہے اور اب ہر بچے کو کچھ اور ہی بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے ماں باپ یہ کہا کرتے تھے.تو بچے بچے کو کیا معلوم تھا ؟ خواجہ صاحب فرماتے ہیں : ” وہ جانتے ہیں کہ جب کفار مذہبی امور میں حارج ہوں اور امام عادل جس کے پاس حرب وضرب کا پورا سامان ہولڑائی کا فتوی دے تو جنگ ہر مسلمان پر لازم ہو جاتی ہے.مگر انگریز نہ ہمارے مذہبی امور میں دخل دیتے ہیں اور نہ اور کسی کام میں ایسی زیادتی کرتے ہیں جس کو ظلم سے تعبیر کر سکیں، نہ ہمارے پاس سامان حرب ہے، ایسی صورت میں ہم ہرگز ہرگز کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں گے.“ (رسالہ.شیخ سنوسی.صفحہ 17 مؤلفہ خواجہ حسن نظامی ) مسلمان اکابرین انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے اس حوالہ کو راشد علی اور اس کا پیر ذرا غور سے پڑھیں تا کہ انہیں اپنے جھوٹ کی حقیقت معلوم ہو سکے کہ احمدیت کے دورِ حاضر کے معاندین میں سے بھی بعض یہی بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے.چنانچہ ملک
374 محمد جعفر صاحب ایڈووکیٹ نے احمد یہ تحریک کے نام پر جماعت احمدیہ کے خلاف ایک کتاب لکھی تھی اس میں وہ فرماتے ہیں :.وو مرزا صاحب کے زمانہ میں ان کے مشہور مقتدر مخالفین مثلا مولوی محمد حسین بٹالوی، پیر مہر علی شاہ گولڑوی ، مولوی ثناء اللہ صاحب اور سرسید احمد خان سب انگریزوں کے ایسے ہی وفادار تھے جیسے مرزا صاحب.یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں جو لٹریچر مرزا صاحب کے رڈ میں لکھا گیا اس میں اس امر کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ مرزا صاحب نے اپنی تعلیمات میں غلامی پر رضا مند رہنے کی تلقین کی ہے.“ (احمدیہ تحریک.صفحہ 243 شائع کردہ سندھ ساگرا کیڈمی لاہور ) پس بعض مخالفین نے بھی یہ تسلیم کر لیا ہے کہ مسلمان علماء پر دو دور آئے ہیں ایک وہ جو انگریزی حکومت کا دور تھا اور ایک بعد کا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں وہ کچھ اور مسئلے پیش کیا کرتے تھے یعنی سارے علماء جہاد سے متعلق وہی مسائل پیش کرتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرما رہے تھے مگر آج ان کے مسائل بالکل بدل چکے ہیں مشرق سے مغرب کی طرف رخ کر بیٹھے ہندوستان کے دارالاسلام ہونے کے متعلق فتوے راشد علی، آغا شورش کا شمیری کو مشہور مؤرخ قرار دیتا ہے اور ان کی اندھی تقلید بھی کرتا ہے.چنانچہ آغا شورش کا شمیری جو احمدیوں کے شدید معاندین میں سے تھا، کتاب ” سید عطا اللہ شاہ بخاری صفحہ 141 پر یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا کہ: وو جمال دین ابن عبداللہ شیخ عمر حنفی مفتی مکہ معظمہ ، احمد بن ذہنی شافعی مفتی ملکہ معظمہ اور حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ سے بھی فتاویٰ حاصل کئے گئے جن میں ہندوستان کے دارالاسلام ہونے کا اعلان کیا گیا تھا.اب کون سی بات باقی رہ گئی ہے کہ جس کی بناء پر راشد علی احمدیت پر حملہ کر سکے.مولوی مودودی صاحب جنہوں نے کتاب ” حقیقت جہاد“ لکھی اور اپنی بعض اور کتب میں بھی جہاد کے متعلق ایسی تعلیم دی جس کا کوئی ہوش و حواس والا مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آنحضرت ﷺ
375 کے جہاد کے متعلق ایسے ظالمانہ خیالات کا اظہار ہو سکتا ہے.جہاد سے متعلق سب سے منتشر دنظریہ رکھنے والے مولوی مودودی صاحب ہیں.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے ہندوستان کا تعلق ہے، مولوی مودودی صاحب اپنی کتاب ” سود.حصہ اول میں اس کے متعلق لکھتے ہیں : ”ہندوستان اس وقت بلا شبہ دارالحرب تھا.“ دار الاسلام نہیں کہہ رہے.کس وقت دار الحرب تھا؟ جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی.“ بعینہ یہی تعلیم جماعت احمدیہ کی ہے کہ جب کوئی غیر پہلے حملہ کرتا ہے تو اس سے لڑو، اپنی عزتوں کی حفاظت کرو ، اپنے مال کی حفاظت کرو ، اپنے دین کی حفاظت کرو اور ایک ایک بچہ بھی کٹ کر مر جائے تو تم نے ہھتیار نہیں ڈالنے، اس وقت دارالحرب ہوتا ہے اس وقت ہر قسم کا دفاع جہادِ اسلام کہلا سکتا ہے.چنانچہ مولوی مودودی صاحب بھی یہی بات کہتے ہیں.) اس وقت مسلمانوں پر فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑاتے یا اس میں ناکام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے لیکن جب وہ مغلوب ہو گئے اور انگریزی حکومت قائم ہو چکی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا تو اب یہ ملک دار الحرب نہیں رہا.“ میں فرمایا: ( سود حصہ اول صفحہ 77 78 حاشیہ شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی لاہور ) دعوت الی اللہ بھی جہاد میں شامل ہے جلالۃ الملک شاہ فیصل نے 1385 ہجری حج کے موقع پر رابطہ العالم الاسلامی مکہ مکرمہ کے اجتماع ”اے معزز بھائیو! تم سب کو جہاد فی سبیل اللہ کا علم بلند کرنے کے لئے بلایا گیا ہے.جہادصرف بندوق اٹھانے یا تلوار لہرانے کا نام نہیں بلکہ جہاد تو اللہ کی کتاب اور رسول مقبول کی سنت کی طرف دعوت دینے ، ان پر عمل پیرا ہونے اور ہر قسم کی مشکلات ، دقتوں اور تکالیف کے باوجود استقلال سے اس پر قائم رسالہ ام القری.مکہ معظمہ 24 اپریل 1956ء) رہنے کا نام ہے.“
376 پُر امن حکومت میں تخریب کاری منع ہے شاہ فیصل پھر فرماتے ہیں : ان ( غیر مسلم حکومتوں میں رہنے والے مسلمانوں ) پر جو خدمت دین اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اتباع واجب ہے انہیں اسے ادا کرنا چاہیئے ہم ان بھائیوں کو ہرگز یہ نہیں کہتے کہ اپنی حکومت کے نظام کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور بغاوت کریں.ہاں انہیں باہمی طور پر اپنے عقائد اور نیتوں کی حد تک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور سنت نبوی کو حکم ٹھہرانا چاہئے نیز جو حکومتیں انہیں امن دیتی ہیں انہیں ان سے صلح سے رہنا چاہئے وہ اپنے ممالک میں نظام کو توڑنے والے یا تخریبی عنصر ہر گز نہ بنیں.“ (رسالہ ام القریٰ.مکہ معظمہ 24 اپریل 1965ء) احمدیت دوغلے پن اور دورنگی سے مبرا ہے پس وہ علماء کہاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جہاد کا منکر اور منسوخ کرنے والے اور نعوذ باللہ من ذالک انگریزوں کے خوشامدی اور ان کی خاطر ایک فساد کھڑا کرنے والے بتاتے ہیں.جو باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائیں وہ ساری باتیں آپ کے زمانہ کے علماء اس وقت کہہ رہے تھے.آپ جو بات دوسروں سے کہتے تھے وہی بات اپنوں سے بھی کہتے تھے اور جو انگریزوں سے کہتے تھے وہی اپنی جماعت کو بھی مخاطب کر کے کہتے تھے.آپ کی ذات یا جماعت میں کوئی دوغلا پن یا کوئی دورنگی نہیں تھی ، اور جس جہاد کا اعلان کرتے تھے اس پر قائم بھی تھے اور جہاد کے اس تصور پر صرف زبانی جمع خرچ نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنی ساری زندگی ، اپنا سارا وجود اس جہاد کی پیروی میں خرچ کیا اور تمام جماعت کو بھی اسی کی تلقین فرمائی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ملکہ وکٹوریہ کی تعریف اور اسے رحمت کا سایہ قرار دینے کا جو علماء الزام لگاتے ہیں.کون ہے ان علماء میں سے جن کے نام اوپر درج کئے گئے ہیں یا کوئی اور مخالف عالم جس نے ملکہ وکٹوریہ کو اسلام کا پیغام پہنچایا ہو؟ لیکن ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں جنہوں نے بڑی جرات کے ساتھ عیسائیت پر کھلی تنقید کرتے ہوئے اور اسے ایک جھوٹا اور ایک مردہ
377 مذہب قرار دیتے ہوئے اس وقت کی ملکہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی.وہ عظیم الشقان ملکہ جس کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوا کرتا تھا.آپ نے ایک طرف اس کے انصاف کی تعریف فرمائی تو دوسری طرف اسے کھلم کھلا اسلام کی طرف آنے کی دعوت دی.صرف مسیح موعود نے عیسائیوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا اب دیکھئے دیگر علماء کا کیا کردار تھاوہ ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیتے تھے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عارف باللہ نگاہ نے اسے دار الاسلام کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ دارالحرب سمجھا کیونکہ آپ جہاد کا حقیقی عرفان رکھتے تھے، آپ جانتے تھے کہ جہاد کس کو کہتے ہیں کیونکہ جہاں جہاد فرض ہے وہ دارالاسلام نہیں ہو سکتا وہ تو دارالحرب ہے لیکن کن معنوں میں ؟ اس کی آپ خود تشریح فرماتے ہیں: یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلہ میں.اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہر گز بیکار نہ بیٹھیں.مگر یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہو.جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہئے اور وہ بہتھیار ہے قلم.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم ور میرے قلم کو ” ذوالفقار علی فرمایا ہے اس میں یہی سر ہے کہ یہ زمانہ جنگ وجدل کا نہیں بلکہ قلم کا زمانہ اور ہے.66 ( ملفوظات جلد اول صفحہ 224) پھر آپ ملکہ معظمہ وکٹوریہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اے معز ز ملکہ مجھے تعجب ہے کہ تو باوجود کمال فضل اور علم و فراست کے دین اسلام کی منکر ہے( کیا یہ خوشامدی کی زبان ہوا کرتی ہے اگر تم خوشامدی نہیں تھے تو تمہیں ایسے الفاظ کی تو فیق کیوں نہ ملی اور جس غور و فکر کی آنکھ سے سلطنت کے امور سرانجام دیتی ہے اس آنکھ سے اسلام کے بارے میں غور کیوں نہیں کرتی.سخت تاریکی کے بعد اب جب کہ آفتاب طلوع ہو چکا ہے تو کیا اب بھی تو نہیں دیکھتی.تو جان لے (اللہ تیری مدد کرے) یقیناً دین اسلام ہی انوار کا مجموعہ ہے،
378 نہروں کا منبع اور پھلوں کا بستان ہے.تمام ادیان اسی کا ایک حصہ ہیں.پس تو اس کی خوبصورتی کو دیکھ اور ان لوگوں میں سے ہو جا کہ جو اس سے بافراعت رزق دیئے جاتے ہیں اور اس کے باغات سے کھاتے ہیں.یقینا یہ دین ہی زندہ ہے، برکات کا مجموعہ اور نشانات کا مظہر ہے جو پاکیزہ باتوں کا حکم دیتا ہے اور بدیوں سے روکتا ہے اور جو کوئی اس کے خلاف کہتا ہے یا نافرمانی کرتا ہے وہ نامرادر ہتا ہے.اے معزز ملکه! دنیاوی نعماء کے لحاظ سے خدا کا بہت بڑا فضل تجھ پر ہے.پس اب تو آخرت کی بادشاہت میں بھی دلچسپی پیدا کر اور توبہ کر اور اس خدائے واحد و یگانہ کی فرمانبرداری اختیار کر کہ نہ تو اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ ہی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک.پس تو اسی کی بڑائی بیان کر.کیا تم اس کے علاوہ معبود بناتے ہو ان کو جو کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود پیدا کئے گئے ہیں پس اگر تو کسی شک میں ہے تو آ ! میں اس کی سچائی کے نشانات دکھانے کو تیار ہوں وہ ہر حال میں میرے ساتھ ہے.جب میں اسے پکارتا ہوں تو وہ میری پکار کا جواب دیتا ہے اور جب اسے بلاتا ہوں تو میری مدد کو پہنچتا ہے اور جب اس سے مدد کا طلبگار ہوتا ہوں تو میری نصرت فرماتا ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ہر مقام پر میری مددفر مائے گا اور مجھے ضائع نہیں کرے گا.پس کیا تو جزا وسزا کے دن کے خوف سے میرے نشانات اور صدق وسداد کے ظہور کو دیکھنا پسند کرے گی.اے قیصرہ! تو بہ کر توبہ کر اور سن تا کہ خدا تیرے مال میں اور ہر اس چیز میں جس کی تو مالک ہے برکت بخشے اور تو ان لوگوں میں سے ہو جائے جن پر خدا کی رحمت کی نظر ہوتی ہے.“ ( آئینہ کمالات اسلام ترجمه از عربی عبارت ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 530 تا 533) مسیح موعود کے جرات مندانہ اسلامی جہاد کا اعتراف یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام اور یہ ہے آپ کا تصور جہاد اور پھر اس پر عمل درآمد.اس زمانہ کے کسی عالم دین کی ایک آواز بھی آپ کو نہیں ملے گی جس کو اتنی جرات ہو کہ ملکہ وکٹوریہ کو سوائے خوشامدی الفاظ کے خطاب کر سکے.پس تو بہ کر کے الفاظ تو اس زمانہ کی سلطنت کے لئے ایک بم کا درجہ رکھتے تھے.یہ بہت عظیم الشان کلام ہے اور بڑے واضح الفاظ میں ملکہ وکٹوریہ کو اسلام کی دعوت دی ہے اور اس جھوٹے دین سے تو بہ کرنے کی دعوت دی ہے اور اسلام کی طرف بلایا ہے اور یہی وہ جہاد کا جذ بہ ہے
379 ، یہی وہ روحِ جہاد ہے جس کو سمجھنے کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو ایک نہ ختم ہونے والے جہاد کے رستہ پر ڈال دیا ہے اور دن رات بلکہ ہمارا ہر لحہ جہاد بن گیا ہے.چنانچہ پاکستان کے ایک نامور مورخ شیخ محمد اکرم صاحب اس بات کو محسوس کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ” دنیا کے مسلمانوں میں سب سے پہلے احمدیوں.نے اس حقیقت کو پایا کہ اگر چہ آج اسلام کے سیاسی زوال کا زمانہ ہے لیکن عیسائی حکومتوں میں تبلیغ کی اجازت کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک ایسا 66 موقع بھی حاصل ہے جو مذہب کی تاریخ میں نیا ہے اور جس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے.“ پھر فرماتے ہیں: احمدی.ہے.( موج کوثر - صفحہ 186 ، 187) عام مسلمان تو جہاد بالسیف کے عقیدے کا خیالی دم بھرتے ، نہ عملی جہاد کرتے ہیں نہ تبلیغی جہاد لیکن.دوسرے جہاد یعنی تبلیغ کو فریضہ مذہبی سمجھتے ہیں اور اس میں انہیں خاصی کامیابی حاصل ہوئی ( موج کوثر.صفحہ 179 ) خاصی کامیابی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے عظیم الشان فتوحات نصیب ہو رہی ہیں لیکن را شد علی اور ان کے پیر اور ان پر مسلط شیطان کے نصیب میں تو صرف احمدیت سے حسد کی آگ میں جل جل کر راکھ ہونا ہی رہ گیا ہے.(3) ملکہ وکٹوریہ کو خراج عقیدت راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”ستارہ قیصریہ سے جگہ جگہ سے متفرق عبارتیں لے کر حسب ذیل عبارت ترتیب دی ہے اور پھر آخر میں بے باکی کرتے ہوئے تبصرہ بھی کیا ہے.وہ لکھتا ہے: " مرزا صاحب کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے جہاں انہوں نے اپنی ان خدمات کو نہ جتایا ہو.چنانچہ
380 جشن تاج پوشی کے موقع پر ملکہ وکٹوریہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی خدمات کا صلہ یوں طلب فرمایا: وو ” سب سے پہلے یہ دعا ہے کہ خدائے قادر مطلق اس ہماری عالیجاہ قیصرہ ہند کی عمر میں بہت برکت بخشے اور اقبال اور جاہ و جلال میں ترقی دے اور عزیزوں اور فرزندوں کی عافیت سے آنکھیں ٹھنڈی رکھے..اس عاجز کو وہ اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور محبت اور جوش اطاعت حضور ملکہ معظمہ اور اس کے معزز افسروں کی نسبت حاصل ہے جو میں ایسے الفاظ نہیں پاتا جن میں اس اخلاص کا اندازہ بیان کرسکوں.اسی سچی محبت اور اخلاص کی تحریک سے جشن شصت سالہ جو بلی کی تقریب پر میں نے ایک رسالہ حضرت قیصرہ ہند دام اقبالہا کے نام سے تالیف کر کے اور اس کا نام تحفہ قیصریہ رکھ کر جناب مدوحہ کی خدمت میں بطور درویشانہ تحفہ کے ارسال کیا تھا اور مجھے قوی یقین تھا کہ اس کے جواب سے مجھے عزت دی جائے گی اور امید سے بڑھ کر میری سرفرازی کا موجب ہوگا...مگر مجھے سخت تعجب ہے کہ ایک کلمہ شاہانہ سے بھی میں ممنون نہیں کیا گیا.لہذا اس حسن ظن نے جو میں حضور ملکہ معظمہ دام اقبالہا کی خدمت میں رکھتا ہوں دوبارہ مجھے مجبور کیا کہ میں اس تحفہ یعنی رسالہ تحفہ قیصریہ کی طرف جناب ممدوحہ کو تو جہ دلاؤں اور شاہانہ منظوری کے چند الفاظ سے خوشی حاصل کروں.اور میں اپنی جناب ملکہ معظمہ کے اخلاق وسیعہ پر نظر رکھ کر ہر روز جواب کا امیدوار تھا.اور اب بھی ہوں.میرے خیال میں یہ غیر ممکن ہے کہ میرے جیسے دعا گو کا وہ عاجزانہ تحفہ جو بوجہ کمال اخلاص خون دل سے لکھا گیا تھا اگر وہ حضور ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں پیش ہوتا تو اس کا جواب نہ آتا.بلکہ ضرور آتا ضرور آتا.اس عریضہ کو نہ صرف میرے ہاتھوں نے لکھا بلکہ میرے دل نے یقین کا بھرا ہوا زور ڈال کر ہاتھوں کو اس پر ارادت خط کے لکھنے کے لئے چلایا ہے میں مع اپنے تمام عزیزوں کے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہوں کہ یا الہی اس مبارکہ قیصرہ ہند دام ملکہا کو دیرگاہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے.....اے قیصرہ مبارکہ خدا تجھے سلامت رکھے اور تیری عمر اور اقبال اور کامرانی سے ہمارے دلوں کو خوشی پہنچا وے....چونکہ یہ مسئلہ تحقیق شدہ ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتا ہے اس لئے مجھے ضرورت نہیں کہ میں اپنی زبان کی لفاظی سے اس بات کو ظاہر کروں کہ میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں اور میرے دل میں خاص طور پر آپ کی محبت اور عظمت ہے.ہماری دن رات کی دعا ئیں آپ کے لئے آب رواں کی طرح جاری ہیں.گو میں جانتا ہوں کہ جس قدر میرے دل میں یہ جوش تھا کہ میں اپنے اخلاص اور اطاعت اور شکر گزاری کو حضور قیصرہ ہند دام ملکہا میں عرض کروں.پورے طور پر میں اس جوش کو ادا نہیں کر (ستارہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 111) کتاب) 66......سبحان اللہ ! یہ ہیں مرزا صاحب ، ملکہ وکٹوریہ کے عاشق نامراد جوسرکار مدینہ ﷺ سے محبت کے دعویدار ہیں.“ ( بے لگام آخر میں یہ فقرہ لکھ کر راشد علی نے اپنے سفلی بغض کا اظہار کیا ہے اور استہزاء کی وہی مثال قائم کی ہے جو ہمیشہ سے انبیاء کے مخالفین کی سنت ہے.
381 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ستارہ قیصریہ سے مختلف عبارتیں لے کر انہیں ایک عبارت بنانا ایسی تلبیسانہ کارروائی ہے جو راشد علی کے شیطانی اعمال ہی کا کمال ہے.حالانکہ اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ معظمہ کے مسلمانوں پر احسانات کا ذکر کر کے اس کی شکر گزاری کی ہے اس کے قیام امن اور قیام انصاف و عدل کی تعریف کی ہے اور قرآنی حکم وقُولَا لَهُ قَوْلاً لینا کہ اسے نرمی اور ملائمت سے بات کہو، کے مطابق اسے نہایت ملائمت سے اسلام کی طرف بلایا، اس پر ایمان لانے کی ترغیب دی نیز اس کے اپنے عقیدے کا بطلان کھول کھول کر بتایا اسی طرح اپنی کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ کے بارہ میں بتایا ، جس میں اسلام کی حقانیت اور عیسائیت کے رد میں ناقابل تردید ثبوت مہیا کئے گئے ہیں اور اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ سے ایک بات تو بڑی واضح طور پر ملتی ہے کہ آپ کسی خوشامد کی غرض سے یہ تعریفیں نہیں کرتے تھے بلکہ اسلامی فرض کے طور پر اعتراف حقیقت تھا اس سے بڑھ کر اس کی کوئی اور شکل وصورت نہیں نکلتی.آپ فرماتے ہیں: وو ” پس سنو اے نادانو ! میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلوار میں چلاتی ہے ، قرآن شریف کی رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی (کشتی نوح.حاشیہ.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 75) جہاد نہیں کرتی.“ پھر فرماتے ہیں: میری طبیعت نے بھی نہیں چاہا کہ ان متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں کیونکہ میں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھا.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 340) علامہ اقبال انگریز کے مدح خواں یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا موقف تھا لیکن وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ آپ نے انگریزوں کی تعریف کی ہے اس لئے آپ کا انگریز کا ایجنٹ ہونا ثابت ہو گیا.اب ان کے کلمائے سنیئے.ان میں سے ایک وہ ہیں جن کو راشد علی نے اپنے لئے سند
382 کے طور پر پیش کیا ہے اور وہ علامہ سرمحمد اقبال کی شخصیت ہے.آپ اس زمانہ میں انگریزوں کے متعلق کہ کرتے تھے اور کیا لکھا کرتے تھے ان کے جذبات اور خیالات کیا تھے وہ ملاحظہ ہوں ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر آپ نے ایک مرثیہ لکھا اس میں فرماتے ہیں: شاہ کی ، تعظیم کے لئے میت اٹھی ہے اقبال اڑ کے خاک ره ہو وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا دیتے ہیں نام ماه محرم کا ہم تجھے جس مہینے میں ملکہ وکٹوریہ فوت ہوئیں اقبال کہتے ہیں کہ اس مہینہ کا نام جو مرضی رکھ لوحقیقت میں یہ محرم کے واقعہ سے مختلف نہیں ہے، محرم میں جو دردناک واقعہ گذرا تھا یہ واقعہ اس کی ایک نئی صورت ہے.یعنی امام حسین کی شہادت اور ملکہ وکٹوریہ کی موت ایک ہی مقام اور مرتبہ کی حامل ہیں.پھر مزید فرماتے ہیں: کہتے ہیں آج عید ہوئی اس عید ہے ہوا کرے تو موت ہی آئے خدا کرے یہ ہیں مجاہد ملت علامہ سر محمد اقبال جو احمدیت کی مخالفت میں سرفہرست شمار کئے جاتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ الزام لگانے میں آگے آگے ہیں کہ چونکہ آپ انگریز کی تعریف کرتے تھے اس لئے آپ انگریز کا پودا ہیں.پھر لکھتے ہیں.ع ” اے ہند! تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر تو جھوٹے طور پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ نے انگریزوں کو سایہ خدا کہا ہے جبکہ خود علامہ اقبال نے اس مرتبہ میں سایہ خدا کا لفظ استعمال کیا ہے.اے ہند! تیرے سر اٹھا ނ سایه خدا اک غم گسار تیرے مکینوں کی تھی ، گئی رونا اسی کا ہے ہلتا ہے جس ނ عرش زینت تھی جس ނ تجھ کو جنازا اسی کا ہے
383 ( باقیات اقبال.مرتبہ سید عبد الواحد معینی ایم.اے.آکسن.شائع کردہ آئینہ ادب.انار کلی لاہور.بار دوم صفحہ 90،73،72،71) یہ ہے اصل خوشامد ، جھوٹی تعریف اور مبالغہ آمیز عقیدت کا اظہار.انگریزی حکومت، اہلحدیث اور دیو بندی علماء کی نظر میں اہل حدیث اور دیوبندی فرقہ جو اس وقت جماعت احمدیہ کی مخالفت میں سرفہرست ہے ، ان کے چوٹی کے عالم اور بزرگ شمس العلماء مولانا نذیر احمد دہلوی فرماتے ہیں : وو ” سارے ہندوستان کی عافیت اسی میں ہے کہ کوئی اجنبی حاکم اس پر مسلط رہے جو نہ ہندو ہو نہ مسلمان ہو کوئی سلاطین یورپ میں سے ہو.( انگریز ہی نہیں ، جو مرضی ہولیکن ہو یورپ کا ) مگر خدا کی بے انتہا مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ آئے.“ ( مجموعه لیکچر ز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحہ 5،4 مطبوعہ 1890ء) پھر فرماتے ہیں: کیا گورنمنٹ جابر اور سخت گیر ہے؟ تو بہ تو بہ ماں باپ سے بڑھ کر شفیق پھر فرماتے ہیں: ( مجموعه لیکچر ز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحہ 19 مطبوعہ 1890ء) ” میں اپنی معلومات کے مطابق اس وقت کے ہندوستان کے والیان ملک پر نظر ڈالتا تھا اور برما اور نیپال اور افغانستان بلکہ فارس اور مصر اور عرب تک خیال دوڑاتا تھا اس سرے سے اس سرے تک ایک متنفس سمجھ میں نہیں آتا تھا جس کو میں ہندوستان کا بادشاہ بناؤں (یعنی اگر میں نے خیالات میں بادشاہ بنانا ہوتا تو کس کو بناتا ) امیدواران سلطنت میں سے اور کوئی گروہ اس وقت موجود نہ تھا کہ میں اس کے استحقاق پر نظر کرتا پس میرا اس وقت فیصلہ یہ تھا کہ انگریز ہی سلطنت ہندوستان کے اہل ہیں سلطنت انہی کا حق ہے انہی پر ( مجموعه لیکچر ز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحه 26) بحال رہنی چاہیئے.“ یعنی ان کی قلبی تمنا یہ تھی انگریزی حکومت ہمیشہ ہمیش کے لئے بحال رہے اور مسلمان اس کی غلامی میں رہیں.انگریز اولوا الامر تھے ایڈیٹر رسالہ ” چٹان شورش کا شمیری صاحب لکھتے ہیں:
384 جن لوگوں نے حوادث کے اس زمانے میں نسخ جہاد کی تاویلوں کے علاوہ أَطِيعُوا الــلــه وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُوْلِى الاَمْرِ مِنْكُمْ میں اولی الامر کا مصداق انگریزوں کو ٹھہرایا ان میں مشہور انشاء پرداز ڈپٹی نذیر احمد کا نام بھی ہے.“ (كتاب " عطاء اللہ شاہ بخاری ، صفحہ 531) انگریزی حکومت ، باعث افتخار اب سنیئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے انگریزی سلطنت کے متعلق خیالات.وہ لکھتے ہیں : ” سلطان روم ایک اسلامی بادشاہ ہے لیکن امن عامہ اور حسن انتظام کے لحاظ سے ( مذہب سے قطع نظر ) برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں ہے اور خاص گروہ اہل حدیث کے لئے تو یہ سلطنت بلحاظ امن و آزادی اس وقت کی تمام اسلامی سلطنتوں (روم، ایران،خراسان) سے بڑھ کر فخر کا محل ہے.“ (رسالہ اشاعۃ السنة - جلد 6 نمبر 10 صفحہ 292 ،293) ی تھی کل تک ان لوگوں کی زبان ! پھر فرماتے ہیں: اس امن و آزادی عام و حسن انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں.66 (رسالہ اشاعۃ السنتہ - جلد 6 نمبر 10 صفحہ 292 293) یہ لوگ آج کہہ رہے ہیں کہ احمدیوں کو چونکہ اسلامی سلطنتیں پسند نہیں اس لئے یہ انگریزی راج میں پینے ، وہیں بڑھے اور چاہتے تھے کہ وہی حکومت ہمیشہ کے لئے رہے لیکن خود ان کے آباء واجداد تو کل تک یہ فرمایا کرتے تھے کہ : اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں.“ اب دیکھ لیجئے ان تحریروں میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے جیسا کہ حکومت کی تعریف سے متعلق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وجہ بیان فرمائی ہے کہ اس نے سکھوں کے مظالم سے نجات بخشی ، مذہبی آزادی دی اس لئے ہم تعریف کرتے ہیں مگر ان لوگوں کو تو ایسی وجوہات کے بغیر ہی انگریزی حکومت اسلامی سلطنتوں سے کل تک بہتر نظر آ رہی تھی اور اہلحدیث جہاں کہیں وہ رہیں اور جائیں ( عرب میں خواہ روم میں خواہ اور
385 کہیں ) کسی اور ریاست کی محکوم رعایا ہونا نہیں چاہتے سوائے انگریز کے.جہاں تک شیعوں کا تعلق ہے وہ بھی ایسی ہی تحریریں پیش کرتے رہے.علامہ علی حائری کا ایک اقتباس ہے جو موعظہ تحریف قرآن.لاہور 1923 ء مرتبہ محمد رضی الرضوی التھی میں درج ہے اس میں بھی اسی مضمون کی باتیں بیان کی گئی ہیں.انگریزوں کی نگاہ فیض اثر کا ملتجی مولانا ظفر علی خان جو ایک وقت میں احرار کے ساتھ منسلک تھے اور بعد میں ان کو ملک و وطن اور اسلام کا غذ ارقرار دیاوہ ایک لمبے تجربہ کے بعد لکھتے ہیں: وو مسلمان....ای لمحہ کے لئے بھی ایسی حکومت سے بدظن ہونے کا خیال نہیں کر سکتے (یعنی انگریزوں سے ناقل اگر کوئی بد بخت مسلمان ، گورنمنٹ سے سرکشی کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں کہ وہ مسلمان مسلمان نہیں.“ (اخبار زمیندار لاہور 11 نومبر 1911ء) یہ ہے فتویٰ کہ حکومت برطانیہ کی سرکشی کرنے والا مسلمان ، مسلمان ہی نہیں رہتا.پھر فرماتے ہیں: ” اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرے کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے.“ (اخبار زمیندار لاہور 23 نومبر 1911ء) کیا یہ حالت تھی جسے بدلنے کے لئے انگریزوں نے یہ خود کاشتہ پودا کھڑا کیا تھا ؟ پھر نظم کی صورت میں فرماتے ہیں: جھکا فرط عقیدت ނ مرا ہوا تذکره کنگ ایمپرر کا جلالت کو ہے کیا کیا ناز اس پر شاهنشاه ہے وہ بحر و کا قسمت رہے جو ہو اک گوشہ حاصل ہمیں اس کی نگاہ فیض اثر کا زمیندار 19 اکتوبر 1911ء)
386 اصل یہ ہے جھوٹی تعریف اور کچی خوشامد پر مبنی نظم ونثر کی صورت میں کاسہ گدائی جو مسلمان لیڈروں نے انگریز کے آگے پھیلایا.مسلمان علماء کی منافقانہ چالیں پس یہ تو ہے ان لوگوں کا اپنا کردار اور ان کا ماضی ، جو آج احمدیت پر بڑھ بڑھ کر الزام لگا رہے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو صرف یہی ضرورت نہیں تھی کہ حسن خلق کے نتیجہ میں ایک محسن حکومت کا شکر یہ ادا کریں بلکہ بعض ایسی وجوہات بھی تھیں جو خود مخالفین کی پیدا کردہ تھیں.ایک طرف تو یہ علماء مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بھڑکاتے تھے کہ آپ انگریز کی تعریف کرتے ہیں اور جہاد کے منکر ہیں جبکہ یہ حکومت اس لائق ہے کہ اس سے جہاد کیا جائے اور اسے ختم کیا جائے ، تباہ و بربادکر دیا جائے.دوسری طرف انگریزوں کی تعریف میں وہ کلمات لکھ رہے تھے جو ابھی آپ نے ملاحظہ فرمائے ہیں.اور تیسری طرف انگریزوں کو خفیہ بھی اور شائع شدہ درخواستیں بھی پیش کر رہے تھے کہ یہ نہایت ہی خطر ناک آدمی ہے اس کی باتوں میں نہ آجانا ، یہ امام مہدی ہونے کا دعویدار ہے اور خونی مہدی ہے جو ساری انگریزی سلطنت کو تباہ کرنے کے لئے اٹھا ہے.اس قدر منافقت ،ظلم اور جھوٹ کہ ایک طرف مسلمانوں میں یہ اعلان ہو رہا ہے کہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے اور دوسری طرف انگریز کو یہ خبریں پہنچائی جا رہی ہیں کہ یہ تو تمہاری قوم کا دشمن ہے اور تمہیں تباہ و برباد کرنے کے لئے اٹھا ہے اس لئے اس کو ہلاک کر دو.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 6 حاشیہ صفحہ 4 پر رقم طراز ہیں : ” اس کے ( یعنی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی.ناقل ) دھوکہ ہونے پر یہ دلیل ہے کہ دل سے وہ گورنمنٹ غیر مذہب کی جان مارنے اور اس کا مال لوٹنے کو حلال اور مباح جانتا ہے دلیل بھی کیسی کمال کی ہے کہ دل سے جانتا ہے.“ 66 لہذا گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پر حذر رہنا ضروری ہے ورنہ اس مهدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے بھی نہیں پہنچا.“ منشی محمد عبد اللہ صاحب انگریزوں کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
387 چاہتا ہے." ایسے ہی دیگر آیات قرآنیہ اپنے چیلوں کو سنا سنا کر گورنمنٹ سے جنگ کرنے کے لئے مستعد کرنا (شہادت قرآنی.صفحہ 20 مطبوعہ 1905 ء اسلامیہ ٹیم پر لیس لاہور ) مخالفین کے ان تاثرات کو بڑی سنجیدگی سے لیا گیا چنانچہ اس زمانہ کا واحد انگریزی اخبار جو نہایت مؤقر سمجھا جاتا تھا اور بڑی دیر تک چلتا رہا.یعنی ” سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور اس میں ایک اداریہ شائع ہوا.جس میں انگریز قوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بھڑ کا یا گیا اور حکومت کو متنبہ کیا گیا کہ یہ نہایت خطرناک آدمی ہے اس کی باتوں میں نہ آئیں اس کی صلح پسندی صرف ظاہری ہے ورنہ یہ انگریزی حکومت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا.یہ تو تم لوگوں کا کردار رہا ہے کہ ایک طرف حکومت کی چاپلوسی کرتے رہے اس کی خوشامد میں کر کر کے اس کے آگے کاسہ گدائی پھیلاتے رہے اور دوسری طرف حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور جب خدا تعالیٰ کے مامور کے سامنے ناکام و نامرادر ہے تو حکومت وقت کو ان کے خلاف بھڑکانے کے لئے جھوٹی اور خلاف واقعہ شکایتیں کرنے لگے.تمہاری ان شکایتوں اور پر انگیخت کارروائیوں پر اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لئے ایک کچی اور حق بات کی تو تم اپنی چاپلوسیوں اور خوشامدوں کے طوق اتار کر ان کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگے.پس یہ ہے تمہاری شکل اور یہ ہے تمہارا کردار، جو تمہارے جھوٹا ہونے کا کھلا کھلا ثبوت ہے.را شد علی لکھتا ہے (4) خود کاشتہ پودا "I am the "Self-implanted and Self-cultivated seedling" of the British Government" (Roohani Khazaain.Vol11 P.147) (Beware......) میں حکومت برطانیہ کا خود کاشتہ پودا ہوں“
388 راشد علی اور اس کے پیر نے اپنی ” بے لگام کتاب میں بھی اس کا اعادہ کیا ہے اور یہ بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہے کہ گویا آپ نے یہ فرمایا ہے کہ ” میں حکومت برطانیہ کا خود کاشتہ پودا ہوں.اس کے اس جھوٹ پر ہمارا اول جواب تو یہی ہے کہ لعنة الله على الكاذبين نیز ہمارا چیلنج ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب سے یہ بیان نہیں نکال سکتا کہ جس میں آپ نے یہ فرمایا ہو کہ ” میں حکومت برطانیہ کا خود کاشتہ پودا ہوں.“ جیسا کہ قارئین نے پچھلے صفحات میں ملاحظہ فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالف مولوی شرمناک منافقت میں مبتلا تھے.ایک طرف تو وہ خود حکومت وقت کی کاسہ لیسی اور خوشامدوں میں انتہائی گھٹیا ہو رہے تھے تو دوسری طرف اپنے نمبر بنانے کے لئے حکومت کے پاس بار بار ایسی جھوٹی مخبریاں کرتے تھے کہ حکومت کو اس شخص سے ہوشیار رہنا ضروری ہے کیونکہ یہ خونی مہدی ہونے کا دعویدار ہے اور اپنے مریدوں کو فساد کی تحکیم دیتا ہے.ایسی جھوٹی شکایتوں پر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکومت کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرتے تو وہ مولوی عوام میں یہ منادی کرنے لگتے کہ یہ شخص حکومت کی چاپلوسی کرتا ہے.ان مولویوں کی ایسی چالوں کے پیش نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکومت کو بتایا کہ میں گورنمنٹ کاغذ ارنہیں بلکہ حکومت کے قوانین کا پوری طرح تابع اور پابند ہوں.اسی طرح اپنے خاندان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ وہ اس کا ہمیشہ وفادار رہا ہے اور حکومت کے لئے اس کی بہت خدمات ہیں.اس لئے کسی قسم کی بغاوت یا فساد کی اس خاندان کے کسی فرد سے توقع نہیں کی جاسکتی.چنانچہ آپ نے فرمایا: ” مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے بعض حاسد بداندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دشمن ہیں.میری نسبت اور میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امور گورنمنٹ کے معزب زحکام تک پہنچاتے ہیں.اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کی ہر روز کی مفتریا نہ کاروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہو کر وہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم مرزا غلام مرتضی اور میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی جن کا تذکرہ سرکاری چٹھیات اور
389 سر لیبل گریفن کی کتاب ” رئیسان پنجاب میں ہے.نیز میرے قلم کی وہ خدمات جو میری اٹھارہ سال کی تصنیفات سے ظاہر ہیں، سب کی سب ضائع اور برباد ہو جائیں.اور خدانخواستہ سرکار انگریزی اپنے قدیم وفادار اور خیر خواہ خاندان کی نسبت کوئی تکذ ر خاطر اپنے دل میں پیدا کرے.اس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں، التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے.اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معز زحکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمتگذار ہیں.اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے.“ ( مجموعہ اشتہارات.جلد 3 صفحہ 21) یہ عبارت کسی وضاحت کی محتاج نہیں.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت احمد یہ یا اپنے دعاوی کو سرکار کا خود کاشتہ پودہ قرار نہیں دیا بلکہ اپنے خاندان کی گزشتہ خدمات کے متعلق فرمایا ہے.وہ خاندان نہ صرف یہ کہ احمدیت سے پہلے کا ہے بلکہ اس کی سب خدمات بھی احمدیت کے آغاز سے پہلے کی ہیں.ان خدمات کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں تھا.خاندان کی ان خدمات کو آپ کے دعاوی یا آپ کی جماعت کی طرف منسوب کرنا محض بدیانتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے اس خاندان کے بارہ میں الہاماً بتایا کہ ينقطع من ابآءک و يبدء منک“ یعنی اب آپ کا آبائی خاندان آپ سے کٹ گیا ہے اور آپ سے آئندہ خاندان قائم ہوگا.پس وہ خاندان جس کے بارہ میں ” خود کاشتہ پودہ کے الفاظ تھے وہ آپ سے بالکل کٹ کر پیچھے رہ گیا.ظاہر ہے کہ راشد علی کا یہ اعتراض تو محض عناد اور افتراء پر مبنی تھا.” خود کاشتہ پودہ در حقیقت کون تھا ؟ ملاحظہ فرمائیں کہ رسالہ طوفان کے ایڈیٹر نے بعض حقائق جمع کئے اور نتیجہ نکالا کہ ’ انگریزوں نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ تحریک نجدیت کا پودا ( یعنی اہلِ حدیث جسے وہابی تحریک یا تحریک نجدیت بھی کہتے ہیں.ناقل ) ہندوستان میں کاشت کیا اور پھر اسے اپنے ہاتھ سے
ہی پروان چڑھایا.66 390 (طوفان.7 نومبر 1962ء) دیکھیں تاریخ کس طرح ثبوت مہیا کرتی ہے.دیو بندی فرقہ کے تعلیمی مذہبی ادارہ ندوۃ العلماء کی بنیاد ہی انگریزوں نے رکھی تھی.چنانچہ اس ادارہ کے اپنے رسالہ ”الند وہ نے یہ تاریخی شہادت قلمبند کی کہ ” 28 نومبر 1908ء کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کا سنگ بنیاد ہر آنریبل لیفٹیننٹ گورنر بہا در ممالک دو متحد ہ سر جان سکاٹ ہیوس کے سی آئی ای نے رکھا.“ اسی صفحہ پر آگے یہ بھی لکھا ہے کہ وو یہ مشہور مذہبی درسگاہ ایک انگریز کی مرہونِ منت ہے.“ التد وہ.دسمبر 1908 ء صفحہ 4) یہی نہیں اس کے قیام کی غرض و غایت اس کا مقصد اور مائو یہ بھی بیان کیا کہ اس میں تیار ہونے والے علماء کا ایک ضروری فرض یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ کی برکات حکومت سے واقف ہوں اور ملک میں گورنمنٹ کی وفاداری کے خیالات پھیلائیں.“ ( الند وہ.جولائی 1908ء) اسے کہتے ہیں انگریز کا خود کاشتہ پودہ.جس کی کاشت بھی انگریز نے کی اور آبیاری بھی.اور جب اسے پروان چڑھا چکے تو اس پودے پر برکات حکومت سے واقفیت اور ملک میں گورنمنٹ کی وفاداری کے خیالات پھیلانے کے پھل ہر موسم میں بکثرت لگتے رہے.اس خود کاشتہ پودے کی نظر ہمیشہ مالی مفادات پر رہی اور اس کا کاسہ گدائی بھی انگریز کی طرف پھیلا رہا.جہانتک اس دیو بندی فرقہ کی ایک تنظیم مجلس احرار کا تعلق ہے جو جماعت احمدیہ کی مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتی.اس تنظیم کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کے ایک بہت بڑے لیڈر مولانا ظفر علی خان، مدیر روز نامہ زمیندار لکھتے ہیں: وو...آج ” مسجد شہید گنج کے مسئلہ میں احرار کی روش پر دوسرے مسلمانوں کی طرف سے اعتراض ہونے پر انگریزی حکومت احرار کی سپر بن رہی ہے.اور حکومت کے اعلیٰ افسر حکم دیتے ہیں کہ احرار کے جلسوں میں گڑ بڑ پیدا نہ کی جائے.تو کیا اس بدیہی الانتاج منطقی شکل سے یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ مجلس احرار حکومت کا خود کاشتہ پودا ہے.جس کی آبیاری کرنا اور جسے صرصر حوادث سے بچانا حکومت اپنے ذمہ ہمت پر فرض سمجھتی ہے.(روز نامه زمیندا‘ 13 اگست 1935ء)
391 ان مذکورہ بالا تاریخی ریکارڈ اور حقائق سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ انگریز کے خود کاشتہ پودے کون کون تھے.اس کے برعکس جماعت احمدیہ ایسی جماعت ہے جس کی نہ تو کبھی انگریزی یا کسی اور دنیوی حکومت نے سر پرستی کی اور نہ ہی کبھی اس کے مالی مفادات کسی سے وابستہ ہوئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کو نہ کسی ماڈی سر پرستی کی حاجت ہے نہ مالی استمداد کی، کیونکہ یہ صرف اور صرف خدائے قادر مطلق کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دسمبر 1896 ءکو ایک اشتہار میں اعلان فرمایا: ’ اب اے مخالف مولویو! اور سجادہ نشینوں ! یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے.خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا.وہ راضی نہیں ہوگا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچاوے اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا.کیا تم نے کچھ کم زور لگایا.پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہتا.“ ( مجموعہ اشتہارات - جلد 2 صفحہ 281 282) نیز آپ نے یہ پر تحر ی اعلان بھی فرمایا کہ دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے......اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جا ئیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے....پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.......جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 13 ،14)
392 جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمان
393 (1) انگریزوں کی پشت پناہی اور کرم نوازیاں را شد علی اور اس کے پیر نے اپنی ” بے لگام کتاب“ میں مزید خرافات یہ بھی لکھی ہیں.جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمان :.انگریزوں کی پشت پناہی اور کرم نوازیوں سے بالاخر مرزا صاحب ایک نئی امت تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے.1891ء میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے نام سے اپنی اس امت کو انگریز سرکار میں رجسٹر کرایا.صرف وہ اور ان کے پیروکار مسلمان قرار پائے باقی تمام جہنمی و حرامی قرار دیئے گئے.اسی طرح مرزا صاحب کا حکم تھا کہ ان کے ماننے والے نہ تو کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھیں ، نہ ان سے شادی کریں اور نہ غیر احمدی کی نماز جنازہ میں شریک ہوں.یہی وجہ تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی نماز جنازہ میں اس وقت کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان قادیانی شریک نہیں ہوا بلکہ غیر مسلم مندوبین کے ساتھ بیٹھا رہا.جب اخبار والوں نے وجہ پوچھی تو کہا.آپ چاہیں تو مجھے اسلامی ملک کا کافر وز یر سمجھ لیں یا کافر ملک کا مسلمان وزیر.اس مختصر عبارت میں اس پیر خرافات اور مرید خرابات و واہیات نے جھوٹ میں ڈبوئے ہوئے کئی ایک تیر چلائے ہیں.اب دیکھئے کہ ان میں سے ہر ایک تیر کس طرح انہی کی طرف لوٹتا ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ انگریزوں کی پشت پناہی اور کرم نوازیوں سے بالاخر مرزا صاحب ایک نئی امت تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے.“ -1 یہ راشد علی اور اس کے پیر کا صریح جھوٹ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نہ انگریز کی کرم نوازیاں تھیں ، نہ اس کی پشت پناہی تھی اور نہ ہی آپ نے کوئی نئی امت تیار کی.جیسا کہ گزشتہ اوراق میں تاریخی حقائق کی روشنی میں ثابت کیا جا چکا ہے کہ انگریزوں کی کرم نوازیاں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین کے ساتھ تھیں.خواہ ان میں عیسائی تھے یا مسلمان.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے بارہ میں مولوی مسعود عالم صاحب ندوی لکھتے ہیں: وو ہندوستان کی جماعت اہل حدیث.....کے سرکردہ مولوی محمد حسین بٹالوی......نے سرکار
394 انگریزی کی اطاعت کو واجب قرار دیا.جہاد کی منسوخی پر ایک رسالہ الاقتصاد فی مسائل الجہاد فارسی زبان میں تصنیف فرمایا تھا اور مختلف زبانوں میں اس کے تراجم بھی شائع کرائے تھے.معتبر اور ثقہ راویوں کا بیان ہے کہ اس کے معاوضے میں سرکا رانگریزی سے انہیں جاگیریں بھی ملی تھیں.یہ صرف معتبر اور ثقہ راویوں کا بیان ہی نہیں خود مولوی صاحب لکھتے ہیں: اراضی جو خدا تعالیٰ نے گورنمنٹ سے مجھے دلوائی چار مربع ہے.“ ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک.صفحہ 29) اشاعۃ السنہ صفحہ 1 نمبر 1 جلد 19 - مطبع ریاض ہند امرتسر ) پشت پناہی اور کرم نوازیاں تو یہ تھیں جو انگریز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین کی کرتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معاملہ کلیہ اس کے برعکس تھا.آپ کے نام نہ انگریز نے کوئی جاگیر لگائی نہ جائیداد اور نہ ہی کسی قسم کی مالی معاونت کی.امر واقع یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباء صاحب ریاست جاگیردار تھے مگر یہ ریاست اور جاگیران سے آہستہ آہستہ چھن گئی.اس صورتحال کو بھی آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت سمجھتے تھے جو اس کی حکیمانہ تقدیر کے تحت آپ کو ملی.چنانچہ ملکہ وکٹوریہ کو آپ نے جو خط رسالہ " تحفہ قیصریہ“ کے نام سے بھیجا اس میں خدا تعالیٰ کی اس پر حکمت تقدیر کو اجاگر کر کے بیان کیا تا کہ کسی بھی رنگ میں یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ آپ کسی انعام واکرام اور جا گیر وریاست کی تمنا رکھتے ہیں اور یہ کہ آپ کا خط جو ملکہ وکٹوریہ کو عیسائیت چھوڑنے اور شہنشاہ دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں آنے کی کھلی کھلی دعوت پر مشتمل تھا، کسی چاپلوس اور مصلحت پسند انسان کی حریصانہ کوشش نہ سمجھا جائے.چنانچہ آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے آباء کی ریاست کے زوال کی تفصیل بیان کی اور پھر لکھا کہ وو غرض ہماری ریاست کے ایام دن بدن زوال پذیر ہوتے گئے.یہاں تک کہ آخری نوبت ہماری یہ تھی کہ ایک کم درجہ کے زمیندار کی طرح ہمارے خاندان کی حیثیت ہوگئی.بظاہر یہ بات بہت غم دلانے والی ہے کہ ہم اول کیا تھے.اور پھر کیا ہو گئے.لیکن جب میں سوچتا ہوں تو یہ حالت نہایت قابل شکر معلوم ہوتی ہے کہ خدا نے ہمیں بہت سے ان ابتلاؤں سے بچالیا کہ جو دولتمندی کے لازمی نتائج ہیں.جن کو
395 ہم اس وقت اس ملک میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.مگر میں اس ملک کے امیروں اور رئیسوں کے نظائر پیش کرنا نہیں چاہتا جو میری رائے کی تائید کرتے ہیں.اور میں مناسب نہیں دیکھتا کہ اس ملک کے ست اور کاہل اور آرام پسند اور دین و دنیا سے غافل اور عیاشی میں غرق امیروں اور دولتمندوں کے نمونے اپنی تائید دعویٰ میں پیش کروں.کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کسی کے دل کو دکھ دوں.اس جگہ میرا مطلب صرف اس قدر ہے کہ اگر ہمارے بزرگوں کی ریاست میں فتور نہ آتا.تو شاید ہم بھی ایسی ہی ہزاروں طرح کی غفلتوں اور تاریکیوں اور نفسانی جذبات میں غرق ہوتے.سو ہمارے لئے جناب باری تعالیٰ جل جلالہ نے دولت عالیہ برطانیہ کو نہایت ہی مبارک کیا کہ ہم اس بابرکت سلطنت میں اس ناچیز دنیا کی صد ہاز نجیروں اور اس کے فانی تعلقات سے فارغ ہو کر بیٹھ گئے.اور خدا نے ہمیں ان تمام امتحانوں اور آزمائشوں سے بچالیا.کہ جو دولت اور حکومت اور ریاست اور امارت کی حالت میں پیش آتے.اور روحانی حالتوں کا ستیا ناس کرتے.کیا یہ خدا کا فصل ہے کہ اس نے ہمیں ان گردشوں اور طرح طرح کے حوادث میں جو حکومت کے بعد تحکم کے زمانہ سے لا زم حال پڑی ہوئی ہیں.بر باد کرنانہیں چاہا.بلکہ زمین کی ناچیز حکومتوں اور ریاستوں سے ہمیں نجات دے کر آسمان کی بادشاہت عطا کی.جہاں نہ کوئی دشمن چڑھائی کر سکے.اور نہ آئے دن اس میں جنگوں اور خونریزیوں کے خطرات ہوں.اور نہ حاسدوں اور بخیلوں کو منصوبہ بازی کا موقع ملے.اور چونکہ اس نے مجھے یسوع مسیح کے رنگ میں پیدا کیا تھا.اور تو ار طبع کے لحاظ سے یسوع کی روح میرے اندر رکھی تھی.اس لئے ضرور تھا کہ گم گشتہ ریاست میں بھی مجھے یسوع مسیح کے ساتھ مشابہت ہوتی سوریاست کا کاروبار تباہ ہونے سے یہ مشابہت بھی متفق ہوگئی.جس کو خدا نے پورا کیا.کیونکہ یسوع کے ہاتھ میں داؤ د بادشاہ نبی اللہ کے ممالک مقبوضہ میں سے جس کی اولاد میں سے یسوع تھا.ایک گاؤں بھی باقی نہیں رہا تھا.صرف نام کی شہزادگی باقی رہ گئی تھی.ہر چند میں اس قدر تو مبالغہ نہیں کر سکتا کہ مجھے سر رکھنے کی جگہ نہیں.لیکن میں شکر کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ان تمام صعوبتوں اور شدتوں کے بعد جن کا اس جگہ ذکر کرنا بے محل ہے.مجھے ایسے طور سے اپنی مہربانی کی گود میں لے لیا.جیسا کہ اس نے اس مبارک انسان کو لیا تھا جس کا نام ابراہیم تھا.اس نے میرے راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زر، زن، زمین اور نام و نمود کا الزام بھی لگایا تھا جس کا جواب’ ذات پر اعتراضات کے باب
396 میں مفصل دے آئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر بھی اس کے جھوٹے الزام کا منہ توڑ جواب ہے اور آپ کی دنیا سے بے رغبتی اور بے زاری کا منہ بولتا ثبوت ہے.(ناقل) دل کو اپنی طرف کھینچ لیا اور وہ باتیں میرے پر کھولیں جو کسی پر نہیں کھل سکتیں.جب تک اس پاک گروہ میں داخل نہ کیا جائے جن کو دنیا نہیں پہچانتی.کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور اور دنیا ان سے دور ہے.اس نے میرے ہے.اس.پر ظاہر کیا کہ وہ اکیلا اور غیر متغیر اور قادر اور غیر محدود خدا ہے جس کی مانند ور کوئی نہیں.اور اس نے مجھے اپنے تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 271 272) مکالمہ کا شرف بخشا.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے مامور فرمایا تو وہی آپ کی پشت پناہی کرنے والا تھا اور وہی اکیلا اور غیر متغیر اور قادر اور غیر محدود خدا جس کی مانند اور کوئی نہیں آپ پر کرم نوازیاں کرتا تھا.آپ فرماتے ہیں.جو کچھ مری مراد تھی کچھ دکھا دیا دیا میں اک غریب تھا مجھے انتہا اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات وکرم جن کا مشکل که تا روز قیامت ہو شمار ہے (2) ان کا ایک اعتراض یہ ہے کہ نئی امت رجسٹر کرائی 1891ء میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے نام سے اپنی اس امت کو انگریز سرکار میں رجسٹر کرایا.“ ( بے لگام کتاب ) اس میں اعتراض کا نا معلوم کونسا پہلو ہے جو راشد علی اور اس کے پیر کو سجھائی دیا ہے.کسی حکومت میں کسی کا رجسٹر ہونا اگر قابل اعتراض ہے تو ساری دنیا میں مسلمانوں کی سب تنظیمیں اس اعتراض کے نیچے آتی ہیں.خصوصاً سندھ میں بیت المکرم ٹرسٹ بھی اسی اعتراض کے نیچے آتا ہے اگر وہ رجسٹر ڈ ہے.اگر نہیں
397 تو غیر قانونی ہونے کی وجہ سے جرائم کی فہرست میں آتا ہے.انہیں اس پر دکھ ہے کہ جماعت احمدیہ کو رجسٹر ڈ کیوں کرایا گیا.حالانکہ اس زمانہ میں مسلمانوں کا ایک مشہور مذہبی ادارہ ندوۃ العلماء کا حال یہ تھا کہ ان کا ترجمان رسالہ الند دہ“ لکھتا ہے.یہ مشہور مذہبی درسگاہ ایک انگریز کی مرہون منت ہے.“ پھر اسی مذہبی درس گاہ دارالندوہ کے بارہ میں لکھا کہ ( الندوہ.دسمبر 1908 ، صفحہ 7 جلد 5 نمبر (11) اس کا اصلی مقصد روشن خیال علماء پیدا کرنا ہے اور اس قسم کے علماء کا ایک ضروری فرض یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ کی برکات حکومت سے واقف ہوں اور ملک میں گورنمنٹ کی وفاداری کے خیالات پھیلائیں.“ الندوہ.جولائی 1908 ء جلد 5 صفحہ 1) اس اقرار میں رجسٹریشن کی بات تو بہت ہی دور رہ جاتی ہے اصل بات تو ” برکات حکومت سے واقف ہونا ہے.یہ کام راشد علی اور اس کے پیر کے بڑے کرتے رہے ہیں.جہاں تک جماعت کے نام کا تعلق ہے.یہ کوئی الگ امت کے طور پر رجسٹر ڈ نہیں کرائی گئی بلکہ اس کا نام مسلمان فرقہ احمد یہ رکھا گیا.یہ تو جماعت احمدیہ پر جھوٹ تراشنے والوں کا شتر تھا کہ وہ اسے الگ امت قرار دینے پر ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے.جماعت احمد یہ تو پہلے دن سے مسلمان ہے اور حقیقی اسلام کی علمبر دار ہے اور آخر تک یہی رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دو وہ نام جو اس سلسلہ کے لئے موزون ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمد یہ ہے.اور جائز ہے کہ اس کو احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں.یہی نام ہے جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات اور مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے یعنی مسلمان فرقہ احمدیہ“ اس نام کی وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی.( مجموعہ اشتہارات - جلد 3 صفحہ 364 365.اشتہار 4 نومبر 1900ء) اس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمد یہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی ﷺ کے دونام تھے.ایک
محمد علی دوسرا احمد 398 (حوالہ مذکورہ بالا ) احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے جیسا کہ شارح مشکوۃ اور عظیم حنفی امام ملا علی القاری نے کئی سو سال پہلے یہ خبر دی تھی کہ " و الفرقة الناجية هم اهل السِّنّة البيضاء المحمدية والطريقة النقية الاحمدية “ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد اول صفحہ 248.مطبوعہ مکتبہ میمنیہ مصر ) یعنی ناجی فرقہ وہ ہے جو روشن سنت محمدیہ اور پاکیزہ طریقہ احمدیہ پر قائم ہوگا.ہے.66 پس احمدیت الگ امت نہیں بلکہ حقیقی اسلام ہے.(3) صرف وہ اور ان کے پیروکار مسلمان راشد علی اور اس کا پیر لکھتے ہیں کہ صرف وہ اور ان کے پیرو کار مسلمان قرار پائے.باقی جہنمی و حرامی قرار دیئے گئے.“ ان کے اس جھوٹ کا تفصیلی جواب ” باب نمبر 1.دعاوی پر اعتراضات کے جواب میں گذر چکا (4) وو نماز، نماز جنازہ اور مناکحت وغیرہ میں علیحدگی را شد علی اور اس کے پیر نے اس سے آگے لکھا ہے کہ " مرزا صاحب کا حکم تھا کہ ان کے ماننے والے نہ تو کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھیں نہ ان سے شادی کریں اور نہ غیر احمدی کی نماز جنازہ میں شریک ہوں.یہی وجہ تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی نماز جنازہ میں اس وقت کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان قادیانی شریک نہیں ہوا بلکہ غیر مسلم مندوبین کے ساتھ بیٹھا رہا.جب اخبار والوں نے وجہ پوچھی تو کہا "
399 آپ چاہیں تو مجھے اسلامی ملک کا کا فروز یر سمجھ لیں یا کا فرملک کا مسلمان وزیر “ ( بے لگام کتاب ) اس کے جواب میں عرض ہے کہ جماعت احمد یہ اس معاملہ میں ایک مظلوم جماعت ہے جس پر شروع ہی سے علماء حضرات نے فتوے لگارکھے ہیں.چنانچہ 1892ء میں مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی نے بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق فتوی دیا کہ نہ اس کو ابتداء سلام کریں اور نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں.“ مولوی محمد حسین بٹالوی نے فتویٰ دیا کہ (اشاعۃ السنہ - جلد 13 نمبر 6 صفحہ 85) قادیانی کے مرید رہنا اور مسلمانوں کا امام بننا دونوں با ہم ضدّین ہیں یہ جمع نہیں ہوسکتیں.“ ( شرعی فیصلہ - صفحہ 31) مولوی رشید احمد گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ اس کو اور اس کے اتباع کو امام بنانا حرام ہے.“ ( شرعی فیصلہ صفحہ 31) مولوی ثناء اللہ امرتسری نے فتویٰ دیا کہ وو ” اس کے خلف نماز جائز نہیں.“ مولوی عبدالسمیع بدایونی نے فتوی دیا کہ (فتوی شریعت غزاء - صفحه 9) کسی مرزائی کے پیچھے نماز ہرگز جائز نہیں.مرزائیوں کے پیچھے نماز پڑھنا ایسا ہی ہے جیسا ہندوؤں اور یہود و نصاریٰ کے پیچھے.مرزائیوں کو نماز پڑھنے یا دیگر مذہبی احکام ادا کرنے کے لئے اہلسنت والجماعت اور اہل اسلام اپنی مسجدوں میں ہرگز نہ آنے دیں.“ (صاعقه ربانی برفتنہ قادیانی صفحہ 9 مطبوعہ 1892ء) مولوی عبدالرحمن بہاری نے فتویٰ دیا کہ ” اس کے اور اس کے متبعین کے پیچھے نماز محض باطل و مردود ہے.ان کی امامت ایسی ہے جیسے کسی یہودی کی امامت.“ مفتی محمد عبد اللہ ٹونکی لاہور نے فتوی دیا کہ ( فتوی شریعت غراء.صفحہ 4) ’ اس کے اور اس کے مریدوں کے پیچھے اقتداء ہرگز درست نہیں.“ ( شرعی فیصلہ - صفحہ 25) مولوی عبد الجبار عمر پوری نے فتویٰ دیا کہ
400 مرزا قادیانی اسلام سے خارج ہے...ہرگز امامت کے لائق نہیں.“ ( شرعی فیصلہ - صفحہ 20) مولوی عزیز الرحمن مفتی دیو بند نے فتویٰ دیا کہ " جس شخص کا عقیدہ قادیانی ہے اس کو امام الصلوۃ بنا نا حرام ہے.“ (شرعی فیصلہ - صفحہ 31) مشتاق احمد دہلوی نے فتویٰ دیا کہ وو 66 نا جائز ہے." مرزا اور اس کے ہم عقیدہ لوگوں کو اچھا جاننے والا جماعت اسلام سے جدا ہے اور اس کو امام بنانا مولوی احمد رضا خاں بریلوی نے فتوی دیا کہ ( شرعی فیصلہ - صفحہ 24) ” اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم بعینہ وہی ہے جو مرتدوں کا حکم ہے.(حسام الحرمین صفحہ 59) مولوی محمد کفایت اللہ شاہجہان پوری نے فتویٰ دیا کہ دو ان کے کافر ہونے میں شک وشبہ نہیں اور ان کی بیعت حرام ہے اور امامت ہرگز جائز نہیں.“ (فتوی شریعت غراء - صفحه 6) جنازے کے متعلق ان حضرات کے فتوے یہ ہیں مولوی نذیر حسین دہلوی نے فتوی دیا کہ ایسے دجال کذاب سے احتر از اختیار کریں.نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں.“ (اشاعۃ السنہ.جلد 13 نمبر 6 صفحہ 101 ) مولوی عبد الصمد غزنوی نے فتویٰ دیا کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے.“ اشاعۃ السنہ.جلد 13 نمبر 6 صفحہ 101 ) قاضی عبید اللہ بن صبغتہ اللہ مدارسی نے فتویٰ دیا کہ ” جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر مرتد ہے...اور مرتد بغیر تو بہ کے مر گیا تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھنا.“ فتوی در تکفیر منکر عروج جسمی و نزول حضرت عیسی ) مفتی محمد عبد اللہ ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ " جس نے دیدہ دانستہ مرزائی کے جنازہ کی نماز پڑھی ہے اس کو اعلانیہ تو بہ کرنی چاہئے اور مناسب
401 ہے کہ وہ اپنا تجدید نکاح کرے.“ فتوی شریعت غراء.صفحہ 12 ) پھر اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں بھی دفن نہ ہونے دیا جائے.چنانچہ مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا کہ ان کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہ کیا جائے تا کہ: 66 اہل قبور اس سے ایذاء نہ پائیں.“ قاضی عبید اللہ مدراسی نے فتویٰ دیا کہ ان کو وو اشاعۃ السنہ - جلد 13 نمبر 6 صفحہ 101 ) مقابر اہل اسلام میں دفن نہیں کرنا بلکہ بغیر غسل و کفن کے کتے کی مانند گڑھے میں ڈال دینا.“ فتوی در تکفیر منکر عروج جسمی و نزول حضرت عیسی علیہ السلام ) اسی طرح انہوں نے یہ بھی فتوے دیئے کہ کسی مسلمان کے لئے احمدیوں کو لڑکیاں دینا جائز نہیں چنا نچہ شرعی فیصلہ میں لکھا گیا کہ ” جو شخص ثابت ہو کہ واقع ہی وہ قادیانی کا مرید ہے اس سے رشتہ مناکحت کا رکھنا نا جائز ہے.“ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ فتویٰ دیا گیا کہ وو ( شرعی فیصلہ صفحہ 23) جولوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہوں وہ بھی کافر ہیں اور ان کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان کی عورتوں سے نکاح کرے.“ دیا کہ فتوی مولوی عبد الله و مولوی عبد العزیز صاحبان لدھیانہ از اشاعۃ السنہ.جلد نمبر 13 صفحہ 5) گویا احمدیوں کی عورتوں سے جبراً نکاح کر لینا بھی علماء کے نزدیک عین اسلام تھا.اس طرح یہ فتویٰ " جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر مرتد ہے اور شر عامرتد کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے اور اس کی عورت حرام ہوتی ہے.اور اپنی عورت کے ساتھ جو وطی کرے گا سو وہ زنا ہے اور ایسی حالت میں جو اولادان کے پیدا ہوتے ہیں وہ ولد زنا ہوں گے.(فتوی در تکثیر منکر عروج جسمی و نزول حضرت عیسی علیہ السلام مطبوعہ 1311ھ) تحریک احمدیت کے مخالف علماء نے صرف فتاولی ہی نہیں دیئے بلکہ ان پر سختی سے عمل کرانے کی
402 ہمیشہ کوشش کی جیسا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے مرید مولوی عبدالاحد صاحب خانپوری کی کتاب” مخادعت مسلمہ قادیانی (مطبوعہ 1901ء) کی مندرجہ ذیل اشتعال انگیز تحریر سے ظاہر ہے کہ طائفہ مرزائیہ بہت ذلیل و خوار ہوئے.جمعہ اور جماعت سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہو کر نمازیں پڑھتے تھے اس میں بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکماً روکے گئے...نیز بہت قسم کی ذلتیں اٹھا ئیں.معاملہ اور برتاؤ مسلمانوں سے بند ہو گیا.عورتیں منکوحہ اور مخطوبه بوجہ مرزائیت کے چھینی گئیں.مردے ان کے بے تجہیز وتکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے.(صفحه 2) اب معزز قارئین غور فرما سکتے ہیں کہ اگر سالہا سال تک تکالیف ومصائب کا نشانہ بننے کے بعد جماعت احمدیہ کے افراد کو ابتلاء اور فتنہ کے احتمال سے کوئی قدم اٹھانا پڑا تو یہ ان کی قابل رحم اور درد ناک حالت پر تو دلالت کرتا ہے ان کے خلاف اس جھوٹ کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ ” مرزا صاحب کا حکم تھا کہ ان کے ماننے والے نہ تو کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھیں نہ ان سے شادی کریں اور نہ غیر احمدی کی نماز جنازہ میں شریک ہوں.“ سالہا سال کی اس اذیت ناک صورتحال کے پیش نظر فتنہ اور ابتلاء سے بچنے کے لئے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متبعین کو دوسروں کے پیچھے نماز پڑھنے اور ان سے شادی بیاہ کرنے سے روکا تو آپ سے بہت زیادہ شدت اور شدید زبان کے استعمال کے ساتھ دوسروں نے احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا ، ان کے جنازوں میں شرکت کو حرام قرار دیا ، ان سے مناکحت اور شادی بیاہ کو نہ صرف حرام بلکہ ” زنا خالص قرار دیا اور ایسی شادی کی صورت میں پیدا ہونے والی اولا د کو بالکل عریاں زبان میں حرامی کا درجہ دیا.ایسے فتوے دینے والے کوئی معمولی مولوی نہیں بلکہ مختلف مکاتیب فکر کے مقتدر مقند او پیشوا اور ان کے چوٹی کے مانے ہوئے علماء تھے.اس کے باوجود الزام ہم لوگوں پر ہے کہ ہم دوسروں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے وغیرہ وغیرہ.یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جا تا بلکہ یہ فیصلہ ابھی باقی ہے کہ کوئی کس کے پیچھے نماز پڑھے؟ (1) آپ ہی انصاف کیجئے کہ کیا احمدی ان دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق احمدیوں کا
403 نہیں بلکہ غیر احمدی اکابر علماء کا یہ فتویٰ ہے کہ:.وو وہابیہ دیو بند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء کی کہ حضرت سید الاولین والآخرین اے کی اور خاص ذات باری تعالیٰ شانہ کی اہانت و ہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتدادکفر میں سخت سخت سخت اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جو اِن مرتدوں اور اکفروں کے ارتداد و کفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہیں جیسا مرتد اور کافر ہے.اور جو اس شک کرنے والے کے کفر میں شک کرے وہ بھی مرتد وکا فر ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل ہی محترز ، مجتنب رہیں.ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ اپنی مسجدوں میں گھنے دیں.نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ان کی شادی غمی میں شریک ہوں.نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں.یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں.مریں تو گاڑ نے تو اپنے میں شرکت نہ کریں.مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ نہ دیں.غرض ان سے بالکل احتیاط و اجتناب ر پس وہابیہ دیوبند یہ سخت سخت اشد مرتد و کافر ہیں ایسے کہ جو ان کو کافر نہ کہے خود کافر ہو جائے گا.اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولا د ہوگی وہ حرامی ہوگی اور از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی.“ (اناللہ وانا الیہ راجعون.ناقل ) اس اشتہار میں بہت سے علماء کے نام لکھے ہیں مثلا سید جماعت علی شاہ، حامد رضا خاں قادری نوری رضوی بریلوی، محمد کرم دین بھیں، محمد جمیل احمد بدایونی عمر نعیمی مفتی شرع اور ابومحمد دیدار علی مفتی اکبر آباد یہ فتوے دینے والے صرف ہندوستان ہی کے علماء نہیں ہیں بلکہ جب وہابیہ دیو بندیہ کی عبارتیں ترجمہ کر کے بھیجی گئیں تو افغانستان و خیوا و بخارا و ایران و مصر و روم وشام اور مکہ معظمہ و مدینہ منورہ وغیرہ تمام دیار عرب و کوفہ و بغداد شریف غرض تمام جہان کے علماء اہل سنت نے بالا تفاق یہی فتویٰ دیا ہے.“ (خاکسارمحمد ابراہیم بھاگلپوری باہتمام شیخ شوکت حسین میجر کے حسن برقی پریس اشتیاق منزل نمبر 63 ہیوٹ روڈ لکھنو میں چھپا.سن اشاعت درج نہیں قیام پاکستان سے قبل کا فتویٰ ہے ) فتوی مولوی عبد الکریم ناجی داغستانی حرم شریف مکہ : دو هم الكفرة الفجرة قتلهم واجب على من له حد و نصل وافر - بل هو افضل من
404 قتل الف كافر، فهم الملعونون في سلك الخبثاء منخرطون فلعنة الله عليهم وعلى اعوانهم 66 ورحمة الله وبركاته على من خذلهم في اطوارهم ـ “ ترجمہ :.وہ ( یعنی وہابی دیوبندی) بد کار کافر ہیں.سلطان اسلام پر کہ سزا دینے کا اختیار اور سنان و پیکان رکھتا ہے ان کا قتل واجب ہے بلکہ وہ ہزار کافروں کے قتل سے بہتر ہے کہ وہی ملعون ہیں اور خبیثوں کی لڑی میں بندھے ہوئے ہیں تو ان پر اور ان کے مددگاروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جو انہیں ان کی بدا طوار یوں پر مخذول کرے اس پر اللہ کی رحمت اور برکت اسے سمجھ لو.(فاضل کامل نیکو خصائل صاحب فیض یزدانی مولوی عبدالکریم ناجی داغستانی حرم شریف مکہ حسام الحرمین علی منحر الكفر والمین صفحه 176 تا 179 مصنفہ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی مطبوعہ اہل سنت و الجماعت بریلی 26-1324 ھ 8-1906 ء ) پھر کیا احمدی ان اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق بریلوی ائمہ ہمیں غیر مبہم الفاظ (2) میں خبر دار کرتے ہیں کہ :.وہابیہ وغیرہ مقلدین زمانہ با تفاق علمائے حرمین شریفین کا فرمرتد ہیں.ایسے کہ جو ان کے اقوال ملعونہ پر اطلاع پا کر انہیں کا فرنہ جانے یا شک ہی کرے خود کا فر ہے ان کے پیچھے نماز ہوتی ہی نہیں.ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام.ان کی بیویاں نکاح سے نکل گئیں.ان کا نکاح کسی مسلمان کا فریا مرتد سے نہیں ہو سکتا.ان کے ساتھ میل جول، کھانا پینا، اٹھنا ، بیٹھنا ، سلام کلام سب حرام.ان کے مفصل احکام کتاب مستطاب حسام الحرمین شریف میں موجود ہیں.واللہ تعالیٰ اعلم مہر دار الافتاء مدرسہ اہل سنت والجماعت بریلی مہر شفیع احمد خاں رضوی سنی حنفی قادری (3) مہر تال رسول احمد رضاخاں بریلی (فتاویٰ ثنائیہ جلد نمبر 2 صفحہ 409 مرتبہ الحاج مولانا محمد داؤد در از خطیب جامعہ اہلحدیث شائع کردہ مکتبہ اشاعت دینیات موہن پوره بمبئی) پھر کیا احمدی ان بریلویوں کے پیچھے نماز پڑھ کر کافر بن جائیں جن کے متعلق دیوبندی علماء ہمیں یہ شرعی حکم سناتے ہیں کہ :
405 شخص اللہ جل شانہ کے سوا علم غیب کسی دوسرے کو ثابت کرے اور اللہ تعالیٰ کے برابر کسی دوسرے کا علم جانے وہ بیشک کافر ہے.اس کی امامت اور اس سے میل جول محبت و مودت سب حرام ہیں.“ (فتاوی رشید یه کامل مبوب از مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی صفحہ 62 ناشر محمد سعید اینڈ سنز تاجران کتب قرآن محل بالمقابل مولوی مسافرخانه کراچی (1883-84 یا جن کے بارہ میں مشہور دیو بندی عالم جناب مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی سابق صدر مدرس دار العلوم دیو بند ہمیں یہ خبر دے رہے ہیں کہ: وو یہ سب تکفیریں اور لعنتیں بریلوی اور اس کے اتباع کی طرف لوٹ کر قبر میں ان کے واسطے عذاب اور بوقت خاتمہ ان کے موجب خروج ایمان وازالہ تصدیق وایقان ہوں گی کہ ملائکہ حضور علیہ السلام سے کہیں گے انک لاتدرى ما احدثوا بعدك ـ اور رسول مقبول علیہ السلام دجال بریلوی اور ان کے اتباع کو سحقا سحقاً فرما کر حوض مورود و شفاعتِ محمود سے کتوں سے بدتر کر کے دھتکار دیں گے اور امت مرحومہ کے اجر وثواب و منازل و نعیم سے محروم کئے جائیں گے.“ (رجوم المذ مبین علی رؤوس الشیاطین.المشہور بہ الشہاب الثاقب على المسترق الكاذب - صفحہ 111 مولفه مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی ناشر کتب خانہ اعزاز یہ دیو بند ضلع سہارنپور ) (4) پھر کیا احمدی ان پر ویزیوں اور چکڑالویوں کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق متفقہ طور پر بریلوی اور دیو بندی اور مودودی علماء یہ فتویٰ صادر فرماتے ہیں کہ:.وو چکڑالویت حضور سرور کائنات علیہ التسلیمات کے منصب و مقام اور آپ کی تشریعی حیثیت کی منکر اور آپ کی احادیث مبارکہ کی جانی دشمن ہے.رسول کریم کے ان کھلے ہوئے باغیوں نے رسول کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کر دیا ہے.جانتے ہو! باغی کی سزا کیا ہے؟ صرف گولی.“ (ہفتہ وار رضوان لاہور ( چکڑالویت نمبر ) اہل سنت والجماعت کا مذہبی ترجمان 21 - 28 فروری 1935 ء صفحہ 3 پرنٹر سید محمود احمد رضوی کو آپریٹوکیپیٹل پرنٹنگ پریس لاہور دفتر رضوان اندرون دبلی در واز لا ہور ) پھر ولی حسن صاحب ٹونکی ان پر صادر ہونے والے شرعی احکامات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: غلام احمد پرویز شریعت محمدیہ کی روسے کا فر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج.نہ اس شخص کے عقد نکاح میں کوئی مسلمان عورت رہ سکتی ہے اور نہ کسی مسلمان عورت کا نکاح اس سے ہوسکتا ہے.نہ اس کی نماز
406 جنازہ پڑھی جائے گی نہ مسلمانوں کے قبرستان میں اس کا دفن کرنا جائز ہوگا.اور یہ حکم صرف پرویز ہی کا نہیں بلکہ ہر کا فرکا ہے.اور ہر وہ شخص جو اس کے متبعین میں ان عقائد کفریہ کے ہمنوا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے اور جب یہ مرتد ٹھہرا تو پھر اس کے ساتھ کسی قسم کے بھی اسلامی تعلقات رکھنا شرعاً جائز نہیں ہیں.“ ولی حسن ٹو کی غفر اللہ مفتی ومدرس عربیہ اسلامیہ نیوٹاؤن کراچی محمد یوسف بنوری شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ اسلامی ٹاؤن کراچی ) پرویزیوں کے متعلق جماعت اسلامی کے آرگن تسنیم کا فتویٰ یہ ہے کہ :.اگر یہ مشورہ دینے والوں کا مطلب یہ ہے کہ شریعت صرف اتنی ہی ہے جتنی قرآن میں ہے باقی اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ شریعت نہیں ہے تو یہ صریح کفر ہے اور بالکل اسی طرح کا کفر ہے جس طرح کا کفر 66 قادیا نیوں کا ہے بلکہ کچھ اس سے بھی سخت اور شدید ہے.“ ( مضمون مولانا امین احسن اصلاحی - روز نامہ تسنیم لاہور ۵۱ اگست ۲۵۹۱ صفحه ۲۱) (5) پھر کیا احمدی ان شیعوں کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق علماء عامتہ المسلمین ان لرزہ خیز الفاظ میں تنبیہ کرتے ہیں : ” بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے.ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے.معاذ اللہ مر در افضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الہی ہے.اگر مردستی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی نکاح ہرگز نہ ہو گا حض زنا ہوگا.اولا دولد الزنا ہوگی.باپ کا ترکہ نہ پائے گی اگر چہ اولا د بھی سنتی ہی ہو کہ شرعاً ولد الزنا کا باپ کوئی نہیں.عورت نہ ترکہ کی مستحق ہوگی نہ مہر کی کہ زانیہ کے لئے مہر نہیں.رافضی اپنے کسی قریبی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پاسکتا.سنی تو سنی کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی.یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلاً کچھ حق نہیں.ان کے مرد عورت ، عالم ، جاہل ،کسی سے میل جول ، سلام کلام سخت کبیره اشد حرام جو ان کے ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کا فر ہونے میں شک کرے باجماع تمام آئمہ دین خود کا فربے دین ہے اور اس کے لئے بھی یہی سب احکام ہیں جو ان کے لئے مذکور ہوئے.مسلمان پر فرض ہے کہ اس فتویٰ کو بگوش ہوش سنیں اور اس پر عمل کر کے بچے پکے سنی بنیں.“ (فتوی مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خاں.بحوالہ رسالہ ردالرفضہ - صفحہ 23.شائع کردہ نوری کتب خانہ بازاردا تا صاحب لاہور پاکستان.مطبوعہ 66
407 گلزار عالم پریس بیرون بھاٹی گیٹ لاہور 1320ھ ) " آج کل کے روافض تو عموم ضروریات دین کے منکر اور قطعا مرتد ہیں ان کے مرد یا عورت کا کسی سے نکاح ہو سکتا ہی نہیں.ایسے ہی وہابی ، قادیانی، دیو بندی، نیچری ، چکڑالوی ، جملہ مرتدین ہیں کہ ان کے مرد یا عورت کا تمام جہان میں جس سے نکاح ہوگا، مسلم ہو یا کا فراصلی یا مرتد ، انسان ہو یا حیوان محض باطل اور زنا خالص ہوگا اور اولاد ولد الرہ نا.“ الملفوظ حصہ دوم صفحہ 98،97 مرتبہ مفتی اعظم ہند ) (6) پھر کیا جماعت اسلامی کے پیچھے نماز پڑھنے سے احمدی اپنا اسلام بچاسکیں گے کہ جن کے متعلق کیا بریلوی اور کیا دیو بندی علماء ی قطعی فتوی صادر فرماتے ہیں کہ وو مودودی صاحب کی تصنیفات کے اقتباسات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان کے خیالات اسلام کے مقتدایان اور انبیائے کرام کی شان میں گستاخی کرنے سے مملو ہیں.ان کے ضال مضلل ہونے میں کوئی شک نہیں.میری جمیع مسلمانان سے استدعا ہے کہ ان کے عقائد و خیالات سے مجتنب رہیں اور ان کو اسلام کا خادم نہ سمجھیں اور مغالطے میں نہ رہیں.حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اصلی دجال سے پہلے تمیں دجال اور پیدا ہوں گے جو اس دقبال اصلی کا راستہ صاف کریں گے.میری سمجھ میں ان تمیں دجالوں میں ایک مودودی ہیں.“ فقط والسلام محمد صادق عفی عنہ مہتمم مدرسہ مظہر العلوم محلہ کھڑہ کراچی 28 ذوالحجہ 1371ھ 19 ستمبر 1952ء حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب صفحہ 97 مرتبہ مولوی احمد علی انجمن خدام الدین لاہور ) پھر ان کے پیچھے نماز کی حرمت کا واضح اعلان کرتے ہوئے جمعیت العلماء اسلام کے صدر مولانا مفتی محمود دفرماتے ہیں: میں آج یہاں پریس کلب حیدر آباد میں فتویٰ دیتا ہوں کہ مودودی گمراہ کافر اور خارج از اسلام ہے.اس کے اور اس کی جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی مولوی کے پیچھے نماز پڑھنا نا جائز اور حرام ہے اس کی جماعت سے تعلق رکھنا صریح کفر اور ضلالت ہے.وہ امریکہ اور سرمایہ داروں کا ایجنٹ ہے.“ ( ہفت روزہ زندگی 10.نومبر 1969 منجانب جمعیتہ گارڈ.لائل پور ) (7) کیا احمدی احراری علماء کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق واقف اسرار جناب مولوی ظفر علی خاں صاحب یہ اعلان عام فرما رہے ہیں کہ در حقیقت یہ لوگ اسلام سے بیزار ہی نہیں بلکہ یقیناً اسلام کے غدار ہیں
.ملاحظہ فرمائیے : 408 بے زار اللہ کے قانون کی پہچان ہے زار اسلام اور ایمان اور احسان ناموس کافر ނ ہے زار مسلمان بے زار پیمبر کے نگہبان موالات اس پر ہے یہ دعویٰ کہ ہیں اسلام کے احرار ہیں اسلام کے غدار احرار کہاں کے پنجاب کے احرار اسلام کے غدار بیگانه ނ بد بخت ہیں تہذیب عرب ڈرتے نہیں اللہ تعالیٰ کے غضب مل جائے حکومت کی وزارت کسی ڈھب سے سرکار مد بینہ نہیں ان کو سروکار پنجاب کے احرار اسلام کے غدار زمیندار 21 اکتوبر 1945 ، صفحہ 6) پھر مولانا مودودی صاحب مولوی ظفر علی خان صاحب کی ایک گونا تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” اس کارروائی سے دو باتیں میرے سامنے بالکل عیاں ہو گئیں ایک یہ کہ احرار کے سامنے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں ہے بلکہ نام اور سہرے کا ہے.اور یہ لوگ مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی اغراض کے لئے جوئے کے داؤں پر لگا دینا چاہتے ہیں.دوسرے یہ کہ رات کو بالا تفاق ایک قرار داد طے کرنے کے بعد چند آدمیوں نے الگ بیٹھ کر ساز باز کیا ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خود لکھ لائے ہیں.....میں نے محسوس کیا کہ جو کام اس نیت اور ان طریقوں سے کیا جائے اس میں کبھی خیر نہیں ہو سکتی اور اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جومسلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مہروں
409 کی طرح استعمال کریں اللہ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہو سکتے.“ (روز نامہ تسنیم لاہور 2 جولائی 1955 صفحہ 3 کالم 5،4) کیا ان دل دہلا دینے والے فتاویٰ کی موجودگی میں احمدیوں پر کوئی دور کی بھی گنجائش اس اعتراض کی باقی رہ جاتی ہے کہ وہ مذکورہ بالا فرقوں کے ائمہ کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ آج کل کے علماء کا فیصلہ تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر مسلمانی باقی رکھنی ہے تو نماز چھوڑ دوور نہ جس کے پیچھے نماز پڑھو گے پکے کافر اور جہنمی قرار دیئے جاؤ گے.ایک بچے کی راہ یہ رہ گئی تھی کہ کسی کے پیچھے بھی نماز نہ پڑھی جائے.تو احمدیوں پر یہ راہ بھی بند کر دی گئی اور یہ فتویٰ بھی دے دیا گیا کہ جو کسی دوسرے فرقہ کے پیچھے نماز نہ پڑھے وہ بھی کافر اور غیر مسلم اقلیت پڑھے تب کا فر نہ پڑھے تب کا فر.آخر کوئی جائے تو کہاں جائے؟ یہ ماحول ہے جس میں راشد علی اور اس کے پیر کو یہ سو بھی ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے قائد اعظم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی.نہ ان کی کوئی دلیل ہے نہ تگ.ہر طرف تضاد اور بیہودہ سرائی ہے اس کے سوا ان کے عناد اور بغض میں کوئی حقیقت نہیں.اور سوائے شر پھیلانے کے ان کی کوئی نیت نہیں.بد گفتنم ز نوع عبادت شمرده اند در چشم شاں پلید تر از هرمز قرم اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کآخرکنند دعوای حبّ پیمبرم (ازالہ اوہام ) P ترجمہ :.ان لوگوں نے مجھے برا کہنا عبادت سمجھ رکھا ہے.ان کی نظر میں میں ہر کذاب سے زیادہ پلید ہوں.
410 تاہم اے دل! تو ان لوگوں کا لحاظ رکھ.کیونکہ آخر یہ میرے پیمبر ﷺ کی محبت کا دعوی کرتے ہیں.گودہ کا فرکہہ کے ہم سے دور تر ہیں جا پڑے ان کے غم میں ہم تو پھر بھی ہیں حزین و دلفگار (براہین احمدیہ حصہ پنجم )
411 متوازی امت یا حقیقی اسلام
412 (1) غالب خدا تعالیٰ ہے، انگریز نہیں راشد علی نے اپنی ” بے لگام کتاب“ میں ” متوازی امت“ کا عنوان لگا کر یہ لکھا ہے کہ سچ کہا مرزا صاحب نے کہ انگریز سرکار کے اس ” خود کاشتہ پودے“ نے امتِ مسلمہ میں نفاق کا بیج بو کر وہ خدمات انجام دیں جو تاریخ میں بے نظیر ہیں.مرزا صاحب کے ذریعے انگریزوں نے وہ کام کیا جس کی مثال اسلامی تاریخ میں نہیں ہے.وہ امت مسلمہ کے متوازی خطوط پر مسلمانوں میں سے ہی ایک ایسی امت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے جس نے اسلام کے ہر شعار کو ہر بنیادی عقیدے کو اپنی سازش کا نشانہ بنایا اور ہر سطح پر قادیانی امت نے ملت اسلامیہ کے حقوق پر نہایت ڈھٹائی سے ڈاکہ ڈالا ہے.مثلاً “ (اس کے آگے راشد علی نے مختلف دعوے اور اعتراض کئے ہیں جن کے جواب نمبر وار اگلے صفحات پر ملاحظہ فرمائیں) 66 1 راشد علی کی یہ تحریر اس کی شکست و نامرادی کی منہ بولتی تصویر ہے.اس کی اس تحریر کا عملی اور قطعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جیسے وہ یہ اقرار کر رہا ہے کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام کو انگریز نے بطور نبی کے کھڑا کیا.اگر وہ ان کی پشت پناہی نہ کرتا تو آپ ( نعوذ باللہ ) اپنے افتراء میں کامیاب نہ ہوتے.انگریز کے سامنے امتِ مسلمہ بیچاری بے بس ہو گئی اور خدا تعالیٰ بھی (نعوذ باللہ ) انگریز کے مقابل پر اپنا کوئی قانون جاری نہ کر سکا.حالانکہ اس نے خود فرمایا تھا: لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللَّهِ كَذِباً فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابِ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى - (2 :62 ) ترجمہ: اللہ پر جھوٹ نہ باندھو.ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو عذاب کے ذریعہ سے پیس ڈالے اور جو کوئی خدا پر افتراء کرتا ہے وہ خائب و خاسر ہو جاتا ہے.کیا اپنے اس قول کے علی الرغم خدا تعالیٰ ( نعوذ باللہ ) اس بہت بڑے مفتری کو عذاب سے پیس نہ سکا.کیونکہ انگریز نے اسے کھڑا کیا تھا؟ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (المؤمن :52)
413 ترجمہ :.ہم اپنے رسولوں کی اور ان پر ایمان لانے والوں کی اس دنیا میں ضرور مدد کریں گے.کیا یہاں بھی معاملہ (نعوذ باللہ ) الٹ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انگریز کے قائم کردہ نبی کی تو مدد کی مگر اس کے بالمقابل ” مومنوں یعنی امتِ مسلمہ کی نہ صرف یہ کہ مدد نہ کی بلکہ اسے بالکل بے بس ہی کر دیا ؟؟ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے: كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ- (المجادلہ: 22) ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.اللہ یقیناً طاقتور غالب ہے.لیکن یہاں راشد علی کی تحریر کے مطابق ( نعوذ باللہ نعوذ باللہ ) خدا تعالیٰ مغلوب ہو گیا اور انگریز اور اس کا خود کاشتہ نبی غالب رہا.یہ منطقی نتیجہ ہے جو نعوذ باللہ من ذلک اس کی اس مذکورہ بالا تحریر سے نکلتا ہے.کیا یہ راشد علی اور اس کے ہم مشربوں کے اپنے اصولوں کے منافی اور خدا تعالیٰ کے کلام سے متصادم خیالات نہیں؟ کیا یہاں خدا تعالیٰ اپنے ان تمام وعدوں کو بھول گیا (نعوذ باللہ ) اور ایک کا ذب کی تائید میں زمینی و آسمانی ، انفسی و آفاقی نشان ظاہر فرما کر قرآنی معیار صداقت کے مطابق اس کی سچائی کو ثابت فرما دیا.جناب را شد علی صاحب ! بد بختی جب آڑے آتی ہے تو یہی حال کرتی ہے.تم لوگوں کی تو شکست وریخت کی وجہ سے عقل ہی ماری گئی ہے اور حال یہ ہے کہ جو جو بات کہی الٹی چال چلے ٹیڑھی بیماری اگر آئی تم اس کو شفا لعنت کو پکڑ سمجھے بیٹھے انعام سمجھ کر تم حق نے جو ردا بھیجی تم اس کو ردی ردی سمجھے کیوں قعر مذلت میں گرتے نہ چلے جاتے تم بوم کے سائے کو ظل ہما سمجھے
414 (2) دیگر انبیاء کی جگہ لے لی اس نے ” متوازی امت“ کے عنوان کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کا حوالہ دے کر اپنی حسب ذیل عبارت لکھی ہے.حضور اکرم ﷺ اور دیگر انبیائے کرام کی جگہ مرزا قادیانی نے لے لی.چنانچہ وہ بزعم خود محمد ، احمد ، آدم ، نوح، شیث، ابراہیم، ا اسمعیل، اسحاق ، داؤد، موسیٰ عیسی علیہم السلام سب کچھ ہیں.کمال تو یہ ہے کہ نہ صرف ٹائٹل چرا یا بلکہ ولدیت تک سرقہ کر لی عیسی تو بنے ہی تھے ابن مریم بھی بن بیٹھے !! ( مگر ابن یوسف نجار کہتے ہوئے شرم آئی !!) (روحانی خزائن جلد 15 صفحه 382 66 را شد علی کو تکذیب اور تمسخر اور کذب بیانی سے اگر فرصت ملتی تو وہ شاید اسلامی لٹریچر کا سنجیدہ مطالعہ بھی کرتا اور اسے معلوم ہوتا کہ جس بات کو وہ وجہ تکذیب سمجھ رہا ہے وہ دراصل تصدیق اور سچائی کا راستہ ہے جو دل پر مہر ہو جانے کی وجہ سے اسے سمجھائی نہیں دیتا.قارئین کرام ! اس اعتراض کا جواب ہم بڑی تفصیل کے ساتھ’ دعاوی پر اعتراضات کے جواب میں عنوان نمبر ا ، اور رسول اللہ ﷺ کی تو ہین اور گستاخی کے الزام کے جواب میں عنوان نمبر ۵ اور عنوان نمبر ۹ کے تحت دے چکے ہیں.اور ان حقائق کی نقاب کشائی کر چکے ہیں کہ یہ نام اور یہ مقام تو آنے والے مہدی کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مقدر تھے جو اسے مل گئے.باقی جو اس بد بخت پیرومرید نے آخر میں یہ لکھا کہ نہ صرف ٹائٹل چرایا بلکہ ولدیت تک سرقہ کر لی.عیسی تو بنے ہی تھے ابن مریم بھی بن بیٹھے !! ( مگر ابن یوسف نجار کہتے ہوئے شرم آئی) می محض اس کی گندی بکواس ہے جو اس نے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی پر براہ راست کی ہے.ان کی دانست میں اگر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ وہ ابن مریم نہیں ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیوں میں مذکور ہیں تو بہر حال جو بھی ان پیشگوئیوں کا مصداق ہو گا وہ ابن مریم ہی ہوگا اور اس بد زبان کی بکواس کی ضرب اس پر پڑے گی.کیونکہ امت میں آنے والا مسیح، بہر حال مسیح موسوی نہیں ہے.وہ مسیح محمدی ہے جس
415 نے ایک نئے وجود میں مبعوث ہونا تھا.جیسا کہ حضرت شیخ الاکبر امام محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " وجب نزوله في اخر الزمان بتعلقه ببدن آخر 66 ( تفسیر القرآن الکریم.سورۃ النساءزمر آیت 160 قبل موتہ - الجزء الاول.مطبوعہ دار الاندلس بیروت) کہ یہ ضروری ہے کہ عیسی علیہ السلام کا نزول آخری زمانہ میں ایک دوسرے بدن کے ساتھ ہو.پس لعنت ہے ایسے شخص پر جو رسول اللہ ﷺ کے فرمودات کو نشانہ تضحیک و تمسخر بنائے.وو (3) صحابہ ،ام المومنین اور خلیفہ کی اصطلاحات متوازی امت“ کے عنوان کے تحت وہ لکھتا ہے.مرزا قادیانی کے ساتھی صحابہ اکرام، ان کی بیوی ام المومنین ان کے خلیفہ خلفائے راشدین کہلاتے ہیں.“ ( اخبار الفضل جلد 5 نمبر 95 مورخہ ۸۲ مئی 1918ء)‘ یہ بھی راشد علی کی کم علمی اور کم عقلی کا شاہکار ہے.امت میں آنے والے مسیح کے ساتھیوں کو خود کا آنحضرت ﷺ نے صحابی قرار دیا ہے.فرمایا: ” ويحصر نبی الله عيسى واصحابه.....فيرغب نبی الله عیسی واصحابه 66 يهبط نبی الله عيسى واصحابه....فيرغب نبی الله عیسی واصحابه (مسلم کتاب الفتن.باب ذکر الدجال وصفتہ و مامعہ ) ترجمہ.اور اللہ تعالیٰ کے نبی عیسی علیہ السلام اپنے صحابیوں سمیت محصور ہو جائیں گے...پس اللہ تعالیٰ کے نبی عیسی اور آپ کے صحابی اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں گے...پھر اللہ تعالیٰ کے نبی عیسی اور آپ کے صحابہ ہموار میدانوں کی طرف اتریں گے.اس پر اللہ تعالیٰ کے نبی عیسی“ اور آپ کے صحابی دعا کریں گے.
416 اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے ایک دفعہ نہیں، چار مرتبہ آنے والے موعود مسیح کے ساتھیوں کے لئے اصحاب یعنی صحابہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے.پس یہ مسیح موعود علیہ السلام نے نہیں خود رسول اللہ علی نے ان کو صحابی قرار دیا ہے اور اگر اس سے متوازی امت قائم ہو جاتی ہے تو پھر یہ خود رسول اللہ ﷺ نے قائم فرمائی ہے.ii.ام المومنین کی مثال بھی راشد علی کی احمقانہ تلیس کی ایک عجیب مثال ہے.یہ سوال بھی عقلاً اس موقع پر اٹھ سکتے ہیں کہ کیا امہات المومنین کے سوا جو یقیناً ازواج رسول اللہ ﷺ ہیں کسی اور امتی کی زوجہ کو ام المومنین کہنا جائز ہے کہ نہیں؟ دوسرا سوال عقلاً یہ اٹھتا ہے کہ جب احمدی حضرات بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی زوجہ محترمہ کو ام المومنین کہتے ہیں تو ساری امت محمدیہ میں آغاز سے لے کر قیامت تک وہ مومنوں کی ماں ہیں یا ام المومنین سے مراد جماعت احمدیہ سے منسلک وہ مومنین ہیں جو فی الحقیقت حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی زوجہ کا ایک سچی ماں کی طرح احترام کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کا ہمسر اور شریک نہیں سمجھتے ؟ جہاں تک اس دوسری بات کا تعلق ہے یہ تو ہر معقول آدمی سمجھ جائے گا کہ اس احمدی موقف کو دنیا کے سامنے دیانتداری کے ساتھ پیش کیا جائے تو کسی کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہوسکتا.باقی جہاں تک پہلے پہلو کا تعلق ہے ہم یہ بات خوب کھول دینا چاہتے ہیں کہ امت محمدیہ میں ایسی دوسری مثالیں بھی موجود ہیں جن سے ثابت ہو جائے گا کہ اولیاء اور صالحین کی ازواج کو ام المومنین کہا جا سکتا ہے.بلکہ بعض دیگر عورتوں کو بھی ام المومنین کہا گیا.چنانچہ 1- گلدستہ کرامات مولفہ مفتی غلام سرور صاحب مطبوعہ مطبع افتخار دہلی کے صفحہ 18 پر حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ کو ام المومنین کہا گیا ہے.2 اشارات فریدی حصہ دوئم صفحہ 91 مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ 1321ھ میں حضرت خواجہ جمال الدین ہانسوی کی اہلیہ محترمہ کو ام المومنین لکھا ہے.-3 سیر الاولیاء تالیف سید محمد بن مبارک کرمانی میسر خورد کے صفحہ 187 پر لکھا ہے کہ حضرت شیخ جمال
417 الدین ہانسوی اپنی ایک خادمہ کو ام المومنین کہا کرتے تھے.4 تاریخ مشائخ چشت از خلیق احمد نظامی کے صفحہ 164 پر لکھا ہے کہ حضرت شیخ جمال الدین صاحب ہانسوٹی کی ایک خادمہ جو بڑی عابدہ اور صالحہ تھیں لوگ اسے ام المومنین کہا کرتے تھے.5.پھر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کی بہن بھی ام المومنین کہلاتی ہیں.The PLO Chairman is known to have two living brothers Fathy` The hospital director` and Gamal Who represents the PLO in Yemen and a sister in Cairo who is known by the nom de guerre Um al Mumeneen."Mother of the faith-full." (Los Angeles Times March 19`1988) پس ان حوالوں کو پڑھ کر ہر شریف النفس مسلمان را شد علی کے اس اعتراض سے بریت کا اعلان کرے گا اور ملامت کرے گا کہ ان معمولی باتوں سے بھی بے خبر ہو یا پھر نا جائز طور پر دوسروں پر حملے کرتے ہو.اگر ام المومنین قرار دینے سے متوازی امت قائم ہو جاتی ہے تو یہ واقعات تو کئی بار گذر چکے ہیں کم از کم پانچ کا ذکر تو ہم نے اوپر کر دیا ہے.راشد علی کو چاہئے کہ اگر ذرہ برابر بھی اس میں دیانتداری ہے تو ان سب کے بارہ میں بھی وہی فتویٰ جاری کرے جو اس نے جماعت احمدیہ پر جاری کیا ہے.iii.راشد علی کو تکلیف اس بات پر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء خلفاء راشدین کہلاتے ہیں.اس میں راشد علی کے لئے نامعلوم تکلیف کا کیا سامان ہے.جو خلافت ان لوگوں کی نظروں میں خار بن کر کھٹکتی ہے اس کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے خود یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ثم تكون خلافة المشکوۃ المصابیح - باب الانذار والتحذیر.دینی کتب خانہ لاہور ) على منهاج النبوة “ کہ امت میں پھر خلافت علی منہاج النبوت قائم ہوگی.خلافت راشدہ ” خلافت علی منہاج النبوة“ ہی کا دوسرا نام ہے.راشدہ کا معنی ہے "ہدایت یافتہ یعنی وہ براہ راست خدا تعالیٰ سے ہدایت پا کر
418 امور دین چلانے والے خلیفہ ہوتے ہیں.پس اگر اعتراض اٹھتا ہے تو آنحضرت ﷺ کی بتائی ہوئی تقدیر خداوندی پر اٹھتا ہے جس کے تحت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے بعد خلافت علی منہاج النبوت قائم ہوئی.(4) وو براہین احمدیہ خدا تعالیٰ کا کلام را شد علی نے ” متوازی امت“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے.(روحانی خزائن جلد 3 صفحه 365 ،266) براہین احمدیہ خدا کا کلام ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی جگہ بھی نہیں فرمایا کہ ” براہین احمدیہ خدا کا کلام ہوگیا ، راشد علی نے از راہ فریب ایک عبارت تراشی ہے اور نیچے ایک حوالہ جڑ دیا ہے کہ شاید کوئی سادہ لوح سمجھ کر اس کے دام میں پھنس جائے.را شد علی اس خود ساختہ عبارت سے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ چونکہ براہینِ احمد یہ خدا کا کلام ہے اس لئے جماعت احمد یہ ایک الگ امت ہے.اول تو یہ مفروضہ ہی غلط ہے دوسرے یہ کہ یہ فقرہ جس کی بنیاد پر یہ مفروضہ قائم کیا گیا ہے، راشد علی کی یہودیانہ تحریف کا شاہکار ہے.پس جس دن راشد علی یہ عبارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی تحریر سے پیش کر دے گا، اس دن ان کے گلے میں پڑے جھوٹ کے طوق میں سے ایک کڑی کم ہو سکتی ہے.براہین احمدیہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ اس کی خاص تائید و نصرت سے لکھی گئی دفاع و ثبوت حقانیت اسلام میں وہ لاثانی کتاب ہے جس کی نظیر، بقول مولوی محمد حسین بٹالوی، گزشتہ چودہ سوسال میں ظاہر نہیں ہوئی.جس میں وہ الہامات بھی درج ہیں جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل فرمائے.یہ کتاب تائید و نصرتِ اسلام کا ایک زندہ ثبوت ہے.
419 (5) نے کلمہ کی ضرورت نہیں راشد علی ” متوازی امت“ کے عنوان کے تحت لکھتا ہے.’ جب کلمہ طیبہ پڑھا جائے گا تو اس میں مرزا صاحب خود بخود شامل ہو جاتے ہیں اس لئے بقول خلیفہ قادیان مرزا بشیر الدین محمود قادیانیوں کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں رہی." (کلمته الفصل از مرز ابشیر احمدقادیانی ولد مرزا غلام قادیانی مندرجہ رساله ریویو آف ریلینجز “ عجیب منطق ہے کہ چونکہ قادیانیوں کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں اس لئے وہ امت مسلمہ کے متوازی امت ہیں.جب شیطان سر پر سوار ہو تو وہ اپنے چیلوں سے اسی قسم کی بے عقلی کے مظاہرے کرواتا ہے.ان کی اس منطق کا یہ نتیجہ تو بہر حال نہیں نکلتا کہ نیا کلمہ نہ بنانے سے الگ متوازی امت قائم ہو جاتی ہے.البتہ یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ الگ کلمہ بنانے سے بھی الگ متوازی امت قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ مثلاً دیو بندیوں نے اپنا الگ کلمہ بنالیا اور ” محمد رسول اللہ کی بجائے " اشرف علی رسول اللہ کو اپنا لیا تو بھی وہ الگ امت نہ ہوئے.یعنی ان کی عجیب منطق ہے کہ جو الگ کلمہ بنالے وہ امت میں شمار ہو اور جو ” محمد رسول اللہ کو ہی حرز جان بنائے وہ ” متوازی امت!! ان کی تو ایسی مت ماری گئی ہے کہ انہیں ” مجنوں نظر آتی ہے، لیلی نظر آتا ہے ان سے کوئی سیدھی اور عقل کی بات کی کیا توقع رکھ سکتا ہے؟ را شد علی نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی جس عبارت پر اپنے افتراء کی عمارت تعمیر کی ہے.وہ یہ ہے: مسیح موعود خود محمد رسول اللہ ہیں جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے.اس لئے ہم کو کسی نے کلمہ کی ضرورت نہیں.ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی.“ ( كلمة الفصل صفحہ 158 ) قارئین کرام ! دراصل یہ تحریر ایک ایسے معترض کو پیش نظر رکھ کر کھی گئی جوخود تسلیم کرتا تھا کہ احمد یوں
420 کا کوئی الگ کلمہ نہیں ہے اور اس طرح چالاکی سے احمد یہ علم کلام پر حملہ کرنا چاہتا تھا.غرض یہ تھی کہ احمدیوں کو ملزم کرے کہ اگر تمہارا یعنی حضرت مرزا صاحب کا الگ کلمہ نہیں ہے تو وہ نبی نہیں کہلا سکتے اور اگر کلمہ الگ ہے تو امت محمدیہ سے خارج ہو جاتے ہیں.چالا کی کے اس پھندے سے نکلنے کی کوشش سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ عبارت لکھی جس پر راشد علی بھر بھر کر حملے کر رہا ہے.در حقیقت اس کا جواب جو مصنف کتاب ” کلمۃ الفصل‘ دینا چاہتے تھے اور وہی آج بھی ہر احمدی کا جواب ہے.وہ جواب یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ جماعت احمدیہ کا کوئی الگ کلمہ نہیں اور مولوی صاحب جو یہ بات پیش کرتے ہیں کہ جماعت کا کوئی الگ کلمہ ہے یہ بالکل جھوٹ ہے.لا اله الا الله محمد رسول الله ہی جماعت احمدیہ کلمہ ہے.ہم حضرت مرزا صاحب کو ہر گز محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابل پر آزاد نبی کے طور پر تسلیم نہیں کرتے.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام اور تابع کو اگر امتی نبی کے مقام پر سرفراز فرمایا جائے تو ہر گز نے کلمہ کی ضرورت نہیں کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا کلمہ ہی قیامت تک کے لئے ہے اور غیر متبدل ہے.یہ بات معترض کو سمجھاتے ہوئے مصنف ” کلمۃ الفصل‘ نے ایک یہ طرز بھی اختیار کی کہ اسے بتائیں کہ اصل میں محمد نام اور محمد مقام اتنے عظیم ہیں کہ صرف گذشتہ زمانوں پر ہی حاوی نہیں آئندہ زمانوں پر بھی حاوی ہیں.جس طرح یہ کہنا درست ہوگا کہ جملہ انبیاء کے نام جیسے آدم ، نوح ابراہیم" ، موسی عیسی وغیرہ محمد نام کے تابع اور اس کے کلمہ میں شامل ہیں اسی طرح یہ کہنا بھی درست ہے کہ بعد میں محمد رسول اللہ سے فیضیاب ہو کر اگر کسی امتی کو مقام نبوت عطا ہو تو وہ بھی اسم محمد کی جامعیت میں داخل ہوگا.یہ استدلال کوئی محض ذوقی نکتہ نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت پر مبنی ہے.جس پر شیطان کے چیلوں کی نظر نہیں.اسم محمد" کی تصدیق میں اس لئے دوسرے انبیاء کی تصدیق شامل ہو جاتی ہے خواہ وہ بعد میں ہوں یا پہلے ہوں ، کہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس نے دیگر تمام انبیاء کی تصدیق بنائے ایمان میں داخل کر لی ہے اور اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لا نیوالے ہر شخص پر لازم کر دیا ہے کہ ایمان کے لئے محض یہ کافی نہیں ہے کہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لایا جائے بلکہ خدا کے دیگر انبیاء علیہم
421 السلام پر ایمان لانا بھی ضروری ہے.پس یہ محمد ﷺ کا عظیم احسان ہے کہ آپ دوسرے انبیاء کے بھی مصدق بن گئے خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی زمانہ میں پیدا ہوئے ہوں.یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی امتیازی شان ہی ہے جس کو بیان کرتے ہوئے مصنف کتاب ” کلمۃ الفصل“ نے معترض کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا مقام ایسا ہے کہ ان کے نام میں ہر نبی کی تصدیق شامل ہو گئی ہے.تمہارے اور ہمارے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ تم صرف گذشتہ انبیاء کی تصدیق اس نام میں سمجھتے ہو ، ہم جہاں گزشتہ انبیاء کی تصدیق اس نام میں سمجھتے ہیں وہاں ہم اسی کی پیشگوئی کے مطابق ظاہر ہونے والے امام مہدی کو بھی جس کا درجہ امتی نبی کا درجہ ہے، اس تصدیق میں داخل سمجھتے ہیں.پس محمدﷺ کا کلمہ پڑھنے والے کے لئے کسی اور کا کلمہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کلمہ محمد ﷺ کے کلمہ میں داخل ہو چکا ہے.جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام و دیگر انبیاء کو نبی اللہ تسلیم کرنے والے پر یہ حاجت نہیں رہی کہ ابراہیم رسول اللہ ، موسیٰ رسول اللہ عیسی رسول اللہ یاکسی اور نبی کا کلمہ پڑھے، اسی طرح احمدیوں کے لئے ہر گز ضروری نہیں کہ محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھنے کے بعد احمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھنا شروع کر دیں.یہ نہایت عالمانہ اور عارفانہ وہ نکتہ تھا جسے سمجھانے کی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مصنف کتاب " کلمۃ الفصل‘ نے کوشش فرمائی لیکن افسوس کہ انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ ان کے مخاطبین میں بہت سارے نبی بھی شامل ہیں جو حسن نیت کے ساتھ محض بات سمجھنے والے نہیں بلکہ راشد علی اور اس کے پیر جیسے شتر کی خاطر محض اعتراض کرنے والے بھی ہیں اور حق جوئی سے ان کی کوئی غرض نہیں.را شد علی صاحب !جو بات ہم نے سمجھائی ہے اسے سمجھیں اور توبہ کریں کیونکہ یہ عقیدہ مبنی بر قرآن وحدیث ہے کہ محمد رسول اللہ علہ سب نبیوں کے مصدق بنے اور یہی آیت خاتم النبیین کے معانی میں سے اہم معنی ہیں کہ محمد مصطفی ﷺ تمام انبیاء کے مصدق بن گئے ، خواہ کوئی پہلا ہو یا بعد میں آنے والا.اس وضاحت کے بعد اگر پھر بھی راشد علی از راه عناد نا واجب اور ناحق حملوں سے باز نہ آئے تو ہمیں ان سے کلام نہیں.ہماری اس پر حجت تمام ہو چکی.
422 پس اس صورت میں آخری صورت یہی بنے گی کہ احمدیوں کا یقینا کوئی اور کلمہ نہیں جیسا کہ ہم یقین کرتے ہیں اور ہمارے مخالفین بھی یہی تسلیم کرتے ہیں.مصنف کتاب ” کلمۃ الفصل“ کی اس تحریر سے متعلق جسے انتہائی بھیا نک کلمہ کفر کے طور پر راشد علی پیش کر رہا ہے ، ہم قارئین پر خوب اچھی طرح واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ راشد علی نے جو معنے اس تحریر کو پہنانے کی کوشش کی ہے، سراسر ظلم ہے، افتراء ہے اور جھوٹ ہے.(6) سرز مین قادیان ارض حرم راشد علی نے ” متوازی امت“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے قادیان کی سرزمین ارض حرم کہلائی.(اخبار الفضل جلد 3 نمبر 11 مورخہ 18 جولائی 1915ء) یہ مفہوم غالبا راشد علی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک شعر سے اخذ کیا ہے اور اسے اندھا دھند متوازی امت کے قیام کے ثبوت کے طور پر پیش کر دیا ہے.اگر کوئی تعصب کے زہر سے بھری نظر سے دیکھے تو اس سے ہماری بحث نہیں لیکن عام شریف النفس انسان سمجھ سکتا ہے کہ قادیان کے بارہ میں جو الفاظ ہیں ان سے بہت زیادہ قوت سے حضرت صوفی کامل خواجہ غلام فرید علیہ الرحمۃ کے موطن چاچڑاں شریف کا ذکر کیا گیا ہے.چنانچہ ان کے ایک مرید نے جو منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا وہ آج سرائیکی علاقہ میں زبان زدعام ہے کہ چاچڑ وانگ مدینہ ڈسے کوٹ مٹھن بیت اللہ ظاہر دے وچہ یار فرید باطن دے وچ اللہ اس ذکر کو نہ اس وقت کسی نے محل اعتراض سمجھا نہ اب سمجھا جا سکتا ہے.ہر معقول آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ باتیں تبر کا بیان کی جاتی ہیں اور یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ مکہ ومدینہ پر خدا تعالیٰ کا نور برستا ہے تو ان کے طفیل ان بستیوں پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں ان بستیوں کو مکہ ومدینہ کے ہم مرتبہ
423 قرار دینے کا نعوذ باللہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.چنانچہ حاجی امداداللہ مہاجر کی فرمایا کرتے تھے : یہ فقیر جہاں رہے گا وہیں مکہ اور مدینہ اور روضہ ہے“ (خیر الافادات ( ملفوظات مولانا اشرف علی تھانوی) ناشر ادارہ اسلامیات لاہور.اگست 1982ء) اسی طرح شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مولوی رشید احمد گنگوہی کے مرثیہ میں کہا: پھریں تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کا رستہ جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے ذوق وشوق عرفانی تمہاری تربت انور کو دیگر طور سے تشبیہ کہوں میں بار بار آرنی، میری دیکھی بھی نادانی اب بتائیں ،سادہ اہل اسلام کو اشتعال دلانے والے خصوصاً وہ جو دیو بندی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے نہایت محترم بزرگ کے یہ الفاظ ہیں.ان پر آپ کو کفر کا فتوی کیوں یاد نہیں رہا اور کیوں ان کے خلاف اور ان کو ماننے والے سب دیو بندیوں کے خلاف آگ بھڑ کانے کا خیال نہیں آیا.یہ الفاظ تو بہت ہی خطرناک ہیں جو دیو بندیوں کے نہایت محترم بزرگوں نے بڑے طمطراق سے بیان کئے ہیں.حقیقت میں اگر گستاخی کی گئی ہے تو یہ ہے کہ باہر کی بستیاں ملکہ سے برکات حاصل نہیں کر رہیں.بلکہ مکہ کی مقدس گلیوں میں، جو ہمارے مقدس آقا و مولیٰ محبوب کبریا حضرت محمد مصطفی ہے کے مبارک قدم چوما کرتی تھیں، مذکور مولانا صاحب کے نزدیک اہل ایمان کو اس وقت تک چین نہیں آ سکتا جب تک گنگوہ کا رستہ نہ پوچھ لیں.یعنی مکہ اور بیت اللہ قبلہ نما ہیں تو قبلہ گنگوہ کا قصبہ بن گیا.(نعوذ باللہ ) علامہ اقبال کو راشد علی مذہبی معاملات میں سند مانتا ہے.چنانچہ ملاحظہ فرمائیں.علامہ اقبال نے ہندوستان کے متعلق لکھا: دو گوتم کا جو وطن ہے جاپان کا حرم ہے عیسی کے عاشقوں کا چھوٹا یروشلم ہے ( باقیات اقبال صفحہ 328.ناشر آئینہ ادب چوک مینار.انارکلی لاہور.طبع دوم 1947ء) حضور بابا فرید الدین گنج شکر مسعود العلمین نے فرمایا کہ درویش کو ستر ہزار مقامات طے کرنے پڑتے ہیں ان سے پہلے ہی مقام پر درویش کے لئے یہ
424 کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ہر روز پانچوں وقت کی نماز عرش معلیٰ کے گر دکھڑے ہو کر ساکنان عرش کے ہمراہ ادا کرتا ہے اور جب وہاں سے درویش واپس آتا ہے تو ہر وقت اپنے آپ کو خانہ کعبہ میں دیکھتا ہے اور درولیش جب وہاں واپس آتا ہے تو تمام جہان کو اپنی انگلیوں کے درمیان دیکھتا ہے.(انوار صابری صفحہ 118) حضور سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی فرماتے ہیں: مجھے ایک مرتبہ حج خانہ کعبہ کا بڑا شوق ہوا.میں نے حج کے لئے جانے سے پہلے ارادہ کیا کہ ایک بار پاکپتن شریف حاضری دے لوں.چنانچہ جب میں پاکپتن شریف پہنچا اور حضور شیخ الاسلام حضرت بابا صاحب کی زیارت سے مشرف ہوا تو میرا مقصود حج پورا ہوا ، اور مزید انعامات الہی نصیب ہوئے اور فرمایا کہ کچھ مدت کے بعد پھر حج کا شوق غالب ہوا تو پھر پاکپتن شریف حاضر ہوا.اللہ کریم نے خصوصی انعامات سے نوازا.حضور سلطان المشائخ نے آبدیدہ ہو کر زبان مبارک سے فرمایا: آں راہ بسوئے کعبہ برو وایں بسوئے دوست (انوار صابری از حافظ عبید اللہ صابری.اسلامی کتب خانہ گوجرانوالہ صفحہ 172) ترجمہ:.وہ تو سوئے کعبہ رواں ہے اور یہ ( یعنی میں ) اپنے دوست کی طرف جارہا ہوں.اب کیا راشد علی ان عبارتوں کو بھی ہدف ملامت بنائے گا ؟ اگر اس میں یہ جرات ہے تو ایسا کر کے دکھائے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اول وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مذکورہ بالا مقامات حقیقۂ حرم “ اور ” بیت اللہ ہی ہیں، جیسا کہ ان تحریروں سے ظاہر ہے اور دوم یہ کہ اس نے احمدیت پر بہتان باندھا ہے.(7) مسجد اقصیٰ راشد علی نے ” متوازی امت“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے.مرزا قادیانی کی مسجد مسجد اقصی کہلائی.(اشتہار برائے چندہ براے تعمیر مینار مسیح مجموع اشتہارات جلد 3 صفحہ 282) عجیب پاگلوں والی تو جیہہ ہے کہ جو کوئی مسجد کا نام مسجد اقصیٰ رکھے گا وہ متوازی امت قائم کرنے والا
ہوگا.425 دنیا میں بیسیوں مساجد ایسی ہیں جن کے نام ” مسجد اقصیٰ“ رکھے گئے ہیں.اگر اس کی یہ توجیہہ درست ہے تو پھر امت مسلمہ کے متوازی بیسیوں امتیں پائی جاتی ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی مساجد کے نام مسجد اقصٰی' رکھے ہوئے ہیں.راشد علی کو چاہئے کہ ان سب کے خلاف مہم چلائے.وو (8) بیت الفکر حرم کعبہ را شد علی نے ” متوازی امت“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے مرزا غلام قادیانی کا کمرہ بیت الفکر حرم کعبہ ہو گیا‘ و من دخله كان آمنا“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 291) یہ بالکل جھوٹ ہے نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں یہ فرمایا ہے کہ بیت الفکر حرم کعبہ ہے اور نہ ہی جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے.پس راشد علی کذاب ہے اور جھوٹ کی وجہ سے بار بار خدا تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور لوگوں کی لعنت کا مورد بنتا ہے.آیت کریمہ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ المِنا‘ کا جو حوالہ اس جھوٹے انسان نے دیا ہے یعنی ” مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 291“ کا.نہ اس صفحہ پر اور نہ اس کے اردگرد کسی اور صفحہ پر اس مضمون کی عبارت کہیں ملتی ہے جو اس جھوٹے نے افتراء کی ہے.وہاں جو عبارت ہے وہ یہ ہے: " یہ برکت دینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمانہ آنحضرت ﷺ میں شوکت اسلام ظاہر کی گئی اور حرام کیا گیا کہ کفار کا دست تعدی اسلام کو مٹا دے جیسا کہ آیت وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ أَمِنا (آل عمران :98 سے ظاہر ہے.لیکن زمانہ مسیح موعود میں جس کا دوسرا نام مہدی بھی ہے تمام قوموں پر اسلام کی برکتیں ثابت کی جائیں گی اور دکھلایا جائے گا کہ ایک اسلام ہی بابرکت مذہب ہے.“
426 ( مجموعہ اشتہارات.جلد 3 صفحہ 291 حاشیہ) وہ آیت کریمہ جس کو راشد علی نے اپنے اعتراض کی بنیاد بنا کر پیش کیا ہے اس آیت کریمہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذکورہ بالا مضمون میں دلیل کے طور پر بیان فرمایا ہے.اس جگہ نہ بیت الفکر کا کہیں ذکر ہے نہ حرم کعبہ کا.نا معلوم راشد علی پر ابلیس کب نازل ہوا اور اس پر یہ جھوٹ الہام کر گیا جو اس نے جماعت احمدیہ پر تھوپنے کی کوشش کی ہے.پس لعنۃ اللہ علی الکاذبین.(9) قادیان جاناظتی حج را شد علی نے ” متوازی امت“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے.قادیان جاناظلی حج قرار پا گیا.(خطبہ جمعہ میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان مندرجہ اخبار الفضل جلد 20 نمبر 66 مورخہ یکم دسمبر 1932ء)‘ جماعت احمدیہ حج بیت اللہ کے حج کو ہی حقیقی حج سمجھتی ہے اور اسی کا ہی قصد کرتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود حضرت حافظ احمداللہ رضی اللہ عنہ کو بھجوا کر اپنی طرف سے حج بدل کرایا.آپ کے پہلے خلیفہ حضرت حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ نے بھی بیت اللہ کا حج کیا.اسی طرح آپ کے فرزند اور دوسرے خلیفہ، جن کے ایک بیان کو راشد علی نے ہدف اعتراض بنایا ہے یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ نے بھی 1912 ء میں بیت اللہ کا حج ادا کیا.پس جماعتِ احمدیہ کے نزدیک اصل حج ، مکہ میں بیت اللہ ہی کا حج ہے جوار کانِ اسلام میں سے چوتھا رکن ہے.جہاں تک دیگر مقامات پر حاضر ہونے کا تعلق ہے، اسے ظلی حج قرار دینا کوئی اعتراض کا محل نہیں ہوسکتا.کیونکہ ایسی حاضری نہ حج بیت اللہ کے مقابل پر کی جاتی ہے اور نہ وہ شریعت کے اس رکن کی تنسیخ کرتی ہے.ایسی حاضری ایک الگ قسم کا قصد ہے جو امت کے بزرگ صوفیاء کے کلام میں جگہ جگہ مذکور ہے.جیسا کہ ہم نے اسی باب میں اعتراض نمبر 6 کے جواب میں مختلف مثالیں پیش کی ہیں.اُن میں حضرت خواجہ غلام فرید
427 چاچڑاں شریف والے اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے بیان قابل غور ہیں.اسی طرح پنجاب کے مشہور صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخش کا کلام جو پنجاب میں زبان زد عام ہے اور اس کی کیسٹس جگہ جگہ دستیاب ہیں.اس میں سے ایک مصرع یہ ہے کہ وو در مرشد دا خانہ کعبہ، حج ضروری کریئے“ اور ایک اور نظم کا ایک مصرع یہ بھی ہے کہ وو مرشد دا دیدار ہے مینوں باہو، لکھ کروڑاں حجاں“ ظاہر ہے کہ حضرت میاں صاحب یہاں مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کا ذکر نہیں کر رہے.بلکہ پیر ومرشد کے مسکن و مقام کی بات کر رہے ہیں لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ پیر ومرشد کے در کو یا اس کے گھر کو خانہ کعبہ کے مقابل پر نہیں رکھ رہے بلکہ اس کے ظل کے طور پر ہی بیان کر رہے.اور حج بھی وہ نہیں ہے جو خانہ کعبہ کا ہے اور اسلام کے ارکان میں سے چوتھا رکن ہے.پس اس قسم کے بیانات کو ہدف اعتراض بنا نامحض معترض کی جہالت کا ثبوت ہے.مذکورہ بالا مثالوں میں یہ بات بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ ان بزرگوں نے ایسے فرمودات میں وہ احتیاط نہیں برتی جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ نے لفظ ”ظل“ بیان کر کے برقی ہے.تاکہ کسی اور مقام کے ایسے قصد کو کوئی بیت اللہ کے حج کے ساتھ خلط ملط نہ کر سکے.لیکن برا ہو تعصب اور جھوٹ کا کہ ان میں ڈوب کر راشد علی اور اس کے پیر نے حقیقت حال کو سمجھتے ہوئے ، عمداً اسے بیت اللہ کے حج کے ساتھ خلط ملط کرنے کی کوشش کی ہے.حالانکہ اسی خطبہ میں ، جس کا اس نے حوالہ دیا ہے،حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حج کی عبادت کا حصہ تو بے شک باقی ہے اور وہ رہتی دنیا تک باقی رہے گا جس طرح نماز کا فریضہ ہے اسی طرح یہ بھی فرض ہے کہ ہر صاحب استطاعت مسلمان مقررہ دنوں میں وہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت 66 کرے.‘“ نیز قادیان کے سفر کا ذکر کرتے ہوئے مزید واضح فرمایا کہ 66 (خطبہ جمعہ 25 نومبر 1932ء) اس میں عبادت کا حصہ نہیں وہ صرف مکہ مکرمہ سے ہی مخصوص ہے.“ (حوالہ مذکورہ بالا )
428 ان تحریروں سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے بالکل نکھار کر بات کی ہے اور ” حج بیت اللہ کے فریضہ کو الگ طور پر واضح فرمایا ہے اور قادیان میں حاضری کا ذکر بالکل الگ رنگ میں کیا ہے.ان دونوں کا نہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ ہے نہ مقابلہ اور نہ ہی ابہام.آپ نے قادیان میں حاضری کو ظلی حج سے تعبیر کیا ہے تو اس کا مقصد صرف اتنا ہے کے وہ مقام جہاں خدا تعالیٰ اپنے پاک بندے پر اپنی تجلّی ظاہر کرتا ہے وہ مقام مقدس اور بابرکت ہو جاتا ہے اور وہاں کی زیارت باعث حصولِ برکت و تقدس ہوتی ہے.اس سے مسلمانوں کے ہر مکتب فکر کو اتفاق ہے.پس سچ یہی ہے کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک اصل حج وہی ہے جو بیت اللہ کا حج ہے.اصل کے ساتھ ظل کو خلط ملط کرنا دیانتداری نہیں.(10) بہشتی مقبرہ.چندہ کے ذریعہ بلنگ را شد علی نے ” متوازی امت“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے." قادیانی قبرستان بہشتی مقبرہ ہو گیا جس میں دفن ہونے کے لئے چندہ کے ذریعے بکنگ کرانی پڑتی ہے.(مکاشفات صفحه 23 از باب منظور الهی قادیانی ) ( بے لگام کتاب ) اس عبارت کے نیچے جو حوالہ اس نے درج کیا ہے وہ غلط ہے.جماعت احمدیہ کے سارے لٹریچر میں کوئی ایسی عبارت نہیں ہے.یہ سب را شد علی کا افتراء ہے اور اس پر ہمارا پہلا جواب تو وہی ہے کہ لعنة الله على الكاذبين.لیکن جملہ معترضہ کے طور پر ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا کسی جگہ چندہ کے ذریعہ بنگ کرانے سے متوازی امت کا قیام عمل میں آجاتا ہے؟ بہشتی مقبرہ اور اس میں تدفین کے بارہ میں مکمل تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب " رسالہ الوصیت میں درج ہے.اگر راشد علی جھوٹا نہ ہوتا تو باب منظور الہی کی کتاب کے حوالہ کی بجائے رسالہ الوصیت کا حوالہ دیتا جس میں خود بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے تفصیل رقم فرمائی ہے جو دراصل حسب ذیل قرآنی
429 اصول کی تعمیل ہے کہ ان اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التو : 111) ترجمہ: اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی.ایسا ہی مضمون سورہ الصف کے دوسرے رکوع میں بھی بیان کیا گیا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کے لئے جان اور چندہ کے ذریعہ، یہ جنت کی بلنگ نہیں تو اور کیا ہے؟ اس قانونِ خداوندی کا احیاء جیسا کہ مقدّ رتھا، رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہوا ہے.آپ نے اس موعود مسیح کے بارہ میں فرمایا ہے کہ 66 " فيمسح عن وجوههم ويحدثهم بدرجاتهم في الجنّة.“ (مسلم کتاب الفتن.باب ذکر الدجال وصفہ و مامعہ ) ترجمہ:.وہ ان کے چہروں سے غبار صاف کریں گے اور ان کو جنت میں ان کے درجات سے مطلع کریں گے.آنحضرت ﷺ کی اس پیشگوئی کے تحت اللہ تعالیٰ نے کشفاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا قبرستان دکھایا جس میں ان لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں.آپ نے خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ایسے قبرستان کی بنیا درکھی اور فرمایا: وو میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنادے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لئے ہو گئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.آمین یا رب العالمین (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 316) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بہشتی مقبرہ میں تدفین کے لئے جو شرائط مقررفرما ئیں ان میں سے چند ایک بنیادی شرائط یہ ہیں.ان میں دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ مالی قربانی بھی ایک شرط ہے، محض مال کی الگ کوئی حیثیت نہیں.تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو وصیت کرے جو اس کی موت کے بعد
430 دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہو گا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے لیکن اس سے کم نہیں ہوگا.اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پر ہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو.سچا اور صاف مسلمان ہو.“ ” ہر ایک صالح جو اس کی کوئی بھی جائیداد نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیں کر سکتا اگر یہ ثابت ہو کہ وہ وو دین کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا تو وہ اس قبرستان میں دفن ہوسکتا ہے.“ یادر ہے کہ صرف یہ کافی نہ ہوگا کہ جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کا دسواں حصہ دیا جاوے.بلکہ ضروری ہوگا کہ ایسا وصیت کرنے والا جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے پابند احکام اسلام ہو اور تقویٰ اور طہارت کے امور میں کوشش کرنے والا ہو اور مسلمان خدا کو ایک جاننے والا اور اس کے رسول پر سچا ایمان لانے والا ہو.اور نیز حقوق عباد غصب کرنے والا نہ ہو.“ اگر کوئی کچھ بھی جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ نہ رکھتا ہو اور بایں ہمہ ثابت ہو کہ وہ ایک صالح درویش ہے اور متقی اور خالص مومن ہے اور کوئی حصہ نفاق یا دنیا پرستی یا قصور اطاعت کا اس کے اندر نہ ہو تو وہ میری اجازت سے یا میرے بعد انجمن کی اتفاق رائے سے اس مقبرہ میں دفن ہوسکتا ہے.“ ☆ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن.جلد 20 صفحہ 219 تا 227 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقرر فرموده ان شرائط پر عمل کی وصیت کرنے والے با عمل مومن کی تدفین اس قبرستان میں ہوتی ہے.بہشتی مقبرہ کی شرائط میں بالکل واضح ہے کہ نظام وصیت کی اصل بنیاد، الله توحید باری تعالیٰ اور رسالت نبی اکرم ﷺ پر سا ایمان ، احکام اسلام کی پابندی، تقدم دین بر دنیا، تقویٰ ، طہارت ، دینداری، صالحیت، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ امور ہیں.انہیں اعمال کی کوکھ سے دین کے لئے جان ، مال اور وقت کی قربانی جنم لیتی ہے.یہ جنت کی بکنگ کا وہ اسلامی قانون ہے جو انفسهم واموالهم “ کے بدلہ جاری ہوا ہے، جس کو سیح پاک علیہ السلام نے با قاعدہ ایک نظام میں باندھا ہے.قرآن کریم کی بنیاد پر قائم شدہ اس نظام پر راشد علی کو اعتراض ہے تو اس کا ہم کچھ نہیں کر سکتے.دو
431 راشد علی کا ان اسلامی قوانین اور انعامات سے چونکہ کوئی تعلق نہیں اس لئے اسے اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں.اسے اپنی فکر کرنی چاہئے.اسے جہاں جہنم سے بچنے کا سرٹیفیکیٹ اور جنت کے لئے بکنگ مل سکتی ہے اس کا شارٹ کٹ اس کو ہم بتا دیتے ہیں.چنانچہ حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ وو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ دنیا میں جس مسلمان نے میری بیعت کی ہوگی یا مجھ سے مصافحہ کیا ہوگا.یا میرے فرزندوں کا ہاتھ پکڑا ہوگا.یا میرے مریدوں کی بیعت کی ہوگی...یا میرے خانوادہ میں بیعت کی ہو گی وہ ہرگز ہر گز دوزخ میں نہیں جائے گا.“ (اردو ترجمه کتاب اسرار الاولیاء ، صفحہ 227.ملفوظات حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر مسعود ) راشد علی کو خدا تعالیٰ کے مامور اور نبی اکرم ﷺ کے مہدی معہود پر ایمان نصیب نہیں.اسے پتہ ہم نے بتا دیا ہے لہذا اسے کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے تمباکونوش پیر کو چھوڑ کر ان مذکورہ بالا مریدوں اور فرزندوں کی بیعت میں شامل ہو جائے.(11) ذرية البغايا را شد علی اور اس کے پیر نے اپنی بے لگام کتاب میں ” متوازی امت“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے: وو صرف مرزا صاحب کی نبوت کو تسلیم کرنے والے مسلمان ہیں باقی تمام لوگ کافر جہنمی ، اللہ اور رسول کے نافرمان اور طوائفوں کی اولا د یعنی حرامی ہو گئے.(روحانی خزائن.جلد 5 صفحہ 547،547.مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 368) ہیں.“ پھر " تمام انسانیت کی تذلیل و تحقیر“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے.وو " طوائفوں کی اولاد کے علاوہ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے ، باقی سب میری نبوت پر ایمان لا چکے (روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 548،547) 6 پہلی عبارت میں جو حوالے انہوں نے دیئے ہیں وہ غلط ہیں.دونوں مذکورہ کتب میں یہ عبارت
432 نہیں ہے اور دوسری عبارت میں انہوں نے ایک عربی عبارت کا صریح غلط ترجمہ کر کے اسے اعتراض کے طور پر پیش کیا ہے.اول تو یہ بات ہی غلط ہے کہ کسی کو ذریۃ البغایا“ کہہ دینے سے ” متوازی امت“ معرض وجود میں آجاتی ہے دوسرے یہ کہ در حقیقت یہ ایک گھسا پٹا اعتراض ہے جو راشد علی اور اس کے پیر نے بھی دوہرایا ہے.حالانکہ جماعت احمد یہ بار بار اس کا جواب اختصاراً بھی دے چکی ہے اور تفصیلا بھی.یہ لوگ فتنہ اور شتر کی خاطر عوام الناس کو جماعت کے خلاف انگیخت کرنے کے لئے ،حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی جس تحریر کو ہدف اعتراض بناتے ہیں وہ یہ ہے: وو ” تلک کتب ينظر اليها كل مسلم بعين المحبة والمودة وينتفع من معارفها ويقبلني ويصدق دعوتى - الاذرية البغايا الذين ختم الله على قلوبهم آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 548،547) فهم لا يقبلون ـ “ اس عبارت کا صحیح اور درست ترجمہ یہ ہے: وو یہ وہ کتب ہیں جن کو سب مسلمان محبت اور مودت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور مجھے قبول کرتے اور میری دعوت کو سچا سمجھتے ہیں سوائے ان سرکشوں اور ان کے پیروکاروں کے جن کے دلوں پر خدا تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے پس وہ قبول نہیں کرتے.“ لغت میں جہاں بغایا کے وہ بُرے معنے بھی موجود ہیں جو راشد علی اور اس کے پیر نے کئے ہیں تو وہاں اس کے اچھے معنے بھی موجود ہیں.اگر کسی لفظ کے دونوں طرح کے معنے ہو سکتے ہوں تو جہاں سیاق وسباق کے لحاظ سے اچھے معنے ہو سکتے ہوں تو وہاں اچھے معنے ہی کرنے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب میں بار بار مسلمانوں کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ یاد کیا ہے جس کی چند ایک مثالیں ہدیہ قارئین کی جاتی ہیں.آپ نے متعدد بار اپنی جماعت کے علاوہ دیگر مسلمانوں کو مسلمان ہی قرار دیا ہے اور انہیں اپنا ہم مذہب بھائی کہا ہے اور لکھا ہے کہ وہ وو علانیہ تو حید کے قائل ہیں.کسی انسان کو خدا نہیں بناتے اور بہ برکت تو حید اپنے اندر ایک نور بھی رکھتے ہیں.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 223 )
433 یہ تحریر اسی کتاب میں کل مسلم “ والی تحریر سے بہت پہلے درج ہے.پھر اس تحریر کے بعد بھی آپ نے جب ملکہ معظمہ کو اسلام کی طرف بلایا تو اس کے عہد حکومت میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے بارہ میں لکھا: ” وفي آخر کلامی انصح لک یا قیصرة خالصاً لله وهو ان المسلمين عضدک الخاص ولهم فی ملکک خصوصيّة تفهمينها فانظري الى المسلمين بنظر خاص و قری اعيـنـهـم والـفـى بيـن قـلـوبهـم واجعلى اكثرهم من الذين يقربون التفضيل التفضيل، التخصيص التخصيص وفي هذه بركات ومصالح - ارضيهم فانک ولات ارضهم وداريهم فـانـک نـزلــت بــدارهم و اتاك الله ملكهم الذى امروا فيه قريباً من الف سنة مما تعدون - فاشکری ربّک و تصدّقی عليهم فانّ الله يحب الذين يتصدقون “ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 536،535) ترجمہ:.اے ملکہ قیصرہ ! اب میں آخر میں آپ کو محض اللہ نصیحت کرتا ہوں کہ مسلمانان ہند تیرے خاص بازو ہیں اور ان کو تیری بادشاہت میں خصوصیت حاصل ہے، اس لئے تجھے چاہئے کہ مسلمانوں پر خاص نظر عنایت رکھے اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے اور ان کی تالیف قلوب کرے اور ان میں سے اکثر کو مقربین میں سے بنالے ان کو ترجیح دے اور ان سے خاص سلوک کرے.اس میں تیرے لئے بڑی برکتیں اور فوائد ہوں گے ان کو راضی کر کہ تو ان کی زمین میں آئی ہے.ان کی خاطر و مدارت کر کہ تو ان کے گھر آئی ہے اور اللہ نے تجھے ان کا وہ ملک عطا کیا ہے جس میں تقریباً ایک ہزار سال تک وہ حکومت کر چکے ہیں پس اپنے رب کا شکر کر اور ان پر صدقہ کر.اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.علاوہ ازیں اسی کتاب کے آخر میں جو آپ نے اشتہار دیا اس میں بھی مسلمانوں کو ” مسلمانوں کی اولاد اور اسلام کے شرفاء کی ذریت تحریر فرمایا ہے.وغیرہ وغیرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیر بحث تحریر سے اگر مخالفین جماعت عامتہ المسلمین مراد لیتے ہیں تو ایسی صورت میں ان مذکورہ بالا دوسری تحریروں کی روشنی میں اس کے اچھے معنے ہی ہوں گے.کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی جگہ، ایک ہی گروہ کے لئے دو الگ الگ مفہوم پیش کئے جا رہے ہوں.نیز جب لغت بھی
434 اچھے معنے مہیا کر رہی ہو تو انصاف اور دیانتداری کا تقاضہ یہی ہے کہ اس جگہ اچھے معنے ہی چسپاں کئے جائیں.چنانچہ لغت میں لکھا ہے: الجيش.اقلبت البغايا ـ اى الطلائع التي تكون قبل ورود الجيش.“ ( اقرب الموارد.زیر لفظ بنی ) یعنی بغایا کے معنی وہ دستے بھی ہیں جو لشکر فوج کے آگے ہوتے ہیں یعنی سرخیل لشکر یا مقدمہ یہی معنے تاج العروس المنجد اور Lane میں بھی درج ہیں.نیز ذریۃ کے معنے تابع اور زیر اثر کے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: " أَفَتَتَخِذُوْنَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُوْنِي “ (الكهف: 51) کہ کیا تم مجھے چھوڑ کر اس (شیطان) کی ذریت کو دوست بناتے ہو.شیطان کی نہ تو بیوی ہے نہ اولا د پس یہاں مراد اس کے پیروکار اور اس کے تابع ہو کر چلنے والے ہیں اور وہ لوگ مراد ہیں جن پر وہ وحی کرتا ہے اور ان کے ذریعہ اپنے نوٹس بھجواتا ہے وغیرہ وغیرہ بہر حال ذریۃ البغایا سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ لوگ مراد لئے ہیں جو لیڈروں کے زیرِ اثر ہیں اور ان کے پیروکار ہیں، وہ آپ کی تصدیق نہیں کرتے جبکہ غیر جانبدار لوگ تصدیق کرتے ہیں.ان معنوں کے درست ہونے پر قرینہ یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام غیر احمد یوں کو احمدی بنانا چاہتے ہیں.اگر وہ انہیں ( نعوذ باللہ ) طوائفوں کی اولا د اور حرامزا دے کہیں گے تو پھر ان کی یہ توقع کہ وہ احمدی ہو جائیں گے خود بخود ختم ہو جاتی ہے.پس وہ اچھا معنی جو ہم کرتے ہیں اور جسے مناسب سمجھتے ہیں وہ ہم نے ایک دلیل کے ساتھ پیش کر دیا ہے.راشد علی اور اس کا پیر اس کے علاوہ دوسرے سخت اور نامناسب اور بُرے معنے کرنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں روک تو نہیں سکتے.وہ خود مختار ہیں.ان کے سامنے دونوں معنے موجود ہیں.جو معنے وہ اپنے لئے پسند کرنا چاہیں ان کی اپنی مرضی ہے لیکن انہیں یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں پر بھی وہ معنے صادر کریں جو ہم نہیں کرتے.اور نہ ہم انہیں یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے لئے پسند کردہ معنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت کو پہنائیں.
435 (12) بیابانوں کے خنزیر راشد علی اور اس کے پیر سید عبدالحفیظ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” نجم الہدی میں سے ایک عربی نظم کا حسب ذیل شعر کا ترجمہ تحریر کیا ہے.ان العدا صاروا خنازير الفلا ونساؤهم من دونهن الاكلب ترجمہ:.دشمن ہمارے، بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں.“ نجم الہدی.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 53) اس شعر کے ترجمہ پر اس نے عنوان لگایا ہے ” تمام انسانیت کی تذلیل و تحقیر نیز یہی ترجمہ اپنی ” بے لگام کتاب“ میں ” متوازی امت“ کے عنوان کے تحت بھی لکھا ہے مگر وہاں از راہ تلبیس بریکٹ ڈال کر 66 ترجمہ یوں بنا دیا ہے.ہمارے ( مرزا صاحب کے دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے....گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر تمام بنی نوع انسان کے بارہ میں تحریر فرمایا ہے اور اس وجہ سے تمام انسانیت کی تذلیل و تحقیر ہو گئی ہے اور اس شعر کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک متوازی امت“ بنانے والے قرار پاتے ہیں.معزز قارئین ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نظم نہ تومسلمانوں کے بارہ میں لکھی ہے اور نہ ہی وہ اس شعر کے مخاطب ہیں اور نہ ہی اس نظم کی وجہ سے کوئی متوازی امت بن سکتی ہے.یہ راشد علی اور اس کے پیر کا سفید جھوٹ ہے اور ان کی شر انگیزی ہے جو خوامخواہ اس شعر کو مسلمانوں پر چسپاں کر کے (نعوذ باللہ ) انہیں سؤر اور ان کی عورتوں کو کتیاں قرار دیتے ہیں.وہ خود اپنی طرف سے اس شعر کو تمام انسانوں پر حاوی کرتے ہیں اور الزام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دھرتے ہیں.اس مذکورہ بالا شعر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر عبدالحفیظ اور راشد علی اور ان کے ہم
436 مشربوں وغیرہ کو بھی ہرگز ہرگز مخاطب نہیں کیا.ویسے بھی نام نہاد علماء کے بارہ میں حسب ذیل حدیث رسول کے ہوتے ہوئے کسی اور کو کچھ بھی کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی.خود صادق و مصدوق حضرت محمد مصطفی علیہ فرماتے ہیں." تكون في امتى فزعة فيصير النّاس الى علمائهم فاذا هم قردة وخنازير.“ منتخب کنز العمال - الفرع الثانی فی ذکر اشر اطبا الکبری جلد 6 صفحہ 28.برحاشیہ مسند احمد بن حنبل.دار الفکر للطباعة والنشر مصر ) ترجمہ :.میری امت پر اضطراب اور انتشار کا ایک ایسا شدید زمانہ بھی آئے گا کہ لوگ اپنے علماء کے پاس ( راہنمائی کی امید سے ) جائیں گے تو کیا دیکھیں گے کہ وہ بندر اور سور ہیں.اس تمہید کے بعد ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” نجم الہدی میں اس مذکورہ بالا شعر کے بارہ میں حقیقت حال عرض کرتے ہیں تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ راشد علی اور اس کے پیر عبدالحفیظ صرف جھوٹ کی غلاظت پر ہی منہ نہیں مارتے بلکہ انہیں بے حد شوق ہے کہ انہیں معاندین مصطفی ﷺ اور دشمنان اسلام میں شمار کیا جائے.وہ اس کا ثبوت پہلے ہی ڈاکٹر ڈوئی اور منتصر مولویوں کے لئے اپنی غیرت دکھا کر پیش کر چکے ہیں.کتاب ” نجم الہدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1898ء میں صرف ایک دن میں تصنیف فرمائی.اس کتاب میں آپ نے آنحضرت ﷺ کے اسمائے مبارکہ ”احمد“ اور ”محمد“ کی حقیقت نہایت دلکش انداز میں بیان فرمائی ہے اور آپ کے ایسے کمالات اور محاسن کا ذکر فرمایا ہے جن سے آنحضور ﷺ کا سب انبیاء سے بالا و برتر ہونا ظاہر وباہر ہوتا ہے.نیز دجالی فتنوں اور ان کے ازالہ کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنی ماموریت کے حق میں دلائل بیان فرمائے ہیں.اس کتاب میں آپ نے ان مسلمانوں کو جنہوں نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا، الفاظ ” میری قوم ہی سے یاد کیا ہے اور ان سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش فرمائی ہے کہ آپ کی دعوت کو قبول کرنے میں ان کی بھلائی ہے.اس کتاب میں بھی ، نیز اس سے پہلی اور بعد کی تصنیفات میں بھی آپ نے بار بار مسلمانوں کو ” بھائی کے خطاب سے یاد فرمایا ہے.اس کتاب میں آپ نے تعلیم اسلام کے حسن و جمال اور اس کے حقائق و معارف کے عمدہ عمدہ نکتے
437 اور دقائق بیان فرمائے ہیں.علاوہ ازیں اس کتاب میں آپ نے اس تلخ حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اسلام کے دشمنوں نے گلشن اسلام کو ویران کرنے کے لئے کیا کیا حربے اختیار کئے ، جن کے ذریعہ انہوں نے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو اسلام سے برگشتہ کر کے عیسائیت کی گود میں ڈال دیا ہے.انہوں نے اسلام کے سرسبز و شاداب باغ کو اجاڑنے کے لئے جنگل کے درندوں کا روپ دھار کر بانی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات بابرکات پر گندے حملے کئے.انہوں نے ترکش میں سب وشتم سے مسموم جتنے تیر تھے وہ چلا دیئے.ان تلخیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دشمنانِ اسلام کا اس مذکورہ بالا شعر میں ذکر فرمایا ہے.جس کو راشد علی اور اس کے پیر نے خوامخواہ ان لوگوں کی طرف منسوب کر دیا ہے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی کتاب میں اپنی قوم اور اپنا بھائی“ قرار دیا ہے.راشد علی اور اس کے پیر کی عیاری ملاحظہ فرمائیں کہ وہ عامتہ المسلمین سے اپنے کسی انتقام کوتسکین دینے کے لئے اور جماعت احمدیہ پر اپنے بغض کا زہر اگلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کو غلط معنے پہنا کر سادہ لوح مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں اور پھر الٹا الزام بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے لئے اپنی طبعی غیرت کے فطرتی جوش سے آپ کے ناموس کا دفاع کرتے ہوئے یہ نظم ان گندہ دہن اور بد زبان عیسائی پادریوں کے بارہ میں تحریر فرمائی ہے جو آنحضرت ﷺ کو گالیاں دیتے تھے اور گلشن اسلام کو اجاڑ کر ویران جنگلوں کی مانند بنارہے تھے.اسی طرح اس نظم میں آپ نے عیسائیوں کی نام نہادمتنا دعورتوں کا بھی ذکر کیا ہے جو سادہ لوح مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہو کر انہیں ہر قسم کے لالچ اور ہر نوع کی ترغیب دے کر اسلام سے مرتد کر رہی تھیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: احب لنا فبحبه نتحبب وعن المنازل والمراتب نرغب اني ارى الدنيا وبلدة اهلها جدبت وارض ودادنا لا تجدب
438 يتمايلون على النعيم و أننا ملنا الى وجه يسر و يطرب ۴- انا تعلقنا بنور حبيبنا حتى استنار لنا الذى لا يخشب ه ان العدا صارواخنازير الفلا و نساء هم من دونهنّ الاكلب - سبّوا وما ادرى لأي جريمة سبوا انعصى الحب او نتجنب ے.قسمت انى لن افارقه ولو مزقت اسود جنتی او اذئب ذهبت رياسات الاناس بموتهم و لنا رياسة خلة لا تذهب ترجمہ:.ہمارا ایک دوست ہے ہے.اور ہم اس کی محبت سے پر ہیں اور مراتب اور منازل سے ہمیں بے رغبتی اور نفرت ہے میں دیکھتا ہوں کہ دنیا اور اس کے طالبوں کی زمین قحط زدہ ہوگئی ہے.یعنی جلدی تباہ ہو جائے گی اور ہماری محبت کی زمین کبھی قحط زدہ نہیں ہوگی.لوگ دنیا کی نعمت پر جھکتے ہیں.مگر ہم اس منہ کی طرف جھک گئے ہیں جو خوشی پہنچانے والا اور طرب انگیز ہے.ہم اپنے پیارے کے دامن سے او بیختہ ہیں ایسے کہ جو صاف اور شفاف نہیں ہوسکتا وہ بھی ہمارے لئے منور ہو گیا.دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے.اور ان کی عورتیں کیتیوں سے بڑھ گئی ہیں.اور انہوں نے گالیاں دیں اور میں نہیں جانتا کیوں دیں کیا ہم اس دوست کی مخالفت کریں یا اس سے کنارہ کریں میں نے قسم کھائی ہے کہ میں اس سے علیحدہ نہیں ہونگا اگر چہ شیر یا بھیڑ یا مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں.د یعنی حضرت محمد مصطفی مالی
439 لوگوں کی ریاستیں ان کے مرنے کے ساتھ جاتی رہیں اور ہمارے لئے دوستی کی وہ ریاست ہے جو قابل زوال نہیں.نجم الہدی.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 54،53) آٹھ شعروں پر مشتمل اس نظم میں نہ راشد علی اور اس کے پیر کا ذکر ہے نہ کسی اور مولوی کا اور نہ ہی اس میں مسلمانوں کے کسی بھی طبقہ کا ذکر ہے.راشد علی اور اس کے پیر نے اس نظم کے پانچویں شعر کو ہدف اعتراض بنایا ہے جس کی تشریح شعر نمبر 4 کرتا ہے.لیکن اس شعر کو وہ عملاً چھپا گئے ہیں.کیونکہ اس میں گالیاں دینے والوں کا ذکر ہے اور اس محبوب کا ذکر ہے جس کو گالیاں دی گئیں.اس شعر میں مسلمانوں کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے کیونکہ وہ محبوب خدا حضرت محمد مصطفی ﷺ کوگالیاں نہیں دے سکتے.ہاں راشد علی اور اس کا پیرا اگر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں اور دشمنان رسول میں شامل ہیں تو پھر وہ بھی لازماً اس شعر کی زد میں آتے ہیں.ایسی صورت میں اس پر نہ ہمیں کوئی تر ڈر ہے نہ انہیں کوئی اعتراض ہونا چاہئے.لیکن مسلمانوں کو اس شعر کا مصداق بنانے کا انہیں کوئی حق نہیں.جہاں تک اس شعر کی تشریح کا تعلق ہے وہ ہمیں کتاب ” نجم الہدی میں کھلے کھلے لفظوں میں جابجا ملتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ شعر زیر بحث میں مذکور اعداء مسلمانوں میں سے نہیں تھے بلکہ عیسائیوں میں سے صلى الله تھے.اور ان کی دشمنی کا ہدف آنحضرت ﷺ ، اسلام اور مسلمان تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: علوسام وكل احد من القسوس طعن في ديننا وما الا وسب نبينا وشتم وقذف وقلا - - وتجدونهم في عقيدتهم متصلبين ومن التعصب متلهبين وعلى جهلاتهم متفقين ـ وقد صنفوا في اقرب مدة كتبا زهاء مائة الف نسخة ـ وما تجدون فيها الا توهين الاسلام وبهتانا وتهمة ـ وملئت كلها من عذرة لانستطيع ان ننظر اليها نظرة ـ “ ترجمہ:.اور پادریوں نے ہمارے دین کی نسبت کوئی دقیقہ طعن کا اٹھا نہیں رکھا.اور ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں دیں اور بہتان لگائے اور دشمنی کی او تم دیکھتے ہو کہ وہ اپنے عقیدے میں کیسے سخت ہو گئے ہیں اور کیسے تعصب سے افر دختہ ہیں اور اپنی باطل باتوں پر کیسے اتفاق کئے بیٹھے ہیں.اور تھوڑی مدت سے ایک لا کھ کتاب انہوں نے ایسی تالیف کی ہے جس میں ہمارے دین اور رسول اللہ ﷺ کی نسبت بجز گالیوں اور بہتان اور
440 تہمت کے اور کچھ نہیں اور ایسی پلیدی سے وہ تمام کتابیں پر ہیں کہ ہم ایک نظر بھی ان کو دیکھ نہیں سکتے.پھر فرمایا: وو نجم الہدی.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 64) پس ہر ایک شخص جو اُن کے دین میں داخل ہوتا ہے اس کے لئے وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے اور اس کا تفرقہ اور پراگندگی دور کی جاتی ہے اور پادریوں کے مال نے ان کی بات کو قوی کر دیا ہے اور ان کی حیلہ سازی اس سے بڑھ گئی ہے.شکار کرنے اور قید کرنے کے تمام ہتھیار ان کومل گئے ہیں.اور چھوٹی بڑی فلاحتیں تمام استعمال میں لا رہے ہیں.اور ہر ایک شہر کی طرف ایک جماعت نو عیسائیوں کی بھیجی گئی ہے اور انہوں نے ہر ایک شہر میں اپنے گرجے بنائے اور مقیموں کی طرح وہاں رہنے لگے.اور سیلاب کی طرح مسلمانوں کے کو چوں میں بہنے لگے اور طرح طرح کے افتراؤں سے اس شہر کے باشندوں کو دھو کے دینے لگے.پھر اپنی عورتیں اسی غرض کے لئے شریفوں کے گھروں میں بھیجیں.پس حاصل کلام یہ کہ انہوں نے ہر ایک طور سے مکر کا بیج بویا.اور ٹڈی کی طرح ان اطراف میں منتشر ہو گئے.اور ہر ایک کو جو ہدایت کے نشانوں کو زندہ کرتا تھا دشمن پکڑا اور ہمارے ملک کو بلا اور موت کی جگہ بنا دیا اور ان کے مذہب باطل نے ہمارے ملک کی نیکیوں کو دور کر دیا اور کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں یہ مذہب باطل داخل نہ ہوا اور اس ملک کے باشندے جو اکثر عوام میں ہیں مقابلہ کی تاب نہ لا سکے اور نہ گریز کے لئے کوئی حیلہ ملا پس اسلام پر وہ مصیبتیں پڑیں جن کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں ہے.پس وہ اس شہر کی طرح ہو گیا جو مسمار ہو جائے اور اس جنگل کی طرح جو وحشیوں سے بھر نجم الہدی.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 67،66) جائے.پھر فرمایا: وو پس خدا تعالیٰ نے ایک انسان کو مسیح کے نام پر ملت اسلامیہ میں بھیجا تا اس امت کی بزرگی ظاہر ہو.اور یہ بھیجنا اس وقت ہوا کہ جب فساد کمال کو پہنچ گیا اور لوگ کثرت سے مرتد ہونے لگے اور ذیاب (بھیڑیوں ) نے تباہی ڈالی اور کلاب ( کتوں) نے آواز میں بلند کیں اور بہت سی کتابیں گالیوں سے بھری ہوئی تالیف کی گئیں.اور جھوٹ کی فوجوں اور ان کے سواروں اور پیادوں نے اسلام پر چڑھائی کی.اور زمین پر ایک زلزلہ آیا.اور گمراہی کمال کو پہنچ گئی اور ظالموں کی کارروائی لمبی ہوگئی.اور خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ
441 مسیح موعود کے ساتھ صلیب کو توڑے گا اور اپنے عہدوں کو پورا کرے گا اور خدا تعالیٰ تخلف وعدہ نہیں کرتا.نجم الہدی.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 77 ، 78 ) یہ عبارتیں صاف بتا رہی ہیں کہ کتاب ” نجم الہدی کی نظم ونثر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ارفع شان اور اسلام کی عظمت کا ذکر فرمایا ہے اور رسول خدا کی خاطر اپنی طبعی غیرت اور محبت بیان فرمائی ہے.اسی طرح عیسائیوں کی یلغار اور ان کی کاروائیوں کا ذکر کر کے اس جنگل کی بھی نشاندھی فرمائی ہے.جس میں عیسائی پادری پھرنے لگے تھے اور ان کی عورتوں کی کارروائیوں کا بھی ذکر فرمایا ہے.الغرض اس نظم کا سارا سباق اس کی تشریح کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ الله اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو عیسائی ہیں اور آنحضرت ﷺ کو گالیاں دینے والے ہیں لیکن اس کے باوجود در اشد علی اور اس کا پیر حفیظ ، عقل کے پیچھے لٹھ لئے پھرتے ہیں اور تکرار کرتے چلے جاتے ہیں کہ اس شعر سے وہ اور دوسرے مسلمان مراد ہیں.پس جو شخص خود با صرار ہزار، دریدہ دہن بد زبان عیسائی پادریوں کی صف میں کھڑا ہو کر شاتم رسول، شمن اسلام اور اسلام کے باغ کو اجاڑنے والا بنا چاہتا ہو اسے کون روک سکتا ہے.ہم اس سے صرف یہ درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ شرفاء اور عامتہ المسلمین کو اس کا مصداق نہ بنائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موقف فرمایا: وانا امرنا ان نتم الحجة بالرفق والحلم والتوء دة ولا ندفع السيئة بالسيئة الا اذا كثر سب رسول الله وبلغ الامر الى القذف وكمال الاهانة ـ فلا نسب احداً من النصارى - ولا نتصدى لهم بالشتم والقدف وهتك الاعراض وانّما نقصد شطر الذين سبّوا نبينا الله وبـالـغـوا فـيـه بالتصريح او الايماض ونكرم قسوساً لا يسبون ولا يقذفون رسولنا كالاراذل والحامة ونعظم القلوب النزهة عن هذه العذرة - ونذكرهم بالاكرام والتكرمة فليس في بيان منا حرف ولا نقطة يكسر شان هذه السادات وانّما نردّ سبّ السابين على وجوههم جزاءً للمفتريات.“
442 ترجمہ: اور ہمیں حکم ہے کہ ہم نرمی اور حلم کے ساتھ محبت پوری کریں اور بدی کے عوض میں بدی نہ کریں.مگر اس صورت میں جب کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینے اور اہانت کرنے اور مخش گوئی میں حد سے بڑھ جائے.پس ہم عیسائیوں کو گالی نہیں دیتے.اور دشنام اور منش گوئی اور ہتک عزت سے پیش نہیں آتے اور ہم صرف ان لوگوں کی طرف توجہ کرتے ہیں جو ہمارے نبی کو بصراحت یا اشارات سے گالیاں دیتے ہیں.اور ہم ان پادری صاحبوں کی عزت کرتے ہیں جو ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں نہیں دیتے اور ایسے دلوں کو جو اس پلیدی سے پاک ہیں ہم قابل تعظیم سمجھتے ہیں اور تعظیم و تکریم کے ساتھ ان کا نام لیتے ہیں اور ہمارے کسی بیان میں کوئی ایسا حرف اور نقطہ نہیں ہے جو ان بزرگوں کی کسرشان کرتا ہو اور صرف ہم گالی دینے والوں کی گالی ان کے منہ کی طرف واپس کرتے ہیں تا ان نجم الہدی.روحانی خزائن جلد ۴۱ صفحہ ۹۷ کے افترا کی پاداش ہو.،۷۸ بقیہ حاشیہ) یہ عبارت بھی روزِ روشن کی طرح ظاہر کرتی ہے کہ اس کتاب میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ناموس کی حفاظت اور اس کے لئے غیرت میں اٹھے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت قلم کا نشانہ صرف مخش گو، دریدہ دہن پادری تھے نہ کہ سارے پادری یا سارے عیسائی چہ جائیکہ مسلمان عوام اس کا مصداق ہو سکتے.پس راشد علی اور اس کا پیر حفیظ صرف جھوٹ اور افتراء کی غلاظت پر منہ مارتے ہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے فحش گو عیسائیوں کے ہمنوا بھی بنے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کے مسلمان مصداق ہی نہیں ہیں حتی کہ سارے عیسائی بھی مراد نہیں ہیں بلکہ "العداء میں صرف دشمن عیسائیوں کا ذکر ہے.سب منکرین کا قطعا ذ کر نہیں ہے.چنانچہ اس کی مثال سورہ المائدہ کی آیت: 61 میں بڑی واضح طور پر ملتی ہے.اس جگہ بھی سارے اہلِ کتاب مراد نہیں بلکہ بعض اہل کتاب کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَجَعَلَ مِنْهُمُ القِرَدَةَ وَالخَنَازِير کہ وہ اپنے کردار کے اعتبار سے بندر اور خنزیر ہو گئے اسی طرح دشمن پادری خنزیروں کی طرح اسلام اور بانی اسلام ﷺ پر گندے حملے کرتے ہیں اور نساء هم “ یعنی ان کی (پادری) عورتیں کشتیوں کی طرح اسلام اور بانی اسلام کے خلاف زبان درازی کرتی ہیں.66
441 کسوف و خسوف مہدی معہود کی صداقت کا نا قابل رو آفاقی نشان
442 (1) دعوی مهدویت و مسیحیت را شد علی اور اس کے پیر نے مرزا صاحب کا اضطراب“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے.مرزا صاحب اگر چه دعوئی مہدویت تو کر بیٹھے تھے مگر ان کے لئے یہ خیال بڑا سوہان روح تھا کہ حضور ﷺ کی بیان کردہ معیار امام مہدی کی تو ان کو ہوا تک نہیں لگی ہے.کہ کبھی تو ان احادیث کا ہی انکار کر دیتے یا پھر کبھی فرماتے :.”میرا یہ دعوی نہیں ہے کہ میں وہ مہدی ہوں جو مصداق من ولد فاطمة ومن عترتی وغیرہ ہے.“ مگر پھر کھل کر یہ اقرار کر لیا کہ:.(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحه 256) ہمیں اس بات کا اقرار ہے کہ پہلے بھی کئی مہدی آئے ہوں اور ممکن ہے کہ آئندہ بھی آویں اور ممکن ہے کہ امام محمد کے نام پر بھی کوئی مہدی ظاہر ہو.“ (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 379) اسی سے ملتا جلتا مسیح موعود کے بارے میں مرزا صاحب کے اقرار کا تذکرہ قارئین کے لئے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا.ممکن ہے کہ مستقبل میں کوئی مسیح نہ آئے.ممکن ہے دس ہزار اور مسیح آجائیں اور ان میں سے ایک دمشق میں نازل ہو جائے.ممکن ہے اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانے میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے ظاہری الفاظ (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 197) صادق آسکیں..لیجئے صاحب! مسئلہ ہی حل ہو گیا.مرزا صاحب کے ذہن کے کسی نہ کسی تاریک گوشہ میں یہ حقیقت محفوظ تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ رہیں گے جھوٹے کے جھوٹے مدعی کے مدعی مدعی مسیحیت / مدعی مہدویت مدعی نبوت !!! ( بے لگام کتاب) را شد علی اور اس کے پیر نے اپنے مذکورہ بالا بیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین اقتباس پیش کئے ہیں ان تینوں اقتباسات کے سیاق و سباق کو چھپا کر حق کو چھپانے کی کوشش کی ہے.لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کے دجل اور ان کی بدیانتی کا ثبوت یہ ہے کہ تیسرا اقتباس جو انہوں نے روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 197 سے پیش کیا ہے اس کی پہلی دوسطریں یعنی ممکن ہے کہ مستقبل میں کوئی مسیح نہ آئے.ممکن ہے
443 دس ہزار اور مسیح آجائیں اور ان میں سے ایک دمشق میں نازل ہو جائے.“ یہ نہ صفحہ 197 پر موجود ہیں نہ اس سے پہلے.انہوں نے از خود یہاں ان دو سطروں کا الحاق کیا ہے.اس سے پتہ چلتا ہے کہ راشد علی اور اس کا پیر نہ صرف جھوٹے ہیں بلکہ فریب دہی میں بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں اور اپنے عقیدہ کے مطابق احیائے حق کے لئے کذب صریح نہیں بولتے بلکہ ایک قدم آگے نکل کر حق چھپانے کے لئے کذب صریح کا ارتکاب کرتے ہیں.بہر حال قارئین کی تسلی کے لئے اصل اقتباسات پیش ہیں جو اصل مسئلہ کی تفصیل بھی بیان کرتے ہیں اور راشد علی اور اس کے پیر کے جھوٹ اور ان کی بدیانتی کی قلعی بھی خوب کھولتے ہیں.چنانچہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 197 کا پورا اقتباس ملاحظہ ہو.” میں نے صرف مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے اور میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ صرف مثیل ہونا میرے پر ہی ختم ہو گیا ہے بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار بھی مثیل مسیح آ جائیں.ہاں اس زمانہ کے لئے میں مثیل مسیح ہوں اور دوسرے کی انتظار بے سود ہے اور یہ بھی ظاہر رہے کہ یہ کچھ میرا ہی خیال نہیں کہ مثیل مسیح بہت ہو سکتے ہیں بلکہ احادیث نبویہ کا بھی یہی منشاء پایا جاتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا کے اخیر تک قریب تمہیں کے دجال پیدا ہوں گے.اب ظاہر ہے کہ جب تمیں دجال کا آنا ضروری ہے تو بحکم لکل دجال عیسی تمیں مسیح بھی آنے چاہئیں.پس اس بیان کی رو سے ممکن اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا ، درویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 197) ملاحظہ فرمائیں کہ خط کشیدہ الفاظ کے ساتھ وہ عبارت نہیں ہے جو انہوں نے از خود الحاق کی ہے.جہاں تک پہلے دو اقتباسات کا تعلق ہے وہ بھی سیاق وسباق کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں تا کہ ان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مدعا بھی خوب روشن ہو جائے اور راشد علی اور اس کے پیر کی بدیانتی بھی.(1) براہین احمدیہ، حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے
ہیں: 444 ” میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں وہ مہدی ہوں جو مصداق من ولد فاطمة ومن عترتي وغيره ہے بلکہ میرا دعوئی تو مسیح موعود ہونے کا ہے اور مسیح موعود کے لئے کسی محدث کا قول نہیں کہ وہ بنی فاطمہ وغیرہ میں سے ہوگا.ہاں ساتھ اس کے جیسا کہ تمام محد ثین کہتے ہیں میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح اور مخدوش ہیں اور ایک بھی ان میں سے صحیح نہیں اور جس قدر افتراءان حدیثوں میں ہوا ہے کسی اور حدیث میں ایسا افترا نہیں ہوا.خلفاء عباسی وغیرہ کے عہد میں خلیفوں کو اس بات کا بہت شوق تھا کہ اپنے تئیں مہدی موعود قرار دیں پس اس وجہ سے بعض حدیثوں میں مہدی کو بنی عباس میں سے قرار دیا اور بعض حدیثوں میں یہ بھی ہے کہ رجل من امتی کہ وہ ایک آدمی میری امت میں سے ہو گا مگر دراصل یہ تمام حدیثیں کسی اعتبار کے لائق نہیں.یہ صرف میرا ہی قول نہیں بلکہ بڑے بڑے علماء اہل سنت یہی کہتے چلے آئے ہیں اور ان حدیثوں کے مقابل پر یہ حدیث بہت صحیح ہے جو ابن ماجہ نے لکھی ہے.اور وہ یہ ہے لا مهدی الا عیسی یعنی کوئی مہدی نہیں صرف عیسی ہی مہدی ہے جو آنے والا ہے.“ اور روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 397 والا مکمل اقتباس حسب ذیل ہے.’ ایسا ہی مہدی کے بارہ میں جو بیان کیا جاتا ہے کہ ضرور ہے کہ پہلے امام محد مہدی آویں اور بعد اس کے ظہور مسیح ابن مریم کا ہو.یہ خیال قلتِ تدبر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اگر مہدی کا آنا مسیح ابن مریم کے زمانہ کے لئے ایک لازم غیر منفک ہوتا اور مسیح کے سلسلہ ظہور میں داخل ہوتا تو دو بزرگ شیخ اور امام حدیث کے یعنی حضرت محمد اسمعیل صاحب صحیح بخاری اور حضرت امام مسلم صاحب صحیح مسلم اپنے بھیجوں سے اس واقعہ کو خارج نہ رکھتے.لیکن جس حالت میں انہوں نے اس زمانہ کا تمام نقشہ کھینچ کر آگے رکھ دیا اور حصر کے طور پر دعوی کر کے بتلا دیا کہ فلاں فلاں امر کا اس وقت ظہور ہو گا.لیکن امام محمد مہدی کا نام تک بھی تو نہیں لیا.پس اس سے سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح اور کامل تحقیقات کی رو سے ان حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھا جو مسیح کے آنے کے ساتھ مہدی کا آنالازم غیر منفک ٹھہرا رہی ہیں اور دراصل یہ خیال بالکل فضول اور مہمل معلوم ہوتا ہے کہ باوجود یکہ ایک ایسی شان کا آدمی ہو کہ جس کو باعتبار باطنی رنگ اور خاصیت اس کی کے مسیح ابن مریم کہنا چاہئے دنیا میں ظہور کرے اور پھر اس کے ساتھ کسی دوسرے مہدی کا آنا بھی ضروری ہو.کیا وہ خود مہدی
445 ہے؟ کیا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پا کر نہیں آیا؟ کیا اس کے پاس اس قدر جواہرات وخزائن واموال معارف و دقائق نہیں ہیں کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں اور اس قدر ان کا دامن بھر جائے جو قبول کرنے کی جگہ نہ رہے پس اگر یہ سچ ہے تو اس وقت دوسرے مہدی کی ضرورت ہی کیا ہے اور یہ صرف امامین موصوفین کا ہی مذہب نہیں.بلکہ ابن ماجہ اور حاکم نے بھی اپنی صحیح میں لکھا ہے لا مهدی الأ عیسی یعنی بجز عیسی کے اس وقت کوئی مہدی نہ ہوگا اور یوں تو ہمیں اس بات کا اقرار ہے کہ پہلے بھی کئی مہدی آئے ہوں اور ممکن ہے کہ آئندہ بھی آویں اور ممکن ہے کہ امام محمد کے نام پر بھی کوئی مہدی ظاہر ہو.لیکن (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 378، 379) جس طرز سے عوام کے خیال میں ہے اس کا ثبوت پایا نہیں جاتا.چنانچہ یہ صرف ہماری ہی رائے نہیں اکثر محقق یہی رائے کرتے آئے ہیں.“ ان تینوں عبارتوں سے خوب واضح ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس تفصیل کے ساتھ اور واضح دلائل کے ساتھ مسیح و مہدی کے بارہ میں بیان فرمایا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھ سکتا اور نہ ہی کوئی اشکال اس مضمون کے بارہ میں باقی رہتا ہے اور نہ ہی اس بات کا ذرہ بھر احتمال نظر آتا ہے جوراشد علی اور اس کا پیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کر رہے ہیں.ہے.البتہ مذکورہ بالا اقتباسات سے جو حقائق کھل کر سامنے آتے ہیں، یہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امام مہدی کی آمد سے قطعاً انکار نہیں کیا بلکہ اس کا آنالازمی قرار دیا یہ عقیدہ عوام کا ہے جو قلت تدبر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ پہلے امام محمد مہدی آویں اور ان کے بعد مسیح کا ظہور ہو.یہ عقیدہ نہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے، نہ حضرت امام بخاری اور حضرت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہما کا اور نہ ہی اکثر محققین کا.مسیح موعود کے زمانہ میں مہدی معہود کے الگ وجود کے بارہ میں جس قدر حدیثیں ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک بھی مجروح اور مخدوش ہیں اور تمام محدثین کے نزدیک بھی.اسی طرح بڑے بڑے علماء اہل سنت کے نزدیک بھی.۴.ان حدیثوں کے مقابل پر ابن ماجہ میں مذکور حدیث لا مهدى الأ عيسى بہت صحیح ہے.یعنی
446 جو مسیح موعود اس امت میں آنے والا ہے وہی مہدی بھی ہے.مہدی ہیں..آ سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ اس زمانہ کے لئے مثیل مسیح یعنی مسیح موعود کا ہے اور آپ ہی ممکن ہے آئندہ کسی زمانہ میں اور بھی ایسا مسیح آ جائے جس پر احادیث کے ظاہری الفاظ صادق اگر یہ امور قابل اعتراض ہیں تو پیر و مرید کو چاہئے تھا کہ وہ ان کا رد کرتے ہوئے اپنے مدعا کے حق میں کچھ تو دلائل دیتے تا قارئین ان احمقانہ تعلیوں کو بھی ملاحظہ کر لیتے.لیکن اس سے قطع نظر جو یکطرفہ نتیجہ انہوں نے نکالا ہے وہ انتہائی احمقانہ ہے کہ وو لیجئے صاحب! مسئلہ ہی حل ہو گیا.مرزا صاحب کے ذہن کے کسی نہ کسی تاریک گوشہ میں یہ حقیقت محفوظ تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ رہیں گے جھوٹے کے جھوٹے مدعی کے مدعی.مدعی مسیحیت / مدعی مهدویت مدعی نبوت !!! “ انتہائی بدیانتی کے ساتھ ادھوری عبارتیں پیش کرنے سے اور اقتباسات میں تحریف سے اور خود ساختہ عبارتوں کے الحاق سے، حضرت مرزا صاحب پر الزام کا اقدام ہی جھوٹا ہے.اور ان کی یہود یا نہ بدیانتی اور تحریف کا منہ بولتا ثبوت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک امام مہدی کا آنا اسی طرح برحق تھا جس طرح سورج کا طلوع ہونا.آپ کو اس سچائی پر بھی یقین کامل تھا کہ اس امام مہدی کا ظہور آپ ہی کی ذات مبارک کی صورت میں ہوا ہے.جس کو خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے چاند اور سورج کے رمضان المبارک میں مقررہ تاریخوں میں گرہن کے ذریعہ اور نیز ہزاروں نشانوں کے ساتھ سچا ثابت کر دکھایا تھا.اس ثابت شدہ سچائی پر راشد علی اور اس کے پیر کا جھوٹا اعتراض خود انہیں کا منہ کالا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا اور اپنی جماعت کا عقیدہ مہدی کی نسبت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: جیسا کہ حدیث لا مهدى الا عيسى جوابن ماجہ کی کتاب میں جو اسی نام سے مشہور ہے اور
447 حاکم کی کتاب مستدرک میں انس بن مالک سے روایت کی گئی ہے اور یہ روایت محمد بن خالد جندی نے ابان بن صالح اور ابان بن صالح نے حسن بصری سے اور حسن بصری نے انس بن مالک سے اور انس بن مالک نے جناب رسول اللہ لہ سے کی ہے اور اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ بجز اس شخص کے جو عیسی کی خواور طبیعت پر آئے گا اور کوئی بھی مہدی نہیں آئے گا.یعنی وہی مسیح موعود ہوگا اور وہی مہدی ہو گا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خواور طبیعت اور تعلیم پر آئے گا.“ (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 431) (2) کسوف و خسوف، مهدینا اور چودھویں صدی راشد علی اور اس کے پیر سید عبدالحفیظ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حسب ذیل تحریر میں اپنی بے لگام کتاب میں پیش کی ہیں.” میرے پاس خاص خدا کی طرف سے گواہی ہے....مہدی معہود کے لئے قرآن شریف اور حدیث دار قطنی میں بطور نشان مندرج تھا (خسوف و کسوف ) (روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 50) دار قطنی کی ایک حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مہدی معہود چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوگا.وہ حدیث یہ ہے کہ ان لمهدينا ايتين الخہ ترجمہ تمام حدیث کا یہ ہے کہ ہمارے مہدی کے لئے دونشان ہیں جب سے زمین و آسمان کی بنیاد ڈالی گئی وہ نشان کسی معمور اور مرسل اور نبی کے لئے ظہور میں نہیں آئے ، اور وہ نشان یہ ہیں کہ چاند کا اپنی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات میں اور سورج کا اپنے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دن میں رمضان کے مہینہ میں گرہن ہو گا..اس حدیث سے صاف طور پر چودھویں صدی متعین ہوتی ہے.(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 331) یہ کبھی نہیں ہوا اور ہرگز نہیں ہوا کہ بجز ہمارے زمانے کی دنیا کی ابتدا سے آج تک کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینے میں ایسے طور پر اکٹھے ہو گئے ہوں کہ اس وقت کوئی مدعی رسالت یا نبوت یا محدثیت بھی موجود ہو.“ (روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 50) وو ان تحریروں سے انہوں نے تین نتائج نکالتے ہوئے لکھا ہے.
448 گویا مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کے قول کے مطابق قرآن وحدیث پاک کی روشنی میں :.مرز اصاحب ہی وہ مہدی معہود ہیں جن کے لئے اجتماع خسوف و کسوف ہونے کی پیشنگوئی تھی.۲.بتدائے آفرنیش سے لیکر آج تک رمضان میں خسوف و کسوف کا ایسا اجتماع کبھی نہیں ہوا جس میں کوئی مدعی بھی موجود ہو.چودھویں صدی میں امام مہدی کی آمد متوقع تھی.“ ٣.مؤخر الذکر عبارت جو روحانی خزائن جلد 9 کے صفحہ 50 سے لی گئی ہے اس کو اس کے سیاق سے الگ کر کے پیش کیا گیا ہے چنانچہ اس سے پہلے تفصیلی عبارت جو اس حدیث کے اعجازی پہلوؤں کو اور اس پیشگوئی کی آفاقی صداقت کو نمایاں کرتی ہے، حسب ذیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دوسرا نشان مہدی موعود کا یہ ہے کہ اس کے وقت میں ماہ رمضان میں خسوف کسوف ہوگا اور پہلے اس سے جیسا کہ منطوق حدیث صاف بتلا رہا ہے کبھی کسی رسول یا نبی یا محدث کے وقت میں خسوف کسوف کا اجتماع رمضان میں نہیں ہوا.اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے کسی مدعی رسالت یا نبوت یا محد ثیت کے وقت میں کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن اکٹھے نہیں ہوئے.اور اگر کوئی کہے کہ اکٹھے ہوئے ہیں تو بار ثبوت اس کے ذمہ ہے مگر حدیث کا مفہوم یہ نہیں کہ مہدی کے ظہور سے پہلے چاند گرہن اور سورج گرہن ماہ رمضان میں ہوگا.کیونکہ اس صورت میں تو ممکنات میں سے تھا کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کو ماہ رمضان میں دیکھ کر ہر یک مفتری مہدی موعود ہونے کا دعوی کرے اور امر مشتبہ ہو جائے کیونکہ بعد میں مدعی ہونا سہل ہے اور جب بعد میں کئی مدعی ظاہر ہو گئے تو صاف طور پر کوئی مصداق نہ رہا.بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مہدی موعود کے دعویٰ کے بعد بلکہ ایک مدت گزرنے کے بعد یہ نشان تائید دعوی کے طور پر ظاہر ہو جیسا کہ ان لـمـهـديـنـا ایتین ای لتائيد دعوای مهدینا ایتین صاف دلالت کر رہی ہے اور اس طور سے کسی مفتری کی پیش رفت نہیں جاتی اور کوئی منصوبہ چل نہیں سکتا کیونکہ مہدی کا ظہور بہت پہلے ہو کر پھر موید دعوے کے طور پر سورج گرہن بھی ہو گیا.نہ یہ کہ ان دونوں کو دیکھ کر مہدی نے سر نکالا اس قسم کے تائیدی نشان ہمارے سید نبی ے کے لئے بھی پہلی کتابوں میں لکھے گئے تھے جو آنحضرت ﷺ کی نبوت کے بعد ظہور میں آئے اور دعوی کے مصدق اور مؤید ہوئے.غرض ایسے نشان قبل از دعوی مہمل اور بے کار ہوتے ہیں کیونکہ ان میں گنجائش افترا بہت ہے.اور اس پر اور بھی قرینہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خسوف اور کسوف اور مہدی کا رمضان
449 کے مہینے میں موجود ہونا خارق عادت ہے اور صرف اجتماع خسوف کسوف خارق عادت نہیں.“ (انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 48 ،49) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ بالا عبارتیں پیش کر کے پیر ومرید کی اس جوڑی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی دلیل ہی کو لوگوں کے سامنے پیش کر کے اپنے جھوٹا ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے کیونکہ i اس نشان کے مصداق صرف اور صرف حضرت مسیح موعود اور و مہدی معہود ہیں جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے آج تک صرف اور صرف حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی وہ مسیح موعود و مہدی معہود ہیں جن کے لئے دار قطنیکی حدیث میں مذکور خسوف و کسوف کی پیشگوئی تھی اور انہیں کے لئے یہ نشان ظاہر ہوئے.۲.را شد علی اور اس کا پیر ایک بھی ایسا مدعی پیش نہیں کر سکے اور نہ کر سکتے ہیں جو موجود ہو یعنی اس نے دعوائے مہدویت کیا ہوا ہو اور اس کے دعوے کے بعد خدا تعالیٰ نے اس کے دعوے کی تائید کے لئے اس حدیث کے مطابق خسوف و کسوف کے نشان ظاہر کئے ہوں.پھر ایسے مدعی نے ان نشانوں کو اپنے دعوے کی صداقت کے لئے پیش کیا ہو.اور اس نشان سے فائدہ اٹھایا ہو.جیسا کہ لمھدینا سے ظاہر ہے.ii آج تک رمضان میں کسوف و خسوف کا ایسا اجتماع نہیں ہوا....را شد علی اور اس کے پیر نے اسی ” بے لگام کتاب میں آگے جا کر ماضی کے چند مدعیان نبوت / مہدویت مسیحیت“ کے عنوان کے تحت حسب ذیل فہرست پیش کر کے اپنے جھوٹ پر مزید مہر تصدیق ثبت کی ہے.وہ لکھتے ہیں: آئیے اب دیکھتے ہیں کہ کیا ایسا اجتماع جیسا کہ مرزا صاحب کے دور میں ہوا، کسی اور مدعی نبوت / مہدویت / محدثیت کے دور میں بھی ہوا ہے؟ جب یہ ثابت ہو گیا اور جیسا کہ اسٹرا نامی (Astronomy) کی بے شمار کتب شاہد ہیں کہ رمضان میں خسوف وکسوف کا اجتماع 1صہ ء سے ہر 22 سال بعد پابندی سے ہوتا آیا ہے.ان 1300 سالوں میں لاتعداد مدعیان نبوت اور
450 مہدویت و مسیحیت گذرے ہیں.نمونے کے طور پر چند حوالے پیش خدمت ہیں.مرزا صاحب کی ہی کی حیات میں مندرجہ ذیل مدعیان مسیحیت و مہدویت موجود تھے..وکسوف ہوا..امریکہ میں الیگزینڈر ڈوئی.سوڈان میں مہدی سوڈانی.ایران میں مرزا علی باب نے 1260ھ میں مہدی کا دعوی کیا.اس کے دور میں 1851ء میں اجتماع خسوف مرزا علی باب کے جانشین صبح ازل اور بہاء اللہ ( 1250 - 1270ء ) دونوں مہدویت کے دعویدار ہوئے.صالح بن طریف برغواطی نے 125ھ میں مہدی موعود اور نبوت کا دعویٰ کیا اور 47 سال تک دعوائے نبوت کے ساتھ اپنی قوم کا حاکم رہ کر 174ھ میں تخت و تاج اپنے بیٹے کو سونپ گیا.اس کے دور میں بھی رمضان میں خسوف وکسوف کا الاستقصاء لا خباء دول المغرب الاقصیٰ مطبوعہ جلد اول صفحہ 15 منقول ائمہ تلبیس ج 1 صفحه 192) اجتماع ہوا.ابو منصور عیسی نے 341 ھ میں دعویٰ مہدویت و نبوت کیا اور 369ھ (اگلے 28 سال) تک اپنی قوم پر حکمرانی کرتا رہا.اس کے زمانے میں بھی انہی تاریخوں میں گہنوں کا اجتماع ہوا.ابو غفير محمد بن معاذ 268 ھ میں دعویٰ کیا اور 297ھ ( 29 سال) تک اپنی قوم پر حکمرانی کرتارہا.صرف چند مثالوں پر اکتفا کیا گیا ہے.وگرنہ فہرست بہت لمبی ہے.(آئمہ تلبیس جلد ا صفحه 194) مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح ان تمام مدعیان مہدویت و نبوت کے زمانے میں رمضان کے مہینے میں خسوف وکسوف کا اجتماع ہوتا رہا.مرزا صاحب کے اپنے فتوی کے مطابق وہ جھوٹے ثابت ہو گئے کہ:.یہ نشان کسی دوسرے مدعی کو نہیں دیا گیا خواہ صادق ہو یا کاذب...اگر اس قسم کا خسوف و کسوف کسی اور مدعی کے زمانے میں پیش کر سکتے ہیں تو کریں اس سے بے شک میں جھوٹا ہو جاؤں گا.“ (روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 232) اوّل تو راشد علی اور اس کا پیر اس حد تک کور باطن ہیں کہ ایک سادہ سی عبارت بھی ان کے فہم سے بالا ہے تو ان سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ اس حدیث کے عرفان کو پہنچ سکیں گے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کو اگر جھوٹا ثابت کرنا چاہتے تھے تو کسی ایسے صادق یا کاذب مدعی کا نام تو بتاتے جس کو آنحضرت ﷺ نے اپنے بچے مہدی معہود کے علاوہ بھی یہ نشان کسوف و خسوف دیا تھا.آنحضرت
451 نے صرف اور صرف ”مهدینا “ یعنی اپنے ہی مہدی کو یہ نشان دیئے ہیں کسی اور کو نہیں دیئے خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا.چونکہ راشد علی اور اس کا پیر بہر حال جھوٹے ہیں اس لئے سادہ اور صاف عبارتیں بھی ان کی عقلوں پر پردے ڈال دیتی ہیں.فهم لا يعقلون.چند مدعیان کی جو فہرست انہوں نے پیش کی ہے اس میں ایک مدعی بھی ایسا نہیں جس کے لئے یا جس کے دعوے کی تائید کے لئے حدیث نبوی میں مذکور تفصیلات کے مطابق یہ نشان ظاہر ہوئے ہوں.یہی تو اس حدیث نبوی کا اعجاز ہے اور اس کی صداقت کی دلیل ہے کہ وہ ہر جھوٹے مدعی کو بھی رڈ کرتی ہے اور ان جھوٹوں کو پیش کرنے والے جھوٹوں کا بھی خوب پول کھولتی ہے.وہ مدعیان جن پر ان جھوٹے پیر ومرید نے اکتفا کیا ہے اور ان کے علاوہ دیگر بھی جن کو یہ پیش نہیں کر سکے ان سب میں کسی کے وقت میں یا تو کسوف و خسوف کی تاریخیں حدیث میں مذکور تاریخوں سے مختلف تھیں یا کسی نے دعوئی ہی کسوف و خسوف کے ظہور کے بعد کیا اور کئی ایک ایسے تھے کہ انہیں اس پیشگوئی کا علم تک نہ تھا.لہذا انہیں اسے بطور نشان اپنے لئے پیش کرنے کی توفیق ہی نہ ملی اور وہ حدیث میں مذکور دل افادہ سے استفادہ نہ کر سکے کیونکہ در حقیقت وہ ”مهدینا“ کے مطابق آنحضرت ﷺ کے مہدی نہ تھے.پس یہ پیشگوئی اور اس میں مذکور نشانات محض اور محض بچے مدعی مہدویت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے لئے ہی تھے اور آپ کے علاوہ اور کسی کے لئے نہیں تھے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں : ہمیں اس بات سے بحث نہیں کہ ان تاریخوں میں کسوف و خسوف رمضان کے مہینہ میں ابتداء دنیا سے آج تک کتنی مرتبہ واقع ہوا ہے.ہمارامد عا صرف اس قدر ہے کہ جب سے نسل انسان دنیا میں آئی ہے ، نشان کے طور پر یہ کسوف و خسوف میرے زمانہ میں میرے لئے واقع ہوا ہے اور مجھ سے پہلے کسی کو یہ اتفاق نصیب نہیں ہوا کہ ایک طرف تو اس نے مہدی موعود ہونے کا دعوی کیا ہو اور دوسری طرف اس کے دعوئی کے بعد رمضان کے مہینہ میں مقرر کردہ تاریخوں میں خسوف وکسوف بھی واقع ہو گیا ہو اور اس نے اس کسوف و خسوف کو اپنے لئے ایک نشان ٹھہرایا ہو...غرض صرف کسوف و خسوف خواہ ہزاروں مرتبہ ہوا اس سے بحث نہیں.نشان کے طور پر ایک مدعی کے وقت صرف ایک دفعہ ہوا ہے اور حدیث نے ایک مدعی مہدویت کے وقت میں اپنے مضمون کا وقوع ظاہر کر کے اپنی صحت اور سچائی کو ثابت کر
452 دیا.66 چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 229 230 ) پس صادق و مصدوق حضرت محمد مصطفی ﷺ کی یہ ایسی محکم پیشگوئی ہے جس کو جھٹلانے کے لئے کسی ماں کے لال میں طاقت نہیں.اگر یہ پیر ومرید رسول اللہ علیہ کے مہدی سے بغض رکھتے ہیں تو یہی ان کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے.iii چودہویں صدی میں امام مہدی کی آمد راشد علی اور اس کے پیر نے لکھا ہے کہ میں تمام قادیانیوں کو چیلنج کرتا ہوں وہ حدیث کی کسی کتاب میں حضور ﷺ کی کوئی ایسی حدیث دکھاویں کہ جس میں چودھویں صدی کا ذکر ہو.یہ سرکار دو عالم ﷺ پر مرزا صاحب اور جماعت احمدیہ کا بدترین بہتان وافتراء ہے.( بے لگام کتاب ) جناب راشد علی اور پیر عبد الحفیظ صاحب ! تمہارے چیلنج کی حیثیت ہی کیا ہے تم تو وہ بد نصیب لوگ ہو جو خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کو ٹھکرا کر یضل بہ کثیراً کے زمرہ میں داخل ہو.پہلے مامورین من اللہ کو تم جیسے چیلنج دینے والے لوگوں نے خدائی نشانوں سے کونسا فائدہ اٹھایا تھا جو آج تم اٹھاؤ گے ؟ مہدی معہود کی چودھویں صدی میں آمد کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے بعد عین چودھویں صدی میں اس کو بھیجا ہے اور اس کی سچائی کے ثبوت کے لئے اس نے اپنی فعلی شہادت کے طور پر وہ نشان بھی ظاہر فرمائے جن سے تم آنکھیں تو بند کر سکتے ہو، انہیں جھٹلا نہیں سکتے.جہاں تک چودھویں صدی میں مہدی ومسیح کی آمد کا تعلق ہے تم اس کی دلیل ہم سے کیا مانگتے ہو.ہم تو خدائی اشاروں کو قبول کرنے والے ہیں.ہمیں تو چودھویں صدی کے ثبوت ہر جگہ چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں.ہاں اس کی دلیل چاہتے ہو تو ان لوگوں سے پوچھو اور انہیں سے دلیل مانگو، جن کا ذکر ہم ذیل میں کر رہے ہیں.انہیں چیلنج بھی کرو کہ انہوں نے چودھویں صدی کا تعین کس طرح کر لیا.چنانچہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: قال رسول الله صلى الله عليه وسلّم الآيات بعد المئتين - (ابن ماجہ.کتاب الفتن باب اشراط الساعة - المشکوۃ کتاب الفتن باب اشراط الساعه )
453 ترجمہ :.حضرت رسول اللہ اللہ نے فرمایا کہ دوسوسال کے بعد نشانات کا ظہور ہوگا.اس حدیث کی تشریح میں مشہور حنفی امام شارح مشکوۃ ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ويحتمل ان يكون اللام فى المئتين للعهد اى بعد المئتين بعد الالف وهو وقت (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابح - جلد 5 صفحہ 185 مکتبہ میمنیہ مصر ) ظهور المهدی.“ کہ المئتين‘ میں جو الف لام ہے وہ یہ معنے دیتا ہے کہ ایک ہزار کے دوسوسال بعد عظیم نشان ظاہر ہوں گے اور وہ مہدی کے ظہور کا بھی وقت ہے.پس پوچھیں حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ سے کہ انہوں نے بارھویں صدی کے بعد ظہور امام مہدی کا ثبوت کس طرح اس حدیث سے پیش کیا اور پھر پوچھیں اہلحدیث کے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالوی سے کہ انہوں نے اپنی کتاب بنج الکرامہ میں یہ کیوں لکھا کہ وو مراد بائیں دوصد سال از الف ہجرت بود ، چنانچه بعض از اہل علم تاویل ظهورا لآيات بعد حج الکرامہ فی آثار القیامہ.صفحہ 393 مطبع شاہجہانی بھوپال) المائتین ہم چنیں کردہ انڈ“ کہ دوسوسال ہجرت کے ایک ہزار سال بعد مراد ہے جیسا کہ بعض اہل علم نے اس کی یہی تشریح کی ہے.پھر مشہور صاحب کشف بزرگ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی (المتوفی 560 ھ ) سے سوال کریں کہ انہوں نے یہ زمانہ کس حدیث سے متعین کیا کہ وو دو هزار و دوصد هشتاد ہشت آں شاہ دیں مهدی آخر زماں اندر جہاں پیدا شود کہ شاہ دیں مہدی آخر زمان 1288ء میں ظاہر ہوں گے اور یہ کہ گے.وغین ورے سال چون گذشت از سال بو العجب کاروبار می بینم کہ جب غ اور ریعنی اعداد 1200 گذر جائیں گے تو میں دیکھتا ہوں کہ عجیب نشان ظاہر ہوں ( تاریخ بلوچستان.مطبوعہ 1907 ء مصنفہ رائے بہادر تورام صاحب) اور پوچھیں حضرت امام ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ سے کہ انہوں نے کس حدیث سے استنباط کر کے
454 ظہور امام مہدی کے ظہور کا وقت 1335ھ مقرر فرمایا.چنانچہ خواجہ حسن نظامی خواہر زادہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمتہ اللہ نے لکھا ہے کہ " حضرت امام ابن عربی نے 1335 ھ میں ظہور مہدی کی خبر دی ہے.“ (کتاب الا مریعنی امام مہدی کے انصار اور ان کے فرائض.صفحہ 39 مطبوعہ روز باز ارسٹیم پریس امرتسر ) خواجہ حسن نظامی دبیر نظام المشائخ سے یہ بھی پوچھیں کہ انہوں نے قرآن کریم سے کیونکر ثابت کیا کہ امام مہدی 1340 ھ میں ظاہر ہوں گے اور لکھا کہ دو الم کے میم میں اس نائب رسول مہدی کے ظہور کی خبر ہے یعنی وہ 1340ھ میں ظاہر ہوگا.“ (حوالہ کتاب مذکورہ بالا صفحہ 54) راشد علی اور پیر عبدالحفیظ صاحب! آپ نے چیلنج کرنا ہے تو ان لوگوں کو کریں جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے اور ان کے علاوہ بھی امت کے بہت سے مسلمہ بزرگ ہیں جنہوں نے امام مہدی کے ظہور کا زمانہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی روشنی میں تیرھویں اور چودھویں کا متعین کیا ہے.اس سے کوئی بھی آگے نہیں گیا.پس ان کو چیلنج کریں اور پھر خدا تعالیٰ کو چیلنج کریں کہ اس نے امت کی راہنمائی کے لئے ان بزرگوں کو کیوں ایسی تفہیمات کیں.خاص طور پر حجۃ الاسلام قطب الدین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مجد دبارھویں صدی کو چیلنج کریں کہ وہ فرماتے ہیں: 66 علمنى ربّي جلّ جلالة انّ القيامة قد اقتربت والمهدى تهيا للخروج.“ ( ا تفہیمات الالہیہ - صفحہ 133 مطبوعہ 1936 ء مدینہ برقی پریس بجنور) کہ مجھے میرے رب جل جلالہ نے بتایا ہے کہ قیامت قریب آچکی ہے اور مہدی ظاہر ہوا ہی چاہتا ہے.اسی طرح نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب حج الکرامہ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا کشف تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے: گویند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تاریخ ظہور او در لفظ ” چراغ دین یافته و بحساب جمل عدد وی یکهزار و دوصد و شصت و هشت میشود 66 کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اس (امام مہدی کا ظہور ” چراغ دین کے
455 لفظ پر ہے جس کے اعداد 1268 بنتے ہیں.اور آخر میں کتاب " النجم الثاقب اهتد ا لمن يدعی الدین الواصب“ جو 1310ھ میں طبع ہوئی.کے مصنف کو چیلنج کریں جو آپ کے علی الرغم حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی حسب ذیل روایت درج کرتے ہیں جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا: گا."اذا مضت الف ومائتان واربعون سنة يبعث الله المهدى “ النجم الثاقب صفحہ 209 مطبع احمدی.پٹنہ ) کہ جب ایک ہزار دو سو چالیس سال گزر جائیں گے تو اللہ تعالیٰ مہدی علیہ السلام کو ظاہر فرمائے پس تم چیلنج کرو گے تو کس کو ؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم کو، کہ جنہوں نے آنے والے کے وقت کے بارہ میں احادیث بیان کیں؟ یا امت کے ان مسلّمہ بزرگوں کو جنہوں نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر ظہور مہدی کے وقت کے تعین کے لئے امت کی راہنمائی فرمائی.اس حیرت انگیز حقیقت کو تو دیکھو کہ وقت کے تعین میں، ان میں سے کوئی بھی چودھویں صدی سے آگے نہیں گیا.تم ان کی بات مانو یا نہ مانو.ان کو چیلنج کرو یا اپنا سر پیٹو.یہ قطعی بات یا درکھو کہ اب آسمان سے کوئی نہیں آئے گا کیونکہ یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا ہم نے تو اس کے وقت کی تعیین اس کی آمد سے کی ہے.جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی فعلی شہادتوں کے ساتھ ثابت فرمایا تھا.جہاں تک کسی واضح حدیث میں وقت کے تعین کا تعلق ہے وہ ایمان نصیب لوگوں کو تو الله بڑی وضاحت کے ساتھ اور جلی حروف میں اسی طرح نظر آتی ہیں جس طرح آنحضرت ﷺ کی آمد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کو واضح طور پر نظر آگئی تھی.مگر وہ لوگ جو انکار کی حجتوں پر قائم ہو جاتے ہیں ان کو گہنایا ہوا چاند تو کجا چودھویں کا چاند بھی نظر نہیں آتا.جس طرح کفار مکہ انشقاق قمر کا نشان دیکھ کر بھی انکار کر گئے تھے.ایمان نہ لانے والوں کا تکبر اور بد نصیبی یہ ہے کہ اِنْ يَّرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّه وَكَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْا أَهْوَاءَ هُمْ (القر43) یعنی اگر وہ کوئی نشان دیکھیں تو منہ پھیر لیتے
456 ہیں اور کہتے ہیں ہمیشہ کی طرح کیا جانے والا جادو ہے.اور انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی.اصل بات یہ ہے کہ ایسا نہ تو کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے کہ ماموروں اور مرسلوں کے زمانہ اور ان کی ذات کی طرف ایسے الفاظ میں رہنمائی کی جائے کہ گویا متلاشی کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دیدیا جائے کیونکہ اگر اس طرح کیا جائے تو ایمان بے فائدہ ہو جائے اور کافر اور مومن کی تمیز مٹ جائے.ہمیشہ ایسے ہی الفاظ میں ماموروں کی خبر دی جاتی ہے جن سے ایمان اور شوق رکھنے والے ہدایت پالیتے ہیں اور شریر اپنی ضد اور اڑی کے لئے کوئی آڑ اور بہانہ تلاش کر لیتے ہیں.چڑھے ہوئے سورج کا کون انکار کر سکتا ہے مگر اس پر ایمان لانے کا نہ ثواب ہے نہ اجر.پس ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ ایک حد تک راہنمائی مہیا کی جاتی ہے اور ایک حد تک اخفاء ضرور رکھا جاتا ہے اور ایمان کا تقاضہ ہے کہ ایسا ہونا بھی چاہئے.مسیح موعود کے زمانہ کی خبروں میں بھی اسی اصل کو مد نظر رکھا گیا ہے اس کے زمانہ کی خبریں ایسے الفاظ میں دی گئیں ہیں کہ جس قسم کے الفاظ میں تمام گذشتہ انبیاء کے متعلق خبریں دی جاتی رہی ہیں.ایک بچے متلاشی اور صاحب بصیرت کے لئے وہ ایک روشن نشان سے کم نہیں.وہ شخص جس نے کسی ایک نبی کو دلائل کے ذریعہ مانا ہو اور صرف نسلی ایمان پر ہی کفایت نہ کئے بیٹھا ہو اس کے لئے ان نشانات سے فائدہ اٹھانا کچھ بھی مشکل نہیں.مگر وہ لوگ جو بظاہر سینکڑوں رسولوں پر پیدائشی طور پر ایمان لاتے ہیں لیکن در حقیقت ایک رسول کو بھی انہوں نے اپنی تحقیق سے نہیں مانا، ان کے لئے کسی راستباز کا مانا خواہ وہ کتنے ہی نشان اپنے ساتھ کیوں نہ رکھتا ہو ، نہایت مشکل ہے.اور خاص طور پر وہ راشد علی کی قماش کے کج بحث ہوں ، ان کے لئے ایمان لانانا ممکن ہو جاتا ہے.کیونکہ وہ ختم الله علی قلوبھم کے زمرہ میں داخل ہوتے ہیں.پس نسلی اور پیدائشی طور پر کسی مذہب کا پیرو ہونے والوں کا اپنا ایمان در حقیقت کوئی وجود نہیں رکھتا ، ان کا ایمان وہی ہوتا ہے جو ان کے علماء یا مولوی کہہ دیں یا جو باپ دادا کی باتیں ان کے کانوں تک پہنچی ہوں.پس یہ اسی وقت کسی رسول کو پہچان سکتے ہیں جبکہ پہلے اپنی نظر کی اصلاح آسمانی ہدایت کے سرمہ سے کر لیں اور انسانی اقوال اور رسوم کی تقلید کے خمار کو اپنی عقل سے دور کر دیں.آسمانی ہدایت کے جو سامان مسیح و مہدی کی ساعت کی علامات اور اس کی شناخت کے لئے خدا
457 تعالیٰ نے مہیا فرمائے ان میں سے چند ایک بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو سورج قرار دیا ہے.فرمایا: -1 يْأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاO وَدَاعِيًا إِلَى اللهِ بِإِذْنِ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا (الاحزاب : 47،46) ترجمہ : اے نبی ! ہم نے تجھے اس حال میں بھیجا ہے کہ تو ( دنیا کا نگران بھی ہے (مومنوں کو ) خوشخبری دینے والا بھی ہے اور ( کافروں کو ڈرانے والا بھی ہے.اور نیز اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور ایک چمکتا ہوا سورج بنا کر بھیجا ہے).چنانچہ پیشگوئی تھی کہ اس زمانہ میں لوگ شمس الہدی ﷺ کی روشنی سے استفادہ کرنا چھوڑ دیں گے.فرمایا : " ” إِذَا الشَّمْسُ كُوّرَتْ.“ ترجمہ: جب ( نور ) آفتاب کو لپیٹ دیا جائے گا.-2 اس زمانہ کے علماء بھی روحانی نور سے خالی ہو جائیں گے.وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ O ترجمہ: اور جب ستارے دھندلے ہو جائیں گے..اس زمانہ میں نئی نئی سواریاں ایجادہوں گی.وَإِذَا العِشَارُ عُطِّلَتْ.ترجمہ: اور جب دس مہینے کی گا بھن اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی.(التکویر 2) (التکویر (3) (التكوير :5) اس آیت کی تفسیر آنحضرت ﷺ نے خود فرمائی ہے اور اسے آخری زمانہ سے متعلق قرار دیا.فرمایا: لتتركن القلاص فلايُسعى عليها - (مسلم کتاب الایمان.باب نزول عیسی ابن مریم ) یعنی جوان اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی اور ان پر سفر نہیں کیا جائے گا اس حدیث سے جہاں یہ تصدیق ہوتی ہے کہ یہ علامت امام مہدی کے زمانہ کی ہے وہاں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس سورۃ میں اسی قسم کی
458 بیان فرموده دوسری علامات کا تعلق بھی امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ سے ہے.کیونکہ حضرت نبی کریم -4 نے یہ علامت آنے والے موعود کے ذکر کے ساتھ بیان فرمائی ہے.چڑیا گھر تعمیر کئے جائیں گے.وو ” وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ.“ ترجمہ: اور جب وحشی اکٹھے کئے جائیں گے.وحشی صفت اقوام کو تہذیب سکھائی جائے گی وو وَإِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ “ 6 دریاؤں کو چیر کر نہریں نکالی جائیں گی.وو 66 ” وَإِذَا البحَارُ سُجِّرَتْ.“ (التکویر :6) (التكوير :6) (التكوير :7) ترجمہ: اور جب دریاؤں (کے پانیوں ) کو ( نکال کر دوسرے دریاؤں یا نہروں میں ) ملا دیا جائے گا.7.دنیا ایک گھر کی مانند بن جائے گی اور باہمی رابطے بڑھ جائیں گے.” وَإِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ.“ ترجمہ: اور جب مختلف نفوس جمع کئے جائیں گے._8 کاغذ کے استعمال کی کثرت ہو جائے گی.وو ” وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ.“ ترجمہ :.اور جب کتابیں پھیلا دی جائیں گی.9.پریس ایجاد کئے جائیں گے اور کتب کی طباعت واشاعت کثرت سے ہوگی.وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ.“ 10.خلائی تحقیقات میں غیر معمولی ترقی ہوگی.وو 66 وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ.“ ترجمہ:.اور جب آسمان کی کھال اتاری جائے گی.11.اس کے ظہور کے زمانہ میں ایمان دنیا سے اٹھ جائے گا.(التلوير :8) (التكوير : 13) (التلوير : 13) (التكوير :14)
459 "لو كان الايمان معلّقاً بالقريا.“ 12.اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا.66 لا يبقى من الاسلام الا اسمه.“ ( بخاری کتاب التفسير - سورة الجمعة ) (مشکوۃ.باب العلم _ الفصل الثالث ) 13.اس زمانہ میں قرآن کریم کی تلاوت تو ہوگی.لیکن اس پر عمل ترک کر دیا جائے گا.لا يبقى من القرآن الا رسمه.66 (مشکوۃ.باب العلم _ الفصل الثالث ) -14.اس زمانہ میں مساجد بہت خوبصورت تعمیر کی جائیں گی.لیکن وہ رشد و ہدایت سے خالی ہوں گی.’مساجد هم عامرة وهي خراب من الهدی.“ 15.اس زمانہ کے علماء بدترین مخلوق بن جائیں گے.وو 66 علماؤهم شر من تحت اديم السماء.“ (مشکوۃ.باب العلم - الفصل الثالث ) (مشکوۃ.باب العلم _ الفصل الثالث ) 16.اس کے ظہور کے وقت ادیان باطلہ عروج پر ہوں گے.جن کی ہلاکت مسیح موعود کے ذریعہ دلائل سے ہوگی.دو یهلک الله فی زمانه الملل كلّها الا الاسلام.66 (ابوداؤد.کتاب الملاحم.باب خروج الد جبال ) ترجمہ:.اللہ اس کے زمانہ میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کر دے گا.( مذہبوں کو شکست دیدے گا ) 17.اس زمانہ میں امت محمد یہ تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے بہتر فرقے ایک طرف ہوں گے اور وہ ناری ہوں گے اور ایک فرقہ ایک طرف ہو گا اور وہ ناجی ہو گا.جو اپنے باہمی اتحاد و یگانگت کے باعث ملت واحدہ ہوگا.وو 66 " تفترق امتى على ثلاث وسبعين ملّةً كلّهم في النار الا ملة واحدة ـ “ 18.اس زمانہ میں یا جوج ماجوج دو بڑی طاقتوں کا ظہور ہوگا.وو ” يبعث الله ياجوج وماجوج.“ (ترمذی.کتاب الایمان.باب افتراق هذه الامة ) مسلم - کتاب الفتن.باب ذکر الدجال )
460 19.امام مہدی کے ظہور کے زمانہ میں یا جوج ماجوج ، دو بڑی طاقتوں کی طرف سے آسمان کی طرف تیر ( خلائی گاڑیاں میزائل وغیرہ) پھینکے جائیں گے.” فيرمون بنشابهم الى السماء.“ ( ترمذی.ابواب الفتن.باب ذکر الہ جال.مطبوعہ دہلی ) ترجمہ: وہ اپنے تیروں کو آسمان کی طرف پھینکیں گے.20.اس کا ظہور عیسائیت کے عروج کے زمانہ میں ہوگا.جس کو روحانی قوتوں سے وہ پامال کر دے گا.وو ” يكسر الصليب ويقتل الخنزير ـ “ ( بخاری.کتاب الانبیاء.باب نزول عیسی ) -21.اس زمانہ میں دجال ظاہر ہو گا.اور وہ امت مسلمہ کو سخت نقصان پہنچائے گا.وغیرہ وغیرہ الغرض قرآن و احادیث نبویہ میں بیان شدہ علامات نے چودھویں صدی میں ظاہر ہو کر یہ گواہی دے دی کہ وہی زمانہ اور وہی ساعت ہے جب اس موعود مسیح اور معہود مہدی نے ظاہر ہونا تھا.(3) حدیث کسوف و خسوف کے صحیح معنے را شد علی اور اس کا پیر حدیث کے معنوں میں تحریف“ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں : مرز اصاحب حدیث کی کتاب دار قطنی سے نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: امام محمد باقر فرماتے ہیں: ان لمهدينا ايتين لم تكونا منذ خلق السموت والارض ينكسف القمر لاول ليلته من رمضان وتنكسف الشمس في النصف منه“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحه (202) ترجمه (از مرزا صاحب) ” ہمارے مہدی کے لئے دونشان ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا دو نشان کسی اور مامور اور مرسل اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے اور وہ نشان یہ ہیں کہ چاند کا اپنی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات میں اور سورج کا اپنے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دن میں رمضان کے مہینہ میں گرہن ہوگا.(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 132) اصل : حدیث اور اس کا ترجمہ:.
461 د عن عمر و بن شمر عن جابر عن محمد بن علی قال ان المهد ينا....الخ ترجمہ: عمرو بن شمر نے جابر سے روایت کی ہے کہ محمد بن علی (یعنی امام محمد باقر) نے فرمایا کہ ہمارے مہدی کی دونشانیاں ہیں.جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے کبھی انکا ظہور نہیں ہوا.وہ دونشانیاں یہ ہیں کہ رمضان کی پہلی رات میں چاند گرہن ہوگا ( دارقطنی جلد 1 صفحہ 188 ) اور سورج گرہن رمضان کی نصف میں ہوگا.پتہ چلا کہ دار قطنی کی جس روایت کو مرزا صاحب نے اپنی مہدویت کی بنیاد بنایا وہ سرے سے حضور ﷺ کی حدیث ہی نہیں ہے.دوسرے بڑی چلا کی سے مرزا صاحب دو راویوں ( عمرو اور جابر ) کے نام ہضم کر گئے جن کے بارے میں زمانہ قدیم سے امام ابو حنیفہ اور دیگر علمائے کرام کا فیصلہ تھا کہ وہ جھوٹے اور رافضی غالی ہیں.“ ( بے لگام کتاب ) ( نقل بمطابق اصل ) را شد علی اور اس کے پیر نے کسوف و خسوف والی حدیث کے ضمن میں تین حملے کئے ہیں.ایک حملہ تو حدیث کی سند کی آڑ میں اس نے براہ راست حدیث نبوی پر کیا ہے اور دوسرا حملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تحریر فرمودہ ترجمہ حدیث پر اور تیسرا حملہ اپنے ترجمہ میں لپیٹ کر انہوں نے قانون قدرت پر کیا ہے.را شد علی اور اس کے پیر کا یہ حملہ کہ پتہ چلا کہ دارقطنی کی جس روایت کو مرزا صاحب نے اپنی مہدویت کی بنیاد بنایا وہ سرے سے کی حدیث ہی نہیں...محض ایک تعلی ہے جس کی آڑ میں وہ اس صداقت سے بھاگنا چاہتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی.بہر حال اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام خودارشاد فرما چکے ہیں کہ " یہ کہنا بے جا ہوگا کہ یہ احادیث ضعیف ہیں یا بعض روایات مجروح ہیں یا حدیث منقطع اور مرسل ہے.کیونکہ جس حدیث کی پیشگوئی واقعی طور پر سچی نکلی اس کا درجہ فی الحقیقت صحاح سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ اس کی صداقت بدیہی طور پر ظاہر ہو گئی.غرض جب حدیث کی پیشگوئی سچی نکلی تو پھر بھی اس میں شک کرنا صریح بے ایمانی ہے.(انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 48 حاشیہ) پھر فرمایا:
462 انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 294) ’ یہ حدیث ایک پیشگوئی پرمشتمل تھی جو اپنے وقت پر پوری ہوگئی پس جبکہ حدیث نے اپنی سچائی کو آپ ظاہر کر دیا تو اس کی صحت میں کیا کلام ہے...اس حدیث کو تو کسی شخص نے وضعی قرار نہیں دیا.اور اہلِ سنت اور شیعہ دونوں میں پائی جاتی ہے اور اہلِ حدیث خوب جانتے ہیں کہ محد ثین کا فتوی قطعی طور پر کسی حدیث کے صدق یا کذب کا مدار نہیں ٹھہر سکتا.“ جناب ڈاکٹر راشد علی صاحب ! جس طرح ایک زندہ شخص کے لئے تم جیسے ڈاکٹر کا Death certificate دے دینا اسے ہرگز مردہ نہیں بنا سکتا اسی طرح آج سے چودہ سو سال پہلے کی بیان فرمودہ پیشگوئی کو خدا تعالیٰ نے جب پوری تفصیلات ، جزئیات اور شان کے ساتھ ظاہر فرما دیا ہے تو تمہارا جھوٹ اسے کس طرح چھپا سکتا ہے؟ اصل سچائی وہی ہے جسے خدا تعالیٰ نے اپنی فعلی شہادت سے ظاہر کر دیا.ہاں اس کو جھٹلانے والاضرور جھوٹا ہے.لو تمہارے جھوٹ کو پوری طرح کھولنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلا نے انعام بھی مقرر کر دیا ہے.اگر تم اس پینج پر پورے اترے تو تمہیں دو فائدے ہوں گے.اول یہ کہ سو روپیہ تمہیں مل جائے اور دوم یہ کہ تمہارے چہرے سے جھوٹ کی لعنت کا ایک داغ اتر جائے گا.لیکن واضح رہے کہ اِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَلَنْ تَفْعَلُوا (البقرة:25) تم ہر گز اس چیلنج کو قبول نہیں کر سکتے کیونکہ تمہارے آباء بھی ایسا نہیں کر سکے.وہ چیلنج پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” اگر در حقیقت بعض راوی مرتبہ اعتبار سے گرے ہوئے تھے تو یہ اعتراض دارقطنی پر ہو گا کہ اس نے ایسی حدیث کولکھ کر مسلمانوں کو کیوں دھوکا دیا ؟ یعنی یہ حدیث اگر قابل اعتبار نہیں تھی تو دار قطنی نے اپنی صحیح میں کیوں اس کو درج کیا ؟ حالانکہ وہ اس مرتبہ کا آدمی ہے جو صحیح بخاری پر بھی تعاقب کرتا ہے اور اس کی تنقید میں کسی کو کلام نہیں اور اس کی تالیف کو ہزار سال سے زیادہ گذر گیا مگر اب تک کسی عالم نے اس حدیث کو زیر بحث لا کر اس کو موضوع قرار نہیں دیا.نہ یہ کہا کہ اس کے ثبوت کی تائید میں کسی دوسرے طریق سے مدد نہیں ملی بلکہ اس وقت سے جو یہ کتاب ممالک اسلامیہ میں شائع ہوئی تمام علماء وفضلاء متقدمین و متاخرین میں سے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں لکھتے چلے آئے.بھلا اگر کسی نے اکابر محد ثین میں سے اس حدیث کو موضوع ٹھہرایا ہے تو ان میں سے کسی محدث کا فعل یا قول پیش تو کرو جس میں لکھا ہو کہ یہ حدیث موضوع ہے اور اگر کسی جلیل الشان محدث کی کتاب سے اس حدیث کا موضوع ہونا ثابت کر سکو تو ہم فی الفور ایک سوروپیہ
463 بطور انعام تمہاری نذر کریں گے جس جگہ چاہو امانتا پہلے جمع کرالو.ورنہ خدا سے ڈرو جو میرے بغض کے لئے صحیح حدیثوں کو جو علمائے ربانی نے لکھی ہیں موضوع ٹھیراتے ہو.“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 133 134 ) پس تم پر تکذیب کی لعنت کی ایسی مار ہے کہ ہر قدم پر جھوٹے ہی ثابت ہوتے ہو.اب خدا تعالیٰ کے پاک مسیح کی ایک اور تہدید بھی سنتے جاؤ.آپ فرماتے ہیں : احادیث میں پڑھتے تھے کہ مہدی کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں کسوف و خسوف ہوگا اور جب تک یہ نشان پورا نہیں ہوا تھا اس وقت تک شور مچاتے تھے کہ یہ نشان پورا نہیں ہوا.لیکن اب ساری دنیا قریبا گواہ ہے کہ یہ نشان پورا ہوا.یہاں تک کہ امریکہ میں بھی ہوا اور دوسرے ممالک میں بھی پورا ہوا اور اب وہی جو اس نشان کو آیات مہدی میں سے ٹھہراتے تھے اس کے پورا ہونے پر اپنے ہی منہ سے اس کی تکذیب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہی قابل اعتبار نہیں.اللہ تعالیٰ ان کی حالت پر رحم کرے.میری مخالفت کی یہ لعنت پڑتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کی بھی تکذیب کر بیٹھتے ہیں.فرمایا: ( ملفوظات.جلد 3 صفحہ 14) آسمان میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک وتار پھر عجب یہ علم یہ تنقید آثار وحدیث دیکھ کر سوسونشاں پھر کر رہے ہو تم فرار (براہین احمدیہ.حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21) اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید وضاحت یہ بھی بیان فرمائی کہ جبکہ ایک حدیث دوسری حدیث سے قوت پا کر پا یہ یقین کو پہنچ جاتی ہے تو جس حدیث نے خدا تعالیٰ کے کلام سے قوت پائی ہے اس کی نسبت یہ زبان پر لا نا کہ وہ موضوع اور مردود ہے انہی لوگوں کا کام ہے جن کو خدا تعالیٰ کا خوف نہیں ہے.اگر چہ بباعث کثرت اور کمال شہرت کے اس حدیث کا آنحضر تک رفع نہیں کیا گیا اور نہ اس کی ضرورت سمجھی گئی مگر خدا نے اپنی دو گواہیوں سے یعنی آیت فلا يُظْهِرُ الخ اور آیت جُمِعَ الشَّمْسُ وَالقَمَر سے خود اس حدیث کو مرفوع متصل بنادیا.سو بلا شبہ قرآنی شہادت سے اب یہ حدیث مرفوع متصل ہے.کیونکہ قرآن ایسی تمام پیشگوئیوں کا جو کمال صفائی سے پوری صلى الله -
464 ہو جائیں ، اس تہمت سے تب یہ کرتا ہے کہ بجز خدا کے رسول کے کوئی اور شخص ان کا بیان کر نیوالا ہے.نعوذ باللہ یہ خدا کے کلام کی تکذیب ہے کہ وہ تو صاف لفظوں میں بیان فرمادے کہ میں صریح اور صاف پیشگوئیوں کے کہنے پر بجز اپنے رسول کے کسی کو قدرت نہیں دیتا لیکن اس کے برخلاف کوئی اور یہ دعوی کرے کہ ایسی پیشگوئیاں کوئی اور بھی کر سکتا ہے جس پر خدا کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوئی اور اس طریق سے آیت فلا يُظْهرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا کی تکذیب کر دیوے.غرض جبکہ ان تمام طریقوں سے اس حدیث کی صحت ثابت ہوگئی اور نیز اس کی پیشگوئی اپنے پورے پیرا یہ میں وقوع میں بھی آ گئی تو اے خدا سے ڈرنے والو! اب مجھے کہنے دو کہ ایسی حدیث سے انکار کرنا جو گیارہ سو برس سے علماء اور خواص اور عوام میں شائع ہو رہی ہے اور امام محمد باقر اس کے راوی ہیں اور تیرہ سو برس سے یعنی ابتداء سے آج تک کسی نے اس کو موضوع قرار نہیں دیا.اور نہ دار قطنی نے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا.اور قرآن ، آيت جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ میں اس کا مصدق ہے یعنی اسی گرہن سورج اور چاند کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کرتی ہے اور نیز قرآن صاف اور صریح لفظوں میں فرماتا ہے کہ کسی پیشگوئی پر جو صاف اور صریح اور فوق العادت طور پر پوری ہوگئی ہو بجز خدا کے رسول کے اور کوئی شخص قادر نہیں ہو سکتا.ایسا انکار جو عناداً کیا جائے ہرگز کسی ایماندار کا کام نہیں.“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 137،136 ) -ii ہے: وو راشد علی اور اس کے پیر کا دوسرا حملہ حدیث نبوی کے ترجمہ پر ہے.انہوں نے جو تر جمہ کیا ہے وہ یہ وہ دونشانیاں یہ ہیں کہ رمضان کی پہلی رات میں چاند گرہن ہوگا اور سورج گرہن رمضان کے نصف میں ہوگا.“ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ترجمہ تحریر فرمایا ہے کہ وو وہ نشان یہ ہیں کہ چاند کا اپنی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات میں اور سورج کا اپنے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دن میں رمضان کے مہینہ میں گرہن ہوگا.“ (تحفہ گولر و یه روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 132) ہمارا چیلنج ہے کہ راشد علی اور اس کے پیر کا پیش کردہ ترجمہ بالبداہت غلط ہے اور قانونِ قدرت
465 کےخلاف ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش فرمودہ ترجمہ نہ صرف قطعی طور پر درست ہے بلکہ قانونِ قدرت کے عین مطابق اور حدیث نبوی کی صداقت کا آئینہ دار ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند اور سورج کو گرہن لگنا قانونِ قدرت کا حصہ ہے.جب بھی ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہوئے چاند اور زمین کا جوڑا سورج کے گرد اس حالت میں آئے کہ تینوں ایک لائن میں ہوں تو چاند یا سورج کا گرہن ظاہر ہوتا ہے.زمین درمیان میں ہو تو اس کا سایہ چاند پر پڑنے سے چاند گرہن.اور جب چاند درمیان میں ہو تو اہل زمین کے لئے سورج کا ایک حصہ نظر نہیں آتا جسے سورج گرہن کہتے ہیں.خدا تعالیٰ کے قائم کردہ قانونِ قدرت، سائنس اور مشاہدات کی رو سے دنیا بھر کے ہیت دان متفق ہیں کہ چاند گرہن چاند کی صرف 13، 14 اور 15 تاریخ کو لگتا ہے جبکہ سورج گرہن چاند کی 27 ،28 اور 29 تاریخ کو ہی ممکن ہے.خدا تعالیٰ کی اس سنت مستمرہ کے خلاف کبھی کوئی گرہن نہیں لگا اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا اور ایسا ہی تمام قمری مہینوں میں یکساں طور پر ممکن.ہے.سورج ، زمین اور چاند کا قانون قدرت کی پابندی میں مسلسل محو گردش ہونا سورۃ یسین کی آیات 39 تا 41 میں تفصیلاً مذکور ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالشَّمْسُ تَجْرِى لِمُسْتَقَرٌّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيْمِ وَالقَمَرَ قَدَّرْنَهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالعُرْجُونِ القَدِيمِ لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ القَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارَ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُوْنَ ہ کہ سورج ایک مقررہ جگہ کی طرف چلا جارہا ہے.یہ غالب اور علم والے خدا کا مقرر کردہ قانون ہے.اور چاند کو دیکھو کہ ہم نے اس کے لئے بھی منزلیں مقرر کر چھوڑی ہیں یہاں تک کہ وہ ان منزلوں پر چلتے چلتے ایک پرانی شاخ کے مشابہہ ہو کر پھر لوٹ آتا ہے.نہ تو سورج کو طاقت ہے کہ وہ اپنے سال کے دورہ میں سے کسی وقت چاند کے قریب جا پہنچے.اور نہ رات ( یعنی چاند ) کو طاقت ہے کہ مسابقت کرتے ہوئے دن ( یعنی سورج ) کو پکڑے بلکہ یہ سب کے سب ایک مقررہ راستہ ( یعنی مدار) پر نہایت سہولت کے ساتھ چلتے چلے جاتے ہیں.یادر ہے کہ زمین کا قطر چاند کے قطر سے چار گنا بڑا ہے جبکہ سورج کا قطر زمین کے قطر سے 109.3 گنا بڑا ہے.سورج کے گرد زمین کے علاوہ آٹھ اور نمایاں سیارے محو گردش ہیں.بعض سیاروں
466 کے گرد چھوٹے سائز کے کرے چکر لگاتے ہیں.ان سیاروں میں ایک چاند بھی ہے جو ہماری زمین کے گرد گھومتا ہے.ان تمام سیاروں پر مشتمل نظام کو نظام منشی کہتے ہیں جب کہ ایسے بے شمار نظام ہائے ستمی کے مجمع کو ٹیلیکسی (Galaxy) یعنی کہکشاں کہتے ہیں.اس طرح کی ان گنت کہکشائیں وسیع کائنات میں موجود ہیں.علم فلکیات اور سائنس کے مطابق چاند گرہن Full Moon اور سورج گرہن New Moon کی حالت میں ہوتا ہے جس کے لئے بیضوی مدار کے سبب فاصلے اور رفتار میں کمی بیشی لازم ہے اور اس کا اثر گرہن کی تاریخوں پر پڑتا ہے لہذا گرہن کی تاریخوں کی حدود مقرر ہیں.چنانچہ چاند گرہن قمری مہینہ کی صرف 14،13 اور 15 کو جبکہ سورج گرہن قمری مہینہ کی صرف 27 ،28 یا29 تاریخوں میں سے کسی تاریخ کو ہی ممکن ہے.ان کے علاوہ اور تاریخوں میں گرہن ممکن نہیں ہوسکتا.اس سلسلہ میں علم ہیئت یعنی فلکیات پر کتب کا وسیع ذخیرہ موجود ہے.جن میں سے چند ایک حسب 1-The popular Encyclopedia 2- The New Age Encyclopedia (New York) 3- The story of Eclipses 4- Canon Der Finsternisse 1887) (London) ذیل ہیں.ہلیت جدید از منہاج الدین ایم.ایس سی پروفیسر طبیعات-5 انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا.لندن-6 ان کتب میں تفصیلی نقشوں اور معلومات کے ساتھ بیان ہے کہ کسوف و خسوف کس طرح واقع ہوتے ہیں ، ان کی کون کون سی قسمیں ہیں اور کن تاریخوں میں ان کا ظہور ممکن ہے.علاوہ ازیں مشہور محقق اور اہلِ حدیث کے ممتاز عالم دین جناب نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی شہرہ آفاق تصنیف ” بیج الکرامہ فی آثار القیامۃ میں گرہن کی تاریخوں پر اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چاند گرہن اور سورج گرہن دونوں کا تعلق چاند کی تاریخوں سے ہے اور :
467 اہل نجوم کے نزدیک چاند گرہن سورج کے مقابل آنے سے ایک خاص حالت میں سوائے 13، 14، 15 اور اسی طرح سورج گرہن بھی خاص شکل میں سوائے 27 28 29 تاریخوں کے کبھی نہیں لگتا.( ترجمه از صفحه 344) اسی طرح ” مقبول یزداں مجد د دوراں حضرت مولانا سید ابو احمد رحمانی “ اپنی تالیف ” دوسری شہادت آسمانی“ کے صفحہ نمبر 13 پر لکھتے ہیں:.ہو 66 چاند گہن کے لئے عادۃ اللہ یہ ہے کہ تاریخ 13 ،15،14 کو ہواورسورج گہن 29،28،27 کو یادر ہے کہ مؤلف کی نسبت اور ان کے بطور ماہر فلکیات و عالم دین بلند مقام کی بابت اس کتاب کے اندرون ٹائٹل پر درج قصیدہ میں بیان ہے.ماهر هیئت و تقویم وحدیث :: ناصح مشفق نے بہر دوستاں حضرت اقدس ابو احمد لقب :: عالم دیں رہنمائے گھر ہاں الغرض حدیث نبوی ﷺ میں مذکور پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ نشان کسوف وخسوف کے سلسلہ میں چاند گرہن اپنی ( گرہن کی تاریخوں میں سے) پہلی اور سورج گرہن ( اپنی گرہن کی تاریخوں میں سے ) درمیان والی تاریخ کو لگے گا یعنی چاند گرہن 13 اور سورج گرہن 28 تاریخ کو رمضان میں ظاہر ہوگا.اگر کوئی مکذب ان کے علاوہ تاریخوں کا بہانہ بنا کر فرار کی اختیار کرنا چاہتا ہے تو وہ نہ صرف مامور زمانہ کی تکذیب کرتا ہے بلکہ حدیث نبوی کی تکذیب کا بھی ارتکاب کرتا ہے.باقی رہا یہ مسئلہ کہ ماضی میں چاند سورج کے گرہنوں کے درمیان اس مذکورہ بالا گرہن کی کیا اعجازی شان تھی تو واضح ہو کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں ایک سو سے زائد دفعہ چاند اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں ظاہر ہوا.مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹھیک سوویں نمبر پر 1894ء بمطابق 1311ھ کے رمضان میں یہ گرہن عین مقررہ تاریخوں پر لگے اور اگلے ہی سال دوبارہ 1895ء بمطابق 1312ھ کے رمضان میں پھر ظاہر ہوئے اور مدعی مہدویت کے مقام ظہور ، قادیان دارالامان میں دوسرے سال بھی تاریخیں 13 اور 28 ہی تھیں.حالانکہ چاند کا آغاز یعنی اس کی پہلی تاریخ کا تعین آج بھی کسی قدر دشوار ہے لیکن سرورِ
468 کائنات حضرت محمد مصطفی احمد محیت میں اللہ کے فرمودہ کے عین مطابق، چودہ سوسال بعد دو دفعہ مقررہ تاریخوں پر گرہن لگنا انتہائی نادر و نایاب اور حیرت انگیز ہے.جہاں تک معلوم تفصیلات ہمارے سامنے ہیں متصل دو سال یکے بعد دیگرے رمضان کی 13 اور 28 تاریخوں پر چاند اور سورج گرہن کبھی وقوع پذیر نہیں ہوئے.اس لئے اس لحاظ سے بھی بلاشبہ یہ ایک نادر الوقوع عقیم نشان ہے.وو الغرض را شد علی اور اس کے پیر کا یہ ترجمہ کہ وہ دو نشانیاں یہ ہیں کہ رمضان کی پہلی رات میں چاند گرہن ہوگا اور سورج گرہن رمضان کے نصف میں ہوگا.“ قرآن کریم کی آیات مذکورہ بالا ( سورہ یسین 39 تا 41 ) کے صریح خلاف ہے اور قانون قدرت کے کلیۂ منافی ہے.بالفاظ دیگر یہ ترجمہ نہ خدا تعالیٰ کے قول کے مطابق ہے نہ اس کے فعل کے.لہذا یہ ترجمہ جھوٹا اور مردود ہے اس کے بالمقابل وہی ترجمہ سچا اور حقیقت افروز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا.یہ ترجمہ خدا تعالیٰ کے قول اور اس کے فعل کے بھی مطابق ہے اور آنحضرت ﷺ کے فرمان اور منشاء کے مطابق بھی.باقی رہا یہ اعتراض کہ چاند کا گر ہن اس کے گرہن کی پہلی راتوں میں نہیں بلکہ رمضان کی پہلی رات میں ہونا چاہئے تھا اسی طرح سورج کا گرہن اس کے گرہن کے دنوں میں سے درمیانے کی بجائے ماہ رمضان کی درمیانی تاریخ کو ہونا چاہئے تھا.اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دوسرا اعتراض مخالفین کا یہ ہے کہ یہ پیشگوئی اپنے الفاظ کے مفہوم کے مطابق پوری نہیں ہوئی.کیونکہ چاند کا گرہن رمضان کی پہلی رات میں نہیں ہوا بلکہ تیرھویں رات میں ہوا اور نیز سورج کا گرہن وو الله رمضان کی پندرھویں تاریخ کو نہیں ہوا بلکہ 28 تاریخ کو ہوا.اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس گرہن کے لئے کوئی نیا قاعدہ اپنی طرف سے نہیں تراشا بلکہ اسی قانون قدرت کے اندر اندر گرہن کی تاریخوں سے خبر دی ہے جو خدا نے ابتداء سے سورج اور چاند کے لئے مقرر کر رکھا ہے.اور صاف لفظوں میں فرما دیا ہے کہ سورج کا کسوف اس کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا.اور قمر کا خسوف اس کی پہلی رات میں ہوگا.یعنی ان تین راتوں میں سے جو خدا نے قمر کے گرہن کے لئے مقرر فرمائی ہیں پہلی رات میں خسوف
469 ہوگا.سوایسا ہی وقوع میں آیا.کیونکہ چاند کی تیرھویں رات میں جو قمر کی خسوفی راتوں میں سے پہلی رات ہے خسوف واقع ہو گیا اور حدیث کے مطابق واقع ہو اور نہ مہینہ کی پہلی رات میں قمر کا گرہن ہونا ایسا ہی بدیہی محال ہے جس میں کسی کو کلام نہیں.وجہ یہ کہ عرب کی زبان میں چاند کو اسی حالت میں قمر کہہ سکتے ہیں جبکہ چاند تین دن سے زیادہ کا ہو اور تین دن تک اس کا نام ہلال ہے نہ قمر.اور بعض کے نزدیک سات دن تک ہلال ہی کہتے ہیں.چنانچہ قمر کے لفظ میں لسان العرب وغیرہ میں یہ عبارت ہے.هـو بـعـد ثلاث ليال الـى آخر الشهر یعنی چاند کا قمر کے لفظ پر اطلاق تین رات کے بعد ہوتا ہے پھر جبکہ پہلی رات میں جو چاند نکلتا ہے وہ قمر نہیں ہے اور نہ قمر کی وجہ تسمیہ یعنی شدت سپیدی و روشنی اس میں موجود ہے تو پھر کیونکر یہ معنے صحیح ہوں گے کہ پہلی رات میں قمر کو گرہن لگے گا.یہ تو ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں جوان عورت پہلی رات میں ہی حاملہ ہو جائے گی.اور اس پر کوئی مولوی صاحب ضد کر کے یہ معنے بتلا دیں کہ پہلی رات سے مراد وہ رات ہے جس رات وہ لڑکی پیدا ہوئی تھی تو کیا یہ معنے صحیح ہوں گے؟ اور کیا ان کی خدمت میں کوئی عرض نہیں کرے گا کہ حضرت پہلی رات میں تو وہ جوان عورت نہیں کہلاتی بلکہ اس کو صبیہ یا بچہ کہیں گے.پھر اس کی طرف حمل منسوب کرنا کیا معنے رکھتا ہے؟ اور اس جگہ ہر ایک عظمند یہی سمجھے گا کہ پہلی رات سے مراد زفاف کی رات ہے جبکہ اوّل دفعہ ہی کوئی عورت اپنے خاوند کے پاس جائے.اب بتلاؤ کہ اس فقرے میں اگر کوئی اس طرح کے معنے کرے تو کیا وہ معنے آپ کے نزدیک صحیح ہیں ؟ اس بنیاد پر کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے اور کیا آپ ایسا خیال کرلیں گے کہ وہ جوان عورت پیدا ہوتے ہی اپنی پیدائش کی پہلی رات میں ہی حاملہ ہو جائے گی.اے حضرات ! خدا سے ڈرو.جبکہ حدیث میں قمر کا لفظ موجود ہے اور بالا تفاق قمر اس کو کہتے ہیں جو تین دن کے بعد یا سات دن کے بعد کا چاند ہوتا ہے تو اب ہلال کو کیونکر قمر کہا جائے.ظلم کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے.پھر ظاہر ہے کہ جبکہ قمر کے گرہن کے لئے تین راتیں خدا کے قانونِ قدرت میں موجود ہیں اور پہلی رات چاند کے خسوف کی تین راتوں میں سے مہینہ کی تیرہویں رات ہے اور ایسا ہی سورج کے گرہن کے لئے خدا کے قانون قدرت میں تین دن ہیں اور بیچ کا دن سورج کے کسوف کے دنوں میں سے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ ہے تو یہ معنے کیسے صاف اور سید ھے اور سریع الفہم اور قانونِ قدرت پر مبنی ہیں کہ مہدی کے ظہور کی یہ نشانی ہوگی کہ چاند کو اپنے گرہن کی مقررہ راتوں میں سے جو اس کے لئے خدا نے ابتداء سے مقرر کر رکھی ہیں
470 پہلی رات میں گرہن لگ جائے گا یعنی مہینہ کی تیرھویں رات جو گرہن کی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات ہے.ایسا ہی سورج کو اپنے گرہن کے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دن میں گرہن لگے گا یعنی مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو جو سورج کے گرہن کا ہمیشہ بیچ کا دن ہے کیونکہ خدا کے قانونِ قدرت کے رو سے ہمیشہ چاند کا گرہن تین راتوں میں سے کسی رات میں ہوتا ہے یعنی 13 ، 14 ، 15 ایسا ہی سورج کا گرہن اس کے تین مقررہ دنوں میں سے کبھی باہر نہیں جاتا یعنی مہینہ ک27 28 29 پس چاند کے گرہن کا پہلا دن ہمیشہ تیرھویں تاریخ سمجھا جاتا ہے اور سورج کے گرہن کا بیچ کا دن ہمیشہ مہینہ کی 28 تاریخ عظمند جانتا ہے.اب ایسی صاف پیشگوئی میں بحث کرنا اور یہ کہنا کہ قمر کا گرہن مہینہ کی پہلی رات میں ہونا چاہئے تھا یعنی جبکہ کنارہ آسمان پر ہلال نمودار ہوتا ہے یہ کس قدر ظلم ہے.کہاں ہیں رونے والے جو اس قسم کی عقلوں کو روویں.یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ پہلی تاریخ کا چاند جس کو ہلال کہتے ہیں وہ تو خود ہی مشکل سے نظر آتا ہے.اسی وجہ سے ہمیشہ عیدوں پر جھگڑے ہوتے ہیں.پس اس غریب بے چارہ کا گرہن کیا ہوگا.کیا پدی کیا (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 137 تا 140) پدی کا شور با.“ پس راشد علی اور اس کے پیر کا جھوٹ اور ان کی جہالت اظہر من الشمس ہے جسے چاند اور سورج کے گرہن والی پیشگوئی نے مزید کھول کر دکھا دیا ہے.(4) چاند کی پہلی رات کو گرہن راشد علی اور اس کا پیر ”رمضان میں خسوف و کسوف...ایک سائنسی تحقیق.از ڈاکٹر ڈیوڈ مکنائن“ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں.ڈاکٹر ڈیوڈ مکناٹن شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور و معروف عیسائی منجم (...) ہیں جو کہ حکومت دبئی کے موسمیات کے شعبے سے منسلک ہیں.رمضان میں خسوف و کسوف کے اجتماع کے موضوع پر انہوں نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے.ان کی تحقیقات کا خلاصہ درج ذیل ہے.چاند گرہن :.سورج کو گرہن اس وقت لگتا ہے چاند زمین اور سورج کے درمیان آجائے اور یہ صرف اور صرف نئے چاند پر ہی
471 ہو سکتا ہے.ان دونوں قسم کے گہنوں کے لئے ضروری ہے تینوں اجسام ایک ہی سیدھ میں ہوں.چاند کا زمین کے گرد اپنا مدار ہے.اسی طرح زمین کا سورج (کے ) گردا اپنا ایک الگ مدار ہے.ضروری نہیں ہے کہ ہر قمری ماہ کی پہلی اور 15 کو تینوں اس طرح ایک لائن میں ہوں سورج اور چاند گرہن ہوئے.البتہ سال میں کماز کم دو یا گرہن کے موسم ہوتے ہیں جن میں یہ تینوں اجسام فلکی ایک لائن میں ہوتے ہیں.چنانچہ سورج اور چاند گرہن تقریبا ہر ساڑھے پانچ ماہ بعد لگ سکتا ہے.ڈاکٹر مکناٹن سے سوال کیا گیا کہ پچھلے 1400 سالوں میں رمضان میں چاند اور سورج گرہن کا اجتماع کتنی مرتبہ ہوا ہے؟ ڈاکٹر ڈیوڈ مکناٹن فرماتے ہیں کہ:.اسٹرا نامی کی مختلف کتب اور کمپیوٹر کے پروگراموں کی مدد سے میں نے جو تحقیق کی تو پتہ چلا کسی بھی خاص قمری مہینے میں سورج اور چاند گرہن ہر بائیس سال کے بعد گھوم کر انہیں تاریخوں میں واقع ہوتا ہے.چنانچہ جب میں نے دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والے سورج اور چاند کے جزوی اور کامل گرہنوں کے رمضان میں اجتماع کے بارے میں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ہر بائیس سال کے بعد باقاعدگی سے کم از کم ایک بار اور کبھی کبھی دوبارسورج اور چاند کے گرہنوں کا رمضان میں اجتماع ہوتا چلا آیا ہے.البتہ رمضان کی پہلی تاریخ کو چاند گرہن اور درمیانی تاریخ کو سورج گرہن کا ہونا جیسا کہ آپ نے دارقطنی نامی کتاب کے حوالے سے تذکرہ کیا ہے، یہ سائنسی نقطہ نگاہ سے ناممکنات میں سے ہے ، کائنات کی تخلیق سے لیکر آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا.را شد علی اور اس کے پیر کی جوڑی بھی کمال جوڑی ہے.یہ دونوں ایک طرف تو یہ دعویٰ کر رہے ہیں ( بے لگام کتاب) کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کی پہلی رات میں چاند گرہن ہوگا اور سورج گرہن رمضان کے نصف میں ہوگا.“ دوسری طرف یہ بظاہر اپنے حق میں ایک گواہی لے کر آئے ہیں.لیکن وہ در اصل خود ان کے اپنے ہی دعوے کے خلاف ہے اور اس کو کل یہ پامال کرتی ہے.انہوں نے اندھا دھند ڈاکٹر مکناٹن کی مذکورہ بالا تحقیق کو اپنی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے.شاباش ہو اس بے غیرت جوڑی کو، جو رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی تکذیب کے لئے ایک عیسائی کو مدد اور گواہی کے لئے بلا کر لائے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کی تجلی دیکھئے کہ اس عیسائی نے اپنی اس تحقیق میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ دراصل حدیث نبوی کی صداقت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ہی بین دلیل ہے.فی الحقیقت اس کی اس تحقیق نے پیر ومرید کی اس جوڑی کو کلیۂ جھوٹا ثابت کر دیا ہے.چنانچہ وہ لکھتا ہے:
472 وو رمضان کی پہلی تاریخ کو چاند گرہن اور درمیانی تاریخ کو سورج گرہن کا ہونا جیسا کہ آپ نے دار قطنی نامی کتاب کے حوالے سے تذکرہ کیا ہے.یہ سائنسی نقطہ نگاہ سے ناممکنات میں سے ہے، کائنات کی تخلیق سے لیکر آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا.“ بے لگام کتاب) یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کو جھٹلایا جا ہی نہیں سکتا.نہ کبھی ایسا ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے.پس حدیث نبوی کمال درجہ کی صحیح اور سچی حدیث ہے اور اس کا ترجمہ بھی وہی صیح اور سچا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا یعنی وو چاند کا اپنی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات میں اور سورج کا اپنے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دن میں رمضان کے مہینہ میں گرہن ہوگا.پس راشد علی اور اس کے پیر کو انہیں کئے ” مشہور ومعروف عیسائی منجم نے جھوٹا ثابت کر دیا ہے اور یہ ہرزاویہ سے اور ہر سمت سے اور ہر قدم پر جھوٹے اور کذاب ہی ثابت ہوتے ہیں.افسوس تو اس بات پر ہے کہ عیسائی محقق منجم بھی آنحضرت ﷺ کی اس حدیث کی صداقت اور پیشگوئی کی سچائی کے واضح اور نا قابل رڈ ثبوت پیش کرتے ہیں مگر یہ نام نہاد مسلمان پیر اس پیشگوئی کو نہ صرف بار بار گہنانے کی کوشش میں مصروف ہیں بلکہ کھلم کھلا اس کی تکذیب پر بھی مصر ہیں.وو (5) 23 سالہ معیار صداقت راشد علی اور اس کا پیر اپنی بے لگام کتاب میں لکھتے ہیں :.دوسری طرف اگر مرزا صاحب کے پیروکار اس اجتماع خسوف وکسوف کی بناء پر ان کو سچا تسلیم کرتے ہیں تو دیانتداری کا تقاضا ہے کہ ان کو گزشتہ تمام مدعیان نبوت / مسیحیت / مہدویت کو بھی سچا تسلیم کر لینا چاہئے.واضح ہو کہ ان میں وہ بھی ہیں جو اپنے دعوے کے بعد بھی 28 تا 47 سال اپنی قوم پر حکومت بھی کرتے رہے جو مرزا غلام احمد قادیانی کے اس فریب کا بھی پردہ چاک کرتا ہے کہ ان کے بچے ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اپنے دعوے کے بعد وہ 23 سال سے زیادہ
473 زندہ رہے ہیں جو کہ حضور ﷺ کے مدت نبوت سے زیادہ ہے.“ ” اگر ہمارا سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ نہیں ہے تو کسی قوم کی تاریخ سے ہم کو پتہ دو کہ خدائے تعالیٰ پر کسی نے افتراء کیا ہو اور پھر اے مہلت دی گئی ہو.ہمارے لئے تو یہ معیار صاف ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا زمانہ 23 سال تک کا ایک در از زمانہ ہے.اس صادق اور کامل نبی کے زمانہ سے قریباً ملتا ہوا زمانہ اللہ تعالیٰ نے اب تک ہم کو دیا.“ فرمان مرزا از ملفوظات جلد 1 صفحہ 36 مطبوعہ لندن) اسی نوع کا اعتراض راشد علی اور اس کے پیر عبدالحفیظ کے ہم مشرب ایک شخص حافظ محمد یوسف صاحب ضلعد ار نہر نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے کیا تھا.آپ نے اس کا جواب اپنی کتاب " اربعین نمبر ۳ اور اربعین نمبر 4 میں پوری شرح وبسط کے ساتھ تحریر فرمایا.چونکہ یہ مضمون ایک تفصیلی اور وضاحت کا متقاضی ہے اس لئے ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریریں قارئین کی خدمت میں پیش دو کر رہے ہیں تا کہ اس مسئلہ کے سب پہلو روشن ہو سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: واضح ہو کہ حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار نہر نے اپنے فہم اور غلط کار مولویوں کی تعلیم سے ایک مجلس میں بمقام لا ہور.بڑے اصرار سے یہ بیان کیا کہ اگر کوئی نبی یا رسول یا اور کوئی مامور من اللہ ہونے کا جھوٹا دعوی کرے اور اس طرح پر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہے تو وہ ایسے افتراء کے ساتھ تئیس برس تک یا اس سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے.یعنی افتراء علی اللہ کے بعد اس قدر عمر پانا اس کی سچائی کی دلیل نہیں ہوسکتی اور بیان کیا کہ ایسے کئی لوگوں کے نام میں نظیر آ پیش کر سکتا ہوں جنہوں نے نبی یا رسول یا مامورمن اللہ ہونے کا دعوی کیا اور تئیس برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک لوگوں کو سناتے رہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہمارے پر نازل ہوتا ہے حالانکہ وہ کا ذب تھے.غرض حافظ صاحب نے محض اپنے مشاہدہ کا حوالہ دے کر مذکورہ بالا دعوے پر زور دیا جس سے لازم آتا تھا کہ قرآن شریف کا وہ استدلال جو آیات مندرجہ ذیل میں آنحضرت علی کے منجانب اللہ ہونے کے بارے میں ہے صحیح نہیں ہے اور گویا خدا تعالیٰ نے سراسر خلاف واقعہ اس محبت کو نصاری اور یہودیوں اور مشرکین کے سامنے پیش کیا ہے.اور گویا آئمہ اور مفسرین نے بھی محض نادانی سے اس دلیل کو مخالفین کے سامنے پیش کیا.یہاں تک کہ شرح عقائد نسفی میں بھی کہ جو اہلِ سنت کے عقیدوں کے بارے میں ایک کتاب ہے عقیدہ کے رنگ میں اس دلیل کو لکھا ہے اور علماء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے
474 که استخفاف قرآن یا دلیل قرآن کلمہ کفر ہے.مگر نہ معلوم کہ حافظ صاحب کو کس تعصب نے اس بات پر آمادہ کر دیا کہ باوجود دعوی حفظ قرآن مفصلہ ذیل آیات کو بھول گئے اور وہ یہ ہیں: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُوْلِ كَرِيْمٍ ه وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيْلاً مَّا تُؤْمِنُوْنَ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنِ قَلِيْلاً مَّا تَذَكَّرُوْنَ تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِيْنَ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ هِ لَا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَه فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِيْنَ 0 دیکھوسورۃ الحاقہ المجز ونمبر 29.اور ترجمہ اس کا یہ ہے کہ یہ قرآن کلام رسول کا ہے.یعنی وحی کے ذریعہ سے اس کو پہنچا ہے.اور یہ شاعر کا کلام نہیں.مگر چونکہ تمہیں ایمانی فراست سے کم حصہ ہے.اس لئے تم اس کو پہچانتے نہیں.اور یہ کا ہن کا کلام نہیں.یعنی اس کا کلام نہیں جو جنات سے کچھ تعلق رکھتا ہو مگر تمہیں تدبر اور تذکر کا بہت کم حصہ دیا گیا ہے اس لئے ایسا خیال کرتے ہو تم نہیں سوچتے کہ کا ہن کس پست اور ذلیل حالت میں ہوتے ہیں بلکہ یہ ربّ العالمین کا کلام ہے جو عالم اجسام اور عالم ارواح دونوں کا رب ہے یعنی جیسا کہ وہ تمہارے اجسام کی تربیت کرتا ہے ایسا ہی وہ تمہاری روحوں کی تربیت کرنا چاہتا ہے اور اسی ربوبیت کے تقاضا کی وجہ سے اس نے رسول کو بھیجا ہے اور اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنالیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پر وحی کی ہے حالانکہ وہ کلام اس کا ہوتا نہ خدا کا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور کوئی تم میں سے اس کو بچا نہ سکتا یعنی اگر وہ ہم پر افتراء کرتا تو اس کی سزا موت تھی.کیونکہ وہ اس صورت میں اپنے جھوٹے دعویٰ سے افتراء اور کفر کی طرف بلا کر ضلالت کی موت سے ہلاک کرنا چاہتا تو اس کا مرنا اس حادثہ سے بہتر ہے کہ تمام دنیا اس کی مفتر یانہ تعلیم سے ہلاک ہو.اس لئے قدیم سے ہماری یہی سنت ہے کہ ہم اسی کو ہلاک کر دیتے ہیں جو دنیا کے لئے ہلاکت کی راہیں پیش کرتا ہے اور جھوٹی تعلیم اور جھوٹے عقائد پیش کر کے مخلوق خدا کی روحانی موت چاہتا ہے اور خدا پر افترا کر کے گستاخی کرتا ہے.اب ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی سچائی پر یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اگر وہ ہماری طرف سے نہ ہوتا تو ہم اس کو ہلاک کر دیتے اور وہ ہرگز زندہ نہ رہ سکتا گوتم لوگ اس کے بچانے کے لئے کوشش بھی کرتے.لیکن حافظ صاحب اس دلیل کو نہیں مانتے اور فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی وی کی تمام و کمال مدت تمیس برس کی تھی اور میں اس سے زیادہ مدت تک کے لوگ دکھا سکتا ہوں
475 جنہوں نے جھوٹے دعوئے نبوت اور رسالت کے کئے تھے اور باوجود جھوٹ بولنے اور خدا پر افترا کرنے کے وہ تئیس برس سے زیادہ مدت تک زندہ رہے لہذا حافظ صاحب کے نزدیک قرآن شریف کی یہ دلیل باطل اور بیچ ہے اور اس سے آنحضرت ﷺ کی نبوت ثابت نہیں ہو سکتی مگر تعجب کہ جبکہ مولوی رحمت اللہ صاحب مرحوم اور مولوی سید آل حسن صاحب مرحوم نے اپنی کتاب ازالہ اوہام اور استفسار میں پادری فنڈل کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی تو پادری فنڈل صاحب کو اس کا جواب نہیں آیا تھا اور باوجد و یکہ تواریخ کی ورق گردانی میں یہ لوگ بہت کچھ مہارت رکھتے ہیں مگر وہ اس دلیل کو توڑنے کے لئے کوئی نظیر پیش نہ کر سکا اور لا جواب رہ گیا اور آج حافظ محمد یوسف صاحب مسلمانوں کے فرزند کہلا کر اس قرآنی دلیل سے انکار کرتے اربعین نمبر 3 روحانی خزائن جلد 17 صفحه 387 تا390 ) ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس اصول اور معیار کو پیش فرمایا ہے اس پر امت کے بہت سے آئمہ و مفسرین نے بھی صاد کیا ہے چنانچہ حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اسی آیت مذکورہ بالا کی تفسیر میں فرماتے ہیں." هــذا ذكـره عـلـى سـبـيـل التمثيل بما يفعله الملوك لمن يتكذب عليهم فانّهم لا يمهلونه بل يضربون رقبته في الحال “ ( تفسیر کبیر.جلد 30 صفحہ 118 مطبع داراحیاء التراث العربی بیروت) ترجمہ:.” اس آیت میں مفتری کی حالت تمثیلاً بیان کی ہے کہ اس سے وہی سلوک ہوگا جو بادشاہ ایسے شخص سے کرتے ہیں جو ان پر جھوٹ باندھتا ہے.وہ اس کو مہلت نہیں دیتے بلکہ فی الفور قتل کرواتے ہیں.( یہی حال مفتری علی اللہ کا ہوتا ہے ) پھر آپ اس عدم مہلت اور جلد قتل کئے جانے پر عقلی ونقلی بحث کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں : "هذا هوا لواجب في حكمة الله تعالى لئلا يشتبه الصادق بالكاذب“ ( جلد 30 صفحہ 119 ) ترجمہ : اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ایسا ہونا ضروری اور واجب ہے تا کہ صادق و کاذب کے حالات مشتبہ نہ ہو جائیں.گویا جس طرح آیت اس معیار کی مؤید ہے عقل بھی اسی کی تائید کرتی ہے
حضرت علامہ زمختشر می فرماتے ہیں: 476 بمن ” والـمـعـنـى ولو ادّعى علينا شيئاً لم نقله لقتلناه صبراً كما يفعله الملوک (تفسیر الکشاف.سورۃ الحاقہ.جلد 4 صفحہ 137 دار يتكذب عليهم معاجلة بالسخط والانتقام.“ المعرفہ بیروت) ترجمہ :.اگر یہ مدعی ہم پر افتراء کرتا تو ہم اس سے جلد انتقام لیتے اور اس کوقتل کر دیتے جیسا کہ بادشاہ ان کے ساتھ کرتے ہیں جو ان پر جھوٹ باندھتے ہیں.“ تفسیر روح البیان میں لکھا ہے: " في الآية تنبيه على ان النبي عليه السلام لو قال من عند نفسه شيئاً او زاد او نقص 66 حرفاً واحداً على ما اوحى اليه لعاقبه الله وهو اكرم الناس عليه فما ظنك بغيره ـ “ ( جلد 4 صفحہ 462) ترجمہ:.اس آیت ( لو تقول علینا ) میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ اگر کوئی بات اپنے پاس سے کہہ دیتے یا وحی میں کمی و بیشی کر دیتے تو اللہ تعالیٰ ان کو سخت سزا دیتا.آنحضرت ﷺ باوجود یکہ اللہ کے ہاں سب سے اکرم ہیں جب آپ کا یہ حال ہے تو دوسرا مفتری کیونکر بچ سکتا ہے.“ فتح البیان میں لکھا ہے : والانتقام الـمـعـنـى لقتلناه صبراً كما يفعل الملوك بمن يتكذب عليهم معاجلة بالسخط ( جلد 10 صفحه 57- از نواب صدیق حسن خان.مطبوعہ دار الفكر العربی ) ترجمہ:.اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ افتراء کی صورت میں ہم اس کو جلد ہلاک کر دیتے.جیسا کہ بادشاہ ان لوگوں کے متعلق کرتے ہیں جو ان پر افتراء باندھتے ہیں.“ حضرت علامہ شہاب لکھتے ہیں: القتال بيمينه ويكفحه بالسيف ويضرب به جيده ”هـو تـصـويـر لا هـلاكـه بافظع ما يفعله الملوك بمن يغضبون عليه وهو ان ياخذ الشباب على البیضاوی جلد 8 صفحہ (241) ترجمہ:.قطع الوتین وغیرہ میں ہلاکت مفتری کا وہ بھیانک ترین نقشہ کھینچا گیا ہے جو شاہانِ وقت ان کے
477 لئے اختیار کرتے ہیں جن پر وہ ناراض ہوتے ہیں اور وہ یوں کہ جلا داس شخص یا مفتری کا دایاں ہاتھ پکڑیگا اور تلوار سامنے سے چلا کر گردن اڑادے گا.“ آئمہ سلف نے خاص طور پر تئیس سال کو جو کہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ نبوت و وحی والہام تھا ، معیار صداقت کے طور پر قائم کیا اور اسے مخالفین اسلام کے سامنے ایک نا قابل رڈ دلیل کے طور پر پیش فرمایا.چنانچہ (1) عقائد کی مشہور کتاب ” نبراس ،شرح الشرح لعقائد النسفی میں لکھا ہے: " فان العقل يجزم بامتناع اجتماع هذه الامور فى غير الانبياء وان يجمع الله تعالى هذه الكمالات في حق من يعلم انه يفترى عليه ثم يمهله ثلاثاً وعشرين سنةً ـ “ مطبوعہ شاہ عبد الحق محدث دہلوی اکیڈمی سرگودہا ) ترجمہ:.عقل اس بات پر کامل یقین رکھتی ہے کہ یہ امور ( معجزات اور اخلاق عالیہ وغیرہ) غیر نبی میں نہیں پائے جاتے.نیز یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ یہ باتیں کسی مفتری میں جمع نہیں کرتا اور یہ بھی کہ پھر اس کو تئیس برس مہلت نہیں دیتا.(2) حضرت امام ابن القیم ایک عیسائی مناظر کے سامنے بطور دلیل صداقت فرماتے ہیں: " وهو مستمر فى الافتراء عليه ثلاثاً وعشرين سنةً وهو مع ذلك يؤيده و ينصره و یعلی امره و يمكن له من اسباب النصر الخارجة عن عادة البشر و اعجب من ذلك انه دعواته و یهلک اعدائه من غير فعل منه نفسه ولا سبب“ (زاد المعاد في هدي خير العباد - الجزء الثالث صفحہ 42 مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت) ترجمہ :.یہ کس طرح ممکن ہے کہ جسے تم مفتری قرار دیتے ہو وہ مسلسل تنیس برس تک اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ بایں ہمہ اس کو ہلاک کرنے کی بجائے اس کی تائید کرے اور اس کی نصرت فرمائے اور اس کے کام کو عظمت بخشے اور اس کو فتح و نصرت کے ایسے اسباب عطا فرمائے جو انسانی طاقت سے بالا تر ہوں بلکہ اس سے بھی عجیب تریہ کہ وہ اس کی دعاؤں کو سنتا ر ہے اور اس کے دشمنوں کو بغیر اس کی کوشش اور سبب کے ہلاک کرتا ر ہے؟“
478 حضرت امام ابن القیم کے نزدیک تئیس برس تک مہلت پانا قطعی دلیل صداقت ہے.(3) شرح العقائد کی شرح النبر اس میں 23 سالہ معیار کی وجہ بایں الفاظ درج ہے: ” فان النبي صلى الله عليه وسلم بعث وعمره اربعون سنة وتوفى وعمره ثلاث وستون سنة على الصحيح (صفحہ 444 مطبوعہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی اکیڈمی سرگودہا) ترجمہ: صحیح بات یہ ہے کہ رسول کریم نے چالیس برس کی عمر میں مبعوث ہوئے اور تریسٹھ سال کی عمر میں حضور کا وصال ہو گیا.“ گویا حضور بعد دعویٰ وحی تئیس برس تک زندہ رہے.اور یہ صداقت کا کامل معیار ہے.یعنی جو مدعی وحی والہام اتنا عرصہ مہلت پالے وہ یقینا سچا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اصول کے مزید نقوش ابھارتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: دو خدا تعالیٰ نے ایک بڑا اصول جو قرآن شریف میں قائم کیا تھا اور اسی کے ساتھ نصاری اور یہودیوں پر حجت قائم کی تھی یہ تھا کہ خدا تعالیٰ اس کا ذب کو جو نبوت یا رسالت اور مامورمن اللہ ہونے کا جھوٹا دعوی کرے مہلت نہیں دیتا اور ہلاک کرتا ہے.پس ہمارے مخالف مولویوں کی یہ کیسی ایمانداری ہے کہ مونہہ سے تو قرآن شریف پر ایمان لاتے ہیں مگر اس کے پیش کردہ دلائل کو رد کرتے ہیں.اگر وہ قرآن شریف پر ایمان لا کر اسی اصول کو میرے صادق یا کاذب ہونے کا معیار ٹھہراتے تو جلد تر حق کو پالیتے لیکن میری مخالفت کے لئے اب وہ قرآن شریف کے اس اصول کو بھی نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا دعوی کرے کہ میں خدا کا نبی یا رسول یا مامور من اللہ ہوں جس سے خدا ہم کلام ہو کر اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے وقتا فوقتا راہ راست کی حقیقتیں اس پر ظاہر کرتا ہے اور اس دعوے پر تئیس یا پچیس برس گذر جائیں یعنی وہ معیاد گذر جائے جو آنحضرت ﷺ کی نبوت کی میعاد تھی اور وہ شخص اس مدت تک فوت نہ ہو اور نہ قتل کیا جائے تو اس سے لازم نہیں آتا کہ وہ شخص سچا نبی یا سچا رسول یا خدا کی طرف سے سچا مصلح اور مجد د ہے اور حقیقت میں خدا اس سے ہم کلام ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ کلمہ کفر ہے کیونکہ اس سے خدا کے کلام کی تکذیب و تو ہین لازم آتی ہے ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کی رسالت حلقہ کے ثابت کرنے کے لئے اسی استدلال کو پکڑا ہے کہ اگر یہ شخص خدا تعالیٰ پر افترا کرتا تو میں اس کو ہلاک کر دیتا.اور تمام علماء
479 جانتے ہیں کہ خدا کی دلیل پیش کردہ سے استخفاف کرنا بالاتفاق کفر ہے کیونکہ اس دلیل پر ٹھٹھ مارنا جو خدا نے قرآن اور رسول کی حقیت پر پیش کی ہے مستلزم تکذیب کتاب اللہ ورسول اللہ ہے اور وہ صریح کفر ہے مگر ان لوگوں پر کیا افسوس کیا جائے شاید ان لوگوں کے نزدیک خدا تعالیٰ پر افتراء کرنا جائز ہے اور ایک بدظن کہہ سکتا ہے کہ شاید یہ تمام اصرار حافظ محمد یوسف صاحب کا اور ان کا ہر مجلس میں بار بار یہ کہنا کہ ایک انسان تئیس برس تک خدا تعالیٰ پر افترا کر کے ہلاک نہیں ہوتا اس کا یہی باعث ہو کہ انہوں نے نعوذ باللہ چند افترا خدا تعالیٰ پر کئے ہوں اور کہا ہو کہ مجھے یہ خواب آئی یا مجھے یہ الہام ہوا اور پھر اب تک ہلاک نہ ہوئے تو دل میں یہ سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کا اپنے رسول کریم کی نسبت یہ فرمانا کہ اگر وہ ہم پر افتراء کرتا تو ہم اس کی رگِ جان کاٹ دیتے یہ بھی صحیح نہیں ہے اور خیال کیا کہ ہماری رگِ جان خدا نے کیوں نہ کاٹ دی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت رسولوں اور نبیوں اور مامورین کی نسبت ہے جو کروڑ ہا انسانوں کو اپنی طرف دعوت کرتے ہیں اور جن کے افتراء سے دنیا تباہ ہوتی ہے لیکن ایک ایسا شخص جو اپنے تئیں مامور من اللہ ہونے کا دعوے کر کے قوم کا مصلح قرار نہیں دیتا اور نہ نبوت اور رسالت کا مدعی بنتا ہے اور محض ہنسی کے طور پر یا لوگوں کو اپنا رسوخ جتلانے کے لئے دعوی کرتا ہے کہ مجھے یہ خواب آئی اور یا الہام ہوا اور جھوٹ بولتا ہے یا اس میں جھوٹ ملاتا ہے وہ اس نجاست کے کیڑے کی طرح ہے جو نجاست میں ہی پیدا ہوتا ہے اور نجاست میں ہی مر جاتا ہے.ایسا خبیث اس لائق نہیں کہ خدا اس کو یہ عزت دے کہ تو نے اگر میرے پر افتراء کیا تو میں تجھے ہلاک کر دوں گا بلکہ وہ بوجہ اپنی نہایت درجہ کی ذلّت کے قابل التفات نہیں.کوئی شخص اس کی پیروی نہیں کرتا.کوئی اس کو نبی یا رسول یا مامور من اللہ نہیں سمجھتا.ماسوا اس کے یہ بھی ثابت کرنا چاہیئے کہ اس مفتر یا نہ عادت پر برا بر تئیس برس گذر گئے.اربعین نمبر 3.روحانی خزائن جلد 17 صفحه 405 تا 407) آپ نے فرمایا: وو ” اب دیکھو اس سے زیادہ تصریح کیا ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بار بار فرماتا ہے کہ
480 مفتری اسی دنیا میں ہلاک ہو گا.بلکہ خدا کے بچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے پہلی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کر کے مرتے ہیں اور ان کو اشاعت دین کے لئے مہلت دی جاتی ہے اور انسان کی اس مختصر زندگی میں بڑی سے بڑی مہلت تئیس برس ہیں کیونکہ اکثر نبوت کا ابتداء چالیس برس پر ہوتا ہے اور تنیس برس تک اگر اور عمر ملی تو گویا عمدہ زمانہ زندگی کا یہی ہے اسی وجہ سے میں بار بار کہتا ہوں کہ صادقوں کے لئے آنحضرت ﷺ کی نبوت کا زمانہ نہایت صحیح پیمانہ ہے اور ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افتراء کر کے آنحضرت ﷺ کے زمانہ نبوت کے موافق یعنی تنیس برس تک مہلت پاسکے ضرور ہلاک ہو گا.اس بارے میں میرے ایک دوست نے اپنی نیک نیتی سے یہ عذر پیش کیا تھا کہ آیت لو تقول علینا میں صرف آنحضرت ﷺے مخاطب ہیں اس سے کیونکر سمجھا جائے کہ اگر کوئی دوسرا شخص افتراء کرے تو وہ بھی ہلاک کیا جائے گا؟ میں نے اس کا یہی جواب دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا یہ قول محل استدلال پر ہے اور منجملہ دلائل صدق نبوت کے یہ بھی ایک دلیل ہے اور خدا تعالیٰ کے قول کی تصدیق تبھی ہوتی ہے کہ جھوٹا دعوی کر نیوالا ہلاک ہو جائے ورنہ یہ قول منکر پر کچھ حجت نہیں ہوسکتا اور نہ اس کے لئے بطور دلیل ٹھہر سکتا ہے بلکہ وہ کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا تیس برس تک ہلاک نہ ہونا اس وجہ سے نہیں کہ وہ صادق ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ خدا پر افتراء کرنا ایسا گناہ نہیں ہے جس سے خدا اسی دنیا میں کسی کو ہلاک کرے کیونکہ اگر یہ کوئی گناہ ہوتا اور سنت اللہ اس پر جاری ہوتی کہ مفتری کو اسی دنیا میں سزا دینا چاہیے تو اس کے لئے نظیر میں ہونی چاہئے تھیں.اور تم قبول کرتے ہو کہ اس کی کوئی نظیر نہیں بلکہ بہت سی ایسی نظیریں موجود ہیں کہ لوگوں نے تئیس برس تک بلکہ اس سے زیادہ خدا پر افتراء کئے اور ہلاک نہ ہوئے.تو اب بتلاؤ کہ اس اعتراض کا کیا جواب ہوگا“ اربعین نمبر 4 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 435،434) آپ نے اس منطقی دلیل کو قرآنی اصول سے ثابت کرتے ہوئے بھی واضح فرمایا کہ لازم ہے کہ قرآن شریف کی دلیل کو بنظر تحقیر دیکھنے سے خدا سے ڈریں.صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت لَوْ تَقَوّلَ عَلَيْنَا کو بطور لغو نہیں لکھا جس سے کوئی حجت قائم نہیں ہوسکتی.اور خدا تعالیٰ ہر ایک لغو کام سے پاک ہے.پس جس حالت میں اس حکیم نے اس آیت کو اور ایسا ہی اس دوسری آیت کو جس کے یہ الفاظ ہیں.إِذًا لَّاَذَقْنَكَ ضِعْفَ الحَيوةِ وَضِعْفَ المَمَاتِ ( بنی اسرائیل : 76) محل استدلال پر
481 بیان کیا ہے تو اس سے ماننا پڑتا ہے کہ اگر کوئی شخص بطور افترا کے نبوت اور مامورمن اللہ ہونے کا دعویٰ کر.تو وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ نبوت کے مانند ہرگز زندگی نہیں پائے گا.ورنہ یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں ٹھہرے گا اور کوئی ذریعہ اس کے سمجھنے کا قائم نہیں ہوگا کیونکہ اگر خدا پر افترا کر کے اور جھوٹا دعویٰ مامورمن اللہ ہونے کا کر کے تئیس برس تک زندگی پالے اور ہلاک نہ ہو تو بلا شبہ ایک منکر کے لئے حق پیدا ہو جائے گا کہ وہ یہ اعتراض پیش کرے کہ جبکہ اس در دغگو نے جس کا دروغگو ہونا تم تسلیم کرتے ہو تئیس برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک زندگی پالی اور ہلاک نہ ہوا تو ہم کیونکر سمجھیں کہ ایسے کاذب کی مانند تمہارا نبی نہیں تھا.ایک کاذب کو تئیس برس تک مہلت مل جانا صاف اس بات پر دلیل ہے کہ ہر ایک کا ذب کو ایسی مہلت مل سکتی ہے تو پھر لَوْ تَقَوّلَ عَلَيْنَا کا صدق لوگوں پر کیونکر ظاہر ہوگا ؟ اور اس بات پر یقین کرنے کے لئے کون سے دلائل صلى الله پیدا ہوں گے کہ اگر آنحضرت ﷺ افترا کرتے تو ضرور تئیس برس کے اندر اندر ہلاک کئے جاتے.لیکن اگر دوسرے لوگ افترا کریں تو وہ تئیس برس سے زیادہ مدت تک بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور خدا ان کو ہلاک نہیں کرتا.یہ تو وہی مثال ہے مثلاً ایک دوکاندار کہے کہ اگر میں اپنے دوکان کے کاروبار میں کچھ خیانت کروں یار ڈی چیزیں دوں یا جھوٹ بولوں یا کم وزن کروں تو اسی وقت میرے پر بجلی پڑے گی اس لئے تم لوگ میرے بارے میں بالکل مطمئن رہو اور کچھ شک نہ کرو کہ کبھی میں کوئی رڈی چیز دوں گا یا کم وزنی کروں گا یا جھوٹ بولوں گا بلکہ آنکھ بند کر کے میری دوکان سے سودا لیا کرو اور کچھ تفتیش نہ کرو تو کیا اس بے ہودہ قول سے لوگ تسلی پا جائیں گے اور اس کے اس لغو قول کو اس کی راستبازی پر ایک دلیل سمجھ لیں گے؟ ہر گز نہیں معاذ اللہ ایسا قول اس شخص کی راستبازی کی ہرگز دلیل نہیں ہوسکتی بلکہ ایک رنگ میں خلق خدا کو دھوکا دینا اور ان کو غافل کرنا ہے.ہاں دوصورت میں یہ دلیل ٹھیر سکتی ہے.(۱) ایک یہ کہ چند دفعہ لوگوں کے سامنے یہ اتفاق ہو چکا ہو کہ اس شخص نے اپنی فروختنی اشیاء کے متعلق کچھ جھوٹ بولا ہو یا کم وزن کیا ہو یا کسی اور قسم کی خیانت کی ہو تو اسی وقت اس پر بجلی پڑی ہو.اور نیم مردہ کر دیا ہو اور یہ واقعہ جھوٹ بولنے یا خیانت یا کم وزنی کرنے کا بار بار پیش آیا ہو اور بار بار بجلی پڑی ہو یہاں تک کہ لوگوں کے دل یقین کر گئے ہوں کہ در حقیقت خیانت اور جھوٹ کے وقت اس شخص پر بجلی کا حملہ ہوتا ہے تو اس صورت میں یہ قول ضرور بطور دلیل استعمال ہوگا.کیونکہ بہت سے لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ جھوٹ بولا اور بجلی گری (۲) دوسری صورت یہ ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ یہ
482 واقعہ پیش آوے کہ جو شخص دوکاندار ہو کر اپنی فروختنی اشیاء کے متعلق کچھ جھوٹ بولے یا کم وزن کرے یا اور کسی قسم کی خیانت کرے یا کوئی رڈی چیز بیچے تو اس پر بجلی پڑا کرے.سو اس مثال کو زیر نظر رکھ کر ہر ایک منصف کو کہنا پڑتا ہے کہ خدائے علیم و حکیم کے منہ سے لو تقول علینا کا لفظ نکلنا وہ بھی تبھی ایک برہان قاطع کا کام دے گا کہ جب دو صورتوں میں سے ایک صورت اس میں پائی جائے.(۱) اول یہ کہ نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ نے پہلے اس سے کوئی جھوٹ بولا ہو اور خدا نے کوئی سخت سزا دی ہو اور لوگوں کو بطور امور مشہودہ محسوسہ کے معلوم ہو کہ آپ اگر خدا پر افترا کریں تو آپ کو سزا ملے گی جیسا کہ پہلے بھی فلاں فلاں موقع پر سزا ملی لیکن اس قسم کے استدلال کو آنحضرت ﷺ کے پاک وجود کی طرف راہ نہیں بلکہ آنحضرت علی کی نسبت ایسا خیال کرنا بھی کفر ہے.(۲) دوسرے استدلال کی یہ صورت ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ عام قاعدہ ہو کہ جو شخص اس پر افترا کرے اس کو کوئی لمبی مہلت نہ دی جائے اور جلد تر ہلاک کیا جائے.سو یہی استدلال اس جگہ پر صحیح ہے.ورنہ لو تقول علینا کا فقرہ ایک معترض کے نزدیک محض دھوکا دہی اور نعوذ باللہ ایک فضول گودوکاندار کے قول کے رنگ میں ہو گا جو لوگ خدا تعالیٰ کے کلام کی عزت کرتے ہیں ان کا کانشنس ہرگز اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ لو تقول علینا کا فقرہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا مہمل ہے جس کا کوئی بھی ثبوت نہیں.صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا ان مخالفوں کو یہ بے ثبوت فقرہ سنانا جو آنحضرت کی نبوت کو نہیں مانتے اور نہ قرآن شریف کو من جانب اللہ مانتے ہیں محض لغو اور طفل تسلی سے بھی کمتر ہے اور ظاہر ہے کہ منکر اور معاند اس سے کیا اور کیونکر تستی پکڑیں گے بلکہ ان کے نزدیک تو یہ صرف ایک دعوئی ہو گا جس کے ساتھ کوئی دلیل نہیں ایسا کہنا کس قدر بیہودہ خیال ہے کہ اگر فلاں گناہ میں کروں تو مارا جاؤں گو کروڑ ہا دوسرے لوگ ہر روز دنیا میں وہی گناہ کرتے ہیں اور مارے نہیں جاتے.اور کیسا یہ مکروہ عذر ہے کہ دوسرے گناہگاروں اور مفتریوں کو خدا کچھ نہیں کہتا یہ سز ا خاص میرے لئے ہے اور عجیب تریہ کہ ایسا کہنے والا یہ بھی تو ثبوت نہیں دیتا کہ گذشتہ تجربہ سے مجھے معلوم ہوا ہے اور لوگ دیکھ چکے ہیں کہ اس گناہ پر ضرور مجھے سزا ہوتی ہے.غرض خدا تعالیٰ کے حکیمانہ کلام کو جو دنیا میں اتمام حجت کے لئے نازل ہوا ہے.ایسے بیہودہ طور پر خیال کر ناخدا تعالیٰ کی پاک کلام سے ٹھٹھا اور جنسی ہے.“ اربعین نمبر 4.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ (4440430
483 ان تحریروں سے یہ مسئلہ خوب کھل جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ ایک قطعی فیصلہ ہے کہ وہ مفتری کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیتا بلکہ اسے ناکام و نامراد کر کے ہلاک کرتا ہے.لیکن وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں بلکہ مفتری تو کامیاب ہوتے ہیں اور اپنے اس گستاخانہ بیان کے حق میں بعض نظیریں بھی پیش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ گویا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کے قول کو رد کرتے ہوئے اسے جھوٹا قرار دیتے ہیں.ان کا یہ وطیرہ نہ صرف ان کے جھوٹا ہونے کی دلیل بلکہ خدا تعالیٰ کے کلام کی شان میں کھلی کھلی گستاخی بھی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون پر مزید زور دیتے ہوئے خدا تعالیٰ کے کلام کی حقانیت کو ثابت فرمایا.آپ حافظ محمد یوسف صاحب وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے پھر فرماتے ہیں.وو انہی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قرآن کی یہ دلیل کہ اگر یہ نبی جھوٹے طور پر وحی کا دعوی کرتا تو میں اس کو ہلاک کر دیتا.یہ کچھ چیز نہیں ہے بلکہ بہیترے ایسے مفتری دنیا میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے تمیس برس سے بھی زیادہ مدت تک نبوت یا رسالت یا مامور من اللہ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کر کے خدا پر افترا کیا اور اب تک زندہ موجود ہیں.حافظ صاحب کا یہ قول ایسا ہے کہ کوئی مومن اس کی برداشت نہیں کرے گا مگر وہی جس کے دل پر خدا کی لعنت ہو.کیا خدا کا کلام جھوٹا ہے؟ ومن اظلم من الذي كذب كتاب الله الا ان قـول اللـه حـق والا ان لعنة الله على المكذبين - یہ خدا کی قدرت ہے کہ اس نے منجملہ اور نشانوں کے یہ نشان بھی میرے لئے دکھلایا کہ میرے وحی اللہ پانے کے دن سیدنا محمد مصطفیٰ کے دنوں سے برابر کئے.جب سے کہ دنیا شروع ہوئی ایک انسان بھی بطور نظیر نہیں ملے گا جس نے ہمارے سید وسردار نبی ﷺ کی طرح تئیس برس پائے ہوں اور پھر وحی اللہ کے دعوے میں جھوٹا ہو یہ خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی ﷺ کو ایک خاص عزت دی ہے جو ان کے زمانہ نبوت کو بھی سچائی کا معیار ٹھہرا دیا ہے.پس اے مومنو! اگر تم ایک ایسے شخص کو پاؤ جو مامورمن اللہ ہونے کا دھوئی کرتا ہے اور تم پر ثابت ہو جائے کہ وحی اللہ پانے کے دعوئی پر تئیس برس کا عرصہ گذر گیا اور وہ متواتر اس عرصہ تک وحی اللہ پانے کا دعوی کرتا رہا اور وہ دعوی اس کی شائع کردہ تحریروں سے ثابت ہوتا رہا تو یقیناً سمجھ لو کہ وہ خدا کی طرف سے ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ ہمارے سید و مولی محمد مصطفی ﷺ کی وحی اللہ پانے کی مدت اس
484 شخص کو مل سکے جس شخص کو خدا تعالی جانتا ہے کہ وہ ہوتا ہے ہاں اس بات کا واقعی طور پر موت ضروری ہے کہ در حقیقت اس شخص نے وحی اللہ پانے کے دعوئی میں تئیس برس کی مدت حاصل کر لی اور اس مدت میں آخیر تک کبھی خاموش نہیں رہا اور نہ اس دعوئی سے دست بردار ہوا.سو اس امت میں وہ ایک شخص میں ہی ہوں جس کو اپنے نبی کریم ﷺ کے نمونہ پر وحی اللہ پانے میں تئیس برس کی مدت دی گئی ہے اور تئیس برس تک برابر یہ سلسلہ وحی کا جاری رکھا گیا.“ پس کسی مامور من اللہ کی صداقت کا یہ ایک ایسا معیار ہے جو نبی اکرم ﷺ کے دربار ہی سے ( اربعین نمبر 3.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 408 409 ) الله تصدیق پاتا ہے اور جو اس معیار پر پورا اتر جائے اس کی صداقت میں کلام کرنا کلام الہی کو غلط ثابت کرنے کے مترادف قرار پاتا ہے.یہ اس قدر محکم اصول ہے کہ ساری امت میں گذشتہ چودہ سوسال میں ایک مدعی بھی ایسا نہیں گذرا جو مذکورہ بالا شرائط کے اعتبار سے مفتری قرار پاتا ہو اور وہ کامیاب رہا ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی نظیر پیش کرنے والوں کے لئے ایک خطیر رقم انعام کی بھی مقرر فرمائی آپ نے فرمایا.اگر وہ وو ” اپنے اس دعوے میں صادق ہیں.یعنی اگر یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص نبی یا رسول اور مامورمن اللہ ہونے کا دعویٰ کر کے اور کھلے کھلے طور پر خدا کے نام پر کلمات لوگوں کو سنا کر پھر باوجود مفتری ہونے کے برابر تئیس برس تک جو زمانہ وحی آنحضرت ﷺ ہے زندہ رہا ہے تو میں ایسی نظیر پیش کرنے والے کو بعد اس کے جو مجھے میرے ثبوت کے موافق یا قرآن کے ثبوت کے موافق ثبوت دے دے پانسور و پیہ نقد دیدوں گا.اربعین نمبر 3.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 402) اس چیلنج کو اُس زمانہ میں نہ حافظ محمد یوسف صاحب قبول کر سکے ، نہ اس زمانہ میں ان کے ہم مشرب راشد علی اور ان کا پیر قبول کر سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لا جواب چیلنج اس دعوی کی ٹھوس دلیل ہے کہ کبھی بھی ایسا ظہور میں نہیں آیا کہ کسی مفتری نے افترا پردازی کے بعد 23 سال کی مہلت پائی ہو.اس کے مزید ثبوت کے لئے ہم آئمہ سلف کے دو اقتباس پیش کرتے ہیں.اوّل.علامہ عبد العزیز لکھتے ہیں : " وقد ادعى بعض الكذابين النبوة كمسيلمة اليمامى والاسود العنسي وسجاح
485 الـكـاهـنـة فـقـتـل بـعـضـهـم وتـاب بعضهم وبالجملة لم ينتظم امر الكاذب في النبوة الا أياماً (نبراس ، شرح الشرح العقائد النسفی - صفحہ 444 - مطبوعہ شاہ عبد الحق محدث دہلوی اکیڈمی.سرگودہا) 66 معدودة “ ترجمہ:.بے شک بعض لوگوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کئے جیسا کہ مسیلمہ، اسود عنسی اور سجاح ہیں.لیکن پھر بعض ان میں سے قتل کئے گئے اور بعض نے تو بہ کر لی.بہر حال کسی جھوٹے مدعی کی بات چند دن سے زیادہ نہیں رہی.“ دوم.حضرت امام ابن القیم " تحریر فرماتے ہیں: ” نحن لا ننكر انّ كثيراً من الكذابين قام فى الوجود وظهرت له شوكته ولكن لم يتم له امره ولم تطل مدته بل سلط عليه رسله واتباعهم فمحقوا اثره وقطعوا دابره واستاصلوا شافته هذه سنته في عباده منذ قامت الدنيا والى ان يرث الارض ومن عليها.“ 66 (زادالمعاد الجزء الثالث صفحہ 43 ناشر دار الكتاب العربی بیروت لبنان ) ترجمہ :.ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ بہت سے کذاب اور جھوٹے مدعی پیدا ہوئے اور ان کی ابتداء شوکت بھی ظاہر ہوئی.لیکن وہ اپنے مقصد کو پا نہ سکے اور نہ ہی ان کی مدت لمبی ہوئی.بلکہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور ان کے اتباع نے بہت جلد ان کی بیخ کنی کر کے ان کو بے نام ونشان کر دیا اور ان کی گردن توڑ دی ابتداء دنیا سے اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں میں یہی سنت رہی اور تا قیامت رہے گی.حضرت امام ابن القیم نے چند سطور پہلے اسی جگہ لمبی مدت کی تشریح ثلاثاً وعشرين سنة “ (23 سال) کے الفاظ میں کی ہے.پس کامل تحقیقات کے بعد ہم نہایت وثوق سے اس سچائی کا اعلان کرتے ہیں کہ ” کا ذب مدعیان کا زمانہ 23 سال کی مدت سے زیادہ کا دعوی سراسر جھوٹ اور افتراء ہے اور مغالطہ رہی ہے.قرآن کریم اس خیال کو دھکے دے رہا ہے.عقل انسانی اس کی تردید کر رہی ہے.نقلی دلیلیں یعنی تفاسیر اور محققین کی شہادتیں اس کو غلط بتا رہی ہیں.نیز صحف سابقہ بھی اس کو جھوٹا قرار دیتے ہیں.لہذا راشد علی اور اس کا پیر محض جھوٹے ہیں.اس بات میں اب صرف ایک پہلو باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ پیر ومرید کی اس جوڑی نے چند
486 عل مدعیان کی ایک فہرست پیش کی ہے تا کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی صداقت کے اس اصول کو جو ہر بچے مدعی کے لئے بھی صداقت کا ایک معیار ہے ،جھوٹا ثابت کرسکیں.( نعوذ باللہ من ڈ لک) وہ لکھتے ہیں.ماضی کے چند مدعیان نبوت ، مهدویت مسیحیت آئیے اب دیکھتے ہیں کہ کیا ایسا اجتماع جیسا کہ مرزا صاحب کے دور میں ہوا کسی اور مدعی نبوت / مہدویت/ محدثیت کے دور میں بھی ہوا ہے؟ جب یہ ثابت ہو گیا اور جیسا کہ اسٹرانامی (astronomy) کی بے شمار کتب شاہد ہیں کہ رمضان میں خسوف وخسوف کا اجتماع 1ھ سے ہر 22 سال بعد پابندی سے ہوتا آیا ہے.ان 1300 سالوں میں لاتعداد مدعیان نبوت و مہدویت و مسیحیت گذرے ہیں نمونے کے طور پر چند حوالے پیش خدمت ہیں.مرزا صاحب کی ہی کی حیات مندرجہ ذیل مدعیان مسیحیت و مہدویت موجود تھے.-1 -2 امریکہ میں الیگزینڈر ڈوئی.سوڈان میں مہدی سوڈانی.-3 وکسوف ہوا.-4 _5 -6 اجتماع ہوا.ایران میں مرزا علی باب نے 1260ھ میں مہدی کا دعویٰ کیا.اس کے دور میں 1851ء میں اجتماع خسوف مرزا علی باب کے جانشین صبح ازل اور بہا اللہ (1250 تا 1270 ) دونوں مہدویت کے دعویدار ہوئے.صالح بن طریف برغواطی نے 125ھ میں مہدی موعود اور نبوت کا دعویٰ کیا اور 47 سال تک دعوائے نبوت کے ساتھ اپنی قوم کا حاکم رہ کر 174ھ میں تخت و تاج اپنے بیٹے کو سونپ گیا.اس کے دور میں بھی رمضان میں خسوف وکسوف کا الاستقصاء لا خباء دول المغرب الاقصی مطبوعہ جلد اول صفحہ 51 منقول: آئمہ تلبیس ج1 صفحہ 192) ابو منصور عیسی نے 341ھ میں دعویٰ مہدویت و نبوت کیا اور 369 ھ ( ان کے 28 سال ) تک اپنی قوم پر حکمرانی کرتا رہا.اس کے زمانے میں بھی انہیں تاریخوں میں گہنوں کا اجتماع ہوا.-7 _8 ابو غفر محمد بن معاذ 268 ھ میں دعویٰ کیا اور 297 ھ (29 سال) تک اپنی قوم پر حکمرانی کرتارہا.صرف چند مثالوں پر اکتفا کیا گیا ہے وگر نہ فہرست بہت لمبی ہے.“ (آئمہ تلبیس جلد 1 صفحہ 194) ( بے لگام کتاب )
487 راشد علی چند جھوٹوں پر اکتفا کرنے والا تو نہیں لیکن یہ بہر حال حقیقت ہے کہ جھوٹوں کی فہرست تو جتنی بھی لمبی ہو وہ ہمارے اس مذکورہ بالا پیش کردہ اصول کی صداقت کی اتنی ہی گواہ بنتی چلی جائے گی.کیونکہ ان مدعیان میں سے ہر ایک یہ ثابت کر جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ مفتری کو نا کام ونامراد کرتا ہے اور اسے پنپنے نہیں دیتا اور اسے ہلاک کر دیتا ہے.اور خاص طور پر اسے اتنی مہلت نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ نبوت سے بڑھ جائے.اس مذکورہ بالا فہرست کو پیش کر کے راشد علی اور اس کے پیر نے اس مذکورہ بالا معیار صداقت کو مزید پختہ کر دیا ہے.کیونکہ اوّل تو اس فہرست میں سے ایک بھی ایسا نہیں کہ جو سچا تھا جیسا کہ راشد علی نے خود آئندہ سطور میں اس کا اقرار کیا ہے ان میں سے ایک بھی سچا نہیں تھا.وہ کہتا ہے.اگر مرزا صاحب کے پیروکار اس اجتماع خسوف و کسوف کی بناء پر ان کو سچا تسلیم کرتے ہیں تو دیانتداری کا تقاضا ہے کہ ان کو گزشتہ تمام مدعیان نبوت / مسیحیت / مہدویت کو بھی سچا تسلیم کر لینا چاہئے.“ دوسرے یہ کہ ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس نے دعویٰ کیا ہو اور اس کے بعد چاند سورج کو رمضان کے مہینہ میں حدیث میں مذکور تاریخوں کو گرہن لگا ہو جس کو اس نے اپنے دعوی کی تائید کے طور پر پیش کیا ہو.تیسرے یہ کہ ان میں سے سوائے تین کے باقی سب میں سے کسی ایک کو 23 سال کی مہلت نہیں ملی جیسا کہ راشد علی کے دیئے گئے کوائف سے ظاہر ہے.اب رہا ان تین مدعیان کا مسئلہ، جن کا زمانہ 23 سال سے زیادہ پیش کیا گیا ہے تو ان میں سے آخری یعنی ابو غفیر محمد بن معاذ کے دعوے کا ذکر ہی نہیں کہ وہ دعوی کیا تھا.اس لئے اسے زیر بحث نہیں لایا جا سکتا.باقی جہاں تک دو کا تعلق ہے تو ان کی تفصیل ذیل میں پیش کی جاتی ہے جو راشد علی اور اس کے پیر کو قطعی جھوٹا اور قرآن کریم کے پیش فرمودہ اصول کو مزید سچا ثابت کرتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئے نبوت و مسیحیت و مہدویت کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے.-1 صالح بن طریف:.اس مدعی کا ذکر ابن خلدون جلد 6 صفحہ 207 سے شروع ہوتا ہے.اس جگہ
488 لکھا ہے: انه انما انتحل ذلك عناداً ومحاكاة لما بلغه شان النبي صلى الله عليه وسلّم....ثمّ زعم انه المهدى الاكبر الذى يخرج في آخر الزمان وانّ عيسى يكون صاحبه ويصلّى خلفه کہ اس نے یہ دعویٰ محض آنحضرت ﷺ کی شان بلند کو دیکھ کرعنا دا کیا تھا اور پھر اس نے خیال کیا کہ میں مہدی اکبر ہوں جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا.عیسی اس کے ساتھ ہوگا اور اس کے پیچھے نماز پڑے گا.ابن خلدون کے اس بیان پر کہ صالح نے دعوی نبوت کیا دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں.اول یہ بیان ابن خلدون نے محض ایک شخص کی روایت سے نقل کیا ہے اور دنیا کا کوئی عظمند ایسے اہم معاملہ کے لئے خبر واحد کو مستند نہیں مان سکتا.بالخصوص جبکہ اس راوی کا بیان بھی کئی سوسال کے بعد ضبط تحریر میں لایا گیا ہو.دوم ابن خلدون نے مدعی مذکور کے الہام یا اس کا دعوی اس کے الفاظ میں نقل نہیں کیا.اگر ہم ابن خلدون کی روایت کو صحیح بھی تسلیم کر لیں اور صالح کو مدعی نبوت بھی مان لیں تب بھی اس سے ہمارے استدلال پر کوئی حرف نہیں آتا.کیونکہ صالح مذکور نے اپنے دعوئی کو علی الاعلان پیش نہیں کیا بلکہ اس کو مخفی رکھتا رہا.چنانچہ ابن خلدون لکھتے ہیں: ” واوصى (صالح بن طريف ) بدينه الى ابنه الياس وعهد اليه بموالاة صاحب الاندلس من بنى اميّة و باظهار دينه اذا قوی امرهم وقام بامره بعده ابنه الياس ولم يزل مظهراً 66 للاسلام مسراً لما اوصاه به ابوه من كلمة كفرهم “ ابن خلدون جلد 6 صفحہ 207 - مؤسستة جمال للطباعة والنشر بيروت ) صالح بن طریف نے اپنے دین کی اپنے بیٹے کو وصیت کی اور کہا کہ اندلس کے حاکم سے دوستی رکھنا اور جب تمہاری حکومت مضبوط ہو جائے تو اس دین کو ظاہر کرنا.چنانچہ اس کے بعد اس کا بیٹا الیاس والی ہوا اور وہ ہمیشہ اسلام کو ظاہر کرتا رہا اور اپنے باپ کے وصیت کردہ مذہب کو چھپا تا رہا.گویا صالح بن طریف نے اس دعوی کو عام پبلک میں بیان نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اخفاء سے کام لیتا رہا
489 اور اسی اخفاء کی حالت میں مرگیا اور پھر اس کے بیٹے نے بھی اس کا اظہار نہیں کیا بلکہ وہ سب اسلام کا ہی اظہار کرتے رہے اور یہ ایسے مدعیوں کی عام حالت ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے لکھا ہے: وكذلك المنتظر محمد بن الحسن فان عددا كثيراً من الناس يدعى كلّ واحد هم انه محمد بن الحسن منهم من يظهر ذلك لطائفة من الناس ومنهم من يكتم ذالك ولا يظهره الا للواحد والاثنين“ (منہاج السنة - جلد 2 صفحہ 123) کہ چونکہ محمد بن الحسن کے مہدی ہونے کا خیال عوام میں پایا جاتا ہے اس لئے بہت سے لوگ اس امر کے مدعی ہوئے ہیں جن میں سے بعض نے اس دعوے کو ایک جماعت کے سامنے پیش کیا اور بعض نے اس دعوے کو بالکل چھپایا اور سوائے ایک دو آدمیوں کے کسی کے سامنے اس کا ذکر نہ کیا.“ پس صالح بن طریف کو بطور نظیر پیش کرنا غلطی ہے.راشد علی اور اس کے پیر نے یہ لکھ کر کہ مدعی مذکور 47 سال تک دعوئے نبوت کے ساتھ زندہ رہا، ایک صریح غلط بیانی کا ارتکاب کیا ہے.کیا وہ اس کا کوئی ثبوت دے سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں ! ھاتوا برهانكم ان كنتم صادقين - -2 ابو منصور :.یہ درست ہے کہ ابو منصور مذکور نے نماز و روزہ وغیرہ سے انحراف کیا تھا اور لوگوں کو حکومت کیخلاف بھی برانگیختہ کرتارہا تھا.شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب منہاج السنتہ میں اس کا ذکر شیعہ فرقوں کے ذیل میں کیا ہے اور اس کی اباطیل کو تفصیلاً بتایا ہے لیکن کسی ایک جگہ بھی اس کے دعویٰ نبوت کا اور 27 برس تک مہلت پانے کا ذکر نہیں ہے.ع کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے اب را شد علی اور اس کے پیر عبدالحفیظ کا فرض ہے کہ وہ اس کے دعویٰ نبوت کا ثبوت دیں لیکن وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے.منہاج السنہ اور دیگر کتب تاریخ سے صرف اس قدر ثابت ہے کہ وہ ایک ملحد انسان تھا اور رافضی خیالات کی ترویج چاہتا تھا.پھر قدرے الوہیت کا دعویدار بن گیا تھا.چنانچہ الاستاذ ابومنصور البغدادی اپنی شہرہ آفاق کتاب ”الفرق في الفرق “ میں ابو منصور المحجبی مدعی مذکور کے متعلق لکھتے ہیں: ” وادعى هـذا الـعـجـلـى انه خليفة الباقر ثم الحد في دعواه فزعم انه عرج به الى
490 السماء وان الله تعالی مسح بيده على راسه وقال له يا بنى بلغ عنى ثم انزله الى الارض وزعم انه الكسف الساقط من السماء المذكور فى قوله وان يروا كسفاً من السماء ساقطاً يقولوا سحابٌ مركوم) وكفرت هذه الطائفة بالقيامة والجنة والنار وتاوّلوا الجنة على نعيم الدنيا والنار على محن الناس فى الدنيا واستحلوا مع هذه الضلالة خنق مخالفيهم واستمرت فتنتهم على عادتهم الى ان وقف يوسف بن عمر الثقفي واتى العراق في زمانه على عورات المنصورية فاخذ ابا منصور العجلى وصلبه ـ “ (صفحہ 234) 66 ترجمہ :.ابو منصور مذکور نے یہ دعوی کیا کہ وہ امام باقر کا خلیفہ ہے.بعد ازاں اپنے دعوئی میں الحاد سے کام لیا اور کہا کہ اس کو آسمان پر اٹھایا گیا.اللہ تعالیٰ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا.اور فرمایا کہ اے میرے بیٹے میری طرف سے تبلیغ کر.پھر اس کو زمین پر اتارا.اس کا خیال تھا کہ آیت وَإِنْ تَرَوْا میں جس الكسف الساقط “ کا ذکر ہے وہ میں ہوں.منصور یہ فرقہ نے قیامت جنت اور دوزخ کا انکار کر دیا ہے.اور جنت سے مراد تا ویلا دنیا کی نعمتیں اور دوزخ سے مراد دنیا کی مصیبتیں لی ہیں.اس قدر ضلالت کے باوجود یہ لوگ اپنے مخالفوں کو گردن زدنی سمجھتے ہیں.ان کا فتنہ جاری رہا تا وقتیکہ یوسف بن عمر ثقفی کو آگاہی ہوئی اور اس نے ان کے معائب کو دریافت کیا اور ابو منصور عجلی کو پکڑ کر صلیب پر مار دیا.“ اس اقتباس سے دو باتیں خاص طور پر ثابت ہوتی ہیں: اول :.ابو منصور کا دعویٰ ہرگز نبوت کا نہیں تھا.وحی و الہام کا بھی نہیں تھا.اس کا کوئی الہام پیش نہیں کیا گیا.ہاں اس نے الحاد اور بے دینی اختیار کی اور شیعوں کے ایک حصہ کو امام باقر کی خلافت کے دعوی کے باعث ہمنو ابنالیا.دوم :.یہ شخص مارا گیا.صلیب دیا گیا اور وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا.کیا اس کو آنحضرت ﷺ کے مقابلہ پر پیش کرنا کھلی مغالطہ دہی نہیں ؟ پس اب نصف النہار کی طرح یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کسی مفتری علی اللہ کو خدا تعالیٰ نے کامیاب و کامران نہیں کیا اور اسے تمیں سال کی مہلت نہیں دی.تمیس سال کی تصدیق ، امت میں صرف اسی کو حاصل
491 ہوئی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور موعود مسیح اور معہود مہدی تھا.آپ کے دعوی کے بعد خدا تعالیٰ نے چاند اور سورج کے گرہن کی گواہی بھی بھیجی اور آپ ہی کو اپنے نبی کریم ﷺ کے نمونہ پر وحی اللہ پانے میں تمھیں برس کی مدت عطا کی.آپ نے فرمایا: اس امت میں وہ ایک شخص میں ہی ہوں جس کو اپنے نبی کریم کے نمونہ پر وحی اللہ پانے میں تئیس برس کی مدت دی گئی ہے اور تئیس برس تک برابر یہ سلسلہ ہوتی جاری رکھا گیا." (اربعین نمبر 3.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 409) آخر میں راشد علی اور اس کے پیر کو جھوٹا اور ناکام ثابت کرنے کے لئے ایک بار پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چینج پیش کیا جارہا ہے کہ اگر وہ " اپنے دعوے میں صادق میں یعنی اگر یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص نبی یا رسول اور مامور من اللہ ہونے کا دعوی کر کے اور کھلے کھلے طور پر خدا کے نام پر کلمات لوگوں کو سنا کر پھر باوجود مفتری ہونے کے برابر تمھیں (23) برس تک جو زمانہ وحی آنحضرت یہ ہے زندہ رہا ہے تو علی میں ایسی نظیر پیش کرنے والے کو بعد اس کے جو مجھے میرے ثبوت کے موافق یا قرآن کے ثبوت کے موافق ثبوت دے دے پانسور و پیہ نقد دوں گا.“ اربعین نمبر 3 - روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 402) مفتری ہوتا ہے آخر اس جہاں میں رُوسیاہ جلد تر ہوتا ہے برہم افتراء کا کاروبار افتراء کی ایسی دُم لمبی نہیں ہوتی کبھی جو ہو مثلِ مدتِ فخر الرسل خیر الدیار آسماں میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار
492 اس قدر یہ زندگی کیا افتراء میں کٹ گئی پھر عجب تریہ کہ نصرت کے ہوئے جاری بحار اس قدر نصرت تو کاذب کی نہیں ہوتی کبھی گر نہیں باور نظیر میں اس کی تم لاؤ دو چار ( براتین احمدیہ حصہ پنجم )
493 جماعت احمدیہ اور امت مسلمہ کا موقف
494 ✰✰✰ شیطان کے شکست خوردہ چیلے راشد علی اور اس کا پیر لکھتے ہیں: " امت مسلمہ کا موقف : باوجود اپنے داخلی اختلافات اور فرقہ بندیوں کے امت مسلمہ کے عوام وخواص کا اور تمام فرقوں کے علمائے کرام کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے ماننے والے قادیانی / احمدی / لاہوری / مرزائی مرند ، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں.یہ اعزاز اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حاصل ہے کہ دنیائے اسلام میں سب سے پہلے پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو قانونی طور پر کا فرقرار دیکر غیر مسلم اقلیت میں شامل کر دیا.فالحمد للہ علی ذلک.اس کے فوراً بعد ہی تمام بلا د عرب نے بھی ان کو غیر مسلم قرار دیدیا.الحمد للہ آج ساری دنیا کے مسلمان قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج تصور کرتے ہیں اور حرمین شریفین میں ان کے داخلے پر پابندی ہے.ہاں جھوٹ بول کر داخل ہو جائیں تو دوسری بات ہے اور یہی اللہ کا عذاب ہے وہ لاکھ اپنے آپ کو مسلمان باور کرانا چاہیں ، امت مسلمہ نے تو ان کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا ہے.اب اگر ان کی دوستی ہے تو وہ کافروں سے ! اگر ان کو پناہ ملتی ہے تو کافروں کی آغوش میں ! اگر کہیں آسانی سے جاسکتے ہیں تو وہ ان کے کا فرآقاؤں کے دیس میں!!فاعتبروا یا اولی الابصار!! جماعت احمدیہ کا موجودہ ہیڈ کوارٹر لندن ہے.چونکہ امت مسلمہ قادیانیوں کو اسلام سے خارج کر چکی ہے اس لئے آج یہ قادیانی امت مسلمانوں سے اپنی اس ہزیمت کا انتقام لے رہی ہے.“ ( بے لگام کتاب ) اس عبارت میں انہوں نے تین امور کو جماعت احمدیہ کی تکذیب کے لئے پیش کیا ہے.(1) وو امت کا متفقہ فیصلہ جماعت احمدیہ مرتد ، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج امر اول:.یہ ہے کہ امت مسلمہ کے سب فرقوں نے اپنے سب داخلی اختلافات اور فرقہ بندیوں کے باوجود جماعت احمدیہ کو مرتد ، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے.ان کے اس کارنامے کا تفصیلی جواب اور تجزیہ امام جماعت احمد یہ حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ
495 بنصرہ العزیز نے حکومت پاکستان کی طرف سے شائع کردہ قرطاس ابیض کو زیر بحث لاتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا تھا.وہ تفصیلی جواب ان لوگوں کے کارنامے کی خوب قلعی کھولتا ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا: 74 ء کی قومی اسمبلی نے جو کچھ کیا وہ تو احمدیت کی سچائی کا اتنا عظیم الشان نشان ہے کہ اس زمانے میں اتنا عظیم الشان نشان شاذ کے طور پر آپ کو نظر آئے گا لیکن......پہلے میں نام نہادا کثریت کے بارہ میں بعض علماء کی آراء کے چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں پھر میں دوسری بات کی طرف آؤں گا.سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کہتے ہیں:.ہم نام نہادا کثریت کی تابعداری نہیں کریں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثریت باطل پر ہے.“ ( سوانح حیات بخاری.صفحہ 116.اخبار زمزم لاہور 30 اپریل1939ء) مولوی اشرف علی صاحب تھانوی جو آج کل کے دیو بندیوں کے بہت بڑے بزرگ سمجھے جاتے ہیں ان کے متعلق ماہنامہ البلاغ کراچی بابت ماہ جولائی 1976 ء صفحہ 59 پر لکھا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”آج کل جمہوریت کو شخصیت پر ترجیح دی جا رہی ہے.(74ہ ء کا یہ جمہوری فیصلہ ہی تھا نا جس کو اچھالا جا رہا ہے ) اور کہتے ہیں کہ جس طرف کثرت ہو وہ سوادِ اعظم ہے.اسی زمانہ میں میرے ایک دوست نے اس کے متعلق ایک عجیب اور لطیف بات بیان کی تھی.( اور واقعہ وہ بات اتنی لطیف ہے کہ اگر کسی مولوی صاحب کے ذہن میں آجاتی تو بڑا تعجب ہوتا.ان کے ایک دوست کو سمجھ آئی ہے لیکن ان مولوی صاحب میں یہ سعادت تھی کہ ان کی کچی بات کو انہوں نے پسند کیا اور پھر اس کو اپنا کر آگے پیش کیا.بات واقعی بہت لطیف ہے کہتے ہیں کہ جو میرے دوست نے عجیب بات بیان کی وہ یہ تھی کہ اگر سواد اعظم کے معنی یہ بھی مان 66 لئے جائیں کہ جس طرف زیادہ ہوں تو ہر زمانہ کے سواد اعظم مراد نہیں بلکہ خیر القرون کا زمانہ مراد ہے.“ یعنی آنحضرت ﷺ نے جس سوادِ اعظم کا ذکر فرمایا ہے اگر اس کے لفظی معنے مان لئے جائیں کہ سواد اعظم سے مرادا کثریت ہی ہے تو کہتے ہیں کہ میرے دوست نے بتایا کہ اس سے مراد پھر بھی یہ نہیں ہے کہ ہر زمانہ کا سوادِ اعظم یا ہر زمانہ کی اکثریت بلکہ خیر القرون مراد ہے یعنی وہ زمانہ جو آنحضرت ﷺ کے اپنے ارشادات کے مطابق نیکی کا زمانہ تھا، سچائی کا زمانہ تھا، روشنی کا زمانہ تھا جس کو حضور نے خود خیر القرون
496 قرار دیا.یعنی آپ کا زمانہ.پھر آپ کے بعد آنے والوں کی نسل پھر اس سے اگلے آنے والوں کی نسل یہ تین زمانے ہیں جو روشنی کے زمانے ہیں اور خیر القرون کہلاتے ہیں.اس کے بعد پھر اندھیرا پھیلنا شروع ہو جائے گا.یہ حوالہ آگے چلتا ہے لکھا ہے: وو جو غلبہ خیر کا وقت تھا ان لوگوں میں سے جس طرف مجمع کثیر ہو وہ مراد ہے نہ کہ ثم يفشـــو الکذب کا زمانہ یہ جملہ ہی بتا رہا ہے کہ خیر القرون کے بعد شر میں کثرت ہوگی.“ یعنی خیر القرون سے وہ زمانہ مراد نہیں جو آنحضرت ﷺ کے اپنے الفاظ کے مطابق جھوٹ کی اشاعت کا زمانہ ہے.بڑی عمدہ اور پختہ بات ہے.اس کے خلاف کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی.سواد اعظم کے متعلق خود حضور اکرم نے فرمایا لیکن ساتھ یہ بھی تو فرما دیا کہ خیر القرون تین زمانے ہیں یا تین نسلوں کا نام ہے اس کے بعد کذب کی اشاعت شروع ہو جائے گی اور اندھیرا پھیل جائے گا.اس زمانہ کو حضور اکرم نے خیر القرون نہیں فرمایا.اس لئے جو زمانہ خیر القرون نہیں ہے بلکہ جھوٹ کی کثرت کا زمانہ ہے.اس کو اعظم کہہ دینا اور اس سے شرعی استنباط کرنا بالکل بے بنیاد بات ہے.پھر مولوی صاحب لکھتے ہیں: ” مجھے تو یہ بات بہت ہی پسند آئی ہے.واقعی کام کی بات ہے.“ سوادا ناجی فرقہ کی پیشگوئی یہ ہے تو کام کی بات لیکن ہمارے کام کی بات ہے، آپ کے کام کی بات نہیں ہے.جس کو حضور اکرم ﷺ اشاعت کذب کا زمانہ قرار دیتے ہیں اس کے متعلق بھی سن لیجئے کہ اس زمانہ کی اکثریت کے کیا حالات ہوں گے : وو " عن عبدالله بن عمرو رضی الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليا تين على امتى ما اتى على بنى اسرائيل حذو النعل بالنعل حتى ان كان منهم من اتى امه علانية لكان فى امتى من يصنع ذلك وان بنى اسرائيل تفرّقت على ثنتين وسبعين ملةً وتفترق امتى على ثلاث وسبعين ملّةً كلّهم في النار الا ملةً واحدةً قالوا من هي يا رسول الله ! قال ما انا عليه واصحابی.“ ( ترندی.ابواب الایمان - باب افتراق هذ الامة ) ترجمہ :.حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میری امت پر بھی وہ حالات
497 آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے جن میں ایسی مطابقت ہوگی جیسے ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے.یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی اپنی ماں سے بدکاری کا مرتکب ہوا تو میری امت میں بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا.بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی.لیکن ایک فرقہ کے سوا باقی سب آگ میں ہوں گے.صحابہ نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کون سا ہے تو حضور نے فرمایا وہ فرقہ جو میری اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل پیرا ہو گا.یا جس کے حالات میرے اور میرے صحابہ نجیسے ہوں گے.یہ دونوں معنے ہیں یعنی جس حال پر تم مجھے اور میرے صحابہ کو پاتے ہو.اس فرقہ کو اس حال پر پاؤ گے.جن خیالات و عقائد پر مجھے اور میرے صحابہ کو پاتے ہو ان خیالات اور عقائد پر اگر کسی فرقہ کو پاؤ گے تو وہ میرے والا فرقہ ہے اور وہی ناجی فرقہ ہے.وہابیوں کے امام اور مسلمان کی تعریف یہ حدیث ایک بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے.خصوصاً اس ٹولے کے لئے جو آجکل پاکستان پر مسلط کیا جارہا ہے جسے وہابی اہلحدیث ٹولہ کہا جاتا ہے کیونکہ اس ٹولے کے بانی حضرت امام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے موحد بزرگ گزرے ہیں.مسلمانانِ حجاز کی بھاری اکثریت ان کو بارھویں صدی کا مجد د تسلیم کرتی ہے وہ حدیث نبوی ، ستفترق هذه الامة على ثلاث وسبعين فرقة كلهم في النار الاً واحدةً کہ ” میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی سب آگ میں ہوں گے سوائے ایک کے.‘ درج کر کے فرماتے ہیں: وو " فهذه المسئلة اجل المسائل.“ کہ یہ مسئلہ اجل مسائل میں سے ہے.اور پھر فرماتے ہیں فمن فهمها فهو الفقيه ومن عمل بها فهو المسلم“.(مختصر سیرت رسول اللہ صفحہ 18.امام محمد بن عبدالوہاب مطبوعہ قاہرہ) یعنی جہتر فرقوں میں سے بہتر کے ناری اور ایک کے جنتی ہونے کا مسئلہ ایک عظیم الشان مسئلہ ہے جو اسے سمجھتا ہے وہی فقیہہ ہے اور جو اس پر عمل کرتا ہے.یعنی بہتر فرقوں کو عملا ناری اور ایک کو جنتی قرار دیتا ہے صرف اور صرف وہی مسلمان ہے.یعنی امام محمد بن عبد الوہاب نے مسلمان کی تعریف یہاں پہنچ کر یہ کر دی کہ
498 یہ حدیث اتنی اہم ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اس میں جو مسئلہ پیش فرمایا ہے وہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ جو شخص اس کو تسلیم کرتا ہے اس پر عمل کرتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ ہاں جب امت مسلمہ فرقوں میں بٹ جائے گی تو بہتر ناری ہوں گے اور ایک جنتی ہو گا اور یہ وہی ہے جو مسلمان ہے دوسرا مسلمان ہی کوئی نہیں.پیشگوئی پر پیشگوئی شارح مشکوۃ اور فقہ حنفی کے مسلمہ عالم حضرت امام ملا علی قاری تہتر فرقوں والی حدیث نبوی کی شرح میں لکھتے ہیں : پس یہ بہتر فرقے سب کے سب آگ میں ہوں گے اور ناجی فرقہ وہ ہے جو روشن سنت محمد یہ اور پاکیزہ طریقہ احمدیہ پر قائم ہے.ان کے اصل الفاظ یہ ہیں : فتلك اثنان وسبعون فرقةً كلّهم فى النّار والفرقة الناجية هم اهل السنة البيضاء (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد اول صفحہ 248) المحمدية والطريقة النقية الاحمدية “ کتنے عظیم الشان بزرگ تھے اور کیسے تعلق باللہ والے لوگ تھے ایک پیشگوئی پر ایک اور پیشگوئی کر رہے ہیں اور خوب کھول کر بتا رہے ہیں کہ وہ محمد یہ فرقہ احمدیہ فرقہ کے ایسے رستہ پر ہو گا جو کہیں اور تمہیں نظر نہیں آئے گا.ناجی فرقہ اہل التشیع کی نظر میں اس حدیث کو مسلمانوں کے ہر گروہ نے تسلیم کیا اور وہ اسے اپنے اوپر چسپاں کرتے رہے.شیعہ کہتے تھے کہ وہ ایک فرقہ ہم ہیں اور باقی سارے فرقے بہتر میں شامل ہیں.جب کہ سنی یہ کہ رہے تھے کہ ہم وہ ہیں جو ایک فرقہ ہیں.پھر ان میں سے بھی ہر فرقہ یہ کہتا تھا کہ وہ ناجی ہے اور دوسرے ناری ہیں.چنانچہ ایک شیعہ مجتہد بہتر فرقوں والی حدیث کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ وہ اختلافات جو اُن کے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان پائے جاتے ہیں وہ انہیں باقی فرقوں سے بالکل جدا کر دیتے ہیں.چنانچہ لکھتے ہیں : شیعہ حضرت امیر المومنین امام المتقین اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو خلیفہ بلا
499 الله فصل بعد پیغمبر آخرالزمان ﷺ کے جانتے ہیں اور ان کے بعد ان کی اولاد سے گیارہ فرزند امام مہدی آخر الزمان علیہ السلام تک یکے بعد دیگرے خلیفتہ الرسول اور امام برحق مانتے ہیں.لیکن باقی بہتر فرقے پہلا خلیفہ ابوبکر ، دوسرا عمر، تیسر اعثمان چو تھا علی علیہ السلام کو جانتے ہیں.“ وو اسی قسم کی اور بھی علامتیں بیان کرنے کے بعد آخر پر لکھتے ہیں : خلاصہ : تمام اصول اور فروع میں یہی ایک شیعہ فرقہ بہتر فرقوں سے علیحدہ ہے جس کا جوڑ کسی صورت میں ان کے ساتھ نہیں ہوسکتا کیونکہ بڑے بڑے مسائل اصول و فروع میں ان کا سخت اختلاف ہے.اس لئے تمام اسلامی فرقے شیعہ کو مخالف سمجھتے ہیں.لیکن حدیث مذکور کے مطابق یہی ایک فرقہ باقی فرقوں سے بالکل جدا ہونے کی وجہ سے ناجی اور بہشتی ہے.66 ( فتاوی حائری.حصہ دوم.از افادات عالیہ حجتہ الاسلام والمسلمین صدر المفسرین سلطان المحد ثین محی الملت والذین رئیس الشریعہ مدارالشریعة نباض دو ہر حکیم الامۃ الناجیہ سر کا ر شریعت مدار شمس العلماء علامہ سید الحائری صاحب قبله مجتہد العصر والزمان بار سوم صفحه 6،5) جنتی گروہ اقلیت میں ہوگا اب بتائیے کل تو یہ بحث ہو رہی تھی کہ بہتر کون ہیں اور ایک کون ہے.اور کل تک یہ لوگ تسلیم کر رہے تھے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے بہر حال سچ فرمایا ہے.صرف جھگڑا یہ کریں گے کہ ہم وہ ایک ناجی فرقہ ہیں یا باقیوں میں سے وہ ایک فرقہ ہے؟ یعنی جھگڑا یہ تھا کہ بہتر کون ہیں اور ایک تہتر واں فرقہ کون ہے؟ چنانچہ جماعت اسلامی کا ایک مشہور آرگن ترجمان القرآن“ ہے وہ بھی اس حدیث کو تسلیم کرتا ہے اور اس پر بحث اٹھاتے ہوئےلکھتا ہے : اسلام میں نہ اکثریت کا کسی بات پر متفق ہونا اس کے حق ہونے کی دلیل ہے نہ اکثریت کا نام سواد اعظم ہے.(بڑی کھل کر بات کی ہے) نہ ہر بھیٹر جماعت کے حکم میں داخل ہے اور نہ کسی مقام کے مولویوں کی کسی جماعت کا کسی رائے کو اختیار کر لینا اجماع ہے.اس مطلب کی تائید اس حدیث نبوی سے ہوتی ہے جو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بایں الفاظ مروی ہے (آگے وہی حدیث درج کی ہے کہ ) بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں پڑ جائیں گے بجز ایک کے.لوگوں نے پوچھا یہ کون لوگ ہوں گے یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا وہ جو
500 میرے اور میرے اصحاب کے طریقہ پر ہوں گے.“ اس کے بعد ترجمان القرآن لکھتا ہے : یہ گروہ نہ کثرت میں ہو گا نہ اپنی کثرت کو اپنے برحق ہونے کی دلیل ٹھہرائے گا بلکہ اس امت کے تہتر فرقوں میں سے ایک ہوگا.اور اس معمور دنیا میں اس کی حیثیت اجنبی اور بیگانہ لوگوں کی ہوگی جیسا کہ فرمایا "بدا الاسلام غريباً وسيعو د غريباً كما بدا فطوبى للغرباء.ایک ہمارا فرقہ رہ گیا ہے جس کو آج یہ حیثیت حاصل ہے اجنبی اور بیگانہ ہونے کی مگر اللہ کی شان دیکھیں کس طرح ان کے منہ سے حق کہلوا دیا اور ان لعنتیں ڈالنے والوں کی طرف سے خدا نے آپ کو دعائیں دلوا دیں.خدا کی تقدیر نے زبر دستی ان کے منہ سے آپ کو رحمتیں دلوا دیں.ان کو تسلیم کرنا پڑا اور حدیث نبوی یاد آئی تو یہ لوگ حق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے.پس جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا اسلام غربت سے شروع ہوا تھا پھر غریب ہو جائے گا.جیسا کہ پہلے غریب تھا فطوبى للغرباء پس خوشخبریاں اور مبارکیں ہوں ان غرباء کو جو آخری زمانہ میں اسلام کی خاطر غریب الوطن ہو جائیں گے اور غریب کہلائیں گے.اسی حوالے میں ترجمان القرآن آخر میں لکھتا ہے : وو پس جو جماعت محض اپنی کثرت تعداد کی بناء پر اپنے آپ کو وہ جماعت قرار دے رہی ہے جس پر اللہ کا ہاتھ ہے.اس کے لئے تو اس حدیث میں امید کی کوئی کرن نہیں کیونکہ اس حدیث میں اس جماعت الله کی دو علامتیں نمایاں طور پر بیان کر دی گئی ہیں ایک تو یہ کہ وہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہو گی دوسری یہ کہ نہایت اقلیت میں ہوگی.“ ترجمان القرآن.ستمبر، اکتوبر 1945ء - صفحہ 175 176 جلد 27 شماره 4،3 مرتبہ سید ابوالاعلی مودودی) پاکستان پر ٹوٹنے والی قیامت اب اس بات کو اچھی طرح ملحوظ رکھ لیں کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں جب امت مسلمہ بہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی اور ایک تہتر ویں جماعت پیدا ہوگی اور وہ حق پر ہوگی تو بہتر فرقے لازما جھوٹے ہوں گے.کیونکہ بچے ناری نہیں کہلا سکتے.ایک ہی جماعت سچی ہے اور اسے جماعت قرار دیا ہے.کل تک جماعت احمدیہ کے تمام مخالفین خواہ سنی تھے خواہ شیعہ تھے اس حدیث کی صحت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ وہابیہ
501 فرقہ کے امام تو کہتے ہیں کہ مسلمان وہی ہے جو اس حدیث کو سچا مانتا ہے.جو نہیں مانتا وہ مسلمان ہی نہیں.پس شیعہ کیا اور سنی کیا، وہابی کیا اور بریلوی کیا یہ تمام لوگ اس حدیث پر متفق ہیں اور تسلیم کرتے چلے آرہے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے سچ فرمایا ہے.مگر 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان پر جو قیامت ٹوٹی وہ یہ تھی کہ اس دن ان سب نے جماعت احمدیہ کی تکذیب کے شوق میں نعوذ باللہ من ذلک، حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تکذیب سے دریغ نہیں کیا اور بڑی جرأت اور بے حیائی کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ یہ حدیث معاذ اللہ جھوٹی تھی ، ہمارے بزرگ جھوٹے تھے جو اس حدیث کو سچا تسلیم کر گئے.گویا 1974 ء کی اسمبلی کو اکثریت کے زعم میں مسئلہ یوں سمجھ آیا کہ بہتر سچے ہیں اور ایک جھوٹا ہے، بہتر جنتی ہیں اور ایک ناری ہے.چنانچہ اس مسئلہ کا فخر سے اعلان کیا گیا اور کیا جاتا رہا اور یہی مسئلہ ہے جس کو موجودہ حکومت کی طرف سے بھی مزعومہ قرطاس ابیض میں اچھالا جارہا ہے.غرض یہ ایک بہت بڑی جسارت اور بغاوت تھی جس کا7 ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی نے ارتکاب کیا حالانکہ جماعت احمدیہ کے اس وقت کے امام کی طرف سے قومی اسمبلی کے سامنے بار بار اور کھلے لفظوں میں تنبیہ کی گئی تھی کہ تم شوق سے ہمارے دشمن بن جاؤ جو کچھ چاہو ہمیں کہتے رہولیکن خدا کے لئے اسلامی مملکت پاکستان میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے خلاف تو علم بغاوت بلند کرنے کی جسارت نہ کرو.کل تک تم یہ مانتے چلے آ رہے تھے کہ اگر بہتر اور ایک کا جھگڑا چلا تو بہتر ضرور جھوٹے ہوں گے اور تہتر واں ضرور سچا ہو گا اس لئے کہ اصدق الصادقین کی پیشگوئی ہے کہ بہتر جھوٹے ہوں گے یعنی اکثریت جھوٹی ہوگی اور ایک فرقہ سچا ہو گا.مگر آج جماعت احمدیہ کو جھوٹا بنانے کے شوق میں تم یہ اعلان کر رہے ہو کہ بہتر بیچتے ہیں اور صرف ایک جھوٹا ہے.اس کا تو گویا یہ مطلب بنتا ہے کہ معرفت کا جو نکتہ ان کو سمجھ میں آ گیا ہے وہ نعوذ باللہ من ذلك حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سمجھ میں نہیں آیا.یہ دراصل اعلانِ بغاوت تھا جو آنحضرت کے خلاف کیا گیا.ایسے لوگ اسلام میں رہ ہی نہیں سکتے.اور کوئی جرم تھا یا نہیں مگر جس دن حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے واضح ارشاد کے خلاف کھلی کھلی بغاوت کا ارتکاب کیا گیا اس دن ضرور یہ غیر مسلم بن گئے تھے.کیونکہ آنحضور ﷺ کا ارشاد شک وشبہ سے بالا ہے.اور چوٹی کے علماء اور مختلف فرقوں کے بانی مبانی اسے مانتے چلے آئے ہیں بلکہ اسے اسلام کی پہچان قرار دیتے رہے ہیں.مگر یہ سب کے سب اس دن ایسے پاگل ہو گئے اور ان کی عقلیں ایسی ماری گئیں کہ 7 ستمبر کو یہ اعلان کر دیا کہ بہتر فرقے اکٹھے
502 ہیں، یہ ی مسلمان ہیں یعنی جنتی ہیں اور ایک جماعت احمد یہ ہے جو ناری ہے.یہ تھی اصل حقیقت جس کی نعوذ باللہ من ذلک آنحضرت ﷺ کو سمجھ نہیں آئی اور پھر بڑے فخر کے ساتھ یہ لوگ اس کو پیش کرتے رہے اور یہی کہہ کر جماعت کے خلاف نت نئے مطالبے کئے جاتے رہے.احمدیت کی مخالفت کا گند اور کوڑھ دراصل جماعت احمدیہ کی مخالفت کی تاریخ میں شروع سے ہی یہ گند اور کوڑھ داخل تھا کہ جماعت احمدیہ کو وہ جھوٹا بنا ہی نہیں سکتے جب تک اس حدیث کی تکذیب نہ کریں.اس لئے پہلے بھی جب جماعت کی مخالفت کرتے تھے تو علی الاعلان بڑے فخر کے ساتھ ان میں سے بعض اس کی تکذیب کے مرتکب ہوتے تھے.چنانچہ مولوی اختر علی خان ابن مولوی ظفر علی خان صاحب نے 1952ء میں جب احمدیوں کے خلاف تحریک چلائی گئی تو بڑے فخر سے یہ بات پیش کی.وہ کہتے ہیں:.دو مجلس عمل نے گذشتہ تیرہ سو سال کی تاریخ میں دوسری مرتبہ اجماع امت کا موقع مہیا کیا ہے.آج مرزائے قادیان کی مخالفت میں امت کے 72 فرقے متحد و متفق ہیں.حنفی اور وہابی ، دیوبندی، بریلوی، شیعہ سنی ، اہلحدیث سب کے علماء ، تمام پیر اور تمام صوفی اس مطالبہ پر متفق و متحد ہیں کہ مرزائی کا فر ہیں انہیں مسلمانوں سے ایک علیحدہ اقلیت قرار دو.“ یعنی 72 فرقے مسلمان اور ایک غیر مسلم ہے جو ناری ہے.(اخبار زمیندار 5 نومبر 1952 ، صفحہ 2 کالم نمبر 6) قدرت کے عجیب و غریب کھیل اور پھر جب 74ء میں یہ ظالمانہ واقعہ ہو گیا تو اس کو اپنی تائید میں آج پیش کر رہے ہیں اور سمجھ نہیں رہے کہ ہم کیا بات کر رہے ہیں.اس وقت 1974 ء میں نوائے وقت لاہور نے بڑی خوشی سے اور بڑے فخر کے ساتھ بہتر فرقوں کا اجماع کی شہ سرخی کے ساتھ اعلان کیا.دیکھیں کس طرح خدا جھوٹا کرتا ہے لوگوں کو.ان کو پتہ ہی نہیں لگتا کہ خدا کی تقدیر ان سے کیا کھیل کھیل رہی ہے.يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِيْنَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُوْنَ إِلا أَنْفُسَهُم اللہ ان کے مکروں اور ان کی تدبیروں کو ان پر الٹا دیتا ہے.چنانچہ نوائے وقت کا یہ نوٹ اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے:
503 اسلام کی ساری تاریخ میں اس قدر پورے طور پر کسی اہم مسئلہ پر کبھی اجماع امت میں ملک کے سب بڑے بڑے علمائے دین اور حاملانِ شرع متین کے علاوہ تمام سیاسی لیڈر اور ہر گروپ کے سیاسی راہنما کماحقہ متفق ہوئے ہیں.اور صوفیائے کرام اور عارفین باللہ برگزیدگان تصوف وطریقت کو بھی پورا پورا اتفاق ہوا ہے.قادیانی فرقہ کو چھوڑ کر جو بھی 72 فرقے مسلمانوں کے بتائے جاتے ہیں سب کے سب اس مسئلہ کے اس حل پر متفق اور خوش ہیں.“ (نوائے وقت 6 اکتوبر 1974 ء صفحہ 4) کیا اس بات پر خوش ہیں کہ ہم بہتر ہیں.جو پہلے اپنے آپ کو ایک کہا کرتے تھے اور غیروں کی طرف انگلی اٹھا کر کیا شیعہ اور کیا سنی یہ کہا کرتے تھے کہ تم بہتر ہو اور ہم وہ ایک فرقہ ہیں جس کے متعلق ہمارے آقا و مولی محمد مصطفی ﷺ نے خوشخبری دی ہے کہ جب بہتر اور ایک کا جھگڑا چلے گا تو ایک جنتی ہوگا اور 72 ناری ہوں گے.اس دن دیکھیں تقدیر نے ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا.انہوں نے پاگلوں کی طرح اخباروں میں سرخیاں جما دیں اور فخر سے اعلان کیا کہ ہم 72 ہیں اور مرزا غلام احمد کی جماعت، وہ ایک ہے، وہ ایک ہے، وہ ایک ہے.پس خدا کی قسم ! اگر وہ ایک ہے اور تم بہتر ہو تو پھر تمہارا فتویٰ نہیں چلے گا.فتویٰ حضرت اقدس محمد مصطفی پینے کا چلے گا اور کوئی ماں نہیں ہے جس نے کوئی ایسا بچہ پیدا کیا ہو جو محمد مصطفی صلى الله کے فتویٰ کو غلط قرار دے یا اسے الٹا سکے.یاد رکھو! 7 ستمبر 74ء کا دن تمہارے لئے رات بن کر آیا ہے اور ہمارے لئے اس دن روشنی کا ایک سورج طلوع ہوا جس نے احمدیت کو بقعہ نور بنا دیا.تم نے اکٹھے ہو کر اپنے ہاتھوں سے یہ فیصلہ دے دیا کہ آج محمد مصطفی ﷺ کی پیشگوئی پوری ہوئی اور چونکہ تم اس فیصلے میں آنحضرت ﷺ کے نکالے ہوئے نتیجہ کی تکذیب کے مرتکب ہوئے اس لئے وہ پیشگوئی اور بھی زیادہ شان کے ساتھ پوری ہوئی.تمہاری اس ظالمانہ روش نے یہ فیصلہ کر دیا کہ تم جھوٹے ہو کیونکہ تم نے نتیجہ وہ نکالا ہے جو محمد مصطفیٰ لے کے نکالے ہوئے نتیجہ کے عظیم الشان فتح کے سورج کا طلوع الله جومحمد پس یہ ہے تمہاری اکثریت اور یہ ہے تمہاری اکثریت کی حیثیت.اس اکثریت کی ہمیں ایک کوڑی
504 کی بھی پرواہ نہیں کیونکہ اس اکثریت کی ہمارے آقا و مولا محمد مصطفی ﷺ کو کوئی پرواہ نہیں.تم نے ہمیں محمد مصطفی سے کاٹنے کے لئے یہ اقدام کیا تھا مگر اس دن نے تو ہمیشہ کے لئے ہمارا پیوند حضرت محمد مصطفیٰ سے اور بھی زیادہ پکا کر دیا.اگر تم سچے ہو نعوذ باللہ من ذلک اور محمد مصطفی ﷺ نعوذ باللہ من ذلک غلط ہیں تو ہمیں وہ ایک بننا منظور ہے جو غلط ہو کر بھی ہمارے آقا محمد مصطفیٰ " کے ساتھ رہتا ہے.ہمیں یہ ہرگز منظور نہیں ہے کہ ہم ان بہتر وں کے ساتھ شامل ہوں جو ہمارے آقا و مولا محمد مصطفی ﷺ کو منظور نہیں.اس لئے جھوٹا کہو گے.تب بھی ہم اپنے آقا محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ رہیں گے.سچا کہو گے تو پھر تو ہم ہیں ہی بچے.اس لئے اب نکل کے دکھاؤ اس راہ سے.خود تمہارا بچھایا ہوا دام ہے جس نے تمہیں گھیر لیا ہے.ایک بھی تم میں سے باقی نہیں رہا.شیعہ سنی کبھی وہم بھی نہیں کر سکتے تھے کہ سارے متفق ہو جائیں گے کہ وہ سب اپنے اختلاف عقائد کے باوجود اس مسئلہ پر متفق ہیں اور یہ کہ ان کے بزرگوں کے سارے فتوے جھوٹے ہیں.اس دن خدا نے عظیم الشان فتح کا سورج ہمارے لئے طلوع فرمایا.ہم اس پر راضی ہیں.اللهم صل على محمد وال محمد و بارک وسلم انک حمید مجید “ 17 مئی 1985ء - مسجد الفضل لندن ) (2) کافروں کی آغوش میں پناہ امر دوم :.راشد علی اور اس کے پیر نے جماعت احمدیہ پر اندھا دھند یہ حملہ کیا ہے کہ اب اگر ان کی دوستی ہے تو وہ کا فروں سے.اگر ان کو پناہ ملتی ہے تو کافروں کی آغوش میں.اگر کہیں آسانی سے جاسکتے ہیں تو وہ ان کے کافر آقاؤں کے دیس میں !! فاعتبروا یا اولی الابصار !! یہ پیر اور مرید دونوں بغض میں بالکل اندھے ہو چکے ہیں.اگر ان کی اس الٹی منطق کو مان لیا جائے تو پھر اعتراض جماعت احمدیہ پر نہیں.صحابہ رضوان اللہ علیہم پر اٹھتا ہے.کیونکہ جب مکہ میں صحابہ کی تکالیف انتہا کو پہنچ گئیں تو آنحضرت نے ان سے ارشاد فرمایا کہ جن جن سے ممکن ہو حبشہ کی طرف ہجرت کر
505 جائیں چنانچہ آنحضرت ﷺ کے فرمانے پر پہلے ماہ رجب 5 نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور بعد میں مزید بہت سے صحابہ اور صحابیات نے بھی وہاں ہجرت کی.اس زمانہ میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی.جس کی پناہ میں صحابہ رضوان اللہ علیہم نے امن حاصل کیا.گو وہاں کے بادشاہ کو بعد میں اسلام قبول کرنے کی توفیق مل گئی تھی مگر باقی ملک عیسائی تھا.ہمارا خیال ہے راشد علی اور اس کا پیر اتنے بے غیرت تو نہیں ہو سکتے کہ وہی بات صحابہ کے بارہ میں کہیں گے جو جماعت احمدیہ کے بارہ میں کہتے ہیں اس لئے ہم امید کرتے ہیں وہ اپنی منطق اور اپنی دلیل اور اپنے اس عنوان کو جھوٹا اور گھٹیا قرار دے کر واپس لے لیں گے.ویسے یہ جماعت احمدیہ کے خلاف بغض اور عناد میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ ڈاکٹر ڈوئی اور متنصر مولویوں کے لئے اپنی غیرت کو داؤ پر لگا چکے ہیں.راشد علی کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ اس نے MRCP’ کافروں ہی کی آغوش میں کیا ہے.(3) جماعت احمدیہ مسلمانوں سے انتقام لے رہی ہے امر سوم :.مذکورہ بالا تحریر میں انہوں نے لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں سے انتقام لے رہی ہے.“ جماعت احمدیہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کو دیکھ کر اور جماعت کی عظمت اور ترقی کو دیکھ کر یہ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ ان کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں.شاید ان کو اپنی غلیظ زبان اور گھٹیا اور پست خیالات پر مبنی اعتراضات نظر آتے ہیں جو انہوں نے از راہ ظلم جماعت پر اور بانی جماعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کئے.جن کی وجہ سے افراد جماعت کو روحانی اذیت سے دو چار کیا.شاید ان کو یہ ڈر ہے کہ جماعت احمد یہ مسلمانوں سے اس کا انتقام لے گی.
506 ان کو ہم یقین دلاتے ہیں کہ جماعت احمد یہ یقیناً غالب آ کر رہے گی یہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے جو اشاعت اسلام اور غلبہ اسلام بر ادیان باطلہ کے لئے قائم کی گئی ہے.اس کا انتقام یہی ہے کہ وہ انشاء اللہ تمہارے گھروں میں گھس کر تمہیں اور تمہاری اولادوں کو دلائل تعلیم اور محبت کے پیغام کے ساتھ احمدیت میں داخل کرے گی اور محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں ڈالے گی جہاں سے تمہیں اور تمہاری اولا دوں کو لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ أَنْتُمُ الطُّلَقَاءَ کی آواز سنائی دے گی کہ تم سب بری کئے جاتے ہو تم پر کوئی پکڑ نہیں.پس خاطر جمع رکھیں.انشاء اللہ ساری دنیا احمدیت کے ذریعہ ضرور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہوگی.
507 عصر حاضر اور جماعت احمدیہ کا کردار
508 (1) مغربی طاقتوں کے لئے خطرہ ؟ راشد علی اور اس کے پیر کی تعلی تو دیکھئے.وہ لکھتے ہیں: پانچواں کالم : عصر حاضر اور جماعت احمدیہ کا کردار : کمیونزم کے خاتمے پر مغربی طاقتوں کو احساس ہوا کہ اسلام کی صورت میں کمیونزم سے کہیں زیادہ مہیب خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے.اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات ہے جو روحانیت اور انسانی اقدار سے عاری مغربی معاشرے اور تہذیب کو ملیا میٹ کر سکتا ہے.مغربی معاشرے میں مقید ، بے مقصد زندگی سے تنگ آکر اپنے روحانی خلا کو پُر کرنے ، ایک بامقصد نظام حیات اور حق کی تلاش میں بڑی تیزی سے اسلام کی طرف کھینچ رہے ہیں.اسلام اس وقت مغربی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے.چنانچہ ان حالات میں مغربی اقوام کا فکر مند ہونا ایک فطری امر ہے.اس خطرہ سے نمٹنے کے لئے جہاں اور بہت سے منصوبے کام کر رہے ہیں وہیں یہ خود کاشتہ پودا بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ اور انتہائی اعلیٰ پیمانے پر اپنی خدمات انجام دینے میں مصروف ہے.پچھلے چند سالوں میں جس انداز سے قادیانیت کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اس کی یہی وجہ ہے.چونکہ امت مسلمہ قادیانیوں کو اسلام سے خارج کر چکی ہے اس لئے قادیانی حضرات بڑے دل و جان کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کافروں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں.ہمارے درمیان پانچویں کالم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں.اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے یہ حضرات مختلف اسلامی ممالک میں اپنے آقاؤں کے لئے جاسوسی کے فرائض انجام دے ( بے لگام کتاب) رہے ہیں.“ اس زمانہ میں تو ایک ان پڑھ سے ان پڑھ اور جاہل سے جاہل انسان بھی جانتا ہے کہ مغربی طاقتوں کو اسلام سے کوئی خطرہ نہیں.خلیج کی جنگ کے بعد تو اسلامی ممالک ان طاقتوں کے لئے لقمہ ترکی حیثیت اختیار کر چکے ہیں.اس جنگ میں جو کردار یہودی اور عیسائی افواج کی مدد کر کے اسلامی ممالک نے ادا کیا تھا وہ کسی سے اب مخفی نہیں ہے.یہ باتیں جو راشد علی اور اس کا پیر آج لکھ رہے ہیں ، پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہیں.ہاں ایک وقت تھا کہ جب جھوٹے مولوی احمدیوں کے خلاف مذہب کے نام پر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتے تھے.اب خلیج کی جنگ نے اور پھر اس کے بعد عرب میں یہودی اور عیسائی امریکن
509 فوجوں کے مستقل اڈوں نے ہر خاص و عام کی آنکھیں کھول دی ہیں.وہ ایسی باتیں کرنے والوں کو پرلے درجہ کے فریبی اور جھوٹے سمجھتے ہیں.ایسے جھوٹوں کی وجہ سے بھی لوگ احمدیت کی طرف رجوع کر کے سچائی کے دامن سے وابستہ ہورہے ہیں.جہاں تک ان کے خطرہ کا سوال ہے تو وہ خطرہ انہیں نہ آج تم لوگوں سے ہے، نہ کل تھا، نہ آئندہ ہے.کیونکہ تم لوگ تو پہلے ہی حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کے قائل ہو اور یہی مغربی طاقتوں کا عقیدہ ہے.تم بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی خالقیت کے قائل ہوا اور وہ بھی ہیں.تمہارے عقائد اور ان کے عقائد تو بالکل ایک ہیں اس لئے انہیں تم سے کیا خطرہ؟ خطرہ اگر انہیں ہے تو وہ جماعت احمدیہ سے ہے.کیونکہ بانی جماعت احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ ” یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلہ میں.اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہرگز بریکارنہ بیٹھیں.مگر یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہو.جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہئے اور وہ ہتھیار ہے قلم.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم اور میرے قلم کو ” ذوالفقار علی فرمایا ہے.اس میں یہی سر ہے کہ یہ زمانہ جنگ وجدل کا نہیں بلکہ قلم کا زمانہ ہے.“ نیز فرمایا: وو لمفوظات جلد 1 صفحہ 224) پادریوں کی تکذیب انتہا تک پہنچ گئی تو خدا نے محبت محمد یہ پوری کرنے کے لئے مجھے بھیجا.اب کہاں ہیں پادری تا میرے مقابل پر آویں.میں بے وقت نہیں آیا ، میں اس وقت آیا کہ جب اسلام عیسائیوں کے پیروں کے نیچے کچلا گیا.بھلا اب کوئی پادری تو میرے سامنے لاؤ جو یہ کہتا ہو کہ آنحضرت ﷺ نے کوئی پیشگوئی نہیں کی.یادرکھو وہ زمانہ مجھ سے پہلے ہی گذر گیا اب وہ زمانہ آ گیا جس میں خدا یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ رسول محمد عربی مجس کو گالیاں دی گئیں جس کے نام کی بے عزتی کی گئی ، جس کی تکذیب میں بدقسمت پادریوں نے کئی لاکھ کتابیں اس زمانہ میں لکھ کر شائع کر دیں.وہی سچا اور بچوں کا سردار ہے.اس کے قبول میں حد سے زیادہ انکار کیا گیا ، مگر آخر اسی رسول کو تاج عزت پہنایا گیا اس کے غلاموں اور خادموں میں سے ایک میں ہوں..66 (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 286)
510 حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود کی یہ دعوت ایک آسمانی قرنا اور صور اسرافیل ثابت ہوئی جس نے مسلمانوں کے مردہ جسم میں زندگی کی ایک زبر دست روح پھونک دی مگر صلیبی افواج تاب مقابلہ نہ لا کر بدحواس ہو گئیں.ان کے قدم اکھڑ گئے اور ترقی کی رفتار یکا یک رک گئی ، اسلام کو مٹا دینے کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے اور اسلام کی ابھرتی ہوئی نئی قوت و طاقت نے ان کو بہت جلد احساس دلا دیا کہ صلیبی مذہب خطرے میں ہے.چنانچہ 1894ء میں پادریوں کی ایک عالمی کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی جس میں لارڈ بشپ آف گلوسیسٹر دی رائٹ ریورنڈ چارلس جان ایلی کوٹ LORD BISHOP OF) CLOUCESTER, THE RIGHT REVEREND CHARLES JOHN ELLICOT) نہایت درجہ تشویش و اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے پوری مسیح دنیا کو مطلع کیا کہ : "I learn from those who are exprienced in these things that there is now a new kind of Mohammadanism showing itself in many parts of our empire in India, and even in our own island here at home, Mohammadanism now speaks with reverence of our blessed Lord and Master, but is not the less more intensely monotheistic than ever.It discards many of these usages which have made Mohammadanism hateful in our eyes, but the False prophet holds his place no less pre-eminently than before.Changes are plainly to be recognised; but Mohammadanism is not the less aggressive, and alas! to some minds among us (God grant be that they not many) even additionally attractive." ( The Official report of the Missionary Conference of the Anglican communion.1894, page 64) ترجمہ : اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں.مجھے ان لوگوں نے جو صاحب تجربہ ہیں بتایا ہے کہ
511 ہندوستان کی برطانوی مملکت میں ایک نئی طرز کا اسلام ہمارے سامنے آ رہا ہے...اس نئے اسلام کی وجہ سے محمد کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی جا رہی ہے یہ نئے تغیرات بآسانی شناخت کئے جاسکتے ہیں.پھر یہ نیا اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ جارحانہ حیثیت کا حامل بھی ہے.افسوس ہے تو اس بات کا کہ ہم میں سے بعض کے ذہن اس کی طرف مائل ہو رہے ہیں.برصغیر پاک و ہند کے ایک نامور عالم جناب مولانا نورمحمد صاحب نقشبندی چشتی مالک اصبح المطابع دہلی نے اسلام کی عیسائیت کے مقابل اس نمایاں فتح کا ذکر نہایت ولولہ انگیز اور پر جوش الفاظ میں فرمایا ہے جس سے اس زبر دست معرکہ کی حقیقی عظمت کا پتہ چلتا ہے آپ نے فرمایا: وو اسی زمانہ میں پادری لیفر ائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا.ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لیکر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا حضرت عیسی کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسیٰ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھے کو قبول کرلو.اس ترکیب سے اس نے لیفر ائے کو اس قدرتنگ کیا کہ اس کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی.“ (دیباچہ قرآن.صفحہ 30 از حافظ نورمحمد نقشبندی پشتی اصبح المطابع دبلی) اسی طرح برصغیر کے ایک ممتاز اور مشہور دینی راہنما مولانا ابوالکلام صاحب آزاد نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی وفات پر اپنے اخبار ” وکیل میں آپ کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا اور آپ کو اسلام کا فتح نصیب جرنیل قرار دیتے ہوئے لکھا: وو وہ وقت ہر گز لوح قلب سے نسیا منسیا نہیں ہو سکتا جبکہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب و وسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے
512 تھے.ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفانی کو سر راہِ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹادینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ تو پوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطرناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا..غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنیوالی نسلوں کو گر انبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے ، قائم رہے گا.“ کے قانون اخبار وکیل امرتسرمئی 1908 ء بحوالہ ” بدر قادیان 18 جون 1908ء صفحہ 2 ، 3) پس مغربی اقوام کو خطرہ ہے تو اس حقیقی اسلام سے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے.جو خدا تعالیٰ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد: 42) ترجمہ:.کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اس کی تمام اطراف سے کم کرتے چلے آ رہے ہیں.کے تحت عیسائیت کی زمین کم ہوتی چلی جارہی ہے اور احمدیت کے قبضہ میں چلی آرہی ہے.اب تو کروڑوں افراد ہر سال عیسائیت کو خیر باد کہہ کر احمدیت کے ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے دامن سے وابستہ ہور ہے ہیں.یہ خطرہ ہے جو مغربی اقوام کو ہے لیکن راشد علی اور اس کا پیر بھی اس خطرہ سے باہر نہیں کیونکہ ان لوگوں کی زمین کے کنارے بھی بڑی سرعت سے احمدیت کے دامن میں گر رہے ہیں اور ہر سال کروڑوں مسلمان بھی مسیح زماں اور مہدی دوران کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس سے وابستہ ہوتے ہیں.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ راشد علی اور اس کا پیر اور ان کے ہم رنگ مولوی جب جماعت کے خلاف غلیظ اور
513 جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہیں تو تحقیق کرنے پر لوگوں کو ان کے جھوٹ اور احمدیت کی سچائی کا علم ہوتا ہے اور وہ اس میں داخل ہوئے بغیر رہ نہیں سکتے.(2) جاسوسی کا الزام را شد علی اور اس کے پیر نے حد درجہ بے حیائی سے یہ بھی جھوٹ بولا ہے کہ چونکہ امت مسلمہ قادیانیوں کو اسلام سے خارج کر چکی ہے اس لئے قادیانی حضرات بڑے دل و جان کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کافروں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں.ہمارے درمیان پانچویں کالم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے یہ حضرات اسلامی ممالک میں اپنے آقاؤں کے لئے جاسوسی کے فرائض انجام دیتے ہیں.66 ( بے لگام کتاب) معزز قارئین! جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے خلیج کی گزشتہ جنگ نے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا ہے.اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ” کافروں کے جاسوس اور ایجنٹ خود بعض اسلامی ممالک ہی ہیں.اسی وجہ سے وہ اسلامی ممالک کلیۂ ان کے شکنجے میں جکڑے جاچکے ہیں.راشد علی خود ایک عرب ریاست میں رہتا ہے وہ بھی جانتا ہے اور اس ریاست کا ہر فرد جانتا ہے کہ وہاں سے ” کافروں کو کتنا خراج ادا کیا جاتا ہے اور دیگر عرب ریاستیں اور ممالک کتنا کتنا تاوان بھرتے ہیں.وہ کلمیڈ ان کے شکنجے میں ہیں اور ان کا ہر باشندہ بری طرح کراہ رہا ہے.اس کی وجہ کیا ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ الم نشرح ہے.بایں ہمہ جماعت احمد یہ تو ایک ٹھوس مسلک رکھتی ہے.اس کا ہر فر د جس جس ملک میں بھی رہتا ہے وہ اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے حکم " حسب الوطن من الایمان “ کے تحت اس ملک کا وفادار ہے.اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ کا مسلک واضح کرتے ہوئے امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” جماعت احمدیہ قرآن کریم اور سنت نبوی کے مطابق ایک واضح مسلک رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس ملک میں احمدی رہتا ہے.جس ملک کا وہ نمک کھاتا ہے.جس کی مٹی سے اس کا خمیر گوندھا گیا ہے وہ اس
514 کا وفادار ہے اور وفادار رہے گا.اس اعتبار سے ہندوستان کا احمدی لازماً ہندوستان کا وفا دار ہے اور ہمیشہ وفادار رہے گا.انگلستان میں رہنے والا احمدی لازماً انگلستان کا وفادار ہے اور ہمیشہ وفادار رہے گا.اسی طرح پاکستان میں بسنے والا احمدی لازماً پاکستان کا وفادار ہے اور ہمیشہ وفادار رہے گا.یہ ہے حقیقت حال ، باقی سب جھوٹ ہے.“ (خطبہ جمعہ 8 مارچ1985 ء مسجد فضل لندن ) پس جماعت احمدیہ پر جاسوسی کا الزام لگانا انتہائی درجہ کی بے حیائی ہے.جماعت احمدیہ نے تو نقشہ عالم پر خدمت و وفا کے ایسے تاریخی نقوش ثبت کئے ہیں کہ قیامت تک ابلیس کا کوئی چیلہ ان کو مٹا نہیں سکتا.فلسطین کے لئے خدمات جہاں تک اسلام اور اسلامی ممالک کے مفاد کا تعلق ہے جماعت احمدیہ نے صف اول میں ان کے لئے قربانیاں دیں اور عزت کے ساتھ ان کا دفاع کیا ہے.مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء مسلمانانِ عالم کو ہر خطرہ کے وقت متنبہ کرتے رہے اور ان کی ہر ممکن خدمت کے لئے جماعت احمدیہ کو پیش کرتے رہے.چنانچہ عراق کے ایک مشہور اور بزرگ صحافی الاستاذ علی الخیاط آفندی جن کا ایک مشہور ومعروف اور موقر اخبار الانباء “ کے نام پر نکلتا ہے.آپ نے اپنے اخبار میں ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے جس میں سے ایک اقتباس ہے.وہ لکھتے ہیں: یہ غیر ملکی حکومتیں ہمیشہ کوشش کرتی ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف نعرے لگوا کر منافرت پیدا کی جائے اور بعض فرقے احمدیوں کی تکفیر اور ان پر نکتہ چینی کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں..........مجھے اس امر کی پوری پوری اطلاع ہے کہ در حقیقت یہ سب کارروائی استعماری طاقتیں کروا رہی ہیں کیونکہ فلسطین کی گزشتہ جنگ کے ایام میں 1948ء میں استعماری طاقتوں نے خود مجھ کو اس معاملہ میں آلہ کار بنانے کی کوشش کی تھی.ان دنوں میں ایک ظرافتی پرچے کا ایڈیٹر تھا اور اس کا انداز حکومت کے خلاف نکتہ چینی کا انداز تھا.چنانچہ انہی دنوں مجھے ایک غیر ملکی حکومت کے ذمہ دار نمائندہ مقیم بغداد نے ملاقات کے لئے بلایا اور کچھ چاپلوسی کے طور پر میرے انداز نکتہ چینی کی تعریف کرنے کے بعد مجھے کہا کہ آپ اپنے اخبار میں قادیانی جماعت کے خلاف زیادہ سے زیادہ دل آزار طریق پر نکتہ چینی جاری کریں کیونکہ یہ جماعت دین سے خارج 66 ہے.
515 وہ لکھتے ہیں : یہ ان دنوں کی بات ہے جب 1948ء میں ارض مقدسہ کا ایک حصہ کاٹ کر صیہونی حکومت کے سپر د کر دیا گیا تھا اور اسرائیلی سلطنت قائم ہوئی تھی اور میرا خیال ہے کہ مذکورہ بالا سفارتخانہ کا یہ اقدام در حقیقت ان دوٹریکٹوں کا عملی جواب تھا جو تقسیم فلسطین کے موقع پر اسی سال جماعت احمدیہ نے شائع کئے تھے.ایک ٹریکٹ کا عنوان ” هيئة الامم المتحدة وقرار تقسیم فلسطین “ تھا جس میں مغربی استعماری طاقتوں اور صیہونیوں کی ان سازشوں کا انکشاف کیا گیا تھا جن میں فلسطینی بندرگاہوں کے یہودیوں کو سپر د کر دینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا.دوسرا ٹریکٹ الکفر ملة واحدة “ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں مسلمانوں کو کامل اتحاد اور اتفاق رکھنے کی ترغیب دی گئی تھی.یہ وہ واقعہ ہے جس کا مجھے ان دنوں ذاتی طور پر علم ہوا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ جب تک احمدی لوگ مسلمانوں کی جماعت میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے جن سے استعماری طاقتوں کی پیدا کردہ حکومت اسرائیل کو ختم کرنے میں مددمل سکے تب تک استعماری طاقتیں بعض لوگوں اور فرقوں کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں گی کہ وہ احمدیوں کے خلاف اس قسم کی نفرت انگیزی اور نکتہ چینی کرتے رہیں تا کہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہو سکے.“ (اخبار الانباء " - بغداد.مورخہ 12 ستمبر 1954 ء) الغرض حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے دوٹریکٹ شائع ہوئے اور ان کا اتنا حیرت انگیز اثر پڑا کہ بڑی بڑی استعماری طاقتیں کانپ گئیں اور سفارت خانوں کو ان کے مراکز سے ہدائتیں ملنے لگیں کہ اخباروں کو پیسے دو اور ان سے تعلقات قائم کرو اور جس طرح بھی ہو احمدیوں کے خلاف ایک تحریک چلاؤ.مجلس احرار کا ایک اخبار زمزم ہوا کرتا تھا جو جماعت کی مخالفت کے لئے وقف تھا بایں ہمہ تقسیم ملک سے پہلے جب مصر کے بعض مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے اس کے متعلق جو جد وجہد فرمائی اس سے متاثر ہو کر یہ احراری اخبار اپنی 19 جولائی 1942ء کی اشاعت میں رقم طراز ہے: وو موجودہ حالات میں خلیفہ صاحب نے مصر اور حجاز مقدس کے لئے اسلامی غیرت کا جو ثبوت دیا ہے وہ یقیناً قابل قدر ہے اور انہوں نے اس غیرت کا اظہار کر کے مسلمانوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی.
516 66 اب دیکھئے مسلمانوں کا ترجمان بھی ان کو ملا کرتا تھا تو احمدی ملا کرتا تھا.احمدیوں کے سر براہ کو بہترین ترجمان سمجھا کرتے تھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کی خدمت کے لئے ہر کوشش میں جماعت ہمیشہ پہل کرتی تھی ، کرتی ہے اور کرتی رہے گی.فلسطین کے لئے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات کے بارہ میں عرب دنیا کے جو خیالات تھے نہ صرف اس وقت انہیں علم تھا بلکہ آج تک جبکہ احمدیت کی مخالفت زوروں پر ہے انہیں وہ خدمات یاد ہیں اور آج بھی بعض حق پرست ایسے ہیں جو ان خدمات کو تسلیم کرنے میں باک نہیں رکھتے.چنانچہ عربوں کی زبانی سنئے.عبدالحمید الکاتب رسالہ ” العربی ماہ جون 1983 ء کے شمارہ میں ایک مضمون میں لکھتے ہیں : محمد ظفر اللہ خان ہی وہ شخص ہے کہ جو فلسطین کے حق کے دفاع میں مر دمیدان ثابت ہوا.اس نے فلسطین کے بارہ میں عربوں کے حقوق کے دفاع میں خدا کی طرف سے ودیعت کی گئی قدرت علی الخطاب اور قانون وسیاست میں قابلیت کے ہر جو ہر کو آزمایا.اس کے کلام کی نبض حقیقی اسلامی روح کے ساتھ چلتی تھی." کشمیر میں خدمات تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ میں جماعت احمدیہ سے بڑھ کر اور کسی اسلامی جماعت نے کسی مذہبی " جماعت نے ایسی شاندار خدمات سرانجام نہیں دیں..چنانچہ رسالہ ” طلوع اسلام“ مارچ 1948ء چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے عظیم جہاد کا ذکر کرتا ہے جو مسئلہ کشمیر کے بارہ میں چوہدری صاحب نے کیا اور پھر خلاصۂلکھتا ہے: حسنِ اتفاق سے پاکستان کو ایک ایسا قابل وکیل مل گیا جس نے اس کی حق وصداقت پر مبنی دعوت کو اس انداز سے پیش کیا کہ اس کے دلائل اور براہین عصائے موسوی بن کر رسیوں کے ان تمام سانپوں کو نگل گئے اور ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا باطل بنا ہی اسی لئے ہوتا ہے کہ حق کے مقابل پر میدان چھوڑ کے بھاگ جائے.“
517 رہے ہیں ! جماعت کے بارہ میں کل تک لوگ یہ کہہ رہے تھے اور آج ابلیس کے چیلے احمدیوں کو جاسوس ٹھہرا جسٹس منیر ، باونڈری کمیشن میں شامل تھے.چنانچہ 1953ء میں تحقیقاتی عدالت میں جب مخالفین سلسلہ کی طرف سے یہ سوال اٹھائے گئے کہ گورداس پور کے بارہ میں چوہدری صاحب نے یہ کہا، کشمیر کے معاملہ میں یہ کہا فلسطین کے مسئلہ پر یہ کہا تو جسٹس منیر پوری تحقیق کے بعد لکھتے ہیں : چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات سرانجام دیں اس کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالتی تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ قابلِ شرم ناشکرے پین کا ثبوت ہے.“ (صفحہ 209.منیر انکوائری رپورٹ ) حکیم احمد دین صدر جماعت المشائخ سیالکوٹ نے اپنے رسالہ ” قائد اعظم“ بابت ماہ جنوری 1949ء میں لکھا: اس وقت تمام مسلم جماعتوں میں سے احمدیوں کی قادیانی جماعت نمبر اول پر جا رہی ہے.وہ قدیم سے منظم ہے ، نماز روزہ وغیرہ امور کی پابند ہے.یہاں کے علاوہ ممالک غیر میں بھی اس کے مبلغ احمدیت کی تبلیغ میں کامیاب ہیں.قیام پاکستان کے لئے مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کے لئے اس کا ہاتھ بہت کام کرتا تھا.جہاد کشمیر میں مجاہدین آزاد کشمیر کے دوش بدوش جس قد راحمدی جماعت نے خلوص اور درد دل سے حصہ لیا ہے اور قربانیاں کی ہیں ہمارے خیال میں مسلمانوں کی کسی دوسری جماعت نے بھی ابھی تک ایسی جرات اور پیشقدمی نہیں کی.ہم ان تمام امور میں احمدی بزرگوں کے مداح اور مشکور ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ملک و ملت اور مذہب کی خدمت کرنے کی مزید توفیق بخشے.“ اور اس وقت افواج پاکستان کے جو کمانڈر انچیف تھے انہوں نے فرقان فورس (احمدی مجاہدوں پر مشتمل فورس ، جس میں سب رضا کاراپنے خرچ پر فوجی خدمات سرانجام دے رہے تھے، کوئی تنخواہ دار نہیں تھا کو نہایت ہی شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور فرقان بٹالین کے نو جوانوں کو ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جس میں ان کی خدمات کا شاندار الفاظ میں ذکر کیا.یہ ایک لمبا سرٹیفکیٹ ہے اس میں انہوں نے لکھا:
518 ” آپ کی بٹالین زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے رضا کاروں پر مشتمل تھی اس میں نوجوان، کسان ،طلبہ،استاد اور کاروباری لوگ سب کے سب پاکستان کے جذبہ سے سرشار تھے.آپ نے رضا کارانہ طور پر بے لوث جان کی قربانی پیش کی کوئی معاوضہ طلب نہ کیا اور نہ ی کسی شہرت کی تمنا کی.کشمیر میں ایک اہم محاذ آپ کے سپرد کیا گیا تھا.ہمیں آپ پر جو اعتماد تھا اسے آپ نے بہت جلد پورا کر دکھایا.جنگ میں دشمن کی بہت بھاری بری اور ہوائی طاقت کے مقابل پر آپ نے اپنی زمین کا ایک انچ بھی دیئے بغیر اپنی ذمہ داری کو احسن طور پر نبھایا.“ مملکت اسلامیہ پاکستان کا دفاع جنرل اختر حسین ملک مسلح افواج پاکستان کے عظیم جرنیل تھے اور ملک وقوم کے فاتح ہیرو تھے.ان کی جوانمردی اور شجاعت و جانبازی کا ذکر پاکستان کے اخبارات میں بڑی کثرت سے اور فخر سے کیا گیا.اسی طرح جنرل (ریٹائرڈ) سرفراز خان ہلال جرات جو افواج پاکستان میں ایک بڑا مقام رکھتے تھے.اپنی یاداشتوں کی بناء پر پاکستان اور ہندوستان کی جنگوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار ” جنگ“ لاہور 6 ستمبر 1984ءصفحہ 3 کالم 7،6 میں لکھتے ہیں: ” جس ہنر مندی سے اختر ملک نے چھمب پر اٹیک کیا، اسے شاندار فتح کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا.وہ اس پوزیشن میں تھے کہ آگے بڑھ کر جوڑیاں پر قبضہ کر لیں کیونکہ چھمب کے بعد دشمن کے قدم اکھڑ چکے تھے اور وہ جوڑیاں خالی کرنے کے لئے فقط پاکستانی فوج کے آگے بڑھنے کے انتظار میں تھے.مگر ایسے نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ پکی پکائی پر سیکی خان کو بٹھانے اور کامیابی کا سہرا ان کے سر باندھنے کا پلان بن چکا تھا.لیکن نقصان کس کا ہوا بھارت کو مکمل شکست دینے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا.“ یہ ہیں احمدی غذار ! اور جنگ 16 فروری 1983 ء نے اپنے ذرائع سے یہ خبر دی ہے.اور اس موضوع پر پاکستان کے مختلف اخباروں میں جو کچھ شائع ہوتا رہا ہے طوالت کے ڈر سے وہ سب کچھ پیش نہیں کیا جارہا.بس مختصراً دو چار اخباروں وغیرہ کا نام درج کیا جارہا ہے.اخبار ” جنگ لاہور 10 ستمبر 1984ء ماہنامہ ” حکایت اپریل 1973 ء، رسالہ ” الفتح 20 فروری 1976ء ، اخبار ” جنگ 12 اپریل 1983ء 56
519 میں یہ واقعات بڑی تفصیل سے درج ہیں.اسی طرح ” مکتبہ عالیہ ایک روڈ لاہور کی شائع کردہ کتاب” وطن کے پاسباں میں اسلام کے ان پاکستانی احمدی بہادروں کے شجاعت و جوانمردی کے کارنامے مذکور ہیں جوا یک احمدی کے جذبہ حب الوطنی اور وطن عزیز کی خاطر قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں.بہر حال جنگ 16 فروری 1983 ء یہ بتا رہا ہے کہ ہندوستان کو جنرل اختر حسین ملک سے ایسا شدید خطرہ تھا کہ وزیر اعظم شاستری نے بھارتی فضائیہ کے سربراہ کو خود حکم دیا کہ میجر جنرل اختر ملک کسی صورت میں بھی بچنے نہ پائے.یہ تو بہت پرانا اخبار نہیں ہے صرف چند سال پہلے کا اخبار ہے.شورش کا شمیری جس نے ساری زندگی جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ضائع کی اس کے دل کا حال سنئے.جب احمدی لڑتا ہے میدان میں جا کر اسلام کے لئے ، یا مسلمانوں کے لئے یا اپنے وطن کے لئے تو اتنا پیارا لگتا ہے اور ایسا نمایاں ہوتا ہے اس میدان میں کہ دشمن بھی اس وقت واہ واہ کرنے پر مجبور ہو جایا کرتے ہیں.بعد میں وہ بے شک گالیاں دیتے رہیں لیکن جو دل کی آواز ہے ، جو صداقت کا کلام ہے وہ تو دل سے بے اختیار نکل آتا ہے.تو شورش کا شمیری نے اس وقت جب جنرل اختر ملک کے کارنامے دیکھے تو وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا.دہلی کی سرزمین نے پکارا ہے ساتھیو اختر ملک کا ہاتھ بٹاتے ہوئے چلو ذوالفقار چلاتے چلو گنگا کی وادیوں کو بتا دو کہ ہم ہیں کون جمنا چٹان لاہور 13 ستمبر 1965ء) جب میدان کارزار گرم تھا اس وقت شورش کا شمیری کو اور کوئی جرنیل نظر نہیں آیا جس کا ہاتھ بٹاتے ہوئے چلنے کا کہتا.جس کو دہلی کی زمین نے پکارا یہ احمدی ماں کا بیٹا، یہ احمدی سپوت تھا جو اس وقت اس معاندِ احمدیت کو میدانِ کارزار میں نظر آ رہا تھا.جنرل عبد العلی ملک بھی ایک احمدی جانباز مجاہد تھے اور ملک و قوم کے نامور ہیرو تھے جب سارے چونڈہ کو خطرہ تھا چونڈہ ہی کو نہیں سارے سیکٹر کو زبر دست خطرہ لاحق تھا.اور ان کے بالا جرنیل ان کو حکم دے رہے تھے کہ تم کسی صورت دفاع نہیں کر سکتے پیچھے ہٹ جاؤ مگر یہی احمدی جنرل عبدالعلی ملک تھے جو یہ کہہ رہے تھے کہ اگر میں پیچھے ہٹ گیا تو پھر پاکستانی افواج کو راولپنڈی تک کوئی پناہ نہیں ملے گی.اس لئے اگر مرنا
520 ہے تو ہم یہیں مریں گے.ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے.اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو فوج کے لوگ ہی نہیں بڑے بڑے علماء اور مشائخ بھی بول اٹھے کہ اس کو کہتے ہیں مرد میدان اور یہ ہے جہاد.چنانچہ الحاج مولانا عرفان رشدی صاحب داعی مجلس علمائے پاکستان اپنی کتاب ” معرکہ حق و باطل “ کے صفحہ 73 پر لکھتے ہیں : کر رہا تھا غازیوں کی کماں عبدالعلی جب تھا صفوں میں مثل طوفان رواں عبدالعلی کل تک تو عبد العلی مثل طوفانِ رواں تھا ، آج راشد علی وغیرہ کی رگوں میں جھوٹ مثلِ شیطانِ لعیں جاری ہو گیا ہے اور انہیں کوئی احساس نہیں ہے ، کوئی حیا نہیں ہے، کوئی خیال نہیں ہے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں ،کس کے خلاف جھوٹ پر جھوٹ اگل رہے ہیں.پس تاریخ گواہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد جس جس ملک میں مقیم ہیں، نمایاں طور پر اس کے وفادار اور محب وطن شہری ہیں اور راشد علی اور اس کے پیر کا الزام جاسوسی محض ایک بے باک سفید جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں.آخر میں صرف ایک تاریخی حقیقت سے پردہ اٹھایا جارہا ہے تا کہ حتمی طور پر واضح ہو جائے کہ راشد علی اور اس کی قماش کے لوگ ایک طرف تو سچائی پر پردے ڈالتے ہیں اور دوسری طرف بڑی بے باکی سے جھوٹ پر جھوٹے اگلتے چلے جاتے ہیں.یہ ان لوگوں پر جاسوسی اور غداری کا جھوٹا الزام لگاتے ہیں جو اپنے اپنے ملک کے سچے وفادار ، محب وطن اور خدمت گزار شہری ہیں.لیکن ان لوگوں کا نام نہیں لیتے جو حقیقت دوسری طاقتوں کے کھلے کھلے آلہ کار اور اسلامی مفادات کے سودے کرنے والے تھے.چنانچہ ملاحظہ فرمائیں سر مجلس احرار کا قیام کیسے عمل میں آیا.اس کا پستہ ایک مشہور کتاب سے لگتا ہے جس کا نام "FREEDOM MOVEMENT IN KASHMIR" ہے.یہ کتاب جس کے مصنف کا نام غلام حسن خان ہے، ہندوستان سے لائٹ اینڈ لائف پبلشر نیو دہلی نے 1980 ء میں شائع کی ہے.اس میں 1931 ء سے 1940 ء تک کے عرصہ میں تحریک کشمیر کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے.مصنف نے مجلس احرار کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
521 مجلس احرار کانگرس کے سٹیج پر کانگریس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر معرض وجود میں آئی اس کے پہلے صدر مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری منتخب ہوئے اور اس کا نام مجلس احرار اسلام ہند تجویز ہوا.“ پھر آگے جا کر لکھتے ہیں کہ : وو ” ہندو پنڈتوں نے مسلمانوں کی مجموعی تحریک کو نقصان پہنچانے کے لئے مسلمانوں کی فرقہ بندی سے ناجائز فائدہ اٹھایا.“ ہے: مجلس احرار کو ہندوؤں نے کس طرح استعمال کیا؟ اس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے آخر میں لکھا ہندو پنڈت کمیونٹی نے بعض بااثر مسلمان رہنماؤں اور میر واعظ کے ساتھیوں مرزا غلام مصطفیٰ اسد اللہ وکیل وغیرہ سے خفیہ معاہدہ کیا اور خفیہ اجلاس منعقد کئے اور بھڑ کا یا کہ شیخ عبداللہ، احمد یہ جماعت کے ساتھ مل کر اس کی مذہبی قیادت ( یعنی میر واعظ کی مذہبی قیادت ) ختم کرنا چاہتا ہے اس طرح مسلمانوں میں 66 نفرت کے بیج بوئے گئے.“ پس یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوؤں نے اور ہندو کانگرس نے مجلس احرار کو قائم کیا اور اپنے مقاصد کے لئے ان کو استعمال کیا.یہ ایک کھلی کہانی ہے.(ماخوذ از خطبہ جمعہ 8 مارچ 1985ء - فرمودہ حضرت امام جماعت احمدیہ )
522 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے آقا ومولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
523 (1) عشق رسول مسیح موعود علیہ السلام کا کفر؟ راشد علی کا پیر سید عبدالحفیظ لکھتا ہے: ذیل میں سرکار دو عالم ﷺ کی شان میں ان کے عشق و محبت میں ڈوبے ہوئے چند اشعار پیش کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیے کہ شاعر نے اس مضمون کو کتنی خوبصورتی سے اپنے اشعار میں سمویا ہے اور ہر شعر میں کتنی گہرائی ہے.محمد من توں من کتاباں چار من خدای رسول نوں سیا دربار (گرونانک) عدد نکالو چوگن کر لو وائے کے کر لو ہیں کا بھاگ لگائے رو باقی بچے کے کے نو گن کر لو رو اس میں دو اور ملائے کہت كبير بھتی سادھو نام آئے (کبیر داس) دل لے ނ آجا سنبھلتا نہیں سنبھالے آجا پاؤں ہیں طول نے نکالے آجا خواب میں زلف کو مکھڑے لگانے آجا J.).آج تو گیسوؤں والے آجا (منشی درگا سہائے سرور ) کان عرب ނ لعل نکل کر سرتاج بنا سردارونکا نام اپنا رکھا سلطان بنا سرداروں کا تیرا چرچا گھر گھر ہے جلوه ول کے اندر ہے ذکر ہے تیرا جاری دلدار بنا دلداروں کا
524 (سرکشن پرشادشاد ) ہو شوق : کیوں نعت رسول دوسرا کا مضمون ہو عیاں دل میں لولاک جو ہے جان علاج سرا شافع محشر کا کیفی مجھے اب خوف ہے کیا روز جزا کا ( پنڈت کیفی دہلوی) آپ یقینا مجھ سے اتفاق کریں گے کہ شعراء نے ان اشعار میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ سرکار دو عالم ہے سے اپنی عشق کا اظہار کیا ہے.سوال یہ ہے کہ اشعار میں اس طرح کا اظہار خیال کس چیز کی دلیل ہے؟ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ یہ تمام اشعار ان شعراء کے ہیں جو غیر مسلم ہی تھے اور اسی پہ انکا خاتمہ ہوا.ان شعراء میں منشی درگا سہائے سرور جہاں آبادی ، رانا بھگوان داس ، جگن ناتھ آزاد ، کبیر داس وغیرہ شامل ہیں.ان کے یہ عشق میں ڈوبے ہوئے اشعار ان کو راہ ہدایت تک نہ دکھلا سکے.اپنی اس الٹی منطق سے سید عبدالحفیظ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کسی کا آنحضرت علی سے عشق و فدائیت کا اظہار کوئی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ کام تو غیر مسلم بھی کر لیتے ہیں.اس لئے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذرہ ذرہ اپنے پیارے محبوب نبی ﷺ کے عشق میں سرشار تھا تو یہ انہیں مسلماں نہیں بنا سکتا.الفتوى نمبر 23 جنوری 2000ء) ماشاء اللہ! کافی بڑا دماغ پایا ہے.ہم اس تفصیل میں نہیں جاتے کہ اس پیر کی الٹی منطق کی زد میں کون کون سی بزرگ ہستیاں بھی آتی ہیں.لیکن وہ بحث جس میں یہ صاحب الجھ چکے ہیں.وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے ہی ختم کر دی تھی.آپ کو اپنے محبوب و مطاع آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عظمت شان اور ارفع ذات کے عرفان کا وہ مقام حاصل تھا کہ فرمایا: اس قدر عرفاں آنکھ میں اس کی بڑھا میرا که کافر ہو گیا ہے وہ دور تر از اسی وجہ سے آپ کو یہ کفر محبوب تھا اور آپ کو اس پر فخر تھا.آپ فرماتے ہیں: سید عبد الحفیظ نے حضرت گرد باوانا تک کا نام بھی غیر مسلموں میں شامل کیا ہے حالانکہ وہ مسلمان تھے.صحن یار
525 بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم کہ خدا تعالیٰ کے بعد میں محمد علیہ کے عشق میں مخمور ہوں اور اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت ” کا فر“ ہوں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی تو کفر ہے جس پر راشد علی اور اس کے پیر کو سخت تکلیف ہے لیکن ہم تو اس کفر پر ناز کرتے ہیں کیونکہ وو یہ وہ ہے خوشبو کہ قرباں جس پہ ہو مشک تتار یوں تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کفر ثابت کر رہا ہے مگر اس کو اتنی بھی شرم نہیں آئی کہ وہ خود تو منشی در گا سہائے سرور جہاں آبادی را نا بھگون داس ، جگن ناتھ آزاد، کبیر داس، سرکشن پرشادشاد اور پنڈت کیفی وغیرہ وغیرہ ، غیر مسلموں جیسا کام بھی نہیں کر سکا.اس نے اپنا بڑھاپا ایک عاشق رسول کے خلاف جھوٹ پر جھوٹ بولنے میں ، اس کی تحریروں میں اور معنوں میں تحریف کرنے میں اور غریب ماہی گیروں کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں بھسم کر ڈالا لیکن اس میدانِ عشق محمد میں قدم رکھنا نصیب نہ ہوا.لکیروں کے فقیر بلکہ پیر بن کر عشق و محبت کا گھسا پٹا فلسفہ بکھیرنے سے تو یہ بہتر تھا کہ کم از کم پنڈت کیفی دہلوی، سرکشن پر شادشاد اور منشی درگا سہائے سرور وغیر ہم کی صف میں کھڑا ہو کر ہی نعت رسول کا کچھ مظاہرہ کر دیتا.لیکن اس کے نصیب میں یہ سعادت بھی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : مجھ پہ اے واعظ نظر کی یار نے ، پر تجھ پر نہ کی حیف اس ایماں پہ جس جس سے (2) کفر بہتر لاکھ بار نبی و رسول سالک نہیں ہوتے راشد علی کا پیر عبدالحفیظ ” کیا نبی بھی سالک ہوتا ہے؟“ کے عنوان کے تحت لکھتا ہے.
526 ” یہاں ایک اہم نکتہ یادر کھنے کا یہ ہے کہ یہ تمام منازل سلوک سالک کیلئے ہیں اور نبی ورسول سراج السالکین ہوتا ہے نہ کہ سالک.نبی یا رسول کو نہ تو فنافی الشیخ ہونے کی ضرورت ہے نہ کوئی نبی آج تک کسی دوسرے نبی یا رسول پر فنا ہوا ہے.قرآن گواہ ہے ، تاریخ انسانی شاہد ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ انبیائے کرام موجود رہے ہیں اور ان میں ایک دوسرے سے افضل بھی تھا مگر کبھی کسی نبی نے کسی دوسرے نبی کا عاشق ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.مثلاً حضرت ابراہیم اور حضرت لوط، حضرت عیسیٰ اور حضرت سکی ، حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون و حضرت خضر ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف وغیرہ علیہم السلام باوجود ایک ہی زمانے اور علاقے میں ہونے کے ان منازل سلوک سے مبتر ار ہے.نہ ان میں سے کسی نے عاشق رسول ہونے کا دعوی کیا اور نہ ہی فنافی اللہ کے مقام و منزل سے ان کو گزرنے کی ضرورت تھی.انبیائے کرام کا عرفان اور ہے اور اولیائے کرام کا اور.سرکار دو عالم ﷺ کی سیر الی اللہ اور تھی اور اولیاء اللہ کی سیر الی اللہ اور.سرکار ﷺ کی سیر جسم وروح کے ساتھ ہوتی تھی اور اولیائے کرام کی فقط روح کے ساتھ.الغرض اولیائے کرام کا اعلیٰ ترین درجہ بھی انبیائے کرام کے ادنی درجے کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ یہ مقام کسی نہیں وہی ہے.“ الفتوی نمبر 23 جنوری 2000ء) سید عبد الحفیظ کے اس سارے بیان اور خشک فلسفہ کالب لباب یہ ہے کہ نبی سالک نہیں ہوتا.حالانکہ اسلام کی تعلیم میں عملاً خود عقلمندی سے سوچ کر اللہ تعالیٰ اور رسول کی راہ اختیار کرنا سلوک کہلاتا ہے.ہر اہل اللہ خواہ وہ غوث ہو، قطب ہو، ابدال ہو، ولی اللہ ہو یا نبی اللہ ، خدا تعالیٰ کی طرف اس کا سفر جاری ہی رہتا ہے.اسی سفر کو سلوک کہتے ہیں اور یہ سفر کرنے والا سالک ہوتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اس سفر کا ایک مرحلہ یہ بھی بیان فرمایا: إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِيْنِ (الصافات: 100) کہ میں اپنے رب کی طرف جاؤں گاوہ مجھے ہدایت کی راہ پر چلائے گا ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ اپنے مقام ،مرتبہ ،کمال اور عروج کے لحاظ سے تمام انبیاء علیہم السلام میں سب سے بڑے نبی تھے لیکن پھر بھی آپ اسی سفر کے لئے ہمیشہ سلوک کی راہوں پر رواں دواں رہے.آپ اس مقام پر بھی فائز تھے جہاں بشریت کا مقام ختم ہو جاتا ہے اور الوہیت کے مقام کی حدود شروع ہو جاتی ہیں مگر پھر بھی آپ استغفار کرتے اور دن میں بیسیوں مرتبہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کی دعا مانگتے تھے.خدا تعالیٰ نے آپ کے اسی سفر کا نقشہ یوں کھینچا ہے وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الأولى (الضحى :5) کہ تیرا ہر آنے والا لمحہ پہلے گذرے ہوئے لمحہ سے بہتر ہے.یہ ہیں سلوک کی راہیں
527 جن پر نبی اللہ سب سے احسن رنگ میں اور تیز رفتاری سے چلتا ہے.خدا تعالیٰ نے اسی سبک رفتاری کے ساتھ چلنے کی تلقین کی اور فرمایا.فَفِرُّوا إِلَى اللهِ (الذاریات:15) کہ خدا تعالیٰ کی طرف دوڑو.یہ وہ کوچے ہیں جہاں غریب لوگوں کی زمینیں غصب کرنے والے سفاک اور پرلے درجہ کے افاک کا گذر ممکن نہیں ہوتا.خصوصاً وہ افاک جن پر شیطان نازل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت انہیں تو نچلے آسمان سے پہلے پہلے ہی دھتکار دیا جاتا ہے.آج ایسے ہی کچھ لوگ کوچۂ تصوف میں گھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سلوک کی راہوں کی منظر کشی کرنے لگے ہیں.وو (3) آج تک کوئی نبی دوسرے نبی پر فتن نہیں ہوا!! پیرسیدعبدالحفیظ کی لن ترانیاں دیکھیں.وہ کہتا ہے یہاں ایک اہم نکتہ یادرکھنے کا یہ ہے کہ یہ تمام منازل سلوک سالک کے لئے ہیں اور نبی ورسول سراج السالکین ہوتا ہے نہ کہ سالک.نبی یا رسول کو نہ تو فنافی الشیخ ہونے کی ضرورت ہے نہ کوئی نبی آج تک کسی دوسرے نبی یا رسول پر فنا ہوا ہے.الفتوى 23 جنوری 2000ء) عبدالحفیظ کے اس خود ساختہ معیار کو قران کریم ، احادیث نبویہ اور آئمہ سلف کے اقوال کلیڈ رڈ کرتے ہیں.مقام فنا، اطاعت و اقتباع کا بلند و بالا مقام ہے.جہاں تابع ومتبوع ، مطیع و مطاع اور آقا و غلام کی مرضی ایک ہو جاتی ہے.یہ مقام انبیاء کو کامل طور پر حاصل ہوتا ہے.خصوصا غیر تشریعی نبی اپنے تشریعی نبی کی اطاعت میں کمال درجہ کی فنا کا مقام رکھتے تھے.آیات وَإِنَّ مِنْ شِيْعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمُ ترجمہ: اور اسی ( نوح ) کی جماعت میں سے ابراہیم بھی تھے.اور يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ أَسْلَمُوْا ترجمہ:.اس (تورات) کے ذریعہ سے انبیاء جو فرمانبردار تھے فیصلے کیا کرتے تھے.(الصافات: 84) (المائدہ:45)
528 آیت میثاق وغیرہ اسی مضمون کی حامل ہیں.لیکن ان سب سے الگ اور ممتاز طور پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا مقام ہے.آپ پر ہر نبی فنا تھا.جیسا کہ پیر عبدالحفیظ نے آنحضرت علی کی حدیث تحریر کی ہے.کہ تھے.سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ ” میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم پانی اور مٹی کے بیچ میں یہی حدیث ان الفاظ میں بھی مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس وقت سے خاتم النبین لکھا گیا ہوں جبکہ آدم ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے.(مسنداحمد بن حنبل کنز العمال) اس حدیث کی رو سے ہر نبی آنحضرت ﷺ کی بعثت ہی کا مظہر تھا.یعنی آپ کی اطاعت میں اس طرح فنا تھا کہ گویا اس کی بعثت آپ ہی کے ظہور کا ایک جلوہ تھا، اس کی تعلیم آپ ہی کے روحانی افاضہ کی مرہونِ منت تھی اور اس کے منصب پر آپ کی نبوت کی چھاپ تھی.چنانچہ شیخ محمد اکرم صاحب صابری لکھتے ہیں: محمد بود که بصورت آدم در مبداء ظهور نمود یعنی بطور بروز در ابتداء عالم روحانیت محمد مصطفى الله در آدم متجلی شد و هم او باشد که در آخر بصورت خاتم ظاہر گردد یعنی در خاتم الولایت که مهدی است نیز روحانیت محمد مصطفی علل بروز و ظهور خواهد کر دو تصرفها خواهد نمود ( اقتباس الانوار صفحہ 52 مطبع اسلامیہ لاہور ) ترجمہ: یعنی وہ محمد ﷺ ہی تھے جنہوں نے آدم کی صورت میں دنیا کی ابتدا میں ظہور فرمایا یعنی ابتدائے عالم میں محمد مصطفی ﷺ کی روحانیت بروز کے طور پر حضرت آدم میں ظاہر ہوئی اور محمد مصطفیٰ ہی ہوں گے جو آخری زمانہ میں خاتم الولایت امام مہدی کی شکل میں ظاہر ہوں گے یعنی محمد مصطفی ﷺ کی روحانیت مہدی میں بروز اور ظہور کرے گی.اور حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضرت آدم صفی اللہ سے لے کر خاتم الولایت امام مہدی تک حضور حضرت محمد مصطفی عه بارز ہیں.پہلی بار آپ نے حضرت آدم علیہ السلام میں بروز کیا ہے اور پہلے قطب حضرت آدم علیہ السلام ہوئے
529 ہیں.دوسری بار حضرت شیث علیہ السلام میں بروز کیا ہے اس طرح تمام انبیاء اور رسل صلوات اللہ علیہم میں بروز فرمایا ہے یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ اپنے جسد عنصری ( جسم ) سے تعلق پیدا کر کے جلوہ گر ہوئے اور دائرہ نبوت کو ختم کیا.اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق میں بروز فرمایا ہے پھر حضرت عمر میں بروز فرمایا پھر حضرت عثمان میں بروز فرمایا.اس کے بعد حضرت علی میں بروز فرمایا ہے.اس کے بعد دوسرے مشائخ عظام میں نوبت به نوبت بروز کیا ہے اور کرتے رہیں گے حتی کہ امام مہدی میں بروز فرماویں گے.پس حضرت آدم صلى الله سے امام مہدی تک جتنے انبیاء اور اولیاء قطب مدار ہوئے ہیں.تمام روح محمد ﷺ کے مظاہر ہیں.اور روح محمدی نے ان کے اندر بروز فرمایا ہے.پس یہاں دو روح ہوئے ہیں ایک حضرت محمد ﷺ کی روح جو بارز ہے دوسری اس نبی یا ولی کی روح جو مبروز فیہ اور مظہر ہے.( مقابیس المجالس.اشارات فریدی حصہ دوم صفحہ 111 ،112 مولفہ رکن الدین مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ) یہاں ان بزرگ صوفیاء نے لفظ ” بروز استعمال فرمایا ہے یعنی سب انبیاء آنحضرت ﷺ سے ہی ہیں، ان کے وجود آپ ہی سے ہیں یعنی روح محمدی ہی ان کے اندر جلوہ گر تھی.یہ مقام، فنا کا قطعی مقام نہیں تو اسے اور کیا کہا جا سکتا ہے.الغرض جہاں نبی اپنے تشریعی نبی کی اطاعت میں فنا کا مقام رکھتے ہیں وہاں ان مذکورہ بالا عبارتوں سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ہر نبی آنحضرت ﷺ میں ایسی کاملیت اور جامعیت کے ساتھ فنا تھا کہ ان میں آنحضرت ﷺ ہی جلوہ گر تھے اور ان میں آپ ہی کی شانِ نبوت کا اظہار ہوتا تھا.پس عبد الحفیظ نے ایک بہت ہی بے تکی بات کی ہے جس کا سلوک کی راہوں سے اور منازل سلوک سے دور کا بھی تعلق نہیں.اس کی اس بات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ روحانیت سے تہی دست ہے ایک جعلی پیر ہے.جہاں تک امت کے مسیح و مہدی کے رسول اللہ ﷺ میں فنا ہونے کا مسئلہ ہے تو آئمہ سلف اس بات پر متفق ہیں کہ وہ اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ سے مکمل فنائیت کا مقام رکھتے ہیں.چنانچہ حضرت ملا جامی خاتم الولایت امام مہدی کے درجے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : " فمشكوة خاتم الانبياء هى الولاية الخاصة المحمدية وهي بعينها مشكواة خاتم
530 الاولياء لانه قائم بمظهريتها ـ ( شرح فصوص الحکم.ہندی صفحہ 69) ترجمہ :.حضرت نبی کریم ﷺ کا مشکوۃ باطن ہی محمدی ولایت خاصہ ہے اور وہی بجنسہ خاتم الاولیاء حضرت امام مہدی علیہ السلام کا مشکوۃ باطن ہے.کیونکہ امام موصوف آنحضرت ﷺ کے ہی مظہر کامل ہیں.اس عبارت میں بھی امام مہدی کو آنحضرت ﷺ کی صفات کا مظہر اور بروز قرار دیا گیا ہے.نیز لکھا ہے: 66 المهدي الذي يجئي في آخر الزمان فانه يكون في الاحكام الشرعية تابعاً لمحمّد صلى الله عليه وسلّم وفى المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الانبياء والأولياء تابعين له كلهم - ( شرح فصوص الحکم از علامہ عبدالرزاق قاشانی "53،52 مطبع مصطفی البابی الحلی مصری) ترجمہ :.آخری زمانہ میں جو مہدی آئے گا وہ شرعی احکام میں تو محمد مصطفیٰ علیہ کے تابع ہوگا لیکن معارف، علوم اور حقیقت کے لحاظ سے آپ کے سوا تمام انبیاء اور اولیاء اس کے تابع ہوں گے اور اس کی وجہ وہ اگلے فقرے میں یوں بیان فرماتے ہیں لانّ بـاطـنـه بـاطـن محمد صلى الله عليه وسلّم کہ مہدی کا باطن حضرت محمد مصطفی ﷺ کا باطن ہو گا.پھر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب امت محمدیہ میں آنے والے مسیح و مہدی کے رسول اللہ ﷺ سے فنائیت کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: منتسخة منه ، و حق له ان ينعكس فيه انوار سيّد المرسلين صلى الله عليه وسلّم ويزعم العامة انّه اذا نزل الى الارض كان واحداً من الامة كلاً بل هو شرح للاسم الجامع المحمّدى ونسخةً الخير الكثير - صفحه 72 مطبوعہ مدینہ پریس بجنور ) یعنی آنے والے مسیح موعود کا یہ حق ہے کہ اس میں سید المرسلین ﷺ کے انوار کا عکس ہو عام لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب وہ دنیا میں آئے گا تو وہ محض ایک امتی ہوگا ایسا ہر گز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہو گا اور اس کا دوسر انسخہ (True copy) ہوگا پس اس میں اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہوگا.اسی طرح قاری محمد طیب صاحب مہتم دار العلوم دیو بند فرماتے ہیں:
531 بہر حال اگر خاتمیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کو حضور سے کامل مناسبت دی گئی تھی تو اخلاقِ خاتمیت اور مقام خاتمیت میں بھی مخصوص مشابہت و مناسبت دی گئی.جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسوی کو بارگاہ محمدی سے خلقاً و خُلقاً، رتباً و مقاماً ایسی ہی مناسبت ہے جیسی کہ ایک چیز کے دو شریکوں میں یا باپ بیٹوں میں ہونی چاہئے.“ ( تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام - صفحہ 129 - از قاری محمد طیب مہتم دارالعلوم دیوبند پاکستانی ایڈیشن اول مطبوعہ مئی 1986 نفیس اکیڈمی کراچی ) ایسی کامل مناسبت کے رنگ فنائیت کی قوس قزح سے ہی پھوٹتے ہیں.اس کے بغیر ممکن ہی نہیں.پس را شد علی کا پیر سید عبدالحفیظ اپنے اس بیان میں بالکل غلط ہے اور جھوٹا ہے کہ کوئی نبی آج تک کسی دوسرے نبی یا رسول پر فنا نہیں ہوا.(4) سید عبدالحفیظ لکھتا ہے: میثاق النبیین اور محمد علی اللہ جل شانہ نے ازل سے ہی اپنے پیغمبروں کا چناؤ کر کے اس منصب پر فائز کیا.نہ صرف یہ بلکہ اپنے محبوب اور وجہ وجود کائنات سرکار دو عالم ﷺ کی آمد اور انبیائے کرام سے ان کی تشریف آوری پر ان کی اطاعت پر بھی عہد لے لیا تھا جیسا کہ قرآن کی آیت سے واضح ہے : واذ اخذ الله ميثق النبيين لما اتيتكم من كتاب وحكمة ثم جاء كم رسول مصدق لما معكم لـتـومـنـن بـه ولـتـنـصـرنّه قال ء اقررتم واخذتم على ذلكم اصرى قالوا اقررنا قال فاشهدوا وانا معكم من الشهدين O (3:81) چنانچہ اسی لئے سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم پانی اور مٹی کے بیچ میں تھے.“ الفتوی نمبر 23 جنوری 2000ء) اس آیت کریمہ میں جس میثاق کا ذکر ہے اس میثاق میں دیگر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ رسول اللہ بھی شامل ہیں آنحضرت ﷺ زمرہ انبیاء سے باہر نہیں.اس لئے یہ قطعی بات ہے کہ اپنے سے بعد صلى الله
532 میں آنے والے رسول پر ایمان اور اس کی مدد کا وہ عبد اللہ تعالیٰ نے آپ سے بھی لیا تھا.جس کا یا تو اس نام نہاد پیر کوعلم ہی نہیں اور یہ اس کی جہالت کی علامت ہے.یا پھر اس نے عادتا سچائی کو چھپانے کی جسارت کی ہے.وہ آیت کریمہ جو پیر عبدالحفیظ نے اوپر درج کی ہے.ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ” اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب اللہ نے ( اہل کتاب سے) سب نبیوں والا پختہ عہد لیا تھا کہ جو بھی کتاب اور حکمت میں تمہیں دوں پھر تمہارے پاس (ایسا) رسول آئے جو اس کلام کو پورا کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور ہی اس پر ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا ( اور ) فرمایا تھا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے ذمہ داری قبول کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں (اور ) قال فاشهدوا کہا تم بھی گواہی دو وانا معكم من الشهدین اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے (ایک گواہ ) ہوں.اسی عہد اور میثاق کا ذکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ مزید وضاحت فرماتا ہے کہ وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيْمَ وَمُوسَى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا لِّيَسْئَلَ الصَّدِقِيْنَ عَنْ صِدْقِهِمْ وَأَعَدَّ لِلْكَفِرِيْنَ عَذَابًا أَلِيمًا (الاحزاب آیت 9.8) ترجمہ:.اور (یاد کرو) جب کہ ہم نے نبیوں سے ان پر عائد کردہ ایک خاص بات کا وعدہ لیا تھا اور تجھ سے بھی وعدہ لیا تھا) اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسی ابن مریم سے بھی اور ہم نے ان سب سے ایک پختہ عہد لیا تھا.تا کہ بچوں سے ان کے سچ کے متعلق سوال کرے اور کافروں کے لئے اس نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے.یعنی نبیوں سے جو میثاق لیا گیا تھا، جس کا سورہ آل عمران میں ذکر ہے.اس کے بارہ میں فرمایا کہ یہ نبیوں کا میثاق ہم نے ہر نبی سے لیا.اور میثاق کا مضمون یہ تھا کہ اگر تمہارے بعد کوئی ایسا نبی آئے جو اس کتاب کی تائید کرے اور اس حکمت کی تائید کرے جو تمہیں عطا کی گئی اور اس کی مخالفت نہ کر رہا ہو تو کیا تم اس امر کا اقرار کرتے ہو یا نہیں کہ پھر اس کی مخالفت نہیں کرو گے بلکہ اس کی تائید کرو گے ، اس پر ایمان لاؤ گے.یہاں ایمان لانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی کی موجودگی میں آئے.مضمون صاف بتا رہا ہے کہ انبیاء کو
533 تاکیدی حکم دیا جارہا ہے کہ تم امت کو یہ نصیحت کرو گے کہ ہاں جب ایسا شخص آئے جو تمہاری شریعت کا مخالف نہ ہو، جو تمہاری کتاب کا مخالف نہ ہو بلکہ اس کا مؤید ہو اور اس کی خدمت پر مامور ہو جائے ایسے شخص کا تم نے انکار نہیں کرنا.کتنا عظیم الشان عہد ہے.یہ ذکر پہلے فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے دوبارہ فرماتا ہے: وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنگ اب یادرکھنا اس بات کو کہ جو عہد ہم : نے نبیوں سے لیا تھا وہ تجھ سے بھی لیا ہے اور وہ عہد کیا ہے؟ یہی کہ جب کتاب آ جائے اور حکمت کامل ہو جائے اس کے بعد بھی اگر نبی آئے گا جو مخالف نہیں ہوگا تو اس کی بھی تائید کرنا.اگر نبیوں کے نہ آنے والا ایک نیا باب کھلا تھا.اگر نئی رسمیں جاری ہوئی تھیں تو پھر آنحضرت ﷺ سے اس عہد کے لینے کی کیا ضرورت تھی کہ نبی آسکتا ہے ہاں شرط یہ ہے کہ تمہاری شریعت سے باہر نہیں ہوگا.اگر ایسا نبی آئے تو مجھ سے اقرار کرو اور پھر انہوں نے اقرار کیا اور عہد کیا خدا سے کہ ہاں ہم یہی نصیحت کریں گے.لما معهم - علامہ فخر الدین رازی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فحاصل الكلام أنّه اوجب على جميع الانبياء الايمان بكلّ رسول جاء مصدّقا (التفسير الكبير تفسير سورة الاحزاب.زیر آیت هذه ) ترجمہ:.اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء پر یہ واجب کر دیا ہے کہ وہ ہر رسول پر جو ان کی تصدیق کرتا ہے ایمان لائیں.کیسا عظیم الشان نکتہ ہے کہ جب تک کسی کتاب کا زمانہ باقی ہے، جب تک کوئی شریعت جاری ہے اور خدا نے اسے منسوخ نہیں فرمایا، اس وقت تک کسی جھوٹے کا سر پھرا ہوا ہے کہ اس کی تائید میں اٹھ کھڑا ہو اور اس کی تکمیل کی کوشش شروع کر دے.جھوٹا تو سچائی کی مخالفت کے لئے آئے گا اس لئے ایسا دعویدار جو شریعت کی تائید اور تکمیل کے لئے آ رہا ہو اور اپنا سب کچھ اس کی حمایت میں خرچ کر رہا ہو اس کی مخالفت تم نے ہرگز نہیں کرنی ، اس پر ضرور بالضرور ایمان لانا ہے.ظاہر بات ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اپنے ایمان لانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ بذات خود اس زمانے میں موجود ہوں اور نعوذ باللہ پھر کوئی اور نبی آجائے.اصل میں یہ عہد قوم سے ہے جس کا نبی سردار ہوتا ہے اس لئے مخاطب ہوتا ہے.یہ وہ عہد ہے جس
534 کی قوم پابندی کرتی ہے ورنہ انبیاء کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ مخالفت کر اس عہد کی تعمیل میں آنحضرت ﷺ نے اپنی امت میں آنے والے کو مسیح کا نام دیا اور اسے ایک ہی حدیث میں چار بار ”نبی اللہ کے نام سے یاد کیا.(دیکھیں صحیح مسلم.کتاب الفتن.باب ذکر الدجال ) اسی طرح اور احادیث میں بھی اس نبی کی آمد کی خبر دی.تا کہ امت آنے والے وجود سے غافل نہ رہے اور جب وہ آئے تو اس پر ایمان لائے اور اس کی مدد فرمائے.آپ نے اس حد تک بھی تلقین فرمائی کہ واذا رايتموه فبايعوه ولو حبوا على الثلج (سنن ابو داود.کتاب الفتن.باب خروج المہدی.ابن ماجہ.ایضاً ) کہ اے مسلمانو! جب تم اس کو پاؤ تو فوراً اس کی بیعت کرو خواہ تمہیں برف کے پہاڑوں پر گھٹنوں کے بل ہی کیوں نہ جانا پڑے.اور یہ بھی فرمایا : ” فليقرئه مني السلام “ کہ اسے میری طرف سے سلام کہنا.66 (الدرالمحور - جلد 2 صفحہ 445 مطبع دار المعرفي للطباعة والنشر بيروت) پس میثاق النبیین میں امت میں آنے والے اس وجود کا بھی ذکر ہے جس کی آمد کی خبر آنحضرت نے دی اور اس پر ایمان لانے اور اسے آپ کا سلام پہنچانے کی بھی تاکید فرمائی.مگر یہ پیغام رسول سننے کے لئے نہ پیر عبدالحفیظ تیار ہے نہ اس کا مرید راشد علی اور نہ ہی ان کے ہمنوا.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شیطان کے پیغام سننے کے عادی ہیں.خدائے رحمان کے نہیں.
535 متفرق اعتراضات
536 (1) ہے.جماعت احمدیہ کی ترقی اور اس کے مالی وسائل راشد علی اور اس کے پیر نے شکست کے یقین میں ڈوب کر اور پھر حسد کی آگ میں جل کر لکھا ” 120 زبانوں میں ہفتہ روزہ یاماہانہ مجلے شائع ہوتے ہیں! آخر یہ پیسہ کون فراہم کر رہا ہے؟ ( بے لگام کتاب) مسلم ٹیلیویژن احمدیہ کے نام سے لندن سے روزانہ دنیا بھر میں چار مختلف سیٹلائٹوں کے ذریعے 4 سے 13 زبانوں میں کئی کئی گھنٹوں پر مشتمل پروگرام نشر کئے جاتے ہیں.اتنا مہنگا پروپیگنڈا تو بڑی بڑی حکومتیں بھی نہیں کرتیں.آخر ان تمام پروگراموں کے اخراجات کون برداشت کر رہا ہے؟ کوئی بہت ہی احمق ہوگا جو یہ سمجھتا ہو گا کہ یہ سب کام سالانہ چندہ تحریک جدید وغیرہ سے پورے کئے جارہے ہیں! دراصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت احمدیہ کے علاوہ دوسری تنظیمیں مالی استمداد کے لئے کسی نہ کسی جگہ اپنا دست گدائی دراز کرتی ہیں.اس لئے ان کی کاسہ لیس عقل کی دسترس انفاق فی سبیل اللہ کے اس معیار تک پہنچ ہی نہیں سکتی ، جو صحابہ کے منہاج پر جماعت احمد یہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم ہے.ان کی پست سوچ یہ سمجھنے سے بہت ہی نیچے رہ جاتی ہے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے والے ایسے مومن بھی موجود ہیں جنہوں نے قرونِ اولیٰ کے مومنوں کی طرح اپنے ایمان کو جان، مال ، عزت اور نفس کی قربانیوں کی مضبوط بنیادوں پر قائم کیا ہے.وہ با قاعدگی کے ساتھ ساری عمر، اپنی آمدنی کا ایک کثیر حصّہ اس کے دین کی خاطر ادا کرتے ہیں.فی زمانہ جماعت احمد یہ دنیا میں وہ واحد جماعت ہے جس کے کمانے والے افراد جو اب کروڑوں کی تعداد میں ہیں خواہ وہ دنیا کے کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھتے ہوں ، قرآنی حکم کے تابع اپنی آمدنی کا ایک مقررہ حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرتے ہیں.ایسی بابرکت دولت سے ہر ملک میں جماعت احمدیہ کے جملہ کام سرانجام پاتے ہیں.اس کے ساتھ وہ دولت بھی بہت بڑی ہے جو لاکھوں افراد جماعت اپنے وقت اور نفس کا بیشتر حصہ دینی کاموں کے لئے صرف کرنے کی صورت میں پیش کرتے ہیں.
537 پس اتنا مہنگا پروپیگنڈا دنیا کی حکومتیں بھی اس لئے نہیں کر سکتیں کہ ان کے ساتھ اخلاص اور ایمان کی وہ طاقت نہیں جو جماعت احمدیہ کے افراد میں ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کے لئے مالی قربانیوں وو کے بالمقابل یہ پروپیگنڈہ اتنا مہنگا نہیں بلکہ معمول کی بات ہے.بہر حال ہمیں ان لوگوں پر بہت ہی تعجب ہوتا ہے جو بہت ہی احمق ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی مالی اعانت کوئی حکومت یا حکومتیں کرتی ہیں کیونکہ ایسا سمجھنے والے احمق ہی نہیں جھوٹے بھی ہیں.جس طرح ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی لاله پراعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُون (الفرقان:5) ( کہ اور قوم نے اس کی مدد کی ہے ) کا الزام لگانے والے احمق اور جھوٹے تھے.راشد علی اور اس کے ہم مشربوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اب یہ عظیم اسلامی ٹیلی ویژن MTA ( مسلم ٹیلیویژن احمدیہ ) ، سیٹلائٹ کے MAIN چینلز پر پانچوں بر اعظموں میں بھی براہ راست دیکھا جاتا ہے اور اب یہ ایک نہیں بلکہ اس کے تین الگ الگ چینلز بھی بن چکے ہیں.اور یہ بھی ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ دن بدن دیگر مسلمانوں میں بھی بیحد مقبول ہو چکا ہے اور گھروں کے علاوہ ہوٹلوں میں بھی لگا ہوا نظر آتا ہے.لوگ اس کے صاف اور نیچے پروگرام انتہائی شوق سے دیکھتے ہیں.فالحمد للہ تعالیٰ وو (2) ہیروئن کی اسمگلنگ اس عنوان کے تحت راشد علی اور سید عبدالحفیظ نے اپنی ” بے لگام کتاب“ میں لکھا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی قادیانیت نوازی کا ثبوت آپ کے سامنے ہے.موجودہ دور میں اگر کوئی بہت سرعت سے امیر بننا چاہتا ہے تو وہ ہیروئن کی اسمگلنگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے.آئیے اب اس تیسرے پہلو کا بھی جائزہ لیں کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ 14 اپریل کو پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے ایک جہاز کے کراچی سے دبئی پہنچنے پر ایک کنٹینر سے جس میں چاول لدا ہوا تھا ایک ٹن ہیروئن برآمد کی گئی.یہ چاول پاکستان رائس ایکسپورٹ کارپوریشن نے دبئی کی ایک کمپنی کو بھیجا تھا.اس کا روبا میں قادیانی ملوث تھے کیونکہ چاول کی ترسیل سے متعلق شعبے کا انچارج حمزہ بن عبد القادر پکا قادیانی تھا جو بارہ
538 سال سے اس شعبہ سے منسلک تھا.اسی طرح رائس ایکسپورٹ کارپوریشن کے پروکیورمنٹ اور فنانس کے شعبوں کے سر براہان ایس کے ملک اور عبد الغنی بھی قادیانی تھے.ان بڑی مچھلیوں پر تو کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکا مگر چند چھوٹی مچھلیوں کو ضرور سزا بھگتنی پڑی.د گزشتہ دنوں ربوہ کے چار قادیانیوں کو ابوظہبی میں ہیروئن اسمگل کر کے فروخت کرنے کے جرم میں تین تین (روز نامہ جنگ کوئٹہ 27 مئی 1958ء) سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی...ہم اس خبر کی تصدیق کی بحث میں نہیں پڑتے کہ ایسا واقعہ ہوا بھی تھا یا نہیں؟ وہ مجرم تھے بھی یا نہیں؟ وہ ربوہ کے رہنے والے بھی تھے یا نہیں ؟ وہ احمدی بھی تھے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ اصولی بات یہ ہے کہ افراد کے اعمال، انبیاء علیہم السلام کی صداقت یا مذاہب کی سچائی کی کسوٹی نہیں ہوتے.اگر افراد کے جرائم اور ان کے گناہوں کو معیار بنا کر انبیاء اور مذاہب کی حقانیت کو پرکھا جائے تو دنیا میں نہ کسی نبی کو اور نہ ہی کسی مذہب کو سچا ثابت کیا جاسکتا ہے.مثلاً راشد علی اور اس کا پیر سید عبد الحفیظ باوجود اس کے کہ مذہبی انسان کہلاتے ہیں مگر جس طرح جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹ پر جھوٹ اور افتراء پر افتراء کئے چلے جاتے ہیں ، اور ان کے ایسے ہی کردار کے دیگر پہلوؤں (جن کا گزشتہ اوراق میں حسب موقع کچھ نمونہ قارئین کے سامنے پیش کیا گیا ہے) کی وجہ سے کوئی اسلام پر انگلی اٹھائے یا اس کی تکذیب کرے تو وہ احمق ہی کہلائے گا.برے اعمال کرنے والا ہی برا ہوتا ہے، نہ کہ مذہب.راشد علی نے ہیروئن کی بات کی ہے.اس کی اسمگلنگ ، جو مسلمانوں کے ذریعہ ہوتی ہے، ایسی ہی خبروں سے روز مرہ کے اخبارات بھرے ہوتے ہیں.ان کی تفصیل بہت طویل ہے.راشد علی کو صرف اس رپورٹ سے ہی شرم آ جانی چاہئے کہ انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول بورڈ کی 1997ء کی رپورٹ کے مطابق صرف افغانستان سے 2800 ٹن افیون اور پوست اسمگل کی گئی.کیا راشد علی اس خبر پر ویسا ہی عنوان لگا سکتا ہے جو اس نے ایک خبر کی بناء پر جماعت احمدیہ پر لگایا ہے.راشد علی نے پاکستان کی قومی اسمبلی (1974 ء ) کا بڑے فخر سے ذکر کیا ہے کہ اس نے جماعتِ احمدیہ کو غیر مسلم قرار دے کر عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے.یعنی اس کی منطق کے مطابق یہ کارنامہ سرانجام دینے والے امت کے عظیم مجاہد اور ہیرو تھے.ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے سب فرقے ان کے اسلام پر متفق تھے.یہ
539 وہ لوگ ایسے پکے مسلمان تھے کہ جن کے اسلام پر سر کاری مہر تھی.ان مقدس لوگوں کے اعمال کی تفصیل اس قرطاس ابیض (White Paper) کے حصہ سوم میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے، جو ضیاء حکومت نے شائع کیا تھا.اس میں ایک ممبر کے بارہ میں لکھا ہے.کہ وہ وو شراب اور شباب کے رسیا ہیں....وفد کے ساتھ واپس آتے ہوئے ائر ہوسٹس سے وہسکی کی دو بوتلیں طلب کیں اور جب ائر ہوسٹس نے بوتلیں فراہم کر دیں تو اس نے ائر ہوسٹس پر دست درازی کی کوشش کی....66 ایک اور کے بارہ میں لکھا ان کا خاص معتمد ایک خطر ناک سمگلر ہے.“ اور ایک اور کے بارہ میں لکھا (صفحہ 182) (صفحہ 183 ) آزادانہ جنسی تعلقات ان کے کردار کا آئینہ دار ہیں اور لکھا کہ یہ لوگ قاتل بھی ہیں.“ پھر ایک اور کے بارہ میں لکھا کہ وو بدکاری اور ناجائز تعلقات کے الزامات میں ملوث ہے.“ ایک اور کے بارہ میں لکھا کہ وو معتمدوں کے ذریعہ پرمٹ حاصل کرنے والے، ایجنسیاں دلوانے والے، سمگلنگ کرنے اور کروانے والے کسٹم حکام کے ساتھ ملوث ،مبینہ طور پر عورتوں کے رسیا ہیں.“ (صفحه 85) یہ تو صرف نمونہ کے طور پر چند سطریں ہیں جو پیش کی گئی ہیں.اس دستاویز میں بہت مواد موجود ہے.اب آخر میں ایک اور خبر بھی سن لیں.روز نامہ جنگ لندن کی 8 جون 1987ء، بروز سوموار کی اشاعت میں یہ خبر آئی کہ دو ریاض اور جدہ میں بعد نماز جمعہ بالترتیب ناصر بن سکی اور محمود بن محمد السراج کے سر قلم کر دئے گئے.وزارتِ داخلہ کے سرکاری بیان کے مطابق ناصر بن سکی پر شراب پینے اور نشے میں بدمست ہو جانے کے بعد اپنی والدہ سے بد فعلی کرنے کا جرم ثابت ہو جانے کے بعد ریاض کی اعلیٰ شرعی عدالت نے سزائے موت تجویز کی تھی جس کی شاہی توثیق کے بعد جمعہ کو سزا پر عملدرآمد کیا گیا، جبہ فلسطینی شہریت کے حامل محمود
540 بن محمد السراج کو اپنی خالہ حتان بنت محمد زوجہ ولید بن مصطفیٰ اور اس کے تین بچوں خالد ،خلود ہمرا کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت دی گئی.“ اسی طرح روزانہ کے اخبار ” مسلمانوں کے انتہائی گھناؤنے جرائم کی خوفناک خبروں سے کالے ہوئے ہوتے ہیں.ان سب سے بچتے ہوئے ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر راشد علی کے اصول اور منطق کے آئینہ میں دیکھا جائے تو ان ” پکے مسلمانوں کی کرتوتوں کے داغ اسلام کے حسین چہرہ پر لگتے ہیں.لیکن ایسا نہیں ہے.خدا کی قسم ہرگز ایسا نہیں ہے.اسلام تو بہت ہی حسین اور پیارا ہے،صرف فتیح اور بدنماوہ بدنصیب ہے جو بد عمل کرتا ہے.اور راشد علی اپنے قول میں ، اپنے اصول میں، اپنی منطق میں اور جماعت احمدیہ پر الزامات میں پرلے درجہ کا کذاب واشتر ہے.ہماری اس سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کے بغض میں جو چاہتا ہے کرے لیکن اپنے جھوٹے اصولوں سے اسلام کے دلکش اور حسین چہرہ کو داغدار نہ کرے.(3) را شد علی اور اس کے پیر کا ایک اندھا افتراء را شد علی اور اس کے پیر نے ایک اندھا جھوٹ یہ بھی پیش کیا ہے کہ نیویارک کی تجارتی برادری کے یہودی صدر نے مرزا طاہر احمد کو جدید طرز کا پرنٹنگ پریس تحفہ پیش کیا ! آخر کیوں؟ ( بے لگام کتاب) اس پر ہمارا جواب یہی ہے کہ ” لعنة الله على الكاذبين“ را شد علی اور اس کا پیر اگر اپنے پر نازل ہونے والے شیطان سے یہ بھی پتہ کر کے بتا دیتے کہ کس تجارتی برادری کے کس یہودی صدر نے حضرت امام جماعت احمدیہ کی کس برتھ ڈے پر کس ملک میں کس قسم کئے جدید طرز کے پرنٹنگ پریس“ کا تحفہ پیش کیا تھا ؟ تو اس سے تاریخ کذب وافتراء میں ایک اور نئے
541 جھوٹ کا بھی اضافہ ہو جاتا.الغرض یہ راشد علی اور اس کے پیر کا کذب صریح اور اندھا افتراء ہے جس پر ہم ایک بار پھر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں.(4) وو راشد علی اور اس کے پیر کا ایک مضحکہ خیز جھوٹ راشد علی اور اس کے پیر نے جھوٹ کی ایک اور لعنت قبول کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 1989ء میں ایتھوپیا میں کام کرنے والی عیسائی مشنریوں نے 35 ملین ڈالر کا قادیانی لٹریچر چھاپ کر مغربی افریقی ممالک میں مفت تقسیم کیا ! آخر کیوں؟ ( بے لگام کتاب) اس پر ہمارا سیدھا اور سچا جواب تو قرآنِ کریم کی زبان میں یہی ہے کہ «لعنة الله على الكاذبين“ جھوٹ کی لعنت تلے اس طرح اندھا ہو جانا تو شیطان ہی کا نصیب ہے یا اس کا ، جس پر شیطان نازل ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے دین کی طرف بلانے والے تو جھوٹے اور مردود نہیں ہو سکتے.ہر شخص جانتا ہے کہ ایتھوپیا ایک لمبے عرصہ سے غربت، بھوک ،افلاس اور قحط کا شکار ہے.وہاں سے 35 ملین ڈالرز لٹریچر کے لئے خرچ کرنے کی کہانی کسی شیطان ہی کی اختراع ہوسکتی ہے جو ساتھ پاگل بھی ہو.ایسے جھوٹ کو دنیا کا کوئی ذی ہوش انسان قبول نہیں کر سکتا.پھر یہ لوگ مذہب کے نام پر اس قدر بے شرم ہو کر جھوٹ بولتے ہیں کہ شیطان کو بھی اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہوگا.چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لئے ایک طرف تو یہ جھوٹے بار بار یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائی مشنریوں کے خداوند یسوع مسیح کی بے حد تو ہین کی ہے اور اب یہ بھی لکھ رہا ہے کہ
542 عیسائی مشنریوں نے 35 ملین ڈالرز کا قادیانی لٹریچر چھاپ کر مفت تقسیم کیا.کیا تو بین مسیح پر مشتمل لٹریچر تقسیم کیا ؟ یا وہ تردید عیسائیت پر مشتمل لٹریچر تھا ؟ آخر کسی ایک جھوٹ پر تو قائم رہو.مگر تمہارا تو ایک جھوٹ دوسرے کو خود ہی کاٹ رہا ہے اور تمہیں پکا اقاک ثابت کر رہا ہے.(5) وو خلافت رابعہ، انتخاب و ہجرت ایک خدائی تقدیر راشد علی اور اس کا پیر لکھتے ہیں : موجودہ خود ساختہ خلیفہ رابع مرزا طاہر احمد قادیانی ہیں جو کہ مرزا بشیر الدین محمود کے چشم و چراغ ہیں.خود ساختہ اس لئے کہا ہے کہ جب تیسرے خلیفہ مرزا ناصر ابن مرزا بشیر الدین کا انتقال ہوا تو خلافت کے لئے رسہ کشی شروع ہوگئی.مرزا طاہر احمد کے غنڈے چھوٹے بھائی مرزا اعزیز احمد کے طرفداروں پر غالب آگئے اور یوں مرزا طاہر احمد کی خلافت کا دور شروع ہوا.جب مملکت خداداد پاکستان میں محترم جنرل ضیاء الحق مرحوم نے قادیانیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں کے خلاف قانون بنایا تو مرزا طاہر عدالتی کارروائیوں کے خوف سے فرار ہو کر لندن چلے گئے.یہ آج تک پاکستانی عدالت کے مفرور مجرم ہیں اور کئی مقدمات میں مطلوب ہیں.اب یہ مستقل طور پر لندن میں مقیم ہیں.قادیانیت کا نیا مرکز اسلام آباد کے نام سے لندن کے نواح میں قائم ہو چکا ہے.جہاں سے دنیا بھر کی اسلام دشمن قادیانی سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے.“ ( بے لگام کتاب ) را شد علی اور اس کے پیر پر جھوٹ ختم ہے.مذکورہ بال تحریر ایک طرف ان کے کذب صریح کی دلیل ہے تو دوسری طرف ان کی بے بسی اور ہزیمت کے اعتراف کا ثبوت.اس من گھڑت کہانی میں انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہراحمد خلیفة المسح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے چھوٹے بھائی کا نام مرزا عزیز احمد لکھا ہے.کہتے ہیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے لیکن یہاں تو اس جھوٹے کا دماغ بھی نہیں ہے.اگر ایک کہانی گھڑی تھی تو کم از کم یہ تو پتہ کر لیتے کہ مرزا عزیز احمد ، حضرت مرزا طاہر حد ایدہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھائی کا نام ہے بھی یا نہیں ؟ پس یہ بالکل جھوٹے اور فریبی ہیں جو
543 مذہب کو آڑ بنا کر ہر قسم کا فریب دیتے ہیں اور ہر قسم کا جھوٹ بکتے چلتے جاتے ہیں.حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھائی کا نام مرزا عزیز احمد نہیں ہے.اور یہ ان کے جھوٹ پر ایک اور مہر ہے.باقی رہا، جنرل ضیاء الحق کے قانون ، حضرت امام جماعت احمدیہ کی ہجرت اور اس کی برکت سے دنیا بھر میں جماعت احمد یہ کے ذریعہ سے اسلام کی خدمت کا سوال تو ہمیں اس بارہ میں کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں.اسرار احمد وڑائچ صاحب کی کتاب ” قادیانیت کا سیلاب اور ہماری حکمت عملی کا ایک باب ملاحظہ فرمائیں.وو ” مرزا طاہر احمد کی لندن منتقلی ضیاء حکومت مرزا طاہر احمد کو گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور اس کے لئے کسی بہانہ یا مناسب موقع کی تلاش تھی لیکن یہ عجیب بات ہے کہ حکومت وقت اپنی کوشش اور خواہش کے باوجود مرزا طاہر احمد کوگرفتار نہ کر سکی اور جماعت احمدیہ کے سر براہ لندن چلے گئے.قادیانی جماعت کی تاریخ میں مرزا طاہر احمد کا لندن چلے جانا بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ لندن منتقل ہونے کے بعد دنیا بھر میں جماعت احمد یہ بڑی مشہور ہوئی اور شاید اسی وجہ سے قادیانی جماعت ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئی اور اس طرح مرزا طاہر احمد کو گرفتار کر کے قادیانی مسئلہ کے حل کا فیصلہ بھی وبال جان بن گیا.جس فیصلے کے ذریعے قادیانیوں کی ترقی کو روکنا مقصود تھا وہ فیصلہ قادیانیوں کی ترقی کا باعث بن گیا.چنانچہ مرزا طاہر احمد کے بقول میری لندن منتقلی کے دن سے لے کر 30 جولائی 95 ء تک 57 نئے ممالک میں جماعت احمدیہ کی شاخیں قائم ہوئیں.یہ ہے نتیجہ مرزا طاہر احمد کی گرفتاری کے فیصلے کا.اگر یہ فیصلہ نہ کیا گیا ہوتا اور مرزا طاہر احمد لندن منتقل نہ ہوتے تو یقیناً جماعت احمد یہ اتنی ترقی نہ کرتی.بہر حال جب جماعت احمدیہ کو یقین ہو گیا کہ ضیاء حکومت مرزا طاہر احمد کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے تو جماعت کے بعض افراد نے مرزا طاہر احمد کو ملک چھوڑ جانے کا مشورہ دیا جسے انہوں نے قبول تو کر لیا لیکن شرط عائد کی کہ اگر میری گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو گئے تو اس صورت میں وہ ملک سے نہیں جائیں گے.مرزا طاہر احمد نے یہ شرط اس لئے عائد کی کہ ان کے خیال میں وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد ملک چھوڑنے سے لوگ بدظن ہو جائیں گے اور سمجھیں گے کہ میں ملک سے بعض جرائم کی وجہ سے فرار ہوا
ہوں 544 وارنٹ گرفتاری تو ابھی تک جاری نہیں ہوئے تھے چنانچہ ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا گیا اور انتظامات کی ذمہ داری ایک ریٹائر ڈسینئر فوجی افسر کو سونپ دی گئی.جس نے فیصلہ کیا کہ مرزا طاہر احمد ہالینڈ کی فضائی کمپنی K.L.M کے ذریعے ملک سے باہر جائیں گے.نشستیں بک کروانے کے لئے ایک شخص کو کراچی بھیج دیا گیا.اگر چہ یہ کام ٹیلی فون کے ذریعے بھی ہوسکتا تھا لیکن ان کے ٹیلی فون ریکارڈ کئے جانے کے خدشے کے پیش نظر ایسا نہیں کیا گیا.اس ہفتے KLM کی دو پرواز میں روانہ ہونا تھیں ایک 30 اپریل کو علی اصبح جبکہ دوسری 2 مئی کے روز جانا تھی.خلیفہ مرزا طاہر احمد کی خواہش تھی کہ وہ 2 مئی والی پرواز میں جائیں تا کہ تیاری کے لئے زیادہ وقت مل سکے لیکن KLM کے مینجر نے انہیں 30 اپریل کی پرواز کے ذریعے جانے کا مشورہ دیا.اگر چہ اس میں کوئی نشست نہیں تھی تاہم اس نے کہا کہ وہ اس کا انتظام کر لے گا.K.L.M کے مینجر نے بتایا کہ 2 مئی والی پرواز کو خلیج کی ایک ریاست میں اتر نا تھا اور اس بات کا امکان تھا کہ حکومت پاکستان خلیجی ریاست میں مرزا طاہر احمد کو گرفتار کر لے.جبکہ 30 اپریل والی پرواز کو براہ راست ایمسٹرڈیم جانا تھا چنانچہ 130 اپریل کی پرواز میں مرزا طاہر احمد کی روانگی کا انتظام کر لیا گیا.ادھر ربوہ حکومت کی 6 خفیہ ایجنسیوں کی نگرانی میں تھا اور ان کے اہلکار مرزا طاہر احمد کی مصروفیات پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے.29 اپریل کی صبح جبکہ ابھی مکمل اندھیرا تھا تو ربوہ سے دو کاریں روانہ ہوئیں جو براستہ لالیاں کراچی ہائی وے پر جا چڑھیں.ان کاروں کی روانگی کے تین گھنٹے بعد تین کاریں ربوہ سے نکلیں.ایک کار کی پچھلی نشت پر ایک شخص خلیفہ کی طرز کا لباس پہنے بیٹھا تھا.معمول کے مطابق دو کار میں اس کار کے پیچھے تھیں اور ایک آگے.کاروں میں خلیفہ کے ذاتی محافظ دستے کے ارکان بیٹھے ہوئے تھے.چنانچہ ہر ایک نے یہی سمجھا کہ خلیفہ مرزا طاہر احمد اسلام آباد جا رہے ہیں.خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے بھی حکام کو اطلاع دی کہ مرزا طاہر احمد اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گئے ہیں.وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ مرزا طاہر احمد تین گھنٹے پہلے کراچی کے لئے روانہ ہو چکے ہیں.
545 کاروں کا یہ قافلہ جو اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا تھا اس نے تھوڑی دیر بعد اپنا رخ جہلم کی طرف کر لیا جہاں مرزا طاہر احمد کے کزن مرزا منیر احمد کی فیکٹری تھی اور جہاں مرزا طاہر احمد قیام کیا کرتے تھے.مرزا طاہر احمد کی لندن روانگی کو اس حد تک خفیہ رکھا گیا کہ ربوہ میں رہائش پذیر احمد یوں کو بھی اس کا علم نہیں تھا یہاں تک کہ مرزا طاہر احمد کے ساتھ جانے والی ان کی تین بیٹیاں بھی اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ لندن جا رہے ہیں.خفیہ ایجنسیوں کے دو گروپوں نے اسلام آباد یہ اطلاع بھی دی کہ مرزا طاہر احمد جھنگ کے راستے کراچی کے لئے روانہ ہو گئے ہیں.لیکن اعلیٰ حکام نے ان رپورٹوں کو قابل توجہ نہیں سمجھا کیونکہ ان کے پاس چار دوسری رپورٹیں موجود تھیں جن کے مطابق مرزا طاہر احمد اسلام آباد آ رہے تھے.بہر حال مرزا طاہر احمد اور ان کے ساتھیوں کا کراچی تک کا سفر تو آسانی سے گزر گیا لیکن کراچی ایئر پورٹ پر ایک گھنٹہ ان کے لئے بہت بھاری تھا جو پرواز کے لیٹ ہونے کی وجہ سے ان پر گزرا.پرواز کا وقت 30 اپریل کو صبح 2 بجے کا تھا.2 بج چکے تھے لیکن جہاز اڑنے کا نام نہیں لے رہا تھا حالانکہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ پرواز لیٹ نہیں ہوگی.K.L.M کا مینجر مرزا طاہر احمد کے پاس آیا اور کہا کہ پرواز لیٹ ہونے میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ ایئر پورٹ حکام پرواز کی اجازت نہیں دے رہے.ادھر ایئر پورٹ حکام اپنی پریشانی میں مبتلا تھے.ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے.ان کے سامنے مرزا طاہر احمد کا پاسپورٹ پڑا ہوا تھا اور ساتھ جنرل ضیاء الحق کے دستخطوں سے جاری کیا گیا ایک لیٹر بھی موجود تھا جس میں جنرل ضیاء الحق نے ہدایت کی تھی کہ مرزا ناصر احمد جو خود کو احمد یہ تحریک کا خلیفہ کہتا ہے کو پاکستان چھوڑنے کی اجازت نہ دی جائے.وقت رکتا محسوس ہو رہا تھا.ایئر پورٹ حکام نے متعدد ٹیلی فون کئے ، ہدایات لینا چاہیں لیکن رات 2 بجے انہیں کون ملتا.فیصلہ یہ ہوا کہ پابندی تو مرزا ناصر احمد پر لگائی گئی جو دوسال قبل فوت ہو چکے ہیں لہذا جنرل ضیاء الحق کا یہ حکم اب قابل عمل نہیں رہا.جبکہ اطلاع یہ بھی تھی کہ احمدیوں کا خلیفہ اسلام آباد کی طرف جا رہا ہے.چنانچہ مرزا طاہر احمد کو جانے کی اجازت دے دی گئی.رات تین بجے K.L.M کی پرواز نے
546 کراچی ایئر پورٹ کو خیر باد کہہ دیا اور وہ مرزا طاہر احمد کو لے کر ایمسٹر ڈیم روانہ ہوگئی.جہاں سے انہیں لندن چلے جانا تھا.مرزا طاہر احمد جیت گیا اور جنرل ضیاء الحق ہار گیا.دن چڑھنے پر ضیاء الحق کو مرزا طاہر احمد کے چلے جانے کی خبر ملی تو صدر مملکت کے غصے کی انتہانہ رہی.کراچی میں امیگریشن کے اعلیٰ حکام کو معطل کر دیا گیا.تحقیقات شروع ہو گئیں.جنرل ضیاء الحق نے ضلع جھنگ کی پولیس افسر کو خود ٹیلی فون کیا اور پوچھا." مرزا طاہر کہاں ہے؟ مجھے فورا مرزا طا ہر چاہئے." پولیس افسر نے کانپتے ہوئے جواب دیا.” جناب مجھے تو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں.“ جنرل ضیاء پھٹ پڑا." تم نے کیا کہا کہ مجھے معلوم نہیں ؟ تم ذمے دار ہو.اسے فوراً تلاش کرو کہ وہ کہاں ہے.“ حالانکہ جنرل ضیاء الحق کو معلوم ہو چکا تھا کہ مرزا طاہر احمد اب اس کی پہنچ سے دور ہے.مرزا طاہر احمد کے لندن چلے جانے کی خبریں دنیا بھر کے اخبارات نے شائع کیں جبکہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں نے ریڈیو بی بی سی سے مرزا طاہر احمد کی زبانی ساری تفصیلات سنیں.30 اپریل کو 12:30 بجے مرزا طاہر احمد لندن پہنچ گیا جہاں سینکڑوں قادیانیوں نے ان کا استقبال کیا اور مرزا طاہر احمد کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کی.“ ( قادیانیت کا سیلاب اور ہماری حکمت عملی.صفحہ 227 تا230 ناشر: پائر پروگر لیوانٹرنیشنل ریسرچ ایسوسی ایشن پرنٹر طیب اقبال رائل پارک لاہور) یہ تو خدا تعالیٰ کی خاص تقدیریں ہوتی ہیں جو اس کے وعدہ كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَّا وَرُسُلِي کے تحت اپنے نبیوں کو اور ان کی جماعتوں کو غالب کر کے دکھاتی ہیں.ان کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا کہ دونوں میں سے کون غالب رہا؟
547 فرعون یا ہجرت کر کے موسیٰ علیہ السلام؟ یہود ہجرت کر کے عیسی علیہ السلام؟ کفار مکہ یا ہجرت کر کے رسول اللہ علی؟ ضیاء الحق اور ملاں یا ہجرت کر کے مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ؟ یہاں کوئی اس غلط نہی میں نہ رہے کہ اس جگہ انبیا علیہم السلام کے ساتھ خلیفہ امی کا موازنہ کیاجا ساتھ رہا ہے.یہاں صرف الہی تقدیروں کی بناء پر ہجرتوں کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ خلافت علی منہاج النبوت کے ساتھ اگر خدا تعالیٰ نے ہجرت مقدر کی تھی تو اس ہجرت نے بھی لازماً انہی برکتوں اور فضلوں سے معمور ہونا تھا جن سے انبیا علیہم السلام کی ہجرتیں معمور ہوئیں.اس ہجرت کے بعد جس طرح خدا تعالیٰ نے جماعت احمد یہ کو دن دونی رات چوگنی ترقیات عطا فرما ئیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس ہجرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات اور نصرتیں بھی علی منہاج النبوت ہیں.اس کی ایک ادنی سی جھلک برمنگھم (یوکے) سے شائع ہونے والے ماہنامہ ”صراط مستقیم ( غیر احمدیوں کے لئے یہ ” صراط مستقیم اب بند ہے ) کے اداریہ میں 66 زیر عنوان رد قادیانیت پر مشترکہ اقدام کی ضرورت ہے“ کے تحت ملاحظہ فرمائیں.وہ لکھتا ہے: کیا بات ہے کہ قادیانی صرف ایک سالانہ کا نفرنس کے ذریعہ ہزاروں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اپنے نظم وضبط اور منصوبہ بندی سے متاثر کر لیتے ہیں مگر ان کے مقابلے میں تحفظ ختم نبوت کے تحت منعقد کی جانے والی کا نفرنسیں ابھی تک کسی پر جانبدار مسلمان یا غیر مسلم کو الا ماشاء اللہ متاثر نہیں کرسکیں.“ اس حقیقت افروز مایوسی کے اظہار کے بعد وہ ایک اور سچائی لکھتا ہے کہ ” اس مسئلے پر ساری دنیا کے مختلف الخیال مسلمانوں کے ایک رائے ہونے کے باوجود کوئی ایسا مشترکہ پلیٹ فارم ترتیب نہیں دیا گیا جس میں کم از کم برطانیہ کی تمام دینی تنظیمات شامل ہوں بلکہ یہاں تو ترقی معکوس نظر آتی ہے.مجلس تحفظ ختم نبوت بھی اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے.“ (صراط مستقیم برمنگھم.شمارہ 2 جلد 17 اگست ستمبر 1995ء) یہ کس قدر بڑی شکست ہے جس کے ساتھ عبرتناک ریخت بھی ہے جو اس مجلس کو نصیب ہوئی ہے جو
548 یہ دعویٰ لے کر اٹھی تھی کہ وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹادے گی.خدا تعالیٰ کے مامور کی قائم کردہ جماعتوں سے ٹکرانے والوں کا ہمیشہ ایسا بدانجام ہی ہوتا آیا ہے.کئی سال ہو چکے ہیں راشد علی بھی تقدیر الہی سے ٹکرانے کی ہمت لے کر اٹھا تھا.اس سارے عرصہ میں اس نے ہمیشہ جماعت کو بڑھتے ہی دیکھا ہے اور اپنی ذلتیں ہی ذلتیں وسول کی ہیں.یہی ان کا ازلی نصیب ہے.
549 گر یہی دیں ہے!!
550 (1) اصل منافق راشد علی نے آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث بار بار پیش کی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ جس شخص میں چار خصلتیں ہوں گی قال رسول اللہ الا اللہ وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں اربـع مـن كـن فـيـه كـان منافقاً سے ایک موجود ہوگی تو اس میں نفاق خالصاً، ومن كانت فيه خصلة کی ایک خصلت تو ہے جب تک کہ منهن، كانت فيه خصلة من اس کو چھوڑ نہ دے.النفاق حتى يدعها ا.جب اس کے پاس امانت رکھی......اذا اوتمن ، خان : جائے تو اس میں خیانت کرے.۲.جب بات کرے تو جھوٹ بولے.واذا حدث ، كذب :.جب وعدہ کرے تو وعدہ توڑ......واذا عاهد ، غدر : ڈالے..جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ......واذا خاصم ، فجر (رواه البخاري والمسلم) کرے.‘ ( بخاری ومسلم) مذکورہ بالا حدیث نبوی کی روشنی میں عرض ہے کہ یہ تقریباً 62/1960 ء کی بات ہے کہ سیٹھ عارف گزور کراچی سے پیر عبدالحفیظ کو ایک عالم دین سمجھ کر ٹھٹھہ کے قریب ایک قصبہ گجو میں لے کر آیا.شروع میں جو طے پایا اس کے مطابق ایک میمن خاندان سے اسے رہائش کی سہولت ملی اور پکا پکا یا کھانا بھی ملتا رہا.ایک روز کھانا کچھ دیر سے آیا تو پیر عبد الحفیظ نے ان کے بیٹے پر چاقو نکال لیا یعنی جن کے پاس وہ معاہد بن کر آیا تھا انہیں سے غدر کر گیا (واذا عاهد غدر ) پیر عبدالحفیظ کو اس وجہ سے کافی ذلیل کیا گیا لہذا اس کی وہاں کے
551 لوگوں سے ٹھن گئی.چنانچہ وہ دشمنی میں لوگوں کے جانوروں کو ہلاک کرنے لگا.یعنی جھگڑے کی بنیاد بھی فجور اور عملا جھگڑا بھی فجور ( واذا خاصم فجر ).نیز اس نے مقامی انتظامیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے، ان کی مدد سے غریب مقامی ماہی گیروں کی زمین بھی ہتھیا لی.رپورٹ کے مطابق یہ قطعی بات ہے کہ پیر عبدالحفیظ نے اپنے محسن سیٹھ عارف گذور کو دوائیاں کھلا کھلا کر پاگل کر دیا اور اس کی دولت پر قبضہ کر لیا.یعنی سیٹھ نے تو اس کو امین سمجھ کر اس پر احسان کیا مگر اس نے اسی سے خیانت کی (اذا او تمن خان ).یوں تو پیر عبدالحفیظ کے بیسیوں جھوٹ اس کتاب میں ثابت کئے گئے ہیں مگر اس کا ایک اور جھوٹ یہ بھی ہے کہ اس سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ بے تحاشا سیگریٹ کیوں پیتا ہے تو کہنے لگا کہ اس سے SEX کم ہوتا ہے.(اس وقت اس کی عمر کم و بیش 88 سال ہے ) اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ انسانی روح کا وزن 21 گرام ہوتا ہے.(واذا حدث کذب ).پس وہ تمام نشانیاں جو آنحضرت ﷺ نے ایک منافق کی بیان فرمائی تھیں وہ ان کا زبردست شاہکار ہے.وہ پیر بن کر لوگوں کی روحانی اصلاح کی امانت لے کر آیا تھا مگر ان کی دولت اور زمینوں کو ہر ناجائز طریقہ سے غصب کرنے لگا.ظاہر ہے کہ ناجائز قبضے ، بدیانتی ، جھوٹ، دغے، دھو کے اور فجور کے بغیر ممکن نہیں ہوتے.وہ ان سے دین سکھانے کے وعدے کرتا رہا مگر کبھی کسی پر چاقو تان لیتا اور کبھی کسی کے مویشی مار دیتا حتی کہ اپنے محسن سیٹھ کو بھی دوائیاں کھلا کھلا کر پاگل کر دیا اور پھر اس کی جائیداد غصب کر لی.مقامی ماہی گیروں کی زمین پر بھی ناجائز قبضہ کی وجہ سے جو اس کا جھگڑا چل رہا ہے وہ بھی جھوٹ ، دھوکہ بازی پر ہی مبنی ہے.آخر میں ایک سندھی اخبار ” پاک“ کی اشاعت 3 دسمبر 1999ء بمطابق 24 شعبان 1420ھ کا ایک تراشہ قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش ہے.وو اس تراشے کا اردو تر جمہ : گجو کے شہر میں ایک غیر سندھی مرشد عوام کے لئے مصیبت بن گیا.سالوں سے آباد مقامی باشندوں کو جھوٹے مقدموں میں پھنسا کر تنگ کرنے لگا.خالی ہاتھ آنے والا پیر زمیندار بن گیا.دینی تبلیغ کے بہانے ٹرسٹ قائم کر لیا.عبدالحفظ پیر نے زمین حاصل کرنے کے لئے ہمیں گاؤں خالی کرنے کی
552 اخبار کا تراشه
553 دھمکیاں دیں.گجو شہر میں غیر مقامی غیر سندھی پیر کئی سال سے مقامی باشندوں کے لئے عذاب بن گیا ہے.سوسال سے آباد مقامی لوگوں کو دشمنی کی وجہ سے تنگ کر رہا ہے.غریب دیہاتی لوگ پیر کے جھوٹے مقدمے کا سامنا کرتے ہوئے تنگ آگئے ہیں.کئی سال پہلے شلوار قمیض پہنے ہوئے آئے مولانا نے ٹرسٹ قائم کر کے دینی مدرسہ قائم کرنے کے بہانے گجو شہر میں سرکار سے ساڑھے چارا یکٹر زمین ، یونین کونسل ، رہائش گاہ اور اپنے ایک مرید عبدالواحد شیخ کا ذاتی گھر بنا کر ایک غریب لکھ پتی بن گیا.جبکہ کئی مرید بنا کر مقامی غریب لوگوں کے لئے آزار بن گیا ہے.اس سلسلہ میں معلوم ہوا ہے کہ عبدالحفیظ نامی یہ مذہبی ملاں جو اس وقت 87 سال کا بوڑھا ہے1962ء میں خالی ہاتھ گجو شہر میں آیا تھا.جسے یہاں کے لوگوں نے لا چار سمجھ کر رہنے کی جگہ اور کھانا دیتے رہے اس وقت اس کی کوٹری اور کراچی میں بھی رہائش گاہ ہے.اس کے پاس باہر ملک سے بھی مرید آتے ہیں.اس وقت اس کے نام الحفیظ ذاکریں تنظیم اور الحفیظ نامی ماہوار رسالہ بھی نکالتے ہیں.مقامی باشندے علی اکبر میر اور گل محمد میر نے صحافیوں کے سامنے بیان دیا ہے کہ ہمارا گاؤں جو سالہا سال سے آباد ہے اور ہم یہاں سالوں سے رہائشی ہیں جس میں 62 گھرانے شامل ہیں.عبدالحفیظ کے آنے کے بعد ہمارے گاؤں کی زمین حاصل کرنے کے لئے کیس پر کیس بنا کر ہمارے لئے جنجال بنا دیا ہے.انہوں نے بتلایا کہ ہمارا گاؤں کئی ایکڑوں پر مشتمل ہے.وہ ہمارے ایک ایکڑ سے کچھ زیادہ پر قبضہ کرنے کی خاطر طرح طرح سے تنگ کر رہا ہے.“ (2) وو شریعت سے فرار کی راہ نہ دین کے قابل نہ دنیا کے“ راشد علی کا پیر سید عبدالحفیظ ، اہل اللہ کے مقام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ ہوش و حواس کی دنیا سے بیگانے ہو جاتے ہیں اپنے آپے میں نہیں رہتے.ان کا عشق بڑھ کر جنون بن جاتا ہے.عشق کی دیوانگی ان عشاق کو سوختہ جان کر دیتی ہے.اب نہ وہ دین کے قابل رہتے ہیں نہ
554 دنیا کے.شریعت ان سے ساقط ہو جاتی ہے کیونکہ شریعت ہو یا دنیاوی قانون اس کا اطلاق دیوانے پر نہیں ہوتا.ایسے اہل اللہ و خاصان خدا درس و تدریس کے مرحلے سے گذر جاتے ہیں.راہ سلوک کا یہ انتہائی مقام ہے جسے فنافی اللہ بھی کہتے ہیں.“ الفتوى نمبر 23 جنوری 2000) شاید یہ اس کی اپنی حالت ہو جو اس تحریر کے آئینہ میں دوسروں کو بھی دکھانا چاہتا ہے.وہ نہ دین کے قابل ہے نہ دنیا کے اور شریعت بھی اس سے ساقط ہوگئی ہے لیکن قبل اس کے کہ ہم شریعت کے سقوط پر بحث کریں، اس مذکورہ بالا تحریر کی مناسبت سے پیران پیر حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ، ہدیہ قارئین کرتے ہیں.ایک دفعہ سید عبد القادر رحمتہ اللہ علیہ کو شیطان اپنے زریں تخت پر دکھائی دیا اور کہا کہ میں تیرا خدا ہوں.میں نے تیری عبادت قبول کی.اب تجھے عبادت کی ضرورت نہیں رہی.جو چیزیں اب اوروں کے لئے حرام ہیں وہ سب تیرے لئے حلال کر دی گئی ہیں.سید عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ دور ہو اے شیطان ! جو چیزیں آنحضرت ﷺ پر حلال نہ ہوئیں وہ مجھ پر کیسے حلال ہوگئیں؟ پھر شیطان نے کہا کہ اے عبدالقادر ! تو میرے ہاتھ سے علم کے زور سے بچ گیاور نہ اس مقام پر کم لوگ بچے ہیں.یہ تو ہوسکتا ہے کہ کم علم والے کچھ پیر عبدالحفیظ کی ترغیب سے اپنے آپ سے شریعت کو ساقط سمجھیں مگرا کثر لوگ اس سے ضرور بچ جائیں گے.انشاء اللہ آنحضرت ﷺ کی یہ پیشگوئی کیسی سچی اور حقیقت افروز ہے کہ آپ نے فرمایا: لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدا بنالیں گے اور ان سے ( مسائل ) دریافت کئے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر ( بلا جھجک ) فتوے جاری کریں گے.یوں خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ بنائیں گے.“ ( بخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم...ترجمه از بخاری شریف مترجم مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی.لاہور ) سید عبدالحفیظ نے اس عبارت میں اہل اللہ اور فنافی اللہ کا جو فلسفہ بیان کیا ہے وہ شریعت محمدیہ سے فرار کا ایک بہانہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک چکمہ ہے.اب ذرا اس کی اس عبارت کو ملاحظہ کریں کہ وو شریعت ان سے ساقط ہو جاتی ہے کیونکہ شریعت ہو یا دنیاوی قانون اس کا اطلاق دیوانے پر نہیں ہوتا.“ الفتوی نمبر 23 جنوری 2000)
555 یہ دراصل آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث کا استعمال ہے جو اس نے ایسی جگہ کیا ہے کہ انسان اس کی جہالت پر حیران ہو جاتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ تین سے قلم اٹھالی گئی ہے.اسونے والے پر سے جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے.: ۲ بچہ سے جب تک کہ وہ جوان نہ ہو جائے اور : ٣ معتوہ یعنی مخبوط الحواس یا فاتر العقل سے جب تک کہ وہ ذی عقل نہ ہو جائے.( ترندی.کتاب الحدود ) یہ وہ معتوہ ہے یعنی مخبوط الحواس اور فاتر العقل، جو شریعت کا مکلف نہیں ہے اور وہ مرفوع القلم ہے.اس کا حوالہ پیر عبدالحفیظ نے دیا ہے.ظاہر ہے کہ ایک فائر العقل اور مخبوط الحواس ، سلوک کی راہیں طے نہیں کر سکتا.وہ تو بیچارہ فاتر العقل ہونے کی وجہ سے شریعت کی مبادیات کا بھی مکلف نہیں ہوسکتا.کجا یہ کہ وہ شریعت کے اعلیٰ تقاضوں کو پورا کر سکے.لیکن یہ سید عبدالحفیظ کا کمال ہے کہ ایک فانی فی اللہ کو اس شخص کے مقابل پر رکھ رہا ہے جو فاتر العقل اور مخبوط الحواس ہے.نعوذ باللہ من ذلک سید عبدالحفیظ مور مار کہ سگریٹ کے دھویں میں اپنے خودساختہ اذکار میں ساری رات سر دھن دھن کر اگر مرفوع القلم ہو چکا ہو تو الگ بات ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک صحیح العقل مسلمان سے شریعت ساقط ہو جائے خواہ وہ ایمان اور تقرب الی اللہ کے کسی بھی مقام پر ہو.تقرب الی اللہ اور فنافی اللہ کے سب سے بلند ترین مقام کنی که قاب قوسین کے بر تر گمان و وہم سے عالی مقام پر پہنچنے والے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی تھے اور شریعت محمدیہ پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے بھی آپ خود ہی تھے.اللہم صل علی محمد و علی آل محمد.آپ سے تو شریعت ساقط نہ ہوئی، نہ آپ کے خلفاء سے اور نہ ہی صحابہ سے.کیا وہ عشق خدا اور عشق ، رسول میں دیوانے نہ تھے؟ پس عبدالحفیظ نے شریعت کی راہ سے فرار اختیار کرنے کے لئے یہ نظریہ پیش کیا ہے.اس کو اس نظریہ کے مقابل پر رکھیں جو حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے شیطان نے پیش کیا تھا تو نتیجہ کھل کر سامنے آجائے گا.کیا شیطان اب یہ کام وہ عبد الحفیظ اور اس کے شاگر دراشد علی سے نہیں لے رہا؟
لکھتا ہے: 556 (3) قرآن کے پارے ،عبدالحفیظ کی گفتگو سید عبدالحفیظ جو راشد علی کا پیر ہے، اس کی گفتگو کے بارہ میں ان کا ایک مرید غلام رسول غرق قمبرانی دد گفتگو میں عکس ہے قرآن کا جب کیا تحریرہ پارے بن گئے“ (مامان الحفیظ صفحہ 15 شماره 1 نومبر 1998ء) یعنی پیر کی گفتگو جو شریعت کے احکام سے فرار پر مبنی، تلاوت قرآن اور اس پر عمل کی تلقین سے خالی ،سنت رسول کی پیروی کے لئے تحریص سے تہی اور اپنے خود ساختہ اذکار میں ساری ساری رات سر پٹخنے سے بھر پور ، جماعت احمدیہ کے خلاف بے شرم جھوٹ سے پُر اور شیطان کے پیغامات سے لبریز ہے، وہ ان کے نزدیک قرآن کریم کا عکس ہے اور جب وہ اس گفتگو کو ضبط تحریر میں لاتے ہیں تو وہ قرآن کریم کے پارے بن جاتے ہیں.( انا للہ وانا الیہ راجعون) یہ وہ شخص ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ظلمی نبوت کے بچے نظریہ پر حملے کرتا ہے.یہاں یہ اپنے جھوٹے رسالوں میں اپنے سگریٹ نوش، غاصب، اور سفاک وافاک پیر کی گفتگو کو( نعوذ باللہ )عکس قرآن یعنی ظلی طور پر قرآن قرار دیتا ہے اور اسے پاروں کی صورت میں پیش کرتا ہے.لعنۃ اللہ علی الکاذبین پس ان کی اس جسارت سے صاف ثابت ہے کہ یہ لوگ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کے لئے بھی گمراہی کا سامان مہیا کرنے والے ہیں اور مذکورہ بالا شعر ان کی طرف سے توہین قرآن کا ایک کھلا کھلا مظاہرہ ہے.گر یہی دیں ہے جو ہے ان کی خصائل سے عیاں میں تو اک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں زینہار
557 ان کے خیال میں ہم بد و بدحال ہو گئے ان کی نظر میں کافر و دجال ہو گئے ہم مفتری بھی بن گئے ان کی نگاہ میں بے دیں ہوئے فساد کیا حق کی راہ میں پر ایسے کفر پر تو فدا ہے ہماری جاں جس سے ملے خدائے جہان و جہانیاں اے مدعی ! نہیں ہے ترے ساتھ کر دگار یہ کفر تیرے دیں سے ہے بہتر ہزار بار (براہین احمدیہ حصہ پنجم )
558 شیطان چوکڑی ؟ کے آئینہ میں
559 1.سید عبدالحفیظ نے لکھا ہے کہ بہشت سے کر ہ ارض کی طرف وو حضرت آدم سرزمین ہند میں سراندیپ کے پہاڑوں پر اور حضرت حواجدہ میں اتاری گئیں.“ (مہاجر کون نہیں صفحہ 9) سوال یہ ہے کہ دونوں کو الگ الگ اور مختلف جگہوں پر کیوں اتارا گیا ؟ اگر بہشت ماڈی چیز ہے اور آسمانوں میں ہے تو یہ بہشت سے کرہ ارض پر اترے کیسے؟ کس زمانہ میں اترے؟ حضرت آدم ہندوستان سے جدہ تک یا تو اجدہ سے ہندوستان تک کیسے پہنچیں.حضرت آدم کو جدہ کی سمت کا اور ھو اکوسراندیپ کی سمت کا علم کیسے ہوا؟ جناب سید عبدالحفیظ صاحب ! شاید آپ لوگوں کے معروف عیسائی منجم ” ڈاکٹر ڈیوڈ مکناٹن آپ کو کچھ بتا سکیں لیکن ان سوالوں کے جواب آپ کے ذمہ ہیں.نیز یہ بھی بتائیں کہ جنت کے بارہ میں تو آتا ہے.عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ (عود: 109) کہ یہ ایک ایسی عطاء ہے جو کائی نہیں جائے گی.تو حضرت آدم اور حوا سے کیا خدا تعالیٰ نے اپنے قول کے خلاف یہ عطا چھین لی ؟ 2 سید عبدالحفیظ نے سورۃ الزمر کی آیت نمبر 43، اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُس کا یہ ترجمہ تحریر کیا ہے.اللہ قبض کر لیتا ہے روحوں کو ان کے مرنے کے وقت اور جو مرے نہیں ہیں ان کی روحیں ان کے سوتے وقت تو جن کی نسبت موت کا فیصلہ ہو چکا ہے ان کو روک لیتا ہے اور باقی سونے والوں کو ایک وقت مقررہ تک چھوڑ دیتا ہے.“ قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے بھی مُتَوَفِّيْک اور تَوَفَّيْتَنِی کے کلمات آئے ہیں جن کا مادہ اور باب وہی ہے جو يَتَوَفَّی کا ہے.اس کے پیش نظر سوال یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی توئی.موتھا کی صورت میں ہے یا منامها کی صورت میں؟ کیونکہ توفی کی تیسری صورت تو کوئی بھی نہیں (ہم اللہ کو کیوں مانیں صفحہ 58) ہے.اپنی کتاب ” ہم اللہ کو کیوں مانیں کا صفحہ 171 دیکھیں.وفات کی یہی دو قسمیں ہیں قف 3 سید عبدالحفیظ نے آیت کریمہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ، ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ.(ابوت :58 ) کا ترجمہ یہ لکھا ہے
560 ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے پھر تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ گے.ہم اللہ کو کیوں انہیں صحہ 36) پھر اسی کتاب میں اس نے لکھا ہے: ” حضرت عیسی بالجسم اٹھائے گئے.“ ہم اللہ کو کیوں مانیں صفحہ 136) یعنی رفع کا معنی اوپر اٹھا لینا لیا گیا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام اگر بالجسم خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے تو وہ بغیر موت کے کس طرح خدا تعالیٰ کی طرف لوٹائے گئے ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ بعِیسَی إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى.....( آل عمران:56) کم اے عیسی ! میں تجھے وفات دوں گا ( تیری روح قبض کروں گا ) اور پھر تیرا رفع کروں گا.سید عبدالحفیظ نے آیت کریمہ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوهُ....(آل عمران: 158 159 ) کا ترجمہ _4 یہ تحریر کیا ہے.وو اور ہے یہ کہ نہ اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان کے لئے ان کی شبیہہ کا ایک بنادیا گیا اور وہ جو اس کے بارہ میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں.انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بے شک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا (ہم اللہ کو کیوں مانیں؟ صفحہ 136 ) لیا.-i اس میں اس نے یہ جو لکھا ہے کہ ان کے لئے ان کی شبیہہ کا ایک بنادیا گیا.تو سوال یہ ہے کہ پہچان کا دارو مدار شکل پر ہوتا ہے.سو جب کوئی اور ان کی شبیہہ کا ایک بنادیا گیا اور انہوں نے اسی ہمشکل کو صلیب پر مار دیا تو ان کا دعویٰ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ بالکل صحیح ٹھہرا کیونکہ شکل ہی پہچان کا ذریعہ ہے روح تو نظر نہیں آتی.یہودی آخر مسیح کی شکل ہی کے دشمن تھے.-ii کیا خدا تعالیٰ نے ایک جعلی مسیح بنا کر ان کے لئے دھوکہ کے سامان کئے؟ ( نعوذ باللہ ) iii.یہ تصور ہی نہایت مکروہ اور ذلیل ہے کہ کسی نبی کی شکل اس کے دشمن جیسی ہو حتی کہ اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ ابو جہل کی شکل اور تیرے باپ کی شکل ایک جیسی ہے تو وہ غصہ سے بھر جائے گا تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک دشمن کی شکل خدا تعالی مسیح جیسی بنادے؟.جب مسیح بیچ کر آسمان پر چلے گئے تو پھر کسی یہودی پر ان کی شبیہہ ڈالنے اور اسے صلیب پر مروانے
561 کی کیا ضرورت تھی؟ کیا خدا تعالیٰ انہیں جان بوجھ کر گمراہ کرنا چاہتا تھا.اس طرح تو گویا خدا تعالیٰ نے انہیں ہمیشہ کے لئے گمراہ کر دیا.پھر یہود تو بے قصور ہوئے کیونکہ جب انہوں نے مسیح کو اپنے خیال میں صلیب پر قتل کر کے لعنتی ثابت کر دیا تو وہ کس طرح اسے سچا نبی قبول کر سکتے ہیں کیونکہ مصلوب کی شکل مسیح کی تھی اور ان کے گمان میں وہی مسیح تھا.کیا تبدیلی شیبہ کے واقعہ کے بعد مسیح کا حلیہ بدل گیا تھا اور آپ کی شکل پہلی ہی نہ رہی تھی ؟ اگر نہیں رہی تھی تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ vi قرب و محبت کا پتہ حفاظت سے چلتا ہے.زیادہ محبوب و قیمتی چیز کی زیادہ حفاظت ہوتی ہے.پھر خدا تعالی نے مسیح کو تو یہود کاہاتھ تک نہ لگنے دیا بلکہ آسمان پر اٹھالیا لیکن آنحضرت ﷺ بھی بھی ہوئے ، بیہوش ہوئے مگر خدا تعالیٰ نے انہیں نہ اٹھایا.کیا اس سے مسیح کی افضلیت اور قرب الہی کی زیادتی ثابت نہیں ہوتی.vii - قرآن کریم مسیح کو مشتبہ قرار دیتا ہے اور یہ اپنے غلط معنوں کو ثابت کرنے کے لئے اسے مشتبہ بہ بنا رہے ہیں.ix.یہود نے یہ نہیں کہا إِنَّا قتلنا رجلا.یعنی کہ کومنتقل نہیں کہا بلکہ خاص طور پر مسیح بن مریم کے قتل کا دعوی کیا ہے.یہود تو معرفہ کو مقتول کہتے ہیں مگر یہ ان کی طرف نکرہ کے قتل کا دعویٰ منسوب کرتے ہیں.جب خدا تعالیٰ نے مسیح کو آسمان پر اٹھا لیا تھا تو پھر کسی اور پر شبیہ ڈالنے اور اسے مروانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا خدا تعالیٰ کو خوف تھا کہ یہود آسمان پر آجائیں گے اور سیخ کو ماردیں گے؟ xi مسیح دن کو اٹھائے گئے یا رات کو ؟ اگر دن کو اٹھائے گئے تو کیا اتنے عظیم الشان واقعہ کا کوئی عینی شاہد ہے؟ xii اگر میخ کو رات کے وقت اٹھایا گیا تو کیوں؟ کیا خدا تعالیٰ کو ڈر تھا کہ دن کے وقت کہیں یہود مسیح کو آسمان پر جاتا نہ دیکھ لیں اور وہ بھی آسمان پر نہ پہنچ جائیں؟ خدا تعالیٰ مسیح کو اگر دن کے وقت آسمان پر لے جاتا اور سب کے سامنے لے کر جاتا تو کئی لوگ یہ معجزہ دیکھ کر ایمان لے آتے ورنہ کم از کم اتمام محبت تو ہو جاتی.
562 اگر یہود کے سامنے دن کے وقت آسمان پر اٹھایا ہوتا تو پھر یہود بقول علماء دوسرے شخص کو صلیب پر نہ چڑھاتے.اگر خدا نے مسیح کو اٹھانا ہی تھا تو حواریوں کو بتادیتا تاوہ نمگین نہ ہوں تہستی پکڑیں اور اس مصلوب کی لاش پر نہ روئیں اور ان کا ایمان بھی قوی ہو.xili.کیا حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ کسی غیر بلکہ دشمن شخص کی لاش سے چمٹ کر روتی رہیں.کیا یہ ان سے مذاق نہیں؟ xiv اگر خدا تعالیٰ مسیح کے جسم کو ایک خاص سمت میں لے گیا تو پھر ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ شش جہات میں سے صرف اوپر کی سمت میں ہے باقی پانچ جہات ( نیچے، مغرب ،مشرق ، شمال اور جنوب ) کو خدا تعالیٰ سے خالی ماننا پڑے گا.کیا ہر جگہ خدا تعالیٰ موجود نہیں؟ کیا وہ محدود ہے؟ -XV خدا تعالی سات آسمانوں میں سے کس آسمان پر ہے؟ دوسرے پر ہے یا عرش پر ؟ xvi.اگر وہ عرش پر ہے تو مسیح کو دوسرے پر کیوں رکھا؟ xvii حضرت موسیٰ علیہ السلام چالیس راتوں کے لئے گئے اور قوم کے بگاڑ پر واپس دوڑے آئے ، یہاں چالیس کیا دو ہزار سال گذر گئے ، قوم کلیۂ گمراہ ہوگئی مگر مسیح آتے ہی نہیں ؟ کیا خدا تعالیٰ نے آپ کو خبر نہیں دی کہ قوم بگڑ گئی ہے ان کی اصلاح کے لئے واپس تشریف لے جائیں؟ xviii اگر خدا تعالیٰ نے خبر دیدی ہے تو وہ پھر آتے کیوں نہیں؟ آسمان پر زندہ رکھنے کا فائدہ ہی کیا تھا اگر انہوں نے مصیبت کے وقت نازل ہی نہ ہونا تھا؟ Xxix معراج میں آنحضور ﷺ نے سب انبیاء سے ملاقات کی.کیا کہیں فرمایا کہ باقی انبیاء کی ارواح سے ملاقات ہوئی مگر مسیح بجسم خاکی تھے؟ جس حالت میں باقی انبیاء کو آنحضرت ﷺ نے دیکھا اسی حالت میں مسیح کو بھی دیکھا.کیا آنحضرت ﷺ نے کوئی فرق بیان فرمایا ؟ اگر آپ نے فرق دیکھا ہے اور امت کو فرق نہیں بتایا تو کیا آپ نے امت کو اس امر کی تبلیغ سے محروم رکھا؟ -XX مسیح کو سبکی کے ساتھ ایک ہی جگہ ( عالم برزخ) میں دیکھا.مسیح بجسم خا کی برزخی عالم میں کیسے پہنچ گئے ؟ وہاں تو صرف روح جاتی ہے.جسم خاکی نہیں جاتا.سید عبد الحفیظ نے اپنی کتاب ” ہم اللہ کو کیوں مانیں“
563 میں بھی یہی لکھا ہے کہ ” یہی ارواح کے رہنے کی جگہ ہے.“ (صفحہ 59).آنحضرت ﷺ سے جب کفار نے آسمان پر جانے کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا.سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلا بَشَرًا رَسُوْلاً - ( بنی اسرائیل : 94) کیا حضرت عیسی بشر اور رسول سے بالا مقام کے حامل تھے اور کیا آپ کی دفعہ خدا تعالیٰ سبحان نہ رہا تھا ؟ ( نعوذ باللہ ) را شد علی اور اس کے پیر اور ہمنواؤں سے درخواست ہے کہ براہ مہربانی وہ ان سوالوں کے جوابات سے نوازیں.اگر وہ ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تو ان پر لازم ہے کہ اپنا عقیدہ قرآنِ کریم کے مطابق درست کریں._5 سید عبدالحفیظ نے آیت کریمہ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ( آل عمران : 159) کا ترجمہ یہ کیا ہے.اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا “ ( ہم اللہ کو کیوں مانیں صفحہ 136 ) حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی مایہ ناز کتاب "ما ثبت بالسنة في ايام السنة جو کہ اہلِ سنت کی عقائد کی مشہور کتاب ہے میں فرماتے ہیں: "كان الحكمة في بعثه صلّى الله عليه وسلّم هداية الخلق وتتميم مكارم الاخلاق “ و تكميل مباني الدين - فحين حصل هذا الامر وتمّ هذا المقصود رفعه الله اليه وتوفاه الله وهوا بن ثلاث وستين سنة (ما ثبت بالسنة في ايام السن ذکر شھر ربیع الاول.صفحہ 39 مطبوعہ مطبع محمدی لاہور ) ترجمہ :.رسول کریم ﷺ کی بعثت میں حکمت یہ تھی کہ مخلوق کی ہدایت ہو، مکارم اخلاق پورے ہوں اور دین کی تکمیل ہو.جب یہ مقاصد پورے ہو گئے اور یہ امور حاصل ہو گئے تو خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف اٹھالیا اور آپ کو وفات دیدی جبکہ آپ کی عمر 63 سال تھی.اس عبارت میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بعینہ وہی جملہ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ “آنحضرت کے لئے استعمال فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے استعمال فرمایا ہے.عربی لغت کے لحاظ سے جو معنے حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے سید عبد الحفیظ نے کئے ہیں وہی معنے ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے لئے ہونے ضروری ہیں تو کیا حضرت عیسی علیہ السلام کی
564 طرح آنحضرت ﷺ کو بھی زمین سے زندہ بجسم عصری اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا تھا؟ -6 سید عبدالحفیظ نے لکھا ہے کہ ” اس قسم کے خیالات سے جو ہمیں تاریکی کی طرف لے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے بچائے اور شیطان کے شر سے جو ایسے فاسد سوچ ہمارے دلوں میں ڈال کر ذات باری تعالیٰ سے ہمارا معاملہ خراب کر کے دنیاو آخرت کی رسوائی کا بندوبست کرتا ہے یہ ہمارا ازلی اور جانی دشمن ہے.دیکھئے اللہ تعالیٰ نے شیطان ضرور پیدا کیا لیکن یہ بھی بتایا کہ اس کے مکروفریب سے کس طرح بچو ( ہم اللہ کو کیوں مانیں صفحہ 144) سوال یہ ہے کہ کیا یہ خود شیطان کے تصرف میں نہیں ؟ جو وہ ان کو پیغامات بھی دیتا ہے اور ان سے کلام بھی کرتا ہے؟ قارئین کے استفادہ کے لئے اس کا نمونہ پیش کیا جاتا رہا ہے.اور پھر یہ اس کے پیغام اور کلام کو بڑے طمطراق کے ساتھ اور تحدی کے ساتھ دوسروں کو پہنچاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ان کی دنیا میں تو رسوائی بڑے وسیع پیمانے پر ہوہی رہی ہے اور آخرت کی رسوائی اسی کے آئینہ میں اندازہ کی جاسکتی ہے.لیکن ان کے لئے ابھی بھی خدا تعالیٰ کا بتایا ہوا طریق موجود ہے کہ اس کے مکر وفریب سے کس طرح بچ سکتے ہیں.پس یہ دوسروں کو تو شیطان سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں مگر کیا خود نہیں بچیں گے؟ -7 سید عبدالحفیظ شاہ نے اپنی اسی کتاب میں لکھا ہے: خدائے کریم قرآن حکیم میں جگہ جگہ دوسری قوموں کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں.انہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لے لی.اسی شیطان کے بہکانے پر سوتم اس سے بچو.اس کے بہکائے میں نہ آؤ ( ہم اللہ کو کیوں مانیں صفحہ 184) لیکن اپنی ” بے لگام کتاب میں ابلیس کی طرف سے یہ اور ان کا مرید راشد علی نوٹس بھی جاری کرتے ہیں اور لکھتے ہیں.” بہر حال ابلیس کا تو کام ہی جھوٹ بولنا ہے.میرے ذریعے سے جو ابلیس نے آپ کو نوٹس دیا تھا.66 اس سے ان کی کھلی کھلی منافقت تو ظاہر ہے ہی کہ دوسروں کو تلقین کچھ کرتے ہیں اور اپنا عمل اس کے
565 بالکل برعکس ہے اور شیطانی ہے.لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سورہ الشعراء آیت 223 میں خدا تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ان کے افاک اور اثیم ہونے کی کھلی کھلی دلیل نہیں ہے؟ 8.سید عبدالحفیظ لکھتا ہے.وو ” وجود انسانی میں اخبار کی آمد کے مختلف ذرائع ہیں ہر ذریعہ ایک دوسرے سے جدا اور کام تقریباً یکساں ہے مثلاً القاء ادراک، رویائے صالحہ، الہام، فراست اور کشف جبکہ وحی انبیاء کے لئے مخصوص ہے.“ ( ہم اللہ کو کیوں ما نہیں صفحہ 125) ہم سید عبدالحفیظ سے یہ توقع تو نہیں رکھ سکتے کہ وہ قرآنِ کریم نہیں پڑھا ہوا.( بلکہ اس کے ایک مرید کے بقول تو اس کی گفتگو ہی قرآن کریم کا عکس ہوتا ہے اور جب اس گفتگو کو تحریر کریں تو وہ پارے بن جاتے ہیں ویسے معلوم نہیں اب تک ان کے قرآن کے کتنے پارے بن چکے ہوں گے.چونکہ یہ لوگ شیطان کے نوٹس آگے چلاتے ہیں ) اس لئے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو جان بوجھ کر گمراہ کر رہا ہے کیونکہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ لوگوں کو بھی وحی کرتا ہے مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کو اللہ تعالیٰ نے وحی کی.حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کو وحی کی وغیرہ وغیرہ.یہی نہیں بلکہ شہد کی مکھی اور زمین اور آسمانوں کو وحی کا بھی قرآن کریم میں ذکر ہے.تو سوال اٹھتا ہے کہ پیر عبدالحفیظ نے کیا شیطان کے اکسانے پر عمد احق کو چھپایا ہے یا جان بوجھ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے کذب صریح کا ارتکاب کیا ہے؟ -9 پیر عبدالحفیظ لکھتا ہے: میں یہ سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ روح ہے کیا.جب یہودیوں نے سرکار دو عالم روح کے متعلق سوال کیا تو اللہ تبارک تعالیٰ سرکار دو عالم پر یہ وحی نازل فرمائی: " کہہ دو کہ روح میرا حکم ہے.“ تخلیق آدم کے سلسلے میں رب تعالیٰ فرماتے ہیں: (17/85) پھر اس کو درست کیا اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکی.“ (32/9) ان آیات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے ہم روح کے متعلق تحقیق نہ کریں تو زیادہ مناسب ہے لیکن کیا
566 کیا جائے.انسان کی سرشت میں خواہش اور جستجو رب تعالیٰ نے رکھی ہے اور اس کی تسکین کی خاطر اسباب وعلل کی دنیا میں تمثیلات پیش کی ہیں، اسی سلسلے میں کچھ تحقیقات کی طرف میں آپ کی رہنمائی کروں گا.انسانی روح کا وزن 21 گرام ہوتا ہے یہ دعوئی سویڈن کے ایک ڈاکٹر نے کیا ہے اور کہا ہے اس دعوی کو ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس ثبوت موجود ہیں.ڈاکٹر نلسن اولوف جیکب سن نے اپنی کتاب زندگی بعد زندگی (Life After Life) میں لکھا ہے کہ انہوں نے قریب المرگ مریضوں کو انتہائی حساس تر از و پر رکھ کر تولا جونہی کوئی شخص مرتا اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ، ترازو کی سوئی اکیس گرام نیچے آجاتی.“ دو (ماخوذ روز نامہ جنگ 2 دسمبر 1972 ء ) ( ہم اللہ کو کیوں مانیں صفحہ 45،44) اسی طرح ایک بدروح کا اور واقعہ بیان کر کے سید عبدالحفیظ نے لکھا ہے کہ متذکرہ بالا بیانات کی روشنی سے اگر چہ کچھ حد تک روح پر واقفیت ہوتی ہے لیکن یہ سوال ہنوز جوں کا توں رہتا ہے کہ آخر ہم روح کو کیا سمجھیں.“ (ایضاً صفحہ 47) سوال یہ ہے کہ روح کو 21 گرام کی کوئی چیز کیوں نہیں سمجھ لیتے ؟ اس کے اس طرز بیان سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ پیر سمجھانا یہ چاہ رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تو خدا تعالیٰ نے یہ جواب سمجھایا تھا کہ یہ میرے رب کا ایک امر ہے مگر اسے سویڈن کے ایک ڈاکٹر کی وساطت سے بذریعہ روز نامہ جنگ یہ اطلاع مل جاتی ہے کہ روح کا وزن 21 گرام ہوتا ہے!!! 10.پیر عبدالحفیظ نے آنحضرت ﷺ کے نور کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: وو بقول غزائی یہ نور پھر تارہا کہ عظمت کے ساتھ جاملا پس اللہ تعالیٰ نے اس کے چار حصے کر دیئے اور جز واوّل سے عرش پیدا کیا.جزو ثانی سے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا اے قلم لکھ.عرض کیا کیا لکھوں.تو ارشاد ہوا ، میری تو حید اور میرے نبی کی فضیلت لکھ ، تب قلم عرش کے گرد جاری ہوا اور اس نے لکھالا اله الا الله محمدالرسول الله.“ ( نقل بمطابق اصل) 11.پیر صاحب لکھتے ہیں: وو رب فرماتے ہیں: ( ہم اللہ کو کیوں مانیں صفحہ 105)
567 ترجمہ : جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں.(105 /16) اس پر طرہ یہ کہتے ہیں جھوٹ کے بغیر کام نہیں چلتا.گناہ اور پھر اس پر استدلال.رب تعالی لعنت الله على الكذبين فرماتے ہیں.غور کیجئے تمام گناہوں کی سزا مقرر کی گئی ہے اور سزا کے بعد مجرم پاک ہو جاتا ہے خطا معاف ہو جاتی ہے چونکہ جھوٹ پر کوئی شرعی حد مقرر نہیں اس لئے جھوٹا ہمیشہ لعنت خداوندی میں گرفتار رہتا ہے تا آنکہ باز نہ آ جائے اور صحیح تو بہ نہ کر لے.“ ہم اللہ کو کیوں مانیں صفحہ 118 119 ) پیر صاحب ! ہم نے آپ کے اور آپ کے چیلے کے بیسیوں جھوٹ اس کتاب میں ثابت کئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ آپ کا جھوٹ کے بغیر کام نہیں چلتا پس آپ کیوں خود کو ہمیشہ لعنت خداوندی میں گرفتار رکھے ہوئے ہیں؟ جھوٹ سے باز کیوں نہیں آ جاتے ؟ اور سچی توبہ کیوں نہیں کر لیتے ؟ اور بالآ خر عرض ہے کہ ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خدا ✰✰✰ وآخر وهولنا لك الحمد لله رب العلمين
569 الیاس ستار کے اعتراضات کے جوابات
570 (1) عیسی علیہ السلام، پولوس اور شرک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تضاد سے بالا تحریریں الیاس ستار نے اپنے پمفلٹ " کیا احمدی قادیانی جواب دے سکتے ہیں، میں صفحہ ے سے صفحہ 31 تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ”چشمہ مسیحی مسیح ہندوستان میں“ اور ” انجام آتھم کے بعض اقتباسات کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان تحریروں میں تضاد ہے.اس بحث کو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کا جواز بنا کر بار بار اپنے رسالوں وغیرہ میں بھی اچھالا ہے اور راشد علی نے بھی اسے انٹرنٹ پر بڑے طمطراق کے ساتھ پیش کیا ہے.چونکہ اس بحث کا جواب ایک تفصیل کا متقاضی ہے اسلئے پہلے ہم اس کا پورا اعتراض بیان کریں گے پھر اس کا جواب ہدیہ قارئین کریں گے.چنانچہ وہ کہتا ہے کہ ”مرزا صاحب نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں فوت ہو گئے.اس سلسلے میں انہوں نے ایک کتاب ” مسیح ہندستان میں لکھی.اس کتاب میں انہوں نے لکھا کہ حضرت عیسی کو 33 سال کی عمر میں صلیب پر چڑھایا گیا اور 120 سال کی عمر میں وہ سرینگر کشمیر میں فوت ہوئے.مرزا صاحب کے تحت وہ صلیب پر بے ہوش ہو گئے تھے.انہیں مردہ سمجھ کر دفن کر دیا گیا.لیکن 3 دن بعد وہ ہوش میں آئے.قبر سے نکلے.شاگردوں سے ملے اور خفیہ ہجرت کر کے سرینگر تک پہنچے.صلیب کہ واقعہ کہ بعد 87 سال زندہ رہے.(120-33=87) مرزا صاحب " مسیح ہندستان میں صفحہ 55 پر لکھتے ہیں: صفحہ:55 سو میں اس کتاب میں یہ ثابت کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے اور نہ کبھی امید رکھنی چاہئے کہ وہ پھر زمین پر آسمان سے نازل ہوں گے بلکہ وہ 120 برس کی عمر پا کر کشمیر میں فوت ہو گئے اور سرینگر محلہ خان یار میں ان کی قبر ہے.“ صفحہ 14:
571 اب ظاہر ہے کہ اگر وہ (33) برس کی عمر میں آسمان پر اٹھائے جاتے ! حضرت عیسی 120 سال کی عمر میں فوت ہوئے.اس کا مطلب ہے کہ وہ 120 ء میں فوت ہوئے کیونکہ موجود ہ 1995ء کی ابتداء حضرت عیسی کی پیدائش سے ہوئی.اب غور کریں اس بات پر جو مرزا صاحب نے انجام انتم میں لکھا ہے صفحہ (321) قرآن شریف صاف کہتا ہے کہ مسیح وفات پا کر آسمان پر اٹھایا گیا لہذا اس کا نزول بروزی ہے نہ کہ حقیقی اور آیت فلما توفیتنی میں صریح ظاہر کیا گیا ہے کہ واقعہ وفات حضرت عیسی وقوع میں آ گیا کیونکہ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ عیسائی عیسی کی وفات کہ بعد بگڑیں گے نہ کہ ان کی زندگی میں.پس اگر فرض کر لیں کہ اب تک حضرت عیسیٰ فوت نہیں ہوئے تو ما نا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک نہیں بگڑے اور یہ صریح باطل ہے.بلکہ آیت تو بتلاتی ہے کہ عیسائی صرف مسیح کی زندگی تک حق پر قائم رہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حواریوں کہ عہد میں ہی خرابی شروع ہو گئی تھی.اگر حواریوں کا زمانہ بھی ایسا ہوتا کہ اس زمانے میں بھی عیسائی حق پر قائم ہوتے تو خدا تعالیٰ اس آیت میں صرف مسیح کی زندگی کی قید نہ لگا تا بلکہ حواریوں کی زندگی کی بھی قید لگا دیتا.پس اس جگہ سے ایک نہایت عمدہ نکتہ عیسائیت کہ زمانہ فساد کا معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ درحقیقت حواریوں کہ زمانے میں ہی عیسائی مذہب میں شرک کی تخم ریزی ہو گئی تھی.او پر دی گئی عبارت میں مرزا صاحب فرمارہے ہیں.......(۱) عیسائی صرف حضرت عیسی کی زندگی تک حق پر قائم رہے.حضرت عیسی کو خدا یا خدا کا بیٹا ان کی زندگی میں نہیں بنایا گیا.(۲) شرک تو شرک ، اس کی تخم ریزی بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے فوت ہونے کے بعد ہوئی.جب تک حضرت عیسی علیہ السلام زندہ تھے تب تک شرک کی تخم ریزی کی بھی گنجائش نہیں تھی.مرزا صاحب کہتے ہیں اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صرف عیسی کی زندگی کی قید لگائی.(۳) کیونکہ مرزا صاحب کی کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام 120ء میں فوت ہوئے تو شرک کی تخم ریزی ۰۲۱ ۶ کہ بعد ہوئی نہ کہ پہلے.120ء سے پہلے شرک کی تخم ریزی کی کوئی گنجائش نہیں ہے.(۴) ہائے 120 ہائے120 ہاے120 ہائے120 اب غور فرمائیں مرزا صاحب کی بات پر جو وہ چشمہ مسیحی میں لکھتے ہیں: غرض اس مذہب میں تمام خرابیاں پولوس سے پیدا ہوئیں.حضرت مسیح تو بے نفس انسان تھے جنہوں نے یہ بھی (چشمه سیحی.صفحہ 375) نہ چاہا کہ کوئی ان کو نیک انسان کہے مگر پولوس نے ان کو خدا بنا دیا.“ وو اور اس نے پہلے پہل تثلیث کا خراب پودہ دمشق میں لگا یا اور یہ پولوی تثلیث دمشق سے ہی شروع ہوئی.اسی
572 کی طرف احادیث میں اشارہ کر کے کہا گیا.کہ آنے والا مسیح دمشق کی مشرقی طرف نازل ہوگا.(چشمہ مسیحی.صفحہ 377) اس کتاب چشمہ مسیحی میں مرزا صاحب صاف طور پر فرمارہے ہیں کہ حضرت عیسی کو پولوس نے خدا بنا یا تھا.پولوس کا انتقال 64ء یا65 ء میں ہوا.اس دلیل کے طور پر ملاحظہ کریں کتاب 100 The " سے ماخوذ ہے.(St.Paul (0.4 ad cc.64 a.d فائنل بحث (۱) مرزا صاحب نے مسیح ہندوستان میں میں صاف طور پر یہ فرما دیا کہ حضرت عیسی 120 ء میں فوت ہوئے.(۲) مرزا صاحب نے انجام آتھم میں صاف فرما دیا کہ 120 ء سے پہلے شرک کی تخم ریزی کی کوئی گنجائش نہیں یعنی شرک کی تخم ریزی ۰۲۱ ء کے بعد ہوئی.(۳) مرزا صاحب نے چشمہ مسیحی میں فرما دیا کہ پولوس نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا بنادیا.پولوس کا انتقال 65ء میں ہوا.یعنی حضرت عیسی کے فوت ہونے کے 55 سال پہلے پولوس مر گیا.چونکہ حضرت عیسی مرزا صاحب کے تحت 120ء میں فوت ہوئے.مرزا صاحب نے خود قرآن مجید کی آیت ( فلما توفیتنی) کے ذریعے دعوی کیا کہ عیسائی صرف حضرت عیسی کی زندگی تک حق پر قائم رہے.لیکن اپنی ہی کتابوں کو اس آیت کی روشنی میں صحیح ثابت نہ کر سکے.کیونکہ مذکورہ آیت میں ثابت کر رہے ہیں.کہ حضرت عیسی کی وفات کے بعد عیسائیت میں شرک کی تخم ریزی ہوئی.اور غلطی سے اپنی دوسری کتاب میں عیسی کے فوت ہونے سے کم از کم 55 سال پہلے پولوس کے ذریعے ان کو خدا بنا دیا.مرزا صاحب کی غلطی کی وجہ سے ان کی کتابوں کے تحت حضرت عیسی جب کشمیر میں زندہ تھے.تب ان کو فلسطین وغیرہ میں خدا اور خدا کا بیٹا بنا دیا گیا اگر مرزا صاحب زندہ ہوتے اور ان کی خدمت میں یہ مضمون پیش کیا جاتا تو کیا مرزا صاحب یہ کہہ سکتے تھے.کہ میرے سے غلطی ہوگئی.کیونکہ میں ایک بشر ہوں.مرزا صاحب نے اپنی اس دلیل میں اللہ کی مدد شامل ہونے کا دعوی کیا تھا.جس دلیل میں اللہ کی مدد شامل ہو.کیا وہ دلیل غلط ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ سے غلطی نہیں ہوتی.صرف مرزا صاحب کا دعویٰ غلط ہے.ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کو 33 سال کی عمر میں صلیب پر چڑھایا گیا تھا اور (87 سال کہ بعد ) 120 کی عمر میں وہ فوت ہوئے.اس 87 سال میں انہوں نے فلسطین یا روم سے کسی قسم کا رابطہ نہ رکھا.انہوں نے ہجرت کشمیر کی طرف کی جب ان کی عمر 33 سال تھی لہذا فلسطین اور روم میں حضرت عیسی" کی نگرانی 33 سال کی عمر میں ختم ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی نگرانی شروع ہوگئی.کیونکہ حضرت عیسی نے 33 سال کی عمر کہ بعد فلسطین اور روم سے کوئی رابطہ نہیں رکھا.“ پمفلٹ " کیا احمدی / قادیانی جواب دے سکتے ہیں" صفحہ 7 تا 12 )
573 الجواب:.اس ساری بحث میں الیاس ستار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف عبارتوں کو محض ایک دوسرے کے سامنے رکھ کر خود اپنی ہی عقل سے کھلا کھلا دھو کہ کھایا ہے.اسی وجہ سے اس نے ان تحریروں کے نتائج غلط اخذ کئے ہیں اور ہائے 120 ہائے 120 کے سوقیانہ نعرے بھی لگائے ہیں.اس ساری بحث میں اس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا حضرت مرزا صاحب کو حقیقت حال کا علم نہ تھا اس لیے انہوں نے کبھی کچھ لکھا اور کبھی کچھ.لہذا ان کا دعوی ہی غلط تھا.معززقارئین! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو تحریریں الیاس ستار نے پیش کی ہیں ان میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں.اور حقیقت یہ ہے کہ جس بنیاد پر اس نے ان میں اختلاف اور تضاد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اگر اس بنیاد کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کی زد قرآن کریم پر بھی پڑتی ہے اور احادیث نبویہ پر بھی.اور امر واقع یہ ہے کہ تقریباً ایسی ہی بنیادوں پر قائم ہو کر بعض علماء ( گوان کی نیت نیک تھی اور وہ عزائم ہرگز نہیں تھے جو الیاس ستار وغیرہ کے ہیں ) اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے قرآنِ کریم کی ایک آیت کو دوسری کی ناسخ قرار دے کر بعض آیات پر خط تنسیخ پھیر دیا اور عملاً یہ ثابت کیا کہ گویا نعوذ باللہ ، اللہ تعالیٰ سے غلطی ہو گئی تھی.پہلے اُس نے کچھ کہہ دیا تھا اور پھر بعد میں کچھ اور نازل کر دیا.جس نے پہلے کی تنسیخ کر دی.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع میں ہی یہ تاکید فرمائی تھی کہ.ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ.(البقرہ:3) یہ وہ کتاب ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں.اور فرمایا ” وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَا ًفا كَثِيرا (النساء: 83) ترجمہ:.اور اگر یہ ( قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت سا اختلاف پاتے.یعنی صرف خدا تعالیٰ کا کلام ہی ہے جو شک ، اختلاف اور تضاد وغیرہ سے پاک اور مبرا ہے.پس جہاں نوبت یہاں تک پہنچی ہو کہ خدا تعالیٰ کے ان ارشادات کے ہوتے ہوئے بھی قرآنِ کریم کی بعض آیات کو ایک دوسرے سے منسوخ کیا جارہا ہو وہاں کسی بھی انسان کے کلام سے کھیل جانا تو ایسے لوگوں کا ادنیٰ کرشمہ ہے.بہر حال یہ ایک ابدی سچائی ہے کہ تضاد اور اختلاف سے پاک اور مبر اہونا صرف اور صرف کلام الہی کا ہی اعجاز اور طرہ امتیاز ہے.لیکن یہاں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ وہ عبارتیں جو الیاس ستار نے پیش کی ہیں گو اس جیسے سطحی نظر والے کو ان میں بظاہر اختلاف نظر آتا ہومگر در حقیقت ان میں نہ کوئی
574 تناقض ہے نہ تضاد.اور نہ ہی ان عبارتوں سے کوئی ایسا نتیجہ اخذ ہوسکتا ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان امور کی بابت حقیقت کا علم نہ تھا.پس غلطی الیاس ستار نے خود کھائی ہے اور وہ ان زیر بحث تحریروں میں خود الجھا ہے اور حقیقت حال سمجھنے سے قاصر رہا ہے.امر واقع یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی اور ان کی وفات کے جملہ، حالات و حقائق اور اسرار کی طرف خدا تعالیٰ نے خودحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی راہنمائی فرمائی تھی.اس سلسلہ میں اس نے جہاں آپ کے مطالعہ تحقیق میں بیحد وسعت عطا کی تھی ، وہاں اس کی وحی بھی آپ کی اصل راہنما تھی.نیز اس زمانہ میں آپ کو کتابوں اور تحقیق کے وسائل تک بھی خدا تعالیٰ نے غیر معمولی رسائی عطا فرمائی تھی.یہاں الیاس ستار نے بالکل بجا لکھا ہے کہ ” جس دلیل میں اللہ کی مدد شامل ہو کیا وہ دلیل غلط ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ سے غلطی نہیں ہوتی.“ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر فرمودہ عبارتوں میں کوئی غلطی نہیں ہے.اور نہ ہی آپ کو اس بارہ میں کسی قسم کا کوئی ابہام تھا.لیکن قبل اس کے کہ ہم اس بحث کی طرف چلیں ، ایک بار پھر عود کر اپنے گزشتہ بیان کی طرف آتے ہیں کہ اگر اس بنیاد پر کسی تحریر میں تضاد ثابت کیا جائے جس بنیاد پر الیاس ستار نے کیا ہے تو اس سے قرآن کریم اور احادیث نبوی جیسی کتب بھی محفوظ نہیں رہتیں مثلاً (۱) قرآن مجید کی رو سے بحالت روزہ بیوی سے مباشرت ممنوع ہے.مگر بخاری، مسلم اور مشکوۃ ، تینوں میں حضرت عائشہ کی مندرجہ ذیل روایت ہے: عن عائشة رضى الله عنها قالت كان النبى الله يقبل و يباشر وهو صائم وكان املككم لاربه “ 66 ( بخاری کتاب الصوم باب المباشرة للصائم.مشکوۃ.کتاب الصوم - باب تنزیہ الصوم - مطبع اصبح المطابع ) ترجمہ :.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آنحضرت اللہ روزہ میں ازواج کے بوسے لے لیا کرتے تھے.اور ان سے مباشرت کرتے تھے.اس حالت میں کہ آپ کا روزہ ہوتا تھا.مگر آپ اپنی خواہش پر تم سب سے زیادہ قا بو رکھتے تھے.اب کیا قرآن کریم کے حکم لَا تُبَاشِرُوهُنَّ (البقرة: 188) کومندرجہ بالا روایت کے
575 الفاظ يباشر وهو صائم کے بالمقابل رکھ کر کوئی ایماندار شخص یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ دونوں جگہ ایک ہی چیز کی نفی اور ایک ہی چیز کا اثبات کیا گیا ہے.ظاہر ہے کہ حدیث مندرجہ بالا میں مباشرت سے مراد مجامعت نہیں.بلکہ محض عورت کے قریب ہونا ہے اور اس پر قرینہ اسی روایت کا اگلا جمله و کــــان امـلـكـم لاربہ ہے، لیکن اس کے برعکس قرآن مجید میں جب لفظ مباشرت آیا ہے وہاں اس سے مرا د مجامعت“ ہے.پس گو دونوں جگہ لفظ ایک ہی استعمال ہوا ہے مگر اس کا مفہوم دونوں جگہ مختلف ہے اور سیاق وسباق عبارت سے ہمارے لیے اس فرق کو سمجھنا نہایت آسان ہے.(۲):.پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (الانفال:3) کہ جب مومنوں کے سامنے اللہ تعالی کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل جوش مارنے لگ جاتے ہیں.مگر دوسری جگہ فرمایا.الابذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد : 29) کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں میں سکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے.(۳):.اسی طرح قرآن مجید میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى (النجم :3) که رسول خدا عضال نہیں ہوئے اور نہ راہ راست سے بھٹکے لیکن دوسری جگہ فرمایا.وَ وَجَدَ كَ ضَالأَفَهَدی (الضحی :8) کہ اے رسول ! ہم نے آپ کو ضال‘ پایا اور آپ کو ہدایت دی.دونوں جگہ لفظ ”ضال ہی استعمال ہوا ہے.ایک جگہ اس کی نفی کی گئی ہے تو دوسری جگہ اسی کا ا ثبات ہے، کیا کوئی ایماندار کہہ سکتا ہے کہ ان دونوں عبارتوں میں تناقص یا تضاد ہے.ہرگز نہیں ، کیونکہ ہر اہلِ علم ان عبارتوں کے سیاق و سباق سے سمجھ سکتا ہے کہ دونوں جگہ لفظ ” ضال“ ایک ہی معنے میں استعمال نہیں ہوا.بلکہ دونوں جگہ اس کا مفہوم مختلف ہے.ایک جگہ گمراہ مراد ہے اور اس کی نفی ہے.تو دوسری طرف تلاش کرنے والا قرار دینا مقصود ہے اور وہاں اس امر کا اثبات ہے.ظاہر ہے کہ قرآن کریم اختلاف سے پاک ہے.لیکن الیاس ستار کے طریق کے مطابق اس میں ( نعوذ باللہ ) اختلاف ثابت ہوتا ہے.مگر انصاف پسند نظر اور بصیرت کی آنکھ تو ان آیات میں یا حدیث نبوئی میں بیان ہوئے الفاظ کو ان کے سیاق و سباق اور موقع محل کو مد نظر رکھتی ہوئی ان کو الگ معانی ومفہوم پہنائے گی.تاکہ اصل مقصد جو ان الفاظ کو بیان کرنے کا ہے وہ بغیر تضاد اور اختلاف کے ظاہر ہو جائے.یہی حال
576 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیر نظر تحریروں کا ہے جو الیاس ستار نے پیش کی ہیں.اس وضاحت کے بعد اب ہم ان میں سے پہلی عبارت جو کہ کتاب ” انجام آتھم کی ہے، لیتے ہیں.جس میں آپ فرماتے ہیں: قرآن شریف صاف کہتا ہے کہ میں وفات پا کر آسمان پر اٹھایا گیا ہے.لہذا اس کا نزول بروزی ہے نہ کہ حقیقی اور آیت فلما توفیتنی میں صریح ظاہر کیا گیا ہے کہ واقعہ وفات حضرت عیسی علیہ السلام وقوع میں آ گیا.کیونکہ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد بگڑیں گے نہ کہ ان کی زندگی میں.پس اگر فرض کر لیں کہ اب تک حضرت عیسی علیہ السلام فوت نہیں ہوئے تو ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک نہیں بگڑے.اور یہ صریح باطل ہے بلکہ آیت تو بتلاتی ہے کہ عیسائی صرف مسیح کی زندگی تک حق پر قائم رہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حواریوں کے عہد میں ہی خرابی شروع ہو گئی تھی.اگر حواریوں کا زمانہ بھی ایسا ہوتا کہ اس زمانہ میں بھی عیسائی حق پر قائم ہوتے تو خدا تعالیٰ اس آیت میں صرف مسیح کی زندگی کی قید نہ لگاتا بلکہ حواریوں کی زندگی کی بھی قید لگا دیتا.پس اس جگہ سے ایک نہایت عمدہ نکتہ عیسائیت کے زمانہ فساد کا معلوم ہوتا ہے.اور وہ یہ کے در حقیقت حواریوں کے زمانہ میں ہی عیسائی مذہب میں شرک کی تخم ریزی ہو گئی تھی.ایک یہودی پولوس نام جو یونانی زبان سے بھی کچھ حصہ رکھتا تھا ، جس کا ذکر مثنوی رومی میں بھی ہے حواریوں میں آملا اور ظاہر کیا کہ میں نے عالم کشف میں حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھا ہے.اس شخص نے عیسائی مذہب میں بہت فساد ڈالا آخر نتیجہ یہ ہوا کہ ایک فرقہ عیسائیوں کا تو توحید پر قائم رہا اور ایک خبیث فرقہ اس کے اغوا سے مردہ پرست ہو گیا.جس کی ذریات ہمارے ملک میں بھی پیدا ہو گئی ہیں.تیسری صدی عیسوی میں مشرک فرقہ اور موحد فرقہ کے درمیان بڑا مباحثہ ہوا.اس مباحثہ کا بانی مبانی قیصر روم تھا.بہت سی تحقیق اور تہذیب کے ساتھ بادشاہ کے روبرو یہ مباحثہ طے ہوا.اور انجام یہ ہوا کہ فرقہ موحد غالب آیا.اسی روز سے قیصر روم نے جو عیسائی تھا.توحید کے مذہب کو اختیار کیا.اور برابر چھٹی صدی تک ہر یک قیصر مؤحد عیسائی ہوتا رہا.غرض جیسا کہ آیت کا مفہوم ہے.عیسائیوں میں فساد اور بگاڑ حضرت عیسی کی وفات کہ بعد ہی شروع ہو گیا تھا.“ انجام آتھم.روحانی خزائن.جلد 11 صفحہ 322،321) اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قر
577 آن کریم میں بیان شد و اس ابدی سچائی کو پیش فرمایا ہے جو آیت کریمہ فلما تو فیتنی میں خدا تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت عیسی علیہ السلام یہ عرض کرتے ہیں کہ میں نے ان کو شرک کی تعلیم نہیں دی بلکہ یہ سب کچھ میری وفات کے بعد ہی ہوا ہے اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ہی ان پر نگران تھا.یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بتایا ہے کہ چونکہ یہاں فــلــمــا توفیتنی کے معنی وفات اور موت ہی کے ہیں.اس لئے یہ صاف اور سیدھی بات ہے کہ عیسائی حسیت مجموعی اس کے بعد ہی بگڑے ہیں.چنانچہ آپ نے یہ واضح فرمایا کہ چونکہ عیسائیوں کا بگڑ جانا ایک ثابت شدہ امر ہے اس لیے آیت فلما تو فیتنی میں صریح ظاہر کیا گیا ہے کہ واقعہ وفات حضرت عیسی علیہ السلام وقوع میں آ گیا.پس الیاس ستار کے اس اعتراض کی زد براہِ راست آیت کریمہ پر پڑتی ہے ، جب وہ یہ کہتا ہے کہ سب عیسائی پولوس کے ذریعہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں بگڑ گئے تھے.کیونکہ قرآن اس کے با لکل برعکس یہ فرماتا ہے کہ عیسائی بحیثیت مجموعی حضرت عیسی کی وفات کے بعد بگڑے.الیاس ستار کو آخر قرآنِ کریم کی بات تو ماننی چاہئے.جہاں تک اس بحث کا تعلق ہے کہ پولوس نے عیسائیت کو کس حد تک بگاڑا اور اس میں کس حد تک فساد ڈالا ؟ تو یہ ایک الگ تاریخی حقیقت ہے لیکن یہ کہ مسیحی کب بگڑے اور کب تک صحیح رہے اس کا قطعی فیصلہ مذکورہ بالا آیت سے ہی طے ہوتا ہے.عیسائیت کا بگاڑ ،عیسائیوں کی گمراہی یا ان کے شرک میں مبتلا ہونے کی جو تعریف قرآن کریم کے نزدیک قرار پائی ہے اس کا اطلاق لازما حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد ہی ہوتا ہے.کیونکہ اس بحث کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں تو یہ یقینی بات ہے کہ عیسائی ابھی تک ان کو معبود بھی قرار نہیں دیتے.جبکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ عیسائی ان کو معبود قرار دیتے ہیں.فرمایا: لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّ اللهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَم (المائده:18) ترجمہ:.یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی مسیح بن مریم ہے.
578 یعنی عیسائی حتمی طور پر کھلے کھلے شرک پر قائم ہیں.پس یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ ان کی یہ حالت ” فلما توفیتنی “ کے بعد کی ہے.کیونکہ اس پر صادق و مصدوق حضرت محمد ﷺ کی گواہی بھی ایک حرف آخر کے طور پر موجود ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے: وو عن ابن عباس رضى الله عنه ـ ـ انه يجاء برجال من امتى فيوخذ بهم ذات الشمال فاقول یا رب -اصیحابی فیقال انك لا تدرى ما احد ثوا بعدك فاقول كما قال العبد الصالح "وكـنـت عليهم شهيـدا مـادمـت فيهـم فلما توفيتنى كنت انت الرقيب عليهم " فيقال ان هو لاء لم يزالوا مرتدين على اعقابهم منذ فارقتهم 66 ( صحیح بخاری.کتاب التفسیر تفسیر المائدہ) ترجمہ :.حضرت ابن عباس رضی اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ) میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے اور انہیں بائیں طرف (جہنم کی طرف) لے جایا جائے گا.تو میں کہوں گا.اے میرے رب یہ تو میرے ساتھی ہیں تو کہا جائے گا.تو نہیں جانتا کہ یہ تیرے بعد کیا کچھ کرتے رہے ہیں.تو اس وقت میں اسی طرح کہوں گا جس طرح اس نیک بندے (حضرت عیسی علیہ السلا م) نے کہا کہ ” میں ان پر ( اس وقت تک ) نگران تھا جب تک میں ان میں موجود رہا.پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا.اس پر کہا جائے گا کہ یہ لوگ تیرے بعد مرتد ہی رہے.“ آنحضرت ہے کے اس فرمان کو ہر صحابی نے پورے انشراح صدر ساتھ قبول کیا.نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے خلاف کسی کا کوئی قول مروی نہ ہونا صحابہ کے اس بارہ میں اجماع پر دلالت کرتا ہے.اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے بڑے واضح رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ حضرت علیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور ان کی وفات کے بعد عیسائی بگڑ چکے ہیں.کیونکہ جو معنی توفیتــنــی“ کا آنحضرت ﷺ نے اپنے لئے اختیار فرمایا ہے وہی معنی حضرت عیسی علیہ السلام پر بھی اطلاق پاتا ہے.پس رسول کریم ﷺ کا اپنی وفات کے بعد قیامت کے دن حضرت عیسی علیہ السلام کے الفاظ میں بیان دینا واضح کرتا ہے کہ عیسائیت کا شرک پر قائم ہو جانا فلما تو فیتنی“ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد ہوا ہے.66
579 پس اس قطعی سچائی کو قبول کرنے میں الیاس ستار کو کسی قسم کی دقت نہیں ہونی چاہئے.وہ خوامخواہ پولوس کے پیچھے چل پڑا ہے اور اس کی عمر کے سال گننے لگا ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب انجام آتھم کی اس زیر بحث تحریر کے کسی ایک فقرے سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ نے یہ فرمایا ہو کہ پولوس نے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد عیسائی مذہب میں فساد ڈالا تھا.الیاس ستار کا اعتراض تو تب درست ہو سکتا تھا اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہاں مسلمانوں کے مسلمات کے پیشِ نظر آیت ”فلما توفیتنی“ کی بحث کے تحت یہ فرماتے کہ پولوس نے بعد از وفات عیسی علیہ السلام ، عیسائی مذہب میں فساد ڈالا تھا.لیکن آپ نے یہ بالکل نہیں فرمایا بلکہ یہ تحریر فرمایا کہ ایک شریر یہودی پولوس نام...حواریوں میں آملا اور ظاہر کیا کہ میں نے عالم کشف میں عیسیٰ علیہ السلام کودیکھا ہے.اس شخص نے عیسائیت میں بہت فساد ڈالا “ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے.الیاس ستار کا اعتراض محض اس کے اپنے ذہنی الجھاؤ کا نتیجہ ہے.علاوہ ازیں الیاس ستار نے اس زیر بحث اقتباس سے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ بھی بالبداہت غلط ہیں.کیونکہ اس تحریر سے جو نتائج نکلتے ہیں وہ یہ ہیں.☆ در حقیقت حواریوں کے زمانہ میں ہی عیسائی مذہب میں شرک کی تخم ریزی ہو گئی تھی.کیونکہ آپ 66 نے یہ فرمایا ہے کہ ”حواریوں کے عہد میں ہی خرابی شروع ہو گئی تھی.“ اور ” در حقیقت حواریوں کے زمانہ میں ہی عیسائی مذہب میں شرک کی تخم ریزی ہو گئی تھی.آیت کریمہ ” فـلـمـا تـوفیتنی“ بتاتی ہے کہ عیسائیوں میں کمی فساد اور بگاڑ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد ہوا.( کیونکہ تخم ریزی کا لفظ ابتداء پر دلالت کرتا ہے.یعنی شرک اور فساد کی ابتداء جزوی طور پر پولوس کے ذریعہ حواریوں کے دور ہی میں شروع ہوئی اور بالآخر بعد از وفات عیسی علیہ السلام اس دور پر منتج ہوئی جس میں عیسائی مذہب کلیہ اس کی آغوش میں آ گیا.) حواریوں کے زمانہ میں ہی پولوس نے عیسائی مذہب میں فساد ڈالا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گو عیسائیوں کا ایک فرقہ تو توحید پر قائم رہا مگر ایک خبیث فرقہ اس کے اغوا سے مردہ پرست ہو گیا.تیسری صدی عیسوی میں مشرک فرقہ اور مؤحد فرقہ کے درمیان بڑا مباحثہ ہوا جس میں مؤحد فرقہ
580 غالب آیا.اس وجہ سے قیصر روم بھی تو حید پرست عیسائی بن گیا.پھر چھٹی صدی تک ہر ایک قیصر مؤحد عیسائی ہوتا رہا.یہ واضح اور غیر مبہم نتائج ہیں جو مذکورہ بالا اقتباس سے براہِ راست اخذ ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس مذکورہ بال تحریر میں نہ یہ لکھا ہوا ہے کہ شرک کی تخم ریزی صرف حضرت عیسی علیہ السلام کے فوت ہونے کے بعد ہی ہوئی اور نہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ جب تک وہ زندہ تھے، عیسائیوں کے کسی گروہ میں بھی تخم ریزی نہیں ہوئی تھی.الغرض جو ٹیڑھے استدلال الیاس ستار نے کئے ہیں ، وہ درست نہیں ، اور نہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کا منطوق ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو حضرت عیسی کی ہجرت سے لے کر آپ کے بعد چھٹی صدی تک کے حالات کو بیان فرمایا ہے تاکہ ساری بات کھل جائے.آپ نے فرمایا کہ حواریوں کے وقت میں ہی شرک کی تخم ریزی ہوگئی تھی.یعنی جزوی طور پر شرک تو حضرت عیسی علیہ السلام کی غیر حاضری میں ہی یعنی حواریوں کے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا.اسی لیے قرآن مجید نے ” مادمت فيهم فرمایا ہے کیونکہ مقد رتھا کہ زندہ رہتے ہوئے بھی حضرت عیسی علیہ السلام اپنے بعض حواریوں میں موجود نہ رہتے اور آپ کی نگرانی ان سے اٹھ جاتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو بیان فرمایا ہے وہ ایسی سچائی ہے جو قرآن کریم سے پھوٹتی ہے اور واقعات صحیحہ اس کی تائید کرتے ہیں.پس حقیقت یہ ہے کہ حواریوں کے زمانہ سے ہی شرک شروع ہو گیا تھا لیکن اصل توحید جو حضرت عیسی علیہ السلام لے کر آئے تھے وہ آپ کی زندگی تک (ارض فلسطین سے آپ کی غیر حاضری کے باوجود) تو لازماً حواریوں کی ایک جماعت میں بدستور قائم رہی بلکہ آپ کی اس موحدانہ تعلیم کی بقا کا سلسلہ عیسائیوں کے غالب فرقہ میں چھٹی صدی تک ممتد بھی رہا.پھر اس کے بعد عیسائیت کلیہ شرک میں مبتلا ہو کر پولوسی عقائد کا شکار ہوگئی پس تخم ریزی بالکل اور بات ہے اور مکمل طور پر شرک میں مبتلا ہو جانا اور بات.لہذا حضرت مسیح موعود السلام کی تحریر میں کوئی ابہام نہیں ہے اور کوئی تضاد نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی وضاحت سے تخم ریزی کی بات کی ہے اور یہ فرمایا ہے ه خرابی شروع ہو گئی تھی، نیز آپ نے عیسائیوں کے توحید پرست فرقہ کے ساتھ اس طبیث فرقہ کی
581 بھی ( جو پولوس کی سازش کا شکار ہو گیا تھا ) متوازی طور پر بات کی ہے.سورہ المائدہ میں اللہ تعالیٰ کا حضرت عیسی علیہ السلام سے جو سوال ہے وہ بحیثیت مجموعی عیسائیت کے کھلے کھلے شرک میں مبتلا ہو جانے کے بارہ میں ہے.کیونکہ اس سوال میں ”بعض الناس“ وغیرہ نہیں فرمایا بلکہ ” الناس فرما کر کلی طور پر عیسائیوں کے متعلق استفسار فرمایا ہے.اسی طرح ” الناس“ سے مراد بنی اسرائیلی ہیں کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام صرف ان کی طرف ہی مبعوث ہوئے تھے.چنانچہ آپ نے اپنی 120 سالہ زندگی میں صرف بنی اسرائیل میں سے ہی توحید پرست پیروکار بنائے تھے.البتہ ارضِ مقدسہ جہاں سے آپ نے ہجرت فرمائی اس علاقہ کے لوگوں میں سے کچھ بنی اسرائیلی اور کچھ غیر اسرائیلی لوگ پولوس کے پیچھے لگ گئے تھے.اس ایک طبقہ کے بگڑنے کو عیسائیت کے کلیہ بگڑنے سے تعبیر کرنا انصاف کے سراسر خلاف ہے.الغرض تخم ریزی، ابتدا اور شروع کو جو انتہا اور تکمیل سمجھے اس کے لئے تو عقل کی نعل بنانی چاہئے.وو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شروع“ اور ” تخم ریزی“ کے الفاظ اس لئے استعمال فرمائے ہیں کہ تدریج کے عمل کی طرف توجہ دلائیں اور قاری کی توجہ جزوی بگاڑ اور کلی بگاڑ کے الگ الگ ادوار کی طرف مبذول ہو.بالکل اسی طرح جیسے ایک پیج جب بویا جاتا ہے تو وہ زمین میں مخفی ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ پرورش پاتے پاتے ایک پودے کی شکل میں زمین سے باہر سر نکال لیتا ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے ایک تناور درخت بن جاتا ہے.بعینہ ، شرک کے لحاظ سے عیسائیت کے تین ادوار ہیں.ا:.ہجرت عیسی کے بعد مہجور علاقہ میں حواریوں کا دور.جن میں پولوس نے شرک کا بیج بویا.۲: وفات عیسی کے بعد ہجرت والے علاقہ میں شرک کی شروعات اور پھر اس کا عمومی پھیلاؤ.:.چھٹی صدی کے بعد عیسائیت پر شرک کا مکمل غلبہ.یعنی پولوس نے حضرت عیسی علیہ السلام کی ہجرت کے بعد آپ کی عدم موجودگی میں ،لیکن آپ کی زندگی میں ہی دمشق میں شرک کی تخم ریزی کی.جس نے تدریجا نشو ونما پائی اور حضرت عیسی علیہ السلام کی 120 سالہ زندگی کے بعد اس میں مزید وسعت آئی.پھر اس کے پھیلاؤ کا تدریجی عمل جاری رہا اور بالآ خر چھٹی صدی کے بعد عیسائیت پر شرک کا مکمل غلبہ ہو گیا.الیاس ستار نے لکھا ہے کہ
582 مرزا صاحب کی کتاب " مسیح ہندوستان میں" کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام 120 ء فوت ہوئے تو شرک کی تخم ریزی 120 ء کہ بعد ہی شروع ہوئی نہ پہلے.120 ء سے پہلے شرک کی تخم ریزی کی کوئی گنجائش نہیں ہے.صفحہ 10 یہ بالکل غلط استنباط ہے جو الیاس ستار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر سے کیا ہے.آپ نے بالکل نہ ایسا فرمایا ہے نہ آپ کی تحریر سے ثابت ہوتا ہے.جیسا کہ اوپر کی سطور میں ہم نے کھول کر بیان کیا ہے کہ ہمارے نزدیک تو حواریوں کا زمانہ کوئی الگ زمانہ نہ تھا بلکہ جس علاقہ سے حضرت عیسی علیہ السلام نے ہجرت فرمائی تھی ، وہاں حواریوں کا دور شروع ہو چکا تھا.اس دور کا کچھ حصہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں شمار ہوتا ہے اور کچھ آپ کہ بعد.لہذا حواریوں کے دور کے لحاظ سے بھی دو حصے ہیں.ا:.وہ حواری جو حضرت عیسی علیہ السلام کی ہجرت کے بعد مہجور علاقہ میں رہ گئے تھے.ان میں سے بعض میں پولوس نے شرک کی تخم ریزی کی.ان کا دور اس علاقہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں ہی شروع ہو چکا تھا.۲:.وہ حواری جو حضرت عیسی علیہ السلام کی ہجرت والے علاقوں میں تھے ، ان کا دور آپ کی وفات کے بعد شروع ہوا.پس حواریوں کے دور میں یہ بگاڑ شروع ہو چکا تھا.یعنی ایک طرف کے حواریوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں پولوس کے ذریعہ شرک کی تخم ریزی ہو گئی تھی.لیکن دوسری طرف کے حواریوں میں شرک حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کے بعد شروع ہوا.گو یا دونوں جگہ شرک کی تخم ریزی یا اس کا شروع تب ہوا جب حضرت عیسی علیہ السلام ان میں نہ رہے.ایک حصہ میں بوجہ ہجرت اور دوسرے میں وفات کے باعث.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میں صاف لکھا ہے کہ ایک فرقہ عیسائیوں کا توحید پر قائم رہا.اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کتاب صحیح ہندوستان میں" کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے تو یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر باقی دس قبائل ایمان لا کر مؤحد عیسائی بن گئے تھے.اور
583 سب آپ کی پاک تعلیم پر ایمان رکھتے تھے.لہذا اس سچائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں بحیثیت مجموعی عیسائی حق پر قائم تھے اور جہاں حضرت عیسی علیہ السلام خود بنفس نفیس موجود تھے (جیسا کہ آیت وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِیهِم“ سے پوری طرح واضح ہے ) وہاں ہرگز شرک راہ نہیں پاسکا اور آپ کے زیر اثر اور زیر نگرانی آپ کے ساتھی اور حواری اسی تو حید پر قائم رہے لیکن جو آپ کی براہ راست نگرانی کے دائرہ سے باہر تھے ان میں سے صرف ایک حصہ میں شرک کی ابتدا ہوئی.پس مہجور علاقہ کی ایک بہت ہی محدود جماعت میں شرک کی ابتدا اور تخم ریزی سے کل عیسائیت کو بگڑا ہو اور مشرک قرار نہیں دیا جا سکتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب ” انجام آتھم میں جس مذکورہ بالا بحث کو اٹھایا ہے وہ آیت کریمہ ( فلما توفیتنی ) کی سچائی کو ثابت کرتی ہے لیکن جس بحث میں الیاس مطار الجھا ہے وہ واضح طور پر آیت کریمہ کی تکذیب کے سوا کچھ نہیں.دوسری عبارت الیاس ستار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” مسیح ہندوستان میں “ سے پیش کی ہے.اس نے جس تفصیلی تحریر سے وہ مختصر عبارت لی ہے، وہ یہ ہے.آپ فرماتے ہیں: ’ اور احادیث میں معتبر روایتوں سے ثابت ہے کہ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ مسیح کی عمر 125 برس کی ہوئی ہے.اور اس بات کو اسلام کے تمام فرقے مانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام میں دو ایسی باتیں جمع ہوئی تھیں کہ کسی نبی میں وہ دونوں باتیں جمع نہیں ہوئی (۱) ایک یہ کہ انہوں نے کامل عمر پائی یعنی 125 برس زندہ رہے (۲) دوم یہ کہ انہوں نے دنیا کے اکثر حصوں کی سیاحت کی.اس لئے نبی سیاح کہلائے.اب ظاہر ہے کہ اگر وہ صرف تینتیس 33 برس کی عمر میں آسمان کی طرف اٹھائے جاتے تو اس صورت میں ایک سو پچیس برس کی روایت صحیح نہیں ٹھہر سکتی تھی اور اس چھوٹی عمر میں تینتیس برس میں سیاحت کر سکتے تھے.اور یہ روایتیں نہ صرف حدیث کی معتبر اور قدیم کتابوں میں لکھی ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے فرقوں میں اس تواتر سے مشہور ہیں کہ اس سے بڑھ کر متصور نہیں.کنز العمال جو احادیث کیا ایک جامع کتاب ہے اس کے صفحہ 43 میں ابو ہریرہ سے یہ حدیث لکھی ہے.اوحی اللہ تعالی الی عیسی ان یا عيسـى انـتـقـل مـن مكان الى مكان لئلا تعرف فتوذی (جلد دوم) یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی
584.علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ اے عیسی ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف نقل کرتا رہ یعنے ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف جا.تا کہ کوئی تجھے پہچان کر دکھ نہ دے.اور پھر اسی کتاب میں جابر سے روایت کر کے یہ حدیث لکھی ہے کان عیسی ابن مريم يسيح فاذا امسى اكل بقل الصحرا ويشرب الـمــاء القــراح (جلد دوم صفحہ 17) یعنی حضرت عیسی علیہ السلام ہمیشہ سیاحت کیا کرتے تھے اور ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف سیر کرتے تھے اور جہاں شام پڑتی تھی تو جنگل کے بقولات میں سے کچھ کھاتے تھے اور خالص پانی پیتے تھے.اور پھر اسی کتاب میں عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے.جس کے یہ لفظ ہیں.” قال احب شي الى الله الغرباء قيل اى شى الغرباء قال الذين يفرون بدينهم ويجتمعون الى عیسی ابن مریم ( جلد 6 صفحہ 51) یعنی فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ، سب سے پیارے خدا کی جناب میں وہ لوگ ہیں جو غریب ہیں.پوچھا گیا کہ غریب کے کیا معنی ہیں کہا وہ لوگ ہیں جو عیسی مسیح کی طرح دین لے کر ملک سے بھاگتے ہیں.( مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 56،55) قارئین کرام ! اس تحریر سے جیسا کہ ظاہر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احادیث نبویہ کے ذریعہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسی کی ہجرت اور پھر 125 سال کی لمبی عمر پا کر وفات پانے کے دلائل مہیا فرمائے ہیں.جبکہ کتاب ” انجام آتھم “ والے اقتباس میں آپ نے قرآنِ کریم کی روشنی میں حضرت عیسی کی وفات اور آپ کے بعد عیسائیوں کے شرک میں مبتلا ہو جانے کا ذکر فرمایا ہے.ان دونوں تحریروں میں ایک ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں.پس ان پر الیاس ستار کا اعتراض ایک فضول حرکت ہے.اگر وہ قرآن اور حدیث میں بیان شدہ سچائیوں کو نہیں مانا چاہتا تو الگ بات ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کو اپنی ذھنی الجھن اور انتشار کا نشانہ بنانے کا اسے کوئی حق نہیں ہے.تیسری عبارت، جو تضاد ثابت کرنے کے لیے الیاس ستارز پر تنقید لایا ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”چشم مسیحی کی ہے.وہ پوری عبارت سیاق و سباق سمیت درج ذیل ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: " انجیل میں بھی جہاں جہاں تعلیم کا بیان ہے ان تمام مقامات میں تثلیث کی نسبت اشارہ تک نہیں 66 بلکہ خدائے واحد لاشریک کی تعلیم دیتی ہے.چنانچہ بڑے بڑے معاند پادریوں کو یہ بات مانی پڑی
585 ہے کہ انجیل میں تثلیث کی تعلیم نہیں.اب یہ سوال ہوگا کہ عیسائی مذہب میں تثلیث کہاں سے آئی ؟ اس کا جواب محقق عیسائیوں نے یہ دیا ہے کہ یہ تثلیث یونانی عقیدہ سے لی گئی ہے.یونانی لوگ تین دیوتاؤں کو مانتے تھے جس طرح ہندو ترے مورتی کے قائل ہیں.اور جب پولوس نے یہودیوں کی طرف رخ کیا اور چو نکہ وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یونانیوں کو عیسائی مذہب میں داخل کرے اس لئے اس نے یونانیوں کو خوش کرنے کے لیے بجائے تین دیوتاؤں کے تین اقنوم اس مذہب میں قائم کر دیئے.ورنہ حضرت عیسی کی بلا کو بھی معلوم نہ تھا کہ اقوم کس چیز کا نام ہے.ان کی تعلیم خدا تعالیٰ کی نسبت تمام نبیوں کی طرح ایک سادہ تعلیم تھی کہ خدا واحد لاشریک ہے.پس یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مذہب جو عیسائی مذہب کے نام سے شہرت دیا جاتا ہے دراصل پولوی مذہب ہے، نہ مسیحی کیونکہ حضرت مسیح نے کسی جگہ تثلیث کی تعلیم نہیں دی اور وہ جب تک زندہ رہے خدائے واحد لاشریک کی تعلیم دیتے رہے اور بعد وفات کے ان کا بھائی یعقوب بھی جو ان کا جانشین تھا اور ایک بزرگ انسان تھا تو حید کی تعلیم دیتا رہا.اور پولوس نے خوامخوہ اس بزرگ سے مخالفت شروع کر دی اور اس کے عقائد صحیحہ کے مخالف تعلیم دینا شروع کیا.اور انجام کار پولوس اپنے خیالات میں یہاں تک بڑھا کہ ایک نیا مذ ہب قائم کیا.اور توریت کی پیروی سے اپنی جماعت کو بکلی علیحدہ کر دیا اور تعلیم دی کہ مسیحی مذہب میں مسیح کے کفارہ کے بعد شریعت کی ضرورت نہیں اور خونِ مسیح گناہوں کے دور کرنے کیلے کافی ہے.توریت کی پیروی ضروری نہیں.اور پھر ایک اور گنداس مذہب میں ڈال دیا کہ ان کے لیے سو رکھانا حلال کر دیا.حالانکہ حضرت مسیح انجیل میں سور کو نا پاک قرار دیتے ہیں تبھی تو انجیل میں ان کا قول ہے کہ اپنے موتی سوروں کے آگے مت پھینکو.پس جب پاک تعلیم کا نام حضرت مسیح نے موتی رکھا ہے تو اس مقابلہ سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ پلید کا نام انہوں نے سور رکھا ہے.اصل بات یہ ہے کہ یونانی سو رکھایا کرتے تھے جیسا کہ آجکل تمام یورپ کے لوگ سؤ رکھاتے ہیں.اس لئے پولوس نے یونانیوں کے تالیف قلوب کے لئے سو ر بھی اپنی جماعت میں حلال کر دیا.حلانکہ توریت میں لکھا ہے کہ وہ ابدی حرام ہے اور اس کا چھونا بھی ناجائز ہے.غرض اس مذہب میں تمام خرابیاں پولوس سے پیدا ہوئیں.حضرت مسیح تو وہ بے نفس انسان تھے جنہوں نے یہ بھی نہ چاہا کہ کوئی ان کو نیک انسان کہے مگر پولوس نے ان کو خدا بنادیا.جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ کسی نے حضرت مسیح سے کہا کہ اے نیک استاد! انہوں نے اس کو کہا کہ تو مجھے
586 نیک کیوں کہتا ہے.ان کا وہ کلمہ جو صلیب پر چڑھائے جانے کے وقت ان کے منہ سے نکلا کیسا تو حید پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے نہایت عاجزی سے کہا.ایلی ایلـی لـمـا سبقتا نی یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.کیا جو شخص اس عاجزی سے خدا کو پکارتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ خدا میرا رب ہے اس کی نسبت کو ئی عظمند گمان کر سکتا ہے کہ اس نے درحقیقت خدائی کا دعویٰ کیا تھا؟“ پھر فرمایا: یادر ہے کہ پولوس حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں آپ کا جانی دشمن تھا.اور پھر آپ کہ وفات کے بعد جیسا کہ یہودیوں کی تاریخ میں لکھا ہے اس کے عیسائی ہونے کا موجب اس کے اپنے بعض نفسانی اغراض تھے جو یہودیوں سے پورے نہ ہو سکے.اس لیے وہ ان کو خرابی پہنچانے کے لیے عیسائی ہو گیا.اور ظاہر کیا کہ مجھے کشف کے طور پر حضرت مسیح ملے ہیں.اور میں ان پر ایمان لایا ہوں.اوراس نے پہلے پہل تثلیث کا خراب پودہ دمشق میں لگایا.اور یہ پولوسی تثلیث دمشق سے ہی شروع ہوئی.“ نیز فرمایا: وو ” صاف ظاہر ہے کہ اگر پولوس حضرت مسیح کے بعد ایک رسول کے رنگ میں ظاہر ہونے والا تھا جیسا کے خیال کیا گیا ہے تو ضرور حضرت مسیح اس کی نسبت کچھ خبر دیتے.خاص کر کے اس وجہ سے تو خبر دینا نہایت ضروری تھا کہ جبکہ پولوس حضرت عیسی کی حیات کے تمام زمانہ میں حضرت عیسی" سے سخت برگشتہ رہا.اور ان کے دکھ دینے کے لیے طرح طرح کے منصوبے کرتا رہا.تو ایسا شخص ان کی وفات کے بعد کیونکر امین سمجھا جاسکتا ہے.بجز اس کے کہ خود حضرت مسیح کی طرف سے اس کی نسبت کھلی کھلی پیشگوئی پائی جائے اور اس میں صاف طور پر درج ہو کہ اگر چہ پولوس میری حیات میں میرا سخت مخالف رہا ہے اور مجھے دکھ دیتا رہا ہے لیکن میرے بعد وہ خدا تعالیٰ کا رسول اور نہایت مقدس آدمی ہو جائے گا.بالخصوص جبکہ پولوس ایسا آدمی تھا کہ اس نے موسی کی توریت کے برخلاف اپنی طرف سے نئی تعلیم دی.“ ( چشم مسیحی.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 374تا377) وو معززقارئین اکتاب چشمہ مسیحی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے ایک رسالہ ” ینا بیع الاسلام“ کے رد میں 1906ء میں تحریر فرمائی.عیسائی اپنے اس رسالہ میں اسلام پر شدید زہر ناک حملے کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب میں ان کو انہی کے مسلمات کی رو سے مطعون
587 کیا ہے اور انہیں، جیسا کہ جلی الفاظ سے ظاہر ہے ، ان کے محققوں کی تحقیقات اور ” بڑے بڑے پادریوں کے مسلمات کے ذریعہ لاجواب کیا ہے اور یہودیوں کی تاریخ کے حوالہ سے ان کا رڈ کیا ہے.آپ نے عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام کی وہ زندگی مراد لی ہے جو عیسائیوں کے نزدیک محض واقعہ صلیب پر ختم ہو گئی تھی.اور آپ کی وہ مزعومہ صلیبی موت ہی ان کے عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہے.اور یہودیوں کے نزدیک تو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ہوئی ہی صلیب پر تھی.کیونکہ وہ آپ کو (نعوذ باللہ ) ملعون ثابت کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب میں ” معاند پادریوں ، محقق وو " عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ کے حوالہ سے ان کی مسلمہ اور تسلیم شدہ باتوں کو پیش کر کے اسلام کا دفاع کیا ہے اور ان کا جھوٹا ہونا ثابت فرمایا ہے.یہ عقائد اور مسلمات عیسائیوں کے ہیں یا یہودیوں کے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہیں ہیں.مخالف کو اسی کے مسلمات کی رو سے الزامی جواب دینا اور اس کو لاجواب کرنا علم کلام کا ایک خاصہ ہے جسے قرآن کریم نے بھی بڑی کثرت کے ساتھ استعمال فرمایا ہے، اور اسی کی پیروی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے.غالبا اس قرآنی اصول سے لاعلم ہونے کے باعث الیاس ستار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کیا ہے.چونکہ کتاب ”چشمہ مسیحی میں یہ ساری بحث عیسائیوں کے ساتھ ہے اور ان کے جوابات بھی انہی کی کتابوں کی رو سے دیئے گئے ہیں.قرآن وحدیث کی رو سے نہیں دیئے گئے.اسلئے ظاہر ہے کہ اس میں بیان شدہ دلائل کے مخاطب مسلمان نہیں ہیں ، نہ ہی ان کا تعلق کتاب انجام آتھم ، میں قرآن کریم کی رو سے بحث سے ہے اور نہ ہی حدیث کے تناظر میں پیش فرمودہ اس بحث سے ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب ” مسیح ہندوستان میں میں کی ہے.اس بحث کا زاویہ نگاہ اور ہے اُس کا بالکل اور.اس کا موقع محل اور ہے اور اُس کا بالکل اور.اس کتاب کے مخاطب اور لوگ ہیں اور ان کتب کے مخاطب بالکل اور.اُن کتب میں زیر بحث تحریروں میں مسلمانوں کو ان کے مسلمات کی رو سے ایک سچائی اور حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے جبکہ کتاب ”چشمہ مسیحی میں عیسائیوں کے مسلمات کی روشنی میں ان کے اعتراض انہی پر لوٹائے گئے ہیں.اس لئے ان کتب کی مختلف عبارتوں کو محض آمنے سامنے رکھ کر ان میں اختلاف اور تضاد قرار دینا دانشمندی نہیں ، جہالت ہے.یا پھر دھوکہ دہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں.
588 چوتھی عبارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب "کشتی نوح کی ہے جس کا حوالہ الیاس ستار بار بار دیتا ہے اور اسے مذکورہ بالا کتب کی زیر بحث عبارتوں سے متناقض و متصادم قرار دیتا ہے.اس نے اس عبارت کا صرف حوالہ ہی دیا ہے وہ عبارت تحریر نہیں کی.بہر حال اس مضمون کی جو عبارت «کشتی نوح“ میں ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جس وقت حضرت عیسی علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا.اس وقت وہ پولوس بھی مکفرین کی جماعت میں داخل تھا جس نے بعد میں اپنے تئیں رسول مسیح کے لفظ سے مشہور کیا.یہ شخص حضرت مسیح کی زندگی میں آپ کا سخت دشمن تھا.جس قدر حضرت مسیح کے نام پر انجیلیں لکھی گئی ہیں ان میں سے ایک میں بھی پیشگوئی نہیں ہے کہ میرے بعد پولوس تو بہ کر کے رسول بن جائے گا.اس شخص کے گزشتہ چال چلن کی نسبت لکھنا، ہمیں کچھ ضرورت نہیں کہ عیسائی خوب جانتے ہیں.افسوس ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے حضرت مسیح کو جب تک وہ اس ملک میں رہے بہت دکھ دیا تھا اور جب وہ صلیب سے نجات پا کر کشمیر کی طرف چلے آئے تو اس نے ایک جھوٹی خواب کے ذریعہ سے حواریوں میں اپنے تئیں داخل کیا اور تثلیث کا مسئلہ گھڑا اور عیسائیوں پر سو ر کو جو توریت کے رو سے ابدی حرام تھا.حلال کر دیا اور شراب کو بہت وسعت دیدی اور انجیلی عقیدہ میں تثلیث کو داخل کیا تا ان تمام بدعتوں سے یونانی بت پرست خوش ہو جائیں.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 65 حاشیہ ) وو 66 اس تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انتہائی غیر مبہم الفاظ میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے حضرت مسیح کو جب تک وہ اس ملک میں رہے بہت دکھ دیا تھا اور جب وہ صلیب سے نجات پاکر کشمیر کی طرف چلے آئے تو اس نے جھوٹی خواب کے ذریعہ سے حواریوں میں اپنے تئیں داخل کیا...“ قارئین کرام : به تاریخی حقیقت ہے جو قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں بیان شدہ حقائق کے عین مطابق ہے اور ان کی سچائی کی نمایاں تصدیق کرتی ہے.اس عبارت کا نہ تو کتب ”نجام آتھم “ اور ” مسیح ہندوستان 66 وو میں کی عبارتوں سے کوئی اختلاف ہے.اور نہ ہی عیسائیوں اور یہودیوں کے مسلمات کی رو سے ان کے رد
589 سے کوئی تضاد ہے جو کتاب ” چشمہ مسیحی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے.ان چاروں کتابوں میں مختلف نقطہ نظر سے مضمون کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے.ہر جگہ مضمون کا رخ الگ ہے اور زاویہ مختلف.جس کو آپ نے صحیح موقع ومحل کے مطابق پیش فرمایا ہے.ایک عبارت کے مخاطب اگر مسلمان ہیں تو دوسری کے عیسائی.اس لئے در حقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں اور کوئی اختلاف نہیں.لیکن اگر کوئی الیاس ستار کی سیج نظر سے دیکھے اور اس کے کج دماغ سے سوچے تو ان عبارتوں میں تو کیا وہ ان آیات قرآنیہ میں بھی (نعوذ باللہ، نعوذ باللہ ) اختلاف و تضاد کا شور مچادے گا جو ہم نے محض مسئلہ سمجھانے کی غرض سے نمونہ کے طور پر چند صفحات پہلے درج کی ہیں.(1) کشمیر جانا تو بہت آسان ہے الیاس ستار نے اپنے ایک رسالہ میں بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی کتاب انجام آتھم کا حوالہ درج کیا ہے کہ پس اگر گمان میکنی که عیسی علیہ السلام تا این زمانه در آسمان زنده است پس از یس لازم می آید که اقرار کنی کہ نصاری ہم تا هنوز برحق اند نه از گمر اہاں (صفحہ 135) ترجمہ :.پس اگر تو گمان یہ کرتا ہے.کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس زمانہ تک آسمان پر زندہ ہیں.تو پھر تجھے پر اس بات کا اقرار بھی لازم ہے.کہ عیسائی ابھی تک حق پر قائم ہیں نہ کہ گمراہ.اس کے بعد اس نے لکھا ہے.کہ مرز اصاحب صاف طور پر کہہ رہے ہیں.کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں تو پھر تو اس وقت تک عیسائی بھی نہیں بگڑے“ اس کے آگے اس نے بریکٹ میں یہ گرہ لگائی ہے.کہ تو کشمیر تو آسمان کے مقابلہ میں بہت قریب ہے ) معزز قارئین ! خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ لوگ خود ہی کشمیر کی طرف آگئے ہیں.ان کو یہ سمجھاتے سمجھاتے ہمیں تو
590 ایک عرصہ ہو گیا ہے.کیونکہ یہ اور ان کے ہم سرشت دیگر لوگ اور ان کو سرٹیفیکیٹ دینے والے ان کے بزرگ تو بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر چڑھاتے ہیں.حالانکہ انہیں علم ہونا چاہئے تھا کہ کشمیر تو آسمان کے مقابلہ میں بہت قریب ہے.اندازہ کریں کہ وہ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے تھے.جو شکر ہے کہ اب الیاس ستار سمجھ گیا ہے اور اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھانے لگا ہے.پس اب اسے چاہئے کہ ان کو مزید سمجھائے کہ آسمان پر جانا، کشمیر جانے کی نسبت مشکل ہی نہیں بالکل ناممکن ہے.کیونکہ غیر متعین آسمان کی طرف شدید سردی اور تہ بہ تہ گیسوں اور دیگر کثافتوں میں سالہا سال پر مبنی ، روشنی کی رفتار سے ایسی حالت میں سفر کرنا کہ جسم پر ایک ہی کپڑا ہو ممکن ہی نہیں.لیکن اس کے برعکس خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق اور اس کی تائید کے ساتھ زمین پر چند سو میل کا سفر کر کے کشمیر پہنچنا بہت آسان ہے.الاستاذ علامہ رشید رضا مفتی مصر، مصنف تفسیر المنار اور مدیر مجلہ المنار (المتوفی 1935 ء) بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں ایک طویل بحث کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ ففراره الى الهند و موته فى ذلك البلدة ليس ببعيد عقلا و نقلا“ (المنار جلد 5 نمبر 11 صفحہ 109 - 1913ء.زیر عنوان القول بحجر المسح الى الهند وموته في بلدة سر بيگر في كشمير ترجمہ :.ان ( یعنی مسیح علیہ السلام) کا ہندوستان جانا اور ان کی اس ملک میں موت عقل اور نقل کی رو سے بعید نہیں ہے.پس الیاس صاحب! حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا صلیبی موت سے نجات پا کر ہجرت کر کے کشمیر آنا بہت آسان ہے اور ایک ایسی سچائی ہے.جس کی تائید قرآن کریم، احادیث، تاریخ اور اناجیل اور علامہ رشید رضا کی طرح بہت سے علمائے امت کے اقوال کرتے ہیں جبکہ ان کا آسمان پر جانا ایک ایسا مسئلہ ہے، جس نے عیسائیت کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور اسی نے اس کو تقویت دی.اسلام سے اس عقیدہ کا کوئی تعلق نہیں.چنانچہ حضرت علامہ زرقانی فرماتے ہیں.زاد المعاد میں جو یہ مذکور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام 33 برس کی عمر میں مرفوع ہو گئے کوئی متصل حدیث اس بارہ میں نہیں ملتی.شامی کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ نصاری سے مروی ہے.“ ( شرح زرقانی علامہ محمد بن عبد الباقی جز اول صفحہ 34 الطبعة الاولى بالمطبعۃ الازہر یہ المصریہ 1325ھ)
591 یہی بات علامہ ابن القیم نے زاد المعاد میں اور نواب صدیق حسن خان صاحب نے تفسیر فتح البیان میں لکھی ہے تا کہ مسلمان بھی عیسائیوں کی تتبع میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جسم عنصری زندہ آسمانوں پر مقیم نہ سمجھ بیٹھیں.پس الیاس ستار خاطر جمع رکھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کی صلیبی موت سے نجات کے بعد کشمیر کی طرف ہجرت کا جو ایک سچا عقیدہ پیش فرمایا تھا، اس کو اس نے اگر تسلیم کیا ہے تو اس کے ساتھ علمائے امت میں سے بھی بہت لوگ ہیں جو قرآن وحدیث اور تاریخ کی روشنی میں اسی بچے نتیجہ تک پہنچے ہیں.(3) وو عیسی علیہ السلام کی ہجرت اور بدھ مت الیاس ستار نے لکھا ہے.کہ اس بات پر جو مرزا صاحب ” مسیح ہندوستان میں“ کے صفحہ 84 پر لکھتے ہیں.غور کیجئے.بدھ نے خدائے تعالیٰ سے الہام پا کر اپنے شاگردوں کو یہ امید دی تھی کہ بگو امتیا ان کے ملک میں آئے گا.اس بنا پر کوئی بدھ والا جو اس پیشین گوئی پر اطلاع رکھتا ہو اس واقعہ سے انکار نہیں کر سکتا، کہ وہ بگو امتیا جس کا دوسرا نام مسیحا ہے اس ملک میں آیا تھا، کیونکہ پیشین گوئی کا باطل ہونا مذ ہب کو باطل کرتا ہے.“ اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے ، کہ اللہ نے حضرت عیسی کو ہر بدھ کے ماننے والے کے پاس بھیجا، کہ نہ صرف ان کے پاس جن کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا.مرزا صاحب کا بھی یہی خیال ہے کہ حضرت عیسی کو ہر بدھ مذہب کے ماننے والے کے پاس بھیجا گیا کیونکہ وہ کہتے ہیں اوپر کی تحریر میں کہ ” کوئی بدھ مت والا جو اس پیشین گوئی پر اطلاع رکھتا ہو مزید حوالے ملاحظہ کیجئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر بدھ والے کے پاس حضرت عیسی بھیجے گئے چاہے وہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا ہو یا نہیں.یہ ساری باتیں مرزا صاحب کی تحریر سے ثابت ہو رہی ہیں.غور کیجئے اس بات پر جو مرزا صاحب ” مسیح ہندوستان میں“ کے صفحہ 81-82 میں لکھتے ہیں.تو اس میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ وہ بدھ کے رنگ پر ظہور فرما ہوئے تھے اور کتاب اولڈ برگ میں بحوالہ بدھ کی کتاب لکاوتی ستنا کے لکھا ہے کہ بدھ کے معتقد آئندہ زمانہ کی امید پر ہمیشہ اپنے تئیں تسلی دیتے تھے کہ وہ متیا کے شاگرد بن کر نجات کی خوشحالی حاصل کریں گے یعنی ان کو یقین تھا.کہ متیا ان میں آئے گا.اور وہ اس کے ذریعہ سے نجات پائیں گے
592 کیونکہ جن لفظوں میں بدھ نے ان کو منیا کی امید دی تھی.وہ لفظ صریح دلالت کرتے ہیں کہ اس کے شاگرد تیا کو پائیں گے.اب کتاب مذکورہ کے اس بیان سے بخوبی یہ بات دلی یقین پیدا کرتی ہے.کہ خدا نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دونوں طرف سے اسباب پیدا کر دیے تھے..اور اس میں کوئی شک نہیں کر سکتا کہ وہ اخلاقی تعلیمیں اور روحانی طریقے جو بدھ نے قائم کئے تھے حضرت مسیح کی تعلیم نے دوبارہ دنیا میں ان کو جنم دیا ہے.“ مندرجہ بالا اقتباسات یعنی مرزا صاحب کی باتوں سے سولہ آنے ثابت ہوتا ہے.کہ سارے بدھ مت والوں کی طرف حضرت عیسی بھیجے گئے تھے.اور صرف ان بدھ مت والوں تک محدود نہیں تھے جو بنی کیا احمدی قادیانی جواب دے سکتے ہیں.صفحہ 17 تا 19) اسرائیلی تھے.اٹھاتے الیاس ستار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حسب ذیل تحریر بھی اس ضمن میں درج کی ہے اور دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ حسب منشاء بدھ کی پیشگوئی کے بدھ کے معتقد آپ کو دیکھتے اور فیض (مسیح ہندوستان میں صفحہ 82) معزز قارئین! ان عبارتوں میں ایک فقرہ بھی ایسا نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو.کہ حضرت عیسی علیہ السلام ان بدھوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے.جو غیر اسرائیلی تھے.یا اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ہر بدھ مذہب والے کے پاس بھیجا تھا.الیاس ستار نے ان تحریروں سے یہ غلط استدلال خود بخود وضع کئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ کے شروع میں واضح طور پر یہ تاریخی حقیقت بھی درج فرمائی ہے کہ در حقیقت وہی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں تھیں جنہوں نے ان ملکوں میں آ کر اپنے باپ دادے کا مذہب بھی ترک کر دیا تھا اور اکثر ان کے بدھ مت میں داخل ہو گئے تھے.“ مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 17 ) پس واضح ہے کہ نہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو غیر اسرائیلیوں کی طرف بھیجا تھا، نہ ہی حضرت عیسی علیہ السلام کبھی اپنا فرض منصبی سمجھ کر غیر اسرائیلیوں کی طرف گئے.اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کا وہ مطلب ہے جو الیاس ستار پیش کرتا ہے.
593 در حقیقت بنی اسرائیل جو ان ملکوں میں آ کر بدھ مذہب اختیار کر چکے تھے وہ حضرت بدھ علیہ السلام کے شاگرد بن چکے تھے.چنانچہ انہوں نے حضرت بدھ علیہ السلام کی پیش گوئیوں سے فائدہ اٹھایا اور حضرت عیسی علیہ السلام کو قبول کیا اور حسب پیش گوئی نجات حاصل کی.الیاس ستار محض بے ثبوت بات کرتا ہے وہ یہ ہر گز ثابت نہیں کر سکتا کہ اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لانے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے.جو غیر اسرائیلی تھے.اگر بفرض محال کوئی غیر اسرائیلی حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لایا بھی ہو تو اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کا غیر اسرائیلیوں کی طرف مبعوث ہونا ثابت نہیں ہو سکتا.الیاس ستار خود کھینچ تان کر حضرت عیسی علیہ السلام کو غیر اسرئیلیوں کی طرف بھیجا ہوا ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ غیر اسرائیلی بھی اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لا کر عیسائی ہو گئے تھے.لیکن آپ کی تحریر میں یہ حتمی ثبوت مہیا کرتی ہیں کہ وہ لوگ جو اسرائیلی تھے.لیکن بدھ مذہب اختیار کر چکے تھے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان ملکوں میں آنے سے آپ پر ایمان لے آئے تھے کیونکہ یہی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں تھیں جن کی طرف جانا اور ان کو تلاش کرنا آپ کا مشن اور آپ کا فرض منصبی تھا.یہ بات بالکل الگ ہے کہ حضرت بدھ علیہ السلام کی پیش گوئیوں کے مطابق بدھ مذہب والے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی امید میں تھے اور آپ کے آنے پر وہ آپ کو ملے بھی ہوں گے اور آپ سے برکت و فیض بھی حاصل کرتے ہوں گے.لیکن آپ کا بنیادی اور اصل مشن تو رَسُولا إلى بَنِي اسرائیل تھا.اور یہی آپ کا فرض منصبی تھا لیکن غیر یہودی اور غیر اسرائیلی لوگوں سے ملنا، ان سے گفتگو کرنا آپ کے لئے حرام تو نہیں تھا اور نہ ہی دوسروں کا آپ سے فیض اور برکت حاصل کرنا حرام تھا.اگر ایسا تھا تو الیاس ستار کو اس بات کا ثبوت مہیا کرنا چاہئے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے کسی غیر اسرائیلی سے کبھی نہ بات کی اور نہ ہی کسی نے آپ سے فیض حاصل کیا.الغرض ایک بے ثبوت بات کو پیٹتے چلے جانا کسی صاحب فہم انسان کا شیوہ نہیں.الیاس صاحب! حضرت عیسی علیہ السلام کا ہجرت کرنا، افغانستان، کشمیر وغیرہ علاقوں میں آباد بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس آتے ہوئے بدھ علیہ السلام کی پیش گوئی کے مطابق راستہ میں بدھ
594 مت والے ملک میں قیام کرنا اور بالآخر ان یہود کو بھی ملنا جو بدھ علاقوں میں آکر آباد ہو جانے کی وجہ سے بدھ مت اختیار کر چکے تھے، ان کو تبلیغ کرنا اور پھر سفر جاری رکھتے ہوئے کشمیر پہنچنا اور وہیں وفات پانا، ایک ایسی سچائی ہے، جس کو خدا تعالیٰ کی تقدیر آپ پر ٹھونس چکی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریباً سو سال قبل یہ اعلان فرمایا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور وہ آسمان سے نازل نہیں ہوں گے.وہ اعلان زیر عنوان ” ہمارا قرض تو اتاریں“ میں ملاحظہ فرمائیں.اس کے مطابق اس وقت سے لیکر اب تک تین نسلوں نے تو یہ دیکھ لیا ہے، کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نہیں اترے.اب آپ لوگ محض شکست خوردہ ہیں اور مایوسی کی پر چھائیاں آپ کو کلیۂ گھیرے ہوئے ہیں.پس جب تک آپ اپنے موہوم عیسی کو آسمان سے اتار نہیں لیتے اس وقت تک آپ جھوٹے ہیں، چونکہ وہ نہ آسمان پر گئے نہ واپس آئیں گے لہذا آپ لوگ ابد تک جھوٹے ہی رہیں گے.اور آپ کی یہ جھوٹی خواہش بھی قیامت تک پوری نہیں ہو سکتی کہ ” جب حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے.تو نہ صرف دجال کو ختم کریں گے بلکہ مرزا صاحب کی احمدیت کو بھی ختم کر دیں گے.“ (4) شریعت موسویہ میں لکڑی پر لٹکایا ہو لعنتی ہے الیاس ستار نے اپنے رسالوں میں بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی حسب ذیل تحریر کو ہدف اعتراض بنایا ہے.ماسوا اس کے صلیب کی موت سے نجات پانا اس کو اس لئے بھی ضروری تھا.کہ مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ جو کوئی کاٹھ پر لٹکایا گیا سولعنتی ہے.“ اس تحریر پر الیاس ستار کا سوال ہے.کہ د کس مقدس کتاب میں؟ کہاں لکھا ہے؟ (مسیح ہندوستان میں.صفحہ 17)
595 پھر وہ دعویٰ کرتا ہے کہ و لعنتی موت کا تصور پولوس نے حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیبی واقعہ کے کئی برس کے بعد ایجاد کیا.مصنف پولوس کی کتاب گلتیوں باب نمبر 13 میں لکھا ہے.” کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا و لعنتی ہے.“ معزز قارئین! الیاس ستار کا یہ بے دلیل دعوی اس کا ایک سفید جھوٹ ہے.کیونکہ اس نے خود کتب مقدسہ کا محاورہ ” کیونکہ لکھا ہے درج کر کے تسلیم کیا ہے.کہ پولوس نے گلتیوں باب 3 آیت 13 میں جب اس قانون کا ذکر کیا تو وہاں اس نے اپنی طرف سے کوئی قانون نہیں بنایا بلکہ پہلی کتاب کا حوالہ دیا ہے.اس حوالہ.66 66 ،، کا تتبع کرتے ہوئے الیاس ستار خود اصل قانون تک پہنچا بھی ہے مگر پھر دیانتداری کا دامن چھوڑ گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ پولوس کی یہ طرز خود بتا رہی ہے کہ وہ شریعت کے اس قانون کا ،شریعت کی کتب مقدسہ سے اسی طرح حوالہ دے رہا ہے، جس طرح انا جیل میں جگہ جگہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ” جیسا کہ لکھا ہے اور ” کیونکہ لکھا ہے وغیرہ وغیرہ فرما کر شریعت کے قوانین کے حوالے دیئے ہیں.اور ایسے نمونے پرانے عہد نامہ میں بھی ہر جگہ ملتے ہیں.یہ وہ طرز بیان ہے جو اس زمانہ میں رائج تھی.اسی طرز کو حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی اختیار فرمایا.اور پھر پولوس نے بھی.لہذا الیاس ستار کی الٹی منطق ہی خود اس کے جھوٹ کا ثبوت ہے.کیونکہ وہ احکام اور پیشگوئیاں جن کی طرف حضرت عیسی علیہ السلام نے ” لکھا ہے“ وغیرہ کہہ کر اشارہ فرمایا، کتب مقدسہ میں ان کا حوالہ ملتا ہے.بعینہ اسی طرح شریعت موسوی کے اس حکم کا بھی ذکر ملتا ہے جو استثنا باب 21 آیت 23 میں درج ہے.جس کا پولوس نے حوالہ دیا ہے.لیکن الیاس ستار محض ہٹ دھرمی کی وجہ سے یا پھر کم علمی کی بناء پر شریعت موسوی کے نزول کے کئی صدیوں بعد اسے پولوس کی طرف منسوب کر کے اس کا ذاتی قول قرار دیتا ہے.قارئین اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ شخص جو صدیوں پہلے کی ایک کتاب استثناء کی عبارت کو صدیوں بعد آنے والے پولوس کی طرف منسوب کرے، اس کی ذہنی حالت کیسی ہے.ایسا شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی اور اس میں عیسائیت کے بگاڑ کی تاریخ کو کس طرح سمجھ سکتا ہے.ظاہر ہے کہ یہ شخص اپنی دماگی افتاد کے گھن چکر میں بالکل چکرا گیا ہے.لیکن وہ پھر لکھتا ہے:
596 اردو بائیبل کی کتاب استثنا کے باب 21 آیت 23 ہیں لکھا ہے.” کیونکہ جسے پھانسی ملتی ہے وہ خدا کی طرف سے ملعون (لعنتی ) ہے.“ لیکن یہ جملہ اردو بائیل کی کتاب استثنا میں بغیر بریکٹ کے ہے جب کہ انگلش بائیل میں بریکٹ میں تحریر کیا گیا ہے.یہ انگلش بائیل نصاری کی شائع کردہ ہے.یہودیوں کی شائع کردہ نہیں ہے.نصاریٰ کی شائع کردہ انگلش بائییل کے باب 21 آیت نمبر 23 کا عکس ملاحظہ فرمائیں.23.His body shall not remain all night upon the tree, but thou shalt in any wise bury him that day; {for he that is hanged is accursed of God; (B-Gal.3.13)} that thy land be not defiled, which the LORD thy God giveth thee for an inheritan بریکٹ کا استعمال کر کے انگلش بائیل میں قارئین پر واضح کیا گیا ہے.کہ جملہ کیونکہ جسے پھانسی ملتی ہے وہ خدا کی طرف سے ملعون ہے، بائیبل کے باب استثنا کا نہیں.بلکہ پولوس کا ذاتی قول ہے.جسے پولوس نے گلیو کے باب 3 آیت 13 میں لکھا ہے.اوپر انگلش بائیل میں بھی حوالہ B سے اسے واضح کیا ہے کہ یہ (13-3-GAL) سے لیا گیا ہے“ اوّل تو حیرت کی بات یہ ہے کہ الیاس ستار یہ دعوی کس طرح کر سکتا ہے کہ شریعت موسوی کے احکام پر مشتمل کتاب استثنا میں کئی سو سال بعد آنے والے عیسائی پولوس کا قول درج کر دیا گیا.اگر ایسا ہوتا، تو ناممکن تھا کہ یہودی اس پر احتجاج کئے بغیر رہ سکتے بلکہ وہ اس کی کھلم کھلا تکذیب و تردید کرتے.کجا یہ کہ وہ اس قانون کو اپنا کر اپنی مطبوعہ بائیبل میں درج کرتے.دوسرے یہ کہ الیاس ستار بریکٹ کی وجہ سے اسے پولوس کا ذاتی قول قرار دیتا ہے.آخر اس کی کوئی دلیل بھی ہونی چاہئے.کیا نصاری کی مطبوعہ انگریزی بائیل میں کسی عبارت پر بریکٹ کا یہ مطلب ہوتا ہے.کہ وہ پولوس کا ذاتی قول ہے؟ تیسرے یہ کہ جب صاف اور واضح طور پر پولوس ایک بات کو کیونکہ لکھا ہے“ کہہ کر Quote کر رہا ہے.تو اسے اس کا اپنا قول قرار دینا نہ صرف یہ کہ قطعی غلط دعوی ہے بلکہ ہٹ دھرمی بھی ہے.پولوس کی ساری تقریروں اور خطوط وغیرہ کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ جب شریعت کی کسی تعلیم یا قانون کی بات کرتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ " کیونکہ لکھا ہے“ یا ” جیسا کہ لکھا ہے وغیرہ وغیرہ.چنانچہ
597 کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ، گلیوں کے باب 3 کو ہی شروع سے آخر تک پڑھیں.اس نے تقریباً ہر آیت میں شریعت ہی کی کوئی بات کی ہے.اور بار بار مذکورہ بالا طرز اختیار کرتے ہوئے کیونکہ لکھا ہے“ وغیرہ الفاظ ہی استعمال کئے ہیں.چنانچہ اس کے ان اقوال کے حوالے کتب مقدسہ میں ملتے ہیں.پس الیاس ستارکو تقوی سے کام لینا چاہئے.اور اس طرز کلام کو مد نظر رکھنا چاہئے جو پولوس نے اختیار کی.اسے خواہ مخواہ تکذیب حق کے لئے کذب صریح نہیں بولنا چاہئے.بہر حال اس کو بھی سوجھی عجیب ہے.وہ کہتا ہے کہ بریکٹ کا استعمال کر کے انگلش بائیل میں قارئین پر واضح کیا گیا ہے کہ یہ جملہ کیونکہ جسے پھانسی ملتی ہے وہ خدا کی طرف سے ملعون ہے، بائیبل کے باب استثنا کا نہیں بلکہ پولوس کا ذاتی قول ہے.جیسے پولوس نے گلیو کے باب 3 آیت 66 13 میں لکھا ہے.“ اول تو اردو کی بائیل میں بریکٹوں کے نہ ہونے اور انگریزی بائیبل میں بریکٹوں کے ہونے سے دنیا کی کسی منطق کی رو سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ایک اضافی یا الحاقی عبارت ہے.چنانچہ الیاس ستار کی اپنی تحریر بھی خود اس کی تردید کرتی ہے.چنانچہ اس نے یہود کی شائع کردہ جس انگریزی بائیبل سے جو حوالہ پیش کیا ہے.اس پر بھی بریکھیں نہیں ہیں.پس خود تر دیدی تو خود ا سکے اپنے بیان میں موجود ہے.تو یہ ثابت کیا کرنا چاہتا ہے؟ دوم یہ کہ کتاب مقدس کا وہ نظر ثانی شدہ معیاری نسخہ جو کہ عیسائیوں کا شائع کردہ ہے.اور جس پر یہ بھی لکھا ہوا ہے.کہ "Translated from the original Tongues being the version set forth A.D.1611 Revised A.D.1881-1885 and A.D.1901 Compared most ancient authoritiess and revised A.D.with the 1952..Thomas Nelson and Sons Ltd نے یہ نسخہ لنڈن سے شائع کیا.اس میں استثنا باب 12 آیت 23 میں مذکورہ آیت میں کوئی بریکٹ نہیں.پس الیاس ستار کی تعلمی خود اسی کو جھوٹا ثابت کرتی ہے.
598 ی بھی اس کا کھلا کھلا جھوٹ ہے جو یہ کہتا ہے کہ یہودیوں کی شائع کردہ تو رات کی کتاب استثناء میں یہ جملہ درج ہی نہیں ہے.وہ لکھتا ہے انگلش بائیبل لکھنے والوں نے مذکورہ جملے کے لئے بریکٹ کا استعمال بالکل صحیح کیا ہے.کیونکہ انجیل سے قبل کی ساری کتابیں عیسائیوں کو یہودیوں سے ورثہ میں ملیں.لہذا یہودیوں کی شائع کردہ تو رات کی کتاب کے استثناء کے باب 12 آیت 23 میں یہ جملہ درج ہی نہیں ہے.نہ بریکٹ میں نہ بریکٹ کے باہر سیکس ملاحظہ فرمائیں.( یہاں حسب ذیل عبارت کا اس نے عکس دیا ہے ) 22: If a man is guilty of a capital offense and is put to death, and you impale him on a stake.You must not let his corpse remain on the stake overnight, but must bury him the same day.For an impaled body is an affront to God: you shall not defile the land that the LORD your God is giving you to possess." قبل اس کے کہ اس تحریر کا تجزیہ کیا جائے جو الیاس ستار نے یہودیوں کی مطبوعہ بائیبل سے پیش کیا ہے، اسے یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر وہ قرآنِ کریم سے اس بارہ میں ہدایت طلب کرتا تو اسے یہ ضرور نظر آ جاتا کہ کسی کی موت کو ذلیل اور لعنتی ثابت کرنے کے لئے صلیب دینا یا درخت پرلٹکانا بنی اسرائیل کا ایک ا ایسا قانون تھا جونزولِ تو رات سے پہلے بھی ان میں رائج نظر آتا ہے.اور وہ فرعون کو بھی معلوم تھا.چنانچہ جب اس کے جادو گر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شکست کھا کر خدا تعالیٰ پر ایمان لے آئے تو فرعون نے ان کو اسی سزا کی دھمکی دی جو بنی اسرائیل کے نزدیک سب سے زیادہ ذلیل اور رسوا کن سمجھی جانے والی سزا تھی.چنانچہ وہ کہتا ہے وَلا صَلبَتْكُمْ فِي جُذوع النخل ( طلا 72) کہ میں تمہیں کھجور کے تنوں پر لٹکاؤں گا.حالانکہ فرعون کا اپنا طریق یہ تھا کہ وہ طرح طرح کے دیگر عذابوں میں مبتلا کرتا تھا.جن کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم میں موجود ہے.پس اس موقع پر اس کا درختوں پر لٹکانے کی دھمکی دینا اسی قانون کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے.جو بنی اسرائیل کے ہاں مذہبی طور پر مسلمہ تھا.اگر بالفرض یہودیوں کی شائع کردہ کتاب میں وہ فقرہ نہ بھی ہوتا تو بھی یہ ثابت ہے کہ یہ حکم تو رات میں موجود ہے.کیونکہ یشوع بن نون جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین تھے وہ بھی اس حکم پر کار بند تھے.
599 چنانچہ یشوع باب 10 آیت 26 ، 27 نیز یشوع باب 8 آیت 29 ملاحظہ فرمائیں.ان آیات سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کا اور شریعتِ موسوی کا یہ ایک پکا قانون تھا.کہ جس کو لکڑی پر لٹکا یا جائے.وہ خدا کی طرف سے ملعون ہے.چنانچہ اسی کی تعمیل میں یشوع نے اپنے مخالفوں کو قتل کرنے کے بعد درخت پر لٹکایا.تا کہ وہ ملعون ثابت ہوں.پس الیاس ستار کو اس کے جھوٹ سے اطلاع دینے کے لئے عرض ہے کہ یہود کی مقدس کتب میں یہ قانون اپنی پوری عملی وضاحت کے ساتھ موجود ہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکانے کی جو کاروائی یہود نے کی ، وہ بھی اسی مسلمہ قانون کی اتباع کا ٹھوس ثبوت ہے، حالانکہ وہ آپ کو کسی اور طریق پر یا اور ذریعہ سے بھی قتل کر سکتے تھے.مگر اہتمام کے ساتھ صلیب پر لٹکانے کی کارروائی صرف اور صرف اسی مسلمہ قانون کی وجہ سے تھی تا کہ وہ آپ کو ملعون ثابت کر سکیں.الیاس ستار کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے.کہ یہودی تحریف آیات میں ید طولیٰ رکھتے تھے.لہذا توریت میں اگر اب یہ قانون موجود نہ بھی ہوتا، تو بھی اس کا مد عا ثابت نہ ہوسکتا تھا، کیونکہ بعید نہیں تھا، کہ یہود اس آیت کو بھی تحریف کا نشانہ بنا چکے ہوتے لیکن یہ ان کی مجبوری ہے کہ وہ اس قانون کو اپنی کتب میں سے کبھی بھی نکال نہیں سکتے، کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کو ( نعوذ باللہ ) ملعون ثابت کرنے کے لئے انہیں یہ لازماً بڑی حفاظت کے ساتھ باقی رکھنا پڑتا ہے.پس یہ جملہ شواہد الیاس ستار کو قطعی جھوٹا ثابت کرتے ہیں.معزز قائین! آئیے اب ہم اس مذکورہ بال تحریر کا جائزہ لیتے ہیں.جس کا عکس الیاس ستار نے اپنے رسالہ میں پیش کیا ہے مگر نہ اس کا کوئی حوالہ درج کیا ہے اور نہ یہ بتایا ہے، کہ وہ کتاب کس ادارے کی طرف سے کب شائع کی گئی.بہر حال یہودیوں کی بائیبل سے پیش کردہ اس تحریر کا ترجمہ یہ ہے.اگر کسی نے کوئی ایسا بڑا گناہ کیا ہو کہ اس کی وجہ سے وہ واجب القتل قرار پائے اور تو اسے لکڑی پر میخوں سے لٹکا دے تو اس کی لاش رات بھر کی نہ رہے، بلکہ تو اسے ضرور بالضرور اسی دن دفن کر دینا کیونکہ میخوں سے لٹکایا ہوا جسم خدا تعالیٰ کے حضور سر عام ذلیل ورسوا کیا ہوا ہے.تو اپنی اس زمین کو جو خدا وندخدا نے تجھے بطور انعام دی، پلید نہ کر “
600 اگر اس عبارت کو اس عبارت کے سامنے رکھا جائے جو عیسائیوں کی طبع کردہ بائیبل سے اس نے اپنے دعوی کی دلیل کے طور پر پیش کی ہے.تو صاف معلوم ہوتا ہے، کہ گو ان دونوں کےصرف الفاظ میں معمولی تبدیلی ہے لیکن قانون وہی ہے.یعنی ان دونوں عبارتوں کے معانی مفہوم ، مطلب اور منطوق میں کوئی فرق نہیں.Affront to God کے معانی ” خدا کے حضور ذلیل ورسوا کئے ہوئے“ کے ہیں.اور ایسا شخص جو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں ذلیل و رسوا ہو، اسے لعنتی یا ملعون ہی کہا جاتا ہے.پس معانی ومطلب کے لحاظ سے عیسائیوں کی مطبوعہ بائیبل اور یہودیوں کی مطبوعہ بائیبل میں مذکور اس قانون میں کوئی فرق نہیں.اس کا ایک قومی اور ٹھوس ثبوت یہ بھی ہے کہ یہودیوں کی شائع کردہ بائیبل کی تفسیر میں لکھا ہے."[AND IF THERE BE IN A MAN A SIN DESERVING THE JUDGEMENT OF DEATH] THOU SHALT HANG HIM ON A TREE- Our Rabbis said, All those who have to be put to death by stoning must afterwards hanged, for it is said here (v.23) "for cursing of God in ends hanging"," (PENTATEUCH COMMENTARY-SHAPIRO, VALLENTINE & Co.LONDON 1934) with...RASHI'S ترجمہ :.اور اگر کسی آدمی سے ایسا گناہ سرزد ہو، کہ جس کی سزا موت قرار پائے، تو تیرے لئے ضروری ہے کہ تو اسے درخت پر لٹکائے.ہمارے ربی کہتے ہیں کہ جس کو تو سنگسار کر کے موت کے گھاٹ اتار دے، تو اس کے بعد اسے لڑکا نا تیرے لئے لازم ہے، کیونکہ تعلیم یہ ہے کہ خدا کی لعنت لٹکانے کے ساتھ پوری ہوتی ہے.موسوی شریعت میں اس قدر حتمی تعلیم کے ہوتے ہوئے الیاس ستار کا اس سے انکار کرنا اور اسے پولوس کا قول قرار دینا ایک سفید جھوٹ ہی نہیں پرلے درجہ کی حماقت بھی ہے.اس نے اپنی انگریزی دانی کا بھی ڈھنڈورا پیٹا ہے اس لئے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہImpaled اور Affront to God کے معانی سمجھنے سے قاصر رہا ہو.لیکن اگر ایسا ہے تو یہ اس کی جہالت کا ثبوت ہے.ایسی صورت میں تو اس کو ایسے علمی معاملات میں دخل ہی نہیں دینا چاہئے تھا.
601 اس کی جہالت کی انتہا تو یہ ہے کہ وہ اس قانون کو پولوس کا ذاتی قول قرار دیتا ہے.اور یہ نہیں سوچتا کہ یہ بالکل ہی ناممکن ہے کہ یہودی علماء کسی عیسائی قانون کو ایک شرعی قانون کے طور پر اپنی کتب مقدسہ میں تحریر کریں اور پھر اس کی پیروی کی تعلیم بھی دیں.ایسے قانون کا یہود کی شرعی کتب میں ہونا اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ یہ قانون بنیادی طور پر یہود کا ہے جس کو پولوس نے نقل کر کے اس کا حوالہ دیا ہے.بہر حال یہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہے.کہ تو رات خواہ یہود کی مطبوعہ ہو یا عیسائیوں کی ، اس میں وہ قانون بھی اصلی حالت میں ، اصل معانی اور مفہوم کے ساتھ موجود ہے.پس الیاس ستار نے جھوٹ لکھا ہے.اسے قطعی جھوٹا ثابت کرنے کے بعد اب قارئین کے استفادہ کے لئے عیسائیوں کی مطبوعہ انگلش بائییل اور یہودیوں کی انگلش و عبرانی بائکمیل کے متعلقہ صفحات کے عکس بطور دستاویزی ثبوت پیش ہیں.
602 فوٹو کا پیز
603
604
605
909
607
608 (5) وو وفات مسیح کا معاوضہ الیاس ستارا اپنے پمفلٹ " کیا احمدی جواب دے سکتے ہیں، میں لکھتا ہے کہ کیا مرزا صاحب نے سرسید کو رائلٹی ( معاوضہ ) دی تھی ؟“ اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ (صفحه 21) آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ مرزا صاحب پہلی شخصیت نہیں جنہوں نے حضرت عیسی کی وفات کے متعلق کہا کہ وہ مر چکے ہیں اور دنیا سے چلے گئے ہیں.بلکہ سرسید ان سے قبل اپنی تفسیر القرآن میں یہ ترجمہ کر چکے ہیں کہ عیسی قدرتی طور پر فوت ہو چکے ہیں.“ معزز قارئین! اگر سرسید صاحب نے وفات مسیح علیہ السلام کو ثابت کیا ہے تو الیاس ستار کو یہ سچائی مان لینی چاہئے تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام از روئے قرآن طبعی وفات پاچکے ہیں.کیونکہ سرسید احمد خان صاحب بر صغیر میں مسلمانوں کے ایک بہت بڑے مذہبی اور سیاسی لیڈر قرار دیئے جاتے تھے.پس ان پر ایسے لیڈر کی بات کو ماننا فرض تو بنتا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ اس میں حیرت کی کونسی بات ہے کہ سرسید صاحب نے بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی طبعی موت کے ثبوت پیش کئے تھے.کیونکہ وفات مسیح علیہ السلام ایک ایسی ثابت شدہ سچائی ہے جس کا اعلان اولاً تو قرآنِ کریم نے بار بار کیا ہے بلکہ کم از کم تھیں بار کیا ہے.پھر آنحضرت ﷺ نے بھی بار بار اس کی منادی فرمائی.پھر حضرت ابو بکر اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم کے علاوہ آئمہ سلف اور بزرگان وعلمائے دین نے بھی اسے ثابت کیا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات ایک سچائی ہے جس کو اگر سر سید احمد خان صاحب نے بھی اختیار کیا تھا تو اس پر ان کا رائلٹی کا حق کیسے قائم ہو گیا.اگر اس طرح رائلٹی کا حق قائم ہوتا ہے تو الیاس ستارکو جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے کی رائلٹی مولوی محمد حسین بٹالوی کو ادا کرنی چاہئے.ان کی جو تیاں بھی عدالتوں کے چکر لگا گا کر گھس گئیں اور ادھر یہ بھی ہر بات میں عدالت کی طرف جانے کے لئے
609 باگیں تڑوا تا ہے.مولوی محمد حسین بٹالوی بھی جھوٹا تھا جو جماعت احمدیہ کی تکذیب میں اپنی ہر کوشش میں ہمیشہ ناکام و نامرادر ہا، اسی طرح یہ بھی ہمیشہ نا کام ونامراد ہے.حقیقت یہ ہے کہ سچائیوں اور عقائد کی رائلٹی پیسوں کی صورت میں نہیں ہوا کرتی.ہمارے آقاو مولیٰ حضرت محمد مصطفے ﷺ سے پہلے خزاعہ قبیلہ کا ایک شخص ” ابن ابی کبشہ “ ہوا کرتا تھا جو قریش کو بت پرستی سے روکتا تھا اور توحید کا پرچار کیا کرتا تھا.چنانچہ اسی مشابہت کی بناء پر ابوسفیان نے بادشاہ ھر قل کے دربار میں آنحضرت ﷺ کو ابنِ ابی کبشہ قرار دیتے ہوئے یہ کہا تھا."لقد أمِرَ امْر ابن ابى كبشة “ (بخاری.کتاب الوحی.باب کیف کان بدء الوحی.مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی لاہور ) کہ ابن ابی کبشہ یعنی آنحضرت ﷺ کا معاملہ بہت آگے نکل چکا ہے.اب اگر الیاس ستار کا رائلٹی کا تقاضا درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کے مطابق تو آنحضرت علی کو توحید کے عقیدہ کی رائلٹی ابنِ ابی کبشہ کو دینی چاہئے تھی ( نعوذ باللہ من ذالک).اسی طرح قرآنِ کریم صلى الله میں خدا تعالیٰ کا آنحضرت ﷺ کو یہ ارشاد ہے کہ فَبهُدَاهُمُ اقْتَدِه (الانعام: 91) اے محمد ! ( تو ان (گزشتہ انبیاء ) کی ہدایتوں کی بھی پیروی کر.تو کیا آنحضرت ﷺ کو الیاس ستار کے اصول کے مطابق گزشتہ انبیاء علیہم السلام کو ان ہدایتوں کی رائلٹی دینی چاہئے تھی ؟ ( نعوذ باللہ من ذالک).پس نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ الیاس ستار نے محض ایک فضول ، لا یعنی اور لغو بات کی ہے.(6) حدیث نبوی کی تضحیک الیاس ستار نے اپنے پمفلٹ اور رسالوں میں متعدد بار حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسح الثانی رضی اللہ عنہ کی کتاب ”دعوۃ الامیر کے صفحہ 16 سے حسب ذیل اقتباس میں مذکورہ حدیث پر تضحیک کی ہے.وہ پورا اقتباس پیش ہے.فرمایا دو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حضرت فاطمہ سے اس مرض میں
610 جس میں آپ فوت ہوئے، فرمایا: انـجبـريـل كـان يـعـارضـنـى القرآن في كل عام مرة و أنّـه عارضني القرآن العام مرتين وأخبرنى أنّه لم يكن نبي الاعاش نصف الذي قبله و أخبرني أن عيسى ابن مريم عاش عشرين و مأة سنةً ولا أراني الا ذاهباً على رأس الستين.“ (مواہب لدنیہ مصنفہ قسطلانی جلد 1 صفحہ 42 یعنی جبرائیل ہر سال ایک دفعہ مجھے قرآن سناتے تھے مگر اس دفعہ دو دفعہ سنایا ہے اور مجھے انہوں نے خبر دی ہے کہ کوئی نبی نہیں گزرا کہ جس کی عمر پہلے نبی سے آدھی نہ ہوئی ہو اور یہ بھی انہوں نے مجھے خبر دی ہے.کہ عیسی ابن مریم ایک سو بیس سال کی عمر تک زندہ رہے تھے.پس میں سمجھتا ہوں کہ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہوگی.اس روایت کا مضمون الہامی ہے کیونکہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کوئی بات بیان نہیں فرماتے.بلکہ جبرائیل علیہ السلام کی بتائی ہوئی بات بتاتے ہیں جو یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال کی تھی.پس لوگوں کا یہ خیال کہ آپ بتیس (32) تینتیس (33) سال کی عمر میں آسمان پر اُٹھائے گئے تھے غلط ہوا ، کیونکہ حضرت مسیح اس عمر میں آسمان پر اُٹھائے گئے تھے تو آپ کی عمر بجائے ایک سو بیس سال کے رسول کریم کے زمانے تک قریباً چھ سو سال کی بنتی ہے اور اس صورت میں چاہئے تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کم سے کم تین سو سال تک عمر پاتے ،مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تریسٹھ سال کی عمر میں فوت ہو جانا اور الہاما آپ کو بتایا جانا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک سو بیس سال کی عمر میں فوت ہو گئے ثابت کرتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی اور آسمان پر آپ کا بیٹھا ہو نا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے اور آپ کے الہامات اسے رد کرتے ہیں اور جب امر واقع یہ ہے تو ہم لوگ کسی کے کہنے سے کس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات کے قائل ہو سکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ سکتے ہیں.“ ( دعوۃ الامیر - صفحہ 16 - مطبوعہ الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ.لندن ) اس اقتباس کی سادہ اور سلیس اردو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے الیاس ستار نے اس میں مذکورہ حدیث نبوی پر حسب ذیل تضحیک بھی کی ہے اور پھر ” ہائے 120 ہائے 120 ہائے 120 کے سوقیانہ نعرے بھی لگائے ہیں.وہ لکھتا ہے کہ وو مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تحریر کے مطابق ہر نبی کی عمر پچھلے نبی کی عمر سے آدھی ہوتی ہے.سنا ہے.کہ
611 ایک لاکھ چوبیس ہزار 1,24,000، پیغمبر گزرے ہیں.چند پیغمبروں کی عمر پر غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں.حضرت آدم علیہ السلام کی عمر 122880 سال ہوئی حضرت شیش علیہ السلام کی عمر 61440 سال ہوئی حضرت نوح علیہ السلام کی عمر 30720 سال ہوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر 15360 سال ہوئی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر 7680 سال ہوئی حضرت یعقوب علیہ السلام کی عمر 3840 سال ہوئی حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر 1920 سال ہوئی حضرت موسی علیہ السلام کی عمر 960 سال ہوئی حضرت داؤد علیہ السلام کی عمر 480 سال ہوئی حضرت سلیمان علیہ السلام کی عمر 240 سال ہوئی حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر 120 سال ہوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 60 سال ہوئی مرزا غلام احمد کی عمر 30 سال ہوئی اگلے نبی کی عمر 15 سال ہوئی وو دعوۃ الا میر“ کے صفحہ 16 کی تحریر کے مطابق حضرت آدم کی عمر 1,22,880‘ سال ہونی چاہئے جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں اور حضرت شیش ” حضرت نوح ” اور حضرت ابراہیم کو بھی ابھی تک زندہ ہونا چاہئے اور مرزا صاحب کو صرف 30 سال کی عمر میں ہی فوت ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ حضرت محمد کی عمر 60 سال کے قریب تھی اس لئے ان کے بعد آنے والے نبی کی عمر 60 سال سے آدھی یعنی 30 سال ہونی چاہئے.اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرزا صاحب کو تو نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے ہی فوت ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ انہوں نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو اس وقت ان کی عمر 30 سال سے بہت زیادہ تھی.“ معزز قارئین ! حدیث نبوی پر الیاس ستار کے اس استہزاء پر ہم سوائے انا للہ وانا الیہ راجعون“ کے اور کیا کہہ سکتے ہیں.جو شخص حبیب کبریا ، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو ہدف 66 تضحیک اور استہزاء بنانے سے بھی باز نہیں رہتا اس سے کسی اور کا کلام کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے.لیکن افسوس
612 اور تف تو ان نام نہاد علماء پر ہے جو ایسی تضحیک اور ایسے استہزاء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی قرار دیتے ہیں.کتاب ”دعوۃ الامیر کی تحریر پر خط طعن دراز کرنے سے پہلے الیاس ستار کو ایک لمحہ کیلئے یہ تو سوچنا چاہئے تھا کہ اس کا یہ طعن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کی تحریر اور استدلال پر نہیں بلکہ اس الہامی مضمون پر ہے جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمایا.یہ کسی احمدی کی تراشی ہوئی بات نہیں بلکہ مشہور اور مستند کتب احادیث میں درج ہے جس کے مطابق جماعت احمدیہ نے اپنے عقیدہ کی سچائی کو پیش کیا ہے.یہ ایک صحیح اور سچی حدیث ہے جو ایک طریق سے نہیں بلکہ کم از کم تین طریقوں سے مروی ہے یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور حضرت فاطمتہ الزھراء رضی اللہ عنہا سے.اہلِ حدیث کے مسلّمہ بزرگ اور جید عالم نواب صدیق حسن خان بھی اس حدیث کے صحیح اور مستند اور ثقہ ہونے کا اعلان یوں کرتے ہیں کہ ” اخرج الطبراني في الكبير بسند رجال ثقات.66 نج الکرامہ - صفحہ 428 مطبوعہ مطبع شاہجہان بھوپال) ترجمہ :.طبرانی نے جامع الکبیر میں اسے ثقہ راویوں کی سند کے ساتھ پیش فرمایا ہے.اس حدیث کو محد ثین و مفسرین نے کثرت کے ساتھ اپنی کتب میں درج کیا ہے.کتب احادیث و تفاسیر میں اس کا بکثرت موجود ہونا اس کی صحیح ہونے کی ناقابل رڈ دلیل ہے.چنانچہ یہ حسب ذیل کتب میں بھی مذکور ہے.کنز العتمال ، مستدرک حاکم تغییر المواہب اللدنیہ، تفسیر جامع البیان للطبری، تفسیر جلالین تفسیر ابن کثیر اور رنج الکرامہ وغیرہ.اس کی صحت پر کوئی اس وجہ سے بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا کہ یہ حدیث اپنی سچائی اور صحت کی ٹھوس اندرونی گواہی بھی اپنے ساتھ رکھتی ہے.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو بیان فرمایا ہے کہ جبریل نے امسال مجھے دو دفعہ قرآن کریم سنایا ہے.یہ ایسا واقعہ ہے جو عملاً رونما ہوا.اس سے کسی ایک
613 مسلمان کو بھی انکار نہیں.اس حدیث نبوی کے ایک حصہ کے پورا ہونے پر سب کا اتفاق ہونا اس کے دوسرے حصہ کی سچائی اور صحت و ثقاہت کی ایک ناقابل تردید اندرونی شہادت ہے.اسی وجہ سے آج تک کسی صاحب علم نے اس حدیث پر نظر جرح تک نہیں اٹھائی.لیکن جہاں تک اس حدیث کے متن کا تعلق ہے تو وہ بجائے خود ایک واقعاتی حقیقت ہے جو ہر نبی کی زندگی میں ظاہر ہوتی رہی ہے.کیونکہ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اس مرض میں جس میں آپ نے وفات پائی ، بیان فرمایا کہ ” جبرائیل ہر سال ایک دفعہ مجھے قرآن سنایا کرتے تھے مگر اس دفعہ انہوں نے مجھے دو دفعہ قرآن سنایا ہے اور مجھے خبر دی ہے کہ کوئی نبی نہیں گزرا کہ جس کی عمر پہلے نبی سے آدھی نہ ہوئی ہو اور یہ بھی انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ عیسی بن مریم ایک سو بیس سال کی عمر تک زندہ رہے پس میں سمجھتا ہوں کہ میری عمر ساٹھ سال کے لگ بھگ ہو گی.“ 66 ظاہر ہے کہ اس حدیث کے الفاظ میں نہ کوئی ابہام ہے نہ اشکال.بہت واضح رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ ہر نبی اپنے سے پہلے گزرے ہوئے نبی کی عمر سے نصف عمر ضرور پاتا ہے.یہ کبھی نہیں ہوا ہے کہ مثلاً ایک نبی نے ساٹھ سال کی عمر میں وصال پایا ہو تو اس سے بعد میں آنے والا تھیں سال سے پہلے فوت ہو گیا ہو.وہ اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر سے ضرور آگے بڑھا ہے.چنانچہ ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ کوئی نبی ایسا ہو جو اپنے سے پہلے نبی کی کم از کم نصف عمر تک نہ پہنچا ہو.یہی سچائی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں بھی حق بن کر ظاہر ہوئی یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر یعنی 120 سال سے نصف پار کر کے آپ نے جام وصال نوش فرمایا.آپ کا یہ المی خبر بیان فرمانا اور اس کے مطابق ساٹھ سال سے آگے گزر کر فوت ہونا ، بذاتِ خود اس حدیث کی صداقت کی دلیل ہے اور اس تو جیہہ کے درست ہونے کی دلیل ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے.الیاس سٹار نے کتاب " دعوۃ الا میر" کے جس اقتباس کو اپنی نا کبھی کی وجہ سے ہدف تضحیک بنایا ہے وہ بالکل سادہ سلیس اور عام فہم اردو میں ہے اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بڑی آسان زبان میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ
614 کوئی نبی نہیں گذرا کہ جس کی عمر پہلے نبی سے آدھی نہ ہوئی ہو.“ لیکن الیاس ستار نے اس کو بالکل الٹ اور غلط سمجھ کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ”مرزا بشیر الدین محمود احمد کی تحریر کے مطابق ہر نبی کی عمر پچھلے نبی سے آدھی ہوتی ہے.“ ( پمفلٹ.کیا احمدی جواب دے سکتے ہیں؟ صفحہ 27) حدیث نبوی اور الیاس ستار کی تحریر میں زمین آسمان کا فرق ہے.حدیث نبوی یہ بتاتی ہے کہ ہر نبی اپنے سے پہلے نبی کی عمر سے نصف عمر ضرور پاتا ہے ، جبکہ الیاس ستار کی تحریر بتا رہی ہے کہ ہر نبی کی عمر اپنے سے پہلے نبی کی عمر سے آدھی رہتی ہے اس سے زیادہ نہیں ہوتی.ظاہر ہے کہ اس کی اس بات کی منطق ہی کوئی نہیں.نہ تاریخ انبیاء اس کی تصدیق کرتی ہے اور نہ ہی عقل اسے تسلیم کر سکتی ہے.پس زیر بحث حدیث نبوی ایک الہامی سچائی پر مبنی ہے جس پر واقعاتی شہادت مہر تصدیق ثبت کرتی ہے.اس کو رد کرنے کی کوئی مجال نہیں رکھتا.کیونکہ حضرت جبرائیل کا اس سال دو دفعہ قرآن کریم دوہرانا اس کی سچائی کی اندرونی شہادت مہیا کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساٹھ سال کی عمر کا پاکر یعنی 120 سال کے نصف سے آگے بڑھ کر رفیق الاعلیٰ کے پاس جانا اسے سچا ثابت کرتا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کی 120 سالہ زندگی کی تاریخی شہادتیں اسے سچا ثا بت کرتی ہیں.اور یہ حقیقت اسے سچا ثابت کرتی ہے کہ ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی کی عمر سے نصف عمر ضرور پائی ہے.ان میں سے ایک کا بھی استثناء نہیں.ہے.نیز وہ امور بھی اس کی سچائی کے ناقابلِ ردّ ثبوت ہیں جن کا ذکر ہم نے گزشتہ سطور میں کیا آج تک کسی محدث یا مفسر نے اس حدیث کی تشریح ضر میں تقسیمیں دے کر نہیں کی ، کیونکہ تقوی کا تقاضہ یہ ہے کہ حدیث نبوی کی تشریح ایسی کرنی چاہئے جو حقیقت افروز ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر از دیا دایمان کا بھی موجب ہو.سخت افسوس ہے کہ الیاس ستار نے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو اپنے
615 محدود ذہن، ٹیڑھی سوچ اور مسخ شدہ عقائد کے پیمانے پر پرکھ کر ہدف استہزاء بنایا ہے.نیز اپنے خود ساختہ فارمولے پر انبیاءعلیہم السلام کی عمروں کوضر ہیں تقسیمیں دے دے کر اور اس پر بازاری طرز پر ہائے 120، ہائے 120 کے سوقیانہ نعرے لگا لگا کر اس پر معارف حدیث نبوی کا مذاق اڑایا ہے.اس سے بڑھ کر افسوس ان نام نہاد علماء پر ہے جو الیاس ستار کے اس استہزاء اور مذاق کو الہامی مضمون قرار دیتے ہیں.(ویسے یہ لوگ آنحضرت لوہے کے بعد نزول الہام کے منکر بھی ہیں.یعنی یہ ہر طرف سے جھوٹے ہیں) (7) برنباس کی انجیل پر الیاس ستار کا تکیہ الیاس ستار نے اپنے ایک رسالہ میں لکھا ہے کہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ حضرت عیسی" خود صلیب پر چڑھے تھے یا یہودا اسکر یوتی.؟ ہم صرف اتنا ثابت کر رہے ہیں کہ جو بھی صلیب پر چڑھا تھا وہ دو گھنٹے میں کیوں مر گیا تھا؟ برناباس کی انجیل میں صفحہ 276 پر حوالہ 216 تا 217 کا مفہوم ہے کہ یہودا اسکر یوتی جو عیسی علیہ السلام کے شاگردوں کے ساتھ تھا لیکن پیسے کے لالچ میں آکر یہودیوں سے تمیں سونے کے سکتے لے کر یہودی سپاہیوں کو لے کر حضرت عیسی علیہ السلام کو پکڑوانے کے لئے گیا.جب وہ پہنچے تو حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تیسرے آسمان پر اٹھوا لیا اور یہودا اسکریوتی کی شکل حلیہ اور آواز حضرت عیسی جیسی بنادی یہاں تک کہ شاگرد بھی انہیں عیسی" ہی سمجھ رہے تھے.یہودی سپاہیوں نے یہودا اسکر یوتی کو عیسی" سمجھ کر گرفتار کر لیا اس کی خوب پٹائی کی اسے کوڑوں سے اتنا مارا کہ وہ اسی وقت مر جا تا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے صلیب کی موت کے لئے بچار کھا تھا تا کہ وہ وہی خوف ناک موت مرے جس کے لئے اس نے حضرت عیسی کو بیچا اس لئے صلیب پر کم وقت میں یعنی دو گھنٹے سے قبل اس کی موت واقع ہو گئی.“ قارئین کرام ! الیاس ستار کو شاید یہ معلوم نہیں کہ ان لوگوں کی مسلمہ تفاسیر میں اس شخص کے بارہ میں کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ صلیب پر یہودا اسکر یوتی چڑھایا گیا تھا یا کوئی اور یہودی.آج تک اس شخص کے بارہ میں کسی ایک رائے پر اتفاق نہیں ہوا.لیکن الیاس ستار نے اچھا کیا کہ اپنے عقائد کے علی
616 الرغم ان تفاسیر کوٹھکرا کر برنباس کی انجیل کا سہارا لے لیا ہے اور اپنے ایمان کی بنیاد اس پر ڈال لی.اس کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو تو آسمان پر اٹھا لیا تھا.یعنی وہ تو وقوعہ سے رخصت ہو کر آسمان پر جا بیٹھے جہاں سے بقول اس کے وہ واپس آئیں گے لیکن وہ شاید یہ بھول رہا ہے کہ یہی برنباس کی انجیل کہتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے.چونکہ اس نے کلیہ تکیہ برنباس کی انجیل پر کیا ہے اس لئے اس کے مقدر میں جھوٹے ہی لکھے گئے ہیں.سچے مسیح موعود کو مانے کی اس کو توفیق نہیں ملی.اس کا وہ مزعومہ مسیح جس کو برنباس کی انجیل نے آسمان پر چڑھا کر اس کی واپسی کے دروازے بند کر دیے ہیں وہ اگر سچار ہنا چاہتا ہے تو زمین پر نہیں آسکتا اور اگروہ زمین پر آتا ہے تو وہ سچا نہیں رہ سکتا.کیونکہ برنباس کی انجیل کے مطابق اب صرف جھوٹے ہی آئیں گے.الیاس ستار لکھتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے تیسرے آسمان پر اٹھوا لیا اور یہودا اسکریوتی کی شکل ، حلیہ اور آواز حضرت عیسی جیسی بنادی یہاں تک کہ شاگرد بھی انہیں عیسیٰ ہی سمجھ رہے تھے.66 حیرت ہوتی ہے ان لوگوں کی عقل پر اور ان کی منطق پر کہ بیسیوں حقائق کوٹھکرا کر برنباس کی انجیل کو ایسا چھٹے ہیں کہ عقل کے چراغ ہی گل کر بیٹھے ہیں.بھلا جب خدا تعالی نے مسیح کو آسمان پر اٹھا لیا تھا تو کسی پر شکل ڈالنے اور اسے مروانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا خدا تعالیٰ کو خوف تھا کہ یہود آسمان پر آجائیں گے اور مسیح کو وہاں پر بھی ماریں گے.؟ جس شخص کو یہود نے صلیب پر مارا تھا اس پر تو مسیح کی شکل وصورت ڈال دی تھی اور اسی واسطے انہوں نے اس کو مار بھی دیا تھا تو ان کا ”انا قتلنا المسیح “ کہنا کیونکر غلط ہوا ؟ آخر وہ مسیح علیہ السلام کو ان کے جسم کی وجہ سے ہی جانتے تھے ( روح تو نظر نہیں آتی ) اور دنیا میں ہر بات کا فیصلہ ظاہری شکل سے ہی ہوتا ہے روح سے نہیں.خدا تعالیٰ نے دوسرے شخص پر مسیح کی شکل ڈال کر اسے مصلوب کرا دیا تھا.کیا خدا تعالیٰ نے خود یہود کے لئے گمراہی کے سامان کئے ؟ یعنی خدا تعالیٰ نے جس مسیح کو یہود کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا تھا
617 اسے ہی ان کی گمراہی کا سبب بنا دیا.جسے مسیح کی شکل دے کر صلیب پر لٹکایا گیا وہ چلایا کیوں نہیں کہ وہ کوئی اور شخص ہے، مسیح نہیں ہے؟ کیا خدا تعالیٰ نے اپنے بچے اور مقدس مسیح کی شکل ایک کا فرا منافق پر ڈال کر اس مقدس چہرے کی تو ہین نہیں کی؟ مسیح دن کو آسمان پر اٹھائے گئے تھے یارات کو؟ اگر دن کو اٹھائے گئے تھے تو اتنے عظیم الشان واقعہ کا کوئی عینی شاہد بتا ئیں.اگر رات کو اٹھائے گئے تھے تو رات کو کیوں اٹھائے گئے؟ کیا خدا تعالیٰ کو ڈر تھا کہ دن کے وقت کہیں یہود مسیح کو آسمان پر جاتا نہ دیکھ لیں اور وہ بھی آسمان پر نہ پہنچ جائیں؟ اگر دن کے وقت خدا تعالیٰ مسیح کو آسمان پر لے جاتا تو کئی یہ معجزہ دیکھ کر آپ پر ایمان لے آتے.ورنہ کم از کم اتمام حجت تو ہو جاتی.اگر خدا تعالیٰ مسیح علیہ السلام کے جسم کو ایک خاص سمت لے گیا تو ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ جہاتِ ستہ میں سے صرف او پر کی سمت میں ہے.باقی پانچ جہات یعنی (مغرب ، مشرق ، شمال ، جنوب اور نیچے ) کو خدا تعالیٰ سے خالی ماننا پڑے گا.کیا خدا تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں ہے.؟ اگر خدا تعالیٰ عرش پر ہے تو مسیح دوسرے آسمان پر کیوں ہیں ؟ وہاں تو آپ کے ساتھ حضرت بیچی بھی ہیں.کیا وہ بھی جسم سمیت وہاں پر ہیں؟ ( الیاس ستار کو نامعلوم کس نے بتایا ہے کہ عیسی علیہ السلام تیسرے آسمان پر ہیں.) مسیح کو بیٹی کے ساتھ ایک ہی جگہ دیکھنا میسیج بجسم خاکی برزخی عالم میں کیسے چلے گئے؟ وہاں تو روح جاتی ہے جسم خا کی نہیں جاسکتا.مذکورہ بالا استفسارات کے علاوہ اسی نوع کے اور بھی سوال ہیں جو ان لوگوں کے بے معنی عقائد کے پیش نظر ذہن میں ابھرتے ہیں.ان میں سے کچھ کا ذکر ہم شیطان چوکڑی؟ کے آئینہ میں “ والے باب میں بھی کر آئے ہیں.اس لئے یہاں ہم انہی چند سوالات پر اکتفا کرتے ہوئے الیاس ستار کو ایک بار پھر یہ توجہ دلاتے ہیں کہ یہ عقیدہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر جسم عنصری اٹھائے گئے ، نصاری نے مسلمانوں میں سرایت کیا ہے.اس عقیدہ کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.
618 (8) برنباس کی انجیل الیاس ستار کے لئے مایوسی کا پیغام الیاس ستار پمفلٹ ” کیا احمدی جواب دے سکتے ہیں “ میں تحریر کرتا ہے کہ " مرز اصاحب اپنی کتاب " مسیح ہندوستان میں“ کے صفحہ 21،20 پر لکھتے ہیں ان سب امور کے بعد ایک اور بات ملحوظ رکھنے کہ لائق ہے کہ برنباس کی انجیل میں جو لندن کہ کتب خانہ میں ہو گی لکھا ہے کے مسیح مصلوب نہیں ہوا اور نہ صلیب پر جان دی.اب ہم اس جگہ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ گو یہ کتاب انجیلوں میں داخل نہیں کی گئی اور بغیر کسی فیصلے کہ رڈ کر دی گئی مگر اس میں کیا شک ہے کہ یہ ایک پرانی کتاب ہے اور اسی زمانہ کی ہے جب دوسری انجیلیں لکھی گئیں کیا ہمیں اختیار نہیں کہ اس پرانی اور دیرینہ کتاب کو عہد قدیم کی ایک تاریخی کتاب سمجھ لیں اور تاریخی کتابوں کے مرتبہ پر رکھ کر اس سے فائدہ اٹھائیں.“ اس کے بعد الیاس ستار نے بے مقصد تبصرے کئے ہیں اور پھر لکھا ہے کہ ”غالبا مرزا صاحب نے برنباس کی انجیل، خود نہیں پڑھی تھی کیونکہ ”برنباس کی انجیل میں صاف لکھا ہے کہ حضرت محمد آخری نبی ہوں گے اور ان کے بعد صرف جھوٹے نبی آئیں گے.“ کیا ہے کہ آئے گی.پھر اس نے برنباس کی انجیل میں سے اسی نوع کے اور اقتباسات کے ساتھ یہ اقتباس بھی درج یسوع نے جواب دیا ” اس کے بعد خدا کے بھیجے ہوئے بچے نبی نہیں آئیں گے مگر جھوٹے نبیوں کی بڑی تعداد معزز قارئین! کتاب ” مسیح ہندستان میں ایک مامور من اللہ کی کتاب ہے جو اپنی صداقت کو خود ظاہر کرتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس میں مذکور اس سادہ سے فقرہ کی بھی الیاس ستار کو سمجھ نہیں آئی کہ " کیا ہمیں اختیار نہیں کہ اس پرانی اور دیرینہ کتاب کو عہد قدیم کی ایک تاریخی کتاب سمجھ لیں اور تاریخی کتابوں کے مرتبہ پر رکھ کر اس سے فائدہ اٹھائیں.الیاس ستار کو اتنا بھی شعور نہیں کہ صلیب کا واقعہ
619 ایک تاریخی حیثیت بھی رکھتا ہے.جس کو محفوظ کرتے ہوئے قرآن کریم نے حضرت عیسی کی صلیبی موت سے نجات کا ذکر فر مایا اور انا جیل نے بھی ایسے قطعی ثبوت مہیا کئے ہیں کہ جن سے یہ تاریخی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو یقینی طور پر صلیبی موت سے بچالیا تھا.لیکن آنحضرت کی امت میں ایک نبی کی آمد امتِ مسلمہ کا ایسا مسلّمہ اور متفقہ عقیدہ ہے جو ایمانیات سے تعلق رکھتا ہے.ایک مسلمان کے ایمان کا منبع قرآن کریم اور اس کے بعد سنتِ نبوی اور پھر احادیث صحیحہ ہیں ، نہ کہ انجیل اور وہ بھی ایسی کہ جس کو محض تاریخ کی ایک کتاب ہی کا درجہ دیا جا سکتا ہے، اس سے بڑھ کر اس کی کوئی حیثیت نہیں.ایسی انجیل پر الیاس ستار نے اگر اپنے ایمان کی بنیاد رکھ کر آنے والے مسیح کو بیک جنبش قلم جھوٹا نبی قرار دیدیا ہے تو یہ اس کی اپنی گمراہی کی تین دلیل تو ہے مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا بیان پر ایک ذرہ بھر زد نہیں پڑتی.یہ لوگ جس عیسی کی آخری زمانہ میں آمد کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ یہ آنے والا مسیح فی الحقیقت وہی حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جو بنی اسرائیل کے لئے نبی تھے.تو یہ لوگ برنباس کی انجیل پر تکیہ کر کے اس مسیح کو کیسے لائیں گے جسکے لئے وہ یہ امید بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ ” جب حضرت عیسی دنیا میں آئیں گے تو وہ نہ صرف دقبال کو ماریں گے بلکہ مرزا صاحب کی احمدیت کو بھی ختم کر دیں گے.“ الیاس ستار کو یہ تو علم ہونا چاہئے تھا کہ تاریخی کتاب کا درجہ کیا ہوتا ہے.وہ انجیل برنباس کو خوامخواہ قرآن کریم کے مرتبہ پر رکھ کر اس کی ہر بات کو قابلِ ایمان و تقلید بنارہا ہے.جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دلیل فقط قرآن کریم پر استوار کی ہے.آپ نے انجیل برنباس پر اپنے بیان کی کوئی بنا نہیں رکھی بلکہ اس کو محض ایک تاریخی درجہ پر رکھ کر ایک تائیدی ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے اور ایک ایسی تاریخی حقیقت اور سچائی کی طرف توجہ دلائی ہے جس کی تصدیق حضرت عیسی علیہ السلام نے خود فرمائی تھی.اسی سچائی کو قرآن کریم نے بھی بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دلیل کا سر چشمہ قرآن کریم ہے.باقی سب کتب یا علوم اس قرآنی دلیل کے لئے تائیدی حیثیت رکھتے ہیں.جو عبارت الیاس ستار نے کتاب ” مسیح ہندوستان میں کی تحریر کی ہے، اس سے اگلا فقرہ یہ ہے
620 ” اور کیا اس کتاب کے پڑھنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ مسیح علیہ السلام کے صلیب کے وقت تمام لوگ اس بات پر اتفاق نہیں رکھتے تھے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے ؟“ یاستفہامیہ فقرہ ایک تاریخی حقیقت پر مبنی ہے جسے الیاس ستار نے جان بوجھ کر درج نہیں کیا اور اگر اس میں کوئی بھی نہ ہوتی اور واقعہ وہ جماعت احمدیہ سے علمی مقابلہ کی اہلیت رکھتا ہوتا تو وہ یہ تحقیق کر کے ثابت کرتا کہ برنباس کی اس انجیل کے پڑھنے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ صلیب کے وقت تمام لوگ اس بات پر اتفاق نہیں رکھتے تھے کہ حضرت عیسی صلیب پر فوت ہو گئے.برنباس کی انجیل تو ان کے اپنے بنیادی مسلک کی دھجیاں بکھیر رہی ہے اور وہ اس پر ایمان و تقلید کی بنیاد رکھ کر مامور من اللہ اور امام الزمان علیہ السلام پر حملہ کر رہا ہے.انجیل برنباس واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسی کی اس کرہ ارض پر زندگی کا بین ثبوت ہے اور حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اس مذکورہ بالا تحریر کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے.انجیل برنباس میں مذکور حسب ذیل فقرہ کہ یسوع نے جواب دیا کہ اس کے بعد خدا کے بھیجے ہوئے نبی نہیں آئیں گے مگر جھوٹے نبیوں کی بڑی تعداد آئے گی.“ اس پر الیاس ستار بہت خوش ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی سچا نبی نہیں آسکتا.لیکن وہ اگر ذرا عقل سے کام لیتا تو اس پر یہ واضح ہو جاتا کہ یہ فقرہ صرف اور صرف خود انہی کے لئے موت کا تازیانہ ہے، ہمارے لئے تو اس کا مفہوم وہی ہے جو آنحضرت ﷺ کی حدیث لا نبی بعدی “ کا ہے اور اس کی تشریح بھی وہی درست ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمائی.اس مفہوم اور تشریح کے برخلاف نہ تو برنباس کے ترجمہ کی کوئی حیثیت باقی رہتی ہے اور نہ ہی اس کی کسی تشریح کی.حضرت عائشہ نے جو مفہوم بیان فرمایا ہے اور پھر اس کے مطابق آئمہ سلف نے جو تشریحات بیان کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کے آنحضرت ے کے بعد تشریعی نبوت کلیۂ بند ہے لیکن غیر تشریعی نبوت جو آپ ﷺ کی اتباع میں آپ کے امتی کومل سکتی ہے، ہرگز بند نہیں ہوئی.پس تشریعی اور مستقل نبوت کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” نبی بعدی، یعنی میرے بعد کوئی نبی شرع جدید لیکر نہیں آئے گا.چنانچہ حسب ذیل آئمہ سلف اور بزرگانِ امت اپنے اسی مسلک کو بیان کرتے ہیں جو جماعت احمدیہ کا ہے.الله
621 حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت امام ابن قتیبہ ، حضرت امام محمد طاہر، حضرت مجد دالف ثانی ، حضرت شیخ احمد سر ہندیؒ ، حضرت امام محی الدین ابن العربی ، حضرت امام ابو جعفر صادق ، حضرت امام عبد الوہاب شعرائی ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، حضرت الشیخ عبدالقادر الکر دستانی ، حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں ، حضرت سید عبدالکریم جیلانی ، حضرت شیخ بالی آفندی ، حضرت مولانا جلال الدین رومی کے مرشد طریقت حضرت ابوسعید مبارک ابن علی مخزومی ، حضرت محمد بن علی شوکائی، حضرت امام محمد بن عبدالباقی زرقانی ، حضرت ابوالحسن شریف رضی" ، حضرت شیخ ابو عبدالله محمدالحسن احکیم الترمذی ، حضرت امام فخر الدین الرازی، حضرت امام عبد الرحمن ابن خلدون ، حضرت شاہ بدیع الدین مدار ، حضرت ملا علی قاریؒ ، حضرت شیخ نوشاہ گنج.اور آخر میں الیاس ستار وغیرہ کے پیرومرشد بانی دارالعلوم دیو بند مولا نا محمد قاسم نانوتوی کا نام آتا ہے جو ہمارے مسلک کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں.”اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی یہ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.“ ( تحذیر الناس - صفحہ 46 مطبوعہ مکتبہ قاسم العلوم کراچی - 1976 ) الیاس صاحب! آپ ایک ایسی انجیل پر بغلیں بجاتے ہیں اور اسے جزو ایمان سمجھتے ہیں جسے محض تاریخ کے مرتبہ کی ایک کتاب قرار دیا جا سکتا ہے.اس میں مذکور جس عقیدہ کو آپ نے اپنایا ہے، اس عقیدہ کو غلط قرار دیتے ہوئے آپ کے پیر ومرشد مولا نا محمد قاسم نانوتوی فرماتے ہیں: عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ ﷺ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تأخیر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ہاں اگر اس وصف کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تا تیر زمانی صحیح ہوسکتی ہے.مگر میں یہ جانتا ہوں کہ اہلِ اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی.“ ( تحذیر الناس.صفحہ 3 - مطبوعہ مکتبہ قاسم العلوم کراچی 1976) پس یہ عقیدہ کہ آنحضرت ﷺ زمانہ کہ لحاظ سے سب سے آخر میں ہیں.آپ کے بعد جو بھی آئیگا جھوٹا ہوگا کیونکہ آپ زمانی لحاظ سے سب سے آخری ہیں، ایسا عقیدہ ہے جو اہل اسلام میں سے کسی کو گوارا
622 نہیں.مگر الیاس صاحب! آپ کو یہ عقیدہ گوارا ہے.نیز یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ حضرت ابوعبداللہ محمد بن علی حسین الکلیم الترمذی (التوئی 206 ) کیا فرماتے ہیں: الجهلة “ نظن أن خاتم النبيّن تأويله أنه آخرهم مبعثاً فأى منقبة في هذا ؟هذا تأويل البله ( کتاب خاتم الاولیاء صفحہ 341 المطبعة الكاثولیکبیہ بیروت لبنان) ترجمہ:.یہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ خاتم النبیین کی تاویل یہ ہے کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں.بھلا اس سے آپ کی کیا فضیلت وشان ہے؟ اور اس میں کونسی علمی بات ہے یہ تو احمقوں اور جاہلوں کی (مرقس.باب 13 آیت 27) تاویل ہے.یہ تو محض ایک آئینہ ہے جو آپ کو دکھایا گیا ہے.اس مسئلہ پر ہم صفحہ 159 پر " ترجمہ و معانی میں تحریف کے الزام کے جواب میں تفصیلی بحث کر آئے ہیں.چونکہ آپ اناجیل کی بات فورا مان لیتے ہیں اس لئے اس مسئلہ کے حل کے لئے اگر آپ صرف انا جیل ہی کی طرف رخ کرتے تو بھی آپ کو علم ہو جاتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے خود بھی اپنی دوسری آمد کی خبر دی اور فرمایا کہ لوگ ابنِ آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گئے الیاس صاحب ! انہی الفاظ کے مطابق آپ لوگوں کا پختہ عقیدہ ہے کہ وہی مسیح ناصری علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے جو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے.لیکن تعجب ہے آپ کی عقل پر کہ ساتھ ساتھ آپ برنباس کی انجیل پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو بھی آئیگا وہ جھوٹا ہی ہوگا.پس آپ تو اس مسیح سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جسکو آسمان سے اترتا دیکھنے کے لئے آپ کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں.آپ لوگوں کے نصیب میں صرف اور صرف محرومیت ہے آپ کے لئے تو امید کی کوئی کرن بھی باقی نہیں رہی.اسلئے کہ بقول آپ کے اب جو بھی آئے گا وہ جھوٹا ہی ہوگا.(9) A.D
623 وو اپنے ایک رسالہ میں الیاس ستار نے لکھا ہے کہ عیسوی کیلنڈر میں A.D لکھا جاتا ہے جس کے عام طور پر قادیانی اور غیر قادیانی حضرات یہ معنی لیتے ہیں کہ A.D انگلش الفاظ After Death (یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کے بعد ) کے مخفف ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے 66 ہم تو حیران ہیں کہ ایک چھوٹی سی بات جو کہ اس کو اس بڑھاپے کی عمر میں پہنچ کر معلوم ہوئی ہے اور وہ اس پر اس طرح اچھل پڑا ہے جیسے کوئی تیر مارلیا ہے.عیسوی کیلنڈر میں جو A.D لکھا جاتا ہے اس کا علم اس کو آج ہوا ہے جبکہ یہ عام ڈکشنریوں میں مخففات (Abbreviations) کے باب میں شروع میں ہی تحریر ہے اور ہر ڈکشنری میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ یہ کس کا مخفف ہے.اور اس کا مطلب کیا ہے.اس کو ایک طفل مکتب بھی دیکھ سکتا ہے لیکن بہر حال خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کو بالآخر بڑھاپے میں اس کا علم ہو ہی گیا ہے.ورنہ بعید نہیں تھا کہ وہ اس کے علم کے بغیر ہی اس دنیا سے کوچ کر جاتا.الیاس صاحب ! اگر کوئی احمدی لاعلمی سے اس کا مطلب After Death لیتا ہے تو اس سے احمدیت کی تکذیب کا کونسا نکتہ آپ کے ہاتھ آ گیا ہے؟ کسی ایک شخص کی کچھ ذاتی لاعلمی کی بناء پر آپ جماعت احمدیہ کو کیسے متہم کر سکتے ہیں.البتہ یہ ممکن ہے کہ اگر کوئی غیر احمدی اس کا معنی After Death کرتا ہے تو اسے اس کی فطرت کی سچائی کی آواز کی دلیل قرار دیا جاسکتا ہے.کیونکہ کسی انسان کا دو ہزار سال تک زندہ رہنا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ غیر فطری بھی ہے اور ازلی ابدی سچائیوں کے برخلاف ہے.بہر حال ہم آپ کو اس عظیم الشان تحقیق پر مہار کہا دیتے ہیں کہ آپ نے ساری عمر کی کوشش کے بعد بالآ خر A.D کا معنی معلوم کر لیا ہے.اور بقول محمد حنیف موتی والا یہ ختم نبوت کا معجزہ ہے اور بقول مفتی بشیر جمال یہ مضمون اللہ تعالیٰ کی جانب سے الہامی ہے (حالانکہ آپ نے گڈ نیوز بائیل سے لیا ہے ) اور اس پر یوسف لدھیانوی نے آپ کو انعام سے بھی نوازا ہے.ماشاء اللہ (10) مجر درہنے کی ترغیب
624 الیاس ستار ” کیا احمدی جواب دے سکتے ہیں“ میں لکھتا ہے "مرزا صاحب اپنی کتاب " مسیح ہندوستان میں لکھتے ہیں.(صفحہ 78) اور جیسا کہ انجیل میں مجر درہنے کی ترغیب دی گئی ہے ایسا ہی بدھ کی تعلیم میں ترغیب ہے اور جیسا کہ مسیح کو صلیب پر کھینچنے کے بعد زلزلہ آیا ایسا ہی لکھا ہے کہ بدھ کے مرنے کے بعد زلزلہ آیا.پس اس تمام مطابقت کا اصل باعث یہ ہی ہے کہ بدھ مذہب والوں کی خوش قسمتی سے مسیح ہندوستان میں آیا.اور ایک زمانہ دراز تک بدھ مذہب والوں میں رہا اور اس کے سوانح اور اس کی پاک تعلیم پر انہوں نے خوب اطلاع پائی.لہذا یہ ضروری امر تھا کہ بہت سا حصہ اس تعلیم اور رسوم کا ان میں جاری ہو جاتا کیونکہ ان کی نگاہ میں مسیح عزت کی نظر سے دیکھا گیا.اور بدھ قرار دیا گیا اس لئے ان لوگوں نے اس کی باتوں کو اپنی کتابوں میں لکھا اور گوتم بدھ کی طرف منسوب کر دیا.“ اس اقتباس کے مطابق مرزا صاحب کہتے ہیں کہ حضرت عیسی نے عیسائیوں کو مجر درہنے کی ترغیب دی اور بدھ مذہب والوں کو بھی اس بات کی ترغیب دی جب کہ قرآن اس کے خلاف کہتا ہے.قرآن کی اس آیت پر غور کریں.ترجمہ " پھر ان کے پیچھے ان ہی کے قدموں پر ( اور ) پیغمبر بھیجے اور ان کے پیچھے مریم کے بیٹے عیسی کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت کی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی اور لذات سے کنارہ کشی کی تو انہوں نے خود ایک نئی بات نکال لی.ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر انہوں نے ) اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (خود ایسا کر لیا تھا) پھر جیسا اس کو نبھانا چاہئے تھا نباہ بھی نہ سکے پس جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے ان کا اجر دیا اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں“ (سورہ الحدید : 27) جب اللہ نے فرما دیا کہ حضرت عیسی نے لذات سے کنارہ کش ہو کر رہنے کی تعلیم نہیں دی تو مرزا صاحب کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسی نے لذات سے کنارہ کشی کی تعلیم دی.اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ لوگوں نے خود ہی لذات سے کنارہ کشی اختیار کرنی شروع کی تو مرزا صاحب کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسی نے اس کی تعلیم دی.کیا مرزا صاحب کی کتاب اللہ تعالیٰ کی کتاب پر سبقت لے گئی ؟ الجواب: - حضرت مرزا صاحب کی کوئی کتاب یا کسی اور کی کوئی کتاب اللہ تعالیٰ کی کتاب پر نہ سبقت لے گئی ہے نہ لے جاسکتی ہے.الیاس ستار نے محض اپنی طرف سے پہلے دو مختلف امور کو ایک ساتھ باندھا ہے اور پھر اپنے اعتراض کی بناء اس پر رکھ دی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اگر انجیل کی بات کی جارہی ہو تو پھر انجیل سے ہی ثابت کرنا چاہئے کہ وہ بات اس میں مذکور ہے یا نہیں.انجیل کا ہر حوالہ نہ قرآن کریم میں ہے نہ اس میں تلاش کیا جاسکتا ہے.
625 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تو نہیں لکھا کہ قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ السلام نے مجرد رہنے کی ترغیب دی.اگر آپ نے ایسا فرمایا ہوتا تو پھر آپ سے قرآنِ کریم کا حوالہ طلب کرنا جائز تھا.لیکن انجیل کے حوالہ کو قرآن کریم سے پیش کرنے کا مطالبہ کسی طرح جائز نہیں.انا جیل میں اگر ایسی تعلیم موجود ہے اور اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیا ہے تو یہ انا جیل کا مسئلہ ہے، قرآنِ کریم کا نہیں.قرآن کریم نے جیسا کہ مذکورہ بالا آیات سے ظاہر ہے.اس کی تصدیق نہیں فرمائی.نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو قرآنِ کریم کی طرف منسوب کیا ہے.آپ نے تو انجیل کی بات کی ہے.کیونکہ یہاں بحث یہ ہے کہ بدھ مذہب اور عیسائی مذہب میں ایک مطابقت پائی جاتی ہے اور دونوں کی مذہبی کتب اور ان کے مسلمات سے یہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے بیحد مشابہ ہیں.اس بحث میں قرآن کریم سے موازنہ کی تو بحث ہی کوئی نہیں.پس الیاس ستار اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکا یا پھر وہ جان بوجھ کرلوگوں کے لئے دھوکہ کا سامان کر رہا ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لکھا ہے کہ انجیل میں مجتر در بنے کی ترغیب دی گئی ہے.اس لئے اسے یہ بات انجیل میں تلاش کرنی چاہئے کہ وہاں یہ ہے کہ نہیں ہے.قرآن کریم میں انجیل کا ہر حوالہ تلاش کرنا بے حکمت بات ہے.(11) الیاس ستار لکھتا ہے کہ بدی اور شر کا مقابلہ ” مرزا صاحب کے مطابق بدی اور شر سے مقابلہ نہ کرنا حضرت عیسی کی اخلاقی تعلیمات میں ہے.مہربانی فرما کر قرآن کے حوالہ سے اس پر روشنی ڈالیں.مرزا صاحب کی کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ کا صفحہ 76 سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں.اور جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے کہ بدھ اور مسیح کی اخلاقی تعلیم میں اس قدر مشابہت اور مناسبت ہے کہ ہر ایک شخص تعجب کی نظر سے دیکھے گا جو دونوں تعلیموں پر اطلاع رکھتا ہوگا.مثلاً انجیلوں میں لکھا ہے.کہ شر کا مقابلہ نہ کریں.“
626 ( پمفلٹ.کیا احمدی جواب دے سکتے ہیں) اس کا جواب بھی وہی ہے جو مذکورہ بالا سطور میں دیا گیا ہے.انجیل میں یہ تعلیم موجود ہے کہ شر کا مقابلہ نہ کریں اس لئے اسے وہیں تلاش کرنا چاہئے.باقی جہاں تک ” قرآن کے حوالے سے اس پر روشنی کا تعلق ہے، وہ ایک الگ مضمون ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں قرآن کریم اور انجیل کا موازنہ کیا ہے وہاں اس مضمون پر بڑی شرح وبسط سے تفصیلی بحث فرمائی ہے جو آپ کی متعدد کتب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے.الیاس ستار کی رہنمائی کے لئے صرف دو کتابوں یعنی ” کرامات الصادقین“ اور سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ کے نام پیش ہیں.(12) دل میں کچھ ، زبان پر کچھ الیاس ستار نے لکھا ہے کہ مرزا صاحب کے تحت گوتم بدھ نبی یا رسول تھا.جبکہ ایک جملہ میں حضرت عیسیٰ کے ساتھ ” علیہ السلام لکھتے ہیں اور گوتم کے نام کے ساتھ ” علیہ السلام نہیں لکھتے.کیا مرزا صاحب خود بھی مطمئن نہیں تھے کہ گوتم بدھ اللہ تعالیٰ کا سچا نبی یا رسول تھا ؟“ کیا ہے کہ وو پھر اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ کا حوالہ دے کر یہ سوال.کیا آپ ایسا لکھ سکتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ..؟.کیا یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں تو ہین تو نہیں ہے.؟“ قارئین کرام! حیرت ہوتی ہے کہ الیاس ستار نے یہ استدلال کس طرح کر لیا کہ چونکہ حضرت گوتم بدھ کے ساتھ حضرت مرزا صاحب نے ”علیہ السلام نہیں لکھا اس لئے آپ انہیں نبی نہ مانتے تھے.در اصل اس نے حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام پر اندھا دھند حملہ تو کر دیا ہے مگر یہ نہیں دیکھا کہ اس قسم کی نظیر میں اسلامی لٹریچر میں عام ملتی ہیں حتی کہ کتب احادیث میں بھی موجود ہیں.مثلاً صحیح بخاری میں’ کتاب
627 الانبیاء میں ایک نبی کے ساتھ علیہ السلام“ لکھا گیا ہے تو دوسرے کے ساتھ نہیں.الیاس ستار نے چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کی مثال پیش کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ " کیا آپ لکھ سکتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ...؟“ تو اس کا جواب بھی حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کی مثال ہی میں ملاحظہ فرمائیں.چنانچہ عرض ہے کہ صحیح بخاری میں ایک ہی باب کے تحت ایک حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ علیہ السلام مذکور ہے اور دوسری حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ” علیہ السلام نہیں فرمایا بلکہ صرف وو موسی“ لکھا گیا.چنانچہ ملاحظہ فرمائیں.لکھا ہے.اختتن ابراهيم عليه السلام ابراہیم علیہ السلام نے ختنہ کیا.دوسری حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں یہ فرمایا واما موسى فجعد أدم موسیٰ کا رنگ گندمی تھا.( صحیح بخاری کتاب الانبیاء ، باب قول الله تعالی واتخذ اللہ ابراہیم خلیل) - مطبو 1982 - حامد اینڈ کمپنی لاہور ) پس کیا الیاس ستار از راه تمر دو گستاخی ان احادیث پر بھی نعوذ باللہ نعوذ باللہ وہی اعتراض اٹھائے گا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو نبی سمجھا گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبی نہیں سمجھا گیا.اور یہ کہ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توہین نہیں؟ بعینم کتب احادیث میں بڑی کثرت کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ” علیہ السلام نہیں لکھا گیا تو کیا الیاس ستار اس طرز سے بھی وہی نتیجہ اخذ کرے گا جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر سے اخذ کیا ہے؟ الیاس صاحب! خود آپ کے پمفلٹ اور رسالے بھی ایسی مثالوں سے بھر پور ہیں.چنانچہ آپ نے آنحضرت ﷺ کے اسم مبارک کے ساتھ بھی (صلی اللہ علیہ وسلم ) نہیں لکھا.کیا آپ آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللہ ہی نہیں سمجھتے ؟؟
628 (13) اخفائے حق کے لئے کذب صریح الیاس ستار صاحب! آپ نے جھوٹ کا تسلسل قائم اور جاری رکھتے ہوئے چوہدری مبشر احمد کے ایک بیان کا ذکر کیا ہے اور اسے حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ کا نواسہ قرار دیا ہے.چونکہ بوقت ضرورت کذب صریح سے کام لینا آپ کا غالبا مذہبی فریضہ ہے اس لئے آپ کو خود بخو دضرورت پیدا کر کے بڑا سے بڑا جھوٹ بولنے پر بھی کوئی باک نہیں.پس آپ کو شاباش ہو کہ آپ نے اپنے پیر ومرشد مولوی رشید الدین گنگوہی دیوبندی کے فتوی پر پوری طرح کار بند ہیں.ان کا فتوی یہ ہے کہ احیائے حق کے لئے کذب درست ہے مگر تا امکان تعریض سے کام لیوے.اگر ناچار ہو تو كذب صریح بوئے (فتاوی رشید یہ کامل مبوب، صفحه 460 از مولوی رشید احمد گنگوہی ناشر محمد سعید اینڈ سنز متقابل مولوی مسافر خانہ کراچی) مولوی مودودی صاحب بھی مسلک کے لحاظ سے آپ لوگوں کے پیشوا ہیں، گھبرائیں نہیں ، وہ بھی یہی فتویٰ دیتے ہیں کہ.” راستبازی، صداقت شعاری، اسلام کے اہم ترین اصولوں میں سے ہیں اور جھوٹ اس کی نگاہ میں ایک بدترین برائی ہے لیکن عملی زندگی کی بعض ضرورتیں ایسی ہیں جن کی خاطر جھوٹ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ بعض حالات میں اس کے وجوب تک کا فتویٰ دیا گیا ہے.“ (ماہنامہ.ترجمان القرآن.ماہ مئی 1958 صفحہ 54) پس مبارک ہو کہ آپ کے پیر و مرشد نے آپ لوگوں کے لئے ایک بدترین برائی کے وجوب کی راہ بھی ہموار کر دی ہے.اب اس پر پورے اعتماد سے اور ناز سے قدم اٹھائیں اور دنیا جہاں کے جھوٹ بول جائیں.جناب الیاس ستار صاحب! آپ ناچار تو نہیں ہیں لیکن یہ آپ کا صریح جھوٹ ہے.حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ کے کسی نواسے کا نام مبشر احمد نہیں نہ ہی ان کا کوئی نواسہ ” چوہدری“ ہے.جھوٹوں پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے.آپ کا مذکورہ بالا بیان اسی لعنت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آپ
629 نے بقول مودودی صاحب ایک بدترین برائی کی نجاست پر منہ مارا ہے.اب آپ خود ہی بتا ئیں کہ آپ کے مسلک کی کیا حیثیت ہے کہ اُس کی سچائی ایک بدترین برائی کے بغیر ظاہر ہی نہیں ہوتی.آپ کی اس بدترین برائی کے بارہ میں مفتی بشیر جمال صاحب رقمطراز ہیں کہ یہ مضمون اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے.یاللعجب اور آپ کی اس بدترین برائی کومحمد حنیف موتی والا ختم نبوت کا معجزہ قرار دیتے ہیں اور پھر آپ کی اس بدترین برائی پر آپ کے لیڈر اور رشید گنگوہی صاحب کے فتوی پر ” اول المومنین جناب یوسف لدھیانوی صاحب آپ کو سرٹیفیکیٹ ایشو کرتے ہیں.آپ کو مبارک ہو.دیسے آپ کبھی یہ بھی ضرور سوچیں کہ آپ احیائے حق کے لئے نہیں بلکہ اخفائے حق اور احیائے کذب کے لئے کذب صریح بولتے ہیں.(14) ایک کے بدلہ میں لاکھوں الیاس ستار صاحب! آپ نے ایک شخص احمد بخش چنا کے ارتداد کا ڈھونگ رچایا ہے.احمد بخش چنا کون ہے یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن اگر آپکا یہ دعوی ہے کہ وہ احمد بیت سے مرتد ہو کر آپ لوگوں کے ساتھ آملا ہے تو آپ کو بہت مبارک ہو.احمد بخش چنا کی مثال دیتے ہوئے آپ لوگوں کو کچھ تو شرم آنی چاہئے آپ لوگوں کے سالہا سال کے جھوٹ ، اخراجات، اور جماعت احمدیہ کے خلاف تمام فرقوں کی اجتماعی کوشش کے باوجود ایک شخص آپ کے ساتھ ملا ہے جبکہ صرف اکیلی جماعت احمدیہ کی ادنی اسی ریتمہی کوششوں میں اللہ تعالی اتنی برکت ڈالتا ہے کہ آپ لوگوں میں سے ہر سال لاکھوں افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو کر حضرت محمد ﷺ کی غلامی میں آتے ہیں اور اسلام کی پاکیزہ تعلیم پرعمل کرنے لگتے ہیں جھوٹ کو چھوڑ کر بچ اپناتے ہیں ان حالات میں اگر ایک شخص سچ کو چھوڑ کر صریح کذب کے فتووں پر کار بند ہو گیا ہے تو کیا یہ آپ لوگوں کی بڑی کامیابی ہے؟
630 اب اس شخص کو کھلی چھٹی ہے کے آپ لوگوں کی طرح عقیدہ رکھے کہ قرآن کریم کا جھوٹا ہوناممکن ہے اور اگر آپ کبھی کھانا اونچار کھادیں تو وہ قرآن کریم پر پاؤں رکھ کر بھی اسے اتار سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کو کسی کے نیچے بھی ڈال سکتا ہے اور خواب میں تو قرآن شریف پر (نعوذ باللہ ) پیشاب بھی کر سکتا ہے جیسا کہ آپ کے حضرت نے فرمایا ہے کہ یہ تو بہت اچھا خواب ہے.دیکھیں افاضات یومیہ تھانوی اور فتاوی رشیدیہ اور مزید المجید تھانوی.وغیرہ) جناب الیاس ستار صاحب! آپ کو ایک شخص کے ارتداد پر اچھل پڑنے کی بجائے فکر ہونی چاہئے تھی.کیونکہ قرآنِ کریم فرماتا ہے: يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْامَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِيَ اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّونَة (المائده: 55) ترجمہ: اے مومنو!اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو (اسکے بدلے اللہ تعالیٰ ایک قوم لائیگا جس سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرنے والے ہونگے.کلام الہی میں مذکور اس سچائی پر خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اگر ایک شخص جماعتِ احمدیہ سے مرتد ہوتا ہے تو اس کے بدلے خدا تعالیٰ لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں افراد کو جماعت میں داخل کر دیتا ہے جو يحبّهم و يحبّونہ کے مصداق ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سے پیار کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے پیار کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ علامت تجچی جماعت کی بیان فرمائی ہے.پس اس منہاج پر بھی آپ ہی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں.الغرض ہمیں تو خوشی ہے کہ ایک کے بدلے میں لاکھوں بلکہ کروڑوں ہمیں ملتے ہیں اور اگر آئندہ بھی آپ کو آپ جیسا کوئی ملے تو اس کو بیشک اپنے ساتھ ملالیں تا کہ خدا تعالیٰ اس کے بدلے ہمیں پوری کی پوری قوم دیدے لیکن جناب الیاس صاحب ! حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایک کے جانے کا بھی دکھ ہوتا ہے کیونکہ آپ لوگوں کے ساتھ مل کر وہ بھی فتاوی رشیدیہ کے مطابق خدا تعالیٰ کو جھوٹ بولنے پر قادر سمجھنے لگتا ہے (نعوذ باللہ ) اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے فتوے مندرجہ ” حفظ الایمان کے مطابق آنحضرت عہ کے علم کو بچوں ، مجنونوں اور جانوروں کے علم کے برابر سمجھنے لگتا ہے.اور ماں کے ساتھ زنا عقلاً جائز
631 سمجھتا ہے.اور خلیل احمد صاحب کی ” براہین قاطعہ کے مطابق شیطان کے علم کو آنحضرت ﷺ کے علم سے وسیع تر خیال کرتا ہے.اور حاجی امداداللہ صاحب کو رحمتہ للعالمین کہنے لگتا ہے (نعوذ باللہ ) اور اس کا کلمہ "لا اله الا الله اشرف على رسول الله اور اس کا درود، (نعوذ باللہ ) اللهم صل على سيدنا و نبينا ومولانا اشرف على ہو جاتا ہے.ملاحظہ فرمائیں.رسالہ الامداد.بابت ماہ صفر 1376 صفحہ 45 ان کے علاوہ بھی آپ لوگوں کی اور بہت سی باتیں ہیں جن کی وجہ سے ہمیں دکھ ہوتا ہے کے حقیقی اسلام کی خالص تعلیم کو چھوڑ کر وہ بھی آپ لوگوں کے ساتھ مل کر مذکورہ بالا تعلیمات پر تسلی پانے لگتا ہے.(15) ہمارا قرض تو اتاریں قارئین کرام! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا.الیاس ستار نے جو چیلنج دیئے تھے ہم نے ان کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور بھر پور دلائل کے ساتھ اس کی ایک ایک تعلی کو جھوٹا ثابت کیا ہے.اس کا قطعی جھوٹا ہونا اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ اس کے پیش کردہ اعتراضات کو اس کے بزرگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہامی ہے کا سرٹیفیکیٹ دیتے ہیں.حالانکہ یہ لوگ عقیدہ یہ رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے الہام کا دروازہ بند کر دیا ہوا ہے اور یہ الہام کے قطعی منکر ہیں.بیان کا اندرونی جھوٹ ہے جو ان کی باہر کی قلعی کو بھی خوب خوب کھول رہا ہے.پس ان کا جھوٹا ہونا تو اظہر من الشمس ہے.لیکن جہاں تک ان کے چیلنج کا تعلق ہے جو یہ بار بار پیش کرتے ہیں تو اس بارہ میں عرض ہے کہ ان لوگوں نے کیا چیلنج دینا ہے؟ محرومیت کے شکار اور شکست خوردہ کے چیلنج کی تو حیثیت ہی کوئی نہیں.جو چیلنج یہ لوگ دیتے ہیں اس سے دس گنا بلکہ سو گنا زیادہ روپیہ ہم ان کو دیں گے جب یہ اپنے مزعومہ میسیج کو اتار کر دکھا ئیں گے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام بجسم عنصری نہ آسمان پر گئے ، نہ وہ وہاں زندہ موجود ہیں اور نہ ہی وہ آسمان سے کبھی اتریں
632 گے.البتہ جس مسیح نے آنا تھا وہ آچکا.اس آنے والے مسیح موعود و مہدی معہود نے آج سے سو (100) سال قبل یہ اعلان فرمایا تھا کہ وو یا درکھو! کوئی آسمان سے نہیں اترے گا ہمارے مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان کو آسمان سے اترتا نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے کوئی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی ، پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آ گئی مگر مریم کا بیٹا اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.“ (تذکرۃ الشہادتین.مطبوعہ 1903 ء.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67) 1903ء میں جولوگ زندہ موجود تھے انہوں نے بعد اپنی موت تک دیکھا مگر کوئی آسمان سے نہ اترا اور اس پیشگوئی کی صداقت کے ایک تہائی حصہ پر مہر تصدیق ثبت کر گئے پھر ان کی اولا د نے بھی یہی مشاہدہ کیا اور مایوسی کی پر چھائیوں میں موت کی آغوش میں چلے گئے مگر کسی کو آسمان سے اتر تا ہوانہ دیکھا.پھر اس پیشگوئی کا دوسرا تہائی بھی پوری چمکار کے ساتھ اپنی صداقت دکھاتا ہوا تیسرے اور آخری تہائی کی طرف یہ اشارہ کرتا ہوا گذر گیا کہ یہ حصہ بھی اپنی پوری شان کے ساتھ پورا ہوگا.اور دیکھو کہ وہ عملاً پورا ہو رہا ہے اور اب ان کی اولا د در اولاد یہ گواہی دے رہی ہے کہ آسمان سے نہ کوئی اترا ہے اور نہ کسی کے اترنے کے کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں البتہ پر دہ عالم پر ان کی اس عقیدہ سے بیزاری کے سائے گہرے سے گہرے تر ہوتے چلے جارہے ہیں.ہم ان کو یقین دلاتے ہیں اور خدائی نوشتوں کے افق پر نمایاں لکھا ہوا دکھاتے ہیں کہ نہ کبھی آسمان سے کوئی اترا ہے نہ اترے گا.نہ مسیح ناصری علیہ السلام اب تک زندہ ہیں اور نہ وہ اسے کبھی آسمان سے اتار سکیں گے.چنانچہ اس بنیادی اختلاف کے پیش نظر ایک اور واضح کھلا اور انتہائی حقیقت پسندانہ اعلان ، امام پیش اور ، جماعت احمدیہ سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 7 اپریل 1985 ء کو بمقام لنڈن جلسہ سالانہ کے موقع پر فرمایا تھا.جس کی طرف نہ ان لوگوں نے خود نظر کی اور نہ ہی
633 اس کی طرف عوام الناس کی رہنمائی کی.درحقیقت یہ لوگ اپنے مزعومہ مسیح کی آمد سے بالکل مایوس اور نامید ہو چکے ہیں.لیکن اتمام حجت کے لئے ہم ایک دفعہ پھر اس پر شوکت اور پر تحدی اعلان کی طرف ان کی توجہ مبذول کراتے ہیں.چنانچہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے ان لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا." آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اتر کے ساتھ ان کے ( یعنی عیسی علیہ السلام کے ) آنے کی خبر دے رہے ہیں.اس لئے تمہیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اپنے مبینہ مفکرین اسلام کے پیچھے چلو گے یا حضرت محمد کے پیچھے چلو گے اور آنے والا وہ مسیح اختیار کرو گے جس کو امت موسوی سے نسبت ہے اور امت محمدیہ سے اس کو کوئی نسبت نہیں یا وہ مسیح اختیار کرو گے جو امت محمدیہ میں پیدا ہوا ، اسی امت سے نسبت رکھتا ہے اور محمد مصطفی ﷺ کا ہی غلام ہے.اب فیصلہ یہ کرنا ہے کہ موسوی مسیح پر امت راضی ہوگی یامحمدی مسیح پر ؟ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو مسیح محمدی پر راضی ہو گئے ہیں اور جہاں تک مسیح کے مقام کا تعلق ہے ہمارا بھی وہی عقیدہ ہے جو تمہارا ہے کہ امت محمدیہ میں آخرین میں جس مسیح نے آنا ہے وہ شریعت محمدیہ اور حضرت محمد مصطفے ﷺ کا کامل طور پر مطبع اور امتی نبی ہوگا.اس مسیح کے مقام کے بارہ میں ہمارا سر مو کوئی اختلاف نہیں.یہ بات ہم قطعی طور پر یقینی سمجھتے ہیں اور تم بھی یقینی سمجھتے ہو کہ آنے والا لا ز ما امتی نبی ہوگا.اور اس بات میں اختلاف ہی کوئی نہیں.اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ آخرین میں ظاہر ہونے والا موسوی امت سے تعلق رکھنے والا مسیح ہے یا امت محمدیہ میں عیسی بن مریم کے مثیل کے طور پر پیدا ہونے والا امتی نبی ؟ تمہارا اپنا عقیدہ ہے اور مسلّمہ عقیدہ ہے:." کہ جو شخص بھی مسیح کے نام پر آئے گا وہ لا ز ما نبی اللہ ہو گا.پرانا آئے گا یا نیا آئیگا یہ ایک الگ بحث ہے اور تمہارے بڑے بڑے علماء، تمہارے اپنے مفکرین یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ وہ ہوگا.یقیناً ا:.نبی اللہ --اور اسے نبوت سے عاری ماننے والا کا فر ہوگا بلکہ بعض عظیم بزرگوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ صلى الله ۲:.پرانا نہیں ہوگا..بلکہ بدنِ آخر سے متعلق ہو کر آئے گا یعنی پہلا جسم نہیں بلکہ دوسرا کوئی شخص ظہور کرے گا اور پھر یہ بھی خود آنحضور ﷺ کا فیصلہ ہے کہ مہدی اور عیسی دو الگ الگ وجود نہیں ہوں گے بلکہ ایک ہی وجود کے دو نام ہوں گے.لا المھدی الا عیسیٰ کا فرمانِ نبوی اس پر شاہد ناطق ہے.“ فرمایا:
634 " تم نا کام رہے ہو اور...ناکام رہوگے...اور کبھی عیسی بن مریم کو جو موسیٰ علیہ السلام کی امت کے نبی تھے زندہ نہیں کر سکو گے اور اگر وہ تمہارے خیال میں آسمان پر بیٹھے ہیں تو ہر گز تمہیں تو فیق نہیں ملے گی کہ ان کو آسمان سے اتار کر دکھا دو.نسلاً بعد نسل تم ان کا انتظار کرتے رہو مگر خدا کی قسم تمہاری یہ حسرت کبھی پوری (خطبہ جمعہ 7 اپریل 1985 لنڈن.و پمفلٹ.آسان فیصلہ ) نہیں ہوگی.“ اس بارہ میں امام جماعت احمدیہ کے مذکورہ بالا خطاب میں تمام دنیا کے معاندین کو جو چیلنج دیا گیا تھا، آج تک ان لوگوں کو قبول کرنے کی توفیق نہیں مل سکی.وہ چیلنج یہ تھا کہ اگر پرانے عیسی نے ہی امت کی رہنمائی کرنی ہے تو پورا زور لگاؤ.دعائیں کرو، سجدوں میں گریہ زاری کرو اور جس طرح بن پڑے مسیح کو ایک دفعہ آسمان سے اتار دو تو پھر یہ جھگڑا ایک دفعہ ختم ہو جائے گا.لیکن یاد رکھو! ناممکن اور محال ہے اور ہرگز ایسا نہیں ہوگا کہ جو شخص آسمان پر چڑھا ہی نہ ہو اور دیگر انبیاء کی طرح طبعی موت سے وفات پاچکا ہو ، وہ جسم سمیت آسمان سے نازل ہو جائے.پس سر کو پیٹو آسمان سے اب کوئی آتا نہیں اس مذکورہ بالا چیلنج کو پورا کرنا ان لوگوں کے بس میں تھا ، نہ ہے، نہ ہوگا.ان کو اس محرومی اور شکست کا احساس دلانے کے لئے اور یہ باور کرانے کے لئے کہ یہ کلیہ جھوٹے ہیں ، حضرت امام جماعت احمدیہ نے " عیسی ابن مریم کو آسمان سے اتارنے پر ایک کروڑ روپے کا انعام ایک اور چینج بھی دیا.آپ نے 1994ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں لنڈن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا " تم یہ یقین رکھتے ہو اور اپنے زعم میں کامل یقین رکھتے ہو کہ مسیح ابن مریم زندہ آسمان پر موجود ہیں اور آنحضرت لم اصدق الصادقین بیان فرماتے ہیں کہ ان کے اترے بغیر امت کے مسائل حل ہی نہیں ہوں گے.وہ اتریں گے تو یہ ذلت عزتوں میں تبدیل ہوگی.وہ اتریں گے تو مسلمانوں کو ایک عالمی غلبہ نصیب ہوگا...پس جو اصل مسئلہ ہے اس کے حل کی طرف توجہ کرو.اس صدی کے گذرنے میں اب چند سال باقی ہیں.میں وعدہ کرتا ہوں کہ تم سب مولوی مل کر اگر کسی طرح صدی سے پہلے پہلے مسیح کو اتار دو تو تم میں سے ہر ایک کو ایک کروڑ روپیہ دوں گا.صدی ختم ہو رہی ہے جلدی بڑی ہے اس لئے فیصلہ کرو.“
635 نیز آپ نے فرمایا ایک کروڑ روپیہ ہر مولوی کو دوں گا جو یہ دعوی ہی کر دے کہ اس کی کوشش سے اترا ہے اور اس کی دعائیں مقبول ہوئی تھیں.میں بحث نہیں کروں گا.ان کی بات مان جاؤں گا اور ایک ایک کروڑ روپے کی تھیلی ان کو پکڑا دی جائے گی.ہر مولوی جو دنیا کے پردے میں جہاں کہیں ہو وہ مسیح کو آسمان سے اتار دے، دعائیں کر کے، گریہ وزاری کر کے، جو چاہے کرے ایک دفعہ اسے آسمان سے اتار دے پھر وہ آئے اور ایک کروڑ روپیہ لے جائے.“ پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مسیح کو یہ کہاں اتار سکتے ہیں.میسیج تو بہت ہی پاک وجود ہے.دجال کے گدھے کو ہی پیدا کر دیں مجھے یہ بھی منظور ہے.مسیح کا اتر نا تو دور کی بات ہے اگر صدی ختم ہونے سے پہلے وہ دجال کا گدھا ہی بنا کر دکھا دو جس کے آئے بغیر مسیح نے نہیں آنا.تو پھر ایک ایک کروڑ روپیہ ہر مولوی کو ملے گا.یہ دعوای میرا آج بھی قائم ہے.ہاتھ کنگن کو آرسی کیا مسیح کو اتاریں اور جھگڑ اختم کر دیں.میں اور میری ساری جماعت پہلے بھی مسیح کو مانے ہوئے ہے ایک اور مسیح کو ماننے میں ہمیں کیا عار ہوگی.مگر تم وہ بد بخت ہو کہ اگر نعوذ باللہ من ذالک واقعہ وہ تمہاری دعاؤں سے اترا تو تم ہی انکار میں پہلے ہو گے.تم بلاتے ہو اور پھر اس کا انکار کر دیا کرتے ہو.تم ان یہود کے مشابہ ہو جنہوں نے بڑی گریہ وزاری سے میسیج کے آنے کی دعائیں مانگیں تھیں وہ دیوار گریہ سے سر پٹکا کرتے تھے کہ اے خدا! ہماری قوم ادبار میں کہاں تک جا پہنچی ہے.اے خدا! ہم پر رحم فرما.اس منجھی کو ہم میں بھیج دے لیکن جب خدا تعالیٰ نے اس منجی کو ا تارا تو جانتے ہو کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ پس جو آنے والا تھا وہ تو آچکا اب اور کوئی نہیں آئے گا.تم نے جتنے جتن کرنے ہیں کر دیکھو.اگر تمہیں وہم ہے کہ وہ آئے گا تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم انکار میں سب سے پہلے ہو گے اور اسی محرومی کی حالت میں مرجاؤ گے.“ اختتامی خطاب از لندن بر موقع جلسہ سالانہ قادیان ،مورخہ 18 دسمبر 1994ء) الیاس ستار صاحب ! یہ دو قرض ہیں جو آپ لوگوں کے سر پر ہیں.ایک سترہ (17) سال پرانا ہے اور دوسرا آٹھ (8) سال پہلے کا.پہلے ان قرضوں کوتو اتار کر دکھا ئیں.تاکہ کم از کم آپ جھوٹوں کی صف میں سے نکل سکیں.جب تک خدا تعالیٰ کی تقدیر آپ پر جھوٹ کی مہر باقی رکھتی ہے اس وقت تک آپ جھوٹے ہی
636 رہیں گے.ہم نے آپ کی جملہ تعلیوں کا بادلیل اور بھر پور جواب دے دیا ہے.آپ میں ذرہ بھر بھی سچائی ہو تو پہلے عیسی علیہ السلام کو آسمان سے اتاریں پھر بات کریں.(16) وو یار و جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا الیاس صاحب! آپ نے اپنے ایک رسالے میں لکھا ہے کہ ” میں پاگل نہیں ہوں کہ اگر مرزا صاحب جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں تو میں بچے مہدی کو پیش کروں.یہ پیش کرنے کا کام اللہ کا ہے آپ لوگ بھی اس کام سے باز آئیں اور بچے مہدی کا انتظار کریں.خود پیش کرنے کی کوشش نہ کریں.میں امام مہدی کو پیش کرنے کی گزارش آپ سے ہر گز نہیں کروں گا.اگر میں آپ کوسو کا نوٹ دوں اور آپ اسے جعلی ثابت کر دیں تو کیا یہ مناسب رہیگا اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ اگر یہ نوٹ جعلی ہے تو تم اصلی نوٹ پرنٹ کر کے دکھاؤ کیا صحیح نوٹ پیش کرنے کا کام سکیورٹی پرنٹنگ پریس کا نہیں ہے؟ کیا صحیح مہدی پیش کرنے کا کام اللہ کا نہیں ہے.؟ افسوس کی بات ہے کہ الیاس ستار ایک عام قانون بھی سمجھنے سے قاصر ہے.کہ جو جعلی نوٹ چلاتا ہے وہ پکڑا جاتا ہے تو اسے انعام نہیں دیا جا تا بلکہ اسے کڑی سزادی جاتی ہے اور جعلی نوٹ بند کر دیا جاتا ہے وہ پھر چلتا نہیں.اس کے برعکس اصلی نوٹ کو اگر کوئی شخص اپنی جہالت کی بناء پر عقلی قرار دے بھی دے تب بھی وہ اصلی ہی رہتا ہے اور خوب چلتا ہے.یہ عام قانون الیاس ستار کی سمجھ سے بالا ہے اسلئے اسے پتہ نہیں چلا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور ایسی مثال پیش کر رہا ہے جو الٹ کر اسی کو جھوٹا ثابت کر رہی ہے.اس دنیا میں جعلسازی کرنے والے بھی کڑی سے کڑی سزا کے مستحق قرار پاتے ہیں.لیکن جو خدا تعالیٰ پر افتراء کرے اس کے بارہ میں خدا تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ " فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَاب “ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے پیس ڈالوں گا.پس جھوٹا اور مفتری خدا تعالیٰ کی سزا سے کسی صورت بچ نہیں سکتا.اس مضمون پر ہم تفصیلی بحث صفحہ 462 پر عنوان 23 سالہ معیار صداقت“ کے تحت کر آئے ہیں.جناب الیاس صاحب! حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے بچے مسیح
637 اور مہدی ہیں.اگر وہ خدا تعالی کی طرف سے مامور نہ ہوئے ہوتے بلکہ از راہ افتراء دعوی کرتے تو قرآن کریم کے اصولوں کے مطابق روک دیئے جاتے.مگر یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے کہ ے کیوں ایک مفتری کا وہ ایسا ہے آشنا یا بے خبر ہے عیب سے دھو کے میں آ گیا آخر کوئی تو بات ہے جس سے ہوا وہ یار بد کار سے تو کوئی بھی کرتا نہیں ہے پیار اے مدعی ! نہیں ہے ترے ساتھ کر دگار یہ کفر تیرے دیں سے ہے بہتر ہزار بار اپنے شامل حال تائید و نصرت خداوندی کا اظہار کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں میں کیونکر گن سکوں تیرے یہ انعام کہاں ممکن تیرے فضلوں کا ارقام ہراک نعمت سے تو نے بھر دیا جام ہر اک دشمن کیا مردود و ناکام یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی فسبحان الذي اخزى الاعادي بنائی تو نے پیارے میری ہر بات دکھائے تو نے احساں اپنے دن رات ہراک میداں میں دیں تو نے فتوحات بداندیشیوں کو تو نے کر دیا مات ہر اک بگڑی ہوئی تو نے بنا دی فسبحان الذي اخزى الاعادي الغرض وہ معیار جو کسی نبی کی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں ، وہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پورے اترتے ہیں اور وہ معیار اسی طرح پوری شان کیساتھ آپ کی سچائی ثابت کرتے ہیں جیسے آنحضرت ﷺ اور دوسرے انبیاء کی صداقت کو ثابت کرتے ہیں.پس منہاج نبوت کی قرآنی تصدیق علی وجہ الائتم آپ کے ساتھ ہے.الیاس ستار کو یہ حقیقت بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کی سچائی جیسے روز روشن کی طرح ظاہر ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے منکرین کیلئے انکار کی کوئی گنجائش بھی نہیں چھوڑی تھی.اس کے باوجود آپ ﷺ کو بہت بڑی تعداد میں کفار نے قبول نہیں کیا تھا.بلکہ آپ کی مدافعت میں ساری کوششیں لگادی
638 تھیں.مگر انجام کار وہ اپنی ناکامی اور نامرادی اور آنحضرت ﷺ کی کامیابی اور کامرانی کے سوا کچھ نہ دیکھ سکے.پس الیاس صاحب ! اگر آپ کو بھی حضرت مسیح زماں و مہدی دوراں پر ایمان نصیب نہیں ہوا تو آپ کیئے یہ کوئی فخر کی بات نہیں.یہ آپ کی محرومی اور بدنصیبی ہے.اس بدنصیبی پر اگر آپ مطمئن ہیں تو یہ آپ کا نصیب ہے.آپ بھی انجام کاراپنی ناکامیوں اور محرومیوں کا منہ ہی دیکھیں گے.نیز احمدیت کو ہر روز بڑہتا ہوا اور پھولتا پھلتا ہوا ہی دیکھیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی اس آواز کو ذرا بگوش ہوش سنیں جو گزشتہ 100 سال سے ڈنکے کی چوٹ پر اپنی سچائی کا ثبوت دے رہی ہے.اور اس دور کے مامور من اللہ کی یہ باتیں قیامت تک مزیدشان و شوکت کے ساتھ پوری ہوتی رہیں گی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں : دنیا مجھ کو نہیں پہنچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے.اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.اے لوگو ! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کیلئے دعائیں کریں اور یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے.اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہونگے.اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.میں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افتراء کے ساتھ ہو اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے.وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اسی کے لئے مجھے پیدا کیا ہے ہر گز ممکن نہیں کہ میں اس میں ستی کروں.اگر چہ آفتاب ایک طرف سے اور زمین ایک طرف
639 سے باہم مل کر کچلنا چاہیں.انسان کیا ہے محض ایک کیڑا.اور بشر کیا ہے محض ایک مضغہ.پس کیونکر میں حی و قیوم کے حکم کو ایک کیڑے یا ایک مضغہ کے لئے ٹال دوں.جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو، یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد 17 صفحہ 50) اور فرمایا: " میں محض نصیحت اللہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی.لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہوکر یا الگ الگ میرے پر بددعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں پھر اگر میں کا ذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی.اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کے زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں.......کوئی -------- زمین پر مر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے.میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی.مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے.کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا.مخالف لوگ عبث اپنے تیں تباہ کر رہے ہیں.میں وہ پودا نہیں ہوں جو ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں.........اے خدا ! تو اس امت پر رحم کر.آمین ( اربعین نمبر 4.روحانی خزائن.جلد 17 صفحہ 472 473) یا رو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آپکا یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا
640 وو آخری بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ بھی سنت اللہ ہے کہ ہر ایک شخص جو خدا کی طرف سے آتا ہے بہت سے کو نہ اندیش ناخدا ترس اس کی ذاتیات میں دخل دے کر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کیا کرتے ہیں.کبھی اس کو کا ذب ٹھہراتے ہیں کبھی اس کو عہد شکن قرار دیتے ہیں اور کبھی اس کو لوگوں کے حقوق تلف کرنے والا اور مال خور اور بددیانت اور خائن قرار دیدیتے ہیں کبھی اس کا نام شہوت پرست رکھتے ہیں اور کبھی اس کو عیاش اور خوش پوش اور خوش خور سے موسوم کرتے ہیں اور کبھی جاہل کر کے پکارتے ہیں.اور کبھی اس کو ان صفت سے شہرت دیتے ہیں کہ وہ ایک خود پرست متکبر بدخلق ہے.لوگوں کو گالیاں دینے والا اور اپنے مخالفین کو سب وشتم کرنے والا بخیل زر پرست کذاب دجال بے ایمان خونی ہے.یہ سب خطاب ان لوگوں کی طرف سے خدا کے نبیوں اور ماً مورین کو ملتے ہیں جو سیاہ باطن اور دل کے اندھے ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کی نسبت بھی یہی اعتراض اکثر خبیث فطرت لوگوں کے ہیں کہ اس نے اپنی قوم کے لوگوں کو رغبت دی کہ تا وہ مصریوں کے سونے چاندی کے برتن اور زیور اور قیمتی کپڑے عاریتا مانگیں اور محض دروغگوئی کی راہ سے کہیں کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں چند روز تک تمہاری یہ چیزیں لا کر دیں گے اور دل میں دعا تھا.آخر عہد شکنی کی اور جھوٹ بولا اور بیگانہ مال اپنے قبضہ میں لا کر کنعان کی طرف بھاگ گئے.اور درحقیقت یہ تمام اعتراضات ایسے ہیں کہ اگر معقولی طور پر ان کا جواب دیا جائے تو بہت سے احمق اور پست فطرت ان جوا بات سے تسلی نہیں پاسکتے اس لئے خدا تعالیٰ کی عادت ایسے نکتہ چینوں کے جواب میں یہی ہے کہ جولوگ اس کی طرف سے آتے ہیں ایک عجیب طور پر ان کی تائید کرتا ہے اور متواتر آسمانی نشان دکھلاتا ہے یہانتک کہ دانشمند لوگوں کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے.اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر یہ شخص مفتری اور آلودہ دامن ہوتا تو اس قدر اس کی تائید کیوں ہوتی.کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا ایک مفتری سے ایسے پیار کرے جیسا کہ وہ اپنے صادق دوستوں سے پیار کرتا رہا ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے.
641 إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبيِّنًا لِّيَغْفِرَلَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبَكَ وَمَا تَأَخَّرَ ال3،2) یعنی ہم نے ایک فتح عظیم جو ہماری طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے تجھ کو عطا کی ہے.تاہم وہ گناہ جو تیری طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان پر اس فتح نمایاں کی نورانی چادر ڈال کر نکتہ چینوں کا خطا کار ہونا ثابت کریں.غرض قدیم سے اور جب سے کہ سلسلہ انبیاء علیہم السلام شروع ہوا ہے سنت اللہ یہی ہے کہ وہ ہزاروں نکتہ چینوں کا ایک ہی جواب دیتا ہے یعنی تائیدی نشانوں سے مقرب ہونا ثابت کر دیتا ہے.تب جیسے نور کے نکلنے اور آفتاب کے طلوع ہونے سے یکلخت تاریکی دور ہو جاتی ہے ایسا ہی تمام اعتراضات پاش پاش ہو جاتے ہیں.سو میں دیکھتا ہوں کہ میری طرف سے بھی خدا یہی جواب دے رہا ہے.“ وما علينا الا البلغ ( اربعین نمبر 4.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 448 تا 451) والسلام على من اتبع الهدى و آخر دعوانا ان الحمد الله ربّ العالمين
642 ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف وہ بلاتے ہیں کہ ہو جائیں نہاں ہم زیر غار (براہین احمدیہ حصہ پنجم ) ہے شکر رب عز وجل خارج از بیاں جس کے کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں اس نے درخت دل کو معارف کا پھل دیا ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے (براہین احمدیہ حصہ پنجم ) وآخر وعولنا لك الحمد لله رب العلمين
643