Language: UR
(صرف احمدی احباب کے لئے ) شادی کے موقع پر ایسی تمام رسموں سے بچیں جن کا دین سے کوئی واسطہ نہیں حضرت خلیفة المسیح لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15 جنوری 2010ء شادی کے مواقع پر بد رسوم اور بدعات سے اجتناب نظارت اصلاح و ارشاد مرکز ہے
پیش لفظ مجلس مشاورت پاکستان منعقدہ 20 تا 22 مارچ 2009ء کی پہلی تجویز بدرسوم اور بدعات سے اجتناب کے بارہ میں تھی.بدرسوم سے بچنے کے لئے خاص توجہ کے ساتھ مسلسل کوشش کی ضرورت ہے.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ اُسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 15 جنوری 2010 ء کے خطبہ جمعہ میں ہماری توجہ پھر ان رسم ورواج کے پھندوں سے آزاد ہونے کی طرف دلائی ہے.آپ فرماتے ہیں.خوشی اور غمی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور دونوں چیزیں ایسی ہیں جن میں کچھ حدود اور قیود ہیں.ہر وہ عمل جو نیک عمل ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہے وہ عبادت بن جاتا ہے.اگر یہ مد نظر رہے تو اسی چیز میں ہماری بقا ہے اور اسی بات سے پھر رسومات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.بدعات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.فضول خرچیوں سے بھی ہم بچ سکتے ہیں.لغویات سے بھی ہم بچ سکتے ہیں.پھر فرمایا : اب میں کھل کر کہہ رہا ہوں کہ ان بیہودہ رسوم و رواج کے پیچھے نہ چلیں اور اسے بند کریں.“ اس کے بعد مورخہ 22 جنوری 2010ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خط میں ارشاد فرمایا کہ میں نے شادی بیاہ کی رسموں کے بارہ میں اپنے 15 جنوری 2010 کے خطبہ جمعہ میں جن امور کا ذکر کیا تھا ان کی پابندی کروائیں.“ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد کی تعمیل میں مورخہ 15 جنوری 2010ء کا خطبہ پیش خدمت ہے.اس میں بدرسوم کے بارہ میں حضور انور کے دیگر ارشادات بھی شامل ہیں تا ہر احمدی تمام امور کی پابندی کرتے ہوئے بد رسوم اور بدعات سے اپنا دامن بچائے رکھے.آمین
شوری کی سب باتوں کی بلا تفریق پوری طرح پابندی کریں ” میں نے شادی بیاہ کی رسموں کے بارہ میں اپنے 15 جنوری 2010 کے خطبہ جمعہ میں جن امور کا ذکر کیا تھا ان کی پابندی کروائیں.مہندی کی رسمیں گھر کی چار دیواری میں سہیلیوں کی حد تک کرنے کی جو اجازت میں نے دی ہے اس میں ہر جگہ یہ مدنظر رہے کہ آواز میں اتنی زیادہ اونچی نہ ہوں کہ گھر سے باہر نکلیں.مجھے پتہ چلا ہے کہ آجکل ڈیک بھی اس کے لئے استعمال ہوتے ہیں.شادی بیاہ کے گیتوں وغیرہ کے لئے کوئی ساؤنڈ سسٹم استعمال نہیں ہونا چاہیے.گھر سے آواز باہر نہیں نکلنی چاہیے.اسی طرح روشنیوں کا بھی بلا وجہ استعمال نہیں ہونا چاہیے.بعض دوسری بد رسوم جیسے دودھ پلانا اور جوتی چھپانا وغیرہ جو ہیں یہ بھی سب ختم کروائیں اور ہر فرد جماعت کو اس بارہ میں متنبہ کر دیں کہ آئندہ اگر مجھے کسی کی بھی ان رسموں کے بارہ میں کوئی شکایت آئی تو اس کے خلاف تعزیری کا روائی ہوگی.جماعتی عہد یداران بھی میری ان ہدایات کے ذمہ دار ہیں.اگر کہیں کوئی ایسی شادی ہو تو وہ ان کی پابندی کروائیں ورنہ وہاں سے اٹھ کر آجائیں.پہلے شوری میں بھی ان امور پر غور و فکر کے بعد سفارشات آتی رہی ہیں لیکن اب ان سب باتوں کی بلا تفریق پوری طرح سے پابندی ضروری ہے اور یہ کام ذیلی تنظیموں کا بھی ہے اور جماعتی نظام کا بھی کہ ہر حال میں بدعات اور بد رسومات سے بچنے کے لئے جماعتی روایات اور ہدایات کی مکمل پابندی کروائیں.اللہ توفیق دے.آمین (خط حضور انور بتاریخ 22 جنوری 2010ء)
1 خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالى نصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010ء بمطابق 15 صلح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) أَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَالنُّوْرِ الَّذِي أَنْزَلْنَا - وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (التغابن: 9) اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ احسان عظیم ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر ایسا دماغ عطا فرمایا جس کے استعمال سے وہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ باقی مخلوق اور ہر چیز کو نہ صرف اپنے زیرنگیں کر لیتا ہے بلکہ اس سے بہترین فائدہ اٹھاتا ہے اور ہر نیا دن انسانی دماغ کی اس صلاحیت سے نئی نئی ایجادات سامنے لا رہا ہے.جو دنیاوی ترقی آج ہے وہ آج سے دس سال پہلے نہیں تھی اور جو دنیاوی ترقی آج سے دس سال پہلے تھی وہ 20 سال پہلے نہیں تھی.اسی طرح اگر پیچھے جاتے جائیں تو آج کی نئی نئی ایجادات کی اہمیت اور انسانی دماغ کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے.لیکن کیا یہ ترقی جو مادی
2 رنگ میں انسان کی ہے یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے؟ ہر زمانے کا دنیا دار انسان یہی سمجھتا رہا کہ میری یہ ترقی اور میری یہ طاقت، میری یہ جاہ و حشمت، میرا دنیاوی لہو ولعب میں ڈوبنا، میرا اپنی دولت سے اپنے سے کم تر پر اپنی برتری ظاہر کرنا، اپنی دولت کو اپنی جسمانی تسکین کا ذریعہ بنانا ، اپنی طاقت سے دوسروں کو زیرنگیں کرنا ہی مقصد حیات ہے.یا ایک عام آدمی بھی جو ایک دنیا دار ہے جس کے پاس دولت نہیں وہ بھی یہی سمجھتا ہے بلکہ آج کل کے نوجوان جن کو دین سے رغبت نہیں دنیا کی طرف جھکے ہوئے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جو نئی ایجادات جو ہیں، ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے، یہی چیزیں اصل میں ہماری ترقی کا باعث بننے والی ہیں اور بہت سے ان چیزوں سے متاثر ہو جاتے ہیں.پس یہ انتہائی غلط تصور ہے.اس تصور نے بڑے بڑے غاصب پیدا کئے.اس تصور نے بڑے بڑے ظالم پیدا کئے.اس تصور نے عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے انسان پیدا کئے.اس تصور نے ہر زمانہ میں فرعون پیدا کئے کہ ہمارے پاس طاقت ہے، ہمارے پاس دولت ہے، ہمارے پاس جاہ و حشمت ہے.لیکن اس تصور کی خدا تعالیٰ نے جو رب العالمین ہے، جو عالمین کا خالق ہے بڑے زور سے نفی فرمائی ہے.فرمایا کہ جن باتوں کو تم اپنا مقصد حیات سمجھتے ہو یہ تمہارا مقصد حیات نہیں ہیں.تمہیں اس لئے نہیں پیدا کیا گیا کہ ان دنیاوی مادی چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ اور دنیا سے رخصت ہو جاؤ.نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ میں نے جن اور انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں
3 بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مدنظر رکھیں وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں.وہ دنیا ہی میں منہمک اور فنا ہو جاتے ہیں.انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 134 جدید ایڈیشن) اس بات کی طرف راہنمائی کرنے کے لئے کہ اپنے مقصد پیدائش کو کس طرح پہچاننا ہے اور اس کی عبادت کے طریق کس طرح بجالانے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا رہا ہے جو اپنی قوموں کو اس عبادت کے طریق اور مقصد پیدائش کے حصول کے لئے راہنمائی کرتے رہے اور پھر جب انسان ہر قسم کے پیغام کو سمجھنے کے قابل ہو گیا اس کی ذہنی جلا اس معیار تک پہنچ گئی جب وہ عبادات کے بھی اعلیٰ معیاروں کو سمجھنے لگا اور اس نے دنیا وی عقل و فراست میں بھی ترقی کی نئی راہیں طے کرنی شروع کر دیں.آپس کے میل جول اور معاشرت میں بھی وسعت پیدا ہونی شروع ہو گئی تو انسان کامل اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اس آخری شریعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھیجا جس نے پھر اللہ تعالیٰ سے حکم پاکر یہ اعلان کیا کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا - (المائدہ:4) کہ آج میں نے تمہارے فائدے کے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتوں اور احسان کو تم پر پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا.اور اس قرآن میں جس کے لئے دین کو مکمل کیا اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے طریقے بتائے.عبادتوں کے اعلیٰ معیاروں کو چھونے کے طریق بھی بیان فرمائے.معاشرتی تعلقات نبھانے کے طریق بھی بیان فرمائے.دشمنوں سے سلوک کے طریق بھی بیان فرمائے.معاشرہ کے کمزور طبقے کے حقوق کی ادائیگی کے طریق بھی بیان فرمائے.عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کے
4 طریق بھی بیان فرمائے.آئندہ آنے والی نئی ایجادات کے آنے اور ان سے انسان کے فائدہ اٹھانے کے بارہ میں بھی بیان فرما دیا.زمین و آسمان میں جو بھی موجود ہے اس کے بارہ میں انسانی عقل وفراست کی حدود تک جتنی بھی، جہاں تک پہنچ ہو سکتی تھی اس کے سمجھنے کے بارہ میں بھی راہنمائی فرمائی.ہر وہ چیز بیان فرما دی جن تک آج انسان کی عقل کی رسائی ہورہی ہے بلکہ آئندہ پیش آمدہ باتوں کے بارہ میں بھی بیان فرما دیا جس کے بارہ میں آج سے 1400 سال پہلے کا انسان سمجھ نہیں سکتا تھا اور اس سے پہلے کا انسان تو بالکل بھی نہیں سمجھ سکتا تھا گو کہ اُس وقت جب یہ باتیں قرآن کریم میں بیان ہوئیں ایک عام مسلمان مومن سمجھ نہیں سکتا تھا.لیکن ان سب باتوں کو انسان کامل اور حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی فراست جو تھی اس وقت بھی کبھتی تھی.پس وہ ایک ایسا نور کامل تھے جو اللہ تعالیٰ کے نور سے منور تھا اور جنہوں نے اپنے صحابہ میں ان کی استعدادوں کے مطابق بھی وہ نور بھر دیا.انہیں عبادتوں کے طریق بھی سکھائے.انہیں عبادتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی.ان کو اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے کی طرف بھی توجہ دلائی.اور پھر آپ سے وہ نور پا کر صحابہ نے اپنی استعدادوں کے مطابق پھر وہ نور آگے پھیلانا شروع کر دیا اور چراغ سے پھر چراغ روشن ہوتے چلے گے اور جن باتوں کا فہم اس وقت کا عام انسان نہیں کر سکتا تھا اس کے بارہ میں بھی بتا دیا کہ اس کامل کتاب سے تا قیامت اب چراغ روشن ہوتے چلے جائیں گے اور آئندہ زمانہ کے مومنین اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں کو دیکھ لیں گے.ایک دنیا دار تو صرف دنیا کی نظر سے دیکھے گا لیکن ایک حقیقی مومن اپنے مقصد پیدائش کا حق ادا کرتے ہوئے اُن کو اس نظر سے دیکھے گا کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق آج ہی یہ چیزیں پیدا ہوئی ہیں.مومن کی نظر صرف ان ایجادات سے اور ان دنیاوی چیزوں سے دنیاوی فائدوں تک ہی محدود نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے اس حقیقی نور سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا جو اللہ تعالیٰ کے
5 سب سے پیارے نبی اور افضل الرسل ﷺ لے کر آئے تھے.جس طرح ضلالت اور گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکے ہوئے لوگ آج سے 14 سو سال پہلے اس نبی کے نور سے فیضیاب ہوئے تھے اور ہر میدان میں اعلیٰ معیاروں کو چھونے لگے.اسی طرح اب تا قیامت جو بھی اس رسول اور اس کامل شریعت سے حقیقی تعلق جوڑے گا، ظلمتوں سے نور کی طرف نکلتا چلا جائے گا اور دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث بنتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ اس کا ذکر سورۃ طلاق کی آیت 12 میں یوں فرمایا ہے رَسُولًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ ايْتِ اللهِ مُبَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّوْرِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللهِ وَيَعْمَلْ صَلِحًا يُدْخِلْهُ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ خَلِدِينَ فِيْهَا أَبَدًا - قَدْ اَحْسَنَ اللهُ لَهُ رِزْقًا.(الطلاق:12) کہ ایک رسول کے طور پر جو تم پر اللہ کی روشن کر دینے والی آیات تلاوت کرتا ہے تا کہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے.اور جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ اسے (ایسی ) جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں.( ہر ) اس (شخص) کے لئے (جو نیک اعمال بجالاتا ہے ) اللہ نے بہت اچھا رزق بنایا ہے.پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو پھر آنحضرت ﷺ کے اسوہ اور آپ پر اتری ہوئی تعلیم کی پابندی کرنا بھی لازمی ہے.اس تعلیم پر پابندی اور آپ کے اسوہ پر چلنے کی کوشش ہی اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنے گی.اس نور سے حصہ پانے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کی بھی شرط رکھی ہے.صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں ہے.ایک مومن کو اعمال صالحہ کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.فسق و فجور سے بچنے کی ضرورت ہے.جو آیت میں نے پہلے شروع میں تلاوت کی
6 تھی اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ اللہ پر ایمان ، اس کے رسول پر ایمان اور قرآن کریم پر ایمان ہی نور سے حصہ دلانے والا بنے گا، جنت کا وارث بنائے گا.اللہ تعالیٰ انسان کے ہر عمل سے باخبر ہے.اس کے علم میں ہے کہ انسان کون سے اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بجا لا رہا ہے.اُسوہ رسول اور تعلیم پر کس حد تک عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے.ایمان کا دعوی دل سے ہے یا صرف زبانی باتیں ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے جو انسانوں پر احسان کیا کہ ایک ایسا نبی مبعوث فرمایا جس کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی دنیا و آخرت میں انسان کی بقا ہے تو ان لوگوں کا جو مومن ہونے کا دعوی کرتے ہیں کس قدر یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے اوپر اس تعلیم کولا گوکر میں جو کامل اور مکمل تعلیم ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ کا جاری احسان دیکھیں کہ وَآخَرِيْنَ مِنْهُم (الجمعة) کی خبر دے کر یہ تسلی بھی کروائی کہ آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کا فیضان جو فیضان نور ہے یہ جاری ہے.اندھیرے زمانہ کے بعد آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور آپ ﷺ کے نور سے سب سے زیادہ حصہ پانے والے جس امام اور مسیح و مہدی نے آنا ہے اس کے ذریعہ پھر اندھیروں سے نور کی طرف راہنمائی ہوگی.آنے والے مسیح موعود اور مہدی موعود نے پھر اُمت کو بھی اور باقی دنیا کو بھی اعتقادی اور عملی اندھیروں سے نکالنا ہے اور جو اس کے ساتھ جڑ جائے گا، جو اسے قبول کرے گا، جو اس سے سچا تعلق رکھے گا، جو دنیا کی لغویات سے بچتے ہوئے اس سے کئے گئے عہد کی پابندی کرے گا وہ پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے جنتوں کی خوشخبری سنے گا.پس ایک احمدی کو جہاں اس بات سے تسلی ہوتی ہے وہاں فکر بھی ہے.اپنے جائزے لینے کی ضرورت بھی ہے.اس نور سے فائدہ اٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا (التغابن: 10) کی شرط رکھی ہے کہ اللہ پر ایمان کے ساتھ عمل صالح ضروری ہے.پس ہمیشہ اپنے مدنظر یہ بات رکھنی چاہئے کہ کون ساعمل صالح ہے اور کون سا غیر صالح ہے.بعض بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی
7 ہیں.مثلاً خوشیاں ہیں.یہ دیکھنے والی بات ہے کہ خوشیاں منانے کے لئے ہماری کیا حدود ہیں اور غموں میں ہماری کیا حدود ہیں.خوشی اور غمی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور دونوں چیزیں ایسی ہیں جن میں کچھ حد و داور قیود ہیں.آج کل دیکھیں، مسلمانوں میں خوشیوں کے موقعوں پر بھی زمانے کے زیر اثر طرح طرح کی بدعات اور لغویات راہ پاگئی ہیں اور غموں کے موقعوں پر بھی طرح طرح کی بدعات اور رسومات نے لے لی ہے.لیکن ایک احمدی کو ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو کام بھی وہ کر رہا ہے اس کا کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ نظر آنا چاہئے.اور ہر عمل اس لئے ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے جو حدود قائم کی ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے ہر کام کرنا ہے.میں نے خوشی اور غمی کا جوذ کر کیا ہے تو خوشیوں میں ایک خوشی جو بہت بڑی خوشی کبھی جاتی ہے وہ شادی کی خوشی ہے اور یہ فرض ہے.جب بعض صحابہ نے یہ کہا کہ ہم خدا تعالیٰ کی عبادت کی خاطر اپنی زندگیاں تجرد میں گزاریں گے ، شادی نہیں کریں گے تو آنحضرت ﷺ نے اسے بُرا منایا اور فرمایا کہ نیکی وہی ہے جو میری سنت پر عمل کرتے ہوئے اور تعلیم کے مطابق کی جائے.اور میں نے تو شادیاں بھی کی ہیں.روزے بھی رکھتا ہوں.عبادات بھی کرتا ہوں.(بخاری کتاب النکاح باب الترغيب فى النكاح حدیث نمبر (5063) اور آپ کی عبادات کا جو معیار ہے وہ تو تصور سے بھی باہر ہے.پس یہ مسلمانوں کے لئے ایک فرض ہے کہ اگر کوئی روک نہ ہو، کوئی امر مانع نہ ہو تو ضرور شادی کرے.لیکن ان میں بعض رسمیں خاص طور پر پاکستانی اور ہندوستانی معاشرہ میں راہ پا گئی ہیں جن کا اسلام کی تعلیم سے کوئی بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے.اب بعض رسوم کو ادا کرنے کے لئے اس حد تک خرچ کئے جاتے ہیں کہ جس معاشرہ میں ان
8 رسوم کی ادائیگی بڑی دھوم دھام سے کی جاتی ہے وہاں یہ تصور قائم ہو گیا ہے کہ شاید یہ بھی شادی کے فرائض میں داخل ہے اور اس کے بغیر شادی ہو ہی نہیں سکتی.مہندی کی ایک رسم ہے.اس کو بھی شادی جتنی اہمیت دی جانے لگی ہے.اس پر دعوتیں ہوتی ہیں.کارڈ چھپوائے جاتے ہیں.سٹیج سجائے جاتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ کئی دن دعوتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور شادی سے پہلے ہی جاری ہو جاتا ہے.بعض دفعہ کئی ہفتہ پہلے جاری ہو جاتا ہے.اور ہر دن نیا سٹیج بھی سج رہا ہوتا ہے اور پھر اس بات پر بھی تبصرے ہوتے ہیں کہ آج اتنے کھانے پکے اور آج اتنے کھانے پکے.یہ سب رسومات ہیں جنہوں نے وسعت نہ رکھنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ایسے لوگ پھر قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں.غیر احمدی تو یہ کرتے ہی تھے اب بعض احمدی گھرانوں میں بھی بہت بڑھ بڑھ کر ان لغو اور بیہودہ رسومات پر عمل ہو رہا ہے یا بعض خاندان اس میں مبتلا ہو گئے ہیں.بجائے اس کے کہ زمانہ کے امام کی بات مان کر رسومات سے بچتے.معاشرہ کے پیچھے چل کر ان رسومات میں جکڑتے چلے جارہے ہیں.چند ماہ پہلے میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مہندی کی رسم پر ضرورت سے زیادہ خرچ اور بڑی بڑی دعوتوں سے ہمیں رکنا چاہئے.تو اس دن یہاں لندن میں بھی ایک احمدی گھر میں مہندی کی دعوت تھی.جب انہوں نے میرا خطبہ سنا تو انہوں نے دعوت کینسل (Cancel) کردی اور لڑکی کی چند سہیلیوں کو بلا کرکھانا کھلا دیا اور باقی جوکھانا پکا ہوا تھا وہ یہاں بیت الفتوح میں ایک فنکشن (Function) تھا اس میں بھیج دیا.تو یہ ہیں وہ احمدی جو توجہ دلانے پر فوری رد عمل دکھاتے ہیں اور پھر معذرت کے خط بھی لکھتے ہیں.لیکن مجھے بعض شکایات پاکستان سے اور ربوہ سے بھی ملی ہیں.بعض لوگ ضرورت سے زیادہ اب ان رسموں میں پڑنے لگ گئے ہیں اور ربوہ کیونکہ چھوٹا سا شہر ہے اس لئے ساری باتیں فوری
9 طور پر وہاں نظر بھی آجاتی ہیں.اس لئے اب میں کھل کر کہ رہا ہوں کہ ان بیہودہ رسوم ورواج کے پروان نظر ھی آ اسلئے کھل کہ رہاہوں کہان یہودہ رسم ورواج کے پیچھے نہ چلیں اور اسے بند کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ: ” ہماری قوم میں یہ بھی ایک بدرسم ہے کہ شادیوں میں صد ہاروپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے“.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 70) آج سے سو سال پہلے یا اس سے زیادہ پہلے اس زمانے میں تو صد ہا روپیہ کا خرچ بھی بہت بڑا خرچ تھا.لیکن آج کل تو صد ہا کیا لاکھوں کا خرچ ہوتا ہے اور اپنی بساط سے بڑھ کر خرچ ہوتا ہے.جو شاید اس زمانے کے صد ہا روپوں سے بھی اب زیادہ ہونے لگ گیا ہے.بلکہ یہ بھی فرمایا کہ آتش بازی وغیرہ بھی حرام ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 49 جدید ایڈیشن) شادیوں پر آتش بازی کی جاتی ہے.اب لوگ اپنے گھروں میں چراغاں بھی شادیوں پر کرتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ کر لیتے ہیں.ایک طرف تو پاکستان میں ہر طرف یہ شور پڑا ہوا ہے ہر آنے والا یہی بتاتا ہے، اخباروں میں بھی یہی آرہا ہے کہ بجلی کی کمی ہے.کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے.مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے.اور دوسری طرف بعض گھر ضرورت سے زیادہ اسراف کر کے نہ صرف ملک کے لئے نقصان کا باعث بن رہے ہیں بلکہ گناہ بھی مول لے رہے ہیں.اس لئے پاکستان میں عموماً احمدی اس بات کی احتیاط کریں کہ فضول خرچی نہ ہواور ر بوہ میں خاص طور پر اس بات کا لحاظ رکھا جائے.اور ربوہ میں یہ صد رعمومی کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کی نگرانی کریں کہ شادیوں پر بے جا اسراف اور دکھاوا اور اپنی شان اور پیسے کا جو اظہار ہے وہ نہیں ہونا چاہئے.جماعت پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ نمی کے موقعوں پر جو رسوم ہیں ان سے تو بچے ہوئے ہیں.ساتواں دسواں، چالیسواں، یہ غیر احمدیوں کی رسمیں ہیں ان پر عمل نہیں کرتے.جو بعض دفعہ بلکہ اکثر دفعہ یہی ہوتا ہے
10 کہ بید میں گھر والوں پر بوجھ بن رہی ہوتی ہیں.لیکن اگر معاشرے کے زیراثر ایک قسم کی بد رسومات میں مبتلا ہوئے تو دوسری قسم کی رسومات بھی راہ پا سکتی ہیں اور پھر اس قسم کی باتیں یہاں بھی شروع ہو جائیں گی.پس ہر احمدی کو اپنے مقام کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کرتے ہوئے اسے مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اب یہ فرض ہے کہ صحیح اسلامی تعلیم پر عمل ہو.شادی بیاہ کے لئے اسلامی تعلیم میں جو فرائض ہیں وہ شادی کا ایک فرض ہے اس کے لئے ایک فنکشن کیا جاسکتا ہے.اگر توفیق ہو تو کھانا وغیرہ بھی کھلایا جا سکتا ہے.یہ بھی فرض نہیں کہ ہر بارات جو آئے اس میں مہمان بلا کے کھانا کھلایا جائے اگر دُور سے بارات آ رہی ہے تو صرف باراتیوں کو ہی کھانا کھلایا جا سکتا ہے.لیکن اگر ملکی قانون روکتا ہے تو کھانے وغیرہ سے رکنا چاہئے اور ایک محدود پیمانے پر صرف اپنے گھر والے یا جو چند باراتی ہیں وہ کھانا کھا ئیں.کیونکہ پاکستان میں ایک وقت میں ملکی قانون نے پابندی لگائی ہوئی تھی.اب کیا صورت حال ہے مجھے علم نہیں لیکن کچھ حد تک پابندی تو اب بھی ہے.دوسرے ولیمہ ہے جو اصل حکم ہے کہ اپنے قریبیوں کو بلا کر ان کی دعوت کی جائے.اگر دیکھا جائے تو اسلام میں شادی کی دعوت کا یہی ایک حکم ہے.لیکن وہ بھی ضروری نہیں کہ بڑے وسیع پیمانے پر ہو.حسب توفیق جس کی جتنی توفیق ہے بلا کر کھانا کھلا سکتا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارا مقصد پیدائش بتایا ہے.ہر وہ عمل جو نیک عمل ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہے وہ عبادت بن جاتا ہے.اگر یہ مد نظر رہے تو اسی چیز میں ہماری بقا ہے اور اسی بات سے پھر رسومات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.بدعات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.فضول خرچیوں سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.لغویات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں اور ظلموں سے بھی ہم
11 بچ سکتے ہیں.یہ ظلم ایک تو ظاہری ظلم ہیں جو جابر لوگ کرتے ہی ہیں.ایک بعض دفعہ لاشعوری طور پر اس قسم کی رسم و رواج میں مبتلا ہو کر اپنی جان پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں.اور پھر معاشرے میں اس کو رواج دے کر ان غریبوں پر بھی ظلم کر رہے ہوتے ہیں جو کہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز شاید فرائض میں داخل ہو چکی ہے.اور جس معاشرے میں ظلم اور لغویات اور بدعات وغیرہ کی یہ باتیں ہوں، وہ معاشرہ پھر ایک دوسرے کا حق مارنے والا ہوتا ہے اور پھر جیسا کہ میں نے کہا ایک دوسرے پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے.لیکن اگر ہم ان چیزوں سے بچیں گے تو ہم حق مارنے سے بھی بیچ رہے ہوں گے.ظلموں سے بھی بیچ رہے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی بن رہے ہوں گے.اور آج احمدی سے بڑھ کر کون ایسے معاشرہ کا نعرہ لگاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوسروں کے حقوق قائم کرنے کی باتیں ہو رہی ہوں.آج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا.آج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا.آج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر ایک راہ میں دستور العمل بنائے گا.پس جب احمدی ہی ہے جس نے اللہ اور اس کے رسول اور قرآن کریم کے نور سے فیض پانے کے لئے زمانہ کے امام کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے جو شرائط بیعت میں داخل ہے تو پھر اپنے عہد کا پاس کرنے کی ضرورت ہے.اس عہد کی پابندی کر کے ہم اپنے آپ کو جکڑ نہیں رہے بلکہ شیطان کے پنجے سے چھڑا رہے ہیں.خدا اور اس کے رسول کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے تحفظ کے سامان کر رہے ہیں.اپنی فہم و فراست کو جلا بخش رہے ہیں.اپنی عفت و پاکیزگی کی حفاظت کر رہے ہیں.اپنی حیا کے معیار بلند کر رہے ہیں.صبر اور قناعت کی طاقت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اپنے اندرزہد و تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کر رہے ہیں.
12 اپنی امانت کے حق کی ادائیگی کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خشیت، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو کر جھکنے کے معیار حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں تا کہ اپنے مقصد پیدائش کو حاصل کر سکیں.پس اگر اندھیروں سے نکلنا ہے اور نور حاصل کرنا ہے اور زمانہ کے امام کی بیعت کا صحیح حق ادا کرنا ہے تو دنیا داری کی باتوں کو چھوڑنا ہوگا.اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی.اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاق کی طرف لے جانے کے لئے جدو جہد کرنی ہوگی.حیا کا معیار بلند کرنے کا میں نے ذکر کیا ہے.حیا بھی ایک ایسی چیز ہے جو ایمان کا حصہ ہے.آج کل کی دنیاوی ایجادات جیسا کہ میں نے شروع میں بھی ذکر کیا تھا، ٹی وی ہے، انٹرنیٹ وغیرہ ہے اس نے حیا کے معیار کی تاریخ ہی بدل دی ہے.کھلی کھلی بے حیائی دکھانے کے بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بے حیائی نہیں ہے.پس ایک احمدی کے حیا کا یہ معیار نہیں ہونا چاہئے جوٹی وی اور انٹرنیٹ پر کوئی دیکھتا ہے.یہ حیا نہیں ہے بلکہ ہوا و ہوس میں گرفتاری ہے.بے حجابیوں اور بے پردگی نے بعض بظاہر شریف احمدی گھرانوں میں بھی حیا کے جو معیار ہیں الٹا کر رکھ دیئے ہیں.زمانہ کی ترقی کے نام پر بعض ایسی باتیں کی جاتی ہیں، بعض ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں جو کوئی شریف آدمی دیکھ نہیں سکتا چاہے میاں بیوی ہوں.بعض حرکتیں ایسی ہیں جب دوسروں کے سامنے کی جاتی ہیں تو وہ نہ صرف نا جائز ہوتی ہیں بلکہ گناہ بن جاتی ہیں.اگر احمدی گھرانوں نے اپنے گھروں کو ان بیہودگیوں سے پاک نہ رکھا تو پھر اُس عہد کا بھی پاس نہ کیا اور اپنا ایمان بھی ضائع کیا جس عہد کی تجدید انہوں نے اس زمانہ میں زمانے کے امام کے ہاتھ پہ کی ہے.آنحضرت ﷺ نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ الحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِّنَ الْإِيْمَانِ کہ حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے.(مسلم کتاب الایمان باب شعب الايمان وافضلها.....حديث نمبر 59)
13 پس ہر احمدی نوجوان کو خاص طور پر یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آج کل کی برائیوں کو میڈ یا پر دیکھ کر اس کے جال میں نہ پھنس جائیں ورنہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے.انہی بیہودگیوں کا اثر ہے کہ پھر بعض لوگ جو اس میں ملوث ہوتے ہیں تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اور اس وجہ سے پھر بعضوں کو اخراج از جماعت کی تعزیر بھی کرنی پڑتی ہے.ہمیشہ یہ بات ذہن میں ہو کہ میرا ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے.ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: بے حیائی ہر مرتکب کو بدنما بنا دیتی ہے اور شرم و حیا ہر حیادار کوحسن وسیرت بخشتا ہے اور اسے خوبصورت بنا دیتا ہے.( ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فى المخ والنخش - حدیث نمبر 1974) پس یہ خوبصورتی ہے جو انسان کے اندر نیک اعمال کو بجالانے اور اس کی تحریک سے پیدا ہوتی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی شرم دل میں ہو جیسا کہ اس سے شرم کرنے کا حق ہے.صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں شرم بخشی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا: یوں نہیں.بلکہ جو شخص شرم رکھتا ہے وہ اپنے سر اور اس میں سمائے ہوئے خیالات کی حفاظت کرے.( یہ شرم ہے کہ اپنے دماغ میں آنے والے خیالات کی حفاظت کرو) پیٹ اور جو اس میں خوراک بھرتا ہے اس کی بھی حفاظت کرے.موت اور ابتلا کو یا درکھنا چاہئے.جو شخص آخرت پر نظر رکھتا ہے وہ دنیوی زندگی کی زینت کے خیالات کو چھوڑ دیتا ہے.پس جس نے یہ طرز زندگی اختیار کیا اس نے واقعی خدا کی شرم رکھی.(ترمذى كتاب صفة القيامة والرقائق والورع باب 89/24 حدیث نمبر 2458) آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان ہے.پس ذہن میں آنے والے ہر خیال کو اللہ تعالیٰ کی شرم لئے ہوئے آنا چاہئے.اگر کوئی بد خیال
14 آتا بھی ہے تو اسے فوری طور پر جھٹکا جانا چاہئے.استغفار کے ذریعہ سے اس کو جھٹکنا چاہئے.جب خیالات پاکیزہ ہوں گے تو عمل بھی پاک ہوں گے.پھر لغویات ایسے انسانوں پر کوئی اثر نہیں ڈال سکیں گی.اسی طرح انسان اپنی روزی کے بھی حلال ذرائع استعمال کرے.محنت کرے.محنت سے کمائے.بجائے اس کے کہ دوسروں کے پیسے پر نظر رکھ کر چھینے کی کوشش کرے یا غلط طریق سے پیسے کمائے.پاکستان وغیرہ میں رشوت وغیرہ بھی بڑی عام ہے یہ سب حلال کی کمائیاں نہیں ہیں.آپ نے یہی فرمایا کہ اپنے پیٹ اور اس میں جو خوراک بھرتا ہے اس کی بھی حفاظت کرے.پس جائز کمائی سے اپنا بھی اور اپنے بیوی بچوں کا بھی پیٹ پالےاور ایسے ہی لوگ ہیں جو پھر اللہ اوراس کے رسول پر صیح ایمان لانے والے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک دعا ہے.اللہ کو پانے کے لئے یہ دعا لکھی ہوئی ہے.آپ نے فرمایا کہ: ”اے میرے قادر خدا! اے میرے پیارے راہنما! تو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں اہل صدق و صفا اور ہمیں ان راہوں سے بچا جن کا مدعا صرف شہوات ہیں یا کینہ یا بغض یا دنیا کی حرص و ہوا“.پیغام صلح.روحانی خزائن جلد 23 ص439) پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے عہد کو نبھاتے ہوئے ، اپنی بیعت کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے حقیقی ایمان لانے والوں میں شامل ہوں.ہمیشہ یا درکھنا چاہئے کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جنہوں نے ہمیں صحیح راستہ دکھایا.ہمیں اچھے اور برے کی تمیز سکھائی.اگر اس کے بعد پھر ہم دنیا داری میں پڑکر رسم و رواج یا لغویات کے طوق اپنی گردنوں میں ڈالے رہیں گے تو ہم نہ عبادتوں کا حق ادا کر سکتے ہیں نہ نور سے حصہ لے سکتے ہیں.
15 قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ فرمایا.کہ يَأْمُرُهُـ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْههُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَقِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ (الأعراف: 158) کہ جو اس پر ایمان لانے والے ہیں وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور ان پر ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے اور ان سے ان کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے.گردنوں میں جو پھندے پڑے ہوئے ہیں وہ اتار دیتا ہے.جو پھندے پہلی قوموں میں پڑے ہوئے تھے، پہلی نسلوں میں پڑے ہوئے تھے، اپنے دین کو بھول کر رسم و رواج میں پڑ کر یہودیوں اور عیسائیوں نے گلوں میں جو پھندے ڈالے ہوئے تھے اب وہی باتیں بعض مسلمانوں میں پیدا ہورہی ہیں.اگر ہم میں بھی پیدا ہوگئیں تو پھر ہم یہ کس طرح دعوی کر سکتے ہیں کہ ہم اس وقت آنحضرت ﷺ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں.پس یہ طوق ہمیں اتارنے ہوں گے.پس اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ ہم اس نبی پر بھی ایمان لائے ہیں جس نے ہمارے لئے حلال و حرام کا فرق بتا کر دین کے بارہ میں غلط نظریات کے طوق ہماری گردنوں سے اتارے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا کہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ باوجودان واضح ہدایات کے پھر بھی بعض طوق اپنی گردنوں پر ڈال لئے ہیں.لیکن ہم احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت کے بعد اس حقیقت کو دوبارہ سمجھے ہیں کہ یہ طوق اپنی گردنوں سے کس طرح اتارنے ہیں.اللہ کا احسان ہے کہ قبروں پر سجدے سے ہم بچے ہوئے ہیں.پیر پرستی سے عموماً بچے ہوئے ہیں.بعض جگہ اکا دُکا شکایات آتی بھی ہیں.عمومی طور پر بعض غلط قسم کے رسم و رواج سے ہم بچے ہوئے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا بعض
16 چیزیں راہ پا رہی ہیں.اگر ہم بے احتیاطیوں میں بڑھتے رہے تو یہ طوق پھر ہمارے گلوں میں پڑ جائیں گے جو آنحضرت ﷺ نے ہمارے گلوں سے اتارے ہیں اور جن کو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتارنے کی پھر نصیحت فرمائی ہے.اور پھر ہم دین سے دور ہٹتے چلے جائیں گے.اب ظاہر ہے جب ایسی صورت ہوگی تو پھر جماعت سے بھی باہر ہو جائیں گے.کیونکہ جماعت سے تو وہی جڑ کر رہ سکتے ہیں جو نور سے حصہ لینے والے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول اور کتاب سے حصہ لے رہے ہیں.جو اللہ اور رسول اور اس کی کتاب سے حصہ نہیں لے رہے وہ نور سے بھی حصہ نہیں لے رہے.جو نور سے حصہ لینے کی کوشش نہیں کر رہے وہ ایمان سے بھی دور جا رہے ہیں.تو یہ تو ایک چکر ہے جو چلتا چلا جاتا ہے.پس ہر وقت اپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے.آنحضرت ﷺ جو خود بھی نور تھے اور آسمان سے کامل نور آپ پر اترا تھا یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ میرے دل اور میرے دیگر اعضاء میں نور رکھ دے.(بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذانتبه من الليل حديث نمبر 6316) یہ دعا اصل میں تو ہمیں سکھائی گئی ہے کہ ہر وقت اپنی سوچوں اور اپنے اعضاء کو، اپنے خیالات کو، اپنے دماغوں کو ، اپنے جسم کے ہر حصہ کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق استعمال میں لانے کی کوشش کرو اور اس کے لئے دعا کرو کہ ذہن بھی پاکیزہ خیال رکھنے والے ہوں اور عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والے ہوں.اللہ اور اس کے رسول کے قول پر عمل کرنے والے ہوں.رسم و رواج سے بچنے والے ہوں.دنیا وی ہوا و ہوس اور ظلموں سے دور رہنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نور سے ہم ہمیشہ حصہ پاتے چلے جائیں.کبھی ہماری کوئی بدبختی ہمیں اس نور سے محروم نہ کرے.( خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ )
17 ہد رسوم اور بدعات سے اجتناب کے بارہ میں حضرت خلیفہ اسح الخامس اید واللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات عورتوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.صرف اپنے علاقہ کی یا ملک کی رسموں کے پیچھے نہ چل پڑیں.بلکہ جہاں بھی ایسی رسمیں دیکھیں جن سے ہلکا سا بھی شائبہ شرک کا ہوتا ہو ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ کرے تمام احمدی خواتین اسی جذ بہ کے ساتھ اپنی اور اپنی نسلوں کی 66 تربیت کرنے والی ہوں.“ عورتیں عورتوں میں بھی ڈانس نہ کریں خطبات مسرور جلد اول ص379) و بعض عورتیں کہتی ہیں کہ عورتیں عورتوں میں ناچ لیں تو کیا حرج ہے؟ عورتوں کے عورتوں میں ناچنے میں بھی حرج ہے.قرآن کریم نے کہہ دیا ہے کہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے تو بہر حال ہر احمدی عورت نے اس حکم کی پابندی کرنی ہے.اگر کہیں شادی بیاہ وغیرہ میں اس قسم کی اطلاع ملتی ہے کہ کہیں ڈانس وغیرہ یا ناچ ہوا ہے تو وہاں بہر حال نظام کو حرکت میں آنا چاہئے اور ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے.اب بعض عورتیں ایسی ہیں جن کی تربیت میں کمی ہے کہہ دیتی ہیں کہ ربوہ جاؤ تو وہاں تو لگتا ہے کہ شادی اور مرگ میں کوئی فرق نہیں ہے.کوئی ناچ نہیں ، کوئی گانا نہیں، کچھ نہیں.تو اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ شرفاء کا ناچ اور ڈانس سے کوئی تعلق نہیں.اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو ایسی شادیوں میں نہ شامل ہو.جہاں تک گانے کا تعلق ہے تو شریفانہ قسم کے، شادی کے گانے لڑکیاں گاتی ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں.“ (خطبات مسرور جلد دوم ص 94)
18 کسی بیوہ کو شادی سے روکنا بھی بڑی بیہودہ اور گندی رسم ہے ”معاشرے کو رشتہ داروں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ زبر دستی کسی بیوہ کو ساری عمر بیوہ ہی رکھیں یا اس کو کہیں کہ تم ساری عمر بیوہ رہو.اگر خود اپنی مرضی سے کوئی شادی کرنا چاہتی ہے تو قرآنی حکم کے مطابق اسے شادی کرنے دو.کسی بیوہ کو شادی سے روکنا بھی بڑی بیہودہ اور گندی رسم ہے اور اس کو اپنے اندر سے ختم کرو.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو تین مرتبہ فرمایا.اے علی ! جب نماز کا وقت ہو جائے تو دیر نہ کرو.اور اسی طرح جب جنازہ حاضر ہو یا عورت بیوہ ہو اور اس کا ہم کفو مل جائے تو اس میں بھی دیر نہ کرو.(ترمذی.کتاب الصلوۃ باب فی الوقت الاول) خطبات مسرور جلد دوم ص 928) مہنگے شادی کارڈ شادی کارڈوں پر بھی بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے.دعوت نامہ تو پاکستان میں ایک روپے میں بھی چھپ جاتا ہے یہاں بھی بالکل معمولی سا پانچ سات پینس (Pens) میں چھپ جاتا ہے تو دعوت نامہ ہی بھیجنا ہے کوئی نمائش تو نہیں کرنی لیکن بلاوجہ مہنگے مہنگے کارڈ چھپوائے جاتے ہیں.پوچھو تو کہتے ہیں کہ بڑا ستا چھپا ہے صرف پچاس روپے میں.اب یہ صرف پچاس روپے جو ہیں.اگر کارڈ پانچ سو کی تعداد میں چھپوائے گئے ہیں تو یہ پاکستان میں چھپیس ہزار روپے بنتے ہیں اور چھپیں ہزار روپے اگر کسی غریب کو شادی کے موقع پر ملیں تو وہ خوشی اور شکرانے کے جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے." (خطبات مسر در جلد سوم صفحہ 334)
19 بیہودہ اور لغو گانوں سے بچیں دد بعض دفعہ ہمارے ملکوں میں شادی کے موقعوں پر ایسے ننگے اور گندے گانے لگا دیتے ہیں کہ ان کو سن کر شرم آتی ہے.ایسے بے ہودہ اور لغو اور گندے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں لوگ سنتے کس طرح ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ احمدی معاشرہ بہت حد تک ان لغویات اور فضول حرکتوں سے محفوظ ہے لیکن جس تیزی سے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہمارے پاکستانی ہندوستانی معاشرہ میں یہ چیزیں راہ پارہی ہیں.دوسرے مذہب والوں کی دیکھا دیکھی جنہوں نے تمام اقدار کو بھلا دیا ہے اور ان کے ہاں تو مذہب کی کوئی اہمیت نہیں رہی.شرا ہیں پی کر خوشی کے موقع پر ناچ گانے ہوتے ہیں، شور شرابے ہوتے ہیں، طوفان بدتمیزی ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ اس معاشرے کے زیر اثر احمدیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے بلکہ بعض اکا دُکا شکایات مجھے آتی بھی ہیں.تو یا درکھیں کہ احمدی نے ان لغویات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے اور بچنا ہے.بعض ایسے بیہودہ گانے گائے جاتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا یہ ہندو اپنے شادی بیا ہوں پر تو اس لئے گاتے ہیں کہ وہ دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں.مختلف مقاصد کے لئے مختلف قسم کی مورتیاں انہوں نے بنائی ہوتی ہیں جن کے انہوں نے نام رکھے ہوئے ہیں ان سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں.اور ہمارے لوگ بغیر سوچے سمجھے یہ گانے گا رہے ہوتے ہیں یا سن رہے ہوتے ہیں.اس خوشی کے موقعہ پر بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو طلب کرنے کے کہ اللہ تعالیٰ یہ شادی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے، آئندہ نسلیں (دین حق) کی خادم پیدا ہوں، اللہ تعالیٰ کی سچی عباد بننے والی نسلیں ہوں، غیر محسوس طور پر گانے گا کر شرک کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.پس جو شکایات آتی ہیں ایسے گھروں کی، ان کو میں تنبیہ کرتا ہوں کہ ان لغویات اور فضولیات سے بچیں.پھر ڈانس ہے ناچ ہے.بعض دفعہ اس قسم کے بیہودہ قسم کے میوزک یا گانوں کے اوپر ناچ ہورہے ہوتے ہیں اور شامل ہونے
20 والے عزیز رشتہ دار اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دی جاسکتی...بعض لوگ اکثر مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد اپنے خاص مہمانوں کے ساتھ علیحدہ پروگرام بناتے ہیں اور پھر اسی طرح کی لغویات اور ہلڑ بازی چلتی رہتی ہے گھر میں علیحدہ ناچ ڈانس ہوتے ہیں چاہے لڑکیاں لڑکیاں ہی ڈانس کر رہے ہوں یا لڑکے لڑکے بھی کر رہے ہوں لیکن جن گانوں اور میوزک پر ہور ہے ہوتے ہیں وہ ایسی لغو ہوتی ہیں کہ وہ برداشت نہیں کی جاسکتیں.“ 66 خطبات مسرور جلد سوم صفحہ 686 تا 688) رسم و رواج گلے کا طوق ہیں ان سے جان چھڑائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہر اس چیز سے بچنا ہوگا جو دین میں برائی اور بدعت پیدا کرنے والی ہے.اس برائی کے علاوہ بھی بہت سی برائیاں ہیں جو شادی بیاہ کے موقعہ پر کی جاتی ہیں اور جن کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں.اس طرح معاشرے میں یہ برائیاں جو ہیں اپنی جڑیں گہری کرتی چلی جاتی ہیں اور اس طرح دین میں اور نظام میں ایک بگاڑ پیدا ہو رہا ہوتا ہے.اس لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ، اب پھر کہہ رہا ہوں کہ دوسروں کی مثالیں دے کر بچنے کی کوشش نہ کریں، خود بچیں.اور اب اگر دوسرے احمدی کو یہ کرتا دیکھیں تو اس کی بھی اطلاع دیں کہ اس نے یہ کیا تھا.اطلاع تو دی جاسکتی ہے لیکن یہ بہانہ نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں نے کیا تھا اس لئے ہم نے بھی کرنا ہے، تا کہ اصلاح کی کوشش ہو سکے، معاشرے کی اصلاح کی جاسکے.ناچ ڈانس اور بیہودہ قسم کے گانے جو ہیں ان کے متعلق میں نے پہلے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اگر اس طرح کی حرکتیں ہوں گی تو بہر حال پکڑ ہو گی.لیکن بعض برائیاں ایسی ہیں جو گو کہ برائیاں ہیں لیکن ان میں یہ شرک یا یہ چیزیں تو نہیں پائی جاتیں لیکن لغویات ضرور ہیں اور پھر یہ رسم ورواج جو ہیں یہ بوجھ بنتے چلے جاتے ہیں.جو کرنے والے ہیں وہ
21 خود بھی مشکلات میں گرفتار ہو رہے ہوتے ہیں اور بعض جوان کے قریبی ہیں، دیکھنے والے ہیں ، ان کو بھی مشکل میں ڈال رہے ہوتے ہیں.ان میں جہیز ہیں ، شادی کے اخراجات ہیں، ولیمے کے اخراجات ہیں ، طریقے ہیں اور بعض دوسری رسوم ہیں جو بالکل ہی لغویات اور بوجھ ہیں.ہمیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ہم ایسے دین کو ماننے والے ہیں جو معاشرے کے قبیلوں کے، خاندان کے رسم و رواج سے جان چھڑانے والا ہے.ایسے رسم و رواج جنہوں نے زندگی اجیرن کی ہوئی تھی.نہ کہ ہم دوسرے مذاہب والوں کو دیکھتے ہوئے ان لغویات کو اختیار کرنا شروع کر دیں.تم ایسے دین اور ایسے نبی کو ماننے والے ہو جو تمہارے بوجھ ہلکے کرنے والا ہے.جن بے ہودہ رسم و رواج اور لغو حرکات نے تمہاری گردنوں میں طوق ڈالے ہوئے ہیں، پکڑا ہوا ہے، ان سے تمہیں آزاد کرانے والا ہے.تو بجائے اس کے کہ تم اُس دین کی پیروی کرو جس کو اب تم نے مان لیا ہے اور اُن طور طریقوں اور رسوم و رواج اور غلط قسم کے بوجھوں سے اپنے آپ کو آزاد کرو، ان میں دوبارہ گرفتار ہورہے ہو.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تم تو خوش قسمت ہو کہ اس تعلیم کی وجہ سے ان بوجھوں سے آزاد ہو گئے ہو اور اب فلاح پا سکو گے، کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی ، نیکیوں کی توفیق ملے گی.پس ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو ان رسموں اور لغویات کو چھوڑنے کی وجہ سے ہمیں کا میابیوں کی خوشخبری دے رہا ہے.اور ہم دوبارہ دنیا کی دیکھا دیکھی ان میں پڑنے والے ہور ہے ہیں.بعض اور باتوں کا بھی میں نے ذکر کیا تھا کہ وہ بعض دفعہ احمدی معاشرہ میں نظر آتی ہیں.بعض طبقوں میں تو یہ برائیاں بدعت کی شکل اختیار کر رہی ہیں.ان کے خیال میں اس کے بغیر شادی کی تقریب مکمل ہو ہی نہیں سکتی یہ باتیں ہماری قوم کے علاوہ شاید دوسری قوموں میں بھی ہوں لیکن ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں نے سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا تھا.ان کی یہ سب سے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے اندر کسی ایسے رسم ورواج کو راہ پانے
22 کا موقع نہ دیں جہاں رسم و رواج بوجھ بن رہے ہیں.یعنی جن کا اسلام سے، دین سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہو.اگر آپ لوگ اپنے رسم و رواج پر زور دیں گے تو دوسری قوموں کا بھی حق ہے.بعض رسم و رواج تو دین میں خرابی پیدا کرنے والے نہیں وہ تو جیسا کہ ذکر آیا وہ بے شک کریں.ہر قوم کے مختلف ہیں جیسا کہ پہلے میں نے کہا انصار کی شادی کے موقعہ پر بھی خوشی کے اظہار کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال بیان فرمائی ہے.لیکن جو دین میں خرابی پیدا کرنے والے ہیں وہ چاہے کسی قوم کے ہوں رد کئے جانے والے ہیں کیونکہ احمدی معاشرہ ایک معاشرہ ہے اور جس طرح اس نے گھل مل کر دنیا میں وحدانیت قائم کرنی ہے، اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے، اگر ہر جگہ مختلف قسم کی باتیں ہونے لگ گئیں اس سے پھر دین بھی بدلتا جائے گا اور بہت ساری باتیں بھی پیدا ہوتی چلی جائیں گی.ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے پھر بڑی بدعتیں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں، اس لئے بہر حال احتیاط کرنی چاہئے.“ خطبات مسرور جلد سوم ص 691 تا 693) اپنے آپ کو معاشرے کے رسم ورواج کے بوجھ تلے نہ لائیں اپنے آپ کو معاشرے کے رسم ورواج کے بوجھ تلے نہ لائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کو آزاد کروانے آئے تھے اور آپ کو ان چیزوں سے آزاد کیا اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر آپ اس عہد کو مزید پختہ کرنے والے ہیں.جیسا کہ چھٹی شرط بیعت میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا.یعنی کوشش ہو گی کہ رسموں سے بھی باز رہوں گا اور ہوا و ہوس سے بھی باز رہوں گا.تو قناعت اور شکر پر زور دیا.یہ شرط ہر احمدی کے لئے ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ہو.اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے اس کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے مدنظر رکھنا چاہئے.“ (خطبات مسرور جلد سوم ص 694)
غیر معمولی سجاوٹیں 23 23 عام طور پر غیر معمولی سجاوٹیں کی جاتی ہیں اس کے لئے کوشش ہو رہی ہوتی ہے.بعض لوگ ربوہ میں شادی کرنے والے اس احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں.یہاں سے، باہر سے جانے والے بھی اور ر بوہ کے رہنے والے بھی شاید ہوں، رہنے والوں کے پاس تو کم ہی پیسہ ہوتا ہے اس لئے وہ تو اس طرح نہیں کرتے ایک آدھ کے علاوہ، کہ شادی کا انتظام کرنے کے لئے جولوگ موجود ہیں، جو کاروبار کرتے ہیں ان سے کام کروانے کی بجائے یا ان سے کھانے پکوانے کی بجائے ، باہر سے، لاہور وغیرہ سے منگوائے جاتے ہیں کہ زیادہ اعلیٰ انتظام ہوگا.ٹھیک ہے ہر ایک کی اپنی اپنی پسند ہے اس کے مطابق کریں.لیکن کسی احساس کمتری کے تحت یہ کام نہیں ہونا چاہئے.احمدی میں اس قسم کا دکھاوے کے لئے احساس کمتری بالکل نہیں ہونا چاہئے بلکہ کسی قسم کا بھی احساس کمتری نہیں ہونا چاہیئے.یہی طوق ہیں جو گر دنوں کو جکڑے ہوئے ہیں.اللہ کرے کہ ہم ہر قسم کے رسم و رواج بدعتوں اور بوجھوں سے اپنے آپ کو آزاد رکھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے والے ہوں اور ہمیشہ اس زمانے کے حکم و عدل کی تعلیم کے مطابق دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں.دین کو دنیا پر مقدم کرنا بھی ایسا عمل ہے جو تمام نیکیوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے اور تمام برائیوں اور لغو رسم و رواج کو ترک کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے.تو اس کی طرف بھی خاص توجہ کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.“ خطبات مسرور جلد سوم ص 699 ، 700 )
24 رسموں کی وجہ سے قرضوں میں گرفتار نہ ہوں شادی بیاہ کے موقعہ پر بعض فضول قسم کی رسمیں ہیں.جیسے بری دکھانا یا وہ سامان جو دولہا والے دولہن کے لئے بھیجتے ہیں اس کا اظہار ، پھر جہیز کا اظہار.با قاعدہ نمائش لگائی جاتی ہے(دین) تو صرف حق مہر کے اظہار کے ساتھ نکاح کا اعلان کرتا ہے.باقی سب فضول رسمیں ہیں.صرف رسموں کی وجہ سے، اپنا ناک اونچار کھنے کی وجہ سے غریبوں کو مشکلات میں، قرضوں میں نہ گرفتار کریں اور دعویٰ یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں اور بیعت کی دس شرائط پر پوری طرح عمل کریں گے.اس شادی کی رسم پر ہی خوفناک بھیانک نتائج سامنے لانے والی اور بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں اور جب رسمیں بڑھتی ہیں تو پھر انسان بالکل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ مکمل طور پر ہوا و ہوس کے قبضہ میں چلا جاتا ہے جبکہ بیعت کرنے کے بعد تو وہ یہ عہد کر رہا ہے کہ ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی حکومت مکمل طور پر اپنے اوپر طاری کر لے گا.اللہ اور رسول ہم سے کیا 66 چاہتے ہیں ، یہی کہ رسم و رواج اور ہوا و ہوس چھوڑ کر میرے احکامات پر عمل کرو.“ تعویذ گنڈے لینے سے بچیں شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ 101 تا 103 ) یہ سب لغویات ہیں بلکہ شرک ہے یہ تعویذ گنڈے کرنے والی جو عورتیں ہیں اگر آپ ان کے ساتھ رہ کر جائزہ لیں تو شاید وہ کبھی نماز نہ پڑھتی ہوں.پھر ہمارے معاشرے میں یعنی جماعت کے باہر جو معاشرہ ہے اس میں زندہ انسانوں کے علاوہ مردہ پرستی بہت ہے...پیروں فقیروں کی قبروں پر جاتے ہیں اور وہاں مرادیں مانگتے ہیں.اب ان قبروں کو بھی لوگوں نے شرک کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.“ الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اول صفحہ 364،363)
25 دنیا وی لغویات سے بچیں آج کل کی برائیوں میں سے ایک برائی ٹی وی کے بعض پروگرام ہیں، انٹرنیٹ پر غلط قسم کے پروگرام ہیں، فلمیں ہیں.اگر آپ نے اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کی اور انہیں ان لغویات میں پڑا رہنے دیا تو پھر بڑے ہو کر یہ بچے آپ کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے...اس لئے کبھی یہ نہ سمجھیں کہ معمولی سی غلطی پر بچے کو کچھ نہیں کہنا ، ٹال دینا ہے ، اس کی حمایت کرنی ہے.ہر غلطی پر اس کو سمجھانا چاہئے.آپ کے سپر دصرف آپ کے بچے نہیں ہیں، قوم کی امانت آپ کے سپرد ہے.احمدیت کے مستقبل کے معمار آپ کے سپرد ہیں.ان کی تربیت آپ نے کرنی ہے.پس خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے اپنے عمل سے بھی اور سمجھاتے ہوئے بھی بچوں کی تربیت کریں اور پھر میں کہتا ہوں اپنی ذمہاری کو سمجھیں اور اپنے عہد بیعت کو جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا ہے اپنے آپ کو بھی دنیاوی لغویات سے پاک کریں......اور اپنے بچوں کے لئے جنت کی ٹھنڈی ہواؤں کے سامان پیدا کر یں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اول صفحہ 372،371)
26 رونق اب بدعت کا رنگ اختیار کر گئی ہے محرم میں شادی کے جائز ہونے کا جہاں تک سوال ہے یہ فتویٰ نہیں دیا جاسکتا کہ ناجائز ہے.لیکن دوسروں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے نہ کرنا بہتر ہے.یہ صرف دوسروں کے نہیں بلکہ ہمارے بھی جذبات کا تعلق ہے.ہندؤں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اگر گائے کا گوشت بند کیا جاسکتا ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود نے پیشکش کی تھی جو جائز اور حلال ہے تو ایسی باتیں جس سے مسلمانوں کے ایک طبقہ کو تکلیف پہنچتی ہو اس کا خیال کیوں نہ رکھا جائے.جہاں تک رونق کا سوال ہے یہ چیز اب بدعت کا رنگ اختیار کرگئی ہے.شادی اور ولیمہ کے فنکشنز فرائض میں سے ہیں.اگر ان کو بعض حالات میں Avoid کرنا زیادہ مستحسن ہے تو رونق تو کوئی شرعی چیز نہیں اور اب جس طرح رونقیں ہوتی ہیں کہ با قاعدہ دعوت دی جاتی ہے اور پھر ہر روز کی نئی سجاوٹیں، بے انتہا ڈھول ڈھمکے ہوتے ہیں یہ غلط ہے اور اس کا سد باب ہونا چاہیے.شوریٰ کے فیصلے میرے منظور شدہ ہیں جن پر عملدرآمد ہونا چاہیے.اس کی پابندی کروائیں.“ (خط حضور انور بتاریخ یکم جنوری 2010ء)
ہر وہ عمل جو نیک عمل ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہے وہ عبادت بن جاتا ہے.اگر یہ مد نظر رہے تو اسی چیز میں ہماری بقا ہے اور اسی بات سے پھر رسومات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.بدعات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.فضول خرچیوں سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.لغویات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں اور ظلموں سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.یہ ظلم ایک تو ظاہری ظلم ہیں جو جابر لوگ کرتے ہی ہیں.ایک بعض دفعہ لاشعوری طور پر اس قسم کی رسم و رواج میں مبتلا ہو کر اپنی جان پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں.اور پھر معاشرے میں اس کو رواج دے کر ان غریبوں پر بھی ظلم کر رہے ہوتے ہیں جو کہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز شاید فرائض میں داخل ہو چکی ہے.اور جس معاشرے میں قلم اور لغویات اور بدعات وغیرہ کی یہ باتیں ہوں، وہ معاشرہ پھر ایک دوسرے کا حق مارنے والا ہوتا ہے.خطبہ جمعہ 15 جنوری 2010ء)