Shadi Per Nasaihe

Shadi Per Nasaihe

شادی بیاہ کے موقع پر بیٹی کو نصائح

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اخلاقیات

Book Content

Page 1

له 2 جاؤ تم کو سایہ رحمت نصیب ہو بڑھتی ہوئی خدا کی عنایت نصیب ہو شادی بیاہ کے موقع پر بیٹی کو نصائح اے ہمارے رب ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.آمین (الفرقان :75) یکے از مطبوعات پیش لفظ

Page 2

4 3 قال اللہ تعالی :- شادی کے موقع پر لڑکی کو نصائح ترجمہ : ” اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تا کہ تم اُن کی طرف تسکین ( حاصل کرنے ) کے لئے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی.“ (الروم : 22) قال الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :- ترجمہ :- ” بہترین رفیقہ حیات وہ ہے جس کی طرف دیکھنے سے اس کے شوہر کی طبیعت خوش ہو.میاں جس کام کے کرنے کے لئے کہے اُسے بجالائے اور جس بات کو اُس کا خاوند پسند نہ کرے اُس سے ( حديقة الصالحین صفحہ 320) بچے.فرمودات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام عورت پر اپنے خاوند کی فرمانبرداری فرض ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر عورت کو اُس کا خاوند کہے کہ یہ ڈھیر اینٹوں کا اُٹھا کر وہاں رکھ دے اور جب وہ عورت اُس بڑے اینٹوں کے انبار کو دوسری جگہ پر رکھ دے تو پھر اُس کا خاوند اُس کو کہے کہ پھر اس کو اصل جگہ پر رکھ دے تو اس عورت کو چاہیے کہ چون و چرا نہ کرے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے.‘ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 30) حضرت اقدس مسیح موعود کی نصائح وو ” جب لڑکی بیاہی جاتی ہے تو اُس کے ہاتھ میں دو چابیاں ہوتی ہیں ایک صلح کے دروازے کی اور ایک لڑائی کے دروازے کی چابی.وہ وو 66 جس دروازے کو چاہے کھول سکتی ہے.خوش نصیب ہوتی ہیں وہ عورتیں جنہوں نے صلح کا دروازہ کھولا.لڑکی کو اپنے ساس ، سسر کی نہایت تابعداری کرنی چاہیے کیونکہ بعد از شادی لڑکی کا تعلق اپنے والدین سے بڑھ کر اپنے ساس سسر سے ہو جاتا ہے.اسی واسطے اُن کے ادب کو ہر وقت ملحوظ رکھنا چاہیے.تعلیم کا یہی فائدہ ہے لڑکی اپنے آپ کو نہایت درجہ تابعدار ثابت کرے.سخت ہی بد بخت ہیں وہ عورتیں جو کہ اپنے شوہروں کو اُن کے والدین سے برگشتہ کرنے کی تجویزیں کرتی ہیں.اُن کو کبھی فلاح دارین نصیب نہیں ہو گا.“ ( سیرت حضرت نواب مبار که بیگم صفحه 343) حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی نصائح اپنے شوہر سے پوشیدہ یا وہ کام جس کو اُن سے چھپانے کی ضرورت سمجھو ہرگز کبھی نہ کرنا.شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے اور بات آخر ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کو کھو دیتی ہے.اگر کوئی کام اُن کی مرضی کے خلاف سرزد ہو جائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا صاف کہہ دینا کیونکہ اس میں عزت ہے اور چھپانے میں آخر بے عزتی اور بے وقری کا سامنا ہے.کبھی اُن کے غصے کے وقت نہ بولنا تم پر یا کسی نوکر پر یا بچہ پر خفا ہوں اور تم کو علم ہو کہ اس وقت یہ حق پر نہیں ہیں.جب بھی اس وقت نہ بولنا.غصہ تھم جانے پر پھر آہستگی سے حق بات اور اُن کا غلطی پر ہونا اُن کو سمجھا دینا.غصہ میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت باقی نہیں رہتی اگر غصہ میں کچھ وہ سخت کہہ دیں تو کتنی ہتک کا موجب ہو.ان کے عزیزوں کو، عزیزوں کی اولاد کو اپنا جاننا کسی کی بُرائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی بُرائی کرے تم دل میں بھی سب کا بھلا ہی چاہنا اور عمل سے بھی

Page 3

6 5.بدی کا بدلہ نہ کرنا.دیکھنا پھر ہمیشہ خدا تمہارا بھلا کرے گا.“ سيرة حضرت اماں جان حصہ دوم ص 167 168 ) ارشادات حضرت خلیفہ اسی اوّل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم اُن کا لباس ہو جیسا کہ لباس میں سکون، آرام ، گرمی سے بچاؤ، زینت ، قسم قسم کے دُکھ سے بچاؤ ہے ایسا ہی اس جوڑے میں ہے.جیسا کہ لباس میں پردہ پوشی ہے ایسا ہی مردوں، عورتوں کو چاہیے کہ اپنے جوڑے کی پردہ پوشی کیا کریں.اس کے حالات کو دوسروں پر ظاہر نہ کریں.اُس کا نتیجہ وو رضائے الہی اور نیک اولاد ہے.“ ( خطبات نور صفحہ 400) آپ نے اپنی بیٹی حفصہ صاحبہ کو شادی کے وقت نصیحت فرمائی.بچہ ! اپنے مالک، رازق اللہ کریم سے ہر وقت ڈرتے رہنا اور اس کی رضا مندی کا ہر دم طالب رہنا.اور دعا کی عادت رکھنا ،نماز اپنے وقت پر اور منزل قرآن کریم کی بقدر امکان بدوں ایام ممانعت شرعیہ ہمیشہ پڑھنا.زکوۃ ، روزہ ، حج کا دھیان رکھنا اور اپنے موقع پر عمل درآمد کرتے رہنا گلہ ، جھوٹ بہتان ، بیہودہ قصے کہانیاں یہاں کی عورتوں کی عادت ہے اور بے وجہ باتیں شروع کر دیتی ہیں.ایسی عورتوں کی مجلس زہر قاتل ہے.ہوشیار خبر دار رہنا...علم دولت ہے بے زوال.ہمیشہ پڑھنا چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو قرآن پڑھانا.زبان کو نرم، اخلاق کو نیک رکھنا.پردہ بڑی ضروری چیز ہے...اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو اور تم کو نیک کاموں میں مدد دیوے.( حیات نورص 83) ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الثالث وو آپ میں سے ہر وہ عورت جس کے گھر میں کوئی فتنہ ہو اور اتحاد میں خلل پیدا ہوتا ہو اپنے خدا کے سامنے اُس کی ذمہ دار ہے اور اُس کے متعلق اپنے رب کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا کیونکہ اُس نے اپنے گھر کی پاسبانی نہیں کی.“ (ماہنامہ مصباح سیدنا حضرت خلیفۃ وو اصبح الثالث نمبر جون جولائی 2008 صفحہ نمبر 85) حضرت خلیفۃ اسیح الرابع فرماتے ہیں احمدی عورت واقعتاً اس بات کی اہلیت رکھتی ہے کہ اپنے گھروں میں وہ کشش دے جس کے نتیجے میں وہ محور بن جائے اور اُس کے گھر کے افراد اس کے گرد گھو میں.اُنہیں باہر چین نصیب نہ ہو بلکہ گھر میں سکینت ملے.ایک دوسرے سے پیار و محبت کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں کہ لذت یابی کا محض ایک ہی رخ سر پر سوار نہ رہے جو جنون بن جائے اور جس کے بعد دُنیا کا امن اُٹھ جائے.خدا تعالیٰ نے پیارومحبت کے جولطیف رشتے عطا فرمائے ہیں ان رشتوں کے ذریعہ وہ سکینت حاصل کریں جیسے خون کی نالیوں سے ہر طرف سے دل کو خون پہنچتا ہے وہ دل بن جائیں اور ہر طرف سے محبت کا خون اُن تک پہنچے اور جسم کے ہر عضو کو ان کی طرف سے سکینت کا خون پہنچے.“ حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ صفحہ 75) ارشاد حضرت خلیفۃ ایسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پس جب شادی ہو گئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں نیک سلوک کریں.ایک دوسرے کو سمجھیں ، اللہ کا تقویٰ اختیار کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو گے تو بظاہر ناپسندیدگی ، پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے زیادہ بھلائی اور خیر پاسکتے ہو.

Page 4

8 7 تو کتنی بے عزتی ہے اور میکے میں جا کر بیٹھنا تو اُس وقت ہی ہے جب خدانخواستہ واقعی نہ جانا ہو.ورنہ ایسی بات قدر کی بجائے بے عزتی کرواتی ہے.کوئی کام میاں سے چھپ کر نہ کرنا جو بات چھپانے کو جی چاہے وہ ہرگز نہ کرنا.اگر میاں کو پتہ چل جائے تو ساری عمر کے لئے بے اعتباری ہو جائے گی کیونکہ ہمیں غیب کا علم نہیں.اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے اور سب قدرتوں کا مالک ہے وہ تمہارے لئے اس میں بھلائی اور خیر پیدا کر دے گا.“ (مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم صفحه 116) حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی نصائح شادی کے بعد پہلے بیوی میاں کی لونڈی بنتی ہے تو پھر میاں بیوی کا غلام بنتا اور بے عزتی الگ.ہے ( یعنی کتنی حکمت اور عقل کی بات ہے کہ بیوی پہلے میاں کی فرماں بردار اور مطیع بنے گی تو میاں کا دل جیتے گی پھر میاں بیوی سے محبت کرے گا) میاں بیوی کی پرائیویٹ باتیں کبھی کسی سے نہ کر وعورتیں اپنی سہیلیوں میکہ کی بات سسرال اور سسرال کی بات میکہ میں نہ کرنا تمہارے دل سے تو وہ بات مٹ جائے گی لیکن بڑوں کے دل میں گرہ پڑ جائے گی.سیرت و سوانح سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ ص 253 تا255) سے اور مرد اپنے دوستوں سے ایسی باتیں کرتے اور اپنی شیخی بگھارتے ہیں جو حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے ایک مکتوب سے اقتباس نہایت بُری اور نامناسب بات ہے.میاں جب باہر سے آئے تو تیار رہو.جب باہر جائے جب بھی تمہارا حلیہ درست ہوتا کہ جب وہ تمہارا تصور کرے تو خوش کن ہو نہ کہ بال پھلائے ہوئے ایک بد بودار عورت کا.غصے کے وقت میاں سے زبان مت چلا ؤ بعد میں غصہ ٹھنڈا ہونے پر اس کی زیادتی پر آرام سے شرمندہ کرو.باہر سے آنے پر بھی لڑائی نہ کرو خواہ تمہیں کتنا ہی غصہ ہو.ہر لحاظ سے آرام پہنچا کر بے شک بھڑاس نکالو.میاں بیوی کمرے میں ہوں تو کبھی کسی بات پر چیخ نہ مارو سننے والے کچھ کا کچھ سوچیں گے.شوہر کی اطاعت اور خوشنودی حاصل کرنا تمہارا فرض ہونا چاہیے سوائے اُن امور کے جو خلاف شریعت اور رضائے مولیٰ کے خلاف ہوں.اس کی خوشیوں میں خوشی سے شریک ہوں.اُس کے تفکرات کے اوقات میں اُس کی دلجوئی کرو.اُس کی عزت ،اُس کا مال ،اُس کی اولاد یہ سب تمہارے پاس امانت ہوں گی اُن امانتوں کی حفاظت کرنا تا کہ خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو سکو.اُس کے عزیزوں کو اپنا عزیز اور اُس کے والدین کو اپنا والدین جاننا.ہر فتنہ انگیز بات سے بچنا اور شکایت کبھی نہ کرنا دُعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ طلب کرتی ( سيرة وسوانح سیده نواب مبار که بیگم صاحبه صفحه 256) رہنا.میاں بیوی کے رشتے میں جھوٹی انا نہیں ہونی چاہیے.اگر اپنی غلطی ہے تو نصائح حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب T پ اپنی صاحبزادی آمنہ طیبہ کے رخصتانہ کے موقع پر ایک خط میں تحریر میاں بیوی کو منالے اس میں کوئی بے عزتی نہیں ہے.لڑ کر کبھی گھر سے جانے کی دھمکی نہ دو.اگر مرد غصہ میں آکر کہہ دے اچھا جاؤ فرماتے ہیں.

Page 5

10 9 بیٹی آپ ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہو.اللہ کرے کہ یہ دور پہلے سے زیادہ پُر سکون ہو لیکن جب انسان ایک دور کو چھوڑ کر دوسرے دور میں داخل ہوتا ہے تو اس میں کئی قسم کی دقتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.ابتدا کی معمولی سی لغزش اکثر اوقات ساری عمر کی پشیمانی کا موجب ہو جاتی ہے.اس لئے نئے دور میں قدم رکھتے ہوئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے.اب تمہارا بہت سے ایسے آدمیوں سے واسطہ پڑنا ہے جن کی طبیعت سے تم مانوس نہیں ہو.بعض بزرگوں کے لئے اپنے خیالات اور جذبات کو قربان کرنا ہوگا اور بعض افراد کے لئے اپنی طبیعت کو مجبور کر کے پیار محبت کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے تاکہ ان کے ماحول کے قالب میں تم اپنے آپ کو ڈھال سکو.تم کو اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ نکما اور بے کار آدمی دوسروں کی نظر میں بالکل گر جاتا ہے.اس لئے کام کرنا اور خدمت کرنا اپنا شیوہ بنا لو.اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالو.انسان کی حالت دُنیا میں ایک جیسی نہیں رہتی تنگی ترشی دونوں پہلو لگے ہوئے ہیں.تنگی میں صبر کو ہاتھ سے نہ چھوڑو بغیر کسی قسم کی گھبراہٹ کے اللہ کی نصرت صبر شکر کے ساتھ طلب کرتے رہو اور ایسی حالت میں اپنے میاں کے لئے امن اور تسکین کا فرشتہ بنی رہو.اپنے مطالبات سے اس کو کبھی تنگ مت کرو.یہاں تک کہ اس کا فضل آ جائے لیکن ایسی حالت میں ایسی قناعت نہیں چاہیے کہ دونوں بے کار ہو کر بیٹھے رہو.خود بھی اور میاں کو بھی خدا کے آگے جھکائے رکھو اور کام کرنے اور محنت کرنے کی ترغیب اُن کو دیتی رہو.“ مصباح اپریل 2001 صفحہ 8-9 ) نصائح حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب آپ اپنی بیٹی حضرت مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا) کی شادی پر نصائح کرتے ہوئے فرماتے ہیں.بیوی کا پہلا فرض ہے کہ جب وہ خاوند کے گھر جائے تو اُس کی مرضی پہچاننے کی کوشش کرے اور اُس کی طبیعت اور مزاج کا علم حاصل کرے.پھر اگلا مرحلہ یعنی خاوند کو راضی رکھنا بہت آسان ہو جاتا ہے مگر بعض باتیں ایسی ہیں جو عموماً خاوند کی تکلیف کا باعث بنتی ہیں اُن سے خاص کر احتراز کرنا چاہیے وہ باتیں یہ ہیں.ایک بات یہ ہے کہ بیوی اکثر خرچ کے لئے تقاضا کرتی ہے.خرچ حکمت سے لینا چاہیے نہ کہ تقاضا اور تنگ کر کے اور جب خاوند کے پاس روپیہ موجود نہ ہو اس وقت مطالبہ کرنا اُس کو تکلیف دینا ہے.ایک بات یہ کہ بیوی اکثر اوقات بد مزاج یا خاموش رہے اور جب خاوند گھر آئے تو اُسے سچے دل سے خوش آمدید نہ کہے یا اُس کی بات کاٹے یا ایسے الفاظ لوگوں کے سامنے کہے جس میں خاوند کی کسی قسم کی تحقیر ہو یا بہت نخرے کرے اور ناز برداری کی خواہش رکھے اُس کی خیر خواہی کی بات نہ مانے مثلاً اگر وہ کہے کہ میرے ساتھ کھانا کھاؤ تو جواب دے کہ مجھے بھوک نہیں وہ کوئی دوا تجویز کرے تو کہے کہ یہ مجھے مفید نہیں ہوگی.میں اسے استعمال نہ کروں گی.وہ کوئی کپڑا یا تحفہ لائے تو اُسے حقارت سے دیکھے.غرض ایسی بیسیوں چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن میں بیبیاں اکثر فیل ہو جاتی ہیں اور اپنی زندگی کو تلخ کر لیتی ہیں.بحث کرنا اور مخالف جواب دینا یہ خاوند کے دل سے بیوی کی محبت کو اس طرح اُڑا دیتا ہے جس طرح ربڑ پنسل کے لکھے کو.اور یہ عادت

Page 6

11 آج کل کی تعلیم یافتہ لڑکیوں میں بہت ہے.مریم صدیقہ ! صبح کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت اگر ہمیشہ کرتی رہوگی تو تمہارے دل میں ایک نور پیدا ہوگا.جس بی بی کو گھر کی صفائی ، پکانا، سینا اور خانہ داری آتی ہے وہ خاوند کو زیادہ خوش رکھ سکتی ہے بہ نسبت اُس کے جو کمی ناولیں یا قصے ہی پڑھتی رہتی ہے یا اپنے بناؤ سنگھار میں لگی رہتی ہے.بے قراری کا اظہار ایک معیوب بات ہے صبر ایک اعلیٰ خلق.خصوصاً عورتوں کے لئے اور بھوک، بیماری، درد اور اذیت پر صبر کرنا صدق ، تقویٰ اور ایمان کی علامت ہے.“ مصباح جولائی 2004 صفحہ 15-16) نصائح محترم جمال احمد صاحب عرب (ماریشس) آپ نے اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر نصیحت فرمائی.بیٹی جس خدا نے تمہیں پیدا کیا ہے اُس کو کبھی نہ بھولنا وہ بھی کبھی نہ بھولے گا.کوئی نماز ضائع نہ ہونے دینا اور کوشش کرنا کہ تمہارا شوہر لو میری پیاری بچی تم کو خدا کو سونیا اس مہربان آقا اس با وفا کو سونیا کرنا خدا سے اُلفت رہنا تم اُس سے ڈر کر بس اُس کو یاد رکھنا تم اُس سے پیار رکھنا سوفار عشق اُس کا تم دل کے یاد رکھنا تم اُس سے چاہ رکھنا دلبر ہے وہ ہمارا مشکل کے وقت دونوں اُس نگاہ رکھنا بھی نمازی بن جائے اور روزانہ صبح نماز کے بعد قرآن کریم کی تلاوت الفت نہ اُس کی کم ہو رشتہ نہ اُس کا ٹوٹے بھی ضرور کرتی رہنا اور پھر خدا کے بعد اپنے خاوند کی پوری پوری اطاعت کرنا اور اپنی خوشی پر اُس کی خوشی مقدم کرنا.اگر تم کو کوئی تکلیف چھٹ جائے خواہ کوئی دامن نہ اُس کا چھوٹے ہو تو بجائے ماں باپ کے پاس شکایت کرنے کے خدا کے آگے رونا اور اُس سے دعا مانگنا کیونکہ وہ دعا کرنے والوں کے لئے ماں باپ سے بہت زیادہ مہربان ہے.(مصباح مارچ 2007 صفحہ 22) نام کتاب، شادی بیاہ کے موقع پر بیٹی کو نصائح.ناشر، لجنہ اماءاللہ کراچی شمارہ 90 تعداد 1000 کمپوزنگ، خالد محمود اعوان.پرنٹر ، وائی آئی پریس کلام محمودص 224

Page 6