Language: UR
یہ دو حصوں میں تقسیم تحقیقی مقالہ اولاً محترم قاضی صاحب نے جلسہ سالانہ ربوہ 1952ء کے موقع پر اپنی تقریر کی صورت میں پیش کیا تھا جسے 1977ء میں کتابی شکل دیکر ناظر دعوۃ والتبلیغ صدر انجمن احمدیہ قادیان پنجاب بھارت نے شائع کیا تھا جس سے جماعت احمدیہ کے موقف بابت ختم نبوت کی تشریح و توضیح کے ساتھ ساتھ متفرق اعتراضات کا جواب بھی مل سکتا ہے۔ نیزقریباً 300 صفحات کی اس کتاب میں آپ کی جلسہ سالانہ ربوہ 1954ء کے موقع پر کی گئی تقریر کا خلاصہ بھی آگیا ہے۔
ما كان محمد ابا خَاتَمَ النَّبِينَ وَكَانَ الكُلِّ شَى عَلِيمًاه رجالكم ولين رسول الله و ( احزاب رکوع ۵) نائم التنين تقرير جلسه سالانه ریوه و سمیر ۶۱۹۵۲ و خلاصه تقریر ۶۸۹۵ : سه اضی محمد نذیر صاحب مفاصل سابق پرنسپل جامعه یه ربوه لناشر: ناظر دعوة و تبلیغ حت در این احمدیہ قادیان (پنجاب) خداد طبع پانچ ہزار سن اشاعت، ۶۱۹۷۷
بسم الله الرحمن الرحيمة پیش لفظ نحمده ونصلى على رسوله الكريم قادیان کے کسی جا سالانہ پریس نے ایک دفعہ حقیقت نبوت کے موضوع پر تقریر کی.تقریر کے بعد میرے محترم بزرگ اور ولی دوست حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ تقریر خود کتنی فصیح و بلیغ ہو ہوا میں اڑ جاتی ہے.لہذا تمہیں کوئی ایسی کتاب لکھنی چاہیئے جس سے آئیندہ نسلیں فائدہ اُٹھائیں.ی کے جال سالانہ ربوہ میں مجھے حسن اتفاق سے تقریر کرنے کا موقع میستر آیا.جو بعض احباب کی تحریک پر اب میں حضرت ڈاکٹر صاحب موصوف رضی اللہ عنہ کی یاد میں شان خاتم النبیین کے نام سے کتابی صورت میں پیش کر رہا ہوں.اپنے والد محترم قاضی حکیم موحسین آف کورووال ضلع سیالکوٹ کی ہدایت کے ماتحت ہیں نے اس کے عربی اقتباسات پر اعراب بھی لگادیے ہیں.تا اس کے پڑھنے میں قارئین کرام کو آسانی رہے.یہ مضمون در اصل ایک تحقیقی مقالہ ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے.مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے اُمید واثق ہے کہ جو صاحب اس کے پہلے حصے کا بھی امعان نظر سے مطالعہ فرمائیں گے اُن کا دل اس یقین سے بھر جائے گا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اور جماعت احمدیہ پیچھے دل سے سیدنا و مولنا اور نجر دو عالم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین کرتے ہیں اور قرآن مجید کے خدا تعالیٰ کی آخری اور اتم اور اکمل شریعیت ہونے پر ایمان رکھتے ہیں.جماعت احمدیہ حضرت بانی سلسلہ احمدی علیہ اسلام کو اس شریعیت کا ایک خادم اور آنحضر صلی اللہ علیہ سلم کے فیض کی برکت سے کمالات نبوت پاک تجدید دین کے لئے مامور من ال یعنی امتی بتی یقین کرتی ہے.خادم ملت : محمد نذیر لائلپوری
بسم الله الرحمن الرحیم هوالت نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اصر شان خاتم النبیین تقریر جلس الانہ ربوہ.دسمبر ۱۹۵۲ نه امَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِينَ ، وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاه (سورۃ احزاب) احباب کرام ! میری اس تقریر کے دو حصے ہیں.میں اس کے حصہ اول میں انشاء اللہ ثابت کروں گا کہ حضرت بانٹے سلسلہ احمدیہ علیہ السّلام اور جماعت احمدیہ مسلمانوں کے مسلمہ بزرگوں، اولیائے امت محمدیہ اور علمائے ربانی کی تفسیر و تشریح کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچتے دل اور پوری بصیرت سے خاتم النبیین یقین کرتی ہے.نیز یہ ثابت کروں گا، کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر وہ نبوت جو ان فقہائے ملت اور علمائے ربانی کے نزدیک منقطع ہو چکی ہے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بھی اُسے منقطع سمجھتے ہیں.اور ایسے دعوی نبوت سے آپ کو بشدت انکار رہا ہے بلکہ آپ ایسے دعوی کو سراسر گھر ولعنت قرار دیتے ہیں.ہاں جن کمالات نبوت کو یہ
بزرگان دین از روئے قرآن مجید اور احادیث نبویہ امت کے لئے باقی قرار دیتے ہیں اور شان خاتم النبیین کے منافی نہیں سمجھتے آپ کو انہی کمالات کے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی وساطت سے پانے کا دعوئی ہے.اور آپ ایک خادم السلام ہیں جو تجدید دین اسلام کے لئے مامور ہوئے ہیں.مضمون کے دوسرے حصہ میں خاتم النبی صلی اللہ علیہ ول کی حقیقی شان کے متعلق از روئے سیاق آیت الكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ - لغتِ عربی - قرآن مجید و احادیث نبویہ اپنی ایک تحقیق پیش کر رہا ہوں جس سے ظاہر ہوگا کہ جماعت احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فی الحقیقت اپنی پوری اور سیقی اور کامل شان ہیں خاتم النبیین یقین کرتی ہے.اور اسلام کی اس بارہ میں جوتعلیم ہے اس سے سیر مو انحراف نہیں رکھتی.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ میری اس تقریر کو اُن غلط فہمیوں کے ازالہ کا موجب بنائے جو جماعت احمدیہ کے عقیدہ کے بارے میں مخالفین کی سنی سنائی باتوں کی بنا پر سلمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں تا امت محمدیہ میں ایسا اتفاق اور کہتی پیدا ہو جو ملک کی سالمیت اور امن و استحکام کے لئے نہایت ضروری ہے.اللهم آمین ! شان خام تی یا تعالی کا کانا کے ہو کی علت مانی ہے برادران ملت ! سرور کائنات فخر موجودات، سيد الانبياء امام الانقياء والاصفيا سید نا دولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسم کا خاتم النبیین ہونے کا مرتبہ اور شان اسلام کی جان اور احمدیت کی روح رواں ہے.خاتم نبی صلی الہ علیہ وسلم
A کا یہ مقام اور مرتبہ ہی تمام عالم اور کائنات کے ظہور کی علت نائیہ ہے جس قدر انبیاء اور اولیاء ابتدائے آفرینش سے اس وقت تک پیدا ہوئے ہیں اور قیامت تک پیدا ہوں گے اُن سب کے ظہور میں شان خاتم النبیین بطور علت غائیہ کے موثر ہے.اور یہ سب بزرگوار خاتم النبیین کے آفتاب عالم تاب کے نقطہ نفسی کی شعاعوں کے ہی پر تو اور مظاہر ہیں.خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا نقطہ نفسی اس وقت بھی بطور علت غائیہ کے موثر تھا جبکہ آدم علیہ السلام کا ابھی پانی اورسٹی میں خمیر اٹھ رہا تھا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرماتے ہیں :.كنت مكتوبا عِنْدَ اللَّهِ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَأَنَّ أَدَمَ لَمَسْجِدِل بين الماء والطين (مسند احمد بن حنبل و کنز العمال جلد ۶ مثلا ) کہ میں اس وقت بھی اللہ تعالے کے حضور خاتم النبیین لکھا ہوا تھا جبکہ آدم ابھی پانی او کیچڑ میں لت پت تھا.ختم النبین کا فیضان المگیر بانی سلسلہ احمدیہ کی نگاہ میں ! چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علی الاسلام حقیقت محمدیہ کے بیان میں آیت قرآنیہ دنى فَتَدَ لَى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی کے مقام کی تفسیر کرتے ہوئے جو دراصل خاتم النبیین کی ہی شان کا ایک دوسرے پیرا یہ میں قرآنی بیان ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو توسین کی قاب (وتر ) کا مرکزی نقطہ قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- بجز ایک نقطہ مرکز کے اور جس قدر نقاط وتر ہیں اُن میں دوسرے انبیاء
ور رسل و ارباب صدق و صفا بھی شریک ہیں اور نقطہ مرکز اس کمال کی صورت ہے جو صاحب وتر کو بہ نسبت جمیع دوسیر کمالات کے اعلی وارفع و اخص و ممتاز طور پر حاصل ہے جس میں حقیقی طور پر مخلوق میں سے کوئی اس کا شریک نہیں.ہاں اتباع اور پیروی سے نسلی طور پر شریک ہو سکتا ہے.اب جاننا چاہئیے کہ در اصل اسی نقطۂ وسطی کا نام حقیقت محمدیہ ہے.جو اجمالی طور پر جمیع حقائق عالم کا منبع واصل ہے.اور در حقیقت اسی ایک نقطہ سے خط و تر انبساط وامتداد پذیر ہوا ہے.اور اسی نقطہ کی روحانیت تمام خط وتر میں ایک ہوتیت ساریہ ہے جس کا فیض اقدس اس سارے خط کو تعین بخش ہو گیا ہے.عالم جس کو متصوفین اسماء اللہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں اس کا اول و علی مظہر میں سے وہ علی وجہ التفصیل صدور پذیر ہوا ہے یہی نقطہ درمیانی ہے جس کو اصطلاحات اہل اللہ میں نفسی نقطہ احمد مجتبی و محمد مصطفی نام رکھتے ہیں اور فلاسفہ کی اصطلاحات میں عقل اول کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے اور اسی نقطہ کو دوسرے وتری نقاط کی طرف وہی نسبت ہے جو ہم نظم کو دوسرے اسماء الہیہ کی طرف نسبت واقع ہے.غرض سر چشمه رموز غیبی و مفتاح کنوز لاری اور انسان کامل دکھلانے کا آئینہ یہی نقطہ ہے.اور تمام اسرایی مبداء و معاد کی علت غائی اور ہر یک زیر و بالا کی پیدائش کی لیمیت یہی ہے جس کے تصور بالکنہ و تصور بجنہہ سے تمام عقول و افہام
بشریہ عاجز ہیں ، اور جس طرح ہر ایک حیات خدا تعالیٰ کی حیات مستفاض اور ہریک وجود اس کے وجود سے ظہور پذیر اور ہر یک تعیین اس کی تعیین سے خلعت پوش ہے ایسا ہی نقطہ محمد یہ جمیع مراتب اکوان اور خطائر امکان میں باذنہ تعالیٰ حسب استعدادات مختلفہ وطبائع متفاوتہ موثر ہے.“ ۱ ۱۹) دسرمه چشم آریه شده ۱ تا ۱۰ ایڈیشن جدید و ف۲۲ تا ۲۳۳ ایڈیشن قدیم ) اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمد بلال سلام کے نز دیک سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام کائنات میں ایسی بلند شان اور اعلیٰ و ارفع مقام رکھتے ہیں جس میں کوئی دوسرا آپ کا حقیقی طور پر شریک نہیں.آپ کے نزدیک تمام انبیاء و اولیاء کے ظہور میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا نقطۂ نفسی بطور علت غائیہ کے موثر رہا ہے.انبیائے سابقین اصالتا اور براہ راست نبی ہونے کے باوجود حسب استعدادات مختلفہ وطبائع متفاوتہ آپ کے نقطۂ نفسی سے متاثر ہوئے ہیں جس طرح کہ صاحب فائیہ اپنی علت غائیہ سے متاثر ہوتا ہے اور اس علت ضائیہ کا ایک فیض ہوتا ہے.کیو نکہ علت غائیہ بھی ایک مبداء کی حیثیت رکھتی ہے.ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم جسمانی میں ظہور کے بعد چونکہ آپ کے ذریعہ شریعیت کا ملہ آچکی ہے.لہذا اب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود سے ستفیض ہونے کے لئے آپ کی شریعت کی پیروی کا واسطہ بھی شرط ہو گا اور اس طرح آپ کا وجود بواسطہ شریعیت کاملہ ایک رنگ میں بطور علت فاعلیہ کے بھی موثر ہوگا جیسے وہ بطور علت نمائیہ کے موثر رہا ہے.پھر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ حقیقۃ الوحی شما و 114 میں تحریر فرماتے ہیں :-
پس میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نی جس کا نام محمد ہے ہزار ہزارہ درود و سلام اس پہ ، یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیا می شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا ہی لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اسکے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین اور آخرین پر فضیلت بخشی اور اسکی مرادیں اس کی زندگی میں اُس کو دیں.وہی ہے جو سر حشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے.کیونکہ سر یک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے ہو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نجی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میستر آیا ہے اس آفتاب ہدایت کی شعاع دُھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں “ (حقیقة الوحی شا) و (۱۶)
9 بانی سلسلہ احمدیہ کا ما مرتب اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ صمدیہ علی اسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابل کی منتقل اور آزاد مرتبہ کا کوئی دعوی نہیں بلکہ آپ کے نزدیک حضرت خاتم النبی صلی اللهعلیہ وسلم ہ ہر فیض کا سرچشمہ اور ہر فضیلت کی کلید ہیں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا اپنا عمومی صرف یہ ہے کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعیت کاملہ کی پیروی اور آپؐ کے فیض کی برکت سے خدا تعالیٰ سے مکالمہ مخاطبہ شتمل بر امور غیبیہ کثیرہ کی نعمت کا شرف پایا ہے.اور آپ تجدید دین کے لئے مامور ہیں..مکالمه مخاطبه البیته مشتمل بر مر غیبیہ کی صحت کا علی وجہ الکمال آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی امت کو ملنا ہی ایک ایسا شرف ہے جس سے یہ امت دوسری امتوں کے مقابلہ میں خیر امت قرار پاتی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں ہے ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اسے خیر یہ سل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے مکالمہ مخاطبہ الہیہ کی نعمت تو بنی اسرائیل کی عورتوں کو بھی ملتی رہی ہے.چنانچ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کو یقینی و قطعی الہام الہی سے مشرف کیا گیا.اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہا السلام پر جبریل اور دوسرے ملائکہ وحی لیکر نازل ہوتے رہے جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے.پس اگر ات محمية معالم مخاطبه البیہ نام کاملہ کی اس سے محروم ہوتی تو پھر خداتعالی کیوں فراما كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.خُدا تعالیٰ کی صفات تو ازلی ابدی
ہیں.اور اس کی قدرتیں اور کمالات لازوال او تعطل سے مبرا ہیں.پس اگر خدا تعالی پہلے بولتا تھا تو یہ ناممکن ہے کہ اب اس کے بولنے کی صفت ہمیشہ کے لئے معطل ہو جائے.دوسرے مذاہب اب زندہ کہلانے کے اسی لئے تو حقدار نہیں کہ ان مذاہب کے ماننے والوں میں اب کوئی شخص مکالمہ مخاطبہ الہیہ قطعیہ یقینیہ کے شرف سے مشرق نہیں ہوتا.اگر اسلام میں بھی یہ دولت نصیب نہ ہو سکتی تو پھر ہم بھی قصہ گو ہی ٹھہرتے.پھر اسلام کو دوسرے ادیان پرخدا تعالیٰ سے روحانی مراتب قرب کا تعلق پیدا کرانے کے لحاظ سے کوئی فخر نہ ہو سکتا.نیں حق بات ی ہے کہ معاملہ خطبہ الہیہ کا اشرف اسلام کے زندہ مذہب اور آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے زندہ اور کابل اور مکمل ( کامل کرنے والا ) نبی ہونے کا ایک روشن ثبوت دے ہے.خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی نبض رسانی کا تو عین مقتضی یہ ہے کہ آپ کی پیروی سے آپ کے امتیوں کے لئے مکالمہ مخاطبہ الہیہ کی نعمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ر ہے.بلکہ آپ کی امت کو پہلوں سے بھی بڑھ کہ یہ نعمت ملے.ورنہ اگر خاتم النبیین کے مقام کو مکالمہ مخاطیہ الہیہ کے دروازہ کو بند کرنے کا موجب قرار دیا جائے تو ہیں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور امت محمدیہ کی صریح بہتک ہے.کیونکہ معاملہ مخاطبہ الہیہ تو قریب الہی کی ایک علامت ہے.اگر یہ بند ہو تو گویا امت محمدیہ قرب الہی سے محروم ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ اسے محروم کرنے والے ٹھہرتے ہیں.پس خاتم النبیین کی آیت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محل مدح میں نازل ہوئی ہے، وہ تو آپ کی فیض رسانی کا کمال ظاہر کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے.پھر مکالمہ مخاطبہ المبيد مشتمل بر امور غیبیہ تو خدا تعالے کی
ہستی کے موجود ہونے کا ایک مشین ثبوت ہوتا ہے.اور اس روشن ثبوت کی ضرورت ہر زمانہ کے لوگوں کو رہی ہے.لہذا امت محمدیہ ہی ہر زمانہ میں اس کا ثبوت پایا جانا چاہیئے بالخصوص اس مادہ پرستی کے زمانہ ہیں تو اس نعمت کے ملنے کی اشد ضرورت تھی.اکابر علماء اہل سنت نے مکالمہ مخاطبہ الہیہ مکالمہ اکابر علما اور مال ما این باری کی تم کو امت محمدیه یں باقی مانا ہے.اور اُسے ایک سم نبوت کی بھی قرار دیا ہے کیونکہ رسول مقبول صلی الہ علیہ و آلہ وسلم نے خود فرما دیا ہوا ہے.لم يبقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُشِرَاتُ صحیح بخارى كتاب التعبير کہ نبوت میں سے الْمُبَشِّرات (اخبار غیبیہ کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے المبشرات یعنی اخبار غیبیہ کو نبوت میں سے باقی قرار دیا ہے.اس حدیث میں لفظ النبوة سے مراد نبوت مطلقہ ہوسکتی ہے یا نبوت تاہیہ کالم محمدیہ جو تمام کمالات ونی کی حامل اور ایک جامع اور اکمل شریعت پر قمشتمل ہے.گویا اس حدیث میں امت محمدیہ کے لئے صرف المبشرات کی تقیم نبوت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے باقی قرار دیا ہے.یہ المبشرات وہ اخبار غیبیہ ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و علم کے امتی کو آپ کی شریعت کا ملہ کی پیروی اور آپ کے روحانی فیض کی برکت سے حاصل ہوتی ہیں.مبشرات کا ایک شیر اور مند به مقداریں بلنہی جبکہ وہ بشرات عظیم الشان اخبار غیبیہ مشتمل ہوں لغت عربی کے لحاظ سے نبوت کہلاتا ہے.چونکہ نبوة نَبَا سے ماخوذ ہے جس کے معنی عظیم الشان خبر ہیں.اس لئے عظیم الشان اخبار غیبیہ
پانے والے کو لغت عربی میں نبی کہتے ہیں.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- فَلا يُظْهرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولِ ر سورة الحجن کو پاره ۲۹ ) کہ خدا تعالیٰ اپنے مصفی غیب پر سی کو دوسرے ملہوں کے مقابلہ ہیں غلبہ اور قدرت نہیں بخشتا سوائے اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ یعنی رسول ہو.حضرت محی الدین ابن عربی کے نزدیک نبوت باقیہ سرتاج صوفیاء حضرت شیخ اکبر محی الدین بن عربی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:.لَيْسَتِ النُّبُوَّةُ بِأَمْرِ زَائِهِ عَلَى الْأَخبار الالهي وفتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۱۳) سوال نمبر ۱۸۸) که نبوت اخبار الہی امور غیبیہ سے کسی زائد امر کا نام نہیں.یہ اخبار الہی ہی وہ نبوت ہے جو حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاقیامت باقی ہے.ان کے نزدیک آن وه صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف نئی شریعت کا آنا منقطع ہوا ہے.چنانچہ لَمُ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِرَاتُ کی روشنی نہیں فرماتے ہیں :- فَالنُّبُوَةُ سَارِيَةً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي الْخَلْقِ وَإِنْ كَانَ النَّشْرِيعُ قَدِ انْقَطَعَ - فَالتَّشْرِيْحُ جُزْء مِنْ أَجْزَاءِ النبوة وفتوحات کمیته جلد ۲ صنت باب ۱۳۷۳ ) یعنی نبوت مخلوق میں قیامت کے دن تک جاری ہے.گو تشریعی نبوت منقطع
۱۳ ہو گئی ہے.بس شریعیت نبوت کے اجزاء میں سے ایک بزد ہے.پھر اس مبشرات والی غیر تشریعی نبوت کے جاری رہنے کے متعلق وہ یہ دلیل دیتے ہیں :- فَإِنَّهُ يَسْتَحِيلُ أَنْ يَنْقَطِعَ خَبُرُ اللَّهِ وَ أَخْبَارُهُ مِنَ الْعَالَمِ إذْ لَوِ انْقَطَعَ لَمْ يَبْقَ لِلْعَالَمِ عِذَاءُ يَتَخَذَى به في بقاء وُجُودِ (فتوحات مکیہ جلد امت با ۸۳) یعنی یہ امر محال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اخبار غیبیہ اور حقائق و معارف کا علم دیا جانا بند ہو جائے.کیونکہ اگر یہ بند ہو جائے تو پھر دنیا کے لئے کوئی روحانی غذا باقی نہ رہے گی جس سے وہ اپنے روحانی وجود کو باقی رکھ سکے.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کے نزدیک اس جگہ وہ نبوت جو قیامت تک باقی ہے اخبار غیبیہ کا ہی دوسرا نام ہے.شریعت دائی نبوت اب نہیں مل سکتی.شریعت کو وہ نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزیر..عارض یعنی اس اخبار غیبیہ والی نبوت پر ایک وصف زائد یا جزو زائد قرار دیتے ہیں.چنانچہ وہ فرماتے ہیں : فلما كانت النُّبُوَةُ اشْرَفَ مَرْتَبَةِ وَالْمَلَهَا يَنْتَعِى إليها مَنِ اصْطَفَاهُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ عَلِمْنَا اَنَّ التَّشْرِيمَ امْرُ عَارِضَ بِكَونِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَنْزِلُ فِيْنَا حَكَما مِنْ غَيْرِ تَشْرِيعِ وَهُوَ نَى بِلَا شَاقِ (فتوحات کلیه جلد اول ) یعنی جب نبوت وہ اشرف اور اکمل مرتبہ ہے جس پر وہ شخص پہنچتا ہے جسے خدا تعالیٰ
- ۱۴ نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ہو تو ہم نے جان لیا کہ شریعت کا لانا ایک امیر عارض راعنی نبوت مطلقہ کی حقیقت ذاتیہ پر ایک وصف زائد ہے.کیونکہ حضرت عیسی علی دات کام ہم میں حکم ہو کر نازل ہوں گے.اور وہ بلاشبہ نبی ہوں گے.یعنی اگر نبوت کے لئے شریعت کا لانا ضروری ہوتا تو امت محمدیہ کا مسیح موعود نبی اللہ نہ کہلا سکتا.کیونکہ وہ بلا شریعیت جدیدہ ہوگا.جب وہ بغیر شرعیت جدیدہ کے بھی بلا شک نبی اللہ ہے.تو معلوم ہوا کہ شریعت، نبوت پر ایک وصف زائد ہے.جو کسی نبی کو حاصل ہوتی ہے اور کسی کو نہیں.پس حضرت محی الدین ابن عربی کے نزدیک نبوت کی حقیقت ذاتیہ تو اخبار غیبیہ کا منجانب اللہ پانا ہی ہے.شریعیت اُن کے نزدیک کبھی نبوت کے ساتھ جمع ہوتی ہے کبھی جمع نہیں ہوتی.یادر ہے کہ شریعت کو بھی وہ جز ء نبوت اسی لئے قرار دیتے ہیں کہ اوامر و نواہی جو امور شریعت ہیں قبل از تزول امور غیبیہ کے ہی محکم میں ہوتے ہیں حضرت امام عبدالوہاب شعرانی علیہ رحمہ فرماتے ہیں :- اعْلَمُ اَن مُطْلَقَ النُّبُوَّةِ لَمْ تَرْتَفِعُ إِنَّمَا ارْتَفَعَ تُبُوةُ التَّشْرِيحِ » (الیواقیت و الجواهر عبد منا ومن بلحاظ ایران مختلفه) یعنی جان لو کہ مطلق نبوت بند نہیں ہوئی.صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے.یہ مطلق نبوت جو ان بزرگوں کے نزدیک بند نہیں ہوئی ، المبشرات والی نبوت ہے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لم يبقَ مِنَ النُّبُوةِ إِلَّا المُبَشِرَاتُ میں باقی قرار دیا ہے جسے بالفاظ دیگر المبشرات والی نبوت یا نبوت غیر تشریعی کہا جا سکتا ہے.
۱۵ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو ملائکہ کے ذریعہ بشارتیں ملنے کا وعدہ دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے :- إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُم تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَا كُمْ فِي الحَياةِ الدُّنْيَا وَ نِي الأخرة رحم السجده ۴۶) یعنی جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اُس پر استقامت دکھائی تو ان پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ تم کوئی خوف نہ کرو.اور نہ کوئی غم کھاؤ اور اس جنت کی بشارت پاؤ جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو.ہم دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے مددگار ہیں.اس آیت سے ظاہر ہے کہ امت محمدیہ کے نیک لوگ علی قدیر مراتب مکالمہ الہیہ کی نعمت سے مشرف ہوتے رہیں گے.حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :- هذا التَّنزِيلُ هُوَ النُّبُوَّةُ العَامَّةُ لَا بُوَةُ التَشْرِيمِ.و فتوحات مکیہ جلد ۲ ۲۲۲۰ باب معرفة الاستقامة ) یعنی یہ ملائکہ کا کلام لانا تیوت عامہ ہی ہے.نہ کہ تشریعی نبوت.اس نبوت عامہ سے حصہ ہر سچے مومن استقامت دکھانے والے کو اس کے مرتبہ کے موافق حاصل ہوتا ہے.جس کو یہ مرتبہ نبوت عامہ کا علی وجہ الکمال حاصل ہو اس کو خدا تعالے
L 14 نبی کا نام دیتا ہے.چنانچہ سول کریم صلی اللہ علی وسلم نے امت محمدیہ کے مسیح موعود کو نبی اللہ راسی نبوت عامہ کے علی وجہ الکمال پانے کی بناء پر قرار دیا ہے.حديث لم يلقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا المُبَشِّعَرَاتُ در اصل آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے آیت خاتم النبیین کی ایک لطیف تغیر ہے.اس حدیث میں ہنحضر صلی اللہ علیہ ولم نے خاتم النبیین کے معنی کے دو پہلو بیان فرمائے ہیں.اور ان چھ لفظوں میں دریا کو گویا گوزہ میں بند کر دیا ہے.حدیث ہدا کے پہلے چار الفاظ لم يبقَ مِنَ النُّبوة خاتم النبیین کے معنے کے منفی پہلو پر روشنی ڈال رہے ہیں کہ شریعت جدیدہ والی نبوت اور آزاد اور مستقل نبوت آپ کے بعد منقطع اور بند ہے.اور إِلَّا الْمُبَشِرَاتُ کے دو لفظوں میں خاتم النبیین کے معنے کا مثبت اور فیض رسانی والا پہلو بیان فرما دیا ہے.کہ صفہ المبشرات والی نبوت یا المبشرات کا حصہ نبوت ، نبوت میں سے اُمت کے لئے باقی ہے جو صرف آپ کی شریعیت کی پیروی اور آپ کے افاضہ روحانیہ سے آپ کی اُمت کو مل سکتا ہے.قرآن مجید اور خاتم النبیین کے دو پہلو ہیں طرح اس حدیث میں آنحضرت صل اللہ علیہ سلم نے خاتم النبیین کے معنی کے دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے نبوت میں سے صرف المبشرات والی نبوت یا
16 المبشرات والے حصہ نبوت کو باقی قرار دے کر دوسری قسم اور حصہ کو جوس تنقلہ نبوت اور تشریعی نبوت ہے منقطع قرار دیا ہے.ویسے ہی قرآن مجید میں خاتم النبیین کے معنے کے ان دونوں صنفی اور مثبت پہلوؤں پر دو آیتیں روشنی ڈال رہی ہیں.آیت اَلْيَوْمَ المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمُ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (سوره مائده رکوع اول) یعنی آج تم پر دین کو کامل کر دیا گیا ہے اور (دین کے لحاظ سے) تم پر نعمت پوری کر دی گئی ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا گیا ہے " کا مضمون انت محمدیہ میں شارع اور ستنقل نبی کی آمد کی بندش پر دلالت کر رہا ہے.کیونکہ اس آیت کے بیان کے رو سے شریعیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کمال نام کو پہنچ گئی ہے.لہذا اب اس شریعت کا ملہ نامہ کے بعد کسی جدید شریعت کی تاقیامت ضرورت نہیں.لہذا اب کوئی شارع نبی نہیں آسکتا.پھر چونکہ شریعت اب کامل ہو چکی ہے.اس لئے باقی کمالات نبوت جو شریعیت کے علاوہ نبی کو حاصل ہوتے ہیں چونکہ ان کے حاصل کرنے کے لئے اب شریعت محمدیہ کی پیروی شرط ہوگی اس لئے اب کوئی مستقل اور آزاد غیر تشریعی بی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.جو شخص بھی کوئی کمال کمالات باقیہ میں سے حاصل کرے گا وہ شریعت محمدیہ کی پیروی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ رومانیہ سے ہی حاصل کرے گا.یعنی نبیکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوائے سے آزاد رہ کر اب کوئی روحانی کمال کسی شخص کو از روئے تعلیم قرآن مجید حاصل نہیں ہو سکتا اس طرح یہ آیت آیت خاتم النبیین کے منفی پہلو کو بیان کر رہی ہے.:
IA دوسری آیت مَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ : أُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ انعم اللهُ عَلَيْهِ مِنَ النَّبِينَ وَالمَا يُقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ دسورہ نساء رکوع ۹، خاتم النبیین کے معنوں کے مثبت پہلا کو بیان کر رہی ہے.جو خاتم النبیین صلی الہ علیہ وسلم کے اس رتبہ کا انسانی کا پہلے کیونکہ یہ این انترنت صلی اللہ علیہ ولی کی اطاعت کرنے والوں کے متعلق بیان کرتی ہو کہ وہ انعام پانیوالے پچھلے نبیوں صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہیں.اس آیت کی پوری تفصیل مضمون مضمون کے حصہ دوم میں بیان کی بارہ ہی ہے ، صالحیت ، شہادت ، صدیقیت کے علاوہ جو نبوت امت محمدیہ کو بموجب آیت مندرجہ بالامل سکتی ہے.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی مل سکتی ہے.یہ وہ المبشرات والی نبوت ہی ہے جو مکالمہ مخاطبه مشتمل بر امور غیبیہ کا دوسرا نام ہے جسے حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ نے حدیث إلا المبشرات کے مطابق تا قیامت جاری لکھا ہے اور ایسی نبوت کے حامل کا نام بی الاولیاء رکھا ہے.لمبشرات بحضر صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک نبوت ہی ہیں ! آپ معلوم کر چکے ہیں حدیث نبوی الم يبقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمَشِرَاتُ کی رو سے ثبوت مطلقہ کی آیات تم المبشرات یا نبوت تامہ کا ملہ محمدیہ کا ایک حمتہ جو المبشرات ہیں امت محمدیہ کے لئے تا قیامت باتی ہے.شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ اور دیگر صوفیاء اور علماء ربانی نے اسے نبوت ہی قرار دیا ہے.ہاں انہوں نے اسے تشریعی نبوت سے ایک الگی قسم کی نبوت قرار دیا ہے.نبوت تشریعیہ کا دروازہ تو آنحضرت صلی الہ علیہ و تم
14 کے ذریعہ شریعیت کا ملہ آجانے کی وجہ سے تاقیامت بند ہے.اس حدیث کی تركيب لَمْ يَبْقَ مِنَ الْمَالِ إِلَّا الْفِضَة کی طرح واقع ہوئی ہے.یعنی مال میں سے چاندی کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.ظاہر ہے کہ چاندی مال کی ہی ایک قسم ہے.پس علمائے ربانی کار اسے ایک قسم کی نبوت قرار دینا اسی بناء پر ہے کہ اس حدیث کے ڈر سے المبشرات بہر حال نبوت مطلقہ کی ایک قسم ہے جو امت کے لئے پانی قرار دی گئی ہے.یا نبوت تامہ کاملہ محمدیہ کا ایک حصہ بانی ہے جو امت محمدیہ کے لئے منقطع نہیں ہوا.علماء ربانی کی اس تشریح کی موتیہ وہ حدیث نبوی بھی ہے جو نواس بن سمعان کی روایت سے صحیح مسلم باب خروج الدجال میں موجود ہے جس میں خود آنحضرت سے اللہ علیہ وسلم نے اُمت محمدیہ کے مسیح موعود کو چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے.اور یہ فر مایا ہے کہ اس پر دھی نازل ہوگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :.وَيُحْصَرُ اللهِ وَ اَصْحَابُهُ....فَارُغَبُ إِلَى اللَّهِ عِيسَى وَاَصْحَابُهُ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ (ايضاً - مشکواۃ باب العلامات بين يدى الساعة وذكر الدجال اس جگہ علیلی نبی اللہ سے مراد استعادة امت محمدیہ کا مسیح موعود اور امام مہدی ہے.کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث میں امت محمدیہ میں نازل ہونے والے عیسی کو رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے اما مگر مشکور اور سیخ سلم کی روایت کے مطابق فامکو میشکفر اور مسند احمد کی روایت کے مطابق اما ما مَهْدِيَّا قرار دیا ہے.
یعنی یہ عیسی تم میں سے تمہارا امام ہوگا.اور یہ امام مہدی ہوگا.پس عیسی اور امام مہدی ایک ہی انتی شخص ہو گا جو مبشرات والی نبوت کا حامل ہوگا.کیونکہ یہی مسلم کی اس حدیث کو جب حدیث لم يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَات کے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو صاف کھل جاتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کے مسیح موعود کو نبی الله صرف المبشرات یا بالفاظ دیگر مکالمه مخاطبه الہیہ مشتمل بر امور غیبیہ کثیرہ کی وجہ سے ہی قرار دیا ہے کیونکہ جو نبوت حدیث لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبوة کے رُو سے منقطع ہو چکی ہے اس کے ساتھ تو کسی شخص کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظاہر ہونا ختم نبوت کے صریح منافی ہے خواہ یہ کوئی پہلا نبی ہو یا نیا نبی.ہاں المبشرات جیسے نبوت میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی قرار دیا ہے سی محمدی بھی صرف اور صرف اسی نبوت کے مرتبہ کاحامل ہوسکتا ہے.اور صرف المبشرات کی وجہ سے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم اُسے نبی اللہ کہلانے کا ستی سمجھتے ہیں.حضرت عیسی علیہ اسلام کا اپنی پہلی نبوت کے ساتھ امت محمدیہ میں آجانا تو صریح طور پر حديث لم يسبق من النبوة اور آیت خاتم النبیین کے مخالف ہے.پس چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انت محمدیہ کے بیج موجود کو خود نبی اللہ قرار دیا ہے اور خود ہی فرما دیا ہے کہ نبوت میں سے صرف المبشرات ہی باقی ہیں نہ کچھ اور.اس لئے زبان مبارک نبوی سے ہی یہ ثابت ہوگیا کہ المبشرات ایک قسم کی نبوت ہے جو امت کے لئے باقی ہے.اور ایسی نبوت ختم نبوت کے منافی نہیں بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی امت میں اپنے مرتبہ خاتم النبیین کے روحانی شیض کا ثبوت ہے.پس
M علماء ربانی کا المبشرات کو ایک قسم کی نبوت قرار دیا جسے وہ نبوت ولایت یا غیر تشریعی نبوت کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے عین مطابق ہے.نبوت کی دو تعریفیں نہیں اوپر کے بیان سے ہر صاحب بصیرت پی علوم کر سکتا ہے کہ نبوت کی اسلام ہیں در اصل دو تعریفیں ہیں.ایک تعریف کے لحاظ سے نبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بالکل منقطع ہے.اور اس تعریف کے ماتحت اب کوئی نبی تاقیامت ظاہر نہ ہوسکتا.لیکن ایک دوسری تعریف کے لحاظ سے امت محمدیہ کے اندر رسول اللہ صل اللہ علیہ کی کے سلم کی کامل پیروی اور آپ کے افاضہ روحانیہ کے واسطہ سے آپکے اتنی کیلئے نبوت کا مرتبہ پانے کا دروازہ کھلا ہے اور اسی دوسری تعریف کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کے بے موجود کو ہی اللہ قرار دیا ہے.وہ نبوت جو منقطع ہو چکی ، اس کی تعریف کی رو سے نبی اور رسول ایسے شخص کو کہتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کامل شرعیت یا احکام جدیدہ لاتے ہیں.یا بعض احکام شریعت سابقہ کے منسوخ کرتے ہیں.یا نبی سابق کی اہمیت نہیں کہلاتے.اور براہ راست بغیر استفاد کسی نبی کے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں.دیکھئے مکتوب حضرت مسیح موعود مندرجہ اخبار الحکم ، راگست شایع) نبوت کی اصطلاح اس تعریف کے لحاظ سے اسلام کی ایک عام معروف اصطلاح ہے.اس عرف عام والی اصطلاح کو لکھنے کے بعد حضر بانی سلسلہ حمدیہ عربیہ فرماتے ہیں :- ہوشیار رہنا چاہیے کہ انگہ منی منی نہ مجھ لیں کیونکہ ہماری کتاب بجز قرآن کریم کے نہیں ہے اور کوئی دین بجز اسلام کے نہیں اور ہم اس بات
۲۲ پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی الہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں قرآن شریف خاتم الکتب ہے " پس یہ امر ایک روشن حقیقت ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نبوت کی اس عام معروف اصطلاح میں نبوت کا ہر گنہ کوئی دعوی نہیں.اور آپ نے لوگوں کو ہوشیار کیا ہے کہ آپ کا دعوئی اس قسم کا نہ سمجھ لیا جائے.آپ کے نزدیک ایسا دعوی نبوت کفر ہے اور آپ ہمیشہ مخالفین کی طرف سے ایسی نبوت کے دعوئی کا الزام دیا جانے پر اس کا بشریت انکار کرتے رہے ہیں.آپ کا دعویٰ صرف دوسری اسلامی اصطلات کی بناء پر ہے جو ایک خاص اصطلاح ہے.اور یہ اصطلاح علما و ربانی کے نزدیک حدیث نبوی کھر سبق مِنَ النُّبوة إلا المبشرات سے ماخوذ ہے جس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ عیدی یکم نے امت محمدیہ کے بیج موجود کو صحیح علم کی حدیث میں چار دفعہ ہی اللہ قرار دیا ہے.اس ده سری اسلامی اصطلاح کا ذکر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علی السلام اپنی تقریر حجت الله مت میں جو الحکم پر مٹی شاء میں شائع ہوئی ، یوں فرماتے ہیں :- خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کلام پا کر جو غیب مشتمل ہو زبر دست پیشنگوئیاں ہوں مخلوق کو پہنچانیوالا اسلامی اصطلاح کی رو سے نبی کہلاتا ہے ، انقطاع نبوت بقائے نبوت الی احادیث کے تقابل کا نتیجہ اوپر کے بیان کو سمجھ لینے سے یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح سامنے آجاتی ہے کہ دہ سب احادیث نبوی جن میں بنی با نبوت کے انقطاع کا ذکر ہے جیسے لا نبی بعدی وحدیث إِنَّ الرِّسَالَة وَالنُّبُوَّل قَدِ الْقَطَعَت وغیرہ میں نبی اور نبوت کے الفاظ
۲۳ اسلام کی عام معروف اصطلاح میں استعمال ہوئے ہیں نہ کہ اسلام کی عرف خاص والی اصطلاح میں عرب خاص والی اصطلاح نبوت جو حدیث إِلَّا الْمُبشرات ، اور اُس حدیث سے ماخوذ ہے نہیں کے رو سے امت محمدیہ کے مسیح موعود کو ہی اللہ قرار دیا گیا ہے ، ان انقطاع نبوت والی احادیث میں مد نظر نہیں.میں جب انقطاع نبی اور انقطاع نبوت الی احاديث كو حديث لم يبقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِرَات کے مقابلہ میں اور یح موعود نبی اللہ کے ظہور سے تعلق رکھنے والی حدیث کے مقابلہ یں رکھ کر دیکھا جائے تو شا حدیث لا نجی بعدی کی تقدیر کام لا تي بعدِى الْأَصَاحِبُ الْمُبشرات ہوگی کہ میر بعد المبشرات والے نبی کے سوا کوئی نبی نہ ہوگا.اور حدیث انَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبوَلَا قَدِ انْقَطَعَتْ کی تقدیر كلام انَ الرَّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ الَّا نُبُوَّةُ الْمُشِرَاتِ ہوگی.یعنی رسالت و نبوت سوائے مبشرات والے حسنہ نبوت یا قسم نبوت کے منقطع ہو چکی ہے.اور اس طرح امت محمدیہ کا بیج موعود صرف دوسری اصطلاح میں نبی کہلائے گا.جس کا تعلق امت محمدیہ کے اندر باقی رہنے والی نبوت سے ہے.یعنی وہ مبشرات والی نبوت رکھنے کی وجہ سے بھی اللہ کہلائے گا کیونکہ مستقل بی اور شرعی نی کی آمد کو آیت خاتم امنیتی اور حدیث زیر بحث کے الفاظ لم يبقَ مِنَ النُّبُوَّة منقطع قرار دے رہے ہیں چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :.نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے مصرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شریف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو.یہ نہیںکہ وہ کوئی دوسری شریعیت لاوے کیونکہ شریعیت آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم پر ختم ہے تجلیات الہیہ حاشیہ)
میں بتا چکا ہوں کہ حدیث نبوی الحَسَنَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ کی موجودگی میں امت محمدیہ کے سیم وجود کو نبوت کی پہلی اور عرف عام والی اصطلاح میں نبی اللہ قرار نہیں دیا جا انا کیونکہ یہ نبوت حضرت صلی اللہ علیہ سلم کے بعد مقطع ہوچکی ہے.بلکہ صرف دوسری اصطلات خاص ہیں ہی نبی اللہ قرار دیا جا سکتا ہے.یعنی مبشرات کا اتنا معتد بہ اعظیم الشان حصہ پانے والا کہ خدا تعالی اسے اس کی وجہ سے نبی کا نام دے.باقی تسلسلہ احمدیہ کے دعوای کی نوعیت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعوی چونکہ مسیح موعود کا ہے اور امت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود کو حدیث میں نبی اللہ قرار دیا گیا ہے.اس لئے آپ اپنی نبوت کی نوعیت یوں بیان فرماتے ہیں :.میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ یں نعوذ باللہ حضرت صلی الہ علیہ کم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعوی کرتا ہوں.یا کوئی ئی شریعیت لایا ہوں.صرف مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے.سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں یہیں یہ صرف لفظی نزاع ہوئی.یعنی آپ لوگ میں امر کا نام مکالمہ ومخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام محکم انہی نبوت رکھتا ہوں.ولكل أن يَصْطَلِحَ " تتمة حقيقة الوحى مثل ( اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو اسلام کی عام معروف تعریف میں نبوت کا کوئی دعوی نہیں.بلکہ ایک دوسری خاص اصطلاح میں دعوی ہے.
۲۵ اور اس نبوت سے مراد صرف مکالمہ خطبہ الہتہ یا بالفاظ دیگر المبشرات کی کثرت ہے.اب اگر المبشرات کو کوئی شخص ایک قسم کی نبوت قرار نہ دے تو یہ اس کی آپ سے صرف نزاع لفظی ہوگی بینی صرف ایک اصطلاحی نزاع ہوگی نہ کہ کوئی حقیقی نزاع.کیونکہ جیں مکالمہ کو علماء امت جاری مانتے ہیں بائی سلسلہ احمدیہ اسی کو ایک خاص اصطلاح میں خدا کے حکم سے نبوت کا نام دے رہے ہیں.پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور علماء زمانہ ہذا کے درمیان دراصل کوئی حقیقی نزاع موجود نہیں.علماء ربانی تو آپ سے اس ارہ میں غلطی نزاع بھی نہیں رکھتے.کیونکہ وہ " المبشرات“ کے مقام کو ایک قسم کی نبوت ہی قرار دیتے ہیں.جیسا کہ اس بارہ میں حضرت محی الدین ابن عربی و کی عبارت پیش کی جاچکی ہے.اس مکالمہ مخاطبہ الہیہ کو ہی مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مولانا جلال الدین رومی مثنوی دفتر اول ۵۳۰ د مطبوعہ مولوی فیروز الدین ) میں فرماتے ہیں :- نکر کن در راه نیکو خدمتے کا تا نبوت یابی اندر اتنے یعنی اے شخص تو نیکی کی راہ میں ریعنی آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کی، ایسی تدبیر کر کہ تجھے اُمت کے اندر نبوت مل جائے.حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ اپنے مکتوبات میں ایک سوال لکھ کر اُس کا ایسا جواب دیتے ہیں جس سے الہام الہی کی ضرورت کا امت محمدیہ میں ثبوت ملتا ہے :- سوال: چون دین به کتاب و سنت کامل گشت بعد از کمال با الهام چه احتیاج بود و چه نقصان مانده که بالهام کامل گردد؟ یعنی جب دین کتاب اللہ یعنی قرآن مجید و سنت نبوی کے ذریعہ کامل ہوگیا تو اس کے 1
FY کابل ہو جانے کے بعد الہام الہی کی کیا حاجت رہی.اور کونسی کی رہ گئی تھی جو الہام سے پوری ہوگی ؟ جواب " الہام مظہر کمالات خفیه دین است نه مثبت کمالات زائده در دین.چنانچہ اجتہاد مظهر احکام است.الهام مظهر دقائق است که فهم اکثر مردم از ان کوتاه است یا (مکتوبات مجدد الف ثانی جلد مکتوب 2 منا ) آپ جواب میں فرماتے ہیں.الہام دین کے مخفی کمالات کو ظاہر کرنے والا ہے.دین میں کمالات زائد کرنے والا نہیں جس طرح اجتہاد احکام کو ظاہر کرنے والا ہے اسی طرح الہام ان اسرار و خواہش کو ظاہر کرنے والا ہے جن کے سمجھنے سے اکثر لوگوں کے فہم قاصر ہیں.مجدد الف ثانی کے نزدیک کمالات نبوی کے حصول کا امکان پھر مجدد صاحب موصوف فرماتے ہیں :- حصول کمالات نبوت مرتا بعان را بطریق تبعیت و وراثت بعد از بعثت خاتم الرسل علیہ وعلى جميع الانبياء والرسل الصلوات والتحيات منافی خاتمیت او نیست.فلا تكن من الممترين " یعنی خاتم الرسل حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کے متبعین کا آپ کی پیروی اور وراثت کے طور پر دینی خلقی طور پر ) کمالات نبوت کا حاصل کرنا آپ کے خاتم الرسل ہونے کے منافی نہیں.لہذا اسے مخاطب ! تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو.(مکتوبات جلد مکتوب (۳۵ (۲۳۲) ا
۲۷ پھر دوسرا طریق حصول کمالات نبوت کا رہ یوں بیان کرتے ہیں :- راه دیگر آن است که بتوسط معمول این کمالات ولایت وصول کمالات نبوت میستر میگر در (مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی جلد اول ۳ ۴۳ ) یعنی کمالات نبوت کے حصول کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ کمانات درایت کے حصول کے ذراجیہ کمالات نبوت کا پانا میسر ہوتا ہے.یہ کمالات نبوت المبشرات یا اخبار غیبیہ ہی ہیں مین کو حضرت محی الدین ابن عربی بموجب حديث نبوى لم يبقَ مِنَ النُّبُوَة إِلَّا المُبَشِّرَاتُ ایسی نبوت قرار دیتے ہیں جو اُن کے نزدیک قیامت تک باقی ہے.انہیں کمالات نبوت کے حصول کو حضرت مجدد الف ثانی ختم نبوت کے منافی قرار نہیں دیتے.یہی وہ کمالات نبوت ہیں جن کے پائے کہ حضرت مولانا ردم امت کے اندر نبوت کا ملنا قرار دیتے ہیں پس یہ نبوت در اصل بات کی نبوت ہے جو کامل اتباع نبوی یعنی زنانی الرسول کے دروازہ سے ملتی ہے.یہ نبوت علمائے ربانی کے نزدیک قیامت کے دن تک جاری ہے اور آیت خاتم النبیین کے خلاف نہیں بلکہ خاتم النبیین صلی الہ علیہ سلم کی ختم نبوت کے کمال فیضان اور انبیاء کرام میں سے آپ کی بے نظیر اور ممتاز قوت قدسیہ کا ایک روشن ثبوت ہے.حضرت بانی ساب سہ احمدیہ بھی فرماتے ہیں :- " پر ستقل نبودت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرختم ہوگئی ہے ، گر کی نبوت.جس کے معنی میں عین تین محمدی سے دنی پا نا وہ قیامت تک باقی رہیگی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو (حقیقة الوحی مشا)
۲۸ پھر آپ فرماتے ہیں :- یاد یہ ہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوی میں نبی کا نام سن کر دھوکا کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا ئیں نے اس نبوت کا دعوی کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست بنیوں کو ملی ہے.لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں.میرا ایسا دعوی نہیں ہے.بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور کر پینے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضیہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشتا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا.اسلئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے بنی اور ایک پہلو سے اُمتی.اور میری نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت " (حقیقۃ الوحی منشا ) حضرت امام عبد الوہاب شمران علیہ الرحمہ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کے بیان کے مطابق نبوت کی دو قسمیں بیان کرتے ہیں جن میں سے پہلی قسم یہ المبشرات والی نبوت ہی ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں :- تنقسم النبوة البَشَرِيَّةُ عَلَى يَسْمَيْنِ الْأَوَّلُ مِنَ اللَّهِ إِلَى غَيْرِهِ مِنْ غَيْرِ رُوح مَلكي بَيْنَ اللَّهِ وَبَيْنَ عَبْدِهِ بَلْ أَخْبَارَاتُ الهَيَّةَ يَجِدُهَا فِي نَفْسِهِ مِنَ الْغَيْبِ أَو فِي تَجَلِياتِ وَلَا يَتَعَلَّى بذلك حكم تحليل أَوْ تَحْرِيمِ بَلْ تَحْرِينَ بِمَعَانِي الْكِتَبِ وَالسُّنَّةِ أو بِصِدْقِ حَكَم مَشْرُوعٍ ثَابِتِ اللَّهُ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ تعالى او تعريف بِفَسَادِ حُكُم قَدْ ثَبَتَ بِالنَّقْلِ صَحَتُهُ وَنَحْوَ ذلك.وكل ذلك تَنْبِيَهُ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى وَشَاهِدُ عَدْلٍ
۲۹ مِنْ نَفْسِهِ وَلَا سَدِيلَ لِصَاحِبِ هَذَا الْمَقَامِ اَنْ تَكُونَ عَلَى شَرَ يخصه يُخَالِفُ شَرعَ رَسُولِهِ الَّذِى أُرْسِلُ إِلَيْهِ وَاُمِرْنَا بِاتَّبَاعِد ابدا - (الیواقیت والجواہر جلد ۲ ۲۸۰۲۵ بلحاظ ایڈیشن مختلفه ) یعنی انسان کو جو نبوت ملتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں تقسیم اول کی نبوت خدا تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان روج ملکی کے بغیر ہوتی ہے یعنی ا میں روح کی شرعیت جدیدہ نہیں لاتا بلکہ صرف خدائی غیب کی خبریں ہوتی ہیں جنہیں انسان اپنے نفس میں غیب سے پاتا ہے یا کچھ تجلیات ہوتی ہیں یعنی مکاشفات ہوتے ہیں ، مگران کا تعلق کسی امر کو حلال یا حرام کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ ان کا تعلق صرف کتاب اللہ کے معانی اور سنت رسول کے معانی جانتے اور سمجھتے سے ہوتا ہے.یا پھر کسی شرعی حکم کی جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ثابت ہو ان تجلیات کے ذریعہ تصدیق مطلوب ہوتی ہے.یا کسی حکم کی جوگو نقل دروایت ) کے لحاظ سے اس کی صحت ثابت ہو خرابی بتانا مقصود ہوتی ہے وغیرہ.اور یہ سب امور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبردار کرنے اور (شریعت سابقہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بغور شاہد عادل کے ہوتے ہیں.اس مقام والے نبی کی اپنی کوئی شریعت نہیں ہوتی جو اس رسول کی شریعت کے خلاف ہو.جو رسول کہ خود اس نبی کی طرف بھی بھیجا گیا ہے.اور جس کی ہمیشہ کے لئے پیروی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے.دینی سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود ) اس کے بعد وہ نبوت کی دوسری قسم میں تشریعی نبوت کے متعلق لکھتے ہیں.هذَا الْمَقَامُ لَمْ يَنقَ لَهُ اثْرَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الا في الأئمة المجتهدين من امته اليواقيت الجواهر حال مذكور)
یعنی تشریعی نبوت کے مقام کا کوئی اثر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد باقی نہیں.سوائے اس اثر کے جو ائمہ مجتہدین میں اجتہاد کی صورت میں پایا جاتا ہے.پھر آگے چل کر نبوت کی انہی دو قسموں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت امام عسید - الوہاب شعرانی و تحریر فرماتے ہیں :- امامان مطلَقَ النُّبُوَّةِ لَمْ تَرْتَفِعُ وَإِنَّمَا ارْتَفَعَ نُبُوَّة ر التشريع واليواقيت والجواهر ساده ۲۶ و ۳۵ بلحاظ ایڈیشن مختلفه ) " یعنی جان او مطلق نبوت نہیں ابھی بند نہیں ہوئی ، صرف تشریعی نبوت منقطع ہو ئی ہے.پس ایک کم کی نبوت معمار بانی این کے نزدیک است محمد میں حضرت صلی الہ علی وسلم کے بعد ہاتی ہے.اور یہ بموجب حدیث نبوى لم يبقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ صرف المبشرات والی نبوت ہی ہے نہ کچھ اور.ایک غلط فہمی کا ازالہ مام عبدالوہاب شعرانی کی مرد پلی قسم کے ہی پہ اور ملکی کے نازل نہ ہونے سے یہ نہیں کہ ایسے نبی پر فرشتہ نازل ہی نہیں ہوتا.بلکہ ان کی مراد جیسا کہ میں نے خطوط وحدانی میں لکھکر بتایا ہے صرف یہ ہے کہ ایسے نبی پر رشتہ شریعیت جدیدہ لے کر نازل نہیں ہوتا.چنانچہ وہ حضرت محی الدین ابن عربی علیہ لرحمہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں :- وَالْحَقُّ ان الكلام في الفَرْقِ بَيْنَهُمَا إِنَّمَا هُوَ فِي كَيْفِيَّةِ مَايَنزِلُ ۹۵ بهِ المَلَكُ لَا فِي نُزُولِ الْمَلكِ (الیواقیت والجواہر جلد ۲ (12) یعنی سچی بات یہ ہے کہ دونوں قسم کے نبیوں کے درمیان فرق صرف اس چیز کی کیفیت میں ہوتا ہے.
جھے فرشتہ لیکر نازل ہوتا ہے.نزول فرشتہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا.یعنی فرق صرف تشریعی اور غیر تشریعی وحی کا ہوتا ہے.فرشتہ کے اُترنے میں کوئی فرق نہیں ہوتا.حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علی الرحمة خدا تعالیٰ کے قول ان الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ.....الآية رحم السجده (۴۴) کی تفسیر میں فتوحات محبة جلد ۲ ۲۳۲ باب معرفة الاستقامة میں لکھتے ہیں :- هذا اللتزيل هُوَ الكبرة العامة لا تبوةُ التَّشْرِيم.استقامت دکھانیوالوں پر یہ فرشتوں کا کلام کے ساتھ اتر نا نبوت عامہ ہی ہے.نہ که نبوت تشریعی - غیر تشریعی نبی کی دی خلتی نہیں ہوتی آج کل کے بعض علماء اس غیر تشریعی الہام اور وحی کو محض ظنی قرار دیتے ہیں نہ کہ یقینی.لیکن اگریہ دمی خلقی ہوتی ہے نہ کہ یقینی تو پھر استقامت دکھانے والوں پر جو فرشتے نازل ہوتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ تم کوئی خوف اورغم نہ کرو اور تبت کی بشارت پاؤ.تو اس سے انہیں کی تسلی ہو سکتی ہے.یہ دتی تو پھر اصطفاء اور اجتباء کی بجائے ایک قسم کا ابتلاء بن جائے گی.حالانکہ خداتعالی تو ملائکہ کے ذریعہ نسلی دینے کے لئے یہ وحی نازلی کرتا ہے.پیس نبوت عامہ حاصل کرنے والے نبی کی وحی اگر قطعی اور یقینی نہ ہو تو پھر اس سے کوئی اطمینان اورستی حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ جو وحی شک کو دور کر کے یقین پیدا نہ کر سکے وہ کیا تسلی دے گی.حالانکہ خدا تعالیٰ آیت کو
۳۲ ان کے لفظ سے شروع کرتا ہے جو کہ حملہ کے مضمون کی تاکید کے لئے آتا ہے.ما ہوا اسکے حضرت امام عبد الوہاب شعرانی پہلی قسم کے نبی پر جو می نازل ہوتی ہے اس کو ایسی قطعی اور یقینی قرار دیتے ہیں کہ اس کے ذریعہ ان روایات کی بھی غلطی نکالی جاتی ہے جو از روئے سند صحیح بھی گئی ہوں.پس جب اس نبی کی وحی اس طرح سند صحیح روایت پر بھی اُن کے نزدیک حکم ہو سکتی ہے تو اس کے قطعی اور یقینی ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے.علاوہ ازیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں جو المبشرات سے تعلق رکھتی ہے وارد ہے: وَمَا كَانَ مِنَ النُّبُوَةِ فَإِنَّهُ لَا يَكْذِبُ (مشكوة باب الرؤيا ) کہ المبشرات چونکہ نبوت کا حصہ ہیں اس لئے انہیں جھوٹا نہیں قرار دیا جاسکتا.پس المبشرات کا قطعی ہونا قرآن ، حدیث اور اقوال بزرگان دین سے ثابت ہے.جب وہ سچی ٹھہریں تو قطعی اور یقینی ہوئیں نہ کہ طبی اور غیر یقینی.انی سلام کے نزدیک تم تو کی حقیقت اپنے دو کیفیت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام تحر یہ فرماتے ہیں :- و النبوة قد انقَطَعَتْ بَعْدَ بَيْنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم وَلا كِتابَ بَعْدَ الْفُرْقَانِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ الصحفِ السَّابِقَةِ وَلَا شَرِيعَةَ بَعدَ الشَّرِيعَةِ المُحَمَّدِيَّةِ - بَيْد أنِّي سَمِيْتُ نَبِيَّا عَلَى لِسَانِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ - وَذَلِكَ امْرُ ظِلَى مِنْ بَرَكَاتِ النهدي
الْمُتَابَعَةِ - وَمَا أَرَى فِي نَفْسِي خَيْرًا وَ وَجَدْتُ كُلَّمَا وَجَدْتُ مِنْ هَذِهِ النَّفْسِ الْمُقَدَّسَةِ وَمَا عَلَى اللَّهُ من بوتي الاكثرَةَ الْمُكَالَمَةِ وَالْمُخَاطَبَةِ وَلَعْنَةُ اللهِ عَلى مَنْ اَرَادَ فَوْقَ ذَلِكَ أَوْ حَسِبَ نَفْسَهُ شَيْئًا اَوْ أَخْرَجَ عُنُقَهُ مِنَ الرَّبْقَةِ التَّبْوِيَّةِ وَانَّ رَسُولَنا خَاتَمُ النَّبِينَ وَعَلَيْهِ انْقَطَعَتْ سِلْسِلَةُ الْمُرْسَلِينَ فَلَيْسَ حَقٌّ اَحَدٍ أَنْ يَدَّعِيَ النُّبُوَّةَ بَعْدَ رَسُوْلِنَا المُصْطَفى عَلَى الطَّرِيقَةِ الْمُسْتَقِلَّةِ وَمَا بَقِي بَعْدَةُ الاكثرَةُ المُكَالمَةِ وَالْمُخَاطَبَةِ وَهُوَ بِشَرْطِ الْإِتباع لا بِغَيْرِ مُتَابَعَةِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ الاستفتاء ضمیمہ حقیقة الوحی (۶۳) ترجمه: - نبوت رسول کریم صلی الہ علیہ وسلمکے بعد منقطع ہوگئی ہے اور قرآن شریف کے بعد جو پچھلے تمام صحیفوں سے بہتر ہے کوئی کتاب نہیں اور نہ شریعت محمدیہ کے بعد کوئی شریعت ہے.اور میرا نام جونی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نبی رکھا گیا ہے تو یہ خلی امر ہے جو آپ کی متابعت کی برکات سے ہے.اور میں اپنے نفس میں کوئی خوبی نہیں پاتا جو کچھ میں نے پایا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس سے پایا ہے.اور اللہ تعالٰی کی مُراد میری نبوت سے صرف کثریت مکالمہ و مخاطبہ ہے.اور اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو اس سے زیادہ مراد لے یا اپنے نفس کو کچھ سمجھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوٹے سے اپنی گردن نکالے.بینک ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین
ہیں.اور آپ پر نبیوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے.پس کسی کو یہ حق نہیں کہ ہمارے رسول محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مستقلہ نبوت کا دعوی کرے.آپ کے بعد صرف کثرت مکالمہ مخاطبہ الہیہ ہی باقی رہا ہے.اور وہ بھی آپ کی پیروی کی شرط سے وابستہ ہے نہ کہ پیروی کے بغیر.یہ تحریر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے عقیدہ دربار ختم نبوت اور اپنے دعوی کی نوعیت کے متعلق ایک روح اور نچوڑ کی حیثیت کھیتی ہے.اس سے ظاہر ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ تشریعی نبوت اور سنقلہ نبوت کا دروازہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سند مانتے ہیں.اور اس طرح آنحضرت صل اللہ علیہ تم پریوں کا سلسلہ نطلع تسلیم منقطع تسليم کرتے ہیں.اور صرف المبشرات والی نبوت کا دروازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی شرط کے ساتھ کھلا قرار دیتے ہیں.گویا اسی لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حدیث ی سی محمود کون اللہ قرار دینا تسلیم کرتے ہیں حضرت مسیح موعود غیر مشروط طور پر ہی نہیں بلکہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی شرط کے ساتھ المبشرات والی نبوت کا مقام علی وجہ الکمال حاصل ہے.عجیب بات ہے کہ ایسی واضح عبارتوں کے موجود ہوتے ہوئے بعض لوگ بلا دلیل آپ پر تشریعی نبوت اور مستقلہ نبوت کے دعوئی کا الزام دیتے ہیں و ملاحظہ ہو مسك الختام في ختم النبوة ۳ - ۴۱ - ۲۶ مصنفہ مولوی محمد ادریس صاحب شیخ الحدیث جامعہ اشرفیه ) پھر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنے ۲۳ مٹی شاہ کے خط میں جو نبوت کی حقیقت پر روشنی ڈالنے کے متعلق آپ کی آخری تحریر ہے اور جو ۲۶ مئی سنت کے اخبار عام میں شائع ہوئی ہے تحریر فرماتے ہیں :.
یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعوای کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنے ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعیت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں.یہ الزام صحیح نہیں ہے.بلکہ ایسا دعوی نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعوی نہیں یہ سرا سر میرے پر تہمت ہے.اور میں بنا پر میں اپنے تئیں بنی کہلاتا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے.اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے.اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا.اور انہی امور کی کثرت کی وجہ سے اُس نے میرا نام نبی رکھا ہے.سوئیں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں.اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہو گا.اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکہ اس سے انکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک ہم اس دنیا سے گزر جاؤں "
" خاتم النتین معنی آخرالنبیین کی حقیقت علماء کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ خاتم النبیین کے معنی آخر النبین ہیں کیونکہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسم نے خاتم النبیین کی تفسیر حدیث لا نبی بعدی کے الفاظ سے کی ہے.اس کے متعلق واضح ہو کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ بھی تو جیساکہ میں عرض کر چکا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و خاتم النبیین معنی اسخر النبیین یقین کرتے ہیں.چنانچہ ابھی آپ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تحریہ سے معلوم کر چکے ہیں کہ ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ پر سلسلہ نبوت منقطع ہو چکا ہے.پس کسی شخص کو حق نہیں کہ آپ کے بعد نبوت مستعملہ کا دعوی کرے.اس طرح جماعت احمدیہ حدیث لا نبی بعدی کے مضمون کی بھی سچے دل اور پوری بصیرت سے قائل ہے.مگر جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اس حدیث میں عرف عام والی اسلامی اصطلاح میں جو نبوت ہے اُسے منقطع قرار دیا گیا ہے.جماعت احمدیہ کے نزدیک حدیث لمینی مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَات کے مطابق شارع اور تنقل ابنیاء کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واقعی آخری نبی ہیں.ہاں مبشرات والی نبوت جو آیات قرآنیہ اور نصوص حدیثیہ کے مطابق منقطع نہیں.صرف اسی کے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مدعی ہیں.چنانچہ خاتم النبیین معنی آخر النبیین کی حقیقت بزرگان اُمت اور اکابرین ملت کے نزدیک بھی یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع اور مستقل نہی نہیں آسکتا.جیسا کہ قبل ازیں آپ حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمة و امام شعرانی علیہ
۳۷ الرحمنہ اور حضرت مولانامولانا روم علیہ الرحمہ کی عبارات سے معلوم کر چکے ہیں.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی معنی آخری شارع اور آخر می مستقل نبی ہیں.اور یہ معنے آپ کے مقام خاتم النبیین کے لوازم میں سے ہیں.جیسا کہ اسی مضمون کے دوسرے حصہ میں اس امر پر روشنی ڈالی جا رہی ہے.W امام علی القاری کے نزدیک خاتم تبتین کے حسنی حضرت امام علی القاری رحمۃ اللہ علیہ و فقہ حنفیہ کے مشہور امام ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ صِدَ يُقَا نَبِيًّا کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب موضوعات کبیر کے صفحہ ۵۸ ۵۹ پر فرماتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادہ ابراہیم نے زندہ رہتے اور بموجب حدیث ہذا نبی ہو جاتے یا اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی ہو جاتے تو وہ دونوں آپ کے تابع ہوتے.یہ کہہ کر امام موصوف اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ کیا اُن کا نبی بن جانا آیت خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا ؟ فرماتے ہیں :- " فَلَا يُنَا تِضُ قَوْلَهُ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذَا الْمَعْنى أَنَّهُ لَا يَاتِي نَى يَنْسَعُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ " یعنی ان دونوں بزرگواروں کا نبی ہو جانا خاتم النبیین کے قول کے خلاف نہ ہوتا کیونکہ خاتم النبیین کے معنے یہ ہیں کہ اب کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.گویا آیت خاتم النبیین سے نبوت کے انقطاع اور بندش کا ثبوت امام صاحب
۳۸ موصوف نے دو شرطوں سے مشروط قرار دیا ہے.شرط اول یہ ہے کہ ایسا نبی اب نہیں آسکتا جو دین محمدی کو منسوخ کرتا ہو.دوسری شرط یہ ہے کہ ایسا نبی بھی نہیں آسکتا جو امت محمدیہ میں سے نہ ہو.پس ایسے نبی کا آنا جو آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کا تابع اور امتی اور خادم اور غلام ہو.حضرت امام صاحب موصوف کے نزدیک ختم نبوت کے منافی اور خلاف نہیں.مولوی عبدالحی صاحب کے نزدیک مجرد نبی کا آنا محال نہیں ہے حضرت مولوی عبدالحی صحب لکھنوی فرنگی ملت اپنی کتاب دافع الوسواس کے ما نیا ایڈیشن پر اپنا مذہب ختم نبوت کے بارے میں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا زمانے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہونا البتہ ممتنع ہے “ اور اپنے اس مذہب کی تائید میں حضرت امام علی القاری علیہ الرحمہ کے اسی قول کو پیش کرتے ہیں جو خاتم النبیین کے معنوں میں بھی پیش کر چکا ہوں.ان اقوال سے ظاہر ہے کہ حضرت امام علی انصاری اور حضرت مولوی عبدالحمی صاحب دونوں بزرگوار ختم نبوت کے دو پہلو مانتے ہیں.ختم نبوت کے منفی اور مثبت دو پہلو ان دو پہلوؤں میں سے ایک پہلو منفی اور دوسرا مثبت ہے.منفی پہلو
۳۹ تو یہ ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع اور غیر امتی ہی نہیں آ سکتا.اور مثبت پہلو یہ ہے کہ امتی نبی کا آنا اُن کے نزدیک محال نہیں ہے ! ختم نبوت کے منافی نہیں.بانی سلسلہ احمدیہ کل ان دونوں بزرگوں سے اتفاق ران دو شرطوں یا دو منفی اور مثبت پہلوؤں کے ساتھ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ علایت سلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین العین کرتے ہیں.یعنی آپ کے نزدیک بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع نبی اور آخری آزاد اور مستقل نبی ہیں.چنانچہ آپ آیت خاتم النبیین کی تفسیر ور میں تحریر فرماتے ہیں :.اب بحجز محمدی نبوت کے سب نبو تیں بند ہیں.شریعیت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے.مگر وہی جو پہلے اُمتی ہو " (تجلیات الہیہ (۲۵) نیز فرماتے ہیں :.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ایک خاص فخر دیا گیا ہے کہ وہ ان معنوں سے خاتم الانبیاء ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت اُن پر ختم ہیں.اور دوسرے یہ کہ اُن کے بعد کوئی نئی شریعیت لانے والا ریسول نہیں اور نہ کوئی ایسا نبی جو اُن کی اُمت سے باہر ہو.بلکہ ہر ایک کو جو شرف مکالمہ الہیہ ملتا ہے وہ انہیں کے فیض
۴۰ اور انہیں کی وساطت سے ملتا ہے.اور وہ اتنی کہلاتا ہے.نہ کہ کوئی مستقل نبی ننمه چشمه معرفت مث) نیز فرماتے ہیں :.ما حصل اس آیت کا یہ ہوا کہ نیت کو بغیر شرعیت ہو.اس طرح پر تو منقطع ہے کہ کوئی شخص براہ راست مقام نبوت حاصل کر سگے.لیکن اس طرح پر منع نہیں کہ وہ نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مکتب اور مستفاض ہو.یعنی ایسا صاحب کمال ایک جہت سے تو امتی ہو اور دوسری بہت سے بوجہ اکتساب انوار محمدیہ نبوت کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو.ریونیو بر مباحثہ بٹالوی دچکڑالوی صفحه ک) آپ صاحبان دیکھیں کہ جس طرح حضرت امام علی القاری علیہ الرحمہ اور مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی کے نزدیک خاتم النبیین کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع نبی نہیں آسکتا اور نہ ایسا نبی جو آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.اُمت میں مجرد نبی کا آنا اُن کے نزدیک محال و ممتنع نہیں.اسی طرح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علیہ اسلام بھی اس مضمون کی تصدیق کرتے ہیں.آپ کے نزدیک بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسے نبی کا آنا منقطع ہے جو شریعت جدیدہ لائے.یا مستقلہ نبوت کا دعوی کرے.ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی آپ کے فیض سے مقام نبوت پا سکتا ہے.
, آخر الانبیاء کے معنے میں یہ بتا چکا ہوں کہ ختم نبوت کے منفی اور مثبت دو پہلو ہیں.اور ان دونوں پہلوؤں کے یہ بزرگوار قائل ہیں.اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے تئیں آخر الانبیاء قرار دیتے ہوئے ان منفی اور مثبت پہلوؤں کی طرف لطیف اور بلیغانہ رنگ میں اشارہ فرما دیا ہے.چنانچہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.انى أخرُ الأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِى أَخِرُ المساجد وصحيح مسلم باب فضل الصلاة في مسجد المدينة ) یعنی میں آخری نبی ہوں اور میری یہ مسجد مدینہ مسجدوں میں سے آخری مسجد ہے.اب صاف ظاہر ہے کہ آنحضر صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر الانبیاء کے ساتھ آخر اما ماجد کا ذکر تقابل اور تمثیل کے لئے بیان فرمایا ہے کہ جس رنگ میں میری مسجد آخری مسجد ہے اُسی رنگ میں میں آخری نبی ہوں.اب غور فرمائیں کہ کیا مسجد نبوی کے بعد ان مساجد کا بنانا نا جائز ہے جن کا وہی قبلہ ہو جو مسجد نبوی کا قبلہ ہے ؟ اگر ناجائز ہے تو ہزاروں مساجد اسلامیہ جو مسجد نبوی کے بعد تعمیر ہوئیں مساجد کہلانے کی حقدار نہ ہوں گی لیکن اگر یہ مساجد اس وجہ سے مساجد کہلانے کی حقدار ہیں کہ یہ مسجد نبوی کا ہی قبلہ رکھنے کی وجہ سے اس کا ظل اور اس کے تابع ہیں اور اس طرح مسجد نبوی آخری مسجد بھی رہتی ہے اور اس کے بعد اُس کی تابعیت اور طلبیت ہیں اور مساجد بنانا بھی جائز ہے تو اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے آپ کی تابعیت اور ظلیت میں کسی امتی کا مقام نبوت حاصل کرنا جبکہ وہ نبی شریعیت
۴۲ محمدیہ کے تابع اور آپ کا اُمتی ہی رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے خلاف نہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر الانبیاء کو آخر المساجد کے تقابل میں پیش کرتے ہوئے عجیب بلیغانہ انداز میں آخر الانبیاء کے مقام کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کی طرف اشارہ فرما دیا ہے.حضرت پیران پیر علیہ الرحمہ کا مذہب پیر پیران حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی قدس ستره آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے امتیوں میں سے مقام نبوت پانے والوں کی شان میں لکھتے ہیں :.اوتي الأنبياء اسْمَ النُّبُوَّةِ وَأُوتِينَا اللَّقَبَ اى حُجرَ عَلَيْنَا اسْمُ النُّبُوَّةِ مَعَ انَّ الْحَقِّ سوى يُخبرُنَا فِي سَرَائِرِ نَا مَعَانِي كَلَامِهِ وَكَلَامِ رَسُولِهِ وَصَاحِبٌ هَذَا الْمَقَامِ مِنْ أَنْبِيَاءِ الْأَوْلِيَاءِ الیواقیت والجواہر جلد ۲ ۳۵ و نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی حاشیه ۴۲۵ ) یعنی انبیاء کو تو نبی کا نام دیا گیا ہے.اور ہم اتنی لقب نبوت پاتے ہیں.(یعنی ہمیں مرکتب نام دیا گیا ہے ، ہم سے النبوة کا نام روکا گیا ہے (یعنی محض نبی کہلانے کا حق ) با وجود اس کے کہ ہمارا پورا حق ہے (کہ نہیں نبی کا نام دیا جاتا ) کیونکہ خدا تعالیٰ ہمیں خلوت میں اپنے کلام اور اپنے رسول کے کلام کے معانی
۴۳ سے خبر دیتا ہے.اور اس مقام کا رکھنے والا انسان انبیاء الاولیاء میں سے ہوتا ہے (یعنی نبی الاولیاء کہلاتا ہے) حضرت پیران پیر نے اس قول میں نبوت کو امت محمدیہ میں جاری مانا ہے.اور اُمت کے اندر ہونے والے نبیوں کو نبی کہلانے کا پورا حق دار سمجھا ہے.مگر وہ کہتے ہیں کہ انہیں انبیاء کی بجائے انبیاء الاولیاء کا لقب دیا گیا ہے.میں سمجھتا ہوں یہ لقب دیا جانے میں در اصل ختم نبوت کی رعایت مطلوب ہے تا کسی کو یہ شبہ یا وہم پیدا نہ ہو کہ اس مقام کا حامل تشریعی نبوت کا مدعی ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے تشریعی نبی بھی ہوتے رہے ہیں.اس لئے امتی کو صرف نبی کا نام دیئے جانے سے یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ وہ تشریعی نبوت کا مدعی ہے.زَالَ اِسْمُ النَّبوة کی حقیقت چنانچہ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربي زالَ اسْمُ النُّبوة لکھ کہ اس کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں :.فَسَدَدْنَا بَابَ اطْلَاقِ لَفْظ النُّبُوَّةِ عَلَى هَذَا المَقَامِ مَعَ تَحَقُّقِهِ لِئَلَّا يَتَخَيَّلَ مُتَخَيلُ اَنَّ الْمُطْلِقَ لِهَذَا اللَّفْظِ يُرِيدُ نُبُوَّةَ التَّشْرِيعِ فيغلط " رفتوحات مکیه جلد ۲ ص۳) یعنی " ہم نے اس مقام نبوت کے لئے خالی نبوت کا لفظ بولنا اس لئے بند
کیا ہے.باوجودیکہ نبوت اس صاحب مقام کو حاصل ہوتی ہے تا کہ کوئی خیال کرنے والا یہ خیال نہ کر ہے کہ اس لفظ کا بولنے والا شریعت والی نبوست مراد لیتا ہے.اور اس طرح غلطی میں نہ پڑ جائے " اسی طرح فتوحات مکیہ جلد ۳ مش۵۶ میں فرماتے ہیں :- فَمَا تُطْلَقَ النُّبوَةُ المَنِ اتَّصَفَ بِالْمَجْمُوع فَذَلِكَ النَّبِيُّ وَتِلْكَ النُّبُوَةُ حُجرَتْ عَلَيْنَا وَ انْقَطَعَتْ وَمِنْ جُمْلَتِهَا التَّشْرِيمُ بِالْوَفِي الْمَلكي فذلِكَ لَا يَكُونُ إِلَّا لِلنَّبِيِّ خَاصَّةٌ » یعنی النبوۃ “ کا اطلاق اسی شخص کے لئے ہوتا ہے جو النبوۃ العینی اجزاء نبوت) کے مجموعہ سے متصف ہو.پس یہ النبی اور یہ النبوۃ روکی گئی ہے! یہی منقطع ہوئی ہے.اس النبوة میں شریعت والی وحی شامل ہے.جو خاص طور پر النبی کو ملتی ہے.یعنی غیر تشریعی نبی کو نہیں ملتی.پس حضرت محی الدین ابن عربی وغیرہ صوفیاء کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ النبی اور النبوة کا لفظ عرفاً چونکہ شارع نبی سے مخصوص ہو گیا تھا اس لئے غیر تشریعی انبیاء کے لئے انبیاء الاولیاء کی اصطلاح اختیار کی گئی جو ایک مرکتب لقب ہے.تاکہ النبی اور القبول کے الفاظ کے استعمال کو کوئی شخص تشریعی نبوت کا دعولی خیال کر کے غلطی میں نہ پڑجائے.ورنہ نبوت غیر تشریعی اُس نبی میں پائی جاتی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بھی فرماتے ہیں :-
۴۵ میں صرف بنی نہیں کہ لا سکتا.بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اتنی.اور میری نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت.اسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا.ایسا ہی میرا نام اتنی بھی رکھا ہے.تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے کیا (حقیقة الوحی حاشیہ منشا ) اسی طرح آپ نے اپنی اُمتی یا رفتی یا بروزی نبوت کے لحاظ سے اپنے متعلق اتنی نبی یا ظلی نبی یا به دوزی نبی کی اصطلاحات استعمال فرمائی ہیں.نا معلوم ہوتا رہے کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور افاضہ روحانیہ کی برکت سے مقام نبوت پایا ہے.اور تاکسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ آپ تشریعی بنوت یا مستقلہ نبوت کے مدعی ہیں.حضرت ولی اللہ صاحب محدث دہلوی علیہ رحمتہ خداتعالی کی تفہیم کے ماتحت تفہیمات الہیہ تنظیم ۵۳ میں تحریر فرماتے ہیں :- خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ أَي لَا يُوجَدُ مَنْ يَأْمُرُهُ اللهُ سُبْحَانَهُ بِالتَّشْرِيْمِ عَلَى النَّاسِ » دو یعنی خاتم النبیین کے یہ معنے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں پایا جائیگا جس کو خدا تعالیٰ شریعت دے کر لوگوں کی طرف مامور کرے یا پھر حضرت عبد الکریم جیلی خاتم النبیین کی تفسیر میں لکھتے ہیں :.
" فَانْقَطَعَ حُكمُ نُبُوَّةِ التَّشْرِيعِ بَعْدَةَ وَكَانَ مُحَمد صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمَ النَّبِينَ " الإنسان الكامل باب۳ ) یعنی شریعیت والی نبوت کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے بعد منقطع ہوگیا ہے." ورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم خاتم ا لیتی ہیں.آپ حضرات دیکھیں کہ ان ہر دو بزرگوں کے بیان سے بھی روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک بھی آیت خاتم النبیین کی یہی تفسیر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شاریع نبی نہیں آسکتا.یہ امت محمدیہ کے نزدیک خاتم النبیین کے اجماعی معنی ہیں اور جماعت احمدیہ ان کی قائل ہے.حديث لا نَبِيَّ بعدی کی تشریح بزرگوں کے اقوال سے اب میں حدیث لا نبی بعدی کی تشریح جسے عموماً ہمارے سامنے نبوت کے من کل الوجوہ بہتر ہونے کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے بزرگانِ امت محمدیہ کے اقوال سے پیش کرتا ہوں.دا، اس کی تشریح میں نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں :.حديث لا وَحَى بَعدَ مَوْتِی بے اصل ہے.البتہ لا نبی بعدی آیا ہے جس کے معنے نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ ہے کہ نہیں آئے گا ، اقتراب الساعة ما ) (س) چونکہ اس حدیث کے عوام الناس یہ متنے بھی لے سکتے تھے کہ میرے
نام ب کسی قسم کا کوئی ہی نہ ہوگا.اور یہ معنے جو کہ خاتم النبین کے حقیقی معنوں کے خلاف تھے اس لئے حضرت اُم المومنین عائشہ الصدیقہ یعنی اللہ عنہا نے جو معلمۂ نصف الدین ہیں فرمایا :- قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُو الاني بَعْدَه (در منثور جلد ۵ ص و تكملة مجمع البحار مث ) یعنی لوگو ! یہ تو کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں مگر یہ مت کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں " ہیں:.اس پر حضرت امام محمد طاهراً مجمع البحار مں اپنا نقطۂ مخیال یوں لکھتے هذا ناظرا إلى نُزُولِ عِيسَى وَهَذَا أَيْضًا لَا ينَا فِي حَدِيثُ لا نَبِيَّ بَعْدِي لِأَنَّهُ أَرَادَ لَا نَبِيَّ يَسْخُ شَرْعَهُ " ( تكملة مجمع البحار (ش) یعنی امام محمدطاہر علیہ الرحمہ کے نزدیک حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول اس بناء پر ہے کہ عیسی علیہ السلام نے بحیثیت نبی اللہ نازل ہونا ہے.نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول حديث لا نبی بعدی کے خلاف بھی نہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اس قول سے یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.گویا حضرت عائشہ صدیقہ نے لا نبی بعدہ کہنا عام معنوں کے لحاظ سے منع فرمایا ہے )
۴۸ امام عبد الوہا سب شعرانی رحمہ ال علی تحریر فرماتے ہیں.وَقَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَبِي بَعدِى وَلَا رَسُولَ بَعْدِي رَى مَا تَمَّ مَنْ يُشَرِّعُ بَحْدِئُ شَرِيعَةٌ عامة ( ۳۵ ر اليواقيت والجواهر جلد ٢ ٣٥.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول لا نبی بعدی اور لا رسول بعدی سے مراد یہ ہے کہ آپ کے بعد شریعیت لانے والا نبی نہیں ہو گا " -۴- حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں :- إِنَّ النُّبُوَّةَ الَّتِي انْقَطَعَتْ بِوُجُودِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ نُبُوَّةُ التَّشْرِيمِ لا مَقَامُهَا فَلَا شَرْعَ يَكُونُ نَاسِنَّا لِشَرْعِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَزِيدُ فِي شَرْعِهِ حُكْمًا أَخَرَ وَ هذا معنى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرَّسَالَةَ والنبوة قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا شَبِي أَنْ لَا نَبِيَّ يَكُونَ عَلَى شَرْعٍ يُخَالِفُ شَرْعِي بَلْ إِذَا كان يَكونُ تَحتَ حُكْمِ شَرِيعَةِ ( فتوحات مکیه جلد ۲ ص ۳ ) تر جمعہ اس عبارت کا یہ ہے کہ " وہ نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود با وجود پر منقطع ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے.نبوت کا مقام بند نہیں ہوا.اب کوئی شریعت نہ ہوگی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعیت کو ان تمائم السلام ،
۴۹ منسوخ کرے یا آپ کی شریعیت میں کسی حکم کا اضافہ کرے.اور یہی معنے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے کہ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبوة قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نبی کی کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو میری شریعت کے خلاف شریعیت رکھتا ہو بلکہ جب بھی کوئی نبی ہو گا تو میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا.اب دیکھئے اُم المومنین عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا.نواب صدیق حسن خان صاحب اور حضرت امام محمد طاہر صاحب ، حضرت امام عبدالوہاب شعرانی اور حضرت محی الدین ابن عربی نے حدیث لا نبی بعدی کے رو سے صرف ایسے نبی کا آنا بند مانا ہے جو نئی شریعیت کا حامل ہو یا شریعت محمدی میں کوئی ترمیم یا تنفسی یا اضافہ کرنے والا ہو.غیر تشریعی نبی کی آمد کو انہوں نے اس حدیث کے منافی نہیں سمجھا.چنانچہ حضرت محی الدین ابن عربی نے تو صاف لفظوں میں فرما دیا ہے.بَلُ إِذَا كَانَ يَكون تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَتِي " بلکہ جب کبھی نبی ہوگا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعیت کے W تابع ہوگا.انقطاع نبوت پر دلالت کرنے والی حدیثوں کی مندرجہ بالا تشریح حدیث نبوى لم يبقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَات کے عین مطابق ہے.اس میں مبشرات والی نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں باقی قرار دیا ہے.اور شریعت والی نبوت یا مستقلہ نبوت کو منقطع قرار دینے کے لئے لم یبق کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں.پس انقطاع نبوت والی احادیث ! 1 1 k
میں نبی یا نبوت کے الفاظ عرف عام والی اسلامی اصطلاح میں استعمال ہوئے ہیں ہ کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم او علماء ربانی کی عرف خاص والی اسلامی اصطلاح میں.لا نبی بعدی کی تشریح میں بعض اور احادیث بھی موجود ہیں.لا نبی بعدی کی تشریح از روئے احادیث چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا ہے.(1) أبو بَكْرِ خَيْرُ النَّاسِ بَعْدِي إِلَّا أَن تَكُونَ دکنز العمال جلد ۱۳۸۹ ) نبي (۳) أبو بكر أفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا أَن يَكُونَ نَبِي (کنوز الحقائق في حديث خير الخلائق مت) (1) مینی ابو بکر میرے بعد سکے سب لوگوں سے بہتر ہیں سوائے اس کے کہ کوئی بنی ہو.یا ابو یکرہ اس امت میں افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی ہو ؟ ان دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرف الاجو استثناء کا حرف ہے استعمال کر کے بتا دیا کہ امت محمدیہ میں نبی کا آنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ممکن ہے.اگر ممکن نہ ہوتا تو پھر صرف یہ فرماتے کہ ابو کار اس اُمت میں سب لوگوں سے افضل ہیں " " سوائے اس کے کہ کوئی نبی ہو " کے الفاظ نہ فر ماتے.یہ الفاظ اس بات پر قطعی دلیل ہیں کہ خاتم النبیین صلی الہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی اُمت میں نبی کا ہونا آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم
اه کے نزدیک محال اور ممتنع نہیں.بلکہ ممکن ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں نہ صرف عام کمالات نبوت ہی مل سکتے ہیں بلکہ نبی کا ہونا بھی ممکن ہے.اگر خاتم النبیین کے معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ ہوتے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تو آپ کبھی حرف الا کے ذریعہ نبی کا استثناء نہ فرماتے.ہیں ان ہر دو حدیثوں کو جو استثناء کے ذکر پر مشتمل ہیں لا نبی بعدی اور اس کے مضمون پر مشتمل سب حدیثوں کی تشریح میں مد نظر رکھنا ضروری ہے.پس جہاں انقطاع نبوت بیان کرنے والی حدیثیں خاتم النبین کے مفہوم کا منفی پہلو بیان کر رہی ہیں وہاں یہ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبی والی حدیثیں خاتم النبیین کے مثبت پہلو کو بیان کر رہی ہیں.اس طرح احادیث سے خاتم النبیین کے مثبت اور منفی دونو پہلو متعین ہو جاتے ہیں.استثناء کا تعلق ! میں نے یہ استثناء والی حدیث ایک تبادلۂ خیالات کے موقع پر ایک غیر احمدی مولوی صاحب کے سامنے پیش کی تو وہ کہنے لگے کہ الا کے استثناء کا تعلق ان حدیثوں میں حضرت مسیح علیایت سلام سے ہے جو امت محمدیہ میں نازل ہونے والے ہیں.میں نے جوابا کہا کہ آپ کا یہ خیال اس حد تک تو درست ہے کہ ان حدیثوں کا تعلق مسیح موعود سے ہے.مگر آپ کا یہ خیال یہ حدیثیں رد کرتی ہیں کہ مسیح اسرائیلی علیہ السلام سے ان کا تعلق ہے.کیونکہ ان حدیثوں
۵۲ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے يكون سبی کے الفاظ فرمائے ہیں.يكون مضارع کا صیغہ ہے جس کا تعلق آئیندہ زمانہ میں ہونے والے نبی سے ہے.جس کو نبوت آئیندہ زمانہ میں حاصل ہوگی.علاوہ ازیں گون کے معنے عدم سے وجود میں آنا ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت تو آئیندہ عدم سے وجود میں نہیں آئے گی.اس لئے سکون کا لفظ ایسے نبی کے متعلق ہی ہو سکتا ہے جس کی نبوت آئیندہ زمانہ میں عدم سے وجود میں آنے والی ہو.ماسوا اس کے حدیث کے سیاق میں حضرت ابو بکر کا امت کے افراد سے تقابل مد نظر ہے اس لئے ان سکون نبی کا تعلق بھی امتی نبی سے ہو سکتا ہے.نہ کسی منتقل نبی سے.کیونکہ مستقل نبی کی آمد تو خاتم النبیین کے منافی ہے.اور اس پر ساری امت کا اجماع ہے.حضرت ابوبکر کا مرتبہ مسیح موعود اُن سے کیوں فضل ہیں ؟ مولوی محمد ادریس صاحب شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ نے اپنی کتاب "ختم النبوة" میں اس بات پر جذباتی پہلو سے بڑا زور دیا ہے کہ اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے نبوت کو جاری مانا جائے تو حضرت ابوبکر یہ کیوں نہیں نہ بنے.وہ تو آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے کامل مشبع تھے ؟ اس کے متعلق عرض ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابو بکرہ کا مقام امت محمدیہ میں بہت بلند
۵۳ ہے.مگر ان پر دو حدیثوں کی موجودگی میں اس بات کی وجہ خود مولوی محمد ادریس صاحب اور اہمچو قسم علماء سوچ لیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ حضرت ابو بکرہ تمام امت سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو تو پھر امت محمدیہ کے اندر ظاہر ہونے والا نبی تو بہر حال حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے افضل ہی ہو گا.نبوت ایک موہبت الہی ہے.اس کا منصب ضرورت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا کرتا ہے.یہ منصب کسب سے حاصل نہیں ہوتا.پس اس منصب کے پانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اس کی علت تامہ نہیں کہ معلول دیعنی منصب کا پایا جانا اس علت کے پایا جانے کے ساتھ ضروری ہو.بلکہ صرف شرط کی حیثیت رکھتی ہے.ہاں اس کامل پیروی کی وجہ سے حضرت ابو بکر رمہ کو بھی کمالات و انوار نبوت سے حصہ داخر ملا تھا.مگر وہ مامور نہ تھے.ماموریت کا مقام حسب حدیث نبوی است درجہ مسلم باب خروج الدقبال صرف مسیح موعود کے لئے مقرر ہے کیونکہ انہی کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے.چونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو کمالات نبوت سے حصہ وافر ملا تھا اس لئے حضرت مجدد الف ثانی نے تو انہیں کمالات کے لحاظ سے انبیاء میں ہی شمار کیا ہے.چنانچہ وہ فرماتے ہیں : " ایں ہر دو بزرگوار از بزرگی و کلانی در انبیاء معدود اند و.بفضائل انبیاء محفوف ، مکتوبات جلد اول ما ۲۵ مکتوب عل۲۷)
AM ہاں امام ابن سیرین علیہ الرحمہ نے غالباً ان دوحد بیٹوں کے پیش نظر ہی جن میں الا ان يكون نبی کے الفاظ آتے ہیں.فرمایا ہے :- يكون في هذِهِ الْأُمَّةِ خَلِيفَةً خَيْرٌ مِنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ قِيلَ خَيْرٌ مِنْهُمَا قَالَ قَدْ كَادَ يَفْضُلُ عَلَى بَعْضِ الأنبياء - (حجج الكرامه مش۳ ) یعنی اس اُمت میں ایک خلیفہ ہوگا جو ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے بھی بڑا ہو گا اس پر آپ سے پوچھا گیا کہ وہ ان دونوں سے بھی بڑا ہوگا ؟ تو امام ابن سیرین نے جواب دیا کہ قریب ہے کہ وہ تو بعض نبیوں سے بھی بڑھ جائے " اب یہ خلیفہ بر مسیح موعود اور مہدی معہود کے اور کون ہو سکتا ہے.اور حضرت علونیہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے اس کا بڑا ہونا جب پہلے سے مسلم ہے تو حضرت مسیح موعود علی سلام کو کیوں امت محمدیہ کے خلفاء سے بوجہ ماموریت بر منصب نبوت غیر مستقلہ افضل نہ سمجھا جائے ؟ مولوی محمد ادریس صاحب کی غلط فہمی متعلق حديث إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ بِى بَعْدِى مولوی محمد ادریس صاحب نے حدیث الَا تَرْضى أَنتَ مِنِى بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُّوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِي بَعْدِی (بخاری غزوہ تبوک) پیش کر کے لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق مستقلہ نبوت کا تو دہم بھی نہیں ہو سکتا تھا.لہذا اس جگہ لا نبی بعدی میں نبوت غیر مستقلہ کی
۵۵ بھی نقی قرار دی گئی ہے.مولوی محمد ادر میں صاحب کی یہ تشریح درست نہیں.اور اس حدیث سے ہمارے عقیدہ پر کوئی زد نہیں پڑتی حضرت شاہ ولی اللہ صاحب علیہ الرحمہ محدث دہلوی کی طرح ہم تو اس حدیث کا تعلق غزوہ تبوک سے بغیر حاضری کے زمانہ اور صرف حضرت علی سے سمجھتے ہیں.وہ فرماتے ہیں :-.باید دانست که مدلول این حدیث نیست الله استخلاف علی بر مدینه در غزوہ تبوک و تشبیه دادن این استخلاف با استخلاف موسی بارون را در وقت سفر خود بجانب طور - وسعنی بعدی این مجا غیری است چنانچه در آیت نَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ الله گفته اند نه بعدیت زمانی - زیرا که حضرت ہارون بعد حضرت موسی نماندند تا ایشان را بعدیت زمانه ثابت بود.و از حضرت مرتضی آنرا استثناء کنند.پس حاصل این است که حضرت موسی در ایام غیبت خود حضرت ہارون را خلیفه ساخت و حضرت ہارون از ایل بیت حضرت موسی بودند و جامع بودند در نیابت و اصالت در نبوت و حضرت مرتضی امثل حضرت ہارون است در بودنِ اہلِ بیت پیغمبر و در نیابت نبوت بحسب احکام متعلقہ حکومت مدینه در اصالت نبوت " (قرة العينين في تفضيل الشيخين صفحه ۲۰۶ مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی)
۵۶ مینی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں.غزوہ تبوک میں علی رضی اللہ عنہ کا مدینہ میں نائب یا مقامی امیر بنایا جانا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ہارون کی حضرت موسی سے اس نیا بہت ہیں جو حضرت موسی کے طور کا سفر اختیار کرنے کے وقت بھی تشبیہہ دینا.پھر فرماتے ہیں.اس حدیث میں بعد ی کے لفظ کے معنی غیرتی ہیں نہ کہ بعدیت زمانی.اور بعد بیت زمانی نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے بعد زندہ نہیں رہے.پس حضرت علی کے لئے بعد میت زمانیہ الا ذریعہ استثناء مراد نہیں ہو سکتا.حاصل مطلوب حدیث کا یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی غیرحاضری میں ہارون علیہ السلام کو جو اُن کے اہل بیت میں سے تھے اور حضرت موسی کے نائب بھی تھے.اور اصالہ نبی بھی تھے.مقامی امیر بنایا اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے ہونے میں اور مدینہ منورہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر حاضری میں نائب ہونے میں تشبیہہ دیئے گئے ہیں نہ کہ براہ راست نبی ہوتے ہیں.اور اس طرح حدیث کے معنے یہ ہیں کہ اس غیر حاضری کے زمانہ میں جو سفر تبوک کے ذریعہ ہوگی میرے سوا کوئی نبی نہ ہوگا.بعدی کے معنی میری کے ہیں نہ بعد یت زمانی کے.حضرت ولی اللہ صاحب علیہ الرحمہ کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس حدیث میں لا نبی بعدی کے الفاظ کا تعلق صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوہ تبوک پر غیر حاضری کے وقت سے ہے نہ کہ بعد بیت زمانی سے.کیونکہ بعد یت زمانی مراد
لیں تو حدیث سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حضرت ہارون علیہ السلام موسیٰ کے بعد زندہ رہے.حالانکہ یہ بات واقعہ کے خلاف ہے.کیونکہ حضرت ہارون علیدات لام حضرت موسی علیا اس نام سے پہلے فوت ہو گئے تھے.پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوہ تبوک پر غیر حاضری کے زمانہ کے لئے نیابت میں تشبیہہ دی گئی ہے.نہ کہ اس مستقلہ نبوت میں بھی جو ہارون علایت سلام کو حاصل تھی.اس جگہ زمانی بعدیت کے لحاظ سے نبوت کے بند ہونے یا نفی کا قطعاً ذکر نہیں.کیونکہ بعد یت زمانی سیاق حدیث کے خلاف ہے.اگر حضرت ہارون علیہ السّلام حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے بعد زندہ رہے ہوتے تو پھر بعد بہت زمانی مراد لی جا سکتی تھی.اس جگہ بعدی کے معنے منیری کے ہیں.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث میں بیان فرما رہے ہیں.کہ غزوہ تبوک پر غیر حاضری کے زمانہ میں میرے سوا کوئی نبی نہیں.مولوی محمد ادریس صاحب بعدیت زمانی اور نبوتت غیر مستقلہ مراد لے کر ہمیشہ ہمیش کے لئے نبوت غیر مستقلہ کی بھی نفی ثابت کرنا چاہتے ہیں.مگر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے اس لطیف اور پُر مغز استدلال کے بالمقابل اُن کی ساری کوشش بے سود ہے.حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمتہ کے نزدیک حضرت ہارون علیہ السلام اصالتاً یعنی براہ راست اور تنقل نبی تھے.لہذا إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِي بَعدِی میں غزوہ تبوک پر غیر حاضری کے زمانہ میں صرف مستقلہ نبوت کی نفی ہی مراد ہو سکتی ہے.اب اگر مولوی محمد ادریس صاحب
۵۸ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے قول کے برخلاف نبوت غیر مستقلہ کی نفی بھی گراد لیں تو پھر بھی اس نھی کو حضرت علی رشہ سے غزوہ تبوک کی غیر حاضری تک ثابت کرنا مقصود ہوگا.کیونکہ بہادری سے مراد اس جگہ بعد بیت زمانی نہیں لی جاسکتی.پس ہمیشہ کے لئے غیر مستقلہ نبوت کی نفی اس حدیث سے ثابت نہیں ہو سکتی.طبقات سعد جلد ۵ ۱۵۰ میں اس حدیث کی دوسری روایت بالمعنی غیر اَنَّكَ لَسْتَ نَبیا کے الفاظ میں وارد ہے.کہ اے علی ! تو نبی نہیں.یہ بھی اس امر کی مؤید ہے کہ اس جگہ بعدیت زمانی مراد نہیں.پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا " ابو بكر أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا انْ يكون نبي ، تو یہ مستثنی اپنی جس کے اُمت میں ہونے کا امکان تھا.آخر غیر مستقل نبی ہی ہو سکتا ہے.لہذا زیر بحث حدیث کے الفاظ لا نبی بعدی کا تعلق صرف اور صرف حضرت علی رض سے اُس وقت نبوت کی نفی کے متعلق ہی نے تسلیم کرنا پڑے گا یہ کہ علی الاطلاق نبوت غیر مستقلہ کی نفی کے متعلق.یہ امر تو مسلم بین الفریقین ہے کہ شارع او مستقل نبی انحضرت صلی اللہ علیہ کم کے بعد نہیں آ سکتا.اب رہا غیر مستقل بنی.سور الا ان يَكُونَ نَبیؐ کے الفاظ حدیث سے اس کا اُمت محمدیہ کے اندر ہونا متعین ہو گیا - وهذا هو المراد - لا نبی بعدی کی تشریح میں ایک اور حدیث لا نبی بعدی کی حدیث کی تشریح ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے.
۵۹ نبراس شرح الشرح العقائد نسفی میں یہ حدیث یوں درج ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- " سيكون بعدِي ثَلَاؤُنَ كُلُّهُمْ يَدَّعِي أَنَّهُ نَبِيٌّ وَ انه لاني بَعْدِي إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ (نبراس ها ) کہ میرے بعد تیس آدمی ہوں گے.اُن میں سے ہر ایک نبوت کا دعوی کرے گا.اور میرے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اُس بی کے جسے اللہ تعالیٰ چاہیے.صاحب نبراس کہتے ہیں در صورت تسلیم الا کے استثناء کا تعلق حضرت عیسی علیہ السلام سے ہے.مگر اس حدیث کے معنوں کے متعلق بنر اس کے حاشیہ پر لکھا ہے :- وَالْمَعْنى لا نَبِيَّ بِنُبُوَّةِ التَّشْرِيمِ بَعْدِي إِلَّا مَا شَاء الله مِنْ أنْبِيَاءِ الْأَوْلِيَاء " (حاشیه (۲۵) یعنی حدیث کے نقرہ لا نبی بعدی کے معنے یہ نہیں کہ میرے بعد شریعت والی نبوت نہیں ہے.اور اِلَّا مَا شَاءَ اللہ سے مراد وہ انبیاء ہیں جو انبیاء الاولیاء ہیں.یعنی جو اولیاء امت ہو کر مقام نبوت پانے والے ہیں ؟ گویا غیر تشریعی انبیاء کا آنا اس حدیث کے رو سے ممکن ہے.اور آیت خانم النبیین کے منافی نہیں.پس حديث لا نبی بعدی محققین علماء امت کے نزدیک صرف مستقل یا تشریعی نبی کے آنے ہیں روک ہے.نہ کہ غیر تشریعی امتی نبی کی آمد میں غیر تشریعی امتی نبی کا استثناء تو خود احادیث نبوی سے ثابت ہو چکا ہے.نیز اس کی اس
۶۰ حدیث اور اس کی مندرجہ بالا تشریح سے صحیح بخاری کی وہ حدیث بھی حل ہو جاتی ہے جس میں آنحضر من صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے اندر تیس دجالوں کذابوں کی خبر دی ہے جو مدعی نبوت ہوں گے.صاف ظاہر ہے کہ وہ تیس دجال تشریعی یا مستقلہ نبوت کے مدعی ہوں گے.اور ایسا ہی دعوئی خاتم الیقین کی آیت اور حدیث لا نبی بعدی کے منافی ہے.کیونکہ خاتم النبیین کے حقیقی معنوں کے النی لوازم میں سے یہ معنے بھی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع اور ستقل بنی ہیں.غیر تشریعی نبوت کو محققین علماء اور اولیاء امت نے منقطع تسلیم نہیں کیا بلکہ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی نے تو اسے قیامت تک جاری قرار دیا ہے.صحیح بخاری کی اس حدیث میں خاتم النبیین کے ساتھ لا نبی بعدی کے الفاظ جو ہیں اس کے لئے اشارہ ہیں کہ اس جگہ خاتم النبین کے لازمی یعنی آخری کے اقوال سے لا نبی بعدی کے یہ معنی دیکھا چکا ہوں اور چونکہ لازمی معنے کسی حقیقی معنی کے تابع ہوتے ہیں اس لئے حقیقی معنے خاتم النبیین کے اور ہوں گے.محل استدلال میں چونکہ اُن کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی.اس لئے حدیث میں صرف لازمی معنوں کی طرف لا نبيَّ بَعْدِي کے الفاظ سے اشارہ کر دیا گیا.خاتم النبیین کے حقیقی معنی ایسا نبی ہیں جس کی مہر یا فیض کے واسطہ سے مقام نبوت حاصل ہو سکے.ان معنوں کی تحقیق آپ آگے چل کر اس مضمون کے دوسرے حصہ میں معلوم کریں گے.بطور امیر عام آخری مستقل نبی ہی مراد ہیں.جیسا کہ میں بزرگوں
41 حديث لا نَبِيَّ بَعْدِي کی علمی تحقیق اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ محققین علماء کے نزدیک لا نبی بعدی کی حدیث میں لا کا لفظ اپنے مدخول کی ذات یا جنس کی نفی کے لئے استعمال نہیں ہوا بلکہ یہ لا نفی کمال کے لئے ہے.جیسے حدیث لَا هِجْرَةً بَعْدَ الفتح کا لا ہے.اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ فتح مکہ کے بعد کوئی ایسی کامل ہجرت نہ ہوگی جس میں نبی خود مہاجرین کے ساتھ شامل ہو.اسی طرح لا نج بعدی کے یہ معنی بزرگانِ دین نے بیان کئے ہیں کہ نبوت تامہ کا ملہ تشریعیہ کا دروازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر بند ہو گیا ہے.ہاں بزرگان اُمت نے غیر تشریعی نبی کا جس میں شریعیت جدیدہ والی جزو نہ ہوگی.امت محمدیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بطور ماتحت غیر مستقل نبی کے آنا ممکن مانا ہے.اور اسے منافی ختم نبوت نہیں سمجھا.اسی بنا پر قریباً قریباً تمام مسلمان فرقے حضرت عیسی علیہ السلام کے اُمت محمدیہ میں آنے کے قائل رہے ہیں.پس لا نبی بعدی میں محققین علماء کے نزدیک دوسری حدیثوں کو مد نظر رکھتے ہوئے (جن میں الا ان يكون نبي وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں.یا جو سیع کی آمد مشتمل ہیں ) نبی کا لفظ مطلق نبی کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ تشریعی نبی اور تنقل نبی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.پس ایسے ہی بنی کا آنا منافی ختم نبوت ہے.علاوہ ازیں جب خود دوسرے علماء حضرت عیسی علیہ السّلام کی آمد
۶۲ ثانی کے قائل ہیں تو پھر یہ سب فرقے جو اس عقیدہ کے ہیں اپنے اس مسلک کے لحاظ سے حدیث لا نبی بعدی کے یہی معنے ماننے کے لئے مجبور ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد غیر مستقل نبی آسکتا ہے.ورنہ اگر اس حدیث کا لا نفی جنس کا قرار دیں اور نبی سے مُراد مطلق نبی ہیں تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے بھی امت محمدیہ میں قدم رکے کی کوئی گنجائش نہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب اس حدیث سے مطلق نبی کا آنا بند مان لیا گیا اور جنس نبی کے ہر منہ د کا آنا آنحضرت مصلے اللہ علیہ و سلم کے بعد ممتنع تسلیم کر لیا گیا تو حضرت مینی علیہ السّلام کیسے آسکتے ہیں ؟ اب اگر دوسرے علماء اس حدیث میں نبی کا لفظ مطلق مان کہ پھر حضرت عیسی علیہ السلام کے آنے کے بھی قائل ہوں تو اس سے نہ وہ صرف متضاد عقائد رکھنے والے ہوں گے.بلکہ اُن کا را به عقیده که حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے صریح طور پر ختم نبوت کے انکار کے مترادف ہوگا.کیونکہ آخری نبی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے حضرت عیسی علیہ السلام بن جائیں گے.اور ختم نبوت کی خصوصیت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی خصوصیت ہے آپ سے چھین کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف منتقل ہو جائے گی.
مولوی محمد ادریس صاب کی توجیہ محض آخری نبی بلحاظ پیدائش پر تبصرہ ! مولوی محمداد میں صاحب اپنے رسالہ ختم النبوة “ میں لکھتے ہیں کہ خاتم النبیین کے معنے آخری نبی آخر میں پیدا ہونے والا نبی کے لحاظ سے ہیں اس لئے حضر علیسی ، تو آپ کے بعد آسکتے ہیں لیکن مرزا صاحب نبی نہیں ہو سکتے.(1) مگر یہ معنے لیتے ہوئے انہوں نے سوچا نہیں کہ اس طرح تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادھور سے خاتم النبیین رہ جاتے ہیں.اور ختم نبوت دو نبیوں میں بٹ جاتی ہے.کیونکہ جب خاتم النبیین کے معنی اُن کے نزدیک محض آخری نبی ہیں تو پیدا ہونے کے لحاظ ت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبيين ہوئے اور بقا (باقی رہنے کے لحاظ سے حضرت عیسی علیہ السلام آخری نجابن کہ خاتم استبیین بن گئے.اس طرح دونوں نبی ادھورے خاتم النبیین قرار پاتے ہیں.کیونکہ پورا آخری تو رہی ہو سکتا ہے جو پیدائش اور بقا دونوں لحاظ سے آخری ہو لیکن مولوی محمد اور میں صاحب کے معنوں کے لحاظ تو ختم نبوت کا مقام آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی علیہ السلام میں تقسیم ہو کر رہ جاتا ہے.کیونکہ ایک لحاظ سے آخری نبی تو حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے.چنانچہ امام عبد الوہاب شعرانی الیواقیت والجواہر جلد ۲ ص ۲۲ میں لکھتے ہیں :- جَمِيعُ الأنبياء عَلَيْهِمُ الصَّلَواتُ وَالسّلَامُ نُوَّابٌ لَّهُ : D & }
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ لَّدُنِ آدَمَ إِلَى اخِرِ الرُّسُلِ وَهُوَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام " بینی تمام انبیاء آدمی سے لی کہ آخر الرسل عیسی علیہ اسلام تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہیں " (۲) قرأت خَاتَمَ النَّبِيِّين بفتح التاء کے معنے مولوی محمد اور نہیں صاحب اور مولوی محمد شفیع صاحب دیوبندی کے نزدیک پیدائش کے لحاظ سے آخری نبی کے ہیں.اور قرآت خَاتِمَ النَّبِيِّينَ بكسر التاء کے معنے اُنکے نزدیک نیوں کو ختم کرنے والا ہیں.یہ دونوں معنے آپس میں متضاد ہیں.کیونکہ پیدائش کے لحاظ سے آخری نبی کے بعد کوئی پیلانی آسکتا ہے تو نبیوں کو ختم کرنے والا معنوں کے لحاظ سے کوئی پہلا نبی بھی آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.کیونکہ جب تمام نبیوں کو آپ نے ختم کر دیا تو اب کوئی بنی سابقہ نیوں میں سے بھی باقی نہ رہا.جس کا فیض اُمت محمدیہ میں جاری ہو سکتا ہے.اگر حضرت عیسی علیہ السلام نے امت محمدیہ میں آگہ اُسے حکم و عدل بن کر مستفیض کرتا ہے تو پھر وہ کیسے ختم ہوئے.مال ختم ہو گیا کے یہ معنے ہیں کہ اب مال باقی نہیں رہا صرف ہو چکا ہے.کھانا ختم ہو چکا ہے پانی ختم ہو چکا ہے کے سنتے ہیں اب کھانے اور پانی میں سے کچھ باقی نہیں رہا.سب کھلایا پلایا جا چکا ہے.اسی طرح اب تمام نبیوں کے ختم ہونے کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ اُن کی تعلیمیں بھی ختم اور منسوخ ہو گئی ہیں.اور ان انبیاء کا فیض بھی ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا ہے.چنانچہ دیکھو پہلے نبیوں پر ایمان لانے شان قائم النيل )
۶۵ سے اب کوئی شخص عند اللہ کوئی روحانی حمال نہیں پاسکتا.حتی کہ مومن بھی نہیں ہو سکتا.بلکہ کمالات روحانیہ کپانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے.پس دوسرے علماء کے اپنے مسلک کے مطابق جب خاتم اور خاتم کی قراء توں میں اس طرح معنوی تضاد پیدا ہو گیا تو پھر ان علماء کو ان کے کوئی مشترک سکنے لینے چاہئیں تا تضاد اُٹھ جائے.اور یہ اسی طرح اُٹھ سکتا ہے کہ جو نبی پیدائش کے لحاظ سے آخری نبی ہو اس کے بعد سی بی کا آنا تسلیم نہ کیا جائے.تا دوسری قرأت کے سنے قائم رہیں.پیدائش کے لحاظ سے آخری نبی کو یہ لازم تو نہیں ہے کہ ضرور اس سے پہلے کوئی بنی زندہ ہو جو اس کے بعد آئے.دیکھو حضرت علی علیہ السلام پیدائش کے لحاظ سے بنی اسرائیل کے آخری بنی ہیں مگر اُن سے پہلے کا کوئی نبی زندہ نہ تھا.دوسرا طریق ان میں تطبیق کا وہ ہے جو ہم اسی مضمون کے دوسرے حصہ میں اپنے مسلک کے لحاظ سے بیان کرے ہے علاوہ ازیں امام علی القاری نے حدیث لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ وَكَانَ صد تقابلی کے یہ منے لکھے ہیں کہ اگر صاحبزادہ ابراہیم نبی ہو جاتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوتے.اور پھر وہ بتاتے ہیں کہ اُن کا تابع نبی ہونا خاتم النبیین کے منافی نہ ہوتا.کیونکہ خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد عہ ویسے یہ صورت حدیث کے خلاف ہے کیونکہ حدیث میں مسیح موعود کو نبی اللہ کہا گیا ہے.پس خاتم النبیین کے حقیقی معنی ایسا نبی ہوں گے جس کی شہر سے دوسروں کو نبوت مل سکے.تیمی مسیح موعود کو نبی اللہ تسلیم کیا جا سکتا ہے ؟
کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا ہو شریعت محمدیہ کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.دیکھئے خاتم النبیین کے معنے پیدائش کے لحاظ سے آخری نبی لینے کے باوجود و تسلیم کرتے ہیں کہ صاجزادہ ابراہیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے تھے ان کا نبی بن جانا منافی خاتمیت نہ تھا.پس پیدائش کے لحاظ سے آخری نبی مانتے ہوئے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد پیدا ہو کر امتی نبی بننے والے کی نبوت کو نبوت خاتم النبیین کے منافی نہیں سمجھتے.پس وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بمعنی پیدائش کے لحاظ سے آخری شارع نبی اور آخری مستقل نہی قرار دیتے ہیں نہ کہ مطلق آخری نبی.۴.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ابُو بَكْرٍ أَفْضَلُ هَذِهِ الأمة الا ان يكون نبی.اس جگہ الا کا استثناء بتاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی پیدا ہونے کا امکان ہے.يَكُونُ کا لفظ جو مضارع کا صیغہ ہے اسی بات پر صاف دلالت کر رہا ہے کہ اس استثناء سے حضرت علیمی مراد نہیں ہو سکتے.وہ تو كان نبیؐ کے مصداق ہیں.يَكُون نبي مصداق تو وہی ہو سکتا ہے جس کو آئندہ مقام نبوت ملے.اور وہ آنحضرت صلی الشہد علیہ وسلم کا امتی بھی رہے.کیونکہ سیاق حدیث میں حضرت ابوبکر یہ کا تقابل امت سے ہو رہا ہے.لہذا مستثنی نبی بھی اتنی تنی ہی ہوسکتا ہے نہ کہ حضرت علی علی اسلام بوستقل بنی تھے.پس امام علی القاری علیہ الرحمہ کے قول اور اس حدیث سے ظاہر ہے کہ خاتم النبیین کے معنے پیدائش کے لحاظ سے محض آخری نبی مراد لیتا درست نہیں
46.ہاں آخری شارع اور آخر می تنقل بنی مراد لینا درست ہے اور یعنی ہمیں مسلم ہیں ہے بہر حال جب دوسرے علماء اور سلمانوں کے تمام فرقے حضرت عیسی علیہ السلام کے آنے کے قائل ہیں.باوجودیکہ اس سے اُن کے عقیدہ میں قضاء بھی لازم ہے تو پھر جماعت احمدیہ کو اُن کا منکر ختم نبوت کا الزام دینا سراسر حکم اور سینہ زوری ہے.کیونکہ جماعت احمدیہ ان تمام فرقوں کے عقیدہ کے آئی اور ما حصل سے اصولی طور پر اتفاق رکھتی ہے.اس لئے اگر جماعت احمدیہ مسکر ختم نبوت ہے تو پھر وہ سب فرقے بھی منکر ختم نبوت قرار پاتے ہیں جو حضرت عیسی علیہالت کام کی آمد کے قائل ہیں.پس خاتم النبیین کا مقام احادیث نبوئی اور متقین ائمہ اور بزرگان دین کے نزدیک تابع اور اتنی نی یعنی غیر مستقل نبی کی آمد میں روک نہیں اور ایسی نوستن ختم نبوت کے منافی نہیں بلکہ یہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا فیض اور پر تو اور فل ہے.اور کام اس کا نبوت تشریعیہ محمدیہ کی تائی.اور اسلام کی تجدید ہے.مولادی عبدالماجد صاحب کی تصریح مولوی عبد الماجد صاحب رقمطراز ہیں کہ : جہاں تک میری نظر سے خود باقی سلسلہ احمدیہ جناب مرزا صاحب مرحوم کی تصنیفات گزری ہیں اُن میں بجائے ختم نبوت کے انکار کے اس عقیدہ کی خاص اہمیت مجھے ملی ہے.بلکہ مجھے ایسا یاد عہ کیونکہ یعنی خاتم النبین کے حقیقی معنے کے لوازم میں سے ہیں.منہ
تا ہے کہ احمدیت کے بعیت نامہ میں ایک تنقل دفعہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کی موجود ہے لہذا مرزا صاحب مرحوم اگر اپنے تئیں نبی کہتے ہیں تو اسی معنی ہیں پرسلمان ایک آنے والے سیج کا منتظر ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں.پس اگر احمدیت وہی ہے جو خود حضرت مرزا صاحب مرحوم بانی سلسلہ کی تحریروں سے ظاہر ہوتی ہے تو اسے ارتداد سے تعبیر کرنا بڑی ہی زیادتی ہے ؟“ و منقول از اخبار الفضل ۲۱ مارچ ۴۱۹۲۵ه ) پس یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ تمام مسلمان فرقوں کے عقیدہ دربارہ ختم نبوت سے اصولی طور پر اتفاق رکھتی ہے.تمام مسلمان فرقے اور ان کے علماء بھی حضرت عیسی علیدات لام نبی اللہ کے امت محمدیہ میں آنے کے قائل ہیں.اور و تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام غیر تشریعی نبی ہوں گے اور امتی ہو کر آئیں گے.پس وہ سب ایسے شخص کا بعدخاتم النبیین صلی اللہ علیہ سلم کے انت محمدیہ میں آنا مانتے ہیں جیسے وہ ایک پہلو سے نسبتی اللہ اقرار دیتے ہیں اور دوسر پہلو سے امتی.اس طرح وہ سب ضرورت نبوت کے قائل ہیں.جماعت احمدیہ بھی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو ایک پہلو سے بنی اور ایک پہلو سے اُمتی تسلیم کرتی ہے اور آنحضرت مصلے اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی سے بڑھ کر دعوی کرنے والے انسان کو ملعون اور دجال یقین کرتی ہے.پس جماعت احمدیہ کا دوسرے سلمان فرقوں سے کوئی اٹھولی اختلاف نہیں بلکہ صرف ایک
44 جزوی اختلاف باقی رہ جاتا ہے جو یہ ہے کہ آنے والا سیح آسمان سے اتر کر آئے گا یا بموجب حدیث صبح علم مامكم منكم يا بموجب حدیث نبوی اما مكُم مِنكور صبیح بخاری) رای امت محمدیہ میں سے پیدا ہوگا.اور یہ جودی اختلاف صرف مسیح موعود کی شخصیت کے بارے میں ہوگا.نہ کہ ختم نبوت کے بارہ ہیں.اختلاف کے حل کی صورت راس جزوی اور فروعی اختلاف کا نتیجہ مولوی عبد الماجد صاحب کے بقول ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ جماعت احمدیہ کو ، بانی سلسلہ احمدیہ کو سیح موعود اور انتی نبی اور آپ کی نبوت کو خاتم النبیین صل اللہ علیہ وسلم کی شریعیت کی خادم سمجھنے کے باوجود اسلام سے مرتد اور کافر قرار دیا جائے.اس کے حل کی اصل صورت تو یہ ہونی چاہیئے کہ اس بارہ میں پوری چھان ربین کی جائے کہ آیا حضرت علی علیہ السلام وفات پاچکے یا بجسده العنصری آسمان پر زندہ موجود ہیں.اگر تو حضرت عیسی علیہ السلام خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ ثابت ہوں تو پھر جماعت احمدیہ غلطی پر ہے.اور اگر حضرت عیسی السّلام وفات یافتہ ثابت ہوں تو صاف کھل جائے گا کہ امت محمدیہ میں آنے والا سچے موعود جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مندرجہ صحیح مسلم میں چار دفعہ نبی الله قرار دیا گیا ہے وہ امت محمدیہ کا ہی ایک فرد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ایک روحانی فرزند ہے.اور اسے حضرت عیسی علیہ السلام سے مماثلت اور شابہت کی وجہ
سے صرف استعارة عیسی بن مریم کا نام دیا گیا ہے.پس یہ امر روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ کا ختم نبوت کے عقیدہ میں دوسرے مسلمان فرقوں ہے اور اُن کے علماء سے کوئی اصولی اختلاف نہیں.اختلاف صرف ایک فروعی اور جھوٹی امر کے بارہ میں ہے چینی مسیح موعود کی شخصیت کے بارہ میں جیسا کہ مولوی عبد الماجد صاحب فرماتے ہیں کہ مرزا صاحب مرحوم اگر اپنے تئیں نبی کہتے ہیں تو اسی منی میں پشیمان ایک آنے والے بیج کا منتظر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں ہے غیر احمدیوں کے ایک مندر کا جواب غیر احمدی جب احمدیوں سے تبادلۂ خیالات میں اپنی کمزوری محسوس کر لیتے ہیں تو بعض اُن میں سے یہ عذر پیش کر دیتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام جب آئیں گے تو وہ نبی اللہ نہیں ہوں گے محض ایک امتی کی حیثیت میں آئیں گے ہذا خاتم النبیین کے یہی معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا.بزرگان دین کے نزدیک مسیح موعود نبی اللہ ہے گر یہ ایک کچھا عذر ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود کو چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے دصحیح مسلم بروایت نواس بن سمعان باب خروج الدقبال ومشكوة باب خروج الدقبال ) ایسی حدیثوں کی بناء پر ہی علماء اقت
61 نے مسیح موعود علی اسلام کا نبی اللہ ہونا تسلیم کیا ہے.حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :- " عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَنزِلُ فِيْنَا حَكَمَا مِنْ غَيْرِ تَشْرِيْعٍ وَهُوَ نَبِي بِلَا شَقٍ" رفتوحات مکیه جلد اول منه ) یعنی علی علیات سلام ہم میں حکم ہو کہ بغیر شرعیت کے نازل ہوں گے.اور وہ بے شک نبی ہوں گے ؟ نواب صدیق حسن خان صاحب حج الکرامہ ۱۳ میں علمائے سلف کے اقوال کی بناء پر لکھتے ہیں :- " هُوَ إِن كَانَ خَلِيفَةً فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ فَهُوَ رَسُولُ وَنَي كَرِيم عَلَى حَالِهِ " یعنی اگر چہ حضرت عیسی علیہ اسلام امت میں خلیفہ ہوں گے مگر وہ اپنے پہلے حال پر بنی اور رسول بھی ہوں گے.پھر لکھتے ہیں :- مَنْ قَالَ بِسَلْبِ نُبُوَتِهِ فَقَدْ كَفَرَ حَقًّا كَمَا صَرَّحَ بية السيوطي " کہ جو شخص یہ کہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بغیر نبوت کے آئیں گے تو وہ یقیناً کافر ہے.جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اس کی تصریح کی ہے.
۷۲ پھر دُور جانے کی ضرورت نہیں.ہمارے زمانہ کے ایک مفتی اور فاصل دیوبند مولوی محمد شفیع صاحب اپنے ایک فتوی میں تحریر کرتے ہیں :- جو شخص حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت سے انکار کرے.وہ کافر ہے.یہی حکم بعد نزول بھی باقی رہے گا.اُن کے نبی اور رسول ہو نے کا عقیدہ فرض ہوگا.اور جب وہ اس امت میں امام ہوکر تشریف کیں گے اس بنیاد پر ان کا اتباع احکام بھی واجب ہوگا.الغرض حضرت عیسی علیه است نام بعد نزول بھی رسول اور نبی ہوں گے.اور اُن کی نبوت کا اعتقاد جو قدیم سے جاری ہے اس وقت بھی جاری رہیگا " د دیھور میر فتاوی الف مل بحواله الفضل ) ہانی اگر کوئی شخص ان احادیث نبویہ کا انکار کرے جن میں آنے والے سیح موعود کر نبی اللہ قرار دیا گیا ہے اور وہ ان بزرگوں کے اقوال اور علماء کے فتاوی کو بھی تسلیم نہ کرے اور خاتم النبیین کے معنے آخری نبی معنی مطلق آخری نبی قرار دے اور اپنے ان تا ویلی معنوں پر مصر ہو تو اسے ان تمام بزرگوں کو بھی ختم نبوت کا منکر قرار دینا پڑے گا جن کے اقوال میں قبل از میں پیش کر چکا ہوں کہ غیر تشریعی نبوت بند نہیں.ایسا شخص در حقیقت ختم نبوت کے مثبت پہلو کا منکر ہو گا جو ختم نبوت کے حقیقی معنی ہیں.اور لغت عربی اور قرآن مجید کی دوسری آیات کی روشنی میں ثابت ہیں.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو محض مجازی معنوں میں خاتم النبیین مانتا ہے جیسا کہ میں آگے چل کر بیان کروں گا.پس یہ عذر از روے احادیث نبویہ و اقوال المتر وعلماء امت هرگز درست.
نہیں کہ امت محمدیہ کا مسیح موعود نبی اللہ نہیں ہوگا.جب سیح موعود نبی اللہ ہے تو پھر جماعت احمدیہ کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علی السلام کو مسیح موجود ماننے کی بناء پر اور امتی نبی سمجھنے پر ختم نبوت کا منکر قرار دینا صریح تحکم اورظلم ہوگا.اگر جماعت احمدیہ ختم نبوت کی منکر ہے تو تمام مسلمان فرقے اور علماء اور بزرگان دین جو حضرت عیسی بنی اللہ کی آمد کو جائز بلک ضروری قرار دیتے ہیں ، کیوں ختم نبوت کے منکر نہیں ؟ چونکہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک غیر تشریعی نبی کی آمد کا عقیدہ مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے جس سے جماعت احمدیہ کا بھی اتفاق ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ ولم کے بعد اتنی نبی کی آمد کا عقیدہ ختم نبوت کے منانی نہیں.اور اس کی بناء پر ہرگزہ جماعت احمدیہ کو ختم نبوت کا منکر قرار نہیں دیا جاسکتا.غیر احمدیوں کا متضاد عقب تعجب ہے کہ ایک طرف تو بعض دوسرے علماء آنحضرت صلی الہ علیہ سلم کو خاتم النبيين بمعنی آخری نبی حسب قرأت حاتم النبيين بفتح التاء اور لیموں کا ختم کرنے والا حسب قرات خَامَ KANGAN: بكسر التاء قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ عقبہ بھی رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وکم کے بعد ضرور آسمان سے نازل ہوں گے.حالانکہ اس طرح محض آخری نبی تو حضرت عیسی علیہ السلام بن کر خاتم النبیین ہو گئے.محض آخرکی نہیں تو انہیں مانتا ہی پڑے گا.جیسا امام عبد الوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ الیواقیت والجواہر جلد ۲ ۲۲ میں لکھتے ہیں :
ي الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ نُوَّاب لَه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ لَّدْنِ آدَمَ إِلَى آخِرِ الرُّسُلِ وَهُوَ عِيْلى عَلَيْهِ السَّلَامُ " ینی تمام انبیاء کرام علیہم السلام آدم سے لے کر آخری رسول علی علی اسلام ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہیں...اس جگہ اگر یہ کہا جائے کہ خاتم النبیین کے معنی آخری بی لحاظ میں دانش میں تو دوسری قرأت خاتم النبین ان معنوں کو قائم نہیں رہنے دیتی.کیونکہ اس کے معنی غیر احمدی علماء نبیوں کو ختم کرنے والا لیتے ہیں.اب اگر بالفرض حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہوں اور وہی دوبارہ آئیں گے تو اُن کا فیض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ضرور جاری ہوگا.انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ تم نے کیا ختم کیا ؟ پس اگر خاتم النبیین کی قرآہ کے حقیقی معنے ختم کرنے والا ہیں تو پھر حضرت عیسی والا تو علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا محال ہے.کیونکہ اس صورت میں ان کو بھی ختم شدہ ہونا چاہئیے.اور وہ تبھی ختم شدہ قرار دیئے جاسکتے ہیں کہ اس دُنیا میں اب اُن کی زندگی کا کوئی حصہ باقی نہ ہو.نہ جسمانی زندگی کے لحاظ ہے.نہ اُن کا فیض جاری ہونے کے لحاظ سے.حدیثوں میں اگر مسیح ابن مریم کے نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے تو اُن میں اسے اِمَامُكُمْ مِنْكُمُ (صحیح بخاری) یا فامكم منكم د سیم مسلم ہو کر ایک امتی فرد ہی قرار دیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ایک روحانی فرزند کو استعارہ کے طور پر ابن مریم کا نام دیا گیا ہے.ایہ ظاہر ہو کہ امت محمدیہ کا یہ موخود امام آخر الزمان
GA مسیح ابن مریم کا مثیل ہوگا.مولوی محمد ادرہیں اور ختم نبوت کے معنے پھر مولوی محمد اد ہیں صاحب لکھتے ہیں :- خاتم کا مادہ ختم ہے.جس کے معنے ختم کرنے اور مہر لگانے کے آتے ہیں.اور مہر لگانے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کسی غنی کو اس طرح بند کیا جائے کہ اندر کی چیز باہر نہ آسکے اور باہر کی چیز اندر نہ جاسکے.دختم القبوة شا) پھر خاتم اور خاتم کی دونوں قراتوں کا حاصل یہ بتاتے ہیں :.حاصل دونوں قراتوں کا ایک ہے.وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود با جو انبیاء کو ختم کرنے والا اور سلسلہ نبوت پر مہر کرنے والا ہے.آپؐ کے بعد کوئی اس سلسلہ میں داخل نہیں ہو سکتا.اور آپ سے پہلے جو اس سلسلہ میں داخل ہو چکا.وہ اس سلسلہ سے نکل نہیں سکتا ، ختم المنيرة مشم جب خاتم معنی مہر اور خاتم بمعنی ختم کرنے والے کی یہ کیفیت ہے تو حضرت عیسی علیات سلام کو انہیں بہر حال ختم سمجھنا چاہیئے کیونکہ مہر نبوت کے اندر جو چیز بند ہو جائے جب وہ اس سلسلہ سے بقول ان کے باہر نہیں نکل سکتی ہیں سلسلہ کے ساتھ بند ہوئی ہے توحضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ سے جوختم ہو گیا اور بند ہو گیا باہر نکل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیسے آسکتے ہیں.جب تک کہ
۷۶ وہ مہر ٹوٹ نہ جائے جو ان کی نبوت مستقلہ پر لگی ہے.کیونکہ ن کا غیر مستقل بھی ہو کہ آنا انہیں پہلے سلسلہ نبوت سے نکالتا ہے.اور یہ امر مہر ٹوٹے بغیر ناممکن ہے.ہماری تحقیق ہماری تحقیق میں لغت عربی کے رو سے خاتم دار کی زیر سے) اور خاتم تاء کی زیر سے) ہر دو لفظوں کے حقیقی لغوی معنی آخری یا ختم کرنے والا نہیں.بلکہ مہر کی طرح نقش پیدا کرنے کی تاثیر رکھنے والا وجود ہیں.(دیکھو فردات راغب ) اس نے خاتم النبین کی جو قرا تار کی زہر سے ہے اس کے منے ایسا نبی ہیں جو اپنے فیض کی تاثیر سے دوسرے شخص کو نبوت ملنے کا ذریعہ ہو.کیونکہ خانم تار کی زیر سے ہم آلہ ہے.اور خاتم النبیین کی قرأۃ ہوتا، کی زیر سے ہے اس کے معنے ایسا نبی ہیں جو دوسرے شخص کو اپنی ختم نبوت کے اثر سے مقام نبوت پر سرفراز کرنے والا ہو.ان معنوں کی پوری تفصیل آپ آگے چل کر مضمون ہذا کے دوسرے حصہ میں معلوم کریں گے، ان دونوں قراتوں کے معنے علی الترتیب مطلق آخری نبی یا نبیوں کو ختم کرنے والا صرف مجازی معنے ہیں.اور حقیقی اور مجازی دونوں معنوں کا ایک ذات میں جمع ہونا محال ہوتا ہے.اور مجازی معنے وہاں مراد ہوتے ہیں جہاں حقیقی معنی کا پایا جانا متعذر و محال ہو.چونکہ قرآن مجید کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات با برکات میں حقیقی معنی کا پایا جانا محال نہیں.اس لئے جگہ مجازی سے تسلیم نہیں کئے جاسکتے.ہاں چونکہ قرآن مجید سے یہ امرثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع اور آخری مستقل ہی ہیں.اس لئے یہ سنے خاتم انبیین
66 کے حقیقی معنوں کے ساتھ بطور لوازم کے جمع ہیں.حضرت امام علی القاری رحمہ للہ علیہ نے جیسا کہ میں قبل ازیں بتا چکا ہوں خاتم النبیین کے یہی معنے کئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.اس لئے غیر مستقل بنی یا بالفاظ دیگر امتی نبی کی آمد خاتم النبیین کے منافی نہیں.کیونکہ خاتم النبیین کا مقام اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے ایسے نبی کی آمد کے نہ صرف یہ کہ منافی نہیں بلکہ ایسے نبی کے آپؐ کی اُمت میں ظاہر ہونے کا متقاضی ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ میں مبعوث ہونے والے عیسی کو چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے.(ملاحظہ ہو حدیث صحیح مسلم برایت نواس بن سمعان با شروع ایتال) حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے خاتم النبیین کے یہ حقیقی معنے تسلیم کئے ہیں.چنانچہ آپ تحذیر الناس منہ میں لکھتے ہیں : جیسے خاتم کا اثر مختوم علیہ پر ہوتا ہے ویسے موصوف بالذات دخاتم النبيين - ناقل) کا اثر موصوف بالعرض ( وستر انبیاء - تناقل) پر ہوگا گیا آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی بات مولوی مقام ما کے نزدیک بالذات ہے.اور دوسرے تمام انبیاء آپ کی مہر نبوت کے فیض کا اثر ہونے کی وجہ سے موصوف بوصف نبوت بالعرض ہیں.اور خاتم النبیین کے انہی معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں:.بالفرض اگر بعد زمانہ نبی صلی الہ علیہ سلام کی کوئی نبی پیدا ہو
تو خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا ؟ ( تحذیر الناس من ) کیونکہ اس بعد میں پیدا ہونے والے نبی کی نبوت بالعرض ہوگی نہ کہ بالذات - مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی خاتم النبیین کی تفسیر میں لکھتے ہیں : جس طرح روشنی کے تمام مراتب آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی پر ختم ہو جاتا ہے.بدین لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے یہ غیر مولوی ما این شیخ الہند شائع کرده اداره اسلامیات ۵۵) جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے.یہ فقرہ بناتا ہے.کہ مولوی شبیر احمد صاحب خاتم النبیین کے معنے نبیوں کی ہر جو حقیقی معنی ہیں تسلیم کرتے ہیں اور اس کا اثر مولوی محمد قاسم صاحب کی طرح یہ مانتے ہیں کہ باقی تمام انبیاء کی نبوت آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی مہر کے اثر سے ہی ظہور پذیر ہوئی ہے.ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہمیش کیلئے خاتم النبیین ہیں اس لئے آپ کی مہر کے اس اثر کو آپ کے عالمہ جسمانی میں ظہور پر منقطع قرار نہیں دیا جا سکتا.البتہ آپ کے ذریعہ شریعت کا ملہ نامہ آجانے کی وجہ سے اب اس شہر کے اثر سے تفیض ہونے کے لئے آپ کی شریعت کی پیروی شرط ہوگی یہ اور آپ کی شریعیت کے دامن کو چھوڑ کر کوئی شخص مقام نبوت حاصل نہیں کر سکتا.تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ آپ کے جسمانی
69 ظہور پر خاتم النبیین کی مہر کا اثر بصورت ہوتیت خلیہ بھی منقطع قرار دے دیا گیا ہے.اسی لئے علماء ربانیین نے نبوت الولا بیت کو آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی امت کے لئے باتی تسلیم کیا ہے.اور شریعت کا ملہ آجانے کی وجہ سے صرف تشریعی نبوت کو منقطع قرار دیا ہے.پیس نبوت الو نابیت مانتی کو کامل طور پر بھی مل سکتی ہے اور جزوی طور پر بھی.غیر احمدی علماء ضرورت نبوت کے قائل ہیں جب غیر احمدی علماء حضرت عینی علی اسلام کا استری کی الہ علی و کم کے بعد ایسے زمانہ میں آنا مانتے ہیں کہ جب امت محمدیہ ۷۲ فرقوں میں متفرق ہوگی اور وہ اُمت محمدیہ میں بطور حكم و عدیل کے نازل ہوں گے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ضرورت نبوت کو تسلیم کر لیا.حضرت مسیح موعود کی پوزیشن از روئے احادیث نبوی یہ ہے :- ليو شكن ان ينْزِلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمَا عَدْلًا يكسرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ " ر صحیح بخارهای جلد ۲ طلا مصری باب نزول عیسی ابن مریم ) مسیح موعود کی یہ حیثیت بتاتی ہے کہ وہ حکم و عدل ہوں گے اور کسر صلیب کرینگے اور تیل ختر بیر کریں گے.اس سے ظاہر ہے کہ اس وقت مسلمان متفرق ہوں گے اور عقائد کے لحاظ سے افراط و تفریط کی راہ پر گامزن ہوں گے.اور اُن کے علماء اور فقہاء انہیں اعتدلال پر نہیں لاسکیں گے.اس لئے خدا تعالی کی طرف سے حکم و عدل بھیجا جانے کی ضرورت ہوگی.نیز عیسائیت کو اس وقت دنیا میں غلبہ ہوگا اور سیم موجود دلائل و
۸۰ براہین سے اُسے مغلوب کر دیں گے.نیز بُری عادات کا استیصال کریں گے اور اسوہ حسنہ نبوی کو قائم کریں گے.آخری زمانہ کے مسلمانوں اور اُن کے علماء کی حالت کا نقشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وکم نے ان الفاظ میں کھینچا ہے :- يَات عَلَى النَّاسِ زَمَانُ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ ولا يبقى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ السَّمَاء خراب مِّنَ الهُدَى عُلَمَاءُ هُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ (مشكوة كتاب العلم ) یعنی لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام نام کا رہ جائیگا.اور قرآن کی صرف تحریر رہ جائے گی مسجدیں آباد ہوں گی مگر ہدایت کے لحاظ سے ویران ہوں گی.کیونکہ اُن کے علماء آسمان کے نیچے سخت ترین ختنہ کا موجب ہوں گے.جب یہ حال ہو تو امت کو ایک نبی کی ضرورت ہوئی جو بطور محکم و عدل است محمدیرمیں مبعوث ہو.اور ایک طرف وہ امت محمدیہ کے عقائد کی اصلاح کرے تو دوسری طرف کسر صلیب کرے.یعنی عیسائیت کا دلائل سے ابطال کرے اور عیسائیوں کے سامنے پر زور دلائل سے اُن کی کتابوں اور تواریخ کے رو سے ثابت کر دے کہ مسیح علیہ السلام نے صلیب پر جان نہیں دی.اگر یہ کام کسی غیر نبی سے سرانجام پا سکتا تو آنحضر صلی الہ علیہ وسلم کو اس کے لئے ایک نبی کے آنے کی پیشگوئی کرتے کی کیا ضرورت تھی ؟ پس جب کامل شریعت قرآنیہ آجانے کے بعد بھی علماء آخری ن خاتم النبيين.
ز سان کام بین دا 시 زمانہ میں ایک نبی کی ضرورت کے قائل ہیں تو پھر جماعت احمدیہ کے مقابلہ میں وہ کیوں کہتے ہیں کہ شریعیت کاملہ آجانے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ عیہ وسلم کے بعد اب کسی نبی کی ضرورت نہیں.علامہ اقبال اورضرور مسلح ! علامہ اقبال پروفیسر نکلسن کو اپنے مکتوب میں رقمطراز ہیں :- ہمیں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشری مسائل کی پیچیدگیاں سمجھائے اور بین الملی اخلاق کی بنیاد مستحکم واس (مکاتیب اقبال صفحه ۴۶۰ تا ۴۶۴ ) 33 کردنے " استوار رو اور پھر اسی خط میں پروفیسر میکنٹری کی کتاب انٹروڈکشن ٹوسوشیالوجی کے پیرا گراف لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ دو پیراگراف کس قدر صحیح ہیں.انہیں لفظ بلفظ نقل کر دیتا ہوں.غالباً نہیں پغمبر سے بھی زیادہ عہد نو کے شاعر کی ضرورت ہے.یا ایک ایسے شخص کی جو شاعری اور پیغمبری کی دو گو نہ صفات - متصف ہو ؟ سے (۲) ہمیں ایسے شخص کی ضرورت ہے جو در حقیقت روح القدس کا سپاہی ہو " یہ پیرا گراف درج کرنے کے بعد علامہ اقبال تحریہ فرماتے ہیں :- ” میرے افکار کا مطالعہ کریں.ہمارے عہد نا ہے اور پنچائتیں جنگ میکال
사 کو صفحہ حیات سے محو نہیں کر سکتیں کوئی بلند مرتبہ شخصیت ہی ان مصائب کا خاتمہ کرسکتی ہے.اور اس شعر می ہیں نے اسی کو مخاطب کیا ہے - باز در عالم بسیار ایام صلح جنگجوئیان را بده پیغام صلح اسکاتیب اقبال جلد اصفحہ ۴۶۰ تا ۴۶۴) کہ پھر دنیا میں صلح کے ایام لا.اور جنگجو توموں کو ضلع کا پیغام دے.پھر دمکاتیب اقبال جلد ا صفحہ اہم میں لکھتے ہیں : کاش که مولان نظامی کی دعا اس زمانے میں مقبول ہو اور رسول اللہ مسلم پھر تشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں " یہ ضرورت نبوت کے قائل ہونے کا علامہ اقبال جیسے آدمی کی طرف سے واضح اعتراف ہے.اُن کے نزدیک دنیا میں روحانی انقلاب پیدا کرنا علماء کے بس کی بات نہیں کیونکہ اپنے زمانہ کے علماء کی حالت کا نقشہ وہ یوں کھینچتے ہیں : مولوی بیگانه از اعجاز عشق و ناشناس نغمہ ہائے ساز عشق (اسرار و رموزه مت) مولوی عشق کے معجزہ سے بیگانہ ہے عشق کے ساز کے نغموں سے نا شناس ہے.واعظوں شیوخ اور صوفیاء کا حال دگر گوں یوں بیان کرتے ہیں 2 شیخ در عشق بتاں اسلام باخت رشته تسبیح را ز نار ساخت اسراله در موز چیک ) شیخ نے بتان مجازی کے عشق میں اسلام کو ہار دیا ہے.اور سبیح کے رشتہ
AP کو نہ تار بنا دیا ہے.و اعطاں ہم صوفیاں منصب پرست : اعتبار ملت بیضا شکست واعظ اور صوفی منصب پرست ہو گئے ہیں.اور انہوں نے ملت بیضا کا اعتبار توڑ دیا ہے.و احفظ ما چشم بر میخانه دوخت پر مفتی دین میں فتوی فروخت ہمارے واعظ نے نگاہ مبتخانہ پر مادی ہے تو مفتی، دین نے فتویٰ فروخت کرنا شروع کر دیا ہے.چیست یاران بعد ازیں تدبیر ما رخ سوئے میخانہ دارد پیر ما اے دوستو ! اس کے بعد اب ہماری کیا تدبیر ہو سکتی ہے.ہمار کے پیر صاحب تو میخانہ کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں.اسرار و رموز مت) اس کا علاج یہی تھا کہ رسول اللہصلی للہ علیہ سلم کی توجہ روحانی سے آپ کا کوئی ما ظل اور بروز ظاہر ہو کر روحانی انقلاب کی نئے سرے سے بنیاد رکھتا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے عین وقت پر سیح موعود کو بھیج کر امت محمدیہ کی دستگیری فرمائی.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں سے وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا
۸۴ حضرت محی الدین ابن عربی کے اقوال شحمیات نہیں! چونکہ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی علی الرحمن نے واشگاف طور پر کھا ہے." فالنبوة سارية إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي الْخَلْقِ وَإِنْ كَانَ التَّشْرِيعُ قَدِ انْقَطم (فتوحات مکیه جلد ۲ ق ) یعنی نبوت قیامت تک مخلوق میں جاری ہے گو تشریعی نبوت منقطع ہوگئی ہے.پھر واضح طور پر لکھا ہے :- ور بل إذا كان يَكونُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَي " ) فتوحات مکیہ جلد ۲ ص ) عنی رسول کریم صل اللہ علیہ و لم کی حدیث لا نبی بعدی کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی کوئی نبی ہوگا تو میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا.اور پھر نہایت وضاحت سے لکھا :- "إِنَّ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ مَنْ لَحقَتْ دَرَجَتُهُ دَرَجَةً الانبياء في النبوة " (فتوحات مكية بلدا منه ) کہ اس امت میں ایسے لوگ ہیں جن کا درجہ نبوت میں انبیاء کے درجہ سے ملتا ہے.اس لئے اس قسم کے اقوال کی بناء پر آج کل کے بعض علماء ہماری طرف سے ان حوالہ جات کے بطور محبت پیش ہونے پر ان بزرگوں کی ایسی باتوں کو عالم شکر کی بائیں اور لیات صوفیاء کہہ کر نا قابل توجہ ٹھہراتے ہیں.جیسا کہ مولوی محمد ادرنہیں صاحب نے اپنے بہتان و افتراء والے کتابچہ میںانہیں نظمیات اور اپنی کتاب ختم النبوۃ میں شکر
کی باتیں قرار دیا ہے.اور پھر ان کی یہ بھونڈی تاویل بھی کی ہے کہ شیخ اکبر کی مراد اس سے برائے نام کمالات نبوت کا منا ہے حالانکہ شیخ اکبر اسے جیسا کہ اُن کی عبارتوں سے.قبل ازیں دیکھایا گیا ہے اسے نبوت مطلقہ قرار دیتے ہیں.اور ان امتی انبیاء کے متعلق صاف لکھ رہے ہیں کہ وہ شریعت کے بغیر نبوت کا درجہ پاتے ہیں.اور ان میں نبوت متحقق ہوتی ہے.اگر تھوڑی دیر کے لے فرض کر لو کہ شیخ اکبر نے یہ سب دتل معنا ان عالم مسکر میں لکھے ہیں تو اب سوال یہ پیا ہوتا ہے کہ جو کچھ حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ نے کہا ہے وہی حضرت پیران پیر سید عبد القادر جیلانی نے فرمایا ہے وہ ان انبیاء الاولیاء کو نبوت میں پورا حقدار قرار دیتے ہیں کیا بھی سر کی باتیں ہیں ؟ پھر امام شعرانی علیہ الرحمہ نے جو یہ فرمایا ہے کہ مطلق نبوت بند نہیں، صرف تشریعی نبوت منقطع ہوئی ہے کیا یہ بھی سکہ کی باتیں ہیں؟ اور پھر حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ نے جو یہ فرمایا ہے.فکر کن در راه نیکو خدمتے تا نبوت یابی اندر اُتنے کیا یہ بھی عالم سکر میں ہی فرما گئے ہیں ؟ اگر ان بزرگوں کی یہ سب کر کی باتیں ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے کہ یہی مضمون بزرگ فقیہ امام علی القادری نے بھی اپنے ایک فقرے میں بیان فرما دیا ہے.چنانچہ وہ خاتم النبیین کے معنے یہ بیان فرماتے ہیں " المعنى أنه لا ياتي بَعْدَهُ نَى يَنْسَهُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُن مِنْ أُمَّتِهِ : (موضوعات کبیر شد یعنی خاتم النبیین کے یہ سنتے ہیں کہ آئندہ ایسا کوئی نبی نہیں آسکتا جو شریعت محمدیہ کو منسوخ کرے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے نہ ہو.اور پیر شاہ پور عالم اور فقیہ مولوی عبد الھی صاحب لکھنوی تحریر فرماتے ہیں :
۸۶ بعد آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم یا زمانے میں آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب تشریح جدید کا ہونا البستہ منع ہے یا رح وارفع الوسواس فی اثر ابن عباس اصلا نیا ایڈیشن) صوفیاء کی باتوں کو اگر شکر کی باتیں کہ کر ٹال دو گے تو ان فقہاء ملت کے متعلق کیا کہو گے.یہ توصوفیاء میں سے نہیں.انہوں نے بھی وہی کچھ کہا ہے ہو ان صوفیاء نے کہا ہے جو علماء ربانی قرار دیئے جاتے ہیں.حديث لا نبی بعدی کے متعلق ہمارا مسلک و ظلی نبوت کی حقیقت پھر لا نبی بعدی کی حدیث کے متعلق ہمارا مسلک تو یہ ہے کہ ہم اس حدیث کے رو سے نہ کسی پرانے نبی کے آنے کے قائل ہیں میں طرح غیر احمدی حضرت عیسی علیہ السلام کا جو مستقل بنی ہیں امت محمدیہ میں آنا مانتے ہیں.اور نہ کسی ایسے نئے نبی کی آمد کے قائل ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسم کے زمانہ نبوت کو ختم کر دے.رہا امتی نبی.سو وہ آنحضرت صلی الہ علیہ سلم کی تشریعی در سال نو کے زمانہ کو ختم نہیں کرتا.حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی نبوت کا زمانہ تو قیامت تک جاری رہے گا.یہ امتی بی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعیت کا ایک خادم ہے.اور آپ کا ایک روحانی فرزند ہے.اور آپ کی شریعت کی پیروی اور آپ کے افاضہ روھانیہ سے علی طور پر مقام نبوت کو پانے والا ہے.ظل اپنے اصل سے الگ نہیں ہوتا.اور نہ خیل اور اصل میں دوئی اور غیریت ہوتی ہے.کیونکہ مور د بروز تو حکم نفی وجود کا رکھتا ہے اور اُس
کے قلب صافی پر انوار نبوت کی جو جلتی ہوتی ہے وہ تو اصل کا ہی ایک شکس ہوتا ہے.ظلی نبوت کے حصول کا دروازہ تو فنافی الرسول کی اتم درجہ حالت ہے ظلی نبی کی آمد سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی.بلکہ اس مہر کے فیضان کا کمال ظاہر ہوتا ہے.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :- خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے.اور پسے بڑھ کر ہے.اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر تربیت کی چادر پہنائی گئی.کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں.اور نہ شاخ اپنی بینج سے جدا ہے.پس جو کامل طور پر مخدوم محمد صلی الہ علیہ وقت میں فنا ہوکر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت میں خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو.اگر چہ بظاہر دو نظر آتے ہیں.صرف ظلی اور اصل کا فرق ہے.سو ایسا ہی خُدا نے مسیح موعود میں چاہا ہے دکشتی نوح مشا) احدًا پھر اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں فرماتے ہیں :- قرآن شریف بر بنی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیبک دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ 1 الا من ارتضیٰ مِنْ رَّسُولٍ سے ظاہر ہے.پس مصفی ـ پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا.اور آیت اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ گواہی دیتی ہے کہ اس صنفی تغیب سے یہ امت محروم نہیں.اور مصنفی
^^ بب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے.اور وہ طریق براہ راست بند ہے.اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس موہیت کے لئے محض بروز اور ظلیت اور نانی الرسول کا دروازہ کھلا ہے “ (ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ) پھر نزول مسیح مسلہ پر فرماتے ہیں :.میں نبی اور رسول نہیں ہوں باعتبار نے دعویٰ اور نئے نام کے.اور میں نبی اور رسول ہوں یعنی باعتبار طلبیت کاملہ کے وہ آئینہ ہوں جس میں محمد ہی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے ؟" مولوی محمد اور میں صاحب اپنی کتاب ختم النبوة ما پر لکھتے ہیں :- ادریس یہ اللہ اور رسول کے ساتھ استہزاء ہے کہ مال چوری بھی ہو گیا اور پر نہیں ٹوٹی " در اصل به مولوی محمد اد میں صاحب کاخاتم النبیین صلی الہ علیہ وسلم کی قلت سے استہزاء ہے.ورنہ ختم نبوت کی طلبیت کے دروازہ سے نبوت پانا چوری نہیں.حضرت مرزا مظہر جان جانان " " مقامات مظہری منہ پر رقمطراز ہیں : " بر نبوت مستقلہ کوئی کمال ختم نہیں ہوا یعنی ممکن نہیں کہ خلافتی طور پر کمالات نبوت کو بند کر د یو سے کیونکہ اس میداد فیض میں بخل اور دریغ ممکن نہیں.ختم نبوت کی طلبیت کی راہ سے نبوت پانے کو مولوی محمد اد میں صاحب چوری قرار دیتے ہیں.مگر حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ اسے ایک شاہراہ قرار دیتے
۸۹ ہیں اور لکھتے ہیں کہ اکثر انبیاء نے اسی طریق سے کمالات ولایت حاصل کرنے کے بعد مقام نبوت پایا ہے.گو ان کی الگ الگ اصالت کی راہیں بھی ہیں.اُن کی عبارات قبل ازیں بیان کی جاچکی ہیں.حضرت باقی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :- کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بھر بیچتی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل نہیں کر سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے علی اورتفصیلی طور پر ملتا ہے ؟" IPA.و ازالہ اوہام مش۱۳ ) پس وہ دروازہ جس سے تمام روحانی مدارج خلقی اور فیملی طور پر ملتے ہی وہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سم میں فائیت کا دروازہ ہے.اس راہ سے نبوت پانے کو چوری قرار دنیا خود اس کو چہ سے نا آشنائی کا ثبوت ہے.مولوی محمد قاسم صاحب علیہ الرحمہ جو ان کے روحانی باپ نہیں وہ تو تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے اخلال قرار دیتے ہیں.چنانچہ وہ فرماتے ہیں:.انبیاء میں جو کچھ ہے وہ خلق اور عکس محمد ہی ہے.کوئی ذاتی کمال نہیں.پر کسی نبی میں وہ کس اسی تناسب پر ہے جو جمال کمال محمدی میں تھا.اور کسی میں بوجہ معلوم وہ تناسب نہ رہا ہو " د تحذیر الناس ۲۵-۳۰ بلحاظ ایڈیشن مختلفه ) آپ کے نزدیک پورے تناسب والانی علی خاتم النبیین ہوتا ہے..!
4- مولوی محمد ادریس صاحب لکھتے ہیں :- ظل اور اصل کا عین اور متحد ہونا بدیہی البطلان ہے.اگر مراد یہ ہو کہ ذی نقل کی کوئی صفت اور کوئی شان اس میں آجائے تو اس اعتبار سے تو مطلب یہ ہوگا کہ حضور کی صفات نبوت اور کمال است نبوت اور رسالت کا ایک سایہ اور پر تو ہوں.تو اس سے نہ نبوت ثابت ہوتی ہے نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتحاد اور عینیت کا دعوی ثابت ہو سکتا ہے.حدیث میں ہے السُّلْطَانُ ظِلُّ الله في الأرض - بادشاہ زمین میں اللہ کا سایہ ہے تو کیا خلفاء اور سلاطین کا بعینہ خدا ہونا ثابت ہوجائے گا ؟ (ختم النبوة من) >> “ اب مولانا محمد قاسم صاحب کا بیان پڑھے.وہ فرماتے ہیں :- اس صورت میں اگر فلق اور اصل میں شادی بھی ہو تو کچھ حرج نہیں کیونکہ افضلیت بوجہ اصلیت پھر بھی ادھر (اصیل خاتم النبیین کی طرف ہی رہے گی یا تحذیر الناس ف۱۳ یا ۳۳ بلحاظ ایڈیشن مختلفه) پھر اس پر دلیل قائم کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- جیسے آئینہ میں عکس زمین کی دھوپ کا عکس آفتاب کا طفیلی ہے اور اس وجہ سے آفتاب ہی کی طرف منسوب ہونا چاہئیے ؟ (ایضاً من ) مولوی محمد قاسم صاح بنے تو ظلی خاتم النبین کو بھی اپنی کتاب میں اس کمال کا حامل مانا ہے کہ اس کی خلیقیت سے آگے نبوت نامہ مل سکتی ہے.مگر ہمارے نزدیک لیے شک
91 5 فتی خاتم النبیین میں بنائیت کے پہلو کے لحاظ سے تو دوئی نہیں ہوتی.مگر اصل خاتم ! النبیین کی مثال اس شہر کی سمجھنی چاہئے ہو نقش پیدا کرتی ہے.یہ متقی شہر کہلاتی ہے.اور جو نقوش اس سے پیدا ہوں بیشک بھی مہر کہلاتے ہیں.اور اصلی کا حق ہوتے ہیں.اور گورنہ مساوات اور عینیت رکھتے ہیں.اور اُن میں دوئی نہیں ہوتی.مگر ان دونوں میں ایک عظیم الشان فرق بھی ہوتا ہے.جو یہ ہے کہ اصل مہر سے ہزاروں اور مہریں ایسی ہی لگ سکتی ہیں.مگر علی مہر میں یہ کمال اور خوبی موجود نہیں ہوتی.ہاں طقی خاتم النبيين چونکہ ہر حال نبی اور رسول ہوتا ہے.اس لئے و حقیقی خاتم الاولیاء ضرور ہوتا ہے پھر خالی کے ہر کمال کا مرجع تو اصل ہی ہوتا ہے.اسی لئے باقی سلسلہ احمدیہ نے اپنے وجود کو منفی قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :.+ تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ی رکشتی نوح صدا ) حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کو بات جلد اول مکتوب ۲۳ میں فرماتے ہیں:.کمل تابعان انبیاء بہت کمال متابعت و فرط محبت بلکه بمحض عنایت و موسیبت جمیع کمالات انبیائے متبوعہ و خود را جذب سے نمائند و بکلیت برنگ ایشان منصبغ سے گردند ستی که فرق نمے ماند در میان متبوعان د تابعان إلا بِالْاصَالَةِ وَالتَّبِعِيَّةِ وَالاَولِيَّةِ وَ (مکتوبات جلد مکتوب ۳۳۵) یعنی انبیاء کے کامل تابعین ان کی کمال تابعیت اور اُن سے انتہائی محبت رکھنے کی وجہ سے بلکہ محض خدا تعالیٰ کی عنایت اور موہیت سے الأخرية
۹۲ اپنے متبوع انبیاء کے تمام کمالات کو جذب کرلیتے ہیں اور پورے طور پر اُن کے رنگ میں رنگین ہو جاتے ہیں.یہاں تک کہ متبوع انبیاء اور اُن کے کامل تابعین میں سوائے اصالت اور تبعیت (ظلیت) اور اولیت اور آخریت کے کوئی فرق نہیں رہتا.این عبارت میں ایک طرح انہوں نے اصل وظیل میں مساوات بھی تسلیم کی ہے.اور فرق بھی تسلیم کیا ہے.آگے فرماتے ہیں.اصل اور حل کے مبادی تعینات ہیں اختلاف ہونے کی وجہ سے (کیف يُتَصَوَّرُ الْمُسَاوَاتُ بَيْنَ الْأَصْلِ وَ الظل، اصل اور حال میں مساوات کا کیسے تصور کیا جا سکتا ہے.نبی کا لقب مولوی محمد ادریں صاحب لکھتے ہیں :.مل اگر فنانی الریسوں کی وجہ سے غیر تشریعی اور غیر مستقل نبی کا لقب ہل سکتا ہے تو مستقل رسول اور متنقل نبی کا لقب کیوں نہیں مل سکتا ؟ اور فنا فی اللہ کی وجہ سے اللہ اور خدا کا لقب کیوں نہیں مل سکتا ہے" رختم النبوة م٣) اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا خدا بنا ممتنع بالذاست، در محال ہے.مگر کیسی انسان کا نبی بننا ممتنع بالذات نہیں.اِس لئے نبوت کا لقب بطور خلیت و بروز بیست ملنے کو خدا تعالٰی کی نلیت و بروزیت پر پورے طور پر قیاس نہیں کیا جا سکتا.اسی لئے خلفاء اور بادشاہ بلکہ انبیاء بھی حقیقی طور پر خدا نہیں کہلا سکتے.کیونکہ وہ خدا کے مجازی برونہ اور
۹۳ خل ہوتے ہیں.مگر خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل ظل و بروز حقیقی ظلی و بر دوز ہونے کی وجہ سے نبی کے لقب کا متمنی ہو گا.ہاں منتقل نہیں اور رسول کا لقب شریعیت کا ملہ آجائے کی وجہ سے نہیں مل سکتا.کیونکہ شریعیت تامہ کا ملہ آجانے پر اب اس کی پیروی قلیت کاملہ اور بروزیت کے لئے شرط ہے.اور کوئی شخص شریعت کی پیروی کے واسطہ کے بغیر بینی اصالتا کوئی روحانی مقام حاصل نہیں کرسکتا.لہذا مستقل اور آزاد نبی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا محال ہے.اگر مولوی محمد اور ہیں صاحب یا اُن کی قسم کے معترضین ظلمیت اور بروزیت کی حقیقت سے کما حقہ واقفیت رکھتے تو د کبھی خدا تعالی کے ظلی و بروز کا خاتم النبی صلی اللہ علیہ سلم کے ظلی و بروز پر قیاس کرتے ہوئے السلطان العادل ظل اللہ کی حدیث سے یہ استدلال نہ کرتے کہ میں طرح عادل بادشاہ خدانہیں ہو سکتا اسی طرح خاتم النبی صلی اللہ علیہ ولم کا کوئی بال بھی بی نہیں ہو سکتا.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بروز کی دو قسمیں حقیقی اور مجازی قرار دیتے ہیں.عادل بادشاہ خدا کا صرف مجازی خلق ہوتا ہے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وکم کے اخلال حقیقی بھی ہو سکتے ہیں اور مجازی بھی.مسیح موعود اور مہدی بود علیہ خاتم النبی صلی اللہ علیہ ولم کا حقیقی ظلی و بروز ہے.چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب.تنضیمات الہیتہ مکہ میں تحریر فرماتے ہیں : الكمون والبُرُورْ عَلَى ضَرْبَيْنِ حَقِيقِ وَتَجَارَى وَلِهَذَا الْمَجَازِةُ شُعْب كَثِيرَةً مِنْهَا أَنْ يَتَمَثَلَ تِلْكَ الْحَقِيقَةُ في المثالِ فَيَرَى فِي بَعْضِ وَاقِعَاتِهِ كَانَهُ خَلَقَ الْعَالَمَ
۹۴ ثمَّ افْنَاهُ " یعنی کون اور بروز کی دو قسمیں ہیں حقیقی اور مجازی.اس مجازی بروز کی کئی شاخیں ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حقیقت (بروزیہ ) عالم مثال میں متمثل ہوتی ہے اور بروز اپنے بعض واقعات میں یہ دیکھتا ہے کہ گویا اس نے دنیا کو پیدا کیا ہے.پھر اُسے فنا کیا ہے.اسی طرح حقیقی بروز کے متعلق لکھتے ہیں :.وَأَمَّا الْحَقِيقِي فَعَلَى ضُرُوبٍ......وَتَارَةً أُخْرَى بِان تشتبكَ بِحَقِيقَةِ رَجُلِ الهُ أَوِ الْمُتَوَسِلِينَ إِلَيْهِ كما وقع لنبينَا بِالنِّسْبَةِ إِلى ظُهُورِ الْمَهْدِي یعنی حقیقی یروز کی کئی قسمیں ہیں...کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک شخص کی حقیقت میں اُس کی آل یا اس کے متوسلین داخل ہو جاتے ہیں.جیسا کہ ہمارے نبی صلی الہ علیہ وال کی مہدی سے تعلق ہمیں اس طرح کی بروزی حقیقت وقوع پذیر ہوگی.ماحصل یہ ہے کہ مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی یہ روز ہے.اور سلطان عادل خدا تعالیٰ کا مجازی بروز ہے.اور خدا تعالیٰ کا حقیقی بروز کوئی نہیں ہو سکتا.کیونکہ یہ خیال مشرکانہ ہے.لیکن خاتم النبی صلی اللہ علیہ وکل کی حقیقی بروز ہو سکتا ہے.اور مہدی موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی بروز ہے.امام عبد الوہاب شعرانی الیواقیت والجواہر منہ میں رقمطراز ہیں : مَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا قَرَّرَ
۹۵ الدِّينَ الَّذِي لَايُنحُ وَالشَّرُعَ الَّذِي لَا يَتَبَدَّلُ دَخَلَتِ الرُّسُلُ كُلّهُم فِي شَرِيعَتِهِ لِيَقُومُوا بِهَا فَلَا تَخْلُو الْأَرْمَنُ مِنْ رَسُولٍ في بجسمهِ إِذْ هُوَ قُطْبُ الْعَالَمِ الْإِنْسَانِي وَلَوْ كَانُوا اَنتَ رَسُولٍ فَإِنَّ الْمَقْصُودَ مِنْ هَؤُلَاءِ هُوَ الوَاحِدُ " اليواقيت والجواهر منه مبحث شام ) (٣) فَمَا زَالَ الْمُرْسَلُونَ وَلَا يَزَالُونَ فِي هَذِهِ الدَّارِ وَ الكِنْ مِنْ بَاطِنِيَّةِ شَرعِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ والكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ " الیواقیت والجواہر قت ۲ بلحاظ ایڈیشن مختلفہ مبحث (۴۵) ترجمه: دین جو منسوخ نہ ہوگا اور شرع جو تبدیل نہ ہو گی کو قائم کرنے کے بعد رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم وفات پاگئے تو اب تمام رسول آپ کی شریعت میں داخل ہو گئے تا اُسے قائم کریں.دینی اب ایسا ریسول نہیں آسکتا جس کی غرض آپ کی شریعیت کی پیروی اور اُسے قائم کرنا نہ ہوا ہیں زمین کبھی مجسم زندہ رسول سے خالی نہ رہے گی.خواہ ایسے رسول شمار میں ہزار بھی ہوں.کیونکہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم عالم انسانی کے طلب ہیں اور ان رسولوں سے مقصود خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی واحد شخصیت ہے.دایتی به رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا ہی بروز ہوں گے) (۲) پس پہلے بھی رسول دنیا میں رہے اور آئندہ بھی اس دنیا میں رسولی رہیں گے.لیکن یہ محمدصلی للہ علیہ سلم کی شریعیت کی باطنیت سے ہونگے
i ۹۶ د یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے فیض سے اُن کا مقام رسالت کا ہوگا، لیکن اکثر لوگ اس ربا طنیت شرع) کی حقیقت سے واقف نہیں کیا علامہ موسی جار الله رو نے هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الأمتين رَسُولًا مِنْهُمُ...إلى واخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (سورۃ جمعہ کی تفسیر میں لکھا ہے :- معنى هَذِهِ الْآيَةِ الكَرِيمَةِ الثَّالِثَةِ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي ō و الأمن رَسُولاً مِّنَ الْأُمِّيِّينَ وَبَعَثَ فِي الْآخَرِينَ رُسُلاً مِنْ أخَرِينَ فَكُلُّ أُمَّةٍ لَهَا رَسُولُ مِنْ نَفْسِهَا وهؤلاء الرُّسُلُ هُمْ رُسُلُ الْإِسْلَامِ فِي الْأُمَمِ مِثْلَ اشياء بني اسرائيل هُمْ رُسُلُ التَّوْرَايَةِ فِي بَنِي إسرائيل" داوائل السور من شائع کردہ بیت الحکمت ) ترجمہ : اس تیسری آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ وہ ہے جس نے امتیوں میں ایک رسول امتیوں میں سے بھیجا ہے.اور آخرین میں آخرین سے رسول بھیجے ہیں.دینی بھیجنے مقدر کئے ہیں، میں آخرین کے ہر گہ وہ کا رسول خود آخرین میں ہے ہے.اور یہ سب رسول ان گروہوں میں اسلام کے رسول ہیں.جس طرح انبیاء بنی اسرائیل قوم بنی اسرائیل میں تورات کے رسول ہیں " یہ رسول آنحضرت کے ہی بروز اور فل ہیں.موسی جار اللہ کے نزدیک یہ امتیوں میں سے عہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ علہ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کے دو بعث قرار دیتے ہیں.اور دوسرے بحث کے ثبوت میں آیت كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أخْرِجَتْ لِلنَّاسِ پیش کی ہے.رحمة الله البالغة ملكا جلد اول مطبوعہ اصبح المطابع - کراچی )
96 نہیں بلکہ ان کے علاوہ خواندہ لوگوں میں سے ہیں.لَمَّا يَلْحَقُوبِهِمْ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ آخرین آیت کے نزول تک ان امتیوں کو لاحق نہیں ہوئے بمعنی صحابہ نہیں ہے بلکہ غیر اتیوں میں کرسل الاسلام ظاہر ہونے پر صحابہ سے لاتی ہوں گے یعنی صحابہ کا درجہ پائیں گے.مولوی محمد اور بیس صاحب ظلیت کے متعلق یہ بھی لکھتے ہیں :.علاوہ ازیں یہ طلبت امت محمدیہ کے تمام علماء و صلحاء کو حا صل ہے اس میں مرزا صاحب کی کیا خصوصیت ہے.امت میں جو بھی کمال ہے حضور کی نبوت کا سایہ اور پر تو ہے “ مولوی صاحب ! اسے کہتے ہی ای برای نجاری ابا اور بانی اصلی ارامت بخت کے اخلال میں تو ظلمیت پچور دروازہ نہ رہا بلکہ شاہراہ ثابت ہوا ، حضرت مرزاحمت کی خصوصیت یہ ہے کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ ولم نے نبی الہ قرار دیا ہے اور دوسرے مصلحاء کو آپنے نبی اللہ نہیں کہا.کیونکہ مسیح موعود آنحضرت کا حقیقی قبل اور بروز ہے اور علماء ربانی او صلی امت مجازی اخلال و بروز ہیں.دونوں کی طلبت ہیں یہ فرق ظاہر ہے.حضرت عیسی کی آمد سے مہر ختمیت ٹوٹی - حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :- لیکن اگر حضرت علی دوبارہ دنیا میں آئے تو بغیر خاتم النبیین کی مہر توڑنے کے کیونکہ دنیا میں آسکتے ہیں ؟ (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ) کیونکہ ختم نبوت کی مہر جوحضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت مستقلہ پر لگ چکی ہے جب تک دہ شہر نہ ٹوٹے وہ اتنی نبی بن نہیں سکتے.
نیز فرماتے ہیں :- جس آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتہ لگتا ہے اس کا ان حدیثوں میں یہ نشان دیا گیا ہے کہ وہ نبی بھی ہوگا اور اتنی بھی مگر کیا مریم کا بیٹا اتی ہو سکتا ہے ؟ کون ثابت کرے گا کہ اُس نے براہ راست نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے درجہ نبوت پایا تھا " رحقیقة الوحی من حضرت علیلی مجن کے دوبارہ آنے کے بارہ میں ایک جھوٹی امید اور جھوٹی طمع لوگوں کو دامنگیر ہے وہ امتی کیونکر بن سکتے ہیں ؟ کیا آسمان سے اُتر کر نے مرے دو مسلمان ہونگے ؟ یا کیا اس وقت ہمارے نبی لی الہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء نہیں رہیں گے ؟ مکتوب خبر عام اسی من پس ایک ستنقل نبی کا ختم نبوت کی بہر توڑے بغیر امتی نبی بنا محال ہے.کیونکہ جب تک اس کی پہلی نبوت مستقلہ زائل نہ ہو وہ امتی نبی نہیں بن سکتا.اگر حضرت عیسی سے مستقلہ نبوت زائل کر کے اُن کا امتی نبی بنایا جا تا فرض کیا جائے تو امتی نبی کا مرتبہ ملنا خاتم النبیین صلی الہ علیہ وسلم کی مہر سے ممکن ثابت ہوا.لہذا کیا ضرورت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر ختم نبوت کی جو مہر لگی ہوئی ہے اُسے توڑا جائے ؟ مسیح موعود کا نام ابن مریم بطور استعارہ ہے و کیوں نہ یقین کیا جائے کہ امت محمدی میں آنے والاسیح موعود در حقیقت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ سلم کا ایک حقیقی انتی فرد ہے.اور اُسے صرف پروزہ اور استعارہ کے طور پر
٩٩ این مریم کا نام دیا گیا ہے.جیسا کہ بخاری کی حدیث میں اپنی امت کو مخاطب کرتے ہوئے نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طور پر یے موعود و اما مگر من کود یعنی تم میں سے تمہارا امام کہ کہ ایک امتی قرار دیا ہے.نتیجے بخاری باب نزول عیسی ابن مریم جلد ۲ 144 م مصری میں پوری حدیث یوں ہے :- كيف أنتم إذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمُ وَ اِمَامُكُم مِنكُمْ اس جگہ نزول کا لفظ مسیح موعود کے اعزاز کے لئے استعمال ہوا ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کے تعلق قرآن مجید میں آیا ہے قَدْ اَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُم ذكرًا رَسُولاً (سورہ طلاق ۲۴) کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف ذکر رسول کو نازل کیا ہے.اور ابن مریم کا نام اسی طرح بطور استعارہ ہے جس طرح انجیل میں بھی علیہ السلام کو بطور استعاره الیاس لیہ السلام کا نام دیا گیا ہے.الیاس کی آمد کی پیشگوئی جو ملاکی بینے کی بھی دیکھو ملاکی ہے حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کا یحییٰ علیہ السلام کے وجود میں پورا ہوتا بیان فرمایا ہے.دیکھیو انجیل متی ) پھر مستی میں لکھا ہے : یں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آپکا اور انہوں نے اس کو نہ پہچانا.بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا.اسی طرح ابن آدم اُن کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھائے گا " پس جس طرح البائس کا نزول بروزی تھا ویسے ہی سیح موعود کا نزول بروزی ہے.أن أسرار الكلم مقدمه شر خصوص الحکم مصنفہ شاہ مبارک احمد صاحب حیدر آبادی مطبوعہ کانپور مت کہ میں لکھا ہے :.
** واضح ہو بروز عبارت ہے تعلق اور منشل روحی سے بجائے دیگر.اور ایسا ہی حکم ہے بروز ادریس علیہ اسلام کا نام الیاس علیہ السلام کے کا حضرت عیسی کا اُمت محمدیہ میں خلیفہ ہوتا محال ہے از روئے قرآن مجید مسیح موعود از روئے احادیث امت مدیر یں آنحضرت صلی اله علیہ وسلم کا ایک خلیفہ ہے.قرآن مجید کی رو سے یہ نصب صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کو ہی مل سکتا ہے نہ کسی ستقل نبی کو چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتخُلفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قبلهم " (سورة نور) ینی خدا تعالیٰ نے اُن لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لا کر اعمال صالح بجالائیں یہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو تم میں سے پہلے گزر چکے ہیں.اس آیت میں منکم سے مراد اُمت محمدیہ کے افراد ہیں جن سے خلافت کا وعدہ ہے.اور اس امت کے خلفاء کو پہلے خلفاء کے مشابہ قرار دیا گیا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے زمانہ کے نبی اور خلفاء مشتبہ یہ اور امت محمدیہ کے زمانہ کے خلفاء مشتبہ ہیں.اور مشتبہ ہمیشہ مشبہ بہ کا غیر ہوا کرتا ہے نہ کہ عین.اس لئے حضرت عیسی علیہ اسلام جو پہلے خلفاء میں داخل ہیں وہ امت محمدیہ میں خلافت کا کوئی حق نہیں رکھتے.کیونکہ اس صورت میں وہ خود ہی مشبہ بہ اور خود ہی مشتبہ قرار پاتے
ہیں.اور شیر یہ کے لئے مشتبہ کا غیر ہونا ضروری ہے.اور عین ہوتا اند روئے نفق استخلاف (آیت ہذا محال ہے.پس امت محمدیہ کے مسیح موعود کا پہلے میچ کا مشتبہ اور مشیل ہونا ضروری ہدا حضرت عیسی علیہ السلام امت محمدیہ میں خلیفہ نہیں ہو سکتے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.علیسی کجا است تا بند یا بمنبرم اول یعنی حضرت علی علیہ السلام مسیح موعود کے منبر پر جو خلافت محمدیہ کا منبر ہے قدم نہیں رکھ سکتے.از روئے حدیث یا سوا اس آیت قرآنیہ کے حدیث نبوی سے بھی ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے زمانہ کا کوئی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقت یں نہ نبی ہو کہ ظاہر ہوسکتا ہے نہ خالی امتی ہو کہ.چنانچہ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی اپنی کتاب نشر الطیب فی ذکر الحبیب کے صفحہ ۲۶۱ و ۲۶۲ پر ایک حدیث نبوی حلیہ ابونعیم اور الرحمۃ المہدا سے لیکر اس کا ترجمہ ان الفاظ میں درج کرتے ہیں کہ.اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام سے (ایک بار اپنے کلام میں فرمایا کہ بنی اسرائیل کو مطلع کر دو کہ جو شخص مجھ سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہوگا تو میں اس کو دوزخ میں داخل کروں گا خواہ کوئی ہو.موسی علیہ اسلام نے عرض کیا.احمد کون ہیں ؟ ارشاد ہوا.اے موسی باقسم ہے مجھے اپنے عز و جلال کی ہیں نے کوئی مخلوق عہ یہی حدیث ترجمان استنه (مجموعہ احادیث بزبان اردو) کے ۲۲ میں نسیم الریاض کی شرح سے درج کی گئی ہے مولوی بدر عالم صاب حاشیہ پر لکھتے ہیں:.قضا می فرماتے ہیں رواه ابو نعيم في الحليه و درد معناه على طرق كثيرة کما فی الخصائص (نسیم الریاض جلد ۲) پس اس حدیث کو کئی طرق سے قوت حاصل ہے.
ایسی پیدا نہیں کی جو اُن سے زیادہ میرے نزدیک تکریم ہو.میں نے اُن کا نام عرش پر اپنے نام کے ساتھ آسمان وزمین اور شمس و قمر پیدا کرنے سے میں لاکھ برس پہلے لکھا ہے قسم ہے اپنے عز وجلال کی کہ جنت میری تمام مخلوق پر حرام ہے جب تک کہ محمد اور اُن کی امت داخل نہ ہو جائیں.(پھر اُمت کے فضائل کے بعد یہ ہے کہ ) موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا.اے رب! مجھ کو اس اُمت کا نبی بنا دیجئے.ارشاد ہوا.اس اُمت کا نبی اس میں سے ہو گا.عرض کیا.مجھے کو ان (محمد) کی امت میں سے بنا دیجئے.ارشاد ہوا.تم پہلے ہو گئے.وہ پیچھے ہوں گے.البتہ تم کو اور اُن کو دارالجلال (جنت) میں جمع کر دوں گا “ اس حدیث نبوی سے ظاہر ہے کہ سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد صلے لی اللہ علیہ وسلم کی امت کے فضائل معلوم ہونے پر حضرت موسی علیہ اسلام نے پہلے یہ خواہش کی کہ مجھے اس اُمت کا نبی بنا دیا جائے.اس پر خدا تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ اس امت کا نبی اس امت میں سے ہی ہوگا.پھر انہوں نے خالی امتی بنایا جانے کی خواہش کی تو وہ اس بنا پر منظور نہ ہوئی کہ حضرت موسی علیہ السلام آنحضرت سے پہلے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بعد ہوں گے.اس حدیث سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ میں طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی امت کا نبی نہیں بن سکتے.ویسے ہی حضرت علیمی علیہ السلام بھی اس امت کا نبی نہیں بن سکتے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام
١٠٣ کو یہ جواب دیا ہے کہ " اس اُمت کا نبی اُس میں سے ہوگا " پھر حضرت عیسی علیہ السلام امت محمدیہ کا فرد بھی نہیں بن سکتے.کیونکہ حضرت موسی علیہ السلام کی یہ خواہش اس وجہ سے یہ ہوئی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہوئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود کو ایک حدیث میں چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ یہ مسیح موعود نبی اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی امت کا ہی فرد ہے نہ کہ وہ صحیح حضرت عیسی علیہ السلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہوئے ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام تو بموجب حدیث ہذا نہ امت محمدیہ کے نبی ہو سکتے ہیں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا فرد ہو سکتے ہیں.اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اس حدیث کے رو سے بھی ایک نبی ضرور ظاہر ہونے والا تھا تبھی تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ " اس اُمت کا نبی اس میں سے ہو گا " یادر ہے کہ حضرت موسی علیہ اسلام نے یہ درخواست نہیں کی تھی کہ مجھے آنحضرت لی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ان کی امت کا نبی بنا دیا جائے.کیونکہ ایسا سوال اُن کی شان نبوت کے منافی ہے.کیونکہ جب خدا تعالیٰ نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر موسیٰ علیہ اسلام سے کہا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم کا نام زمین و آسمان اور شمس و قمر کے وجود میں آنے سے ہیں لاکھ سال پہلے اپنے نام کے ساتھ عرش پر لکھ رکھا ہے تو اس کا علم ہونے پر وہ یہ درخواست کرنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے کہ آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کو حیثیت نبی نہ بھیجا جائے اور اُن کی جگہ مجھے نبی بنا دیا جائے.یہ تو خُدا تعالے کی شان میں گستاخی ہوتی جس سے خدا تعالیٰ کا نبی پاک ہوتا ہے.پس
۱۰۴ حضرت موسی علیہ السلام کی درخواست کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع اُن کی امت میں نبی بنا دیا جائے.مگر اُن کی یہ درخواست راس وجہ سے قبول نہ ہوئی کہ خُدا تعالیٰ کے نزدیک اس امت کا نبی اُمت میں سے ہوتا مقدر ہو چکا تھا.پس یہ حدیث اس بات پر قطعی نعق ہے کہ امت محمدیہ کا مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اتنی فرد ہے.اور وہ ایک پہلو سے امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی.اور امتی نبوت ختم نبوت کے منافی نہیں.بلکہ اتنی بی کا بھیجا جانا بموجب حدیث نبوی مقدر امر تھا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان خاتم النبین کا طبیعی تقاضا تھا کہ ایک امتی نبی آپ کی اس شان کے کمال فیضان کو ظاہر کرنے کے لئے مبعوث ہو.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وسلم - ایک دلچسپ تبادلۂ خیالات درود شریف سے امت میں نبوت جاری ہونے کا ثبوت ایک دفعہ مولوی محمد صاحب سے جو سر گودہا کے علاقہ میں رہتے ہیں اور فاضل دیو بند ہیں میرا تبادلۂ خیالات ہوا.مولوی صاحب موصوف نے نہایت ہوشیاری سے اپنے ایک ہمخیال شخص کو خود بخود ثالث بنا کر کرسی پر بٹھا دیا.اس پر میں نے بھی اپنی طرف سے ایک احمدی کو ثالث تجویز کر دیا.ختم نبوت کی تحقیق پر سرگرم بحث ہوتی رہی.بالآخر میں نے کہا.جناب مولوی صاحب ! کل سے آپ
۱۰۵ مجھ سے یہ بحث کر رہے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سی سم کا کوئی نبی نہیں آسکتا.اور کوئی امتی مقام نبوت نہیں پا سکتا مگر میں حیران ہوں کہ کہتے آپ کچھ ہیں اور عمل آپ کا کچھ اور ہے.خدا تعالیٰ کے حضور پانچ وقت نماز میں تو آپ دُعا کرتے ہیں کہ خدایا ! امت میں نبی بھیج.اور مجھ سے آپ یہ بحث کر رہے ہیں کہ اب اتی بنی بھی نہیں آسکتا.مولوی صاحب جھنجھلا کر فرمانے لگے کہ میں ایسا کب کرتا ہوں.اس پر میں نے کہا.کرتی ! ذرا وہ درود شریف تو پڑھ کر سنائیں جو آپ نماز میں پڑھا کرتے ہیں میرے کہنے پر مولوی صاب نے یوں درود شریف پڑھا :- اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى إِلِى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجِيدٌ - اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمد كَمَا بَارَكتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.پھر میں نے مولوی صاحب سے اس کا ترجمہ کرایا اور پوچھا کہ مولوی صاحب ! وہ رحمتیں ور کریتی و آل محمد صل للہ علیہ وسلم کے لئے آپ طلب کرتے ہیں، آیا دہ دہی اہمیتیں اور برکتیں ہیں جو آل ابراہیم کوئی نھیں مولوی صاحب نے فرمایا.ہاں ٹھیک رہی ہیں.میں نے کہا.تو مکرم مولوی صاحب ! ان رحمتوں اور برکتوں میں تو نبوت بھی شامل ہے جو آپ آل محمد کے لئے طلب کرتے ہیں.اور اسی طرح اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ الْعَمتَ ی کمر کی دعا کے ذریعہ وہ سب انعامات طلب کئے جاتے ہیں جو منم علیہ لوگوں
1.4 کو ملے اور جو سورہ نساء رکوع ۹ کی آیت اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَ الصَّالِحِينَ میں مذکور ہیں.پس آپ امت محمدیہ میں نبوت بھی طلب کرتے ہیں اور صدیقیت ، شہادت اور صالحیت بھی.کیونکہ جب آپ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اور المارلین کے رستہ سے بچنے کی دُعا مانگتے ہیں تو اسی لئے کہ مغضوب اور مال نہ بن جائیں.لہذا جب صراط مسن کے لئے دعا مانگتے ہیں تو اس کے معنے بجز اس کے کچھ نہیں ہو سکتے کہ آپ منعم علیہ گروہ کے انعامات طلب کرتے ہیں.جو نبوت.صدیقیت - شہادت اور صالحیت ہیں.پس آپ اُمت کے لئے نبوت بھی طلب کرتے ہیں.میرے استدلال کوشن کے مولوی صاحب موصوف کے ثالث نے مجھے کہا کہ اب آپ بیٹھ جائیں.میں مولوی صاحب سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں.پھر وہ مولوی صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور اُن سے پوچھنے لگے کہ مولوی صاحب ! کیا آپ درود شریف میں آل محمد کے لئے حلوہ مانڈہ طلب کیا کرتے ہیں یا کچھ روھانی نعمتیں؟ مولوی صاحب نے فرمایا نہیں روحانی نعمتیں طلب کرتا ہوں.اس پر ثالث صاحب نے اُن سے دوسرا سوال کیا کہ کیا آپ آپ محمد کے لئے وہی رحمتیں اور برکتیں طلب کرتے ہیں جو آل ابرا ہیم کو میں یا کچھ اور ؟ مولوی صاحب موصوف فرمانے لگے.وہی رحمتیں اور برکتیں طلب کرتا ہوں.اس پر ثالث صاحب نے پوچھا کہ اچھا مولوی صاحب فرمائیے.آل ابراہیم کو کون کونسی رحمتیں اور برکتیں ملیں ؟ مولوی صاحب نے کہا کہ آل ابراہیم میں بڑے بڑے اولیاء کرام پیدا ہوئے.اس پر اُن کے ثالث نے کہا کہ الحمد للہ تو پھر درود شریف کی دُعا سے آلِ محمد میں بھی بڑے بڑے اولیاء
ہونے چاہئیں.مولوی صاحب نے فرمایا.ہاں.پھر ثالث نے سوال کیا.اچھا فرمائیے آل ابراہیم کو اور کیا کیا رحمتیں اور برکتیں ملیں ؟ مولوی صاحب کہنے لگے.ان میں بڑے بڑے مقربین بارگاہ الہی پیدا ہوئے.اس پر ثالث نے کہا کہ پھر درود شریف کی دُعا سے آل محمد میں بھی مقربین بارگاہ الہی پیدا ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟ اس پر مولوی صاحب فرمانے لگے.ہو سکتے ہیں.آخر ثالث نے کہا.اچھا مولوی صاحب یہ بھی بتائیے کہ آل ابراہیم میں کوئی تی بھی ہوا ہے یا نہیں ؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہاں بنی بھی ہوئے ہیں.اس پر ثالث نے فی الفور کہا.کہ اچھا مولوی صاحب! اگر یہ بات ہے تو پھر نئی آپ کے خلاف اور قاضی محمد نذیر کے حق میں ڈگری دیتا ہوں.کیونکہ جب آل ابراہیم میں نبی ہوتے رہے تو آل محمد میں بھی نبی ہونے چاہئیں.اس پر مولوی صاحب بڑے پریشان ہوئے.اور ایک عجیب عالم میں فرمانے لگے کہ یہ شخص مرزائیوں سے مل گیا ہے.اس پر میں اُٹھا اور میں نے کہا کہ مولوی صاحب سچ فرماتے ہیں.کل یہ صاحب مولوی صاحب سے ملے ہوئے تھے.اور آج میں نے احمدیت کے دلائل کی قوت سے ان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے.آخر ثالث صاحب کو از روٹے انصاف ایک کے ساتھ ہی ملنا چاہیے تھا.میں نے ان کو رشوت دیگر تو اپنے ساتھ نہیں ملایا.اگر آپ سے کچھ جواب بن سکتا ہے تو اپنے ثالث کی تسلی کر دیں.یہ ثالث جن کا نام رائے خان محمد صاحب بھٹی ہے کوٹ سلطان کے نمبردار ہیں اور تعلیم یافتہ آدمی ہیں.خدا تعالے کے نفل سے اب احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں.اور اپنی قوم میں سلسلہ احمدیہ کے ایک سرگرم ممبر ہیں.فالحمد لله على ذلك.
۱۰۸ حضرت یا الدین این را دارد و شراب است می نی بون یا الهلال درود شریف سے جو استدلال میں نے پیش کیا ہے یہی استدلال حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ جلد اول کے صفحہ ۵۶۹ و ۵۷۰ پر بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے.چنانچہ شروع میں وہ یہ بتاتے ہیں کہ آلِ محمد سے کیا مراد ہے.فرماتے ہیں :.وو واعلم ان ال الرَّجُلِ فِي لُغَةِ العَرَبِ هُمْ خَاصَّتُهُ الْأَقْرَبُونَ إِلَيْهِ وَخَاصَّةُ الانْبِيَاءِ وَالهُمْ هُمُ الصَّالِحُونَ الْعُلَمَاء بِاللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ " یعنی جان لو کہ عربی زبان میں ایک آدمی کی آل سے مراد اس کے خاص اقارب ہوتے ہیں.اور انبیاء کے خواص اور اُن کی آل مومنوں میں سے صالح علماء باللہ ہوتے ہیں.پھر پوری تفصیل کے ساتھ بحث کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :- نَكَانَ مِنْ كَمَالِ رَسُولِ اللَّهِ اَنْ اَلْحَقِّ الهُ بِالْأَنْبِيَاءِ في الرتبة - وَزَادَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ بِأَنَّ شَرْعَةً یعنی یہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا کمال ہے کہ آپ نے درود شریف کی دعا کے ذریعہ اپنی آل کو رتبہ میں انبیاء سے ملا دیا.اور ابراہیم سے بڑھ کر آپ کو یہ بات حاصل ہوئی کہ آپ کی شریعیت منسوخ نہ ہوگی.
1.9 اور پھر آگے چل کر فرماتے ہیں :.نَقَطَعْنَا انَّ فِي هَذِهِ الْأَمَةِ مَنْ لَحِقَتْ دَرْجَتُ رجة د فتوحات مکیہ جلد اول صفحه ۵۶۹ و ۵۷۰) ہم نے قطعی طور پر جان لیا ہے کہ اس امت میں وہ شخص بھی ہیں جن کا درجہ اللہ تعالے کے نزدیک نبوت میں انبیاء سے مل گیا ہے.نہ کہ شریعیت لانے میں " شیعوں کے بزرگوں کا استدلال شیعہ اصحاب کے ائمہ بھی درود شریف سے یہی استدلال کرتے ہیں.چنانچہ ابو جعفر ابراہیمی نسل کی نعمتوں (التوسل : الانبياء والاولیاء کے ذکر پر فرماتے ہیں :.فكيف يُقِرُّونَ فِي اللِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَيُنْكِرُونَهُ في الِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ " انصافی شرح اصول الکافی جزو ۳ صفحہ ۱۱۷ و ایضا صفحہ ۱۱۹) ینی کس طرح یہ لوگ آل ابراہیم میںتو رسل و انبیاء اور ائمہ کے پائے جانے کا اقرار کرتے ہیں لیکن آل محمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم می ان نعمتوں کے پائے جانے کے منکر ہیں.آل محمد سے مراد امام بعدم صادق آل محمد میں امت کو بھی شامل کرتے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں:.
" وَالأمَّةُ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِيْنَ صَدَّقُوا مَا جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِ الله المُتَمَتِلُونَ بِالثَّقَلَنِ (تفسیر صافی زیر آیتِ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا سورة آل عرا) ه مونون گرد بھی انہوں نے رحمت صلی الہ علیہ وآلہ سلم کی دریا در شرایت کی تصدیق کی ہے اور ثقلین سے تمشک کیا ہے آل محمد میں شامل ہیں.پس امت محمدیہ کے اندر نبوت کو حضرت محی الدین ابن عربی کی طرح شیعہ بزرگ نے بھی جاری اور ساری تسلیم کیا ہے.انبياء الأولياء والی نبوت کی شان اور سیح موعود کامرتبہ بالآخر یہ بات یاد رہے کہ یہ انبیاء الاولیاء والی نوت بزرگان امت کے نزدیک کوئی ادنی قسم کی نبوت نہیں.حضرت پیران پر شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ نے اس مقام کے پانے والے کے متعلق لکھا ہے کہ اس کا حق ابنیاء سے برابر کا ہے اور حضرت محی الدین ابن عربی اس مرتبہ کے پانے والوں کو نبوت مطلقہ کا حامل قرار دیتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں : يَنزِلُ وَلِيَّا ذَا نُبُوَّةِ مُطْلَقَةٍ يَشْرَكَهُ فِيهَا الْأَوْلِيَاءُ الْمُحَمَّدِيُّونَ فَهُوَ مِنًا وَهُوَ سَيْدُنَا (فتوحات مکیه جلد ا ا) یعنی مسیح علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ ایسے ولی ہوں گے جنہیں نبوت مطلقہ حاصل ہوگی.اور اس نبوت مطلقہ میں اُن کے ساتھ خاص خاص محمدی اولیاء بھی شریک ہیں ہیں وہ ہم میں سے ہیں اور ہمارے سردار ہیں.
پھر فرماتے ہیں :- 1, " على عَلَيْهِ السّلامُ يَنزِلُ فِينَا حَكَمًا مِنْ غَيْرِ تَشْرِيعِ وَهُوَ نَبِيُّ بِلا شاق افتوحات میکنه جلد اول ) کہ حضرت عیسی علیہ السلام ہم میں حکم ہو کر نازل ہونگے بغیر ٹی شرعیت کے اور وہ بلاشبہ بنی ہوں گے.پس انبیاء الاولیاء کا مقام جو حضرت محی الدین ابن عربی اُمت میں جاری مانتے ہیں یہ نبوت مطلقہ کا مقام ہے.جو اُن کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی حاصل ہوگا.جن کو وہ نازل ہونے کے وقت بلاشبہ غیر تشریعی نبی قرار دیتے ہیں.ہاں ایک بات کا واضح کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ شیخ اکبر حضرت محی الدین ان عربی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک درود شریف کے ذریعہ درجہ نبوت پانے والے افرادِ امت کی نبوت مخفی ہے اور قیامت کو ظاہر ہوگی.لیکن اس کے ساتھ ہی وہ سیح موعود علیہ السلام ان انبیاء الاولیاء سے ای واضح امتیاز بھی سلیم کرتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں کہ انہیں نبوۃ الاختصاص حاصل ہوگی.سیح موعود کا اختصاص بالنبوة وہ لکھتے ہیں :." فَكَانَ أَوّلَ هَذَا الْاَمْرِنَبِي وَهُوَا اهم واخرة مين وهو عيسى اعين تبوة الْاِخْتِصَاصِ فَيَكُونُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ دا بَشَرَانِ حَشَرُ مَعَنَا وَحَشُرُ مَعَ الرُّسُلِ وَحَشر م الانبياء دفتوحات مکیہ جلد ۲ ص ) مع "
۱۱۲ ترجمہ:.اس امر کے اول میں ایک نبی ہے.اور وہ آدم علیہ السلام ہیں اور اس کے آخر میں ایک بنی ہے اور وہ عیسی علیہ السلام ہیں.وہ بالا ختصاص نبی ہوں گے.پس قیامت کے دن اُن کے دو حشر ہوں گے.ایک حشر ہم امتیوں کے ساتھ اور دوسرا حشر رسولوں اور ابنیاء کے ساتھ.اس اختصاص بالنبوة سے مراد اُن کی یہی ہوسکتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پنی نبوت کا مامور ہونے کی وجہ سے اعلان کرینگے اور دوسرے امتی انبیاء الاولیاء کو مامور نہ ہونے کی وجہ سے اعلان کا حق نہیں دیا گیا.گو مرتبہ نبوت اُن کو حاصل ہے.ہیں اِن دوسرے انبیاء الاولیاء میں یہ ماموریت والی تیز و کم ہوگی مسیح موعود کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اُسے خود رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بخاری شریف کی حدیث میں ا ما مكم منکر کہا کہ انتی قرار دیا ہے.اور مسلم شریف کی حدیث کے مطابق چار دفعہ نبی اللہ بھی قرار دیا ہے.اور پھر خدا تعالے نے بھی آپ کو نبی کے لقب سے مشرف فرمایا ہے.بانی سلسلہ احمدی کے نزدیک اپنی خصوصیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلاه والسلام بانی سلسلہ احمدیہ اپنے اس اختصاص بالنبوة کو یوں بیان فرماتے ہیں : غرض اِس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس اُمت میں سے ہیں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس اُمت میں سے گزر چکے ہیں اُن کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا رشان خاتم النبيين عل )
نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں.کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے.اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی.اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا.تاکہ آنحضرت صلی اللہ عیہ وسلم کی پیشگوئی صفائی سے پوری ہو جاتی.کیونکہ اگر دوسرے صلحا جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمه و مخاطبہ الہیہ اور امور غیبیہ سے حصہ پالیتے تو وہ ہی کہلاتے کے سنتھی ہو جاتے تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی پیشگوئی میں ایک رشتہ واقع ہو جاتا.اس لئے خدا تعالیٰ کی مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کو پورے طور پر پلانے سے روک دیا.تا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہو گا.وہ پیشگوئی پوری ہو جائے یا (حقیقۃ الوحی م۳۹ ) حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اس جگہ اپنے اختصاص بالنبوة کی دو وجہیں بیان فرمائی ہیں.ایک وجہ یہ ہے کہ معاملہ مخاطبہ الہی مشتمل بر امور غیبیہ کی نعمت کو علی وجہ الکمال اُمت میں سے صرف آپ نے پایا ہے.دوسرے صلحاء امت میں اس نعمت کے پانے میں مصلحت انہی کے ماتحت بزودی کمی رہی ہے.دوسری وجہ یہ ہے کہ پیشگوئی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مسیح موعود علی السلام کو نبی اللہ کے نام سے ذکر فرمایا ہے نہ کسی اور امتی کو.أشياء الاولیاء و محدثین ہی نہیں بلکہ غیر شرعی انبیاء بھی ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت محی الدین ابن عربی نے انبیاء الاولیاء صرف محدثین
۱۱۴ امت کو قرار دیا ہے.مگریہ بات سراسر غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ تمام غیر تشریعی نبی جو نبوت مطلقہ کے حامل ہوتے ہیں اُن کے نزدیک انبیاء الاولیاء ہیں اور محدثین نبوت مطلقہ کو جبہ دی طور پر حاصل کرتے ہیں.محترت اور نبی میں فرق چنانچہ بی او رحمت کا فرق بیان کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں :- " مَا الْفَرْقُ بَيْنَ النَّبِيِّينَ وَالْمُعَدَّثِينَ - اَلْجَوَابُ التكليف - فَاِنَّ النُّبُوَّةَ لَا بُدَّ فِيهَا مِنْ عِلْمِ التَّكْلِيفِ ولا تكليف فِي حَدِيثِ الْمُحَدِّثِيْنَ جُمْلَةً وَرَأْسًا هَذَا انْ اَرَادَ انْبِيَاءُ التَّشْرِيع - فَإِنْ أَرَادَ اَصْحَابَ النُّبُوَّةِ المُطْلَقَةِ فَالْمُحَدِّثُونَ أَصْحَابُ جُزْءٍ مِنْهَا فَالنَّبِيُّ الَّذِي لَا شرع لَهُ فِيمَا يُو فى إِلَيْهِ بِهِ هُوَ رَأْسُ الْأَوْلِيَاء وَجَامِعُ المَقَامَاتِ مَقَامَاتِ مَا تَقْتَضِيهِ الْأَسْمَاءُ الْإِلَهِيَّة مِمَّا لَا شَرعَ فِيهِ مِنْ شَرَائِعِ انْبِيَاءِ التَّشْرِيْعِ وَ المُحدَّثُ مَالَهُ سِوَى الْحَدِيثِ وَمَا يُنْتِجُهُ مِنَ الأمور و الأَعْمَالِ وَالْمَقَامَاتِ فَكُلُّ نَبِي مُحَدَّث وَمَا كُل مُحَمَّثٍ نَبِيُّ وَهُؤُلَاءِ هُمْ أَنْبِيَاءُ الْأَوْلِيَاء و اما الانبياء الَّذِينَ لَهُمُ الشَّرَائِعُ فَلَا بُدَّ مِنْ تلولِ الأَرْوَاحِ عَلَى قُلُوبِهِمْ بِالْأَمْرِ وَ النَّهي " ترجمہ : اس سوال کا جواب کہ محمد تین اور نبیوں میں کیا فرق
۱۱۵ ہے جو اب یہ ہے کہ نبوت میں ایسا علم ہوتا ہے جس کے، انسان مکلف کئے جاتے ہیں.اور محدثین کی حدیثوں کا انہیں با لکل مکلف نہیں کیا جاتا.یہ فرق تشریعی انبیاء کے مقابلہ پر ہے.لیکن اگر اصحاب نبوت مطلقہ مراد نہیں تو محدث اس کے اصحاب جزو ہیں.ہیں وہ نبی جو غیر تشریعی ہو وہ راس الاولیاء ہوتا ہے.اور جامع المقامات یعنی ان مقامات کا جامع جن کو وہ اسماء الہیہ چاہتے ہیں جن میں شریعت نہیں ہے.محدث کو صرف تحدیث اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے امور اور اعمالی اور مقامات حاصل ہوتے ہیں.پس ہر نبی ضرور محدث ہوتا ہے اور ہر محدث بنی نہیں ہوتا.اور یہ سب انبیاء الاولیاء ہیں.لیکن وہ نبی جو نئی شریعتیں رکھتے ہیں اُن کے دلوں پر ارواح ملائکہ اوامرو نواہی کے ساتھ نازل ہوتے ہیں.د فتوحات مکیہ جلد ۲ مشکونه بلحاظ ایڈیشن مختلفه) حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ نے اس جگہ نبی الاولیاء کی اصطلاح کو غیر تشریعی انبیاء اور محدثین میں اس طرح مشترک قرار دیا ہے کہ غیر تشریعی انبیاء تو نبوت مطلقہ کو کامل طور پر رکھتے ہیں اور محمد تین جزوی طور پر.پس محمد مشین پر انبیاء الاولیاء کی اصطلاح کا اطلاق نبوت مطلقہ کے لحاظ سے جزوی طور پر ہو گا.اور غیر تشریعی انبیاء الاولیاء نبوت مطلقہ کے پورے حقدار ہوں گے.یه فرق ملحوظ رکھنے سے وہ مشبہ بالکل زائل ہو جاتا ہے ایک شبیہ ازالہ جو بعض لوگوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت
اور محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ محدثیت و غیر تشریعی نبوت قرار دیتے ہیں.یکی بتا چکا ہوں کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام کو بنبوة الاختصاص نبوات مطلقہ کا حامل بلاشک غیر تشریعی نبی قرار دیتے ہیں.اور پھر اس کے لئے نبی الاولیاء کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں.پس نبوت الولایت علی وجہ الکمال حاصل ہو تو اُن کے نزدیک نبوت مطلقہ کی قسم غیر تشریعی ہوتی ہے.چنانچہ حضرت عبد الکریم جیلانی " اپنی کتاب الانسان الکامل “ میں تحریرہ فرماتے ہیں :- إن كَثِيرًا مِنَ الأَنْبِيَاءِ نُبُوتُهُ نُبُوَةُ الوَلايَةِ كَالْخِصْرِ فِي بَعْضِ الأَقْوَالِ وَكَعِيسى إِذَا نَزَلَ إِلَى الدُّنْيَا فَإِنَّهُ لا يَكُونُ لَهُ نُبُوَّةً تَشْرِيْعٍ وَكَثِيرٍ مِنْ بَنِي إسرائيل ر الانسان الكامل منلث) بینی بہت سے انبیاء کی نبوت نبوت الولایت ہی تھی جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام کی نبوت بعض اقوال میں اور جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت.جب وہ دنیا کی طرف نازل ہوں گے تو اُن کی نبوت تشریعی نہیں ہوگی.اور اسی طرح بہت سے بنی اسرائیل کا حال ہے.یعنی ان کی نبوت نبوت الولایت تھی نہ کہ تشریعی نبوت - پھر وہ تحریر فرماتے ہیں :- " كُل نَبِيَّ وَلَايَةٍ أَفْضَلُ مِنَ الْوَلِي مُطْلَقًا وَ مِنْ ثَمَّ يل بَدَايَةُ النَّبِيِّ نَهَايَةُ الْوَلِي فَافُهُمْ وَتَأَمَّلُهُ فَاتَهُ قَدْ خَفَى عَلَى كَثِيرٍ مِنْ أَهْلِ مِلَّتِنَا ( الانسان الكامل منه )
116 یعنی ہر نبی ولایت مطلق دلی سے افضل ہے.اور اسی وجہ سے کوہا گیا ہے کہ نبی کا آغاز ولی کی انتہا ہے.پس اس نکتہ کو سمجھ لو.اور اس میں غور کرو کیونکہ یہ ہمارے بہت سے اہل ملت پر مخفی رہا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ علمائے ربانی کے نزدیک بہت سے انبیاء بنی اسرائیل بھی نبی الاولیاء تھے.اور اُن کی نبوت " نبوت الولایت تھی.یعنی وہ غیر تشریعی انبیا، تھے.یہ سب غیر تشریعی نبی اور امت محمدیہ کے انبیاء الاولیاء بھی مطلق اولیاء سے افضل ہیں.اور امت محمدیہ کا مسیح موجود بھی نبی الاولیاء ہے.تشریعی نبی نہیں.ان علمائے ربانی نے چونکہ بنی اسرائیل کے غیر تشریعی انبیاء کو جو تقل بنبی تھے انبیاء الاولیاء ہی قرار دیا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے نبی الاولیاء کی اصطلاح کی بجائے اپنے لئے " انتی بی" یا "ظلی نبی کی اصطلاح اختیار فرمائی ہے.تا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعیت کی پیروی اور آپ کے افاضہ روحانیہ پر دلیل رہے.اتنی نبی اور ظلی نبی کی اصطلاح میں انبیاء الاولیاء کی اصطلاح کی نسبت زیادہ احتیاط ہے.اس لئے کہ امتی نبی اوملتی نبی کی اصطلاح استعمال کی جانے سے کسی شخص کو یہ اشتباہ پیدا نہیں ہو سکتا کہ یہ شخص مستقلہ نبوت کا مدعی ہے بلکہ اس دعوی سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت کمالات اور افاضہ کاملہ کا واضح ثبوت ملتا ہے.المبشرات نبوت مطلقہ ہیں میں بتا چکا ہوں کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.لم يبق
مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا المبشرات (صحیح بخاری کتاب الجبیر کہ النبوة میں سے المُبَشِّرَاتُ مبشرات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.اس جگہ المبشرات سے مراد نبوت کی ہی ایک نوع ہے.اور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نبوت مطلقہ کی اقسام میں سے اب صرف المبشرات والی نبوت جو نبوت غیر تشریعی ہے باقی ہے.اور تشریعی نبوت کی اب ضرورت باقی نہیں رہی.کیونکہ قرآن مجید نے شریعیت کو کمال تک پہنچا دیا ہے.اسی نبوت کو صوفیاء کرام نبوت الولایت قرار دیتے ہیں.اور اس نبوت کا دروازہ بموجب حدیث ہذا امت محمدیہ کے لئے قیامت تک کھلا قرار دیتے ہیں.رؤيا المومن کی تشریح | جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت میں سے المبشرات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا تو صحابہ کرام نے آپ سے دریافت کیا کہ المبشرات کیا ہیں؟ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مومن کی رویائے صالحہ ہیں.اس جواب سے ظاہر ہے کہ المبشرات صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وکم پر ایمان رکھنے والے یا دوسرے لفظوں میں آپ کے امتی کو ہی مل سکتی ہیں.المبشرات کو رویائے صالحہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ یا عام مومنوں کے لحاظ سے فرمایا ہے ورنہ اس جگہ رڈیا کے لفظ کو اس کے وسیع معنوں میں لیا جانا چاہئے جن میں مومنوں کی خوابوں کے علاوہ مکاشفات صحیحیہ اور دگی غیر تشریعی بھی داخل ہے.کیونکہ محدثین امت کے تجار سے مکاشفات الہیہ کے علاوہ ان پر وحی و الہام کا نزول بھی ثابت ہے.حضرت مجدد الف ثانی 2 بموجب حدیث نبوی محدث کے لئے کثرت سے خدا کی ہمکلامی کا شرف پانا بیان فرماتے ہیں.(ملاحظہ ہو مکتوبات جلد اول مکتوب را ۵ ) اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید
119 میں فرمایا ہے." إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ التي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ، نَحْنُ أَوْلِيَاء كُم في الحيوة الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ " حم السجدة ۴۴) یعنی جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ تعالٰی ہے اور اس پر استقامت دکھائی.اُن پر بغدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں دان بشارتوں کے ساتھ ، کہ تم کوئی خوفنہ کرو اور غم نہ کرو.اور اس جنت دینی کا میاب زندگی کی بشارت پاؤ جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو.فرشتے انہیں کہتے ہیں، ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے مددگار ہیں اور آخرت میں بھی مددگار ہیں.اس آیت سے ظاہر ہے کہ ملائکہ کے ذریعہ خدا تعالے کا کلام استقامت دکھانے والے مومنوں پر نازل ہوتا ہے.حضرت محی الدین ابن عربی نے ملائکہ کے اس نزول کو نبوت عامہ قرار دیا ہے.دفتوحات مکیہ جلد ۲ ۲۲۰ ) اور آیت ہذا کی روشنی ہیں وہ نبوت کا دروازہ تا قیامت کھلا قرار دیتے ہیں.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:.النُّبُوةُ سَادِيَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي الْخَلْقِ وَ إن كَانَ التَّشْرِيعُ قَدِ انْقَطَعَ فَالتَّشْرِيْمُ جُزْء مِنْ اجْزَاءِ النُّبُوَّةِ فتوحات بکیر جلد ۲ منت باسی (۸۲)
یعنی نبوت قیامت تک مخلوق میں جاری ہے.گو تشریعی نبوت منقطع ہو گئی ہے.پس شریعت کا لاتا نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے.پھر وہ شریعت لانے کو نبوت کی ایک جزو عارض قرار دیتے ہیں نہ کہ بی و ذاتی - دفتوحات مکیہ جلد اول فٹ اور نبوت ان کے نزدیک صرف اخبار اپنی کا نام ہے (فتوحات مکیہ جلد ۲ سوال ۱) اور اس نبوت کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ اخبار الہی کا منقطع ہونا ایک امر محال ہے کیونکہ اگر یہ نقطع ہو جائیں تو دنیا کے لئے کوئی روحانی غذا نہیں رہے گی.جس سے وہ اپنے روحانی وجود کو باقی رکھ سکے.(فتوحات مکیہ جلد ۲ فنت باب ۸۲) یہ سب حوالہ جات قبل ازیں ان کی عربی عبارات میں بیان ہو چکے ہیں رسول خدا صلی اللہ علی وقت نے فرمایا ہے کہ تم لوگوں سے پہلی امتوں میں ایسے لوگ تھے جن سے خدا ہمکلام ہوتارہا ہے.میری اُمت میں کوئی ایسا ہے تو حضرت عمرہ ضرور ایسے ہیں ر صحیح بخاری مناقب عرض اس حدیث کے رو سے محدثین امت خدا کی ہمکلامی کا شرف پاتے رہے.پس آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کا المبشرات کی تشریح میں صحابہ کی دریافت پر اسے رویا صالح قرار دنیا اگر صحابہ یا عام مومنوں کے لحاظ سے نہ سمجھا جائے تو پھر اولیاء اللہ کے تجارب اور قرآنی آیت اِن الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلَ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ اور حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کی اس آیت کی تفسیر کے لحاظ سے رؤیا کے لفظ کو وسیع معنوں میں لانا ضروری ہوگا.اور مکاشفات صحیحہ اور الہام و وحی پر بھی تمل
IP قرار دینا ہوگا.یہ مکاشفات صحیحہ اور دھی وہ الہام میں کے نزول کا شرف اولیاء اللہ اور محد تین امت کو ہوتا رہا.سب المبشرات میں داخل قرار دینا ضروری ہوں گے.کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے المشعرات کے سوا نبوت میں ہے کچھ بھی باقی قرار نہیں دیا.پی سیچ موعود کی نبوت اور دہی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی اور ایفا منہ رومانیہ کے واسطہ سے المبشرات کا حامل ہونے کی وجہ سے ہوگی.اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو المیرات کی وجہ سے ہی نبی اللہ قرار دیا ہے.کیونکہ جو نبوت منقطع ہو چکی اس کا حامل بنی آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے بعد کبھی ظاہر نہیں ہو سکتا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مسیح موعود کو روایت مندرجہ صحیح مسلم باب خروج الدجال میں چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے اور اس پر وحی کے نزول کا ذکر بھی فرمایا ہے.تو پھر المبشرات کو صرف سچی خوابوں تک محدود ماننا ہرگز درست نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ نہ کی دریافت پر المبشرات کو رویائے صالحہ قرار دینا صحابہؓ اور عام مومنوں کے لحاظ سے ہے نہ کہ محدثین امت یا مسیح موعود کے لحاظ سے.کیونکہ ان کا مکالمہ الہیہ کا شرف پا نا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلم ہے.حضرت ابن عباس مہم جیسے جلیل القدر مفسر نے قرآنی آیت مَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الي رَيْنكَ الاقتْنَةَ لِلنَّاسِ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسراء پر چسپاں کیا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات رات بیت المقدس کی سیر کی.اور انبیاء کی امامت کرائی.اِس اِسراء میں
۱۲۲ جبرائیل علیہ السّلام شروع سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور آپؐ سے مکالمہ کرتے رہے.اور آخر میں آپ کو اسراء کے واقعات کی تعبیر بھی بتائی.پس اسراء رویا تھا.اور اس میں وحی الہی کا سلسلہ بھی جاری تھا.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ رویا کا لفظ اپنی ذات میں وسیع معنے بھی رکھتا ہے.اور وحی الہی پر بھی مشتمل ہوتا ہے.کیونکہ جبرائیل کی گفتگو بہر حال وحی الہی ہی تھی.نبوت کے چھیالیسویں عدت کی تشریح انتشارات کو سول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں رویا صالحہ اور پھر رویا صالحہ کو ایک حدیث میں نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیا ہے.اس سے آپ کی یہ مراد نہیں کہ یہ المبشرات غیر تشریعی نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں.کیونکہ المبشرات کو پانے کی وجہ سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کے بسیح موعود کو نبی اللہ قرار دیا ہے.اور یہ نہیں فرمایا کہ اس کی نبوت غیر تشریعی نبوت کا ملہ نہیں ہوگی.ہاں المبشرات کو نبوت تشریعی کا جزو تو قرار دیا جا سکتا ہے.مگر چونکہ شریعیت، نبوت پر امر عارض ہے نہ کہ سبز و ذاتی.اس لئے غیر تشریعی نبوت اپنی ذات میں نبوت کا ملہ ہوتی ہے جیسا که قبل ازیں حضرت محی الدین ابن عربی وغیرہ بزرگان اُمت کے اقوال سے ثابت کیا جا چکا ہے کہ نبوت مطلقہ کے لئے شریعت کا لانا ضروری نہیں.حضرت محی الدین ابن عربی اور اُن کے متبع میں امام عبد الوہاب شعرانی کے نزدیک رویا صالحہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا چھیالیسواں حصہ
۱۲۳ دغه اپنی نبوت تامہ کاملہ کے زمانہ کے لحاظ سے قرار دیا ہے.نبوت تامہ کا ملہ محمدیہ کا زمانہ ۴۳ سال ہے.اور اس کے پچھیالیس ہفتے بنائیں تو چھیالیسواں حصہ کچھ ماہ بنتے ہیں.یہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا رویا صالحہ اور مکاشفات صفحه مشتمل بر امور غیبیہ کثیرہ والی وحی کا زمانہ ہے.اور یہ نبوت مطلقہ کا ہی زمانہ ہے جس کے بعد آپ پر شریعت نازل ہونی شروع ہوئی.آپ کی رویا صالحہ کو صحیح بخاری کی ایک حدیث میں دی ہی قرار دیا گیا ہے.سوجو نبوت آپ کو شریعیت نازل ہونے سے پہلے اس چھ ماہ کے عرصہ میں حاصل تھی وہ نبوت مطلقہ ہر حال تھی.اور نبوت مطلقہ آپؐ کے بعد بزرگان اُمت کے نزدیک جاری ہے اور تشریعی نبوت منقطع پس یہ حدیث لم يبقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُشِرَاتُ بتا رہی ہے کہ باب نبوت من كل الوجوہ بند نہیں بلکہ ایک قسم کی نبوت کے لئے جو المبشرات کی حامل ہوتی ہے یہ دروازہ کھلا ہے.اس میں سے علی قدر مراتب مومنین اور اولیاء اللہ اور محدثین و مجاز دین است کو بھی حصہ ملتا ہے اور اسلام کے مجدد اعظم مسیح موعود و مہدی معہود کو یہ ثبوت على وجیہ الکمال حاصل ہوئی ہے.اسی نبوت کے کامل طور پر حاصل کرنے کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو نبی الله عہ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ نے فتوحات کیہ جلد را ما سوال ۲۵ میں اسکی یہی وجہ تحریر کی ہے.اور پھر الیواقیت والجواہر جلد ۲ مایا میں امام شعرانی علیہ رحمت نے بھی صہ امام الرحمہ رویائے صالحہ کے نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہونے کی یہی وجہ تحریر فرمائی ہے.منہ.
۱۳۴۷ قرار دیا ہے.اور اسی بناء پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے نبی کے لفظ سے خطاب کیا ہے.پیس شیخ اکبر فی الدین ابن عربی رحمتہ الہ علیہ کے نزدیک محدثین نبوست مطلقہ کے اصحاب جزر ہیں.یعنی نبوت مطلقه یا نبوت الولایت انہیں جزوی طور پر حاصل ہوتی ہے.شریعت کو نبوت مطلقہ پر وہ ایک امر عارض یعنی نبوت مطلقہ پر ایک زائد جز و غیر ذاتی قرار دیتے ہیں.نبوت مطلقہ اُن کے نزدیک امور غیبیہ کے سوا اور کچھ نہیں.چنانچہ وہ فرماتے ہیں :- " لَيْسَتِ النَّبوَةُ بِأَمْرِ زَائِدِ عَلَى الْإِخْبَارِ الْإِلهِي.کہ نبوت خدا سے غیب کی خبریں ملنے سے زیادہ کوئی امر نہیں.ر فتوحات مکیه جلد ۲ صنام سوال ۱۸۸) الی بذر به کشف و الهام نازل ہوتے ہیں.اور حضرت علی علیہ السلام کو انبیاء الاولياء والی نبوت بالاختصاص بصورت نبوت مطلقہ حاصل ہو گی جو المبشرات والی نبوت ہی ہے.اور اُن پر دی نازل ہونے کے متعلق روح المعانی جلد ۵ ۶۵۰ میں ہے کہ ان پر مینی مسلم کی حدیث کے مطابق رع چی نازل ہو گی.چنانچہ لکھا ہے :- نعم يوحَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَحَى حَقِيقِي كَمَا فِي حَدِيثِ مُسْلِمٍ بلکہ علامہ ابن حجر الہیمی تو صاف لکھتے ہیں.ذلك الولى عَلَى لِسَانِ جنونِكَ إِذْ هُوَ السَّفِيرُ
۱۲۵ بَيْنَ اللهِ وَ انْبِيَاء گر یہ وحی جبریل کی زبان سے نازل ہوگی.کیونکہ انبیاء اور اللہ تعالیٰ کے درمیان وہی سفیر ہے." (روح المعانی جلد، ما ) پھر وہ لکھتے ہیں :.حَدِيثُ لا وَى بَعدَ مَوْتِي بَاطِل وَمَا اشْتَهَرَ اَن جِبْرِيلَ لا يَنزِلُ إِلَى الْأَرْضِ بَعَدَ مَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهُوَ لَا أَصْلَ لَهُ ) روح المعاني جلد شا) یعنی حدیثه لا وحي بعد موتی جھوٹی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ جبریل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زمین پر نازل نہیں ہوں گے یہ بے اصل ہے.نواب صدیق حسن خان صاحب بھی مجھ انگرامہ مسلم میں یہی باتیں بیان کرتے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں :- " ظاهر آن است آرنده دمی بسوئے او جبریل باشد بلکه ہمیں یقین داریم - دراں تو دود نمی کنیم چه جبریل سفیر خدا است در میان انبیاء علیهم السلام - فرشته دیگر برائے این کار معروف نیست یا یعنی مسیح موعود کی طرف دی لانے والا فرشتہ جبریل ہو گا.کیونکہ جبریل ہی خدا تعالیٰ اور انبیاء علیہم السلام کے درمیان سفیر ہے.
١٣٩ کوئی اور فرشتہ اس کام کے لئے معروف نہیں.ابن عربی علیہ الرحمہ کے نزدیک مبشرات والی دی اخبار غیبه اشتمل ہوتی ہے.شریعت جدیدہ پرمشتمل نہیں ہوتی.غیر تشریعی نبوت اور تشریعی نبوت میں فرق فرشتہ کے نازل ہوتے ہیں نہیں بلکہ صرف کیفیت وحی میں فرق ہے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں : وَالْحَقِّ اَنَّ الكَلَامَ فِي الْفَرَقِ بَيْنَهُمَا إِنَّمَا هُوَ فِي كَيْفِيَّةِ مَا يَنزِلُ بِهِ الْمَلَكُ لَا فِي نُزُولِ الْمَلكِ “ اليواقيت والجواهر جلد ۲ شش ) i یعنی سچی بات یہ ہے کہ دونوں تشریعی نبی اور غیر تشریعی نبی کی وحی میں فرق صرف اس وحی کی کیفیت میں ہوتا ہے جس کے ساتھ فرشتہ نازل ہوتا ہے.فرشتہ کے نزول میں دونوں وجیوں میں گوئی فرق نہیں.گویا تشریعی نبی پر شریعیت جدیدہ اور اخبار غیبیہ نازل ہوتی ہیں اور غیر شرعی نی کی وحی صرف اخبار غیبیہ پر مشتمل ہوتی ہے.ران بیانات سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود پر وحی بذریعہ جبریل نازل ہونا بھی محققین کو مسلم ہے.پھر حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں :- در نبیوں کے کامل تابعداروں سے خدا انبیاء کی طرح بالمشافہ کلام بھی کرتا ہے.(دیکھو مکتوبات جلد ۲ مکتوب 21 (99)
۱۲۷ پس آتی پر کلام الہی کا نزول مسلم ہے.پھر سیم موجود کو المبشرات والی نبوت علی وجہ الکمال حاصل ہے.اسی لئے اسے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نے چار دفعہ نبی الله قرار دیا ہے.اور اس پر وحی کا نزول بھی صحیح مسلم کی اسی حدیث سے ثابت ہے.پس صحیح بخاری اور مسیح مسلم کی ان دونوں حدیثوں کو ملاکر لَم يَبْقَ مِنَ النبوة إلا المبشرات کے وسیع معنے لینے کی صورت میں وحی الہی کو اُن میں داخل قرار دینا پڑتا ہے.جو غیر تشریعی نبی کو حاصل ہوتی ہے.تشریعی نبی اور غیر تشریعی نبی کی وجی میں صرف کیفیت وحی کا فرق ہوتا ہے.تشریعی نبی کی وحی احکام جدیدہ پر اور امور غیبیہ کثیرہ پر مشتمل ہوتی ہے.اور غیر تشریعی نبی کی وحی احکام جدیدہ پر مشتمل نہیں ہوتی.بلکہ امور غیبیہ مشتمل ہوتی ہے.اس پر شریعت جدیدہ پرمشتمل وحی نہیں آسکتی.کیونکہ شریعیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ہو چکی ہے.صرف مبشرات والی کامل وحی آسکتی ہے.جو غیر تشریعی نبوت ہے.پس حضرت محی الدین ابن عربی عبد الرحمہ کے نزدیک تشریعی نوشت کے مقابلہ میں غر تشریعی نبوت جو تمام غیر تشریعی انبیاء کو حاصل تھی جزوی حیثیت رکھتی ہے مگر وہ نبوت مطلقہ بہر حال ہوتی ہے.اور محمد شین اُمت نبوت مطلقہ کے جزوی طور ر حاصل ہوتے ہیں.اور یہ موجود نبوت مطلقہ کا پورے طور پر حاصل ہے.شیخ اکبر اور بعض صوفیاء کے نزدیک مسیح کا بروزی نزول مہدی اور بیچ ایک شخص یہ کی معلوم رہے کہ حضرت شیخ اکبری الدین ابن عربی علیه الرمہ حضرت عیسی علیہ سلام
کے بروزی تہ دل کے قائل ہیں.چنانچہ وہ اپنی تفسیر القرآن میں لکھتے ہیں :.وَجَبَ نُزُولُه فِي آخِرِ الزَّمَانِ تَعَلَّتِهِ بِبَدَنِ اخَرَ د تغیر شیخ اکبر محی الدین ابن عربی برحاشیہ عرائس البیان ملا) یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا تہ دل آخری زمانہ میں کسی دوسرے بدن کے تعلق سے ہو گا.دیعتی بروزی نزول ہو گا.حضرت عیسی علیہ السلام اصالتاً نہیں آئیں گے ، پھر اقتباس الانوار ماہ پر بعض صوفیاء کا مذہب لکھا ہے :.بعضی بر آنند که در عینی در مهدی بروز کند و نزول عبارت از ہمیں بروز است مطابق این حدیث لا مَهْدِي إِلَّا عِيسَى 66 د ابن ماجه " ترجمہ : بعض صوفیاء کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسی کی روح (یعنی روحانیت) کا مہدی میں بروزہ ہوگا.ان لیلی کے نزول سے مطابق حدیث لا مهدى الا عیسی دینی کوئی مہدی نہیں سو ا عیسی کے یہی برو ز مراد ہے.خريدة العجائب مصنفہ سراج الدین ابی حفص عمرو بن الوردی کے ۲۲ میں لکھا ہے.ایک جماعت کمانوں کی یہ کہتی ہے کہ عیسی کے نز دل سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا شخص ظاہر ہوگا جو حضرت عیسی سے اپنی بزرگی اور اپنے کمالات ہمیں مشابہ ہو گا.جس طرح کہ ایک آدمی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ ہے.صحیح بخاری وصحیح سلم وسند احمد کی احادیث کے رو سے بھی مسیح موعود کا امت محمدیہ میں سے ہونا ضروری ہے.(1) كَيْفَ اَنتُم إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُم وَ تان خاتم الندم
نام اسین ) ۱۲۹ إمامكم منگو بخاری جلد ۲ باب نزول عیسی ابن مریم مصری ) یعنی تم کیسے ہو گے جب تم میں ابن مریم نازل ہوگا اور وہ تم میں سے تمہارا امام ہوگا.دیتی یہ مسیح امت محمدیہ کا ہی ایک فرد ہو گا.) گویا ابن مریم کا نام اُسے بطور استعارہ و بروز دیا گیا ہے.کیونکہ دونوں میں ماثلتِ تامہ کا بیان مقصود ہے.(۳) صحیح مسلم کی حدیث میں بجائے اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ کے فَامَّكُم مِنكُم وارد ہے.لہذا اس حدیث میں بھی صاف طور پر نازل ہونے والے مسیح کو امت محمدیہ کا ایک فرد قرار دیا گیا ہے.(۳) پھر مسند احمد بن جنبل میں بھی واضح حدیث موجود ہے کہ :." يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنكُمُ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اِمَا مَّا مَهْدِيَّا حَكَمًا عَدْلًا يَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ (جلد ۲ (۲) الخنزير یعنی قریب ہے کہ جو تم میں سے زندہ ہو وہ عیسی بن مریم کو امام مہدی اور حکم و عدل پائے.ہیں وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا.اس حدیث میں مسیح کو ہی امام مہدی قرار دیا گیا ہے.پس مسیح اور امام مہدی دو شخص نہیں ایک ہی امتی فرد کو علی اور امام جہری قرار دیا گیا ہے.پس ان لوگوں کا مذہب درست ہے جو مہدی کو عیسی کا بروز قرار دیتے ہیں.اور حضرت عیسی کا صرف بروزی نزول مانتے ہیں نہ اصالتا کیونکہ وہ انکے نزدیک وفات پاچکے ہیں.
١٣٠ امام مہدی کا مرتبہ عظمیٰ امام مهدی علیا سلام کا مقام اور مرتبہ عبدالرزاق کاشانی شرح فصوص الحکم میں یہ قرار دیتے ہیں کہ : المُهْدِيُّ الَّذِي يَجِيءُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَإِنَّهُ يَكُونُ فِي الْاَحْكامِ الشَّرْعِيَّةِ تَابِعَا لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْمَعَارِفِ وَالْعِلْمِ وَ الْحَقِيقَةِ تَكونُ جَمِيعُ الْأَنْبِيَاءِ وَالْأَوْلِيَاء تَابِعِينَ لَهُ كُلُهُمْ وَلَا يُنَاقِضُ مَا ذَكَرْنَاهُ لان بَاطِنَهُ بَاطِنُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ د شرح فصوص الحکم مطبوعہ مصر ۵ ۵۲ ۵۳ ) (۵۳-۵۲ ینی مہدی جو آخری زمانہ میں آئے گا وہ احکام شرعیہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوگا.اور معارف اعلم اور حقیقت میں تمام انبیاء اور اولیاء کے سب اس کے تابع ہوں گے.کیونکہ مہدی کا باطن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہوگا.یعنی مہدی باطنی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات رکھنے والا ہوگا.اور آپ کا کامل قبل اور بروز ہو گا.گویا مہدی عیسی کا بروز بھی ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی بروز کاریل ہے.پس جب جہری اور بیج ایک امتی محض ثابت ہوا تو اس کی نبوست
۱۳۱ استنی نبوت ہوگی نہ کہ مستقل نبوت.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنا برونز کامل ہونے کی وجہ سے ہی حدیث میں نبی اللہ قرار دیا ہے.دعوی میں تدریج کا شبہ بعض لوگ شبہ پیش کرتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوی میں تدریج پائی جاتی ہے.پہلے آپ اپنے آپ کو محدث کہتے رہے.پھر نبی کہنا شروع کر دیا.یہ بات شبہ پیدا کر تی ہے.اس کے جواب میں واضح ہو کہ اگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوی میں تدریجی ترقی بھی سلیم کی جائے تو یہ ہر گنہ کسی شعبہ کا محل نہیں ہونی چاہیئے.کیونکہ استی چونکہ پیروی کے واسطہ سے مدارج کمال حاصل کرتا ہے.اس لئے اگر بالفرض وہ ولایت عامہ سے زمینہ برینہ ترقی کر کے امتی نبی کا کمال حاصل کرے تو یہ بات ہرگز قابل اعتراض نہیں کیونکہ حضرت مجدد الف ثانی نے کمالات نبوت کے حصول کے دو طریق بیان فرمائے ہیں.اور دوسرا طریق یہ بیان فرمایا ہے کہ پہلے کمالات ولایت کو بطور ظلیت حاصل کر کے انسان ان کمالات ولایت کے توسط سے کمالات نبوت حاصل کرتا ہے.اور مقام نبوت کو پاتا ہے.وہ اس راستہ کو شاہ راہ اور حصول مدارج کے لئے قریب ترین راستہ قرار دیتے ہیں.اور یہ فرماتے ہیں کہ اکثر انبیاء نے اسی طریق سے متمام نبوت حاصل کیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں : " راه دیگر آن است که بتوسط حصول این کمالات ولایت وصول
۱۳۲ بکمالات نبوت بیشتر می گردد.راه دوم شاهراه است و اقرب است بوصول که کمالات نبوت رسد الا ما شاء الله - این راه رفته است از انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسّلام و اصحاب ایشان تعبیت و وراثت (مکتوبات جلد مکتوب ۳۰ ۲۳۲۰) ترجمہ :.دوسری راہ یہ ہے کہ ان کمالات ولایت کے حصول کے واسطہ سے کمالات نبوت تک پہنچنا میستر ہوتا ہے.یہ دوسری راہ شاہراہ ہے اور کمالات نبوت تک پہنچنے کے لئے قریب ترین راہ ہے.اور اسی راہ پر اکثر انبیاء کرام علیہم السلام اور اُن کے ساتھی پیروی اور وراثت سے چھلے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ اگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے مدارج میں بھی بالفرض تدریج تسلیم کی جائے تو یہ جائے اعتراض نہیں.کیونکہ روحانی ترقی کا یہ بھی ایک طبعی طریق ہے.لہذا جس روحانی منزل پر پہنچنے کا حضرت مسیح موعود علی السلام کو پہلے علم ہوا پہلے آپ نے اس کا اظہار کر دیا.پھر جب اگلی منزل پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسم کے اضافہ روھانیہ اور موہبت الہی سے پہنچ گئے اور اللہ تعالے نے اس دوسری منزل کا آپ پر انکشاف فرما دیا تو آپ نے اس کا اعلان فرما دیا.اگر بدلنی کو راہ دی جائے تو اس کے مواقع تو ہر قدم پر موجود ہوتے ہیں.تدریجی انکشاف میں حکمت الہی دیکھنے مخالفین اسلام نے اعتراض کیا تھا.لم لا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةٌ وَاحِدَةً که قرآن محمد
اس نبی پر یکدم کیوں ازل نہیں ہوا ؟ کیونکہ وہ پہلے سن چکے تھے کہ تو رات کے احکام چالیس دن میں نازل ہو گئے تھے.خدا تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا ہے گذلِكَ نسبت به فُؤَادَكَ که بات اسی طرح ہی ہے.مگر قرآن مجید کے تدریجاً نازل کرنے سے نبی کے دل کو مضبوط کرنا مقصود ہے.چونکہ یہ عقیدہ مسلمانوں میں عام طور پر پھیلا ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا اس لئے اللہ تعالے نے مصلحت کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام پر آپ کا مقام تدریجاً منکشف فرمایا گو آپ ماموریت کے پہلے دن ہی اللہ تعالے کے نزدیک کامل اتنی نبی تھے.اس طریق میں بنی نوع انسان پر خدا تعالے کی ایک مہربانی اور عنایت کا ثبوت ملتا ہے، تا اس طریق سے اُن کے دل مضبوط ہوں اور جب وہ ایک شخص کی صحبت میں رہ کہ اس کی صداقت کو سمجھ جائیں اور اُس کے روحانی کمالات کا مشاہدہ کریں تو اُن کے لئے اس کے اصل مرتب، اور مقام کا سمجھنا آسان ہو جائے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شان میں خدا تعالے کے نزدیک پہلے دن سے ہی خاتم النبیین اور افضل النبیین تھے.مگر خاتم النبیین کے مقام کے متعلق وفی آپ پر وفات سے چند سال ہی پہلے نازل ہوئی.اور اُس وقت آپ نے امت کو اپنے اس مرتبہ سے آگاہ فرمایا.پہلے اگر کوئی آپ کو خیر الناس کہہ دیتا تو آپ فرماتے ذَاكَ ابراهیم دمی مسلم جلد ۲ فضائل ابراہیم، یہ ابراہیم کا مقام ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خاتم النبیین ہی کی شان و مرتبہ تھا کہ دہ خیر الورٹی ہوں.لیکن چونکہ ابھی آپ پر اپنا مرتبہ پورے طور پر منکشف
نہ ہوا تھا اس لئے آپ ایسا کہنے سے اُمت کو روکتے تھے.پھر ایک وقت آپ فرماتے ہیں.لَا تُخَيرُ ونِي عَلَى مُوسی صحیح بخاری جلدم من مصری که مجھے موسی و پر ترجیح مت دو.لیکن ایک وقت آپ پر ایسا آیا کہ آپ نے فرمایا پہلے اور پچھلے نبیوں کا سردار ہوں.اَنَا قَائِدُ المُرْسَلِينَ (دیکھو کنز العمال جلد ا مننا) میں نبیوں کا قائد اور راہنما ہوں.نیز فرمایا فصلت على الانبیاء (صحیح مسلم باب الفضائل) کہ میں تمام نبیوں پر فضیلت دیا گیا ہوں.اور فرمایا.لَوْ كَانَ مُوسى حَيَّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتَّبَاعِی اگر موسى زنده ہوتا تو اسے میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا.پریشان اور مقام کے متعلق تدریجا انکشاف بھی ہرگز قابل اعتراض نہیں.کیونکہ خاتم النبیین کے مقام کا انکشاف جو ضروریات دین میں سے ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بعد میں ہوا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے شروع دعوئی ماموریت میں ہی نبی قرار دیا تھا.چونکہ ہر نبی محدث ضرور ہوتا ہے آپ نے نبی کے لفظ کو محدث اور جزوی نبی کے مفہوم میں سمجھا.حالانکہ اس کے ساتھ ماموریت کا شمول آپ کو کامل امتی نبی ثابت کر رہا تھا.مگر مصلحت الہی نے آپ کو اس سے ایک وقت تک نہ روکا جیسے مصلحت الہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو لَا تُخَيرُونِي عَلَى مُوسَی کہنے سے نہ روکا تھا.بعد میں خدا تعالے کی تصریح سے آپ نے محض محدثیت اور جزوی نبی کا استعمال ترک کر دیا اور امتی نبی کا لفظ صراحت سے اختیار فرمالیا.جس طرح رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں اپنی شان یہ بیان فرمائی کہ میں تمام انبیاء سے افضل ہوں حالانکہ مکہ شریف میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ آپ كَانَةٌ لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرا ہیں.اور یہ امر آپ کی تمام انبیاء پر افضلیت کی دلیل تھا.مگر آپ نے اسے اجتہادا وجہ فضیلت قرار نہ دیا.لیکن بعد میں جب خاتم النبیین کی آیت نازل ہوئی تو آپ نے اس بات کو بھی تمام انبیاء پر اپنی فضیلت کی وجہ قرار دے دیا.(دیکھو حدیث فضیلت على الانبار صحیح مسلم باب الفضائل) اس میں ایک وجہ اپنی فضیلت بر انبیاء کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارسلت إلى كافة لِلنَّاسِ بیان فرمائی ہے.پس خدا تعالٰی کے مامورین ایسے امور میں بڑے محتاط ہوتے ہیں.بن بلائے نہیں بولتے بلکہ خدا تعالیٰ جوں جوں اُن کی شان کے متعلق پردہ اُٹھاتا جاتا ہے اور اُن پر حقیقت منکشف ہوتی جاتی ہے وہ اس کا اعلان کرتے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں : " جب تک مجھے اُس (خدا تعالیٰ.ناقل ) سے علم نہ ہوا میں دہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا.اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اُس کے مخالف کہا " (حقیقۃ الوحی منشا ) لیکن اس جز دی تبدیلی کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقیدہ میں بلحاظ حقیقت و کیفیت ہرگز کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.شروع سے لے کہ آخر تک آپ کا یہ دعوی رہا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہیں.اور وہ آپ سے بکثرت ہے.اور آپ پر امور غیبیہ کا اظہار کرتا ہے اور آپ اقوام عالم کی صلاح کلام
کے لئے مامور کئے گئے ہیں.اور خدا تعالیٰ نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے نبی اور رسول کے لقب سے ملقب فرمایا ہے.ان امور کے اعلان میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.پس آپ کا دعوی بلحاظ اصلی حقیقت شروع سے ایک ہی رہا ہے.بلحاظ کیفیت و حقیقت اس میں قطعاً کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.در حقیقت محدثیت نبوت سے اللہ مشابہت رکھتی ہے اور اس کے ساتھ ماموریت اشتر اوراس کا دعوی مل کر کاملی اتنی ہی کے دعوئی کے مترادف تھا.کیونکہ محض محدث میں ماموریتیا کی جز کی کمی ہوتی ہے.اسی لئے حضرت بی محمود ایالت لام نے اشتہار ایک لطی کا.ازالہ میں فرمایا ہے :- جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ یکیں مستقل طور پر کوئی شریعیت لانیوالا نہیں ہوں.اور نہ مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے ریول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر اخیر کی جدید شرعیت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے ہیں نے کبھی انکار نہیں کیا " نبوت کی معرفی حقیقت ! نبوت در رسالت کی عوام علماء کے نزدیک عرفی حقیقت یہ ہے کہ رسول اور نبی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت جدیدہ لائے جوخدا
..یا شریعت سابقہ میں کوئی ترمیم وتنسیخ یا اضافہ کا حق رکھے.یا کم از کم مستقل حیثیت رکھتا ہو.یعنی بلا استفادہ نئی سابق کے اصالتا اور براہ راست اس مقام کو پانے والا ہو کسی دوسرے نبی کا اتنی نہ ہو.غیر مستقل نبی اُن کے نزدیک کوئی ہوتا ہی نہیں.اور نہ یہ ان کے نزدیک نبوت کی کوئی قسم اور مرتبہ ہے.اور عام مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہے کہ نبی ہوتا ہی وہ ہے جونئی شریعیت لاتے.وہ یہ جانتے ہی نہیں نبوت، شریعیت کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے.بعقائد کی کتابی نبراس شرح مقاصد وغیرہ اس پر شاہد ہیں کہ نبی عام ہے اور رسول خاص.قَالَ بَعْضُهُمْ يُشْتَرَطُ فِي الرَّسُولِ شَرع جَدِيد - یعنی بعض کے نزدیک رسول کے لئے نئی شریعت کی شرط ہے.(ص ۴۲۳ نبراس ).شرح مقاصد جلد اول 11 میں رسول کی تعریف میں لکھا ہے :.هُوَ مَنْ لَهُ كِتَابٌ أَو نَسْخُ لِبَعْضِ أَحْكَامِ الشَّرِيعَةِ السَّابِقَةِ یعنی رسول وہ ہے جس کے پاس کوئی کتاب ہو.یا شریعت سابقہ کے بعض احکام کو منسوخ کرے.پس اس عقیدہ کے علماء کے نزدیک نبی اور رسول دونوں اوصاف کا حامل وہی شخص ہوگا جوکم از کم شریعیت سابقہ کے بعض احکام کو منسوخ کرتا ہو.گویا تشریعی نبی ہو.یہ ہے اُن کے نزدیک نبوتت در سالت کی جامع حیثیت کی حقیقت گو قرآن مجید سے یہ حقیقت واضح ہے کہ غیر تشریعی انبیاء کے لئے بھی اللہ تعالے نے رسول کا لفظ استعمال فرمایا ہے.چنانچہ حضرت موسی علیہ اسلام کے بعد
جوغیر تشریعی انبیاء ہوئے ہیں اُن کے متعلق فرمایا ہے قَفَّيْنَا مِنَ الْجِدِهِ بِالرُّسُلِ (سورہ بقرہ ع (۱) کہ ہم نے موسیٰ کے بعد پے در پے ریسول بھیجے اور انہی کو دوسری جگہ نبی قرار دے کر فرمایا :- >> إِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَة فِيهَا هُدًى وَ نُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا.(سوره مائده ع ) مینی ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے اس کے ذریعہ کئی نبی جو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے یہودیوں کے لیئے حکم تھے.پھر قر آن مجید میں حضرت اسمعیل علی السلام کو رسُولاً نبيا قرار دیا گیا ہے.حالانکہ وہ ابراہیمی شریعت پر تھے.اور حضرت ہارون کو بھی رسول کہا گیا ہے.حالانکہ شریعت موسی علی السلام پر نازل ہوئی تھی.یہ تحقیق علامہ اسی صاحب " روح المعانی کی ہے.وہ لکھتے ہیں :.إِنَّ الرَّسُولَ لا يَجِبُ أَن يَكُونَ صَاحِبَ شَرِيعَةٍ جَدِيدَةٍ فَإِنَّ اَولاد اِبْرَاهِيمَ كَانُوا عَلَى شَرِيعَتِهِ ر روح المعانى جلده منش ) یعنی بے شک رسول کیلئے صاحب شریعیت جدیدہ ہونا ضروری نہیں کیونکہ اولاد ابراہیم اپنے باپ ابراہیم کی ہی شریعیت پر تھی.بہر حال یہ عقیدہ چونکہ اکثر علماء میں رائج تھا کہ نبی اور رسول یا تو شریعت جدیدہ لاتا ہے یا شریعت سابقہ کے بعض احکام کو منسوخ کرتا ہے.یا
اصالتا یعنی براه راست مقام نبوت پاتا ہے.یہ تعریف نبوت علماء کے نزدیک نبوت کی عرفی حقیقت تھی اس لئے اس حقیقت کے پیش نظر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اعلان فرمایا کہ :- سُقيتُ نَبِيَّا مِنَ اللَّهِ عَلَى طَرِيقِ الْمَجَازِ لَا عَلَى وَجْهِ الْحَقِيقَةِ فَلَا تَهِيجُ هُهُنَا غَيْرَةُ اللَّهِ وَلَا عَيْرَةٌ رَسُولِهِ فَإِني أَرَابي تَحْتَ جَنَاحَ النَّبِيِّ وَقَدَ فِي هذه تَحتَ الْأَقْدَامِ النَّبَوِيَّةِ " ر استفتاء ضمیمہ حقیقة الوحی مثا ) یعنی میرا نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجاز کے طریق پر نبی رکھا گیا ہے نہ کہ حقیقت کے طریق پر.پس میری نبوت سے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کی غیرت نہیں بھڑکتی.پس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو کے نیچے تربیت پا رہا ہوں.اور میرا یہ قدم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے ہے.اس اعلان میں آپ نے نبوت کی اسی حقیقت کے حامل ہونے سے انکار کیا ہے جو عام علماء اور عوام الناس کے نزدیک نبوت ورسالت کی حقیقت ہے جس کے لئے یا تو جدید شریعت لانا یا بعض احکام شریعت کا منسوخ کرنا.یا مستقل طور پر اور براہ راست مقام نبوت کا حامل ہونا ضروری ہوتا ہے.گر آپ کی مراد اپنی نبوت سے صرف یہ تھی کہ آپ کثریت مکالمه مخاطبہ الہتہ مشتمل بر امور غیبیہ کی نعمت سے مشرف ہیں اور یہ مرتبہ آپ کو شریعت محمدیت
کی پیروی کے واسطہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کے ذریب سے حاصل ہے.اس مرتبہ اور مقام کو اور اس حقیقت کو علماء زمانہ ہذا حقیقت نبوت یقین ہی نہیں کرتے تھے.اور یہ مقام ان کی معروف تعریف نبوت کی ذیل میں ہی نہیں آتا تھا.تو ایسی نبوت کا دعوئی تو ان علماء کی تعریف نبوت و حقیقت نبوت کے مقابلہ میں صرف ایک مجازی مرتبہ ہی قرار پا سکتا تھا.پس جب زمانہ حال کے علماء کی اس تعریف کے ماتحت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو حقیقی نبی قرار ہی نہیں دیا جا سکتا تھا تو ایسی نبوت کے دعوی کی بناء پر جو علماء کی نبوت کی تعریف کے ذیل میں نہیں آنا تھا.بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر ان علماء کا ختم نبوت کے منکر ہونے کا فتوی دینا سراسر بان علماء کا نظلم اور تحری اور تجاوز عن الحق تھا.کیونکہ حضرت امام علی القاری علیہ الرحمہ نبوت کے ذکر میں فرماتے ہیں :.فَالمَنزِلَةُ الْمَجَازِيَّةُ لَا تُوجِبُ الْكُفْرَ وَ لَا البدعة " ( شرح شفا قاضی عیاض مؤلفہ امام علی القاری جلد ۲ مثال ) یعنی نبوت کے مجازی مرتبہ کا دعوی نہ کفر کا موجب ہے اور نہ ہی بارخت ہے.۵۱۹ یہ اسی لئے فرمایا کہ ایسا دعوی نبوت اُن کے نزدیک ختم نبوت کے منافی نہیں.اُن کے نزدیک ختم نبوت کے منافی صرف تشریعی نبوت یا ایسی نبوت ہے جس کا مدعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے تئیں اتنی قرار نہ دے یعنی وہ مستقلہ نبوت کا دعوی کرے.
۱۴۱ حضرت باقی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلواۃ والسلام پر تشریعیہ اور تقلہ نبوت کے دعوی کا افتراء جب غیر احمدی علماء نے دیکھا کہ ان کا ہاتھ دلائل کے ساتھ بانی تسلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر نہیں پڑتا اور وہ اپنے دلوں میں محسوس کر لیتے ہیں کہ اتنی نہی کے دعوی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ اسے تو حضرت پیر پیران سید عبد القادر صاحب جیلانی قدس سرہ' اور حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمتہ وغیرہ جیسے بزرگان ملت نے اُمت میں جاری مانا ہے.اور کئی بزرگوں نے صرف تشریعی نبوت کو ختم نبوت کے منافی قرار دیا ہے نہ کہ غیر تشریعی نبوت کو تو پھر بعض علماء حضرت دیا بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر یہ افتراء کرتے ہیں کہ آپ نے نبوت تشریعیہ کا دعوی کیا ہے.چنانچہ مولوی محمد اور میں صاحب نے اپنی کتاب ختم النبوة " میں اس افتراء کو بہت دوہرایا ہے.اور مولوی محمد شفیع صاحب دیوبندی نے تو اپنی كتاب "ختم النبوة في القرآن میے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض عبارتوں کو پیش کر کے اس افتراء کو ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے.اس لئے اُن کی پیش کردہ عبارتوں کی حقیقت بتانا اس موقعہ پر ضروری ہے.وہ عبارات یہ ہیں :- (۱) مجھے بتایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ " اعجاز احمد )
۱۴۲ الجواب : اس کے متعلق عرض ہے کہ تفاسیر میںلکھا ہے کہ اس آیت کا تعلق مسیح موعود علیہ السلام سے بھی ہے.کیونکہ دین حق اور ہدایت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وستم لائے ہیں اس کا تمام ادیان پر غلبہ سیج موجود کے زمانہ سے وابستہ ہے.آیت کے پہلے حصہ کا براہ راست تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.دوسرے حصہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه سے مسیح موعود علیہ السلام کا تعلق خود مفسرین نے تسلیم کیا ہے.علاوہ ازیں قرآن مجید کے اُٹھ جانے اور ایک رحیل فارسی کے ایمان کو ثریا سے لانے کا ذکر بھی احادیث میں موجود ہے ہے.پھر سیح موعود کے زمانہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں يُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَكَ كُلَهَا إِلَّا الإسلام - که خدا تعالیٰ اس کے زمانہ میں اسلام کے سوا تمام مذاہب کو ہلاک کر دے گا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ زمانہ حسب سنت انبسیار تین صد سال کا زمانہ ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وہ تم کا کام تکمیل ہدایت تھا.چونکہ مسیح موعود آپ کا خلیفہ اور نائب ہے.اس کا کام تکمیل اشاعت ہدایت ہے.مگر اس زمانہ میں جو کام ہوگا اس کا مربع بھی در اسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.اسی لیے مسیح موعود کا نام اس آیت میں نہیں یاگیا.بلکہ یہ کام ضرت صلی الہ علیہ وسلم کا ہی قراردیا گیا ہے.یہ پیشگوئی ہیں ہی ہے جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر و کسری کے خزانوں کی چابیاں اپنے ہاتھ میں دکھایں.مگر یہ فتوحات بظاہر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ہوئیں.ه این جزیره جلد ۵ است و جلد ۲۵ ۵۳ - که بخاری تفسیر سوره جمعه - که ابو داؤد جلد ۲ ۲۳۶
۱۴۳ چونکہ حضرت عمرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے.اس لئے عبد اللہ اس پیش گوئی میں نفلی طور پر آپ مراد ہیں.اور آپ کے ہاتھوں کو اسی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ قرار دیا گیا ہے.اور اس طرح یہ پیش گوئی خلقی طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تعلق رکھتی ہے مگر حقیقی مرجع اس کامیابی کا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.(بخاری کتاب التفسیر ) (۳) اگر کہو کہ صاحب الشرعیت افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے نہ ہر ایک مغتری.تو اول تو یہ دعوی بے دلیل ہے.خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی.ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعیت کیا چیز ہے.جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے.وہی صاحب شریعت ہو گیا.پس اس تعریف کے رو سے بھی ہمارے مخالف عزم ہیں.کیونکہ میری وجی میں امر کی ہیں اور نہی بھی.مثلا یہ الہام قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَخضُوا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لهم.یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی.اور اس پر تیئیس برس کی مدت بھی گزر گئی.اور ایسا ہی اب تک تیری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی " (العین نمبر ۳ ) (۳) چونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی سبھی اور شریعیت کے ضروری احکام کی تجد یاد ہے " (اربعین حاشیہ ۳۴) محمد ه یعنی راہین احمدیہ کیا.
۱۴۴۴ مولویید! الجواب : ان حوالہ جات کے متعلق عرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات جو اوامر و نواہی پرمشتمل ہیں بطور تجدید دین اور بیان شریعت کے ہیں جس پر فقرہ حوالہ ۳ شاہد و ناطق ہے.اور جیسے مولوی محمد شفیع صاحب نے خود بھی پیش کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ ۲ ایکس اعتراض کے جواب میں ہے.مولوی کہتے تھے ، صرف وہ جھوٹا مدعی ۲۳ سال تک عمر نہیں پاتا جو صاحب شریعت ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ جواب دیتے ہیں کہ آئے تم لوگ کہتے ہو کہ کوتَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْآتَاوِيلِ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنَ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الوَتِين (الحاقہ ) کی آیت کے رُو سے خدا تعالے اس جھوٹے مدعی کو ۲۳ سال کی مہلت نہیں دیتا جو رسول کریم صلی للہ علیہ وسلم کے دعوی کی عمر ہے) جو صاحب شریعیت ہو.اول تو تمہارا یہ دعوے باطل ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے افتراء کے ساتھ شریعت کی قید نہیں لگائی.پھر الزامی رنگ میں بطور محبت ملازمہ یہ جواب دیتے ہیں کہ میں امر کو تم شریعیت کہتے ہو وہ اوامر و نواہی ہی ہوتے ہیں.سو اوامر و نواہی بھی بطور تجدید دین کے د کر کن احکام شریعیت پر اس زمانہ میں زور دینا ضروری ہے) مجھے پر نازل ہوتے ہیں.لہذا جب شریعیت کے احکام پر مشتمل دہی بھی بطور تجدید دین مجھ پر نازل ہوتی ہے تو اگر میں مفتری ہوتا تو اس وحی کی وجہ سے مجھے اس آیت کے معیار کے مطابق ۲۳ سال کی لمبی مہلت نہیں ملنی چاہیئے تھی.اب مجھ پر تجدید دین کے طور پر شریعت محمدیہ کے اوامرو نواہی نازل ہونے کی وجہ سے تم ملزم ہو.تمہیں میرے انکار کا کوئی حق نہیں رہا.
۱۴۵ اس جگہ یا در ہے جو شخص تجدید دین کے لئے مامور ہو وہ بالواسطہ شباب الشریعیت ہی ہوگا.مگر صاحب شریعیت جدیدہ نہیں ہوگا.جو امر دعوی کو تشریعی نبوت کا دعویٰ بناتا ہے وہ تو جدید اوامر ونواہی یا ناسخ شریعیت احکام کا نزول ہے.اگر می ترد دین بالواسطہ بھی صاحب شریعیت نہ ہو تو اس نے تجدید دین کیا کرنی ہے.پھر منتقلہ نبوت کے دعوی کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اس شخص نے براہ راست مقام نبوت پایا ہے نہ کہ شریعت محمدیہ کی پیروی کے واسطہ سے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہ شریعت جدیدہ کا دعوی ہے نہ کسی حکم کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کا دعوی.اور نہ یہ دعوی ہے کہ آپ نے براہ راست بغیر پیروی شریعت محمدیہ کے آزادانہ طور مقام نبوت حاصل کیا ہے.بلکہ آپ اسی طرح دعوی کے بعد بھی شریعت محمدیہ کے کے تابع اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں جس طرح پہلے تھے.تو پھر آپ کے دعوی کو تشریعی نبوت کا دعوی قرار دینا ظلم عظیم ہے.دیکھو حضرت بانی سابلہ لم محمد احمدیہ علیہ السلام نے اس عبارت کے آخر میں صاف فرمایا ہے :- ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے ؟ (اربعین ، مث ) یہ عبارت مولوی محمد شفیع صاحب نے مخفی رکھی ہے.تاخی پر پردہ پڑا رہے.وہ منسوب تو آپ کی طرف یہ کرتے ہیں کہ آپ نے کھلے بندوں نبوت مستقلہ اور شریعت جدیدہ کا دعوی کیا ہے ؟ مگر خود وہ حق کو یوں چھپاتے ہیں کہ اگلی عبارت جو اصل حقیقیت پر روشنی ڈالتی ہے اُسے درج نہیں کرتے.انا للہ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ -
" پس کسی غیر تشریعی امتی نبی کے الہامات میں قرآن مجید کے اوامر و نواہی کا بطور تجدید یا بیان شد بعیت پایا جانا ہرگزہ شریعت جدیدہ لانے کا دعوی نہیں قرار دیا جا سکتا.اور نہ مستقل نبوت کا دعوی قرار پا سکتا ہے.اولیاء اللہ پر آن کا نزول! حضرت بانی سلسلہ احمدیہ جب قرآن مجید کو ربانی کتابوں کا خاتم یقین کرتے ہیں تو انہیں تشریعی نبوت کا مدعی قرار دینا درست نہیں.حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :- أمَّا الْإِنْقَاءُ بِغَيْرِ التَّشْرِيرِ فَلَيْسَ بِمَحْجُورٍ ولا التعريفات الإلهيَّةُ بِصِعَةِ الْحُكمُ الْمُقَرَّرِ أوْ فَسَادٍ وَكَذَلِكَ تَنَزَّلُ الْقُرْآنِ عَلَى قُلُوبِ الْاَوْلِيَاء مَا انْقَطَعَ مَعَ كَوْنِهِ مَحْفُوظاً لَهُمْ وَالكِنْ لَهُمْ ذَوقُ الْإِنْزَالِ وَهَذَا لِبَعْضِهم ۲۸۷ (فتوحات مکیه جلد ۲ م ) یعنی غیر تشریعی الہام ممنوع نہیں.اور نہ ایسا الہام ممنوع ہے جس کے ذریعہ خدا تعالے کسی پہلے ثابت محکم کی شناخت کرائے یا کسی تحکم کے فساد یا خرابی کو ظاہر کرے.یہ دونوں قسم کے الہام منقطع نہیں.ایسا ہی قرآن کریم کا نزول اولیاء کے قلوب پ قطع نہیں.باوجودیکہ قرآن مجید اپنی اصلی صورت میں محفوظ
۱۴۷ ہے.لیکن اولیاء کو نزول قرآنی کا ذوق عطا کرنے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے.اور ایسی شان بعض کو عطا کی جاتی ہے.علماء امت کے نزدیک می شود کا کم وحی کے ذریعہ بیان شرعیت حضرت امام علی القاری مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد ہ منہ پر لکھتے ہیں:.أقولُ لا مُنانَا بَيْنَ أَنْ يَكُونَ نَبِيًّا وَيَكُونَ تَا بِمَا لِنَبِيِّنَا صَلَّى لنبينا صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيَانِ أَحْكَامِ شَرِيعَتِهِ وَإِثْقَانِ طَرِيقَتِهِ وَلَوْ بِالْوَفِي إِلَيْهِ كَمَا يُشِيرُ إِلَيْهِ قَوْلُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ مُوسَى حَيَّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتباعى - اتى مَعَ وَصْفِ النُّبُوَّةِ وَالرِّسَالَةِ وَالَّا فَمَعَ " سَلْبِهِ لَا يُفِيدُ زِيَادَة الْمَرِيَّةِ ترجمہ :.میں کہتا ہوں کہ حضرت کیجے کے بنی ہونے اور آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے تابع ہو کر احکام شریعیت کے بیان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کے طریقوں کے پختہ کرنے میں کوئی منافات موجود نہیں.خواہ وہ اس وحی سے یہ کام کریں جو اُن پر نازل ہو.جیسا کہ اس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اشارہ کرتا ہے کہ اگر موسی زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا.مراد یہ ہے کہ وصف نبوت اور رسالت کے ساتھ (میرے تابع ہوتے.ناقل ) ورنہ سلب نبوت (نبوت چھینا جانے ) کے ساتھ تابع ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا فائدہ نہیں دیتا.
۱۴۸ حضرت امام علی القادری علیہ الرحمہ کی اس عبارت سے بھی ظاہر ہے کہ سیح موعود کی وی کو جو احکام شریعت پرشتمل ہو بیان احکام شریعت ہی قرار دیا گیا ہے اور اس وحی کے باوجود مسیح موعود کو تابع نبی ہی قرار دیا گیا ہے.نہ کہ تشریعی نبی.اور امام عبدالوہاب شعرانی الیواقیت والجواہر جلد ۱۲ م بحث عام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھتے ہیں :- فَيُرْسَلُ وَلِيَّاذَا نُبُوَّةٍ مُطْلَقَةٍ وَيُلْهَمُ بِشَرْعِ مُحَمَّدٍ وَيَنْهَمُهُ عَلَى وَجْهِهِ " یعنی عیسی علیہ السلام نبوت مطلقہ کے ساتھ ولی کر کے بھیجے جائیں گے.اُن پر شریعت محمدیہ الہاما نازل ہوگی.وہ اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھیں گے " اب دیگو سیه موعود پر شریعت محمدی کا الہاما نازل ہونا ہی تسلیم کیاگیا ہے مگر اس کے باوجود انہیں غیر تشریعی اور تابع نبی ہی سمجھا گیا ہے.اسی لئے ان کو انبیاء الاولیاء میں شامل کیا گیا ہے.پس علماء امت کے نزدیک مسیح موعود اس طرح شریعت محمدیہ کے الہاما پانے سے ان الہامات کے احکام شریعیہ پرمشتمل ہونے کی وجہ سے ایک رنگ میں صاحب الشریعت تو ہوا مگر اُسے صاحب شریعت جدیدہ نہیں سمجھا جاتا.اور نہ اجد از نز دل تشریعی نبی قرار دیا جاتا ہے.اولیاء اللہ پرعلوم شرعیہ کا الہانا اگلتا حضرت مجددالف ثانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :-
۱۴۹ در اہمچنانکہ نبی علیہ الصلوة والسلام آن علوم را از وی حاصل می کرد این بزرگواں بطریق الهام آن علوم را از اصل اخذ می کنند - علماء این علوم را از شرائع اخذ که ده بطریق احمال آورده اند یمان علم چنا نچہ انبیاء عليهم الصلوة والسّلام را حاصل بود تفصيلاً وكشفاً ایشان را نیز یہاں وجوه حاصل می شود اصالت و تبعیت درمیان است.این قیم کمال اولیا تے کمثل بعضی از یشان را از قرون متطاوله دازمته متباعدہ انتخاب سے فرمائند ! ) مکتوبات جلد ) من ) بینی جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ علوم وجی سے حاصل کئے ، یہ بزرگان ملت ، الہام کے ذریعہ وہی علوم اصل معنی خدا تعالے سے حاصل کرتے ہیں.اور عام علماء ان علوم کو شر لعینوں سے اخذ کر کے بطریق اجمال پیش کرتے ہیں.رہی علوم میں طرح انبیاء کو تفصیلاً اور کشفا حاصل ہوتے ہیں ان بزرگوں کو بھی اسی طرح حاصل ہوتے ہیں.صرف اصالت اور تبعیت یعنی اصل اور طبل کا فرق درمیان ہوتا ہے.ایسے بزرگ لوگوں کو لیے زمانہ کے بعد منتخب کیا جاتا ہے.اس قول کی روشنی میں اصل اصلی طور پر صاحب الشریعت ہوتا ہے تو ظل بالواسطہ طور پر صاحب الشریعت ہوتا ہے.اس لئے نکل کا مرتبہ شریعیت جدیدہ لانے کا نہیں ہوتا ، شریعت جدیدہ کے لئے اصالت شرط ہے.
۱۵۰ انبیاء کے تابعین بطریق الہام جو علوم اصل سے اخذ کرتے ہیں اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ الہام وحی کی قسم نہیں ہے بلکہ الہام کا لفظ وحی کے مقابل صرف غلط فہمی سے بچانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ اُسے وحی تشریعی نہ سمجھ لیں.ورنہ حقیقت میں یہ الہام وحی غیر تشریعی ہی ہوتا ہے.خواہ علوم شریعیت بینی اوامر و نواہی پر نبی مشتمل ہو.یا امور غیبیہ پہ.الہام الہی وحی ہے چنانچہ سید اسمعیل صحب شہیدہ منصب مامت پر فرماتے ہیں :- باید دانست از انجله الہام است ہمیں الہام که با نبیاء الله ثابت است آنرا و می گوئند و اگر بغیر ایشان ثابت میشود اور تحدیث نے گوئند وگا ہے در کتاب الله طلق الهام خواہ باغیار ثابت می شود خواه باولیاء اللہ وحی نامند یعنی خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک الہام بھی ہے.یہی الہام جو جو انبیاء کو ہوتا ہے.اس کو وحی کہتے ہیں.اور جو انبیاء کے غیر کو ہوتا ہے تو اس کو تحدیث کہتے ہیں کبھی مطلق الہام کو خواہ انبیاء کو ہو یا اولیاء کو قرآن مجید کے رو سے دجی کہتے ہیں.حضرت مولانا جلال الدین رومی ” فرماتے ہیں.Q نے نجوم است و نه ریل است نه خواب وفي حتى والله اعلم بالصواب از پے روپوش عامه در میال وحی دل گویند او را صوفیاں یعنی جو باتیں اوپر کہی گئی ہیں یہ نجوم ، رمل اور خواب کی باتیں نہیں
۱۵۱ بلکہ یہ خدا کی دی ہیں.اور خدا تعالے خوب جانتا ہے عوام الناس سے چھپانے کے لئے صوفی اسے دل کی وحی کہہ دیتے ہیں.د مثنوی دفتر چهارم ماها) خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت کی موعود علیہ السلام پر گر امر ونہی والی وحی بطور تجدید دین اور بیان شریعیت نازل ہو تو اس سے شریعت جدیدہ کا دعوی لازم نہیں آتا.شریعیت جدیدہ کے مدعی کو تو ترمیم وتنسیخ کا حق ہوتا ہے مگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام تو صاف فرماتے ہیں :- ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے.تاہم خدا تعالے نے اپنے نفس پر یہ حرام نہیں کیاکہ تجدید کے طور پر کسی اور مامور کے ذریو نے یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو.جھوٹی گواہی نہ دو.زنانہ کرد خون نہ کرو.اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنا بیان شریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے.“ ( اربعين مث ) یہ وہ عبارت ہے جسے مولوی محمد شفیع صاحب نے اپنی کتاب میں درج نہیں کیا تاکہ حقیقت پر پردہ پڑا رہے.اور وہ بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر شہ بیت جدیدہ لانے کے دعوئی کا الزام لگا سکیں.میں بتا چکا ہوں کہ شریعیت جدیدہ کا دعوی خالی امر و نہی کے الہام نازل ہونے سے لازم نہیں آتا.امرد نہی کا نزول توسیع موجود پر ہونا بزرگان دین کو مسلم ہے ، جیسا کہ قبل انہیں
۱۵۲ امام شعرانی - محی الدین ابن عربی اور امام علی القاری وغیرہ کی عبارات سے دکھا چکا ہوں.شریعت جدیدہ کا دعوی شریعت میں ترمیم تنسیخ کا حق رکھنے سے لازم آتا ہے.اور ایسا مدعی نبوت ہی تشریعی نبی کہلاتا ہے.تجدید دین اور بیان شریعت کے طور پر امروہی کا نازل ہونا شریعیت جدیدہ کا دعویٰ نہیں ہوتا.اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا بلکہ آپ کے نزدیک ایسا دعوی کفر ہے.بانی سلسلہ احمدیہ کا تشریعی نبوت اورمستقلہ نبوت سے انکار چنانچہ بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی واضح عبارات اس بارہ میں موجود ہیں کہ آپ نے ہرگز تشریعی یا مستقلہ نبوت کا دعوی نہیں کیا بلکہ ایسے دعوی نبوت کو آپ کفر سمجھتے ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- (1) " اور لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے علیحدہ ہوکر نبوت کا دعوی کرے.مگر یہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت.اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام کی حقانیت دنیا پر ظاہر کی جائے اور آنتور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی دکھلائی جائے " ) چشمه معرفت ۳۲۵ ) (۲) یہ خوب یاد رکھنا چاہیے کہ نبوت تشریعی کا دروازه بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور
۱۵۳ کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سیکھاتے.یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے.یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے" پھر فرماتے ہیں :- ( الوصیت ما حاشیہ) ہم بار بار لکھ چکے ہیںکہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امرہے کہ ہمارے سیند و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعیت ہے.اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلا شبہ وہ بے دین اور مردود ہے؟ ر چشمه موفته حاشیه (۳۲۴) (۴) خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے.اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے " (چشمہ معرفت ۳۲ و ۳۲۵) (۵) نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالی کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شریف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو.یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شرعیت لادے.کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائزہ نہیں جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے.جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اُس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم )
۱۵۴ - کی پیروی سے پایا ہے.نہ براہ راست " تجلیات الہیہ مث) یہ سب تحریر یں اربعین کے بعد کی ہیں.اور صاف بتا رہی ہیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ اسلام کو تشریعی نبی ہونے کا ہرگز دعوی نہ تھا.آپ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی شخص تشریعی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ بے دین اور مردود ہے.مضمون کا دوسرا حصہ خاتم النبیین کا مفہوم بلحاظ سیاق آیت خاتم النبیین کے مقام کے متعلق ایک عام حقیقی بحث کے بعد اب میں اس مقام اور مرتبہ کی ٹھوس علمی تحقیق بتانا چاہتا ہوں.سو اس سلسلہ میں اس کی لغوی تحقیق سے پہلے میں سیاق آیت سے اس مفہوم پر روشنی ڈالتا ہوں.واضح ہو کہ آیت مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَالكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ الآیة کا شان نزول یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت زیدہ کے حضرت زینب یعنی اللہ عنہا کو طلاق دینے کے بعد منشاء الہی کے مطابق حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی دلجوقی
۱۵۵ در متینی کی رسم کو مٹانے کے لئے حضرت زینت سے نکاح کر لیا تو مخالفین نے آپ پر یہ اعتراض کیا کہ آپ نے اپنی بہو سے نکاح کر لیا ہے کیونکہ آپ نے زید کو متبنی بنا رکھا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُم که محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم مردوں میں سے کسی کے باپ ہی نہیں.لہذا نہ زیدیہ آپ کا بیٹا ہے اور نہ زینب رضی اللہ عنہا آپ کی بہو تھیں.جن سے زید کے طلاق دینے پر آپ نے اپنا نکاح کیا ہے گویا آیت کے اس حصہ میں آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی ابوت جسمانی کی بلحاظ بالغ نرینہ اولاد رکھنے کے نفی کی گئی ہے.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے حرف الکین استعمال کرتے ہوئے فرمایا ہے وَ لكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَم النبيين - حرف الكن استدراک کے لئے استعمال ہوتا ہے.لینی پچھلے کلام میں اگر کوئی شبہ یا و ہم پیدا ہوتا ہو تو اس کے بعد الکین کا لفظ ذکر کر کے جو کلام لایا جاتا ہے اس سے اس پیدا ہونے والے شبہ یا وہم کو دور کرنا مقصود ہوتا ہے.چنانچہ شرح جامی میں جو عربی مسلم نو کی مستند کتاب ہے لکھا ہے :.لكن الاسْتِدْرَاكِ.فَمَعْنَى الْاِسْتِدْرَاكِ دَفَعُ تَوَهُم مِنْ كَلَامِ الْمُقَدَّمِ بَيْنَ كَلَا مَيْنِ مَتَغَابُرَيْنِ نَفْيَّا وَإِثْبَاتًا مَعْنى " که الکن کا لفظ استدراک کے لئے (یعنی تدارک مافات کیلئے )
۱۵۶ استعمال ہوتا ہے.اور اسند راک کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ کلام مقدم سے جو و ہم پیدا ہوتا ہے اس وہم کو دور کرنا مقصود ہوتا ہے.اور لیکن سے مقدم اور مالک کلام آپس میں ایک دوسرے سے نفی اور اثبات کی صورت میں معنی مختلف ہوتے ہیں.اب اس جگہ ما كان محمد أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُم منفی کلام سے شبہ پیدا ہوتا تھا کہ معاذ اللہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ابتر ہونا اور زمینہ بالغ اولاد کے لحاظ سے آپؐ کا مقطوع النسل ہونا اور لاوارث ہونا تسلیم فرمایا لیا ہے.حالانکہ وہ اِس سے پہلے اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاب تو کے قول میں کفار کے اس اعتراض کی خود تردید کر چکا تھا کہ (معاذ اللہ آپ اہستہ ہیں.اور بتا چکا تھا کہ آپ کا دشمن بہت ہے نہ یہ کہ آپ کی کوئی زمینہ اولاد نہیں.یا آپ لاوارث ہیں.اس جگہ اس شبہ کا ازالہ اسکین کے مثبت کلام رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ البيِّينَ کے الفاظ سے کیا گیا ہے.ما سُول اللہ کے الفاظ سے تو اس شبہ کا ازالہ یوں کیا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور رسول اپنی اُمت کا روحانی باپ ہوتا ہے اس لئے گو آپ کی جسمانی بالغ اولاد موجود نہیں.لیکن آپ کی روحانی اولاد آپ کی اقت کی صورت میں تو ضرور موجود ہے.لہذا آپ ابتر اور مقطوع النسل اور لاوارث نہیں.آپ کے وارث آپ کی اُمت کی صورت میں آپ کے روحانی فرزند موجود ہیں.پھر کا سُول اللہ کے لفظ پر خَاتَمَ النَّبِيِّينَ کا عطف کیا گیا ہے.اور عطف کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معطوف علیہ اور معطوف
۱۵۷ میں ایک پہلو سے مناسبت ہو.اور دوسرے پہلو سے مغائرت.اس سے ظاہر ہے کہ خاتم النبیین کے الفاظ سے ابوت روحانی ہی ثابت کرنا مقصور خَاتَمَ النَّبِيِّن ہے.ورنہ معطوف علیہ اور معطوف میں مناسبت نہ رہے گی.اب مغائرت کیوں ہی متصور ہو سکتی ہے کہ رَسُول اللہ کے الفاظ میں تو آپ کی ابوقت روحانی بلحاظ عمومیت مراد ہو اور خاتم النبیین کے الفاظ میں بلحاظ خصوصیت البوست روحانی مراد ہو تا تفائر کا پہلو بھی موجود ہو.اور مناسبت کا پہلو بھی پایا جائے.اور چونکہ معطوف ، معطوف علیہ پر معنوں کی زیادتی پیدا کرتا ہے.اس لئے بلاغت کلام مقتضی ہے کہ اس جگہ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ کا عطف رَسُول اللہ پر بطور تاسیس مع تاکید کے ہو.دلیعنی ابونت روھانی کے معنوں میں زیادتی بھی پیدا کرے اور رَسُولَ اللہ کے الفاظ میں جو ابوت روحانی ہے.اس کی تاکی بھی کرے) پس ما حصل رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ کا یہ ہے کہ رَسُولَ اللهِ کے لفظوں میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کا روحانی باپ قرار دیا گیا ہے اور خاتم النبیین کے الفاظ میں اس ابوت روحانی کو اس سے بڑی شان میں یوں پیش کیا گیا ہے کہ آپ نبیوں کے بھی باپ ہیں.پس آپ کے وارث صرف آپ کے عام اتنی ہی نہیں ہوں گے بلکہ انبیاء بھی آپ کے وارث ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی سیاق کلام کو مد نظر رکھتے ہوئے ریویو بر مباحثه مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی دمولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی "
۱۵۸ میں اس آیت کی ایسی ہی تغییر بیان فرمائی ہے.حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی علی الرحمه بانی مدرسہ دیو بند بھی ان معنوں کے مصدق ہیں.اور اس آیت کی رو سے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کو انبیاء کا بھی بات تسلیم کرتے ہیں.چنانچہ خاتم النبیین کی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :- محاصل مطلب آیت کریمیہ کا اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابوات معروفہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی مرد کی نسبت حاصل نہیں.پر البورت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے.انبیاء کی نسبت تو فقط خاتم النبیین شاہد ہے.اوصاف معروض اور موصوف بالعرض (دونوں.ناقل ) موصوف بالذات کی فرع ہوتے ہیں.اور موصوف بالذات اوصاف عرضیہ کا اصل ہوتا ہے.اور وہ اس کی نسل “ (تحذیر الناس منا) پس اس آیت کی تفسیر میں جب سیاق کلام کو مد نظر رکھا جائے تو خاتم النبیین کے حقیقی معنوں کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی اور معنوی فرزندوں میں ایسے لوگ بھی ہونے چاہئیں جو آپ کی پیروی اور آپ کے فیضان سے مقام نبوت پائیں.دائی خاتم النبیین اگر آپ کو پہلے انبیاء کا ہی باپ قرار دیا جائے اور آئندہ کے لئے آپ کی ابوت روحانی منقطع قرار دی جائے تو پھر آپ معاذ اللہ عالم جرمنی میں ظاہر
۱۵۹ ہونے کے بعد حقیقی معنوں میں قیامت تک خاتم النبیین نہیں رہتے.نیز اس دعویٰ پر بھی معترضین کے مقابلہ میں کوئی دلیل نہیں رہتی کہ آپ تمام انبیاء کے باپ ہیں.کیونکہ دشمن کہہ سکتا ہے کہ اگر آپ انبیاء کے باپ ہیں تو آپ کیوں آپ کی امت میں سے کوئی خاتم النبیین والی ابوت کے اثر سے فرزند معنوی و روحانی تا قیامت پیدا نہیں ہو سکتا ؟ پس اس دعوی کا کہ آپ تمام انبیاء کے باپ میں قطعی ثبوت منی الفین اسلام کے لئے یہی ہو سکتا ہے کہ آپ کی روحانی اور معنوی فرزندی میں آپ کے اتنی کے لئے مقام نبوت پانا آپ کی پیروی اور افاضہ روحانیہ کے واسطہ سے ممکن ہو.پہلے انبیاء تو براہ راست نبی تھے اور صرف آپ کی ختم نبوت کے نقطۂ نفسی سے اثر پذیر ہو کہ مقام نبوت پارہے تھے.کیونکہ ابھی آپ کی شریعیت نہیں آئی تھی کہ اس کی پیروی کا واسطہ شرط ہوتا.لیکن اب شریعیت کا ملہ نا مہ محمدیہ کے آجانے اور اس شریعیت کی کامل پیروی کرنے کے بعد اگر خاتم النبیین کی ابوت معنوی کا وہ اثر فیضان نبوت کی صورت میں منقطع ہو جائے تو اس بات کے سوائے اس کے کچھ معنے نہیں کہ آپ کی ابوت روحانی بلحاظ خاتم النبیین ہونے کے پیچھے رہ گئی ہے.اور اب قیامت تک اس کا اثر اور فیض اور افاضہ ظاہر نہ ہوگا.اب غور کرنے والے حضرات سوچ لیں کہ کیا ایسا عقیدہ آپؐ کو خاتم النبیین بمعنی ابوالانبیاء (بنیوں کا باپ) قیامت تک کے لئے ثابت کرتا ہے یا یہ کہ آپ صرت عالم جسمانی میں ظہور تک خاتم النبیین بنتے ہیں ؟
14.ابوت معنوی مانع توریث نہیں! مولوی محمد در یں صاحب اپنی کتاب ختم النبوة میں سیاق آیت کے رُو ہے بحث کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمُ کہنے سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ شفقت پدری بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہیں رہی.اس شبہ کا ازالہ دا تعالیٰ نے رسول اللہ کے الفاظ سے کیا.کہ آپ چونکہ امت کے روحانی باپ ہیں.اسلئے یہ شبہ باطل ہے.مولوی صاحب کہتے ہیں روحانی باپ قرار دینے سے دوسرا وہم پیدا ہوتا تھا کہ اب آپ کا ورثہ پھلے گا.سو درشہ جاری ہونے کے وہم کا ازالہ خاتم النبیین کہہ کر کر دیا.مولوی صاحب موصوف کا یہ خیال سراسر اُن کی ایجاد ہے جس کا سیاق مضمون سے بھی کوئی تعلق نہیں.ان کا یہ بیان سیاق کلام، نصوص حدیثیہ اور اقوال بزرگان دین کے خلاف ہے کیونکہ اگر توریت کا وہم دور کرنا مقصود ہوتا تو پھر رسول الله اور خاتم النبیین کے درمیان ایک اور لیکن لایا جاتا.جب نہیں لایا گیا تو معطوف اور معطوف علیہ کی مناسبت چاہتی ہے کہ جس شبہ کا ازالہ رسُول اللہ کے الفاظ کر رہے ہیں اسی کا ازالہ خاتم النبیین کے الفاظ سے کرنا مقصود ہے.مولوی محمد شفیع صاحب شفقت پدری کے زوال کے شبہ کے ساتھ ابتر ہونے کا شہر بھی تسلیم کرتے ہیں.(ملاحظہ ہو ختم النبوة في القرآن ص ۳۲ ).یہ ایک حقیقت ہے کہ شفقت پدری کے زوال کا شبہ اس جگہ قطعاً پیدا نہیں ہوتا.صرف ابتر اور لاوارث ہونے کا شبہ پیدا ہونا تھا.کیونکہ زید آپ کے متبنی
141 تھے اور عرب میں متبی وارث ہوتا تھا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ابونت جسمانی کی نفی کر دی گئی تو یہ شبہ پیدا ہوا کہ آپ اب لاوارث رہیں گے.اس کے ازالہ کے لئے رسول اللہ اور خاتم النبیین کے الفاظ لائے گئے مگر مولوی محمد ادریس صاحب رَسُول اللہ کے الفاظ سے نیا شبہ یہ ایجاد کر رہے ہیں کہ اس سے وراثت کا شبہ ہوتا ہے.حالانکہ رسول اللہ کہ کر تو اس جگہ روحانی وراثت ثابت کرنا مقصود تھا.یشبہ پیدا ہونے کے کیا معنے ؟ شیہ ابتر اور لاوارث ہونے کا تھا.رسول اللہ کہ کر وراثتِ عامہ جاری ثابت کی گئی.اور خاتم النبین کہہ کر وراثت خاصہ یعنی نبوت میں بھی وراثت ثابت کی گئی.آخر حضرت عیسی علیہ السلام جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ لوگ آنا مانتے ہیں وہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے ساتھ ہی آئیں گے.تو پھر وراثت کیسے بند ہوگی ؟ جب اُن پر وحی کے ذریعہ شریعت محمدیہ کا نزول بھی مسلم ہے تو منصب نبوت کے ساتھ اُن کا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا وارث ہونا بھی مسلم ہوا : حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : يُلهم بِشَرْعِ مُحَمَّدٍ وَيَنْزِلُ وَلِيَّا ذَا نُبُوَّةِ مطلقة " (دیکھو الیواقیت والجواہر مصنفہ امام شعرانی جلد ۲ مثث ) و یعنی حضرت عیسی پر شریعت محمدیہ نازل ہوگی اور وہ نبوت مطلقہ کے ساتھ ولی ہو کر نازل ہوں گے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.الْعُلَمَاء وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاء 11
۱۶۲ یعنی علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی ورثہ تو جاری ہے.ہر روحانی عالم اپنے ظرف کے مطابق علوم روحانیہ اور کمالات محمدیہ میں آپ کا وارث ہوتا ہے.حضرت مجدد الف ثانی " فرماتے ہیں کہ کمالات نبوت کا حصول پیر دی اور وراثت کے طور پہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی خاتمیت کے منافی نہیں ہے.(مکتوبات جلد اول مکتوب ۳۵۱۷ ۴۳۳ ) امام راغب مفردات میں فرماتے ہیں :- يُسمى كُلُّ مَنْ كَانَ سَبَبًا فِي إِيجَادِ شَيْءٍ أَو إِصْلَاحِم او ظهور لا ابا وَلِذلِكَ سُمِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ أَبَا لِلْمُؤْمِنِينَ " یعنی ہر شخص جو کسی شئے کی ایجاد یا اصلاح یا ظہور کا سبب ہو وہ باپ کہلاتا ہے.اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو المؤمنین ہیں.اسی یعنی مومنوں کے موجد.اُن کے ظہور کا باعث اور مصلح ہونے کی وجہ سے اُن کے باپ ہیں.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ تو امت کے لئے بطور روحانی باپ ہونے کے مسلم ہے.مولوی محمد اور میں صاحب کے معنوی باپ مولوی محمد قاسم صاحب تو خاتم النبیین کے معنے ابو الانبیاء بیان فرماتے ہیں.مگر اُن کے یہ معنوی فرزند اُن کے اُلٹ راہ اختیار کر رہے ہیں.چونکہ خاتم النبین کہ کہ آپ کو ابو الانبیاء قرار دیا گیا ہے.اس لئے باپ کے معنے کے لحاظ سے آپ انبیاء کی ایجاد و ظہور کا بھی تا قیامت موجب ہوں گے.کیونکہ آپ قیامت کے دن بھی ضرور ابو الانبیاء
۱۶۳ " ہیں.چنانچہ ایک حدیث نبوی میں وارد ہے.کہ ایک نبی قیامت کے دن بھی مبعوث کیا جائے گا.جیسا کہ طریق الہجرتین لابن قیم میں باسناد صحیح ماہ میں لکھا ہے :- نَمِنْهَا مَا رَوَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ فِي مُسْتَدِ وَالْبَزَّارُ عن الأسود بن سَرِيعٍ اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعِراثَ قَالَ ارْبَعَة يَحْتَجونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلُ أَصَمُّ لَا يَسْمَهُ وَرَجُل هَرِه وَرَجُلٌ مَاتَ فِي الْفَتْرَةِ وَرَجُلٌ م اَحْمَنُ - اَمَّا الْاَصَمَ فَيَقُولُ رَبِّ لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَانَا مَا اسْمَعُ شَيْئًا وَأَمَّا الْأَحْمَقُ فَيَقُولُ رَبِّ لَقَدْ جَاء الإسلامُ وَالصَّبْيَانُ يَحْذِنُونِي بِالْبَحْرِ وَ اَمَّا الهَدِمُ فَيَقُولُ رَبِّ لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَ مَا اَعْقَلُ - وَأَمَّا الَّذِي فِي الْفَتْرَةِ فَيَقُولُ رَبِّ مَا أَتَانِي رَسُول فَيَأْخُذَ مَوَاشِيْقَهُمْ لَيَطِيعُنَّهُ فَيُرْسِلُ إِلَيْهِمْ رَسُولاً (ان) ادْخُلُوا النَّاسَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ دَخَلُوهَا لَكَانَتْ عَلَيْهِمْ بَرْدًا وَسَلَامًا - بروایت ابوهريره وَمَنْ دَخَلَهَا كَانَتْ عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلَا مَا وَمَنْ لَمْ يَدْخُلُهَا سُحِبَ إليها (مسند احمد حنبل و تغییر روح المعانی جلد) - ترجمه : ان روایات میں سے ایک روایت یہ ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند میں اور البزاز نے اسود بن سریع سے روایت کیا ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا.چار آدمی قیامت
۱۹۴ کے دن احتجاج کریں گے ایک بہرہ جو کچھ سنتا نہیں تھا.اور ایک بہت بوڑھا اور ایک احمق آدمی.اور ایک وہ جو فترہ کے زمانہ میں تھا.جبکہ کوئی نبی موجود نہ تھا، بہرہ کہے گا.اے رب ! اسلام آیا اور میں کچھ سنت نہ تھا.اور احمق کہے گا.اے رب ! السلام آیا تو بچے تجھے مینگنیاں مارتے تھے.اور بوڑھا کہے گا.اے رب ! اسلام آیا تو میں عقل نہیں رکھتا تھا.اور وہ جو فترہ کے زمانہ میں تھا کہے گا.اے رہتا ! میرے پاس کوئی رسول نہیں آیا.اس پر خدا تعالیٰ اُن سب سے عہد لے گا کہ وہ اس کی ضرور اطاعت کرینگے.پس اُن کی طرف ایک رسول مبعوث کرے گا کہ آگ میں داخل ہو جاؤ، پس مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر وہ اس میں داخل ہو جاتے تو وہ آگ اُن کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کا باعث ہوتی.بروایت ابوہریہ نجو اس میں داخل ہوگا اس کیلئے ٹھنڈک اور سلامتی ہوگی اور جو اس میں داخل نہ ہو گا اس کو اس کی طرف گھسیٹا جا تھا.اس حدیث میں خاتم النبی صلی الہ علیہ سلم کے ظہور کے بعد قیامت کے دن ایک رسول کے مبعوث کیا جانے کی خبر دی گئی ہے.اگر خاتم النبیین کے معنے محض آخری نبی درست ہوتے تو پھر قیامت کے دن بھی آپ کے ظہور کے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہو سکتا.پس خاتم النبیین کے معنے محض آخری نبی اس حدیث کی روشنی میں درست نہیں کیونکہ آخری نبی کے بعد کسی فرد کا انبیاء کے گروہ مں اضافہ نہیں ہوسکتا.پس خاتم النبیین کے معنے نبوت میں موثر وجود کے ہیں.نہ کہ محض آخری نبی.
۱۹۵ انی سلام احمدیہ کے نزدیک ختم النبین کے حقیقی منی خاتم النبیین کا لقب جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید من ملقب کئے گئے ہیں تمام انبیاء پر آپ کی امتیازی کشان اور شرف کو ظاہر کرتا ہے.یہ لقب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن تمام کمالات اور محاسن کا مظہر ہے جو آپ کی ذات با برکات میں جمع ہیں.جس طرح عام مخلوقات میں سے انسان اشرف ہے.اسی طرح انسانوں میں سے انبیاء کرام افضل و اشرف ہوتے ہیں.پھر انبیاء میں سے سید الاصفیاء والاتقیاء سیدنا ومولنا نخرد سیر دو عالم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اشرف ہیں.خاتم النبیین کے لقب گے ذریعہ ہی آپ کا افضل النبیین اور اشرف الانبیاء ہونا بیان کیا گیا ہے.مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :- ر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام مراتب کمالی اُسی طرح ختم ہو گئے.جیسے بادشاہ پر مراتب حکومت ختم ہو جاتے ہیں.اسلئے بادشاہ کو خاتم الحکام کہ سکتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الکاملین اور خاتم النبین کہہ سکتے ہیں " گویا جس طرح آپ خاتم الکاملین ہیں ویسے ہی خاتم النبيين - اگر خاتم الکاملین کے بعد کامل پیدا ہو سکتے ہیں تو خاتم النبیین کے بعد نبی بھی پیدا ہو سکتے ہیں.ہاں خاتم الکاملین اور خاتم النبیین کے فیض کے واسطہ سے پیدا ہو سکتے ہیں.اس کے بغیر نہیں.
پھر فرماتے ہیں :.حسب مشال خاتمیت بادشاہ خاتم وہی ہوگا جو سارے جہان کا سردار ہو.اس وجہ سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے افضل سمجھتے ہیں " د حجة الاسلام مصنفہ مولوی محمد قاسم صاحب صفحه ۳۴- ۳۵) پس خاتم النبیین کے معنے افضل النبیین بھی ہوئے.جو پتی کیسی گروہ کی حقیقت خاتم ہو اس کے لئے واجب ہے کہ وہ اس گروہ کے کمال کو اپنی ذات میں انتہائی نقطہ پر حاصل کرے.پس خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ضروری تھا کہ النبیین کا وصف جو نبوت ہے وہ آپ میں انتہائی کمال پر پہنچا ہوا ہو.اور نبوت کے مراتب میں سے جو انتہائی مرتبہ اس دنیا میں کسی انسان کے لئے ممکن ہو سکتا ہے وہ آپ کو حاصل ہو.اور دوسرے انبیاء میں سے کوئی اس انتہائی نقطہ پہ نہ پہنچا ہو.اور نہ عملاً اس نقطہ پر پہنچنا کسی کے لئے ممکن ہو..پس خاتم النبیین کے لئے ضروری ہے کہ نبوت کی حقیقت دما بیت کو انتہائی کمال تک پہنچا دے.اس لئے خاتم النبیین کے لئے خاتم النبوۃ ہونا از بس ضروری ہے.ورنہ اگر اس کے معنے محض آخری نبی ہوں تو خاتم النبیین کا خطاب ایک معمولی خطاب بن جاتا ہے.کیونکہ محض آخری ہونا کیسی ذاتی کمال کا مشعر نہیں.اسی لئے مولوی محمد قاسم صاحب فرماتے ہیں کہ تقدم و تأخیر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں " تحذیر الناس مست
146 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علی السلام اس حقیقت کے پیش نظر خاتم انبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبوۃ ہونے یا بالفاظ دیگر آپ کی ختم نبوت (مہر نبوت) کی حقیقت یوں بیان فرماتے ہیں :." وَلَا مَعْنى لِخَتَمِ النُّبُوَّةِ عَلَى فَرْدٍ مِنْ غَيْرِ أَنْ تَخْتَتِم كمالات النُّبُوَّةِ عَلَى ذلِكَ الْفَوْدِ وَمِنَ الكَمَالَاتِ العظمِي كَمَالُ النَّبِيِّ فِي الإِفَاضَةِ وَهُوَ لَا يَثْبُتُ مِنْ غَيْرِ نَمُوذَج يُوجَدُ فِي الأُمَّةِ " ر الاستفتاء ضمیمہ حقیقة الوحی ص ) یعنی کیسی فرد پر ختم نبوت کے معنے بجز اس کے کچھ نہیں کہ اس فرد پر کمالات نبوت ختم ہو جائیں.یعنی انتہائی کمال کو پہنچ جائیں.اور نبوت کے بڑے کمالات میں سے نبی کا انامہ میں کمال ہے.جو بغیر اس کے ثابت نہیں ہو سکتا کہ اس رافاضہ کمال کا نمونہ امت کے اندر پایا جائے.گویا کسی نبی میں کمالات کا بدرجہ اتم موجود ہونا اس بات کو چاہتا ہے کہ وہ اپنے افاقہ میں بھی انتہائی کمال رکھتا ہو.جتنا کسی میں کمال اعلی ہو گا اتنا ہی اس کے افاضہ سے وجود میں آنے والا نمونہ اعلیٰ ہوگا.پہلے انبیاء چونکہ صرف خاتم الاولیاء تھے اس لئے اُن کے افاضہ سے صرف ولی پیدا ہو سکتے تھے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم الانبیاء ہیں اس لئے آپ کے افاضہ روھانیہ سے آپ کا کامل آنتی مقام نبوت بھی پا سکتا ہے.پس خاتم النبوة
۱۶۸ کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ اس کے افاضہ سے نبی پیدا ہو سکیں.اور یہی خاتم النبیین کا مفہوم ہے.اسی طبعی نتیجہ کی وضاحت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے یوں فرمائی ہے.اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ ولم کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی.جو کسی اور نبی کو ہرگزہ.نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین ٹھہرا.یعنی الا آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے.اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے.اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی ؟" (حقیقة الوحی حاشیه منه ) بانی سلسله احمد به علی اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خاتمیت رتی کے ساتھ آپ کی خاتمیت زمانی کے بھی قائل ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- د ختم نبوت آپ پہ نہ صرف زمانہ کے تاخیر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پرختم ہو گئے " الی کیر سیالکوٹ می) گویا آپ کے نزدیک ان معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور نبی آخر الزمان بھی ہیں کہ آپ آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں.اور اب قیامت تک در حقیقت آپ ہی کی نبوت کا زمانہ ہے.اتنی نبی اگر آپ کے نبض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا از روے حدیث ایک نام صاحب خاتم ہے ازرقانی شرح المواہب اللدنیہ جلد۳ (۳۵) خاتم النبیین کی دوسری قرأت خاتم النبیین کے لحاظ سے بھی آپ صاحب خاتم ہی ہیں.یعنی نبیوں میں سے مہر والا نبی.
149 سے مقام نبوت پاتا ہے تو وہ آپ کے زمانہ کوختم نہیں کرتا، کیونکہ اس کی نبوت مستقل حیثیت نہیں رکھتی مستقل اور شارع نبی کی حیثیت قیامت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل رہے گی.ان تینوں عبارتوں میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے ختم نبوت کے حقیقی معانی کے متعلق اپنا نظریہ بیان فرما دیا ہے.اور اس کے ایک لازمی معنے خاتمیت زمانی کا بھی ذکر فرما دیا ہے.اب میں خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے اس نظریہ کی تائید اول لغت عربی سے پیش کرتا ہوں اور پھر دکھاتا ہوں کہ خاتم النبیین کے حقیقی لغوی معنی کے ساتھ کون کون سے معانی بطور لازمی معنوں کے جمع ہو کر خاتم النبیین کی حقیقت شرعیہ بتاتے ہیں.W خاتم النبیین کے حقیقی لغوی معنی اور اس کے مجازی معانی جب ہم خاتم النبیین کے لقب کی لغوی تحقیق کرتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ لفظ خاتم کا مادہ اور مصدر عربی زبان میں لفظ ختم ہے.مفردات راغب جو قرآن مجید کی لعنت کی ایک بیگانہ اور مستند کتاب ہے.اس کے متعلق مولوی محمد شفیع صاحب سابق مفتی دارالعلوم دیوبند اپنی کتاب ختم النبوة في القرآن میں رقمطراز ہیں کہ یہ کتاب امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ کی وہ عجیب تصنیف ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتی.خاص قرآن مجید کی لغات کو عجیب انداز سے بیان فرمایا ہے.شیخ جلال الدین سیوطی نے "اتقان میں
فرمایا ہے کہ لغات قرآن میں اس سے بہتر کتاب آج تک تصنیف نہیں ہوتی.اس بے نظیر اور یگانہ کتاب میں امام راض علیہ الرحمہ لفظ ختم کے معنے یوں لکھتے ہیں :.الخَتُمُ وَالطَّيْمُ يُقَالُ عَلَى وَجْهَيْنِ مَصْدَرُ خَتَمَمْتُ وَطَبَعتُ وَهُوَ تَأْثِيرُ اللَّيْ كَنَقْشِ الْخَاتَمِ وَالطَّائِحِ وَالثَّانِي الْاثُرُ الْحَاصِلُ مِنَ النَّقْشِ وَيُتَجَونُ بِذلِكَ تَارَةً فِي الْإِسْتِيثَاقِ مِنَ الشَّيْء وَ الْمَنْعِ مِنْهُ اِعْتِبَارًا بِمَا يَحْصُلُ مِنَ الْمَنْعِ بِالْغَيم على الكتب وَالْأَبْوَابِ تَخَوخَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَتَارَةً فِي تَحْصِيلِ اَشَرِ عَنْ شَيْءٍ اِعْتِبَارًا بِالنَّقْشِ الْحَاصِلِ وَتَارَةً يُعتبر مِنْهُ بُلُوغ الآخِرِ مِنْهُ قِيلَ خَتَمْتُ الْقُرْآنَ أي انْتَهَيْتُ إلى أخره ، ) مفردات راغب زیر لفظ ختم ) ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ختم اور طبع کی دو صورتیں ہیں.پہلی صورت یہ ہے (جو حقیقی معنوں کی صورت ہے) کہ ان دونوں لفظوں کے معنے تاثیر الشی ددوسری شئے میں اپنے اثرات پیدا کرتا ہیں.جیسا کہ خاتم (مہر) کا نقش (دوسری نشے میں اپنے نقش اور اثرات پیدا کرتا ہے ) اور دوسری
161 صورت ارجو مجاز کی معنی ہیں اور پہلی صورت کی قبلی صورت ہے ) اس نقش کی تاثیر کا اثر حاصل ہے.اور یہ لفظ مجازا کبھی تو خَم عَلَى الْكُتُبِ وَالْاَبْوَابِ کتابوں اور بابوں پر مہر لگتے کے لحاظ سے شئی کی بندش اور روک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.جیسے خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَخَتَمَ عَلَى سمعه وقلبه دیں اس کا استعمال مجازی معنوں میں ہوا ہے اور کبھی اس کے مجازی معنے نقش حاصل کے لحاظ سے کسی شئے کا دوسری شے سے تحصیل اللہ ہوتے ہیں.اور کبھی اس کے مجازی معنے آخر کو پہنچنا ہوتے ہیں.اور انہی معنوں میں ختمت القران کہا گیا ہے کہ میں (تلاوت قرآن ہیں، اس کے آخر تک پہنچ گیا.(یعنی میں نے قرآن مجید ختم کرلیا ) مفردات کے بیان کا ماحصل مفردات راغب کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ ختم اور طبع بلحاظ لعنت عربی ہم معنے مصدر ہیں.اور دونوں کے حقیقی معنے شہر کے نقشش کی تاثیر کی طرح تاثیر الٹتی ہیں.یعنی ایک شئی کا اپنے اثرات دوسری شئی میں پیدا کرنا.اور مہر کے نقوش کی تاثیر ختم کی تاثیر کی ایک مثال ہے.پس مہر کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ وہ نقوش جو اس کے اندر موجود ہیں.وہی نقوش دوسری شئی میں پیدا کر تی ہے.اس کے ه ان معنوں کے مجازی ہونے پر يَتَجَوزُ بِذَلِكَ تارة کا فقرہ گواہ ہے.اسی کے ذیل میں تَارَةً فِي تَحْصِيلِ أَشْرِ عَنْ شَيْءٍ اعْتِبَارًا بِالنَّقْشِ الْحَاصِل کے الفاظ لائے گئے ہیں.پس یہ دوسری صورت یعنی نقش حاصل بھی مجازی معنی ہیں نہ حقیقی معنی !
۱۷۲ علاوہ ختم مصدر اور اس کے مشتقات کے جتنے اور معنے ہیں وہ سب مجازی ہیں.ایک مجازی معنے بند کرنا اور روکنا ہی.دوسرے مجازی معنی کسی شئی کی تاثیر کا اثر حاصل ہیں.تیسرے مجازی معنے آخر کو پہنچنا ہیں.خَتَمْتُ الْقُران کے معنے میں نے قرآن مجید کو پڑھ کر ختم کر لیا.آخر کو پہنچنے کے لحاظ سے تیرے مجازی معنے ہیں.پنجابی اردو اور فارسی زبان میں لفظ ختم ، ختم کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.ان زبانوں میں یہ معنے عربی لفظ ختم کے مجازی معنوں سے منقول ہوتے ہیں.اور اس طرح حقیقت کا رنگ پکڑے گئے ہیں.اس لئے ہمارے سامنے جب ختم کا لفظ گو عربی زبان میں آئے تو سب سے پہلے ہم اُسے اپنی زبان کے معنے ہی دینا چاہتے ہیں.اور یہ نہیں دیکھتے کہ عربی کے لحاظ سے تو یہ معنے مجازی ہیں نہ کہ حقیقی."خاتم " کے معنی اُردو و فارسی میں " مہر " قرآن مجید میں جہاں کہیں ختم مصدر کے مشتقات استعمال ہوئے ہیں اُردو اور فارسی زبان میں اُن کا ترجمہ " مہر" کے لفظ سے ہی کیا جاتا ہے.خواہ وہ لفظ مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہو یا حقیقی معنوں ہیں.چنانچہ ختم الله على قلوبھم کا ترجمہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں پر مہر لگادی" کیا جاتا ہے.گو اس جگہ مفردات راغب کے بیان کے مطابق مجازی معنے ہی مراد ہیں.
16F تغییر بیضاوی کے حاشیہ پر بھی اس آیت کے متعلق لکھا ہے :- إطلاق الْخَيْرِ عَلَى الْبُلُوغِ وَ الْإِسْتِيثَاقِ معنى مَجازي کہ لفظ ختم کا بلوغ الآخر (آخری) اور بند کرنے کے معنوں میں استعمال مجازی معنے کے لحاظ سے ہے.شرح تعرف جس کے بارہ میں صاحب کشف الظنون فرماتے ہیں کہ اگر یہ کتاب نہ ہوتی تو لوگ تصوف کو نہ سمجھ سکتے.اس میں خاتم النبیین کے منے پیغمبروں کی مہر ہی کئے گئے ہیں.چنانچہ لکھا ہے :." اگر خاتم را نصب خوانی شهر پیغمبران باشد و آخر پیغمبران.وچوں خاتم یکسر خوانی شهر کننده و آخر کننده ) اس سے صاف ظاہر ہے کہ اردو اور فارسی زبانوں میں خاتم کے معنے مہر ہی کئے جاتے ہیں.گو آگے مجازا اس سے دوسرے معنی مراد لیں.لیکن اگر حقیقی معنی محال نہ ہوں تو مجازی معنے مُراد لینا درست نہیں ہوتا.خاتم کے حقیقی معنی محال ہونے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ یہ حقیقی معنی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت تامہ اور اشرف الانبیاء ہونے پر دال ہیں.اور مجازی معنے آخری نبی " کسی ذاتی فضیلت پر دال نہیں..خاتم یا مہر کی اقسام خاتم النبیین کے معنے نبیوں کی شہر سے یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہیئے
۱۷۴ معین کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مادی نہر کے ساتھ تشبیہہ دے کہ آپ کو نبیوں کی شہر قرار دے رہے ہیں.اس صورت میں تو ان معنوں کے مجازی ہونے کا احتمال پیدا ہو جاتا ہے.پس خاتم کے معنے جو ہر کئے جاتے ہیں تو اس لئے کئے جاتے ہیں کہ ہماری اردو زبان میں خاتم کے لغوی معنوں کے لئے کوئی ایک لفظ جامع مہر کے سوا موضوع نہیں.آپ یوں سمجھیں کہ خاتم ایک جنس ہے.جس کی چند انواع ہیں.چنانچہ ایک نوع خاتم یا مہر کی مادی خاتم یا مہر ہے.اور دوسری نوع معنوی خاتم یا مہر ہے.پھر معنوی خاتم یا مہر کی آگے چند قسمیں ہیں.ایک قسم اس کی روحانی خاتم یا مہر ہے خاتم النبیین اور خاتم الاولیاء اسی کے افراد ہیں.دوسری قسم علمی مہر ہے.خاتم المحدثین ، خاتم المفسرین ، خاتم الفقہاء اور خاتم الا اور خاتم الشعراء وغیرہ اس کی اصناف ہیں.یہ سب خاتم کی انواع و اقسام جب دوسری شئی پر تاثیر کے معنے دیں تو حقیقی معنوں میں استعمال ہوں گی.اور اگر ان معنوں کے علاوہ کوئی اور معنے دیں تو یہ معنے مجازی ہوں گے.یہ وضاحت اس لئے مضروری ہے کہ بعض علماء کو یہ غلط نہیں ہوتی ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے مادی مہر کے ساتھ تشبیہہ دے کر خاتم النبیین کے معنے نبیوں کی شہر مراد لئے ہیں.ہاں مضمون کو ذہن سے قریب کرنے کے اگر.لئے اگر کوئی شخص رومانی خاتم کو مادی خاتم سے تشبیہ دے کر بھی روحانی خاتم کا مضمون سمجھاتے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ روحانی خانم اب مجازی خاتم بن گئی ہے.کیونکہ روحانی خاتم کے منشی معنی بھی موثر روانی
۱۷۵ رجب.وجود ہیں.جیسے مادی خاتم کے حقیقی معنے موثر وجود ہیں.اگر ان دونوں قسم کی خاتموں کی اعراض ملتی جلتی ہوں تو اُن اغراض کو سمجھانے کے لئے ایک حقیقی خانم کو دوسری حقیقی خاتم سے تشبیہ سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ پہلی خاتم جو مشبہ ہے وہ اب حقیقی نہیں مجازی خاتم بن گئی ہے.چنانچہ ختم مصدر کے حقیقی معنی تاثیر الشی بیان کرنے کے بعد خود صاحب مفردات نے كنقش الخاتم کہ کر ختم کے معنوں کے مضمون کو ذہنوں سے قریب کرنے کے لئے ہی مثال دی ہے کہ ختم کی یوں تاثیر ہوتی ہے جیسے مہر اپنے نقوش دوسری چیز پر پیدا کرتی ہے.پس اس مثال سے ختم کے حقیقی معنوں کی تمثیل کے ذریعہ وضاحت مقصود ہے نہ کچھ اور.ورنہ ختم مصدر کے معنے تَأْشِيرُ الشَّيْء اس تمثیل سے حقیقی سے مجازی نہیں ہو جاتے.: ایک عالم کو جب دوسرے عالم سے تشبیہہ دیں اور دونوں حقیقی عالم ہوں تو مشتبہ عالم اس تشبیہہ سے مجازی عالم نہیں بن جاتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں موسی علیہ السلام سے رسول ہونے میں تشبیہ دی گئی ہے تو کیا اس سے یہ لازم آجاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں مجازی رسول ہیں ؟ معاذ اللہ یہ خیال صریح باطل ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور موسی علیہ السلام دونوں حقیقی رسول ہیں.رسان العرب اور خاتم ! لسان العرب جو گفت کی معتبر کتاب ہے اس میں خاتم کے متعلق لکھتے ہیں:.
164 تُفْتَحُ تَارَةً وَتُكْسَرُ يُغَتَانِ کہ خاتم کی تار کی زیر اور زیر سے دو لفتیں ہیں.پھر لکھتے ہیں :- وَالْخَلَمُ وَالْخَاتِمُ وَالْخَاتَمُ وَالْخَاتَامُ وَالْخَيْتَامُ مِنَ الْعُلي كانه أَوَّلَ وَهُلَةٍ خُتِمَ بِهِ فَدَخَلَ فِي بَابِ طَابِعِ ثُمَّ كَثرَ اسْتِعْمَالُهُ لِذلِكَ » کہ یہ سب الفاظ ایک زیور ( انگشتری ) کے لئے استعمال ہوتے ہیں.گویا پہلی دفعہ اس زیور کے ذریعہ مہر لگائی گئی.اس لئے یہ طابع کے باب میں داخل ہو گیا.اور طابع کے معنوں میں کثرت سے استعمال ہونے لگا.اس سے ظاہر ہے کہ مادی مہر در اصل تو نگینہ کے نقوش ہیں اور ختم ان کا فعل تھا.لیکن خیال کیا گیا ہ گویا وہ نگینہ جس کے نقوش کے ذریعہ پہلی دفعہ مہر لگائی گئی وہ انگشتری میں جڑا ہوا تھا.اس لئے انگشتری بھی اُس کی مجاورت (یعنی ساتھ ہونے) کی وجہ سے بطور مجانی مرسل ختم یا خاتم یا خاتم وغیرہ کہلانے لگ گئی.اس سارے بیان سے امام راغب کے اس بیان کی تائید ہوتی ہے کہ ختم کے اصلی اور حقیقی معنے تاثیر الٹی ہیں جیسے کہ نگینہ کے نقوش آ کے نقوش پیدا کرتے ہیں.خَاتَم اور خاتم کی بناوٹ میں فرق ! خاشعر تار کی زیر کے ساتھ ختم مصدر سے ہم آلہ معنی بنا ختم کیا ہے.تار زیر سے ہم کی شان خاتم السلام ))
166 یعنی آلہ جس سے مہر لگائی جائے جیسے عالم علم سے اسم آلہ بمعنی لِمَا يُعْلَمُ پہلے ہے.یعنی ایسی اشیاء ہو خدا کی معرفت کا ذریعہ ہیں کیونکہ دنیا کی ہر چیز معرفت الہی کا ذریعہ ہے.اسی لئے وہ عالم میں داخل ہے.خاتم تار کی زیر سے اہم فاعل ہے.خاتم آلہ کے معنے تاثیر کا ذریعہ ہیں تو خاتم اسم فاعل کے معنے اپنا اثر دوسری نشئی میں پیدا کرنے والا وہ حسب خاتم یعنی بدرجہ کمال موثره کیفیت رکھنے والا ہیں اس خاتم اور خاتم میں صرف بناوٹ کے لحاظ سے فرق ہے مفہوم میں نتیجہ کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں.دونوں کا مفہوم یہی ہے کہ خاتم اور خاتم دُوسری نئی میں موثر وجود کا نام ہے.خَاتَمَ النَّبِيِّن کے حقیقی معنے ! ختم مصدر کے حقیقی معنے تو آپ علوم کر چکے اوریہ بھی معلوم کر چکے ہیں کہ خاتم اور خاتم دو نو لفظ اسی سے مشتق ہیں.اب یہ دیکھنا ہے کہ جب خاتم یا خاتم کسی گروہ یا جمع کے صیغے کی طرف مضاف ہو تو اس کے حقیقی معنے کیا ہوں گے.سو واضح ہو کہ لفظ خاتم جب جمع کی طرف مضاف ہو جیسے خاتم الاولیاء تو جڑھ کے طور پر اس خطاب کے حامل ہیں یہ بات پائی جانی چاہئیے کہ وہ اس گروہ کے کمال کے انتہائی نقطہ پر پہنچا ہوا ہو.گویا خاتم الاولیاء کو خاتم الولایہ بھی ہونا چاہئیے.جب اس میں یہ جڑھ والے معنے پیدا ہوں گے تو پھر طبیعی طور پر دوسرے میں تاثیر کا ذریعہ بنے گا.مثلا خاتم الاولیاء وہی ہو گائیں کی تاثیر یعنی افاضہ رُوحانیہ سے ولی پیدا ہو سکیں.
16^ اسی طرح خاتم النبیین کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ خاتم النبوة ہو یعنی نبوت کا رصف جو پہلے انبیاء کو حاصل تھا خاتم النبیین میں اپنے انتہائی کمال پر پہنچا ہوا ہو.اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف تمام انبیاء کے کمالات کے جامع ہوں بلکہ وصف نبوت میں ان سب کے مجموعی وصف سے بھی بڑھے ہوئے ہوں.علامہ ابن خلدون اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں :.يُمَتِّلُونَ الوَلَايَةَ فِي تَفَاوُتِ مَرَاتِبِهَا بِالنُّبُوَّةِ وَيَجْعَلُونَ صَاحِبَ الْكَمَالِ فِيْهَا خَاتَمَ الْوَلَايَةِ.رَى حَائِنَا لِلْمَرْتَبَةِ الَّتِي هِيَ خَاتِمَةُ الْوَلَايَةِ كَمَا كَانَ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ حَائِنَّا لِلْمَرْتَبَةِ الَّتِي هِيَ خَاتِمَة النُّبُوَّة ر مقدمه وص یعنی صوفیاء ولایت کی مثال نبوت سے دیتے ہیں.اور ولایت میں جامع کمالات کو خاتم الولا یہ کہتے ہیں.جیسے خاتم الانبیاء نبوت کے کمال اور مرتبہ کے پورے طور پر جامع ہیں.اس طرح خاتم النبوۃ ہونے کے بعد اب خاتم النبیین صلی الہ علیہ ولم کی تاثیر یہ ہوگی کہ وہ اپنے افاضہ رومانیہ سے دوسرے شخص کو کمال نبوت پر پہنچا سکیں گے.کیونکہ جامعیت کمالات نبوت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ خاتم النبیین اپنی تاثیر سے دوسرے شخص میں کمالات نبوت منتقش یا منعکس کر سکنے کا ذریعہ ہو جس طرح مادی مہر اپنے نقوش دوسری شنی میں منتقش یا منعکس کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے.خاتم النبیین کے خاتم النبوۃ ہونے کی حقیقت کے پیش نظر
169 ہی بانی سلسلہ احمدیہ نے الاستفتاء ما کی عبارت میں ختم نبوت کے معنے جامعیت کمالات بیان فرما کر ان کا طبعی تقاضا اخاصہ بیان فرمایا ہے اور خاتم النبیین کی تاثیر والی حیثیت کو مد نظر رکھ کہ جو خاتم النبیین کے حقیقی معنے ہیں حقیقۃ الوحی میں لکھا ہے کہ :.آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے.اور آپ کی توجیہ روحانی نبی تراش ہے.اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی یا (حقیقة الوحی حاشیه ها ) ( خاتم النبیین کے معنے محض آخری نبی مراد لینا بالذات کسی فضیلت کو نہیں چاہتا یہ یہ بات مواد محمد شفیع صاحب دیو بندی کو ختم القوة في القرآن شاه میں مسلم ہے.اور مولوی محمدادریس صاحب کو اپنی کتاب مسك الختام في ختم النبوة اتا ہ میں مسلم ہے.یہی بات مولوی محمد قاسم صاحب نے تحذیر الناس ما پر لکھی ہے کہ خاتم النبیین کے معنے آخری نبیجو عوام الناس کے معنے ہیں، یہ بالذات کسی فضیلت پر دال نہیں.اسی لئے انہوں نے خاتم النبیین کے مرتبی معنے یہ بیان فرماتے ہیں : جیسے خاتم بفتح تار کا اثر او فصل مختوم علیہ پر ہوتا ہے ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوگا یا تحذیر الناس من ) تد گویا خاتم کے معنے تاثیر ہی سلیم کئے ہیں.اور اس تاثیر کو یوں قرار دیا ہے کہ تمام انبیاء نے آپ کے نبض اور اثر سے مقام نبوت حاصل کیا ہے.ہاں ان
۱۰ حقیقی معنی کے ساتھ آخری نبی کے معنے بطور لازم معنی جمع ہو سکتے ہیں.یعنی بمعنی آخری شارع اور آخری مستقل بنی.انہی معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی کے قائل ہیں.اور انہی معنوں میں حضرت امام علی القاری اور حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی اور حضرت محی الدین ابنِ عربی وغیرہ بزرگان دین جن کی عبارات قبل ازیں پیش کر چکا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ابو بکر اَفْضَلُ هذه الأمَّة إِلَّا أَنْ تَكُونَ نَبِي - توپھر آپ کو مطلق آخری نبی یا محض آخری نبی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے.کیونکہ اس حدیث میں آپ نے اپنی اقت میں نبی کی آمد کا امکان تسلیم فرمایا ہے.شارع اور متنقل نبی کا نہ آسکتا تو دونوں فریق کو مسلم ہے لہذا اب الا کے استثناء سے ستلمنی کی خود تعیین ہو جاتی ہے کہ اس سے مراد غیر ست نقل یا امتی نبی ہے.لغات عربی اور آخری نبی کے معنے! عرب کی گفت کی کتابوں میں خاتم النبیین کے معنے آخرالانبیاء لکھے گئے ہیں.صاحب مفردات کے بیان سے آپ معلوم کر چکے ہیں کہ ختم کے معنی بند کرنا یا آخری ہو تا یا ختم کرنا یا اثر حاصل چاروں مجازی معنے ہیں.آخر الانبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجازی معنوں میں نہیں بلکہ حقیقی معنوں کے لازم معنوں کے طور پہ آخری نبی ہیں.یعنی آخری شارع اور آخری مستقل بنی.کیونکہ یہی معنی حقیقی معنوں کے ساتھ جمع ہو سکتے ہیں.محض آخری نبی چونکہ مجازی معنے ہیں ان کاحقیقی
IAI معنوں کے ساتھ جمع ہونا محال ہے.اہل گفت نے آخر الانبیاء کے معنے گفت کی کتابوں میں اپنے عقیدہ کے طور پر لکھے ہیں.کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تئیں آخر الانبیاء بھی قرار دیا ہے.مگر آپ نے اس کے ساتھ ہی یہ بی فرما دیا تھا وہ ان مسجدتی أخرُ المَسَاجِدِ صحيح مسلم باب فضل الصلوة في مسجد مكة والمدينة ) كه میری مسجد مسجدوں میں سے آخری ہے.یہ نقرہ آپ نے اس لئے زائد کیا تھا کہ آخر الانبیاء کے لازمی معنے ہونے پر روشنی پڑے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ میرے بعد کوئی شارع اور تنقل بنی نہیں آسکتا.بلکہ تابع نبی آسکتا ہے.جیسے کہ میری مسجد کے بعد اُن مساجد کا بنانا جائز ہے جو میری مسجد کے جو آخری مسجد ہے تابع ہوں.اور اُن کا وہی قبلہ ہو جو اس مسجد کا قبلہ ہے.اور ان میں وہی عبادات ہوں جو اس مسجد میں ادا کی جاتی ہیں.کیونکہ اس صورت میں وہ مساجد میری مسجد کے حکم میں ہوں گی اور میری آخری مسجد کا ظل ہوں گی.اسی طرح میں آخری نبی ہوں.میری شریعیت کے تابع میرا ایک کامل پیر و میری عقلیت میں مقام نبوت پا سکتا ہے.جس طرح تابع مساجدہ کا بننا مسجد نبوی آگے آخری مسجد ہونے کے منافی نہیں ویسے ہی امتی نی یا ظلی نبی کا آنا میرے آخری بنی ہونے کے منافی نہیں - نعت نویسوں نے جب حدیثوں میں آخر الانبیاء کے الفاظ دیکھے تو انہوں نے خاتم النبیین کے معنوں میں اپنی کتابوں میں آخر الانبیاء کے الفاظ لکھ دیئے اور عموماً یہ تصریح بھی نہ کی کہ یہ معنی مجازی ہیں یا لازمی یا حقیقی.حقیقی معنی تو انہیں قرار دے ہی نہیں سکتے تھے جیسا کہ آپ مفردات راغب کے بیان سے
دیکھ چکے ہیں.مگر انہوں نے آخر الانبیاء کے لازمی یا مجازی معنے ہونے کی طرف بھی اشارہ نہیں کیا.لہذا خاتم النبیین کے معنے آخرہ الانبیاء لغت میں لکھے ہوئے دیکھے یہ یہ حکم ہرگز نہیں لگایا جاسکتا کہ یہ خاتم النبیین کے بلحاظ لغت عربی حقیقی معنی ہیں.حقیقی معنی بلحاظ گفت وہی ہیں جو یہیں بیان کر چکا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اثر اور فیض سے نبوت کے مقام پر پہنچانے کا ذریعہ ہیں.ان معنوں کے نتیجہ میں آپ کا ایک کامل امتی اور پیرو آپ کی عقلیت میں مقام نبوت پاسکتا اور یہ شرف کسی اور نبی کو حاصل نہیں کہ اس کی تاثیر اور افاضہ سے کوئی شخص مقام نبوت پاسکے.گفت کی کتابوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صرف حقیقی معنے ہی بیان کریں بلکہ گفت نویں اکثر مجازی معنے بھی بغیر اس تصریح کے درج کر دیتے ہیں کہ یہ مجازی معنے ہیں یا قیقی.بعض لفت نویسیوں نے خاتم النبیین کے معنی بنانے کے لئے خاتم القوم کا محاورہ بھی آخر القوم کے معنوں میں درج کیا ہے.حالانکہ اس محاورہ کا استعمال اہل عرب میں ان معنوں میں نہیں ملتا.لیکن بالفرض اگر استعمال ہو بھی تو بہر حال یہ مجازی استعمال ہوگا.جیسا کہ مفردات راغب سے ظاہر ہے کہ خاتم کے معنے " آخری " مجازی معنی ہیں.خداوند علیم و آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی معنوں میں خاتم النبیین قرار دیا ہے نہ کہ مجازی معنوں ہیں.خاتم النبیین کے حقیقی معنی اگر محض آخری نبی یا مطلق آخری نبی قرار دیئے جائیں تو پھر افضلیت کے معنی مراد نہیں ہو سکتے.کیونکہ محض آخری کے مقابلہ میں یہ معنی مجازی ہیں.اس لئے یہ محض آخری کے ساتھ جمع
١٨٣ نہیں ہو سکتے.اور خاتم النبیین کا لقب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ا النبیین ہونے پر دال غیراحمدی علماء کا نام نہیں بے معنی فضل الہی سے انکار وغیرہ قرار دیا گیا ہے.جس سے یہ مراد ہے کہ یہ بزرگ محدثیت تغیر دانی یا ولایت وغیرہ کے مرتبہ میں اکمل فرد ہیں.اور ان کی شاگہ دی اور پیروی میں انسان محدث مغتر اور دلی بن سکتا ہے.اس لحاظ سے خاتم المحدثین.خاتم المفسرین یا خاتم الاولیاء کے معنے اپنے اپنے زمانہ کے لحاظ سے افضل المحدثين بفضل المفترین یا افضل الاولیاء وغیرہ قرار پاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خاتم النبیین اسی لئے قرار دیا ہے کہ آپ تمام انبیاء کے کمالات کے جامع اور تمام انبیاء میں سے اکمل فرد ہیں.یعنی نبوت میں انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے ہیں.اور چونکہ آپ کا زمانہ قیامت تک ہے.اس لئے آئندہ کمالات نبوت و مقام نبوت صرف آپ کی پیروی اور فیض سے ہی مل سکتا ہے.لہذا خاتم النبیین کے ایک معنے یہ ہیں کہ آپ ہمیشہ ہمیش کے لئے فضل النبیین ہیں کیونکہ آپ نبوت میں انتہائی کمال پر پہنچے ہوئے ہیں.مولوی محمد شفیع صاحب دیوبندی کو اپنی کتاب ختم النبوة في القرآن الشاه میں اور مولوی محمد ادریس صاحب کاندھلوی کو اپنی کتاب ختم النبوۃ کے صفحہ ۴۰ تا ۵۰ میں خاتم النبیین کے معنے افضل النبیین سے انکار ہے.ان دونوں
۱۸۴ کے نزدیک خاتم النبیین کے تحقیقی معنے صرف آخری نبی ہیں اور افضل النبیین یا کوئی اگر معنی مجازی ہیں.یہ دونوں معنے ایک ذات میں جمع نہیں ہو سکتے.چنانچہ یہ دونوں صاحب لکھتے ہیں :- خدا کے کلام کو کسی شاعرانہ مبالغہ یا مجاز پر مشمول قرار نہیں دیا جا سکتا.بلا ضرورت حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کو اختیار کرنا با جماع اصول تربیت نا جائز ہے ؟ مولوی محمد ادریس صاحب خاتم المحدثین اور خاتم المفسرین کے ضمن میں لکھتے ہیں :- یہ محاورہ اسی مقام پر استعمال ہوتا ہے کہ جہاں کسی کی فضلیت ثابت کرنی ہو.اور ظاہر ہے کہ افضلیت جب ہی ثابت ہو سکتی ہے کہ جب کمال اور افضلیت کا آخری اور انتہائی درجہ اس کے لئے ثابت کیا جائے.چونکہ بندہ اس قسم کے الفاظ کو اپنے علم کے مطابق استعمال کرتا ہے اس لئے اس کے الفاظ کو مبالغہ اور مجاز پر محمول کیا جاتا ہے." رختم النبوة ملت) " پھر آگے چل کر لکھتے ہیں :- یہ محاورہ یا تو بطور مبالغہ بولا جاتا ہے یا بطور تاویل کے کہ اپنے زمانہ کے آخری محقق اور آخری محدث ہیں " دختم النبوة شدا ) اس کے بعد تحریہ فرماتے ہیں :-
۱۸۵ ود ر اس عظیم حکیم کا کام تو حقیقت پر ہی محمول ہوگا " پھر اپنی کتاب ختم النبوۃ فٹ پر لکھتے ہیں : خاتم النبیین کے یہی افضل النبیین.ناقل ) عرفی - مجازی اور تاریخی معنی مراد لئے جائیں تو پھر آپ کی خصوصیت ہی کیا ہوئی ہے حضرت مرینی اور عیسی علیہما السلام کو بھی اس ترقی معنی کے اعتبار - خاتم النبیین کہہ سکتے ہیں." اس بیان سے ظاہر ہے کہ ان مولوی صاحبان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین معنی افضل النبیین ہونے سے انکار ہے.اور وہ ان معنی کو عرفی اور مجازی قرار دیتے ہیں.اور حقیقی معنی اس کے آخری نبی قرار دیتے ہیں.ہم نے تفصیل سے اپنے اس مضمون میں بحث کی ہے.کہ آخری نبی خاتم النبیین کے حقیقی معنے نہیں.بلکہ مجازی معنے ہیں.بہر حال ان مولوی صاحبان کے نزدیک خاتم النبیین کے معنے افضل النبیین مجازی حرفی اور شاعرانہ مبالغہ ہیں.اس لئے آخری نبی اس کے حقیقی معنی قرار دے کہ اُن کے ساتھ افضل النبیین کے معنوں کو قبول نہیں کرتے.کیونکہ یہ معنی اُن کے نزدیک مبالغہ پر محمول ہیں.اور خدا تعالیٰ کا کلام شاعرانہ مبالغہ پر محمول قرار نہیں دیا جا سکتا.اس کے متعلق عرض ہے کہ یہ تو درست ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو مبالغہ پر محمول قرار نہیں دیا جا سکتا.اور خاتم المحدثین اور خاتم المفترین وغیرہ کے الفاظ بطور مبالغہ بھی کیسی بزرگ کے لئے ایک انسان ان معنوں میں استعمال کر سکتا ہے کہ یہ اپنے زمانہ میں افضل فرد ہیں.مگر خدا تعالیٰ کو مبالغہ کی
کیا ضرورت ہے.اگر وہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کو اتم انہیں ان منوں میں فرامر دیتا ہے کہ آپ نبوت کے مراتب کے حصول میں انتہائی کمال پر پہنچے ہوئے ہیں.توی کسی قسم کا مبالغہ نہیں ہوگا.بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہوگا.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلا ریب افضل النبیین ہیں.اس میں کوئی مبالغہ نہیں.مولوی محمد ادریس صاحب کے نزدیک اگر افضل النبیین معنے لئے جائیں تو جیسا کہ میں ان کی عبارت پیش کر چکا ہوں خاتم النبیین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خصوصیت نہیں رہتی.بلکہ حضرت موئی اور عیسی علیہم السلام بھی ان معنوں میں خاتم النبیین بن جاتے ہیں.- اس کے متعلق عرض ہے کہ ہم اس جگہ النبیین کا الف لام استغراق کا تسلیم کرتے ہیں.اس لئے مراد یہ لیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں.اور یہ خصوصیت نہ حضرت موسی علیہ السلام کو حاصل ہے نہ حضرت علی علیہ السلام کو.اس لئے یہ دونوں بہی ان معنوں میں خاتم النبیین قرار نہیں پاسکتے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہیں کوئی نقل پیدا نہیں کر سکتے.کیونکہ یہ دونوں نبی تمام انبیاء کے کمالات کے جامع اور نبوت میں انتہائی مقام پر پہنچے ہوتے نہیں.ان کو کوئی خاتم النبین کہدے تو البتہ یہ شاعرانہ مبالغہ ہو گا.اسی لئے خدا تعالیٰ نے نہ ان دونوں نبیوں کو خاتم النبین کہا ہے نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور نبی کو.کیونکہ افضل النبیین در حقیقت سرور کائنات فخر موجودات سيد الاصفياء والانقياء حضرت محمد مصطفے استی اللہ علیہ وسلم کاہی وجود باجود ہے لاغیر.
JAL علامہ فخر الدین رازی صاف لکھتے ہیں :- الا ترى أنّ رَسُولَنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَانَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ كَانَ أَفْضَلَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ الصَّلَوَاتُ وَالسَّلام : ( تفسیر کبیر جلد ۳۲ مصری ) یعنی تم دیکھتے نہیں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم انبین اس لئے تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں.پر افضل النبیین کو خاتم النبیین کے مجازی سنے قرار نہیں دیا جا سکتا.کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے ان مولوی صاحبان کو بھی انکار نہیں کہ مجازی معنے حقیقی معنوں کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے.اسی لیئے وہ خاتم النبیین کے حقیقی معنے آخری نبی قرار دے کہ افضل النبیین کے معنی کو شاعرانہ مبالغہ اور مجاز قرار دے کر رد کر رہے ہیں.مگر امام فخرالدین رازی علیہ الریمستر خاتم النبیین کے معنے افضل النبیین قبول کر رہے ہیں اور آنحضرت کے خاتم النبیین ہونے سے آپ کے افضل النبیین ہونے کا استدلال کہ رہے نہیں.اگر یہ معنے خاتم النبیین کے تحقیقی معنی کے لوازم میں سے نہ ہوتے بلکہ صرف مجازی معنی ہوتے تو وہ خاتم النبیین سے افضل النبیین کا استدلال نہ فرمائے.نا ہوا اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم نبوت کو تمام انبیاء پر اپنی فضیلت کی دلیل قرار دیا ہے.ہیں افضلیت اس کے مجازی معنے نہ ہوتے
IAA پانچ سیم مسلم باب الفضائل میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان فرماتے ہیں کہ : فَضَلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍ أُعْطِيتُ جَوامِعَ الكليمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لَى الْغَنَائِمُ وَ جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطُهُورًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقَ كَانَةَ وَخُتِمَ فِي النَّبِيُّون - روالا مسلم في الفضائل " (مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین (۵۳۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہیں کچھ باتوں میں تمام انبیاء پر فضیلت دیا گیا ہوں.اول مجھے جوامع الکلم دیئے گئے ہیں.دوم رعب سے نصرت دیا گیا ہوں.سوم میرے لئے غنیمتوں کیا بال حلال کیا گیا.چہارم میرے لیئے ساری زمین عبادت گاہ اور تمیم کے ساتھ پاک کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے پنجم میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں.ششم میرے ذریعہ انبیاء پر مہر لگائی گئی ہے اب جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اپنے خاتم النبیین ہونے کو تمام انبیاء پہ وجہ فضیلت قرار دیا ہے.تو صاف ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک خاتم النبیین کا لقب آپ کی افضلیت تامتر بر جمیع ابنیاء کے معنوں پر بھی مشتمل ہے.اب مولوی محمد شفیع صاحب اور مولوی محمد ادریس صاحب سوچ میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کے کن معنوں کو مد نظر رکھ کر
١٨٩ اور اپنی افضلیت تامہ کی دلیل قرار دیا ہے ؟ کیونکہ محض " آخری نبی "کے معنوں کے ساتھ تو افضلیت کے مفہوم کا جمع ہونا ان علماء کے نز دیک ناجائز اسکول مسلمہ کے خلاف ہے.کیونکہ آخری نبی ان کے نزدیک خاتم النبیین کے حقیقی معنے ہیں.اور افضل النبین اس کے مجازی معنے ہیں.اور مجازی متنے حقیقی معنوں کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ہم سے پوچھو تو ہما را جواب یہ ہے کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کے واسطہ سے مقام نبوت کا ملنا خاتم النبیین کے حقیقی معنی ہیں اور یہ منی آپ کے جامع کمالات انبیاء ہونے کا طبعی نتیجہ ہیں اس لئے آپنے خاتم النبیین کے مقام کو تمام انبیاء پر اپنی تفضیلیت تامہ کی دلیل قرار دیا ہے.اور افضل النبيين خاتم النبیین کے ان حقیقی معنوں کے لوازم میں سے ہونے کی وجہ سے ایک لازمی معنے ہیں.نہ کہ مجازی معنی.حدیث ہذا میں چھ وجوہ فضیلت بیان ہوئی ہیں.جن میں آپ کی اُمت بھی بالواسطہ اور خلقی طور پر شریک ہے.چنانچہ امت بھی جوامع الکلم - (قرآن مجید) رکھتی ہے.رعب سے اس کی نصرت کی گئی ہے.اموال غنیمت اس کے لئے حلال ہیں.سادگی زمین اس کیلئے عبادت گاہ اور تمیم کے ساتھ پاک کرنے والی ہے.یہ چاروں یا ئیں امت کو آنحضرت صل اللہ علیہ تم کے واسطہ سے حاصل ہیں.پانچویں بات تمام خلفت کی طرف مبعوث ہوتا ہے.یہ بات مسیح موعود کو بالواسطہ حاصل ہے.خواہ حضرت عیسی علیہ السلام مراد ہوں یا اُمت کے اندر پیدا ہونے والا مسیح موعود مراد ہو.اب چھٹی صفت ختم بِي النَّبِيُّونَ کا بھی اُمت پر
19.بالواسطہ اثر ہو گا.اور امت کے اندر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض اور واسطہ سے خلیت اور وراثت کے طور پر نبی کا ہونا ممکن ہوگا.اور یہ بنی ہچونکہ خاتم النبین صلی الہ علیہ وسل کا کامل فیل ہو گا اسلئے علی خاتم النبین ہوگا جس طرح کہ نقش پیدا کرنے والی مہر کے اثر سے جو نقش پیدا ہوتا ہے وہ بھی مہر ہی کہلاتا ہے.مگر مجازی اور ظلی طور پر نہ کہ حقیقی طور پر ، کیونکہ اثر حاصل کو صاحب مفردات نے مجاز ہی قرار دیا ہے.علی خاتم النبیین کا مفہوم چونکہ حقیقت نبوت کا حامل ہوتا ہے.اس لئے وہ کامل ظلی نبی ہوتا ہے.جب تک خاتم النبیین کے یہ معنے تسلیم نہ کئے جائیں.افضلیت تامر یہ ابنیاء کے لئے خاتم النبیین کا متمام پیل نہیں ہو سکتا.ولایت کا مقام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے انبیاء کے منض واثر سے بھی اُن کے امتیوں کو ملتا رہا ہے.غیر احمدی علماء سے ایک اہم سوال امام راغب علیہ الرحمہ کی تحقیق کے مطابق جو لعنت قرآن کے مستند امام ہیں.ختم کے معنے آخری یا بند کرنا ا ختم کرنا د کی مفردات راغب زیر لفظ ختم ) اسب کے سب مجازی معنے ہیں.لیکن مولوی محمد شفیع صاحب اور مولوی محمد ادریس صاحب محض تحکم سے آخری نبی " کے معنوں کو حقیقی معنے قرار دیتے ہیں.لہذا اب اُن کا فرض ہے کہ وہ بتائیں.اگر خاتم النبیین کے حقیقی معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک محض آخری نبی ہیں تو پھر آپ نے اپنے اس مرتبہ کو افضلیت بر انبیاء کی پیل کس طرح قرار دیا ہے ؟ اور کن معنوں کو مد نظر رکھ کر ان معنوں سے وه
141 افضلیت تامہ کا مفہوم اخذ فرمایا ہے ؟ کیونکہ محض " آخری نبی " کے معنوں سے تو یہ افضلیت نامہ کا مفہوم اخذہ نہیں ہو سکتا.اور نہ آخری نبی“ کے معنوں کے ساتھ افضلیت تامہ کے مجازی معنی جو ان علماء کے نزدیک شاعرانہ مبالغہ ہیں " جمع ہو سکتے ہیں.یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینا اب ان علماء پر واجب ہے.مگر یکی بڑے وثوق اور کامل یقین سے کہتا ہوں کہ یہ علماء اپنے اس مسلک پر قائم رہ کہ اس سوال کا کوئی حل پیش نہیں کر سکتے.کیونکہ اپنے مسلک کے لحاظ سے وہ تسلیم کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ خاتم النبین کے معنی حقیقی چونکہ محض " آخری نبی ہیں نہ کچھ اور اس لئے خاتم النبیین کا لقب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت نامتہ بہ انبیاء کی دلیل نہیں ہو سکتا.کیونکہ افضل النبیین کے معنے آخری نبی کے معنوں کے بالمقابل ان علماء کے نزدیک مجازی معنی ہیں.اور مجاز کا حقیقت کے ساتھ جمع ہونا مسلمہ طور پر محال ہے.پس جب تک وہ اپنے اس مسلک کو نہ چھوڑیں فقلتُ عَلَى الأنبياء والی حدیث کی بناء پر جو سوال پیدا ہوتا ہے، اس کا کوئی حل اُن کے پاس موجود نہیں.اب میرا ان علماء کو دردمندانہ مشورہ ہے کہ وہ خاتم النبیین کے لقب کے افضل النبیین کے معنوں پر عمل ہونے سے انکار نہ کریں کیونکہ یہ خاتم النبیین کا ہی لقب ہے جو آنحضرت صلی اللہ عیہ وسلم کی افضلیت نامہ بر جمیع انبیاء کا روشن ثبوت ہے.اور اسی بناء پر علامہ فخر الدین رازی علیہ الرحمہ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں :.
۱۹۲ الاخرى ان رَسُولَنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَانَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ كَانَ أَفْضَلَ الْأَنْبِياءِ عَلَيْهِمُ الصَّلَوَاتُ و السلام " تغییر کبیر جلده مال مصری ) یعنی تم دیکھتے نہیں کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں اس لئے آپ سب نبیوں سے افضل ہیں.محققین علماء اور ائمہ کو کبھی اپنی بات کی غلطی ظاہر ہو جانے پر اس سے رجوع کرتے ہیں تامل نہیں ہوا.میں امید کرتا ہوں کہ مولوی محمد شفیع صاحب اور مولوی محتد اور میں صاحب بھی اپنی شیوہ کو اپنا دستور العمل بنائیں گے.آب میکہ اس سوال کے مقابلہ میں ان علماء کے سامنے صرف دو راستے کھلے ہیں.راه اول یہ ہے کہ وہ مفردات راغب کے مختصر کے حقیقی معنے تاثیر السی کے مطابق خاتم النبیین کے حقیقی معنے جامع جمیع کمالات انبیاء اور نبوت ہیں انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے اور اپنی تاثیر و افاضہ میں تمام نبیوں میں سے کامل فرد تسلیم کر لیں.آپ کے افاضہ کا کمال چاہتا ہے کہ آپ کی پیروی میں آپ کا امتی آپ کی طبیعت میں مقام نبوت پاسکتا ہو.کیونکہ ولایت کا مقام تو سابقہ انبیاء کے افاضہ سے بھی مل سکتا تھا.کیونکہ ہر ایک اُن میں سے خاتم الاولیاء تھا.اگر یہ معنے وہ اختیار کرنے کے لئے تیار ہوں تو اُن پر واضح ہو کہ ان حقیقی معنوں کے ساتھ آخری نبی کے معنی بھی بطور لازم معنی کے اس مفہوم میں جمع ہو سکتے ہیں.کہ آپ آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں.لیکن اگر وہ یہ راستہ رشان خاتم النبيين
تان خاتم النبيين ) ۱۹۳ جو صحیح اور حقیقی راستہ ہے اختیار نہ کرنا چاہیں اور خاتم النبیین کے یہ لغوی اور حقیقی معنی تسلیم نہ کریں تو پھر اُن کے لئے دوسری راہ یہ کھلی ہے کہ خاتم الانبیاء کے معنی آخری نبی " بمفہوم آخری شارع اور آخری مستقل بنی بطور مجازی معنی کے تسلیم کرلیں.ان معنوں کے ساتھ افضل النبيين اور جامع جميع کمالات نبوت کے معنی بطور عموم مجاز کے جمع ہو سکتے ہیں.کیونکہ جو افضل النبیین ہوگا وہ بہر حال جامع جمیع کمالات نبوت اور آخری شارع اور تنقل بنی ضرور ہو گا.یہ سب مجازی معنے اکٹھے خاتم النبیین کی حقیقت شرعیہ بنانے والے تسلیم کر لیں.جب خدا تعالیٰ نے ختم مصدر کے مشتقات قرآن مجید کی دوسری آیات میں مجازی معنوں میں بھی استعمال کیئے ہیں تو اس جگہ خاتم کا مجازی معنوں میں استعمال تسلیم کرنے میں انہیں کوئی دقت نہیں یہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاتم النبیین کے معنی افضل النبیین اور نبوت میں انتہائی کمال پر پہنچنے والا نی میں کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں.بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے.اور محض " آخری نبی ناقص معنی ہیں.کیونکہ یہ بالذات کسی فضیلت پر دال نہیں.کیونکہ آخری ہو تا بالذات کسی فضیلت کو نہیں چاہتا.ہاں آخری شارع اور آخری مستقل بنی کا مفہوم چاہتا ہے کہ ایسانہی افضل النبیین ہو.اور اس کے بعد غیر مستقل نبی یا ظلی نبی کا آنا ممتنع نہ ہو.یہ سارے معنی مل کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال چاہتے ہیں جس کے نتیجہ میں آپ کے ایک کامل پیرو کے لئے نبوت ظلیہ یا غیر مستقلہ نبوت کا مقام پانا ممکن ہوگا.ران دونوں راہوں میں سے جو راہ آپ اختیار کریں، نتیجہ میں آپ
۱۹۴ اس سچائی تک پہنچ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں نبوت کا مقام مل سکتا ہے.اور سیح موعود کو حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت غیر مستقلہ اور طلبہ کے لحاظ سے ہی نبی اللہ قرار دیا ہے مستقل نبی تو بموجب حديث لَم يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِرَاتُ آ نہیں سکتا.اگر یہ علماء ان دونوں راستوں کو چھوڑ دیں تو پھر میرا دعوی ہے کہ اُن کے پاس اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے میرے سوال کا جو حدیث فضلتُ عَلَى الانبياء کی بناء پر پیدا ہوتا ہے کوئی حل موجود نہیں اوى.کی خَاتَمَ النَّبتين کے حقیقی معنی کے لوازم خاتم النبیین کی حقیقت شرعیہ ہماری تحقیق میں خاتم النبیین کے حقیقی معنی نبوت میں موثر وجود کو لبعض اور معانی بھی لازم ہیں.خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبوة ہیں.یعنی ایسے نبی ہیں جن پر تمام کمالات نبوت منتہی ہو گئے اور کوئی کمال نبوت کا ایسا باقی نہیں رہا جو آپ کی ذات میں نہ پایا جاتا ہو.اس لئے افضل النبیین ہونا آپ کے خاتم النبوۃ ہونے کو ذاتی طور پر لازم ہے.پھر جو نبی اس کمال کا ہو اُس کا زینة النبین ہونا بھی ضروری ہے.کیونکہ انبیاء کرام علیہم السّلام ایسے باکمال فرد کو اپنے گروہ میں پا کر بالضرور اُس سے زینت پاتے ہیں.اسی طرح چونکہ آپؐ ان معنوں میں آخر الانبیاء بھی ہیں
۱۹۵ النبيين کہ آپ آخری شارع اور آخر می مستقل بنی ہیں.اس لئے یہ بھی خاتم کے معنوں کو بدلالت التزامی لازم ہیں.دلزوم بدلات الترامی کی پھیل آگے بیان ہوگی ، ہمارے نزدیک یہ سارے حقیقی اور لازمی معانی مل کر خاتم النبیین کی حقیقت شرعیہ بناتے ہیں.بها جماعت محمدیه ی انحصرت الا علیہ وآلہ وسلم کو حقیقی اور کامل ہی کی خَاتَمَ النَّبِيِّين مانتی ہے ! پس جو شخص اور جوجماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تمام معنوں میں خاتم النبيين مانتی ہے وہی آپ کو در حقیقت کامل اور حقیقی خاتم النبیین یقین کرتی ہے.ورنہ منہ سے کامل اور حقیقی خاتم النبیین ماننے کا دعوئی تو وہ بھی کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین محض آخری نہیں کے معنوں میں مانتے ہیں جو معنے کہ بالذات افضلیت اور جامعیت کمال کے متقاضی نہیں.بلکہ ان معنوں کو حقیقی قرار دے کر ان سے جامعیت کمالات اور افضلیت کے معنے اخذ کرنا اصولِ مسلمہ کے خلاف ہے.کیونکہ محض آخری نبی" کے مقابلہ میں یہ معنی مجازی ہیں.جیسا کہ مولوی محمد شفیع صاحب دیو بن رہی اور مولوی محمد ادریس صاحب کو مسلم ہے
144 آخر الانبیاء کے لازمی معنوں کا ثبوت بدلالت التزامی خاتم النبیین کے معنے آخر الانبیاء اس مفہوم میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع نبی اور آخری مستقل بنی نہیں بدلالت التزامی کیوں ثابت ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :- اَليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَالمَمْتُ عَلَيْكُم نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (سورۃ مائده ۱۴) یعنی آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کا مل کر دیا ہے (اور اس لحاظ سے میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے.اور تمہا رے لئے دین اسلام کو پسند کیا ہے.پس جب دین محمدی اکمل اور اتم ہوا تو یہ امر اس بات پر دلالت کریگا کہ اب اس دین کے بعد کسی نئے دین اور نئی شریعت کی ضرورت نہ ہوگی.جب نئے دین اور نئی شریعت کی حاجت نہ رہی تو پھر کسی شارع نبی کی بھی حاجت نہ رہی.بہنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع نبی نہیں آسکتا.چونکہ شریعیت کا ملہ آجانے کی وجہ سے کمالات نبوت کے حصول کے لئے اب شریعت محمدیہ کی پیروی کا واسطہ شرط ہوگا.لہذا کوئی مستقل نبی بھی اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.حدیث لا نبی بعدی کی دلالت بھی اسی بات پر ہے جیسا کہ اقتراب الساعۃ ص سے دیکھایا جا چکا ہے کہ اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ کوئی بنی شرع ناسخ نہیں لائے گا یا اور شیخ اکبر حضرت
196 محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہے کہ میرے بعد کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں.نہ یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا.بَلْ إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكُم شَرِيعَتِي بلکہ میری مراد یہ ہے کہ جب بھی کوئی نہی ہوگا میری شریعت کے حکم (فتوحات مکیہ جلد ۲ مت ) کے ماتحت ہوگا.ر" مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :- سو اگر اطلاق اور عموم ہے تو تب تو خاتمیت زمانی ظاہر ہے در نہ تسلیم از دم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ظاہر ہے د تحذیر الناس ) یعنی یا تو خاتم کو عام او مطلق قرار دے کر رہتی اور زمانی خاتمیت دونوں کو جمع مانو یا پھر خاتم النبیین کے معنی حقیقی خاتمیت مربی یعنی نبوت ہیں موثر وجود قرار دو.اور خاتمیت زمانی کو بدلالت التزامی ان معنوں کے ساتھ بطور لازمی معنوں کے تسلیم کرو مگر خاتمیت زمانی آپ کے نزدیک ایک محدود معنوں میں ہے.کیونکہ آپ مسیح نبی اللہ کی آمد کے قائل ہیں.خاتم النبیین کی دوسری قرأت مام السبت ان کی ایک دوسری قرات خاتم البستان خاتم کی تار کی زیر سے بھی آئی ہے.گو یہ قرأت متواترہ نہیں اور نہ یہ کسی صحابی سے عه به معنی آخری شارع نبی اور آخری مستقل نبی ہیں.منہ
١٩٨ مردی ہے تاہم ہمیں اس کا بھی بہت احترام ہے.یہ قرأت بھی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے.جیسا کہ آگے چل کر آپ اس کا اثر معلوم کریں گے.آب میں اس قرأت کی حقیقت بیان کرتا ہوں.میں مصدر ختم کے مفردات راغب سے حقیقی معنے بیان کرتے ہوئے یہ بتا چکا ہوں کہ لفظ خاتم تا کی زیر سے ہو یا خاتیم تار کی زیر سے دونوں کا مصدر ختم ہے.خاتم تار کی زیر سے ہم آلہ ہے اور خانیم تار کی زیر سے اسم فاعل ہے.گو مصدر سے ان کا اشتقاق کرتے ہوئے ان کی بناوٹ میں یہ فرق ہے مگر انجام اور نتیجہ کے لحاظ سے ان دونوں کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں.اگر خاتم بفتح تاء کے معنے مصدری معنے کے لحاظ سے تأثیر کا ذریعہ ہیں تو خاتیم بکسر تار کے معنے بلحاظ اسم فاعل تاثیر کر نے والا ہیں بھیٹھ اُردو زبان میں خاتم النبیین کے معنی نبیوں کی مہر ہیں تو خاتم النبیین کے معنی مہر کرنے والا یا صاحب خاتم یعنی مہر والا نبی ہیں.پھر خاتم بفتح تار کے مجازی سے مفردات راغب کے بیان کے مطابق بندش - روک اور آخری ہیں تو خاتم بکسر تاء کے مجازی معنے ختم کرنے والا ہیں.لہذا حقیقی اور مصدری معنوں کے لحاظ سے دونوں قراتوں کا مفہوم یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تاثیر قدسیہ کے ذریعہ نقوش انبیاء کو جن کو آپ اپنی ذات میں جمع رکھتے ہیں دوسرے شخص میں منعکس کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں.اور آپ کی کامل پیروی سے اور آپ کی محبت میں فنا ہو کہ آپ کا ایک کامل اتنی مقام نبوت کو بطور موہبیت الہی حاصل کر سکتا ہے.
144 4 میں پہلے بتا چکا ہوں کہ جماعت احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تقسیقی معنوں میں خاتم النبیین مانتی ہے اور تمام لازمی عنوں میں بھی خاتم النبیین مانتی ہے.اس قرات کے حقیقی معنوں کے ساتھ تمام نبیوں کو ختم کرنے والے مجازی منے تو جمع نہیں ہو سکتے.البتہ جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں بدلالت التزامی تمام شارع اور مستقل نبیوں کو ختم کرنے والے معنی بطور لازمی معنوں کے جمع ہو جاتے ہیں.میں بتا چکا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی کا مفہوم کئی بزرگان ملت نے یہی قرار دیا ہے.لیکن جو لوگ پیر فہوم قرار نہ دیں، اُن کو خاتم النبیین کی قرات کے لحاظ سے تمام نبیوں کو ختم کرنے والے معنے کرنے پر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلحاظ حقیقت تنویہ کے حقیقی خاتم النبیستین نہیں مانتے.کیونکہ خستم مصدر کے معنے ختم کہ نا محض مجازی ہیں.اور خاتیم یعنی ختم کرنے والا معنی با لذات افضلیت بر انبیاء کے متقاضی نہیں.افضلیت بر انبیاء تو حقیقی معنوں کو لازم ہے.غیر احمدی علماء کے معنوں کا مفاد ہ نیز اگر غیر احمدی علماء اس قرآت کے منے تمام نبیوں کو ختم کرنے والا قرار دیں اور خاتم النبین بفتح تار کی قرأت کے معنے محض " آخری نبی کریں تو ان دونوں معنوں کا مفاد یہ ہوتا ہے کہ یہ معنے مسیح نبی اللہ کی آمد کی پیش گوئی کو جھٹلانے کے مترادف ہیں.کیونکہ ان دونوں قراتوں کا مشترک مفاد یہ ہے کہ کوئی نبی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظاہر نہیں ہو سکتا.نہ پہلا اور نہ
۲۰۰ پچھلا.آخری نبی سے مراد تو غیر احمدی علماء پیدائش کے لحاظ سے "آخری نبی کی تاویل کر کے کہہ دیتے ہیں کہ نیا نبی نہیں آسکتا.پرانا آسکتا ہے لیکن دوسری قرأت کے منے تمام نبیوں کو ختم کرنے والا لے کر اب یہ توجیہہ بھی کام نہیں دے سکتی.کیونکہ ان قرأت سے پیدائش کے لحاظ سے آخری نبی سے بڑھ کر یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ اب کسی اور نبی کا اس دنیا میں کوئی حصہ باقی نہیں.یہ دوسری قرآت ان کی اس تو جہیہ کو باطل کر دیتی ہے کہ کوئی پہلا نبی آسکتا ہے.لہذا اب انہیں یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ آنے والا سیح موعود محض ظلی نبی ہے.اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ہی یہ پیرایہ جدید ایک تحجتی ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دوسرے تمام نبیوں کی نبوت کو ختم کیا ہے نہ کہ اپنی نبوت کو بھی.اگر آپ نے اپنی نبوت کو بھی ختم کیا ہوتا تو پھر تو معاذ اللہ آپ خود بھی نبی نہ رہتے اور اپنے بعد آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والے مسیح کو بھی نبی اللہ قرار نہ دیتے.تیری قرأت خاتم النبیین کی ایک تیسری قرات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے." لكِنْ نَبِيًّا خَتَمَ النَّبِيِّينَ " اس قرآت کے حقیقی معنے میری اور کی تحقیقات کے لحاظ سے یہ ہونگے کہ آپ وہ بنی ہیں جنہوں نے اپنے اثر اور نقیض ہے انبیاء کو مقام نبوت تک پہنچایا ہے.یادوسرے لفظوں میں اُن کی نبوت پر مہر افاضہ لگائی ہے.
۲۰۱ اور اس کے لازمی معنے یہ ہوں گے کہ آپ نے تشریعی نبوت اور ستنقلہ نبوت کے سلسلہ کو ختم کر دیا ہے."تمام نبیوں کو ختم کر دیا ہے “ اس کے محض مجازی معنے ہونگے.جو حقیقی معنوں کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے.یہ معنے مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ السَّبِينَ الآية اور حديث الا ان يكون نبي کے صریح خلاف ہیں.نیز یہ معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ ولم کے تمام انبیاء پر بالذات فضیلت پر دال نہیں ہو سکتے اس لئے درست نہیں.اگر اس جگہ تمام نبیوں کو ختم کیا مجازی معنے ہی مُراد لئے جائیں تو پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی امت محمدیہ میں نہیں آسکتے کیونکہ وہ تو سب نبیوں کے ساتھ ہی ختم ہو گئے.اس دنیا میں اب اُن کا کوئی حصہ باقی نہ رہا.اگر کچھ حصہ باقی ہو تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ختم نہیں کرسکے.اس طرح تو ختم نبوت کے ران معنوں پر زرد پڑتی ہے کہ معاذہ اللہ دلیل میں ناقص رہی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے نبی تو ختم تھے ہی صرف ایک نبی بقول غیر احمدی علماء کے جو حضرت عیسی علیہ السلام ہیں باقی تھے.مگر وہ آپ سے ختم نہ ہو سکے.ہیں اس قرآت کے ختم کیا معنے بینک لو.مگر یاد رکھو راس قرآت میں چونکہ ماضی کا صیغہ ہے اس لئے گزرے ہوئے انبیاء کو تو پورے طور پر ختم مانو.ان کی شریعتوں کو بھی اور ان کی جسمانی حیات کو بھی پھر آپ کو سمجھ آسکتی ہے کہ آنے والا مسیح موعود امتی نبی صرف اور صرف نا خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض رسانی سے ہی مقام نبوت پانے والا ہے.اور اس کی یہ نبوت آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی نبوت کا پر تو اور کس ہے.جو دراصل آپ کی ہی نبوت کی ایک جدید پیرایہ میں
- ۳۰۳ تیجتی ہے.کیونکہ آپ نے اپنی نبوت کو ختم نہیں کیا.پس اس کی تجلیات قیامت تک مختلف مظاہر میں حسب استعداد قابل متجلی ہو سکتی ہیں.فتاوی پر علماء کی مہروں کا اثر علماء کی فتاوئی پر جو مہریں ثبت ہوتی ہیں اُن کے ذریعہ اُن فتوں کی تصدیق اُن کا جاری کرنا اور سند کرنا مقصود ہوتا ہے.نہ اُن فتووں کا بند کرنا.اس سے بھی یہ ظاہر ہے کہ مہر کی اصل حقیقت میں تاثیر کے معنوں کا بڑا دخل ہے.پس کیا یہ عجیب بات نہیں کہ علماء کی مہریں تو نتاولی کو جاری کرتی ہیں.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کو نبوت کا بند کرنے والا قرار دیا جاتا ہے.حالانکہ مفردات میں بند کر نا ختم کے مجازی معنے ہیں پیس چونکہ مہر کی تاثیر تصدیق کرنا اور ستند کر نا بھی ہے.اس لئے خاتم النبین کے یہ معنے بھی ہیں کہ آنحضرت صلی الہ علیہ و آلہ وتم تمام نبیوں کے مصدق ہیں.اور ان کی نبوت تیں آپ کی مہر نبوت سے مستند ہیں.اور آئندہ بھی کوئی نبی کی لی آپ کی سند اور فیضان اور تصدیق کے بغیر ظاہر نہیں ہو سکتا.سے حضرت مولانا روم اور خاتم النبیین کے معنی سرتاج صوفیاء حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ اپنی مثنوی کی جلد شتم میں خاتم کے حقیقی معنی بایں طور بیان فرماتے ہیں - بهر این خاتم شدست او که بجود.مثل او نے بود نے خواهند بود
۲۰۳ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں کہ سخاوت یعنی افاضہ روحانید میں نہ آپ جیسا کوئی ہوا ہے نہ ہوگا.اس لئے گویا جامعیت کمالات اور افاضہ روحانیہ خاتم النبیین کے معنے ہیں یہی حقیقی معنے ہیں.اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بود وسخا اور افاضہ رومانیہ کشتی کو صرف ولایت کے مقام تک ہی پہنچا سکتا ہو تو یہ کمال تو پہلے انبیاء کو بھی حاصل تھا.کیونکہ اُن کے افاضہ اور اثر سے کئی ولی اور محدثین پیدا ہوئے.پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ افاضہ رومانیہ ہیں آپ جیا نبی نہ کوئی ہوا ہے نہ ہوگا.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال یہ ہے کہ آپ کی شریعت کی کامل پیروی اور آپ کے افاضہ کے واسطہ سے آپ کا ایک اتنی مقام نبوت بھی پاسکتا ہے.پھر آگے فرماتے ہیں ہے چونکه در صنعت برد استاد دست تو نہ گوئی خستم صنعت بر تو است یعنی جب کوئی کا دیگر اپنی صنعت میں انتہائی کمال کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے تو اسے مخاطب کیا تو نہیں کہتا کہ تجھ پر کاریگری کی مہر لگ گئی ہے یعنی تجھ پر کاریگری کمال کو پہنچ گئی ہے.خاتم النبیین کے حقیقی منوں یعنی افاضہ رومانیہ کانتیجہ بھی مولانا روم کے ذیل کے شعر سے خوب واضح ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں ہے مکر کن در راه نیکو خدمتے کو تا نبوت یابی اندر اتنے دمنوی دفتر پنجم مره شائع کرده مولوی فیروز الدین صبا)
۲۰۴ یعنی اسے انسان انیکی کی راہ میں یعنی آنحضرت الہ علیہ وسلم کی امت میں کوئی ایسی خدمت بجالا کہ تجھے اُمت کے اندر نبوست مل جائے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علی اسلام نے خاتم النبیین کے یہ معنے کئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وقت کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے.اور آپ کی توجہ روحانی بی تراش ہے.بالکل اسی طرح حضرت ہو لینا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ نے آپ کو ایسا صانع قرار دیا ہے جس پر صنعت انتہائی کمال کو پہنچ گئی ہے اور میں کی شریعیت کی پیروی سے اُمت کے اندر نبوت مل سکتی ہے.خاتم انبیین کے مئی "نیوں کی زینت سے غیراحمد علماء کا نگار مولوی محمد ادریس صاحب شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ اور مولوی حمد شفیع صاحب دیوبندی کو اس بات پر شدت سے اصرار ہے کہ خاتم الانبیاء کے معنی آخری نبی حقیقی معنے ہیں.لہذا اس کے معنی نبیوں کی زینت نہیں ہو سکتے.مولوی محمد ادریس صاحب کو تو صرف انکار پر اصرار ہے مگر مولوی محمد شفیع صاحب دیو بندی تو ان معنوں کو قرآن پر افتراء قرار دیتے ہیں.رختم النبوة في القرآن ۵۳) پھر صفحه ۴۰۴ پر لکھتے ہیں :- غرض کوئی جاہل سے جاہل بھی اس قسم کی تحریفات ماننے پر تیار نہیں ہو سکتا "
۲۰۵ اب ذرا مولوی محمد شفیع صاحب کے اس بیان کی حقیقت ملاحظہ ہو.تفسیر فتح البیان جلد ، من ۲۸ میں لکھا ہے :- هُوَ صَارَ كَالْخَاتَمِ لَهُمُ الَّذِي يُحْتَمَوْنَ بِهِ وَ يَتَزَيَّنُونَ بِكَوْنِهِ مِنْهُمْ : " یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے لئے قائم کی طرح ہیں جس کے ذریعہ نبیوں پر مہر لگائی جاتی ہے.اور وہ نبی اس وجہ سے زمینت پاتے ہیں کہ آپ ان انبیاء کے گروہ کا ایک فرد ہیں.پھر امام زرقانی علیہ الرحمة شرح المواہب اللہ میں خَاتَمَ النَّبِن کے معنی لکھتے ہیں :- نَمَعْنَاهُ اَحْسَنُ الْأَنْبِيَاءِ خَلْقًا وَخُلْقًا لِاَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَالُ الْأَنْبِيَاءِ كَالْخَاتَمِ الَّذِي يتَجَمَّلُ به " 15 در زرقانی شرح المواہب الله نبیر جلد۲ ملا مصری) یعنی خاتم النبیین کے معنے یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ظاہری اور روحانی بناوٹ اور اخلاق میں سب سے زیادہ سین ہیں.کیونکہ آپ جمال الانبیاء ہیں اس انگشتری کی مثل ہیں.زینت دجمال حاصل کیا جاتا ہے.اب یہ عمار بتائیں کہ کیا ان دونوں بزرگوں نے قرآن مجید پر افتراء کیا ہے ؟ کیونکہ یہ دونوں بزرگ علماء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کو نبیوں کی زینت
۲۰۶ یا جمال الانبیاء قرار دے رہے ہیں.ہاں یہ یادر ہے کہ میرے نزدیک زینت کے معنے خاتم النبیین کے حقیقی معنی جامع جمیع کمالات ابنیاء سے ماخوذ ہیں.نبیوں کی زینت اور جمال الانبیاء ہوتا تو در اصل اس جامعیت کا ہی طبعی نتیجہ ہے.انگشتری کی مثال صرف مضمون کو قریب الفہم کرنے کے لئے دی جاسکتی ہے.علماء خاتم النبیین کے تاویلی او مجازی معنوں کے قائل ہیں مولوی محمد شفیع صاحب اور مولوی محمد ادریس صاحب خاتم النبیین کے معنی محض آخری نی حقیقی معنی قرار دیتے ہیں.گر تفسیر روح المعانی کے مصنف علامہ انوسٹی اپنی تغییر میں زیر آیت خَاتَمَ النَّبِيِّين لکھتے ہیں :- اَلْخَاتَمُ الَةَ لِمَا يُخْتَمُ بِهِ كَالطَّابَعِ لِمَا يُطْبَمُ بِهِ فَمَعْنى خَاتَمِ النَّبِيِّينَ الَّذِي خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ وَمَالُهُ أَخِرُ التَّبِينَ " یعنی خاتم اہم آلہ ہے جس سے مہر لگائی جاتی ہے.جیسا کہ طابع جس سے نقوش پیدا کئے جاتے ہیں.میں خاتم النبیین کے معنی ہیں وہ شخص میں کے ذریعہ انبیاء پر مہر لگائی گئی ہو.اور تاویل اس کی آخر النبیین ہے.پھر تفسیر ابن جریر میں علامہ طبری جزء ۲۲ صدا پر رقمطراز ہیں :- وَالكِهُ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتَمُ النَّبِيْنَ الَّذِى
۲۰۷ خَتَمَ النُّبُوَّةَ فَطَبَعَ عَلَيْهَا فَلَا تُفْتَحُ لِأَحَدٍ بعدة إلى قيامِ السَّاعَةِ بِنَحْوِ الَّذِي قَالَ أهْلُ التَّاوِيل " ترجمه : لیکن آپ رسول اللہ اور خاتم النبیین ہیں.آپ نے نبوت پر مہر کر دی ہے.اس لئے وہ آپ کے بعد سی کیلئے قیامت تک نہیں کھولی جائے گی.جس طرح کہ اہل تاویل نے کہا ہے.پھر تفسیر بیضاوی کے حاشیہ پر لکھا ہے :- فَا طَلَاقُ الْخَيْرِ عَلَى الْبُلُوغِ وَالْإِسْيَثَاقِ مَعْنى مَجَازِى یعنی ختم کا استعمال بلوغ الآخر (آخری) اور بند کرنے کے معنوں میں مجازی معنوں کے لحاظ سے ہے.(دیکھو حاشیہ بر آیت خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ ) امام راغب نے بھی خمر اللَّهُ عَلَى قُلُوبِھم کی مثال دے کرختم کا استعمال - منع اور بندش کے معنوں میں مجازی قرار دیا ہے.ان تفاسیر سے ظاہر ہے کہ خاتم النبیین کے حقیقی معنی آخری نبی نہیں بلکہ یہ صرف تاویلی معنے ہیں.جماعت احمدیہ حقیقی معنوں کی بھی قائل ہے جو جامعیت کمالات اور افاضہ کاملہ ہیں.آخر الانبیاء کے تاویلی معنوں کو بھی بطور لازم معنی کے مانتی ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری شارع اور آخری مستقل نبی یقین کرتی ہے -
۲۰۸ بندش والی مہر بپھلوں پر لگ سکتی ہے! ان حوالہ جات سے یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ خاتم النبیین کے حقیقی معنی تو نبیوں کی مہر ہیں.مگر اس شہر کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ آپ نے نبیوں کو بالکل بند کر دیا ہے یہ شہر کسی کے لئے نہیں کھلے گی.مگر تعجب ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے یہ لوگ پھر اس شہر کو کھول لیتے ہیں.اور اس طرح ختم نبوت کی شہر کا جو ان کی نبوت مستقلہ پر لگی ہوئی ہے ٹوٹ جانا تسلیم کر لیتے ہیں.مولوی محمد ادریس صاحب نے اپنی کتاب میں خاتم النبیین معنی نبیوں کی شہر کو اسی طرح بند کرنے والی قرار دیا ہے.اب اگر یہ مہر اس طرح بند کر رہی ہے کہ ہو اس کے اندر آگئے وہ قیامت تک نہیں نکل سکتے تو پھر حضرت عیسی علیہ اسلام کا آنا محالی ماننا چاہیئے اور ساتھ ہی یہ بھی تسلی کرنا چاہیے کہ حضرت مسیح نبی اللہ کی آمد کی جو خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح مسلم میں مروی ہے.اور میں میں آپ نے کو چار دفعہ ایس سی کو نبی اللہ قرار دیا ہے اس سے بموجب حدیث صحیح بخاری امام مشکور امتی فردی مراد ہو سکتا ہے.جو اتنی نبی کی حیثیت میں وقت کا امام ہوگا.بندش کی مہر تو صرف ان نبیوں کے لئے تسلیم کی جاسکتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر چکے اور جو ستنقل اور شارع نبی تھے.کیونکہ بندش والی مہر خارج میں پائی گئی اشیاء پر لگتی ہے نہ کہ مقتدرہ اشیاء پر.اگر بعد والا امتی نبی جو امت کا مسیح موعود ہے وہ بھی اس مہر کے اندر بند ہو چکا ہوتا تو پھر اُسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نسبتی اللہ کیوں قرار دیتے ؟
٢٠٩ مولوی شبیراحمدرضا عثمانی کے نزدیک خاتم النبیین کے حقیقی معنی ! " مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی رنبی اور نہ مانی دونوں معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم نہیں تسلیم کرتے ہیں.چنانچہ وہ رقمطراز ہیں :- بدین لحاظ کہ سکتے ہیںکہ آپ نبی اور زمانی برحیثیت سے خاتم النبیین ہیں.اور جن کو نبوت ملی ہے آپ کی مہر لگ کر ملی ہے کیا د قرآن مجید مترجم علامہ عثمانی زیر آیت خاتم النبیین ) راس سے ظاہر ہے کہ مولوی صاحب موصوف خاتم النبیین کے معنی ہر ے کہ اس کی تاثیر اور فیض رسانی سے تمام اختیار کا مقام نبوت تک پہنچنا سلیم فرماتے ہیں.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کی فیض رسانی آپ کے عالم جسمانی کے ظہور پر کیوں بند ہوگئی ہے ؟ شریعیت کا ملہ آجانے کی وجہ سے اگر شارع نبی کا آنا محال ہے تو غیر تشریعی نبوت کے مقام پہ فائزہ کرنے میں اس شہر کے عمل میں اب کیوں روک پیدا ہو گئی اور کیوں ختم نبوت کے مرتبی معنوں کا اثر آئندہ کے لئے ٹرک گیا ہے ؟ حضور کے عالم مجسمانی میں ظہور پر قیامت تک کے لئے یہ خاتمیت مرتبی کی شہر کیوں عمل نہیں کر سکتی ؟ خاتمیت زمانی سے امام علی انصاری علیہ الرحمہ کی طرح کیوں یہ مراد نہ لی جائے کہ آپ صرف شارع اور تنقل انبیاء کے لحاظ سے آخری نبی ہیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کے لئے حقیقی معنوں میں کامل خاتم النبین ہیں تو خاتمیت مرتبی کا فیضان یعنی مہر سے نبی بنانے کا فیضان بھی جاری رہنا چاہیئے.
۲۱۰ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین بھی ہیں اور نبوت رحمت الہی ہے.پس آپ کے ذریعہ یہ رحمت بند نہیں ہو سکتی.امت کو بہر حال اس سے ورثہ ملنا ہی چاہیئے.مولوی محمد شفیع صاب دیوبندی کے ایک سال کا جواب مولوی محمد شفیع صاحب دیوبندی کا یہ سوال کہ اگر رحمتہ العالمین کے یعنی ہیں تو پھر شریت کیوں بند ہوگی به قلب تقدیر کانتیجہ ہے.انہوں نے سوچا نہیں کہ نئی شرعیت تب آتی ہے جب پہلی شریعیت زمانہ کی ضرورت کے لئے کافی نہ رہے یا اس میں تحریف و تغیر سے بگاڑ پیدا ہو جائے.مگر نبی اس وقت آتا ہے جب قوم میں سخت بگاڑ پیدا ہو جائے.چونکہ شریعت محمدیہ الکل شریعت ہے اور حسب وعدہ الہی قیات تک محفوظ ہے.اس لئے نئی شریعیت کا آنا ایک لفو فعل اور تحصیل حاصل ہے لیکن اقت کی حفاظت کا اس طرح وعدہ نہیں بلکہ اس کے خطرناک بگاڑ کی پیشگوئیاں موجود ہیں.یہاں تک کہ اس کے بالشت در بالشت عیسائیوں اور یہودیوں کی طرح ہو جانے کی خبر دی گئی ہے تو نبوت کی رحمت رحمتہ للعالمین کی آمد سے کیوں بند ہو ؟ یر تشریعی نبوت کے لئے تو رحمۃ للعالمین دروازہ ہیں.خَاتَمَ النَّبِین کی تفسیر از کتے قرآن مجید چونکہ بعض علمائے اسلام آنحضرت صلی الہ علیہ سلم کی خاتمیت کی تاثیر کو حضور کے عالمہ جسمانی میں ظاہر ہونے پر بند اور منقطع قرار دینے والے تھے.اس لئے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے اللہ تعالے نے اپنی پاک کتاب قرآن مجید
Fil یں آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے امتیوں کے لئے آپ کی اس تاثیر گریہ کے جاری رہنے کا اعلان خود فرما دیا ہے، اور اس طرح ختم نبوت کے مثبت پہلو عینی خاتم النبیین کے حقیقی معنے کی تغیر خود بیان فرما دی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَ الصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَيْكَ رَفِيقًاه ذلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللهِ وَكَفَى بِاللَّهِ عَلِيمًا (سُورة النساءة ) ترجمہ : یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ اور الرسول یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وستم کی پیروی کریں گے وہ شرف دومرتبہ میں ان لوگوں کے ساتھ ہیں ان پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے.نبیوں میں سے.صدیقیوں میں ہے.شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ہیں لحاظ رفیق ہونے کے دان کی رفاقت اعلی قسم کی ہوگی جو شرف اور مرتبہ کے لحاظ سے ہوتی ہے نہ کہ ادنیٰ قسم کی ظاہری معیت، یہ اللہ تعالی کا فضل خاص ہے اور کافی ہے اللہ خوب جاننے والا.اس جگہ ساتھ ہونے سے مراد انعام پانے میں ساتھ ہونا ہے جو معیت کتبی پر دال ہے.پس آیت کے یعنی ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے نبوت صدیقیت - شہادت اور صالحیت کی چاروں نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کو مل سکتی ہیں.اگر میت سے مراد ک نبی معیت نہ لیں بلکہ صرف ظاہری طور پر (معیت) ساتھ ہوا مراد لیں تو آیت کے یہ معنی بن جائیں گے
۲۱۲ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والوں کو نبیوں، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کی صرف ظاہری معیت حاصل رہے گی.نہ کہ درجہ اور مرتبہ میں معیت.اور ران معنوں کی خرابی اس سے ظاہر ہے کہ آیت کا ما حصل پھر یہ بن جاتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے سے کوئی شخص صدیق ، شہید اور صالح کا مرتبہ بھی حاصل نہیں کر سکتا.لیکن اگر صدیقوں کی معیت سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے آپ کی امت میں صدیق پیدا ہو سکتے ہیں اور شہیدوں کی معیت سے مراد یہ ہے کہ آپ کی پیروی سے امتی شہداء کا مرتبہ پاسکتے ہیں اور صالحین کی معیت سے یہ مراد ہے کہ آپ کے وقتی صالح بن سکتے ہیں تو پھر ندیوں کی معیت سے مراد بھی یہی ہو سکتی ہے کہ آپ کی پیروی سے آپ کا ایک انتی مقام نبوت بھی پا سکتا ہے.مفردات راغب میں لفظ معم کے معنے یوں لکھے ہیں :.مَعَ يَقْتَضِى الإِجْتِمَاعَ امَّا فِي الْمَكَانِ تَحْرُهُمَا مَعَا فِي الدَّارِ.اَوْ فِي الزَّمَانِ تَكُو وَلِدَا مَعًا - اَوْ فِي الْمَعْنى كَالْمُتَصَائِفَيْنِ وَ الْآخِ وَ الْآبِ فَإِنَّ احَدَهُمَا صَارَ اَنَّا لِلْأَخِرِ فِي حَالٍ مَا صَارَ الْأَخِرُ أَخَاهُ - وَإِمَّا في الشَّرْفِ وَالرِّيَّةِ نَحْوُهُمَا مَعَا فِي الْعُلُو ) (مفرداتكم یعنی لفظ مع اجتماع کا تقاضا کرتا ہے.اور یہ اجتماع چاک صورتوں میں ہو سکتا ہے.اول دونوں ایک جگہ میں اکٹھے ہوں.
۲۱۳ یہ معیت مکانی ہوگی.دوم زمانہ میں دونوں اکٹھے ہوں.یہ معیت زمانی ہوگی.موسم متضائفین کی صورت رکھتے ہوں جیسے بھائی دوسرے بھائی سے میت رکھتا ہے.اور باپ بیٹے سے.اور ایک صورت یہ ہے کہ رتبہ اور شرف میں اکٹھے ہوں.☑ آیت زیر تغییر میں یہ آخری صورت ہی مراد ہوسکتی ہے جو رتبہ اور شرف میں اکٹھے ہونے والی صورت ہے.پہلی صورتوں میں اجتماع محال ہے.قرآن مجید میں کئی جگہ مع معنی من بھی استعمال ہوا ہے جو شرف اور مرتبہ کے معنوں میں ہی ہے جیسے تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ وسُورة آل عمران رکون کہ ہمیں نیک بنا کر مار - یہ معنی نہیں کہ ہم نیکوں کے ساتھ مر جائیں.پھر منافقت سے تو یہ کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : أولَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وپاره ۵ رکوع آخری) اس سے صاف ظاہر ہے کہ کامل توبہ کرنے والے ، مومنوں کے گروہ میں داخل ہو جاتے ہیں.اور معیت سے مراد اس جگہ بھی شرف اور رتبہ کی معیت ہے.آیات قرآنیہ سے نبی کی آمد کا ثبوت کئی اور آیات قرآنیہ سے بھی اُمت محمدیہ میں نبی کی آمد کا امکان ثابت ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وو (1) يبنى آدَمَ إِمَّا يَأْتِينَكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمُ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمُ ايتي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا
FIM خون عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورة اعراف رکوع ۴) ترجمہ : یعنی اسے اولاد آدم ! جب کبھی تم میں کیوں آئیں جو تم پر میری آیات بیان کریں (یعنی نئی شہریت لانے والے نہ ہوں تو جو لوگ تقی بن کر اپنی اصلاح کریں گے انہیں کوئی خوف اورغم نہیں ہوگا.اس آیت کے سیاق والی آیات سے ظاہر ہے کہ یہاں کوئی پرانا قصہ بیان نہیں ہو رہا.بلکہ ان آیات میں وہ احکام مذکور ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بنی آدم کو دیئے جا رہے ہیں.اس سے پہلے ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ - عرب کے لوگ خانه کنبہ کا ننگے بدن طواف کرنا نیکی سمجھتے تھے.خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ آے بنی آدم با تم عبادت کے وقت زینت اختیار کیا کر و.یعنی لباس پہنا کرو.امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :- بَاتَهُ خِطَاب لِأَهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ وَلِكُلِّ مَّنْ بَعْدَهُمْ یعنی یہ خطاب اس زمانہ کے لوگوں اور سب بعد کے لوگوں کو ہے.(تفسیر اتقان جلد۲) (۲) سورۃ آل عمران ۹۴ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ میں نے تم کو کتاب و حکمت دی ہے.پھر اگر تمہارے پاس کوئی رسول آد سے جو اس تعلیم کا مصدق ہو جو تمہار سے پاس ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا.پھر پوچھا کیا تم نے اس بات کا اقرار کیا ہے.اور اس پر پکا عہد کرتے ہو.ان نبیوں نے کہا.ہم نے اقرار کیا ہے.خدا تعالے نے فرمایا تم گواہ ہو.اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں.جو لوگ اس
۲۱۵ عہد کو رجو انبیاء کے واسطہ سے ان کی امتوں سے لیا گیا ہے، توڑ دیں گے تو وہ فاسق ہونگے یہ عہد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تمام انبیاء کی اقتوں سے انبیاء کے واسطہ سے لیا گیا ہے.پھر بالکل یہی عہد سورہ احزاب کی آیت وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا میں مذکور ہے.یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے.جب ہم نے نبیوں سے اُن کا عہد لیا.اور تجھ سے بھی اور نوح سے بھی اور ابراہیم موسیٰ اور عیسی بن مریم سے بھی عہد لیا.اور ہم نے اُن سے پکا عہد لیا.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے بھی آپ کی امت کے لئے ایک نبی کے متعلق عہد لیا گیا ہے.کہ آئندہ جب وہ رسول آئے تو آپ کی امت اس پر ایمان لائے.اسی بناء پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح نبی اللہ کی امت محمدیہ میں آنے کی پیش گوئی فرمائی ہے.خدا تعالے کی طرف سے ابنیاء سے جو عہد لیا گیا تھا یہ انبیاء والا عہد صرف سورۃ آل عمران میں ہی مذکور ہے.اور اس میں صرف ایک نبی اللہ پر ایمان لاپنے اور اس کی مدد کرنے کا ہی عہد ہے.اس عہد کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ تم نے صرف سی نسبی اللہ کی آمد کی پیشگوئی فرمائی ہے.تفسیر حسینی میں اس آیت کے معنے یوں لکھتے ہیں :- وَ إِذْ اَخَذْنَا یاد رکھو کہ لیا ہم نے مِنَ النَّبِيِّين نبیوں سے.ميناتهم عہد اُن کا اس بات پر کہ خدا کی عبادت کریں اور خدا کی عبادت کی طرف بلائیں.اور ایک دوسرے کی تصدیق
۲۱۶ کریں یا ہر ایک کو بشارت دیں اس پیغمبر کی کہ اُن کے بعد ہو گا.اور یہ عہد پیغمبروں سے روز است میں لیا گیا.وَمِنْكَ اور لیا ہم نے تجھے سے بھی عہد اے محمد ! یا د تغیر مسیعنی اردو جلد ۲ ص ۲۵ مطبوعہ مطبع نولکشور) (۳) پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَإِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ اَوْ مُعَلَّ بُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا (سورة بنی اسرائیل ع ) یعنی کوئی بستی نہیں مگر ہم اُسے قیامت سے پہلے یا تو بالکل تباہ کر دیں گے یا اُسے عذاب شدید میں مبتلا کریں گے.گویا فرماتا ہے کہ بعض بستیاں با لکل تباہ ہو جائینگی او بعض بالکل تباہ تو نہ ہوں گی مگر شدید عذاب میں مبتلا ہوں گی.پھر اسی سورۃ میں فرماتا ہے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا دبنی اسرائیل ۲۴) یعنی ہم اُس وقت تک عذاب (موعود) بھیجنے والے نہیں ہیں ، جب تک رسول نہ بھیج لیں.پہلی آیت میں عذاب شدید کے قیامت سے پہلے آنے کی خبر ہے تو دوسری آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا عذاب جو موعود اور عالمگیر ہو رسول کے آنے کے بعد ہی آتا ہے.کیونکہ اس کی وجہ خدا تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے وَلَوْ أَنَا أَهْلَكْنَا هُمْ بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَو لَا اَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَعَ ابْتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَذِلَّ وَ تَخَری رطه ع (۸) یعنی اگر ہم نبی کے ذریعہ نشان دکھلانے سے پہلے ہی اُن لوگوں پر عذاب نازل کر کے انہیں ہلاک کر دیتے تو یہ لوگ کہہ سکتے تھے کہ اس ذلت اور رسوائی
۲۱۷ سے پہلے ہماری طرف کیوں کوئی رسول نہیں بھیجا گیا تاہم اس کی اتباع کرتے اور ذلت اور رسوائی سے بچ جاتے.غرض یہ سنت الہی ہے کہ موعود عذاب رسول کے بھیجے جانے سے پہلے نہیں آتا.اور قیامت سے پہلے سورہ بنی اسرائیل میں ایک شدید عذاب کی خبر دی گئی ہے.پس اس عذاب سے پہلے ایک نبی کا آنا ضروری ہوا.اور یہی نبی حسب احادیث نبوی مسیح موعود ہے.سراج منیر (۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ احزاب میں سراج منابر قرار دیا گیا ہے.امام عبد الباقی زرقانی لکھتے ہیں :- قَالَ الْقَاضِي أَبُو بَكْرِ بْنُ الْعَرَبِي قَالَ عُلَمَاءُ نَا سُمِّيَ سِرَاجًا لِاَنَّ السّرَاجَ الْوَاحِدَ يُؤْخَذُ مِنْهُ السُّرُحُ الكَثِيرَةُ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ صَوْتِهِ شَيْءٍ » ازرقانی شرح المواہب اللدنیہ جلد ۳ ملک ) قاضی ابو بکر بن عربی نے کہا ہے کہ ہمارے علماء نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سراج (چراغ ، اس لئے رکھا گیا ہے کہ ایک چراغ سے بہت سے چراغ روشن ہو سکتے ہیں.اور اس سے اصل چراغ کی روشنی میں کوئی کمی نہیں آتی.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سراج منیر ہونا چاہتا ہے کہ آپ کی ظلیت اور فیضان سے آپ کے امتی کو مقام نبوت حاصل ہو سکے.
HA رامام راغب کے نزدیک امت میں نبی کا آنا امام راغب نے خاتم النبین کی حقیقی علت یہ بیان فرمائی ہے :- لأنه خَتَمَ النُّبُوَّةَ رَى تَمَّمَهَا بِمَجِيبه - مفردات راغب زیر لفظ ختم ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم اس لئے خاتم انبیین ہیں کہ آپ نے نبوت پر مہر کی ہے.یعنی اُسے اپنی آمد سے کمال پر پہنچا دیا ہے.(یعنی آپ کامل شریعت لے کر آئے ہیں ) امام راغب کے نزدیک شان خاتم النبیین امتی کے لئے مانع نبوت نہیں چنانچہ آیت مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنعَم اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَ الصلحین (نساء ع (۹) کی تفسیر میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں نبوت ، صدیقیت ، شہادت اور صالحیت چاروں مراتب کا ملنا تسلیم کرتے ہیں.اس طرح گویا خاتم النبیین کے حقیقی معنوں پر آیت قرآنیہ کی تفسیر سے روشنی المحیط میں آیت ہذا کی تفسیر میں ڈالتے ہیں.چنانچہ تفسیر لکھا ہے :- وَالظَّاهِرُ انَّ قَوْلَهُ مِنَ النَّبِيِّينَ تَفْسِيرُ لِلَّذِينَ انْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ فَكَانَّهُ قِيلَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُولَ الْحَقَهُ اللهُ بِالَّذِينَ قَدَّمَهُمْ مِمَّنْ
۲۱۹ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ - قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ الْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ الْفَرَقِ الْأَرْبَعِ فِي الْمَنْزِلَةِ وَ التَّوَّابِ النَّي بِالنَّبِي وَالصَّدِّيقَ بِالصِّدِّينِ وَالشَّهِيدَ بالشَّهِيدِ وَالصَّالِحَ بِالصَّالِحِ ، وَ أَجَازَ الرَّاغِبُ أن يَتَعَلَّقَ مِنَ النَّبِيِّينَ بِقَوْلِهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُول أَى مِنَ النَّبِيِّينَ وَمَنْ بَعْدَهُمُ ؛ ر تغیر بحر المحيط جلد ۳ ۲ مطبوعہ مصر ) ش ترجمہ کا ترجمہ اس کا یہ ہے کہ مفتر بحر المحیط لکھتے ہیں.امام راغب کے نزدیک تا الان کا قول خدا الذِينَ ك مِنَ النَّبِيِّينَ كا امتی نبی کا امکان ! انْقَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ کی تفسیر ہے.گویا یہ کہا گیا ہے کہ جو شخص تم میں سے اللہ اور الرسول یعنی حضرت محمد مصطفے خاتم النبیین صلی الہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ان پہلے لوگوں سے ملا دے گا جن پر اس نے انعام کیا ہے.امام راغب نے کہا ہے انعام یافتہ لوگوں سے جو چار گروہ ہیں ، ثواب اور مرتبہ میں ملا دے گا.نبی کو نبی سے، صدیق کو صدیق سے ، شہید کو شہید سے اور صالح کو صالح سے ملا دے گا.اور راغب نے یہ سنے بھی جائزہ رکھتے ہیں کہ مِنَ النَّبِيِّينَ کا تعلق خُدا کے قول مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُول سے ہو ، جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر کے مقام نبوت پانے والے نبی ، صدیق ، شہید اور صالح انعام یافتہ گروہ میں شامل ہیں.
۲۲۰ اس تغیر سے صاف ظاہر ہے امام راغب نے خاتم النبیین ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے جو الفاظ لکھے ہیں ان سے غرض ان کی ختم نبوت کی علت جامعیت کمال بیان کرنا ہی ہے جس کے اثر اور افاضہ سے اُن کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے نہیں.صدیق.شہید اور مصالح کے مدارج بطور موہیت الہی حاصل کر سکتے ہیں.خاتم النبیین کے لام تعریف کی حقیقت ! خاتم النبیین کی تحقیق میں میرا یہ مضمون تشنہ رہ جائے گا اگر میں یہ نہ بتاؤں کہ النبیین کالام اس جگہ کس قسم کا ہے.اور اس کے لحاظ سے خاتم النبیین کے معنوں پر کیا اثر پڑتا ہے.سو واضح ہو کہ زبان عربی میں لام تعریفی کی چار صورتیں ہیں.اول جنس.دوم عهد خارجی - سوم استغراق اور -.چهارم عہد ذہنی.جنس کے لازم تعریف سے صرف شمی کی ماہیت اور طبیعت مراد ہوتی ہے.نہ کہ افراد - جیسے الانسان نوع کا الف لام جنس کا ہے.کیونکہ ماہیت انسانیہ کو نوع قرار دیا جاتا ہے نہ کہ افرادِ انسانی کو.افراد انسانی تو شخصی است ہیں.اس لئے یہ جب نئی امر ہیں نہ کہ گلی.اور نورع امر کلی ہوتا ہے.اگر لام تعریف سے افراد مراد ہوں تو پھر اس کی تین صورتیں ہیں.اگر تمام افراد مراد ہوں تو استغراقی کہلائے گا.اس صورت میں کوئی فرد باہر نہیں رہتا.سوائے اس کے کہ اس سے کسی فرد کو حرف استثناء سے
PPI مستثنیٰ کیا جائے.استغراق کی ایک صورت معرفی بھی ہے.یعنی شرف ہیں جتنے افراد مراد ہو سکتے ہوں لام تعریف سے وہ سب افراد مراد ہوں جیسے جَمَعَ الامير الصاغة.امیر نے سب زرگرونی کو جمع کیا.مراد اس سے شہر یا نک کے زرگر ہوں گے.نہ دُنیا کے.پھر اگر افراد سے بعض مخصوص اور معین افراد مراد ہوں اور تخصیص کسی قرینہ سے صراحہ یا کنا یہ ثابت ہو تو لام تعریف عہد خارجی کا کہلاتا ہے.جیسے فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ہیں النار اور الْكَافِرِينَ کا لام تعریف عہد خارجی کا ہے.کیونکہ آگ سے مخصوص آگ جہنم کی مراد ہے.اور الناس سے اس جگہ کا فر مُراد ہیں بقرینہ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا اور بقرینہ إِن كُنتُم فِي رَيْبٍ.لیکن اگر افراد سے مراد غیر معین موجود افراد ہوں تو لام تعریف عہد ذہنی کا ہوتا ہے.اس میں حقیقت تو ذہن میں ہوتی ہے.اور اس سے بعض موجود غیر معین افراد مراد ہوتے ہیں.اگر مفرد لفظ پر آئے تو ایک غیر معین فرد مراد ہوتا ہے.اگر جمع پر آئے تو جماعت کا ایک حصہ (Znit) غیر معین مراد ہوتا ہوتا ہے.جب لام تعریف جمع پر آئے تو عموماً اس سے افراد مراد ہوتے ہیں.مگر جنس بھی مراد ہو سکتی ہے.اب لام تعریف کی یہ چاروں صورتیں سمجھ لینے کے بعد ہم غور کرتے ہیں کہ خاتم النبیین میں لام تعریف کیسا ہے ؟ چونکہ جنس کا الف لام بالعموم جمع پر
۲۲۲ نہیں آتا اس لئے میں اس کے متعلق بحث کو چھوڑتا ہوں.اب اگر خاتم النبیین کا نام تعریف عہد خارجی کا لیں تو اس سے مراد انبیاء کے معین افراد ہوں گے.جنہیں متکلم اور سامع دونوں کسی خارجی قرینہ سے جانتے ہوں.خاتم النبیین کا لام تعریف حضرت امام علی القادری علیہ الرحمستر اور دیگر بزرگان ملت کے معنوں اور عقیدہ کے لحاظ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع اور آخری مستقل بنی ہیں بلکہ تمام غیر احمدی علماء کے عقیدہ کے لحاظ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کے قائل ہیں.صرف عید خارجی یا استغراق عرفی کا ہی مراد ہو سکتا ہے.یہ لام تعریف يَقْتُلُونَ النبین کے لام تعریف کی طرح ہے.کیونکہ یہودیوں نے سب نیوں کو قتل نہیں کیا بلکہ بقرینہ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ أَن کے ہاتھ سے بعض انبیاء کا قتل ہی مراد ہو سکتا ہے.جب غیر احمدی علماء حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کے قائل ہیں تو خاتم النبیین اور خاتم النبیین کی دونوں قراتوں کے مشترکہ مفہوم کے لحاظ سے اگر الف لام استغراق حقیقی کا اور معنی اس کے تمام نبیوں کو ختم کرنے والا مراد لیں تو پھر شیخ کی آمد محال ٹھہرتی ہے.کیونکہ انہیں ختم شدہ ماننا پڑتا ہے.اس لئے خاتم النبیین کے معنی ختم کرنے والا ہے کہ انہیں الف لام عہد خارجی کا مانے بغیر کوئی چارہ نہیں.غیر احمدی علماء میں سے مولوی محمد شفیع صاحب دیوبندی اور مولوی محمد ادریس صاحب نے اس جگہ لام تعریف کے استغراق حقیقی کا ہونے پر زور دیا ہے.مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ دونوں قراتوں کے مشترکہ مفہوم کے لحاظ سے
۳۳۳ الف لام استغراق کا مراد لے کر پر حضرت میں عالم اسلام کی آمد و محل قرار پاتی ہے.پس یہ لوگ منہ سے گو کہیں کہ ہم اس جگہ استغراق حقیقی تسلیم کرتے ہیں لیکن اُن کے عقیدہ کے لحاظ سے یہ بات حقیقت سے بہت بعید ہے.اُن کے عقیدہ کے لحاظ سے تو آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم صرف مخصوص انبیاء کو ختم کرنے والے قرار پاتے ہیں.لہذا عام تعریف اُن کے عقیدہ کے لحاظ سے عہدِ خارجی یا استغراق عربی کا ہی ہو سکتا ہے ہاں ہمارے عقیدہ کے لحاظ سے نام تعریف استغراق حقیقی کا ہوگا کیونکہ خاتم النبیین کے حقیقی معنے یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تمام انبیاء کے کمالات کے جامع ہیں.اور آپ کی تاثیر اور افاضہ سے ہی تمام انبیاء مقام نبوت پانے والے ہیں.سابقہ انبیاء اگر آپ کے نقطہ نفسی کی تاثیر سے براہ راست یعنی بغیر پیروی شریعت محمدیہ کے مقام نبوت پر پہنچے ہیں تو آئندہ پیدا ہونے والے نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپ کی شریعیت کی کامل پیروی اور آپ کے افاضہ روحانیہ کی تاثیر سے بطور موہبت مقام نبوت پانے والا ہو.یہ امر آپ کی جامعیت کمال کو چاہتا ہے.آپ کی ختم نبوت اگر آپ کے وجود میں جامعیت کمالات نبوت میں انتہائی مقام پر پہنچنے میں موثر ہے تو دوسروں کے لئے فیضان کے لحاظ سے موثر ہے.خواہ وہ نبی مستقل نبی ہوں یا غیر مستقل.اس طرح کوئی فرد نبی کا اس استغراق سے باہر نہیں رہتا.خاتم النبیین کے حقیقی معنوں کو افضلی النبیین اور زینة النبیین کے معنی بلزوم ذاتی لازم ہیں.جامعیت کمالی بالذات ان معنوں کا تقاضا کرتی ہے.لیکن آخری نبی یا نبیوں کوختم کر نیوالا
۲۲۴ لازمی معانی بدلالت التزامی آخری شارع اور آخری مستقل نبی کے مفہوم میں ہیں.اس صورت میں ہم عام تعریف استغراق عرفی یا عہد خارجی کا تسلیم کریں گے.کیونکہ آیت مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ (سورۃ نساء ع 9 ) اور خاتم النبیین کے حقیقی معنے اس صورت میں لام تعریف کے استغراق عرفی یا عید خارجی ہونے کے ہی مؤید ہیں.مولوی محمد ادر ہیں صاحب کے ایک شبہ کا ازالہ ! مولوی محمد اد میں صاحب اپنی کتاب ختم النبوة لا میں لکھتے ہیں کہ لام عہد خارجی کی صورت ہیں لیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء پر کوئی امتیاز نہیں رہتا.اس معنی کے لحاظ سے تو ہر نبی کو کسی خاص قوم اور خاص خطہ کے اعتبار سے منا تم النبیین کہہ سکتے ہیں.مگر ان مولوی صاحب نے غور نہیں فر مایا کہ خاتم النبیین کے معنے آخری شارع یا آخری مستقل بنی لینے سے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ امتیازی شان حاصل ہے جو کسی نبی کو سامل نہیں.کیونکہ امتیاز اسی امر کو کہتے ہیں جو کسی دوسرے کے مقابلہ میں حاصل ہو.جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ امتیاز تمام انبیاء کے مقابلہ میں حاصل ہے کہ آپ آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں تو ان معنوں کے ساتھ پھر الف لام عب خارجی کا یا استغراق عرفی کا لینے میں کیا اشکال رہا.الام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی نبی آخری شارع اور آخری مستقل بنی نہیں.اور آپ کے سوا کوئی نبی شارع انبیاء اور مستقل انبیاء کو شان خاتم النبيين ( ۱۳ )
۲۲۵ تو ختم کرنے والا نہیں.اگر یہ لوگ تمام نبیوں کو ختم کرنے والے معنوں کے ساتھ استغراق حقیقی قرار دیں تو اُن کے اپنے عقیدہ میں تضاد پیدا ہو جائے گا.کیونکہ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا تسلیم کرتے ہیں.پس اس طرح سارے نبی تو ختم نہ ہوئے.کیونکہ پورے طور پر سب نبیوں کو ختم کرنے کا تقاضا تو یہ ہوگا کہ پہلوں میں سے نہ کسی نبی کی شریعت کا فیض واثر باقی ہو.نہ اُن کی نبوت کا اثر باقی ہو.اور نہ اُن کا زمانہ حیات دنیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدباتی ہو.پس غیر احمدی علماء جب تک سلام تعریف عهد خارجی یا استغراق عرفی کا مراد نہ لیں.اس وقت تک اُن کے عقیدہ کا تضاد دور نہیں ہوسکتا.اور اگر تمام نبیوں کو ختم کرنے والا معنی نہ کریں بلکہ نبیوں میں آخری شارع اور آخری مستقل بنبی یا شارع اور نقل نبیوں کو ختم کرنے والا نبی مراد لیں تو پھر تضاد تو دور ہو جاتا ہے مگر یہ معنے امتی نبی کی آمد کو ممتنع قرار نہیں دیتے.میری تحقیق کے لحاظ سے واضح ہے کہ کام استغراق حقیقی کا صرف خاتم الی تین کے حقیقی معنوں میں ہی مراد ہو سکتا ہے.چونکہ آخری نبی اور نبیوں کا ختم کرنے والا معنی بھی ہم بدلالت التزامی اس مخصوص صورت میں کہ آپ آخری شارع اور مستقل نبی ہیں.اور شارع اور مستقل انبیاء کو ختم کرنے والے ہیں تسلیم کرتے ہیں اس لئے ان لازمی معنوں کے لحاظ سے الف لام استغراق عرفی یا عبر خارجی کا ہی ہو سکتا ہے.حقیقی معنوں کے ساتھ استغراق حقیقی اور لازمی معنوں کے ساتھ استغراق عرفی یا عہد خارجی کا لام تعریف ہی خوب مناسب ہے.:
۲۲۶ الف لام عہد ذہنی کا اس جگہ نہ ہمیں مسلم ہے نہ غیر حدی علماء کو، کیونکہ د بعض غیر معین افراد موجودہ کے لئے ہوتا ہے.پس یہ صورت لام تعریف کی اس جگہ مخارج از بحث ہے.خانم کا استعمال حدیث نبوی میں ! ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کی ہے :- آمِينَ خَاتَمُ رَبِّ الْعَلَمِينَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الْمُؤْمِنِينَ دنهایه این اثر حاشیه کشاف مصری محقی محمد الیان و فردوس دیلی ) یعنی آئین رب العالمین کی مہر ہے جو اس کے مومن بندوں پر لگتی ہے.اب آپ صاحبان خود فرما لیں کہ دُعا کے بعد آمین کہنے سے آمین کی جو مہر رب العالمین کی طرف سے اس کے مومن بندوں پر لگتی ہے کیا اُس کے یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ اس شہر کے لگنے پر خدا کے مومن پیدا ہونے بند ہو جاتے ہیں.کوئی معقول آدمی اس جگہ یہ معنے درست قرار نہیں دے سکتا.(1) خاتم کا رب العالمین کی طرف مضاف ہونا بتاتا ہے کہ اس جگہ خاتم کے معنوں میں فیضان ریوبیت مد نظر ہے.اور ربوبیت کا یہ شیعیان اس طرح ہوتا ہے کہ آئین کے اندر اس سے پہلے مانگی گئی دُعا کے تمام نقوش ہو اسْتَجِبْ لنا (ہماری یہ دعا قبول کہ) کی صورت میں پائے جاتے ہیں رب العالمین کے ہاتھ میں مہر بن جاتے ہیں.اور جب یہ مہر مومن بندوں پر لگتی ہے تو وہ نقوش جن پر آمین مشتمل ہوتی ہے دعا کی قبولیت کی صورت میں مومن بندوں
۲۲۰ کے حق میں ظاہر ہوتے ہیں.یہ اس خاتم کی تاثیر ہوتی ہے جو اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ مون کو وہ تمام برکات اور رحمتیں مل جاتی ہیں جو وہ آئین کے ذریعہ طلب کرتا ہے.میں طرح سنا تم النبیین کی مہر رضا نمیت بمعنی حقیقی شہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف یا غیر امتی کے بنی بننے میں روک ہے ویسے ہی آئین کی خاتم کے نباض اور اللہ کے ذریعہ عباد اللہ سے خُدا تعالیٰ مطلوبہ برکات کے مخالف اثر کو روک دیتا ہے.اور اس طرح حقیقی معنوں کے ساتھ منع اور استنشاق کا مفہوم بھی بطور لازمی معنے کے جمع ہو جاتا ہے.(۳)، پھر اس جگہ مَا نَمُ رَبِّ الْعَلَمِينَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الْمُؤْمِنِينَ.میں زینت کے معنے بھی بطور لازم معنیٰ کے چسپاں ہو سکتے ہیں کیونکہ آمین کی گر جب قبولیت دعا کی صورت میں مومن بندروں پر لگتی ہے تو اس سے مومن بندے برکات حاصل کر کے روحانی اور جسمانی زینت پاتے ہیں.احادیث نبویہ سے ہمارے معنوں کی تائید نبو (1) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا ہے :- " أنا قائِدُ المُرْسَلِينَ : (کنز العمال جلد ا مننا ) اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ آپ اپنی قیادت اور لیڈرشپ کے اثر کے ذریعہ اپنے کمالات کو ظاہر کرنے والے ہیں.قائد کے لئے ضروری ہے کہ اُس کے تابعین ہوں.پس جو ہستی انبیاء کی قائد ہو اس کے بعد اُس کے
۲۲۸ اس دعوی کے ثبوت کے طور پر کسی ایسے نبی کو بھی آنا چاہیے جو اس کی قیادت اور تابعیت کے ماتحت کام کرے.ورنہ تمام انبیار کا قائد ہونا ایک ایسا دعویٰ ہو گا جس پر مخالفین اسلام کے لئے کوئی دلیل قائم نہ ہو سکے گی (۲) پھر آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- اَنَا سَيْدُ الاَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ مِنَ النَّبِيِّينَ " (رواہ الدیلمی ) یعنی ہیں تمام پہلے اور پچھلے انبیاء کا سردار ہوں.پہلے اس حدیث کے مطابق آپ کے بعد بھی نبی آنے چاہئیں تا آپؐ آخرین کے سردار بھی قرار پائیں.وو (۳)، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- علمتُ عِلْمَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ " بجوال تحذير الناس ) یعنی یکی اولین اور آخرین کا علم دیا گیا ہوں.اس جگہ بھی اولین اور آخرین گراد انبیاء ہی ہیں ورنہ محض امتیوں کا علم دیئے جانے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فخر و شرف ہو سکتا ہے ؟ (۴) پھر صا حبزادہ ابراہیم نہ کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.لو عاش لَكَانَ صِدَ يُقَا نَبِيَّا ، وابن ماجه جلد کتاب الجنائز) صاحبزادہ ابراہیم ان کی وفات شہد میں ہوئی.خاتم النبیین کی آیت شد میں نازل ہو چکی ہوئی تھی.اگر خاتم النبیین کے آپ کے نزدیک یہ معنے ہوتے کہ آپ کی پیروی میں بھی نبی نہیں آسکتا تو پھر تو یہ فرمانا چاہیے تھا کہ ابراہیم
۲۲۹ حضرت اگر زندہ بھی رہتا تو نبی نہ ہوتا کیونکہ میں آخری نبی ہوں.اسی حدیث کی بناء پر القاری علیہ الرحمہ نے موضوعات کبیر ۵۹۷۵ پر لکھا ہے کہ اگر سا جزادہ ابراہیم نبی ہو جاتے تو ان کا نبی ہو نا خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا.کیونکہ وہ آپ کے تابع ہوتے.خاتم النبیین کے معنے یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسانی نہیں آسکتا ہو آپ کی شریعیت کو منسور ذکرہے.اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.چونکہ صاحبزادہ ابراہیم است بنی ہوتے لہذا ان کی نبوت ختم نبوت کے منافی نہ ہوتی.قصر نبوت والی حدیث نبوی کی تشریح ! صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں ایک حدیث مروی ہے :.إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِى كَمَثَلِ رَجُلٍ بي بَيْتًا فَاحْسَنَهُ وَاجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضَعَ لَبِنَةِ مِنْ زَاوِيَةٍ نَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجِبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلاً وضِعَتْ هَذِهِ اللبِنَةُ قَالَ فَانَا اللَّبِنَةُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری اور مجھے سے پہلے انبیاء کی مثال ایسے شخص کی مثال کی طرح ہے جو ایک گھر بنائے اور اس کو اچھا اور خوبصورت بنائے.سوائے ایک اینٹ کی جگہ کے جو ایک کو نہ میں ہو.پس لوگ اُس گھر کا
طواف کریں اور حیران ہوں اور کہیں کہ یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی.فرمایا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) ہیں اینٹ ہوں.اور میں خاتم النبیین ہوں.وہ (۱) اس حدیث کے متعلق سب سے پہلے یہ بات قابل غور ہے، کہ اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اور اپنے سے پہلے انبیاء کی ایک بلکہ محل سے تمثیل دی ہے.نبوت تشریعی اور نبوت مستقلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیشک اس نبوت کی آخری اینٹ ہیں اور ان معنوں میں آخری نبی ہیں کہ آپ آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والا نبی چونکہ تابع اور غیر مستعمل ہے اس لئے وہ اس جگہ زیر بحث نہیں آسکتا کیونکہ تمثیل میں پہلے انبیاء کا ذکر ہے جو مستقل حیثیت میں بنی ہیں.تابع اور امتی نبی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل ہے.اور اس کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی الگ نبوت ہی نہیں نطقی اور امتی نبی کی نبوت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتوار و برکات کے علی وجہ الکمال پانے کا ہی نام ہے.پس یہ نبوت تو اس آخری نبی کا فیضان اور اس کا پرتو ہے کوئی نبی نبوت نہیں.پس آخری اینٹ آپ در اصل صرف محل شریعیت کو کامل کرنے اور جامعیت کمال کے لحاظ سے ہیں.(۲) دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتے.کیونکہ اس قصر وقت
۲۳۱ میں ان کی نبوت کی اینٹ جس جگہ لگی ہے تمثیل کے لحاظ سے اُس جگہ کے ساتھ والی جگہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی اینٹ نصب ہوئی ہے اب اگر حضرت عیسی " امت محمدیہ میں آئیں تو بنی اسرائیل والے مقام سے اُن کی اینٹ نکل کر بعد میں اسی طرح جگہ پا سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امینٹ کو نہ سے ہٹ کر اور آگے ہو جائے.اور حضرت علی والی جگہ لے لے.اور حضرت عیسی کی اینٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی اینٹ والی جگہ پر لگائی جائے.اس طرح کو بنے کی اینٹ حضرت عیسی علیہ السلام بن جائیں گئے.اور خاتم النبیین ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی خصوصیت چھین لیں گے جو امر محال ہے.علاوہ ازیں تکمیل محل متقاضی ہے کہ اس سے کوئی اینٹ اپنی جگہ سے ہلائی نہیں جاسکتی.ورنہ وہ محل پھر ایک دفعہ نامکمل ہوگا.- (۳) محققین علماء کے نزدیک اس حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ نبوت جو آدم علیہ السّلام سے شروع ہوئی اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں کمال کی انتہاء کا مقام حاصل کیا ہے.انہی معنوں میں آپؐ آخری اینٹ اور خاتم النبیین ہیں کہ نبوت آپ پر کمال کے درجہ پر پہنچی ہے.چنانچہ مقدمہ ابن خلدون مال پر لکھا ہے : ” نَفَسِرُونَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ بِاللَّبِنَةِ حَى اَحْمَلَتِ الْبُنْيَانَ وَمَعْنَاهُ النَّبِيُّ الذِى حصلَتْ لَهُ النُّبُوَةُ الْكَامِلَةُ ،
۲۳۲ یعنی خاتم النبین کی تفسیر اینٹ سے کرتے ہیں یہاں تک کہ اُس اینٹ نے عمارت کو مکمل کر دیا معنی اس کے وہ بنی نہیں جیں کو نبوت کاملہ حاصل ہوئی یا یعنی آپ نے شریعت کو مکمل کر دیا ہے.چنانچہ علامہ ابن حجر اس کی تشریح میں فرماتے ہیں : الْمُرَادُ هِنَا النَّظُرُ إِلَى الأَكْمَلِ بِالنِّبَةِ إلَى الشَّرِيعَة المُحَمَّدِيَّةِ مَعَ مَا مَضَى مِنَ الشَّرَائِمِ الْكَامِلَةِ " رفتح الباری جلد منش۳ ) یعنی مراد اس تکمیل عمارت سے یہ ہے کہ شریعت محمدیہ پہلے گزری ہوئی کامل شریعتوں کے مقابلہ میں اکمل سمجھی جائے.یعنی اس مثال سے شریعت محمدیہ کا دوسری شریعیتوں کے مقابلہ میں اکمل قرار دیا مقصود ہے.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حدیث میں ران معنوں میں خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے کہ آپ نے شریعت محمدیہ کو دوسری شریعتوں کے مقابلہ میں اکمل بنا دیا ہے.گویا شریعیت لانے والے انبیاء میں سے آپ اکمل نبی ہیں.پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپؐ کے بعد نبوت مطلقہ کا دروازہ اس طرح بند کر دیا گیا ہے کہ غیر تشریعی امتی نبی بھی آپ کے بعد نہیں آسکتا.شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی فصوص الحکم میں فرماتے ہیں:.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کو خشت کی دیوار سے
۲۳۳.کی تشبیہ دیا.اور وہ دیوار نبوت کی سوائے ایک خشت کی جگہ کے پوری ہو چکی تھی.اورخود رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم وہ خشت آخر تھے.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک خشت ہی دیکھا.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان مبارک سے فرمایا اور خاتم الاولیاء یعنی امام مہدی علیہ السلام کو یہ دیکھنا ضرور ہے کہ وہ بھی نبوت کو دیوار کے مشابہ پاتے ہیں.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تمثیل دی ہے اور خاتم الاولیاء نبوت کی دیوار میں دو اینٹ کی جگہ خالی پاتے ہیں.ایک اینٹ سونے کی اور دوسری اینٹ چاندی کی.پس دو اینٹ کے بغیر دیوار کو ناقص پاتے ہیں.ان دونوں سے یعنی سونے اور چاندی کی دو اینٹوں سے اس کو کامل پاتے ہیں.پس ضرور ہے کہ وہ اپنے نفس کو دونوں اینٹوں کی جگہ پر منطبع ہوتے ہوئے دیکھیں.اب خاتم الاولیا ر ہی وہ دونوں اینٹ ہوئے.اور انہی سے یہ دیوار پوری ہوتی ہے.خاتم الاولیاء کے اس دو اینٹ دیکھنے کا یہ سبب ہے کہ وہ ظاہر میں خاتم الرسل کی شریعیت کے تابع تھے.اور اسی متابعت سے وہ نقرئی رخشت کے مرتبہ پر تھے.اور یہ اُن کا ظاہری مرتبہ تھا.
۲۳۴ اور وہ اُن کے متابعت احکام کی صورت تھی.اور باطن میں خاتم الاولیاء ان چیزوں کو اللہ سے لیتے ہیں جیں ہیں دوسروں کے امام اور متبوع ہیں.کیونکہ وہ امور کو اس کے اصلی حالات پر دیکھتے ہیں اور خاتم الاولیاء کو اس طرح دیکھنا ضرور ہے.اسی سے باطن میں وہ طلائی خشت کے قائم مقام تھے.کیونکہ وہ اسی معدن سے لیتے ہیں میں سے جبریل لے کر رسول اللہ کے پاس وحی پہنچاتے تھے " ترجمه فصوص الحکم مترجم مولوی عبدالغفور این مولودی اولاد علی بہاری صفحه ۱۶، ۱۷ نص شیشیه ( ۲ ) حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کا یہ بیان اپنے مضمون میں واضح ہے.اور کسی مزید تشریح کا محتاج نہیں.آپ کے نزدیک راس تمثیل میں خاتم الاولیاء بھی داخل ہے اور وہ ولایت کی نقرئی اینٹ کے علاوہ جو اُس کی اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت ہے، باطنی کمالات کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل فیل ہو کہ آپ کی طلائی اینٹ کے قائم مقام ہے.اس سے ظاہر ہے کہ خاتم الاولیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے بلحاظ نبوت کوئی الگ وجود نہیں رکھتا.اس کی نبوت خلقی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی نبوتت ہے.اس لئے وہ آخری اینٹ میں داخل ہے.
۲۳۵ ختم نبوت کی حقیق کے بارے میں شیوں حملہ اقوال احباب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوحقیقی معنوں میں خاتم النبیین ماننے کے لئے مجبور ہیں.کیونکہ تفسیر صافی میں ایک حدیث نبوی کیوں وارد ہے :- في المناقبِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ قَالَ أنَا خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَانتَ يَا عَلَى خَاتَمُ الْأَوْلِيَاء تفسیر صافی زیر آیت خاتم النبيين ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتم الاولیاء ان معنوں میں قرار نہیں دیا ہے کہ آپ نے کے بعد کوئی دلی نہیں ہوگا.بلکہ ان معنوں میں قرار دیا ہے کہ ان کی تاثیر قدسیہ اور افاضہ رومانیہ سے اُن کے متبع کو مقام ولایت مل سکتا ہے.یہی خاتم کے لحاظ لغت عربی حقیقی معنی ہیں.پس جب خاتم الاولیاء کے یہ معنے ہوئے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی پیر سے مقام ولایت مل سکتا ہے تو نہیں خاتم الانبیاء کے بھی یہی معنی لینے پڑیں گے کہ آپ کی پیروی اور افاضہ روحانیہ اور تاثیر د سیرت آپ کے کامل امتی کو مقام نبوہ مل سکتا ہے.شیعوں کی گفت مجمع البحرین میں لکھا ہے :.مُحَمَّدٌ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ يَجُوزُ فَلَحَ التَّاءِ وَكَشِرُهَا فا لفتح مدى الذِيْنَةِ مَأْخُوذُ مِنَ الْخَاتَمِ الَّذِى هو زينة للابه " "
یعنی خاتم الن تاء کی زبر اور زیر دونوں سے ہے.خاتم کے معنے زینت ہیں.جو انگشتری سے ماخوذ ہیں جو پہنے والے کے لئے زینت ہوتی ہے اس لحاظ سے حضرت علی نے کے خاتم الا لیا ، ہونے کے یہ معنے ہوئے کہ آپ اولیاء اللہ کی زینت ہیں اور خاتم الانبیاء کے معنے یہ ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کی زینت ہیں.پھر حضرت علی کرم اللہ وجہهہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں فرماتے ہیں :- الخَاتِمُ بِمَا سَبَقَ وَالْفَاتِحَ لِمَا الْخَلَقَ » ** (نهج البلاغة ورق (19) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پچھلے انبیاء اور اُن کے فیضان کے خاتم ہیں.لیکن جو مراتب اور کمالات نبوت اس طرح بند ہوئے وہ اب آپ کے واسطہ سے ملاکریں گے.کیونکہ آپ اُن کے فاتح رکھولنے والے بھی ہیں.گویا آپ کے فیضان سے مقام نبوت آپ کے امتی کو مل سکتا ہے.اسی طرح شیعہ اصحاب کی معتبر کتاب بحار الانوار جلدی شد ۳ میں لکھا ہے :." اِعْلَمْ اعلم ان ما ذكرَةً رَحْمَةُ اللَّهِ مِنْ فَضْلِ نَبِيِّنَا وَ ايَتِنَا صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ عَلَى جَمِيعِ الْمَخْلُوقَاتِ وَكَوْنِ امَّتِنَا عَلَيْهِمُ السَّلَامُ أَفْضَلَ مِنْ سَائِرِ الْأَنْبِيَاءِ هُوَ
۲۳۷ الَّذِي لَا يَرْتَابُ فِيهِ مَنْ تَتَبَّعَ أَخْبَارَهُمْ ، یعنی امام رحمتہ للہ علیہ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے ائمہ صلوات لہ علیہم کی تمام مخلوقات فضل و برگزیدگی کا ذکرکیا ہے اور بتایا ہے کہ ہمارے مته عليه السلام تمام نبیوں سے افضل ہیں.اس بات میں وہ شخص شکک نہیں کر سکتا جو ان ائمہ کے حالات تلاش کرے.یہ ظاہر ہے کہ کوئی غیرنی تمام نبیوں سے افضل قرار نہیں دیا جاسکتا ) به شیعہ اصحاب حضرت امام مہدی علی اسلام کے متعلق یہ سلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے ریول ہونے کا ان الفاظ میں اعلان کریں گے فَفَرَرْتُ مِنْكُمُ لَمَّا خِفْتُكُمُ فَوَهَبَ لِى رَبِّي حكما و جَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ " (اکمال الدین مشا) یعنی آپے لوگو ! جب میں تم سے ڈرا اور اس پر بھاگ گیا تو خدا تعالیٰ نے مجھے حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں سے بنا دیا.و :- برا هشت پھر اکمال الدین شا ۳ پر ایک اصولی بیان درج ہے کہ : فالهداة مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَالْأَوْصِيَاءِ لَا يَجُوزُ انْقِطَاعُهُمْ مَا دَامَ التكليفُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَازِمًا لِلْعِبَادِ " یعنی جب تک اللہ تعالیٰ کے بندے احکام ماننے کے مکلف ہیں اس وقت تک انبیاء اور اوصیاء کا انقطاع جائز نہیں.پھر صافی شرح اصول کافی میں لکھا ہے من أبى الحسنِ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ وَلَايَةٌ عَلي مَكْتُوبَةٌ فِي
PFA صحت الأنبياءِ وَلَن يَبْعَثَ اللَّهُ رَسُولًا إِلَّا بِنُبُوَّة مُحَمَّدِ صَلى الله عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ وَوَصِيَّةِ عَلَى : رصافی شرح اصول کافی جز و سوم حصہ ۲ ۲۲۰ مطبوعه نو لا شور ).یعنی امام ابو الحس موسی کاظم فرماتے ہیں ، حضرت علی کی ولایت تمام نبیو کے صحیفوں میں لکھی ہوئی ہےاور خداتعالی اند کسی کو ہرگز رسول بناکر نہیں بھیجے گا سوائے اس شخص کے جی کونبی کریم صلی الہ علیہ و آلہ دوم کے ذریعہ سے نبوت ملے.اور وہ حضرت علی نہ کی وصیت کا قائل ہو.چنانچه آیت هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ کے بارہ میں بحارالانوار میاد و املا میں لکھا ہے کہ نَزَلَتْ فِي الْقَائِمِ مِنْ الِ مُحَمَّد یعنی یہ آیت امام مہدی علیہ السلام کے بارہ میں نازل ہوئی ہے.چنانچہ نمایتہ المقصود جلد ۲ ۱۲ میں لکھا ہے :- راف مراد از رسول درین جا امام مهندگی موجود است ؟ یعنی رسول سے مراد اس جگہ دیعنی اس آیت میں ، امام مہدی موعود ہے یہ جن حوالہ جات اپنے منطوق پر خود ہی روشن گواہ ہیں کسی تشریح کے محتاج نہیں شیعہ اصحاب کے نزدیک حضرت امام مہدی کا مرسلین میں سے ہونا ضروری ہے.پس اُن کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان معنوں میں خاتم انہیں نہیں کہ آپ کے بعد پریم کی نبوت کا دروازہ بند ہو بلکہ ان معنوں میں خاتم النبیین ہیں کہ آپ کے واسطہ سے نبوت کا مقام مل سکتا ہے.
۲۳۹ میرے نظریہ اور تحقیق کے فوائد فائدہ او ام تین بڑے فائدے ا خاتم النبین کی لغوی تحقیق جو میں نے پیش کی ہے اُس کو اچھی طرح سمجھ لینے سے تین فوائد حاصل ہوتے ہیں.اول یہ کہ اس سے صاف کھل جاتا ہے کہ اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و ستم و حقیقی معنوں میں خاتم النبیین جماعت احمدیہ ہی تسلیم کرتی ہے.ہمارے مخالف ، علماء آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو صرف مجازی معنوں میں ہی خاتم النبین تسلیم کرتے ہیں.دوسرا فائدہ اس نظریہ کو سمجھ لینے سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ میری تحقیق فائدہ دوم کے مطابق خاتم النبی کے تین منوں کے ساتھ اسکے تمام بازبی معانی بھی جمع ہو جاتے ہیں.اس لئے ہم ہی یہ بات کہہ سکتے ہیں اور ہمیں ہی یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل خاتم النبیین صرف ہم یعنی جماعت احمدیہ ہی تسلیم کر رہی ہے نہ کہ ہمارے مخالف علماء خاتم کے محاورات کی حقیقت اور قسمیں ! تیسرا فائدہ سوم ایسے نظریہ اوریقی کو پکے طور پر کچھ لینے کا یا فائدہ یہ ہے پور کہ وہ تمام محاورات جو خاتم یا خاتم کے کسی گروہ کی طرف مضاف ہونے کے متعلق استعمال ہوتے ہیں آپ ہی آپ موقعہ اور مقام
۲۴۰ کے لحاظ سے اپنے معنے متعین کر دیتے ہیں.بزرگان دین اور اہل علم اصحاب نے کئی لوگوں کو خاتم الاولیاء با اتم الحج يا خاتم الحفاظ يا خاتم المفسرين يا خاتم الشعراء یا خاتم الاکا بر قرار دیا ہے یا عقل کو خاتم انگل کہتے ہیں یا بادشاہ کو خاتم الحکام یا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ الا السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خاتم انبیاء بنی اسرائیل لکھا ہے.اور اپنے تر باپ کے گھر میں خاتم الاولاد.یں اپنی تحقیق میں بتا چکا ہوں کہ خاتم یا خاتم جب جمع کی طرف مضاف ہو تو اس کے حقیقی معنی تو یہ ہوں گے کہ یہ شخص اس گروہ کے تمام کمالات کا جامع ہے اور اس کی تاثیر اور فیوض سے اُس گروہ کے افراد جیسے افراد پیدا ہو سکتے ہیں.ہاں اس گروہ کا محض آخری فرد یا اس گروہ کو ختم کرنے والا فرد محض مجازی معنی ہیں جن کا حقیقی معنوں کے ساتھ اجتماع محال ہے.اس گروہ کی زہنیت اور اُس گروہ کا افضل فرد حقیقی معنوں کے تابع معنی اور لازمی معنی ہیں.اور کبھی ایک محدود اور معین صورت میں آخری فرد اور ختم کرنے والا کے معنی بھی حقیقی معنوں کے ساتھ بطور لازم معنوں کے جمع ہو سکتے ہیں.بشرطیکہ ان معنوں کے لزوم پر کوئی قرینہ یا نفق موجود ہو.ہاں اُس گروہ کا محض آخری فرد یا اُس گروہ کو بالکل ختم کرنے والا یہ معنے محض مجازی ہیں جو حقیقی معنوں کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ تم امر ہے کہ حقیقت لغویہ کے ساتھ مجاز لغوی کا جمع ہونا محال ہے.اور مجاز لغوی وہاں ہی مراد لیا جا سکتا ہے جہاں حقیقت تغویہ متحدر اور محال ہو.5 تان خاتم النبین ۱۵
۲۴۱ خاتم کے محاورات کا حل اب اس تحقیق کو سامنے رکھ کر جب ہم دیکھتے ہیں توخاتم الاولیاء، خاتم المحدثین خاتم الحفاظ ، خاتم المفترين ، خاتم الشعراء ، خاتم الاكابر ، خاتم الحكام اور عمل کا خاتم الکل ہونا ایسے القاب ہیں جن میں حقیقی معنی کا پایا جانا محال اور متعذر نہیں.کیونکہ حقیقی معنی کے لحاظ سے خاتم الاولیاء وہ ہوگا جو جامع کمالات ولایت ہو.اور اپنے زمانہ میں جس کی تاثیر اور افاضہ سے ولی پیدا ہوسکیں ، خاتم المحرتین و الحفاظ و المفترین وہ لوگ ہوں گے جو ان کمالات کے جامع ہوں اور جن کی تاثیریعنی افاضہ سے اُن کے شاگردوں میں محدث ، حافظ اور مفتر پیدا ہو سکیں.اور خاتم الشعراء وہ ہوگا جو اپنی تاثیر سے اپنے شاگردوں کو شاعر بنا سکے.اور خاتم الا کا ہر وہ ہوگا جس کے قرب واتباع سے بڑے آدمی پیدا ہو سکیں.ہیں.اور خاتم الحکام وہ بادشاہ ہو گا جس کے زمانہ میں اُس کی مہر اور حکم سے دوسرے لوگ حاکم بن سکیں.ان سب القاب میں حقیقی معنے چسپاں ہوں گے.اور افضلیت کے معنے ان حقیقی معنوں کے تابع ہوں گے.اور ان حقیقی معنوں کو لازم ہوں گے.خواہ اس محاورہ کو استعمال کرنے والا اس حقیقت کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو.عقل خاتم الکل اس لئے ہے کہ اس کی تاثیر سے دنیا میں بڑے بڑے کمالات ظاہر ہوتے ہیں.اس لئے عقل لازماً وجود ، حیات اور قدرت وغیرہ نعمتوں کے مقابلہ میں افضل ہوگی.لیکن اگر کسی ایسے مرکب اضافی کے حقیقی معنے نہ لئے جا سکتے ہوں تو وہاں افضلیت :
۲۴۲ کے معنے بھی ہرگز مراد نہ ہوں گے چنانچہ خاتم انبیاء بنی اسرائیل کا مرکب اضافی بانی سلسلہ احمدیہ نے حضرت علیمی علیہ سلام کے حق میں صرف مجازی معنوں میں ہی استعمال کیا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیاء کا آخری فرد ہیں.ان الفاظ سے اُن کی صرف تاریخی حیثیت بتانا مقصود ہے.نہ یہ بتانا کہ اُن کے انام ہے بنی اسرائیل میں بعض انبیاء پیدا ہوئے.کیونکہ یہ معنے تو واقعات کے خلاف ہیں.پس اس جگہ قرینہ حالیہ حقیقی معنیٰ کے محال ہونے پر شاہد ہے.اسی طرح اپنے متعلق آپ نے تریاق القلوب میں خاتم الاولاد کے الفاظ محازاً استعمال کئے ہیں.جس پر قریہ یہ ہے کہ آپ نے خود وہاں یہ معنی بتا دئیے ہیں کہ آپ اپنے باپ کے گھر میں آخری فرزند ہیں.میں خاتم الاولاد کے الفاظ بھی اس جگہ محض ایک واقعہ کا تذکرہ ہیں.اور تاریخی بیان کی حیثیت رکھتے ہیں.اور مجازی استعمال ہیں.حقیقی معنوں میں استعمال نہیں ہوئے.پس جہاں پر ایسا مرکب اضافی حقیقی معنوں کا متحمل نہ ہو وہاں افضلیت کے معنے مراد نہ ہوں گے.آخری کے مجازی معنے مراد ہوں گے اور خود حقیقی معنوں کا محال ہونا وہاں مجاز کے لئے قرینہ ہو گا.لیکن جہاں پہ ایسا مرکتب حقیقی معنوں کا متحمل ہو وہاں بالضرور ان حقیقی معنوں کے بالتبع اس خاتم یا خاتم سے مراد اس گروہ کا افضل فرد ہوگا.اسی لیئے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم چونکہ حقیقی خاتم النبیین ہیں اس لئے آپ افضل النبیین کے معنے میں بھی خاتم النبیین ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ملفوظات
جلد اول ۳۲۰ میں خاتم المومنین اور خاتم العارفین قرار دیا ہے.اور آئینہ کمالات اسلام ۵۶ میں خاتم الحسينين و الجمیلین لکھا ہے.چونکہ اس جگہ بھی یہ حقیقی معنی چسپاں ہو سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کی تاثیر سے مومن عارف اور روحانی حسن و جمال رکھنے والے لوگ پیدا ہوتے ہیں.اس لئے ان معنوں کے بالتبع آپ افضل المؤمنين ، افضل العارفين اور افضل الحسینین اور افضل الجمیلین ہیں.- مسیح موعود اور خاتم الخلفاء کا مقام ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقة الوحی منت پر اپنے میں خاتم الخلفاء اور آخری خلیفہ قرار دیا ہے.کیا اب آپ کے بعد کوئی خلیفہ نہ ہوگا؟ اگر یعنی ہیں تو کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کو آخری نبی کے معنوں میں خاتم النبيين نہ سمجھا جائے.اس کے جواب میں عرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی حقیقی معنوں میں خاتم الخلفاء ہیں.جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقی معنوں میں خاتم الانبیاء ہیں.خاتم النبیین کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور افاضہ روحانیہ کے طفیل مقام نبوت آپ کے ایک کامل امنی کو مل سکتا ہے اسی طرح خاتم الخلفاء کے یہ معنی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کامل متبعین کو اب آپ کے واسطہ سے ہی مقام خلافت حاصل رہے گا.آپ کا مت کر اب منصب خلافت پر سرفراز نہیں ہو سکتا.
۲۴۴ پھر جس طرح خاتم النبیین کے حقیقی معنوں کے ساتھ آخری نبی کے معنی بطور لازمی معنوں کے جمع ہیں ویسے ہی خاتم الخلفاء کے حقیقی معنوں کے ساتھ آخری خلیفہ کے لازمی معنے بھی جمع ہیں.خاتم النبیین کے یہ لازمی منے یہ مفہوم رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع اور آخری مستقل بنی ہیں نہ کہ مطلق آخری نبی.اسی طرح خاتم الخلفاء کے لازمی سنے یہ ہیں کہ مسیح موعود وہ آخری خلیفہ ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ ولم کے واسطہ سے مقام خلافت پایا ہے.چونکہ آپ حقیقی معنوں میں خاتم الخلفاء ہیں اس لئے آئندہ اس مقام کو پانے کے لئے مسیح موعود کا واسطہ شرط ہو گا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ اسلام نے مسیح موعود کے دمشق کے مشرق میں منارة البیضاء کے پاس نزول کے بیان پر عمل حدیث کی تشریح میں فرمایا ہے :- ثمَّ يُسَافِرُ المَسِيحُ المَوْعُودُ أَوْخَلِيفَةً مِنْ خُلَفَائِهِ إلى أَرْضِ دمشق " (حامة البشرى ما ) یعنی مسیح موعود خود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ سفر کر کے دمشق میں جائیگا اور منارۃ البیضاء کے پاس بحیثیت نزیل اُترے گا.اس سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کے خلفاء ہوں گے.یہ پیشگوئی ء میں ضرت امیرالمومنین خلیفہ ایسی الثانی کے سفر مشق سے ۱۹۲۳ پوری ہوئی.فالحمد لله على ذلك خَاتَمُ الْمُهَاجِرِينِ والی حدیث نبوی کی تشریح حضرت عباس مینی اللہ عنہ نے مکہ سے مدینہ منورہ کو آخر میں ہجرت کی.
۲۴۵ چنانچہ اصابہ جلد ۳ ماہ میں ہے هَاجَرَ قَبْلَ الْفَتِمِ بِقَلِيلِ وَشَهِدَ الْفَتْمِ کہ حضرت عباس نے فتح مکہ سے تھوڑا عرصہ پہلے ہجرت کی.اور وہ فتح مکہ کے وقت مہاجرین میں موجود تھے.حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جب آخر میں ہجرت کی تو انہیں احساس پیدا ہوا کہ میری ہجرت پو را ثواب نہ پانے کے لحاظ سے ناقص رہی ہے.کیونکہ میں نے آخر میں ہجرت کی ہے.اس سے وہ بہت پریشان تھے.اور گھبرا رہے تھے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا : اطْمَئِنَ يَا عَةِ فَانَّكَ خَاتَمُ الْمُهَاجِرِينَ فِي الْهَجْرَةِ كَمَا أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فِي النُّبُوَةِ " كنز العمال جلد مكا) یعنی اسے چھا ! آپ مطمئن ہو جائیں کیونکہ آپ ہجرت میں خاتم المہاجرین ہیں جیسے میں نبوت میں خاتم النبیین ہوں.اس حدیث کو پیش کر کے غیر احمد علماء کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت عباس آخری مہاجر تھے اور رسول اله صل اللہ علیہ سلم نے ان کو آخری مہاجر ہونے کے لحاظ سے خاتم المہاجرین قرار دے کر اپنے خاتم النبیین ہونے کے ساتھ تشبیہ دی ہے.لہذا معلوم ہوا کہ آنحضرتصلى اله علیہ سلم بھی خاتم النبین معنی حتی آخری نبی ہیں ند که معنی افضل النبيين - یکی قبل ازیں بتا چکا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقی معنوں میں بھی خاتم النبیین ہیں جو جامعیت کمالات انبیاء اور تاثیر اور انامہ روحانیہ ہیں.ان معنوں کے علاوہ آپ آخری نبی کے معنوں میں بلحاظ آخری شارع اور آخری مستقل بنی ہونے
۲۴۶ کے آخری نبی بھی ہیں.یہ خاتم النبیین کے لازمی معنی ہیں جو بدلالت التزامی ثابت ہیں پھر خاتم النبیین کے حقیقی معنی کے مفہوم میں افضلیت کے معنے بھی شامل ہیں اور آخری نبی کے لازمی معنوں کے ساتھ صرف حقیقی معنوں کی وساطت سے جمع ہیں.اس حدیث میں خاتم النبیین کے آخری نبی صرف لازمی معنی مراد ہیں.اور ان لازمی معنوں سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے آخری مہاجر ہونے کو تشبیہ دی گئی ہے نہ کہ افضلیت کے معنوں میں جو خاتم النبیین کے حقیقی معنوں " نبوت میں موثر وجود کے ایک دوسرے لازمی معنی ہیں.خاتم المهاجرین والی حدیث کا سیاق اس حدیث کے سیاق سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قول سے مقصود حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو یہ اطمینان دلانا تھا کہ تمہاری ہجرت ناقص نہیں بلکہ تم ہجرت کا پورا ثواب حاصل کرو گے.گو تم واقعہ کے لحاظ سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے آخری فرد ہو جس طرح میں آخری شارع اور آخری مستقل بنی ہوں.سیاق کلام بناتا ہے کہ اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ہجرت میں محض آخری فرد قرار دنیا نہ تھی.ایسا تو وہ خود اپنے آپ کو خیال کر رہے تھے.اور اپنے تئیں آخری مہا جو سمجھنے کی وجہ سے ہی تو وہ پریشان ہو رہے تھے کہ میری ہجرت ناقص رہ گئی ہے.اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُن کو مہاجرین کا محض آخری
۲۴۷ فرد قرار دینا مقصود ہوتا تو اس سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کیسے اطمینان محصل ہو سکتا تھا.انہیں تو اطمینان اور ستی تبھی ہوسکتی تھی جب کہ یہ الفاظ اُن کے حق میں کسی طرح محل مدرج میں استعمال کئے گئے ہوں.اطْمَئِنَ يَا عَم ! اسے بچا ! آپ تسلی پائیں کے الفاظ اس بات کے لئے قوی قرینہ ہیں کہ خاتم المهاجرين کے الفاظ حضرت عباس رضی رفتہ کے حق میں محل مارچ میں استعمال ہوئے ہیں.اس جگہ ایک ار امر پر بھی غور کرنا ضروری ہے تا کہ ہم یہ امری طور پر معلوم کر سکیں کہ خاتم المهاجرین جوشتہ ہے اس کو خاتم النبیین شبہ یہ سے کس بات میں تشبیہ دی گئی ہے.وجہ شبہ وہ امر جس میں تشبیہ دی گئی ہے، دریافت کرنے میں ہمیں اس امر کو ملحوظ رکھتا ہو گا کہ حدیث میں صرف خاتم المہاجرین کو خاتم النبیین سے تشبیہہ نہیں دی گئی.بلکہ خاتم الْمُهَاجِرِينَ فِي الْهَجْرَةِ لَو خَاتَمُ النَّبِيِّينَ في السبورة سے تشبیہ دی گئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب تھے.لہذا آپ کے کلام میں خاتم المہاجرین کے ساتھ الهجرة اور خاتم النبیین کے ساتھ النبوۃ کے الفاظ بلاوجہ قرار نہیں دیئے جاسکتے.بلکہ اُن کا اس تشبیہہ کے سمجھانے میں بڑا دخل ہے.اب واضح ہو کہ خاتم الْمُهَاجِرِينَ فِي الهجرة کے یہ معنے ہیں کہ مکہ سے مدینہ کی طرف جو ہجرت مخصوصہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہوئی ہے اس کے لحاظ سے حضرت عباس سے کہا گیا ہے کہ وہ ہجرت کرنے والوں میں سے آخری فرد ہیں نہ کہ آپ علی الاطلاق مہاجرین کے محض آخری فرد ہیں.کیونکہ اس مخصوصہ ہجرت کے بعد لبعض اور بھی
۲۴۸ ہجرتیں ہونے والی تھیں جیسا کہ ہمارے موجودہ زمانہ کی ہجرت ہے جو تقسیم ہند کے وقت کرنا پڑی ہے.پس حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ اس ہجرت مخصوصہ کے لحاظ سے مہاجرین کے آخری فرد ہیں.نہ کہ مطلق مہاجرین کا آخری فرد جس طرح میں النبوة یعنی نبوت مخصوصہ تشریعیہ اور تقلہ کے لحاظ سے انبیاء کا آخری فرد ہوں نہ کہ محض آخری نبی.گویا آپ کے بعد بھی بنی کی آمد کا امکان ہے.گو اب کوئی شارع اور تنقل نبی نہیں آسکتا.چنانچہ خود غر احمدی علماء بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی آمدثانی کے قائل ہیں.اور انہیں آنحضرت صلی اللہ یہ وسلم کے بعد آخری تابع بنی قرار دیتے ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث کے رو سے خاتم النبیین معنی مطلق آخری نبی قرار نہیں دیئے جاسکتے.بلکہ ان معنوں میں آخری نبی قرار دئیے جا سکتے ہیں کہ آپ آخری شارع اور آخری مستقل بنی ہیں.ورنہ خاتم النبیین کے ساتھ فی النور کی قید بے فائدہ ہو جائیگی.حالانکہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا کلام زوائد سے پاک ہوتا ہے.پس جس طرح خَاتَمُ الْمُهَاجِرِينَ فِى الهجرة من الهجرة سے مکہ سے مدینہ کی مخصوص ہجرت مراد ہے اسی طرح النبوة سے مراد نبوت مخصوصہ یعنی تشریعی اور ستقلہ نبوت ہے.اسی کے لحاظ سے آپ خاتم النبیین بمعنی آخری شارع اور آخری مستقل بنی ہیں.یہ منی خاتم النبین کے حقیقی معنی کو لازم ہیں.قرائن وجه شبه یہ بات سمجھ لینے کے بعد اب وجہ شبہ کا مجھ لینا آسان ہے قرینہ اولی انسان ظاہر ہے کہ حضر عباس معنی اللہعنہ اپنی ہجرت کو
۲۴۹ ناقص سمجھتے تھے.اور مقصود امر اس تشبیہہ سے یہ تھا کہ اُن کو اطمینان دلایا جائے کہ اُن کی ہجرت ناقص نہیں بلکہ وہ ہجرت کا پورا ثواب پانے والے ہیں قریبہ ثانیہ پھر طلب امر یہ نہ تھا کہ حضرت عباس مینی اله عن افضل المهاجرين رضی ہیں کیونکہ اس سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور دوسرے کا ہر سحابه معنی الله نه بلکه خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما چکے ہوئے تھے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم المہاجرین معنی افضل المہا جرین ہونے سے تو کیسی معقول آدمی کو انکار نہیں ہوسکتا.جب یہ ظاہر ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ان بزرگواروں سے ہجرت میں افضل نہیں قرار دیئے جا سکتے تھے تو یہ امر بھی اس بات کے لئے قوی قریہ ہے کہ خاتم المهاجرين في الهجرة اور خاتم النبيين في النبوة میں وجہ شبہ ایک خاص معنوں میں آخری ہونے کے ساتھ محض صفت کمال میں ہے نہ افضلیت ہیں.کیونکہ جو فرد آخری شارع بنی اور آخری ستقل بنی ہو وہ کامل بنی تو بہر حال ہوگا.قرینہ ثالثہ ترین تالش خود لفظ الم ہے.اگر اقلیت میں تشبیه مرد ہوتی تو بلاغت کا تقاضا یہ ہوتا کہ آپ لفظ انشر وغیرہ استعمال فرماتے تسلی تو صرف اُسے دلائی جاتی ہے جسے کمی رہنے کا احساس ہو اور اُسے یہ بتانا مقصود ہو کہ تم اس پہلومیں کم نہ رہو گے - اس جگہ تشبیہ خاتم المهاجرین کو خاتم النبین کے حقیقی قرینہ رابعہ منوں سے نہیں دی گئی بلکہ لازمی معنوں سے دی گئی ہے.اگر خاتم النبیین کے حقیقی معنوں سے تشبیہہ مقصود ہوتی تو ساتھ فِي النُّبوة
۲۵۰ کی قید بے فائدہ ہوتی.اور افضل کے معنے خاتم النبیین کے حقیقی معنوں کو لازم ہیں نہ آخری نبی کے لازمی معنوں کو.اور النُّبُوَّة کا لفظ صرف خاتم النبیین کے لازمی معنوں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہی استعمال کیا گیا ہے جو آخری شارع اور آخری مستقل بنی ہیں.قرینہ خامسہ ان چاروں قریبوں کے علاوہ اس جگہ ایک اور حقیقت بھی پائی جاتی ہے جو خاتم المہاجرین کے معنے افضل المهاجرین مراد لیے ہیں روک ہے.وہ حقیقت یہ ہے کہ خاتم کا لفظ جب جمع کی طرف مصاف ہو تو اس مرکب اضافی میں افضلیت کے معنے اس مرکب کے حقیقی معنوں کے لازم معنوں کے طور پر پیدا ہوتے ہیں لیکن جہاں پر ایک ایسا مرکب اضافی صرف مجازی معنوں میں استعمال ہو رہا ہو جیسے خاتم المہاجرین کے الفاظ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے حق میں استعمال ہوئے ہیں تو جب اُسے ایسے مرکب اضافی سے تشبیہ دی جائے جو حقیقی معنوں میں بھی خاتم ہے اور لازمی معنوں میں بھی تو اس وقت تشبیہہ صرف لازمی معنوں سے ہوگی.چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذاتی ہجرت کا آئندہ ہونے والی ہجرتوں کے مہاجرین پر کوئی اثر اور افاضہ مقصود نہیں ہو سکتا.اس لئے خاتم المہاجرین کی تشبیہہ خاتم النہین کے لازمی معنوں سے ہوگی نہ کہ حقیقی معنوں سے.اسی لئے خاتم النبیین کے ساتھ فی النبوة کی قید لگائی گئی ہے.تاکہ صریح طور پر تشبیہہ لازمی معنوں سے سمجھی جائے نہ کہ حقيقى معنوى - هَذَا مَا ألقى فِى رَوْعِي وَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَ اللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ.
۲۵۱ جب یہ بات واضح ہو چکی کہ ان پانچوں قرائن کی وجہ سے خاتم المہاجرین کی تشبیہ خاتم النبیین کے ایک لازمی معنوں سے ہے جو آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں.نیز تشبیہہ صرف صفت کمال میں ہے نہ کہ افضلیت ہیں.تو خاتم المہاجرین والی حدیث کے یہ معنے ہوئے کہ اسے چھا ! آپ مطمئن ہو جائیں کہ آپ مکہ سے مدینہ کو ہجرت کرنے والے لوگوں میں سے آخری مہاجر تو ہیں مگر آپ کی یہ ہجرت ناقص نہیں.بلکہ آپ اس کا پورا ثواب حاصل کرنے والے ہیں جس طرح میں نبوت تشریعیہ اور نبوت مستقلہ کے لحاظ سے آخری نبی ہونے کے باوجود سابق انبیاء کے مقابلہ میں کسی سے کم نہیں بلکہ کامل نبی ہوں " ایک شبہ کا ازالہ اگر کوئی شخص اس جگہ یہ کہے کہ جب خاتم النبیین فی النبوة کے تابع تم نبی کا آنا مانتے ہو تو کیوں خاتم المهاجرین کے تابع بعد کے مہاجرین کو قرار دے کہ خاتم المہاجرین کو ان بعد والوں سے افضل قرار نہ دیا جائے ؟ تمہارے بیان کہ وہ قرائن اگر پہلوں سے افضل ہونے میں روگ ہیں تو بعد کے مہاجرین سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو افضل المہاجرین تسلیم کرنے میں تمہیں کیا عذر ہے ؟ اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ خاتم المہاجرین کے مرکب اضافی میں افضلیت کے معنے صرف اُس وقت تسلیم کئے جاسکتے ہیں جبکہ بعد والے مہاجرین پر خاتم المہاجرین کا اثر منصور ہو سکے ، لیکن بعد کی ہجرتوں کے مہاجرین پر چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذاتی ہجرت کا کوئی اثر متصور نہیں ہو سکتا.اس لئے خاتم المہاجرین کو اس جگہ انفضل المہاجرین کے معنوں میں
۲۵۲ جو صرف حقیقی معنوں کو لازم ہوسکتے ہیں تسلیم نہیں کیا جاسکتا.بلکہ خاتم المہاجرین کے الفاظ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے حق میں محض مجازی معنوں ربیعنی مکہ سے مدینہ کی ہجرت میں آخری مہاجہ کے معنوں میں ہی استعمال ہوئے ہیں.اگر بعد کی ہجر توں کے مہاجرین کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ہجرت کے بلادلیل تابع قرار دے کر اُن کو خاتم المهاجرين بمعنی افضل المہاجرین قرار دیا جائے تو پھر اُن کی ہجرت اُن سے پہلے صحابہ کی ہجرت کے تابع قرار دی جاسکے گی.اور اس وجہ سے افضل نہیں رہے گی.کیونکہ افضل المہاجرین اُن سے پہلے ہجرت کرنے والے قرار پا جائیں گے.پھر سچی بات یہ ہے کہ خاتم المہاجرین حقیقی معنوں میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.کیونکہ آپ کے بعد جس قدر شلمان قیامت تک ہجرت کرنے والے ہیں ان سب کی ہجرت در اصل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت کا اثر اور ظل ہو کہ ہجرت کا مذہبی تقدس حاصل کرنے والی ہے نہیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو چونکہ حقیقی معنوں میں خاتم المہاجرین قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اُن کی ذاتی ہجرت کا بعد کے مہاجرین کی ہجرت پر کوئی اثر نہیں اسلئے ده خاتم المهاجرين بمعنی افضل المهاجرین تسلیم نہیں کئے جا سکتے.نہ پہلے مہاجرین سے نہ پھلوں سے.افضلیت کا مفہوم تو صرف خاتم کے حقیقی معنوں کو لازم ہے.اور حقیقی معنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے حق میں تسلیم نہیں کئے جا سکتے.صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تسلیم کئے جا سکتے ہیں.
۲۵۳ خَاتَم کے انسانی القاب اور جدائی لقب میں فرق ام الاولياء فقام المحدثین خانم المفترین وغیرہ القا ہے جو امت کے بزرگوں کیلئے استعمال کئے گئے ہیں خاتم النبیین کا لقب اس بات میں تو اتفاق رکھتا ہے کہ ان القاب سے افاضہ کمال اور افضلیت کا اظہار مقصود ہوتا ہے لیکن انسانی القاب اور خدا تعالیٰ کے دیے گئے لقب ہیں ایک فرق الحوظ رکھنا بھی از بس ضروری ہے.ایک انسان جب کسی کو خاتم الاولیاء یا خاتم المحدثین یا خاتم المفسرین قرار دے تو اس کا ایسا کرنا محض اجتہاد اور قیاس پر مبنی ہوتا ہے.کیونکہ وہ اپنے ارد گرد کے دوستر لوگوں کو جو اس گروہ سے تعلق رکھتے ہوں دیکھ کر اپنی سمجھ کے موافق اُن کے کمالات کی تحقیق کر کے کسی کو ایسے القاب دے دیتا ہے.اس کی نظر اتنی وسیع نہیں ہوسکتی کہ تمام پہلوں اور آئندہ قیامت تک آنے والے افراد کو مد نظر رکھ کہ ایک شخص کو خاتم الاولیاء یا خاتم المحدثین وغیرہ کا لقب دے کیونکہ وہ عالم الغیب نہیں.پھر انسان کا اپنے زمانہ کے باکمال لوگوں کو ایسا لقب دینا بعض اوقات مبالغہ پر بھی مبنی ہو سکتا ہے.اور اس وجہ سے وہ ہر گز حقیقت پر محمول نہیں ہو سکتا.حضرت پیر پیران قدس سرہ خدا تعالیٰ کی محبت میں پورے فنا ہونیو الے کو فرماتے ہیں.بِكَ تُخْتم الْوَلَايَة- کہ تو خاتم الاولیاء ہو جائے گا شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی اس کے ترجمہ میں فرماتے ہیں :- در زمان تو مرتبه ولایت و کمال تو فوق کمالات همه باشد.و قدم تو برگردن همه افتد " (فتوح الغیب م۲۳)
۲۵۴ یعنی تیرے زمانہ میں تیرا ولایت کا مرتبہ اور کمال سب لوگوں سے بالا ہو گا.اور تیرا قدم سب کی گردن پہ ہو گا.اس سے ظاہر ہے کہ انسان جب ایسا لقب کسی کے لئے استعمال کرتا ہے تو اُس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ مثلاً یہ خاتم الاولیاء اپنے زمانہ کے لوگوں سے میری نگاہ میں افضل ہے.گویا الف لام اس جگہ عہد خارجی کا ہوتا ہے.لیکن اللہ تعالے چونکہ عالم الغیب ہے.اس لئے اگر وہ کسی کو منفرد طور پر خاتم النبيين قرار دے تو اس لقب کے حامل کا تمام انبیاء سے افضل ہونا ضروری ہوگا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی نظر سب پہلوں اور پھلوں پر ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالے کے استعمال میں اس جگہ الف لام استغراق کا ہوگا.خاتم الاولیاء اور خاتم المحدثین کے انسان کی طرف سے دیئے گئے القاب ہیں یہ بھی تو نظر نہیں ہوتا کہ یہ خفض اولیار یا محدثین کا محض آخری فرد ہے.بلکہ اس کے..مد نظر صرف اظہار افضلیت ہوتا ہے.ہاں جہاں صرف تاریخی حیثیت بیان کرنا مقصود ہو وہاں چونکہ خاتم کا استعمال مجازی معنوں میں ہوتا ہے.اس لئے وہاں پر خاتم سے اس گروہ کا محض آخری فرد مراد ہوگا.جس کی طرف وہ مضاف ہوا ہو.مگر مجازی معنوں کے لئے قرینہ چاہیئے.افضلیت کے معنی حقیقی معنوں کو بہر حال لازم نہیں.ہاں اگر کوئی شخص افضلیت کے معنوں کا خاتم کی اصل وضع سے لزوم نہ جانتا ہو تو وہ خاتم کو افضل کے معنوں میں استعمال کرنے کے لئے صرف محل مدح کو مد نظر رکھے گا.یا خاتم کے مجازی معنی آخری ہے کہ پھر آخر کو مجاز در مجاز کے طور مجازی معنوں میں افضل قرار دے گا.
۲۵۵ کیونکہ آخر کا لفظ بھی عربی زبان میں افضل کے معنوں میں مجازا استعمال ہوتا ہے.لیکن اس وقت آخری کے اس جگہ حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے.چنانچہ ایک شاعر آخر کو افضل کے معنوں میں استعمال کرتے ہوئے آتا ہے " شرى ودى و شكرى مِنْ بَعِيدٍ لاخِرِ غَالِبٍ أَبَدًا رَبيع (حماسه باب الادب ) یعنی ربیع بن زیاد نے میری دوستی اور شکر دور بیٹھے ایسے شخص کے لئے جو بنی غالب ہیں آخری یعنی ہمیشہ کے لئے عدیم المثال ہے خرید لیا ہے یہ د ترجمه از مولوی ذوالفقار علی صاحب دیوبندی) ایک اعلان اب میں اپنے مضمون کے آخرمیں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ میری تحقیق یہ ہے کہ خاتم کا لفظ انسان جہاں جمع کی طرف مضاف کر کے استعمال کرے جیسے خاتم الاولیاء یا خاتم المحدثین کے القاب ہیں اور ایسے مقام پر خاتم با خاتم کے حقیقی معنے اپنی تاثیر سے دوسرے کو اپنے کمالات سے متاثر کرنا اور اپنے افاضہ سے کمال تک پہنچانا چسپاں ہو سکتے ہوں تو پھر یہ خاتم یا خاتم اس گروہ کا اپنے زمانہ میں افضل فرد قرار دیا گیا ہوگا.نہ کہ اس گروہ کا محض آخری فرد.اور خاتم یا خاتم کے معنے محض آخری فرد وہاں لئے جائیں گے جہاں یہ حقیقی معنے چسپاں نہ ہو سکتے ہوں.میں اس تحقیق پر بڑے وثوق سے علی وجہ البصیرت قائم ہوں.اور بڑی تحدی سے یہ دعوئی رکھتا ہوں کہ اس
۲۵۶ عه قاعدہ کے خلاف محاورات زبان عربی میں سے کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی.ہمیں اس قاعدہ کے خلاف مثال پیش کرنے والے کا تہ دل سے ممنون ہوں گا.اور اپنا اعلان واپس لے لوں گا.مگر کیا اہل مسلم اصحاب میں سے کوئی ایسی مثال پیش کرنے کی جرات کر سکتا ہے ؟ مجھے یقین ہے ہر گرہ نہیں، ہرگزہ نہیں ، ہرگز نہیں.کیونکہ میرا یہ دعوی خدا کے فضل سے تحقیق کی ایک مضبوط چٹان پر مبنی ہے.اس اصل کے مطابق تخاتم النبیین کا لقب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کر دیا گیا ہے اور جو تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر آپ کی فضلیت تامہ پر داتی ہے.صرف اسی وجہ سے دلی ہے کہ خاتم النبیین کے حقیقی منی اپنی تاثیر اور ان مضہ سے دوسرے کو نبوت کے مقام پر فائز کرنے والانہی اس جگہ چسپاں ہیں.خاتم نہیں کے معنی محض آخری نبی تو بالذات افضلیت کو نہیں چاہتے.جیسا کہ مولنا محمد قاسم صاحب مناظرہ عجیبہ علم میں فرماتے ہیں :- و تاخر زمانی افضلیت کے لئے موضوع نہیں.افضلیت کو مستلزم نہیں.افضلیت سے اس کو بالذات کچھ علاقہ نہیں " پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبيين بمعنى افضل النّبيين بھی ہیں.اس لئے خاتم النبین کے حقیقی معن اپنی تاثیر سے دوسروں کو مقام نبوت پر عہ کتاب ہذا کے دو ایڈیشن اس سے پہلے شائع ہو چکے ہیں یہ میرا ایڈیشن ہے اسوقت تک کوئی عالم میرے بیان کہ وہ قاعدہ کے خلاف کوئی مثال پیش نہیں کر سکا.منہ.قالات التلسلام ،
خاتم النبيين ) ۲۵۷ پہنچانے کا ذریعہ یا پنچانے والانہی اس جگہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں.ان حقیقی معنوں کے تسلیم کرنے پر جماعت احمدیہ پیش کر ختم نبوت کا الزام دینا سراسر ظلم اور محکم ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں :- مجھ پہ اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اله صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے.ہم جس قوت یقین ، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اوریقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حمتہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے.اور اُن کا ایسا ظرف ہی نہیں.وہ اس حقیقت اور راز کو جوخاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے سمجھتے ہی نہیں.انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سُنا ہوا ہے.مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے.اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے ؟ مگر ہم بصیرت تام سے رجس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وکم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں.اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو نہیں بلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا.بجز اُن لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں " د ملفوظات حضرت مسیح موعود علیه السلام جلد اول م ۳۲ ) واخِرُ دَعُونَنَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ :
۲۵۸ ضیمه شان خاتم النبیین" (ملحقہ ایڈیشن اول) خات انتین کی نفی مولوی محمد ام صاح کے نزدیک میری محمد قاسم صاحب بانی مدرسه دیوبند اپنی کتاب تحذیر الناس مسلے میں لکھتے ہیں :- عوام کے خیال میں تو آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم کا ختم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نی ہیں.مگر اب ہم پر رش ہوگا کہ تقدم و تا زمانی میں بالذات کچھ نہیں بپھر مقام مدح میں وَالكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَم النبيين فرمانا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے " پھر پر مناظرہ عجیبہ عام پر لکھتے ہیں :- تاخر زمانی افضلیت کیلئے موضوع نہیں ، افضلیت کو مسئلہ نہیں، افضلیت سے اس کو بالذات کچھ علاقہ نہیں " پھر وہ خاتم النبیین کے معنی یہ بیان کرتے ہیں :- نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوت بالعرض.اوروں کی نبوت آپ کا فیض ہے مگر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں.اس طرح آپ پر سلسلہ نبوت ختم ہو جاتا ہے.غرض جیسے آپ بنی اللہ ہیں ویسے ہی نبی الانبیاء بھی ہیں ، ( تحذیر الناس ص۳) پھر ان معنوں کے لحاظ سے شان خاتم النبیین یہ بیان فرماتے ہیں:.اغیار کے افراد خارجی سابقہ انبیاء یہ ہی آپ کی افضلیت ثابت نہ ہوگی
۲۵۹ افراد مقدرہ دن کا آنا تجویز یا جانے پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہو جائیگی بلکه بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صل اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو توپھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا " ستحذیر الناس من ۲ ) بعض لوگ جیسا کہ مولوی محمد ادریس صاحب کاندھلوی کہتے ہیں کہ مولوی حمد قاسم صاحب کی یہ عبارت بطور فرض محال کے ہے.کیونکہ وہ خاتمیت زمانی کے بھی قائل ہیں کیونکہ وہ لکھتے ہیں "خاتمیت زمانیہ اپنا دین و ایمان ہے.ناحق کی تہمت کا البتہ علاج نہیں.دیکھو مناظرہ عجیبہ مشت نیز لکھتے ہیں : " افتتاع بالغیر میں کیسے کلام ہے اپنا دین و ایمان ہے کہ بعد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تامل کریے اس کو کافر سمجھتا ہوں " ( مناظرہ مجیبہ ) بیشک مولوی محمد قاسم صاحب خانمیت زمانی کے بھی قائل میںمگر خاتمیت زمانی سے مراد اُن کی یہ ہے کہ کوئی شارع بنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.اسی کروہ ممتنع بالغیر سمجھتے ہیں.اور ایسی نبوت کے مدعی کو ہی کافر سمجھتے ہیں.مولوی محمد قاسم صاحب کے نزدیک خاتمیت زمانی کی غرض ! چنانچه مولوی صاحب موصوف خاتمیت زمانی کی غرض مناظرہ عجیبہ نا تم میں یہ بیان کرتے ہیں :.غرض خاتمیت زمانی سے یہ ہے کہ دین محمدی بعد ظہور منسوخ نہ ہو.علوم نبوت اپنی انتہا کو پہنچ جائیں کیسی اور نبی کے دین یا علم کی طرف پھر بنی آدم کو احتیاج باقی نہ رہے " اس سے ظاہر ہے کہ ممتنع بالغیر اور گھر ان کے نزدیک ایسی شہرت کا دعویٰ ہو گا جوخاتمیت زمانی کی اس غرض کے منافی ہو.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام
۲۶۰ کی نبوت خاتمیت زمانی کی اس غرض کے منافی نہیں کیونکہ وہ تابع اور اتنی نبی ہونے کے مدعی ہیں.آپ کے نزدیک شریعت محمدیہ کامل شریعیت ہے اور قیامت تک اُس کا کوئی نقطہ اور شوشہ منسوخ نہیں ہوسکتا.اور کسی نئے دین اور علم کی ضرورت نہیں.پس جب خاتمیت زمانی کی غرض مولوی محمد قاسم صاحب کے نزدیک یہ ہوئی کہ شریعت محمدیہ مفشوخ نہ ہو تو ایسے نبی کی بعثت جو ناسخ شریعت محمدیہ نہ ہو اور نئے دین اور علم لانے کا مدعی نہ ہو.آپ کے نزدیک ممتنع بالغیر نہ ہوتی.ناسخ شرع محمد ی ہونے کا دعویٰ اور تقلہ نبوت کا دعویٰ تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک بھی گھر ہے.مولوی محمد قاسم صاحب مولوی عبد العزیز صاحب کے جواب میں لکھتے ہیں :- اسے بھی جانے دیجئے آپ خاتمیت مرتبی کو مانتے ہی نہیں.خاتمیت زمانی کو ہی آپ تسلیم فرماتے ہیں.خیر اگرچہ اس میں در پہ دہ انکار افضلیت تامہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم لازم آتا ہے.لیکن خاتمیت زمانی کو آپ اتنا عام نہیں کر سکتے جتنا ہم نے خاتمیت مرتبی کو عام کر دیا تھا ؟ ( مناظره عجیبه منا ) پس خاتمیت زمانی اُن کے نزدیک نسبتا ایک محدود و صورت رکھتی ہے اسی لئے وہ انحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی کے قائل ہوتے ہوئے مسیح نبی اللہ کے امت محمدیہ میں آنے کے قائل ہیں.چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتمیت مرتبی کے لحاظ سے ابو الانبیاء قرار دینے کے بعد آپ کی تصدیق کی عرض کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :.بعد نزول حضرت عیسی " کا آپ کی شریعت پر عمل کرنا اسی بات پر ملتی ہے.ادھر رسول اللہ کا ارشاد علمتُ عِلْمَ الْأَوَّلِينَ والأخرين بشرط نہم اسی جانب مشیر ہے یا (تحذیر الناس منہ )
۲۶۱ راس پس جب حضرت علی نبی اللہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے لئے آنا اُن کے نزدیک جائز ہے اور اُن کی آمد اُن کے نزدیک بوجہ نئی شریعیت اور نیا دین و علم نہ لانے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی کے خلاف نہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایسی تابع نبوت ہیں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونا اور اتنی رہنا لازم ہوا اور اس طرح وہ نبوت کسی نئے علم دین و شریعیت جدیدہ کی حامل نہ ہو.بلکہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور تجدید اسلام اور اصلاحات خلیق اور اشاعت اسلام ہی اس کی غرض ہو.وہ مولوی محمد قاسم صاحب کے نزدیک ا خاتمیت زمانی کی عرض کے خلاف نہ ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی کے بھی منافی نہیں جیسا کہ وہ آپ کی خاتمیت مرتبی کے منافی نہیں وهذا هو المراد اللہ تعالیٰ مولوی محمد قاسم صاحب کو جزائے خیر دے کیونکہ انہوں نے بلا خوف لومتر لائم خاتم النبیین کی حقیقت پر ایک حد تک نہایت عمدگی سے روشنی ڈالی ہے.ایسے ہی علمائے محققین اُمت کے لئے باعث فخر ہیں تم ت بالخير خاکسار قاضی محمد نذیر لائل پوری پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوه
F4P ا سالانہ ہی میں باب قاضی محمد نذیر صاح فاضل پرنسپل جامعہ حمدیہ نے ختم نبوت کی حقیقت پر جو تقریر کی تھی اسے توسیع دے کہ کتابی صورت میں شان خاتم النبی صلی اللہ علیہ ولی کے نام سے عوام میں شائع کیا گیا.اس کتاب نے ایسی قبولیت عامہ حاصل کی ہے کہ اب اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جا رہا ہے.امسال ۲۰ دسمبر کوبھی محترم قاضی صاحب موصوف کی جلسہ سالانہ ربوہ میں ان خاتم النبی صلی الہ علیہ وسلم کے موضوع پر ایک متفقانہ تقریر ہوئی جس کا خلاصہ درج الناشر ذیل ہے :- آپ نے فرمایا : " جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۵۳ ء میں بھی میں نے اس موضوع پر ایک خاص ترتیب سے تقریر کی تھی میں سے اس مضمون کو آسانی سے لوگوں کے ذہنوں میں داخل کیا جا سکتا ہے.میری یہ تقریر خدا تعالیٰ کے فضل سے امسال بعض احباب کی تحریک پر شان خاتم النبیین " کے نام سے شائع ہوگئی ہے.آریا میں اس مضمون کو ایک جدید ترتیب سے حجاب کے سامنے رکھتا ہوں کہ اس ترتیب سے بھی یہ مضمون سفید ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ احزاب کی آیت مَا كَانَ محمد ابا احد من رِجَالِكُمْ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين میں آنحضرت صلی اللّہ علیہ وسلم کے دو مرتبے اور مقام بیان فرماتے ہیں.اول رسول اللہ.اور دوم خاتم النبیین.رسالت کو لوگ بالعموم جانتے تھے.لیکن اس کے با وجود اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی عام شان یوں بیان فرمائی ہے.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَل مبين (سورۃ جمعہ ) اس آیت میں اللہ تعالے
HYP نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت کے چار کام بیان فرمائے ہیں.اول : تلاوت آیات - دوم تزکیه نفوس - سوم تعلیم کتاب یعنی بیان شریعت اور چهارم تعلیم حکمت یعنی فلسفہ شریعت کا بیان کرنا اور سمجھانا...جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس منصب رسالت کی بھی تغیر او تشریح خود فرمائی ہے جس میں آپ کے ساتھ دوسرے انبیاء اور رسول شریک ہیں.اور میں منصب کو بالعموم ایک حد تک سمجھا جارہا تھا تو خاتم النبیین کا مرتبہ اور مقام میں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم تمام انبیاء سے منفرد ہیں.اور جس مرتبہ اور منصب کا دنیا کو پہلے علم نہ تھا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تفسیر کا بیان کیا جتنا زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے.چنانچہ الہ تعالی نے آپ کے اس منصب کی تفسیر و تشریح کو لوگوں پر نہیں چھوڑا.بلکہ الفتى أن يفسر بعضه بعضا کے مطابق سرور کائنات فخر موجودات سيد ولد آدم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اس یگانہ اور امتیازی مقام اور ارفع اور اعلیٰ اور اتم منصب کی حقیقت خود ہی بیان فرما دی ہے.یا درہے کہ قرآن کریم میں خاتم النبیین کا ہی لقب ایک ایسا تقر یہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان امتیازی صفات کا قائم مقام ہے.جو صفات آپ کی قرآن کریم نے تفصیل سے بیان کی ہیں.صرف یہی ایک اصطلاحی لفظ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امتیازی اور ارفع اور اتم شان کا مظہر ہے.عقلی طور پر یہ حقیقت مسلم ہے کہ خدا تعالیٰ سے قرب پانے میں ایک روحانی انسان جس مقام پر ہو گا اتنا ہی وہ خدا تعالیٰ سے نہیں لے گا.اور جو روحانی انسان قرب الہی کے انتہائی مرتبہ پر پہنچا ہوا ہوگا اور دوسرے تمام لوگوں سے قربا میں امتیازی شان رکھتا ہوگا اتنی ہی اس کی شان استفا منہ یعنی منی لینے کی شان بلند ہوگی.اور پھر جتنی اس کی شان استفاضہ بلند ہوگی اتنی ہی اس کی شان افاضہ یعنی
فیض رسانی کی شان بھی بند ہوگی یہ شان استفاضہ اور شان افاضہ میں با ہم لازم د ملزوم کا تعلق ہے.اور یہ ایسا تعلق ہے کہ اگر ایک چیز پائی جائے تو دوسری کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے کبھی عزوم کو لازم کے ذریعہ ثابت کیا جاتا ہے اور کبھی لازم کو ملزوم کے ذریعہ ہیں استفاضہ کی بلندی افاضہ کی بلندی پر دال ہوگی اور افاضہ کی رفعت شان استفاضہ کے کمال پر دلیل ہوگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی شان استفاضہ و اقامتہ از نئے قرآن کریم اب ہم قرآن کریم سے دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ ولیم کی شان استفاضہ و افاضہ کا مقام کتنا بلند ہے.تا خاتم النبیین کی شان کا ہمیں حقیقی تصویر ہو سکے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آپ کی شان اور مرتبہ کے کمال کو بیان کرنے کے لئے اور فرماتا ہے " ريا نند لى نَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی (سُورَة نجم ) یعنی آپ خدا تعالیٰ سے قریب ہوئے یعنی اُس سے فیض لیا اور پھر مخلوق کی طرف جھگے.یعنی مخلوق کو فیض پہنچایا.خُدا تعالیٰ سے قرب کا مرتبہ آپ کا یہ تھا جس طرح دو کمانوں کا وتر اکٹھا ہو کہ ایک دکھائی دے.بلکہ خدا تعالی سے آپ کا قرب اس سے بھی بڑھا ہوا تھا.خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی بارگاہ میں مقرب ہونے کی تمثیل قاب قوسین یعنی دو کمانوں کے وتر سے دنی ہے.اس طرح کہ ایک طرف قوس الوہیت ہے اور دوسری طرف قوس محمدیت.اور ان دونوں قوسوں کا وتر بالکل ایک دوسرے کے ساتھ ملحق کر دیا گیا ہے.
۲۶۵ پھر خدا تعالیٰ بتاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کا مقام در اصل اس تمثیل سے بھی بالا ہے.عربی زبان میں تمثیل کے ذریعہ انتہائی قرب سمجھانے کی مثال قاب قوسین سے بہتر نہیں مل سکتی.لیکن یہ تمثیل بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب انہی کے مرتبہ کا پورا تصور نہیں دلا سکتی.اس لئے اس سے بالا تر تصویر دلانے کے لئے او ادنی کے الفاظ استعمال کئے گئے.اس سے ظاہر ہے کہ اس شان دو مرتبہ اور کمال کا انسان بلحاظ حقیقت کے نہ اب تک کوئی گذرا ہے اور نہ آئندہ کوئی ہوگا.یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب انہی کے اس انتہائی نقطہ پر قرار دیتی ہے جو اس دنیا میں کسی انسان کو حاصل ہو سکتا تھا.پس جب آپ قرب انہی کے پانے میں ایسے ارفع اور امتیازی مقام پر کھڑے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ آپ کی شان استقاضہ رفیض لینے کی شان بھی تمام انبیا اور مرسلین کے مقابلہ میں ائم اور اکمل ہے.جب آپ کی شان استفاضہ میں یہ کمال ہے تو اس سے قطعی طور پر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ آپ اپنی شان افاضہ رفیض رسانی میں بھی تمام انبیاء اور مرسلین سے بڑھے ہوئے ہیں.لہذا اگر پہلے انبیاء کی پیروی اور افاضہ سے اُن کے امتیوں کو قرب الہی میں ولایت کے مدارج مختلفہ صدیقیت - شہادت اور صالحیت حاصل ہو سکتے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان افاضہ کے لحاظ سے آپ کے امتیوں کو ولایت کے ان مقامات سے بڑھ کر نبوت کا مقام بھی حاصل ہونا چاہیئے.کیونکہ صدیقیت سے بالا مقام صرف نبوت کا مقام ہے.اگر یہ مرتبہ اور مقام ہر پہلو سے منقطع قرار دیا جائے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں شان افاضہ کے لحاظ سے حقیقی برتری نہیں رہتی.چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے مقرب ہونے کے لحاظ سے سب سے بلند مقام پر قرار دیا ہے.اس لئے اُس نے
744 آپ کی شان افاضہ کو بھی قرآن کریم میں امتیازی حیثیت کے ساتھ پیش فرمایا.چنانچہ سورۃ نساء کے رکوع 9 میں فرماتا ہے :- " وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ الْعُمَ الله عليهم من البِينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَيكَ رَفِيقًاه (نساء ع ٩) بینی جو لوگ اللہ تعالیٰ اور الرسول یعنی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں گے وہ شرف در تبہ پانے میں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے.نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صائین میں سے اور یہ لوگ رفاقت کے لحاظ سے اچھے ہیں.اس آیت میں الرسول سے مراد خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.چونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اللی و إِذَا ثَبَتَ ثَبَتَ بِلَوَازِمِه که جب ایک منشی ثابت ہو یا پائی جائے تو اپنے تمام لوازم کے ساتھ پائی جاتی ہے.اس لیئے اس جگہ الرسول سے مراد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو خاتم النبیین کی شان لازم ہے.اور جب اس رسالت کا کمال بیان کرنا مقصود ہو گا تو وہ در اصل شان خاتم النبیین کا کمال ہوگا.لہذا اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ختم نبوت کی فیض رسانی کا یہ کمال بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی پیروی کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ آپ کا اتنی انبیاء کے گروہ کا ایک فرد بن سکتا ہے.بلکہ اس سے بڑھ کہ اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ تمام انبیاء کے کمالات کا جامع ہو سکے.مفردات راغب اصفہانی میں جو لعنت قرآن کی ایک مستند کتار ہے مع کے چار معنی بیان کئے گئے ہیں.اول معیت مکانی جیسے دو شخص
۲۶۷ - ایک جگہ میں اکٹھے ہوں.مثلاً ایک گھر میں ہوں.دوم معیت زمانی -.جیسے دونوں اکھٹے پیدا ہوں.سوم معیت متضا لفین.یعنی ایسی دو حقیقتوں کو سمجھنے میں معیت جن میں ایک کا سمجھنا دوسری کے سمجھنے پر موقوف ہو.جیسے باپ اور بیٹا کی حقیقت کو ایک دوسرے کے ساتھ یعنی ایک دوسرے کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے.محبت چہارم کے متعلق وہ فرماتے ہیں :- وَإِمَّا فِي الشَّرْفِ وَالرُّبة.کہ چوتھی قسم کی معیت وہ ہے جو شرف اور رتبہ کے لحاظ سے ایک کو دوسرے کا رفیق بنا دے.اس آیت میں مکہ کے صرف چوتھے معنے ہی مراد ہو سکتے ہیں.پہلے تین منے مراد نہیں ہو سکتے.معر کا لفظ قرآن کریم نے من کی بجائے اختیار کرنے میں معجزانہ بلاغت کا ثبوت دیا ہے.اگر اس جگہ مع کی بجائے مین کا لفظ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان خاتم النبیین کا بلحاظ افاضہ کے صرف اتنا تصور ہوتا کہ آپ کی پیروی سے ایک شخص زمرہ انبیاء میں داخل ہو سکتا ہے.اور زمرہ صد یقین اور زمرہ شہداء اور زمرہ صالحین میں داخل ہو سکتا ہے.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان خاتم النبیین کا تصور بلحاظ افاضہ اِس مقام سے بھی بالا تھا اس لئے معر کا لفظ اختیار کیا گیا جو آپ کی اُس شان کا تصور دلاتا ہے کہ آپ کی پیروی سے آپ کا انتی صرف انبیاء صدیقین، شہداء اور صالحین کے گروہ کا ایک فرد ہی نہیں بنتا بلکہ اس سے بڑھ کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے تمام کمالات کا جامع بھی ہو سکتا ہے.اگر مین کا لفظ ہوتا تو جامعیت کا یہ مفہوم آیت سے اخذ نہ ہو سکتا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ کا تصورہ اس سے کم درجہ کا ہوتا جو خدا تعالیٰ مَعَ کے ذریعہ دلانا چاہتا ہے.مع کے لفظ سے جو تصویر اللہ
شخص تعالی دلانا چاہتا ہے من کے مفہوم کا تصور خود اس کے اندر آجاتا ہے کیونکہ جو ان چاروں مراتب میں سے کسی مرتبہ کا پورے طور پر جامع ہو.وہ زمرہ میں بدرجہ اولی داخل ہوگا.پس یہ شان خاتم النبیین کے افاضہ کا کمال ہے کہ وہ آپ کے امتی کو جامعیت کمال کے ساتھ اس مقام پر کھڑا کر سکتا ہے کہ وہ یہ اعلان کرنے.آدمم نیز احمد مختار در برم جامه همر ابرار لیکن جامعیت کا یہ شرف اُس کو چونکہ خلقی اور طفیلی طور پر ملے گا.اس لئے ساتھ ہی وہ یہ اقرار کر نے پر مجبور ہوگا سے لیک آئینہ ام زرت غنی از پیسے صورت میر مدنی ** اس طرح اقتی کا وجود خاتم النبی صل اللہ علیہ وسلم کے مقابل میں آئینہ کی حیثیت رکھتا ہے.اور انتی کے تمام کمالات خواہ وہ جامعیت کی حد تک پہنچے جائیں ہمیشہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے فیل اور کس ہی ہوتے ہیں.اگر ہم کسی اور سادہ مثال کے ذریعہ خاتم النبیین کی شان کا تصور دلانا چاہیں تو کسی حد تک اس بات سے بھی اس مرتبہ کا تصور ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیثیت روحانیت کے لحاظ سے شہنشاہ کی ہے اور باقی تمام انبیاء کی حقیت روحانی بادشاہ کی.یہ عقیدہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اطاعت میں مقام نبوت بھی مل سکتا ہے.اور کمالات انبیاء بھی حاصل ہو سکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو تمام انبیاء کے مقابلہ میں ممتاز قرار دیتا ہے.اور جماعت احمدیہ کے اس عقیدہ سے ظاہر ہے کہ اس جماعت کے نزدیک سرور کائنات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اتنی بلند ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے اور جب تک قائم رہے گی.اس شان میں حقیقت کے لحاظ سے کوئی آپ کا شریک نہیں.صرف خلقی طور پر کمالات و انوار نبوت کا وارث ہو سکتا ہے.
۲۶۹ خاتم النبیین اور لغت عربی اگر لعنت عربی کے لحاظ سے شان خاتم النبیین کی حقیقت پر غور کیا جائے تو لعنت عربی قرآن کریم کے اس مضمون کی تصدیق کرتی ہے جو خاتم النبیین کی تفسیر میں قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے.امام راغب اصفہانی مفردات راغب میں لفظ ختم " کے دو پہلو بیان فرماتے ہیں.وہ کہتے ہیں لفظ ختم اور طبع دونوں ختمت اور طبعت کا مصدر ہیں.اور اس طرح تاثیر الشیء کے معنے رکھتے ہیں.جیسے انگوٹھی کا نقش موثر ہوتا ہے.اور دوسرا پہلو اس کا اس نقش کا اثر حاصل ہے اور مجازاً یہ لفظ ان دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور بندش کے معنوں میں بھی اور آخر کو پہنچنے کے معنوں میں بھی.میں یہ حوالہ تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب شان خاتم النبیین میں پیش کر چکا ہوں.اس سے ظاہر ہے کہ ختم کے حقیقی معنے تاثیر کشی کے ہیں.اور لغت میں اس کے علاوہ بیان کردہ جو معنے ہیں وہ سب مجازی ہیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا مفہوم بلحاظ تحقیق لغوی یہ ہوگا کہ آپ کی تاثیر اور افاضہ سے مقام نبوت حاصل ہوسکتا ہے.اور آپ کا ایکس انتی آپ کی شریعت کا ملہ کی پیروی سے کمالات نبوت سے بہرہ ور ہو سکتا ہے ، خاتم النبیین کے ان معنوں کو آخر الانبیاء کے معنے لازم ہیں.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان معنوں میں آخری نبی ہیں کہ آپ آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں.چنانچہ خود رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوة الا المبشرات یہ کہ نبوت میں سے صرف المبشرات باقی ہیں.یہ حدیث زمانہ محوری مه اس حدیث کی ترکیب لمريبقَ مِنَ الْمَالِ إِلَّا الل یا نائی کی طرح ہے کہ مال میں سے دیتا ہوں کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.ظاہر ہے کہ دینا بھی مال کی ایک سہم ہیں.منہ
کے لئے آیت خاتم النبیین کی ایک لطیف تفسیر ہے.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت مطلقہ میں سے صرف المشبات کو باقی قرار دیا ہے.اور نبوت کی دوسری اتمام نبوت تشریعیہ اور نبوت مستقلہ کو منقطع قرار دیا ہے.اور المبشرات کو ثبوت میں سے قرار دے کہ بتا دیا ہے کہ یہ کوئی ادنی قسم کا مقام نہیں بلکہ جس شخص کو مبشرات والی وحی اور رویا صالحہ حاصل ہوں وہ ایک خاص حالت میں نسبی کہلانے کا مستحق بھی ہو سکتا ہے.چنانچہ امت محمدیہ کے اندر آنے والے مسیح موعود کو رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے صحیح مسلم کی ایک حدیث میں جو خروج الدقبال کے باب میں مذکور ہے چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ امت محمدیہ کے اندر آنے والے مسیح موعود کی نبوت سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف یہی ہے کہ وہ المبشرات کے حامل ہوں گے یعنی اللہ تعالیٰ ان کو بکثرت امور غیبیہ سے مطلع کرے گا.کیونکہ جو بوت تمرین کے الفاظ سے منقطع ہو چکی ہے اس کا حامل است محمدیہ میں ظاہر نہیں ہو سکتا.جو نبوت اس حدیث میں قیامت تک باقی قرار دی گئی ہے بیج موجود صرف اُسی کا حامل ہو سکتا ہے.اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان خاتم النبیین کا افاضہ اور برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ میں آپ کے ایک روحانی فرزند حضرت میرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود قرار دے کر آپ کی پیروی کی برکت سے آپ کی ختم نبوت کی شان کے اقامہ کمال کو ظاہر کرنے کے لئے مقام نبوت سے سرفراز فرمایا ہے.اور جرى اللهِ فِي حَلَلِ الانبیاء کا لقب عطا فرمایا ہے.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيداً
ง ضروری یاد داشت کتاب ہذا کے صفحہ ا پر جوالہ نشر الطیب فی ذکر الحبيب مؤلفہ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی اُردو ترجمہ کے طور پر ایک حدیث درج ہے.مجھے حلیہ ابونعیم میں اس حدیث کو تلاش کرنے پر اس کی جلد 4 کے صفحہ 19 مطبوعہ مصر مطبع السعادة میں ذیل کے عربی الفاظ ملے ہیں جو حضرت موسی علیہ السلام کے امت محمدیہ کے فضائل سننے کے بعد اُن میں اور خدا تعالیٰ میں بطور سوال و جواب درج ہیں : قَالَ مُوسى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَارَبِّ اجْعَلى نَبِيَّهُمْ قَالَ إِنَّ نَبيَّهُمْ مِنْهُمْ قَالَ رَبِّ اخْتَرُنِي حَتَّى تَجْعَلَنِى مِنْهُمْ - قَالَ إِنَّكَ لَنْ تُدْرِكَهُمْ " راس عبارت میں پانچوں جگہ ھم ضمیر غائب کا مرجع اُمت محمدیہ ہے.یہ حدیث نوف بن ابی فضالہ البکالی سے مروی ہے ( من المصنف)
۲۷۲ از افکار یکریمی مولوی ظفر محمد صاح فاضل پر فیبر جاری کتاب شان خاتم النبیین" پڑھ کر میرا تاثر ! خطاب بحضر خاتم النبيين صلى الله عليه وسلم صاحب لولاک خستم الانبیاء مقتدائے انبیاء و اصفیاء تیری آمد سے ہے یہ عقدہ کھلا ارفع و اعلیٰ ہے تو بعد از خدا لا جرم ہے تو ہی ختم الانبیاء ده تو ہے سترہ ابتدائے زندگی تیری ہستی منتہا ئے زندگی سمجھ سے وابستہ بقائے زندگی تو محقیقی راہنمائے زندگی لا جرم ہے تو ہی ختم الانبیاء احمدیہ تیرے دم سے ہم ہوئے خیر الام تیرے بڑھنے سے بڑھا اپنا قدیم ہے ختم تیرے نام پرشان ختم تو ہی ختم الانبیاء تو سراپا خود ہے ابر کرم جرم ہے سابقین و لا حقین از انبیاء نقطۂ نفسی تیرا اُن کی ضیاء تیری خاتم سے انہیں منصب ملا، سب تیرے مظہر ہیں کے خیر الوری لا جرم ہے تو ہی ختم الانبیاء تجھ سے پہلے جس قدر تھے نامور تھے وہ جن جن خوبیوں سے بہرہ ور تو ہے جامع سب کا قصہ مختصر تیرے سرہے سہر فتح وظ لا جرم ہے تو ہی ختم الانبیاء ناک اور و معنو
نمبر شمار فہرست مضامین کتاب شان خاتم النبيين ا پیش لفظ.مضمون ۲ - آغاز تقریر " شان خاتم النبيين " شان خاتم النبیین کائنات کے ظہور کی علت غائیہ ہے.صفحه نوم ۴.حضرت خاتم النبیین صلی الہ علیہ وسلم کا فیضان عالمگیر بانی سلسلہ احمدیہ کی نظرمیں ۵ ۵- بانی سلسلہ احمدیہ کا مرتبہ - اکابر علماء اور مکالمہ مخاطبہ الہیہ.حضرت محی الدین ابن عربی کے نزدیک نبوت باقیہ.حضرت امام عبد الوہاب شعرانی " کے نزدیک نبوت مطلقہ بند نہیں.قرآن مجید کے رویے اتنی پر ملائکہ کا نزول حضرت محی الدین اینکم عربی کے نزدیک نبوت عامہ جاریہ ہے.نحضرت صلی الہ علی کل کی زبان مبارک سے خاتم النبی کو کی تفسیر کے دو پہلو ۱۱ - قرآن مجید اور خاتم النبیین کے دو پہلو.11 ١٢ المبشرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک.نبوت ہی ہیں (جو جاری ہے ).۱۳ - نبوت کی دو تعریفیں.q ۱۵ ۱۶ ۱۸ ۲۱ ۱۳ - انقطاع نبوت اور بقائے نبوت والی احادیث کے تقابل کا نتیجہ - ۲۲ ۱۵ - بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوی کی نوعیت.۲۴
۲۷۴ مضمون.۱۶ - مجدد الف ثانی کے نزدیک کمالات نبوت کے حصول کا امکان ۱۷ - امام عبد الوہاب شعرانی " کے نزدیک نبوت کی دو قسمیں.۱۸ - ایک غلط فہمی کا ازالہ (فرشتہ کے نزول کے متعلق ) ۱۹ - غیر تشریعی نبی کی دمی خلتی نہیں ہوتی.۲۰ - بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک ختم نبوت کی حقیقت - - اور اپنے دعوئی کی کیفیت ۲۱ - خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین کی حقیقت امام علی القاری کے نزدیک خاتم النبیین کے معنے.۲۳.مولوی عبدالحی صاحب کے نز دیک مجرد نبی کا آنا محال نہیں.۲۴ - ختم نبوت کے دو منفی اور مثبت پہلو ربانی سلسلہ احمدیہ کا ان دونوں بزرگوں سے اتفاق) ] ۲۵ - آخر الانبیاء کے معنے از روئے حدیث نبوی ).۲۶ - حضرت پیر پیران کا مذہب - ۲۷ - زَالَ اسم الشبوة کی حقیقت - ۲۸- حديث لا نبی بعدی کی تشریح بزرگوں کے اقوال سے.٢٩ - لا نبی بعدی کی تشریح از رُوئے احادیث.سم صفحه ۲۶ ۲۸ I ۳۲ I ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ الم ۴۴۳ ۵۰ سلام الله 오부부! 조 - حضرت ابو بکرہ کا مرتبہ مسیح موعود اُن سے کیوں افضل ہیں ) د ۳۱ - مولوی محمد در میں اعصاب کی غلط فہمی تعلق حديث الا الله ليس نبی بعدی - ۵۴ ۳۲ - لا نبی بعدی کی تشریح میں ایک اور حدیث.۳۳ - حدیث لا نبی بعدی کی علمی تحقیق ۵۸ ۶۱
سمجھ f.تنظیم نے 64 کام ماهر ۹۳ ۹۴۹ 96 1-- ۲۷۵ نمبر شمار مضمون.مولوی محمد اور میں جاب کی توجہ میں آخری نبی لحاظ پیدائش پر تبصرہ.۳۵ - مولوی عبد الماجد صاحب کی تصریح.۳۶ - جزوی اختلاف (اختلاف کے حل کی صورت ) ۳۰ - غیر احمدیوں کے گزر کا حماسی (بزرگان دین کے نزدیک مسیح موعود ہی اللہ ہے ).کے عظیم ۳۸ - غیر احمدیوں کا متضاد عقیدہ.۳۹ - مولوی محمد اور ہیں اور ختم نبوت کے معنے ۴۰ ہماری تحقیق.ام - غیر احمدی علماء ضرورت نبوت کے قائل ہیں.۲۲ - علامہ اقبال اور ضرورت مصلح.۴۳ - حضرت محی الدین ابن عربی کے اقوال شطحیات نہیں.۲۴ - حدیث لا نبی بعدی کے متعلق ہمارا مسلک اور ملی ثبوت - ۴۵.نبی کا لقب - ۴۶ - بروز کی اقسام حقیقی و مجازی بروز - ۴۷ - امام عبد الوہاب علیہ الرحمہ کے نزدیک رسولوں کا وجود ضروری ہے.علامہ موئی جار اللہ کے نزدیک رسل الاسلام - ۹ - حضرت عاملی و کی آمد سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے.۵۰ مسیح موجود کا نام ابن مریم بطور استعارہ ہے.ال - حضرت عیسی کا امت محمدیہ میں خلیفہ ہونا محال ہے (انز روئے قرآن مجید ؟ ۵۲ - از روئے حدیث (موسی کی خدا تعالٰی سے گزارش.مجھے امت محمدیہ کاتی کو نیاد کیجئے.اور اللہ تعالیٰ کا جواب.اس امت کا نبی اس میں سے ہو گا) ]
نمبر شمار مضمون صفحه ۵۳ - ایک دلی تبادلہ خیال ها در شریف سے امت میں نبوت جاری ہونیکا ثبوت ) - ۱۰۴ ۵۴ - حضرت محی الدین ابن عربی کا درود شریف سے امت میں نبی ہونے کا استدلال.۵۵ - شیعوں کے بزرگوں کے اقوال ( آل محمد سے مراد اور اس میں نبوت ) - انبياء الاولياء والی نبوت کی شان اور مسیح موعود کا مرتبہ.- ۵ مسیح موعود کا اختصاص بالنبوة - ۵۸ - بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک اپنی خصوصیت ۵۹ - انبیاء الاولیاء صرف محدثین ہی نہیں بلکہ غیر تشریعی انبیاء بھی ہیں.Y.۲۰ - ایک شبہ کا ازالہ رنبوت الولاية غیر تشریعی انبیاء کو حاصل تھی..- الميسرات نبوت مطلقہ ہیں (رویا،المومن کی تشریح) ۶۲ - نبوت کے چھیالیسویں حصہ کی تشریح.۶۳.علمائے امت کے نزدیک مسیح موعود صاحب وہی ہوگا.۶۴ - تشریعی نبی اور غیر تشریعی نبی کی وحی میں فرق - ۶۵ - شیخ اکبر اور بعض صوفیاء کے نزدیک مسیح کا بروزی نزول اکبر اور نزدیک میں کا ہر ہندی نزول کے اور مہدی اور سیح ایک شخص.۶۶ - امام مہدی کا مرتبہ عظمی.دعوی میں تدریج کا شبہ (اور اس کا جواب ) ۶۸ - تدریجی انکشاف میں حکمت الہی.۶۹ - نبوت کی عرفی حقیقت.6 I-A 11.川 ۱۱۲ ١١٣ ۱۱۵ 116 IFY ۱۲۷ ۱۳۰ I حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر تشریعی اور تقلہ نبوت کے دعوئی کا افتراء - ۱۴۱ - الجواب ۱۴۳
نمبر شمار مضمون ۷۲ - اولیاء اللہ پر تر آن کا نزول.۷.علمائے امت کے نزدیک مسیح موجود کا کام وحی کے ذریعہ بیان شریعت ۷۴.اولیاء پر علوم الہی کا الہاگا کھگتا.الہام الہی وحی ہے.- بانی سلسلہ احمدیہ کا تشریعی نبوت اور مستقلہ نبوت کے کے دعوی سے انکار 1 مضمون کا دوسرا حصہ - ۷ - خاتم النبیین کا مفہوم بلحاظ سیاق آیت دائمی خاتم النبيين.LA 9 - ابویت معنوی مایع توربیت نہیں.A Al صفحہ ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۵۰ ۱۵۲ ۱۵۴ 10A ١٢٠ - قیامت کے دن ایک رسول کی بعثت از روئے حدیث نبوی - ۱۶۳ پائی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک خاتم النبیین کے حقیقی معنی.۲ - خاتم النبیین کے حقیقی لغوی معنی اور اس کے مجازی معانی.۸۳ - مفردات (امام راغب ) کے بیان کا ماحس.۸۴ - خاتم کے معنی اُردو و فارسی میں شہر.خاتم یا مہر کی اقسام - لسان العرب اور خاتم..خاتم اور خاتم کی بناوٹ میں فرق.( خاتم النبیین کے حقیقی معنی ) 144 141 ۱۷۳ 144 144 {
PLA نمبر شمار AA مضمون لغات عربی اور آخری نبی کے معنی.غیر احمدی علماء کا خاتم النبیین کے معنے افضل النبیین سے انکار - ۹۰.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک خاتم الن کے معنے افضل النبيين ۹۱ - غیر احمدی علماء سے ایک اہم سوال.۹۲ - خاتم النبیین کے حقیقی معنی کے لوازم اور خاتم النبیین کی کی حقیقت شرعیہ - ۰۹۳ جماعت احمدیہ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی اور کامل خواتم النبیین مانتی ہے..۹۴ - آخر الانبیاء کے لازمی معنی کا ثبوت بدلالت التزامی.۹۵ - خاتم النبیین کی دوسری قرأت.94.غیر احمدی علماء کے معنوں کا مقالہ.۹۷ - تیری قرأت فتاوی پر علماء کی مہروں کا اثر.۹۹ - حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ اور خاتم النبیین کے معنیٰ.صفح JAY IAL ١٩٠ 197 190 147 196 199 Y 10 - خاتم النبیین کے معنے نبیوں کی زینت سے غیر احمدی علماء کا انکار - ۲۰۴ 11 - علماء خاتم النبیین کے تاویلی اور مجازی معنوں کے قائل ہیں.بندش والی شہر پچھلوں پر لگ سکتی ہے.۱۳ - مولوی شیر احرصا عثمانی کے نزدیک خاتم النبیین کے حقیقی معنی.۲۰۹ ۱۰۴ مولوی محمد شفیع صا، دیوبندی کے ایک سے ال ا متعلقہ رحمۃ للعلمین ) کا جواب - ۲۱۰
٢٤٩ نمبر شمار ۱۰۵ 1-6 مضمون.خاتم النبیین کی تفسیر از روئے قرآن مجید - آیات قرآنیہ سے نبی کی آمد کا ثبوت - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سراج منیر ہونے کی تشریح.۱۰۸ - امام را غیب کے نزدیک وقت میں نبی کا آنا.۱۰۹ - امام راغب کے نزدیک اتنی نبی کا امکان از روئے قرآن مجید - 31.خاتم النبیین کے لام تعریف کی حقیقت.111 مولوی محمد ادریس صاحب کے ایک شبہ کا ازالہ.خاتم کا استعمال حدیث نبوی ہیں.١١٣ ۱۱۳ - احادیث نبویہ سے ہمارے معنوں کی تائید - ۱۱۴ - قصر نبوت والی حدیث کی تشریح.۱۱۵.ختم نبوت کی حقیقت کے بارے میں شیعوں کے مسلمہ اقوال.۱۱ - میرے نظریہ اور تحقیق کے فوائد - 11Z - ||A ا.خاتم کے محاورات کا حل.11 - مسیح موعود اور خاتم الخلفاء کا مقام - 119 - خاتم المہاجرین والی حدیث کی تشریح.۱۲۰ - خاتم المہاجرین والی حدیث کا سیاق - ۱۲۱ - قرائن وجہ مشبہ -.ایک شبہ کا ازالہ (متعلق معنی خاتم المهاجرین ).۱۲۳ - خاتم کے انسانی القاب اور خدائی لقب میں فرق.۱۲۴ - ایک اعلان ( متعلق محاوره خاتم ) سفه ۲۱۰ ۲۱۸ ۲۱۹ ۳۳۷ ۲۲۹ ۲۳۹ ۲۴۱ ۲۴۴۳ هم ۳۴۴ ۳۵۱ ۲۵۳ ۲۵۵
صفحہ ۲۵۸ PAA ۵۹ ۶۲ pur 49 " PA.نمبر شمار.۱۲۶ ۱۲۷ مضمون ۱۲۵ - ضمیمه شان خاتم النبیین ملحقہ ایڈیشن اول.1 - خاتم النبیین کی تفسیر مولوی محمد قاسم صاحب کے نزدیک.مولوی محمد قاسم صاحب کے نزدیک خاتمیت زمانی کی غرض.۱۳۸ - ضمیمہ شان خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ملحقہ ایڈیشن دوم.تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۵۳ء کا خلاصہ ) ۱۲۹ - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان استفاضہ و افاضہ - ۱۳۰ - خاتم النبیین اور لغت عربی.۱۳۱ - ضروری یاد داشت ۱۳۲ - انا انکار کریمی مولوی ظفر محمد صاحب فاضل پروفیسر های حدید - (نظم) - صفحه ۲۷۳ تا کتابت : محمد کریم الدین شاہد قادیان.۱۳۳ - فهرست مضامین - **