Language: UR
سوانح فضل عمر حضرت فضیل عمر مرزا بشیر الدین محمد احمد لصلع الوقود الان داری اشانی سوانح حیت تالیف عبد الباسط شاہد جلد پنجم ناشرین فضل عمر فاؤنڈیشن
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو سوانح فضل عمر جلد پنجم احباب جماعت کی خدمت میں پیش کر کے سوانح فضل عمر کی تکمیل کی سعادت مل رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.وَمَاتوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزُ.فضل عمر فاؤنڈیشن کے اولین مقاصد میں سیدنا حضرت مصلح موعود فضل عمر کی سوانح کی تالیف واشاعت بنیادی حیثیت رکھتی ہے.اس عظیم الشان سوانح کی اہمیت کے پیش نظر اس کی تالیف و تدوین کا کام مسندِ خلافت پر متمکن ہونے سے قبل فرزند فضل عمر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سرانجام دے رہے تھے ؟ اور خدا کے فضل سے آپ کو سوانح فضل عمر کی پہلی دو جلدیں تالیف کرنے کی توفیق ملی.یوں پیسر موعود کی سوانح جلیل القدر نافلہ نے تحریر فرمائی.منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے مکرم مولانا عبد الباسط شاہد صاحب مربی سلسلہ کا تقرر بطور مؤلف سوانح فضل عمر منظور فرمایا.انہیں سوانح فضل عمر کی جلد سوم، چہارم اور اب جلد پنجم تالیف کرنے کی سعادت ملی ہے.جلد اول تا چہارم حضرت مصلح موعود کے سوال پر مشتمل ہے جبکہ یہ جلد پنجم آپ کی سیرت پر مشتمل ہے.سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ مسیح الثانی مصلح الموعود کی سیرت مبارکہ کا نقشہ آپ کی موعود ولادت سے تین سال پہلے اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا تھا.جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں شائع فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے صاحب شکوہ اور عظمت فرزند سے نوازے گا جو اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا.خدا تعالیٰ اس کو اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کرے گا.وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائیگا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.
چنانچہ الہی نوشتہ کے مطابق ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو پسر موعود کی ولادت باسعادت ہوئی.آپ کی تربیت مسیح الزمان کی مقبول دعاؤں کے زیر سایہ حضرت اماں جان کی گود میں ہوئی اور پھر خدائی تقدیر نے آپ کو ۱۹۱۴ ء میں خلافت کی خلعت سے سرفراز فرمایا.آپ کے باون سالہ دورِ خلافت میں وہ تمام پیشگوئیاں تفصیل کے ساتھ پوری ہوئیں جن کا اجمالی ذکر پیشگوئی پسر موعود میں کیا گیا تھا.حضرت مصلح موعود کی سیرت مبارکہ کا احاطہ کرنا سہل نہیں ہے.سوانح فضل عمر جلد پنجم میں آپ کی سیرت کی چند جھلکیاں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ۵۶۵ صفحات پر مشتمل اس جلد میں سیرت مصلح موعود کے نمایاں پہلوؤں کی بعض مثالیں دی گئی ہیں.جن میں محبت الہی ، عشق رسول، قبولیت دعا، مخالفوں سے حسن سلوک ، آپ کا علمی ذوق تبلیغ دین، تربیت کے انداز ، خدمت خلق ، محنت کی عادت.عائلی زندگی اور زندگی کے بعض دوسرے دریچے کھولے گئے ہیں.آپ کی حیات مبارکہ اور سیرت طیبہ احباب جماعت کے لئے روشنی کا مینار ہے.جس سے ہم اپنی منزل کا تعین کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس مشعل راہ سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی سیرت کے نور سے ہمارے سینے روشن کر دے.آمین خدا کرے کہ ہم حضور کی بیش قیمت نصائح ، خدمت دین کے اہم کارنامے، جماعت کی بہبود و ترقی کے عظیم منصوبے، حضور کی جاری فرمودہ انقلابی تدابیر، اصلاحی و رفاہی امور اور قومی ترقی کے دور رس پروگراموں کو ہمیشہ یادرکھیں اور ان پر دل و جان سے عمل کرتے ہوئے انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں اور حضور کی دعاؤں سے بہرہ مند ہوتے رہیں.آمین میری تو حق میں تمہارے یہ دعا ہے پیارو اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو ظلمت رنج وم و ورد ނ محفوظ رہو ہو مهر انوار درخشندہ رہے شام نہ اس جلد کی تیاری کے سلسلہ میں خاکسار بہت سے بزرگ دوستوں کا احسان مند ہے سب سے پہلے مؤلف کتاب ہذا محترم مولانا عبد الباسط صاحب شاہد کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے نہایت محنت ، اخلاص ، دلی جوش و جذبہ سے اس عظیم کام کو سرانجام دیا ہے اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش
کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے مقبول خدمت کی توفیق عطا فرمائے آمین.مسودہ کا جائزہ لینے کے لئے حضور انور نے درج ذیل احباب پر مشتمل کمیٹی مقرر فرمائی.ان سب بزرگوں نے مسودہ کا تفصیلی جائزہ لے کر بعض نہایت اہم اور بنیادی امور کی طرف راہنمائی فرمائی اور اپنی قیمتی آرا سے نوارًا فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ فضل عمر فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی خواہش.نے بھی بہت محنت اور توجہ سے سارا مسودہ پڑھ کر بعض اہم امور کی نشاندہی فرمائی جس کے لئے ادارہ ہذا ان کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے.بہت سے مربیان سلسلہ نے اس اہم کام کے سلسلہ میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے.ان میں خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں.ان سب دوستوں نے نہایت محنت اور اخلاص سے خدمات سرانجام دی ہیں.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ بھی خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں کہ ان کی مخلصانہ کوششوں سے اس جلد کی بر وقت تکمیل ہو سکی.مختلف نادر فوٹوز جو آپ اس جلد میں ملاحظہ کر رہے ہیں ان کی فراہمی کے سلسلہ میں جز کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے کہ انہوں نے بہت محنت اور غیر معمولی کاوشوں سے یہ فوٹوز تلاش کر کے بہم پہنچائی ہیں.خاکسار ان سب احباب کے لئے دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو احسن جزاء عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین
بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمُ پیشگوئی مصلح موعود صلح، اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہنوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.وہ کلمہ الہ ہے کیونکہ نگار کی رحمت وغیوری نے اسے کلمہ تمجید ے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم او علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا.اور دہ تین کو چار کرنے والا ہوگا اسکے معنی سمجھ میں نہیں آتے ، دو شنبہ ہے مبارک دوشنبه- فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظهَرُ الْحَقِّ والعلام عمان الله ننزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے مسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سرپر ہوگا.وہ جلد ید بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرًا مقضيا داشتهار ۲۰ فروری شالیم
فہرست مضامین سوانح فضل عمر جلد پنجم عنوان منافقین سے حسن سلوک عنوان صفح جلوه صد رنگ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۳۱ دوستوں کو نصیحت عبادات میں شغف وانہماک ۵۹ ایمانی غیرت قبولیت دعا اور اس کی چند مثالیں حضرت فضل عمر کا علمی ذوق ایک ایمان افزا نظارہ مخالفوں سے حسن سلوک غیر مسلموں سے حسن سلوک ہمدرد دل ۶۶ ۷۲ علمی فروغ و ترقی 三 ۱۱۲ ١١٣ عورتوں میں تعلیم کا فروغ جامعہ احمدیہ تعلیم الاسلام کالج سخت کلامی سے نفرت ۱۱۴ تربیت کے انداز اخلاق فاضلہ کی تلقین ۱۱۵ بلیغ اسلام احرار سے حسن سلوک ۱۱۸ مہمان نوازی.خدمت خلق ایک دشمن سے حسن سلوک ۱۲۲ مہاجرین کی آبادکاری شیعوں سے حسن سلوک ۱۲۳ لیاقت پارک شیخ غلام محمد سے حسن سلوک ۱۲۳ رہائش کا مستقل انتظام دشمنوں سے ہمدردی کی تلقین ۱۲۴ مہاجرین کانگڑہ مقابلہ کا انداز غیر معمولی تحمل ایک مجاور سے حُسنِ سلوک ۱۲۵ مهاجر آباد صفحہ ۱۲۸ ۱۳۹ ۱۵۰ 17.۱۶۷ ۱۶۹ ۱۷۹ ۲۱۵ ۲۲۳ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۲۹ ۱۲۷ ایک بوڑھی عورت کی درد بھری درخواست ۲۳۰ ۱۲۸ ایک عظیم منتظم ( نظام مال)
عنوان صفح امانت فنڈ ۲۴۲ ۲۵۹ محنت کی عادت حضور کی فراست عنوان شادی کے موقع پر ابا جان کی نصائح میری زندگی کا نصب العین ۲۷۴ تقریر کرنے کے لئے ہدایات حضور کی ذہانت وجودت طبع ۲۷۴ ایمان با اللہ کے ایمان افروز نمونے حضور کی نکتہ رسی حضور کے بعض سفر سفر گورداسپور سفر حیدر آباد دکن سفر سندھ سفر د ہلی سفر سرگودھا سفر بھیرہ حضور کے بعض خطوط تبرکات وقف اولاد ۲۷۵ صداقت کو پھیلانے کی تڑپ صل الله ۲۷۷ آنحضرت سے بے انتہا عشق ۲۷۷ قرآن مجید سے عشق ۲۷۹ درس کے سلسلے میں ایک واقعہ ۲۸۵ ۲۸۷ ۲۸۸ ۲۸۸ ۲۹۳ ۳۰۷ ۳۱۹ صفحہ ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۶ ۳۵۷ ۳۶۱ ۳۶۲ حضرت اماں جان کی عزت و احترام ۳۶۶ بھائیوں اور بہنوں سے محبت انتہائی شفیق باپ حضور کا ایک عہد افراد جماعت سے غیر معمولی محبت ۳۶۸ ۳۶۹ ۳۷۱ ہابی یا مشغلہ وسعت قلب عائلی زندگی حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ ام طاہر ۳۲۲ ۳۲۳ ۳۲۷ ۳۳۳ حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ بچوں اور افراد خاندان سے حسن سلوک ۳۷۹ درخت پر طوطا اور گاؤں کے بچے (نظم) ۳۹۳ ازواج و اولا د حضرت فضل عمر دوطرفہ محبت کے نظارے ۳۹۹ ۴۰۳ حضرت آپا ساره بیگم صاحبہ ۳۴۰ ایک اندوہ ناک افواہ اور اس کا رد عمل ۵۱۹ سحر انگیز شخصیت ۳۴۵ سحران حضرت عزیزہ بیگم صاحبہ ۳۴۸ دنیا کا بہترین دماغ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (أم متین، چھوٹی آپا ) ۵۲۷ ۵۵۱ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ۵۶۰ میری شادی اور اس کا پس منظر ۳۵۰ ایک نئے دور کا وہ بانی تھا اللہ تعالی سے محبت ۳۵۳ حرف آخر ۵۶۲
سید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ (1835ء تا 1908ء)
رت مرزا بشیرالدین محموداحمد صاحب الصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی (1889ء تا 1965ء)
سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیل اسح الثالث (+1982 1909)
سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسح الرابع (2003 1928)
1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جلوه صد رنگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متضرعانہ دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ایک عظیم الشان نشان عطا فرمایا کہ آپ کو گونا گوں صفات کا حامل ایک بیٹا عطا کیا جائے گا.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا ، خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا وہ جلد جلد بڑھے گا ، اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا ، زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا حضرت مصلح موعود ہی وہ خدا ئی نشان تھے جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے وعدے پورے ہوئے اور آپ اتنی خوبیوں اور صفات سے بہرہ ور تھے کہ آپ ایک فرد کی بجائے اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور آپ کی زندگی کے ہر پہلو یا ہر خوبی پر نظر ڈالنے سے یوں لگتا ہے کہ آپ اس میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں.آپ بہت متناسب الاعضاء میانہ قد تھے.جسم ہلکا پھلکا اور چھر میرا تھا جو آخری عمر میں بھرا بھرا لگنے لگا تھا تا ہم موٹا پا اور بھڑاپن کبھی بھی نہ آیا.آنکھیں غلافی پرکشش جو عا دتا نیم وا رہتی تھیں.نظر اُٹھا کر کم ہی دیکھتے تھے مگر جس چیز کو بھی دیکھتے تھے اسے پاتال تک دیکھ لیتے اور حقیقت کو بخوبی سمجھ لیتے.مسنون خوبصورت داڑھی جو نہ بہت لمبی تھی اور نہ ہی بہت چھوٹی.اسی طرح داڑھی کے بال نہ تو چھدرے اور بھڑے اور نہ ہی بہت زیادہ گھنے تھے.چہرے پر ایک بہت پیاری مسکراہٹ ہر وقت بھی رہتی.کبھی کبھی قہقہہ لگا کر بھی بنتے تھے مگر بہت کم.ہر حرکت و ادا سنجیدگی و ثقاہت لئے ہوئے ہوتی لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ ریا کا رخشک مزاج صوفیوں یا زاھد وں کی طرح پیوست اور خشکی کی تصویر بنے رہتے تھے بلکہ آپ نہایت لطیف حسِ مزاح رکھتے تھے.آپ کی تقاریر بعض دفعہ گھنٹوں لمبی ہوتیں مگر سننے والا اکتاہٹ اور بے دلی میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ آپ گفتگو اور تقریر کے دوران وقفہ وقفہ
2 سے بہت موزوں اور موقع ومحل کے مطابق کوئی لطیفہ یا دلچسپ واقعہ سنا کر محفل کو زعفران زار بنا دیتے.یہی نہیں کہ آپ خود کبھی کوئی غیر سنجیدہ اور غیر مہذب بات نہ کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی و جاہت عطا فرمائی تھی کہ آپ کی مجلس میں یا آپ کی موجودگی میں کسی اور کو بھی غیر سنجیدہ یا متانت سے گری ہوئی بات کرنے کی جرات نہ ہوتی.بالعموم دھیمی مگر ایسی قابل فہم آواز میں گفتگو کرتے کہ مخاطب کو سنے یا سمجھنے میں دقت نہ ہوتی اور دوبارہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آتی.بعض مواقع پر ، خاص طور پر عظمت دین اور خدائی وعدوں پر یقین کا مضمون بیان فرماتے تو آواز میں غیر معمولی شوکت اور تاثیر پیدا ہو جاتی.آہستہ آواز میں جو نا قابل فہم اور مہم ہو بات کرنا آپکو پسند نہیں تھا اور اس کی طرف آپ بہت اچھے انداز میں توجہ بھی دلایا کرتے تھے.آپ سفید بھاری عمامہ.سفید شلوار قمیض، لمبا کوٹ اور پاؤں میں گرگابی (مکیشن) استعمال فرماتے تھے.ابتداء میں ترکی (رومی) ٹوپی بھی پہنتے تھے مگر بعد میں ہمیشہ پگڑی ہی استعمال فرماتے رہے.گھر سے باہر آتے ہوئے ہاتھ میں چھڑی رکھنے کی سنت پر عمل پیرا ہونے کا اہتمام فرماتے اور اس امر کی دوسروں کو تلقین بھی فرماتے تھے.آپ کا لباس بہت ہی سادہ ہوتا تھا اور اس کے متعلق کوئی خاص اہتمام نہ فرماتے سوائے اس کے کہ اس کا صاف ستھرا ہونا ضروری ہوتا.خوراک بہت تھوڑی اور سادہ ہوتی تھی.تحریک جدید کے مطالبات میں سادہ زندگی اور ایک کھانا کھانے کا مطالبہ شامل تھا.آپ اس کی سختی سے پابندی فرماتے یہاں تک کہ اگر کبھی آپ کی طبیعت کی خرابی اور علالت کی وجہ سے ایک سے زیادہ کھانے میز پر چنے گئے تو آپ کھانا کھائے بغیر ہی اُٹھ جاتے.کئی غریب مخلص، سادہ احمدی اخلاص و محبت سے مکئی کی روٹی، ساگ یا ایسی کوئی اور معمولی چیز یا موسمی پھل بطور تحفہ آپ کی خدمت میں بھجواتے تو آپ شوق و رغبت سے اسے استعمال کرتے اور بھیجنے والے کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی فرماتے.یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے تمام معمولات میں سادگی ہوتی تھی اور یہ سادگی اس وجہ سے نہیں تھی کہ آپ کا ہاتھ تنگ تھا یا آپ زیادہ خرچ نہ کر سکتے تھے بلکہ آپ کا سادگی کا معمول اس لئے تھا کہ آپ اسے مذہب حقہ کی تعلیم کا ضروری حصہ سمجھتے تھے.اور آپ نے سادہ زندگی کے فوائد وبرکات سے عملاً استفادہ فرمایا تھا.یہی وجہ ہے کہ آپ ہمیشہ اس کی طرف بہت اصرار اور تاکید سے توجہ دلاتے رہے یہاں تک کہ جب آپ نے اپنی مشہورِ زمانہ کامیاب اصلاحی و انقلابی سکیم تحریک جدید " جاری فرمائی تو سادہ زندگی گزارنے کا مطالبہ اس کے بنیادی مطالبوں
3 میں شامل تھا اور آپ کے اس زمانے کے اکثر خطبات سادہ زندگی کے فوائد اور مسر فانہ پر تعیش زندگی کے نقصانات کے موضوع پر ہوتے تھے.آپ کے مصروف اوقات کا اکثر حصہ پڑھنے لکھنے میں صرف ہوتا تھا.مطالعہ بہت تیزی سے فرماتے ، مطلب کی بات فوری طور پر اخذ کرنے کا غیر معمولی ملکہ تھا.آپ کی لائبریری کی سینکڑوں کتابوں پر آپ کے قلم کے نشانات اور نوٹ یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا.یہی وجہ ہے کہ کسی بھی علم کے ماہر سے قرآنی بصیرت کی روشنی میں بات کر کے اسے دین حق کی صداقت و عظمت کا قائل کر لیتے تھے.ابتدائی زمانہ میں زیر مطالعہ کتب کا ڈھیر چار پائی کے پاس لگ جاتا.کبھی یہ بھی ہوتا کہ آپ اپنی لائبریری سے کوئی کتاب منگواتے تو ساتھ ہی یہ بھی بتا دیتے کہ یہ کتاب لائبریری کے کس خانہ میں کس جگہ رکھی ہوئی ہے.کبھی یہ بھی بتا دیتے کہ یہ حوالہ کتاب کے کس حصہ میں صفحہ کی کس جگہ پر ملے گا.آپ کی ابتدائی علمی وتحقیقی کتب و تقاریر کی تیاری کسی قیمتی آرام دہ فرنیچر اور آراستہ کمرے میں بیٹھ کر نہیں بلکہ نماز پڑھنے والی چٹائی یا سونے کے بستر پر بیٹھ کر کی گئی.دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ ایک جان نثار فدائی ، لاکھوں کی جماعت کے امام کے دفتر کا فرنیچر ایک چٹائی تھی.اسی چٹائی پر سارے علمی اور انتظامی کام سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ آپ کے ملاقاتی بھی آپ کے برابر بیٹھ کر اپنے خانگی مسائل کا حل، دینی مسائل میں رہنمائی علمی و عملی مشکلات کے ازالہ بلکہ قومی وملی مسائل پر آپ کی ماہرانہ رائے سے مستفید ہوتے اور سکون واطمینان حاصل کرتے.بعد میں ایسا زمانہ بھی آیا کہ دفتر اور میز گری کی سہولت میسر آ گئی مگر اُس وقت بھی فرنیچر کے انتخاب میں اس کی مضبوطی اور عمدگی کو اس کی خوبصورتی اور نفاست پر ترجیح دی جاتی تھی.آپ بچپن میں کئی کھیلیں کھیلتے رہے مگر جن کھیلوں سے آپ کو ہمیشہ دلچسپی رہی وہ تیرا کی ،نشانہ بازی اور گھوڑ سواری تھی.جوانی میں تو آپ مشاق تیرا کوں سے مقابلہ کر کے بازی لے جایا کرتے تھے.بچپن کی کھیلوں میں کشتی رانی کا بھی ذکر ملتا ہے مگر جماعتی مصروفیات کے باعث زیادہ وقت نہ ملنے کی وجہ سے اس طرف توجہ کم ہوتی گئی.آپ کا نشانہ بہترین تھا، پہلے غلیل پھر ہوائی بندوق اور شاٹ گن وغیرہ بھی زیر استعمال رہیں.ہوائی بندوق سے شکار کی رغبت اس لئے بھی زیادہ ہوگی کہ حضرت مسیح موعود دماغی کام کرنے والے کے لئے پرندوں کی یخنی مفید سمجھتے تھے.نشانہ بازی کی مشق کے لئے درخت پر بیٹھی ہوئی بھڑوں کا ایک ایک کر کے نشانہ لیتے اسی طرح دیا سلائی کی ڈبیہ بھی ہدف بنتی.اچھی قسم کی بندوق رکھنے اور اس کی صفائی وغیرہ کا بھی اہتمام فرماتے تھے.آپ کے اس شوق سے
4 جماعت کو اس رنگ میں بھی فائدہ پہنچا کہ نوجوانوں میں فوجی تربیت کی طرف رغبت پیدا ہوئی اور ہنگامی حالات میں دفاعی ضروریات کا بہت اچھا انتظام ہو جاتا رہا اور آپ کی وصبی قائدانہ صلاحیتوں کو بھی جلا حاصل ہوتی رہی.آپ کے مشاغل میں عطر سازی کا ذکر بھی ملتا ہے.آپ کی قوت شامہ بھی دوسری جنوں کی طرح بہت تیز تھی بعض دفعہ آپ دودھ کا ایک گھونٹ پی کر یا سونگھ کر یہ بتا دیا کرتے تھے کہ جس گائے یا بھینس کا یہ دودھ ہے اس نے کیا چارہ کھایا تھا.عطر سازی کو بطور ہابی اور مشغلہ اپنانے کی طرف توجہ اس وجہ سے بھی پیدا ہوئی کہ تیز خوشبو والے عام بازاری عطر آپ کو سخت نا پسند تھے.عام عطر کے استعمال سے فوری طور پر سر درد اور نزلہ زکام کی تکلیف سے دوچار ہو جاتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے بارہا احباب کو اس بات سے روکا کہ وہ آپ کی جائے نماز پر عطر لگا ئیں.عطر سازی کے متعلق آپ نے بہت مطالعہ کیا بہت تجربات کئے.اس فن کے ماہروں سے گفتگو فرمائی اور پھر اپنی طبعی نفاست کی وجہ سے عطر کی نہایت عمدہ قسمیں دریافت فرما ئیں.ان تجربات سے آپ کے بعض اعزہ واقرباء ہی نہیں احباب جماعت بھی فائدہ اٹھاتے تھے جنہیں یہ بیش قیمت عطر تحفہ میں ملتے تھے.حضور باغبانی اور زراعت کا بھی شوق رکھتے تھے اور اس میں وسیع مطالعہ اور تجربات سے ترقی اور بہتری کے راستے نکالتے رہتے تھے.آپ کی توجہ اور دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے ساتھ کام کرنے والوں کو یہ خیال رہتا تھا کہ آپ کو ہر درخت کے پھل کی پہچان ہے اور اس کی مقدار کا مکمل اندازہ ہے.سندھ کی زمینوں میں آپ کی نگرانی میں لگائے گئے باغات جماعت کی آمدنی میں اضافہ کا موجب بنے.( قادیان کا آموں کا باغ جو فارم کے نام سے مشہور تھا تقسیم برصغیر سے قبل ہندوستان بھر بنے.کا سے مشہورتھا میں مشہور تھا اور متعد دانعامی مقابلوں میں انعام کا حقدار قرار پایا.) آپ کی محنت کی عادت بھی غیر معمولی تھی، نیند بہت کم تھی ، آپ کے ساتھ کام کرنے والوں کو بھی مستعدی اور چوکسی سے ہر وقت کام کرنے کے لئے تیار رہنا پڑتا تھا.آپ کسی کے سپرد کوئی کام کرتے تو اس کے متعلق واضح ہدایات دیتے تفصیلی راہنمائی فرماتے اور فوری طور پر رپورٹ دینے کی تاکید فرماتے.آپ ایک وقت میں پوری توجہ سے کئی کام کر سکتے تھے.لمبے سفر کے دوران خطوں کے جواب لکھواتے تھے ان خطوں میں مخالفوں کے اعتراضات بھی ہوتے تھے، فقہی مسائل بھی ہوتے تھے لڑائی جھگڑوں کی اُلجھنیں بھی ہوتی تھیں معاشرتی اور سیاسی مسائل بھی ہوتے تھے.آپ کے ایک ڈرائیور کے بیان کے مطابق اس سارے کام کے دوران سفر کے ساتھیوں کی دلجوئی کی باتیں بھی ہوتی
5 تھیں اور خادم نوازی بھی یہاں تک کہ آپ اگر کچھ کھاتے یا کھلاتے تھے تو ڈرائیور کے ساتھ بیٹھنے والے کو ( جو بالعموم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ہوتے تھے ) وہ چیز ڈرائیور کے منہ میں ڈالنے کے لئے بھی عنایت فرماتے.ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیکرٹریوں کو ہدایات دینے اور خطوط کے جواب لکھوانے کے مواقع بھی پیش آئے.آپ کی بیماری میں آپ کے ماہر معالجین کی رائے تھی کہ آپ نے زندگی بھر ایک آدمی کا نہیں بلکہ کئی کئی آدمیوں کے برابر کام کیا ہے.ہنگامی حالات اور ضروری جماعتی کاموں کے دوران تو یوں لگتا تھا کہ شاید آپ آرام کرتے ہی نہیں ہیں.آپ کی ہدایت کے مطابق کام ختم کر کے فوری رپورٹ دینا ضروری تھا اور رپورٹ دینے والے اس امر پر حیرت زدہ رہ جاتے تھے کہ دن رات کے کسی بھی حصہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر رپورٹ پیش کی جاتی تو یوں لگتا تھا کہ آپ اس کا انتظار ہی کر رہے تھے اور آپ کے چہرے سے سنتی یا تھکان کے کوئی آثار نظر نہ آتے تھے.کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ آپ نے بے وقت رپورٹ وصول کر کے متعلقہ کارکن کے چہرے پر مسلسل کام کی وجہ سے تھکان کے آثار دیکھے تو اس کو آرام کرنے کی تاکید کے ساتھ اس کی خبر گیری اور دیکھ بھال کا بھی انتظام فرمایا.اگر آپ کے دفتر میں کسی غیر معمولی مصروفیت کی وجہ سے بزرگان سلسلہ یا دوسرے کارکنوں کو دیر تک کام کرنا پڑتا تو آپ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ان کے لئے کھانے پینے کی کوئی چیز بھجوا دیتے بلکہ بعض اوقات خود چائے وغیرہ لا کر پلاتے اور کوئی دلچسپ بات سنا کر تھکن دور کرنے کی کوشش فرماتے.آپ کی یاد داشت بھی غیر معمولی تھی.آپ کی آخری بیماری کے دوران لاہور کے ایک غیر از جماعت طبیب اپنے ایک دوست کے ہمراہ حضور کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ دیر کی بات ہے قادیان میں ایک دفعہ کسی مریض کو دیکھنے کے لئے آپ کو بلایا تھا.طبیب صاحب کو یہ بات یاد نہ تھی اور انہیں حافظہ پر زور دیکر یہ برسوں پرانی بات یاد آئی.ملاقات کے دوران بعض اوقات یہ دلچسپ صورت بھی پیش آتی کہ ملاقات کروانے والے سیکرٹری یا متعلقہ جماعت کے صدر وغیرہ کسی ملاقاتی کا تعارف کرواتے تو آپ ان کی تصحیح فرماتے اور بتاتے کہ یہ تو فلاں صاحب ہیں مجھے ایک عرصہ قبل مل چکے ہیں.آپ نے کئی مواقع پر فرمایا کہ قادیان اور جماعت کے دوستوں کی نام یہ نام جتنی لمبی فہرست میں تیار کر سکتا ہوں اور کوئی نہیں کر سکتا اور کئی دفعہ حسب ضرورت اس کا تجربہ بھی ہوتارہتا تھا.اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو بھی پسند فرماتے تھے ایک دفعہ آپ نے اپنے بچوں میں سے کسی کو
6 دیکھا کہ وہ اپنا جوتا پہریدار کو پالش کرنے کے لئے دے رہا ہے.آپ نے وہ جو تا پکڑ لیا کہ پہریدار کا یہ کام نہیں ہے وہ جماعتی ملازم ہے آپ کو اپنا کام خود کرنا چاہئے یا میں آپ کو پالش کر دیتا ہوں.آپ کو وقار عمل میں مٹی کھودتے ، ٹوکریوں میں مٹی اٹھا کر لے جاتے اور بھرتی ڈالتے دیکھنے والے تو اب بھی اس نظارہ کو یاد کرتے ہیں.سفر کے دوران ساتھیوں کی ضروریات کا خیال رکھتے.گرمیوں میں کارکنوں کو گھر سے برف بھجوانے کی ہدایت دیتے اور پھر قریبا ہر کھانے کے وقت تسلی کر لیتے کہ باہر برف بھیجوا دی گئی ہے.کھانے کے وقت یہ بھی دریافت فرماتے کہ سب موجود ہیں اور سب کو کھانامل گیا ہے.اگر کسی کارکن کو کام کے لئے بھجوایا ہوتا تو اس کا کھانا رکھنے کی تاکید فرماتے.اگر کسی کا رکن سے اس کی کسی غلطی کی وجہ سے ناراض ہوتے تو بعد میں دلجوئی کا اہتمام فرماتے.آپ کے ساتھی آپس میں کہا کرتے تھے کہ اگر آپ کسی سے ناراض ہوں تو بعد میں اس کے مزے ہو جاتے ہیں تا ہم آپ کا رُعب ود بد بہ بھی کمال کا تھا اور ساتھی ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ آپ کا بتایا ہوا کام آپ کی بتائی ہوئی ہدایات یا آپ کے منشاء کے مطابق پوری توجہ سے کیا جائے.جماعت کے بعض عہد یدار تو آپ کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے نفل ادا کرتے ، صدقہ دیتے اور دعا کرتے کہ ہم آپ کی ہدایات کو پوری طرح سمجھ کر ان پر احسن رنگ میں عمل کرنے کی توفیق پائیں.آپ کا حلقہ احباب حیرت انگیز طور پر وسیع تھا متعدد مذہبی وسیاسی لیڈ ر آپ سے خود ملتے یا کسی ذریعہ سے آپ سے استفادہ کرتے.آپ قادر الکلام شاعر تھے اور صرف اردو ہی نہیں عربی میں بھی اشعار کہتے تھے.ادبی حلقوں میں آپ احترام کی نظر سے دیکھے جاتے.ابتداء میں آپ کے بعض مضامین ادبی رسالوں میں بھی شائع ہوتے رہے.اچھے ادبی رسائل کی آپ سر پرستی فرماتے.تفخیذ الا ذہان اور اخبار الفضل کی ادارت کی وجہ سے آپ کو صحافت کا بھی خوب تجربہ تھا بعض مشہور ادیب اور بلند پایہ صحافی یہ امر اپنے لئے موجب افتخار سمجھتے تھے کہ ہم نے صحافت اور انشاء پردازی آپ سے سیکھی تھی.صحافت سے آپ کی دلچسپی ہمیشہ قائم رہی اگر چہ غیر معمولی مصروفیات کی وجہ سے آپ عملاً ادبی مضامین لکھنے کے لئے زیادہ وقت نہ نکال سکتے تھے تا ہم تعلیم الاسلام کالج کی اردو کا نفرنس میں آپ نے ادب اردو کے متعلق ایک بلند پایہ مقالہ پیش فرمایا.اردو سے لگاؤ کی وجہ سے آپ کے زمانہ میں آپ کی تحریک پر اندرون و بیرون ملک ہزاروں خاندان اپنی مادری زبان کی بجائے اردو بولنے لگے اور دنیا بھر میں اردو کی خدمت کرنے والوں میں احمدیوں کا حصہ بہت نمایاں رہا.آپ کی غیر معمولی خطیبانہ صلاحیتوں کے ذکر کے بغیر آپ کا تعارف مکمل نہیں ہوسکتا.نوجوانی میں ہی آپ کی تقاریر
7 افادیت و تاثیر کے لحاظ سے بہت پسند کی جاتی تھیں.مگر منصب امامت پر فائز ہونے کے بعد تو آپ کی یہ خوبی اتنی نمایاں ہوگئی کہ بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ سنجیدہ علمی خطاب کرنے والوں میں آپ سب سے آگے تھے.مختصر نوٹوں کی مدد سے بڑے وقار و متانت کے ساتھ بغیر کسی مصنوعی گھن گرج یا ہاتھ لہرانے پھیلانے کے ، گھنٹوں ایسے بولتے چلے جاتے کہ جیسے کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں.موضوع پر پوری گرفت ہوتی، ہر فقرہ موزوں اور درست ہوتا، کوئی بات موضوع سے ہٹی ہوئی نہ ہوتی.کبھی کبھی وقفہ وقفہ سے کوئی پاکیزہ لطیفہ یا دلچسپ واقعہ بھی ضرور بیان کرتے مگر وہ بھی موضوع کو زیادہ واضح کرنے اور کھولنے کیلئے ہوتا اور یوں لگتا کہ یہ اسی موقع کے لئے ہی بنایا گیا تھا.اس سے بھی زیادہ دلچسپی کا باعث وہ تلاوت ہوتی جو آپ تقریر کے شروع میں اور پھر تقریر کے دوران مضمون کی مناسبت سے نہایت خوش الحانی سے کرتے اور نئے نئے تفسیری نکات و معارف بیان فرماتے.آپ کی مخالفت بہت زیادہ تھی جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا موعود بیٹا ہونے کی وجہ سے آپ کی پیدائش سے بھی پہلے شروع ہو گئی تھی.جماعت کے اندر بھی بعض کمزور ایمان والوں نے فتنے شروع کئے مگر اس ساری مخالفت کے باوجود یہ عجیب بات ہے کہ آپ نے کبھی کسی سے نفرت نہ کی، کبھی کسی کو اپنا دشمن نہ سمجھا ، جب بھی موقع ملا مخالفوں سے بھی حسن سلوک فرمایا ، قومی مفاد کے کاموں میں مخالفوں سے تعاون بھی کیا اور ان سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش بھی فرمائی.اگر کسی مخالف کی کسی مشکل یا تکلیف کا علم ہوا تو اس کی ہر ممکن مدد فرمائی.ایسی مثالیں بھی ریکارڈ میں ہیں کہ مدت العمر مخالفت میں زندگی گزارنے والے ایسے مخالف جو اپنی مخالفت میں تمام حدود کو تجاوز کر جاتے تھے جب آخری عمر میں بیمار اور محتاج ہوئے تو حضور کی ہدایت پر حضور کے معالج خاص ان کا علاج کرتے رہے اور حضور کی طرف سے ان کی ادویات بھی مہیا کی جاتیں.آپ مغربی تمدن اور مغربی طرزِ فکر کو سخت نا پسند فرماتے تھے اس کے مقابلہ میں آپ ہمیشہ اسلامی تمدن کو قائم کرنے کی کوشش فرماتے اس کی ایک بہت ہی قابل قدر اور نمایاں مثال آپ کا تعد دازدواج تھا.مغربی پراپیگنڈا میں اسلام کی اس تعلیم پر بہت اعتراض کئے جاتے ہیں آپ نے قرآنی تعلیم کے مطابق مختلف ضروریات سے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور اسلامی دنیا میں آپ اس لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں کہ آپ اس کے متعلق مدافعانہ پہلو اختیار کرنے کی بجائے اسے اسلام کی بہترین قابل عمل تعلیم کے طور پر پیش فرماتے رہے اور یہ بات زبانی یا اصولی ہی نہیں تھی بلکہ آپ کا طرز عمل بھی یہی ثابت کرتا تھا کہ یہ کوئی چھپانے کی بات یا مجبوری کی وجہ سے اختیار کرنے والا امر نہیں
8 بلکہ تقویٰ کو قائم رکھنے اور ترقی دینے کے علاوہ اور بھی بہت سے فوائد رکھتا ہے.ایک سے زیادہ بیویوں میں پوری طرح انصاف اور ان کے حقوق کی کماحقہ ادائیگی اور اولاد کی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ادا کرتے ہوئے دیکھ کر یہی پتہ چلتا ہے کہ آپ بہترین شوہر اور بہت محبت کرنے والے والد تھے.آپ کی اولاد میں سے وہ بچے جن کی والدہ فوت ہو چکی تھی وہ آپ کی توجہ اور محبت دوسروں کی نسبت زیادہ حاصل کرتے اور یہ بات بھی آپ کی خصوصیات میں ہی شامل ہے کہ اپنی غیر معمولی مصروفیات میں سے ان کاموں کے لئے بھی وقت نکالتے اور گھر میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ، انہیں کہانیاں اور لطائف سناتے ، ان کی دلچسپیوں کا خیال رکھتے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا بھی پورا خیال رکھتے.آپ کے محسن انتظام اور حسن تربیت کا ہی کمال ہے کہ آپ کی بیویوں میں کہیں رقابت وحسد نظر نہیں آتا بلکہ اس کے بر عکس باہم مل کر گھر یلو اور جماعتی کام کرنے کی اچھی مثالیں بہت عام ہیں.آپ نے زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو پڑھے لکھے برسر روزگار نوجوان اپنے استعفے پیش کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے ، ماؤں نے اپنے اکلوتے ہونہار بچے خدمت دین کے لئے پیش کر دئیے.اگر کسی نوجوان کو کسی اہم جماعتی کام پر مامور کیا گیا تو اس نے اپنی خوش بختی و سعادت سمجھتے ہوئے بغیر کسی معاوضہ ومطالبہ کے اس مشن کو پورا کیا اور اس کے مقابلہ میں آپ کو جماعت سے جو تعلق تھا وہ دیکھ کر عقل محو حیرت ہو جاتی ہے.افراد جماعت سے جو پیارا اور محبت اور ان کی بہتری کے لئے جو مسلسل کوشش آپ نے فرمائی اس کی مثال کوئی باپ بھی اپنی اولاد کے لئے پیش نہیں کر سکتا.جماعت کے لوگ آرام کرتے اور سوتے مگر یہ بیدار مغز و چوکس را ہنما ان کی بہتری کے لئے خدا کے آگے سجدہ ریز ہوتا ،نئی نئی سکیمیں پیش کرتا ، ہر احمدی کی خوشی کو اپنی خوشی اور اس کے دُکھ کو اپنا دکھ سمجھتا.یہاں یہ بیان کرنا بھی مناسب رہے گا کہ آپ دن رات مسلسل محنت پر یقین رکھتے تھے آپ کے ساتھ کام کرنے والے آپ کی قوتِ عمل سے حیران رہ جاتے تھے.سارے دن کی طویل مصروفیت کے بعد دن بھر کے کاموں کی رپورٹ اور دوسری ڈاک دیکھنے کا کام شروع ہو جاتا.روزانہ ڈاک میں آپ کو سینکڑوں خطوط ملتے جن میں گھر یلو معاملات کے متعلق مشورے طلب کئے جاتے علمی وعملی مشکلات میں راہنمائی حاصل کی جاتی ، غرضیکہ افراد جماعت آپ کو اپنے وسیع کنبہ کا سر براہ سمجھتے ہوئے ہر بات آپ کے علم میں لانا موجب برکت گردانتے.بچوں کا نام رکھوانے کے لئے ، کاروبار شروع کرتے ہوئے بلکہ باہر سفر پر جاتے ہوئے آپ کی خدمت میں خط لکھ کر برکت حاصل کی جاتی.آپ کے خطوط
9 میں جماعت پر اعتراضات بھی ہوتے ، انتظامی امور بھی ہوتے ، تعبیر طلب خواہیں بھی ہوتیں، جماعت کی ترقی کے لئے مشورے بھی ہوتے ، غرض یہ ایک الگ عالم تھا جس کا کوئی ایسا شخص جس نے یہ نظارہ خود نہ دیکھا ہو پوری طرح اندازہ و تصور بھی نہیں کر سکتا.یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ رات کا آخری حصہ دعاؤں اور عبادات کے لئے وقف ہوتا.آپ کو قریب سے دیکھنے والے تو آپ کی زندگی کو مسلسل عبادت سمجھتے تھے کیونکہ تلاوت بھی معمولاً بہت لمبی ہوتی تھی.نمازوں کی امامت کے لئے مسجد میں جانے کی وجہ سے یہ ایک مستقل مصروفیت تھی جو کافی وقت کا تقاضا کرتی تھی.ڈاک کی مصروفیت کا ذکر ہو تو ساتھ ہی آپ کی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی ذہن میں آتا ہے.بچوں کو ان کی مائیں کسی نہ کسی بہانے سے آپ کی خدمت میں بھجواتیں اور وہ حضور سے مل کر یوں سمجھتے کہ انہیں بہت بڑی نعمت اور خوشی میسر آئی ہے.بیمار دوائی لینے یا مشورہ لینے کے لئے ، ضرورتمند اپنی ضروریات پیش کرنے کے لئے ، علمی راہنمائی حاصل کرنے والے عملی مشکلات میں مشورہ طلب کرنے اور پھر باہم لڑائی جھگڑوں کی شکایتیں، لین دین کے معاملات ، میاں بیوی کے تنازعات بھی ملاقاتوں میں پیش ہوتے اور بالعموم مشکلات اور معاملات کا ایسا حل نکل آتا جو باعث اطمینان ہوتا.انتظامی ملاقاتیں بھی روزانہ کا معمول تھا ، سیاسی اور مذہبی لیڈروں اور ادیبوں اور سخنوروں سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہتیں.یہ دلچسپ داستان تو جتنی بھی طویل ہو جائے کم ہے.اس سے آگے آپ کے ایک بہت قریبی قابل اعتماد بلکه قابل فخر ساتھی اور مرید یعنی حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی تحریر پیش کی جاتی ہے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو پچاس سال سے زیادہ آپ کے اعتماد و قرب کی سعادت حاصل رہی چوہدری صاحب نے کمال اطاعت و انکسار سے آپ کی توجہات کریمانہ سے استفادہ کیا اور متعدد مواقع پر آپ کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دیئے.حضرت فضل عمر نے جو ہر قابل کو جس طرح تراش خراش کر کے پیش فرمایا.حضرت چوہدری صاحب نے ایک مجذوب کی طرح فضل الہی کے اس بہاؤ کو جذب کیا اس کیفیت کو الفاظ بیان نہیں کر سکتے.حضرت چوہدری صاحب کے بیان سے سیرت کے بہت سے پیارے گوشے عیاں ہوتے ہیں.ملاحظہ کیجئے:.ستمبر یا اکتو بر ۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خاندان کے افراد اور بعض دیگر احباب کے ہمراہ سیالکوٹ میں رونق افروز ہوئے.حضرت
10 صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی زیارت کا یہ میرا پہلا موقع تھا.مجھے وہ جگہ جہاں میں نے پہلی دفعہ آپ کی زیارت کی تھی اور آپ کا پندرہ سولہ برس کا سن خوب اچھی طرح یاد ہے.میری عمر اس وقت گیارہ برس کی تھی.اتنی عظیم اور بلند شخصیت کے دیدار کی سعادت حاصل کرنے پر میرا دل خوشی سے جھوم اُٹھا.میں آپ کی خدمت میں سلام عرض کرنے اور ملاقات کرنے کی جسارت نہ کر سکا جس طرح کہ ایک انسان چاند تک پہنچنے اور اسے سلام کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا.بعد ازاں مجھے اپنے والد صاحب کے ہمراہ ستمبر اور پھر دسمبر میں جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان جانے کا اتفاق ہوا.صاحبزادہ صاحب کو آتے جاتے گزرتے اور دیکھنے کے مواقع میسر آتے رہے لیکن میں آپ سے ملاقات کرنے کے لئے اپنے قومی اور حوصلوں کو مجتمع نہ کر سکا.۱۹۰۷ء میں میٹرک کر لینے کے بعد میں لاہور چلا آیا تو پھر وقتاً فوقتاً قادیان جاتا رہا لیکن ہم دونوں میں یہ فاصلہ معدوم نہ ہو سکا.در حقیقت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام افراد اور آپ کے نزدیکی عزیز واقارب یا آپکے متعلقین کا روحانی رُعب اور ان کی بے پناہ تعظیم و توقیر کے جذبات میرے دل میں جاگزین تھے.چنانچہ جب ۱۹۱۰ء میں صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مرحوم نے اسی کالج میں داخلہ لیا جہاں میں پڑھتا تھا.تب ذرا بے تکلفی سے ان کے بارے میں علم حاصل ہونے کا موقع ملا.اگست ۱۹۱۱ء میں خاکسار اپنے والدین کے ہمراہ الوداع ہونے کے ارادے سے آیا ( مجھے یقین ہے کہ میری والدہ صاحبہ کے قادیان تشریف لانے کا یہ پہلا موقع تھا) کیونکہ خاکسار قانون کی تعلیم کے لئے انگلستان جارہا تھا.چنانچہ یہی وہ موقع تھا جب کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے کہنے پر مجھے بڑے صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا.میں نے اپنے سفر انگلستان کے بارے میں انہیں بتایا اور اپنے لئے دعا کی درخواست کی.آپ نے مجھے دانش وراہنمائی کی بعض نہایت مناسب ہدایات سے نوازا.یہ ملاقات چند
11 منٹ جاری رہی.میں نے انگلستان سے ایک یا دو دفعہ آپ کی خدمت میں خطوط لکھے اور نہایت درجہ بیش قیمت اور مناسب جوابات سے سرفراز ہوا.مارچ ۱۹۱۴ ء میں حضرت خلیفہ اسیح الاول وصال پاگئے اور صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی کی حیثیت سے آپ کے جانشین منتخب ہوئے.آپ کو اس وقت جماعت کی پچانوے فیصد افراد کی تائید اور اطاعت حاصل تھی.میں ابھی تک انگلستان میں ہی تھا میں نے جونہی آپ کے انتخاب کی خبر سُنی اُسی وقت بیعت کا خط ارسال کر دیا.اُن دنوں انگلستان سے قادیان ڈاک پہنچنے میں سترہ (۱۷) دن صرف ہوتے.۲.اگست ۱۹۱۴ء کو پہلی جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی.میں ۸.اکتوبر کولنڈن سے روانہ ہو کر اوائلِ نومبر میں اپنے وطن واپس لوٹ رہا تھا.یہ ایک نہایت خطرناک اور جان جوکھوں کا سفر تھا خصوصاً اس لئے بھی کہ جرمن جہاز ایمڈن (EMDEN) بحر ہند میں مصروفِ عمل تھا.اور اب تک بیشتر برطانوی جہازوں کو تباہ کر چکا تھا.ایس ایس عربیہ جس کے ذریعہ میں سفر کر رہا تھا.بخیریت و بحفاظت بمبئی پہنچ گیا لیکن بعد ازاں کسی دوسرے سفر میں ایمڈن نے اسے غرق کر دیا.“ حضرت چوہدری صاحب نے اطاعت و عقیدت کا شاندار نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنے سراپا انتظار بنے ہوئے والدین اور عزیز واقارب کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے سب سے مقدم حضرت فضل عمر کی ملاقات کو رکھا اور سید ھے قادیان پہنچ گئے.آپ لکھتے ہیں:.سفر کے دوران میں بمبئی سے سیدھا قادیان گیا اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی تحریری بیعت کا زبانی طور پر احیاء کیا.یہی میری آپ سے پہلی اور حقیقی ملاقات تھی.اب جب کہ وہ شان اور مرتبہ میں بہت بلند ہو چکے تھے اور میرے روحانی پیشوا اور آقا تھے جن سے میں نے دل و جان کی گہرائیوں سے خالص اور سچی اطاعت کا عہد کیا تھا اور جن کی خدمت کے لئے میں اپنا نفس وقف کر چکا تھا اب میں آپ کی موجودگی میں پہلی ملاقاتوں کی نسبت کچھ کم جھجک محسوس کرتا اور میں اپنے آپ کو اس قابل پاتا تھا کہ میں گفتگو میں نہایت مناسب طریق سے اپنا مؤدبانہ اور عاجزانہ حصہ پیش کروں جس کا تذکرہ
12 آگے آئے گا.میں آپ کی پُر وقار محفل سے روحانی رفعت اور مکمل تحفظ کے جذبات لئے ہوئے اُٹھا.اب تک نصف صدی گزر چکی ہے.یہ مضمون مختصر سی ذاتی یادداشت پر مشتمل ایک حقیر کوشش ہے کیونکہ تمام واقعات کو ایک محدود مضمون میں قلمبند کرنا ناممکن ہے لہذا ان تمام یادوں کو میں نے چند مناسب حدود میں مجتمع کر دیا ہے.ایک مضمون تو کجا ، میں یہاں اس حیران کن اخلاقی و روحانی انقلاب کا ایک مجمل خلاصہ بھی پیش نہیں کر سکتا جو گذشتہ نصف صدی کے دوران اس عظیم المرتبت اور پرکشش شخصیت کی ہدایات اور راہنمائی کے نتیجہ میں دنیا کے قریب و بعید کناروں پر افراد اور جماعتوں کی زندگیوں میں رونما ہوا ہے.یہ کام ان ہی لوگوں کے لئے مخصوص رہنا چاہئے جو میری نسبت حقائق سے زیادہ واقف ہیں اور ضروری موازنہ کرنے اور اعداد و شمارمہیا کرنے کے زیادہ اہل ہیں.جب حضرت خلیفہ امسیح الاول کے وصال پر جماعت میں اختلاف پیدا ہوا تو والدہ صاحبہ نے فوراً ہی اپنی بیعت اور میری ہمشیرہ اور چھوٹے بھائیوں کی طرف سے ان کی رضامندی کے ساتھ بیعت کا خط حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی خدمت میں ارسال کر دیا.اور والد صاحب نے ایک ہفتہ کے اندر ہی یا تقریباً اتنے ہی عرصہ میں بیعت کی.“ وو وہ حسن واحسان میں تیرا نظیر ہوگا“ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات بابرکات میں آنحضرت صلی الشمای آلہ سلم کی آمد ثانی سے متعلق پیشگوئی پوری ہوئی.جیسا کہ پہلے سے ہی بتا دیا گیا تھا.وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ ( الجمعة: ٤) اور ہم نے بنظر غائر آپ کی ذاتِ اقدس میں مؤخر الذکر کے عکس کو مشاہدہ کیا.اسی طرح ہمیں توقع تھی کہ آپ (حضرت مسیح موعود ) کا عکس ہم آپ کے دوسرے جانشین میں بھی دیکھیں جو کہ آپ کے موعود فرزند بھی ہیں اور پیشگوئی
13 کے الفاظ میں:- وہ حسن واحسان میں تیرا نظیر ہوگا“ ہمارے پاس اس پیشگوئی کے روزِ روشن کی طرح پورا ہونے پر بے شمار شواہد موجود ہیں.اس پیشگوئی کے بہت سے پہلوؤں میں سے میں یہاں ایک یا دو پر ہی اکتفاء کروں گا.آنحضرت صلی اللہ یہ آلہ سلم کے فضائل میں سے ایک پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود شہادت دی ہے.چنانچہ فرمایا: تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے اور وہ تمہاری بھلائی اور خیر کا بہت خواہاں ہے اور مومنوں کے ساتھ محبت کرنے والا اور بہت کرم کرنے والا ہے (یونس: ۱۲۸) وہ خصوصیات جن کا اس آیت میں تذکرہ کیا گیا ہے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ الودود کی ذات والا صفات میں انتم طور پر موجود ہیں جن پر اس عاجز کے اپنے مشاہدات اور دیگر احباب کے انکشافات جن پر خاکسار خود شاہد ہے اس قدر زیادہ ہیں کہ بہت تفصیل چاہتے ہیں.بہر حال میں چند ایک کی طرف توجہ مبذول کراؤں گا.کئی سال قبل موسم گرما کے ایک دن خاکسار لاہور سے قادیان روانہ ہوا.اُن دنوں ابھی قادیان بٹالہ کے ساتھ بذریعہ ریل منسلک نہیں ہوا تھا میں چار بجے کے قریب روزہ کھلنے سے کوئی سوا گھنٹہ قبل قادیان پہنچا.حضرت صاحب حسب معمول نماز عصر کے بعد مسجد میں تشریف رکھتے تھے.میں سلام عرض کرنے کے لئے حاضر ہوا آپ نے میری ملاقات کو بہت سراہتے ہوئے ایک مسکراہٹ کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ چائے سے میری تواضع کی جائے.یہ امر بہت غیر معمولی تھا اس لئے بھی کہ میں روزہ دار تھا.میرے اس غذر کے پیش کرنے پر آپ نے تعجب کا اظہار فرمایا اور شفقت و محبت کی آواز میں یوں گویا ہوئے :- روزہ ! جب کہ آپ مسافر ہیں.یہ کس قسم کا روزہ ہے!! چنانچہ چائے لائی گئی اور مسجد میں مجلس کے وسط میں بیٹھے ہوئے میں نے
14 پی جب کہ تمام احباب روزہ دار تھے.اس طرح آپ نے عملی رنگ میں سفر کی حالت میں روزہ ملتوی کر دینے والے اہم قرآنی حکم کی تعمیل کروائی اور مجھے نہایت ہی عمدہ طریق سے نصیحت و ہدایت سے نواز ا لیکن نصیحت کا یہ طریق کس قدر عمدہ ، مشفقانہ اور موثر تھا !!! قادیان کے ایک حصہ کی پچاس ایکڑ سے زائد زمین جو کہ رہائشی بن چکی تھی اس کے جھگڑے سے متعلق ایک اپیل ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی.ڈسٹرکٹ کورٹ میں پہلی اپیل پر فیصلہ حضرت صاحب اور آپ کے بھائیوں کے خلاف ہوا تھا.حضرت صاحب سے کہا گیا تھا کہ اپیل ضرور دائر کی جائے کیونکہ صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب مرحوم نے خواب میں دیکھا تھا کہ اپیل کامیاب ہو گئی ہے.چنانچہ اپیل کی سماعت کا حق مل گیا حضرت صاحب نے مجھے بلا بھیجا اور بتایا کہ انہیں کہا گیا تھا کہ مقدمہ کی اہمیت کے پیش نظر سر محمد شفیع اور مسٹرپٹ مین ( دونوں لاہور کی بار میں چوٹی پر تھے ) کو بطور وکلاء کیا جائے لیکن آپ نے محسوس فرمایا کہ محنت ، وفاداری اور سرگرمی کو تجربہ پر فوقیت دینی چاہئے اور مجھ سے یہ خواہش ظاہر فرمائی کہ میں میاں محمد شریف صاحب کی معاونت کے ساتھ اس اپیل کی وکالت کروں.مجھے پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا.وہ دن میرے بار میں ابتدائی ایام تھے اور مجھے ہائی کورٹ میں کام کا تجربہ بہت ہی کم تھا.بار کے نہایت ہی معروف اور آزمودہ کا ر سر کردہ وکلاء میں سے میرے انتخاب پر ترجیح میری کسی ذاتی قابلیت کیوجہ سے نہ تھی بلکہ یہ صرف اور صرف میرے واجب الاحترام اور بے نظیر آقا کی نگاہ شفقت و عنایت تھی.میں نے کچھ اضطراب محسوس کیا لیکن اُس اعتماد کیوجہ سے جو حضرت صاحب نے عاجز پر کیا تھا میں نے کافی مدد محسوس کی اور پھر میرا حوصلہ یہ معلوم کر کے کافی مضبوط ہو گیا کہ آپ اپیل کی کامیابی کے لئے دُعا فرما ئیں گے.میں نے اپنے معزز ساتھی میاں محمد شریف صاحب کی مدد اور تعاون کیوجہ سے کافی آرام پایا جو کچھ سالوں سے اچھی پریکٹس کر رہے تھے، گو اُس وقت کے قوانین کے مطابق میرا مرتبہ سینیارٹی (Seniority) کے لحاظ سے نسبتاً بلند تھا.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری
15 عاجزانہ اور حقیر کوششیں کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہوئیں.حضور کی دعا کی برکت اختلاف کے وقت جماعت کا ایک حصہ علیحدہ ہو گیا اور انہوں نے لاہور کو مرکز بنا کر ایک نیا فرقہ بنالیا.ان میں سے ایک اچھے خاصے کاروباری صاحب تھے جو بتدریج اوسط طرز زندگی سے خوشحالی کی جانب جھک گئے اور بعض ایسی کارروائیوں کی لپیٹ میں آگئے جو قانونی لحاظ سے قابلِ اعتراض تھیں.اس کے نتیجہ میں ان پر مقدمہ قائم ہوا اور ایک سنگین جرم ثابت ہوا اور انہیں ایک لمبے عرصہ کی قید کا حکم سنا دیا گیا.فرد جرم اور فیصلہ کی بناء پر ہائی کورٹ میں ایک اپیل دائر کی گئی لیکن ضمانت کی اجازت نہ ملی اور اپیل دائر ہونے کے باوجود اپیل کنندہ بدستور جیل میں ہی رہے.اس سے ان کی رہائی کی امید ختم ہو گئی.ان کی جیل اور ماقبل کی زندگی کے موازنہ نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ اپنی قدروں کو جانچیں اور پرکھیں.چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ پھر حسب سابق نمازوں اور گذشتہ اعمال پر استغفار اور تاسف کے ذریعہ ہدایت و نصرت کی تلاش شروع کر دی.اذیت وکرب کے اُس دور کے وسط میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواب میں زیارت کی اور آپ سے معلوم کیا کہ : - یہ حضور علیہ السلام کا جواب تھا.حضور! میں کب تک رہائی کی امید رکھوں ؟“ ” جب بھی تمہاری جلد تبدیل ہو جائے“ انہوں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ خدا تعالے ان کے طریق زندگی میں مکمل اخلاقی اور روحانی انقلاب چاہتا ہے.چنانچہ انہوں نے اس عمل کو جاری رکھنے اور اپنے منتخب کردہ راستے پر مضبوطی سے گامزن رہنے کا پختہ فیصلہ کر لیا.جب ان کے صاحبزادے اگلے دن ان سے ملاقات کی غرض سے آئے تو انہوں نے سارا ماجرا بیان کیا اور اسے تاکید کی کہ وہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے ملاقات کر کے ان کی خدمت میں والد کی بیعت پیش کرتے ہوئے رہائی کے لئے دعا کی استدعا کرے.حُسن اتفاق سے انہیں دنوں حضرت صاحب لاہور تشریف لائے تو وہ
16 نوجوان آپ کی ملاقات کے لئے شیخ مشتاق حسین صاحب مرحوم ( جو ہمارے معزز بھائی شیخ بشیر احمد صاحب کے والد محترم تھے جو کچھ عرصہ قبل تک مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں ) کے ہمراہ حاضر خدمت ہوا.میں وہ تیسرا شخص تھا جو اس ملاقات کے وقت وہاں موجود تھا حضرت صاحب نے نو جوان کی تمام باتوں کو بغور سنا اور اپنے والد کی رہائی کے لئے اس کی عاجزانہ درخواست دعا پر آپ نے نہایت تسلی آمیز الفاظ میں فرمایا.میں دعا کروں گا حضرت صاحب کی آواز اتنی زیادہ ہلکی تو نہیں البتہ سرگوشی سے ذرا بلند تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں.مجھے یہ یقین ہو گیا کہ آپ کی دعائیں سنی جائینگی اور قبولیت کا شرف حاصل کریں گی.لیکن اس کے با وجود میرا قانونی ذہن یہ معلوم کرنے کا منتظر تھا کہ آخر کس طرح کوئی ٹھوس نتیجہ حاصل ہو سکے گا !! میں اس کیس میں بطور وکیل تو منسلک نہ تھا لیکن میں اپیل کنندہ کو جانتا تھا اور مجھے بعض حقائق کا سماعی علم بھی حاصل تھا.مقدمہ میں بنیادی حیثیت ایک قانونی نکتہ کو حاصل تھی.مقدمہ کا بنیادی گواہ اپنے سابقہ بیان میں بعض کڑیاں جو مجرم اور ان اسباب جرم سے تعلق رکھتی تھیں جن کی بناء پر فرد جرم عائد کی گئی تھی مہیا کرنے میں ناکام رہا تھا البتہ اس گواہ کا سابقہ بیان جو اس نے اس مجسٹریٹ کے رو برو دیا تھا جس نے پہلی سماعت کی تھی وہ بیان ان لازمی کڑیوں پر مشتمل تھا.استغاثہ نے اس بیان کو مقدمہ میں بطور شہادت پیش کیا.اپیل کنندہ کے مقدمہ کا انحصار زیادہ تر اسی بیان پر تھا.اپیل جسٹس پٹ مین کے روبرو برائے سماعت پیش ہوئی انہوں نے فیصلہ دیا کہ اپیل کنندہ کے خلاف شہادت میں گذشتہ بیان نا قابل تسلیم ہے اور چونکہ باقی شہادتیں جرم کے ثبوت کے لئے نا کافی ہیں اس لئے انہوں نے اپیل کو منظور کر لیا اور مقدمہ کو خارج کرتے ہوئے اپیل کنندہ کو رہا کر دیا.چند مہینوں کے بعد وہی نکتہ کسی اور مقدمہ کے سلسلہ میں ایک ڈویژن بینچ
17 مشتمل بر دو جج صاحبان ) کے روبرو پیش ہوا انہوں نے پٹ مین کے برعکس یہ فیصلہ دیا کہ اس مقدمہ میں شہادت کے سلسلہ میں سابقہ بیان قابل تسلیم تھا لیکن یہ فیصلہ اب اپیل کنندہ پر اثر انداز نہ ہو سکتا تھا جسے جسٹس پٹ مین بری کر چکے تھے.وہ صاحب جیل سے رہائی کے بعد چالیس سال تک زندہ رہے اور انہوں نے ہمیشہ اس عہد کو نہایت احسن طریق سے نبھایا جو انہوں نے جیل میں کیا تھا.ان میں تمام ظاہری اور باطنی انقلابات تکمیل پذیر ہو چکے تھے.وہ گذشتہ سال اپنے آخری وقت تک نہایت مضبوطی اور استقلال سے صراط مستقیم پر جمے رہے اور تضرع و عاجزی ان میں پیدا ہوگئی اور انہوں نے اپنے نفس کو خلق خدا کے لئے وقف کرتے ہوئے اپنی عارضی لغزشوں کے تمام نشانات کو گلی طور پر معدوم کر دیا جن کے لئے انہیں بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی اور جن سے انہوں نے بالآ خر خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے طفیل رہائی حاصل کر لی تھی.تحفہ شاہزادہ ویلز جب ڈیوک آف ونڈسر جو اس وقت پرنس آف ویلز اور تخت برطانیہ کے وارث تھے (جس پر وہ کبھی برا جمان نہ ہو سکے کیونکہ ایڈورڈ ہشتم کی حیثیت میں وہ رسم تخت نشینی سے قبل ہی دستبردار ہو گئے.) وہ ۱۹۲۲ء میں ہندوستان تشریف لائے.لاہور میں ان کے قیام کے دوران حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور جماعت کی طرف سے ان کی خدمت میں ایک کتاب تحفہ کے طور پر پیش کی گئی تھی جس کا نام ”تحفہ شہزادہ ویلیز تھا.اس کتاب میں آپ نے تعلیمات اسلامی کی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کی حیثیت میں نہایت واضح اور مدلل تشریح فرمائی تھی نیز اس کے آخر میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت بھی دی.اصل کتاب حضرت صاحب نے اردو میں رقم فرمائی اور مسودہ کی ایک نقل مجھے لا ہوران ہدایات کے ساتھ ارسال فرمائی کہ میں اس کا جس قدر بھی جلد ممکن ہو سکے انگریزی میں ترجمہ کروں اور پھر تر جمہ کو نظر ثانی کے لئے قادیان لے جاؤں.میں نے پانچ دنوں میں اس ترجمہ کو مکمل کر لیا اور اسے لے کر قادیان چلا گیا وہاں دو دن اس کی نظر ثانی پر صرف کئے گئے.نظر ثانی کرنے والے احباب کا بورڈ خود حضرت صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد
18 صاحب مرحوم ، مولوی شیر علی صاحب مرحوم اور ہمارے معزز بھائی ماسٹر محمد دین صاحب پر مشتمل تھا.ہم روزانہ نماز فجر کے بعد جبکہ ابھی سورج نمودار ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہوتا کام شروع کر دیتے تھے اور نماز عشاء تک ماسوائے کھانوں اور نمازوں کے وقفوں کے لگاتار جاری رکھتے.ہم اس کمرہ میں کام کیا کرتے تھے جو مسجد مبارک کی چھت پر شمالی جانب سے کھلتا ہے.کھانا حضور ایدہ اللہ کے گھر سے آتا تھا اور اسی کمرے میں کھلایا جاتا تھا جہاں ہم کام میں مصروف تھے.ہم صرف نمازوں کے اوقات میں کمرے سے باہر نکلتے اور ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے.یہ مجلس چند ضروری وقفوں کے علاوہ تقریباً سترہ (۱۷) گھنٹے روزانہ رہتی تھی.میں محنت و سرگرمی اور انہماک کے وہ دو دن جو بیک وقت پر مسرت و پرسکون بھی تھے کبھی فراموش نہیں کر سکتا.صحبت بہت ہی ممتاز اور ارفع تھی جس کی کوئی شخص کبھی خواہش کر سکتا ہے.باوجودیکہ کام بہت احتیاط طلب تھا لیکن اس کے علاوہ بہت پُر از معلومات اور نصیحت آموز بھی تھا، خوراک کے انتظامات سادے ہونے کے باوجود بہت اچھے اور تسلی بخش تھے.حضرت صاحب کی بڑی صاحبزادی جو اس وقت دس برس کی بچی تھیں وہ کھانوں کی تیاری وغیرہ میں نگرانی فرماتی تھیں.چنانچہ ان کا احساس ذمہ داری اور معصومانہ سنجیدگی و متانت ہر موقع اور ہر لمحہ عیاں تھی.حضرت صاحب بذات خود گوہر تیزی سے گذرنے والے لمحے سے زیادہ سے زیادہ بہتر سے بہتر فائدہ حاصل کرنے کے لئے مضطرب تھے اور اس امر کا حصول آپ کیلئے آسان تھا لیکن اس کے باوجود آپ ہر ایک کے آرام کے لئے بہت متفکر رہتے تھے.آپ نہ صرف اپنے عالی ظرف اور لطیف مزاح کے ذریعہ ہمیں مسرور رکھتے بلکہ خود بھی کام کی تکمیل میں ہماری مددفرماتے.میں اپنے بارے میں پورے وثوق سے کہتا ہوں اور ایسا ہی مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا خیال ہوگا کہ ہر طویل دن کے اختتام پر ہم اسی طرح خوش و خرم باہر آتے جس طرح کام شروع کرنے کے وقت ہوتے تھے.جب بھی مجھے حضرت صاحب کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا میں نے ہر دفعہ لطف و سرور کے احساس کا ایک عجیب تجربہ
19 مشاہدہ کیا.آپ کی پُر نور شخصیت میں اخلاقی و روحانی تقویت دینے کی بے پناہ طاقت موجود ہے اور آپ کا بے پناہ کام کرنے کا جذبہ جو ہم نے آپ کے ساتھ کام کے دوران مشاہدہ کیا بہت زیادہ اثر انگیز چالیس سال بعد ہر رائل ہائی نس ڈیوک آف ویلز خلاف معمول نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں دیکھے گئے.ان سے ایک مختصر سی ملاقات میں خاکسار نے انہیں دی گئی ایک کتاب تحفہ پرنس آف ویلز کی طرف توجہ دلائی اس پر انہیں بہت جلدی یاد آیا اور انہوں نے فوراً کہا کہ ” میں اس کتاب کو اب تک اپنے ساتھ رکھتا ہوں“.حضرت صاحب کی خلافت کے ابتدائی ایام میں ملک کے سرکردہ علماء کا ایک گروہ جو جماعت کے تمام مخالف فرقوں کی نمائندگی کرتے تھے.مشترکہ پلیٹ فارم سے عوام میں تقاریر کرنے کے لئے قادیان میں جمع ہوئے.اس کا مقصد جیسا کہ قبل ازیں وسیع طور پر مشتہر کیا گیا تھا یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے چنانچہ اس کی وجہ سے اور خصوصاً لاء اینڈ آرڈر کے نکتہ نگاہ سے بھی سخت مشکل اور نازک صورتِ حال پیدا ہوگئی کیونکہ جلسہ کے پروگرام کچھ اس طرح سے ترتیب دیئے گئے تھے جس کے مطابق نواحی دیہات کے تخریب پسند عناصر کی بہت زیادہ حاضری متوقع تھی تقاریر بہر حال اشتعال انگیز تھیں.مشتہر کردہ مقاصد میں ایک یہ بھی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لعش مبارک کو قبر کھود کر نکالا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ عام نعشوں کی بوسیدگی کے برخلاف یہ محفوظ ہے یا نہیں.بعض علماء کے قول کے مطابق اگر آپ کی نبوت کا دعوی سچا ہے تو آپ کی نعش درست حالت میں ہوگی.علماء کا یہ عقیدہ بعید از عقل و انصاف تھا.دراصل اس نظریہ کو اس لئے پھیلایا گیا تھا تا کہ اسے مزار مبارک کی بلا روک ٹوک بے حُرمتی کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا جائے.یہ امر صاف ظاہر تھا کہ ایسی حرکت ہر احمدی کے لئے نا قابل برداشت ہوتی اور بے حرمتی کی اس شرمناک حرکت سے باز رکھنے کے لئے جماعت کا ہر فرد اپنے خون کے آخری قطرے تک مقابلہ کرتا.اس قسم کے خوفناک اور نازک حالات میں انتظامیہ کی مدد
20 پر کچھ بھروسہ کیا جاسکتا تھا یا بعض ایسے ذرائع پر جن کی وجہ سے ہمارا مقصد پورا ہونے کی توقع ہوتی ضلعی حکام کو چاہئے تھا کہ جو نہی انہیں ان کے مقاصد کا علم ہوا تھا وہ جلسہ بند کروا دیتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا شاید وہ صورت حال کا صحیح اندازہ نہ کر سکے.ایک بہت بھاری اور تکلیف دہ ذمہ داری ان حالات میں جماعت پر عائد ہوتی تھی اور خصوصاً اس کے واجب الاحترام امام پر اس کا سب سے زیادہ بوجھ پڑا.میں ان دنوں لاہور میں احمد یہ ہوٹل کا وارڈن تھا.مجھے یہ ہدایات موصول ہوئیں کہ میں ہوٹل کے تمام طلبہ کو ساتھ لیکر قادیان روانہ ہو جاؤں میں نے نماز جمعہ کے بعد اس کا اعلان کیا اور طلبہ سے درخواست کی کہ وہ میرے ہمراہ بٹالہ جانے والی شام کی گاڑی میں سوار ہو جا ئیں.یونیورسٹی کے امتحانات نزدیک تھے اور نصف طلبہ اس میں شامل ہو رہے تھے لیکن اس کے باوجود کوئی بھی ایسا طالب علم نہ تھا جو گاڑی میں سوار ہونے سے رہ گیا ہو.شیخ بشیر احمد صاحب جو اس وقت ہوٹل میں رہائش پذیر تھے وہ ایک دن کے لئے اپنے گھر گوجرانوالہ گئے ہوئے تھے شام کے وقت وہ لاہور واپس لوٹے اور ریلوے اسٹیشن پر اپنے ہوٹل کے ساتھیوں کو دیکھ کر وہ ان کے پاس آئے اور مقصد دریافت کیا.علم ہونے پر انہوں نے وہیں بٹالہ کا ٹکٹ خریدا اور ہمارے ساتھ شامل ہو گئے.گاڑی آدھی رات کے لگ بھگ بٹالہ پہنچی تو چند کم عمر نو جوانوں نے کہا کہ قادیان کی جانب گیارہ میں چلنے سے قبل چند گھنٹے توقف کرنا چاہئے میں نے کہا کہ میرے خیال میں بغیر کسی قسم کی تاخیر کئے ہمیں فوراً قادیان کی جانب چل پڑنا چاہئے چنانچہ ہم فوراً ہی قادیان کی طرف روانہ ہو گئے (اسی واقعہ کے ایک اور راوی نے اسے بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ابھی سفر جاری رکھنے یا کسی قدر وقفہ کرنے کی بات چل ہی رہی تھی کہ کسی نے بتایا کہ محترم امیر صاحب ، حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب، پیدل سفر شروع کر چکے ہیں اور کافی آگے نکل گئے ہیں.باقی سب افراد بھی فوراً چل پڑے.اور صبح کی پو پھوٹنے سے قبل ہی ہم وہاں پہنچ گئے.اس قدر صبح سویرے سارا قصبہ بیدار اور چوکس تھا.نماز فجر ہم نے ادا کی اور نماز کے
21 بعد ہمارے سپر د مختلف ڈیوٹیاں کر دی گئیں اور جگہیں مخصوص کر دی گئیں.مجھے ایک ایسی پارٹی کا انچارج بنایا گیا جو دور پورٹروں اور نصف درجن ایسے بچوں پر مشتمل تھی جنہیں پیغام رسانی کا کام کرنا تھا.ہمیں علماء کے سارے اجلاسوں میں حاضر رہنا تھا.چونکہ علماء پورے زور سے قادیان میں جمع ہو گئے تھے اس لئے ان کے اجلاس روزانہ قبل از صبح سے لیکر کافی رات گئے تک جاری رہتے.ماسوائے کھانے اور نمازوں کے لئے دو پہر اور بعد از دو پہر کے دو مختصر وقفوں کے.ایک مجسٹریٹ اور چند ایک سپاہی بھی اجلاسوں میں ڈیوٹی پر تھے میری ڈیوٹی میں یہ بھی شامل تھا کہ اگر کوئی مقرر قابل اعتراض یا اشتعال انگیز بات کہے تو میں مجسٹریٹ کی توجہ کو اس طرف مبذول کراؤں.غیر معمولی محنت اور ذمہ داری ان دو وقفوں میں مجھے حضرت صاحب کو رپورٹ دینے ، بسرعت کھانے سے فراغت حاصل کرنے اور نمازوں میں شمولیت کے لئے واپس آنا ہوتا تھا.بعض اوقات آدھی رات کے بعد حضرت صاحب تمام مخصوص جگہوں اور پوسٹوں کی رپورٹیں سنتے اور پھر مشورہ فرماتے اور ضروری ہدایات سے نوازتے پھر آپ یہ تسلی کرنے کے لئے چیک پوسٹوں کا دورہ فرماتے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے.قدرتی طور پر ہماری تمام تر توجہ اور نظر کا مرکز قبرستان تھا.قادیان کے رہائشی علاقے اس وقت بھی دور و نز دیک بکھرے ہوئے تھے اور حفاظتی اقدامات خصوصاً پیغام رسانی رابطہ وغیرہ کے سلسلہ میں خاصے محنت طلب تھے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ ہمارے افراد میں سے کوئی بھی علماء کے جلسہ کی جگہ تک نہیں پہنچ سکتا تھا کہ مبادا کوئی تنازعہ یا جھگڑا رونما ہو جائے اور کسی خطرہ وغیرہ کی صورت میں رضا کاروں کو فوراً چیک پوسٹوں کی طرف ہدایات حاصل کرنے کے لئے روانہ کر دیا جاتا اور جنکے مطابق نہایت ہوشیاری و مستعدی سے عمل درآمد کیا جاتا.بعض دوسرے احباب کے ساتھ مجھے بھی دوروں میں حضرت صاحب کے ہمراہ ہونے کی اجازت تھی اور یہ میرے لئے بہت ہی خوشکن اور حوصلہ افزا تجربہ تھا.بعض نہایت محترم بزرگ اور اہل علم حضرات مثلاً سید سرور شاہ صاحب
22 مرحوم، قاضی امیرحسین صاحب مرحوم ، مولوی شیر علی صاحب مرحوم اور اس طرح کے بہت سے دوسرے بزرگوں کو کھڑے ہو کر نہایت مستعدی سے ڈیوٹی سرانجام دیتے دیکھ کر میرے دل پر بہت گہرا اثر ہوا.سید سرور شاہ صاحب مرحوم خزانہ صدر انجمن ( بیت المال) کے باہر پہرہ پر متعین تھے.وہ کسی نو عمر نو جوان کی طرح بالکل پرستی سیدھے استادہ تھے.انہوں نے اپنا پاجامہ گھٹنوں تک چڑھایا ہوا تھا، ایک خنجران کی کمر میں لٹکا ہوا تھا اور دائیں ہاتھ میں انہوں نے ایک لاٹھی تھام رکھی تھی اور ان کی آنکھیں تاریکی میں بھی چوکسی کیوجہ سے چمک رہی تھیں.( خدا تعالیٰ ان پر راضی ہو اور اس مقدس مجلس کے تمام احباب پر بھی ) پہلی رات کا دورہ تین بجے کے لگ بھگ ختم ہوا.حضرت صاحب نے حفاظتی اقدامات کے سلسلہ میں بعض کمزوریوں کو محسوس فرمایا اور آپ انہیں دور کرنے اور مضبوط بنانے کے لئے بہت بے چین تھے.مقامی ذرائع تحفظ مکمل طور پر مستعد و چوکس تھے اور ہر ایک فرد فرائض میں نبھا ہوا تھا.چنانچہ اس وقت بیرونی امداد کی ضرورت در پیش تھی اور کسی شخص کو قابل اعتماد متعلقہ افراد تک زبانی ہدایات کو لے جانا اور آسان طریق سے پہنچانا تھا.ایک یا دو نام تجویز کئے گئے لیکن وہ مناسب خیال نہ فرمائے گئے.میں نے اپنے ایک طالب علم ساتھی چوہدری بشیر احمد صاحب کا نام پیش کیا.حضرت صاحب نے انہیں بلایا اور انہیں ہدایات دے کر یہ فرمایا کہ وہ فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو جائیں اور کام مکمل کر کے واپسی پر فوری طور پر آپ کی خدمت میں رپورٹ کریں.چنانچہ بشیر احمد صاحب اسی وقت اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر آٹھ گھنٹے کے لئے روانہ ہو گئے.تمام مقامات پر ہدایات پہنچا کر دو پہر سے پہلے پہلے قادیان واپس پہنچ کر حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش کر دی.جس وقت حضرت صاحب نے پہلی رات نصائح ختم فرما ئیں اور آپ کام سے فارغ ہوئے تو افق پر صبح بہت تیزی سے نمودار ہورہی تھی.میں نہیں جانتا کہ آپ پھر سو بھی سکے ہوں لیکن مجھے اس امر کا بخوبی علم ہے کہ یہ تکلیف دہ اور خطرناک صورت حال لگا تار تین دن اور تین راتیں رہی.آپ ہمیشہ ہر شخص سے زیادہ مستعد رہتے اور ہر وقت معائنہ فرماتے ہوئے غور وفکر کرتے ہوئے سکیم تیار
23 فرماتے اور تراکیب و تدابیر سوچتے ہوئے اور نصائح اور مشورے فرماتے اور پھر دوستوں کو مسرور کرنے اور حوصلہ افزائی فرمانے میں مصروف رہتے.اور سب سے بڑھ کر یہ تھا کہ آپ اس ہستی کی خدمت میں التجا کرتے ہوئے دعا فرماتے جس پر آپ کی تمام امیدوں کا دارو مدار تھا.ذمہ داری کا بوجھ بہت زیادہ اور مشکل تھا مگر آپ ان سے بلا جھجک نہایت احسن طریق پر عہدہ برآ ہوئے.ہم میں سے جنہیں اپنی حقیر استطاعت کے مطابق آپ کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا ہم اس امر کا بہت خیال رکھتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ ہماری کوئی معمولی سی غلطی آپ کی ذمہ داریوں اور تفکرات پر بہت زیادہ اثر انداز ہو.ہم اپنا کام پوری توجہ اور محنت سے کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ہمیں کبھی تھکان یا خوف کا احساس نہیں ہوا کیونکہ ایسے راہنما کے ساتھ کام کرنے سے ہر دل بڑا حوصلہ اور رفعت محسوس کرتا تھا اور پھر ان کی محبت کے ساتھ ہم سب کو ایک دوسرے کا مکمل تعاون بھی حاصل تھا.چنانچہ مشتر کہ مقصد کے احساس کی خاطر بے لوث اور پُر خلوص خدمت نے گذرنے والے ہر لمحے کو نہایت قیمتی یادوں کا ایک گنجینہ بنا دیا.مزید برآں یہ کہ ہمارے محبوب و مقدس را ہنما نہ صرف جماعت اور سلسلہ کی حفاظت میں مصروف تھے بلکہ ان لوگوں میں سے بھی ہر ایک کی حفاظت اور تحفظ کے خواہاں تھے جو اس غلط خیال کی وجہ سے جماعت کے مرکز میں جمع ہو گئے تھے کہ جماعتی نقصان یا تباہی کی صورت میں وہ کوئی بہتر فائدہ حاصل کر سکیں.آپ کو ان میں سے کسی سے بھی نفرت نہ تھی بلکہ سب کے لئے محبت تھی.ان میں اکثر بعد ازاں آپ کے مشفقانہ سلوک کی وجہ سے نہایت خلوص، فرمانبرداری اور محبت سے سلسلہ میں داخل ہو گئے.خطرناک ایام گذر گئے لیکن ہمارے دلوں پر اپنی قیمتی یادوں کے نقوش چھوڑ گئے.میرے بہادر طالب علم ساتھی میرے ساتھ لاہور واپس آگئے.وہ بیشتر وقت ڈیوٹی میں مصروف رہے تھے ان میں سے کچھ جن میں میاں عطاء اللہ
24 صاحب بھی شامل ہیں بہت زیادہ اہم مقام یعنی منارۃ اسیح پر متعین تھے جس کے لئے وہ باعث فخر ہیں.ان میں کوئی بھی پوری نیند نہیں سو سکا.اس دفعہ ہم پیدل چل کر بٹالہ نہیں گئے بلکہ بغیر سپرنگ والے ہڈیوں کے جوڑ ہلا دینے والے چھکڑوں پر سوار ہوئے.ان چھکڑوں میں سے ایک جیسا کہ عموماً ہوتا ہے راستے میں اُلٹ گیا اور اس کے نتیجہ میں ایک بیش قیمت سواری زخمی ہوگئی.ہم نے ٹرین میں ان کے لئے ایک برتھ کا انتظام کر دیا جس پر وہ لیٹ سکتے اور کچھ آرام کر سکتے تھے.یہ بیش قیمت سواری حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر تھے جو بعد میں لمبا عرصہ نمایاں دینی خدمات سرانجام دیتے رہے.ماہر لسانیات کے طور پر شہرت حاصل کی اور متعدد تحقیقی کتب تصنیف کیں) چند دن کے بعد یونیورسٹی کے امتحانات ہو رہے تھے اور مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ میرے تمام ساتھی اور وہ شخص بھی جس کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی سب کے سب امتحان میں کامیاب ہو گئے.( ان سب پر خدا تعالیٰ کا فضل و کرم نازل ہو ) سفر یورپ : سفر یورپ کا ذکر پہلے آچکا ہے تا ہم حضرت چوہدری صاحب نے اسے جس انداز سے دیکھا اور اس میں بھر پور شرکت کی اس کا بیان حضور کی سیرت کے متعدد دلکش پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے.آپ لکھتے ہیں.وو ۱۹۲۴ء کے موسم گرما میں حضرت صاحب کو امپیریل انسٹی ٹیوٹ لنڈن میں منعقد ہونے والی امپیریل ریلیجنز کانفرنس میں اسلام کی نمائندگی کرنے کے لئے مدعو کیا گیا.آپ نے دعوت نامہ منظور فرما لیا اور چند بزرگوں اور صاحب علم احباب کے ہمراہ لنڈن روانہ ہو گئے ان میں صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب مرحوم ، حافظ روشن علی صاحب مرحوم ،مولوی ذولفقار علی خانصاحب مرحوم، چوہدری فتح محمد سیال صاحب مرحوم، شیخ بعقوب علی عرفانی صاحب مرحوم ، بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی مرحوم ، ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور بعض دیگر احباب بھی شامل تھے، چوہدری شریف احمد صاحب منٹگمری کو ان کے ذاتی مصارف پر شمولیت کی اجازت مل گئی.ماسٹر محمد دین صاحب کو امریکہ سے بلا یا گیا الحاج مولوی عبد الرحیم صاحب نیر مرحوم ان دنوں لنڈن مشن کے انچارج تھے.
25 میں پہلے سے ہی یورپ میں تھا مجھے بھی حاضر ہونے کی ہدایت کی گئی تھی.ایک آراستہ رہائش 6- پیہم پیلس کو افراد قافلہ کی رہائش کے لئے کرایہ پر حاصل کر لیا گیا تھا.وہاں پر ہم سب اکٹھے ہو گئے.تمام انتظامات کم سے کم اور سادہ تھے لیکن اس موقع پر ہمیں بہت دلفریب اور پرمسرت صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع ملا.حضرت صاحب نے راستہ میں فلسطین اور شام دیکھے اور روم میں مختصر سا قیام فرمایا.میں نہایت مناسب ایسے وقت میں لنڈن پہنچ گیا.جبکہ پارٹی کے استقبال کا شرف حاصل کر سکتا تھا.میں اس وقت ایک ہی واقعہ پر اکتفا کرونگا.یہ ایک ایسا مبارک موقع تھا جبکہ ہمیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده الودود اور بہت سے معروف اور واجب الاحترام بزرگوں کی کئی ہفتوں تک بے تکلف صحبت کا شرف حاصل ہوا.ہم نے اس دوران میں بہت کچھ سیکھا اور مشاہدہ کیا.ہم میں سے ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا گویا کہ وہ ارسطو کی روحانی اکادمی کا ایک فرد ہے.ہر قسم کے معاشرتی و اقتصادی اور اخلاقی و روحانی مسائل و موضوعات پر خیالات کا اظہار ہوتا.بحث کی جاتی اور فیصلے کئے جاتے تھے.بعض اوقات حضرت صاحب اور حافظ روشن علی صاحب مرحوم کے مابین گفتگو لمبی ہو جاتی اور حافظ صاحب نہایت معقولیت صفائی استقلال کے ساتھ اپنی بات پر جمے رہتے تو اس کے نتیجہ میں کوئی بھی پہلو تحقیق سے بچا نہ رہتا.یہ بخشیں عقل رسا کو جلا دینے والی ہوتی تھیں اور ہم علم وعرفان کے ان خزانوں سے بہت استفادہ کرتے جو دورانِ گفتگو کسی بات پر مخالفت اور حق میں دلائل کے نتیجہ میں بالکل صاف ہو جاتے.ہر شخص تشریح و توضیح کے اس شاندار طریق پر مسرت سے جھوم جھوم جاتا.یہ موقع بہت ہی مسرت بخش اور بیش قیمت تھا.بے لوث ہمدردی و نوازش، گہری محبت و شفقت اور اطاعت و خدمت کا وہ میثاق جو ہم نے اپنے محترم و محبوب امام کے ساتھ باندھا تھا.ان سب نے مل کر ہمارے جسموں میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی.حضرت صاحب نے کانفرنس کے لئے اپنا مقالہ اردو میں تحریر فرمایا تھا اور اسے انگریزی میں ترجمہ کرنے کیلئے مجھے ارشاد کیا گیا تھا.مقالہ پڑھے جانے سے
26 ایک دن قبل شام کے وقت مجھے حضور کی موجودگی میں طلب کیا گیا اور حضور نے مجھ سے فرمایا کہ زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ کانفرنس میں کس شخص کو پڑھنا چاہئے.آپنے مزید فرمایا کہ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ میں بذات خودا سے پڑھوں لیکن مجھے انگریزی زبان اور بعض نامانوس الفاظ کے تلفظ پر پورا عبور حاصل نہیں ہے“ ایک یا دو نام پیش کئے گئے.حضرت صاحب نے میری رائے دریافت فرمائی.میں نے نہایت ادب و احترام سے عرض کیا کہ خاکسار اس کام کے لئے اپنے آپ کو مناسب خیال کرتا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اس معاملہ کے بارے میں ایک آزمائشی ٹیسٹ کے ذریعہ تسلی کر لینی چاہئے.ہم میں دو یا تین جنکے اسماء تجویز ہو چکے تھے انہیں مقالہ کے مختلف حصوں کو بلند آواز میں پڑھنے کو کہا گیا اور مخبرین کو گھر کی بالائی اور زیریں منزلوں میں مختلف مقامات پر مقرر کر دیا گیا اور تمام درمیانی دروازے کھلے چھوڑ دئے گئے تا کہ مخبر حضرات بغور سنیں اور ہر ایک کے اظہار بیان کی رپورٹ دیں.مجھے یاد ہے کہ صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب مرحوم کی رپورٹ میرے حق میں تھی سوائے اس کے کہ انہوں نے میری آواز میں ہلکا سا بھاری پن محسوس کیا تھا.حضرت صاحب نے اتفاق رائے فرمایا اور مجھے یہ شرف اس ہدایت کے ساتھ عطا کیا گیا کہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب میرے گلے کے بھاری پن کا علاج کریں.ڈاکٹر صاحب اپنی ذمہ داری کے بارے میں اتنے سنجیدہ تھے کہ انہوں نے سخت قسم کے قے آور لیکچر کے ساتھ میرے ٹھیک ٹھاک گلے میں تیز دوائیاں لگانے کا ایک سلسلہ جاری کر دیا.جس کا ہر عمل مجھے بیمار ہونے کے قریب سے قریب تر کر دیتا.اگلی صبح ناشتے تک میں از روئے اطاعت تین یا چار دفعہ اس تیز علاج کا نشانہ بنتا رہا اور بالآخر ناشتہ پر اس اذیت کے جاری رکھنے کے خلاف حضرت صاحب کی خدمت میں درخواست کرنے پر مجبور ہو گیا.در حقیقت اس شدید قسم کے قبل از وقت احتیاطی علاج کے نتیجہ میں اب میرا گلا بھاری رہنے لگ گیا تھا.میری گذارش پر حضرت صاحب اور میز پر تشریف فرما تمام احباب بہت ہنسے اور خود ڈاکٹر صاحب بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکے اور میرا مزید علاج از راہ تر تم چھوڑ دیا گیا.
27 مقالہ کا نفرنس کے سہ پہر والے اجلاس میں امپیریل انسٹی ٹیوٹ کے مین ہال میں پڑھا جانے والا تھا.حاضری بے شمار تھی اور کوئی بھی سیٹ خالی نہ تھی ، بیشتر لوگوں کو پہلوؤں میں ہال کی پشت پر اور نیچے بڑے دالان میں کھڑے ہو کر تقریر سننا پڑی.جب میری باری آئی اور میں اسٹیج کی طرف بڑھا تو میرا گلا خشک ہو رہا تھا اور میں اضطراب محسوس کر رہا تھا.حضرت صاحب اسٹیج کے سامنے ہی تشریف فرما تھا جو نہی میں مقالہ پڑھنا شروع کرنے والا تھا آپ میری طرف جھکے اور نہایت ہی شیریں اور مشفقانہ لہجہ میں جو بیک وقت تسلی آمیز اور حوصلہ افزا بھی تھا فرمایا : - پریشان نہ ہوں.میں دعا کروں گا“ اس مشفقانہ ہمدردی کے نتیجہ میں میرے دل کو دوبارہ یہ کمل یقین ہو گیا کہ میں پورے اعتماد سے اپنے کام سے عہدہ برآ ہو سکنے کے قابل ہوں.مقالہ بڑی توجہ اور پورے انہماک سے سنا گیا.مقالہ ختم ہونے کے بعد لوگ بڑی تیزی کے ساتھ حضرت صاحب کو مبارک باد اور سلام عرض کرنے کے لئے اسٹیج کی طرف بڑھے میں اسٹیج سے نیچے اتر آیا اور ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا.ایک صاحب جو ایڈورڈ ہفتم کی خلعت پہنے ہوئے تھے اور جو مقالہ کے دوران ہال کے سب سے آخری کنارے پر کھڑے تھے.میرے پاس آئے اور بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے تعجب سے کہا.میں کچھ اونچا سنتا ہوں اور میں پیچھے کھڑا تھا لیکن میں نے ہر لفظ صاف طور پر سنا ہے نیز نہایت اعلیٰ اٹھارویں صدی کی انگلش سنی ہے.جس میں جدید لغویت کی آمیزش نہیں اس پر مجھے کافی اطمینان ہو گیا.ویس سے بمبئی کو واپسی سفر کے دوران حضرت صاحب جو کہ فرسٹ کلاس میں سفر کر رہے تھے اپنا بیشتر وقت قافلے کے باقی افراد کے ساتھ گزارتے تھے.جن میں سے اکثر افراد عرشہ پر سفر کر رہے تھے اور انہوں نے عرشہ پر سائبان تلے آرام دہ انتظام کر رکھا تھا.ایک پرسکون شام جبکہ چاند اپنی سحر انگیز چاندنی لہروں
28 پر بکھیر رہا تھا ہم چھوٹے بالائی تختوں پر اکٹھے ہو گئے.حضرت صاحب کی تجویز پر میرے سوا سب نے نظمیں سنائیں.اختتام پر ہم نے عرض کیا کہ حضور بھی نظم سنائیں.کچھ جھجک اور تامل کے بعد آپ راضی ہو گئے لیکن اس شرط پر کہ ہم ان کے قریب ہو کر جھک جائیں کیونکہ ان کی آواز اتنی بلند نہیں ہو سکتی کہ تین فٹ سے زیادہ دورسنی جا سکے پس ہم آپ سے قریب ہو گئے پھر آپ نے آہستہ لیکن جذبات سے لبریز آواز میں غالب کی یہ غزل سنائی.بساط اے تازه واردان ہوائے ول زنہار تم کو گر ہوس ناؤ نوش ہے دیکھو مجھے جو دیده عبرت نگاه ہو میری سنو ہے جو گوش نصیحت نیوش جب اس شیریں اور پیاری آواز کی آخری لرزش بادصبا میں لہرائی تو تب کہیں جا کر ہم ہوش میں آئے.گویا کہ ہم کسی طلسم میں تھے جہاں سے اب نکلے ہیں.ہر ایک آنکھ نمناک تھی اور ہر دل گہری سانسیں لے رہا تھا.کوئی بھی ایک لفظ تک نہیں بول سکا.ہر ایک نے جو کچھ محسوس کیا الفاظ میں اتنی استطاعت ہر گز نہیں کہ وہ اسے بیان کر سکیں.اس مقدس اور نا قابل فراموش واقعہ کی خوشگوار یاد سے کافی عرصہ تک لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم بالکل ساکت و خاموش نیچے آ گئے.یہ چالیس سال قبل کا واقعہ ہے اور ان دلفریب واقعات کو کئی صفحات پر پھیلایا جا سکتا ہے لیکن وقت اور جگہ اس امر کی ملتفی نہیں.اس کے باوجود وہ دل جو بے پناہ محبت و شفقت کے مزے لوٹتا رہا ہے ، وہ آنکھیں جو آپ کی تابناک شان وعظمت مشاہدہ کرتی رہیں اور وہ کان جو گھنٹوں آپ کی باتیں آخری لہراتی ہوئی آواز کی مسحور کن موسیقی تک سنتے رہے، یہ تمام اعضاء ان تمام مقدس یا دوں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کا یارا نہیں رکھتے.ایسے ہی لمحات میں میرے دل کی حالت زیارتِ محبوب کی تمنا اور دلسوزی فراق میں مولانا جلال الدین رومی کے دل کی طرح ہو جاتی ہے.جس نے فراق کی جانکاہ تکلیف کا ان اشعار میں اظہار
29 29 کیا.کیا ہے.اے شمس تبریزی بیا در جانِ جاں داری تو جا جان را نوا بخشای شها شاهانه شو وَ اخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ شاهانه شو
31 عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلّم ایک عارف باللہ اور مقرب بارگاہِ الہی کے لئے قرآن مجید نے اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران : ۳۲) میں یہ نشان قرار دیا ہے کہ وہ محبت رسول کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی محبت پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے.ہمارے زمانہ کے مامور کے خدائی انتخاب میں بھی یہ امر نمایاں اور روشن ہے کہ آپ کو اس خدمت کے لئے آپ کی محبت رسول کی وجہ سے منتخب کیا گیا اس لئے فرمایا: - هذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُوْلَ اللهِ ( تذکرہ صفحہ ۴۲.ایڈیشن چہارم) اسی طرح آپ اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خدا کے فرشتے میرے مکان پر بکثرت نور برساتے ہوئے کہ رہے تھے کہ یہ اہتمام والتزام سے پڑھے جانے والے درود کی برکت ہے.اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر آ نحضرت صلی المارد الا سلام کی محبت و اطاعت کی برکت نہ ہوتی تو میرے اعمال خواہ پہاڑوں کے برابر بھی ہوتے تو ان کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی.حضرت مصلح موعود بھی عشق رسول کے جذ بہ صافی سے سرشار تھے آپ فرماتے ہیں:.میں کسی خوبی کا اپنے لئے دعویدار نہیں ہوں.میں فقط خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی الشمالی الہ سلم کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے.اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعوی ہے نہ مجھے کسی دعوئی میں خوشی ہے.میری ساری خوشی اسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہ صلی للہ و آلہ سلم کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آ جائے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہو جائے اور میرا خاتمہ رسول کریم کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو ( الموعود صفحه ۶۷ - ۶۸) محمد رسول اللہ صلی الماری ای یلم کے نام اور مقام کو ساری دنیا سے منوانے کے عزم وارادے کا
32 اظہار کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ” خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی الشعار المسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دیدوں.دنیا زور لگا لے وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے، عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں ، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے ، دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقتور قو میں اکٹھی ہو جا ئیں اور وہ مجھے اس مقصد میں نا کام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں نا کام رہیں گی.اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم صلی الشہری اور مسلم کے نام کے طفیل اور صدقے ، اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ صل العملی آلہ مسلم پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے.( الموعود ۲۱۱-۲۱۲) خوشی اور غم کے موقع پر انسان کو اپنے پیارے یاد آتے ہیں.ایک عید کی خوشی میں آنحضرت صلی اللہ و آلہ سلم کو یاد کرتے ہوئے اور آنحضرت صلی الشہایا اور مسلم کے مقاصد عالیہ کو یاد دلاتے ہوئے آپ کے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز اٹھتی ہے.........اس دن ( عید کے دن) خدا تعالیٰ نے ہمیں خوش ہونے کا حکم دیا ہے اور ہم خوشی منانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے دلوں کو چاہئے کہ روتے رہیں کہ ابھی محمد رسول اللہ لا الہ الا سلم اور اسلام کی عید نہیں آئی.محمد رسول اللہ صل العماد المسلم اور اسلام کی عید سویاں کھانے سے نہیں آتی ، نہ شیر خرما کھانے سے آتی ہے بلکہ ان کی عید قرآن اور اسلام کے پھیلنے سے آتی ہے.اگر قرآن اور اسلام پھیل جائیں تو ہماری عید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ یہ آلہ سلم بھی شامل ہو جائیں گے پس کوشش یہی کرو کہ اسلام کی اشاعت ہو ، قرآن کی اشاعت
33 ہو.تا کہ ہماری عید میں محمد رسول اللہ صلی الشہید اورمسلم بھی شامل ہوں.اگر آج کی عید محمد رسول اللہ صلی اللہادی آل وسلم کی بھی عید ہے تو پھر سارے مسلمانوں کی عید ہے.لیکن اگر آج کی عید میں محمد رسول اللہ صلی اللملی آلہ وسلم شامل نہیں تو پھر آج سارے مسلمانوں کے لئے عید نہیں بلکہ ان کے لئے ماتم کا دن ہے ( خطبات محمود جلد اصفحه ۳۴۹) عید کے ایک اور خطبہ میں اپنے ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں : - میں تو تم سے کچھ بھی نہیں چاہتا میں تو تم سے صرف وو محمد رسول اللہ صلی الہ اور اورمسلم کے لئے عید مانگتا ہوں.تم میں سے کئی عید کے دن مجھے تحفہ دیتے ہیں مگر مجھے ان تحفوں سے کیا فائدہ اور مجھے ان تحفوں سے کیا غرض.میری عیدی تو وہی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہادی آل وسلم کو ملتی ہے.اسی عیدی میں میری عیدی شامل ہے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ دی او سلم کا دل خوش ہوتا ہے تو ہمارا دل بھی خوش ہوتا ہے اور اگر ان کا دل خوش نہیں ہوتا تو نہ ہمیں جمع ہونے میں کوئی خوشی " ہے اور نہ ہمیں جُدا ہونے میں کوئی رنج ہے (خطبات محمود جلد اصفحہ ۲۰۹) آپ میں تحمل اور برداشت کی قوت غیر معمولی تھی آپ پر نہایت گندے الزامات لگائے گئے مگر آپ نے کبھی ان کا جواب دینے کی ضرورت نہیں کبھی کیونکہ عرش کا خدا اپنی تائید و نصرت سے خود ہی ایسے معترضوں کو روسیاہ و نا کام کر دیتا تھا تا ہم جب کسی کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ آپ اور جماعت آنحضرت صلی الشمایو آلہ وسلم کی شان اقدس میں کسی طرح تخفیف کرتی ہے تو آپ نے اسے برداشت نہیں کیا اور اس کا کئی رنگ میں جواب دیا.ایسے ہی ایک موقع پر آپ نے فرمایا :- مذہبی اختلاف کو جانے دو تم کم از کم انسانیت اور شرافت کا پاس رکھو اور اسے اپنے ہاتھ سے نہ دو.ہمارے تمہارے اختلافات بھی ہیں ، لڑائیاں بھی ہیں، جھگڑے بھی ہیں مگر ان لڑائیوں اور جھگڑوں میں جھوٹ بولنے سے کیا فائدہ اور کسی کی طرف وہ عقائد منسوب کرنے سے کیا حاصل جن کو وہ مانتا ہی نہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ اگر وہ بچے دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دل میں رسول کریم صلی اللہ یہ و سلم کی ہم سے زیادہ عزت ہے تو میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے علماء کو تیار کریں اور تراضی فریقین سے ایک تاریخ مقرر کر کے وہ بھی
34 وو رسول کریم صلی اللہ و آلہ سلم کی عظمت پر مضامین لکھیں اور ایک مضمون رسول کریم کی عظمت پر میں بھی لکھوں گا پھر دنیا خود بخود دیکھ لے گی کہ ان کے دس ہیں لکھے ہوئے مضامین میرے ایک مضمون کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتے ہیں اور رسول کریم صلی الشمایہ آلہ سلم کے فضائل اور آپ کے محاسن میں بیان کرتا ہوں یا وہ مولوی بیان کرتے ہیں“ ( الفضل ۲۷.اگست ۱۹۳۷ء ) اس سے قبل آپ اس حساس موضوع پر مخالفوں کو مباہلہ کا چیلنج دیتے ہوئے فرماتے ہیں :- ہم قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم پر اور ہماری بیوی بچوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو اگر ہم رسول کریم صل العماد او مسلم پر کامل یقین نہ رکھتے ہوں.آپ کو خاتم النبین نہ سمجھتے ہوں آپ کو افضل الرسل یقین نہ کرتے ہوں اور قرآن کریم کو تمام دنیا کی ہدایت و راہنمائی کے لئے آخری شریعت نہ سمجھتے ہوں.اس کے مقابلہ میں وہ قسم کھا کر کہیں کہ ہم یقین اور وثوق سے کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم صلی المیہ اور مسلم پر ایمان نہیں رکھتے نہ آپ کو دل سے خاتم النبہین سمجھتے ہیں اور آپ کی فضیلت و بزرگی کے قائل نہیں بلکہ آپ کی توہین کرنے والے ہیں اے خدا اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو ہم پر اور ہماری بیوی بچوں پر عذاب نازل کر..66 (الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۵ ء صفحه ۶) یہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ دل سے نکلی ہوئی اس بچی آواز کے مقابل پر کسی کو یہ چیلنج قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی البتہ حضرت فضل عمر نے یکطرفہ حلف اُٹھا کر اپنا مؤقف ضرور سچا ثابت کر دیا.آنحضرت صلی اللہادی اورمسلم کے فضائل و محاسن کے بیان کے لئے بھی آپ نے ایک ایسا ہی چیلنج دیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا حضور صلی اللہ ور اورمسلم سے تعلق روایتی اور جذباتی ہی نہیں تھا بلکہ آپ معرفت و وجدان کی دولت سے مالا مال تھے.آنحضرت صلی الشعار الہ یکم سے کمال محبت و عقیدت حضور کی ہر حرکت ، ہر بات ، ہر تقریر، ہر تحریر سے ظاہر ہوتی ہے تاہم اگر مذکورہ بالا مقابلہ ہو جاتا تو اس سلسلہ میں بہت روشن مثال دنیا کے سامنے آتی اور نعت و منقبت کا اچھوتا مضمون ظاہر ہوتا.مخالفوں کی طرف سے بڑے اصرار اور تکرار سے یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے، کہ حضرت مسیح موعود کو مان کر ہم نے آنحضرت صلی العمائی اور علم کی توہین کا ارتکاب کیا ہے.اس سلسلہ میں حقیقت بیان کرتے
35 ہوئے آپ فرماتے ہیں.غرض کسی کو موقع نہیں ملا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رسول کریم صلی الشمال اورمسلم کے بالمقابل کھڑا کر سکے اور یہی اصل ایمان ہوتا ہے.ہم کتنا ہی رسولوں سے عشق رکھتے ہوں خدا کا مقام خدا کا ہی ہے.پس جہاں خدا نے مجھے توفیق دی کہ میں اپنے عمل اور اپنی زبان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درجہ کو قائم کروں وہاں اس نے مجھے اس امر کی بھی توفیق عطا فرمائی کہ رات اور دن ، سوتے اور جاگتے ایک منٹ اور ایک ساعت کے لئے بھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو رسول کریم صلی اللہادی اور مسلم کے مقابل کا وجود خیال نہیں کیا بلکہ ہر حالت میں میں نے یہی سمجھا کہ میں آپ کو وہی جگہ دوں جو ایک استاد کے مقابلہ میں شاگر دکو اور ایک آقا کے مقابلہ میں غلام کو الفضل ۲۱.جون ۱۹۴۴ء صفحہ ۷ ) حاصل ہوتی ہے.اس سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں :- نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت صلی اللہ یہ آلہ سلم کی ہتک کرتے ہیں اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم، اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ صلی السما و ال وسلم کیلئے ہے ، وہ کیا جانے کہ محمد صلی اللہ و الہ وسلم کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے وہ میری جان ہے، میرا دل ہے، میری مراد ہے، میرا مطلوب ہے، اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے، اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم بیچ ہے.وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں ، وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں ، وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قرب نہ تلاش (حقیقة النبوۃ صفحہ ۱۸۶.انوار العلوم جلد ۳ صفحه ۵۰۱) کروں“ آنحضرت صلی الشمایہ اور مسلم سے عشق و محبت تو آپ کے ہر فعل ، ہر حرکت ، ہر کام سے خود بخود عیاں ہوتا تھا.اپنی اس کیفیت کے متعلق آپ فرماتے ہیں :-
36 ”جو لوگ میرے خطبات اور تقریریں سنتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مجھ پر کبھی کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب رسول کریم صلی الہدایہ اور علم کی زندگی کا کوئی واقعہ میں نے بیان کیا ہوا اور رقت سے میرا گلا نہ پکڑا گیا ہو دنیا میں محبتیں ہوتی ہیں کسی وقت کم اور کسی وقت زیادہ مگر رسول کریم صلی الله دی او سلم سے مجھے ایسی شدید محبت ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں ایک مثال بھی ایسی یاد نہیں کہ میں نے آپ کا ذکر کیا ہوا ور مجھ پر رقت طاری نہ ہو گئی ہوا اور میرا قلب محبت کی گہرائیوں میں نہ ڈوب گیا ہو.“ الفضل ۲۱.جون ۱۹۴۴ - صفحه ۴٬۳ ) مکرم مسعود احمد خورشید صاحب کراچی اس عاشق رسول کی تقاریر جو حضور صلی الشہایہ آلہ سلم کی محبت و فدائیت کے جذبات سے پر ہوتیں ان کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں :- آپ کا خطاب لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اترتا جاتا اور وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی اور اس محبت بھرے شیریں کلام کو سن کر جو کہ خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ یہ آلہ سلم کی محبت سے سرشار ہوتا تھا سامعین اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ و آلہ سلم کی محبت میں فنا کرنے کو تیار ہو جاتے.آپ کے دل کی گہرائیوں سے ہر دم یہی آواز نکلتی تھی کہ جس طرح آپ کو خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اہلیہ اور مسلم سے محبت ہے اسی طرح سب لوگ بھی اسی دُھن میں مگن ہو جائیں.آپ کے اکثر و بیشتر خطبات میں قرآنی احکام کی تشریح رسول مقبول صلی اللہادی اور مسلم اور آپ کے صحابہ کے واقعات کا بیان ہوتا تھا.جس نے جماعت احمدیہ کے افراد کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے برگزیدہ رسول صلی للہا یہ آپر یلم کی اور آپ کے صحابہ کرام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی ( ریکار ڈ فضل عمر فاؤنڈیشن) سیرت حضرت فضل عمر کا یہ نہایت درخشندہ پہلو ہے کہ مخالفین کی طرف سے آپ پر نہایت گندے الزامات نہایت رکیک اور بازاری زبان میں لگائے جاتے رہے مگر حضور وَإِذَا مَرُّوا بِا اللَّغْوِ رُّوا كِرَاما کے مطابق انہیں حوالہ بخدا کرتے رہے مگر جیسے ہی کسی مخالف نے توہینِ رسالت یا کلمہ طیبہ کے انکار کا الزام لگایا تو آپ نے اس کا مکمل و مسکت جواب دیا.مولوی محمد علی صاحب نے بھی ایک دفعہ یہ الزام لگاتے ہوئے کہا : خوب یاد رکھو قادیان والوں نے کلمہ طیبہ کو منسوخ کر دیا ہے.اس میں
37 تمہارے دل میں شک نہیں ہونا چاہئے (پیغام صلح ۳۱ مئی ۱۹۴۴ صفحه ۳) اس سے پہلے حضور بعض غیر از جماعت لوگوں کی طرف سے ایسے الزامات کے جواب میں انہیں دعوت مباہلہ دے چکے تھے اس بیہودہ الزام پر بھی آپ خاموش نہیں رہ سکتے تھے.آپ نے بڑے دُکھے ہوئے دل اور درد کے ساتھ فرمایا :- یہ ایک ایسا اتہام ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس سے بڑا جھوٹ بھی کوئی بول سکتا ہے وہ قوم جو کلمہ طیبہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد جھتی ہو اس پر یہ الزام لگانا کہ وہ اسے منسوخ قرار دیتی ہے اتنا بڑا ظلم ہے اور اتنی بڑی دشمنی ہے کہ ہماری اولا دوں کو قتل کر دینا بھی اس سے کم دشمنی ہے.ایسا جھوٹ بولنے والے...کے دل میں خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی المیہ و سلم کی محبت ہر گز نہیں ہو سکتی.جس کے دل میں خدا اور رسول کی محبت ہو وہ ایسا جھوٹ کبھی نہیں بول سکتا.یہ ہم پر اتنا بڑا الزام ہے کہ ہمارے کسی بڑے سے بڑے مگر شریف دشمن سے بھی پوچھا جائے تو وہ یہ کہے گا کہ یہ جھوٹ ہے اور میں سمجھتا ہوں اب فیصلہ کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اگر مولوی صاحب میں تخیم دیانت باقی ہے تو وہ اور ان کی جماعت ہمارے ساتھ اس بارہ میں مباہلہ کریں کہ آیا ہم کلمہ طیبہ کے منکر ہیں“ الفضل ۷.جولائی ۱۹۴۴ ء صفحہ ۴) مولوی محمد علی صاحب کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ وہ اپنے غلط الزام و اتہام کو ثابت کرنے کے لئے مباہلہ کی دعوت کو قبول کرتے یا اخلاقی جرات سے کام لیتے ہوئے اس الزام کو واپس لے لیتے.یہ عجیب بات ہے کہ حضور نے مباہلہ کا چیلنج کرتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ : - وہ کبھی اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو اس مقام پر کھڑا نہ کریں گے بلکہ اس عظیم الشان جھوٹ بولنے کے بعد بُد دلوں کی طرح بہانوں سے اپنے آپ کو اور اپنی اولادکو جھوٹوں کی سزا سے بچانے کی کوشش کریں گے“ الفضل ۷.جولائی ۱۹۴۴ء صفہیم ) مولوی صاحب کی خاموشی اور اس چیلنج کو قبول کرنے سے عاجز رہنا اپنی جگہ اس بات کا ایک بین ثبوت ہے کہ جماعت احمدیہ اور حضرت امام جماعت احمد یہ توحید پر مضبوط و راسخ ایمان رکھتے اور آنحضرت صل العماد ال مسلم کی ارفع و اعلیٰ اور مقدس شان ان کے ایمان کی بنیاد ہے.
38 آریہ سماج کے بانی پنڈت دیانند نے ستیارتھ پرکاش نامی اپنی ایک تصنیف میں دوسرے مذاہب پر بے جا زبان درازی کے ساتھ ساتھ ہمارے امین وصدیق اور مکارم اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز محبوب خدا آنحضرت صلی الشماید آل وسلم اور اسلام پر بھی اخلاق و تہذیب سے گرے ہوئے نہایت دل آزار الزامات لگائے.بعض مسلمان حلقوں نے اس کتاب کو حکومت کی طرف سے ضبط کروانے کی کوشش کی جو کسی طرح بھی ایک مخالفانہ کتاب کا صحیح جواب نہیں ہو سکتا تھا.حضرت مصلح موعود نے نحضرت صلی الماری الہ سلم سے اپنے غیر معمولی عشق و محبت کی وجہ سے ضروری سمجھا کہ اس کتاب کا مدلل و مکمل جواب دیا جاوے مگر جوش میں ہوش اور مقابلے میں توازن و اعتدال یہاں بھی برابر موجود ہے آپ فرماتے ہیں:- میں نے ستیارتھ پرکاش کا جواب شائع کرنے کا اعلان کیا تھا....جو نو جوان اس کام کو کر رہے ہیں مجھے خوشی ہے کہ وہ محنت کے ساتھ کر رہے ہیں اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے نوجوان پیدا ہو رہے ہیں جو ہند ولٹریچر کو اس کی اپنی زبان میں پڑھ کر غور کر سکتے ہیں.اس کام کے لئے میں نے مولوی ناصرالدین صاحب عبد اللہ اور مہاشہ محمد عمر صاحب اور مہاشہ فضل حسین صاحب کو مقرر کیا ہوا ہے اور یہ تینوں بہت جانفشانی سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور میں سر دست ایڈیٹنگ کرتا ہوں بعض دفعہ ان کی عبارتوں میں جوش ہوتا ہے کیونکہ ستیارتھ پرکاش میں سخت سخت حملے کئے گئے ہیں اس لئے اس کا جواب دیتے وقت جذبات کو روکنا مشکل ہوتا ہے اس لئے میں اسبات کی بھی نگرانی کرتا ہوں کہ ایسے سخت الفاظ استعمال نہ کئے جائیں جن سے کسی کی دل (الفضل ۸ فروری ۱۹۴۵ ء صفحه ۱ ) 66 شکنی ہو...مذکورہ بالا مضامین میں سے ایک مضمون پر حضور نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا:- ان الفاظ کو نرم کیا جائے اور دلیل کو واضح.اس مضمون کو زیادہ زور دار بنایا جاسکتا ہے“ عشق و محبت کی یہ بے مثال کیفیت الفاظ و بیان کی حدود سے کہیں زیادہ وسیع اور گہری ہے.۱۹۲۷ء میں اس کیفیت کے کسی قدر اظہار کا ایک موقع پیدا ہوا.ایک ہندو اخبار ورتمان" نے آنحضرت صلی اللہ و آلہ وسلم کے متعلق ایک نہایت دل آزار مضمون شائع کیا.اسی زمانے میں ایک نہایت
39 گندی کتاب ”رنگیلا رسول“ کے نام سے شائع ہوئی یہ ایسا واقعہ تھا جس نے عاشق رسول کو سراپا احتجاج بنا دیا آپ نے ایک مضمون بعنوان : - رسول کریم صلی الماری ترمیم کی محبت کا دعوی کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہونگے ؟“ فوری طور پر تحریر فرمایا جسے سارے ملک میں بصورت پمفلٹ اور پوسٹر شائع کیا گیا اس سلسلہ میں مصلحت وقت کے مطابق یہ بھی اہتمام کیا گیا کہ یہ پوسٹر ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں میں نمایاں مقامات پر ایک ہی رات میں چسپاں کیا جاوے.انگریز حکومت نے فوری طور پر اس مضمون کو ضبط کر لیا مگر اس مضمون سے جو فائدہ مدنظر تھا وہ حاصل ہو چکا تھا.بات کو آگے بڑھانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ مضمون جس میں حضور صلی اللہادی اورمسلم کی عزت و عظمت کی پاسداری اور آپ کی شانِ اقدس میں گستاخی کے نتیجہ میں پہنچنے والے درد اور تکلیف کا ایک ایک لفظ سے اظہار ہوتا ہے اس کا ایک حصہ بطور مثال یہاں پیش کر دیا جائے.آپ نے تحریر فرمایا: - د " کیا اس سے زیادہ اسلام کے لئے کوئی اور مصیبت کا دن آ سکتا ہے؟ کیا اس سے زیادہ ہماری بے کسی کوئی اور صورت اختیار کر سکتی ہے؟ کیا ہمارے ہمسایوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم رسول کریم صلی السما و ال پیلم فدا نفسی واہلی کو اپنی ساری جان اور سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے.اگر وہ اس امر سے واقف ہیں تو پھر اس قسم کی تحریرات سے سوائے اس کے اور کیا غرض ہوسکتی ہے کہ ہمارے دلوں کو زخمی کیا جائے اور ہمارے سینوں کو چھیدا جائے اور ہماری ذلّت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لایا جائے اور ہم پر ظاہر کیا جائے کہ مسلمانوں کے احساسات کی ان لوگوں کو اس قدر بھی پرواہ نہیں جس قدر کہ ایک امیر کبیر کو ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ہوتی ہے لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کیلئے ان لوگوں کو کوئی اور راستہ نہیں ملتا.ہماری جانیں حاضر ہیں، ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں ، جس قدر چاہیں ہمیں دکھ دے لیں لیکن خدا را نبیوں کے سردار محمد مصطفی صلی الشمای آل وسلم کو گالیاں دے کر، آپ کی ہتک کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس ذات بابرکات
40 سے ہمیں اس قدر تعلق اور وابستگی ہے کہ اس پر حملہ کرنے والوں سے ہم کبھی صلح نہیں کر سکتے.ہماری طرف سے بار بار کہا گیا ہے اور میں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہر گز نہیں ہو سکتی جو رسول کریم صل اللہ اور مسلم کو گالیاں دینے والے ہیں.بے شک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کر لیں اور پنجاب ہائی کورٹ کے تازہ فیصلہ کی آڑ میں جس قدر چاہیں ہمارے رسول کریم صلی اللملی و آلہ وسلم کو گالیاں دے لیں لیکن وہ یاد رکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا اور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانونِ فطرت ہے.وہ اپنی طاقت کی بناء پر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانونِ قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے.اور قانونِ قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوتی ہے اُسے بُرا بھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا.الفضل ۱۰.جولائی ۱۹۲۷ ، صفحہ ۷۶ ) دل سے نکلی ہوئی پر اثر تحریر سے سارے ملک کے مسلمانوں میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہوگئی ۲۲.جولائی کو ملک بھر میں احتجاجی جلسے ہوئے اور قراردادیں منظور کی گئیں.مسلمانوں کی عام بیداری سے کوئی جماعتی یا وقتی فائدہ اٹھانے کی بجائے حضور نے قومی سطح پر مندرجہ ذیل نہایت مفید اقدامات کی تحریک فرمائی.ا.اول یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پروا ہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے.۲.دوسرے یہ کہ آپ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے اور اس کام کے لئے اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.اور تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کی تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے.(الفضل ۱۰.جون ۱۹۲۷ ء صفحہ ۸) آریوں سے عام مقابلہ کا اعلان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: موجودہ حالت کو مدنظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جہاں کہیں بھی آریوں کے مقابلہ کی ضرورت ہو یا اسلام کی تائید میں لیکچر دلانے کی ضرورت
41 ہو.تمام ہمدردانِ اسلام کو میں مطلع کرتا ہوں..وہاں جلسہ کا انتظام کر کے صیغہ ترقی اسلام قادیان کو اطلاع دیں.انشاء اللہ فوراً مبلغ بھیجے جائیں (الفضل ۳۱ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۷ ) گئے.حضور صلی علیہ و سلم کی محبت کے صدقے پیدا ہونے والی عام بیداری سے استفادہ کرتے ہوئے تمدنی و اقتصادی غلامی سے نجات پانے کے لئے حضرت فضل عمر نے ایک انقلابی تحریک پیش کی آپ نے فرمایا :- ان چیزوں میں ہندوؤں سے چھوت چھات کرو جن میں ہندو چُھوت کرتے ہیں.چھوت چھات کی فتیح رسم کی آڑ میں ہندوؤں نے تجارت پر جس طرح اجارہ داری قائم کر رکھی تھی اور مسلمانوں کو مجبور کر رکھا تھا کہ وہ ہندوؤں سے ہی اپنی اشیائے ضرورت خرید میں اس طرح مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والا نا پاک لڑ بچر ایک طرح سے مسلمانوں کے خرچ سے ہی تیار ہو رہا تھا.اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا:- وو چاہئے کہ اس وقت سب جگہ کے مسلمان اس امر پر اتفاق کر لیں کہ جلد سے جلد ہر قسم کی دُکانیں مسلمانوں کی نکل آئیں اور جہاں تک ہو سکے مسلمان انہی سے سودے خریدیں.بائیکاٹ کے طور پر نہیں بلکہ صرف ہندوؤں کی تدابیر کے جواب کے طور پر اپنی قوم کو ابھارنے کے لئے 66 (الفضل یکم جولائی ۱۹۲۷ء ) اس تحریک کے نتیجہ میں جو جوش اور جذبہ پیدا ہوا اس سے حضور نے قومی کیریکٹر کی بلندی و بہتری کا کام لینے کے لئے توازن و اعتدال پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا : - پس مسلمان کو چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہادی اور علم کی عزت کو بچانے کے لئے غیرت دکھا ئیں مگر ساتھ ہی یہ بھی دکھا دیں کہ ہر ایک مسلمان اپنے نفس کو قابو میں رکھتا ہے اس سے مغلوب نہیں ہوتا.جب مسلمان یہ دکھا دیں گے تو دنیا ان کے مقابلہ سے خود بخود بھاگ جائے گی‘ ( الفضل ۵.جولائی ۱۹۲۷ء صفحہ ۷ ) اس طرح اتفاق و اتحاد کی تلقین کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :- دو پس مخالفین اسلام کے مقابلہ کے لئے ہم سب کو جمع ہو جانا چاہئے تا کہ تا
42 ہمارا اختلاف ہماری تباہی کا موجب نہ ہو یہ اتحاد الیسا ہو کہ ہم اس میں سے کسی کو باہر نہ رہنے دیں.خلافتی یا خوشامدی لیگ کا ماننے والا یا کانگرسی عدم تعاونی یا ملازم سر کار کسی کو بھی ہم اپنے سے دور نہ کریں (الفضل یکم جولائی ۱۹۲۷ء صفحہ ۷ ) دو اس امر کی مزید تاکید کرتے ہوئے آپ نے نہایت مؤثر پیرایہ میں فرمایا : - پس اپنے اخلاق میں ایسی تبدیلی پیدا کرو کہ دنیا کے محبوب بن جاؤ.اپنے آپ کو اس طرح فنا کر دو کہ دنیا تمھارے ذریعہ زندہ ہو جائے.اگر تم اپنے لئے اس طرح موت قبول کر لو کہ دنیا زندہ ہو جائے تو دشمنوں کی نظروں میں بھی محبوب ہو جاؤ گے اور اپنوں اور خدا تعالیٰ کی نظر میں تو بہت ہی محبوب بن جاؤ گے.لیکن جب تک اپنے اندر خاص اصلاح اور تبدیلی نہ پیدا کرو اور ایسی قربانی نہ اختیار کرو جس سے لوگوں کو زندگی حاصل ہو اس وقت تک نہ اپنوں میں معزز سمجھے جاؤ گے نہ بیگانوں میں اگر تم میں جوش پیدا ہوتا ہے تو اس سے اپنے معاملات ، عادات ، اخلاق اور نفوس کی اصلاح کا کام لو.اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور اس کے دین کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کر واس کے شعائر سے ایسا عشق دکھاؤ کہ اس عشق کی آگ ان سب اشیاء کو جلا کر راکھ کر دے جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے میں حائل ہوں......الفضل ۲۷ مئی ۱۹۲۷ ء صفحه ۸) احتجاج اور غصہ کی حالت میں بالعموم تو ازن و اعتدال کا دامن ہاتھ سے نکل جاتا ہے.آپ نرمی کا طریق اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.66 کیا سخت بیانی سے دنیا میں کبھی بھی نفع ہوا ہے.الفاظ کی سختی سے مقصد کی بلندی کبھی ثابت نہیں ہوتی بلکہ الفاظ کی سختی سے ہمدردوں کی ہمدردی میں کمی پیدا ہو جاتی ہے.ہمیں اسلام نرمی کا حکم دیتا ہے اور ہمیں اپنے جوشوں کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہئے اور ہر ایک بات کو دلیل سے ثابت کرنا چاہئے.“ الفضل ۲.اگست ۱۹۲۷ء صفحه ۴۳) پُر امن طریق پر بہادری اور جرات سے کام لینے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.یہ مدنظر رہے کہ فسا داور دنگا اسلام کو پسند نہیں امن کے ساتھ لیکن
43 بہادری کے ساتھ اپنا کام کریں اور دلیل کے زور سے اپنے خیالات سے اختلاف رکھنے والوں کو اپنی بات منوائیں نہ کہ زبردستی.ہاں جو لوگ بلا وجہ آپ کے کام میں روک ڈالنا چاہیں ان سے بھی نہ ڈریں کہ بزدل دین اور دنیا دونوں میں ذلیل ہوتا ہے.اگر آپ اس تجویز کے مطابق عمل کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ کی مدد سے آپ لوگ کامیاب ہوں گے اور خدا تعالیٰ کی تائید آپ کو حاصل ہوگی“ الفضل ۲۲.جولائی ۱۹۲۷ء صفحہ ۸) غصہ اور اشتعال کی وجہ سے بعض لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا اور اپنی قوم کا نقصان کر لیتے ہیں اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا: - جاؤ ނ پس اے دوستو ! یہ کام کا وقت ہے جیل خانہ میں جانے کا وقت نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں اس وقت بیداری پیدا کر دی ہے اس بیداری.فائدہ حاصل کرو یہ دن روز نصیب نہیں ہوتے پس ان کی ناقدری نہ کرو.اب جلد سے جلد اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبودی کے کاموں میں لگ دشمن آپ لوگوں کی کوششوں کو دیکھ کرگھبرا رہا ہے وہ محسوس کر رہا ہے کہ اب آپ نے اس کے مخفی حملہ سے بچنے کا صحیح ذریعہ معلوم کر لیا ہے پس وہ تلملا رہا ہے اور اپنے شکار کو ہاتھوں سے جاتا دیکھ کرسٹ پٹا رہا ہے ایک تھوڑی سی ہمت ، ایک تھوڑی سی کوشش ، ایک تھوڑی سی قربانی کی ضرورت ہے کہ صدیوں کی پہنی ہوئی زنجیریں کٹ جائیں گی اور اسلام کا سپاہی اپنے مولیٰ کی خدمت کے لئے پھر آزاد ہو جائے گا اور ہندوؤں کی غلامی کے بندٹوٹ جائیں گے“ الفضل ۲۰.جولائی ۱۹۲۷ء صفحہ ۴ ) آنحضرت صلی الشمای الہ سلم کے لئے محبت و غیرت اور غصہ کی حالت میں بھی اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے متوازن طریق اختیار کرنے کی مؤثر تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.اسلام جہاں یہ کہتا ہے کہ خدا اور اس کے رسول کے لئے غیرت دکھاؤ، اسلام جہاں یہ حکم دیتا ہے کہ جس کے دل میں خدا اور رسول کی محبت کسی اور چیز سے کم ہے اس میں ایمان ہی نہیں وہ خدا کے غضب کے نیچے ہے...وہاں اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ اعلیٰ اخلاق کو کسی حالت میں بھی نہ چھوڑ وخواہ غصہ میں ہو یا
44 آرام میں.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان خطرناک دنوں میں اپنے جوشوں کو قابو میں رکھیں اور بجائے کسی اور طرح نکالنے کی کوشش کرنے کے اس طرح نکالیں جس سے اسلام کو فائدہ پہنچے.دیکھو راجباہوں کے ذریعہ بھی پانی کھیتوں میں جاتا ہے اور نہر کا بند ٹوٹ جانے سے بھی پانی کھیتوں میں پہنچتا ہے.مگر بند تو ڑ کر آنے والا پانی کھیتی کو تباہ اور بربادکر دیتا ہے اور راجباہ کا پانی کھیتی کو سیراب کرتا ہے“ (الفضل ۵ - جولائی ۱۹۲۷ ء صفحہ ۶) بدنام زمانہ مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کرنے والی کتاب ”رنگیلا رسول“ کے مصنف مقدمہ چلا اور عدالت نے برائے نام سزا دیکر اس مقدمہ کو نمٹا دیا.مسلمانوں کو بجا طور پر اس فیصلہ سے تکلیف ہوئی مگر ظلم و زیادتی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتے ہوئے عدالت عالیہ کے ایک حج کنور دلیپ سنگھ نے مجرم کی سزا کوختم کرتے ہوئے زخمی اور رنجور دلوں پر نمک پاشی کرتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک ایسے جرم کی تعزیرات ہند میں کوئی سزا نہیں ہے.Muslim Out Look نامی اخبار نے ایک زور دار اداریہ میں اس فیصلہ کو غلط اور نا واجب قرار دیا.اخبار مذکور کے ایڈیٹر سید دلاور شاہ بخاری جو احمدی تھے اور اس کے پرنٹر و پبلشر مولوی نور الحق صاحب پر توہین عدالت کا مقدمہ قائم کیا گیا.سید دلاور شاہ صاحب کو بعض مشورہ دینے والوں نے یہ مشورہ دیا کہ ایسے مواقع پر سرسری معذرت سے معاملہ رفع دفع ہو جایا کرتا ہے آپ بھی سرسری سی معذرت کر دیں.شاہ صاحب موصوف حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری تفصیل پیش کر کے مشورہ اور راہنمائی طلب کی تو آپ نے اس مشورہ کو درخور اعتناء نہ سمجھتے ہوئے فرمایا :- ”ہمارا فرض ہونا چاہئے کہ صوبہ کی عدالت کا مناسب احترام کریں لیکن ب کہ ایک مضمون آپ نے دیانتداری سے لکھا ہے اور اس میں صرف ان خیالات کی ترجمانی کی ہے جو اس وقت ہر اک مسلمان کے دل میں اٹھ رہے ہیں تو اب آپ کا فرض سوائے اس کے کہ اس سچائی پر مضبوطی سے قائم رہیں اور کیا ہو سکتا ہے.یہ رسول کریم صلی علیہ آلہ سلم کی محبت کا سوال ہے اور ہم اس مقدس وجود کی عزت کے معاملہ میں کسی کے معارض بیان پر بغیر آواز اٹھائے کے نہیں رہ سکتے ہیں.( میں) قانون تو جانتا نہیں اس کے متعلق تو آپ قانون دان لوگوں سے مشورہ لیں مگر میری طرف سے آپ کو یہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے جواب میں یہ
45 لکھوا دیں کہ اگر ہائی کورٹ کے جوں کے نزدیک کنور دلیپ صاحب کی عزت کی حفاظت کے لئے تو قانون انگریزی میں کوئی دفعہ موجود ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ سلم کی عزت کی حفاظت کے لئے کوئی دفعہ موجود نہیں تو میں بڑی خوشی سے جیل خانہ جانے کے لئے بیتار ہوں“ (الفضل یکم جولائی ۱۹۲۷ء صفحہ ۳) رسالہ کے پرنٹر و پبلشر مولوی نورالحق صاحب کو بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ اگر آپ اس مضمون سے لاتعلقی کا اظہار کر دیں تو آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو گی مگر اسلامی غیرت کے پیش نظر انہوں نے بھی مدیر کے خیالات سے مکمل ہم آہنگی کا اظہار کیا جس پر عدالت کی طرف سے دونوں کو سزا ہو گئی.حضور نے ان کے اس مؤمنانہ اور غیرت مندانہ طریق کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : - برادران! آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے دو عزیز بھائی رسول کریم صلی اللہ یہ آلہ سلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے کھڑے ہونے کی وجہ سے جیل خانہ بھیج دیئے گئے ہیں یہ اور بات ہے کہ انہوں نے ایک ایسے فعل کا ارتکاب کیا جو عدالت عالیہ کے ججوں کی نظروں میں ملک کے قانون کے خلاف تھا لیکن یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ لکھا اور شائع کیا وہ ہر ایک مسلمان کے بچے جذبات اور حقیقی خیالات کا آئینہ دار ہے.ہر ایک سچے مسلمان کا فرض اولین ہے کہ وہ پیغمبر پاک صلی المیہ و سلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کرے اس لئے میں اپنی جماعت کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ میری جماعت کا ہر ایک متنفس عزت و ناموس پیغمبر صلی اللہادی اور مسلم کی حفاظت کے لئے ہر وہ کام کرنے کے لئے تیار ہے جو اس کے مقدور میں اور شرع اسلام کے مطابق ہوگا.اگر ہم آج اس مسئلہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم نہ ہو جائیں گے تو کبھی کسی اور موقع پر ہم کچھ نہیں کر سکیں گے.اس وقت میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ لاہور جیل کی دیواروں سے سبق حاصل کریں اگر ایک احمدی اور ایک دوسرا مسلمان اسلام کی عزت و ناموس کے لئے اکٹھے جیل خانوں میں جا سکتے ہیں تو کیا ہم اس پاک اور
46 متبرک مقصد کے لئے جیل خانے کے باہر متحد اور مجتمع نہیں ہو سکتے.برادرانِ اسلام ! اس وقت اسلام کو اتحاد اور متحدہ کوشش کی سب سے زیادہ ضرورت ہے الفضل ۲۸ - جون ۱۹۲۷ء صفحہ ۲۱) عام طور پر ایسے مواقع پر متعلقہ کتاب یا مضمون کی ضبطی اور مصنف کو سزا دیئے جانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے.حضرت فضل عمر نے بڑی تفصیل سے مدلل طریق پر ان مطالبات کے نا کافی ہونے کے متعلق اپنے مضامین اور تقاریر میں بیان فرمایا آپ کے نزدیک کتاب کی ضبطی مسئلہ کا کسی طرح بھی حل نہیں ہوتا کیونکہ کتاب پڑھی جا چکی ہوتی ہے اور اس کا مضمون و مفہوم عام ہو چکا ہوتا ہے.ضبطی کی وجہ سے ایسی کتاب کی شہرت پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے جس کا فائدہ مصنف کو تو ضرور پہنچتا ہے مگر احتجاج کرنے والوں کو مزید نقصان اٹھانا پڑتا ہے.حضرت فضل عمر اس سلسلہ کی مشکلات کو خوب سمجھتے تھے آپ فرماتے ہیں :- ایسی حالت میں مسلمانوں کے لئے کس قدر مشکلات ہیں قانون ہمارے اختیار میں نہیں کہ اس کے ذریعہ جوش نکال سکیں اور خاموش اس لئے نہیں رہ سکتے کہ آئندہ نسلیں تباہ نہ ہو جائیں اور ان میں بے غیرتی نہ پیدا ہو جائے“ الفضل ۵.جولائی ۱۹۲۷ ء صفحہ ۶ ) حضور نے صحیح لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے پر زور احتجاج پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ نہایت متوازن اور مدلل انداز میں کتاب کا جواب دیا تا کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ کتاب میں بیان کئے گئے الزامات درست ہیں.بعض لوگوں نے مصنف کو قتل کرنے کی کوشش کی جسے آپ نے اسلامی تعلیم کے خلاف سمجھتے ہوئے پسند نہ فرمایا تو ہین کا ارتکاب کرنے والوں کو عدالت سے سزا ہونے پر بعض لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا.مگر آپ نے فرمایا کہ:- میرا دل غمگین ہے کیونکہ میں اپنے آقا ، اپنے سردار حضرت محمد مصطفی صلی الشمایہ آلہ سلم کی ہتک عزت کی قیمت ایک سال کے جیل خانہ کو نہیں قرار دیتا، میں اُن لوگوں کی طرح جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صل العمار المسلم کو گالیاں دینے والے کی سزا قتل ہے ایک آدمی کی جان کو بھی اس کی قیمت قرار نہیں دیتا ایک قوم کی نتا ہی کو بھی اس کی قیمت قرار نہیں دیتا میں ایک دنیا کی موت کو بھی اس کی قیمت
47 قرار نہیں دیتا بلکہ اگلے اور پچھلے سب کفار کے قتل کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا کیونکہ میرے آقا کی عزت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے“ الفضل ۱۹ اگست ۱۹۲۷ء صفحه ۳ ) آنحضرت صلی الشماید آل مسلم کی بلندشان، قوت قدسیہ اور مردوں کو زندہ کرنے کے اعجاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے یہ بھی فرمایا: - " کیا یہ سچ نہیں کہ میرا آقا دنیا کو چلانے کے لئے آیا تھا نہ کہ مارنے کے لئے.وہ لوگوں کو زندگی بخشنے کے لئے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت دنیا کے احیاء میں ہے نہ اس کی موت میں.پس میں اپنے نفس میں شرمندہ ہوں کہ اگر یہ دو شخص جو ایک قسم کی موت کا شکار ہوئے ہیں اور بدبختی کی مہبر انہوں نے اپنے ماتھوں پر لگائی ہے اس صداقت پر اطلاع پاتے جو محمد رسول اللہ صلی العمار المسلم کو عطا ہوئی تھی تو کیوں گالیاں دے کر برباد ہوتے ، کیوں اس کے زندگی بخش جام کو پی کر ابدی زندگی نہ پاتے اور اس صداقت کا ان تک نہ پہنچنا مسلمانوں کا قصور نہیں تو اور کس کا ہے.پس میں اپنے آقا سے شرمندہ ہوں کیونکہ اسلام کے خلاف موجودہ شورش در حقیقت مسلمانوں کی تبلیغی سستی کا نتیجہ ہے.قانون ظاہری فتنہ کا علاج کرتا ہے نہ دل کا اور میرے لئے اس وقت تک خوشی نہیں جب تک کہ تمام دنیا کے دلوں سے محمد رسول اللہصلی الهادی السلم کی بعض نکل کر اس کی جگہ آپ کی محبت قائم نہ ہو جائے“ الفضل ۱۹.اگست ۱۹۲۷ء صفحه ۳) اس جگہ ضمنا یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمہ کی نوعیت اور مخالف و موافق پریس میں اس کی غیر معمولی تشہیر و اشاعت سے یہ مقدمہ مسلم.غیر مسلم تنازعہ کی صورت اختیار کر گیا.توہین عدالت کا مقدمہ قائم ہونے پر تمام مشہور مسلم وکلاء بغرض مشورہ جمع ہوئے اور اس سوال پر کہ اس کیس کی پیروی کی سعادت کسے حاصل ہوگی.بعض بڑے بڑے نامور وکلاء نے اپنا نام پیش ہونے پر کسی نہ کسی وجہ سے عذر خواہی کر لی اور بالآخر قرعہ فال حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے نام نکلا اور آپ کو یہ تاریخی سعادت حاصل ہوئی کہ آنحضرت صلی المیہ اورمسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کی لڑائی میں نہایت جرات و بہادری اور متانت و سنجیدگی سے وکالت کی.عدالت میں آپ کے بیان کے بعد
48 مشہور صحافی وادیب مولوی ظفر علی خاں صاحب ( جو جماعت کے شدید مخالف تھے ) جو حاضرین میں موجود تھے بڑے جوش سے اٹھے اور حضرت چوہدری صاحب کا بوسہ لیتے ہوئے بآواز بلند کہا کہ ظفر اللہ خاں تم نے آج ان لوگوں کا منہ کالا کر دیا جو یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں قابل وکیل نہیں ہیں.( حضرت چوہدری صاحب کی زور دار وکالت کی وجہ آپ کی پیشہ ورانہ مہارت سے زیادہ وو آنحضرت صلی اللہ و آلہ سلم کیلئے ایمانی غیرت کا جذبہ تھا ) ۱۸.نومبر ۱۹۲۷ء کے الفضل اخبار سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللمای آلہ سلم کی عزت وناموس کے تحفظ کی مخلصانہ کوشش برصغیر ہند و پاک سے آگے نکل کر مرکز حکومت انگلستان تک پہنچی اور احمدی ذرائع نے وزیر داخلہ اور ممبران پارلیمنٹ تک اپنے جذبات اس مؤثر رنگ میں پہنچائے کہ انہوں نے بھی اس معاملہ کی طرف توجہ دینے کا وعدہ کیا.حضور کی اس بر وقت اور کامیاب کوشش کو ہر دردمند مسلمان نے بنظر تشکر دیکھا.مسلم رائے عامہ کا ترجمان اخبار انقلاب اس عدالتی فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے :- مگر آخر میں حکومت کی سب سے بڑی عدالت نے اسے بری کر دیا.جو کچھ اس عدالت نے فیصلہ کیا وہ ہمارے لئے آخری تازیانہ عبرت ہے مگر ہم ہیں ، آرام اور آسائش کی نہیں بلکہ بے غیرتی اور بے حیائی اور بے شرمی کی نیند سور ہے ہیں.قریباً ایک ماہ ہوا کہ یہ فیصلہ چھپ چکا ہے.ہندوستان میں مسلمانوں کے فرقے ہیں، جمعیتیں ہیں، انجمنیں ہیں، اسلامی اور دنیاوی تعلیم کے کالج ہیں مگر سب کے سب اس فیصلہ کے ہونے کے بعد بھی اس طرح سور ہے ہیں گویا ان کے نزدیک حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہماری آلہ سلم کی عزت کا مسئلہ مذہب اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا امتحان اور آزمائش کے وقت علی گڑھ، اسلامیہ کالج اور مسلم لیگ کی خاموشی تو اس قدر تعجب خیز نہ تھی مگر دیو بند اور مجلس خلافت اور بالخصوص جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے اس فیصلہ کے خلاف ایک سرفروشانہ مجاہدہ کا اعلان نہ ہونا ہندوستان میں مذہب اسلام کی موت کے مترادف ہے انقلاب ۲۱.جون ۱۹۲۸ء.بحوالہ الفضل ۲۸.جون ۱۹۲۷ صفحه ۴ ) اسی طرح اخبار مشرق نے اسلام کی اس سچی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا:..
49 ہم کو یہ کہنے میں ذرہ تامل نہیں نہ کسی اختلاف کا خوف ہے کہ احمدی جماعت اس وقت اسلام کی کچی خدمت ہندوستان میں کر رہی ہے اور یہ اس کی خصوصیت ہے کہ وہ خدا اور رسول کی تعلیمات کی سب سے زیادہ فکر کرتی رہتی ہے اور ہم صرف اسی وجہ سے باوجود اختلاف عقیدہ کے اس جماعت کے ہمیشہ معترف رہے ہیں اور اب تو بہت زیادہ ہم اس کے شکر گزار ہیں ( مشرق یکم جولائی ۱۹۲۷ء.بحوالہ الفضل ۱۹.جولائی ۱۹۲۷ء ) اسی اخبار نے عشق و محبت رسول کے اس سفر کے بعض اہم واقعات کا ذکر کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ :- وو جناب امام صاحب جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں.آپ ہی کی تحریک سے ورتمان پر گو یا مقدمہ چلا آپ ہی کی جماعت نے رنگیلا رسول“ کے معاملے کو آگے بڑھایا، سرفروشی کی ، جیل خانے جانے سے خوف نہیں کھایا ، آپ ہی کے پمفلٹ نے جناب گورنر صاحب بہا در پنجاب کو انصاف و عدل کی طرف مائل کیا.آپ کا پمفلٹ ضبط کر لیا مگر اس کے اثرات کو زائل نہیں ہونے دیا.اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہور ہے ہیں.صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا کسی جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام انجام دے رہی ( مشرق ۲۲.ستمبر ۱۹۲۷ء بحوالہ الفضل ۷.اکتوبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۹) ہے.یہ تو مسلم پریس کا خراج تحسین تھا.ہند و پریس نے اپنے نقطہ نظر سے ان سرگرمیوں پر نظر ڈالتے ہوئے بڑی فکر مندی سے لکھا کہ :- آج تک احمدی جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ ان کی ذاتی کوششیں ہی تھیں.دوسرے مسلمانوں نے کبھی بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ ہمیشہ ان کی مخالفت کی اور ان کے کاموں کو تباہ و برباد کرنے کی جد و جہد کرتے رہے لیکن اب یہ حالت نہیں ہے آجکل سوائے پرانے خیال کے مولویوں کے باقی تمام مسلمان ان کے مددگار اور ان کے کام کے مداح ہیں.یہ تبدیلی ایسی ہے جس میں ہمارے
50 لئے بہت سے خطرے پوشیدہ ہیں جن سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا بندوبست نہ کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا“ تیج ۲۵.جولائی ۱۹۲۷ء بحواله الفضل ۵ - اگست ۱۹۲۷ء صفحه ۸) حضرت مصلح موعود کی کوشش اس لحاظ سے بھی نتیجہ خیز ثابت ہوئی کہ انگریزی حکومت نے ضابطہ فوجداری میں ایک دفعہ کا اضافہ کر کے مذہبی رہنماؤں کی تو ہین کو قابل دست اندازی پولیس حجرم قرار دیا.جلسہ ہائے سیرت النبی غیر مسلموں کی ان دل آزار حرکتوں کی وجہ سے ہر دردمند مسلمان نے اپنی جگہ تکلیف اور دکھ محسوس کیا اور اپنے اپنے رد عمل کا اظہار کیا.حضرت فضل عمر کا رد عمل اپنی شان میں نرالا اور بے مثال تھا جیسا کہ گذشتہ صفحات میں کسی قدر ذکر آچکا ہے.اسی سلسلہ میں ایک اور درخشندہ باب کا اضافہ ہوا اور ملک بھر میں منظم طریق پر سیرت النبی صلی المیہ اورمسلم کے جلسوں کا انعقاد شروع ہوا.اس بابرکت تجویز کو پیش کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- " لوگوں کو آپ پر حملہ کرنے کی جرات اس لئے ہوتی ہے کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے نا واقف ہیں یا اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریم صلی الشماری اورمسلم کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرات نہ رہے.جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا.واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کر دے گا.پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریم صلی علیہ و سلم کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ رسول کریم صلی السماوی اورمسلم کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے اور ہر سال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے تا کہ سارے ملک میں شور مچ جائے اور
51 غافل لوگ بیدار ہو جائیں“ (خطبات محمود جلد ۱ صفحه ۲۷۱-۲۷۲) اسی سلسلہ میں آپ نے فرمایا : - آخر جب ایڈیٹر مسلم آوٹ لگ“ کو سزا دیدی گئی تو میں نے ۲۲.جولائی کو ہر جگہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے جلسہ کرنے کی تحریک کی مجھے خیال تھا کہ عام طور پر مسلمان اس تحریک کی مخالفت کریں گے اور جلسہ نہیں ہونے دیں گے اس وجہ سے میں تحریک لکھ لینے کے بعد اپنے مضمون میں سے اسے کاٹنے لگا تھا لیکن پھر مجھے یہ خیال آیا کہ میں نے اپنی طرف سے تو یہ تحریک لکھی نہیں.خدا تعالیٰ نے مجھ سے لکھائی ہے وہی اس کو کامیاب بنانے کا سامان کرے گا پھر اگر چہ اس کی مخالفت کی گئی مگر باوجود اس کے سارے ہندوستان میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اس تحریک کے ماتحت ۲۲.جولائی کو جلسے کئے گئے مسلمانوں میں خاص بیداری پیدا ہوگئی اور اخباروں نے لکھا کہ ایسا شاندار مظاہرہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا.اس سے مسلمانوں کو محسوس ہو گیا کہ اگر وہ مل کر آواز اٹھائیں تو وہ پُر شوکت اور پُر ہیبت ہو سکتی ہے.اس دوران اس کام کو مضبوط بنانے کے لئے انجمن ترقی اسلام کی بنیا درکھی گئی تا کہ اس کے ذریعہ ایسے لوگوں کو جمع کیا جائے جو عام اسلامی کاموں میں مدد دے سکیں چنانچہ مختلف فرقوں کے ایسے ایک ہزار آدمیوں نے اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا (انوار العلوم جلده اصفحہ ۷۶ ) اس اہم قومی اور ملی مقصد کی تکمیل کے لئے آپ نے ایک وسیع پر وگرام تجویز فرمایا جس کے اہم پہلو مندرجہ ذیل تھے.اول : - ہر سال آنحضرت صلی اللہ یہ آلہ سلم کے مقدس سوان میں سے بعض اہم پہلوؤں کو منتخب کر کے ان پر خاص طور سے روشنی ڈالی جائے.دوم : - ان مضامین پر لیکچر دینے کے لئے آپ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء میں ایسے ایک ہزار فدائیوں کا مطالبہ کیا جو لیکچر دینے کے لئے آگے آئیں.سوم : - سیرت البنی پر تقریر کرنے لئے آپ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علی آلہ وسلم کے احسانات سب دنیا پر ہیں اس لئے مسلمانوں کے علاوہ وہ لوگ جن کو
52 ابھی تک یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ رسول کریم صلی الہادی اور مسلم کے اس تعلق کو محسوس کر سکیں جو آپ کو خدا تعالیٰ کے ساتھ تھا مگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قربانیوں سے بنی نوع انسان پر بہت احسان کئے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں.چہارم :- غیر مسلموں کو سیرت رسول کے موضوع سے وابستگی اور شوق پیدا کرنے کیلئے یہ اعلان کیا گیا کہ جو غیر مسلم احباب ان جلسوں میں تقریریں کرنے کی تیاری کریں گے اور اپنے مضامین ارسال کریں گے ان میں سے اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو علی الترتیب سو.پچاس اور چھپیں روپے کے نقد انعامات بھی دیئے جائیں گے.پنجم : - وسیع تر مفاد اور عام اشاعت کی خاطر........یہ بھی مناسب سمجھا گیا کہ ایسے جلسوں کو رسمی طور پر کسی ایک دن ہی منانا ضروری نہ سمجھا جائے بلکہ اس مقصد کے لئے اور دن بھی مقرر کئے جا سکتے ہیں.روز نامہ الفضل میں بہت نمایاں جگہ پر مندرجہ ذیل اعلان بار بار شائع ہوتار ہا:.وو رسول کریم صلی شاید آپ علم کے ایک ہزار فدائیوں کی ضرورت“ فخر موجودات سید ولد آدم خاتم النبین صلى العماد اور علم کے ایک ہزار ایسے خادموں اور فدائیوں کی ضرورت ہے جو آپ کی پاک اور مطہر زندگی ، آپ کے بنی نوع انسان پر احسانات اور آپ کی مخلوق خدا کیلئے بے نظیر اور بے مثال قربانیوں پر لیکچر دینے کے مقدس فرض کو انجام دے سکیں ایسے احباب جلد سے جلد اپنے نام حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کر دیں تا کہ حضور ان کو ایسے لیکچروں کی تیاری کیلئے ہدایات بھیج سکیں.ہر فرقہ کے مسلمان اس غرض کیلئے اپنا نام لکھا سکتے ہیں بلکہ وہ غیر مسلم اصحاب بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں جو رسول کریم صلی الشہا یہ آلہ سلم سے اخلاص اور محبت رکھتے ہیں ان کو بھی لیکچر دینے کے لئے پوری پوری امداد دی جائے گی“ (الفضل ۱۳.جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ۲) اس مبارک تحریک پر ساری جماعت احمد یہ عالمگیر حرکت میں آگئی اور ملک بھر میں بلکہ بیرون ملک بھی ۱۷.جون کے جلسوں کی تیاریاں ہونے لگیں.ایک ہزار سے زائد لیکچراروں نے اپنے
53 الفضل نے آپ کو اس مقصد کے لئے پیش کر دیا ان کی تیاری کے لئے خاص مضا مین تیار کر وائے گئے.الف ایک ضخیم اور شاندار خاص نمبر نکالا غیر مسلم مضمون نگاروں کو انعام دیئے گئے.حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب اپنی ایک رپورٹ میں ان امور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- ود ۱۴ مارچ کو یہ کام میں نے اپنے ہاتھ میں لے کر مربیان میں سے ایک صاحب کو اس کام کے لئے فارغ کر دیا.لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اسلامی انجمنوں ، اسلامیہ سکولوں ، ائمہ مساجد، علماء ، سجادہ نشینوں، ممبران ترقی اسلام، ایڈیٹر ان اخبارات ہممبران لیجسلیٹو کونسلز و اسمبلی اور ہندو معززین و تھیوسافیکل سوسائٹیوں سے خط وکتابت کی گئی اور اس کے علاوہ متعد داخبارات میں پے در پے تحریکات شائع کرنے کے ساتھ صوبہ جات بنگال، مدراس اور بمبئی کے انگریزی اخبارات میں لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اُجرت پر اشتہار دیئے گئے.ہندوستان کے علاوہ ممالک خارج انگلینڈ، نائیجریا، گولڈ کوسٹ ، نیروبی و دیگر حصص ،افریقہ، شام، ماریشس، ایران، سماٹرا، آسٹریلیا میں بھی مبلغین اور بعض دیگر احباب کو خطوط لکھے گئے.۱۷.جون کے جلسہ سے چند دن قبل حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا رقم فرمودہ ایک پوسٹر ۱۵ ہزار کی تعداد میں چھپوا کر ہندوستان کے تمام حصوں میں بھیجا گیا جس میں مسلمانوں کو ہر جگہ ۱۷ جون کے دن جلسہ کرنے کی تحریک کی گئی.ہمارا مطالبہ تمام ہندوستان سے ایک ہزار لیکچرار مہیا کرنے کا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۶.جون کو ہندوستان اور ممالک خارجہ کے لیکچراروں کی تعداد ۴۱۹ اتھی گویا مطالبہ سے ۴۱۹ زیادہ بیلچر ار تھے اور پھر خصوصیت اس میں یہ تھی کہ مختلف علاقوں سے ہمیں ۲۵ غیر مسلم لیکچرار اصحاب کے نام ملے.اگر چہ ۱۷.جون کے دن غیر مسلم لیکچراروں کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی جو بر وقت مقامی طور پر جلسوں میں بخوشی حصہ لینے کے لئے تیار ہو گئے غرض لیکچراروں کے حصول میں ہمیں امید سے بڑھ کر کامیابی ہوئی رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ صفحه ۲۰۵ ) اس تحریک کے مطابق مقررہ تاریخ پر ملک بھر میں نہایت شاندار جلسے ہوئے قادیان کے جلسہ کو یہ خصوصیت حاصل رہی کہ اس میں حضور نے خود تقریر فرمائی جو بعد میں متعدد بار شائع ہوئی اور
54 اس کا انگریزی ترجمہ بھی بڑی کثرت سے شائع ہوا.دہلی کے جلسہ کی رپورٹ اخبار ” منادی“ میں شائع ہوئی.اخبار نے لکھا: سوا نو بجے رات کو پریڈ کے میدان میں سیرت رسول کی نسبت جلسہ ہوا.دس ہزار کا مجمع تھا.ہندو مسلمان مقرروں کی نہایت عمدہ تقریریں ہوئیں.جلسہ بہت کامیاب ہوا.بارہ بجے تک رہا.آج تک دہلی میں کوئی مشتر کہ جلسہ ایسی کامیابی سے نہ ہوا ہوگا“ ( منادی ۲۳ - جون ۱۹۲۸ء بحوالہ الفضل ۱۷.جولائی ۱۹۲۸ ، صفحہ ۷ ) اخبار مشرق نے لکھا : - جناب امام صاحب جماعت احمدیہ کئی مہینے سے یہ اعلان فرما رہے ہیں کہ ۲۰.جون کو ایک ہزار ایسے مسلمانوں کی ضرورت ہے جو فضائل ومحامد حضرت ختم المرسلین صلعم پر لیکچر دے سکیں..جناب امام صاحب جماعت احمدیہ بہت زیادہ اسلامی کار ہائے نمایاں میں جو دلچسپی رکھتے ہیں اس سے ان کی للہیت کا پتہ چلتا ہے اور یہ کوئی معمولی کام نہ ہو گا.خدا کے فضل سے یہ تقریریں بہت کارآمد ہوں گی اور ان کی جو کتاب بن کر پریس سے نکلے گی وہ ایک تاریخی یادگار ہوگی.مشرق ۲۲ مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۲.بحوالہ الفضل ۲۰.اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۹) اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اخباروں نے بھی اس تجویز کو سراہتے ہوئے بڑے زور دار الفاظ میں تائیدی بیان شائع کئے.اخبار مخبر اودھ، اخبار سلطان کلکتہ، اخبار کشمیری لاہور، اردو اخبار ناگپور، اخبار ہمدم لکھنو، وکیل امرت سر، حقیقت خادم المؤمنین ، منادی دہلی ، پیشوا، حق ،تو حید کراچی خدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۷.جون ۱۹۲۸ء کو ملک بھر میں پہلی دفعہ بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ سیرت کے جلسے منعقد ہوئے جن میں مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے سعید فطرت لوگوں نے بڑے جوش وخروش سے شامل ہو کر اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا.ہندوستان کی تاریخ میں مختلف الخیال لوگوں کا ایک پلیٹ فارم سے حضور صلی اللہادی اور سلم سے اظہار عقیدت کا یہ ایسا مظاہرہ تھا کہ جس کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی.اخبار مشرق نے ان جلسوں کی کامیابی پر امام جماعت احمدیہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے !
55 اس کا رنامہ کو ہمیشہ زندہ رہنے والا کارنامہ قرار دیتے ہوئے تحریر کیا: ”ہندوستان میں یہ تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی اس لئے کہ اس تاریخ میں اعلیٰ حضرت آقائے دو جہان سردار کون و مکاں محمد رسول اللہ صلعم کا ذکر خیر کسی نہ کسی پیرایہ میں مسلمانوں کے ہر فرقہ نے کیا اور ہر شہر میں یہ کوشش کی گئی کہ اول درجے پر ہمارا شہر رہے.....جن اصحاب نے اس موقع پر تفریق وفتنہ پردازی کیلئے پوسٹر لکھے اور تقریریں لکھ کر ہمارے پاس بھیجیں وہ بہت احمق ہیں جو ہمارے عقیدہ سے واقف نہیں.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص لا الہ اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ ناجی ہے.بہر حال ۱۷.جون کو جلسے کی کامیابی پر ہم امام جماعت احمد یہ جناب مرزا محمود احمد صاحب کو مبارکباد دیتے ہیں.اگر شیعہ وسنی و احمدی اسی طرح سال بھر میں دو چار مرتبہ ایک جگہ جمع ہو جایا کریں گے تو پھر کوئی قوت اسلام کا مقابلہ اس ملک میں نہیں کر سکتی ( مشرق گورکھ پور ۲۱.جون ۱۹۲۸ ء بحوالہ الفضل ۲۹.جون ۱۹۲۸ ، صفحہ ۱۶) اخبار ”کشمیری راولپنڈی نے ۱۷.جون کے جلسوں کو اتحاد بین الاقوام کا بنیادی پتھر قرار دیتے ہوئے لکھا: - مرزا بشیر الدین محمود احمد ( جماعت قادیان کے خلیفة المسیح) کی تجویز کہ ۱۷.جون کو آنحضرت صلی الہی اور مسلم کی پاک سیرت پر ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں لیکچر اور وعظ کئے جائیں.باوجود اختلافات عقائد کے نہ صرف مسلمانوں میں مقبول ہوئی بلکہ بے تعصب ، امن پسند صلح جو غیر مسلم احباب نے ۱۷.جون کے جلسوں میں عملی طور پر حصہ لے کر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا.۱۷.جون کی شام کیسی مبارک شام تھی کہ ہندوستان کے ایک ہزار سے زیادہ مقامات پر بیک وقت و بیک ساعت ہمارے برگزیدہ رسول کی حیاتِ اقدس، ان کی عظمت ،ان کے احسانات واخلاق اور ان کی سبق آموز تعلیم ہند و مسلمان اور سکھ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے.اگر اس قسم کے لیکچروں کا سلسلہ برابر جاری رکھا جائے تو مذہبی تنازعات اور فسادات کا فوراً انسداد ہو جائے.
56 ۱۷.جون کی شام صاحبانِ بصارت و بصیرت کیلئے اتحاد بین الاقوام کا بنیادی پتھر تھی.ہندو اور سکھ مسلمانوں کے پیارے نبی کے اخلاق بیان کر کے ان کو ایک عظیم الشان ہستی اور ایک کامل انسان ثابت کر رہے تھے...( بحوالہ الفضل ۱۰.جولائی ۱۹۲۸ء) اور بہت سے اخبارات نے جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں ان جلسوں کی تعریف وافادیت کے متعلق اپنے اداریوں میں بڑے عمدہ تبصرے کئے.اخبار مخبر اودھ اخبار سلطان کلکته، اردو اخبار ناگپور، اخبار ہمدم لکھنو، وکیل امرت سر، حقیقت، منادی ، پیشوا، حق ، تو حید کراچی وغیرہ.ان با برکت جلسوں سے ایک روح پرور لہر پیدا ہوئی جو مسلسل عاشقانِ رسول کے قلوب کی تسکین و بشاشت اور از دیا ایمان کا باعث بنے لگی.دوسرے سال کے جلسوں کی کامیابی پر الفضل رقمطراز ہے:.اس سال بھی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ کی یہ مبارک تحریک کہ ۲ جون کو سارے ہندوستان میں جلسے منعقد کر کے سروردو عالم صلی الشمایہ اور مسلم کی پاکیزہ سیرت پر لیکچر دیے جائیں گے.نہایت شاندار طور پر کامیاب ہوئی.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ اس وقت تک جو اطلا میں پہنچ چکی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جلسے نہایت کامیاب ہوئے.مسلم و غیر مسلم معززین بڑی تعداد میں شریک ہوئے اور مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم معززین نے بھی رسول کریم صلی الشمایہ اورمسلم کی سیرت پر تقریریں کیں“ الفضل ۷.جون ۱۹۲۹ ء صفحہ۱) ان جلسوں کی کامیابی کا یہ بھی ایک نمایاں رُخ ہے کہ حضور کی سیرت مقدسہ کا علم عام ہونے سے غیر مسلموں کے حملوں کا نہ صرف بہت حد تک سد باب ہو گیا بلکہ بہت سے ایسے غیر مسلم اہلِ قلم ہندوستان و بیرون ہندوستان میں سامنے آئے جنہوں نے نہایت شاندار الفاظ میں حضور صل اللم و المسلم کی سیرت پر تقریر وتحریر کے ذریعہ اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کئے.رواداری اور افہام و تفہیم کی فضاء کو زیادہ بہتر بنانے کے لئے حضرت فضل عمر نے یوم پیشوایان مذاہب“ منانے کا بھی اعلان فرمایا.ان جلسوں میں مختلف مذاہب کے راہنماؤں کے حالات بیان کئے جاتے تھے.تاکہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور
57 مذہبی دشمنی و منافرت کو پھیلانے کا مزید سد باب ہو سکے.ہندو پریس نے اسلام کی اس کروٹ پر جس فکرمندی کا اظہار کیا تھا اس کے نتیجہ میں جماعت کو خوفناک مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.۱۹۲۷ء ، ۱۹۲۸ء کے سیرت کے کامیاب جلسوں اور اتفاق واتحاد کے مظاہر کو سبوتا شرکرنے کے لئے ۱۹۲۹ء میں ہند وسرمایہ کے زور پر نیشنلسٹ مسلمانوں کے بھیس میں مجلس احرار کا قیام عمل میں آیا اور اس طرح ہندو اور ایسے مسلمانوں کے گٹھ جوڑ سے مسلمانوں کے اتحاد کی کوششوں کو نا کام کرنے کے لئے کام شروع ہو گیا.جماعت کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے مگر اس مخالفت کے مذکورہ پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے بلا تامل کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ عشق رسول کے تقاضوں کو پورا کرنے کی قیمت ہے تو کوئی گراں قیمت نہیں ہے.مذکورہ مجلس اور ان کی ہم خیال ٹولیوں کی شدید معاندانہ کوششوں کے عَلَی الرَّغْم جماعت کی غیر معمولی ترقی اور خدائی برکات کا جس کثرت سے نزول ہوا اور برابر ہوتا چلا جا رہا ہے اسے دیکھ کر ہمارے دل شکر سے لبریز ہیں کہ ؎ تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سب بار اٹھایا ہم نے
59 عبادات میں شغف وانہماک حضرت فضل عمر ابتدائی عمر سے ہی حدیث نبوی شَابٌ نَشَافِي عِبَادَةِ رَبِّهِ ( وه نوجوان جو خدا کی عبادت میں پروان چڑھا) کی مجسم تفسیر و تشریح تھے قرآن مجید میں تفکر و تدبر ، عبادت میں شغف وانهاک ، عقیدت و محبت رسول صلی المیہ و سلم کی خوشبو آپ کی ہر حرکت و عمل سے ظاہر ہوتی.وہ لوگ جو آپ کو شروع سے جانتے تھے ان کی گواہی بھی یہی ہے.مکرم حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ نو مسلم کا بیان ہے.مرزا محمود احمد صاحب کو با قاعدہ تہجد پڑھتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ بڑے لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں“ مکرم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی نے بھی آپ کو تہجد کی نماز میں لمبے لمبے سجدے اور خشوع و خضوع سے دعائیں کرتے ہوئے دیکھا تو ان کے دل میں ایک عجیب سوال پیدا ہوا.مکرم شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ : - آپ کے اس جوانی کے عالم میں جب کہ ہر طرح کی سہولت اپنے گھر میں حاصل ہے، زمینداری بھی ہے، اور ایک شاہانہ قسم کی زندگی بطور صاحبزادہ ، شہزادہ بسر کر رہے ہیں تو میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ آپ کو کس ضرورت نے مجبور کیا ہے کہ وہ تہجد میں آکر لمبی لمبی دعائیں کریں.یہ بات میرے دل میں بار بار یہ سوال پیدا کرتی تھی لیکن حضرت ممدوح سے پوچھنے کی جرات نہ پاتے تھے، لیکن ایک دن انہوں نے جرات کر کے آپ سے جبکہ وہ حضرت خلیفہ اول کی صحبت سے اُٹھ کر اپنے گھر کو جا رہے تھے راستے میں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کر کے روک لیا اور اپنی طرف متوجہ کر لیا اور نہایت عاجزی سے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں معافی مانگ کر پوچھا کہ وہ مقصد جس کے لئے آپ تہجد میں لمبی لمبی
60 دعائیں کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ اور نیز عرض کیا کہ میں بھی اس غرض کے لئے دعا کرونگا تا کہ وہ غرض آپ کو حاصل ہو جائے.اس کے جواب میں حضرت ممدوح نے مسکرا کر فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس بات کی دُعا کرتے ہیں کہ خدا کے راستے میں جو انہوں نے کام کرنا ہے اس کے لئے انہیں مخلص دوست اور مددگار میسر آجائیں.“ ( غیر مطبوعہ ریکار ڈ فضل عمر فاؤنڈیشن ) حضورا اپنی نو جوانی کے ایام میں حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے کے لئے گئے خدا تعالیٰ کے گھر کو دیکھ کر جو محویت آپ پر طاری ہوئی اس کے متعلق حضور بیان فرماتے ہیں.میں جب حج کے لئے گیا تو میں نے بھی یہی دعا مانگی تھی مگر یہ خیال حضرت خلیفہ اول ہی کی ایجاد سے تھا اور کہتے ہیں اَلْفَضْلُ لِلْمُتَقَدَّم.بے شک جب میں نے یہ دعا کی تو یہ بھی نقل تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مجھے یہ واقعہ یاد نہیں تھا بلکہ اتنا بھی خیال نہیں تھا کہ میں زندہ بھی ہوں.میں تو سمجھتا تھا کہ میں مر چکا ہوں اور اسرافیل صور پھونک رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہے کہ میری طرف چلے آؤ.(الفضل ۸.نومبر ۱۹۳۹ء صفحه ۳ (۴) اس عظیم عبادت کے موقع پر آپ نے سات جانور قربان کئے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں : - جب حج کے لئے گیا تو میں نے سات قربانیاں کی تھیں.ایک رسول کریم صلی الا یہ اپیلی کی طرف سے، ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے، ایک والدہ صاحبہ کی طرف سے، ایک حضرت خلیفۃ المسیح اول کی طرف سے، ایک اپنی طرف سے ، ایک اپنی بیوی کی طرف سے اور ایک جماعت کے دوستوں کی طرف سے.“ وو تقریر جلسہ سالانہ ۲۷.دسمبر ۱۹۳۴ء بحواله الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۳۵ء صفحه ۳) سیر و تفریح کے وقت بھی عبادت کی طرف دھیان رہا آپ فرماتے ہیں :- ایک دفعہ میں دہلی گیا ہوا تھا.میری مرحومہ بیوی سارہ بیگم اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم نے امتحان پاس کیا تھا اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ امتحان پاس کرنے کے بعد میں تمہیں آگرہ اور دہلی وغیرہ کی سیر کراؤں گا میں انہیں دہلی کا قلعہ دکھانے لے گیا جب سیر کرتے کرتے ہم قلعہ کی مسجد کے پاس پہنچے تو
61 میں نے اپنی بیوی اور بچی سے کہا کہ اب تو یہ قلعہ فوج کے قبضہ میں ہے نہ معلوم یہاں خدا تعالیٰ کا ذکر کبھی کسی نے کیا ہے یا نہیں آؤ ہم یہاں نماز پڑھ لیں.چنانچہ ہم نے وہاں پانی منگوایا وضو کیا اور نماز پڑھی.میں بہت دیر تک نماز میں مشغول رہا اور دعائیں کرتا رہا.“ (الفضل ۲۸.فروی ۱۹۴۳ء) ایسی حالت کے متعلق ہی بزرگوں نے کہا ہے کہ جو دم غافل سو دم کا فر.آپ ہر حال میں خدا کو یا در کھتے تھے.ایک نماز کے رہ جانے کے خیال سے جو حالت ہوئی اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبادت کی طرف آپ کے انہاک کا کیا عالم تھا.فرماتے ہیں :- ” مجھے یاد ہے چند سال ہوئے میں ایک دفعہ دفتر سے اٹھا تو مغرب کے قریب جب کہ سورج زرد ہو چکا تھا مجھے یہ وہم ہو گیا کہ آج مجھے کام میں مصروف رہنے کی وجہ سے عصر کی نماز پڑھنی یاد نہیں رہی جب یہ خیال میرے دل میں آیا تو یکدم میرا سر چکرایا اور قریب تھا کہ اس شدت غم کی وجہ سے میں اس وقت گر کر مرجاتا کہ معا اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے یاد آ گیا کہ فلاں شخص نے مجھے نماز کے وقت آ کر آواز دی تھی اس وقت میں نماز پڑھ رہا تھا پس میں نماز پڑھ چکا ہوں لیکن اگر مجھے یہ بات یاد نہ آتی تو اس وقت مجھ پر اس غم کی وجہ سے جو کیفیت ایک سیکنڈ میں ہی طاری ہوگئی وہ ایسی تھی کہ میں سمجھتا تھا اب اس صدمہ کی وجہ سے میری جان نکل جائے گی.میرا سر یکدم چکرا گیا اور قریب تھا کہ میں زمین پر گر کر ہلاک الفضل ۲۴.جنوری ۱۹۴۵ء صفحه ۲ ) کم خورانی بھی صوفیاء کے نزدیک قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے.مندرجہ ذیل بیان سے عبادات میں شغف اور کم کھانے کے متعلق آپ کے معمولات کا پتہ چلتا ہے.آ ہو جاتا.فرماتے ہیں :- " آج کل رمضان ہے اور روزہ کی وجہ سے زیادہ تقریر نہیں کی جاسکتی.دوسرے نیر صاحب نے رات کو میجک لینسٹرن کے ذریعہ سفر یورپ اور تبلیغ افریقہ کے حالات دکھائے ہیں گو اس سے بہت فائدہ ہوا ہے مگر سحری کو اس وقت آنکھ نہ گھلی جس وقت کھلنی چاہئے تھی اور میں دعا ہی کر رہا تھا کہ اذان ہوگئی اس لئے
62 میں کھانا نہ کھا سکا میں آجکل شام کو کھانا نہیں کھایا کرتا بلکہ سحری کو کھا تا ہوں لیکن آج سحری کو بھی نہ کھا سکا.اس وجہ سے بھی لمبی تقریر کرنا مشکل ہے تاہم میں کوشش کرونگا کہ جسقد رہو سکے بیان کروں کیوں کہ احباب دُور دور سے آئے ہیں.“ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء صفحه ۱۳،۱۲) حضرت خلیفہ اول بھی حضور کی نیکی اور تقویٰ کے معترف اور قدر دان تھے یہی وجہ ہے کہ آر کی نوعمری کے باوجود آپ کو امام الصلوۃ اور خطیب مقرر کیا ہوا تھا.ایک دفعہ جب آپ سے کسی نے اس امر کے متعلق دریافت فرمایا تو آپ نے فرمایا.قرآن کریم نے تو ہمیں یہ بتایا ہے کہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (الحجرات :۱۴) مجھ کو جماعت میں میاں صاحب جیسا کوئی متقی بتا دیں مزید برآں تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت خلیفہ اول حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب سے ہرا ہم کام میں مشورہ لیتے ، سب سے زیادہ آپ کو اپنا مزاج شناس سمجھتے اور اہم امور کی بہتر سرانجام دہی کے لئے دعا کی درخواست بھی کرتے.آپ کے زہد و تقویٰ کا اس امر سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے شروع سے ہی اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر دیا تھا اور کسی دنیوی کام اور دھندے کی طرف رغبت نہ رکھی تھی اس کا ثبوت مندرجہ ذیل واقعہ سے ملتا ہے جو حضور نے خود بیان فرمایا ہے:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ایک دن ہمارے نانا جان والدہ صاحبہ کے پاس آئے اور انہوں نے غصہ میں رجسٹر زمین پر پھینک دیئے اور کہا کہ میں کب تک بڑھا ہو کر بھی تمہاری خدمت کرتا رہوں اب تمہاری اولاد جوان ہے اس سے کام لو اور زمینوں کی نگرانی ان کے سپر د کرو.والدہ نے مجھے بلایا اور رجسٹر مجھے دے دیئے اور کہا کہ تم کام کرو تمہارے نانا یہ رجسٹر پھینک کر چلے گئے ہیں.میں ان دنوں قرآن اور حدیث کے مطالعہ میں ایسا مشغول تھا کہ جب زمینوں کا کام مجھے کرنے کے لئے کہا گیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھے قتل کر دیا ہے.مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ جائداد ہے کیا بلا اور وہ کس سمت میں ہے مغرب میں ہے یا مشرق میں شمال میں ہے یا جنوب میں.“ ( الفضل ۲۲.اکتوبر ۱۹۵۵ء)
63 عبادت میں انہاک و شغف اور دعا پر یقین کے متعلق حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب لکھتے ہیں : - ہم دھرم سالہ پہنچے مگر وہاں بارش کی زیادتی کی وجہ سے آب و ہوا؟ ناموافق ثابت ہوئی اس لئے ڈلہوزی میں مکان تلاش کرا کر وہاں پہنچ گئے.یہاں کی آب و ہوا موافق رہی.ایک روز حضور نے بعض ساتھیوں کو ہمراہ لے کر دو تین میل کے فاصلے پر جنگل میں دُعا کی.اس غرض کے لئے دو رکعت نماز با جماعت ادا کی.باوجود یکہ حضور کو انفلوئنزا کے گذشتہ حملہ کی وجہ سے کمزوری لاحق تھی اور قریب ہی میں بخار کا حملہ بھی ہو چکا تھا مگر دُعا کے لئے اسقدر لمبے سجدے حضور نے کئے کہ مقتدی تھک تھک گئے.مگر حضور نے دُعا کو جاری رکھا.اور ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد وقت میں دو رکعت نماز ادا کی.(ایاز محمود جلد چہارم صفحه ۱۹۹) خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہر رمضان کے آخر میں درس کے اختتام پر حضور کی لمبی لمبی دعائیں جن میں خشیت اور گریہ وزاری کا ایک عجب عالم ہوتا تھا ، جلسہ سالانہ کے افتتاح اور اختتام پر آپ کی متضرعانہ دعا ئیں ، اسی طرح مجلس شوری کے شروع میں، ربوہ کی آبادی اور افتتاح کے مواقع پر، مسجد مبارک کی بنیا درکھتے ہوئے ، حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات پر نہایت تضرع سے دعاؤں کا نظارہ تو ابھی بھی آنکھوں کے آگے گھومتا ہے.مکرم مولانا عبد الرحمان صاحب انور کو مختلف حیثیتوں میں آپ کے ساتھ لمبا عرصہ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی وہ اپنے طویل مشاہدے اور بارہا کے تجربات کا خلاصہ بیان کرتے ا ہوئے کہتے ہیں :- یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور اگر چہ عام انسان تھے لیکن حضور کے کاموں کو دیکھنے کے بعد ہر شخص یہ تسلیم کرنے کیلئے مجبور ہو جاتا ہے کہ اس خاص انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی خاص تعلق ہے اور اس کی خاص تائید اس کے شامل حال ہے چنانچہ بار ہادیکھا گیا ہے کہ حضور کوکسی ایسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی ہے جو عام حالات میں قریباً ناممکن الحصول ہوتی تھی تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے حصول کے سامان ہو جایا کرتے تھے گویا اللہ تعالیٰ کے فرشتے حضور کے منشاء کی
64 تکمیل میں لگ جایا کرتے تھے.“ (الفرقان فضل عمر نمبر دسمبر جنوری ۱۹۶۶، صفحه ۴۳) اس تائید الہی کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال درج ذیل ہے حضرت فضل عمر فرماتے ہیں :- چند سال ہوئے مجھے ایک مکان کی تعمیر کے لئے روپیہ کی ضرورت پیش آئی میں نے اندازہ کرایا تو مکان کے لئے اور اس وقت کی بعض ضروریات کے لئے دس ہزار روپیہ درکار تھا.میں نے خیال کیا کہ جائداد کا کوئی حصہ بیچ دوں یا کسی سے قرض لوں اتنے میں ایک دوست کی چٹھی آئی کہ میں چھ ہزار روپیہ بھیجتا ہوں اس کے بعد چار ہزار باقی رہ گیا ایک تحصیلدار دوست نے لکھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمیں دس ہزار روپیہ کی ضرورت تھی اس میں سے چھ ہزار تو مہیا ہو گیا ہے باقی چار ہزار تم بھیج دو مجھے تو اس کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آیا اگر آپ کو کوئی ذاتی ضرورت یا سلسلہ کے لئے درپیش ہو تو میرے پاس چار ہزار روپیہ جمع ہے میں وہ بھیج دوں.میں نے انہیں لکھا کہ واقعی صورت تو ایسی ہی ہے بعینہ اسی طرح ہوا ہے.گو یا ضرورت مجھے تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے کہلوانے کی بجائے اس دوست کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منہ سے کہلوا دیا.نہ ا سے علم تھا کہ مجھے دس ہزار کی ضرورت ہے اور یہ کہ اس میں سے کسی نے چھ ہزار بھیج دیا ہے اور اب صرف چار ہزار باقی ہے اور نہ مجھے علم تھا کہ اس کے پاس روپیہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے خود ہی تمام اس کے لئے انتظام فرما دیا.تو بعض اوقات ایسے مواقع اللہ تعالیٰ خود ہی بہم پہنچا دیتا ہے.اس کے خاص بندوں کے لئے یہ صورت عام ہوتی ہے اور عام بندوں کے لئے شاذ کے طور پر لیکن سب ہی کے لئے حقیقی نصرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے.(الفضل اا.جولائی ۱۹۳۹ء صفحہ۴ ) میں اسی قادر و توانا خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ باوجود ایک سخت کمزور انسان ہونے کے مجھے خدا تعالیٰ نے ہی خلیفہ بنایا ہے اور میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے آج سے ۲۲ ۲۳ سال پہلے مجھے رؤیا کے ذریعہ یہ بتا دیا تھا کہ تیرے سامنے ایسی
65 مشکلات پیش آئیں گی کہ بعض دفعہ تیرے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوگا کہ اگر یہ بوجھ علیحدہ ہو سکتا ہو تو اسے علیحدہ کر دیا جائے مگر تو اس بوجھ کو ہٹا نہیں سکے گا اور یہ کام بہر حال نباہنا پڑے گا اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر الفضل۲۰.نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۷ ) خدا تعالیٰ پر توکل اور خدائی وعدوں کے پورا ہونے پر مکمل یقین جو مخالفت کی شدت، مخالفوں کی کثرت مخالفانہ حالات اور فتنہ گروں کی فتنہ سامانیوں میں کبھی بھی متزلزل یا کم نہ ہوا بلکہ ہمیشہ لعنت ہو.“ بڑھتا ہی چلا گیا.آپ کس پر شوکت انداز میں اس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.میں بے شک انسان ہوں خدا نہیں ہوں مگر میں یہ کہنے سے نہیں رہ سکتا کہ میری اطاعت اور فرماں برداری میں خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری ہے.مجھے جو بات کہنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے میں اسے چھپا نہیں سکتا.مجھے اپنی بڑائی بیان کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اس وقت تک اس شرم کی وجہ سے رُکا رہا ہوں لیکن آخر خدا تعالیٰ کے حکم کو بیان کرنا ہی پڑتا ہے.میں انسانوں سے کام لینے کا عادی نہیں ہوں.تم بائیس سال سے مجھے دیکھ رہے ہو اور تم میں سے ہر ایک اس امر کی گواہی دیگا کہ ذاتی طور پر کسی سے کام لینے کا میں عادی نہیں ہوں حالانکہ اگر میں ذاتی طور پر بھی کام لیتا تو میرا حق تھا مگر میں ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہوں کہ خود دوسروں کو فائدہ پہنچاؤں مگر خود کسی کا ممنونِ احسان نہ ہوں.خلفاء کا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہوتا ہے.تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس سے اس کے ماں باپ نے خدمات نہ لی ہوں گی مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی سے ذاتی فائدہ اُٹھانے یا خدمات لینے کی میں نے کوشش کی ہو.میرے پاس بعض لوگ آتے ہیں کہ ہم تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں آپ اپنی پسند کی چیز بتا دیں مگر میں خاموش ہو جاتا ہوں.آج تک ہزاروں نے مجھ سے یہ سوال کیا ہو گا مگر ایک بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس کا جواب دیا ہو.میرا تعلق خدا تعالیٰ سے ایسا ہے کہ وہ خود میری دستگیری کرتا ہے اور میرے تمام کام خود کرتا ہے“ ( الفضل ۴.ستمبر ۱۹۳۷ ء صفحه ۸) ” میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بالکل سید عبد القادر جیلانی " والا ہے.
66 وہ میرے لئے اپنی قدرتیں دکھاتا ہے مگر نادان نہیں سمجھتا.یہ زمانہ چونکہ بہت شبہات کا ہے اس لئے میں تو اس قد را حتیاط کرتا ہوں کہ کوشش کرتا ہوں دوسروں سے زیادہ ہی قربانی کروں.دو پس یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کو دیکھتے ہوئے میں انسانوں پر انحصار نہیں کر سکتا اور تم بھی یہ نصرت اس طرح حاصل کر سکتے ہو کہ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ اور ایسا کرنے میں صرف خلیفہ کی اطاعت کا ثواب نہیں بلکہ موعود دخلیفہ کی اطاعت کا ثواب تمہیں ملے گا اور اگر تم کامل طور پر اطاعت کرو تو مشکلات کے بادل اُڑ جائیں گے تمہارے دشمن زیر ہو جائیں گے اور فرشتے آسمان سے تمہارے لئے ترقی والی نئی زمین اور تمہاری عظمت وسطوت والا نیا آسمان پیدا کریں گے لیکن شرط یہی ہے کہ کامل فرماں برداری کرو.جب تم سے مشورہ مانگا جائے مشورہ دو ورنہ چُپ رہو.ادب کا مقام یہی ہے لیکن اگر تم مشورہ دینے کے لئے بیتاب ہو تو بغیر پوچھے بھی دید و مگر عمل وہی کرو جس کی تم کو ہدایت دی جائے.ہاں صحیح اطلاعات دینا ہر مومن کا فرض ہے اور اس کے لئے پوچھنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے باقی رہا عمل اس کے بارہ میں تمہارا فرض صرف یہی ہے کہ خلیفہ کے ہاتھ اور اس کے ہتھیار بن جاؤ تب ہی برکت حاصل کر سکو گے اور تب ہی کامیابی نصیب ہوگی.“ (الفضل ۴.ستمبر ۱۹۳۷ء صفحه ۹) قبولیت دعا اور اس کی چند مثالیں حضرت سیدہ مہر آپا حرم حضرت فضل عمر نے حضور کی قبولیت دعا کے بعض واقعات بیان کئے ہیں ان میں سے دو واقعات درج ذیل ہیں جو آپ کے قرب الہی اور قبولیت دعا میں ایک بلند مقام پر دلالت کرتے ہیں.آپ فرماتی ہیں: مصلح موعود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے مستجاب الدعوات کے صحیح معنی مجھے معلوم نہ تھے.اس کے صحیح معنے مجھے اُس وقت معلوم ہوئے جب مستجاب الدعوات کا منظر میں نے اپنی آنکھوں.
67 دیکھا اور سنا.اس کی چند مثالیں عرض کرتی ہوں.پارٹیشن سے پہلے کے تمام حالات سب جانتے ہیں کہ وہ کیسا خطرناک دور تھا اور کن حالات سے ہمیں دو چار ہونا پڑا؟ حضرت مصلح موعود.ہاں وہ جانثار اسلام جو دنیا کے کونے کونے میں نہ صرف ضعف دین مصطفے صلی اللمار المسلم) دیکھ نہ سکتا تھا بلکہ ہر جگہ اس کا جھنڈا نصب کرنے کی فکر میں کوشاں رہتا تھا ، جس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا ،سونا جاگنا صرف اور صرف خدمت دین محمد کے لئے ہی وقف تھا، ہاں وہ غمگسار دین محمد ! ان دنوں شدید پریشانی کے عالم میں تھا.اسے دنیا کے مال و متاع کا غم نہ تھا ، سے بیوی بچوں کی پریشانی نہ تھی اسے غم تھا تو یہی کہ یہ بٹوارا ، کہیں اعلائے کلمتہ الحق میں روک نہ بن جائے تبلیغی راہیں مسدود نہ ہو جائیں ، گو کہ آپ کو یہ خوب علم تھا کہ جس راستہ پر آپ گامزن ہیں وہ راستہ خالصتہ اللہ تعالیٰ ہی کا ہے.لیکن آزمائشیں تو انبیاء پر بھی آتی رہتی ہیں.آپ دن رات دعاؤں میں لگے رہتے.بسا اوقات میں نے آپ کو گھنٹوں سجدہ ریز سسکیوں کی حالت میں دیکھا.آپ کو ان حالات کے متعلق بشارات بھی ملتی رہیں لیکن پھر بھی کرب اور فکر کی کیفیت ضرور تھی.صحت کے زمانہ میں آپ کا معمول تھا کہ تمام وقت دفتر میں تنہا اپنے کام میں مصروف رہتے.رات کو یا پھر کھانے کے اوقات میں گھروں میں آتے.پارٹیشن کے پریشانی کے دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک دن عصر کے وقت آپ میرے پاس آئے.آپ کی آنکھیں سرخ اور متورم تھیں ، آواز میں رقت تھی ،مگر اس پر پورا ضبط کئے ہوئے تھے.مجھے فرمانے لگے :- صبح عید ہے میں شاید آپ لوگوں کو عیدی دینی بھول جاؤں ، کام کی مصروفیت غیر معمولی ہے، اور مجھے موجودہ حالات کے متعلق شدید گھبراہٹ ہے، گو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری دعا کو سنا ہے اور اس کا یہ وعدہ ہے کہ أَيْنَمَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعاً، میں سجدہ کی حالت میں تھا جس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت ملی ہے اور مجھے اس پر پورا ایمان ہے لیکن پھر بھی دعا کی سخت ضرورت ہے.تم بھی درد سے دعائیں کرو اللہ تعالی تبلیغ کے راستے ہمیشہ کھلے رکھے ، میں نے آپ کا یہ الہام و بشارت نوٹ کر لیا اور اس کے پورا ہونے کی منتظر رہنے لگی.آج آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ وہ دعا اور پھر اس کا جواب جس میں بشارت تھی کس خوبی اور کس خوبصورتی سے پورا
68 ہوا؟ کس طرح قادیان سے نکلنے کے بعد پھر یہ ساری جمعیت ایک جھنڈے تلے جمع ہوئی اور پھر کس شان و شوکت سے اسلام کی تبلیغ چار دانگ عالم میں پہنچی.کس طرح زیادہ سے زیادہ حق کی تڑپ و جستجو رکھنے والے احمدیت کے اس دوسرے مرکز میں جوق در جوق پہنچے.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلَى ذَلِكَ.ایک اور واقعہ زمانہ قریب کا ہے جو اس مستجاب الدعوات کی شان نزول کا شاہد ہے.پارٹیشن کے بعد خاص مشکلات کا سامنا رہا.اسلام دشمنی کے سند یافتہ کب پیچھا چھوڑ سکتے تھے.محض اور محض احمدیت کی دشمنی کی بناء پر جب عزیز محترم میاں ناصر احمد صاحب (خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو قید کر لیا گیا آپ کا پریشان ہونا ایک قدرتی امر تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اس لحاظ سے ضرور مطمئن تھے کہ میرا بیٹا اور بھائی محض اس مجرم میں ماخوذ ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور دین محمدمصطفیٰ (صلی اللہادی او سلم ) کے علمبر دار ہیں.اور دین کے راستہ میں آزمائش بھی سنت نبوی ہے.گرمیوں کے دن تھے اور پھر ربوہ کی گرمی.عشاء کے وقت ہم حسب معمول صحن میں تھے.با وجود او پر کی منزل میں ہونے کے گرمی کی شدت میں کمی نہ تھی.رات کا کھانا ہم اکٹھے کھا رہے تھے.اس دوران میں آپ نے گرمی کی شدت اور اس سے بے چینی کا اظہار فرمایا.میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا.پتہ نہیں میاں ناصر (خلیفتہ امسح الثالث ) اور میاں صاحب کا اس گرمی میں کیا حال ہوگا ؟ خدا معلوم انہیں وہاں ( جیل میں ) کوئی سہولت بھی میسر ہے یا نہیں آپ نے جوا با فر مایا: - اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے وہ صرف اس مجرم پر ماخوذ ہیں کہ ان کا کوئی جرم نہیں.اس لئے مجھے اپنے خدا پر کامل یقین وایمان ہے کہ وہ جلد ہی ان پر فضل کرے گا.“ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ عشاء کی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے.گریہ وزاری کا وہ منظر میں بھول نہیں سکتی میں اس کیفیت کو قلم بند نہیں کر سکتی.جو اس وقت میری آنکھوں نے دیکھا.اس گریہ میں تڑپ اور بے قراری بھی تھی ، اس میں ایمان و یقین کامل کا بھی مظاہرہ تھا، اس میں ناز اور ناز برداری کی سی کیفیات بھی تھیں.یہی منظر پھر میں نے تہجد کے وقت دیکھا.اس وقت حضرت مصلح موعود دعائیں بلند آواز سے نہایت عجز اور رقت کے ساتھ مانگ رہے تھے.مجھے یوں لگتا تھا کہ ساری فضا اور آپ کے اس درد و کرب میں ڈوبے ہوئے نالہ و شیون نے مجھ میں ایک ایسا ایمان ویقین پیدا کر دیا کہ میں بر ملا کہنے لگی کہ یہ دعا رائیگاں انشاء اللہ نہیں جائے گی.اس
69 نے عرش کے پائے ہلا دیئے ہوں گے.ضرور ہی دن چڑھتے چڑھتے اللہ تعالیٰ نوید سنائے گا.آپ کی یہ دعارات کے سکوت میں اس قدر بلند تھی کہ میں سمجھتی تھی کہ یہ آواز ہمارے ارد گرد بچوں کے گھروں تک ضرور پہنچی ہوگی.چنانچہ جب دن چڑہا اور ڈاک کا وقت ہوا تو پہلا تار جو ملا وہ یہ خوشخبری لئے ہوئے تھا کہ حضرت میاں صاحب اور عزیز محترم میاں ناصر احمد صاحب رہا ہو چکے ہیں.کتنی جلدی میرے خدا نے مجھے قبولیت دعا کا معجزہ دکھایا الْحَمْدُ لِلَّهِ - نادان دشمن اپنا یہ حربہ استعمال کر کے خوش تھا کہ وہ آپ کی عزت پر اس طور سے حرف گیر تو ہوا.لیکن منصور رحمتہ اللہ علیہ نے اَنَا الْحَق کے جرم میں دار پر چڑھ کر وہ رتبہ پایا کہ دشمن ہمیشہ کے لئے خائب و خاسر ہو کر رہ گیا.الفضل فضل عمر نمبر ۲۶ مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ا - ب ) اللہ تعالی کی طرف سے آپکے مقام ومرتبہ کی کی مخلصین کوخبر دی گئی محترم سردار عبد الحق شاکر صاحب اپنا ایک کشفی نظارہ بیان کرتے ہیں :- ۱۹۴۷ء کے آخری چار مہینے بڑے خطرے کے مہینے تھے، ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے مخالفت زوروں پر تھی اور قادیان کی مقدس بستی پر حملہ آور ہونے کی تیاریاں ہو رہی تھیں.ایک رات اور آور.۱۲ بجے کے قریب سیدنا حضرت امصلح الموعود کی طرف سے تمام محلہ جات کے صدر صاحبان کو پیغام موصول ہوا کہ چونکہ ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے خطرہ بڑھ گیا ہے لہذا تمام عورتیں اور بچے تیار رہیں تا کہ صبح ہوتے ہی انہیں کسی محفوظ جگہ پر پہنچا دیا جائے.ہماری رہائش ان دنوں محلہ ناصر آباد متصل بہشتی مقبرہ میں تھی.حضور کی طرف سے جب مذکورہ بالا پیغام موصول ہوا تو میرا دل بہت ہی بیقرار اور بے چین ہو گیا.رات سخت گھبراہٹ اور فکر میں گذری اور اس فکر میں میری نیند بھی اُڑ گئی.اس گھبراہٹ اور بے چینی کے عالم میں میں نے ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ :- ایک بہت وسیع اور اونچا پہاڑ ہے اس پہاڑ پر قادیان آباد ہے.اس پہاڑ پر نیچے سے لیکر اس کی چوٹی تک سونے کے یعنی سنہری مکان بنے ہوئے ہیں.اس پہاڑ کی وسطی چوٹی پر ایک بلند اور عالیشان مکان ہے اس مکان کے اوپر سید نا حضرت المصلح الموعود کعبہ کی طرف اپنا منہ کر کے کھڑے ہیں میں اس نظارہ کو بڑے غور اور توجہ سے دیکھ رہا ہوں اور اسی دوران میں نے دیکھا کہ میرے پاس سفید لباس پہنے ہوئے ایک شخص کھڑا ہے اور یہ شخص مجھے مخاطب ہو کر کہتا ہے:.
70 گھبرانے کی ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ اپنے اس محمود کو دشمنوں کے منصوبوں سے قبل از وقت اطلاع کر دیتا ہے.“ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس خوشخبری کے ملتے ہی میری تمام گھبراہٹیں اور پریشانیاں یکسر دور ہو گئیں اور قادیان کی گلیوں اور محلوں میں بے خوف و خطر پھرتے رہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا ہی فضل واحسان ہے کہ اس نے قادیان دار الامان کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھا اور قادیان کے مردوں ، عورتوں اور بچوں کو اپنی حفاظت میں لاہور پہنچا دیا.ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں :- میں ۱۹۳۵ء کی مجلس مشاورت پر انجمن احمد یہ شاہ مسکین کی طرف سے بطور نمائندہ منتخب ہوا.اس وقت میری عمر تقریباً ۲۳-۲۴ سال ہوگی.لہذا بغرضِ شمولیت مجلس شوری قادیان پہنچ گیا.مجھے سٹیج کے قریب ہی بیٹھنے کا موقع مل گیا.اس شوری میں حسب الارشاد حضرت مصلح موعود شیخ کے اوپر ایک تختہ بورڈ لگوایا گیا.ہم الارشاد حیران تھے کہ مجلس مشاورت اور پھر تختہ بورڈ کا لگوایا جانا.جس کی سمجھ نہیں آ رہی تھی.اپنی تقریر کے دوران میرے آقا حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن کریم سے سورۃ نجم کی ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائی.اور پھر ان آیات کریمہ سے اپنے پیارے آقا حضرت اقدس رسول کریم صلی المهدی الو سلم کی ارفع و اعلیٰ شان کے بارے میں نہایت عارفانہ تقریر فرمائی.اور اپنے آقاصلی للمدیر الدیلم کی بلند شان کا ذکر کرتے ہوئے تختہ بورڈ پر نقشہ بنا کر دکھایا.اس تقریر کے دوران میں نے اپنی ان مادی آنکھوں سے دیکھا کہ میرے آقا حضرت لمصلح الموعود کے جسم مبارک سے نور کی شعائیں پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہیں.حتی کہ آپ کا وجود مبارک اس نور میں ہی چھپ گیا.اور مجسم نور بن گیا.اب تک یہ نورانی نظارہ میری آنکھوں کے سامنے نظر آتا دکھائی دیتا ہے اور خدا تعالیٰ نے جو یہ فرمایا تھا کہ : - بالکل درست نکلا ہے.نور آتا ہے نور ( غیر مطبوعہ ریکار ڈ فضل عمر فاؤنڈیشن ) مکرم میاں محمد مراد صاحب پنڈی بھٹیاں لکھتے ہیں :- جس دن حضرت خلیفہ المسیح الثانی خلیفہ بنے.اس دن مجھے یہ کشف دکھایا
71 گیا کہ حضرت خلیفہ اول وفات پاگئے ہیں اور حضرت مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ ہو گئے ہیں حالانکہ اس وقت مجھے قطعاً اس بات کا علم نہ تھا.اسی دن میں واپس پنڈی بھٹیاں کے قریب پہنچا تو مجھے ایک شخص ملا جس کو علم تھا کہ میں آٹھ دن سے باہر گیا ہوا تھا.انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو پتہ ہے میں نے کہا ہاں.اس نے کہا کس بات کا ؟ میں نے کہا کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات ہو گئی ہے اور حضرت مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ مقرر ہو گئے ہیں.انہوں نے پھر پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا.سو میں نے عرض کیا کہ آج صبح کی نماز سے پہلے مجھے جاگتے ہوئے کشف ہوا اور یہ نظارہ گویا میری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے.واپس آکر میں نے بیعت کا خط لکھ دیا تب گھر گیا.روایت از میاں محمد مراد.پنڈی بھٹیاں حال حافظ آباد.۱۶.جنوری ۱۹۶۸ء) جب شیخ عبد القادر صاحب سابق سود اگر مل قادیان جا کر احمدیت میں داخل ہوئے اور جامعہ احمدیہ میں تعلیم پا نا شروع کی اس وقت کے بعد جب بھی خاکسار نے حضرت اقدس سے ملاقات کی تو حضور مجھے پوچھتے تھے کہ کیا شیخ عبدالقادر صاحب اپنے رشتہ داروں کو ملتے ہیں.( روایت از میاں محمد مراد.پنڈی بھٹیاں ۱۴.جنوری ۱۹۶۸ء) لکھتے ہیں :- مکرم مولوی عبدالرحمان صاحب انور پر بھی آپ کا مقام اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھولا گیا وہ غالباً ۳۶ - ۱۹۳۷ء کی بات ہے خاکسار نے خواب میں دیکھا کہ خاکسار مسجد مبارک کی ان سیڑھیوں پر کھڑا ہے جو احمد یہ چوک میں اترتی ہیں.دیکھا کہ حضور نیچے سے تشریف لاتے ہیں اور ان سیٹرھیوں پر چڑھنے کے لئے ادھر تشریف لا رہے ہیں.میں نے دور سے حضور کی طرف دیکھا تو حضور کے چہرہ کے گرد ایک نور کا ہالہ ہے جس طرح کہ ہندو اپنے اوتاروں کی تصاویر کے گرد بناتے ہیں.اس نظارہ کو دیکھ کر حضور کی بلندی مقام کا اندازہ کر کے طبیعت پر خاص اثر ہوا.دل میں احترام تو پہلے بھی تھا لیکن اس نظارہ کے بعد اس میں گراں قدر اضافہ ہوا جس کی تصدیق حضور کے اعلان مصداق مصلح موعود ہونے پر ہوگئی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ.( ریکارڈفضل عمر فاؤنڈیشن )
72 حکیم محمد موصیل صدر جماعت محمد آباد لکھتے ہیں :- حضور کی سندھ میں تشریف آوری کی وجہ سے لوگوں نے احمدیوں کی مخالفت کی.میری پھوپھی زاد بہن جو کہ احمدی تھی اس کا ۸/۷ سال کا لڑ کا نورالدین فضلا ئی کو سکول کے بچوں نے گالیاں دیں دوسرے دن میں ان کو حضور کی خدمت میں لے گیا.اور واقعات سنائے اور عرض کیا حضور! اس بچے کے لئے دعا فرمائیں کہ احمدی ہو.پھر خدا کے فضل سے بڑا ہو کر احمدی ہوا حالانکہ ان کے والد صاحب نے اب تک بیعت نہیں کی.اس بچے نے حضور کی تشریف آوری سے ایک رات پہلے رویا میں دیکھا تھا کہ میں بازار کے چوک میں کھڑا ہوں.دیکھا کہ ایک شخص شیر پر سوار ہے اور اس کے پیچھے بہت لوگ آ رہے ہیں.میں نے ان سے پوچھا یہ کون ہے ایک نے کہا یہ مرزا محمود احمد ہے.میں نے ان سے پھر دریافت کیا کہ یہ کیسا آدمی ہے.تو کہا آج کی دنیا میں سب سے بڑا ولی اللہ ہے.میں نے عرض کیا کہ آپ اب تو بیعت کریں گے فرمایا ہاں انشاء اللہ بیعت کرونگا.مگر افسوس کہ لوگوں کی مخالفت دیکھ کر بیعت نہیں کی اور ڈر گیا اب تو یہ کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کے برگزیدہ ہیں لیکن بیعت نہیں کی.“ ( ریکارڈ فضل عمر فاؤنڈیشن ) ایک ایمان افزا نظارہ نواب اکبر یار جنگ بیان کرتے ہیں:.(۱۹۱۶ ء موسم گرما کی تعطیلات میں ).حضرت مصلح موعود مسجد مبارک کی چھت پر بعد نماز مغرب امامت کے مصلی پر ہم لوگوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے تھے اور کئی لوگ حضور کے ہاتھ اور پاؤں داب رہے تھے میں آپ کے سامنے کچھ فاصلہ پر خاموش بیٹھا رہا آپ بھی آنکھیں نیچی کئے ہوئے خاموش بیٹھے رہے.میں کھلی آنکھوں سے سامنے بیٹھا ہوا آپ کو دیکھ رہا تھا.نہ میں نے کوئی مراقبہ کیا تھا.نہ گردن جھکائی تھی کہ دفعتہ میں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مصلح موعود خلیفتہ اسیح الثانی کی پشت پر نمودار ہوئے اور میرے دیکھتے دیکھتے حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے اندر اس طرح سما گئے جس طرح کوئی ہتھیارا اپنے نیام میں سما جاتا ہے.جس وقت میں نے یہ نظارہ دیکھا اس وقت میں اپنے دل میں خیال کر رہا تھا کہ حضرت
73 خلیفة المسیح الثانی بالکل نوعمر ہیں ابھی علم و تجربہ، ذاتی وجاہت اور وقار بھی اتنا حاصل نہیں ہوا جو خلافت جیسے اہم ترین مقام کے لئے موزوں ہو جماعت کا کام اور احمدیت کی اشاعت اور تبلیغ بڑا اہم اور مشکل کام ہے اور تجربہ کار لوگ آپ سے علیحدہ ہو چکے ہیں یہ اتنا بڑا کام آپ کیونکر سنبھال سکیں گے اور کیونکر یہ چل سکے گا.......اس نظارہ کے ذریعہ سے میرے دل میں یہ اذعان پیدا کیا گیا کہ گویا اپنی جماعت کا کام خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی انجام دے رہے ہیں.بیان نواب اکبر یار جنگ بہادر.الفضل جوبلی نمبر صفحه ۱۴) عبادات اور دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسی کیفیت عطا فرماتا ہے کہ پھر کچھ مانگنے اور دعا کرنے سے انسان بچتا ہے اور رضا بالقضاء کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو جاتا ہے.حضرت مصلح موعود کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا ایسا کریمانہ سلوک تھا کہ جو آپ نے مانگا اس سے بڑھ کر عطا فرمایا حضور فرماتے ہیں:- و مجھے اپنی زندگی میں ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی ایک بات پر ( مگر یہ ابتدائی مقام کی بات تھی اور اعلیٰ مقام ہمیشہ ابتدائی منازل کو طے کرنے کے بعد ملتا ہے اور ابتدائی مقام یہی ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے میں نے خدا سے مانگنا ہے ) کہ میں نے بھی خدا سے کچھ مانگا اور اپنے خیال میں انتہائی درجہ کا مانگا مگر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی بیوقوفی پر اور ہمیشہ لطف آتا ہے خدا تعالیٰ کے انتقام پر کہ جو کچھ ساری عمر کے لئے میں نے مانگا تھا وہ بعض دفعہ اس نے مجھے ایک ہفتہ میں دے دیا.میں زمین پر شرمندہ ہوں کہ میں نے حماقت کیا کی اور اُس سے کیا مانگا اور وہ آسمان پر ہنستا ہے کہ اس کو ہم نے کیسا بدلہ دیا اور کیسا نادم اور شرمندہ کیا پھر میں نے سمجھا کہ مانگنا بھی فضول ہے کیوں نہ ہم اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کریں کہ وہ ہمیں بے مانگے ہی دیتا چلا جائے....(الفضل ۶.اکتوبر ۱۹۴۹ صفحه ۴ کالم نمبر۴) ایسا ہی ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں :- حقیقت یہ ہے کہ جو شخص خدا کے لئے قربانی کرتا ہے خدا خود اس کا مددگار ہو جاتا ہے.آخر ہمارے وقف کے دو ہی نتیجے ہو سکتے ہیں یا تو ہمیں ملے یا نہ ملے.میں ہمارے کا لفظ اس لئے کہتا ہوں کہ میں بھی جوانی سے دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں اور میں جب دین کی خدمت کے لئے آیا تھا اس وقت میں 66
نے خدا تعالیٰ سے یا خدا تعالیٰ کے نمائندوں سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ میں اور میرے بیوی بچے کہاں سے کھا ئیں گے مگر اب تم میں سے کئی لوگوں کو یہ نظر آتا ہے کہ میرے پاس روپیہ بھی ہے اور میں کھاتا پیتا بھی با فراغت ہوں مگر سوال یہ ہے کہ میں نے تو کوئی شرط نہیں کی تھی جو کچھ خدا نے مجھے دیا یہ اس کا احسان ہے میرا حق نہیں کہ میں اس کی کسی نعمت کو رد کروں لیکن جب میں آیا تھا اس وقت میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پہلے میرے اور میرے بیوی بچوں کے گزارہ کی کوئی صورت پیدا کی جائے اس کے بعد میں اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کروں گا.یہ خدا کا سلوک ہے جس میں کسی بندے کا کوئی اختیار نہیں.“ الفضل ۶ - اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحه ۳) جماعت میں ہزاروں افراد ایسے ہیں جنہیں حضور نے باتوں باتوں میں آئندہ کے متعلق کوئی بات کہی اور خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ وہ بات اسی طرح پوری ہوئی.مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ :- حضور نے اس عاجز کی پیدائش سے قبل بتا دیا تھا کہ لڑکا ہوگا اور یہ بھی کہ کل سات لڑکے ہونگے پھر حضور نے مکرم میر سید مسعود احمد صاحب سے ”المنجد ( عربی لغت ) منگوا کر سات نام رکھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم سات بھائی ہوئے.چار بھائیوں کے بعد حضرت اماں جان ( اللہ تعالی آ سے راضی ہو ) نے فرمایا : ”میاں بھائیوں کے ساتھ بہنیں اچھی لگتی ہیں دعا کریں بچی ہو ، پھر میری بہن امتہ اللطیف پیدا ہوئیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے پیار کے جلووں اور فضلوں کے نظاروں سے ایمان وایقان میں جو اضافہ ہوتا ہے اور تو کل وقرب کی سعادت ملتی ہے.اس کی وجہ سے خدا کے بندے دُنیوی مشکلات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس یقین سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں کہ ہماری کامیابی یقینی ہے.حضور کے بعض ایمان افروز بیانات جو تو کل اور یقین کے مظہر ہیں درج ذیل ہیں :- وو جو قلبی کیفیت میری ہے اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا ، اگر مجھے خدا تعالیٰ پر یقین نہ ہوتا ، اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیاں نہ ہوتیں اور میں نے ان کے نتائج نہ دیکھے ہوتے تو جو مشکلات اور مصائب مجھے نظر آتے ہیں اور جن نتائج پر میں پہنچا ہوں ان کی وجہ سے آج سے بہت عرصہ پہلے میں پاگل ہو چکا
75 ہوتا.لیکن وہ مشکلات اگر چہ ہمارے لئے بڑی ہیں لیکن اگر ہم خدا کی رضاء کو حاصل کرلیں اور اس کے قوانین کی پابندی کریں تو وہ خدا کے لئے بڑی نہیں اور ان کا دور کر دینا اس کے لئے مشکل نہیں.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء صفحه ۵ ) ” مجھے انسانوں کے خیالات کی پرواہ نہیں خدا تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھے کامیاب کرے گا پس میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ماتحت کامیاب ہوں گا اور میرا دشمن مجھ پر غالب نہ آسکے گا.مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی پوشیدہ در پوشیدہ حکمتوں کے ماتحت جن کو میں خود بھی نہیں سمجھتا ایک پہاڑ بنایا ہے پس وہ جو مجھ سے ٹکراتا ہے اپنا سر پھوڑتا ہے.میں نالائق ہوں اس سے مجھے انکار نہیں ، میں کم علم ہوں اس سے میں نا واقف نہیں ، میں گنہگار ہوں اس کا مجھے اقرار ہے، میں کمزور ہوں اس کو میں مانتا ہوں لیکن میں کیا کروں کہ میرے خلیفہ بنانے میں خدا تعالیٰ نے مجھ سے نہیں پوچھا اور نہ وہ اپنے کاموں میں میرے مشورہ کا محتاج ہے.میں اپنے ضعف کو دیکھ کر خود حیران ہو جاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کیوں چنا.اور میں اپنے نفس کے اندر ایک بھی خوبی ایسی نہیں پاتا جس کی وجہ سے میں اللہ تعالیٰ کے احسان کا مستحق سمجھا گیا مگر باوجود اس کے اس میں کوئی شک نہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس کام پر مقرر فرما دیا ہے اور وہ میری ان را ہوں سے مدد فرماتا ہے جو میرے ذہن میں بھی نہیں ہوتیں.جب گل اسباب میرے بر خلاف تھے، جب جماعت کے بڑے بڑے لوگ میرے خلاف اعلان کر رہے تھے اور جن کو لوگ بڑا خیال کرتے تھے وہ سب میرے گرانے کے درپے تھے اس وقت میں حیران تھا لیکن سب کچھ میرا رب آپ کر رہا تھا اس نے مجھے اطلاعیں دیں اور وہ اپنے وقت پر پوری ہوئیں اور میرے دل کو تسلی دینے کے لئے نشان پر نشان دکھایا اور امور غیبیہ سے مجھے اطلاع دے کر اس بات کو پایہ ثبوت کو پہنچایا کہ جس کام پر میں کھڑا کیا گیا ہوں وہ اس کی طرف سے ہے.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۳۱۳-۳۱۴.ایڈیشن دوم ) اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں کوکوئی مٹانہیں سکتا ہم اگر جماعت کو بیدار کرتے ہیں تو افراد کے لحاظ سے ہم کہتے ہیں.جماعت کو تو بہر حال اللہ تعالیٰ
76 بچائے گا ڈر ہے تو یہ کہ تم انفرادی طور پر کہیں قید نہ ہو جاؤ اور تم میں سے کوئی کمزوری نہ دکھا جائے.ہم بحیثیت جماعت کسی کے مٹانے سے مٹ نہیں سکتے چاہے ہمیں مٹانے کے لئے بادشاہ آجائیں ، حکومتیں آجائیں یا ساری دنیا ہمیں مثانے کے لئے آمادہ ہو جائے.خدا تعالیٰ پیشتر اس کے کہ وہ اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہوں ان کی قوتیں سلب کر لے گا ، ان کے باز وجو ہم پر اُٹھیں گے مفلوج ہو جائیں گے.ان کے تیرا اور تو ہیں خود اپنی فوج پر پڑیں گے.گورنمنٹ جب ہماری جماعت کی مخالفت کرتی تھی تو میں نے گورنمنٹ سے اس وقت بھی یہ کہا تھا کہ میرے پاس بے شک تو ہیں نہیں ہیں لیکن میرے قادر خدا کے پاس تو ہیں ہیں اور وہ ایسے اسباب پیدا کر دے گا کہ دنیا میں ہی تمہارے دشمن پیدا ہو جائیں اور تمہاری تو پوں کا مقابلہ تو یوں ہی سے کریں.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ انگریز جو کسی دوسری حکومت کو پر پشر سے بھی زیادہ نہ سمجھتا تھا کئی مورچوں پر سخت ہزیمت اٹھا کر بھاگا.پس ہماری سپر ہمارا خدا ہے، ہماری پشت پناہ ہمارا خدا ہے، ہماری ناؤ کا ناخدا خدا ہے، ہم طوفانوں کی موجوں سے کیوں ڈریں گے.وہ خدا جس نے اُحد کی جنگ میں جبکہ بظاہر مسلمانوں کے بچنے کی کوئی امید نہ تھی مسلمانوں کی نصرت فرمائی ، وہ خدا جس نے کشتی اسلام کو آج تک ہر بھنور سے بچائے رکھا وہ اب بھی زندہ خدا ہے.وہ خود فرمایا: - ہی ہماری حفاظت کرے گا اور ہمیں مٹانے والے خود مٹ جائیں گے.“ ( الفضل ۲۱.جون ۱۹۴۷ء صفحه ۵ ) دو یہ سلسلہ خدا کا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر میں مرجاؤ نگا تو خدا تعالیٰ مجھے سے بہتر آدمی کھڑا کر دے جو اس کو چلائے گا.جب تک آسمان کا فیصلہ زمین پر صادر نہیں ہوتا یہ سلسلہ کمزور نہیں ہوسکتا.پس یہ لوگ یہ خیال نہ کر لیں کہ چلو اس خلیفہ کو ٹرخاتے جاؤ دوسرے سے ہم بچ جائیں گے یہ یا درکھو جو حالات خلافت اولیٰ میں پیدا ہوئے تھے وہ یہاں پیدا نہیں ہونگے.رسول کریم صلی اللہ و او سلم کے وقت میں تو بادشاہت فورا مل گئی تھی لیکن ہمیں نہیں ملی مگر وہاں تنظیم بگڑ گئی تھی یہاں تنظیم نہیں
77 بگڑے گی.‘ (خطبہ جمعہ ۱۶.دسمبر ۱۹۴۹ء مطبوعه الفضل ۲۲.فروری۱۹۵۰ء) اور ابھی ہمیں یہ تکلیفیں کیا آئی ہیں.بہت سے ابتلاء ہیں جو آنے والے ہیں شیطان تو ایک بڑی فتنہ پرداز ہستی ہے ایک چھوٹے بچے سے بھی اگر کوئی ایسی چیز لینی ہو جسے وہ نہ دینا چاہتا ہو تو وہ بھی اپنا حق چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.ایک چور سے اپنا مال واپس لینے کے لئے لڑنا پڑتا ہے.پس جب ہم شیطان سے وہ بادشاہت لینی چاہتے ہیں جو ہم سے چھین کر وہ لے گیا ہے تو اس کا واپس لینا بھی کوئی آسان کام نہیں بلکہ شیطان اس کے لئے لڑے گا اور دم تو ڑ کر لڑے گا اور پورا زور لگائے گا کہ یہ چیز اس کے قبضہ سے نہ نکلے.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو مشکلات کے مقابلہ کے لئے تیار رہنا چاہئے اور گھبرانا نہیں چاہئے.مشکلات چیز ہی کیا ہیں یہ تو مومن کے ایمان کو بڑھاتی اور اسے تقویت پہنچاتی ہیں.نہ کہ ہمت کو پست کرتی اور کمزور بناتی ہیں.......ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ ہر مصیبت پر بجائے گھبرانے کے یہ یقین اور ایمان رکھیں کہ اب خدا کی نصرت بھی قریب آ رہی ہے.اگر ہم مومن ہیں اور واقعی مومن ہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا کی طرف سے ہیں اور واقعی خدا کی طرف سے ہیں تو ہمیں اس بات پر بھی یقین رکھنا چاہیئے کہ ہر مصیبت جو ہم پر آئے ہماری ترقی کا موجب ہے تنزل کا موجب نہیں....الفضل ۱۱.جون ۱۹۳۱ ء صفحہ ۸۷ ) میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ میں بیت الدعا میں بیٹھا دعا کر رہا ہوں کہ یکدم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ اس امت میں کئی ابراہیم ہوئے ہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بتایا گیا کہ آپ بھی ابراھیم ہیں حضرت خلیفہ اول کے متعلق بتایا گیا کہ آپ بھی ابراھیم ہیں اور مجھے اپنے متعلق بتایا گیا کہ ایک ابراھیم میں بھی ہوں.مکہ کی بنیاد ابراھیم اول کے ہاتھ سے رکھی گئی تھی اور مدینہ کی بنیاد ابراھیم اعلیٰ کے ہاتھ سے رکھی گئی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانہ میں بچنا اور قادیان کی تکمیل کا کام آپ کے سپرد کیا چنانچہ وہ
78 مقام جسے کوئی شہرت حاصل نہ تھی ، کوئی عزت حاصل نہ تھی، کوئی دبدبہ اور رعب حاصل نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اسے آپ کی برکت سے ایسی ترقی بخشی کہ آج دشمن تک حیرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ترقی حیرت انگیز ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے چونکہ مجھے بھی ابراهیم قرار دیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ سے شہر سے باہر کی نئی آبادی کی بنیا د رکھوا دی بے شک جہاں تک قادیان کی شہرت اور اس کی عظمت کا سوال ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی قادیان کو یہ برکت حاصل ہو چکی تھی مگر جہاں تک شہر سے باہر نئی آبادی کا سوال ہے یہ سب کی سب آبادی میرے زمانہ میں ہوئی ہے.یہ دار الفضل اور دار الرحمت اور دار البرکات شرقی اور دار البرکات غربی، دارالشکر دار الیسر، دار الفتوح، دارالا نوار سب کے سب وہ محلے ہیں جو میرے زمانہ میں آباد ہوئے.یہی وجہ ہے کہ فرشتہ نے مجھے کہا کہ ایک ابراھیم تم بھی ہو.“ الفضل ۸ - جون ۱۹۴۵ء صفحه ۳۴۲) اور آج ربوہ کی نئی بستی جس کی بنیا د حضرت مصلح موعود کے ہاتھ سے رکھی گئی شہادت دے رہی ہے کہ آپ ابراھیم ہیں آپ نے ابراھیمی دعاؤں کے ساتھ اس کی بنیاد رکھی.فَالْحَمْدُ لِلهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِله.دعاؤں کی قبولیت میں بھی قرب الہی اور تعلق پاللہ کا ایک درخشاں نشان ہے.مکرم خواجہ غلام نبی صاحب لمبا عرصہ روزنامہ الفضل کے مدیر ہے اور انہیں یہ شرف حاصل تھا کہ انہوں نے مضمون نویسی کی ابتدائی تربیت حضرت فضل عمر سے حاصل کی اور حضور کی اکثر ابتدائی تقاریر ان کی محنت ولگن سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئیں.آپ حضور کی قبولیت دعا کا ایک روشن نشان بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :- ۳۱.دسمبر ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے میرا نکاح پڑھا جس کا حضور نے خود ہی انتظام فرمایا تھا اس کے بعد کئی سال تک اولاد نہ ہوئی اور نہ ہی کبھی میں نے اس کے لئے دعا کی درخواست کی.اس خیال سے کہ حضور کو معلوم ہی ہے حتی کہ ۱۹۲۲ء میں حضور کا ایک مکتوب اخبار میں اشاعت کے لئے ملا جس میں درخواست دعا نہ کرنے کے متعلق چند باتیں درج تھیں.مثلاً یہ کہ :- انسان کو دعا پر مخفی طور پر یقین نہیں ہوتا وہ خود تو بعض دفعہ دعا کر لیتا ہے مگر دوسرے سے کہتے
79 ہوئے ابی کرتا ہے.کبھی انسان دوسرے سے دعا کی تحریک کرتے ہوئے اس لئے رکتا ہے کہ اس کے دل میں مخفی تکبر ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس طرح میری ہتک ہو جائے گی.گو ظاہر میں محسوس نہ ہو مگر مخفی تکبر ضرور ہوتا ہے.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان جس شخص سے دعا کرانا چاہتا ہے اس کے متعلق شیطان اسے دھوکا دے دیتا ہے کہ میرے پاس اس سے دعا کرانے کا ذریعہ نہیں ہے.میں ایسا مقبول نہیں ہوں کہ میرے لئے کوئی دعا کرے.یا یہ کہ میں اس کے وقت کو کیوں ضائع کروں میری تو معمولی ضروریات ہیں اور اس کا وقت قیمتی ہے ایسے وساوس سے بھی انسان محروم رہ جاتا ہے.ایک اور باعث بھی ہوتا ہے اور اس میں انسان کا دخل نہیں ہوتا.وہ یہ کہ شامت اعمال کی وجہ سے جب اللہ تعالیٰ اس کو فوائد سے محروم رکھنا چاہتا ہے.تو وہ اس ذریعہ سے اس شخص کی توجہ کو پھیر دیتا ہے.جس سے وہ اپنے مطلب کو حاصل کر سکتا ہے.اگر پہلے بیان کردہ امور میں سے کوئی وجہ نہیں تو آخری ضرور ہے.“ یہ خط ( جو ۲۲ مئی ۱۹۲۲ء کے الفضل“ میں شائع کیا گیا پڑھتے ہی مجھے خیال آیا کہ ان شقوں میں سے کسی نہ کسی کے نیچے میں ضرور آتا ہوں اور اسی وقت میں نے اولاد کے لئے درخواست دعا لکھ کر حضور کی خدمت میں پیش کی.اس کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بالکل غیر معمولی طور پر ایسی علامات ظہور پذیر ہونے لگیں جن کے صادق ہونے کا یقین نہ آتا تھا اور آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ۲۳.جولائی ۱۹۲۳ء کو شادی سے ساڑھے آٹھ سال بعد لڑ کی عطا فرمائی.اس کی ولادت کی اطلاع جب میں نے حضور کو دی اور نام تجویز کرنے کی درخواست کی تو حضور نے کنیز احمد نام تجویز کر کے تحریر فرمایا.اللہ تعالیٰ مبارک کرے اور آئندہ فضلوں کا پیش خیمہ بنائے.“ اس دعا نے گویا میرے لئے خدا تعالیٰ کے مزید فضلوں کا دروازہ کھول دیا.اور دینی و دنیوی لحاظ سے میں نے اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے اس قدرا فضال دیکھے اور دیکھ رہا ہوں.جن کا شمار بھی مشکل ہے.یہ حضرت (خلیفہ المسیح الثانی ) کی قبولیت دعا کا ایک کرشمہ ہے جو مجھ سے متعلق ہے.الفضل ۲۸.دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۵۳) جماعت میں اس قسم کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ احباب جماعت نے نہایت مشکل اور اضطراب کی حالت میں حضور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا اور حضور کی خدمت میں درخواست پہنچنے
80 سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوا اور مشکلات دُور ہو گئیں.مکرم محمد رفیع صاحب سب انسپکٹر سندھ جنہیں لمبا عرصہ بطور امیر جماعت خدمات بجالانے کا شرف حاصل ہوا وہ قبولیت دعا کے متعلق اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست پہنچنے سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوا اور جاں بلب بچہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے صحت یاب ہو گیا.آپ لکھتے ہیں کہ : - ۱۹۳۰ء میں میرالڑ کا خونی اسہال سے سخت بیمار ہو گیا.ڈاکٹر اور حکیم علاج سے عاجز آگئے.اور بچہ چند گھڑیوں کا مہمان نظر آنے لگا.بچہ کی حالت نازک دیکھ کر میں نے حضرت (خلیفتہ المسیح الثانی) کی خدمت میں دعا کے لئے تار دیا.تار کا دینا تھا کہ خدا کے فضل سے بچہ کو صحت ہونی شروع ہو گئی اور تھوڑے ہی دنوں میں وہ اچھا ہو گیا.“ الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۵۲) مکرم غلام حسین صاحب بی.ای.ایس پینشنز نے قبولیت دعا اور تعلق باللہ کا عجیب نظارہ دیکھا.قرب و محبت کے اس نظارہ کو بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :- میں اپنے مشاہدات کی بناء پر جو ایک نہیں بلکہ کئی ہیں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے اکثر حالات جوا بھی سر بستہ راز ہوتے ہیں حضور پر کھولے جاتے ہیں ابھی چندروز کا واقعہ ہے کہ میں نے پچیس روپے حضور کی نذر کرنے چاہے مگر حضور سندھ تشریف لے گئے میں بیمار اور صاحب فراش.میں نے وہ رو پیدا لگ کر کے بطور امانت رکھ دیا.تاکہ اور روپے کے ساتھ خرچ نہ ہو جائے.اچانک محاسب صاحب کی استفساری پیٹھی پہنچی کہ حضور نے سندھ سے بذریعہ فون دریافت فرمایا ہے کہ آیا میں نے کوئی روپیہ حضور کی امانت فنڈ میں جمع کرایا ہے.میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ یہ نذراس مالک حقیقی کے حضور قبول ہو گئی.الفضل ۲۸.دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۱ ) حضرت برکت علی خانصاحب جماعت شملہ کے امیر اور معزز سرکاری عہدہ پر فائز تھے.آپ کو اہم جماعتی خدمات کی توفیق ملی اور حضور نے متعدد مرتبہ ان کے کام کی تعریف فرمائی.وہ غیر معمولی بلکہ مخالفانہ حالات میں ملازمت میں ترقی حاصل کرنے کا روح پرور واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :-
81 وو میں ڈائریکٹر جنرل صاحب انڈین میڈیکل سروس شملہ کے دفتر میں ملازم تھا.۱۹۲۸ء کا واقعہ ہے.جب میں ابھی ملازمت میں ہی تھا کہ حضرت (خلیفتہ المسیح الثانی) نے درس قرآن شریف کا اعلان فرمایا اور میں بھی استفادہ کی غرض سے رخصت لے کر آ گیا اور درس میں شامل ہوا.چونکہ میری عمر ۵۵ سال سے تجاوز کر چکی تھی اور میں ملازمت کی حد بھی پوری کر چکا تھا اس لئے میں نے اپنے دفتر کے چیف سپرنٹنڈنٹ سے جو ایک انگریز تھا زبانی کہہ دیا کہ میرا اب واپس آنے کا ارادہ نہیں اور رخصت ختم ہونے پر میں پنشن کی درخواست کر دوں گا.درس ختم ہونے پر میں نے حضور کی خدمت میں اپنے پینشن کے ارادہ کا اظہار کیا تو حضور نے فرمایا کہ ابھی اور ملازمت نہیں کر سکتے.میں نے عرض کیا کر سکتا ہوں فرمایا پھر ا بھی واپس جاؤ اور جتنی اور ملازمت ہو سکتی ہے کرو.میں نے اسی وقت چیف سپر نٹنڈنٹ صاحب کو لکھ دیا کہ میں واپس آ رہا ہوں.اس اثناء میں گورنمنٹ کی طرف سے گریڈ میں اضافہ منظور ہو گیا تھا اور سینیئر ہونے کی وجہ سے میرا ترقی کا حق تھا مگر جب میں واپس گیا تو چیف سپرنٹنڈنٹ صاحب نے کہا کہ تمہارے لئے ترقی کی سفارش نہیں ہو سکتی کیونکہ اول تو تم رخصت پر جاتے ہوئے کہہ گئے تھے کہ تم پنشن لے لو گے.دوسرے چونکہ تمہاری عمر ۵۵ سال سے زیادہ ہو چکی ہے تم ترقی سے پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.سوم جب تمہاری عمر اور ملازمت دونوں کی معمولی حد گزر چکی ہے تو اب ترقی کا فائدہ کسی دوسرے کم عمر والے کو ملنا چاہئے.میں نے بہتیرا کہا کہ جن حالات میں میں گیا تھا وہ بدل گئے ہیں اس لئے میں واپس آ گیا ہوں اور گو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے میں پورا فائدہ ترقی سے حاصل نہیں کر سکتا مگر جو میرا حق ہے وہ مجھے ملنا چاہئے لیکن وہ نہ مانے اور انہوں نے مجھ سے نیچے کے ایک دوسرے آدمی کی سفارش کر دی.میرے لئے یہ مشکل تھی کہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل صاحب جن کے ہاتھ میں عملہ کے اس قسم کے جملہ معاملات تھے وہ رخصت پر تھے اور ان کی جگہ جو افسر عارضی طور پر کام کر رہا تھا وہ مجھے جانتا نہیں تھا.علاوہ اس کے ہماری برانچ کے جو افسر اعلیٰ تھے یعنی پبلک ہیلتھ کمشنر صاحب گورنمنٹ انڈیا وہ بھی رخصت پر
82 گئے ہوئے تھے اور نئے صاحب سے نہ تو مجھے ذاتی طور پر زیادہ ملاقات کا موقع ملا تھا اور نہ وہ میرے کام سے پوری طرح واقف تھے اس لئے میں ان سے امداد حاصل نہیں کر سکتا تھا.ان حالات میں مجھے کامیابی کی کوئی امید نہیں تھی.آخر میں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھنا شروع کیا اور روزانہ بلا ناغہ کئی دن لکھتا رہا.چند روز کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل صاحب نے میری درخواست پر اس معاملہ کو پبلک ہیلتھ کمشنر صاحب کے واپس آنے تک ملتوی کر دیا اور مجھے امید ہو گئی کہ حضور کی دعا کی قبولیت کے آثار شروع ہو گئے ہیں اور میں انشاء اللہ ضرور کامیاب ہو جاؤ نگا.تھوڑے دنوں کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل صاحب اچانک رخصت سے واپس آگئے.اتنے میں ایک تیسرے آدمی نے درخواست دے دی کہ جب تک ان دونوں کے درمیان فیصلہ نہیں ہوتا عارضی طور پر مجھے ترقی دی جائے.جب مجھے اس بات کا پتہ لگا تو میں نے روزانہ بجائے خط لکھنے کے حضور کی خدمت میں تار دینا شروع کر دیا.یہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل صاحب اس بات میں مشہور تھے کہ وہ زیادہ نہیں لکھا کرتے تھے اور ان کے فیصلے بہت مختصر ہوتے تھے.مگر جب یہ معاملہ ان کے پاس گیا تو انہوں نے میرے حق میں قریباً ڈیڑھ صفحہ لکھا جس میں یہ ذکر تھا کہ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں جب پبلک ہیلتھ کمشنر صاحب دورہ پر جاتے تھے تو اس کا کام براہِ راست میرے سامنے آتا تھا.یہ بہت اچھا کام کرنے والا ہے اور گو عمر رسیدہ ہونے کے باعث ترقی سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتا مگر خواہ کس قدر بھی فائدہ ملے اسے محروم نہیں کیا جانا چاہئے.پبلک ہیلتھ کمشنر صاحب کے انتظار کی ضرورت نہیں جس تاریخ سے ترقی واجب ہوتی ہے اسے فورا دے دی جائے.معاملہ چونکہ اہم تھا اور چیف سپرنٹنڈنٹ صاحب کی رائے کے خلاف تھا.اس لئے انہوں نے آخری منظوری کے لئے ڈائریکٹر جنرل صاحب کے پاس بھیج دیا میں نے ابھی چار دن متواتر دعا کے لئے تار دیا کہ ڈائریکٹر جنرل صاحب نے سفارش منظور کرتے ہوئے مجھے ترقی دے دی.سرکاری دفاتر میں ترقی وغیرہ کے عجیب عجیب واقعات پیش آتے رہتے ہیں.مگر جن حالات میں
83 مجھے ترقی ملی اس میں شک نہیں کہ وہ حضرت (خلیفتہ المسیح الثانی ) ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعا کی قبولیت کا ایک خاص نشان ہے.چنانچہ اسی وقت ہمارے دفتر کے ایک ہند و صاحب نے مجھے کہا خانصاحب ہم تو پہلے ہی جانتے تھے کہ آپ ترقی لے جائیں گے کیونکہ آپ کا پیر بڑاز بر دست ہے.اس کے بعد میں نے چار سال اور ملازمت کی.اور ۱۹۳۲ ء میں پنشن لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء مبارک کے مطابق قادیان دارالامان میں سکونت پذیر ہو گیا.( خانصاحب) برکت علی عفی عنہ جوائنٹ ناظر بیت المال سلسلہ عالیہ احمد یہ قادیان.الفضل ۲۸.دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۵۲) حضور کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی ترقی کے حصول کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے مکرم عبد الرحیم صاحب ہیڈ ڈ راسمین لاہور لکھتے ہیں :- ۱۹۳۲ء کے آخر میں جب ہائیڈرو الیکٹرک کی تعمیر ختم ہونے کو تھی مجھے نوٹس ملا کہ یا تو میں چھوٹا گریڈ منظور کرلوں یا نوکری چھوڑ دوں.اس وقت میں ۲۶۴ روپے ماہوار لے رہا تھا اور چھوٹا گریڈ حاصل کرنے کے معنی تھے کہ ۱۵ اروپے منظور کروں میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی خدمت میں دعا کی درخواست کی اور ساتھ ہی عرض کیا کہ کیا میں چھوٹا گریڈ منظور کرلوں؟ چند دن کے بعد دفتر ڈاک کی طرف سے جواب ملا کہ حضور نے دعا فرمائی ہے لیکن اس بات کا کوئی جواب نہ تھا کہ میں چھوٹا گریڈ منظور کرلوں یا نہیں.اس کے بعد میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا حضور نے گریڈ کم ہو جانے کے متعلق دریافت کیا تو میں نے عرض کیا زمینی فیصلہ تو ہو چکا ہے آسمانی کا مجھے علم نہیں.حضور دعا فرمائیں.حضور نے فرمایا ہاں میں دعا کروں گا.اس وقت مجھے پورا یقین ہو گیا کہ گو پنجاب گورنمنٹ فیصلہ کر چکی ہے لیکن اسے اپنے فیصلہ میں ترمیم کرنی پڑیگی.چنانچہ میرے رب نے اپنے محبوب کی دعا کو سنا اور با وجود مایوس کن حالات کے مجھے اسی گریڈ پر مستقل کر دیا بلکہ میرے اختیارات پہلے سے بھی زیادہ کر دیے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ
84 یہ حضور ہی کی دعاؤں کا صدقہ ہے کہ میں اپنی لائن میں باوجود کم علم ہونے کے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوں.خاکسار عبدالرحیم ہیڈ ڈرانسمین لاہور ( الفضل ۲۸.دسمبر ۱۹۳۹ ، صفحہ ۵۲) مکرم غلام محمد صاحب اختر حضرت فضل عمر سے غیر معمولی محبت وعقیدت رکھنے والے بزرگ تھے.سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے جماعتی خدمات کی توفیق پانے کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جماعت کی نمایاں خدمات کی توفیق پائی.حضور ان پر بہت اعتماد فرماتے تھے.غیر معمولی حالات میں دعا کی برکت سے ملازمت میں ترقی پانے کا ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- میں نے ۱۹۲۸ء کی فروری سے حضور کی خدمت میں یہ لکھنا شروع کیا کہ حضور دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں ترقی دے.جولائی ۱۹۲۸ء میں غیر معمولی طور پر مجھے پشاور سے جہاں میں ساٹھ روپیہ کا کلرک تھا اور ترقی کی کوئی راہ قطعا کھلی نہ تھی بلکہ ذہن میں بھی نہ آ سکتی تھی.ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ صاحب نے خود بخود ایجنٹ آفس لاہور میں ایک انتخاب میں بھجوا دیا.جہاں ۲۷.اور اُمیدوار دو جگہوں کے لئے تھے.وہ سب کے سب ۲۵۰ روپے سے اوپر تنخواہ لینے والے تھے.وہاں بھی کسی کو یہ امید نہ تھی کہ میں منتخب ہونگا کیونکہ میری تنخواہ صرف ساٹھ روپیہ تھی.دیگر امیدوار میرا مذاق اُڑاتے تھے وہ سب کے سب انگریز یا ایک دو پارسی تھے اور میرے انتخاب کو قطعی طور پر غیر ممکن سمجھتے تھے.میں نے حضرت (خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی خدمت میں دعا کی درخواست کی اور ۱۴۰ روپیہ ترقی پر یعنی ۲۰۰ روپیہ نخواہ پر مقرر کیا گیا.کچھ عرصہ بعد اچانک وہ آسامی بند کر دی گئی اور حکم آگیا کہ تم کو اپنی سابقہ تنخواہ ۶۰ روپیہ پر جانا ہوگا.میں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی خدمت عالیہ میں دعا کے لئے لکھا.ابھی خط حضور کو ملا بھی نہ ہوگا کہ ایک انگریز انسپکٹر مر گیا افسرانِ متعلقہ نے مجھے اسی تنخواہ پر وہاں لگا کر راولپنڈی تبدیل کر دیا.وہاں میں نے صرف ۵ ماہ کام کیا تھا کہ ایجنٹ آفس والوں نے کوشش کر کے میری جگہ ایک سینئر آدمی بھجوا دیا اور مجھے پھر تنزل کا حکم مل گیا.حضور سے دعا کرائی جارہی تھی کہ اچانک ایک اور
85 انگریز کی جگہ خالی ہوئی اور وہ موقع مجھ کو دے دیا گیا.اس آسامی پر گو تنخواہ کا تو کوئی خسارہ نہ تھا مگر سفر کی وجہ سے مجھے تکلیف تھی اس لئے میں نے رخصت لے لی اور حضور کے پاس جولائی ۱۹۲۹ء میں کشمیر چلا گیا.تا کہ دعا کر اسکوں.وہاں ایک ماہ رہا کہ اچانک لاہور سے کشمیر اطلاع گئی کہ تم پہلی آسامی پر ۲۰۰ روپیہ پر پھر پشاور چلے جاؤ.غرض میری ہر ترقی غیر معمولی طور پر ہوئی.میں سٹاف وارڈن حضور کی دعاؤں سے نامزد ہوا.باقی سب منتخب ہوئے.میری موجودہ ترقی بطور لیبر وارڈن بھی غیر معمولی طور پر حضور کی دعاؤں سے ہوئی کیونکہ میں ان منتخب شدہ امیدواروں کی فہرست میں نہ تھا بلکہ میرے ایک دوسرے غیر احمدی ہمعصر تھے جو اس غیر ممکن بات کے ممکن ہونے پر اب تک خفا ہیں اور احمدیوں سے بھی خفا ہیں کہ ہماری آسامیوں پر چھاپا مار لیتے ہیں.(۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۵۱) مکرم مولوی ظہور حسین صاحب دعا گو منکسر المزاج بزرگ تھے نو جوانی کی عمر میں خدمت اسلام کے لئے روس تشریف لے گئے اپنے مقصد سے لگن اور قربانی کی شاندار مثال قائم فرمائی.حضور کی دعاؤں کی قبولیت کے متعلق وہ ایک عجیب تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- ۲۴.۱۹۲۵ء میں تاشقند کے قید خانہ میں مجھ پر شبہ کیا گیا کہ میں انگریزوں کا جاسوس ہوں.اس وجہ سے مجھے جو تکلیفیں قید خانہ میں دی گئیں ان میں سے ایک یہ تھی.ایک رات مجھے قید تنہائی کے کمرہ سے نکال کر تین چار سپاہیوں نے سخت ماراحتی کہ میرے جسم کے اکثر حصے زخمی ہو گئے.آخر جب مجھے اچھی طرح پیٹ چکے تو میرے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف انہوں نے کس کر باندھ دیئے پھر میری ٹانگیں اور سینے اور بازوؤں کو رستے سے باندھ دیا اور ایک چوڑا تختہ لا کر اس پر مجھے جکڑ دیا اور اسی حالت میں مجھے ایک اندھیرے کمرے میں ڈال گئے.اس وقت میں نے یہ دعا کی کہ اے میرے خدا! میں تمام نبیوں اور آنحضرت صلی اللہادی اورمسلم کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تو میرے پیارے امام کو میری اس تکلیف سے خبر دے تا وہ تیرے حضور دعا کریں اور پھر تو قبول کر کے میرے لئے سہولت پیدا کرے.صبح مجھ کو یقین ہو گیا کہ حضور میرے لئے دعا فرما رہے ہیں.دراصل انہی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ میں وہاں سے تقریباً دو سال قید رہنے کے
86 بعد نجات پا کر واپس آ گیا.ورنہ بظاہر کوئی امید نہ تھی.“ الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۵۳) مکرم ملک حبیب الرحمان صاحب جو محکمہ تعلیم کے ایک نیک نام افسر تھے اور جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد اہم جماعتی خدمات بجالانے کا بھی موقع ملا شدید بیماری سے معجزانہ صحت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : - دسمبر ۱۹۳۷ء میں میں در دجگر، در دمعدہ اور در دامعاء کی وجہ سے سخت بیمار ہوا اور پھر ہر مہینہ میں مجھے اس درد کا شدید دورہ پڑنے لگا.میں نے ڈاکٹری اور دیسی علاج کثرت سے کئے لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا.ایکسرے بھی کرایا گیا لیکن لا حاصل ۱۹۳۹ء کے فروری اور مارچ کے مہینوں میں مرض کے جو دورے پڑے ان میں شدید بخار بھی ہو جا تا رہا اور میں ایک ایک ہفتہ چار پائی سے نہ اٹھ سکتا.ماہ اپریل ۱۹۳۹ء میں بغرض مشورہ سول ہسپتال امرتسر گیا.وہاں کے مشہور ڈاکٹروں نے بھی مشورہ دیا کہ پتہ میں پتھری پیدا ہونے اور اپنڈیسائٹس کی وجہ سے یہ تکلیف ہے.اور ہر دو مقامات کا اپریشن کرانا ضروری ہے.۱۴.اپریل حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حضور حاضر ہوا.اور اپنی بیماری کا مفضل ذکر کیا.حضور نے فرمایا.آپ کو اپنڈیسائٹس(APPENDICITIS) تو نہیں ہے البتہ دوسری بیماریاں ہو سکتی ہیں.آپ رخصت لے کر علاج کرائیں.جب میں شجاع آباد واپس آیا.تو مجھے سخت بخار اور پیچش کی شکایت ہوگئی اور اس کے ایک دن بعد بیماری مذکورہ کا شدید دورہ ہوا.اتنا شدید کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا.میں نے اسی وقت حضرت (خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کے حضور دعا کے لئے تار بھجوایا.بیماری کی شدت کے باعث ہر ایک کو یہ خیال تھا کہ اگر جانبر ہو گیا تو بھی کئی دن تک بستر پر رہوں گا لیکن حضرت (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ میں دوسرے دن ہی چلنے پھرنے لگ گیا اور ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ لے کر ملتان میں افسرانِ بالا سے رخصت لینے کی غرض سے گیا لیکن وہاں پہنچ کر بجائے رخصت لینے کے ایک حکیم صاحب کا علاج شروع کرایا اور ایک ماہ بعد مرض میں بہت تخفیف ہو گئی اور معمولی سا دورہ ہوا اور
87 دوسرے مہینہ میں تو طبیعت مناسب حد تک تندرست ہوگئی اور اب جبکہ اپریل کے بعد ۵ ماہ گزرے ہیں.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بالکل تندرست ہوں.حقیقت یہ ہے کہ یہ علاج تو ایک بہانہ ہے.مرض میں تخفیف اسی وقت سے شروع ہو گئی تھی جب میں نے حضرت (خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی خدمت میں تار بھیجا.جس مریض کو ڈاکٹر اپنڈیسائٹس اور پتہ میں پتھری بتلا چکے ہوں اور جس کا علاج سوائے آپریشن کے اور کچھ نہ بتلایا جا تا ہو.اس کا اس طرح صحت یاب ہو جانا میرے آقا ومولا کی دعا کا معجزانہ اثر ہے.خاکسار حبیب الرحمن بی.اے.اے.ڈی.آئی آف سکولز کبیر والا الفضل ۲۸ - دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۵۲) حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب ہماری جماعت کے ایک مشہور و معروف بزرگ ہیں.ان میں دعوت الی اللہ کا غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں انہیں بہت مفید خدمات بجالانے کی توفیق مرحمت فرمائی.حضرت سیٹھ صاحب نے اپنے ایک مضمون میں حضرت فضل عمر کے قبولیت دعا کے مندرجہ ذیل واقعات تحریر فرمائے ہیں :- خاکسار کو سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے قریباً چھپیں سال کا عرصہ ہوا ہے اس دوران میں نے کئی بار حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے اشد ضروری امور کے لئے دعائیں کرائیں اور ان سب نے معجزانہ طور پر قبولیت کا شرف حاصل کیا.(۱) ۱۹۱۸ ء میں میں نے اپنے لڑ کے علی محمد صاحب اور سیٹھ الہ دین ابراہیم بھائی نے اپنے لڑکے فاضل بھائی کو قادیان تعلیم کے لئے روانہ کیا.علی محمد صاحب نے ۱۹۲۰ء میں میٹرک پاس کر لیا.ان کو لنڈن جانا تھا.دونوں لڑکے گھر واپس آنے کی تیاری کر رہے تھے کہ یکا یک فاضل بھائی کو ٹائیفائیڈ بخار ہو گیا.نور ہسپتال کے انچارج جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب نے جو کچھ ان سے ہو سکا کیا.طبیعت درست بھی ہوگئی مگر اس کے بعد بد پرہیزی کے سبب پھر ایسی بگڑی کے زندگی کی کوئی امید نہ رہی.جب یہ اطلاع حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی ) کو پہنچی تو حضور فاضل بھائی کو
88 دیکھنے کے لئے خود بورڈنگ میں تشریف لے گئے اور بہت دیر تک دعا فرمائی.اس کے بعد طبیعت معجزانہ طور پر سُدھرنے لگی اور خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے فاضل بھائی کونئی زندگی حاصل ہوئی.یقیناً حضرت رسول کریم صلی اللہادی اور سلم نے یہ جو فرمایا کہ موت نہیں ملتی مگر دعا سے یہ حقیقت ہم نے صاف طور پر اپنی آنکھوں سے دیکھی الْحَمْدُ لله (۲) میری تیسری لڑکی عزیزہ ہاجرہ بیگم کے پیٹ میں یکا یک درد ہو گیا.ہم نے اپنے قریب رہنے والے سرکاری خطاب یافتہ ڈاکٹر کو جو آنریری مجسٹریٹ بھی ہیں بلوایا انہوں نے دیکھ کر کہا کہ لڑکی کے پیٹ میں پیپ پڑ گئی ہے فوراً اپریشن کر کے نکلوا دینی چاہئے ورنہ جان کا خطرہ ہے.دسمبر کا مہینہ تھا مجھے سالانہ جلسہ پر ایک دو روز میں قادیان جانا تھا ادھر یہ حالت ہوگئی پھر ہم نے یہاں کے ہاسپٹل کے بڑے یورپین ڈاکٹر کو بلوایا.اس نے معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ نہ پیپ ہے اور نہ اپریشن کی ضرورت.ہم سب یہ سنکر بہت خوش ہوئے اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا مگر پہلا ڈاکٹر اپنی رائے پر اڑا رہا کہ پیپ یقینا ہے فوری آپریشن کی ضرورت ہے.اس کے بغیر اگرلڑ کی بیچ جائے تو میں اپنی ڈاکٹری چھوڑ دوں گا.میں دوسرے روز قادیان روانہ ہو گیا.وہاں سے واپس آنے تک لڑکی اچھی رہی مگر اس کے بعد یکا یک ناف میں سوراخ ہو گیا اور اس قدر پیپ نکلی جس کی کوئی حد نہ رہی.ہم نے پھر اسی ڈاکٹر کو بلوایا.جس نے کہا تھا کہ پیپ ہے.اور آپریشن کے لئے رضامند ہو گئے.مگر اس نے کہا کہ لڑکی کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے.اب آپریشن کا وقت نہیں رہا.اب یہ کیسی مایوس کن ہو گیا ہے.ہم نے دیکھا کہ اب کوئی علاج نہیں سوائے دعا کے.میں نے فوراً ایک تار حضرت (خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ ) کی خدمت میں اور دوسرا ”الفضل“ کو روانہ کیا.اور پھر ایک بار حضور کی دعا کا معجزانہ نتیجہ دیکھا.کہ بغیر کسی ڈاکٹری علاج کے صرف ایک معمولی دائی کی دوائی سے میری پیاری لڑکی کامل صحت پاگئی.الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ (۳) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق
89 میں نے اپنے لڑ کے علی محمد صاحب کو آئی.سی.ایس کے لئے لنڈن روانہ کیا.وہاں ان کو پہلے ایم.اے کی ڈگری حاصل کرنا ضروری تھی.مگر ایم.اے میں اس قدر دیر ہو گئی.کہ I.C.S کے لئے موقع نہ رہا.ایم.اے کے سات مضامین میں سے چھ تو انہوں نے پاس کر لئے مگر آخری مضمون Constitutional Law of Constitutional History میں فیل ہو گئے اور آخر بے دل ہو کر واپس آنا چاہتے تھے.ان کو سات سال کا عرصہ ہو گیا تھا.میں نے حضرت ( خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) سے ان کو واپس بلانے کی اجازت چاہی مگر حضور نے فرمایا میں نے خواب میں ان کا نام پاس ہونے والوں کی فہرست میں دیکھا ہے.اس لئے انشاء اللہ یقیناً پاس ہو کر آئیں گے.میں نے ان کو یہ کیفیت لکھی اور پھر کوشش کرنے کے لئے کہا.انہوں نے پھر ایک بار کوشش کی مگر پھر فیل ہو گئے.ان کے استاد کو جب معلوم ہوا کہ پھر فیل ہو گئے ہیں تو اس نے تحقیق کی.معلوم نہیں خدا تعالیٰ کا وہاں کیا کرشمہ ہوا کہ ایک دو روز میں ان کو یو نیورسٹی کی طرف سے اطلاع ملی کہ آپ کے فیل ہونے کی خبر غلط تھی.آپ پاس ہیں وہ بہت خوش ہوئے اور سمجھ گئے کہ یہ محض خدا تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کا خواب پورا کر کے ان پر فضل کیا ہے.انہوں نے خدا تعالیٰ کا بہت بہت شکر ادا کیا اور ڈگری حاصل کر کے چونکہ حج کا موقع تھا اس لئے واپس ہوتے ہوئے حج کر کے الحاج علی محمد ایم.اے بنکر آئے الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ (۴) ہمارے مکرم دوست جناب سید بشارت احمد صاحب جو جماعت احمد یہ حیدر آباد دکن کے امیر ہیں کے ماموں نواب غوث الدین صاحب تھے.ان کے لاؤلد فوت ہو جانے پر سید صاحب اپنی والدہ صاحبہ کی جانب سے منجملہ اور ورثاء کے نواب صاحب کی اسٹیٹ کی تقسیم وغیرہ کے متعلق مختار و مجاز تھے.ان کی ایک بلڈ نگ نواب پال کے نام کی بمبئی میں تھی.سید صاحب موصوف نے معہ دیگر ورثا ء ہم سے اس بلڈنگ کی فروخت کے متعلق معاملہ شروع کیا.ہم نے اپنے بمبئی والے رشتہ دار کے ذریعہ اس کے متعلق دریافت کر کے سوا لاکھ روپیہ میں خرید لی.اس خرید میں ہمارے بمبئی والے رشتہ دار اور ہمارے
90 ایک ماموں سیٹھ الہ دین ابراھیم صاحب احمدی بھی شریک تھے.ہم نے یہ بلڈنگ صرف اس لئے خریدی کہ فروخت کر کے کچھ نفع حاصل کرینگے اور امید تھی کہ پندرہ میں ہزار روپیہ منافع آ جائے گا.میں نے یہ شرط پیش کی کہ ہم اس کے متعلق حضرت (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرا ئیں اور ہمیں جو منافع اس کا پانچواں حصہ ہم تبلیغ کے لئے قادیان روانہ کریں.میرے بھائی خان بہادر سیٹھ احمد بھائی اور ہمارے ماموں صاحب نے تو یہ شرط مان لی مگر ہمارے بمبئی والے رشتہ دار نے نہ مانی.تاہم میں نے یہ حقیقت حضرت (خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کی خدمت میں لکھ بھیجی.اس کے بعد غیر معمولی طور پر اس جائداد کی قیمت تیز ہونے لگی.مجھے چونکہ حج کے لئے جانا تھا اس لئے میں نے اپنے بمبئی والے رشتہ دار کولکھا کہ قیمت خوب تیز ہوگئی ہے اب اسے فروخت کر دیں مگر ان کا خیال تھا کہ قیمت اور تیز ہوگی اس لئے یا تو ہم اور انتظار کریں.یا جس قیمت پر یہ جائدا داب بکتی ہے اسی قیمت پر ان کے ہاتھ فروخت کر دیں.ہم نے منظور کیا اور ہمیں اس میں ۸۰ ہزار روپیہ منافع ہوا.جس کا پانچواں حصہ سولہ ہزار روپیہ بنے قادیان روانہ کر دیا.اس کے بعد میں حج کے لئے روانہ ہو گیا.وہاں سے واپس آنے کے بعد میں نے بمبئی والے رشتہ دار سے جائداد کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ قیمت تو صرف ہمارے لئے تیز ہوئی تھی ہمارے فروخت کر دینے کے بعد قیمت کم ہوتی گئی.حتی کے اصل قیمت بھی وصول نہ ہو سکی.ہمارے رشتہ دار نے اقرار کیا کہ واقعی آپ دعا کرا کے کامیاب ہو گئے اور میں بہت نقصان میں رہا.اس واقعہ کو اٹھارہ سال کا عرصہ ہو گیا ہے اب تک وہ جائداد بغیر فروخت ہوئے پڑی ہے.دیکھئے یہ خدا تعالیٰ کا کیسا کھلا معجزہ ہے.ایک ہی معاملہ میں تین حصہ دار ہیں.دو حصہ دار خدا کے خلیفہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس سے دعا کرواتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کو ۸۰ ہزار روپیہ منافع عطا فرماتا ہے مگر اس معاملہ میں تیسرا حصہ دار نہ خدا کے خلیفہ کو مانتا ہے نہ اس سے دعا کرانے کی پرواہ کرتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نہ صرف اس کو منافع سے محروم رکھتا ہے بلکہ دو مومن حصہ داروں کو اسی ہزار روپیہ منافع اس کی جیب سے دلاتا ہے.
91 (۵) چونکہ میرے بھائی خان بہادر سیٹھ احمد الہ دین صاحب کو حضرت (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی دعاؤں کی قبولیت کا علم ہو گیا تھا اس لئے وہ بھی وقتاً فوقتاً حضور سے دعائیں کرواتے رہتے تھے.اس بار انہوں نے دو معاملات کے متعلق دعا کرائی.دونوں امور میں انہیں عظیم الشان کامیابی حاصل ہوئی اور دو لاکھ روپیہ منافع حاصل ہوا.جس کی خوشی میں انہوں نے حضور کی خدمت میں بیس ہزار روپیہ کا چیک روانہ کیا.اہم من (1) ہماری تجارتی فرم میں ہم چار بھائی مختلف کاموں کے نگران تھے اور مجھے چونکہ حضرت (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کی دعاؤں کا خوب تجربہ تھا اس لئے میرے ذمہ جو کام تھا اس کی ترقی کے لئے حضور سے دعائیں کراتا رہتا تھا اور حضور کی خدمت میں ماہوار ایک سو (۱۰۰) روپیہ نذرانہ روانہ کرتا تھا جس کے طفیل ہماری فرم کو سالانہ اوسطاً دس ہزار روپیہ منافع ہوا کرتا.میرے بھائی قاسم علی اہلحدیث ہو گئے اور میری مخالفت شروع کر دی.مولوی ثناء اللہ صاحب کو امرتسر سے بلا کر خوب مخالفت کرائی جس میں میرے بھائی غلام حسین بھی شریک ہو گئے اور یہ دونوں بھائی اس کام میں بھی دخل دینے لگے جو میں کرتا تھا.میں ماہوار جو رقم قادیان روانہ کرتا تھا اس کے متعلق اعتراض کرنے لگے.اس پر میں نے روپیہ بھیجنا بند کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری فرم کو جو سالانہ دس ہزار روپیہ منافع ہوتا تھا وہ جاتا رہا بلکہ نقصان ہونے لگا آخر وہ وقت آیا کہ ہماری فرم نے یہ تجارت ترک کر دی اور میں نے اسے اپنے ذمہ لے لیا.میں نے حضور سے پہلے کی طرح دعا کرانی شروع کی اور پہلے ماہوار جو ایک سو روپیہ روانہ کیا کرتا تھا اس کی بجائے دوسوروپیہ روانہ کرنے لگا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم کو سالانہ اوسطاً ۱۵ ہزار روپیہ منافع ہونے لگا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ (۷) اس تجارتی معاملہ میں میں نے ایک بار دو ٹھیکے لئے.سولہ سوٹن مال نوے روپے فی ٹن کے حساب سے دینے کا سودا کیا.یہ نرخ چونکہ بہت اچھا تھا اس لئے اتنا بڑا ٹھیکہ کر لیا گیا مگر چند روز میں ہی نرخ ایک سو بیس روپیٹن ہو گیا اور سولہ سوٹن مال دینے میں فی ٹن تمہیں روپیہ کے حساب سے ۴۸۰۰۰ روپیہ کا
92 نقصان تھا.میں بہت گھبرایا اور میں نے حضرت (خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی خدمت میں سارا حال لکھ کر خاص دعا کے لئے گزارش کی.اس پر خدا کے فضل وکرم سے معاملہ کی صورت ایسی بدل گئی.کہ ۴۸ ہزار روپیہ نقصان کے عوض ہیں ہزار روپیہ منافع ہوا.الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ (۸) ہمارے دونوں بھائی جب بڑے اور سمجھدار ہو گئے تو ہم چاروں نے باہمی رضامندی سے ایک شراکت نامہ تیار کیا جس کی مدت دس سال رکھی.ہماری فرم کا قدیم سے یہ دستور تھا کہ تجارت کے نفع و نقصان کا حساب ہر ماہ نکالتے تھے اور ہر چھ ماہ کے بعد کھاتوں میں درج کیا جاتا تھا اور سالانہ حساب دیکھ کر ہم سب بھائی دستخط کر کے اس کی تصدیق کرتے تھے اس طرح دس سال ختم ہو گئے.جب نیا شراکت نامہ طے کرنے کا وقت آیا دونوں بھائیوں نے انکار کر دیا اور مجھ سے اور خان بہا در احمد بھائی صاحب سے ایک ایک لاکھ روپیہ سے زائد رقم کا مطالبہ کیا.جب یہ اختلاف آپس میں دور نہ ہو سکا تو اس کے فیصلہ کے لئے تین مشہور و معروف قانون دان ثالثوں کا ایک بورڈ قائم کیا گیا ہر ایک کو ایک ایک ہزار روپیہ فیس دی گئی.میں نے تمام حقیقت صحیح صحیح حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھ بھیجی اور خاص دعا کے لئے گزارش کی.حضور نے جواب میں فرمایا آپ بالکل بے فکر رہیں آپ کو کوئی نقصان نہ ہوگا بلکہ آپ کے حق میں فائدہ ہوگا.اگر ثالث بھی آپ کو نقصان پہنچانا چاہیں تو ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکیں گے.اس سے بہت تعجب ہوا کیونکہ ثالث جو چاہے فیصلہ کر سکتے تھے ان کے فیصلہ کے خلاف اپیل بھی نہیں ہو سکتی تھی پھر ان کو میرے خلاف فیصلہ کرنے سے کون روک سکتا ہے سوائے خدا تعالیٰ کے مگر وہی ہوا جو حضور نے فرمایا تھا.ثالثوں نے تمام حساب کی کامل تحقیق کی اور اس پر ایک سال کا عرصہ صرف کیا.میرے خلاف ۱۱۴۷۸۳ روپیہ کے دعوے تھے.آخر تمام کے تمام دعوے خارج کر دئیے اور صرف سفر خرچ کے متعلق ۱۳۰۹ روپیہ کی ڈگری کی مگر دوسرے فریق کے خلاف بھی سفر خرچ وغیرہ کی ڈگری ہوئی جس کے نتیجہ میں مجھے ۳۴۱۴ روپے منافع ہوا.
93 غرض حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے میرے متعلق جو دعا فرمائی اور حضور کو خدا تعالیٰ نے اس معاملہ میں جو بتلایا وہ حرف بحرف صحیح ثابت ہوا.حضور نے جو یہ فرمایا تھا کہ ثالث اگر نقصان بھی پہنچانا چاہیں گے تو نقصان نہ پہنچا سکیں گے.اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے مقدمہ کا فیصلہ ہو جانے کے بعد میں ایک ثالث صاحب کے پاس جو پارسی تھے گیا اور ان سے دریافت کیا کہ آپ لوگوں نے ہمارے مقدمہ کا جو فیصلہ کیا ہے کیا وہ تینوں کی اتفاق رائے سے ہوا یا آپ کے درمیان کچھ اختلاف بھی ہوا.انہوں نے فرمایا مقدمہ کے تمام اشُوز (Issues) کا فیصلہ ہم تینوں کے اتفاق رائے سے ہوا.صرف آپ کے متعلق اختلاف تھا.بمبئی والی جائداد کے منافع سے آپ نے ۱۶۰۰۰ روپیہ جو قادیان روانہ کیا دو ثالثوں کی یہ رائے تھی کہ وہ رقم آپ کے ذمہ لگائی جائے.میں نے ان سے اتفاق نہ کیا.صرف اس ایک اشو (Issue) کے لئے ہمیں تین بار میٹنگ کرنی پڑی آخر وہ میرے ساتھ متفق ہو گئے.غرض میرا بار بار کا تجربہ ہے کہ جو شخص سلسلہ احمدیہ میں شریک ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے ایسے محبوب خلیفہ سے اپنا تعلق جوڑتا ہے جس کی دعا سے انسان یقیناً دونوں جہان میں فلاح پاتا ہے.(الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۵۵٬۵۴) عبد السلام زرگر صاحب کا بیان ہے کہ ان کے بھائی نور محمد صاحب جو شیعہ خیالات رکھتے تھے کوئی.بی کا عارضہ لاحق ہو گیا ( اس زمانہ میں اس موذی مرض کا کوئی علاج نہیں ہوتا تھا اس بیماری میں مبتلا مریض بالعموم بڑی تکالیف اور پریشانیوں سے دو چار ہو کر راہی ملک عدم ہو جاتا تھا ) ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر اجتماعی ملاقات میں ان کے والد صاحب نے حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی اور برکت کے لئے ان کے جسم پر حضور کا ہاتھ پھر وایا.خود نور محمد صاحب نے بڑی عاجزی سے دعا کی درخواست کی اور عرض کی کہ حضور اگر مجھے صحت ہو جائے تو یہ آپ کی قبولیت دعا کا ایک نشان اور معجزہ ہی ہوگا.خدا تعالیٰ کے فضل سے انہیں صحت ہو گئی.اس کے بعد جب بھی ہم میں سے کوئی حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور ہمیشہ ہی دریافت فرماتے کہ آپ کے اس عزیز کا کیا حال ہے جو اعجازی نشان مانگتا تھا.
94 دعا کے مضمون کا ایک حصہ تو خالص علمی ہے جس میں مختلف مذاہب میں دعا کے متعلق تعلیمات، قرآن مجید و احادیث میں بیان فرمودہ دعا کی حقیقت و فلاسفی ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے اولیاء کرام اور بزرگان اُمت نے دعا کے متعلق جو معارف و حقائق بیان فرمائے ان کی تفصیل وغیرہ.اس مضمون کا دوسرا حصہ جو عملی حصہ ہے اور جس میں قبولیت دعا کے نتیجہ میں خدائی فضلوں کا نزول، غیر معمولی حالات میں دعا کا معجزانہ اثر ، دعا کے نتیجہ میں زندہ خدا کی زندہ تجلیات کا ظہور وغیرہ.یہ حصہ پہلے حصہ کی نسبت زیادہ اہم، زیادہ مؤثر اور زیادہ ضروری ہے.کوئی شخص دعا کے متعلق زور دار مضامین تحریر کرے یا اپنی پُر جوش تقریروں سے سامعین کو ہلا کر رکھ دے مگر دعا کی قبولیت اور خدا تعالیٰ کے پیار کی مثالیں اور نشانات اپنے پاس نہ رکھتا ہو تو اس کی لفاظی محض ریاء اور خودرو جھاڑی کی طرح ہوگی جو پھلوں اور پھولوں سے خالی اور اتنی بے کار ہو کہ اچھے ایندھن کے طور پر بھی استعمال نہ ہو سکتی ہو.حضرت مصلح موعود کی قبولیت دعا کے بے شمار واقعات سلسلہ کے لٹریچر میں موجود ہیں مگر ان سے تعداد اور کیفیت میں کہیں بڑھ کر وہ واقعات ہیں جو آپکے ساتھ کام کرنے والوں اور آپ کے خدام کے مشاہدہ میں آئے اور انہوں نے ان سے جسمانی و روحانی فوائد وبرکات حاصل کئے مگر وہ کسی کتاب یا رسالے میں محفوظ نہ ہو سکے.ذیل میں چند واقعات بطور ” مشتے از خروارے پیش کئے جاتے ہیں.یاد رہے کہ ایسے واقعات کا انتخاب نہیں ہے بلکہ دورانِ مطالعہ سامنے آنے والے چند واقعات ہیں.اس سے میں تحقیق بہت ایمان افروز حقائق سامنے لائے گی.مندرجہ ذیل واقعات میں قبولیت دعا کے ساتھ ساتھ اس خاص مقام کا بھی اظہار ہوتا ہے جو مقربان بارگاہ الہی کو دربارا لو ہیت میں حاصل ہوتا ہے.استجابت کے مزے عرش بریں سجدہ کی کیفیتیں میری جبیں پوچھئے پوچھئے (کلام محمود صفحه ۲۲۹) ایک دوست نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں عرض کیا کہ حصول رزق کے متعلق مومن دعا سے کام لیتا ہے اور غیر مومن تدبیر سے لیکن نظر یہ آتا ہے کہ تدبیر سے کام لینے والا دعا کرنے والے کی نسبت زیادہ کامیاب رہتا ہے حالانکہ دعا اور اللہ تعالیٰ پر توکل تدبیر سے بہر حال افضل ہیں.
95 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے فرمایا......جب تک کوئی پیمانہ ایسا نہ ہو جس سے ایک شخص کی دعا اور دوسرے کی تدبیر کا باہم موازنہ کیا جا سکے.اس وقت تک یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس میدان میں تدبیر دعا سے بڑھ کر ہے.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا کہ رزق کے متعلق مومنوں کو صرف دعا اور توکل سے کام لینے کا حکم نہیں بلکہ متد بر سے بھی کام لینے کا حکم ہے اور دعا اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ظاہری جد و جہد اور ظاہری کوشش کا سلسلہ بھی جاری نہ رکھا جائے.ہاں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے رزق کا اللہ تعالیٰ خود ذمہ دار ہوتا ہے ایسے لوگوں کو بغیر تدبیر کے ہی اللہ تعالیٰ رزق پہنچا دیتا ہے.کہتے ہیں کوئی بزرگ تھے انہیں ایک دفعہ الہام ہوا کہ تمہیں اب کمائی کی ضرورت نہیں ہم خود تمہیں رزق دیں گے.چنانچہ انہوں نے روزی کمانی چھوڑ دی ان کے بیوی بچوں کو فکر پیدا ہوا کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ہم تو بھوکے مرنے لگیں گے چنانچہ انہوں نے اور ان کے دوسرے رشتہ داروں نے انہیں سمجھانا شروع کر دیا کہ آپ یہ کیا کرتے ہیں آپ کوئی کام کریں اور فارغ نہ بیٹھیں ایسا نہ ہو کہ فاقوں تک نوبت پہنچ جائے.وہ کہنے لگے میں اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتا ہوں وہ خود میری روزی کا سامان پیدا کرے گا.جب وہ کسی طرح نہ مانے تو انہوں نے تنگ آکر ان کے ایک دوست سے جو خود بھی بزرگ تھے کہا کہ آپ انہیں سمجھا ئیں شاید وہ آپ کی بات مان جائیں.چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ کام کیا کریں، فارغ نہ بیٹھیں.انہوں نے جواب دیا کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور مہمان اگر اپنا کھانا آپ پکائے تو میزبان بُرا منایا کرتا ہے.اس لئے میں تو اپنے کھانے کا فکر نہیں کر سکتا.وہ کہنے لگا آپ اگر اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں تو سنئے.رسول کریم صلی اللها و الا سلام فرماتے ہیں کہ مہمانی صرف تین دن ہوتی ہے اس سے زیادہ نہیں پس آپ بھی تین دن ایسا کر سکتے ہیں ہمیشہ کے لئے ایسا نہیں کر سکتے.وہ کہنے لگے میں جس کا مہمان ہوں وہ فرماتا ہے.اِنَّ يَوْماً عِندَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (الحج: (۴۸) کہ میرا ایک دن
96 ہزار سال کے برابر ہوتا ہے اگر میں تین دنوں کے بعد زندہ رہا تو آپ بے شک اعتراض کریں لیکن جب تک تین دن ختم نہیں ہوتے میری مہمانی بھی ختم نہیں ہو سکتی.اسی طرح میں نے کئی دفعہ سنایا ہے حضرت مسیح موعود کو آخری عمر میں ایک دفعہ سخت کھانسی ہوئی یہ کھانسی اتنی شدید تھی کہ ڈاکٹر عبدالحکیم خاں پٹیالوی نے اخبارات میں اس کا ذکر پڑھ کر شائع کر دیا کہ مجھے الہام ہوا ہے.مرزا صاحب کو سل ہوگئی ہے.میں ہی آپ کو دوائی پلایا کرتا تھا اور میں سمجھا کرتا تھا کہ آپ کی بیماری کے معاملات میں مجھے دخل دینے کا حق ہے.ایک دفعہ آپ لیٹے ہوئے تھے کہ آپ کو کھانسی کا سخت دورہ اُٹھا ، میں نے آپ کو دوائی پلائی، ابھی میں دوائی پلا کر ہٹا ہی تھا کہ کوئی دوست پھلوں کی ایک ٹوکری دے گئے جس میں کیلے بھی تھے.کیلا نزلہ اور کھانسی پیدا کیا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہماری والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ کھانسی میں کیلا کھانا کیسا ہوتا ہے.والدہ صاحبہ کہنے لگیں کہ کیلا کھانے سے نزلہ بڑھ جاتا ہے.پھر مجھ سے پوچھا اور فرمایا.کھانسی میں کیلا کیسا ہوتا ہے.میں نے کہا شدید مضر ہوتا ہے.یہ پوچھ کر آپ نے فرمایا.ٹوکری ادھر کرو.ہم نے ٹوکری آپ کی طرف کی تو آپ نے ایک کیلا اُٹھایا اور چھلکا اُتار کر اسے کھانا شروع کر دیا.میں نے یہ دیکھتے ہی شور مچانا شروع کر دیا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں.ابھی آپ کو کھانسی کا شدید دورہ ہوا ہے اور کیلا کھانسی میں سخت مضر ہوتا ہے.آپ میری باتیں سن کر مسکراتے رہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد فرمانے لگے.مجھے ابھی الہام ہوا ہے کہ تمہاری کھانسی جاتی رہی اس لئے میں نے کیلا کھا لیا ہے کیونکہ جب خدا نے کہا ہے کہ کھانسی جاتی رہی تو کیلا کس طرح کھانسی پیدا کرسکتا ہے.اب اس کے یہ معنی نہیں کہ جس شخص کو کھانسی کی شکایت ہو وہ بے شک کیلا کھا لیا کرے.وہی شخص ایسا کر سکتا ہے جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے صحت کی خبر دی گئی.اسی طرح جس شخص کو خدا کہہ دے کہ تمہیں رزق کے لئے کسی تدبیر کی ضرورت نہیں اس کے رزق کا ذمہ دار خود خدا ہو جاتا ہے لیکن باقی لوگوں کے متعلق حصول رزق کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہی قانون مقر ر کیا ہوا ہے کہ وہ کوشش کریں.
97 ہاں ہم ضرور مانتے ہیں کہ مومن کے لئے جہاں دنیوی رستے بند ہو جاتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ اس کی دعا کی برکت سے ان بند راستوں کو کھول دیتا ہے.میں نے ایک دفعہ جس طرح خدا سے ناز کرتے ہیں اس سے ناز کرتے ہوئے ایک دعا کی.وہ جوانی کے ایام تھے اور ہم ایک ایسی جگہ سے گزر رہے تھے جہاں اس دعا کے قبول ہونے کی بظاہر کوئی صورت نہ تھی مگر محبت الہی کے جوش میں اس سے ناز کرتے ہوئے میں نے کہا خدایا تو مجھے ایک روپیہ دلا.میں اس وقت جالندھر اور ہوشیار پور کی طرف گیا ہوا تھا اور کا ٹھگڑھ سے واپس آ رہا تھا کہ اس سفر میں ایک ایسے علاقے سے گزرتے ہوئے جہاں کوئی احمدی نہ تھا میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا.شاید اللہ تعالیٰ اپنی قدرت ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ جنگل میں سے گزرتے ہوئے میرے دل سے یہ دعا نکلی.حاجی غلام احمد صاحب اور چوہدری عبدالسلام صاحب میرے ساتھ تھے.اتنے میں چلتے چلتے ایک گاؤں آگیا اور ہم نے دیکھا کہ اس گاؤں کے دو چار آدمی باہر ایک مکان کے آگے کھڑے ہیں.حاجی صاحب اور چوہدری عبدالسلام صاحب ان کو دیکھتے ہی میرے دائیں بائیں ہو گئے اور کہنے لگے.اس گاؤں کے لوگ احمدیت کے سخت مخالف ہیں اگر کوئی احمدی ان کے گاؤں میں سے گزرے تو یہ لوگ اسے مارا پیٹا کرتے ہیں.آپ درمیان میں ہو جائیں تا کہ یہ لوگ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں.اتنے میں ان میں سے ایک شخص نے جب مجھے دیکھا تو میری طرف دوڑ پڑا انہوں نے سمجھا کہ شاید حملہ کرنے کے لئے آیا ہے مگر جب وہ میرے قریب پہنچا تو اس نے سلام کیا اور ہاتھ بڑھا کر ایک روپیہ پیش کیا کہ یہ آپ کا نذرانہ ہے.گاؤں سے باہر نکل کر وہ دوست حیران ہو کر کہنے لگے ہمیں تو ڈر تھا کہ یہ شخص آپ پر حملہ نہ کر دے.مگر اس نے تو نذرانہ پیش کر دیا.میں اس وقت ان کی بات سے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ خیال غالباً اسی لئے پیدا کیا تھا کہ وہ اپنی قدرت کو ظاہر کرنا چاہتا اور بتانا چاہتا تھا کہ لوگوں کے دل میرے اختیار میں ہیں.غرض جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق آتا ہے تو ایسی ایسی جگہوں سے آتا ہے کہ انسان کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا.
98 ایک دفعہ میں کشتی میں بیٹھا دریا کی سیر کر رہا تھا اور بھائی عبدالرحیم صاحب میرے ساتھ تھے.میرے لڑکے ناصر احمد نے بچپن کے لحاظ سے کہا کہ ابا جان اگر اس وقت ہمارے پاس کوئی مچھلی بھی ہوتی تو بڑا مزہ آتا.اس وقت یکدم میرے دل میں ایک خیال پیدا ہوا لوگ تو خواجہ خضر سے کچھ اور مراد لیتے ہیں مگر میں یہ سمجھا کرتا ہوں کہ خضر ایک فرشتہ ہے جس کے قبضہ میں اللہ تعالیٰ نے دریا رکھے ہوئے ہیں.جب ناصر احمد نے یہ بات کہی تو میں نے کہا خواجہ خضر ہم آپ کے علاقہ میں سے گزر رہے ہیں ہماری دعوت کیجئے اور ہمیں کھانے کے لئے کوئی مچھلی دیجئے.جو نہی میں نے یہ فقرہ کہا بھائی جی کہنے لگے آپ نے یہ کیا کہدیا کہ خواجہ خضر ہماری دعوت کریں.اس سے تو بچے کی عقل ماری جائے گی مگرا بھی بھائی جی کا یہ فقرہ ختم ہی ہوا تھا کہ یکدم ایک بڑی سی مچھلی کو ذکر ہماری کشتی میں آگری.میں نے کہا لیجئے بھائی جی دعوت کا سامان آ گیا.وہ حیران ہو گئے کہ یہ کیا ہو گیا کہ ادھر میری زبان سے یہ نکلا کہ خواجہ خضر ہم آپ کے علاقہ سے گزر رہے ہیں ہماری دعوت کیجئے اور ادھر انہوں نے یہ کہا کہ آپ کیا کہتے ہیں خواجہ خضر بھی کہیں دعوت کیا کرتے ہیں کہ یکدم ایک بڑی سی مچھلی ہماری کشتی میں آپڑی اور میں نے کہا بھائی جی لیجئے.مچھلی آگئی.چنانچہ اس کے بعد ہم نے وہ مچھلی پکا کر تبرک کے طور پر سب ہمراہیوں کو تھوڑی تھوڑی چکھائی کہ یہ ہمارے خدا کی طرف سے مہمان نوازی ہوئی ہے“.(الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۰ء صفحه ۵۴) روز نامہ الفضل ۱۰.ستمبر ۱۹۳۱ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی قبولیت دعا کا تازہ نشان کے عنوان سے مندرجہ ذیل ایمان افروز واقعہ درج ہے:- وو چند دن ہوئے بنگال کے ایک نوجوان عبد الحفیظ صاحب دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان میں آئے وہ اپنے خاندان میں اکیلے ہی احمدی تھے اور ان کے دوسرے بھائی ان کے سخت مخالف تھے.یہاں آنے کے بعد ان کے بڑے بھائی خوند کر عبدالرب صاحب.....نے خط لکھا کہ میں ایک مصیبت میں مبتلا ہوں.تم اپنے حضرت صاحب سے دعا کراؤ کہ میں اس مصیبت سے نجات پا جاؤں.اگر مجھے نجات حاصل ہو گئی تو میں جماعت احمدیہ میں داخل ہو جاؤں گا.
99 عبدالحفیظ صاحب نے ان کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے دعا کی درخواست کی.اور حضور نے تسلی دلائی.اس کی اطلاع انہوں نے اپنے بھائی کو بھیج دی.اب ان کی طرف سے خط آیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں :.I have been safe from the trouble by the grace of Allah and the dua of Huzoor (his Holiness).I accepted the Ahmadiyya of the very moment when I was safe from the trouble.یعنی میں خدا کے فضل اور حضرت صاحب کی دعا سے بچ گیا ہوں اور میں نے اس وقت احمدیت قبول کر لی جس وقت مجھے اس مصیبت سے نجات حاصل ہوئی.خدا تعالیٰ ہمارے اس بھائی کو استقامت عطا فرمائے اور احمدیت کی برکات سے بہرہ اندوز ہونے کی توفیق بخشے.آمین (الفضل، استمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۷ ) مکرم علی احمد صاحب ریلوے ملازم حضور کی قبولیت دعا کا ایک نشان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- ” میری تعلیم صرف انگریزی مڈل تک ہے، ملٹری میں تقریباً دو سال ڈریسر رہا، جب ۱۹۱۹ء میں افغانستان کی لڑائی ختم ہوئی تو مجھے ڈسچارج کر دیا گیا.پھر میں نوکری کے لئے مارا مارا پھرتا رہا اور حضور کو دعا کے لئے لکھنا شروع کر دیا اور ریلوے پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہو گیا اور قریباً پا ۲ سال ملازمت کرنے کے بعد سارجنٹ سوم ہو گیا.۱۹۲۹ء میں میں کراچی سی آئی ڈی میں کام کر رہا تھا کہ میں نے اخبار میں پڑھا کہ واچ اینڈ وارڈ برانچ ریلوے میں کھلنے والی ہے اور سب انسپکٹر وغیرہ اس میں رکھے جائیں گے.میں نے درخواست دے دی اور حضور کو دعا کے لئے لکھا، مجھے سلیکشن کے لئے بلایا گیا ، میرے مقابل پر سلیکشن بورڈ کے روبرو بی.اے اور کئی ایک وکیل تھے اور کئی ایک ریلوے کا تجربہ رکھنے والے اور ملٹری ریلوے کے کلرک اور انسپکٹر کمرشل برانچ کے تھے.میں نے حضور کو متواتر خط دعا کے لئے لکھنے شروع کئے.جب سب پیش ہو گئے تو میری باری آئی مجھے انہوں نے صرف انگریزی
100 میں یہ پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے اور موجودہ تنخواہ کیا ہے اور کیا کام کرتے ہو اور مجھے منتخب کر لیا.میں نے اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ادا کیا اور نیم پاگل سا ہو گیا کیونکہ میں گھبرا تا تھا کہ اس پوسٹ پر سب کام انگریزی میں کرنا ہے اور مجھے انگریزی آتی نہیں میں کیا کام کروں گا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے انگریزی بھی خود سکھا دی.ابھی میری ملازمت کے قریباً ۶ ماہ ہی گزرے تھے کہ میرے افسر نے میری ڈائری بطور نمونہ سب انسپکٹروں کے پاس بھیجی اور ان کو ہدایت کی کہ ایسا کام کیا کرو.۱۹۳۲ء میں پھر ریلوے میں ECONOMY شروع ہو گئی اور لاہور سے حکم آگیا کہ سب انسپکٹروں کی اسامی کے لئے چانس دیا جائے گا.اور حضور کو دعا کے لئے تار دیا چنانچہ حضور کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے مجھے کامیاب کیا.الفضل ۱۸.جنوری ۱۹۴۰ ، صفحہ ۹) ایک غم زدہ احمدی کی دلجوئی اور قبولیت دعا کی ایمان افروز مثال.مکرم ڈاکٹر کریم الدین صاحب میڈیکل آفیسر پیہ ضلع گجرات لکھتے ہیں :- اوائل نومبر ۱۹۳۳ء میں خاکسار کا اکلوتا لڑکا فوت ہو گیا.خاکسار جب سالانہ جلسہ ۱۹۳۳ء پر قادیان گیا تو حضرت اقدس کی خدمت میں ایک دستی عریضہ پیش کیا جس میں عزیز کی وفات کا ذکر کر کے دعا کی التجا کی.حضور کی طبیعت اس دن علیل تھی اور ویسے بھی جلسہ کے دنوں میں حضور نہایت مصروف ہوتے ہیں اس لئے کسی جواب کی توقع نہ تھی لیکن حضور نے نہایت شفقت اور ذرہ نوازی فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل کلمات اپنے دست مبارک سے رقم فرما کر عطا فرمائے :- عزیزم مکرم ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عزیز کی وفات کا بہت افسوس ہوا اللہ تعالیٰ اس کا نعم البدل عطا فرمائیں اور سب عزیزوں کو صبر جمیل کی توفیق دیں.اپنے گھر میں تسلی دلائیں کہ اِنشَاءَ اللهُ تعالی اس سے اچھا اور زندہ رہنے والا بچہ اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا.مَا نَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُفْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا ( البقرۃ: ۱۰۷) کے ایک یہ بھی معنی ہیں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
101 شکر کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف وکرم سے ۷ مئی عاجز کو ایک لڑ کا عطا فرمایا ہے جس کا نام حضور نے رشیدالدین تجویز فرمایا.الفضل ۲۶.جون ۱۹۳۴ ء صفحه ۲) مکرم فیض عالم صاحب ڈھا کہ قبولیت دعا کا ایک نہایت ایمان افروز نشان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- خدا تعالیٰ کے مقدس بندوں کی ہر بات ایمانداروں کے لئے ایک نشان اور حق کے متلاشیوں کے لئے ایمان افروز غذا کا کام دیتی ہے.محبوب حقیقی کے ناز پروردہ قبولیت دعا میں بالخصوص بے نظیر ثابت ہوتے ہیں.ذیل میں اسی امر کی صداقت میں میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.....اور حلفاً بیان کرتا ہوں کہ یہ واقعہ بالکل صحیح ہے.میری اہلیہ قریبا پانچ چھ سال امراض نسوانی میں سخت مبتلا رہی.بہت سے قابل ڈاکٹر.لیڈی ڈاکٹر و نرس اور دیسی دائیوں سے علاج کروانے کے علاوہ ڈیڑھ مہینہ لدھیانہ ہسپتال میں بھی زیر علاج رہی.اس کے علاوہ حکیموں اور خاص کر ہمارے خاندان کے ایک حکیم سے جو مہا راجہ کشمیر کے شاہی حکیم رہ چکے تھے، علاج کروایا گیا اور ایک دفعہ آپریشن بھی ہوا مگر سب کے سب بے سود بلکہ بیماری ترقی پذیر رہی اور ہر ایک دورہ پہلے دورہ سے شدید گویا مریضہ موت کے منہ سے واپس ہوتی تھی.میں چونکہ بنگال میں ملازم ہوں اس لئے کلکتہ اور بنگال کے بعض اور شہروں سے ڈاکٹروں و نرسز کے مشورے لئے گئے.۱۹۳۶ء کے آغاز میں ایک میرے ہمسایہ افسر کی بیوی نے ایک شیشی دوائی جس سے وہ خود اسی بیماری سے شفا پا چکی تھی دی مگر مریضہ کی حالت اور خطرے میں ہوگئی.گویا مرض دوا کی بڑھتا گیا جوں جوں ایک شام جب میں اپنی ڈیوٹی سے گھر آیا تو اپنی اہلیہ کو نہایت بیدردی سے روتے پایا.پوچھنے پر جواب دیا یوں تو خدا جس حال میں رکھے شکر ادا کرنا چاہئے مگر مایوس زندگی بھی کوئی زندگی ہے.میں نے کہا خدا تعالیٰ کی رحمت سے انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہئے.اس کے بعد ہم دونوں نے وہاں بیٹھے بیٹھے یہ
102 عہد کیا کہ اب کوئی دوائی استعمال نہیں کی جائے گی بلکہ دعا اور صرف دعا.اس دن یا دوسرے دن ہم نے ایک خط (حضرت خلیفتہ المسیح الثانی.ناقل ) کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا اور میری اہلیہ صاحبہ نے اپنے والد بزرگوار مولوی رحمت اللہ صاحب باغا نوالے.بنگہ ضلع جالندھر کے پاس لکھا...مولوی صاحب وہ خط لے کر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں پیش ہوئے اور خط سنا کر روتے ہوئے دعا کے لئے عرض کیا.حضور نے فرمایا.رؤو نہیں.لڑکی اچھی ہو جائے گی.“ میں یہاں یہ ذکر بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کے ایک مخلص صحابی کی لڑکی ہونے کی وجہ سے میری اہلیہ نماز پنچگا نہ کے علاوہ تہجد کی بھی عادی تھیں.ایک دن میں صبح کے وقت اپنی ڈیوٹی سے واپس آیا تو مجھے خوشی خوشی کچھ سنانے کے لئے بٹھایا.کہنے لگی نماز تہجد سے پہلے میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ.ناقل ) مکان میں دروازہ سے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کہتے ہوئے وارد ہوئے میں اٹھ بیٹھی اور اپنا کپڑا ٹھیک کیا اور جواب دیا وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ حضور نے میرا منہ اسی طرح پکڑا جیسے کسی بچہ کو دوائی وغیرہ دینے کے لئے جبڑے دبا کر منہ کھولا جاتا ہے.حضور نے کچھ پڑھا.میرے منہ میں کھو نکا اور میرا منہ چھوڑ دیا اور دریافت فرمایا ) آج کل کیا دوائی استعمال کرتی ہو.میں نے عرض کیا.حضور دعا کرتی ہوں.حضور نے جواباً فرمایا.بس یہی دوائی استعمال کرتی چلی جاؤ....میں نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور مجھے پورا یقین ہو گیا کہ اب بیماری دور ہو جائے گی......اس واقعہ کے دو چار دن بعد بیماری کا دورہ قریب تھا وہ بیماری جس میں مریضہ کبھی درد سے بیتاب ہو کر اٹھ اٹھ کر چھت کو پکڑتی تھی اور روتی کراہتی تھی اور کبھی بے حس و حرکت ہو کر بیہوش ہو جاتی تھی اور وہ بیماری جس سے پہلے ہمیشہ ہم میاں بیوی ایک دوسرے سے گناہ بخشوا لیتے تھے اور آخری وصیتیں یا تحریریں میری اہلیہ مجھے دے دیتی تھیں اور وہ بیماری کہ جس کا ہر ایک دورہ
103 پہلے سے زیادہ ڈراؤنی شکل میں نمودار ہوتا تھا، وقت گزر گیا ، دن گزر گئے اور خبر بھی نہیں گویا بالکل تندرست تھی.یہ واقعہ اپریل ۱۹۳۶ء کا ہے اس کے بعد خدا کے فضل و کرم سے وہ بالکل تندرست ہو گئی اور دسمبر ۱۹۳۶ء میں بچہ بھی پیدا ہوا.بالآخر معروض ہوں کہ یہ وہی عورت ہے جو دنیا کے ڈاکٹروں کے نزدیک لا علاج اور نا قابلِ اولا د ثابت ہو چکی تھی مگر حضور کی دعا سے زندہ ہوگئی اور اب تک خوش و خرم زندگی بسر کر رہی ہے.(الفضل ۱۰.دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۷ ) حضور کی قبولیت دعا کا تازہ نشان ” کے عنوان سے مگرم گیانی واحد حسین مربی سلسلہ احمد به مرحوم کا مندرجہ ذیل ایمان افروز بیان الفضل ۱۱.دسمبر ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا.چوہدری عنایت اللہ صاحب سکنہ چک نمبر ۵۶۵ کے ہاں آٹھ لڑکیاں پیدا ہوئیں.۱۹۳۹ء کے سالانہ جلسہ پر بوقت ملاقات جماعت نے سید نا حضرت (خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ حضور دعا فرمائیں خدا تعالیٰ چوہدری صاحب کے گھر اولاد نرینہ عطا فرمائے.ماسٹر اللہ بخش صاحب نے یہ عرض کی تھی اس پر حضور نے فرمایا.“ میں دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ لڑ کا عطا فرمائے گا.اس وقت حاضرین میں چوہدری محمد الدین صاحب نمبردار، ماسٹر احمد خاں صاحب چوہدری سردار علی صاحب چوہدری محمد الدین صاحب چوہدری پیدائش اللہ صاحب وغیرہ بھی موجود تھے.مستری اللہ دتہ صاحب غیر احمدی بھی تھے جنہوں نے کہا کہ اب خلیفہ صاحب کی صداقت کا پتہ لگ جائے گا اور اگر چوہدری عنایت اللہ صاحب کے گھر لڑکا پیدا ہوا تو میں بیعت کر لوں گا.ماسٹر اللہ بخش صاحب نے چوہدری عنایت اللہ صاحب کو مبارک باد دی.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ۲۶.نومبر ۱۹۴۰ء کو خدا تعالیٰ نے چودھری صاحب کے گھر آٹھ لڑکیوں کے بعد لڑ کا عطا فرمایا......اس بچے کی پیدائش سے جماعت کے ایمان میں تازگی پیدا ہوگئی ہے اور مستری اللہ دتہ صاحب بیعت کے لئے تیار ہیں.گاؤں میں حضرت (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی دعا کی قبولیت کا چرچا ہے.“ (الفضل ۱۱.دسمبر ۱۹۴۰ء صفحه ۴ )
104 حضرت امام جماعت احمدیہ کی دعا کا اثر“ کے عنوان سے الفضل ۱۵.جولائی ۱۹۲۷ء میں مکرم غلام علی فاروقی صاحب ساکن مطوعہ گجرنز د چنگا بنگیال کی طرف سے ایک نہایت روح پرور واقعہ شائع ہوا.وہ لکھتے ہیں :- ” میرے برادر زادہ آغا محمد عبد العزیز بشیر احمدی کے متعلق عرصہ چار ماہ سے مقدمہ جعل سازی کی کارروائی جاری تھی.مقدمہ کی تفصیل نہایت نازک ہے.پیروی جناب خواجہ احمد حسن صاحب بی.اے.ایل.ایل.بی وکیل......نے کی.مجسٹریٹ کا رویہ نہایت شدید محسوس ہوتا رہا اور آثار قہر آلود تھے.آغا کے برخلاف ۲۲ شہادتیں تھیں جن میں سے ۴ انگریز آفیسر تھے بچنے کی کوئی امید نہ تھی.جس دن ہماری طرف سے صفائی کے گواہ پیش کئے گئے اسی دن بحث بھی ہوگئی.اور ۵۶۲ کی ضمانت پر زور دیا گیا مگر مجسٹریٹ نے منظور نہ کی.اس سے نا امیدی زیادہ بڑھ گئی.فیصلہ کی تاریخ ۳۰.مئی ۱۹۲۷ء مقرر ہوئی.آغا نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں ۲۸ مئی کو دعا کی درخواست تحریر کی.ادھر یہ درخواست حضرت صاحب کے پاس پہنچی اور اُدھر فیصلہ کا دن آ گیا.مجسٹریٹ صاحب نے فیصلہ لکھا اور آغا سے کہا تم سات سال جیل بھگتنے کے لئے تیار ہو جاؤ.یہ سن کر ہمارے حواس باختہ ہو گئے لیکن ہم نے جس عظیم الشان شخصیت کی آواز پر لبیک کہی ہوئی ہے اس کی وساطت سے خدا کے حضور میں درد دل سے روئے.مجسٹریٹ نے کئی دفعہ تعزیرات اُٹھا کر پڑھی اور آغا سے مخاطب ہو کر کہا.میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں.آغا نے کہا.جو خدا کو منظور ہو.خدا تعالیٰ کا کچھ ایسا تصرف ہوا کہ مجسٹریٹ نے سات سال کی بجائے صاف بری کر دیا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ (الفضل ۱۵.جولائی ۱۹۲۷ء صفحہ ۸) فیروز والا ضلع گوجرانوالہ کے ایک دوست رحمت علی صاحب زمیندار دعا کی برکت سے پھانسی کے پھندہ سے نجات پانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.وو احقر نے حضرت خلیفہ المسیح اول کے ہاتھ پر بیعت کی تھی مگر بوجہ بُری
105 ۳۰۷ سوسائٹی اور جاہلانہ مصروفیتوں کے عاجز نہ تو کوئی دینی خدمت ہی کر سکا اور نہ کبھی ایسا خیال پیدا ہوا.گذشتہ سال یعنی جولائی ۱۹۲۶ء میں ایک قتل اور ایک کو مضروب کرنے کے جرم میں احقر مع دیگر چار اشخاص کے تعزیرات ہند کے رو سے عدالت میں چالان کیا گیا.جہاں سے بعد تحقیقات ۱۵.جنوری ۱۹۲۷ء کو سیشن جج گوجرانوالہ نے میرے تین ساتھی ملزمان کو رہا کر دیا اور عاجز اور میرے چچا زاد بھائی حیدر کو دفعہ ۳۰۲ کے ماتحت پھانسی اور دفعہ ۳۰۷ کے ماتحت حبس دوام بعبور دریائے شور کی سزائیں دیں.بندہ نے اسی وقت درد دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ خداوند اب ایسے اسباب پیدا کر کہ میری اپیل ہائی کورٹ میں دائر ہو جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو فوراً قبول کیا اور چوہدری محمد شریف صاحب سیکرٹری احمد یہ جماعت فیروز والہ اور دواور دوست مسمیان نذرمحمد و مراد علی میری امداد کے لئے کھڑے ہو گئے.چنانچہ ان مہربانوں نے چوہدری ظفر اللہ خانصاحب و مسٹر ایم سلیم بیرسٹر ان کو وکلاء پیرو کا رمقرر کیا.چوہدری ظفر اللہ خانصاحب بیرسٹر نے مقدمہ لیتے ہی حضرت خلیفہ ثانی کے حضور دعا کے لئے لکھا.عاجز نے بھی متعدد بار حضرت صاحب کے حضور دعاؤں کے لئے عرضداشتیں روانہ کیس اور اللہ تعالیٰ سے خود بھی دعائیں کیں اور دوبارہ بیعت بذریعہ خط پھانسی کی کوٹھڑی جیل گوجر انوالہ سے کی.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضرت خلیفہ ثانی کی دعاؤں اور چوہدری ظفر اللہ خانصاحب بیرسٹر پیروکار کی دعاؤں اور تیاری اپیل کی وجہ سے احقر مع اپنے چچازاد بھائی حیدر ۹ مئی ۱۹۲۷ء کو مسٹر جسٹس براڈوے اور مسٹر جسٹس سکمپ ججان ہائی کورٹ پنجاب سے بری کر دیا گیا اور ہم دونوں ۱۲ مئی بروز جمعرات بوقت ۳ بجے دو پہر وارنٹ رہائی عدالت عالیہ سے آنے پر رہا ہو گئے.ہم ہر دو بھائیوں کی رہائی جو حضرت خلیفہ ثانی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.ہمارے لئے سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا معجزہ ہے.میں اپنے احمدی بھائیوں سے بذریعہ الفضل دعا کا خواہاں ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دین کا سچا خادم بنائے......66 الفضل ۲۰ مئی ۱۹۲۷ء صفحه ۱۰)
106 وو ایک قریب المرگ مایوس العلاج مریض دعا کی برکت سے کس طرح شفایاب ہو گیا اللہ تعالیٰ کے اس غیر معمولی فضل اور احسان کا ذکر کرتے ہوئے سید اختر احمد احمدی بی.اے لکھتے ہیں :- پار سال انہی دنوں میں میں نے ارادہ کیا کہ آئندہ بی.اے کے امتحان میں شریک نہ ہوں کیونکہ نومبر میں میرے منہ سے خون آیا اور بلغم کے معائنہ سے یہ ظاہر ہوا کہ سل کے جراثیم موجود ہیں.میں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا اور امتحان میں بیٹھنے کے متعلق حضور سے دریافت کیا.میری عام صحت اچھی تھی.بعض ڈاکٹر امتحان میں شریک ہونے کی اجازت دے رہے تھے لیکن میرا دل بیٹھا ہوا تھا.حضور نے مجھے امتحان میں بیٹھنے کا مشورہ دیا اور تھکا دینے والی محنت سے بچنے کا ارشاد فرمایا.حضور کے ارشاد سے میرے دل میں پھر زندگی پیدا ہوگئی اور میں نے امتحان کے لئے معمولی تیاری شروع کر دی.میں ماہ مئی وجون میں شریک امتحان ہوا.امتحان کا آخری پر چہ آنرز کا تھا اس سے دور دوز قبل میرے منہ سے بہت سا خون آیا.میں نے حضرت خلیفہ امسیح کو فوراً تار دیا اور آخری پر چہ انگریزی مضمون نویسی کا اس حال میں دیا کہ برف کھا تارہا اور نارنگی کا عرق پیتا رہا تا خون بندر ہے لیکن بعد ازاں میں اس شدت سے بیمار پڑا کہ زندگی کے لالے پڑ گئے.سارے انجکشن نا کامیاب رہے ، خون لگا تار آ رہا تھا، صرف دعا کا آسرا باقی تھا، ہر روز حضرت اقدس کی خدمت میں خط یا تا ر بھجواتا.ڈاکٹر مایوس ہو چکے تھے اور میں قریب المرگ تھا آخر خدا تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کو سنا اور مجھے اچھا کر دیا میں ان دنوں انکی سینا ٹوریم میں ہوں.صبح و شام چار فرلانگ ٹہلتا ہوں وزن پہلے سے کچھ زیادہ ہے.جراثیم کم ہوتے جارہے ہیں.امتحان کا نتیجہ نکلا اور میں جس نے مہینوں علالت کے سبب کتاب نہ دیکھی تھی انگلش آنرز میں اپنے کالج میں فرسٹ آیا اور ساری یونیورسٹی میں آنرز میں سوم.تحدیث نعمت کے طور پر احباب کو خبر سناتا ہوں کہ مجھے پٹنہ کالج کی طرف سے اول ہونے کے انعام میں سو روپے کی کتابیں ملیں.نیز پٹنہ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں یہ اعلان ہوا کہ میں یونیورسٹی بھر میں اردو میں فرسٹ ہوں اور اس
107 کے انعام میں مجھے طلائی تمغہ یونیورسٹی نے دیا.الْحَمْدُ لِلَّهِ.یہ ہے حضرت خلیفتہ المسیح کی دعاؤں کی معجز نمائی.مادی دنیا کی بے بسی مجھ پر تین طور پر ظاہر ہو گئی اور میں نے دیکھ لیا کہ خدا تعالیٰ کس طرح مردے زندہ کرتا ہے.پیارے امام اور احباب سے عرض ہے کہ میری کامل صحت کے لئے دعا فرما ئیں.نیز اس بات کی کہ میر اعلم اور میری بقیہ عمر احمدیت کی خدمت میں صرف الفضل ۸جنوری ۱۹۳۵ء صفحه ۸) و- اللَّهُمَّ امِينَ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سید اختر احمد صاحب اور مینوی صاحب نے لمبی عمر پائی.تعلیمی وادبی ہو.میدان میں نمایاں خدمات سرانجام دیں.جماعتی خدمات میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے.درخواست دعا بلکہ بیماری سے بھی پہلے بیمار کے شفایاب ہونے کی بشارت کا عجیب واقعہ:- ایک تازہ نشان یہ ہے کہ ۶.جولائی کو کنری (سندھ) سے مکرم میاں عبدالرحیم احمد صاحب نے حضرت (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کو بذریعہ تارا اپنی صاحبزادی کی (جو حضور کی نواسی اور صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ کی بیٹی ہیں ) شدید بیماری کی اطلاع دے کر دعا کی درخواست کی.یہ تار ۸.جولائی کو ڈلہوزی میں حضور کو ملا اور حضور نے تار پڑھتے ہی دعا فرمائی اور اس کی پشت پر یہ جواب رقم فرمایا کہ ” میں نے آج خواب میں نوشی (صاحبزادی موصوفہ کا پیار کا نام) کو دیکھا کہ وہ آئی ہے اور مجھے آکر گلے ملی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اسے صحت دے.بظاہر تو خواب مبارک معلوم ہوتی ہے.وَاللهُ أَعْلَمُ “ یہ جواب اسی وقت لکھ کر میاں عبد الرحیم احمد صاحب کو بھیج دیا گیا اس کے بعد خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے صاحبزادی صاحبہ موصوفہ کو صحت بخشی اور بیماری کے سخت حملہ سے بچا کر شفا عطا فرمائی اور اس طرح اس بیماری سے بھی قبل حضرت (خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کو اس کی صحت کی جو بشارت دی گئی تھی وہ پوری ( الفضل ۸ ستمبر ۱۹۴۵ صفحه ۱ ) 66 ہوگئی.“ مندرجہ ذیل ایمان افروز واقعہ مکرم محمدشفیع صاحب نے نئی دہلی سے تحریر کیا جو الفضل مؤرخہ ۲۹.جنوری ۱۹۴۲ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی قبولیت دعا کا ایک نشان کے عنوان
108 سے شائع ہوا:.کچھ عرصہ ہوا میرے ایک رشتہ دار مولوی عبد الرحمن صاحب سکول ماسٹر موضع لدھیوالہ وڑائچ ضلع گوجرانوالہ کو ڈسٹرکٹ بورڈ کی طرف سے حکم ملا کہ آپ کو فلاں تاریخ سے ریٹائر ڈ کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک مدرس چارج لینے کے واسطے بھیج دیا گیا.اس پر مولوی صاحب کو بڑا افکر ہوا کہ اب گھر کا گذارہ کیسے چلے گا کیونکہ میرا لڑکا بھی.گا کیونکہ میرا لڑکا بھی بے روزگار ہے.اسی فکر میں وہ قادیان حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں دعا کے لئے گئے اور وہاں تین روز تک ٹھہرے مگر حضور سے ملاقات نہ ہو سکی اس سے وہ اور بھی گھبرائے مگر دفعتاً انہیں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ تو جانتا ہی ہے کہ میں کس مقصد کے لئے اس کے مقرر کردہ خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوا ہوں.اس پر مولوی صاحب نے چٹھی لکھ کر بکس میں ڈال دی اور واپس گھر آگئے.رات کو خواب میں دیکھا کہ حضور پرنور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایک کرسی پر رونق افروز ہیں سامنے ایک میز پر کتاب ہے.حضور اس کتاب کے ورق کبھی ایک طرف کو الٹتے ہیں کبھی دوسری طرف کو اور مولوی صاحب سے فرمایا.آپ کیا چاہتے ہیں.انہوں نے عرض کیا حضور میں نوکری سے علیحدہ کیا جارہا ہوں.ان دنوں میرا لڑکا بھی بے روز گار ہے گھر کا گزارا کیسے چلے گا.اس پر حضور نے فرمایا.جبکہ حکام فیصلہ کر چکے ہیں تو اب کیا ہو سکتا ہے.عرض کیا کہ حضور میں آپ کے پاس اسی لئے آیا ہوں آپ کوئی تجویز بتائیں اور دعا بھی کریں.حضور نے فرمایا.اچھا جاؤ.لاہور ایک درخواست بھیج دو آپ بحال رہیں گے.صبح اٹھ کر مولوی صاحب نے اس مدرس سے جو چارج لینے کے واسطے آیا ہوا تھا کہا کہ میں بحال رہوں گا اور دفتر میں بھی جا کر اسی طرح کہا.اس پر وہ سب کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں جبکہ فیصلہ ہو چکا ہے تو اب بحال کیسے رہ سکتے ہیں.بعض نے تو یہاں تک کہا کہ مولوی صاحب کے دماغ میں خلل ہو گیا ہے.خیر مولوی صاحب نے ایک درخواست حسب الحکم حضور لاہور بھیجی.وہاں سے حکم آگیا کہ ۵۵ سال سے کم عمر مدرس ریٹائر نہ کئے جائیں اس طرح
109 مولوی صاحب کے ۶ یا ۷ سال اور بڑھ گئے.وو اس واقعہ کے گواہ ہندو سکھ اور غیر احمدی موجود ہیں.“ الفضل ۲۹.جولائی ۱۹۴۲ء صفحه ۴ ) بے نور آنکھوں میں نو ر آ گیا“ کے عنوان سے قبولیت دعا کے ایک غیر معمولی نشان کا ذکر الفضل اخبار میں مورخہ ۵ ستمبر ۱۹۴۴ء میں اس طرح مذکور ہے :- لمصل ” میرے آقا سید نا واما منا حضرت امصلح موعود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اللہ تعالیٰ آپ پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر رکھے اور آ پکی ذات والا صفات ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے رکھے.پہلے اس عاجز کو بالکل نظر نہیں آتا تھا یہاں تک کہ دن اور رات کا پتہ نہ چلتا تھا اور جب یہ عاجز کھانا کھانے لگتا تو لقمہ تھالی کی بجائے زمین پر لگ جاتا.میرے والد بزرگوار بہت جگہ علاج کے لئے گھومے مگر سب کے سب ڈاکٹروں نے جواب دیدیا کہ اب اس بچے کی آنکھیں بالکل بند ہو گئی ہیں.ان میں بنگہ اور پھگواڑہ کے مشہور ڈاکٹر بھی تھے اس پر میرے والد صاحب مایوس ہو کر بیٹھ گئے.ان کو کشفی طور پر دکھایا گیا کہ جس کی دعا سے یہ لڑکا پیدا ہوا ہے اس کی دعا سے شفاء پائے گا.اس کے بعد میرے والد صاحب نے بہت سے خط (پوسٹ کارڈ.ناقل ) لیکر رکھ لئے اور ہر روز حضور کی خدمت اقدس میں ارسال کر دیا کرتے.آخر خداوند کریم نے رحم فرمایا اور اب یہ عاجز اپنے ہاتھ سے یہ خط لکھ رہا ہے.اور رات کو لیمپ کی روشنی میں پڑھ لیتا ہے.آپ کے ادنیٰ خادموں میں سے خادم.صالح محمد احمدی ولد چوہدری فتح محمد ساکن مہیا ن ضلع ہوشیار پور ایک خاتون قبولیت دعا کا ایک نہایت ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے بھتی ہیں :- میں ایک سخت خطرناک بیماری میں عرصہ چار ماہ سے مبتلا تھی.پہلے تو معمولی سمجھ کر معمولی علاج کیا آخر مرض بڑھ گیا پھر پوری کوشش سے علاج کیا مگر بالکل افاقہ نہ ہوا بلکہ مرض اور بھی بڑھتا گیا آخر مایوس ہو کر علاج چھوڑ دیا.
110 زیادہ گھبرا جانے کی حالت میں روپڑتی تھی.آخر دل میں خیال آیا کہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو دعا کے لئے لکھوں.جب دل میں یہ خیال آیا نو دس بجے رات کا وقت تھا.اسی وقت میں نے ایک نہایت ہی گھبراہٹ اور کرب کا خط حضور کی خدمت میں لکھا کہ دعا فرمائیں.خدا تعالیٰ مجھ کو اس مرض سے نجات بخشے.جب میرے خط کا جواب حضور کی طرف سے آیا کہ دعا کی گئی ہے مجھ کو اس وقت بالکل آرام تھا اور میری صحت ایسی تھی کہ گویا کوئی مرض تھا ہی نہیں.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمَ.شکر ہے مہربان خدا کا لاکھ لاکھ بار جس نے مجھ پر اتنا فضل وکرم کیا.اس واقعہ کوکئی ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے کہ میں نے کبھی اس مرض کی حرارت اپنے بدن میں محسوس نہیں کی اور آئندہ کے لئے بھی مجھ کو خدا کے فضل وکرم سے ایسا یقین ہے جیسے پتھر پر لکیر بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ پھر مجھ کو یہ مرض کبھی بھی نہ الفضل ۲.جنوری ۱۹۴۳ ء صفحه ۵ ) ہوگا.
111 مخالفوں سے حُسن سلوک رحمۃ للعالمین کے فدائی اور سچے عاشق کا طرز عمل کتنا دلکش ہے کہ اسلامی اخلاق سے مرضع آپ کے دامن پر عفو وستاری اور رحم و محبت کے نمایاں نشانات اور خوبصورت نقش و نگار تو بکثرت جلوہ فگن ہیں لیکن نفرت، بغض ، بے جا دشمنی ، حسد اور ایسے ہی دوسرے اخلاق رذیلہ کا کوئی بدنما داغ اور دھبہ ہرگز ہرگز نہیں پایا جاتا.آپ فرماتے ہیں :- د میں دیانتداری سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے لئے جو اخلاص اور محبت میرے دل میں میرے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے ہے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں وہ نہ باپ کو بیٹے سے ہے اور نہ بیٹے کو باپ سے ہوسکتا ہے“ (الفضل ۴.اپریل ۱۹۲۴ء صفحہ ۷ ) اسی کیفیت اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- میں کسی کا بھی دشمن نہیں گو ساری دنیا میری دشمن ہے مگر مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں.اس میں میرے لئے خدا تعالیٰ کے عفو اور غفران کی علامت ہے کیونکہ جو کسی کا دشمن نہ ہو پھر بھی اس سے دشمنی کی جائے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخشنے کیلئے تیار ہوتا ہے“ الفضل ۱۷.جنوری ۱۹۴۵ ء صفحه ۶) اسی سلسلہ میں آپ بڑے وثوق اور یقین کے ساتھ یہ اعلان فرماتے ہیں کہ : - میں مانتا ہوں کہ اختلاف کلی طور پر نہیں مٹ سکتا مگر میرے دل میں کبھی کسی ہندو، سکھ یا عیسائی کے لئے نفرت پیدا نہیں ہوئی.میں اس معاملہ میں یہاں تک تیار ہوں کہ اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر حلفا کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کبھی کسی ہندو، عیسائی یا سکھ کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا میری عمر اس وقت ۴۷ سال ہے مگر اس
112 میں سے ایک لحظہ بھی ایسا نہیں گزرا جس میں میرے دل میں کسی شخص کے متعلق دشمنی کے جذبات پیدا ہوئے ہوں“ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۶ ء صفحه ۴) اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحمل و برداشت کی غیر معمولی صلاحیت سے نوازا تھا.بسا اوقات غیر از جماعت افراد اپنی نا واقفیت سے حضور کو بُرے لفظوں سے یاد کرتے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بُرا بھلا بول دیتے مگر آپ اس طرح برداشت فرماتے کہ مخالف کو یہ بھی احساس نہ ہوتا کہ اس نے کوئی نا مناسب حرکت کی ہے.اس قسم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.اسی شہر (فیصل آباد میں ایک بیرسٹر تھے.میں ان کا نام نہیں لیتا تا کہ اگر یہاں ہوں تو شرمندگی نہ ہو.میں جب حج کے لئے جار ہا تھا تو وہ بھی ڈگری لینے کے لئے اسی جہاز میں جا رہے تھے ان کے ساتھ ایک اور ہند و بیرسٹر بھی تھے جو ان دنوں لاہور میں پریکٹس کرتے ہیں اور مشہور بیرسٹر ہیں وہ عام طور پر مذہبی گفتگو کرتے رہتے تھے اور جب ان کو علم ہوا میں احمدی ہوں تو مذہبی گفتگو کا سلسلہ اور بھی لمبا ہونے لگا.وہ بعض اوقات بانی سلسلہ احمدیہ کو گالی بھی دیدیتے مگر میں تحمل سے جواب دیتا.آخر گیارہ دن کے بعد جب ہم سویز پہنچے تو نا معلوم کس طرح انہیں علم ہو گیا کہ میں بائی سلسلہ احمدیہ کا بیٹا ہوں اس پر وہ بہت گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ معاف کیجئے مجھے علم نہ تھا اس لئے سخت الفاظ بعض اوقات منہ سے نکل گئے.میں نے انہیں کہا کہ اگر میں بُرا مانتا تو آپ سے کہہ دیتا.میں تو چاہتا تھا کہ آپ گھل کر اعتراض کریں.پس یہ چیزیں ہماری نگاہ میں کچھ ہستی ہی نہیں رکھتیں،، تحقیق حق کا صحیح طریق انوار العلوم جلد ۱۳ صفحه ۳۹۲) غیر مسلموں سے حسن سلوک آپ کی رواداری اور وسعت قلبی کا دائر ہ صرف جماعت کے افراد یا مسلمانوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ غیر مسہ مسلموں سے بھی آپ کا ایسا ہی سلوک تھا اس کی ایک بہت عمدہ مثال درج ذیل ہے.آپ فرماتے ہیں :- یہاں ایک دفعہ آریوں کا جلسہ ہوا جس میں انہوں نے ہمارے خلاف بہت شور مچایا.جلسہ کے بعد ان کے لیکچرار مجھ سے ملنے آئے.میں نے ان سے کہا کہ سنا ہے آپ کو جگہ کے متعلق تکلیف ہوئی آپ میرے پاس آتے میں مسجد میں
113 انتظام کر دیتا.وہ کہنے لگے کیا آپ اپنی مسجد میں اس کی اجازت دیدیتے.میں نے کہا کیوں نہیں اگر ہمارے آقا و مولا نے عیسائیوں کو مسجد میں اپنے طریق پر عبادت کرنے کی اجازت دی تو میں آپ کو مسجد میں لیکچر کی اجازت کیوں نہیں دے سکتا.ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آج لیکچر دے سکتا ہوں چنانچہ میں نے اجازت دی اور اس مسجد ( مسجد اقصیٰ قادیان ناقل ) (الفضل ۱۱.جون ۱۹۳۶ ، صفحہ ۶ ) میں ان کا لیکچر ہوا آپ کی سلامت طبع اور امن پسندی اسبات کو خلاف عقل اور ناممکن قرار دیتی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی جان بھی لے سکتا ہے.آپ فرماتے ہیں :- آجکل بم بازی اور قتل و غارت کے اکثر واقعات ہو رہے ہیں اور بلا وجہ لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے حالانکہ یہ اتنی عجیب بات ہے کہ میں بعض دفعہ حیران ہو جاتا ہوں اور سوچا کرتا ہوں کہ ایک انسان دوسرے انسان کو کس طرح قتل کر سکتا ہے.بسا اوقات کئی کئی منٹ میں نے اس امر پر غور کیا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو کس طرح قتل کر سکتا ہے اور اگر دنیا میں انسانوں کے قتل کے واقعات نہ ہوتے تو یقیناً میں ان لوگوں میں سے ہوتا جو یہ کہتے کہ ایک انسان کا دوسرے انسان کو قتل کرنا ناممکنات میں سے ہے.جس طرح ایک اور ایک کا چھپیں ماننا ناممکن ہے اسی طرح میں اس امر کو باور نہ کر سکتا.کیونکہ انسانی جان کوئی معمولی چیز نہیں“ الفضل ۷.جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰) ہمدرد دل ایک مخالف کی طرف سے بعض غلط الزامات کا اعادہ کرنے کے بعد حضور کی طرف سے آئندہ نقصان پہنچانے کے خدشہ کا اظہار کیا گیا تو حضور نے اپنی دلی ہمدردی اور بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے متعلق اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: - مجھے اس قسم کے اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہر غلط الزام کا جواب دینے کی نہ ضرورت ہوتی ہے اور نہ اس کا فائدہ ہوتا ہے لیکن چونکہ خط لکھنے والے نے آئندہ کا شبہ بھی ظاہر کیا ہے اور میں کسی کو قلق اور اضطراب میں رکھنا نہیں چاہتا ہوں اس لئے میں ان کے وسوسہ کو دور کرنے اور ان کے خدشات کو مٹانے کے لئے وہ بات کہتا ہوں جس کی مجھے عام حالات میں
114 ضرورت نہیں تھی اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میں نے کسی کو پٹوانا اور قتل کرانا تو الگ رہا آج تک سازش سے کسی کو چیر بھی نہیں لگوائی، کسی پر انگلی بھی نہیں اٹھوائی اور نہ میرے قلب کے کسی گوشہ میں یہ بات آتی ہے کہ میں خدانخواستہ آئندہ کسی کو قتل کرواؤں یا قتل تو الگ رہا نا جائز طور پر پٹوا ہی دوں.اگر میں اس قسم میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی لعنت مجھ پر اور میری اولاد پر ہو.ان لوگوں نے میری صحبت میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے اگر یہ لوگ تعصب سے بالکل ہی عقل نہ کھو چکے ہوتے تو یہ ان باتوں سے شک میں پڑنے کی بجائے خود ہی ان باتوں کو رد کر دیتے.خدا تعالیٰ نے مجھے ظالم نہیں بنایا.اس نے مجھے ایک ہمدرد دل دیا ہے جو ساری عمر دنیا کے غموں میں گھلتا رہا ہے اور کھل رہا ہے، ایک محبت کرنے والا دل جس میں سب دنیا کی خیر خواہی ہے، ایک ایسا دل جس کی بڑی خواہش ہی یہ ہے کہ وہ اور اس کی اولاد اللہ تعالیٰ کے عشق کے بعد اس کے بندوں کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کریں.ان امور میں مجبوریوں یا غلطیوں کی وجہ سے کوئی کمی آ جائے تو آ جائے مگر اس کے ارادہ میں اس بارہ میں کبھی کمی نہیں آئی (الفضل ۲۰.نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ۱۱) سخت کلامی سے نفرت حضور تو اپنے خداداد منصب ، اپنی تربیت اور اخلاق فاضلہ کی وجہ سے کسی سے بغض نہیں رکھتے تھے اور آپ یہ بھی چاہتے تھے کہ آپ کی جماعت میں بھی یہ خوبیاں پیدا ہو جائیں.اس امر کے لئے بعض دفعہ آپ کو قتی بھی برتنا پڑی تاکہ جماعت کا اخلاقی معیار بلند رہے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے :- یا د رکھنا چاہئے کہ سخت کلامی اخلاص پر دلالت نہیں کرتی.اس کی ایک تازہ مثال آپ لوگوں کے سامنے ہے.یعنی میاں فخر الدین ملتانی کی.ان کی ٹھوکر کا موجب ہی ان کی سخت کلامی ہوئی.وہ ہمیشہ پیغامیوں کے خلاف سخت مضامین لکھا کرتے تھے.میں نے ڈانٹا کہ یہ طریق مجھے پسند نہیں کہ مضامین میں گالیاں دی جائیں خواہ وہ میرے شدید مخالفوں کو ہی کیوں نہ ہوں.یہ بات ان کو بُری لگی کہ میں تو ان کے لئے قربانی کرتا ہوں، ان کے مخالفوں کا مقابلہ کرتا ہوں اور یہ ناراض ہوتے ہیں.انہوں نے پھر ویسا ہی مضمون لکھا اور میں نے پھر ڈانٹا
115 اور ان کو پھر بُرا لگا.دو تین بار ایسا ہی ہوا آخر میں نے ان کو کہا کہ اگر پھر ایسا مضمون لکھا تو سزا دوں گا.اس پر ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہاں کام کرنے والوں کی کوئی قدر نہیں.ان کے نزدیک قدر کے یہی معنے تھے کہ میں خدا، رسول، اسلام اور اخلاق کی کوئی پرواہ نہ کرتا اور اس پر خوش ہو جا تا کہ یہ شخص میری مدد کرتا ہے حالانکہ اصل چیز تو خدا تعالیٰ کی خوشنودی ہے اور میں تو خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں.اگر وہی ناراض ہو کہ میں نے گالیاں دلوائیں تو میں فخر دین صاحب کی امداد کو کیا کرتا.اس بات سے ان کو ٹھوکر لگ گئی اور یہی سخت کلامی ابتلاء کا موجب ہو گئی.چنانچہ بعد میں جب ان کے بیان لئے گئے تو یہی معلوم ہوا کہ اصل ٹھو کر کا موجب یہی بات ہوئی ہے.انہوں نے بیان کیا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب ناراض ہیں تو میں نے دو تین بار یہ دریافت کرایا که ناراضگی کا باعث کیا ہے تو معلوم ہوا کہ میرے جو مضامین فاروق میں شائع ہوتے ہیں ان کی وجہ سے ناراض ہیں اور بھی کئی شخص میں نے دیکھے ہیں کہ جن کو اسی بات سے ٹھوکر لگی کہ وہ سمجھے کہ ہم تائید کر رہے ہیں اور میں اسے نا پسند کرتا ہوں.ایسی تائید جو غلط طریق سے ہو وہ مجھے کبھی پسند نہیں آئی اور میں کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اس رنگ میں میری مدد کی جائے اور کوئی انسان مدد کر بھی کیا سکتا ہے اگر خدا تعالیٰ ناراض ہو جائے.اصل جو ابد ہی تو خدا تعالیٰ کے سامنے کرنی ہوتی ہے.اگر اسلام احمدیت اور اخلاق جاتے رہیں تو خواہ کروڑوں مضامین لکھے جائیں ان کی قیمت اتنی بھی نہیں جتنی ان کاغذوں کی جن پر وہ لکھے ( الفضل یکم مئی ۱۹۴۰ء صفحه ۳۲) جاتے ہیں اخلاق فاضلہ کی تلقین اخلاق فاضلہ کے بلند معیار کو قائم رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا : - میں جماعت احمدیہ کے تمام مصنفوں اور مضمون نویسوں اور لیکچراروں کی واقفیت اور اطلاع کے لئے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آجکل ملک کی پر تشویش حالت کو دیکھ کر گورنمنٹ مختلف لوگوں کی تحریروں یا تقریروں پر نوٹس لے رہی ہے.گو ہمارا یہ طریق ہے کہ گورنمنٹ کی مشکلات میں اس کا ہاتھ بٹایا جائے
116 اور اس وقت بھی قیام امن میں ہر ایک جائز ذریعہ سے ہم اس کی مدد کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن ان مقدمات کے نتیجہ میں ایک حالت پیدا ہو رہی ہے جس کے متعلق میں اپنی جماعت کے لوگوں کو پہلے سے ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ مقدمہ میں گرفتار ہو کر جھٹ معافی مانگنے لگ جاتے ہیں اور جس بات کو انہوں نے دیانت داری سے لکھا تھا اس پر قائم رہنا پسند نہیں کرتے.میں ان حالات کو افسوس کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور اپنی جماعت کے مصنفوں اور مقرروں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اول تو وہ اپنی تحریروں یا تقریروں میں ایسا رنگ ہی اختیار نہ کریں جس سے ملک میں فساد ہو یا شورش پیدا ہولیکن اگر با وجود ان کی احتیاط کے گورنمنٹ ان میں سے کسی پر کسی مصلحت سے کوئی مقدمہ چلائے تو میں ان سے امید کرتا ہوں کہ وہ مومنانہ غیرت کو کام میں لائیں گے اور بزدلی سے اجتناب کریں گے.ہم گورنمنٹ کے لئے ہر ایک جائز بات کو اختیار کر سکتے ہیں لیکن بداخلاقی کو نہیں اور بُزدلی اور جھوٹ دوز بر دست بداخلاقیاں ہیں.پس جو شخص مقدمہ سے ڈر کر معافی مانگتا ہے جب کہ اس کا نفس یہ کہتا ہے کہ اس نے غلطی نہیں کی وہ اپنے اس فعل سے اسلام کی ہتک کرتا ہے وہ دوگناہ کرتا ہے.وہ بُزدلی کا اظہار بھی کرتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے اور پھر لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنتا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ اگر فی الواقع آپ میں سے کسی سے اگر جوش کی حالت ہی میں غلطی ہو جائے تو وہ اس کا اقرار نہ کرے کیونکہ اپنی غلطی کا اقرار نہ کرنا بھی ایسا ہی بُرا ہے جیسے ایک ایسے کام کو بُرا کہنا جسے ہم ویسے اچھا سمجھتے ہیں بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ جو شخص دیانت داری سے یہ سمجھتا ہو کہ اس نے جو کچھ کیا یا لکھا ہے اس میں ہر گز کوئی بات خلاف واقعہ یا خلاف تہذیب یا خلاف قانون یا بد نیتی سے نہیں کہی تو اسے گورنمنٹ کے غضب سے بچنے کے لئے خدا کے غضب کو اپنے اوپر نہیں بھڑ کا نا چاہئے.میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر کوئی شخص خدانخواستہ کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے جس میں اس کا قصور نہیں اور وہ بہادری سے اپنے ایمان اور ضمیر کی پیروی کرے تو میں اور میرے ساتھ اخلاص رکھنے والی تمام
117 جماعت اس کی ہر ممکن اور جائز مدد کرے گی اور قانونی طور پر جس قدر بھی اس کی تائید کر سکے گی اس کی تائید کرے گی.اس شخص کا غم ہمارا غم ہوگا اور اس کی مصیبت ہماری مصیبت لیکن اگر وہ شخص بُزدلی سے کام لے گا اور اپنی ضمیر کے خلاف جھوٹ سے اپنی مصیبت کو ٹلا نا چاہے گا وہ ہم میں جگہ نہیں پائے گا اور خدا کی پاک جماعت اسے اپنی آغوش میں نہیں لے گی.میں آخر میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اخلاق فاضلہ کو ہمیشہ مدنظر رکھو اور ان کو نظر انداز کر کے خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور گورنمنٹ کی پریشانی کا موجب نہ بنو اور اگر خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ، با وجود دیانت داری سے امن کی راہ پر چلنے کے کوئی مصیبت آ جائے تو بہادری اور جرات سے اس کو برداشت کرو اور اپنے ایمان کو داغدار مت کرو.خاکسار مرزا محمود احمدخلیفة المسیح الثانی قادیان ۱۱.دسمبر ۱۹۲۳ء (الحکم ۱۴.دسمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۵ ) اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دنیا میں آپ کے بہت سے دشمن تھے.جماعت احمدیہ کا امام ہونے کے ناطے جماعت کے تمام معاند آپ کی زندگی میں سب سے زیادہ جسے دشمنی ونفرت کے قابل سمجھتے تھے وہ آپ کے سوا کوئی اور نہ تھا.ان دشمنوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک قسم وہ ہے جو دیانت داری سے اپنے مذہب کی حمایت کے جوش و جذبہ کی وجہ سے آپ کی مخالفت و دشمنی کو خدائی فریضہ سمجھتے تھے.ان کی دشمنی بغض و عداوت کی بجائے اسلام سے محبت اور احمدیت سے ناواقفیت اور عدم علم کی وجہ سے تھی.ایسے بہت سے خوش قسمت جب کسی حُسنِ اتفاق سے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے یا کسی طریق سے حضور سے ان کا تعلق قائم ہوا تو وہ اپنی اس خوشگوار حیرت بلکہ ندامت کو چُھپا نہ سکے کہ ہم تو بالکل کچھ اور ہی سمجھ رہے تھے جب کہ حقیقت حال بالکل اس کے برعکس ہے اور ہزاروں ایسے دشمن آپ کے قریب آنے اور آپ کے حالات کو جاننے کے بعد آپ کے حلقہ بگوش حسن واحسان ہو گئے اور دشمنی و عداوت کی بجائے آپ کی عقیدت و محبت سے سرشار دونوں جہان میں سرخروئی حاصل کر گئے.آپ سے دشمنی کرنے والوں کی دوسری قسم ایسے افراد کی تھی جو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ وہ اپنی دشمنی کی دُکان جھوٹ و فریب سے چپکا رہے ہیں اور ان کا مقصد محض ذاتی انا کی تسکین یا
118 مذہبی اجارہ داری کا قیام یا سیاسی تفوق و مرتبہ حاصل کرنا تھا.ایسے دشمن ہر طریق پر مخالفت جاری رکھنا اپنی زندگی کا مقصد و مدعا قرار دیے ہوئے تھے.مگر یہ عجیب بات ہے کہ باوجود ان لوگوں سے ہر طرح کی تکالیف اور مصائب پانے کے آپ ان کے لئے بھی ہمیشہ دعا گو ہی رہے نکالا مجھے جس نے میرے چمن سے میں اس کا بھی دل سے بھلا چاہتا ہوں اور ان کے معاملہ کو حوالہ بخدا ہی رکھا دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ ودل برمانے دو یہ درد رہے گا بن کے دوا تم صبر کر و وقت آنے دو آسمانی میں عدو میرا زمینی، اس لئے میں فلک پر اُڑ رہا ہوں اس کو ہے بل کی تلاش احرار سے حسن سلوک جماعت کی احرار کی طرف سے مخالفت کوئی پوشیدہ راز نہیں ہے کہ احرار کو ہندو کانگرس اور حکومت کے بعض افسروں کی سر پرستی حاصل تھی.گویا یہ مخالفت کوئی مذہبی مخالفت نہ تھی بلکہ مسلم مفاد کو نقصان پہنچانے کے لئے ہند و سازش تھی اور یہ لوگ اس سازش میں کٹھ پتلی یا بقول قائد اعظم سید ھائے ہوئے پرندے تھے.اس منظم مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- بعض مسلمان کہلانے والوں نے محسوس کیا کہ جماعت اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اگر اس سے آگے بڑھ گئی تو اس کا مٹانا اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا اس لئے انہوں نے تنظیم کر کے اور ایسے لوگوں کی مدد لے کر جو بظاہر ہمارے دوست بنے ہوئے تھے مگر اندرونی طور پر دشمن تھے ہمارے خلاف اڈا قائم کر لیا اور ایسی تنظیم کی جس کی غرض احمدیت کو کچل دینا ہے.۱۹۳۲ء میں تحریک کشمیر کے دوران ایک دن سر سکندر حیات خان صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی.میٹنگ سر سکندرحیات خان صاحب کی کوٹھی پر ہوئی اور میں اس میں شریک ہوا.چوہدری افضل حق صاحب ( مشہور احراری لیڈر ) بھی وہیں تھے باتوں باتوں میں وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ
119 احمدی جماعت کو کچل کر رکھ دیں میں نے اس پر مسکرا کر کہا اگر جماعت احمدیہ کسی انسان کے ہاتھ سے کچلی جا سکتی ہے تو کبھی کی کچلی جاچکی ہوتی اور اب بھی اگر اسے کوئی انسان کچل سکتا ہے تو یقیناً وہ رہنے کے قابل نہیں ہے.یہ پہلی کوشش تھی پھر احرار نے جماعت احمد یہ کو کچلنے کی مزید کوشش شروع کی.انہوں نے جب........جماعت احمدیہ کے خلاف کوشش شروع کی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑے خزانہ کا دروازہ کھول دیا گیا ہے" ( الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء) حضور کے اس پر حکمت جواب میں تو کل ویقین کی روشنی جماعت کی صداقت کی ایک یقینی اور واضح دلیل ہے حضور کے کردار کا یہ عجیب روشن پہلو ہے کہ حضور نے اسلامی مفاد کے پیش نظر ایسے لوگوں سے بھی حُسنِ سلوک فرمایا اور اتحاد و اتفاق کی برکات سے بہرہ اندوز ہونے کے لئے ان لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش فرمائی چنانچہ ہماری تاریخ کا یہ ورق کتنا دلکش ہے کہ ہمارے جلیل القدر امام مسلم مفاد کی حفاظت کے لئے مسلم اکابرین کے اصرار پر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صدر بننے پر رضامند ہوئے تو اس حیثیت سے حضور نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ تمام مسلمانوں کو اس قومی کام کے لئے متحد کریں اور حضور نے سب سے پہلے احرار سے اس سلسلہ میں رابطہ فرمایا اور اَلْحُبُّ لِلَّهِ وَالبُغْضُ لِلَّهِ “ کا انتہائی مخالف و نا مساعد حالات میں عملی مظاہرہ فرمایا.ایک ایسے موقع پر جب احمدیت کے ایک شدید معاند و مخالف مولوی ظفر علی خاں ( جو اس زمانہ میں احرار میں شامل اور احراری مقاصد کی تکمیل کے لئے وقف تھے ) مسلم لیگ کی طرف سے ایک ایسے انتخاب میں امیدوار تھے جہاں ان کی شکست سے اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہوتے تھے تو حضرت فضل عمر کی ہدایت کے مطابق جماعت احمدیہ کے فیصلہ کن ووٹ مولوی ظفر علی صاحب کی حمایت میں ڈالے گئے.اس بظاہر نا قابل یقین اور عجیب واقعہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں : - وو احرار کو اگر ہم نے ووٹ دیئے ہیں تو سیاسی معاملہ میں دیئے ہیں نہ کہ کسی دینی معاملہ میں.اس سے پہلے مولوی ظفر علی خان صاحب کو جو کہ سنٹرل اسمبلی کے ممبر ہوئے ہیں ہماری جماعت نے ووٹ دیئے تھے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیوی معاملہ میں اگر ایک احراری مسلمان قوم کے لئے زیادہ مفید ہو سکتا ہے تو ہم
120 احراری کو کیوں ووٹ نہ دیں.ہر مسلمان جو سیاست کے لحاظ سے مسلمان کہلاتا ہے اگر ہم اس کے متعلق یہ سمجھتے ہوں کہ وہ زیادہ اچھا کام کر سکتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے ووٹ دیں....اسی طرح اگر ہم ایک مسلم لیگی کے متعلق سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے لئے مفید کام کر سکتا ہے تو ہمیں اس کے احمدی نہ ہونے کی وجہ سے اسے ووٹ دینے میں کوئی دریغ نہیں ہوسکتا اور نہ کسی اور پارٹی کے آدمی کو جو مسلمانوں کے لئے مضر نہ ہو الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۷ ) جماعت احمدیہ کی مخالفت و دشمنی کے سلسلہ میں مولوی ظفر علی خاں صاحب کا نام بہت نمایاں ہے آپ ایک پُر جوش صحافی اور شعلہ بیان شاعر و مقرر تھے.آپ زمیندار اخبار کے مالک تھے.یہ اخبار اور مولوی صاحب کی تمام صلاحیتیں جماعت کی مخالفت کے لئے وقف تھیں یہاں تک کہ مخالفت کے زور میں بسا اوقات تہذیب و متانت اور شائستگی کے مسلم طریق بھی نظر انداز ہو جاتے تھے.یہ ذکر ہو چکا ہے کہ باوجود تمام مخالفت و دشمنی کے محض قومی مفاد کی خاطر احمد یوں نے انہیں ووٹ دیئے اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر احمدی انہیں اپنے ووٹ نہ دیتے تو وہ اس حلقہ میں کامیاب نہ ہو سکتے.یہاں یہ بیان کرنا بھی غیر ضروری نہ ہوگا کہ یہی مولوی صاحب ساری عمر شدید مخالفت میں گزار کر اپنی عمر کے آخری حصہ میں بیمار ہوئے تو کسی کو یہ یاد نہ آیا کہ آپ بابائے صحافت اور بلند پایہ ادیب و شاعر اور مدیر شہیر اور آزادی کے حصول کی خاطر تگ و دو کرتے رہے ہیں.یہ عجیب مقام عبرت و نصیحت ہے کہ وہ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں بمشکل اپنے سانس پورے کر رہے تھے.حضور کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے نہ صرف اپنے معالج خاص کو ان کے معائنہ کیلئے بھجوایا بلکہ قیمتی نایاب ادویہ بھی باقاعدگی کے ساتھ ان تک پہنچانے کا اہتمام فرمایا.محترم مرزار فیق احمد صاحب بیان کرتے ہیں :- مولانا ظفر علی خان مرحوم اپنے زمانے کے نامور صحافی اور مسلمانوں کے ایک طبقہ کے مانے ہوئے لیڈر تھے، روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر اور مالک تھے ، ادبی وسیاسی سرگرمیوں کے علاوہ احمدیت کی مخالفت آپ کی زندگی کا ایک بڑا مشن تھا اور یہ مخالفت آپ نے اس شد و مد سے کی کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زمیندار محض اس کام کے لئے وقف ہے.مسلمانوں کو یہ یقین دلانے میں پورا زور صرف کر دیا کہ اسلام اور
121 احمدیت دو مختلف ، بنیادی نظریات ہیں.آپ بسا اوقات جوش خطابت اور زور تحریر میں حضور کی ذات گرامی پر بھی بڑے رکیک حملے کر جاتے تھے.عمر کے آخری حصے میں مولانا ظفر علی خان بہت بیمار ہو گئے ، فالج کا شدید حملہ تھا.۱۹۵۶ء میں حضرت اقدس بھی مری گئے ہوئے تھے اور مولانا بھی وہیں قیام رکھتے تھے، حضور کو جب علم ہوا تو آپ نے صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور خاکسار کو بھیجا کہ ان کی صحت کا پوچھ کر آئیں.ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد اور ڈاکٹر حشمت اللہ نے ڈاکٹری رپورٹ پیش کی.حضور نے فوری طور پر کچھ رقم علاج کے لئے بھجوائی اور کچھ دوائیاں وغیرہ ارسال کیں اور تاکید کی کہ جب تک وہ مری میں ہیں باقاعدہ ان کی صحت کے بارے میں اطلاع دی جائے.حضور جب تک مری میں رہے ہر روز ان کا حال دریافت کرتے رہے اور علاج کے سلسلے میں ان کی مالی اعانت کا سلسلہ بھی جاری رہا.“ ( ملت کا فدائی صفحہ ۴۰٬۳۰) احرار کے ذکر میں حسن سلوک کی ایک اور دلچسپ مثال قادیان کے زمانہ میں دیکھنے میں آتی ہے.قادیان میں احرار بہت ہی کم تعداد میں تھے مگر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل اور قادیان کی پُرامن احمدی فضا کو خراب کرنے کی ناکام کوششوں میں لگے رہتے تھے.ایسی ہی ایک کوشش یہ بھی کی گئی کہ قادیان کے قدیمی قبرستان جو حضور کا خاندانی قبرستان تھا پر ناجائز قبضہ کر لیا جائے.قادیان میں فساد اور خونریزی کی کوشش میں ناکامی کے بعد عدالت کی طرف بھی رجوع کیا گیا مگر ان کو ہر جگہ بُری طرح ناکامی سے دوچار ہونا پڑا.اس موقع پر حضور نے فرمایا :- وو با وجود تمام مخالفتوں کے اگر آج بھی احرار کے لئے جگہ ختم ہو جائے تو کم سے کم میں اپنی زندگی تک کہہ سکتا ہوں کہ ان کو قبرستان کے لئے کوئی زمین خریدنے کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ ان کے بھائیوں اور ہم مذہبوں سے پہلے ان کی تکلیف میں میں ان کی امداد کرنے کے لئے تیار ہوں گا الفضل ۲۵.جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۶) اسی فراخدلانہ پیش کش کو مزید نکھارتے ہوئے اور خلق محمدی کی شاندار مثال قائم کرتے
122 گا.ہوئے آپ فرماتے ہیں :- احرار دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے اٹھارہ گھماؤں زمین قادیان میں خریدی ہوئی ہے...اب جن مقامی غیر احمدیوں کا خیال ہے کہ وہ ”پاک“ ہیں اور احمدی نجس ہیں.احرار اپنی خرید کردہ زمین میں سے ایک گھماؤں زمین قبرستان کیلئے ان کو دیدیں اس زمین کی قیمت میں ادا کردوں لیکن اگر ان کے دوست اور ان کو اُکسانے والے جن کے پاس مسلمانوں کے چندے سے ہی خریدی ہوئی زمین موجود ہے مجھ سے قیمت لے کر بھی ان کو زمین دینے کے لئے تیار نہ ہوں تو وہ مجھے لکھدیں کہ احرار قیمتاً بھی ہمیں زمین نہیں دیتے پھر میں ان کو خود زمین دے دوں گا.حکومت پنجاب کے وہ افسر جو احرار کی ہمدردی میں گھلے جا رہے ہیں اور ہمارا اپنے حقوق لینا انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ان کی مدد نہ کریں ، ان کے بھائی یعنی احرار ان کی طرف توجہ نہ کریں تو وہ میرے پاس آئیں میں پھر بھی ان کی مدد کروں گا.میں دولتمند نہیں ہوں بیشک قادیان کے مالکوں میں سے ہوں اور اس کے علاوہ بھی تین گاؤں کا ہمارا خاندان مالک ہے مگر آمد کے لحاظ سے ہم دولتمند نہیں ہیں تا ہم جب مائی باپ مدد سے ہاتھ اُٹھا لیں اور جب برادر پیٹھ دکھا جا ئیں اس وقت میں ان کے خیال میں جو ان کا دشمن ہوں ان کی مدد کروں گا“ (الفضل یکم جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۶۵) دشمن سے حسن سلوک اس طرح کا ایک واقعہ مکرم صاحبزادہ مرزا رفیق احمدصاحہ طرح ایک صاحب بیان کرتے ہیں :- ۱۹۵۱ ء یا ۱۹۵۲ء کا ذکر ہے کہ محترم خلیفہ شجاع الدین پنجاب اسمبلی کی پیکر شپ کے امیدوار تھے ، اس سلسلے میں آپ ربوہ آئے اور چونکہ حضرت امی جان (سیدہ ام ناصر ) کی ان سے قریبی رشتہ داری بھی تھی ، تو سید ھے آپ کو آکر پیغام بھجوایا کہ میں نے حضرت صاحب سے ملنا ہے مجھے وقت لے دیں.امی جان نے دینی غیرت کی وجہ سے جواب دیا.یوں تو آپ میرے خاوند کو گالیاں دیتے ہیں مگر جب کام ہوتا ہے تو
123 سفارش کروانے آ جاتے ہیں.میں نہ صرف یہ کہ پیغام نہ دوں گی بلکہ آپ سے ملنے کی بھی روادار نہیں ہوں“ خلیفہ شجاع الدین صاحب مایوس ہو کرسید ھے دفتر پرائیوٹ سیکرٹری میں گئے اور وہاں سے کوشش کی.کچھ وقت گزرنے کے بعد حضوراقی جان کے ہاں تشریف لائے اور کہنے لگے.د تمہیں معلوم ہے کہ خلیفہ شجاع الدین صاحب آئے ہوئے ہیں، وہ کھانا میرے ساتھ کھائیں گے.اکرام ضیف کے طور پر مزید ایک دو ڈش تیار کر دو امی جان نے کہا.مجھے معلوم ہے کہ وہ آئے ہوئے ہیں مگر میں نے انہیں جواب دے دیا ہے“ اس پر حضور نے فرمایا.تم نے تو اپنی غیرت کا اظہار کر دیا ہے مگر اب وہ میرے مہمان ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ و آلہ وسلم نے مہمان کی بڑی عزت رکھی ہے.وہ گالیاں دے کر اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں ، میں نے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چل کر اپنے ( ملت کا فدائی صفحہ ۳۲٬۳۱) اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے“ شیعوں سے حسن سلوک قادیان سے باہر کسی جگہ سنی مسلمانوں نے شیعوں کا تعزیہ رکنے کے لئے احمدیوں کو بھی تعاون کرنے کی درخواست کی حضور سے اس بارہ میں استفسار کیا گیا تو حضور نے کسی کی مذہبی رسوم عبادات میں دخل اندازی سے منع کرتے ہوئے فرمایا :- ہمیں اس سے کیا کوئی کچھ کرے یہ نا جائز ہے کہ کسی کی مذہبی رسوم کو بند کرانے کی کوئی کوشش کرے.اگر شیعوں کا تعزیہ بند کرانے کی وہ آج درخواست کرتے ہیں تو کل وہ آپ کی نماز کے بند کرانے کی کوشش کریں گے.........اس بات میں آزادی ہے جس عبادت کو کوئی درست اور سچا سمجھ کر کرے..66 ( الفضل یکم جنوری ۱۹۲۳ء صفحه ۶) شیخ غلام محمد سے حسن سلوک مکرم چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب راوی ہیں کہ :-
124 ایک دفعہ کسی وجہ سے شیخ غلام محمد صاحب مرحوم ( جو اپنی مخصوص دماغی حالت کی وجہ سے بڑے بڑے دعاوی کرتے تھے اور اسی وجہ سے حضور کے بھی شدید مخالف تھے ) کے ساتھیوں نے احمد یہ بلڈنکس میں ہنگامہ کر کے مولوی صدرالدین صاحب (جو بعد میں امیر انجمن احمد یہ اشاعت اسلام منتخب ہوئے ) کو ضربات پہنچا ئیں.قادیان سے حضرت اقدس کا ارشاد مگر می شیخ بشیر احمد صاحب جواس وقت جماعت احمد یہ لاہور کے امیر تھے ) کو ملا کہ مولوی صاحب موصوف کے پاس جا کر ان سے اظہار ہمدردی کیا جائے اور اگر ان کی کوئی خدمت اس ضمن میں ممکن ہو تو اس سے گریز نہ کیا جائے بلکہ ان سے دریافت کیا جائے کہ ہماری جماعت اس معاملہ میں ان کی کیا خدمت کر سکتی ہے اور اگر وہ کوئی خدمت لینا چاہیں تو پوری تندہی سے وہ خدمت بجالائی جائے اس کی اہلیہ کی حضور نے کئی بار مالی معاونت فرمائی“ ( ریکار ڈ فضل عمر فاؤنڈیشن ) دشمنوں سے ہمدردی کی تلقین غیروں اور دشمنوں سے مدارات اور بُردباری ہی نہیں خیر خواہی ، ہمدردی اور دعا کی تلقین کرتے ہوئے آ.فرماتے ہیں :- غیروں کے لئے بھی دعائیں کرو.ان کے متعلق اپنے دلوں میں غصہ نہیں بلکہ رحم پیدا کرو.خدا تعالیٰ کو بھی اس شخص پر رحم آتا ہے جو اپنے دشمن پر رحم کرتا ہے.پس تم اپنے دلوں میں ہر ایک کے متعلق خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرو.کسی کے لئے بد دعا نہ کروں کسی کے متعلق دل میں غصہ نہ رکھو.بلکہ دعائیں کرو اور کوشش کرو کہ اسلام کی شان وشوکت بڑھے اور ساری دنیا میں الفضل ۴.جنوری ۱۹۴۰ ، صفحه ۵) احمدیت پھیل جائے دشمنوں سے خیر خواہی و ہمدردی کے عملی اظہار کا مندرجہ ذیل واقعہ اپنی مثال آپ ہے کہ دشمن کی دُکھتی رگ پر انگلی رکھنے کی بجائے آپ تو ازن و اعتدال اور صحیح اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- لاہور کے ایک ہندو جو ہندوؤں کے مشہور لیڈر ہیں ان کی لڑکی کے متعلق کئی سال ہوئے اخبارات میں بڑا شور اُٹھا کہ اس کی خط و کتابت کسی شخص
125 سے پکڑی گئی ہے الفضل کا ایڈیٹر میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ فلاں ہندو کی لڑکی کے خطوط پکڑے گئے ہیں..شخص سلسلہ کا سخت مخالف ہے اب خدا نے ہمیں ایک موقع عطا کیا ہے اس کی لڑکی کے خطوط پکڑے گئے ہیں بہتر ہے کہ ہم بھی اس واقعہ کا اپنے اخبار میں ذکر کر دیں.میں نے اسے کہا.بیشک خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ موقع دیا ہے مگر یہ موقع خدا تعالیٰ نے تمہیں اپنی شرافت کے اظہار کا دیا ہے تمہیں چاہئے کہ تم اس کے خلاف پروٹیسٹ کرو کہ ایک مسکین اور بے کس لڑکی کے خلاف اخبارات میں جو پرو پیگنڈا کیا جا رہا ہے یہ نہایت ہی کمینہ پن اور اخلاق سے گرا ہوا فعل ہے.چنانچہ ہمارے اخبار میں عام اخبارات کے رویہ کے ( الفضل ۸ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۶ ) خلاف پروٹیسٹ کیا گیا...سی سلسلہ میں حضور نے فرمایا : - وو اگر دشن گالیاں دیں، بدزبانیاں کریں، نا پاک الزام لگا ئیں تو سمجھنا چاہئے کہ ناکام و نا مراد دشمن گالیاں ہی دیا کرتا ہے مگر فتح مند فوج مسکراتی ہوئی گزر جاتی ہے.پس ہماری جماعت کو ان امور کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ صبر و استقلال سے کام کرتے جانا چاہئے“ (الفضل ۲۸.دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۳) مقابلہ کا انداز حضرت فضل عمر نے دشمنوں کی دشمنی اور مخالفوں کی مخالفت کے جواب میں اشتعال انگیزی، دشنام دہی ، بدزبانی ، بے جا الزامات، غیر اخلاقی زبان کبھی بھی استعمال نہ کی حالانکہ آپ کے مخالفوں کی طرف سے یہ سب باتیں بڑے دل آزار طریق پر مسلسل ہوتی رہتی تھیں.حضور کے مقابلہ کے انداز بہت ہی پیارے تھے مثلاً مسابقت في الخیرات آپ کا مقابلہ کا ایک نہایت مؤثر طریق تھا اس کی طرف بلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.وو میں نے بار ہا چیلنج کیا ہے کہ وہ لوگ جو تم میں سے نکل کر ہم میں شامل ہوئے ہیں ان کی بھی گنتی کر لو اور جو لوگ ہم میں سے نکل کر تم میں شامل ہوئے ہیں اُن کی بھی گنتی کر لو، پھر تمہیں خود بخو دمعلوم ہو جائے گا کہ کون بڑھ رہا ہے اور کون گھٹ رہا ہے مگر انہوں نے کبھی اس چیلنج کو قبول نہیں کیا.اسی طرح میں نے بار بار چیلنج دیا ہے کہ تم اس بات میں بھی ہمارا مقابلہ کر لو کہ تمہارے ذریعہ سے کتنے لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں مگر انہیں کبھی اس مقابلہ کی توفیق بھی نہیں ملی
126 کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے مقابلہ کیا تو ان کا پول کھل جائے گا“ الفضل ۱۳.جولائی ۱۹۴۱ ، صفحہ ۷ ) اس لحاظ سے بھی ہم میں اور غیر مبائعین میں کیسا عظیم الشان فرق ہے.دونوں طرف کے لیڈروں کو ہی لے لو میرے صرف ایک سال کے رویا وکشوف اور الہامات اگر جمع کئے جائیں تو وہ مولوی محمد علی صاحب کی ساری عمر کے خوابوں سے بڑھ جائیں گے پھر اگر ان رؤیا و کشوف اور الہامات کو لے لیا جائے جو پورے ہونے سے پہلے غیر مذاہب والوں کو بتا دیے گئے تھے تو اس میں بھی مولوی محمد علی صاحب میرا مقابلہ نہیں کر سکتے، الفضل ۱۳.جولائی ۱۹۴۱ ء صفحہ ۸ ) علیم قرآن کے بارے میں مولوی صاحب ( مولوی محمد علی صاحب ناقل ) کو بار بار مقابلہ کا چیلنج دے چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ اگر انہیں علم قرآن کا دعویٰ ہے تو وہ میرے سامنے بیٹھ جائیں اور تفسیر نویسی میں مجھ سے مقابلہ کر لیں لیکن وہ کبھی بھی اس طرف نہیں آئے اور مجھے یقین ہے کہ اب بھی نہ آئیں گئے (الفضل ۸.دسمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۴ ) إِنْشَاءَ اللهُ دنیا دیکھ لے گی کہ میرے مخالف کامیاب نہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ با وجود ان باتوں کے (لوگوں کو ) میری طرف کھینچ کھینچ کر لاتا جائے گا اور میرے ذریعہ سے إِنْشَاءَ الله احمدیت اور اسلام کی ترقی دنیا کے چاروں گوشوں میں ہوتی جائے گی اور دشمن حسد کی آگ میں جلتا چلا جائے گا الفضل ۸- دسمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۵) شدید مخالفت، ذاتی حملے، اخلاق سوز بیانات کے مقابل پر حضور محض اس لئے خاموش ا رہتے تھے کہ شریعت کا یہی تقاضا ہے تاہم اس امر سے بعض لوگوں کو یہ وسوسہ ہو سکتا تھا کہ حضور قسم سے بچنے کے لئے اور اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لئے یہ باتیں بیان کرتے ہیں.حضور نے ان امور کی وضاحت کے لئے ایسے امور جن پر قسم کھانا آپ کے نزدیک جائز تھا حلف اُٹھاتے ہوئے اپنے مدلل بیان میں فرمایا : - وہ (مصری صاحب) مجھے کہتے ہیں کہ اگر وہ الزامات جو مجھ پر لگاتے ہیں جھوٹے ہیں.تو میں مؤكّد بعذاب قسم کھاؤں حالانکہ مستریوں کے مقابلہ
127 میں بھی میں نے کہا تھا اور اب بھی میں کہتا ہوں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کے امور کے لئے جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کے خاص طریق بتائے گئے ہیں قسموں وغیرہ کا مطالبہ جائز نہیں بلکہ ایسے مطالبہ پر قسم کھانا بھی اس حکمت کو باطل کر دیتا ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے.ہاں جس پر الزام لگایا گیا ہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اختیار ہے کہ جب وہ مناسب سمجھے الزام لگانے والے کو مباہلہ کا چیلنج دے لیکن چونکہ وساوس وشبہات میں مبتلا رہنے والا انسان خیال کر سکتا ہے کہ شاید میں نے قسم سے بچنے کے لئے اس قسم کا عقیدہ تراش لیا ہے.اس لئے کم سے کم اس شخص کی تسلی کے لئے جو جانتا ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بیچ نہیں سکتا میں کہتا ہوں کہ میں اس خدائے قادر و توانا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھا کر شدید لعنتوں کا انسان مورد بن جاتا ہے کہ میرا یہ یقین ہے کہ قرآن کریم کی اس بارہ میں وہی تعلیم ہے جو میں نے بیان کی اور اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی جب مجھ پر لعنت ہو.اب وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ میں اس لئے قسم نہیں کھا تا کہ میں جھوٹا ہوں اور خدا تعالیٰ کی لعنت سے ڈرتا ہوں انہیں سوچنا چاہئے کہ اگر میں خود ان کے یقین کے مطابق خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم سے ڈرنے والا ہوں تو میری یہ قسم سچی ہے اور ب یہ قسم کچی ہے تو انہیں ماننا پڑے گا کہ میرا ان معاملات میں مباہلہ نہ کرنا یا قتم نہ کھانا اپنے عقیدہ کے رو سے خدا تعالیٰ کے حکم کے پورا کرنے کیلئے ہے.یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص ایک جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا وہ دوسری جھوٹی قسم بھی نہیں کھایا کرتا لیکن اگر ان کا خیال ہو کہ میں اس بارہ میں جھوٹی قسم کھا رہا ہوں تو انہیں سوچنا چاہئے کہ پھر دوسرے امر میں جھوٹی قسم کھا لینے سے مجھے کیا عذر ہو سکتا ہے“ (الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۷ ) غیر معمولی تحمل مخالفوں کی اشتعال انگیز حرکات پر جوش میں نہ آنے اور بزرگوں کا طریق اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :-
128 ”میرے پاس ایک شکایت پہنچی ہے کہ مصری صاحب کے بعض ساتھی ایک جگہ کھڑے تھے کہ انہوں نے میری تصویر لے کر اس کی ایک آنکھ چاقو سے چھید دی اور اس کے نیچے رنجیت سنگھ کا نا لکھ دیا اور ایسی جگہ پھینک دیا جہاں سے احمدی اسے اٹھا لیں.یہ شکایت پہنچانے والے دوستوں نے لکھا ہے کہ ہمیں یہ دیکھ کر سخت غصہ اور جوش آیا حالانکہ اس میں جوش کی کونسی بات تھی.دشمن جب عداوت میں اندھا ہو جاتا ہے تو وہ اسی قسم کے ہتھیاروں پر اترا کرتا ہے پھر ہمارے لئے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہمارے بزرگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے الفضل ۹.مارچ ۱۹۳۸ ء صفحہ ۷۶ ) غیر از جماعت ضرورتمندوں کی ضرورت کا علم ہونے پر خاموشی سے ان کی مالی واخلاقی مدد کرنے کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں.مکرم مولوی عبد الرحمان صاحب انور جنہیں ایک لمبا عرصہ انچا رج دفتر تحریک جدید اور اسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت میں خدمت بجالانے کی سعادت 66 حاصل رہی وہ بیان کرتے ہیں کہ :- ایک مجاور سے حسن سلوک ربوہ کے آباد ہونے پر ضلع جھنگ کی ایک خانقاہ کے مجاور نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ان کو وہ اونٹ بہت پسند ہے.لیکن خریدنے کی طاقت نہیں ہے جس پر حضور نے ایک خاص آدمی کو بھیج کر ۲۰۰ روپے میں وہ اونٹ خرید کر اس کے حوالہ کر دیا.وہ حضور کی اس مہربانی پر بہت ہی ممنون ہوا اور باصرار کہتا رہا کہ کوئی خدمت میرے لائق.حضور نے فرمایا :- اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں آپ سے کسی خدمت کی ضرورت نہیں ہے“ منافقین سے حسن سلوک حضرت فضل عمر کی مخالفت کرنے والوں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جو جماعت سے بظاہر تعلق رکھتے تھے مگر جماعت کے بلند اخلاق کے معیار کو قائم رکھنے کے لئے جب انہیں ان کی کسی بد معاملگی یا کمزوری کی طرف توجہ دلائی گئی تو بجائے اپنے نفس کی اصلاح کرنے اور اصلاح کے لئے توجہ دلانے والے کا شکریہ ادا کرنے کے
129 وہ غرور و تکبر کی وجہ سے شیطانی وساوس کا شکار ہو کر حضور کی مخالفت اور دشمنی پر اتر آتے.ان مخالفوں کی مخالفتوں اور اعتراضات میں سے وہ باتیں جن کا حضور کی ذات سے تعلق تھا اس کے متعلق حضور کا طریق مبارک تھا کہ آپ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَاماً “ پر عمل کرتے ہوئے ان امور کو حوالہ بخدا فرماتے اور ان پر اپنی اور جماعت کی طاقت، وقت کو ضائع کرنے کی ضرورت نہ سمجھتے.البتہ ایسے تمام معاملات کو جن کا جماعت کی عمومی اصلاح و بہتری سے تعلق ہوتا اپنی مجالس میں بیان فرماتے ان کا تفصیلی جائزہ لیتے اور مدلل شافی جواب مرحمت فرماتے.وہ لوگ جو دشمنی و عداوت میں شائستگی ، متانت ہی نہیں عام انسانیت کے تقاضوں کو بھی نظر انداز کر دیتے تھے ان کے الزامات کے تجزیہ وتفصیل کی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ خدا تعالی کی فعلی شہادت ان امور کا فیصلہ کر چکی ہے.وہ لوگ جو حضور کو غلط کا رقرار دے کر بزعم خویش اصلاح و بہتری کے لئے اُٹھے تھے وہ خائب و خاسر ہو کر نَسُيًا مُنْسِيًّا کے تاریک غاروں میں غائب ہو چکے ہیں اور ملت کا فدائی، بہی خواہ قوم اور خادم قرآن ہر لحاظ سے مؤید و منصور من اللہ ہوا اور آپ کا ہر پروگرام و منصو بہ اور آپ کی جاری کردہ تحریکات اور نیکیوں کے صدقہ جاریہ کے دائرہ کی وسعت دن بدن ترقی پذیر ہے اور آپ کا ذکرِ خیر (لسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا ) بھی ہمیشہ جاری رہتا ہے اور جاری رہے گا.جماعت کے افراد سے غلطیاں سرزد ہونا تو کوئی غیر طبعی اور غیر معمولی امر نہیں ہے نسیان و خطا اور بھول چوک انسان کا لازمہ ہے.ایسے مواقع پر حضور حسب موقع اور حسب حال کوئی ذریعہ اصلاح تجویز فرمایا کرتے تھے.عام معمول کے ذرائع اصلاح کے علاوہ آپ اپنے ایسے خدام کو استغفار ذکر الہی اور پہلے سے زیادہ عبادات بجالانے کی تلقین بھی فرمایا کرتے تھے.آپ کے ذریعہ اصلاح میں بظاہر سختی کا رنگ اپنے خدا دا د منصب کی وجہ سے محض انتظامی مجبوری کی وجہ سے ہوتا تھا ورنہ آپ دل کے ایسے حلیم تھے کہ قصورواروں کے لئے برابر دعا فرماتے اور ان کی بہتری کے لئے کوشاں رہتے.اس سلسلہ میں اپنے طرز عمل کے متعلق آپ فرماتے ہیں :- و بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ میں ان دوستوں سے ناراض ہوں جنہوں نے سوالات کئے ہیں.مگر میری یہ عادت نہیں.میں اس وقت تک ان کے لئے تین دفعہ دعا کر چکا ہوں.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ میں ان سے ناراض نہیں ہوں.اب بھی میں ان کیلئے دعا کرونگا.مجھے افسوس یہ ہے
130 کہ منافقوں نے انہیں دھوکا دیا اور وہ ان کے دھوکا میں آگئے.ورنہ وہ مخلص ہیں میں ان سے ناراض نہیں ہوں اور منافقوں سے بھی ناراض نہیں ہوں.کیونکہ ہمارا کام اصلاح کرنا ہے.اگر ناراض ہوں تو پھر اصلاح کس طرح کریں“ دوستوں کو نصیحت رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ ، صفحه ۵۰٬۴۹) میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ بنی نوع سے محبت کرو.یاد رکھو کہ عداوت میٹھی چیز نہیں محبت میٹھی چیز ہے تم دیکھو دونوں میں سے کونسی چیز آرام دہ ہے.آیا محبت آرام دہ ہے یا غصہ.تم غور کرو کہ تم جس وقت غصہ کی حالت میں ہوتے ہو اس وقت آرام کی حالت میں ہوتے ہو یا جس وقت محبت کے جذبات و خیالات میں.جب تم غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ امن خدا کی طرف سے آتا ہے.غضب اس وقت جائز ہے جب خدا کے غضب کے مقابلہ میں آجائے ورنہ محبت ہی ضروری ہے.جو لوگ حُسنِ سلوک اور محبت کے جذبات چھوڑ دیتے ہیں ان کے لئے یہاں ہی جہنم ہے“ (الفضل ۱۱.دسمبر ۱۹۲۲ ء صفحہ ۸) دوپس میں نصیحت کرتا ہوں کہ دوسروں سے ملنساری پیدا کرو.اخلاق فاضلہ یہ نہیں ہیں کہ جو تم سے ملتا ہے تم اس سے نرمی کا سلوک کرو بلکہ اخلاق فاضلہ کا منشاء یہ ہے کہ تم لوگوں کے پاس جاؤ ان سے ملو اور ان سے ہمددری اور عمدہ برتاؤ کرد.(الفضل ۱۶.نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۷ ) ایمانی غیرت حضور کی سیرت کا یہ درخشاں پہلو ہمارے سامنے آچکا ہے کہ آپ نے کبھی کسی کو اپنا دشمن نہیں سمجھا اور وہ لوگ جو حضور یا جماعت کے دشمن تھے ان کے لئے بھی دعائیں کرتے رہے اور حسب موقع امداد بھی مگر اس پہلو کا دوسرا روشن رخ یہ بھی ہے کہ آپ نے کبھی خوشامد یا بے غیرتی کا طریق اختیار نہ کیا بلکہ جب بھی کوئی ایسا موقع آیا جہاں جماعت کی تو ہین یا بے عزتی کا کوئی پہلو نکلتا ہو تو آپ خم ٹھونک کر مقابلہ پر آ جاتے تھے اور اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتے تھے کہ مقابلہ پر حکومت ہے یا اکثریت ہے یا کوئی با اثر شخصیت ہے.آپ فرماتے ہیں:.
131 ”ہم نے مسلمانوں کے اتحاد کے لئے قربانی کی ہے اور ہر رنگ میں اس کے لئے امداد دی ہے.مسلمانوں کے کونسلوں وغیرہ کے انتخاب میں ہم نے اپنے دوستوں کے تعلقات کی پرواہ نہ کی اور ان کو چھوڑ کر دوسروں کی امداد کی جب کہ یہ سمجھا کہ ان کا منتخب ہونا مسلمانوں کے فوائد کے لئے زیادہ بہتر ہے ہم نے اپنے عزیزوں کو ان کے لئے چھوڑ ا.ان سے جھگڑے کئے......پھر ہم نے ہر اس موقع پر جہاں رسول کریم صلی للہ یہ آلہ وسلم کی بہتک کی گئی دوسروں سے آگے بڑھ کر کام کیا یہ ہمارا کسی پر احسان نہیں تھا بلکہ ایسا کرنا ہمارا فرض تھا.مگر ہم نے اپنا فرض ہی ادا نہیں کیا بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی بیدار کیا اور ان کی جگہ کام کیا.ملکانوں کے ارتداد کے وقت ہم نے ان کے بچانے کے لئے کام کیا....بنگال میں جب مسلمان مرتد ہونے لگے تو ہم وہاں پہنچے.اور ان کو مرتد ہونے سے بچایا غرض ہم نے ہر وہ کام کیا جس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا.میں اس خطبہ کے ذریعہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمان اگر چاہتے ہیں کہ صلح واتحاد ہو تو ہم سے شرافت اور تہذیب کے ساتھ سلوک کریں لیکن اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یا احمدیت کے متعلق طعن و تشنیع سے کام لیں گے تو ہرگز صلح نہ ہوگی نہ ہم کونسلوں کی کوئی حقیقت سمجھتے ہیں نہ ملازمتوں کو کچھ وقعت دیتے ہیں نہ تجارت کی کچھ قدر سمجھتے ہیں.ہمارے نزدیک خدا اور رسول سب سے زیادہ عزیز ہیں.میں غیر احمدیوں سے کہتا ہوں اگر وہ ہمارے مقتدا کے متعلق طعن و تشنیع سے کام لیں گے اور غیر شریفانہ رویہ نہ چھوڑیں گے تو ہم سانپوں اور درندوں سے صلح کرلیں گے مگر ان سے نہیں کریں گے (الفضل ۸ - فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ ) ی قطعی طور پر دیانتداری کے خلاف ہے کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جس میں کسی فریق کے حقوق کو نظر انداز کیا جائے.میں مخالفت کی پرواہ نہیں کرتا اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں کا یہ حق ہے کہ اگر وہ دیکھیں کہ ان کے جماعتی حقوق کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے تو سب مل کر اس کا ازالہ کریں اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی جدو جہد کریں لیکن میرے نزدیک احمدیوں کو اپنا معیار بہت بلند رکھنا چاہئے اور انہیں ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ دوسروں کے حقوق
132 بھی تلف نہ ہوں.ایسے معاملات میں ہمیں قطعا یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ان لوگوں کی طرف سے ہماری مخالفت کی جاتی ہے بلکہ ہمیں ان کے حقوق کی کامل حفاظت کرنی چاہئے.پس میں امید کرتا ہوں کہ مخالفت اور گالیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اور ان ناجائز ذرائع کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جو دشمن ہمارے مقابلہ میں اختیار کرتا ہے صبر اور اسلامی علو حوصلہ سے کام لیتے ہوئے ہماری جماعت کے احمدی ممبر نہ صرف احمدی حقوق کی حفاظت کریں گے بلکہ وہ غیر احمدیوں ،سکھوں ہندوؤں اور ان کے حقوق کی بھی حفاظت کریں گے..میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ زیادہ حوصلہ دکھائیں اور بہر حال ان کی رعائت رکھیں الفضل ۲۴.دسمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۲ تا ۴ ) اللہ تعالیٰ اس بات کا گواہ ہے کہ اپنی ذات میں مجھے کسی شخص سے عداوت نہیں نہ اپنے دشمن سے، نہ سلسلہ کے کسی دشمن سے.افعال بے شک مجھے برے لگتے ہیں اور انہیں مٹا دینے کو میرا جی چاہتا ہے مگر کسی انسان سے مجھے دشمنی نہیں ہوئی حتی کہ سلسلہ کے شدید ترین دشمنوں کی ذات سے بھی مجھے آج تک کبھی عداوت نہیں ہوئی.یہ دل بے شک چاہتا ہے کہ ہمارے سلسلہ کے دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام رہیں اور اللہ تعالیٰ یا تو انہیں ہدایت دے یا ان کی طاقتوں کو توڑ دے مگر یہ کہ ان کو اپنی ذات میں نقصان پہنچے یہ خواہش نہ کبھی پہلے میرے دل میں پیدا ہوئی اور نہ اب ہے.تو آدمیوں کی عداوت کوئی چیز نہیں جس چیز کو مٹانا ہمارا فرض ہے وہ خلاف اسلام عقائد اور طریقے ہیں جو دنیا میں جاری ہیں اگر ہم ان عقائد اور طریقوں کو مٹانے کی بجائے آدمیوں کو مٹانے لگ جائیں اور وہ اصول اور طریق خود اختیار کر لیں تو اس کی ایسی ہی مثال ہو گی جیسے کوئی بادام کے چھلکے رکھتا جائے اور مغز پھینکتا جائے“ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۸ ء صفحه ۱۰) جماعت کے وقار و عزت کے لئے برطانوی حکومت کو للکارتے ہوئے فرماتے ہیں:.
133 ہم جو برطانوی حکومت کے ماتحت رہتے ہیں ہمارا تعاون حکومت برطانیہ کے ساتھ ہوگا اور ہم اپنے عمل سے دنیا پر یہ بات ثابت کر دیں گے کہ ہمارا حکومت برطانیہ کے ساتھ تعاون کسی خوشامد یا لالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہبی تعلیم کی وجہ سے ہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ ہم اپنے حقوق کو بُھول جائیں.میں احمدیت کی عزت کی خاطر مقامی افسروں سے اگر وہ اپنے برے رویہ کو ترک نہ کریں گے برابر لڑتا رہوں گا اور جب تک احمد یہ جماعت کی عزت کو قائم نہ کر لوں گا ان سے صلح نہ کروں گا کیونکہ میرے نزدیک احمدیہ جماعت کی عزت برطانیہ کی عزت سے بہت زیادہ ہے اور جو افسر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت کے ساتھ جماعت احمدیہ کو ڈرا لیں گے وہ ایک دن ذلیل ہو کر اپنی غلطی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے.میں احسان کے ساتھ ان سے بدلہ لوں گا اور خود ان کی قوم سے ان کے خلاف ملامت کا اظہار کر وا کے چھوڑوں گا إِنْشَاءَ اللهُ تَعَالَى وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الَّذِى هُوَ مُوَفِّقِى وَ مُؤَيِّدِي وَنَاصِرِى “ الفضل ۱۷.فروری ۱۹۳۹ء صفحه ۱۲) مہاراجہ کشمیر کے سیکرٹری نے عزت نفس کے خلاف طریق اختیار کیا تو آپ نے اسلامی غیرت وعزت کا خیال کرتے ہوئے ان سے ملنے سے انکار کر دیا.ایک موقع پر کشمیر کمیٹی کے دباؤ کی وجہ سے سر ہری کشن کول نے لکھا کہ آپ اپنے سیکرٹری کو مہاراجہ کی ملاقات کے لئے بھجواد ہیں.حضور نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو بھجوا دیا مگر مہا راجہ نے ملاقات سے پہلو تہی اختیار کر لی اس پر چوہدری صاحب حضور کی اجازت سے واپس تشریف لے آئے.اس کے بعد کول صاحب کا خط آیا کہ مہاراجہ ملنا تو چاہتے تھے مگر وہ کہتے تھے کہ مرزا صاحب خود آتے تو میں ان سے مل لیتا ان کے سیکرٹری سے ملاقات کرنے میں تو میری ہتک ہے.اس کے چند دن بعد حضور لا ہور تشریف لے گئے تو کول صاحب ملاقات کرنے آئے میں نے ان سے کہلوا دیا کہ مہاراجہ صاحب خود آتے تو میں ان سے مل بھی لیتا آپ تو ان کے سیکرٹری ہیں اور آپ سے ملنے میں میری ہت ہے...اس سے قبل حضور کئی دفعہ سر ہری کشن کول سے مل چکے تھے مگر اسلام کے لئے غیرت اور اصول پسندی کی وجہ سے آپ نے مہاراجہ کے سیکرٹری سے ملنے سے انکار کر دیا.( خلاصه از الموعود )
134 جرات و بہادری پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے حضور نہایت پر حکمت انداز میں فرماتے ہیں : - و تم مت سمجھو کہ احمدیت کی فتح اسی طرح ہوگی کہ ایک احمدی یہاں سے ہوا اور ایک وہاں سے یہ تو ایسی ہی جنگ ہے جیسے بڑی جنگ سے پہلے ہراول دستوں سے چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہو جایا کرتی ہیں.ان معمولی ہراول دستوں کی جنگوں کو بڑی جنگ سمجھنا غلطی ہے.ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب احمدیت کو دوسرے تمام مذاہب کے مقابلہ میں ڈٹ کر مقابلہ کرنا پڑے گا.تب دنیا کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا اور تب دنیا کو معلوم ہوگا کہ کونسا مذ ہب اس کی نجات کے لئے ضروری ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تلوار کی جنگ ہوگی مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ مضبوط دلوں کی جنگ ہوگی اور دلوں کی مضبوطی اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک انسان خطرات میں اپنے آپ کو ڈالنے کے لئے تیار نہ ہو جائے.پس ہر جگہ جہاں کوئی شخص ڈوب رہا ہو وہاں ایک احمدی کو سب سے پہلے کو دنا چاہئے اس لئے بھی کہ وہ مسلمان یا سکھ یا عیسائی یا ہندو اس کا ایک بھائی ہے جس کو بچانا اس کا فرض ہے اور اس لئے بھی کہ اس کے اندر جرات و بہادری پیدا ہو.ہر جگہ جہاں آگ لگی ہو وہاں ایک احمدی کو اس آگ کو بجھانے کے لئے سب سے پہلے پہنچنا چاہئے اس لئے بھی کہ جس گھر کو آگ لگی ہے وہ خواہ مسلمان ہے یا ہندو ہے یا سکھ ہے یا عیسائی ہے بہر حال اس کا ایک بھائی ہے اور اس لئے بھی کہ اس کے نفس کو آگ میں کودنے کی مشق ہو اور جرات و دلیری اس کے اندر پیدا ہو.اسی طرح ہر جنگ جو وطن کی حفاظت کے لئے لڑی جائے اس میں ایک احمدی کو سب سے پہلے شامل ہونا چاہئے اس لئے بھی کہ وطن کا حق ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے جان دی جائے اور اس لئے بھی کہ اس کے اندر جرات و بہادری پیدا ہو اور جب شیطان کی جنگ خدا تعالیٰ کی فوج کے ساتھ ہو تو اس وقت وہ اس جنگ میں خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جان کو قربان کرنے والا ہو.جو شخص آج اپنے آپ کو اس رنگ میں تیار نہیں کرتا ، جوشخص آج اپنے نفس کی اس طرح تربیت نہیں کرتا، جو شخص آج اپنے اندر یہ جرات و دلیری پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا کل اس
135 پر کوئی امید نہیں کی جاسکتی وہ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائے گا اور اس کی زبان کے دعوے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکیں گے (الفضل ۲۴.جولائی ۱۹۴۲ء صفحہ ۷۶ ) خدا تعالیٰ کے فضل سے حضور مکمل غور و فکر کے بعد ہی کوئی فیصلہ فرماتے تھے اس خدا داد ملکہ کے متعلق بطور تحدیث نعمت آپ فرماتے ہیں :- میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس قدر عمر پبلک کے سامنے گزاری ہے کہ حکومت بھی اور ابنائے وطن بھی اس امر کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ میں جلد بازی سے قدم اُٹھانے کا عادی نہیں ہوں جہاں تک ہوسکتا ہے سوچ کر اور غور وفکر کے بعد ہی فیصلہ کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک سترہ سالہ پبلک زندگی میں ایک دفعہ بھی مجھے شرمندہ ہونے کا موقعہ پیش نہیں آیا اور مجھے اپنے فیصلہ کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور جلد یا بد میرلوگوں کو میرے نقطہ نگاہ کی حت تسلیم کرنی پڑی ہے.اپنے علم اور اپنے تجربہ کو دیکھتے ہوئے میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے ورنہ چونکہ میری صحت خراب ہے اس کے اثر کے نیچے بالکل ممکن تھا کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو میری تقریر اور تحریر میں جلد بازی اور چڑ چڑے پن کا اثر پایا جاتا.بہر حال دوست اور دشمن اس امر کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے کہ میں محتاط آدمی ہوں اور اندھا دھند اعلان کرنے کا عادی نہیں (انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۶۸٬۶۷) مخالفت اور اعتراضات کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کئی رنگوں میں تائید فرماتا تھا.جن میں سے ایک رنگ یہ تھا کہ آپ کو مخالفوں کے مقابلہ کی طاقت وقوت اور صحت عطا کی جاتی تھی.حضور فرماتے ہیں :- " مجھے خدا تعالیٰ نے بچپن سے ہی ایسی زندگی میں سے گزارا ہے کہ اعتراضوں کی جب وہ بے ہودہ ہوں پرواہ ہی نہیں.میرا جسم اعتراضوں کی کثرت سے اعتراضوں کی برداشت کیلئے اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ اب اس پر کوئی اعتراض اثر ہی نہیں کرتا نہ لوگوں کی رضا سے میں خوش ہوتا ہوں نہ ان کی ناراضگی سے ناراض.مجھے تو صرف خدا تعالیٰ کی رضا بس ہے اور اس کی رضا کو پورا کرنے کے لئے دشمن تو الگ رہے اگر اپنے دوستوں سے بھی مجھے الگ ہونا
136 پڑے تو مجھے ایک ذرہ بھر بھی ملال نہ ہو (الفضل ۲۹.جنوری ۱۹۲۶ ء صفحه ۲) مناظرات، مخالفت اور مقابلہ کے ماحول میں بھی آپ نے کبھی خلاف اخلاق کوئی حرکت نہ کی بلکہ اپنی جماعت میں سے کسی اور کو بھی ایسا کرنے کی اجازت نه دی مندرجہ ذیل مثال اسی نا در خلق کی ہے.مکرم مرزا رفیق احمد صاحب لکھتے ہیں :- جماعت کے بلند پایہ عالم ، حرارتِ ایمانی سے بھر پور ، دین کے بے لوث خادم، عبدالرحمن خادم مرحوم ابتدائی عمر ہی سے بڑے جو شیلے جوان تھے ، مولانا ظفر علی خان کسی جلسہ میں تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو خادم صاحب اپنے فطری جوش وجذ بہ سے مولانا ظفر علی سے سوالات کرنے لگے ، آپ نے ان سے کہا کہ جماعت کے فلاں لٹریچر اور فلاں تعلیم کے خلاف بات کی ہے، حالانکہ آپ بزرگ ہیں غلط بیانی کرتے ہیں ہمیں اس کا جواب دیں.مولا نا خادم صاحب کی بار بار مداخلت سے تنگ آ کر سٹیج سے اُترے اور کہا کہ میں ایسی بیہودہ مجلس میں تقریر نہیں کرونگا یہ کہہ کر اپنے گھر کی طرف پیدل روانہ ہو گئے لیکن خادم صاحب ان کا پیچھا چھوڑنے والے کہاں تھے.ساتھ ہی احمد یہ ہوسٹل کے چند اور احمدی جوان بھی ہو لئے اور بار بار یہی کہتے گئے کہ مولا نا ہماری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے ، حتی کہ گھر آ گیا اور مولانا ظفر علی خان نے نہایت غصہ سے کواڑ بند کر کے گنڈی لگالی.خادم صاحب مرحوم نے حضرت صاحب کو قادیان خط لکھا جس میں یہ ساری روئیداد درج تھی اور آخر میں لکھا کہ اردو محاورہ کے مطابق ”جھوٹے کو گھر تک پہنچا کر آئے ، خادم صاحب اب داد تحسین کے منتظر تھے اور بڑی بے تابی سے خط کا انتظار کر رہے تھے ، آخر حضور کا خط آیا، لکھا تھا: - "آپ کا خط پہنچا، خوشی کی بجائے افسوس ہوا، آخر مولانا ظفر علی خان صاحب بھی اپنے حلقہ میں ایک معزز اور قابلِ احترام شخصیت ہیں اور اسلام کسی کے ساتھ تمسخر کی اجازت نہیں دیتا ، میں آپ سے ناراض ہوں اور اس وقت تک معاف نہ کروں گا جب تک مولانا آپ کو معاف نہ کر دیں.“ خادم صاحب نے بیان کیا کہ ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ، یا الہی یہ
137 ماجرا کیا ہے؟ ہمارا خلیفہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے.وہ خط لیکر دوڑے مولانا کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا مولانا باہر آئے ، آپ کو دیکھا اور دروازہ بند کرنے لگے، مگر خادم صاحب مرحوم جلدی سے دو کواڑوں کے درمیان آگئے اور عاجزی سے کہا ،مولانا ! میں بحث کرنے نہیں معافی مانگنے آیا ہوں :- مولانا معافی کا لفظ سن کر چکرا گئے کہ کہیں یہ کوئی دھوکا تو نہیں ، مگر خادم صاحب مرحوم کے چہرے پر لجاجت اور عاجزی کے تاثرات پڑھ لئے.خادم صاحب اندر گئے اور مولانا کے سامنے حضرت صاحب کا خط رکھ دیا.خط پڑھ کر مولانا کی آنکھیں بھر آئیں، کہنے لگے کہ میں ایسے اخلاق کا مظاہرہ رسول اللہ کے بعد صرف آپ کے صحابہ تک محدود سمجھتا تھا.خادم صاحب مرحوم کہنے لگے ، مولا نا جلدی معافی لکھئے ہماری تو دنیا اندھیر ہوگئی ہے.بہر حال آپ کسی بھی پہلو سے سیدنا محمود کی زندگی کو پر کھیئے ہر پہلو قرآن کریم اور رسول اللہ صل اللہ یہ آلہ سلم کے اخلاق حسنہ کی انعکاسی کرتا ہوا نظر آئے گا.( ملت کا فدائی صفحہ ۶۰ ۶۱ ) ایسی بے شمار اور بھی مثالیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کریم قوم کا اکرام فرماتے اور حدیث نبوی پر پوری طرح عمل پیرا ہوتے تھے.
139 حضرت فضل عمر کا علمی ذوق اللہ تعالیٰ نے حضرت فضل عمر کو غیر معمولی قابلیتوں اور ظاہری و باطنی علوم سے نوازا تھا.آپ کی معلومات کی وسعت کا صحیح اندازہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.قرآن مجید سے آپ کا غیر معمولی قلبی تعلق تو آپ کی تقریر وتحریر سے عیاں ہے، کلام اللہ کے مقام و مرتبہ کا اظہار و بیان آپ کی ہزاروں صفحات پر مشتمل تصانیف ( جو اپنوں اور غیروں سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں ) نہایت حسن و خوبی سے کرتی ہیں ، آپ کی بے شمار تقاریر اور خطبات کے عنوانات بے مثال حیرت انگیز تنوع رکھتے ہیں.اکثر تقاریر میں مذہبی علوم اور فلسفہ الہیات بیان ہوا ہے، بعض تقاریر مذاہب کے تقابلی مطالعہ پر بصیرت افروز روشنی ڈالتی ہیں ، بعض تقاریر میں مختلف اقتصادی نظاموں کا موازنہ کر کے قرآنی نظامِ اقتصاد کی فضیلت و برتری ثابت کی گئی ہے.بعض کتب و تقاریر میں سیاست و مدنیت کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل تبصرے کر کے قرآنی ہدایت کی عظمت ظاہر کی گئی ہے غرضیکہ ہر ضروری علم اور مضمون پر آپ کی ٹھوس معلومات پر مشتمل کتب و تقاریر آپ کے مخصوص و منفر د نهایت سلیس و ساده مگر موثر و دلنشین انداز پر روشنی ڈالتی ہیں.اس قدر متنوع عنوانوں کے مختلف ممکنہ پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے مفید علمی مواد اور دلچسپ انداز بیان آپ کی خداداد قابلیت اور وسعت مطالعہ کا بین ثبوت ہے.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے بیان کے مطابق.حضرت فضل عمر نے صدر انجمن احمدیہ کا موجودہ نہایت کامیاب نظام جاری فرمانے سے قبل انسانی جسم کی بناوٹ کے متعلق تخنیم طبی کتب کا مطالعہ فرمایا تا کہ دل و دماغ اور جوارح کا باہم تعلق معلوم کر کے اس نظام سے استفادہ کرتے ہوئے جامع اور نقائص سے پاک انتظام جاری کیا جا سکے.آپ اپنی زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی جبکہ آپ کو بہت ہی محدود جیب خرچ ملتا تھا اپنے ذوق مطالعہ کی
140 تسکین کے لئے کتب کی خرید پر کچھ نہ کچھ رقم ضرور خرچ کرتے تھے اور اس طرح آپ نے منتخب کتب کی ایک اچھی لائبریری بنائی ہوئی تھی.آپ کے ذاتی کتب خانہ کی ہزاروں کتب جماعت کی مرکزی لائبریری کی افادیت میں اضافہ کا باعث بنی ہوئی ہیں جن میں سے سینکڑوں کتب پر آپ کے دست مبارک کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں جو اس بات کے غماز ہیں کہ ان تمام کتابوں کا حضور مطالعہ فرما چکے تھے.آپ کی لائبریری میں صرف مذہبی علوم کی کتب ہی نہیں تھیں بلکہ تمام علوم کی بنیادی کتابیں موجود ہیں یہاں تک کہ مرغ بانی کے متعلق تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب بھی موجود ہے جس کا ذکر حضور کی بعض تقاریر میں بھی آتا ہے.خوشبو اور عطر سے آپ کو خاص لگاؤ اور اُنس تھا اس موضوع پر بھی آپ نے بہت سی کتب کا مطالعہ کیا ہوا تھا.تاریخ آپ کا خاص مضمون تھا اور بعض تاریخی واقعات پر آپ کے مفصل خطاب ظاہر کرتے ہیں کہ آپ ہر کتاب کو غور سے پڑھ کر صحیح نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے اسی طرح بعض چھوٹی چھوٹی اور بظاہر معمولی باتوں سے اپنے خدا داد علم وفراست کی وجہ سے بڑے مفید نتائج اخذ کر کے ان سے خود بھی فائدہ اٹھاتے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے تھے.حضور کے خطبات و تقاریر اور کتب و تصانیف کے علاوہ مجالس عرفان بھی حضور کی اس خداداد قابلیت کی شاہد ہیں.ان مجالس میں سے صرف دو جواب بطور نمونہ درج ذیل ہیں :- ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور کو تصوف کی کونسی کتاب پسند ہے؟ حضور نے فرمایا مجھے تو قرآن پسند ہے.اگر اس سے آپ کی تسلی نہیں ہوتی تو میں کسی اور کتاب کا نام بھی بتا دیتا ہوں.بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوگ تصوف کی اور کتابوں کی طرف تو چلے جاتے ہیں لیکن قرآن کی طرف نہیں آتے.آپ اگر تصوف کی ہی کوئی کتاب پڑھنی چاہیں تو سید عبدالقادر جیلانی کی کتاب فتوح الغیب بڑی صاف کتاب ہے اور ہر قسم کی لغویات اور اصطلاحات سے پاک لیکن فتوح الغیب ایسی کتاب ہے جس میں سید عبدالقادر جیلانی نے کوئی ایسی اصطلاحیں استعمال نہیں کیں جو آجکل بگڑی ہوئی ہوں.اس میں
141 ہدایت ہی ہدایت اور نور ہی نور ہے.مجھے تو اس کتاب کا کوئی فقرہ ایسا نظر نہیں آیا جو زائد اور بلا ضرورت ہو یا جس میں نور اور ہدایت نہ ہو اس سے اُتر کر مثنوی رومی بڑی اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے.“ (الفضل ۲۶.جولائی ۱۹۴۰ء صفحہ ۲) یہ سوال ایک عام مجلس میں پوچھا گیا تھا اور اس کا جواب فی البدیہہ بغیر کسی تیاری کے دیا گیا تھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نے تصوف کی بہت سے کتب پڑھی ہوئی تھیں اور آپ ان کا باہم موازنہ کر کے اپنی سوچی سمجھی رائے پیش کر سکتے تھے.ایک اور مجلس میں حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے مسند احمد بن حنبل کے متعلق ایک سوال اپنے مسنداحمد پوچھا تو اس کے جواب میں حضور نے اسی مجلس میں مکمل اور تحقیقی جواب دیتے ہوئے فرمایا: - حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ مسند احمد بن حنبل کے متعلق فرمایا کہ یہ حدیث کی ایک نہایت معتبر کتاب ہے مگر اس میں بعض ایسی روایات بھی شامل ہو گئی ہیں جو کمزور ہیں.امام احمد بن حنبل کا ایک لڑکا تھا جو عبداللہ تھا اس کے متعلق آپ نے فرمایا کہ اس کی روایات درست ہیں مگر کچھ اور روایات کا ذکر کیا کہ وہ ایسی محفوظ نہیں ہیں اور آپ نے فرمایا میرا دل چاہتا تھا اصل کتاب کو علیحدہ کر لیا جا تا مگر یہ کام میرے وقت میں نہیں ہو سکا اس کے بعد میرا نام لیکر فرمایا.میاں یہ کام شاید آپ کے وقت میں ہو جائے.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بھی اس وقت موجود تھے.مجھے آپ کی اس بات سے معلوم ہوتا تھا کہ اس میں دو قسم کی روایتیں ہیں مگر جب میں نے خود کتاب پڑھی تو مجھے معلوم ہوا کہ اس میں دو قسم کی نہیں چھ قسم کی روایات ہیں.آپ نے فرمایا تھا کہ عبداللہ کی روایتیں تو ٹھیک ہیں مگر آپ کے شاگرد کی روایتیں ٹھیک نہیں ہیں.لیکن چونکہ اس میں چھ قسم کی روایتیں ہیں اس لئے حضرت خلیفہ اول کے بیان کی تعیین نہیں رہتی البتہ شارحین نے خود بحث کر کے روایات کے ایک حصہ کو ضعیف قرار دیا ہوا ہے.چنانچہ وہ چھ قسم کی روایات جو مسند احمد بن حنبل میں ہیں یہ ہیں.(1) وہ روایات جو عبد اللہ نے اپنے والد امام احمد سے روایت کی ہیں.(۲) وہ روایات جو عبد اللہ نے اپنے والد اور بعض دوسرے محدثین سے سنی ہیں.(۳) وہ روایات جو عبد اللہ نے امام احمد سے سنی ہی نہیں دوسروں سے سنی ہیں اور
142 کتاب میں شامل کر دی ہیں یہ زوائد عبد اللہ کہلاتی ہیں.(۴) وہ روایات جو عبد اللہ نے امام احمد سے نہیں سنیں لیکن خود ان کے سامنے پڑھی ہیں.(۵) وہ روایات جو نہ انہوں نے امام احمد سے سنیں اور نہ ان کے سامنے پڑھیں لیکن امام احمد کے ہاتھ کی لکھی ہوئی آپ کی کتاب میں دیکھیں اور ان کو کتاب میں شامل کر دیا.(1) وہ روایات جو عبد اللہ نے نہیں لکھیں بلکہ حافظ ابو بکر العظیمی نے جو امام احمد اور عبد اللہ بن امام احمد کے شاگرد تھے کتاب میں زائد کر دیں اور وہ نہ عبداللہ نے امام احمد سے بیان کی ہیں اور نہ امام احمد سے براہ راست حافظ ابو بکر نے سنی ہیں اور یہ روایات سب سے کم ہیں.میں سمجھتا ہوں حضرت خلیفہ اول کا منشاء یہی تھا کہ تیسری اور چھٹی قسم کی روایات کو مسند سے الگ کر دیا جائے یعنی وہ روایات جو عبداللہ نے امام احمد سے نہیں سنیں اور وہ روایات جو حافظ ابوبکر نے عبداللہ کے توسط سے یا براہ راست امام احمد سے نہیں سنیں کیونکہ یہ روایات مسند احمد بن حنبل کا حصہ کہلا ہی نہیں سکتیں.(الفضل ۲۰.اپریل ۱۹۴۴ صفحه ۱ ) یادر ہے کہ مسند احمد بن حنبل حدیث کی ضخیم ترین کتاب ہے.حضور کا اس کے متعلق یہ تبصرہ بتاتا ہے کہ آپ علم حدیث اور علم اصول حدیث کا وسیع مطالعہ کر چکے تھے.یہ امر بھی خالی از دلچسپی نہیں ہے کہ حضور کی ذمہ داریاں اتنی زیادہ تھیں کہ آپ دن رات کا اکثر حصہ ان کی وجہ سے مصروف رہتے تھے اس کے باوجود آپ اتنا زیادہ علمی کام اور مطالعہ کس وقت کرتے تھے؟ جامعہ ملیہ اسلامیہ علی گڑھ سے ایک گریجوایٹ نے یہودی اور عیسائی مذاہب کے مطالعہ کے لئے عملی ہدایات طلب کیں.اس کے جواب میں حضور نے مندرجہ ذیل خط لکھوایا جو حضور کی وسعت معلومات اور مذاہب کے تقابلی مطالعہ کی ایک عمدہ مثال ہے.حضور فرماتے ہیں :- دو کسی مذہب کا صحیح مطالعہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اس مذہب کے محققین کی کتابیں پڑھی جائیں اور سب سے بڑی چیز جس سے کسی مذہب کی ،
143 حقیقت معلوم ہوسکتی ہے وہ اس کی وہ کتاب ہے جس کو وہ الہامی قرار دیتا ہے.پس سب سے پہلے تو آپ کو بائیل کا مطالعہ کرنا چاہئے.پرانا عہد نامہ آپ کو یہ بتائے گا کہ یہودی مذہب کی بنیاد کس طرح پڑی اور کس طرح اس نے نشو و نما پائی اور اس سے آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ یہودی مذہب نے اپنے ماننے والوں کے اخلاق اور ان کی رسوم اور ان کے تمدن پر کیا اثر کیا اور کون سے نئے مقاصد ان کے سامنے رکھے ہیں.نیا عہد نامہ پڑھنے سے آپ کو عیسائیت کی بنیاد اور اس کی غرض معلوم ہوگی اور یہ معلوم ہوگا کہ وہ مقصد عظیم جو کہ یہودیت کے نتیجہ میں یہودیوں کے زیر نظر ہو گیا تھا اس نے آخر کا ر کیا معین صورت اختیار کی اور تمدن اور اخلاق کو اس زمانہ کی حالت اور ضروریات کے ماتحت کس رنگ میں بدل دیا اور انسانی کمالات کے لئے ایک نیا رستہ کھول دیا لیکن وہ اس رستہ میں ان کو چلا نہیں سکی.بلکہ ایک مقصد کے طور پر اس کو ان کے سامنے رکھ دیا.بائیبل کا مطالعہ کرتے وقت آپ ان چند امور کو مدنظر رکھیں جن کی صداقت بائیبل کے مطالعہ کے ساتھ ہی آپ پر ظاہر ہوتی چلی جائے گی.بائیل کسی تو ہمات میں پڑے ہوئے اور نفس کی فکر میں مبتلا فلاسفر کے خیالات کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ ایک ایسی قابلیت پیدا کرنے والی روح اپنے اندر رکھتی ہے جو کہ انسان کو اوپر کی طرف کھینچتی ہے.۲- بائیبل زمانہ کی نا مساعدت کی وجہ سے اور مختلف حالات کے ماتحت جو وقتاً فوقتاً اس قوم اور اس قوم کے گرد و پیش پیدا ہوتے رہے ہیں جن کے سپرد بائیبل کی حفاظت اور اشاعت تھی ایسے خیالات سے ملوث ہو گئی ہے جو کہ اس روح کے جو انسان کو بلند کرنے والی ہے بالکل مخالف ہے.-1 -٣ - آپ بائیل کو پڑھتے وقت اس بات کو مدنظر رکھیں کہ بائیل خود اپنے متعلق کیا کہتی ہے.اگر ان تین باتوں کو مدنظر رکھکر آپ بائییل پڑھیں گے تو بائیل میں یہودی اور عیسائی مذہب کے متعلق اتنا بڑا ذخیرہ مل جائے گا کہ جو پُرانی تحقیقات سے بہت زیادہ ہوگا.میں نے بائیبل کو اسی رنگ میں مطالعہ کر کے دیکھا ہے اور
144 اس سے ایسی معلومات حاصل کی ہیں جو خود عیسائیوں کے عالموں کو بھی حاصل نہیں.بائیبل کے بعد طالمود ہیں جن میں مختلف زمانوں میں یہودی علماء نے بائیل کی جو تفسیر کی ہے اس کو درج کیا گیا ہے.ایک طالمود مشرقی علماء نے لکھی ہے اور ایک مغربی علماء نے.یہ دونوں طالمود میں یہودی مذہب کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے بہت ہی مفید اور کار آمد ہیں.تحقیقات جدیدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے جیوش انسائیکلو پیڈیا ایک نہایت ہی مفید کتاب ہے.انسائیکلو پیڈیا بلی کا بھی مختلف مسائل کو یکجائی طور پر انسان کے سامنے لاکر رکھ دیتی ہے.اس لئے وہ بھی مفید کتاب ہے.عیسائی مذہب کی مزید تحقیقات کے لئے آپ کو تاریخ کلیسا کا مطالعہ کرنا چاہئے دوسرے ایپو کرفتہ جو ہیں یعنی ان انا جیل کے سوا دوسری انا جیل جو ہیں ان کا مطالعہ کرنا چاہئے.انسائیکلو پیڈیا بلی کا بھی مسیحیت کی تحقیقات کے متعلق بہت مدد دے سکتی ہے.اس میں مسیحیت کے متعلق یکجائی طور پر مسائل مل جائیں گے.عیسائیت کی نشوونما میں جو اثر کہ اس سرزمین کے خیالات کا ہوا ہے جن میں کہ عیسائیت نے نشو و نما پائی ہے اس کا معلوم ہونا بھی نہایت ضروری ہے اس کے لئے آپ کو قدیم روم اور قدیم یونان کے حالات پڑھنے چاہئیں.خصوصیت کے ساتھ ان کے مذہبی رسوم اور خیالات جن سے آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ موجودہ عیسائیت مسیح کے نام کو علیحدہ کر کے ان ہی رسومات کا نام ہے.حقیقی عیسائیت کا نہیں.حتی کہ اس کی تمام رسومات تہوار وغیرہ جو عیسائیت کے نام پر برتی جاتی ہیں وہ ساری کی ساری ان سے لی گئی ہیں.سہل طریق مطالعہ کا یہ ہوگا کہ آپ بائیبل کو پہلے پڑھیں جس سوال کو آپ حل طلب سمجھیں اس کو آپ انسائیکلو پیڈیا بلیکا اور جیوش انسائیکلو پیڈیا میں دیکھ کر مزید معلومات حاصل کر لیں.بائیبل کے مطالعہ کے بعد ایک ایک کتاب یہودیت اور مسیحیت کے متعلق خواہ ایسی کتب ہوں جیسے کینگزم (CATECHISM.سوال و جواب کے ذریعے تعلیم ) کی ہوتی ہیں ان کو پڑھیں اور پڑھ کر جو خیالات یا سوالات پیدا ہوں پھر ان کی تحقیقات کریں.اس
سید نامحسود کا ہندوستان کے دینی مدارس کا دورہ (لکھنو ا پریل 1912 ء ) کرسیوں پر (دائیں سے بائیں ) ۱.حضرت مولانا سیدمحمد سرور شاہ صاحب ۲.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ۳.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کھڑے ہوئے (دائیں سے بائیں ) سید عبدالئی عرب صاحب ۲.37-2 ۴.حضرت حافظ روشن علی صاحب ۵.حضرت قاضی سید امیرحسین صاحب حضرت مصلح موعود اسلام کا اقتصادی نظام" کے موضوع پر احمد یہ ہوٹل لاہور میں لیکچر دے رہے ہیں ( 1945ء)
تعلیم الاسلام کالج قادیان حضرت مصلح موعود تعلیم الاسلام کالج (لاہور) کے پہلے جلسہ تقسیم اسناد میں خطبہ ارشاد فرمارہے ہیں (2) اپریل 1950ء) کرسی پر حضرت حافظ مرزا انا صراحمد پرنسپل کالج رونق افروز ہیں
حضرت مصلح موعود تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر (1954ء) سید نا حضرت مصلح موعود تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر سٹاف کے ساتھ (1954ء)
حضرت مصلح موعود (اپریل 1951ء) انجینئر نگ کالج لاہور کے احمدی طلباء کے درمیان رونق افروز ہیں D حضرت مصلح موعود جامعتہ المبهترین ربوہ کی ایک تقریب میں (جنوری 1956ء)
145 میں بعض تفسیریں جو پادریوں نے لکھی ہیں وہ بھی بہت کچھ مدد دیں گی.میرے نزدیک جس جس رنگ میں کہ اسلام کی تعلیم کو یکجائی طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور اس کا سامان مل سکتا ہے یہ سامان یہودی اور عیسائی مذہب میں نہیں ملتا.ان کے سمجھنے کے لئے ایک بہت بڑے لمبے عرصے کی تحقیقات کی ضرورت ہے.آپ کو شاید تعجب ہوگا کہ خود عیسائی پادری جو بڑے بڑے عرصہ تک اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے رہے ہیں میں نے ان کے منہ سے سنا ہے کہ ہم نے ابھی اپنے مذہب کی پوری واقفیت حاصل نہیں کی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت نے کسی مقررہ بنیاد پر ترقی نہیں کی بلکہ ایک غلط خیال عیسائیت کے دل میں پیدا ہوا ہے جس نے اس مذہب کو تین متفرق شاخوں میں تبدیل کر دیا ہے کہ اس کی شکل کا پہچاننا بالکل ناممکن ہو گیا ہے.اور وہ غلط خیال یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بہترین خوبی اس مذہب کی جو ہے وہ اس کی اڈاپٹیبلٹی (ADAPTABILITY) ہے وہ میسحیت کی سب سے بڑی خوبی یہی سمجھتے ہیں.اس خیال نے ان کو فائدہ بھی پہنچایا ہے کیونکہ دہریہ وغیرہ بھی اپنے آپ کو عیسائیت کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں لیکن اس نے ان کو نقصان بھی پہنچایا ہے یعنی ان کی کوئی معتین شکل باقی ہی نہیں رہتی.ہر شخص یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ عیسائی ہے اس بات کو جائز سمجھتا ہے کہ روح اللہ نے اس کو یہ بات بتائی ہے اور بس وہی مذہب ہے.حتی کہ وہ اس بات کے لکھنے سے بھی پر ہیز نہیں کرتے کہ ہمارے بانیان مذاہب یعنی حواریان مسیح علیہ السلام اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے نہیں سمجھے اور انجیل میں انہوں نے غلط طور پر لکھ دیا ہے کہ کم سے کم وہ ان کے ایک ایسی غیر معمولی تمیز اور تشریح کو نا جائز نہیں سمجھتے جو کسی بھی مقررہ اصل کے ماتحت نہ ہو اور جس کی سند اور جس کی مثال نہ انا جیل میں ملتی ہے نہ بائیل میں ملتی ہو نہ محاورہ میں ملتی ہو نہ اس زمانہ کے لٹریچر میں ملتی ہو.پس ان حالات میں عیسائیت کا سمجھنا بہت بڑا کام ہے اور محنت چاہتا ہے لیکن اگر آپ اس طریق پر محنت کریں گے جو میں نے بتایا ہے تو آپ إِنْشَاءَ اللہ اس کام میں کامیاب ہو جائیں گے.سوال آپ کا اس قدر مختصر تھا کہ جس رنگ میں میں سمجھا ہوں اس کا
146 جواب دے دیا ہے.اگر آپ کا کوئی اور مطلب ہو تو اطلاع دیں.والسلام (الحام ۲۸.جنوری ۱۹۲۴ء صفحه ۳ ) خدائی تائید اور باطنی علوم کے متعلق ساری دنیا کے علماء کو چیلنج کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے ایمان کے مطابق کہہ سکتا ہو کہ وہ اپنے ذاتی علم کی وجہ سے کام کرتا ہے اور اپنے متعلق تو میں یہاں تک کہتا ہوں کہ جو کام خدا تعالیٰ مجھ سے کراتا ہے اس کے متعلق میں اپنے اندر ذرا بھی طاقت نہیں پاتا.میں نے مڈل کا امتحان دیا تو اس میں فیل ہو گیا انٹرنس کا امتحان دیا تو اس میں بھی فیل ہو گیا.بسا اوقات گھر کی عورتیں تک کہہ دیتی تھیں کہ یہ کیا امتحان پاس کرے گا.ایک بھی سند نہیں دنیا کے علم کی جو پیش کر سکوں مگر میں نے خدا تعالیٰ کے فضل کے ما تحت بار ہا چیلنج دیا ہے کہ کوئی شخص دنیا میں ہو جو احمدی نہ ہو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فیض یافتہ نہ ہو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ ماننے والا یا آپ کا درجہ گھٹانے والا ہو وہ آئے اور قرآن کریم کا کوئی رکوع قرعہ کے ذریعہ نکال کر اس کی تفسیر لکھے.اگر میں نئے معارف اور حقائق اس سے بڑھ کر بیان نہ کروں تو مجھے جھوٹا سمجھا جائے ورنہ وہ حق کو مان لے.مگر دنیوی علم کی کوئی سند میرے پاس نہیں ہے.جب میں پرائمری میں پڑھتا تھا تو مدرسوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میری شکایت کی کہ یہ کچھ نہیں پڑھتا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.اس نے کیا نوکری کرنی ہے.حضرت میر صاحب ( نانا جان ) مرحوم نے خدا تعالی بڑی بڑی رحمتیں ان پر نازل کرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دفعہ آ کر کہا محمود نے تو ابھی تک کچھ سیکھا ہی نہیں ، اسے کچھ آتا ہی نہیں، ان کی یہ باتیں میں بھی سن رہا اور کانپ رہا تھا کہ نہ معلوم اب کیا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اول ) کو بلا ؤ.جب وہ آئے تو کہا
147 میر صاحب یوں کہتے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.میں نے امتحان لیا تھا.اتنا برا تو نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اچھا ہم خود امتحان لیتے ہیں.اس پر آپ نے ایک فقرہ لکھ کر فرمایا.یہ لکھو.میں نے وہ لکھ دیا.اسے دیکھ کر فرمانے لگے یہ تو خوب لکھ سکتا ہے.اس وقت میں ساتویں یا آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا مگر آپ نے میرا یہ امتحان لیا کہ ایک فقرہ نقل کرایا.تو اللہ تعالی نے مجھے امتحانوں سے بھی بچایا.جن امتحانوں میں خود پڑے ان سب میں فیل ہوئے اور جن امتحانوں کے لئے آپ نہ گئے ان کو خدا تعالیٰ نہ لایا.تو اپنی ذات کے متعلق تو میں کہ سکتا ہوں کہ میں ہرگز اس کام کے قابل اپنے آپ کو نہیں پاتا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا اور میں تو اس کام کے قابل بھی اپنے آپ کو نہیں پاتا جو اپنے طور پر کرتا ہوں.ہاں میں یہ ضرور محسوس کرتا ہوں کہ میرے پیچھے ایک اور ہستی ہے اور ایک بالا طاقت ہے جب میرا قدم چلنے سے اور ہاتھ اٹھنے سے رہ جاتے ہیں تو وہ ہستی آپ اٹھاتی ہے اور آسمان کی بلندیوں پر لے جاتی ہے.وہی طاقت ہر احمدی کے پیچھے ہے جو اپنی ذات کے متعلق تکبر نہیں کرتا وہ اسے اُٹھاتی ہے اور آئندہ بھی اُٹھائے گی.“ ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸، صفحہ ۸۷ ) اسی مضمون پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے آپ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں.میں نے کبھی کوئی امتحان پاس نہیں کیا لیکن سلسلہ میں جب بعض ایم.اے بی.اے اور مولوی فاضل خیال کرنے لگے کہ ہماری وجہ سے کام ہورہا ہے تو خدا تعالیٰ نے ان کے خیال کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جسے دنیا کبھی کوئی وقعت نہ دیتی.میں انگریزی تعلیم سے محروم ہوں بلکہ جن معنوں میں آجکل سمجھا جاتا ہے عربی سے بھی لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کر کے میرے ذریعہ دونوں انگریزی اور عربی دانوں کو شکست دیدی.میں ابھی میدان سے نہیں ہٹا اور میرے دشمن بھی ابھی نہیں ہے اور میں نہیں جانتا کہ میری باقی عمر ایک منٹ ہے یا پچاس سال لیکن خدا تعالیٰ میرے ذریعہ میرے مخالفوں کو ایسی شکست دے گا جو تاریخی ہوگی.اگر وہ کہیں کہ پہلے ہمیں پتہ نہ تھا کہ تم چیلنج
148 کرتے ہو تو اب سن لیں.مجھے اللہ تعالیٰ نے دنیوی علوم سے اس لئے محروم رکھا تا وہ خود میرا معلم بنے اور گو میں انسانی علوم میں فیل ہوں مگر الہی علوم میں پاس ہوں.باوجود یکہ انسانی نظروں میں جاہل ہوں ، جاہل تھا اور جاہل رہوں گا مگر اللہ تعالیٰ کی نظر میں عالم ہوں ، عالم تھا اور عالم رہوں گا.یاد رکھو میری روح بلکہ جسم کے ہر ذرہ سے خدا تعالیٰ کی آواز بلند ہوتی ہے اس نے میری آنکھیں کھولی ہیں اور میں سب کچھ دیکھتا ہوں اور اگر پھر بھی کوئی مجھے ذلیل سمجھتا ہے تو اس کی پرواہ نہیں، میرے لئے بس ہے کہ اس کی رحمت اور فضل مجھے ڈھانپ لے.“ ( خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۴۸۷) مسٹر ساگر چند بیرسٹر ایٹ لاء جو ہندوؤں سے مسلمان ہو کر احمدیت میں داخل ہوئے جب قادیان آئے تو حضور نے انکو نصائح فرمائیں اور بتایا کہ آزمائش کے بعد ہی ایمان کی حقیقت کھلتی ہے.اس ضمن میں فرمایا :- د ہمیں تو حقیقت میں وہ ایمان پسند ہے جو ایسا پختہ ہو جس کے بعد کوئی تحقیقات اس کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے.بعض اوقات رسول کریم صل اللالیہ اور ہم کوئی بات فرماتے اور پھر فرماتے کہ وَلَا فَخْرَ.اسی طرح میں بھی مجبوراً مثال کے طور پر نہ کہ کسی فخر کے لئے کہتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ کوئی علم اور کوئی تازہ ترین تحقیقات قطعاً قطعا مجھ پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی.خواہ کسی علمی طریق پر اسلام کی صداقت کی جانچ کی جائے میں اس کا ثبوت دینے کے لئے تیار ہوں.یہ ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے ورنہ ایمان کا اعلیٰ درجہ اس سے بہت بلند ہے.پس ایمان کی یہ خصوصیت ہے کہ خدا خود سمجھائے بیسیوں دفعہ نئے سے نئے علوم سامنے آتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ گھبرا جاتے ہیں لیکن مجھے اس وقت اس کے متعلق اللہ تعالیٰ علم دیتا ہے اور اس وسعت سے دیتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے اور ایسے ایسے علم دیتا ہے جنکے متعلق پہلے میں نے کبھی کوئی بات نہ پڑھی
149 ہوتی ہے نہ سنی.اور وہ علم جو آتا ہے وہ خدا کی طرف سے کشف کے طور پر آتا ہے.یہاں پر لوگ آتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں اور بعد میں کہدیتے ہیں کہ آپ نے تو یہ علم خوب پڑھا ہوا ہے حالانکہ میں نے وہ علم نہیں پڑھا ہوتا اور یہ بات ایمان کو اور بھی پختہ کرتی ہے خواہ کوئی ساعلم ہو جس کو لوگ کتنا ہی اچنبھا خیال کرتے ہوں اس کے سامنے آنے پر فوراً خود بخود اس کی حقیقت کھل جاتی ہے اگر وہ بات غلط ہو تو اس کی غلطی اور اگر درست ہو تو اس کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے.“ (الفضل ۱۱.دسمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۴) مالیات اور تاریخ کے مطالعہ کی وسعت کا اندازہ حضور کے مندرجہ ذیل بیان سے ہوسکتا ہے:- تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو روپیہ تنظیم پر خرچ ہوتا ہے وہ نظروں سے پوشیدہ ہوتا ہے اس لئے قوم کی طرف سے جب بھی کوئی اعتراض ہوتا ہے وہ تنظیم سے متعلقہ اخراجات ہی پر ہوتا ہے.....اگر چہ ایسا اعتراض کرنا حماقت ہوتا ہے کیونکہ سب سے اہم چیز مرکزیت ہوتی ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ ہمیشہ ان اخراجات پر اعتراض کیا جاتا ہے تم انگلستان کی تاریخ کو لے لو، امریکہ کی تاریخ کو لے لو، فرانس کی تاریخ کو لے لو، جرمنی کی تاریخ کو لے لو، جاپان کی تاریخ کو لے لو، روس کی تاریخ کو لے لو، جب کبھی بھی میزانیہ پر اعتراض ہوا ہے تو اس کے اس حصہ پر ہوا ہے جو تنظیم کے لئے خرچ ہوا ہے.کیونکہ یہ اخراجات نظر نہیں آتے.“ الفضل فضل عمر نمبر ۵.مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۷ ) مشہور ادیب مؤرخ و محقق مکرم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی جواد بی حلقوں میں بڑے احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے وہ اس سلسلہ میں اپنے حیران کن تجربے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.حضرت فضل عمر کی نہایت وسیع علمی ، ادبی اور تاریخی واقفیت و معلومات کا ایک تجربہ مجھے بھی ہوا.میں نے سنسکرت کی مشہور کتاب کلیلہ دمنہ (جس کا فارسی اور اردو میں انوار سہیلی کے نام سے ترجمہ ہوا) کی تاریخ اور اس کے مختلف ترجموں کی تفصیل تین سال کی تلاش اور محنت کے بعد مرتب کی مگر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب ایک مرتبہ خطبہ جمعہ میں برسبیل تذکرہ حضرت صاحب نے
150 نہایت جامعیت لیکن اختصار کے ساتھ اس کتاب کی تمام تاریخ صرف چند لفظوں میں بیان کر دی اور ایسی سلاست اور روانی کے ساتھ کہ میں بے اختیار سوچنے لگا کہ یہ عجیب و غریب واقفیت اور عجیب و غریب قابلیت کا انسان ہے کہ اسے ہر علم اور فن سے پوری واقفیت ہے اور اس کا مطالعہ کتنا وسیع ہے کہ قصہ کہانیوں کی اس کتاب کی بھی ساری تاریخ اس نے چند لفظوں میں بیان کر کے رکھدی.“ الفضل فضل عمر نمبر ۵.مارچ ۱۹۶۶ ، صفحہ ۱۹) علمی فروغ و ترقی حضرت مصلح موعود کے علمی ذوق وشوق اور علوم ظاہری و باطنی سے پر ہونے کی وجہ سے جماعت میں بھی فروغ علم کا بہت رحجان تھا.حضور اسی رحجان کو قائم رکھنے اور بڑھانے کے لئے ہمیشہ جماعت کو توجہ دلاتے رہتے تھے.چنانچہ آپ عوام کے اس غلط خیال کہ تعلیم ، اساتذہ یا دوسری تنظیموں کی ذمہ داری ہے کی ایک مؤثر مثال دیتے ہوئے تردید کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ دراصل ماں باپ پر ان کی اولاد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ہے.یہ امید رکھنا کہ دنیا کا کوئی سکول یا کوئی بڑے سے بڑا محکمہ تعلیم وتربیت کا کام کر سکتا ہے بالکل غلط امید ہے.آپ لوگوں کو خواہ برا لگے یا اچھا کچی بات یہی ہے کہ جب تک جماعت کے دوست فردا فردا اپنی اور اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہ کرینگے یہ بات بالکل ناممکن ہے.خدا تعالیٰ نے تعلیم و تربیت کا اختیار خود ہمیں دیا ہے.مگر ہم اسے استعمال نہیں کرتے.مبلغ یا مدرس تعلیم و تربیت کا کام کبھی نہیں کر سکتے.میرا سینکڑوں بار کا تجربہ ہے کہ جماعتوں نے شکایت کی کہ مبلغ ہمارے ہاں نہیں آتے مگر جب وہاں مبلغ گیا تو اس نے آکر شکایت کی کہ جماعت کوئی فائدہ اٹھانا نہیں چاہتی.اب پھر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر دوست واقعی احمدیت سے کوئی فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو اپنے دلوں میں فیصلہ کر لیں کہ تعلیم و تربیت کا کام وہ خود کریں گے ، کوئی مبلغ یا مدرس یہ کام نہیں کر سکتا.پیر اکبر علی صاحب اس وقت آپ لوگوں کے سامنے بیٹھے ہیں پہلے میری رائے یہ تھی کہ وہ تعلیم کا کام اچھی طرح نہیں کر سکتے.یوں بھی وہ بہت مصروف آدمی ہیں،
151 اسمبلی کے ممبر ہیں ، ڈسٹرکٹ بورڈ میں بھی ہیں، مسلم لیگ کے بھی ممبر ہیں، ریاست کے قانونی مشیر ہیں اور اپنی پریکٹس بھی کرتے ہیں مگر پھر بھی وہ بچوں کی تعلیم کا بہت اچھا خیال رکھتے ہیں وہ ایک نمونہ ہیں.....پیر صاحب کا ماحول ایسا ہے کہ مجھے ان سے امید نہ ہو سکتی تھی اور ان کے لڑکے عزیزم پیر صلاح الدین صاحب کے متعلق میرا خیال تھا کہ انہوں نے خود کوشش کر کے دینی تعلیم حاصل کی ہے مگر جب میں فیروز پور گیا اور ان کے دوسرے بچوں کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس میں پیر صاحب کی کوشش کا دخل ہے..جو یہ امید رکھتے ہیں کہ انجمن ان کے لئے سکول کھولے اور مدرس اور مبلغ مقرر کرے وہ غلطی کرتے ہیں بیشک اگر طاقت ہو تو ضرور سکول بھی کھولے جائیں مگر حقیقت یہی ہے کہ تعلیم و تربیت کا کام سکولوں اور مبلغوں سے نہیں ہو سکتا.رسول کریم صلی الللی اور ظلم کے زمانہ میں ایک بھی سکول نہ تھا مگر پھر بھی یہ کام نہایت اعلیٰ پیمانہ پر ہوتا تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ صحابہ میں سے ہر ایک نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ یہ میرا کام ہے کہ خود سیکھوں اور دوسروں کو سکھاؤں.تو اصل تربیت خود ماں باپ ہی کر سکتے ہیں.“ (رپورٹ مشاورت ۱۹۴۲ء صفحه ۱۲.۱۳) تعلیم کو عام کرنے کا یہ طریق کتنا آسان مگر مفید اور مؤثر ہے کہ اس سے زیادہ مؤثر کوئی ذریعہ آج تک دریافت نہیں ہو سکا.حضور کے ہر منصوبے اور سیکیم میں سادگی کا پہلو بہت نمایاں ہوتا تھا اس لئے آپ نے بارہا اس خواہش کا اظہار فرمایا اور اس پر مختلف مواقع پر عمل کر کے بھی دکھایا کہ ہماری مساجد ہمارے تعلیمی مراکز ہوں جہاں ہر شخص چھوٹا ہو یا بڑا بآسانی استفادہ کر سکتا ہے.حضور کا مندرجہ ذیل ارشاد بھی اس راہنما اصول کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ سادگی سے تعلیم کو عام کیا جاوے.اگر ٹیگور ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شاگردوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ علوم سکھا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک احمدی معلم ایسا نہ کرے.ہمیں اپنی تعلیم نہایت سادگی سے پھیلانی چاہئے اور حتی الامکان زائد اخراجات سے بچنا (الفضل ۸.اپریل ۱۹۴۷ ء صفحه ۳) چاہئے.66 جماعت کے ہر فرد کے لئے لکھنا پڑھنا ضروری قرار دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :-
152 سکے میں خدام الاحمدیہ کے سامنے یہ بات رکھتا ہوں کہ وہ کسی ایسی سکیم پر غور کریں جس سے تین ماہ کے اندر اندر تمام مردوں کو تعلیم دینے کا مقصد پورا ہو.قادیان میں کوئی ایک مرد اور کوئی عورت بھی ان پڑھ نظر نہ آئے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں عورتوں کی ذمہ داری ان پر نہیں بلکہ لجنہ پر ہے.ان کے ذمہ مردوں اور دس سال سے زیادہ عمر کے بچوں کی تعلیم ہے اور وہ کوشش کریں کہ یکم نومبر کو کوئی مرد اور دس سال کی عمر کا بچہ ان پڑھ نہر ہے.یکم نومبر کو ہم قادیان کا عام امتحان لیں گے اور میں خود اس کی نگرانی کروں گا.اور ان کو ثابت کرنا ہوگا کہ یہاں کوئی ان پڑھ باقی نہیں.ممکن ہے بعض آدمی اس وقت میں پڑھنا نہ سیکھ سکیں اور ایسے لوگوں سے ہم درخواست کریں گے کہ وہ پندرہ ہیں روز یا مہینہ اپنا کام چھوڑ کر پڑھائی میں لگے رہیں اور پڑھائی کے مقابلہ میں کوئی بڑی قربانی نہیں بلکہ بہت فائدہ بخش ہے.اس طرح کم از کم معیار تعلیم کے متعلق فرمایا: - (الفضل ۲۹.اپریل ۱۹۳۹ ، صفحہ ۲) ہر احمدی مرد جو دس سال سے اوپر ہے اسے ایک تو قرآن پڑھنا آتا ہو دوسرے نماز با ترجمہ آتی ہو تیسرے وہ اردو پڑھ اور لکھ سکتا ہو اور چوتھے سو تک کے ہند سے اسے آتے ہوں.“ (الفضل ۴ مئی ۱۹۳۹ ء صفحه ۱) علم کی ترقی اور ذہانت و عقل سے کام لینے کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.ذہانت اور عقل سے کام لینا انتہائی قومی ضرورتوں میں سے ہے اس لئے ذہانت کو تیز کریں اور جب ذہانت پیدا ہو جائے اور عقل تیز ہو تو ہزار ہانئے رستے نکل سکتے ہیں.دنیا میں کئی قومیں ہیں اور سب کے ایک ہی جیسے ہاتھ اور منہ اور آنکھیں وغیرہ ہیں مگر بعض ان میں سے حاکم ہیں اور بعض محکوم.حاکم وہی ہیں جو ذہانت سے کام لیتی ہیں.شدت ذہانت ایک ایسی طاقت ہے جو قوم کو غالب کر دیتی ہے اور جب اس کے ساتھ قوت عملیہ بھی شامل ہو جائے تو ایسی قوم کا دنیا کی حاکم بن جانا یقینی ہو جاتا ہے.“ (الفضل ۲۴ مئی ۱۹۳۹ ، صفحه ۵) مطالعہ کی اہمیت سمجھاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.
153 استاد کا کام نہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے کورس کو پورا کرے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ زائد سٹڈی کروائے.کوئی طالب علم صحیح طور پر تعلیم حاصل نہیں کر سکتا جب تک اس کا مطالعہ اس قدر وسیع نہ ہو کہ وہ اگر ایک کتاب مدرسہ کی پڑھتا ہو تو دس کتا بیں باہر کی پڑھتا ہو.باہر کا علم ہی اصل علم ہوتا ہے.استاد کا پڑھایا ہوا علم صرف علم کے حصول کے لئے مد ہوتا ہے ،سہارا ہوتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعہ وہ سارے علوم پر حاوی ہو سکے.دنیا میں کوئی ڈاکٹر ، ڈاکٹر نہیں بن سکتا اگر وہ اتنی ہی کتابیں پڑھنے پر اکتفا کرے جتنی اس کا لج میں پڑھائی جاتی ہیں، دنیا میں کوئی وکیل، وکیل نہیں بن سکتا اگر وہ صرف اتنی کتابوں پر ہی انحصار ر کھے جتنی اسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں، دنیا میں کوئی مبلغ مبلغ نہیں بن سکتا اگر وہ صرف انہیں کتابوں تک اپنے علم کو محد و در کھے جو اسے مدرسہ میں پڑھائی جاتی ہیں.وہی ڈاکٹر وہی وکیل اور وہی مبلغ کامیاب ہو سکتا ہے جو رات اور دن اپنے فن کی کتابوں کا مطالعہ رکھتا ہے اور ہمیشہ اپنے علم کو بڑھاتا رہتا ہے پس جب تک ریسرچ ورک کے طور پر نئی نئی کتابوں کا مطالعہ نہ رکھا جائے اس وقت تک لڑکوں کی تعلیمی حالت ترقی نہیں کر سکتی.( الفضل یکم جون ۱۹۵۲، صفحه ۵) علم کی اہمیت ذہن نشین کرواتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- علم بذات خود ایک نہایت قیمتی اور مفید چیز ہے پھر جو شخص علم والا ہوگا وہ اگر فوج میں جائے گا تو اعلیٰ جرنیل بن جائے گا ، طب سیکھے گا تو اعلیٰ درجہ کا طبیب حاذق بن جائے گا ، قانون سیکھے گا تو اعلیٰ درجہ کا بیرسٹر بن جائے گا گویا علم اسے ہر میدان میں ترقی بخش دے گا.تو روپیہ سے کسی چیز کی قیمت لگانا نہایت ادنیٰ اور گرا ہوا تخیل ہے.علم اپنی ذات میں ایک نہایت قیمتی چیز ہے خواہ اس کے بعد کسی کو روپیہ حاصل ہو یا نہ ہو.دنیا میں جس قد را دنئی اقوام ہیں یہ کیوں ادنی اقوام کہلاتی ہیں اسی لئے کہ ان میں علم نہیں اگر وہ بھی علوم سیکھ لیں تو اچھوت ، ہریجن اور چوہڑے، چمار کے الفاظ ہی متروک ہو جائیں اور ان کے ماضی پر ایسا پردہ پڑ جائے کہ کسی کو معلوم تک نہ ہو کہ وہ بھی کبھی چوہڑے چمار رہ چکے ہیں.الفضل ۳۰.جون ۱۹۳۹ ء صفحہ ۴ )
154 نیز آپ نے فرمایا: - میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو لوگ پڑھے ہوئے نہیں وہ علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کریں اور جن کو خدا تعالیٰ نے علم دیا ہوا ہے وہ دوسروں کو پڑھا ئیں.اس وقت علم حاصل کرنے کا خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایک نہایت ہی اعلیٰ موقع عطا کیا ہوا ہے اگر کسی شخص نے اپنی غفلت سے اس موقع کو کھو دیا تو اس کی بدقسمتی میں کوئی شبہ نہیں ہوگا.دو یہ دن بڑی برکتوں اور رحمتوں کے دن ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے طفیل ہماری جماعت کو حاصل ہیں......صرف ہماری جماعت ہی ہے جسے مائی جانی، وقتی وطنی اور علمی قربانیوں کے پے در پے مواقع ملتے چلے جاتے ہیں اور دراصل یہی وہ خزانے ہیں جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ و الہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح موعود خزانے لٹائے گا مگر لوگ قبول نہیں کریں گے.“ خطبہ الفضل ۳۰.جون ۱۹۳۹ء صفحه ۴ ) غیر معمولی حالات میں قادیان سے نکلنا پڑا تو اس وقت بھی جماعت کی علمی ترقی و بہتری کی ضرورت واہمیت آپ کے سامنے تھی.چنانچہ آپ نے جماعت کو نہایت مؤثر رنگ میں تاکید کرتے ہونے فرمایا:- اگر قادیان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو پہلا فرض جماعت کا یہ ہے کہ شیخوپورہ یا سیالکوٹ میں ریل کے قریب نہایت سستی زمین لے کر ایک مرکزی گاؤں بسائے.مگر قادیان والی غلطی نہیں کہ کوٹھیوں پر زور ہو سادہ عمارات ہوں.فوراً ہی کالج اور سکول اور مدرسہ احمدیہ اور جامعہ کی تعلیم کو جاری کیا جائے.دینیات کی تعلیم اور اس پر عمل کرنے پر ہمیشہ زور ہو علماء بڑے سے بڑے پیدا کرتے رہنے کی کوشش کی جائے.“ (خاکسار مرزا محمود احمد ۳۰.جولائی ۱۹۴۸ء) جماعت کے تمام لڑکوں کو لازمی تعلیم کی سکیم پیش کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- اسی طرح نظارت تعلیم کو چاہئے کہ وہ جماعتوں میں اپنے انسپکٹر بھیج کر جائزہ لے کہ آیا ہر احمدی لڑکا پڑھ رہا ہے یا نہیں.جو احمدی اپنی اولا دکو نہ پڑھا رہا
155 ہوا سے مجبور کیا جائے کہ وہ ضرور پڑھائے اگر ضرورت ہو تو کتا ہیں خرید کر دینے یا فیس کا انتظام بھی کیا جاسکتا ہے.میرے نزدیک اگر ایسا کیا جائے تو ہم دیہات میں پرائمری سکول قائم کرنے کے اخراجات سے بھی بچ جائیں گے اور ایسے سکولوں کی نسبت کہیں زیادہ فائدہ حاصل کر لیں گے.“ الفضل ۵.جنوری ۱۹۵۶ء صفحه ۴ ) حصول تعلیم کے دوران جو مشکلات اور خرابیاں پیش آسکتی ہیں وہ بھی آپ کی باریک بین نگاہ اور نکتہ رس طبیعت سے مخفی نہ تھیں.اس سلسلہ میں آپ کی احتیاط اور پیش بندی کا مندرجہ ذیل بیان سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے.وو دوستوں نے مجھے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ میں کوئی ایسی سکیم تیار کروں جس کے نتیجہ میں جماعت کے بچے اور بچیاں حصول تعلیم میں ترقی کریں لیکن میں نے عمداً ایسی سکیم کے اعلان کرنے سے گریز کیا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ اگر جماعت کو اس مقام پر لایا گیا تو بجائے دین میں ترقی کے تنزل کی صورت ہوگی کیونکہ ہمارے نوجوان آریوں، سکھوں یا عیسائیوں کے کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے تو بجائے دینی حالت کی اصلاح کے ان کی دینی حالت خراب ہونے کا اندیشہ تھا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا اپنا کالج کھل گیا ہے.جہاں طلباء کو ہر قسم کی سہولت میسر آ سکتی ہے اور ان کی دینی حالت کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے....اگر تمام طالب علم قادیان میں کالج کی تعلیم کے لئے نہ آسکیں تو لاہور میں ٹھہرنے والوں کے لئے احمد یہ ہوٹل کو بڑھا یا جاسکتا ہے.میں صدر انجمن کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر نظارت تعلیم و تربیت کو دوانسپکٹر دے جو سارے پنجاب کا دورہ کریں......یہ انسپکٹر ہر ایک گاؤں اور ہر ایک شہر میں جائیں اور لسٹیں تیار کریں کہ ہر جماعت میں کتنے لڑکے ہیں، ان کی عمریں کیا ہیں، ان میں کتنے پڑھتے ہیں اور کتے نہیں پڑھتے جو نہیں پڑھتے ان کے والدین کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں تعلیم دلوائیں اور ہائی سکولوں سے پاس ہونے والے لڑکوں میں سے جن کے والدین استطاعت رکھتے ہوں ان کو تحریک کی جائے
156 کہ وہ اپنے بچے تعلیم الاسلام کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجیں اگر جماعت ابھی سے اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو وہ چار پانچ سال کے اندر اندر بہت اعلیٰ طور پر تعلیم میں منظم ہو سکتی ہے....دیہات میں تعاون با ہمی کیا جائے جس طرح ہماری جماعت دوسرے کاموں کے لئے چندے جمع کرتی ہے اسی طرح ہر گاؤں میں اس کے لئے کچھ چندہ جمع کر لیا جائے جس سے اس گاؤں کے اعلیٰ نمبروں پر پاس ہونے والے لڑکے یا لڑکوں کو وظیفہ دیا جائے......الفضل ۳۰ اکتوبر ۱۹۴۵ ء صفحه ۵) اعلی تعلیم اور عمدہ اخلاق کا چولی دامن کا ساتھ ہے اگر ان میں سے کسی ایک کی طرف توجہ نہ دیجائے تو وہ فائدہ کی بجائے نقصان وذلت کا باعث ہو سکتا ہے.اس اہم امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- " ہمارے سامنے مذہبی تعلیم کے دو پہلو ہیں.ایک یہ کہ ہمارے نوجوانوں کی تعلیم ایسے رنگ میں ہو کہ وہ کسی سے کسی علم میں پیچھے نہ رہیں اگر ہمارا کوئی مبلغ دنیوی تعلیم سے کورا ہوگا تو جہاں وہ کوئی ایسی بات کرے گا جو درست نہ ہوگی تو لوگ اس پر ہنسیں گے.حضرت خلیفہ اول ایک قصہ سنایا کرتے تھے جو علم النفس کے ماتحت بہت لطیف ہے.فرماتے ایک بادشاہ کو ایک بناوٹی بزرگ سے بہت عقیدت تھی وہ مدتوں اس کے پاس جاتا رہا ایک دن اس بزرگ کو شوق ہوا کہ بادشاہ پر سیاسی امور کے لحاظ سے بھی اثر ڈالوں.اس خیال سے اس نے کہا آپ کو ملک کی طرف زیادہ توجہ نہ دینی چاہئے.مسلمانوں میں ایک بادشاہ سکندر گز را ہے جو بہت مشہور تھا وہ ملک کی بڑی خدمت کرتا تھا.یہ سن کر بادشاہ اٹھ بیٹھا پھر کبھی اسے منہ نہ لگایا.تو مبلغ اگر عام علوم سے واقف نہ ہو تو ایسی بات کر سکتا ہے جس سے سننے والوں کو اس سے نفرت پیدا ہو جائے.لیکن اگر وہ دیگر علوم سے بھی واقف ہو تو اس کی بات بہت وزن دار ہوگی.اس وجہ سے ہمارے نوجوانوں کے لئے ہر قسم کے علوم پڑھنے کا انتظام ہونا ضروری ہے تا کہ کسی مجلس میں وہ کوئی بے علمی کی بات نہ کریں.دوسری بات یہ ضروری ہے کہ ان کی تربیت اعلیٰ درجہ کی ہو.ابھی ایک دوست ایک عالم کا ذکر کر رہے تھے کہ ان کا خود تقریر کرنا تو الگ رہا
157 اگر کوئی اور ان کا لکھا ہوا مضمون ان کے سامنے سنائے تو وہ کانپنے لگ جاتے ہیں.غرض تربیت نہایت ضروری ہے.نہ صرف اخلاق بلکہ اپنے پیشہ کی بھی.اس کے بغیر کامیابی نہیں ہوسکتی.موقع اور حل کے لحاظ سے جو شخص اپنی قابلیت صرف نہیں کر سکتا وہ کامیاب نہیں ہوسکتا.مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص کی حالت کو مدنظر رکھ کر اس سے کلام کرے اور اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں.ایک تو یہ کہ مبلغوں کا ایسا علم ہو کہ دوسروں سے اس علم میں پیچھے نہ ہوں.دوسرے تربیت ایسی ہو کہ نہ صرف خود نیک ہوں بلکہ دوسروں کو نیک بناسکیں.ان دونوں باتوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کی نگرانی کرنے والا محکمہ ہو.لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی چادر کو دیکھ کر پاؤں پھیلائیں مالی مشکلات پہلے ہی زیادہ ہیں.ان کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہوگا.“ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحه ۲۲-۲۳) حضرت میر محمد اسحاق صاحب ایک بلند پایہ جید عالم تھے مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر کی حیثیت میں وہ جماعت کی آئندہ نسل کی علمی بہتری کے ذمہ دار تھے ان کی وفات پر ان کا خلاء بہت زیادہ محسوس کیا گیا.حضور نے جہاں ان کی تعریف اور تحسین فرمائی وہاں جماعت کو تو کل کی تلقین کرتے ہوئے اعلی تعلیم کے حصول کی طرف بہت دلنشیں اور مؤثر رنگ میں توجہ دلاتے ہوئے فرمایا : - جماعت کے بعض لوگوں کے دلوں میں گھبراہٹ پائی جاتی ہے کہ میر محمد اسحاق صاحب فوت ہو گئے، فلاں فوت ہو گیا اب کیا ہوگا ، ایسا نہ ہو کہ جماعت کے کاموں کو کوئی نقصان پہنچ جائے.یہ خیال جو بعض لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے ایسا ہے جسے جلد سے جلد اپنے دلوں سے دور کر دینا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اسی میں تھی کہ یہ وجود ہم سے جُدا ہو جائے.“ ان کے انتقال سے جماعت کو اس لحاظ سے شدید صدمہ پہنچا ہے کہ وہ سلسلہ کے لئے ایک مفید وجود تھے مگر یا درکھو مومن بہادر ہوتا ہے اور بہادر انسان کا یہ کام نہیں ہوتا کہ جب کوئی ابتلاء آئے تو وہ رونے لگ جائے یا اس پر افسوس کرنے بیٹھ جائے.بہادر آدمی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ فوراً اپنی غلطی کو درست کرنا شروع کر دیتا ہے اور نقصان کو پورا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے وہ شخص جو رونے لگ جاتا ہے مگر اپنی غلطی کی اصلاح نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.کامیاب
158 ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو ابتلاء کے بعد اپنے آپ کو ایسے رنگ میں تیار کرنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور باہمت ہو جاتا ہے.ہمارے لئے جو ابتلاء آئے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑا تازیانہ ہیں کہ تم کیوں ایسی حالت میں بیٹھے ہوئے ہو کہ جب کوئی شخص چلا جاتا ہے تو تم کہتے ہو اب کیا ہوگا تم کیوں اپنے آپ کو اس حالت میں تبدیل نہیں کر لیتے کہ جب کوئی شخص مشیتِ ایزدی کے ماتحت فوت ہو جائے تو تمہیں ذرا بھی یہ فکر محسوس نہ ہو کہ اب سلسلہ کا کام کس طرح چلے گا بلکہ تم میں سینکڑوں لوگ اس جیسا کام کرنے والے موجود ہوں.ایک غریب شخص جس کے پاس ایک ہی کوٹ ہوا اگر اس کا کوٹ ضائع ہو جائے تو اسے سخت صدمہ ہوتا ہے لیکن ایک امیر شخص جس کے پاس پچاس کوٹ ہوں اس کا اگر ایک کوٹ ضائع بھی ہو جائے تو اسے خاص صدمہ نہیں ہوتا.....اسی طرح ہماری جماعت اگر روحانی طور پر نہایت مالدار بن جائے تو اسے کسی شخص کی موت پر کوئی گھبراہٹ لاحق نہیں ہو سکتی.تم اپنے آپ کو روحانی لحاظ سے مالدار بنانے کی کوشش کرو، تم میں سینکڑوں فقیہہ ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں محدث ہونے چاہئیں تم میں سینکڑوں مفسر ہونے چاہئیں تم میں سینکڑوں علم کلام کے ماہر ہونے چاہئیں ، تم میں سینکڑوں علم اخلاق کے ماہر ہونے چاہئیں ، تم میں سینکڑوں علم تصوف کے ماہر ہونے چاہئیں تم میں سینکڑوں منطق اور فلسفہ اور فقہ اور لغت کے ماہر ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں دنیا کے ہر علم کے ماہر ہونے چاہئیں تا کہ جب ان سینکڑوں میں سے کوئی شخص فوت ہو جائے تو تمہارے پاس ہر علم اور ہرفن کے ۴۹۹ عالم موجود ہوں اور تمہاری توجہ اس طرف پھرنے ہی نہ پائے کہ اب کیا ہوگا.جو چیز ہر جگہ اور ہر زمانہ میں مل سکتی ہو اس کے کسی حصہ کے ضائع ہونے پر انسان کو صدمہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسی سینکڑوں چیزیں میرے پاس موجود ہیں.....فلاں عالم تو مرگیا اب کیا ہوگا یہ خیال اسی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے وجودوں کو نا در بنے دیتے ہیں اور ان جیسے سینکڑوں نہیں ہزاروں وجود اور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے...قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ تم نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی
159 کوشش کرو اگر ہم قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق یہ اشتیاق رکھتے کہ ہم دوسروں سے آگے بڑھ کر رہیں، اگر ہم میں سے ہر شخص اشتیاق کی روح کو اپنے اندر قائم رکھتا تو آج ہم میں سے ہر شخص بڑے سے بڑا محدث ہوتا.بڑے سے بڑا مفسر قرآن ہوتا.بڑے سے بڑا عالم دین ہوتا...ان میں سے کسی کی موت جماعت کے لئے پریشانی کا موجب نہیں ہوسکتی.درحقیقت زندہ قوم کی علامت ہی یہی ہے کہ اس کے اندر اس قدر علماء کی کثرت ہوتی ہے کہ کسی ایک کے فوت ہونے پر اسے ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ آئندہ کام کس طرح چلے گا.بے شک شخصی لحاظ سے ایک شخص کی وفات دکھ اور رنج کا موجب ہوسکتی ہے اور ہمیشہ ہوتی ہے مگر بہر حال یہ ایک شخصی سوال ہوگا قومی سوال نہیں ہوگا.بہر حال کسی قوم کی زندگی کی یہ علامت ہے کہ اس میں علم کی کثرت ہو، اس میں علماء کی کثرت ہو، اس میں ایسے نفوس کی کثرت ہو جو قوم کے سرکردہ افراد کے مرنے پر اسی وقت ان کی جگہ کو پُر کرنے کے لئے تیار ہوں.مسلمانوں کے تنزیل اور ان کے ادبار کا سب سے بڑا باعث یہی ہوا کہ جب ابوبکر فوت ہو گیا تو دوسرا ابوبکر پیدا نہ ہوا...اب ہم نے یہ تغیر پیدا کرنا ہے کہ جب ایک ابوبکر مرے تو اسی وقت دوسرا پھر تیسرا ابو بکر پیدا ہو جائے....جو قوم اس مقام پر آ جائے وہ کبھی مرنہیں سکتی ، وہ کبھی مٹ نہیں سکتی ، وہ کبھی فنا اور بر باد نہیں ہوسکتی ، وہ زندہ رہتی ہے، وہ ابدی حیات پاتی ہے اور وہی قوم ہے جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں خاتم الاقوام کہلاتی ہے.میری طرف سے اب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہوں جو اہم علوم کے ماہر ہوں تا کہ ہم اپنی اس حقیر کوشش کے ذریعہ ایک ایسا پیج قائم کر دیں جو آئندہ ترقی کر کے جماعت کے لئے با برکت اور مفید ثابت ہو سکے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء صفحه ۱۷۱ تا ۱۷۶) علمی ترقی کے لئے جذبہ مسابقت کو اُبھارتے ہوئے آپ نے فرمایا :- پس ترقی کے لئے ہر علم کے آدمیوں کا قوم میں موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جس قانون سے کوئی آزاد نہیں ہوا ہم اس سے کس طرح آزاد ہو سکتے ہیں.ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہماری جماعت میں ہر قسم کے آدمی ہوں اور
160 ہوشیار آدمی ہوں.جو گند ذہن لڑکے ہیں وہ ہر میدان میں جا کر شکست کھاتے ہیں مگر ذہین اور ہوشیارلڑ کے ہر میدان میں اول رہتے ہیں.اول نمبر کے مقابلہ میں جو دوسرے نمبر پر ہوگا یقیناً ہار جائے گا اور اول نمبر والا جیتے گا.غرض دوسرے نمبر کی چیز دنیا میں کبھی زندہ نہیں رہ سکتی وہی چیز زندہ رہ سکتی ہے جو اول نمبر پر ہو.“ الفضل.مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۳) عورتوں میں تعلیم کا فروغ عورتوں کی تعلیم و تربیت کی طرف آپ کی خصوصی توجہ کا پہلے ذکر ہو چکا ہے تاہم اس اہم اور بنیادی مقصد کے حصول کے لئے آپ نے جس طرح زندگی بھر جہاد فرمایا وہ آپ کی سیرت کا بہت ہی درخشاں پہلو ہے.آپ نے اسلامی تمدن کے قیام و احیاء کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں کیں تو بنیادی مقصد یہی تھا کہ اس ذریعہ سے عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام ہوتا رہے.خدا تعالیٰ نے آپ کی نیت اور ارادے میں برکت عطا فرمائی اور آپ کی تمام بیگمات کو جماعت کی تعلیم و تربیت کی توفیق ملی.اپنی اس غیر معمولی دلچسپی اور جوش کے متعلق آپ فرماتے ہیں :- عورتوں کی تعلیم سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی خاص دلچسپی ہے.میں نے اس کی وجہ سے لوگوں کے اعتراضات بھی سنے ہیں اور اختلافی آراء بھی سنی ہیں لیکن پھر بھی میں پورے یقین کے ساتھ اس رائے پر قائم ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا اس وقت قادیان میں عورتوں کا صرف پرائمری سکول تھا لیکن میں نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث وغیرہ پڑھائیں.میں نے اپنی ایک بیوی کو خصوصیت کے ساتھ اس کے لئے تیار کیا اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی کے ساتھ دوسری عورتوں کوفائدہ پہنچا ئیں گی لیکن خدا تعالی کی مشیت تھی کہ میرے سفر ولایت سے واپسی پر وہ فوت ہوگئیں.“ 66 ( مصباح ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحه ۴۳) جلسہ سالانہ ۱۹۲۹ء کی تقریر میں حضور عورتوں کو قرآن مجید کے خزائن سے متمتع ہونے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں :-
161 اس کے بعد میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے ضروری تعلیم دینی تعلیم ہے کس طرح سمجھاؤں کہ تمہیں اس طرف توجہ پیدا ہو.اس زمانے میں خدا تعالیٰ کا مامور آیا اور اس نے چالیس سال تک متواتر خدا کی باتیں سنا کر ایسی خشیت الہی پیدا کی کہ مردوں میں سے کئی نے غوث، قطب ولی، صدیق اور صلحاء کا درجہ حاصل کیا.ان میں سے کئی ہیں جو اپنے رتبہ کے لحاظ سے کوئی تو ابو بکر اور کوئی عثمان ، کوئی علی ، کوئی زبیر ، کوئی طلحہ ہے.تم میں سے بھی اکثر کو اس نے مخاطب کیا اور انہیں خدا کی باتیں سنائیں اور ان کی بھی اسی طرح تربیت کی مگر تب بھی وہ اس رتبہ کو حاصل نہ کر سکیں.اس کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم میں ایک صدیقی وجود کو کھڑا کیا مگر اس سے بھی وہ رنگ پیدا نہ ہوا، پھر خدا نے مجھکو اس مقام پر کھڑا کیا اور پندرہ سال سے متواتر درس اور اکثر وعظ ونصائح اور لیکچر میں دین کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور ہمیشہ یہی میری کوشش رہی ہے کہ عورتیں ترقی پائیں مگر پھر بھی ان میں وہ روح پیدا نہ ہوسکی جس کی مجھے خواہش تھی.پچھلے دنوں میں نے یہاں کی عورتوں سے ایک سوال کیا تھا کہ تم کسی ایک عورت کا بھی نام بتاؤ جس نے قرآن کریم پر غور کر کے اس کے کسی نکتہ کو معلوم کیا ہو....اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ تم قرآن کو قرآن کر کے نہیں پڑھتیں اور نہیں خیال کرتیں کہ اس کے اندر علم ہے، فوائد ہیں، حکمت ہے بلکہ صرف خدائی کتاب سمجھ کر پڑھتی ہو کہ اس کا پڑھنا فرض ہے اس لئے اس کی معرفت کا دروازہ تم پر بند ہے.دیکھو قرآن خدا کی کتاب ہے اور اپنے اندر علوم رکھتا ہے.قرآن اس لئے نہیں کہ پڑھنے سے جنت ملے گی اور نہ پڑھنے سے دوزخ بلکہ فرمایا کہ فِيْهِ ذِكُرُكُمُ اس میں تمہاری روحانی ترقی اور علوم کے سامان ہیں.قرآن ٹو نہ نہیں یہ اپنے اندر حکمت اور علوم رکھتا ہے.جب تک اس کی معرفت حاصل نہ کرو گی قرآن کریم تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.تم میں سے سینکڑوں ہوں گی جنہوں نے کسی نہ کسی سچائی کا اظہار کیا ہو گا لیکن اگر پوچھا جائے کہ تمہارے اس علم کا ماخذ کیا ہے تو وہ ہرگز ہرگز قرآن کو پیش نہ کریں گی بلکہ ان کی معلومات کا ذریعہ کتابیں، رسائل، ناول یا کسی مصنف کی تصنیف ہوں گی اور غالباً ہماری جماعت کی عورتوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب ہو گی.تم
162 میں سے کوئی ایک بھی یہ نہ کہے گی کہ میں نے فلاں بات قرآن پر غور کرنے کے نتیجہ میں معلوم کی ہے.کتنا بڑا اندھیر ہے کہ قرآن جو اپنے اندر خزانے رکھتا ہے اور سب بنی نوع انسان کے لئے یکساں ہے اس سے تم اس قدر لاعلم ہو.اگر قرآن کا دروازہ تم پر بند ہے تو تم سے کس بات کی توقع ہو سکتی ہے.“ (الازهار لذوات الخمار ایڈیشن دوم صفحه ۲۳۲ ۲۳۳) اس بنیادی اور اہم امر کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ نہایت حکیمانہ انداز میں فرماتے ہیں :- ” میرے نزدیک عورتوں کی تعلیم ایسا اہم سوال ہے کہ کم از کم میں تو اس پر غور کرتے وقت حیران رہ جایا کرتا ہوں.ایک طرف اس بات کی اہمیت اتنی بڑھتی چلی جارہی ہے کہ دنیا میں جو تغیرات ہو رہے ہیں یا آئندہ ہوں گے جن کی قرآن خبر معلوم ہوتی ہے ان کی وجہ سے وہ خیال مٹ رہا ہے جو عورت کے متعلق تھا کہ عورت شغل کے طور پر پیدا کی گئی ہے.یا یہ خیال جس کی بنیاد واضح لفظوں میں بائیل نے رکھی تھی.گویا عورت کو صرف مرد کی خوشی کے لئے پیدا کیا گیا.اب یہ خیال مٹ رہا ہے لیکن دوسری طرف اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کا میدانِ عمل مرد کے میدان عمل سے بالکل علیحدہ ہے.یہ غلط ہے کہ کبھی کسی عورت کو مرد کی طرح آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا.جولوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ آج سے ہزاروں سال پہلے ایسے زمانے گذرے ہیں کہ عورت کے لئے ایسا ہی موقع تھا جیسا کہ مرد کے لئے مگر عورت پوری نہ انتری.اور جب تک عورت کے ذمہ بچہ کی پیدائش اور تربیت ہے اس وقت تک مرد و عورت کا میدانِ عمل ایک نہیں ہو سکتا.اور بچہ پیدا ہونے کی فطرت کا بدلنا انسانی طاقت سے بالا ہے....پس ایک طرف عورتوں کی تعلیم کی اہمیت اور دوسری طرف یہ حالت کہ ان کا میدانِ عمل جدا گانہ ہے.یہ ایسے امور ہیں جن پر غور کرتے ہوئے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے دوسروں کا نقال نہیں بنایا بلکہ دنیا کے لئے راہنما بنایا ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ ہم دنیا کی راہنمائی کریں نہ یہ کہ دوسروں کی نقل کریں اس لئے ضروری ہے
163 کہ ہم غور کریں عورتوں کو کیسی تعلیم کی ضرورت ہے.ہمیں ہر قدم پر سوچنا اور احتیاط سے کام لینا چاہئے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے ، کرنا چاہئے اور ضرور کرنا چاہئے مگر غور اور فکر سے کام کرنا چاہئے.ابتک ہماری طرف سے ستی ہوئی ہے ہمیں اب سے بہت پہلے اس پہلو پر غور کرنا چاہئے تھا اور اس کے لئے پروگرام تیار کرنا چاہئے تھا.گو وہ پروگرام مکمل نہ ہوتا اور مکمل تو یک لخت قرآن شریف بھی نہ ہو گیا تھا.پس یک لخت تو قدم او پر نہیں جاسکتا مگر قدم رکھنا ضرور چاہئے تھا.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۸-۵۹) عورتوں میں دینی علوم کی تعلیم کو مقدم رکھنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.۱۹۲۵ء میں میں نے اس نیت سے کہ عورتوں کی تعلیم ایسے اصول پر ہو کہ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی بھی تکمیل ہو سکے اور اس خیال سے کہ مذہبی تعلیم اپنے ساتھ دلچسپی اور دلکشی کے زیادہ سامان نہیں رکھتی اور بعد میں اس کا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے مذہبی تعلیم کو پہلے رکھا تا کہ ایک حد تک دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لڑکیاں انگریزی تعلیم حاصل کر سکیں اور چونکہ اس سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اس لئے یہ بڑی عمر میں بھی اگر حاصل کرنی پڑے تو گراں نہ گذرے گی.لڑکیوں کے لئے پہلے عربی کی کلاسیں کھولیں اس وقت قادیان میں بھی ایسے لوگ تھے جو اس پر معترض تھے اور باہر بھی خاص کر پیغامی سیکشن نے بہت ہنسی اُڑائی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجاب میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں یہ پہلی مثال ہے کہ اس کثرت سے مولوی کا امتحان ہماری جماعت کی لڑکیوں نے پاس کیا.......اس کے بعد زنانہ سکول کی لڑکیاں چونکہ ہائی کلاسوں کی تعلیم پاسکتی نہیں اس لئے مدرسہ ہائی کے استادوں کی امداد سے ہائی کلاسیں کھولی گئیں ان میں بھی خدا کے فضل سے اچھی کامیابی ہوئی اور اس سال کے طالبات انٹرنس کے امتحان میں کامیاب ہوئیں.یہ بھی اپنی ذات میں پہلی مثال ہے کیونکہ کسی سکول سے سات مسلمان لڑکیاں آج تک ایک سال میں کامیاب نہیں ہوئیں....میرا منشاء یہ ہے کہ اس تعلیم کو جاری رکھا جائے حتی کہ اتنی کثیر تعداد گریجوایٹ خواتین کی پیدا ہو جائے کہ ہم سکول میں یہی زنانہ سٹاف رکھ سکیں اور
164 تربیت اولاد کا سوال ہے جو عورتوں سے خاص طور پر تعلق رکھتا ہے اور کالج بھی قائم کرسکیں...66 یہ حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ عورتیں تعلیم یافتہ نہ ہوں..66 ( الفضل ۷ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ ) مروجہ طریق تعلیم کی اصلاح کے علاوہ نصاب تعلیم کی اصلاح کے لئے بھی آپ کے پاس معین لائحہ عمل تھا آپ فرماتے ہیں :- ہمیں اب تعلیمی نصاب کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور تعلیم کے نصاب میں خواہ وہ شاعری کا حصہ ہو یا نثر کا ہمیں نقائص دور کر کے اصلاح کرنی چاہئے.ایک دفعہ ریڈیو پر ایک لیکچر ہوا جس میں پہلی دفعہ غیر از جماعت شخص کے منہ سے یہ دلیل میں نے سنی کہ ہمارے ہاں اردو کی تعلیم میں جو شاعری کا حصہ رکھا گیا ہے وہ اخلاق پر نہایت بُرا اثر ڈالتا ہے کیونکہ اس سے دلوں میں مایوسی پیدا ہوتی اور ہمتیں مُردہ ہو جاتی ہیں شاعری کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ وہ مخرب اخلاق ہے لیکن اس کے علاوہ ہماری شاعری کا یہ جو حصہ ہے کہ وہ مایوسی پیدا کر تا ہے یہ سب سے پہلے میں نے ہی لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا مگر اب آہستہ آہستہ دوسروں پر بھی اس کا اثر ہو رہا ہے.تعلیم پر کسی پروفیسر کا لیکچر تھا جس میں اس نے یہ پہلو بیان کیا.پس ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کی طرف توجہ کرنی چاہئے.بیشک ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری شاعری یہ سکھاتی ہے کہ اگر کوئی بد تحریک کرے تو اسے ضرور قبول کرو کیونکہ یہ وفا ہے اور اگر بد تحریک کو قبول نہیں کرو گے تو بے وفا بن جاؤ گے یہ حصہ بھی قابل اصلاح ہے اور اس کو دور کرنا چاہئے لیکن ایک بہت بڑا نقص ہماری شاعری میں یہ ہے کہ وہ مایوسی پیدا کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ جس سے تم محبت کرتے ہو وہ ظالم ہے اور تم مظلوم اور اب تمہارا یہی کام ہے کہ اس کے ظلم وستم کو برداشت کرتے جاؤ اور کبھی کامیابی کی امید نہ رکھو.جیسا کہ عرفی نے کہا ہے.عرفی اگر بگر یہ میسر شدے وصال صد سال می توان به تمنا گریستن......پس شاعری کے لحاظ سے اور نثر کے لحاظ سے بھی ہمارے نصاب بدلنے چاہیں.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء صفحه ۱۵۲-۱۵۳)
165 حضرت مصلح موعود عورتوں میں جس طرح دینی علوم عام کرنے کی سعی و کوشش فرماتے تھے اس کا نقشہ اپنے الفاظ میں کھنچتے ہوئے حضرت مریم صدیقہ حرم حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتی ہیں:- حضرت مصلح موعود.....کے دل میں ایک آگ لگی ہوئی تھی کہ احمدی خواتین اور بچیوں میں قرآن مجید کا فہم ہو ، وہ قرآن مجید ترجمہ سے پڑھیں سمجھیں اور اس کے نور کی شمع سے دوسری خواتین کو منور کریں.ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بار ہا اپنی تقریروں میں آپ نے اس امر کا اظہار فرمایا کہ اصل علم دین کا علم ہے.لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کی یہ غرض نہیں کہ بچیاں صرف حساب انگریزی اور دوسرے علوم سیکھ کر ڈگریاں لے لیں یا نوکریاں کریں بلکہ اعلیٰ تعلیم سے مراد یہ ہے کہ جہاں دنیوی تعلیم حاصل کریں وہاں ساتھ ساتھ قرآن مجید کا علم ، حدیث کا علم سیکھیں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پر عبور حاصل ہو.آپ کی ذاتی دلچسپی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہجرت کے بعد بھی جبکہ سارا ملک ایک بحران میں سے گزر رہا تھا جماعت پر بھی بہت بڑا مالی بوجھ تھا لیکن ربوہ کے آباد ہوتے ہی یہاں لڑکیوں کا سکول جاری کر دیا گیا اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ا۱۹۵۱ء میں لڑکیوں کا کالج بھی جاری کر دیا گیا جو آج خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کے تمام زنانہ کا لجوں کے مقابلہ میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے.“ (الفضل ۱۹.نومبر ۱۹۶۶ء صفحی۴ ) خاکسار عرض کرتا ہے کہ مذکورہ کالج یقیناً آپ کے ولولوں اور جذبوں کا عکاس ہے یقیناً آپ نے اپنے مسلسل جہاد اور کوششوں سے احمدی عورتوں کو علم کے میدان میں ایک منفرد اور ممتاز مقام پر فائز کر دیا اور پاکستان ہی نہیں دنیا کے متمدن اور مہذب ممالک کے مقابلہ میں بھی احمدی عورت کسی سے پیچھے نہیں ہے.مغربی تمدن سے متاثر ہونے والے عام طور پر سکول و کالج کی پڑھائی کو ہی معیار ترقی سمجھتے اور ڈگریوں کے حصول کو ہی اپنا مقصود وضح نظر بنالیتے ہیں ،مگر حضور اعتدال و توازن کو مدنظر رکھتے ہوئے عورت کو اس کی بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے ضروری علوم سیکھنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- علم دین سیکھو قرآن پڑھو، حدیث پڑھو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں علم و حکمت کی باتیں لکھی ہیں ان سے مفید علم سیکھو، بی.اے،
166 66 ایم.اے کی ڈگریاں لینی دین کے لئے مفید نہیں.“ میں کہتا ہوں بی.اے ، ایم.اے ہو کر کیا کرو گی ؟ میں اپنی جماعت کی عورتوں کو کہتا ہوں کہ دین سیکھو اور روحانی علم حاصل کرو.حضرت رابعہ بصری یا حضرت عائشہ کے پاس ڈگریاں نہیں تھیں.دیکھو حضرت عائشہ نے علیم دین سیکھا اور وہ نصف دین کی مالکہ ہیں.مسئلہ نبوت میں جب ہمیں ایک حدیث کی ضرورت ہوئی تو ہم کہتے ہیں کہ جاؤ عائشہ سے سیکھو.“ ( مصباح ۱۵.جنوری ۱۹۳۴ء) اسی امر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: - عورتوں کا کام ہے گھر کا انتظام اور بچوں کی پرورش.مگر لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ دوسرے کی چیز کو اچھی جانتے ہیں اور اپنی ھے پسند نہیں کرتے اس لئے یورپ کی عورتوں کی ریس کر کے ہماری مسلمان قوم اپنی لڑکیوں کو ڈگریاں دلانا چاہتی ہے.حالانکہ عورت گھر کی سلطنت کی ایک مالکہ ہے اور ایک فوجی محکمہ کی گویا افسر ہے کیونکہ اس نے پرورش اولا د کرنی ہے.“ ،، ( مصباح ۱۵.جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۴.۵) اسی طرح آپ فرماتے ہیں :- و پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہمیں کن علوم کی ضرورت ہے ہمیں علم دین کی ضرورت ہے.کوئی لڑکی اگر ایم.اے پاس کر لے اور اسکو تربیت اولا دیا خانہ داری نہ آئے تو وہ عالم نہیں جاہل ہے.ماں کا پہلا فرض بچوں کی تربیت ہے اور پھر خانہ داری ہے جو حدیث پڑھے قرآن کریم پڑھے وہ ایک دیندار اور مسلمان خاتون ہے.اگر کوئی عورت عام کتابوں کے پڑھنے میں ترقی حاصل کرے تا کہ وہ مدرس بن سکے.یا ڈاکٹری کی تعلیم سیکھے تو یہ مفید ہے کیونکہ اس کی ہمیں ضرورت ہے.( الازهار لذوات الخمار صفحہ۳۵۵.ایڈیشن ۱۹۴۶ء) حضرت مصلح موعود کے علمی شغف وانہماک کا پچھلی سطور میں مجمل خاکہ پیش کیا گیا ہے.آپ کی توجہ اور رہنمائی میں جماعت میں متعدد بلند پایہ علمی ادارے قائم ہوئے.آپ کی سیرت کے اس روشن پہلو کی ایک جھلک پیش کرنے کے لئے بعض اداروں کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے.
167 دینی علوم کی ترویج و ترقی کے لئے مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک ادارہ حضرت مسیح موعود جامعہ احمدیہ علیہ السلام کے زمانہ میں ہی قائم ہو گیا تھا یہ ذکر پہلے ہو چکا ہے کہ اس ادارہ کو بعض سر بر آوردہ افراد جماعت نے بند کرنے کا ارادہ کیا تو حضور نے اس کی پوری شدت سے مخالفت کر کے اس ادارہ کونئی زندگی عطا فرمائی.ایک وقت تک آپ اس ادارہ کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے اور طالب علموں کی تعلیم و تربیت کی بہت اچھے انداز میں نگرانی فرماتے رہے.مدرسہ احمدیہ کے مقاصد کو بہتر رنگ میں حاصل کرنے کے لئے ۱۹۲۸ء میں جامعہ احمدیہ کے قیام کا فیصلہ فرمایا اور پہلے پرنسپل حضرت مولاناسید سرور شاہ صاحب مقرر ہوئے جامعہ کی افتتاحی تقریب کے متعلق اخبار الفضل رقمطراز ہے:.”ہمارے جامعہ میں بعض کو انگریزی، بعض کو جرمنی ، بعض کو سنسکرت، بعض کو فارسی ، بعض کو روسی ، بعض کو سپینش وغیرہ زبانوں کی اعلیٰ تعلیم دینی چاہئے 66 کیونکہ جن ملکوں میں مبلغوں کو بھیجا جائے ان کی زبان جاننا ضروری ہے.“ الفضل ۱۴.اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۴ ) جامعہ احمدیہ کی بنیا درکھتے ہوئے حضور نے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ یہی چھوٹی سی بنیاد ترقی کر کے دنیا کے سب سے بڑے کالجوں میں شمار ہوگی " الفضل ۱۴ اگست ۱۹۲۸ ء صفحه ۵-۷ ) اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمنا اور دعاؤں کے مطابق اس ادارے کو بہت برکت عطا فرمائی اور اس ادارے کے فارغ التحصیل دنیا بھر میں کامیاب تبلیغی مساعی کرنے والے ثابت ہوئے مزید براں قادیان اور ربوہ کے علاوہ متعدد دیگر ممالک میں اس کی شاخیں ضوفگن ہیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ ۱۹۳۰ء میں جامعہ احمدیہ کی طرف سے ایک رسالہ نکالا گیا.حضور نے اسے بہت مفید قرار دیا اور مضمون نگاری کے متعلق بعض رہنما اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا :- ہر ایک کالج میں آج کل رواج ہے کہ اس کے طلباء اپنے تعلقات کو کالج سے مضبوط کرنے کے لئے ایک رسالہ جاری کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے نہ صرف اپنے لئے ایک میدان کار نکالتے ہیں بلکہ اس کے ذریعہ سے کالج کے پرانے طلبہ کا تعلق بھی کالج سے قائم رہتا ہے کیونکہ وہ اس میں مضمون لکھتے رہتے ہیں اور کالج کے حالات سے آگاہ رہتے ہیں.پس اس لحاظ سے اس رسالہ
168 -1 کا اجراء یقیناً کالج کے لئے اِنْشَاءَ اللهُ مفید ثابت ہوگا لیکن آپ لوگوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ صرف رسالہ کے اجراء سے کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ محنت کرنے اور علم کو بڑھاتے رہنے کی آپ لوگ کوشش نہ کریں.خالی مضمون ہر ایک شخص لکھ سکتا ہے لیکن اس کوشش میں بہت کم لوگ کامیاب ہوتے ہیں کہ ایسا مضمون لکھیں جو دوسروں کے لئے زیادتی علم کا موجب ہو حالانکہ اصل مضمون وہی ہے جو اپنے اندر کوئی نئی بات رکھتا ہو.پس میں آپ کو نصیحت کروں گا کہ آپ اپنے رسالہ میں ہمیشہ کوشش کر کے مضمون لکھیں اور ان امور کو مدنظر رکھیں.ایسے مضمونوں کو منتخب کریں جو واقعہ میں مفید ہوں اور صرف ذہنی دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو.-۲- ہمیشہ اس امر کو مدنظر رکھیں کہ مضمون کی طبعی تر تیب قائم رکھی جائے تا کہ پڑھنے والے کے اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے..ہمیشہ مضمون میں ایسے پہلو پیدا کرنے کی کوشش کریں جو اس سے پہلے زیر بحث نہ آئے ہوں.۴.ہمیشہ ایسے امور پر بحث کریں جن سے ذہن میں وسعت پیدا ہوا اور تنگ ظرفی اور کج فہمی پیدا کرنے والے نہ ہوں.۵- ہمیشہ یہ کوشش کریں کہ تقویٰ کا دامن نہ چھوٹے.اپنے خیال کو ثابت کرنے کے لئے کبھی جھوٹے استدلال کو کام میں نہ لاویں.-4 ۶ - اگر کسی امر میں اپنی غلطی معلوم ہو تو اس کے اقرار کرنے سے دریغ نہ ہو.ے.جن لوگوں کو آپ سے پہلے علم پر غور کرنے کا موقع ملا ہوا ان کے غور و فکر کے نتائج کو مناسب درجہ دیں.لیکن :- - یہ یادر ہے کہ انسانی علم کی ترقی کبھی مسدود نہیں ہوسکتی مگر ساتھ ہی یہ امر بھی ہے که: ۹.علم کے جس مقام پر اب دنیا ہے وہ پہلوں کی قربانی کا ہی نتیجہ ہے اگر وہ نہ ہوتے تو ہم بھی اس مقام پر کھڑے نہ ہوتے پس ان کی غلطیاں ہی ہماری اصابت رائے
169 کا موجب ہیں.(رسالہ جامعہ احمد یه سالنامه دسمبر ۱۹۳۰ء صفحه ۱) تعلیم الاسلام کالج مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ دینی علوم کی ترویج و اشاعت میں مہتم بالشان کام کر رہے تھے.حضرت مصلح موعود نے مروجہ علوم کو عام کرنے اور احمدی نوجوانوں کی بہتر تعلیم و تربیت کی غرض سے ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام کالج جاری فرمایا اور اس کالج کے قیام کی اغراض بتاتے ہوئے فرمایا : - اس کالج کے قائم کرنے سے ہماری ایک غرض یہ ہے کہ ہمارے نو جوانوں کا ایک ایسا طبقہ تیار ہو جو احمدیت کی تعلیم کے ماتحت علم حاصل کرے اور ان کے کانوں میں دین کی باتیں پختہ ہو کر وہ ایسے رنگ میں کتابوں کا مطالعہ کریں جس کے نتیجہ میں جو بات اسلام کے مطابق ہو اس کو وہ اخذ کریں اور جو بات اسلام کے مخالف ہو اس کو رد کر دیں اور ہمارے پروفیسر طلباء کی ذہنیت اسی رنگ میں بدل دیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا وجود، بعث بعد الموت وغیرہ اسلامی مسائل ہر علم کو سامنے رکھتے ہوئے دوسرے لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں اور ہر ایک رنگ میں دین کے ماتحت رہتے ہوئے اسلام کی تائید کے لئے علم حاصل کریں.“ 66 (الفضل ۱۱.دسمبر ۱۹۴۴ء صفحه ۲ ) نوجوان طلبہ کی اچھے ماحول میں تعلیم کے فوائد بھی حضور کے مدنظر تھے آپ فرماتے ہیں :- اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارا اپنا ایک کالج ہو.حضرت خلیفہ المسیح کی بھی یہ خواہش تھی.کالج ہی کے دنوں میں کیریکٹر بنتا ہے.سکول لائف میں تو چال چلن کا ایک خاکہ کھینچا جاتا ہے اس پر دوبارہ سیا ہی کا لج لائف ہی میں ہوتی ہے پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے نو جوانوں کی زندگیوں کو مفید اور مؤثر بنانے کے لئے اپنا ایک کالج بنا ئیں.پس تم اس بات کو مدنظر رکھو.میں بھی غور کر رہا ہوں“ (انوار العلوم جلد ۲ صفحه ۵۱) اس کالج کے پہلے پرنسپل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مقرر ہوئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کالج نے ہر میدان میں بہت اچھا نام پیدا کیا.اخبار الفضل ۸.جنوری ۱۹۴۵ ء کی.ایک رپورٹ کے مطابق تعلیم الاسلام کالج کو پہلے ہی سال پورے صوبہ بلکہ پورے ملک میں بلند
170 رہی ہے.مقام حاصل ہوا اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے تمام انٹرمیڈیٹ کالجوں کے پرنسپل صاحبان نے متفقہ طور پر ۴۶.۱۹۴۵ء کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو یونیورسٹی کی اکیڈیمک کونسل (ACADEMIC COUNCIL) کا ممبر منتخب کر لیا“ (الفضل ۸.جنوری ۱۹۴۵ء صفحه ۲) اس طرح جب حضور کے ارشاد پر پنجاب یونیورسٹی کو درخواست دی گئی کہ ہمارے کالج کو ڈگری کالج کا درجہ دیا جائے تو یو نیورسٹی کی طرف سے ماہرین کا ایک کمیشن ۹.جنوری ۱۹۴۶ء کو کالج کے معائنہ کے لئے آیا.اس کمیشن نے کالج کی عمارت ، کالج کا سامان اور کھیل کے میدان اور پھر فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ دیکھ کر یہ تاثر لیا کہ یہاں ڈگری کالج نہیں بلکہ یو نیورسٹی کی بنیا درکھنے کی تیاری ہو الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۴۶ ، صفحه ۱) ڈگری کلاسیں کھولنے کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.اس وقت اگر ہم یہ جماعتیں نہ کھولیں گے تو جماعت کے لڑکے ایک تو اعلیٰ تعلیم کے لئے پھر دوسرے کالجوں میں جانے کے لئے مجبور ہوں گے دوسرے بہت سے لڑکوں کو تعصب کی وجہ سے بہت سے کالج لیں گے ہی نہیں اس لئے ہمارے لڑکوں کی عمرمیں تباہ ہو جائیں گی.تیسرے جو غرض کالج کے اجراء کی تھی کہ لامذہبیت کے اثر کا مقابلہ کیا جائے اور خالص اسلامی ماحول میں پلے ہوئے نو جوانوں کو باہر بھجوایا جائے وہ فوت ہو جائے گی.پس ان حالات میں میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے کالج کی بی.اے اور بی.ایس.سی کی جماعتیں کھول دی جائیں......( دل کھول کر چندہ دینے کی اپیل کرنے کے بعد آخر میں فرمایا ) میں بِسْمِ اللَّهِ مَجْرِهَا وَمُرُسُهَا کہتے ہوئے اس کاغذی ناؤ کو تقدیر کے دریا میں پھینکتا ہوں اللہ تعالیٰ آسمان کے فرشتے اتارے جو اسے کامیابی کی منزل پر پہنچا دیں اور اپنے الہام سے مخلصوں کے دلوں میں قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کرے اور پھر ان کی قربانی کا ادھار نہ رکھے بلکہ بڑھ چڑھ کر اس کا بدلہ دے.اللَّهُمَّ مِينَ الفضل ۱۹.مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲ )
171 اس ضمن میں حضور نے یہ بھی ارشادفرمایا کہ اس سال دو نئے کام شروع کئے گئے ہیں ایک تعلیم الاسلام کالج اور ایک فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ،احباب جماعت پر اب یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لڑکوں کو کالج میں تعلیم پانے کے لئے یہاں بھجوائیں.یہاں اخراجات بھی کم ہوں گے اور لڑ کے باہر کی مسموم ہوا سے بھی محفوظ رہیں گے.کالج کے ذریعہ اسلام کا ڈیفنس مضبوط کیا جانا مقصود ہے اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے دیگر مذاہب کے عقائد کے خلاف جارحانہ کارروائی کا سامان مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی.اور اقتصادی طور پر بھی انشاء اللہ اس سے کافی فائدہ حاصل ہونے کی امید ( الفضل یکم جنوری ۱۹۴۵ء صفحه ۲) فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جس عظیم مقصد کے لئے شروع کی گئی تھی حضور کے مندرجہ ذیل الفاظ سے اس پر روشنی پڑتی ہے.” ہمارا کام بھی یہی ہے کہ ہم خدا کی فعلی شہادت اسلام اور احمدیت کی تائید میں کالج اور سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کریں یہی مقصد کالج کے قیام کا ہے اور یہی مقصد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا ہے.جن میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی تعلیم کے ماتحت دین کی تائید کو مدنظر رکھتے ہوئے نیچر پر غور کیا جائے گا تا کہ ہم اسلام کی سچائی کی عملی شہادت دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور یورپ کے لوگوں سے کہہ سکیں کہ آج تک تم نیچر اور اس کے ذرات کی گواہی قرآن کے خلاف پیش کرتے رہے ہو مگر یہ بالکل جھوٹ تھا تم دنیا کو دھوکا دیتے رہے ہو.تم جھوٹ بول کر لوگوں کو ورغلاتے رہے ہو آؤ ہم تمہیں دکھا ئیں کہ دنیا کا ذرہ ذرہ قرآن اور اسلام کی تائید کر رہا ہے اور نیچر اپنی عملی شہادت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی کا اعلان کر رہا ہے.“ اس عظیم الشان مقصد کے متعلق آپ نے مزید ارشاد فرمایا : - دنیا میں جس قدر سائنس کی انسٹی ٹیوٹز (INSTITUTES) ہیں ان کے موجد اس لئے ایجادات کرتے ہیں کہ تا اسلام تباہ ہوا اور یورپ کا فلسفہ دنیا پر غالب آئے مگر ہمارے موجد اس لئے ایجادات کریں گے تاکہ کفر تباہ ہو اور اسلام
172 یورپ کے فلسفہ اور یورپ کے تمدن پر غالب آجائے یہ لڑائی ہے جو اسلام اور یورپ میں جاری ہے.یہ لڑائی ہے جو احمدیت اور یورپ کا فلسفہ آپس میں لڑنے الفضل ۳۱ مئی ۱۹۴۴ء صفحه ۶ ) والے ہیں.اخلاص اور تقویٰ سے شروع ہونے والا اور دُور رس نتائج کا حامل یہ غیر معمولی کارنامہ جماعت سے باہر بھی بنظر تحسین دیکھا گیا اور اسے دوسروں کے سامنے بطور مثال پیش کیا گیا.مسلمانوں کے ایک مشہور ثقہ اخبار کے مدیر شہیر مولانا عبدالمجید سالک نے لکھا: امام جماعت احمدیہ نے ڈھائی لاکھ روپے کے ابتدائی سرمائے سے فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کی اجازت دیدی ہے.......اس انسٹی ٹیوٹ کی لیبارٹریوں میں بہترین اور جدید آلات مہیا کرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے.بایوکیمیکل ریسرچ کے لئے الیکٹرون، خوردبین ، پروٹین اور کو لائیڈ ریجز کے خواص کی تحقیق کے لئے خاص آلہ تحلیل و تجزیہ کی علمیات کے لئے سپیکٹو گراف اور دوسرے آلات منگائے جا رہے ہیں.اس وقت چھ ریسرچ اسٹمنٹ کام کر رہے ہیں.یہ ہے وہ حقیقی کام جس کی ضرورت مسلمانوں کو شدت سے محسوس ہو رہی ہے لیکن اب تک ان کے کسی تعلیمی ادارے میں اس کام کی طرف کما حقہ توجہ نہیں کی گئی اگر قادیانیوں کو بُرا بھلا کہنے والوں کو اپنے اس جہاد لسانی کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کے تعمیری کاموں میں مسابقت کی تو فیق بھی ملتی تو کتنا اچھا ہوتا.“ ( انقلاب لاہور ۲۰.اپریل ۱۹۴۶ء.بحوالہ الفضل ۲۵.اپریل ۱۹۴۶ء صفحہ ۷ ) فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان کا شاندار افتتاح“ کے عنوان سے روز نامہ الفضل نے لکھا:.قادیان ۱۹.اپریل.آج صبح ساڑھے دس بجے جناب ڈاکٹر سرشانتی سروپ ڈائر یکٹر کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ بی.ای.ڈی.ایس.پی.او.ایس دوسرے معزز سائنسدانوں کے ساتھ بذریعہ کار بٹالہ سے تشریف لائے....۴ بجے شام فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری اور لیبارٹری کا تقریباً ۴۵ منٹ معائنہ فرمایا.ان تمام معززین نے دورانِ معائنہ ہی اور اس کے بعد بھی کئی دفعہ خاص طور پر اظہار خوشنودی فرمایا نیز فرمایا کہ چند مہینوں وو
173 میں ایسی لیبارٹری کا تیار کرنا ایک قسم کا معجزانہ رنگ رکھتا ہے.ڈاکٹر ایس ایس بھٹنا گر نے فضل عمر ریسرچ قادیان کا افتتاح فرمایا...اس موقع پر حضور نے فرمایا کہ اس قسم کی انسٹی ٹیوٹ جاری کرنا معمولی بات نہیں اس کے لئے بہت بڑے سرمایہ کی ضرورت ہے.حضور نے فرمایا کہ یہ انسٹی ٹیوٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جاری کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں تضاد نہیں ہوتا...66 (الفضل ۲۰.اپریل ۱۹۴۶ء ) تقسیم برصغیر کے بعد جبکہ کالج کی عمارت اور جماعت کے اکثر وسائل اور ذرائع قادیان میں رہ گئے تھے.حضور نے چوہدری محمد علی صاحب کو فوراً پاکستان بھجوانے کی ہدایت جاری فرمائی ان کے یہاں پہنچتے ہی انہیں قائم مقام پرنسپل مقررفرمایا اور کالج کے لئے موزوں جگہ تلاش کرنے کا ارشادفرمایا.لاہور میں صدر انجمن کے عارضی مرکز جودھامل بلڈنگ کے متصل سیمنٹ والی عمارت میں مکرم عبد الرحمان جنید ہاشمی نے چٹائی پر اپنا دفتر شروع کیا ۱۰.دسمبر سے داخلہ شروع ہوا جس کی روزانہ رپورٹ حضور کی خدمت میں بھجوائی جاتی تھی.جن مشکل حالات میں ہمارے اولوالعزم امام نے اس بہت بڑے کام کو دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ فرمایا اس کا کسی قدر علم مکرم چوہدری محمد علی صاحب کے مندرجہ ذیل بیان سے ہوتا ہے.و میں نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں عرض کی کہ پرنسپل صاحب نے قادیان سے ایک مشورہ بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر حضور مناسب خیال فرمائیں تو موجودہ حالات میں کالج کا بوجھ جماعت پر نہ ڈالا جائے اس پر حضور خاموش رہے پھر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے عرض کیا کہ حضور میرا بھی یہی خیال ہے.حضور پھر بھی خاموش رہے پھر کسی اور نے مشورہ دیاحتی کہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرا بھی یہی خیال ہے اس پر اللہ تعالیٰ کے اولوالعزم خلیفہ نے اتنے جوش اور بلند آواز سے کہ سب کے دل دہل گئے فرمایا.آپ کو پیسوں کی کیوں فکر پڑی ہوئی ہے کالج چلے گا اور کبھی بند نہیں ہوگا اور پھر اس عاجز سے فرمایا کہ: آسمان کے نیچے پاکستان کی سرزمین میں جہاں کہیں بھی جگہ ملتی ہے لے لو
174 اور کالج شروع کرو.“ ( تاریخ احمدیت جلد دهم صفحه ۸۶) ان مخالف حالات میں بھی کالج نے ترقی اور شہرت کے مراحل طے کرنے شروع کر دیئے.لمبے عرصہ تک متروکہ جائداد میں انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں محنت و قربانی کی شاندار مثالیں پیش کرتے ہوئے ربوہ میں کالج کی اپنی وسیع عمارت تیار ہوئی.۶.دسمبر ۱۹۵۴ء کو اس کا دلی دعاؤں سے افتتاح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : - اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بے سروسامانی میں کالج کے سامانوں کو مہیا کیا اور بے گھروں کو گھر دیا.اب دعا ہے کہ جس طرح اس دنیا کا علم دیا اگلے جہان کا علم بھی دے اور جس طرح اس جہان کا گھر دیا اگلے جہان کا اچھا گھر بھی بخشے اور اس کالج میں پڑھنے والے سب طلبہ کو اپنی رضا ء پر چلنے ، اپنا فرض ادا کرنے اور ایثار و قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھانے کی توفیق بخشے.“ حضور احمدی لڑکوں کے اس کالج میں داخلہ کو بہت ضروری سمجھتے تھے.اس امر کی تلقین آپ نے اپنے پیغامات ، بیانات ، تقاریر اور خطبات میں متعدد دفعہ فرمائی.ذیل میں صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے.آپ فرماتے ہیں:.وو....وہ لوگ جن کے دلوں میں یہ شبہات ہوا کرتے تھے کہ ہمارے کالج میں لڑکوں کی تعلیم کا زیادہ بہتر انتظام نہیں اب ان نتائج کے بعد ان کے شبہات دور ہو جانے چاہئیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کالج کے نتائج سوائے ایک کے باقی تمام کالجوں سے زیادہ شاندار نکلے ہیں اور اب ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لئے فوراً تعلیم الاسلام کالج میں داخل کرانے کی کوشش کریں.اس بارہ میں کسی قسم کی غفلت اور کوتا ہی سے کام نہ لیں.اس کا لج میں اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے بھجوانا اس قدر ضروری اور اہم چیز ہے کہ میں تو سمجھتا ہوں جو شخص اپنے بچوں کو باوجود موقع میسر آنے کے اس کالج میں داخل نہیں کرتا وہ اپنے بچوں سے دشمنی کرتا ہے اور سلسلہ پر اپنے کامل ایمان کا ثبوت مہیا نہیں کرتا“ ( الفضل ۱۴.ستمبر ۱۹۴۹ء صفحه ۵) جماعت کے علمی ذوق میں اضافہ اور تحقیق کے کاموں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے تعلیم الاسلام ریسرچ سوسائٹی ۱۸.جنوری ۱۹۴۵ء کو شروع کی گئی طلبہ و اساتذہ میں علمی مذاق اور تحقیق
175 کا جذ بہ پیدا کرنا اس کے مقاصد میں شامل تھا.اس مجلس کو مجلس مذہب و سائنس کے لئے بطور نرسری قرار دیا گیا.اس کے صدر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب مقرر ہوئے مجلس مذہب و سائنس بھی جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے جماعت میں اعلی علمی تحقیق کا ذوق وشوق پیدا کرنے کے لئے قائم فرمائی.اس مجلس کے ابتدائی اجلاسوں میں دنیائے سائنس کی بعض نامور شخصیات نے تقاریر کیں.اکثر اجلاسوں کی صدارت حضور نے خود فرمائی اور بیش قیمت ارشادات سے نوازتے اور رہنمائی فرماتے رہے.اس کے علاوہ اور کئی مجالس مثلاً : - مجلس عمومی، مجلس ارشاد، بزم اردو، سائنس سوسائٹی ، مجلس علوم معاشرت ، مجلس تاریخ، مجلس حیاتیات، مجلس فلسفه و نفسیات، ریڈیو، فوٹوگرافک سوسائٹی علمی فروغ کے بلند مقصد کے حصول کے لئے قائم کی گئیں.ان مجالس کے بلند معیار کی وجہ سے اس زمانہ کے چوٹی کے دانشور بڑے اشتیاق سے اپنے علمی مقالے اور تحقیقی مضامین پیش کرتے رہے.ان علمی ہستیوں میں میاں افضل حسین صاحب وائس چانسلر، پروفیسر سراج الدین صاحب سیکرٹری محکمہ تعلیم مغربی پاکستان، جناب حماد رضاء صاحب کمشنر سرگودہا، جناب انور عادل صاحب سیکرٹری محکمہ تعلیم، جسٹس سجاد احمد جان صاحب حج عدالت عالیہ ، جسٹس انوار الحق صاحب چیف جسٹس، پروفیسر حمید احمد خاں صاحب ، مولا نا صلاح الدین احمد صاحب، ڈاکٹر ظفر علی شمسی صاحب، مولانا عبدالمجید سالک صاحب، جناب عبدالحمید صاحب وزیر تعلیم مغربی پاکستان صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب جیسے نابغہ روزگار بھی شامل تھے.مسلمانوں کے دورانحطاط میں جو علمی جمود پیدا ہوا اور جس کے نتیجہ میں ذہنی فکری ترقیات کے دروازے بند ہو گئے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمان علماء نے عام آدمیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف اس وجہ سے توجہ نہ دی کہ اس طرح خود ان کی اہمیت کم ہو جائے گی یا ان کی کم علمی کا پردہ چاک ہو جائے گا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ بند دروازے کھولے اور دنیا کو بتایا کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے اور اس بحر نا پیدا کنار کی غواصی کرنے والا آج بھی اس میں سے قیمتی و بیش بہا خزا نے حاصل کر سکتا ہے جس طرح قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے حاصل کئے تھے.اس جمود و تعطل کو دور کرنے کے لئے اور جماعت کی فقہی ضروریات کو پورا
176 کرنے اور ان کی رہنمائی کے لئے حضرت فضل عمر نے افتاء کمیٹی کا تقر ر فرمایا جس کے ابتدائی ممبر مندرجہ ذیل علماء تھے.-1 حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب حضرت مولانا ابوالعطا کصاحب قیام پاکستان کے بعد نومبر ۱۹۴۸ء میں اس کمیٹی کا احیاء مجلس افتاء کے نام سے ہوا اس کے ابتدائی ممبر مندرجہ ذیل علماء کرام تھے.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مکرم مولوی ابوالمنیر صاحب مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل مکرم مولوی محمد رشید احمد صاحب شاد مکرم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب حضور نے اس مجلس کے مندرجہ ذیل فرائض اور اغراض و مقاصد منظور فرمائے.-1 فتوی کی غرض سے دفتر افتاء میں آمدہ اہم مسائل کے بارہ میں مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو مشورہ دینا.۲- فقہ اسلامیہ کے اہم اختلافی مسائل کے متعلق ائمہ فقہ کی آراء اور ان کے دلائل سے واقفیت حاصل کرنا.- -۳- سیاسی، تمدنی اور تاریخی حالات کی روشنی میں علم الخلاف کا مطالعہ خصوصی.- دفتر افتاء کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ ہرا ہم فتویٰ کے متعلق مجلس کے کم از کم تین ممبران کا مشورہ حاصل کرے.لیکن مفتی سلسلہ اس مشورہ کو قبول کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے.البتہ اگر مجلس کے تمام ممبران متفق الرائے ہوں اور مفتی سلسلہ کو پھر بھی اس سے اختلاف ہو تو اس صورت میں دفتر افتاء پر واجب ہوگا کہ وہ تمام حالات حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت اقدس میں تحریر کر کے اس کے متعلق آخری فیصلہ حاصل کرے.( الفضل ۷.نومبر ۱۹۴۸ء صفحہ ۲ )
177 اس بنیادی علمی ضرورت کے متعلق مزید اصولی ہدایات دیتے ہوئے حضور نے ایک اور موقع پرارشادفرمایا.وو جیسا کہ جلسہ پر اعلان کیا گیا تھا فقہی مسائل پر یکجائی غور کرنے اور فیصلہ کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کی ایک کمیٹی مقرر کی جاتی ہے تمام اہم مسائل پر فتویٰ اس کمیٹی کے غور کرنے پر شائع کیا جائے گا ایسے فتاویٰ جب تک ان کے اندر کوئی تبدیلی نہ کی گئی ہو یا تنسیخ نہ کی گئی ہو جماعت احمدیہ کی قضاء کو پابند کرنے والے ہوں گے اور وہ ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گی ہاں وہ ان کی تشریح کرنے میں آزاد ہوگی لیکن اگر وہ تشریح غلط ہو تو یہی مجلس فقومی دھندہ اس تشریح کو غلط قرار دے سکتی ہے.ممبران کا اعلان سال بہ سال خلیفہ وقت کی طرف سے ہوا کرے گا اور ایک سال کے لئے ممبر نامزد کئے جایا کریں گے.مناسب ہوگا کہ کچھ نہ کچھ ممبر اس میں سے بدلے جایا کریں تاکہ جماعت کے مختلف طبقوں کے لوگوں کی تربیت ہوتی رہا کرے.خاص امور کے متعلق خلیفہ وقت اس انجمن کا اجلاس اپنی نگرانی میں کروائے گا لیکن عام طور پر یہ کمیٹی اپنا اجلاس اپنے مقررہ صدر کی صدارت میں کیا کرے گی لیکن اس کے فیصلوں کا اعلان خلیفہ وقت کے دستخطوں سے ہوا کرے گا اور ایسے ہی فیصلے سند سمجھے جایا کریں گے.دستخط مرزا محمود احمد ۷-۱-۱۹۵۲ء عورتوں کی تعلیم کی طرف حضور کی غیر معمولی توجہ کے متعلق ہم پچھلی سطور میں پڑھ چکے ہیں.۱۹۳۶ء میں آپ نے اس مقصد کو با قاعدہ آگے بڑھانے کے لئے نصرت گرلز ہائی سکول کے ساتھ د مینیات کلاسز کا اضافہ فرمایا اور ان کا نصاب خود تجویز فرمایا.علامہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب ان کلاسوں کے ایک معلم اور نگران تھے.اس انتظام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے حضور نے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اور قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے کا کمیشن مقرر فرمایا تا ان کی سفارشات کی روشنی میں عورتوں کی تعلیم کے نظام کو زیادہ مفید اور وسیع کیا جاسکے.۱۹۵۰ء میں جامعہ نصرت کے نام سے لڑکیوں کا کالج شروع فرمایا.۱۴.جون ۱۹۵۰ء کو
178 حضور نے ایک عالمانہ خطاب سے اس کالج کا افتتاح فرمایا.اس کا لج کو حضور کی خاص توجہ حاصل تھی.حضرت مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا ) اس کالج کی ڈائریکٹرس تھیں اور تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیتی تھیں.اس کالج کی پہلی پرنسپل محترمہ فرخندہ شاہ صاحبہ مقرر ہوئیں.یہ کالج احمدی مستورات میں خاص طور پر اور اس علاقہ کی مستورات میں عام طور پر تعلیم کو عام کرنے کا ایک بہت ہی مفید ذریعہ ثابت ہوا.عام طور پر پردے کے طریق کو عورت کی تعلیم اور ترقی میں حارج سمجھا جاتا ہے مگر حضور نے اسے عملاً غلط ثابت کر دکھایا اور دنیا کے سامنے ایک مثال پیش فرما دی آپ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.امسال یونیورسٹی کے امتحانات کے نتائج صرف ۲۲ فیصد نکلے لیکن ہمارے ربوہ کی لڑکیوں کے کالج ( جامعہ نصرت ) کا نتیجہ ۶۳ فیصد رہا اور ان پاس ہونے والی طالبات میں سے اکثر وہ ہیں جن کی فیس ہر ماہ میں خود ادا کرتا تھا وہ کالج کی فیس مہیا نہیں کر سکتی تھیں.لوگ کہتے ہیں کہ کوئی قوم پردہ میں ترقی نہیں کر سکتی لیکن ہماری طرف دیکھو کہ ہماری بچیوں کو جو عور تیں پڑھاتی ہیں وہ بھی پردہ کی پابند ہیں.خود میری اپنی بیوی کالج کی پرنسپل ہے وہ عربی میں ایم.اے ہے اور وہ اس کام کا کچھ معاوضہ نہیں لیتیں.لیکن وہ خود بھی پردہ کرتی ہیں اور لڑکیاں بھی پردہ کرتی ہیں اگر ضرورت کے موقع پر کالج میں بعض مرد تعلیم کے لئے لگائے جاتے ہیں تو وہ بھی پردہ کے پیچھے بیٹھ کر پڑھاتے ہیں اور لڑکیاں بھی پردہ میں ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود یو نیورسٹی کے۲۲ فیصد نتائج کے مقابل میں ان کا نتیجہ ۶۳ فیصد ہے.حقیقت یہ ہے کہ عورتیں جب کبھی پختہ عزم وارادہ کر لیں گی تو وہ علم حاصل کر لیں گی اور دنیا کو دکھا دیں گی کہ پردہ میں رہ کر بھی ہر چیز حاصل کی جاسکتی ہے الفضل ۹ - اگست ۱۹۵۵ء صفه ی۴ )
179 تربیت کے انداز حضرت فضل عمر نے اپنے پچاس سالہ نہایت کامیاب دورِ خلافت میں جماعت کی ترقی ، بہبودی، بہتری اور اصلاح کے لئے بے شمار خطبات ارشاد فرمائے ، مجالس مشاورت میں توجہ دلائی، اجتماعات میں بھی یہ موضوع بیان فرمایا.ظاہر ہے کہ ان تمام ارشادات کو اس جگہ جمع کرنا اور پیش کرنا ممکن نہیں ہے البتہ بطور نمونہ چند باتیں پیش کی جارہی ہیں اس سے حضور کے انداز تربیت کا پتہ چلنے کے ساتھ حضور کے انداز فکر اور جماعت سے توقعات کا بھی پتہ چلتا ہے.حضور کے یہ ارشادات مستقل نوعیت کے ہیں اور ان پر جو شخص بھی عمل کرے گا اور جب بھی عمل کرے گا وہ ضرور ایک مفید اور نفع رساں وجود بن سکے گا.حضرت مصلح موعود اسلامی تعلیم اور قرآنی رہنمائی کے مطابق تعد دازدواج کے قائل تھے مگر آپ نے کبھی بھی اکثر دوسرے مسلم سکالرز کی طرح کوئی معذرت خواہانہ طریق اختیار نہیں کیا بلکہ زندگی بھر اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ آپ اس طریق کو بہتر سمجھتے اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں.یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے بلکہ حضور تو ہمیشہ ہی تمدن اسلام کے مطابق زندگی بسر کرتے ، تمدن اسلام کو عام کرتے تمدن اسلام کو مغربی تمدن کے مقابل پر بنی نوع انسان کے لئے ہر لحاظ سے بہتر مفید اور قابل عمل سمجھتے تھے اور آپ کے عقیدہ اور ایمان میں یہ امر شامل تھا جس پر آپ سختی سے عمل پیرا بھی تھے کہ ہماری زندگی پورے طور پر اسلامی تعلیم و تمدن کی صحیح عکاسی کرنے والی ہو.مغربی تمدن کے متعلق پُر زور انداز میں حضور فرماتے ہیں :- یا درکھو کہ مغربی تہذیب و تمدن اور فیشن ہرگز باقی نہیں رہیں گے بلکہ مٹا دیئے جائیں گے اور ان کی جگہ دنیا میں اسلامی تمدن قائم ہوگا.وہ آگ جو اس بارہ میں میرے دل میں ہے وہ جس دن بھڑ کے گی خواہ وہ میری زندگی میں بھڑ کے یا میرے بعد بہر حال جب بھی بھڑ کے گی دنیا کو بھسم کر دے گی.اس کا اندازہ یا
180 میں کر سکتا ہوں یا میرا خدا اور وہ بلا وجہ نہیں.اگر وہ میرے دل میں اتنی شدید ہے تو حضرت مسیح موعود کے دل میں اور پھر آنحضرت صلی اللہ و آلہ سلم کے دل میں کتنی ہو گی.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی محبت کی آگ دیتا ہے وہ بھی ایک دوزخ میں جل رہے ہوتے ہیں مگر وہ دراصل حقیقی جنت ہوتی ہے.خوب یا درکھو کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اسلام کے رستہ میں کھڑی ہونے والی چیز میں قائم رہ سکیں وہ یقیناً تباہ و برباد ہوں گی اور ان کو اختیار کرنے والے بھی تباہ و برباد ہونگے اور ان لوگوں کی خاطر جو حضرت مسیح موعود پر ایمان لائے ہیں اور بظاہر بالکل سادہ ہیں، زمیندار لوگ ہیں جو تہہ بند باندھتے اور اچھی طرح بات بھی کرنا نہیں جانتے انہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس کی تباہی کا کام لے گا اور موجودہ تہذیب مٹ کر ان کے ہاتھوں میں دنیا کی رہنمائی آجائے گی.آج کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ دنیا کا انتظام کیسے کر سکیں گے لیکن کیا انہوں نے پنجابی کی یہ ضرب المثل نہیں سنی کہ جدی کوٹھی دانے اُسدے کملے وی سیانے“ خدا تعالیٰ جب برتری دیتا ہے تو ,, عقل خود بخودآ جاتی ہے“ خطبات جلد ۳ صفحه ۴۶۰-۴۶۱) اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے مقابلہ پر مغربیت کو سب سے بڑی روک قرار دیتے ہوئے حضور فرماتے ہیں : - تحریک جدید کے ماتحت میں نے مغربیت کے ازالہ کی بھی کوشش کی ہے چنانچہ میں نے کہا آؤ اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کرو اور وقف بھی اس طرح کہ خود کماؤ مگر خدمت دین کی کرو یا اس قسم کی اور بھی کئی مثالیں ہیں جیسے لباس میں سادگی ، مکانات کی آرائش وزیبائش پر فضول اخراجات نہ کرنا، کفایت کو ہر کام میں ملحوظ رکھنا ، عورتوں کا گوٹہ کناری کو ترک کرنا، یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو مغربیت کے ازالہ کے لئے میں نے تجویز کی ہیں اور میں سمجھتا ہوں جس دن ہم مغربیت کو کچل دیں گے اس دن اسلام کی دوبارہ زندگی کے آثار پیدا ہو جائیں گے کیونکہ مذہب ہمارے رستہ میں روک نہیں بلکہ ہمارے رستہ میں سب سے بڑی روک مغربیت ہے“ الفضل ۸ فروری ۱۹۳۶ء صفحه ۱۳) ضرورت کے وقت کسی بھائی کی مددکرنا اور اسے قرض دینا ایک نیکی اور کار خیر ہے مگر دیکھنے
181 میں آیا ہے کہ قرض کی واپسی کے وقت بسا اوقات بدمزگی اور تلخی پیدا ہو جاتی ہے جس سے فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے حضور اس معاشرتی خرابی کے سدِ باب کے لئے ایک لائحہ عمل تجویز فرما رہے ہیں تا کہ جماعتی اتحاد واتفاق میں رخنہ اندازی کا یہ پہلو بھی ختم ہو سکے.آپ فرماتے ہیں :- میں ایسے قواعد سوچ رہا ہوں کہ بغیر کسی محکمہ پر خاص طور پر بوجھ وو ڈالنے کے دوست اپنی بھی اصلاح کریں اور دوسروں کی بھی.پس یہ تین کام ہیں اول یہ کہ بجائے اپنے کسی بھائی کو بدنام کرنے کے پہلے عام رنگ میں نصیحت کی جائے کہ وہ لوگ جنہیں کہیں سے روپیہ آنے کی امید نہ ہو وہ قرض نہ لیا کریں.دوسرے روپیہ دینے والوں کو نصیحت کریں کہ ایسے لوگوں کو قرض دینے سے اجتناب کیا کریں اور تیسری بات یہ ہے کہ دھوکا باز کا فریب جماعت میں ظاہر کریں.تا کہ لوگ اس سے بچ کر رہیں.پھر ہمیشہ مظلوم کی تائید کرنی چاہئے مگر غلطی سے لوگ مظلوم غریب کو قرار دیتے اور سمجھ لیتے ہیں کہ امیر ہی ظالم ہے حالانکہ اگر ایک کروڑ پتی کا ایک روپیہ بھی کسی غریب نے دینا ہے اور وہ دینے کی طاقت رکھتا ہو اور نہیں دیتا تو کروڑ پتی مظلوم ہے اور غریب ظالم الفضل ۱۵.فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۷.۸) مقام خلافت کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے جس سے خلیفہ کی عظمت وشان نمایاں ہوتی ہے آپ نہایت پر حکمت انداز میں کامل اطاعت کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.دوفرماں برداریاں ہیں جن کا میں مطالبہ کرتا ہوں ان میں سے ایک تو ساری دنیا کو متحد کرنے والی ہے اور دوسری وقتی اور حالات کے مطابق بدلتی رہنے والی ہے.پہلی فرمانبرداری میری ہے جو خدا اور اس کے رسول کے حکم کے ماتحت ہے کیونکہ میں صرف ہندوستان کے لوگوں کا ہی خلیفہ نہیں میں خلیفہ ہوں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا اور اس لئے خلیفہ ہوں افغانستان کے لوگوں کے لئے عرب، ایران، چین، جاپان، یورپ، امریکہ، افریقہ، سماٹرا جاوا اور خود انگلستان کے لوگوں کے لئے غرضیکہ کل جہاں کے لوگوں کے لئے میں خلیفہ ہوں.اس بارے میں اہلِ انگلستان بھی میرے تابع ہیں دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر میری مذہبی حکومت نہیں سب کے لئے یہی حکم ہے کہ میری بیعت کر کے حضرت مسیح موعود
182 علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہوں لیکن دوسرا حکم وقتی ہے اور حالات کے ماتحت بدلتا رہتا ہے آج یہاں انگریزوں کی حکومت ہے اور ہم اس کے وفادار ہیں لیکن کل یہ بدل گئی تو ہم اس نئی حکومت کے وفادار ہوں گے اس کے بالمقابل خلافت نہیں بدل سکتی اس وقت میں ہی خلیفہ ہوں اور میری موت سے پہلے کوئی دوسرا خلیفہ نہیں ہوسکتا، ( الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ صفحه ۴ ) اطاعت کی اہمیت کو مزید واضح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- وہ قوت ارادی جس سے دنیا فتح ہوسکتی ہے اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے جب کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ انسان کے اندر ہو، جب وہ حیل و حجت نہ کرے ، جب وہ اپنی تجویزوں اور قیاسات سے کام لینے کی بجائے اس حکم کو سنے جو اسے دیا گیا ہو اور اس پر پوری طرح عمل کرے اگر انسان اس بات کی عادت ڈال لے تو اس صورت میں اسے بہت جلد کامیابی حاصل ہوسکتی ہے“ (الفضل ۱۹.اگست ۱۹۳۶ ، صفحه ۵) ایک مبلغ کی بیرون ملک روانگی کے موقع پر حضور نے انہیں اپنے دستِ مبارک سے کچھ نصائح لکھ کر دیں.ان نصائح میں وقت کی اہمیت اور ذمہ داری کے مختلف انداز، وسعت حوصلہ اور علو ہمتی ، وسعت مطالعہ، افسروں کی اطاعت ، دعا اور اخلاق فاضلہ سے مزین ہونے کی نہایت جامع اور مؤثر تلقین ہے.آپ فرماتے ہیں :- آپ واقف زندگی ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، ایک فن جانتے ہیں، نوکری کرتے یا اپنا کام کرتے تو اپنی حد کے اندر دنیا کماتے ، رشتہ داروں کی ترقی کا موجب ہوتے لیکن اب آپ نے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے ارادوں کو قربان کر دیا ہے یہ نازک مرحلہ ہے ایک قدم ادھر سے اُدھر ہو کر قعر مذلت میں گرا سکتا ہے.اپنے عہد پر قائم رہیں تو دین و دنیا آپ کی ہے اس میں ذرہ سی لغزش ہو تو تباہی اور بربادی ہے.آپ نے دین کے لئے زندگی وقف کی ہے لیکن آپ کو تجارت کے لئے بھجوایا جا رہا ہے.یہ عجیب بات نہیں.ساری فوج لڑے تو شکست یقینی ہے.کچھ لوگ گولہ بارود بناتے ہیں ، کچھ روٹی کماتے ہیں، کچھ بندوقیں تیار کرتے ہیں ، کچھ کپڑے، کچھ بوٹ، کچھ موٹر بناتے ہیں اگر یہ لوگ اپنے کام پر
183 خوش نہ ہوں اور جوش سے اور حسب ضرورت بلکہ زائد از ضرورت کام نہ کریں تو لڑائی میں شکست یقینی ہے.ان کے بغیر سپاہی قیدی ہے، مقتول ہے، فاتح اور غالب نہیں پس آپ کا کام مبلغوں سے کم نہیں.مبلغ اپنی جگہ پر لڑتا ہے آپ لوگ ساری دنیا میں تبلیغ پھیلانے کا ذریعہ بنیں گے.پس اپنے کام کو وسیع کریں اپنے نفع کو کروڑوں، اربوں اور پھر کھربوں تک پہنچائیں تا کہ سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں مبلغ مقرر ہوں اور کروڑوں کے بعدار بوں ٹریکٹ اور کتب ہر سال شائع اور تقسیم ہوں.اپنے حوصلہ کو بلند کریں، چھوٹی کامیابیوں پر خوش نہ ہوں ، دنیا کی فتح اپنا مقصود بنا لیں.دنیا کو دنیا نے اپنے لئے ہزاروں سال کمایا ہے اب کیوں نہ سب تجارت اور صنعت دین کے لئے فتح کر لی جائے تا کہ یہ ذاتی جھگڑے بالکل ختم ہو جائیں.کمیونسٹ قوم کے لئے لیتے ہیں اور اس طرح ذاتی لڑائی کو قومی لڑائی میں بدل دیتے ہیں اور چونکہ قو میں نہیں بدلتیں لڑائی کی بنیاد ہمیشہ کے لئے قائم کر دیتے ہیں لیکن ہم اگر تجارت و صنعت کو مذہب کے لئے جیت لیں گے تو لڑائی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائیگا.کیونکہ مذہب بدل سکتا ہے اور اسلام تبلیغی مذہب ہے.جب سب لوگ ایک مذہب کے ہو جائیں گے اور تجارت مذہب کے ہاتھ میں ہوگی تو دین و دنیا ایک ہی ہاتھ میں جمع ہو کر لڑائی کا خاتمہ کر دیں گے.مطالعہ وسیع کریں صرف ایک تاجر نہیں ایک ماہر اقتصادیات کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.صرف ہندوستان اور انگلستان کے درمیان ہی تجارت وسیع کرنے کا سوال نہیں اپنے مغربی مشنوں سے تبادلہ خیالات کر کے وہاں تجارت کو وسیع کیا جا سکے تو اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.ہماری غرض عقل کے ساتھ سوچ کرساری دنیا کی تجارت پر قبضہ کرنا ہے اور کوشش کرنا ہے کہ تبلیغ اسلام اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے اس قدر روپیہ کما لیں کہ رو پید اور مال کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہوصرف سماوی آفات رہ جائیں ، ارضی آفات کا خاتمہ ہو جائے اور سماوی آفات دل کی اصلاح سے دور ہو سکتی ہیں.ان کا دور کرنا آسان ہے کہ اس کا رو کنا رحیم وکریم
184 خدا کے ہاتھ میں ہے.افسروں کی اطاعت.باقاعدہ رپورٹ کام کے اہم جزو ہیں جو اس میں غفلت کرتا ہے اس کا سب کام عبث جاتا ہے.دعا، عبادت، دیانت ، امانت، محنت، تعاون با ہمی ضروری امور ہیں ان کے بغیر دین نہیں دین کا چھلکا انسان کے پاس ہوتا ہے اور چھلکا کوئی نفع نہیں دیتا.“ الفضل ۲۴ - جنوری ۱۹۴۷ء صفحه ۴ ) اسی تعلق میں حضور کی ایک اور بیش قیمت نصیحت جو آپ نے مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر دعوت وتبلیغ کی ایک درخواست کے جواب میں بیان فرمائی درج ذیل ہے :- میں بھی آپ سے متفق ہوں کہ ہماری خاموشی سے سلسلہ کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور باوجود بار بار توجہ دلانے کے کہ ہم صرف اسلام کی خاطر خاموش ہیں انہوں نے نصیحت حاصل نہیں کی اور محض ذاتی بغض پر اسلام کے فوائد کو قربان کر دیا ہے.اب یہ ذاتی عداوت ایسا رنگ اختیار کر رہی ہے کہ اس کا نقصان اسلام اور مسلمانوں کو پہنچنے کا خطرہ ہے اور وہ تحریک اتحاد جسے میں نے بصد کوشش جاری کیا تھا اس سے متاثر ہونے کے خطرہ میں ہے.پس اسلام اور مسلمانوں کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس امر کی اجازت دیتا ہوں اور بادل نخواستہ دیتا ہوں کہ صاحبانِ جرائد اور مصنفین سلسلہ کو اجازت دی جائے کہ وہ ایسے اعتراضات کے جواب دے دیا کریں جن کا اسلام یا سلسلہ کے کاموں پر بداثر پڑنے کا اندیشہ ہو لیکن سخت الفاظ کے استعمال سے پر ہیز کیا کریں اور جہاں تک ممکن ہو سکے ذاتیات کی بحثوں میں نہ پڑا کریں کہ ان بحثوں میں پڑنے سے فساد کے بند ہو جانے کا احتمال بہت کمزور ہو جاتا الفضل ۲۴.جولائی ۱۹۲۸ ء صفحہ ۲) حضور کی نصائح کا مقصد بلند اخلاق اور آئندہ نسلوں کی تربیت اور بہبودی ہے اسی مقصد کو نمایاں کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :.اول ہمیں یہ بتانا ہے کہ اخلاق کیا ہیں اور جب یہ بتا دیں تو یہ بتانا ہوگا کہ ان کے قواعد کیا ہیں اور یہ بھی بتا دیں تو موقع پر استعمال کرانا
185 ہوگا.چاہئے..پھر روحانیت کی تعلیم ہے.اخلاقی تعلیم کے بعد اس کا درجہ شروع ہوتا ہے.روحانی تعلیم سے باطن کی صفائی ہوتی ہے..پھر ہمیں موجودہ نسل کی ہی اصلاح نہیں بلکہ یہ بھی کرنا ہے کہ آئندہ نسلوں کی حفاظت کا بھی انتظام کریں لیکن اگر سلسلہ کا انتظام اعلیٰ چٹان پر قائم نہیں تو اگر آج نہیں تو کل اس کی موت ہو جائے گی.جس طرح آئیڈیل مین کہتے ہیں اسی طرح چاہئے کہ ہم آئیڈیل مسلم بنا ئیں اور یہ کوشش کریں کہ ہر احمدی ایسا ہو اور جو آئندہ پیدا ہو وہ بھی ایسا ہی ہو بلکہ یہ کہ آئندہ نسلیں بڑھ کر ہوں مومن کو جرات و دلیری پیدا کرنی رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحه ۲۵ تا ۲۷) ایک دُوراندیش معلم اخلاق آئندہ نسلوں کے اخلاق کی اصلاح کے لئے بطور نصیحت فرماتا ہے:.مجھے ڈر ہے تو اس بات کا ہے کہ ہماری نسلیں جب تاریخ میں انکے ان مظالم کو پڑھیں گی اس وقت ان کا جوش اور اُن کا غضب عیسائیوں کی طرح ان کو کہیں اخلاق سے نہ پھیر دے.اس لئے میں آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ ان کو ہماری ان حقیر خدمات کے بدلے میں حکومت اور بادشاہت عطا کرے گا تو وہ ان ظالموں کے ظلموں کی طرف توجہ نہ کریں جس طرح ہم اب برداشت کر رہے ہیں وہ بھی برداشت سے کام لیں اور وہ اخلاق دکھانے میں ہم سے پیچھے نہ رہیں بلکہ ہم سے بھی آگے بڑھیں وو الفضل ۱۹.فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۷ ) نیکی اور تقویٰ کے مقام اور تو ازن و اعتدال کو مد نظر رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- دو ہمیں چاہئے کہ ہم نیکی و تقویٰ پر زیادہ سے زیادہ قائم ہوتے چلے جائیں اور اپنے اخلاق کو درست رکھیں اگر دشمن کسی مجلس میں ہنسی اور تمسخر سے پیش آتا ہے تو اس مجلس سے اٹھ کر چلے آؤ یہی خدا کا حکم ہے جو اس نے ہمیں دیا مگر بے ہودہ غصہ اور نا واجب غضب کا اظہار بے وقوفی ہے.اگر اس وقت جب کہ تم کمزور ہو اور تمہاری مثال دنیا کے مقابلہ میں بنتیس (۳۲) دانتوں میں زبان کی سی ہے مخالفین کی حرکات پر تمہیں غصہ آتا ہے اور تم اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکتے تو یا درکھو جب ہمیں بادشاہت حاصل ہوگی اس وقت ہمارے آدمی دشمنوں پر
186 سخت ظلم کرنے والے ہوں گے پس آج ہی اپنے نفوس کو ایسا مارو کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں یا تمہاری اولادوں کو بادشاہت دے تو تم ظلم کرنے والے نہ بنو اور تمہارے اخلاق اسلامی منہاج پر سُدھر چکے ہوں.......دنیا ہمارے صبر کو کمزوری اور ہمارے عفو کو ضعف پر محمول کرتی ہے اس لئے اس کا جواب یہی ہے کہ جب خدا ہماری جماعت کو طاقت دے تو اس وقت بھی وہ عدل وانصاف کے دامن کو نہ چھوڑے اور اپنے ہاتھ کو ظلم سے رو کے اور اس طرح اپنے عمل سے بتا دے کہ کمزوری اور طاقت ہر دو حالتوں میں محض خدا کے لئے اس نے ہر کام کیا الفضل ۹.مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ۹) آگے چل کر آپ فرماتے ہیں :- میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم بے غیرت مت بنو مگر اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہتا ہوں کہ تم ظالم بھی مت بنو.ایسا نہ ہو کہ ایک گڑھے سے نکلو اور الفضل ۹ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۹) یہ سب نصائح سنجیدگی اور خدا خوفی کا تقاضا کرتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ شریعت کے معاملہ میں دوسرے گڑھے میں گر جاؤ“ کسی قسم کا استہزاء اور تمسخر آپ پسند نہ فرماتے تھے اس نقص اور کمزوری کو دور کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- ایک اور نقص میں نے دیکھا ہے بعض لوگ آیات قرآنی ہنسی سے پڑھ دیتے ہیں ، بعض روایات اور احادیث کو نسی میں بیان کر دیتے ہیں ، یہ بہت بُری عادت ہے اور اسے مٹا دینا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض ہی یہ تھی کہ لوگوں کے قلوب میں خشیت اللہ پیدا کریں اور چاہئے کہ ہماری ہر بات میں سنجیدگی ہو ، ہمارے چہروں سے سنجیدگی ظاہر ہو اور ہمارے حالات ایسے ہونے ، چاہیں کہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ احمدی جو کچھ کہتے ہیں سنجیدگی سے کہتے ہیں مذاق سے دینی باتیں نہیں کرتے.اگر لوگوں پر ہم یہ اثر قائم کر لیں تو یہ بات تبلیغی لحاظ سے بھی بہت مفید ہوسکتی ہے.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ کوئی مجھ سے بات چیت کرنے آتا ہے اور مسئلہ وغیرہ پوچھتا ہے تو بعض نادان احمدی اس کی لاعلمی کی باتوں کو سن کر ہنستے ہیں
187 اور قہقہے لگاتے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں خشیت اللہ نہیں.بعض احمدی بیعت کے وقت ہنستے رہتے ہیں یہ بھی سراسر نادانی کی بات ہے.بیعت کا وقت تو نہایت سنجیدگی کا وقت ہوتا ہے یہ تو نئی پیدائش کا وقت ہوتا ہے خدا جانے جو بیعت کر رہا ہے کس نیت اور کس ارادہ سے کر رہا ہے اگر تو وہ نیک نیتی سے بیعت میں شامل ہو رہا ہے تو بھی یہ ایک اہم وقت ہے اس کی نئی پیدائش ہو رہی ہے اور اگر فتنہ اور منافقت کی نیت سے کر رہا ہے تب بھی یہ خطر ناک وقت ہے.جولوگ بیعت کے وقت باتیں کرتے یا ہنستے ہیں میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ کس طرح ایسا کرنے کی جرات کرتے ہیں میری تو یہ حالت ہے کہ بچپن سے ہی جب میں کسی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرتے دیکھتا تو بدن پر رعشہ طاری ہو جاتا اور ہمیشہ یہ محسوس کرتا کہ یہ نہایت سنجیدگی کا وقت ہے.مگر آجکل میں نے دیکھا ہے بعض لوگ نہایت بے باکی سے بیعت کرتے وقت باتیں کرتے یا ہنستے رہتے ہیں حالانکہ یہ وقت ایک نئے بچہ کی پیدائش کے وقت کے مشابہہ ہوتا ہے.ہماری جماعت کو بہت تربیت کی ضرورت ہے اور یہ ایک دوسرے کو سمجھانے سے ہی ہو سکتی ہے مگر میں نے یہ نقص بھی جماعت میں دیکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مسائل سمجھاتے نہیں اگر دوست اس..طرف توجہ کریں اور ایک دوسرے کو مسائل بتاتے اور سمجھاتے رہیں تو ایک سال بلکہ چھ ہی ماہ میں جماعت کی بہت اچھی تربیت ہو سکتی ہے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۸-۱۹) مندرجہ ذیل واقعہ بھی احترام شریعت کے متعلق آپ کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے:- مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور پہاڑ پر رہائش پذیر تھے اور وہاں سے ایک قافلہ پکنک کے لئے حضور کے ساتھ جا رہا تھا.قافلہ کے افراد پہاڑی ٹووں پر سوار تھے ، ایک ٹو ضرورت سے زیادہ سُست اور کاہل تھا اس کے پیچھے رہ جانے پر آواز دی :- ٹو کو چلاتے کیوں نہیں؟“
188 انہوں نے کہا: ”یہ نہیں چلتا.استخارہ کر رہا ہے“ استخارہ ایک مذہبی اصطلاح ہے، اس پر حضور کو سخت غصہ آیا اور آپ نے قافلہ کے اس ساتھی کو جو حضور کا بہت قریبی عزیز تھا وہاں سے واپس کر دیا اور اپنے ساتھ جانے کی اجازت نہ دی کیونکہ آپ مذہبی اصطلاحات اور شعائر کا احترام ضروری سمجھتے تھے.( ملت کا فدائی صفحہ ۱۰۹،۱۰۸) قیام سنت پر آپ کا خوش ہونا اور اس کا اس طرح بیان آپ کی سیرت کے کئی پہلو نمایاں کرتا ہے :- پرانے بازار کے آگے جب نیا بازار بنا تو میں بہت خوش ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ و آلہ سلم کی اس تعلیم پر عمل ہونے لگا ہے کہ بازار چوڑے ہونے چاہئیں تا لوگوں اور سواریوں کو گزرنے میں تکلیف نہ ہو لیکن اب مجھے کبھی بازار سے گزرنے کا اتفاق ہو تو میں دیکھتا ہوں کسی نے دوفٹ آگے بڑھا کر تھڑا بنایا ہوا ہے اور کسی نے تین فٹ پھر چھ مہینہ کے بعد گزریں تو وہی تھڑے چار چارفٹ کے بن چکے ہوتے ہیں.ان مسائل سے ناواقف رہنے کی وجہ سے معلوم نہیں ہیں.کتنی لعنتیں پڑتی رہتی ہوں گی“ الفضل ۲.جولائی ۱۹۳۷ ء صفحہ ۸) حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کی دعوت ولیمہ کی تقریب پر لوگ بہت زیادہ تعداد میں آگئے کھانا مدعووین کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت زیادہ مقدار میں تیار کیا گیا تھا مگر اس کے باوجود کھانا کم پڑ گیا.حضور کی ہدایت پر بہت سے ایسے مہمانوں کو جو قریبی اور قادیان کے رہنے والے تھے دوسرے دن کھانے کے لئے آنے کا کہہ کر واپس جانے کے لئے کہا گیا اور انہیں بعد میں کھانا کھلایا گیا.اس بدانتظامی کے تدارک اور تربیت کے لئے حضور نے جماعت کو اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا :- میں نے کئی دفعہ اپنے خطبات میں جماعت کے احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مومن کا ہر کام عقل کے ماتحت ہونا چاہئے.مومن اور بیوقوفی جمع نہیں ہوسکتی اس لئے کہ بیوقوفی کی بات پر لوگ ہنسا کرتے ہیں اور مومن اپنی کامیاب را ہوں میں جنسی کے قابل نہیں ہوتا.دشمن ہنسے تو ہنسے جائز طور پر اس کی کسی بات پر ہنسی نہیں کی جاسکتی کیونکہ خدا تعالیٰ نے مومن کو عزت کے لئے بنایا
189 ہے ہنسی کے لئے نہیں بنایا اور جسے خدا نے عزت کے لئے بنایا ہو اس کی باتیں ہنسی کے قابل نہیں ہونی چاہئیں.تا کہ وہ اس مقام سے نہ گر جائے جس پر خدا تعالیٰ نے اسے کھڑا کیا ہے.مگر با وجود بار بار توجہ دلائے جانے کے ہمارے احباب ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں جو بعض دفعہ غلط اخلاص کی وجہ سے، بعض دفعہ غلط محبت کی وجہ سے ، بعض دفعہ بیوقوفی کی وجہ سے اور بعض دفعہ بعض لوگوں کی منافقت کی وجہ سے مضحکہ انگیز ہو جاتی ہیں.پچھلے دنوں ایک واقعہ ہمیں ایسا پیش آیا ہے کہ گو میں اپنی طبیعت کے لحاظ سے اس کے بیان کرنے پر شرم محسوس کرتا ہوں یا اس لئے کہ اپنے دوستوں کے نقص کا ذکر کرنا پڑتا ہے.مجھے اس کے بیان کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے مگر چونکہ میرے سپر د جماعت کی تربیت کا کام بھی ہے.اس لئے میرا فرض ہے کہ گو مجھے اس کے بیان کرنے پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے.لوگوں کے سامنے بیان کروں“ خطبات محمود جلد ۱۵ صفحه ۲۲۱٬۲۲۰) اس کے بعد حضرت امام جماعت نے رسول کریم صلی علیہ السلام کی ایک شادی کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ جب لوگ کھانا وغیرہ کھا چکے تو اسی جگہ بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگ گئے.رسول کریم صلی للہ والی ہم چاہتے تھے کہ لوگوں نے جب کھانا کھالیا ہے تو چلے جائیں اور اگر با تیں ہی کرنی ہیں تو باہر جا کر کریں مگر آپ خاموش رہے اس پر خدا تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا کہ جب کسی کے ہاں کھانا کھانے جاؤ تو کھا کر وہاں بیٹھے نہ رہو بلکہ جب کھانا کھا چکو تو چلے آؤ.تب آپ نے اس حکم کو بیان کیا گو اس کے بیان کرتے وقت بھی آپ شرم محسوس کرتے تھے.حضرت صاحب نے فرمایا : - ” وہ واقعہ جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے میرے لڑکے کے ولیمہ کی دعوت ہے.ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں آٹھ ہزار کے قریب ہے یعنی ان گاؤں کے احمدیوں کو ملا کر جو ایک رنگ میں قادیان کا ہی حصہ ہیں.اتنی آبادی ہے سات ہزار دوسو سے کچھ اوپر تو قادیان کی احمدی آبادی ہے اور باقی آٹھ سو ملحقہ دیہات کے احمدیوں کی.“ اس کے آگے حضرت صاحب نے مکانوں کی تعداد کرائے کے مکانوں کا اور افراد کا ذکر کیا ہے.اور فرمایا کہ:-
190 ان تمام لوگوں کی دعوت کا انتظام نہ تو خاص اہتمام سے کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مالی لحاظ سے.سوائے خاص مالداروں کے.لوگوں کو اتنی وسعت ہوتی ہے کہ اس قدر بار برداشت کر سکیں.اسی وجہ سے یہاں دعوت کے دائرہ کو محدود کرنا پڑتا ہے.چنانچہ میں نے اپنے لڑ کے ناصر احمد کے ولیمہ کے موقع پر منتظمین کو ہدایت دی تھی کہ وہ محلہ وار دعوت کے لئے نمائندوں کا انتخاب کر لیں.کچھ قریب والے دیہات کے احمدی بلالئے کچھ یتامیٰ و مساکین اور دار الشیوخ کے لڑکے تھے.اس طرح حضرت مسیح موعود کے صحابہ اور صدرانجمن کے کارکنوں کو شامل کر کے ایک ہزار کے قریب افراد کا اندازہ کیا گیا اور کھانا جو تیار کیا گیا وہ چودہ سو کا تھا کیونکہ کچھ کھلانے والے بھی ہوتے ہیں انہوں نے بھی کھانا کھانا ہوتا ہے، کچھ گھروں میں کھانے کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن جب کھانے کا وقت آیا تو کھانا دینے میں بہت دیر ہو گئی تو میں شور سن کر باہر آیا.اس وقت مجھے بتایا گیا کہ سولہ سو کے قریب آدمی جمع ہو چکے ہیں اور ابھی سڑکیں آنے والے لوگوں سے بھری پڑی ہیں اور لوگ بڑی کثرت سے آ رہے ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کھانا ان سب کو کس طرح کھلایا جا سکتا ہے.میں نے دفتر والوں پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ یہ تمہارا قصور ہے تمہیں ٹکٹ جاری کرنے چاہئیں تھے اب مجھ سے مشورہ لینے کا کیا فائدہ.دس پندرہ منٹ کے بعد جب دوبارہ اندازہ لگایا گیا تو معلوم ہوا دو ہزار آدمی اکٹھا ہو چکا ہے.آخر یہ تجویز کی گئی کہ صدر انجمن کے تمام کارکن ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ اور بہت سے طالب علم اٹھا لئے جائیں.ان لوگوں کو اٹھا کر کہا گیا کہ آپ پھر کھانا کھا لیں پہلے اور لوگوں کو کھانا کھلا لیا جائے.انداز اچھے سو کے قریب لوگ تھے جنہیں اٹھایا گیا لیکن پھر بھی اندازہ یہ تھا کہ جن لوگوں نے کھانا کھایا وہ سترہ اٹھارہ سو تھے.جو چھ سو اٹھائے گئے انہیں رات کے بارہ بجے کے بعد کچھ چاول تیار کر کے تھوڑے تھوڑے کھلا دیئے گئے اور علاوہ از میں دوسرے دن ان کی دعوت بھی کر دی گئی.مجھے زیادہ افسوس طالب علموں کا رہا کہ دوسرے دن انہوں نے رخصت پر چلے جانا تھا رات کو وہ یوں بھوکے رہے اور صبح سویرے بغیر دعوت میں شامل ہوئے چھٹیوں پر اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے.
191 یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی نہایت ضروری ہے وو خطبات محمود جلد ۱۵ صفحه ۲۲۳٬۲۲۲) ساڑھے سات ہزار کے قریب جہاں آبادی ہو وہاں اول تو اخراجات کے لحاظ سے ہی محدود ذرائع کے آدمی کے لئے سب کی دعوت کا انتظام کرنا نا قابل برداشت ہے.اور اگر دواڑھائی ہزار روپیہ خرچ کر کے سب کو دعوت دی بھی جائے تو بھی سب کو ایک انتظام کے ماتحت کھانا کھلانا سخت مشکل ہوتا ہے“ (خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۲۲۳) پھر فرمایا:- میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ طبعی طور پر محبت کے جذبات کے ماتحت یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ ہماری دعوت کھانے سے محروم رہیں.میں ان کی محبت کی قدر کرتا ہوں لیکن ہر محبت عقل کے ماتحت ہونی چاہئے.جب عقل کا قبضہ اُٹھ جاتا ہے تو محبت بیوقوفی کا رنگ اختیار کر لیتی ہے ( خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۲۲۳) رسول کریم صل اللہ والیم کے نمونے کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ:- آپ سے زیادہ کوئی مہربان نہیں ہوسکتا.آپ کی ایک شخص نے دعوت کی اور چار اور صحابہ کو بھی مدعو کیا.جب رسول کریم صلی اللد و الا لم اس شخص کے مکان کی طرف چلے تو ایک اور شخص بھی ساتھ شامل ہو گیا.جب آپ دروازہ پر پہنچے تو اس شخص سے جس نے دعوت کی تھی فرمایا کہ تم نے میری اور میرے چار دوستوں کی دعوت کی تھی ہمارے ساتھ یہ بھی شامل ہو گیا ہے اگر اجازت ہو تو آ جائے نہیں تو واپس چلا جائے.چونکہ جہاں پانچ کیلئے کھانا پکا یا گیا ہو وہاں چھٹا شخص اگر آ جائے تو کوئی خاص تکلیف محسوس نہیں ہوتی اس لئے اس نے کہا یا رسول الله الله والالم میری طرف سے اجازت ہے.یہ شخص بھی آجائے“ (خطبات محمود جلد ۵ اصفه۲۲۴٬۲۲۳) پھر حضرت صاحب نے سات آٹھ ہزار کی آبادی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:- ناموں کی فہرست جو میں لکھ سکتا ہوں قادیان میں کوئی ایک آدمی اتنی
192 لمبی فہرست نہیں لکھ سکتا.مجھے لوگوں کے نام ان کے پتے اور ان کی شکلیں بہت یاد رہتی ہیں مگر باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے میرا حافظہ بہت اچھا بنایا ہے کئی لوگ رہ گئے حتی کہ کئی اچھے اچھے تعلق رکھنے والے رہ گئے.مثلاً در دصاحب کا خاندان ہی رہ گیا حالانکہ درد صاحب کے خاندان سے ہمارے خاندان کا بہت پرانا تعلق ہے، صوفی عبد القدیر صاحب جو مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے لڑکے ہیں ان کا نام رہ گیا حالانکہ مولوی عبداللہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہایت عزیز تھے اور قدیم صحابہ میں سے تھے.اور ان لوگوں کو ہم اپنے خاندان کا حصہ سمجھتے ہیں.اسی طرح میرے بہنوئی عبداللہ خان صاحب ہیں ان کا نام رہ گیا اور یہ نام فہرست کے آخر میں شامل کئے گئے تو انسان کبھی بھول جاتا ہے“ پھر فرمایا: - ( خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۲۲۴) دو میں نے دیکھا کہ کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنی غفلت سے یہ سمجھ لیا کہ ہمارا بچہ چھوٹا سا ہے اگر یہ ولیمہ کی دعوت میں شریک ہو گیا تو ڈیڑھ ہزار کے قریب آدمیوں میں کیا حرج ہو گا.اور اسی طرح ہر شخص جہاں خود آیا وہاں اپنے بچوں کو ساتھ لا کر تعداد میں اس نے غیر معمولی اضافہ کر دیا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ دعوت میں پانچ چھ سو بچے شریک تھے حالانکہ عام طور پر بچوں کو ہم نے مدعو نہیں کیا تھا.اس میں شبہ نہیں کہ بعض رشتہ داروں کے بچے مدعو تھے مگر ایسے مواقع پر رشتہ داروں سے قدرتاً..ممتاز سلوک کرنا پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ نادانی کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ دنیوی رشتے سے دینی رشتہ بہر حال مقدم ہے.اس میں شبہ نہیں کہ دینی رشتہ کو تقدم حاصل ہوتا ہے.مگر جہاں دینی اور دنیاوی دونوں رشتے مل جائیں.وہاں بہر حال ان رشتہ داروں کو مقدم کرنا پڑتا ہے.کیونکہ ان میں دو وجوہ جمع ہو گئے دینی رشتہ داری بھی اور دنیاوی رشتہ داری بھی.( خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۲۲۵) پھر حضرت صاحب نے فرمایا کہ : - ذاتی تعلقات کا حصہ بہت قلیل تھا اور اس میں چند بچے شامل تھے لیکن
193 باقی تمام بچے ایسے تھے جنہیں بلایا نہیں گیا تھا.حقیقت یہ ہے کہ ہمیں تاریخوں پر غور کرنے سے کبھی معلوم نہیں ہوا کہ رسول کریم صلی العلی الہ وسلم کے زمانہ میں ولیموں میں بچے بلائے جاتے ہوں.یہ تو ایک دعا کی تحریک ہوتی ہے.اور اس میں بڑی عمر کے لوگوں کا شریک ہونا ضروری ہوتا ہے مگر مجھے بتایا گیا ہے پانچ چھ سو کے قریب بچے دعوت میں شامل تھے..غرض یہ بھی ایک نادانی تھی.جس کا بعض دوستوں سے اظہار ہوا مگر ان سب سے زیادہ بُری چیز یہ تھی کہ انہوں نے میزبان کی ہتک کی.آخر جب اتنی کثرت سے لوگ آجائیں گے اور انہیں کھانے کو نہیں ملے گا تو کیا اس میں میزبان کی عزت ہے.لوگ یہی کہتے جائیں گے کہ ہمیں بلا یا مگر کھلا یا نہیں اور اگر میں یہ کہوں کہ لوگ بن بلائے آگئے تو یہ بھی کتنی بُری بات ہے.بوجہ امام ہونے کے اس کی شرم بھی تو مجھے ہی آئے گی.پس میں اگر نہ بولوں تب بھی مصیبت کیونکہ لوگوں کی تربیت نہیں ہو سکتی اور اگر کہوں کہ لوگ بن بلائے آ گئے تو بھی مصیبت.کیونکہ لوگوں کو حرف گیری کا موقع ملے گا“ خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۲۲۷٬۲۲۶) پھر فرمایا : - پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں یہ امر سمجھنا چاہئے کہ جو امر ناممکن ہوا سے کس طرح کیا جا سکتا ہے.اول تو ساری جماعت کو انتظامی لحاظ سے بلا یا نہیں جاسکتا دوسرے مالی لحاظ سے بھی دقت ہوتی ہے.پھر دفتر والوں کو بھی چاہئے تھا کہ وہ ٹکٹ جاری کرتے.یہ بھی غلطی ہوئی ہے.قرعہ کی تجویز مجھے اس لئے پسند نہیں کہ اس میں یہ دقت ہو سکتی ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص کا ہی نام بار بار نکلتا رہے اس لئے آئندہ یہ طریق اختیار کرنا چاہئے.کہ باری باری لوگوں کو دعوت میں شامل کیا جائے.سوائے ایسے کارکنوں کے جن کا قریب رہنا ہر دعوت میں ( شرعی ) یا تمدنی طور پر ضروری ہوتا ہے.بہر حال اس نظام میں اصلاح کی ( خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۲۲۷) ضرورت ہے“ پھر فرمایا:-
194 آئندہ کے لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ ایک تو جب تک بچوں کو بلایا نہ جائے انہیں ہمراہ نہ لایا جائے.آخر کیا وجہ ہے کہ یہ سمجھ لیا جاتا ہے میں اکیلا ہی بچے کو لے جا رہا ہوں اور لوگ اپنے بچے ساتھ نہیں لائیں گے؟ پھر کہیں بھی احادیث سے یہ ثابت نہیں کہ دعوتوں کے موقع پر بچے بھی بلائے جاتے تھے اور اگر اخلاص کی وجہ سے ہی اپنے بچے ہمراہ لائے تھے تو پھر وہی کر لینا تھا جو رسول کریم صلی اللہ والیم نے ایک دفعہ کیا.آپ نے دعوت کی تو دیکھا کہ لوگوں میں بہت جوش ہے اور وہ سب شامل ہونے کے لئے بے تاب ہیں.آپ نے فرمایا جو آئے گھر سے کھانا لیتا آئے.اگر یہاں یہی ہوجاتا تو کوئی دقت نہ ہوتی.ہر شخص جو دن بلائے آتا اپنے گھر سے کھانا لے آتا اور سب مل کر کھا لیتے.اور مومنوں میں یہ کوئی شرم کی بات نہیں.پس اس طرح تو ہم بھی کر سکتے تھے اور اگر یہ نہیں تو پھر تو یہی ہوسکتا ہے کہ چند آدمیوں کی دعوت کر دی جائے اور انہیں کھانا کھلا دیا جائے.رسول کریم صلی علیہ السلام کے زمانے میں کبھی یہ شکایت نہیں سنی گئی کہ پچاس آدمی کو کیوں بلالیا گیا، مدینہ کے تمام افراد کو کیوں شامل نہیں کیا گیا.پہلے میرا ارادہ تھا کہ عورتوں کی بھی اسی رنگ میں دعوت کی جاتی مگر پھر میں نے کہا کہ اگر عورتیں بھی اسی طرح آئیں تو پہلی غلطی دہرائی جائے گی.اس لئے اپنی رشتہ دار عورتیں اور چند دیگر عورتوں کو بلا لیا گیا (خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۲۲۸) اس خطبہ میں دعوت ولیمہ کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اور جو ہدایات جماعت کو دی گئی ہیں وہ ایسی ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص کو پیش نظر رکھنی چاہئیں.حضور جماعت کی تربیت کی خاطر ایک شفیق اور سمجھدار باپ کی طرح بوقت ضرورت فہمائش اور سختی کو بھی کام میں لاتے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی اور ہمت بڑھانے والی باتوں کو بھی نظر انداز نہ فرماتے.ایک موقع پر آپ نے جماعت کو بڑے زور دار انداز میں قربانی کرنے کی طرف توجہ دلائی اور بعض سستی کا مظاہرہ کرنے والوں کا ذکر بھی فرمایا مگر اس سے اگلے خطبہ میں ہی اس مضمون کے تسلسل میں قربانی کی اچھی مثالوں کو پیش کرتے ہوئے جماعت کو بڑھ چڑھ کر قربانی پیش کرنے کی تلقین فرمائی.آپ کے اس مفصل اور طویل خطبہ کا ایک اقتباس درج ذیل ہے.جس سے آپ کا یہ پیارا انداز نمایاں ہوتا ہے :- ہر جنگ جو وطن کی حفاظت کے لئے لڑی جائے اس میں ایک احمدی کو وو
195 سب سے پہلے شامل ہونا چاہئے اس لئے بھی کہ وطن کا حق ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے جان دی جائے اور اس لئے بھی کہ اس کے اندر جرات اور بہادری پیدا ہوا اور جب شیطان کی جنگ خدا تعالیٰ کی فوج کے ساتھ ہو تو اس وقت وہ اس جنگ میں خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جان کو قربان کرنے والا ہو.جو شخص آج اپنے آپ کو اس رنگ میں تیار نہیں کرتا، جو شخص آج اپنے نفس کی اس طرح تربیت نہیں کرتا جو شخص آج اپنے اندر یہ جرأت اور دلیری پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا کل اس پر کوئی امید نہیں کی جاسکتی.وہ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائے گا اور اس کی زبان کے دعوے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کا اکثر حصہ ایسا ہی ہوگا.چنانچہ پچھلے خطبہ کے بعد ہی جب میں اپنے گھر گیا تو مجھے نہایت ہی تعجب ہوا.ویسا ہی تعجب جیسے عبدالرحمن بن عوف کو اس وقت ہوا تھا جب ان کے پہلو میں ایک انصاری لڑکے نے کہنی مار کر کہا تھا.کہ چچا وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم صل الله یو آر ایم کو دکھ دیا کرتا تھا میرا جی چاہتا ہے کہ آج اس کو مارڈالوں.مجھے بھی اس روز ویسا ہی تعجب ہوا.میں خطبہ کے بعد گھر میں گیا تو ایک لڑکی جو نئی بیا ہی ہوئی ہے اور جس کا ابھی رخصتا نہ بھی نہیں ہوا اور جو شہر کی رہنے والی ہے زمینداروں میں سے نہیں جنہیں لڑائی کی عادت ہوتی ہے بلکہ ایک ایسے خاندان میں سے ہے جس میں شاید صدیوں میں بھی کوئی سپاہی نہ ہوا ہو.پھر وہ ایک ایسے شہر کی رہنے والی ہے جو تعیش اور آرام کے سامانوں کے لحاظ سے ہندوستان میں مشہور ہے، ایسے شہر کے خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی لڑکی جس کی ابھی ابھی شادی ہوئی ہے اور جس کا رخصتانہ بھی نہیں ہوا میرے پاس آئی اور کہنے لگی میں نے اپنے ابا کو خط لکھ دیا ہے کہ وہ فوج میں بھرتی ہو جائیں میں حیران ہوا کہ اس کے ابا تو بوڑھے ہیں اس نے اپنے باپ کو یہ کیا لکھا کہ وہ فوج میں بھرتی ہو جائیں.چنانچہ میں نے اس سے کہا.بی بی میں تمہاری بات کو نہیں سمجھا تمہارے باپ تو بوڑھے ہیں وہ فوج میں کس طرح بھرتی ہو سکتے ہیں؟ پھر اس نے شرمائی ہوئی آواز سے کہا.میں نے اپنے ابا کو خط لکھ دیا ہے کہ وہ فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دیدیں میں نے سمجھا کہ شاید اس نے یہ لکھا ہے کہ مجھے
196 فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دی جائے.چنانچہ میں نے پھر کہا کہ لڑکیاں تو فوج میں بھرتی نہیں ہوتیں.اس نے کہا.آپ تو میری بات سمجھے ہی نہیں.میں نے اپنے ابا کو لکھا ہے.کہ انہیں اجازت دے دیں کہ وہ فوج میں بھرتی ہو جائیں.تب مجھے سمجھ آئی کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے.درحقیقت ہماری ہندوستانی عورت شرم کی وجہ سے اپنے خاوند کا نام نہیں لیا کرتی.اس نے بھی اپنے خاوند کا نام تو نہ لیا صرف یہ کہا کہ میں نے اپنے ابا کو لکھا ہے کہ وہ انہیں فوج میں بھرتی کرا دیں.مطلب یہ تھا کہ میں نے اپنے خاوند کے متعلق انہیں لکھا ہے کہ وہ انہیں بھرتی کرا دیں.مگر چونکہ ہماری عورتیں شرم کے مارے اپنے خاوند کا نام نہیں لیتیں اس لئے اس کی بات سن کر پہلے تو میں سمجھا کہ شاید اس نے اپنے ابا کولکھا ہے کہ وہ فوج میں بھرتی ہو جائیں پھر جب میں نے کہا کہ وہ تو بوڑھے ہیں.تو اس نے جواب دیا جس سے میں یہ سمجھا کہ شاید اس نے اپنے متعلق یہ لکھا ہے کہ مجھے فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دے دیں اور جب اس کے متعلق بھی میں نے کہا کہ عورتیں تو فوج میں بھرتی نہیں ہوتیں.تب اس نے جو جواب دیا اس سے میں یہ سمجھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جس کی ابھی ابھی شادی ہوئی ہے، جس کا ابھی رخصتانہ بھی نہیں ہوا چاہتی ہوں کہ سلسلہ کی روایات کو قائم رکھنے کے لئے اپنے خاوند کو فوج میں بھجوا دوں اور اس کے متعلق میں نے اپنے ابا کو خط لکھ دیا ہے کہ وہ انہیں فوج میں بھرتی کرا دیں.تب میں نے سمجھا کہ اگر ایک کمزور دل عورت اس قسم کی بہادری دکھا سکتی ہے اور وہ اپنے سہاگ کے آنے سے پہلے ہی اس کو لٹانے کے خطرہ میں ڈال سکتی ہے تو مجھے امید رکھنی چاہئے کہ ہماری جماعت کے دوسرے افراد بھی ایسی ہی جرأت اور بہادری دکھا ئیں گے.پھر مجھے ان دوستوں نے جو بھرتی کے لئے باہر دورہ پر گئے ہوئے تھے سنایا کہ ایک عورت جس کا ایک ہی بچہ تھا وہ اسے لائی اور کہنے لگی.میرے اس بچہ کو احمد یہ کمپنی میں بھرتی کیا جائے.وہ کہتے ہیں.ہم نے اسے کہا مائی تیرا ایک ہی بچہ ہے تو اس کو بھرتی نہ کرا جن کے دو دو تین تین بچے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنا ایک ایک بچہ بھرتی کرا دیں مگر اس نے اصرار کیا اور کہا کہ میں اسے ضرور بھیجوانا چاہتی ہوں اور کہا کہ
197 جب احمدیت کے فائدہ اور اس کی ترقی کے لئے خلیفتہ اسیح یہ تحریک کر رہے ہیں تو میں اس ثواب میں شامل ہونے سے پیچھے نہیں رہنا چاہتی.اسی طرح انہوں نے سنایا کہ ایک شخص کے دولڑ کے تھے وہ ان دونوں لڑکوں کو بھرتی کرانے کے لئے لے آیا.ہم نے اسے کہا کہ ایک کو بھرتی کرا دو اور ایک کو رہنے دو.مگر اس نے اصرار کیا کہ میں اس ثواب میں دونوں کو شریک کرنا چاہتا ہوں.تو دیکھو ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے قربانی کے یہ نمونے پیش کئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں یہ گروہ ایک خاصی تعداد میں ہے (الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۴۲ء صفحہ ۷ ) قادیان کے ایک محنت کش میاں عزیز احمد صاحب مخالفوں کی اشتعال انگیزیوں سے جوش میں آ کر بعض گالیاں دینے والوں سے اُلجھ گئے اور ان میں سے ایک کا قتل ہو گیا.عام مروجہ طریق پر وکلاء کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جاتا تو اس مقدمہ میں بری ہونا مشکل امر نہ تھا مگر ہمارے پیارے امام نے جو اخلاق فاضلہ کے قیام کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے انہیں نصیحت کی کہ اپنی جان بچانے کے لئے جھوٹ نہیں بولنا جو بات ہوئی ہے اس کو سچ سچ بیان کیا جائے چنانچہ میاں عزیز احمد صاحب مجرم ثابت ہونے پر ہائی کورٹ کے فیصلہ کے مطابق سزائے موت سے دوچار ہوئے.حضور نے جماعتی تربیت کو مقدم کرتے ہوئے ان کا جنازہ نہ پڑھا.عدالت کے بعض بے جاریمارکس پر جن میں قتل کی بالواسطہ ذمہ داری امام جماعت پر بھی ڈالی جاسکتی ہے جماعت کو بہت تکلیف ہوئی.حضور نے اس موقع پر جماعت کو بڑے ہی پر دردانداز میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :- اکثر کے خطوں سے معلوم ہوا ہے کہ وہ اس خبر کے پڑھنے کے بعد کھانا نہیں کھا سکے اور رات کو نیند بھی ان کو نہیں آتی اور بعض نے تو نہایت درد سے لکھا ہے کہ خدایا کیا غضب ہے کہ جس شخص نے ہمیں نرمی اور محبت اور راحت کی تعلیم دی اور جس نے ہمیں سختی اور ظلم اور فساد سے روکا اور جس نے ہماری طبیعتوں کی وحشت کو دور کر کے پیارا ور محبت کا ہمیں سبق دیا اور دشمنوں سے بھی حسنِ سلوک کی ہمیں ہدایت کی اور ہمارے شدید ترین غصہ کی حالت میں ہمارے جذبات کو ختی سے قابو میں رکھا.اس کی نسبت آج کہا جارہا ہے کہ اس نے لوگوں کو قتل وغارت کی تعلیم دی اور فساد پر آمادہ کیا.بعض کے خطوط تو ایسے دردناک ہیں کہ یوں
198 معلوم ہوتا ہے ان کے دل خون ہو گئے ہیں اور ان کے لئے عرصہ حیات تنگ ہو گیا ہے پس باوجود اس کے کہ عدالت عالیہ کے فیصلہ کے متعلق کچھ لکھنا ایک نازک سوال ہے اور قانون کا کوئی ماہر ہی اس مشکل راستہ کو بخریت طے کر سکتا ہے میں مجبور ہو گیا ہوں کہ اس بارہ میں اپنے خیالات کو ظاہر کروں وَمَا تَوْفِيقِی إِلَّا باللہ.سب سے پہلے تو میں یہ کہتا ہوں کہ اے بھائیو! میں تمہاری ہمدردی کا شکر گزار ہوں کہ تم نے میرے زخمی دل پر پھا یہ رکھنے کی کوشش کی اور میرے غم میں شریک ہوئے اور میرے بوجھ کے اُٹھانے کے لئے اپنے کندھے پیش کر دیئے.خدا کی تم پر رحمتیں ہوں وہ تمہارے دل کے زخموں کو مندمل کرے اور تمہارے دکھوں کا بوجھ ہلکا کرے کہ تم نے اس کے ایک کمزور بندے پر رحم کیا اور اس کے غم نے تمہارے دلوں کو پریشان کر دیا..اگر میاں عزیز احمد بے قابو نہ ہو جاتے اور اگر ان سے اس فعل کا ارتکاب نہ ہوتا جو ہوا تو ججوں کو میرے متعلق اچھے یا بُرے خیالات کے اظہار کا موقع ہی کب مل سکتا تھا ان کو ان ریمارکس کے کہنے کا موقع تو خود آپ لوگوں میں سے ہی ایک فرد نے دیا.جب میں اس نقطہ نگاہ سے اس معاملہ کو دیکھتا ہوں تو میرے دل سے بے اختیار یہ آواز آتی ہے کہ محمود جس قوم کی خدمت تو نے بچپن میں اپنے ذمہ لی، جس کی خدمت جوانی میں تو نے کی ، جب تیرے بال سفید ہو گئے ، جب تیری رگوں کا خون ٹھنڈا ہونے کو آیا تو ان میں سے بعض کی وجہ سے تجھ پر اس فعل کا الزام لگایا گیا جس فعل کو دنیا سے مٹانے کیلئے تیرا بچپن اور تیری جوانی خرچ ہوئے تھے.جب ہم میں سے بعض نے اپنے خدا پر بدظنی کی اور خیال کیا کہ وہ جائز راستہ سے ہماری مدد نہیں کر سکتا اور اس کا بتایا ہوا طریق ہمیں کامیاب نہیں بنا سکتا تو بتا کہ اگر دنیا کے لوگ تجھ پر اور تیرے دوستوں پر بدظنی کریں تو اس میں ان کا کیا قصور فاروق ۱۴.جنوری ۱۹۳۸ء صفحه ۲) اس درد بھرے بیان سے حضور کی امن پسندی اور مفسدہ پردازی سے نفرت بخوبی عیاں ہوتی ہے.غصہ سے بچنے اور اپنے بھائیوں بلکہ غیروں سے بھی محبت و پیار کا سلوک کرنے کی تلقین کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : -
199 ہوتا ہے :- ” دراصل غصہ دیوانگی ہوتی ہے اور عارضی دیوانگی ایک یا دومنٹ کے لئے ہوتی ہے وہ جب گزر جائیں تو حالت بدل جاتی ہے.کئی قتل ایسے ہوتے ہیں کہ اگر قاتل کا اس وقت جب کہ وہ غصہ میں تھا ایک منٹ کے لئے ہاتھ پکڑ لیا جاتا تو وہ قتل نہ کرتا بلکہ بہت ممکن ہے کہ دوسرے ہی منٹ میں اس سے چمٹ کر محبت کرنے لگتا جسے قتل کرنے لگا تھا اور معافی مانگتا کہ میں سخت غلطی کرنے لگا تھا.تو غصہ آنا جذبہ ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کو محض ازالہ شر کے لئے رکھا ہے تا شرارت کو اس سے روکا جا سکے ورنہ اصل چیز خدا تعالیٰ نے محبت پیدا کی ہے.اگر غصہ کے وقت انسان ایسی جگہ سے ہٹ جائے اور کہے میں اس بات کا فیصلہ پھر کسی وقت کر لوں گا یا جیسے رسول کریم صلی اللہ والیم نے فرمایا ہے اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اگر بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور پھر پانی پئے تو اس طرح سینکڑوں ہزاروں لڑائیاں دور ہو سکتی ہیں.مگر میں کہتا ہوں یہ بھی ادنی بات ہے جس مومن کو غصہ روکنے کے لئے بیٹھنے یا لیٹنے کی ضرورت پڑے وہ سمجھ لے کہ وہ ابھی کامل مومن نہیں ہے.مومن کو محسوس کرنا چاہئے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے محبت اور صلح کے لئے پیدا کیا ہے نہ لڑنے جھگڑنے کیلئے اور جب خدا تعالیٰ نے انسان کو محبت کیلئے پیدا کیا ہے تو وہ اسی سے محبت کرے گا جو دوسروں سے محبت کرنے والا ہوگا اور جولڑتا ہے وہ اس کا محبوب نہیں بن سکتا حضرت مسیح موعود نے ہمیں ساری دنیا سے محبت کرنے کی.تاکید کی ہے اگر ہم اپنے روحانی بھائی سے محبت نہیں کرتے تو غیروں سے کیا کریں گے اور جب تک غیروں سے محبت نہ کریں گے اس وقت تک کامیاب بھی نہ ہوں گے ( خطبہ جمعہ ۲۰.اپریل ۱۹۲۸ء الفضل ۲۷.اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۶ ) اخوت و محبت نہایت قیمتی جو ہر ہے اس کا اندازہ حضور کے مندرجہ ذیل ارشاد سے وہ صفائی جو اسلام چاہتا ہے یہ ہے کہ گند نظر نہ آئے اور صحت خراب نہ ہو پھر بعض لوگ ایسے صفائی پسند ہوتے ہیں کہ وہ مصافحہ بھی کسی سے نہیں کرتے کہ اس طرح کیڑے لگ جاتے ہیں یہ بھی صفائی نہیں بلکہ جنون ہے.ایسی صفائی جو
200 اخلاق کو تباہ کر دے جائز نہیں.بعض لوگ کسی کے ساتھ برتن میں کھانا نہیں کھاتے یہ بھی ان کے نزدیک صفائی ہے مگر ایسی صفائی سے اسلام منع کرتا ہے.جو صفائی اخوت اور محبت میں روک ہو وہ بے دینی ہے پس ہر کام کے وقت اس کی خوبی اور برائی کا موازنہ کر کے دیکھنا چاہئے مصافحہ کرنے سے اگر فرض کرو کوئی بیمار بھی ہو جائے یا سال میں آٹھ دس آدمی اس طرح مر بھی جائیں تو اس محبت و پیار کے مقابلہ میں جو اس سے پیدا ہوتا ہے اور ان دوستیوں کے مقابلہ میں جو اس سے قائم ہوتی ہیں اس کی حقیقت ہی کیا ہے.اگر محبت کے ذریعہ لاکھوں آدمی بچیں اور آٹھ دس مر بھی جائیں تو کیا ہے.دیکھنا تو یہ چاہئے کہ نقصان زیادہ ہے یا فائدہ اور جو چیز زیادہ ہو اس کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ ہر بڑی چیز کیلئے چھوٹی قربانی ہوتی ہے پس ایسی صفائی جس سے تعیش اور وقت کا ضیاع ہو یا جو محبت میں روک ہو اسے مٹانا چاہیئے الفضل ۱۷.مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۰۹) انتظامی معاملات میں کسی قسم کی رعایت یا لحاظ کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا پوری غیر جانبداری سے تحقیق کے بعد انصاف سے کام لیتے ہوئے فیصلہ فرماتے.حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب حضور کے خسر تھے اس رشتہ داری کے علاوہ جماعتی خدمات اور اپنے مقام کی وجہ سے بہت احترام کے مقام پر تھے مگر ایک غریب احمدی نے مسجد مبارک میں ان کے خلاف کوئی شکایت کی تو حضور کے فیصلہ کے مطابق حضرت خلیفہ صاحب نے اس غریب آدمی سے معافی مانگی اور اس کی دلجوئی بھی کی.( روایت حضرت مولوی شیر علی صاحب) مجلس شوریٰ میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی ایک تجویز کے خلاف فیصلہ ہوا اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- میرے نزدیک پہلے بھی جب فیصلہ (جامعہ احمدیہ میں کلرک رکھنے کے متعلق ناقل ) خلاف ہوا تھا اس کی ضرورت تھی مگر اس وقت معاملہ کی صورت ایسا رنگ اختیار کر گئی تھی جس میں میں نے دخل دینا مناسب نہ سمجھا.ایک تو یہ کہ ناصر احمد کا انجمن سے جو سوال وجواب ہوا تھا وہ ایسا مؤدبانہ نہیں تھا جیسا کہ ایک ماتحت کا اپنے افسر کے مقابلہ میں ہونا چاہئے.دوسرے صدرانجمن احمدیہ کے ممبروں کی آراء بھی شاید اس وجہ سے کہ مرزا ناصر احمد نے صحیح طریق اختیار نہیں کیا تھا سختی سے اس
201 تجویز کے خلاف تھیں اور میں نہیں چاہتا تھا کہ ناصر احمد کا میرے ساتھ بیٹا ہونے کا جو تعلق ہے اس کی وجہ سے اسے کوئی فائدہ پہنچے ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ صفحه ۷۸ ) اپنے اسی طریق کاراور اصول کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: - سلسلہ مقدم ہے سب انسانوں پر سلسلہ کے مقابلہ میں کسی انسان کا کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا خواہ وہ کوئی ہو.حتی کہ اگر حضرت مسیح موعود کا بیٹا بھی مجرم ہو تو اس کا بھی لحاظ نہیں کیا جائے گا.اگر ہمیں اپنی اولادوں کو بھی قتل کرنا پڑے گا.تو ہم اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیں گے لیکن سلسلہ کو قتل نہ ہونے دیں گے ( الفضل ۱۵.جون ۱۹۴۴ء ) ایک اور موقع پر حضور نے تربیت کے اس ضروری پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: - اگر ہمارے خاندان کا کوئی نوجوان اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا تو صاحبزادہ صاحب صاحبزادہ صاحب کہہ کر اس کا دماغ بگاڑنا نہیں چاہئے بلکہ اس سے کہنا چاہئے کہ آپ ہوتے تو صاحبزادہ ہی تھے مگر اب غلام زادہ سے بھی بدتر ہور ہے ہیں اس لئے آپ کو چاہئے کہ اپنی اصلاح کریں اسلام میں نسلی فوقیت الفضل ۱۸.فروری ۱۹۴۸ء صفحه ۵) ہر گز نہیں ایک نہایت بلند پایه بزرگ حضرت مولوی شیر علی صاحب جو حضرت فضل عمر کے استاد تھے اور بعد میں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے اور جماعت کی گراں قدر خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی اپنے لمبے تجربہ کے خلاصہ کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ حضور عدل وانصاف اور چھوٹے بڑے میں کوئی امتیاز نہیں فرماتے“ اور یہ بھی کہ باوجود اس کے حضور میرے ساتھ بہت تلطف سے پیش آتے ہیں میں بھی ہمیشہ اس امر کے لئے متفکر رہتا ہوں کہ کوئی امر خلاف منشاء حضور سرزد نہ ہو جائے.حضرت مسیح موعود کے خاندان کے افراد کو خدا تعالیٰ کی احسان شناسی کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- ” میرا تو عقیدہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باقی اولاد بھی اگر اس پر غور کرے تو اسے سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے احسان کے بعد کہ شدید ترین گمراہی کے وقت میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے
202 خاندان میں سے مبعوث فرمایا.اس احسان کے بعد بھی اگر ہمارے اندر دنیا طلبی اور دین سے بے رغبتی پائی جائے تو ہم سے زیادہ بدقسمت اور کون ہوسکتا ہے.اس ایک احسان کے بدلہ اگر ہمارا سر قیامت تک خدا تعالیٰ کے آگے جھکا رہے تو ہم اس احسان کا بدلہ نہیں اُتار سکتے یہ خدا تعالیٰ کا اتنا بڑا احسان ہے کہ اس سے بڑھ کر احسان ممکن نہیں“ الفضل ۲۳.جنوری ۱۹۴۵ء صفحه ۴ ) اپنے خاندان کو بطور خاص نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- میں آج اس امانت اور ذمہ داری کو ادا کرتا ہوں اور آج ان تمام افراد کو جو رجل فارسی کی اولاد میں سے ہیں رسول اللہ صلی اللہ و آلہ سلم کا یہ پیغام پہنچاتا ہوں.رسول کریم صلی اللی او ایم نے امت محمدیہ کی تباہی کے وقت امید ظاہر کی ہے کہ ابنائے فارس دنیا کی لالچوں ، حرصوں اور ترقیات کو چھوڑ کر صرف ایک کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں گے اور وہ کام یہ ہے کہ اسلام کا جھنڈا دنیا میں بلند کیا جائے.یہ امید ہے جو خدا کے رسول نے کی اب میں ان پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں.خواہ میری اولاد ہو یا میرے بھائیوں کی وہ اپنے دلوں میں غور کر کے دیکھیں کہ ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وو الفضل ۵ - جولائی ۱۹۳۴ء صفحه ۲ خطبہ نکاح حضرت مرزا ناصر احمد صاحب) اس طرح ایک اور موقع پر ہمہ جہتی اصلاح کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.مجھے افسوس ہے کہ ہمارے خاندان کے بعض افراد میں بھی یہ سستی آ گئی ہے اور ہمارے گھر کے بعض بچے بھی اس مرض میں مبتلا ہیں.میں نے ان کے متعلق یہ دیکھا ہے کہ جب میں مسجد میں آتا ہوں تو وہ شاذ ہی مجھے یہاں نظر آتے ہیں بلکہ گھر میں سنتیں پڑھ کر انتظار کرتے رہتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ میں گھر سے ہو کر مسجد میں چلا گیا ہوں تو اس وقت وہ دوڑتے ہوئے نماز میں آ شامل ہوتے ہیں.آج تو ان کو بے شک یہ سہولت میسر ہے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ میں ہمیشہ رہنے والی ہستی نہیں.ہمیشہ رہنے والی ہستی تو حی و قیوم خدا ہی کی ہے میرے بعد جو خلیفہ ہو گا کون کہہ سکتا ہے کہ وہ کس گھر کا فرد ہو گا.اس وقت انہیں
203 کیونکر علم ہو گا کہ امام مسجد میں نماز کے لئے آ گیا ہے اس وقت ان کو جو تمیں تمہیں سال سے عادت پڑی ہوئی ہوگی وہ کیسے دور ہوگی اور وہ کیسے باجماعت نماز ادا کریں گے.اگر اس وقت انہوں نے اپنی حالت کی اصلاح نہ کی تو پہلے ان کی جماعت کی پہلی رکعت جاتی رہے گی، پھر دوسری رکعت جاتی رہے گی پھر تیسری رکعت جاتی رہے گی اور آہستہ آہستہ وہ باجماعت نماز ادا کرنے سے ہی محروم ہو جائیں گے اور خیال کرلیں گے کہ چلو گھر پر ہی نماز پڑھ لیں اور بعد میں ممکن ہے وہ گھر پر بھی نماز پڑھنا چھوڑ دیں.میں ان کو اس حدیث کے مطابق کہ کسی کا نقص لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہئے اشاروں میں توجہ دلا چکا ہوں لیکن جب ان پر میرے اشاروں کا کوئی اثر نہیں ہوا تو میں نے ضروری سمجھا کہ اب زیادہ وضاحت سے کام لیکر ان کو توجہ دلاؤں تا کہ وہ اپنی غفلت کی عادت کو ترک کر دیں اس بیان کے آخر میں ایک لطیف نکتہ معرفت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:- جو لوگ گھروں میں نماز پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ نماز پڑھنا بالکل چھوڑ دیتے ہیں“ (الفضل ۲۰ مئی ۱۹۳۹ء صفحه ۳) محترم ملک صلاح الدین صاحب حضور کی سیرت کے اس درخشاں پہلو کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- حضور نا جائز بختی کسی پر کرتے نہ نا جائز لحاظ.باوجود یکہ حضور کے بعض اساتذہ ، بعض اقارب اور بعض ہم عصر یا دیرینہ ساتھی رفقاء کار تھے لیکن سب کو ان امور کا شدید احساس تھا.اگر حضور کسی سے گرفت کرتے تو وہ یہی اظہار کرتے کہ ہماری غلطی تھی اور واقعی غلطی بھی ہوتی یا کسی قسم کی غلط فہمی بھی ہوتی ، قادیان کے ایک درویش جو اہم جماعتی عہدوں پر خدمات بجالانے کی وجہ سے جماعت میں مشہور تھے اور حضور کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے قادیان سے آئے تو حضور نے ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے ان سے ملنے سے انکار کر دیا.انہیں اس کے متعلق بالکل کوئی خبر نہ تھی تا ہم حضور کو خود ہی یہ معلوم ہو گیا کہ اس معاملہ میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور ان کا کوئی قصور نہ تھا.حضور نے یکے بعد دیگرے کئی کارکنوں سے اس بات کا اظہار فرمایا اور اس امر پر افسوس کرتے رہے کہ بلا وجہ ایک درویش اور
204 سلسلہ کے خادم کو تکلیف پہنچی.ملاقات ہونے پر حضور نے پھر تفصیل سے اس غلط فہمی کا ذکر فر مایا اور ان کی دلجوئی فرمائی روایت ملک صلاح الدین صاحب) کسی کارکن کو اس کی غلطی پر سرزنش کرنے اور اصلاح کی خاطر سزا دینے کی نوبت آتی تو اس میں بھی ہمدردی اور محبت کا رنگ غالب ہوتا اور پتہ چلتا کہ آپ سزا اپنا فرض اور ذمہ داری سمجھتے ہوئے دیتے تھے ویسے آپ دل کے علیم ہی تھے.ایسا ایک واقعہ بطور مثال حضرت سیدہ مہر آپا کی زبانی پیش کیا جاتا ہے: - کوئٹہ میں ایک دفعہ دفتر کے عملہ میں سے ایک شخص سے کوئی غلطی اس طرح ہوئی جو ان کی لا پرواہی پر دلالت کرتی تھی.اور کام کوئی اہم ہی تھا.حضرت اقدس ان سے بذاتِ خود کھڑے باز پرس اور تحقیق فرمارہے تھے.آپ نے ان کو غصے میں غالباً صرف اس قدر فرمایا اسی طرح کھڑے رہیں میں اس سے کوئی کام نہیں لوں گا.یہ کہہ کر حضور خود اندر تشریف لے آئے اور آ کر اپنے کام میں حسب معمول مصروف ہو گئے.آپ تقریبا ڈیڑھ دو گھنٹے مسلسل اسی طرح میز پر جھکے ہوئے کام کرتے رہے.اس دوران میں اچانک بارش آئی اور موسلا دھار برسنے لگی مجھے کسی طرح سے پتہ چلا کہ عملے میں سے کوئی شخص جس پر کہ حضرت اقدس تھوڑی دیر ہوئی ناراض ہوئے وہ بارش میں کھڑے بھیگ رہے ہیں.مجھے اس خیال سے پریشانی ہوئی لیکن دل میں یہ پورا یقین تھا کہ حضور کا اس قسم کا قطعاً کوئی آرڈر نہیں ہو گا.غصے میں سرسری بات کہی ہوگی اور پھر کام میں مصروف ہو جانے کے بعد آپ کو یا دبھی نہیں رہا ہو گا.میں بھاگی ہوئی حضرت اقدس کے پاس پہنچی، چائے کا وقت تھا ، ایک تو خود آپ کو چائے بھی دینی تھی دوسرے اس وقت بھیگتے ہوئے شخص کے متعلق بھی بھیگتے مجھے کچھ کہنا تھا.میں نے آپ کی طرف چائے کی پیالی بڑھاتے ہوئے اس بھی ہوئے شخص کے متعلق تفصیلی بات کر دی اور پھر جلدی سے دریافت کیا کہ کیا میں اسے جلدی سے چائے بھیج دوں ؟ انہیں سردی لگ جائیگی اور کیا وہ اپنے کمرہ میں چلے جائیں؟
205 میری اتنی بات کا کہنا تھا کہ آپ گھبرا کر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہتے ہوئے میز پر سے اٹھے، چائے کی پیالی وہیں رکھ دی اور فر مایا میرے اس طور پر ناراضگی کے اظہار کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ وہ اس طرح دروازہ پر کھڑے بارش میں بھیگتے رہیں.جلدی کرو انہیں کہو کہ وہ بھیگا لباس فورا تبدیل کریں، چائے بھیجو، باہر کہو ان کے کمرہ کو گرم کرنے کا فوری انتظام کریں.وغیرہ.اب دیکھیں ! آپ تربیت کرتے ہیں ، تادیب کرتے ہیں مگر اس میں کس قدر پیار و محبت اور ہمدردی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے.بالکل اس طرح جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کی کرتا ہے بلکہ ان معنوں میں آپ کا وجود ایک باپ سے بھی ( الفضل فضل عمر نمبر ۱۹۶۶، صفحہ ج) کہیں بڑھ کر تھا.تربیت اور اصلاح کے مدنظر مجبوراً بعض اوقات ایسا ذریعہ اصلاح تجویز کیا جاتا تھا جس میں حسب موقع سختی بھی ہوتی تھی اس کے متعلق آپ اپنا طریق کار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- ”جب ہم اس قسم کی تادیبی کارروائی کسی کے لئے کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم اسے اپنے سے کاٹ دینا چاہتے ہیں.اس دوران میں ایسے لوگ جن کے لئے مجبوراً یہ حکم صادر کرنا پڑتا ہے غرض یہی ہوتی ہے کہ ان کی اصلاح ہو جائے اور خدا تعالیٰ ان کو ضائع نہ کرے.مجھے ان کے لئے یہ فیصلہ دیتے ہوئے روحانی اذیت ہوتی ہے اور میں اس دوران میں ان کی بھلائی اور اصلاح کے لئے دعائیں بھی کرتا ہوں اور شدید خواہش ان کے لئے یہی ہوتی ہے کہ وہ حق سے روگردانی نہ کریں.“ پھر اس کے بعد آپ نے باغ کی مثال دی کہ باغ کے ناقص پودوں کی پہلے نگہداشت کی جاتی ہے اگر وہ پودا پھر بھی درست نہ ہو تو پھر گلے سڑے پودے اکھیڑ نے پڑتے ہیں.اس ڈر اور خیال کی وجہ سے کہ اس سے تندرست پودے اثر انداز ہوں گے.یہی حال جماعت کے افراد کا بھی ہے.اس بات کے کرنے کے دوران میں آپ کے چہرے کی رنگت کو بار بار متغیر ہوتے دیکھ رہی تھی آپ کا چہرہ سُرخ تھا اور آواز میں درد اور پیار کے دونوں پہلو نمایاں تھے.( الفضل فضل عمر نمبر ۱۹۶۶ء صفحہ ج)
206 اپنے نفوس میں عشق الہی پیدا کرنے ، اخلاص میں ترقی اور مستقل مزاجی کی نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے ایک معنی اس کے یہ ہیں کہ مصائب و آفات آپ کی جماعت کو تباہ نہ کریں گے مگر اس کے ایک اور معنی بھی ہیں.اس الہام میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے مصائب ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے آگ ہمارا کام کر رہی ہے یعنی عشق الہی کی آگ ہماری کمزوریوں کو جلا رہی ہے اور جب دلوں میں عشق الہی کی آگ جل جاتی ہے تو پھر اس کی علامتیں مومنوں سے بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں.پس ہماری جماعت کے ہر فرد کے دل میں محبت الہی کا ایسا شعلہ ہو کہ منہ سے بھی نکلتا ہوا اور ہر احمدی اس آگ کو اس طرح بھڑکائے کہ اس کا چہرہ دیکھ کر لوگ سمجھ جائیں کہ یہ اسلام کا سچا عاشق ہے جو اسلام کے لئے جان بھی دے دے گا مگر قدم پیچھے نہ ہٹائے گا.میں نے دیکھا ہے پچھلی مجلس مشاورت سے احباب نے ہر رنگ میں ترقی کی ہے اور مالی اور دوسری مشکلات کے متعلق کسی قدر تسلی ہوئی ہے اور اس وجہ سے چند راتیں میں نے بھی آرام کی بسر کی ہیں مگر اتنی ترقی کافی نہیں ہے ہمیں اپنے تمام کاموں میں استقلال دکھانا چاہئے.میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں اب بھی بیدار ہوں.آج سے عہد کریں کہ واپس جا کر ان لوگوں کا اخلاص بڑھائیں گے جن میں اخلاص ہے اور جن میں نہیں ان میں پیدا کریں گے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور دیکھیں ہر روز ہمارا قدم آگے بڑھ رہا ہے یا نہیں.پس میں دوستوں سے ایک بات تو یہ کہتا ہوں کہ ہر روز قدم آگے بڑھا ئیں.اخلاص و محبت بڑھائیں اور دوسرے بھائیوں میں بھی پیدا کریں“.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۱۴۳٬۱۴۲) ایک مجلس عرفان میں مومنانہ فراست کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:."جو شخص احتیاط نہیں کرتا اور اپنی بیوقوفی سے کوئی نقصان اٹھاتا ہے اس
207 پر رحم نہیں آیا کرتا بلکہ لوگ اس پر ہنسا کرتے ہیں مجھے تو خصوصیت سے بیوقوفی بہت ہی بڑی لگا کرتی ہے.میں یہ ہرگز نہیں مان سکتا کہ مومن بیوقوف ہوتا ہے مومن تو بہت ہی زیرک اور ہوشیار ہوتا ہے (الفضل یکم فروری ۱۹۴۷ء صفہ ۲) جس طرح بیوقوفی سے نقصان ہو سکتا ہے اسی طرح افواہیں پھیلانے اور الزام تراشی سے بھی جماعتی اتحاد و اتفاق کو بے پناہ نقصان پہنچ سکتا ہے اسکے سدباب کے لئے آپ ایک آسان طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- پس جب بھی کوئی شخص تمہارے پاس آ کر اس قسم کی کوئی بات کرے تو اسے پکڑ لو اور اسے کہو کہ اس کا ثبوت دو ور نہ چلو امور عامہ میں.وہ ( بھی ) پیچھا چھڑا کر بھاگیں گے اور کہیں گے ہم نے تو تمہیں دوست سمجھ کر یہ بات کہہ دی تھی اور سمجھا تھا کہ تم بلا تحقیقات یہ بات مان لو گے..یہ ایک چھوٹا سا گر ہے جس کو بچے بھی سمجھ سکتے ہیں.جب بھی تم کسی دوسرے پر الزام لگاتے سنو تم اسے پکڑ لو اور اسے امور عامہ میں لے جاؤ.یہ ایک خلق ہے اگر تم اسے اپنے اندر پیدا کر لو تو سارے کام ٹھیک ہو جائیں گے“ (الفضل ۲۵.مارچ ۱۹۵۱ء صفحه ۵ ) اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا : - ہر الزام سچا نہیں ہوتا.بعض لوگ ہر بات سن کر یقین کر لیتے ہیں کہ سچی ہوگی حالانکہ ایسی باتوں میں سے ۹۹ فیصدی غلط ہوتی ہیں مثل مشہور ہے کہ پر سے کووں کی قطار میں بن گئیں..........اس لئے سمجھنا چاہئے کہ ہر خبر جو پہنچے کچی نہیں ہوتی اگر اس بات کو مدنظر رکھا جائے تو بہت سے فتنوں سے انسان محفوظ رہ سکتا الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۲۶ ، صفحہ ۱۰) ہے ، جنت کے حصول کا ایک نہایت مفید و مؤثر طریق بتاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.دنیاوی نقصانات پر غمگین ہونا، دنیا کی تکالیف پر دلگیر اور اندوہ گئیں ہونا دنیا کی دوزخ ہے لیکن خدا کی رضا پر راضی رہنا ، دنیا کی تکالیف پر صبر کرنا خدا کی راہ میں جان و مال غرض کہ ہر چیز کی برضا و رغبت قربانی کرنا دنیا کی جنت ہے.یہ ایسی جنت ہے جو ہر شخص کے قبضہ میں ہے، جو چاہے لے لے اور جو
208 چاہے اسے رد کر کے اس دنیا اور اگلے جہاں کی جنت سے محروم ہو جائے کیونکہ وہاں کی جنت کی ابتداء یہیں سے ہوتی ہے اور وہ جنت یہیں سے شروع ہو جاتی ہے.اگلے جہاں میں اسے وہی شخص حاصل کر سکے گا جو اسی دنیا میں لے چکا ہے.جو لوگ مرنے کے بعد جنت کو تلاش کرنے کا خیال کرتے ہیں ان پر تو وہی مثل صادق آتی ہے کہ لڑکا بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں.انسان کے اپنے ہی دل میں جنت و دوزخ ہوتی ہے لیکن وہ اسے کسی دوسری جگہ خیال کرتا ہے اور محروم رہ جاتا ہے حالانکہ اگر وہ اسے اپنے دل میں تلاش کرے تو کامیاب ہو الفضل ۱۸.اکتوبر ۱۹۳۲ ء صفحہ ۱۰) جائے.اصلاح کا صحیح طریق اختیار کرنے کی تلقین میں ارشاد فرماتے ہیں :- خوب یا درکھو کہ خدا کا تقویٰ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کی محبت کسی ایسے شخص کو نہیں ملتی جس کا دل سخت ہو.جس میں دوسروں کے لئے رقت اور سوز پیدا نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ اپنا نور انہی لوگوں کو عطا کرتا ہے جن کے دلوں میں شفقت ہوتی ہے، رافت ہوتی ہے اور لوگوں کے لئے محبت ہوتی ہے.اگر کسی بدی کو دیکھ کر بجائے اس کے کہ تمہاری آنکھیں سرخ ہوں ان سے آنسو بہہ نکلیں تو میں یقیناً کہ سکتا ہوں کہ فوراً اس کا اثر شروع ہو جائے گا.مگر تم بجائے دوسرے کی بدی پر آنسو بہانے کے لٹھ لے کر اس کے پیچھے دوڑتے ہو اور پھر شکوہ کرتے ہو کہ اصلاح نہیں ہوتی.کبھی لٹھ مارنے سے بھی دوسرے کی اصلاح ہو سکتی ہے.تم اس طریق پر عمل کرو جو قرآن کریم نے مقرر کیا ہے اور پھر دیکھو کہ تمہاری باتوں کا اثر ہوتا ہے یا نہیں.قرآن مجید نے تو تمہیں بتایا ہے کہ جب تم کسی بچے کو بدی کرتے دیکھو تو بجائے لٹھ مارنے کے اس کے لئے روڈ اور چیخو اور چلاؤ کہ ہائے ہمارے اس بچے کو کیا ہو گیا.پس یاد رکھو سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کرو اور پھر دوسروں کی اصلاح کے لئے کھڑے ہو.اگر تم اصلاح کرنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ، اس کے حضور جھکو اور گریہ وزاری سے کام لو، لڑکوں کے لئے عاجزی اور تفرع سے دعائیں کرو پھر
209 دیکھو کہ کس طرح خود بخودان کی اصلاح ہونی شروع ہو جاتی ہے“ (الفضل ۲.جون ۱۹۳۲ء) بہتر اخلاق کے حصول کے لئے سب سے ضروری اور پہلی خوبی راست بازی اور سچائی ہے آپ فرماتے ہیں :- اخلاق کی مضبوطی کیلئے جن امور کی ضرورت ہے ان میں اول راست بازی ہے.قومی عمارت میں جس مسالے کی ضرورت ہے وہ انفرادی اصلاح ہے اور پہلی اینٹ راستبازی ہے اس سے اعتماد پیدا ہوتا ہے اور جس قدر اعتماد مضبوط ہوگا اسی قدر قوم میں اعلیٰ اخلاق اور معاملات کی عمدگی پیدا ہو گی.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کے اقتصادی فلاح کے خیال سے ان میں تحریک کی کہ وہ تجارت کی طرف توجہ کریں اور دکانیں کھولیں یہ تحریک کام کر رہی ہے اور مختلف جگہ مسلمانوں کی دکانیں کھل رہی ہیں.اعتماد پیدا کرنے کیلئے راستبازی اول شرط ہے اس لئے خود راستباز بنو اور اپنی اولادوں کو راستباز بناؤ اس بات کی نگرانی کرو کہ وہ جھوٹ نہ بولیں لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ روزانہ ہم گھروں میں جھوٹ بولتے ہیں تو اولا دوں میں راستبازی کیونکر پیدا ہوگی.یہ غلط ہے کہ بیچ سے فتنہ پیدا ہوتا ہے.سچ اگر مصیبت کے وقت نہ بولو گے تو اور کون سا وقت اس کے بولنے کا ہے پس کسی مصیبت سے ڈر کر سچ کو ترک نہ کرو.“ لیکچر شملہ صفحہ ۱۷.انوار العلوم جلده اصفحه ۱۴) ایک مخلص احمدی قاضی محمد علی صاحب کو بٹالہ سے قادیان میں آتے ہوئے بعض شر پسندوں نے اشتعال دلایا اور ان سے جھگڑا شروع کر دیا.آپس میں لڑائی شروع ہو گئی مکرم قاضی صاحب بیہوش ہو گئے جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے دیکھا کہ ایک مخالف بھی وہاں مرا پڑا ہے.آپ پر قتل کا الزام لگا کر مقدمہ چلایا گیا اور موت کی سزا دی گئی.سپریم کورٹ اور پریوی کونسل تک اپیل کی گئی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.مکرم قاضی صاحب جیل میں اپیل کے فیصلہ کا انتظار کر رہے تھے تو انہیں حضور کا گرامی نامہ ملا جس میں آپ کو صبر اور رضا بالقضاء کا مومنانہ نمونہ دکھانے کی تلقین کی گئی.حضور کی نصیحت کا پُر حکمت طریق اس مکتوب گرامی سے ظاہر ہوتا ہے
210 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مکرمی قاضی صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد گورنمنٹ پنجاب اور حکومت ہند کے پاس رحم کی اپیل کی گئی اور گورنر صاحب اور وائسرائے دونوں نے اس اپیل کورڈ کر دیا اور اس کی بڑی وجہ جہاں تک میں سمجھا ہوں اس وقت کے سیاسی حالات ہیں وہ ڈرتے ہیں کہ اگر اس مقدمہ میں دخل دیں تو ان لوگوں کے بارے میں بھی دخل دینا پڑتا ہے جو سیاسی شورش میں پھانسی کی سزا پا چکے ہیں.اب صرف ایک ہی راہ باقی تھی اور وہ پر یوی کونسل میں اپیل تھی سوا پیل اب دائر ہے اور اس ماہ میں اس کی پیشی ہے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اسلئے میں پیشتر اس کے کہ اس اپیل کا فیصلہ ہو آپ کو بعض امور کے متعلق لکھنا چاہتا ہوں.(1) جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں.میرا یہ یقین ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا ہمارے طریق کے خلاف ہے اس لئے جس حد تک بھی آپ سے غلطی ہوئی ہے اس کے متعلق آپ کو تو بہ اور استغفار سے کام لینا چاہئے اللہ تعالیٰ نے جب ایک قانون بنایا ہے تو یقیناً اس نے ہمارے لئے ایسے راہ بھی بنائے ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ہم اپنی مشکلات کا حل سوچ سکیں.(۲) خواہ آپ سے غلطی ہی ہوئی لیکن چونکہ آپ نے جو کچھ کیا ہے جہاں تک مجھے علم ہے محض دین کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے لئے کیا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر توکل سے کام لیں.تو وہ نہ صرف یہ کہ آپ سے عفو کا معاملہ کرے گا بلکہ آپ کو اپنے اخلاص کا بھی اعلیٰ بدلہ دے گا.(۳) غیب کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ آپ سے رحم کا معاملہ کرے گا اور آپ کے بچاؤ کی کوئی صورت پیدا کر دے گا لیکن اس کی مشیت پر کسی کوحکومت نہیں اس پر کوئی شک نہیں کہ آپ کو براءت کی خواہیں آئی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی براءت اور رنگ میں ہوتی ہے.اس کی طرف سے یہ بھی ایک براءت
211 ہے کہ غلطی کی سزا اس دنیا میں دے کر انسان کو پاک کر کے اپنے فضل کا وارث کر دے.پس چونکہ خوا ہیں تعبیر طلب ہوتی ہیں ان کے ظاہری معنوں پر اس قد رزور نہیں دینا چاہئے اور اس امر کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ اگر ان کی تعبیر کوئی اور ہے تو پھر بھی بندہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر راضی رہے.کوئی انسان دنیا میں نہیں ہے جو موت سے بچا ہوا ہو اور ایسا بھی کوئی نہیں جو کہہ سکے کہ وہ ضرور لمبی عمر پائے گا.بڑے بڑے مضبوط آدمی جوان مر جاتے ہیں اور کمزور آدمی بڑھاپے کو پہنچتے ہیں.پس کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک خاص قسم کی موت سے بچ بھی جائے تو کل ہی دوسری قسم کی موت اسے پکڑ نہ لے گی.پس کیوں نہ بندہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی ہو تا کہ اس دنیا میں اسے جو تکلیف پہنچی ہوا گلے جہان میں تو اس کا بدلہ مل جائے.پس میں چاہتا ہوں کہ اس وقت ابھی اپیل پیش ہونے والی ہے آپ کو توجہ دلاؤں کہ اگر خدانخواستہ یہ آخری کوشش بھی نا کام رہے تو آپ کو صبر اور رضاء بقضاء کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہئے کہ جو ایک مومن کی شایانِ شان ہو.ابھی پچھلے دنوں بھگت سنگھ وغیرہ کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے لیکن ان لوگوں نے رحم کی اپیل کرنے سے بھی انکار کر دیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ملک کے لئے یہ کام کیا ہے ہم کسی رحم کے طالب نہیں اور پھر بغیر گھبراہٹ کے اظہار کے یہ لوگ پھانسی پر چڑھ گئے.یہ وہ لوگ تھے جو نہ خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے اور نہ مابعد الموت انہیں کسی زندگی یا کسی نیک بدلہ کا یقین تھا.صرف قومی خدمت ان کے مد نظر تھی اور بس.ان لوگوں کا یہ حال ہے تو اس شخص کا کیا حال ہونا چاہئے جو خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہو اور ایک نئی اور اعلیٰ زندگی کا امیدوار ہو.اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی تعلیم کے مطابق مجبور ہے کہ آپ کے فعل کو غلطی پر محمول کرے لیکن ساتھ ہی جماعت اس امر کو بھی محسوس کر رہی ہے کہ آپ نے غیرت اور دینی جوش کا ایسا نمونہ دکھایا ہے کہ اگر اس فعل کے بدلہ میں آپ کو سزائے پھانسی مل جائے تو یقیناً جماعت اس امر کو محسوس کرے
212 گی کہ آپ نے اپنی غلطی کا بدلہ اپنی جان سے دیدیا اور آپ کا اخلاص باقی رہ گیا جسے وہ ہمیشہ یادرکھنے کی کوشش کرے گی لیکن اگر آپ سے کسی قسم کا خوف ظاہر ہو یا گھبراہٹ ظاہر ہو تو یقیناً جماعت کے لئے یہ ایک صدمہ کی بات ہوگی اور آپ کے پہلے فعل کو وہ کسی دینی غیرت کا نتیجہ نہیں بلکہ عارضی جوش کا نتیجہ خیال کرے گی.پس آج اس وقت کا معاملہ نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ اس پیالے کو آپ سے ملا دے اور آپ بھی دعا کریں کہ ایسا ہی ہو وہاں ہر ایک احمدی یہ امید کرتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی مشیت ہماری خواہشات کے خلاف ہو تو آپ کا رویہ اس قدر بہادرانہ ، اس قدر دلیرانہ اور اس قدر مومنانہ ہوگا کہ آئندہ نسلیں آپ کے نام کو یاد رکھیں اور آپ کی غلطی کو بھلاتے ہوئے آپ کے اخلاص کی یاد کو تازہ رکھیں اور ان کے دل اس یقین سے پُر ہو جائیں کہ ایک احمدی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر خوش ہے اور اسے دنیا کی کوئی تکلیف مرعوب نہیں کرسکی، (آخر پر یوی کونسل نے بھی فیصلہ بحال رکھا اور قاضی صاحب کو ۶ امئی ۱۹۳۱ء کو گورداسپور جیل میں 4 بجے صبح پھانسی دی گئی.( تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحه ۳۱۱ تا ۴ ۳۱.ایڈیشن ۱۹۶۵ء) اپنی اولاد میں اسلام کی محبت راسخ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.میں اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنی اولادوں میں اخلاق حسنہ اور قومی روح پیدا کریں اور انہیں دین کے خادم بنا ئیں.اس وقت سے زیادہ کبھی اسلام کو خادموں کی ضرورت نہیں پڑی.آج بہت نازک حالت ہے.تمام دنیا اسلام کے خلاف کھڑی ہے اگر ہماری اولادوں میں اسلام کی محبت اور الفت نہ ہوگی، وہ اسلام کی شیدائی نہ ہوگی تو ہماری ساری کوششیں ضائع ہو جائیں گی اور دشمن اپنے انتظام کی قوت اور زور سے مسلمانوں کو اس طرح اُڑا دے گا جس طرح آندھی خس و خاشاک کو اڑا لے جاتی ہے ایسی حالت میں اسلام کی حفاظت کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی اولاد میں اسلام کی محبت پیدا کریں.........اس وقت میں قادیان کے دوستوں کو اور باہر کے دوستوں کو یہی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اولاد میں ایسی روح پیدا کریں کہ اسلام کی محبت اس کے
213 ذرے ذرے سے ظاہر ہو وہ اسلام کے لئے اس قدر مضبوط ہو کہ دشمن کے وار اس پر اس طرح پڑیں جس طرح پہاڑ سے ہر ٹکراتی ہے ( خطبات محمود جلد ۲ صفحہ ۱۱۷، ۱۱۸) کاہلی اور نکما پن افراد اور جماعت کے لئے ایک گھن کے کیڑے کی طرح ہوتا ہے اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- جماعت میں کوئی نکما نہ رہے اور کوئی آدمی ایسا نہ ہو جو کمائی نہ کرتا ہو نا کارہ لوگ قوم کی گردن میں پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں اور قوم کی ترقی میں ایک روک ہوتے ہیں.اگر انسان تھوڑا بہت بھی کام کرے تو وہ خود بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور قوم کی ترقی میں بھی کسی حد تک مد ہوسکتا ہے.....صحابہ کرام میں کام کرنا کوئی عیب نہ تھا.حضرت علی رسول کریم صلی اللہ و الہ وسلم کے بھائی تھے.مکہ کے رؤوساء میں سے تھے اور معزز ترین خاندان کے فرد تھے مگر باوجود اس کے جب آپ پہلے پہل مدینہ میں گئے تو دیگر صحابہ کے ساتھ گھاس کاٹ کر بیچا کرتے تھے.مگر کیا آج کوئی معمولی زمیندار بھی ہے جو ایسا کرنے کے لئے تیار ہو.وہ بھوکا مرنا پسند کرے گا مگر اس کے لئے آمادہ نہ ہو گا.مگر رسول کریم صلی اللہ والا علم کے بھائی ، ملکہ کے رئیس اور اعلیٰ خاندان کے فرد حضرت علی نے یہ کام کیا.اور اصل اسلامی روح یہی ہے کہ کوئی شخص نکتا نہ ہو، چاہے عملی کام کرے جیسے مدرس مبلغ وغیرہ ہیں.اور چاہے ہاتھ سے کام کرے جیسے لوہار، ترکھان، جو لا ہا وغیرہ پیشے ہیں (خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۹۹ تا ۱۰۱) اس موضوع پر آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:.جماعت میں سے سستی اور کاہلی کو دور کیا جائے سستی سے قوموں کو بڑا نقصان پہنچتا ہے.ہماری جماعت میں کئی لوگ ایسے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے حالانکہ اسلامی طریق یہ ہے کہ کسی کو بے کار نہیں رہنے دینا چاہئے.سیکرٹری صاحبان اس بات کا خیال رکھیں کہ کوئی احمدی بر کا ر نہ رہے.جن کو کوئی کام نہ ملے انہیں مختلف نے سکھلا دیئے جائیں.اگر کوئی شخص مہینہ میں دو روپے ہی کما سکتا ہے تو وہ اتنا ہی کمائے کیونکہ بالکل خالی رہنے سے کچھ نہ کچھ کما لینا ہی اچھا ہے کوشش کرنی چاہیئے کوئی احمدی بیکار اور سست نہ ہو (انوار العلوم جلده اصفحہ ۹۸٬۹۷)
215 تبلیغ اسلام تبلیغ اسلام سے حضور کو غیر معمولی انہماک اور شغف تھا.تحریک جدید کے مضمون اور ملتی خدمات کے ذکر میں اس کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے.تبلیغ کے متعلق حضور کے ارشادات ، نصائح، عملی نمو نے ایک مستقل کتاب کے متقاضی ہیں ذیل میں تبلیغ اسلام کے لئے حضور کی تڑپ کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے.سپین میں اشاعت اسلام کی تڑپ اور شدید خواہش کے متعلق سوانح جلد چہارم میں ذکر ہو چکا ہے.اسلامی تاریخ کے اس باب کو حضور ہمیشہ اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتے اور وہاں مسلمانوں کے ز وال پر دکھ اور درد محسوس کرتے تھے.اسی لئے آپ یہ اعلان فرما چکے تھے کہ :- ہم یقیناً ایک دفعہ پھر سپین کو لیں گے، اسی طرح آپ فرماتے ہیں :- (الفضل ۶.اپریل ۱۹۴۶ء صفحہ ۳) ایسے حالات میں ایک مومن کا خون کھولنے لگتا ہے خصوصاً سپین اور صقلیہ کے واقعات کو پڑھ کر تو اس کا خون گرمی کی حد سے نکل کر اُبلنے کی حد تک پہنچ الفضل ۱۷.جولائی ۱۹۴۶ ء صفحہ ۴ ) جاتا ہے ۱۳ جون ۱۹۴۶ء وہ یادگار تاریخ ہے جب دو احمدی مبلغ عیسائی تلوار سے لگے ہوئے زخموں کو اسلامی تعلیم کی خوبیوں سے مندمل کرنے کے لئے پین پہنچے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا اس علاقہ میں آغاز ہوا.عیسائی اس روحانی جنگ سے خائف ہو گئے اور انہوں نے سپین میں تبلیغ اسلام پر پابندی لگادی اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس پابندی کی اطلاع ہمارے مبلغ کو سپین میں پاکستان کے اسلامی ملک کے ایک مسلم نمائندے کے ذریعہ ۲۶.مارچ ۱۹۵۶ء کو دی گئی.اس اطلاع کے ملنے پر حضرت فضل عمر اور ساری جماعت کی طرف سے نہایت مؤثر احتجاج
216 کیا گیا.دنیا بھر کی جماعتوں نے احتجاجی تار اور مراسلے بھجوائے اور اپنے جذبات سے حکومت سپین اور حکومتِ پاکستان کو آگاہ کیا.حضرت فضل عمر نے ۲۰.اپریل ۱۹۵۶ء کو ربوہ میں ایک پر جوش خطبہ میں حکومت سپین کے اس غیر منصفانہ.ظالمانہ اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان اور مسلمانوں کو ایسا رستہ دکھایا جس پر چلنے سے صرف پین ہی نہیں سارا یورپ اور امریکہ بھی مسلمان ہوسکتا ہے.حضور کا یہ ولولہ انگیز خطبہ درج ذیل ہے :- و کرم الہی ظفر کو گورنمنٹ کی طرف سے نوٹس دیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں ہے چونکہ تم لوگوں کو اسلام میں داخل کرتے ہو جو ہمارے ملک کے قانون کی خلاف ورزی ہے اس لئے تمہیں وارننگ دی جاتی ہے کہ تم اس قسم کی قانون شکنی نہ کرو ورنہ ہم مجبور ہوں گے کہ تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں.ہمارا ملک اسلامی ملک کہلاتا ہے لیکن یہاں عیسائی پادری دھڑتے سے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں اور کوئی انہیں عیسائیت کی تبلیغ سے نہیں روکتا لیکن وہاں ایک مبلغ کو اسلام کی تبلیغ سے روکا جاتا ہے اور پھر بھی ہماری حکومت اس کے خلاف کوئی پروٹسٹ نہیں کرتی.وہ کہتے ہیں میں نے پاکستان کے ایمبیسڈر سے کہا کہ تمہیں تو ہسپانوی حکومت سے لڑنا چاہئے تھا اور کہنا چاہئے تھا کہ تم اسلامی مبلغ پر کیوں پابندی عائد کرتے ہو؟ جب کہ حکومت پاکستان نے اپنے ملک میں عیسائی پادریوں کو تبلیغ کی اجازت دے رکھی ہے اور وہ ان پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کرتی.اس نے کہا یہ تو درست ہے مگر سپین کی وزارت خارجہ کا سیکرٹری یہ کہتا تھا کہ تم اپنے ملک میں لوگوں کو جو بھی آزادی دینا چاہتے ہو بیشک دو ہمارے ملک کی کانسٹی ٹیوشن اس سے مختلف ہے اور ہمارے ملک کا یہی قانون ہے کہ یہاں کسی کو اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں دی جاسکتی.بہر حال یہ ایک افسوس کا مقام ہے کہ ہماری حکومت دوسری حکومتوں سے اتنا ڈرتی ہے کہ وہ اسلام کی حمایت بھی نہیں کر سکتی حالانکہ اس کا فرض تھا کہ جب ایک اسلامی مبلغ کو ہسپانوی حکومت نے یہ نوٹس دیا تھا تو وہ فور پروٹسٹ کرتی اور اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی مگر پروٹسٹ کرنے کی بجائے ہسپانوی حکومت نے یہ نوٹس بھی ہمارے مبلغ
حضرت خلیفہ المسح الثانی انگلستان روانگی سے قبل قادیان کے احباب کے ساتھ (11.جولائی 1924 ء) حضرت خلیفہ مسیح الثانی یورپ روانگی سے قبل امرتسر ریلوے سٹیشن پرلاہور اور امرتسر کے احمدی احباب کے ساتھ (12 جولائی 1924ء)
حضرت خلیفہ المسیح الثانی یورپ روانگی سے قبل بھی کی جماعت کے ساتھ (1924ء) حضرت خلیفہ اسیح الثانی یورپ جاتے ہوئے یروشلم (بیت المقدس) کی مسجد عمر میں (1924ء)
BOOKING OFFICE 1- CLASS BILLETS 1- CLASSE محاصب تذكر الدين الأولي حضرت خلیفہ المسیح الثانی یورپ جاتے ہوئے قاہرہ کے ریلوے سٹیشن پر (1924ء) حضرت خلیفہ اسیح الثانی پیرس (فرانس) کی مسجد (زیر تعمیر) میں (1924ء)
حضرت علیہ اسی اثنی سفر یورپ کے موقعہ پر اپنے رفتار کے ساتھ (1924ء) حضرت خلیفہ المسیح الثانی لندن میں ویمبلے کا نفرنس میں اپنے رفقاء اور دیگر احباب کے ساتھ (1924ء)
حضرت خلیفہ اسیح الثانی اندن میں بیت فضل اندن کا سنگ بنیاد (19اکتوبر 1924ء) رکھتے ہوئے حضرت خلیفہ امسح الثانی لندن سے واپسی پر بمبئی میں احباب جماعت کے ساتھ (1924ء)
بیت الفضل لندن حضرت مصلح موعود میر (کراچی) میں جمعہ کی نماز کے بعد احباب جماعت کے ساتھ (1955ء)
حضرت مصلح موعود کراچی کے ہوائی اڈا پر یورپ روانگی سے قبل (29 اپریل 1955 ء) حضرت مصلح موعود کا نزول دمشق (1955ء)
KLM MA حضرت مصلح موعود بیروت کے فضائی متعقر پر (1955ء) حضرت مصلح موعود سوئٹزر لینڈ میں عید الفطر کے موقع پر احمدی احباب کے ساتھ (1955ء)
حضرت مصلح موعود لندن میں عید الاضحے کے موقع پر احباب جماعت کے ساتھ (1955ء) حضرت مصلح موعود بر طانوی ممبر پارلیمنٹ لندن (Sir Hueland) کے ساتھ مصروف گفتگو (1955ء)
حضرت مصلح موعود لندن میں نماز پڑھاتے ہوئے (1955ء) Mr.A.G.KuKu وائس پریذیڈنٹ جماعت احمد بینا بکھیر یا حضرت مصلح موعود کے ساتھ لندن میں (1955ء)
217 کو پاکستانی نمائندہ کے ذریعہ ہی دیا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ایک وزیر سے کہا کہ مجھے یہ نوٹس براہ راست کیوں نہیں دیا گیا تو اس نے کہا یہ نوٹس براہ راست تمہیں اس لئے نہیں دیا گیا کہ اگر ہم تمہیں نکال دیں تو پاکستانی گورنمنٹ ہم سے خفا ہو جائے گی پس ہم نے چاہا کہ پاکستانی سفیر تمہیں خود یہاں سے چلے جانے کے لئے کہے تا کہ ہمارے خلاف حکومت پاکستان کو کوئی خفگی پیدانہ ہو...پاکستانی گورنمنٹ کے نمائندہ کے ذریعہ ہسپانوی گورنمنٹ کی طرف سے ہمارے مبلغ کو یہ نوٹس دیا گیا ہے کہ چونکہ تم اسلامی مبلغ ہو اور ہمارے ملک کے قانون کے ماتحت کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ دوسرے کا مذہب تبدیل کرے اس لئے تم اسلام کی تبلیغ نہ کرو ورنہ ہم مجبور ہوں گے کہ تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں.شاید کوئی محبت اسلام رکھنے والا سرکاری افسر میرے اس خطبہ کو پڑھ کر اس طرف توجہ کرے اور وہ اپنی ایمبیسی سے کہے کہ تم ہسپانوی گورنمنٹ کے پاس اس کے خلاف پروٹسٹ کرو اور کہو کہ اگر تم نے اسلام کے مبلغوں کو اپنے ملک سے نکالا تو ہم بھی عیسائی مبلغوں کو اپنے ملک سے نکال دیں گے..بیشک اسلام ہمیں مذہبی آزادی کا حکم دیتا ہے مگر اسلام کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوری: ۴۱) یعنی اگر تمہارے ساتھ کوئی غیر منصفانہ سلوک کرتا ہے تو تمہیں بھی حق ہے کہ تم اس کے بدلہ میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو.پس اگر کوئی حکومت اپنے ملک میں اسلام کی تبلیغ کو روکتی ہے تو مسلمان حکومتوں کا بھی حق ہے کہ وہ اس کے مبلغوں کو اپنے ملک میں تبلیغ نہ کرنے دیں.اسی طرح چاہئے کہ ہماری گورنمنٹ انگلستان کی گورنمنٹ کے پاس بھی اس کے خلاف احتجاج کرے اور کہے کہ یا تو سپین کی حکومت کو مجبور کرو کہ وہ اپنے ملک میں اسلام کی تبلیغ کی اجازت دے نہیں تو ہم بھی اپنے ملک میں عیسائیت کی تبلیغ کو بالکل روک دیں گے.اسی طرح وہ امریکہ کے پاس احتجاج کرے اور کہے کہ وہ ہسپانوی گورنمنٹ کو اپنے اس فعل سے رو کے ورنہ ہم بھی مجبور ہوں گے کہ عیسائی مبلغوں کو اپنے ملک سے نکال دیں.بہر حال یہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے کہ ایک ایسا ملک جو پاکستان سے دوستانہ تعلقات رکھتا ہے ایک اسلامی مبلغ
218 کو نوٹس دیتا ہے کہ تم ہمارے ملک میں اسلام کی تبلیغ کیوں کرتے ہو.ایک دفعہ پہلے بھی پانچ سات نوجوان ہمارے مبلغ کے پاس بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ ہی.آئی.ڈی کے کچھ آدمی وہاں آگئے اور انہوں نے کہا کہ تم حکومت کے باغی ہو کیونکہ حکومت کا مذہب رومن کیتھولک ہے اور ہم نے سُنا ہے کہ تم مسلمان ہو گئے ہو.ان نوجوانوں نے کہا ہم حکومت کے تم سے بھی زیادہ وفادار ہیں لیکن اس امر کا مذہب سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نے کہا دراصل پادریوں نے حکومت کے پاس شکایت کی ہے کہ یہاں اسلام کی تبلیغ کی جاتی ہے اور گورنمنٹ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم تمہاری نگرانی کریں.انہوں نے کہا کہ تم ہمیں دوسرے کی باتیں سننے سے نہیں روک سکتے اگر ہمارا دل چاہا تو ہم مسلمان ہو جائیں گے لیکن تمہیں کوئی اختیار نہیں کہ تم دوسروں پر جبر سے کام لو.اُس وقت سے یہ مخالفت کا سلسلہ جاری تھا جو آخر اس نوٹس کی شکل میں ظاہر ہوا.بہر حال یہ ایک نہایت افسوس ناک امر ہے کہ بعض عیسائی ممالک محمد رسول اللہ صل اللہ الا ظلم کے خلاف رات اور دن جھوٹ بولتے رہتے تھے ہم نے ان افتراؤں کا جواب دینے اور محمد رسول اللہ صلی الی الہ کل کی حقیقی شان دُنیا میں ظاہر کرنے کے لئے اپنے مبلغ بھیجے تو اب ان مبلغوں کی آواز کو قانون کے زور سے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اسلام کی تبلیغ سے انہیں جبراً روکا جاتا ہے.مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ وہ اسلام اور محمد رسول اللہ صل اللہ و ایلم کے نام کی بلندی کے لئے عیسائی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ سپین کو اس سے روکیں ورنہ ہم بھی مجبور ہوں گے کہ ہم عیسائی مبلغوں کو اپنے ملکوں سے نکال دیں.دیکھو سویز کے معاملہ میں مصر کی حکومت ڈٹ گئی اور آخر اس نے روس کو اپنے ساتھ ملا لیا.اگر سویز کے معاملہ میں مصر ڈٹ سکتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی الیہ الی یم کے نام کی بلندی کے لئے پاکستان کی حکومت اگر ڈٹ جائے تو کیا وہ دوسری اسلامی حکومتوں کو اپنے ساتھ نہیں ملا سکتی.محمد رسول اللہ صلی العلیہ آلہ سلم کی عزت یقینا کروڑ کروڑ سویز سے بڑھ کر ہے.اگر ایک سویز کے لئے امریکہ اور برطانیہ کے مقابلہ میں مصر نے غیرت دکھائی اور وہ
219 ڈٹ کر کھڑا ہو گیا تو کیا دوسری اسلامی حکومتیں محمد رسول اللہ صل اللہ ایلم کے لئے اتنی غیرت بھی نہیں دکھا سکتیں.انہیں عیسائی حکومتوں سے صاف صاف کہہ دینا چاہئے کہ یا تو تم اسلامی مبشرین کو اجازت دو کہ وہ تمہارے ملکوں میں اسلام کی اشاعت کریں ورنہ تمہارا بھی کوئی حق نہیں ہوگا کہ تم ہمارے ملکوں میں عیسائیت کی تبلیغ کرو.اگر تم ہمارے ملک میں عیسائیت کی تبلیغ کر سکتے ہو تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم کہو کہ ہم اسلام کی باتیں نہیں سن سکتے.بیشک ہمارے مذہب میں رواداری کی تعلیم ہے مگر ہمارے مذہب کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ بے انصافی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو.یہ ایک نہایت صاف اور سیدھی طرز ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمان حکومتوں کا ذہن ادھر نہیں جاتا اور وہ اسلام کے لئے اتنی غیرت نہیں دکھاتیں جتنی کرنل ناصر نے سویز کے متعلق غیرت دکھائی.اگر مسلمان حکومتیں محمد رسول صل اللد و الا علم کے لئے سویز جتنی غیرت بھی دکھا ئیں تو سارے جھگڑے ختم ہو جا ئیں اور اسلام کی تبلیغ کے راستے کھل جائیں اور جب اسلام کی تبلیغ کے راستے کھل گئے تو یقیناً سارا یورپ اور امریکہ ایک دن مسلمان ہو جائے گا الفضل ۱۵ مئی ۱۹۵۶ء صفحه ۳٬۲) جماعت کی طرف سے اس احتجاج میں معقول اور سنجیدہ مسلم پریس بھی شامل ہو گیا چنانچہ سپین اور اسلام کے نام سے روزنامہ آزاد ڈھا کہ نے ایک زور دار اداریہ میں لکھا :- سپین میں چونکہ حکومت کا مذہب (STATE RELIGION) صرف عیسائیت ہے اس لئے وہاں پر دوسرے مذاہب کی تبلیغ کی اجازت روک دی گئی ہے.اس بناء پر سپین کی حکومت نے جماعت احمدیہ کے مبلغ کو جو وہاں پر تبلیغ اسلام کا کام کر رہا تھا نکل جانے کا حکم دیا ہے.حکومت سپین کے اسی حکم کے خلاف جماعت احمد یہ صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے.اس کی طرف سے کثرت سے احتجاجی خطوط بھجوائے جارہے ہیں.ان میں سے ایک احتجاجی خط کراچی میں غیر ملکی سفارت خانوں کو بھی یادداشت کے طور پر دیا گیا ہے.احمد یہ جماعت کی بے چینی بالکل طبعی امر ہے یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے جس کا جماعت احمدیہ کے
220 بڑے سے بڑے نقاد بھی انکار نہیں کر سکتے کہ مغربی ممالک میں اسلام کا پیغام صرف جماعت احمد یہ ہی اپنی ان تھک کوششوں کے ذریعہ پہنچا رہی ہے.قریباً ہر ایک ملک میں ہر ایک مذہب کو اپنی اشاعت کا کم و بیش موقعہ ملتا ہے اور یہی بین الا قوامی مسلمہ اصول ہے لہذا سپین کی حکومت کا اس بنیادی حق کو چھینا ایک ایسا امر ہے کہ جس پر جماعت احمدیہ کے ممبران بے چین ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور اس معاملہ میں دوسرے مذاہب کے مشنری اور تمام رواداری برتنے والے اور بین الا قوامی انسانی حقوق کی حفاظت کے خواہاں اصحاب بھی جماعت احمدیہ کی ہمنوائی کریں گے.حکومت سپین کا قابلِ نفرت حکم ہمارے سامنے پُرانے زمانہ کے ایسا بیلا (ISABELLA) اور فرڈی نینڈ (FERDINAND) کی حکومت کا نقشہ پیش کرتا ہے.نیز ہمیں سپین میں عرب تمدن کے سنہری زمانہ اور طارق و موسیٰ بن نصیر کی بے نظیر جرات بھی یاد دلاتا ہے.درحقیقت عربوں نے ہی سپین کی تاریخ کو بنایا تھا.انہوں نے اپنے زمانہ میں عمارت سازی ، انڈسٹری ،علم موسیقی ، ادب اور علوم وفنون کو ترقی دی تھی مگر وقتی طور پر عربوں کی یہ جلائی ہوئی شمعیں ناموافق حالات کی وجہ سے بجھا دی گئیں مگر کچھ عرصہ بعد وہی یورپ کے ظلمت کدوں میں روشن ہو گئیں.اسی کو تاریخ میں یورپ کی نئی زندگی RENAISSENCE کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.ایک وقت تھا کہ سپین سے عرب حکومت کو اور مسلمانوں کو بہ نوک شمشیر نکال دیا گیا مگر ایسا کرنے والوں نے اسلام کو سپین سے نکال کر عربوں سے زیادہ خود یورپ کے تمدن کو نقصان پہنچایا.اسی وجہ سے مشہور عیسائی مؤرخ لین پول لکھتا ہے :- اسی طرح سے سپین والوں نے اس عرب فنس کو قتل کر دیا جو روزانہ ایک سُنہری انڈا دیا کرتا تھا.اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کا تمدن پانچ سو سال پیچھے پڑ گیا مندرجہ بالا تمام حقائق سپین کے موجودہ مد تر بھی تسلیم کرتے ہیں اور آجکل جنرل فرانکو سپین کی اس پرانی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ حقیقت
221 ان کی مساعی سے آشکار ہورہی ہے.چنانچہ انہوں نے مسلم ممالک میں اپنے حمد نی مشنز بھجوا کر اور افریقہ میں اپنے مقبوضہ مسلم علاقہ کی آزادی کا اعلان کر کے اسی بات کا واضح ثبوت فراہم کیا ہے.آج کل سپین میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ پیرا نیز پہاڑ سے ہی افریقہ شروع ہو جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سپین اور افریقہ میں گہرا تمدنی تعلق ہے.ماضی اور حال کے ان مختلف حقائق و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج سپین گورنمنٹ کا یہ حکم خاص طور پر اسلامی دنیا کے لئے حیران کن اور انتہائی تکلیف دہ ہے اور طبعا دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سپین اور اسلامی دُنیا کی دوستی اور تعلقات کیا صرف ایک کھوکھلی نمائش ہے اور کیا آج بھی سپین میں پُرانے زمانہ کی طرح اسلام کے متعلق بغض موجود ہے.اگر ان حقائق کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر بھی مذہب کی تبلیغ ہر ایک انسان کا بنیادی حق ہے جس کو حکومت سپین نے اپنے حکم کے ذریعہ سے ختم کرنا چاہا ہے.اس کے متعلق حکومت پاکستان کو غور و فکر کرنا چاہئے اور اس کے جواب میں اسے سفارتی کارروائی اور حکومتی خط و کتابت کے علاوہ حکومت کو اپنے ملک میں دوسرے مذاہب کے مبلغین کے بارے میں بھی نئے سرے سے اُصول وضع کرنے چاہئیں.اس ضمن میں ہماری ہمسایہ حکومت بھارت کا رویہ بھی قابل غور ہے.نہ معلوم اس سلسلہ میں ہماری حکومت نے بھی کچھ غور وفکر کیا ہے یا نہیں، (الفضل ۴.جولائی ۱۹۵۶ء صفحہ ۳) پاکستان کے مخصوص پس منظر میں تبلیغ واشاعت اسلام کے لئے متحد ہو جانے کی زور دار تحریک کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اخبار ”المصلح“ نے لکھا :- حضرت امام جماعت احمدیہ نے آج بیچ لگژری (BEACH LUXURY) ہوٹل میں تقریر کرتے ہوئے تمام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو نظر انداز کر کے اشاعت و تبلیغ اسلام کے اہم کام کے لئے متحد منظم ہو جائیں اور ان اعتراضات کا علمی جواب دیں جو یورپ اور دوسرے ممالک کی غیر مسلم دنیا اسلام اور محمد رسول اللہصلی اللہ الیکم کے مقدس وجود پر کر رہی ہے...امام جماعت احمدیہ نے فرمایا.اگر اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ یو ای دلم
222 وہ کے بدترین دشمن یہودیوں اور عیسائیوں کو یہ دعوت دی جا سکتی ہے کہ رسالت نبوی کے لئے نہیں بلکہ محض وحدانیت خداوندی کے لئے مجتمع ہو جائیں اور با ہمی تعاون سے کام لیں تو کیا وجہ ہے کہ آج مسلمان اپنے باہمی اختلافات کو نظر انداز کر کے رسول کریم صلی الہی الہ علم کی صداقت اور اسلام کی اشاعت کے لئے با ہمی تعاون اور اشتراک سے کام نہ لے سکیں؟ اپنے نہایت مؤثر خطاب کے آخر میں آپ نے فرمایا : - ”آج مسلمانوں کے مختلف فرقے نہایت معمولی مسائل پر باہم دست وگریباں ہیں.حالانکہ ان کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم محمد مصطفی صلی اللہ و آلہ سلم کی ذات اور اسلام پر ہونے والے حملوں کا دفاع کس طرح کریں.آپ نے کہا کہ مسلمانوں کی مختلف تنظیمیں اور مختلف فرقے یورپ اور دوسرے ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے مشن کھولیں تو یقیناً چند ہی سالوں کے اندر اندر یورپ کی کثیر آبادی محمد رسول اللہ صل اللہ یہ آلہ سلم کے حلقہ غلامی میں آ سکتی ہے آپ نے کہا اگر آج مسلمانوں نے بھی اپنی غفلتوں اور سُستیوں کو ترک نہ کیا اور اسلام کی اصل ضرورت کو سمجھ کر میدان میں نہ آئے تو وہ قیامت کے روز شافع محشر کو اپنا منہ نہ دکھا سکیں گے، ( مصلح کراچی ۲۳ - ستمبر ۱۹۵۵ء صفحہ ۳.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۱۸صفحہ ۳۱) مسلمانوں میں باہمی اتحاد کی یہ بر وقت تحریک اس وقت کے پریس نے نمایاں طور پر شائع کی.اس نصیحت کی اہمیت وضرورت میں بہت سارا وقت گزرنے کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی بلکہ یہ کہنا کسی طرح غلط نہ ہو گا کہ اب اس کی اہمیت پہلے سے بھی زیادہ ہو چکی ہے.
223 مہمان نوازی.خدمت خلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ : - أَفْضَلُ الْفَضَائِلِ أَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَكَ وَ تُعْطِيَ مَنْ مَنَعَكَ وَ تَصْفَحَ عَمَّنُ شَتَمَكَ.یعنی سب سے بڑھ کر فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا اسے بھی دے اور جو تجھے بُرا بھلا کہتا ہے اُس سے درگزر کر.( مسند احمد بن حنبل المجلد الثالث صفحه ۷۳۸ بیروت ۱۹۲۸ء) وہ تینوں باتیں جو اس جگہ بیان کی گئی ہیں ان پر عمل کرنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ انسان کی انا ، دیکھنے والوں کی ہنسی و تمسخران باتوں پر عمل کرنے میں روک بن جاتی ہیں، پھر ایسی باتوں پر غصہ اور ضد بھی پیدا ہو جاتی ہے جو ایک اور روک بن جاتی ہے، اس کے علاوہ رواج، عادت ، ماحول کی کئی اور روکیں بھی ہو جاتی ہیں اس لئے حضور نے ان پر عمل کو سب سے بڑی خوبی اور فضیلت قرار دیا ہے.حضرت فضل عمر اس حدیث پر پوری طرح کار بند اور ان بنیادی خوبیوں کے حامل تھے ذیل کا واقعہ اس پر واضح دلالت کرتا ہے.حضور فرماتے ہیں:.حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جب میں لا ہور آیا تو میں نے ایک دوست کے ذریعہ اس خیال سے کہ بعض دفعہ ملاقات کرنے سے ایک دوسرے سے نفرت دور ہو جاتی ہے، یہ تجویز کی کہ مولوی محمد علی صاحب کی دعوت کی جائے چنانچہ اس دوست نے دعوت کی لیکن مولوی محمد علی صاحب نے بجائے دعوت منظور کرنے کے یہ کہا کہ پہلے مباحثہ ہونا چاہئے.آخر وہ مباحثہ کی طرف بھی نہ آئے.پھر ایک دفعہ عبدالحئی مرحوم کی وفات پر مولوی محمد علی صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وغیرہ یہاں آئے تو میں نے دعوت کے لئے پیغام بھیجا لیکن
224 اس وقت بھی انہوں نے دعوت سے انکار کر دیا.پھر ایک دفعہ یہاں شیخ رحمت اللہ صاحب آئے اور بہشتی مقبرہ میں گئے تو میں نے قاضی امیرحسین صاحب کے ذریعہ و ہیں انہیں دعوت کا پیغام بھیجا مگر انہوں نے انکار کر دیا پھر میں خود ان کے پاس پہنچا اور وہیں چائے منگا کر انکو پلائی اور ٹھہرنے کے لئے بھی کہا لیکن وہ ٹھہر نہ سکے.پھر یہ لوگ مولوی محمد احسن صاحب کے لئے یہاں آئے تو میں نے دعوت کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نے دعوت رد کر دی.میں نے مولوی شیر علی صاحب کے ہاتھ ٹانگہ پر کھانا بھجوایا کہ بٹالہ اُتر کر کھا لینا لیکن انہوں نے ٹانکہ میں برتن رکھے ہوئے اُتار الفضل ۲۳.مارچ ۱۹۲۶ء صفحہ ۶ ) دیئے." یہاں اس وضاحت کی زیادہ ضرورت نہیں ہے کہ جن افراد کا اوپر ذکر آیا ہے وہ حضور کی مخالفت میں بنیادی کردار ادا کرنے والے تھے.مہمان نوازی کے خُلق کو اپنانے کی تلقین میں حضور کے بعض ارشادات درج ذیل ہیں :- زمین پر جب سے کہ انسان کو خدا نے پیدا کیا ہے اسی وقت سے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرتِ انسانی میں اکرام ضیف کو رکھا گیا ہے اور بغیر کسی کسب کے اور بغیر اس کہے کہ کسی فلسفہ کے نتیجہ میں یہ خواہش پیدا ہو.قدیم زمانہ سے اور فلسفہ کی ایجاد سے پہلے ، علوم کی دریافت سے پہلے انسانوں میں اکرام ضیف اور مہمان نوازی کا دستور ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فطری تقاضا ہے...پس تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات پرانی چلی آتی ہے اور فطرتی بات ہے کہ انسان مہمان نوازی کرتا ہے اور مہمان کا اکرام کرتا ہے......تو اکرام ضيف ایک فطری تقاضا ہے اور شرعی حکم بھی ہے اس لئے اب یہ محض فطری بات نہ رہی بلکہ شریعت کی تصدیق نے اس کو حکم ربی بنا دیا اس لئے کیا بلحاظ انسان بننے کے اور کیا بلحاظ مومن ہونے کے اکرام ضیف ضروری چیز ہے.“ اسی طرح آپ فرماتے ہیں :- ( خطبات جلد خطبه نمبر ۶۵- صفحه ۳۴۷ تا ۳۵۰) اپنے مہمانوں کو آرام پہنچاؤ جہاں تک پہنچا سکو اور اسلئے خدمت مہمان کرو کہ خدا کا حکم ہے اس سے ثواب ہوگا.نیز اس لئے بھی کہ اس سے اپنے نفس
مرکز ربوہ کی ابتداء صدرانجمن احمد یہ پاکستان کے دفاتر خیموں میں بانی ربوہ سید نا حضرت مصلح موعود مرکز ربوہ کا ابتدائی نقشہ ملاخطہ فرمارہے ہیں
ربوہ میں پہلی نماز 20 ستمبر 1948ء حضرت مصلح موعودر بوہ کی سرزمین پر لاہور کے ممتاز اور نامور صحافیوں کے ساتھ نومبر 1948ء
ربوہ کا ایک ابتدائی یادگار فوٹو جس میں قصر خلافت، بہت مبارک ہنگر خانہ اور خلافت لائبیریری کی عمارتیں نظر آ رہی ہیں حضرت مصلح موعود اپریل 1949ء میں ربوہ کے پہلے تاریخی جلسہ سالانہ سے خطاب کیلئے تشریف لا رہے ہیں
حضرت مصلح موعود کا مستقل رہائش کیلئے دارالہجرت (ربوہ) میں ورود مسعود (1949ء) نماز 19 ستمبر 1949ء کو جب حضور مستقل رہائش کیلئے ربوہ تشریف لائے
حضرت مصلح موعود جلسہ سالانہ (1950ء) میں تقریر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود جلسه سالا ندر بورہ 1952ء کے موقع پر خطاب فرمارہے ہیں
حضرت مصلح موعود تحریک جدیدر بعد کے دفتر کی جگہ کا معائنہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود تحریک جدیدر بوہ کے دفاتر کا معائنہ کرتے ہوئے (19 نومبر 1953ء)
حضرت مصلح موعود جلسہ سالانہ ربوہ 1953 ء سے خطاب فرمارہے ہیں حضرت مصلح موعود قیام کو ہ مری کے دوران خیبر لاج میں (1954ء)
حضرت مصلح موعود دفتر مجلس انصاراللہ مرکزیہ کا سنگ بنیا در رکھنے کے بعد دعا کرتے ہوئے (20 فروری 1956ء) حضرت مصلح موعود مقام اجتماع میں تشریف لا رہے ہیں
حضرت مصلح موعود مقام اجتماع میں رونق افروز ہیں حضرت مصلح موعود جلسہ سالانہ 1957ء کے موقع پر سٹیج پر تشریف فرما ہیں
حضرت مصلح موعود جابہ (ضلع خوشاب ) میں حضرت خلیفہ المسح الثانی سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ میں خطاب فرمارہے ہیں (1959ء)
225 66 کی تربیت ہوتی ہے.“ (الفضل ۲۳.دسمبر ۱۹۲۰ء خطبات محمود جلد ۶ صفحه ۵۷۸) پس میں آپ لوگوں کو......تاکید کرتا ہوں کہ آپ کے ہاں مہمان آئیں گے آپ لوگ خوشی کے ساتھ ان کی خدمت کریں...اگرتم پر کسی مہمان کی طرف سے کوئی سختی بھی ہو تو اس کو بھی برداشت کرنا چاہئے کیونکہ جو شخص مہمان کو ذلیل کرتا ہے وہ بڑا ہی کمینہ ہے.لوگ دنیاوی باتوں میں کہا کرتے ہیں کہ ناک کٹ گئی حالانکہ ان باتوں میں تو ناک نہیں کٹتی لیکن جو شخص مہمان کو ذلیل کرتا ہے اس کی یقیناً ناک کٹ جاتی ہے.مہمان نوازی انبیاء کی خاص صفت ہوتی ہے اس لئے ان کے متعلقین میں بھی اس کا ہونا ضروری ہے“ خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۶۱۷٬۶۱۶) غرباء کی مدد اور بھوکوں کو کھانا کھلانا ہمیشہ آپ کی ترجیحات میں شامل رہا اور آپ ہر حاجت مند کی حاجت روائی کرنا اپنے لئے لازم سمجھتے تھے.جماعت میں ہزاروں افراد ایسے موجود ہیں جنہیں بغیر کسی اعلان کے چپکے چپکے ضروری امداد پہنچ جاتی تھی اور اس طرح ان کی عزت نفس کو پہنچ جاتی اور اس مجروح کئے بغیر ان کی حاجت روائی کی جاتی تھی.حضور فرماتے ہیں :- ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسائیوں کے متعلق اس امر کی نگرانی کرنی چاہئے کہ کوئی شخص بُھو کا تو نہیں اور اگر کسی ہمسائے کے متعلق اسے معلوم ہو کہ بھوکا ہے تو اس وقت تک اسے روٹی نہیں کھانی چاہئے جب تک وہ اس بھوکے کوکھانا نہ کھلائے......اگر سب لوگ یہ پختہ عہد کر لیں کہ انہیں اپنے ہمسایہ میں اگر کسی شخص کے بھوکا رہنے کا علم ہوا تو وہ خود کھانا نہیں کھائیں گے جب تک اسے نہ کھلا لیں بلکہ اگر انہیں خود بھوکا رہنا پڑا تو وہ بھو کے رہنے کے لئے تیار ہوں گے تو اس کے نتیجہ میں قوم میں جرات و بہادری پیدا ہو جائے گی (الفضل ۱۱.جون ۱۹۴۵ء صفحه ۴ ) تحریک جدید کی اغراض میں سے ایک غرض غربت کا خاتمہ بھی ہے آپ فرماتے ہیں:.اس تحریک ( تحریک جدید ) کا ایک پہلو یہ تھا کہ میں غربت اور امارت کا امتیاز جماعت سے مٹاؤں اور جماعت کو مل کر کام کرنے کی عادت ڈالوں اور میں سمجھتا ہوں جس دن یہ امتیاز مٹا اس دن حقیقی رنگ میں جماعت متحد ہوگی.
226 بے شک ایک حد تک اسلام نے اس امتیاز کو قائم رکھا ہے مگر اسلام اس بات سے منع کرتا ہے کہ امیر اپنی الگ گدی بنالیں اور غریبوں کے ساتھ حقارت سے پیش آئیں.یہ نہایت خطرناک چیز ہے اور اس سے ایمان تک انسان کے دل سے نکل (الفضل ۸.فروری ۱۹۳۶ء صفحه ۱۳) ۱۹۵۴ء کے ہولناک سیلاب میں حضور کی نگرانی اور ہدایات کے مطابق مجلس خدام الاحمدیہ لاہور نے بیش قدر خدمات سرانجام دیں.حضور خود بھی سیلاب زدہ علاقوں میں تشریف لے گئے اور مصیبت زدگان کی ڈھارس بندھائی اور موقع پر مدد کرنے کی ہدایات جاری فرمائیں.اخبار الفضل کی سکتا ہے“ مندرجہ ذیل رپورٹ دلچسپی سے پڑھی جائے گی.لا ہور یکم نومبر :- سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے کل صبح مقامی جماعت اور مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کے بعض عہد یداروں کے ہمراہ لاہور کے ان بارش زدہ علاقوں کا دورہ فرمایا جن میں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی امدادی پارٹیاں گذشتہ ایک ماہ سے ریلیف کا کام کر رہی ہیں.علالت طبع کے باوجود حضور نے بستیوں اور محلوں میں تشریف لے جا کر غریب عوام کی شکایات نہایت توجہ سے سنیں اور ان کے ازالہ کے لئے خدام کو ضروری ہدایات دیں.جن بستیوں میں حضور تشریف لے گئے ان میں لیاقت یارک، کشمیر روڈ ، وارث روڈ کانگڑہ آبادی (اچھرہ ) مہاجر آباد مندر چونی لال واقع ملتان روڈ اور دھوبی منڈی شامل ہیں.ان علاقوں میں حضور نے ان مکانات کا بھی معائنہ فرمایا جو حضور کی تحریک پر ربوہ اور لاہور کے خدام نے حال ہی میں از سرنو تعمیر کئے ہیں.حضور جس علاقے میں بھی تشریف لے گئے لوگوں نے نہایت تپاک اور احترام کے ساتھ حضور سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا اور تعمیر مکانات کے سلسلہ میں خدام الاحمدیہ کی بروقت اور بے لوث خدمات پر تشکر کے گہرے جذبات ظاہر پر تن کرتے ہوئے انتہائی ممنونیت کا اظہار فرمایا.بارش زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد حضور نے ایک ملاقات میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا دراصل ان علاقوں میں جا کر میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کام کے متعلق جور پور میں پہنچتی رہی ہیں ان میں مبالغہ تو نہیں کیا گیا.
227 سو مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ معتد بہ کام ہو چکا ہے.اور فی الواقعہ جو کام بھی ہوا ہے وہ مفید اور اچھا ہے.(الفضل ۲ نومبر ۱۹۵۴ء صفحه ۱) حضور نے مزید فرمایا کہ کم از کم دو جگہیں میں نے ایسی بھی مہاجرین کی آبادکاری دیکھیں جہاں مہاجرین چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں اور ان کے لئے ابھی تک مستقل رہائش کا بندوبست نہیں ہوا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حکومت ان جگہوں کو قیمتی بجھتی ہے اور وہ یہ نہیں چاہتی کہ وہاں مہاجرین کے مکانات تعمیر کئے جائیں.اگر یہ صورت ہے تو ان کے لئے بہت جلد متبادل جگہ کا انتظام ہونا چاہئے تا کہ وہ با قاعدہ مکانوں میں آرام کی زندگی بسر کر سکیں سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا : - ان لوگوں کو جھونپڑیوں میں پڑے ہوئے سات سال کا عرصہ ہو چکا ہے اگر انہوں نے ایسی جگہوں پر جھونپڑیاں ڈال لی تھیں جہاں حکومت کی نگاہ میں جھونپڑیاں نہیں بنی چاہئیں تو پھر ان کے متعلق آج سے بہت عرصہ پہلے یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے تھا کہ ان کو کہاں آباد کیا جائے گا.لوگوں کو جب کسی ایک جگہ رہتے ہوئے خواہ وہ کتنی ہی غیر موزوں کیوں نہ ہو کافی عرصہ ہو جاتا ہے تو پھر اس جگہ سے انہیں ایک وابستگی ہو جاتی ہے وہ وہاں اپنا کاروبار پھیلا لیتے ہیں اور پھر اس جگہ کو چھوڑ نا نہیں چاہتے پس ان کے لئے مستقل رہائش کا جلد از جلد انتظام ہونا چاہئے جتنا زیادہ عرصہ گذرتا جائے گا لوگوں کو جگہوں کو خیر باد کہنے میں اتنی ہی زیادہ دقت ہوگی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بارش زدہ علاقوں کے دورے پر مکرم جناب امیر صاحب جماعت احمدیہ لا ہور ، مکرم قائد صاحب مجلس مقامی اور بعض دیگر احباب کی معیت میں صبح 4 بجے کے بعد رتن باغ سے روانہ ہوئے.روانہ ہوتے وقت قائد صاحب نے حضور کی خدمت میں لاہور شہر اور اس کے نواحی علاقوں کا ایک وسیع نقشہ پیش کیا جس میں ان مقامات کی نشاندہی کی ہوئی تھی جن میں مجلس خدام الاحمدیہ لا ہور وہاں کے پریشان حال باشندوں کو گذشتہ ایک ماہ سے ہر ممکن امداد بہم پہنچا رہی ہے.نقشہ میں وہ مقامات خاص طور پر نمایاں کر کے دکھائے گئے تھے جن میں لاہور اور ربوہ کے دوصد سے زائد خدام نے ۷۵ سے زائد گرے ہوئے مکانوں کو از سر نو تعمیر کر کے قریباً ایک ہزار افراد کی رہائش کا بندو بست کیا ہے.نقشے پر حضور نے وہ راستہ بھی ملاحظہ فرمایا جس سے گذر کر حضور کو متعدد علاقوں کا دورہ فرمانا تھا.حضور جس بستی میں بھی پہنچے مکرم امیر صاحب مقامی اور مکرم قائد صاحب حضور کو مختصرا مطلع فرماتے کہ یہاں بارش نے کیا تباہی مچائی اور خدام نے یہاں کس کس طریق پر ریلیف کا کام سرانجام دیا.
228 لیاقت پارک سب سے پہلے حضور لیاقت پارک تشریف لے گئے حضور نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ مکانات سلسلہ وار پلان کے مطابق بنائے گئے ہیں.حضور نے فرمایا لوگوں کو بارش کی وجہ سے تکلیف تو بہت اٹھانی پڑی لیکن انہیں ایک فائدہ بھی پہنچا ہے اور وہ یہ کہ اب جھونپڑیوں کی بجائے پکے مکان بن گئے ہیں اور ترتیب وغیرہ کا لحاظ رکھنے کے باعث صفائی وغیرہ بھی آ گئی ہے.وہاں ابھی بعض مکانات پر چھتیں نہیں پڑی تھیں انہیں دیکھ کر حضور نے فرمایا سردی تو اب دن بدن بڑھتی ہی جائے گی انہیں جلد مکمل کرنا چاہئے اس پر علاقہ کے ایک ذمہ دار صاحب نے حضور کو بتایا کہ سامان تعمیر کی کمی کی وجہ سے چھتیں نہیں پڑسکیں اب ان پر چھپر وغیرہ ڈالنے کی تجویز ہے تا کہ یہ رہائش کے قابل بن سکیں.رہائش کا مستقل انتظام لیاقت پارک سے حضور خدام کے ہمراہ کشمیر روڈ پہنچے وہاں چھوٹے چھوٹے مکانوں اور جھونپڑیوں کی ایک بستی ہے جس میں کثرت سے مہاجر آباد ہیں جو سب کے سب پیشہ ور لوگ ہیں.یہاں خدام الاحمدیہ لا ہور کی امدادی پارٹیاں نہایت مستعدی سے ریلیف کا کام کرتی رہی ہیں.یہاں لوگوں نے بڑے اشتیاق سے آگے بڑھ کر حضور سے مصافحہ کیا اور اپنے حالات بیان کئے حضور نے فرمایا کہ اگر حکومت مہاجرین کو اس جگہ آباد کرنا مناسب خیال نہیں کرتی تو پھر ان کے لئے آج سے بہت عرصہ پہلے ہی کسی متبادل جگہ کا انتظام کر دیا جاتا تا کہ یہ پکے مکانوں میں آرام سے زندگی بسر کر سکتے.حضور کو یہ بھی بتایا گیا کہ یہاں کے لوگ اکثر مقروض ہیں اور سود خور پٹھانوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے روپیہ قرض لے کر ہی اپنا کاروبار پھیلایا تھا.حضور نے فرمایا کہ ان لوگوں کو کو ا پر بیٹو طریق کے مطابق کام کرنا چاہئے.اگر انہیں کو اپر بیٹوطریقوں سے آگاہ کیا جائے تو ان کے لئے بہت سہولت پیدا ہو سکتی ہے.اس کے بعد حضور نے وارث روڈ پہنچ کر نئے تعمیر شدہ مکانات دیکھے وہاں بھی لوگ استقبال کے لئے نہایت تپاک سے آگے بڑھے اور خدام کے جذ بہ خدمت خلق کو سراہتے ہوئے ممنونیت کا اظہار کیا.وہاں ارد گرد گندا پانی کھڑا تھا حضور نے فرمایا کہ اس کی صفائی کا بندوبست ہونا چاہئے.مکرم قائد صاحب نے عرض کیا کہ حضور یہاں کارپوریشن کی معرفت ڈی ڈی ٹی چھٹڑ کوا دی گئی تھی.اس پر حضور نے مزید فرمایا کہ ایک آدھ مرتبہ دوائیں چھڑکنا بے فائدہ ہے جب تک صفائی کا مستقل انتظام نہ ہو اس وقت تک ان کی تکلیف رفع نہیں ہو سکتی چنانچہ مکرم امیر صاحب نے وہاں کے باشندوں سے پوچھا کہ یہاں کمیٹی والے صفائی کے لئے آتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ اکثر آ کر دوائیں چھڑکتے
229 رہتے ہیں.مہاجرین کانگڑہ وارث روڈ کی بستی میں تعمیر شدہ مکانات دیکھنے کے بعد حضور فیروز پور روڈ پر ذیلدار پارک کے قریب ” کانگڑہ آبادی نام کی بستی میں تشریف لے گئے اس بستی میں ضلع کانگڑہ کے مہاجر آباد ہیں یہاں حضور نے وہ آٹھ مکان معائنہ فرمائے جو پچھلے دنوں خدام نے تعمیر کئے تھے جب لوگوں کو پتہ چلا کہ حضور مکانات کے معائنہ کے لئے خود یہاں تشریف لائے ہیں تو وہ گھروں میں سے دوڑتے ہوئے نکلے اور ان میں سے ہرایک نے نہایت تپاک کے ساتھ حضور سے مصافحہ کرتے ہوئے اپنے متعلق بتایا کہ وہ کس علاقہ کا مہاجر ہے اور کیا کام کرتا ہے مکانات کی بسرعت تعمیر پر وہ سب سرتا پا تشکر بنے ہوئے تھے.مہاجر آباد ملتان روڈ پر کچے مکانوں کی مہاجر آباد نامی ایک بستی ہے جس میں کپڑا بننے والے رہتے ہیں اس بستی میں خدام کھانا ، ادویہ اور کپڑے وغیرہ تقسیم کرنے کے علاوہ ملبہ وغیرہ اٹھانے کا کام کرتے رہے ہیں جب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اس بستی میں پہنچے تو وہاں کے لوگ دوڑ کر حضور کے گرد جمع ہوئے انہوں نے خدام کی امدادی سرگرمیوں کی تعریف کرتے ہوئے حضور سے نہایت احترام کے ساتھ مصافحے کئے اور اپنی متعدد تکالیف بیان کیں جو سوت وغیرہ کی تقسیم سےمتعلق تھیں.حضور نے ان کی تکالیف کے ازالہ کے لئے خدام کو ہدایات دیں چنانچہ مکرم قائد صاحب نے انہیں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے ریلیف آفس کا پتہ دیا اور ان سے کہا کہ وہ دفتر میں آکر ملیں اس کے بعد حکام سے رابطہ قائم کر کے ان کی تکالیف کو دور کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی.اس بستی میں بہت سے کچے مکان تا حال گرے پڑے ہیں.حضور نے مکرم امیر صاحب مقامی سے دریافت فرمایا کہ یہاں مکانات کیوں تعمیر نہیں کئے جا سکے.امیر صاحب نے حضور کو بتایا کہ امپرومنٹ ٹرسٹ نے ان لوگوں کو مکانات بنانے سے منع کر دیا ہے کیونکہ ٹرسٹ خود سروے کے بعد یہاں اپنی نگرانی میں ایک خاص پلان کے ماتحت تعمیر کرانا چاہتا ہے اگر یہ روک نہ ہوتی تو خدام ان کے مکانات کو بآسانی تعمیر کر سکتے تھے.حضور نے خدام کو توجہ دلائی کہ اس بارے میں متعلقہ افسران سے ملکر کہنا چاہئے کہ یا تو وہ یہاں پر جلد تعمیر کا کام شروع کریں یا پھر ہمیں اجازت دیں کہ ہم مکانات تعمیر کرنے میں لوگوں کا ہاتھ بٹائیں تا کہ وہ سردی وغیرہ سے محفوظ ہوسکیں.ملاقات کا اشتیاق اس کے بعد حضور ملتان روڈ پر ہی مندر چونی لال سے ملحق ایک نئی بستی میں تشریف لے گئے یہاں ہمارے خدام نے ۲۶ مکان تعمیر کئے تھے جو
230 ہر طرح مکمل حالت میں تھے حضور نے مکرم امیر صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ لوگوں کو تھوڑا بہت سامان فراہم کرنے کے لئے کہیں تاکہ ان کے مکانوں کے آگے پردے کی دیوار میں کھینچ دی جائیں.اس ضمن میں ایک صاحب مکرم سید نیاز علی صاحب نے جو اسلامیہ کالج لاہور سے تعلق رکھتے ہیں دخل دیتے ہوئے سستے داموں مٹی فراہم کرنے کا ذمہ لیا.مکرم امیر صاحب نے پوچھا کیا آپ بھی یہیں رہتے ہیں انہوں نے جواب دیا کہ میں تو نواں کوٹ میں رہتا ہوں آپ لوگوں کی بر وقت اور بے لوث خدمات مجھے سرکار ( حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کی زیارت کے لئے یہاں کھینچ لائی ہیں آپ کے خدام نے جس قدر محنت اور جانفشانی سے کام کیا ہے میں اس سے بے حد متاثر ہوا ہوں مجھے ابھی ابھی پتہ لگا کہ آج سر کار اس علاقے میں تشریف لائے ہوئے ہیں چنانچہ میں سنتے ہی زیارت سے شرف یاب ہونے کے لئے دوڑا چلا آیا.ایک بوڑھی عورت کی درد بھری درخواست حضوران مکانوں کا معائنہ کرنے کے بعد واپس تشریف لے جاہی رہے تھے کہ ایک بڑھیا عورت نے نہایت عاجزی سے درخواست کی کہ اس کے لئے ایک کمرہ اور بنوایا جائے.اس نے کہا میرے لئے ایک کمرہ تو آپ کے آدمی پہلے ہی بنا چکے ہیں لیکن میری کئی جوان بیٹیاں ہیں اور بچے ہیں جنکے واسطے سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے اس لئے میرے واسطے ایک کمرہ اور بنوا دیا جائے.اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کے پاس نہ اینٹیں ہیں اور نہ لکڑی اور نہ ہی مٹی وغیرہ ہے.اس نے نہایت درد بھرے انداز میں یہ درخواست کی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کا مکان بنوا دیا جائے گا چنانچہ ساتھ ہی حضور نے مکرم قائد صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ اس عورت کے مکان کا ESTIMATE آج شام تک ہی پیش کر کے اس کی تعمیر کی منظوری لے لیں.چنانچہ شام کو مکرم قائد صاحب کی طرف سے خرچ کا اندازہ پیش ہونے پر حضور ایدہ اللہ نے ہدایت فرمائی کہ اس عورت کے لئے باقاعدہ ایک پختہ کمرہ تعمیر کروایا جائے.اس کے بعد حضور دھوبی منڈی واقع پرانی انارکلی کی تنگ گلیوں میں خدام کے ہاتھوں تعمیر شدہ مکانات کا معائنہ فرمانے اور وہاں کے لوگوں کی شکایات سننے کے بعد رتن باغ واپس تشریف لے آئے.“ الفضل ۲- نومبر ۱۹۵۴ء صفحه ۸۱)
231 ایک عظیم منتظم ( نظام مال) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة کے کاروان کے آغاز سفر میں ہی براھین احمدیہ جیسی معرکۃ الآراء کتاب تصنیف فرمائی تو اس میں مخالف اسلام طاقتوں کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی ساری جائیداد بطور انعام دینے کی پیشکش فرما دی اور اس طرح دنیائے مذہب میں ایک تہلکہ مچا دیا اور حجت تمام کر دی.یہ سلسلہ آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا پیاسی دنیا کو سیرابی کے اس چشمہ کا پتہ چلا تو سعید روحیں کشاں کشاں چھوٹے سے گمنام گاؤں کی طرف رختِ سفر باندھنے لگیں.یہ خوش قسمت لوگ جو محض اللہ سفر کی صعوبتیں اور مشکلات برداشت کرتے ہوئے قادیان پہنچتے وہ حضور کے مہمان ہوتے ، گھر میں کھانا تیار ہوتا، حضور مہمانوں کو کھانا پیش فرماتے.ان میں سے خدا کے بعض بندوں نے وہیں ڈیرے ڈال لئے تو وہ مہمان کے ساتھ ساتھ میزبان بھی بن گئے اور روزمرہ آنے والوں کے لئے حضور کا ہاتھ بٹانے لگے.جلسہ سالانہ کی داغ بیل ڈالی گئی تا مختلف علاقوں اور قوموں کے لوگ ایک جگہ جمع ہو کر باہم تعارف بھی حاصل کریں اور معارف و حقائق قرآنی سنکر اپنے ایمان مضبوط کریں اور تبلیغ واشاعت کی کوششوں میں شامل ہوں.ایسے ایک موقع پر جب منتظم نے بتایا کہ اخراجات کے لئے رقم نہیں ہے تو حضرت اماں جان کا زیور کام آیا جسے بیچ کر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا.جب یہ رقم بھی ناکافی ثابت ہوئی تو فرمایا کہ ہم نے ظاہری اسباب کے لحاظ سے کچھ سامان کر دیا تھا اب جس کے مہمان ہیں وہی انتظام فرمائے گا گویا الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کہنے والے کے سامنے اپنی حالت پیش کر دی اور کفالت کے غیبی سامان شروع ہو گئے حضور کا یہ مشہور قول کہ جس طرح ایک دنیا دار کو اپنے صندوق میں پڑی ہوئی رقم پر بھروسہ ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ مقبولانِ بارگاہِ الہی کو اس کی ذات پر ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب جیب خالی ہوتی ہے تو تو کل کا اور زیادہ مزہ آتا ہے.ایسے ہی کسی موقع پر کہا گیا ہو گا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی روایت کے مطابق مہمان زیادہ آگئے تو آپ نے اپنا بستر
232 بھی مہمانوں کو پیش کر دیا نیز فرمایا : مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے رات گزر جائے گی“ ایثار و قربانی کا یہ پیج اخلاص و تقویٰ کے پانی سے بار آور ہونے لگا اور سلسلہ کی ضروریات پوری ہوتی چلی گئیں.حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کے زمانہ میں اشاعت و دعوت الی اللہ کے ساتھ ساتھ جماعتی ضروریات کی بعض شاندار عمارات تعمیر ہوئیں، مسجد نور، غرباء کے لئے مکانات (دار الضعفاء) مریضوں کے لئے ایک بڑا ہسپتال تیار ہوا.حضرت فضل عمر نے بہت ابتدائی زمانہ میں کسی جماعتی کام کے لئے چندہ کی تحریک کی تو گل ۲ روپے جمع ہوئے.حضور کے ایک بے تکلف دوست نے جب ہنستے ہوئے کہا کہ صرف اڑھائی روپے ہی جمع ہوئے ہیں تو حضور نے شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بھی کم نہیں ہیں.حضور اکثر یہ امر بیان فرمایا کرتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب خلافت پر سرفراز فرمایا تو جماعتی خزانے میں صرف چند آنے تھے اور بظاہر جن لوگوں کے تعاون پر بھروسہ ہوسکتا تھا وہ جماعت سے الگ ہو کر مخالفت پر کمر بستہ تھے.حضور کے توکل اور قربانی کا سفر اس جگہ سے شروع ہوتا ہے.دنیا دار کی نظر میں یہ بے سروسامانی اور تہی دستی کی کیفیت تھی مگر حقیقت شناس اور بصیرت والی آنکھ دیکھ رہی تھی کہ یہ تو وہ موعود وجود ہے کہ :- اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت و دولت ہوگا“ اس اولوالعزم انسان کو حاصل ہونے والی فتوحات کے ذکر سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مالی قربانی کے متعلق آپ کے نمونہ اور مثال پر نظر ڈالی جائے کیونکہ آپ کی سیرت کے ہر ورق میں قربانی چھلک چھلک کر اپنی طرف توجہ کھینچتی ہے.جماعت کے سامنے آپ نے جو تحریکات پیش فرمائیں ان کی ایک جھلک ذیل میں پیش کی جاتی ہے ہے.ا.انجمن ترقی اسلام کے لئے چندہ (تین ہزار کے قریب وعدے ہوئے.صرف قادیان سے۵۰۰ روپے اگلے دن ہی وصول ہو گئے ) -۲ ریلیف فنڈ کی اپیل ( قادیان سے بارہ سو روپے جمع ہوئے باہر بھی تمام جماعتوں نے اس تحریک میں حصہ لیا )
233 -۳- مینارة المسیح کی تکمیل کی تحریک ( حضرت مسیح موعود نے اس کی بنیا درکھی تھی تاہم به صرف زرکثیر دسمبر ۱۹۱۶ء میں مکمل ہوا ) - خواتین کے تبلیغی فنڈ کی تحریک (خواتین کے ذمہ پانچ سو روپیہ ماہوار لگایا.خواتین نے بہترین نمونہ دکھایا ) ۵- مسجد لندن کے لئے چندہ کی اپیل ( جماعت نے جس اخلاص ومستعدی سے چندہ دیا اس پر پریس نے حیرت کا اظہار کیا ) -4 تحفہ شاہزادہ ویلز کے لئے چندہ پچیس ہزار آدمیوں کی طرف سے یہ تحفہ پیش کرنے کے لئے چندہ صرف ایک آنہ فی کس مقرر کیا گیا ) ۷.بیت المال کے لئے قرضہ کی اپیل (۳۰ ہزار سے زائد قرضے اُتارنے کے لئے یہ اپیل کی گئی.جماعت نے قربانی کا اعلیٰ معیار پیش کیا ) - تعمیر مسجد برلن ( جماعت کی خواتین نے محیر العقول قربانیاں پیش کرتے ہوئے ۲۰ ہزار کی تحریک کے مقابلہ میں ۸۰ ہزار پیش کر دیا ) تحریک انسدادِ شدھی ( حضور نے کمال اعتماد سے فرمایا ” گل جماعت کی جائیداد تخمینا ۲ کروڑ کی ہے اگر ضرورت پڑی تو کل املاک اور اموال خدا کی راہ میں وقف کرنے سے میں اور میری جماعت دریغ نہ کریں گئے) ۱۰- چندہ تحریک خاص ( بعض فوری ضروریات کے لئے ایک لاکھ روپے کی تحریک کی گئی.تین ماہ کے اندر اندر جماعت نے یہ رقم پیش کر دی ) چندہ خاص ( مجلس شورای ۱۹۲۹ء کی رپورٹ کے مطابق جماعت نے مطلوبہ رقم پیش کردی ) ۱۲- ریز روفنڈ کی تحریک (۲۵ لاکھ سے زائد کی جائداد بطور ریز روفنڈ خرید لی گئی.بعد میں اس جائداد کی قیمت اور منافع میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ) ۱۳ - دار التبلیغ لندن کے لئے چندہ (حضور نے احمدی مستورات کو چار ہزار روپے سالانہ کی تحریک فرمائی عورتوں نے اپنے قربانی کے معیار اور ریکارڈ کو برقرار رکھا) ۱۴- مسجد لندن کی مرمت ( چھ ہزار روپے کی تحریک تھی.بیگم صاحبہ سیٹھ عبد اللہ الہ دین نے ایک ہزار پیش کر دیا اور باقی رقم بھی وقت کے اندراندر جمع ہوگئی )
234 ۱۵- چندہ خاص ( اس تحریک کے متعلق تین ماہ کے بعد حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ چندہ خاص کی تحریک میں سوا لاکھ روپیہ مقررہ میعاد کے اندر جمع ہو گیا ہے ) ۱۶- مسجد اقصیٰ قادیان کی توسیع : تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی مسجد اقصیٰ پہلے سے دُگنی ہوگئی.۱۷ - مسلمانانِ کشمیر کے لئے چندہ ( یہ تحریک ۱۹۳۱ء میں کی.جماعت نے بڑے اخلاص سے لاکھوں روپیہ پیش کیا جس سے مسلمانوں کی تعلیمی ، اقتصادی اور سیاسی حالت سنوار نے پر خرچ کیا.یہ امداد اب بھی کسی نہ کسی رنگ میں جاری ہے ) ۱۸- امانت فنڈ : (۱۹۳۴ء میں حضور نے جماعت کے خزانہ میں اپنا روپیہ بطور امانت رکھوانے کی اپیل تھی جو بہت کامیاب رہی.افراد جماعت نے بھی فائدہ اُٹھایا اور جماعت نے بھی) ۱۹- تحریک جدید: ( یہ تحر یک ۱۹۳۴ء میں حضور نے شروع فرمائی گل مطالبہ ۲۷۶۲ ہزار کا تھا جو تین سال میں پورا کرنا تھا.جماعت نے پہلے سال ہی قریباً ۳۰ ہزار پیش کر دیا.دوسرے سال ایک لاکھ سترہ ہزار.تیسرے سال ایک لاکھ ۴۵ ہزار ) ۲۰ - جماعتی جھنڈا تیار کرنے کی تحریک : ( یہ تحریک ۱۹۳۹ء میں کئی گئی.صحابہ سے تھوڑی تھوڑی رقم لیکر ایسی روئی خریدی گئی جو صحابہ نے کاشت و برداشت کی تھی ، صحابیات نے کا تا، صحابہ نے کپڑا بنا اور سیاہ رنگ کا جھنڈا جس کے درمیان میں مینارہ اسیح ایک طرف بدر اور دوسری طرف ہلال تھا تیار ہوا ) ۲۱ - غلہ فنڈ کی تحریک : (۱۹۴۲ء میں یہ بابرکت تحریک شروع ہوئی تھی اور اب تک مسلسل غرباء کی خدمت ہورہی ہے ) ۲۲ - وقف جائداد.وقف آمد ( یہ تحریک ۱۹۴۴ء میں شروع کی.جولائی ۱۹۴۷ء تک ڈیڑھ کروڑ کی جائداد وقف ہو چکی تھی.۱۹۴۷ء کے ہنگامی حالات میں اس سے غیر معمولی فوائد حاصل ہوئے ) ۲۳ - توسیع مسجد مبارک ( ۹ مارچ ۱۹۴۴ء کو توسیع کا اعلان فرمایا.مثالی کامیابی ہوئی.حضور نے فرمایا ہمارا اندازہ دس ہزار روپے کا تھا مگر اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے پندرہ ہزار کے وعدے ہو چکے ہیں یعنی نماز عصر سے نماز مغرب کے دوران )
235 ۲۴- تعلیم الاسلام کالج: ( یہ تحریک ۱۹۴۴ء میں حضور نے کی.ڈیڑھ لاکھ کی تحریک فرمائی چھ ماہ میں ہی ایک لاکھ اکاون ہزار کے وعدے ہو گئے ) ۲۵ - تراجم قرآن کریم : ( ۲۰ / اکتوبر ۱۹۴۴ء میں یہ تحریک کی.خرچ کا اندازہ ایک لاکھ چالیس ہزار کا تھا جماعت نے دو لاکھ ۲۰ ہزار کے وعدے پیش کئے ) ۲۶ - توسیع تعلیم الاسلام کالج ( کالج کی توسیع کی تحریک ۱۵ مارچ ۱۹۴۶ء میں فرمائی.خدا تعالیٰ کے فضل سے کالج کی وسیع و عریض شاندار عمارت اور باقی ضروریات کا شاندار طریق پر پورا ہونا اس تحریک کی کامیابی کا منہ بولتا اعلان ہے ) ۲۷ - ترجمة القرآن انگریزی (۱/۲۰ اکتوبر ۱۹۴۴ء میں تحریک فرمائی.ایک ہزار کتابیں خریدنے کی تحریک تھی.ایک سو حضور نے خود خرید میں اور جماعت نے مطلو به رقم پوری کردی ) ۲۸ - تعمیر مسجد مبارک ربوه (۳ /اکتوبر ۱۹۵۰ء کو حضور نے سنگ بنیاد رکھا قریباً پچاس ہزار میں تعمیر ہوئی.جماعت نے قربانی کے معیار کو برقرار رکھا ) ۲۹- تعمیر مساجد بیرون (امریکہ، ہالینڈ، جرمنی، اٹلی ، سپین، فرانس میں مساجد کی تعمیر کے لئے تحریک فرمائی ابتداء میں سات لاکھ ترپن ہزار آمد ہوئی.تاہم بعد میں اس سے کئی گنا زائد خرچ سے یہ مساجد تعمیر ہوئیں اور جماعت نے بخوشی یہ قربانی کی ) ۳۰- اصلاح و ارشاد مقامی ( یہ تحریک ۱۹۵۸ء میں کی گئی حضور کے ارشاد پر حضرت چو ہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے تحریک کی کہ ایک سو صاحب ثروت احباب تین سال تک ۲۵ روپے ماہوارا دا کریں.یہ تحریک بھی بہت کامیاب رہی ) ۳۱- وقف جدید ( یہ تحریک ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۷ء میں کی گئی.یہ تحریک ابتدا ء صرف پاکستان کے لئے تھی مگر آہستہ آہستہ اس کے نیک اثرات اور عمدہ نتائج ساری دنیا میں پھیل چکے ہیں ) لاکھوں کے مضرف سے قائم ہونے والے اشاعتی ادارے اور ٹیل اینڈریلیجس پبلشنگ کمپنی اور الشرکۃ الاسلامیہ کے لئے الگ چندے کی تحریک تو نہیں تھی تاہم ان کی ذمہ داری بہر حال جماعت پر ہی تھی.چندہ عام، چندہ وصیت، چنده جلسه سالانہ یعنی لازمی چندوں کا سلسلہ
236 مستقل طور پر جاری تھا جو ہزاروں سے نکل کر لاکھوں اور کروڑوں تک پہنچا.(مذکورہ بالاتحریکات ان کے علاوہ تھیں) یہ تقابل یقینا ایک چیلنج ہے ہر ماہر مالیات اور ہر وزیرخزانہ کے لئے کہ ۲۲ روپے چندہ ہر پانے والے اور چند آنوں کا سرمایہ رکھنے والے نے اتنے بڑے بڑے کام اور اتنے شاندار نتائج کس طرح حاصل کر لئے.ہمارے مقابلہ پر بڑی بڑی مذہبی جماعتیں بڑے بڑے دعاوی لیکر آئیں لیکن اس مالی قربانی کے میدان میں کوئی بھی ہماری جماعت کا مقابلہ نہ کر سکا.یہ ایسا دعویٰ نہیں ہے جو جماعت ہی کر رہی ہو.غیر معمولی مالی قربانی دوسروں کی آنکھوں کو بھی خیرہ کر رہی تھی ایک مشہور صحافی جماعت کی ابتدائی حالت اور بعد کے زمانہ کا مقابلہ کرتے ہوئے بڑی پتے کی بات کہہ گیا ہے.قادیان کے احمدیوں کی پچاس سالہ رفتار کے زیر عنوان مشہور رسالہ ریاست جس کے مدیر سردار دیوان سنگھ مفتون ایک نڈر اور بے باک صحافی کی شہرت رکھتے اور جماعت کے کارناموں پر خوب نظر رکھتے تھے.ایک اداریہ میں لکھتے ہیں.احمدی حضرات کا اخبار الفضل قادیان میں آج سے پچاس سال پہلے یعنی ۸ ستمبر ۱۸۹۶ء کا لکھا ہوا ایک خط شائع ہوا ہے جو اس جماعت کے بانی حضرت مرزا غلام احمد نے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین کو چکراتہ (ضلع سہارنپور ) بھیجا.آپ لکھتے ہیں :- باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ اس مہمان خانہ میں دن بدن بہت آمد و رفت مہمانوں کی ہوتی جاتی ہے اور پانی کی دقت بہت رہتی ہے.ایک کنواں تو ہے مگر اس میں ہمارے بے دین شرکاء کی شراکت ہے.وہ آئے دن فتنہ فساد برپا کرتے رہتے ہیں اور نیز سقے کا خرچ اس قدر پڑتا ہے کہ اس کی تین سال کی تنخواہ سے ایک کنواں لگ سکتا ہے لہذا ان وقتوں کو دور کرنے کے لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ایک کنواں لگا یا جاوے.سو آج فہرست چندہ مخلص دوستوں کی مرتب کی ہے.جس میں آپ کا نام بھی داخل ہے.اس چندہ سے یہ غرض نہیں ہے کہ کوئی دوست فوق الطاقت کچھ دیوے بلکہ جیسا کہ چندوں میں دستور ہوتا ہے کہ جو کچھ بطیب خاطر میسر آوے وہ بلا توقف ارسال کرنا چاہئے.اپنے پر فوق الطاقت
237 بوجھ نہ ڈالنا چاہئے کہ اس خیال سے انسان بعض اوقات خود چندہ سے محروم رہ جاتا ہے.یہ کام بہت جلد شروع ہونے والا ہے.اور چاہ کی لاگت تخمینا ۲۵۰ روپے ہوگی.اگر خدا تعالیٰ چاہے گا تو اس قدر دوستوں کے تمام چندوں سے وصول ہو سکے گا.آپ ہمیشہ سے بکمال محبت و صدق دل اعانت اور امداد میں مشغول ہیں.صرف به نیت شمول در چنده دهندگان آپ کا نام لکھا گیا.گو آپ ۲ ( دوآنہ ) بطور چندہ بھیج دیں.“ غلام احمد قادیان کی احمدی جماعت کے اس وقت کئی لاکھ ممبر ہیں اور ان ممبروں میں چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں جیسے حج فیڈرل کورٹ اصحاب بھی شامل ہیں.جو اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ رفاہ عام کاموں کے لئے اس جماعت کی معرفت صرف کرتے ہیں اور یہ جماعت مختلف شعبوں کے ذریعہ ہر سال لاکھوں روپیہ ہندوستان و غیر ممالک میں مذہب و اخلاق کی تبلیغ کے لئے صرف کرتی ہے مگر آج سے پچاس برس پہلے اس جماعت کے بانی کے پاس کنواں لگوانے کے لئے اڑھائی سو روپیہ بھی نہ تھا اور آپ نے دود و آنہ جمع کر کے رفاہ عام کے لئے کنواں لگوایا.اگر احمدی جماعت کی اس کامیابی پر غور کیا جائے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ جماعت جو روپیہ صرف کرتی ہے وہ ایک ایک پائی پبلک کے لئے صرف کیا جاتا ہے.اس روپیہ کے جمع یا صرف کرنے میں ذاتی اغراض کو دخل نہیں اور پلک جب دیکھتی ہے کہ کارکن دیانتدار اور مخلص ہیں تو وہ اپنی جائیداد فروخت کر کے بھی روپیہ فراہم کرتی ہے.جو لوگ پبلک مفاد کے لئے کوئی کام کرتے ہوئے روپیہ نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں ان کے لئے مرحوم مرزا غلام احمد کا یہ واقعہ آنکھیں کھولنے کا باعث ہونا چاہئے.کیونکہ پبلک ان لوگوں کے لئے روپیہ نہیں آنکھیں بچھانے کے لئے بھی تیار ہے جو دیانتدار اور مخلص ہوں مگر ان لوگوں کے لئے پبلک کے پاس پیسہ نہیں جو پبلک فنڈوں کو ہڑپ کرنے کے لئے پبلک کے سامنے گداگری کریں اور مالی مشکلات کا رونا روتے رہیں.“ 66 اخبار ریاست کا اداریہ بحوالہ الفضل مؤرخه ۱۹ / اگست ۱۹۴۶ ء صفهیم) اس اداریہ کے آخر میں صحافی مذکور نے بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے کہ کارکن دیانتدار اور مخلص
238 ہوں تو لوگ اپنی جائیدادیں بیچ کر بھی پیش کر دیتے ہیں.جماعت کا چندہ کا موجودہ نظام حضرت فضل عمر کی نگرانی میں آپ کی ہدایات و رہنمائی کے مطابق قائم ہوا.یہ ایک عمدہ مضبوط اور محفوظ اور فول پروف Fool Proof نظام ہے.جماعت پورے اعتماد سے دل کھول کر چندہ پیش کرتی ہے اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ انہیں پتہ ہے کہ ان کا خون پسینہ سے کمایا ہوا پیسہ، ان کا بچوں کے پیٹ کاٹ کاٹ کر چندہ دینا رائیگاں نہیں جائے گا ، یہ چندہ صحیح ہاتھوں میں پہنچے گا اور صحیح مقاصد پر خرچ ہوگا اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ قربانی کرنے والوں کے اموال ونفوس میں برکت عطا فرمائے گا.حضور ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور اس لحاظ سے جماعت کے لئے ایک اچھی مثال پیش فرماتے تھے اس کی ایک مثال درج ذیل ہے.۱۹۵۲ء کی مجلس شوری میں تحریک جدید کی طرف سے چار لاکھ روپیہ کے سرمایہ سے اشاعت لٹریچر کے لئے ایک لمیٹڈ کمپنی شروع کرنے کی تجویز پیش ہوئی.شوری کے نمائندگان نے اس کے متعلق اپنی آراء کا اظہار کیا.کمپنی کے قیام اور اس کی افادیت پر تو سب متفق تھے مگر سرمایہ کی فراہمی کا سوال بہت مشکل تھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کی افادیت کے متعلق شوری کے نمائندگان کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے چار لاکھ کی بجائے آٹھ لاکھ کے سرمایہ سے دو کمپنیاں بنانے کی منظوری مرحمت فرمائی.اُس زمانے میں جماعت کی مالی حالت دیکھتے ہوئے یہ رقم بہت بڑی رقم تھی مگر حضور نے مالی قربانی کا ایک عظیم نمونہ پیش کرتے ہوئے اس مشکل کو آسان کر دیا آپ فرماتے ہیں.وو " بہر حال اگر غیر ملکی زبانوں میں لٹریچر کی اشاعت کے لئے ایک لمیٹڈ کمپنی کی ضرورت ہے تو ایسی ہی ضرورت ملکی زبان میں لٹریچر شائع کرنے کے لئے صدر انجمن احمد یہ کو بھی ہے اس لئے میرے نزدیک دولمیٹڈ کمپنیاں ہونی چاہئیں.بڑا سوال سرمایہ کا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سرمایہ کا سوال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی آسانی سے حل ہوسکتا ہے.خلافت جو بلی فنڈ کا جو دولاکھ ستر ہزار کے قریب ہے میں اس کمپنی کو دیتا ہوں جو صدر انجمن احمدیہ کی ہوگی.اس کے علاوہ گذشتہ سالوں میں صدر انجمن احمد یہ چھ ہزار روپیہ سالانہ مجھے گزارہ کے لئے قرض کے طور پر دیتی رہی ہے بعض سالوں میں اس سے کم رقم بھی ملی ہے بہر حال آپ لوگ مجھے امداد کے طور پر وہ رقم دینا چاہتے تھے اور میں نے قرض کے طور پر لی اب میں چاہتا ہوں کہ اس رقم کو بھی جب میں ادا کر سکنے کے
239 قابل ہو سکوں تو اس مد میں ادا کر دوں.اس رقم کو ملا کر تین لاکھ ستر ہزار بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ رقم جمع ہو جائے گی ، کچھ سرمایہ پہلے سے اس مد میں فروخت کتب سے حاصل ہو چکا ہے اسے ملا کر قریباً چار لاکھ روپیہ کا سرمایہ ہو جاتا ہے.جب کمپنی جاری ہو تو اس وقت ایک لاکھ کے حصے اگر صاحب توفیق احباب خرید لیں تو پانچ لاکھ سرمایہ ہو جائیگا.اور یہ اتنا بڑا سرمایہ ہے کہ اس سے اعلیٰ درجہ کا پر لیں اور کافی کتب شائع کی جاسکتی ہیں سر دست میں اس غرض کے لئے چار لاکھ سرمایہ کی ہی اجازت دیتا ہوں اگر ضرورت پڑی تو بعد میں اس رقم کو بڑھایا بھی جا سکتا ہے.جب اس کمپنی کی وجہ سے آمد شروع ہوگئی تو چونکہ خلافت جو بلی فنڈ کے روپیہ پر اس کی بنیا درکھی گئی ہے.اس لئے آمد کے پیدا ہونے پر اس کا ایک حصہ وظائف میں بھی جاسکتا ہے.اب رہ گئی تحریک جدید کی چار لاکھ روپیہ کی کمپنی.....اس کمپنی کے سرمایہ کے لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے غیر زبانوں میں تراجم کا کام چونکہ اس کا ایک حصہ ہے اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ تراجم قرآن کا دو لاکھ روپیہ اس کمپنی کو دیدیا جائے وہ تراجم بھی یہی کمپنی شائع کرے اور اس کے علاوہ دوسرا لٹریچر بھی یہی کمپنی شائع کرے.باقی دو لاکھ روپیہرہ گیا اس کے لئے میرے ذہن میں ایک اور صورت ہے.وہ ایسی نہیں کہ فوری طور پر رو پیل جائے لیکن بہر حال اگر کوشش کی جائے تو مجھے امید ہے دولاکھ روپیہ ہمیں مل جائے گا اس کے لئے ایک زمین کو فروخت کرنے کی ضرورت ہے.جو مجھے کسی دوست نے تحفہ کے طور پر پیش کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ تحفہ بھی اس طرف منتقل کردوں.“ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحه ۱۰۴ تا ۱۰۸) لاکھوں روپیہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں پیش کر دینا اور انجمن کی طرف سے ملنے والے گزارے کی معمولی رقم کو بھی اپنے اوپر قرض سمجھنا اور اسے واپس کرنا یقیناً ایسی مثال اور نمونہ ہے جو جماعت کو اور زیادہ مالی قربانی پر اُبھارتا ہے.اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر دوسرے مذہبی لیڈروں اور علماء سے مقابلہ کیا جائے تو زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا کیونکہ قومی اموال مختلف حیلوں سے بٹورنا اور بے دریغ ذاتی استعمال میں لانا ایک ایسا کھلا راز ہے جس کی تفصیل میں جانے کی کوئی
ضرورت نہیں.240 حضور کی خدمت میں بڑی عقیدت و محبت سے جو نذرانے پیش کئے جاتے تھے ان میں سے دو لاکھ روپے کی قیمتی جائداد کا اوپر ذکر آچکا ہے اور اسی سے پتہ چل جاتا ہے کہ حضور کے نزدیک ان کا مصرف کیا تھا.اس سلسلہ میں اپنا طریق کاربیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- میں مارچ ۱۹۱۴ ء میں خلیفہ ہوا ہوں اور اس وقت میری خلافت پر ۳۸ سال گزر چکے ہیں تم ہی بتاؤ میں نے اتنے عرصہ میں خزانہ سے کیا لیا ہے؟ آخر میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں ، ڈراتا ہوں اور ہوشیار کرتا ہوں تو اس لئے نہیں کہ اس میں میرا کچھ فائدہ ہے میں تمہیں اس لئے توجہ نہیں دلاتا کہ سلسلہ کے مال میں میرا کوئی حصہ مقرر ہے یہ نہیں کہ ۸ لاکھ آمد ہوگی تو ایک لاکھ میرا ہوگا، بارہ لاکھ آمد ہوگی تو ڈیڑھ لاکھ میرا ہوگا ، مجھے سلسلہ کے مال سے کوئی حصہ نہیں ملتا جس کی وجہ سے میں تمہیں ڈراتا ہوں.میں ۲۵ سال کی عمر کا تھا جب خلیفہ ہوا اب ۶۳ سال کا ہوں اب تک میں نے خزانہ سے کیا لیا ہے جس کی وجہ سے کسی کو شبہ ہو کہ میں نے یہ بات کسی غرض کی وجہ سے کہی ہے.میں نے جماعت کو کچھ دیا ہے لیا نہیں.پچھلے دنوں کسی شخص نے میرے متعلق جھوٹ بولا کہ میں جماعت کا چندہ کھا گیا ہوں تو میں نے اپنے چندے کا حساب نکلوایا تو معلوم ہوا کہ میں صرف تحریک جدید کو پچھلے ۱۸ سالوں میں دو لاکھ سے زائد روپیہ دے چکا ہوں پس میں جب تمہاری مالی حالت کی طرف توجہ دلاتا ہوں تو اپنے فائدہ کے لئے نہیں صرف تمہارے فائدہ کے لئے کچھ کہتا ہوں.تمہیں میں نے کم کہا ہے گو کہا ہے لیکن صدر انجمن کے کا غذات نکال کر دیکھ لو کوئی تاریخ دان انہیں پڑھے گا تو وہ حیران ہوگا.درجنوں صفحات ایسے نکلیں گے جن میں میں نے صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی ہوگی کہ اپنے آپ کو بچاؤ ورنہ تمہارا کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا.خطبات محمود نمبر ا خطبہ نمبر ۴۲ صفحه ۴۵۵) حضور کی خدمت میں جو نذرانے بڑی عقیدت سے پیش کئے جاتے ان کے متعلق حضور فرماتے ہیں :- وو بعض لوگ اپنی خوشی سے کبھی کبھی ہدایا ضرور پیش کر دیتے ہیں.
241 نہ میں سوال کرتا ہوں ، نہ میری طرف سے کوئی ایسا چندہ مقرر ہے کہ جو میرے نفس کے لئے ہو، نہ سالانہ نہ ماہانہ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں خود اپنی مقدرت کے مطابق با قاعدہ چندہ ان مدات میں دیتا رہتا ہوں ، جن میں باقی سب احمدی چندہ دیتے ہیں اور اس کے علاوہ مجھے اپنے کام کی ذمہ داری کے ماتحت کئی غرباء اور مساکین کی خبر گیری کرنی پڑتی ہے اور کئی بتامی کی تعلیم کا بندو بست کرنا پڑتا الفضل ۸.جنوری ۱۹۱۸ء صفحہ ۸) 66 مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے درویش قادیان کی روایت کے مطابق اس سلسلہ میں حضور نے فرمایا: - وو احباب جو نذرانے دیتے ہیں وہ بطور خلیفہ کے مجھے دیتے ہیں اور میں بوجہ خلیفہ ہونے کے ذمہ دار ہوں کہ خلافت کے امور اور بیوگان دیتامی وغیرہ پر انہیں صرف کر دیتا ہوں یہ میری ذاتی آمد نہیں.“ اس قسم کے اخراجات کے سلسلہ میں حضور یہ بھی خیال رکھتے کہ کسی مستحق کی عزت نفس مجروح امداد نہ ہو.آپ فرماتے ہیں: دمستحقین والے حصہ کو میں نے خلافت کے ماتحت اس لئے رکھا ہے کہ اس میں ایک قسم کا اخفاء ضروری ہے کیونکہ اس میں زیادہ تر یہی مد نظر ہے کہ وابستگان خلافت اور وابستگان جماعت کی امداد کی جائے اور ان کی دلجوئی کے لئے انہیں کچھ رقمیں دی جائیں اور اس قسم کی امداد کا ظاہر ہونا طبعا لوگ پسند نہیں کرتے اور گو اس صورت میں بھی بہت چھوٹی چھوٹی رقمیں ان کے حصہ میں آئیں گی مگر چونکہ عام طور پر طبائع پر اس قسم کی امداد کا اظہار گراں گزرتا ہے اس لئے خلافت کی مد ہی ایسی ہے کہ اس کے ماتحت بغیر دفتر میں سے گزرنے کے دوسرے کی امداد کے لئے رقم دی جاسکتی ہے اور اس شخص کی طبیعت پر بھی گراں نہیں گزرتا.(رپورٹ مشاورت ۱۹۵۲ء صفحه ۹) زکوۃ کے اموال بھی حضور ہی کی منظوری سے تقسیم ہوتے تھے اور اس کے بل پر بھی حضور تصدیقی دستخط فرماتے تھے اور بعض شریف خاندانوں کے غرباء کو خفی طور پر خود مد بھجواتے تھے.فطرانہ اور موسم سرما میں پار چات وغیرہ کی تقسیم کے لئے حضور نے ایک کمیٹی مقرر فرمائی ہوئی تھی جو حضور کی
242 ہدایت اور نگرانی میں کام کرتی تھی.امانت فنڈ حضور نے اپنی معرکتہ الآراء تحریک ( جو تحریک جدید کے نام سے مشہور ہے ) میں مختلف مطالبات کئے تھے ان میں ایک مطالبہ امانت فنڈ کا بھی تھا اس مطالبہ کی رُو سے احباب جماعت کو تلقین کی گئی تھی کہ وہ اپنی ایسی رقوم جو بنکوں میں پڑی ہیں وہ جماعت کے خزانہ میں بطور امانت رکھوا دیں.احباب ضرورت کے وقت ایسی رقوم اپنی مرضی سے نکلوا سکتے ہیں اور اس پر کوئی پابندی نہ ہوگی.جماعت نے اس مطالبہ پر اپنے روایتی طریق کے مطابق لبیک کہا اور خزانہ صدر انجمن میں ایک خطیر رقم جمع ہوگئی.حضور کی اس مبارک تحریک کے بہت شاندار نتائج نکلے اس کا ایک فائدہ بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:- ” ہمارے دشمنوں کو جو نا کامی ہوئی ہے اس میں امانت فنڈ کا بہت بڑا حصہ ہے اور اب جو نیا فتنہ اٹھا تھا اس نے بھی اگر زور نہیں پکڑا تو درحقیقت اس میں بھی بہت سا حصہ تحریک جدید کے امانت فنڈ کا ہے“ ( الفضل ۴ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحه ۱۵) یہ ایک بہت بڑا فائدہ تھا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے اس فنڈ سے اس سے بھی بڑے بڑے فائدے پہنچنے والے تھے چنانچہ تقسیم برصغیر کے خونیں حادثہ میں مشرقی پنجاب کے لوگوں کی جائداد میں اور اموال ہندوستان میں ہی رہ گئے.بہت سے بنکوں نے بھی امانت داروں کو ان کی امانتیں واپس کرنے سے انکار کر دیا اس طرح ان لوگوں کو ہندوؤں سکھوں کی لوٹ مار کے علاوہ بنکوں کی وجہ سے بھی بہت نقصان پہنچا البتہ وہ خوش قسمت احمدی جن کی امانت جماعت کے پاس تھی وہ اس نقصان سے بچ گئے.بظاہر تو جماعت کے اموال بھی قادیان میں ہی رہ گئے تھے مگر ہمارے بیدار مغز چوکس رہنما نے ہنگامی حالات میں اسوہ رسول پر عمل کرتے ہوئے امانتوں کی حفاظت کا انتظام فرمایا.خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا یہ واقعہ مکرم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کی زبانی پیش ہے.۱۹۴۷ء میں جب ہمیں قادیان سے ہجرت کر کے لاہور آنا پڑا تو میں چونکہ امانت میں کام کیا کرتا تھا اس لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے حکم دیا کہ لاہور جاتے ہوئے آپ امانت کے ٹرنک اپنے ساتھ لیتے جائیں امانت کے ٹرنکوں کے متعلق حضرت میاں صاحب نے مجھے فرمایا کہ حضرت خلیفہ ثانی
243 لاہور سے بار بار لکھتے ہیں یا فون کرتے ہیں کہ امانتیں جلدی بھجواؤ کیونکہ نبی کریم نے ہجرت کے بعد جلدی منگوالی تھیں.میں امانت کے ٹرنک لے کر قادیان سے روانہ ہوا تو اتفاق سے جس بس پر میرے ٹرنک رکھے گئے تھے اسی میں ریسرچ والوں کے پانچ چھ ٹرنک بھی پڑے تھے.راستہ میں ایک جگہ پر بسیں روک لی گئیں اور بکسوں کی چیکنگ شروع ہوگئی میں تو کانپ اٹھا الہی ! ہماری امانتوں کے بکسوں کے اندر لاکھ دو لاکھ روپے کی مہریں لگی ہوئی ڈبیاں اور تھیلے پڑے ہیں تو ان کو اگر کھول کر دیکھے گا تو ادھر ادھر ہو جانے سے میں کیسے سنبھال سکونگا مگر اسی اثناء میں ایک زرگر بنام روشن الدین صاحب میرے پاس آئے اور مجھے ایک پوٹلی دے کر کہنے لگے اس میں تین ڈلیاں سونے کی ہیں یہ آپ حکیم دین محمد صاحب کو لاہور میں دے دیں.میں نے کہا کہ میں چونکہ امانت میں کام کرتا ہوں ہمیں کوئی چیز بغیر رسید دیے لینے کا کوئی حق نہیں ہوتا اور اگر بغیر رسید کے لے لیں تو ممکن ہے کوئی شخص الزام لگا دے تو الزام سے رہائی کی کوئی صورت نہیں اس لئے میں اسے نہیں لے سکتا لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ میں آپ کو جانتا ہوں آپ سے کوئی رسید نہیں مانگتا آپ لے جائیں.ان کے اصرار کرنے پر اپنے چھوٹے سے کیش بکس میں وہ پوٹلی رکھ لی اتنے میں چیک کرنے والا ایک ڈوگرہ لفٹنٹ آ گیا.ریسرچ کے صندوقوں کو چیک کرنے لگا اور وہ اتنی بے اعتباری کرتا تھا کہ کتابیں نکال نکال کر دیکھتا تھا کہ نیچے کوئی بندوق یا اسلحہ تو نہیں میں کانپ رہا تھا کہ خدانہ کرے یہ مشکل مجھے بھی پیش آئے.جب وہ چار پانچ صندوق دیکھ چکا جن میں کتا بیں ہی کتابیں تھیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو کچھ ایسا پھیرا کہ ریسرچ کے صندوقوں کی طرح باقی صندوقوں کو بھی کتابوں کا سمجھ کر کہا جانے دو.میرے کیش بکس کو دیکھ کر کہنے لگا کہ یہ کیا ہے.میں نے سارا ماجرا بتایا.اس نے سونے کی تین ڈلیاں اُٹھا کر دیکھیں اور دوبارہ وہیں رکھ دیں.جب ہم نہر کے پل پر پہنچے تو شور پڑ گیا کہ سکھ کھڑے ہیں راستہ میں اندیشہ ہے کہ وہ بسیں نہ لوٹ لیں.ہمارے انچارج سپاہیوں نے گنوں کو پوزیشن میں کیا تو انہوں نے گولی چلا دی.چنانچہ اس طرف سے بھی فائز ہوا تو کئی سکھ مر گئے اور باقی بھاگ گئے.اور ہم
244 66 بخیر وعافیت لاہور پہنچ گئے.“ جس وقت یہ رقوم پاکستان میں پہنچیں تو صدر انجمن کی بھی تقسیم کے دھکے اور مہاجرین کی کثرت کی وجہ سے کوئی قابل رشک مالی حالت نہ تھی.اخراجات کی زیادتی کے علاوہ چندوں کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا.مشرقی پنجاب کے احمدی ادھر ادھر سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈ رہے تھے ایسے میں بہت ممکن تھا کہ انجمن بھی یہ فیصلہ کرتی کہ ہم امانتیں لوٹانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن یہاں بھی ہمارے مُؤَيَّد مِنَ الله امام نے نہایت دور اندیشی سے ایسا فیصلہ فرمایا کہ اس سے لوگوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوگئیں، ان کا اعتماد بھی قائم رہا اور انجمن کو بھی کوئی نقصان نہ ہوا اور امانت و دیانت کے تقاضے بھی پورے ہو گئے.اس تائید الہی کے متعلق حضور فرماتے ہیں.پھر امانتوں کے متعلق میں نے حکم دیا کہ چاہے سارا خزانہ ختم ہو جائے جو لوگ اپنی امانتیں مانگنے آئیں ان کو امانتیں دیتے چلے جاؤ اس وقت انجمن کا آٹھ دس لاکھ روپیہ ادھر رہ گیا تھا میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے ڈالا کہ اس روپیہ کو جلدی نکلواؤ ورنہ یہ ضبط ہو جائے گا چنانچہ میں نے انجمن والوں سے کہا کہ وہ جلدی روپیہ نکلوائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل یہ ہوا کہ ہماری بڑی رقم ایک انگریزی بنگ میں تھی اس نے فوراً وہ رو پیدا دھر بنک میں منتقل کر دیا مگر پھر بھی کئی لاکھ ادھر ضائع ہو گیا اس وقت افسروں کے پاس لوگ اپنی امانتیں مانگنے آتے تو وہ کہتے کہ کچھ ٹھہر وہم انتظام کر دیں گے.مجھے معلوم ہوا تو میں نے کہا کہ کسی کی امانت نہ روکواگر کوئی لاکھ مانگے تو اسے لاکھ دے دو پچاس ہزار مانگے تو پچاس ہزار دے دو نتیجہ یہ ہوا کہ دو تین مہینوں میں سترہ لاکھ روپیہ نکل گیا.ہمارے پاس گل رقم ۲۱ لاکھ کے قریب تھی مگر سترہ لاکھ نکل جانے کے باوجود امانتوں کا چودہ پندرہ لاکھ پھر بھی ہمارے پاس جمع رہا اس لئے کہ جو شخص ایک لاکھ روپیہ نکال کر لے جاتا وہ اپنے دل میں سوچتا کہ میں نے تو یہ روپیہ اس لئے نکلوایا تھا کہ میں سمجھا تھا انجمن روپیہ کھا جائے گی مگر اس نے تو مجھے سارا روپیہ واپس دے دیا ہے.اب اتنی بڑی رقم کو میں اپنے پاس کہاں سنبھالتا پھروں چنانچہ ہمیں ہزار وہ اپنے پاس اور اسی ہزار پھر ہمارے پاس جمع کرا جاتا اس طرح بظاہر ہمارے خزانہ سے سترہ لاکھ نکلا مگر چودہ پندرہ لاکھ پھر ہمارے پاس واپس آ گیا میں نے اس چیز کی بڑی سختی سے نگرانی
245 کی اور میں نے انجمن والوں سے کہا کہ تم نے کسی سے نہیں کہنا کہ ہم لٹ گئے بلکہ جو شخص روپیہ لینے کے لئے آئے اسے فوراً روپیہ دے دو.نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ دوبارہ امانت رکھتے تھے تو اس تسلی اور اطمینان کے ساتھ رکھتے تھے کہ ہمارا روپیہ محفوظ ہے.ان دنوں چونکہ عام طور پر لوگوں کو شکوہ تھا کہ ہم نے فلاں کے پاس روپیہ رکھا اور وہ کھا گیا فلاں کے پاس امانت رکھی اور اس نے واپس نہ کی اس لئے ڈر کے مارے لوگ انجمن کے خزانہ سے بھی روپیہ نکلوانے لگ گئے.اکیس لاکھ میں سے پہلے چند مہینوں میں سترہ لاکھ روپیہ نکل گیا مگر پھر بھی ہمارے پاس اڑھائی تین سال تک اکیس لاکھ ہی رہا اور اس کی وجہ یہی تھی کہ جن لوگوں میں یہ چرچا ہوا کہ ہم نے فلاں بنک میں روپیہ رکھا تھا وہ کھا گیا فلاں شخص کے پاس امانت رکھی تھی اس نے خیانت کی مگر جو انجمن میں روپیہ رکھا تھا وہ محفوظ رہا تو جو لوگ اپنا روپیہ نکلوا لیتے تھے وہ بھی کچھ رو پیدا اپنے پاس رکھ کر باقی روپیہ پھر ہمارے پاس جمع کرا دیتے تھے اور کچھ لوگ نئی امانتیں رکھوا دیتے تھے تو دیانتداری ایسی چیز ہے جو سب سے بڑا خزانہ ہے.بڑا ہی بیوقوف وہ ہوتا ہے جس کے پاس دو سو روپیہ رکھا جائے اور وہ دو سو کھانے کی کوشش کرے اگر وہ دوسو کو حفاظت کے ساتھ رکھے تو کل لوگ اسے آٹھ سو دیں گے پرسوں پندرہ سو دیں گے اس امانت کے ذریعہ وہ اپنے بھی کئی کام چلا سکے گا.“ الفضل ۱۸ / اگست ۱۹۵۴ء صفحه ۴ ) خدا تعالیٰ کے فضل سے امانت فنڈ جس طرح بحفاظت پاکستان پہنچا اس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے جماعتی اموال کی حفاظت اور احتیاط کے متعلق مکرم عبد الرحمان صاحب انور اسٹمنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کا بیان کردہ مندجہ ذیل واقعہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے.ایک دفعہ ۳۸ ۱۹۳۹ء کے قریب جبکہ حضور کراچی سے قادیان کے لئے ریل میں سوار ہو کر تشریف لا رہے تھے اور حضور کے ہمراہ ایک دوسرے ڈبے میں مکرم چوہدری یوسف خان صاحب ایجنٹ احمد یہ سنڈیکیٹ بھی سوار ہوئے جنہوں نے راستہ میں حیدر آبادسندھ کے سٹیشن پر اُتر جانا تھا.چوہدری صاحب کو اس وقت شدید بخار تھا وہ بخار کی حالت میں ہی مغرب کے قریب حیدر آباد سے
246 اس گاڑی سے اتر گئے لیکن بخار کی وجہ سے اپنا کوٹ جس میں ایک لاکھ روپے کے قریب چیک تھا جسے میر پور خاص خزانہ میں داخل کرنا تھا وہ وہیں سیٹ پر چھوڑ آئے اور گاڑی حیدر آباد سے روانہ ہو گئی.بعد میں انہوں نے حیدر آباد سے حضور کی خدمت میں تار دی جو حضور کو غالباً خانپور کے قرب کسی سٹیشن پر ملی.حضور یہ اطلاع ملتے ہی بنفس نفیس اس ڈبہ کا علم حاصل کر کے جس میں چوہدری صاحب نے سفر کیا تھا ایک دو خدام کے ساتھ پہنچے اور جس جگہ چوہدری صاحب کو سفر کرتے دیکھا تھا وہاں کسی اور مسافر کو بیٹھے ہوئے دیکھا.وہ کوٹ اسی طرح اس شخص کے نیچے تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ تھا چنا نچہ اس طرح سے حضور کے اس فوری اقدام سے چیک صحیح سلامت مل گیا.اگر کسی اور سے بات کی جاتی اور اس کا علم اس ڈبہ کی سواریوں کو ہو جا تا تو ممکن تھا کہ چیک مع کوٹ غائب ہو جاتا.“ مالی تحریکات کے اجمالی تذکرہ سے یہ امر بخوبی ثابت ہو جاتا ہے کہ احمد یہ جماعت نے بے مثال مالی قربانی ، ایک دو دن نہیں ، ایک دو دفعہ نہیں ، مسلسل مالی قربانی پیش کی اور اس طرح پیش کی کہ اپنے اور پرائے اس پر حیران ہو ہو جاتے رہے.اس محیر العقول قربانی کے نتائج یقیناً اس قربانی سے بھی زیادہ نتیجہ خیز اور حیران کن تھے کیونکہ ہر پیسہ دیانت دار ہاتھوں میں سے صحیح اور مناسب جگہ پر ہی خرچ ہوتا تھا.صرف یہی نہیں کہ دینے والے خلوص نیت اور اجر و ثواب کی نیت سے دیتے تھے بلکہ لینے والے خشیت اور خدا کے خوف سے خرچ کرتے تھے اور اس طرح حاصل ہونے والے نتائج حیرت انگیز ہی نہیں معجزانہ نظر آتے.وہ رقم جو ایک مکان بنانے کے لئے ناکافی نظر آتی ہو اس سے یورپ میں مساجد اور مشن ہاؤسز تعمیر ہوتے ہیں، وہ رقم جو ایک خاندان کی نقل مکانی کے لئے بھی بمشکل کافی ہو سکتی ہو اس سے صدر انجمن کے دفاتر لاہور سے ربوہ منتقل ہوتے ہیں، وہ رقم جو ایک سڑک بنانے کے لئے ناکافی لگتی ہواس سے ربوہ شہر کی داغ بیل پڑ جاتی ہے، وہ رقم جو کالج کے کسی کارکن کا مکان بنانے جتنی ہوتی اس سے کالج کی وسیع و عریض شاندار عمارات تیار ہو جاتی ہیں.ان باتوں کو نہ تو پوری طرح سمجھا جاسکتا ہے اور نہ سمجھایا جاسکتا ہے.جماعت کے ہر فرد نے مالی قربانیوں میں حصہ لیا اور اپنی حقیر مالی قربانیوں کے غیر معمولی نتائج اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے گویا یہ مشاہدے اور تجربے کی باتیں ہیں مگر دنیوی اندازوں، تخمینوں اور علوم سے بہت آگے اور بڑھ کر.حضور ایک چھوٹی سی مثال دیتے ہوئے
247 9 لاکھ روپے کا کام ڈیڑھ لاکھ میں سرانجام پانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.پھر یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم میں بہت سی کمزوریاں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں مخلص خادم عطا فرمائے ہیں جن کی محنت اور اخلاص کی وجہ سے ہمارے لنگر کا خرچ جلسہ سالانہ کے موقع پر اتنا کم ہوتا ہے کہ اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی.باہر کھانے کا خرچ ایک روپیہ فی کس فی وقت پڑتا ہے لیکن ہمارے جلسہ پر کام کرنے والے جس محنت اور قربانی سے کام لیتے ہیں اور جس طرح مفت سلسلہ کی خدمات بجا لاتے ہیں، جس طرح نان پز اور باور چی بعض اوقات کم رقمیں لے کر کام کر دیتے ہیں، اس کی وجہ سے میں نے حساب لگایا ہے کہ ہمارا فی کس خرچ ایک آنہ پانچ پیسے یا ڈیڑھ آنہ پڑتا ہے.اگر ڈیڑھ آنہ بھی لگا لیا جائے تو تین دن کا کھانا ساڑھے چار آنہ میں پڑ جاتا ہے.گویا ایک روپیہ میں چار آدمیوں نے جلسہ گزار لیا.اگر جلسہ سالانہ پر ۶۰ ہزار روپیہ خرچ ہو تو اڑھائی لاکھ آدمیوں کا گزارہ ہو گیا.باہر اتنے آدمی ہوں تو کم سے کم تین چار لاکھ روپیہ خرچ آئے.تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جس کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے اس اخلاص کو زیادہ سے زیادہ الفضل ۱۸.نومبر ۱۹۵۶ء صفحه ۳) بڑھاتا چلا جائے.“ جلسہ کے موقع پر ۴۰-۵۰ ہزار آدمی باہر سے آتا ہے.تو چند ہی سال میں تم دیکھو گے کہ انشاء اللہ لاکھ ، ڈیڑھ لاکھ ، دولاکھ ، اڑھائی لاکھ، تین لاکھ ، چار لاکھ ، پانچ لاکھ ، دس لاکھ پندرہ لاکھ بلکہ میں لاکھ بھی آئے گا اور بیس لاکھ آدمی آئے اور اس وقت جو جلسہ پر خرچ ہوتا ہے اسی نسبت سے خرچ لگایا جائے تو پانچ لاکھ روپیہ خرچ آئیگا اور اگر باہر والا خرچ لگایا جائے ایک کروڑ سے بھی زیادہ خرچ ہوگا کیونکہ ہر مہمان نے چار دن کھانا کھانا ہے.تین دن بھی کھانا کھائے تب بھی چھ وقت کا کھانا دینا ہوگا اور اگر ایک ایک روپیہ فی وقت بھی خرچ لگایا جائے تو تین دن کا خرچ چھ روپیہ فی کس بنتا ہے.اور اگر ایک لاکھ آدمی جلسہ پر آئے تو چھ لاکھ روپیہ خرچ ہوا، اگر ڈیڑھ لاکھ آدمی آئے تو 9 لاکھ روپیہ خرچ ہوا لیکن موجودہ شرح کے لحاظ سے تو چھ لاکھ آدمی آئے تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ میں کام بن
248 جائے گا.ایک لاکھ آدمی آئے تو ستر اسی ہزار روپیہ میں گزارہ ہو جائیگا الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۵۶ ء صفحه ۳) حضور اپنی تعلیمی حالت بیان کرتے ہوئے ریاضی میں کمزور ہونے کا بھی ذکر فرمایا کرتے تھے مگر رواروی میں اس طرح زبانی حساب بڑی مہارت اور تیزی سے کیا کرتے تھے دل کھول کر مالی قربانی کی ہزاروں لاکھوں مثالوں میں سے دو پُر لطف مثالیں درج ذیل ہیں.اخبار سیاست کے کسی گمنام مضمون نویس نے لکھا کہ ”آئے دن چندے دیتے دیتے قادیانی مرید بھی کچھ تھک سے گئے ہیں اس پر جماعت کے بہت سے مخلص احباب نے جو پہلے ہی اپنی طاقت اور ہمت سے بہت بڑھ چڑھ کر ایک لاکھ چندہ کی تحریک میں حصہ لے رہے تھے دشمنوں اور حاسدوں کے غلط خیالات کا عملی جواب دینے کے لئے اور ایثار دکھانا شروع کر دیا چنانچہ ایک صاحب نے حضور کولکھا :- بندہ نے ۴.اپریل ۱۹۲۵ء کے اخبار الفضل میں سیاست کے بودے اعتراضات پڑھے جن کو ایک عظمند نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے...احمدی احباب تھک نہیں گئے بلکہ استقامت سے اپنے فرض منصبی کو ادا کر رہے ہیں لہذا مبلغ ایک سو روپیہ بندہ اپنے حساب سے زائد ایک لاکھ کی تحریک میں نقد ارسال کرتا ہے تا کہ دشمنوں کو معلوم ہو جائے کہ احمدی چندوں سے ہرگز نہیں تھکتے بلکہ اگر امام وقت حکم فرما ئیں کہ جانیں حاضر کرو تو بغیر حیل و حجت کے حاضر ہو جاویں.“ ( الفضل ۲۱.اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۲ ) جماعت کے امیر و متمول افراد مسلسل مالی قربانی کے جہاد میں پیش پیش تھے لیکن ایسے لوگ جن کے ہاں مال و دولت کی ریل پیل نہیں تھی اپنے اخلاص کی وجہ سے کسی سے پیچھے نہیں تھے کاٹ کاٹ کر قربانی دینا“ یہاں محاورہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے.ملک محمد الطاف حسین صاحب احمدی سکنہ ترناب ضلع پشاور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھتے ہیں.بوقتِ تحریک ایک لاکھ چندہ میں میں نے ایسی حالت میں دس روپے کا وعدہ لکھ دیا جبکہ ۲ اکتوبر ۱۹۱۴ ء سے علاقہ ہذا میں میری زرعی اراضی اور کاروبار وثیقہ نویسی بوجہ شدید مخالفت بند ہے.دس روپیہ چندہ موعودہ میں سے پانچ روپیہ
249 پہلے ادا کر چکا ہوں مزید پانچ روپیہ کے لئے دل نے بوجہ تنگ دستی تساہل اختیار کیا مگر ایک ماہ کی مزید میعاد کے اندر ہر وقت بوقت نماز تہجد دل شرمندہ ہو کر کہتا کہ کہیں سے قرض لے کر ادا کر دوں.تا وعدہ شکنی پر اللہ کریم ناراض نہ ہو مگر حالات امتحانی تھے کہ کچھ انتظام نہ ہو سکا.اسی اثناء میں متواتر تین رات تہجد پڑھتے وقت حضور کی پیاری شکل ممبر پر رونق افروز ہو کر تحریک کا نظارہ اچانک اندھیری رات میں آنکھوں کے سامنے آ جاتا.آج صبح میں نے اپنے اضطراب کا ذکر اپنی بیوی سے کیا تو اس نے کہا چھوٹے بچوں کے عید کے کپڑوں کے لئے اور تین روپے آٹے کے لئے گل دس روپے کا نوٹ ہے.ان میں سے پانچ روپیہ آج ہی بقایا چندہ میں ۳۰.جون سے پیشتر بھیج دو.اس لئے اللہ کریم کا شکر گزار ہوں کہ باوجود اس قد ر ابتلاء اور تنگ دستی کے اس نے اپنے فضل سے یہ توفیق بخشی.قبول فرما کر دعا فرما دیں.“ (الفضل ۱۸.جولائی ۱۹۲۵ء صفحه ۲ ) حضرت فضل عمر جماعت کی مالی قربانی کو بے مثال قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:." کہا گیا ہے کہ ایک پارسی نے ایک لاکھ روپے چندہ دیا ہے اور اس پر بڑے فخر کا اظہار کیا گیا ہے حالانکہ اس میں فخر کی کونسی بات ہے ہماری جماعت میں بہت سے ایسے آدمی ہیں جنہوں نے لاکھ لاکھ روپے سے زیادہ کی مالی قربانی کی ہے مثلاً چوہدری ظفر اللہ خانصاحب کو ہی لے لو.انہوں نے مجھے اپنی زمیں کا ایک حصہ بطور نذرانہ پیش کیا تھا تا کہ میں اپنا علاج کراسکوں میں نے وہ زمین تحریک جدید کو دے دی اور وہ ڈیڑھ لاکھ میں کی.اب دیکھ لو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تاجر نہیں وہ پارسی تو تاجر ہوگا اور اس کی آمد چوہدری ظفر اللہ خانصاحب سے یقیناً بہت زیادہ ہوگی.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تو ملازم ہیں اور انکم ٹیکس ادا کرنے کے بعد ان کی تنخواہ میں سے دو ہزار یا اکیس سو ماہوار بچتے ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے ڈیڑھ لاکھ روپیہ تک ایک ہی وقت میں دے دیا.اسی طرح میں نے ایک دفعہ حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ میں نے جو چندے اور عطیے جماعت کو دیے ہیں ان کو ملایا جائے تو دو لاکھ ستر ہزار کے قریب رقم بنتی ہے اگر انہیں ایک تاجر نے ایک لاکھ روپیہ دے دیا ہے تو اس میں فخر کی کونسی
250.....چوہدری صاحب کا چندہ باقی متفرق مدات کو ملا کر اڑھائی لاکھ بات ہے.بن جاتا ہے.ہماری جماعت کے افراد جس قدر مالی قربانیاں کر رہے ہیں اس کی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی ایک آدمی پندرہ بیس روپے کماتا ہے اور اس رقم میں اس کا گھر کا گزارہ بھی نہیں چل سکتا وہ خود فاقے رہتا ہے لیکن روپیہ ڈیڑھ روپیہ چندہ دے دیتا ہے.“ مکرم عبد الحق صاحب رامے جو لمبا عرصہ کراچی کے بہت کامیاب سیکرٹری مال رہے اور بعد میں مرکز میں ناظر بیت المال کی ذمہ داری ادا کرتے رہے وہ حضور کی پر اثر مالی تحریکات کے متعلق لکھتے ہیں :- " حضور کی زبان کے اثر کے متعلق ہر احمدی اپنے نفس میں غور کر سکتا ہے کہ جب بھی حضور کی طرف سے کوئی آواز بلند ہوئی ، دل یہی کہتا تھا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حضور کی تحریک پر لبیک کہی جائے.حضور کے الفاظ دل کی گہرائیوں میں اُترتے چلے جاتے تھے اور لوگوں کو دیوانہ وار اپنی طرف کھینچ لیتے تھے.چنانچہ حضور کی اس خدا داد طاقت گویائی نے جماعت کو مالی قربانیوں کے معیار کو بلند کرنے میں ہمیشہ جادو کا کام کیا اور حضور کی ہر تحریک توقع سے بہت بڑھ کر کامیاب ہوئی.جن کی تفصیل بیان کرنا تحصیل حاصل ہے.حضور کی بے شمار تقاریر اور تحریریں ایسی ہیں جنہوں نے احباب کے دلوں میں ان مٹ نقوش چھوڑے اور جماعت کو خدائی راہ میں والہا نہ آگے قدم بڑھانے کے لئے مدہوش کر دیا.انجمن کی مالی مشکلات اور کارکنوں کو باقاعدہ الاؤنس نہ مل سکنے کا ذکر کرنے کے بعد حضور نمائندگان مجلس مشاورت کو مالی قربانی میں اضافہ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں.یہاں جو انجمن کے کارکن ہیں وہ نہ سودی لین دین کر سکتے ہیں اور نہ 66 قرض لے سکتے ہیں.ان کی تنخواہوں کا ایک سال تک رک جانا یا دفاتر کے سائر اخراجات نہ ملنا اور اس وجہ سے کاموں کا رک جانا خوشگوار نتائج پیدا نہیں کرسکتا اور بظاہر وہی نظارہ پیدا ہوسکتا ہے (سوائے اس کے کہ خدا تعالی مدد کرے) جو حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے ایک ریاست میں دیکھا انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو رات کو سرکاری وردی پہن کر پہرہ دیتا ہے اور دن کو بھیک مانگتا ہے انہوں نے اس سے پوچھا تمہارے اس طریق عمل کا کیا مطلب ہے؟ اس نے کہا میں
251 سرکاری ملازم ہوں مگر دو سال سے مجھے تنخواہ نہیں ملی نہ ملازمت سے علیحدہ کیا جاتا ہے.ایسی حالت میں بھیک نہ مانگوں تو اور کیا کروں....بظاہر ہماری مالی حالت اسی مقام پر پہنچی ہوئی نظر آ رہی ہے.ہم اپنے جاری شدہ کاموں کو بند نہیں کر سکتے.اگر ہم نے اس طرف قدم اٹھایا تو پھر ہمارا کوئی ٹھکا نانہیں رہ سکتا.جب ہم کسی ایک کام کو غیر ضروری قرار دے کر ترک کر دیں گے تو دوسرا کام اس سے بھی زیادہ غیر ضروری نظر آئیگا.پس ہمارے لئے یہ طریق بھی کھلا نہیں اور نہ ہم اسے اختیار کر سکتے ہیں....ہمارے لئے ایک ہی رستہ کھلا ہے اور وہ یہ کہ ہم زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں اور باقاعدہ کریں رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ صفحه۱۰۰) ۱۹۴۴ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر حضور جماعت کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :- ہزاروں لوگ ہماری جماعت میں ایسے تھے جن کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش ! وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہوتے اور ان کو آپ سے ملنے اور باتیں کرنے کا موقع ملتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.مجھے چونکہ خدا نے رسول صلی اللہ دی اورمسلم کا بروز قرار دیا ہے اس لئے صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا ، وہ شخص جس نے مجھ کو پا لیا اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایسے سامان پیدا کر دیگا کہ وہ صحابہ سے جاملے گا.میں گذشتہ ایام میں اپنے ایک خطبہ کے ذریعہ واضح کر چکا ہوں کہ صحابہ سے ملنے کے معنے رسول کریم صلی الشماید آل وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے نہیں ہیں بلکہ صحابیت کا مقام حاصل کرنے میں خود انسان کے اعمال کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہادی اور مسلم کے بعد آنیوالوں میں سے کئی ایسے لوگ ہیں جو گو رسول کریم صل اللمادر ای میل کو نہیں دیکھ سکے تھے مگر انہوں نے ایسے رنگ میں اعمال کئے جن سے ان کی اس کو تا ہی کا کفارہ ہو گیا اور با وجود اس کے رسول کریم صلی اللہادی اور مسلم سے وہ جسمانی طور پر نہیں ملے تھے خدا تعالیٰ نے روحانی طور پر آپ سے ملا دیا اور اس طرح آپ کے صحابہ میں وہ شامل ہو گئے.
252 غرض اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں بہت سے لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں یہ خواہش تھی کہ کاش وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھتے اور اس طرح صحابیت کا مقام حاصل کر سکتے.یہ رستہ کھول دیا کہ اس نے میری زبان پر یہ الہام جاری فرما دیا کہ اَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ مَثِيْلُهُ وَخَلِيفَتُهُ.میں ہی مسیح موعود ہوں اور مسیح موعود کا مثیل اور اس کا خلیفہ ہوں.مثیلہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے جہاں اس امر کا اظہار فرما دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میری ہی ذات سے وابستہ ہیں.وہاں تم میں سے ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں میں صحابیت کا مقام حاصل کرنے کی تڑپ تھی اللہ تعالیٰ نے ایک اور دروازہ کھول دیا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ : - مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا اسی طرح وہ لوگ جن کا میرے ساتھ محبت اور اخلاص کا تعلق ہے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مختلف خدمات میں میرا ہاتھ بٹانے کی توفیق عطا فرمائی ہے ان کے متعلق بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جب مجھ کو پالیا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ سے جاملے.ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ افراد جو اس وسیع دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے متعلق خدا نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس زمانہ میں تلوار سے اسلام نہیں پھیل رہا بلکہ دلائل اور براہین کے ذریعہ پھیل رہا ہے اور دلائل اور براہین کے ذریعہ ہمیشہ آہستہ آہستہ لوگ سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے صحابیت کے ظل اور اس کے سایہ کو لمبا کر دیا ہے.تا کہ ایک عرصہ دراز تک دنیا اس نعمت سے مستفیض ہوتی رہے اور صحابیت کے فیض سے مستفیض ہونے والے لاکھوں افراد دنیا میں اسلام اور احمدیت کو پھیلاتے رہیں ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ صفحه ۵،۳ ) ۱۹۴۶ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر فرمایا: - دوسری بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اب دنیا کے لئے ایک خطرناک زمانہ آ رہا ہے ایک پیشگوئی کے بعد دوسری پیشگوئی پوری ہو رہی ہے اور آخری اور خطرناک صورتیں اب دنیا میں ظاہر ہونے
253 والی ہیں.ان خطر ناک اوقات میں اگر کوئی جماعت لوگوں کے لئے مفید کام کر سکتی ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہی ہے.صرف ایک ہماری جماعت ہی ہے جس کا ایثار محض خدا کے لئے ہوتا ہے اور جس کے سامنے کوئی ذاتی مقصد نہیں جس کے لئے وہ دنیا میں نیک تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے بلکہ اس کا مقصد محض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم ہوا اور اس کا جلال لوگوں پر ظاہر ہو.ایسے وقت میں اگر ہم اپنے فرائض سے کوتا ہی کرینگے تو یہ امر دنیا کی تباہی کا موجب ہوگا اور اگر ہم اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرینگے تو دنیا کی آئندہ اصلاح کے ہم بانی ہونگے اور جو عظیم الشان تغیر پیدا ہوگا اس کے ثواب کے حقدار ہو نگے.اس وقت ہم ایک ایسے نازک مقام پر ہیں کہ ذراسی سستی اور غفلت کے ذریعہ ہم خدا تعالیٰ کو ناراض کر نیوالوں میں بھی شامل ہو سکتے ہیں اور اپنے فرائض ادا کر کے ہم خدا تعالیٰ کی بہترین مخلوق بھی بن سکتے ہیں.ہم سے بہتر موقع شاید ہی کسی قوم کو ملا ہو.یہ وہ زمانہ ہے جس کے فتنوں کی تمام انبیاء نے خبر دی ہے.ایسے زمانہ میں کام کر نیوالی قوم دنیا میں معمولی قوم نہیں سمجھی جاسکتی بلکہ ایک ایسی تاریخی یادگار کی حامل ہوگی کہ صرف دنیا کی زندگی تک اس کی شہرت قائم نہیں رہے گی بلکہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ بھی اس یاد گار کو بے تو جہی سے نہیں دیکھے گا اور اس زمانہ میں کام کرنے والوں کو ایسا مقام دیگا کہ دنیا حسد ورشک کی نگاہوں سے اسے دیکھے گی.پس یہ ایسا موقع نہیں جسے کوئی سمجھ دار شخص گنوانے کے لئے تیار ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں کمانے والے بھی ہوتے ہیں ، پیشہ ور اور صاحب فنون بھی ہوتے ہیں اور اسلام ان کا موں میں حصہ لینے سے روکتا نہیں مگر ایسے موقع پر اگر کوئی شخص اپنی ساری توجہ ان مقاصد کے لئے صرف کر دیتا ہے اور جس غرض کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو معبوث فرمایا گیا تھا اس کی طرف توجہ نہیں کرتا تو وہ دنیا کا ادنی ترین انسان ہے وہ جاہل سے جاہل انسان سے بھی بدتر ہے کیونکہ اس نے ایک ایسا قیمتی موقع کھو دیا جس کے لئے پاگل بھی تیار نہیں ہوسکتا.“ الفضل مورخہ ۱۰.اپریل ۱۹۶۲ء صفحہ ۲) جماعت کے سامنے بڑے بڑے کام اور اہم مقاصد ہیں ان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے
254 حضور فرماتے ہیں :- اب ہماری جماعت خدا کے فضل سے اتنی بڑھ چکی ہے اور اتنی طاقت پکڑ چکی ہے کہ اس کے پاس چندے کے علاوہ آمد کے اور بھی ذرائع ہیں اور وہ آمد خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال بڑھتی چلی جاتی ہے.چندے کے سارے روپے کو اشاعتِ اسلام پر لگا دینے کے باوجود پھر بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری دوسری آمدنیوں سے اتنا رو پیل سکتا ہے اور ملنا شروع ہو گیا ہے جس کے ذریعہ سے ہم اپنے ایسے حقوق پر جن کا ملنا جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے روپیہ خرچ کر سکتے ہیں اور ایسی سکیمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سامنے ہیں کہ جن کے بعد ہماری یہ ترقی خدا تعالیٰ کے فضل سے اور بھی بڑھ جائے گی.یہ تو ہزاروں کے خرچ پر شور مچاتے ہیں حالانکہ جو مقصد ہمارے سامنے ہے اور جس کام کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہزاروں کا بھی سوال نہیں اربوں ارب روپیہ خرچ آئے گا.ہم نے دنیا میں یو نیورسٹیاں بنانی ہیں ، کالج اور سکول بھی بنانے ہیں اور ہم نے دنیا میں مبلغین کا جال بھی پھیلانا ہے.ان کے لئے اربوں ارب روپیہ کی ضرورت ہوگی بلکہ ہم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی طاقت کے امیدوار ہیں کہ جس کا مقابلہ بڑی بڑی حکومتیں بھی نہ کر سکیں.چندے کی غرض صرف یہی نہیں ہوتی کہ روپیہ فراہم ہو جائے بلکہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انسان کے اندر احساس پیدا ہو جائے کہ اس کام کو پورا کرنا میرے ذمہ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۴۶ ء صفحه ۳،۲) ہے." چندے کے نظام کو وسیع کرنے اور نو مسلموں کو بھی مالی قربانی کی لذت سے آشنا کرنے کی تحریک کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.دینی لحاظ سے بے شک پاکستان کے لوگ دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں لیکن اگر انکے ساتھ ایک ایک ممبر نائیجیریا، گولڈ کوسٹ ،مشرقی افریقہ، ہالینڈ، جرمنی اور انگلستان وغیرہ ممالک کا بھی ہو تو کام زیادہ بہتر رنگ میں چل سکتا ہے.جب یہ لوگ یہاں آکر کام کریں گے تو باہر کی جماعتوں کو اس طرف زیادہ توجہ ہوگی اور
255 وہ سمجھیں گے کہ مرکز میں جو انجمن کام کر رہی ہے وہ صرف پاکستان کی جماعتوں کی انجمن نہیں بلکہ ہماری بھی انجمن ہے.پس چندوں کو زیادہ کرو اور ان طوفانوں سے مایوس نہ ہو بلکہ پہلوانوں کی طرح کام میں لگ جاؤ اور جہاں جہاں پانی خشک ہوتا ہو وہاں فوراً کھیتوں میں ہل چلا دو تا تمہاری آئندہ آمد نیں پہلے سے بھی بڑھ جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ چندے بھی بڑھ جائیں جب مرکز مضبوط ہو گا اور بیرونی مبلغین کو بھی خدا تعالیٰ اس بات کی توفیق دے گا کہ وہ نومسلموں سے چندے لیں تو سلسلہ تبلیغ وسیع ہو جائے گا.جب بھی دنیا میں کوئی مذہبی تحریک چلی ہے اس کے ابتدائی مبلغ اسی ملک کے ہوتے تھے.چنانچہ اسلام کے پہلے مبلغ عرب ہی تھے لیکن اس کے بعد ایرانی اور عراقی آگئے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت شروع کی.حضرت معین الدین صاحب چشتی ، شہاب الدین صاحب سہروردی ، بہاء الدین نقشبندی سب دوسرے ممالک کے تھے جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اسلام کی بڑی خدمت کی.حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد بھی ۶۰-۵۰ سال تک عیسائیت کو پھیلانے والے ان کے اپنے علاقے کے ہی مبلغ تھے لیکن بعد میں اور علاقوں میں بھی مبلغ پیدا ہو گئے اور آپ کے سو سال کے بعد تو سارے مبلغ اٹلی کے ہی تھے.پھر اور انگلینڈ سے بھی کئی مبلغین اشاعت عیسائیت کے لئے آگے آگئے پس جب تک مبلغین نومسلموں کو چندہ دینے کی عادت نہیں ڈالیں گے یہ کام لمبے عرصہ تک نہیں چل سکتا.“ ( الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۵۵ء صفحه ۴ ) بیت المال کے وسیع کثیر المقاصد نظام کو دیانتداری سے جاری رکھنے کی تو فیق پانے کے لئے دعا کی تحریک کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیانت سے کام کرنے کی توفیق دے.دشمن تو اب بھی اس بات کا قائل ہے کہ ہم نہایت دیانتداری سے کام کر رہے ہیں لیکن قوموں میں بعض افراد بد دیانت ہوتے ہی ہیں.حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ اور حضرت علی کتنے پاکیزہ اور دیانتدار لوگ تھے لیکن ان کی نسلوں میں بھی چور، ڈاکو اور خائن پائے جاتے ہیں.وہ اپنی ذات میں نہایت متقی اور ایمان والے لوگ تھے ، وہ دوسروں کے روپیہ کی حفاظت کرنے والے تھے لیکن اب ان کی
256 اولا درا ہرن ہے اور دوسروں کے مالوں کو نا جائز طور پر اپنے تصرف میں لے آتی ہے.پس مجھے ڈر ہے کہ ہماری اولادوں میں سے بھی کہیں چور، ڈاکو اور خائن لوگ پیدا نہ ہو جائیں جو سلسلہ کے روپیہ کی حفاظت نہ کرسکیں.ہم جماعت کا بجٹ اس طرح بنا ئیں کہ اس کا ایک ایک پیسہ صحیح طور پر خرچ ہو اور اس کے نتیجہ میں اسلام مضبوط ہو.پھر اس کام کی ہماری آئندہ نسلوں کو بھی توفیق ملے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کا یہ کریکٹر قائم رہے کہ دین کا جو روپیہ ان کے پاس آئے وہ بینک کے سیف سے بھی زیادہ محفوظ رہے وہ اس کا استعمال پوری عقل سے کریں اور اس میں سے ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہونے دیں.“ رپورٹ شور کی ۱۹۵۶ء صفحه ۴ ) حضور اس امر کی بہت سختی سے نگرانی فرماتے تھے کہ جماعت کا کوئی پیسہ ضائع ہو جائے ، غلط جگہ پر یا اسراف سے خرچ کو آپ بہت نا پسند فرماتے تھے:.مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان بیان کرتے ہیں کہ حضور پسند نہ فرماتے تھے کہ صدر انجمن احمدیہ کا روپیہ بے احتیاطی سے خرچ ہو...مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ نا صر آباد سندھ میں حضور موسم گرما میں تشریف لے گئے وہاں ٹھنڈا پانی نہیں ملتا تھا.حضور کی ہدایت کے مطابق ریلوے اسٹیشن کنجیجی سے جو تین میل کے قریب ہو گا ریل گاڑی سے دو پہر کو برف منگوائی جاتی تھی.عملہ دفتر نے بھی چند پیسوں کی برف اپنے لئے منگوانی شروع کی (حساب پیش ہونے پر) حضور نے اس خرچ کو کاٹ دیا لیکن اپنی طرف سے استعمال کے لئے برف بھجواتے رہے.یادر ہے کہ حضور چندوں کی وصولی کی غرض محض مال و دولت کا حصول ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ مالی قربانی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اخلاص اور ایمان کو زیادہ قیمتی، زیادہ کار آمد اور زیادہ نتیجہ خیز سمجھتے تھے.حضور فرماتے ہیں :- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب سے اہم چیز چندہ ہے نہ صرف اس لئے کہ اس سے روپیہ جمع ہوتا ہے بلکہ اس لئے بھی کہ یہ جماعت کے اخلاص اور اس کے جوش کو قائم رکھنے والی چیز ہے.وہ شخص جو چندہ دینے میں ستی سے کام لیتا ہے اس کا جوش اور اخلاص رفتہ رفتہ مرتا چلا جاتا ہے.پس جماعت کے خزانوں کو بھرنے کے لئے نہیں ، اپنے کاموں کو وسیع کرنے کے لئے نہیں بلکہ جماعت کے
257 اخلاص اور اس کے ایمان کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم چندہ کی وصولی پر زور دیں اور دیتے چلے جائیں.جب کسی قوم میں قربانی کی روح کمزور ہو جاتی ہے تو اس کا ایمان بھی کمزور ہو جاتا ہے اور وہ تنزل میں گر جاتی ہے.“ رپورٹ مشاورت ۱۹۴۵ء صفحہ ۲۸،۲۷) نظامت بیت المال کا مختصر ذکر سوانح فضل عمر جلد دوم میں ہو چکا ہے تا ہم حضور کی سیرت کے اس اہم پہلو کی ایک جھلک قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے بغیر تکرار کے جستہ جستہ کچھ ضروری امور یہاں بیان کر دیئے گئے ہیں.
259 محنت کی عادت حضور جو ضروری کام شروع فرماتے اس پر مسلسل غور وفکر جاری رکھتے ، ساتھ ساتھ ہدایات جاری فرماتے آپ کی یہ ضروری تاکید ہوتی تھی کہ کام کی رپورٹ ساتھ کے ساتھ ضرور ملتی جائے.اس مقصد کے لئے دن رات کا بھی کوئی فرق نہ ہوتا تھا.تحریک جدید کے آغاز میں حضور کی خدمت میں روزانہ کام کی رپورٹ پیش کی جاتی تھی.ایک دن متعلقہ کا رکن نے اپنی رپورٹ تو تیار کر لی مگر یہ دیکھتے ہوئے کہ حضور رات گئے تک مصروف رہے ہیں بے وقت رپورٹ پیش کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے گھر چلے گئے.حضور نے اپنے معمول کے مطابق بستر پر جانے سے قبل اپنے دن بھر کے کاموں کا جائزہ لیا تو آپ کو یاد آیا کہ آج آپ کی خدمت میں تحریک جدید کے کام کی رپورٹ پیش نہیں ہوئی.اس پر رات گئے کسی کارکن کو متعلقہ کارکن کے ہاں بھجوا کر اسے بلوایا گیا اور رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا.رپورٹ ملاحظہ فرمانے اور اس پر اپنی ہدایات دینے کے بعد حضور آرام فرمانے کے لئے تشریف لے گئے.یہ ایک الگ بات ہے کہ رات کا اکثر حصہ گزر جانے کی وجہ سے حضور نے بستر پر آرام فرمایا ہوگا یا مِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدُبِہ کے مطابق آخر شب کی عبادت کے لئے اللہ کے حضور حاضر ہو کر قلب وروح کا سکون حاصل کیا ہوگا.۱۹۴۶ء کے عام انتخابات بہت اہمیت کے حامل تھے ان انتخابات کے نتائج پر پاکستان کے قیام اور مسلمانوں کے بہتر مستقبل کا انحصار تھا.اس مقصد کے لئے حضور نے دن رات رضا کاروں کے کام کی نگرانی فرمائی ، موقع کے مطابق ساتھ ساتھ ہدایات جاری فرمائیں ، کام کی رپورٹیں مسلسل دن ہو یا رات آپ کی خدمت میں پیش ہوتی تھیں اور آپ کے ساتھ کام کرنے والوں کیلئے یہ امر ہمیشہ ہی باعث حیرت رہا کہ دن رات میں حضور آرام کس وقت فرماتے ہیں؟ ۱۹۳۴ء میں جب قادیان میں بعض مخالف مولویوں اور انگریز حکومت کے کارندوں کی ملی بھگت
260 سے ایسی صورت پیدا کر دی گئی کہ مخالف تو علی الاعلان جوق در جوق آئیں اور فساد و تخریب کی غرض سے مرکز احمدیت قادیان میں اپنی کا نفرنس منعقد کر سکیں اور احمدی اپنے مرکز کی حفاظت کی خاطر بھی قادیان نہ جاسکیں.تو حضور نے امن پسندی اور قانون کی متابعت و پیروی کے اپنے عام طریق پر نہ صرف یہ کہ حکومت وقت کی کوئی مخالفت نہ کی اور قانون اپنے ہاتھ میں نہ لیا بلکہ قادیان کے احمدیوں کو اس کانفرنس میں شامل ہونے یا ان راستوں کو بھی استعمال کرنے سے روک دیا جنہیں شر پسند لوگ استعمال کر رہے تھے اور جو اس کوشش اور خواہش میں قادیان آئے تھے کہ وہ اپنی اشتعال انگیزی اور دہشت گردی سے قادیان کی پُر امن فضاء کو زہر آلود کر سکیں گے.یہ ایسے حالات تھے کہ ان میں قادیان کے احمدی باشندوں میں سے شاید ہی کوئی آرام کی نیند سویا ہو.ہر شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی ڈیوٹی پوری مستعدی سے ادا کر رہا تھا.اس زمانے کے حالات جہاں بھی اور جس نے بھی بیان کئے ہیں ان میں یہ بات نہایت نمایاں طور پر بیان کی گئی ہے کہ ان دنوں حضور مسلسل دن رات ہدایات دینے اور رپورٹیں وصول کرنے میں مصروف رہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ رات گئے کارکنوں کی مستعدی اور فرض شناسی کا جائزہ لینے کے لئے اور کوئی نہیں بلکہ خود ہمارے پیارے امام ہر ضروری جگہ پر تشریف لے جاتے اور نہ صرف کارکنوں کی ذمہ داری کا جائزہ لیتے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان میں جرات ، بہادری اور قربانی کا ایک نیا ولولہ اور جذبہ پیدا فرما دیتے.قادیان سے ہجرت کا وقت جماعت کی نئی پیدائش کا وقت تھا جتنے گھمبیر اور مشکل مسائل کا اجتماع اس وقت ہوا وہ کبھی کم ہی ہوا ہو گا.حضور نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے حوصلے بلند رکھے ، ان کی اور ان کے اہل وعیال کی نگہداشت کا اہتمام فرمایا ، لٹے پٹے مہاجرین کو بسانے کے لئے دن رات ایک کر دیا ، جماعت کے ہر فرد کے لئے ایک سایہ رحمت بن گئے پاکستان کے استحکام وسر بلندی کے لئے نہایت بر وقت رہنمائی فرمائی اور عملاً اس کام میں لگ گئے.قادیان کے مہاجر ایک عالم بے بسی میں ادھر ادھر سر چھپانے کی کوشش کر رہے تھے.جماعت کے رہبر اور پر عزم امام نے ان میں زندگی کی روح پھونکنے کے لئے ایک نئے مرکز کے قیام کا ڈول ڈالا اور اب آپ کی ساری توجہ اور کوششوں کا مرکز ، یہ منصوبہ بن گیا.زمین کی تلاش ، اس سلسلہ میں ضروری کوائف کی فراہمی حکومت سے مسلسل رابطہ موزوں زمین کی خرید وفرا ہمی ، اس بارہ میں پیش آنے والی تمام مشکلات کا مقابلہ حکومت کی طرف سے پیدا کی جانے والی روکوں کا ازالہ نئی بستی
261 کی تعمیر کے سارے مراحل اس حسن و خوبی اور محنت و توجہ سے طے فرمائے کہ : - اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے جو ایک عرصہ تک حضور کے پرائیوٹ سیکرٹری کے طور پر خدمت بجالاتے رہے اپنی ایک یادداشت میں لکھتے ہیں.چونکہ حضور کی مصروفیات بے اندازہ تھیں بعض دفعہ اہم مرافعات میرے چارج لینے پر.مجھے ملے حضور کو وقت نہ ملتا تھا.میں نے یہ ترکیب نکالی کہ پنشنوں کے مرافعات میں صدر انجمن کا نقطہ نظر اور مرافعہ کنندہ کا نقطۂ نظر نہایت مختصر لکھ کر ملاقاتوں کی فہرست والے رجسٹر کے ساتھ ایک ایک کر کے بھیج دیتا اور حضور اس پر فیصلہ رقم فرما دیتے.اسی طرح ایک میاں بیوی کے مقدمہ کا مرافعہ بھی اسی رنگ میں پیش کر کے فیصلہ کرایا تھا.حضور مکان کی بنیا درکھنے ولیمہ یا رخصتانہ کی تقریبات یا کسی مبلغ وغیرہ کی آمد کے سلسلہ میں تشریف لے جاتے تو خاکسار اس آمد و رفت کے وقت کو غنیمت جان کر ، یا لاہور کے سفر آمد و رفت میں اگر حضور کے ہمراہ بیٹھنے کا موقع ملے ) ضروری امسلہ اور کاغذات پیش کر کے ہدایات حاصل کر لیتا تھا.ایک دفعہ کا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قادیان سے لاہور تک خطوط وغیرہ پیش کئے اور ان ہدایات کے صاف لکھنے پر میرے کئی گھنٹے صرف ہوئے.خبار الفضل حضور کی مصروفیات کے سلسلہ میں رقم طراز ہے: حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ کی مصروفیت کا اُن دنوں یہ عالم تھا کہ آپ علاوہ روزانہ کاموں کو سرانجام دینے کے نماز عشاء کے بعد سے ایک ایک بجے رات تک اور صبح کی نماز سے نو بجے تک مختلف جماعتوں سے ملاقات فرماتے رہتے تھے.یہ آپ کے روزانہ فرائض کے علاوہ تھا.جلسہ کے موقع پر جو عظیم الشان تقاریر آپ نے فرمائیں ان کے لئے نوٹ لکھنا، ملاقاتوں میں جماعتوں کی راہنمائی کے لئے مختلف امور سلسلہ کے متعلق ہدایات دینا، احباب کے ذاتی اور ضروری معاملات کے متعلق مشورے دینا، یہ ایک ایسا اہم اور گراں فرض ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے.محض مصافحہ کرنا بھی ایک بڑا کام ہو جاتا
262 ہے، اور انسان کو اکتا دینے والا شغل ہو سکتا ہے، لیکن باوجود بیمار ہونے کے، با وجود اس مصروفیت کے جو ایام جلسہ سے پہلے سیدہ امتہ الحئی صاحبہ کی علالت کے باعث تھی، اور واپسی سفر سے اب تک سلسلہ کی عام مصروفیتوں میں جس قدر تکان ہو سکتی ہے وہ نمایاں ہے، لیکن یہ انتھک وجود اپنے اس طرز عمل سے قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کا ثبوت دیتا رہا.یہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہی ہے جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ہاتھ تھامے ہوئے ہے ورنہ ایک دنیاوی انسان ہرگز ہرگز اس بارگراں کا متحمل نہیں ہو سکتا.لیکن باوجود اس مصروفیت کے حضور کو مہمانوں کے آرام و آسائش کا اس قدر خیال تھا کہ آپ روزانہ انتظام جلسہ کے متعلق با قاعدہ رپورٹ لے کر منتظمین جلسہ کوضروری ہدایات فرماتے تاکہ کسی مہمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے الفضل ۶ /جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۴ ) حضور کے مندرجہ ذیل بیان سے بھی حضور کی غیر معمولی مصروفیات کا اندازہ ہوسکتا ہے:.میں ہمیشہ عام طور پر جلسہ کی تقریروں کے نوٹ دوران جلسہ میں لیا کرتا ہوں چونکہ فرصت نہیں ہوتی اس لئے میرا قاعدہ ہے کہ سفید کاغذ تہہ کر کے جیب میں رکھ لیا کرتا ہوں اور دوسرے کاموں کے دوران میں جو وقت مل جائے اس میں کا غذ نکال کر نوٹ کرتا رہتا ہوں.مثلاً ڈاک دیکھ رہا ہوں دفتر والے کاغذات پیش کرنے کے لئے لانے گئے اور اس دوران میں میں نوٹ کرنے لگ گیا یا نماز کے لئے تیاری کی سنتیں پڑھیں اور جماعت تک جتنا وقت ملا اس میں نوٹ کرتا رہا.اس طرح میں یہ تیاری پندرہ سولہ دسمبر سے شروع کر دیا کرتا تھا اور قریباً ۲۲ ۲۳ دسمبر تک کرتا رہتا اور اس کے بعد دوسرے کاموں سے فراغت حاصل کر کے نوٹوں کی تیاری میں لگ جاتا لیکن ان کو درست کر کے لکھنے کا کام میں بالعموم ۲۷، ۲۸ کو کرتا تھا اور اس کے لئے وقت انہی تاریخوں میں ملتا تھا.اس وجہ سے طبیعت میں کچھ فکر بھی رہتا تھا کہ صاف کر کے لکھ بھی سکوں گا یا نہیں.لیکن اس دفعہ قرآن کریم کی تفسیر کا کام رہا اور اس کیلئے وقت نہ تھا.۲۲ کی شام کو ہم تفسیر کے کام سے فارغ ہوئے ،۲۳ کو بعض اور کام کرنے تھے وہ کئے ،۲۴ کی شام کو
263 نوٹوں کا کام شروع کیا اور فکر تھا کہ یہ کس طرح کروں گا مگر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ نوٹوں کی تیاری میں بہت آسانی ہو گئی.حوالے وغیرہ بہت جلد جلد ملتے گئے اور ۲۵ کی شام کو تینوں لیکچروں کے نوٹوں سے میں فارغ ہو چکا تھا.یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مجھے زیادہ کوفت نہیں ہوئی الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۴۱ء صفحه ۱-۲) ایک اور موقع پر حضور نے فرمایا : - میری کئی راتیں ایسی گزری ہیں کہ میں نے رات کو عشاء کے وو بعد کام شروع کیا اور صبح کی اذان ہوگئی تم یہ کیوں نہیں کر سکتے.اب بھی میرا یہ حال ہے کہ میری اس قدرعمر ہو گئی ہے چلنے پھرنے سے میں محروم ہوں ، نماز کے لئے مسجد میں بھی نہیں جا سکتا، لیکن چار پائی پر لیٹ کر بھی میں گھنٹوں کام کرتا ہوں.پچھلے دنوں جب فسادات ہوئے میں ان دنوں کمزور بھی تھا اور بیمار بھی لیکن پھر بھی رات کے دو دو تین تین بجے تک روزانہ کام کرتا تھا.۶ ماہ کے قریب یہ کام رہا.جو لوگ ان دنوں کام کر رہے تھے وہ جانتے ہیں کہ کوئی رات ہی ایسی آتی تھی جب میں چند گھنٹے سوتا تھا.اکثر رات جاگتے جاگتے کٹ جاتی تھی.نوجوانوں کے اندر تو کام کرنے کی اُمنگ ہونی چاہئے“ (الفضل ۹ رفروری ۱۹۵۵ء) کام کی لگن اور محنت کی وجہ سے حضور کی استعدادوں میں خاص جلا پیدا ہو گئی تھی جس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- فکر کا ایک مقام ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک وقت میں دو دو تین تین کاموں میں مشغول رہتا ہے.نماز بھی پڑھ رہا ہوتا ہے اور قوم کے کاموں میں بھی مصروف ہوتا ہے.مجھے کئی دفعہ لوگ ملنے کے لئے آتے ہیں میں بعض کا غذات دیکھ رہا ہوتا ہوں وہ خاموش ہو جاتے ہیں تا میں اپنے کام سے فارغ ہو جاؤں لیکن میں انہیں کہتا ہوں کہ بات کریں میں آپ کی بات بھی سنتا جاؤں گا اور اپنا کام بھی کرتا جاؤں گا اور یہ چیز میرے لئے ممکن ہوتی ہے میں کھانا کھاتے ہوئے بھی سوچ رہا ہوتا ہوں ، پانی پیتے ہوئے بھی سوچ رہا ہوتا ہوں ، پیشاب کرتے
264 وقت بھی سوچ رہا ہوتا ہوں، پاخانہ کرتے وقت بھی سوچ رہا ہوتا ہوں ،طہارت کرتے وقت بھی سوچ رہا ہوتا ہوں غرض کوئی وقت مجھے ایسا نظر نہیں آتا جب میرا دماغ فارغ ہو یا میرا دماغ فارغ ہونا چاہیئے یا میرا دماغ فارغ ہو سکے ( الفضل ۷ رمئی ۱۹۵۰ء صفحه ۳) آپ کے ساتھ کام کرنے والوں کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ صلاحیت بخشی تھی کہ آپ ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیکرٹریوں کو خطوط کے جواب ، مسائل کا حل اور انتظامی امور کے متعلق ہدایات تحریر کرواتے جاتے تھے.مشکل اوقات میں جب زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی تو اللہ تعالیٰ کی تائید بھی عام حالات - زیادہ ہوتی.حضور اس ایمان افروز تجربہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” جب کبھی کوئی مشکل وقت مجھ پر آیا ہے اس وقت میں نے اپنے اندر بہت زیادہ قوت پائی ہے.باوجود اس بیماری کے جو اس سفر میں ہوئی.میں نے اس بیماری کی کوئی پرواہ نہ کی اور برابر کام میں لگا رہا لیکن میں بیروت اور شام کے درمیان دوران سفر میں ایک دن کام نہ تھا تو ایسی حالت ہوئی کہ میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے اور غشی تک نوبت پہنچ گئی.میں نے دیکھا ہے جتنا کبھی کام بڑھا ہے اتنی ہی زیادہ خدا تعالیٰ نے طاقت دے دی ہے.پس مشکلات کوئی چیز نہیں اگر خدا تعالیٰ پر بھروسہ اور یقین ہو تو مشکلات کمزور نہیں کرتیں بلکہ طاقتور بناتی ہیں.میں کبھی مشکلات سے نہیں گھبراتا، نہ مجھے یہ خوف ہے کہ آپ لوگوں کو ان کا سامنا کرنا پڑے گا اگر ڈر ہے تو یہی کہ تربیت اخلاص کو نہ لیجائے.اگر تم لوگ تربیت میں مکمل ہو جاؤ تو اخلاص میں کمی نہ آ جائے ، اور جب یہ دونوں باتیں حاصل ہو جائیں گی تو یورپ کا فتح کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ہوگا“ ( الفضل ۶ / دسمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۶ ) محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ عبادات اور جماعتی کاموں میں حضور کے انہاک کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں: حضرت ابا جان کی زندگی کے متعلق طبیعت پر یہ اثر تھا کہ یہ خدائی تصرف میں ہے اور بچپن سے ہی دماغ میں یہ خیال بسا ہوا تھا کہ آپ عام
265 انسانوں سے مختلف انسان ہیں جن کو اپنی ذات کا پتہ نہیں صرف کسی بالا ہستی کے اشاروں پر چل رہے ہیں.نہ اپنا وقت نہ اپنا آرام اتنی مصروفیت کہ حد تھی.آپ کا اٹھنا، بیٹھنا، سونا جاگنا صرف اور صرف خدمت دین محمد کے لئے وقف تھا.کھانے کا انتظار ہو رہا ہے ایک بجادو بجے تین بجے امی جان بھجوا رہی ہیں جاؤ اپنے ابا سے کہو کھانا تیار ہے جاتی تو ٹہلتے ہوئے قرآن مجید پڑھنے میں آپ کا انہماک اتنا زیادہ کہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ کوئی آیا ہے کہ نہیں.ہم نے کھڑے کھڑے واپس آ جانا اور امی جان سے کہہ دینا کہ ابا جان تو قرآنِ مجید پڑھ رہے ہیں پھر جانا پھر جانا آخر کچھ جرآت کر ہی لینی تو جواب ملنا چلو آ تا ہوں اس طرح کھانے کا وقت کہیں سے کہیں جا پہنچتا.رات کو گیارہ بارہ بجے کبھی اس کے بعد بھی کام سے فارغ ہو کر دفتر سے تشریف لاتے ، رات کو کوئی کسی وقت کبھی پر چہ لے کر آ رہا ہے کبھی کسی بیمار کو دوائی دینے کے لئے اٹھتے مگر کبھی بیزاری یا تھکان کا اظہار نہ کیا آپ کا ہر قول وفعل یہ کہہ رہا ہوتا کہ میں تو اسی لئے ہوں میں نے تو یہی کرنا ہے.میں ہمیشہ سوچتی ابا جان رات سوتے کس وقت ہیں، ہم سوتے ہیں تو جاگ رہے ہوتے ، جاگتے ہیں تو بھی جاگ رہے ہوتے ہیں.فجر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر سونے کی ضرور عادت تھی.تکیوں کے نیچے رقعے ہی ہوتے جو رات کو ملتے اور پڑھ کر رکھ دیئے جاتے زیادہ تر دعایا دوائی والے رقعے ہوتے.(إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحاً طَوِیلا کی کتنی پیاری تعمیل ہے !!!!) محترمہ صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ حضور کی بعض مصروفیات کے ذکر میں تحریر فرماتی ہیں: حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ سارا دن کام میں مشغول رہنے کے علاوہ رات کو دو دو بجے تک کام کرتے رہتے ہیں.آپ کی ڈاک ہر روز کم و بیش اڑھائی تین سو خطوط پر مشتمل ہوتی ہے اور آپ ہر خط کو اس سُرعت سے پڑھتے ہیں کہ انسان محو حیرت ہو جاتا ہے.بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ سرسری نظر سے خطوط ملاحظہ فرما رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضور کو ہر خط کے مضمون کا پورے طور پر علم ہوتا ہے.ایک دفعہ کا ذکر.
266 ہے.پرائیوٹ سیکرٹری صاحب نے ایک خط پیش کیا جس میں خط لکھنے والے نے لکھا تھا کہ ان کے کسی عزیز کو دیوانے کتے نے کاٹا ہے اور اس کے متعلق مشورہ طلب کیا گیا تھا.حضور نے فرمایا.اس خط کو آئے تو ایک ماہ گزر چکا ہے اور آپ اب پیش کر رہے ہیں.جب خط کی مہر دیکھی گئی تو واقعی اس کو آئے ہوئے ایک ماہ ہو چکا تھا.خطوط کے جواب کے متعلق حضور کا یہ طرز عمل ہے کہ خطوط کو پڑھ کر بعض فوری خطوط پر جواب لکھ دیتے ہیں.جن کو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب لکھ کر بھجوا دیتے ہیں.باقی ماندہ خطوط کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے اور حضور ان کا جواب لکھا دیتے ہیں.اس کے علاوہ مہمانوں سے ملاقاتیں کرنے اور نظارتوں کے کام میں کافی وقت خرچ ہوتا ہے.نہ صرف ناظر صاحبان وقتاً فوقتاً پیش آمده مشکلات پیش کر کے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں بلکہ بعض کا غذات حضور کی منظوری کے لئے پیش کئے جاتے ہیں.یہ سلسلہ ۱۰ بجے سے ایک بجے تک لگاتار چلتا ہے.پھر تصنیف کا کام ہے نیز حضور ہرفن اور ہر مذاق کی کتابیں بکثرت منگوا کر بالالتزام مطالعہ فرماتے ہیں.ان سب مصروفیات کے باوجود حضور گھر کی ہر بات کا خیال رکھتے اور ہر ایک کا حق باحسن طریق ادا فر ماتے ہیں“ ( الفضل ۲۸.دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۹) حضور اپنے ہاتھ سے ہر قسم کا کام بخوشی کر لیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہادی اور سلم کے اسوه حسنه كَانَ فِى مِحْنَةِ اَهله کے مطابق زندگی بسر فرماتے تھے اس سلسلہ میں محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحب لکھتی ہیں: آپ کو کسی کام سے عار نہیں تھا، سفروں میں برتن بھی دھو لیتے ، کپڑے بستر وغیرہ بچھواتے ، باہر سے سامان اٹھا کر لے آتے ،مہمانوں کو کھانا خود اُٹھا کر دیتے ، اپنے رومال بنیان جراب وغیرہ دھو لیتے.ایک دفعہ دفتر کے برآمدے میں کچھ سامان کھولا اور اس سے گند وغیرہ پھیل گیا اتنے میں کچھ ملنے والوں کی اطلاع ملی حضرت ابا جان نے میری ایک بہن سے کہا یہ صاف کروا دو تھوڑی دیر کے بعد آپ تشریف لائے دیکھا جگہ اسی
267 طرح گندی ہے.آپ نے پوچھا ابھی صاف نہیں کروائی.اس نے جواب دیا کوئی آدمی آ جائے تو کرواتی ہوں.فرمانے لگے تھوڑی دیر کے لئے تم ہی آدمی بن جاؤ پھر جھاڑو لے کر خود صاف کرنے لگے“ خود اپنے ہاتھ سے صفائی کرنے کا ذکر ایک اور واقعہ میں بھی ملتا ہے جب ایک غیر از جماعت دوست ملاقات کے لئے آئے تو انہیں جلد ملاقات کا وقت دینے اور تیاری کرنے کے لئے حضور خود بھی صفائی کرنے والوں میں شامل ہو گئے.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں : - پرائیویٹ سیکرٹری نے کہا کہ آج کل ملاقاتیں تو بند ہیں مگر وو چونکہ آپ خاص طور پر ملاقات کے لئے ہی آئے ہیں اس لئے میں اطلاع کرا دیتا ہوں انہوں نے مجھے اطلاع کی اُس وقت میری بیوی ایک خادمہ کے ساتھ مل کر کمروں کی صفائی کر رہی تھی اور گردو غبار اُڑ رہا تھا.میں نے خیال کیا کہ اگر برآمدہ میں بھی ہم بیٹھے تو مٹی اور گرد کی وجہ سے انہیں تکلیف ہوگی اس لئے بہتر یہی ہے کہ پہلے کمروں کی صفائی کر لی جائے چنانچہ میں نے انہیں کہا کہ کمروں کی صفائی ہو رہی ہے اور اس وقت گرد وغبار اڑ رہا ہے صفائی ہولے تو میں ان کو بلوا لوں گا.چنانچہ وہ چلے گئے اور میں نے ساتھ مل کر جلدی جلدی مکان کو صاف کیا اور پھر گھنٹی بجائی“ ( خطبه ۱۲ را پریل ۱۹۴۰ء الفضل ۲۱ را پریل ۱۹۴۰ صفحه ۱۱) حضور کی سوانح میں یہ امر بہت نمایاں ہے کہ آپ ہر کام غیر معمولی لگن اور جذبہ سے کرتے اور کئی کئی آدمیوں کے برابرا کیلے کام کرتے.حضرت مولوی شیر علی صاحب ” بے حد محنت کی عادت کے عنوان سے لکھتے ہیں: " حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ میں ایک بات یہ بھی پائی جاتی ہے کہ بے حد محنت اور مشقت سے کام کرنے والے انسان ہیں، اور باوجود کمزوری صحت کے دن رات سخت محنت سے کام کرتے ہیں.سفر یورپ میں حضور کے ہمراہ جن اصحاب کو جانے کا موقع ملا ، ان کا بیان ہے کہ اس سفر میں ان کو سخت محنت سے کام کرنا پڑتا تھا.مگر دن رات ایک کر دینے پر بھی یہ ڈر رہتا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تسلی نہیں ہوئی..
268 حضور رات کو دو دو بجے تک کام کرتے ہیں.بہت بڑی ڈاک زیادہ تر رات کو ہی پڑھتے ہیں کیونکہ دن کو دوسرے کاموں کی وجہ سے موقع نہیں ملتا.حضور ناظروں کے کام کی نگرانی کے علاوہ ان کے دفاتر کی بھی نگرانی رکھتے ہیں اور یہ نہایت ضروری سمجھتے ہیں کہ وقت کی پوری پابندی کی جائے.بعض اوقات حاضری کے رجسٹر کا بھی حضور نے معائنہ فرمایا.اگر کوئی کام بقایا میں رہ جائے اور اس کی تکمیل میں دیر ہو جائے تو بعض اوقات حضور ناظر اور اس کے عملہ کو حکم دیتے ہیں کہ اس وقت تک دفتر کھلا رکھیں جب تک کام پورا کر کے اس کی رپورٹ نہ بھیجیں.خواہ ساری رات دفتر کھلا رکھنا پڑے.رپورٹ کے انتظار میں خود بھی جاگتے رہتے ہیں ( الفضل ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۸) حضور نے مکرم مولانا عبد الرحمان صاحب انور کو تحریک جدید کے آغاز میں انچارج دفتر تحریک جدید مقرر فرمایا.بعد میں آپ کو ایک لمبا عرصہ بطور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری خدمات بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی.ان کے بیان کے مطابق حضور بالعموم اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے یہ امید رکھتے تھے کہ :.ا.جب حضور کسی امر کے متعلق ہدایات دے رہے ہوں تو حضور کے کلام کو قطع نہ کیا جائے بلکہ جب ساری بات ختم ہو جائے تو پھر اگر کسی امر کی تشریح کی ضرورت محسوس ہو تو صرف اس صورت میں کوئی بات دریافت کی جائے.۲.اگر میں چل رہا ہوں تو مجھ سے بات کرنے کی غرض سے میرے چلنے میں رُکاوٹ نہ پیدا کی جائے کہ میرا رستہ روکا جائے بلکہ ساتھ چلتے چلتے اپنی بات کی جائے..ملاقات کے لئے جس قدر وقت لیا جائے اس وقت میں کام کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی جائے.اگر مزید وقت کی ضرورت ہو تو یا تو اس وقت خاص اجازت لی جائے یا باقی کام کسی دوسرے وقت میں اجازت لے کر کیا جائے.۴.جس کام کے لئے وقت ملاقات کا لیا جاوے سب سے پہلے وہی کام پیش کیا جاوے نہ یہ کہ اس کام کو تو آخر میں رکھا جائے اور دیگر امور کو پہلے پیش کرنا شروع کر دیا جائے.۵.جس کام کے متعلق میں کہہ دوں کہ پھر پیش ہو تو اس کو جلدی ہی موقع حاصل کر کے
269 پیش کر دیا جائے نہ یہ کہ دوبارہ پیش کرنے کے لئے ہفتے یا مہینے لگا دیئے جائیں..اگر میں کسی کام کے متعلق کوئی ہدایت دوں کہ یہ کام اس طور پر کیا جاوے تو جو سمجھ میں آئے اس کے مطابق فوراً ہی اس کام کا خاکہ پیش کر دیا جائے تا کہ مجھے تسلی ہو کہ صحیح لائنوں پر یہ کام کیا جارہا ہے یا کچھ غلط نہی ہے اور اگر کوئی غلط نہی ہو تو اس کی فوراً اصلاح کر دی جائے.ے.اگر ملاقات کے لمبا ہو جانے کی وجہ سے نماز کا وقت آ جائے تو فوراً مجھے یاد دلا دیا جائے کیونکہ بعد میں مجھے اس احساس سے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ احباب کو مسجد میں نماز کے لئے اس وجہ سے انتظار کرنا پڑا (الفرقان فضل عمر نمبر دسمبر ۱۹۶۵، صفحه ۶۱ ۶۲ ) اللہ تعالیٰ نے حضور کے سپر د غیر معمولی کام کیا تھا تو اس کے لئے غیر معمولی استعدادیں بھی عطا فرمائی تھیں.واقعات کو یا د ر کھنے کے لئے حضور کا حافظہ غضب کا تھا.اپنی اسی خدا داد خوبی کے متعلق حضور فرماتے ہیں :- ” میرا حافظہ اپنی ذات میں کمزور ہے میں کوئی لمبی چیز یا دنہیں کرسکتا میں نے کئی شاعروں کے شعر پڑھے ہیں لیکن شاید مجھے چھ سات شعر یاد ہوں قرآن کریم ہزاروں دفعہ پڑھا ہے لیکن جب ضرورت پڑے مجھے آیت کا آدھا ٹکڑا یاد رہتا ہے.لیکن واقعات میں نہیں بھولا کرتا.میرے پاس ڈاک آتی ہے بعض اوقات پرائیویٹ سیکرٹری دس دس پندرہ پندرہ دن کے بعض خطوط کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور میں کہہ دیتا ہوں کہ یہ بات غلط ہے اصل خط میں یہ بات نہیں اور جب وہ خط لایا جاتا ہے تو وہ واقعی غلط خلاصہ ہوتا ہے.میرے ساتھ کام کرنے والے جانتے ہیں کہ جو واقعات سے تعلق رکھنے والا امر ہو اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے مجھے غیر معمولی حافظہ دیا ہے ورنہ دوسری باتوں میں میرا حافظہ کمزور ہے.ممکن ہے کہ ایک دن مجھے ذھول ہو جائے لیکن وہ بات میرے دماغ کی لائبریری میں محفوظ رہتی ہے اور وہ پھر باہر نکال دیتی ہے اور دو چار دن کے بعد مجھے وہ بات یاد آ جاتی ہے خطبہ جمعہ الفضل ۱۲.جون ۱۹۵۲ء صفحہ ۵ ) مندرجہ ذیل مثال سے پتہ چلتا ہے کہ سالوں پرانی بات جو متعلقہ دفاتر کے کارکنوں کو بھی یاد
270 نہیں تھی حضور کو بخوبی یاد تھی.حضور فرماتے ہیں:.اس کے علاوہ ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب یا اس سے کچھ کم رقم تحریک کو اس کی ضرورت کے سالوں میں دی گئی تھی اور ساٹھ ہزار کے قریب بینک میں ہے تحریک کو جو رقم خلافت جو بلی فنڈ میں سے دی گئی تھی اس کے متعلق انجمن والے کہتے ہیں کہ ہم نے تحریک کو روپیہ دیا ہوا ہے لیکن تحریک والے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی اندراج نہیں.مشکل یہ ہے کہ بہت سے رجسٹر قادیان میں ہی رہ گئے ہیں اس لئے اس رنگ میں تو فیصلہ ہو نہیں سکتا کہ ریکارڈ دیکھا جائے اور معلوم کیا جائے کہ بات کیا ہے لیکن میرا اپنا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ تحریک کو یہ رقم دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جب بھی تحریک کا قرضہ جمع کیا کرتا ہوں تو یہ ڈیڑھ لاکھ بھی اس میں شمار کیا کرتا ہوں اس لئے مجھے تو یقین ہے کہ یہ رقم تحریک نے ضرور لی ہے اور مزید یقین مجھے اس وجہ سے ہے کہ چھ سات سال کی بات ہے میں ایک رقم کا جو ایک لاکھ بیس ہزار تھی حساب کرنے لگا تو اس میں سے ساٹھ ہزار کا تو رجسٹروں سے پتہ لگ گیا لیکن دوسرے ساٹھ ہزار کا پتہ نہیں لگتا تھا.میں مانتا تھا کہ میں نے یہ روپیہ انجمن سے لے کر دیا ہے انجمن مانتی تھی کہ اس نے یہ روپیہ دیا ہے لیکن اس روپیہ کا نہ بیمہ کے ذریعہ جانا ثا بت تھا نہ کسی آدمی کے ذریعہ جانا ثابت تھا، نہ میرے بنک کے حساب میں یہ رقم ملتی تھی.آخر میں نے تلاش شروع کی تو مجھے پتہ لگا کہ میں کسی کام کے لئے لاہور جارہا تھا ساتھ میں نے دفتر کے ایک کلرک سیحیی خان صاحب مرحوم کو بٹھایا اور میں نے کہا کہ بندوق لے کر بیٹھو کیونکہ میرے پاس روپیہ ہے.چلتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ خرچ زیادہ ہوگا کچھ اور روپیہ لے لیں چنانچہ میں نے انجمن کو کہا کہ اتنا روپیہ دید و چنانچہ اس نے روپیہ دیا اور وہ ہم اپنے ساتھ لاہور لے گئے اور وہاں ہم نے بنک کو دیا کہ کراچی کے فلاں حساب میں یہ رقم جمع کرادی جائے.اس طرح اس روپیہ کا سراغ مل گیا.اس کے بعد مجھے خیال آیا کہ کہیں اور رقوم میں بھی اسی طرح گڑ بڑ نہ ہو چنانچہ اس ایک لاکھ پچاس ہزار کا جب میں نے حساب مانگا تو انجمن والوں نے کہا کہ ہم تو یہ روپیہ دے چکے ہیں ( تحریک کو ) میں نے برکت علی خان صاحب کو
271 تحقیق کے لئے مقرر کیا چنانچہ انہوں نے مجھے رپورٹ دی کہ واقع میں یہ روپیہ ہم سے ( تحریک نے ) لیا ہے.مگر اب یہ بات مجھے تو یاد ہے مگر ان کو بھول چکی ہے.انجمن کے حسابات سے اتنا پتہ لگتا ہے کہ تحریک کو یہ روپیہ دیا گیا اور میں بھی سمجھتا ہوں کہ اس روپیہ کی ادائیگی تحریک کے ذمہ ہے اگر مجھ سے گواہی لی جائے تو میری گواہی بھی یہی ہوگی کہ میں نے چوہدری برکت علی صاحب کو اس غرض کے لئے مقرر کیا اور انہوں نے خود مجھے آ کر کہا کہ میں نے حساب دیکھا ہے“ اللہ تعالیٰ نے حضور کو غیر معمولی حافظہ سے نوازا تھا اس کی بہت سی مثالیں ہم پڑھ چکے ہیں محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ بھی بتاتی ہیں کہ :- ایک واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا جب آپ بغرض علاج ۱۹۵۵ء میں یورپ تشریف لے گئے واپسی کے قریب میں نے قصرِ خلافت کی صفائی کروائی ایک کمرے میں حضرت ابا جان کے عطر کا سامان ہوتا تھا اس میں چار بڑی بڑی الماریاں بھی تھیں جو عطر کی شیشیوں سے بھری ہوئی تھیں.میں نے کمرے اور الماریوں کی بھی صفائی کی کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد ایک روز ابا جان فرمانے لگے ”بی بی تم نے میرے عطر کی شیشی گمادی ہے، میں نے پوچھا کون سی؟ فرمانے لگے فلاں کونے کی الماری کے فلاں خانے کے بائیں کونے میں کٹ ورک کی اس قسم کی شیشی تھی وہ اب وہاں نہیں.میں حیران کہ میں نے تو صفائی اس طرح کی کہ ایک شیشی اٹھائی اس کو جھاڑ پونچھ کر وہیں رکھا پھر دوسری اُٹھائی اور اس کو بھی اسی طرح اسی جگہ رکھا.میں اُٹھی کہ میں خود دیکھتی ہوں جس الماری جس کونے اور جس خانے اور جس شیشی کی آپ نے نشاندہی کی تھی میں وہ وہاں سے ہی اُٹھالائی.دیکھ کر فرمانے لگے یہی شیشی تھی اور میں حیرت میں ڈوبی ہوئی یہ سوچتی رہی کہ اتنے عرصہ کی بات اور چیز بھی کوئی ایسی اہم نہیں تھی کہ نمایاں طور پر حافظہ میں محفوظ رہتی مگر یہ حافظہ خدا کا خاص انعام تھا قوت حافظہ کے تعلق میں مندرجہ ذیل واقعہ بھی دلچسپی کا باعث ہوگا: ” جب گاڑی کیمبل پور پہنچی تو سٹیشن پر نہ صرف کافی احمدی موجود تھے بلکہ غیر احمدی دوست بھی حضور کی زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے.یہ سب
272 قطاروں میں کھڑے تھے.حضور نے ٹرین سے نیچے اُتر کر ہر ایک سے مصافحہ کیا اور مصافحہ کے دوران میں چوہدری اعظم علی صاحب سب حج درجہ اول ہر آدمی کا تعارف کراتے جاتے تھے کہ ایک دوست کا نام چوہدری اعظم علی صاحب نے محمد جہاں بتایا اس دوست کے پاس حضور کھڑے ہو گئے اور پوچھا کہ آپ کا نام محمد جعفر نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور میرا نام محمد جعفر ہی ہے.اس پر چوہدری صاحب نے کہا کہ حضور! میں نام ادا نہیں کر سکا.لاکھوں کی جماعت کے امام کو اپنے خدام کے اس طرح نام یاد ہونا حیرت انگیز چیز تھی (الفضل ۸.اپریل ۱۹۴۸ء) اسی سلسلہ میں حضور کا ارشاد ہے:- اگر کوئی پرانی بات بھی میرے مطلب کی ہو تو مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے اگر چہ یوں میرا حافظہ قدرتی طور پر سمجھو یا صحت کی خرابی کی وجہ سے یا افکار کی زیادتی اور کاموں کی کثرت کی وجہ سے چیزوں کو زیادہ یاد نہیں رکھ سکتا مگر کام کی چیز مجھے ۲۰ سال کے بعد بھی یاد رہتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے پڑھتے یا سنتے وقت میں نے اس طرف دماغ کو متوجہ کیا تھا.دفتر ڈاک میں کام کرنے والے جانتے ہیں کہ بعض دوستوں کے خطوط کے جواب جب میں دو دو تین تین ماہ کے بعد لکھواتا ہوں تو میں افسر ڈاک کو بتا دیتا ہوں کہ اس نے یہ نہیں لکھا بلکہ یہ لکھا ہے اور آپ غلطی کر رہے ہیں.وہ مجھے نہیں بھولتی پس میں اپنے تجربہ کی بناء پر بھی اور اس علم کی بناء پر بھی جو خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت اور دماغ کے متعلق مجھے دیا ہے اور بغیر اس کے متعلق کوئی کتابیں پڑھنے کے مجھے ایسا باریک علم عطا کیا ہے کہ بسا اوقات وہ الہام کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.انسان کی شکل دیکھتے ہی اس کے تأثرات ، جذبات، احساسات ایسے باریک طور پر میرے دل پر منکشف ہو جاتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ الہام خفی ہوتا ہے.اگر چہ جلی الہام نہیں کیونکہ یہ علوم میں نے نہیں پڑھے پس اس علم کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر علم صحیح طور پر حاصل کریں یا کرائیں تو ہم وہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو دوسرے نہیں کر سکتے (الفضل ۹ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۷ )
273 یہی وجہ ہے کہ حضور کے پاس بیٹھنے والوں کو یہ خیال ہوتا تھا کہ حضور ہمارے خیالات کی رو اور دل کی باتوں کو از خود ہی سمجھ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کے پیاروں کی جستیں غیر معمولی طور پر تیز ہوتی ہیں.یہاں حضور کی محنت اور کام کی لگن کے ذکر کے ساتھ ہی اس سلسلہ میں بھی چند سطور کا اضافہ ضروری معلوم ہوتا ہے.حضور کی قوت شامہ بہت تیز تھی آپ فرماتے ہیں:.میرے اپنے ناک کی جسس غیر معمولی طور پر تیز ہے یہاں تک کہ میں دودھ سے پہچان جاتا ہوں کہ گائے یا بھینس نے کیا چارہ کھایا ہے.اسی لئے اگر میرے قریب ذرا بھی کوئی بد بودار چیز ہو تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے اور جولوگ میرے واقف کار ہیں وہ مسجد میں داخل ہوتے وقت کھڑکیاں وغیرہ کھول دیتے ہیں کیونکہ اگر بند ہوں تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے میں ہمیشہ کثرت سے عطر لگایا کرتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی کثرت سے عطر لگایا کرتے ( سیر روحانی جلد اول صفحه ۲۶۱) تھے حضور کا خط یا طرز تحریر بہت شکتی تھی.اس کی شکستگی کی وجہ سے ہر شخص بآسانی نہیں پڑھ سکتا تھا و کا خط یا.اس وجہ سکتاتھا تا ہم آپ لکھتے بہت تیز تھے آپ نے ایک موقع پر اس کے متعلق بیان فرمایا کہ : د میں بڑا تیز لکھنے والا ہوں اور خدا کے فضل سے بہت تیز لکھ سکتا ہوں.اور بھی تیز لکھنے والے ہوں گے لیکن میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ مجھ سے زیادہ تیز لکھ سکتا ہو میں مضمون کے سو سوا سو صفحے ایک دن میں لکھ سکتا ہوں“ ( خطبات جلد ۵ صفحه ۲۳۷) حضور کے فن خطاب میں کمال کا پہلے ذکر ہو چکا ہے اس سلسلہ میں حضور نے خدا کے اس احسان و انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے سلطان القلم قرار دیا تھا اس کے مقابلہ میں اس نے مجھے اتنا بولنے کا موقع دیا کہ مجھے اس نے سلطان البیان بنادیا (الفضل ۹ مئی ۱۹۶۲ء خطبات محمو دجلد دوم صفحه ۳۳۴) معمولی باتوں سے اہم نتائج حاصل کرنے کی مندرجہ ذیل مثالیں حضور کی نکتہ رس طبیعت کی شاہد ہیں: میں جب لوگوں کو کہتا ہوں کہ خط لکھتے رہو تو اس کا مطلب بھی یہی ہوتا
274 ہے کہ اس طرح ہمیں ان کے حالات سے واقفیت ہوتی رہے.بظاہر ان کے خطوط میں معمولی معمولی باتیں ہوتی ہیں مگر ہم ان سے بہت سے اہم امور اخذ کر لیتے ہیں حتی کہ دعائیہ خطوط سے بھی بہت سی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں مل جاتی ہیں جن کو جمع کر کے ایک اہم واقعہ بن جاتا ہے جس سے ہم یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ امور کسی اتفاقی حادثہ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی ہوئی سازش کا نتیجہ ہیں جو ہمارے خلاف حکومت کی طرف سے یاکسی اور عصر کی طرف سے کی جارہی (الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۴۶ء صفحه ۳) ہے حضور کی فراست فرمایا: - اُس وقت ابھی فاسٹ پارٹی کا پوری طرح غلبہ نہیں ہوا تھا جس کا علم ہمیں اس طرح ہوا کہ فاسٹ پارٹی کا یہ نشان تھا کہ وہ سیاہ قمیص پہنتے تھے مگر میں نے روم، دنیس وغیر اٹلی کے شہروں میں دیکھا کہ بہت کم لوگ تھے جو سیاہ قمیص پہنے ہوئے تھے یا سیاہ ٹائی یا بیج لگائے ہوئے تھے..وینس میں صرف ایک ہی سٹرک ہے جو کہ تین چار میل لمبی ہے....چونکہ وینس میں ایک ہی سڑک ہے اس لئے شام کے وقت سارا شہر سیر کے لئے وہاں آ جاتا ہے اور وہاں سے انسان بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ کسی سوسائٹی کے کتنے افراد ہیں مجھے یاد ہے کہ سینکڑوں میں سے ایک دو سیاہ قمیص یا ٹائی یا بیچ والے تھے باقی لوگ عام طور پر دوسر الباس (الفضل ۲۸ مئی ۱۹۴۵ ء صفحه ۱) پہنتے تھے حضور کی ذہانت وجودت طبع فرمایا : - دنیا کی آبادی دوارب ہے اور چالیس کروڑ ہندوستان کی آبادی ہے.اگر تمام ہندوستان احمدی ہو جائے اور پھر ان کے سپر د دین کی تعلیم وتربیت کا کام کیا جائے تو ایک ایک شخص کے حصہ میں صرف پانچ پانچ آدمی آئیں گے اور بالغوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فی استاد چھپیں چھپیں آدمی آئیں گے.) الفضل ۸/جون ۱۹۴۴ء صفحه۱)
275 حضور کی نکتہ رسی فرمایا: - لوسٹیشنوں پر قوموں کی حرکت دیکھنے کا ذریعہ سٹیشن ہوتے ہیں جہاں پر لوگ آنے جانے کے لئے جمع ہوتے ہیں اور جہاں پر پتہ لگ جاتا ہے کہ قوم کے اندر کیسی حرکت پائی جاتی ہے.تجارتیں کرنے والوں کو ادھر اُدھر آنا جانا پڑتا ہے، ملازمتوں والے بھی اِدھر اُدھر دورے کرتے ہیں ، صنعت وحرفت والوں کو بھی اپنے کام کے لئے دورے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے سٹیشنوں اور ریلوں کے ذریعہ پتہ لگ جاتا ہے کہ کسی قوم میں آبادی کے لحاظ سے حرکت پائی جاتی ہے یا نہیں.فلسطین کے ریلوے سٹیشنوں پر مجھے اسبات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور میں نے آبادی کے لحاظ سے دس فیصدی یہودیوں کو سٹہ نوے فیصدی کی تعداد میں دیکھا اور آبادی کے لحاظ سے نوے فیصدی مسلمان اور عیسائی سٹیشنوں پر دس فیصدی نظر آئے.یہ کوئی معمولی فرق نہیں بلکہ ایسا فرق ہے کہ شاید خطہ زمین پر اور کسی جگہ نظر نہیں آ سکتا پس قوموں میں حرکت بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں سفر کرنے اور سیر فی الارض کا بار بار ذکر آتا ہے“ الفضل ۱۲؍ مارچ ۱۹۴۵ء صفحه ۲) ان ساری خوبیوں کے ساتھ ساتھ آپ کے کردار کی عظمت کا اس امر سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ کے علم میں آپ کی کوئی غلطی لائی جاتی تو آپ اس پر اصرار کرنے یا اس کی تاویل کرنے کی بجائے اس کا اقرار کرتے اور تصحیح بھی فرماتے : ۱۹۲۲ ء یا ۱۹۲۸ء کے درس القرآن کے موقع پر میں نے عرش کے متعلق ایک نوٹ دوستوں کو لکھوایا جو اچھا خاصہ لمبا تھا مگر جب میں وہ تمام نوٹ لکھوا چکا تو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی یا حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ نکال کر میرے سامنے پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تو یوں لکھوایا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام نے یوں فرمایا ہے میں نے اس حوالہ کو دیکھ کر اسی وقت دوستوں سے کہدیا کہ میں نے عرش کے متعلق آپ لوگوں کو جو کچھ لکھوایا ہے وہ غلط ہے اور اسے اپنی کاپیوں میں سے کاٹ ڈالیں..
276 اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مقابلہ میں بھی ہم اپنی رائے پر اڑے رہیں اور کہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہی صحیح ہے اور اپنے نفس کی عزت کا خیال رکھیں تو اس طرح تو دین اور ایمان کا کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا“ الفضل ۳ رستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۶، ۱۷)
277 حضور کے بعض سفر حضور کے اندرون و بیرون ملک کے بعض سفروں کا ذکر اپنے اپنے مقام پر ہو چکا ہے.حضور کے سارے سفروں کے حالات تو بجائے خود ایک ضخیم کتاب کے متقاضی ہیں.تاہم ذیل میں چند سفروں کا ذکر کیا جارہا ہے.پنچابی محاورہ یا راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ انسان کی سیرت اس کے اخلاق و عادات کا تب پتہ چلتا ہے جب کسی سے لین دین کیا جائے یا اس کے ساتھ سفر میں شرکت کی جائے.حضور کے سفر خواہ جماعتی اغراض کیلئے ہوں یا ذاتی وجوہ مثلاً بھائی صحت کیلئے کئے گئے ہوں سب میں یہ چیز قدرِ مشترک کے طور پر نہایت نمایاں ہے کہ ان میں خدمت دین کے کام میں کوئی توقف پڑنے کی بجائے اور تیزی آجاتی تھی.بھائی صحت کیلئے کئے جانے والے سفروں میں ہی حضور کی ملاقات، سیاست، مذہب ، ادب وغیرہ کے ماہرین واکابرین سے ہوتی اور ان ملاقاتوں کے دور رس نتائج اور فوائد جماعت کو حاصل ہوتے.سفر گورداسپور احراری لیڈر مولوی عطا اللہ شاہ بخاری صاحب پر منافرت پھیلانے کے الزام میں گورداسپور میں سپیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں حکومت کی طرف سے مقدمہ دائر کیا گیا.اس مقدمہ میں محض از راہ شرارت حضور کا نام صفائی کے گواہ کے طور پر لکھوایا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ حضور اور جماعت کو پریشان کیا جائے مگر ہر بلا کیں بلا کیں قوم راحق داده اند اند زیر آن گنج کرم بنهاده خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تقریب کئی وجوہ سے بہت بابرکت ثابت ہوئی حضور ۲۳، ۲۵ اور ۲۷ مارچ ۱۹۳۵ء کو اس غرض سے گورداسپور تشریف لے گئے.تمام جماعت بالخصوص جماعت قادیان نے احرار کا مقصد اور ارادہ سمجھ کر نہایت فدائیت اور والہانہ طریق پر حضور کی ////
278 مشایعت میں گورداسپور کا سفر کیا.ہر تین مواقع پر سپیشل گاڑی قادیان سے گورداسپور جاتی رہی.پہلے دو سفر حضور نے بذریعہ کار کئے مگر اس شان سے کہ ڈیڑھ سو سائیکل سوار فدائی نوجوان حضور کی کار کے آگے پیچھے انتہائی احترام و عقیدت کے ساتھ جارہے تھے.حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے گورداسپور میں حضرت مسیح موعود کا لنگر جاری فرما دیا.مخالفین کے منصوبوں کا علم ہو جانے کیوجہ سے کھانا پکانے کا سارا سامان جن میں دس دیگیں بھی شامل تھیں قادیان سے لیکر گئے تھے.قادیان کی جماعت کے علاوہ پنجاب کے ہر حصہ اور سرحد و کشمیر تک کے احمدی بھی اس موقع پر گورداسپور پہنچے ہوئے تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی جب عدالت کے کمرے میں داخل ہوئے تو دیوان سنگھ انند صاحب پیشل مجسٹریٹ نے حضور کا پورا احترام کیا اور حضور کو گری پیش کی.عدالت کی کارروائی سے فارغ ہو کر حضور باہر تشریف لائے تو ہزاروں احمدی پروانہ وار حضور کی گاڑی کے گرد جمع ہو گئے اور حضور کی قیام گاہ یعنی شیخ محمد نصیب صاحب کی کوٹھی تک جو تقریباً چھ فرلانگ کے فاصلہ پر تھی ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے پہنچے.کھانے کے دوران یہ صورت بھی پیش آئی کہ ہزاروں لوگ کھانا کھا رہے تھے اور ان لوگوں نے وضو اور دوسری ضروریات بھی پوری کرنی تھیں مگر ان کو پریشان کرنے کیلئے احرار کے زیراثر سقوں نے پانی بھرنے سے انکار کر دیا مگر احمدی رضا کاروں نے ایک دُور کے کنویں.خود پانی بھر لیا اور کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دی.حضور نے اس موقع پر جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :- ” مومنوں کو مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ ہم دنیا پر غالب آئیں گے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نبی کے ماننے والوں پر زلزلے آئیں گے.اگر کہا جاتا کہ نبی کے ماننے والوں کیلئے پھولوں کی سیج بچھائی جائے گی تب تو کہا جاسکتا تھا کہ ہمیں مشکلات کیوں پیش آتی ہیں مگر جبکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ انبیاء کی جماعتوں کو کانٹوں پر گزارتا ہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم پر بھی مشکلات آئیں گی ، مصائب آئیں گے مگر آخر کامیابی ہمارے لئے ہے.آپ لوگ عبادتیں کریں، دعائیں مانگیں اور خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کریں......آج شہادت تو ختم ہو چکی ہے مگر پھر پرسوں
279 کی تاریخ جرح کیلئے مقرر ہوئی ہے.احباب کو اس تکلیف سے گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ ان کے مقابلہ میں جو انعامات اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمائے ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں اگر وہ انعامات انسان کے سامنے رکھ دیئے جائیں تو انسان یہی کہے گا کہ اے میرے رب ! میری تو صرف یہی خواہش ہے کہ میں زندہ کیا جاؤں اور پھر تیری راہ میں مارا جاؤں ، پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر تیری راہ میں مارا جاؤں ، پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر تیری راہ میں مارا جاؤں اور یہ سلسلہ ہمیشہ کیلئے جاری رہے“ الحکم ۲۸.مارچ ، ۷.اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ ) تیسرے دن حضور احباب جماعت کے ہمراہ پیش ریل گاڑی کے ذریعہ تشریف لے گئے اور حضور نے تیسرے درجہ میں اپنے خدام کے ساتھ ہی سفر کیا.گورداسپور میں اور دورانِ سفر احمدیوں کی فدائیت اور خلوص کے بڑے موثر نظارے دیکھنے میں آئے جن کی تفصیل بیان کرنا تو ممکن نہیں البتہ اس سفر کے متعلق اخباروں کے تبصروں سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ احراریوں کے پیش نظر جو مقصد تھا اس میں نہ صرف یہ کہ وہ بُری طرح ناکام ہوئے بلکہ جماعت کی خوبیاں نمایاں ہو کر غیروں کے سامنے آئیں جن سے متاثر ہو کر قریباً ایک سو افراد کو قبول احمدیت کی توفیق ملی.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ - سفر حیدر آباد دکن سندھ میں ذاتی اور جماعتی جائداد خریدنے کے بعد حضور قریباً ہر سال سندھ تشریف لے جاتے تھے بلکہ بعض دفعہ سال میں دو دفعہ بھی تشریف لے گئے.۱۹۳۸ء میں سندھ کے سفر کے ساتھ حضور نے جماعتی اغراض سے حیدر آباد دکن تشریف لے جانے کا پروگرام بنایا.اس سلسلہ میں حضور نے محترم سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے نام مندرجہ ذیل خط لکھا : - مکرمی سیٹھ صاحب ! وو اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مدت سے میرا ارادہ حیدر آباد آنے کا تھا کیونکہ میرے نزدیک کسی جگہ کو دیکھنے کے بعد وہاں کے کام کی اہمیت کا زیادہ اثر ہوتا ہے لیکن کچھ تو کم فرصتی کی وجہ سے اور کچھ وہاں کے سیاسی حالات کی وجہ سے اور کچھ //////
280 اس خیال سے کہ وہ علاقہ دُور ہے اخراجات زیادہ ہوں گے میں آنے سے رُکا رہا.لیکن اب حالات اس طرف کے ایسے ہو گئے ہیں شاید مجھے ان علاقوں کی طرف زیادہ توجہ کرنی پڑے.......میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس دفعہ سندھ سے میں حیدر آباد ہوتا آؤں.مجھے اس کا زیادہ خیال اس لئے بھی ہوا ہے کہ جو رویا میں نے حیدر آباد کے متعلق دیکھی تھی اس میں ایک حصہ یہ تھا کہ میں پہلے حیدر آباد کا معائنہ کرنے گیا ہوں اور پھر میں نے آکر فوج کو حملہ کا حکم دیا ہے.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ پہلے ایک سرسری معائنہ حیدرآباد کا ضروری ہے.میرے ساتھ ایک میری بیوی مریم صدیقہ لڑکی امتہ القیوم اور ہمشیرہ مبارکہ بیگم ہونگی.چھ سات دوسرے ہمرا ہی ہونگے.یہ لوگ ریل سے سفر کر کے بمبئی سے حیدرآباد پہنچیں گے.میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ ہمارا سفر صرف غیر رسمی رہے یعنی کوئی لیکچر وغیرہ یا شور نہ ہو.اگر بعض خاص آدمیوں سے ملاقات کی ضرورت سمجھی گئی تو جماعت کے مشورہ سے میں ان کو ملنے کا موقع دے دوں گا اس سے زیادہ نہیں.میرا پروگرام یہ ہو گا جس کے متعلق آپ مذکورہ دوستوں سے مشورہ کر کے تفصیلات طے کر لیں (۱) حیدرآباد کا موٹر میں ایک عام چکر جس سے اس کی عظمت ، اس علاقہ کی وسعت، آبادی کی طرز وغیرہ کا علم ہو جائے (۲) علمی اداروں کا دیکھنا (۳) تاریخی یادگاروں کا دیکھنا (۴) موجودہ ترقی یا جد و جہد کا معائنہ.آپ اس مشورہ میں اگر چاہیں تو نواب اکبر یار جنگ صاحب کو بھی شامل کر سکتے ہیں.ایک مجلس ایسی رکھی جاسکتی ہے جس میں سب جماعت کے دوست جمع ہوں اور میں انہیں مختصر ہدایات دوں.جمعہ کا دن اس دوران میں آئے گا.وہ لازماً میں مسجد میں پڑھوں گا اور جماعت سے ملاقات ہو جائے گی....چونکہ مجھے مردوں کے ساتھ پھر نا ہو گا اس لئے عورتوں کی سیر کا الگ انتظام کر دیا جائے.یعنی روزانہ پروگرام طے ہو کر پہلے بتا دیا جائے کہ عورتیں اپنا وقت اس طرح خرچ کریں گی اور میرا پروگرام اس اس طرح ہوگا.
سید نا محمود شملہ میں ( 1913ء) حضرت خلیفہ اسیح الثانی قیام ڈلہوزی کے دوران (1926ء)
حضرت خدیہ صیح الثانی ڈلہوزی میں سیر کے دوران (1926 ء ) حضرت خلیفہ اسیح الثانی لدھیانہ ریلوے اسٹیشن پر (14 مارچ 1932ء)
حضرت غلیله اصبح الثانی درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا دلی کے قریب مسجد میں (1938ء) ، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مز سروجنی نائیڈ وہ خواجہ حسن نظامی اور دیگر احباب کے ساتھ انکشاف مصلح موعود کے اگلے روز ( 6 جنوری 1944ء) کو محترم شیخ بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر لاہور میں
حضرت مصلح موعود ہوشیار پور (1944ء) جلسہ مصلح موعود میں خطاب فرمارہے ہیں.المصلح الموقوق ناتیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچاو ماهی شد میں سے کناروں تک شاہ گاہ قوم سے برکت پیا حضرت مصلح موعود لا ہور ( 1944ء) جلسہ مصلح موعود میں خطاب فرمارہے ہیں
حضرت مصلح موعود علی (1944ء) جلسہ مصلح موعود میں خطاب فرمارہے ہیں حضرت مصلح موعود پشاور میں (1948ء)
حضرت مصلح موعود طور ثم (صوبہ سرحد) کے احمدی احباب کے ساتھ (6 - اپریل 1948 ء) پارک ہاؤس کوئٹہ میں حضرت مصلح موعود کے اعزاز میں پارٹی (جون 1948 ء )
پارک ہاؤس کوئٹہ میں حضور کا خطاب کرسیوں پر مسٹر بشیر احمد ایس پی کوئٹہ، نواب دو دا خاں اور مسٹر عبدالرشید خاں ریونیو کمشنر کوئٹے ہیں ( جون 1948 ء ) حضرت مصلح موعود رتن باغ لاہور میں مکرم عبدالشکور کرے صاحب (جرمن نو مسلم ) کے اعزاز میں دی گئی دعوت میں تشریف فرما ہیں.(1949ء)
حضرت مصلح موعود رتن باغ لاہور میں (1949ء) حضرت مصلح موعود اہل بھیرہ سے خطاب فرمارہے ہیں ( نومبر 1950ء)
حضرت مصلح موعود تھی سافیکل ہال حیدر آباد میں اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر تقریر فرما رہے ہیں (25 مارچ 1952ء) حضرت مصلح موعود کراچی میں سنگ بنیا در کھتے ہوئے
حضرت مصلح موعود سندھ فارمز پر (جون 1953ء ) حضرت مصلح موعود لاہور کے بارش زدہ علاقوں کے امدادی کاموں کا معائنہ فرماتے ہوئے (1954ء)
حضرت مصلح موعود (1954ء) کراچی میں احباب جماعت کے ساتھ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی چوہدری عبدالجلیل خاں صاحب ایبٹ آباد کے مکان پر بعد از نماز جمعه منتیں ادا فرمارہے ہیں (21 ستمبر 1956ء)
حضرت مصلح موعود علیہ اسی الثانی ایبٹ آباد میں ڈاکٹر غلام اللہ صاحب سے محو گفتگو ( تمبر 1956ء) حضرت مصلح موعود کراچی میں (1958ء) میاں غلام محمد صاحب اختر سے گفتگو فرمارہے ہیں
281 تحریک جدید نے جہاں کھانے کے متعلق سادگی پیدا کر دی ہے وہاں میرے جیسے بیمار کیلئے مشکلات بھی پیدا کر دی ہیں.ایک کھانے کی وجہ سے سوائے خاص حالات کے چاول میں نہیں کھا سکتا روٹی کھاتا ہوں کیونکہ چاول کم بیچتے ہیں.اگر ایک سالن ہماری پنجابی طرز کا پک سکے اور تنور کی یا توے کی چپاتی مل سکے تو مجھے سہولت رہے گی.حیدر آباد کی طرف پیاز کی کثرت اور میٹھا اور کھٹا کھانے میں ملا دیتے ہیں جو میرے معدے کیلئے سخت مضر ہوتا ہے اور مجھے بہت جلد ایسے کھانوں سے بخار ہو جاتا ہے.گو مجھے کھانے کے متعلق یہ ہدایت دینے سے شرم محسوس ہوتی ہے مگر چونکہ میری صحت سخت کمزور ہے اور میری زندگی در حقیقت ایسی ہے جیسے ربڑ کی گڑیا کو پھونک مار کر بٹھا دیتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ کی پھونک ہی کچھ زندہ رکھے جاتی ہے اس وجہ سے مجھے با وجود حیا کے یہ امر لکھنا پڑا.میں پرسوں سندھ جارہا ہوں.اس بارے میں اگر کوئی اور بات آپ نے پوچھنی ہو تو ناصر آباد ( کنجے جی ضلع میر پور خاص سندھ کے پتہ پر خط لکھیں.بمبئی ہم جہاز کے ذریعہ سے آئیں گے، میرے ساتھ پرائیوٹ سیکرٹری کے علاوہ چند معاون کارکن ہوں گے شاید کوئی دوست قادیان سے میری ہدایت کے مطابق آجا ئیں.“ اس خط کے مضمون میں جو سادگی اور بے تکلفی پائی جاتی ہے وہ حضور کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو ہے.حضرت سیٹھ صاحب یقیناً حضور کی آمد کو اپنے لئے بلکہ اپنی اولاد اور خاندان کیلئے خوش بختی اور سعادت سمجھتے ہوں گے.وہاں کی جماعت بھی اس آمد کو اپنے لئے باعث سعادت.اور وجہ افتخار بجھتی ہوگی مگر اس کے باوجود اس خط کا لہجہ اور مضمون آپ کی عظمت کا مظہر ہے.ایک اور بات جسکی طرف قاری کی توجہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ تحریک جدید حضور کی جاری کی ہوئی تحریک تھی اسکے مطالبات کسی اور نے نہیں خود حضور نے جماعتی بہتری و وقار کیلئے پیش فرمائے تھے مگر باوجود بیمار ہونے کے آپ ان مطالبات پر پوری پابندی سے عمل کرتے تھے اور اپنی سہولت کی خاطر ان کو نظر انداز نہیں فرماتے تھے.جماعت کیلئے مثالی نمونہ پیش کرنے کی بہت پیاری مثال ہے.اس سفر سے حاصل ہونے والے نتائج واثرات کے متعلق حضور فرماتے ہیں :.
282 وو ہے.” میرے دل پران گالیوں کی وجہ سے ایک ناخوشگوار اثر تھا جو احرار ایجی ٹیشن کی وجہ سے ملتی رہی ہیں اور اب بھی مل رہی ہیں کیونکہ گالیاں فتح اور شکست سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ گرا ہوا آدمی زیادہ گالیاں دیا کرتا بہر حال میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ مسلمانوں نے اس موقع پر ہمارے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کیا اور مجھے ان کی طرف سے رنج تھا.شاید میرا گذشتہ سفر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت اسی غرض کیلئے تھا کہ تا میری طبیعت پر جو اثر ہے وہ دُور ہو جائے.میں نے اس سفر میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ میرا وہ اثر کہ مسلمان شرفاء بھی اس گند میں مبتلاء ہیں اس حد تک صحیح نہیں جس حد تک میرے دل پر اثر تھا.مجھے اس سفر میں ملک کا ایک لمبا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے.پہلے میں سندھ گیا، وہاں سے بمبئی گیا ، بمبئی سے حیدر آباد چلا گیا اور پھر حیدرآباد سے واپسی پر دہلی سے ہوتے ہوئے قادیان آگیا.اسطرح گویا نصف ملک کا دورہ ہو جاتا ہے.اس سفر کے دوران میں شرفاء کے طبقہ کے اندرمیں نے جو بات دیکھی ہے اس سے میرے دل میں جو مسلمانوں کے متعلق رنج تھا وہ بہت کچھ دُور ہو گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ شریف طبقہ اب بھی وہی شرافت رکھتا ہے جو شرافت وہ پہلے رکھا کرتا تھا اور ان خیالات سے جو احرار نے پیدا کرنے چاہے تھے وہ متاثر نہیں بلکہ ان کی گالیوں کی وجہ سے وہ ہم سے بہت کچھ ہمدردی رکھتا ہے.اگر مجھے یہ سفر پیش نہ آتا تو شاید یہ اثر دیر تک میرے دل پر رہتا اور میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس سفر کا موقع دیا اور وہ اثر جو میرے دل پر تھا کہ اتنے گند میں مسلمانوں کا شریف طبقہ کس طرح شامل ہو گیا وہ اس سفر کی وجہ سے دُور ہو گیا.حیدر آباد میں میں نے دیکھا کہ جس قدر بھی بڑے آدمی تھے اِلَّا مَا شَاءَ اللہ ، تھوڑے سے باہر بھی رہے ہوں گے ، وہ ان پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے جو میرے اعزاز میں وہاں دی لیں.ان لوگوں میں وزراء بھی تھے ، امراء بھی تھے اور نواب بھی تھے.چنانچہ نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر نے جو پارٹی دی اس میں بہت سے نواب شامل ہوئے اور سارے سو دوسو کے قریب معززین ہوں گے جوان کی ٹی پارٹی میں گند
283 احمدیہ شامل ہوئے.اسی طرح دوسری جگہوں میں بھی میں نے دیکھا کہ شرفاء، آفیسر، ججز ، اور بڑے بڑے اُمراء ان دعوتوں میں شریک ہوتے رہے اور میں دیکھتا رہا کہ اُن کے دلوں میں یہ احساس ہے کہ احرار کی طرف سے ہم پر سخت مظالم توڑے گئے ہیں بلکہ بہتوں نے بیان بھی کیا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں جماعت احمد یہ مسلمانوں کی خیر خواہی کیلئے بہت کچھ کر رہی ہے.اسی طرح دہلی میں جو ایک دو تقریبات ہوئیں اُن میں میں نے دیکھا کہ شہر کے ہر طبقہ کے لوگ اور بڑے بڑے رؤساء شامل ہوتے رہے.مسلمانوں میں سے زیادہ اور ہندوؤں اور سکھوں میں سے قلیل اور یہ قدرتی بات ہے کہ جس شخص کے اعزاز میں کوئی تقریب پیدا کی جائے گی اس میں وہی لوگ زیادہ بلائے جائیں گے جو اُس کے ہم مذہب ہوں گے.پس ان دعوتوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوئے اور اُن کی باتوں سے میں نے معلوم کیا کہ درحقیقت احرار کا یہ دعویٰ کہ اُن کا مسلمانوں پر بہت بڑا اثر ہے اور یہ کہ وہ گند جسے شرافت برداشت بھی نہیں کر سکتی مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے یہ بالکل غلط ہے.اور اس طرح میرے ان خیالات کا ازالہ ہو ا جو شرفاء کے متعلق میرے دل میں پیدا ہو چکے تھے اور میں نے سمجھا کہ ان ایام میں مسلمان خاموش رہے تھے تو محض مخالفت کی ہلیت کی وجہ سے.نہ اس وجہ سے کہ احرار کا اُن کے دلوں پر کوئی اثر ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے بدھنی کے گناہ سے بچالیا.مجھے پرسوں اُترسوں ہی حیدر آباد سے ایک معزز آدمی کا خط ملا ہے.وہ لکھتا ہے میں خود آپ سے ملنا چاہتا تھا کہ دیکھوں تو جس شخص کی اس قدر تعریف اور اس قدر مذمت ہوتی ہے وہ ہیں کیسے.خیالات ہر شخص کے مختلف ہوتے ہیں.اس لحاظ سے جو چاہے آپ کے متعلق کہہ لیا جائے مگر اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آپ کے اخلاق اور آپ کی محبت نا قابلِ اعتراض اور قابلِ تقلید ہے.یہی اثر میں سمجھتا ہوں عام طور پر دوسرے لوگوں کے دلوں پر بھی تھا اور بجائے اسکے کہ وہ اس گند سے متاثر ہوتے سوائے چند لوگوں کے باقی تمام شرفاء صورتِ حال کو حیرت سے دیکھتے تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ ہم معلوم کریں یہ کیسی جماعت ہے اور اس کا امام کیسا
284 شخص ہے.پس احرار کے گند سے مسلمانوں کے شریف طبقہ میں صرف تجس پیدا ہوا.ایک رو تحقیق کی پیدا ہوئی اس سے زیادہ اُنہوں نے کوئی اثر قبول نہیں کیا.اسی طرح میرے یہاں پہنچنے پر دو چار دن کے بعد ایک مشہور مسلمان لیڈر نے جنہیں گورنمنٹ کی طرف سے سر کا خطاب بھی ملا ہوا ہے مجھے لکھا کہ میں آپ کے سفر کے حالات اخبار میں غور سے پڑھتا رہا ہوں اور میں اس دورہ کی کامیابی پر آپ کو مبارکباد دیتا ہوں حالانکہ ان کا اس سفر سے کوئی واسطہ نہ تھا، نہ وہ اُن شہروں میں سے کسی ایک میں رہتے تھے جہاں میں گیا، نہ وہ اُن علاقوں کے باشندے ہیں.ایک دُور دراز کے علاقہ میں وہ رہتے ہیں اور مسلمانوں کے مشہور لیڈر ہیں ، مگر اُنہوں نے بھی اس دورہ کی کامیابی پر مبارکباد کا خط لکھنا ضروری سمجھا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرفاء کے دلوں میں ایک گرید تھی اور بجائے اس گند سے متاثر ہونے کے شریف طبقہ ایک تجس کی نگاہ سے تمام حالات کو دیکھ رہا تھا اور اندرونی طور پر وہ ہم سے ہمدردی رکھتا تھا.میں سمجھتا ہوں ان حالات میں مسلمانوں کے متعلق میری بدظنی گناہ کا موجب تھی اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے اس سفر کا موقع دیا تا وہ خیال جو ایک شکوہ کے رنگ میں مسلمان شرفاء کے متعلق میرے دل میں پیدا ہو وہ چکا تھا کہ انہوں نے وہ اُمید پوری نہیں کی جوان پر مجھے تھی دُور ہو جائے.چنانچہ مجھ پر اس سفر نے یہ ثابت کر دیا کہ میرا پہلا خیال غلط تھا اور در حقیقت اُن کی خاموشی صرف ہیبت کی وجہ سے تھی ورنہ شریف دل میں شریف ہی تھے اور وہ اس گند کو پسند نہیں کرتے تھے جو احرار کی طرف سے اُچھالا الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۳۸ء صفحه ۵٬۴) گیا.“ اس سفر سے واپسی پر حضور دہلی بھی تشریف لے گئے جہاں حضور نے ۲۸.اکتوبر جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا اور نماز پڑھائی.اسی روز خواجہ حسن نظامی صاحب کے ہاں اور پھر خان بہادر راجہ اکبر علی صاحب کے ہاں دعوت پر تشریف لے گئے جہاں پر بہت سے معززین مدعو تھے.(الفضل یکم نومبر ۱۹۳۸ء صفحه ۱) دہلی سے واپسی کے وقت ریلوے سٹیشن پر الوداع کہنے والوں میں چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب //////
285 خان بہادر محمد سلیمان صاحب ، خان ایس جی حسنین صاحب ، شیخ رحمت اللہ صاحب انجینئر جناب جوش ملیح آبادی، خان بہادر کے.ایم.حسن شیخ اعجاز احمد صاحب سب حج ، چوہدری بشیر احمد سب حج ، چوہدری نصیر احمد صاحب بی اے ایل ایل بی ، ڈاکٹر ایس اے لطیف صاحب اور سب احباب جماعت دہلی وشملہ حاضر تھے.(الفضل یکم نومبر ۱۹۳۸ء صفحه ۱) جنوری ۱۹۴۰ء میں حضور سندھ اور دہلی تشریف لے گئے تھے.قیام کراچی کے سفر سندھ دوران کپتان سلطان احمد کھتا نہ نے حضور کے اعزاز میں چائے کی دعوت دی جس میں اسلامی ممالک کے سفراء اور مقامی و بیرونی معززین نے شرکت کی.(الفضل ۲۳ فروری ۱۹۴۰ء ) خان بہادر اللہ بخش صاحب وزیر اعظم سندھ نے بھی بڑی عقیدت سے حضور کی دعوت کی جس میں اور معززین کے علاوہ سر غلام حسین ہدایت اللہ وزیر قانون ، پیر الہی بخش ،وزیر تعلیم، مسٹر حاتم علوی، مسٹر جمشید این.آرمہتہ ایم.ایل.اے شامل ہوئے.( الفضل ۶ مارچ ۱۹۴۰ء ) مئی ۱۹۴۰ء میں بھی حضور کراچی تشریف لے گئے.آپ کی مشہور دلنشیں عارفانہ نظم ے بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آؤں تیرے پاس آگے آگے چاند کی ماند تو بھاگا نہ کر اس سفر کی یادگار ہے.۲۵.فروری سے ۲۶.مارچ ۱۹۵۲ء تک حضور سندھ کے دورہ پر تشریف لے گئے.سندھ کی جماعتوں میں معمول کی مصروفیات کے علاوہ ۲۵.مارچ کو آپ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مختلف اہم قومی مسائل پر اظہارِ خیال فرمایا.مہاجر اور مقامی کا مسئلہ ابتداء سے ہی مشکلات پیدا کرتا رہا ہے اور ان میں ابھی اضافہ ہی ہو رہا ہے اور اب تو یہ خوفناک لا نخل صورت اختیار کر گیا ہے.حضور نے اپنی خداداد فراست سے اس کا نہایت آسان اور قابل عمل حل بتاتے ہوئے فرمایا :- میں تو سمجھتا ہوں کہ مہاجر و انصار کی تفریق کو ختم کرنا چاہئے اور ہمیں اسکی بجائے پاکستان کے لفظ کو استعمال میں لانا چاہئے.میں ذاتی طور پر تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھتا ہوں کہ ہندوؤں نے مسلمان سمجھ کر نکال دیا مگر اللہ تعالیٰ
286 نے ہمیں پاکستان میں حفاظت کی جگہ دیدی زبان کے مسئلہ کی وجہ سے بہت مشکلات پیدا ہوئیں اور فسادات ہوتے رہے جو انتہائی خوفناک طریق پر بڑھتے بڑھتے پاکستان کی شکست وریخت پر منتج ہوئے.اس سلسلہ میں بھی حضور کی قائدانہ راہنمائی نہایت سادہ مگر مفید اور موثر تھی.اس پُر خلوص نصیحت پر عمل کیا جاتا تو بعد میں پیش آنے والے خوفناک نتائج اور بھیا نک نقصانات سے بچا جا سکتا تھا.آپ نے فرمایا : - میں اصولاً تو یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی زبان لازمی طور پر اُردو ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ ضروری ہے کہ بنگالیوں کی دلجوئی کر کے ان کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے جذبات رکھے جائیں اور زبان کے سوال کو موجودہ 66 حالات میں اُٹھانا خواہ مخواہ اس مسئلہ کو اختلاف کی بنیاد بنانا درست نہیں.“ ایک سوال کے جواب میں مسئلہ جہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے مختصر مگر جامع الفاظ میں جواب دیتے ہوئے فرمایا :- ہم قرآن کریم کو مانتے ہیں.لامحالہ جو چیز قرآن میں ہوگی وہی ہمارا عقیدہ اور مسلک ہوگا.ہاں اس کی توضیح اور مفہوم میں فرق ہو سکتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد دشمنوں کے حملوں کے دفاع کا نام ہے اور ایک دفعہ جنگ شروع ہو جانے کے بعد اقدام بھی لازماً اس کا ایک حصہ بن جائے گا.“ ( الفضل ۲.اپریل ۱۹۵۲ء) ۲۵.مارچ کو حیدر آباد کے تھیو سافیکل ہال میں اتحاد بین المسلمین پر ایک اثر انگیز تقریر فرمائی.اس اجلاس کی صدارت حیدر آباد کی ایک معروف شخصیت جناب ایم اے حافظ بارایٹ لاء نے کی انہوں نے حضور کی تقریر سے پہلے تعارفی کلمات میں کہا :- ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسلام میں جماعت احمدیہ جیسی ایک جماعت ہے جس کے کارنامے طویل ہیں.اس جماعت نے اسلام کو جس جوش وخروش سے یورپ میں پیش کیا ہے وہ اس کا حصہ ہے اور ہم سب مسلمان ان کے ممنون ہیں.اس جماعت کے ایک ممبر آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خان حکومت میں شامل ہیں اس ممبر نے دنیا میں پاکستان کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ہیں اور دنیا میں پاکستان کا نام بلند کرنے اور اسلامی ممالک کو متحد بنانے میں عظیم الشان ///////
287 کامیابی حاصل کی ہے یہ ممبر ساری اسلامی دنیا کیلئے ایک قابل فخر ہستی ہے.آج اس عظیم الشان جماعت کے عظیم الشان لیڈر کی تقریر سننے کیلئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اور میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ آج صدارت کے لئے مجھے ( الفضل ۱۲، ۱۹.دسمبر ۱۹۶۲ء) چنا گیا.“ سفر دہلی ۲۱.ستمبر ۱۹۴۶ء کو حضور اپنے مشہور سفر دبلی پر تشریف لے گئے ، یہ وہی سفر ہے جس میں حضور کی غیر معمولی دعاؤں اور کوششوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے قیام پاکستان کے سلسلہ میں پیش آنے والی بڑی بڑی روکیں دور ہوئیں اسکا ذکر بھی خدمات کے سلسلہ میں ہو چکا ہے ) جماعت نے بھی اس بابرکت موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی.مجالس علم و عرفان منعقد ہوتی رہیں ، مسجد احمد یہ دریا گنج میں تین خطبات ارشاد فرمائے ،۲۹.ستمبر کو خدام الاحمدیہ اور یکم اکتوبر کو خواتین سے خطاب فرمایا.۹.اکتوبر کو اسلام دنیا کی موجودہ بے چینی کا کیا علاج پیش کرتا ہے“ کے موضوع پر تقریر فرمائی.۱۰.اکتوبر کو مشہور ادیب ، صحافی خواجہ حسن نظامی صاحب جو اپنا وسیع حلقہ ارادت رکھتے ہیں سے ملاقات ہوئی.محترم خواجہ صاحب اس ملاقات کا بڑے اچھے رنگ میں ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- آج شام کو نئی دہلی میں چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کے مکان پر جناب مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ جماعت احمدیہ سے ملنے گیا تھا.ڈیڑھ گھنٹہ تک باتیں کیں.ان کو مسلمان قوم کے ساتھ جو مخلصانہ ہمددردی ہے وہ سنکر میرے دل پر بہت اثر ہوا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج ایک ایسے لیڈر سے ملاقات ہوئی جسکو میں نے بے غرض مخلص سمجھا ورنہ جو لیڈر ملتا ہے کسی نہ کسی غرض میں مبتلاء نظر آتا ہے، مرزا صاحب مخلص بھی ہیں ، دانش مند بھی ہیں ، دور اندیش بھی ہیں اور بہادرانہ جوش بھی رکھتے ہیں.“ ( منادی ۲۴.اکتوبر ۱۹۴۶ء.بحوالہ الفضل ۸.نومبر ۱۹۴۶ء صفحه ۲) دہلی سے واپسی پر اپنے الوداعی خطاب میں تبلیغی فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا.
288 ”ہندوستان مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مولد ہے اس لئے بھی اور اس لئے بھی کہ دہلی ہندوستان کا صدر مقام ہے.دہلی والوں پر خاص کر بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ہندوستان میں اس وقت چالیس کروڑ آدمی بستے ہیں، ان میں سے دس کروڑ مسلمان ہیں گویا 1/4 حصہ آبادی کو حضرت معین الدین چشتی ” اور قطب الدین بختیار کاکی ، حضرت نظام الدین اور دوسرے بزرگان نے مسلمان کیا.اب تمہارے لئے موقع ہے کہ اس کام کو سنبھالو.تین چوتھائی کام تمہارے حصہ میں آیا ہے.اس کا پورا کرنا تمہارے ذمہ ہے.خدا تعالیٰ مجھ کو اور تم کو اس فرض کے ادا کرنے کی توفیق بخشے.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ “ الفضل ۱۶.نومبر ۱۹۴۶ء صفحه ۸) ۱۱.نومبر ۱۹۴۹ء کو حضور ایک پبلک لیکچر کیلئے سرگودہا تشریف لے گئے.سفر سرگودہا مکرم مرزا عبد الحق صاحب اور مکرم صاحب خان صاحب نون نے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے معززین علاقہ کو مدعو کیا عام خطاب سے پہلے حضور نے ان سے ملاقات فرمائی.عام لیکچر کیلئے کمپنی باغ میں انتظام کیا گیا تھا.تقریر کے مقررہ وقت سے بہت پہلے ہی لوگ جلسہ گاہ میں جمع ہو گئے.حضور کے تشریف لانے میں کچھ دیر ہوگئی.احباب کی خواہش پر مکرم مولانا ابو العطاء صاحب نے قریباً ایک گھنٹہ بہت بر جستہ اور مؤثر خطاب فرمایا.حضور کی تقریر چار بجے سہ پہر شروع ہوئی اور چھ بجے تک جاری رہی.حضور نے اہلِ پاکستان کی ذمہ داریوں کی طرف اتنے پر اثر انداز میں خطاب فرمایا کہ ہزاروں کا مجمع پورے سکون اور توجہ سے سنتا رہا اور بعد میں معززین علاقہ نے اس پر اثر خطاب کی بہت تعریف کی اور برسوں بعد تک بھی اس جلسہ کی کامیابی کا تذکرہ مجالس میں ہوتا رہا.سفر بھیرہ حضرت فضل عمر نے اپنی حرم محترم حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ سے بھیرہ جانے کا وعدہ کیا ہوا تھا.جسکا آپ نے بار ہا ذکر فرمایا اور یہ بھی کہ مرحومہ کی زندگی میں وہاں جانے کا اتفاق نہ ہو سکا.اس طرح آپ نے اپنے اس ارادہ اور خواہش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : - " بھیرہ جانے کا ارادہ مدت سے ہے کیونکہ وہ حضرت خلیفہ اول (الفضل ۷.جنوری ۱۹۳۰ء.انوار العلوم جلد ا ا صفحه ۸۶) کا وطن ہے“ اپنی اس دیرینہ خواہش ( جس میں اپنے قابل احترام استاد حضرت خلیفہ اول کی عزت و اکرام
289 کے علاوہ اپنی مرحومہ بیوی سے کئے ہوئے وعدہ کا ایفاء بھی پیش نظر تھا ) کو پورا کرنے کیلئے حضور ۲۶ نومبر ۱۹۵۰ء کو بذریعہ کا ر بھیرہ تشریف لے گئے.راستہ میں حضور محترم مرزا عبد الحق صاحب سرگودہا کے مکان پر کچھ دیر کے.محترم مرزا صاحب نے حضور اور قافلہ والوں کی خدمت میں چائے پیش کی.اخبار الفضل اس سفر کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :- ملک صاحب خان صاحب نون معہ رفقاء سڑک پر آڑے ترچھے کھڑے ہو کر راستہ روکے ہوئے نظر آئے اور حضور کی کار ٹھہرتے ہی اپنے گاؤں فتح آباد چلنے کے لئے کچھ اس اخلاص و لجاجت کے ساتھ التجاء کی کہ حضور اس تاریخی سفر کی مبارک ساعتوں میں سے چند لمحے فتح آباد کیلئے قربان کر دینے پر آمادہ ہو گئے......وہاں حضور نے کوئی بیس منٹ کے قریب آرام فرمایا.بھیرے والوں پر بھی اپنے وطن کی عظمت کا انکشاف شاید آج ہی ہوا تھا کہ انکے وطن کی زمین میں کیسا بے بہا نگینہ پیدا ہوا تھا جسکی آب و تاب دیکھنے کیلئے مصلح موعود ایدہ اللہ جیسا خلیفہ آرہا تھا لیکن یہ امر باعث مسرت ہے کہ اس احساس کو بھی (جو گودیر کے بعد پیدا ہوا) انہوں نے یونہی نہیں جانے دیا اور اس قیمتی ساعت کا خوب خوب ہی فائدہ اٹھا یا کیونکہ ہماری کاریں اور بسیں جو نہی شہر میں داخل ہوئیں یوں دکھائی دیتا تھا جیسے سارے کا سارا بھیرہ ہی خیر مقدم کیلئے لپک پڑا ہو.ہم جدھر سے بھی گذرے سڑکوں ، گلیوں اور راستوں دونوں طرف لوگ پرے کے پرے جمائے کھڑے تھے اور محمود ایدہ اللہ کی زیارت کے شیدائی پروانہ وار گرتے پڑتے نظر آئے......حضور کار سے اترتے ہی سب سے پہلے حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کے آبائی مکان میں تشریف لے گئے.اس مکان کے ایک کونے میں احباب جماعت نے حضور کو کرم دین نامی تنور والے کی رہائش گاہ بھی دکھائی جس کو اللہ تعالیٰ نے غیر احمدی ہونے کے باوجود محض حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی محبت اور عظمت کی وجہ سے تعصب و تنظر کے اس مختند و تیز جھکڑوں میں ثابت قدم رہنے کی توفیق دی تھی جب احمدیت کی قبولیت کا سن کر سارے بھیرہ والوں نے حضور کا مجلسی اور تمدنی بائیکاٹ کر دیا تھا اور باقی تنوروں والوں نے روٹی پکانے سے انکار کر دیا تھا، کرم دین نے ہر قسم
290 کے لالچ اور رعب و داب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضور سے بائیکاٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا.حضور نے بھی اسکے اقدام کی قدر کی اور اسکو اپنے آبائی مکان کا ایک حصہ دے دیا تھا......اس واقعہ کا دُہرانا تھا کہ حضور کی آنکھوں میں وہ زمانہ پھر گیا اور آپ نے اس سے خواہش کی کہ گو اس کا لڑکا غیر احمدی ہی ہے لیکن اس سے کہا جائے کہ وہ میرے لئے بھی روٹی اپنے ہاتھ سے پکائے چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور ایسا ہی ہوا اور احمدیت کے اس جلیل القدر خلیفہ نے اس کرم دین کے بیٹے غلام احمد صاحب کے ہاتھ سے پکی ہوئی روٹی کھائی جس کے باپ نے کبھی احمدیت کے شیدائی اور آپکے اُستاد سے مصائب کے دور میں وفا کی.دو نفل شکرانہ کے ادا کرنے کے بعد امیر مقامی کی استدعا پر مسجد میں سنگ مرمر کا ایک یاد گار کتبہ نصب فرمایا.اسکے بعد حضور حضرت خلیفہ اول کا مطب دیکھنے تشریف لے گئے.مکان سے مطب تک جانا بھی معنے رکھتا تھا بچے ، بوڑھے ، جوان پروانوں کی طرح گرتے پڑتے تھے.مستورات دور و یہ چھتوں پر سے پھول اور ہار برسا رہی تھیں، راستے پر مختلف موڑوں پر دروازے نصب تھے جن پر سنہری حروف میں اَهْلاً وَ سَهْلاً وَ مَرْحَباً لکھا ہوا تھا اور فضا ہر دومنٹ کے بعد اسلام زندہ باد ( حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) زندہ باد کے پُر جوش نعروں سے گونج اٹھتی تھی الغرض ایک عجیب با برکت سماں تھا جس نے عقیدتوں کو پر لگا دیے تھے.“ حضور نے اپنی تقریر میں بھیرہ سے روحانی اور جسمانی تعلق کے ذکر میں فرمایا :- بھیرہ والوں کیلئے تو بھیرہ صرف اینٹوں ، چونے اور گارے کا بنا ہوا ایک شہر ہے لیکن میرے لئے وہ اسکے علاوہ مولد ومسکن ہے میرے شفیق استاد کا جس نے مجھے نہایت محبت کے ساتھ قرآن کریم اور بخاری کا ترجمہ پڑھایا.پھر بھیرہ والوں کے لئے شاید اسلئے عزیز ہو کہ انہوں نے بھیرہ کی ماؤں کی چھاتیوں سے دودھ پیا لیکن میرے لئے اسلئے باعث محبت وکشش ہے کہ میں نے اس خطہ زمین کے ایک مقتدر شخص کی زبان سے قرآن کے معارف
291 کا دودھ پیا ہے.اسکے علاوہ میرا ایک جسمانی تعلق بھی بھیرہ سے ہے کہ میری دوسری بیوی امتہ الحی مرحومہ اس بھیرہ سے متعلق تھیں اور حضرت مولوی صاحب کی صاحبزادی تھیں میں اپنی زندگی میں ہمیشہ انہیں کہا کرتا تھا کہ میں تمہیں بھیرہ لے جاؤں گا اور پھر ہم حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے مکانات وغیرہ دیکھیں گے لیکن یہ خواہش ایک ربع صدی سے زائد عرصہ تک شرمندۂ تکمیل نہ ہوسکی اور آج مجھے یہاں آنے کی توفیق ملی تو وہ عورت اس جہاں میں موجود نہیں ہے جس سے میں نے وعدہ کیا تھا یہی وجہ تھی کہ میں جو نہی اس قصبہ میں داخل ہوا مجھے وہ تمام باتیں یاد آگئیں اور میرے دل کا وہ زخم ہر ا سا ہو گیا.“ (الفضل ۲۹.نومبر ۱۹۵۰ء صفحه ۴)
293 حضور کے بعض خطوط حضور کی ڈاک میں روزانہ سینکڑوں خطوط آتے تھے جو چھوٹی سے چھوٹی گھر یلو باتوں سے لے کر اہم ملکی اور قومی امور کے متعلق ہوتے تھے اسی طرح روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں جواب بھی جاتے تھے.یہاں ان کو جمع کرنا تو مد نظر نہیں ہے البتہ خطوط چونکہ بے تکلفی اور سادگی کا انداز لئے ہوتے ہیں اس لئے یہ بھی سیرت پر روشنی ڈالتے ہیں اس غرض سے چند خطوط درج ذیل ہیں :- ایک مبلغ سلسلہ کے نام جنہوں نے اپنی بعض کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی تھی حضور نے ایک سطر کا جواب دیا مگر اس ایک سطر میں کمزوریوں پر غالب آنے ، مایوسی کو دور کرنے ، امید کی تروتازگی پیدا کرنے ، خدا تعالیٰ پر توکل اور یقین پیدا کرنے کا ایک وسیع مضمون بیان فرما دیا:- نیا درکھیں جو شخص اپنی کمزوریوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا سمجھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو نہیں پاسکتا“ (۲.جولائی ۱۹۲۹ء) مکرم شیخ فضل احمد صاحب کے نام بے تکلفی کے انداز میں لکھا ہوا ایک خط : - مگر می شیخ صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ - خیمہ پہنچ گئے.جَزَاكُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ چونکہ فوجی خیموں کا مجھے علم نہ تھا مجھے ان کی گنجائش کے متعلق دھوکا لگا یہ تو بہت چھوٹے ہیں قریباً چھولداریوں کے برابر ہیں مگر نہ ہونے سے اچھے ہیں اور إِنْشَاءَ الله ان سے ہمیں بہت آرام مل جائے گا.جَزَاكُمُ اللهُ اگر ان سے دُگنا خیمہ بنوایا جائے تو اس کی کیا لاگت ہوگی ؟ فوج میں تو شاید اپنے بنوائے جاتے ہیں اگر اس کا اندازہ آپ کو معلوم ہو تو اطلاع دیں
294 کیونکہ میرا ارادہ ہے کہ ایک یا دو خیمہ بنوا لئے جائیں کیونکہ ضرورت کے وقت ان سے بہت مددمل جاتی ہے.اور سب طرح سے خیریت ہے میری صحت آگے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہو رہی ہے.خاکسار مرز امحمود احمد حضور سفارش کو سخت نا پسند فرماتے تھے مگر خدمت خلق کے ایک موقع پر فائدہ اُٹھاتے ہوئے جس میں صلہ رحمی کا رنگ بھی ہے تحریر فرماتے ہیں :- عزیزم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب کراچی ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ یہ خط اپنے عزیز کے لئے بطور سفارش لکھ رہا ہوں.میرے ماموں زاد بھائی کی لڑکی کے خاوند سید قاسم حسین صاحب ٹرین اگزیمنر ہیں ان کو کچھ عرصہ سے فالج ہو چکا ہے ابھی علاج سے فائدہ نہیں ہوا.ان کے لئے یہ تحریر ہے کہ اول تو ان کا علاج محنت سے کریں اور انہیں ہو سکے تو ریلوے ہسپتال میں داخل کروا دیں اور یہ کہ آپ کوشش کریں کہ ان کو صحت تک رخصت مل جائے اور نوکری نہ جاتی رہے کیونکہ یہ لوگ مہاجر ہیں اور گزارہ کی صورت نہیں.سید قاسم حسین صاحب، خواجہ معین الدین صاحب درگاہ اجمیر صاحب کے خاندان سے ہیں اور میری بھانجی کے خاوند ہیں.ان دنوں میری گردن کی شکایت میں کچھ آرام ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد ایک اور خط میں مریض کے علاج کا ایک نفسیاتی طریق بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:.مکرمی! بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - آپ کا خط مورخہ ۵۴-۱۱-۴ ملا.جَزَاكُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ مریض سے کہیں کہ وہ اپنے اچھا ہونے کی آپ بھی کوشش کریں دل کی امنگ کا
بہت اثر ہوتا ہے.295 والسلام خاکسار مرزا محمود احمد ۵۴-۱۱-۴ حضرت اماں جان کے نام مختصر خط میں اپنی خیر بیت کی اطلاع بھی دیدی اور سب افراد خاندان کی خیریت بھی معلوم فرمائی.حضرت اماں جان کے فکر اور تشویش کو دور کرنے کا ایک پیارا انداز : - بمبئی پندرہ جولائی ۱۹۲۴ء جناب والدہ صاحبہ مکرمہ لَا زَالَتْ تَحْتَ ظِلَّ حِمَايَتِهِ تَعَالَى! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.یہ خط تو میں ریل میں سے چودہ تاریخ کو لکھ رہا ہوں.مگر ڈالوں گا اِنْشَاءَ اللہ جہاز میں سوار ہونے کے بعد.اس وقت اس لئے لکھتا ہوں کہ آگے جہاز میں سوار ہونے تک کوئی وقت فرصت کا نہیں.امید ہے کہ ہمشیرہ مبارکہ بیگم کو اب آرام ہوگا، ناصر احمد کو بخار تھا نہ معلوم اس کا اب کیا حال ہے.خدا جانے بمبئی میں ہمیں کوئی خبر خیریت کی بذریعہ تار ملتی ہے یا نہیں.ہم اِنشَاءَ اللہ جس وقت یہ خط آپ کو ملے گا ہندوستان کے ساحل سے دُور سمندر پر سفر کر رہے ہوں گے.تلاطم آجکل سخت ہے اور جہاز چھوٹا ہے اللہ تعالیٰ ہی حافظ و ناصر ہو.اللہ تعالیٰ خیریت سے پہنچائے تو انُشَاءَ اللهُ عدن سے پھر خبر دے سکتے ہیں اور ہمیں خبر پہنچ سکتی ہے یعنی بائیں یا تمھیں کو آپ کو خبر پہنچ سکتی ہے اکیس تاریخ تک جہاز غالبا عدن پہنچے گا.عزیزہ امتہ الحفیظ بیگم کو السَّلَامُ عَلَيْكُمُ.بچوں کو پیار اور سلام.نواب صاحب کو اور میاں عبداللہ خان صاحب کو السَّلَامُ عَلَيْكُم.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہوا اور ہر ایک قسم کی تکلیفوں سے آپ کو محفوظ رکھے.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد (الفضل ۲۸.اپریل ۱۹۶۶ء) حضور نے حضرت اماں جان کے نام اپنے سفر کے دوران جو خط لکھا اس میں خیریت کی خبر بھی تھی سفر کے حالات بھی تھے ، ایک بہت لطیف مزاح بھی تھا اور دوستوں کی فدائیت کا بھی بڑے
296 اچھے رنگ میں ذکر تھا.یہ خط درج ذیل ہے:.مکرمہ و معظمه جناب والدہ صاحبہ زَادَ هَا اللَّهُ مَجْدَ هَا! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ.ابھی ہم جہاز میں ہیں اور اللہ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں کہ کل صبح عدن پہنچ جائیں گے.آج ساتواں دن ہے کہ ہم سمندر میں چلے جا رہے ہیں.اول تو بمبئی ایسے وقت میں پہنچے کہ کھانے پینے کا سامان لینے کا موقع نہ ملا.پھر جہاز میں سوار ہوئے تو بمبئی سے نکلتے ہی تیز ہوا شروع ہوگئی اور جہاز ڈانواں ڈول ہونے لگا.ابھی ہم بمبئی سے دس میل نہ نکلے ہوں گے کہ شرابیوں کی طرح سب کے قدم لڑکھڑانے لگے.ایک ایک کر کے سب کو متلی شروع ہوئی اور اوندھے منہ گرنے لگے.ڈاکٹر صاحب کو طوفان نے گرسی پر سے گرادیا اور تمام منہ زخمی ہو گیا.آج تک ان کے منہ پر نشان ہے.میاں شریف احمد بھی لیٹ گئے اور سب کو قے آنی شروع ہوئی خدا کا فضل رہا مجھے تے نہیں آئی.بھائی جی اور چوہدری فتح محمد سیال اچھے رہے باقی سب بیمار ہو گئے.پانچ دن تک برابر یہی کیفیت رہی کہ کبھی سر او پر اور کبھی لاتیں اوپر کبھی اگلا سر جہاز کا آسمان کے ساتھ اور کبھی پچھلا.بس یہ سمجھ لیں کہ ایک اونچے درخت سے پینگ ڈال کر ایک شخص کو اس پر باندھ دیا جائے اور پچاس ساٹھ آدمی کھڑے ہو کر رات اور دن باری باری اس کو ہلائیں اور ایک منٹ کا سانس نہ لینے دیں اور پانچ دن اسی طرح کرتے رہیں.جو اچھے تھے ان کے مونہوں پر بھی ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں.سب صحن میں پڑے تھے کمروں میں جانے کی بھی کسی کو ہمت نہ تھی بعض روتے تھے کہ جن لوگوں نے ہمیں آنے کا مشورہ دیا تھا وہ ضرور بدنیت تھے اور سمندر میں ہمیں مارنے کا ارادہ تھا.ادھر کھانا انگریزی جس کا سر نہ پیراکثر جھٹکا اور سور.ماسٹری ہوئی ڈبوں کی مچھلی ورنہ خالی اُبلے ہوئے آلو اور تھرڈ کلاس دالوں کے لئے چونکہ بمبئی سے چیزیں لینے کا موقع نہیں ملا تھا وہ بیچارے فاقہ زدہ.اول تو دو دو دن تک منہ میں دانہ ڈالنے کی خواہش نہ ہو اور جب ہو تو ملتا کچھ نہیں.رحم دین بیچارہ خود صاحب فراش.چہرہ سے اس کے یوں معلوم ہوتا تھا کہ
To the Daily Almuslih Karachi Brethren you have heard about the attack made upon me by an ignorant enemy.May God open these peoples' eyes and make them understand their duty towards Islam and Holy Prophet.My brethren pray to God that if my hour has come Allah may give my soul peace.and bestow His blessings.Also pray that God through His bounty may give you a leader better suited to the job than I was.I have loved you always better than my wives and children and was always ready to sacrifice every one.near and dear to me to the cause of Islam and Ahmadiyyat.I expect from you and your coming generations also to be so for all times God be with you.
stop tome enery neard dear to the cause meary to of Jam & Ahmadiyel I expect from you в aho four coming generation I to be so for all times God be with yo Wasslan Moja mam Alamand 10/5
Alleh soul the may give my peace o Heston His blessings stof also pray that Go through His bo myfive you a leader better ited to the fole than I ما as slow I have loves fon always better th my wives & children two always, heady to sacrifice
حضرت مصلح موعود کا حملے کے بعد رقم فرمودہ انگریزی پیغام Brotheren you have heard about the attack made when me by an gnorant stoh eremy may God over there peoples eyes & make them understand their duty towers Islam & holy probhat stop my Pobrother pray to God that if my how has come
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب یورپ میں جب حصول تعلیم کیلئے ( 1934-1938ء) المصل مقیم تھے تو آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح موعود کے نام ایک خط کے ذریعہ اپنی زندگی وقف کرنے کا تحریر کیا تھا.حضور نے جو جواب تحریر فرمایا اس کا عکس دیا جارہا ہے.پیارے ناصر الله اللہ علیکم ورحد است تمہارا ایک خطہ تو بی وقع اور تعالمہ دو اپ ہی نے صد پو پلے کا نا ہی جو اب ایک نہیں دیاہے کیونکہ اسوقت میرے جذبات اسوقت بہت متاثر کے امرمیں تورا جواب دینے کے قابل نہیں تھا اللہ دینے تائے تمھارے ارادہ میں برکت ڈالیے.میموری کی باره می باوجود شدید احساس - کا توفیق دے کیونکہ میرے نزدیک میری تورکیا ر تمہارا ادارے کو بدلنا بہار ہے تو ہے کو ضائع کر دیتا.سو الحمد للہ تبارا دل اس طرفہ متوجہ ہوا.
کیے تحت افسوس آتا ہے کہ حضرت میکی موعود علیہ السلام کا تعلق کا عظیم استان در سے کچھے ا ہارے خاندان نے قدر نہیں کیا.ایسے نوید اتو 2 اعمال امرا فالس اسی نتاع ہے اسی نے بانک ملت نہیں جو انہیں خداتعالے نے بنا تھا اگر دنیا کا ہر تکلیف کا شکار ہو کر بھی ہم اس متاع و وقار کو تا ہی رکھنے کی کوشش کرتے تو یہ احسان الکی کا بدلہ نہ کے کوتا تھا.ہم دوناے گا دون استانی کو برامد برا منتوں کو جھوٹا قرار دیے روپے کی اور دنیا کا چھوتا خوشیاں بار مالی بھی ہیں.مقصد قرار دے رہے کی امدی و بانا کا مقام جو قد آتا ہے نے بخشا تھا ایک بھولا رہے انوں کے تعال ہیں.مالا کہ جو خود ستائے تہ ہے کو جاتا ہے اللہ تعالے خود کو کا مینٹل ہو جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوقات پر سی نے صوبہ کی حالت کو دیکھتے ہوئے ، سند اپنی کی سالا اک چھوڑ دیا اور خداستانی اور فضل کا ایک ایسی حالت کو کیوں لیا کہ اگر مہ ارتقائے نہ ہوتا توی بندوستان 20 میلی ترین موجودہ اس کے ہوتا مگر
برا اسلامی کا اور برا یانا کونہ تھا.آزاد کا زمنگ کے بعدی نے کرنا چاہیے.تہ به نیا میں رو پے میں ایک بیوہ اور دور ہوں کسی گزاره شرقی یا میرا ہوگا مستقبل ہنسا جانے اور کا مستقبل کا خیال بھی میرے دہلی نہ تھا موت ایک جزیرے کس نے تھی اور وہ یہ تھ کھڑے میں مو بور ہو کارنامے پر جماعت منظوری لے گیا ہے اورا کی حالت کی سے موعود کے سفر نقایہ کرنا ہر اترقی ہے میرے رائے ہے کہ والدہ کی قبر ہی کو کس کی کیا لیکن میں حد یک زائد شی بہت جلد ایک عزا میرے دلی پیدا ہوا اور ی نے مستقبل کے خیال کو کی کوکی طور پر اپنے دل کے کالر یا کی ایک مشاہد نے بھی جوہری نے اپنے دلی پر حال نہیں آنے دیا کہ برا اور میری اولا ولا و مستقبل کیا ہو امریکاکے کے بالی یاد آیا کہ منگل کی لکل تھا جھائی یوں پر بھی میں گزارہ کرونگا لیکن ایک انسان کے اپنے راستہ ہے نہیں پرو نام دوستان نے لے شاہ نے اپنے اپنے وعدہ پورا کر یا توفیق دی ہے جانا گیا کہ میں ٹیکسی نبی پر اسی ایک حیران ہوں کہ اسوقت کالری دوستان نے ایک می خورد و یا آزاد کر دیا نہ مرا می بلکہ میری اس کو کی توی یک حرفایی
ان دعوی کی خواہشارے کیے آزاد کرکے میری زندگی کو پریشانی کے بٹھا لیا.اسکے بعد حکوقت کا وہ آیا بالی ابتداد ایک تاریک حالات میں ہوں کہ بہ ظاہر وہ خلافت تو کبھی دور سے خود گئی تھی لیں اللہ تعالے نے بھی کی موت کو قبول کر نیکی بھی توفیق دی مگر اچھے بعد اللہ تعالے کو معلوم نے تا ہے جو کر دیا کہ بار اقتداز شدہ خدا ہے جس کے مجھے اسکے لیے قوت قبول کر لیتا ہے بشرطیکہ وہ موٹے کیا ہو بشر طیکہ انسان اپنے نفس کو رکے لیے بالنگا مار رہے بشرطیکہ وہ الوہی اللہ سے با وعود دیا میں بنے تو آزاد ہو جانے کند داستان اور مساعدی اور سیره معادی ایسکانی کافتاده است قدراتقائے اتھے را به پروانه گا دوست را قرار دارد اثر ہو اور کیا اور فرمانی مقدار وہ سکندر ہی پیاری ہوا کر کوئی اثر نہ ہو یہ راستہ ہے جو ہمارے خاندان ن نے اللہ تعالے نے تجویز کیا ہے بغیر اپنے کا دینے کا اسلام آج کا یاد نہیں ہوگا اللہ سوال کھیل بنی کہ یونہی لے ہوجائے وہ
؟ ایک ایسا مشکل کا ہے کہ اس کیا ہے القدر مشکلی کا کیا دنیا کو پیش نہیں آیا کہ کے ویوا تو کیا ضرورت ہے اگی زند گامی موت کو قبول کر لیے والد) فرمودہ ہے اور سور کا زیادہ است تا یاد کی باره می ہمارے خاندان پر نظر ر کتا ہے وہ دیکھنا چا ہتاہے کہ مسیح موعود علی کا ہم نے یا قدر کا اگر وہم کا نعمت کو عیبا ذا بالله و متکار و یخ بستاں اور لوگوں کے دل اس کےلئے کھو لیگا بت سے نعمت دو کرکے گھروهای ملی با نام.دوسرے لونگ کر کیا توا ہو پر ہی اور ہو سکیے اور ہوئے لیکن اک صورت کی ہم لوگ اس کے مروع کر رہے کیا پہنچے اور مروہ دو کروسکم کے لیے ہوگا.استغفراللہ استغفرالہ استغفر الله کاش یہ لو گو مور کا قیس نے مجھے توفیق ہے اس کے لوگ اکی زرداری کو کچھ کر دینا کی آسائشوں کو نہ دیکھو کہ ی چیز جسے خاتقا ئے مانگا معلمی دیر لگا اور جے نہیں یا میگا اسکا دفاع صرف آخرت بلی بلی چانگا
اندہی نہیں کہتا کہ خداتعالے پر ایمان رکھنے والیکو اکر بالاتر اضی ہوتا ہے اصل کنند دینا وہی ہے دیور کے بعد ا ہوا ہے اگر ایک گھی کو اللہ بتائے وکی دیناسی نوری قانہ کے انگا ہے کہ ہر شہرہ کے بھی محروم کر دیتا ہے لیکن دوسرے جانی بڑے بڑے منہ پر لیڈروں پر ا کے فوقیت و نا لے جانا اور کے بادشاہ کر دیتا ہے تو اسپر ہر گز قطع نہیں کرتا.قد ارتقائے فی الدینا نسته و می اند کرہ مقدر شدہ وائی ان b گاردها و حسنہ کی دعا سکتا تاب و استیے کے دونوں دعائیں مانگنے پر بین اثر اکیا مشیت کرید اور باتی ہو اگر جای کی یہ کسیکو مرمت آگئے جہاں نفرت دیتا تا ہے تو آپکے رہنے کرنیکی کو گا وجہ بنی یہ راستہ ہے جو کار الستب اسکا نسبت خداقت یا کاریان فرماتا ہے کہ اگر یہ میٹر رہی ہو کچھ رہے ہے یہ عالی مقام کیا ہے لے کر فروماندان 0 2 اصول پر مخلص اللملی شبایت
کے لئے مکن الحصول ہے.ائے طاق تو عارف والاول سو واله المستفان وبين التكلان - موب ٹی 20 21.0 مسکی قوم نے اسراحت را ادیرا خیال ہے کہ جرمن زبان بستر و سنگی کیونکہ فرانسیسی نا مان پند دوستانای کا24 باریه کانی نے والسلام خاللہ الحمد اللہ
297 سامنے پھانسی لٹک رہی ہے اور اُس کو دیکھ کر اُس کی روح کانپ رہی ہے.نواب صاحب کے کام نے اس پر پندرہ سال میں وہ اثر نہ کیا تھا جو ان پانچ دنوں نے کیا.چہرہ مارے گھر یوں کے پہچانا نہیں جاتا.اس کی اپنی بیوی دیکھے تو نہ پہچانے.جب ذرا آرام ہوا تو بھی یہ حال کہ جب میں ذرا باہر لوگوں کے پاس جاؤں اور سب ساتھی اکٹھے ہوں تو ایک عجیب دردناک منظر سامنے آجا تا تھا.گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے چاروں طرف سے ساتھی دوڑتے تھے اُٹھ کر آنے کی بہتوں میں طاقت نہ تھی مگر الْحَمْدُ لِلَّهِ کہ اب آرام ہے.الفضل ۱۲.اگست ۱۹۶۶ء صفحه ۳) حضور کا مندرجہ ذیل خط جو ایک پیار کرنے والے باپ نے اپنی بیٹی کولکھا اس میں باپ کی محبت تو چھلک ہی رہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس سے بھی بڑھ کر عشق رسول کا ایک بے ساختہ اظہار ہے جس نے بچی کے دل پر ایک انمٹ نقش پیدا کیا.صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحب لکھتی ہیں :- حضرت اباجان جب ویمبلے کانفرنس میں شرکت کے لئے لنڈن تشریف لے گئے تو آپ نے بحری جہاز سے جو پہلا خط بھیجا وہ مجھے ابھی تک نہیں بھولا اور اس کا اثر ہمیشہ مجھ پر رہا آپ کے خط کی پوری تحریر تو یاد نہیں مگر آپ کے خط کے جو الفاظ ہمیشہ میرے دل کو گرماتے رہے.وہ یہ ہیں:.جان پدر! آج ہم بخیریت بحیرہ عرب سے گزر رہے ہیں دیارِ محبوب کی ٹھنڈی اور فرحت بخش ہوا ئیں میرے دل و جان کو معطر کر رہی ہیں اور میرا دل اپنے آقا و مطاع کے مولد و مدفن کے دیکھنے کے لئے بیقرار ہے.زبان پر بار خدایا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لئے تمہارا چاہنے والا باپ“ مکرم عبدالحمید صاحب ریلوے آڈیٹر لاہور کے نام مندرجہ ذیل خط سے لوگوں کی اصلاح کے لئے حضور کی خواہش اور تڑپ کا اظہار ہوتا ہے مگر تو ازن و اعتدال کی نصیحت بھی ساتھ ہی موجود ہے :-
298 مکرمی شیخ صاحب ! اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ.میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ شفا عنایت فرمائے.سیالکوٹ کی حالت پر افسوس ہے آپ ضرور باقی دوستوں سے مل کر اس فتنہ سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کریں اور اب جبکہ یہ لوگ صریح جھوٹ پر آمادہ ہیں میں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ جو صحیح واقعات آپ کو معلوم ہیں انہیں لوگوں پر ظاہر کریں تا کہ لوگ غلط فہمی سے محفوظ رہیں اور ان لوگوں کی قربانی کا حال انہیں معلوم ہو.اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے.مشکی یا بدظنی پر محمول بات کوئی نہ ہو.استغفار بہت کریں.تا منہ سے کوئی بات ایسی نہ نکلے جو غلط ہو یا جس کے بیان کرنے میں نیت نیک نہ ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں نفسانی خواہشات اور کینہ تو زیوں سے محفوظ رکھے.عداوت سے کوئی کام نہ کریں بلکہ اخلاص اور تائید حق کے لئے.حدیث میں ہے اتنی دشمنی نہ کرو کہ بعد میں پچھتانا پڑے اور اتنی دوستی بھی نہ کرو کہ بعد میں پچھتانا پڑے.سوان نصائح کو یا د رکھ کر مناسب تدابیر سے غافل نہ ہوں.مجھے سیالکوٹ پر رحم آتا ہے وہاں کی جماعت کو ثابت قدم رکھنے کیلئے بہت کوشش کریں........چوہدری نصر اللہ خاں صاحب نے بیعت کر لی ہے میں نے ان کے لئے اور ایک اور شخص کے لئے دعا کی تھی اللہ تعالیٰ جماعت پر رحم فرمائے.یہ لوگ کس طرف چلے جا رہے ہیں خدا کے کام کوئی نہیں روک سکتا اور کوئی نہیں روک سکے گا.اگر میرا قیام خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہے اور مجھے اس کے فضل سے یقین ہے کہ ایسا ہی ہے تو یہ لوگ خواہ کس قدر ہی مخالفت کر لیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نا کام اور نا مرا در ہیں گے........افسوس کہ وہ تلوار جو غیروں پر چلنی تھی اپنوں پر چلانی پڑی اور وہ زور جو غیروں کے مقابلہ پر خرچ کرنا تھا اپنوں پر خرچ کرنا پڑا.بہتر ہوتا اگر یہ نہ ہوتا مگر اللہ تعالیٰ کے نشان کیونکر ظاہر ہوتے کس طرح ہو سکتا تھا کہ سوئی ہوئی جماعت پھر جاگتی اگر اس طرح شور نہ پڑتا.(الفضل ۶.اپریل ۱۹۲۶ء صفحہ ۷ ) مندرجہ ذیل خطوط مولانا مکرم نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ انچارج غانا کے نام ہیں.ان خطوط
299 میں ضروری نصائح ، جماعتی امور کے متعلق راہنمائی، ایک مبلغ سلسلہ کی صحت کے متعلق فکر مندی اور اس کے گھر کے حالات کا علم ہونے اور ایسے اس سے آگاہ رکھنے کا اہتمام غرض یہ کہ پیار و محبت کے منفرد انداز نظر آتے ہیں :- قادیان IA_Y_M عزیزم ! اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ آپ کی چٹھی مورخہ ۶۳۰-۵-۱۴ ملی.حالات سے اطلاع ہوئی اللہ تعالیٰ آپ کو خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.لجنہ اماء اللہ کے قیام پر مبارکباد.اور عورتوں کو پیغام دے دیں کہ ان کی ہمت اور تقویٰ پر اسلام کی ترقی کا بہت کچھ مدار ہے.ہندوستان کی حالت بدستور ہے.وفات کی خبر اڑانے (ایک انگریزی اخبار میں حضور کی وفات کی غلط خبر شائع ہوئی تھی.ناقل ) سے جہاں جماعت کو مالی طور پر نقصان ہوا ہے وہاں روحانی طور پر فائدہ بھی ہوا ہے.جماعت میں اس واقعہ کی وجہ سے بیداری پیدا ہو گئی ہے.جو لوگ خلافت کی اہمیت سے ناواقف تھے اُن پر اس کی اہمیت اور عظمت ظاہر ہوگئی.دشمن نے چاہا تھا کہ اس خبر کے اُڑنے سے جماعت تتر بتر ہو جائیگی اس طرح سخت نقصان ہو گا.لیکن خدا نے اس میں بھی جماعت کے لئے فائدہ کی صورت نکالدی فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ڈلک.بیعتوں کا جواب براہِ راست بھجوا دیا گیا ہے.آپ کے گھر میں ہر طرح سے خیرت ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو قادیان ۱۹۳۱ء.۷.۱۶ عزیزم مکرم ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - آپ کی چٹھی مؤرخہ ۶۳۱-۵-۱۹ ملی.سکول کے متعلق حالات معلوم ہوئے.دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ اپنا فضل و کرم فرمائے اور خدمتِ دین میں آپ کا
300 حافظ وناصر ہو.اس پر تو کل اور بھروسہ رکھیں اور کوشش کرتے رہیں اور تحریر کریں کہ ملک کی آبادی کس قدر ہے، مسیحی کتنے ہیں، آجکل یہاں ایک شخص مسمی سید محمد شریف صاحب نے چیلنج مباہلہ دے رکھا ہے چیلنج قبول کر لیا گیا ہے مگر انہوں نے بعض اصولی باتوں سے انکار کر دیا ہے سب امور کے تصفیہ ہونے پر مباہلہ ہو گا.قادیان میں خدا کے فضل سے خیریت ہے قادیان ۶۳۰-۴-۹ عزیزم مکرم ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ دیر سے آپ کی طرف سے رپورٹ نہیں پہنچی اس ڈاک میں آپ کا خط مورخہ ۶۳۰.۳.۵ ملا.آپ کی صحت کے لئے دعا کی گئی اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور صحیح لائنز پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.مستریوں کے اخبار مباہلہ کی سخت گندہ دینی اور بکواس کی وجہ سے جماعت میں غیر معمولی جوش ہے اور یہاں کی لوکل انجمن اور باہر کی جماعتوں نے اس کے خلاف اظہار نفرت کے لئے اجلاس منعقد کئے ہیں.روحانی طور پر تو یہ اللہ تعالیٰ کی گرفت کے نیچے آچکے ہیں.احمدیت سے عَلَى الْإِعلان نہ صرف انکار بلکہ پبلک میں حضرت مسیح موعود کی سچائی پر اعتراضات کر چکے ہیں.اب ان کے حد سے بڑھتے ہوئے ظلم پر اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ دکھائے گا اور ان کو اپنے کئے کی سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑے گا انہوں نے بہت بے گناہوں کے دلوں کو پارہ پارہ کیا.پچھلے دنوں ہالینڈ گورنمنٹ کے ایک کونسل جو کہ جدہ میں مقرر ہوئے ہیں یہاں کے حالات معلوم کرنے کے لئے تشریف لائے اور اچھا اثر لے کر گئے.آپ کے گھر میں ہر طرح سے خیرت ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو از قادیان ۱۱۶۲۹.۲۷ ☆☆ مکرمی ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ! آپ محنت اور استقلال سے تبلیغ کی طرف توجہ کریں.انتظامی امور
301 میں بھی سوچ سمجھ کر ہاتھ ڈالیں.گھبرانے کی کوئی بات نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.نوٹ.گھر کے حالات منسلکہ کاغذ پر درج ہیں.از قادیان ۱۹۳۰ء.۱.۱۵ عزیز مکرم ! السَّلَامُ عَلَيْكُمُ ! آپ کی چٹھی مؤرخہ ۲۹ ء.۱۱.۱۸ ملی.حالات سے اطلاع ہوئی آپ کے لئے دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ آپ کو خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.مؤرخہ ۲۹ء.۹.۱۹ کے خط کا مفہوم جو آپ نے سمجھا وہ صحیح ہے.نئے مبائعین کے مکمل پتے لکھا کریں.اس طرح وہ مرکز سے براہِ راست تعلقات پیدا کرنے کی بھی کوشش کریں گے.آپ کے گھر میں ہر طرح خیریت ہے.از قادیان ۱۹۳۰ء-۲-۵ عزیز مکرم السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ! ! آپ کی پچٹھی مؤرخہ ۱۹۲۹ء.۱۲.۲۱ ملی.حالات سے اطلاع ہوئی آپ کے لئے دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے کام کئے جائیں.یہ الہی سلسلہ ہے وہ خود اسباب مہیا کر دے گا.آپ کی صحت کے متعلق بھی حالات معلوم ہوئے.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے.مچھلی کے تیل کا استعمال جاری رکھیں مگر مقدار کم ہو.آپ کے گھر میں ہر طرح سے خیریت ہے.از قادیان ۱۹۳۰ء-۲-۱۹ عزیز مکرم السَّلَامُ عَلَيْكُمُ ! آپ کی وچٹھی مؤرخہ ۱۹۳۰ء.۱.۳ املی.حالات سے اطلاع ہوئی آپ
302 کے لئے دعا کی گئی اللہ تعالٰی آپ کو صحت عطا فرمائے اور خدمت دین کا موقع دے.میں نے تبلیغ سے منع نہیں کیا جیسا کہ آپ کی پیٹھی سے سمجھا جاتا ہے اسی لئے تو آپ گئے ہیں.بلکہ صرف سوشل فنکشنز کے موقع پر تبلیغ سے منع کیا تھا.آپ نے خود ہی لکھا تھا کہ اس لیکچر کا بُرا اثر پڑا.جس پر لکھا گیا تھا کہ آئندہ ایسی غلطی نہ کریں.اب آپ نے لکھا ہے کہ نہیں ایسا کوئی بُرا اثر نہیں پڑا تھا.آپ کی جدید جد وجہد بہت قابل قدر ہے.اللہ تعالیٰ ترقی دے.مقامی لوگوں سے اچھے تعلقات رکھیں اور تبلیغ کو وسیع کریں.انشَاءَ اللہ اس سے بہت فائدہ ہوگا.عورتوں میں تبلیغ اور تربیت کا کام بہت مفید ہے.جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ..اس بات سے خوشی ہوئی ہے کہ عورتوں میں بیداری کا احساس پیدا ہوا ہے.بغیر عورتوں کی بیداری کے ملک ترقی نہیں کر سکتا.پس عورتوں کی بیداری کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے.آپ کے والد کے لئے بھی دعا کی گئی ہے.از قادیان عزیز مکرم السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ! آپ کی چٹھی مورخہ ۳۰ ء.۷.9 ملی.حالات سے اطلاع ہوئی.آر کے لئے دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.نیز واضح رہے کہ تمام اصلاح آہستگی سے کریں.یہ طریق اچھا ہے.میرا یہ مطلب نہ تھا کہ وراثت کا رواج فوراً ہو.اسے مد نظر رکھا جائے.دورہ پر زیادہ زور دیں.اس سے جماعت ترقی کرے گی انشاء اللہ اور مالی بوجھ کم ہو گا مالی بوجھ کی کمی کی صورت یہی ہے کہ جماعت ترقی کرے.درحقیقت اس ملک میں دو تین مبلغوں کی ضرورت ہے اور یہ انتظام بھی ہوسکتا ہے جب کہ وہاں کی جماعت ترقی کرے.
303 جموں کسل شملہ ایسٹ ۱۹۳۰ء.۸-۲۸ عزیز مکرم ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ چند ہفتوں سے آپ کی طرف سے آپ کے حالات کی کوئی اطلاع نہیں ملی.معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے.امید ہے آپ ڈاک میں تبلیغی حالات سے اطلاع دیتے رہیں گے تا دعا کے لئے اس وجہ سے بھی تحریک ہوتی رہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلم حقوق کی نگہداشت کیلئے یہاں مفید کام ہو رہا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ ان کوششوں سے مسلمانوں کو معتد بہ فائدہ پہنچے گا.آپ کے لئے اور آپ کے علاقہ کے لئے دعائیں کی جا رہی ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم آپ کے ہر حال میں شاملِ حال رہے.مکرم کرم الہی ظفر صاحب کی بیگم کے نام مندرجہ ذیل خط حضور نے اُس وقت لکھا ؟ اپنے خاوند کے پاس سپین جا رہی تھیں.مسلمانوں کے لئے سپین کی اہمیت ، وہاں خدمت اسلام کی ضرورت کے بہت وسیع مضمون کو بہت مختصر مگر مؤثر انداز میں بیان کیا گیا ہے:- تم اُس ملک جارہی ہو جس پر مسلمانوں نے پہلی صدی میں قبضہ کیا اور سات سو سال تک وہاں قابض رہے.اس ملک کا مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جانا ایک بڑے دُکھ کی بات ہے مگر ملک تو نکلتے ہی رہتے ہیں وہاں سے اسلام کا نکل جانا اصل صدمہ ہے اور ایسا صدمہ ہے جسے کسی مسلمان کو بھلانا نہیں چاہئے.شیعہ امام حسین کی یاد میں ہر سال تعزیے نکالتے ہیں یہ ایک بدعت ہے مگر اگر کسی صورت میں یہ بھی جائز ہوتا تو مسلمانوں کو سپین کا ماتم ہر سال کرنا چاہئے تھا یہاں تک کہ ہر بچے ، ہر بوڑھے کے دل پر زخم کا اتنا گہرا نشان پڑ جاتا کہ کوئی مرہم اُسے مندمل نہ کر سکتی.تم خوش قسمتی سے وہاں جارہی ہو.اپنے فرض کو یاد رکھو اور اپنے خاوند کو یاد دلاتی رہو.تمہارا جانا تمہارے خاوند کو تبلیغ سے سُست نہ کر دے بلکہ آگے سے بھی چست بنائے.صحابیات جب جنگوں میں جاتی تھیں تو اپنے خاوندوں کو خیموں میں نہیں گھسیٹتی تھیں بلکہ خیموں سے باہر نکالتی تھیں.اس وجہ سے ان کا نام عزت سے یاد کیا جاتا ہے اور قیامت تک یاد
304 کیا جائے گا.مل بیٹھنے کا وقت مرنے کے بعد بہت لمبا ملنے والا ہے اس کی یاد میں ان کام کے دنوں کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانا چاہیے (۶۵۴-۳-۲) اس خط کا ہر لفظ اسلام کے لئے حضور کے دکھ درد اور لگن کا مظہر ہے اور وہ جذبات جو اس خط میں نظر آتے ہیں وہی حضور کی ساری زندگی میں نظر آتے ہیں.یعنی پوری لگن ، پوری توجہ ، پوری ہمت سے مسلسل بغیر کسی وقفہ اور سُستی کے خدمت دین کرتے چلے جانا.خط کی آخری سطر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَةِ میں بیان کی گئی حقیقت کی طرف اشارہ ہے.جس سے انسان کی کارکردگی میں زبر دست اضافہ ہو سکتا ہے.خط وکتابت کے سلسلہ میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضور اپنے نام آنے والے ہر خط کا جواب دینا اپنا اخلاقی فرض سمجھتے تھے اور اس فرض کو خوب نبھاتے تھے.ڈاک میں تو کبھی خط ضائع ہو سکتا تھا مگر یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ حضور کو خط ملا ہو اور حضور نے اُس کا جواب نہ دیا ہو.حضور کے جوابات میں سے بعض نمونے درج ذیل ہیں ان سے بخوبی پتہ چل سکتا ہے کہ آپ کے نام آنے والے خطوط میں ہر قسم کے مسائل کا ذکر ہوتا تھا.حضور کا جواب ہر احمدی کے لئے سکون کا خزانہ ہوتا اور راہنمائی کا بہترین ذریعہ بھی.مخلص والدین نے بچے کو وقف کے لئے پیش کیا تو حضور نے فرمایا :- اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.بچے کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ بڑا ہو کر خود اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کرے“ ایک خاتون نے اپنے بیٹے کی علالت کا ذکر کیا ہوا تھا.حضور نے فرمایا : - بنفشہ کو چائے کی طرح دم کر کے دن میں ایک دو بار دیدیا کریں ایک دوست نے اپنا خواب حضور کی خدمت میں تحریر کیا کہ آپ نے میرے نام ایک خط میں تحریر کیا ہے کہ لالیاں میں دکان کھول لو حضور نے جواب میں لکھوایا: - اگر ہومیو پیتھک سے واقفیت ہے تو (لالیاں میں ہی) دکان کھول لیں.شروع میں کام تھوڑا نظر آتا ہے لیکن اگر صبر اور استقلال سے آدمی کام کرے تو اللہ تعالیٰ برکت دیتا ہے.البتہ اس طریق علاج میں محنت زیادہ کرنی ہوگی ایک احمدی نے انڈونیشیا سے لکھا کہ میری بیوی مجھ سے ناراض ہو کر اپنے والدین کے ہاں چلی گئی ہے.میں اسے واپس لانے کا سوچتا ہوں مگر میرے والدین اس سے روکتے ہیں.
305 حضور نے فرمایا: - و صلح کرنی چاہئے.بے شک ماں باپ کی اطاعت کریں لیکن بیوی ی اطاعت کریں لیکن بیوی کے بغیر بچوں کی تربیت نہ ہو سکے گی“ ایک دوست کی شادی رشتہ داروں میں ہوئی.بیوی رشتہ میں بہن لگتی تھی اس وجہ سے طبیعت میں انقباض تھا انہوں نے لکھا کہ سارا خاندان پریشان ہے اس پریشانی میں خود میرے میں تھا انہوںنے لکھا سارا ہے اس پر میںخود بھی آنسو نکل آتے ہیں...حضور نے اس کے جواب میں فرمایا : -......پہلے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دل کو بدل دے اگر پھر بھی رغبت پیدا نہ ہو تو علیحدہ ہو جائیں“ ایک مخلص دوست نے لکھا کہ ان کی لڑکی جوان ہے انکے بھتیجے کے لئے تجویز آئی ہے مگر اس کی دینی حالت اچھی نہیں اس وجہ سے رشتہ دینے میں انقباض ہے حضور راہنمائی فرما ئیں.حضور نے فرمایا : - اگر دینی حالت ٹھیک نہیں ہے تو واقعی وہاں شادی نہیں کرنی چاہئے.لیکن اگر اصلاح ہو جائے تو رشتہ کفو میں کرنا اچھا ہوتا ہے مغربی افریقہ سے ایک دوست نے اپنے ایک اہم کام کے متعلق لکھا اور عرض کیا کہ میں کیا قربانی کروں کہ میرا یہ کام ہو جائے کیا روزے رکھوں یا جو وظیفہ اس کام کے ہو جانے کے لئے ضروری خیال فرما دیں اس سے مطلع فرما دیں.حضور نے جوا با فرمایا : - دعا ہی سب سے بڑا وظیفہ ہے.میں بھی دعا کروں گا آپ بھی دعا کریں ایک نئے احمدی ہونے والے دوست نے حضور کی خدمت میں کوئی نصیحت کرنے اور دعا تجویز فرمانے کی درخواست کی.حضور نے فرمایا:- پڑھا کریں نصیحت تو یہی ہے کہ تقویٰ اختیار کریں اور دعا رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا غیر ، برٹش گی آنا سے ایک غیر مسلم نے دریافت کیا کہ اگر کوئی غیر مسلم یہودی ، عیسائی وغیرہ کوئی نیک کام کرے تو کیا اُس کو اس کا اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : - ”اللہ تعالیٰ ہر نیکی کا اجر دیتا ہے“ بھارت سے ایک احمدی نے لکھا کہ میری بیٹی کی شادی کو کافی عرصہ ہو چکا ہے وہ ابھی تک ///
306 اولاد سے محروم ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس پر کسی نے جادو کر دیا ہے اور جادو کا اثر دور کروانے کے لئے گنڈا لینے کا مشورہ دیتے ہیں.حضور راہنمائی فرمائیں.حضور نے فرمایا :- تعویز گنڈے سب شرک ہیں.علاج کروائیں اور دعا کریں ایک احمدی نے بڑی فکر مندی سے لکھا کہ مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ میرا رشتہ فلاں جگہ ہو گا مگر کوشش کرنے کے باوجود وہاں کامیابی نہیں ہوئی.حضور نے فرمایا :- اگر وہ رشتہ دینا منظور نہیں کرتے تو آپ کسی اور جگہ رشتہ کی کوشش کریں " کیونکہ خواب کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ظاہری رنگ میں ہی پوری ہو ایک مخلص احمدی خاندان کی لڑکی نے تحریر کیا کہ اُس کے والد ملک سے باہر ہیں اور وہ میڈیکل کالج کے پہلے سال میں پڑھ رہی ہے اور اُسے پڑھائی کا بہت شوق ہے.مگر والد صاحب نے لکھا ہے کہ فوراً ان کے پاس آ جاؤں.والد صاحب کی بات ماننے سے پڑھائی ضائع ہوگی اور اس سلسلہ میں کی گئی ساری محنت و کوشش بھی اکارت جائے گی.حضور نے فرمایا: - بہر حال والدین کی اطاعت کرنی چاہئے“ ایک نوجوان نے لکھا کہ میری والدہ کو اصرار ہے کہ وہ حضور کا بتایا ہوا وظیفہ کریں گی لہذا نماز کے بعد پڑھنے کیلئے وظیفہ تجویز فرما ئیں.حضور نے فرمایا :- کثرت سے درود پڑھا کریں اور لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ بھی پڑھیں ایک غیر از جماعت نوجوان جو احمدیت کی صداقت جاننا چاہتے تھے کی درخواست پر حضور نے فرمایا : - دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کا دل صداقت کے لئے کھول دے.رات کو دعا اور استخارہ کر کے سویا کریں اور یہی دعا مانگیں کہ جو صداقت ہو وہ مجھ پر کھل جائے“ ///////
307 تبرکات حضرت فضل عمر کی سیرت طیبہ اور سوانح کے بارہ میں ایک سوالنامہ ترتیب دے کر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی خدمت میں بھجوایا گیا تھا.اس سوالنامہ کی روشنی میں محترم ملک سیف الرحمن صاحب کے نام ایک خط میں آپ نے حضور کی زندگی کے دلچسپ اور ذاتی مشاہدات پر مبنی روح پرور واقعات تحریر فرمائے ہیں.آپ لکھتی ہیں:.برادرم مکرم ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ جلدی میں اس وقت ذرا ہمت معلوم ہوئی تو کاغذ بڑا نہ تھا اسی کا پی پرانی پر لکھدیا ہے.جو ہے قبول فرما ئیں اور کاغذات خود نتھی کر لیں.اس وقت اگر ٹال دیتی تو ممکن تھا پھر ہمت نہ ہوتی کافی عرصہ تک.والسلام مبارکہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ سوال نمبرا متعلق خواب قبل پیدائش حضرت مصلح موعود.جواب نمبر : میں نے حضرت اماں جان کو ایک خواب بیان فرماتے سنا بلکہ خود مجھے ہی مخاطب فرما کر سُنایا دو چار بار فرمایا ” جب تمہارے بڑے بھائی پیدا ہونے کو تھے تو ایام حمل میں
308 میں نے خواب دیکھا کہ میری شادی مرزا نظام دین سے ہو رہی ہے.اس خواب کا میرے دل پر مرزا نظام الدین کے اشد مخالف ہونے کی وجہ سے بہت بُرا اثر پڑا کہ دشمن سے شادی میں نے کیوں دیکھی؟ میں تین روز تک برابر مغموم رہی اور اکثر روتی رہتی.تمہارے ابا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ذکر نہیں کیا مگر جب آپ نے بہت اصرار کیا کہ بات کیا ہے کیا تکلیف پہنچی ہے مجھے بتانا چاہئے.تو میں نے ڈرتے ڈرتے یہ خواب بیان کیا خواب سن کر تو آپ بے حد خوش ہو گئے اور فرمایا اتنا مبارک خواب اور اتنے دن تم نے مجھ سے چھپایا ؟ تمہارے ہاں لڑکا اس حمل سے پیدا ہوگا اور نظام الدین کے نام پر غور کرو.اس کا مطلب یہ مرزا نظام الدین نہیں.تم نے اتنے دن تکلیف اُٹھائی اور مجھے یہ بشارت نہیں سنائی.سوال نمبر ۲ : دائی وغیرہ کے متعلق.جواب نمبر ۲: جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت اماں جان کی زبانی دائی کا نام ہر ودائی تھا.اذان بھی کان میں حضور خود دیتے تھے اور غالباً شہد وغیرہ بھی خود ہی چٹاتے ہونگے مگر اس کے لئے خاص الفاظ حضرت اماں جان کے مجھے یاد نہیں.یہ علم ہے اور کئی بار فرمایا کہ میرے سب بچے نیچے کے کمرے میں پیدا ہوئے ہیں بجز امۃ الحفیظ کے.اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور کے مقدمہ میں اکثر باہر رہتے تھے اور پلیگ کے بعد ہم لوگوں کا نیچے کا قیام نہیں رہا تھا.عقیقہ پر حضرت اماں جان فرماتی تھیں :.آپ علاوہ بکرے کے احباب کی دعوت بھی کرتے کیونکہ آپ اپنی اولا د کونشان سمجھتے تھے چلہ میں خادماؤں اور معتبر عورتوں کا پہرہ ضرور ہوتا تھا.جن کے جاگتے رہنے کا آپ خیال رکھتے.چائے اور موسم کے مطابق ان کے لئے کھانے کو مٹھائی وغیرہ رکھی جاتی.یہ پہرہ میں نے اپنی یاد میں امتہ النصیر کی پیدائش پر دیکھا آپ تشریف لاتے رات کو بھی دو تین دفعہ اور سب کو جاگنے کی تاکید فرماتے اور پوچھتے کہ چائے پی وغیرہ.حضرت اماں جان نے فرمایا کہ جب تمہارے بڑے بھائی پیدا ہوئے تو عصمت (ہماری بہن ) سورہی تھیں خادمہ نے اُسکو جگایا اور کہا اُٹھو بی بی ! تمھارا بشیر آ گیا
309 کیونکہ بشیر اول کی وفات پر غالباً عصمت اُسکو یاد کرتی ہونگی.اماں جان نے فرمایا کہ وہ اُٹھ کر بجائے میری طرف آنے کے ” میرا بشیر آ گیا کہتی ہوئی اپنی بڑی والدہ ( والدہ حضرت مرزا سلطان احمد کی طرف یعنی تائی صاحبہ کے گھر کو دوڑ گئی اسکو اپنی بڑی والدہ سے بہت تعلق تھا.اور وہ بھی اس کو بہت پیار کرتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خوش کیوں نہ ہونگے.وہ ہر پیدائش فرزند کو اللہ تعالیٰ کا نشان جانتے تھے.آپ کی ہر خوشی کا اصل رجوع اسی محبوب حقیقی کی جانب ہوتا تھا ذاتی طور پر نہ آپ کی اپنے لئے کوئی خوشی تھی نہ غم.سوال نمبر ۳: بسم اللہ وغیرہ کی کوئی تقریب میں نے نہیں سنی نہ دیکھی.آمین بیشک ہم سب کی ہوئی اور بہت دھوم سے ہوئی.آپ نے شروع میں جہاں تک مجھے یاد ہے اکثر سنا ہؤا ( نام یاد نہیں آرہا ) اس وقت بنگالی صاحب (ان کی اہلیہ صاحبہ کا دودھ میرے منجھلے بھائی صاحب نے پیا تھا) تھے.زینب بیگم (مصری عبدالرحمن ) کے والد صاحب صحابی تھے مخلص تھے ایک خط ان کا میرے پاس رکھا ہے میرے میاں کو لکھا تھا ایک بہت مبشر خواب مگر نام ان کا بھول گئی اس وقت مگر اللہ کے ساتھ نام تھا.یاد نہیں آ رہا * غالباً ان سے ہی ابتداء میں پڑھا پھر سکول میں بھی اور اصل شوق سے جو پڑھنا شروع کیا تو حضور خلیفہ اول سے جو قرآن شریف و حدیث پڑھنے لگے کیونکہ اس وقت سے مطالعہ پر زور تھا اور اکثر مسائل پر حدیث وغیرہ پر میرے چھوٹے ماموں جان سے گھر پر بھی باتیں ہوتی تھیں.ان کی توجہ علم دین کی طرف ہی رہی مگر یہ نہیں کہ ہر وقت لگے ہی رہیں.میز پر قرآن شریف، عربی کی کتابیں، لغت وغیرہ کتب حدیث اور ایک انجیل بھی ضرور رکھی رہتی تھیں.اسی طرح شیعوں کے مراثی اور کتابیں مختلف مذاہب کی ہونگی.مگر میں نے انجیل پڑھ کر دیکھی کچھ حصہ اور مرغیے پڑھے وہ یاد ہیں.انیس اور دبیر بھی ان کے پاس تھے.کوئی خاص وقت پڑھائی کا باہر صرف بھی نہیں کرتے تھے.اور اندر بھی پڑھتے ضرور تھے مگر اتنا نہیں کہ دن رات جیسے لڑکے سر کھپاتے ہیں ان کو تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنے فضل وکرم سے پڑھا دیا.اکثر آشوب چشم بھی ہو جاتا.کمزوری سے حرارت بھی ہو جاتی تھی.////////////// حافظ احمد اللہ صاحب مراد ہیں
310 قومی بدن نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پڑھائی کے لئے کبھی بھی نہیں کہا کہ محنت کرو وغیرہ.ابتداء سے اپنی دینی کتب ، قرآن مجید، حدیث اور دیگر مذاہب کی کتا ہیں.اور اس کے علاوہ کہانی قصہ بھی پڑھ لیتے تھے.چھوٹی چھوٹی انگریزی ابتدائی کتابیں اور الف لیلہ بھی.مجھے بھی چھوٹی چھوٹی کہانیاں الف لیلہ کی بھی سنا دیتے تھے.دیوان غالب وغیرہ اور آپ کے استاد ( جن سے کچھ عرصہ اصلاح لی تھی شاعری کے سلسلہ میں ) جلال لکھنوی کے دیوان بھی آر کے پاس تھے.میری ہوش میں بہت کم عمری سے میں نے بڑے بھائی ( حضرت مصلح موعود ) کا کمرہ الگ دیکھا جس میں کتا بیں رکھی رہتی تھیں میز پر.میں بھی وہاں جا پہنچتی تھی.سوال نمبر ۴ : گھر میں کھیلنے کا ذکر اور بچوں سے سلوک.آپ گھر میں کھیلتے تھے اکثر وقت پا کر جو صحن خالی ہو اس میں گیند بلا وغیرہ اور اس کے علاوہ گھر کے باہر آپ کے مشاغل غلیل سے نشانہ بازی، کشتی چلانا، تیرنا وغیرہ تھے.مٹی کے غلے بنانے میں ہم سب شریک ہو جاتے.مگر گھر میں نہیں چلاتے تھے یہ کام باہر ہوتا تھا گھر میں تو کبھی نشان لگا کر غلیل چلا کر دیکھ لیا.اور اس سے ذرا بڑے ہوئے تو سواری سیکھی اور گھوڑے کی سواری کو بہت پسند کرتے تھے.آپ ہم بچوں سے بہت پیار کرنے والے بیحد خیال رکھنے والے تھے.مجھے تو خاص طور پر بہت محبت کی ، بہت ناز اُٹھائے.کبھی خفا ہونا یاد ہی نہیں.ایک بار لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی لڑکیوں نے کوئی کھیل تالی بجانے والا کھیلا.میں بھی بجانے لگی تو مجھے کہا کھیلو مگر تم نہ کبھی تالی بجانا یہ لوگ بجایا کریں.مبارک ( ایک خط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے میاں کو لکھا ہے محمود اپنی والدہ سے بہت مانوس ہے اور مبارک سے بھی اب تک کھیلتا ہے ابھی بچہ ہی ہے) سے بھی بہت پیار کا سلوک تھا دوسرے بھائیوں سے بھی کبھی میں نے سختی کا سلوک یا جھگڑا نہیں دیکھا.منجھلے بھائی صاحب سے تو اکثر
311 لمبی باتیں کرتے مگر بر وقت اچھے موضوع پر.میرے بھائی اور ماموں مل کر باتیں کرتے تھے کبھی فضول بات میں نے نہیں سنی.کیونکہ جہاں یہ سب مل کر بیٹھتے میں ضرور جا پہنچتی تھی.کئی بار ہنس کر فرماتے تھے کہ :- لڑکی جو وہ لڑکیوں میں کھیلے کہ لڑکوں میں ڈنٹر پہلے.مجھ سے پچپن سے بے تکلف رہے ہر بات مجھ سے کر لیتے اور میں ہر بات جو نئی سنی یا سمجھ سے باہر ہوئی ان سے پوچھتی.میری کھل کر بات یا حضرت مسیح موعود سے ہوتی تھی یا بڑے بھائی حضرت مصلح موعود سے.حضرت مسیح موعود بھی جانتے تھے کہ ہم دونوں کا آپس میں زیادہ پیار اور بے لکھی ہے اور آپ نے بھی تین چار بار مجھ سے کہا محمود کچھ چُپ چُپ ہے یہ کبھی اپنی حاجت نہیں ظاہر کرتا نہ مانگتا ہے تم پوچھو تو سہی کیا چاہئے.میں نے پوچھا اور آپ نے بتا دیا.یہ میں لکھ چکی ہوں پہلے کبھی.ایک بار بخاری کی سب جلدیں منگا نے پورا سیٹ کہا تھا.ایک بار سول اخبار جاری کروانے کو.ایک دفعہ بھابی جان کو لاہور گئے زیادہ دن ہو گئے تھے کہا میں ان کا لاہور زیادہ رہنا پسند نہیں کرتا بلوا لیں.ہم لوگ لڑتے نہیں تھے کم از کم بہنوں سے لڑنے کی تو قسم ہی ہمارے ہاں تھی.مبارک احمد اور میں چھوٹے تھے.تینوں بھائیوں نے کبھی کچھ نہیں کہا.آپس میں منجھلے بھائی چھوٹے بھائی کبھی تکیوں سے لڑائی گویا جنگ مصنوعی کیا کرتے تھے.یا چھوٹے بھائی صاحب کو منجھلے بھائی صاحب چڑاتے تھے وہ چڑتے مگر اس سے زیادہ ہرگز نہیں نہ مار نہ کٹائی.ایک بار کوڑا چھپائی کھیلتے ہوئے مبارک کی پیٹھ پر کوڑا زور سے مار دیا.وہ نازک سا بچہ تھا رونے لگا مجھے آج تک افسوس ہے اپنی اس حرکت کا کہ میں نے پکار کر حضرت مسیح موعود کو کہا کہ مبارک کو چھوٹے بھائی نے زور سے کوڑا مار دیا تو آپ چھوٹے بھائی پر بہت خفا ہوئے تھے.اصل میں ہم دونوں آپس میں بہت مانوس تھے (مبارک اور میں)
312 حضرت مسیح موعود ا کثر فرماتے تھے کہ دونوں بہت ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں دراصل نام ایک ہے صرف ایک " کا ہی فرق ہے نا.لہذا یہ بات تو ضمن میں آگئی مگر میں نے تو بڑے بھائی کو حضرت مسیح موعود کی مانند محبت کرنے والا پایا.ذرا بڑے ہو کر یہ محبت ایک دوستی کا رنگ بھی اختیار کر گئی.خاندانی ہر بات مثلاً شادی بیاہ میں ضرور مشورہ لیتے.دُور ہوتی تو رجسٹر ڈ خط جاتے.( میری شادی کے بعد اکثر قریباً روزانہ دارالسلام کا پھیرا ہوتا تھا.ہمارے زیادہ باہر رہنے کے ایام میں کوٹلہ بھی آتے اور شملہ بھی.سفر کو کہیں جا رہے ہوتے تو ضرور سخت تاکید سے مجھے بُلاتے کہ تم میرے ساتھ چلو ) ایک دفعہ تو اتنی سخت تاکید میں آئیں پے درپے کہ مجھے شملہ کو چھوڑ کر شملہ سے قادیان آنا پڑا.اور آپ کے ساتھ منالی وغیرہ کا سفر کیا.مجھے یاد نہیں کہ کبھی کہیں جانے کی صلاح ہو رہی ہو اور مجھے یہ اصرار نہ کیا ہو کہ چلو.مجبوری کے سبب میں نہ جاسکتی یہ اور بات تھی.پھر بھی کئی سفر آپ کے ساتھ کئے.آپ مجھ سے آٹھ ہی سال بڑے تھے اور مجھے اب تو بُھولتا ہے مگر اس وقت کی دو اڑھائی سال کی باتیں بھی یاد ہیں کئی صاف نظارے.میں نے انکو 10 سال کی عمر میں یا 11 سال کی عمر گویا مثلاً آنکھ کھول کر دیکھا ہو گا.مگر میں نے حضرت بڑے بھائی صاحب کو باوجود کھیل وغیرہ جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ کبھی بے وقری کی بچگانہ حرکتیں کرتے نہیں دیکھا.لڑکیاں شادی کے ذکر کو چھیڑتی تھیں کہ میاں کا بیاہ ہو گا جب تحریک ہوئی چھوٹی عمر تھی شرماتے تھے تو زیادہ چھیڑ نے پر ایک دفعہ بانس مسہری کا لے کر پیچھے دوڑتے دیکھا اس غصہ میں کہ کیوں مجھے چھیڑتی ہیں.اُس وقت گھر میں بڑی لڑکیاں ان کی دودھ شریک بہنیں یا ایک دو سیانی شریف لڑکیاں تھیں جن میں ایک جواب ضعیف بزرگ خاتون ہیں اصغری بیگم صاحبہ زندہ ہیں اصلیہ مدد خاں صاحب مرحوم.عزیزان یعقوب ، الیاس داؤد وغیرہ کی والدہ ہیں.یہ لوگ وہ تھے جو ساتھ کھیلتے ہم عمر تھے اور تمام زندگی آپ کی دیکھی مگر کبھی آگے پیچھے اشارةً کنایتاً نہ اُس وقت نہ اب تک،
313 کسی نے کوئی نازیبا بات آپ کے متعلق کہی.مفتری اور ابلیس ان کو بھی بہکا سکتے تھے مگر یہ نو جوانی کی زندگی کے گواہ بفضل خدا ان کی نیکی کے ہی گن گاتے رہے.شادی کم عمری میں ہوئی.آپ کے مشاغل پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا.اُسی طرح پڑھنا الگ بیٹھ کر ، مسجد میں نماز کو جانا باقاعدہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آپ سے میری زندگی میں سلوک ایسا ہی میں نے دیکھا جیسا ایک جوان قابل اور قابل اعتماد بیٹے کے ساتھ ہونا چاہئے.دُنیوی کام آپ نے ان سے کبھی نہیں لیا.حضرت خلیفہ اول کے پاس کسی کام یا دوا وغیرہ کے متعلق بات کرنے کو کہہ دیا وغیرہ.میں لکھ چکی ہوں جب صدر انجمن بن رہی تھی اُن دنوں آپ سے پوچھتے تھے کہ کیا بات ہو رہی ہے.کمیٹی کے متعلق اور ممبر خواہ اس وقت نہ ہوں مگر آپ باہر آتے جاتے اور حضرت مسیح موعود سے بات کرتے تھے.ویسے آپ بے تکلف ہو کر ہم لوگوں کی طرح آپ سے بات نہیں کرتے تھے.یعنی جب سے مجھے یاد ہے.جب رات کو حضرت مسیح موعود باتیں کرتے کوئی واقعہ، کوئی پرانا ذکر، کوئی بزرگوں کی روایت سناتے تو ہم سب کے ساتھ اکثر آپ بھی ہوتے تھے کھانا بھی اکثر ساتھ کھاتے تھے مگر اب یہ عمر تھی کہ بہت ادب اور وقار کے ساتھ آپ کی گفتگو یا سامنے آ کر کام وغیرہ کا بتانا ہوتا تھا.غرض دنیوی کام کوئی سپر د نہیں ہوا.ایک باغ حضرت اماں جان کے نام تھا وہ بھی اور کچھ زمین وغیرہ جوتھی نا نا جان دیکھ بھال کر لیتے تھے.حضرت مسیح موعود نے تو کبھی پوچھا تک نہیں ایک دفعہ حضرت نانا جان نے (جور پورٹ ضرور دیتے تھے ) ذکر میں فرمایا کہ مالی کی تنخواہ تین روپیہ ہے آپ نے فرمایا اچھا پہلے تو ۸ آنے ہوتے تھے؟ اصل میں پہلے تو متعلقین و خدام کی تنخواہ تو یا نہ ہوتی یا برائے نام مگر کھانا پینا اور دیگر اُن کے اخراجات شادی بیاہ وغیرہ ان کی ضروریات کے موقعوں پر ساری کسر نکل جاتی تھی ان کے سب کام چل جاتے تھے.خلافتِ اولیٰ کے انتخاب کے وقت آپ باہر سے آئے اور حضرت اماں جان سے کہا کہ حضرت مولوی صاحب کے متعلق سب کا خیال ہے آپ سے بھی مشورہ کو کہا
314 ہے ( شاید خواجہ صاحب کا نام لیا تھا جہاں تک مجھے یاد ہے ) آپ بتائیں پھر شاید باہر سے بھی کوئی صاحب کیونکہ پردہ کے پیچھے کھڑے ہو کر ہی حضرت اماں جان نے فرمایا تھا کہ مولوی صاحب ہی مناسب ہیں.پھر بیعت ہوگئی زنانہ میں حضرت اماں جان کے صحن میں ہی جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت اماں جان نے بیعت کی تھی.میں اُس وقت نہ معلوم کیوں شرما گئی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت شاید دو ڈھائی سو دفعہ تو کر چکی تھی جب عورتوں کی بیعت ہوتی میں ضرور آپ کے پاس بیٹھ کر الفاظ بیعت تمام دُہرایا کرتی تھی اب تک آپ کا بیعت لیتے وقت کا بولنے کا طریق میرے کانوں میں گونجتا ہے.خیر میں نے اُس وقت بیعت نہیں کی پھر خیال ہی نہ رہا پتہ نہیں کیوں یہی سمجھا بیعت ہی بیعت ہے شادی رخصتانہ کے بعد میں نے میاں سے کہا کہ میں نے تو اب تک خاص بیعت حضرت خلیفہ اول کی کی ہی نہیں تو انہوں نے جب خلیفہ اول تشریف لائے تو ان کو بتایا کہ انہوں نے بیعت نہیں کی ابھی بیعت لے لیں حضرت خلفیہ اول نے بیعت لی.میں نے کہا مجھے یاد ہی نہیں رہا تھا سمجھی بس کر چکی ہوں.خلافت اولیٰ کی ابتداء میں ہی گندے عناصر نے بعض قلوب میں جگہ پالی تھی جس کی وجہ انسان کے لئے مرض مُہلک بد گمانی “ اور مرض قاتل حسد (ناحق) کے سوا کچھ بھی نہ تھی.اندر ہی اندر بعض لوگ گویا خلیفہ کا انتخاب کر کے اور قیام خلافت پر اپنی منظوری کی مہر لگا کر اور ہاتھ کٹوا بیٹھنے پر پچھتا رہے تھے.میری اپنی قطعی رائے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے وقت کی ایک اس خاص وجود ( یعنی حضرت خلیفہ المسیح الثانی) کی باتیں اور کلام بالعزم سن کر بھی کچھ زیادہ پہچان لیا تھا کہ : - بالک سرش ز هوشمندی می تافت ستاره بلندی اور فوراً اس سوچ اور پریشانی میں گرفتار ہو گئے کہ یہ بچہ نہیں اس کے تو
315 آثار ہی کچھ اور ہیں اور حضرت مولوی صاحب کی خلافت تو چند روزہ بوجہ ضعیف العمری عقلاً سمجھی جاسکتی ہے.اگر اس ستارہ کی روشنی اس طرح بڑھتی گئی تو یہ ماہ تاباں بن کر ہم سب کو ماند کر دے گا.یہ تو ہم بزرگوں، تجربہ کاروں پر ایک کاری ضرب ہوگی.یہ ہم کیا کر بیٹھے ہیں.ان خیالات کے زیر اثر کچھ ترکیبیں، کچھ عُذر ، کچھ بہانے دل بہلانے کو سو جھنے لگے.چلو کیا ہو گیا ایک بار بیعت ایک بزرگ کی کر لی آئندہ دیکھا جائے گا.مگر ابھی سے بیج تو بونے چاہئیں.سو اندرونی خیال کا اظہار ہونے بھی لگا اور بات پھوٹنے لگی تو اندر ہی اندر کھلبلی سی سچ گئی.آپ تک بات پہنچتی ، پریشان ہوتے ، دعائیں کرتے میرے میاں سے اکثر باتیں اسی موضوع پر ہوتیں.آپ کو تڑپ تھی کہ جماعت میں فتنہ نہ ہو سخت اضطراب تھا کہ کوئی پھوٹ نہ پڑے.خلیفہ اول سے آپ کو بہت زیادہ محبت تھی اور خود خلیفہ اول کو تو آپ سے گویا عشق تھا آپ کو یہ دکھ بھی ہوتا کہ خلیفہ المسیح کی زندگی میں آئندہ کا ذکر اور قیاسات بھی کوئی کیوں کرتا ہے.آپ حضرت خلیفہ اول کا محبت کے ساتھ بہت ادب بھی کرتے تھے ادب سے کلام کرتے تھے.حالانکہ آپ بہت محبت بچپن سے کرتے آئے تھے فرماتے تھے کہ کئی اولادوں کی وفات کے بعد یہ عبدالحئی اور اولاد میں خدا تعالیٰ نے مجھے دی ہیں مگر محمود مجھے ان سب سے زیادہ پیارا ہے“ یہ بات میرے سامنے کئی بار کی گئی ہے.اس بچپن کے پیار کے باوجود آپ خلیفہ اول کے سامنے بہت مؤدب ہوتے تھے.آپ (خلیفہ اوّل) کی وفات کے بعد مجھے چند روز کے بعد ہی کہا کہ ایک دفعہ خلیفہ اول نے کہا تھا کہ میرا کوئی ظاہری رشتہ حضرت مسیح موعود کے خاندان سے نہ ہو سکا تو میری خواہش ہے کہ آپ کی وہ تمنا اب میں پوری کروں اور امۃ الحئی کے لئے درخواست رشتہ بھیجوں.خیر پھر تحریک ہوئی اور شادی ہو گئی.امتہ الحئی بہت چاہنے والی ، بہت تابعدار بیوی ثابت ہوئیں.ذہانت تو غضب کی پائی تھی اشارہ بات کا پا جاتی تھیں اشعار سے بھی دلچسپی تھی.ایک خط
316 میں مجھے لکھا کہ میری سب بیویوں میں امتہ الحئی میری بہت تابعدار بیوی تھی.آپ کو ان سے بہت محبت تھی.اور وہ مرحومہ ہم سب سے مجھ سے اور حضرت اماں جان سے تو خصوصاً بہت ہی محبت کرتی تھیں اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے.خلیفہ اول کی وفات بہت بڑا صدمہ تھا وہ بوجھ دل پر الگ اور اس وقت فتنہ کا فکر جس کی تفاصیل آپ سب کے علم میں ہیں وہ دن اور رات اور اگلا دن جس طرح گذرے اُس کا بیان میں لانا مشکل ہے.بار بار کبھی باہر کبھی اندر دار السلام میں یہی باتیں، یہی فکر اور یہی ذکر ، یہی تڑپ تھی کہ خلافت رہ جائے کوئی بھی منتخب ہو جس کو چاہیں چن لیں ہم سب بیعت کر لیں گے مگر یہ فتنہ نہ ڈالیں کہ خلافت ہی نہ ہو.حضرت اماں جان سے بچپن سے بہت مانوس تھے اور آپ کی عزت اور محبت ہر وقت آپ کے آرام کا خیال حضرت مسیح موعود کے وصال کے بعد بہت بڑھ گیا تھا.ایک بار اماں جان بیمار ہوئیں تو مجھے الگ لے جا کر کہا کہ میں بھی ایک دعا کرتا ہوں تم بھی کرو اور کرتی رہو کہ اب اماں جان کو ہم میں سے خدا تعالیٰ کسی کا غم نہ دکھائے اور اماں جان کی زندگی میں برکت بخشے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اماں جان سے فرمایا تھا کہ تین امتحان تمہارے اور ہونگے یہ مبارک کی وفات سے پہلے کہا تھا یہ بات حضرت اماں جان سے سنی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ نے فرمایا کہ تین امتحان تھے دو ہو چکے ایک باقی ہے.اُس وقت جب مجھے یہ بات بتا رہی تھیں تو میرے چھوٹے بھائی کے کپڑے بکس میں رکھ رہی تھیں (سامانِ سفر تیار کرنا تھا یہ لاہور سے سفر واپسی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے وقت کا ذکر ہے ) تو مجھے ہمیشہ چھوٹے بھائی کا بہت فکر رہتا تھا.مگر پھر با وجود دونوں ماموں جان اور میرے میاں کی وفات کے جب پارٹیشن ہوئی، قادیان چھوڑنا پڑا اُس وقت اماں جان کی تڑپ اور صدمہ دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ تیسرا امتحان یہ تھا.
317 حضرت بڑے بھائی صاحب جب پاس آتے تو کہتی تھیں میاں ! دیکھو مجھے قادیان ضرور پہنچانا بہشتی مقبرہ میں.بڑے بھائی صاحب کی آنکھیں تر ہو جاتیں اور کمرہ سے نکل جاتے یہ حالت یہ تڑپ دیکھ کر.( بہن بھائیوں کی دلداری تو کرتے ہی تھے بہن بھائیوں کی اولاد سے بہت پیار اور محبت کا ہمیشہ سلوک کیا.اپنے بچوں کے لئے تو کچھ لحاظ اور شرم بھی پہلے پہل کہ اماں جان کے سامنے گود میں لینا پیار کرنا اس میں شرم محسوس کرتے ).مگر امتہ السلام سلمها منجھلے بھائی کی بڑی لڑکی سے بہت پیار کرتے.منجھلے بھائی لڑکی سے شرم کے مارے بات تک نہ کرتے تھے.مگر حضرت بڑے بھائی صاحب نے بہت ہی ان سے لاڈ پیار کا سلوک رکھا.اب تک سلام کی کوئی تکلیف سن کر برداشت نہیں کر سکتے تھے ) کسی نے افواہ سنائی کہ مرزا رشید احمد اور شادی کرنا چاہتے ہیں سخت غصہ آیا کہنے لگے مجھے رات بھر نیند نہیں آسکی.رشید سے کہدو کہ سلام بے وارث نہیں ہے ابھی میں زندہ ہوں اس کے باپ بھائی سب خدا کے فضل سے سلامت ہیں یہ شادی میں نے اپنے بڑے بھائی ( حضرت مرزا سلطان احمد صاحب) کے اصرار پر ان کی خاطر کی تھی.میاں بشیر کا تو دخل بھی نہ تھا.میں سلام کو تکلیف نہیں پہنچنے دوں گا وغیرہ.نو عمری یا بچپن کے دوست مجھے ایک تو ڈاکٹر اقبال غنی یاد ہیں ان کی اور دوسرے ایک دو دوستوں کی ان کے آنے پر دعوت کرنا بھی یاد ہے.با ہر ساتھ کھیلنے والے اور کشتی وغیرہ چلانے کے وقت ساتھ والوں میں چراغ، باغ دونوں بھائی اور غالباً میاں غلام حسین لنگر خانہ والے کے لڑکے بھی ہوتے تھے.ایک عمر دین ، مہر دین ہوتے تھے.جن کی والدہ حضرت منجھلے بھائی کی کھلانے والی تھیں.باتیں لکھنے بیٹھی تو لمبی ہوگئی ہیں.اکثر باتیں میں لکھ بھی چکی ہوں ایک اور بات یاد آ گئی حضرت اماں جان کی وفات کے بعد لوگ حضرت اماں جان کا تبرک بہت مانگتے تھے.چند دن وفات پر گذرے تھے میں نے کہا اماں جان نے اسی سال اتنے کپڑے لوگوں میں تقسیم کئے کہ بہت کم رہ گئے ہم نے بھی
318 اپنے اور بچوں کے لئے نشانی رکھنی ہے.کیا کریں.فرمایا حضرت اماں جان کے وجود میں بھی خدا تعالیٰ نے خاص برکت رکھی تھی اور بہت بابرکت بنایا تھا ان کو تبرک دینا ہے تو یہ مراد نہیں کہ سارا کپڑا ہی دیا جائے اماں جان کے قمیص کی ایک آستین، پاجامہ کا ایک پائنچا یا اس کے چھوٹے ٹکڑے بھی تبرک میں جو مانگیں اُن کو اس طرح تقسیم کر دو.اور اماں جان کا گل سامان میں نے تمہارے سپرد کیا ہے بلکہ تم کو میں نے دے دیا ہے تم سنبھالو اور جو چاہو کر و.حضرت اماں جان کے دو چار زیور طلائی تھے میں نے وہ جب تقسیم کر کے بتلایا تو فرمایا یہ تو میں تم کو دے چکا ہوں میں نے کہا میں خود دے رہی ہوں سب کے پاس ایک ایک چیز چاہئے.غرض جس طرح میں نے چاہے کپڑے، زیور اور تبرکات حضرت مسیح موعود جو حضرت اماں جان کے پاس باقی تھے سب میں نے تقسیم کئے.حضرت اماں جان کے دہلی والے عزیزوں کا بھی خاص خیال رکھتے اور بہت ان کی خاطر داری فرماتے جب دہلی جاتے بُلا بلا کر ملتے تھے.حیدر آباد دکن میں حضرت اماں جان کے ننھیالی عزیز تھے احمدی بھائیوں کو سمجھا کر ان کی دعوتیں قبول کیں اور زیادہ وقت ان سب عزیزوں کی دعوتوں میں ہی صرف ہوا تھا.فرمایا اماں جان کے عزیز ہیں ان کا حق ہے اُس وقت پھر پارٹیشن کے بعد جو عزیز آتے رہے سب کی ہر طرح امداد کرتے رہے.ایک دفعہ حضرت سیٹھ عبد اللہ صاحب کی بیگم نے قادیان میں آپ سے ذکر کیا کہ ایک تقریب میں میں نے تبلیغ شروع کی ایک مُعمر بی بی سے کوئی بات کرنے لگی کہ ہمارے خلیفہ نے یہ فرمایا ہے آپ کا نام لیا تو وہ کہنے لگیں لو! مجھے بتاتی ہو وہ تو میرا بچہ ہے میرا محمود میں کیا جانتی نہیں ہوں.آپ ہنسے اور فرمایا ہاں وہ تو میری نانی لگتی ہیں ہم ان کو گوری نانی کہا کرتے تھے.رجمانِ طبع اصلی تو دین تھا جس کی دُھن تھی کہ احمدیت تمام عالم میں پھیلے اور اسلام کا غلبہ ہو.ہر احمدی کی تکلیف کو اپنی تکلیف جانتے تھے.اور یہ بھی تڑپ ان میں میں نے دیکھی کہ کسی طرح بچھڑے ہوئے بھائی جو خلافت
319 سے الگ ہو چکے ہیں اُن کی اصلاح ہو.جس روز حضرت میر حامد شاہ صاحب کا بیعت خلافت کا خط آیا اماں جان کے پاس آئے اور کہا مبارک ہو اماں جان! میر حامد شاہ صاحب نے بیعت کر لی.اور پھر بیت الدعا میں چلے گئے اور کافی دیر تک لمبے سجدوں کے ساتھ شکرانہ کے نفل ادا فرمائے.وقف اولاد آپ نے اپنے تمام بیٹے اپنی جانب سے وقف صدق دل سے کئے.اور سب کو اللہ تعالیٰ کے قدموں میں ڈال دیا تھا.اور یہ خواہش تھی اور خیال رہتا تھا میرے پاس بھی اظہار کیا دو تین بار کہ اول خواہش میری یہی ہے کہ لڑکیاں بھی واقفین زندگی کو دوں.اس کے ساتھ یہ بھی خواہش تھی اور پسند یہی تھا کہ جہاں تک ممکن ہو رشتے مل سکیں تو خاندان میں شادیاں ہوں.فرماتے تھے اس طرح حضرت مسیح موعود کی ہر دو جانب کے لئے کی ہوئی دعائیں بچوں کو حاصل ہونگی.سندھ کے ذکر پر ایک دفعہ مجھے کہا کہ میں نے زمین خرید نے اور جائیداد کو ترقی دینے کا اب جو کام شروع کیا ہے یہ اپنے لئے نہیں بلکہ میری نیت یہ ہے کہ زمانہ بدل رہا ہے، رہائش کے سٹینڈرڈ بدل رہے ہیں ، گرانی دن بدن زیادہ ہوتی نظر آتی ہے میں نے چونکہ سب لڑکوں کو وقف کیا ہے ایسا نہ ہو کہ کبھی تنگی ان کے دل میں دنیا کی رغبت پیدا کرے اور ان میں سے کوئی بھی یہ نہ سوچے کہ ہمیں تنگی میں ڈال دیا ہے ان کی اوسط درجہ کی خوشحال زندگی ان کو حاصل رہے.یہ کبھی لوگوں کو دیکھ کر اپنے آپ کو مقابلہ تنگدست محسوس کر کے خدا نہ کرے ابتلاء میں نہ پڑ جائیں.پہلے پہلے شادی شدہ بچوں کو بھی آپ نے محض اتنا خرچ دیا کہ مشکل سے گزارا ہو سکے جب آزما لیا کہ بفضلہ تعالیٰ یہ ہر حال میں شکر گزار ہیں اور کبھی شکایت نہیں کی تو بچے ہونے پر اُن کے خرچ بڑھاتے رہے.اور زچگی بیماریوں وغیرہ پر اخراجات بھی امداداً خود کئے.اور دیگر کوئی کام کرنے کی بھی بہت دیر کے بعد آزمائش کے بعد اجازت دی تھی اس
320 شرط سے کہ سلسلہ کے کاموں پر ذرا بھی اثر انداز نہ ہو فارغ وقت میں یا کسی سے کام لے کر کچھ کام کر سکتے ہیں.یہ بھی مجھے علم ہوا تھا اور آپ کی زبانی بھی سنا تھا کہ دوسرا کام کریں مگر اول اپنا کام جو اصل ہے مقدم سمجھیں یہ شرط ہے.منصورہ بیگم میری لڑکی سے بھی بچپن سے بہت محبت کی بہت شفقت فرماتے تھے.منصورہ غالباً تیسرے بچہ کی پیدائش کے بعد بہت بیمار ہو گئی تھیں.۴۱ ء یا ۴۳ء میں ان کو بغرض علاج دہلی بھیجا اور تمام خرچ اُٹھایا.علاج لمبا چلا تو منصورہ بیگم کو بہت احساس تھا کہ ماموں جان پر بہت بوجھ میری وجہ سے پڑ رہا ہے.انہوں نے لکھا کہ آپ پر اتنا خرچ میری وجہ سے پڑ رہا ہے مجھے بہت شرم آتی ہے.تو ان کو لکھا تھا کہ تمہاری جان سے زیادہ عزیز مجھے روپیہ نہیں ہے تم ہزاروں کا لکھتی ہو اگر ایک لاکھ بھی علاج پر خرچ ہو جائے تمہاری صحت کی خاطر تو مجھے پرواہ نہیں.ایک شفیق مگر دور اندیش باپ تھے لڑکوں پر کڑی نظر رکھتے (لڑکیوں پر بظاہر زیادہ نرمی ) قدرتا لڑکوں کے اپنی آرزو کے مطابق خادمِ دین بننے اور خدمتِ اسلام کے لئے کمر بستہ سپاہی بنا رہنے کی آپ کی دلی خواہش تھی.کسی لڑکے کے کام کی تعریف کسی سے بھی سنتے تو خوش ہو جاتے.جب عزیزی ناصر احمد ( خلیفة المسیح الثالث ) کو ۱۹۵۳ء میں قید رکھا گیا ہم رتن باغ میں تھے میں دیکھ رہی تھی عزیزی ناصر احمد کوٹھی کے رُخ بیٹھے تھے اُن کا چہرہ صاف نظر آ رہا تھا ایک عجیب شان ، ایک عجیب نور، ایک خاص وقار چہرہ پر برس رہا تھا یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ ناصر احمد ہی ہیں اُس وقت بجائے قیدی ہونے کے معلوم ہوتا تھا کہ ایک فاتح بادشاہ فتح عظیم کے بعد بڑی شان سے رواں ہے.وہ چہرہ ، وہ نقشہ ، وہ خاص نور وہ شان دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ محض قلبی اثر نہیں اس میں خدا تعالیٰ کا خاص تصرف شامل ہے.یعنی خوشی سے ہر قربانی کے لئے تیار ہونے اور اطمینانِ قلب اور صبر و استقلال کا ہی اثر نہیں تھا صرف.اس وقت تو ایک خاص بات ظاہر ہو رہی ہے.اس میں خدا تعالیٰ کا تصرف شامل ہے.میں نے اس کا ذکر بعد میں کیا کہ اُس وقت ناصر احمد پر ایک عجیب
321 خاص نور اور ایک خاص شان تھی حیرت ہو رہی تھی کہ یہ اتنی دیر میں بدلی ہوئی ہستی نظر آ رہے ہیں.تو آپ اتنا خوش ہوئے کہ بے اختیار کہا اچھا! اور خوشی سے آپ کا پُر نور چہرہ مبارک چمکنے لگا تھا.رہائی کے متعلق ہم کو ابھی علم تک نہ تھا کہ آپ کا تار مبارک باد کا میرے نام پہلے پہنچا.اس کے بعد باہر سے عزیزی ناصر احمد اور حضرت چھوٹے بھائی صاحب کی آمد کا شور اُٹھا.ایک واقعہ یاد آ گیا.عزیزی ناصر احمد کو پہلے قرآن مجید حفظ کرایا گیا تھا دوسری تعلیم برائے نام ساتھ ساتھ چلتی تھی.ایک دن حضرت اماں جان کے پاس محمد احمد منصور احمد اور ناصر احمد متینوں بیٹھے تھے میں بھی تھی بچوں نے بات کی شاید حساب یا انگریزی ناصر احمد کو نہیں آتا ہمیں زیادہ آتا ہے.اتنے میں حضرت بھائی صاحب ( حضرت مصلح موعود ) تشریف لائے حضرت اماں جان نے فرمایا کہ ”میاں قرآن شریف تو ضرور ہی حفظ کرواؤ مگر دوسری پڑھائی کا بھی انتظام ساتھ ساتھ ہو جائے کہیں ناصر دوسرے بچوں سے پیچھے نہ رہ جائے مجھے یہ فکر ہے.اس پر جس طرح آپ مسکرائے تھے اور جو جواب آپ نے حضرت اماں جان کو دیا تھا وہ آج تک میرے کانوں میں گونجتا ہے فرمایا ”اماں جان آپ اس کا فکر بالکل نہ کریں ایک دن یہ سب سے آگے ہوگا إِنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالَى اب سوچتی ہوں کہ کیسی اُن کے منہ کی بات خدا تعالیٰ نے پوری کر دی علیم عام میں بھی اور علم خاص میں بھی اور اب قبائے خلافت عطا فرما کر سب سے آگے کر دیا.رات کو بہت دیر تک کام کرنا پھر سونا پھر ذرا دیر سے تہجد کے لئے اٹھنا گویا رات جاگ کر ہی گزرتی اسی لئے آپ کو بعد نماز صبح سو جانے کی عادت تھی.مالیر کوٹلہ میں رہائش کا زمانہ ۲۳ء سے لے کر ۴۳ ء تک میرا بہت لمبا رہا.اکثر قادیان آجاتی تھی چند روز کے لئے حضرت اماں جان کے پاس ہوتی تھی مگر آپ بہت خیال رکھتے کبھی کوئی خاص کھانا پکواتے کبھی پھل لاکر خود رکھلاتے.رات کو گرمی میں کام کرتے کرتے اُٹھ کر ( ذرا آرام کرنے کو اُٹھتے ////
322 ہو نگے ) ضرور اماں جان کے صحن میں آتے مجھے اٹھاتے کوئی پھل ٹھنڈا، آلو بخارا آڑو وغیرہ خود بھی کھاتے اور مجھے بھی دیتے.کبھی اوپر کی باری ہوتی تو چوبارے کی دیوار کے پاس کھڑے ہو کر بھی پکارتے اور اوپر سے پھل پھینکتے.بابی یا مشغله عطر اور خوشبو آپ کو پسند تھی اکثر سامان منگا کر خود تیار کرتے.جب میں آتی خاص نمونے تیار کرتے اور پہلے بھی دکھاتے.اتنا عطر مجھے دیا ہے کہ اس وقت منگوانے کی ضرورت نہ پڑتی تھی.مجھے بھی خوشبو پسند ان کو بھی ملتے ہی عطر کا ذکر ضرور فرماتے اور لاکر دیتے تھے.میرے میاں کی وفات کو۵ ، ۷ روز گزرے تھے میں لیٹی ہوئی تھی بستر پر.حضرت اماں جان میرے پاس ہی تشریف رکھتی تھیں آپ آگئے اور حسب عادت جلدی سے عطر کی شیشی کھول کر مجھے لگا دیا.حضرت اماں جان گھبرا کر بولیں میاں یہ کیا کیا ؟ عطر لگانا اِن دنوں ٹھیک نہیں.(بوجہ ایام عدت ) جس طرح انہوں نے مجھے دیکھا اور پشت پھیر کر جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئے وہ درد بھری نگاہیں میں بھول نہیں سکتی.پھر کمرے میں نہیں آئے باہر سے ہی رخصت ہو گئے.میرا پیارا بھائی اپنے رتبہ اور مقام اور قرب الہی کی وجہ سے تو تھا ہی ایک بندہ خاص مگر بھائی ہونے کے لحاظ سے بھی وہ ایک بیش بہا ہیرا تھا جس کا بدل نہیں.کئی بار مجھے کچھ دقت پیش آئی پارٹیشن سے پہلے بھی اور بعد میں بھی.جب اظہار کیا فوراً شرح صدر سے بلا توقف مالی امداد بھی کی.جب ان کا وقتِ رخصت قریب آ گیا تو میرے حالات بھی بدل گئے الْحَمْدُ لِلَّهِ کہ اب کوئی ایسی ضرورت ہی پیش نہیں آتی.لطائف بھی سنایا کرتے اور ملنے پر تازہ لطیفے خواہ بچوں کے تماشے ہوں ضرور میرے سنانے کو جمع ہوتے.طبیعت میں مزاح بھی تھا اور کاموں سے تھک
323 کر یہی دل بہلا وا تھا.عطر وغیرہ کی باتیں کوئی لطیفہ اپنے سفروں کے لطائف مجھے ضرور سناتے.یہ مجھ سے ایک چھیڑ تھی مذاق میں کہ آدھا لطیفہ یا ایک مصرع شعر کا سنا کر فرماتے آگے میں بھول گیا.مجھے آدھی بات سے گھبراہٹ ہوتی ہے مذاق یہ میرے ساتھ ہمیشہ رہا پھر ذرا چڑا کر سنا دیتے تھے.وسعت قلب ایک دو بار بے تکلفی میں (گستاخی مطلب نہ تھا ) میں نے آپ کے اشعار میں سے ایک دو مصرعوں کا رڈ و بدل کر دیا کہ یوں ہوتا تو اچھا ہوتا.ذرا بُرا نہیں مانا فرمانے لگے اب تو چھپ گیا ہے.بہت شوق سے مجھے نئے اشعار سناتے.ایک دفعہ مجھے پوچھا تم کو کلام محمود میں سے کونسا شعر زیادہ پسند ہے ایڈیشن اول تھا ) میں نے کہا : - حقیقی عشق گر ہوتا تو سچی جستجو ہوتی تلاش یار ہر ہر وہ میں ہوتی کو بکو ہوتی اس پر خوشی کا اظہار فرمایا.ایک لطیفہ یاد آ گیا ایک دن میں نے بتا دیا کہ منصورہ کہتی ہے یہ ماموں جان نے چھوٹے ماموں جان ( حضرت میر محمد الحق ) کی شادی پر کیسا شعر کہدیا ”میاں اسحق کی شادی ہوئی ہے آج اے لوگو معلوم ہوتا ہے دُہائی مل رہی ہے لو گو آ ؤ دوڑو.آپ بے اختیار ہنس دیئے فرمایا خبر لونگا بڑی شریر ہے.ایک دفعہ میں نے کہا کہ آپ کے دوا شعار الفضل میں پڑھے یہ شعر جو ہے.ہم انہیں دیکھ کے حیران ہوئے جاتے ہیں خود بخود چاک گریبان ہوئے جاتے ہیں اگر اس کو مطلع کے بجائے دوسرا تیسرا نمبر بنادیں اور اس کو یوں کر دیں تو اچھا معلوم ہوگا.
324 جذبہ عشق نہیں دست جنوں کا محتاج خود بخود چاک گریبان ہوئے جاتے ہیں اس پر فرمایا تھا کہ اب تو چھپ چکا.میں نے کہا میں تو اس طرح ہی پڑھونگی ہے تو آپ کا ہی شعر.آپ نے اس تبدیلی کو پسند کیا تھا.اسی طرح ایک دو دفعہ اور بھی ہوا.وہ عاشق رب کریم تھے تو حید کو مضبوطی سے پکڑنے والے.اُن کی زندگی اُن کی موت سب کچھ اپنے مولا کے لئے تھا غصہ آتا غلط کاموں پر اکثر بہت جھنجھلا جاتے مگر فوراً نرم پڑ جاتے.اُن کا غصہ تادیبی رنگ رکھتا تھا اس میں گہرائی بالکل نہیں تھی.دل کا حلیم اللہ تعالیٰ نے اسی لئے فرما دیا تھا کہ آخر وہ 66 کام لے گا تو غصہ بھی آئے گا.مگر یاد رکھنا کہ وہ دل کا حلیم“ ہوگا.خیر مجھ پر تو ساری عمر ایک بار بھی خفا نہیں ہوئے میں نے تو اُن کو محبت کا چشمہ ہی پایا ہمیشہ.خدا تعالیٰ اُن کے درجات بلند سے بلند تا ابد فرماتا جائے اور ہمارے نبی کریم صلی الہادی اورمسلم کے قدموں میں حضرت مسیح موعود کے پاس ان کو مقام عطا کرے اور اپنا قرب، اپنا وصل عطا فرمائے.زائد ضمیمہ:- آمین مبارکہ الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۶۹ ء صفحه ۵ تا ۹) اپنا بچپن کا ایک خواب یاد آ گیا یا د رہا اور کچھ سال ہوئے میں نے لکھ بھی لیا تھا.میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے صحن کا کنواں لبالب پانی سے بھرا ہے اور ایک جوان کو عمر جس کی پشت سے بڑے بھائی صاحب ہی معلوم ہوتے تھے تیز تیز اس کنویں کے گر دگھوم رہا ہے اور اُس کی زبان پر اونچی آواز سے یہ الفاظ جاری ہیں وہ آواز گونجتی ہے اور درود یوار سے یہ آواز آرہی ہے.إِنِّي جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ “
325 آنکھ کھلی تو میرے بڑے بھائی صاحب کا سرصرف سرشانوں تک میرے تکیہ پر تھا پہلے تو میں دیکھتی رہی دیکھتی رہی مگر جب وہ کیفیت دُور ہوگئی تو ڈر کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پکارا اور کہا میں نے اس طرح دیکھا ہے آپ نے فرمایا یہ کشف تھا ڈرو نہیں بہت مبارک خواب اور کشف ہے.میں اوپر کے صحن میں کھڑی دیکھ رہی تھی خواب میں.
327 عائلی زندگی مغربی تمدن کے اثرات اور ہندوانہ رسم و رواج کے زیر اثر ہندی مسلم معاشرہ میں بہت سی ایسی باتیں اثر انداز ہوگئیں جن کا صحیح اسلامی تمدن سے کوئی تعلق نہ تھا.حضرت فضل عمر اسلامی تمدن کے قیام کے لئے غیر معمولی جذبہ اور جوش رکھتے تھے.یہی وجہ ہے کہ آپ نے ہر اُس طریق کو نا پسند فرمایا جو کسی دوسری قوم سے مرعوب ہو کر یا ان کے زیر اثر اختیار کیا گیا ہو.تعد دازدواج کے مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.” ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ عام مسلمانوں نے جو اپنے طرز عمل سے کثرت ازدواج کو بد نام کر رکھا ہے وہ بر خلاف اس کے اپنے عدل وحُسنِ سلوک سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ دو بیویاں کرنا بالکل ممکن العمل اور مستحسن امر ہے.جن مسلمانوں کی بدسلوکی نے عورتوں کو اس مفید اور واجبی اجازت سے بدظن کر رکھا ہے.حتی کہ مردوں کی ایسی ہی کمزوریاں اور نا انصافیاں بعض جاہل و بے دین عورت کے ارتداد کا موجب بن جاتی ہیں انہیں خدا کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا کہ ان کی غلط کاری سے دین حق کو ضعف پہنچا اور اس کے پاک نام پر حرف آیا.“ (الفضل مؤرخہ یکم جولائی ۱۹۱۵ ء صفحہ ۱) اس مسئلہ کو زیادہ واضح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.میں کثرت ازدواج کا نہ صرف قائل ہوں بلکہ اس پر عامل ہوں اور میرے نزدیک اسلامی احکام کے ماتحت ایک سے زیادہ نکاح کرنے نہ صرف یہ کہ زنا کاری نہیں بلکہ ) اول درجہ کی بُردباری، قربانی ایثار اور تقویٰ کی علامت ہے.اور کوئی عیاش انسان ان قواعد کے ماتحت دوسرا نکاح
328 66 کر ہی نہیں سکتا.“ نیز آپ نے فرمایا : - ( الفضل ۴.مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳) ” میرے نزدیک قرآن سے یہی ثابت ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنی چاہئیں اور قرآن مجید نے بھی کثرت کو پہلے رکھا ہے.اور ایک شادی کو بعد میں بیان کیا ہے.(سورۃ نساء کی آیت وَإِنْ خِفْتُمُ الَّا تُقْسِطُوا کی تلاوت کے بعد فرمایا ) شریعت نے جسے مقدم بیان کیا ہے میں بھی اسے مقدم ہی جانتا ہوں.اور جسے مؤخر یعنی بعد میں ذکر کیا ہے میں بھی اسے مؤخر ہی قرار دیتا ہوں.قرآن مجید نہیں کہتا کہ ایک شادی کرو اور اگر اس کے بعد ضرورت پیش آئے تو ایک سے زیادہ شادی کرو بلکہ قرآن مجید نے مَثْنَى وَ تُلكَ وَ ربع کو پہلے رکھا ہے اور پھر کہا ہے کہ اگر دو تین اور چار شادیاں کرنے سے تم پر خوف کی حالت طاری ہوتی ہو تو فَوَاحِدَةً ایک ہی شادی کرو.تو ایک شادی کی 66 اجازت اس صورت میں ہے جبکہ انسان کو خوف لاحق ہو.“ ( خطبات محمود جلد سوم صفحہ ۴۷۷ ، ۴۷۸ - الفضل ۲۵.جون ۱۹۳۸ء) حضور کی پہلی شادی حضرت سیدہ ام ناصر مرحومہ سے ہوئی یہ شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہوئی گویا یہ بہو حضور کا اپنے موعود عظیم فرزند کے لئے انتخاب تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شادی کے لئے سلسلہ جنبانی کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو جو خط لکھا اس میں اس امر کی صراحت بھی فرمائی کہ :- اس رشتہ پر محمود راضی معلوم ہوتا ہے“ یہ تحریر۱۹۰۲ء کی ہے گویا کم و بیش ایک سو سال پہلے کی.اُس زمانہ کی عام حالت اور رسم ورواج کو دیکھتے ہوئے بہت ہی عجیب معلوم ہوتا ہے کہ شادی میں بچوں کی رائے کو بھی مدنظر رکھا جائے.مگر حضرت مسیح موعود جو رسم و رواج کی اصلاح کے لئے ہی بھیجے گئے تھے انہوں نے اپنے طرز عمل سے بتا دیا کہ شادی کے معاملہ میں بچوں کی پسند نا پسند کو بھی ضرور دخل ہونا چاہئے.اس رشتہ کا ذکر آئے تو حضرت ام ناصر کی اس عظیم قربانی کا ذکر کئے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی جو آپ نے الفضل کے اجراء کے وقت بہت ہی مشکل اور نا موافق حالات میں کی.عورتوں کی زیور سے روایتی محبت ایک طرف اور شوہر کی مالی حیثیت ایسی کہ بظاہر زیورات کا دوبارہ بنا نا ممکن ہو آپ کی قربانی کو چار چاند لگا دیتی
329 ہے یہی وجہ ہے کہ حضور نے ہمیشہ ہی اس قربانی کا بہت ہی اچھے لفظوں میں اظہار فرمایا اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضور کی پسند نا پسند کا معیار عام شوہروں سے بہت مختلف محض خدمت دین کا جذ بہ ہی تھا.حضور کی دوسری شادی کا مختصر ذکر بھی سوانح حضرت فضل عمر جلد دوم صفحہ ۴۵ پر ہو چکا ہے.حضور نے یہ شادی حضرت خلیفہ اول کی اس خواہش کے احترام میں کی کہ میرے خاندان کا حضرت مسیح موعود سے کوئی تعلق قائم ہو جائے اور اس سے بھی بڑھ کر حضور کی خواہش اور تمنا یہ تھی کہ ان کے ذریعہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام بہتر طور پر انجام پائے.حضور اس شادی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.وو " میری روح کو امتہ الحی مرحومہ کی روح سے ایک پیوستگی حاصل تھی.مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی ہے اور اس کا ذکر کبھی کبھی میں مرحومہ سے بھی کیا کرتا تھا کہ جب شادی کی تو ان پر احسان سمجھ کر کی تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی خواہش کو پورا کروں کہ مسیح موعود کے خاندان سے آپ کے خاندان کا خونی رشتہ قائم ہو جائے.“ (خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۲۰۴) اس رشتہ کی کامیابی اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے انعامات و برکات کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- میں نہیں جانتا تھا یہ میری نیک نیتی اور اپنے اُستاد اور آقا کی خواہش کو پورا کرنے کی آرزو ایسے اعلیٰ درجہ کے پھل لائے گی اور میرے لئے اس سے ایسے راحت کے سامان پیدا ہوں گے.مجھے بہت سی شادیوں کے تجربے ہیں میں نے خود بھی کئی شادیاں کی ہیں اور بحیثیت ایک جماعت کا امام ہونے کے ہزاروں شادیوں سے تعلق ہے اور ہزاروں واقعات مجھ تک پہنچتے رہتے ہیں مگر میں نے عمر بھر کوئی ایسی کامیاب اور خوش کرنے والی شادی نہیں دیکھی جیسی میری یہ شادی تھی ( خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۲۰۵٬۲۰۴) اس شادی سے حضور کی اصل غرض جماعت کی مستورات کی تعلیم وتربیت کا اہتمام تھا حضور نے ان کو خود پڑھایا اور اس مقصد کے لئے تیار کیا.آپ فرماتے ہیں :- مرحومہ کی شکل جسمانی لحاظ سے کوئی اچھی شکل نہ تھی....لیکن ان کے
330 اندر ایک ایسا ایمان تھا.....با وجود ان کمزوریوں کے جو مجھ میں پائی جاتی ہیں اور باوجود ان غفلتوں کے جو مجھ سے ظاہر ہوتی ہیں میں نے ہمیشہ ان کے ایمان کو خلافت کے متعلق ایسا مضبوط پایا کہ بہت کم مردوں میں ایسا ہوتا ہے.مجھے فخر ہے کہ ان کی شادی مجھ سے ایسے زمانہ میں ہوئی جبکہ وہ چھوٹی عمر کی تھیں اور مجھے تعلیم دینے اور تربیت کرنے کا موقع مل گیا‘ ( خطبات محمود جلد ۳ صفحہ ۲۰۵) آپا امتہ اٹھی کی وفات پر حضور کو بہت زیادہ صدمہ پہنچا.ایک ہمہ صفت موصوف بیوی کی وفات پر صدمہ تو طبعی امر ہے مگر حضور کو زیادہ صدمہ اس اہم مقصد کو نقصان پہنچنے کے اندیشہ کا تھا کہ اس طرح عورتوں کی تعلیم و تربیت کے کام میں حرج واقع ہوگا.آپ فرماتے ہیں:- اسی طرح مجھے اب امتہ الھی کی وفات پر جو افسوس اور صدمہ ہے اور میں اپنے فرائض میں سے سمجھتا ہوں کہ اسے قائم رکھوں اور یہ شقاوت ہوگی اگر (انوار العلوم جلد ۹ صفحه ۸) میں یاد نہ رکھوں“ اسی سلسلہ میں آپ ارشاد فرماتے ہیں :- وو میں امتہ الٹی پر بھی ضرور رویا لیکن پچھلوں کے لئے جن کے متعلق میرا خیال تھا کہ ان کے سر پر سے ایک مفید وجود اُٹھ گیا“ (انوار العلوم جلد ۹ صفحه ۱۲) عورتوں کی تعلیم کے متعلق حضور کا جو منصوبہ تھا اور اس منصو بہ میں حضرت آ پا امتہ اکئی صاحبہ کا جو حصہ تھا اس کے متعلق بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:." مجھے جو افسوس اور غم ہوا ہے وہ اس واسطے ہوا کہ مجھے نظر آتا ہے کہ عورتوں میں جو میں نے تعلیم کے متعلق سکیم سوچی تھی وہ تمام درہم برہم ہوگ ہوگئی.یورپ کے سفر میں خاص سکیم تعلیم کی تیار کی تھی اور میں نے ارادہ کیا ہوا تھا کہ واپس جا کر اس سکیم کو جاری کروں گا.لیکن انسانوں میں سب سے زیادہ جس ہستی سے مجھے امید تھی کہ وہ اس سکیم کو چلانے میں میری مددگار ہوگی وہ وفات پاگئی ہے تو اب اس کے بعد اس تمام سکیم کے بدل جانے کی وجہ سے مجھے بہت غم تھا.درحقیقت انسانوں میں سب سے زیادہ جس ہستی پر مجھے اس تعلیمی سکیم کے متعلق بڑی امیدیں تھیں وہ
331 امتہ الحئی تھی.اب میری وہ سکیم اس واقعہ کے بعد بدل گئی اور نئے فکر کی اس کے لئے ضرورت پڑی.کوئی کام بغیر آلات کے نہیں ہو سکتا روشنی دیکھنے کا کس قدر بھی شوق ہو لیکن اگر آنکھیں نہ ہوں تو یہ شوق پورا نہیں ہوسکتا.چلنے کا کتنا شوق ہو لیکن وہ شوق بغیر ٹانگوں کے پورا نہیں ہوسکتا.پس جب تک ہتھیار نہ ہوں تب تک کوئی کام نہیں ہو سکتا.اور میرے اپنے خیال اور ارادہ میں جس ہستی کے اوپر میرا ہاتھ تھا اور جس پر مجھے بڑی امیدیں تھیں وہ ہستی مجھ سے جدا ہوگئی اس وجہ سے مجھے غم ہے ورنہ ایسے انسان کی موت پر بھلا کیا غم ہوسکتا ہے جس کے لیئے اس قدر دعاؤں کا موقع ملا اور جس کے لئے آخری حد تک جو تیمار داری ممکن تھی اور میری برداشت کے اندر تھی وہ کی اور اپنی محبت کے اظہار کے لئے دل پر پتھر رکھ کر وہ کام کئے جو دوسروں کے لئے کرنے ناممکن ہیں.میں نے بھی اس کے لئے دعائیں کیں اور جماعت نے بھی دعائیں کیں، پھر ایک بہت بڑی جماعت نے جنازہ پڑھا اور باہر کی جماعتیں بھی جنازہ پڑھیں گی، پھر مقبرہ بہشتی میں مدفون ہو ئیں بھلا اتنی خوش نصیبی کس کو نصیب ہے.میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم نے کہا کہ امتہ الحئی تو بڑی ہی خوش نصیب نکلیں جس کے لئے اتنی دعائیں ہوئیں اور اتنے بڑے مجمع نے نماز جنازہ ادا کی.پس اس کی موت پر کیسا غم اور کیسا رونا.ہاں ایک رونا اپنی طبیعت کے لحاظ سے بھی ہوتا ہے جو طبیعت مدت تک ایک انسان کے ساتھ رہنے کی عادی ہو چکی ہوتی ہے تو اس عادت کے خلاف ہونے پر ضرور رونا آتا ہے جو ایک طبعی امر ہے لیکن وہ خون کس طرح ہو سکتا ہے.خزن تو گذشتہ چیز پر ہوتا ہے اور میں اگلی چیز کا خیال کرتا ہوں جو آئندہ آنے والی ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ مستورات کی تعلیم اور پھر دینی تعلیم میرے ذمہ ہے اور کامیابی کے لئے یہ نہایت ضروری ہے اور یہ کون انسان برداشت کر سکتا ہے کہ وہ پوری محنت کرے اور پھر وہ ناکام رہے.“ (انوار العلوم جلد ۹ صفحہ ۹-۱۰) حضرت آپا امتہ الحئی کے علمی ذوق اور پڑھنے پڑھانے کے جذبہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور
332 فرماتے ہیں:- میں نے ارادہ کیا کہ فوراً ان کو تعلیم دوں مگر وہ اس شوق میں مجھ سے بھی آگے بڑھی ہوئی نکلیں.ابتداء میں کبھی سبقوں میں ناغے بھی کر دیتا تھا.مگر وہ کہہ کر اور زور دیکر اپنی تعلیم کو جاری رکھتی تھیں اور اس میں انہوں نے بہت ترقی کی.وہ قرآن شریف کا ترجمہ اچھی طرح پڑھا لیتی تھیں.بلوغ المرام پڑھاتی تھیں اور وفات سے چار پانچ روز پہلے ہی مجھ سے مشورہ کر رہی تھیں کہ لڑکیوں کو مشکوۃ پڑھانی ہے.تعلیم کی یہ خواہش جو اُن میں تھی وہ دیگر عورتوں میں نظر نہیں آتی.“ اور اب میری عمر بھی اس قابل نہیں کہ اور شادی کروں اور دس سال تک اُس کو تعلیم دوں اور تربیت کروں اس لئے عورتوں کے متعلق مجھے نہایت تاریک پہلو نظر آتا ہے.میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کوئی سامان پیدا کر دے گا مگر اس کے لئے جس دعا کی ضرورت ہے وہ ایک درد اور تڑپ چاہتی ہے.پس میں نے اپنے غم و درد کا اظہار کسی کے سامنے نہیں کیا.ہاں خدا تعالیٰ کے حضور اس قدر غم و درد کا اظہار کیا ہے کہ جس سے میں یقین کرتا ہوں کہ میری دعا ئیں عرش کو اس طرح ہلائیں گی جس طرح دردمند شخص کی ہلایا کرتی ہیں.“ حضرت سیدہ امتہ اکئی کی طرف سے حصہ آمد کی ادائیگی حضور نے فرمائی اس تحریر کے ہر لفظ سے مرحومہ کے لئے محبت کے قابل قدر جذبے کا کس خوبی و عمدگی سے اظہار ہو رہا ہے.مجلس معتمدین کے سیکرٹری صاحب کے نام حضور نے اپنے خط میں تحریر فرمایا: - سیکرٹری صاحب مجلس معتمدین السَّلَامُ عَلَيْكُمْ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی قضاء کے ماتحت آج سوا تین بجے میری راحت جان بیوی امة الى كَانَتْ تَحْتَ ظِلّ الله - دختر استاذی المکرم حضرت خلیفہ اول اپنے رب سے جاملی ہے.مرحومہ کی جائداد، مہر و دیگر زیورات و قیمت زمین جو مرحومہ نے خود اپنی زندگی میں فروخت کر دی تھی گل
333 انداز آتین ہزار روپی تھی یعنی تین ہزار روپے سے کچھ کم تھی.میں اس کی وصیت کے مطابق کہ اس کے ایک تہائی حصہ کو خدمت دین کے لئے دیا جائے ایک ہزار روپیہ صدر انجمن احمد یہ قادیان کو بھیجتا ہوں.مرحومہ کی جائیداد میں سے جو حصہ شرعاً میرا بنتا ہے اس کے متعلق بھی وعدہ کرتا ہوں کہ روپیہ میسر ہوتے ہی میں فی سبیل اللہ کارکنان مقبرہ بہشتی کے حوالہ کر دوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اگر شریعت اجازت دیتی تو مرحومہ موجودہ وصیت سے بہت زیادہ وصیت کرتی.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.حضرت سیدہ مریم صاحبہ (اُمم طاہر ) 6 خاکسار مرزا محمود احمد (الفضل ۲۰.دسمبر ۱۹۲۴ء) حضرت سیدہ مریم صاحبہ (اُمم طاہر ) سے شادی کا پس منظر یہ ہے کہ :- حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ( ولادت ۱۴ - جون ۱۸۹۹ء ، وفات ۱۶.ستمبر ۱۹۰۷ء) کی علالت کے دوران کسی نے رویا میں دیکھا کہ صاحبزادہ صاحب کی شادی ہو رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تعبیر تو بخوبی سمجھتے تھے بلکہ حضور کو بھی بعض ایسے الہام ہو چکے تھے جن سے پتہ چلتا تھا کہ آپ صغر سنی میں ہی وفات پا جائینگے تاہم مقربانِ بارگاہ الہی کے طریق پر آپ نے ظاہری طور پر بھی اس خواب کو پورا کرنے کے لئے مریم بنت حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب سے صاحبزادہ صاحب کی شادی کر دی.خدا کی تقدیر کے مطابق حضرت میاں صاحب کی وفات ہو گئی اور اس طرح یہ تعلق اور سلسلہ یہاں پر ختم ہو گیا.تاہم حضرت ڈاکٹر صاحب کے خاندانی دستور کے مطابق مریم کی شادی اسی گھر میں تو ہو سکتی تھی کسی اور گھر میں اسے بیاہنا مناسب نہیں تھا.'مریم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ان کی بہو بننے کے اعزاز سے بہرہ ور ہوئیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک عجیب کامیاب و کامران زندگی مقدر فرمائی تھی.یہ وہی مریم ہیں جو بعد میں حضرت فضل عمر کے عقد میں آئیں اُم طاہر کے نام سے شہرت پائی خدمت خلق ایثار اور خدمتِ دین کے انمٹ نقوش چھوڑ گئیں اور ان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ وہ نہ صرف حضرت مسیح موعود کے دو بیٹوں سے بیاہی گئیں اور پھر یہ بھی کہ آپ کے بطن سے وہ عظیم فرزند پیدا ہوا جو خلافت رابعہ کی مسند پر متمکن ہوا اور جس کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی الہامات
334 پورے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی اخبار پوری ہوئیں اور جماعت کو ہمہ جہتی ترقی و کامیابی حاصل ہوئی.حضرت مریم کی شادی کے متعلق حضرت مصلح موعود کا بیان آپ کی سیرت کے بہت سے پہلوؤں کو نمایاں کرنے والا ہے.آپ نے حضرت اُم طاہر کی وفات پر ” میری مریم کے بہت پیار بھرے عنوان سے ایک مفصل مضمون رقم فرمایا.اردو محاورہ ” دل نکال کر رکھ دینا اس مضمون سے زیادہ کم ہی کسی اور جگہ چسپاں ہوسکتا ہوگا.آپ فرماتے ہیں :- ایک دن شاید ۱۹۱۷ ء یا ۱۹۱۸ء تھا کہ میں امتہ الحئی مرحومہ کے مکان میں بیت الخلاء سے نکل کر کمرہ کی طرف آ رہا تھا.راستہ میں ایک چھوٹا سا صحن تھا.اس کے ایک طرف لکڑی کی دیوار تھی.میں نے دیکھا ایک دبلی پتلی سفید کپڑوں میں ملبوس لڑکی مجھے دیکھ کر اس لکڑی کی دیوار سے چمٹ گئی اور اپنا سارا لباس سمٹالیا میں نے کمرہ میں جا کر امتہ الحئی مرحومہ سے پوچھا امتہ الحمی یہ لڑکی باہر کون کھڑی ہے؟ انہوں نے کہا آپ نے پہچانا نہیں ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم ہے.میں نے کہا اس نے تو پردہ کیا تھا اور اگر سامنے بھی ہوتی تو میں اسے کب پہچان سکتا تھا.۱۹۰۷ء کے بعد اس طرح مریم دوبارہ میرے ذہن میں آئی اب میں نے دریافت کرنا شروع کیا کہ کیا مریم کی شادی کی بھی کہیں تجویز ہے؟ جس کا جواب مجھے یہ ملا کہ ہم سادات ہیں.ہمارے ہاں بیوہ کا نکاح نہیں ہوتا اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں کسی جگہ شادی ہو گئی تو کر دیں گے ورنہ لڑکی اسی طرح بیٹھی رہے گی.میرے لئے یہ سخت صدمہ کی بات تھی میں نے بہت کوشش کی کہ مریم کا نکاح کسی اور جگہ ہو جائے مگر ناکامی کے سوا کچھ نتیجہ نہ نکلا آخر میں نے مختلف ذرائع سے اپنے بھائیوں سے تحریک کی کہ اس طرح اس کی عمر ضائع نہ ہونی چاہئے اُن میں سے کوئی مریم سے نکاح کرلے لیکن اس کا جواب بھی نفی میں ملا.تب میں نے اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فعل کسی جان کی تباہی کا موجب نہ ہونا چاہئے اور اس وجہ سے کہ ان کے دو بھائیوں سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب سے مجھے بہت محبت تھی میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں مریم سے خود نکاح کر لونگا.۷۰۰۰۰۰.فروری ۱۹۲۱ء کو ہمارا نکاح مسجد مبارک کے قدیم حصہ میں ہو گیا وہ نکاح
335 کیا تھا ایک ماتم کدہ تھا.دعاؤں میں سب کی چھینیں نکل رہی تھیں اور گریہ وزاری سے سب کے رخسار تر تھے.آخر ۲۱.فروری ۱۹۲۱ء کو نہایت سادگی سے جا کر میں مریم کو اپنے گھر لے آیا.اور حضرت اماں جان ) کے گھر میں اُن کو اُتارا جنہوں نے ایک کمرہ اُن کو دے دیا جس میں ان کی باری میں ہم رہتے تھے...شادی کے ابتدائی ایام میں وہ سخت دبلی پتلی ہوتی تھیں اور شکل میں بعض ایسے نقص تھے جو میری طبیعت پر گراں گزرا کرتے تھے اسی طرح وہ ٹھیٹھ پنجابی بولتی تھیں اور مجھے گھر میں کسی کا پنجابی بولنا زہر معلوم ہوتا ہے.ان کی طبیعت ہنسوڑ تھی وہ مجھے چڑانے کے لئے جان کر بھی اردو بولتے ہوئے پنجابی الفاظ اس میں ملا دیا کرتی تھیں...جب میں انگلستان گیا ہوں تو امتہ الحئی مرحومہ اور ان کی باہمی لڑائی کی وجہ سے میں ان سے کچھ خفا تھا مگر مجھے واپس آ کر معلوم ہوا کہ غلطی زیادہ امتہ اکئی مرحومہ کی تھی اس خفگی کی وجہ سے سفر کے پہلے چند روز میں نے مریم کو خط نہ لکھا مگر اَلحَمدُ لِلهِ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جلد سمجھ دے دی اور میں نے ان کو ناجائز تکلیف میں پڑنے سے بچالیا.اٹلی سے میں نے ان کو ایک محبت سے پُر خط لکھا جسے انہوں نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا اس میں ایک شعر تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ روم اچھا شہر ہے مگر تمہارے بغیر تو یہ بھی اُجاڑ معلوم ہوتا ہے.اتفاقاً ایک دفعہ اس شعر کا ذکر ۱۹۳۰ء میں یعنی سفر ولایت کے سات سال بعد ہوا تو وہ جھٹ اُٹھ کر وہ خط لے آئیں اور کہا کہ میں نے وہ خط سنبھال کر رکھا ہوا ہے یہی شعر میں نے امتہ اکئی مرحومہ کو بھی لکھا تھا خدا کی قدرت یہ دونوں ہی فوت ہو گئیں اور روم کی جگہ اس دنیا میں مجھے ان کے بغیر زندگی بسر کرنی پڑی.بہر حال جب میں انگلستان سے واپس آیا اور آنے کے چند ہی روز بعد امتہ الحئی فوت ہو گئیں تو ان کے چھوٹے بچوں کا سنبھالنے والا مجھے کوئی نظر نہ آتا تھا ادھر مرحومہ کے دل پر ان کی وفات کے وقت اپنے بچوں کی پرورش کا سخت بوجھ تھا.کبھی وہ ایک کی طرف دیکھتی تھیں اور کبھی دوسرے کی طرف مگر اس بارہ میں میری طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھتی تھیں شاید بجھتی ہونگی مرد بچوں کو پالنا کیا جانیں میں بار بار اُن کی طرف دیکھا تھا اور کچھ کہنا چاہتا تھا
336 مگر دوسرے لوگوں کی موجودگی سے شرما جاتا تھا.آخر ایک وقت خلوت کا مل گیا اور میں نے امتہ الحئی سے کہا امتہ الحئی ! تم اس قدر فکر کیوں کرتی ہو اگر میں زندہ رہا تو تمہارے بچوں کا خیال رکھوں گا اور اِنْشَاءَ اللهُ انہیں کوئی تکلیف نہ ہونے دونگا.میں نے ان کی تسلی کے لئے کہنے کو تو کہہ دیا مگر سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں.آخرامہ الحئی کی وفات کی پہلی رات میں نے مریم سے کہا مریم! مجھ پر ایک بوجھ آپڑا ہے کیا تم میری مدد کر سکتی ہو؟ اللہ تعالیٰ کی ہزار ہزار برکتیں ان کی رُوح پر ہوں وہ فوراً بول پڑیں ہاں میں ان کا خیال رکھوں گی جس طرح ماں اپنے بچوں کو پالتی میں ان کو پالوں گی اور دوسرے دن قیوم اور رشید کو لا کر میں نے ان کے حوالے کر دیا.نہ انہیں اور نہ مجھے معلوم تھا کہ ہم اس وقت ان کی موت کے فیصلہ پر دستخط کر رہے تھے.مجھے امتہ الحئی بہت پیاری تھی اور پیاری ہے مگر میں دیانتداری سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر وہ زندہ رہتیں تو اس طرح اپنے بچوں کی بیماری میں ان کی تیمار داری کر سکتیں جس طرح مریم بیگم نے ان کے بچوں کی بیماریوں میں ان کی تیمارداری کی...میں نے ان سے اس وقت وعدہ کیا کہ مریم ! تم ان بے ماں کے بچوں کو پالو اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تم سے بہت محبت کروں گا اور میں نے خدا تعالیٰ سے رو رو کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی محبت میرے دل میں پیدا کر دے اور اس نے میری دعا سن لی.میں نے اُس دن سے ان سے محبت کرنی شروع کر دی ان کی طرف سے سب انقباض دل سے نکل گیا اور وہ میرے دل پر متسلط ہو گئیں ان کی وہی شکل جو میری آنکھوں میں چھتی تھی اب مجھے ساری دنیا میں حسین ترین نظر آنے لگی اور ان کا لاابالی پن جس پر میں بُرا منایا کرتا تھا اب مجھے ان کا پیدائشی حق معلوم دینے لگا.جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقع ہوتا تھا تو واپسی پر میں اس یقین سے گھر میں گھستا تھا کہ مریم کا چہرہ چمک رہا ہوگا اور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پل باندھ دیں گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزا آیا اور یہ قیاس میرا شاذ ہی غلط ہوتا تھا.میں دروازے پر انہیں منتظر پا تا خوشی سے ان
337 کے جسم کے اندر ایک تھر تھراہٹ سی پیدا ہو رہی ہوتی تھی اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی.....۱۹۲ء میں کشمیر میرے ساتھ گئیں تو وہ ان کے ساون بھادوں کا موسم تھا میں سنجیدگی کی طرف لاتا اور وہ قہقہوں کی طرف بھاگتیں نتیجہ یہ ہوا کہ نہ سنجیدگی رہی نہ قہقہے ساون کی جھڑیوں کی طرح جو آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہوئے تو کشمیر سے واپسی تک بہتے ہی چلے گئے....میری بیویوں سے ان کی نہ نبھتی تھی.گنواروں کی طرح لڑتی نہ تھیں مگر دل میں غصہ ضرور تھا ان کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ کسی نہ کسی امر میں ان سے امتیازی سلوک ہو اور چونکہ خدا اور رسول کے حکم کے ماتحت میں ایسا نہ کر سکتا تھا وہ یہ یقین رکھتی تھیں کہ میں ان سے محبت نہیں کرتا اور دوسری بیویوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں.بعض دفعہ خلوت کی گھڑیوں میں پوچھتی تھیں کہ آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ اور میں اس کا جواب دیتا کہ اس کے جواب سے مجھے خدا تعالیٰ کا حکم روکتا ہے.آج اگر انہیں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں آ کر میرے دل سے نکلتے ہوئے اُن شعلوں کو دیکھنے کا موقع دے جو دل سے نکل نکل کر عرش تک جاتے ہیں اور رحم کی استدعا کرتے ہوئے عرش کے پایوں سے لپٹ لپٹ جاتے ہیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کے سوال کا کیا جواب تھا.......مہمان نواز انتہاء کی تھیں.بعض دفعہ اپنے اوپر اس قدر بوجھ لا دلیتیں کہ میں بھی خفا ہوتا کہ آخر مہمان خانہ کا عملہ اسی غرض کے لئے ہے تم کیوں اس قدر تکلیف میں اپنے آپ کو ڈال کر اپنی صحت برباد کرتی ہو آخر تمہاری بیماری کی تکلیف مجھے ہی اُٹھانی پڑتی ہے.پندرہ جنوری کو ان کے دل کی حالت خراب ہونی شروع ہو گئی اُس وقت ڈاکٹروں نے توجہ کی اور انسانی خون بھی جسم میں پہنچایا گیا اور حالت اچھی ہوگئی...میرے قادیان جانے کے بعد ہی ان کی حالت خراب ہوگئی.....اس کے بعد تندرستی کی حالت ان پر پھر نہیں آئی.دو نرسیں اُن پر رات اور دن کے پہرہ کے لئے رکھی جاتی تھیں اور چونکہ ان کا خرچ پچاس ساٹھ روپے روزانہ ہوتا تھا مجھے معلوم ہوا کہ اس کا ان کے دل پر
338 بہت بوجھ ہے.میں نے ان کو تسلی دلائی کہ مریم! اس کی بالکل فکر نہ کرو میں یہ خرچ تمہارے آرام کے لئے کر رہا ہوں تم کو تکلیف دینے کے لئے نہیں......ان کی بیماری کے لمبا ہونے پر میرے دل میں خیال آیا کہ خرچ بہت ہو رہا ہے روپیہ کا انتظام کس طرح ہوگا تو دل میں بغیر ادنی انقباض محسوس کئے میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں کوٹھی دارالحمد اور اس کا ملحقہ باغ فروخت کر دوں گا.میں نے دل میں کہا کہ اس کی موجودہ قیمت تو بہت زیادہ ہے لیکن ضرورت کے وقت اگر اسے اونے پونے بھی فروخت کیا جائے تو پچھتر ہزار کو وہ ضرور فروخت ہو جائے گی اور اس طرح اگر ایک سال بھی مریم کے لئے یہ خرچ کرنا پڑا تو چھ ہزار روپیہ ماہوار کے حساب سے ایک سال تک ان کے خرچ کی طرف سے بے فکری ہو جائے گی اور یہی نہیں میرانفس مریم بیگم کے لئے اپنی جائداد کا ہر حصہ فروخت کرنے کے لئے تیار تھا تا کسی طرح وہ زندہ رہیں.اس وقت میرا دل چاہتا تھا کہ ابھی چونکہ زبان اور کان کام کرتے ہیں میں ان سے کچھ محبت کی باتیں کرلوں مگر میں نے فیصلہ کیا کہ اب یہ اس جہان کی روح نہیں اُس جہان کی ہے اب ہمارا تعلق اس سے ختم ہے.“ الفضل ۱۲.جولائی ۱۹۴۴ء صفحہ ۱ تا ۵) جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے حضرت سیدہ موصوفہ خدمت خلق کے کاموں میں غیر معمولی دلچسپی لیتی تھیں.غرباء کی ہمدردی، مشکل میں مبتلاء لوگوں کی مدد بیماروں کی تیمارداری اور خبر گیری اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے بزرگ خاوند کی دیکھ بھال جماعتی کاموں میں بھر پور امداد انتظامی امور میں آگے آگئے ان سب خوبیوں اور اوصاف کے متعلق بکثرت مثالیں اور واقعات موجود ہیں تا ہم آپ کی وفات پر جس طرح غمزدہ افراد جماعت نے دُکھ اور رنج محسوس کیا جس طرح پلک پلک کر روئے اور جس طرح جنازہ میں شامل ہوئے اُس کو دیکھتے ہوئے کسی اور مثال یا ثبوت کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تحریر فرمایا : - حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی عموماً خاص موقعوں کے انتظامات انہی کے سپرد فرمایا کرتے تھے مثلا گھر کی خاص دعوتوں کا انتظام انہی
339 کے سپر د ہوتا تھا..یا اگر کسی سفر کی تیاری کرنی ہوتی تھی تو ایسی تیاری کی انچارج بھی بالعموم وہی ہوا کرتی تھیں.اسی طرح سفروں کے درمیان میں ٹرپ یعنی تفریحی سیروں کا انتظام بھی عام طور پر وہی کیا کرتی تھیں.چنانچہ اس وقت مجھے گزشتہ سفر ڈلہوزی کا ایک چھوٹا سا گھر یلو واقعہ یاد آ گیا ہے جو اس جگہ مختصراً درج کرتا ہوں.حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ چونکہ گذشتہ سال ایک لمبی بیماری سے اُٹھے تھے اس لئے قیام ڈلہوزی کے آخری ایام میں حضور نے صحت کے خیال سے بعض تفریحی سیروں کا انتظام فرمایا تھا ان سیروں میں سے آخری سیر کالاٹوپ پہاڑ تک کی گئی تھی.....اور ٹرپ کا اہتمام بدستور سیدہ اُمم طاہراحمد کے ہاتھ میں تھا.چونکہ سیدہ موصوفہ نے انتظام وغیرہ کی وجہ سے سب سے آخر میں آنا تھا اس لئے میں نے دیکھا کہ جب ہم اپنے گھروں سے قریباً ایک میل نکل آئے تو سیدہ مرحومہ والے گھوڑے پر ان کی بجائے ہماری بڑی ممانی آرہی ہیں مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کیا بات ہے اور میں نے اس کا ذکر (حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) سے بھی کیا اس پر میں نے دیکھا کہ حضور کے چہرہ پر کسی قدر فکر اور اس کے ساتھ ہی رنج کے آثار ظاہر ہوئے.فکر اس لئے کہ سیدہ اُمم طاہر کی عدم موجودگی میں کہیں انتظام میں کوئی دقت نہ ہو اور رنج اس لئے کہ ٹرپ کو رونق دینے والی رفیقہ حیات پیچھے رہ گئیں مگر حضور نے زبان سے صرف اس قدر فرمایا کہ سارا انتظام امم طاہر نے ہی کیا ہوا ہے اور انہیں ہی معلوم ہے کہ کون سی چیز کہاں ہے اور کون سی کہاں کسی اور کو تو کچھ خبرنہیں ان کے پیچھے رہ جانے کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ جب وہ گھوڑے پر چڑھ کر روانہ ہو رہی تھیں تو (حضرت اماں جان نے انہیں دیکھ کر فرمایا کہ شوکت (ہماری بڑی ممانی صاحبہ ) نے ضرور جانا ہے ان کے لئے انتظام کر دو.سیدہ موصوفہ جنہیں حضرت اماں جان سے انتہائی محبت اور اخلاص تھا فوراً اپنے گھوڑے سے اُتر آئیں اور ممانی جان کو اپنا گھوڑا دے کر روانہ کر دیا اور آپ پیدل چل پڑیں.“ ( الفضل ۲.اپریل ۱۹۴۴ء صفحه ۴) حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے جو اپنی عظیم الشان والدہ کی وفات کے وقت
340 دسویں جماعت کا امتحان دے رہے تھے اور جنہوں نے اس ہلا دینے والے صدمہ کو کمال صبر و ضبط سے برداشت کیا اپنی مقدس والدہ کی ایک بہت نمایاں خوبی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: - " ابا جان سے بھی امی کو بہت زیادہ محبت تھی اور اگر چہ اس کا اظہار میرے سامنے کرنا مناسب نہ سمجھتی تھیں مگر بعض اوقات وفور محبت سے امی کے منہ سے ایسی بات نکل ہی جاتی تھی جس سے ابا جان کی محبت کا اظہار ہو.امی ابا جان کی رضا کو اس قدر ضروری خیال کرتی تھیں کہ بعض دفعہ بالکل چھوٹی چھوٹی باتوں پر جن کی طرف ہمارا خیال بھی نہ تھا امی نظر رکھتی تھیں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے مچھلی کے شکار کو جانا چاہا سب تیاری وغیرہ مکمل کر لی بس صرف ابا جان سے پوچھنے کی کسر باقی رہ گئی میں نے امی سے کہا وہ مجھے ابا جان سے اجازت لے دیں کیونکہ اور لوگوں کی طرح ہم بھی اپنے ابا جان سے متعلق کام امی کے ذریعہ ہی کرایا کرتے تھے.امی نے پوچھا مگر ابا جان نے جواب دیا کہ تم کل جمعہ میں وقت پر نہیں پہنچ سکو گے مگر میں نے وعدہ کیا کہ ہم ضرور وقت پر پہنچ جائیں گے جس پر ابا جان نے اس شرط پر اجازت دے دی.امی نے اجازت تو لے دی مگر باہر آ کر مجھے کہا کہ طاری! میں تمہارے ابا جان کی طرف سے محسوس کرتی ہوں کہ تمہارے ابا جان نے اجازت دل سے نہیں دی میں نہیں چاہتی کہ تم اپنے ابا جان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرو.تم میری خاطر سے آج شکار پر نہ جاؤ کسی اور دن چلے جانا اگر چہ سب سامان مکمل تھا مگر امی نے مجھے کچھ اس طرح سے کہا کہ میں انکار نہ کر سکا اور اپنے باقی ساتھیوں سے کوئی بہانہ کر کے اس ٹرپ کا ارادہ چھوڑ دیا.امی نے حضرت صاحب پر ایک رنگ میں جان بھی فدا کر دی.کیونکہ حضرت صاحب کی ہر بیماری میں اس جانفشانی سے خدمت کی کہ حضرت صاحب کے صحت یاب ہوتے ہی خود بیمار ہو گئیں میں نے ان کو ہر بیماری میں کمزور سے کمزور ہوتے دیکھا اور یوں محسوس کیا کہ یہ بیماریاں امی کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں.“ ( الفضل ۱۴.اپریل ۱۹۴۴ء صفحہ ۴ ) حضرت آپا ساره بیگم صاحبہ حضرت آپا سا رہ بیگم صاحبہ سے شادی میں بھی حضور کے پیش نظر وہی جماعتی مفاد اور دین کو دنیا حضرت آپا ساره بیگم صاحبہ.
341 سے شادی میں بھی حضور کے پیش نظر وہی جماعتی مفاد اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جذبہ ہی تھا جس کا پہلے ذکر ہو چکا.حضور نے اس نکاح کا اعلان ۱۲ را پریل ۱۹۲۵ء کو خود فرمایا اور خطبہ نکاح میں اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :- یہ خوشی کا موقع ہے مگر اس کی وجہ سے ایک طرف گھبراہٹ بھی ہوتی ہے کہ نہ معلوم گل کے لئے اس میں کیا کچھ مخفی ہے اور خاص کر میرے جیسے انسان کی حالت کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا جس کے لئے اس کام میں اس قسم کی خوشی نہیں جیسی کہ عام طور پر لوگوں کو ہوتی ہے.....میں ایک خاص ذمہ داری بعض حالات کے ماتحت اُٹھا رہا ہوں.پس میں جس تقریب کے لئے آج کھڑا ہوا ہوں وہ میرے لئے نہایت ہی اہم تقریب ہے.آج سے چند ماہ پہلے میں یہ وہم بھی نہیں کرتا تھا کہ ایک اور شادی کروں گا بلکہ ایک بات پیدا بھی ہوئی تو میں نے ایک دوست کو بتایا کہ میں حالات کے لحاظ سے بالکل معذور ہوں لیکن میں نہیں سمجھ سکتا کہ آئندہ زمانہ میں خدا تعالیٰ نے کیا مقدر کیا ہوا ہے اگر میری ذمہ داریاں جو جماعت کا امام ہونے کے لحاظ سے مجھ پر عائد ہوتی ہیں ان کے پورا کرنے کا مجھے خیال نہ ہوتا اور جماعت کی اغراض اور مقاصد اس بات کے لئے محرک نہ ہوتے تو آج اس تقریب کے لئے میں ممبر پر کھڑا ہونے کی کبھی جرات نہ کرتا کیونکہ میں بیاہ شادیوں سے دل برداشتہ ہو چکا ہوں اب میرے لئے اس فعل میں کوئی خوشی نہیں اور مجھے اس میں کوئی جسمانی راحت نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ جو خدا تعالیٰ پیدا کر دے کوئی لمبا عرصہ نہیں گزرا کچھ دن ہوئے میں نے اسی مسجد میں ایک ٹیچر دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ میں نہیں سمجھ سکتا میں کوئی اور شادی کرنے کے قابل ہوں.مجھ میں اب اتنی ہمت نہیں ہے کہ ایک نو جوان لڑکی کوٹوں اور اُسے تعلیم دے کر اس قابل بنا سکوں کہ سلسلہ کا کام اس طریق سے جو میرے مدنظر ہے کر سکے لیکن بعد کے میرے غور اور بعض دوستوں نے جو مشورے دیئے اور بعض ایسے دوست جن سے میں نے مشورہ لیا ان سے استخارے کرائے اور خود بھی کئے اس سے میری توجہ اس طرف مائل ہوئی کہ عورتوں میں اعلی تعلیم کو رواج دینے اور ان میں
342 سلسلہ کی روح پیدا کرنے کے لئے کسی ایسی لڑکی سے شادی کروں جو تعلیم یافتہ ہو اور جسے میں تربیت دے کر تعلیمی کام کرنے کے قابل بنا سکوں.اس فیصلہ کے بعد بعض کی تحریک پر مختلف جگہیں پیش ہوئیں جن میں سے کئی ایسی تھیں جن کی سفارش ان کی شکل وصورت کرتی تھی لیکن چونکہ یہ بات مجھے مدنظر نہ تھی اس لئے میں نے انکار کر دیا پھر بعض ایسی تھیں جو تعلیم دنیاوی زیادہ رکھتی تھیں اور یہی کشش تھی جو مجھے کھینچنے کا باعث ہو سکتی تھی مگر ان جگہوں کے متعلق بھی میں نے انکار کر دیا کیونکہ میں نے سمجھا یہ تعلیم ایسی نہیں جس کے پیچھے میں پڑوں.آخر قطع نظر ان امور کے محض اس وجہ سے کہ اس جگہ دینی تعلیم کا سوال تھا اور وہ بات جس کی سلسلہ کو ضرورت تھی وہ اس جگہ پوری ہوتی نظر آتی تھی اس لئے میں نے اس جگہ کے متعلق اپنی رضا ظاہر کر دی جس جگہ اب نکاح کا فیصلہ کیا گیا ہے.میں سمجھتا ہوں کو چوتھی شادی کی بھی ایک مسلمان کو اجازت ہے مگر میں اپنے حالات کے لحاظ سے اس کے لئے تیار نہ ہوتا.میں نہیں سمجھتا آئندہ میرے قلب کا کیا حال ہوگا لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ اس وقت تک کوئی ایسی حالت مجھ پر نہیں گزری کہ میں نے اس نقصان کو بھلایا ہو اور آج تک میں نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں امتہ اکئی مرحومہ کے لئے دعا نہیں کی.....شاذ ہی کوئی ہوتا ہے جو مرنے والے کی یاد اپنے دل میں تازہ رکھتا ہے لیکن مجھ میں وفاداری اور وفاشعاری کا ایک ایسا جذبہ رکھا گیا ہے کہ میں نے اپنے بچپن کے زمانہ سے اسے محسوس کیا ہے.اس زمانہ میں جب دوست مجھ سے پوچھا کرتے کہ تم پر کونسی بات سب سے زیادہ اثر کرتی ہے تو میں جواب دیا کرتا تھا میں اگر کسی کتاب میں وفاداری کا کوئی واقعہ پڑھوں تو میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جانے سے باز نہیں رہ سکتیں.میرے نزدیک کسی کی جدائی اور اس دنیا کے لحاظ سے ہمیشہ کی جدائی کو یاد رکھنا ایک خوشگوار رنج ، ایک فرحت پہنچانے والا غم اور ایک مسرت بخش تکلیف ہے.یہ رنج ہزاروں خوشیوں سے بہتر اور یہ غم ہزاروں فرحتوں سے اچھا ہے.محبت کا درد، درد نہیں بلکہ دوا ہے وفاداری کا صدمہ صدمہ نہیں بلکہ دل کو صاف کرنے والی ایسی بھٹی ہے جس سے وہ چلا پا کر نکلتا ہے اور انسان کی روح آلائشوں سے
343 امیدوار ہوں.66 پاک ہو کر اس اعلیٰ مقام پر سانس لیتی ہے جہاں کی ہوا نہایت ہی لطیف اور پاک ہوتی ہے اگر میرے سپرد ایک جماعت کی امامت نہ ہوتی اگر بے وقوفی سے کہو یا ہوشیاری سے ایک کثیر جماعت کی ترقی کا خیال مجھے مدنظر نہ ہوتا تو درحقیقت اب شادی کرنا تو الگ رہا اس کا خیال اور اس کی تحریک بھی میرے دُکھے ہوئے دل کے لئے ٹھیس لگانے کا موجب اور تکلیف دہ ہوتی مگر میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۲۰۱ تا ۲۰۴) اس خطبہ نکاح میں تبتل الی اللہ اور دنیوی نعماء سے استفادہ کا صحیح مفہوم اور مومنانہ طرز عمل بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.غرض میں کسی دُنیوی خواہش اور لذت کے لئے اس کام پر آمادہ نہیں ہوا میرا دل ڈرتا ہے کہ وہ جو پہلے ہی غموں اور فکروں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ایک اور فکر نہ سہیڑ لے.مگر خدا تعالیٰ سے دعائیں کی ہیں اور میں محض اس نیت سے آمادہ ہوا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ کا ایک جزو جو بہت پیچھے ہٹا ہوا ہے اس ذریعہ سے اس کی ترقی کا سامان ہو ورنہ میں جس قدر اپنے نفس کو ٹولتا ہوں اس کے سوا کوئی خواہش نہیں پاتا اور کوئی ظاہری وجہ نہیں کہ دنیوی فائدہ ظاہر کرتی ہو.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ محض ایک اور صرف ایک غرض اس کام بلکہ اس بوجھ کو اُٹھانے کی محرک ہے اور وہ صرف جماعت کی ہمدردی اور سلسلہ کا مفاد ہے.میں نے بار بار اپنے دل کو ٹولا ہے اور اس کے چاروں گوشوں کو دیکھا ہے اور بہت غور سے دیکھا ہے اور اس کے سوا میں نے اس میں کوئی اور خواہش نہیں دیکھی لیکن پھر بھی چونکہ انسان کمزور ہے اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ اگر میرے دل کے کسی گوشہ میں اس کے سوا کوئی اور خواہش ہو تو خدا تعالیٰ اسے بدل دے.میں نے کم از کم تین سو دفعہ استخارہ اور دعا اس شادی کے متعلق کی ہے لیکن اب میں پھر دعا کرتا ہوں کہ اگر میری دعائیں میری نفسانی کمزوری کی وجہ سے قبول نہ ہوئی ہوں تو خدا تعالیٰ اب قبول فرمالے میں شادی کے فرائض اور ذمہ داریوں کو جانتا ہوں.میں نے بار ہا لوگوں کو بتایا ہے کہ شادیوں کی کیا اغراض ہیں اور آج میں اپنے نفس کو مخاطب کر کے وہی کہتا ہوں جو آج
344 تک دوسروں سے کہتا رہا کہ ان باتوں کو سوچ لے مگر پھر بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ اغراض جو خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادی کی بتائی ہیں ان کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.میرا دل بہت سے اسباب کی وجہ سے حقیقی دنیوی خوشی سے نا آشنا ہو گیا ہے.اب مجھے دنیا میں کوئی خوشی نظر نہیں آتی لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ خوش نہیں ہوں......اگر میرے دل میں یہ تڑپ نہ ہوتی کہ میں اسلام کی ترقی کو دیکھوں، اگر مجھے یہ امید نہ ہوتی کہ میں اپنی زندگی میں اپنے گناہوں کے معاف کرانے کے لئے سامان کرسکوں تو اس دنیا میں میرے لئے کوئی دلچسپی کا سامان نہیں مگر باوجود اس کے میں خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو رد نہیں کرتا بلکہ طلب کرتا ہوں، اگر میں دنیا میں رہ کر دین کی کچھ خدمت کر سکوں، ترقی اسلام میں ممد و معاون ہوسکوں، خدا تعالیٰ کی رضا میں کوئی گھڑی گزار سکوں تو میرے لئے کوئی دکھ دیکھ نہیں بلکہ یہ زندگی ہی جنت ہے اور اعلیٰ درجہ کی جنت ہے.میں کبھی اپنی نادانی کی گھڑیوں میں کہا کرتا تھا میرے مولیٰ ! کس غرض کے لئے تو نے مجھے دنیا میں رکھا ہوا ہے مگر میں سمجھتا ہوں وہ نادانی کی گھڑیاں ہوتی ہیں دنیا دار العمل ہے.....اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی بنیاد یہیں پڑتی ہے اس لئے میں خدا تعالیٰ کی دُنیوی نعمتوں کی بھی قدر کرتا ہوں اور اپنی کمزوریوں کا اقرار کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں پر ندامت کا اظہار کرتا ہوں.“ اس خطبہ کے آخر میں پھر اس کا مقصد بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.غرض اس نئے بوجھ کو جو میں اُٹھانے لگا ہوں تو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور میں سمجھتا ہوں دوسرے فریق کے لئے بھی یہ کوئی خوشی نہیں.ایک ایسا مرد جو صحت کے لحاظ سے کمزور ہو جس کی مالی حالت کمزور ہو جس کا دل ڈ نیوی خوشی سے بے بہرہ ہو جس کی پہلے دو بیویاں موجود ہوں اُسے لڑکی دے کر کوئی بڑی امید نہیں کر سکتا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی بھی قربانی ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ انہیں اس کے نیک نتائج دے....اور جب یہ شادی محض جماعت کے بعض کاموں کو ترقی دینے کے
345 لئے کی جارہی ہے تو خدا تعالیٰ سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ اس شادی کو میرے لئے بھی مبارک کرے.....پھر وہ اس کمزور اور متروک صنف کے لئے بھی جو عورتوں کی صنف ہے مبارک کرے جس کے حقوق سینکڑوں سال سے تلف کئے جارہے ہیں....خدا تعالیٰ موت سے پہلے مجھے یہ بات دکھا دے کہ اسلام دنیا میں ہر طرف غالب ہو رہا ہے.....میں اس نکاح کا اعلان خود کرتا ہوں.عام طور پر یہ بات رسم و رواج کے خلاف ہے کہ جس کا نکاح ہو وہی اعلان کرے مگر میرے دل کے غم نے مجھے مجبور کیا کہ میں خود کھڑا ہو کر اعلان کروں اور ان جذبات اور خیالات کا اظہار کروں جو میرے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا تھا مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے.میں جن بزرگوں کی جوتیاں جھاڑنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا انہوں نے اپنے نکاح کا اعلان خود کیا ہے.میں خدا تعالیٰ کے ان جرنیلوں کی تقلید میں اور ان بزرگوں سے تیمّنا اور تبرکا نسبت کرتے ہوئے اس امید سے کہ اللہ تعالیٰ اس نکاح کو بابرکت کرے خود اعلان کرتا ہوں“ خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۲۰۶ تا ۲۰۹) حضرت عزیزہ بیگم صاحبہ یکم فروری ۱۹۲۶، بروز دوشنبه حضرت عزیزه بیگم صاحبه بنت محترم سیٹھ ابوبکر صاحب جدہ سے حضور کا نکاح ہوا اس تقریب پر پر حضور نے جو خطاب فرمایا اس میں اس شادی کا پس منظر بیان کرنے کے علاوہ بعض اور ضروری امور کی بھی وضاحت فرمائی الفضل میں حضور کا یہ خطاب ” چند ضروری باتیں“ کے عنوان سے شائع ہوا.حضور فرماتے ہیں:- ۱۹۱۴ء میں جب میری شادی امتہ اٹھی مرحومہ سے ہوئی تھی اُس وقت مکرمی ابوبکر صاحب جمال یوسف تاجر جدہ نے مجھے لکھا تھا کہ جب سے میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے میری خواہش تھی کہ میں اس کی شادی آپ سے کروں لیکن اس خیال سے کہ شاید آپ کو نکاح ثانی پسند نہ ہو خاموش تھا لیکن اب جبکہ آپ نے دوسری شادی کر لی ہے میں اس خواہش کا اظہار کر دیتا ہوں.میں نے انہیں تو کوئی جواب نہ دیا لیکن چونکہ میرا ہوش سنبھالتے ہی یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو کہ مسلمانوں کی ////
346 دوسری زبان عربی ہونی چاہئے پورا کرنے کا یہ بہترین طریق ہے کہ عربی بولنے والی عورتوں سے شادی کی جائے تا بچوں میں عربی کا چرچا ہو اس لئے میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ میں اس جگہ ممکن ہوا تو شادی کروں گا اور اس کا اظہار بھی کرتا رہا جس کی اطلاع انہیں بھی ملتی رہی.۱۹۲۴ء میں سیٹھ صاحب قادیان تشریف لے آئے اور گو میرے حالات اُس وقت شادی کے متقاضی نہ تھے مگر چونکہ ایک رنگ کا وعدہ ہو چکا تھا میں نے حافظ روشن علی صاحب کی معرفت اس مسئلہ کو طے کرنا چاہا.معاملہ ایک حد تک طے ہو چکا تھا کہ امتہ ائی صاحبہ کی طبیعت یکدم زیادہ بگڑ گئی اور دو چار دن میں وہ فوت ہو گئیں.اس سے بات درمیان میں رہ گئی لیکن اس دوران میں میں نے بعض خواہیں دیکھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس جگہ شادی ہونی مقدر ہے مگر خوا ہیں چونکہ تعبیر طلب ہوتی ہیں میں نے خیال نہ کیا لیکن جلسہ کے قریب جبکہ پہلے خیال کو میں قطعی طور پر دل سے نکال چکا تھا میں نے پھر اسی قسم کی رؤیا دیکھی اور ادھر والدہ صاحبہ حضرت اماں جان نے جو اُن دنوں شملہ میں تھیں اس قسم کی رؤیا دیکھی جس سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ شادی مقدر ہے لیکن تب بھی میں نے کوئی زیادہ توجہ نہ کی لیکن جلسہ کے موقع پر اور اس کے بعد چند اور لوگوں نے جن کو کچھ بھی اس امر کی واقفیت نہ تھی ایسی رؤیاء سنا ئیں جن سے اس امر کا اظہار ہوتا تھا اس لئے میں نے استخارہ کر کے دوستوں سے مشورہ کیا اور اکثر دوستوں نے یہی مشورہ دیا کہ مجھے پچھلے وعدوں اور خوابوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ شادی بھی کر لینی چاہئے.چونکہ خوابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قضائے الہی یہی ہے اور میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ رضائے الہی بھی یہی ہو اس لئے میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اس جگہ نکاح کرلوں.سیٹھ صاحب مذکور نہایت مخلص آدمی ہیں اور ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو دیکھ کر ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے یہ سامان کیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس رشتہ میں کوئی ایسا فائدہ ہو جو اس وقت مجھے نظر نہیں آتا اور آئندہ ظاہر ہو.وَاللهُ أَعْلَمُ -
347 سر دست تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سیٹھ صاحب کے اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے متواتر اور کئی آدمیوں کو رؤیا کے ذریعہ سے اس امر کے قضائے الہی ہونے کا علم دیا ہے.سیٹھ صاحب کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یکمشت جو بڑی سے بڑی رقم سلسلہ کو ملی ہے وہ انہی کی ہے.انہوں نے سترہ ہزار روپیہ ۱۹۱۸ء میں سلسلہ کی مدد کے لئے دیا تھا....غرض کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اخلاص کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا کرانے کے لئے خوابوں کا ایسا سلسلہ شروع کر دیا کہ جس سے میری توجہ مجبوراً پھر اس امر کی طرف پھر گئی.“ الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۲۶ ء صفحہ ۲۱) حضور کے نزدیک تو اسلامی تمدن کے قیام اور قرآنی احکام کی تعمیل میں کسی انقباض یا اعتراض کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا تاہم حضور نے اس رشتہ کے سلسلہ میں جن احباب سے مشورہ لیا ان میں سے بعض نے لوگوں کے معترض ہونے کے اندیشہ کا ذکر کیا.اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- جن دوستوں سے میں نے مشورہ کیا ہے ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ اعتراض کریں کہ اس رشتہ کی کیا ضرورت تھی ؟ میں سمجھتا ہوں اعتراض یا دشمن کر سکتا ہے یا دوست دشمن کے اعتراض کی تو کچھ پرواہ ہی نہیں، وہ کیا رسول کریم صلی اللہ و آلہ وسلم پر اعتراض نہیں کرتا ؟ باقی رہے دوست سو دوستوں کو میں ایسا نہیں سمجھتا کہ وہ اس کام پر جو رؤیا کی بناء پر کیا جاتا ہے اعتراض کریں.چار شادیوں تک تو شریعت نے خود اجازت دی ہے....اور مجھے خدا تعالیٰ نے بچپن سے ہی ایسی زندگی میں سے گزارا ہے کہ اعتراضوں کی جب وہ بے ہودہ ہوں پر واہ ہی نہیں.میرا جسم اعتراضوں کی کثرت سے اعتراضوں کی برداشت کے لئے اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ اب اس پر کوئی اعتراض اثر نہیں کرتا نہ لوگوں کی رضا سے میں خوش ہوتا ہوں نہ انکی ناراضگی سے ناراض.مجھے تو صرف خدا تعالیٰ کی رضا بس ہے اور اس کی رضا کو پورا کرنے کے لئے دشمن تو الگ رہے اگر اپنے دوستوں سے بھی مجھے الگ ہونا پڑے تو مجھے ایک ذرہ بھر بھی ملال نہ ہو.“ الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۲۶ء صفحه ۲)
348 حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (اہم متین.چھوٹی آپا ) حضرت سیدہ انتم متین مریم صدیقہ ( چھوٹی آپا ) بنت حضرت میر محمد اسماعیل صاحب سے حضور کا نکاح ۳۰.ستمبر ۱۹۳۵ء کو ہوا.اس مبارک نکاح کا اعلان حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے سات بجے صبح بیت اقصیٰ میں کیا.اس موقع پر انہوں نے فرمایا :- " خطبہ نکاح میں تقویٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور مسائل ونصائح بیان کئے جاتے ہیں تاکہ فریقین نیکی و تقویٰ اختیار کریں.نکاح کی بنیاد تقویٰ اور پرہیز گاری پر ہے پر میں وہ مسائل کس کے سامنے بیان کروں جس کے سامنے میں خود انتہائی عقیدت و نیاز مندی سے سر جھکا تا ہوں.مجھے یہ فخر عطا ہوا کہ میں اعلان نکاح کروں ورنہ میں کوئی نصائح اور مسائل بیان کرنے کے قابل نہیں ہوں“ (الفضل ۲.اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۲) اس کے بعد آپ نے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے بلند روحانی مقام اور حضرت مسیح موعود کی کمال اطاعت کا ذکر کیا اور حضرت فضل عمر کے بلند روحانی مقام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی کسی کے شاگرد نہ تھے اسی طرح آپ بھی کسی کے شاگرد نہیں ہیں.بے شک آپ سکول میں پڑھتے رہے ہیں مجھ سے بھی پڑھتے رہے ہیں مگر ہر جماعت میں فیل ہوتے تھے.مگر آج آپ کا جو علم ہے جو عرفان ہے جو قوت ہے جو شجاعت ہے جو تقویٰ ہے، جو طہارت ہے یہ سب خداداد ہے.خدا تعالیٰ نے ہی آپ کو خلافت عطا فرمائی اور اسی نے اسے چلانے کے لئے ہر قسم کی قوتیں اور طاقتیں عطا کیں اور خدا ہی آپ کے سب کام کر رہا ہے ہر شعبہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے علوم عطا کئے ہیں کہ جو علوم لدنی ہیں.“ الفضل ۲.اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۲) حضرت مفتی صاحب نے تعد دازدواج کے متعلق اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اس کے بعض فوائد بیان کئے اور بعض دلچسپ مثالیں بھی بیان فرما ئیں.اس دن نماز عصر کے بعد تقریب رخصتانہ عمل میں آئی.پچاس کے قریب احباب کو
349 حضرت (خلیفہ اسیح الثانی) نے دعا میں شریک ہونے کے لئے مدعو فرمایا جو حضور کے ہمراہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے.ڈیڑھ سو کے قریب احباب کو حضرت میر صاحب نے دعوت دی تھی.سب احباب کی چائے، مٹھائی اور پھلوں سے تواضع کی گئی.دعا کے بعد یہ مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی.(الفضل ۲.اکتوبر ۱۹۳۵ء) آنحضرت صلی اللہ والدیلم کے اخلاق حسنہ اور عظمت کردار کے متعلق اُم المومنین حضرت خدیجہ کی یہ گواہی: - كَلَّا وَاللهِ مَا يُخْزِيكَ اللهُ اَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَحْمِلُ الْكَلَّ وَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَ تَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ.یعنی بخدا اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ذلیل نہیں کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے دوسروں کا بوجھ اُٹھاتے وہ اخلاق جو کہیں نہیں پائے جاتے آپ میں پائے جاتے ہیں آپ مہمان نوازی کرتے اور مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں.بہت عجیب گواہی ہے جس میں کسی مبالغہ کے بغیر آنحضرت صلی العلی آلہ سلم کے اخلاق فاضلہ اور سیرت طیبہ کو نہایت جامع اور مختصر الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے.اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ نے بھی كَانَ خُلُقُهُ الْقُرآنُ کہہ کر اسی طرح سمندر کو کوزہ میں بند کیا ہے.بیوی کی گواہی کی اہمیت اس لحاظ سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے کہ اس پر اپنے خاوند کی کوئی بات مخفی نہیں ہوتی اور وہ اس کی زندگی کے ہر پہلو کو بہت قریب سے دیکھتی ہے.حضرت فضل عمر کی ازواج کی یہ عملی گواہی ہے کہ آپ کی ساری زندگی دین کے لئے وقف تھی اور آپ کو آنحضرت صلی اللہی الہلم اور قرآن مجید سے عشق تھا.مناسب ہوگا کہ حضرت سیدہ ائم متین مریم صدیقہ صاحبہ کا ایک مضمون یہاں پیش کر دیا جاوے اس میں سیرت کے متعدد پہلو بہت خوبی سے ظاہر ہوتے ہیں :- چن لیا تو نے مجھے ”ابن مسیحا کے لئے وو سب سے پہلے یہ کرم ہے میرے جاناں تیرا حمید یہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے جو آپ نے بزبان حضرت اماں جان فرمایا تھا.لگا کر میں بھی جتنا خدا تعالیٰ کا شکر ادا کر سکوں کم ہے.اسے م ابنِ مسیحا
350 ہزاروں دور د و سلام آنحضرت صلی اللہ یہ آلہ وسلم پر جن کے طفیل ہمیں اسلام جیسی نعمت حاصل ہوئی اور پھر ہزاروں سلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو اسلام کو دوبارہ لائے اور ہم نے زندہ خدا کا وجود ان کے ذریعہ سے دیکھا آنحضرت صلی اللہ یہ آلہ ہم پر ان کی وجہ سے ایمان لانا نصیب ہوا اور میرے رب کا کتنا بھاری احسان مجھ ناچیز پر ہے کہ اس نے مصلح موعود کے زمانہ میں مجھے پیدا کیا نہ صرف ان کا زمانہ عطا فرمایا بلکہ اس کی قدرت کے قربان جاؤں اُس نے مجھ نا چیز ہستی پر کتنا بھاری انعام اور احسان فرمایا کہ مجھے اس پاک و نورانی وجود اس قدرت و رحمت اور قُربت کے نشان اور مثیل مسیح کے لئے چن لیا.آپ کی صحبت سے فیض حاصل کرنے ، آپ کی تربیت میں زندگی گزار نے اور پھر اس پاک وجود کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.خدا تعالیٰ کی کیا شان ہے دینے پر آئے تو جھولیاں بھر بھر کر دیتا ہے میں کیا اور میری ہستی کیا.اللہ تعالیٰ کا یہ اتنا بڑا انعام ہے کہ اس کے احسان اور انعام کا تصور کر کے بھی عقل حیران رہ جاتی ہے.سر آستانہ الوہیت پر چھک جاتا ہے اور منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے.میں تو نالائق بھی ہو کر یا گیا درگہ میں بار میری اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی رفاقت کا زمانہ تمہیں سال ہے.آپ کی سیرت پر روشنی ڈالنے سے قبل اپنی شادی اور اس کا پس منظر بیان کرنا ضروری سمجھتی ہوں.میری شادی اور اس کا پس منظر میرے والد صاحب حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی پہلی بیوی سے ایک لمبا عرصہ تک کوئی اولاد نہیں ہوئی.حضرت اماں جان) کی خواہش تھی کہ میرے بھائی کے ہاں اولاد ہو.بھائی سے محبت بھی بہت زیادہ تھی.حضرت اماں جان نے میری شادی کے بعد کئی دفعہ مجھ سے یہ ذکر فرمایا کہ جب میاں محمود ( حضرت خلیفہ المسیح الثانی) چھوٹے تھے تو میرے دل سے بار بار یہ دعا نکلتی تھی کہ الہی ! میرے بھائی کے ہاں بیٹی ہو تو میں اس کی شادی میاں محمود سے کروں لیکن جو بات بظا ہر ناممکن نظر آتی تھی یعنی حضرت اماں جان کی دعا اور خواہش وہ میری شادی کے ذریعہ پوری ہوئی.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیم میں ذکر کر چکی ہوں کہ میرے ابا جان کے ہاں جب بڑی والدہ صاحبہ سے جو بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہیں کوئی اولاد نہیں ہوئی تو حضرت اماں جان اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے زور دینے پر میرے ابا جان نے مرزا محمد شفیع صاحب کی بڑی لڑکی
351 وو امۃ اللطیف صاحبہ سے ۱۹۱۷ ء میں شادی کی.یہ رشتہ بھی حضور کا ہی طے کردہ تھا.۷.اکتوبر ۱۹۱۸ ء کو میری پیدائش ہوئی.چونکہ اور کوئی پہلے اولاد نہ تھی اس لئے میرے ابا جان نے مجھے ہی خدا تعالیٰ کے حضور وقف کر دیا.اس کا اظہار حضرت ابا جان نے اپنے کئی مضامین میں بھی کیا اور جب میری شادی ہوئی تو آپ نے مجھے کچھ نصائح نُوٹ بک میں لکھ کر دیں.اس میں آپ نے تحریر فرمایا : - مریم صدیقہ ! جب تم پیدا ہوئیں تو میں نے تمہارا نام مریم اس نیت سے رکھا تھا کہ تم کو خدا تعالیٰ اور اس کے سلسلہ کے لئے وقف کر دوں اسی وجہ سے تمہارا دوسرا نام نذیرالہی بھی تھا.اب اس نکاح سے مجھے یقین ہو گیا کہ میرے بندہ نواز خدا نے میری درخواست اور نذر کو واقعی قبول کر لیا تھا اور تم کو ایسے خاوند کی زوجیت کا شرف بخشا جس کی زندگی اور اس کا ہر شعبہ اور ہر لحظہ خدا تعالیٰ کی خدمت اور عبادت کے لئے وقف ہے.پس اس بات پر بھی شکر کرو مضمون کہ تم کو خدا تعالیٰ نے قبول فرمالیا اور میری نذر کو پورا کر دیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ.اسی سلسلہ میں اپنے ابا جان کے ایک مضمون کا اقتباس بھی پیش کرتی ہوں.آپ کا یہ مخمخانہ عشق میں ایک رات کے عنوان سے ۳.نومبر ۱۹۳۶ء کے الفضل میں شائع ہوا ہے.آپ لکھتے ہیں :- آدھی رات تو ہو ہی چکی تھی میں چوکھٹ پر سر رکھے پڑا تھا اور اُٹھنے کا خواہشمند تھا کہ اُٹھنے کی اجازت ملی.وہیں دروازہ کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور اپنی زبان میں اظہار تعشق یا یوں کہو مناجات شروع کی.ایسی مؤثر ایسی رقت بھری کہ سنگدل سے سنگدل معشوق بھی اُس کو سُن کر آبدیدہ ہو جائے.آخر میرا جادو چل گیا اور یوں محسوس ہوا کہ کوئی پوچھتا ہے کہ کیا چاہتا ہے؟ میں نے عرض کیا“ اے خداوند من گنا ہم بخش سوئے درگاه خویش را ہم بخش در دوعالم توئی عزیز و آنچه می خواهم از تو نیز توئی مفت میں نے کہا میں کیا پیش کر سکتا ہوں جو کچھ ہے وہ آپ کا ہی
352 دیا ہوا ہے جان اور ایک چیز سب سے عزیز 66 میں نے ویسی فجر کی نماز ساری عمر نہ پڑھی تھی.اُف وہ خوشی وہ عجیب اور نئی قسم کی خوشی وہ لازوال اور لا انتہاء خوشی میرا ہر ذرہ تن قریب تھا کہ اس خوشی سے پھٹ جائے یا شادی مرگ ہو جائے زہے نصیب وہ اور مجھے اپنا چہرہ دکھا ئیں وہ اور مجھ سے میری جان کا مطالبہ کریں.وہ اور مجھ سے ایک عزیز چیز کی نذر طلب کریں...دن کے آٹھ نہیں بجے تھے کہ ایک سیاہ بکرا اور ایک سفید مینڈھا کوچہ بندی میں کٹے پڑے تھے اور عالم روحانی میں ان کے ساتھ دو اور نفس بھی ذبح ہو چکے تھے.اور بارہ نہیں بجے تھے کہ میری سب سے عزیز چیز یعنی مسجد مبارک والا مکان میرے قبضہ سے نکل کر صدرانجمن کی تحویل میں منتقل ہو چکا تھا.ان باتوں سے فارغ ہو کر گھر گیا تو ایک اور عزیز چیز نظر آئی جس کا نام مریم صدیقہ تھا.میں نے اسے اُٹھا کر کہا کہ اس کا نام ہی شاہد ہے.میرا پہلے سے بھی ارادہ تھا.اب اسے بھی قبول فرمائے رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.۱۹۲۱ء پر چودہ سال گزر چکے مسلسل چودہ سال ( یہ واقعہ ۱۹۲۱ء کا تھا) بیم ورجا کے کہ آیا کچھ قبول بھی ہوتا ہے یا نہیں.بہر حال ۱۹۳۵ء میں خدا تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا کہ آخری نذر کو ان کے ایجنٹ ۳۰.ستمبر یوم دو شنبہ کو آکر میرے ہاں سے اُٹھا کر لے گئے.میں نے سجدہ ادا کیا“ میری شادی ۳۰.ستمبر ۱۹۳۵ء کو ہوئی تھی.(الفضل ۳.نومبر ۱۹۳۶ء) اس اقتباس کو درج کرنے سے یہ بتانا مقصود تھا کہ میرے ابا جان نے میرے پیدا ہوتے ہی مجھے خدا تعالیٰ کے حضور وقف کر دیا تھا اور پھر یہ وقف رسمی وقف نہ تھا.ان کی شدید خواہش تھی کہ میں جو ان کی اولاد میں سب بڑی تھی دین کی خدمت کروں.اور اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو قبول فرمائے.سو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ نہ صرف اس نے ان کی قربانی کو شرف قبولیت عطا فرمایا بلکہ مجھے ایک لمبے عرصے تک حضرت مصلح موعود کی خدمت کا موقع عطا فرمایا اور کسی حد تک سلسلہ کی خدمت کا بھی.اللہ تعالیٰ سے میری بھی یہی دعا ہے کہ وہ مجھے اپنی بقیہ زندگی کو اسلام احمدیت اور
353 بنی نوع انسان کی خدمت میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.تا جب میں اس کی جناب میں حاضر ہوں تو خدا تعالیٰ کی رضا مجھے حاصل ہو.میں بھی سرخرو ہوں اور میرے ابا جان کی روح بھی خوش ہو کہ میں ان کی دلی خواہش کو پورا کرنے کا موجب بنی.امِینَ اللَّهُمَّ آمِينَ میری عمر شادی کے وقت سترہ سال تھی.اور یہ سترہ سالہ زمانہ جو میں نے میکے میں بسر کیا.اس کا ایک ایک دن شاہد ہے کہ میری تربیت کرتے ہوئے حضرت ابا جان نے ہر وقت یہی کان میں ڈالا کہ ہر صورت میں دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے.میں جب چھوٹی تھی تو میرے لئے ابا جان نے ایک دعائیہ نظم بھی کہی تھی جس کا آخری شعر یہ تھا.میرا نام ابا نے رکھا ہے مریم خدایا تو صدیقہ مجھ کو بنا دے ابا جان کی یہ دعا جو انہوں نے میرے لئے کی تھی ظاہری رنگ میں بھی اس طرح پوری ہوئی کہ جب میری شادی ہوئی تو حضرت اُم طاہر زندہ تھیں.آپ کا نام بھی مریم تھا اور چونکہ حضور ان کو مریم کے نام سے بلاتے تھے اور ایک ہی نام سے دونوں بیویوں کو بلانا مشکل تھا.آپ نے شروع شادی سے ہی میرے نام کے دوسرے حصہ سے مجھے بلایا.اور ہمیشہ صدیقہ" کہہ کر ہی بلایا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے میرے ابا جان کی قربانی کو قبول فرماتے ہوئے مجھے حضرت مصلح موعود کی زوجیت کا فخر عطا فرمایا.آج کل جس عمر میں لڑکیوں کی شادیاں ہو رہی ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے میری شادی خاصی چھوٹی عمر میں ہوئی تھی اس لئے بجا طور پر میں کہ سکتی ہوں کہ میں نے جو کچھ حاصل کیا اور جو کام بھی کیا وہ حضرت خلیفتہ امی الثانی کی تربیت صحبت، فیض اور توجہ سے حاصل کیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی زندگی کا ایک ایک واقعہ احمدیت کی تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے.میں اپنے اس مضمون میں آپ کی مقدس سیرت کی کچھ جھلکیاں پیش کرنے کی کوشش کروں گی میں گی اور یہ واقعات اسی زمانہ مشتمل ہوں گے جو میں نے آپ کے ساتھ گزارا.اللہ تعالیٰ سے محبت آپ کو اللہ تعالیٰ سے کتنی محبت تھی اسلام کے لئے کتنی تڑپ تھی، اس کی مثال کے طور پر ایک واقعہ بھتی ہوں.عموماً شادیاں ہوتی ہیں دولہا دلہن ملتے ہیں تو سوائے عشق و محبت کی باتوں کے اور کچھ نہیں ہوتا مجھے یاد ہے کہ میری شادی کی پہلی رات بے شک عشق و محبت کی باتیں بھی ہوئیں مگر زیادہ تر عشق الہی کی باتیں تھیں.آپ کی باتوں کا لب لباب یہ تھا اور مجھ سے ایک طرح عہد لیا جا رہا تھا کہ میں ذکر الہی اور دعاؤں کی عادت 1
354 ڈالوں دین کی خدمت کروں، حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی عظیم ذمہ داریوں میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں بار بار آپ نے اس کا اظہار فرمایا کہ میں نے تم سے شادی اسی غرض سے کی ہے اور میں خود بھی اپنے والدین کے گھر سے یہی جذبہ لے کر آئی تھی.شادی کے موقع پر ابا جان کی نصائح میرے ابا جان نے شادی کے موقع پر مجھے جو نصائح لکھ کر دیں تھیں ان میں یہ سطور بھی لکھ کر دی تھیں :- مریم صدیقہ ! خدا تعالیٰ کا شکر کرو کہ اس نے اپنے فضل سے تم کو وہ خاوند دیا ہے جو اس وقت روئے زمین پر بہترین شخص ہے اور جو دنیا میں اس کا خلیفہ ہے.دنیا اور دین دونوں کے علوم کے لحاظ سے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.خاندانی عزت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہے اور جس کی بابت ان کی وحی یہ ہے فرزند دلبند.گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْحَقِّ وَ الْعُلَا كَاَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.وہ جلد جلد بڑھے گا.دل کا حلیم سخت ذکی اور فہیم ہو گا.اسیروں کی رستگاری کرے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.فضل عمر بشیر الدین محمود علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.وغیر وغیرہ (مفہوم ) پس تم اپنی خوش قسمتی پر جس قدر بھی ناز کر و بجا ہے“ اسی تسلسل میں آگے چل کر آپ لکھتے ہیں :- مریم صدیقہ تم انداز نہیں کرسکتیں کہ حضرت خلیفہ مسیح پر خدمت دین کا کتنا بوجھ ہے اور اس کے ساتھ کس قدر ذمہ داریاں اور تفکرات اور ہموم و عموم وابستہ ہیں اور کس طرح وہ اکیلے تمام دنیا سے برسر پیکار ہیں اور اسلام کی ترقی اور سلسلہ احمدیہ کی بہبودی کا خیال ان کی زندگی کا مرکزی نکتہ ہے.پس اس مبارک وجود کو اگر تم کچھ بھی خوشی دے سکو اور کچھ بھی ان کی تھکان اور تفکرات کو اپنی بات چیت خدمت گزاری اور اطاعت سے ہلکا کر سکو تو سمجھ لو کہ تمہاری شادی اور تمہاری زندگی بڑی کامیاب ہے اور تمہارے نامہ اعمال میں وہ ثواب لکھا جائے گا جو بڑے سے بڑے مجاہدین کو ملتا ہے“
355 میری زندگی کا نصب العین حضرت ابا جان کی وقت رخصت نصیحت اور شادی کے معاً بعد حضرت خلیفة المسیح الثانی کی آرزو دونوں نے.مل کر سونے پر سہا گہ کا کام کیا اور زندگی کا نصب العین صرف اسلام کی خدمت اور حضرت خلیفة المسیح الثانی کی خدمت اور اطاعت بن کر رہ گیا.شروع شروع میں غلطیاں بھی ہوئیں، کوتا ہیاں بھی ہوئیں لیکن آپ کی تربیت اور سکھانے کا بھی عجیب رنگ تھا آہستہ آہستہ اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتے چلے گئے.شادی کے بعد آپ نے میری تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور خود اس میں راہ نمائی فرماتے اور دلچسپی لیتے رہے.بی.اے پاس کرنے کے بعد آپ نے دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کر وا دیا.قرآن مجید خود پڑھانا شروع کیا لیکن سبقاً سارا نہیں پڑھا.سورۃ مریم سے سورۃ سبا تک حضور سے سبقاً قرآن مجید پڑھا اور چند ابتدائی پارے اور آخری دو پارے.شروع میں ہمیں گھر پر پڑھانا شروع کیا تھا.مجھے عزیزہ امتہ القیوم سلمہا.عزیزم مبارک احمد اور عزیزم منور احمد کو پڑھاتے تھے.آہستہ آہستہ دوسرے لوگوں کی خواہش پر پھر وہ با قاعدہ درس کی صورت اختیار کر گیا اور تفسیر کبیر کی صورت میں شائع بھی ہو چکا ہے.اتنا پڑھا کر پھر کبھی سبقا نہیں پڑھایا ہاں عورتوں میں بھی اور مردوں میں بھی جو درس ہوتا تھا وہ سنتی تھی اور باقاعدہ نوٹ لیتی تھی جو بعد میں حضور ملاحظہ فرمایا کرتے.نوٹ لینے کی عادت بھی آپ نے ہی ڈالی.جب درس ہوتا تو آپ فرماتے ایک ایک لفظ لکھنا ہے بعد میں میں دیکھوں گا.آہستہ آہستہ اتنا تیز لکھنے کی عادت پڑ گئی کہ حضور کی جلسہ سالانہ کی تقریر بھی نوٹ کر لیتی تھی اور حضور بھی وقتاً فوقتاً کوئی مضمون لکھوانا ہوتا تو عموماً مجھ سے ہی املاء کرواتے.۱۹۴۷ء کے بعد سے تو قریباً ہر خطہ ہر مضمون ہر تقریر کے نوٹ مجھ سے ہی املاء کروائے.إِلَّا مَا شَاءَ الله - تفسیر صغیر کے مسودہ کا اکثر حصہ حضور نے مجھ سے ہی املاء کروایا.ٹہلتے جاتے تھے قرآن مجید ہاتھ میں ہوتا تھا اور لکھواتے جاتے تھے.جب خاصا مواد لکھا.چکا ہوتا تو پھر محکمہ ز و دنویسی کو صاف کرنے کے لئے دے دیتے.قرآن مجید پڑھاتے ہوئے بھی اس بات پر زور دیتے تھے کہ خود غور کرنے کی عادت ڈالو.اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تب پوچھو.عربی کی صرف و نحو مکمل مجھے آپ نے خود پڑھائی اور ایسے عجیب سادہ طریق سے پڑھائی کہ یہ مضمون کبھی مشکل ہی نہ لگا.عام طور پر عربی کے طالب علم صرف ونحو سے ہی گھبراتے ہیں مگر آپ کے پڑھانے کا طریق اتنا سادہ اور عام فہم ہوتا تھا کہ یوں لگتا تھا کہ یہ کوئی مشکل چیز ہی نہیں ہمیں پہلے سے آتی تھی.
356 تقریر کرنے کے لئے ہدایات تقریر کرنا آپ نے خود سکھایا میری شادی کے بعد پہلا جلسہ سالانہ یا غالباً دوسرا تھا آپ نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ میں بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کروں.میں نے اس سے قبل کبھی تقریر کیا مضمون بھی لکھ کر نہیں پڑھا تھا میں نے عرض کی آپ لکھ دیں میں پڑھ دوں گی.فرمایا.یہ غلط ہے اس طرح کبھی تمہیں تقریر کرنی نہیں آئے گی.اس موضوع پر میں تمہارے سامنے تقریر کرتا ہوں تم غور سے سنوضروری حوالہ جات وغیرہ نوٹ کرو اور پھر انہی نوٹوں کی مدد سے تم تقریر کرو میں سنوں گا.غرض آپ نے اس موضوع پر جو اب مجھے یاد نہیں رہا تقریر فرمائی اور پھر جو میں نے آپ کی تقریر کے نوٹ لئے تھے وہ دیکھے ان میں اصلاح فرمائی اور ان پر از سر نو مضمون تیار کر کے تقریر کرنے کے لئے کہا چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا.اس طرح آہستہ آہستہ مشق ہوتی گئی.ہر جلسہ سالانہ کے موقع پر جب آپ تقریر فرمانے کے لئے جانے لگتے تو کہا کرتے تھے کہ میری تقریر کے نوٹ ضرور لینا میں آکر دیکھوں گا.اس ضمن میں ایک لطیفہ بھی یاد آ گیا.حضور کی صاحبزادی امتہ العزیز کو جب پہلی بار حضور کی جلسہ سالانہ کی تقریر اچھی طرح سمجھ آئی اور لطف آیا تو گھر آ کر کہنے لگی کہ ابا جان کو بھی تقریر کرنی آ گئی ہے انہوں نے لطیفہ سنا تو بہت ہنسے کہنے لگے معلوم ہوتا ہے آج اسے پہلی بار میری تقریر سمجھ آئی ہے اس کے نزدیک تو آج ہی مجھے تقریر کرنی آئی ہے.حضور کی تقریروں کے نوٹ لے لے کر خدا تعالیٰ کے فضل سے تیز لکھنے کی عادت پڑی.اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ کتنا ہی تیزی سے مضمون لکھواتے تھے لکھ لیتی تھی.سب سے پہلی دفعہ آپ نے اپنی جس تقریر کے نوٹ مجھے املاء کروائے تھے وہ ” نظام نو“ والی تقریر تھی آپ لکھواتے گئے میں لکھتی گئی.جب نوٹ مکمل ہو گئے تو فرمانے لگے کچھ سمجھ آیا میں نے جو کچھ آپ نے لکھوایا تھا وہ بتانا شروع کیا کہنے لگے نہیں یہ تو تمہیدیں ہیں یہ قرآن مجید احادیث کے حوالہ جات ہیں ان سے میں کس مضمون کی طرف آنا چاہتا ہوں.میں نے کہا یہ تو سمجھ نہیں آئی کہنے لگے یہی تو کمال ہے کہ سارا مضمون اشاروں میں لکھوا گیا مگر تم بتا نہ سکیں کہ کیا موضوع میری تقریر کا ہوگا.میں نے کہا پھر بتا ئیں.کہنے لگے نہیں اب جلسہ پر ہی سننا.آپ کی تمام زندگی قرآن مجید کی آیت اِنَّ صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام : ۱۶۳) کے مطابق گزری ہے.آپ کی تمہیں سالہ رفاقت میں میں نے تو یہی مشاہدہ کیا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر جیسا عظیم الشان ایمان تھا وہ سوائے انبیاء کے اور کسی
357 وجود میں نظر نہیں آتا.آپ کے باون سالہ دورِ خلافت میں کئی فتنے اٹھے بظاہر ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ دنیا نے سمجھ لیا کہ اب یہ جماعت منتشر ہو جائے گی، اس کا اتحادٹوٹ جائے گا لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین کامل تھا اور یہ یقین تھا کہ یہ رداء اُس نے پہنائی.اسے کوئی اُتار نہیں سکتا.بڑے سے بڑا فتنہ اُٹھے بڑے سے بڑا دشمن مقابل میں آئے وہ بہر حال شکست کھائے گا.سب سے پہلے پیغامیوں کا فتنہ اٹھا.ان کو زعم تھا کہ جماعت کے سرکردہ ہمارے ساتھ ہیں آہستہ آہستہ ساری جماعت ہمارے ساتھ ہو جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو الہاماً بتا چکا تھا کہ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا آپ کے اطاعت گزار آپ کے نہ ماننے والوں پر ہمیشہ غالب رہیں گے.چنانچہ آپ نے عَلَى الْإِعْلان اُن کو چیلنج دیا کہ : - پھیر لو جتنی جماعت ہے میری بیعت میں باندھ لو ساروں کو تم مکر کی زنجیروں سے پھر بھی مغلوب رہو گے مرے تا يوم البعث تقدیر خداوند کی تقدیروں سے ہے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ اس پاک وجود کے سر پر واقعی خدا کا سایہ تھا.جس نے اس کی مخالفت کی وہ ناکام رہا اور جس نے اس مسیحی نفس سے تعلق رکھا اس نے روح الحق کی برکت سے بیماریوں سے نجات پائی.ایمان باللہ کے ایمان افروز نمونے اللہ تعالیٰ پر جو آپ کو ایمان تھا اس کی ابتداء جس رنگ میں ہوئی اس کا بیان میں آپ کے ہی الفاظ میں تحریر کرتی ہوں: - ۱۹۰۰ء میرے قلب کو اسلامی احکام کی طرف توجہ دلانے کا موجب ہوا ہے.میں گیارہ سال کا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کوئی شخص چھینٹ کی قسم کے کپڑے کا ایک جُبہ لایا تھا میں نے آپ سے وہ بتبہ لے لیا تھا کسی اور خیال سے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے میں اسے پہن نہیں سکتا تھا کیونکہ اُس کے دامن میرے پاؤں سے نیچے لٹکتے رہتے تھے.جب میں گیارہ سال کا ہوا اور ۱۹۰۰ ء نے دنیا میں قدم رکھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں اس
358 کے وجود کا کیا ثبوت ہے؟ میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے.وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچہ کو اُس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا.سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا، میں اپنے جامہ میں پھو لانہیں سماتا تھا میں نے اُس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو اس وقت میں گیارہ سال کا تھا.مگر آج بھی اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں میں آج بھی یہی کہتا ہوں کہ خدایا! تیری ذات کے متعلق مجھے کبھی شک پیدا نہ ہو.ہاں اس وقت میں بچہ تھا اب مجھے زائد تجربہ ہے اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو تاریخ خلافت ثانیہ شاہد ہے، دوست بھی اور دشمن بھی کہ آپ کبھی کسی بڑے سے بڑے ابتلاء پر نہیں گھبرائے.ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل رہا اور اپنے اس یقین کو بڑی تحدی سے دنیا کے سامنے پیش فرماتے رہے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہا ماً بتا دیا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں تو آ.نے فرمایا: - ”خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمدرسول اللہصل الله و الا یلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دیدوں.دنیا زور لگالے اور اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لئے عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے دنیا کی تمام بڑی بڑی مال دار اور طاقتور قو میں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں نا کام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں نا کام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا“ (الموعود صفحه ۲۱۲٬۲۱۱) آپ کے باون سالہ دورِ خلافت کا ایک ایک دن شاہد ہے زمین اور آسمان گواہ ہیں کہ
359 مخالفتوں کی آندھیاں چلیں، فتنے اٹھے، جماعت کو نیست و نابود کرنے کی کوششیں کی گئیں، آپ کی جان پر حملہ کیا گیا مگر آپ کو اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل رہا اور اللہ تعالی کا سایہ ہر آن آپ پر رہا جب تک کہ نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھائے جانے کا وقت نہ آ گیا.پرسو انسان جس ہستی سے محبت کرتا ہے اس سے ناز بھی کرتا ہے اور وہ اپنی محبوب ہستی کے ناز بھی اُٹھاتا ہے آپ کے ایک مضمون کا اقتباس درج ذیل کرتی ہوں جس سے اس مضمون پر روشنی پڑتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں :- کچھ دن ہوئے ایک ایسی بات پیش آئی کہ جس کا کوئی علاج میری سمجھ میں نہیں آتا تھا.اُس وقت میں نے کہا کہ ہر ایک چیز کا علاج خدا تعالیٰ ہی ہے اسی سے اس کا علاج پوچھنا چاہئے.اُس وقت میں نے دعا کی اور وہ ایسی حالت تھی کہ میں نفل پڑھ کر زمین پر ہی لیٹ گیا اور جیسے بچہ ماں باپ سے ناز کرتا ہے اسی طرح میں نے کہا اے خدا! میں چار پائی پر نہیں زمین پر ہی سوؤں گا اُس وقت مجھے یہ بھی خیال آیا کہ حضرت خلیفہ اول نے مجھے کہا ہوا ہے کہ تمہارا معدہ خراب ہے اور زمین پر سونے سے معدہ اور زیادہ خراب ہو جائے گا لیکن میں نے کہا آج تو میں زمین پر ہی سوؤں گا......جب میں زمین پر سو گیا تو دیکھا کہ خدا کی نصرت اور مدد کی صفت جوش میں آئی اور متمثل ہو کر عورت کی شکل میں زمین پر اُتری ایک عورت تھی اُس کو اُس نے سوٹی دی اور کہا اسے مار اور کہو جا کر چار پائی پر سو.میں نے اس عورت سے سوئی چھین لی اس پر اُس نے (خدا تعالیٰ کی اس مجسم صفت نے) سوٹی پکڑ لی اور مجھے مارنے لگی اور میں نے کہا لو مارلو.مگر جب اُس نے مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو زور سے سوٹی کو گھٹنے تک لا کر چھوڑ دیا اور کہا دیکھ محمود! میں تجھے مارتی نہیں پھر کہا جا اُٹھ کرسو رہو یا نماز پڑھ.میں اُسی وقت کود کر چار پائی پر چلا گیا اور جا کر سو رہا میں نے اُس وقت سمجھا کہ اس حکم کی تعمیل میں سونا ہی بہت بڑی برکات کا موجب ہے.تو خدا تعالیٰ جس سے محبت کرتا ہے اُس کے سامنے سب کچھ بیچ ہو جاتا ہے تم اس کے لئے کوشش کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے محبت کرے تا کہ اس کی مدد اور نصرت تم کو مل جائے اور جب اُس کی نصرت تمہارے ساتھ شامل ہو جائے تو پھر
360 ساری دنیا ہے کیا چیز وہ تو ایک کیڑے کی بھی حیثیت نہیں رکھتی، ۱۹۵۳ء میں جب پنجاب میں فسادات رونما ہوئے، احمدیت کی شدید مخالفت کی گئی احمدیوں کے گھروں کو آگئیں لگائی گئیں اور اس قسم کی افواہیں سننے میں آئیں کہ کہیں آپ پر بھی ہاتھ نہ ڈالا جائے اور گرفتار نہ کر لیا جائے.چنانچہ اُن دنوں میں قصر خلافت کی تلاشی بھی لی گئی لیکن آپ کی طبیعت میں ذرہ بھر بھی گھبراہٹ نہ تھی سکون سے اپنے کام جاری تھے.جو لوگ آپ سے محبت کرتے تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ چند روز کے لئے باہر چلے جائیں بلکہ گھبرا کر کراچی کے بعض ذمہ دار دوست آپ کو لینے کے لئے بھی آ گئے کہ آپ وہاں چلے چلیں چند دن میں یہ شورش ختم ہو جائے گی.آپ نے ان دوستوں کا ہمدردانہ مشورہ سنا تھوڑی دیر کے لئے اندر آئے اور آکر دعا شروع کر دی.دعا ختم کر کے باہر تشریف لے گئے اور جا کر ان دوستوں سے کہا کہ میں ہرگز جانے کے لئے تیار نہیں جو خدا وہاں ہے وہی یہیں ہے.اللہ تعالیٰ میری یہیں حفاظت کرے گا اور جو مجھ پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے عذاب اور گرفت سے ڈرے.چنانچہ چند ہی دن میں ملک میں انقلاب آ گیا.جو مخالفت میں اُٹھے تھے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور جو ان کے سرکردہ تھے وہ الہی گرفت میں آئے.صداقت کو پھیلانے کی تڑپ شدید توپ تھی کہ دنیا جلد سے جلد صداقت کو قبول کرے اس سلسلہ میں اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرتی ہوں.۱۹۳۸ء کا واقعہ ہے میری طرف حضور کی باری تھی کہ رات کو آپ نے رؤیا دیکھا.رویا لمبا ہے اس لئے تفصیل سے نہیں لکھتی ”المبشرات ، میں شائع ہوا ہوا ہے.اس میں آپ نے ایک زبر دست طوفان کا نظارہ دیکھا.آپ جاگ اُٹھے مجھے جگایا اور فرمایا کہ میں نے رؤیا دیکھا ہے میں لکھوا تا ہوں ابھی لکھ لو ( آپ کا دستور تھا کہ جب بھی کبھی کوئی رؤیا دیکھتے عموماً اُسی وقت جگا کر لکھوا دیتے تھے ) رویا لکھوانے کے بعد آپ کی طبیعت میں بے چینی پیدا ہوگئی کمرہ سے باہر صحن میں نکل گئے اور ٹہل ٹہل کر نہایت رقت اور سوز و گداز سے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت کرنے لگے.قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلاً وَّ نَهَاراً فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَاءِ إِلَّا فِرَاراً.وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَلَهُمْ جَعَلُوا اَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوُا ثِيَابَهُمْ وَاَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا ثُمَّ إِنِّى دَعَوْتُهُمْ جِهَاراً ثُمَّ اِنّى اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَ أَسْرَرْتُ لَهُمُ إِسْرَاراً.فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمُ إِنَّهُ كَانَ غَفَّاراً.يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَاراً.ويُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالِ
361 وَبَنِينَ وَ يَجْعَل لَّكُمْ جَنْتٍ وَيَجْعَلَ لَكُمْ أَنْهِراً مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا.(نوح : ۲ تا ۱۴) آپ کا پڑھنے کا انداز اور جس تڑپ سے آپ ان آیات کو بار بار پڑھ رہے تھے اتنا لمبا عرصہ گزر جانے پر بھی نہیں بھول سکتی.یوں لگتا تھا کہ آپ کا دل پھٹ جائے گا آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور لگتا تھا کہ آپ کی فریاد عرشِ الہی کو ہلا دے گی.پڑھتے پڑھتے آپ کی آواز اتنی اونچی ہو گئی کہ قریب کے گھروں کے لوگ جاگ اُٹھے.اگلے دن صبح میری چچی جان مرحومہ بیگم حضرت میر محمد الحق صاحب ) جو ان دنوں مہمان خانہ کے کوارٹر میں مقیم تھیں آئیں اور کہنے لگیں کہ آج رات حضرت صاحب آدھی رات کو بڑی اونچی تلاوت کر رہے تھے ہمیں اپنے گھر میں آواز آ رہی تھی.اس پر میں نے اُن کو سارا واقعہ بتایا.آپ کی تمام کتب اور تقاریر پڑھ جائیں ان کا لب لباب یہی ہے کہ بندوں کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط ہو.شروع خلافت سے لے کر آخر تک آپ اسی کی تلقین کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق پختہ کرو.صرف ایک ہی حوالہ پر اکتفا کرتی ہوں آپ فرماتے ہیں:.”اب میں بتا تا ہوں کہ وہ کیا شے ہے جس کی طرف میں آپ لوگوں کو بلا تا ہوں اور وہ کونسا نکتہ ہے جس کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں.سنو! وہ ایک لفظ ہے زیادہ نہیں صرف ایک ہی لفظ ہے اور وہ اللہ ہے اسی کی طرف میں تم سب کو بلاتا ہوں اور اپنے نفس کو بھی اسی کی طرف بلاتا ہوں اسی کے لئے میری پکار ہے اور اسی کی طرف جانے کے لئے میں بگل بجاتا ہوں پس جس کو خدا تعالیٰ توفیق دے آئے اور جس کو خدا تعالیٰ ہدایت دے وہ اسے قبول کرے“ ( برکات خلافت - انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۲۳۶) اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہاء عشق آنحضرت صل علی پیر کی رات سے بے انتہا عشق تھا مجھے کبھی نہیں یاد کہ آپ نے آنحضرت صلی للہ یہ آلہ سلم کا نام لیا اور آپ کی آواز میں لرزش اور آپ کی آنکھوں میں آنسو نہ آگئے ہوں آپ کے مندرجہ ذیل اشعار جو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کہے گئے ہیں آپ کی محبت پر روشنی ڈالتے ہیں :- مجھے اس بات معشوق پر ہے محبوب خدا فخر محمود ہے
362 ہو اس کے نام پر قربان ها وہ شاہنشہ ہر رو سرا اسی مرا دل پاتا وہی آرام میری روح کا خدا کو اس ہے تسکین سے مل کر ہم نے پایا وہی اک راہ دین کا رہنما اسی طرح آپ کی مندرجہ ذیل تحریر بھی آپ کی آنحضرت صلی اللہ و الہ ہم سے محبت پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہے:- نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت صلی اللہ و آلہ وسلم کی بہتک کرتے ہیں اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ صل اللہ یہ آلہ وسلم کے لئے ہے وہ کیا جانے کہ محمد صلی اللہ یہ آلہ وسلم کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے.وہ میری جان ہے میرا دل ہے.میری مراد ہے میر ا مطلوب ہے اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ھفت اقلیم بیچ ہے.وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں، وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اُس کا تقرب نہ تلاش کروں، میرا حال مسیح موعود کے اس شعر کے مطابق ہے کہ بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم قرآن مجید سے عشق اسی طرح قرآن مجید سے آپ کو جو عشق تھا اور جس طرح آپ نے اس کی تفسیریں لکھ کر اس کی اشاعت کی وہ تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہے.خدا تعالیٰ کی آپ کے متعلق پیشگوئی کہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی.جن دنوں میں تفسیر کبیر لکھی نہ آرام کا خیال رہتا تھا نہ سونے کا نہ
363 کھانے کا بس ایک دھن تھی کہ کام ختم ہو جائے.رات کو عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہوگئی اور لکھتے چلے گئے.تفسیر صغیر تو لکھی ہی آپ نے بیماری کے پہلے حملے کے بعد یعنی ۱۹۵۶ء میں.طبیعت کافی کمزور ہو چکی تھی گو یورپ سے واپسی کے بعد صحت ایک حد تک بحال ہو چکی تھی مگر پھر بھی کمزوری باقی تھی ڈاکٹر کہتے تھے آرام کریں، فکر نہ کریں زیادہ محنت نہ کریں لیکن آپ کو ایک دُھن تھی کہ قرآن کے ترجمہ کا کام ختم ہو جائے.بعض دن صبح سے شام ہو جاتی اور لکھواتے رہتے.کبھی مجھ سے املاء کرواتے.مجھے گھر کا کام ہوتا تو مولوی یعقوب صاحب مرحوم کو تر جمہ لکھواتے رہے.آخری سورتیں لکھوا رہے تھے غالباً انتیسواں سیپارہ تھا یا آخری شروع ہو چکا تھا ( ہم لوگ نخلہ میں تھے وہیں تفسیر مکمل ہوئی تھی) کہ مجھے بہت تیز بخار ہو گیا میرا دل چاہتا تھا کہ متواتر کئی دنوں سے مجھے ہی ترجمہ لکھوا رہے ہیں میرے ہاتھوں ہی یہ مقدس کام ختم ہو.میں بخار سے مجبور تھی ان سے کہا کہ میں نے دوائی کھالی ہے آج یا کل بخار اتر جائے گا دو دن آپ بھی آرام کر لیں.آخری حصہ مجھ سے ہی لکھوائیں تا میں ثواب حاصل کر سکوں.نہیں مانے کہ میری زندگی کا کیا اعتبار.تمہارے بخار اترنے کے انتظار میں اگر مجھے موت آ جائے تو ؟ سارا دن ترجمہ اور نوٹس لکھواتے رہے اور شام کے قریب تفسیر صغیر کا کام ختم ہو گیا.بے شک تفسیر کبیر مکمل قرآن مجید کی نہیں لکھی گئی مگر جو علوم کا خزانہ ان جلدوں میں آ.چھوڑ گئے ہیں وہ اتنا زیادہ ہے کہ ہماری جماعت کے احباب ان کو پڑھیں ان سے فائدہ اُٹھا کے بڑے سے بڑا عالم ان کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے...قرآن مجید کی تلاوت کا کوئی وقت مقرر نہ تھا جب بھی وقت ملا تلاوت کر لی یہ نہیں کہ دن میں صرف ایک بار یا دو بار.عموماً یہ ہوتا تھا کہ صبح اٹھ کر ناشتہ سے فارغ ہو کر ملاقاتوں کی اطلاع ہوئی آپ انتظار میں ٹہل رہے ہیں قرآن مجید ہاتھ میں ہے لوگ ملنے آگئے قرآن مجید رکھ دیا مل کر چلے گئے پڑھنا شروع کر دیا.تین تین چار چار دنوں میں عموماً میں نے ختم کرتے دیکھا ہے.ہاں جب کام زیادہ ہوتا تھا تو زیادہ دن میں بھی لیکن ایسا بھی ہوتا تھا کہ صبح سے قرآن مجید ہاتھ میں ہے ٹہل رہے ہیں اور ایک ورق بھی نہیں الٹا دوسرے دن دیکھا تو پھر وہی صفحہ.میں نے کہنا کہ آپ کے ہاتھ میں قرآن مجید ہے لیکن آپ پڑھ نہیں رہے تو فرماتے.ایک آیت پر اٹک گیا ہوں جب تک اس کے مطالب حل نہیں ہوتے آگے کس طرح چلوں“ ایک دفعہ یونہی خدا جانے مجھے کیا خیال آیا میں نے پوچھا کہ آپ نے کبھی موٹر بھی چلانی
364 سیکھی؟ کہنے لگے ہاں ایک دفعہ کوشش کی تھی مگر اس خیال سے ارادہ ترک کر دیا کہ ٹکر نہ مار دوں ہاتھ سٹیرنگ پر تھے اور دماغ قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر میں اُلجھا ہوا تھا موٹر کیسے چلاتا.اکثر ایسا ہوتا کہ قرآن مجید پڑھتے پڑھتے کہنا اچھا بتاؤ اس آیت کا کیا مطلب ہے؟ میں نے جو سمجھ آئی کہہ دینا یا کہ دینا پتہ نہیں آپ بتائیں تو پھر کہنا کہ یہ نیا نکتہ سوجھا ہے اور اس آیت کے یہ نئے مطالب ذہن میں آئے ہیں.حضور نے تفسیر کبیر کی سورۃ یونس سے سورۃ کہف تک والی تفسیر لکھی اور وہ پہلی جلد شائع ہوئی تو فرمانے لگے کہ اسے پڑھو میں تمہارا متحان لوں گا میں نے کہا اچھا لیکن یہ اتنی موٹی کتاب ہے اگلے سال امتحان لے لیں اتنا وقت تو یاد کرنے کے لئے چاہئے.کہنے لگے نہیں صرف ایک ماہ.اگر زیادہ مہلت دی تو تم کبھی بھی نہیں پڑھو گی یہ خیال ہو گا کہ چلو بڑا وقت پڑا ہے پڑھ لوں گی.پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ زبانی یاد کرو بلکہ شروع سے آخر تک بس پڑھ جاؤ.خود ہی ذہن نشین ہو جائے گا.جب میں نے بہت اصرار کیا تو کہنے لگے اچھا ڈھائی مہینے.خیر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا ڈھائی ماہ میں میں نے اسے ختم کر لیا اور آپ نے زبانی دو تین سوال پوچھ کر میرا امتحان لیا اور اللہ تعالیٰ نے عزت بھی رکھ لی کہ جواب آ گئے.عورتوں میں جب ہفتہ وار درس دیا کرتے تھے اس میں ایک یا دو دفعہ مجھے یاد ہے عورتوں کا امتحان بھی لیا تھا کثرت سے عورتوں نے امتحان دیا تھا اور پرچے دیکھ کر آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا تھا ایک دفعہ سورۃ مزمل کا اور ایک دفعہ سورۃ سبا کا.سورۃ سبا کی اس آیت وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَةَ إِلَّا لِمَنْ أذِنَ لَهُ (سبا: ۲۴) پر کئی دن درس جاری رہا تھا شفاعت کا مسئلہ بہت تشریح سے بیان فرمایا تھا اور بعد میں اس حصہ کا امتحان لیا تھا جس میں صاحبزادی امتہ القیوم اول آئی تھیں.درس کے سلسلہ میں ایک واقعہ یاد آیا قرآن مجید کے درس کے سلسلے میں ایک واقعہ درس کے ساتھ آپ نے کچھ عرصہ بخاری شریف کا درس بھی عورتوں میں دیا تھا.گو وہ زیادہ لمبا عرصہ جاری نہ رہ سکا شاید ایک یا دو پاروں کا درس ہوا تھا ایک دن آپ نے درس دیتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ یہ آلہ سلم کا آخری حج کا واقعہ بیان فرمایا اور جب یہ الفاظ بیان فرمائے کہ آنحضرت صلی اللہ و الہ یکم نے فرمایا کہ جس طرح یہ مہینہ مقدس ہے جس طرح یہ علاقہ مقدس ہے جس طرح یہ دن مقدس ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی جان اور اس کے مال اور عزت کو مقدس قرار دیا ہے اور کسی کی جان اور کسی کے مال پر حملہ کرنا ایسا ہی ناجائز ہے جیسے کہ
365 اس مہینے اس علاقہ اور اس دن کی ہتک کرنا.یہ حکم آج کے لئے نہیں کل کے لئے نہیں بلکہ اس دن تک کے لئے ہے کہ تم خدا سے جا ملو پھر فرمایا یہ باتیں جو میں تم سے آج کہتا ہوں ان کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دو کیونکہ ممکن ہے کہ جو لوگ آج مجھ سے سن رہے ہیں ان کی نسبت وہ لوگ ان پر زیادہ عمل کریں وہ جو مجھ سے نہیں سن رہے.یہ حدیث بیان فرما کر آپ نے عورتوں سے کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ یہ لب ہلم کی یہ حدیث تمہیں سنا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتا ہوں اور تم میں سے ہر عورت جو میرا درس سن رہی ہے وہ کم از کم ایک ایسی عورت کو جس نے آج درس نہیں سنا اس کے گھر جا کر یہ حدیث سنائے اور اس پر عمل کرنے کی تاکید کرے.مجھے اچھی طرح یاد ہے عورتوں میں بڑا جوش پیدا ہوا اور قادیان میں گھر گھر عورتیں پھر کر جو عورتیں درس میں نہیں آسکی تھیں ان کو یہ حدیث سناتی پھرتی تھیں اور ہر عورت کوشش کرتی تھی کہ اس ثواب سے محروم نہ رہ جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان ) سے بے حد محبت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر پر بھی اکثر آنکھیں بھیگ جاتی تھیں.آپ کی یاد میں آپ کے مندرجہ ذیل اشعار آپ کے دل کی ترجمانی کرتے ہیں:.اے مسیحا تیرے سودائی جو ہیں ہوش میں بتلا کہ ان کو لائے کون ہے تو تو واں جنت میں خوش اور شاد ان غریبوں کی خبر کو آئے کون اے مسیحا ہم سے گو تو چھٹ گیا دل سے جانتا ہوں اس پر الفت تری چھڑوائے کون صبر کرنا ہے ثواب! کو بہلائے کون دل ناداں کو آپ خود حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نظیر تھے اور اپنی ساری زندگی آپ نے اس مشن کو پورا کرنے میں خرچ کی جس کی داغ بیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی تھی.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے“ کے موضوع پر ۱۹۲۷ء میں ایک تقریر فرمائی تھی جس میں آپ کے کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.
366 ” میں نے آپ کے کاموں کی تعداد ۱۵ بتائی ہے.لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ آپ کا کام یہیں ختم ہو گیا ہے آپ کا کام اس سے بہت وسیع ہے اور جو کچھ کہا گیا ہے یہ اصولی ہے اور اس میں بھی انتخاب سے کام لیا گیا ہے اگر آپ کے سب کاموں کو تفصیل سے لکھا جائے تو ہزاروں کی تعداد سے بھی بڑھ جائیں گے اور میرے خیال میں اگر کوئی شخص انہیں کتاب کی صورت میں جمع کر دے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ منشاء پورا ہوسکتا ہے جو آپ نے براہین احمدیہ میں ظاہر فرمایا ہے اور وہ یہ کہ اس کتاب میں اسلام کی تین سو خوبیاں بیان کی جائیں گی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ وعدہ اپنی مختلف کتابوں کے ذریعہ پورا کر دیا.آپ نے اپنی کتابوں میں تین سو سے بھی زائد خوبیاں بیان فرما دی ہیں اور میں یہ ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں“ (انوار العلوم جلد ۱۰.صفحہ ۲۰۳) خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی اس خواہش کے مدنظر ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۶ء تک یہ تقریر میں اسی سلسلہ میں کیں جو فضائل القرآن کے نام سے شائع ہو چکی ہیں ان تقاریر سے بھی حضور کا منشاء تھا کہ قرآن کریم کی فضیلت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تین سو دلائل دینے کا براہین احمدیہ میں وعدہ فرمایا تھا اسے ظاہری طور پر پورا فرما دیں.مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت یہ تقاریر نا تمام رہیں اور بعض اور قرآنی مضامین کے متعلق حضور تقاریر فرماتے رہے.حضرت اماں جان کی عزت واحترام حضرت اماں جان) کی عزت اور احترام کا مشاہدہ تو اپنی آنکھوں سے کیا ہے.ایک دفعہ ایک عورت نے آپ سے شکایت کی کہ میرا بیٹا میرا خیال نہیں رکھتا آپ سمجھا ئیں.آپ بے اختیار رو پڑے اور کہنے لگے مجھےسمجھ نہیں آتی کہ کوئی بیٹا ماں سے بُرا سلوک کر ہی کیسے سکتا ہے.(حضرت اماں جان ) کا خود با وجود عدیم الفرصتی کے بہت خیال رکھتے تھے اور اپنی بیویوں سے بھی یہی امید رکھتے تھے کہ وہ حضرت اماں جان کا خیال رکھیں.کبھی فراغت ہوئی تو حضرت اماں جان کے پاس بیٹھ جاتے آپ کو کوئی واقعہ یا کہانی سناتے، سفروں میں اکثر اپنے ساتھ رکھتے، جس موٹر میں خود بیٹھتے اس میں حضرت اماں جان کو اپنے ساتھ بٹھاتے.کہیں باہر سے آنا تو سب سے پہلے حضرت اماں جان سے ملتے اور آپ کی خدمت میں تحفہ پیش کرتے.اپنے بہن بھائیوں سے بھی
367 بہت پیار تھا.ہجرت کے وقت حضور پاکستان تشریف لا چکے تھے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ابھی قادیان میں ہی تھے حالات خراب ہو رہے تھے آپ کو ان کے متعلق بہت تشویش تھی ٹہل ٹہل کر دعائیں کرتے رہتے تھے.جس دن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لاہور پہنچے اور گھر میں داخل ہوئے آپ پہلے تو فوراً سجدہ میں گر پڑے اور پھر حضرت میاں صاحب کا ہاتھ پکڑا اور سیدھے حضرت اماں جان کے کمرہ میں تشریف لے گئے اور فرمانے لگے لیں اماں جان! آپ کا بیٹا آ گیا.گویا بڑے بھائی ہونے کے لحاظ سے جو ان پر فرض عائد ہوتا تھا اس سے سبکدوش ہو گئے.بھائیوں اور بہنوں سے محبت حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی وفات ۲۶.دسمبر ۱۹۶۱ء کو ہوئی تھی ٹھیک ایک سال قبل ۲۶.دسمبر ۱۹۶۰ء کو آپ گھبرا کر اُٹھے اور مجھے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میاں شریف احمد صاحب فوت ہو گئے ہیں.میں نے کہا کہ وہ خدا کے فضل سے بالکل ٹھیک ہیں کہنے لگے نہیں ابھی فون کر کے داؤد سے کہو کہ خود ان کے پاس جا کر ان کو دیکھ کر آئے.داؤد نے جب بتایا کہ خیرت سے ہیں تو کچھ تسلی ہوئی لیکن اس خواب کے اثر سے قریباً ساری رات جاگتے رہے اور دعا کرتے رہے.اللہ تعالیٰ کی مشیت دیکھیں کہ اس نے اس وقت دعاؤں سے اپنی تقدیر ٹلا دی اور ٹھیک ایک سال کے بعد اسی تاریخ کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی وفات ہوئی.دونوں بہنیں بھی بہت پیاری تھیں لیکن حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ سے بہت زیادہ محبت اور بے تکلفی تھی.سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے بیٹیوں کی طرح مشفقانہ سلوک تھا لیکن ان کی بھی ذراسی تکلیف کا علم ہوتا تھا تو بے قرار ہو جاتے تھے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ آتیں تو اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے پرانے اور اپنے بچپن کے واقعات دُہراتے کبھی خود سناتے کبھی ان سے سنتے.جب کوئی نئی نظم کہتے تو فرماتے مبارکہ کو بلا ؤان کو بھی سناؤں.بچوں کے لئے انتہائی شفیق باپ تھے تربیت کی خاطر لڑکوں پر وقتاً فوقتاً انتہائی شفیق باپ تھی بھی کی لیکن ان کی عزت نفس کا خیال رکھا.مجھے یاد ہے کہ قادیان سختی میں مجھے ان کی زور سے ڈانٹنے کی آواز آئی میں اندر کمرہ میں تھی ایکدم اس خیال سے باہر نکلی کہ دیکھوں کیا بات ہے کسے ڈانٹ رہے ہیں حضور کسی بچہ کو پڑھائی ٹھیک نہ کرنے پر ناراض ہو رہے تھے میں اسی وقت واپس چلی گئی.تھوڑی دیر بعد جب اندر کمرہ میں آئے تو کہنے لگے میں جب اپنے بچہ کو ڈانٹ رہا تھا تو تمہیں وہاں نہیں آنا نہیں چاہئے تھا اس سے وہ شرمندہ ہو گا کہ مجھے تمہارے سامنے
368 ڈانٹ پڑی.بیٹیوں سے بہت زیادہ محبت کا اظہار کرتے تھے لیکن جہاں دین کا معاملہ آ جائے آنکھوں میں خون اتر آتا تھا نماز کی مستی بالکل برداشت نہ تھی.اگر ڈانٹا ہے تو نماز وقت پر نہ پڑھنے پر.بچوں کے دلوں میں شروع دن سے یہی ڈالا کہ سب دین کے لئے وقف ہیں ان کو دینی تعلیم دلوائی.جب ۱۹۱۸ء میں شدید انفلوئنزا کا حملہ ہو کر بیمار ہوئے تھے اور اپنی وصیت شائع کروائی تھی اس میں بھی یہ وصیت فرمائی تھی کہ بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جائے کہ وہ آزاد پیشہ ہو کر خدمت دین کر سکیں جہاں تک ہو سکے لڑکوں کو حفظ قرآن کرایا جائے ، مئی ۱۹۵۹ء میں جب بیماری کا دوبارہ حملہ ہوا اس وقت بھی ایک وصیت کی تھی اس میں بھی یہی تاکید تھی کہ وہ ہمیشہ اپنی کوششوں کو خدا اور اس کے رسول کے لئے خرچ کرتے رہیں خدا کرے قیامت تک وہ اس نصیحت پر عمل کریں اور اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ان کو قیامت تک اسلام کا سچا خادم بنائے اور اسلام کے ہر دشمن کے لئے حق کا ایک زبر دست پنجہ ثابت ہوں اور ان کی زندگیوں میں کو ئی شخص اسلام کو ٹیڑھی نظر سے نہ دیکھ سکے.حضور کا ایک عہد حضور نے ۱۹۳۹ء میں ایک عہد کیا تھا جو حضور کی ایک نوٹ بک میں جو حضور عموماً اپنے کوٹ کی اندر کی جیب میں یاد داشت وغیرہ لکھنے کے لئے رکھا کرتے تھے آپ کے قلم سے درج ہے اور وہ یہ ہے:.' آج چودہ تاریخ (مئی ۱۹۳۹ء) کو میں مرزا بشیر الدین محمود احمد اللہ تعالیٰ کی قسم اس پر کھاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل سیدہ میں سے جو بھی اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت میں خرچ نہیں کر رہا میں اس کے گھر کا کھانا نہیں کھاؤں گا اور اگر مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے مجھے ایسا کرنا پڑے تو میں ایک روزہ بطور کفارہ رکھوں گا یا پانچ روپے بطور صدقہ ادا کروں گا یہ عہد سر دست ایک سال کے لئے ہوگا“ مرزا محمود احمد اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس شدید خواہش کے مطابق آپ کی اولا د کو تو فیق عطا فرمائی کہ انہوں نے بچپن سے ہی اپنی زندگیاں وقف کیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں سے قریباً سب ہی دین اور سلسلہ کی خدمت کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو مزید قربانیوں اور خدمتوں اور علم دین سکھانے کا موقع عطا فرمائے اور ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں ان کے مقدس والد کی روح کو خوشی پہنچتی رہے.امِينَ اللَّهُمَّ آمِينَ.
369 إيتَاءِ ذِي الْقُرْبی جس پر بڑا زور قرآن مجید میں دیا گیا اور كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ کے تحت جس کا عملی نمونہ آنحضرت صلی اللہی الہ سلم کے وجود سے ظاہر ہوا تھا اس پر جو عمل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے کیا وہ عدیم المثال ہے میں نے کئی بار آپ کے منہ سے یہ بات سنی آپ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ رشتہ داروں کی مدد بطور احسان کے کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ذی القربی کی مدد انسان پر فرض رکھی ہے.تمہارے مالوں میں ان کا حق ہے ان کا حق ان کو دو اپنے عزیز، بیویوں کے عزیز عزیزوں کے عزیز کوئی بھی ایسا نہیں نکلے گا کہ کسی کو کوئی ضرورت پیش آئی ہو اور آپ نے اس کی طرف دست مروّت نہ بڑھایا ہو.اس کو کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی خود ہی خیال رکھا.افراد جماعت سے غیر معمولی محبت جماعت کے افراد کا تو کہنا ہی کیا.یہ حقیقت ہے کہ جماعت کے افراد آپ کو اپنی بیویوں، اپنے بچوں اور اپنے عزیزوں سے بہت زیادہ پیارے تھے ان کی خوشی سے آپ کو خوشی پہنچتی تھی اور ان کے دکھ سے میں نے بارہا آپ کو کرب میں مبتلا ہوتے دیکھا.جب آپ خلیفہ ہوئے تو اسی سال جلسہ سالانہ پر تقریر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا: - مگر خدا را غور کرو.کیا تمہاری آزادی میں پہلے کی نسبت کچھ فرق پڑ گیا ہے، کیا کوئی تم سے غلامی کرواتا ہے یا تم پر حکومت کرتا ہے یا تم سے ماتحتوں غلاموں اور قیدیوں کی طرح سلوک کرتا ہے، کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے؟ کوئی بھی فرق نہیں لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا تمہاری محبت رکھنے والا تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے مگر ان کے لئے نہیں.تمہارا اسے فکر ہے درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولا کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ( برکات خلافت - انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۵۸) لیکن جہاں جماعت سے بے حد محبت تھی اور جو ان سے محبت رکھتے تھے ان کی قدر فرماتے ہوں“
370 تھے وہاں معمولی سی بات بھی جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو یا نظام سلسلہ کے خلاف ہو یا خلافت پر زد پڑتی ہو برداشت نہ کر سکتے تھے.عورتوں میں جہالت سے پیروں کو احتراماً ہاتھ لگانے کی عادت ہوتی ہے کئی دفعہ گاؤں کی عورتیں ملاقات کے لئے آتیں تو پاؤں کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتیں.آپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور سختی سے منع فرماتے کہ یہ شرک ہے.مصلح موعود کے متعلق پیشگوئی تھی کہ دل کا حلیم ہو گا.کارکنوں کو صحیح رنگ میں کام نہ کرنے پر اکثر ناراض بھی ہوئے سزا بھی دی مگر مجھے معلوم تھا کہ ناراض ہو کر خود افسردہ ہو جاتے تھے.مجبوری کی وجہ سے سزا دیتے کہ ان کو صحیح طریق پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی عادت پڑے.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی کام وقت پر ختم نہ ہونے پر دفتر کے بعض کارکنوں کو ہدایت دی کہ جب تک کام ختم نہ ہو گھر نہیں جانا اور پھر اندر آ کر کہنا کہ فلاں کے لئے کچھ کھانے کو بھجوا دو وہ گھر نہیں گیا بے چارہ دفتر میں کام کر رہا ہے.جس دن ملک عبد الرحمن صاحب خادم کی وفات ہوئی اتفاق سے میرے گھر کوئی لجنہ کی تقریب تھی، بہت سی بہنیں آئی ہوئی تھیں چائے وغیرہ کا انتظام تھا، چائے پی رہے تھے کہ اچانک تار کے ذریعہ خادم صاحب کی وفات کی اطلاع ملی اوپر سے مجھے آواز دی اور بلوایا اور کہنے لگے کہ خادم صاحب کی وفات ہو گئی ہے، سلسلہ کے ایک دیرینہ خادم کا جنازہ آ رہا ہے اور تم سب نیچے چائے پی رہے ہو سب کو رخصت کرو ساتھ ہی انتہائی غم کا اظہار کیا.میں نے نیچے آ کر آئی ہوئی بہنوں سے ذکر کیا تو سب خاموشی سے چلی گئیں.اسی طرح جب ڈاکٹر غفور الحق صاحب کی وفات کی اطلاع کوئٹہ سے ملی کہ جنازہ لایا جا رہا ہے اس دن صاحبزادی امتہ الباسط کے ہاں شاید بچی کا عقیقہ تھا.ہم نے اس کے گھر جانا تھا حضور نے روک دیا کہ نہیں جانا وہ لوگ جنازہ لے کر آرہے ہیں تم لوگ کیسے جا سکتے ہو.قادیان کا ذکر ہے میری شادی کے شاید ایک سال بعد کا ، حضور نماز پڑھ کر مسجد مبارک سے آ رہے تھے.حضرت اماں جان کے صحن میں کسی گاؤں کی ایک بوڑھی عورت آپ کے انتظار میں کھڑی تھی.آپ آئے تو اس نے بات شروع کر دی جیسا کہ گاؤں کی عورتوں کا قاعدہ ہے کہ لبی بات کرتی ہیں اس نے خاصی لمبی داستان سنانی شروع کر دی.حضور کھڑے ہوئے توجہ سے سنتے رہے میری طبیعت خراب تھی میں کھڑی نہ رہ سکی پاس تخت پر بیٹھ گئی جب وہ عورت بات ختم کر کے چلی گئی تو آپ نے فرمایا تم کیوں بیٹھ گئی تھیں یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی ماننے والوں اور قربانی کرنے والوں میں سے ہیں میں تو اس کے احترام کے طور پر کھڑا ہو گیا اور تم بیٹھ گئیں میں نے بتایا کہ میری طبیعت بہت خراب تھی آپ نے فرمایا طبیعت خراب تھی تو تم چلی
371 جاتیں.اس واقعہ سے بھی آپ کو جو جماعت کے لوگوں سے محبت تھی اس پر روشنی پڑتی ہے اور یہ بھی کہ آپ اصلاح اور تربیت کے کسی موقع کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.اپنی زیادہ بیماری کے ایام میں بھی کسی کی تکلیف کا معلوم ہو جاتا تو بہت کرب محسوس فرماتے تھے.اے جانے والی محبوب اور مقدس روح ! تجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہزاروں سلامتیاں ہوں تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسد مبارک پر خدا تعالیٰ سے جو عہد باندھا تھا اس کو خوب نبھایا.تو نے خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر نہ اپنی جان کی پرواہ کئی نہ مال کی نہ عزت کی نہ اولاد کی خدا کی خاطر تیرا خون بھی بہایا گیا.تُو مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِن کا زندہ نمونہ تھا تو نے زندہ خدا ہمیں دکھایا.تو اللہ تعالیٰ کی قدرت ، رحمت اور تو تو قربت کا نشان تھا، تیرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی قدرت جلوہ نما ہوئی اور دنیا نے رحمت اور قربت سے حصہ پایا تو نے قبروں میں دبے ہوؤں کو نکال کر اُن کو روحانی موت کے پنجہ سے نجات دی.تیرے آنے کے ساتھ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آیا اور باطل اپنی نحوستوں کے ساتھ بھاگ گیا.تو نے اسلام کی عزت قائم کی تیری ایڑیوں نے شیطان کا سر کچلا تو کامیاب و کامران اپنے خدا کے سایہ میں زندگی گزار کر اپنے محبوب حقیقی کی خدمت میں حاضر ہو گیا لیکن ہمیں سوگوار بنا کر تیرے ہی الفاظ میں ہم تجھ سے کہتے ہیں :- جانتا اس ہوں صبر کرنا ہے ثواب ول نادان کو سمجھائے کون الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ ء صفحہ ۱ تا ۷ ) رحضرت حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ محضرت سیدہ اُمم طاہر صاحبہ کی وفات کے بعد مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات کی روشنی میں حضرت مصلح موعود کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی نگہداشت کی خاطر دوسری شادی کرنا بہتر ہو گا چنانچہ اس الہی منشاء کے مطابق حضرت مصلح موعود کی آخری شادی حضرت سیده مهر آپا بنت مکرم سید عزیز احمد شاہ صاحب سے ہوئی.حضور نے مؤرخہ ۲۴.جولائی ۱۹۴۰ء کو اس نکاح کا اعلان خود فرمایا اور اس میں اس شادی کی ضرورت اور کا حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : - حضرت مصلح موعود کی آخری شادی حضرت سیدہ مهر آپا صاحبہ بنت مکرم سید عزیز احمد شاہ
372 صاحب سے ہوئی.حضور نے مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۴۴ء کو اس نکاح کا اعلان خود فر مایا اور اس میں اس شادی کی ضرورت اور حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا :- دودھ اتفاقاً ایک روز...میں نے تذکرہ کھولا اس میں لفظ بشری موٹے حروف میں لکھا ہوا نظر آیا.اسے دیکھ کر میرا ذہن اس طرف گیا کہ میر محمد اسحق صاحب مرحوم کی لڑکی کا نام بشری ہے مگر اس سے تو میری شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ میر صاحب مرحوم نے حضرت اماں جان کا پیا ہے.پس بشری میری بھیجی ہے.اس کے بعد میں نے اس بات کا ذکر مریم مرحومہ کے خاندان کے بعض افراد سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا اپنا خیال ہے کہ مرحومہ کے گھر میں کوئی بڑا آدمی ضرور ہونا چاہئے اور اس وجہ سے ہم میں سے بعض کی رائے یہی ہے کہ آپ اور شادی کر لیں تو اچھا ہے اور کہ اگر ہمارے ہی خاندان میں ہو جائے تو اور بھی اچھا ہے.اس صورت میں بچوں کی نگرانی زیادہ آسان ہوگی.تب میرا ذ ہن اس طرف گیا کہ ان کے خاندان میں بھی ایک لڑکی بشری نام کی ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ بعض بیماریوں کی وجہ سے اس کی شادی اس وقت تک نہیں ہو سکی اور اس کی عمر بھی بڑی ہو گئی ہے اور اس لئے وہ بچوں کی دیکھ بھال اور نگرانی کا کام زیادہ اچھی طرح کر سکے گی......چنانچہ سید ولی اللہ شاہ صاحب جو پیغام لے کر گئے تھے واپس آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ لڑکی کے والد تو راضی ہیں مگر لڑ کی کہتی ہے کہ میں تو شادی کے قابل ہی نہیں.پہلے ہی لوگ کہتے تھے کہ انہوں نے ایک بیمار عورت حضرت صاحب کے گھر میں بھیج دی ہے اب اگر میں گئی تو خاندان کی بدنامی ہوگی اور لوگ کہیں گے کہ ایک اور بیمار بھیج دی.......سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے کہا کہ میں نے کشفاً دیکھا کہ بشری بیگم سفید لباس میں ملبوس میرے سامنے کھڑی ہے اور حضور کو بھی دیکھا کہ قریب ہی ایک طرف کھڑے ہیں اور یہ القا ہوا کہ بشری بیگم صاحبہ حضرت (خلیفہ امسیح الثانی) کے لئے ہیں...میں نے اپنے خاندان کے جن افراد سے مشورہ کیا انہوں نے بھی ////
373 یہی رائے دی کہ بچوں کے انتظام کے لئے اور شادی ہی مناسب رہے گی.میری زیادہ بے تکلفی اپنی ہمشیرہ مبارکہ بیگم سے ہے.ان سے میں نے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تو خود آپ سے یہ کہنا چاہتی تھی مگر مریم بیگم مرحومہ سے چونکہ مجھے بہت محبت تھی اور لوگوں کو معلوم تھا کہ ہمارے با ہم بہت تعلقات تھے اس لئے میں نے اس ڈر سے آپ کو یہ مشورہ پہلے نہیں دیا کہ لوگ سمجھیں گے کہ زندگی میں جس سے اتنی محبت تھی اس کی وفات کے بعد فوراً ہی اور شادی کر لینے کا مشورہ دے رہی ہیں.انہوں نے اپنا ایک خواب بھی سنایا جو انہوں نے ام طاہر مرحومہ کی زندگی میں دیکھا تھا.اس محبت کی وجہ سے جو مجھے اُمم طاہر مرحومہ سے تھی یہ قدم جو میں اُٹھا رہا ہوں میرے لئے سہل اور خوشی کا موجب نہیں بلکہ رنج اور تکلیف کا موجب ہے.مجھے اُمید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت جس طرح کہ میں نے اسے سمجھا میں نے جو قدم اُٹھایا ہے میرا رحیم و کریم خدا میرے لئے اسے کسی پریشانی کا موجب نہ بنائے گا...تو میں پھر بھی اس سے دعا کرتا ہوں کہ.......اگر یہ کوئی آزمائش کی بات بھی ہے تو اس ابتلاء کو ابتلائے رحمت بنادے (خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۵۸۷ تا ۵۹۴) حضور کے ارشاد سے ظاہر ہے کہ حضرت اُئِم طاہر کی وفات کی وجہ سے ان کے بچوں کی تربیت اور جماعتی امور میں تعاون و شمولیت کے لئے یہ شادی ایک ضرورت حقہ تھی تاہم اس کا فیصلہ کوئی آسان امر نہ تھا حضور اس فیصلہ پر جماعت کے بزرگوں کی دعاؤں استخاروں اور مشوروں کے بعد پہنچے اس شادی کے فوائد اور نتائج حضور کی عمر کے آخری حصہ میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے.جب حضرت ائتم متین صاحبہ اور حضرت مہر آپا صاحبہ نے بڑی جانفشانی، محنت اور محبت وعقیدت سے جماعت کے محبوب امام کی خدمت کا حق ادا کیا.حضور کی غیر معمولی مصروف زندگی کو دیکھتے ہوئے یہ خیال ہو سکتا ہے کہ حضور کو اپنی بیگمات اور بچوں کے ساتھ وقت گزار نے ان کے جذبات واحساسات کا خیال رکھنے اور حقوق ادا کرنے کے لئے وقت اور موقع کم ہی ملتا ہو گا مگر اس ضمن میں بھی حضور ایک بھر پور پُر لطف زندگی گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں.ایک سے زیادہ بیویوں کے جذبات احساسات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ نظم وضبط اور انصاف و مساوات کو قائم رکھنا ایک مسلسل عبادت سے کم نہیں ہے.
374 حضرت مہر آپا نے آپ کی اہلی زندگی میں بے تکلفی کی متعدد دلکش باتیں بیان کی ہیں کھانا پکانے بلکہ چولہا جلانے کے لئے لکڑیاں جمع کرنے سے.غیر متوقع مہمان جو ہمیشہ وقت پر ہی نہیں آتے ان کے آنے پر فوری طور پر خندہ پیشانی سے آگے بڑھ کر ہماری مدد کرتے“ اس دست تعاون کے پیچھے مہمان کی خدمت کے علاوہ بیگم کی آرام وراحت اور اس کے جذبات واحساسات کی رعایت کا دُہرا جذ بہ کارفرما ہوتا تھا.افراد خاندان کے ساتھ پکنک پر جانے کی صورت میں بھی سادگی و بے تکلفی کا عجب عالم ہوتا:.حضور اکثر ہاتھ پر روٹی رکھتے اور اس پر سالن وغیرہ رکھ کر اس طرح کھاتے“ ایسے موقع پر بیگمات اور بچوں کا ہی خیال نہ رکھتے بلکہ :- عملہ کا خود اس طرح خیال رکھتے کہ اپنے ہاتھ سے کھانا خود برتنوں میں سے نکالتے اور ہر شخص کو دیتے اور ان کا اس حد تک خیال فرماتے کہ کھانے کے تمام لوازمات میں سے ایک ایک چیز عملہ کے ہر فرد تک پہنچ جائے“ حضرت مہر آپا بیگمات کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ ایسی صورت پیش آئی کہ گھر کے ملازم بوجہ بیماری رخصت پر تھے گھر کے کاموں کی مسلسل مصروفیت کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کا کام بھی پہلی دفعہ مجھے خود کرنا پڑا حضور نے کھانے کی خوب تعریف فرمائی بلکہ مزید حوصلہ افزائی اور قدر دانی کے طور پر حضرت اماں جان کو بھی کھانا بھجوایا اور یہ صراحت فرمائی کہ یہ بشریٰ نے تیار کیا ہے اس حوصلہ افزائی کے علاوہ آپ نے اس امر پر مسرت انگیز حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہ تم نے اتنی جلدی اتنا سارا کام کیسے کر لیا اور یہ نصیحت بھی فرمائی کہ :- اپنے اوپر اتنا بوجھ نہ ڈال لینا کہ تمہاری صحت پر اثر پڑے حضور کی اس حوصلہ افزائی دلجوئی اور توجہ کا ہی یہ اثر ہوتا تھا کہ :- ہم لوگ اس محنت اور کوفت کو بھول جاتے تھے جس میں ہم رات دن لگے رہتے یہی دل چاہتا کہ آپ ہم سے کام لیتے جائیں اور ہم بے تھکان کام کئے جائیں کام لینا بھی آپ پر ختم تھا.کام کے دوران.لطیفے اور قہقہے بھی ہوتے آپ کی مجلس و قربت با وجود شدید مصروفیت کے زعفران زار ہوتی“ اہل خانہ کے رشتہ داروں سے بھی حسب مراتب بہت اچھا سلوک فرماتے :-
375 آپ کو اپنے ہر عزیز سے خواہ وہ دور کا ہو یا نزدیک کا حقیقی لگاؤ حقیقی محبت اور حقیقی درد تھا بلکہ اپنے عزیزوں کے دور نزدیک کے رشتے کا بھی کبھی کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا“ سفر کشمیر کے دوران آپ کو حضرت اُمم ناصر کی علالت کا پتہ چلا تو آپ اپنی ساری مصروفیات کو ترک کر کے جتنی جلدی ممکن تھا اپنی اہلیہ محترمہ کے پاس پہنچ گئے اور یہ جانتے ہوئے کہ میری جلدی واپسی محترمہ کی تسلی واطمینان کا باعث ہوگی اپنے پہنچنے سے پہلے اپنے قریب آ جانے کی کسی ذریعہ سے اطلاع کر دی.حرم محترم کے جذبات کی پاس داری کا یہ دلچسپ واقعہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں :- حضور جس وقت کوثر ناگ سے واپس مہ ناگ پہنچے تو اس جگہ آسنور سے اطلاع لانے والا موجود تھا کہ سیدہ اُمم ناصر کو تیز بخار ہو گیا ہے.حضور جلد آسنور پہنچیں.اس خبر پر حضور نے فیصلہ فرمایا کہ جس قدر جلد ہو سکے گا کل صبح خودا کیلے چلے جائیں گے باقی قافلہ پیچھے پہنچ جائے گا.چنانچہ حضور نماز فجر کا سلام پھیرتے ہی گھوڑے پر سوار ہو گئے اور میرے لئے دوسرا گھوڑا منگوا لیا ہوا تھا.مجھے اس پر سوار ہو کر ساتھ چلنے کا حکم دیا اور نیک محمد خان کو ساتھ ساتھ رہنے کا ارشاد فرمایا.اس طرح وہ فاصلہ جو دس بارہ گھنٹہ میں طے ہونا تھا گھوڑوں کے تیز چلانے کی وجہ سے چار پانچ گھنٹے میں طے ہو گیا اور حضور جب اس بلندی پر پہنچے جہاں سے آسنور سامنے نظر آتا تھا گوتین چار میل کا فاصلہ درمیان میں تھا تو حضور نے بندوق کا ہوا کی طرف رُخ کر کے چلوائی تاکہ ہمارے علاقے میں مقیم لوگوں کو حضور کے قریب پہنچ جانے کا علم ہو.بعد میں قریباً آدھ گھنٹہ میں گھر پہنچ گئے اور محض خدا کے فضل سے سیدہ ام ناصر کی طبیعت ایاز محمود جلد اول صفحه ۹۶، ۹۷) حضور کی صلہ رحمی کی ایک بہت عمدہ مثال مکرم محمد حسین صاحب ٹیلر ماسٹر بروایت مکرم کو بحال پایا“ خلیفہ صباح الدین صاحب بیان کرتے ہیں :- عید کے قریب وہ اپنی دُکان پر مصروفیت کی وجہ سے رات بھر کام کرتے رہے.آدھی رات گزرنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی
376 اپنی والدہ محترمہ یعنی حضرت اماں جان کے ساتھ ایک لالٹین ہاتھ میں پکڑے کہیں تشریف لے جا رہے ہیں.محمد حسین صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ حفاظت کے نقطہ نظر سے ان کے پیچھے ہو لئے کہ یہ دونوں مقدس ہستیاں اس وقت کہاں جارہی ہیں انہوں نے دیکھا کہ ان کا رُخ حضرت اماں جان کے باغ کی طرف ہے جہاں حضرت ڈاکٹر (خلیفہ رشید الدین ) صاحب مقیم تھے.بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت ڈاکٹر صاحب کی طبیعت کی خرابی کی اطلاع ملتے ہی اتنی رات گئے کسی خادم کے بغیر آپ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے تھے حضور اپنی غیر معمولی مصروفیات میں سے اپنے اہل وعیال کیلئے بھی وقت نکالتے اور ان کی ضروریات پوری کرتے اور دلجوئی و دلداری کا پورا خیال رکھتے تھے.خلیفہ صباح الدین صاحب لکھتے ہیں :- ایک مرتبہ میاں رفیق احمد صاحب اور خاکسار قصر خلافت کی طرف آ رہے تھے کہ ہم نے حضور اور حضرت سیدہ مہر آپا کو سرگودھا روڈ کی طرف جاتے دیکھا اِرد گرد جب نظر ڈالی تو کوئی پہر دار بھی نظر نہ آیا ہم لوگ حیرت سے اور حفاظت کی غرض سے حضور کے پیچھے روانہ ہو گئے.حضور سڑک پر جا کر احمد نگر کی طرف مڑ گئے ٹریفک چل رہی تھی ہم دوڑ کر حضور کے قریب آ گئے حضور ہمیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ ہمارا سیر کو جی چاہ رہا تھا پہرہ داروں سے آنکھ بچا کر نکل آئے پر تم لوگوں نے پکڑ لیا.وہ شخص کیوں نہ نڈر اور بہادر ہو جس نے مذہب کی خاطر تمام دنیا سے ٹکر لے لی اس جیسا شجاع اور کون ہو سکتا ہے“ محترمہ صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ حضور کے تعدد ازدواج کے اسلامی و تمدنی تقاضوں کو بہترین رنگ میں ادا کرنے کے متعلق بیان کرتی ہیں :- حضور کی چار بیویاں ہیں.اور ازدواجی زندگی میں تعدد ازدواج ایک بڑا نازک مرحلہ ہوتا ہے مگر حضور کے گھر کی جو کیفیت ہے اسے خدا تعالیٰ کا فضل اور حضور کی قوت قدسی کا اعجاز ہی کہنا چاہئے کیونکہ اتنے بڑے گھرانے میں جو محبت اور پیار کا نمونہ نظر آتا ہے دنیا اس کی نظیر لانے سے قاصر ہے.آپ اپنی بیویوں کے بارہ میں کامل عدل وانصاف سے کام لیتے ہیں.افراد کی نسبت
377 سے خرچ دیتے ہیں، کبھی کسی کو شکوہ و شکایت کا موقع نہیں ملتا، نہایت محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں، سب بیویاں دل کی گہرائیوں سے حضور کی مداح ہیں سفروں میں باری باری ساتھ لے جاتے ہیں، گھر میں باریاں مقرر ہیں اور ہر ایک کے حقوق کا پورا خیال رکھتے ہیں الفضل خلافت جوبلی نمبر ۲۸.دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۹) حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے تعدد ازدواج کے باوصف گھر میں سکون واطمینان با ہم پیار ومحبت بلکہ احترام وعقیدت کے اس بہشتی ماحول کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے اسے یہاں درج کئے بغیر یہ مضمون پوری طرح سمجھ نہیں آ سکتا.آپ تحریر فرماتے ہیں :- لجنہ اماءاللہ کے پہلے تاریخی اجلاس میں منصب صدارت کا معاملہ طے ہو جانے کے بعد پہلی جنرل سیکرٹری حضرت سیدہ امتہ الحئی مرحومہ منتخب ہوئیں.چنانچہ آپ بڑے انہماک اور جاں سوزی کے ساتھ اس خدمت میں مصروف ہو گئیں اور صدر مجلس کی رہنمائی میں اس نوزائیدہ مجلس کے تنظیمی ڈھانچے کو منتظم اور مربوط کرنے میں شب وروز کوشاں رہیں لیکن افسوس کہ آپ کی لامتناہی نیک تمناؤں کے مقابل پر اس دار فانی میں آپ کی زندگی کے بہت تھوڑے دن باقی تھے..سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کا عہدہ سنبھالے ہوئے ابھی ایک سال بھی پورا نہ گزرا تھا کہ بچے کی قبل از وقت پیدائش کے باعث آپ خطرناک طور پر بیمار ہو گئیں اور یہی بیماری آپ کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی.آپ کی وفات کے بعد خاکسار کی والدہ مرحومہ حضرت سیدہ مریم بیگم جو بعد میں اُمم طاہر کے نام سے جماعت میں معروف ہوئیں جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ منتخب کی گئیں آپ بھی ۵.مارچ ۱۹۴۴ء یعنی اپنی وفات کے دن تک مسلسل اس عہدہ پر فائز رہیں اور صدر مجلس کے ساتھ کامل اطاعت اور تعاون کی روح کو قائم رکھتے ہوئے خدمت دین کی توفیق پاتی رہیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی ازواج کا ایک تنظیم کی لڑی میں منسلک ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے تابع ہو کر سالہا سال تک اس طرح خدمتِ دین بجالا نا کہ تنظیمی ڈھانچہ میں ایک ادنی سا ختنہ بھی نہ پڑا ہو....یا ایسی بات ہے
378 جوان مبارک خواتین کی عظمت کردار سے بڑھ کر اس عظیم شوہر کی عظمتِ کردار کا پتہ دیتی ہے جو نظم ونسق قائم رکھنے کی حیرت انگیز صلاحیتیں رکھتا تھا.آپ ایک ایسے عظیم الشان مربی تھے کہ بسا اوقات ایک لفظ زبان سے کہے بغیر آپ کی شخصیت سے تربیت کا از خود ہونے والا ترشح اگر دو پیش کو ریڈیائی لہروں کی طرح اپنی ذات کے ساتھ ہم آہنگ کر لیتا تھا اور ماحول کی ہر چیز خود بخود ٹھیک ٹھاک اپنے مقام پر بیٹھ جاتی تھی اور اپنے دائرہ کار سے تجاوز نہ کرتی تھی.یا یوں کہہ لیجئے کہ بجلی کے بڑے بڑے ٹرانسمیٹر جس طرح اپنے ماحول کو ایسی طاقتور لہروں سے بھر دیتے ہیں کہ بسا اوقات ان کا پیغام سننے کے لئے بجلی سے چلنے والے ریڈیو سیٹ کی بھی ضرورت نہیں رہتی اور ہیرے سے بنا ہوا ایک سادہ سا آلہ جسے (Crystal set) کہا جاتا ہے براہِ راست ان کی آواز پکڑ کر سنانے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کو چلنے کی قوت اسی فضاء سے حاصل ہو جاتی ہے جس کو ٹرانسمیٹر نے طاقت سے بھر دیا ہوتا ہے.بہر کیف حضرت خلیفتہ المسیح کو اس امر کی حاجت نہ تھی کہ اپنی ازواج کو بار بار تعاون کی تلقین کریں، دینی کاموں میں اختلاف اور جھگڑوں سے منع کریں یا آئے دن ان کے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو سلجھانے میں اپنا قیمتی وقت صرف کریں، نہیں کبھی ایسا نہیں ہوا.جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنی والدہ کی وفات تک ایک مرتبہ بھی ایسا واقعہ نہ دیکھا نہ سنا کہ ہماری بڑی والدہ حضرت ام ناصر نے حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں یہ شکایت پیش کی ہو کہ مریم نے فلاں دینی معاملہ میں میرے ساتھ تعاون نہیں کیا یا اس کے برعکس کبھی میری والدہ نے کوئی شکوہ اس نوعیت کا حضور کی خدمت میں پیش کیا ہو کہ لجنہ اماء اللہ کے معاملات میں حضرت سیدہ اُمم ناصر نے میرے ساتھ یہ غیر مشفقانہ سلوک کیا ہے.سالہا سال تک لجنہ اماءاللہ کی مجلس عاملہ کے اجلاس ہمارے گھر میں منعقد ہوتے رہے.کبھی ایک مرتبہ بھی میں نے کوئی تکرار نہیں سنی ، کوئی خلافِ ادب بات نہیں دیکھی.گویا رشتوں کی طبعی رقابت کو اس مقدس دائرے میں قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی جیسے کسی مقدس عامل نے اپنی جادو کی چھڑی سے ان
379 اجلاسات کے ماحول میں ایک دائرہ سا کھینچ دیا ہو کہ یہ رقابت اس دائرہ کے اندر قدم رکھنے کی قدرت نہ پائے.یہ مزاج شناس بیویاں اپنے خاوند کے مزاج پر نظر رکھتی تھیں اور ان کے دل اس کے دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر دھڑ کتے تھے.سوانح فضل عمر جلد دوم صفحه ۳۶۱-۳۶۲) بچوں اور افراد خاندان سے حسن سلوک حضور کی قابلِ رشک اہلی زندگی کے ساتھ ہی حضور کی بچوں اور اہلِ خاندان سے پیار و شفقت اور تربیت کے انداز کے متعلق متفرق واقعات بھی پیش خدمت ہیں.ان کو یکجائی طور پر دیکھنے سے وہی تصویر آنکھوں کے سامنے آتی ہے جو خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاهْلِهِ میں ہمارے مطاع و آقا آنحضرت صلی اللہ الکریم نے بیان فرمائی ہے.حضور بچوں سے بہت پیار فرماتے تھے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اس کے متعلق تحریر فرماتی ہیں :- مبارک سے بہت پیار کا سلوک تھا، دوسرے بھائیوں سے بھی کبھی میں نے سختی کا سلوک یا جھگڑا نہیں دیکھا، منجھلے بھائی صاحب ( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب.ناقل ) سے تو اکثر لمبی باتیں کرتے مگر بہت اچھے موضوع پر.میرے بھائی اور ماموں مل کر باتیں کرتے تھے.کبھی فضول بات میں نے نہیں سُنی کیونکہ جہاں یہ سب مل کر بیٹھتے ہیں ضرور جا پہنچتی تھی کئی بار ہنس کر فرماتے تھے : - لڑکی وہ جو لڑکیوں میں کھیلے کہ لڑکوں میں ڈنٹر پیلے میں نے تو بڑے بھائی کو حضرت مسیح موعود کی مانند محبت کرنے والا پایا.ذرا بڑے ہو کر یہ محبت ایک دوستی کا رنگ بھی اختیار کر گئی.خاندانی ہر بات مثلاً شادی بیاہ میں ضرور مشورہ لیتے دور ہوتی تو رجسٹر ڈ خط جاتے، آپ ہم بچوں سے بہت پیار کرنے والے بیحد خیال رکھنے والے تھے.مجھ سے تو خاص طور پر بہت محبت کی بہت ناز اُٹھائے، کبھی خفا ہونا یاد ہی نہیں، ایک بار لڑکیوں
380 کے ساتھ میں کھیل رہی تھی لڑکیوں نے کوئی کھیل تالی بجانے والا کھیلا.میں بھی بجانے لگی تو مجھے کہا.کھیلومگر تم نہ کبھی تالی بجانا یہ لوگ بجایا کریں ހނ بہن بھائیوں کی دل داری تو کرتے ہی تھے.بہن بھائیوں کی اولاد سے بہت پیار اور محبت کا ہمیشہ سلوک کیا.اپنے بچوں کے لئے تو کچھ لحاظ اور شرم بھی پہلے پہل کہ اماں جان کے سامنے گود میں لینا پیار کرنا اس میں شرم محسوس کرتے مگر حضرت بڑے بھائی صاحب نے بہت ہی ان سے لاڈ پیار کا سلوک رکھا اب تک سلام ( محتر مہ امۃ السلام صاحبہ بنت حضرت میرزا بشیر احمد صاحب) کی کوئی تکلیف سُن کر برداشت نہیں کر سکتے تھے.میری شادی کے بعد اکثر قریباً روزانہ دار السلام کا پھیرا ہوتا تھا.ہمارے زیادہ باہر رہنے کے ایام میں کوٹلہ بھی آتے اور شملہ بھی.سفر کو کہیں جا رہے ہوتے تو ضرور سخت تاکید سے مجھے بلاتے کہ تم میرے ساتھ چلو مجھے یاد نہیں کہ کبھی کہیں جانے کی صلاح ہو رہی ہوا اور مجھے باصرار نہ کہا ہو کہ چلو.مجبوری کے سبب میں نہ جاسکتی یہ اور بات تھی.پھر بھی کئی سفر آپ کے ساتھ کئے“ بچیوں سے پیار اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا اہتمام چھوٹی عمر تک ہی محدود نہ تھا بلکہ بڑی عمر میں اور ان کی شادی کے بعد بھی جاری رہتا.محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں کہ :- عموماً لوگ شادی کے بعد لڑکیوں کے جذبات واحساسات کا اتنا خیال نہیں رکھتے مگر ابا جان شادی کے بعد بھی ہمارا بے حد خیال رکھتے.میری بڑی بچی عزیزہ امتہ الرؤوف سلمہا کی پیدائش سے قبل گرمیوں کے دن تھے حضرت ابا جان کے سامنے کہیں میں نے گرمی کی زیادتی کا اظہار کر دیا آپ نے پالم پور مکان کا انتظام کروا کر حضرت اماں جان کے ساتھ مجھے اور میری دوسری بہنوں کو پالم پور بھجوایا دیا.آپ کبھی کبھی ایک دو روز کے لئے تشریف لے آتے.اسی طرح بچی دس گیارہ ماہ کی تھی اور دانتوں کی وجہ سے گرمی کو زیادہ محسوس کر رہی تھی اُس وقت بھی حضرت اباجان نے حضرت اماں جان کے ساتھ مجھے پہلے ہی دھرم سالہ بھجوا دیا.خود ایک ماہ بعد تشریف لائے.چونکہ
381 حضرت اماں جان کو بھی گرمی بہت محسوس ہوتی اس لئے آپ کی کوشش ہوتی کہ خود جائیں یا نہ جائیں ان کو بھجواد میں گو حضرت اماں جان سے زیادہ دنوں کی جُدائی برداشت نہیں کر سکتے تھے اور اماں جان کو بھی آپ کی چند دن کی جدائی گوارا نہ تھی اس واقعہ میں حضور کی سیرت کا ایک اور دلکش پہلو بھی نظر آتا ہے کہ آپ کو اپنی مقدس والدہ سے انتہائی پیار تھا جس کا اظہار زندگی بھر ہی ہوتا رہا.محترمہ صاحبزادی صاحبہ نے ہی ایک واقعہ بیان کیا کہ : - حضرت اماں جان کا بے حد احترام تھا سفر پر جانے سے پہلے حضرت اماں جان سے ضرور پوچھتے.واپسی پر سب سے پہلے حضرت اماں جان کو ملتے.سب ازواج اور بچے ابا جان سے ملنے حضرت اماں جان کے گھر ہی کھڑے ہوتے مگر حضرت اماں جان کو مل کر سب سے ملتے اور ادھر توجہ کرتے“ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بھی حضور کی یہ نمایاں خوبی بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:.حضرت اماں جان سے بچپن سے بہت مانوس تھے اور آپ کی عزت اور محبت ہر وقت آپ کے آرام کا خیال حضرت مسیح موعود کے وصال کے وقت بہت بڑھ گیا تھا.حضرت اماں جان کے دہلی والے عزیزوں کا بھی خاص خیال رکھتے اور بہت ان کی خاطر داری فرماتے.جب دہلی جاتے بلا بلا کر ملتے تھے.حیدر آباد دکن میں حضرت اماں جان کے ننھالی عزیز تھے.احمدی بھائیوں کو سمجھا سمجھا کر ان کی دعوتیں قبول کیں اور زیادہ وقت ان سب عزیزوں کی دعوتوں میں ہی صرف ہوا تھا.پھر پارٹیشن کے بعد جو عزیز آتے رہے سب کی ہر طرح امداد کرتے رہے محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ بچوں سے پیار ومحبت اور ان کی دلجوئی اور دلداری کے متعلق ایک بہت پیارا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں : - ۱۹۲۴ء کا واقعہ ہے ہم پہلی مرتبہ کشمیر گئے تو آ سنور سے کوثر ناگ برف دیکھنے گئے امی جان بیمار تھیں اور حضرت اُم المومنین گھوڑوں کے سفر کی وجہ سے جانہ سکیں.حضرت ابا جان مجھے اور بھائی جان کو ساتھ لے گئے کہ یہ بڑے بچے
382 ہیں دیکھ آئیں.راستے میں سخت اولے اور بارش ہوگئی.بکریوں کے ریوڑ رکھنے کے دو کمروں میں رات گزارنے کا انتظام کیا گیا کمروں میں لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ جلا دی گئی سب اپنے اپنے کپڑے نچوڑ کر سکھانے لگے.میں گیلے کپڑوں میں ایک طرف کھڑی تھی حضرت ابا جان باہر سے خوش خوش اندر آئے اچانک آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو چہرے پر رنج کے آثار پیدا ہوئے فرمانے لگے ”بی بی کپڑے نہیں سکھائے“ پھر اپنا دھسہ دیا کہ یہ اوپر لے لو اور مجھے اپنے کپڑے اتار دو میں سکھا تا ہوں میں نے گرم جوڑا اُتار کر دھسہ لے لیا ابا جان میرے کپڑے نچوڑنے اور سکھانے لگے آپ کو سکھاتے دیکھ کر دوسروں نے کوشش کی کہ ان کے ہاتھ سے کپڑے لے کر خود سکھا دیں مگر ابا جان نے ایک طرف سے خود پکڑا اور ایک طرف سے مجھے پکڑوایا اس طرح میرا گرم جوڑا سکھا کر پھیلا دیا.اور میرا بستر خود بچھا کر مجھے لٹایا.یہ باپ کی محبت اور خبر گیری کا ایک نمونہ ہے حضرت ابا جان کو اُس وقت یہ خیال تھا کہ اس کی اماں اس کے ساتھ نہیں ہیں اس لئے سب سے زیادہ اور پہلے اس کا خیال رکھنا چاہئے تھا.آپ اندازہ لگائیں کہ ان بچوں کو جن کی مائیں ان کو بچپن میں چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے حضور چلی گئی تھیں کتنا خیال رکھتے ہو نگے“ بچوں کی اس طرح تربیت کرنے کے لئے کہ ان میں خوف وبُزدلی کی بجائے جرات و بہادری پیدا ہو محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ ایک سبق آموز واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں : - :- میری عمرکوئی چار پانچ برس کی اور بھائی جان (حضرت خلیفتہ امسح الثالث ) کی عمر چھ سات برس کی تھی ان دنوں حضرت ابا جان رات کا کھانا حضرت اماں جان نَوَّرَ اللهُ مَرْقَدَهَا کے ساتھ کھایا کرتے تھے گرمی کی رات تھی باہر چونکیوں پر کھانا کھا رہے تھے حضرت ابا جان نے بھائی جان کو امی جان کے کمرے سے کوئی چیز غالباً کتاب لانے کو کہا چونکہ اندھیری رات تھی ہمارے دروازے سے حضرت ( اماں جان کے دروازے تک چند قدم کا راستہ بہت تاریک تھا بھائی جان ڈر کی وجہ سے جانے سے ہچکچا رہے تھے حضرت ابا جان نے مجھے آواز
383 دے کر گھر سے بلایا اور فرمایا تمہارا بھائی ڈرتا ہے میری بیٹی بہت بہادر ہے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور فلاں جگہ سے فلاں چیز اُٹھا لاؤ ہم دونوں وہ چیز لے کر واپس آئے تو حضور حضرت اماں جان سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے بچوں کو بچپن سے ہی بہادر ہونا چاہئے اور کسی قسم کا بھی خوف یا ڈر ان کے دل میں پیدا نہیں ہونے دینا چاہئے“ بُزدلی سے حضور کو شدید نفرت تھی اور یہ کمزوری آپ بچوں میں بھی پسند نہ فرماتے تھے محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ اس سلسلہ میں لکھتی ہیں :- ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم لوگ دارالحمد میں تھے.حضرت ابا جان فرمانے لگے چلو گھوڑے کی سواری کرتے ہیں میں بُرقعہ پہن کر حضرت ابا جان کے ساتھ آئی دو بڑے گھوڑے تھے ایک جو تیز وشوخ گھوڑا تھا اُس پر حضرت ابا جان خود سوار ہوئے اور دوسرے پر مجھے سوار کروایا.تھوڑی دیر میں آپ کے ساتھ گھوڑا دوڑاتی رہی پھر آپ کوئی بات کرنے کے لئے میرے قریب آئے گھوڑی نے گودنا شروع کیا اس کو دیکھ کر حضرت ابا جان کا گھوڑا بھی ٹانگیں کھڑی کرنے اور گود نے لگا میں نے گھبرا کر چیخ ماری کہ میں نے اُترنا ہے حضرت ابا جان نے سمجھایا مگر جب شدّتِ ڈر کی وجہ سے نہ مانی تو ابا جان کا چہرہ غصہ کی وجہ سے سُرخ ہو گیا اور فرمایا چلو واپس.میرا مقصد لکھنے سے یہ ہے کہ آپ بُزدلی خوف و ڈر خواہ بچے کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے برداشت نہیں کر سکتے تھے.آپ سوچیں کہ اگر کوئی مرد بُزدلی دکھاتا تو آپ کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی لڑکوں اور لڑکیوں کے دائرہ عمل اور عملی ضروریات میں فرق کی وجہ سے حضور کے انداز تربیت میں بھی یہ فرق نظر آتا ہے کہ آپ بچیوں سے لڑکوں کی نسبت پیار کا زیادہ اظہار فرماتے :- بچوں سے آپ کو بہت محبت تھی لڑکیوں سے اس کا اظہار بہت ہوتا مگر لڑکوں سے ان کی تربیت کے پیش نظر محبت کا زیادہ اظہار نہیں فرماتے تھے لیکن لڑکیوں سے بڑا شفقت کا انداز تھا ہمیں چھوٹے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے.یہی وجہ ہے کہ ابا جان کے سامنے ہمیں آخر تک اپنا آپ بچہ محسوس ہوتا رہا
384 لڑکیوں کو مارنا نہ باپ کے لئے نہ بھائیوں کے لئے اور نہ کسی اور کے لئے پسند فرماتے.بلکہ جب کبھی کوئی ایسا واقعہ آپ کے سامنے آتا تو سخت کرب وغصہ کے آثار آپ کے چہرہ پر ظاہر ہوتے اور آپ فرماتے لڑکیوں پر ہاتھ نہیں اُٹھانا چاہئے ایسا کیوں ہوا؟ لڑکی ہو یا عورت ہو وہ تو محبت و پیار کی مستحق ہے حضور بہت کثیر المشاغل اور غیر معمولی مصروف انسان تھے تا ہم بچوں کی تربیت سے کبھی غافل نہ ہوتے تھے.انداز تربیت بھی بہت ہی پیارا اور مؤثر تھا جیسا کہ محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کی اس تحریر سے ظاہر ہوتا ہے:- ہمیں مغرب کے بعد اور دوپہر کے وقت گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی.مغرب کے بعد امی جان کو اطلاع کر کے حضرت اماں جان کے ہاں جانے کی اجازت تھی.جب تک عمر پورے شعور پر نہیں پہنچی تھی دوسری والدہ کے گھر بھی ابا جان کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتے تھے.باوجود یکہ حضرت عموں صاحب ( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) دار ا مسیح میں ہی رہتے تھے وہاں دن میں بھی پوچھ کر جانے کا حکم تھا.لڑکوں کو بھی مغرب کے بعد گھر سے باہر ٹھہرنے کی اجازت نہ تھی اور نہ ہی سکول کے علاوہ دو پہر کو باہر رہنے کی.ہم اگر کسی بڑے کو دیکھ کر کھڑے نہ ہوتے یا سر نگا ہوتا تو نظریں جو ہمیشہ نیچی ہی رہتیں ہماری طرف اٹھتیں ان نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوتا.اسی طرح گہنی سے اوپر آستین چڑھانے کی اجازت نہ تھی ہم علیحدگی میں یا کام کرتے ہوئے تو ایسا کر لیتے اگر بڑوں کے سامنے جانا ہوتا تو فوراً آستین واپس لے آتے.اگر بڑوں کی مجلس میں بیٹھے ہوں یا اگر وہ کھڑے ہوں اور ہم بھی ان کی باتوں کو سن رہے ہوں تو جب تک بڑے خود نہ جائیں ہم وہاں سے جانہیں سکتے تھے.یہ نہیں کہ ابا جان ہم کو ہر وقت ڈانٹتے یا کچھ کہتے رہتے تھے.نہیں ! صرف ایک تربیتی نگاہ ہی کافی ہو جاتی ورنہ ہر وقت پیار ہی ملتا جو بہت ہی کم کسی کو ملا ہو“ اگر قناعت ایک دولت ہے اور یقیناً ایک بہت بڑی دولت ہے تو حضور اس دولت.مالا مال تھے.محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ بتاتی ہیں کہ :-
385 خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے پاس بہت کچھ آیا مگر کبھی اپنے بچوں اور بچیوں کو ضرورت سے زیادہ جس کی وجہ سے عیش وعشرت اور آرام طلبی کی عادت پڑے، خرچ نہیں دیا بس اتنا خرچ دیا جو ضرورتوں کو پورا کر سکے اسی طرح اپنے کسی بچے کی مالی کمزوری دیکھ کر یا اس کے پاس کسی چیز کی کمی دیکھ کر یہ خیال نہیں ہوا کہ دوسروں کے پاس ہے اور اس کے پاس نہیں ہاں اگر دوسروں کو مالی لحاظ سے اچھا دیکھا یا سنا تو خوش ہوئے بھی دوسرے بچوں سے اپنے بچوں کا مقابلہ نہیں کیا.ایک مرتبہ میرے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی نے آپ کو دعا کے لئے لکھا اور اس میں یہ لکھا کہ میری دنیاوی ترقی کے لئے دعا فرمائیں.آپ نے فرمایا میں یہ دعا نہیں کرونگا یہ چیز تو ابوجہل نے بھی طلب کی تھی ہر عورت کی زندگی میں شادی کے بعد ایک نیا دور شروع ہوتا ہے.وہ بچیاں جنہیں بہتر تربیت کے مواقع میسر آتے ہیں وہ شادی کے بعد اپنے خاوند کی زندگی میں سکھ بھرتے ہوئے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا لیتی ہیں.حضور اپنی بچیوں کی تربیت کس طرح کرتے تھے.آپ کی بیٹی صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ اس کے متعلق بیان کرتی ہیں :- ”میری شادی سے چند روز قبل کی بات ہے میں ایک کمرے کے دروازے میں کھڑی تھی حضرت ابا جان صحن میں ٹہل رہے تھے اور مجھے سمجھاتے جا رہے تھے.دیکھو تمہاری عادت ہے تم کھانے پر بہت نخرے کرتی ہو اور اکثر چیز میں تم نہیں کھاتیں.ماں باپ کے گھر میں تو ایسی باتوں کا گزارہ ہو جاتا ہے وہ اپنی اولاد کے ناز نخرے اُٹھا لیتے ہیں مگر سُسرال میں جا کر ایسا نہیں کرنا جو ملے خاموشی سے کھالینا وغیرہ.اس کا یہ اثر ہوا کہ میں قریباً چھ سال چچا جان کے ساتھ رہی کبھی ایک لفظ کھانے کے متعلق منہ سے نہیں نکلا میری پسند نا پسند اس عرصے میں ختم رہی.کبھی لڑکیوں سے سُسرال کے متعلق بات نہ پوچھی اگر کبھی کوئی بات دوسروں کے ذریعے سے پہنچی بھی تو سنی ان سنی کر گئے.ہمیں اس لئے کبھی خیال نہیں آیا کہ میکے میں سُسرال کی بات بھی کرتے ہیں اولاد اور دوسرے رشتہ داروں کے حقوق کی باحسن ادا ئیگی کے متعلق محترمہ صاحبزادی
386 امۃ الرشید صاحبہ کا بیان ہے کہ : - حضور با وجود بے حد عدیم الفرصت ہونے کے اور باوجود اس کے کہ آپ کی اولا د خدا کے فضل سے بہت زیادہ ہے سب کی تربیت اور تعلیم کا خیال رکھتے ہیں.آپ نہایت ہی شفیق اور رحیم واقع ہوئے ہیں.سختی کو پسند نہیں فرماتے.کبھی تا دیبا سختی کا موقع پیش آئے تو کر لیتے ہیں مگر لڑکیوں کے بارہ میں حضور صرف زبانی تادیب کافی سمجھتے ہیں.حضور کی طبیعت کا یہ خاصہ ہے کہ بچوں کو ہمیشہ سبق آموز کہانیوں اور لطائف سے محظوظ کرتے ہوئے ان کی تربیت فرماتے ہیں.خود خوش رہتے اور دوسروں کو خوش رکھتے ہیں لیکن خوشی کی گھڑیوں میں بھی حقیقی مقصد کبھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا.حضور کی انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مقصد آپ کے بچوں کی نگاہوں سے بھی اوجھل نہ ہو.شادی کے موقع پر آپ نے میری بڑی بہن امتہ القیوم بیگم صاحبہ کو اور تحفوں کے ساتھ کچھ کتابیں بھی عنایت فرمائیں اور ہر کتاب پر اپنے ہاتھ سے کچھ نوٹس بھی رقم فرمائے.مثلاً قرآن کریم پر تحریر فرمایا :- امۃ القیوم! یہ خدا کا کلام ہے.میری زبان اس کے بارہ میں بند ہے.میں نے سب کچھ اس سے پایا.تم بھی سب کچھ ہی اس سے پاؤ.میرے اللہ! تیرا یہ کلام میری اس بچی اور اس کی اولاد کے دل میں دائمی طور پر جاگزین ہو.میرے اللہ ! ان کے متعلق میرے کرب کو اس کلام کے طفیل اور اس کے ذریعہ سے دور کر دے.اور اسے اور اس کی اولا د کو اپنا بنالے.اے میرے پیارے ! یہ اور اس کی اولاد شیطان اور دجال کے فتنہ سے محفوظ رہیں.تو ان کا حافظ و ناصر ہو.میری زندگی میں بھی اور میرے بعد بھی.اے میرے رب میرا دل بیٹھا جا رہا ہے.تو ان کو اس مقام سے بھٹکنے نہ دیجیو جو تو نے ہمارے لئے اپنے مسیح کے ذریعہ سے تجویز کیا ہے.ہم بھگوڑے نہ بنیں.ہم تیرے دین کے لئے جانیں دینے والے ہوں اور ہماری عزتیں تیرے ہی دین کی خدمت سے وابستہ ہوں.میرے مولا! میرے درد کا علاج تیرے ہی قبضہ میں ہے.میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے.اب اے میرے شافی ! تو مجھ پر رحم کر کے میری غلطیوں کا
387 ازالہ کر دے.اپنے دروازہ کے سوالی کو رڈ نہ کیجیو.دیکھو میری آنکھیں سفید ہو رہی ہیں اور ہاتھ کانپ رہے ہیں.مجھ پر رحم کر.مرزا محمود احمد وہ بچے جن کی مائیں فوت ہو چکی ہیں ان کی دل جوئی خصوصیت کے ساتھ کرتے اور محبت و پیار سے رکھتے ہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دیتے.دیگر رشتہ داروں کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں.ہر موقع پر ان سے احسان کرنا مدنظر ہوتا ہے.اکثر دفعہ خود ان سے مل کر ان کے حالات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں.ان کی خوشیوں اور ان کے غموں میں شریک ہوتے ہیں.ہمیشہ ان کی تعظیم اور اکرام مدنظر رہتا ہے.اور جملہ رشتہ دار آپ کے حسنِ سلوک سے خوش ہیں ( الفضل ۲۸.دسمبر ۱۹۳۹ء) حضور نے حضرت آپا سارہ بیگم صاحبہ اور محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کو مختلف مقامات کی سیر کروائی اور ان کی دلجوئی کا خوب خیال رکھا.اس واقعہ میں اہل وعیال کے حقوق کی بہتر ادائیگی کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی مدنظر تھا کہ آپ عورتوں کی تعلیم میں بہت دلچسپی لیتے تھے اور اسے جماعتی ترقی کا ایک ضروری حصہ سمجھتے تھے صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں :- آپا جان سارہ بیگم اور میں نے میٹرک کا امتحان دیا ابا جان فرمانے لگے امتحان دے کر تھک گئی ہو تم لوگوں کو سیر کرا لاؤں.ڈیرہ دون مسوری و دہلی لے گئے.عید مسوری کرنی تھی حضرت ابا جان تو جماعتی کاموں میں مصروف رہتے تھے زیادہ وقت باہر ہی گزرتا میں اُداس ہوگئی اور کہنے لگی عید کا مزہ تو سب میں آتا ہے جماعت بہت زیادہ زور دے رہی تھی اس لئے ابا جان کی خواہش تھی کہ عید مسوری میں کی جائے.میں نے کہا اگر عید ضرور یہاں کرنی ہے تو بھائی کو بلوا دیں بھائی جان (حضرت خلیفہ المسیح الثالث) اُس وقت لاہور پڑھتے تھے.ابا جان نے فوراً تار دیگر اُن کو وہاں بلوالیا.کتنی محبت تھی آپ کو اپنی بچیوں سے، کتنا احترام کرتے تھے ان کے جذبات کا عزیز واقارب سے حُسنِ سلوک اور اہل وعیال سے تعلق خاطر اور ہر ایک کے جذبات کو محسوس کرنا اور معاملہ کی حقیقت کو بخوبی سمجھ لینا حضرت سیدہ مہر آپا کے بیان کردہ مندرجہ ذیل واقعہ سے سیرت کے یہ سب پہلو بہت واضح طور پر نمایاں ہوتے ہیں :-
388 وو غالبا ۱۹۴۴ء کا ہی ذکر ہے کہ آپ کو ڈلہوزی راشی‘ میں حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی اچانک بیماری کی اطلاع ملی.سلسلہ کے کاموں میں انتہائی طور پر مصروف ہوتے.مجھ پر یہی اثر تھا (ابتداء میں ) کہ آپ کو صرف اور صرف ایک لگن ہے تو اللہ تعالیٰ کی یا پھر دینی مصروفیتوں سے اس حد تک عشق ہے کہ اس کے سوا باقی سب کچھ بیچ ہے لیکن جب حضرت میاں صاحب کی بیماری کی اطلاع آئی میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ پھر اس خبر سے اس قدر بیقرار ہوئے جس طرح ایک ماں اپنے بچہ کی تکلیف پر بے چین ہوتی ہے.اس حد تک کہ پھر سوائے حضرت اماں جان کے اور کسی کو جاتے ہوئے مل نہ سکے.خود بخود ہی تمام گھر آپ کو الوداع کرنے دروازہ تک گیا.راشی دومنزلی کوٹھی تھی.میں یہ سب منظر او پر بیٹھی اپنے کمرہ کی کھڑکی میں سے دیکھ رہی تھی.باوجود چاہنے کے...غیر معمولی حجاب اس بات کے مانع رہا کہ میں بھی جا کر حضرت اقدس کو الوداع کہوں....آپ تشریف لے گئے.قادیان پہنچتے ہی آپ کو اطلاع ملی کہ حضرت میاں صاحب کی طبیعت نسبتاً بہتر ہے.آپ نے تین دن وہاں قیام کیا (غالبا) آپ نے وہاں سے مجھے خط لکھا اس میں جہاں حضرت میاں صاحب کی بیماری اور پھر روبصحت ہونے کی اطلاع دی وہاں مجھ سے اس گھبراہٹ میں نہ مل کر جانے کا افسوس اور پھر میرے آپ کو تمام گھر کے ساتھ الوداع نہ کرنے کا شکوہ بھی کیا.اور پھر آخر میں یہ بھی لکھا کہ غالبا حجاب ہی مانع ہوگا.مجھے خط پڑھ کر تعجب ہوا کہ آپ کی نگاہیں کس قدر دور بین ہیں آپ سب کچھ کس قدر صحیح " سمجھے ہیں.آپ اپنے بہن بھائیوں ، عزیزوں کے لئے کس قدر خوبصورت محبت کرنے والا اور ہمدرد دل رکھتے ہیں اور پھر بیوی ہونے کی حیثیت سے میری کس طرح دلداری کی؟ اور میری کوتا ہی کا اظہار بھی کس خوبصورت طریق پر کیا اور کوتاہی کی وجہ بھی کتنی صحیح آپ نے سمجھی؟“ ( الفضل فضل عمر نمبر ۱۹۶۶ء) حضور اپنے تعلقات میں اَلحُبُّ لِلَّهِ وَالْبُغْضُ لِلهِ کو مدنظر رکھتے تھے.مندرجہ ذیل حقیقت افروز بیان کا ہر لفظ اسی رہنما اصول کی تفسیر و تعبیر ہے:.
389 وو....اس جگہ میں رشتہ داری کے متعلق بھی کچھ کہہ دینا مناسب سمجھتا ہوں یہ تعلق ایک رنگ میں رشتہ داری ہے اور ایک رنگ میں نہیں بھی.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم فوت ہو چکے ہیں.انہوں نے بڑی بیوی کو جو میری ساس ہیں اپنے سے الگ کیا ہوا تھا اور آخر تک الگ رکھا ان کو طلاق نہ دی تھی مگر انہیں ساتھ بھی نہیں رکھتے تھے.میں نے اپنے اطمینانِ قلب کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی ان باتوں میں پڑنے کی کوشش نہیں کی.اگر دنیا داری کو مدنظر رکھا جائے تو مجھے اپنی ساس کے ان رشتہ داروں سے کوئی خاص رشتہ داری کا تعلق نہیں ہونا چاہئے تھا یہ تعلق مذہبی تعلق ہے اور نہ جنسی.ہاں چونکہ میری بیوی کی سوتیلی والدہ پختہ احمدی ہیں اور احمدیت کا خاص جوش رکھتی ہیں اس لئے مجھے ان سے اپنی حقیقی ساس کی نسبت زیادہ تعلق رہا ہے اور میں ان سے حقیقی ساس کی نسبت بے تکلف ہوں.آگے اپنے سالے سالیوں میں میں نے کبھی سگے اور سوتیلے کا فرق نہیں کیا سوائے اس کے کہ عزیزم کیپٹن تقی الدین جو میرے دو حقیقی سالوں میں سے ایک ہیں مجھے خاص طور پر پیارے ہیں چونکہ میں نے ان کو بچپن سے ان کے والد سے لے کر اپنے گھر میں رکھا تھا.مجھے کبھی تقی الدین اور اپنے بچوں میں فرق محسوس نہیں ہوا میرے لئے آج تک ناصر احمد اور تقی الدین ایک سے ہیں.یہ ہیں ہمارے خاندانی حالات ان کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے مجھے مجرم کا کوئی لحاظ ہوسکتا تھا.میری سوتیلی ساس کا تعلق احمدیت کی وجہ سے ہے وہ پختہ احمدی ہیں اور جوشیلی احمدی ہیں اس لئے کبھی میرے دل پر اس بدمزگی کا اثر جو ڈاکٹر صاحب مرحوم اور ان کی بڑی بیوی میں تھی ان کے بارے میں نہیں پڑا میں نے ان کو ہمیشہ عزت اور محبت کی نگاہ سے دیکھا ہے جیسا کہ قابل احترام بڑے رشتہ دار کو دیکھنا چاہئے اور اب تک اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں ان کے بچوں سے بھی ان کے والد اور والدہ کے لحاظ سے میرے تعلقات ہیں.بعض کی احمدیت سے ذاتی محبت کی وجہ سے زیادہ بعض کی بے پر اوہی کی وجہ سے کم.////
390 آگے رہے ان کے رشتہ دار ان سے تعلقات صرف ان تعلقات کی بناء پر ہیں جو وہ خود رکھتے ہیں میری سوتیلی ساس کے دو بھائی میرے بچپن کے دوست ہیں ڈاکٹر اقبال علی صاحب اور شیخ منظور علی صاحب.یہ میرے ساتھ سکول میں پڑھتے رہے ہیں دونوں ہی میرے دوست ہیں لیکن اقبال میں اور مجھ میں بچپن سے ہی محبت چلی آتی ہے.اب اپنے کاموں کی وجہ سے ہم میں خط و کتابت نہیں ہے إِلَّا مَا شَاءَ الله سالوں کے بعد کبھی مگر احمدیت کے تعلق کے علاوہ بھی ذاتی دوستی کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر میں اپنے دل کو معیار قرار دوں تو ہم دونوں کے دلوں میں اب بھی گہری برادرانہ محبت ہے مگر اس دوستی کا موجب احمدیت ہی تھی اور احمدیت ہی ہے رشتہ داری اس کا موجب نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے غرض اس تعلق کو رشتہ داری کا تعلق کہنا ایک لغو بات ہے میری ان میں سے جس وجہ سے محبت ہے دین کی وجہ سے ہے اور اگر وہ تعلق نہ رہے تو مجھے ان سے ذرا بھی تعلق نہیں وہ ایسے ہی اجنبی ہیں جیسے کہ اور اجنبی.66 ( فاروق ۲۸ ۳۱ جولائی ، ۷.اگست ۱۹۳۷ء) ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان سے لکھتے ہیں :- ایک میرے ہم جماعت مبلغ نے سنایا کہ ایک بہت بڑے تاجر حضور سے ملے.حضور نے انہیں کہا کہ آپ دونوں بھائیوں میں شکر رنجی کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ مالی لین دین کی وجہ سے ہے.فرمایا آپ اتنے مالدار ہیں معمولی بات ہے دوسرے کو اس کے مطالبہ کے مطابق روپیہ دے دیں آخر وہ بھائی ہی ہے.فرمایا میرے پاس ایک دفعہ میرے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب آئے اور کہنے لگے کہ سب بہن بھائیوں کی طرف سے میں مشترکہ اراضی فروخت کرتا ہوں اور اپنی اراضیات کے لئے روپیہ استعمال کرنا پڑ جاتا ہے اس وقت میں ستر ہزار روپے کا مقروض ہو گیا ہوں اس لئے یہ کام کسی اور کے سپرد کر دیں.تو میں نے کہا کہ یہ کام آپ ہی کریں اور ستر ہزار روپے اپنے کھاتے میں ڈال لیا.وہ صاحب کہنے لگے کہ آپ ہی کا دل گردہ ہے“
391 حضور نے اپنی ساری زندگی کمال خلوص سے خدمتِ دین کے لئے وقف کئے رکھی اور اپنے سارے بیٹوں کو بھی وقف کر دیا اور بیٹیوں کی شادیاں بھی بالعموم واقفین زندگی سے ہی کیں اور اس طرح ساری زندگی قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ كى عملی تفسیر و تشریح میں بسر کر دی.شدید مصروفیات کے باوجود بچوں کی دیکھ بھال کے لئے بھی وقت نکال لیتے تھے بلکہ ان کو بہلانے کے لئے بھی ہر طرح کوشش فرماتے.اس سلسلہ میں حضرت چھوٹی آپا ام متین صاحبہ کا مندرجہ ذیل بیان بہت دلچسپ اور معلومات افزاء ہے.آپ مھتی ہیں :- میں نے متعدد بار انتہائی مصروفیت کے باوجود آپ کو بچوں کو گود میں اُٹھا کر بہلاتے دیکھا اور لوریاں دیتے سنا ہے.گلے سے لگا کر ٹہلتے ہوئے نہایت پیارے انداز میں اور نہایت خوبصورتی سے آپ یہ شعر پڑھتے تھے.بَلَغَ الْعُلَى بكماله كَشَفَ الدجى بجَمَالِهِ حَسُنَتْ جَمِيعُ خِصَالِه صَلُّوا عَلَيْهِ اله یہ آپ کے محبوب اشعار تھے جو آپ گنگنایا کرتے تھے.گوان کے علاوہ اور اشعار بھی پڑھتے ہوئے میں نے سنا ہے.آواز اتنی پیاری تھی کہ کیسا ہی بچہ رور ہا ہو فوراً خاموش ہو جاتا تھا.ایک دفعہ کسی بچہ کو اُٹھایا ہوا تھا اور یہ شعر پڑھ رہے تھے جو آپ کو بہت پسند تھا.رَأَيْتُ ظَبياً عَلى كَثِيبٍ يُحَجِّلُ الْوَرُدَ وَ الْهَلَالَا فَقُلْتُ مَاسْمُكَ فَقَالَ لُؤْلُوْ فَقُلْتُ لِي لِي فَقَالَ لَا لَا جب ہم ۱۹۵۵ء میں حضور کے علاج کے لئے یورپ گئے تو ایک ہفتہ دمشق میں بھی ٹھہرے.وہاں مکرمی بدر الحصنی صاحب جن کے گھر میں ہمارا قیام تھا کی ایک بیٹی اپنی بچی کو لے کر آئیں کہ حضور! اس کے سر پر ہاتھ پھیر دیں اور دعا فرمائیں.آپ نے فرمایا بچی کا نام کیا ہے؟ کہنے لگیں ہم اسے پیار سے لؤلؤ، کہتے ہیں.حضور نے اُسی وقت بے ساختہ یہی شعر پڑھا.بچی کی ماں کو
392 اتنا پسند آیا کہ کہنے لگی مجھے لکھ دیں.حضور نے مجھے فرمایا اسے شعر لکھ کر دیدو چنانچہ میں نے اُسے لکھ کر دیدیا.عزیزہ امتہ المتین چھوٹی سی تھی میں نے کہا آپ اس کے لئے کوئی بچوں والی نظم کہہ دیں میں اسے یاد کروا دوں آپ نے بالکل ہی بچوں کی نظم کہہ دی ( عزیزہ کی عمر غالبا چار سال تھی) وہ نظم یہ تھی.چوں چوں کرتی چڑیا آئی چونچ میں اپنی تنکا لائی تنکوں سے اس نے گھونسلا بنایا پتوں سے پھر اس کو سجایا پھر اس میں انڈے دینے بیٹھی انڈے دے کر سینے بیٹھی کچھ انڈے تو کچھ نکلے بچے نکلے بچوں نے وہ شور مچایا سارے گھر کو اٹھایا باقی میں سے کوئی کہتا اماں کھانا کوئی کہتا پانی پلانا چڑیا بولی پیارے بچو غل نہ مچاؤ صبر سے بیٹھو ابا کام سے آتے ہونگے دانه دنكا لاتے ہونگے تم سب بیٹھ کے کھانا کھانا پھر سب مل کے سیر کو جانا کہنے کو تو یہ بچوں کے اشعار ہیں اور ایک مصروف آدمی کے پاس اتنا وقت کہاں ہوتا ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑے مگر یہ بالکل ہی بچگانہ نظم اس امر پر روشنی ڈالتی ہے کہ آپ کو بچوں کی خواہشات پورا کرنے کی طرف کتنی توجہ تھی.چڑیا والی نظم تو کھڑے کھڑے شاید پانچ منٹ میں آپ نے کہی اور متین کو یاد کروا کے سنی بھی.کچھ عرصہ کے بعد ایک دن آئے تو ایک کاغذ پر اپنے ہاتھ سے طوطے پر ایک نظم لکھی ہوئی تھی کہنے لگے لو میں تمہارے لئے نظم لکھ کر لایا ہوں یاد کر لو.متین کو طوطا پالنے کا بچپن میں بہت شوق تھا.یہ نظم بھی درج ذیل کرتی ہوں یہ حضور کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی میرے پاس محفوظ ہے.
393 درخت پر طوطا اور گاؤں کے بچے پیارے طوطے بھولے بھالے ہم ہیں تیرے چاہنے والے تیرا سبز لباس غضب ہے کیا ہی پھبن ہے کیسی چھب ہے اوپر لال سی جاکٹ ہے سج کر بیٹھا ہے بن گہنے جب بیٹھا ہو پیٹر کے اوپر کھیل رہے ہو پر پھیلا کر اس کی سبزی مجھکو چھپائے رنگ ترا اس سے مل جائے کیوں بیٹھا ہے پیر پہ جا بیٹھ ہمارے پاس تو آکر تجھکو ہم چوری ڈالیں گے پیار و محبت سے پالیں گے بیر اور گئے لائیں گے ہم تجھ کو خوب کھلائیں گے ہم پنجرہ اک اچھا سا بنا کر رکھیں گے تجھے اس میں چھپا کر میٹھے بول سکھائیں گے ہم تجھ کو خوب پڑھائیں گے ہم بیٹھ کے تیری باتیں سنیں گے تجھ سے کوئی کام نہ لیں گے اپنا نام تو ہم کو بتا جا ہے.کیوں ہے نا پیارا؟ اچھے طوطے گر نہیں آتا طوطا بولا نام ہمارا کہتے ہی پر پھیلا کر میٹھو تول کے دم اور چونچ دبا کر اڑ گیا طوطا شور مچا کر چھپ گیا وہ بادل میں جا کر عزیزہ متین جب پانچ سال کی تھی تو میں نے کہا اسے کوئی دینی نظم لکھ کر دیں.اس پر آپ نے وہ نظم کہی جو کلام محمود میں اطفال احمدیہ کے ترانہ کے نام سے شائع ہو چکی ہے.یہ متین کو بنا کر دی تھی اور میں نے اسے یاد کروائی تھی.اس نظم کا پہلا شعر ہے.مری رات دن بس یہی اک صدا ہے کہ اس عالم کون کا اک خدا ہے شروع میں چھ سات شعر کہہ کر دیے تھے کہ اسے یاد کروا دو.پھر کچھ
394 زائد کہہ کر اخبار میں شائع کروا دی.حتی الوسع آپ نے بچوں کی خواہشات کو پورا فرمایا اور ان کی دلچسپیوں میں حصہ لیا.ہاں کوئی بات وقار و تہذیب سے گری ہوئی دیکھی یا کوئی امر خلاف قرآن وسنت دیکھا تو بہت ناراض ہوتے تھے.جیسا کہ میں اپنے ایک مضمون میں ( جو غالباً مصباح میں شائع ہوا تھا ) ذکر کر چکی ہوں کہ ایک لڑکی نے سہیلیوں سے سن کر سہرا منگوا لیا اور آپ نے پکڑ کر قینچی سے کاٹ کر پھینک دیا.اپنی مصروفیات کے باوجود کبھی کبھی خود بچوں کو پڑھا بھی دیتے تھے.ایک دفعہ قادیان میں قرآن مجید پڑھانا شروع کیا، جس میں مبارک احمد منور احمد امتہ القیوم امتہ الرشید اور میں شامل ہوتے تھے.عربی، صرف ونحو بھی ساتھ ساتھ پڑھاتے تھے.پہاڑ پر جب گرمیوں میں جاتے بچوں کو گرمیوں کی تعطیل ہوتی تھیں ہر سال ہی کچھ نہ کچھ پڑھایا کرتے.ڈلہوزی میں کئی دفعہ عربی، صرف ونحو حدیث اور قرآن مجید مجھے پڑھانا یاد ہے.کبھی خود نہ پڑھا سکتے تو مجھے فرماتے تھے کہ لڑکیوں کو پڑھایا کرو.ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ بچیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قصیدہ یاد کرواؤ.پڑھانے کا طریق بڑا ہی عجیب تھا نہایت آسان طریق پر کہ پڑھنے والا سمجھتا اس سے زیادہ آسان کوئی سبق ہی نہیں.آج تک وہ پڑھا ہوا یاد ہے.خصوصاً عربی ، صرف ونحو کا پڑھانا تو آپ پر ختم تھا.میں نے آج تک اس طریق سے کسی کو پڑھاتے نہیں دیکھا.بچوں کی مجالس میں اکثر لطائف سنایا کرتے اور بچوں سے لطیفے سنتے.ہزاروں لطیفے اور چٹکلے یاد تھے.کبھی کبھی رات کو بچوں کو لے کر بیٹھ جانا اور کوئی کہانی سنا دینی.کئی دفعہ ایک ایک کہانی کا سلسلہ ہفتوں چلا کرتا اور وہ اتنی دلچسپ ہوتی کہ بچے تو گجا سارے گھر کے بڑے بھی گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے اور کہانی سنتے.بچوں کا شام کے بعد گھر سے باہر رہنا بہت نا پسند تھا اس کی پابندی کروانے کی ہمیشہ تاکید کرتے کہ مغرب کے بعد اِدھر اُدھر نہیں پھر نا رات کو اگر دیر سے کوئی بچہ کہیں سے آتا تو ناراض ہوتے.
395 بچوں سے مذاق بھی فرما لیتے.طبیعت میں مزاح بہت تھا لیکن ایسا مزاح نہیں کہ دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث ہو.با مذاق طبیعت کو پسند فرماتے.بچوں کو کئی دفعہ جادو کے تماشے بھی کر کے دکھاتے جس سے بچے محظوظ ہوتے تھے.اپنے بچوں کی اولاد سے بھی بہت پیار اور محبت کا سلوک کیا.ان کی پسند کے تحائف دینے کا خیال رہتا تھا.کسی بچہ کی خواہش کا علم ہوتا تو حتی الوسع اسے پوری فرماتے“.مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب حضور کی بچوں سے شفقت و پیار کے سلسلہ میں لکھتے ہیں :- حضور کا شروع سے ہی میرے ساتھ مشفقانہ سلوک رہا حضور نے ابا کو لکھا کہ اس کو میں نے بیٹا بنالیا ہے.اب یہ ہماری ذمہ داری ہے.نویں جماعت سے تعلیمی ضروریات حضور کی طرف سے پوری کی جاتیں خاکسار کو ارشاد تھا کہ آکر مل جایا کرو اور ربوہ سے باہر جانا ہو تو اجازت لے کر جاتا.شکار پر جانا ہو پکنک پر جانا ہو حضور سے اجازت لیتا پھر جاتا شکار پر جانے کے لئے کارتوس وغیرہ عطا فرما دیتے تھے.ربوہ سے باہر جانا ہو تو بعض اوقات کار کی اجازت فرما دیتے خاکسار نے دیکھا کہ جب کھیل کی غرض سے باہر جانا ہوتا تو میں دعا کے لئے عرض کرتا حضور اگر فرماتے اللہ رحم کرے تو میچ میں ہار ہوتی اگر حضور فرماتے اچھا اللہ فضل فرمائے یا دعا کرونگا تو پھر ہم جیت کر آتے.مجھے اندازہ ہو جاتا کہ ہم جیتیں گے یا ہار ہوگی.ایک مرتبہ برادرم عزیزم صفی الدین اور برادرم عزیزم فلاح الدین اور میں شکار پر گئے.سارا دن کوئی شکار نہیں ملا دریا کے ساتھ ساتھ واپس آ رہے تھے کہ ایک دیہاتی ملا اس نے بتایا کہ سورج ڈوبنے کے ساتھ ہی تین مگ (بڑا آبی پرندہ) یہاں سے گزرتے ہیں میں نے کہا چلیں رُک کر دیکھ لیں.ابھی وقت تھا ہم نے ریت میں لکڑیاں اور جھاڑیاں گاڑ کر اپنے آپ کو چھپا لیا.عین غروب آفتاب کے ساتھ ہی تین مگ نمودار ہوئے ہم نے فیصلہ کر کے تینوں پر ///
396 فائر کیا تینوں نیچے آ گرے اتنے بڑے مگ تھے کہ کاندھے پر لٹکانے سے اس کی چونچ پاؤں کو چھوتی تھی.میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنانگ حضور کو دیکر آؤنگا.حضرت چھوٹی آپا کے ہاں آپ کی باری تھی.انہوں نے دیکھتے ہی فرمایا کہ حضور آج فرما رہے تھے کہ مگ کا پلاؤ کھانے کو جی چاہتا ہے.میں سمجھ گیا کہ ہمارا شکار کا پروگرام بننا سارا دن شکار نہ ملنا ایک دیہاتی سے ملاقات اور اس کا تین مگوں کا بتانا اور پھر ایسا ہی ہونا اور ان کا شکار کر لینا یہ سب باتیں حضور کی خواہش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام تھا.اس طرح ہماری دلجوئی اور حوصلہ افزائی بھی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے کی خواہش کو بھی پورا کر دیا.بچپن کا واقعہ ہے جبکہ سکول میں پڑھا کرتا تھا.ربوہ اُن دنوں کچے گھروں پر مشتمل تھا.قصر خلافت میں دیہاتی طرز پر کچے مکانات کی عمارات تھیں.ساتھ ہی ایک کچی بیت تھی.رمضان کے دن تھے نماز تراویح میں ہم بہت سے بچے شریک تھے.سخت گرمی کی وجہ سے روزہ افطار کے وقت میں نے بہت سا پانی پی لیا.نماز کے دوران مجھے چکر آ گیا.صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب میرے ساتھ تھے وہ فوراً مجھے حضرت امی جان محترمہ ام ناصر کے ہاں لے گئے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) وہیں تشریف فرما تھے.آپ نے دریافت فرمایا کیا ہوا؟ میاں رفیق احمد صاحب نے میری طبیعت کی خرابی کے بارے میں عرض کیا.باہر صحن میں پلنگ بچھے ہوئے تھے حضور نے اُسی وقت بستر پر لیٹنے کا ارشاد فرمایا بار بار دوا دی.جب تک طبیعت اچھی نہ ہوئی جانے نہ دیا بار بار تشریف لاتے رہے اور گھر پہنچنے کا انتظام بھی فرمایا.یہ تھی حضور کی ایک بچے پر شفقت انتہائی مصروفیت کے باوجود وقت دیا اور پھر پوری طرح دیکھ بھال فرمائی.وادی سون میں حضور نے ایک پر فضا مقام نخلہ“ جو کہ جابہ اور پیل کے قریب تھا وہاں ایک گرمیوں کا مستقر تعمیر کروایا.پہاڑ پر ایک باغ لگوایا مکانات تعمیر ہوئے یہ مقام ایک ہزار فٹ کی بلندی پر تھا.سادہ سی تعمیرات لیکن تھیں
397 خوبصورت اور صحت افزا ماحول میں، بہت اچھی لگتی تھیں.اس مقام پر حضور نے تفسیر صغیر کا کام کیا.خاکسار نے ایف.ایس.سی کا امتحان دیا تھا.حضور جب نخله تشریف لے جانے لگے خاکسار کو بھی فرمایا کہ تمہیں رخصتیں ہیں ساتھ چلو.حضور کی اس مہربانی سے بہت خوش ہوا.وہاں حضرت امی جان کے ہاں حضور کے ساتھ ہی کھانا ہوتا تھا.حضور اصرار سے کھلاتے اور پھر حضرت امی جان ( أم ناصر ) سے فرماتے یہ تمہارا بھتیجا ہی نہیں میرا مہمان بھی ہے خاص خیال رکھنے کو فرماتے.حضرت اُمی جان جو پہلے ہی بہت مہربان تھیں مزید احسان فرماتیں حضور فرماتے جو خاص آم منگوائے ہیں وہ صباح الدین کو کھلا ؤ.حضور اتنا خیال رکھتے کہ میں سخت شرمندگی محسوس کرتا.برادرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب اور برادرم صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب وہیں تھے ان کے ساتھ خوب سیر و تفریح ہوتی شکار بھی کھیلتے انہی دنوں ایف ایس سی کا نتیجہ آگیا میں فیل ہو گیا.حضور سے ڈانٹ پڑی اس غم اور افسوس سے بستر سے لگ گیا بخار بھی ہونے لگا.میاں رفیق احمد صاحب نے بہت زور لگایا لیکن اُٹھنے کی ہمت نہ ہوئی.کھانا بھی میاں صاحب کمرے میں لے آتے.تیسرے روز ایک دم دروازہ کھلا تو حضور کو دیکھ کر چونک گیا فوراً بستر سے اُچھل کر کھڑا ہو گیا.ظہر کا وقت تھا.وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے فرمایا تم نماز کے لئے مسجد میں بھی نہیں آتے.چلو میرے سامنے وضوء کرو.خاکسار نے وضوء کیا حضور وہیں کھڑے رہے مجھے ساتھ لے کر نماز پڑھانے تشریف لے گئے.نماز کے بعد مجھے یاد فرمایا اور پرائیویٹ سیکرٹری مکرم عبدالرحمن انور صاحب مرحوم کو بلا کر فرمایا.دیکھیں یہ کتنا کمزور اور زرد ہو گیا ہے.سکیسر میں ایک ہفتہ کے لئے ریسٹ ہاؤس ریز رو کروائیں.اس کو ساتھیوں سمیت وہاں بھیجوانے کا انتظام کریں.حضور نے گاڑی ( جیپ ) اور تمام ضروریات کا انتظام فرمایا.وہاں ہم لوگ سکیسر جیسی خوبصورت جگہ پر جو پانچ ہزار فٹ کے قریب بلند ہے ایک ہفتہ رہے.خوب سیریں کیں جب واپسی ہوئی حضور دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ہاں کافی فرق پڑ گیا
398 ہے اب تم لوگ تین روز کے لئے کلر کہار ہو آؤ.وہاں سے واپسی ہوئی تو حضور دیکھ کر بہت خوش ہوئے.حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے مصروف ترین شخص کو اتنا وقت دیتے ہوئے اور اپنے حقیر خادم کا اتنا خیال رکھتے ہوئے.حضور کا کتنا بڑا احسان ہے اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہوں آپ پر.بچوں سے پیار و شفقت اور درگزر کا سلوک فرماتے مگر نظم و ضبط اور تربیت کی ذمہ داری کبھی بھی نظر انداز نہ ہوتی.مکرم مولوی عبدالرحمان انور کی یاداشت میں سے دو واقعات پیش ہیں :- ۲۰.۲۱ ء کی بات ہے کہ خاکسار کی عمر ۱۳/۱۲ سال کی تھی.ایک دفعہ جبکہ میں مکرم محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ہمراہ ان کے مکان کے صحن میں جو حضرت اماں جان والا صحن تھا ہاکی سے کھیل رہا تھا.کہ ہٹ سے گیند قریبی غسل خانہ میں چلا گیا اور پرنالہ کے اندر پھنس گیا.ہم دونوں اسے نکالنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ اچانک حضرت خلیفہ المسیح الثانی لوٹا لے کر غسل خانہ کی طرف تشریف لائے ہم گھبرا کر وہاں سے ہٹنے لگے تو حضور خاموشی سے دوسرے غسل خانہ میں تشریف لے گئے اور ہم پر کوئی اظہار ناراضگی نہ فرمایا اور درگزر فرمایا.ورنہ عام حالات میں ڈانٹ ڈپٹ کا موقع تھا کہ ہم یہاں کیا کر رہے ہیں اور کیوں آئے ہیں وغیرہ وغیرہ.قادیان میں گرمیوں کے موسم میں ایک سال جبکہ حضور خود دھرم سالہ تشریف لے گئے تھے.حضور نے کچھ بچوں کے متعلق یہ پسند فرمایا کہ کسی شخص کی زیر نگرانی ان کو ڈلہوزی ایک ماہ کے لئے بھیجا جاوے.حضور نے مجھے کسی کو اس کام کے لئے تجویز کرنے کا فرمایا.خاکسار نے پہلے ایک دوست کا نام تجویز کیا.حضور نے رضامندی کا اظہار نہ فرمایا.پھر خاکسار نے ایک اور دوست کا نام تجویز کیا.حضور نے اس کو بھی منظور نہ فرمایا.پھر خاکسار نے عرض کیا کہ اگر مجھے ارشاد فرماویں تو خاکسار چلا جائے.حضور نے فرمایا ہاں یہ ٹھیک ہوگا.چنانچہ حضور نے مجھے ایک معین رقم عنایت فرمائی کہ اس رقم سے زیادہ ایک پیسہ حضور نہیں دینگے اس کے اندر ہی خرچ کو رکھا جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کئے اور بعض آسانیاں بہم پہنچیں
399 کہ حضور کے ارشاد کی پوری تعمیل ہو گئی اور حضور کے صاحبزادگان نے بھی حضور کی اس ہدایت کو ملحوظ رکھ کر کھانا اپنے ہاتھ سے پکانے کا فیصلہ کیا.روٹی بازار سے لے لی جاتی تھی.اللہ تعالیٰ نے مکان کو جو سیزن کے لئے لیا گیا تھا اس کو بقیہ عرصہ میں Sublet کرنے کا موقع عطا فرمایا اور کچھ رقم واپس مل گئی.حضور کی ہدایت کے بموجب ہفتہ میں کم از کم دو بار حضور کی خدمت میں بچوں کے حالات سے اطلاع بھجوائی جاتی رہی.قادیان میں حضور نے ایک بچے کے متعلق خاکسار کو مسجد مبارک میں بُلا کر ارشاد فرمایا ان کو بورڈ نگ تحریک جدید میں ابھی لیجا کر داخل کر دیا جاوے اور ہدایت فرمائی کہ بغیر میری اجازت کے گھر نہ آئیں.حضور اس ہدایت کے دینے کے بعد مکان کے اندر تشریف لے گئے اور بچے کو میرے حوالہ کیا.اسی وقت بچے نے مجھے کہا کہ اس کا بستر کھلا ہے وہ اسے سمیٹ کر آ جاتے ہیں.وہ اندر گئے ہی تھے کہ حضور پھر باہر تشریف لائے کہ اب جو بچہ اندر آیا ہے تو کیا میری اجازت سے آیا ہے؟ خاکسار کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو معافی مانگی حضور نے فرمایا کہ میرے حکم کے بعد خواہ ایک منٹ کے لئے ہی ضرورت ہو مجھ سے اجازت لے کر اندر بھجوانا چاہئے تھا.حضور انتظامی معاملات میں ارشاد کی پوری حدود کے ماتحت پابندی کا اہتمام فرمایا کرتے تھے.ازواج و اولا د حضرت فضل عمر حضرت سیدہ محمودہ خاتون ام نا صر صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نکاح اکتوبر ۱۹۰۲ ء وفات ۳۱.جولائی ۱۹۵۸ء حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ( خلیفتہ امسیح الثالث ) ولادت ۱۶.نومبر ۱۹۰۹ ء وفات ۹.جون ۱۹۸۲ء.محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ۴.ولادت ۱۹۱۱ء ولادت ۹.مئی ۱۹۱۴ء مکرم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ولادت یکم فروی ۱۹۱۸ء وفات ۱۹ ستمبر ۱۹۹۰ء
محترمہ صاحبزادی امتہ العزیز صاحبہ 400 ولادت ۱۱.اکتوبر ۱۹۲۰ء مکرم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب ولادت ۱۳.نومبر ۱۹۲۵ء مکرم صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب ولادت ۳.اکتوبر ۱۹۲۷ء مکرم صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب ولادت ۱۴.ستمبر ۱۹۳۰ء مکرم صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب ولادت ۸.جولائی ۱۹۳۵ء حضرت سیدہ امتہ الحئی صاحبہ بنت حاجی الحرمین حضرت مولانا نور الدین خلیفہ المسیح الاول نکاح ۳۱.مئی ۱۹۱۴ء وفات ۱۰.دسمبر ۱۹۲۴ء - محترمہ صاحبزادی امتہ القیوم صاحبه -۲ محترمہ صاحبزادی امۃ الرشید صاحبه.ولادت ۲۹.ستمبر ۱۹۱۶ء ولادت ۶.نومبر ۱۹۱۸ء مکرم صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ولادت ۱۰.نومبر ۱۹۲۴ء وفات ۴.مارچ ۱۹۷۵ء حضرت سیدہ مریم اُم طاہر صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نکاح ہے.فروری ۱۹۲۱ء وفات ۱۵.مارچ ۱۹۴۴ء محترمہ صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ ولادت ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء وفات ۱۸ جولائی ۲۰۰۱ء ۲.محترمہ صاحبزادی امۃ الباسط صاحبہ.حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفہ امسیح الرابع ) ولادت ۱۸.دسمبر ۱۹۲۸ء وفات ۱۹.اپریل ۲۰۰۳ء محترمہ صاحبزادی امته الجمیل صاحبه حضرت سیده ساره بیگم صاحبہ ولادت ۱۳ مئی ۱۹۲۷ء ولادت ۳۰.جولائی ۱۹۳۷ء بنت مکرم پروفیسر عبد الماجد صاحب نکاح ۱۳.اپریل ۱۹۲۴ء وفات ۱۳ مئی ۱۹۳۳ء مکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ولادت ۵ - مارچ ۱۹۲۷ء وفات ۱۵.جنوری ۲۰۰۴ء محترمہ صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ ولادت ۱۳.اپریل ۱۹۲۹ء مکرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب ولادت ۲۴.مارچ ۱۹۳۲ء حضرت سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ بنت مکرم سیٹھ ابوبکر صاحب نکاح یکم فروری ۱۹۲۶ء وفات ۵.دسمبر ۱۹۶۳ء مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ولادت یکم ستمبر ۱۹۲۷ء ۲.مکرم صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب ولادت ۱۹۳۳ء وفات ۵ اگست ۱۹۹۱ء ۳۹۹
حضرت مصلح موعود کے بھائی حضرت مرزا سلطان احمد صاحب 1931 1853) قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے (1963.1893)
حضرت مرزا شریف احمد صاحب G1961 1895) صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (1907 1899)
کرسیوں پر دائیں سے بائیں ۱.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب ۲.حضرت علیہ اسیح الثانی ۳.حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب (پیچھے کھڑے ہونے والے) ا.نواب عبدالرحیم خاں صاحب خالد بیر سٹرایٹ ۲۱.نواب عبدالرحمن خاں صاحب چھوٹے صاحبزادگان دائیں سے پائیں.نواب محمد احمد خاں صاحب ۲.مرزا منصور احمد صاحب (حضور کے قدموں میں )۳.حضرت سید و منصور دیگہ دائیں سے بائیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب -۲ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۳.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۲.حضرت سید و نواب مبار که بیگم صاحبہ ۵ - صاحبزادہ مرزا مبارک احمد مرحوم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد دائیں طرف کھڑے ۱.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ۲.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب گود میں حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم ) ۳- حضرت مرزا شریف احمد صاحب (پیچھے دائیں طرف سے ) (خادمہ کی گود میں ) ۴.حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ (۶) حضرت میر محمد اسحاق صاحب
سید نا محمود یہ تصویر ۱۹۰۴ ء کے وسط آخر کی ہے جبکہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں مولوی کرم دین کے مقدمہ کے دوران مقیم تھے.سید نا محمود اس وقت مدرسہ تعلیم الاسلام کی دسویں جماعت میں پڑھتے تھے.
شبیہ مبارک سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی (1939)
صاحبزادگان حضرت مصلح موعود حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب مرحوم (1982-1909) صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (ولادت 1914ء)
صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب مرحوم صاحبزادہ مرزاخلیل احمدصاحب مرحوم (1975-1924) صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب (ولادت 1925ء) (1990-1918)
صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب مرحوم (مارچ 1927 تا جنوری 2004ء) صاحبزادہ مرزا او میم احمد صاحب (ولادت تمبر 1927ء) صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب (ولادت اکتوبر 1927ء)
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب مرحوم (.2003.1928) صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب (ولادت 1930ء)
صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب (ولادت 1932ء) صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب مرحوم 1991 1933) صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب (ولادت 1935ء)
حضرت مصلح موعود کے داماد حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مرحوم G1997,1911) صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب مرحوم (1988-1915) (.2002 1913)
محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب مرحوم محترم چوہدری ناصر محمد سیال صاحب مرحوم (+2000.1916) محترم سید میر داؤ د احمد صاحب مرحوم بر G1973.1924.( جون 1924، 2001)
محترم پیر معین الدین صاحب (ولادت 1925 ) محترم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب (ولادت 1926 ء ) محترم سید میرمحمود احمد ناصر صاحب (ولادت 1928ء)
سیدناحضرت خلیفہ اسیح الثانی دورہ یورپ (1955) سے واپسی پر
خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خلافت ثالثہ کے دور میں
401 حضرت سیدہ مریم صدیقہ ام متین صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نکاح ۳۰ ستمبر ۱۹۳۵ء وفات ۳.نومبر ۱۹۹۹ء محترمہ صاحبزادی امتہ المتین صاحبه حضرت سیدہ بشری بیگم' مہر آیا صاحبہ ولادت ۳۱.دسمبر ۱۹۳۶ء بنت مکرم سید عزیز اللہ شاہ صاحب نکاح ۲۴.جولائی ۱۹۴۴ ء وفات ۲۲ مئی ۱۹۹۷ء
۴۰۱ 403 دو طرفہ محبت کے نظارے حضرت فضل عمر کی سیرت میں یہ امر بہت نمایاں ہے کہ آپ کی طبیعت جلال و جمال کا ایک نہایت حسین امتزاج تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو ذمہ داریاں تفویض فرما ئی تھیں ان میں جماعت کے انتظامی امور کی سرانجام دہی بھی شامل تھی اور یہ امر یقینی ہے کہ کسی بھی انتظام کو حیح خطوط پر چلانے کے لئے منتظم کے لئے ضروری ہے کہ وہ پوری طرح چوکس اور باخبر ہو اور اگر کسی حصہ میں کمزوری ، سستی یا کسی اور خرابی کے آثار نظر آئیں تو فوری طور پر ہر طرح کی حکمت عملی کو کام میں لاتے ہوئے جس میں نرمی اور سختی اپنے محل اور موقع پر استعمال ہو اس کی اصلاح کرے.وہ منتظم اور سربراہ جو اپنی ذمہ داری کو اس طرح پورا نہ کرے وہ اپنے مقاصد میں بُری طرح ناکام ہونے کے علاوہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ ٹھہرے گا.حضور کی زندگی میں مخالفت کی لہریں سمندر کے مدوجزر کی طرح برابر اُٹھتی رہیں مگر ہر مخالفت اور مشکل کے وقت وہ اندرونی فتنہ ہو یا بیرونی مخالفت آپ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ایک مستعد اور چوکس گلہ بان کی طرح جماعت کی بھر پور کامیاب رہنمائی فرمائی.آپ کی مخالفت میں جو طریق اختیار کیا گیا اس میں یہ امر بھی شامل تھا کہ موجودہ زمانہ کے فن پرو پیگنڈہ کے مطابق خود ساختہ غلط بات کو مبالغہ آرائی کے ساتھ بکثرت و بتکرار اس شدومد کے ساتھ پیش کیا جاوے کہ عوام کے ذہن میں نفرت و بیزاری کے جذبات پیدا ہو جائیں.اسی فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کے متعلق یہ مشہور کیا گیا کہ آپ ایک مذہبی آمر“ ہیں.حالانکہ ظاہری تعداد و وسائل کے لحاظ سے ایک بہت ہی چھوٹی سی مذہبی جماعت جو ہر وقت رضائے الہی کے حصول کی جد وجہد میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بہتر سے بہتر ادا ئیگی کے لئے کوشاں ہو کے سر براہ پر ایسا الزام کسی طرح بھی قرین انصاف و قیاس نہیں ہوسکتا.اس الزام کو پر کھنے کے لئے قرآنی اصول کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سراسر بے بنیاد بات ہے کیونکہ قرآن مجید تو مذہبی آمر کے لئے ناکامی و نامرادی کی خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ وہ
404 مذہبی رہنما جو بد خلق اور سخت دل ہوا سے بنی نوع انسان میں قبولیت حاصل نہیں ہو سکتی اور لوگ اسے بے یارومددگار چھوڑ دیتے ہیں.اس معیار کو ذہن میں رکھتے ہوئے جماعت میں قربانی ، فدائیت اور جاں نثاری کا بے مثال جذبہ اور اس کے بے شمار شاندار عملی مظاہرے اس الزام کی تغلیط و تردید کرتے ہیں.افراد جماعت نے ہر مشکل وقت میں آگے بڑھ کر ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے ہر قسم کی قربانی پیش کی اور ایک دو دن کی جذباتی قربانی نہیں بلکہ مسلسل قربانی پیش کرتی چلی گئی اور پھر یہی نہیں کہ جماعت کا کوئی ایک خاص طبقہ ہی قربانی میں پیش پیش رہا بلکہ مرد و عورت، بچے بوڑھے ، نوجوان ، امیر، غریب سب ہی بڑے استقلال سے، بڑے عزم سے ، بڑی بشاشت وخوش دلی سے قربانی کی محیر العقول شاندار مثالیں پیش کرتے رہے جو نہایت روشن و مضبوط دلیل ہے اس امر کی کہ ان کے دلوں کو حسن واحسان کے جلووں نے اپنے قابو میں کیا ہوا تھا.خلق خدا میں قبولیت واحترام کی ایسی عمدہ مثال جو جماعت میں پائی جاتی ہے قرآنی اصول کے مطابق کسی مذہبی آمر کو ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی.حضور نے قومی وملی مفاد کے ہر کام میں آگے بڑھ کر پورا پورا حصہ لیا مگر کبھی بھی نام و نمود کے حصول کی کوشش یا خواہش نہیں کی.آل مسلم پارٹیز کانفرنس میں آپ ہمیشہ ایک ممبر کے طور پر شامل ہوتے رہے اس کی سربراہی آپ کے یا کسی احمدی کے ہاتھ میں نہ تھی لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس کی ہر کامیابی میں آپ کا نمایاں حصہ تھا اور آپ نے دامے درمے سخنے کسی بھی اور لیڈر سے زیادہ مدد کی.مسلم لیگ کو قومی مفاد کے حصول کا ایک مؤثر ذریعہ سمجھتے ہوئے آپ نے اس کی ہر طرح مدد تو ضرور کی مگر ایک عام رکن سے زیادہ کسی عہدہ یا مفاد کی کبھی خواہش نہ کی.اس جگہ یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہو گا کہ مسلم لیگ کا وہ اجلاس جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئندہ اجلاس کی صدارت علامہ اقبال کریں گے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی صدارت میں ہوا تھا جو اس مجلس میں حضور کے ذاتی نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے.یادر ہے کہ اس اجلاس میں علامہ موصوف نے وہ خطبہ صدارت پڑھا تھا جسے بعد میں آنے والوں نے تصویر پاکستان قرار دیا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام کے موقع پر جب اکابرینِ قوم نے باصرار آپ سے اس کی قیادت صدارت قبول کرنے کو کہا تو با وجود اپنی حد سے بڑھی ہوئی مصروفیات ، اپنی غیر معمولی ذمہ داریوں اور رُجحان طبع کے خلاف ہونے کے اس امر کو قبول کیا.صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی
405 حیثیت سے آپ نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ آپ نے کانگریسی مسلمانوں اور مجلس احرار کے ذمہ دار افراد سے جو جماعت کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہے تھے رابطہ قائم فرمایا اور کوشش کی کہ اس اہم قومی کام میں ہر مکتب فکر کے افراد شانہ بشانہ شامل ہوں.اس امر کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: جس وقت آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا پہلا اجلاس شملہ میں منعقد ہوا تو جو ممبر اُس وقت موجود تھے اور جس میں ڈاکٹر سر محمد اقبال اور خواجہ حسن نظامی صاحب اور خاں بہا در رحیم بخش خاں صاحب بھی تھے اس وقت تجویز کی گئی کہ اس کمیٹی کو آل انڈیا حیثیت دینی چاہئے اور صدر کو اختیار دیا جائے کہ وہ اور ممبروں کو کمیٹی میں شامل کریں.اس اختیار سے کام لے کر پہلا کام جو میں نے کیا یہ تھا کہ مظہر علی صاحب اظہر اور چوہدری افضل حق صاحب ( دونوں مشہور احراری لیڈر.ناقل ) کو خطوط لکھوائے کہ مجھے امید ہے آپ اس میں شامل ہو کر ہمارا ہاتھ بٹائیں گے اور نہ صرف خطوط لکھوائے بلکہ ان کے ایک دوست مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی سے کہ جن کے بھائی ان لوگوں کے صدر ہیں اور جو خود کانگریسی خیالات کے ہیں وعدہ لیا کہ وہ ان لوگوں سے مل کر انہیں مجبور کریں کہ اس میں شامل ہو جائیں.میرا منشاء یہ تھا کہ اس کمیٹی میں کانگریس کے مؤید مسلمانوں کی بھی نمائندگی ہو اور سب جماعتیں مل کر کام کریں.لاہور سے مجھے اطلاع ملی کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صد را حمد یہ جماعت کا امام ہے اس لئے ہم اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار نہیں.قطع نظر اس سے کہ یہ جواب درست تھا یا نہیں مجھے جب یہ بات پہنچی تو میں نے فیصلہ کیا کہ ہمارا مقصد کشمیر کے لوگوں کی حالت کو درست کرنا ہے اور ان جھگڑوں میں پڑنا نہیں اس لئے میں نے تین خط لکھے ایک ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کو دوسرا مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کو اور تیسرا مولوی غلام رسول صاحب مہر کو کہ اگر احرار کی مجلس کا یہی اعتراض ہے کہ میں صدر ہوں تو آپ ان کو تیار کریں کہ وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبر ہو جائیں اور مسلمانوں کی کثرت رائے کے ساتھ چلنے کا اقرار کریں اگر وہ اس امر کے ////////
406 لئے تیار ہوں تو میں فوراً مستعفی ہو جاؤں گا بلکہ بعض صاحبان کو تو میں نے یہ بھی لکھا کہ اس صورت میں وہ میرے اس خط کو ہی استعفی سمجھ لیں،، (انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۲۱٬۱۲۰) اس بیان کا ایک ایک لفظ قومی ہمدردی ، اتحاد و یکجہتی کا مظہر اور آمریت کے الزام کا مکمل ومسکت جواب ہے.جہاں تک جماعت کے اندرونی نظام کا تعلق ہے تو اپنوں اور غیروں کو اس امر کا اعتراف ہے کہ جماعت میں نہایت مضبوط و مؤثر اور مستحکم تنظیم پائی جاتی ہے.ذیلی تنظیموں لجنہ اماء الله ، انصار الله، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، ناصرات الاحمدیہ کے عہدیدار با قاعدہ انتخاب سے مقرر ہوتے ہیں.انتخاب کا نظام اپنی جگہ بہت مکمل و جامع ہے.اسکے ساتھ ساتھ جماعت میں شوریٰ کا نہایت عمدہ نظام موجود ہے جس میں نمائندگان منتخب ہو کر آتے ہیں اور بڑے وقار، متانت ، سنجیدگی اور ذمہ داری سے جماعتی امور پر غور و فکر کرتے اور مشورے پیش کرتے ہیں اس وقت دنیا بھر میں یہ واحد نظام یا اکلوتی مثال ہے کہ جہاں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی بھی ہے مگر کوئی حزب مخالف وحزب موافق اور دائیں بائیں بازو کی تفریق و انجمن نہیں.سب منتخب ممبر خدا تعالیٰ کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے مکمل غیر جانبداری سے اپنی رائے پیش کرتے ہیں.احباب جماعت کو خوب معلوم ہے که مجلس شوریٰ کا حسین و مستحکم نظام پورے طور پر حضرت فضل عمر کا قائم کردہ ہے جسے آپ نے اپنی قیادت کے بالکل ابتدائی زمانے میں شروع فرمایا اور قدم بہ قدم ترقی دیتے ہوئے نہایت مفید اور منفر دادارہ کی شکل دیدی.یہ امر بھی آمریت کا الزام لگانے والوں کا ایک عملی اور مسکت جواب ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ابھی ہم میں وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے حضور کو اپنے ہاتھوں سے قادیان کی گلیوں میں مٹی کھودتے اور مرمت وصفائی کے کاموں میں حصہ لیتے اور وقار عمل“ کو قائم کرتے دیکھا.ابھی ایسے لوگ بھی ضرور موجود ہوں گے جنہوں نے مساوات وسادگی کا یہ نظارہ بھی کئی دفعہ دیکھا کہ اگر کسی مجبوری اور جگہ کی کمی کی وجہ سے حضور کے لئے باقی حاضرین سے الگ اور بلند مسند بنائی گئی تو حضور نے منتظمین کو فہمائش کرتے ہوئے اس مخصوص جگہ کو چھوڑ کر عام احمد یوں کے درمیان تشریف فرما ہو کر تقریب میں شرکت کی.حضور کے ہاں ہونے والی دعوتوں یا حضور کے اعزاز میں ہونے والی پارٹیوں میں حضور کا یہ طریق مبارک تھا کہ جب تک سب ساتھیوں کو ایک جیسا کھانا نہ ملتا کھانا شروع نہ فرماتے.سفر کے وقت بھی اس امر کا اہتمام فرماتے کہ سب اصحاب قافلہ
407 بسہولت سوار ہو جائیں تو حضور روانہ ہوں.اگر راستہ میں کوئی گاڑی پیچھے رہ جاتی تو آپ پورے قافلہ کو روک لیتے اور اس وقت تک آگے نہ جاتے جب تک پیچھے آنے والی گاڑی یا خدام ساتھ شامل نہ ہو جاتے بعض ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ حضور کو دورانِ سفر یہ علم نہ ہو سکا کہ کوئی ساتھی پیچھے رہ گیا ہے لیکن منزل پر پہنچ کر جب یہ پتہ چلا کہ قافلہ میں سے کوئی پیچھے رہ گیا ہے تو حضور اُس وقت تک اندرونِ خانہ تشریف نہیں لے گئے جب تک پیچھے رہ جانے والے نہ آ جاتے بلکہ بعض دفعہ تو ایسے بھی ہوا کہ حضور نے سارے قافلہ کو واپسی کا حکم دیا اور پیچھے رہ جانے والے ساتھی کو ہمراہ لے کر واپس تشریف لائے.اسم باستمی محمود نے ایک موقع پر اپنے نقادوں اور مخالفوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ:- اگر اسلام میں خود کشی حرام نہ ہوتی تو میں اسی وقت جماعت کے ایک سو نو جوانوں کو اپنے سامنے یہاں بلا تا اور انہیں اپنے آپ کو قتل کرنے کے لئے کہتا تو آپ دیکھتے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی تعمیل حکم میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا اظہار نہ کرتا.“ بات کو سمجھانے کے لئے یہ حضور کا ایک بہت پیارا انداز تھا اور اس میں ہر گز کوئی مبالغہ نہ تھا کیونکہ جماعت کے نوجوانوں نے عملی طور پر ایسا بلکہ اس سے بھی زیادہ قربانی کا اس وقت مظاہرہ کیا جب انہیں وقف کے لئے بلایا گیا.وقف کی تحریک پر بیوہ ماؤں نے اپنے اکلوتے بیٹے پیش کرنے میں کسی پس و پیش سے کام نہ لیا.ہزاروں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کر کے عملاً دنیا کی آسائشوں سے منہ موڑ کر اپنے جذبات کی مسلسل قربانی پیش کرنے کو اپنی زندگیوں کا شعار بنالیا اور یہ قربانی یقیناً اس قربانی سے کسی طرح کم نہیں کہ کوئی شخص کسی وقتی جذباتی جوش میں اپنی جان قربان کر دے.مذہبی آمر کا الزام لگانے والے اپنے اس الزام سے جماعت کی روح قربانی سے عدم واقفیت کا اقرار کرنے کے علاوہ مذکورہ قرآنی دلیل کی عملا تردید کرتے ہیں.د میں ہمیشہ آپ سے اپنی بیویوں اور بچوں سے زیادہ محبت کرتا رہا ہوں اور اسلام اور احمدیت کی خاطر اپنے ہر قریبی اور ہر عزیز کو قربان کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہا ہوں.میں آپ سے اور آپ کی آنے والی نسلوں سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں کہ آپ بھی ہمیشہ اسی طرح عمل کریں گے“
408 محمد عبداللہ صاحب قلعہ صوبہ سنگھ خلافت ثانیہ کے بالکل ابتدائی ایام کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو جماعت کے ایک ایک فرد سے حضور کی محبت کی ایک حسین مثال ہے :- مارچ ۱۹۱۴ ء میں خاکسار پٹیالہ میں تھا حضرت خلیفہ اول کے انتقال کی خبر پہنچی تو جماعت کا ایک غیر معمولی اجلاس بلایا گیا جس میں طے پایا کہ پٹیالہ کی جماعت کی طرف سے دو آدمی منتخب کر کے دارالامان بھیجے جائیں اور وہ سب جماعت کی طرف سے جو خلیفہ بھی ہو اس کی بیعت کر آئیں چنانچہ خاکسار اور حضرت مولوی محمود الحسن صاحب جو نہایت بوڑھے تھے اور کسی سکول میں مدرس تھے قادیان جانے کے لئے تیار کئے گئے.بعد دو پہر ہم دونوں پٹیالہ سے روانہ ہو کر غالبا عصر کے قریب یا شام کے وقت راجپورہ پہنچے.وہاں سے ہم میل ٹرین پر سوار ہوئے ، تھرڈ کلاس کا ایک ہی ڈبہ تھا اور سواریوں سے اس قدر لبریز تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ، مولوی صاحب مرحوم کو میں نے ایک کونے میں جوں توں کر کے بٹھا دیا اور خود کھڑا رہا، تمام رات میں نے کھڑے ہی گزاری جب جالندھر گاڑی پہنچی تو ایک شخص جو برتھ کے اوپر بستر کر کے سورہا تھا اُس نے مجھے کہا کہ آپ میرے بستر پر آ کر آرام کریں اور میں نیچے آ جاتا ہوں میں غنیمت سمجھ کر اُس بستر میں جا لیٹا اور جب گاڑی جنڈیالہ پہنچی تو میں نیچے اُتر آیا اور وہ شخص اپنے بستر پر چلا گیا بستر پر جانے کے بعد اس نے مجھے کہا کہ میری جیب میں بٹوا نہیں ہے جس میں پانچ روپے کا نوٹ تھا اور لدھیانہ میں میں نے اسے جیب میں رکھا تھا چونکہ ہم نے امرتسر گاڑی چھوڑ دینی تھی اس لئے میں نے اسے کہا کہ اگر تو آپ کو مجھ پر شبہ ہے تو میں اس وقت آپ کے پاس حاضر ہوں آپ بڑی خوشی سے میری تلاشی لے سکتے ہیں مگر اُس نے امرتسر پہنچ کر مجھے پولیس کے حوالہ کر دیا اور خود اپنا سفر جاری رکھا میری یہ حالت دیکھ کر مولوی محمود الحسن صاحب بہت گھبرائے اور وہ قادیان روانہ ہو گئے.عصر کے قریب وہ قادیان پہنچے اور جاتے ہی حضور کی خدمت میں مفصل حالات عرض کئے.حضور نے اُسی وقت شیخ نور احمد صاحب مرحوم کو جو حضور کے مختار عام تھے بلا کر تاکید کی کہ فوراً یکہ کرا کر بٹالہ پہنچیں، اگر ٹرین نہ ملے تو بٹالہ سے بذریعہ //////
409 ٹانگہ فوراً امرتسر پہنچیں ، اور مجھے رہا کرانے کی کوشش کریں.اگر کامیابی نہ ہو ، تو سید عبدالحمید صاحب جو ریلوے پولیس میں ڈی.ایس.پی تھے اور لاہور میں ان کا قیام تھا ان کے پاس پہنچ کر میری رہائی کے بارے میں کوشش کریں.شیخ صاحب مذکور نے رات کے وقت امرتسر پہنچنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی.پھر شیخ صاحب لاہور پہنچے اور سید عبدالحمید صاحب ڈی.ایس.پی کو ساتھ لے کر امرتسر آئے.سید صاحب نے پولیس انچارج کو حکم دیا کہ وہ راولپنڈی سے معلوم کریں کہ اس نام کا کوئی آدمی امرتسر گیا ہے اور یہ کہ وہ کہاں پہنچا ہے.وہاں سے معلوم ہوا کہ اس نے گولڑہ کے لئے گاڑی تبدیل کر لی ہے.گولڑہ ریلوے پولیس کو تار دی گئی کہ مذکورہ شخص جب گاڑی پہنچنے پر ملے تو اُس کو حکم دیا جائے کہ واپس امرتسر پہنچ کر جس کیس کو حوالہ پولیس کر آیا ہے اس کی پیروی کرے مگر اُس نے واپس آ کر پیروی کرنے سے انکار کر دیا اور گولڑہ جنکشن کی ریلوے پولیس کا جواب آنے پر پولیس امرتسر نے مجھے رہا کر دیا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ - خاکسار اور شیخ صاحب مرحوم عصر کے وقت قادیان پہنچے اور حضور نے خاکسار کے سلامت پہنچنے پر شکر گزاری کا سجدہ ، نماز عصر کے بعد ادا کیا.یہ واقعہ بتاتا ہے کہ حضور کو ابتداء سے ہی جماعت کا کس قدر خیال اور ہمدردی تھی.اللہ تعالیٰ کی ہزار ہزار رحمتیں حضور مغفور کی روح پر نازل ہوں آمین ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ میں چھاؤنی نوشہرہ سے کچھ دنوں کی رخصت لے کر قادیان آیا تھا.میری بیوی کے گلے میں خنازیر کی گلٹیاں تھیں جن کا آپریشن کروا کر خارج بھی کروا دی گئیں تھیں مگر پھر نمودار ہو گئیں.حضرت ام طاہر محترمہ مریم کے ساتھ ہمارے پرانے تعلقات تھے میری بیوی جب ان سے ملیں تو انہوں نے کہا کہ حضرت صاحب اس مرض کا علاج کرتے ہیں اور حضور کوئی مرہم استعمال کرنے کے لئے دیں گے.میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا.ارشاد فرمایا کہ میں نے تو اس مرض کا کبھی کوئی مرہم تیار نہیں کیا اور نہ ہی علاج کیا ہے.میں نے عرض کیا کہ حضور کی معمولی سی توجہ سے شفاء ہو جائے گی.حضور کے پاس ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بیٹھے ہوئے تھے.ارشاد
410 فرمایا کہ مجھے یاد دلانا ان کے واسطے دوائی تیار کر کے بذریعہ پارسل نوشہرہ بھیج دی جائے گی.چنانچہ جب ہم واپس نوشہرہ چھاؤنی پہنچے تو کچھ دنوں کے بعد ایک پارسل حضور کی جانب سے موصول ہوا جس میں ایک بند ڈبیا میں سفید رنگ کا پوڈر تھا.حسب ہدایت وہ کچھ دن استعمال کیا گیا جس کے استعمال سے گلٹیاں غائب ہو گئیں اور اب تک اس کا نام ونشان نہیں اور کبھی نہیں اُبھریں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ.یہ تھا حضور عالی کا اپنے ناچیز خادموں کے ساتھ مربیانہ سلوک 66 ایک مخلص خادم سلسلہ کی قدردانی اور حوصلہ افزائی کا بہت ہی پیارا نظارہ مکرم علی محمد صاحب مسلم ساہیوال کی زبانی سنیئے :- حضرت فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی (ہزار ہزار برکتیں اور رحمتیں نازل ہوں انکی قبر پر ) واقعی طور پر حسن واحسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نظیر تھے اپنے مریدین سے حد درجہ محبت اور پیار تھا اور کام کرنے والوں کی قدر کیا کرتے تھے.ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس عاجز کو فرمایا کہ مشرقی بنگال میں ایک دوست کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے استاد کی ضرورت ہے.وہ ڈیڑھ صد روپیہ ماہوار تنخواہ دیا کریں گے اور رہائش اور خوراک کا انتظام بھی ان کے ذمہ ہو گا لہذا آپ وہاں چلے جائیں.خاکسار نے عرض کیا کہ خاکسار حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے مشورہ کے بعد عرض کرے گا.چنانچہ خاکسار نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں یہ معاملہ پیش کیا.جس پر حضور نے محبت بھرے لہجہ میں فرمایا کہ ”آپ کی یہاں بھی ضرورت ہے، یہ ارشاد سن کر خاکسار کا دل خوشی میں بلیوں اچھلنے لگا کہ مجھے جیسا نالائق بھی حضور ( ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی نظر میں مقبول ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ خاکسار نے قادیان دارالامان میں غیر بور ڈرلڑکوں کی نمازوں اور تربیت کا کام اپنے ذمہ لے رکھا تھا اور ہر محلہ میں دو دو مانیٹر نماز کی حاضری کے لئے مقرر کر رکھے تھے جو روزانہ رپورٹ دیا کرتے تھے اور ہر ماہ یوم والدین کا جلسہ منعقد کیا کرتا تھا.بعض دفعہ حضرت مصلح الموعود بھی ان جلسوں کی صدارت فرمایا کرتے تھے اور اس کام سے حضور کو خاص دلچسپی تھی.بناء بر میں حضور نے لمصله
411 مشرقی بنگال جانے کا مشورہ نہ دیا.چنانچہ ۱۹۲۸ء میں جب خاکسار ضلع ساہیوال چلا آیا تو حضور نے خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی مجالس کا سلسلہ جاری کیا اور ہر محلہ میں پریذیڈنٹ سیکرٹریان مقرر فرمائے اور نمازوں کی حاضری کے لئے ہر محلہ میں رجسٹر کھلوائے“ قادیان کے احمدیوں کی عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے حضور کے ارشاد پر ایک عام دعوت ہوئی اخبار الفضل اس مبارک تقریب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: عید الفطر سے ایک روز قبل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ عید کے دن کوئی ایسی تقریب ہونی چاہئے جس کے ماتحت تمام مقامی احمدی مشترک کھانا کھا ئیں اور لنگر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جاری فرمودہ متبرک سلسلہ ہے وہاں سے غرباء اور مساکین کو کھانا دیا جائے اس کے علاوہ جو دوست اپنا خرچ دے کر اس دعوت میں شریک ہونا چاہیں انہیں بھی شامل کر لیا جائے.اس فہرست میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بعد میں جملہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی شامل کرنے کا اعلان فرمایا قریباً ساڑھے چار ہزار احمد یوں کو عید کے دن شام کے وقت پلا ؤ ، آلو گوشت اور روٹی پر مشتمل کھانا کھلایا گیا.جس میں قلیل حصہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے خرچ دیا تھا اور کثیر حصہ غرباء کا تھا.اس انتظام کی وجہ سے یہ عید قادیان میں اپنی قسم کی پہلی عید تھی.آئندہ کے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کا خیال ہے کہ عید الفطر کے موقع پر اس قسم کی دعوت کا انتظام کیا جایا کرے اور بروقت انتظامات شروع کر کے یہ کوشش کی جائے کہ جملہ مقامی احمدی اور مہمان اس میں شامل ہوں“ الفضل ۲۱.جنوری ۱۹۳۴ ء صفحه ۱) جماعت کے اخلاص و محبت اور احباب جماعت کی دلجوئی و دلداری کا ایک بہت پیارا واقعہ بیان کرتے ہوئے اخبار الفضل (۲۲.جنوری ۱۹۲۹ء ) رقمطراز ہے:.وو و حضور مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں تشریف لائے جہاں احمد یہ جماعت لاہور کے احباب کثیر تعداد اور بعض بیرونی احباب بھی حضور سے
412 شرف نیاز حاصل کرنے کے لئے جمع تھے.حضور نے سب کو مصافحہ کرنے کا موقع عطا فر مایا اور پھر فرش مسجد پر بیٹھ گئے.چونکہ مجمع زیادہ تھا اور سب احباب حضور کی زیارت نہ کر سکتے تھے اس لئے یہ خواہش کی گئی کہ حضور کرسی پر رونق افروز ہوں لیکن جب کرسی لائی گئی اور حضور سے اس پر بیٹھنے کے لئے عرض کیا گیا تو حضور نے پسند نہ فرمایا.احباب کے اشتیاق کو دیکھ کر جب پھر کرسی پر بیٹھنے کیلئے عرض کیا گیا تو حضور نے فرمایا میں یہ تو پسند نہیں کرتا کہ سب احباب فرش پر بیٹھے ہوں اور میں کرسی پر بیٹھوں لیکن چونکہ احباب کی خواہش ہے کہ مجھے دیکھ سکیں اس لئے میں کھڑا ہو جاتا ہوں اور باوجود اس کے کہ بیماری کی اور وجہ سے میری صحت کمزور ہے اور میرے لئے تقریر کرنا مشکل ہے مگر احباب کو کچھ سنا بھی دیتا ہوں.چنانچہ حضور نے کھڑے ہو کر آیت لَا يَمَسُّةً إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی نہایت لطیف تفسیر بیان فرمائی الفصل۲۲.جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱) ایسا ہی ایک اور ایمان افروز واقعہ پیش خدمت ہے:.۲۷.جنوری ۱۹۲۸ء چوہدری فتح محمد صاحب ایم اے کے ہاں دعوت ولیمہ تھی جس میں اکثر معززین جماعت اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مدعو تھے جس کمرہ میں نشست کا انتظام تھا وہاں دولکڑی کے تخت بچھے تھے جن پر حضرت اقدس کے لئے نشست گاہ بنائی گئی اور چونکہ وہ کافی لمبے چوڑے تھے اس لئے حضور کے ساتھ اور بھی کئی اصحاب بیٹھ سکتے تھے.باقی کمرہ میں دیگر اصحاب کے بیٹھنے کے لئے فرش کیا گیا.لیکن جب حضور کمرہ میں تشریف لائے اور اس جگہ رونق افروز ہونے کی درخواست کی گئی تو حضور نے یہ دیکھ کر کہ وہ جگہ کمرہ کے دوسرے فرش سے کسی قدر اونچی ہے وہاں بیٹھنا پسند نہ کیا اور فرمایا اور دوست نیچے بیٹھیں تو میں اوپر کس طرح بیٹھ سکتا ہوں اور نچلے فرش پر بیٹھ گئے“ الفضل ۳۱.جنوری ۱۹۲۸ء صفحه ۲) مکرم مرزا رفیق احمد صاحب ( ابن حضرت فضل عمر ) بیان کرتے ہیں کہ :.حضور کے کمرہ میں خاندان کے کسی فرد کی خواہش پر قالین بچھوایا گیا.
413 اتفاق سے ایک دن کوئی دیہاتی خاتون حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوئیں ان کے گرد آلود پاؤں کی وجہ سے قالین پر نشان پڑ گئے.حضور نے محسوس فرمایا کہ آپ کے اس عزیز ( جن کی خواہش پر یہ قالین بچھایا گیا تھا) کے چہرہ پر کچھ نا پسندیدگی کے آثار ہیں.اس خاتون کے جانے کے بعد حضور نے وہ قالین اسی وقت وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکلوا دیا کہ میں اسے اپنے اور اپنی جماعت کے درمیان حائل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا“ محترم مرزا رفیق احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مہر آپا نے فرمایا کہ: - ایک گرم اور حبس والی رات گیارہ بجے دروازہ کھٹکا، ان دنوں بجلی ابھی ربوہ میں نہیں آئی تھی.حضور لالٹین کی روشنی میں صحن میں لیٹے ہوئے کتاب پڑھ رہے تھے.حضور نے مجھے کہا کہ دیکھو کون ہے؟ میں نے دریافت کیا اور آ کر حضور سے کہا ایک عورت ہے وہ کہتی ہے کہ میرے خاوند کو حضور نے دوائی دی تھی اس سے بہت افاقہ ہو گیا تھا ، مگر اب طبیعت پھر خراب ہو گئی ہے ، دوائی لینے آئی ہوں“ آپ نے فرمایا! کمرہ میں جاؤ فلاں الماری کے فلاں خانے سے فلاں دوائی نکال لاؤ گرمی مجھے بہت محسوس ہوتی ہے اور یہ موسم میرے لئے ہمیشہ نا قابل برداشت رہا ہے.اپنی اس کمزوری کی بنا پر میں کہ میٹھی :- یہ کوئی وقت ہے، میں اسے کہتی ہوں کہ صبح آ جائے اندر جا کر تو جبس سے میرا سانس نکل جائے گا“ اس پر حضور نے بڑے جلال سے فرمایا ! تم اُس اعزاز کو جو خدا نے مجھے دیا ہے چھیننا چاہتی ہو! ایک غرض مند میرے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے آتا ہے، یہ خدا کی دی ہوئی عزت ہے کہ مجھے خدمت کا موقع ملتا ہے، اسے میں ضائع کر دوں تو قیامت کے
414 دن خدا کو کیا شکل دکھاؤں گا ، میں خود جاتا ہوں“ میں نے کہا آپ نہ جائیں، گرمی بہت ہے، میں چلی جاتی ہوں“ حضور نہ مانے اور خود اندر گئے اور دوائی لے کر اسے دی اور ساتھ ہی اسے ہدایت کی کہ صبح آ کر اپنے خاوند کی خیریت کی خبر دے“ ایک خادم سلسلہ کی قدردانی اور عزت افزائی کا نظارہ دیکھئے:.( ملت کا فدائی صفحہ ۴۹-۵۰) جناب خاں صاحب فرزند علی صاحب امام مسجد احمد یہ لندن.مبلغ اسلام ۱۰.اپریل کو بارہ بجے کی ٹرین سے قریباً پانچ سال کے بعد تشریف لائے.سٹیشن پر احباب کثیر تعداد میں اپنے مجاہد بھائی کے استقبال کے لئے جمع تھے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی باوجود ناسازی طبع اور بہت نقاہت کے اپنے خادم کی عزت افزائی کیلئے سٹیشن پر تشریف لے گئے.جب خان صاحب مسجد مبارک میں پہنچے تو شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے کسی سے وضوء کے لئے پانی لانے کو کہا مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بنفس نفیس اندر سے جا کر پانی کا لوٹا بھر لائے“ (الفضل صفحہ ۱ ،۱۳.اپریل ۱۹۳۳ء) مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب ( ناظر دیوان ) اپنی نو عمری کے زمانہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- ۲۶.جولائی ۱۹۳۱ء کو حضرت مصلح موعود نے قادیان سے شملہ تک وہ تاریخی سفر کیا جس میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تھا.جبکہ حضور کی شملہ میں قیام گاہ فیئر ویو کوٹھی میں ہندوستان کے تمام مسلم قابلِ ذکر لیڈ ر جمع ہوئے اور سر محمد اقبال صاحب کی تجویز اور تمام کے تمام جمع شدہ لیڈروں کی تائید اور اتفاق سے حضور اس کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے.راقم الحروف کو اس سفر میں حضور کے ہمراہیوں میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی.جس روز ہم شملہ ////
415 پہنچے تو سفر کی تھکان کی وجہ سے مجھے نیند آ گئی.ابھی کھانا نہیں کھایا تھا جب کھانے کا وقت ہوا حضور کھانے کے کمرہ میں تشریف لے گئے.خاکسار وہاں نہ تھا حضور نے سید محمد یسین صاحب (حضور کے باورچی ) کو بھجوایا کہ ظہور احمد نہیں ہے اسے ڈھونڈ کر لاؤ.وہ آئے مجھے جگایا کہ حضور انتظار فرما رہے ہیں جلدی چلو.میں نے جلدی ہاتھ منہ دھویا اور حاضر ہو گیا چھوٹی عمر تھی نا تجربہ کار تھا، ڈرتا ہؤا گیا کہ حضور ناراض ہوں گے.میرے پہنچتے ہی حضور نے مسکراتے ہوئے سید محمد یسین صاحب کو فرمایا ، سب آ گئے ہیں اب کھانا لے آؤ.بعد میں میں نے دیکھا کہ حضور کا یہ طریق تھا کہ سفر میں حضور اپنے تمام ہمراہیوں کے آرام کا چاہے وہ کسی درجہ کے ہوں ہر طرح سے خیال رکھتے.سب کا انتظار کر کے کھانا شروع فرماتے اور اگر کوئی ساتھی باہر کام پر گیا ہوتا تو خادم کو بار بار تاکید فرماتے کہ ان کا کھانا رکھ چھوڑنا تا کہ جب واپس آئیں تو کھاسکیں“ حضرت منشی اروڑا خان صاحب کی عیادت کے لئے حضور ہسپتال تشریف لے گئے اخبار الفضل اس خُلق کریمانہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے :- بهای جمعہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح مع ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب آ.کی کوٹھڑی میں گئے ، نبض دیکھی گئی چمچے کے ذریعہ دودھ دیا گیا ، آنکھیں تھیں بخار زور کا تھا ہوش بجا نہ تھے، سانس اکھڑی ہوئی تھی ، حضرت خلیفہ المسیح جمعہ کے بعد سے عصر کے وقت تک کوئی ڈیڑھ گھنٹہ منشی صاحب کے پاس اسی کوٹھڑی میں بیٹھے رہے.مناسب دوائیں وغیرہ دی گئیں مگر ہوش بجانہ ہوئے“ ( الفضل یکم.نومبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۷ ) ایسے بے شمار واقعات میں سے ایک اور درج ذیل ہے: قادیان ۱۵.جون.آج صبح حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ابو عبید اللہ جناب حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کی عیادت کے لئے نور ہسپتال میں تشریف لے گئے.حافظ صاحب گزشتہ پانچ ماہ سے بعارضہ فالج بیمار ہیں.اور نور ہسپتال میں دو ماہ سے بغرض علاج داخل ہیں لیکن ابھی تک بیماری میں کوئی نمایاں افاقہ نہیں ہوا......قریباً نصف گھنٹہ تک
416 حضور از راه ذرہ نوازی ہسپتال میں تشریف فرما ر ہے اور حافظ صاحب کے حالات بغور سنتے رہے.الفضل ۱۷.جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۲) حضرت حافظ روشن علی صاحب جو جماعت کے بہت ہی مخلص اور فدائی خادم او خلافت ثانیہ میں ابتدائی علماء و مبلغین کے استاد تھے ۲۳.جون ۱۹۲۹ء کو وفات پا گئے.حضور کو ان کی وفات کی اطلاع بذریعہ تار کشمیر میں ملی.حضور نے جوابی تار میں فرمایا : مولوی شیر علی صاحب کا تار حافظ روشن علی صاحب کی وفات کے متعلق پہنچا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں تا کہ اس قابل قدر دوست اور زبر دست حامئی اسلام کی نماز جنازہ خود پڑھا سکوں.حافظ صاحب مولوی عبدالکریم صاحب ثانی تھے اور اس بات کے مستحق تھے کہ ہر ایک احمدی انہیں نہایت ہی عزت وتوقیر کی نظر سے دیکھے انہوں نے اسلام کی بڑی بھاری خدمت سرانجام دی ہے اور جب تک یہ مقدس سلسلہ دنیا میں قائم ہے انشَاءَ اللہ ان کا کام کبھی نہ کھولے گا.ان کی وفات ہمارے سلسلہ اور اسلام کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے.لیکن ہمیشہ ایسے ہی بڑے صدمے ہوتے ہیں جنہیں اگر صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب بن جاتے ہیں.ہم سب فانی ہیں لیکن جس کام کے لئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے جو موت وحیات کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ غیر معلوم اسباب کے ذریعہ اپنے کام کی تائید کرے گا.میں احباب کے ساتھ سرینگر میں نماز جنازہ پڑھوں گا اگر لاش کے متغیر ہو جانے کا خوف نہ ہوتا تو التوائے تدفین کی ہدایت دے کر میں اس آخری فرض کو ادا کرنے کے لئے خود قادیان آتا.اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر جو ہم سے رُخصت ہو گئے ہیں اور ان پر جو زندہ ہیں اپنی رحمتیں نازل فرمائے“ (الفضل ۲۸.جون ۱۹۲۹ء صفحہ۱) مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان جنہیں ایک لمبا عرصہ حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری کی خدمات بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی لکھتے ہیں :-
417 ۱۹۴۵ء میں ڈلہوزی ترجمۃ القرآن انگریزی کے کام کے لئے حضرت مولوی شیر علی صاحب اور مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے گئے ہوئے تھے حضرت مولوی صاحب کا غدہ قدامیہ کی سوزش سے اچانک پیشاب بند ہو گیا.حضور نے خاص توجہ سے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے علاج کرایا اور خود بھی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور باقاعدہ اطلاع منگواتے رہے.بعض خاندانوں سے قدیم تعلقات ہونے کی وجہ سے حضور ان کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے.شدید علالت کے باوجود حضور نے ان کے جذبات کا خیال رکھا.بعض جنازے ( جنازہ گاہ تک چل کر نہ جا سکنے کی وجہ سے ) قصر خلافت میں پڑھائے.ایک جنازہ کی نماز کے وقت تو حضور کھڑے بھی نہیں ہو سکتے تھے اور پہرہ داروں نے حضور کو سہارا دیا ہوا تھا“ مکرم چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب حضور کی ذاتی توجہ اور مہربانی سے انگلستان میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے قابل ہوئے.اس خادم نوازی کا ذکر کرتے ہوئے مکرم چوہدری صا لکھتے ہیں :- میراتعلق حضرت صاحب سے میری شعور کی عمر سے شروع ہوا اور حضور کے وصال تک بفضلہ تعالیٰ قائم رہا.حضور سے جس بے پایاں شفقت کا ظہور خاکسار پر ہوتا رہا اس کا بیان الفاظ میں ممکن ہی نہیں.میری تعلیم کے متعلق خاص واقعہ جو میرے نزدیک قابل ذکر ہے اور جو میری زندگی کو سنوارنے کا موجب ہوا یہ ہے کہ میں ۱۹۲۸ء میں بی.اے پنجاب یونیورسٹی سے پاس کرنے کے بعد انگلستان بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے گیا.چونکہ اس ملک میں میں تو وارد تھا اور مغربی تہذیب وغیرہ سے گلی طور پر نا آشنا تھا وہاں کے طور طریقوں اور اس وقت کے ہائی کمشنر فار انڈیا ان انگلینڈ (جو ایک بنگالی ہندو تھے ) کے نہایت ہی نا واجب سلوک کی وجہ سے دل برداشتہ ہو گیا اور واپس آنے کے لئے تیار ہو گیا.برادرم مکرم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی خدمت میں اپنے اس ارادے کے متعلق ہوائی ڈاک سے اطلاع بھی دیدی اور جہاز میں واپسی کے لئے جگہ بھی مخصوص کروالی.برادرم مکرم موصوف نے صاحب
418 66 بذریعہ تار مجھے اس اقدام سے روکنے کی کوشش بھی کی لیکن مجھ پر اس کا کوئی خاص اثر نہ ہوا.اس پر مکرم مولانا عبدالرحیم صاحب درد کی طرف سے حضرت اقدس کا ارشاد بذریعہ تا رملا کہ واپس مت آ ؤ جب تک بیرسٹری کی تعلیم مکمل نہ کرلو.اس پر اللہ تعالیٰ نے خاکسار کے ذہن سے فوری واپسی کا ارادہ نکال دیا اور خاکسار نے از خود بیرسٹری میں داخلہ لے لیا اور حضور کی دعاؤں اور توجہ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں نے بیرسٹری کا کورس با وجود صرف بی اے ہونے کے دو سال میں اچھے نمبروں پر پاس کر لیا.اور آج تک حضرت اقدس کی اس نوازش کے نتیجے میں جو حضور نے خاکسار کی تکمیل تعلیم کے متعلق ارشاد بھجوا کر مجھے انگلستان میں روکنے کی صورت میں فرمائی دل، حضور کی محبت اور عشق کے گیت گاتا ہے.“ جب خاکسار تکمیل تعلیم کے بعد انگلستان سے واپسی پر حضور کی خدمت میں زیارت کے لئے قادیان حاضر ہوا تو حضور نے از راہِ ذرہ پروری خاکسار کو اپنے ساتھ کھانے کے لئے ارشاد فرمایا.کھانے پر کافی احباب موجود تھے جن میں برادرم مکرم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب بھی تھے.کھانا ختم ہوا تو حضور نے خاکسار کو سب سے آخر شرف مصافحہ بخشا اور فرمایا آپ تھوڑی دیر ٹھہر جائیں.جب باقی احباب سیڑھیاں نیچے اتر گئے تو حضور نے نہایت محبت اور شفقت سے خاکسار کا ہاتھ تھپکتے ہوئے فرمایا آپ سے میرا تعلق خاص رنگ کا ہے.اس ارشاد سے جو روحانی مسرت خاکسار کو حاصل ہوئی آج بھی اُس کا تصوّر کر کے دل اور روح مسرت سے لبریز ہو جاتے ہیں اور بے اختیار حضور کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے مکرم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کو یہ سعادت حاصل تھی کہ وہ ابتدائی عمر سے ہی حضور کے مخلص اور بے تکلف خدام میں شامل رہے اور حضور بھی ان کی خدمات کی قدر کرتے تھے.مکرم شیخ صاحب کے مندرجہ ذیل خط سے حضور کی سیرت کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور احمدی بھائیوں کی باہم بے تکلفی بھی نظر آتی ہے جو اپنی جگہ ایک مزے کی چیز ہے:.ایک دفعہ راولپنڈی شہر کے کسی بازار میں پھر رہا تھا مجھے کسی نے کہا کہ
419 حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی ہر ماہ حضرت صاحب کو بذریعہ تار ۲۰۰ روپے بھجواتے ہیں میں سن کر حیران ہو گیا.میرے دل میں بھی خواہش پیدا ہوئی میں نے بھی بذریعہ تا ر روپے ارسال کئے حضرت صاحب کی طرف سے نوازش نامہ آیا جوا بھی تک میرے پاس محفوظ ہے.حضور نے لکھا میں روپے کے لئے دعا کر رہا تھا کہ تمہارا روپیہ پہنچا اس لئے میں نے تمہارے لئے خاص دعا کی ہے.چونکہ اُن دنوں میں حضرت صاحب کی خدمت میں بار بار لکھا کرتا تھا کہ اولاد نہیں حضور دعا فرمائیں نیک اولا د عطا ہو حضور نے میری التجا کو مدنظر رکھ کر بھی فرمایا تمہارے نکاح ثانی کے لئے دعا اور تجویز.میں کچھ دنوں کے بعد پنڈی سے قادیان آیا چونکہ میں حضور کی خدمت میں نکاح ثانی کے لئے لکھا کرتا تھا در د صاحب مرحوم گول کمرے سے نکلے تو میں نے ان سے بے تکلفانہ کہا کہ حضرت صاحب کو ملنا چاہتا ہوں بولے ملاقات نہیں ہو سکتی.میں نے کہا میں آپ کو روٹی نہیں کھانے دونگا کہنے لگے ہم کھاتے ہی ایک وقت ہیں کیونکہ کام زیادہ ہے.میں نے اُن سے منت سماجت کرنی شروع کی خیر درد صاحب نے جا کر حضور کی خدمت میں میرا بتایا کہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ عرض کرتا ہے حضور نے جواب دیا کہ راولپنڈی خط لکھا ہے وہاں جا کر پڑھ لیں.میں نے عرض کیا حضور کی زبانِ مبارک سے یہ دو الفاظ سننا چاہتا ہوں چنا نچہ مجھے اندر بلا لیا گیا.حضور کرسی پر تشریف فرما تھے.پاس ہی ایک بڑی دری بچھی ہوئی تھی.میں زمین پر بیٹھنے لگا مگر حضور نے از راہ شفقت اپنے پاس بٹھا لیا فرمایا تمہارے نکاح ثانی کے متعلق فکر کر رہا تھا اور میں نے ایک جگہ تجویز بھی کر لیا تھا مگر پھر کسی کی بددعا سے ڈر گیا اور ارادہ ترک کر دیا.اب میں اِنشَاءَ اللہ کسی دوسری جگہ دیکھوں گا.پھر درد صاحب سے فرمانے لگے فلاں رشتہ جو پٹیالہ کا ہے ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب سے پوچھ کر آ ئیں.پوچھ کر آئے حضور ابھی تک اس لڑکی کی شادی کہیں نہیں ہوئی حضور مجھ سے فرمانے لگے کیا وہاں آپ کی شادی کر دیں.میں نے عرض کیا کہ اپنی نیت اور ارادے سے کی ہوئی شادی سے جو پھل پایا ہے اس کا حضور کو علم ہی ہے.اب اپنا دخل دینے کا ارادہ نہیں ہے اپنی
420 رائے اور خواہش نہیں ہے دوسری دفعہ پوچھا میں نے وہی جواب دیا تیسری دفعہ فرمانے لگے سنو ! جب میرا نکاح ہونا تھا مجھے حضرت صاحب نے بلایا اور فرمایا محمود تمہارا نکاح وہاں کر دیں میں نے شرم سے سر جھکا لیا اور خاموشی اختیار کی دوسری دفعہ پھر حضور نے فرمایا میں نے پھر بھی خاموشی اختیار کی تیسری دفعہ فرمایا بولو وہاں کر دیں تمہارا نکاح ہونا ہے اسی طرح مجھ سے بھی پوچھا میں نے عرض کیا اعتراض نہیں مگر خواہش اب بھی حضور ہی کی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ کو اتنا با برکت کیا کہ پانچ لڑکے اور چارلڑکیاں عطا ہوئیں“ مکرم اللہ دتہ صاحب ( نوشہرہ ) حضور کی یتیم پروری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- ۱۹۲۶ء کا واقعہ ہے کہ خاکسار مڈل کلاس میں لالہ موسیٰ میں زیر تعلیم تھا کہ اُس وقت والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور ہماری مالی حالت کافی مخدوش تھی اور ہم تین بھائی اور دو ہمشیرگان تھے.احباب کے مشورے سے خاکسار نے اپنے بھائی اور ہمشیرگان سید نا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیش کئے اور ذاتی حالات گوش گزار کئے.حضور نے از راہ شفقت بچوں کو قادیان بلا لیا اور ہماری ہمشیرہ اور ایک بھائی کو حضرت اُمّم طاہر صاحبہ کے سپرد کیا میرے دوسرے بھائی کو کوٹھی دارالحمد میں مالی کے کام پر لگا دیا.حضور نے ہم سب پر اپنے دستِ شفقت کو ہمیشہ رکھا اور ہم سب بہن بھائیوں کو اس قابل بنایا کہ ہم زندگی میں سرخرو ہو سکیں.چنانچہ یہ حضور کی ذرہ نوازی کہ ہم کو یتیمی کی حالت میں سنبھالا اور اب ہم سب بفضلہ تعالیٰ اپنی اپنی جگہ پر مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں ”ہماری ایک ہمشیرہ کلثوم بیگم کی شادی ڈاکٹر محمد احمد صاحب آف عدن کے ساتھ ہوئی تھی لیکن ایک وقت میں ان کی ازدواجی زندگی کافی تکلیف دہ ہوگئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ڈاکٹر صاحب نے ان کو طلاق دے دی.جب حضور کو اس امر کا علم ہوا تو حضور نے مکرم ڈاکٹر صاحب مرحوم کو اس کے متعلق چھی تحریر فرمائی جس میں بلا وجہ طلاق دینے پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ان کو ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کی تلقین فرمائی.چنانچہ اس پر مکرم ڈاکٹر صاحب ////
421 مرحوم نے حضور کے حکم کی تعمیل کی اور اس طرح حضور کی شفقت اور رہنمائی سے یہ اُجڑا ہوا گھر دوبارہ آباد ہوا“ مکرم عبد الحق صاحب احمد نگر حضور سے متعلق بہت پیاری یادوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : - ۸۰ خدام حضور کے ارشاد کے مطابق لاہور سے سیالکوٹ ہوتے ہوئے معراجکے پہنچے وہاں ایک گورنمنٹ سکول میں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا تھا.ہمارے انچارج محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب تھے اور ہمارے کمانڈر شیر احمد خان صاحب اور صو بیدار عبدالمنان صاحب تھے.ایک دن پتہ چلا کہ حضور سیالکوٹ تشریف لائے ہیں.اُس وقت ہر خادم یہی چاہتا تھا کہ حضور یہاں تشریف لائیں خیر یہ باتیں ہوتی رہیں پھر یہ اطلاع آئی کہ حضور یہاں تشریف لائیں گے یہ بات شیر احمد خان صاحب نے بتائی یہ بات سن کر سب خدام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اسی خوشی میں باتیں کرتے کرتے رات گزرگئی جب صبح ہوئی تو مغرب کی طرف سے حضور ایک جیپ میں تشریف لائے سب خدام سٹرک کے کنارے پر کھڑے ہو گئے.حضور کی جیپ ہمارے قریب پہنچی تو آگے بڑھ کر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے مصافحہ کیا اور پھر اسی طرح حضور نے سب خدام کو شرف مصافحہ بخشا.ساتھ مرزا مظفر احمد صاحب بھی تھے جو ایک فوجی ٹرک میں سوار تھے.پھر حضور نے دریافت فرمایا کہ یہاں سے دشمن کتنی دُور ہے اس کے بعد مرزا مبارک احمد صاحب نے اُس کا جواب دیا تو حضور نے فرمایا کہ اچھا مجھے نقشے دکھاؤ حضور کو ایک نقشہ پیش کیا گیا حضور ایک میز پر نقشہ کو بچھا کر قریباً آدھ گھنٹہ دیکھتے رہے.اور ہم بھی قریب ہی کھڑے تھے حضور کے گلے میں ایک رائفل تھی کسی نے محترم کمانڈر شیر احمد خان صاحب سے کہا کہ حضور رائفل لے کر کھڑے کھڑے تھک گئے ہوں گے یہ راکفل آپ پکڑ لیں تو خان صاحب نے فرمایا کہ میں یہ جرأت نہیں کر سکتا.میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں پکڑ لوں میں آگے بڑھا اور حضور کے قریب جا کر السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہہ کر عرض کیا حضور ! یہ بہت وزنی رائفل ہے اس
422 کو میں پکڑ لیتا ہوں میری یہ بات سن کر حضور ہنس پڑے اور فرمایا کہ نہیں نہیں یہ محاذ ہے اور میں تو آپ سے بھی تکڑا سپاہی ہوں.یہ جواب سن کر میں اسی جگہ آ گیا جہاں پہلے تھا اور حضور پھر نقشہ دیکھنے اور باتیں کرنے میں مصروف ہو گئے حضور دیر تک ہمارے افسران کو قیمتی نصیحتیں فرماتے رہے اور پھر حضور نے فرمایا کہ خدام نے کھانا کھا لیا ہے؟ محترم مرزا مبارک احمد صاحب نے فرمایا کہ حضور ! نہیں.حضور نے فرمایا کہ انتظام کرو ہم خدام کے ساتھ اکٹھے کھانا کھائیں گے چنانچہ حضور کے اس ارشاد کے مطابق سکول کے گراؤنڈ میں دریاں وغیرہ بچھا دی گئیں اور کھانا لایا گیا حضور مع خدام ایک گول دائرہ میں بیٹھ گئے.حضور بڑی محبت سے پوچھتے کہ بھوک تو زیادہ نہیں لگی ہوئی ؟ حضور اتنی محبت اور شفقت سے پوچھتے کہ میں حیران رہ گیا اور میں نے ساری زندگی میں کوئی باپ اپنے بچوں سے اتنی محبت اور شفقت سے پیش آتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا.کھانا شروع کر دیا اور قریب کے خدام کو حضور اپنے ہاتھ سے کھانا پیش کرتے رہے.سُبحَانَ اللهِ یہ کیا نظارہ تھا جو میں نے دیکھا اور جب سب خدام کھانا شروع کر چکے تو پھر حضور نے شروع کیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ صحابہ کرام بہت تھوڑے کھانے پر گزارہ کر لیا کرتے تھے ہمیں اللہ تعالیٰ نے بہت نعمتیں عطا فرمائی ہیں پھر حضور نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اسلئے یہاں نہیں بھیجا کہ تم سپاہی ہو بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ ولی اللہ بن جاؤ پھر حضور نے کھانے سے فارغ ہو کر دعا فرمائی اور پھر نمازیں پڑھائیں اور سب خدام کو شرف مصافحہ بخشا اور مع قافلہ واپس سیالکوٹ تشریف لے گئے“ مولوی علی احمد صاحب حقانی راولپنڈی سے حضور کی ملاقات کی غرض سے قادیان آئے اپنی اس حسین یا د کو بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :- اُن دنوں حضرت صاحب مسجد مبارک میں کھڑ کی کے راستے سے تشریف لایا کرتے تھے نماز پڑھا کر تشریف لے جاتے اور کسی کو بات کرنے کی اجازت نہ تھی جب میں نے یہ حالت دیکھی تو ایک رقعہ پر یہ شعر لکھ کر گزرتے گزرتے پکڑا دیا
423 آجائیں“ دیدار می نمائی پرهیز می کنی و بازار خویش و آتش ما نیز می کنی حضرت صاحب نے دیکھ کر فرمایا آپ کو کس نے روکا ہے اندر مرید کی طرف سے ادب واحترام اور مرشد کی طرف سے خادم نوازی کی یہ کیسی عمدہ مثال ہے.حضور کے اس ایک فقرے سے محترم حقانی صاحب نے ساری عمر مسرت و شادمانی اور سکون واطمینان کی بے بدل دولت حاصل کی ہوگی !!! مکرم صوفی علی محمد صاحب حضور سے اپنی پہلی زندگی بخش ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : - میں احمدی ہو چکا تھا مگر ابھی تک حضور سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی.ستمبر ۱۹۵۸ء کو مجھے مکرمی دمحترمی مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب حضور سے ملانے کے لئے مخلہ لے گئے.اس ملاقات میں حضور نے جس شفقت سے مجھے نوازا وہ پیار اور محبت ابھی تک میرے ذہن پر نقش ہے اس موقع پر میں نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ایک پنجابی نظم پڑھ کر سنائی (جو بعد میں ” وقف جدید اور احباب جماعت کے نام سے حضور ہی کے حکم سے دفتر وقف جدید کی طرف سے شائع کروا کر مفت تقسیم کی گئی تھی.اپنی نظم کا جب میں نے یہ شعر پڑھا.اک دا نہیں کم سارے ہمتاں دکھا دیئے اک اک بندہ سو سو احمدی بنا دیے تو حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اب یہ فقرہ ٹھیک نہیں.جب میں نے کہا تھا کہ ایک ایک احمدی سو سو احمدی بنائے تو اُس وقت جماعت عہد طفلی میں تھی اب خدا کے فضل سے جماعت شباب کی حالت میں ہے.اب میں احباب جماعت سے سو کی بجائے ہزار کی توقع رکھتا ہوں اس لئے تم اپنے شعر میں سو کی بجائے ہزار لکھو.میں نے عرض کیا کہ حضور ہزار لکھنے سے شعر کا وزن ٹوٹ جاتا ہے ہنس کر فرمایا اچھا تم شعر میں سو پڑھ لیا کرو مگر ساتھ ہی بتا دیا کرو کہ اب میرا ہزار احمدی بنانے کا مطالبہ ہے سو کا مطالبہ تو ہماری ایک رشتہ دار
424 عورت نے ہی پورا کر دکھایا تھا اس لئے اب مردوں سے میرا ہزار کا مطالبہ ہے.اس کے بعد میں نے چند دوسرے اشعار پڑھے جو یہ تھے مصلح موعود دے کلیے ٹھنڈ پا دیئے بلھے شاہ دے وانگ سچ پیر نو منا دیئے ہو کے ضرور رھنی فتح اسلام مصلح موعود وا میں ادنی غلام ہے صوفی علی محمد تے جنڈو وچہ مقام ہے وقف جدید وچ دتا ہویا نام بے اس پر حضور نے فرمایا کہ دیہاتیوں میں پنجابی مادری زبان ہونے کی وجہ سے پسند کی جاتی ہے ان کی نظم اور نظم پڑھنا مجھے بہت پسند ہے اور فرمایا کہ یہ نظم چھپوا کر جلسہ سالانہ میں تقسیم کی جائے چنانچہ یہ نظم چھپوا کر جلسہ پر کافی تقسیم کی گئی اور حضور نے مجھے فرمایا کہ دیہاتی جماعتوں میں جا کر یہ ضرور سنایا کریں حضور کی عنایات کو یاد کرتے ہوئے چوہدری عنایت علی صاحب زرگر گوجرہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ انہیں مجلس مشاورت میں اپنی جماعت کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا.اس موقع پر نمائندگان کو لجنہ ہال میں نہایت پر تکلف دعوت دی گئی.اور یہ کہ ایسا لذیذ واعلیٰ کھانا دیا گیا جو اس سے ماقبل و مابعد خاکسار کو وہ ذائقہ نہیں آیا خوب سیر ہو کر کھانا کھانے کے بعد چوہدری صاح کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ جسمانی خوراک کے بعد اب روحانی سکون کے لئے حضور کی ملاقات بھی میسر آ جائے.لجنہ ہال سے باہر نکلتے ہوئے ایک طرف سبز روشنی میں جماعت کے بعض عہد یداران نظر آئے قریب جا کر دیکھا تو وہاں حضور موجود تھے.انہوں نے اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہوئے جرات کر کے قریب جا کر حضور کا دستِ مبارک تھام کر کئی بو سے لئے اور پھر پاس کھڑے ہو کر حضور کی زیارت سے شاد کام ہوتے رہے.مکرم ڈاکٹر عبدالرحمان احمدی کامٹی حضور کا افرادِ جماعت سے تعلق خاطر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- حضور کو جماعت کے تمام افراد سے انتہائی محبت تھی اور کسی فرد کی تکلیف سے حضور بیقرار ہو جاتے.چنانچہ قسیم ملک کے بعد جب حضور لاہور
425 تشریف لے آئے تو ایک میٹنگ میں شرکت کے لئے خاکسار کامٹی سے لاہور پہنچا.اس موقع پر حضور نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا! کہ لوگ شادیاں کرتے ہیں اور ان کی اولاد بعض اوقات نیک اور فرمانبردار بھی نہیں ہوتی مگر وہ ان کے لئے درد رکھتے ہیں لیکن میری دو لاکھ اولا د جو انتہائی طور پر فرمانبردار اور نیک ہے وہ متاثر ہوئی ہے تو میری کیا حالت ہوگی.یہ امر بیان کرتے ہوئے حضور کی آواز بھرا گئی اور پھر جلد سنبھل گئے.اس سے حضور کے جماعت کے لئے درد کا اندازہ ہو سکتا ہے.ان نازک حالات میں اُجڑے ہوئے افرادِ جماعت کے لئے حضور نے کھانے پینے اور رہائش کے لئے ہر ممکن کوشش فرمائی حضور اپنے خدام اور مریدوں سے ملتے ہوئے بھی اس بات کا اہتمام فرماتے تھے کہ ہر شخص کو کھڑے ہو کر ملیں.اس خوش خلقی کے قیام کیلئے حضور جماعت کے عہدیداروں ناظر صاحبان وغیرہ سے بھی یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ ہر ملنے کیلئے آنے والوں کو کھڑے ہو کر ملیں.مکرم فضل الرحمان صاحب بہل بی اے بی ٹی بھیروی اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : - ۱۹۴۳ء کی بات ہے کہ گرمیوں کے موسم میں یہ عاجز کسی کام سے بھیرہ سے لاہور گیا.جی میں آیا کہ قادیان دارالامان جا کر اپنے آقا کے دیدار سے دل کو ٹھنڈک پہنچاؤں اور کوئی غرض وغایت نہ تھی دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں پہنچ کر ملاقات کے لئے وقت ملنے کی درخواست پیش کر دی نام درج ہو گیا دل شوق زیارت سے بیتاب ہو رہا تھا.آخر خوش بختی نے میرا ساتھ دیا باریابی کی اجازت ملنے پر بصد شوق دیدار حبیب کے لئے آگے بڑھا.دل میں اپنے آقا کی عظمت اور اپنی بے بضاعتی اور احساس کمتری کے پیش نظر یہی ارادہ تھا کہ آپ کے پاؤں میں بیٹھنے کی سعادت حاصل کروں گا اور سلام و نیاز عرض کر کے دعا کی درخواست کروں گا لیکن ہوا یہ کہ میرے حاضر ہونے پر حضور پرنور اپنی گرسی سے اُٹھ کر کھڑے ہو گئے.میں نے بصد ادب سلام مسنون عرض کیا اور مصافحہ کا شرف حاصل کیا دل یہ چاہتا تھا کہ حضور اپنی گری مبارک پر تشریف فرما ہوں تو میں آپ کے پاؤں میں بیٹھ جاؤں اور دل کی پیاس بجھاؤں مگر حضور نے
426 پاس پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا ارشاد فرمایا.اُس وقت میری عجیب کیفیت تھی پھر خیال آیا کہ تعمیل ارشاد بھی ضروری ہے.حضور تو اخلاق فاضلہ کے پیش نظر مہمان کو بٹھا کر ہی خود تشریف فرما ہوں گے.اس خیال کے آتے ہی بندہ ہیچمدان فوراً کرسی پر بیٹھ گیا تا کہ حضور کو مزید کھڑا رہنے کی تکلیف نہ ہو.چنانچہ حضور پر نور بھی کرسی پر تشریف فرما ہو گئے.میں نے اپنی ایک خواہش کے پورا ہونے کے لئے دعا کی درخواست کی تو حضور نے نہایت ہمدردی سے مجھے تسلی دی اور دعا کا وعدہ کیا اور محبت سے بعض اور باتیں دریافت فرمائیں.میں بچپن سے یتیم اور بے نوا تھا مگر اس وقت مجھے ایسی تسلی ہوئی کہ یقین ہو گیا کہ ہمارا سر پرست زندہ ہے ہمیں کیا فکر ہے کچھ عرصہ کے بعد واقعی میرے حالات کافی بدل گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کی بہت بارش ہوئی.اور دم بدم ہو رہی ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ یہ یقینا حضور کی چشم کرم کا نتیجہ ہے.اللہ کریم حضور کو اپنے قُرب کے خاص مقام میں جگہ عطا فرما کر ترقی پر ترقی دے آمین اور ہمیں حضور کی خواہشات کو جو خدمت اسلام کے متعلق ہیں پورا کرنے کی توفیق بخشے.امِینَ مکرم چوہدری ظفر اسلام صاحب کو حضور کی نگرانی میں مختلف جماعتی کام کرنے کی سعادت حاصل تھی وہ حضور کے حسن و احسان کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.جماعت احمد یہ بار ہا مہیب خطرات کے نرغہ میں اپنوں اور دشمنوں کے نزدیک گھری ہوئی نظر آتی تھی دشمن خوش ہو رہا تھا کہ اب اس کمز ور و حقیر قوم کی کشتی تیز و تند باد مخالف میں مخالفت کے پہاڑ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گی.مگر تھوڑے وقفہ بعد دشمن دنگ اور ششدر رہ گیا اور دانت پینے لگا یہ دیکھ کر کہ اس کشتی کا ناخدا خدا داد قوت عزم وقد بر اور خدا کی طرف سے عظیم الشان تا ئید ونصرت کے ساتھ اس شکستہ ناؤ کو صحیح سلامت لے کر ساحلِ مراد پر لے پہنچا ہے دنیا ہر دفعہ محو حیرت ہوتی.جماعت نے سینکڑوں بار اس ناخدائے ملت اس مرد کامل کے آہنی عزم اس کے بے مثل تدبر و تفکر اور تعلق باللہ کے مشاہدے کئے.
427 ۱۹۴۷ء کے خونیں انقلاب کے پُرسوز نظارے ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں قومی شیرازہ بکھر جاتا ہے درہم برہم ہوتا ہوا نظر آتا ہے جماعت پر انتہائی سراسیمگی اور پریشانی کا وقت آتا ہے مگر آج یہ اولوالعزم یہ کوہ وقار امام پھر اپنے گرد اپنے جلو میں ان پریشان فلاکت زدہ انسانوں کو، ہاں اپنے پروانوں کو مجتمع کرنے لگتا ہے.وہ باوجود ہماری غفلت کیشیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ہمارے کئی دفعہ غلط اقدام کے کس حوصلہ، کس عزم اپنی اور کس حسن تدبر وتد بیر کے ساتھ اور کس رافت و شفقت بھری روح کے ساتھ ہمیں اپنے پروں کے نیچے سمیٹ رہا ہے.وہ پھر ہمیں برکت دینا چاہتا ہے وہ پھر اپنے وجد انگیز اور روح پرور کلام سے ہماری روحوں کو پاکیزگی اور بلندی بخشنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے ان کے قرب میں پھر ہمیں روح کی غذا اور ایک تسکین مسرت انگیز تسکین ملنا شروع ہوتی ہے.وہ پھر ایک ایسی فضا پیدا کرنے کی کوشش میں ہے کہ اگر ہمیں نیت صالحہ اور عمل صالح اور اس کی کامل اتباع و اطاعت کا جذبہ رکھتے ہوئے اس فضاء میں رہنے اور سانس لینے کی سعادت نصیب ہو تو اس کی عطر بیز ہوائیں ہماری مشام جان کو معطر کر دیں گی.ان قومی احسانات کے علاوہ جماعت کے ہزاروں افراد کی زندگیاں اس کی مرہون منت ہیں، آج ہزاروں خاندان اسی کی دعا اور توجہ اور راہنمائی کے طفیل دُنیوی عزت و راحت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ، وہ اس کی بدولت فرش سے اُٹھ کر گویا عرش پر پہنچے ہوئے ہیں، ہزاروں افراد ذہنی اور اقتصادی پستی سے اُٹھ کر بلندی کی طرف پرواز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہزاروں نا مراد با مراد اور ہزاروں افسردہ اور غمناک شاد کام ہوئے.ہاں اس کی کرشمہ ساز دعاؤں نے ہزاروں کی دنیا بدل کر رکھ دی بلکہ ان کی جھنم کو اس دنیا میں جنت سے بدل دیا اسی وجہ سے اگر ایک طرف بعض بد نصیب اس کی ذاتِ اطہر پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو لاکھوں اس شمع کے پروانے بھی ہیں لاکھوں سرفروش اور جانباز شیدائی بھی ہیں جو عرفان وروحانیت کی چاشنی کے ساتھ اس کے مقام ومرتبہ کی بلندشان و عظمت کو کسی قدر سمجھتے ہوئے اسکی اتباع واطاعت
428 میں سرگرم وسرشار رہتے ہیں“ الفضل ۱۳.اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۶ ) مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر لکھتے ہیں : - ۱۹۳۵ء کے آخیر میں محترم مولوی نذیر احمد علی صاحب نے گولڈ کوسٹ غانا کیلئے ایک مولوی فاضل کی خدمات حاصل کرنے کے لئے الفضل میں اعلان کروایا.میں نے یہ اعلان پڑھ کر اپنے آپ کو بلا شرط وہاں جانے کے لئے پیش کر دیا.جب مولوی نذیر احمد علی صاحب نے حضرت امام جماعت کے سامنے میرا خط پیش کیا تو آپ نے ازارہ شفقت فرمایا.آپ انہیں ہمراہ لے جائیں کیونکہ وہ بلا شرط جانا چاہتے ہیں، یہ ضرور کام کریں گے ، شرطیں کرنے والے کام نہیں کیا کرتے.فروری ۱۹۳۶ء کو خاکسار مولوی نذیر احمد علی صاحب کی معیت میں گولڈ کوسٹ دعوت الی اللہ کے لئے روانہ ہوا.روانگی کے وقت حضرت صاحب نہایت ہی محبت کے ساتھ بغل گیر ہوئے اور دعوت الی اللہ کے متعلق ہدایات دیں.اکتوبر ۱۹۳۷ء کو برادرم مولوی نذیر احمد علی صاحب کی تبدیلی گولڈ کوسٹ (غانا) سے سیرالیون کر دی گئی اور گولڈ کوسٹ کا چارج مجھے دے دیا گیا.حضرت کے احسانوں میں سے ایک احسان خاکسار پر یہ بھی ہے کہ میرے ایک خانگی معاملے میں حضرت صاحب نے مجھے بتلائے بغیر خود ہی ذمہ داری لے کر اس معاملہ کو سلجھا دیا.۱۹۴۶ء کے آخیر میں جب خاکسار گیارہ سال کے بعد گولڈ کوسٹ سے بری راستے سے واپس آ رہا تھا تو تبلیغی مصروفیات، رستہ کی دشواریوں اور بعض مجبوریوں کی وجہ سے میں باقاعدہ خط وکتابت مرکز سے جاری نہ رکھ سکا.تو حضرت امام جماعت الثانی کو میرے متعلق بہت ہی تشویش پیدا ہوئی چنانچہ جب میں تین چار ماہ سفر میں رہنے کے بعد ے.جنوری ۱۹۴۷ء کو قادیان پہنچا تو آپ نے اس تشویش اور فکر کا اظہار فرمایا اور نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ دیر تک آپ میرے ساتھ بغل گیر رہے“ مکرم میاں غلام محمد اختر صاحب لکھتے ہیں کہ :- (الفضل ۱۲.نومبر ۱۹۹۵ء صفحہ ۳) /////////////
429 حضرت امام جماعت الثانی کو اپنے خدام سے بڑی محبت تھی.حضرت صاحب کی محبت کا ایک واقعہ یوں ہے کہ ایک دن آپ سیر کو تشریف لے گئے تھے.خاکسار اور مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب بھی ساتھ تھے.سیر سے واپسی پر آپ موٹر سے اُترے اور اپنی اقامت گاہ کی سیڑھیوں تک پہنچے تو چوہدری اسد اللہ خان صاحب نے ایک خاص دوستانہ انداز میں خاکسار سے چٹکی لی.گویا وہ مجھے کوئی خاص بات یاد دلا رہے ہوں.بات یہ تھی کہ وہ مجھے کئی بار حضرت صاحب سے عطر لینے کے لئے کہہ چکے تھے اور چاہتے تھے کہ میرے ذریعہ وہ حضرت صاحب تک اپنی یہ خواہش پہنچا دیں چنانچہ جونہی چوہدری صاحب نے میرے چٹکی لی تو میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب بھی از راہ شفقت خدام نوازی پر مائل ہیں.چنانچہ میں نے عرض کیا کہ چوہدری اسد اللہ خان صاحب میرے چٹکیاں لے رہے ہیں.آپ فرمانے لگے چٹکیاں تو محبت سے لی جایا کرتی ہیں.چوہدری صاحب بھی آپ سے محبت ہی کا اظہار کر رہے ہوں گے.میں نے عرض کیا میرے ساتھ محبت کے اظہار میں آپ سے عطر کے لئے درخواست ہو رہی ہے.آپ متبسم ہوئے اور فرمایا کہ ذرا ٹھہر جائیں.مجھے سیدہ اُمم ناصر کی خدمت میں کسی کام کے لئے بھجوایا.میں واپس آیا تو مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب کے ہاتھ میں حضرت کی طرف سے عطا کردہ ایک عطر کی شیشی تھی.شیشی دیکھتے ہی میں نے کہا میرا حصہ بھی دے دو.چوہدری صاحب کہنے لگے کہ نہیں یہ تو حضرت صاحب نے مجھے ہی عنایت فرمائی ہے.یہ بات حضرت صاحب نے بھی سن لی تو فرمایا اسی لئے تو میں نے تمہیں دوسری طرف بھجوایا تھا.چنانچہ میں دل گرفتہ سا ہو گیا اور اسی انداز میں ہم واپس آگئے.حضرت صاحب نے میرا چہرہ پڑھ لیا تھا گویا اسے اس محرومی کا بہت احساس ہے.دوسرے ہی دن انجمن کے کاغذات پیش کرنے کے لئے حسب معمول میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ضروری کاغذات دکھائے ہدایات لیں اور جب واپس آنے لگا تو آپ نے فرمایا.ذرا ٹھہر و.چنانچہ میں رک گیا.
430 حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے اور چند ہی لمحوں کے بعد واپس تشریف لے آئے.حضرت صاحب کے ہاتھ میں ایک نفیس اور خوبصورت چھڑی تھی کہ عرصہ سے آپ کے استعمال میں تھی.آپ نے وہ چھڑی میز پر رکھی اور فرمانے لگے لو! یہ چھڑی تمہارے لئے ہے.عطر سے محرومی کا احساس تو مجھے تھا لیکن حضرت صاحب نے اس طور پر مجھے چھڑی کا تحفہ دے کر نوازا کہ میں مسرور بھی تھا اور ایک روز قبل کے جذبات پر نادم سا بھی.وہ چھڑی اب بھی میرے پاس بطور تبرک محفوظ ہے اور محرومیوں کے کئی احساسات کو سکون واطمینان کی لہروں میں چھپا لیتی ہے (الفضل ۱۲.نومبر ۱۹۹۵ء صفحه ۳) مکرم مخدوم محمد ایوب خان صاحب بی.اے ( علیگ) آف میانی گھوگھیاٹ ضلع سرگودھا لکھتے ہیں.بیت مبارک ربوہ میں ایک روز ظہر حضرت صاحب کے پیچھے ادا کی.اس کے بعد حضرت صاحب جب تشریف لے جانے لگے.تو میں نے اپنے لڑکے عزیزم مخدوم محمد اجمل کی صحت کے واسطے دعا کے لئے درخواست کی.حضرت صاحب از راہِ شفقت ٹھہر گئے اور فرمانے لگے.” صرف دعا کے لئے ہی نہ کہا کریں ان کو دوائی مرکب افسنتین استعمال کرائیں.“ اور مخاطب فرما کر فرمانے لگے.آپ کے والد صاحب کو اور آپ کی اولاد کو جانتا ہوں.“ (یعنی سب کی طبیعت سے واقف ہوں) یہ پیارے کلمات سن کر میں تو خوشی سے بھر گیا کہ حضرت صاحب کی ہم معمولی آدمیوں پر ایسی نظر شفقت واحسان ہے.“ ہم پر ہے ہے الفضل ۱۶.نومبر ۱۹۹۵ ء صفحه ۴) مکرم لطیف احمد خاں صاحب (ننھا) حضور کے پیار و محبت کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- ایک دفعہ حضرت صاحب قادیان سے ڈلہوزی بذریعہ موٹر تشریف لے جا رہے تھے.جب ہر چو وال پہنچے تو سخت بارش ہو گئی.ہم نے عرض کیا بارش بہت ہے ہم سٹھیالی تک ساتھ جائیں گے آپ نے فرمایا بہت اچھا.جب سٹھیالی
431 پہنچے تو بارش اتنی تھی کہ نہر کی پڑی پر موٹر چلنی مشکل ہو گئی.ہم بھی نیکر میں پہنے ساتھ تھے.سڑک خراب موٹر آہستہ آہستہ چلتی جاتی تھی حضرت صاحب والنٹیئرز کو اپنے ہاتھ سے کبھی سیب اور کبھی اور پھل وغیرہ دیتے جاتے تھے.جب گورداسپور پکی سڑک پر پہنچ گئے تو حضرت صاحب نے ۱۵ روپے دیئے اور فرمایا کہ ڈلہوزی فون کر دیا جائے کہ بارش کی وجہ سے ہم تیسری سروس سے آئیں گے دوسری سروس نکل گئی ہے تا کہ ان کو پریشانی نہ ہو اور فرمایا کہ کھانا وغیرہ کھانا اور آرام کر کے واپس قادیان چلے جانا.یہ واقعہ بتاتا ہے کہ حضرت صاحب کو اپنے خدام سے کتنا پیار اور اُنس تھا کہ اپنے بچوں کا سا سلوک فرماتے تھے.ایک دفعہ سفر میں بارشوں کی زیادتی کی وجہ سے سڑکیں ٹوٹ گئیں اور حضرت صاحب کو پالم پور میں مجبوراً لمبا عرصہ قیام کرنا پڑا.اس سفر میں دفتر کا سٹاف زیادہ نہ تھا.خاکسار کو کام کی زیادتی کی وجہ سے بخار ہو گیا اور دو دن سخت تیزی کا بخار رہا.جہاں حضرت صاحب اپنے خدام کا حال دریافت فرماتے وہاں دو دفعہ مغرب کے بعد حضرت صاحب اپنے دست مبارک سے عاجز کے لئے دودھ بھی لائے.کہاں ایک جلیل القدر امام کا مقام اور کہاں اس کا ایک ادنی خادم.الفضل ۱۶.نومبر ۱۹۹۵ء صفحه ۴ ) مکرم شیخ خورشید احمد صاحب نائب مدیر الفضل جماعت سے حضور کے پیار و محبت کا مضمون بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- حضور ہمارے آقا مطاع بھی ہیں لیکن ساتھ ہی روحانی باپ بھی ہیں ایسے باپ جن کو اپنی اولاد کا ہر ہر فر دعزیز ہے.جو ہماری ہر پریشانی اور ہر مشکل کے وقت ہماری رہنمائی اور مددفرماتے ہیں ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے ہر وقت ہمیں آگاہ کرتے ہیں اور ان سے بچنے کی راہیں بتاتے ہیں ہم آنے والے خطرات وحوادث سے غافل ہوتے ہیں لیکن وہ انہیں اپنی بالغ نظری سے بھانپ لیتے ہیں اور پیشتر اس کے کہ ہمیں کوئی نقصان پہنچے ہم اپنے تئیں ایسے حصار عافیت میں پاتے ہیں جو ہمیں تمام خطرات سے محفوظ کر لیتا ہے ہم رات کی تاریکیوں میں غافل سو رہے ہوتے ہیں اور وہ ہمارے لئے ہماری اولاد )
432 کے لئے ہماری دینی و دنیوی ترقیوں کے لئے اور ہماری مشکلات کے لئے بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہو کر دعاؤں میں مصروف ہوتے ہیں“ مضمون شیخ خورشید احمد صاحب الفضل ۱۰ اپریل ۱۹۵۵ء صفحه ۴) ایک ان پڑھ سپاہی نے نہایت سادگی سے حضور کی خدمت میں ڈیڑھ سطر کا خط لکھا حضور کی قدر دانی اور نکتہ رسی ملاحظہ فرمائیں :- میں نے دیکھا ہے.پچھلے دنوں اُم طاہر کی وفات کے متعلق دوستوں کی طرف سے مجھے کئی خطوط ملے ہیں جو اچھے اچھے تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے آئے اور ایسے ایسے لوگوں کی طرف سے آئے جو سلسلہ سے گہرا اخلاص اور تعلق رکھتے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مختلف رنگوں میں ان سب نے اپنے اخلاص اور اپنی محبت کا اظہار کیا ہے اور وہ میرے اس غم میں سچے دل سے شریک ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزاء عطا فرمائے.لیکن میری طبیعت پر سب سے زیادہ اثر کرنے والا خط ایک ان پڑھ سپاہی کا تھا جس میں صرف ایک فقرہ درج تھا اور سطر ڈیڑھ سطر سے زیادہ اس کا مضمون نہیں تھا.مگر اس فقرہ میں ہی اس کی طرف سے اپنی محبت کا اظہار کچھ اس رنگ میں تھا کہ میں سمجھتا ہوں وہ بڑے بڑے لمبے خط جولوگوں نے لکھے اور وہ بڑے بڑے درد بھرے خطوط جو اس موقع پر آئے جہاں تک اس معاملہ کا سوال ہے اس ان پڑھ سپاہی کا ایک چھوٹا سا خط ان تمام خطوں سے بڑھ گیا ہے وہ فقرہ نہایت مختصر تھا الفاظ بہت تھوڑے تھے مگر ان چند الفاظ میں ہی اس کی جذباتی کیفیت اتنی نمایاں تھی کہ جس سے اس کی گہری محبت کا فوراً پتہ چل گیا.اس خط کے الفاظ قریباً یہ تھے کہ حضور اطلاع ملی ہے کہ اُم طاہر فوت ہوگئی ہیں.میرے دل کو اس سے بڑا صدمہ ہے اور آگے صرف اتنا فقرہ تھا کہ حضور اور میں کیا کروں..الفضل ۲۶.دسمبر ۱۹۴۱ء صفحه ۲-۳) مکرم با بو عبدالحمید صاحب آڈیٹر ریلوے لاہور.حضور کی اپنے خدام سے شفقت و دلداری کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : - 66 عزیز عبد الباری جو اس وقت ناظر بیت المال تھا.اس کا لڑکا ////////
433 عبدالمالک بعمر اڑھائی سال ربوہ میں آناً فاناً فوت ہو گیا میں اس وقت لاہور میں تھا.حضرت صاحب کو پتہ لگا کہ عبدالمالک فوت ہو گیا ہے اور عبدالباری چاہتا ہے کہ اس کے والدین لاہور سے جلد آ جائیں اس پر حضرت صاحب نے اپنی موٹر دی اور فرمایا کہ ریل کا وقت تو نہیں رہا میری موٹر لے کر اپنے والدین کو بلا لیں.حضور نے اپنا ڈرائیور بھی دیا جو رات کے گیارہ بجے میرے مکان پر لاہور پہنچا اور ہم سب مع اہل وعیال صبح ہی ربوہ پہنچ گئے.میرے پہنچنے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے نمازہ جنازہ پڑھائی اپنے خدام کے ذاتی معاملات میں دلچسپی لے کر انہیں سلجھانا بھی آپ کے اخلاق عالیہ کا حصہ تھا مکرم با بوعبد الحمید صاحب آڈیٹر ریلوے لا ہو ر لکھتے ہیں :- ایسے واقعات تو بہت ہیں جن میں حضور نے میرے ذاتی معاملات میں بڑی دلچسپی لی مگر میں صرف ایک واقعہ عرض کرتا ہوں.میری دولڑ کیوں کے رشتہ کا حضور نے انتظام فرمایا.ایک خط میں حضور نے اپنی قلم سے تحریر فرمایا.لڑکیوں کے متعلق آپ کا خط ملا.میں نے آج ہی پروفیسر محمد صاحب کو مدراس خط لکھا ہے ( آپ کو تو میں پہلے لکھ چکا ہوں اور جواب بھی آچکا ہے ) امید ہے ہفتہ کے اندر ان کا جواب آ جائے گا.انشَاءَ اللهُ.اللہ تعالیٰ وہ صورت پیدا کرے جو آپ کے لئے بہتر ہو“ وو چنانچہ میری بڑی لڑکی عزیزہ بلقیس بیگم کا نکاح جناب پروفیسر محمد صاحب ایم اے ایل ایل بی سے حضور نے پڑھایا اور بتقریب رخصتا نہ حضور نے حضرت اماں جان حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور سیدہ صاحبزادی ناصرہ بیگم کو شرکت کے لئے لاہور بھجوایا.حضور نے اس پیار و محبت کا مکرم بابو صاحب کے نام اپنے مندرجہ ذیل خط میں ذکر فرمایا : - مکرم با بوعبدالحمید صاحب.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ! عزیزی ناصرالدین کو بائیسکل کی ضرورت ہے آپ ستر پچھتر روپیہ تک ایک بائیسکل ان کو لے دیں اور میرے حساب میں رقم لکھدیں.امید ہے خیریت سے رخصتانہ کی تقریب ہو چکی ہوگی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس
434 تقریب کو مبارک کرے.حضرت اماں جان کے ساتھ عزیز ناصر احمد اور عزیزہ ناصرہ بیگم کو آپ کی خواہش کے مطابق بھجوا دیا گیا ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد میری دوسری لڑکی عزیزہ ثریا بیگم کے رشتہ کا عمدہ انتظام جناب ڈاکٹر محمد عمر صاحب ایم بی بی ایس سے خود ہی فرمایا اور خود ہی نکاح پڑھا.یہ دونوں رشتے خدا کے فضل وکرم سے بہت بابرکت ثابت ہوئے..حضرت صاحب کی یہ بھی ذرہ نوازی تھی کہ حضور متعدد مرتبہ میرے غریب خانہ پر لا ہور تشریف لاتے رہے محترم روشن دین صاحب صراف اوکاڑہ لکھتے ہیں:...66 میں اکثر معاملات میں حضور سے مشورہ لیا کرتا تھا.۱۹۳۰ء میں میں ایک مکان خرید نے لگا.میں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے اس کے متعلق مشورہ کیا.حضور نے فرمایا کہ وہ کسی کو نہیں لینے دیں گے اپنی رقم نہ پھنسا بیٹھنا.اس مشورہ پر میں وہ مکان خرید نے سے رک گیا اور نقصان سے بچ گیا حالانکہ میں اس کا سودا کر چکا تھا اور بیعانہ دینے والا تھا.جلسہ سالانہ اور حضور کی نہایت مؤثر و دلکش تقاریر لازم ملزوم تھیں.یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جلسہ سالانہ کی رونق حضور کی تقاریر کے دم سے تھی.۱۹۴۵ء میں حضور کی علالت طبع کی وجہ سے یہ سمجھا گیا کہ اس دفعہ حضور سے ملاقات اور تقاریر سننے کی سعادت میسر نہ آسکے گی.جماعت نے تو اس محرومی اور کمی کو محسوس کرنا ہی تھا مگر خود حضور بھی احباب جماعت سے نہ مل سکنے کی کمی کو شاید جماعت سے بھی زیادہ محسوس فرمار ہے تھے.اخبار الفضل اس عجیب دوطرفہ محبت کے نظارے کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتا ہے:.حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک عہد خلافت کا یہ ۱۹۴۵ء کا پہلا جلسہ ہے جب کہ حضور مصلحتِ الہی کے ماتحت بوجه شدید علالت نہایت تکلیف کے ساتھ اپنے خادموں کے اجتماع میں رونق افروز ہوتے اور تکلیف کے ناقابلِ برداشت ہو جانے پر واپس تشریف لے جاتے رہے.اگر چہ ۲۵.دسمبر کی شام کو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب
435 نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ چونکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طبیعت زیادہ ناساز ہے اس لئے کل صبح جن جماعتوں کی ملاقاتیں تجویز کی گئی تھیں وہ نہ ہو سکیں گی اور جلسہ کے ایام میں حضور کی طبیعت سخت نا ساز رہی لیکن باوجود اس کے اپنے خادموں کے اشتیاق کے پیش نظر حضور تینوں دن سخت تکلیف اٹھا کر جلسہ گاہ میں تشریف لاتے اور تقریر میں فرماتے رہے“ ۲۶.دسمبر جلسہ کے افتتاح کے لئے جب کہ ہزار ہا خدام کئی گھنٹوں سے حضور کی زیارت کے لئے مجسم انتظار بنے بیٹھے تھے پونے بارہ بجے بذریعہ موٹر تشریف لائے تمام مجمع موٹر کے آنے کی آواز سنتے ہی بے تابی کے ساتھ کھڑا ہو گیا.اور اللہ اکبر“ اور حضرت فضل عمر زندہ باد کے نعرے بلند کئے مگر کیا مجال کہ اتنے بڑے اجتماع اور ایسے پر اشتیاق خدام کے مجمع میں ذرا بھی بے انتظامی پیدا ہوئی ہو حضور موٹر سے آرام کرسی پر بیٹھ کر سٹیج پر رونق افروز ہوئے سٹیج پر سے مزید کرسیاں ہٹا دی گئی تھیں تا کہ مشتاقان زیارت ہر طرف سے حضور کی زیارت کر سکیں اس وقت کا نظارہ نہایت ہی ایمان افزاء تھا ایسی تکلیف کی حالت میں حضور کی خدام نوازی سے ہر طرف رقت کا عالم طاری تھا بہت سی آنکھیں اشکبار ہو رہی تھیں اور ہر فرد کوشش کر رہا تھا کہ حضور کی زیارت سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکے اور اپنے محبوب آقا کے رخ انور کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو پُر نور بنا سکے.حضور نے کرسی پر رونق افروز ہو کر خدام کو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کا تحفہ پیش فرمایا پھر تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت فرما کر افتتاحی تقریر فرمائی جو نہایت رقت انگیز تھی.آخر میں حضور نے اعلان فرمایا کہ: اگر کچھ بھی آرام ہوا تو میں کوشش کرونگا کہ کل اور پرسوں بھی کچھ نہ کچھ بولوں گزشتہ دو دن تو اس قدر تکلیف رہی کہ یہ بھی مشکل نظر آتا تھا کہ سال کے بعد جو دوست جمع ہوئے ہیں انہیں میں دیکھ بھی سکوں گا یا نہیں ایسی حالت میں میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں آپ لوگوں کو ایک دفعہ دیکھ تو آؤں.اس خواہش کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پورا کر دیا ہے.“ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ حضور کو جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے احباب کی کس قدر خاطر منظور تھی اور اس کے مقابلہ میں اپنی زیادہ سے زیادہ تکلیف کو کس طرح نظر انداز فرماتے ۲۷.دسمبر کو حضور ا بھی تقریر فرما رہے تھے کہ تکلیف نا قابل برداشت حد تک بڑھ گئی رہے.
436 اس وقت حضور نے جو الفاظ فرمائے ان سے بھی حضور کی اس شفقت اور نوازش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو حضور اپنے خدام پر فرماتے ہیں فرمایا : - اس وقت تکلیف بڑھ گئی ہے اسلئے تقریر ختم کرتا ہوں اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو میں کل بھی آنے کی کوشش کروں گا اور آج رات کو ایک گھنٹہ کے لئے احباب سے ملاقات کرنے کی بھی کوشش کروں گا لیکن اگر اس وقت تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو احباب بُرا نہ منائیں بیماری کی وجہ سے معذور ہوں“ اللہ اللہ ! یہ ایک ایسا آقا فرما رہا ہے جس کے اشارے پر ہزاروں انسان جانیں تک قربان کر دینے کے لئے تیار ہیں اور جو ایک لمحہ کے پس و پیش کے بغیر اپنا سب کچھ آپ پر شار کر دینا اپنے لئے باعث سعادت دارین سمجھتے ہیں ایسے خدام کو مخاطب کر کے معذرت کا اظہار فرمانا اور وہ بھی ایسی حالت میں جب کہ بیماری کی تکلیف نا قابل برداشت حد تک پہنچنے کا خطرہ ہو اس شفقت.اور نوازش کا کون اندازہ لگا سکتا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے ۲۸.دسمبر کو بھی حضور جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور دو گھنٹہ اپنے خدام کو دنیا میں غلبہ پانے اور دین میں سرخروئی حاصل کرنے کے متعلق نہایت اہم ہدایات ارشاد فرما ئیں.حالانکہ گزشتہ رات علالت کی وجہ سے بہت تکلیف میں گزاری تھی ضعف حد سے بڑھ گیا اور کمزوری بے حد ہو گئی تھی اس قدر تکلیف میں رات بسر کرنے کے بعد حضور نہ صرف جلسہ گاہ میں تشریف لائے نہ صرف مسلسل دو گھنٹے حضور نے نہایت اہم امور پر تقریر فرمائی بلکہ تقریر کے خاتمہ پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس وقت میں اپنی طبیعت میں بجائے تکلیف کے بشاشت پاتا ہوں یہ بشاشت اس لئے تھی کہ حضور نے باوجود شدید علالت کے خدام کا خالی ہاتھ جانا پسند نہ فرمایا بلکہ انتہائی تکلیف اور کوفت برداشت کر کے ان کے دامن ایسے قیمتی موتیوں سے بھر دیئے جو نہ صرف ان کے لئے بلکہ ان کی نسلوں کے لئے کام آتے رہیں گے انشاء الله.الفضل ۳۱.دسمبر ۱۹۴۵ء صفحه ۱) حضور کی اپنے خدام سے شفقت و عنایت کے بعض واقعات بیان کرتے ہوئے مکرم مسعود احمد صاحب خورشید لکھتے ہیں :- حضور پرنور نے ۵.فروری ۱۹۴۲ء کو خاکسار کے نکاح کا اعلان فرمایا اور ۱۱ مئی ۱۹۴۲ء کو جب میری شادی ہوئی تو اس وقت والد صاحب سندھ میں
437 حضور کی زمینوں کی نگہداشت کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے تو حضور بہ نفس نفیس میری شادی میں شامل ہوئے.اللہ ! خدا تعالیٰ کے اس محبوب انسان کو اپنے خدام کا کس قدر خیال تھا.میرے پھوپھا منشی نور محمد صاحب کے مکان پر جہاں شادی کی تقریب کا انتظام تھا عصر کے وقت مع اپنے اہلِ بیت تشریف لائے.مستورات اندر چلی گئیں اور حضور ایک کمرہ میں دری اور سفید چادر کے فرش پر جہاں دیگر دوست بیٹھے ہوئے تھے تشریف فرما ہوئے.اور شربت کا گلاس پیش کیا گیا.حضور نے شربت نوش فرمایا اس کے بعد دعا فرمائی اور پھر اندر صحن میں جہاں مستورات تھیں تشریف فرما ہوئے اور میری اہلیہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کمال شفقت سے بلکہ پدرانہ شفقت سے رخصت فرمایا اور لمبی دعا فرمائی چونکہ میری اہلیہ کے والدین فوت ہو چکے تھے اس لئے حضور نے نکاح بھی خود ولی بن کر پڑھا تھا اور رخصتانہ کے وقت بھی تشریف لا کر ذرہ نوازی کا ثبوت دیا.جس سے ظاہر ہے کہ حضور کو اپنے خدام سے کیا تعلق تھا کیونکہ حضرت والد صاحب ان دنوں میں آپ کی زمینوں پر خدمت کر رہے تھے اور ادھر میری اہلیہ بھی چونکہ یتیم تھیں اس لئے یہ بھی ظاہر ہے کہ قیموں کا بھی حضور بیحد خیال رکھتے تھے.لاہور میں ایک مرتبہ حضور پرنور نمبر ۴ میکلوڈ روڈ پر مکرم عبدالرحیم صاحب درد کی صاحبزادی کے رخصتانہ کے موقع پر تشریف فرما ہوئے چیف جسٹس منیر احمد صاحب بھی اس موقع پر تشریف لائے ہوئے تھے.حضور کے طلب فرمانے پر صرف ایک سادہ پانی کا گلاس پیش کیا گیا جو حضور نے نوش فرمایا.حاضرین جو ایک کمرہ میں جمع تھے ان میں سے ایک دوست نے تلاوت کی اور شاید ایک دوست نے نظم پڑھی اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی اور تشریف لے گئے.میرے نانا جان حضرت چوہدری کریم بخش صاحب نمبر دار رائے پور ریاست نا بھ ( صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) قادیان تشریف لائے ہوئے تھے اور پیشاب کی بندش کی تکلیف تھی.بیماری کی وجہ سے نانا جان تو ہسپتال سے جا کر حضور کی زیارت نہ کر سکتے تھے لیکن ان کی خواہش تھی کہ حضور کی
438 زیارت نصیب ہو جائے.چنانچہ حضور نے نور ہسپتال تشریف لے جا کر ان کی عیادت کی حضور نے ان کے فوت ہونے پر ان کا جنازہ پڑھایا اور بعد میں جب کبھی محترم نانا جان کا ذکر آ جاتا تو حضور آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے.اسی طرح حضور نے اپنی زندگی میں ہزاروں دوستوں کے جنازوں میں شرکت فرمائی جنازے پڑھائے اور جنازوں کو کندھا بھی دیا کرتے تھے اور بعض دوستوں کے جنازہ کے ہمراہ بہشتی مقبرہ تک بھی تشریف لے جاتے اور تدفین کے بعد تک قیام فرماتے اور دعا کرا کر لوٹتے“ میں ۱۹۵۰ء سے لے کر اگست ۱۹۵۶ء تک لاہور میں مقیم رہا اس عرصہ میں جب بھی حضرت اقدس لاہور تشریف لاتے تو وہاں کی جماعت کے کچھ لوگ مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب کی قیادت میں لاہور سے چھپیں تمہیں میل باہر جا کر استقبال کرتے.خاکسار کو بھی کئی دفعہ جانے کی سعادت نصیب ہوئی.جب حضور اس مقام پر پہنچتے تو ہماری جماعت کے افراد کو دیکھ کر حضور قافلہ رکوا دیتے.اور امیر جماعت اور دیگر احباب کو شرف مصافحہ بخشتے اور بعد کو ملاقات قافلہ لاہور کو روانہ ہوتا.اس زمانہ میں حضور رتن باغ “ والی کوٹھی میں آکر قیام فرما ہوتے تھے.چنانچہ وہاں پہنچ کر بھی جتنے احباب استقبال کے لئے جمع ہوتے ان کو شرف مصافحہ بخشتے ، بعض دوستوں سے گفتگو فرماتے ، اس کے بعد اندر تشریف لے جاتے تھے.ہمیشہ سب دوستوں سے نہایت خندہ پیشانی اور محبت سے پیش آتے.ایک موقع پر والد صاحب نے حضور کی خدمت اقدس میں درخواست کی کہ حضور اللہ تعالیٰ نے ہمیں موٹر دی ہے آپ ہماری موٹر میں سفر فرمائیں.حضور نے یہ کمال عنایت اس خواہش کو منظور فرمایا اور ۵۴-۱۰-۳۰ کو حضور پرنور ہماری موٹر کار میں ربوہ سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے.اس موقع پر والد صاحب نے جو خط ۵۴-۱۰-۲۹ کو حضور کی خدمت میں بھجوایا اس خط کی پشت پر حضور کے اپنی قلم مبارک سے یہ الفاظ درج ہیں :- و " کل صبح سات بجے اِنْشَاءَ اللهُ “ //////
439 ) مندرجہ بالا خط میرے پاس محفوظ ہے) اس وقت حضور باوجود ناسازی طبع کے کمال شفقت سے مکرم خواجہ کمال الدین صاحب کی نواسی کی شادی میں شمولیت کے لئے ربوہ سے لاہور تشریف لے گئے تھے.چنانچہ راستہ میں حضور طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے پچھلی سیٹ پر کچھ وقت کے لئے لیٹ بھی گئے تھے.اور آپ کی دو حرم.حضرت سیدہ اُئِم ناصر احمد صاحبہ اور سیدہ مہر آپا صاحبہ جو حضور کے ساتھ تھیں وہ آپ کے پاس بیٹھی تھیں آدھا راستہ موٹر کار چلانے کا خاکسار کو شرف حاصل ہوا اور آدھا راستہ میرے برادر نسبتی عزیزم عبد الحئی صاحب نے موٹر چلائی اور حضور کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہوا اگلی سیٹ پر مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب مرحوم اور حضور کے باڈی گارڈ مکرم چیمہ صاحب تھے.حضور راستہ میں کئی مرتبہ گفتگو فرماتے رہے.کراچی میں حضور کی آمد پر کئی مرتبہ خاکسار کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور میری موٹر میں سوار ہوئے اور میں خود موٹر چلاتا تھا.حضور لمبے سفر سے آنے کے باوجود سٹیشن پر جماعت کے دوستوں سے مصافحہ فرماتے جو کہ لمبی لمبی قطاروں میں استقبال کے لئے کھڑے ہوتے.اس کے بعد حضور سامان وغیرہ اور قافلہ کے ہمراہیان کے انتظامات مکمل ہو جانے کے بعد موٹر میں سوار ہوتے اور جب قیام گاہ پر تشریف لاتے تو کمال محبت اور خندہ پیشانی سے یہاں پر آنے والے دوستوں سے ملاقات فرما کر اندر تشریف لے جاتے.۱۹۵۹ء میں جب حضور کراچی تشریف لائے اور مکرم چوہدری عبد اللہ خان صاحب ( برادر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ) امیر جماعت احمدیہ کراچی کی وفات کا علم ہوا.تو میں نے خود حضور کو چوہدری صاحب موصوف کی وفات سے غمزدہ اور چشم پر آب دیکھا.اللہ اللہ ! حضور کو اپنے خدام اور جماعت کے خدمت گزاروں سے کس قدر محبت تھی.اسی طرح جب حضور ربوہ میں بیمار تھے ان ایام میں جب کبھی خاکسار ملاقات کو جاتا تو بعض اوقات حضور ہمارے نانا جان چوہدری کریم بخش صاحب صحابی نمبر دار رائے پور ریاست نابھہ کا ذکر فرماتے ہوئے چشم پر آب ہو جایا کرتے تھے.
440 نومبر ۱۹۶۲ء میں میری والدہ محترمہ رحیمن صاحبہ (صحابیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کی وفات کے وقت حضور صاحب فراش تھے.حضور نے والدہ صاحبہ کی وفات کی خبر ملنے پر قبلہ والد صاحب کو، مجھے اور میرے بھائی محمود احمد صاحب کو قصرِ خلافت میں طلب فرمایا اور باوجود بیماری، تکلیف اور نقاہت کے شرف ملاقات بخشا اور اظہار تعزیت فرمایا اور فرمایا کہ یہ وہی مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ہیں جن کے سجدوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے سندھ میں ہماری زمینوں کی پیداوار بڑھائی تھی.حضور نے ہمیں دلاسہ دیا اور پیار محبت سے باتیں کرتے رہے اور ہمارے نانا جان کا بھی تذکرہ فرمایا اور حضور کی چشم مبارک پر نم ہوگئیں محترمہ بیگم مسعود احمد خورشید صاحبہ بچوں کے ساتھ شفقت و پیار اور تائی کی خبر گیری کی خوشگوار یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں :- ” میرے والد عبد الغفور صاحب پوسٹ ماسٹر عموماً ایبٹ آباد یا اس کے نزدیکی علاقوں میں ملازمت کرتے تھے.اور سری نگر سے حضرت (اماں جان) کے لئے اور حضرت مصلح موعود کے لئے فروٹ مثلاً سیب، ناشپاتی ، آڑو، خرمانی وغیرہ بھجوانے کا انتظام کیا کرتے تھے.ہمیں والد صاحب نے تعلیم کے لئے قادیان بھجوایا ہوا تھا.اور ان کی خواہش ہوتی تھی ، ہم جب بھی حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہوں تو کچھ نہ کچھ نذرانہ ضرور لے کر جائیں.اس غرض کے لئے والد صاحب فروٹ کی بلٹیاں میرے نام پر بھجواتے اور میں اپنے ماموں محترم منشی نور محمد صاحب کے ہمراہ بلٹیاں چھڑا کر وہ ٹوکرے یا بیٹیاں ہمراہ لے جایا کرتی تھی.جب ہم حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوتے تو حضور فرماتے ٹھہرو ہم اس بیٹی کو کھول کر دیکھیں گے اور پھر مسکراتے ہوئے مجھے فرماتے کہ اگر مال خراب ہوگا تو وہ تمہارا ہو گا.بیٹی کو کھول کر اس میں سے پھل نکال کر رومال سے صاف کر کے تناول فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ اپنے والد صاحب کو لکھ دینا کہ میں نے تمہارے سامنے کھا لیا تھا اور بہت اچھا تھا.اسی طرح ایک مرتبہ
441 والد صاحب کاغذی اخروٹ ، بادام اور شہد وغیرہ ہمراہ لے کر قادیان آئے تا کہ حضور کی خدمت میں پیش کریں اور مجھے اپنے ساتھ لے کر حرم اول محترمہ حضرت اُمم ناصر احمد صاحب کے مکان پر حاضر ہوئے.اور زمینہ کے اوپر جا کر گٹھڑی میرے سر پر رکھ دی کہ اندر جا کر حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کر دو.میری عمر اس وقت آٹھ یا دس برس کی ہوگی کیونکہ گٹھڑی کافی بھاری تھی.لہذا میں بمشکل گھڑی لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی.حضور اس وقت صحن میں ٹہل رہے تھے.مجھے دیکھا اور مسکرا کر فرمایا کہ دیکھوں تم کب تک یہ وزن اٹھا سکتی ہو؟ مجھے نظر آ رہا ہے تمہاری ٹانگیں کانپ رہی ہیں.لیکن تمہارے والد صاحب کی یہ خواہش ہے کہ تم ہی اٹھا کر لے جاؤ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ تم کب تک برداشت کر سکتی ہو.پھر حضور نے اُوپر سے ایک اخروٹ اُٹھا لیا اور ہاتھ سے توڑ کر کھانے لگے.جب ہماری والدہ فوت ہو گئیں تو والد صاحب نے دوسری شادی کر لی اور دعوت ولیمہ میں حضرت اقدس حضرت قمر الانبیاء کے ساتھ تشریف لائے اور دعوت کے اختتام پر ہمارے والد صاحب نے مجھے اور میرے بھائی عبدالحئی کو حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا اس وقت میں دس سال کی تھی اور میرا بھائی آٹھ سال کا تھا.والد صاحب زار و قطار رو ر ہے تھے.اور حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میرے یہ دو بچے میری ساری زندگی کی کمائی ہیں ان سے پہلے میری بہت سی اولا د فوت ہو چکی ہے اور اب ان کی والدہ کی وفات کی وجہ سے مجھے نکاح ثانی کرنا پڑا.اس وقت والد صاحب نے رقت بھری آواز سے کہا کہ حضور ان کے لئے دعا فرماویں که سوتیلی والدہ کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے.حضور نے از راہ شفقت والد صاحب کو دلاسا دیتے ہوئے فرمایا کہ بابو صاحب! آپ فکر نہ کریں.خدا تعالیٰ ان کو ضائع نہیں کرے گا.میں انشاء اللہ تعالیٰ دعا کروں گا.حضور کی دعا کا یہ اثر تھا کہ ہماری یہ سوتیلی والدہ جب تک زندہ رہیں وہ ہم کو سوتیلا نہ سمجھتی تھیں اور نہ کبھی ہمارے خلاف حرف شکایت زبان پر لائیں اور می حض حضور کی دعا کا اثر تھا.
442 ۲۷.جنوری ۱۹۳۸ء کو جب میرے والد بابوعبدالغفور صاحب کا انتقال ہوا.تو میرے ماموں منشی نور محمد صاحب نے حضور کی خدمت میں ان کی فوتیدگی کی اطلاع دے دی.اس کے بعد ہم لوگ تو ابھی اپنے چا عبدالرحیم صاحب درویش قادیان) کے انتظار میں تھے حضرت مصلح موعود خود بہشتی مقبرہ میں تشریف لے گئے اور وہاں سے ہمیں اطلاع دی کہ مجھے ابھی تک جنازے کے آنے کی اطلاع کیوں نہیں دی گئی.میرے ماموں جان اسی وقت جنازہ لے کر بہشتی مقبرہ پہنچے حضور نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر کی تیاری کے دوران بھی حضور و ہیں تشریف فرما ر ہے پھر دعا کروانے کے بعد واپس تشریف لے گئے.تیسرے دن حضور نے قصرِ خلافت سے ایک آدمی کے ذریعہ ہماری خیریت دریافت فرمائی اور کہا کہ ان کی والدہ پہلے وفات پاچکی ہیں ، والد صاحب اب فوت ہو گئے ، لہذا بچے اکیلے کیسے رہ رہے ہیں ان کو یا تو ان کے ماموں پاس رکھیں یا چا اپنے ساتھ لے جائیں.ہم نے ماموں کے گھر جانا پسند کیا.لہذا حضور نے ہمارے ماموں کو بلوا کر ہدایت دی کہ ان کے والد صاحب کا جو روپیہ امانت ذاتی میں ہے اس میں سے ان دونوں بہن بھائیوں کے لئے آپ.۴۰ روپے ماہوار لے سکتے ہیں.گھر کے سامان کی لسٹ بنا کر ایک کمرے میں بند کر دیا جائے اور باقی مکان کرایہ پر دے دیا جائے تا کہ وہ روپیہ بھی ان کے اخراجات میں کام آئے.ہم تین سال تک اپنے ماموں کے پاس رہے.اس کے دوران بھی حضور اکثر پتہ کرواتے رہتے کہ بچے کس حال میں ہیں باقاعدگی سے اسکول جاتے ہیں یا نہیں.جب میرے نکاح کا معاملہ پیش ہوا تو میرے ماموں منشی نور محمد صاحب ولی مقرر ہوئے.کیونکہ میرا بھائی چھوٹا تھا اور خورشید صاحب نے بھی اپنی طرف سے منشی نورمحمد صاحب کو ہی ولی مقرر کیا تھا کیونکہ وہ خورشید صاحب کے پھوپھا تھے اور خورشید صاحب کوئٹہ میں مقیم تھے.جب نکاح کا فارم حضور کی خدمت اقدس میں پیش ہوا تو حضور نے فرمایا کہ منشی صاحب آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایک آدمی دوطرف سے ولی نہیں ہوسکتا اور میں جائز ولی ہوں.قوم کے یتیم بچے قوم کی امانت ہوتے ہیں اور میں
443 بحیثیت خلیفہ اس بات کا حقدار ہوں کہ اپنی ولایت میں نکاح کا اعلان کروں.۵.فروری ۱۹۴۲ء کو بعد نماز عصر حضور نے یہ نکاح پڑھا اور خطبہ نکاح میں یتامیٰ کے حقوق کے متعلق بہت سی نصائح فرمائیں.اس کے بعد ۱۱ مئی ۱۹۴۲ء کو رخصتی عمل میں آئی میرے ماموں صاحب نے تو حضور کو اطلاع نہیں کی تھی مگر حضرت ام ناصر احمد صاحبہ کی بدولت حضور کو علم ہوا کہ آج رخصتی ہے.لہذا حضور اُمّم ناصر احمد صاحبہ، اُمّم طاہر احمد صاحبہ، حضرت پر اماں جان ) اور تین صاحبزادیوں کے ساتھ بغیر اطلاع ہمارے مکان تشریف لے آئے اور فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ نکاح میں نے اپنی ولایت میں کیا ہوا ہے.میرا پہنچنا ضروری تھا.اور حکم دیا کہ لڑکی کو میرے پاس لاؤ.حضور ہمارے گھر کے صحن میں تشریف فرما تھے اور وہیں خورشید صاحب کو بھی بلوا لیا.پھر حضور پر نور نے میرے سر پر اپنا دست مبارک رکھا اور نصائح فرماتے رہے.حضور نے خورشید صاحب کو بھی فرمایا کہ یہ میری بیٹی ہے اس کا خیال رکھنا.اس تمام عرصہ میں حضور کا دست مبارک میرے سر پر ہی تھا.حضور کھڑے تھے میں بھی حضور کی خدمت میں کھڑی تھی.حضرت صاحب کی تشریف آوری کا سن کر محلہ کے لوگ اسقدر جمع ہو گئے تھے جیسے کہ کسی جلسہ کے موقع پر لوگ جمع ہوتے ہیں.حضور نصائح کے ساتھ بعض ہنسانے اور دل بہلانے والی باتیں بھی کرتے رہے.یہ پاکیزہ اور روحانی نظارہ کافی عرصہ تک جاری رہنے کے بعد طویل دُعا پر ختم ہوا.اور دُعا کروانے کے بعد حضور واپس تشریف لے گئے.ملت کے اس فدائی رحمت خدا کرے اور اس کے بعد بھی میں جب قادیان جاتی حضور دریافت فرماتے کہ تمہارے سسرال والے تم سے کیسا سلوک کرتے ہیں.۱۹۵۵ء میں جبکہ ہم لا ہو ر رہتے تھے میں رتن باغ میں حضور کی خدمت میں ملنے کے لئے گئی.حضرت اُمم ناصر احمد صاحبہ حضور کے پاس تھیں وہ میرا تعارف کروانے لگیں تو حضور نے فرمایا تم رہنے دو میں تم سے زیادہ اسے جانتا ہوں.اس کا نام تو میں نے ہی رکھا ہے.اس سے پوچھ کر دیکھ لو اس کا نام ناصرہ ہے اور اس کے باپ نے جب یہ
444 پیدا ہوئی تھی تو مجھ سے نام رکھوایا تھا اور اس بات کے لئے بہت زیادہ اصرار کیا تھا.کہ میں اس کی درازی عمر کے لئے دعا کروں کیونکہ اس سے پہلے ان کی بہت سی اولاد وفات پا چکی تھی اور یہ بتلایا تھا کہ مجھے اس بات کا اس وجہ سے زیادہ ڈر ہے کیونکہ میں نے سورۃ آل عمران پڑھنے کے بعد پیدائش سے پہلے وقف کر دیا تھا اور میرا بھی کچھ وہی حال ہے جو عمران کی اس عورت کا ہوا تھا کیونکہ میں نے بھی نذر مانی تھی اور یہ لڑکی پیدا ہوئی.پھر حضور نے فرمایا کہ اسی لئے میں نے اس کا نام ناصرہ رکھا تھا اسے دیکھتے ہی مجھے اس کے باپ کا یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے.پھر حضور نے فرمایا کہ جس کے ساتھ اس کا بیاہ ہوا ہے.میں اسے بھی خوب جانتا ہوں.مولوی قدرت اللہ صاحب اس کو جب کہ وہ میٹرک کر چکا تھا میرے پاس لائے میں نے اسے منور آبا دا سٹیٹ میں لگایا تھا.اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہوں اس مصلح موعود پر جس نے اپنی بے نظیر خوبیوں کی وجہ سے احمدیت کو چار چاند لگائے اور اسے دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لئے اپنی زندگی کی بازی لگا دی.ے صرف کر ڈالیں خدا کی راہ میں سب طاقتیں جان کی بازی لگا دی قول پر ہارا نہیں حضور اہم جماعتی امور کی سرانجام دہی کے لئے بیرونی جماعتوں میں تشریف لے جاتے تو ہر جگہ ہی ایثار و اخلاص اور قربانی کے شاندار نظارے نظر آتے.دہلی کی جماعت کے اخلاص و محبت کی تعریف کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: ” جماعت دہلی نے جس مہمان نوازی کا نمونہ دکھایا ہے گوا سے مکمل نہ کہا جا سکے.مگر یقیناً وہ دوسری جماعتوں کے لئے نمونہ ہے.ہماری مہمان نوازی چوہدری شاہنواز صاحب نے کی جس میں ان کی اہلیہ صاحبہ کا بہت سا حصہ ہے.فَجَزَاهَا اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.باقی ساتھیوں اور مہمانوں کی مہمان نوازی تین ہفتے متواتر جماعت احمد یہ دہلی نے کی اور بعض لوگ تو رات دن کام پر رہے اور بعض دوست کھانا کھلانے کے لئے اکثر آتے رہے مثلاً با بو عبدالحمید صاحب
445 سیکرٹری تبلیغ دہلی.اسی طرح اور کئی دوست کام میں لگے رہے.امیر صاحب جماعت دہلی ، ڈاکٹر عبداللطیف صاحب، چودہری بشیر احمد صاحب، اسی طرح کئی اور دوست ان دنوں اسی طرح کام پر لگے رہے کہ گویا ان کا کام مہمان نوازی اور ہماری امداد کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں.ڈاکٹر لطیف صاحب اور سید انتظار حسین صاحب کی موٹر میں رات دن ہماری کوٹھی پر رہیں اور چوہدری شاہ نواز صاحب کی کار کے ساتھ ہر وقت سلسلہ کے کام کرتی رہیں اور یہ قربانی ان لوگوں نے متواتر تین ہفتہ تک رات اور دن پیش کی.یقیناً یہی ایمان کا تقاضا تھا اور امام کے آنے پر اس قسم کا اخلاص دکھائے بغیر کوئی جماعت اپنے ایمان کے دعوئی میں سچی نہیں ہو سکتی.یہ کوئی اخلاص نہیں کہ امام آیا ہوا ہے اور لوگ اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں.یہ تو دین سے استغناء کا مظاہرہ ہے اور جو دین سے استغناء کرتا ہے وہ ایماندار کس طرح کہلا سکتا ہے.اکثر احباب جماعت مغرب وعشاء میں متواتر تین ہفتہ شامل ہوتے رہے.میرے نزدیک جماعت کا ہم /۳ حصہ روزانہ نماز میں آتا تھا اور کافی تعداد کوئی پر را کے قریب باوجود دفتروں کا وقت ہونے کے ظہر وعصر میں شامل ہوتی تھی.ان میں سے بعض کو پانچ چھ بلکہ سات میل سے آنا پڑتا تھا، کثرت سے جماعت کے دوست دوسروں کو ملاقات کے لئے لاتے رہے اور مفید سوال و جواب سے اپنے اور دوسروں کے ایمان تازہ کرتے رہے.بہت سوں نے اس غرض سے دعوتیں کیں تا معزز غیر احمد یوں اور ہندوؤں کو ملنے کا موقع ملے.کئی کی دعوتیں ہم قبول کر سکے اور کئی کی قلت وقت کی وجہ سے نہ کر سکے.عورتوں کی خدمات اور اخلاص بھی قابل تعریف تھا.انہوں نے قابلِ رشک نمونہ دکھایا.بہر حال میں ان سب کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور ان کے اخلاص اور تقویٰ کی زیادتی کے لئے اور دینی و دنیوی کامیابی کے لئے دُعا کرتا ہوں.اللَّهُمَّ امِینَ.(الفضل ۱۶.نومبر ۱۹۴۶ء صفحہ۱ ) حضور جس جماعت میں بھی تشریف لے جاتے تھے وہاں کے تمام افراد ایک دوسرے سے بڑھ کر اظہارِ محبت وعقیدت کرتے.جماعت احمدیہ کوئٹہ کو بھی متعدد مرتبہ حضور کی تشریف آوری کی
446 سعادت حاصل ہوئی ایسے ہی ایک موقع کی رپورٹ کرتے ہوئے روز نامہ الفضل نے لکھا: - آخر ایک کوٹھی تو ملی مگر وہ مکانیت کے لحاظ سے چھوٹی تھی.اور پھر چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے بے پردہ تھی ، اندر سے بھی کوٹھی نا گفتہ بہ حالت میں تھی فرش جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا اور بجلی کا انتظام بھی درست نہ تھا اس کوٹھی کا احاطه ۳۷۵×۳۰۰ فٹ تھا وہ بھی سخت گندہ تھا جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر تھے اور اس کی صفائی کرنا کوئی آسان کام نہ تھا لیکن جماعت احمدیہ کوئٹہ کو چونکہ کوئی اور کوٹھی دستیاب نہ ہو سکی اس لئے مقامی جماعت کے مخلصین نے فیصلہ کیا کہ خواہ ہمیں کتنی بڑی محنت کرنی پڑے ہم دن رات کام کر کے اس کوٹھی کو ہر لحاظ سے درست کر کے چھوڑیں گے اور اسے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی رہائش کے قابل بنا کے چھوڑیں گے.چنانچہ نہایت مستعدی سے کام شروع کیا گیا کوٹھی کے اردگرد قریباً چھ فٹ اور سات فٹ اونچی دیوار بنائی گئی اندر قریباً دو فٹ لمبی کچی دیوار پردہ کے لئے بنائی گئی.تمام کوٹھی کی صفائی کی گئی ، پانی اور بجلی کا انتظام درست کیا گیا اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق تین نہایت گشادہ کمرے مع غسلخانوں کے نئے تعمیر کئے گئے.اس تمام کام میں جماعت کے دوستوں نے خود حصہ لیا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے غلاظت کے ڈھیر صاف کئے ، اپنے ہاتھ سے گارا بنایا اور اپنے ہاتھ سے گارے کی ٹوکریاں اٹھا اٹھا کر دیواروں کی لپائی کی گئی.امیر جماعت سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے افراد تک نے اس کام میں نہایت سرگرمی جوش اور اخلاص کے ساتھ حصہ لیا اور مہینوں اپنے ہاتھ سے خاکروبوں ، مزدوروں اور معماروں کا کام کر کے اس کوٹھی کو جو لٹن روڈ پر واقع ہے اس قابل بنایا کہ حضور مع اہلِ بیت اس میں فروگش ہوسکیں.“ الفضل ۲۵.جون ۱۹۴۸ء صفحه ۳) حضرت قاضی امیر حسین صاحب جو علم حدیث کے ماہر، حضرت مسیح موعود کی صحبت سے فیض یافتہ اور ابتدائی علماء میں سے تھے ان کا ایک لطیفہ حضرت مصلح موعود اکثر بیان کیا کرتے تھے کہ حضرت مولانا صاحب کے نزدیک جب کوئی مجلس لگی ہوئی ہو اور باہر سے کوئی بھی آجائے تو اس کے استقبال کے لئے کھڑے ہونا نا مناسب ہے.حضور فرماتے تھے کہ اس کے باوجود میں جب بھی ان کی
447 مجلس میں آتا تو وہ کھڑے ہو جاتے تھے اور پھر پوچھنے پر کہا کرتے تھے کہ کی کراں رہیا نئییں جاندا‘ کیا کروں رہا نہیں جاتا ).حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اپنی عالمانه شان اور سلسلہ کی گراں قدر خدمات کی وجہ سے جماعت میں کئی لحاظ سے منفرد مقام رکھتے تھے.اس کے باوجود ان کی حضور سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ حضور جتنی دیر مجلس میں تشریف فرما رہتے حضرت مولوی صاحب بڑے ادب سے اپنا رومال ہلاتے رہتے تا کہ حضور کو مکھی یا مچھر کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہو.ان کی اس نمایاں خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- میں مولوی صاحب کا شاگر درہا ہوں ، عمر کے لحاظ سے مولوی صاحب مجھ سے بہت بڑے تھے اور میں ان سے بہت چھوٹا تھا لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ میرے استاد تھے ، با وجود اس کے کہ وہ عمر میں مجھ سے بڑے تھے.باوجود اس کے کہ وہ مدرسی تعلیم میں بہت زیادہ دسترس رکھتے تھے، میں نے اکثر دیکھا کہ مولوی صاحب کا غذ پنسل لے کر بیٹھتے تھے اور باقاعدہ میرا لیکچر نوٹ کرتے رہتے تھے.ان میں محنت کی عادت اتنی تھی کہ میں نے جماعت کے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی.( الفضل ۱۳ جون ۱۹۴۷ء صفحه ۴ ) 66 خلیفہ صلاح الدین صاحب حضور کی حرم محترمہ حضرت سیدہ ام ناصر کے بھائی تھے ان کے بیٹے خلیفہ صباح الدین صاحب اپنے والد صاحب کی حضور سے محبت و عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- ” ہمارے ابا مرحوم کو حضور سے گہرا تعلق تھا بلکہ یوں کہئے کہ عشق کی حد تک محبت تھی ، حضور بھی بہت تعلق رکھتے تھے، اکثر یاد فرمایا کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ حضور نے یاد فرمایا اور ابا کو تیز بخار تھا اور طبیعت خاصی کمزور تھی.ہماری والدہ صاحبہ نے کہا کہ گاڑی کے ڈرائیور کو کہہ دیتے ہیں کہ طبیعت اچھی نہیں.ابا نے کہا نہیں میں ضرور جاؤں گا نہ جانے کوئی اہم کام ہو.جب حضور کی طرف سے کوئی ارشاد موصول ہوتا ابا اس لگن میں ہوتے کہ کسی طرح یہ
448 کام خوش اسلوبی سے ہو جائے.ایک مرتبہ میری ایک بہن کی پیدائش کے موقع پر والدہ صاحبہ بیمار پڑگئیں، جان کے لالے پڑ گئے ، ڈاکٹر بھی پریشان ہو گئے اس وقت ہم ماڈل ٹاؤن لاہور رہائش پذیر تھے اور حضور ا بھی رتن باغ لاہور میں قیام فرما تھے.ابا فوراً دعا کی درخواست کے ساتھ حاضر ہوئے ،حضور نے کسی اہم کام کے بارے میں ارشاد فرمایا یہ کام کر و حفیظ ( والدہ صاحبہ ) کی فکر نہ کرو.ابا نے کہا کہ مجھے اسی وقت تسلی ہو گئی اس کام کو سرانجام دے کر شام کو گھر لوٹے تو والدہ محترمہ آرام سے تھیں اور صحت ہو چکی تھی.ہمارے ابا کو میں جانتا ہوں والدہ محترمہ سے بہت لگاؤ تھا اور سخت پریشان تھے لیکن حضور کے اس فقرہ نے که فکر نہ کرو تمام اندیشے دور کر دئیے.یہ حضور کی دعا پر آپ کا اعتماد تھا ورنہ ایسے موقع پر کئی لوگ غذر کر دیتے ہیں.فدائیت و قربانی کا مندرجہ ذیل نمونہ حضور کی کامیاب قیادت کا منہ بولتا ثبوت ہے.جماعت میں ایسے فدائیوں کی کمی نہیں ایک اور مثال ملاحظہ کیجئے.وو ۱۲.اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ایران کے شہر مشہد پہنچے ، یہاں تپ محرقہ میں مبتلاء ہو کر ہسپتال میں داخل ہو گئے ، شفایاب ہونے پر حضور کی خدمت میں لکھا کہ میں بیماری سے اٹھا ہوں ،سخت کمزور ہوں ، سردی بھی سخت پڑنے لگی ہے اور برف باری بھی شروع ہو گئی ہے.پھر میں نہ روسی زبان سے واقف ہوں نہ رستہ کا علم ہے، ویزا بھی نہیں ملا ، خرچ بھی کم ہے مگر ان مایوس کن حالات کے باوجود میں بخارا جانے سے رک نہیں سکتا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ حضور کی دعائیں مجھے نا کام نہ ہونے دیں گی.- دسمبر ۱۹۲۴ء کو بخارا کے لئے روانہ ہوئے، ڈیڑھ دن کے بعد روسی ترکستان میں داخل ہو گئے ، ارتھک سٹیشن سے بخارا کا ٹکٹ لے کر گاڑی میں سوار ہو رہے تھے کہ گرفتار کر لئے گئے اور آپ کو جاسوس سمجھ کر پہلے ارتھک پھر اشک آباد، تاشقند اور ماسکو کے قید خانوں کی تاریک کوٹھڑیوں میں رکھ کر بہت تکالیف پہنچائی گئیں مگر ان مصائب کے باوجود آپ نے قید خانہ میں بھی برابر تبلیغ جاری رکھی اور
449 چالیس کے قریب قیدیوں کو احمدی کر کے روس میں احمدیت کا بیج بو دیا.ڈیڑھ دو سال قید و بند کی مشکلات و ابتلاء سے گزرنے کے بعد ہنزلی ایران کی بندرگاہ پر چھوڑ دیئے گئے جہاں سے آپ طہران ، بغداد، بصرہ، کراچی سے ہوتے ہوئے ۲۵.اکتوبر ۱۹۲۶ء کو قادیان پہنچ گئے محبت و جان نثاری اور عقیدت و قربانی کی اس قابل رشک داستان کی تفصیل مکرم مولانا ظہور حسین صاحب کی خود نوشت سوانح ' مجاہد بخارا میں موجود ہے.) دد شہزادہ عبدالمجید صاحب.افغانستان کے شاہی خاندان سے تھے اور شاہ شجاع کی نسل سے تھے.آپ نہایت ہی نیک نفس اور متوکل آدمی تھے میں نے جب تبلیغ کے لئے اعلان کیا کہ ایسے مجاہدوں کی ضرورت ہے جو تبلیغ دین کے لئے زندگی وقف کریں تو انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا.اس وقت ان کے پاس کچھ روپیہ تھا انہوں نے اپنا مکان فروخت کیا تھا رشتہ داروں اور اپنے متعلقین کا حصہ دے کر خود ان کے حصہ میں جتنا آیا وہ ان کے پاس تھا اس لئے مجھے لکھا کہ میں اپنے خرچ پر جاؤں گا.اس وقت میں ان کو نہ بھیج سکا اور کچھ عرصہ بعد جب ان کو بھیجنے کی تجویز ہوئی اس وقت وہ روپیہ خرچ کر چکے تھے مگر انہوں نے ذرا نہ بتایا کہ ان کے پاس روپیہ نہیں ہے وہ ایک غیر ملک میں جا رہے تھے ، ہندوستان سے باہر کبھی نہ نکلے تھے، اس ملک میں کسی سے واقفیت نہ تھی.مگر انہوں نے اخراجات کے نہ ہونے کا قطعاً اظہار نہ کیا اور وہاں ایک عرصہ تک اسی حالت میں رہے، انہوں نے وہاں سے بھی اپنی حالت نہ بتائی نہ معلوم کس طرح گزارہ کرتے رہے پھر مجھے اتفاقا پتہ لگا...اس وقت مجھے سخت افسوس ہوا کہ چاہئے تھا جب انہیں بھیجا گیا اس وقت پوچھ لیا جاتا کہ آپ کے پاس خرچ ہے یا نہیں پھر میں نے ایک قلیل رقم ان کے گزارہ کے لئے مقرر کر دی.وہاں کے لوگوں پر ان کی روحانیت کا جو اثر تھا اس کا پتہ ان چٹھیوں سے لگتا تھا جو آتی رہی ہیں.ابھی پرسوں اترسوں اطلاع ملی ہے کہ آپ یکم رمضان کو فوت ہو گئے دس دن بیمار رہے ہیں جس طرح قسطنطنیہ کی خوش قسمتی تھی کہ وہاں حضرت ابوایوب انصاری دفن ہوئے...اسی طرح یہ
450 ایران کے لئے مبارک بات ہے کہ وہاں خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کو وفات دی جسے زندگی میں دیکھنے والے ولی اللہ کہتے تھے اور جسے مرنے پر شہادت نصیب الفضل ۲۷/۳ مارچ ۱۹۲۸ء صفحه ۹) ہوئی.“ ٢٠ ایک خادم سلسلہ کی اس رنگ میں قدر دانی مخلصین کے جذبہ اخلاص کے لئے مہمیز کا کام کرتی تھی.اور فی سبیل اللہ اپنے اموال و نفوس پیش کرنے کی تعداد اور اخلاص میں اور اضافہ ہوتا تھا.تاریخ احمدیت میں آپ کے متعلق تحریر ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۱۲.جولائی ۱۹۲۴ء کو شہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی کو ایران میں احمد یہ مرکز قائم کرنے کے لئے روانہ فرمایا آپ کے ہمراہ مولوی ظہور حسین صاحب اور محمد امین خان صاحب بھی تھے جن کو بخارا میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا.حضرت شہزادہ صاحب جو اس تبلیغی وفد کے امیر تھے اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت ۱۶.اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ایران کے مشہور شہر مشہد پہنچے اور پانچ چھ دن کے بعد مشہد سے طہران میں تشریف لے گئے اور وہاں نیا دار التبلیغ قائم کیا.حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب.ضعیف العمر بزرگ اور قدیم صحابہ میں سے تھے اور نہایت اخلاص سے اپنے خرچ پر آئے تھے.مگر اخراجات یہاں آ کر ختم ہو گئے ، پیچھے کوئی جائداد نہیں تھی، مرکز سے مستقل مالی امداد ان کو دی نہیں جاتی تھی اس لئے آخر عمر میں بعض اوقات اپنے زائد کپڑے فروخت کر کے گزارہ کرتے تھے اور جیسا کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے آپ معمولی سی صف اور مختصر سے بستر پر رات بسر کیا کرتے تھے.یہاں تک نوبت آجاتی کہ کپڑے دھونے تک کے لئے خرچ باقی نہ رہتا.بایں ہمہ آپ نے آخر دم تک اپنا عہد نبھایا اور اپنی بے نفس خدمات سے باقاعدہ جماعت قائم کر دی ۲۲ فروری ۱۹۲۸ء کو تہران میں ہی انتقال فرما گئے.“ تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحه ۴۴۰ ۴۴۱) حضرت مولانا شیر علی صاحب فرماتے ہیں :- ///////////////
451 وو بڑے بڑے حضور کے عاشق ہیں جو دن رات دعا میں ہی کرتے رہتے ہیں.اس غیر معمولی محبت اور عشق کی آخر کیا وجہ ہے.اس کی وجہ یہی ہے که خود حضرت اقدس بھی جماعت کے لئے نہایت درد دل سے دعائیں کرتے ہیں.انہی دعاؤں کا عکس جماعت کے احباب کے دلوں پر پڑتا ہے اور وہ بھی حضور کے لئے دعا کرتے ہیں.“ (الفضل ۱۹.جون ۱۹۴۳ء صفحہ۱) مکرم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی اپنی پرانی خوشگوار یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : - میں آپ کا بچپن کا دوست ہوں میں نے اپنی زندگی بھر اس امر کو محسوس کیا ہے کہ خلافت سے پہلے اور خلیفہ ثانی ہونے کے بعد اور آخری عمر تک ، حضور کی خدمت میں خاکسار جب بھی حاضر ہوا میرے اس پرانے تعلق کا لحاظ رکھا اور غائبانہ بھی میری ہمدردی کرتے رہے.مثلاً :- (۱) ۱۹۴۰ء میں میرے ایک لڑکے کی جس کی بارہ سال عمر تھی وفات ہو گئی.آپ نے حضرت سید سرور شاہ صاحب جو میرے اور آپ کے استاد تھے کے ذریعہ مجھے مشورہ بھجوایا کہ مجھے دوسری شادی کر لینی چاہئے.(ii) آپ کو ہومیو پیتھی کا شوق پیدا ہوا تو میں بھی لاہور میں ملازمت کے ساتھ ساتھ ہومیو پیتھی کا مطالعہ کر کے اس کی پریکٹس کرتا تھا.ایک وقت ایسا آیا کہ میرا بال بچہ قادیان میں رہتا تھا اور میں لاہور میں ملازمت کرتا تھا تو میں جب بھی ملتا مجھے بہت سارا وقت از راه شفقت دے دیتے اور ہومیو پیتھی کے تجربات مجھ سے سنتے رہتے.میں ایک دفعہ دو ماہ کی رخصت پر آیا تو میں نے ملاقات کے وقت یہ عرض کیا کہ صبح کی سیر کے لئے اگر کچھ وقت نکالیں تو میں محلہ دار الفضل سے آپ کے ساتھ آ کر شامل ہو جایا کروں.حضور نے فرمایا انشاء اللہ وقت نکالیں گے.بعد میں حضور نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے ذریعہ مجھے کہلا بھیجا کہ حضور کل سے بعد نماز فجر سیر کے لئے تشریف لے جایا کریں گے.میں نے اس شوق سے محلہ دارالفضل سے آکر نماز فجر مسجد مبارک میں پڑھنی شروع کر دی.تو حضور کا عمل یہ دیکھا کہ نماز فجر کے بعد حضور فورا گھر ///// //////////
452 چلے جاتے اور ایک پیالی چائے اور دو بسکٹ کھا کر ذرا استراحت فرماتے اور جب سورج نکل پڑتا بوقت سات بجے آپ میرے اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے ساتھ شامل ہو جاتے اور محلہ دارالانوار کی طرف ہم نکل جاتے اور کوئی گھنٹہ تک سیر کر کے واپس آ جاتے تو واپسی کے وقت حضور قصر خلافت والی گلی کی ڈیوڑھی سے واپس گھر میں جاتے.ایک دن ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب نے بڑے تعجب کا اظہار کیا.کہ حضور سیر سے واپسی کے وقت گھر میں جانے سے پہلے بیت الدعا کے نیچے گلی میں کھڑے رہے اور مجھے فرمایا کہ بات کرتے جاؤ اور میں اس وقت ہو میو پیتھی کے اپنے تجربات بیان کر رہا تھا.(iii) ۱۹۵۲ء میں میری سابقہ بیوی فوت ہوگئی اور ۱۹۵۴ء میں ایک اور خاتون سے میں نے شادی کی جو اس وقت میرے گھر میں موجود ہے ان سے مجھے معلوم ہوا کہ جب انہوں نے حضور سے میرے ساتھ نکاح کرنے کا مشورہ کیا تو حضور نے میری سفارش کی اور ان کے سامنے میری تعریف کی اور حضور نے مشورہ دیا کہ وہ اچھے آدمی ثابت ہونگے اور یہ کہ آپ اس رشتہ کو ضرور قبول کریں، میں خدا کے فضل سے دیانتداری سے یہ لکھوا رہا ہوں کہ میں نے حضور سے اس بارے میں پہلے کچھ بھی عرض نہیں کیا.یہ حضور کی شفقت اور ہمدردی کا نتیجہ تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس بیوی سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی عطا فرمائی جب کہ لڑکا سال ڈیڑھ سال کا تھا تو میری بیوی حضور کی خدمت میں بچے کو لے کر حاضر ہوئی اور حضور سے یہ بات دریافت کی کہ اس لڑکے کا نام حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اسماعیل احمد رکھا ہے بشرطیکہ آپ اس کو منظور فرماویں.تو حضور نے لڑکے کو گود میں لیا اور اس کو پیار کرتے رہے اور دیر تک گود میں اٹھا کر باتیں کرتے رہے اور آپ نے فرمایا کہ ہم بڑی خوشی سے منظور کرتے ہیں اور نیز میری اہلیہ سے فرمایا کہ آپ میری بھاوج ہیں.اس واسطے میں حکیم صاحب کی بچپن کی ساری کہانی آپ کو بتاتا ہوں اس وقت آپ بڑی خوشی کے موڈ میں تھے اور بچپن کی باتیں بتا کر خوش ہو رہے تھے.پرانے تعلقات اور دوستی کو نبھانے کے ساتھ ساتھ جماعتی وقار اور نظام کی بہتری کے لئے ////
453 آپ نے ایک موقع پر مکرم شیخ صاحب کو فہمائش فرمائی جس کے متعلق محترم شیخ صاحب لکھتے ہیں: میرے ایک داماد کے متعلق حضور نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو ہدایت فرمائی کہ مجھے لکھدیا جائے کہ چونکہ تمہارے داماد نے یہ شوخی دکھلائی ہے اور تمہارا اس سے تعلق ہے کیوں نہ اس کے نتیجہ میں تمہارے سارے خاندان کو جماعت سے علیحدہ کر دیا جائے.جب وہ ارشاد حضور کا پہنچا تو میں نے جواب لکھ دیا کہ :.میرا حضور کے ساتھ تعلق ہے جس کا حضور کے ساتھ تعلق نہیں میرا اس کے ساتھ تعلق نہیں.“ حضور کی خدمت میں جب میرا یہ عریضہ پیش ہوا تو حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور میرا یہ نوٹ اخبار میں شائع فرما دیا.اس وقت سے لے کر آج تک میں نے اس داماد سے کوئی تعلق نہیں رکھا.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے مندرجہ ذیل بیان سے حضور کی جماعت کے ساتھ غیر معمولی محبت و پیار کا اظہار ہوتا ہے کہ حضور نے افراد جماعت کے جذبات و احساسات کے مد نظر اپنی صحت اور ڈاکٹری مشورہ کی پرواہ نہ کی یادر ہے کہ یہ ڈاکٹری مشورہ ۱۹۱۵ء میں حضور کو دیا گیا تھا گویا حضور کی خلافت کے بالکل ابتدائی ایام میں اور حضور نے اس کے بعد کم و بیش نصف صدی تک اپنی روح پرور جاندار تقریروں سے برابر جماعتی خدمت جاری رکھی.این کار از تو آید مرداں چنیں کند ۱۳.جون کو زیادہ سے زیادہ حرارت ۲، ۹۹ ہوئی.اور جلد ہی درجہ صحت تک آگئی مگر کمزوری بدستور رہی.اسی روز اتفاق سے ہمارے مکرم دوست ڈاکٹر ملک عبدالرحمن صاحب ایم.بی.بی.ایس جو حال ہی میں ولایت سے تشریف لائے ہیں.حضور سے ملاقی ہوئے.اور حضرت صاحب کا معائنہ کیا اور کہا کہ :- میری رائے میں آپ کو ایک سال کے لئے تقریر بند کر دینی چاہئے اور آج ہی پہاڑ پر چلے جانا چاہئے.حضور نے فرمایا :- ”آپ نے جو کہا ہے کہ تقریر بند کر دوں آپ سے پہلے تمام کے تمام ڈاکٹروں نے یہی رائے دی ہے.چنانچہ ۱۹۱۵ء میں ڈاکٹر انیسورتھ
454 صاحب کو جب گلا دکھایا تو انہوں نے کہا تقریر بند کر دینی چاہئے.میں نے کہا یہ ناممکن ہے.انہوں نے کہا پھر میرے علاج سے زیادہ فائدہ کی توقع نہیں.مگر ایک کام کے شروع کرنے یا بند کرنے کے لئے کئی پہلوؤں پر غور کرنا پڑتا ہے ایک طرف طبی رائے ہے جو تقریر بند کرنا لازمی قرار دیتی ہے.دوسری طرف جماعت کا تعلق ہے جس کا ہر فرد یہ خواہش رکھتا ہے کہ میری باتوں کا جواب سب سے پہلے دیا جائے.میرے بارہ میں تو تھوڑی سی گفتگو کی ضرورت پڑے گی.حالانکہ اس کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ طب کے لحاظ سے وہ چھوٹی سے چھوٹی گفتگو بھی بڑا ضرر پہنچا سکتی ہے.الغرض ایک طرف طبی رائے کو مدنظر رکھنا ہوگا.دوسری طرف جماعت کے احساسات اور ضروریات کو.یہی وجہ ہے کہ باوجود مشورہ کے میں تقریروں کا سلسلہ بند نہیں کر سکا.تو کسی قدر کمی کی ہے.ملک صاحب نے کہا میں تو پھر یہی کہوں گا کہ اگر اس وقت تک تقریریں بند نہیں کیں تو آج سے ضرور بند کر دی جاویں.“ اسی روز لاہور سے اطلاع آئی کہ ڈاکٹر انیسورتھ صاحب جو ناک آنکھ اور گلے کے مخصوص ڈاکٹر ہیں.۱۵.جون تک ہی کام کریں گے.اور ۱۴.جون کو حضرت صاحب کے لئے وقت دیا ہے.بعد مشورہ حضور ۱۳ کی شام کوے بجے لاہور روانہ ہوئے.اور بٹالہ تک بیل گاڑی میں لیٹے ہوئے سفر کیا.راستہ میں ٹھہرتے ہوئے قریب دو بجے رات کے بٹالہ پہنچے.۱۴ کی صبح کو را ۱۰ بجے لاہور پہنچے.کوفت سفر اور بخار کی وجہ سے دن بھر نڈھال رہے.مگر خدا کے فضل سے بخار نہ ہوا، شام کو ڈاکٹری معائنہ ہوا، ناک، گلے اور چھاتی کے معائنہ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ناک میں ایک طرف ورم ہے، اسی جگہ جہاں دو بار آپریشن ہو چکا ہے اور اسی وجہ سے گلے میں پرانی IMFLAWMATION ہے اور حنجرے پر کچھ مواد جما ہوا ہے.زخم وغیرہ بالکل نہیں ہے، حجرے کے تار خوب مضبوط ہیں اور اچھی طرح حرکت کرتے ہیں.چھاتی میں بھی میرے نزدیک کوئی نقص نہیں ہے البتہ دل کمزور ہے.ان تمام حالتوں کی وجہ سے کسی د حلق.گلا
455 اچھے صحت افزا پہاڑ پر چلے جانا چاہئے اور ناک کی ورم کو کل میں CAUTEISE کروں گا.“ (صفحه ۱۳۹٬۱۳۸.ایاز محمود جلد اوّل) حضرت ڈاکٹر صاحب کو ایک لمبا عرصہ بڑے خلوص سے حضور کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا.حضور ان سے بہت بے تکلفی اور پیار کا سلوک فرماتے اور متعدد مرتبہ ان کی خدمات کی تعریف فرمائی بلکہ انہیں واقف زندگی اور اپنے خاندان کا فرد قرار دیتے ہوئے فرمایا:- میں نے یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ سوائے اپنے عزیزوں کے یا ایسے لوگوں کے جن کے تعلقات دینی یا تمدنی لحاظ سے اس قسم کے ہوں جن کی وجہ سے وہ گویا کالا قرِ بَاءِ ہی سمجھے جانے کے قابل ہیں جب تک میری صحت اچھی نہیں ہوتی کوئی نکاح نہیں پڑھایا کروں گا.اس اعلان کے بعد میں نے بعض واقفین تحریک جدید کے نکاح پڑھے ہیں کیونکہ جو شخص زندگی وقف کرتا ہے وہ ایک ایسا تعلق دین اور اسلام سے پیدا کر لیتا ہے کہ گویا وہ سلسلہ کی اولاد ہے اور جو سلسلہ کی اولاد بن جائے وہ کسی صورت میں ہمیں اپنی اولادوں سے کم نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا تعلق دینی لحاظ سے ہے اور رشتہ داروں کا دُنیوی لحاظ سے گورشتہ داروں کا دینی لحاظ سے بھی تعلق ہوتا ہے مگر ظاہری اور ابتدائی تعلق ان کا دُنیوی لحاظ سے ہی ہوتا ہے.آج بھی اس اصل کے ماتحت میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے لڑکے کا نکاح پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں میں نے یہ بھی اعلان کیا ہوا ہے کہ جب بھی ایک نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوں تو اگر کوئی اور فارم بھی ساتھ ہوں تو ان کے مطابق نکاحوں کا اعلان مجھ پر کوئی بوجھ نہیں ڈال سکتا.آج بھی بعض اور فارم آئے ہیں ان کے متعلق بھی اعلان ساتھ ہی کروں گا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اپنی ذات میں واقف زندگی ہیں یعنی انہوں نے اپنی زندگی سلسلہ کے لئے وقف کر رکھی ہے اور ایک لمبے عرصے سے جو ۲۵ سال سے بھی زائد ہے وہ اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہیں.پھر ان کا ذاتی تعلق بھی میرے ساتھ اس قسم کا ہے کہ جو ان کو اس بات کا مستحق بنا دیتا ہے کہ ان کے ساتھ خاص سلوک کیا جائے اور اسی وجہ سے میں آ بھی گیا ہوں ورنہ
456 66 مجھے درد کی ایسی تکلیف ہے کہ سجدہ کرنا اور بیٹھنا مشکل ہے اور اس وقت درد بھی صبح کی نسبت کچھ زیادہ ہی تھی.“ ( خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۵۹۷-۵۹۸) حضرت مفتی فضل الرحمان صاحب قادیان لکھتے ہیں :- لائیں...ے.دسمبر ۱۹۳۰ء شام کو جب میں کھانا کھا چکا تو مجھے سردی محسوس ہوئی اور ایک ہی گھنٹہ کے اندر اندر بخار ۱۰۵ ہو گیا.رات بھر اور دوسرے دن علاج معالجہ ہوتا رہا مگر بخار کم نہ ہوا.9 کی صبح کو مسہل لیا مگر شام کے قریب پھر دیکھا تو بخار بدستور ۱۰۵ اور پیٹ میں نفخ شروع ہو گیا جس سے سانس میں ایسی تنگی ہوئی کہ میں بے ہوش ہو گیا.ایسی حالت اور رات کا وقت ، خوش قسمتی سے مائی کا کو (حضرت کی خادمہ ) آئی اور یہ حالت دیکھ کر سارے خاندانِ نبوت میں اس کی اطلاع کی ، حضرت اماں جان مع چند اور مستورات کے اسی وقت تشریف چند ہی منٹ کے بعد حضور خود تشریف لے آئے اور علاج کی ہدایات دیں.کچھ دیر کے بعد میں نے آنکھ کھولی اور حضور کو دیکھ کر عرض کیا میں مرنے سے نہیں ڈرتا.موت مومن کا معراج ہے صرف ان خورد سال بچوں کا خیال ہے کہ ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو باقیوں کو سنبھال سکے.سب کے سب رو کر روٹی مانگنے والے ہیں.فرمایا :- گھبراؤ نہیں صبح تپ ٹوٹ جائے گا“ میں جو طبیب تھا اور اسباب پر نظر تھی کہا کس طرح نہ پانچواں دن ، نہ ساتواں ، نہ نواں.فرمایا قانون بنانے والا اپنے قانون کو تو ڑ بھی سکتا ہے..رات بھر بخار ۱۰۵ رہا.صبح ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب دریافت حال کے لئے تشریف لائے تھرما میٹر لگایا تو معلوم ہوا ۹۸ سے اوپر نہیں چڑھتا.یہ واقعی ایک نشان حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہ اور قبولیت دعا کا ہے کہ اس طرح یکدم بخار ٹوٹ گیا.....الفضل ۲۰.دسمبر ۱۹۳۰ صفحه ۶ ) محترم ماسٹر محمد ابراھیم صاحب جمونی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ انہوں نے متعدد خواتین مبارکہ کو پڑھانے کی سعادت حاصل کی تھی.حضور نے ہمیشہ اس امر کو بڑی قدر دانی سے یا درکھا ان حسین یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مکرم ماسٹر صاحب لکھتے ہیں :-
457 خاکسار ( حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح موعود کی تحریک پر حضرت مولوی محمد دین صاحب کی وساطت سے اور انہی کی ہیڈ ماسٹر شپ کے زمانے میں ۱۵.دسمبر ۱۹۲۹ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں سینئر انگلش ماسٹر مقرر ہوا اور اس وقت سے لے کر تا دم تحریر ۵.مارچ ۱۹۶۸ء اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی سکول میں درجہ بدرجہ ترقی پا کر ۱۹۵۶ء سے بطور ہیڈ ماسٹر خدمت بجالانے کی سعادت پا رہا ہے.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ.سکول میں مسلسل خدمت کا موقع پانے کی مدت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے امتیازی اور منفرد حیثیت حاصل ہے.اَلحَمدُ لِلَّهِ نہ صرف سلسلہ کے اس مرکزی ادارہ میں طویل ترین خدمت کا موقع پانے کے لحاظ سے بلکہ حضرت مصلح موعود کے اہل وعیال کو بیت مسیح موعود میں لمبے عرصہ تک پڑھانے کی سعادت حاصل کرنے کے اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار منفرد ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۳۰ ۱۹۳۱ء میں لڑکیوں کے کالج کی جو پرائیویٹ کلاس کھولی اس میں خاکسار کو بھی بطور معلم انگریزی اور تاریخ مقرر فرمایا.خاکسار ۱۹۳۷ء تک حضرت مولوی محمد دین صاحب کے ساتھ پہلے ایف.اے میں اور پھر ایف.اے کی پہلی کلاس کے بی.اے میں پہنچ جانے تک بی.اے کے کورسز بھی پڑھاتا رہا.اس کالج میں اور حضور کے ارشاد کے ماتحت پرائیویٹ طور پر گھر میں ان دنوں مجھے جن خواتین مبارکہ کو پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی ان میں حضرت سیده ساره بیگم صاحبہ (والدہ صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب) صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ ( بیگم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب) صاحبزادی سیدہ امتہ الودود مرحومه ( بنت حضرت مرزا شریف احمد صاحب) حضرت سیدہ ام متین صاحبہ ایم.اے اور صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ بھی شامل ہیں.مجھے محترمہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کو پڑھانے کے مواقع غالبا باقی سب خواتین مبارکہ سے زیادہ ملے ہیں اور ان کے بعد صاحبزادی امتہ المتین اور صاحبزادی امتہ القیوم سلمها ( بیگم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب) کا نمبر آتا ہے ان کے علاوہ سیدہ طاہرہ بیگم ( بیگم مرزا مبشر احمد صاحب) اور سیدہ آمنہ طیبہ
458 بیگم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب) اور کچھ وقت کے لئے صاحبزادی امة الرشيد صاحبه، صاحبزادی امتہ العزیز صاحبہ ( بیگم مرزا حمید احمد صاحب) مختصراً حضور کی سبھی صاحبزادیوں کو اس وقت سے پڑھانے کی سعادت پائی جب کہ ابھی ان کی شادیاں بھی نہیں ہوئی تھیں اور حضور کے ارشاد پر حضور کی بچیوں اور بیگمات کو گھر پر پڑھانے کا شرف ۱۹۳۰ء سے ۱۹۵۸ء تک جاری رہا.اس عرصہ میں جو کم و بیش تمیں سال تک ممتد ہے مجھے حضور کو بحیثیت ایسے سر پرست کے دیکھنے کا موقع ملا جن کا اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں بچوں کے استاد سے واسطہ پڑتا ہے اور میری طبیعت پر بحیثیت استاد جواثر ہے.وہ فی الجملہ یہ ہے.کہ ان بچوں کے عظیم باپ نے اپنے بچوں اور بیگمات کے استاد سے ہمیشہ ہی نہایت محبت اور شفقت کا سلوک فرمایا اور متعلمین کرام بھی اپنے استاد سے نہایت ادب و احترام سے پیش آتے رہے.مجھ سے حضرت سیده ام متین مدظلہا جس انس اور قدردانی کا سلوک کرتی ہیں اور کرتی رہی ہیں اس کی یاد میری زندگی کا سرمایہ ہے لیکن میں اس وقت ایک ایسا واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جس کا تعلق حضور کے خُلق اور حضور کی نظر میں استاد کے مقام سے ہے.۱۹۴۸ء میں ایک دفعہ جبکہ ہمارا سکول چنیوٹ آچکا تھا لیکن حضور ابھی رتن باغ لاہور میں ہی قیام پذیر تھے ایک روز میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا.ملاقاتیوں میں دیر سے پہنچنے کی وجہ سے میرا نمبر آخری تھا.حضور کی ملاقات سے فارغ ہو کر میں نے سوچا کہ سیدہ حضرت اُم متین سلمہا اللہ سے بھی ملتا جاؤں.وہ اوپر کی منزل پر رہائش پذیر تھیں سیڑھیاں چڑھ کر میں نے دروازہ پر دستک دی.معلوم نہیں میری دستک کی آواز ان تک نہ پہنچی یا وہ کسی کام میں مصروف تھیں.ایک دو منٹ تک دروازہ پر کوئی نہ آیا.اتنے میں غیر متوقع طور پر حضور مکان کے اندر جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھ کر اسی دروازہ پر آپہنچے اور مجھے دیکھ کر پوچھا ” ہیں، آپ کیسے؟ میں نے عرض کیا ” میں سیدہ ام متین کو سلام کرنے آ گیا ہوں، حضور نے فرمایا ” پھر دستک دی ہے، میں نے عرض کیا ”جی ہاں اس پر حضور نے دروازہ کھولتے ہی بلند آواز سے اندر کی طرف ,,
459 جھانکتے ہوئے فرمایا ”صدیقہ ! تمہیں معلوم نہیں تمہارے ماسٹر صاحب دروازہ پر کھڑے ہیں فوراً آؤ.سیدہ حضرت ام متین حضور کی چہیتی بیگم ساری جماعت کے لئے عزت و احترام کی مستحق پھر ان ذرہ نوازیوں اور ترجیجی سلوک کی وجہ سے جو وہ مجھ سے روا رکھتی تھیں اور رکھتی ہیں میرے لئے سراسر راحت اور عزت کا مجسمہ، قابلِ رشک شاگرد اور استاد کے لئے باعث صد افتخار جن کی خصوصی محبت اور توجہ میرے لئے سرمایہ حیات.وو حضور نے جب یہ محسوس کیا کہ ان کا یہ ناچیز استاد ملنے کے لئے دروزاہ پر کھڑا ہے تو ان کو ایسی آواز اور ایسے لہجہ میں دروازہ پر بلا تاخیر پہنچنے کی ہدایت فرمائی جو حضور کا معمول نہ تھا.اس سے میرے دل میں یہ بات گڑ گئی کہ حضور کے نزدیک اور حضور کے اہل کے نزدیک استادوں کا مقام کس قدر بلند ہے اور حضور ان کو کس قدر عزت واحترام کا مستحق سمجھتے ہیں.اسی ضمن میں ایک واقعہ بہت ہی نمایاں ہے.میری بچی عزیزہ امتہ القیوم جو مَا شَاءَ اللہ اب بی.اے میں ہے کی پڑھائی شروع کروانے کا موقع آیا تو دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ حضور سے ”بسم اللہ“ کروائیں.میں نے اس خواہش کا سیدہ ام متین سے اظہار کیا.غالبا یہ ۵۲ ۱۹۵۳ء کی بات ہے.میں ان دنوں سیدہ امتہ المتین کو پڑھانے جایا کرتا تھا حضور کی علالت اور مصروفیت کے پیش نظر سیدہ ام متین نے از خود ہی تجویز کی کہ اگر آپ پسند کریں تو حضور کی بجائے میں ہی بِسمِ اللہ کروا دیتی ہوں اور یہ فیصلہ ہو گیا کہ میں اگلے روز بچی کو ساتھ لے آؤنگا.میں سیدہ امتہ المتین کو پڑھا کر ابھی محترم صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب کی کوٹھی پر ( جو ان دنوں جب ابھی سکول اور ملحقہ کوارٹرز کی تعمیر نامکمل تھی اور ربوہ میں مکانات کی قلت کے پیش نظر حضور نے از راہ شفقت مجھے عارضی طور پر رہائش کے لئے وہ کوٹھی دے رکھی تھی ) پہنچا ہی تھا کہ سیدہ ام متین صاحبہ کا پیغام آیا کہ میری بیوی بچی کو لے کر فوراً قصر خلافت میں بِسمِ اللہ کے لئے پہنچ جاویں.حضور نے یاد فرمایا ہے.ہماری خوشی کی انتہاء نہ رہی.ماں بچی فوراً حاضر ہو گئیں.جا کر معلوم ہوا کہ
460 برسبیل تذکرہ حضور سے میری خواہش کا ذکر ہوا تو حضور نے اپنے حرم سے فرمایا کہ یہ کیا بات آپ کیوں بسم اللہ کروائیں میں کیوں نہ کرواؤں.وہ میرے بچوں کو آکر روز پڑھائیں اور میں ان کی بچی کو بسم اللہ بھی نہ کراؤں.حضور نے بسم اللہ کروائی اور بڑی محبت اور شفقت سے ہمیں نوازا.حضور جب کبھی خاکسار کا ذکر کرتے تو ”ہمارے ماسٹر صاحب“ کر کے یاد فرماتے.”ہمارے“ کے لفظ میں جس قدر اپنائیت ہے اس پر میں جس قدر بھی فخر کروں کم ہے.سیدہ ام متین بی.اے کا امتحان دینے کے لئے لاہور میں مقیم تھیں.خاکسار بھی انگریزی اور ہسٹری کی تیاری کروانے کے سلسلہ میں ان دنوں وہیں مقیم تھا.ان دنوں حضرت مولوی محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر شپ سے ریٹائر ہو رہے تھے.ان کے اعزاز میں سکول اور اولڈ بوائز کی طرف سے قادیان میں الوداعی پارٹی کا انتظام ہو رہا تھا.اتفاق سے اس روز بی.اے کا کوئی پرچہ بھی نہیں تھا.سیدہ اُئِم متین نے شام کو ٹیلیفون پر میرے لئے اس میں شمولیت کے لئے اجازت مانگی.اجازت ملنے پر میں وقت مقررہ پر ہال میں آ پہنچا جس میں پارٹی دی جارہی تھی.حضور جب اس تقریب پر پہنچے تو ہال کی ڈیوڑھی پر منتظمین نے حضور کا استقبال کیا.میں ان میں شامل نہ تھا بلکہ ہال کے اندر تھا.حضور نے مجھے نہ پا کر محترم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے سے جو اولڈ بوائز کے صدر تھے پوچھا کہ ”ہمارے ماسٹر صاحب نہیں آئے“ انہوں نے بتلایا کہ پہنچ گئے ہیں.پھر ہال میں تشریف لائے تو خاکسار نے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.اس خصوصی دلچسپی اور توجہ سے یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آجاتی ہے کہ اگر خاکسار حضور کے گھر والوں کو پڑھاتا تھا تو حضور کے دل میں بھی ان کے استاد کی کیسی قدرو منزلت تھی.حضور کی دلچسپی کا مجھ سے کئی مرتبہ سیدہ ام متین صاحبہ نے بھی ذکر کیا تھا کہ جب کبھی تعلیم و تعلم کا تذکرہ ہوتا ہے حضور نہایت محبت اور شفقت سے ”ہمارے ماسٹر صاحب“ کہہ کر آپ کا ذکر کرتے ہیں.حضور کی قدردانی اور ذرہ نوازی کا یہ عالم تھا کہ حضور نے خود ہی میری شادی کے لئے رشتہ تجویز فرمایا.
461 اور سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کی وساطت سے جو خاکسار سے ایف.اے کی تیاری کیا کرتی تھیں.دریافت فرمایا کہ اگر حضور کسی جگہ میرا رشتہ کروا دیں تو مجھے کوئی اعتراض تو نہ ہوگا ؟ میرے خاموش رہنے پر سیدہ موصوفہ نے فرمایا کہ یہ تو میں حضور سے پہلے ہی کہہ چکی ہوں کہ میں آپ کا پیغام تو دے دوں گی لیکن ہمارے ماسٹر صاحب یہ سوال سنکر خاموش رہیں گے.پھر جب حضور نے از راہ شفقت خود ہی ایک رشتہ تجویز کر کے شادی کا انتظام کر دیا.تو شادی کے موقع پر میری بیوی کے لئے نہایت خوبصورت زیور اور ساڑھی بھجوائی اور خاکسار کے لئے قالین کا مصلا بھجوایا.اور یہ چیزیں مکرم بیٹی خاں صاحب مرحوم پرسنل اسسٹنٹ کے ہاتھ بھجوا کر اپنے دستخطوں سے خط بھی لکھ کر بھجوایا.جس کا مضمون یہ تھا.عزیزم السَّلَامُ عَلَيْكُمُ غالبا کل آپ کی شادی ہے.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.اور جانبین کے لئے بابرکت بنائے.آپ کی دونوں شاگردوں سارہ بیگم سلمہا اللہ اور ناصرہ بیگم سلمہا کی طرف سے آپ کی بیوی کے لئے ایک کپڑا اور ایک زیور ارسال ہے.اور آپ کے لئے ایک مصلی.کیونکہ اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَحَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلوةِ الْوُسُطى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد اور ایسے تحائف کا سلسلہ حضور کی زندگی تک برابر چلتا رہا.۱۹۵۴ء ۱۹۵۵ء میں سیدہ ام متین کے یاد فرمانے پر میں موسمی تعطیلات میں ایک ماہ کے لئے سندھ گیا.حضور ناصر آباد میں مقیم تھے.مجھے حضور نے عزت و شرف بخشا.گھر کے افراد بالکل مختصر تھے.حضور پرنور، سیدہ ام متین.سیدہ امتہ المتین اور سیدہ مہر آپا...خاکسار کھانے کے لحاظ سے گھر کے ان چارافراد میں پانچواں فرد شمار ہوتا تھا.یہ خصوصی اعزاز اور یہ نا چیز گناہگار !!! واپسی پر حضور نے اپنے
462 ان چار ٹکٹوں کے ساتھ خاکسار کے لئے ٹکٹ خریدنے پر بھی پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو خاص ہدایت کی.پھر ابھی سندھ سے قافلہ کو آئے چند ہی دن گزرے تھے کہ سیدہ ام متین صاحبہ کی وساطت سے سوٹ کا ایک نہایت عمدہ کپڑا بھجوایا.یہی نہیں بلکہ جب حضور بیماری کے ایام میں ولایت تشریف لے گئے تو واپسی پر جہاں اپنے بچے اور بچیوں کے لئے تحائف لائے خاکسار کے لئے ایک گھڑی لائے اور جب ایک صاحبزادہ نے وہ گھڑی اپنی گھڑی کے بدلہ میں لینا چاہی تو فرمایا ”نہیں“ یہ تو ماسٹر صاحب کے لئے ہے.حضور کس قدر ذاتی اور گہری دلچسپی اپنے گھر والوں اور بچوں کے استاد سے لیتے تھے.اس کا اندازہ ان حقائق سے بھی ہو سکتا ہے.کہ حضور کو یہاں تک معلوم تھا کہ مجھے کیا چیز خاص طور پر پسند ہے.ایک اور واقعہ مجھے کبھی نہیں بھول سکتا میرے سندھ کے ان ایام میں حضور نے صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کو ایک رجسٹر ڈ خط بھجوایا.دفتر پرائیویٹ سیکرٹری نے ڈاک کا خرچ اپنے خرچ میں ڈال لیا.جب حضور کی خدمت میں خرچ پیش ہوا تو اس میں یہ خرچ درج نہ تھا.حضور نے مکرم منشی فتح دین صاحب سے پوچھا اس رجسٹری کا خرچ یہاں درج نہیں یہ کیا ؟ دفتر نے عرض کیا کہ دفتری ڈاک میں درج کر دیا ہے.حضور نے فرمایا یہ خط تو میرا ذاتی تھا اور میں نے اپنے بیٹے کو لکھا تھا اسے میرے ذاتی خرچ میں ڈالا جائے اس سے اندازہ ہوسکتا ہے.کہ حضور تقوی کی کس قدر باریک راہوں پر چلتے تھے.مکرم سید محمد بشیر صاحب پھگلہ کی درخواست پر حضور ان کے گاؤں تشریف لے گئے اس لطف و کرم کی حسین یاد تازہ کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ :- حضور خلیفہ المسیح الثانی کی اپنے خدام اور جماعت کے ساتھ بے پناہ محبت تھی.اور نام تک حضور کو یاد ہوتے تھے.11 ستمبر ۱۹۵۶ء میں حضور ایبٹ آباد آئے ایبٹ آباد سے ہنزہ مکرم سید پیر محمد زمان صاحب ایڈووکیٹ مرحوم کے مکان پر حضور ۱۸ ستمبر کو تشریف لائے اور اہل خانہ.ساری جماعت بھی چائے میں شامل ہوئی.وہاں بھی حضور نے فرمایا کہ پرسوں ۲۰ کو میرا بالا کوٹ جانے کا ارادہ
463 ہے.حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے مزار پر دعا کے لئے.میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی حضور راستہ میں ہمارا گاؤں برلب سڑک ہے.سیدوں کا علاقہ میں بڑا اثر ہے آپ جاتے یا آتے وقت وہاں ٹھہریں اور کچھ ناشتہ بھی کریں.حضور نے فرمایا اختر صاحب کے ساتھ بات کریں.حضور ایبٹ آباد چلے گئے مکرم محمد عرفان خان صاحب موجودہ امیر ضلع رات کو واپس آئے تو مجھے پیغام دیا کہ حضور نے پھگلہ ہمارے گاؤں آنا منظور فرمالیا ہے اور ہلکا ناشتہ کریں گے.میں نے گاؤں میں حضرت والد صاحب کی خدمت میں پیغام بھجوا دیا.گاؤں پکی سڑک سے ذرا فاصلہ پر ہے اور کچھی سڑک جاتی ہے.ہماری برادری کے عزیز غیر احمدی ہیں لیکن حضور کا سن کر بے حد خوش ہوئے کچی سڑک کے کھڑے وغیرہ خود انہوں نے ٹھیک کئے.میں ۱۹ کو ہنزہ رہا اور ۲۰ کو دوسرے تین چار دوستوں کے ساتھ ہنزہ سے بالا کوٹ تک حضور کے ساتھ رہا بالاکوٹ اور مزار سید احمد صاحب پر بھی ساتھ ساتھ ہی رہا.واپسی پر ایک اونچی جگہ ایک احمدی دوست محمد زمان خان صاحب کے مکان پر بالا کوٹ کے دوستوں نے حضور کے ٹھہرنے کا انتظام کیا تھا.حضور کو اوپر جانے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی.ایک پاؤں میں کچھ کمزوری اور شاید نقرس کا درد تھا.جماعت کے دوستوں کی دلداری کے لئے حضور نے اوپر جانا منظور کیا لیکن اختر صاحب نے اونچی آواز سے کہا کہ کسی پہاڑی آدمی کو بلاؤ کہ حضور کو سہارے سے لے جائے.میں پاس تھا میں نے کہا کسی اور پہاڑی آدمی کی کیا ضرورت ہے ہم خود بھی پہاڑی ہیں.حضور نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سہارے سے اوپر تشریف لے گئے.پھر بعد میں وہاں سے روانہ ہو کر سیدھے پھگلہ تشریف لے آئے مع اہل خانہ.اور عملہ مانسہرہ کے بھی کافی دوست بلائے تھے گاؤں کی برادری بھی جمع تھی میں سخت فکر مند تھا کہ اللہ پاک کرے کوئی ایسی بات نہ ہو جائے کہ حضور خفا ہوں.اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہوا کہ حضور بے حد خوش ہوئے اور فرمانے لگے کلو کی طرح وادی ہے.ایبٹ آباد جا کر بھی خوشنودی کا اظہار ہی فرمایا.اس ناچیز کی دعوت کو قبول کرنا حضور کے حسن و احسان کی مثال ہے.حضور کی برکت کے طفیل
464 حضرت خلیفتہ المسیح الثالث بھی پر نسپل کے زمانہ میں پھگلہ گئے.اور بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد، اور برکت ہمیں لگا تار حاصل ہو رہی ہے.میرے والد صاحب بزرگوار کی بڑی خواہش ۱۹۴۷ء سے بھی پہلے کی ہوا کرتی تھی کہ کشمیر جاتے حضور کبھی ہمارے ہاں ٹھہریں.وہ خواہش ۱۹۵۶ء میں پوری ہوئی.ہمارے گاؤں کے پاس سے بھی کشمیر روڈ گزرتی ہے.یہ بات بھی ایمان افزا ہے.حضور خلیفہ المسیح الثانی چلے گئے تو حضرت والد صاحب بہت پریشان رہے کہ حضور کی خدمت میں کوئی تحفہ نہ پیش کر سکے.وہ کمی اللہ پاک نے اس طرح پوری کی کہ موجودہ خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ پرنسپل کے زمانہ میں پھگلہ گئے تو واپسی پر حضور الوداع کے وقت پکی سڑک کشمیر روڈ پر ٹھہرے اور فرمایا کہ سڑک کے کنارے کالج کے لڑکوں کے گرمیوں میں ٹھہرنے کے لئے دو کنال زمین دو ہم نے وعدہ کیا اور جس جگہ حضور کی موٹر کھڑی تھی سامنے ہی ہمارا ایک زمین کا ٹکڑا تھا وہ حضور کو دکھایا حضور نے پسند فرمایا.بعد میں وہ جگہ جماعت کے نام انتقال کر دی.خلیفہ المسیح الثالث نے جو جگہ پسند فرمائی تھی اللہ تعالیٰ کا ایسا تصرف ہوا کہ دو سال بعد ہی اس کے ساتھ ہی انٹر نیشنل سکاؤٹ سکول جنگل منگل گورنمنٹ نے ۳۰/۲۰ لاکھ کا بنوا لیا.یہ حضور کی توجہ کا نتیجہ تھا کہ سب گاؤں کو فائدہ ہو گیا.حضور کے ہمارے گاؤں میں آنے کی برکت سے یہ ایک تاریخی گاؤں بن گیا ہے.مکرم محمد نصیب عارف حویلیاں ضلع ہزارہ لکھتے ہیں : گذشتہ جنگ عظیم میں جاپان کی لڑائی میں جاپانیوں کی قید سے رہائی کے بعد جب خاکسار سنگا پور میں پونے پانچ سال رہنے کے بعد ہندوستان ۱۹۴۵ء کے آخر میں پہنچا تو حضور کی ملاقات سے مشرف ہونے کا موقع ملا ملاقات کے لئے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے صرف پانچ منٹ ملے تھے اور یہ بھی بہت زیادہ سمجھ کے دیئے گئے تھے.کہ زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد وطن کو واپسی کے بعد موقع ملا تھا.غرض حضور کی خدمت میں حاضر ہوا قید کا عرصہ کچھ اس رنگ میں گزارا تھا کہ گویا یہ عاجز سنگا پور میں ایک مربی یا مبلغ کی
465 صورت میں گیا تھا.وہاں جہاں قید کی سختیوں اور صعوبتوں میں وقت گذرا وہاں ساتھ ساتھ جماعتی کاموں کا موقع بھی میسر آیا تھا.ان کاموں کی تفصیل میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی تو حضور نے اس عاجز کو اسی شفقت اور محبت سے نوازا جیسے ایک کامیاب مبلغ کو جو بیرونی ممالک سے واپسی پر حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوتا ہے تو حضور اس کو نوازتے ہیں.حضور نے کوائف کو بغور سنا اور بہت سے مزید حالات جاپانیوں کی قید کے دریافت فرمائے...اور خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے.جَزَاكُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ - فرمایا اور رخصت کی اجازت فرمائی.ملاقات کے کمرہ سے باہر آنے پر کارکنان بہت حیران تھے کہ اتنا وقت کیوں لگ گیا مگر یہ عاجز حضور پر نور کی قدردانی اور شفقت پر بے حد سرشار تھا جو اتنے عرصہ بعد ملاقات پر نصیب ہوئی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.الفضل ۱۷.اپریل ۱۹۶۶ء صفحه ۴) مکرم الحاج چوہدری اللہ بخش صاحب چندر کے منگولےضلع سیالکوٹ مندرجہ ذیل واقعہ لکھتے ہیں جس میں ایک فقہی مسئلہ کی وضاحت بھی ہے اور غیر معمولی پیار و محبت بھی.ماہ اپریل ۱۹۲۷ء کا واقعہ ہے ہم آٹھ احمدی قریب قریب کی جماعتوں کے چندر کے منگوئے میانوالی و خانانوالی اور رلیو کے ضلع سیالکوٹ سے سفر حج کے لئے تیار ہوئے.سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت اقدس میں گزارش کی کہ حضور ہم زمیندار پیشہ ہیں فصل پک چکی ہے اور اولاد بھی چھوٹی ہے اگر حضور اجازت فرما ئیں تو سفر حج کی رقم اشاعتِ اسلام کے لئے داخل خزانه صدرانجمن احمد یہ قادیان کر دی جائے.حضور نے فرمایا جس پر حج فرض ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ حج ہی کرے کیا مسجد تعمیر کر دینے سے نماز معاف ہوسکتی ہے؟ ساتھ ہی ہمارے عرض کرنے کے بغیر ہی حضور نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو ارشاد فرمایا.کہ ان کو شیخ نیاز احمد صاحب انسپکٹر پولیس سی آئی اے کراچی ڈاکٹر حاجی خاں صاحب عدن اور سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب جدہ کے نام خطوط تحریر کر دیں
466 مندرجہ بالا مقامات پر جہاں جہاں حضور کے نامہ جات دستی دکھائے گئے ہماری سفر کی کوفت راحت سے بدل جاتی رہی اور بڑی محبت اور مہمان نوازی سے وہ پیش آتے.یہ تھی حضور کے نزدیک حج کی اہمیت اور اپنے ناچیز خادمان سے شفقت اور محبت کا سلوک.اسی سال حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر بھی حج کے فریضہ کی ادائیگی کے لئے تشریف لے گئے تھے ان کی صحبتوں سے بھی فیضیاب ہونے کا موقع ملتا رہا.مکرم عبدالجلیل صاحب عشرت جو مشہور صحافی ، شاعر اور ادیب مولانا عبدالمجید سالک کے بھائی تھے لکھتے ہیں :- میرا رشتہ ہونے سے پہلے بعض روکیں پیدا ہوئیں جن کے سارے پس منظر کا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو خوب علم تھا.حضور نے خطبہ نکاح فرماتے ہوئے ان روکوں کا ذکر تو نہ کیا لیکن ایک حدیث نبوی بیان فرمائی جس سے ( پتہ چلتا تھا کہ حضور کے ذہن میں اس رشتہ کے ہونے سے پہلے جو واقعات ہوئے تھے وہ مستحضر تھے.اسی طرح ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں : - حضور کے خدام نے حضور کی دعاؤں کی قبولیت کے بے شمار نشانات دیکھے ہیں.میں کسی تکلیف یا کرب کی حالت میں جب حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست بھجوا دیتا تھا تو ایک اطمینان کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی.میری بچی عزیزہ بشر کی صدیقہ ٹائیفائیڈ سے سخت بیمار ہوئی بعض دفعہ اس کی زندگی سے مایوسی ہو جاتی تھی اس حالت میں حضور کی خدمت میں تار دید یتا تھا اس کے الفاظ تقریباً یہ ہوتے تھے.کہ بچی بستر مرگ پر ہے دعا فرمائیں“ تار بھیجنے کے بعد بچی کی طبیعت بہتر ہو جاتی تھی کئی دفعہ ایسا ہوا.الْحَمْدُ لِلهِ کہ بعد میں بچی کو کامل صحت ہو گئی.حضور کے احسانات کا تذکرہ بڑی لذیذ داستان ہے اسی طرح حضور کی
467 استجابت دعا کے تجربات بھی سینکڑوں وابستگان خلافت کو ہوئے.نہ تنہا من دریں میخانه مستم جنید و شیلی و عطار ہم مکرم عبدالجلیل صاحب عشرت حضور کی غیر معمولی شفقت و پیار کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- میرے والد حضرت شیخ غلام قادر پٹھانکوٹ (ضلع گورداسپور ) میں سیکرٹری میونسپل کمیٹی تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ڈلہوزی یا پالم پور وغیرہ تشریف لے جاتے وقت جب پٹھانکوٹ کے راستہ سے گزرا کرتے تو حضرت والد صاحب حضور کے نیاز حاصل کرتے.ایک دفعہ حضور نے از راہ ذرہ نوازی اپنی حرم محترمہ کے ہمراہ غریب خانہ پر کھانا بھی تناول فرمایا.بعض دفعہ پٹھانکوٹ کے قریب دریائے چکی کے کنارے ڈھانگو پہاڑ پر شکار وغیرہ کیلئے خیموں میں قیام فرمایا کرتے تھے پہاڑ پر جانے کے لئے دریائے چکی کو عبور کرنا پڑتا تھا پانی عموماً پایاب ہوتا تھا اور گزرنے والا آسانی سے دریا پار کر سکتا تھا.ایک دفعہ حضور ڈھانگو پہاڑ پر خیمہ زن تھے کہ والد مرحوم حضور کی ملاقات کے لئے وہاں گئے ابھی دریا کے کنارے پر ہی تھے کہ حضور نے دور سے انہیں آتا ہوا دیکھا والد صاحب فرماتے تھے کہ میں پایاب پانی سے گزرنے والا ہی تھا کہ دیکھا کہ حضور نے اپنے خادم عبدالواحد صاحب افغان کو بھیجا ہے جنہوں نے آتے ہی کہا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ میں آپ کو کندھوں پر اُٹھا کے دریا کے پارلے جاؤں.چنانچہ عبدالواحد صاحب اصرار سے والد صاحب کو کندھوں پر اُٹھا کر دریا کے پارلے گئے یہ حضور کے احسان اور شفقت کی ایک مثال ہے.الفضل ۲۹.جون ۱۹۶۶ء صفحہ۵ ) مکرم عشرت صاحب کی والدہ محترمہ کی وفات کے موقع پر حضور نے جو شفقت فرمائی اس کے متعلق مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے درویش قادیان لکھتے ہیں :.حضور احباب سے ان کے مراتب کے مطابق احترام کا سلوک کرتے تھے.مجھے یاد ہے جناب مولانا عبدالمجید سالک مرحوم مدیر روزنامه انقلاب
468 جنکے والدین اور بھائی احمدی تھے ) اپنی والدہ صاحبہ کا جنازہ لے کر قادیان آئے تو حضور نے مہمان خانے میں جنازہ پڑھایا اور خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ حضور کی طرف سے بہشتی مقبرہ ساتھ جاؤں.چنانچہ خاکسار نے ایسا ہی کیا پیارے امام کو اپنی جماعت سے باپ اور بیٹے کی باہم روایتی محبت سے زیادہ پیار ہے آپ فرماتے ہیں:.میں دیانت داری سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے لئے جو اخلاص اور محبت میرے دل میں میرے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے، ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں وہ نہ باپ کو بیٹے سے ہے اور نہ بیٹے کو باپ سے ہو سکتا ہے.پھر میں اپنے دل کی محبت پر انبیاء کی محبت کو قیاس کرتا ہوں جیسے ہم جگنو کی چمک پر سورج کو قیاس کر سکتے ہیں تو میں ان کی محبت اور اخلاص کو حد سے بڑھا ہوا پاتا ہوں.“ 66 (الفضل ۴.اپریل ۱۹۲۴ء صفحہ ۷ ) بعض مخلص احباب کی طرف سے از خود ذمہ داری لے کر انہیں ثواب میں شامل کرتے.بعض کام بھی از خود ہی کروا دیتے مکرم مولانا نذیر احمد مبشر صاحب لکھتے ہیں :- " حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے احسانوں میں سے ایک احسان خاکسار پر یہ بھی ہے کہ میرے ایک خانگی معاملہ میں حضرت صاحب نے مجھے بتلائے بغیر خود ہی ذمہ داری لے کر اس معاملہ کو سلجھا دیا اسی طرح ڈاکٹر میجر شاہ نواز صاحب لکھتے ہیں :- (الفضل ۱۲.نومبر ۱۹۹۵ء صفحه ۳) عاجز افریقہ میں تھا.جنگ کے ایام تھے.اہلیہ کو خرچ دیر سے ملتا تھا.ایک دفعہ ( گھر والوں نے ) امانت فنڈ سے زائد رقم مانگی مگر افسر نے انکار کر دیا (حضور کو علم ہوا تو ) آپ نے فرمایا میں ڈاکٹر صاحب کی ضمانت دیتا ہوں انہیں رقم دیدی جائے.حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آباد بھی فدائیت اور قُرب و تعلق کا ایک خاص مقام رکھتے تھے.حضور نے ان کی وفات پر ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: - ///////
469 حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں میری ان سے واقفیت ہوئی اور میں جب حج کے لئے گیا تو میں نے ان کو بمبئی میں دیکھا اُس وقت انہوں نے ایسے اخلاص اور محبت کا ثبوت دیا کہ اس وقت سے ان کے تعلقات میرے ساتھ خانہ واحد کے تعلقات ہو گئے میں اپنے سامان کی تیاری کے لئے جہاں جاتا وہ سائے کی طرح میرے ساتھ لگے رہتے اور جہاز تک انہوں نے میرا ساتھ نہ چھوڑا.ان کا اخلاص اتنا گہرا تھا کہ عبدالحی صاحب عرب نے ( جن کو میں اپنے ساتھ بطور ساتھی کے لے گیا تھا) ایک دفعہ پانی پینے کے لئے ایک خوبصورت گلاس نکالا.میں نے ان سے پوچھا کہ یہ پہلے تو آپ کے پاس نہیں تھا اب آپ نے کہاں سے لیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ مجھے سیٹھ صاحب نے لے کر دیا تھا کہ جب اس میں پانی پیو گے تو میں یاد آ جاؤں گا اس وقت ان کو میرے لئے دعا کے لئے یاد کرا دینا.دوسری دفعہ جب میں بمبئی گیا تو سیٹھ صاحب پھر حیدر آباد سے بمبئی پہنچ گئے حالانکہ حیدر آباد سے بمبئی بارہ چودہ گھنٹے کا رستہ ہے لیکن پتہ چلتے ہی فوراً وہاں پہنچ گئے اور آخر دن تک ساتھ رہے بلکہ مجھے ان کا ایک لطیفہ اب تک یاد ہے.وہ ایسے ساتھ ہو لئے کہ ان کا ساتھ رہنا میری طبیعت پر گراں گزرنے لگا اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم جہاں جاتے جب کھانے کا وقت آتا وہ اسی جگہ کسی اچھے سے ہوٹل میں تمام قافلہ کے لئے کھانے کا انتظام کر دیتے اور کھانا کھانے پر مجبور کرتے.آخر میرے دل میں خیال آیا کہ اب تو حد سے زیادہ مہمان نوازی ہو گئی ہے ایک دن میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آپ لوگ سیٹھ صاحب کو کیوں ساتھ لے لیتے ہیں وہ جہاں جاتے ہیں وہیں کھانے کا انتظام کر دیتے ہیں اور اب تو مہمان نوازی بہت لمبی ہو چکی ہے.چنانچہ یہ طے ہوا کہ آج وقت سے دو گھنٹے پہلے ہی یہاں سے نکل جائیں تا کہ جب سیٹھ صاحب آئیں تو ان کو ہمارے متعلق علم نہ ہو سکے.ہم لوگ موٹروں میں بیٹھ کر دو گھنٹے پہلے ہی گھر سے روانہ ہو گئے.کچھ دور جا کر پھر ہم ریل میں سوار ہوئے.جب ریل اس اسٹیشن پر جا کر کھڑی ہوئی جہاں ہم نے اترنا تھا تو ہم نے دیکھا کہ سیٹھ صاحب بھی وہاں کھڑے ہیں.جب ہم اترے تو انہوں
470 نے آتے ہی اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہا اور کہا چلئے کھانا تیار ہے.ہم حیران ہوئے کہ ان کو ہمارے پروگرام کا کس طرح علم ہو گیا.اس کے بعد مجھے جب بھی بمبئی جانے کا اتفاق ہوا سیٹھ صاحب بھی بمبئی پہنچ جاتے اور قیام کے دوران میں میرے ساتھ رہتے.اس عرصہ میں ان کی بیویوں کے میری بیویوں سے اور ان کی بچیوں کے میری بچیوں سے اور میرے بچوں کے ان کے بچوں سے تعلقات ہو گئے اور آہستہ آہستہ یہ تعلقات ایک گھر کی مانند ہو گئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے بچوں اور بچیوں میں بھی بہت اخلاص ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق دے رہا ہے.ان کے بڑے لڑکے محمد اعظم صاحب سیکرٹری مال ہیں اور جماعت کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.دوسرے بیٹے معین الدین صاحب ہیں وہ حیدر آباد میں خدام الاحمدیہ کے قائد ہیں اور تیسرا بچہ ابھی چھوٹا ہے اور تعلیم حاصل کر رہا ہے اور ان کی لڑکیوں کے میری بیوی امتہ الحی مرحومہ سے بھی بہت تعلقات تھے.“ (الفضل ۲ مئی ۱۹۴۷ ء صفحه ۲ ) ایک نائیجیرین احمدی کے اخلاص و عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- میں بیماری میں یورپ گیا تو افریقہ کی جماعتوں میں سے لیگوس کے لوگوں نے اپنا ایک رئیس ہوائی جہاز سے لنڈن میری خبر پوچھنے کے لئے بھجوایا اس میں میرا اتنا ادب و احترام تھا کہ جب مجلس ہوتی تو وہ میرے پاؤں کے قریب آ کر بیٹھ جاتا.انگریزوں میں اس کا بڑا احترام تھا جس مجلس میں انگریز آتے وہ اسے اٹھا کر میرے پاس بٹھانا چاہتے لیکن وہ میرے پیروں میں آ کر بیٹھ جاتا اور کہتا یہ میری عزت کی جگہ ہے میں یہاں بیٹھوں گا.میں بیماری میں بعض دفعہ گھبرا کر باہر کرسی پر بیٹھ جاتا تھا وہ باہر سے پھر کر آتا کسی بڑے آدمی یا وزیر سے مل کر آتا اور آکر میرے پاؤں کے قریب زمین پر بیٹھ جاتا میں اسے اٹھا کر کرسی پر بٹھانا چاہتا تو کہتا نہیں انہیں میری عزت اسی میں ہے کہ میں یہیں بیٹھوں.سارا لنڈن اس کی تصویریں لیتا تھا.بڑے بڑے وزراء اس سے ملتے تھے لیکن اس کی محبت کی یہ حالت تھی کہ وہ میرے پاؤں کے قریب بیٹھنا اپنی
471 عزت تصور کرتا تھا.“ الفضل ۲۸.نومبر ۱۹۵۶ء صفحه ۶ ) جماعت کا ہر فرد جس طرح حضور کو چاہتا اور آپ کی خدمت کا موقع ملنے کو سعادت گردانتا تھا حضور اس پر خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- مجھے ہمیشہ حیرت ہوا کرتی ہے اور میں اپنے دل میں کہا کرتا ہوں کہ الہی ! تیری بھی عجیب قدرت ہے کہ تو نے کس طرح لوگوں کے دلوں میں میری نسبت محبت کے جذبات پیدا کر دیئے کہ جب کبھی سفر میں باہر جانے کا موقع ملے اور میں گھوڑے پر سوار ہوں تو ایک نہ ایک نوجوان حفاظت اور خدمت کے خیال سے میرے گھوڑے کے ساتھ پیدل چلتا چلا جاتا ہے اور جب میں گھوڑے سے اترتا ہوں تو وہ فوراً آگے بڑھ کر میرے پاؤں دبانے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے حضور تھک گئے ہوں گے.میں خیال کرتا ہوں کہ میں تو گھوڑے پر سوار آیا اور یہ گھوڑے کے ساتھ پیدل چلتا آیا مگر اس محبت کی وجہ سے جو اسے میرے ساتھ ہے اس کو یہ خیال ہی نہیں آتا کہ یہ تو گھوڑے پر سوار تھے یہ کس طرح تھکے ہوں گے.وہ یہی سمجھتا ہے کہ گویا گھوڑے پر وہ سوار تھا اور پیدل میں چلتا آیا.چنانچہ میرے اصرار کرنے کے باوجود کہ میں نہیں تھکا میں تو گھوڑے پر آ رہا ہوں.وہ یہی کہتا چلا جاتا ہے کہ نہیں حضور تھک گئے ہوں گے.مجھے خدمت کا موقع دیا جائے اور پاؤں دبانے لگ جاتا ہے.“ الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۳۸ء صفحه ۴) از راہ قدردانی جماعت کے اخلاص و محبت کا ذکر اچھوتے انداز میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- ” میری اس دوسری بیوی کی وفات پر یا ان صدمات پر جو مجھے اور میرے خاندان کو ہوئے جن دوستوں نے اظہار ہمدردی کی ہے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں گو ا ظہار ہمدردی سے کوئی کسی کے صدمے کو بدل نہیں سکتا لیکن اس کا اظہار ہمدردی تعلق اور محبت کو ضرور بڑھاتا ہے اور وہ ایک طرح سے تسلی کا موجب بھی بنتا ہے...ان واقعات نے اس بات کو اچھی طرح ثابت کر دیا ہے کہ جماعت میں خدا کے فضل سے بڑی محبت اور اخلاص ہے اور ان
472 کے اس احساس رنج اور صدمہ نے اس بات کو ظاہر کر دیا ہے کہ گو وہ ہزاروں 66 قالب ہیں مگر ان کی جان ایک ہے.“ الفضل ۲۵.دسمبر ۱۹۲۴ء.خطبات محمود جلد ۸ صفحه ۵۴۷) مخلصین جماعت کے اخلاص کی قدر دانی کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل بیان بہت دلچسپ ہے.حضور فرماتے ہیں:.میں نے دیکھا ہے کہ ہم جب باہر جاتے ہیں تو کئی لوگ اپنی محبت کی وجہ سے بعض اخراجات ہم پر کرتے ہیں مثلاً میں دو سال سے کوئٹہ جاتا رہا ہوں وہاں ہمارے ہی ضلع کے ایک دوست ڈاکٹر غفور الحق خان صاحب ہیں میں نے دونوں سال تجربہ کیا ہے کہ وہ جب کوئی چیز گھر لے جاتے تھے تو اس کی ایک ٹوکری ہمیں بھی بھیج دیتے تھے.مثلاً انگور نکلنے شروع ہوئے اور انہوں نے بازار سے گھر کے لئے کچھ انگور خریدے تو ایک ٹوکری زائد خرید کر وہ ہمارے لئے بھی بھیج دیں گے.یا خربوزے نکلے اور انہوں نے اپنے استعمال کے لئے کچھ خربوزے خریدے ہیں تو کچھ خربوزے وہ ہمیں بھی بھیج دیں گے.وہ چیزیں اس طرح متواتر آتی تھیں کہ ہم سمجھتے تھے کہ وہ اپنے گھر لے جا رہے تھے کہ ہماری محبت کی وجہ سے انہوں نے ہمیں بھی اس میں ایک حصہ بھیج دیا ( اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے یہ خطبہ میں نے دسمبر کے شروع میں دیا تھا لیکن چھپنے سے رہ گیا آج ہی اس پر نظر ثانی کرنے لگا ہوں جبکہ ابھی ابھی ہی عزیزم ڈاکٹر غفور الحق خاں کو دفنا کر لوٹا ہوں میں اسے اتفاق نہیں کہہ سکتا یہ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے جس نے آج مجھے اس خطبہ پر نظر ثانی کا موقع دیا عزیز زندہ ہوتا تو وہ اسے پڑھ کر کتنا خوش ہوتا مگر اب اس کے عزیز اسے پڑھ کر خوش ہونگے کہ ان کے عزیز کو اللہ تعالیٰ نے یہ رتبہ بخشا کہ اس کا ذکر اس محبت کے ساتھ ایک قائم رہنے والے نشان میں شامل کر دیا گیا ہے.“ الفضل ۲۶ - فروری ۱۹۵۰ء صفحه ۴) ایک ایسے پیارے شخص کو جو دنیا سے گزر گیا ہے یاد کرنے کا انداز کتنا دلربا ہے!! حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ : -
473 ۱۹۲۴ء میں جب ہم لندن گئے تھے تو حضور جہاز کے فرسٹ کلاس میں سفر کر رہے تھے.اور بارہ ساتھیوں میں سے پانچ سیکنڈ کلاس میں اور بقیہ سات ڈیک پر تھے.تو میں نے دیکھا کہ حضور بعض اصحاب کو اپنے کھانے سے حصہ بھیج دیتے.اور مجھے بھی ایک ساتھ کھانا کھلاتے.اس کیبن ( Cabin) کا خدمت گزار جس میں حضور قیام فرما تھے حضور کی خدمت میں بہت کم حاضر ہوتا.حالانکہ دوسری کیبنوں کے مقیموں کے ہاں خوب حاضری دیتا.حضور حُسنِ ظنی کرتے ہوئے یہی سمجھتے رہے کہ شاید بیمار ہوگا اس لئے ہمارے پاس نہیں آتا.اس پر بس نہیں بلکہ حضور نے ان نامور آموں میں سے جو حضور کو مخلص اصحاب کی طرف سے تحفہ ملے تھے اس غیر حاضر ملا زم کو بھی دیئے.(۲) جب ہم روم میں تین روز کے قیام کے لئے ٹھہرے تو حضور کی نقاہت کے پیش نظر عام کھانے کے ساتھ مرغی کا چوزہ بھی پکوا لیا گیا.جب حضور دو پہر کے کھانے کے لئے میز پر بیٹھے تو حضور کے ساتھ خانصاحب ذوالفقار علی خانصاحب اور یہ عاجز بھی بیٹھے تھے کیونکہ حضور والے ہوٹل میں ہم دونوں بھی مقیم تھے.حضور نے چوزہ کے سالن میں سے کچھ حصہ اپنی پلیٹ میں لے کر باقی ڈش ہماری طرف سر کا دی.ہم دونوں نے خیال کیا کہ چوزہ تو حضور کے لئے تھا مگر حضور نے ہمیں بھی اس میں شریک فرما لیا ہے اور ہم نے فیصلہ کیا کہ بقیہ حضرت میاں شریف احمد صاحب کے لئے بھیج دیں گے.چنانچہ ہم نے اپنی پلیٹ میں دوسرا سالن ڈالا جو سب کے لئے پکایا ہوا تھا.اور چوزہ میں سے نہ لیا.حضور نے ابھی چند لقمے ہی کھائے تھے کہ کھانا چھوڑ دیا اور ہم سے اظہار ناراضگی فرمایا کہ مجھے یہ ہرگز پسند نہیں کہ ساتھ بیٹھ کر کھانے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک کروں کہ کوئی خاص کھانا صرف میں ہی کھاؤں.دوسرا کوئی ساتھی نہ کھائے.(۳) اس سفر کے دوران S.S.Africa کا واقعہ ہے کہ حضور کو معلوم ہوا کہ یورپین پلاؤ کو بہت پسند کرتے ہیں تو حضور نے ایک اچھی مقدار میں میاں رحم دین صاحب سے پلاؤ پکوایا اور جہاز کے چیدہ کارکنوں اور اپنے
474 پڑوسی مسافروں میں تقسیم فرمایا.“ ایسا ہی ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں :- جب ہم قدس سے دمشق کو روانہ ہوئے تو ایک اسٹیشن سماخ نامی آتا ہے.وہاں گاڑی کچھ زیادہ عرصہ ٹھہرتی ہے.سٹیشن پر ایک مختصر سا ریسٹورنٹ ہے اور اس میں عام طور پر کچھ روٹی ، انڈے اور ڈبوں میں بند پھل وغیرہ ملتے ہیں چونکہ گاڑی میں مسافر زیادہ تھے روٹی ختم ہو گئی گو بعد میں روٹی باہر سے آگئی ہماری پارٹی جو تھرڈ کلاس میں تھی اس کے لئے سب سے پہلے کھانے کے خریدنے کے لئے نقدی بھجوائی گئی حضرت جب کھانا کھانے لگے تو دریافت کیا کہ دوسرے احباب کو برف دے دی گئی ہے.جب جواب نفی میں ملا تو آپ نے فرمایا کہ پہلے ان کو دے کر آؤ حضرت کے طفیل ہم تو بہت آرام سے سفر کر رہے ہیں.غرض آپ نے پسند نہیں فرمایا کہ جب تک دوسروں کو برف نہ پہنچ جاوے خود سے استعمال کریں.چنانچہ ہمارے پاس برف بھیجی گئی یہ دوسروں کے آرام کو اپنے آرام پر مقدم کرنے کا ایک جذبہ ہے جو قدرتی طور پر حضرت امام کے عمل میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور جو ہمارے ایمان کی ترقی کا الفضل ۱۶.ستمبر ۱۹۲۴ ء صفحہ ۷.۸) مکرم ڈاکٹر صاحب کی ہی اپنے ہم سفر ساتھیوں کے آرام کا خیال رکھنے کے متعلق یہ روایت بھی ہے کہ :- اٹلی میں قریب قریب ہم کو دو ہوٹلوں میں اترنا پڑا اس لئے کہ ایک ہوٹل میں کھانا پکانے کے لئے مشکل تھی اس لئے ایک دوسرا ہوٹل چند احباب کے لئے لینا پڑا تاکہ وہاں کھانا پک سکے.اس وجہ سے چونکہ کھانا دو جگہ کھایا جاتا حضرت اقدس کا یہ معمول ہو گیا کہ کھانا کھانے سے پیشتر ضرور دریافت فرما لیتے کہ سب نے کھا لیا ہے ایک روز آپ کو اطلاع ہوئی کہ بعض احباب کے لئے سالن کم ہو گیا اگر چہ یہ معمولی امر تھا مگر آپ کی طبیعت پر اس کا یہاں تک اثر تھا کہ دوسری صبح کو جب آپ کے سامنے کھانا آیا تو آپ نے خاص طور پر ہدایت دی اور تنبیہ کی کہ کبھی ایسی غلطی آئندہ نہ ہو آپ ہرگز اسکو بھی پسند نہ موجب ہے.“
475 فرماتے کہ آپ کے سامنے دستر خوان پر کوئی چیز ہو اور دوسروں کے سامنے نہ ہو آپ نے عملاً سبق دیا ہے کہ کس طرح پر حق میزبانی اور خُلَّةٌ فِي الدِّينِ کے 66 حقوق ادا کئے جاتے ہیں.(الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۴) خدمت اسلام کے ایک اہم اور ضروری موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے استخاروں، مشوروں اور لمبی سوچ و بچار کے بعد حضور یورپ کے سفر پر تشریف لے گئے.احباب جماعت جس طرح اس عارضی جُدائی پر بے قرار و بے چین ہوئے اس کا اندازہ ذیل میں پیش کئے گئے جذبات سے ہوتا ہے.یادر ہے کہ سفر یورپ کا ذکر تو پہلے کیا جا چکا ہے.مگر یہاں اس با برکت سفر کا ایک اور پہلو.بہت ہی پیارا پہلو.پیش کیا گیا ہے.با بوسراج الدین صاحب سٹیشن ماسٹر لکھتے ہیں :.” میرے آقا ! ہم دور ہیں مجبور ہیں.اگر ممکن ہوتا تو حضور کے قدموں کی خاک بن جاتے تا کہ جدائی کے صدمے نہ سہتے.آقا! میں چار سال سے دارالامان نہیں گیا تھا مگر دل کو تسلی تھی کہ جب چاہوں گا حضور کی قدم بوسی کر لونگا لیکن اب ایک ایک دن مشکل ہو رہا ہے.اللہ پاک حضور کو بخیر و عافیت مظفر ومنصور جلدی واپس لائے.“ ( الفضل ۱۷؍جنوری ۱۹۲۵ ء صفحه ۴ ) منشی عبد العزیز صاحب پٹواری ضلع گورداسپور نے لکھا: حضور کی علالت طبع اور سفر کی تکالیف اور کھانے کا وقت پر میسر نہ ہونا اور کمزوری جسم و نیند دیگر امور متعلقہ سفر کی حالت پڑھ کر دل کو بہت صدمہ ہوتا ہے لیکن جناب الہی میں بحالی صحت کے لئے تضرع اور خشوع سے دعا کے بغیر چارہ نہیں ہے.انشَاءَ اللہ جماعت میں اخلاص اور خشیت حضور کے اس سفر سے نمایاں معلوم ہوتی ہے خدا تعالیٰ اور بھی اخلاص میں ترقی دیوے.“ شیخ عبد الغفور صاحب تاجر کتب گجرات نے کسی مولوی کی سخت بیانی کا ذکر کرنے کے بعد لکھا : - ان کو ہمارے دلوں کا کیا حال معلوم ہے.کاش! وہ ہمارے دلوں کے حالات سے ذرہ بھر بھی واقف ہوتے...ہمارے دل کسطرح اپنے پیارے خلیفتہ المسیح کی یاد میں ہر وقت ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں،
476 ہماری آنکھیں ہر وقت اخبار الفضل کی طرف لگی رہتی ہیں اور جس دن الفضل میں حضور کی خبر نہیں ہوتی وہ دن ہمارا کس طرح بسر ہوتا ہے؟“ الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۴) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب تحریر کرتے ہیں :- " مجھے مری سے واپسی پر حضور کا خط ملا.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے کہ غریبوں کو یاد فرمایا اور نالائقوں پر نوازش فرمائی اللہ تعالیٰ حضور کی دعاؤں کو اس خاکسار کے حق میں مقبول فرمائے اور درخواست کرتا ہوں کہ اپنے سفر اور خاص اوقات کی دعاؤں میں اس عاجز کو بھی نہ بھولیں.ہم لوگ تو کسی وقت حضور کو نہیں بھولتے اور ہر نماز اور ہر وقت کامیابی اور صحت و عافیت اور ترقی مدارج کے لئے دعائیں مانگتے رہتے ہیں.قادیان کی کوئی جگہ نہیں ، کوئی مجلس نہیں، کوئی گفتگو نہیں جو حضور کو یاد نہ دلاتی ہو حضور کی نظم آئی تو آخری شعر نے بڑے بڑے سخت دلوں کو تڑپا دیا.“ الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۴ ) ایچ ایم مرغوب اللہ صاحب لکھتے ہیں :- 66 رات دن حضور کی خیریت کی تار کا منتظر رہتا ہوں.جب کبھی اخبار حضور کی خیریت کے تار درج کرنے سے قاصر رہتا ہے.تو دل میں فکر ہو جاتا ہے آہ! میں وہ لفظ نہیں پاتا وہ قلم نہیں ہے جو میرے دلی جذبات کو قلمبند کرے میرے آقا! خدا حضور کو خیریت سے واپس لاوے میرے ہادی جہاں کہیں ہو خیریت سے رہو.“ الفضل ۱۷ /جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۴ ) حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب والد چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب لکھتے ہیں :- میں اپنی قلم اور زبان کو اس بات سے قاصر پاتا ہوں کہ جناب کو جو ہمدردی اس عاجز سے ہے اس کا شکریہ ادا کر سکوں.حضور نے خاص تار کے ذریعہ سے میری واپسی کا دریافت کیا جس سے ثابت ہے کہ حضور کو اپنی جماعت سے ویسی ہی ہمدردی ہے جیسی کہ ایک ایسے باپ کو بچوں سے ہوتی ہے.جن میں سے ہر ایک بچہ اپنی جگہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں ہی باپ کو سب سے زیادہ عزیز ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کی اس ہمدردی کو ترقی دیوے.آمین.ہم لوگوں کو
477 66 توفیق دے کہ ہم آپ کے بچے جانثار مرید ہوں.“ الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۴) جناب مرزا احمد بیگ صاحب سیالکوٹ تحریر کرتے ہیں :- آج کئی روز سے الفضل میں یا سلسلہ کے کسی اخبار میں حضور انور کی صحت مزاج کا تار شائع نہیں ہوا اور چونکہ پہلے کے شائع شدہ خطوط و حالات میں حضور پُر نور کی بیماری کا ذکر ہے اس لئے نہایت فکر ہو رہا ہے اور جو محبت حضور کے ساتھ حضور کے خدام کو ہے اس کا خیال کر کے حضور انور کو بھی محسوس ہوتا ہوگا کہ حضور کی خیریت کا جلد جلد نہ پہنچنا خدام کو کس قدر مضطرب و مغموم کرتا ہوگا.خدام تو حضور کے فراق میں اس قدر بے قرار و بے تاب ہیں کہ اگر ان کے بس میں ہو تو وہ چاہتے ہیں کہ ہر لمحہ حضور کی خیریت کی خبر پہنچتی رہے.میں جولائی میں قادیان گیا تھا.حضور کی خیریت مزاج اقدس کی تار آئے چند روز ہو گئے تھے.حضور کی خدمت میں تاریں روانہ کی گئی تھیں جن کا کوئی جواب نہیں آیا تھا.بے چینی اور بے تابی کا یہ عالم تھا کہ ہر کہہ ومہ مغموم اور متفکر تھا اور زبانوں پر حضور ہی کا تذکرہ.میرے پیارے ! خدا را ہم عاجزوں پر خادم نوازی فرما کر اپنی صحت مزاج سے جلد جلد بذریعہ تار مطلع فرمایا کریں تا کہ خدام کے لئے فراق کا صدمہ کچھ تو کم ہو.“ الفضل ۱۷.جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۴ ) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.ایک معروف صحابی اور جماعت کے اولین صحافی اس سفر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- میں قدس کے حالات بیان کرنے سے پہلے دو باتوں کا ذکر اگر نہیں کروں گا تو بہت بڑی فروگذاشت کے جرم کا ارتکاب کروں گا وہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی سیرت کا ایک صفحہ ہے غالباً ۱۹۱۳ ء میں حضرت خلیفتہ المسیح نے ایک نظم لکھی تھی.بے وفاؤں میں نہیں ہوں میں وفاداروں میں ہوں حقیقت سے ناواقف اسے ایک شاعرانہ کلام کہہ دیتے ہیں مگر واقعات سے آشنا اس حقیقت کو آئینہ عمل میں دیکھ سکتا ہے حضرت خلیفہ المسیح کی وفا کی
478 داستان طویل اور لذیذ ہے مگر میں اس سفر کے ایک دو واقعات لکھنا چاہتا ہوں مجھے حضرت کے ساتھ پہلے بھی سفروں کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے اس خُلق عظیم کا مشاہدہ کیا ہے کہ سفر میں آپ اپنے رفقاء کے آرام اور آسائش کو اپنی ذات پر ہمیشہ مقدم کرتے ہیں.پرانے واقعات کے تذکرے کا یہ مقام نہیں لیکن یہاں تازہ ترین اور اس سفر کے تازہ ترین واقعات کا ذکر مدنظر ہے اور اس میں سے بھی صرف دو.پورٹ سعید کے کسٹم ہاؤس میں.پورٹ سعید میں ہم رات کو اُترے تھے اور سب سے پہلا کام ساحل پر اتر کر ہمیں جو کرنا پڑا وہ قرنطینہ کے دفتر میں ٹیکس صحت ادا کرنا تھا اور وہاں سے کسٹم ہاؤس میں جانا تھا ٹیکس صحت تو صرف رو پید ادا کرنے تک محدود تھا مگر کٹم ہاؤس اچھا خاصا دارالامتحان تھا.سمندر کے تکلیف دہ پندرہ روزہ سفر کے بعد جب ہم نے سطح زمین پر قدم رکھا تو قدرتی طور پر طبیعت آرام کے لئے بے قرار تھی مگر کسٹم ہاؤس میں ایک کثیر التعداد مسافروں کے سامان کو دیکھنا اور پڑتال کرنا تھا کہ ان میں کوئی چیز قابل محصول اور ممنوع الداخلہ تو نہیں ہے اور اس غرض کے لئے بہت دیر تک وہاں ٹھہر نا پڑتا ہے.یہاں تک کہ آدمیوں اور عورتوں کی تلاشی بھی ہوتی ہے.ہم سب کو بالطبع یہ امر تکلیف دہ معلوم ہوتا تھا کہ حضرت انتظار میں کھڑے تکلیف اُٹھائیں چنانچہ خانصاحب نے عرض کیا کہ حضور تشریف لے جاویں مگر آپ نے فرمایا میں سب کو ساتھ لے کر جاؤ نگا ان الفاظ میں اپنے خدام کے ساتھ محبت اور شفقت کا جواثر ہے وہ قلب سے نکل کر قلب پر ہی پڑتا ہے خدام چاہتے ہیں کہ آپ جا کر آرام کریں مگر آپ کو اس وقت تک آرام آ ہی نہیں سکتا جب تک کہ آپ کے خدام بھی آرام نہ کریں.ماں کی محبت اور مامتا ایک ضرب المثل ہے مگر جو محبت امام کو اپنی جماعت کے ہر فرد سے ہوتی ہے دنیا کی کوئی محبت اور مامتا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اس لئے کہ اس کی محبت دنیا کے تمام رشتوں سے بڑھ کر ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب تک ہم بھی دنیا کے تمام رشتوں سے بڑھ کر اس سے محبت نہ کریں ہم بھی ایمان میں کامل نہیں ہو سکتے......فرض نہ ایک بار بلکہ
479 متعدد مرتبہ عرض کیا گیا مگر آپ نے وہی جواب دیا اور ایک مرتبہ تو فرمایا کیا مجھے آرام کی بہت ضرورت ہے سب اکٹھے چلیں گے آپ نے یہ عمل محض سبق کے لئے نہیں دکھایا بلکہ آپ کی فطرت میں یہ بات داخل ہے سفر میں ہمیشہ دوسروں کے آرام کو مقدم کر لیتے ہیں.اسی پورٹ سعید میں جب جہاز سے اُترے اور موٹر لانچ میں سوار ہوئے تو اس وقت تک دریافت کرتے رہے جب تک کہ سب سوار ہو گئے.چوہدری محمد شریف صاحب اور میاں رحم دین صاحب آگے تھے اور حضرت کی نظر ان پر نہ پڑی تھی آپ نے نہایت ہی فکر سے دریافت کیا کہ وہ کہاں ہیں جب ان کو خود دیکھ لیا اس وقت روانہ ہوئے.یمن سے عدن تک حالات بیان کرتے ہوئے حضرت عرفانی صاحب تحریر کرتے ہیں: آج ۲۲.جولائی ۱۹۲۴ء کو عرب کے سمندر کے سامنے تختی جہاز پر بیٹھا ہوا یہ خط برادرانِ ملت کے لئے لکھ رہا ہوں جس طرح سمندر میں بے انتہاء چھوٹی بڑی موجیں اٹھ رہی ہیں ٹھیک وہی کیفیت مرے دل و دماغ کی ہے اس سفر کے مختلف مناظر اور کیفیت میرے سامنے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک خوبی رکھتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ احباب اس چھوٹی سے چھوٹی مسرت اور لطف میں بھی شریک ہوں جو میں نے اٹھایا ہے مگر یہ خط نہ تو اس کا متحمل ہے اور نہ میری طبیعت میں ابھی وہ قوت اور قابو ہے اس لئے میں کوائف سفر کو شاید بہت ہی مختصر لکھ جاؤں مگر ان حالات کو انشَاءَ اللہ کسی قدر تفصیل سے لکھنے کی کوشش کرونگا جو کسی نہ کسی پہلو سے ہمارے آقا و امام کے ان جذبات کے اظہار سے وابستہ ہیں جن سے آپ کے اس تعلق اور رشتہ کا پتہ چلتا ہے جو آپ کو اپنی جماعت سے ہے یا ان اغراض اور مقاصد مہم کا علم ہوتا ہے جو سلسلہ کی تبلیغ و اشاعت اور حضرت نبی کریم صلی اللہ و الہ وسلم کے نام کو آفاق میں پہنچانے کے لئے آپ کے پیش نظر ہیں.بمبئی کے اسٹیشن پر بمبئی اور گردو نواح کی جماعتیں موجود تھیں.جس اخلاص اور عقیدت کے ساتھ احباب نے خیر مقدم کیا اس کا اظہار الفاظ نہیں کر //////
480 سکتے آپ نے پہلے سے فرما دیا تھا کہ احباب کو مطلع کر دیا جائے کہ میں مصافحہ کر کے لک کے دفتر میں جاؤ گا.ملک کا دفتر اس مقصد کے لئے اس وقت تک کھلا رکھا گیا تھا اگر چہ تجارتی نقطہ نگاہ سے لگ کمپنی کا یہ ایک معمولی فعل ہومگر ایک یورپین اوقات کی پابند کمپنی کے لئے غیر معمولی طور پر دفتر کو کھلا رکھنا مشکل ہوتا ہے اور میں اس وقت دیکھتا تھا کہ وہ خادموں کی طرح آپ کے ارشادات کی تعمیل میں مصروف تھے.( بمبئی میں جہاز پر سوار ہونے سے قبل ) حضرت کی مصروفیات بے حد تھیں چھلی راتوں سے بھی آپ جاگتے آئے تھے اور یہاں بھی یہی مرحلہ پیش آیا.بمبئی کے ساحل پر جماعت چشم پر نم کھڑی تھی اور افریقہ جہاز کے تختہ پر احمدی جماعت کا محبوب آقا خدام کو لے کر خدا حافظ کہنے کو تھا.امید، توگل عَلَی اللہ اور مہم عظیم کے خطرات، جماعت سے جسمانی بعد اور علیحدگی ، سلسلہ کی ضروریات اور نظم ونسق کے خیالات مل کر جو کیفیتیں پیدا کر سکتے ہیں وہ آپ کے چہرہ سے عیاں تھیں.انسانی جذبات پر کسی قدر بھی حکومت ہو ضبط پر کتنا بھی اقتدار ہو آخر اپنا اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتے ایسی حالت میں جب کہ دو پیارے جُدا ہوتے ہیں انسان کی جو حالت ہوتی ہے وہ ظاہر ہے آپ اس کیفیت اور جذ بہ سے خالی نہ تھے.لیکن اس وقت اس جذبہ کا اظہار ہوا جو وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ میں بیان ہوا ہے.جماعت سے علیحدگی کا ایک فکر اور غم آپ کے قلب پر تھا اور سلسلہ کی محبت اور احباب و رشتہ داروں اور عزیزوں کی محبت کے جذبات ایک طرف تھے.جماعت کے وہ نمائندے جو ساحل سمندر پر کھڑے ہوئے گل جماعت کے جذبات کی ترجمانی اپنی آنکھوں اور چہروں سے کر رہے تھے وہ اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی تھیں مگر اس وقت ہم نے وہ کچھ دیکھا جو خدا کی محبت میں خمیر شدہ انسان کے سوا نظر نہیں آتا ان تمام کیفیتوں کا اثر دعا کی صورت میں ظاہر ہوا اور آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اس کے ساتھ ہی جماعت نے اپنے ہاتھ رب العزت کے حضور اٹھائے ان ہاتھوں میں کیا اثر تھا اور اس قلب
481 میں کیا کیفیت تھی کہ ایک بجلی سی کوندی جس نے تختہ جہاز پر اور ساحل پر کھڑے ہوئے بھائیوں کی آنکھوں میں ایک رو پیدا کر دی جوں جوں دعا میں وقت لمبا ہوتا تھا قلوب رب العرش کے حضور خشوع اور خضوع کے ساتھ پانی ہو رہے تھے یہاں تک کے جہاز کی روانگی کا وقت گزرنے لگا مگر افسرانِ جہاز پر بھی ایسی محویت تھی کہ وہ نہ دعا کو ختم کرنے کے لئے کہہ سکتے تھے اور نہ جہاز روانہ کر سکتے تھے.آخر آپ نے دعاختم کی اور دعا کے ساتھ آسمان سے ترشح شروع ہوا جسے میں اس دعا کی قبولیت کا نشان سمجھتا ہوں.ہم نے دعاؤں کے ساتھ ایک دوسرے کو رخصت کیا السَّلَامُ عَلَيْكُم اور خدا حافظ کے نعروں سے فضا گونجی ایک طرف ہوا میں رومال اُڑ رہے تھے اور ہاتھ سے الوداع کہا جا رہا تھا دوسری طرف خدا حافظ اور السَّلَامُ عَلَيْكُم کی صدا ئیں تھیں جو مادیات کے سمندر کو حرکت میں لا رہی تھیں لوگوں کو حیرت تھی اور خدا سے دور اور نا واقف لوگوں کو اگر حیرت نہ ہو تو کیا ہو تختہ جہاز پر ایک خاص کیفیت محسوس ہوتی تھی آپ کی حالت اس وقت قابل نظارہ تھی جہاز ایک خاص دُخانی کشتی کے ذریعہ حرکت دیا جا رہا تھا جماعت کے لوگ کنارے پر کھڑے تھے حضرت دل میں دعا کر رہے تھے پھر یکبارگی آپ کو جوش آیا اور آپ نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے انسانی جذبات کا اثر آپ کی آنکھوں سے نمایاں ہو گیا اور پُر نم آنکھوں کے ساتھ آپ نے دعا کی اور بڑی لمبی دعا کی جماعت کے وہ لوگ جو اس وقت ساحل سمندر پر تھے خصوصاً اور تمام جماعت مبارک باد کے قابل ہے کہ اسکے حق میں حضرت امام نے اس وقت خاص طور پر دعا کی اور دعا معمولی دعا نہ تھی بلکہ اس دعا میں وہ جوش، وہ کرب اور اضطراب ملا ہوا تھا جو قبول ہونے والی دعا کے اجزاء لازمہ ہیں.آپ دیر تک دعا کرتے رہے دعا کے بعد ایک اور عالم آپ پر طاری ہوا.جہاز کی حرکت کے ساتھ جماعت کے لوگ چدھر سے قریب ہوتے آپ دوڑ کر اُدھر ہوتے اور اپنے قریب پا کر پھر دعا کرتے آپ کا اس وقت ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر دوڑنا ایک کیفیت پیدا کرتا تھا.ماں کی محبت میں
482 بے شک ایسے جذبات کا اثر ہو سکتا ہے وہ ماں جو اپنے بچے سے الگ ہو اور اسکے اور اسکے بچہ کے درمیان کوئی چیز ایسی حائل ہو جا وے جو اس تک پہنچنے نہ دے اسی کیفیت کا اندازہ کرو.جہاز کی حرکت کے ساتھ آپ ادھر سے اُدھر ہوتے اور قلبی برقیت کے ذریعہ حاضرین پر اثر ڈال رہے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساحل پر کھڑے ہوئے احباب بھی اس حرکت کے ساتھ ادھر سے اُدھر ہونے لگے.ایک حقائق سے نا آشنا اس کو محض عقیدت کا نتیجہ کہے گا مگر میں ( حضرت یعقوب علی عرفانی ) ایک یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ کوئی چیز اندر ہی اندر حرکت دے جاتی تھی ، ساحل کے احباب دوڑتے ہوئے دوسری گودی پر آ رہے تھے انکی بے اختیاری اس کیفیت کو ظاہر کرتی تھی کہ وہ خود نہیں بلکہ کھچے چلے آ رہے ہیں.محبت کے جذب و کشش کی اس زبر دست قوت کو ہر شخص سمجھ بھی نہیں سکتا.آخر جہاز نے ہم کو دوستوں کی اور دوستوں کو ہماری نظروں سے تو غائب کر دیا مگر اس کیفیت کا اثر دماغ اور دل پر مستولی ہے.اور ان اثرات نے با وجود جسمانی بعد کے انہیں اور بھی قریب کر دیا.اس وقت حضرت نے فرمایا ایک چھوٹی سے لاسلکی ہوتی جس سے میں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتا اور جماعت والے اس کے ذریعہ سے وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ کہتے.بے شک اس وقت حضرت امام کے پاس وہ لاسکی نہ تھی جو مارکونی نے ایجاد کی ہے مگر وہ لاسلکی تھی اور ہے اور رہے گی جو دل را بدل راھست“ کی مصداق ہے حضرت کا یہ ارشاد یقیناً ہر قلب پر اپنا اثر اور پر تو ڈال رہا تھا اور السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کا تبادلہ کر رہا تھا میں ہر اس دوست سے پوچھتا ہوں جو اس د چٹھی کو پڑھ رہا ہے کہ کیا اس کا قلب حضرت امام کے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کی صدا کو محسوس نہیں کرتا ؟ لاسلکی ہو یا نہ ہو آواز آئے یا نہ آئے تاثری کیفیت پیدا ہو یا نہ ہومگر یہ خواہش کسی چیز کا اظہار کرتی ہے کہ وہ اپنی جماعت کی سلامتی کا کس قدر متمنی
483 اور دلدادہ ہے اور یہی وہ چیز ہے جو جماعت کی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے امام کے دل میں اس کے لئے تڑپ اور جذبہ ہے.غرض ان جذبات کے ساتھ ہمارے امام نے جماعت کو خدا حافظ کہا اور بحیرہ عرب کے پانیوں پر جہاز نے حرکت شروع کی.حضرت سفر یورپ پر روانہ ہو چکے ہیں راستے میں احباب جماعت کی عقیدت و محبت کے بے نظیر مظاہرے ملاحظہ ہوں.بٹالہ اسٹیشن پر گاڑی آچکی تھی جب حضور کی موٹر سٹیشن پر آئی.دیر سے پہنچنے کی وجہ ایک تو بشر الدعا پر لوگوں کے مصافحہ کرنے میں بہت وقت صرف ہوا.پونے دس کے قریب وہاں سے روانہ ہوئے تھے پھر راستہ میں موٹر اپنی معمولی امراض میں مبتلا ہوتے رہے اور حضرت اگر کچھ آگے نکل جاتے تو ٹھہر کر دوسری موٹر کا انتظار فرماتے باوجود یکہ وقت تنگ ہور ہا تھا اور خدام سفر گھبرا رہے تھے کہ مبادا ٹرین نکل جاوے مگر حضرت کے چہرہ پر اطمینان اور مستقل مزاجی کی رو دوڑتی نظر آتی تھی باوجود یکہ موٹر دیر سے پہنچے اور گاڑی بھی آچکی تھی لیکن آپ اسی اطمینان سے اُترے اور احباب سے مصافحہ کرنے میں مصروف ہو گئے.بٹالہ سٹیشن پر احباب و خدام اور دوسرے لوگوں کا اس قدر مجمع ہو گیا تھا کہ جماعت بٹالہ نے باوجود یکہ فوٹو کا انتظام کیا ہوا تھا مگر اس میں کامیابی نہ ہو سکی جس طرح سمندر میں موج اٹھتی ہے اسی طرح انسانوں کی یہ متحرک موج ایک عجیب منظر پیش کرتی تھی.چونکہ بٹالہ باب القادیان ہے اس لئے قادیان کے اکثر احباب بھی مشایعت کے لئے یہاں آئے اور بعض ان میں سے سہارنپور تک پہنچے گاڑی کی روانگی کا نظارہ قابل دید تھا سینکڑوں آدمی پائدانوں پر کھڑے تھے اور سینکڑوں کی تعداد میں گاڑی کے ساتھ دوڑتے تھے اور اپنی انتہائی کوشش سے ایسی مسابقت کرنا چاہتے تھے کہ اس سے آگے نکل کر اپنے آقا کے پاس پہنچ جاویں اور مصافحہ کر لیں.دراصل نفسیات کا یہ ستر ہے کہ جب کسی چیز کی محبت غالب آ جاتی ہے تو اس کے لئے انسان ہر قسم کی قربانی کی کہ اپنی جان کو بھی قربان کر دینا آسان سمجھتا ہے.ان
484 دوستوں کے جذبات محبت و اخلاص اور ہر اس جان میں ایک جنگ ہو رہی تھی.اگر خدانخواستہ پاؤں پھسل گیا یا دھکا لگا تو کیا نتیجہ ہوگا ذرا بھی پرواہ نہ کی.گاڑی اپنی رفتار سے دوڑتی تھی اور احباب ساتھ ساتھ دوڑتے اور مصافحہ کرتے تھے وہ وقت خطرہ کا تھا اگر ایک ہی آدمی ہوتا تو ممکن تھا خطرہ کم ہوتا مگر جب ایک کثیر تعداد دوڑتی ہوئی جا رہی ہو تو خطرات بڑھ جاتے ہیں.ایک دوسرے کے دھگا کا بھی خطرہ ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس روح کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی جب تک کوئی قوم کوئی جماعت اپنے اندر یہ شعور پیدا کر کے یہ فیصلہ نہیں کر لیتی کہ وہ اپنے امام کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے انشراح تام رکھتی ہے اس وقت تک اس کی کامیابی اور ترقی کا خیال ایک موہوم خیال ہوتا بہر حال یہ نظارہ محبت امام کا ایک پیارا منظر تھا جس کے ساتھ دیکھنے والوں کے لئے خوفناک منظر تھا اور خطرہ تھا کہ کسی کو نقصان نہ پہنچ جائے.مگر یہ جماعت مخلصین دوڑتی رہی جب تک پلیٹ فارم ختم نہ ہو گیا اور ریل کی تیز رفتاری نے اسے پیچھے نہ ڈال دیا.پائدانوں پر جو جماعت تھی وہ کھڑی رہی.آپ کی گاڑی کا کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا مگر پھر بھی آپ نے کسی کو اندر آنے سے روکنے نہیں دیا.یہ اسی محبت کا نتیجہ تھا جس سے یہ کشش اور جذب لوگوں میں پیدا ہوا.حقیقت میں آپ کی اسی محبت کی تاریں ہی تو تھیں جو دوسروں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں.....گرمی کا موسم ہے اور ہجوم کا صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے مگر باوجود اس کے نہایت خوشی اور خندہ پیشانی سے مخلوق کو اندر جمع کر رہے ہیں یہ حقیقت ہے اس امر کی کہ محبت محبت کو پیدا کرتی ہے.غرض گاڑی کی تیزی رفتار نے نظروں سے بٹالہ کے منظر کو چھپا دیا مگر پائدانوں پر چڑھی ہوئی مخلوق اور اس نظارہ کا تصور دماغ میں اس کی یاد تازہ کرتا جاتا تھا کہ ہم امرتسر پہنچے بٹالہ سے امرتسر تک کے سٹیشنوں پر زائرین کا ایک تانتا الفضل ۲۲.جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۱) بندھا ہوا تھا.ان تأثرات کو پڑھ کر حضور سے جماعت کی والہانہ محبت وعقیدت کا اندازہ ہوتا ہے مگر
485 دوسری طرف حضور کی جو کیفیت تھی وہ تو اس سے بھی بڑھ کر تھی.حضور کا مندرجہ ذیل مکتوب اور اس پر مدیر صاحب الفضل کا ابتدائیہ اس ایمان افروز حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے.ادارتی نوٹ: - حضور نے یہ مختصر خط جو رات کی نہایت گہری تاریکی میں اور سمندر کی متلاطم موجوں پر بیٹھ کر اپنے خدام کی طرف لکھا ہے سمندر سے بھی زیادہ پُر جوش جذبات قلب کی لہریں اپنے اندر رکھتا ہے.اس کے ایک ایک لفظ سے محبت اور الفت کی اتنی اتنی بڑی موج اٹھتی ہے جو مخاطبین کو نہایت عمدگی سے اپنے اندر چھپا لینے کے لئے کافی ہے.اس محبت ، اس اُلفت، اس جذب، اس اشتیاق پر جو فوارے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہا ہے جماعت احمدیہ جس قدر بھی تشکر و اطمینان کا اظہار کرے کم ہے اس کے بدلہ میں ہماری طرف سے کچھ پیش ہونا تو الگ رہا یہ خیال بھی نہیں آ سکتا کہ ہم کچھ پیش بھی کر سکتے ہیں ہاں خدا تعالیٰ کے حضور نہایت خشوع و خضوع سے یہ عرض کر سکتے ہیں کہ جس طرح اُس نے اپنے فضل و کرم سے اس قدر محبت کرنے والا ، اس قدر جدائی کا صدمہ محسوس کرنے والا اس قدر پیار اور اُلفت رکھنے والا ہادی اور امام عطا فرمایا ہے اسی طرح اپنے ہی کرم سے اس سفر میں اس کا محافظ اور نگہبان ہو.اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ علی الصباح که مردم کاروبار روند بلاکشان محبت کوئے یار روند آج جہاز عدن کے قریب ہو رہا ہے، صبح ۴ بجے خشکی پر جہاز لگے گا، طوفان کے علاقہ سے جہاز خدا کے فضل سے نکل آیا ہے اور اب ہموار پانیوں میں چل رہا ہے.مسافر جو کئی دنوں سے کمروں میں بند تھے اب باہر نکل کر سیر کر رہے ہیں.اور خوشگوار ہوا اور عمدہ موسم کے لطف اٹھا رہے ہیں.کچھ تو تاش میں مشغول ہیں جس کے ساتھ جوئے کا شغل بھی ہے، کچھ شراب کے گلاس اُڑا رہے ہیں، کچھ صحن میں بنچوں پر لاتیں پھیلا کر ہوا کھا رہے ہیں، کئی سو بھی گئے
486 ہیں، رات کا وقت ہے اور رات بھی خاصی گذر چکی ہے مجھے لوگ کہتے ہیں کل رات آپ کم سوئے تھے اب سو جائے مگر عدن قریب آ رہا ہے اور جہاز وہاں تھوڑی دیر ٹھہرے گا اگر میں اس وقت اپنا قلم رکھ دیتا ہوں تو پھر مجھے عدن کے بعد ہی کچھ لکھنے کا موقع ملے گا اس لئے میں ان دوستوں کی نصیحت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بھی کہتا ہوں کہ خط نصف ملاقات ہوتی ہے میں خدا کی مشیت کے ماتحت اپنے دوستوں کی پوری ملاقات سے تو ایک وقت تک محروم ہوں پس مجھے آدھی ملاقات کا تو لطف اُٹھانے دو.مجھے چھوڑو کہ میں خیالات و افکار کے پر لگا کر کاغذ کی ناؤ پر سوار ہو کر اس مقدس سرزمین میں پہنچوں جس سے میرا جسم بنا ہے اور جس میں میرا ہادی اور رہنما مدفون ہے اور جہاں میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی راحت دوستوں کی جماعت رہتی ہے ہاں پیشتر اس کے کہ ہندوستان کی ڈاک کا وقت نکل جائے مجھے اپنے دوستوں کے نام ایک خط لکھنے دو تا میری آدھی ملاقات سے وہ مسرور ہوں اور میرے خیالات تھوڑی دیر کے لئے خالص اسی سرزمین کی طرف پرواز کر کے مجھے دیار محبوب سے قریب کر دیں.لوگوں کو آرام کرنے دو، کھیلنے دو، شراب پینے دو، میری کھیل اپنے آقا کی خدمت ہے اور میری شراب اپنے مالک کی محبت ہے اور میرا آرام اپنے دوستوں کا قرب ہے خواہ خیال سے ہی کیوں نہ ہو.کہتے ہیں کہ کسی چیز کی قدر اس کے کھوئے جانے سے ہی ہوتی ہے.میں نے اس سفر میں یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا.وہ دوست جو پہلے اس خیال کے اثر کے نیچے کہ ادھر میں ولایت گیا اور اُدھر یورپ فتح ہوا اصرار کر رہے تھے کہ ضرور میں ولایت جاؤں اور اس فتح کے دن کو ان کے قریب کر دوں.جس دن کہ میں روانہ ہو رہا تھا ماہی بے آب کی طرح بے تاب ہو رہے تھے اور کئی افسوس کر رہے تھے کہ ہم نے جانے کا مشورہ کیوں دیا.میں بھی جس نے باوجود اس امر کے علم کے کہ موسم سخت ہے اور طوفان کے دن ہیں ارادہ کر لیا تھا کہ اس موقع پر ضرور مغرب کا سفر کروں اور اسلام کی اشاعت کی سکیم تجویز
487 کروں دل میں محسوس کرتا تھا کہ جدائی کا ارادہ کر لینا تو آسان ہے مگر جدا ہو جانا خواہ چند دن کے لئے ہی ہو سخت مشکل ہے.آہ ! وہ اپنے دوستوں سے رخصت ہونا، ان دوستوں سے جن سے مل کر میں نے عہد کیا تھا کہ اسلام کی عظمت کو دنیا میں قائم کروں گا اور خدا تعالیٰ کے نام کو روشن کروں گا ہاں ان دوستوں سے جن کے دل میرے دل سے اور جن کی روحیں میری روح سے اور جن کی خواہشات میری خواہشات سے اور جن کے ارادے میرے ارادوں سے بالکل متحد ہو گئے تھے حتی کہ اس شعر کا مضمون ہم پر صادق آتا تھا کہ من تو محمدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تاکس نه گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری! کیسا اندوہناک تھا ، کیسا حسرت خیز تھا ، وہ دل جو اس محبت سے نا آشنا ہے جو مجھے احمدی جماعت سے ہے اور وہ دل جو اس محبت سے نا آشنا ہے جو احمدی جماعت کو مجھ سے ہے وہ اس حالت کا اندازہ نہیں کر سکتا اور کون ہے جو اس درد سے آشنا ہو جس میں ہم شریک ہیں کہ وہ کیفیت کو سمجھ سکے.لوگ کہیں گے کہ جُدائی روز ہوتی ہے اور علیحدگی زمانے کے خواص میں سے ہے مگر کون اندھے کو سورج دکھائے اور بہرے کو آواز کی دلکشی سے آگاہ کرے.اس نے کب اللہ اور فی اللہ محبت کا مزہ چکھا کہ وہ اس لطف اور اس درد کو محسوس کرے اس نے کب اس پیالہ کو پیا کہ وہ اس کی مست کر دینے والی کیفیت سے آگاہ ہو دنیا میں لیڈر بھی ہیں اور ان کے پیر و بھی، عاشق بھی ہیں اور ان کے معشوق بھی محت بھی ہیں اور ان کے محبوب بھی.مگر ہر گئے را رنگ و بُوئے دیگر است کب ان کو اس ہاتھ نے تاگے میں پرویا جس نے ہمیں پرویا ؟ آہ! نادان کیا جانیں کہ خدا کے پروئے ہوؤں اور بندوں کے پروئے ہوؤں میں فرق ہوتے ہیں.بندہ لاکھ پر وئے پھر بھی سب موتی جدا کے جدا رہتے ہیں.مگر خدا کے پروئے ہوئے موتی کبھی جدا نہیں ہوتے.وہ اس دنیا میں بھی اکٹھے رہتے ہیں اور اگلے جہاں میں بھی اکٹھے ہی رکھے جاتے ہیں.پھر ان کے دلوں
488 کے اتصال اور ان کے قلوب کی یگانگت پر کسی اور جماعت یا اور تعلق کا قیاس کرنا نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟ غرض کہ اس سفر نے اس پوشیدہ محبت کو جو احمدی جماعت کو مجھ سے تھی اور مجھے ان سے تھی نکال کر باہر کر دیا اور ہمارے چھپے ہوئے راز ظاہر ہو گئے.اور ان کا ظاہر ہونے کا حق بھی تھا.نہاں کے ماند آن رازے کزو سازند محفلها اے عزیز و! میں آپ سے دور ہوں مگر جسم دور ہے روح نہیں.میرا جسم کا ذرہ ذرہ اور میری روح کی ہر طاقت تمہارے لئے دعا میں مشغول ہے.اور سوتے جاگتے میرا دل تمہاری بھلائی کی فکر میں ہے.میں اپنے مقصد کے متعلق جہاز میں ہی ایک حصہ کا فیصلہ کر چکا ہوں اور اپنے وقت پر اس کو ظاہر کروں گا.مگر میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ مجھے جس قدر ہندوستان میں یقین تھا کہ اگر اسلام پھیل سکتا ہے تو آپ لوگوں کے ذریعہ سے اب اس سے بہت زیادہ یقین ہے.آہ! تم ہی وہ خدا کا عرش ہو جس پر سے خدا تعالیٰ حکومت کر رہا ہے تم کو خدا نے نور دیا ہے جبکہ دنیا اندھیروں میں ہے تم کو خدا نے ہمت دی ہے جبکہ دنیا مایوسیوں کا شکار ہو رہی ہے تم کو خدا تعالیٰ نے برکت دی ہے جبکہ دنیا اس کے غضب کو اپنے پر نازل کر رہی ہے اور کیوں نہ ہو تم خدا کی پاک جماعت ہو تمہارے دل اس کے عرش ہیں.آہ! اندھی دنیا کو کیا معلوم ہے کہ جب ایک احمدی ان کے محلہ میں پھرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا سورج ہے جو اس کے ظلمت کدہ کو منور کر رہا ہے مگر اندھے کو روشنی کون دکھائے؟ خوبصورت چہرہ بدصورت کے مقابلہ پر زیادہ بھلا معلوم ہوتا ہے اور میں دنیا کو دیکھ کر اس جماعت کی خوبصورتی کو دیکھتا ہوں کاش! لوگ میری آنکھیں لیتے اور پھر دیکھتے.کاش! لوگوں کو میرے کان ملتے اور پھر وہ سنتے تب وہ تم میں وہ کچھ دیکھتے جس کے دیکھنے اور سننے کی انہیں امید نہ تھی مگر ہر امر کے لئے ایک وقت ہوتا ہے.وہ دن آتے ہیں کہ جب مسیح موعود کی قوت قدسیہ لوگ دیکھیں گے کاش! ہم بھی اس دن کو جو خدا کے پہلوان کی فتح کا دن ہوگا ، دیکھیں.
489 پر فرمایا : - اے عزیز و! اب میں اپنے خط کو ختم کرتا ہوں مگر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صاف کپڑے کی نگہداشت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے میلے پر اور میل بھی لگ جائے تو اس کا پتہ نہیں لگتا.پس اپنے آپ کو صاف رکھو تا قد وس خدا تمہارے ذریعہ سے اپنے قدس کو ظاہر کرے اور اپنے چہرہ کو بے نقاب کرے.اتحاد، ،محبت، ایثار، قربانی، اطاعت، ہمدردی بنی نوع انسان ، عفو، شکر، احسان اور تقویٰ کے ذریعہ سے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کا ہتھیار بننے کے قابل بناؤ.یاد رکھو تمہاری سلامتی سے ہی آج دین کی سلامتی ہے اور تمہاری ہلاکت سے ہی دین کی ہلاکت.دنیا تم کو تباہ کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر مجھے اس کا فکر نہیں.اگر تم خدا کو ناراض کر کے خود اپنے آپ کو ہلاک نہ کر لو تو دنیا تم کو ہلاک نہیں کر سکتی کیونکہ خدا نے تم کو بڑھنے کے لئے پیدا کیا ہے نہ ہلاک ہونے کے لئے.لکھنے کو تو بہت کچھ جی چاہتا تھا مگر اب ۲ بجنے کو ہیں.پس میں اس خط کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ بھی ہو اور ہمارے ساتھ بھی.آمین (الحکم ۱۴.اگست ۱۹۲۴ ءصفحہ ۷ ) آئندہ نسلوں کی تربیت و راہنمائی بھی حضور کے مد نظر تھی اس کے متعلق ایک اور موقع اس میں شک نہیں کہ بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے متعلق ہزار سال قبل بھی غور کرنا ضروری ہوتا ہے مثلاً ابھی ہمیں حکومت نہیں ملی مگر اس کے قواعد اور طریق نظم ونسق کے متعلق میری کتابوں میں بحثیں موجود ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے ہمیں جونور ملا ہے اسے بعد میں آنے والوں کی نسبت ہم زیادہ اچھی طرح پیش کر سکتے ہیں اور چونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے ہم اسے پیش کرتے رہتے ہیں تا آئندہ نسلوں کو فائدہ پہنچ سکے.کیونکہ اس بارہ میں وہ ہماری رہنمائی کی بہت زیادہ محتاج ہیں.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء صفحه ۳۲) ظلم سے اجتناب کی نصیحت کرتے ہوئے نہایت پر حکمت طریق پر آپ فرماتے ہیں :-
490 میں نے ایک لمبی عمر انسانوں میں گزاری ہے اور بیشمار انسانوں سے ملا ہوں.میں نے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جس نے یہ کہا ہو کہ میں نے فلاں کو ظلم کرتے دیکھا تو میرے دل میں اس کی بے حد محبت پیدا ہو گئی مگر ایسے سینکڑوں اور ہزاروں انسان دیکھے ہیں جنہوں نے کسی کو مار پڑتی دیکھی تو با وجود کسی قسم کا تعلق نہ ہونے کے اس کے متعلق ہمدردی پیدا ہوگئی.پس دنیا میں مظلوم ہی محبوب ہو سکتا ہے.ظالم کبھی محبوب نہیں بن سکتا اور نہ اس سے کسی کو ہمدردی اور محبت ہو سکتی ہے.جب ہر شخص یہ بات جانتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ ظالم بننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور مظلوم بننا پسند نہیں کرتے.“ الفضل ۲۳ مئی ۱۹۴۶ء صفحه ۲) حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کو ایک لمبا عرصہ حضور کے معالج خاص اور معتمد علیہ ساتھی اور رفیق ہونے کی قابلِ صد رشک سعادت حاصل رہی.حضور کی پاکیزہ سیرت کے متعدد پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والی حضرت ڈاکٹر صاحب کی روایت ملاحظہ ہو.یه سراسر فضل و احسان ہے کہ میں آیا پسند وو ورنہ درگہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار جب مہلک قسم کا انفلوئنزا پھیلا ہوا تھا تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی انفلوئنزا کے سخت حملہ کے شکار ہو گئے اور موجودہ انتظام علاج معالجہ کے علاوہ ایک دو اور ڈاکٹروں کی ضرورت پیش آگئی.چنانچہ حضور کے ارشاد پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی جانب سے دو تار روانہ کئے گئے.ایک حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کو پانی پت میں اور دوسرا اس ناچیز ڈاکٹر حشمت اللہ کو پٹیالہ بھیجا گیا.چنانچہ یہ عاجز تار ملنے پر رخصت لے کر امرتسر بٹالہ جانے والی سب سے پہلی گاڑی پر سوار ہو گیا اور اگلے روز قادیان پہنچ گیا.حضرت میر صاحب بھی اس سے ایک دن بعد پہنچ گئے.قادیان پہنچ کر جب میں نے حضور کا طبی معائنہ کیا اور یہ اظہار کیا کہ حضور کے پھیپھڑے صاف ہیں اور دل کی حالت بہت اچھی ہے اور دل خدا کے فضل سے با قاعدہ ہے تو اس وقت حضور کو بہت تسلی ہوئی اور چہرہ سے طمانیت اور شگفتگی ظاہر ہونے لگی.اسی
491 اثناء میں اندرون خانہ سے حضور کے لئے چوزہ کی یخنی لائی گئی جو ایک پیالی میں تھی حضور نے خادمہ کو پیالی مجھے دیدینے کا ارشاد فرمایا.میں نے ارشاد کی تعمیل میں لے لی اور حضور کے پیش کی تو فرمایا.آپ پئیں.میں سخت حیران ہو گیا کہ یخنی آئی تو حضور کے لئے ہے جو ضعف کا علاج ہے.میں کس طرح پیؤں مگر ارشاد کی تعمیل بھی ضروری تھی.میں نے ایک پیچی بھر کر اس طرح پی لی کہ پیچی ہونٹوں کو نہ چھوئے اور پیالی حضور کے پیش کر دی.حضور نے فرمایا آپ پیئیں.تو میں نے پھر ایک پیچی لے کر پیالی پیش کر دی.تب حضور نے فرمایا اور پئیں.چنانچہ میں نے تیسری چی لی اور پیالی پیش کر دی.تب حضور نے وہ یخنی خود پی لی اور فرمایا کہ میں نے سنتِ نبوی پر عمل کیا ہے.پھر مجھے سمجھ آیا کہ حضور نے کیوں مجھے یخنی پینے کے لئے فرمایا تھا.حالانکہ وہ آئی حضور کے لئے تھی.میرے دل میں اپنے آپ محسن کا شکر پیدا ہوا اور اب تک شکر کرتا ہوں کہ اس نے اپنے فضل و رحم سے مجھے اس سے بچالیا کہ حضور کے پہلے ارشاد پر پیالی منہ کو لگا کر تمام یخنی پی جاتا.یہ آداب ایازی کی پہلی بجا آوری تھی.میری رخصت صرف دو روز کی تھی اس بناء پر میں چوبیس گھنٹے قادیان میں ٹھہر سکتا تھا.مگر حضور کی حالت تقاضا کر رہی تھی کہ میں حضور کی حاضری سے ہرگز جدا نہ ہوں پس میں نے بغیر کسی کو اپنی حاصل کردہ رخصت کا بتائے ایک ہفتہ کی رخصت کی درخواست از خود بھیج دی باوجودیکہ میں جانتا تھا کہ یہ درخواست سول سرجن کے لئے بہت تکلیف دہ ہوگی کیونکہ ان دنوں کے انفلوئنزا کے غضبناک حملہ کی وجہ سے جو قریباً تمام دنیا پر حاوی تھا کسی ڈاکٹر کو بھی تھوڑی سے تھوڑی رخصت ملنا محال تھی.چنانچہ درخواست کی منظوری کی اطلاع کی بجائے مجھے سخت قسم کا نوٹس میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے آیا اور سول سرجن نے تو کمال کیا کہ وہ میرے مکان پر خود پہنچا اور میرے بڑے بھائی صاحب حضرت محمد یوسف کو فوری طور پر قادیان جانے اور عاجز راقم کو واپس لانے کے لئے مجبور کیا.چنانچہ میرے قادیان پہنچنے کے چوتھے پانچویں روز بھائی صاحب قادیان پہنچ گئے اور مجھے واپس پٹیالہ جانے کے لئے کہا.میں نے ان سے عرض
492 کیا کہ حضرت صاحب کی موجودہ حالت کے پیش نظر میرا یہاں ٹھہرنا ضروری ہے اس لئے میں تو جا نہیں سکتا.میں نے ان کے قادیان آنے کا ذکر بھی حضرت صاحب سے نہ کیا اور وہ واپس چلے گئے لیکن جب سات یوم بھی ختم ہونے لگے تو پھر سب ماجرا حضرت صاحب سے کہہ دیا.اس پر چونکہ حضرت صاحب میرا موجود رہنا ضروری سمجھتے تھے مجھ سے یہ معلوم کرتے ہوئے کہ مجھے تین ماہ کی رخصت کا حق حاصل ہے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی کو فوری طور پر پٹیالہ بھجوا دیا تا کہ وہ کوشش کر کے میری تین ماہ کی رخصت منظور کروا ئیں.چنانچہ وہ مردِ خدا پٹیالہ پہنچ کر بجائے اس کے میرے افسر سول سرجن کو یا ان کے اوپر چیف میڈیکل آفیسر کرنل لین کو ملتے وہ ہوم سیکرٹری کو جن کے ماتحت میڈیکل ڈیپارٹمنٹ تھا جا ملے اور تین ماہ کی رخصت منظور کروالی.اور ہوم منسٹر نے فون کے ذریعہ چیف میڈیکل آفیسر کو رخصت منظور کر دینے کا کہہ دیا اور حضرت عرفانی صاحب خود خوش خوش واپس قادیان آئے اور حضرت صاحب کی اور میری خوشی کا موجب بنے.ہوم منسٹر کے اس حکم کو پالینے کے بعد کہ میری رخصت منظور کی جائے چیف میڈیکل آفیسر نے مجھے رخصت کی منظوری کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا کہ : - آپ بہت اچھی خدمت پر لگے ہوئے ہیں آپ کو اگر کچھ دوائیوں کی ضرورت ہو تو لکھیں.یہاں سے بھجوا دی جائیں گی.“ حالانکہ انہی میڈیکل آفیسر صاحب نے میری سات روز کی رخصت طلب کرنے پر سخت قسم کی دھمکی آمیز چٹھی مجھے لکھی تھی.یہ واقعہ حضور کے خدا کی مقبول ہستی ہونے کی دلیل ہے.ایاز محمود جلد اول صفحه ۶۷ تا ۷۰ ) مکرم ڈاکٹر میجر شاہنواز صاحب حضور سے عقیدت و ارادت کا خاص رنگ رکھتے تھے.مندرجہ ذیل واقعات اور تاثرات سے سیرت کے رنگا رنگ پہلو نظر آتے ہیں.عاجز حضرت چوہدری مولا بخش صاحب سیالکوٹی کا دوسرا لڑکا ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق تھے.خاکسار بھی رفیق ہے کیونکہ میں نے
493 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت پیدائشی احمدی ہونے کی حالت میں اور ہوش کی حالت میں کی تھی جب میری عمر ۶.۷ سال کی تھی میری والدہ مرحومہ کی روایت کے مطابق ( کہ جو خود بھی رفیقہ اور صاحب کشف والہام تھیں ) میرے سر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیار بھی دیا تھا.گویا میرے سر کو برکت عطا فرمائی تھی.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان جانے کا موقع ملا نہ ہی حضور کی زیارت ہو سکی.۱۹۱۶ء میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف.ایس سی.F.Sc میڈیکل گروپ کا طالب علم تھا) والد محترم کی وفات ہوگئی اور میں یتیم رہ گیا اس زمانہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی پہلی زیارت لاہور اسٹیشن پر ہوئی جب حضور ۱۹۱۷ء میں شملہ کے سفر سے واپس آرہے تھے.میرے ساتھ میرے دوست ڈاکٹر لال دین احمد کمپالہ ( یوگنڈا) تھے جو حضور سے زیادہ بے تکلف تھے.سیکنڈ کلاس کے ڈبہ میں حضور تشریف فرما تھا.وہیں حضور کے قدموں میں بیٹھ گیا اور رونا شروع کر دیا.ڈاکٹر صاحب نے میرا تعارف کروایا حضور نے فوراً تسلی دی اور والد صاحب کی خدمات کی وجہ سے خاص توجہ خاندان کے افراد کو دی.تفصیل سے دریافت فرمایا کہ تعلیم کا خرچ کون دے گا، کتنے بچے ہیں حضور نے عاجز کے لئے تعلیمی قرضہ حسنہ کی بھی سفارش فرما دی مگر اس کی ضرورت آخری دو سال میں پڑی کیونکہ مجھے امرتسر کی ایک انجمن سے تعلیمی وظیفہ مل رہا تھا.۱۹۱۸ء میں عاجز میڈیکل کالج لاہور داخل ہو گیا اور پہلے سال مسلم ہوٹل میں رہا جو لاہوری جماعت نے لاہور کھول رکھا تھا.مگر جلد ہی (۱۹۱۹ء میں) احمد یہ ہوسٹل میں داخل ہو گیا جہاں حضور اکثر تشریف لاتے تھے.صحبت سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہا.حضور ہمیشہ خاص شفقت فرماتے.دریافت حالات کرتے رہے.کئی دفعہ تعلیم کا حرج کر کے بھی قایان چلا جاتا اور ایک دفعہ سیالکوٹ لیکچر سنے بھی چلا گیا.میرا ساتھی ایک ہندو تھا جو میرے ساتھ انسانی لاش کو چیرا کرتا تھا ہندو تھا اور شکوہ کرتا رہتا کہ تم کس طرح پاس ہو گے./////////
494 -1 -۲ تمہارے والا حصہ تو جوں کا توں پڑا ہے.عاجز ۱۹۲۳ء دسمبر تک یعنی M.B.B.S کا امتحان پاس کرنے تک احمد یہ ہوٹل میں رہا.وہاں ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کی بھی زیارت ہوتی رہی جو ان دنوں حضرت کی زیر ہدایت لیبارٹری کا خاص کورس کرنے آئے تھے.اپریل ۱۹۲۴ء میں عاجز کو پلیگ ڈیوٹی پر متعین کیا گیا (ان دنوں پنجاب میں بہت زور تھا) حضور کی خدمت میں ہدایات کے لئے حاضر ہوا.حضور نے گول کمرہ میں طلب فرمایا اور مفصل ہدایات طبی پیشہ اور پریکٹس اور خاص کر مطالعہ اور ریسرچ کے متعلق دیں جو الفضل بابت اپریل ۱۹۲۴ء میں شائع شدہ ہیں.ان میں خصوصی ہدایت یہ تھی کہ سادہ نسخے لکھو جوستے بھی ہوں ، ملکی ادویہ جڑی بوٹیوں پر ( INDIGINOUS ) ریسرچ کرو.مطالعہ کے متعلق بھی اہم ہدایات تھیں جن کی برکت سے عاجز اس قابل ہوا کہ ۴۰ سال تک فلسفہ احکامِ اسلام پر علوم جدیدہ کی روشنی میں غور وفکر کر کے سلسلہ کے جرائد میں مضامین شائع کروا تا رہا.مطالعہ کے متعلق راہنمائی کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- مغربی علوم کے مطالعہ کے وقت تین باتوں کا خیال رکھو.اگر اسلام کے کسی حکم کی تائید ہوتی ہو تو اس کو نوٹ کر کے مزید غور کرو.اگر کسی حکم پر اعتراض پڑتا ہو تو اس کا حل سوچو.ا لغویات کو نظر انداز کر دو.مغربی علوم کی کتب میں یہ تینوں باتیں تم پاؤ گے.“ ( حضور مغربی فلسفہ اور کتب سے ہرگز مرعوب نہ ہوتے اور آپ کو پتہ تھا کہ ان میں لغو باتیں بھی ہوتی ہیں ) مسجد مبارک قادیان میں اکثر دفعہ فلسفه احکام اسلام پر تبادلہ خیالات ہوتا اور حضور سے عاجز احکام کی حکمت اور وجہ دریافت کرتا رہتا.ایک دن فرمایا تم ڈاکٹر ہو خود سوچا کرو.اس دن سے عاجز نے سوال کرنا بند کر دیا اور خود غور وفکر کے بعد مسائل کی حکمت معلوم کرتا رہا اور اُس نورانی برکت سے
495 چالیس سال تک مضامین اور کتب لکھتا رہا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ.حضور میرے مضامین پڑھ کر حوصلہ افزائی فرماتے اور متعدد مرتبہ خطبات و تقاریر میں ذکر بھی فرماتے رہے.اکثر دفعہ دریافت فرماتے کہ کیا دوسرے مسلمان ان مضامین کے متعلق کوئی ریویو کرتے ہیں.عرض کی اکثر خطوط تعریفی آتے رہتے ہیں اور غیر احمدی ایڈیٹر اپنے جرائد میں میرے مضامین شائع کرتے رہتے ہیں.خواجہ حسن نظامی مرحوم دہلوی نے بھی ایک دفعہ ریویو کیا تھا اور صدق جدید والے.بزرگ.دریا آبادی تو مضامین شائع بھی کرتے رہے.مجالس ، خطبات جمعہ اور جلسہ سالانہ کی تقاریر میں حضور میرے مضامین کا اکثر ذکر فرماتے اور نوجوان طبقہ کو تحریک کرتے کہ اس طریق کی نقل میں دوسرے دوست بھی لکھا کریں.روح انسانی کی حقیقت اور دوزخ میں ارواح کے (سزا) علاج میں دقت کی تفاوت کے متعلق حضور نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ فلسفیانہ معلومات عاجز کو دیں.جس میں آنحضرت صلی للہا یہ آلہ وسلم کے دماغی ارتقاء اور روحانی ترقی کا کامل مرکزی نقطہ ہونے کے متعلق عارفانہ کلام فرمایا.جو ریویو اردو میں شائع ہوا مگر افسوس مخالفین نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر اس میں تحریف کر کے خوب پراپیگنڈا کیا اور کئی سال تک مخالف علماء اس گند کو اُچھالتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مرض مراق اور انبیاء کو برنگ مجنون کہنے کی لطیف وجہ بھی حضور نے بیان فرمائی.جو حضور کے لیکچر ”مذہب اور سائنس“ میں عاجز نے شائع کرا دی.۱۹۴۶ء میں جب عاجز جاپان میں فوج کے ساتھ مقیم تھا کہ حضور نے ایک رؤیا بیان فرمایا.جس میں کسی آنے والے عظیم فتنہ کی طرف اشارہ تھا اور اس میں دکھایا گیا تھا کہ سیالکوٹ کی جماعت وفادار رہی ہے اور اس کے جرنیل حضرت چوہدری مولا بخش ہیں.یہ عاجز کے والد مرحوم ہیں.حضور نے نئی پود سے ان کو متعارف کروانے کے لئے فرمایا ”چوہدری مولا بخش بھٹی میجر ڈاکٹر //////
496 شاہنواز کے والد اس وقت عاجز فوج میں کیپٹن تھا اور کوئی صورت میجر ہونے کی نہ تھی.کیونکہ کمیشن ایمر جنسی تھا (بوجہ جنگ عظیم ۱۱) اور جلد ہی فارغ ہونے کا امکان تھا.عاجز واقعی فارغ کر دیا گیا اور ابھی کپتان ہی تھا میرے سب دوست حیران تھے یہ کب پورا ہوگا مگر مجھے یقین تھا کہ دوبارہ کمیشن ملے گا اور یہ پورا ہو کر رہے گا.میرے لڑکے محمود احمد کو اتنا یقین تھا کہ وہ بول اُٹھا ابا حضور کا یہ کلام پورا ہو کر رہے گا خواہ خدا کو تیسری جنگ نہ کروانی پڑے.مگر خدا نے تقسیم ہند کے بعد مجھے دوبارہ شارٹ سروس کمیشن پاکستان آرمی میں دے دیا اور میں آٹھ سال کے بعد میجر ہو کر ۱۹۵۵ء میں ریٹائر ہو گیا.بوجہ پنشنز ہونے کے ابھی میرا نام آرمی لسٹ میں ہے.میجر کا رینک لگانے کی اجازت ہے.سال ۱۹۴۹/۵۰ کا واقعہ ہے کہ حضور کوئٹہ میں تھے.عاجز بھی وہاں فوجی ہسپتال میں متعین تھا.ایک دن حضور نے ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب سے دریافت فرمایا ” کیا ڈاکٹر صاحب کی تنخواہ ہزار روپیہ ہے.ڈاکٹر صاحب نے عرض کی حضور پختہ معلوم نہیں وہ سینئر کیپٹن ہیں ۸،۷ سو ہوگی.مجھ سے قبلہ ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا میں نے کہا آپ کا جواب درست ہے مگر اس دن سے مجھے یقین ہو گیا کہ میجر بنوں گا اور تنخواہ پوری ہزار روپیہ ہوگی.مگر حساب کرنے پر معلوم ہوا کہ ۹۵۰ ہوگی کیونکہ ۰۰ے تنخواہ تھی اور Substantive میجر بننے پر صرف ۲۵۰ تر قی ملنی تھی.خدا کی شان اس نے اپنے محبوب کی بات پوری کرنے کے لئے ساری فوج کو پچاس روپئے کا خاص الاؤنس دلوا دیا اور میری تنخواہ پوری ہزار روپے ہوگئی جو کہ بالکل نیا گریڈ تھا.۱۹۲۷ء میں عاجز پہلی بار افریقہ روانہ ہوا تو حضور نے عاجز کو ۴۰۰ روپیه بطور قرضہ حسنہ دیا اس کی برکت سے پھر میں نے لاکھوں کمائے اور خدا کی راہ میں بھی دل کھول کر دیا مگر اپنی ذات پر بہت کم خرچ کرتا تھا.جب پہلی بار واپس قادیان آیا تو حضور نے دیکھا کہ وہی سادگی ہے، کپڑے پرانے ہیں اور اس بات کو مجلس میں (بغیر نام لینے کے ) بیان فرمایا کہ بعض مخلص دوست خدا
497 کی راہ میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں مگر اپنی ذات پر نہیں کرتے اور یہ بہت خوبی کی بات ہے.میں نے یہ نہ سمجھا کہ اشارہ میری طرف ہی ہے اور اردگرد دیکھنا شروع کر دیا کہ مجلس میں کون ایسے مخلص دوست ہیں جن کی تعریف ہو رہی ہے.حضور نے میری طرف مخاطب ہو کر پھر صاف فرما دیا کہ میں تو آپ کا ہی ذکر کر رہا ہوں.ستمبر اکتوبر ۱۹۲۴ء کو حضرت جب پہلے سفر لندن سے واپس آئے تو امرتسر کے اسٹیشن پر عاجز حضور کو ملا.گاڑی کے ڈبہ میں حضور اور صرف حافظ روشن علی صاحب تھے.حضور اس وقت غسل خانہ میں ہاتھ دھو رہے تھے.عاجز حضور کو دیکھ کر اٹھنے لگا تو حضرت حافظ صاحب نے فرمایا.باہر مت نکلو.بیٹھے رہو.امرتسر کی جماعت نے کھانا پیش کیا.ایک پلیٹ میں پلاؤ تھا جس پر سالن بھی تھا.میں ادب کی وجہ سے شامل نہ ہوا.حضور اور حافظ صاحب نے شروع کر دیا مجھے متردد دیکھا فرمایا.Why don't you eat ( تم کیوں نہیں کھاتے ) عرض کی ویسے ہی.فرمایا.کیا پہلے کھا چکے ہو.عرض کی نہیں.پھر فرمایا ہمارے ساتھ کھاؤ.عاجز یونہی ہاتھ مارتا رہا اور جب حضور چند لقمے لے کر ہاتھ دھونے چلے گئے تو عاجز نے حضور کے تبرک والا حصہ اپنی طرف سرکا کر وہاں سے کھانا شروع کر دیا اور اس طرح ایک خواب پورا ہوا.دیکھا تھا کہ میں حضرت صاحب کے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھا رہا ہوں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ تبرک لینے کا جائز طریق.حضور نے ایک دفعہ عاجز کو ایک کتاب نفسیات کے متعلق پڑھنے کو دی جو کسی ڈاکٹر نے لکھی ہوئی تھی.فرمایا اس کو پڑھو اور خدمت دین (مراد احکام اسلام کا فلسفہ ) کرو.عاجز نے اس کتاب سے بہت فائدہ اٹھایا.حضور نے اس پر کئی مقامات پر نوٹ لکھے ہوئے تھے.جن سے اسلامی احکام کی حکمت ظاہر ہوتی تھی.میں اس پر مزید غور کر کے مسائل کی فلاسفی پر مضامین لکھتا رہا.پھر خیال آیا یہ متبرک کتاب ہی کیوں نہ رکھ لوں حضور کو کہاں یادر ہے گا کہ واپس مانگیں.پھر سوچا یہ طریق نا جائز ہے اور حضور کے احسان سے ناجائز فائدہ اٹھانا
498 ہے.بہت سوچا اور دعا کی الہی کوئی جائز صورت پیدا کر دو کہ تبرک بھی رہے اور چوری بھی نہ ہو.حضور سے درخواست کرنے کی جرات نہ تھی کہ تحفہ ہی دے دیں.کیونکہ حضور کی لائبریری کی اہم کتاب تھی جو واپس کرنی ضروری تھی.پھر میں نے انگلستان سے وہی کتاب منگوائی اور اس پر اپنے ہاتھ سے تمام وہ نوٹ لکھے جو حضور نے اپنی کتاب پر لکھے ہوئے تھے اور حضور کی خدمت میں نئی کتاب پیش کر کے عرض کی حضور کتب کا تبادلہ کر لیں حضور نے فرمایا نوٹوں کا مقابلہ مولوی انور صاحب کر کے رپورٹ کریں کہ اندراج درست اور مکمل ہیں.حضور نے خوشی سے اپنی کتاب تبادلہ میں دے دی اور اس طریق کو پسند فرمایا.۱۹۲۵ء میں میری شادی کے لئے ایک جگہ تجویز ہوئی مہر ۲ ہزار تجویز ہوا میری مالی حالت اُس وقت کمزور تھی حضور سے مشورہ لیا فرمایا.مہر بہت زیادہ ہے.میری بیویوں کا صرف ایک ہزار ہے تم دو ہزار کس طرح دے سکتے ہو.( اُس وقت میری تنخواہ صرف ۵۰ا تھی.اور یہ مہر ۶ ماہ بلکہ سال کی اوسط آمد سے بھی زیادہ تھا ) جب میں افریقہ میں تھا تو میری والدہ مرحومہ حضور کی خدمت میں بار بار جا کر عرض کرتیں کہ بچے کی سلامتی کے لئے دعا کرتے رہیں.فرمایا وہ مجھولنے دیتا ہی نہیں اس باقاعدگی سے خط لکھتا رہتا ہے.۱۹۳۱ء میں جب جموں میں ڈوگرہ راج نے مسلمانوں کا کشت و خون کیا اور تحریک آزادی کو کچلنا چاہا تو حضور نے ایک میڈیکل مشن میری سرکردگی میں جموں بھیجا.میرے ساتھ شیخ احسان علی صاحب بھی تھے.حضور نے مندرجہ ذیل ہدایات دیں.ا.سفر سیکنڈ کلاس میں کرنا.۲.الگ الگ گیٹوں سے باہر نکلنا.۳.رپورٹ با قاعدہ ارسال کرنا.۴.سیاسیات سے الگ رہنا.۵.میرا ایک دوسرا نام پسند کیا جو محمد تقدیس خاں ہے.۶.خاص رپورٹ کو ایک غیر مرئی سیاہی سے لکھنے کی ہدایت دی.انگریز افسر کے نام ایک چٹھی دی تا وہ مزاحم نہ ہوں.حضور کی ہدایت کہ
499 الگ الگ گیٹوں سے باہر نکلنا پیشگوئی بن گئی.چنانچہ شیخ احسان علی صاحب کو تھرڈ کے گیٹ پر روک لیا گیا.میں دوسرے گیٹ سے نکلا ورنہ ہم دونوں روک لئے جاتے.عاجز نے محنت سے کام کیا، ہمدردی کی اور کام کی رپورٹ ارسال کر دی.ڈاک لیٹ (بوجہ سنسر Censor) آئی.جب میرا خط پہنچا تو میں خود بھی حضور کی خدمت میں حاضر تھا.ایڈریس دیکھ کر فرمایا آپ کا خط ساتھ ہی آیا ہے.حضور کو اتنی مشق تھی کہ بار بار لکھنے والوں کے دستخط سے بھی حضور پہچان لیا کرتے تھے کہ اندر کس کا خط ہے.جولائی ۱۹۳۱ء میں جب شملہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جنم لیا تو اُس وقت اس پہلی میٹنگ میں عاجز بھی موجود تھا.اجلاس سر شفیع کی کوٹھی میں ہوا اور میں مہمانوں کو Receive کرتا تھا خواجہ حسن نظامی، سر محمد اقبال بھی موجود تھے.میرے سامنے انہوں نے متفقہ طور پر حضور سے عرض کی مرزا صاحب! آپ ہی اس کمیٹی کا صدر بننے کے اہل ہیں جس طرح چاہیں کام کریں ہم اطاعت کریں گے.درد صاحب (عبدالرحیم صاحب ) اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے تھے.۱۹۳۱ء میں حضور کشمیر کمیٹی کے کام کے سلسلہ میں سیالکوٹ تشریف لے گئے عاجز بھی ساتھ گیا.قیام آغا محمد صفدر کی کوٹھی پر تھا، احراری ارد گرد کے کوٹھوں پر شور وغوغا کرتے رہے،حضور کی مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ ۱۲ گھنٹوں کے بعد حضور صرف پیشاب کرنے کے لئے اُٹھے.ایک کشمیری لیڈر نے الگ ملاقات کی خواہش کی اور حضور مکان کی چھت پر تشریف لے گئے اردگرد احراری تھے.عاجز ڈانگ لے کر ساتھ پہرہ اور حفاظت کے لئے چلا گیا اور دور سے دیکھتا رہا تا خلوت میں مداخلت نہ ہو.شکر ہے کسی نے حملہ کی ہو.جرأت ہی نہ کی ورنہ میری کیا طاقت تھی کہ حفاظت کر سکتا، ایک دن، رات کافی دیر ہو گئی اور میر واعظ یوسف شاہ صاحب نے حضرت سے ملاقات کے بعد واپس گھر جانا تھا وہ ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے ہاں مقیم تھے.حضور نے اس خیال سے کہ سیالکوٹ میرا وطن ہے فرمایا ڈاکٹر شاہ نواز کو ساتھ بھیجو کہ میر واعظ
500 صاحب کو گھر پہنچا آویں.میں ڈنڈا اٹھا کر ساتھ چل پڑا راستہ میں احراری آوازے کستے رہے مگر حضرت کی دعا کی برکت سے کسی کو حملہ کی جرات نہ ہوئی.آخر میں ان کو مولوی صاحب کے گھر پہنچا کر بخیریت جب واپس کوٹھی پر آیا تو دیکھا حضور مع خدام کوٹھی کے برآمدہ میں کھڑے ہیں اور افسردہ نظر آتے ہیں جو نہی میں سامنے آیا حضور الْحَمدُ لِلہ کہہ کر اطمینان کا سانس لے کر اندر چلے گئے.میں حیران تھا یہ کیا ماجرا ہے.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بے تکلف دوست تھے.عرض کی حضرت مع خدام کیوں برآمدہ میں افسردہ کھڑے تھے اور میرے آنے پر اَلْحَمْدُ لِلہ کہہ کر اندر چلے گئے.ڈاکٹر صاحب نے فرمایا.حضرت سخت متفکر تھے اور دعا میں مصروف تھے کسی نے مشہور کر دیا تھا کہ ڈاکٹر شاہ نواز کو راستہ میں شہید کر دیا گیا ہے مگر آپ کو زندہ سلامت جب دیکھا تو حضور نے الْحَمْدُ لِلَّهِ کہا کہ غم دور ہو گیا ہے.اکتوبر ۱۹۳۸ء میں عاجز سات سال کے بعد افریقہ سے واپس آیا اور جس دن میں بمبئی جہاز سے اُترا اُسی دن حضور کراچی سے بمبئی تشریف لائے تھے.صحت کے لئے بحری سفر کیا گیا تھا اور آگے پھر حیدر آباد، دہلی وغیرہ جانے کا پروگرام تھا.جس کے نتیجہ میں ”سیر روحانی“ کا شاہکار وجود میں آیا.میں Alexandre dockos پر اترا اور حضور مع خدام Ballord Pier پر تھے.دونوں میں کافی فاصلہ تھا وقت کم تھا حضور جلدی ٹرین پر سوار ہو رہے تھے اور خاکسار بھی کسٹم سے فارغ نہ ہوا تھا.حضور کو میرے آنے کی اطلاع کسی طرح ہو گئی عاجز پیغام ملتے ہی روانہ ہو گیا.حضور نے از راہ شفقت میری خاطر کافی دیر انتظار کیا جب میں سامنے آیا تو حضور کار سے نکل کر مجھ سے بغل گیر ہوئے.عاجز کو بالکل ہوش نہ تھا کہ کہاں ہوں، دنیا اور مارفیھا کی محبت سرد ہو گئی اور سوائے حضور کی ذات کے کسی شے کی حاجت نہ رہی.عاجز نے عرض کی کیا ساتھ جانے کی اجازت ہے؟ فرمایا والدہ سات سال سے منتظر ہیں ان کا زیادہ حق ہے عاجز پھر سیدھا قادیان کے لئے ٹرین پر سوار ہو گیا.جب ہوسٹل تحریک جدید کھولا گیا تو عاجز نے ۱۹۳۶ء میں اپنے دو بڑے
501 لڑکے محمود احمد اور بشیر احمد (بعمر 9 اور ۷ سال) داخلہ کے لئے افریقہ سے بھجوا دیئے.حضرت صاحب نے اس پر بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ بیرونِ ہند سے کم سن بچوں کو والد نے جُدا کر دیا ہے.حضور بہت شفقت فرماتے اور ان کو اکثر یاد فرماتے ، چھوٹے بشیر کو گود میں اٹھا لیا کرتے ، دونوں بچوں کو صرف انگریزی میں بات کرنا آتا تھا.اس پر بھی حضور بہت متعجب ہوتے کہ کیا ان کی والدہ بھی اتنی انگریزی جانتی ہیں کہ مادری بولی انگریزی ہو گئی ہے.خاکساراب دو ایسے واقعات ریکارڈ میں لا رہا ہے جو ابھی تک سلسلہ کی تاریخ میں نہیں آئے نہ ہی زبانی کوئی ان کا گواہ ہے سوائے خاندان کے خاص افراد کے.یہ دونوں واقعات خاکسار سے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب نے بیان فرمائے تھے.حضرت ایک دفعہ رفع حاجت کے لئے کموڈ پر جب بیٹھے تو دیکھا کہ اس میں ایک زہریلا سانپ بیٹھا ہوا ہے.حضرت نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے حفیظ خدا پر توکل کرتے ہوئے خاموش بیٹھے رہے اور ذرہ بھر حرکت نہ کی.آخر وہ خود ہی آہستگی کے ساتھ کموڈ سے باہر نکل گیا اور حضور کو ڈسنے کی جرأت نہ کر سکا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دنیا میں شاید یہ اپنی قسم کا پہلا اور منفرد واقعہ ہے کیونکہ ایسی حالت میں کوئی شخص بھی خاموش بیٹھ نہیں سکتا اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور وہ بے ساختہ اُٹھ کر بچنے کی کوشش کرتا ہے جس کا نتیجہ الٹا یہ ہوتا ہے کہ سانپ اس کو ڈس لیتا ہے.لاریب اس کے لئے کامل تو کل ، فولادی اعصاب اور کامل ضبط کی ضرورت تھی جو حضور کی فطرت کا لازمہ تھا.ایک تاریخی سفر میں حضور کی انگوٹھی اَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگلی سے گر کر گم ہو گئی.بہت تلاش کی مگر نہ ملی آخر حضور نے تمام سامان اور بستر وغیرہ کھلوائے دری قالین وغیرہ جو کچھ بھی فرش پر تھا سب جگہ تلاش کی مگر وہ متبرک انگوٹھی نہ ملی.یہ یقیناً بہت بُری فال تھی کیونکہ اسی قسم کا واقعہ حضرت عثمان کو بھی ایک سفر میں پیش آیا تھا جبکہ آنحضرت صلی الله و الا یلم کی انگشتری ( خاتم النبین والی) کسی کنویں میں گر گئی تھی اور حضرت (عثمان) نے اس کنویں کی مٹی تک نکلوا کر
502 تلاش کی تھی مگر وہ انگوٹھی نہ ملی.جس کے بعد اسلام میں اختلافات اور کشت و خون کا دور شروع ہو گیا.مگر آ نحضرت صلی اللہیہ آل وسلم کی بعثت ثانیہ میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا تو وہ انگوٹھی مل گئی جو اس بات کی تصویری زبان میں شہادت تھی کہ خلافت احمدیت کا سلسلہ منقطع نہ ہوگا.مندرجہ ذیل واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ہر وقت تبلیغ و اشاعت کی طرف توجہ رکھتے تھے اور اس کے لئے نئے نئے طریق سوچتے رہتے تھے اور یہ بھی کہ ایک خادم سلسلہ جو میدانِ عمل میں شہید ہو گئے تھے حضور نے ہمیشہ یا د رکھا.۱۹۴۶ء میں جب میں فوج کے ساتھ جاپان گیا تو حضور نے فرمایا اپنے ساتھ کسی احمدی مبلغ کو بطور اردلی لے جاؤ تا اس بہانے بغیر پاسپورٹ کے کوئی مبلغ وہاں پہنچ جاوے.پھر فرمایا وہاں پر مولوی محمد دین صاحب کی تلاش ریڈ کراس کے ذریعہ ضرور کروانا شاید وہ جاپان کے قیدی ہوں اور شہید نہ ہوئے ہوں.یہ بھی تاکید فرمائی کہ واپسی پر اپنے ساتھ ایک دولڑ کے جاپانی لے آنا جن کو قادیان میں تعلیم دے کر مبلغ بنایا جاسکے.نومبر ۱۹۴۷ء میں ( ہجرت کے بعد ) میں نے اپنے بڑے لڑکے محمود داحمد کی شادی ( بموجب کشف حضرت مصلح موعود ) سادگی سے کر دی.اس پر حضرت بہت خوش ہوئے اور فرمایا تم نے بہت اچھی مثال قائم کی ہے.مندرجہ ذیل چھوٹے سے واقعہ میں سیرت کے متعدد پہلو سامنے آتے ہیں.اگست ۱۹۴۹/۵۰ء میں حضرت کو ئٹہ تشریف فرما تھے اور حضور کو سخت اعصابی درد تھا آخر فیصلہ ہوا کہ C.M.H میں بجلی سے علاج ہو اس کے لئے DIATHERMY تجویز ہوا.اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مریض کے جسم پر کوئی دھات کی ھے نہ ہو.مثلاً بٹن ، گھڑی، انگوٹھی وغیرہ حضور نے قمیض کے تمام بٹن اُتار دیے اور اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی اُتاری.میں سامنے کھڑا تھا اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب ذرا ہٹ کر کھڑے تھے میں نے ہاتھ بڑھایا اس امید پر کہ حضرت مجھے پکڑا دیں گے مگر حضرت نے آگے
503 بڑھ کر یہ انگوٹھی حضرت ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں دے دی.واقعی ان کا حق مجھ سے بہت زیادہ تھا اور حفظ مراتب ضروری تھا.عاجز نے ۱۹۲۵ء میں جب وقف کیا تو حضور نے جواباً لکھوایا کہ سیر دست آپ اپنے کام کے ساتھ ساتھ سلسلہ کی علمی خدمت میں مشغول رہیں اور اپنے علم کو اس رنگ میں بڑھانے کی کوشش کریں جو مغربی علوم والوں کے لئے بھی مفید ہو سکے.یہ الفاظ بھی پیشگوئی بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو ۳۸ سال سلسلہ کی علمی خدمت کے بعد ) ۱۹۶۲ء میں انگلستان پہنچا دیا اور وہاں مستقل رہائش کی اجازت مل گئی تا مغربی علوم والوں کو فائدہ پہنچا سکوں.میرے ایک خواب کی تعبیر میں فرمایا اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے آپ کو میرے علم سے کچھ فائدہ پہنچائے پس اپنی علمی اور روحانی ترقی کی طرف توجہ کریں.۱۹۳۴ ء میں میں نے زار روس کی قید کی حالت کا فوٹو ارسال کیا جو زار کی حالت زار (الہام حضرت مسیح موعود ) کی تصدیق میں تھا.حضور نے اس پر بہت خوشنودی کا اظہار کیا اور حکم دیا کہ یہ فوٹو میری لائبریری میں محفوظ رہے.افریقہ سے ۱۹۲۸ء میں میں نے انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا ENCYCLOPAEDIA BRITANNICA کا نیا ایڈیشن خرید کر حضور کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے از راہ شفقت قبول فرما کر لکھوایا.” جب تک رہے گا خدمت دین کے کام آتا رہے گا ایک شوری کے موقع پر جماعت سیالکوٹ کی سب کمیٹی کے لئے نمائندہ کی ضرورت تھی اور ایک دوست نے اس خیال سے کہ میں ضلع سیالکوٹ کا باشندہ ہوں میرا نام تجویز کر دیا مگر حضور نے اس کو رد کر دیا اور فرمایا ” ڈاکٹر شاہنواز صاحب اب قادیانی ہیں چونکہ وہ کثرت سے آتے رہتے ہیں.“ ایک دن پیغامیوں کا ذکر ہوا میں نے سادگی سے کہہ دیا وہ کب احمدی ہیں.حضرت نے اس پر فوراً تردیدی رنگ میں فرمایا ایسا مت کہو جب تک وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانتے ہیں وہ احمدی ہیں.
504 ایک دفعہ حضور ڈلہوزی تھے اور سب روزے باقاعدہ رکھ رہے تھے.میں نے عرض کیا کیا عید پر قادیان آئیں گے؟ فرمایا اگر عید پر جاؤں تو ایک روزہ جاتا ہے.حضور کو پورے تیں رکھنے کی اتنی خواہش تھی کہ عید ڈلہوزی میں ہی ہوئی.حضرت اُمم ناصر کی وفات کے بعد میں نخلہ گیا.حضرت کو جب علم ہوا کہ میرا کوئی ذاتی کام نہیں صرف تعزیت کی غرض سے آیا ہوں تو حضور نے مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کے ساتھ مجھے بھی مہمان خصوصی کا اعزاز دیا، اندر سے کھانا بھجواتے رہے، بستر بھی دیا اور اپنی ذاتی کار میں واپس ربوہ بھیجا.میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور نے مجلس میں کبھی چھینک ماری ہو یا جمائی لی ہو.(البتہ کھانسی ضرور آتی رہتی تھی ) یا قہقہہ مار کر ہنسے ہوں.پنکھا ضرور کرواتے مگر چہرہ پر ہوا کو پسند نہ فرماتے تھے.مجلس میں دوست پاؤں اور جسم کو دباتے بھی تھے.ایک دن عاجز پاؤں دبانے لگا تو فرمایا یہ آپ کا کام نہیں ہے.مجلس میں اونچی آواز سے یا شیخ کر بولنا حضور کے وقار اور مقام کے خلاف تھا.ایک شادی کے موقع پر ایک معزز با رسوخ احمدی دوست نے عرض کیا ان دنوں حضرت سیدہ سارہ بیگم مرحومہ نے B.A کا امتحان دیا ہوا تھا) حضور حرم محترم کا رول نمبر بتا دیں میں یونیورسٹی میں کوشش کر سکتا ہوں.حضور نے کوئی جواب نہ دیا.تا ان کی ہتک نہ ہو یوں اس بات کو بہت نا پسند فرمایا.عاجز نے عرض کیا میں بھی شریعت کا فلسفہ بیان کرتا ہوں اس سے ٹھوکر کا اندیشہ بھی ہوتا ہے.اس سے قبل شیخ تیمور ( شاگر دخلیفہ اول) نے یہ کام شروع کیا تھا مگر مرتد ہو گئے.فرمایا ورثہ کے ایمان میں ارتداد کا اندیشہ کم ہوتا ہے عقلی ایمان والے کو ٹھوکر کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے.مکرم ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم جو ملکا نا تحریک کے زمانہ میں جوگیوں کی طرح گاؤں گاؤں گھوم کر نظمیں پڑھنے اور تبلیغ کرنے کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے تھے.اپنی پرانی یادوں میں سے حضور کے پیار و شفقت کے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں.//////
505 میں بہت جلد حضرت اقدس کی بارگاہ میں نظموں کی لحاظ سے مقبول ہو گیا تھا.جلسہ سالانہ پر بھی حضور مجھ سے اپنا منظوم کلام پڑھاتے.ایک روز قبل قصر خلافت میں طلب کر کے پہلے ٹریننگ کے طور پر کلام سنتے اور مناسب مشورہ دیتے.قریباً ۲۵ سال تک مجھے یہ فخر حاصل رہا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.ایک بار میں نے لندن میں مسجد بن جانے پر ایک چھوٹی سی نظم حضور کو مسجد مبارک میں ہی سنائی.اس کی طرز کچھ ایسی دلچسپ تھی کہ اندر مکان میں سے آواز سن کر خاندان کے چند کم سن صاحبزادگان بھاگ کر مسجد میں آ بیٹھے.حضور اُن بچوں کو دیکھ کر مسکراتے رہے جب نظم ختم ہوئی تو حضور نے مختصر سی تقریر فرمائی.جس کا مفہوم کچھ اس قسم کا تھا کہ دیکھوٹر یلی آواز بھی کیسی پُرکشش ہوتی ہے.یہ بچے مضمون کو نہیں سمجھ سکتے مگر آواز پر بھاگے آئے ہیں.شیعہ فرقے نے مرثیے سنا سنا کر بڑی تبلیغ کی ہے ہمارے مبلغوں کو بھی اس طریقے سے مدد لینی چاہئے.ہندوؤں اور سکھوں نے گانا بجانا اپنی عبادت میں رکھا ہوا ہے.ان کے اندر سچائی تو ہے نہیں صرف گانے بجانے سے لوگوں کو متاثر کر لیتے ہیں مگر ہمارے پاس تو سچائی ہے.میری شادی کے موقع پر حضرت اقدس نے جس شفقت کا مظاہرہ فرمایا وہ بھی اپنے اندر ایک عجیب رنگ رکھتا ہے.۱۹۲۱ء میں حضور ہی کی سفارش سے میرا رشتہ محترم منشی عبدالخالق صاحب کپور تھلوی صحابی کی صاحبزادی سے طے پایا.منشی صاحب موصوف قادیان آ کر نکاح کر گئے اور رخصتانہ کی تاریخ مقرر کر گئے.مگر میری خوشدامن اور منشی صاحب کے بڑے بھائی اور دیگر لواحقین یہ رشتہ کرنا نہ چاہتے تھے وہ سب کے سب مخالف ہو گئے اور منشی صاحب کو ناکام بنانے کی سکیمیں بنانے لگے.موضع آلوپور میں جو کہ سلطان پورٹیشن سے ۴ میل پر واقع ہے کوئی جماعت نہ تھی.صرف منشی صاحب اور اس کے بھائی کے دوگھر تھے باقی رشتہ دار جو قریب کے گاؤں میں رہتے تھے وہ سب غیر احمدی تھے.حالات خراب ہوتے گئے اور جوں جوں رخصتانے کی تاریخ قریب آتی گئی مخالفت بڑھتی گئی یہاں تک کہ ان لوگوں نے چیلنج کیا کہ دیکھیں گے کون یہاں
506 سے ڈولی لے جاتا ہے.منشی صاحب محترم نے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا اور میں نے بھی حضور کو اطلاع دی کہ حالات بہت خراب ہو گئے ہیں دعا فرما دیں اس آڑے وقت میں حضور نے نہایت شفقت اور ہمدردی سے خاکسار ناچیز کی مدد فرمائی.آپ نے سب سے پہلے تو کپورتھلہ میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کو لکھا کہ کپورتھلہ کی ساری جماعت آلوپور پہنچ جائے، دوسرے خانصاحب عبدالمجید خان صاحب جو ان دنوں سلطان پور میں علاقہ مجسٹریٹ تھے ان کو لکھا کہ آپ اپنا دورہ ان ایام میں آلو پور میں رکھیں، تیسرے قادیان سے برات میں میرے ساتھ حضور نے خاص خاص آدمیوں کو ہمراہ کر دیا.مثلاً حضرت خان بہادر غلام محمد صاحب آف گلگت، ملک نواب دین صاحب بی.اے.بی.ٹی، جناب مولانا رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی وغیرہ.چنانچہ جب میری بارات سلطان پور کے سٹیشن پر اتری تو حضرت منشی ظفر احمد صاحب مع کپورتھلہ کی جماعت کے وہاں موجود تھے اور مزید یہ کہ حضرت منشی صاحب ایک عدد ہاتھی بھی کپورتھلہ سے ساتھ لائے کیونکہ آپ مہاراجہ کپورتھلہ کے اہل کار تھے اور مہاراجہ صاحب ایسے موقعوں پر اپنے اہلکاروں کو ہاتھی دیدیا کرتے تھے.غرض یہ بارات خوب ٹھاٹھ سے روانہ ہوئی.آلو پور پہنچ کر خان بہادر غلام محمد صاحب نے اپنی بندوق سے دو تین فائر بھی کر دیئے.محترم خان عبدالمجید خانصاحب علاقہ مجسٹریٹ پہلے سے حاضر تھے.خدا کے فضل سے ایسا رعب پڑا کہ کسی مخالف کو شرارت کی جرات نہ ہوئی اور ہم بخیر و عافیت ڈولی لے کر واپس لوٹے.یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت اقدس کی اپنے ادنیٰ خادم سے محبت و شفقت کا نتیجہ تھا ورنہ دنیاوی طور پر اس وقت میری کوئی حیثیت نہ تھی.مکرم ملک محمد عبداللہ صاحب فاضل پیار و شفقت کی اس نہ ختم ہونے والی داستان کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: - حضرت خلیفہ المسیح الثانی ۱۹۱۴ء میں مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے اس سال خلیفۃالمسیح /////////
507 کے جلسہ سالانہ پر آپ نے برکات خلافت کے موضوع پر ایک معرکۃ الآراء تقریر فرمائی اس تقریر میں آپ نے فرمایا تمہارے لئے ایک شخص تمہارا در د ر کھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا ، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا ، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا اور تمہارے لئے خدا کے حضور دعا کرنے والا ہے.( برکات خلافت صفحه ۵) حضرت اقدس کی یہ ۱۹۱۴ء کی تقریر ہے.حضور کا وصال نومبر ۱۹۶۵ء میں ہوا اس اتنے لمبے عرصہ کا ایک ایک دن اس امر پر شاہد ہے کہ حضرت فضل عمر نے جو الفاظ اپنے عہد مبارک کے پہلے جلسہ سالانہ پر بیان فرمائے تھے آپ کی ساری زندگی ان کے مطابق بسر ہوئی.دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھا اور جب بھی جماعت کے کسی فرد کو تکلیف میں دیکھا اپنے آرام کو ترک کر دیا اور اس کی تکلیف کو دور کرنے کی سعی دعا اور دوا دونوں طرح کی....قادیان دارالامان کا واقعہ ہے بٹالہ میں احمدی اور غیر احمدی علماء کا مناظرہ تھا.اُن دنوں مناظرے اور مباحثے کثرت سے ہوتے تھے.بٹالہ میں جماعت احمدیہ کی مخالفت بہت تھی اس لئے قادیان اور دیگر قریبی جماعتوں کے احمدی احباب مناظرہ میں شمولیت کی غرض سے بٹالہ پہنچے ہوئے تھے.مناظرہ چونکہ دو دن تھا اس لئے بہت سے احمدی احباب شہر سے متصل کمپنی باغ میں ڈیرہ ڈالے تھے ، گرمی کے ایام تھے، اہل بٹالہ نے حسب عادت بڑھ چڑھ کر مخالفت کی اور دُکانداروں کو احمدی احباب کو کھانے پینے کی چیزیں دینے سے روک دیا گیا.رات عشاء کی نماز کے بعد حضرت فضل عمر کو قادیان میں یہ رپورٹ پہنچی کہ بٹالہ میں جماعت کے دوست باغ میں مقیم ہیں اور انہیں کھانا نہیں ملا یہ خبر سنتے ہی حضور بے چین ہو گئے ابھی آپ نے خود بھی کھانا نہیں کھایا تھا اُس وقت محترم مولانا مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل کو بلوایا.آپ اس وقت مقامی جماعت کے پریذیڈنٹ تھے میں مقامی جماعت کا سیکرٹری ہونے کی وجہ سے آپ کے ہمراہ تھا.جب ہم مسجد مبارک کی بالائی چھت پر پہنچے تو حضور بڑے اضطراب
508 میں ٹہل رہے تھے ہمیں دیکھتے ہی حضور نے محترم مولوی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ابھی رپورٹ ملی ہے کہ بٹالہ میں اپنے دوستوں کو کھانے کی تکلیف ہے.ہم نے حضور کے اس ارشاد کو اچھی طرح نہ سمجھتے ہوئے عرض کیا کہ حضور صبح ہوتے ہی اسکا انتظام کر دیا جائے گا.اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر مجھے تمام رات جاگنا پڑے گا ان الفاظ کو سنتے ہی ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور عرض کیا کہ حضور ا بھی انتظام کرتے ہیں رات کے دس بجے کے قریب وقت ہوگا وہاں سے اتر کر دفتر کی ایک جیپ کا انتظام کیا اور اسی وقت لنگر خانہ میں جا کر باورچی کو جگایا، کھچڑی کا سامان ایک دیگ ایندھن اور دوسری ضروری اشیاء لے کر جیپ میں ڈالیں اور ہم جلدی ہی بٹالہ کی سڑک پر رواں دواں تھے.گیارہ بارہ میل کا یہ راستہ جلد ہی طے ہو گیا بٹالہ پہنچ کر باورچی نے اُسی وقت زمین میں چولہا بنا کر دیگ پکانے کا انتظام کر لیا.احباب کو جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے اس اضطراب کا علم ہوا تو ان کی عجیب ہی کیفیت تھی.وہ ایک طرف دوڑ بھاگ کر کھچڑی پکانے میں ہر ممکن مدد کر رہے تھے اور دوسری طرف وہ زیر لب اپنے امام واجب الاحترام کے لئے دعا مانگ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے کیسا ہمدرد جانگسار اور خیر خواہ خلیفہ عطا فرمایا ہے.محترم مولانا عبدالرحمن صاحب نے اسی وقت جیپ کار کو قادیان واپس کیا اور حضور کی خدمت میں اطلاع بھجوائی کہ احباب کے لئے چاول تیار کر دیئے گئے ہیں.دوسرے دن پتہ لگا کہ حضور رات کو ہماری رپورٹ کا ہی انتظار فرما رہے تھے اور اس رپورٹ کے بعد ہی آپ نے کھانا کھایا نیز ہمارے اس کام پر خوشنودی کا اظہار بھی فرمایا.غرباء کے ساتھ آپ کی ہمدردی اور شفقت بے نظیر تھی.قادیان اور پھر ربوہ میں قابل امداد افراد کی فہرستیں بنائی گئیں.خاص طور پر عیدین اور رمضان شریف میں ان مستحقین کی آپ بہت خبر گیری فرماتے تھے.یہ بات بھی آپ کے فضائل میں سے ہے کہ قربانی کی عید پر محلہ وار گوشت جمع کر کے غرباء میں تقسیم کیا جاتا اور اس بات کی نگرانی کی جاتی کہ عید کے دن کوئی گھر گوشت کے
509 بغیر نہ رہے.یہ نظام بفضلہ آج بھی جاری ہے.عید الفطر کے موقع پر قادیان میں حضور کی طرف سے ایسا انتظام بھی کیا جاتا رہا کہ غرباء کے گھروں میں آٹا ، سویاں گھی اور کھانڈ کی تقسیم کی جاتی کیونکہ رقم کی امداد کی صورت میں ضرورت مند لوگ اسے دوسری ضروریات میں صرف کر لیتے اور حضور کا منشاء مبارک یہ تھا کہ عید کے موقع پر غرباء بھی اپنے ہاں اچھا کھانا تیار کرسکیں.حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ حضور رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات بہت کرتے تھے اور غرباء کی بہت مدد فرماتے تھے.حضرت فضل عمر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی سنت پر پوری طرح عمل پیرا تھے.رمضان المبارک کے ایام میں آپ کثیر رقوم غرباء میں تقسیم فرماتے اس کا انتظام بھی محلہ وار تھا تا کہ کوئی مستحق اس مدد سے محروم نہ رہ جائے.چنانچہ ۱۹۴۴ء کے رمضان المبارک میں حضور نے گیارہ صد روپیہ کی ایک رقم حضرت مولانا شیر علی صاحب کو بھجوائی کہ اسے مستحقین میں تقسیم کر دیا جائے.میں ان ایام میں حضرت مولوی صاحب کے ساتھ دفتر تفسیر القرآن انگریزی میں کام کرتا تھا.اور آپ اس قسم کا کام میرے سپر دفرما دیا کرتے تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس گیارہ صدر وپے کے متعلق جو تحریر حضرت مولانا شیر علی صاحب کو تحریر فرمائی یہ حضور کے اپنے ہاتھ کی تحریر فرمودہ ہے.اور اتفاق سے اب بھی میرے پاس محفوظ ہے.حضور اس میں تحریر فرماتے ہیں.مکرم مولوی صاحب ! اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ پانچ سو روپیہ کا رُفعہ پہلے بھجوا چکا ہوں چھ صد روپیہ کا ایک اور بھجوا رہا رہا ہوں یہ روپیہ بھی محاسب صاحب سے لے لیں اور غرباء میں آٹا وغیرہ تقسیم کروا دیں.“ اس کے بعد اس خط میں حضور نے چند ایک نام بھی تحریر فرمائے ہیں کہ ان لوگوں کو بھی اس امداد میں مد نظر رکھیں.اللہ اللہ کیسا بابرکت وجود تھا جسے ہر وقت اپنے خدام کی بہتری اور بہبود کا خیال رہتا تھا.اور ہر مشکل کے وقت.
510 میں وہ ان کا سچا ہمدرد اور حقیقی خیر خواہ تھا.الفضل فضل عمر نمبر ۲۶ مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۲۰) مکرم صوفی بشارت الرحمان صاحب حضور کی سیرت کے بعض بہت دلچسپ اور ایمان افروز واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.۱۹۴۳ء میں خاکسار نے ایم.اے پاس کیا.اسی سال جولائی اگست کے مہینوں میں مجھے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ہمراہ ڈلہوزی پہاڑ پر جانے کا شرف حاصل ہوا.ڈلہوزی کے اس قیام کے دوران مجھے حضور انور کو بہت قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا.اکثر سیروں میں حضور کی معیت اور قرب سے لطف اندوز ہوتا.وہ زمانہ میری زندگی کا روحانی مسرتوں سے معمور زمانہ تھا جس کی یاد آج بھی دل میں گدگدی پیدا کرتی ہے.بعض اوقات ایسا ہوا کہ سیر کے بعض حصوں میں صرف یہ خاکسار ہی حضور کی خدمت میں ہوتا جی بھر کر سوالات کرتا اور حضور بڑی ہی خندہ پیشانی سے جوابات سے نوازتے.یہ حضور کی ذرہ نوازی تھی کہ حضور ہر معاملے میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی فرماتے.ان کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتے.ان حسین یادوں کو تازہ کرنے کے لئے بعض باتیں سپر د قلم کرتا ہوں.ایک موقع پر علم النفس اور اسکے ماہرین کے متعلق گفتگو شروع ہوئی.خاکسار کو چونکہ علم النفس سے بہت دلچپسی رہی ہے اس لئے حسب عادت سوالات کی بھر مار کر دی.حضور اقدس ڈلہوزی کی ایک چوٹی ” دیان کنڈ کی طرف جاتے ہوئے قافلے سمیت چڑھائی چڑھ رہے تھے، سانس پھول رہا تھا.مگر میں اپنے سوالات کا جواب حاصل کرنے میں اسقدر بے تاب کہ سوال پر سوال کئے جاتا تھا آج جب میں اپنی اس حرکت کو سوچتا ہوں تو سخت شرمندہ ہوتا ہوں کہ حضور اقدس کی کوفت اور سانس پھولنے کو فراموش کرتے ہوئے اپنی دھن میں ہی مگن تھا.کچھ عرصہ تو حضور باوجود ایسی حالت کے جواب دیتے رہے.آخر جب چڑھائی زیادہ سخت ہو گئی اور خاکسار سوالات سے باز نہ آیا تو فرمایا.بھاڑ میں جائے تمہارا ڈاکٹر فرائیڈ میرا سانس تو ٹھیک ہو لینے دو.بس کچھ ///
511 اسی مفہوم کے الفاظ تھے.تب مجھے اپنی گستاخی کا احساس ہوا.مگر سانس پھولنے کی حالت میں بھی اس ذرہ نا چیز کے سوالات کے جواب دیتے رہے.ایک موقع پر اغلبا چمبہ جاتے ہوئے خاکسار حضور کے ساتھ تھا.پہاڑی چڑھائی پر چڑھ رہے تھے.حضور نے فرمایا کہ ذرا بیٹھ کر دم لیتے ہیں.خاکسار نے جھٹ اپنا برساتی کوٹ ایک جگہ بچھا دیا.حضور اس پر تشریف فرما ہو گئے.خاکسار حضور کے پاؤں دبانے لگا.خواہش اور ارمان یہی تھا کہ بس حضور یہاں بیٹھے رہیں اور میں پاؤں دباتا ہی رہوں اور حضور کی میٹھی میٹھی باتیں سنتا ہی رہوں اور خدا کرے باقی احباب بہت دیر سے پہنچیں.بس میں اکیلا ہی حضور کے پاؤں دباتا رہوں بالکل بچوں جیسے ارمان.......خیر کچھ عرصہ کے بعد دوسرے احباب بھی پیچھے سے آپہنچے تب حضور آگے کی طرف چل پڑے.کبھی سفروں میں حضور گھوڑے پر بھی سوار ہوتے اور ہم لوگ ساتھ پیدل ہمرکاب ہوتے تھے اور مسلسل حضور سے باتیں کرتے چلے جاتے.ایک موقع پر بکر وٹہ راؤنڈ پر حضور سیر کر رہے تھے کہ اخروٹ بیچنے والے پہاڑی لوگ پاس سے گذرے.میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا کہ کچھ اخروٹ لوں حضور سمجھ گئے کہ یہ اخروٹ لینا چاہتا ہے فرمایا.بشارت اخروٹ لو گے؟ خاکسار نے عرض کی جی حضور.فوراً واسکٹ کی جیب سے ریزگاری نکالی اور مجھے اور ساتھ بعض بچوں کو اخروٹ لے دیئے جن سے ہماری جیبیں بھر گئیں.میں نے ایک طرف ہٹ کر ایک پتھر پر کچھ اخروٹ فوراً ہی توڑے اور ان کی گرمی نکالی اور ہتھیلی پر رکھ کر لے آیا اور حضور کے سامنے کی کہ حضور کھا ئیں.حضور نے مجھے گھور کر دیکھا اور فرمایا میں اس طرح باہر چیز یں نہیں کھایا کرتا تم کھاؤ مجھے اپنی اس گستاخی پر پھر بڑی شرمندگی ہوئی کہ یہ حرکت کیوں کی.ایک موقع پر کھجیار میں حضور نے رات کا قیام کیا.خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ میں خانساماں کو کھانا تیار کرنے کا آرڈر دوں اور فرمایا کہ مینو مجھے دکھلا لینا.میں نے خانساماں سے پوچھا کہ کیا مینو ہوگا.اس نے کئی چیزیں لکھوائیں اور آخر میں لکھوایا کہ ایک ڈش پوٹین کی ہوگی اس سے دراصل Pudding
512 وہ ورنہ Systolic مراد تھی.خاکسار سمجھا کہ پوٹین کوئی خاص قسم کی لذیذ ڈش ہوگی Pudding بمعنی حلوہ کو تو خاکسار جانتا ہی تھا.خیر میں نے مینو میں پانچویں چھٹے نمبر پر پوٹین لکھ دیا اور پوٹین شیشہ جوڑنے کے مسالا کو کہا جاتا ہے جب میں نے وہ مینو حضور کے سامنے پیش کیا تو کھل کھلا کر ہنس پڑے.فرمایا اچھا تو ہمیں پوٹین بھی کھلاؤ گے احباب بھی جمع ہو گئے.حضور نے سب کو لطیفہ سنایا کچھ دنوں تک میرا خوب ہی مذاق بنا رہا.ان دنوں خاکسار نے ایک اعلیٰ سرکاری ملازمت کے لئے کوشش کی تھی انٹرویو میں لے لیا گیا.طبی معائنے میں دل میں کچھ نقص ثابت ہوا.ڈاکٹروں نے کہا کہ دل میں بعض غیر معمولی Murmurs ہیں جنہیں و Murmurs کہتے تھے.مجھے کہا گیا کہ اس کا علاج کروا کے تین ماہ کے بعد آکر پھر طبی معائنہ کرواؤ.حضور انور نے محترم ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کو ہدایت فرمائی کہ ڈاکٹر صاحب بشارت کا علاج کریں اگر واپسی پر اس کے دل میں نقص قائم رہا تو آپ ذمہ دار ہوں گے اب کیا تھا.ڈاکٹر صاحب نے مجھے شکنجے میں جکڑ لیا حکم ہوا کہ بس دن رات بستر پر لیٹے رہو، حرکت نہ کرو، یہ نہ کرو اور وہ نہ کرو.میں سخت گھبرایا کہ یہ کیسا علاج ہونے لگا ہے، کیا میں پہاڑ پر بستر پر لیٹنے کے لئے آیا تھا مگر ڈاکٹر صاحب کا آرڈر تھا، چوں و چرا مشکل.ذرا تعمیل ارشاد میں غفلت تو ڈاکٹر صاحب خفا ہوتے کہ میاں پھر میں تمہارے علاج کا ذمہ دار نہیں ہوں.مگر میں اس طریق علاج سے بہت تنگ ہوا.آخر ایک تدبیر سو چی.ہم سب لوگ حضور کے ہمرکاب اہل قافلہ اوپر کی طرف ایک کوٹھی ”نادر زینت“ میں رہتے تھے.حضور مع اہل بیت نیچے کی طرف ایک کوٹھی آمر ولا‘ میں قیام پذیر تھے شام کو چار بجے کے قریب حضور گھر سے باہر تشریف لا کر سیر کے لئے جایا کرتے تھے.خاکسار عین ۴ بجے آمرولا کے گیٹ پر حاضر.حضور کی پیشوائی کے لئے کھڑا ہو گیا اس وقت کوئی دوسرا شخص ابھی نہیں پہنچا تھا، نہ کوئی پہرہ دار، نہ محترم درد صاحب جو پرائیویٹ سیکرٹری تھے، بس خاکسار وہاں اکیلا ہی تھا کہ اچانک حضور باہر تشریف لے آئے.باہر سڑک پر پیشوائی کے لئے اکیلا ہی تھا.حضور
513 نے اوپر چڑھائی کی طرف چڑھنا شروع کیا.حضور طبعا یہ سمجھتے تھے کہ میں حضور کی خدمت میں ساتھ ساتھ رہوں گا خصوصاً جبکہ کوئی شخص ساتھ نہیں مگر میں تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا.حضور دو تین قدم اوپر کی طرف چلے گئے اور میں اپنی جگہ پر ہی جما رہا اور ذرا نہ ہلا.یکدم حضور نے مڑ کر دیکھا اور حیران ہو کر پوچھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے میرے ساتھ کیوں نہیں آتے.میں نے عرض کیا حضور ہی نے تو مجھے ڈاکٹر صاحب کے سپرد کر دیا ہے.ان کا آرڈر ہے کہ بالکل حرکت نہیں کرنی، نہ سیر کرنی ہے، بس لیٹے ہی رہو یا بس گھر کے ارد گرد کچھ چل پھر لو سیر کو نہیں جا سکتے.اس پر حضور نے فرمایا.ڈاکٹر صاحب یونہی کرتے ہیں.پہاڑ پر آ کر اگر سیر نہیں کرنی تو اور کیا کرنا ہے.ادھر آؤ اور میرے ساتھ چلو اور صبح اُٹھ کر سامنے پہاڑی کا round دوڑ کر کیا کرو.تمہارا دم بھی پکا ہو.مجھے تو اسی ارشاد کی خواہش تھی کہ بس حضور ڈاکٹر صاحب کے حکم کو cancel کر دیں.سو ایسا ہی ہوا اور خاکسار بڑی خوشی خوشی حضور کے ساتھ سیر کو چل پڑا.آگے چل کر سیر میں محترم ڈاکٹر صاحب بھی مل گئے مجھے دیکھ کر چیں بہ جبیں ہوئے.میں نے کہا کہ حضور کا حکم تھا کہ سیر کو ساتھ چلو، میں آ گیا.میں نے زور سے ذرا بلند آواز سے کہا کہ حضور بھی سُن لیں.حضور نے میری تصدیق کی اور فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب اس سے روزانہ دوڑ لگوایا کریں (مفہوم) میری خوشی کی انتہاء نہ رہی.یہی میں چاہتا تھا.نمازوں میں بعض اوقات حضور کے بالکل ساتھ کھڑا ہوتا.حضور کے قرب اور معیت کے احساس کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا کہ آسمان کی طرف پرواز کر رہا ہوں.بس کچھ ایسی پُر مسرت حالت تھی کہ اسے الفاظ کا جامہ پہنانا میرے بس میں نہیں.انہی دنوں حضور نے صاحبزادگان کو ایک دن رات کے لئے کھجیار کے پُر فضا مقام پر جا کر قیام کرنے اور سیر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی.مجھے حضور کی طرف سے یہ ارشاد موصول ہوا.بشارت صاحب آپ کل عزیزان خلیل احمد ، رفیع احمد ، وسیم احمد ، حفیظ احمد ، طاہر احمد، انور احمد اور کریم بخش ( ڈاکٹر ////
514 کریم بخش صاحب منہاس) کو دکھیار لے جائیں آپ ان کے امیر ہونگے.ایک دن رات وہاں ٹھہر سکتے ہیں.اخراجات کے لئے ۶۰ روپے آپ کو بھجوا رہا ہوں.مزید ۲۰ روپے کسی ہنگامی ضرورت کے لئے اور مزید ۲۰ روپے اگر چنبہ سے راجہ گلاب سنگھ امر سنگھ آجائیں تو ان کی مہمانی کے لئے بڑی پارٹی کا فرض ہوتا ہے کہ چھوٹی پارٹی کی مہمانی کرے.اگر چہ ” کھجیا‘ ان کی ریاست میں ہے مگر یہ مہمانی آپ نے کرنی ہے نہ کہ انہوں نے.گویا خاکسار کوکل ۱۰۰ روپے حضور کی طرف سے موصول ہوئے.صاحبزادگان مجھ سے پوچھتے کہ ابا جان نے آپ کو کتنے روپے دیئے ہیں.میں کہتا کہ ساٹھ روپے کیونکہ اگر میں ساری تفصیل بتا دیتا تو انہوں نے کسی نہ کسی بہانے سے مجھ سے ساری رقم خرچ کروا دینی تھی اور میں ڈرتا تھا کہ کہیں فضول خرچی نہ ہو جائے.کھیاڑ سے واپسی پر ایک پست قد بونا ئخشیش مانگتا ہوا ہمارے پیچھے دوڑا.میرے پاس ٹوٹے ہوئے روپے نہ تھے.دس روپے کا نوٹ میں اس کو دے نہ سکتا تھا.اسی وقت میں نے صاحبزادگان میں سے ایک سے اغلبا میاں رفیع احمد صاحب سے ایک روپیہ قرض لے کر بونے کو دیدیا کہ وہ پیچھا چھوڑے.ڈلہوزی آ کر وہ روپیہ واپس کر دیا.واپس آکر جو میں نے حضور کی خدمت میں اخراجات کا حساب پیش کیا.اس میں آخر میں ہونے والے ایک روپیہ کا تذکرہ تھا اور لکھا کہ ایک روپیہ ہونے کو دینا پڑا اب اس فقرہ پر حضور نے میرا مذاق بنالیا اور کئی مجلسوں میں اس کا تذکرہ فرمایا.مثلاً فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ بونے نے بشارت کو زمین پر گرا لیا اور اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا اور گلا دبا لیا اور جب تک ایک روپیہ نکلوا نہ لیا نہ چھوڑا.حضور کی مجالس جہاں نقدس، روحانیت اور اخلاق کا مرقع ہوتی تھیں وہاں زندہ دلی کا رنگ بھی لئے ہوتیں.اپنے دوستوں اور خدام سے اکثر پاکیزہ مذاق فرماتے کہ مجلس کشت زعفران بن جاتی.چنانچہ عموماً محترم ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب سے یہ زندہ دلی ہوتی.ایک دفعہ خاکسار اور مکرم مولوی نور الحق صاحب ( جو اس زمانے میں
515 ابھی ابوالمنیر نہیں بنے تھے ) چند اور دوستوں کے ہمراہ رادھا سوامیوں کے گورو سردار ساون سنگھ صاحب کے درس میں شامل ہوئے.وہاں گورو صاحب سے ہماری کچھ اس طرح تکرار ہو گئی کہ گورو صاحب نے حضور کی خدمت میں اس کا تذکرہ کر دیا اور ( حضور نے ) ہمیں ڈانٹ پلائی کہ آپ کا کیا حق تھا کہ ایک جماعت کے گرو کے درس میں جا کر اس طرح تکرار کرتے.اگر کوئی میرے درس میں آکر اس طرح بولے تو کیا تم اچھا سمجھو گے وغیرہ وغیرہ.جمعہ کے بعد مولوی نور الحق صاحب کہنے لگے کہ یہ تو خطبہ تھا اب بعد میں جو ہماری شامت آئے گی وہ دیکھنا اور تمہیں تو شاید کچھ نہ کہیں میری انہوں نے اب خوب گت بنانی ہے.میں نے کہا مولوی صاحب آپ بالکل فکر نہ کریں.جب حضور اب یہ بات شروع کریں ، آپ مجھے بولنے دیں میں پھر معاملہ سنبھال لوں گا.ایسا ہی ہوا جمعہ کے بعد جب کمرے کے سب دوست باہر نکلے تو حضور نے غصے کے لہجے میں مولوی نور الحق صاحب کو پکارا کہ مولوی صاحب آخر آپ کو کیا خیال آیا کہ آپ نے ان کا درس خراب کیا.مولوی صاحب نے مجھے آگے کر دیا.میں نے کہا کہ حضور پہلے ساری بات سن لیں انہوں نے اپنے درس میں اسلام پر اعتراضات کئے اور انبیاء کے متعلق توہین آمیز الفاظ بولے.ہم نے اس کا جواب دینا چاہا تھا حضور نے فرمایا کہ آپ اُٹھ آتے اور پھر ذرا غصے میں آنے لگے تو میں نے عرض کیا کہ حضور پہلے ساری بات سن لیں.فرمایا اچھا سناؤ.میں نے سارا قصہ ایسے رنگ میں بیان کیا کہ حضور بے اختیار ہنس پڑے اور سارا 6 go غصہ کا فور ہو گیا اور فرمایا کہ نہیں آئندہ ایسا نہیں کرنا.احتیاط کیا کرو.اس تھوڑے سے عرصے میں جو میں حضور کے قریب رہا میں نے حضور کو بہترین مربی ، معلم اور بہترین امام پایا جو اپنے خدام پر بے مثال رُعب بھی رکھتا ہو ساتھ ہی اس نے بُری طرح سے محبت کی زنجیروں میں بھی انہیں جکڑا ہوا ہو.حضور کی ناراضگی کا ذرا سا خیال بھی ہماری تمام خوشی کو پامال کر دیتا تھا بس وہی مثال صادق آتی ہے جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد میں یوں تذکرہ فرمایا کہ : -
516 خَيْرُ أَئِمَّتِكُمْ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ یعنی تمہارے بہترین امام وہی ہوں گے کہ تم ان سے محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں.حضور چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی قانون کا احترام اور تقویٰ کی باریک راہوں کو مدنظر رکھتے تھے.مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اپنا دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں جس سے حضور کی ނ حس مزاح کا بھی پتہ چلتا ہے.میرا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ حضور نے قانون کی پابندی کی باریک باریک راہوں کا بھی خیال رکھا.مثلاً ریل پر سفر کرتے ہوئے اس امر کا خصوصیت سے جائزہ لیتے کہ کرایہ پوری شرح سے ادا ہو.اگر کسی بچہ کی عمر ساڑھے بارہ سال ہو گئی تو خواہ بظاہر وہ اس عمر سے چھوٹا ہی نظر آتا ہو اس کا پورا ٹکٹ خرید کروایا.اسی طرح حضور اکثر سیکنڈ کلاس میں ریزرو کمپارٹمنٹ میں سفر کرتے.جب کسی سٹیشن پر کوئی خادم کسی خدمت کی بجا آوری کے لئے حاضر ہوتا تو آپ اسے ٹرین کے روانہ ہونے سے پہلے اپنی جگہ پر جا بیٹھنے کی تاکید فرماتے تاکہ ریلوے کے قوانین کی پوری پابندی رہے.اوائل ۱۹۲۱ء میں ڈاکٹر انیس ورتھ تھروٹ سپیشلسٹ نے تبدیلی آب و ہوا کا مشورہ دیا اور تاکید کی کہ روزانہ کافی دیر تک کسی دریا وغیرہ کے کنارہ پر بیٹھا کریں.مثلاً مچھلی کے شکار کا مشغلہ اختیار کر لیا کریں.اس غرض کے لئے حضور کشمیر تشریف لے گئے اور سری نگر ایک ہاؤس بوٹ میں رہائش رکھی اور ساتھ ہی مچھلی کے شکار کے لئے آپ نے اپنے نام کا لائسنس بھی بنوا لیا مگر صرف ایک دن ہی وہ بھی کوئی ایک گھنٹہ ہی یہ شغل کیا.کچھ دنوں بعد ایک مقام گاندھی پل پر تشریف لے گئے مجھے نالہ میں جہاں ہماری کشتی ٹھہری تھی مچھلی بہت معلوم ہوئی.میں نے اس بناء پر کہ لائسنس تو ہمارے پاس ہے ہی، مچھلی کے لئے کنڈی ڈال دی اور دو چھوٹی مچھلیاں پکڑ لیں حضور نے مجھے تو کچھ نہ بتلایا مگر میرے نام لائسنس منگوا کر چپکے سے میرے کوٹ کی جیب میں رکھوا دیا.جب اگلے روز کنڈی ڈالی تو حضور نے سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم کو جو اس سفر میں ////////
517 بطور پرائیویٹ سیکرٹری ہمراہ گئے تھے میرے پاس باز پرس کے لئے بھیجا کہ آپ بغیر لائسنس کے مچھلی پکڑ رہے ہیں.میں نے کہا حضور کا لائسنس جو ہے اور مچھلی بھی میں حضور کے لئے پکڑ رہا ہوں.تو انہوں نے کہا کہ حضور کے لائسنس پر آپ کو تو مچھلی پکڑنے کا حق نہیں ہے.پھر ذرا وقفہ سے کہا کہ آپ تو یونہی کہتے ہیں کہ آپ کا لائسنس نہیں ہے ذرا جیب میں تو دیکھیں.میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور میں حیران ہوا کہ جیب سے میرے نام کا لائسنس نکل آیا.اس وقت میں سمجھ گیا کہ میرے اس طرح شکار کرنے کو حضور نے قانون کے خلاف جانا اور مخفی طور پر اسی وقت میرے نام کا لائسنس خرید کر لطیفہ سنجی کے لئے چپکے سے میرے کوٹ کی جیب میں ڈلوا دیا اور مجھ سے جواب طلبی شروع کر دی.غرض بڑے لطیف رنگ میں حضور نے مجھے قانون کی خلاف ورزی پر تنبیہ فرما دی اور میرے احساسات کا بھی پورا احساس رکھا.“ مکرم مرزا عبدالحق صاحب جو پہلے گورداسپور اور اب سرگودہا میں قیام پذیر ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لمبا عرصہ کم و بیش پون صدی پر ممتد ہے سلسلہ کی اہم خدمات کی توفیق پا رہے ہیں.انہیں حضور کے قابلِ اعتما در فیق کار کا شرف حاصل تھا وہ جلسہ لدھیانہ کا ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہیں.۱۹۴۴ء میں مصلح موعود کے اعلان کے لئے آپ نے مختلف مقامات پر جلسے کروائے.ان میں سے ایک جلسہ لدھیانہ میں بھی کیا گیا.وہاں احرار کا زور تھا انہوں نے ہمارے جلسہ کا مقاطعہ کر دیا ، جلوس نکالے اور ہمیں خوب گالیاں دیں.باوجود اس کے کئی ایک غیر مسلم ہمارے جلسہ میں شریک ہوئے.ظہر اور عصر کی نمازیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جلسہ گاہ میں جمع کروا ئیں.نماز شروع ہوتے ہی بارش بھی شروع ہوگئی.اتنی بارش کہ سب پانی ہی پانی ہو گیا، پانی میں ہی ہم سجدے کر رہے تھے، سفر میں قصر ہونے کی وجہ سے آپ نے دو فرض ظہر کے اور دو عصر کے پڑھائے ، ان چاروں فرضوں میں شاید پون گھنٹہ لگا ہوگا، رقت کی وجہ سے سب طرف سے چیخوں کی آواز آ رہی تھی.آپ اس بات سے قطعی بے نیاز معلوم ہوتے تھے کہ بارش سے ہمارا کیا حال ہو رہا ہے
518 اوپر سے آسمان آنسو بہا رہا تھا اور نیچے سے خدا کے مامور کا خلیفہ اور اس پر ایمان لانے والوں کا ایک گروہ.عجیب سماں تھا غیر مسلم بھی محو حیرت تھے.نماز کے بعد یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ ایسا نظارہ تو انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا.آپ کے ایک قریبی ساتھی اور دوست بیان کرتے ہیں کہ :.غغض بصر کی آپ کو یوں بھی بڑی شدت سے عادت ہے.میں نے آپ کی آنکھیں کبھی پوری کھلی ہوئی نہیں دیکھیں ہمیشہ نیم بند رہتی ہیں اور نگاہ نیچی رہتی ہے اور ادھر اُدھر نہیں دیکھتے اور اس کے ساتھ چہرے پر حیا اور حسن نمایاں ہوتا ہے گویا ایک کنواری والی کیفیت ہوتی ہے لیکن نمازوں میں آنکھیں اور بھی کم کھلی رہتی ہیں اور سجدہ گاہ کی طرف نگاہ رہتی ہے او پر یا ادھر اُدھر کبھی نہیں ہوتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوٹو دیکھ کر مجھے ہمیشہ حضور علیہ السلام کا فقرہ یاد آ جاتا ہے جو آپ کی کتاب علامات المقربین میں ہے کہ.تَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ فِي مَهْدِ الْوِصَالِ.یعنی تو اُن کو جاگتے ہوئے سمجھتا ہے حالانکہ وہ وصال کے بستر میں سوئے ہوئے ہیں.بعینہ یہی نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا اور یہی نقشہ بہت حد تک مصلح موعود کا ہے.۱۹۲۶ء میں یہ عاجز ایک ابتلاء میں سے گزرا گورداسپور سے قادیان حاضر ہو کر آپ کی خدمت میں تفصیل عرض کی.شام کا وقت تھا اگلے روز صبح آپ کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک لمبا خط ملا جس میں یہ بھی تحریر تھا کہ آپ نے ساری رات کمر چار پائی کے ساتھ نہیں لگائی اور اس عاجز کے لئے دُعا فرماتے رہے یہانتک کہ صبح سے کچھ پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ“ جس کی تعبیر آپ نے یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سلامتی کی صورت پیدا فرمائے گا.چنانچہ چند دنوں کے اندر ایسا ہی ہوا اور یہ عاجز سائیکل پر واپس گورداسپور جا رہا تھا ( ان دنوں ابھی بٹالہ سے قادیان کی ریل جاری نہ ہوئی تھی ) کہ راستہ میں سٹھیالی کے پاس یوں محسوس ہوا کہ ایک ہاتھ آسمان سے آیا ہے اور میرے اندر داخل ہو کر میرا سارا گند باہر نکال کر پھینک دیا ہے.اس
519 کے بعد ہمیشہ کے لئے وہ ابتلاء ختم ہو گیا.خدائی کلام میں حضور کے متعلق بتایا گیا تھا کہ وہ دل کا حلیم ہوگا ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کی گواہی بہت ہی قابل قدر اور قیمتی ہے.کیونکہ انہیں ایک لمبا عرصہ حضور کی خدمت میں رہنے کا شرف حاصل رہا.حضرت ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :- حضور کے علم کی سب سے بڑی مثال تو یہی ہے کہ یہ خاکسار ایک کم فہم اور بے ہنر سا آدمی ہے اور بظاہر حضور کا طبی خادم بھی ہے اور حضور کی نازک طبیعی کی کوئی حد نہیں ہے اور بیماری کے دنوں میں ہر ایک بیمار کی طبیعت چڑ چڑی ہو جاتی ہے.اور یہ عاجز اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ مجھ سے کوتا ہیاں بھی ہو جاتی رہی ہیں لیکن ان سب باتوں کو آپ نے برداشت کئے رکھا اور مجھے اپنے سے دور نہیں کیا.آج اس پر ۴۶ سال کا عرصہ گذر رہا ہے.اکرام اولاد اور بچوں سے شفقت کی روح پرور مثال ۲۴.اکتوبر صبح نو بجے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور طلبہ کی طرف سے جناب مولوی عبد الرحیم صاحب درد کے اعزاز میں ٹی پارٹی دی گئی.اور ایڈریس پیش کئے گئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اس مجلس میں شمولیت فرمائی.جب تقریر میں شروع ہوئیں اور سب طلبہ کمرہ میں داخل ہوئے تو ان کے لئے جو فرش کیا گیا تھا وہ ناکافی ثابت ہوا.اس وجہ سے بعض بچوں کو زمین پر بیٹھنا پڑا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ یہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور ہیڈ ماسٹر صاحب سے فرمایا.جب تک ان بچوں کے بیٹھنے کے لئے فرش کا انتظام نہ کیا جائے گا میں بھی نہیں بیٹھوں گا فوراً ٹاٹ مہیا کئے گئے اور جب بچے ان پر بیٹھ چکے تو حضور بھی بیٹھ گئے.الفضل ۶ - نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۵) ایک اندوہناک افواہ اور اس کا رد عمل جماعت احمدیہ کو اپنے امام سے جو محبت و عقیدت تھی اس کا اظہار تو حضور کے ہر ارشاد پر دل و جان سے عمل کرنے اور مالی قربانی کی تحریکات میں دل کھول کر حصہ لینے سے ہوتا ہی رہتا تھا تا ہم ۱۹۳۰ء میں ایک عجیب صورتحال کی وجہ سے جماعت کے اخلاص اور غیر معمولی
520 محبت کا خوب خوب اظہار ہوا.ہوا یوں کہ اس زمانہ کے مشہور انگریزی اخبار ٹریبیون (TRIBUNE) میں امرتسر کے نامہ نگار کے حوالہ سے ۳.جون کو ایک خبر شائع ہوئی کہ امام جماعت احمدیہ کا اچانک انتقال ہو گیا ہے.اخبار نے اس پر ایک شذرہ بھی لکھ دیا.(اس خبر کی Date Line ۳۱ مئی کی تھی ) یہ جھوٹی خبر جماعت پر غم واندوہ کا پہاڑ بن کر گری اور اس نے ہندوستان کے طول وعرض میں جماعت کو ہلا کر رکھ دیا اور ہر احمدی اپنی اپنی جگہ رنج والم کی تصویر بن کر رہ گیا.دور دراز علاقوں میں اکا دکا رہنے والے احمدی خاص طور پر اس تشویش کا شکار ہوئے مگر جماعتوں کی حالت بھی پریشانی اور تکلیف کے لحاظ سے نا قابل بیان تھی.الفضل ۱۰.جون ۱۹۳۰ء نے اس خبر کے متعلق بجا طور پر لکھا کہ :- اس سراسر جھوٹی اطلاع نے حضور کی ذات والا صفات کے متعلق جماعت احمدیہ کے لئے اس قدر رنج و الم اور غم واندوہ پیدا کر دیا جس کا اندازہ امکان سے باہر ہے.اس خبر کا شائع ہونا تھا کہ بجلی کی طرح آن کی آن میں ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ گئی اور جس احمدی تک بھی پہنچی اس پر ایک قیامت ڈھا گئی بہت سے احمدی احباب کا بیان ہے کہ ٹریبیون کی خبر کان میں پڑتے ہی دماغ معطل ہو گیا ، ہاتھ پاؤں پھول گئے ، گویائی کی قوت سلب ہوگئی اور گھر کے لوگوں کو بتانا مشکل ہو گیا اور جب بتایا گیا تو گھروں میں شور مچ گیا.مرد عورت ، بوڑھے ، جوان جلد سے جلد قادیان پہنچنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے.چنانچہ جہاں جہاں سے تردید کی اطلاع پہنچنے سے پہلے کوئی گاڑی چلتی تھی وہاں کے احباب فوراً روانہ ہو گئے اور جہاں روانگی میں دیر تھی یا جلدی پہنچنا مشکل تھا وہاں سے واپسی تاروں کا تانتا بندھ گیا الفضل ۱۰.جون ۱۹۳۰ ء صفحه ۴) قادیان کے احمدیوں کی حالت بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح ہی تھی.ان کو یہ معلوم تھا کہ حضور اللہ کے فضل سے خیریت سے ہیں مگر اس منحوس افواہ کی دہشت ہی ایسی تھی کہ جو بھی سنتا بے قرار ہو جاتا.حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ : میں حسب معمول اپنے دفتر کے برآمدہ میں بیٹھا تھا کہ مکرمی مولوی ///// ////
521 فقیر علی صاحب اسٹیشن ماسٹر گھبرائے ہوئے بھاگے چلے آئے ہیں.میں محسوس کرتا تھا کہ گھبراہٹ میں ان کا قدم با وجود کوشش کے پوری تیزی سے نہیں اُٹھ رہا.مجھے سے ابھی وہ فاصلے پر تھے کہ میں نے پوچھا خیر تو ہے.انہوں نے کہا حضرت صاحب کی طبیعت کیسی ہے؟ میں نے جواب دیا اچھی ہے.مگر میرے کہنے سے ان کی تسلی نہیں ہوئی وہ بھاگے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ لاہور میں کسی بدمعاش نے جھوٹی خبر اُڑا دی ہے...میں نے کہا کیوں تم نے سٹیشن پر ہی اس کی تردید نہ کر دی.انہوں نے کچھ جواب نہ دیا اور بھاگتے چلے گئے.میں نے اس نظارہ کو دیکھا اور تعجب کیا.مگر معا میں نے محسوس کیا کہ یہ محبت کا ایک (الفضل ۱۳ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ ) کرشمہ ہے.باہر سے آنے والے پروانوں کی حالت بھی مکرم عرفانی صاحب نے بیان کی ہے آپ لکھتے ہیں :- وو میں جو راستہ پر بیٹھتا ہوں ان آنے والوں کو دیکھتا تھا کہ وہ محبت اور اخلاص کے پیکر ہیں.انہیں دورانِ سفر میں اس خبر کا افتراء ہونا کھل چکا تھا مگر ان کی بے قراری ہر آن بڑھ رہی تھی اور یہ صرف اعجاز محبت تھا یہ دوست اپنی اسی بے قراری میں قصر خلافت کی طرف بھاگے جا رہے تھے میں نے دیکھا بعض ان میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے اس سفر میں نہ کچھ کھایا نہ پیا.ان طبعی تقاضوں پر بھی محبت کا غلبہ تھا.جب تک قصر خلافت میں جا کر انہوں نے اپنے امام کو دیکھ نہ لیا اور مصافحہ اور معانقہ کی سعادت حاصل نہ کر لی ان کے دل بے قرار کو قرار نہ آیا.الفضل ۱۵.جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ ) اخبار الفضل محبت کی دیوانگی اور جنون میں از خود رفتہ ہو کر آنے والے مسافروں کے متعلق لکھتا ہے :- جو احباب یہ افواہ سن کر گھروں سے دیوانہ وار چل پڑے ان کا بیان ہے کہ شدت غم و الم سے از خود رفتہ ہو جانے کی وجہ سے انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ ان کے ساتھ گاڑی میں کون لوگ بیٹھے ہیں اور وہ کس کس سٹیشن سے گزر رہے ہیں.وفور غم واندوہ کی وجہ سے آنسو بھی نہ نکلتے تھے.بس ایک بے ہوشی کا
522 سا عالم تھا اور خود فراموشی کا ایک دریا تھا جس میں بہتے چلے جا رہے تھے جب رستہ میں کسی نے اس خبر کے غلط ہونے کا ذکر کیا تو بے اختیار خوشی کے آنسو نکل الفضل ۱۰.جون ۱۹۳۰ء صفریم ) قادیان اور بیرونی جماعتوں میں صدقات دیئے گئے.مکرم ملک عبد الرحمان صاحب خادم نے دکھ اور درد کی کیفیت کو ایک نظم میں بیان کیا.جس کے تین اشعار درج ذیل ہیں.آئے سے کانوں میں پڑی ہے خبر میں نے وہ اخبار چاک آنکھ پرنم ہے ނ دیکھا ہے دل ہے صد پاره تجھ ہے ہے سینہ فگار و زماں رونق زمین جہاں کی بہار یہ تو جماعت کی حالت تھی غیر از جماعت افراد میں سے ملتِ اسلامیہ کا درد رکھنے والے اور سنجیدہ لوگوں نے اس خبر کو بری طرح محسوس کیا.سید محسن شاہ صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے بڑی حسرت سے کہا.مسلمانوں کو اس وقت راہِ راست پر چلانے والا ایک ہی شخص تھا وہ بھی چلا گیا تو باقی کیا رہا.“ الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ ء صفحه ۲ مفہوماً) جسو کی ضلع گجرات کے شیعہ احباب نے اخبار ٹریبیون کے اس ناپاک پرو پیگنڈاہ اور غلط خبر چھاپنے پر مذمت کا ریزولیوشن پاس کیا.( الفضل ۱۹.جون ۱۹۳۰ء) احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے انگریزی رسالہ ”لائٹ (LIGHT) نے اپنی یکم جون کی اشاعت میں سیاہ حاشیہ میں 'مرزا بشیر الدین محمود احمد' کے عنوان سے اس خبر کے حوالہ سے لکھا : - ہم گہرے رنج اور افسوس کے ساتھ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، سلسلہ احمدیہ کے قادیان حصہ کے امام کی وفات کی خبر درج کرتے ہیں جو حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ہوئی یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں آپ سے بعض
523 ره عقائد میں اختلافات تھے لیکن اس سے ہم اس مشہور و معروف ہستی کی ان خوبیوں سے جو قدرت نے انہیں فیاضی سے عطا کی تھیں آنکھیں بند نہیں کر سکتے اپنے عقائد کے لئے آپ کا جوش اور سرگرمی بحیثیت لیڈر آپ کی پختہ کاری اور ہنر مندی ماہر تنظیم اور سب سے بڑھ کر آپ کی ذاتی مقناطیسی کشش جس کی وجہ سے آپ کے متبعین کو آپ سے حیرت انگیز عقیدت تھی ایسی صفات ہیں جنہیں قمر وہ لوگ بھی جنہوں نے کبھی آپ کو دیکھا بھی نہیں تسلیم کئے بغیر نہیں سکتے.ہم آپ کی جماعت نیز آپ کے غمزدہ خاندان سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں.“ (یاد رہے کہ اس زمانہ میں ذرائع ابلاغ کی کمی اور خبروں کے حصول کے سُست ذرائع کی وجہ سے بالعموم اخبار کا کچھ حصہ پہلے شائع ہو جاتا تھا اور پہلا صفحہ اور باقی حصے بعد میں اور اس طرح تاریخوں کے متعلق بعض دفعہ اشتباہ ہو جاتا تھا) جماعت کے احباب میں سے بعض کا رد عمل اخبار الفضل نے اپنی مختلف اشاعتوں میں شائع کیا :- شیخ کریم بخش صاحب ( کوئٹہ ) نے یہ خبر سنی تو جماعت کوئٹہ کی طرف سے تار دینے کے لئے تار گھر گئے اور ساری رات بیٹھے روتے رہے جب دوسرے روز ۴ بجے حضور کی خیریت کا جواب ملا تب گھر گئے.( الفضل یکم اکتوبر ۱۹۵۹ء) مکرم ڈاکٹر محمد شفیع صاحب وٹرنری سرجن نے لکھا کہ ” ٹریبیون کی غلط خبر نے مجھے قریب المرگ کر دیا.اگر اسی روز شام کو ٹریبیون میں تردید کا تار نہ پڑھتا اور برادرم ڈاکٹر محمد احسان قادیان سے ۱۰ بجے شب کو نہ آجاتے تو میرا زندہ رہنا مشکل تھا.کیونکہ جس وقت میں نے خبر پڑھی تھی رو رو کر میری حالت دگرگوں ہوتی جا رہی تھی.دل ڈوبتا جاتا تھا اور جسم بے حس ہوتا جا تا تھا.( الفضل ۱۹.جون ۱۹۳۰ء ) راجہ علی محمد صاحب افسر مال نے اپنے خط میں لکھا : - کل شام کو عزیزی چوہدری عبداللہ خاں صاحب و ڈاکٹر محمد دین
524 صاحب اخبار ٹریبیون کا پرچہ میری اطلاع کے لئے لائے وہ خود روتے ہوئے میرے پاس پہنچے.خبر پڑھ کر دل بے قرار ہو گیا.اٹھ کر میں نے اندرا اپنی اہلیہ کو خبر دی جو سخت گھبرا گئی چند ساعت تو ہم سب بیٹھ کر زار زار روتے رہے دل میں غم و ملال کے بادل کے بادل اٹھ کر آتے تھے اور قوت واہمہ قادیان لے جاتی تھی اور تصور قادیان کی حالت غم و مصیبت کی ایسی تصویر کھینچتا تھا جس کی وجہ سے آنکھیں پھٹ جاتی تھیں اور کلیجہ منہ کو آتا تھا.تمام رات میں نہیں سویا اور روتے ہوئے گزری.میری اہلیہ کی حالت نہایت مضطر بہانہ تھی.اور کبھی کبھی جب اس کے منہ سے یہ صداغم والم کے گہرے جذبات سے آلودہ نکلتی کہ حضرت صاحب نے ہزاروں نکاح اور خطبے پڑھے ہونگے لیکن کیا اب ان کی لڑکی کا خطبہ کوئی اور پڑھے گا.تو دل غم کے تلاطم خیز سمندر میں تیرتا دکھائی دیتا تھا اور جب قوت واہمہ میری توجہ کو جماعت کی موجودہ بے کسی اور اندرونی و بیرونی شورش کی طرف کھینچتی تھی تو پھر دل سے یہی صدا نکلتی تھی کہ یہ زلزلہ جو ہماری جماعت پر آیا ہے بے نظیر ہوگا اور اس کی مثال کسی گزشتہ جماعت کے حالات میں نہیں ملتی تھی دل غم سے پر ہو کر آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ جاتی تھیں.کبھی کبھی دل میں خیال گزرتا تھا کہ شاید یہ خبر جھوٹ ہو لیکن اس پر اعتبار نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ اتنی بڑی شخصیت کے متعلق ٹریبیون اخبار میں جھوٹی خبر نکلنے کا کم امکان ہو سکتا ہے.تا ہم اس خیال کے تابع میں نے اپنے رب کے حضور میں درخواست کی کہ اے میرے مولیٰ ! اگر یہ خبر غلط ہو تو میں ایک رات سالم عبادت کرونگا اور بالکل نہیں سوؤنگا.چنانچہ آج اللہ تعالی کے فضل سے ایسا ہی کرنے کا ارادہ ہے.“ غرضیکہ گزشتہ رات ہمارے لئے قیامت کا نمونہ تھی میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آج تک ایسی غم والی رات نہیں پائی.“ 66 (الفضل ۱۰.جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۲) حضور نے جماعت کی اس والہانہ عقیدت و محبت کے متعلق فرمایا: دوستوں کو اس قدر پریشانی تھی کہ کئی ایک کے دل گھٹنے شروع ہو گئے
525 اور بعض کو تو باوجود یکہ اطمینان ہو چکا تھا کہ یہ خبر غلط ہے مگر انہیں دھڑ کے کی بیماری ہوگئی.“ خطبات محمود جلد ۱۲ صفحه ۴۳۶ ) اسی طرح آپ نے جماعت کو اس خبر کے پس منظر میں ایک نہایت ضروری امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: اسے اپنے جہاں خدا تعالیٰ نے اس طرح جماعت کو اخلاص کے اظہار کا موقع دیا وہاں یہ بھی بتا دیا کہ انسان آخر انسان ہی ہے خواہ وہ کوئی ہو اور ایک نہ ایک دن مخلصین سے جدا ہونا پڑتا ہے اس بات کا احساس بھی خدا تعالیٰ نے جماعت کو کرا دیا.اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ خلیفہ سے جماعت کو جو تعلق ہے وہ جماعت ہی کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہے اور جو بھی خلیفہ ہو اس سے تعلق ضروری ہے.یاد رکھو اسلام اور احمدیت کی امانت کی حفاظت سب سے مقدم ہے اور جماعت کو تیار رہنا چاہئے کہ جب بھی خلفاء کی وفات ہو جماعت اس شخص پر جو سب سے بہترین خدمت دین کر سکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے الہام پانے کے بعد متفق ہو جائے گی.انتخاب خلافت سے بڑی آزمائش مسلمانوں کے لئے اور کوئی نہیں یہ ایسی ہے جیسے باریک دھار پر چلنا ذرا سا قدم لڑکھڑانے سے انسان دوزخ میں جا گرتا ہے غرض انتخاب خلافت سب سے بڑھ کر ذمہ داری ہے جماعت کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری پہچانتی الفضل ۱۳.جنوری ۱۹۳۱ء صفحه ۴۳) چاہئے.“ اس خبر سے دشمن کے بد ارادوں میں ناکامی اور جماعت کو حاصل ہونے والے فوائد کی نشان دہی کرتے ہوئے مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ انچارج غانا کے نام اپنے ایک خط محرره ۶-۱۹۳۰.۱۸ میں حضور تحریر فرماتے ہیں :- " ہندوستان کی حالت بدستور ہے وفات کی خبر اڑانے سے جہاں جماعت کو مالی طور پر نقصان ہوا وہاں روحانی طور پر فائدہ بھی ہوا.جماعت میں اس واقعہ کی وجہ سے بیداری پیدا ہوگئی ہے.جو لوگ خلافت کی اہمیت سے ناواقف تھے ان پر اس کی اہمیت اور عظمت ظاہر ہو گئی.دشمن نے چاہا تھا کہ اس خبر کے اڑانے سے جماعت تتر بتر ہو جائے گی اس طرح سخت نقصان ہوگا لیکن
526 خدا نے اس میں بھی فائدہ کی صورت نکال دی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.ایسی ہی ایک اور بے بنیا دیگر جماعت کو رنج و غم میں مبتلاء کر دینے والی خبر کی حضور کو اطلار دیتے ہوئے مکرم میاں محمد محسن صاحب فیصل آباد نے لکھا: کسی شخص نے جو اپنا نام عبدالرحمان بتلائے اور اپنے آپ کو احمدی کہے فون کیا کہ سنا ہے حضرت (خلیفتہ المسیح الثانی ) پر کسی نے گولی چلا دی ہے.آپ کو کچھ معلوم ہو تو اطلاع دیں دل اس دہشتناک خبر سے اس قدر پریشان ہوا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں اور جب تک فون نہ ملا اس وقت تک یہ حالت تھی کہ ایک رنگ آتا اور ایک جاتا.خدا خدا کر کے حضور کی خیریت کی اطلاع ملی اور دل خوشی سے بھر گیا بے اختیار زبان سے نکلا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ......اللہ تبارک تعالیٰ حضور کو تا دیر سلامت رکھے اور حاسدان بداندیش خائب و خاسر ہوں آج جس وقت سے میں یہاں آیا ہوں درجنوں ٹیلیفون بھائی بشیر احمد صاحب کے نام شہر سے آرہے ہیں.”ملاپ کے دفتر سے، پرتاپ کے دفتر سے اور کئی غیر احمدیوں نے اور بے شمار احمد یوں نے گھبرائی ہوئی آواز اور تھرائی ہوئی زبان سے اس غم انگیز خبر کے متعلق پوچھا غرضیکہ سارے شہر میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور جس وقت کوئی احمدی دوست ٹیلیفون کرتا تو گو میں اس سے واقف نہ ہوتا مگر ان کی آواز رقت اور غم سے بھری ہوئی مجھے بتلا دیتی کہ یہ صاحب حضور کے جاں نثار ہیں اور شدت غم سے گھبرائے ہوئے ہیں.میں انہیں تسلی دیتا.(الفضل ۱۱ اگست ۱۹۳۷ء صفحه ۲) ایسی افواہوں سے دشمن کی اپنے بد ارادوں میں نا کا می تو ثابت ہوتی ہی ہے مگر دشمن کی نامرادی وحسرت میں اضافہ کے لئے جماعت کی محبت و عقیدت پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتی اور زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہو جاتی رہی.عدد شر بر انگیزد که خیر ما در آن باشد
527 سحر انگیز شخصیت حضرت فضل عمر کی دلنواز شخصیت ، پر کشش مخصوص مسکراہٹ، مخلوق خدا سے دلی محبت اور پرکن لگاؤ اور تعلق باللہ کی وجہ سے آپ میں غیر معمولی مقناطیسی کشش پائی جاتی تھی.آپ سے ملنے والا اطمینان وسکون کا خزانہ حاصل کرتا اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ کو غیر معمولی رعب و دبدبہ بھی حاصل تھا اور یہ دونوں باہم مخالف متضاد حالتیں اس عمدگی اور خوبصورتی سے باہم سموئی ہوئی تھیں کہ ہر شخص اس کیفیت سے بھی استفادہ کرتا اور اس سے بھی مستفید ہوتا.حضور کی ملاقاتوں کے متعلق یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آپ سے ملاقات کرنے والوں میں انتہائی عقیدت مند احمدی بھی ہوتے تھے اور انتہائی مخالف غیر از جماعت بھی، اسی طرح آپ کے ملاقاتیوں میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے تھے جو ارادتمندی، خلوص اور پیار سے اپنی ذاتی مشکلات اور نجی امور میں آپ سے رہنمائی اور دعا حاصل کرنے کے طلبگار ہوتے تھے اور ایسے لوگ بھی ملاقاتیوں میں شامل ہوتے تھے جو علمی مشکلات اور تنظیمی امور میں حضور کی رہنمائی کے متمنی و خواستگار ہوتے تھے.جناب مولوی برکات احمد صاحب را جیکی جماعتی عہد یدار ہونے کی نسبت سے حضور کی ملاقات سے اکثر مشرف ہوتے تھے ان کا بیان ہے کہ وہ جب بھی ملاقات کے لئے جاتے تو جانے سے پہلے دو نفل ادا کرتے اور خدا تعالیٰ سے توفیق طلب کرتے کہ میں خلیفہ وقت کے منشاء کو بخوبی سمجھ کر اس پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق پاؤں.کئی خوش قسمت ملاقاتیوں نے یہ بھی بیان کیا کہ وہ ملاقات کے لئے جاتے ہوئے اپنی خوش قسمتی پر نا پر نازاں ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ صدقہ بھی دے کر جاتے تھے اور ہر وہ بات جس کے زیر غور آنے کا خیال ہوتا اس کے متعلق اچھی طرح تیاری کر کے جاتے تھے.حضور کے ملاقاتیوں کی فہرست بہت لمبی اور متنوع ہے جس میں ایک طرف فخیر قوم
528 قائد اعظم محمد علی جناح، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں، قائد اعظم کے معتمد ترین ساتھی خواجہ ناظم الدین ، سردار عبدالرب نشتر ، فیروز خان نون بعد میں وزیر اعظم پاکستان)، مہا راجہ حمید احمد خاں بھوپال، خان عبدالغفار خاں، ڈاکٹر خان صاحب، سرسلطان احمد ، سراحمد سعید خاں چھتاری، سر محمد شفیع اور دوسری طرف موہن داس رام چند گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، پنڈت جواہر لال نہرو، مسز سروجنی نائیڈو، مس سرد ولا سارا بائی ، شیخ محمد عبد الله جیسے سیاسی اکابرین شامل تھے.اسی طرح خواجہ حسن نظامی ، مولانا عبدالمجید سالک ، مولانا غلام رسول مہر، حفیظ جالندھری جیسے ادیب و شاعر بھی آپ کے دائرہ ملاقات میں شامل تھے.( یہ فہرست بہت لمبی ہو سکتی ہے بطور نمونہ چند نام پیش کئے گئے ہیں ) ذیل میں حضور کی ملاقات سے بہرہ یاب ہونے والے بعض غیر از جماعت معززین کے تاثرات پیش کئے جاتے ہیں :- حضور کی روح پرور ملاقات کی یاد تازہ کرتے ہوئے بلند پایہ ادیب و سخنور جناب پروفیسر سید اختر صاحب اور مینوی صدر شعبہ اردو پٹنہ یو نیورسٹی تحریر کرتے ہیں :- حضرت خلیفہ المسیح زندگی کے نشیب وفراز اور پیچ وخم سے اچھی طرح آگاہ تھے وہ لطیفے بھی کہتے تھے، انہیں چٹکلے بھی یاد تھے، آپ شعر بھی پڑھتے تھے ، مجلسوں میں خوش آوازی سے نرم ہنسی بھی ہنتے تھے اور ہمیشہ متبسم رہتے تھے.میں نے حضور کو قہقہہ لگاتے ہوئے نہیں دیکھا.ایک عجیب دمکتا ہوا وقار ہر وقت آپ پر طاری رہتا تھا لیکن سفید پگڑی کے نیچے گورا چہرہ ، خوبصورت ریش اور غلافی آنکھیں، تبسم اور محبت کے انداز سے چمکتی تھیں.روحانیت پوری شخصیت سے مترشح ہوتی تھی.میں نے حضور سے علمی مسائل کے بارے میں رہنمائی بھی حاصل کی ہے اور جماعت کے افراد کے ساتھ دربارِ خلافت میں بھی حاضر ہوا ہوں اور مجھ جیسے لاکھوں لوگوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو دیکھا ہے وہ سب گواہی دیں گے اور میرا دل بھی شاہد ہے کہ حضور کی شخصیت میں ایک عجیب روحانی مقناطیست پائی جاتی تھی.آپ کا وجود اپنے اندر کہربائیت رکھتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی ذات میں قیادت کے سارے پہلو بحسن وخوبی جلوہ گر تھے.محبت اور رعب کا ایسا امتزاج پایا جا تا تھا کہ دل گرویدہ ہو جاتا تھا.غیر مطبوعہ ریکار ڈ فضل عمر فاؤنڈیشن ) 66
حضرت خلیقہ لمبی الثانی ارکان کشمیر کمیٹی (سیالکوٹ) کے درمیان رونق افروز ہیں (13ستمبر 1931ء) حضرت خلیفہ امسح الثانی 23 نومبر 1935 کو آل انڈیا نیشنل لیگ والنٹیر کور قادیان کی ایک یونٹ کا معائنہ فرمار ہے ہیں
حضرت خلیفہ اسیح الثانی نیشنل لیگ والنٹیر کور کے درمیان رونق افروز ہیں ( مارچ 1936ء) حضرت خلیفہ اسیح الثانی (1937ء) احباب جماعت کے ساتھ
حضرت خلیفہ مسیح الثانی جلسہ سالانہ میں تشریف لاتے ہوئے ( 1938ء) پہلی بار جلسہ خلافت جوبلی (1939 ء ) پر لوائے احمدیت لہرانے کی تقریب
حضرت خلیفہ اسی الثانی جلسہ خلافت جوبلی کے اختتام پر واپس تشریف لے جارہے ہیں (1939ء) حضرت مصلح موعود جلسہ سالانہ ربوہ (1951ء) کے موقع پر لاہور کے بعض ممتاز ایڈ میٹروں اور صحافیوں کے ساتھ
حضرت مصلح موعود جلسہ سالاندر بود (1953ء) کے موقع پر بعض ممتاز ایڈ میٹروں اور صحافیوں کے ساتھ حضرت مصلح موعود جسٹس ایم آر کیانی کے ساتھ
حضرت مصلح موجود کے ساتھ کراچی میں مولانا عبدالمجید سالک صاحب، ملک عبدالرحمن صاحب شیخ اعجاز احمد صاحب ( علامہ اقبال کے بھتیجے ) اور چوہدری عبداللہ خان صاحب (امیر جماعت احمد کراچی) حضرت مصلح موعود ماریشس کے احمدیوں کے ساتھ جلسہ سالانہ کے موقع پر
529 اس بیان میں جن علمی مسائل کے متعلق رہنمائی حاصل کرنے کا ذکر ہے اس کی کسی قدر تفصیل پروفیسر سید اختر احمد صاحب اور مینوی صاحب کی تحریر میں موجود ہے اس کا یہاں بیان کرنا بھی دلچسپی کا باعث ہو گا : وو...میں ۱۹۳۴ء سے ہی ایسے معلموں اور دوستوں کے ساتھ رہا جن کے ذریعہ مجھے کمیونزم سے خاصی واقفیت ہو گئی ایک دور ایسا بھی آیا کہ میرے دل میں اسلام کے اقتصادی نظام کی تفصیل جاننے کی بڑی تیز خواہش پیدا ہوئی اور کچھ اعتراضات بھی دل میں پیدا ہوئے.میں نے کئی علماء سے اپنی ذہنی الجھن کا ذکر کیا لیکن مجھے کوئی تسلی نہ دے سکا آخرش میں ۱۹۴۱ء میں اپنی تشنگی دور کرنے قادیان دارالامان گیا میری بڑی خوش قسمتی تھی کہ مجھے دربار خلافت میں باریابی حاصل ہوئی اور میں نے اقتصادی مسائل اور کمیونزم کا ذکر حضور کے سامنے شروع کر دیا اور اپنی ذہنی پریشانیوں کی بات بھی کی.سید نا حضرت مصلح موعود نے آدھے گھنٹے کے اندر میرے بنیادی سوالات و شبہات اور اعتراض کے نہایت تسلی بخش حل سے مجھے نوازا.میں نے یہ محسوس کیا کہ میرے ذہن کی نئی کھڑکیاں کھل گئی ہیں.میں دربارِ خلافت سے بہت ہی مطمئن واپس آیا.میرے ساتھ مکرم پروفیسر علی احمد صاحب بھاگلپوری بھی تھے.مجھے آج تک حضرت محمود کا حسین.پیارا اور متبسم چہرہ یاد ہے.کس طرح حضور نے اپنے ایک نا چیز غلام کی باتوں کو مسکراتے ہوئے بڑی توجہ سے سنا اور پھر کس پیار سے آپ نے میری تشنگی دور فرمائی.مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ آپ کی گفتگو میں ایک نور کی بجلی اور رُو د کوثر کی روانی ہے.آپ تیز تیز بول رہے تھے لیکن آواز میں تندی یا تلخی نہیں تھی بلکہ بے حد کشش تھی..حضور کی ملاقاتوں کی پیاری یادوں میں ایک مشہور دانشور صحافی اور ادیب جناب ابوظفر نازش رضوی کی ایک ملاقات کا ذکر انہی کی زبانی دلچسپی کا موجب ہو گا.یادر ہے کہ موصوف جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے اس طرح ان کے اس ہدیہ عقیدت کو خاص مقام حاصل ہو جاتا ہے اور حضور کی کامیاب زندگی کے کئی درخشندہ پہلو نمایاں ہوتے ہیں وہ لکھتے ہیں :- " حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ سے میری پہلی
530 ملاقات دسمبر ۱۹۳۹ء کے پہلے ہفتے میں بمقام قادیان ایک خاص صورتِ حال کے تحت ہوئی اور وہاں میرا قیام دسمبر کے اخیر تک رہا.اس عرصہ میں مجھے حضرت صاحب سے تین بار شرف ملاقات حاصل ہوا اور ہر بار میں ان کی مقناطیسی کشش سے نہایت متاثر ہوا میں ایک پشتنی پختہ کا رشیعہ ہوں اس لئے بظاہر میرا قادیان جانا اور پھر مہینہ بھر وہاں قیام کرنا ایک عجیب سی بات تھی مگر حالات کچھ ایسے تھے کہ میرا قادیان جانے کے بغیر چارہ کار نہ تھا.میں اس زمانہ میں دہلی میں مستقل طور سے مقیم تھا.بات یہ ہوئی کہ ان دنوں میری کچھ نظمیں یکے بعد دیگرے اخبارات ورسائل میں شائع ہوئیں جن سے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کا پہلو نکلتا تھا اس پر حکومت کی طرف سے میرے خلاف خفیہ تفتیش ہونے لگی اور مقدمات مرتب کئے جانے لگے.اسی اثناء میں میرا ایک نہایت معزز غیر مسلم دوست اپنے بعض دیگر اسی نوعیت کے افعال پر حکومت کے زیر عتاب تھا.اس سلسلہ میں میرا نام بھی خفیہ طور پر شامل تفتیش کر لیا گیا.چنانچہ میرے اس غیر مسلم دوست کی گرفتاری عمل میں آئی مگر میری گرفتاری کسی وجہ سے چند گھنٹوں کے لئے ملتوی کر دی گئی.اس پر میرے چند با اثر اور مخلص شیعی وشنی دوست جو ملکی حالات سے زیادہ باخبر اور جماعت احمدیہ سے حسنِ ظن رکھتے تھے دہلی میں اکٹھے ہوئے اور میرے بچاؤ کی تدابیر پر بحث ہونے لگی.انہوں نے طویل بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ حکومت کے اعلیٰ ارکان سے مل کر میرا معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کریں.مگر مجھے فوراً دہلی کو چھوڑ دینا اور چند دن کسی ایسے مقام پر چلے جانا چاہئے جہاں کسی قسم کا چالا کی ، شرارت اور جاسوسی کا امکان نہ ہو.اس سلسلے میں ان کی نظر قادیان پر پڑی اور مجھے مشورہ دیا کہ میں چند دن کے لئے وہاں چلا جاؤں.کچر چنانچہ میں کسی دوسرے دوست یا عزیز کو بتائے بغیر قادیان پہنچ گیا اور وہاں میں نے یہ ظاہر کیا کہ وہاں کی عظیم الشان لائبریری سے علمی استفادہ کرنے کی غرض سے آیا ہوں.چونکہ اس مقصد کے لئے اکثر اعلیٰ علمی ذوق رکھنے والے افراد وہاں پہنچ جایا کرتے تھے اس لئے میری بات پر یقین کر لیا گیا اور سچ سچ
531 کسی نے زیادہ ٹوہ لگانے کی کوشش نہ کی.میں پہلے دن ہی بالکل مطمئن ہو گیا، میرا قیام مہمان خانے میں ہوا، وہاں مجھے پتہ چلا کہ امام صاحب جماعت احمدیہ کے پرائیویٹ سیکرٹری جناب چوہدری بشیر احمد خان بی.اے.ایل ایل.بی ہیں (جو آجکل لاہور میں اوتھ کمشنر ہیں) وہ نہ صرف میرے شناسا تھے بلکہ میرے استاد بھی رہ چکے تھے، میں ان سے ملا تو وہ بے حد خوش ہوئے.میری خواہش پر انہوں نے حضرت صاحب سے میری ملاقات کا فوراً انتظام کر دیا.ملاقات کا انتظام ہوتے ہی میں دارالخلافت پہنچا اور جب چند سیٹرھیاں طے کر کے اندر پہنچا تو حضرت صاحب گاؤ تکنے سے ٹیک لگائے قالین سے مفروش کمرے میں تشریف فرما تھے.میں رسم سلام ادا کر کے جب مصافحہ کر چکا تو مختصر سے وقفہ کے بعد آپ نے فرمایا: - قادیان دارالامان ہے یہاں آپ کو سو فیصد امن اور سکون میسر رہے گا“ حضرت صاحب کے اس فقرے پر مجھے بہت تعجب ہوا.قادیان کو دارالامان تسلیم کر کے ہی میرے شیعی اور سنی دوستوں نے مجھے وہاں بھیجا تھا مگر حضرت صاحب کا میرے حالات سے قطعاً نا واقف ہوتے ہوئے مجھے خاص طور پر ”امن“ کا یقین دلانا بڑی ہی استعجاب انگیز بات تھی.قادیان کے سالانہ جلسے تک میرا معاملہ سلجھ چکا تھا مگر میں مزید چند روز قادیان میں قیام پذیر رہا.اس موقع پر میرے چند احمدی دوست بھی قادیان پہنچ گئے تو باقی دنوں کے لئے میری رہائش کا انتظام محترم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کے دولت کدہ پر ہو گیا جہاں میں نے خلوص اور عقیدت کا بے نظیر نظارہ دیکھا.ان دنوں حضرت صاحب بے حد مصروف تھے پھر بھی میری ضروریات کے متعلق آپ دریافت فرماتے رہے.دوسری مرتبہ ۱۹۴۰ء میں مجھے ایک سیاسی مشن پر قادیان جانا پڑا.اس زمانے میں ہندو اپنی سنگٹھنی شرارتوں کا ایک خاص منصوبہ بنا رہے تھے اس موقع پر مرحوم و مغفور امام صاحب جامع مسجد دہلی اور سیدی ومولائی خواجہ حسن نظامی
532 صاحب اَعْلَے اللهُ مَقَامَهُ اور دیگر چوٹی کے مسلم اکابر نے مجھے نمائندہ بنا کر بھیجا کہ حضرت صاحب سے اس باب میں تفصیلی بات چیت کروں اور اسلام کے خلاف اس فتنے کے تدارک کے لئے ان کی ہدایات حاصل کروں.یہ مشن بہت خفیہ تھا کیونکہ ہندوستان کے چوٹی کے مسلمان اکابر جہاں یہ سمجھتے تھے کہ ہندوؤں کے اس ناپاک منصوبے کا مؤثر جواب مسلمانوں کی طرف سے صرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی دے سکتے ہیں.وہاں وہ عام مسلمانوں پر یہ ظاہر کرنا بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ حضرت صاحب کو اپنا رہبر تسلیم کرتے ہیں.میں اس سلسلے میں قادیان تین دن مقیم رہا اور حضرت صاحب سے کئی تفصیلی ملاقاتیں کیں.ان ملاقاتوں میں دو باتیں مجھ پر واضح ہو گئیں ایک یہ کہ حضرت صاحب کو اسلام اور حضور سرور کائنات علیہ السلام سے جو عشق ہے اس کی مثال اس دور میں ملنا محال ہے.دوسرے یہ کہ تحفظ اسلام کے لئے جو اہم نکات حضرت صاحب کو سو جھتے ہیں وہ کسی دیگر مسلم لیڈر کے ذہن سے مخفی رہتے ہیں.میرا یہ مشن بہت کامیاب رہا اور میں نے دہلی جا کر جو رپورٹ پیش کی اس سے مسلم زعماء کے حوصلے بلند سے بلند تر ہو گئے.فروری ۱۹۵۶ء کے پہلے ہفتہ میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب موجودہ امام جماعت احمدیہ کے ارشاد پر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے پروفیسر خان نصیر احمد خان لاہور تشریف لائے اور مولانا عبد المجید سالک مرحوم و مغفور، چوہدری عبدالرشید تبسم ایم.اے اور مجھے موٹر کار میں ربوہ لے گئے وہاں ایک انعامی مقابلہ تقاریر اور مشاعرہ کا انعقاد تھا جس میں ہماری شرکت ضروری سمجھی گئی.ربوہ میں اس روز شام کو پہلے انعامی مقابلہ تقاریر ہوا جس میں ہم تینوں نے حج کے فرائض انجادم دیئے اور پھر مولانا عبدالمجید سالک مرحوم و مغفور کی زیر صدارت مشاعرہ ہوا.یہ دونوں تقریبیں بہت کامیاب رہیں.دوسرے دن حضرت صاحب نے بعد دو پہر ہم تینوں کو چائے پر یاد فرمایا.میں حضرت صاحب سے گزشتہ ملاقاتوں میں اُن کی بے مثال سیاسی بصیرت اور اسلام سے متعلق انتہائی غیرت کا تہہ دل سے قائل ہو چکا تھا لیکن
533 اس چائے پر اُن کی زندگی کا ایک اور گوشہ میرے سامنے آیا جس سے میں ابھی تک قطعاً نا واقف تھا.اس گوشے کا تعلق لطافت طبع اور ذوق ادب سے تھا.چائے شروع ہوئی تو چند نو جوانوں نے مووی کیمرہ سے حضرت صاحب سمیت ہم سب کی تصاویر لیں.اور چند منٹ تک یہ نو جوان اس کمرے میں موجود رہے پھر معلوم نہیں وہ از خود ہی چلے گئے یا حضرت صاحب نے اشارہ فرما دیا کہ وہ چلے جائیں.بہر حال اب ہم تینوں ادیب تھے اور حضرت صاحب اور کوئی نہ تھا.باتوں باتوں میں گزشتہ رات کے انعامی مقابلہ تقاریر اور مشاعرے کا ذکر آگیا.مولانا سالک مرحوم نے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی غیر معمولی انتظامی قابلیت کو بہت سراہا اور کہا کہ اگر اسی قسم کی متانت اور شائستگی قائم رہے تو ایسے ادبی اجتماع اکثر منعقد ہوتے رہنے چاہئیں.ان کی افادیت بہت ہے“ حضرت صاحب نے سالک صاحب مرحوم کی یہ تجویز پسند فرمائی پھر ادبیات پر گفتگو شروع ہو گئی.مجھے اس بات سے سخت حیرت ہوئی کہ حضرت صاحب کا ادبی ذوق نہایت منجھا ہوا اور انتہائی دقیقہ رس ہے.ادب کی نازک لطافتوں کا ذکر آیا تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کو ان پر صرف عبور ہی حاصل نہیں بلکہ یہ خود ان کی طبیعت کا حصہ ہیں.کسی نظام کا سربراہ یا کسی قوم کا پیشوا ہونا جُدا بات ہے اور انتہائی لطیف ادبی ذوق کا حامل نا قطعی طور پر دوسری چیز ہے.پھر آپ کا اپنا کلام بھی بہت ہی بلند پایہ ہے.اپنی چھوٹی تقطیع کی ایک کتاب ” کلام محمود اپنے دستخط ثبت فرما کر مجھے مرحمت فرمائی جو اب تک میرے پاس محفوظ ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد سے میری آخری ملاقات ۱۹۶۰ء میں ہوئی.اُس وقت محترم حکیم یوسف حسن صاحب ایڈیٹر نیرنگ خیال بھی میرے ہمراہ تھے.ہم محض حضرت صاحب سے ملاقی ہو نے ربوہ گئے تھے.ربوہ میں داخل ہوتے ہی ہم نے حضرت صاحب کے سیکرٹری کو ٹیلیفون پر اپنی آمد کی اطلاع دی تو چند منٹ میں شیخ روشن دین صاحب تنویر ایڈیٹر ”الفضل“ ہمارے پاس پہنچ گئے.شیخ صاحب انتہائی مخلص آدمی ہیں.یہ جمعرات کا دن تھا.معلوم
534 ہوا کہ حضرت صاحب کی طبعیت ناساز ہے آج ملاقات نہیں ہو سکے گی اور جمعہ کے دن ویسے ہی ملاقاتیں بند ہیں ہم نے سیکرٹری صاحب سے عرض کیا کہ ہماری آمد کی اطلاع بہر حال حضرت صاحب تک پہنچا دیں.انہوں نے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا ہم نماز عصر سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ سیکرٹری صاحب نے آکر فرمایا کہ کل یعنی جمعہ کی صبح ہمیں حضرت صاحب نے چائے پر یاد فرمایا ہے.چنانچہ جمعہ کو صبح آٹھ بجے ہم حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا دیئے گئے اُس وقت حضرت صاحب علیل الطبع اور بہت کمزور تھے.آپ ایک بے بستر کی چارپائی پر استراحت فرما تھے.ہم کمرے میں داخل ہوئے تو آپ نے اٹھنے کی کوشش کی.میں نے عرض کیا کہ آپ یہ تکلیف نہ فرمائیں اور آرام فرمائیں.اس پر آپ لیے رہے ہم قریب ہی ایک صوفے پر بیٹھ گئے مزاج پرسی کے بعد آپ نے حکیم یوسف حسن صاحب سے فرمایا: آپ کا رسالہ نیرنگ خیال مدت سے ہمارے مطالعہ میں ہے آپ اسے زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لئے بڑے عزم واستقلال سے کام لے رہے ہیں جو قابل تعریف ہے“ حکیم صاحب نے حضور کا بہت بہت شکریہ ادا کیا کہ آپ نیرنگ خیال میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں.پھر حضور نے حکیم صاحب سے فرمایا: ”آپ نے ایک دفعہ قادیان آ کر ہماری بچی کا علاج کیا تھا اُس وقت بڑے بڑے ڈاکٹر اور حکیم مرض کی تشخیص نہیں کر سکے تھے.ہم نے آپ کو لاہور سے بلوایا تو آپ کے علاج سے بچی تندرست ہو گئی.یہ سب خداوند تعالیٰ کا فضل تھا“ اب یہ اتنے لمبے عرصہ کا واقعہ تھا کہ اسے خود حکیم یوسف صاحب بھی بھول چکے تھے.حضرت صاحب کے ارشاد پر حکیم صاحب نے حافظے پر زور دیا تو انہیں یہ واقعہ بمشکل یاد آیا.حکیم صاحب اور میں حضرت صاحب کی غیر معمولی قوتِ حافظہ پر سخت حیران ہوئے بالخصوص اس لئے کہ اب حضرت صاحب بیمار بھی تھے.پھر حضرت صاحب میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور حکیم صاحب سے فرمایا: -
535 نازش صاحب احمدی شیعہ ہیں یہ ہمارے پرانے مخلص دوستوں میں سے ہیں.انہوں نے اپنا قلم ہمیشہ ہمارے حق میں استعمال کیا ہے اس لئے کہ ہمارے مخالف ہم سے مخالفت محض برائے مخالفت کرتے رہے ہیں اور ہم ہمیشہ حق پر ہوتے رہے ہیں.نازش صاحب نے حق کی حمایت میں کوتا ہی نہیں کی حضرت صاحب اب مجھ سے مخاطب ہوئے فرمایا: آپ کے کتنے بچے ہیں؟ وہ کیا کیا کرتے ہیں؟ اگر وہ زیر تعلیم ہیں تو ان سب کو آپ ربوہ بھیجدمیں ہمارے یہاں ان کی تعلیم، رہائش اور خوراک کا سب انتظام ہو جائے گا.وہ شیعہ رہتے ہوئے یہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گے، میں حضور کی اس انتہائی مخلصانہ پیشکش سے بے حد متاثر ہوا اور بصمیم قلب شکریہ بجالایا.الفضل ۱۴.اپریل ۱۹۶۶ء صفحه ۳ تا ۵ ) خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے قادیان میں تو غیر معمولی مصروفیات حضور کا روز مرہ کا معمول بن چکی تھیں ، قادیان سے باہر جانے کی صورت میں جب کہ بعض اوقات باہر جانے کا مقصد بحالی صحت بھی ہوتا تھا آپ کی مصروفیات کم ہونے کی بجائے اور زیادہ ہو جاتی تھیں.مقامی احمدی حضور کی آمد کو اپنی سعادت اور خوش بختی سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ برکت حاصل کرنے کے لئے نمازوں، مجالس عرفان اور ذاتی ملاقاتوں کے لئے قطار اندر قطار آنا شروع ہو جاتے.تربیتی وتبلیغی مجالس منعقد ہوتیں، زیر تبلیغ افراد سے ملاقات اور حسب موقع تبلیغی گفتگو بھی ہوتی، ملی خدمات اور ایسے ہی دوسرے مفید کاموں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ایسے ایک موقع کی رپورٹنگ کرتے ہوئے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے لکھا: - ”حضرت خلیفہ امسیح کے شملہ میں قیام کا آخری ہفتہ دعوتوں اور ملاقاتوں کا ہفتہ کہلا سکتا ہے.اگر چہ آپ جب سے تشریف لائے ہیں ملاقاتوں اور دعوتوں کا سلسلہ برابر جاری رہا.بھی آپ کے ہاں لیڈرانِ ملک اور دوسرے معززین مدعو تھے اور کبھی آپ.مگر یہ ہفتہ خصوصیت سے ایسی ہی مصروفیتوں کا رہا.حضرت خلیفۃ المسیح کی صحت کی حالت تو بدستور ہے اور آپ کی مصروفیتوں میں روز افزوں اضافہ ہے.میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ آپ کو ایک بجے رات سے پہلے بستر پر جانے کا موقع ملا ہو بلکہ
536 بعض اوقات اس سے دیر کر کے سونا پڑا.اس قسم کی متواتر بے خوابیوں اور محنت کا اثر آپ کے چہرہ پر نمایاں ہے.میں کہوں گا کہ صحت کے لحاظ سے شملہ کے سفر نے حضرت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہاں سلسلہ کی عظمت اور شوکت کا سکہ بیٹھ گیا اور یہ حضرت خلیفہ المسیح کی ذاتی قربانی کا نتیجہ ہے (الفضل ۷.اکتوبر ۱۹۲۷ء صفحہ۵) ایک ملاقات کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے حضرت عرفانی صاحب لکھتے ہیں :- ” سروجنی نائیڈو ہندوستان کی مشہور سیاسی رہنما عورت ہے.جس نے اپنی زندگی کو اہل ملک کی سیاسی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے ہندوستان کی مشہور سیاسی مجلس کانگرس کی صدارت بھی کر چکی ہیں.حضرت خلیفہ المسیح نے انہیں دعوت پنج پر مدعو کیا اور وہ نہایت اخلاص وارادت سے تشریف لا ئیں.....میز پر ہندو مسلمان اتحاد کے لئے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتی رہیں.سروجنی دیوی بنگالی نژاد اور ایک فصیح البیان خاتون ہیں.اس تقریب دعوت پر وہ ملکی حالات کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کرتی رہیں.انہوں نے بتایا کہ ایک موقع پر مسٹر جناح نے نہایت ہی محبت سے اعتراف کے طور پر کہا کہ کام کرنا تو حضرت خلیفہ المسیح کی جماعت جانتی ہے جو نہایت مستعدی سے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی.اسی سلسلہ میں وہ جماعت کے نظام اور اس کی عملی قوت کے متعلق اپنے خیالات کا اور دوسرے لیڈروں کے خیالات کا اظہار کرتی رہیں الفضل ۷.اکتوبر ۱۹۲۷ء صفحہ۵ ) اسی سفر میں دیوان عبد الحمید صاحب پرائم منسٹر کپورتھلہ ، نواب صاحب مالیر کوٹلہ ، آنریبل سردار جو گندر سنگھ وزیر زراعت اور اسی طرح اور بہت سے معززین سے ملاقات فرمائی.مصلح موعود کی ملی خدمات آپ کے جوش وجذبہ کے متعلق مسلم ، غیر مسلم اہل الرائے حضرات کے تعریفی بیانات پہلی جلدوں میں اپنے اپنے مقام پر بیان ہو چکے ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علمی حلقوں میں حضور کی غیر معمولی خدمات کا اعتراف کیا جاتا تھا اور یہ بھی کہ ان خدمات اور ان کے نمایاں اثرات کی وجہ سے جماعت کے خلاف نفرت و حقارت کی سوچی سمجھی تحریک ایک مخصوص طبقہ سے ہی تعلق رکھتی ہے.جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے وہ تو یہی ہے کہ یہ جماعت دین حق کی خادم
537 جماعت ہے اور ہمارے امام دین کا درد رکھنے والی ایسی غیر معمولی شخصیت تھی جس نے زبانی کلامی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر مسلمانوں کی شاندار خدمات سرانجام دیں.ذیل میں بعض اہل الرا.ہل الرائے حضرات کے تاثرات پیش ہیں : مولوی محمد علی صاحب جو غیر مبائعین کی انجمن کے پریذیڈنٹ ہیں وہ ریویو جلد ۵ نمبر۳ رسالہ تشحیذ الاذہان پر ریویو کرتے ہوئے لکھتے ہیں ہے.اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس کے صاحبزادہ ہیں اور پہلے نمبر میں چودہ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن ان کی قلم سے لکھا ہوا جماعت تو اس مضمون کو پڑھے گی مگر میں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک بین دلیل کے پیش کرتا ہوں جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے...اس مضمون کا خلاصہ بیان کرنے کے بعد مولوی صاحب لکھتے ہیں :- اس وقت صاحبزادہ کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے.اور تمام دنیا جانتی ہے کہ اس عمر میں بچوں کا شوق اور امنگیں کیا ہوتی ہیں.زیادہ سے زیادہ اگر وہ کالجوں میں پڑھتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم کا شوق اور آزادی کا خیال ان کے دلوں میں ہو گا.مگر دین کی یہ ہمدردی اور اسلام کی حمایت کا یہ جوش جو اوپر کے بے تکلف الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے، ایک خارق عادت بات ہے.صرف اسی موقع پر نہیں بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہر موقع پر یہ دلی جوش ان کا ظاہر ہو جاتا ہے.اب وہ سیاہ دل لوگ جو حضرت مرزا صاحب کو مفتری کہتے ہیں اس بات کا جواب دیں کہ اگر یہ افتراء ہے تو یہ سچا جوش اس بچہ کے دل میں کہاں سے آیا.جھوٹ تو ایک گند ہے پس اس کا اثر تو چاہئے تھا کہ گندہ ہوتا نہ یہ کہ ایسا پاک اور نورانی جس کی نظیر ہی نہیں ملتی.اگر ایک انسان افتراء کرتا ہے تو اگر چہ وہ باہر کے لوگوں سے اس افتراء کو چھپا بھی لے مگر اپنے ہی بچوں سے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہیں چھپا نہیں سکتا.وہ اس کی ہر ایک حرکت اور سکون کو دیکھتے ہیں، ہر ایک گفتگو کو سنتے ہیں ، ہر موقع پر اس کے خیالات کو ظاہر ہوتا ہوا دیکھتے ہیں“ ریویوآف ریلیجنز جلد ۵ نمبر ۳ صفحه ۱۱۷ تا ۱۱۹، الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۳۵ء صفحه ۷ )
/// 538 مولا نا محمد علی صاحب پڑھے لکھے، باخبر اور منجھے ہوئے صحافی اور مصنف تھے اس لحاظ سے ان کا تبصرہ بہت وقیع اور اہم ہے مگر اس تبصرہ کی اہمیت اس وجہ سے اور زیادہ ہو جاتی ہے کہ مولانا محمد علی ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ۱۹۱۴ء کے جماعتی اختلاف کو طول دینے میں بنیادی کردار ادا کیا اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی مخالفت میں اتنی دور نکل گئے کہ نقصان ما و شماتت ہمسایہ کی نوبت آ گئی.آپ اپنے مذکورہ بالا تبصرہ میں حضور کی دینی ہمدردی اور اسلام کی حمایت کے جوش کو حضرت مسیح موعود کی صداقت کی بین دلیل کے طور پر غیروں کے سامنے پیش کرتے ہیں افسوس کہ تھوڑے عرصہ بعد ہی ان کا اپنا زور دار تبصرہ ان کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت پیش آ گئی.یقیناً مولانا محترم کے پاس اس اپنی واقعاتی اور تجرباتی شہادت کو جھٹلانے کے لئے ضد اور تعصب کے سوا اور کوئی معقول بنیاد نہیں ہو سکتی.ایک معزز علم دوست بزرگ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے بعد اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : - میں نے ایک اور بات جسے غور کے ساتھ دیکھا وہ یہ تھی کہ سارا گروہ، سارا سلسلہ، سارا ہجوم، سارا انبوه اس پاک نفس خلیفہ کی ایک چھوٹی انگلی کے اشارہ پر چل رہا ہے.ہرشخص مرتسم خم کرتا ہوا اور اپنے امام کی محبت میں رنکین ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے جدھر دیکھو خلیفہ کی محبت و ایثار نفسی کا چرچا میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے متعلق اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ شخص قلم کا دھنی بھی ہے، تقریر کا اعلیٰ درجہ کا ماہر بھی اور تنظیم کا اعلیٰ درجہ کا گورنر بھی الفضل ۳.فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ ) مکرم میاں سلطان احمد صاحب وجودی ممبر پنجاب پراونشل کانگرس کمیٹی ( بٹالہ ) جو حضور سے متعدد مرتبہ ملاقات کر چکے تھے اور حضور کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- مرزا بشیر الدین محموداحمد میں کام کرنے کی قوت حد سے زیادہ ہے، وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے انسان ہیں، وہ کئی گھنٹوں تک رُکاوٹ کے بغیر تقریر کرتے ہیں ان کی تقریروں میں روانی اور معلومات زیادہ پائی جاتی ہیں ، وہ بڑی بڑی تضخیم کتابوں کے مصنف ہیں ، ان کو مل کر ان کے اخلاق کا گہرا اثر ان
539 کے ملنے والوں پر ہوتا ہے تنظیم کا ملکہ ان میں موجود ہے.، وہ پچاس سال کی عمر میں کام کرنے کے لحاظ سے نوجوان معلوم ہوتے ہیں، وہ اردو زبان کے ایک الحکم جوبلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ ء صفحہ ۳۶) ۲ مارچ ۱۹۲۷ء بریڈ لا ہال لاہور میں حضور کی ”ہندو مسلم فسادات، ان کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل کے عنوان پر تقریر سے پہلے جناب میاں محمد شفیع صاحب بڑے سر پرست ہیں کے ہی.ایس.آئی نے یہ ریمارک دیئے: حضرات ! ہمارے محترم مرزا صاحب نے آج کی اپنی تقریر کے لئے ایک ایسا عنوان تجویز کیا ہے جس کے ساتھ قدرتاً موجودہ حالات میں ہر بہی خواہ ملک کو دلچسپی ہے، لیکن بد قسمتی سے بعض لیڈری کے مشتاق ملک کے کونہ کونہ میں پھر کر ہندو مسلم تعلقات کو خراب کر رہے ہیں، اور شہر بہ شہر پھر کر فرقہ وارانہ نزاع اور کشیدگیاں پیدا کرتے رہتے ہیں، پبلک پلیٹ فارم سے مذہبی تعصب کو جوش دلا رہے ہیں اور بجائے اس کے کہ ملک میں جو نزاعات پیدا ہیں ان کو روکا جائے انہیں بڑھا رہے ہیں.اسی طرح بعض اخباروں والے اپنی اخبارات کی اشاعت بڑھانے کے لئے ملک کی ترقی کو روک رہے ہیں اور بجائے اس کے کہ فسادات کو فرو کریں انہیں بڑھا رہے ہیں اس وجہ سے فرقہ وارانہ نفرت پھیل رہی ہے جس کا نتیجہ گزشتہ ایک سال کے عرصہ میں یا اس سے زیادہ عرصہ میں آپ صاحبان کلکتہ، کوہاٹ ، سہارن پور، الہ آبا داور دیگر مقامات پر دیکھ اور سن چکے ہیں.مگر اب وقت آیا ہے کہ ملک کے بچے بہی خواہ اور قوم کے سچے درد خواہ جنہیں احساس ہے کہ مادرِ ہند کے ہندو اور مسلمان دونوں فرزند دلبند ہیں اور ان دونوں کے اتفاق سے ہندوستان کی ترقی ہے وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ فسادات نہ کریں.میں سمجھتا ہوں وقت آ گیا ہے کہ ایسے خیر خواہ اور ہمدردلوگ اپنی آواز بلند کریں اور بتائیں کہ ہندوستان میں جولوگ قوموں کو لڑا رہے ہیں وہ ملک کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں.چونکہ اس وقت ہندوستان میں اس قسم کی مشکلات ہیں ، اس لئے مرزا صاحب آج آپ کو ان سب کا صحیح حل بتائیں گے، جس سے امید ہے کہ ملک کے حالات درست ہو جائیں
540 گے، اور یہ مشکلیں نہ رہیں گی.اسی وجہ سے آج میں نے نہایت خوشی سے مرزا صاحب کی تقریر کے وقت صدارت کو قبول کیا ہے.اب میں بڑی خوشی کے ساتھ مرزا صاحب سے استدعا کرتا ہوں کہ اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۲۷ء صفحه ۵) بریڈ لا ہال میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کی تقریر کے متعلق ایک معزز غیر احمدی رئیس کا اظہارِ رائے:- حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جن کے انتظار میں آنکھیں بے تاب تھیں وقت مقررہ پر تشریف لائے اور چشم مہجور کو مسرور فرمانے لگے.ایک نہایت قابلِ قدر اور برجستہ تقریر موجودہ واقعات پر کی جس کی دشمن بھی داد دینے لگے.دل میں اسلامی در د ر کھنے والے حضرت نے اس خوش اسلوبی سے تقریر کی کہ سامعین پر وجد طاری ہو گیا.مسٹر جے دیو بیرسٹر نے بے ساختہ کہا مجھ پر اس تقریر کا جتنا اثر ہوا ہے کبھی کسی تقریر کا نہیں ہوا.رائے صاحب نند رام اکثر تعریف کرتے تھے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نہایت اچھے بولنے والے ہیں اور ان کی تقریر کا ہر ایک شخص پر اثر ہوتا ہے سو وہ بچشم خود دیکھا.اب میں ان حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ التماس کرتا ہوں جو مرزا صاحب کے متعلق غلط فہمی میں مبتلاء ہیں کہ اصل حقیقت معلوم کرنے کا طریق صرف یہی ہے کہ مرزا صاحب کی تصانیف کا مطالعہ کریں (الفضل ۲۵ / مارچ ۱۹۲۷ء صفحه ۷ ) ۳.مارچ ۱۹۲۷ء کو حبیبیہ ہال لاہور میں حضور نے ”مذہب اور سائنس“ کے عنوان پر تقریر فرمائی جو کہ علامہ سر محمد اقبال کی صدارت میں ہوئی.اجلاس کے آخر پر علامہ موصوف نے جو تقریر کی اس میں سے ایک اقتباس درج ذیل ہے:.ایسی پر از معلومات تقریر بہت عرصہ کے بعد لاہور میں سننے میں آئی ہے اور خاص کر جو قرآن شریف کی آیات سے مرزا صاحب نے استنباط کیا ہے وہ تو نہایت عمدہ ہے.میں اپنی تقریر کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا تا مجھے اس تقریر سے جو لذت حاصل ہو رہی ہے وہ زائل نہ ہو جائے اس لئے میں اپنی تقریرختم کرتا ہوں“ الفضل ۱۵ / مارچ ۱۹۲۷ء صفحه ۹)
541 ایک معزز ہند و دوست کا خط حضرت امام جماعت احمدیہ کے حضور : - مقدس ذات حضرت امام جماعت احمدیہ! آپ کو میرا بار بار سلام ہو.آپ کا رسالہ کرشن سندیش، میں نے اپنے دوست سے لے کر پڑھا.اسے پڑھ کر مجھے بڑی تسلی ہوئی.میرے خیال میں مسلمانوں کی یہ جماعت احمدیہ قادیان پہلی ہی جماعت ہے جو اسقدر فراخدلی سے دنیا کو ٹھیک راستہ پر چلانے کا انتظام کر رہی ہے.اس آپس کی لڑائی اور جھگڑوں کے زمانہ میں جب کہ اشرف المخلوقات کہلانے والے انسان خونخوار جنگلی جانوروں سے بھی بدتر طریقے دوسروں کو ستانے میں استعمال کر رہے ہیں.آپ کی تعلیم کی اور بھی بہت ضرورت ہے.خدا کرے آپ کی جماعت پھلے پھولے.میں آپ کے قادیان اور آپ کے درشن کرنے کی خواہش رکھتا ہوں.مجھے تو آپ کی جماعت کے لئے ادب و احترام پیدا ہو گیا ہے...66 الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۷ء صفحه ۲) حضور نے ۲۶ فروری ۱۹۱۹ء کو حبیبیہ ہال میں ایک تقریر فرمائی اس کا عنوان تھا اسلام میں اختلافات کا آغاز اس جلسہ کے صدر مؤرخ اسلام جناب سید عبدالقادر صاحب ایم اے تھے.سید صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا : - و آج کے لیکچرار اس عزت ، اس شہرت اور اس پائے کے انسان ہیں کہ شاید ہی کوئی صاحب نا واقف ہوں آپ اس عظیم الشان اور برگزیدہ انسان کے خلف ہیں جنہوں نے تمام مذہبی دنیا اور بالخصوص عیسائی عالم میں تہلکہ مچا دیا تھا خاتمہ تقریر پر صدر مجلس نے فرمایا :- حضرات ! میں نے بھی کچھ تاریخی اوراق کی ورق گردانی کی ہے اور آج شام کو جب میں اس ہال میں آیا تو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں ابھی طفلِ مکتب ہوں اور میری علمیت کی روشنی اور جناب مرزا صاحب کی علمیت کی روشنی میں وہی نسبت ہے جو اس لیمپ (جو میز پر تھا ) کی روشنی کو اس بجلی کے
542 66 لیمپ ( جو او پر آویزاں تھا) کی روشنی سے ہے.حضرات جس فصاحت اور علمیت سے جناب مرزا صاحب نے اسلامی تاریخ کے ایک نہایت مشکل باب پر روشنی ڈالی ہے وہ انہیں کا حصہ ہے (الفضل ۸ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۵) احمد یہ خدمات کو مثالی قرار دیتے ہوئے روزنامہ ”حقیقت“ لکھنو ( ۲۵ رمئی ) لکھتا ہے:- یہ واقعہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کی تمام اسلامی جماعتوں میں سب سے زیادہ منظم اور سرگرم عمل احمدی جماعت ہے جس نے دنیا کے گوشہ گوشہ میں اپنے تبلیغی مشن قائم کر دیئے ہیں حالانکہ اس جماعت کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہے اور اس میں غرباء اور متوسط الحال لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے باوجود اس کے حال میں دفتر قادیان سے سلسلہ کی ضروریات کے لئے ۶۰ ہزار روپیہ قرض جمع کرنے کی اپیل کی گئی چنانچہ دو ماہ کے اندر ہی یہ رقم فراہم ہوگئی لیکن اگر کسی غیر احمدی جماعت کی طرف سے اتنی ہی رقم کے لئے اپیل کی جاتی تو وہ چھ ماہ میں کیا سال بھر میں بھی جمع نہ ہو سکتی تھی خواہ وہ ضرورت کتنی ہی شدید ہوتی...کاش احمدی جماعت کے اس ایثار سے عام مسلمان سبق لیں اور قومی ضروریات کے لئے ایک بیت المال قائم کر کے اپنی بیداری اور زندگی کا ثبوت دیں (الفضل ۳ جون ۱۹۳۴ء صفحه ۲) اخبار سٹیٹسمین کے نامہ نگار خصوصی جماعت کی ترقی کا ذکر کرنے کے بعد حضرت وو امام جماعت احمدیہ کو نہایت ہی موزوں شخصیت قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :.جلسہ سالانہ کے موقعے پر احمد یہ جماعت کی اقتصادی حالت کی بہتری کے لئے خاص زور دیا جاتا ہے.اس جماعت نے گزشتہ سالوں میں اپنے قابل خلیفہ کی سرکردگی میں بے حد ترقی کی ہے آپ سے ملاقات کرنے کے بعد میرے دل میں اس امر کے متعلق کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہ رہی کہ آپ خلافت جیسے مشکل اور اہم کام کے لئے نہایت ہی موزوں شخصیت ہیں کیونکہ آپ کی طاقت کا انحصار آپ کی روحانی برتری اور آپ کے پیروؤں کی رضا کارانہ اطاعت پر مبنی ہے ( الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۴۶ء صفحه ۲) جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے بعد ایک معزز سکھ سردار دھرم انت سنگھ پرنسپل
543 خالصہ پر چارک و دیاله تر نتارن حضور کی تقریر کو بے مثال قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :- ”حضرت مرزا صاحب ایسی روانی کے ساتھ پانچ سے نو گھنٹوں تک بولتے ہیں کہ ہندوستان یا اس سے باہر اس کی مثال نہیں مل سکتی دسمبر ۱۹۳۸ء میں میں نے مرزا صاحب کی تقریر سنی جو آپ نے کھڑے ہو کر پانچ گھنٹہ کی اور سامعین جن میں میں خود بھی شامل تھا بُت بنے سنتے رہے اور نہایت غور کے ساتھ آپ کے مسکراتے ہوئے چہرہ مبارک کو دیکھتے رہے“ ( الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۳۹ء) بیروت کے مشہور اخبار الیوم نے جماعت کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا : - ” مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب پاکستان میں ایک بہت بڑا دینی مرتبہ رکھتے ہیں.آپ لاہور پنجاب کے رہنے والے ہیں ، آپ کی عمر اس وقت ساٹھ سال ہے آپ جماعت احمدیہ کے امیر ہیں.یہ جماعت ساری دنیا میں اسلامی تعلیمات پھیلا رہی ہے آپ ہی کے طفیل دنیا کے اکثر شہروں میں تبلیغی مراکز قائم ہیں.آپ نے کشمیر اور قیام پاکستان میں بہت بڑا پارٹ ادا کیا ہے.آپ کی جماعت چھوٹے سے لے کر بڑے تک ایک خاص نظام میں منسلک ہے.آپ متقی پرہیز گار اور مستجاب الدعوات ہیں..........اس بہت بڑے اسلامی لیڈر نے اسلام اور اپنے جماعتی اصولوں کے بارہ میں بہت سی کتابیں انگریزی اور اردو ہر دو زبانوں میں تالیف کی ہیں.آپ کشمیر کمیٹی کے صدر بھی رہے ہیں.آپ نے ۱۹۲۴ء میں لندن میں منعقدہ مذاہب عالم کا نفرنس میں ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کی تھی، الیوم بیروت ۲۲ دسمبر ۱۹۴۹ء تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحه ۱۰۹ ، ۱۱۰ مفہوماً) ایک مشہور پادری کے تاثرات.امریکہ کے مشہور مستشرق زدیمر مرکز احمدیت دیکھنے کی غرض سے ۲۸.مئی کو قادیان آئے آپ نے مرکزی ادارے دیکھنے کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ سے ملاقات کی اور سلسلہ کا لڑ پچر لینے کے بعد رخصت ہوئے اور امریکہ پہنچ کر ایک خط شائع کیا جس میں عیسائی دنیا
544 سے اپیل کی کہ اسے جماعت احمدیہ سے مقابلہ کے لئے خاص تیاری کرنی چاہئے.کیونکہ جدید اسلام جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے یورپ و امریکہ میں مضبوط ہو رہا ہے.پادری زویر نے چرچ مشنری ریویولندن میں ہندوستان میں اسلام کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا اور اس میں اپنی آمد قادیان کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا: ”ہمارا استقبال نہایت گرمجوشی کے ساتھ کیا گیا درحقیقت انہوں نے ایک دوسرے سٹیشن پر ہمیں لانے کے لئے آدمی بھیجا مگر ہم دوسرے رستہ سے آگئے اور ہمیں گھنٹوں کی بجائے دنوں تک قادیان میں ٹھہرنے کی دعوت دی یہاں سے نہ صرف رسالہ ریویو آف ریلیجنز شائع ہوتا ہے بلکہ تین اور میگزین بھی اس جگہ سے نکلتے ہیں اور لندن، پیرس، شکاگو ، سنگا پور اور تمام مشرق قریب کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہے چھوٹے چھوٹے دفاتر ہر قسم کے دستیاب ہونے والے سامان لڑکچر سے بھرے پڑے ہیں.یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کوممکن بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے اور ایک زبر دست عقیدہ ہے جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے“ الفضل ۱۸.جولائی ۱۹۲۵ ءصفحہ ۱) کمال یا ر جنگ ایجوکیشن کمیٹی نے جس میں ملک بھر کے مسلمان ماہرینِ تعلیم شامل تھے تین ماہ تک ہندوستان کے مختلف تعلیمی اداروں اور مراکز کا دورہ کیا اسی سلسلہ میں کمیٹی کے ممبران قادیان بھی آئے اور حضرت فضل عمر سے ملاقات کی.بعد میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا : - ہم نے آج ایک گھنٹہ کے قریب امام جماعت احمدیہ سے ملاقات کی اور ہم نے ان سے جو خیالات سنے وہ ہماری کمیٹی کے مقصد کے لئے بہت ہی مفید ہیں.ہم نے ان سے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور ہمارے دل فی الحقیقت آپ کی قدر اور تعریف سے پر ہیں الفضل ۲۷.اکتوبر ۱۹۴۰ء صفحه ۵ ) " روڑی کلب لاہور کے صدر مسٹر سعید.کے.حق کی دعوت پر حضور نے ان کے کلب میں Service above Self کے موضوع پر خطاب فرمایا.حق صاحب اس علمی خطاب کے متعلق اپنے اور دوسرے حاضرین کے
545 تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- وو حضرت صاحب نے قریباً ایک گھنٹہ تک اس موضوع پر دلکش پیرایہ میں فاضلانہ اور پُر اثر انگریزی زبان میں ایڈریس کیا جس کو تمام ممبران نے بہت سراہا.لیکچر ختم ہونے کے بعد کئی ایک ملکی اور غیر ملکی ممبران ہمبرات اور خاص الخاص مہمانوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ حضرت صاحب ولایت یا امریکہ کی کونسی یو نیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں.جن ممبران نے حضور کو مدعو کرنے کی مخالفت کی تھی ان پر بھی اتنا اثر ہوا کہ وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ حضور کو پھر بھی بلائیں.آخر غیر ملکی مہمانوں نے حضرت صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ جناب آپ کس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں.حضرت صاحب نے جواب دیا کہ میں قرآن کی یونیورسٹی سے پڑھا ہوں اور تمام علوم قرآن سے ہی حاصل کئے ہیں.کسی کالج یا یونیورسٹی کا پڑھا ہوا نہیں ہوں“ (اقبال اور احمدیت صفحه ۵۰۵ از مکرم شیخ عبدالماجد اشاعت ۱۹۹۱ء) ہفت روزہ انصاف روالپنڈی نے تاریخ احمدیت جلد ششم ( جس میں کشمیر کی تحریک آزادی کے متعلق گراں قدر مستند مواد ہے) پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو ”مذہبی رہنما ہونے کے علاوہ عظیم سیاستدان قرار دیتے ہوئے لکھا:.جماعت احمدیہ کے تیسرے سر براہ مرزا بشیر الدین محمود احمد جو پچھلے سال وفات پاگئے مذہبی رہنما ہونے کے علاوہ عظیم سیاستدان بھی تھے.چنانچہ چوہدری غلام عباس خان سابق صدر جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے اپنی خود نوشتہ سوانح حیات کے ایک باب میں لکھا تھا کہ میں نے مذہب مولانا ابوالکلام آزاد سے سیکھا جن سے میرا سیاسی اختلاف ہے اور میں نے سیاست مرزا بشیر الدین محمود احمد سے سیکھی جن سے میرا مذہبی اختلاف ہے.تاریخ احمدیت جلد ششم کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اس جماعت کی مذہبی سرگرمیوں کی تفصیل ہوگی لیکن اس کے اوراق الٹنے سے پتہ لگتا ہے کہ یہ مسلمانان غیر منقسم ہند اور پھر اسلامیانِ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کا بہترین.
546 مرقع ہے.مرزا صاحب نے آڑے وقت میں جب کہ بہت سے مسلمان لیڈروں کی آنکھیں کانگرس کے خوشنما بہروپ سے چکا چوند ہوتی تھیں مسلمانانِ ہند کی صحیح رہنمائی اور ترجمانی کی اور ان کو ہندوؤں کی نیت اور عزائم سے بروقت آگاہ کیا.اس کے بعد آپ نے تحریک آزادی کشمیر کی ۱۹۳۱ء سے قبل ہی داغ بیل ڈالدی.اس کتاب کا مطالعہ سیاسیات کشمیر کے ہر طالب علم کے لئے انتہائی ضروری ہے.اس کے مطالعہ سے بہت ہی دلچسپ اور اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں.مثال کے طور پر ۱۹۳۵ء میں جب چوہدری عباس کو مسلم کانفرنس کا صدر بنایا گیا اور ان کا فقید المثال دریائی جلوس نکالا گیا تو مجلس استقبالیہ کے صدر خواجہ غلام نبی گلکار حال انور تھے اور رضا کاروں کی ور دیاں قادیان سے بن کر آئی تھیں.۱۹۳۲ء میں شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے گڑھی حبیب اللہ حال پاکستان میں مرزا صاحب موصوف سے ملاقات کرنی تھی تو شیخ صاحب موصوف کو یار لوگوں نے کار میں لٹا کر اور اوپر کپڑے ڈال کر ریاست کی حدود سے باہر سمگل کیا.کتاب میں علامہ اقبال مرحوم ، شیر کشمیر شیخ محمد عبد الله، سردار گوہر رحمان عبدالمجید قریشی اور چوہدری غلام عباس وغیرہ زعماء کے بعض تاریخی اور علمی اہمیت کے خطوط بھی شامل ہیں.بعض تاریخی فوٹو گراف بھی دیئے گئے ہیں.غرضیکہ یہ کتاب کشمیر کی تحریک آزادی سے متعلق معلومات کا ایک بیش بہا خزینہ ہے اور ان معلومات کے بغیر کشمیر کی سیاسی تاریخ کا کوئی بھی طالب علم اپنے علم کو مکمل نہیں قرار دے سکتا.قیام پاکستان کے فوراً بعد آزاد کشمیر حکومت کی ابتدائی تشکیل میں بھی مرزا صاحب کا ہاتھ تھا جس کی تصدیق پروفیسر محمد اسحاق قریشی کے ایک بیان سے ہوتی ہے جو اس کتاب میں چھپا ہے.قریشی صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے چوہدری حمید اللہ خان مرحوم سابق صدر مسلم کانفرنس کی معیت میں معاملات کشمیر کے بارے میں ۱۹۴۷ء میں مرحوم لیاقت علی خان سے ملاقاتیں کیں تو انہوں نے ہمیں مرزا صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا.فرقان بٹالین جس نے ۴۷ ۴۸ ء کی جنگِ آزادی میں جو نمایاں کارنامے سرانجام دیئے ان کا بھی ذکر
547 ہے اور اس کی توصیف میں اس وقت کے پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کا ایک توصیفی خط بھی شائع ہوا ہے.وو مؤلف سے کہیں کہیں سہو بھی ہوا ہے مثلاً عبدالمجید قرشی حال ایڈیٹر ” پاسبان ظاہر کیا گیا ہے حالانکہ پاسبان جموں ( حال سیالکوٹ ) کے ایڈیٹر پہلے سے منشی معراج الدین احمد ہیں.اسی طرح ایک نہیں دو جگہ شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ آف جموں ( حال ایڈووکیٹ مظفر آباد ) کے نام کے ساتھ موجودہ صدر آزاد کشمیر حکومت لکھا گیا ہے حالانکہ آزاد حکومت کے صدر عبدالحمید خان ہیں نہ کہ شیخ عبدالحمید لیکن فاضل مؤلف نے دونوں کو ایک بنا ڈالا ہے.بہر حال غلطیوں سے کتاب کی افادیت کم نہیں ہوتی.(انصاف راولپنڈی ۲۱.اپریل ۱۹۶۶ء بحواله الفضل ۳۰ را پریل ۱۹۴۴ء صفحه ۵) پاکستان کے ایک سابق سربراہ جن کے زمانے میں پاکستان نے کئی لحاظ سے بہت ترقی کی تھی حضور کی دفاع پاکستان کے متعلق دلچسپی اور معلومات سے بہت متاثر تھے.محترم صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب بیان کرتے ہیں : ۱۹۶۲ء کا ذکر ہے مجھے گردہ کی شدید تکلیف ہوئی اور میرے بڑے بھائی ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے کہا کہ ربوہ میں گرمی بہت ہے آپ مری چلے جاؤ، کیونکہ گرمی کا اثر بھی گردے پر ہوتا ہے.میں اس ڈاکٹری مشورے کے بعد مری چلا گیا.ان دنوں سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم بھی مری آئے ہوئے تھے.میں نے ان کو خط لکھا کہ میں ملنا چاہتا ہوں، میں نے اپنا تعارف بھی کروایا اور یہ بھی لکھا کہ یہ ملاقات جماعتی طور پر نہیں بلکہ میری ذاتی خواہش کے پیش نظر ہے.چند دنوں کے بعد ان کا جواب آیا کہ آکر مل لیں.ان کے دیئے ہوئے دن اور وقت پر میں پریذیڈنٹ ہاؤس پہنچا میری ان سے تقریباً سوا گھنٹہ ملاقات رہی ، میں نے اس دوران میں انہیں حضور کی تصنیف دیباچہ تفسیر القرآن“ پیش کی جسے انہوں نے بڑے احترام سے قبول کیا اور چند منٹ اسے پڑھا اور پھر کہنے لگے :
548 میں آپ کو حضور کا ایک واقعہ سناتا ہوں.۱۹۵۰ء میں اپنے کوئٹہ کے قیام کے دوران حضرت صاحب نے سٹاف کالج کے تمام افسران کی دعوت کی میں بھی مدعو تھا، چائے ختم ہوئی تو حضور تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور ابتداء اس طرح کی کہ پاکستان کو جغرافیائی اور فوجی نقطہ نظر سے کہاں کہاں سے اور کس طرح خطرہ ہو سکتا ہے.میرے دل میں خیال آیا کہ اب تو وقت کا ضیاع ہوگا کیونکہ ایک مذہبی راہنما کو فوج کے نقطہ نظر کی کیا خبر اور خطرات کی نشاندہی سے کیا کام.دراصل میں اپنے آپ کو اس علم کا ماہر سمجھتا تھا اس لئے طبیعت میں اکتاہٹ محسوس ہوئی لیکن جب انہوں نے یہ مضمون ختم کیا اور اپنی تقریر ختم کی تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ آج پہلے دن میں نے سٹاف کالج میں داخلہ لیا ہے.جس شخص کو خدا نے ایسا زبردست دماغ دیا ہو اور غیر متعلقہ علوم میں اس کی دسترس اس غضب کی ہو ، دینی علوم میں اس کے ادراک کا کیا عالم ہوگا ؟ مکرم منشی محمد اعظم صاحب جو جماعت میں شامل نہیں تھے ۱۹۲۳ء کے جلسہ سالانہ پر قادیان گئے اور بقول ان کے وہاں تمام دنیا جہان سے زائد نظارہ دیکھا وہ لکھتے ہیں : اس میں کلام نہیں جلسہ (سالانہ ) بہت بارونق کوئی گیارہ بارہ ہزار مردوزن کی تعداد سے پر تھا.اس عظیم الشان ہجوم میں جہاں کہ ایک کو دوسرے کی مطلق خبر نہیں ہوتی باہم دگر اخلاص کی یہ حالت تھی کہ ایک بھائی دوسرے بھائی کی آمد پر اس آسانی سے جگہ خالی کر دیتا تھا گویا یہ جگہ اس کے لئے پہلے سے مخصوص تھی اور اس طرح اس کو حفاظت میں لے لیا جاتا تھا جس طرح ماں اپنے بچہ کو آغوش میں لے لیتی ہے.اس خوش اسلوبی اور یگانگت کا نظاره تمام دنیا ئے جہاں سے نرالا بجز قادیان کی مقدس بستی کے مجھے اپنی زندگی میں جو نصف صدی سے کچھ سال اوپر گزر چکی ہے بڑے بڑے متمدن اور مہذب شہروں میں بھی دکھائی نہیں دیا اور یقیناً یہ حسن انتظام کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ یہ بے نظیر خوبی موجود الوقت خلیفہ کے پرتو حسن کے ماتحت خوش قسمت لوگوں کو حاصل ہوئی ہے اور یہ وہ خوبی ہے جو صفحات تاریخ میں کہیں صحابہ کے عہدِ خلافت کے باب میں ہم نے پڑھی ہوئی ہے یا اب قادیان میں وہ نیکی اور
549 خوبی اپنی ضیاء سے عہد صحابہ کی یاد کو تازہ کر رہی ہے“ میں نے خود ملاقات کے لئے جرات نہیں کی لیکن میں اس فنافی التبلیغ خلیفہ کو اس کے کار ہائے نمایاں خصوصاً تبلیغی جد و جہد سے نہایت محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.میرا یقین ہے کہ یہ اپنے ارادہ میں جو خدا کی طرف سے اس کے لئے ودیعت ہو چکا ہے ضرور کامیاب ہوگا.قرائن وعلامات سے یہی عیاں ہے وَاللهُ اَعْلَمُ.اور یہی اغلب معلوم ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودہ صفاتی نام بھی اسی خلیفہ پر اطلاق کریں گے کیونکہ تبلیغی کام میں جس قدر اس کو انہاک ہے دنیا ئے جہان میں ایسا شخص نہ دیکھا اور نہ سنا اور نہ ہی کتب تواریخ میں کہیں نظر آتا ہے ( الحکم ۷ جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۷ ) برصغیر ہندوستان کے بلند پایہ سیاسی لیڈروں نے حضور کی سیاسی عظمت کا اعتراف کیا.حضور اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ڈاکٹر سید محمود صاحب جو کانگرس کے سیکرٹری ہیں انہوں نے میرے سامنے کہا کہ میں آپ کے سیاسی خیالات سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن مذہبی لحاظ سے آپ کی اسلامی خدمات کا قائل ہوں.ہمارے درد صاحب (مولانا عبدالرحیم درد.ناقل ) جب گاندھی جی سے ملنے گئے تو اس وقت بھی گاندھی جی کے سامنے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی کام کرنے والی جماعت ہے تو وہ احمد یہ جماعت ہی ہے.جس پر خود گاندھی جی نے کہا کہ میں اس امر کو خوب جانتا ہوں“ الفضل ۲۷ / جون ۱۹۳۱ ء صفحه ۸) مکرم رکن الدین صاحب قرول باغ نئی دہلی نے حضور کی پہلی تقریر سنی تو ان کے لئے یہ ایک حیرت انگیز تجربہ تھا آپ نے اس زندگی بخش تجربہ کے متعلق اپنے تاثرات اس طرح قلم بند کئے :- وو ( جب حضرت خلیفۃالمسیح کو تقریر کرتے سنا.گو حضور بیماری کی وجہ سے نہایت کمزور تھے اور چل بھی نہیں سکتے تھے مگر آپ کی تقریر سے یہ
550 معلوم ہور ہا تھا کہ ایک بحر زظار میں سے موتی ابل ابل کر نکل رہے ہیں.حضور کی تقریر اسقدر پر معارف اور روح پرور تھی کہ بڑے بڑے پر مغز لیکچراروں کو بھی سر جھکانا پڑتا تھا.صاف اور سادی اتنی کہ ہر شخص اس سے مستفید ہورہا تھا.سنا تھا کہ احمدی آنحضرت صلی للہا یہ آر مسلم کی کم عزت کرتے ہیں اور اپنی تقاریر میں ان کا کم نام لیتے ہیں اور مرزا صاحب کے نام کے نعرے لگاتے رہتے ہیں مگر میں نے یہ بات ہرگز نہ دیکھی.حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ حالت دیکھی کہ حضور کا نام آنے پر آپ مجسم رفت بن جاتے اور جہاں حضرت مسیح موعود کا نام لینا ہوتا وہاں حضور کے غلام سے موسوم فرماتے.تقریر واقعی وہ تھی جس کی ضرورت تھی اور جس پر اسلام کی موجودہ حالت اور اس کی زندگی کا انحصار ہے.آپ نے جو کچھ فرمایا قرآن وحدیث کی روشنی میں اور اس ڈھنگ سے کہ مردہ روحیں زندہ ہوتی جا رہی تھیں“ الفضل ۳۱ / جنوری ۱۹۴۶ ء صفحه ۸) لاہور کے شیخ غلام محمد صاحب کسی عارضہ کی وجہ سے بڑے بڑے دعوے کرنے لگ گئے تھے.اس بیماری کی وجہ سے انہیں حضرت صاحب کی مخالفت کی دُھن سی لگ گئی تھی اور بعض مخالف جماعت کو نقصان پہنچانے یا تماشہ دیکھنے کے لئے ان کی مالی اعانت بھی کر رہے تھے جس کی وجہ سے وہ مختلف پمفلٹ وغیرہ شائع کر کے اپنے اختلاف کو نظریاتی رنگ میں پیش کرتے رہتے تھے.جب ان کی یہ بیماری بڑھ گئی تو انہیں دماغی امراض کے سرکاری ہسپتال میں داخل کروادیا گیا.ان حالات میں حضور کے علم میں یہ بات آئی کہ انہیں مالی مشکلات درپیش ہیں اور عام حالات میں ان کو آلہ کار بنانے والے اس مشکل وقت میں ان کی امداد سے دستکش ہو گئے ہیں تو مکرم مولوی عبد الرحمان صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری) کی روایت کے مطابق حضور نے متعدد مرتبہ ان کی مالی امداد فرمائی.شیخ غلام محمد صاحب ایک لمبا عرصہ شدید مخالفت کرنے کے باوجود حضور کے احسانات اور بلند مقام کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے وہ لکھتے ہیں: میں نے سب سے بہادر جرنیل اور صاحب اخلاق و حلیم اگر کسی کو پایا تو وہ آپ موعود وجود ہے ( ہر طرح کی مخالفت کے باوجود ) آپ نہ خود مشتعل ہوئے اور نہ اپنی کثیر منظم جماعت کو میرے خلاف مشتعل ہونے دیا.
551 آپ نے متعدد بار مجھ سے حسنِ سلوک کا نمونہ دکھایا...پس میرا دل آپ کی محبت واکرام اور احسان کے شکریہ سے بھرا ہوا ہے (۱۹۵۸ء کا رساله بهشتم صفحه ۲۰) اخبار پرتاپ نے ۲۷.فروری ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں حضور کی مذہبی رواداری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا: - پٹیاله ۲۴ رفروری ۲۲ فروری کو امام جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے ایک ڈیپوٹیشن نے..گوردوارہ کی تعمیر کے لئے ۵۰۰ روپے چندہ دیا.چندہ کو منظور کرتے ہوئے کرنل رگبیر سنگھ نے کہا کہ اس رقم کی امداد سے سکھوں اور احمدیوں کے تعلقات جو پہلے ہی خوشگوار ہیں زیادہ بہتر ہو جائیں گے.ڈیپوٹیشن نے ہز ہائی نس شری مہا راجہ صاحب بہادر آف پٹیالہ سے بھی ملاقات کی.انہوں نے احمد یہ جماعت کی اس سپرٹ کی بہت تعریف کی اور کہا کہ آجکل کے فرقہ وارانہ کشیدگی کے دنوں میں اس قسم کی ہمدردانہ امداد بد اعتمادی اور شکوک کو جو مختلف جماعتوں میں پائے جاتے ہیں دور کر دیگی مذکورہ بالا خبر کے سلسلہ میں سکھ اخبار شیر سنگھ نے لکھا: جو لوگ احمدیوں کی تنظیم ، ان کی سرگرمیوں اور مختلف تحریکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ سب ان (حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کی قوت عظیم، اسلامی لڑ پچر سے نہایت وسیع واقفیت علم وفضل اور اپنی جماعت کی قیادت کے لئے غیر معمولی تدبر و دانش مندی کے قائل ہیں اور سکھوں کے ایک نہایت متبرک و مقدس گوردوارہ کی عمارت کی تعمیر کے لئے ۵۰۰ روپے چندہ کی یہ رقم جہاں غیر مسلم ہمسایوں سے آپ کے اخلاص اور رواداری کا ایک ثبوت سمجھا جائے گا وہاں اس میں آپ کی مسلمہ معاملہ فہمی اور دانش مندی کا راز بھی مضمر ہے ہم اس فیاضانہ چندہ کے لئے آپ کا شکر یہ ادا کرتے ہیں.66 ( الفضل ۸.مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۲) دنیا کا بہترین دماغ ہمارے ایک احمدی دوست ڈاکٹر لطیف احمد صاحب (سرگودھا) نے فرمایا : -
552 ایک دفعہ ایک لیبر لیڈر میرے پاس آئے وہ ساری دنیا کا دورہ کر کے آئے تھے اور اپنے سفر کے حالات سنا رہے تھے کہ میں امریکہ کے صدر نکسن سے بھی ملا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے سربراہوں سے بھی ملاقات کی.چواین لائی کو بھی دیکھا، ان سب میں ماؤزے تنگ حیرت انگیز دماغی صلاحیتوں کا مالک ہے، اس فقرہ کے بعد اچا نک خاموشی چھا گئی اس کی نگاہیں نیکی باند ھے ایک جانب دیکھ رہی تھیں، میں نے دیکھا کہ کانس پر پڑی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تصویر پر ان کی نگاہیں جمی ہیں، جس کو غالبا شروع میں میرے گھر آ کر انہوں نے نوٹ نہیں کیا تھا.میں نے ان کی محویت توڑتے ہوئے پوچھا، کیا ہوا کہنے لگے یہ سچ ہے کہ ماؤزے تنگ عظیم شخصیت ہے لیکن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد سے ان کی زندگی میں ایک بار ملاقات ہوئی ، جس کو تادمِ آخر نہ بھول سکوں گا، اس دماغ کا انسان روئے زمین پر نہ مل سکے گا، افسوس نادر روز گار ہستی بہت جلد ہم سے جدا ہوگئی،، ( ملت کا فدائی صفحہ ۷۴-۷۵ ) حضور کی سحر انگیز شخصیت کے متعلق محترم قریشی عبدالرحمان صاحب سکھر ( شہید.ناظم اعلیٰ انصار اللہ ) کے بیان کردہ مندرجہ ذیل دو واقعات بھی دلچسپی سے پڑھے جائیں گے:.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی شخصیت کے متعلق خاکسار کا تاثر یہ ہے کہ بڑے سے بڑا آدمی بھی بات کرتے وقت گھبرا تا تھا.سکاؤٹس کے ساتھ وادی کاغان گیا واپسی پر ہم لوگ مری بھی گئے ان دنوں حضرت خلیفہ المسیح الثانی مری میں تشریف فرما تھے.میں نے جملہ سکاؤٹس سے کہا کہ ہمارے خلیفہ صاحب مری میں تشریف فرما ہیں میں حضور سے ملنے جا رہا ہوں اگر کسی اور سکاؤٹ کی خواہش بھی ہو تو میں حضور سے وقت لے لوں.گو سب غیر احمدی تھے مگر سب نے خواہش ظاہر کی کہ ہم سب ملاقات کے لئے چلیں گے چنانچہ خاکسار گیا حضور کی خدمت میں درخواست بھجوائی حضور نے از راہ شفقت کہلوایا کہ عصر کی نماز کے بعد مل لیں.چنانچہ ہم لوگ ساڑھے چار بجے حضور کی جائے قیام پر پہنچ گئے.حضور نماز عصر کے لئے تشریف لائے میں نے تو حضور کی اقتداء میں نماز پڑھی مگر دوسرے سب ساتھی باہر بیٹھے رہے جب نماز سے فارغ ہوئے تو حضور
553 نے فرمایا کہ اپنے دوستوں کو بلالیں چنانچہ میں نے سب کو بلا لیا وہ حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے میں نے عرض کیا کہ حضور کچھ ارشاد فرما ئیں حضور خدمتِ خلق کو شعار بنانے کی تلقین فرماتے رہے اس پارٹی میں کراچی کا ایک اخبار نویس بھی تھا.حضور نصائح کے درمیان چند سیکنڈ خاموش بھی ہو جاتے تھے مگر کسی نے کوئی سوال نہیں کیا.جب ہم اجازت لے کر واپس آئے تو بعض سکاؤٹس نے اس اخبار نویس سے کہا کہ آپ کوئی سوال کرتے تو اس اخبار نویس نے کہا کہ میں مرزا صاحب سے اچھی طرح واقف ہوں ان کے سامنے بولنا اپنی علمی پردہ دری کرانے والی بات ہوتی ہے“ دوسرا واقعہ سکھر کا ہے:.”ایک دفعہ حضور کوئٹہ سے واپس ہوتے ہوئے سکھر میں ایک دو یوم ڑکے تھے کیونکہ سکھر کے راستہ میں سیلاب کی وجہ سے شگاف پڑ گیا تھا.اور راستہ بند ہو گیا تھا.حضور کے سکھر کے قیام کے دوران سب دوست اپنے غیر از جماعت دوستوں کو ملانے لاتے تھے.میں ایک دوست کو جو اکثر اپنے علم کی ڈینگ مارتے تھے ملانے لایا حضور مجلس میں تشریف فرما تھے دوست بعض سوالات کرتے تھے حضور جواب دیتے تھے مگر وہ شخص شروع سے آخر تک خاموش ہی رہا.جب مجلس برخاست ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ نے کوئی سوال نہیں پوچھا اس نے بھی بے ساختہ کہا کہ یہاں بولنا گویا اپنی پردہ دری کرانے والی بات تھی.وہ ایک شدید مخالف تھا مگر حضور کی گفتگو اتنی مؤثر تھی کہ اس نے کہا کہ میں تو یہی سمجھتا رہا کہ میں یہاں سے اپنا ایمان سلامت لے جاؤں تو بڑی بات ہے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب ایک ڈاکٹر جناب غلام محمد صاحب انچارج کلینیکل لیبارٹری میوہسپتال لاہور کے متعلق مندرجہ ذیل دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں : و کرنل الہی بخش صاحب نے مختلف قسم کے امتحان قارورہ و دخون کے تجویز کئے اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب انچارج کلینیکل لیبارٹری میوہسپتال سے امتحانات کروانے تجویز کئے.حضرت صاحب نے انہیں فوراً ربوہ لانے کے
554 لئے لاہور موٹر بھجوا دی اور ساتھ ہی تاکید فرمائی کہ انہیں فیس ضروری دی جائے کیونکہ یہ عموماً ہمارے کنبہ سے فیس نہیں لیتے.جب موٹر ان کو لانے کے لئے لاہور پہنچی تو یہ باوجود اپنی غیر معمولی مصروفیات اور اعلی سرکاری حیثیت کے تیار ہو کر ربوہ آگئے اور امتحان کے لئے خون لیا.ان کی واپسی کے وقت حضور نے ان کو ایک معقول رقم دینے کی سخت تاکید فرمائی.رقم دینے والے شخص نے با اصرار نوٹوں والا لفافہ ان کی جیب میں ڈالدیا مگر وہ بھی رقم واپس کرنے میں عجیب طور سے کامیاب ہو گئے وہ اس طرح کہ موٹر پر سوار ہونے سے قبل لفافہ کو جو بظاہر ایک چٹھی کی شکل میں تھا صاحبزادہ ڈاکٹر منور احمد صاحب کو ہاتھ میں دے کر بھاگ کر موٹر میں سوار ہو گئے اور شیشے بند کر لئے اور موٹر کو چلوا دیا.یہ کیا ہے.کیوں ہے.یہ حسن محمود ہے.آپ کی محبت کی چنگاری نے ڈاکٹر غلام محمد صاحب کے دل میں بھی محبت کا شعلہ پیدا کر دیا تھا اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی بہی خواہ حضور کا کیا مقام سمجھتے تھے.اس کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک دفعہ ایک مقدمہ قتل میں جس میں حضور نہ مدعی تھے نہ مدعی علیہ بلکہ گواہ تک بھی نہ تھے جوں نے حضور کے متعلق بعض ایسے الفاظ تحریر کئے جو کسی طرح بھی مناسب نہ تھے اس پر جماعت کی طرف سے ضروری قانونی چارہ جوئی کی گئی جس کے نتیجہ میں یہ غیر منصفانہ الفاظ فیصلے سے حذف کر دیئے گئے.یادر ہے کہ سر شیخ عبد القادر لاہور کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ، پنجاب میں وزارت کے عہدہ پر رہے، لیگ آف نیشنز میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی ، علامہ اقبال کی مشہور کتاب بانگ درا کا دیباچہ بھی ان کا لکھا ہوا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ احمد یہ مسجد فضل لندن کے افتتاح کی سعادت بھی ان کو ملی تھی سابق وزیر قانون منظور قادر ان کے بیٹے تھے.مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب بیان کرتے ہیں :- د حضور لاہور میں محترم شیخ بشیر احمد صاحب کے مکان پر مقیم تھے راقم الحروف بھی اس سفر میں حضور کے ہمراہیوں میں شامل تھا.میں باہر سے شیخ صاحب کے مکان کی طرف آ رہا تھا ٹمپل روڈ پر جب میں مکان کی طرف مڑا تو سر شیخ عبدالقادر صاحب اپنی کوٹھی سے نکلے.کتابوں کا ایک اچھا خاصا بنڈل جو سفید کپڑے میں بندھا تھا اٹھائے ہوئے تھے اور پیچھے ان کا خادم خالی ہاتھ آ رہا
556 تھا.میں سمجھ گیا کہ شیخ صاحب حضرت صاحب کے حضور تشریف لے جا رہے ہیں.میں آگے بڑھا اور شیخ صاحب سے کہا یہ کتابیں مجھے دے دیں میں اُٹھا لیتا ہوں.انہوں نے جواب دیا کہ خادم میرے ساتھ ہے میں اسے بھی یہ کتابیں اُٹھانے کے لئے دے سکتا تھا لیکن میں یہ کتابیں ایک مشورہ عرض کرنے کے لئے حضرت صاحب کے پاس لے جا رہا ہوں آپ کے ادب اور محبت کا تقاضا ہے کہ میں خود ان کو اُٹھا کر لے جاؤں.چنانچہ وہ اسی صورت میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کتابوں کے حوالہ جات نکال کر بتایا کہ جوں نے (ظہور احمد ) غلط کارروائی کی ہے ایک آریہ اخبار جماعت کی تبلیغی کوششوں اور پریس کی مضبوطی کو اپنے رنگ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے :.ان کے پلیٹ فارم کی مضبوطی کی تو یہ حالت ہے کہ ہر ایک احمدی سے یہ آشا کی جاتی ہے کہ مرکز سے حکم پاتے ہی وہ با قاعدہ واعظ کا کام کرنے پر تیار ہوگا.اس کا پریس مضبوطی میں آریہ سماج کے مقابلہ میں حیرت انگیز ہے.ایک قادیان کو لو وہاں سے نصف درجن اخبارات سے کم نہیں.جن میں دو انگریزی ہیں.احمدی پریس کا جال سارے ہندوستان میں ہی نہیں باہر نو آبادیوں ، اور مغربی ممالک تک بچھا ہوا ہے.ہر جگہ سے احمدی اخبار اور رسالے نکلتے ہیں آریہ سماج کے پریس کی حالت کو دیکھ کر ہر ایک آریہ کا سر مارے ندامت کے جھک جانا چاہئے.( آریہ اخبار پر کاش ۳.جنوری بحواله الفضل ۱۴.جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۴) چوہدری محمد اکبر خاں صاحب بھٹی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور ( جو جماعت میں شامل نہیں ہیں ) نے حضور کا بڑی توجہ اور گہری نظر سے جائزہ لیا ہے ان کے غیر جانبدارانہ تاثرات سے حضور کی سیرت وکردار کی عظمت ظاہر ہوتی ہے: ”جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ذات مرجع خلائق تھی وہ جب بھی لا ہور آتے ان کی تقریر سننے والوں میں غیر احمدی ، ہندو، مسلم سامعین کی تعداد احمدی حضرات کے مقابلے میں کم نہ ہوتی تھی.خاص طور پر ان کا دلکش
557 انداز تقریر دلوں کو مسخر کئے بغیر نہ رہتا تھا.مجھے بالخصوص ان کی ایسی تقریروں کا سماں یاد ہے جو احمد یہ ہوسٹل ڈیوس روڈ کے وسیع صحن میں شامیانے تلے ہوتی تھیں.وجیہہ مقرر مسلمان شرفاء کے مقبول لباس میں سفید پگڑی ، لمبا کوٹ اور شلوار میں ملبوس جب لب کشائی کرتا تو ایک عجیب شانِ بے نیازی سے کھڑا ہو جاتا.بایاں ہاتھ کمر کے پیچھے رکھ لیتا اور سوائے کبھی کبھی پگڑی کے شملے کو چھو لینے کے اس سے کوئی ایسی حرکت دیکھنے میں نہ آتی ، جو عام طور پر بولنے والوں سے اپنی بات پر زور دینے کے سرزد ہوتی رہی.وہ آواز کے نمایاں اُتار چڑھاؤ کے بغیر روانی سے بولتا جاتا.اہم مسائل پر یوں گفتگو کرتا جیسے وہ انہیں زندگی کے عام مسائل (Problems) سمجھتا ہو.ایک مسئلے کو اٹھا کر دوسرے مسئلے میں پیوست نہ کرتا.بلکہ ایک بات پر سیر حاصل تبصرہ کرنے کے بعد پھر دوسری بات کرتا نہ آنکھیں مٹکاتا ، نہ کو لکھے ہلاتا ، نہ ہاتھ اور بازؤں سے بے پناہ فلک شگاف اشارے کرتا بس یہ کیفیت ہوتی جیسے کوئی اسے پیغام دے رہا ہو، اور وہ یہی پیغام سامعین تک بے کم و کاست پہنچا رہا ہو.وہ مخالفین پر رکیک حملے نہ کرتا، نہ شعر خوانی کرتا، نہ چھیڑ خانی کرتا، تین تین چار چار گھنٹے اس ربط اور ضبط سے بولتا، جیسے کوئی کتاب پڑھ کر سنا رہا ہو.فقرے مکمل ، دلائل معقول ،احساس ذمہ داری حد کو پہنچا ہوا، تجاویز تعمیری، نکتہ چینی جائز.ہر تقریر میں ایک پیغام ہوتا اور ہر پیغام پر عمل پیرا ہونے کے لئے واضح ہدایات سن کر مزا ہی آ جاتا.بے اختیار دل میں یہ کیفیت پیدا ہوتی اَلحَمدُ لِلہ ایک معقول اور فاضل آدمی کی بات سننے کا موقع ملا.مجھے اس کے مخالف مقررین کی مقررانہ حرکات سکنات کبھی بھی اتنی زیادہ مضحکہ خیز معلوم نہ ہوئیں جتنی کہ اس کی تقریر کو سننے کے فوراً بعد.ایک دفعہ میں دتی دروازہ کے باہر ایک مسجد میں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تقریر سننے گیا.نماز تو ان کے پیچھے نہ پڑھی کیونکہ سنا تھا کہ وہ عامتہ المسلمین کے ساتھ مل کر نماز نہیں پڑھتے مگر نماز کے بعد ان کی تقریر نہایت غور سے سنی عالمی مسائل سے لے کر ملکی مسائل تک ایسے انداز میں زیر بحث آئے کہ باید شاید.اصل میں ان کی شخصیت ایسی جاذب تھی کہ آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا.میں
558 سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے مخصوص حلقہ کے علاوہ بھی ان کی تجاویز عام مسلمانوں کے لئے مفید ہو سکتیں تھیں.اور اگر ان کو محض تعصب کی بناء پر قیادت کا وسیع میدان نہیں ملا تو اس سے ملت اسلامیہ اور ملک دونوں کو نقصان ہی ہوا ہے.اس سلسلے میں اس امر کا تذکرہ خاص طور پر ایک تلخی اپنے اندر رکھتا ہے کہ کشمیر کمیٹی کی قیادت ان سے چھین لی گئی اس کے بعد مسئلہ کشمیر کا جو حشر ہوا وہ محتاج بیان نہیں.اس ضمن میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا بھی شاید بے محل نہ ہو گا ہفتہ وار پارس‘ کے ایڈیٹر لالہ کرم چند ایک دفعہ اخبار نویسوں کے وفد کے ساتھ قادیان کے سالانہ اجلاس میں شامل ہوئے وہاں سے واپس آئے تو یکے بعد دیگرے کئی مضامین مرزا بشیر الدین محمود احمد کی قیادت ، فراست اور شخصیت کا ذکر ایسے پیرائے میں کیا کہ مخالفوں میں کھلبلی مچ گئی.مجھے خود کہنے لگے ہم تو ظفر اللہ کو بڑا آدمی سمجھتے تھے.(سر ظفر اللہ ان دنوں وائسرائے کے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر تھے ) مگر بشیر الدین محمود احمد صاحب کے سامنے اس کی حیثیت ایک طفلِ مکتب کی ہے وہ ہر معاملے میں ان سے بہتر رائے رکھتا ہے اور بہترین دلائل پیش کرتا ہے اس میں بے پناہ تنظیمی قابلیت ہے.ایسا آدمی بآسانی کسی ریاست کو بامِ عروج تک لے جا سکتا ہے.لالہ کرم چند پارس کے یہ مضامین پارس میں شائع ہوئے تو ایک آریہ سماجی شاعر نے جل کر اپنے اخبار میں لکھا : - تیرے گیت گائے ہوئے آر ہے ہیں عجیب شے ہے مرزا تیری مہمانی ظفر اللہ ہے قادیانی جنم کا کرم چند رو روز کا قادیانی لالہ کرم چند نے سن کر کہا : - شنیده کے بود مانند دیده تقسیم ملک کے بعد مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے لاء کالج لاہور کے مینارڈ ہال میں ملکی ترقی کے امکانات پر چند تقریریں کی تھیں.ان تقریروں
559 میں انہوں نے ایک فاضل یو نیورسٹی لیکچرار کی طرح نقشہ جات، بلیک بورڈ اور گراف کی امداد سے بعض نکات کی وضاحت کی تھی.مجھے ایک نقطہ یاد ہے اور وہ یہ کہ افسوس ہے کہ تقسیم ملک سے پہلے ان جزائر کی طرف توجہ نہ دی گئی جو ساحلِ ہند کے ساتھ ساتھ واقع ہیں لکادیپ اور سرندیپ بالا دیپ وغیرہ ان ساحلی جزیروں کی آبادی اکثر و بیشتر مسلمانوں پر منحصر ہے اور ان کی اہمیت دفاعی نقطہ نگاہ سے بہت زیادہ ہے.ارشادات سن کر سامعین میں عام تاثر یہ پایا جاتا تھا کہ کاش تقسیم کی کارروائی کے وقت خلیفہ صاحب کا اشتراک عمل حاصل کر لیا جاتا.بے جا تعصب اور خود فریبی نے قومی سطح پر مرزا بشیر الدین محمود احمد کی خدا داد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ سے کھو دیا.اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ حقیقت مجھ پر طالب علمی کے زمانہ میں ہی منکشف ہو گئی تھی که آدمی کو دشمنوں کے پرو پیگنڈے سے اندھا دھند متاثر نہیں ہونا چاہیئے میں مرزا بشیر الدین محمود احمد سے متعلق جن باتوں کو ان کے کارنامے سمجھنے پر علی وَجْهِ الْبَصِيرَت مجبور ہوں وہ مختصراً یہ ہیں اول ہائی کورٹ میں مخالف احمدیت کے تحقیقات کے سلسلے میں ان کا کردار اور فاضل حج کے سوالات کے جواب میں ان کی توضیحات لوگ حیران تھے کہ وہ ایسے ماحول کی مشکلات سے کیسے عہدہ برا ہوں گے مگر انہوں نے دیگر مسائل کے علاوہ وحی کی حقیقت جیسے مافوق الفطرت مسائل پر ایسی توضیحات پیش کیں کہ سننے والے انگشت بدنداں رہ گئے.ایک جج نے نجی صحبت میں اعتراف کیا کہ انہیں اپنی ساری فضیلت کے باوجود ان مافوق الفطرت مسائل کے متعلق رتی بھر واقفیت بھی نہیں تھی.مرزا محمود احمد کی توضیحات کو سن کر ان کے چودہ طبق روشن ہو گئے اور پہلی بار بعض اسلامی نظریات کا صحیح صحیح علم ہوا.ان کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ وہ انگلستان کے سفر پر اپنی بیگمات کو ساتھ لے کر گئے اور جب تعدد ازدواج کے اسلامی نظریہ کے مخالف عیسائیوں نے بیویوں کے ساتھ انصاف کے امکانات کا مسئلہ اٹھایا تو اس شیر نے مردانہ وار ///
560 جواب دیا کہ اخبار نویس خواتین فرداً فرداً میری بیگمات سے ہی پوچھ کر دیکھ لیں.میں نے اپنی شعوری زندگی میں بڑے بڑے مسلمان لیڈروں اور قائدینِ فکر کو بنیادی اسلامی نظریات کے متعلق معذرت کے انداز میں باتیں کرتے دیکھا ہے مگر خدا کی قدرت دیکھئے کہ مہذب اور متمدن دنیا کے مرکز لندن میں بیٹھ کر اپنے قول وفعل سے اسلامی نظریات کی مردانہ وارحمایت مرزا بشیر الدین محمود ہی کے حصہ میں آئی.ان کا تیسرا کارنامہ جسے ان کا آخری پیغام سمجھا جانا چاہئے یہ ہے کہ انہوں نے اہلِ مذہب کو عام اس سے کہ وہ عیسائی ہوں، یہودی ہوں، ہندو ہوں یا سکھ اس خطرے سے آگاہ کیا جو خدا پرستوں کو خدا کے نام سے بیزار تحریک کے ہاتھوں درپیش ہے.انہوں نے پکار کر کہا اے خدا پرستو ! اے خدا کو ماننے والو! خدائی مذہب کے سر پر جو مہیب خطرہ منڈلا رہا ہے وہ ایک ایسی تحریک کا بنیادی اصول ہے جو اپنے خطرناک ہتھیاروں سے مسلح ہو کر خدا پر ایمان کی بنیاد ہی کو ڈھا دینے پر آمادہ ہے.اس تحریک نے تمہارے اندر اس حد تک نفوذ کر رکھا ہے کہ اب مسلمانوں کے بیٹے بیٹیاں مسلمان گھروں میں اور مسلمان کے دانش ور مسلمانوں کی مجلسوں میں خدا ہی کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور جب خدا ہی کے وجود کا انکار ہو گیا تو نبوت شریعت کے نقوش کس طرح دلوں میں قائم رہ سکتے ہیں آؤ سب اہلِ مذہب لا مذہبیت کے اس طوفان کا مقابلہ مل کر کریں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر خدا پر یقین رکھنے والے اور اپنے اپنے زمانے کے ابنیاء پر اعتقاد رکھنے والے مرزا بشیر الدین محمود احمد کی اس آواز پر انکی زندگی میں کان دھرتے تو خدا جانے اس شخص کی قائدانہ صلاحیت اور قوت تنظیم اس خطرے کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کیسی کیسی مؤثر تجاویز کو جامہ عمل پہناتی.اے بسا شده آرزو که خاک المختصر ان کی زندگی ، ان کی وضع قطع ، ان کے لباس، ان کی تحریر و تقریر میں بے شمار خصوصیات ایسی تھیں جن پر اسلامی تحریک اور اسلامی معاشرہ بجا طور پر فخر کر سکتا ہے“
561 درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تحریک احمدیت نے عام انسانوں پر کیا اثرات چھوڑے ہیں اس تحریک سے متاثر ہونے والوں کا کردار کیسا بن گیا ہے میں صرف اپنے مشاہدات کی بات کرتا ہوں کیونکہ جیسا پہلے ذکر کر چکا ہوں طبیعت پرو پیگنڈے کے طوفان سے نفور ہے اسلامی معاشرہ میں گردو پیش کو دیکھیں تو کیا نظر آتا ہے.کالج میں ایک صاحب کی طبیعت نے یکا یک پلٹا کھایا تو انہوں نے پنج وقت نماز با قاعدہ شروع کر دی ان کے اس شغف کو دیکھ کر ہوسٹل میں رہنے والے دوسرے ساتھیوں نے بے ساختہ کہا ”اوئے! اینیاں نمازاں شروع کر دتیاں نی کہتے مرزائی ہون دا ارادہ تے نہیوں کر لیا.کسی کے منہ پر داڑھی ہو، کوئی باقاعدہ زکوۃ دینی شروع کر دے تو دیکھنے والوں کو اس پر احمدی ہونے کا دھوکا ہوتا ہے.مخالفوں کی گالی کے جواب میں گالی طنز کے جواب میں طنز اختیار نہ کرنے والے کو اور ناملائم الفاظ کو صبر سے برداشت کرنے والے کو دیکھ کر کہتے وہ مرزائی معلوم ہوتا ہے.اپنی جوانی کے زمانہ کی بات کرتا ہوں.اپنے سے ایک کم عمر نوجوان سے جو میری طرح گریجویٹ بلکہ ڈبل گریجویٹ تھے میں نے کہا، بڑی اچھی پکچر لگی ہے چلو جا کر دیکھ آئیں.کہنے لگا جی تو میرا بھی چاہتا ہے مگر حضرت صاحب نے منع فرمایا ہے یہ فنونِ لطیفہ کا شائق اور بظاہر ہماری طرح فلموں کا مشتاق نوجوان محض اس پابندی کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک اچھی پکچر سے محروم کرتا ہے کہ اس کے امام نے فلم سے پر ہیز کرنے کا حکم دیا ہے.یہ نوجوان چہور والے چوہدری نبی احمد تھے مولوی محمد الدین صاحب ہیڈ ماسٹر کے صاحبزادے محمد عبد اللہ ایم اے میرے ساتھ دفتر میں اردو رپورٹر تھے میں نے اس نوجوان کو بھی پابند صوم و صلوۃ، راست گو، شریف النفس اور ہر لحاظ سے مثالی مسلمان نوجوان پایا.اسی طرح میں نے جس جوان احمدی کو دیکھا.اسے ایک سانچے میں ڈھلا ہوا پایا اور وہ سانچہ ہر لحاظ سے اسلامی نظر آتا تھا.“ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب لودھراں ریلوے سٹیشن پر ایک ہندور کیس کی حضور
562 پر نظر پڑتے ہی جو کیفیت ہوئی اس کا ایمان افروز تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.ایک سفر میں ہم سندھ سے واپس قادیان آ رہے تھے تو لودھراں سے سٹیشن پر ملتان کے ہندور کیس کی نظر حضور پر پڑ گئی.وہ بھی اسی ٹرین میں سفر کر رہا تھا، اس نے دیکھتے ہی ملک عمر علی صاحب مرحوم سے جن کا وہ واقف تھا بمنت درخواست کی کہ مجھے حضرت صاحب سے ملوا دیں.چنانچہ ملک صاحب نے جو حضور کے ہمراہیوں میں حضور کے کمپارٹمنٹ میں ہی سفر کر رہے تھے ، حضور سے اجازت لے کر اس رئیس کو جس کا نام کلیان داس تھا ملاقات کے لئے حضور کے کمپارٹمنٹ میں بلا لیا.ٹرین سٹیشن سے روانہ ہوگئی اور وہ ہند و حضور کی برتھ کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھا رہا.حضور نے کہا فرما ئیں تو دیکھا گیا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور روتے روتے ہچکی سی بندھ گئی.یہ کیفیت کچھ دیر تک جاری رہی اس کے بعد رئیس مذکور نے اپنا طویل قصہ یوں بیان کیا کہ بہت عرصہ ہوا میں بغداد اور کربلا وغیرہ میں قبروں کی زیارت پر گیا مگر دل کو تسلی حاصل نہ ہوئی لیکن جب میں حضرت سلمان فارسی کے روضہ پر گیا تو میرے دل کو تسلی اور سرور حاصل ہوا.اور میری حالت نیم بیہوش کی سی ہوگئی.تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نورانی چہرے والے بزرگ سامنے آ رہے ہیں ان کے ساتھ چار اصحاب اور ہیں، ان بزرگ کو دیکھ کر میرا دل بیحد خوشی اور سرور سے بھر گیا.بیداری کے بعد میرا دل لذت سے بھرا رہا اور جب بھی تصور غالب آتا تو وہی بزرگ مع چار اصحاب کے سامنے آجاتے.اب میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میں اس بزرگ کی تلاش کر کے اس کی زیارت کروں.چنانچہ میں ان علاقوں میں اور پھر ہندوستان آ کر مختلف شہروں میں گھوما پھرا مگر میری مراد پوری نہ ہوئی.اس واقعہ پر پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے کہ آج جب میری نظر حضور والا پر پڑی تو میرے سامنے وہی چہرہ آ گیا جو حضرت سلمان فارسی کے مقبرہ پر کشف میں نظر آیا تھا.تب ملک عمر علی صاحب سے بمنت آپ کی ملاقات کے لئے کہا اور میری مراد پوری ہوگئی.یہ عجیب بات ہے کہ حضور کے ہمراہ اس وقت چار ہی اصحاب اس کمپارٹمنٹ میں تھے.
563 یعنی صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب سلمہ ، ملک عمر علی صاحب مرحوم، مکر می غلام محمد صاحب اختر اور یہ عاجز حشمت اللہ.رئیس مذکور نے پھر کہا کہ حضور میں اب آپ کا ہی ہو گیا ہوں.میں اس وقت سفر سے واپس اپنے گھر کو جا رہا ہوں اگر حضور فرما ئیں تو میں حضور کے ہمراہ ہی قادیان چلتا ہوں یا اگر اجازت فرمائیں تو گھر اطلاع دے کر کل قادیان کے لئے چل پڑونگا حضور نے ملتان ٹھہرنے کی اجازت دے دی اور وہ رئیس حسب وعدہ قادیان تیسرے دن پہنچ گیا.حضور نے اس کو ملاقات کا شرف بخشا اور پاک کلمات فرمائے.تب وہ اجازت لے کر اس وقت گھر واپس چلا گیا اور بعد میں قادیان آ کر بھی حضور کی زیارت کا شرف حاصل کیا“ ایک نئے دور کا وہ بانی تھا ایک غیر از جماعت شاعر، مکرم شیخ روشن دین صاحب تنویر مدیر الفضل کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :- حضرت بشیر الدین محمود احمد صاحب کا سانحہ ارتحال صرف جماعت احمدیہ کے لئے نہیں بلکہ ان بیشمار ارباپ نظر کے لئے بھی پیغام درد ہے جو ان کے افکار و اعمال سے ذہنی روحانی فیضان حاصل کرتے تھے.یقین کیجئے میں ایک غیر احمدی ہوں مگر ریڈیو پر حضور کی وفات حسرت آیات کی خبر سن کر چونک پڑا فرط جذبات سے فراموشی کا عالم طاری ہو گیا.اس وقت ایک شاعر پر کیا گزرتی ہے اسے آپ کا دل جانتا ہو گا.ساز روح کے تار جھنجھنا اٹھے درد میں ڈوبی ہوئی لے میں ایک ٹوٹا پھوٹا نغمہ اُبھرا جسے نذرعقیدت کے طور پر ارسال کر رہا ہوں.میں اس حادثہ میں آپ کے غم میں برابر کا شریک ہوں خدا سب کو صبر جمیل کی توفیق بخشے : ڈرے میں انتشار ذرے ہے آج روح کونین بے قرار ہے آج چھن گئی کیا امانت کبری گیسوئے قوم کی قوم روزگار گل کی آنکھوں میں اشک سو گوار ہے آج برہم ہیں ہیں آسماں تک اداس ہیں گویا چاند تارے شریک ماتم ہیں
564 شور ہے میر کارواں اٹھا فکاں اٹھا محرم راز محفل ذكرو ویراں ہے فطرت کا ترجماں اٹھا عشق رسول رکھتا میکشی کے اصول 88 تھا رکھتا تھا اہل کا تارا Q: صحبت روح عزم اک نئے دور کا وہ ایک دانا ایک روشن کارواں کمر خدا کارواں کا امیر , حسن میج کی عمل کا قبول رکھتا تھا خانی تھا نشانی تھا فتوى ہے بانی تھا تھا رہا 3.3.رہا چھوڑ گیا رہا نیاز اگین دامن اباسینی گلارچی)
565 حرف آخر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا یہ کتاب اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے مگر ے حق تو ہے کہ حق ادا ہوا اس مضمون پر سالوں مطالعہ کیا اور غور کیا اور جتنا بھی آگے بڑھتا گیا یہ احساس قوی سے قوی تر ہوتا گیا کہ یہ موضوع اپنی وسعت ، اپنے تنوع ، اپنی عظمت ، اپنی گہرائی اور گیرائی کے لحاظ سے میرے جیسے بیچید ان * اور کوتاہ قلم کے بس کی بات نہیں ہے کہ اس کا احاطہ کر سکے اس عظیم شخصیت (جس کے سوانح و حالات، بھر پور زندگی کے پُر لطف واقعات ، بیان کرنے مقصود ہیں ) کے متعلق سوچ وفکر کا باب کھلتے ہی یوں لگتا ہے کہ ایک خوشنما، خوبصورت دلفریب خوشبو دار پھولوں کا باغ ہے جس میں ہر رنگ اور ہر قسم کے پھول کھلے ہوئے ہیں ان سب پھولوں میں سے کسی ایک پھول کو کیوں اور کیسے چن لوں اور اس کے ساتھ والا پھول کیوں نہ سمیٹ لوں !!! بس یہ سارا عرصہ اسی پر لطف کشمکش میں گزرا ہے.اے کاش کوئی ایسا ذریعہ ہوتا کہ اپنے ممدوح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے موعود بیٹے ، خدائی نشان، مصلح موعود کی ان ساری خوبیوں کو ان صفحات کی زینت بنا سکتا جن خوبیوں کے ساتھ وہ نصف صدی سے زیادہ دنیا میں ضو افشانی کرتا رہا کہ جماعت کے ہر فرد پر آپ کے احسانات کا حق ادا ہو سکتا اور قاری کو بھی اس کا پورا پورا حق ملتا.خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسی کامیاب زندگی سے نوازا جو دنیا میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے.حضور اپنی زندگی کے گزرے ہوئے ایام کو ذہن میں لاتے ہوئے بطور تحدیث نعمت
566 فرماتے ہیں:.وو خدا نے ایک ایک کر کے مجھے سچائیوں کے قائم کرنے کا موقع دیا ہے.ایک منٹ کے لئے بھی میں شبہ نہیں کر سکتا کہ مجھ سے ان معاملات میں غلطیاں ہوئی ہیں، بلکہ خواہ مجھے ایک کروڑ زندگیاں دی جائیں اور ایک کروڑ دفعہ مرکز میں پھر اس دنیا میں واپس آؤں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ میں پھر بھی اسی طرح ان صداقتوں کی تائید کروں گا جس طرح گزشتہ زندگی میں کرتا رہا ہوں میرے لئے سب سے بڑا فخر یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ تعلیمیں جنہیں بعض لوگ مٹانے کی فکر میں تھے، جنہیں بعض لوگ دبانے کی فکر میں تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو میرے ذریعہ زندہ کیا.اللہ تعالیٰ اپنے کام کے لئے آسمان سے نہیں اترتا وہ اپنے کسی بندے کے ہاتھ کو ہی اپنا ہاتھ قرار دیتا اور اپنے کسی بندے کی زبان کو ہی اپنی زبان قرار دے دیتا ہے.تب اُس کا ہاتھ جو کچھ کرتا ہے وہ درحقیقت خدا ہی کرتا ہے اور اُس کی زبان جو کچھ کہتی ہے وہ در حقیقت خدا ہی کہہ رہا ہوتا ہے پس مجھے خوشی ہے کہ اس ہاتھ کے بلند کرنے کے لئے خدا نے اپنے فضل سے مجھے پچھن لیا اور جو کچھ وہ عرش سے کہہ رہا تھا اسے اس نے میرے ذریعہ سے دنیا میں پھیلایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو ایسے طور پر قائم کر دیا کہ ان مسائل کے متعلق دشمن اب کسی طرح حملہ الفضل ۲۱.جون ۱۹۴۴ء صفحه ۳) نہیں کر سکتا.6❝ ایک اور جگہ حضور فرماتے ہیں :- ” جب میں اس دنیا سے رُخصت ہو جاؤں گا ، جب لوگ میرے کاموں کی نسبت ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں گے، جب سخت سے سخت دل انسان بھی جو اپنے دل میں شرافت کی گرمی محسوس کرتا ہو گا ماضی پر نگاہ ڈالے گا، جب وہ زندگی کی ناپائیداری کو دیکھے گا اور اس کا دل ایک نیک اور پاک افسردگی کی کیفیت سے لبریز ہو جائے گا اس وقت وہ یقیناً محسوس کرے گا کہ مجھ پر ظلم پر ظلم کیا گیا اور میں نے صبر سے کام لیا حملہ پر حملہ کیا گیا لیکن میں نے شرافت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا.یہ بہترین بدلہ ہو گا جو آنے والا زمانہ اور جو آنے والی نسلیں
567 میری طرف سے ان لوگوں کو دیں گی اور ایک قابلِ قدر انعام ہوگا جو اس صورت (انوار العلوم جلد ۱۰ صفحه ۳۲۳) میں مجھے ملے گا“ اس مجموعہ کو حضور کے ہی دعائیہ الفاظ پر ختم کیا جاتا ہے:- پس میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی عظمت اور اپنے جلال اور اپنی بے انتہاء قدرتوں کا مظہر بنادے اور اس کی شان اور عظمت تمام دنیا اور اس کے ہر گوشہ میں ظاہر ہوا اور خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کیلئے اور اس کے دین کی خاطر اپنا سب کچھ اس کی راہ میں قربان کر دیں اور ہماری نسلوں کو بھی توفیق عطا فرمادے اور کوئی وسوسہ ہمیں اس سے جدا نہ کر سکے.وہ ہمارا ہو اور ہم اس کے ہو جا ئیں اللهُمَّ آمِینَ“.66-9 الفضل ۳.جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۱)
حضور انور کا چہرہ مبارک وصال کے بعد ( 9 نومبر 1965ء) حضرت مصلح موعود کے جنازہ کو احباب کندھا دینے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں (9 نومبر 1965ء)
حضرت خلیفہ امسح الثالث حضرت مصلح موعود کی تدفین کے موقع پر (9 نومبر 1965ء) حضرت خلیفہ امسح الثالث حضرت مصلح موعود کے مزار پر دعا کرتے ہوئے