Language: UR
سوانح فضل عمر حضرت فضل عمر مرزا بشیرالدین محمود احمد المصلح الموعود خليفة اسم الثاني کے سوانح حیت تالیف عبد الباسط شانند جلد چهارم ناشرین فضل عمر فاؤنڈیشن
عنوان فہرست مضامین سوانح فضل عمر جلد چهارم صفح عنوان عبوری مرکز بعض مشکلات اور ان کا ازالہ ٤ ۹۳ ۹۴ ۱۰۲ :: 119 ۱۹۹ ۱۲۴ ۱۲۷ IM ۱۴۲ ۱۴۹ ۱۵۱ ۱۵۳ ۱۵۸ 172 ۱۷۳ جلد تعمیر کیلئے لگن اور جذبہ زیر تعمیر مرکز کا ذکر اخبارات میں افتتاح مرکز نو.ربوہ صفح خلافت ثانیہ...قادیان کی ترقی I ۱۸ ۲۱ ۲۱ جلسه خلافت جو بلی پروگرام خلافت جو بلی لوائے احمد بیت جلوس کے متعلق ہدایات مشاعرہ کے متعلق ہدایات چراغاں کے متعلق ہدایات داغ ہجرت سفر ہجرت الوداعی پیغام ہجرت کا فلسفہ و حکمت ایک اور عہد ۲۲ ۲۲ + ہر اول دستہ.جامعہ احمدیہ افتتاح ربوه ۳۵ پہلا جلسہ سالانہ ۵۳ ۵۶ ۶۰ ۶۹ 44 علمی ترقی کا عظیم الشان منصوبه ملی خدمات.بین الاقوامی مقامات مقدسه لبنان کی آزادی ۷۴ سپین میں اشاعت اسلام تقسیم اور اخبارات کا خراج تحسین تعمیر مرکز ربوہ ۷۸ عراق کی آزادی ۷۸ انڈونیشیا کی آزادی مسئله فلسطین ۸۳ ۸۵ بہتر مستقبل کیلئے مفید تجاویز موزوں جگہ کی تلاش ایک الزام اور اس کی تردید حصول زمین کی کوشش
عنوان ملی خدمات- برصغیر آل مسلم پارٹیز کانفرنس مسلم اتحاد مسلم کی تعریف ہندو ند و مسلم اتحاد فسادات لاہور اور احمد یہ جماعت مسلم پریس کی حمایت صفح تقسیم برصغیر ۱۷۵ یادگار سفر دہلی ۱۷۸ استحکام پاکستان ۱۸۲ نرم لکڑی عنوان صفحہ ۱۸۴ جڑی بوٹیاں ۱۹۱ مساوات کا اسلامی نظام ۱۹۳ اسلامی احکام کی خصوصیات کانگرس کی ایک خوفناک سازش کا توڑ 199 علمی طبقوں کی طرف سے قدر افزائی ۲۸۱ ۲۸۶ ۲۹۱ ۲۹۵ ۲۹۶ ۳۱۲ ۳۲۳ ۳۲۹ ۳۳۲ ۳۳۶ ۳۴۱ ۳۵۱ ۳۵۴ ۳۵۷ ۳۵۸ ۳۶۴ سکھ مسئلہ کا حل اقتصادی منصو به بندی ایک انقلابی اقدام ایک نہایت مفید اقدام مسلم مفاد کا تحفظ ۲۰۱ مخلص پاکستانیوں کی ذمہ داریاں ۲۰۹ ایام ابتلاء اور مصائب ۱۹۵۳ء ۲۱۱ فسادات پنجاب کا پس منظر ۲۱۶ چینی تیاری ۲۲۳ اے غلام مسیح الزماں ہاتھ اٹھا ۲۳۵ اُڑ رہا ہوں میں فلک پر ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل ۲۲۶ فسادات کی ابتداء قانونی ذرائع سے حقوق حاصل کرنیکی مثال احمدیت اور سیاست ۲۴۳ تحقیقاتی عدالت مسلم مفاد کے تحفظ کیلئے قربانی ۲۴۵ نقصانات کا اجمالی ذکر قائد اعظم کا دوریتانی حصول آزادی نہایت اہم انتخابات سر خضر حیات کا استعفیٰ ۲۶۲ گرفتاری ۲۶۴ تحقیقاتی عدالت کا تبصرہ ۲۷۱ عدو شرے برانگیزد ง ۲۷۵ حیات آفرین پیغامات ونصائح
عنوان صفح ۴۰۹ ۴۱۰ ۴۱۰ 을 ۴۱۲ ٤١٣ ۴۱۵ ۴۹۷ ۵۰۰ ۵۰۳ ۵۰۹ ۵۲۰ ۵۲۶ ۵۳۱ ۵۴۳ عنوان صفحہ حقیقی قومی جذ به ایک وصیت ایک اور وصیت ۳۶۹ فتنہ کا فور اعلاج کرس ۳۷۰ جرمن قوم کے نام پیغام ۳۷۳ سب سے آگے نکل جاویں محنت اور قربانی کی عادت ڈالیں ۳۷۴ اعلی تعلیم دلوں کو موہ لے گی اسلام پر عمل کرنا عادت میں شامل کریں ۳۷۶ غانا کے نام پیغام خدا کا سپاہی ۳۷۷ ہمارا اخلاقی ورثہ حضرت فضل عمر کی تصانیف حضرت فضل عمر کا منظوم کلام فہرست تصانیف استحکام خلافت قدرت ثانیہ خدائی تائید و نصرت ۳۷۷ ٣٧٩ ۳۸۰ اسلامی عظمت کیلئے متحدہ کوشش آنحضرت ﷺ کی وصیت خدا حافظ آج بھی اور ہمیشہ ہی دعوت الی اللہ کی تاکید شہداء کی روحیں ۳۸۰ ۳۸۲ ہر ملک کے احمدی اس ملک کے وفادار رہیں ۳۸۲ مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے ساری دنیا کیلئے مفید وجود خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق قربانی کی ضرورت واہمیت ۳۹۵ ۳۹۹ ۴۰۳ قیامت تک آنے والے احمدیوں کو نصیحت | ۴۰۶ قومی نشان کا احترام خلافت لمبے عرصہ تک چلے گی بلند روحانی نظام کوه وقار ایک گراں قدر خدمت نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جانا ۴۰۸ حضرت فضل عمر کی حیات طیبہ ۴۰۹ ایک نظر میں
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نحْمَدُهُ وَ نُصَلَّيْ عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عبر فاؤنڈیشن کو سوانح فضل عمر جلد چہارم احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرتے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَائِكَ فضل عمر فاؤنڈیشن کے مقاصد میں حضرت فضل عمر کی سوانح کی تألیف و اشاعت بنیادی حیثیت رکھتی ہے.اس سوانح کی اہمیت کے پیش نظر اس کی تألیف کا کام مسند خلافت پر تی متمکن ہونے سے قبل حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سرانجام دے رہے تھے اور پہلی دو جلدیں حضور کی تألیف کردہ ہیں.بعد میں حضور انور نے محترم مولانا عبد الباسط صاحب شاہد مربی سلسلہ کا تقر ر بطور مؤلف سوانح فضل عمر منظور فرمایا اور جلد سوم انہوں نے تالیف کی جو کچھ عرصہ قبل شائع ہو چکی ہے.اب جلد چہارم پیش خدمت ہے.اس جلد کی اشاعت کے بعد حضرت مصلح موعود کے سوانح کا کام اختتام پذیر ہورہا ہے.اَلحَمدُ لِلہ.پانچویں جلد بھی تیار ہورہی ہے جو زیادہ تر سیرت کے واقعات پر مشتمل ہوگی.زیر نظر مجموعه سید نا حضرت مصلح موعود کی کامیاب و کامران زندگی کے اہم ادوار پر مشتمل ہے.اس میں جلسہ خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء ، قادیان سے ہجرت، نئے مرکز ربوہ کی تعمیر ، ملی خدمات اور بین الاقوامی فورم پر لبنان ، عراق اور انڈونیشیا کی آزادی کیلئے جماعت احمدیہ کی خدمات، مسئلہ فلسطین پر بروقت انتباہ اور جامع راہنمائی ، ہندوستان کی تحریک آزادی کے مختلف مراحل اور تقسیم برصغیر کے موقع پر پیش آنے والے اہم واقعات اور استحکام پاکستان کیلئے مفید راہنمائی شامل ہیں.
اس کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد حضور کے اہم لیکچرز ، ۱۹۵۳ء کا ابتلاء اور حیات آفرین پیغامات، تصانیف منظوم کلام، استحکام خلافت اور اس شاندار، درخشندہ اور کامیاب و کامران زندگی کے اختتام پر اپنے مولیٰ کریم کے حضور حاضر ہونے کا ذکر ہے.حضرت مصلح موعود کے اہم اور یادگار کارناموں میں تقسیم ہند و پاکستان کے بعد نئے مرکز ربوہ کا قیام شامل ہے.یہ قطعہ زمین سرکاری کاغذات میں شور زدہ بنجر اور نا قابل آبادی تھا.مگر جب خدا تعالیٰ کے اولوالعزم خلیفہ نے اس دھرتی پر پاؤں رکھے تو کلر اٹھی زمین کی یہ وادی غیر ذی زرع ایک حسین اور دلکش نسبزہ زار میں بدل گئی ، جہاں میلوں تک کوئی درخت اور گھاس کی پتی تک نہ تھی وہاں اب قسم قسم کے خوبصورت اور بلند قامت درخت اپنے رب کی حمد کے ترانے گا ر ہے ہیں.یہاں سبزہ ہے ، گھاس ہے، حسین اور دلکش رنگ رنگ کے پھول ہیں.وطن عزیز کے ہر خطہ کے پھلدار اور ایسے ایسے پودے یہاں اُگائے گئے ہیں کہ قرب و جوار میں ان کا نام و نشان نہیں.یہ ایک معجزہ ہے، ایک انقلاب ہے جو حضرت فضل عمر کی زبان سے ابراہیمی اور اسماعیلی دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں برپا ہوا اور ہم اس عظیم انقلاب کے عینی شاہد ہیں.تحریک آزادی ہند و پاکستان میں حضرت مصلح موعود کے گراں قدر کار ہائے نمایاں بھی حضور کی پاکیزہ سوانح کا ناقابل فراموش باب ہیں.ہندوستان میں تحریک آزادی کا کوئی بھی موڑ آیا حضرت مصلح موعود کا دردمند دل مسلمانوں کی بہبود کیلئے تڑپ اُٹھا.آپ نے ہر مشکل مرحلہ پر اپنی پر زور تحریروں، لیکچروں اور عملی جد وجہد سے اہلِ وطن اور خصوصاً مسلمانوں کی شاندار اور بے لوث راہنمائی فرمائی اور ہندو کانگرس کی مسلمان دشمن سازشوں کو ناکام بنا دیا.نہرورپورٹ کا مسکت جواب دے کر مسلمانوں کے خلاف اُٹھنے والے طوفان کا رُخ موڑ کر رکھ دیا اور آخر کار ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی زبر دست تائید و حمایت فرمائی.جس سے بالآ خر انگریز قیام پاکستان پر راضی ہو گیا.قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کے سلسلہ میں حضور نے متعدد پبلک لیکچر ز مختلف
شہروں میں ارشاد فرمائے اور پاکستان کے چوٹی کے لیڈر ، دانشوروں اور علمی طبقہ نے ان لیکچرز کو بہت سراہا.اس نوزائیدہ مملکت کو وجود میں آئے ابھی چند سال ہوئے تھے کہ ۱۹۵۳ء کے دور ابتلاء سے الہی سلسلہ کو محفوظ و مامون رکھنا حضرت مصلح موعود کی فہم و فراست اور عزم و تدبر کا ایک روشن نشان ہے.عین ان ایام ابتلاء میں حضور نے یہ ولولہ انگیز اعلان فرمایا کہ خدا میری طرف دوڑا چلا آ رہا ہے اور دنیا نے دیکھا کہ چند ہی دنوں میں بھڑکتی آگ کے شعلے سرد پڑ گئے اور احمدیت کو مٹانے کے دعویدار خود هَبَاءُ تَنشُورًا ہو گئے.آپ کی متضرعانہ دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے جس شرف قبولیت سے نواز اوہ تاریخ احمدیت کا ایک نہ بھولنے والا باب ہے.اس جلد کی اہم بات حیات آفرین پیغامات اور نصائح ہیں جو آج بھی دنیا بھر کے لئے روشنی اور راہنمائی کا مینار ہیں جس سے ہر دور کے سیاسی ، سماجی ، اقتصادی اور مذہبی لیڈر راہنمائی پاتے رہیں گے.اس جلد کی تیاری کے سلسلہ میں خاکسار بہت سے بزرگوں کا احسان مند ہے.سب.پہلے محترم مولانا عبد الباسط شاہد صاحب (مؤلف کتاب ہذا) کا ذکر کرتا ہوں انہوں نے اس کام کو ایک عظیم سعادت سمجھتے ہوئے نہایت محنت ، اخلاص ، دلی شوق اور جذبہ سے سرانجام دیا ہے.پانچویں جلد کا مسودہ بھی تیار ہو کر کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کے مختلف مراحل میں ہے.اللہ تعالیٰ محترم مولانا موصوف کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کی اس کاوش کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے مقبول خدمات کی توفیق عطا فرمائے.آمین مسودہ کا جائزہ لینے کیلئے حضور انور نے درج ذیل احباب پر مشتمل کمیٹی مقرر فرمائی.ان سب بزرگوں نے مسودہ کا تفصیلی جائزہ لیکر بعض بنیادی امور کی طرف رہنمائی فرمائی اور اپنی قیمتی آراء سے نوازا.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ
فضل عمر فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائر یکٹرز کی خواہش پر نے بھی بہت توجہ سے یہ سارا مسودہ پڑھ کر بعض اہم امور کی نشاندہی فرمائی جس کے لئے ادارہ ہذا ان کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے.بہت سے مربیان سلسلہ نے بھی اس اہم کام کے سلسلہ میں ادارہ کی عملی معاونت فرمائی ہے ان میں خصوصیت سے قابل ذکر ہیں.جنہوں نے نہایت محنت اور اخلاص سے خدمات سر انجام دیں ہیں.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ کا بھی خاکسار تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے.اس جلد کی فائنل پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں آئمکرم نے بڑی لگن اور بشاشت سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے اور اس کتاب کی تیاری کے مختلف مراحل میں ہمیں اپنے گرانقدر اور مفید مشوروں سے نوازا.فَجَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہ ان کی مخلصانہ کوششوں سے اس جلد کی تکمیل بروقت ہوسکی.بھی شکریہ کے مستحق ہیں خاکساران سب احباب کا ممنونِ احسان ہے.پانچویں جلد بھی انشاء اللہ جلد پیش کر دی جائے گی اور اس کے لئے احباب جماعت کو زیادہ انتظار کی صعوبت برداشت نہیں کرنی پڑے گی.وبالله التوفيق
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ.نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمُ پیشگوئی صلح موعود اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دن میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.وہ کلمہ الہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا اسکے معنی سمجھ میں نہیں آتے ، دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه - فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ و العلاء كمان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا نور آتا ہے اور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے مسموح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد عید بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا - وَكَانَ اَمْرًا مَقْضِيَّا داشتهار ۲۰ فروری شست
خلافت ثانیہ.قادیان کی ترقی
" نہایت مخالف حالات میں قادیان نے وہ ترقی کی ہے جس کی مثال دنیا کے پردے پر کسی جگہ بھی نہیں مل سکتی.اقتصادی طور پر شہروں کی ترقیات کے لئے جو اصول مقرر ہیں ان سب کے علی الرغم اس نے ترقی حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے کلام کی صداقت ظاہر کی ہے" (المصطلح الموعود)
٣ خلافت ثانیہ.قادیان کی ترقی تیسری جلد کے آخر میں پیشگوئی مصلح موعود کے متعلق عظیم الشان انکشاف کا ذکر تھا.اس انکشاف کے بعد جماعت کی ترقی کی رفتار میں کمیت و کیفیت ہر لحاظ سے غیر معمولی اضافہ ہو گیا.خدائی فضلوں کے نزول اور اسکی محبت کے جلوؤں کا نظارہ کرنے کے لئے اس جائزے کا آغاز قادیان اور جماعت کی ابتدائی حالت سے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں.مرکز احمدیت قادیان کی چھوٹی سی گمنام بستی دیکھتے ہی دیکھتے ایک بلند پایہ علمی مرکز کی حیثیت اختیار کر گئی.قادیان میں کثرت سے آنے والے زائرین یا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ارشاد کے مطابق واردین و صادرین " حضور کی زیارت و ملاقات کی برکات سے مالا مال ہوتے اور آنحضرت کے ارشاد " مسیح کثرت سے خزانے تقسیم کرے گا" کے مطابق روحانی خزائن سے اپنی جھولیاں بھرتے.حضور کی مجلس ایک بے مثال علمی درسگاہ تھی جہاں عوام کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا نورالدین صاحب، حضرت مولوی عبد الکریم صاحب، حضرت مولانا محمد احسن امروہی صاحب ، حضرت مولانا برہان الدین جہلمی صاحب جیسے علماء حضرت پیر سراج الحق صاحب اور حضرت صوفی احمد جان صاحب جیسے سجادہ نشین و صوفیاء بڑے ادب و احترام اور عقیدت سے اپنے علم و عرفان کی تکمیل کے لئے کوشاں رہتے تھے.حضور کی مجلس کے علاوہ ان بزرگ علماء کی مجالس ایک درس گاہ کا رنگ رکھتی تھیں اور اس طرح دن رات تدریس و تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا.حضرت مولانا نور الدین صاحب نے کلام الہی سے کمال عقیدت و محبت کو اپنے نمونہ اور تعلیم سے جماعت میں جاری کر دیا اور دن رات آپ کے متعدد درس قرآن مجید جماعت کی علمی پیاس کی تسکین کا ذریعہ بنے رہتے.حضرت مولانا نور الدین صاحب کی علمی فیض رسانی کا کسی قدر اندازه اس امر سے ہو سکتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب گورنمنٹ کالج لاہور سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر قادیان آگئے اور اس عجیب اور غیر متوقع اقدام کے متعلق پوچھنے پر بتایا کہ میں نے چا کہ کالج اور اس کی تعلیم تو پھر بھی حاصل کی جا سکتی ہے علامہ نورالدین صاحب سے قرآن
۴ پڑھنے کا موقع پھر نہیں ملے گا.حضرت مولانا نور الدین صاحب نے اپنے اس فدائی اور قدردان طالب علم کو کس خوشی اور جذبہ سے پڑھایا ہو گا !! حضرت میاں صاحب کے قادیان آنے سے ایک اور درس جاری ہو گیا جس سے اور کئی نوجوان بھی استفادہ کرنے لگے.ہمارے اخبار و رسائل اس امر کے گواہ ہیں کہ حضرت مولانا نورالدین صاحب اپنی آخری شدید بیماری کے دوران بھی بڑی محنت اور توجہ سے انگریزی ترجمہ قرآن کے سلسلہ میں کام کرواتے رہے.حضرت مصلح موعود نے حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں ہی تقریر و تحریر کے ذریعہ خدمت دین کا سلسلہ شروع فرما دیا تھا.۱۹۱۰ء میں آپ نے درس قرآن کا آغاز فرمایا اور قرآنی علم اور دینی غیرت اور جوش و جذبہ کے متعلق اپنوں اور غیروں سے خراج تحسین حاصل کیا.قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت سے مدرسہ احمدیہ جاری تھا.خلافت اولی میں انجمن کے بعض اراکین نے مدرسہ احمدیہ کو ختم کر کے انگریزی سکول کی طرف زیادہ توجہ دینے کی کوشش کی اور قریب تھا کہ ان کی کوشش بار آور ہو جائے کہ حضرت مصلح موعود کو اس کا علم ہو گیا اور آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد گار مدرسہ احمدیہ کو قائم رکھنے کے لئے ایسا پُر اثر خطاب فرمایا کہ وہ لوگ بھی جو اس کے خاتمہ کی کوشش کر رہے تھے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ہمارا مطلب یہ نہیں تھا اور ہمار ا مطلب سمجھا نہیں گیا.مدرسہ احمدیہ کا قیام ایک بیج کی طرح تھا جو علمی ترقی کے لئے بویا گیا اس کے بعد خلافت ثانیہ میں علم کی ترویج و ترقی کا سلسلہ روز افزوں رہا.حضرت فضل عمر نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد جماعتی ترقی کے لئے جو لائحہ عمل پیش فرمایا اس میں تعلیم کا پہلو بہت نمایاں تھا.آپ نے فرمایا.” میں نے بتایا تھا کہ یز حیھم کے معنوں میں اُبھار نا اور بڑھانا بھی داخل ہے اور اس کے مفہوم میں قومی ترقی داخل ہے اور اس ترقی میں علمی ترقی بھی شامل ہے....ایسا ہونا چاہئے کہ جماعت کا کوئی فرد عورت ہو یا مرد باقی نہ رہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو.صحابہ نے تعلیم کیلئے بڑی بڑی کوششیں کی ہیں.آنحضرت میں نے بعض دفعہ جنگ کے قیدیوں کا فدیہ یہ مقرر فرمایا ہے کہ وہ مسلمان بچوں کو تعلیم دیں.جب دیکھتا ہوں کہ آنحضرت مال والا ہی کیا افضل لے کر آئے تھے تو جوش محبت سے روح بھر جاتی ہے.آپ نے کوئی بات نہیں چھوڑی.ہر معاملہ میں ہماری راہنمائی کی ہے.پھر حضرت مسیح موعود
اور حضرت خلیفہ اول نے بھی اس نقش قدم پر چل کر ہر ایسے امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو کسی بھی پہلو سے مفید ہو سکتا ہے." منصب خلافت صفحه ۳۶٬۳۵) حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات کے موقع پر آئندہ نسلوں کی حفاظت کے لئے قدم آگے بڑھانے اور علم حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.پس یہ بڑے خطرات کے دن ہیں اس لئے سنبھلو اور اپنے نفسوں سے دنیا کی محبت سرد کر دو اور اپنے دین کی خدمت کے لئے آگے آؤ اور ان لوگوں کے علوم کے وارث بنو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی.تا تم آئندہ نسلوں کو سنبھال سکو.تم لوگ تھوڑے تھے اور تمہارے لئے تھوڑے مدرس کافی تھے مگر آئندہ آنے والی نسلوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی اور ان کے لئے بہت زیادہ مدرس در کار ہیں.پس اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر دو اور یہ نہ دیکھو کہ اس کے عوض تمہیں کیا ملتا ہے.جو شخص یہ دیکھتا ہے کہ اسے کتنے پیسے ملتے ہیں وہ کبھی خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کو ملتی ہے جو اس کا نام لے کر سمندر میں کو دپڑتا ہے چاہے موتی اس کے ہاتھ آجائے چاہے وہ مچھلیوں کی خوراک بن جائے." الفضل یکم اپریل (۱۹۴۴ء) یہ عظیم مقصد کبھی بھی آپ کی نظروں سے اوجھل نہ ہوا اور آپ مسلسل اس کی طرف متوجہ رہے.بر صغیر کی تقسیم سے کچھ دن پہلے آپ نے فرمایا." مجھے کئی سال سے یہ فکر تھا کہ جماعت کے پرانے علماء اب ختم ہوتے جارہے ہیں ایسا نہ ہو کہ جماعت کو یکدم مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور جماعت کا علمی معیار قائم نہ رہ سکے.چنانچہ اس کے لئے میں نے آج سے تین چار سال قبل علماء کی تیاری شروع کر دی تھی.کچھ نوجوان تو میں نے مولوی صاحب کے ساتھ لگا دیئے اور کچھ باہر بھجوا دیئے تاکہ وہ دیو بند وغیرہ کے علماء سے ظاہری علوم سیکھ آئیں.یہ بھی اللہ تعالی کی مشیت اور قدرت کی بات ہے کہ ان علماء کو واپس آئے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے جب وہ واپس آگئے تو مولوی صاحب فوت ہو گئے." (الفضل اا.جون ۱۹۴۷ء) یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضور نے بعض واقفین زندگی کو طبیہ کالج علی گڑھ اور طبیہ کالج لاہور سے علم طب کی تعلیم دلوائی اور اس طرح جماعت میں اس قدیم و مفید علم کی ترویج
។ ہوتی رہی.حضور کی ہدایت کے مطابق بعض علم دوست حضرات نے سنسکرت زبان اور قدیم ہندو علوم کی تعلیم ہندوؤں کی مستند درسگاہوں سے حاصل کی.حضور کی ہدایت پر انگریزی زبان کی تو اعلیٰ تعلیم کے لئے ہمارے پیارے امام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب اور مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر (پرنسپل جامعہ احمدیہ ) انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور بعض واقفین زندگی نے عرب ممالک میں جاکر عربی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی.مدرسہ احمدیہ ۱۹۰۵ ء میں قائم ہوا.اسکی ترقی و استحکام کے لئے حضور نے جو مجاہدانہ کوشش فرمائی اس کا ذکر پچھلے صفحات میں ہو چکا ہے.اس ادارہ کو مزید ترقی دیتے ہوئے طلبہ کی علمی قابلیت میں اضافہ و تربیت کے لئے جامعہ احمدیہ کے نام سے ایک الگ ادارہ ۱۵.اپریل ۱۹۲۸ء کو حضور کی ہدایت کے مطابق قائم کیا گیا.اس ادارہ کے پہلے پر نسپل حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب مقرر ہوئے.اس ادارہ کو جماعت کی تعلیم و تربیت میں شاندار کام کرنے کا موقع ملا اور تبلیغ اسلام کے کام کو دنیا کے کناروں تک وسعت دینے کی سعادت حاصل کرنے والے بالعموم اس ادارہ کے دینی فارغ التحصیل طلبہ ہی تھے.تعلیم کے ساتھ ساتھ عام علوم کے فروغ کی کوشستیں بھی برابر جاری رہیں.تعلیم الاسلام کالج جس کا افتتاح حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے زمانے میں ہوا تھا اور جسے بعض قانونی مجبوریوں کی وجہ سے بند کرنا پڑا تھا حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں یہ کالج نئے ولولوں اور نئے عزائم کے ساتھ پھر شروع کیا گیا.حضور نے ۴.جون ۱۹۴۴ء کو اس کا افتتاح فرمایا.سائنسی علوم کی ترقی اور فروغ کے لئے اس کالج سے ملحق فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا ای ادارہ قائم ہوا جو اس زمانہ میں ہندوستان کے چند بہترین سائنسی اداروں میں سے ایک تھا.اس ادارہ کا افتتاح ڈاکٹر سر شانتی سروپ بھٹناگر ڈائریکٹر کو نسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ نے ۱۹.مئی ۱۹۴۶ء کو کیا.عورتوں کی علمی ترقی کی طرف حضور کو بطور خاص توجہ تھی اس کی تفصیل حصہ دوم میں گزر چکی ہے.نصرت گرلز سکول کے علاوہ آپ نے دینیات کلاسز کا اجراء فرمایا جس میں نامور جید علماء سلسلہ کے علاوہ خود حضور بھی پڑھاتے رہے اور اسی مقصد کے لئے آپ ہمیشہ مستورات میں درس قرآن دیتے رہے.خدا تعالیٰ نے آپ کی کوششوں کو نوازا اور احمدیوں کی اوسط تعلیم ہمیشہ ہی دو سروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ رہی.
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عورتوں کی تعلیم کی شرح مردوں کی نسبت بھی زیادہ رہی جو اس امر کی شہادت ہے کہ حضور نے اس اہم فریضہ کی ادائیگی کس عمدہ طریق سے فرمائی اور یہ بھی کہ احمدی بچے خدا تعالیٰ کے فضل سے تعلیم یافتہ ماؤں کی گود میں بہتر تعلیم و تربیت سے فیض یاب ہو کر ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے ضامن بنیں.ہمارے پیارے امام کو جماعت کی ہمہ جہتی ترقی کی دُھن لگی ہوئی تھی.تعلیم کے میدان میں ترقی کا سرسری جائزہ پیش کیا جا چکا ہے.زرعی ترقی حضور کا خاص میدان تھا.حضور خود زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے تھے.مطالعہ شوق اور محنت سے آپ نے اپنی اور جماعت کی زمینوں اور زراعت کو غیر معمولی ترقی دی اور حضور کی وہ جائیداد جو بمشکل اپنا خرچ پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی وسیع و عریض جائیداد بن گئی.حضور نے زمینداروں کی مشکلات اور ان کے حل کے متعلق ایک نہایت پُر مغز مقالہ تحریر فرمایا جس میں زمینداروں کی مشکلات بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا.” میں سب سے آخر میں اس سبب کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو سب سے زیادہ زمینداروں کی اخلاقی اور اقتصادی حالت کی تباہی کا موجب ہو رہا ہے.جو یہ ہے کہ زمیندار اس قدر قرض کے نیچے دبے ہوئے ہیں کہ وہ پیداوار سے اس کا سود بھی پوری طرح ادا نہیں کر سکتے.بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت زمینداروں پر ایک ارب تیئیس کروڑ روپیہ کا قرض ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ قریباً ڈیڑھ کروڑ ایکڑ زمین فروخت کر کے اس قرض کو ادا کیا جا سکتا ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں پنجاب کی صحیح طور پر قابلِ کاشت زمین اس سے کم ہی ہو گی پس گو بظاہر زمیندار اپنی زمینوں کے مالک نظر آتے ہیں لیکن اگر انہیں اپنے قرض ادا کرنے پر مجبور کیا جائے تو وہ اپنی سب زمینیں فروخت کر کے بھی مقروض کے مقروض ہی رہیں گے." ان مشکلات کا حل تجویز کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں.اگر اس قسم کی کوئی تجویز زمینداروں نے نہ کی تو ان کو یا درکھنا چاہئے کہ وہ اور ان کی اولادیں کبھی بھی غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتیں." زمینداروں کی اقتصادی مشکلات اور ان کا حل صفحه ۲۱۴۲۰) | حضرت فضل عمر نے بعض ہو نہار نوجوانوں کو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد (جو اس وقت تک
A کالج تھا) میں زراعت کی خصوصی تربیت دلوائی تا وہ جماعت کی زرعی ترقی میں مفید کردار ادا حضور کی ایک اور تصنیف ” اسلام اور ملکیت زمین " بہت مفید مشوروں کر سکیں.اس مو وضوع پر اور رہنمائی پر مشتمل ہے.تجارت کے شعبہ کی طرف بھی آپ نے خصوصی توجہ فرمائی اور تاجروں کو مختلف مواقع پر اسلامی اخلاق اور تجارت میں بہتری و ترقی کے راہنما اصول بتائے.اس زمانے میں تجارت پر ہندوؤں کی اجارہ داری تھی اور کسی مسلمان کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ برابر کی سطح پر ان سے بات کر سکے کیونکہ مسلمان بالعموم ہندوؤں کے مقروض تھے مگر حضور نے مسلمانوں میں ایک ایسی رو چلا دی اور ایسی جرات پیدا کر دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں دُکانیں مسلمانوں کی کھل گئیں اور اس طرح وہ سرمایہ جو مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر ہندوؤں کی طاقت و قوت کا ذریعہ بن رہا تھا اس کا رستہ روک دیا اور مسلمانوں کو وہ راستہ دکھا دیا جس پر چل کر وہ ہندوؤں کی اقتصادی و معاشی غلامی سے نجات حاصل کر سکیں.قادیان کی ہمہ جہتی ترقی میں صنعتی ترقی کا پہلو بھی بہت نمایاں ہے.حضرت فضل عمر نے نوجوانوں میں بے کاری کے خلاف جو جذبہ پیدا فرمایا تھا اس کے نتیجہ میں صنعت و حرفت کو بھی بہت ترقی ہوئی.حضور نے خود اپنی نگرانی میں دار الصناعہ کا قیام فرمایا اور اپنے ہاتھ سے لکڑی کاٹ کر ۲.مارچ ۱۹۳۵ء کو اس کا افتتاح فرمایا.حضور کے عملی نمونہ اور دلچسپی کی وجہ سے قادیان میں جلد جلد صنعتی ترقی شروع ہو گئی اور متعدد کار خانے مثلاً سٹار ہوزری در کس ، میک ورکس ، اکبر علی اینڈ سنز، جنرل سروس پریسین مینوفیکچرنگ کمپنی ، شیشہ سازی کا کارخانہ آٹا پینے کی متعدد مشینیں ، سوڈا واٹر فیکٹریاں قائم ہو گئیں اور اس طرح قادیان سے بے کاری کی لعنت کا خاتمہ ہونے کے ساتھ ساتھ علاقہ میں بھی اچھا اثر ہوا اور دُور دراز دیہات کے مسلم و غیر مسلم نوجوانوں کو وہاں ملازمت ملنے لگی اور قادیان کی بعض مصنوعات اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں مقبول ہو گئیں.قادیان کی غیر معمولی ترقی کا کسی قدر اندازہ اس امر سے بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے مخالف بھی ( بادل نخواستہ) اس کا اعتراف کرنے پر مجبور تھے.چنانچہ ایک موقع پر جب ایک ہندو لیڈر نے مسلمانوں کی پنجاب میں اکثریت کو بے حقیقت اور بے اثر ثابت کرنے کے لئے مسلمانوں کو جاہل
اور پسماندہ قرار دیا تو اس کے جواب میں اس زمانہ کے مشہور مسلم اخبار ” خلافت " نے جو اداریہ لکھا اس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ :.اگر قادیان جیسے قصبہ کا ٹانگہ والا خالصہ اور دیانند کالج کے گریجوئیٹوں کا منہ بند نہ کر دے تو ہمار ازمہ.پھر مسلمان کبھی آزادی طلب نہ کریں گے ؟ et (الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۳۲ء) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ قادیان کی ابتدائی حالت اور پھر خلافت ثانیہ میں اس کی ترقی کے متعلق حضور کے ارشادات سے استفادہ کیا جائے.قادیان کی ترقی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان قرار دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں." حضرت اقدس کو بتایا گیا کہ قادیان کا گاؤں ترقی کرتے کرتے ایک بہت بڑا شہر ہو جائے گا جیسے کہ بمبئی اور کلکتہ کے شہر ہیں.گویا نو دس لاکھ کی آبادی تک پہنچ جائے گا اور اس کی آبادی شمالاً اور شرقاً پھیلتے ہوئے بیاس تک پہنچ جائے گی جو قادیان سے نومیل کے فاصلے پر بننے والے ایک دریا کا نام ہے.یہ پیشگوئی جب شائع ہوئی ہے.اس وقت قادیان کی حالت یہ تھی کہ اس کی آبادی دو ہزار کے قریب تھی، سوائے چند ایک پختہ مکانات کے باقی سب مکانات کچھے تھے.مکانوں کا کرایہ اتنا گرا ہوا تھا کہ چار پانچ آنے ماہوار پر مکان کرایہ پر مل جاتا تھا.مکانوں کی زمین اس قدر ارزاں تھی کہ دس بارہ روپے کو قابل سکونت مکان بنانے کیلئے زمین مل جاتی تھی ، بازار کا یہ حال تھا کہ دو تین روپے کا آٹا ایک وقت میں نہیں مل سکتا تھا.کیونکہ لوگ زمیندار طبقہ کے تھے اور خود دانے پیس کر روٹی پکاتے تھے.تعلیم کیلئے ایک مدرسہ سرکاری تھا جو پرائمری تک تھا اور اسی کا مدرس کچھ الاؤنس لیکر ڈاک خانے کا کام بھی کر دیا کرتا تھا.ڈاک ہفتہ میں دو دفعہ آتی تھی.تمام عمارتیں فصیل قصبہ کے اندر تھیں اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے ظاہری کوئی سامان نہ تھے کیونکہ قادیان ریل سے گیارہ میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی سڑک بالکل کچی ہے اور جن ملکوں میں ریل ہو ان میں اس کے کناروں پر جو شہر واقع ہوں انہیں کی آبادی بڑھتی ہے.کوئی کار خانہ قادیان میں نہ تھا کہ اس کی وجہ سے قادیان کی ترقی ہو نہ ضلع کا مقام تھا نہ تحصیل کا.حتی کہ پولیس کی چوکی بھی نہ تھی.قادیان میں کوئی منڈی بھی نہ تھی.جس کی وجہ سے یہاں کی آبادی ترقی کرتی.جس
وقت یہ پیشگوئی کی گئی ہے اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کے مرید بھی چند سو سے زیادہ نہ تھے کہ ان کو محکمالا کر یہاں بسا دیا جا تاتو شہر بڑھ جاتا.بے شک کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ آپ نے دعوی کیا تھا اس لئے امید تھی کہ آپ کے مرید یہاں آکر بس جائیں گے.لیکن اول تو کون کہہ سکتا تھا کہ اس قدر مرید ہو جائیں گے جو قادیان کی آبادی کو آکر بڑھا دیں گے.دوم اس کی مثال کہاں ملتی ہے کہ مرید اپنے کام کاج چھوڑ کر پیر ہی کے پاس آبیٹھیں اور وہیں اپنا گھر بنائیں.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا مولد ناصرہ اب تک ایک گاؤں ہے.حضرت شیخ شہاب الدین سهروردی ، حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی حضرت بہاؤ الدین صاحب نقشبندی رحمۃ اللہ علیم جو معمولی قصبات میں پیدا ہوئے یا وہاں جا کر بسے ان کے مولد یا مسکن ویسے کے ویسے ہی رہے.ان میں کوئی ترقی نہ ہوئی یا اگر ہوئی تو معمولی جو ہمیشہ ترقی کے زمانے میں ہو جاتی ہے.شہروں کا بڑھنا تو ایسا مشکل ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بادشاہ بھی اگر اقتصادی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے شہر بساتے ہیں تو ان کے بسائے ہوئے شہر ترقی نہیں کرتے اور کچھ دنوں بعد اجڑ جاتے ہیں اور قادیان موجوده اقتصادی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے نہایت خراب جگہ واقع ہے.نہ تو ریل کے کنارے پر ہے کہ لوگ تجارت کی خاطر آکر بس جائیں اور نہ ریل سے اس قدر دور ہے کہ لوگ بوجہ ریل سے دُور ہونے کے اسی کو اپنا تمدنی مرکز قرار دے لیں.پس اس کی آبادی کا ترقی پانا بظا ہر حالات بالکل ناممکن تھا.عجیب بات یہ ہے کہ قادیان کسی دریا یا نہر کے کنارے پر بھی واقع نہیں کہ یہ دونوں چیزیں بھی بعض دفعہ تجارت کے بڑھانے اور تجارت کو ترقی دے کر کی آبادی کے بڑھانے میں ممد ہوتی ہیں.غرض بالکل مخالف حالات میں اور بلا کسی ظاہری سامان کی موجودگی کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی کی کہ قادیان بہت ترقی کر جائے گا اس پیشگوئی کے شائع ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی جماعت کو بھی ترقی دینی شروع کر دی اور ساتھ ہی ان کے دلوں میں یہ خواہش بھی پیدا کرنی شروع کر دی کہ وہ قادیان آکر بسیں اور لوگوں نے بلا کسی تحریک کے شہروں اور قصبوں کو چھوڑ کر قادیان آکر بسنا شروع کر دیا اور ان کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی یہاں آکر بسنا شروع کر دیا.ابھی اس
پیشگوئی کے پوری طرح پورے ہونے میں تو وقت ہے مگر جس حد تک یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے وہ بھی حیرت انگیز ہے.اس وقت قادیان کی آبادی ساڑھے چار ہزار یعنی دوگنی سے بھی زیادہ ہے.فصیل کی جگہ پر مکانات بن کر قصبے نے باہر کی طرف پھیلنا شروع کر دیا ہے اور اس وقت قصبے کی پرانی آبادی سے قریباً ایک میل تک نئی عمارات بن چکی ہیں اور بڑی بڑی پختہ عمارت اور کھلی سڑکوں نے ایک چھوٹے سے قصبے کو ایک شہر کی حیثیت دے دی ہے.بازار نہایت وسیع ہو گئے ہیں اور ہزاروں کا سودا انسان جس وقت چاہے خرید سکتا ہے.ایک پرائمری سکوں کی بجائے دو ہائی سکول بن گئے ہیں جن میں سے ایک ہندوؤں کا سکول ہے.ایک گرل سکول ہے اور ایک علوم دینیہ کا کالج ہے.ڈاک خانہ جس میں ایک ہفتہ میں دو دفعہ ڈاک آتی تھی اور سکول کا مدرس الاؤنس لیکر اس کا کام کر دیا کرتا تھا.اب اس میں سات آٹھ آدمی سارا دن کام کرتے ہیں تب جا کر کام ختم ہوتا ہے.اور تار کا انتظام ہو رہا ہے ایک ہفتے میں دوبار نکلنے والا اخبار شائع ہوتا ہے.دو ہفتہ وار اردو اور ایک ہفتہ وار انگریزی اخبار شائع ہوتے ہیں.ایک پندرہ روزہ اخبار شائع ہوتا ہے اور دو ماہوار رسالے شائع ہوتے ہیں.پانچ پریس جاری ہیں.جن میں سے مشین پریس ہے.بہت سی کتب ہر سال شائع ہوتی ہیں.بڑے بڑے شہروں کی ڈاک ادھر ادھر ہو جائے تو ہو جائے مگر قادیان کا نام لکھ کر خط ڈالیں تو سیدھا یہیں پہنچتا ہے.غرض نہایت مخالف حالات میں قادیان نے وہ ترقی کی ہے جس کی مثال دنیا کے پردے پر کسی جگہ بھی نہیں مل سکتی.اقتصادی طور پر شہروں کی ترقیات کیلئے جو اصول مقرر ہیں ان سب کے علی الرغم اس نے ترقی حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے کلام کی صداقت ظاہر کی ہے.جس سے وہ لوگ جو قادیان کی پہلی حالت اور اس کے مقام کو جانتے ہیں خواہ وہ غیر مذاہب کے ہی کیوں نہ ہوں اس بات کا اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ بیشک یہ غیر معمولی اتفاق ہے.مگر افسوس لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا سب غیر معمولی اتفاق مرزا صاحب ہی کے ہاتھ پر جمع ہو جاتے ہیں." ( دعوۃ الا میر صفحه ۲۴۵ تا ۷ ۲۴) اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے ایک اور موقع پر حضور فرماتے ہیں." حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میری صداقت کے خدا تعالیٰ نے لاکھوں
۱۲ نشانات دکھلائے ہیں.یہ بالکل درست ہے اور میں تو کہتا ہوں کہ آپ کی صداقت کے خدا تعالیٰ نے اس قدر نشانات دکھلائے ہیں کہ جن کا شمار بھی نہیں ہو سکتا.مگر کن کیلئے.انہیں کیلئے جو عقل رکھتے ہیں.اگر کوئی شخص آپ کی صداقت کے نشانات دیکھنے کیلئے یہاں آئے تو یہ جس قدر بھی عمارتیں سامنے نظر آرہی ہیں (مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہو کر) ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب آپ کے نشان ہیں.پھر احمد یہ بازار سے آگے کے جس قدر مکانات بنے ہیں ان کے لئے جو زمین تیار کی گئی تھی اس میں ڈالا ہوا مٹی کا ایک ایک بورانشان ہے.یہاں اتنا بڑا گڑھا تھا کہ ہاتھی غرق ہو سکتا تھا.پھر قادیان سے باہر شمال کی طرف نکل جائیے وہاں جو بلند اور اونچی عمارتیں نظر آئیں گی ان کی ہر ایک اینٹ اور چونے کا ایک ایک ذرہ حضرت مسیح موعود کی صداقت کا نشان ہے.پھر قادیان میں چلتے ہوئے جس قدر انسان نظر آتے ہیں خواہ وہ ہندو ہیں یا سکھ یا غیر احمدی ہیں یا احمدی سب کے سب آپ ہی کی صداقت کے نشان ہیں.احمدی تو اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود کی صداقت کو دیکھ کر اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں کے ہو رہے اور غیر احمدی اور دوسرے مذاہب والے اس لئے کہ ان کی طرز رہائش لباس وغیرہ حضرت مسیح موعود کے دعوئی سے پہلے وہ نہ تھے جو اب ہیں.ان کی پگڑی ان کا کرتہ ان کا پاجامہ ان کی عمارتیں ، ان کا مال ان کی دولت وہ نہیں تھی جو اب ہے.حضرت مسیح موعود کے دعوی کرنے پر لوگ آپ کے پاس آئے اور ان لوگوں نے بھی فائدہ اٹھا لیا اور لا يَشْقَى جَلِيْسُهُمْ کی وجہ سے ان کو بھی نعمت مل گئی تو یہ سب آپ کی صداقت کے نشانات ہیں.دور جانے کی ضرورت نہیں اس مسجد کی یہ عمارت یہ لکڑی یہ کھمباسب نشان ہیں کیونکہ یہ پہلے نہیں تھے.جب حضرت مسیح موعود نے دعوی کیا تو پھر بنے.پس لاکھوں نشانات تو یہاں ہی مل سکتے ہیں.پھر سالانہ جلسہ پر جس قدر لوگ آتے ہیں ان میں سے ہر ایک آنے والا ایک نشان ہوتا ہے.جو خدا تعالیٰ ہر سال ظاہر کرتا ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کر تا رہے گا." الفضل ۲۰.جنوری ۱۹۱۷ء) قادیان کی ترقی اور حضرت فضل عمر کے بلند روحانی مقام کو سمجھنے کیلئے حضور کا مندرجہ ذیل بیان نهایت بصیرت افروز اور غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے.مکہ کی بنیاد ابراہیم اول کے ہاتھوں سے رکھی گئی اور مدینہ کی بنیاد ابراہیم اعلیٰ کے ہاتھوں
سے رکھی گئی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مچنا اور قادیان کی تعمیل کا کام آپ کے سپرد کیا.چنانچہ وہ مقام جسے کوئی شہرت حاصل نہ تھی کوئی عزت حاصل نہ تھی کوئی دبدبہ اور رعب حاصل نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اسے آپ کی برکت سے ایسی ترقی بخشی کہ آج تک دشمن حیرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ترقی حیرت انگیز ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی ابراہیم قرار دیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ سے شہر کے باہر کی نئی آبادی کی بنیاد رکھوا دی.بے شک جہاں تک قادیان کی شہرت اور اس کی عظمت کا سوال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی قادیان کو یہ برکت حاصل ہو چکی تھی مگر جہاں تک شہر سے باہرنئی آبادی کا سوال ہے یہ سب کی سب آبادی میرے زمانہ میں ہوئی.یہ دار الفضل اور دارالرحمت اور دار البرکات غربی، دارالشکر، دار الیسر، دار الفتوح دار الانوار سب کے سب وہ محلے ہیں جو میرے زمانہ میں آباد ہوئے.یہی وجہ ہے کہ فرشتہ نے مجھے کہا کہ ایک ابراہیم تم بھی ہو." (الفضل ۹.جون ۱۹۴۵ء) حضرت فضل عمر نے قادیان کی ترقی اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو دلیل بیان فرمائی ہے.اس میں دعوۃ الا میر ۱۹۲۶ء کی اشاعت کے زمانے تک کا ذکر ہے.قادیان کی دن دگنی رات چوگنی ترقی کا سلسلہ بعد میں بھی برابر جاری رہا.مثلا ۱۹۲۷ء میں قادیان میں ریل کا نظام جاری ہونے سے قادیان اس زمانے کے ذرائع رسل و رسائل سے منسلک ہو گیا.ریلوے بورڈ نے ۱۹۲۷ء کے آخر میں قادیان بوٹاری ریلوے کی منظوری دے دی....۱۴.نومبر ۱۹۲۸ء کو ریل کی پنسری قادیان کی حد میں پہنچ گئی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے کمال دُور اندیشی سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ نئے راستے کھلنے پر کئی قسم کی مکروہات کا بھی خدشہ ہوتا ہے اس لئے ساری جماعت کو مرکز سلسلہ کے لئے ریل کے مفید اور بابرکت ہونے کیلئے دعائیں کرنی چاہئیں اور صدقہ دینا چاہئے.چنانچہ قادیان کی تمام مساجد میں دعائیں کی گئیں اور غرباء مساکین میں صدقہ تقسیم کیا گیا.۱۶.نومبر ۱۹۲۸ء کو ریلوے لائن قادیان کے سٹیشن تک عین اس وقت پہنچی جب کہ جمعہ کی نماز ہو رہی تھی.قادیان کے سب سے پہلے سٹیشن ماسٹر بابو فقیر علی صاحب مقرر ہوئے.سٹیشن کا نام قادیاں مغلاں تجویز کیا گیا.سلسلہ کے مفاد قادیان کی ترقی اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ لائن
۱۴ قادیان کے شمال کی طرف سے ہو کر گزرے مگر ریلوے حکام اور علاقہ کی غیر احمدی اور غیر مصر آبادی اسے جنوب سے گزارے جانے کیلئے انتہائی جوش اور سرگرمی سے کوشش کر رہی تھی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اپنی فراست و بصیرت سے اس صورت حال کو پہلے سے معلوم کر لیا اور اس کی روک تھام کیلئے ابتداء ہی میں ایک خاص انتظام سے ایک زبر دست مہم شروع کرا دی جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی ہوئی.چنانچہ لائن قادیان کے شمالی جانب تعمیر کی گئی بلکہ ای خسرہ نمبر سے آئی اور اس مجوزہ جگہ پر سٹیشن بنا جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی پہلے تجویز فرما چکے تھے.اس سے کچھ عرصہ قبل قادیان میں تار اور فون کی سہولت بھی حاصل ہو چکی تھی.حضرت فضل عمر نے قادیان کے تار گھر سے بعض بیرونی جماعتوں کو مندرجہ ذیل تار دے کر اس کا افتتاح فرمایا.حضور نے محض رسمی افتتاح کی بجائے اس موقع کو بھی وعظ و تربیت کے لئے استعمال فرماتے ہوئے جماعت کے مقصد وحید کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا.خدا تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مرکز قادیان میں تار برقی آجانے کے سبب قادیان کا تعلق بیرونی دنیا کے ساتھ قائم ہو گیا ہے.تار کا یہاں آنا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان پیشگوئیوں کا پورا ہونا ہے جو آپ نے قادیان کی ترقی اور معموری کے لئے فرمائیں.میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتا ہو ا تمام ان شخصوں کو جو احمدی کہلاتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلام کو دنیا میں پھیلانے اور اس مقصدِ وحید کو بہت جلدی پورا کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوششوں اور ہمتوں کو صرف کرنے میں مشغول ہو جائیں کہ جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا." فرمایا :- الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۲۶ء) قادیان میں لاؤڈ سپیکر کی سہولت میسر آئی تو اس پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے حضور نے خدا نے جہاں اجتماع کے ذرائع بہم پہنچائے وہاں لوگوں تک آواز پہنچانے کا ذریعہ بھی اس نے ایجاد کروا دیا اور ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ شکر ہے اس پروردگار کا جس نے اس چھوٹی سی بستی میں جس کا چند سال پہلے کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا اپنے مامور کو
۱۵ مبعوث فرما کر اپنے وعدوں کے مطابق اس کو ہر قسم کی سہولتوں سے متمتع فرمایا.یہاں تک کہ اب ہم اپنی اس مسجد میں بھی وہ آلات دیکھتے ہیں جو لاہور میں بھی لوگوں کو عام طور پر میسر نہیں ہیں اور ابھی تو ابتداء ہے.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی ترقی کہاں تک ہوگی.بالکل ممکن ہے کہ اس آلہ کو ترقی دیگر ایسے ذرائع سے جو آج ہمارے علم میں بھی نہیں میلوں میل یا سینکڑوں میل تک آواز میں پہنچائی جاسکیں.اب وہ دن نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہو سکے الفضل ۱۳.جنوری ۱۹۳۸ء) رور گا.حضور نے اپنی عارفانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے جو پیش خبری بیان فرمائی تھی وہ موجودہ دور میں عالمی مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ MTA کی شکل میں بڑی شان سے پوری ہو رہی ہے اور ہمارے امام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی جگہ پر بیٹھ کر ساری دنیا کو درس و تدریس سے فیض یاب کر رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اشاعت کے جدید ذرائع سے استفاده برابر اوج ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے.خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور جماعتی ترقی کا کسی قدر اندازہ کرنے کے لئے جلسہ سالانہ ایک اچھا ذریعہ ہے.حضرت مصلح موعود نے اس امر کو مختلف پیرایوں میں متعدد مقامات پر بیان فرمایا مثلاً ایک جگہ آپ جلسہ سالانہ میں آنے والوں کی تدریجی ترقی زیادتی ایمان کا باعث قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری جلسہ میں جس کے بعد آپ فوت ہو گئے جلسہ پر آنے والوں کی تعداد سات سو تھی لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے....بعض وقت تو ان کی تعداد چودہ ہزار تک پہنچ جاتی ہے جو اس تعداد سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں تھی دس گنا سے بھی زیادہ ہے.اگر اس قدر ہجوم کو دیکھ کر جو صرف خدا کی خاطر یہاں آتا ہے ایک شخص واقعات سے منہ پھیر کر اور آنکھیں بند کر کے یہ کہہ دے کہ جلسہ پر آنے والوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تو الگ بات ہے ور نہ یہ واقعات ایسے کھلے کھلے ہیں کہ کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش از وقت اس جلسہ کے متعلق خبر دی کہ اس میں کثرت سے لوگ آیا کریں گے اور سب دیکھتے ہیں کہ ہر سال آنے والوں میں ترقی ہو رہی ہے.اس سے ماننا
14 پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی ہر سال ہمارے ایمان کو تازہ کرنے کے لئے پوری ہوتی ہے اور ہر سال اپنی صداقت کا پھل دیتی ہے.؟ الفضل ۲۵ - دسمبر ۱۹۲۵ء) حضرت مصلح موعود نے ۹.نومبر ۱۹۵۶ء کو جلسہ سالانہ کے موضوع پر ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا.جلسہ سالانہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا." ہمارا جلسہ سالانہ تمام عرسوں ، میلوں اور اجتماعوں سے بالکل مختلف ہے اور اس میں حصہ لینا بڑے ثواب کا کام ہے." اس کے بعد آپ نے جلسہ سالانہ کے بعض نہایت اہم فوائد واثرات کا ذکر کرتے ہوئے جلسہ سالانہ کو ایک خدائی نشان قرار دیا اور فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے آپ نے ایک موقع پر ایک بڑی درد ناک بات کہی فرمایا کہ دوست جلسہ پر ضرور آئیں.پتہ نہیں انہیں اگلے سال کے بعد مجھے دیکھنا نصیب ہو یا نہیں.وہ یہاں آئیں گے.تو کم از کم مجھے تو دیکھ لیں گے.ہماری جماعت میں کئی لوگ ایسے ہیں.جن کے دلوں پر اس فقرہ سے ایسی چوٹ لگی کہ انہوں نے اس وقت سے مرکز میں آنا شروع کیا اور اب تک جلسہ سالانہ کے موقع پر ہر سال مرکز میں آرہے ہیں.۱۸۹۲ء میں پہلا سالانہ جلسہ ہوا تھا اور اب ۱۹۵۶ء آگیا ہے.گویا ۶۴ سال ہو گئے.مگر بعض لوگ ایسے ہیں جو ۶۴ سال سے متواتر ہر سال جلسہ سالانہ دیکھتے چلے آئے ہیں.مثلاً کل ہی میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے فوت ہوئے ہیں.انہوں نے ۱۸۹۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.جس پر اب ۶۱ سال گذر چکے ہیں.گویا ۱۸۹۵ء کے بعد انہوں نے اکا سٹھ جلسے دیکھے.ان کے ایک لڑکے نے بتایا کہ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ میں نے جس وقت بیعت کی اس کے قریب زمانہ میں ہی میں نے ایک خواب دیکھا جس میں مجھے اپنی عمر ۴۵ سال بتائی گئی.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور روپڑا اور میں نے کہا.حضور ! بیعت کے بعد تو میرا خیال تھا کہ حضور کے الہاموں اور پیشگوئیوں کے مطابق احمدیت کو جو ترقیات نصیب ہونے والی ہیں انہیں دیکھوں گا.مگر مجھے تو خواب آئی ہے کہ میری عمر صرف ۴۵ سال
16 ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں اللہ تعالٰی کے طریق نرالے ہوتے ہیں.شاید وہ ۴۵ کو ۹۰ کر دے.چنانچہ کل جو وہ فوت ہوئے تو ان کی عمر پورے ۹۰ سال کی تھی.اس طرح احمدیت کو جو ترقیات ملیں.وہ بھی انہوں نے دیکھیں.اور اہ جلسے بھی دیکھے ان کے چار بچے ہیں.جو دین کی خدمت کر رہے ہیں ایک قادیان میں درویش ہو کر بیٹھا ہے.ایک افریقہ میں مبلغ ہے.ایک یہاں مبلغ کا کام کرتا ہے.اور چوتھا لڑ کا مبلغ تو نہیں.مگر وہ اب ربوہ آگیا ہے.اور یہیں کام کرتا ہے.پہلے قادیان میں کام کرتا تھا.لیکن اگر کوئی شخص مرکز میں رہے اور اس کی ترقی کا موجب ہو تو وہ بھی ایک رنگ میں خدمت دین ہی کرتا ہے.پھر ان کی ایک بیٹی بھی ایک واقف زندگی کو بیاہی ہوئی ہے.باقی بیٹیوں کا مجھے علم نہیں بہر حال انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک خدا تعالیٰ کا نشان دیکھا.جب ۴۵ سال کے بعد چھیالیسواں سال گذرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالیٰ کا ایک نشان دیکھ لیا ہے میں نے تو پینتالیس کی عمر میں مر جانا تھا.مگر اب ایک سال جو بڑھا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھا ہے.جب چھیالیسویں کے بعد سینتالیسواں سال گذرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے.میں نے خدا تعالٰی کا ایک اور نشان دیکھ لیا ہے میں نے تو پینتالیس کی عمر میں مرجانا تھا مگر اب دو سال جو بڑھے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھے ہیں.جب سینتالیسویں سال کے بعد اڑتالیسواں سال گذرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالیٰ کا ایک اور نشان دیکھ لیا ہے.میں نے تو پینتالیس سال کی عمر میں مر جانا تھا.مگر اب تین سال جو بڑھے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھتے ہیں اور جب انچاسویں سال کے بعد پچاسواں سال گذرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے.میں نے تو ۴۵ سال کی عمر میں مر جانا تھا اب یہ پچاسواں سال گذر گیا ہے تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق گذرا ہے.گویا وہ ۴۵ سال تک برابر ہر سال یہ کہتے ہوں گے کہ میں نے خدا تعالیٰ کا نشان دیکھ لیا.اور ہر سال جلسہ سالانہ پر ہزاروں ہزار احمدیوں کو آتا دیکھ کر ان کا ایمان بڑھتا ہو گا." حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی منشاء اور مشیت کے مطابق جلسہ سالانہ کا آغاز
۱۸ کرتے ہوئے فرمایا تھا.اس جلسہ کو معمولی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلاء کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں." اشتہارے.دسمبر ۱۸۹۲ء) حضور کامذ کورہ بالا ارشاد پیش کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں.پس اس جلسہ میں شمولیت بڑے ثواب کا موجب ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دوستوں کو اس امر کی توفیق عطا فرمادے کہ وہ پہلے سے کئی گنا زیادہ تعداد میں جلسہ پر آئیں اور پہلے سے کئی گنا زیادہ اخلاص لے کر جائیں اور پھر وہ خود بھی اور ان کی بیویاں بھی اور ان کے بچے بھی ایسا ایمان اپنے اندر پیدا کریں جو پہاڑ سے بھی زیادہ بلند ہو اور دنیا کی کوئی محبت اور تعلق اس محبت اور تعلق کے مقابلہ میں نہ گھر سکے جو انہیں سلسلہ اور اسلام سے ہو.آمین." (الفضل ۱۸.نومبر ۱۹۵۶ء) سالانہ جلسوں کے کوائف و تفاصیل کا بہ نظر غور جائزہ لیا جائے تو ہر جلسہ بے شمار خدائی نشانوں اور تائید و نصرت کا جلوہ و اظهار نظر آتا ہے.اس جگہ ایسا تفصیلی جائزہ پیش کرنا ممکن نہیں ہے تاہم تاریخ احمدیت کا ایک غیر معمولی جلسہ جو جلسہ خلافت جوبلی کے نام سے مشہور ہوا کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اس کی کسی قدر تفصیل آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہے.خلافت ثانیہ کی نعمت عظمی.خدائی تائید و نصرت جلسہ خلافت جو بلی.جلسہ شکر و امتنان کے حصول کا ذریعہ اور جماعتی اتحاد و یک جہتی کی حبل اللہ کا پچیس سالہ کامیاب دور پورا ہونے پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ذہن میں یہ تجویز آئی کہ دنیوی حکومتیں اور لیڈر سلور جوبلی اور گولڈن جوبلی وغیرہ مناتے ہیں مگر ہمیں تو خلافت جیسی نعمت حاصل ہے.جس کا بدل اور جس کی مثال اس وقت نہ کسی جمهوری خلافت و حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی کسی مذہبی گروہ یا جماعت کو حاصل ہے اور ہمارا قائد و راہنما بھی اپنی مثال آپ ہے.لہذا خلافت ثانیہ کے پچیس سال اور قیام سلسلہ کے پچاس سال پورے ہونے پر تحدیث نعمت اور اظہار تشکر منایا جائے.آپ فرماتے ہیں جب اس سلسلہ میں بعض دوستوں سے ذکر ہوا تو انہوں نے نہ صرف اس تجویز کو پسند کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ ان کے ذہن میں بھی یہ بات
19 رہی تھی مگر کوئی معین تجویز ذہن میں نہیں آئی تھی کہ اس عظیم احسان پر اظہار تشکر کا طریق کیا ہو.حضرت چوہدری صاحب فرماتے ہیں.” جب میں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں عرض کیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی کوئی تحریک حضور کی اجازت کے بغیر نہیں ہونی چاہئے جس میں جماعت مخاطب ہو تو حضور نے میری درخواست قبول کرتے ہوئے مجھے اس امر کی اجازت دی کہ میں اسے جماعت کے سامنے پیش کروں." اس تحریک کے مالی پہلو کے متعلق تحریک کرتے ہوئے حضرت چوہدری صاحب نے فرمایا.اب میں مختصر ا پہلے حصہ کے متعلق تحریک کرتا ہوں کہ جن احباب کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ ایک ہزار کی رقم اپنے ذمہ لیں.اور مارچ ۱۹۳۹ء تک یعنی پندرہ ماہ کے عرصہ میں بھجوا دیں.تحریک کا دوسرا حصہ عام ہے اور وہ دو لاکھ روپے کی فراہمی سے تعلق رکھتا ہے.اس وقت میں اس کو بھی پیش کرتا ہوں تاکہ احباب جماعت مارچ ۱۹۳۹ء تک اس رنگ میں جو عشقیہ ہے اور جس میں وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے عظیم الشان نعمت انہیں دی ہے.اس پر ۱۹۳۹ء کے مارچ میں پورے پچیس سال ہو جائیں گے اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور شکر کے طور پر دو لاکھ روپے کی رقم پیش کریں." (الفضل ۲۷.دسمبر۷ ۱۹۳ء) اس موقع کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت چوہدری صاحب فرماتے ہیں.یہ عجیب اتفاق ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ آئندہ سال ہمیں وہ تین نوع کی خوشیوں کا موقع عطا فرمانے والا ہے.پہلی خوشی تو یہ ہے کہ خلافت ثانیہ کا عہد مبارک آئندہ مارچ یعنی ۱۹۳۹ء میں پچیس سال کا ہو گا.انشاء اللہ تعالی.دوسری یہ کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی کی عمر کے پچاس سال بھی آئندہ سال پورے ہوں گے.کیونکہ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء آپ کی پیدائش کا دن ہے اور پچاس سال بھی جو بلی کا موقع ہوتا ہے.اس کے علاوہ ایک تیسری بات بھی ہے......کہ آئندہ سال خود سلسلہ کے قیام پر بھی پچاس سال پورے ہو جائیں گے.ہمارے ذہن میں تو پچیس سالہ جو بلی ہی تھی لیکن یہ محسن اتفاق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے اخلاص کی قبولیت اور اس کے متعلق خوشنودی کا اظہار ہے کہ ہمارے لئے ایک کی بجائے تین جو بلیاں آنے والی ہیں." (الفضل یکم مئی ۱۹۳۸ء)
۲۰ اس تقریب کے متعلق غور و فکر کر کے ایک معین لائحہ عمل تجویز وگرام خلافت جوبلی کرنے کیلئے مندرجہ ذیل حضرات پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی گئی.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ، حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب ، حضرت مولانا عبدالرحیم در د صاحب.اس کمیٹی کے صدر حضرت میر صاحب اور سیکرٹری حضرت درد صاحب تھے.مجلس مشاورت میں ایک سب کمیٹی نظارت علیا کی تجاویز پر غور کرنے کیلئے تجویز ہوئی اس میں مذکورہ بالا کمیٹی کی سفارشات پیش ہو ئیں.سب کمیٹی شوری نے خوب غور و فکر کرنے کے بعد معمولی رد و بدل کے ساتھ اپنی سفارشات حضور کی خدمت میں بغرض منظوری پیش کر دیں.ان سفارشات کا خلاصہ درج ذیل ہے.ا.جلسہ سالانہ ۱۹۳۹ء کو جو بلی کیلئے مخصوص کر دیا جائے.جوبلی کے جلسہ میں ہندوستان و بیرونی جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں.الفضل کا خاص نمبر نکالا جائے.، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی نایاب تصنیفات کو مناسب " پر شائع کیا جائے.۵.قادیان میں ایک مکمل لائبریری بنائی جاوے.۶.سلسلہ احمدیہ کی ترقیات کا خوبصورت چارٹ تیار کیا جائے.ے.جماعت احمدیہ کا مناسب جھنڈا تیار کیا جائے..ایک پاکیزہ مشاعرہ منعقد کیا جائے.۹.ایک عظیم الشان جلوس نکالا جائے.۱۰ تمام مساجد منارة المسیح بہشتی مقبره قصر خلافت اور دوسری عمارات پر چراغاں کیا جائے.مرکزی لجنہ کا بھی جلسہ منعقد ہو اور اس کے ساتھ صنعتی نمائش بھی ہو.تقطيع ۱۲.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریروں کے علاوہ شان محمود نظام خلافت، برکات خلافت پر تقاریر ہوں.۱۳.ہر ایک جماعت اپنا اپنا جھنڈ اتیار کر کے ہمراہ لائے.۱۴.مختلف ادارے ورزشی مقابلہ جات وغیرہ کروانا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے.
۱۵.ان تقریبات کی فلم تیار کی جائے.۱.ریڈیو کے ذریعہ حضور کی تقریر.۱۷.مختلف جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کئے جاویں.۱۸.خلافت جوبلی فنڈ کا چیک حضور کی خدمت میں پیش کیا جاوے.19.ایک کمیٹی ان انتظامات کی نگرانی کرے.بعض انتظامی فیصلے اور سفارشات بھی رپورٹ میں شامل تھیں.حضرت مصلح موعود نے ان سفارشات پر مصلحانہ بصیرت و عرفان کے مطابق اپنے مخصوص انداز میں سیر حاصل تبصرہ فرمایا جس میں بنیادی نکتہ تو یہ تھا کہ ایک ایسی تقریب جو اپنی نوعیت کی پہلی تقریب ہے ہمیں ایسے رنگ میں منانی چاہئے کہ اس میں کوئی بات فضول نہ ہو." ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحہ ۷۳) اس بصیرت افروز تقریر کے بعض اقتباسات جن میں لوائے احمدیت جلوس مشاعرہ اور چراغاں کے متعلق بیش قیمت ہدایات دی گئی تھیں درج ذیل ہیں.یہ تو ثابت ہے کہ رسول کریم میں ایک سوال کا جھنڈا قائم لوائے احمدیت کے متعلق رہنمائی رکھا جاتا تھا.بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ اب تک ترکوں کے پاس رسول کریم میں لی لی ولی کا جھنڈا ا موجود ہے.یہ صحیح ہو یا نہ ہو.بہر حال ایک لمبے عرصہ تک مسلمانوں کے پاس جھنڈا قائم رہا اس لئے اس زمانہ میں بھی جو احمدیت کا ابتدائی زمانہ ہے ایسے جھنڈے کا بنایا جانا اور قومی نشان قرار دیتا جماعت کے اندر خاص قومی جوش کے پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے.احادیث سے جلوس کا جواز ثابت کرنے اور اس بارہ میں حضرت جلوس کے متعلق ہدایت مسیح موعود علیہ السلام کی پسندیدگی کا ذکر کرنے کے بعد حضور نے اصولی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا." کے........ہمارے ہاں جلوس کا طریق غلط ہے اسے تماشہ بنالیا جاتا ہے.بجائے سنجیدہ بنانے..میں سب کمیٹی کی تجویز کو اس شرط پر منظور کرتا ہوں کہ وقار اسلامی کو مد نظر رکھا جائے.ایسا طریق اختیار کیا جائے جس سے احمدیت کی شوکت کا اظہار ہو اور ایسانہ
ہو جس سے اس کے وقار کو صدمہ ہو".فلم تیار کرنے کی تجویز کو اس زمانہ کے حالات کے مطابق حضور نے غیر پسندیدہ قرار دیتے ہوئے نا منظور فرمایا.موجودہ حالات میں میری رائے یہی ہے کہ مشاعروں میں تکلف مشاعرہ کے متعلق ہدایت زیادہ پایا جاتا ہے اس لئے بجائے اس کے عام تحریک کر دینی چاہئے کہ دوست شعر کہیں اس طرح جو نظمیں آئیں ان کو تقریروں کے دوران میں ہی پڑھنے کا موقع دے دیا جائے.(یہ نظمیں بلاوجہ لمبی نہ ہوں) خلاف ادب مضامین ان میں نہ ہوں.خلاف علم نہ ہوں اور صرف وہی نظمیں پڑھنے کی اجازت دی جائے جو دینی جوش کے ماتحت کہی گئی ہوں." (رپورٹ مشاورت ۱۹۳۹ء) میں ہی فیصلہ کرتاہوں کہ منارة المسیح پر روشنی کا انتظام چراغاں کے متعلق ہدایت کرایا جائے تا اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی روشنی کو جو بڑھایا ہے اس کا ظاہری طور پر بھی اظہار ہو جائے.باقی اس موقع پر صدقہ و خیرات کر دیا جائے اور چونکہ قادیان کے غریب احمدی تو لنگر خانہ سے کھانا کھائیں گے اس لئے یہاں صدقہ کیا جائے وہ ان غیر احمد یوں بلکہ ہندوؤں اور سکھوں کو بھی دیا جائے.اس بابرکت موقع پر پہلی دفعہ لوائے احمدیت لہرایا گیا.جھنڈے کی تیاری کے سلسلہ میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت و عقیدت اور رفقائے حضرت مسیح موعود کی عزت و تکریم کی ایک بہت ہی پیاری اور نادر مثال قائم کرتے ہوئے یہ طریق اختیار فرمایا کہ: " میرا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے پیسہ پیسہ یا دھیلہ دھیلہ کر کے ایک مختصر ی رقم لے کر اس سے روئی خریدی جائے اور صحابیات کو دی جائے کہ وہ اس کو کا تیں اور اس سوت سے صحابی درزی کپڑا تیار کریں.اسی طرح صحابہ ہی اچھی سی لکڑی تراش کر لائیں پھر اس کو جماعت کے نمائندوں کے سپرد کر دیا جائے کہ یہ ہمارا پہلا قومی جھنڈا ہے اس طرح جماعت کی روایات اس سے اس طرح وابستہ ہو جائیں گی کہ آئندہ آنے والے لوگ اس کے لئے ہر قربانی کیلئے تیار رہیں گے." (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء)
۲۳ اس غرض سے حضور نے مندرجہ ذیل بزرگان جماعت کی ایک کمیٹی مقرر فرمائی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت میر محمد اسحاق صاحب ، حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا نامہ احمد صاحب.حضور کے منشاء اور ہدایات کے مطابق اس کمیٹی نے یہ انتظام کیا کہ نوائے احمدیت کے کپز - تیاری یعنی کپاس کی کاشت وغیرہ بھی حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے ذریعہ ہو.چنانچہ کپاس کی تیاری ، سوت کی تیاری کپڑے کی تیاری جھنڈے کی تیاری ، جھنڈ الہرانے کے لئے پول کی تیاری تمام کام خوش قسمت صحا مہ اور صحابیات کے ہاتھوں سے مکمل ہوئے.اس سلسلہ میں جو اخراجات ہوئے وہ بھی صحابہ کے چندہ سے نہیں کئے گئے تھے.اپنی نوعیت کا منفرد اور نرالا جھنڈا جس کا رنگ سیاہ درمیان میں منارۃ المسیح ایک طرف بدر (پورا چاند ) اور دوسری طرف بلال کی شکل سفید رنگ میں بنائی گئی تھی.اس جھنڈے کا سائز 8 X 9 اور اس کا پول 2 6 فٹ اونچا پائپ تھا.روئیداد جلسہ خلافت جوبلی کے مطابق حضور نے یہ تاریخی علم رَبَّنَا تَقَبَّلَ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ کی دعا کی گونج میں قریباً ۲ کے بعد دو پہر لہرایا.اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس جھنڈے کے ساتھ ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ نے بھی اپنا جھنڈا اتیار کروایا.یہ جھنڈ ابھی سیاہ رنگ کا تھا اس پر چھ سفید دھاریاں اور اطراف میں سفید رنگ میں بدر اور بلال کا نشان ہے.یہ جھنڈا بھی حضور نے لوائے احمدیت انے کے بعد اس مجمع میں نہایا.اس جلسہ پر حضور نے خواتین کا جھنڈا ان کے جلسہ گاہ میں جاکر لہرایا.یہ جھنڈا پونے چار گز لمبا اور سوا دو گز چوڑا تھا اور اس کے بانس کی اونچائی ۳۵ فٹ تھی.اس جھنڈے کا رنگ بھی سیاہ تھا اور نقوش لوا.کے احمد بیت والے ہی تھے.اس موقع پر حضور نے جھنڈے کی اہمیت و حفاظت کے متعلق خصوصی ہدایات بھی جاری فرمائیں.اس پر مسرت تقریب پر حضور نے جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے کیلئے جو لیا اس کے الفاظ یہ تھے."1 میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے.اسلام اور احمدیت کے قیام اور اس کی اشاعت کیلئے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس امر کیلئے ہر ممکن قربانی پیش کروں گا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دو سرے سب دیوں اور سلسلوں پر غالب رہے اور اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہو بلکہ دو سرے سب
۲۴.جھنڈوں سے اونچال را تار ہے.اللَّهُمَّ مِيْنَ - اَللَّهُمَّ أَمِيْنَ اللَّهُمَّ مِيْنَ - رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ( روئیداد جلسه خلافت جو بلی) خلافت جوبلی کی خوشی میں منارۃ المسیح پر چراغاں کیا گیا.۲۸.دسمبر ۱۹۳۹ء کو تمام جماعتیں اپنی اپنی قیام گاہ سے جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہو ئیں.ہر جماعت نے اپنا جھنڈا اٹھا رکھا تھا.جس پر جماعت کا نام اور مختلف دعائیہ فقرات لکھے ہوئے تھے اور عجیب جذ بہ وارفتگی کے ساتھ در کمین کے اشعار وغیرہ پڑھتے ہوئے جلسہ گاہ میں اپنی اپنی جگہ پر بیٹھتے گئے.ایسے جھنڈوں کی تعداد قریباً ڈیڑھ سو تھی.دس بج کر پچاس منٹ پر جان جلسہ ، رونق قادیان حضرت خلیفہ المسیح سٹیج پر تشریف لائے.حاضرین کی کثرت اور اشتیاق کے پیش نظر سنج پر لگا ہوا شامیانہ اُتار دیا گیا تادور و نزدیک بیٹھے ہوئے احباب بآسانی زیارت کر سکیں.حضرت صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس کو اس مبارک تاریخی جلسہ میں تلاوت کلام پاک اور جناب حافظ شفیق احمد صاحب کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی دعائیہ نظم آمین کے اشعار پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی.اس کے بعد حضور کی خدمت میں ایڈریسز پیش کئے گئے.اس با برکت تقریب پر مندرجہ ذیل ایڈریسز پیش کئے گئے.ا.حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال- صد را انجمن احمدیہ ۲.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب.جماعتہائے ہندوستان ۳.جناب پروفیسر عطاء الرحمن صاحب (انگریزی).جماعتہائے آسام ۴.خان بهادر چوہدری ابو الهاشم خان صاحب (انگریزی).جماعتہائے بنگال ۵.حضرت حکیم خلیل احمد صاحب (انگریزی).جماعتہائے صوبہ بہار.حضرت قاضی محمد یوسف خان صاحب.جماعتہائے صوبہ سرحد ے.جناب میاں عبد المنان صاحب عمر احمدی طلبہ علی گڑھ.جناب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی.آل انڈیا نیشنل لیگ ۹ مکرم چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر.مجلس خدام الاحمدیہ ۱۰.مسٹر غلام حسین صاحب افریقن (سواحیلی).جماعتہائے مشرقی افریقہ.مکرم حاجی جنود اللہ صاحب آف ترکستان).جماعتہائے چینی ترکستان ۱۲.السید عبد العزیز د مشقی (عربی).جماعتہائے بلاد عربیہ
۲۵ ۱۳.مسٹر محمد زہدی صاحب (ملایا ).جماعتہائے احمد یہ سنگا پور ملایا ۱۴.جناب مولوی احمد سروی صاحب ( سماٹری ) جماعتہائے جزائر شرق الہند (الفضل ۳.جنوری ۱۹۴۰ء ) اس کے علاوہ بیرونی جماعتوں کی طرف سے ایک بڑی تعداد میں تاروں کے ذریعہ مبارکباد پیش کی گئی.قادیان کی ہندو آبادی نے بھی اپنے رنگ میں اظہار عقیدت کیا اور جماعت کی خوشی میں شامل ہوئے.خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا یہ عجیب نشان بھی اس جلسہ میں نظر آیا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ کے ایام میں اپنی انتظامی مصروفیات اور احباب جماعت سے ملاقات کے علاوہ بارہ تقاریر ارشاد فرمائیں جن میں سے ایک تقریر مسلسل چار گھنٹے اور دوسری تقریر مسلسل ساڑھے تین گھنٹے اور ایک تین گھنٹہ کی تھی.غیر معمولی اہمیت کے اس تاریخی جلسہ کی افتتاحی تقریر کیلئے حضور انور حاضرین کے نعرہ ہائے تکبیر اور دوسرے قومی نعروں کی گونج میں تشریف لائے.تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.” میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کر رہا تھا اور ابھی پہلی ہی آیت میں نے پڑھی تھی کہ میری نگاہ سامنے تعلیم الاسلام ہائی سکول پر پڑی اور مجھے وہ نظارہ یاد آگیا جو آج سے ۲۵ سال پہلے اس وقت رونما ہوا تھا جب جماعت میں اختلاف پیدا ہوا تھا اور عمائد کہلانے والے احمدی جن کے ہاتھوں میں سلسلہ کا نظم و نسق تھا انہوں نے اپنے تعلقات ہم سے قطع کر لئے اور گویا اس طرح خفگی کا اظہار کیا کہ اگر تم ہمارے منشاء کے ماتحت نہیں چلتے تو لو کام کو خود سنبھال لو ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جو اب فوت ہو چکے ہیں اس مدرسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جاتے ہیں اور تم دیکھ لو گے کہ اس جگہ پر دس سال کے اندر اندر احمدیت نابود ہو کر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا.اس کے بعد وہ دس سال گزرے.پھر ان کے اوپر دس سال اور گزر گئے.پھر ان پر چھ سال اور گزر گئے.لیکن اگر اس وقت چند سو آدمی احمدیت کا نام لینے والے یہاں جمع ہوتے تھے تو آج یہاں ہزاروں جمع ہیں اور ان سے بھی زیادہ جمع ہیں جو اس وقت ہمارے رجسٹروں میں لکھے ہوئے تھے اور اس لئے جمع ہیں
تاکہ خدائے واحد کی تسبیح و تمجید کریں اور اس کے نام کو بلند کریں.یہاں عیسائیت کا قبضہ بتانے والا مر گیا اور اس کے ساتھی بھی مرگئے.ان کا واسطہ خدا تعالیٰ سے جاپڑ اگر احمدیت زندہ رہی.زندہ ہے اور زندہ رہے گی.دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہ سکی اور نہ مٹا سکے گی.عیسائیت کی کیا طاقت ہے کہ یہاں قبضہ جمائے.عیسائیت تو ہمارا شکار ہے اور عیسائیت کے ممالک ہمارے شکار ہیں.عیسائیت ہمارے مقابلہ میں گرے گی اور ہم انشاء اللہ فتح پائیں گے.وہ دن گئے جب مریم کا بیٹا خدا کہلاتا تھا.مریم کے جسمانی بیٹے کو انیس سو سال تک دنیا میں خدا کی توحید کے مقابلہ میں کھڑا کیا گیا.اور بہتوں کو خدا تعالیٰ کی توحید سے پھر ا دیا گیا.مگر اب جو مریم کا روحانی بیٹا خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت زمین میں اسی طرح قائم کرے گا جس طرح اس کی بادشاہت آسمان پر قائم ہے.آج ہم اس جگہ پھر جمع ہوئے ہیں اس لئے کہ اپنی عقیدت اور اپنا اخلاص اپنے رب سے ظاہر کریں اور دنیا کو بتا دیں کہ احمدیت خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر متفقہ جد وجہد کرنے کیلئے کھڑی ہے اور خدا تعالیٰ کے دین کیلئے ہر ممکن قربانی کرنے کیلئے آمادہ ہے.احمدی کہلانے والے پھر ایک دفعہ یہاں جمع ہوئے ہیں اس لئے کہ ان کا ایک دو سرے کے گھر جا کر ایک دوسرے کے متعلق یہ دیکھنا مشکل ہے کہ ان کا کیا حال ہے.لاہور کے کسی بازار میں اتفاقا ایک احمدی دوسرے احمدی کو دو سال بعد دیکھتا تو اسے خیال پیدا ہو تا کہ وہ مرتد تو نہیں ہو گیا.اسی طرح چند سال کے بعد ایک احمدی دوسرے احمدی کو امر تسر کے بازار میں دیکھتا تو خیال کرتا نہ معلوم احمدیت سے اس کا تعلق ہے یا نہیں مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ احمدی ہر سال مرکز میں جمع ہوں زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوں اور مخالفین سے یہ کہتے ہوئے جمع ہوں کہ دیکھ لو خداتعالی زیادہ سے زیادہ احمدیت کو ترقی دے رہا ہے.کہنے والے کہتے ہیں کہ ہم قادیان کے فاتح ہیں ، ہم قادیان کو مٹادیں گے مگر وہ آئیں اور دیکھیں کہ ان کے مٹانے سے کس طرح احمدیت بڑھ رہی ہے.بچپن میں ہم ایک قصہ سنا کرتے تھے اور اسے لغو سمجھتے تھے مگر روحانی دنیا میں وہ درست ثابت ہوتا ہے.کہا جاتا کوئی دیو تھا.اسے جب قتل کیا جاتا تو اس کے خون کے
۲۷ جتنے قطرے گرتے اتنے ہی اور دیو پیدا ہو جاتے.معلوم ہو تا ہے انبیاء کی جماعتوں کا ہی یہ نقشہ کھینچا گیا ہے کیونکہ انہیں جتنا کچلا جائے ، جتنا دبایا جائے اتنی ہی بڑھتی ہیں اور جتنا گر ایا جائے اتنی ہی زیادہ ترقی کرتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہر ملک ہر علاقہ اور ہر میدان میں احمدیت کی ترقی کے سامان کر دیئے ہیں اور احمدیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور نئے نئے ممالک میں احمدی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں.سیرالیون سے جو مغربی افریقہ میں ہے حال ہی میں اطلاع موصول ہوئی ہے.اس کے متعلق کسی قدر تفصیلی حالات تو اگلے لیکچر میں بیان کروں گا.اتنا بیان کر دینا اس وقت مناسب ہے کہ اس جگہ سال بھر سے ایک مبلغ بھیج دیا گیا تھا.وہاں شروع میں حکومت نے بھی مخالفت کی اور غیر مبالغین کا اثر بھی ہمارے خلاف کام کر رہا تھا مگر پرسوں وہاں کے مبلغ کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ وہاں کے دو رئیس پانچ سو آدمیوں کے ساتھ احمدی ہو گئے ہیں.تو خدا تعالیٰ اپنے فضل يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ افَوَاجًا کے نظارے دکھا رہا ہے.اور ابھی یہ کیا ہے.پنجابی میں جسے ونگی کہا جاتا ہے.وہ یہ ہے یعنی ایک دکاندار کے پاس جاؤ تو وہ نمونہ کے طور پر تھوڑی سی چیز دکھاتا ہے کہ دیکھو کیسی اچھی ہے.پس یہ تو و نگی ہے جو اللہ تعالیٰ جماعت کو دکھا رہا ہے.ورنہ جماعت کے لئے بہت بڑی بڑی فتوحات مقدر میں جو ضہور حاصل ہونگی.پس آؤ دین کی خدمت کرنے کا مخلصانہ وعدہ کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح خدا تعالیٰ کے فضل کے خزانے تمہارے لئے کھولے جاتے ہیں....اس وقت میں جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس نے اپنی رحمتیں اور افضال جو اس وقت تک کئے آئندہ ان سے بڑھ کر فرمائے تاکہ ہماری حقیر کو ششیں بار آور ہوں اور ہم اس کے فضلوں کے پہلے سے زیادہ مور د ہوں.وہ ہماری کوششوں میں برکت دے تاکہ دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت پھیل جائے اور احمدیت کو ہر جگہ غلبہ اور شوکت عطا فرمائے.پھر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق نہ دے کہ جب ہم میں طاقت اور غلبہ آئے تو ہم ظالم بن جائیں ست اور عیش پرست ہو جائیں بلکہ پہلے سے زیادہ متواضع پہلے سے زیادہ رحم دل اور پہلے سے زیادہ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کرنے والے ہوں.مسیح کا یہ کہنا کہ
۲۸ اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں سے گزر جانا آسان ہے لیکن دولت مند کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہو نا مشکل ہے غلط ہے.اسلام یہ کہتا ہے کہ عزت اور شوکت اور غلبہ اور طاقت چاہو اور خدا تعالیٰ جو دنیوی انعامات دے ان کو قبول کرو لیکن اس عزت اس دولت اور اس طاقت کو خدا کے لئے اور اس کی مخلوق کی بھلائی اور بہتری کیلئے استعمال کرو.پس میں یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ ہمیں عزتیں، طاقتیں اور شوکتیں نہ دے جو اس نے پہلے نبیوں کی جماعتوں کو دیں کیونکہ یہ ناشکری ہے مگر یہ دعا کرو کہ جب وہ اپنے فضل و کرم سے ترقیاں عطا کرے اور انعامات نازل کرے تو احمدی ان احسانوں کی قدر کریں اور اللہ تعالی کے لئے اس کے دین کی اشاعت کے لئے اور اس کی مخلوق کی بھلائی کے لئے خرچ کریں.پھر یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ہمیشہ فتنوں سے محفوظ رکھے اور جب کوئی فتنہ پیدا ہو تو اس پر غلبہ عطا کرے.دشمنوں کی تدبیروں کو ناکام اور خائب و خاسر رکھے.پھر یہ دعا کرو کہ خدا تعالیٰ ہمارے اعمال میں اصلاح اور برکت پیدا کرے کیونکہ جب تک نیک ارادہ کے ساتھ اعمال کی اصلاح نہیں ہوتی کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی.پھر ان مبلغین کے لئے دعا کرو جن کے دل چاہتے تھے کہ آج ہمارے ساتھ ہوتے اور خدا تعالی کے اس نشان کو دیکھتے جو احمدیت کی ترقی کا اس نے ظاہر کیا ہے مگر خد اتعالیٰ کے کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے نہیں آسکے.وہ گو جسمانی طور پر ہم سے دور ہیں لیکن ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں.کئی ہیں جو ہمارے قریب بیٹھے ہیں اور ان کے دل دور ہیں مگر وہ جو دور بیٹھے ہیں وہ ہمارے دل میں ہیں.ہمارے دماغ میں ہیں ہماری محبت ان کے لئے ہے اور ہم ان کے لئے دعا گو ہیں.پھر اپنی اولادوں کے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو دین کا خادم بنائے.ان میں نسلاً بعد نسل احمدیت کو اس طرح قائم رکھے کہ وہ دین کے مخلص خدمتگار ہوں.خدا تعالیٰ ان سے خوش ہو اور وہ خدا تعالیٰ سے خوش ہوں اور اس کی برکتوں کے ابدی وارث بنیں." روزنامه الفضل قادیان ۳- جنوری ۱۹۴۰ء) شکرانے اور عزم نو کے جلسہ خلافت جوبلی کے آخری روز حضور نے آیت استخلاف کی روشنی میں مسئلہ خلافت پر بصیرت افروز خطاب کرتے ہوئے فرمایا.
۲۹ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحت میں بتایا گیا ہے کہ جب تک قوم کی اکثریت میں ایمان اور عمل صالح رہتا ہے ان میں خلافت کا نظام موجود رہتا ہے.اب دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا ہماری جماعت کی شہرت نیک ہے اور کیا ہماری جماعت کے افراد کی اکثریت عمل صالح رکھتی ہے؟ اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں.یہ بات ہر شخص پر ظاہر ہے کہ جماعت کی شہرت نیک ہے اور جماعت کی اکثریت عمل صالح پر قائم ہے.پس جب ایمان اور عمل صالح کی یہ حالت ہے تو خلافت کا وعدہ بھی ضرور پورا ہونا چاہیئے.دوسری بات اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے که كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِم يعنی جس طرح پہلے خلفاء ہوئے اسی طرح امت محمدیہ میں خلفاء ہوں گے.مطلب یہ کہ جس طرح پہلے خلفاء الہی طاقت سے بنے اور کوئی ان کی خلافت کا مقابلہ نہ کر سکا اسی طرح اب ہو گا سو میری خلافت کے ذریعہ یہ علامت بھی پوری ہوئی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خلافت کے وقت صرف بیرونی اعداء کا خوف تھا مگر میری خلافت کے وقت اندرونی اعداء کا خوف بھی اس کے ساتھ شامل ہو گیا.پھر حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی حکیم الامت اور بہت سے القاب سے ملقب کیا جاتا تھا مگر میں نہ عربی کا عالم تھا نہ انگریزی کا عالم نہ ایسا فن جانتا تھا جو لوگوں کی توجہ اپنی طرف پھر ا سکے نہ جماعت میں مجھے کوئی عمدہ اور رسوخ حاصل تھا ایسے حالات میں خدا تعالیٰ نے اس شخص کو خلافت کے لئے چنا جسے جاہل کہا جاتا تھا، جسے کو دن قرار دیا جاتا تھا اور جس کے متعلق یہ علی الاعلان کہا جاتا تھا کہ وہ جماعت کو تباہ کر دے گا.مگر ہو تا کیا ہے وہی بچہ جب خدا کی طرف سے خلافت کے تخت پر بیٹھتا ہے تو جس طرح شیر بکریوں پر حملہ کرتا ہے اسی طرح خدا کا وہ شیر دنیا پر حملہ آور ہوا اور اس نے ایک یہاں سے اور ایک وہاں سے ایک مشرق سے اور ایک مغرب سے ایک شمال سے اور ایک جنوب سے بھیڑیں اور بکریاں پکڑ پکڑ کر خدا کے مسیح کی قربانگاہ پر چڑھا دیں.اس طرح خدا نے مجھ پر قرآنی علوم اس کثرت سے کھولے کہ اب قیامت تک امت مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں سے فائدہ اُٹھائے.چاہے پیغامی ہوں یا مصری.ان کی اولاد میں جب بھی دین کی خدمت کا ارادہ کریں گی وہ اس بات پر مجبور ہونگی کہ میری کتابوں کو پڑھیں.پھر ہر خوف کو خدا نے
میرے ذریعہ سے امن میں بدلا.احرار کا جب زور تھا لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اب جماعت تباہ ہو جائے گی مگر میں نے کہا میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی دیکھتا ہوں اور اس کے بعد احرار کا جو کچھ حال ہو اوہ سب پر ظاہر ہے.آخر میں حضور نے فرمایا." " مجھے اپنے لئے اس بحث کی کوئی ضرورت نہیں کہ کونسی آیت میری خلافت پر چسپاں ہوتی ہے.میرے لئے خدا کے تازہ بتازہ نشانات اور زندہ معجزات اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے.اگر دنیا جہان کی تمام طاقتیں مل کر بھی میری خلافت کو نابود کرنا چاہیں گی تو خدا ان کو مچھر کی طرح مسل دے گا.پس اے مومنوں کی جماعت! اور اے عمل صالح کرنے والو! خلافت خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے.جب تک آپ لوگوں کی اکثریت ایمان اور عمل صالح پر قائم رہے گی خدا اس نعمت کو نازل کرتا جائے گا.پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی سوال نہیں.خلافت اس وقت چھینی جائے گی جب تم بگڑ جاؤ گے.پس اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری مت کرو بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے تم دعاؤں میں لگے رہو تا کہ قدرت ثانیہ کا پے در پے تم میں ظہور ہو تا رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے اس ارشاد کا یہی مطلب تھا.کہ میرے زمانہ میں تم دعا کرو کہ میرے بعد تمہیں پہلی خلافت نصیب ہو اور پہلی خلافت میں دعا کرتے رہو کہ اس کے بعد تمہیں دوسری خلافت ملے اور دوسری خلافت میں دعا کرتے رہو کہ اس کے بعد تمہیں تیسری خلافت ملے اور تیسری خلافت میں دعا کرتے رہو کہ اس کے بعد تمہیں چوتھی خلافت ملے.ایسا نہ ہو کہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت کا دروازہ تم پر بند ہو جائے.پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مشغول رہو.اور اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی اور ہر میدان میں تم مظفر و منصور ر ہو گے.کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے جو اس نے اس آیت میں کیا ہے." اس پُر مسرت و کامیاب جلسہ سالانہ کا اختتام حضور پر نور کی ہمیشہ یاد رہنے والی مندرجہ ذیل پر اثر نصائح پر ہوا.اب جلسہ ختم ہو تا ہے اور احباب اپنے گھروں کو جائیں گے.انہیں احمدیت کی ترقی
۳۱ کیلئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہئے.اولاد پیدا ہونے کے ذریعہ بھی ترقی ہوتی ہے مگر وہ ایسی نہیں جو تبلیغ کے ذریعہ ہوتی ہے.یہ ترقی اولاد کے ذریعہ ہونے والی ترقی سے بڑھ کر بابرکت ہوتی ہے.رسول کریم میں لیلہ و لیلہ نے فرمایا ہے.ایک شخص کا ہدایت پا جانا اس سے زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ کسی کے پاس اس قدر سرخ اونٹ ہوں کہ ان سے دو وادیاں بھر جائیں.پس تبلیغ کرو اور احمدیت کی اشاعت میں منہمک رہو تاکہ تمہاری زندگی میں اسلام اور احمدیت کی شوکت کا زمانہ آجائے.جب کہ سب لوگ احمدی ہو جائیں گے تو پھر رعایا بھی احمدی ہوگی اور بادشاہ بھی احمد ی.میں نے بچپن میں ایک رویا دیکھا تھا.۱۲ ۱۳ سال کی عمر تھی کہ کبڈی ہو رہی ہے.ایک طرف احمدی ہیں اور دوسری طرف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ساتھی.جو شخص کبڈی کہتا ہوا مولوی محمد حسین صاحب کی طرف سے آتا ہے اسے ہم مار لیتے ہیں اور اس میں قاعدہ یہ ہے کہ جو مرجائے وہ دوسری پارٹی کا ہو جائے.اس قاعدہ کی رو سے مولوی صاحب کا جو ساتھی مارا جاتا وہ ہمارا ہو جاتا.مولوی صاحب کے سب کے سب ساتھی اس طرح ہماری طرف آگئے.تو وہ اکیلے رہ گئے اس پر انہوں نے پاس کی دیوار کی طرف منہ کر کے آہستہ آہستہ لکیر کی طرف بڑھنا شروع کیا اور لکیر کے پاس پہنچ کر کہا میں بھی اس طرف آجاتا ہوں اور وہ بھی آگئے.مولوی محمد حسین صاحب سے مراد آئمہ کفر ہیں اور اس طرح بتایا گیا کہ جب عام لوگ احمدی ہو جائیں گے تو وہ بھی ہو جائیں گے اور جب رعایا احمدی ہو جائے گی تو بادشاہ بھی ہو جائیں گے.پس تبلیغ کرو احمدیت کو پھیلاؤ اور دعاؤں میں لگے رہو.دل میں درد پیدا کرو عاجزی، فروتنی اور دیانت داری اختیار کرو اور ہر طرح خدا کے مخلص بندے بننے کی کوشش کرو.اگر کبھی کوئی غلطی ہو جائے تو اس پر اصرار مت کرو کیونکہ جو اپنی غلطی پر اصرار کرتا ہے اس کے اندر سے نور جاتا رہتا ہے.نہ اس کی نمازوں میں لذت رہتی ہے اور نہ دعاؤں میں برکت ، اپنی غلطی پر نادم ہونا اور خدا تعالیٰ کے حضور گریه و زاری کرنا ترقی کا بڑا بھاری گر ہے.پس اگر غلطی کرو تو بھی اور نہ کرو تو بھی خدا تعالیٰ کے حضور جھکو اور اس سے عفو طلب کرو اس طرح مستقل ایمان حاصل ہو جاتا ہے
۳۲ اور اسے تو بہ ٹوٹنے نہیں دیتی.رسول کریم میں ان کی اہلیہ نے فرمایا ہے جب کوئی مومن چوری کرتا ہے یا زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان اس کے سر پر معلق ہو جاتا ہے اور جب وہ ایسا فعل کر چکتا ہے تو پھر اس میں داخل ہو جاتا ہے.اس سے بتایا کہ تو بہ کرنے والے کا ایمان کلی طور پر اسے نہیں چھوڑتا.اس کی غلطی کی وجہ سے نکل جاتا ہے مگر پھر تو بہ کرنے سے لوٹ آتا ہے.پس دعائیں کرتے رہو میرے لئے بھی ، تمام مبلغین کیلئے بھی اور سب احمدیوں کیلئے بھی.بے شک خدا تعالیٰ کے میرے ساتھ وعدے ہیں لیکن میری طاقت تمہارے ذریعہ ہے پس اپنے لئے دعاؤں کرو اور میرے لئے بھی.اب کے تو خلافت جوہلی کی وجہ سے اتنے لوگ جمع ہوئے کوشش کرو کہ جماعت اتنی بڑھ جائے کہ اگلے سال یوں بھی اتنے لوگ جمع ہو سکیں.پھر غیروں کے لئے بھی دعائیں کر د.ان کے متعلق اپنے دلوں میں غصہ نہیں بلکہ رحم پیدا کرو.خدا تعالیٰ کو بھی اس شخص پر رحم آتا ہے جو اپنے دشمن پر رحم کرتا ہے.پس تم اپنے دلوں میں ہر ایک کے متعلق خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرو.انہی دنوں ایک وزیری پٹھان آئے اور کہنے لگے دعا کریں انگریز دفع ہو جائیں.میں نے کہا ہم بد دعا نہیں کرتے.یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے ہو جائیں.پس کسی کے لئے بد دعانہ کرو کسی کے متعلق دل میں غصہ نہ رکھو.بلکہ دعائیں کرو اور کوشش کرو کہ اسلام کی شان و شوکت بڑھے اور ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے..اس موقع پر میں ان لوگوں کیلئے بھی دعا کرتا ہوں جنہوں نے تاروں کے ذریعہ دعاؤں کے لئے لکھا.ان کے نام نہیں پڑھ سکتا.کیونکہ وقت تنگ ہو رہا ہے.آپ لوگ ان کے لئے اور دوسروں کیلئے اور اسلام و احمدیت کیلئے دعا کریں." قادیان اور جماعت کی ترقی برابر جاری تھی.تبلیغ اسلام اور دعوت الی اللہ کا کام روز افزوں تھا.قادیان اور اس کے ماحول میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ "مقامی تبلیغ" کے تجربه کار کارکن سرگرم عمل تھے ، ہندوستان بھر میں تبلیغی جہاد جاری تھا، بیرون ہند بھی تبلیغی سرگرمیاں شروع ہو چکی تھیں، تحریک جدید کے مجاہد نے ولولوں اور عزائم کے ساتھ بیرونی ممالک میں دعوت اسلام کا فریضہ ادا کرنے کیلئے جا رہے تھے ، ایک وقت میں یورپ کیلئے نو مبلغین روانہ ہوئے (۱۸.دسمبر ۱۹۴۵ء) تو ساری دنیا پر یہ تبلیغی بر اثر انداز ہوئی.یورپ کے پریس نے عیسائیت
۳۳ کے موجودہ مرکز کی طرف اسلامی یلغار دیکھ کر تو حیرت کا اظہار کرنا ہی تھا اسلامی پرئیس مثلا مصر کے مشهور مجلہ اخبار " العالم" نے ہمارے مبلغین کی تصاویر نمایاں طور پر شائع کیں اور جماعت کی تبلیغی مساعی کو خراج تحسین پیش کیا.اسی طرح ایک اور اخبار اليوم" نے بھی یہ خبر بڑی تفصیل.شائع کی اور حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب (جو اس زمانہ میں امام مسجد لندن تھے ) کا ایک انٹرویو بھی شائع کیا.ایک اور اخبار الرساله والروایہ " (۴.مارچ ۱۹۴۶ء) نے نہ صرف اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا بلکہ بڑی حسرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ یہ تو ہمارا فرض تھا.نہ جانے ہم اپنا یہ فرض ادا کرنے کے قابل کب ہونگے ؟ (الفضل 11 مئی ۱۹۴۶ء) تعلیمی و تربیتی اغراض سے قادیان اور قادیان کے ماحول میں پرائمری سکولوں کا ایک جال بچھا دیا گیا.احمدیوں کے نیک نمونہ اور خدمت خلق کی وجہ سے سارے علاقہ میں جماعت کا ایک پُر وقار مقام تھا.جماعت کے باہم تعاون و اتحاد کو مثالی رنگ حاصل تھا اور عام لوگ بھی اس سے متاثر تھے اور اس بات کا برملا اعتراف کرتے تھے.جماعتی اثر و رسوخ کا ایک شاندار مظاہر ہ ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں ہوا.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے قومی مفاد میں مسلم لیگ کی پر زور حمایت و امداد کی اور مسلم لیگ بڑی بھاری اکثریت سے مسلم علاقوں میں انتخاب جیت گئی.یاد رہے کہ انہیں انتخابات کے نتیجہ میں پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہو سکی تھی.اس کی تفصیل آئندہ ابواب میں پیش کی جائے گی.
سلام ۳
۳۵ داغ ہجرت
”خدا نے اپنے ہاتھ سے ہماری جماعت کو قائم کیا ہے.خدا اپنے لگائے ہوئے پودے کو دشمن کے ہاتھ سے کبھی تباہ نہیں ہونے دے گا.خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جھنڈا اس ملک میں کبھی نیچا نہیں ہونے دے گا.خدا قرآن کو اس ملک میں کبھی ذلیل نہیں ہونے دے گا.وہ ضرور ان کو پھر عزت بخشے گا اور ان کو فتح و کامرانی عطا کرے گا."
۳۷ داغ ہجرت الہی جماعتوں کی ترقی و استحکام کے لئے ہجرت بھی ایک ضروری مرحلہ ہوتا ہے.قدیم سے خدا تعالیٰ کا یہی طریق ہے اور مذہب کی تاریخ اس بات پر شاہد ناطق ہے.تاہم یہ مرحلہ اپنی ذات میں بہت ہی مشکل کٹھن اور لرزہ خیز ہوتا ہے.خدائی نوشتوں اور اپنی تقدیر کے مطابق ۱۹۴۷ء میں قادیان سے ہجرت اختیار کرنا پڑی.اس کی کسی قدر تفصیل لکھنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عام قاری کی سہولت کے لئے ذیل میں ان اہم امور اور مسائل کی فہرست پیش کر دی جائے جو اس وقت سید نا حضرت فضل عمر کے سامنے تھے.ویسے حضور بچپن سے ہی مخالفت کا سامنا کرتے چلے آرہے تھے بلکہ تاریخ احمدیت سے واقف بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کی مخالفت کا سلسلہ تو آپ کی پیدائش سے بھی قبل شروع ہو گیا تھا اور آپ کو ہمیشہ ہی مخالفت کے طوفانوں میں سے اپنا رستہ بنانا پڑا مگر ہجرت و تقسیم ملک کے وقت بھیانک مشکل مسائل کا ایک ایسا اجتماع ہو ا جس کی نظیر پہلے نہیں ملتی.مثلاً ا.قادیان کی حفاظت.جہاں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمان اور غیر مسلم بھی موجود تھے.۲.قادیان کی آبادی کی حفاظت.۳.قادیان کی آبادی کو متوقع مشکلات و خطرات کے لئے تیار کرنا اور ضروریات مہیا کرنے کا انتظام.۴.علاقے کے غیر از جماعت مسلمانوں سے تعلقات اور ان کی مشکلات میں ہر طرح کی امداد.-۵- قادیان اور علاقہ کے احمدیوں کی ہنگامی حالات کے لئے تربیت.۶.حالات مخدوش ہونے پر قادیان کے باشندوں کی بحفاظت نقل مکانی.۷.پاکستان میں دفاتر ، عملہ ، سامان دفاتر اور سرمایہ کے بغیر نظام جماعت اور افراد جماعت کی خبر گیری.۸.قادیان مشرقی پنجاب سے آمدہ لٹے پٹے مہاجرین کی مناسب دیکھ بھال.
۳۸ مہاجرین کی آباد کاری کا انتظام.۱۰.قادیان سے اکثر آبادی کے انخلاء کے بعد وہاں کی حفاظت کے مسائل.ا.قادیان میں پیچھے رہنے والے خوش قسمت احمدیوں میں جذبہ اور امنگ بر قرار رکھنا.۱۲.قادیان کے درویشوں کے بے سرو سامان اہل و عیال کی پاکستان میں ہر طرح دیکھ بھال.۱۳.قادیان کے درویشوں کی انتہائی مشکل حالات میں تمام ضروریات کا انتظام.۱۴.قادیان میں باہر سے جانے والے بھرے ہوئے زخم خوردہ سکھوں اور ہندوؤں سے تعلقات.۱۵.پاکستان سے جانے والے ہندوؤں اور سکھوں سے صحیح اسلامی اخلاق کا مظاہرہ.۱۶.چندوں ، تبلیغ، تربیت، تعلیم کے کاموں کی از سرنو تنظیم و ابتداء.۱۷.پاکستان میں صد را انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی رجسٹریشن.۱۸.نئے مرکز کے قیام کے بے شمار مشکل مسائل.۱۹.اپنے وسیع خاندان کی تمام ضروریات کی کفالت و راہنمائی.یہ ایک سرسری نظر سے سامنے آنے والے مسائل کی فہرست ہے جن میں سے ہر ایک مسئلہ اپنے اندر بے شمار مسائل و مشکلات و خطرات پر مشتمل تھا مگر...مشکل مرد نیست که آساں عاقل که ہراساں نشود نشود تقسیم ملک اور اس کے نتیجہ میں جو مشکلات پیش آئیں حضور اپنے خدا داد علم و بصیرت کی روشنی میں جماعت کو اس کے لئے پہلے سے تیار کر رہے تھے.آپ فرماتے ہیں.” میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے دس سال میں جو باتیں اپنی جماعت کی ترقی اور دنیا کے تغیرات کے متعلق بتائی تھیں ان کا نتیجہ دنیا کے سامنے آگیا ہے اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ وہ کس طرح لفظ بہ لفظ پوری ہوئی ہیں اور ان کی تفاصیل اس طرح وقوع میں آئی ہیں جس طرح میں نے بیان کی تھیں.اب یہ بات میرے دل میں شیخ کی طرح گڑ گئی ہے که آئنده انداز میں سالوں میں ہماری جماعت کی پیدائش ہوگی ایک فرد کی پیدائش بے شک نو ماہ میں ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ بیس سال کا زمانہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین زمانہ ہے جیسے بچے کی پیدائش کا وقت نازک ترین وقت ہو تا ہے کیونکہ بسا اوقات وقت پورا ہونے کے باوجو د پیدائش کے وقت کسی وجہ سے بچہ
۳۹ کا سانس رُک جاتا ہے اور وہ مُردہ وجود کے طور پر دنیا کے سامنے آتا ہے...اب یہ ہماری قربانی اور ایثار ہی ہوں گے جن کے نتیجہ میں ہم قومی طور پر زندہ پیدا ہوں گے یا مُردہ.اگر ہم نے قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا اور ایثار سے کام لیا اور تقویٰ کی راہوں پر قدم ما را محبت اور کوشش کو اپنا شعار بنایا تو خدا تعالیٰ ہمیں زندہ قوم کی صورت میں پیدا ہونے کی توفیق دے گا اور اگلے مراحل ہمارے لئے آسان کر دے گا." آگے چل کر فرمایا.خوب یا د رکھو جس دن قوم کی قربانی بند ہوئی وہی دن اس قوم کی موت کا ہے...اگر ہم ساری دنیا کو فتح بھی کر لیں پھر بھی ہمیں اپنے ایمان کو سلامت رکھنے اور اپنے ایمان کو ترقی دینے کے لئے قربانیاں کرتے رہنا ہو گا.پس میں جماعت کے دوستوں کو آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جماعت ایک نازک ترین دور میں سے گزرنے والی ہے اس لئے اپنے ایمان کی فکر کرو کسی شخص کا یہ سمجھ لینا کہ دس پندرہ سال کی قربانی نے اس کے ایمان کو محفوظ کر دیا ہے اس کے نفس کا دھوکا ہے.جب تک عزرائیل ایمان والی جان لے کر نہیں جاتا جب تک ایمان والی جان ایمان کی حالت میں ہی عزرائیل کے ہاتھ میں نہیں چلی جاتی اس وقت تک ہم کسی کو محفوظ نہیں کہہ سکتے خواہ وہ شخص کتنی بڑی قربانیاں کر چکا ہو اگر وہ اس مرحلہ میں پیچھے رہ گیا تو اس کی ساری قربانیاں باطل ہو جائیں گی اور وہ سب سے زیادہ ذلیل انسان ہو گا کیونکہ چھت پر چڑھ کر گرنے والا انسان دوسروں سے زیادہ ذلت کا مستحق ہوتا ہے." الفضل ۶.ستمبر ۱۹۴۵ء) حضور کے مندرجہ ذیل بیان سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ آنے والے ہولناک واقعات کو اپنی چشم بصیرت سے دیکھ کر جماعت کو اس کے لئے تیار کر رہے تھے.جن خطرات میں سے اس وقت ملک گزر رہا ہے اور جن خطرات میں سے اس وقت ہماری جماعت گزر رہی ہے ان میں سے جو خطرات ظاہر ہیں وہ سب دوستوں کو معلوم ہیں مگر بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جو آپ لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہیں اور میں ان باتوں کو اس لئے ظاہر نہیں کرتا کہ کہیں کمزور لوگ دل نہ چھوڑ بیٹھیں ورنہ ان دنوں ہماری جماعت ایسے خطرات میں سے گزر رہی ہے کہ ان کے تصور سے مضبوط سے مضبوط
۴۰ انسان کا دل بیٹھ جاتا ہے اور اس کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں.صرف جماعت کے کمزور لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے اور بعض دوسرے مصالح کی وجہ سے میں وہ باتیں پر دہ اختفاء میں رکھتا ہوں.ورنہ ان دنوں میں بعض اوقات ایسے محسوس کرتا ہوں جیسے کسی عظیم الشان محل کی دیواریں نکل جائیں اور اس کی چھت کے سہارے کے لئے ایک سر کنڈا کھڑا کر دیا جائے تو جو حال اس سرکنڈے کا ہو سکتا ہے یہی حال بسا اوقات ان دنوں میں اپنا محسوس کرتا ہوں.وہ بوجھ جو اس وقت مجھ پر پڑ رہا ہے اور وہ خطرات جو جماعت کے مستقبل کے متعلق مجھے نظر آرہے ہیں وہ ایسے ہیں کہ ان کا اظہار ہی مشکل ہے اور ان کا اٹھانا بھی کسی انسان کی طاقت میں نہیں.محض اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے میں اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہوں ور نہ کوئی انسان ایسا نہیں ہو سکتا جس کے کندھے اتنے مضبوط ہوں کہ وہ اس بوجھ کو سہار سکیں اور ان تفکرات کا مقابلہ کر سکیں.ہماری جماعت کے حصے میں تو صرف چندے ہی ہیں تفکرات میں اس کا کوئی حصہ نہیں بلکہ تفکرات ان تک پہنچتے ہی نہیں.جیسے خطرہ کے وقت ماں اپنے بچے کو گود میں سلا لیتی ہے اور سارا بوجھ خود اٹھا لیتی ہے.ایسی ہی حالت اس وقت میری ہے کہ ان خطرات سے جو اس وقت مجھے نظر آرہے ہیں جماعت کو آگاہ نہیں کر سکتا اور سارا بوجھ اپنے پر لے لیتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے کام تو بہر حال خدا تعالیٰ نے ہی سر انجام دینے ہیں جماعت کے لوگوں کو کیوں پریشان کروں.اللہ تعالیٰ نے جس مقام پر مجھے کھڑا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو رتبہ مجھے عطا کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے سب سے پہلا اور آخری ذمہ دار میں ہی ہوں اور جماعت کے بوجھ اُٹھانے کا حق میرا ہی ہے." (الفضل ۲۱.جولائی ۱۹۴۷ء) آنے والے پر مصائب حالات میں ایمان کی حفاظت کے لئے غیر مشروط مکمل اطاعت کی تلقین کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.ہمارے سپرد ایک بہت بڑا کام ہے اور وہ کام کبھی سرانجام نہیں دیا جا سکتا جب تک ہر شخص اپنی جان اس راہ میں لڑا نہ دے.پس تم میں سے ہر شخص خواہ دنیا کا کوئی کام کر رہا ہو اگر وہ اپنا سارا زور اس غرض کے لئے صرف نہیں کر دیتا ، اگر خلیفہ وقت کے حکم پر ہر احمدی اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار نہیں رہتا، اگر اطاعت و فرمانبرداری اور قربانی
اور ایثار ہر وقت اس کے سامنے نہیں رہتا تو اس وقت تک ہماری جماعت ترقی نہیں کر سکتی ہے اور نہ وہ اشخاص مومنوں میں لکھے جاسکتے ہیں.یا د رکھو ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے.....ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں، ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں خدا کے حضور اس کے دعوؤں کی کوئی قیمت نہ ہو گی ، جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لحہ بسر نہیں کرتا وہ کسی قسم کی بڑائی اور فضیلت کا حق دار نہیں ہو سکتا." الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۴۶ء) ان دنوں تمام جماعت کو چاہئے کہ خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں لگ جائے کہ اللہ تعالیٰ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے انصاف سے پیش آنے کی توفیق دے اور ہر ایک قوم دوسری قوم کے متعلق عفو در گذر سے کام لے تاکہ ہمارا ملک کامل آزادی کا منہ دیکھ سکے اور تبلیغ کے لئے جو آسانیاں اور سہولتیں اب ہمیں میسر ہیں ان میں جھگڑے اور فساد کی وجہ سے کوئی روک نہ واقع ہو جائے.....رو رو کر دعائیں کرو تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہندوستان کو لڑائی اور جھگڑے سے بچائے اور تمہاری دعائیں لوگوں کے دلوں میں تبدیلی کا باعث بن جائیں اور ان کے دلوں کی میل دھودی جائے...پس ایسے طور سے خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کی جائیں کہ اللہ تعالیٰ کا عرش ہل جائے اور اس کے فرشتے ہماری تائید میں لگ جائیں اور جس کام کو دوسری طاقتیں نہیں کر سکتیں ہم اسے کر لیں." الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۴۷ء) آنے والے مشکل حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ایک نہایت مفید اور مؤثر طریق تجویز کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اپنے اندر ایک دوسرے کی ہمدردی کا جذبہ پیدا کرتے کی اور جہاں کہیں کسی مسلمان کو دکھ پہنچتا وہ جتھوں کی صورت میں اس کے پاس پہنچتے اس لدا
۴۲ کے نقصان کی تلافی کرتے اور اس کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے تو دشمن کبھی بھی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکتا مگر افسوس کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف سے غافل بیٹھے ہیں.بعض مسلمان ایسے ہیں جن پر کلی طور پر خوف کی حالت طاری ہے اور وہ امید کے راستہ سے بھٹک چکے ہیں.وہ لوگ کانگریس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں اس ڈر سے کہ اگر کانگریس ہم سے ناراض ہو گئی تو خدا جانے ہم پر کون سی آفت ٹوٹ پڑے گی....اور دوسرا طبقہ ایسا ہے جو غلط امیدیں لگائے بیٹھا ہے حالا نکہ مومن کے لئے اللہ تعالی نے جو راستہ تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس پر بیک وقت خوف و رجا کی حالت طاری رہے.ایک طرف اس کے دل میں دشمن کی طرف سے یہ خدشہ ہے کہ کب وہ اچانک اس پر حملہ کر دیتا ہے اور وہ اس کے لئے تدبیریں سوچتا ر ہے دوسری طرف وہ اپنی طرف سے تمام تدبیریں کر چکنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل کا منتظر ہو جائے." (الفضل ۱۷.جون کے ۱۹۴ء) اس عظیم انقلاب کے لئے جماعت کی ذہنی تیاری کے ساتھ ساتھ عملی اصلاح کی طرف متوجہ کرتے ہوئے تقسیم برصغیر سے قبل قادیان کے آخری جلسہ سالانہ میں حضور فرماتے ہیں." نماز با جماعت کی پابندی سوائے کسی خاص مجبوری کے یہاں تک کہ اگر گھر میں بھی فرض نماز پڑھی جائے تو اپنے بیوی بچوں کو شامل کر کے جماعت کرالی جائے یا اگر بچے نہ ہوں تو بیوی کو ہی اپنے ساتھ کھڑا کر کے نماز باجماعت ادا کی جائے.دوسرے سچائی پر قیام.ایسی سچائی کہ دشمن بھی اسے دیکھ کر حیران رہ جائے.تیسرے محنت کی عادت.ایسی محنت کہ بہانہ سازی اور عذر تراشی کی روح ہماری جماعت میں سے بالکل مٹ جائے اور جس کے سپرد کوئی کام کیا جائے وہ اس کام کو پوری تندہی سے سرانجام دے یا اس کام میں فنا ہو جائے.چوتھے عورتوں کی اصلاح.ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کا قیام اور عورتوں میں دینی تعلیم پھیلانے کی کوشش.یہ چار نصیحتیں آپ لوگوں کو کرنے کے بعد میں دعا کے ساتھ آپ کو رخصت کرتا ہوں.اگر آپ لوگ ان باتوں پر عمل کریں گے تو پھر خد اتعالیٰ آپ لوگوں کی تبلیغ
۴۳ میں بھی برکت پیدا کر دے گا، آپ کے کاموں میں بھی برکت پیدا کر دے گا اور اسلام کی فتح کو قریب سے قریب ترلے آئے گا.یہ چار دیواریں ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم (الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۴۷ء) ہے." اب بر صغیر کی تاریخ کا وہ موڑ آگیا ہے جہاں تہذیب و متانت، شرافت و سنجیدگی اور اخلاق و قانون کی قدروں کو یکسر پامال کرتے ہوئے ظلم و بربریت اور سفاکی و خونریزی کا وہ شیطانی کھیل کھیلا گیا جس پر انسانیت کا سر شرم کے مارے ہمیشہ جھکا رہے گا.ہندوؤں نے محمود غزنوی کے ہاتھوں ہونے والی شکست سے لیکر مغل حکمرانوں کی حکمرانی تک کا بدلہ چکانے کیلئے خود کھل کر سامنے آنے کی بجائے سکھوں کی غیر مآل اندیش قیادت کے ذریعہ مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کا یدھ (لڑائی) شروع کر دیا.قادیان اور نواح میں جو مظالم ڈھائے گئے وہ ہماری تاریخ میں محفوظ ہیں اس سلسلہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ”قادیان کا خونی روزنامچہ " کے نام سے الفضل میں ایک سلسلہ مضامین تحریر فرمایا.اسی طرح خواجہ غلام نبی صاحب سابق ایڈیٹر الفضل نے بھی ان رونگٹے کھڑے کر دینے والے مظالم کا آنکھوں دیکھا حال تحریر فرمایا.طوالت کے خوف سے ذیل میں صرف حضرت فضل عمر کے اس سلسلہ میں بیان فرمودہ بعض ارشادات ہی درج کئے جاتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احمدی ہر قیمت پر اپنے مرکز میں رہنا چاہتے تھے مگر ہندوستان کی حکومت نے باوجود اس امر کی ذمہ داری لینے کے کہ وہ اس علاقہ میں مظالم نہیں ہونے دیں گے اور کسی شہری کو نقل مکانی پر مجبور نہیں کریں گے عملاً ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ کوئی قانون کا احترام کرنے والا شہری وہاں آباد نہ رہ سکے.آپ تحریر فرماتے ہیں.قادیان اور مشرقی پنجاب کے دوسرے شہروں میں فرق ہے.قادیان کے باشندے قادیان میں رہنا چاہتے ہیں لیکن مشرقی پنجاب کے دوسرے شہروں کے باشندوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ مشرقی پنجاب میں نہ رہیں.ہندوستان یونین کی گور نمنٹ بار بار کہہ چکی ہے کہ ہم کسی کو نکالتے نہیں لیکن قادیان کے واقعات اس کے اس دعوی کی کامل طور پر تردید کرتے ہیں.حال ہی میں قادیان کے کچھ ذمہ دار افسر گورنمنٹ افسروں سے ملے اور باتوں باتوں میں ان سے کہا کہ آپ لوگ اپنی پالیسی ہم پر واضح کر دیں.اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم قادیان چھوڑ دیں تو پھر صفائی کے ساتھ اس
سمسم بات کا اظہار کر دیں.افسر مجاز نے جواب دیا کہ ہم ایسا ہر گز نہیں چاہتے.ہم چاہتے ہیں کہ آپ قادیان میں رہیں.جب اسے کہا گیا کہ وہ کہاں رہیں.پولیس اور ملٹری کی مدد سے سکھوں نے تو سب محلوں کے احمدیوں کو زبردستی نکال دیا ہے اور سب اسباب لوٹ لیا ہے.آپ ہمارے مکان خالی کرا دیں تو ہم رہنے کے لئے تیار ہیں تو اس پر افسر مجاز بالکل خاموش ہو گیا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا.در حقیقت وہ افسر خود تو دیانتدارہی تھا لیکن وہ وہی کچھ رٹ لگا رہا تھا جو ا سے اوپر سے سکھایا گیا تھا.جب اس پر اپنے دعوئی کا بودا ہونا ثابت ہو گیا تو خاموشی کے سوا اس نے کوئی چارہ نہ دیکھا.شاید دل ہی دل میں وہ ان افسروں کو گالیاں دیتا ہو گا جنہوں نے اسے یہ خلاف عقل بات سکھائی تھی." " قادیان کے تازہ حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لکڑی (ایندھن) تقریباً ختم ہے ، گندم بھی ختم ہو رہی ہے ، گورنمنٹ کی طرف سے غذا مہیا کرنے کا کوئی انتظام نہیں ، اب تک ایک چھٹانک آٹا بھی گورنمنٹ نے مہیا نہیں کیا، عورتوں اور بچوں کے نکالنے کا جو انتظام تھا اس میں دیدہ دانستہ روکیں ڈالی جارہی ہیں.بارش ہوئے کوئی آج نو دن ہو چکے ہیں.بارش کے بعد قادیان سے دو قافلے آچکے ہیں.اسی طرح قریباً روزانہ ہندوستانی یونین کے ٹرکس فوج یا پولیس سے متعلق قادیان آتے جاتے ہیں.اور اس کے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں.چار تاریخ کو پولیس کا ایک ٹرک قادیان سے چل کر دا بگه تک آیا.تین تاریخ کو پاکستان کے ان فوجی افسروں کے سامنے جو گورداسپور کی فوج سے قادیان جانے کی اجازت لینے گئے تھے ایک فوجی افسر نے آکر میجر سے پوچھا کہ وہ ٹرک جو قادیان جانا تھا کس وقت جائے گا.پاکستانی افسروں کی موجودگی میں اس سوال کو سن کر میجر گھبرا گیا اور اس کو اشارہ سے کہا چلا جا.اور پھر پاکستانی افسروں سے کہا اس شخص کو غلطی لگی ہے قادیان کوئی ٹرک نہیں جاسکتا.چارہی تاریخ کو پاکستان کے جو ٹرک قادیان گئے تھے اور ان کو بٹالہ میں روکا گیا تھا انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دو ملٹری کے ٹرک قادیان سے بٹالہ آئے.سب سے کھلا ثبوت اس بات کے غلط ہونے کا تو یہ ہے کہ انہی تاریخوں میں جن میں کہا جاتا ہے کہ قادیان جانے والی سڑک خراب ہے پرانی ملٹری قادیان سے باہر آئی ہے اور نئی ملٹری قادیان گئی ہے.کیا یہ تبدیلی ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے.پس یہ بہانہ بالکل غلط ہے اور اصل
۴۵ غرض صرف یہ ہے کہ قادیان کے باشندوں کو جنہوں نے استقلال کے ساتھ مشرقی پنجاب میں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اس جرم میں ہلاک کر دیا جائے کہ وہ کیوں مشرقی پنجاب میں سے نکلتے نہیں.منہ سے کہا جاتا ہے ہم کسی کو نکالتے نہیں لیکن عمل سے اس بات کی تردید کی جاتی ہے.یہ بات اخلاقی لحاظ سے نہایت ہی گندی اور نہایت ناپسندیدہ ہے.جماعت احمدیہ نے مسٹر گاندھی کے پاس بھی بار بار اپیل کی ہے ، تاریں بھی دی ہیں اور بعض خطوط بھی لکھے ہیں لیکن مسٹر گاندھی کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں.مسٹر نہرو کو بھی اس طرف توجہ دلائی گئی ہے مگر وہ بھی بڑے کاموں میں مشغول ہیں.چند ہزار بے گناہ مسلمانوں کا مارا جانا ایسا معاملہ نہیں ہے جس کی طرف یہ بڑے لوگ توجہ کر سکیں.ایک چھوٹی سی مذہبی جماعت کے مقدس مقامات کی ہتک ان بڑے آدمیوں کے لئے کوئی قابل اعتناء بات نہیں.اگر اس کا سوداں حصہ بھی انگریز قادیان میں بس رہے ہوتے اور ان کی جان کو خطرہ ہو تا تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو حقوق انسانیت کا جذبہ فوراً بے تاب کر دیتا.مسٹر گاندھی بیسیوں تقریریں انگریزوں کے خلاف کاروائی کرنے والوں کے متعلق پبلک کے سامنے کر دیتے.مسٹر نہرو کی آفیشل مشین فورا متحرک ہو جاتی مگر جماعتوں کا خیال رکھنا خد اتعالیٰ کے سپرد ہے.وہی غریبوں کا والی وارث ہوتا ہے یا وہ انہیں ایسی تکالیف سے بچاتا ہے اور یا پھر وہ ایسے مظلوموں کا انتقام لیتا ہے.ہم تمام شریف دنیا کے سامنے اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم کے دور کرنے کی طرف توجہ کریں.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ پاکستان گورنمنٹ اس ظلم کو دور کرنے میں کیوں بے بس ہے.بجائے اس کے کہ ان باتوں کو.سن کر پاکستان گورنمنٹ کے متعلقہ حکام کوئی موثر قدم اٹھاتے انہوں نے بھی یہ حکم دے دیا ہے کہ چونکہ قادیان کی سٹرک کو مشرقی پنجاب نے ناقابل سفر قرار دیا ہے اس لئے آئندہ ہماری طرف سے بھی کوئی کانوائے وہاں نہیں جائے گی.حالانکہ انہیں چاہئے یہ تھا کہ جب مغربی پنجاب کے علاقوں میں بھی بارش ہوئی ہے تو وہ ان علاقوں کو بھی نا قابل سفر قرار دے دیتے اور مشرقی پنجاب جانے والے قافلوں کو روک لیتے.قادیان کے مصائب کو کم کرنے کا ایک ذریعہ یہ تھا کہ قادیان کو ریفیوجی کیمپ قرار دے دیا جاتا لیکن دونوں گورنمنٹیں یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ ریفیوجی کیمپ وہی گورنمنٹ مقرر
۴۶ کرے گی جس کی حکومت میں وہ علاقہ ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو معاہدہ ہو اس کی پابندی کی جائے لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر بار بار توجہ دلانے کے بعد بھی ہندوستان یونین مسلمان پناہ گزینوں کے بڑے بڑے کیمپوں کو ریفیوجی کیمپ قرار نہیں دیتی تو پاکستان کی حکومت کیوں مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کے نئے مقامات کو ریفیوجی کیمپ قرار دے رہی ہے.حال ہی میں پاکستان گورنمنٹ نے پانچ نئے ریفیوجی کیمپ مقرر کئے جانے کا اعلان کیا.کیا وہ اس کے مقابلہ میں ہندوستان یونین سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ تم بھی ہماری مرضی کے مطابق نئے کیمپ بناؤ.ہمیں موثق ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ حال ہی میں ہندوستان یونین نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ریفیوجی کیمپ بنانے کا مطالبہ کیا ہے جہاں صرف پانچ ہزار پناہ گزین ہیں.پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ ہندوستان یونین سے کہے کہ اگر تم ڈیرہ اسماعیل خان میں کیمپ بنوانا چاہتے ہو تو قادیان میں بھی کیمپ بناؤ.اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستانی حکومت کا رعب کم ہوتا جائے گا اور ہندوستان یونین کے مطالبات بڑھتے جائیں گے اور مسلمانوں کے حقوق پامال ہوتے چلے جائیں گے.تازہ آفیشل رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک سولہ لاکھ چھیالیس ہزار سات سو پچاس مسلمان مشرقی پنجاب کے کیمپوں میں پڑے ہیں.اس کے مقابلہ میں صرف سات لاکھ سینتالیس ہزار دو سو بہتر غیر مسلم مغربی پنجاب میں ہیں.ہمارے حساب سے تو یہ اندازہ بھی غلط ہے.مسلمان ساڑھے سولہ لاکھ نہیں.۲۵-۲۶لاکھ کے قریب مشرقی پنجاب میں پڑے ہیں اور خطرہ ہے کہ اپنے حقوق کو استقلال کے ساتھ نہ مانگنے کے نتیجہ میں یہ سات لاکھ غیر مسلم بھی جلدی سے ادھر نکل جائے گا اور ۲۵لاکھ مسلمانوں میں سے بمشکل ایک دو لاکھ ادھر پہنچے گا یا کوئی اتفاقی بیچ کر نکلا تو نکلا اور نہ جو کچھ سکھ جتھے اور سکھ ملٹری اور پولیس ان سے کر رہی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی امیدان کے بچنے کی نظر نہیں آتی.بعض چھوٹے افسر یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں کہ مغربی پنجاب اتنے پناہ گزینوں کو سنبھال نہیں سکتا.پس جتنے مسلمان ادھر مرتے ہیں اس سے آبادی کا کام آسان ہو رہا ہے.یہ ایک نہایت ہی خطر ناک خیال ہے.ہمیں یقین ہے.مغربی پنجاب کی حکومت کے اعلیٰ حکام اور وزراء کا یہ خیال نہیں مگر اس قسم کا خیال چند آدمیوں کے
دلوں میں بھی پیدا ہونا قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے.مغربی پنجاب کے مسلمانوں کو جلدی منظم ہو جانا چاہئے اور جلد اپنے حقوق کی حفاظت کرنے کی سعی کرنی چاہئے.اگر آج تمام مسلمان منظم ہو جائیں اور اگر آج بھی حکومت اور رعایا کے در میان مضبوط تعاون پیدا ہو جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان اس ابتلاء عظیم میں سے گذرنے کے بعد بھی بچ سکتا ہے اور ترقی کی طرف اس کا قدم بڑھ سکتا ہے." الفضل ۹.اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحہ ۱.۲) اسی سلسلہ میں اپنے ایک دو سرے مضمون میں حضور نے تحریر فرمایا.اکتوبر کی پہلی تاریخ کو جب گورداسپور کی ملٹری نے قادیان میں کنوائے جانے کی ممانعت کر دی تو میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ اب قادیان پر ظلم توڑے جائیں گے.لاہور میں کئی دوستوں کو میں نے یہ کہہ دیا تھا اور مغربی پنجاب کے بعض حکام کو بھی اپنے اس خیال کی اطلاع دے دی تھی.اس خطرہ کے مد نظر ہم نے کئی ذرائع سے مشرقی پنجاب کے حکام سے فون کر کے حالات معلوم کئے لیکن ہمیں یہ جواب دیا گیا کہ قادیان میں بالکل خیریت ہے اور احمدی اپنے محلوں میں آرام سے بس رہے ہیں.صرف سڑکوں کی خرابی کی وجہ سے کنوائے کو روکا گیا.لیکن جب اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ لاہور ایو یکیوایشن (EVACUATION) کمانڈرز کی طرف سے مشرقی پنجاب کے ملٹری حکام کو بعض کنوائز CONVOYS) کی اطلاع دی گئی اور انہیں کہا گیا کہ اگر قادیان کی طرف کنوائے جانے میں روک ہے تو آپ ہم کو بتا دیں.میجر چمنی سے بھی پوچھا گیا اور برگیڈیئر پر بچ پائے متعینہ گورداسپور سے بھی پوچھا گیا تو ان سب نے اطلاع دی کہ قادیان جانے میں کوئی روک نہیں.باوجود اس کے جب کنوائے گئے تو ان کو بٹالہ اور گورداسپور سے واپس کر دیا گیا.یہ واقعات پہلے شائع ہو چکے ہیں.ان واقعات نے میرے شبہات کو اور بھی قوی کر دیا.آخر ایک دن ایک فون جو قادیان سے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے نام کیا گیا تھا اتفاقا سیالکوٹ میں بھی سنا گیا.معلوم ہوا کہ قادیان پر دو دن سے حملہ ہو رہا ہے اور بے انتہاء ظلم توڑے جا رہے ہیں.پولیس حملہ آوروں کے آگے آگے چلتی ہے اور گولیاں مار مار کر احمدیوں کا صفایا کر رہی ہے.تب اصل حقیقت معلوم ہوئی.
" دوسرے دن ایک سب انسپکٹر پولیس جو چھٹی پر قادیان گیا ہوا تھا کسی ذریعہ سے جس کا ظاہر کرنا مناسب نہیں لاہور پہنچا اور اس نے بہت سی تفاصیل بیان کیں.اس کے بعد ایک ملٹری گاڑی جو قادیان کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی میں بعض اور لوگ تھے جنہوں نے اور تفصیل بیان کی.ان حالات سے معلوم ہوا کہ حملہ سے پہلے کرفیو لگا دیا گیا تھا.پہلے قادیان کی پرانی آبادی پر جس میں احمد یہ جماعت کے مرکزی دفاتر واقع ہیں، حملہ کیا گیا.اس حصہ کے لوگ اس حملہ کا مقابلہ کرنے لگے.انہیں معلوم نہیں تھا کہ باہر کے محلوں پر بھی تھوڑی دیر بعد حملہ کر دیا گیا ہے.یہ لوگ سات گھنٹہ تک لڑتے رہے اور اس خیال میں رہے کہ یہ حملہ صرف مرکزی مقام پر ہے باہر کے مقام محفوظ ہیں.چونکہ جماعت احمدیہ کا یہ فیصلہ تھا کہ ہم نے حملہ نہیں کرنا بلکہ صرف دفاع کرنا ہے اس لئے تمام محلوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ جب تک ایک خاص اشارہ نہ کیا جائے کسی محلہ کو باقاعدہ لڑائی کی اجازت نہیں.جب افسر یہ تسلی کرلیں کہ حملہ اتنا لمبا ہو گیا ہے کہ اب کوئی شخص یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ احمد یہ جماعت منظم طور پر مقابلہ کرے گی.اس فیصلہ میں ایک کو تا ہی رہ گئی وہ یہ کہ اس بات کو نہیں سوچا گیا کہ اگر پولیس بیرونی شہر اور اندرونی شہر کے تعلقات کو کاٹ دے تو ایک دو سرے کے حالات کا علم نہ ہو سکے گا.پس ان حالات میں ہر محلہ کا الگ کمانڈر ہو جانا چاہئے جو ضرورت کے وقت آزادانہ کارروائی کر سکے.یہ غلطی اس وجہ سے ہوئی کہ قادیان کے لوگ فوجی تجربہ نہیں رکھتے وہ تو مبلغ ،مدرس ، پروفیسر، تاجر اور زمیندار ہیں.ہر قسم کے فوجی نقطہ نگاہ پر حاوی ہونا ان کے لئے مشکل ہے.بہر حال یہ غلطی ہوئی اور باہر کے محلوں نے اس بات کا انتظار کیا کہ جب ہم کو وہ اشارہ ملے گا تب ہم مقابلہ کریں گے لیکن اس وقت اتفاق سے سب ذمہ دار کار کن مرکزی دفاتر میں تھے اور باہر کے محلوں میں کوئی ذمہ دار افسر نہیں تھا.اور مرکز کے لوگ غلطی سے یہ سمجھ رہے تھے کہ حملہ صرف مرکزی مقام پر ہے باہر کے محلوں پر نہیں اور باہر کے محلے یہ سمجھ رہے تھے کہ ہمارے حالات کا علم مرکزی محلہ کو ہو گا کسی مصلحت کی وجہ سے انہوں نے ہمیں مقابلہ کرنے کا اشارہ نہیں کیا.سات گھنٹہ کی لڑائی کے بعد جب مرکزی محلہ پر زور بڑھا تو مرکزی محلہ کی حفاظت کے لئے معین اشارہ کیا گیا مگر اس وقت بہت سے بیرونی محلوں کو پولیس اور ایک
۴۹ حد تک ملٹری کے حملے صاف کروا چکے تھے.حملہ آوروں کی بہادری کا یہ حال تھا کہ سات گھنٹہ کے حملہ کے بعد جوابی حملہ کا بگل بجایا گیا تو پانچ منٹ کے اندر پولیس اور حملہ آور جتھے بھاگ کر میدان خالی کر گئے.ان حملوں میں دو سو سے زیادہ آدمی مارے گئے لیکن ان کی لاشیں جماعت کو اٹھانے نہیں دی گئیں تا ان کی تعداد کا بھی علم نہ ہو سکے اور ان کی شناخت بھی نہ ہو سکے.بغیر جنازہ کے اور بغیر اسلامی احکام کی ادائیگی کے یہ لوگ ظالم مشرقی پنجاب کی پولیس کے ہاتھوں مختلف گڑھوں میں دبا دیئے گئے تاکہ دنیا کو اس ظلم کا اندازہ نہ ہو سکے جو اس دن قادیان میں مشرقی پنجاب کی پولیس نے کیا تھا.مشرقی پنجاب کے بالا حکام سے جو ہمیں اطلاع ملی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقامی حکام نے مرکزی حکام کو صرف یہ اطلاع دی کہ سیکھ جتھوں نے احمدی محلوں پر حملہ کیا.تھیں آدمی سکھ جتھوں کے مارے گئے اور تمہیں آدمی احمدیوں کے مارے گئے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دو سو سے زیادہ ( آدمی) قادیان میں......مارے گئے جن میں کچھ غیر احمدی بھی شامل تھے جیسا کہ آگے بتایا جائے گا اور سکھ بھی تمہیں سے زیادہ مارے گئے کیونکہ گو اس غلطی کی وجہ سے جو اوپر بیان ہو چکی ہے منتظم مقابلہ نہیں کیا.لیکن مختلف آدمی بھی حفاظتی چوکیوں پر تھے ، انہوں نے اچھا مقابلہ کیا اور بہت سے حملہ آوروں کو مارا.یہ بھی معلوم ہوا کہ جب باہر سے پولیس اور سکھ حملہ کر رہے تھے اور ملٹری بھی ان کے ساتھ شامل تھی (گو کہا جاتا ہے کہ ملٹری کے اکثر سپاہیوں نے ہوا میں فائر کئے ہیں) اس وقت کچھ پولیس کے سپاہی محلوں کے اندر گھس گئے اور انہوں نے احمدیوں کو مجبور کیا کہ یہ کرفیو کا وقت ہے اپنے گھروں میں گھس جائیں.چنانچہ ایک احمدی گریجوایٹ مکرم مرزا احمد شفیع) جو اپنے دروازے کے آگے کھڑا تھا اسے پولیس مین نے کہا کہ تم دروازے کے باہر کیوں کھڑے ہو.جب اس نے کہا یہ میرا گھر ہے، میں اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہوں تو اسے شوٹ کر دیا گیا اور جب وہ تڑپ رہا تھا تو سپاہی نے سنگین سے اس پر حملہ کر دیا اور تڑپتے ہوئے جسم پر سنگین مار مار کر اسے مار دیا.اس کے بعد بہت سے محلوں کو لوٹ لیا گیا اور اب ان کے اندر کسی ٹوٹے پھوٹے سامان یا بے قیمت چیزوں کے سوا کچھ باقی نہیں.مرکزی حصہ پر جو حملہ ہوا اس میں ایک شاندار واقعہ ہوا ہے جو قرونِ اولیٰ کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے.جب حملہ کرتے ہوئے پولیس اور سکھ شہر کے اندر
گھس آئے اور شہر کے مغربی حصہ کے لوگوں کو مار پیٹ کر خالی کرانا چاہا اور وہ لوگ مشرقی حصہ میں منتقل ہو گئے تو معلوم ہوا کہ گلی کے پار ایک گھر میں چالیس عورتیں جمع تھیں وہ وہیں رہ گئیں ہیں.بعض افسران کو نکلوانے کیلئے گلی کے سرے پر جو مکان تھا وہاں پہنچے اور ان کے نکالنے کیلئے دو نو جوانوں کو بھیجا.یہ نوجوان جس وقت گلی پار کرنے لگے تو سامنے کی چھتوں سے پولیس نے ان پر بے تحاشا گولیاں چلانی شروع کیں اور وہ لوگ واپس گھر میں آنے پر مجبور ہو گئے.تب لکڑی کے تختے منگوا کر گلی کے مشرقی اور مغربی مکانوں کی دیواروں پر رکھ کر عورتوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی گئی.جو نوجوان اس کام کے لئے گئے ان میں ایک غلام محمد صاحب ولد مستری غلام قادر صاحب سیالکوٹ تھے اور دوسرے عبد الحق نام قادیان کے تھے جو احمدیت کی طرف مائل تو تھے مگر ابھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے.یہ دونوں نوجوان برستی ہوئی گولیوں میں سے تختے پر سے کودتے ہوئے اس مکان میں چلے گئے جہاں چالیس عورتیں محصور تھیں.انہوں نے ایک ایک عورت کو کندھے پر اٹھا کر تختے پر ڈالنا شروع کیا اور مشرقی مکان والوں نے انہیں کھینچ کھینچ کر اپنی طرف لانا شروع کیا.جب وہ اپنے خیال میں سب عورتوں کو نکال چکے اور خود واپس آگئے تو معلوم ہوا کہ انتالیس عور تیں آئی ہیں اور ایک بڑھیا عورت جو گولیوں سے ڈر کے مارے ایک کونے میں چھپی ہوئی تھی رہ گئی ہے.اب ارد گرد کی چھتوں پر پولیس جتھوں کا ہجوم زیادہ ہو چکا تھا.گولیاں بارش کی طرح گر رہی تھیں اور بظاہر اس مکان میں واپس جانا ناممکن تھا.مگر میاں غلام محمد صاحب ولد میاں غلام قادر صاحب سیالکوٹی نے کہا جس طرح بھی ہو میں واپس جاؤں گا اور اس عورت کو بچا کر لاؤں گا اور وہ برستی ہوئی گولیوں میں جو نہ صرف درمیانی راستہ پر برسائی جارہی تھیں بلکہ اس گھر پر بھی برس رہی تھیں جہاں احمدی کھڑے ہوئے بچاؤ کی کوشش کر رہے تھے.کود کر اس تختے پر چڑھ گئے جو دونوں مکانوں کے درمیان پل کے طور پر رکھا گیا تھا.جب وہ دوسرے مکان میں کو درہے تھے تو رائفل کی گولی ان کے پیٹ میں لگی اور وہ مکان کے اندر گر پڑے.مگر اس حالت میں بھی اس بہادر نوجوان نے اپنی تکلیف کی پروانہ کی اور اس بڑھیا کو تلاش کر کے تختے پر چڑھانے کی کوشش کی.لیکن شدید زخموں کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا اور دو تین کوششوں کے بعد
نڈھال ہو کر گر گیا.اس پر میاں عبد الحق صاحب نے کہا کہ میں جا کر ان دونوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہوں اور وہ کود کر اس تختہ پر چڑھ گیا.ان کو دیکھتے ہی ایک پولیس مین دو ڑا ہوا آیا اور ایک پاس کے مکان سے صرف چند فٹ کے فاصلہ پر ان کی کمر میں گولی مار دی اور وہ وہیں فوت ہو گئے.جب حملہ آور بگل بجنے پر دوڑ گئے تو زخمی غلام محمد صاحب اور اس بڑھیا کو اس مکان سے نکالا گیا.چونکہ ہسپتال پر پولیس نے قبضہ کر لیا ہے اور وہاں سے مریضوں کو زبردستی نکال دیا ہے اور تمام ڈاکٹری آلات اور دوائیاں وہاں ہی پڑی ہیں ، مریضوں اور زخمیوں کا علاج نہیں کیا جا سکتا اور یوں بھی غلام محمد صاحب شدید زخمی تھے معمولی علاج سے بچ نہ سکے اور چند گھنٹوں میں فوت ہو گئے.مرنے سے پہلے انہوں نے ایک دوست کو بلایا اور اسے یہ باتیں لکھوائیں کہ ” مجھے اسلام اور احمدیت پر پکا یقین ہے.میں اپنے ایمان پر قائم جان دیتا ہوں.میں اپنے گھر سے اسی لئے نکلا تھا کہ میں اسلام کیلئے جان دوں گا.آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور جس صد کیلئے جان دینے کیلئے آیا تھا میں نے اس مقصد کے لئے جان دے دی.جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا.میری ماں سے کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری وصیت پوری کر دی اور بیٹھ نہیں دکھائی اور لڑتے ہوئے مارا گیا." چونکہ ظالم پولیس نے سب راستوں کو روکا ہوا ہے مقتولین کو مقبروں میں دفن نہیں کیا جا سکا اس لئے جو لوگ فوت ہوتے ہیں یا قتل ہوتے ہیں انہیں گھروں میں ہی دفن کیا جاتا ہے.ان نوجوانوں کو بھی گھروں میں ہی دفن کرنا پڑا.اور میاں غلام محمد اور عبد الحق دونوں کی لاشیں میرے مکان کے ایک صحن میں پہلو بہ پہلو سپرد خاک کر دی گئیں.یہ دونوں بہادر اور سینکڑوں اور آدمی اس وقت منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں لیکن انہوں نے اپنی قوم کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ہیں.مرنے والے مرگئے.انہوں نے بهر حال مرنا ہی تھا.اگر اور کسی صورت میں مرتے تو ان کے نام کو یا د رکھنے والا کوئی نہ ہوتا اور وہ اپنے دین کی حفاظت اور اسلام کا جھنڈا اونچا ر کھنے کے لئے مرے ہیں.اس لئے حقیقتاً وہ زندہ ہیں.اور آپ ہی زندہ نہیں بلکہ اپنے بہادرانہ کاموں کی وجہ
۵۲ سے آئندہ اپنی قوم کو زندہ رکھتے چلے جائیں گے.ہر نوجوان کے گا کہ جو قربانی ان نوجوانوں نے کی وہ ہمارے لئے کیوں ناممکن ہے.جو نمونہ انہوں نے دکھایا وہ ہم کیوں نہیں دکھا سکتے.خدا کی رحمتیں ان لوگوں پر نازل ہوں اور ان کا نیک نمونہ مسلمانوں کے خون کو گرماتا رہے اور اسلام کا جھنڈا ہندوستان میں سرنگوں نہ ہو.اسلام زندہ باد محمد صلی اللہ علیہ و سلم زندہ باد." خاکسار.مرزا محمود احمد (الفضل 11.اکتوبر ۱۹۴۷ء) درویشان قادیان میں اکثریت ایسے احمدی رضا کاروں کی تھی جو حضور کی تحریک پر بڑے جوش و جذبہ سے حفاظت مرکز کا فرض ادا کرنے کیلئے اپنے چلتے ہوئے کاروبار اور ملازمتوں کو چھوڑ کر گئے تھے.اس اخلاص و قربانی کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے بطور مثال کراچی جماعت کے مخلصین کے متعلق فرمایا.جیسے کراچی کے دوستوں نے نمونہ دکھایا.انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم قادیان جائیں گے اور چونکہ وہاں سرکاری محکموں میں احمدی زیادہ ہیں دفاتر والوں نے سمجھا کہ اگر سب احمدی چلے گئے تو کام بند ہو جائے گا اس لئے انہوں نے چھٹی دینے سے انکار کر دیا.اس پر کئی احمدیوں نے اپنے استعفے نکال کر رکھ دیئے کہ اگر یہ بات ہے تو ہم اپنی ملازمت سے مستعفی ہونے کیلئے تیار ہیں.ایک اخبار جو احمدیت کا شدید ترین دشمن تھا میں نے خود اس کا ایک تراشہ پڑھا ہے جس میں وہ اس واقع کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ہوتا ہے ایمان.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اخلاص کا نمونہ دکھایا یہ وہ لوگ ہیں جن کا عزت سے نام لیا جائے گا اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا احمدیت کی تاریخ میں نام لکھا الفضل ۳۰.ستمبر ۱۹۴۷ء) یہ انتہائی مایوس کن حالات قرآنی محاورہ کے مطابق ظُلمتُ فَوقَ ظُلمت کی طرح پهلو در پهلو مشکلات و مصائب لئے ہوئے تھے مگر ان حالات سے گھبرانے اور بددل ہونے کی بجائے حضور کمال حو صلہ مندی کے ساتھ فرماتے ہیں.جائے گا." اس زمانہ میں محمد رسول اللہ لی لی لی اور قرآن کی خدمت کیلئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے اور خدا نے اپنے ہاتھ سے ہماری جماعت کو قائم کیا ہے.خدا اپنے لگائے ہوئے پودے کو دشمن کے ہاتھ سے کبھی تباہ نہیں
۵۳ ہونے دے گا خدا محمد رسول اللہ میں یا اللہ کا جھنڈا اس ملک میں کبھی نیچا نہیں ہونے دے گا خدا قرآن کو اس ملک میں کبھی ذلیل نہیں ہونے دے گاوہ ضرور ان کو پھر عزت بخشے گا اور ان کو فتح و کامرانی عطا کرے گا.ہاں اگر ہماری کو تاہیوں کی وجہ سے یہ ابتلاء لمبا ہو جائے تو اور بات ہے ورنہ خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اسلام کی فتح ہو اور پھر اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرائے." (الفضل ۳۰.ستمبر ۱۹۴۸ء) اور حالات کی گھمبیر صورت حال کے اس چیلنج کو قبول کرنے کیلئے ہمت افزائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اس وقت سارے مسلمانوں پر ایک مصیبت کا دور آیا ہوا ہے اور ہم بھی اس دور میں سے گزر رہے ہیں.مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں اس کی ایسی ہی مثال ہے.جیسے درخت اپنی جگہ سے اکھیڑے جاتے ہیں اور پھر دوسری جگہ اس لئے لگائے جاتے ہیں کہ ان کا پھل پہلے سے زیادہ لذیذ اور میٹھا ہو.اس وقت دنیا نے دیکھنا ہے کہ ہماری پہلی ترقی آیا اتفاقی تھی یا محنت اور قربانی کا نتیجہ تھی اگر تو وہ اتفاقی ترقی تھی اور ہماری محنت اور قربانی کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا تو یہ یقینی بات ہے کہ ہم دوبارہ اپنی جڑیں زمین میں قائم نہیں کر سکیں گے اور اگر پہلی ترقی اتفاقی نہیں تھی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور ہماری محنتوں اور قربانیوں کا نتیجہ تھی تو پھر یہ یقینی بات ہے کہ موجودہ مصیبت ہمارے قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی بلکہ اس کے ذریعہ سے ہماری جڑیں اور بھی پاتال میں چلی جائیں گی اور ہماری شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی." (الفضل ۳۱.اکتوبر ۱۹۴۷ء) حضور کی قیادت و رہنمائی میں قادیان کو احمدی آبادی کے لئے ہی نہیں علاقہ بھر کے سفر ہجرت مسلمانوں کیلئے روشنی کے مینار کی حیثیت حاصل ہو گئی.مسلمانوں کی ہر مصیبت اور مشکل کے وقت حکومت کے افسران یا پولیس و فوج کے سپاہیوں کی بجائے احمدی رضا کار ہتھیلیوں پر جان لئے ہوئے پہنچتے اور بڑی دلیری و یا مردی سے ایسے آمادہ فساد لوگوں کا مقابلہ کرتے جنہیں در پر دہ ہند و پولیس بلکہ بعض اوقات فوج تک کی مدد بھی حاصل ہوتی تھی.حضور کے حسن تدبیر کی وجہ سے ہزاروں معصوم " م قتل ہونے سے اور ہزاروں عصمتیں برباد ہونے سے محفوظ ہو گئیں.لا قانونیت و بربریت کے یہ ایام لمبے ہی ہوتے جا رہے تھے اس کے پیش نظر حضور نے قادیان اور علاقہ کے مسلمانوں کی بھلائی و بہتری کیلئے لاہور جا کر کوشش کرنے کا منصوبہ بنایا اور عاجزانہ
۵۴ دعاؤں ، پُرسوز استخاروں اور مخلصانہ مشوروں کے بعد آپ دار المسیح قادیان سے عازم لاہور ہوئے.اپنے اس عہد ساز تاریخی سفر کے متعلق حضور فرماتے ہیں.جماعتی طور پر ایک بہت بڑا ابتلاء ۱۹۴۷ء میں آیا اور الہی تقدیر کے ماتحت ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا.شروع میں میں سمجھتا تھا کہ جماعت کا جرنیل ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ قادیان میں لڑتا ہوا مارا جاؤں ورنہ جماعت میں بزدلی پھیل جائے گی اور اس کے متعلق میں نے باہر کی جماعتوں کو چھیاں بھی لکھ دی تھیں لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کے مطالعہ سے مجھ پر یہ امر منکشف ہوا کہ ہمارے لئے ایک ہجرت مقدر ہے اور ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے.ویسے تو لوگ اپنی جگہیں بدلتے ہی رہتے ہیں مگر اسے کوئی ہجرت نہیں کہتا.ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے.پس میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی مصلحت یہی ہے کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے میں نے سمجھا کہ ہماری ہجرت یقینی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجھے قادیان چھوڑ دینا چاہئے تو اس وقت لاہور فون کیا گیا کہ کسی نہ کسی طرح ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے.لیکن آٹھ دس دن تک کوئی جواب نہ آیا اور جواب آیا بھی تو یہ کہ حکومت کسی قسم کی ٹرانسپورٹ مہیا کرنے سے انکار کرتی ہے اس لئے کوئی گاڑی نہیں مل سکتی.میں اس وقت حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے الہامات کا مطالعہ کر رہا تھا.الہامات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایک الہام نظر آیا " بعد گیارہ " میں نے خیال کیا کہ گیارہ سے مراد گیارہ تاریخ ہے اور میں نے سمجھا کہ شاید ٹرانسپورٹ کا انتظام قمری گیارہ تاریخ کے بعد ہو گا.مگر انتظار کرتے کرتے عیسوی ماہ کی ۲۸ تاریخ آگئی لیکن گاڑی کا کوئی انتظام نہ ہو سکا.۲۸ تاریخ کو اعلان ہو گیا کہ ۳۱.اگست کے بعد ہر ایک حکومت اپنے اپنے علاقہ کی حفاظت کی خود ذمہ دار ہوگی.اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈین یونین اب مکمل طور پر قادیان پر قابض ہو گئی ہے.میں نے اس وقت خیال کیا کہ اگر مجھے جاتا ہے تو اس کے لئے فوراً کوشش کرنی چاہئے ورنہ قادیان سے نکلنا محال ہو جائے گا اور اس کام میں کامیابی نہیں ہو سکے گی.ان لوگوں کے مخالفانہ ارادوں کا اس سے پتہ چل سکتا ہے کہ ایک انگریز کرنل جو بٹالہ لگا ہوا تھا میرے پاس آیا اور اس نے کہا مجھے ان لوگوں کے منصوبوں کا علم ہے.جو کچھ یہ
۵۵ ۳۱.اگست کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کریں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.باتیں کرتے وقت اس پر رقت طاری ہو گئی لیکن اس نے جذبات کو دبا لیا اور منہ ایک طرف پھیر لیا.جب میں نے دیکھا کہ گاڑی وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں ہو سکتا اور میں سوچ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام " بعد گیارہ" سے کیا مراد ہے تو مجھے میاں بشیر احمد صاحب کا پیغام ملا کہ میجر جنرل نذیر احمد صاحب کے بھائی میجر بشیر احمد صاحب ملنے کے لئے آئے ہیں.دراصل یہ ان کی غلطی تھی وہ میجر بشیر احمد صاحب نہیں تھے بلکہ ان کے دوسرے بھائی کیپٹن عطاء اللہ صاحب تھے.میں نے انہیں حالات بتائے اور کہا کہ کیا وہ سواری اور حفاظت کا کوئی انتظام کر سکتے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں آج ہی واپس جا کر کوشش کرتا ہوں.ایک جیپ میجر جنرل نذیر احمد کو ملی ہوئی ہے اگر وہ مل سکی تو دو اور کا انتظام کر کے میں آؤں گا کیونکہ تین گاڑیوں کے بغیر پوری طرح حفاظت کا ذمہ نہیں لیا جا سکتا کیونکہ ایک جیپ خراب بھی ہو سکتی ہے اور اس پر حملہ بھی ہو سکتا ہے.لیکن ضرورت ہے کہ تین گاڑیاں ہوں تاسب خطرات کا مقالبہ کیا جاسکے.یہ باتیں کر کے وہ واپس لاہور گئے اور گاڑی کے لئے کوشش کی.مگر میجر جنرل نذیر احمد صاحب کی جیپ انہیں نہ مل سکی.وہ خود کہیں باہر گئے ہوئے تھے.آخر انہوں نے نواب محمد دین صاحب مرحوم کی کارلی اور عزیز منصور احمد کی جیپ اسی طرح بعض اور دوستوں کی کاریں حاصل کیں اور قادیان چل پڑے.دوسرے دن ہم نے اپنی طرف سے ایک اور انتظام کرنے کی بھی کوشش کی اور چاہا کہ ایک احمدی کی معرفت کچھ گاڑیاں مل جائیں.اس دوست کا وعدہ تھا کہ وہ ملٹری کو ساتھ لے کر آٹھ نو بجے قادیان پہنچ جائیں گے لیکن وہ نہ پہنچ سکے یہاں تک کہ دس بج گئے.اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ شاید گیارہ سے مراد گیارہ بجے ہوں اور یہ انتظام گیارہ بجے کے بعد ہو.میاں بشیر احمد صاحب جن کے سپردان دنوں ایسے انتظام تھے.ان کے بار بار پیغام آتے تھے کہ سب انتظام رہ گئے ہیں اور کسی میں بھی کامیابی نہیں ہوئی.میں نے انہیں فون کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ” بعد گیارہ" سے میں سمجھتا ہوں کہ گیارہ بجے کے بعد کوئی انتظام ہو سکے گا.پہلے میں سمجھتا تھا کہ اس سے گیارہ تاریخ مراد ہے لیکن اب میرا خیال ہے کہ شاید اس سے مراد گیارہ بجے کا وقت ہے.میرے لڑکے ناصر احمد نے بھی
۵۶ جس کے سپرد باہر کا انتظام تھا.مجھے فون کیا کہ تمام انتظامات فیل ہو گئے ہیں.ایک بدھ فوجی افسر نے کہا تھا کہ خواہ مجھے سزا ہو جائے میں ضرور کوئی نہ کوئی انتظام کروں گا اور اپنی گار د ساتھ روانہ کروں گا لیکن عین وقت پر اسے بھی کہیں اور جگہ جانے کا آرڈر آگیا اور اس نے کہا میں اب مجبور ہوں اور کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتا.آخر گیارہ بج کر پانچ منٹ پر میں نے فون اٹھایا اور چاہا کہ ناصر احمد کو فون کروں کہ ناصر احمد نے کہا میں فون کرنے ہی والا تھا کہ کیپٹن عطاء اللہ یہاں پہنچ چکے ہیں اور گاڑیاں بھی آگئی ہیں.چنانچہ ہم کیپٹن عطاء اللہ صاحب کی گاڑیوں میں قادیان سے لاہور پہنچے.یہاں پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے.ہمیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ فوراً ایک نیا مرکز بنایا جائے اور مرکزی دفاتر بھی بنائے جائیں." (الفضل ۳۱.جولائی ۱۹۴۹ء) ۳۱.اگست ۱۹۴۷ء کو حضور قادیان سے لاہور کیلئے روانہ ہوئے.۳۰.اگست الوداعی پیغام کو آپ نے جماعت احمدیہ قادیان کو اس امر سے آگاہ کرنے اور اپنے سفر کی اہمیت اور جماعتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے کیلئے مندرجہ ذیل ولولہ انگیز پیغام تحریر فرمایا.یہ پیغام حضور کے بخیریت لاہور پہنچنے کی اطلاع کے ساتھ ساتھ قادیان کی مساجد میں پڑھ کر سنایا گیا.اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی تمام پریذیڈنشان انجمن احمد یہ قادیان و محلہ جات و دیهات ملحقه قادیان و دیهات تحصیل بٹالہ و تحصیل گورداسپور کو اطلاع دیتا ہوں کہ متعد د دوستوں کے متواتر اصرار اور لمبے غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیام امن کے اغراض کے لئے مجھے چند دن کے لئے لاہور جانا چاہئے کیونکہ قادیان سے بیرونی دنیا کے تعلقات منقطع ہیں اور ہم ہندوستان کی حکومت سے کوئی بھی بات نہیں کر سکتے حالانکہ ہمارا معاملہ اس سے ہے.لیکن لاہور اور دہلی کے تعلقات ہیں.تار اور فون بھی جاسکتا ہے.ریل بھی جاتی ہے اور ہوائی جہاز بھی جاسکتا ہے.میں مان نہیں سکتا کہ اگر ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو صاحب پر یہ امر کھولا
ه جائے کہ ہماری جماعت مذہبا حکومت کی وفادار جماعت ہے تو وہ ایسا انتظام نہ کریں کہ ہماری جماعت اور دوسرے لوگوں کی جو ہمارے ارد گرد رہتے ہیں حفاظت نہ کی جائے.جہاں تک مجھے معلوم ہے بعض لوگ حکام پر یہ اثر ڈال رہے ہیں کہ مسلمان جو ہندوستان میں ہیں ہندوستان سے دشمنی رکھتے ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا گیا.ادھر اعلان ہوا اور ادھر فساد شروع ہو گیا ورنہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ مسلمان مسٹر جناح کو اپنا سیاسی لیڈر تسلیم کرنے کے باوجود ان کے اس مشورہ کے خلاف جاتے کہ اب جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے ہیں انہیں ہندوستان کا وفادار رہنا چاہئے.غرض ساری غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ یکدم فسادات شروع ہو گئے اور صوبائی حکام اور ہندوستان کے حکام پر حقیقت نہیں کھلی.ان حالات میں میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی جگہ جانا چاہئے جہاں سے دہلی و شملہ سے تعلقات آسانی سے قائم کئے جا سکیں اور ہندوستان کے وزراء اور مشرقی پنجاب کے وزراء پر اچھی طرح سب معاملہ کھولا جا سکے.اگر ایسا ہو گیا تو وہ زور سے ان فسادات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.اسی طرح لاہور میں سکھ لیڈروں سے بھی بات چیت ہو سکتی ہے جہاں وہ ضرور تا آتے جاتے رہتے ہیں اور اس سے بھی فساد دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے.شاید اللہ تعالیٰ میری کوششوں میں برکت ڈالے اور یہ شور و شر جو اس وقت پیدا ہو رہا ہے دور ہو جائے.میں نے اس امر کے مد نظر آپ لوگوں سے پوچھا تھا کہ ایسے وقت میں اگر میرا جانا عارضی طور پر زیادہ مفید ہو تو اس کا فیصلہ آپ لوگوں نے کرنا ہے یا میں نے اگر آپ نے کرنا ہے تو پھر آپ لوگ حکم دیں تو میں اسے مانوں گا لیکن میں ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گا اور اگر فیصلہ میرے اختیار میں ہے تو پھر آپ کو حق نہ ہو گا کہ چون و چرا کریں.اس پر آپ سب لوگوں نے لکھا کہ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے.سو میں نے چند دن کے لئے اپنی سکیم کے مطابق کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے.آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں اور حوصلہ نہ ہاریں.دیکھو مسیح کے حواری کتنے کمزور تھے مگر مسیح انہیں چھوڑ کر کشمیر کی طرف چلا گیا اور مسیحیوں پر اس قدر مصائب آئے کہ تم پر ان دنوں میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں آئے لیکن انہوں نے ہمت اور بشاشت سے
۸۵ ان کو برداشت کیا.ان کی جدائی تو دائی تھی مگر تمہاری جدائی تو عارضی ہے اور خود تمہارے اور سلسلہ کے کام کیلئے ہے.مبارک وہ جو بد ظنی سے بچتا ہے اور ایمان پر سے اس کا قدم لڑکھڑاتا نہیں.وہی جو آخر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کا انعام پاتا ہے.پس صبر کرو اور اپنی عمر کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے وفادار رہو اور ثابت قدمی اور نرمی اور عقل اور سوجھ بوجھ اور اتحاد و اطاعت کا ایسا نمونہ دکھاؤ کہ دنیا عش عش کر اُٹھے.جو تم میں سے مصائب سے بھاگے گا وہ یقینا دو سروں کیلئے ٹھوکر کا موجب ہو گا اور خدا تعالیٰ کی لعنت کا مستحق.تم نے نشان پر نشان دیکھے ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا منور جلوہ دیکھا ہے اور تمہارا اول دوسروں سے زیادہ بہادر ہونا چاہئے.میرے سب لڑکے اور داماد اور دونوں بھائی اور بھتیجے قادیان میں ہی رہیں گے اور میں اپنی غیر حاضری کے ایام میں اپنے عزیز مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنا قائمقام ضلع گورداسپور اور قادیان کیلئے مقرر کرتا ہوں.ان کی فرمانبرداری اور اطاعت کرو اور ان کے ہر حکم پر اس طرح قربانی کرو جس طرح محمد رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں.مَنْ أَطَاعَ امِيْرِى فَقَدْ اَطَاعَنِى وَ مَنْ عَلَى أَمِيرِى فَقَدْ عَصَانِی یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.پس جو ان کی اطاعت کرے گا وہ میری اطاعت کرے گا اور جو میری اطاعت کرے گا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کرے گا اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کرے گا وہ رسول کریم ملی ایم کی اطاعت کرے گا اور وہی مومن کہلا سکتا ہے دوسرا نہیں.اے عزیزو! احمدیت کی آزمائش کا وقت اب آئے گا اور اب معلوم ہو گا کہ سچا مومن کون ہے.پس اپنے ایمانوں کا ایسا نمونہ دکھاؤ کہ پہلی قوموں کی گردنیں تمہارے سامنے جھک جائیں اور آئندہ نسلیں تم پر فخر کریں.شاید مجھے تنظیم کی غرض سے کچھ اور آدمی قادیان سے باہر بھجوانے پڑیں مگر وہ میرے خاندان میں سے نہ ہوں گے بلکہ علماء سے ہوں گے.اس سے پہلے بھی میں کچھ علماء باہر بھجوا چکا ہوں.تم ان پر بد ظنی نہ کرو.وہ بھی تمہاری طرح اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کیلئے تیار ہیں لیکن خلیفہ وقت کا حکم انہیں مجبور کر کے لے گیا.پس وہ ثواب میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں اور قربانی
۵۹ میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں.ہاں وہ لوگ جو آنوں بہانوں سے اجازت لے کر بھاگنا چاہتے ہیں وہ یقیناً کمزور ہیں.خدا تعالیٰ ان کے گناہ بخشے اور نیچے ایمان کی حالت میں جان دینے کی توفیق دے.اے عزیزو! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر وقت تمہارے ساتھ رہے اور مجھے جب تک زندہ ہوں بچے طور پر اور اخلاص سے تمہاری خدمت کی توفیق بخشے اور تم کو مومنوں والے اخلاص اور بہادری سے میری رفاقت کی توفیق بخشے.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور آسمان کی آنکھ تم میں سے ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچہ کو سچا مخلص دیکھے اور خدا تعالیٰ میری اولاد کو بھی اخلاص اور بہادری سے سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے.آمین".الفضل ۸ - جون ۱۹۴۸ء صفحہ ۳) حضرت مصلح موعود کے اس بیان کا ایک ایک لفظ اس عزم و یقین کا آئینہ دار ہے جو خاصان خدا کا حصہ ہے.اس پیغام میں کہیں بھی ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کے کپتان کے جذبات نہیں ہیں بلکہ اس کے بر عکس عزم و ہمت و جواں مردی اور تو کل د ایمان کے جلوے یوں ضوفگن ہیں جیسے سورج سے نکلنے والی کرنیں اور یوں نظر آتا ہے کہ آپ ایک نئے دور کا آغاز فرما رہے ہیں.اور وقتی مشکلات کو غیر متوقع مصیبت یا جماعت کی بربادی کا پیش خیمہ نہیں بلکہ ایسی قربانیاں اور نمونہ پیش کرنے کا باعث قرار دے رہے ہیں جس پر پہلی قوموں کے سر خم ہو جائیں اور آئندہ نسلوں کیلئے باعث فخر ہوں.یہ پیغام حضور نے ۳۰.اگست کو جاری فرمایا اس کے بعد انتہائی مخالف حالات کے باوجود خدا تعالیٰ کی غیر معمولی حفاظت و نصرت کے جلو میں ۳۱.اگست کو لاہور پہنچ گئے.جہاں آپ نے امیر جماعت احمد یہ لاہور حضرت شیخ بشیر احمد صاحب کے مکان پر قیام فرمایا اور اسی وجہ سے یہ جگہ وقتی طور پر پاکستان و بیرون پاکستان کی جماعتوں کا مرکز بن گئی.اس کے جلد بعد ہی حضور رتن باغ نزد میوہسپتال میں منتقل ہو گئے اور اس کے بالمقابل جو دھامل بلڈنگ میں جماعتی دفاتر قائم ہو گئے اور لاہو ر جماعت کے نئے مرکز (ربوہ) کے قیام تک ہنگامی حالات میں عالمی جماعت احمدیہ کا مرکز بنا رہا.حضرت فضل عمر نے ہنگامی حالات سے عہدہ بر آہونے کیلئے یکم ستمبر کو یعنی قادیان سے لاہور پہنچنے کے بعد پہلے دن ہی جو دھامل بلڈنگ میں ایک غیر معمولی اجلاس میں صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی بنیاد رکھی.
1 ۶۰ جماعت کے باہم رابطہ اور بیرونی جماعتوں اور دوسرے لوگوں کو حالات سے باخبر رکھنے کیلئے بلا توقف خصوصی بلیٹن جاری کئے جاتے رہے.اس طرح کچھ عرصہ تک مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ریڈیو پاکستان لاہور سے قادیان کے متعلق خبریں نشر کرتے رہے تاہم باقاعدہ اخبار کی ضرورت کے پیش نظر حضرت فضل عمر کی خصوصی ہدایات کے مطابق مکرم شیخ روشن دین تنویر صاحب مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اور احمد حسین صاحب (خوش نویس) ۹.ستمبر کو قادیان سے آنے والے ایک کانوائے میں لاہور پہنچ گئے.کافی بھاگ دوڑ اور محنت کے بعد ۱۵.ستمبر ۱۹۴۷ء سے روزنامہ الفضل اخبار لاہور سے شائع ہونا شروع ہوا.اخبار کے ڈیکلریشن کا حصول، مناسب عملہ کی تلاش ، دفتر کی جگہ چھاپنے کیلئے پریس کا انتظام اور ان سب امور کے اخراجات کا انتظام وغیرہ بہت ہی مشکل بلکہ ان حالات میں ناممکن نظر آتا تھا.مگر جس طرح ۱۹۱۳ء میں الفضل خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور حضرت فضل عمر کے عزم و ہمت کا نشان بن کر ابھرا تھا اس دور ثانی میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت فضل عمر کے عزم و ہمت سے ناممکن کام ممکن ہو گئے اور احمدیت کے باغ کو سرسبز کرنے والی واحد نہر - الفضل.خدائی منشاء و مشیت کی تکمیل میں رواں ہو گئی..غیب سے فضل کے سامان ہوئے جاتے ہیں مرحلے سارے ہی آسان ہوئے جاتے ہیں مصلح موعود) قادیان سے الفضل کا آخری پرچہ (لوکل پرچہ )۱۷.ستمبر۷ ۱۹۴ء کو شائع ہوا تھا.ہجرت کا فلسفہ و حکمت ضروری معلوم ہو تا ہے کہ یہاں حضور کے الفاظ میں اس اہم سوال کا بھی جواب دیا جائے کہ قادیان سے ہجرت کیوں اور کن حالات میں اختیار کی گئی.آپ فرماتے ہیں.اب میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.مگر اس سے پہلے آپ لوگوں کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں.آج سے قریباً ۲۳.۲۴ سو سال پہلے کی بات ہے یونان میں ایک شخص ہوا کرتا تھا وہ یہ تعلیم دیا کرتا تھا کہ خدا ایک ہے.اور وہ دیویاں اور بت جن کے لوگ معتقد ہیں باطل ہیں.ہاں خدا تعالیٰ کے فرشتے موجود ہیں اور کائنات کے مختلف کام ان کے سپرد ہیں.وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی مرضی اپنے نیک بندوں پر ظاہر کرتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے نیک بندوں پر جلوہ گر ہوتے ہیں اور ان سے
کلام کرتے ہیں.اس کی یہ بھی تعلیم تھی کہ جس حکومت کے ماتحت تم رہو.اس کے فرمانبردار رہو.اگر تم نے دنیا میں امن قائم رکھنا ہے تو تمہیں حکومت سے اپنے مطالبات ہمیشہ امن کے ساتھ منوانے چاہئیں اور اگر کسی وقت تمہیں اس حکومت پر اعتماد نہ رہے بلکہ تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ تمہارے مذہبی احکام کے بجالانے میں روک بنتی ہے اور تم پر مظالم ڈھاتی ہے اور جبرا تمہارا مذ ہب تم سے چھڑانا چاہتی ہے تو تمہیں اس ملک کو چھوڑ دینا چاہئے اور ایسی حکومت کے ماتحت جاکر بس جانا چاہئے جو خدائی احکام کے بجالانے میں کوئی روک پیدا نہ کرتی ہو.یہ ساری تعلیمیں قرآن کریم میں بھی موجود ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ شخص کامل طور پر نبی نہیں تھا تو ایک مأمور من اللہ یا مجدد کی حیثیت ضرور رکھتا تھا.اس کا نام سقراط تھا جب حکومت کو یہ معلوم ہوا کہ وہ حکومت کے خلاف تعلیم دیتا ہے تو اس پر مقدمہ چلایا گیا اور مقدمہ چلانے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے زہر پلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے.پرانے زمانے میں یہ بھی سزا کا ایک طریق تھا کہ جس شخص کو موت کی سزا دی جاتی تھی اسے زہر پلا کر مار دیا جاتا تھا.سقراط کی سزا کے لئے کوئی معین تاریخ مقرر نہ ہوئی.ہاں یہ بتایا گیا کہ جس دن فلاں جہاز جو فلاں جگہ سے چلا ہے اس ملک میں پہنچے گا تو اس کے دوسرے دن اس کو مار دیا جائے گا.سقراط کے ماننے والوں میں بہت سے ذی اثر لوگ بھی تھے وہ اس کے پاس جاتے.اور اس پر زور دیتے کہ وہ ملک چھوڑ دے اور کسی اور ملک میں جا یسے.افلاطون بھی سقراط کے شاگردوں میں سے ایک شاگر د تھا.وہ اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ ایک دن سقراط کا فریتو " نامی شاگردان کے پاس گیا.وہ اس وقت میٹھی نیند سو رہے تھے.ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور ان کے جسم سے اطمینان اور سکون ظاہر تھا." فریتو " پاس بیٹھ گیا اور پیار سے آپ کا چہرہ دیکھتا رہا.آپ کی اس حالت کو دیکھ کر کہ آپ نہایت اطمینان سے سو رہے ہیں اس پر بڑا گہرا اثر ہوا.اس نے آپ کو جگایا نہیں بلکہ آرام سے پاس بیٹھ کر آپ کا چہرہ دیکھتا رہا.جب آپ کی آنکھ کھلی تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا فریتو " نامی شاگرد آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے اور پیار سے آپ کی طرف دیکھ رہا ہے.آپ نے اس سے پوچھا تم کب آئے ہو اور کس طرح یہاں پہنچے ہو.” فریتو نے کہا میں آپ کو دیکھنے کیلئے آیا ہوں.آپ نے کہا تم اتنی جلدی صبح
۶۲ صبح کس طرح آگئے.فریتو نے کہا جیل کے افسر میرے دوست ہیں اس لئے اندر آنے کی مجھے اجازت مل گئی ہے.میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے کہا معلوم ہوتا ہے تم بہت دیر سے یہاں بیٹھے ہوئے ہو تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں.فریتو نے کہا میں جب کمرے میں داخل ہوا تو آپ سوئے ہوئے تھے اور آپ کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اس لئے میں نے آپ کو جگایا نہیں بلکہ آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کے چہرے کو دیکھتا رہا.اس بات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا کہ وہ شخص جس کی موت کا حکم سنایا گیا ہے کسی اطمینان اور سکون سے سویا ہوا ہے.سقراط نے کہا میاں ! کیا خد اتعالیٰ کی مرضی کو کوئی انسان دور کر سکتا ہے.فریتو نے کہا نہیں.سقراط نے کہا کیا تم اس کی مرضی پر خوش نہیں.فریتو نے کہا ہاں ہم اس کی مرضی پر خوش ہیں.سقراط نے کہا جب خدا نے میرے لئے موت مقدر کی ہے اور میں اس کی رضا پر راضی ہوں تو پھر اس پر بے چینی کی کیا وجہ.مجھے تو خوش ہونا چاہئے کہ میرے خدا کی یہ مرضی ہے کہ وہ مجھے موت دے.فریتو تم بتاؤ کہ اس وقت تم مجھے کیا کہنے آئے تھے.فریتو نے جواب دیا میرے آقا میں آپ کو ایک بری خبر دینے آیا تھا کہ اس جہاز کی آمد کے دوسرے دن آپ کو زہر پلائے جانے کا فیصلہ ہے.وہ گو ابھی تک پہنچاتو نہیں لیکن خیال ہے کہ آج شام کو پہنچ جائے گا.اس لئے کل آپ کو مار دیا جائے گا.اس پر سقراط ہنس پڑے اور کہا.میرا تو یہ خیال نہیں کہ وہ جہاز آج پہنچے وہ کل یہاں پہنچے گا.فریتو نے کہا وہ جہاز فلاں جگہ پر لگا ہوا ہے اور ایک آدمی خشکی کے ذریعہ یہاں آیا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ وہ جہاز آج شام تک یہاں پہنچ جائے گا.کل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.سقراط نے کہا فریتو بے شک اس شخص نے یہ بتایا ہے کہ جہاز آج شام تک پہنچ جائے گا لیکن جب خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ جہاز کل یہاں پہنچے گا تو ویسا ہی ہو گا.فریتو نے کہا.میرے آقا آپ کو کیسے علم ہوا کہ وہ جہاز کل یہاں پہنچے گا.سقراط نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک خوبصورت عورت میرے پاس آئی ہے اس نے میرا نام لیا اور کہا.تیار ہو جاؤ پر سوں جنت کے دروازے تمہارے لئے کھول دیئے جائیں گے.فریتو کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ جہاز آج شام کو یہاں پہنچ جائے گا.اگر جہاز آج یہاں پہنچ جائے تو کیا کل مجھے سزا دے دی جائے گی؟ لیکن فرشتے نے مجھے کہا ہے کہ پرسوں تمہارے لئے جنت کے دروازے کھولے
۶۳ جائیں گے اس لئے جہاز آج نہیں آئے گا کل آئے گا اور پرسوں مجھے مار دیا جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا ایک طوفان آیا اور جہاز کو وہیں ٹھہرنا پڑا.اور دوسرے دن وہ اس شہر میں پہنچ سکا اور تیسرے دن وہ مارے گئے." آپ کی بات سننے کے بعد اس شاگر دنے کہا آپ کیوں ضد کر رہے ہیں کیا آپ کو ہم پر رحم نہیں آتا.اگر آپ زندہ رہیں گے تو ہمیں آپ سے بہت فوائد حاصل ہوں گے.اگر آپ یہاں سے بھاگ جائیں اور کسی اور حکومت کے زیر سایہ رہنا شروع کر دیں تو کیا ہی اچھا ہو.سقراط نے کہا میں اس ملک سے کس طرح بھاگ سکتا ہوں کیا میں عورتوں کا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جاؤں.اگر میں عورتوں کا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جاؤں تو لوگ کہیں گے سقراط عورتوں کا لباس پہن کر بھاگ گیا.یا پھر میں جانوروں کی کھال میں لپٹ کر یہاں سے بھاگ جاؤں.کیا اس سے میری عزت ہوگی؟ فریتو نے کہا میرے آقا یہ ٹھیک ہے لیکن ہم ان چیزوں کے بغیر آپ کو نکالیں گے.میں ایک مال دار آدمی ہوں اور فوجی افسر میرے تابع ہیں.میں نے ان سے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ میری اس بارہ میں کیا مدد کریں گے اور آپ کو عزت کے ساتھ کسی اور ملک میں چھوڑ آئیں گے.جن میں سے اس نے کریٹ کا نام بھی لیا.سقراط نے کہا.پھر تم جانتے ہو کیا ہو گا ایک بھاری رقم بطور تاوان ڈالی جائے گی.اور جب ایسا ہو گا تو فریتو تم ہی بتاؤ کیا یہ اچھی بات ہوگی کہ میں اپنی جان بچانے کیلئے اپنے ایک شاگرد کو تباہ کروں.فریتو نے کہا میرے آقا آپ اس کا خیال نہ کریں.آپ کے شاگر د بہت سے ہیں اور یہ رقم ہم آپس میں بحصہ رسدی تقسیم کر لیں گے.سقراط نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے.لیکن جب حکومت کو پتہ چلا تو وہ سب کو قید کرلے گی.فریتو نے کہا ہاں آقا.مگروہ کچھ مدت کے بعد ہمیں چھوڑ دے گی.سقراط نے کہا مگر کیا یہ اچھی بات ہوگی کہ میں اپنی جان بچانے کیلئے اپنے شاگردوں کو قید خانہ میں ڈلواؤں.فریتو نے کہا.مگر آقا آپ سوچئے آپ روحانیت کی تعلیم دیں گے اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف لائیں گے.یہ کتنا بڑا کام ہے اس لئے اگر ہم قید میں بھی گئے تو کیا ہوا.سقراط نے کہا یہ بات ٹھیک ہے اور شاید یہ بات سوچنے کے قابل ہو.مگر فریتو میں جو ۸۵ سال کا ہو گیا ہوں اگر کسی ملک میں جاتے ہوئے رستہ میں مرجاؤں تو مجھے کون عظمند کہے گا کہ میں نے یونہی مفت میں تباہی ڈال دی.پھر
انہوں نے کہا اے میرے شاگر را تم بتاؤ تو سہی میں تمہیں اس حکومت کے بارہ میں جس کے ماتحت تم رہتے ہو.کیا تعلیم دیا کرتا تھا.فریتو نے کہا آپ ہمیں یہی تعلیم دیا کرتے تھے کہ اس حکومت کا ہمیشہ فرمانبردار رہنا چاہئے.سقراط نے کہا اب تم ہی بتاؤ کہ میں اس چیز کی ساری عمر تعلیم دیتا رہا.اب اگر میں موت کے ڈر سے اس ملک سے بھاگ جاؤں تو دنیا یہی کے گی ناکہ میں یہاں کی زندگی میں جھوٹے دعوی کیا کرتا تھا پھر تم ہی بتاؤ کہ کیا حکومت ظالم ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس ملک سے نکلنا اور اس کے قانون تو ڑنا جائز ہے ؟ دنیا کی کوئی حکومت اپنے آپ کو ظالم نہیں کہتی.اگر میں یہاں سے پوشیدہ کسی اور ملک میں بھاگ جاؤں تو میری بات دوسروں پر کیا اثر کرے گی.ہر ایک یہی کہے گا کہ یہ تو وہی بات ہے جس پر اس نے خود عمل نہیں کیا.میں اس حکومت میں پیدا ہوا اور دعویٰ کے بعد چالیس سال تک اس ملک میں رہا.کیا چالیس سال کے عرصہ میں میرے لئے اس ملک کو چھوڑ جانے کا موقع نہ تھا.حکومت یہ کہے گی کہ اگر ہم ظالم تھے تو یہ چالیس سال کے دوران کیوں باہر نہیں چلا گیا.بلکہ یہ تو ہمارے انصاف کا اتنا قائل تھا کہ یہ شہر سے باہر بھی نہیں نکلتا تھا.میں ان باتوں کا کیا جواب دوں گا.غرض اس نے ایک لمبی بحث کے بعد کہا.خلاصہ یہ ہے کہ میں نہیں رہوں گا اور حکومت کے مقابلہ کیلئے تیار نہیں ہوں گا.”جیسا کہ میں نے بتایا ہے سقراط کا یہ دعویٰ تھا کہ اسے الہام ہوتا ہے اور اس نے اپنے الہام کی ایک معین صورت کو پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ جہاز آج نہیں پہنچے گا کل پہنچے گا.میرے خدا نے مجھے کہا ہے کہ تمہارے لئے جنت کے دروازے پر سوں کھول دیئے جائیں گے.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شخص خدا تعالیٰ سے تائید حاصل کرنے والا تھا.اس نے اپنی جگہ سے نکلنے کا نام نہیں لیا.ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں قادیان سے کیوں باہر نکلا.وہ کہتے ہیں کہ ہمیں قادیان سے نکلنا نہیں چاہئے تھا.اور میں نے خود بھی کہا تھا کہ میں قادیان سے نہیں نکلوں گا.بلکہ میں نے بتایا ہے کہ سقراط جو ایک مامور من اللہ تھا اس کی زندگی میں بھی ایک واقعہ پیش آیا اور اس نے اپنے شہر سے نکلنے سے انکار کر دیا.جیسا واقعہ سقراط کو یونان میں پیش آیا تھا ویسا ہی واقعہ مجھے قادیان میں پیش آیا.
۶۵ ایک اور واقعہ بھی ہے جو ہمیں ایک اور نبی اللہ کے متعلق ملتا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ فیصلہ تھا کہ وہ یہود کی بادشاہت کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے.مگر آپ پر ایک وقت ایسا آیا جب سارا ملک آپ کا دشمن ہو گیا.اور اس کی دشمنی ایک خطرناک صورت اختیار کر گئی.یہودیوں نے حکومت کے نمائندوں کے پاس آپ کے متعلق شکایتیں کیں.اور آپ کو پکڑوا دیا گیا اور آخر حکام کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا گیا کہ آپ باغی ہیں.جس طرح یونان کے مجسٹریٹوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سقراط باغی ہے.اسی طرح فلسطین کے مجسٹریوں نے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام باغی ہیں.دونوں کے متعلق ایک ہی قسم کا الزام تھا.سقراط کے پاس جب ان کے شاگر د گئے اور آپ کو انہوں نے کہا کہ آپ ملک سے نکل جائیں تو سقراط نے کہا نہیں نہیں میں اس ملک سے باہر نہیں نکل سکتا.خدا کی تقدیر یہی ہے کہ میں یہاں رہوں اور زہر کے ذریعہ مارا جاؤں.اگر میں اس ملک سے باہر نکلتا ہوں تو خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرتا ہوں.ادھر حضرت مسیح علیہ السلام کو جب یہ کہا گیا کہ آپ کو پھانسی پر لٹکا کر مارا جائے گا.تو آپ نے فرمایا میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں.میں کوئی تدبیر کروں گا تاکہ کسی طرح سزا سے بچ جاؤں اور مسیح علیہ السلام نے تدبیر کی.اور جیسا کہ آپ کو پہلے بتا دیا گیا تھا آپ کو دو تین دن تک قبر میں رکھا گیا اور پھر وہاں سے صحیح سلامت نکال لیا گیا.آپ اپنے حواریوں سے ملے اور انجیل کے بیان کے مطابق آپ آسمان پر اڑ گئے.لیکن دنیوی تاریخ کے مطابق آپ نصیبین ایران اور افغانستان کے راستہ ہوتے ہوئے ہندوستان چلے آئے پہلے آپ مدر اس گئے پھر آپ گورداسپور آئے.پھر آپ کانگڑہ کی طرف چلے گئے مگر وہاں موسم اچھا نہ پاکر آپ تبت کے پہاڑوں کے راستہ کشمیر چلے گئے.گویا ایک طرف یہ مثال پائی جاتی ہے کہ مامور من اللہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے مار دیا جائے.اس کے ساتھی اسے نکالنے کیلئے بڑی بڑی رقمیں خرچ کرتے ہیں اور پولیس بھی ان کے اس کام میں ہمدردی کرتی ہے.مگر وہ انکار کر دیتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ یہاں سے کسی اور ملک میں جانے کیلئے تیار نہیں.مگر حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آتا ہے.وہ بھی مامور من اللہ اور خدا کے ایک نبی تھے.اور جیسا کہ واقعات بتاتے ہیں سقراط بھی
ایک مأمور من اللہ تھے.دونوں ایک ہی منبع سے علم حاصل کرنے والے تھے.ایک ہی قسم کا کام ان کے سپرد تھا لیکن ایک کو جب کہا جاتا ہے کہ آپ یہاں سے نکل جائیں تو وہ یہ جواب دیتا ہے کہ میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا اور خدا تعالیٰ کی تقدیر یہی ہے کہ میں ہیں مارا جاؤں اگر میں یہاں سے نکلتا ہوں تو خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرتا ہوں.لیکن دوسرے شخص یعنی حضرت مسیح علیہ اسلام کو جب سزا کا حکم سنایا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں میں کوشش کروں گا.کہ یہاں سے نکل جاؤں اور کسی اور جگہ چلا جاؤں.یہ واقعات اس طرح کیوں ہوئے.کیا سقراط جھوٹا تھا یا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک خطرناک غلطی کی اور اپنے آپ کو تقدیر الہی سے بچانے کی کوشش کی؟ حقیقت یہ ہے کہ سقراط اس شہر کی طرف مبعوث تھا جس کے رہنے والوں نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا.سقراط ان جگہوں کے لئے مبعوث نہیں تھا جن کی طرف بھاگ جانے کے لئے اسے اس کے شاگرد مجبور کرتے تھے.سقراط دوسری قوموں کی طرف مبعوث نہیں تھا.لیکن مسیح علیہ السلام کو یہ کہا گیا تھا کہ تم بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں تک بھی میرا یہ پیغام پہنچاؤ.اور یہ بھیڑیں ایران ، افغانستان اور کشمیر میں بھی بستی تھیں.سقراط اگر اپنے شہر کو چھوڑتا تھا تو وہ ایک مکتب اور مدرسہ کو چھوڑتا تھا جس کے لئے اسے مقرر کیا گیا تھا.مثلا ایک لوکل سکول میں کسی کو ہیڈ ماسٹر مقرر کیا جاتا ہے تو وہ اس سکول کو بلا اجازت نہیں چھوڑ سکتا.اگر اس سکول کو بلا اجازت چھوڑے گا تو وہ مجرم ہو گا لیکن ایک انسپکٹر کو اپنے حلقہ میں کسی جگہ پر جانا پڑ تا ہے تو وہ بلا اجازت کسی دوسری جگہ چلا جاتا ہے اور ایک لوکل سکول کا ہیڈ ماسٹر کسی دوسری جگہ نہیں جاتا.جب تک وہ اپنے بالا افسر سے چھٹی حاصل نہیں کر لیتا لیکن ایک انسپکٹر بغیر اجازت افسر بالا کے اپنے حلقہ کا دورہ کرتا ہے.ایک ہیڈ ماسٹر کو یہ کہا جاتا ہے کہ تم اگر اپنی جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ گئے تو مجرم ہو گے لیکن انسپکٹر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو اسے کوئی شخص مجرم نہیں گردانتا اس لئے کہ اس کا دائرہ عمل اس حد تک وسیع ہے لیکن ایک ہیڈ ماسٹر کا دائرہ عمل ایک سکول تک محدود ہے اور وہ اگر اس سے نکلتا ہے تو قانون کو توڑتا ہے.پس سقراط ایک شہر کی طرف مبعوث کیا گیا تھا.اس کا دائرہ عمل محدود تھا.اگر وہ اس شہر کو چھوڑتا تو گنہگار ہو تا کیونکہ اس کے مخاطب اسی شہر کے باشندے تھے لیکن
46 حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اس لئے کہ ان کے دائرہ خطاب میں کشمیر بھی شامل تھا.حضرت مسیح علیہ السلام نے جب فلسطین کو چھوڑا تو آپ اپنے دائرہ عمل سے بھاگے نہیں بلکہ آپ اپنی دوسری ڈیوٹی پر چلے گئے.اگر آپ فلسطین میں ہی رہتے تو نہ آپ فلسطین میں اپنا کام کر سکتے تھے اور نہ ہی بنی اسرائیل کی دوسری کھوئی ہوئی بھیڑوں تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا سکتے تھے.حضرت مسیح علیہ السلام نے اگر فلسطین کو چھوڑا تو اس کے بعد آپ کا دائرہ عمل اور وسیع ہو گیا اور یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے قادیان چھوڑنے کیلئے اپنی رائے کو بدلنے پر مجبور کیا.میرے سپرد جو کام ہے وہ صرف قادیان سے تعلق نہیں رکھتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کی اشاعت کیلئے اور محمد رسول اللہ علیم کے نام کو بلند کرنے کے لئے ساری دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے تھے آپ کا دائرہ خطاب صرف قادیان تک محدود نہ تھا.بے شک میں نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں قادیان میں ہی رہوں لیکن بعد میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پر غور کر کے مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت کے لئے ایک ہجرت مقدر ہے تو میں نے سوچا کہ میرا کام قادیان یا صرف ایک ملک سے وابستہ نہیں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی میرا تعلق ہے.اگر میں قادیان میں رہتا ہوں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ میں ان سب کاموں کو ترک کر دیتا ہوں جو میرے سپرد ہیں اور ایک جگہ اپنے آپ کو مقید کر لیتا ہوں جیسا کہ بعد میں قادیان والوں کی حالت ہو گئی تھی.لیکن اگر میں قادیان سے باہر چلا جاتا ہوں تو صرف ایک چھوٹے سے دائرے سے نکلتا ہوں اور ایک وسیع دنیا کو بلانے پر قادر ہو جاتا ہوں.سقراط نے اپنے شہر کو اس لئے نہیں چھوڑا کہ ان کے مخاطب صرف اس شہر والے تھے اور حضرت مسیح السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اس لئے کہ فلسطین میں ان کے مخاطبوں میں سے صرف دو قبیلے تھے اور دس قبیلے فلسطین سے باہر تھے.حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی جن لوگوں کی خاطر فلسطین کو چھوڑا وہ فلسطین میں بسنے والوں سے سینکڑوں گنا زیادہ تھے لیکن میں نے جن لوگوں کی خاطر قادیان چھوڑا قادیان اور اس کی آبادی اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں.پس یہ صحیح ہے کہ پہلے یہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ میں قادیان نہیں چھوڑوں گا لیکن جب میں نے دیکھا کہ ہمارے لئے
ہجرت مقدر ہے تو میں نے قادیان کو چھوڑ کر یہاں چلے آنے کا فیصلہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام موجود تھا " داغ ہجرت " اور ادھر میری خوابوں میں بھی یہ بات تھی کہ ہمیں قادیان سے باہر جانا پڑے گا.میں نے دیکھا کہ یہ الہام تو موجود ہے مگر ابھی تک ہجرت نہیں ہوئی اس لئے یا تو یہ مثیل مسیح پر پیشگوئی صادق آئے گی اور یا اسے جھوٹا ماننا پڑے گا.یہی وہ چیزیں تھیں جن کی وجہ سے ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا.پھر یہ فیصلہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ جماعت کے دوستوں کی طرف سے مجھے یہ مشورہ دیا گیا کہ میں قادیان سے باہر آجاؤں.ویسے میری ذاتی دلچسپیاں تو قادیان سے ہی وابستہ تھیں لیکن میرے سامنے دو چیزیں تھیں اول یہ کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں اور قادیان میں ایک نائب امیر مقرر کر دوں.دوم یہ کہ میں اب سب کاموں کو ترک کر دوں جو میرے سپرد کئے گئے ہیں اور قادیان میں ایک قیدی کی حیثیت سے بیٹھا ر ہوں اور اس بات کے حق میں کہ قادیان میں ہی بیٹھا ہوں ایک رائے بھی نہیں تھی.اس پر یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا کام قادیان سے باہر آنے پر ہی ہو سکتا ہے اس لئے ہم جذباتی چیز کو حقیقت پر قربان کریں گے.پس، میں نے ضروری سمجھا کہ آج میں دوستوں کو بتاؤں کہ ہم نے واقعات کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے اور ہمارا قادیان سے باہر آنا ان حالات میں ہوا ہے.اگر سقراط کے طریق پر عمل کرتے اور ہم قادیان میں ہی رہتے تو یہ بات غلط ہوتی کیونکہ ہمارے حالات سقراط کے حالات سے نہیں ملتے تھے.ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی مثال پر عمل کیا کیونکہ آپ کے حالات ہمارے حالات سے ملتے تھے.دل رسول کریم الا اللہ کا بھی نہیں چاہتا تھا کہ آپ مکہ کو چھوڑیں لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اس کے بغیر اس پیغام کو جو آپ دنیا کی طرف لے کر مبعوث ہوئے تھے نہیں پھیلایا جا سکتا تو آپ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے.حضرت ابو بکرہ فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم میر غار ثور سے نکلے تو آپ نے آب دیدہ ہو کر اور مکہ کی طرف منہ کر کے فرمایا.اے مکہ باتو مجھے بڑا ہی پیارا تھا اور میں تجھے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن افسوس تیرے رہنے والوں نے مجھے یہاں رہنے کی اجازت نہیں دی.یہ فقرہ بتاتا ہے کہ رسول کریم می مکہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے.آپ کو مکہ سے محبت تھی لیکن اشاعت اسلام چونکہ مقدم تھی
۶۹ اور مکہ میں رہنے سے اس کی اشاعت کا کام باطل ہو جا تا تھا اس لئے آپ نے مکہ چھوڑنا قبول کر لیا.میں نے بھی اسی سنت کے ماتحت قادیان کو چھوڑا ہے اور اب واقعات نے تصدیق کر دی ہے کہ میں اس میں حق بجانب تھا.غرض دین کی اشاعت چونکہ سب سے اہم تھی اس لئے میں نے قادیان چھوڑنا قبول کر لیا اور پاکستان آ گیا".(الفضل ۱۸.جولائی ۱۹۶۱ء) تقسیم برصغیر کے غیر متوقع خوفناک حالات میں حضور مسلمانوں کو بار بار غیرت ایک اور عہد دلاتے ہوئے اس امر پر آمادہ کرنے کیلئے کوشاں رہے کہ وہ ان علاقوں کو خالی چھوڑ کر نہ جائیں.مسلمانوں میں اگر کوئی مخلص قیادت اس بات پر آمادہ ہو جاتی کہ وہ اپنے علاقوں کو نہیں چھوڑیں گئے تو یہ کوئی ایسی ناممکن بات نہیں تھی جو خلوص و قربانی اور اسلامی حمیت و غیرت کے باوجود حاصل نہ کی جاسکتی.اس لئے آپ نے فرمایا.کہ پیچھے چھوڑے جاتے ہو مدینے مہاجر بننے والو یہ بھی سوچا تا ہم جس مال و دولت کو قومی مفاد کی خاطر خرچ کرنے سے بخل بر ما گیا تھا وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نفسا نفسی کے عالم میں ہر شخص نے جائے پناہ کے لئے بھاگنا شروع کر دیا.حضور کی قیادت و راہنمائی سے قادیان ان دنوں میں ایک جزیرہ کی شکل اختیار کر گیا تھا جہاں علاقہ کے تمام مسلمان جمع ہو گئے.( تعصب اور بدنیتی کی پیداوار مسلمان کی خود ساختہ تعریف کا ابھی کوئی وجود نہیں تھا) اور انتہائی مخالف حالات کے باوجود جماعت نے ان مہمانوں کی ہر ممکن خدمت کی.ایسے عالم میں جب قانون کی عملداری اور اخلاق و ایمان کی اقدار کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا تھا اور لوٹ مار قتل و غارت اور آبرو ریزی کا طوفان بد تمیزی ہر سو چھایا ہوا تھا.جماعت کی اعلیٰ تنظیم اور تربیت کی وجہ سے جہاں جماعت کو دوسرے مسلمانوں کی مدد کی توفیق حاصل ہوئی وہاں دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ جماعت کا مرکز خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم اور فعال ہے.اس وقت جب کہ بڑی بڑی مساجد، خانقاہوں ، مدرسوں اور گدیوں کی ویرانی ہر مسلمان کی آنکھ سے خون کے آنسو بہانے کا تقاضہ کر رہی تھی اور مشکلات و مصائب کا اندھیراد بیز سے دبیز تر ہو تا جا رہا تھا.قادیان کی مسجد اقصیٰ کا مینار برابر چاروں طرف روشنی بکھیر رہا تھا اور موذن کی اذان یہ اعلان کرتی رہی کہ رب اکبر کی وحدانیت پر ایمان ویقین رکھنے والے ، سکھوں کی کرپانوں اور ہندوؤں کی مسلم کش سازشوں سے نہیں بلکہ صرف اور صرف اسی سے ڈرتے ہیں.اس زمانہ میں جب کہ لوگ اپنی
4.کو تاہ ہمتی اور بے یقینی کی وجہ سے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں سمجھتے کہ یہ زمانہ معجزوں کا زمانہ نہیں ہے وہ ایمان و استقامت کے اس معجزہ کے متعلق کیا کہیں گے کہ مشرقی پنجاب میں جہاں عام مسلمانوں سے زیادہ احمدیوں کی مخالفت تھی اور جہاں احمدیوں کی صرف غیر مسلموں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی طرف سے بھی ہمیشہ ہی مخالفت ہوتی تھی اگر مشرقی پنجاب میں اسلام کی روشنی کسی جگہ نظر آرہی تھی تو وہ صرف اور صرف قادیان تھا.خدا تعالیٰ پر ایمان اور یقین محکم کی کشتی نوح پر سوار ہونے والوں نے خدا کی تائید و نصرت کے ساتھ ساتھ یہ نظارہ بھی دیکھا کہ جہاں مشرقی پنجاب اور ہندوستان کے دو سرے علاقوں سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی بے نظمی اور بے ترتیبی کی وجہ سے پاکستان پہنچتے ہوئے بے شمار نقصان مایه و شماتت همسایه " سے دو چار ہونا پڑا وہاں قادیان اور علاقہ کے احمدی خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی جانوں اور عزت کو بچا کر با وقار طریق سے پاکستان پہنچے.جہاں ہمارے امام کی موجودگی اور حسن انتظام ہجرت کے زخموں پر مرہم لگانے کیلئے میر تھا.اعداد و شمار اور حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ ہماری جماعت نے عملا مالی و جانی قربانی پیش کی.ہماری جماعت نے غیر مسلموں کی مخالفانہ کارروائیوں کا کامیاب مقابلہ کیا.اس کے باوجود دوران ہجرت ہمارا جانی و مالی نقصان نسبتاً بہت کم ہوا.یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جماعت کو مرکز سے جو گہری اور جذباتی وابستگی تھی اس کی تی وجہ سے ہم میں سے ہر ایک صدمہ رسیدہ اور دل گرفتہ تھا.مگر ہمارے امام کی تربیت کے فیض سے مایوسی و بد دلی کی کیفیت ہر گز نہیں تھی.یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے بعد سب سے پہلے جس جماعت نے نظم وضبط کے ساتھ اپنے لائحہ عمل پر گامزن ہونے اور ترقی کے رستوں پر چلتے چلے جانے کا مظاہرہ کیا وہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ ہے.گویا ہجرت کے خونیں حادثہ میں جماعت نے تمام مشکلات و تکالیف کامومنانہ شان سے مقابلہ کیا اور اپنے مرکز کو کسی قیمت پر نہ چھوڑا اور دوسری طرف پاکستان میں اپنا مرکز قائم کر کے غر ہو کیسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو کچھ بھی ہو بند مگر دعوتِ اسلام نہ ہو کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے نہایت انکسار سے تو کل اور یقین کے عملی مظاہرے شروع کر دیئے.حضرت مصلح موعود نے ایک ایسے دور اندیش مدبر کی بصیرت و فراست سے کام لیتے ہوئے
< جو ملکی و سیاسی فتوحات اور وقتی نقصانات یا فوائد سے زیادہ اسلام اور اسلامی قدروں کا درد اور غیرت رکھتا تھا مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ میں ان لوگوں کو جو مشرقی پنجاب سے آئے ہیں کہتا ہوں کہ تم اپنے اپنے مقامات میں واپس جانے کی کوشش کرو اگر دور دور کے گاؤں میں نہیں جاسکتے تو تم لاہور ، سیالکوٹ اور قصور کے پاس پاس چلے جاؤ.یہ تحصیلیں ایسی ہیں جو پاکستان سے لگتی ہیں اگر 44لاکھ مسلمان مشرقی پنجاب سے نکل آیا تو یا درکھو کہ چار کروڑ مسلمان جو یوپی، بمبئی اور مدراس میں رہتا ہے وہ سب کا سب مارا جائے گا اور سارا گناہ ان مسلمانوں پر ہو گا جو مشرقی پنجاب میں سے بھاگ رہے ہیں.تم دس دس میل سے بھاگ رہے ہو اور پاکستان میں آرہے ہو تو ان کے اور پاکستان کے درمیان تو تین چار سو میل کا فاصلہ ہے وہ کس طرح آئیں گے.یقینا وہ اسی جگہ مارے جائیں گے لیکن اگر ان کو تسلی ہوئی کہ مسلمان بھگوڑے نہیں تو ان کے اندر بھی جرات پیدا ہو جائے گی اور وہ بھی اپنے اپنے مقام پر کھڑے رہیں گے.ورنہ یا د رکھو جتنا ثواب حضرت معین الدین چشتی حضرت نظام الدین اولیاء اور حضرت فرید گنج شکر والوں کو ہندوستان کو مسلمان بنانے کا ملا.اس سے کہیں بڑھ کر عذاب تمہیں ہندوستان سے اسلام ختم کرنے کی وجہ سے (الفضل ۳۰.ستمبر۷ ۱۹۴ء) حضور نے تقسیم سے قبل قادیان میں منعقد ہونے والے آخری جلسہ سالانہ میں اپنے افتتاحی خطاب میں یہ پر شوکت اعلان فرمایا.ملے گا." عیسائیت نے سر اٹھایا اور ایک لمبے عرصہ تک اس نے حکومت کی مگر اب عیسائیت کی حکومت اور اس کے غلبہ کا خاتمہ ہے.وہ چاہتے ہیں کہ عیسائیت کے خاتمہ کے ساتھ ہی دنیا کا بھی خاتمہ ہو جائے تا وہ کہہ سکیں کہ دنیا پر جو آخری جھنڈا لہرایا وہ عیسائیت کا تھا مگر ہمارا خدا اس امر کو برداشت نہیں کر سکتا.ہمارا خدا یہ پسند نہیں کرتا کہ دنیا پر آخری جھنڈا عیسائیت کا لہرایا جائے.دنیا میں آخری جھنڈا امحمد رسول اللہ سلیم کا گاڑا جائے گا اور یقیناً یہ دنیا تباہ نہیں ہوگی جب تک محمد رسول اللہ میر کا جھنڈا ساری دنیا پر اپنی پوری شان کے ساتھ نہیں لہرائے گا." (الفضل ۲۷.دسمبر ۱۹۴۶ء) پاکستان پہنچتے ہی ہزاروں مشکلات اور روکوں کے باوجود اس مقصد عظیم کیلئے پورے
ولولہ و جوش سے پھر کام شروع کر دیا گیا.آپ فرماتے ہیں." آج ہر احمدی سمجھ لے کہ احمدیت پر ایک نیا دور آیا ہے." اسی طرح آپ نے زندگی کے ہر لمحہ کو خدمت دین کیلئے صرف کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا." اگر چہ ہم اُمید رکھتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس ملے گا اور ایک مومن کو یہی امید رکھنی چاہئے کہ قادیان ہمیں واپس ملے گا اور وہی ہمارا مرکز ہو گا لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عملاً ہمارا مرکز وہی ہو گا جہاں ہمیں خدا تعالیٰ رکھنا چاہتا ہے.پس ہمیں اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو وسیع کرنا چاہتے اور اس بات کو نظر انداز کر کے کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے تا یہ پتہ لگے کہ ہمیں کام سے غرض ہے ہمیں قادیان سے کوئی غرض نہیں.ہمیں ربوہ سے کوئی غرض نہیں.اگر ہمیں خدا تعالیٰ لے جائے تو ہم وہاں چلے جائیں گے ورنہ نہیں.ہم خدا تعالیٰ کے نوکر ہیں کسی جگہ کے نوکر نہیں.اگر ہم کسی جگہ سے محبت کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اسے عزت دی ہے پس مومن کو اپنے کاموں میں ست نہیں ہونا چاہئے.الفضل فضل عمر نمبر ۶۶ - الفضل الفضل فضل عمر نمبر ۶۶ - الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۸) اپنی ایک مشہور پرانی نظم کے ایک شعر کے حوالے سے حضور فرماتے ہیں.قادیان سے نکلنا ایک ایسا اہم واقعہ ہے کہ اگر اس سلسلے میں ہم سوچنا اور غور کرنا شروع کر دیں تو ہمارے کاموں میں رخنہ پیدا ہو نا شروع ہو جائے گا لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک نہایت ہی تلخ واقعہ ہے نہ معلوم کوئی خدائی فرشتہ تھا جس نے مجھ سے انگلستان جاتے ہوئے یہ شعر لکھوایا کہ.یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیاں میں خدا کے فرشتوں کے ذریعہ سے اپنی طرف سے اور ساری جماعت کی طرف سے قادیاں والوں کو وعلیکم السلام کہتا ہوں.در حقیقت وہ لوگ خوش قسمت ہیں.آنے والی نسلیں ہمیشہ عزت کی نگاہ سے اور احترام و محبت کے ساتھ ان کے نام لیا کریں گی اور ہزاروں لوگوں کو یہ حسرت ہوا کرے گی کہ کاش ہمارے آباء کو یہ خدمت کرنے کی
توفیق ملتی." (الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۴۹ء) ہمارے امام جن کے غیر معمولی عزم و ہمت کی بہت سی مثالیں پہلے دنیا د یکھ چکی تھی ان کے لئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا اور آپ کے مخالف بھی یہ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے کہ اب ان کی جماعت کا شیرازہ بکھر جائے گا اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خوشنما کو نپل زمانے کی اس شدید گرم کو کو برداشت نہ کر پائے گی مگر دوسری طرف یہی وہ مرحلہ تھا جس میں ہمارے پیارے امام کی اولوالعزمی بلند حوصلگی، استقامت، تدبر و فراست اور دور اندیشی کی غیر معمولی صلاحتیوں نے نکھر کر سامنے آنا تھا.اس امر پر حضور کا وہ عہد دلالت کرتا ہے جو آپ نے تقسیم ملک کے بعد مشکلات و مصائب کے نازل ہو نیوالے پہاڑوں کے درمیان کیا.آپ فرماتے ہیں.قادیان اس وقت بیرونی دنیا سے بالکل کٹ گیا ہے.ایسے وقت میں انسان کو اپنا دل ٹول کر ایسا عزم کر لینا چاہئے جس پر وہ مرتے دم تک قائم رہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے.اس وقت میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عزم کیا تھا اور خدا تعالیٰ کے سامنے یہ قسم کھائی تھی کہ اگر جماعت اس ابتلاء کی وجہ سے فتنہ میں پڑ جائے اور ساری جماعت ہی مرتد ہو جائے تب بھی میں اس صداقت کو نہیں چھوڑوں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لائے اور اس وقت تک تبلیغ جاری رکھوں گا جب تک وہ صداقت دنیا میں قائم نہیں ہو جاتی.شاید اللہ تعالیٰ مجھ سے اب ایک اور عہد لینا چاہتا ہے.وہ وقت میری جوانی کا تھا اور یہ وقت میرے بڑھاپے کا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے کام کرنے میں جوانی اور بڑھاپے میں کوئی فرق نہیں ہوتا.جس عمر میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کے کام کیلئے کھڑا ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو برکت مل جائے.اسی عمر میں وہ کامیابی اور کامرانی حاصل کر سکتا ہے.لاہو ر ہی تھا جس میں میں نے وہ عہد کیا تھا اور یہاں پاس ہی کیلیاں والی سڑک پر وہ جگہ ہے.اس لاہور میں اور ویسے ہی تاریک حالات میں میں اللہ تعالی..سے توفیق چاہتے ہوئے یہ اقرار کرتا ہوں کہ خواہ جماعت کو کوئی بھی دھکا لگے میں اس کے فضل اور اس کے احسان سے کسی اپنے صدمہ یا اپنے دکھ کو اس کام میں حائل نہیں ہونے دوں گا.بفضلہ و بتو فیقہ و بنصرہ جو خدا تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کے قائم کرنے کا
میرے سپرد کیا ہے.اللہ تعالیٰ مجھے اس عہد کے پورا کر نیکی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے میری تائید فرمائے.باوجود اس کے کہ میں اب عمر کے لحاظ سے ساٹھ سال کے قریب ہوں اور ابتلاؤں اور مشکلات نے میری ہڈیوں کو کھو کھلا کر دیا ہے.پھر بھی میرے جی و قیوم خدا سے بعید نہیں.امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے میرے مرنے سے پہلے مجھے اسلام کی فتح کا ن دکھا دے." (الفضل ۲۱.ستمبر ۱۹۴۷ء) اس عظیم عہد کی باز گشت جناب شیخ عبد القادر صاحب کے اس بیان میں پائی جاتی ہے.جو انہوں نے حضور کا استحکام پاکستان کے موضوع پر ایک معرکتہ الآراء خطاب سننے کے بعد دیا.حضور کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اور باتوں کے علاوہ آپ نے کہا.ایک چیز کا میرے دل پر خاص اثر ہے باوجود اس کے کہ فاضل مقرر اور ان کی جماعت کو گذشتہ ہنگاموں میں خاص طور پر بہت نقصان اٹھانا پڑا لیکن آپ نے ان حوادث کی طرف اشارہ تک نہیں کیا.میں سمجھتا ہوں ایسا کرنے میں ایک بہت بڑی حکمت مد نظر تھی اور وہ یہ کہ حضرت مرزا صاحب کا یہ طریق ہے کہ جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا اسے اب بدلا نہیں جا سکتا اس لئے اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں.اب جو کچھ آئندہ ہو سکتا ہے اور جو ہمارے اختیار میں ہے صرف اسی پر گفتگو ہونی چاہئے." (الفضل ۸.جنوری ۱۹۴۸ء) اچھے لیڈر اور رہنما کی صلاحیتیں بحران میں نمایاں تقسیم اور اخبارات کا خراج تحسین ہو کر سامنے آتی ہیں اور عربی محاورہ کے مطابق امتحان کے وقت ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی انسان میں کس قدر صلاحیتیں پائی جاتی ہیں.اگر ایک رہنما کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ مشکل حالات میں ہراساں نہ ہو بلکہ حوصلہ عزم اور ہمت کے ساتھ ہر مشکل پر قابو پالے اور اس کی نظر سے کوئی پہلو او جھل نہ ہو ، اگر ایک رہنما کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ حالات کے بھیانک اور خوفناک ہونے کے مطابق پہلے سے اپنی جماعت کو تیار کرلے ، اگر ایک رہنما کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں میں اتنی دلیری اور جرات اور ایمان پیدا کر دے کہ وہ بشاشت کے ساتھ اپنی جان پر کھیل جانا اپنے فرائض میں شامل سمجھیں اگر ایک رہنما کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ مشکل وقت میں نہ صرف یہ کہ محاذ پر ڈٹا ر ہے بلکہ قربانی دلیری اور
۷۵ اخلاص میں دوسروں سے بہتر نمونہ پیش کرے ، اگر ایک رہنما کیلئے ضروری ہے کہ وہ پیش آمدہ حالات کا باریک بینی اور دور اندیشی سے مطالعہ کر کے تمام ممکن صورتوں کیلئے مکمل تیاری کرے اگر ایک رہنما کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس کو دشمن کی تیاری اور طاقت کا بخوبی اندازہ ہو.اگر ایک رہنما کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ مخالف کی تیاری اور طاقت کے پیش نظر جہاں تک ممکن ہو اپنی تیاری مکمل رکھے اور اپنی کمزوریوں سے واقف رہتے ہوئے ان کا ازالہ کرتا رہے نہ على وجد البصيرت یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہجرت کے امتحان میں ہمارے پیارے امام حضرت مصلح موعود کی قائدانہ صلاحیتیں اس طرح ظاہر ہو ئیں کہ اس کی مثال کسی اور جگہ تلاش کرنا بے کارو عبث ہے اور یہ بات بلاخوف تردید کی جاسکتی ہے کہ اگر حضور کے بروقت ارشادات کی روشنی میں مسلمان خود حفاظتی اور ایک دوسرے کی مدد کیلئے نظم و ضبط اور قربانی سے کام لیتے تو پاکستان کی حدود بہت زیادہ وسیع ہو تیں اور تقسیم ملک کے وقت مسلمانوں پر جو تباہی آئی وہ ہرگز نہ آتی اور تبادلہ آبادی کا بھیانک خونیں حادثہ بھی پیش نہ آتا اور کسی کو یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ مسلم اکثریت والا ضلع گورداسپور سراسر ظلم اور زیادتی کے طریق پر پاکستان کے وجود سے کاٹ کر الگ کر کے اور چالیس لاکھ کشمیری مسلمانوں کو ہندو کی خون آشام تلوار تلے سسکتے رہنے پر مجبور کر دیتا.یا د رہے کہ ضلع گورداسپور کی مسلم اکثریت احمدیوں کو شامل کرنے سے ہی بنتی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کا گورداسپور پر دعویٰ بنتا ہے.اگر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے (حالانکہ کسی کو بھی نہ یہ حق حاصل ہے اور نہ ہی اس کی اجازت ہے تو گورداسپور غیر مسلم اکثریت کا علاقہ قرار پاتا ہے!! حضرت فضل عمر کے بہت سے کار ہائے نمایاں مخالفوں کی ضد اور تعصب کے گردو غبار سے لوگوں کے سامنے نہیں آسکے مگر تقسیم ملک کے وقت جس مسلم ہمدردی اور مسلم کاز کیلئے مجاہدانہ سرگرمی اور پھر تقسیم بر صغیر کے وقت جس قسم کی تیاری و پیش بندی کی ضرورت تھی اور جس طرح آپ کی نگرانی و رہنمائی میں قادیان اور نواح قادیان کے مسلمانوں کا دفاع کیا گیا اور قادیان میں آنے والے ہزاروں مصیبت زدگان کو پناہ دے کر ہر قسم کی امداد مہیا کی گئی اس کا چرچا عام پریس میں ہوا.چنانچہ مسلم پریس نوائے وقت ، انقلاب، احسان، زمیندار ڈیلی گزٹ ، سندھ آبزرور ڈان اس طرح ہندوستان کے اخبارات نوجوان (مدراس) حقیقت (لکھنو) اور پھر اس کے علاوہ بیرونی دنیا میں سے برما ایران ارجنٹائن کے اخبارات اور برطانیہ کے تمام قابل ذکر اخبارات نے قادیان اور امام جماعت کے اس محیر العقول کارنامہ کا ذکر کیا.
44 اخبار نوائے وقت نے ” قادیان کا مورچہ " کے عنوان سے لکھا.قادیان مشرقی پنجاب میں ایک قصبہ ہے جہاں مسلمان ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں.خاص قادیان میں مسلمانوں کی تعداد کچھ بہت زیادہ نہ تھی کیونکہ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے مگر ارد گرد کے دیہات سے ہزاروں مسلمانوں نے اس قصبہ میں پناہ لی ہے اور اب ایک روایت کے مطابق پچاس ہزار مسلمان قادیان میں پناہ گزیں ہیں.ہم اس وقت اختلاف عقائد کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے نہ یہ وقت اس بحث کو چھیڑنے کیلئے موزوں ہے.مسلمانوں سے ہماری درخواست صرف اس قدر ہے کہ اغیار کو اس وقت اس سے کوئی غرض نہیں کہ فلاں شخص کے عقائد کیا ہیں حتی کہ انہیں اب کانگریسی اور لیگی کا بھی کوئی امتیاز نہیں وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ نام مسلمانوں کا ہے اور شکل وصورت مسلمانوں کی سی ہے.ایسا ہر شخص ان کے نزدیک واجب القتل ہے.اگر اہل قادیان کا ارادہ یہ ہے کہ وہ غنڈہ گردی کا مقابلہ کریں گے اور مدافعت و مزاحمت کئے بغیر یہاں سے نہیں نکلیں گے تو ہر کلمہ گو کو ان سے حسب استطاعت عملی یا محض اخلاقی ہمدردی کا اظہار کرنا چاہئے." (نوائے وقت ۲۲.ستمبر ۱۹۴۷ء) یی اخبار اپنے ۱۰.دسمبر۷ ۱۹۴ء کے ضمیمہ میں لکھتا ہے.اس وقت جب سارے مشرقی پنجاب میں افرا تفری زوروں پر ہے اور لاکھوں مسلمان اپنا عزیز وطن چھوڑ کر محض اپنی جان بچا کر مغربی پنجاب میں پہنچ رہے ہیں اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے وقار کو ضعف پہنچ رہا ہے.قادیان ضلع گورداسپور کے مسلمان اپنے مقام پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ باعزت موت کو ذلت اور رسوائی کی زندگی پر ترجیح دینے کا تہیہ کر چکے ہیں." اسی اخبار نے اپنی ۶.ستمبر۷ ۱۹۴ء کی اشاعت میں لکھا." قادیان کے نواحی علاقے میں سکھوں نے متعدد دیہات میں تباہی پھیلا رکھی ہے.مسلمانوں کو قتل اور ان کی جائیدادوں کو تباہ کیا جارہا ہے لیکن انہیں قادیان پر حملہ کرنے کی ابھی جرأت نہیں ہوئی.اہل قادیان اللہ کے فضل سے طاقتور اور منظم ہیں اور حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ان کو ہر وقت صبر و سکون اور توکل علی اللہ کی تلقین کر رہے ہیں.لیکن مسلمانان پاکستان کا مطالبہ یہ ہے کہ خطرے
،، کے سدباب کے لئے فی الفور پاکستانی فوج قادیان کی حفاظت کیلئے مقرر ہونی چاہئے مبادا سکھ غیر مسلم فوج اور پولیس کی امداد یا اغماض سے فائدہ اٹھا کر قادیان کے خلاف کوئی سازش کریں." اخبار احسان ان خون آشام حالات کا ذکر کرتے ہوئے قادیان میں پناہ لینے والوں کی حالتِ زار کا نقشہ کچھ یوں کھینچتا ہے.لمبی چوڑی باتیں لکھنے کا وقت نہیں اس وقت ہم کم و بیش پچاس ہزار افراد قادیان میں پناہ لئے بیٹھے ہیں.انہیں احمدیوں کی طرف سے زندہ رہنے کیلئے کھانا مل رہا ہے بعض کو مکان بھی مل چکے ہیں.مگر اس قصبہ میں اتنی گنجائش کہاں ؟ ہزاروں آسمان کی چھت کے نیچے زمین فرش پر بیٹھے ہیں جنہیں دھوپ بھی کھانا پڑتی ہے اور بارش میں بھی بھیگنا پڑتا ہے پھر بھی ہم جوں توں کر کے زندگی کے دن گزار رہے ہیں.پچھلے جمعہ کو ہمیں یہاں سے قافلہ کی صورت میں ملٹری نے چلے جانے کا حکم دیا لیکن یہاں کے بھلے لوگوں نے ہمیں اس لئے روک لیا کہ حفاظت کے بغیر رستے میں کٹ جاؤ گے." (احسان لاہو ر ۲.اکتوبر۷ ۱۹۴ء) بھلے لوگوں سے مراد یقیناً قادیان کی احمدی انتظامیہ ہی ہو سکتی ہے اور واقف حال لوگوں سے یہ امر مخفی نہیں ہے کہ قافلہ میں جانے والوں کا انجام نہایت خوفناک ہو تا تھا.ایک قافلہ کے پیدل چلنے میں جو مشکلات ہو سکتی ہیں وہ تو قوت متخیلہ کے زور سے کسی قدر ذہن میں آسکتی ہیں مگر اس وقت شدید طوفانی بارشوں کے علاوہ سکھوں کے جتھوں نے جو تباہی مچائی ہوئی تھی اس میں تو اموال اور عزتیں بھی محفوظ نہیں رہتی تھیں.اور بھلے لوگوں کے مشورہ نے ان پچاس ہزار مصیبت زدگان کو یقیناً بے شمار بھیانک اور لرزہ خیز نقصانات سے محفوظ کر لیا ہو گا.
LA تعمیر مرکز نو.ربوہ آنحضرت میں اور ہم نے امام مہدی اور ان کے ماننے والوں کی یہ پہچان بیان فرمائی تھی کہ اَلا وَهِيَ الْجَمَاعَةُ وہ ایک جماعت ہوگی.ہر صاحب نم پر روشن ہے کہ جماعت کیلئے ایک واجب الاطاعت امام اور ایک مرکز کا ہونا لازمی ہے.جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے اس فضل پر نازاں ہے کہ وہ ایک واجب الاطاعت امام اور مرکز کے عظیم خدائی انعامات سے سرفراز ہے.دائمی مرکز قادیان کے مخصوص حالات کی وجہ سے پاکستان میں ایک نئے مرکز کی ضرورت تھی.موزوں جگہ کی تلاش حضور اپنی غیر معمولی مصروفیات ، مشکلات اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس اہم ضرورت کی طرف برابر متوجہ تھے.چنانچہ آپ نے قادیان سے جدائی کے صدمہ اور ہجرت کی وجہ سے نئے نئے اور بڑے بڑے مسائل اور مشکلات کے باوجود اس اہم ضرورت سے صرف نظر نہ کیا اور احباب جماعت کو نئے مرکز کیلئے مناسب جگہ کی تلاش کی ہدایت فرمائی.اس سلسلہ میں حضور کے مندرجہ ذیل بیان سے پتہ چلتا ہے که سرزمین ربوہ نہ صرف یہ کہ جماعتی ضروریات کے لحاظ سے موزوں اور بہتر سمجھی گئی بلکہ یہ جگنہ حضور کے ایک خواب کی رو سے تعمیر مرکز کیلئے خدا کی منشاء اور مشیت کے مطابق تھی.حضور فرماتے ہیں.ہم سات آٹھ مہینے سے کوشش کر رہے تھے کہ ایک جگہ لی جائے جہاں قادیان کی اجڑی ہوئی آبادی کو بسایا جائے.یہ تجویز ستمبر ۱۹۴۷ء میں ہی کر لی گئی تھی اور اس خواب کی بناء پر جو میں نے ۱۹۴۱ء میں دیکھی تھی کہ میں ایک جگہ کی تلاش میں ہوں جہاں جماعت کو پھر جمع کیا جائے اور منتظم کیا جائے.ہم نے یہاں پہنچتے ہی ضلع شیخوپورہ میں کوشش کی.پہلے ہماری یہ تجویز تھی کہ نکانہ صاحب کے پاس کوئی جگہ لے لی جائے تا سکھوں کو یہ احساس رہے کہ اگر انہوں نے قادیان پر جو احمدیوں کا مرکز ہے حملہ کیا تو
29 احمدی بھی ننکانہ صاحب پر حملہ کر سکتے ہیں.اس خیال کے ماتحت میں نے قادیان سے آتے ہی آٹھ نو دن کے بعد بعض دوستوں کو ہدایات دے کر ضلع شیخو پورہ بھجوا دیا تھا.وہاں ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی زمینوں کے متعلق ان کے ایجنٹوں سے بات چیت بھی کر لی گئی اور بعض لوگ زمین دینے پر رضامند بھی ہو گئے تھے.لیکن جب اس کا گورنمنٹ کے افسران سے ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ غیر مسلموں کی چھوڑی ہوئی جائیداد فروخت نہ کی جائے.ہم نے انہیں کہا ہم بھی ریفیوجی ہیں اس لئے کسی غیر کے پاس زمین فروخت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.مگر انہوں نے جواب دیا کہ چونکہ ایسا کرنے میں غلط فہمی ہو سکتی ہے اس لئے یہ زمین قیمتا نہیں دی جا سکتی.اسی دوران میں بعض احمدیوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ سکھوں میں ایک طبقہ حد سے زیادہ جوش والا ہے اس لئے بجائے اس کے کہ اس تجویز سے فائدہ ہو ایسے لوگ زیادہ شرارت پر آمادہ ہو جائیں گے.ایک دوست نے یہ بھی کہا آپ نے خواب میں جو جگہ دیکھی تھی وہ جگہ تو پہاڑیوں کے بیچ میں تھی اور یہ جگہ پہاڑیوں کے بیچ میں نہیں ہے.میں نے ایک جگہ دیکھی ہے جو آپ کے خواب کے زیادہ مطابق ہے.چنانچہ پارٹی تیار کی گئی اور میں بھی اس کے ساتھ موٹر میں سوار ہو کر گیا.وہ جگہ دیکھی واقعہ میں وہ جگہ ایسی ہی تھی صرف فرق یہ تھا کہ میں نے خواب میں جو جگہ دیکھی تھی اس میں سبزہ تھا اور یہاں سبزہ کی ایک پتی بھی نہ تھی.یہ جگہ اونچی ہے اور نہر کا پانی اس تک نہیں پہنچ سکتا.اب حال میں جو سیلاب آیا ہے اس کا پانی بھی اس جگہ سے نیچے ہی رہا ہے.اور اس جگہ تک نہیں پہنچ سکا.لیکن ہم نے سمجھا کہ اگر کوشش کی جائے تو شاید یہاں بھی سبزہ ہو سکتا ہے." حمد ☆ الفضل ۲۸ - ستمبر ۱۹۴۸ء) مکرم راجہ علی محمد صاحب مرحوم سابق نا ظر بیت المال اس سلسلہ میں لکھتے ہیں."جیسا کہ اس وقت مختلف احباب نے اطلاع بہم پہنچائی یا مشورہ دیا.زمین کے کئی قطعات حضور کے زیر نظر تھے.ان میں ایک سرزمین ربوہ اور دو سرا کڑانہ کی پہاڑیوں کے دامن میں یہ دونوں سرگودھا کی سڑک پر تھے.اس ربوہ والے قطعہ کے متعلق ایک حید ربوہ میں سبزہ اور پھل پھول حضرت مصلح موعود کی دعا کی قبولیت کا ایک نشان اور خدا تعالیٰ کے غیر معمولی فضل و احسان کا مظہر ہے.
موقع پر میں نے یہ عرض کیا کہ یہ رقبہ میرا بھی دیکھا ہوا ہے.ضلع جھنگ کے گذشتہ بندوبست میں میں تحصیل چنیوٹ کا تحصیلدار بندوبست تھا اور اس رقبہ سے کئی دفعہ میرا گذر ہوا تھا.میں نے عرض کیا کہ یہ قطعہ زمین زراعت کے نا قابل بالکل کلر تھو ہر ہے جہاں صرف ایک بوٹی "لانی" کے جو اونٹوں کا چارہ ہے اور جو خود زمین کے ناقابل زراعت ہونے کا ثبوت ہے.اس کے علاوہ اور کسی قسم کی سبزی ، درخت وغیرہ کا وہاں نشان تک نہیں.بعض سرمایہ داروں نے لمبی میعاد کے پٹہ پر گورنمنٹ سے یہ زمین لے کر اس کو آباد کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے." (الفضل ۷.جون ۱۹۶۴ء) اس رپورٹ سے یہ بھی عیاں ہے کہ قدرت نے یہ قطعہ زمین اسی مقصد کیلئے مقدر فرمایا ہوا تھا.یہی وجہ ہے کہ اس کی آبادی کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی.حضرت فضل عمر اس سلسلہ میں آخری فیصلہ کرنے سے قبل بنفس نفیس اس قطعہ زمین کے معائنہ کیلئے تشریف لے گئے.آپ کے ہمراہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت نواب محمد دین صاحب اور بعض اور بزرگ بھی تھے اس تاریخی سفر کے متعلق راجہ علی محمد صاحب جو اس سفر میں حضور کے ہمراہ تھے تحریر کرتے ہیں.ر تن باغ لاہور سے صبح سویرے روانہ ہو کر تقریبا دس بجے یہ قافلہ...جہاں ربوہ میں اب بسوں کا اڈہ ہے وہاں پہنچا.وہاں حضور نے اپنی کار سے نکل کر سڑک : کھڑے کھڑے رقبہ کا جائزہ لیا.بالخصوص سڑک پختہ ریلوے لائن کے درمیان اس رقبہ کے واقعہ ہونے کا اور اس طرح اس کی جائے وقوع پر غور فرمایا.پھر حضور نے سڑک کے متوازی سامنے کی پہاڑی پر چڑھ کر پہاڑی کے پیچھے زمین کی سطح کو دیکھنے کا خیال کیا اور پہاڑی پر چڑھنا شروع کیا.لیکن اس کی نصف بلندی تک پہنچ کر فرمایا کہ میں کمزوری محسوس کرتا ہوں اور اوپر نہیں جا سکتا اور نیچے اتر آئے.مگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور مکرم و محترم مولوی عبدالرحیم صاحب درد جو حضور کے ساتھ اوپر چڑھ رہے تھے چوٹی پر پہنچے اور اگر پہاڑی کے پیچھے جو زمین کی صورت تھی اس کا حضور سے ذکر کیا.بعد ازاں سڑک پر تھوڑی دور سرگودھا کی طرف سے آگے چل کر سڑک پر پانی پینے کے ہینڈ پمپ سے خود چلو میں پانی لے کر چکھا اور فرمایا کہ پانی تو خاصا اچھا ہے.وہاں سے
시 روانہ ہو کر احمد نگر کے بالمقابل سڑک پر اپنی موٹر سے نکل کر نزدیک ہی ایک کنویں کے قریب درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور تمام ہمرا ہی احباب کے حلقہ میں احمد نگر کے چند غیر احمدی معززین سے جو وہاں آگئے تھے مخاطب ہوئے.بالخصوص وہاں کے نمبردار چوہدری کرم علی صاحب سے (جو فوت ہو چکے ہیں) دریافت فرمایا کہ دریائے چناب میں سیلاب کے پانی کی زد کی حد کہاں تک ہے.نمبردار نے عرض کیا کہ سیلاب کا پانی تو یہاں تک بھی پہنچ جاتا ہے.پھر دریافت فرمایا کہ آیا وہ رقبہ جہاں اب ربوہ آباد ہے سیلاب کی زد میں ہے.اس پر نمبردار مذکور نے کہا کہ وہاں تو پانی صرف ایسی صورت میں پہنچے گا کہ جب سیلاب کے پانی کی بلندی اس درخت کی جس کے نیچے حضور کھڑے تھے جھکی ہوئی شاخوں کو چھوئے گی.ان لوگوں کی تالیف قلوب کیلئے تھوڑی دیر اور وہاں گفتگو فرمائی اور پھر سرگودھا کی طرف سفر شروع کیا.موٹر میں بیٹھے کڑا نہ پہاڑیوں کے دامن میں جو کھلا میدان ہے اس کا جائزہ لیا.سرگودھا پہنچ کر محترم چوہدری عزیز احمد صاحب سب حج کی کو ٹھی پر جو ان دنوں وہاں تعینات تھے دوپہر کا کھانا تمام ہمراہی احباب سمیت تناول فرمایا." (الفضل ۷ جون ۱۹۶۴) حضور نے اس جگہ کو مرکز نو کی تعمیر کیلئے موزوں قرار دیا اور حضور کی ہدایت پر ناظر اعلیٰ صاحب نے ڈپٹی کمشنر جھنگ کو یہ قطعہ زمین خریدنے کی درخواست کی.11.جون ۱۹۴۸ء کو حکومت کی طرف سے زمین انجمن کے نام دیئے جانے کی منظوری موصول ہوئی.اس غیر معمولی تائید و نصرت الہی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں."ہم نے گورنمنٹ سے اس کے خریدنے کی درخواست کی اور اس سے کہا کہ آخر آپ نے ہمیں کوئی جگہ دینی ہی ہے اور کہیں بسانا ہی ہے.اگر یہ جگہ ہمیں مل جائے تو جتنے احمدی یہاں بس جائیں گے ان کا بوجھ گورنمنٹ پر نہیں پڑے گا.قادیان کے باشندوں کو اگر کسی اور جگہ آباد کیا جائے تو انہیں بنی بنائی جگہیں دی جائیں گی.لیکن اگر وہ یہاں بس جائیں تو کروڑوں کی جائیداد بچ جائے گی جو دوسرے مہاجرین کو دی جا سکتی ہے.قادیان میں دو ہزار سے زائد مکانات تھے جن میں بعض پچاس پچاس ہزار کے تھے اور بعض لاکھ دو لاکھ کے تھے.لیکن اگر پانچ ہزار روپے فی مکان بھی قیمت لگائی
۸۲ جائے تو ایک کروڑ کے مکانات قادیان میں تھے اور یہ قیمت صرف مکانوں کی ہے.زمین ( کی قیمت) اس سے الگ ہے.زمین کی قیمت اس وقت دس ہزار روپے فی کنال تک پہنچ گئی تھی اور پانچ سو ایکڑ کے قریب زمین مکانوں کے نیچے تھی.جس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس ہزار کنال زمین پر مکانات بنے ہوئے تھے.اگر پانچ ہزار روپے فی کنال بھی قیمت لگا دی جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ دو کروڑ کی زمین تھی جس پر مکانات بنے ہوئے تھے.گویا تین کروڑ کے قریب مالیت کے مکانات قادیان والے چھوڑ کر آئے ہیں.اگر لاہور 11 کل پور سرگودھا وغیرہ اضلاع میں قادیان کے لوگوں کو بسایا جائے تو پھر وہاں زمین اور مکانات کی قیمتیں قادیان کی زمین اور مکانات سے بڑھ کر ہوں گی.اگر احمدیوں کو یہ جگہ دے دی جائے اور وہ وہاں بس جائیں تو تقریباً چار کروڑ کی جائیداد بیچ جاتی ہے جو دوسرے لوگوں کو دی جاسکتی ہے.انہوں نے اس تجویز کو پسند کیا اور کہا کہ قاعدہ کے مطابق اسے گزٹ میں شائع کرنا ہو گا اور وعدہ کیا کہ وہ نومبر یاد سمبر میں اسے شائع کر دیں گے.مگر جب جنوری میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم بھول گئے ہیں.ہم نے کہا یہ آپ کا قصور ہے.ہمارے آدمی آوارہ پھر رہے ہیں.اس کے جواب میں انہوں نے کہا خواہ کچھ بھی ہو، بہر حال اسے شائع کرنا ضروری ہے تا معلوم کیا جائے کہ اس زمین کا کوئی دعویدار ہے یا نہیں.اس کے بعد کہہ دیا گیا جب تک کاغذات کمشنر کی معرفت نہ آئیں کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی.ایک مہینہ میں کاغذات کمشنر کے پاس سے ہو کر پہنچے اور اس طرح مارچ کا مہینہ آگیا.پھر کہا گیا کہ ان کاغذات پر قیمت کا اندازہ نہیں لکھا گیا اس لئے ہم کوئی کارروائی نہیں کر سکتے.پھر دوبارہ کاغذات مکمل کر کے بھیجے گئے.پھر افسر مقررہ نے ایک مہینہ بعد تعمیل کی.پھر اپریل میں قیمت لگائی گئی.پھر یہ سوال اٹھایا گیا کہ کاغذات منسٹری کے پاس جائیں.ہم نے کہا کہ یہ کام تو فنانشل کمشنر صاحب خود کر سکتے ہیں.مگر کہا گیا کہ یہ کام چونکہ اہم ہے اس لئے کاغذات کا منسٹری کے پاس جانا ضروری ہے.کاغذات منسٹری کے پاس بھیجے گئے.منسٹری نے کہا ابھی ان پر غور کرنے کیلئے فرصت نہیں.آخر ایک لمبے انتظار کے بعد جون میں فیصلہ ہوا اور زیادہ سے زیادہ جو قیمت ڈالی گئی وہ وصول کی گئی.یہ واقعات میں نے اس لئے بتائے ہیں کہ گورنمنٹ کے افسران نے ہمارے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی.بلکہ ان میں سے بعض
۸۳ ایک کی غفلت کی وجہ سے ہم سال بھر تک اجڑے رہے.اب جگہ ملی ہے.صرف ایک کسر باقی ہے.اگر وہ دور ہو گئی تو جلد آبادی کی کوشش کی جائے گی." (الفضل ۲۸.ستمبر ۱۹۴۸ء) ۲۲.جون ۱۹۴۸ء کو صد را انجمن احمدیہ کی طرف سے زمین کی الزام اور اس کی تردید قیمت داخل خزانہ کروا کے دفتری کار روائی کی تکمیل کروالی گئی.یہاں تک تو معمول کے مطابق کام ہو تا گیا مگر اس کے بعد بعض اردو اخبارات نے مخالفانہ پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ حکومت نے جماعت کی ناجائز طرف داری کی ہے اور یہ کہ بعض لوگ ۱۵۰۰ روپے فی ایکڑ تک یہ اراضی خرید نے کو تیار تھے مگر جماعت کو برائے نام قیمت پر دیدی گئی.حقیقت حال کی وضاحت کرتے ہوئے حضور کے ارشاد کے مطابق ناظر صاحب امور خارجہ صدر انجمن احمدیہ نے مندرجہ ذیل بیان جاری کیا.اخبار " زمیندار نے اپنی اشاعت یکم اگست ۱۹۴۸ء میں احراری اخبار "آزاد" کے حوالہ سے ایک مقالہ افتتاحیه سپرد قلم کیا ہے.جس میں کہا گیا ہے کہ جو اراضی جماعت احمدیہ نے چنیوٹ کے قریب دس روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے خریدی ہے اس اراضی کو بعض لوگ پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے خریدنے کیلئے تیار تھے.سو اگر یہ درست ہے تو واقعی حکومت کو سخت نقصان پہنچا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز گورنمنٹ کے اس نقصان کو قطعا برداشت نہیں کر سکتے اس لئے حضور نے مجھے ہدایت فرمائی ہے کہ میں یہ پریس کمیونک جاری کروں کہ ہم یہ رقبہ جو ۱۰۳۴.ایکڑ ہے مندرجہ بالا پیش کردہ قیمت پر فروخت کرنے کو تیار ہیں اور علاوہ ازیں ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اس رقم کا (جو پندرہ لاکھ اور اکاون ہزار روپیہ بنتی ہے) وصول ہوتے ہی ایک ایک روپیہ فوراً حکومت پاکستان کے خزانے میں داخل کرا دیں گے.اخیر میں ہم پاکستان کے شہریوں کو یقین دلاتے ہیں کہ اس معاملہ کے متعلق اخبار آزاد " کا لفظ لفظ کذب بیانی پر مبنی ہے." (الفضل ۴.اگست ۱۹۴۸ء صفحه ۱) مغربی پنجاب کی حکومت نے بھی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے اس سرا سر غلط پروپیگینڈا کو گمراہ کن اور اصلیت سے دور قرار دیتے ہوئے پر لیس میں یہ بیان جاری کیا.بعض اخبارات میں ایک خبر چھپی ہے جس میں اس بات پر نکتہ چینی کی گئی ہے کہ
۸۴ حکومت مغربی پنجاب نے ۱۰۳۴ ایکڑ زمین ضلع جھنگ میں چنیوٹ کے قریب جماعت احمدیہ کے ہاتھ دس روپے فی ایکڑ کے حساب سے بیچی.الزام یہ ہے کہ تقسیم سے پہلے بعض مسلم انجمنیں اس زمین کو پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے خریدنا چاہتی تھیں.یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ جب ضلع دار آبادی کی تجویز کو منظور نہیں کیا گیا تو احمدیہ جماعت کو یہ موقع کیوں دیا گیا ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقہ کو اپنی کالونی بنا لے.یہ رپورٹ گمراہ کن اور اصلیت سے دور ہے.جس زمین کے متعلق یہ اعتراض کیا گیا ہے وہ بنجر ہے اور عرصہ دراز سے اسے زراعت کے ناقابل سمجھا گیا ہے.اسے جماعت احمدیہ کے ہاتھ فروخت کرنے سے پہلے حکومت نے اس کا اشتہار اخبارات میں دے دیا تھا اور پورے ایک مہینہ تک کسی شخص نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا.جہاں تک قیمت کا تعلق ہے حکومت کو آج تک پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ اس زمین کی قیمت کسی فرد یا کسی جماعت کی طرف سے پیش نہیں کی گئی.چونکہ ابھی تک سکونتی اغراض کیلئے زمین بیچنے کی کوئی نظیر موجود نہیں تھی اس لئے حکومت نے اس کیلئے وہی شرح مقرر کی جو حکومت کے محکموں کیلئے ہے.جماعت احمد یہ اس علاقے میں ایک نئی بستی آباد کرنا چاہتی ہے جس میں قادیان کے اجڑے ہوئے لوگ آباد ہوں گے.ان کا خیال ہے کہ یہاں سکول ہوں، کالج ہوں ، ذہبی مدارس ہوں اور صنعتی ادارے ہوں.ان کی یہ تجویز کسی صورت میں بھی ان وجوہ سے نہیں ٹکراتی جن کی بناء پر حکومت نے مهاجرین کی ضلع دار آبادی کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے جو صوبے کے ایک بڑے علاقے میں بسائے جاچکے ہیں." اخبار " انقلاب لا ہو ر ۳۱.اگست ۱۹۴۸ء) حکومت کی طرف سے اس زمین کا قبضہ دیئے جانے میں تاخیر ہو رہی تھی.حضور ان دنوں کو ئٹہ تشریف لے گئے ہوئے تھے.آپ نے صدر انجمن کو بذریعہ تاریہ ہدایت فرمائی کہ اس سلسلہ میں فوری کارروائی کی جائے.حضور کا طریق مبارک تھا کہ ضروری کام کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے.مکرم راجہ علی محمد صاحب کا مندرجہ ذیل بیان حضور کی سیرت کے متعدد پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے.آپ لکھتے ہیں.اس رقبہ کے حصول کیلئے حضور کی سرگرمی اور گرم جوشی کا بیان کرنا میری قلم کی طاقت سے باہر ہے.اپنی کو تاہ بینی کی وجہ سے ہم میں سے بعض یہ خیال کرتے تھے کہ
۸۵ جس کام کا ارادہ حضور کر لیں آپ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں.اس وقت تمام فکر و تدبیر مشغولیت و مصروفیت اور حضور کی ہمہ تن توجہ اس کام کیلئے وقف شدہ معلوم ہوتی تھی لیکن جلدی بعد میں جب آنے والے واقعات نے ہماری آنکھیں کھولیں تو حضور کی عجلت پسندی اور فکر اور گرمجوشی ہمارے لئے دست غیب کا ایک کرشمہ تھا جو حضور کے ہاتھ پر ظاہر ہوا کیونکہ اس کے بعد بہت جلدی جماعت احمدیہ کے خلاف تعصب بغض و عناد اور حسد اور نفرت کا لاوا اندر ہی اندر پکنا شروع ہو گیا.اور جوں جوں دن گذرتے گئے جماعت احمدیہ کے ساتھ ہمدردی اور خیر سگالی کا جذبہ جو قادیان اور اس کے گردو نواح میں مسلمانوں کی حفاظت کیلئے احمدیوں کے مثالی مومنانہ ایثار اور استقلال کی وجہ سے پیدا ہوا تھاوہ افتراء و کذب بیانی اور منافرت کے لاوا میں دبتا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہماری ہر بات کو نا کام کرنے کی کوشش کی جانے لگی.ایسے حالات میں کوئی یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ربوہ کی سرزمین کا حاصل کرنا ہمارے واسطے ممکن ہو گا.ربوہ کی زمین کا اس طرح حاصل ہونا ایک معجزہ ہے.جو اور جس طرح کی کوشش ان دنوں حضور نے کی اس میں ایک گھنٹہ کی غفلت بھی مقصد کی کامیابی میں دنوں کا التواء اور دنوں کی غفلت مہینوں کا التواء ثابت ہوتی.اور چند مہینوں کی غفلت تو غالبا اصل مقصود اور مدعا اور اس کیلئے جو اقدام کیا گیا تھا یہ سب کو شش منفی ثابت ہوتی.پس ربوہ مرکز فانی کا وجود ایک معجزہ ہے جو حضرت موعود اولو العزم اور مصلح اور امام ربانی کے ہاتھ پر ظاہر ہوا." (الفضل ۷.جون ۱۹۶۴ء) حضور نے زمین کی خرید اور حصول کیلئے ہنگامی بنیادوں پر دن رات حصول زمین کی کوشش کام کیا اور قبضہ ملنے کے بعد بغیر کسی تاخیر کے کوئٹہ سے مندرجہ ذیل مفصل ہدایات جاری فرمائیں.ان ہدایات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نے تعمیر و آبادی کے سلسلہ میں ہر امکانی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے متعلق معین و مفید پروگرام تجویز فرمایا.فور کا ایک کمیٹی اس لئے بنادی جائے کہ :.جگہ کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے کہ مرکزی دفتر کہاں بنائے جائیں گے.مقبرہ کہاں ہو گا.(مقبرے دو ہونے چاہئیں عام اور مقبرہ بہشتی مسجد کالج سکول ، مدرسہ احمدیہ کالج احمدیہ
۸۶ ہسپتال زنانہ سکول ریسرچ انسٹی ٹیوٹ وغیرہ.سردست ایک سو سے ڈیڑھ سو ایکڑ تک اس کیلئے ریزور کی جائے مگر نقشہ اس طرح ہو کہ آئندہ وسعت سے جگہ خراب نہ ہو..پانی کے انتظام کیلئے فور اسروے کر کے اور نیچی طرف ایک ٹیوب ویل کا کام فورا شروع کروا ۴._ 1 دیا جائے..مٹی کے تیل کا کوٹہ فور امنظور کروایا جائے.غلہ پانچ چھ ہزار من فور اسال کی ضرورتوں کیلئے خرید لیا جائے.اس کے لئے انجمن رقم فورا منظور کردے.سوا سو من ہمارے لئے خرید لیا جائے میں قیمت دوں گا.بھینسیں دو میرے لئے خرید کر احمد نگر میں رکھ دی جائیں اور سلسلہ کیلئے بھی تافور ادودھ کی کمی نہ ہو.پانی کا انتظام ہو جائے تو فور اچاروں طرف درخت لگانے کا پروگرام بنایا جائے بطور باڑ کے.تحقیق کی جائے کہ کس کس قسم کے پھل دار درخت یا دو سرے درخت اس علاقہ میں لگ سکتے ہیں.سب سے پہلے مسجد کی بنیاد رکھی جائے مگر فیصلہ کیا جائے کہ کس ترتیب سے باقی مکانات بنانے چاہئیں.۹.شہر بنانے کیلئے فوراً کچھ آبادی کی ضرورت ہے غور کیا جائے کہ فورا یہ آبادی کس طرح کی جائے ؟ بجلی پیدا کرنے کیلئے انجن کی خط و کتابت کی جائے.ا نقشه آئندہ قصبہ کا جو میاں عبدالرشید صاحب نے تیار کیا تھا.میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو بھجوایا تھا.اب اس کے ٹکڑے الگ الگ حصوں کے بڑے سکیل پر بنوا لینے چاہئیں تا تمام تفصیلات پر غور ہو سکے.زمین کی قیمت داخل ہونے اور قبضہ لینے کے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا جائے ( مگر اس سے پہلے ہر گز کوئی اعلان نہ ہو).الف:.چھ ماہ کے اندر اندر جو لوگ قادیان کے سابق احمدی باشندے یا ایسے غیر احمدی باشندے تھے جو ہم سے تعلق رکھتے تھے اور خواہ مخواہ ہماری مخالفت نہ کرتے تھے مکان بنانے کا ارادہ کریں گے ان کو دس مرلہ زمین مکان بنانے کیلئے مفت دی جائے گی.
درخواستیں فوراً آنی شروع ہو جانی چاہئیں مگر یہ شرط ہو گی کہ آبادی کی شرائط کی پابندی کا وعدہ کریں.۲.چھ ماہ کے اندر مکان بنانا شروع کر دیں اور مکان شروع ہونے سے تین ماہ کے اندر مکان مکمل کر لیں.۳.نقشہ مقررہ کی پیروی کریں.۴.کوئی دکان کی عمارت پر ائیو یٹ نہ ہوگی دکان کی عمارتیں کلی طور پر سلسلہ کی ملکیت ہونگی اور کرایہ پر دی جائیں گی.کسی کو گھر پر تجارت کرنے یا مکان کے کسی حصہ کو دکان کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو گی.ب:.اس کے علاوہ جو لوگ زمین خریدنا چاہئیں ان کو ایک ماہ تک پچاس روپے کنال کے حساب سے زمین ملے گی مگر شرط یہ ہوگی کہ زمین کا قبضہ مکان بناتے ہوئے ملے گا کوئی ٹکڑا معین پہلے.کیا جائے گا.اس سے آبادی مسلسل نہیں رہتی جو پہلے مکان بنائے گا اسے پہلے زمین مل جائے گی اور بعد میں مکان بنانے والے کو اس جگہ زمین ملے گی جہاں زمین خالی ہوگی.(ج):.ایک ماہ کے اندر جن کی قیمت وصول نہ ہوگی ان کیلئے دوسری قیمت کا اعلان کیا جائے گا.نوٹ...زمین کی قیمت ۲/۳ صد را انجمن احمدیہ ادا کرے اور ۱/۳ تحریک.اس نسبت سے علاقہ کی دونوں انجمنیں مالک ہوں گی." ( تاریخ احمدیت جلد نمبر ۱۲ صفحه ۴۱ تا ۴۱۳) ربوہ کی زمین کی تقسیم و فروخت کے متعلق بھی حضور نے مفصل ہدایات جاری فرمائیں اور اپنی غیر معمولی فراست اور تجربہ کی روشنی میں یہ پیش خبری بھی بیان فرمائی که احمدیت نے بہر حال بڑھتا ہے.یہاں کی زمینوں کا بھی وہی حال ہو گا جو قادیان کی زمینوں کا ہوا.یہ جگہ پاکستان کا مرکز رہے گی اور قریب کے مرکزوں سے زیادہ تعلق ہوتا ہے.پس جو شخص زمین لینا چاہئے انہیں جلدی کرنی چاہئے." (الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۴۸ء) قادیان سے جدائی اور حالات کی تبدیلی سے لاچار افراد جماعت نے ربوہ کی زمین خرید نے کی تحریک پر بھی والہانہ انداز میں لبیک کہا اور منتظمین بلکہ خود حضور کے اندازے سے بھی کہیں جلدی زمین مقررہ قیمت پر فروخت ہو گئی.اخبار الفضل کی رپورٹ کے مطابق زمین کی فروخت کے عام اعلان سے قبل ہی ۳۰۰ کنال زمین فروخت ہو چکی تھی.خطبہ جمعہ میں حضور کے اس اعلان کے بعد کہ ۱۵.اکتوبر ۱۹۴۸ء تک پانچ سو کنال زمین ایک سو روپے کنال کے حساب سے فروخت کی
AA جائے گی مقررہ تاریخ سے پہلے ایک ہزار کنال کی قیمت داخل خزانہ ہو چکی تھی اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ دگنی قیمت پر تین سو کنال اور فروخت کی جائے گی مگر دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں یہ گنجائش بھی ختم ہو گئی.(الفضل ۳۱.اکتوبر ۱۹۴۸ء) جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے حضور ان دنوں ہنگامی بنیادوں پر دن رات تعمیر مرکز کی عبوری مرکز مہم میں مصروف تھے تا ہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی معمول کے کام نظر انداز ہو رہے تھے.حضور کی دور رس نگاہ سے کوئی پہلو پوشیدہ نہ تھا اور ایسے وقت میں جب کہ مہاجرین کی اکثریت پریشان حالی میں دو وقت کی روٹی اور تن پوشی کے کپڑوں کی فکر میں ہی غلطاں و پیچاں تھی حضور جماعت کی تمام وقتی ضروریات کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت اور بہتر مستقبل کیلئے بھی برا بر کوشاں تھے.لاہور میں بالکل ابتدائی دنوں میں انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں حضور نے جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام کالج جاری فرما دیا.حالت یہ تھی کہ طالب علموں کے بیٹھنے کیلئے ہی نہیں اساتذہ کے بیٹھنے کیلئے بھی کرسیاں تو دور کی بات ہے چٹائیاں تک میسر نہ تھیں.اس کے باوجود یہ بنیادی کام بغیر کسی توقف کے جاری ہو گئے.آہستہ آہستہ چٹائیاں اور کسی قدر چارپائیاں میسر آئیں تو رات کو ان پر سونے اور دن کو ان پر بیٹھ کر پڑھنے پڑھانے کا کام ہونے لگا.اساتذہ اور طالبعلموں نے کمال خلوص و بے نفسی سے شہد کی مکھیوں کی طرح نیا پچھتہ اور نیا شہد بنانے کا عمل جاری کر دیا.حضور کے ارشاد کے مطابق جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول لاہور سے ربوہ منتقل ہوئے اور جیسے جیسے ربوہ میں کچے مکان بننے لگے یہ ادارے ربوہ میں آتے گئے.جماعت کے بہتر مستقبل کیلئے علمی ترقی حضور کی ترجیحات میں اول نمبر پر تھی.یہی وجہ ہے کہ آپ کے تاکیدی احکامات کی روشنی میں جماعتی خزانے اور اموال سے بھی پہلے لاہور سے لائبریری کی کتب چنیوٹ منتقل کی گئیں.(جون ۱۹۴۸ء) اور اس کے بعد اگست ۴۸ء میں خزانہ لاہور سے چنیوٹ منتقل کیا گیا اور باقی دفاتر بعد میں ربوہ پہنچے.قادیان سے ہجرت کے وقت بھی حضور کی ذاتی توجہ سے علماء کرام، مبلغین لائبریریوں کی کتب کو باقی افراد اور سامان سے پہلے لاہور منتقل کیا گیا.ربوہ کی تعمیر و آبادی کے سلسلہ میں ہمارے مخالفوں کی بعض مشکلات اور ان کا ازالہ طرف سے جو مخالفت ہوئی اس کا کسی قدر ذکر ہو چکا ہے.حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے بھی مختلف رکاوٹیں پیدا ہوتی رہیں.مثلاً زمین کی فروخت
۸۹ کی منظوری میں یہ شرط لگادی گئی کہ زمین پر قبضہ کے ۱۸ ماہ کے اندر بستی کے تمام مکان بنا لئے جائیں.حضور نے فوری طور پر اس کے متعلق ضروری کارروائی کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ” میرا خیال ہے کہ ایک وفد گورنر کو ملے کہ ہم ریفیوجی ہیں ہم پر گاؤں بنانے میں پابندیاں کیوں لگائی جارہی ہیں ؟ دنیا میں آخر اور بھی گاؤں بن رہے ہیں ہمارے پاس اتنا روپیہ کہاں کہ ہم ان پابندیوں کو پورا کر سکیں یا گورنمنٹ اپنے پاس سے ہیں تمھیں لاکھ روپیہ بلا سود اس مقصد کیلئے ہمیں قرض دے دے یا پھر جب قصبہ بنے تو پھر پیلانگ (Planning) کیا جائے ہمیں فی الحال چھپر وغیرہ بنانے کی اجازت دی جائے جس میں ہم راستوں وغیرہ کی پلینگ کا خیال رکھیں گے بعد میں آہستہ آہستہ کھلے مکان پیلینگ کے مطابق بنا لیں گے.ایک وفد رضا کے پاس جائے.رضا فنانس کمشنر کے سیکرٹری ہیں.یہ وفد اس لئے جائے کہ معاہدہ کی دفعہ نمبر K۱۴) میں یہ شرط ہے کہ اٹھارہ ماہ کے اندر مکان بن جائے.یہ شرط تو افراد کیلئے ہے شہر تو گو ر نمنٹ بھی پندرہ میں سال کے ، تو بعد بناتی ہے لہذا اس شق کو یا تو بدل دیا جائے یا منسوخ کیا جائے.دوسری بات ان سے یہ کی جائے کہ اگر ہم وہاں رہیں گے تبھی شہر بنے گا لہذا فی الحال ہمیں وہاں رہنے کیلئے عارضی جھونپڑیاں بنانے کی اجازت دی جائے بغیر اس کے تو وہاں رہنے کی کوئی صورت ہی نہیں ہو سکتی.تیسری بات یہ کی جائے کہ نقشہ ساتھ لے جایا جائے کہ اس سارے پر شہر نہیں بن سکے گا بلکہ بعض حصوں کو باغات ، زراعت اور کھیلوں وغیرہ کیلئے رکھا جائے گا.نیز یہ کہ عمارت سے زیادہ پائیدار چیز کو تو شرط کے خلاف قرار دیا جا سکتا ہے.زراعت اور باغات وغیرہ تو عمارت کے مقابلہ میں عارضی ہیں پہلے معاملہ کی درخواست کی جائے اور دوسرے کے متعلق (Discuss ) کیا جائے.اختر صاحب ( محترم غلام محمد صاحب اختر کی معرفت ریلوے اسٹیشن اور ڈاک خانہ کیلئے فورا درخواست کرنی چاہئے.اس میں یہ ہو کہ ہم سارا نقصان برداشت کر لیں گے اس کی ضمانت ہم دیں گے." (یعنی اگر حکام کی طرف سے ان سہولتوں کی منظوری کے سلسلہ میں یہ عُذر پیش کیا جائے کہ یہ ایک نئی آبادی ہے اور نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے تو جماعت نقصان
برداشت کرنے کی ضمانت دے تاکہ کوئی روک پیدا نہ ہو.) تاریخ احمدیت جلد نمبر ۱۲ صفحه ۲۱ ۴ تا ۴۲۲) ربوہ میں آبادی کے سلسلہ میں پانی کی عدم دستیابی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا.اس سارے رقبہ میں احمد نگر کی طرف جاتے ہوئے آخری سرے پر سڑک کے کنارے ایک نلکا لگا ہوا تھا.جس کا پانی معیاری تو نہیں تھا تا ہم کم کھاری ہونے کی وجہ سے بہت غنیمت تھا.وہ نلکا بھی آبادی کی ساری ضروریات تو پوری نہ کر سکتا تھا.اس سرزمین کو آباد کرنے کی پہلی کوششیں بھی پانی کی دقت کی وجہ سے ہی ناکام ہو چکی تھیں.تاہم آباد کریں گے اب دیوانے یہ ویرانے مختلف مقامات پر بورنگ کی کوشش کی گئی مگر کامیابی کی صورت پیدا نہ ہوئی.حضرت فضل عمر نے ربوہ میں پہلی نماز ادا فرمائی اور نماز کے بعد اسی جگہ تشریف فرما ہو کر ربوہ کی آبادی و ترقی کے سلسلہ میں گفتگو فرما رہے تھے کہ مکرم قریشی فضل حق صاحب پینے سے شرابور خاک آلود بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ ہاتھ میں ایک برتن میں گدلا سا پانی لئے ہوئے داخل ہوئے اور بہت ہی خوشی سے حضور پانی مل گیا، حضور پانی نکل آیا کہتے ہوئے خیمہ میں داخل ہوئے اور اپنی مسلسل کئی ہفتوں کی محنت شاقہ کا نتیجہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.یہ پانی کسی طرح بھی استعمال کے قابل نہیں تھا تا ہم اس سے کسی قدر ہمت ضرور بندھی اور حوصلہ افزائی ہوئی تھی.(راقم الحروف اس موقع پر خود بھی اس خیمہ میں موجود تھا) مکرم عبد السلام صاحب اختر اس ایمان پرور واقعہ کے متعلق لکھتے ہیں." نماز کے بعد حضور مسجد میں ہی بیٹھ گئے اور مکرم قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی سے مکانات کی تعمیر کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے.ابھی حضور قاضی صاحب سے گفتگو فرماہی رہے تھے کہ مستری فضل حق صاحب جو گذشتہ بارہ دنوں سے نلکہ لگانے پر مقرر تھے اور شب و روز مٹی کی کھدائی میں مصروف تھے بھاگے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ حضور کے یہاں تشریف لانے پر زمین سے پانی آگیا.یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمیں گذشتہ کئی روز سے پانی کی شدید تکلیف تھی.ایک جگہ ۷۵ فٹ تک مٹی کی کھدائی کی گئی مگر پانی نہیں آیا تھا.مستری صاحبان نے تنگ آکر دوسری جگہ کھدائی شروع کر دی تھی.مگر اتفاق کی بات ہے کہ دوسری جگہ بھی تقریبا ۴۰ فٹ جا کر نلکہ کی ٹیوب بُری طرح
91 مٹی میں پھنس گئی اور حالت یہ ہو گئی کہ نہ تو وہ ٹیوب مٹی کے اندر جاتی تھی اور نہ ہی بآسانی باہر آسکتی تھی.چنانچہ مستری صاحبان نے صرف یہ دیکھنے کیلئے کہ ٹیوب کو کیا ہو گیا ہے ایک تیسرا گڑھا کھودنا شروع کر دیا تھا.لیکن جس وقت حضور کے قدم اس زمین پر داخل ہوئے.مستری فضل حق صاحب کا بیان ہے کہ یوں معلوم ہو تا تھا کہ جیسے نلکا کی نال کو کوئی قوت خود بخود پانی کے قریب لے جا رہی ہے.چنانچہ حاضرین نے مستری صاحب کے یہ کلمات سے کہ حضور پانی آگیا.تو بے اختیار الحمد للہ زبان پر جاری ہو گیا.حضور اس کے بعد دیر تک مستری صاحب سے گفتگو فرماتے رہے اور ہر رنگ میں ان کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے." (الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۸ء) بہتر پانی کی تلاش کا کام برابر جاری رہا.جامعہ نصرت والی جگہ پر بو رنگ کرنے سے جو پانی ملا اس کا نمونہ کیمیائی تجزیہ کیلئے فیصل آباد بھجوایا گیا.متعلقہ حکام کی طرف سے یہ اطلاع موصول ہوئی کہ پانی زراعت اور گھریلو استعمال کیلئے موزوں نہیں ہے.حضور کی خدمت میں بذریعہ تاریہ رپورٹ بھجوائی گئی اس پر حضور نے کسی مایوسی اور بد دلی کے اظہار کی بجائے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا."Start boring near river in Rabwah land southern part." اور ساتھ ہی یہ تاکید فرمائی کہ :." آدمی یہ ہدایت لیکر جائے.عبد اللطیف صاحب سمجھ کر جائیں اور وہاں یہ کام خود شروع کروا ئیں." ایک مسلسل پر مشقت کوشش کے بعد ربوہ کے پہلے جلسہ سالانہ اپریل ۱۹۴۹ء تک چند نلکے ہی لگائے جا سکے تھے جن کا پانی بھی بمشکل ہی قابل استعمال تھا.جلسہ پر تو یہ نلکے نا کافی ہی تھے تاہم ٹینکروں کے ذریعہ پانی کی سپلائی کا انتظام ہو جانے کی وجہ سے اس مشکل پر بھی قابو پالیا گیا.پانی کی فراہمی کے ان ہی مراحل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلہ میں ایک عظیم خوشخبری ملی جس کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.جلسہ کے اختتام کے بعد جس دن ہم ربوہ سے واپس چلے (یعنی ۲۱.اپریل ۱۹۴۹ء بروز جمعرات) مجھے ایک الہام ہوا مجھ پر ایک غنودگی سی طاری ہو گئی.اس نیم غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھ رہا
ہوں.۹۲ جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا " میں نے اسی حالت میں یہ سوچنا شروع کیا کہ اس الہام میں جاتے ہوئے " سے کیا مراد ہے.اس پر میں نے سمجھا کہ مراد یہ ہے کہ اس وقت تو پانی دستیاب نہیں ہو سکا لیکن جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے زمزم پھوٹ پڑا تھا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کوئی ایسی صورت پیدا کر دے گا کہ جس سے ہمیں پانی بافراط میسر آنے لگے گا.اگر پانی پہلے ہی مل جاتا تو لوگ کہہ دیتے کہ یہ وادی بے آب و گیاہ نہیں یہاں تو پانی موجود ہے.پھر اس وادی کو بے آب و گیاہ کہنے کے کیا معنی؟ اب ایک وقت تو پانی کے بغیر گذر گیا اور باوجود کوشش کے ہمیں پانی نہ مل سکا.آئندہ خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کر دے گا کہ جس سے ہمیں پانی مل جائے.اس لئے فرمایا.جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا پاؤں کے نیچے" سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اسماعیل قرار دیا ہے جس طرح وہاں اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے پانی بہہ نکلا تھا.اسی طرح یہاں خدا تعالیٰ میری دعاؤں کی وجہ سے پانی بہارے گا.یہ ایک محاورہ ہے جو محنت کرنے اور دعا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے.ہم نے اپنا پورا زور لگا دیا تا ہمیں پانی مل سکے لیکن ہم اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوئے.اب خدا تعالیٰ نے میرے منہ سے یہ کہلوا دیا کہ پانی صرف تیری دعاؤں کی وجہ سے نکلے گا.ہم نہیں جانتے کہ یہ پانی کب نکلے گا اور کس طرح نکلے گا.لیکن بہر حال یہ الہامی شعر تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کر دے گا جس کی وجہ سے وہاں پانی کی کثرت ہو جائے گی.انشاء اللہ تعالی.اس شعر میں "حضور " اور " جناب " دو لفظ اکٹھے کئے گئے ہیں جو عام طور پر اکٹھے استعمال نہیں ہوتے.لیکن چونکہ یہاں ادب کا پہلو مراد ہے اس لئے " آپ " کے لفظ کی بجائے یہاں حضور اور جناب کے لفظ استعمال ہوئے ہیں.بہانے سے مطلب یہ ہے
۹۳ کہ پانی وافر ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ الہام کس رنگ میں پورا ہو گا.ممکن ہے ہمیں نہر سے پانی مل جائے یا دریا سے پانی لے لیا جائے.یا ہمیں کوئی اور (جگہ) مل جائے جہاں پانی ہو اور اس وقت تک ہمیں اس کا علم نہ ہو.بہر حال یہ نہایت ہی خوشکن الہام ہے اور یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ایک الہام کی تائید کرتا ہے جو یہ ہے کہ يُخْرِجُ هَتُهُ وَغَمُّهُ دَوحَةَ اسْمُعِيلَ ( تذکره صفحه ۵۹۵) یعنی خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے غم اور فکر اور دعاؤں کی وجہ سے ایک اسماعیلی درخت پیدا کرے گا.وہ دوحہ اسماعیل میں ہی ہوں اور اس سے بھی ہجرت کی خبر نکلتی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ تیری اولاد میں سے ایک ایسا شخص پیدا کرے گا جو ایک بے آب و گیاہ وادی میں آبادی کے سامان پیدا کرے گا.پہلے تو ہم اس کی قیاسی تشریح کرتے تھے لیکن اب خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ عملی طور پر اس کی تشریح کر دی اور مجھے اسماعیل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ :.جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا یعنی جہاں میرا پاؤں پڑا خدا تعالیٰ نے وہاں پانی بہا دیا." (الفضل ۱۸.اگست ۱۹۴۹ء) ربوہ کی تعمیر کے کام تیزی سے جاری تھے اسی جلد تعمیر کیلئے حضور کی لگن اور جذبہ دوران حضور ایک نئی آبادی کی ضروریات مہیا کرنے کے متعلق غور فرماتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ ہدایات جاری فرماتے رہے.مثلائی آبادی میں اہل حرفہ کی ضرورت پیش آسکتی تھی.اس کے متعلق جماعت میں بار بار تحریک کی گئی حضور اپنے ایک خطاب میں اس امر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ہماری تحریک پر بڑھئی، معماروں اور دیگر کاریگروں نے کئی سو کی تعداد میں مرکز میں کام کرنے کی درخواستیں دی ہیں.میں ان سب کو اطلاع دیتا ہوں کہ اب وہ پابہ رکاب رہیں.جس وقت بھی انہیں اطلاع دی جائے انہیں فورا ربوہ پہنچ کر کام شروع کر دینا چاہئے.یاد رکھو ہمارا ایک ایک دن بہت قیمتی ہے اور مرکز کے قیام میں ایک ایک گھڑی کی تعویق بھی ہمارے لئے مضر ہے." (الفضل ۲۸.دسمبر ۱۹۴۸ء) نئے مرکز کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر حضور چاہتے تھے کہ تعمیر و آبادی کے تمام مراحل
۹۴ جس حد تک ممکن ہو جلد سے جلد انجام پائیں.یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس کام کے تمام پہلوؤں کے متعلق تفصیلی ہدایات جاری فرمائیں اور ذاتی طور پر جائزہ لیتے رہے کہ کسی کام میں کسی کار کن کی طرف سے سستی نہ ہو.عارضی عمارتوں کیلئے خام اینٹوں کی ضرورت تھی پانی کی کمی اور مزدور کافی تعداد میں نہ مل سکنے کی وجہ سے اس سلسلہ میں مشکل پیش آرہی تھی.منتظمین کی طرف سے حضور کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ خام انہیں فوری طور پر چنیوٹ سے حاصل کر لی جائے مگر حضور نے اس تجویز کو نامنظور کرتے ہوئے فرمایا.ہر گز نہیں.میں کوئی عذر نہیں سنوں گا.جس طرح بھی ہو روزانہ پچیس ہزار اینٹ تیار ہونی چاہئے." حضور کی توجہ اور نگرانی کی برکت سے صرف مقررہ تعداد میں ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ اس سے دگنی تعد اد یعنی پچاس ہزار اینٹ بھی روزانہ تیار ہوتی رہی.زیر تعمیر مرکز کا ذکر اخبارات میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سرگودھا اور فیصل آباد کے عین وسط میں دریائے چناب کے کنارے ایک بنجر بے آب و گیاه کلر زدہ مستطیل قطعہ زمین جس کی آبادی کی کئی کوششیں ناکامی کا منہ دیکھ چکی تھیں اور جہاں روئیدگی اور سبزہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی جہاں پینے کا پانی بھی میسر نہیں تھا آہستہ آہستہ پہلے خیموں کی ایک بستی نظر آنے لگی اور پھر وہاں خام اینٹوں کی صاف ستھری اور قرینے و سلیقے سے بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی عمارتوں کی ایک بستی معرض وجود میں آگئی.حضرت مصلح موعود | کے اس عزم و ہمت کے غیر معمولی نشان کو دنیا سے متعارف کروانے کے لئے.نومبر ۱۹۴۸ء کو ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں مندرجہ ذیل نامور صحافی شامل ہوئے.کرنل فیض احمد صاحب فیض (چیف ایڈیٹر پاکستان ٹائمز ، میاں محمد شفیع (چیف رپور نر پاکستان ٹائمز)، مسٹر جمیل الزمان (چیف رپورٹر سول اینڈ ملٹری گزٹ)، مولانا عبدالمجید سالک (مدیر اعلی روزنامه انقلاب) سردار فضلی (چیف رپورٹر روزنامه احسان)، میاں صالح محمد صدیق چیف نیوز ایڈیٹر روزنامہ مغربی پاکستان)، مولانا باری علیگ برٹش انفارمیشن سروس)، چوہدری بشیر احمد (نائب مدیر روزنامه سفینه مسٹر عبد اللہ بٹ (برٹش انفار میشن سروس)، مسٹر عثمان صدیقی ( مینیجر اینڈ چیف رپورٹر سٹار نیوز ایجنسی) ، پروفیسر محمد سرور (مدیر ہفتہ وار آفاق) اور جناب محمد صدیق ثاقب
۹۵ زیر وی (نامہ نگار خصوصی الفضل) اس نئی آبادی میں ہونے والی پہلی پریس کانفرنس سے خطاب فرمانے کیلئے حضور مندرجہ ذیل بزرگان جماعت کے ساتھ لاہور سے ربوہ تشریف لائے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کالج ، شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور ، چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیر سٹرایٹ لاغ لاہور ، نواب محمد الدین صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم.اے ، ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب اور چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب." حضور نے صحافیوں سے بڑے خوشگوار ماحول میں بات چیت کرتے ہوئے فرمایا.اس زمین کو حکومت بالکل نا قابل کاشت قرار دے چکی ہے.گرمی کے متعلق ریسرچ والوں کا کہنا یہی ہے کہ یہاں گرمی بہت زیادہ پڑے گی لیکن ہم اس جنگل کو منگل بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں.ایک عرصے کی کوشش کے بعد پانی نکلا ہے لیکن وہ نمکین زیادہ ہے لہذا ابھی مزید کوشش کی جائے گی.حضور نے " ربوہ " پر آباد کئے جانے والے شہر کا نقشہ سامنے رکھ کر بتایا کہ اس کی تعمیر امریکی طرز پر ہوگی جس میں ہسپتال ، کالج، سکول ویٹرنری ہسپتال ، ریلوے اسٹیشن ڈاک خانہ واٹر ورکس اور بجلی گھر کے علاوہ صنعتی اداروں کے لئے بھی ایک طرف جگہ چھوڑی گئی ہے.حضور نے بتایا کہ ہم فی الحال پختہ بنیادوں پر کچی دیوار میں ہی کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور اس پر کم از کم خرچ کا اندازہ ۱۳ لاکھ روپیہ ہے.اس کے بعد جب ہمیں اللہ تعالی پختہ مکانات تعمیر کرنے کا موقع دے گا تو مزید ۱۷-۱۸ لاکھ روپیہ خرچ ہو گا.گویا تمہیں لاکھ کے قریب رقم تو اس پر سلسلہ ہی کو خرچ کرنی پڑے گی.دوسرے لوگ جو اپنے مکانوں پر خرچ کریں گے وہ اس کے علاوہ ہو گا.اس سے آپ لوگ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں یہ زمین کتنی مہنگی پڑے گی اور اس پر سلسلے کو کس قدر محنت اور مشقت کرنی پڑے گی.حضور نے اس کے علاوہ حدود اربعہ اور مغربی پنجاب کی ہندوستان سے لگنے والی سرحدوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ یہ جگہ صوبے کے عین وسط میں پڑتی ہے اور اگر اس محل وقوع میں خالی قطعات پر حکومت جدید نمونے کے صنعتی شہر آباد کرائے تو یہ شہر پاکستان کی ریڑھ
۹۶ کی ہڈی کا کام دے سکیں گے.حضور نے پاکستانی پریس کے ان معزز نمائندوں کو نقشہ کی مدد سے اس جگہ کی اہمیت اور نئے شہر کی تعمیر کی سکیم بتانے کے علاوہ اس علاقہ کی سیر بھی کروائی.پریس کانفرنس میں شامل ہونے والے تمام اخبار نویس اس محیر العقول کار نامہ سے بہت متاثر ہوئے اور اپنے اخبارات میں اسے دوسری تنظیموں بلکہ حکومت کیلئے ایک قابل تقلید نمونہ اور مثالی کارنامہ قرار دیتے ہوئے بڑے اچھے رنگ میں ربوہ کا ذکر کیا مثلا اخبار " احسان " نے ایک مفصل رپورٹ میں لکھا.لاہور.۸ نومبر.جماعت احمدیہ کے امیر مرزا بشیر الدین محمود احمد کی دعوت پر مقامی اخبار نویسوں کی ایک پارٹی جماعت احمدیہ پاکستان کے نئے مرکز ربوہ کو دیکھنے گئی جو لاہور سے کوئی ایک سو میل اور چنیوٹ سے پانچ میل کے فاصلہ پر دریائے چناب کے غربی کنارے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے دامن میں ایک بے آب و گیاہ غیر مزروعہ اور نا قابل آبادی قطعہ زمین پر آباد کیا جا رہا ہے.زمین کا یہ ٹکڑا جو ایک ہزار چونتیس ایکڑ پر مشتمل ہے اور جسے حکومت سے خرید لیا گیا ہے ان دنوں جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن رہا ہے.یہاں ربوہ نام سے امریکی طرز پر ایک جدید ترین شہر زیر تعمیر ہے جس کی لاگت کا ابتدائی اندازہ کوئی پچیس لاکھ روپے کے قریب لگایا گیا ہے جائے وقوع کے لحاظ سے ربوہ لائل پور اور سرگودھا کے عین وسط میں واقع ہے.اس کے تین طرف تو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں قدرتی ڈیفنس کے طور پر کھڑی ہیں لیکن جنوب مغربی سمت سے یہ کھلا پڑا ہے اور اس کا سلسلہ دور تک مزروعہ زمین سے ملتا چلا گیا ہے.ریلوے لائن اور پختہ سڑک اس قطعہ زمین کے پاس سے گذرتی ہیں.لیکن زمین میں مادہ شور ہونے کی وجہ سے کئی کئی میل تک آبادی کا کہیں نام و نشان نہیں.صبح نو بجے روانہ ہو کر اخبار نویسوں کا قافلہ کوئی تین گھنٹے میں ربوہ پہنچ گیا جہاں سینکڑوں رضا کار خیمے وغیرہ نصب کرنے میں مصروف تھے.اخبار نویسوں کے علاوہ اس قافلہ میں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، مرزا بشیر احمد صاحب نواب محمد الدین صاحب چوہدری اسد اللہ خان صاحب شیخ بشیر احمد صاحب مسٹر عبدالرحیم درد صاحب اور چوہدری نصر اللہ خان صاحب (چوہدری اعجاز نصر الله خان صاحب) شامل تھے.
96 " ربوہ پہنچنے پر مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ انہوں نے نئے شہر کی تعمیر کا نقشہ امریکی طرز پر بنوایا ہے اور یہ شہر پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا شہر ہو گا.اس میں سکول ، کالج ، ہسپتال ، واٹر ورکس اور بجلی گھر ، غرضیکہ ایک جدید طرز کے شہر کے تمام لوازمات مہیا کئے جائیں گے.ریلوے سٹیشن اور ڈا کھانہ ، تار گھر کھولنے کیلئے حکومت سے اجازت حاصل کر لی گئی ہے اور بہت جلد ان کی تعمیر کا کام شروع ہو جائے گا.مرزا صاحب نے بتایا کہ وہ خشک اور بنجر پہاڑیوں کو سیر گاہوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں.تاکہ ان پہاڑیوں پر مختلف قسم کے پھول اور سبزی وغیرہ اگانے سے ایک تو موسم گرما میں اس نئے شہر کے لوگ گرمی کی شدت سے محفوظ رہ سکیں اور دوسرے ان پہاڑیوں پر سیر و تفریح کا لطف بھی اٹھایا جا سکے.آپ نے اخباری نمائندوں کے سامنے ربوہ نام کی تاریخی اہمیت و مذہبی حیثیت کو اپنے الہامات اور رؤیا کی روشنی میں واضح کیا اور امید ظاہر کی کہ وہ ایک سال کے اندراندر نئے شہر کی تعمیر کے کام کو مکمل کر لیں گے.مرزا صاحب نے بتایا کہ نہ صرف مغربی پنجاب بلکہ مغربی پاکستان میں اس قسم کے کئی بنجر اور غیر آباد علاقے بے مصرف پڑے ہیں.اگر مشرقی پنجاب کے بڑے بڑے شہروں مثلاً جالندھر، امرتسر اور لدھیانہ کے مسلمان اپنی سابقہ جماعت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی صنعتوں کو کو آپریو (Cooperative) رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے لازم ہے کہ وہ ربوہ کی قسم کے نئے قصبوں کو بسا ئیں ویسے بھی کئی دفاعی ضرورتیں اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہمارے صنعتی علاقے سرحد سے کافی دور ہوں اور ان کی ڈیفنس کا کوئی قدرتی انتظام ہو.صرف اسی صورت میں ہم اطمینان سے بیٹھ کر اپنی صنعتوں کو ترقی یافتہ ممالک کے معیار پر لا سکتے ہیں." آپ نے بتایا کہ یہاں ربوہ اور سرگودھا جانے والی سڑک پر کوئی سترہ اٹھارہ میل کے فاصلہ پر پہاڑیوں کے دامن میں تین چار (ہزار ایکڑ پر مشتمل ایک سرکاری قطعہ زمین پڑا ہے.اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا.اگر لدھیانہ یا امرتسر کے کاریگر اس قطعہ زمین کو حاصل کر کے یہاں ایک صنعتی شہر آباد کرنا چاہیں تو حکومت سے بھی مدد مل سکتی ہے.اخبار نویسوں کے اشتیاق پر مرزا صاحب نے اس قطعہ زمین کے دورہ کا بھی پروگرام بنایا چنانچہ تیرے پھر پورے قافلے نے اس سرکاری اراضی کو بھی
۹۸ دیکھا.یہ اراضی ایک ایسی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے جسے بعض روایتوں کی بناء پر گر و بالناتھ کاٹیلہ کہتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ رانجھا نے اس ٹیلہ پر گو رو بالناتھ سے لوگ لیا تھا اور کان چھدوا کر مندرمیں ڈالی تھیں.کوئی سات سو برس سے یہ ٹیلہ ہندو جوگیوں کے قبضہ میں تھا.لیکن گذشتہ فسادات کے موقع پر یہ جو گی ہندوستان چلے گئے تھے.آج کل یہ ٹیلہ جس پر تقسیم سے پہلے اچھی خاصی آبادی تھی ویران پڑا ہے.اس قطعہ زمین میں کبھی کبھی پولیس والے چاند ماری کے لئے آجاتے ہیں.ورنہ یہ زمین بالکل بیکار پڑی رہتی ہے.مرزا صاحب نے کہا کہ اگر حکومت اس رقبہ میں ایک صنعتی شہر تعمیر کرانے کا پروگرام بنالے تو اس قسم کے دوسرے مقامات پر بھی نئے نئے شہر بننے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں.ٹیلہ بالناتھ سے واپسی پر اخبار نویسوں کی طرف سے مولانا عبد المجید صاحب سالک نے ربوہ کے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور یہ قافلہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے ہمراہ رات کے وقت واپس لاہور پہنچ گیا." روزنامه " مغربی پاکستان" نے "شہر جدید طرز اور امریکی نوعیت کا ہو گا" کی شہ سرخی کے ساتھ لکھا:.لاہورے.نومبر.آج مرزا بشیر الدین محمود احمد امیر جماعت احمدیہ کی دعوت پر لاہور کے تمام اخبارات کی ایک پارٹی نے ربوہ کا دورہ کیا جو چنیوٹ سے چھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے.جب پریس پارٹی ربوہ پہنچی تو وہاں پر سر کردہ اصحاب نے اخبارات کے نمائندوں کا خیر مقدم کیا.ربوہ کاوہ علاقہ دکھایا جہاں جدید طرز کا ایک چھوٹا سا شہر آباد کیا جائے گا.یہ جگہ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کے دامن میں ایک خوشنما قطعہ اراضی ہے.مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اخبارات کے نمائندوں کو بتایا کہ جماعت احمدیہ نے حکومت مغربی پنجاب سے ایک ہزار سے کچھ زیادہ ایکٹر زمین خریدی ہے جہاں امریکی طرز پر ایک چھوٹا سا شہر تعمیر کیا جائے گا.ہسپتال کالج سکول ویٹرنری ہسپتال ریلوے اسٹیشن ، ڈاک خانہ واٹر ورکس اور بجلی گھر لگانے کا بندوبست کیا جا چکا ہے.ماہرین تعمیرات نے شہر کی تعمیر کا ابتدائی نقشہ امریکی طرز پر تیار کر لیا ہے جو عنقریب ٹاؤن پلینر (Town Planer) کی منظوری کے لئے ان کے سامنے رکھ دیا جائے گا.اس شہر کی ضروری عمارتوں کی تعمیر پر تقریباً تیرہ لاکھ روپیہ صرف ہو گا جو جماعت برداشت کرے
گی.٩٩ مرزا صاحب نے مزید بتایا کہ وہ شہر کو اس قدر دلفریب اور جدید نوعیت کا بنانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک نمونہ ہو اور حکومت بھی اس قسم کے شہر ان علاقوں میں تعمیر کرے جو فضول پڑے ہیں.انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو ایک بہترین خطہ ارضی بنایا جائے اور یہ اسی طرح ہی ممکن ہے.اگر حکومت ان علاقوں میں جدید طرز کے گاؤں اور شہر بنانے کا کام شروع کر دے تو تھوڑے ہی عرصے میں تمام پاکستان جنت نظیر بن سکتا ہے.انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ربوہ میں کار خانے بھی لگائے جائیں گے جو ضروریات زندگی تیار کریں گے.اس مقصد کے لئے ایک حصہ وقف کر دیا گیا ہے.آپ نے توقع ظاہر کی کہ جونہی حکومت نے شہر کی تعمیر کی اجازت دے دی تو بیک وقت کام شروع کر دیا جائے گا اور ایک سال کے اندراندر شہر کو مکمل کر دیا جائے گا.ربوہ کا دورہ کرنے کے بعد اخبار نویسوں کو ٹیلہ بالناتھ کا دورہ کرایا گیا جہاں سات ہزار ایکڑ زمین بیکار پڑی ہے.آپ نے یہ بھی توقع ظاہر کی کہ اگر حکومت اس زمین پر ایک شہر تعمیر کرنے کا پروگرام بنائے تو ایک بہترین شہر اس علاقہ میں تعمیر ہو سکتا ہے." لاہور کے مشہور اخبار ” سول اینڈ ملٹری گزٹ " کے نامہ نگار خصوصی نے تحریر کیا.”لاہور کے اخبار نویسوں کی ایک پارٹی نے گذشتہ اتوار کو ربوہ کے مقام پر ایک نهایت خوشگوار ٹرپ کی.ربوہ شیخو پورہ اور سرگودھا کے درمیان کی سڑک پر چنیوٹ سے تقریباً دس میل کے فاصلہ پر واقع ہے.اس جگہ جماعت احمدیہ نے اپنے مرکزی دفاتر قائم کرنے کیلئے ایک ہزار چونتیس ایکڑ زمین خریدی ہے.جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ سردست نئی بستی کے قیام پر تیرہ لاکھ روپیہ کے خرچہ کا اندازہ لگایا گیا ہے.ہم یہاں پر ایک ایسا معیاری قصبہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں ہسپتال ، تعلیمی ادارے اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے علاوہ مقامی باشندوں کے لئے ہر ممکن سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی.دریائے چناب سے واٹر پمپ کے ذریعہ سے قصبہ کے لئے پانی مہیا کیا جائے گا.اخبار نویسوں کی پارٹی نے ربوہ سے پندرہ میل کے فاصلہ پر ایک اور موزوں قطعہ زمین
بھی دیکھا جہاں ایک صنعتی بستی قائم کی جا سکتی ہے.یہ قطعہ سرگودھا کی نہری نو آبادی سے قریباً آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے." سٹار کے چیف رپورٹر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں.لاہور.۸.نومبر.لاہور سے سو میل دور احمدی ایک شہر بنام ربوہ تعمیر کر رہے ہیں جو جماعت ہائے احمدیہ پاکستان کا مرکز ہو گا.شہر کے نام ربوہ کو جس کے معنی ایک پہاڑی ٹیلے کے ہیں مذہبی اہمیت بھی حاصل ہے.احمدیوں کے معروف عقیدے کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر جان نہیں دی بلکہ ابھی ان پر غشی اور بے ہوشی کی سی حالت طاری تھی کہ ان کے حواری انہیں صلیب سے اتار کر کشمیر کی طرف ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے ایک پہاڑی ٹیلے پر پناہ لی.احمدی قادیان سے اپنی حالیہ ہجرت کو بھی اسی ہجرت کے مشابہہ جان کر کہتے ہیں کہ انہوں نے قادیان سے نکالے جانے کے بعد اس بے آب و گیاہ غیر مزروعہ کو ہستانی علاقہ میں پناہ لی ہے جس کا نام ربوہ تجویز کیا گیا ہے.یہ شہر جس کی تعمیر کے متعلق جماعت احمد یہ نہایت بلند اور حوصلہ افزا عزائم رکھتی ہے بارہ سو ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہو گا اور اس کی تعمیر پر اوسط اندازے کے مطابق کم از کم پچاس لاکھ روپیہ خرچہ آئے گا.ربوہ میں دو کالج ہوں گے.ایک لڑکیوں کا اور ایک لڑکوں کا.اس کے علاوہ کئی اور سکول ایک بڑا ہسپتال ، شفاخانہ حیوانات ڈاک خانہ اور تار گھر اور ریلوے سٹیشن ہوگا.بجلی مہیا کرنے کے انتظامات بھی کئے جا رہے ہیں بلکہ ایک جنریٹر Generator تو پہنچ بھی چکا ہے اور ابھی دو اور جنریٹر بہت جلد لائے جائیں گے.جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اخبار نویسوں کی ایک پارٹی کو (جو ربوہ دیکھنے کیلئے گئی تھی بتایا کہ وہ اسے پاکستان میں ایک نمونے کا شہر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو امریکی طرز پر تعمیر کیا جائے گا.اس شہر میں صنعتی اداروں کے لئے بھی جگہ رکھی جائے گی جو شہری آبادی سے ذرا ہٹ کر ہو گی.توقع ہے کہ شہر کی تعمیر ایک سال کے اندراندر ختم ہو جائے گی اور جماعت احمدیہ کا آئندہ سالانہ جلسہ جو اگلے دسمبر میں ہونے والا ہے بھی ربوہ ہی میں منعقد کیا جائے گا." پاکستان ٹائمز نے ” پاکستانی احمدیوں کا نیا مرکز " کے عنوان کے تحت لکھا.دریائے چناب کے دائیں کنارے چنیوٹ کے قرب میں ایک نئے مثالی شہر کی
١٠١ بناء رکھنے میں نہایت دور اندیشی اور صحیح تخیل کا مظاہرہ کیا گیا ہے.اس شہر کی آباد کاری کے لئے بارہ سو ایکڑ اراضی کا ایک قطعہ منتخب کیا گیا ہے اور اس کا نام ربوہ تجویز ہوا ہے.پکی شاہراہ سے چند قدموں کے فاصلہ پر اتفاقاً گذرنے والوں کے لئے یہ ایک خوبصورت مقام ہو گا.جہاں مہاجر احمد یہ خلافت کا مرکز بنایا جائے گا.امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے جو اخبار نویسوں کے ہمراہ یہاں تشریف لائے تھے ، بیان کیا کہ ایک رؤیا جو انہوں نے کچھ دن ہوئے دیکھی تھی اور قرآن کریم کی ایک آیت نے ان کو اس اراضی کے انتخاب میں جسے حکومت نے ناقابل زراعت اور بنجر قرار دے دیا تھا مدد دی ہے.انجمن کے دفاتر ، ہسپتال، سکول ، کالج اور سڑکیں تیار کرنے میں ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ کے ابتدائی خرچ کا تخمینہ کیا گیا ہے جو نہی صوبائی مجوز تعمیرات تعمیری نقشہ جات کو منظور کرے گا، تعمیر کا کام شروع کر دیا جائے گا.اخبار نویسوں کو اس مقام سے پندرہ میل کے فاصلہ پر ایک اور سات ہزار ایکڑ کا قطعہ اراضی بھی دکھایا گیا جو ایک صنعتی شہر کی آبادی کے لئے نہایت موزوں ہے." (پاکستان ٹائمز ۹.نومبر ۱۹۴۸ء بحواله الفضل ۱۱- نومبر ۱۹۴۸ء صفحه (۲) | - مشہور اخبار ڈان نے ”دریائے چناب کے کنارے احمد یہ جماعت کی نئی بستی" کے عنوان ے لکھا.لاہور.۹.نومبر.دریائے چناب کے دائیں کنارے پر متصل چنیوٹ ایک نیا شہر جس کا نام ربوہ رکھا گیا ہے.احمد یہ جماعت کے مہاجرین کی آبادی کے لئے جماعت احمدیہ تعمیر کر رہی ہے.اس شہر کے آغاز میں دو ہزار مکانات بنائے جائیں گے.صدر انجمن احمدیہ کو انجمن کے دفاتر ، سکول، ہسپتال ، کالج، سڑکیں وغیرہ بنانے کے لئے فی الحال ساڑھے تیرہ لاکھ روپے کا خرچ برداشت کرنا پڑے گا.جونہی محکمہ مجوز تعمیرات سے تعمیری نقشہ منظور ہو کر وصول ہو جائے گا تعمیر کا کام شروع ہو جائے گا.نقشهہ منظوری کیلئے پیش کر دیا گیا ہے." ( تاریخ احمدیت جلد ۱۳ صفحه ۲۰-۶۱) اخبار ”سفینہ" کے مولانا وقار انبالوی نے اس منصوبہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا.گذشتہ اتوار کو امیر جماعت احمدیہ نے لاہور کے اخبار نویسوں کو اپنی نئی بستی
١٠٢ ربوہ کا مقام دیکھنے کی دعوت دی اور انہیں ساتھ لے کر وہاں کا دورہ کیا.اس دورے کی تفصیلات اخباروں میں آچکی ہیں.ایک مہاجر کی حیثیت سے ہمارے لئے ربوہ ایک سبق ہے.ساٹھ لاکھ مہاجر پاکستان آئے لیکن اس طرح کہ وہاں سے بھی اُجڑے اور یہاں بھی کسمپرسی نے انہیں منتشر رکھا.یہ لوگ مسلمان تھے.رب العالمین کے پرستار اور رحمتہ للعالمین کے نام لیوا مساوات واخوت کے علمبردار ، لیکن اتنی بڑی مصیبت بھی انہیں یکجا نہ کر سکی.اس کے بر عکس ہم اعتقادی حیثیت سے احمدیوں پر ہمیشہ طعنہ زن رہے ہیں لیکن ان کی تنظیم ان کی اخوت اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کی حمایت نے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا قادیان آباد کرنے کی ابتداء کر دی ہے.مہاجرین میں وہ لوگ بھی آئے جن میں خدا کے فضل سے ایک ایک آدمی ایسی بستیاں بسا سکتا ہے.لیکن ان کا روپیہ ان کی ذات کے علاوہ کسی غریب مہاجر کے کام نہ آسکا.ربوہ ایک اور نقطہ نظر سے بھی ہمارے لئے محل نظر ہے.وہ یہ کہ حکومت بھی اس سے سبق لے سکتی ہے اور مہاجرین کی صنعتی بستیاں اس نمونہ پر بسا سکتی ہے.اس طرح ربوہ عوام اور حکومت کے لئے ایک مثال ہے اور زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ لمبے چوڑے دعوے کرنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور عملی کام کرنے والے کوئی دعوی کئے بغیر کچھ کر دکھاتے ہیں." (الفضل ۱۳.نومبر ۱۹۴۸ء صفحه ۲) مشکلات اور روکیں تو قدم قدم پر پیش آئیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل افتتاح مرکز نو.ربوہ سے حضرت مصلح موعود کے عزم و ہمت تو کل علی اللہ کے سامنے ایک ایک کر کے پر کاہ کی طرح اڑتی چلی گئیں.آسمان نے تائید و نصرت کی بارش برسائی زمین نے اسباب و ذرائع کی سہولتیں مہیا فرما ئیں اور ایک ریکار ڈ وقت میں احمدیت کا باغ ایک اجنبی جگہ میں لہلہانے لگا.کسی دوسری مهاجر تنظیم بلکہ حکومت کی طرف سے بھی اس عمدگی ، سلیقے اور بہترین تربیت سے نئی بستی بسائی نہیں جاسکتی تھی.بستی بسانا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے ربوہ کی بستی کی ابتداء ان خیموں کے نصب کرنے سے ہوئی جن میں سے پہلا خیمہ مکرم عبد السلام صاحب اختر اور مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب نے ۱۹.ستمبر کو اپنے ہاتھوں سے نصب کیا.اس ایمان افروز واقعہ کو قلم بند کرتے ہوئے مکرم اختر صاحب لکھتے ہیں.
"شام کے سات بجے کے قریب ٹرک جس میں چھولداریاں، خیمہ جات اور سائبان و غیره لدے ہوئے تھے اس سر زمین میں پہنچ گیا جسے اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں اسلام کی حیات ثانیہ کا مرکز تجویز فرمایا ہے.اس ٹرک میں ڈرائیور اور دو مزدوروں کے علاوہ میں اور مکرم مولوی محمد صدیق صاحب مولوی فاضل تھے.چناب کے پل کے نگران سپاہی اور کچھ راہگیر جو شام کے بعد اس سڑک سے خال خال ہی گزرتے ہیں حیران ہو کر ہمیں دیکھ رہے تھے کہ یہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں.مگر خد اتعالیٰ کے فضل سے ہم نہایت ہی اطمینان اور سکون کے ساتھ ٹرک میں سے اپنا سامان اُتارنے میں مصروف تھے.جب تمام سامان اتارا جا چکا تو ڈرائیور اور مزدوروں کو رخصت کیا گیا اس وقت میلوں تک علاقہ بالکل ویران اور سنسان حالت میں ہمارے سامنے تھا.دائیں طرف بڑی سڑک تھی جس پر شب کو ٹریفک دفعہ بند ہو جاتا ہے اور بائیں طرف ریلوے لائن تھی جو پہاڑوں کے بیچ میں سے چکر کاٹتی ہوئی ایک طرف چنیوٹ اور دوسری طرف سرگودھا کو چلی جاتی ہے.رات کے نو بج چکے تھے.میں نے سامان خاص اس جگہ اتارا تھا جو میرے آقا نے تجویز فرمائی تھی.اگلے دن حضور مع خدام کے خود تشریف لانے والے تھے اس لئے ہم نے سائبان اور خیمے حضور کی آمد سے پہلے نصب کرنے تھے مگر اس جنگل میں پہلی رات کا تصور کچھ خوف اور کچھ لذت کی سی کیفیت پیدا کر رہا تھا.خوف تو اس بات کا تھا کہ یہاں کے اکثر دیہاتی لوگوں کے متعلق سنا تھا کہ وہ جانوروں سے کم نہیں اور پھر اس علاقے میں سانپ ، بچھو ، ریچھ اور بعض اوقات بھیڑیا بھی پایا جاتا ہے.غرض کہ عجیب قسم کے خیالات آرہے تھے.مگر اس سے بہت زیادہ شیریں وہ کیفیت تھی جو اس خیال سے پیدا ہو رہی تھی کہ یہی دادی غیر ذی زرع ایک دن ہجوم خلائق کا مرکز بنے والی ہے چنانچہ ہم دونوں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے کہ اس نے محض اپنے خاص فضل سے ہمیں سب سے پہلے آباد کاروں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.رات بڑھتی جارہی تھی اور ہمارے دلوں کا تموج بھی بڑھ رہا تھا.ہم چنیوٹ سے آتی دفعہ مکرم و محترم سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کو یہ پیغام دے کر آئے تھے کہ وہ تین چار لڑکے اور ایک لالٹین دے کر جلدی بھیج دیں مگر دس بجے تک اس سنسان اور بے آب و گیاہ وادی میں ہم
۱۰۴ دونوں کے سوا اور کوئی انسان نظر نہ آتا تھا.خاموشی اور ایک سنسان خاموشی سے کچھ تنگ آکر اور کچھ گھبرا کر میرے ساتھی نے فرمائش کی اختر بھائی کچھ سناؤ.چنانچہ میں نے پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ اشعار اور پھر کچھ اپنے اشعار جو میں نے ٹرک میں بیٹھ کر راستے میں لکھے تھے باآواز بلند سنائے.آواز پہاڑوں سے ٹکراکر گونج سی پیدا کر رہی تھی اور میں یہ تصور کر رہا تھا کہ جب ہمار ا سالانہ جلسہ یہاں ہو گا تو اس طرح ہمارے بزرگوں کی تقریریں اور ہمارے موذنوں کی تکبیریں ان پہاڑوں میں گونج پیدا کریں گی.اور پھر اسی طرح ان تقریروں اور تکبیروں سے ایک دنیا میں گونج پیدا ہوگی.یہ خیال آتے ہی دل پر ایک بے خودی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی اور ہم دیر تک خاموش رہے.میں نے عمر کے اعتبار سے قادیان کا ابتدائی زمانہ نہیں دیکھا یعنی وہ زمانہ جب کہ قادیان میں ابھی محلے نہیں بنے تھے.لیکن میں حیران ہو رہا تھا کہ اللہ تعالی تاریخ کو ایک نئے دور میں سے گزار کر گزشتہ دور کا اعادہ کر رہا تھا.چنانچہ میں نے کہا دیکھیں مولوی صاحب قادیان کے ابتدائی دور کا ایک پہلو ہمارے سامنے ہے.چاند ہنس رہا ہے اور ستارے مسکرا کر ہمیں دیکھ رہے ہیں.دفعہ دور سے ہمیں ایک ہلکی روشنی دکھائی دی.ہمارے سکول کے تین بچے ایک لالٹین ہاتھ میں لئے ہماری طرف قدم بڑھاتے چلے آ رہے تھے.تین بچے دو بنگال کے رہنے والے اور ایک سیلون کا رہنے والا اپنے وطن سے ہزاروں میل دور رات کے دس بجے ایک سنسان وادی میں اپنے آقا کے خدام سے ملنے چلے آرہے تھے.جب روشنی آئی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس زمین پر سب سے پہلا خیمہ بغیر مزدوروں کی مدد کے اپنے ہاتھ سے لگایا جائے چنانچہ میں نے اور مولوی محمد صدیق صاحب نے ایک چھولداری کو درست کیا اور بغیر کسی کی مدد کے اس میدان کے وسط میں یہ چھولداری اپنے ہاتھ سے لگائی.اس کے بعد ہم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں اور کچھ دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے.یہ خیمہ ربوہ کی سرزمین پر پہلا خیمہ تھا جس کے نصب کئے جانے کی سعادت قادیان کے دو ر ہنے والوں کو حاصل ہوئی.تقریبا نصب شب گزرنے پر احمد نگر سے مکرم مولوی ابو العطاء صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ کی طرف سے کچھ چپاتیاں اور کچھ دال آئی جس کے متعلق معلوم ہو تا تھا کہ یہ بہر حال نہایت عجلت میں تیار کی گئی ہے.
۱۰۵ اس وقت اس دال روٹی نے جو لطف دیا وہ زندگی کے قیمتی اور پُر لطف لمحات میں بھی کم محسوس ہوا ہے.چونکہ صبح حضور کی تشریف آوری تھی اس لئے سائبانوں اور خیمہ جات کو درست کیا گیا اور انہی کے ڈھیر پر ہم دراز ہو گئے.تمام رات بلا کھٹکے اور نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ ہم سوئے.مجھے تو کچھ ہوش نہیں رہا البتہ مکرم مولوی صاحب نے فرمایا کہ دور سے کچھ گیدڑوں اور بھیڑیوں کی آوازیں آتی تھیں بس.لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے بہر حال ہمیں ہر قسم کی اذیت سے محفوظ رکھا." (الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۴۸ء) ۱۹.ستمبر کو ہی ایک دوسرا قافلہ مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب کی امارت میں لاہور سے ربوہ کیلئے روانہ ہوا جو صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے ۳۴ کارکنوں پر مشتمل تھا.مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب اس تاریخی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.دعاؤں کے بعد ہم ۱۹.ستمبر ۱۹۴۸ء کو پانچ بجے شام کراؤن بس کی ایک گاڑی پر روانہ ہوئے.شیخوپورہ کی سڑک برسات کی وجہ سے خراب ہو چکی تھی اس لئے لائل پور (فیصل آباد) کے رستہ سے ہم رات گیارہ بجے چنیوٹ پہنچے.رات سڑک پر گزاری اور صبح ایک چھکڑے پر سامان لاد کر کچھ پیدل اور کچھ ایک ٹانگہ میں بیٹھ کر ساڑھے آٹھ بجے اس خطہ زمین پر پہنچے جسے بہت جلد بڑا اعزاز حاصل ہونے والا تھا." ۲۰.ستمبر کو مولانا عبد الرحمن انور صاحب وکیل الدیوان بھی تحریک جدید کا ریکار ڈ لیکر اس وادی غیر ذی زرع میں پہنچ گئے.ان خوش قسمت کارکنوں نے چھ رہائشی خیموں اور ایک بڑے خیمہ پر مشتمل ایک عارضی بستی حضور کی آمد سے پہلے پہلے آباد کر دی اور جنگل میں منگل کا سماں ہو گیا.۲۰.ستمبر کو ہی حضرت فضل عمر لا ہو ر سے براستہ فیصل آباد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور بعض دوسرے بزرگوں کی معیت میں دوپہر کے وقت ربوہ پہنچ گئے.اور ربوہ میں ظہر کی نماز ادا فرمائی اس بابرکت تاریخی موقع پر اڑھائی تین سو احمدیوں نے حضور کی امامت میں نماز ادا کی.حضور نے اپنے افتتاحی خطاب کے آغاز میں فرمایا.میں اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا ئیں جو مکہ مکرمہ کو بساتے وقت آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور کی تھیں.پڑھوں گا."
1.4 اس کے بعد حضور نے بڑے خشوع و خضوع سے تین تین بار دہراتے ہوئے ابراہیمی دعائیں پڑھیں اور پھر اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا.یہ وہ دعائیں ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے بساتے وقت کیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول فرما کر ایک ایسی بنیاد رکھ دی جو ہمیشہ کے لئے نیکی اور تقوی کو قائم رکھنے والی ثابت ہوئی.مکہ مکرمہ مکہ مکرمہ ہی ہے اور ابراہیم ابراہیم ہی ہے مگر وہ شخص بے وقوف ہے جو اس بات کا خیال کر کے کہ مجھے وہ درجہ حاصل نہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل تھایا میری جگہ کو وہ درجہ حاصل نہیں جو مکہ مکرمہ کو تھا اس لئے وہ خدا تعالیٰ سے بھیک مانگنے سے دریغ کرے.جب خدا کسی عظیم الشان نعمت کا دروازہ کھولتا ہے تو اس کی رحمت اور بخشش جوش میں آرہی ہوتی ہے اور دانا انسان وہی ہوتا ہے جو اپنا برتن بھی آگے کر دے کیونکہ پھر اس کا برتن خالی نہیں رہتا.فقیروں کو دیکھ لو جب لوگ شادی کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ان پر اخراجات کا بوجھ اور دنوں سے زیادہ ہو تا ہے مگر اس کے باوجو د وہ نہیں کہتے کہ ہم کیوں سوال کریں اس وقت تو خودان پر شادی کے اخراجات کا بوجھ پڑا ہوا ہے بلکہ جب کسی گھر میں شادی ہو رہی ہوتی ہے وہ بھی اپنا برتن لے کر پہنچ جاتے ہیں اور گھر والا اور دنوں کی نسبت ان کے برتن میں زیادہ ڈالتا ہے کیونکہ اس وقت اس کی اپنی طبیعت خرچ کرنے پر آئی ہوتی ہے.اسی طرح جب کوئی شخص کسی بزرگ کی نقل کرتا ہے تو چاہے وہ اس کے درجہ تک نہ پہنچا ہوا ہو جب بھی وہ اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کی کمزوری کو دیکھ کر اس سے زیادہ بخشش کا سلوک کرتا ہے.ماں باپ اپنے بچہ سے اس وقت زیادہ پیار کرتے ہیں جب وہ چھوٹا ہوتا ہے.اور جب وہ کھڑے ہونے کی کوشش کرتا ہے تو گر جاتا ہے.لیکن ایک بالغ بچہ جب چل پھر رہا ہو تا ہے تو ماں باپ کے دل میں محبت کا وہ جوش پیدا نہیں ہوتا جو ایک چھوٹے بچے کے متعلق پیدا ہوتا ہے.پس کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ خانہ کعبہ کے ذریعہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے دین کی ایک آخری بنیاد قائم کی گئی تھی اس سے ہمارے گھروں کو کیا واسطہ ہے ؟ اسی کا واسطہ دے کر مانگنا ہی تو خدا تعالیٰ کی رحمت کو بڑھاتا ہے اور انہی کی نقل کرنا ہی تو اصل چیز ہے.جو شخص کمزور ہے اور کمزور ہو کر چاہتا ہے کہ میں محمد رسول اللہ مل ہی کی طرح چلوں اللہ تعالیٰ اس کی
1.2 اس بات کو دیکھ کر ناراض نہیں ہو تا بلکہ وہ اور زیادہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے دیکھو میرا یہ کمزور بندہ کتنا اچھا ہے اس میں ہمت اور طاقت نہیں مگر پھر بھی یہ میری طرف سے بھیجے ہوئے ایک نمونہ اور مثال کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے سو ہمیں بھی اس کام کی یاد کے طور پر اور اس بستی کی یاد کے طور پر جس جگہ خدا کے ایک نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے انتظار میں دعائیں کی گئیں اپنے نئے مرکز کو بساتے وقت جو اسی طرح ایک دادی غیر ذی زرع میں بسایا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں کہ شاید ان لوگوں کے طفیل جو مکہ مکرمہ کے قائم کرنے والے اور مکہ مکرمہ کی پیشگوئیوں کے حامل تھے اللہ تعالیٰ ہم پر بھی اپنا فضل نازل کرے اور ہمیں بھی ان نعمتوں سے حصہ دے جو اس نے پہلوں کو دیں.آخر نیت تو ہماری بھی وہی ہے جو ان کی تھی.ہمارے ہاتھ میں وہ طاقت نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی اور ہمارے دل میں وہ قوت نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تھی.اگر ہم باوجود اس کمزوری کے وہی ارادہ کرلیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تو خدا تعالیٰ ہم سے ناراض نہیں ہو گا.وہ یہ نہیں کہے گا کہ یہ کون ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نقل کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ کہے گا.دیکھو میرے یہ کمزور بندے اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے آگے آگئے ہیں جس بوجھ کے اٹھانے کی ان میں طاقت نہیں.دنیا اس وقت محمد رسول اللہ علیہ و سلم کی تعلیم کو بھول گئی ہے.بلکہ اور لوگوں کا تو کیا ذکر ہے خود مسلمان آپ کی تعلیم کو بھول چکے ہیں.آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان محمد رسول الله ملی لی لی لی وہ ہے جو بھی اٹھتا ہے مصنف کیا اور فلسفی کیا اور مورخ کیا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے.دنیا کا سب سے بڑا محسن انسان آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان ہے اور دنیا کا سب سے زیادہ معزز انسان آج دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل سمجھا جاتا ہے.اگر ہمارے دلوں میں اسلام کی کوئی بھی غیرت باقی ہے ، اگر ہمارے دلوں میں محمد رسول اللہ میم کی کوئی بھی محبت باقی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے آقا کی کھوئی ہوئی عزت کو پھر دوبارہ قائم کریں.اسی میں ہماری جائیں ، ہماری بیویوں کی جانیں ، ہمارے بچوں کی جانیں بلکہ ہماری ہزار پشتیں بھی اگر قربان ہو جائیں تو یہ ہمارے لئے عزت کا موجب ہو گا.
"ہم نے یہ کام قادیان میں شروع کیا تھا مگر خدائی خبروں اور اس کی بتائی ہوئی پیشگوئیوں کے مطابق ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا اب انہی خبروں اور پیشگوئیوں کے ماتحت ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کیلئے اس وادی غیر ذی زرع میں بسا رہے ہیں.ہم چیونٹی کی طرح کمزور اور ناطاقت ہی سہی مگر چیونٹی بھی جب دانہ اٹھا کر دیوار پر چڑھتے ہوئے گرتی ہے تو وہ اس دانے کو چھوڑتی نہیں بلکہ دوبارہ اسے اٹھا کر منزلِ مقصود پر لے جاتی ہے اسی طرح گو ہمار اوہ مرکز جو حقیقی اور دائمی مرکز ہے دشمن نے ہم سے چھینا ہوا ہے لیکن ہمارے ارادہ اور عزم میں کوئی تزلزل واقعہ نہیں ہوا.دنیا ہم کو ہزاروں جگہ پھینکتی چلی جائے ، وہ فٹ بال کی طرح ہمیں لڑھکاتی چلی جائے ہم کوئی نہ کوئی جگہ ایسی ضرور نکال لیں گے جہاں کھڑے ہو کر ہم پھر دوبارہ محمد رسول الله میلی لیلی کی حکومت دنیا میں قائم کر دیں اور بغیر ہمارے یہ حکومت دنیا میں قائم ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی محبت سے لوگوں کے دل خالی ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کی حقیقی تفسیر سے وہ ناواقف ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بظاہر لوگوں کے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پائی جاتی ہے.لاکھوں غیر احمدی ایسے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی وی ہوم سے نہیں بلکہ آپ کی ایک نئی بنائی ہوئی شکل سے محبت کرتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض احمدی بھی غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں او ر وہ خیال کرتے ہیں کہ جب یہ لوگ محمد رسول اللہ میں تم سے محبت کرتے ہیں تو ہمارا یہ کہنا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی محبت نہیں حالانکہ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ محبت تو کرتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ محمد رسول اللہ میل کی ایک غلط تصویر ہے.اسی طرح ہم مانتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی فرمانبرداری کی خواہش رکھتے ہیں مگروہ اس غلط تاویل کی فرمانبرداری کی خواہش رکھتے ہیں جو ان کے دلوں میں راسخ ہو چکی ہے.اس لئے جب تک احمدیت دنیا میں غالب نہیں آجاتی اسلام غلبہ نہیں پاسکتا.اور یہ اتنی موٹی بات ہے کہ میں حیران ہوں مسلمان اسے کیوں نہیں سمجھتے اور کیوں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ باوجو د الفت رسول کے وہ دنیا میں کیوں ذلیل ہو رہے ہیں؟ سیدھی بات ہے مسلمان اس وقت پچاس کروڑ ہیں اور احمدی پانچ لاکھ مگر چار پانچ لاکھ
١٠٩ احمدی جتنی اسلام کی خدمت کر رہا ہے، جس قدر اسلام کی تبلیغ کر رہا ہے اور جس قدر اشاعت اسلام کے لئے قربانیاں پیش کر رہا ہے اتنی پچاس کروڑ مسلمان نہیں کر رہا.اس وقت دنیا کے گوشہ گوشہ میں احمدی مبلغ پھیلے ہوئے ہیں اور وہ عیسائیت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور مقابلہ بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی بڑی عیسائی طاقتوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ان کا مقابلہ موثر ہے.پندرہ میں سال ہوئے لکھنو میں عیسائیوں کی ایک بہت بڑی کانفرنس ہوئی جس میں یورپ سے بھی عیسائی پادری شامل ہوئے اس میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ شمالی ہندوستان میں اب کوئی اچھا شریف اور تعلیم یافتہ آدمی عیسائی نہیں ہو تا.اس کی کیا وجہ ہے.تمام پادری جو اس فن کے ماہر تھے انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ جب سے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے دعویٰ کیا ہے اس وقت سے عیسائیت کی ترقی رک گئی ہے.انہوں نے عیسائیت کی اس قدر مخالفت کی ہے کہ جہاں جہاں ان کا لٹریچر پھیل جاتا ہے عیسائیت ترقی نہیں کر سکتی پھر افریقہ کے متعلق ایک بڑی بھاری کمیٹی مقرر کی گئی تھی جسے چرچ آف انگلینڈ نے مقرر کیا تھا جس کی سالانہ آمد ہمارے بہت سے صوبوں سے بھی زیادہ ہے.وہ چالیس پچاس کروڑ روپیہ سالانہ عیسائیت کی اشاعت کے لئے خرچ کرتے ہیں.اس کمیٹی کی طرف سے جو رپورٹ تیار کی گئی اس میں چھتیں جگہ یہ ذکر آتا تھا کہ افریقہ میں عیسائیت کی ترقی محض احمدیت کی وجہ سے رکی ہے.ابھی بارہ مہینے ہوئے ایک پادری جسے افریقہ کے دورہ کے لئے بھیجا گیا تھا اس نے افریقہ کے دورہ کے بعد یہ رپورٹ کی کہ افریقہ میں عیسائیت کیوں بیکار جد وجہد کر رہی ہے.اس نے کئی جگہوں کے نام لئے اور کہا کہ وہاں عیسائیت کے راستہ میں احمدیوں نے روکیں ڈال دی ہیں اور ساتھ ہی اس نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا کہ عیسائیت کی تبلیغ اب افریقن لوگوں میں اچھا اثر نہیں کر سکتی ہاں اسلام کی تبلیغ ان میں اچھا اثر پیدا کر رہی ہے.اس نے کہا جب سے افریقہ میں احمدی آگئے ہیں عیسائیت ان کے مقابلہ میں شکست کھاتی جا رہی ہے.چنانچہ عیسائیوں کا فلاں سکول جو بڑا بھاری سکول تھا اب ٹوٹنے لگا ہے اور لوگ اس میں اپنے لڑکوں کو تعلیم کے لئے نہیں بھجواتے.پھر اس نے کہا ان حالات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ ہم اپنے روپیہ اور اپنی طاقتوں کا اس ملک میں ضیاع کرنے کی بجائے اس میدان کو احمدیوں کے لئے چھوڑ دیں کہ وہ ان لوگوں کو مسلمان بنا
لیں.یہ دشمنوں کا اقرار ہے جو انہوں نے ہماری تبلیغی جدوجہد کے متعلق کیا یہ طاقت ہم میں کہاں سے آئی ہے؟ اور یہ جوش ہم میں کیوں پیدا ہوا؟ اسی لئے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم میں ایک آگ پیدا کر دی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پھر دوبارہ اسلام کو دنیا میں غالب کر دیں.پس مسلمان احمدیت کا جتنا بھی مقابلہ کرتے ہیں وہ اسلام کے غلبہ میں اتنی ہی روکیں پیدا کرتے ہیں اور جتنی جلدی وہ احمدیت میں شامل ہو جائیں گے اتنی جلدی ہی اسلام دنیا میں غالب آجائے گا."حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جس قدر تحریکیں دنیا میں جاری ہیں وہ ساری کی ساری دنیوی ہیں صرف ایک تحریک مسلمانوں کی مذہبی تحریک ہے اور وہ احمدیت ہے.پاکستان خواہ کتنا بھی مضبوط ہو جائے کیا عراقی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں ، کیا شامی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں، کیا لبنانی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں کیا حجازی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں ، شامی تو اس بات کے لئے بھی تیار نہیں کہ وہ لبنانی یا حجازی کہلائیں، حالانکہ وہ ان کے ہم قوم ہیں پھر لبنانی اور حجازی اور عراقی اور شامی پاکستانی کہلانا کب برداشت کر سکتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ قولا تو اتحاد کر سکتے ہیں مگر وہ ایک پارٹی اور ایک جماعت نہیں کہلا سکتے.صرف ایک تحریک احمدیت ہی ایسی ہے جس میں سارے کے سارے شامل ہو سکتے ہیں عراقی بھی اس میں شامل ہو کر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں، عربی بھی اس میں شامل ہو کر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں حجازی بھی اس میں شامل ہو کر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں اور عملاً ایسا ہو رہا ہے.وہ عربی ہونے کے باوجود اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم احمدیت میں شامل ہیں جس کا مرکز پاکستان میں ہے اور اس طرح وہ ایک رنگ میں پاکستان کی ماتحتی قبول کرتے ہیں مگر یہ ماتحتی احمدیت میں شامل ہو کر ہی کی جا سکتی ہے اس کے بغیر نہیں.چنانچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ عربی جو اس غرور میں رہتا ہے کہ میں اس ملک کا رہنے والا ہوں جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے میرا مقابلہ کوئی اور شخص کہاں کر سکتا ہے وہ احمدیت میں شامل ہو کر بڑی عظیم ہندو پاکستان کا بھی ادب و احترام کرتا ہے اور یہاں مقدس مقامات کی زیارتوں کے لئے بھی آتا ہے.غرض ایک ہی چیز ہے جس کے ذریعہ دنیائے اسلام پھر متحد ہو سکتی ہے اور جس کے ذریعہ دوسری دنیا پر کامیابی اور
فتح حاصل ہو سکتی ہے اور وہ احمدیت ہے.آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان دنیا میں ہر جگہ ذلیل ہو رہے ہیں اور ہر جگہ تباہی اور بربادی کا شکار ہو رہے ہیں؟ اس سے زیادہ تباہی اور کیا ہوگی کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی پچاس ہزار عورتیں اب تک سکھوں اور ہندوؤں کے قبضہ میں ہیں کیا یہ معمولی ذلّت ہے کہ مسلمانوں کی پچاس ہزار عورتوں کو وہ پکڑ کرنے گئے اور ان سے بدکاریاں کر رہے ہیں.کیا یہ معمولی عذاب ہے کہ پانچ چھ لاکھ مسلمان دنوں میں مارا گیا اور پھر فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ مسلمانوں کو نظر نہیں آرہا؟ ابھی حیدر آباد میں جو کچھ ہوا ہے اس سے کس طرح مسلمانوں کو صدمہ ہوا ہے اور وہ اپنے دلوں میں کیسی ذلت اور شرمندگی محسوس کر رہے ہیں مگر یہ ساری مصیبتیں اور بلائیں ایک لمبی زنجیر کی مختلف کڑیوں کے سوا اور میں کیا ؟ آخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کی جو محبت ہے اس کے ظاہر ہونے کا وقت کب آئے گا اور کونساوہ دن ہو گا جب خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑ کے گی اور مسلمانوں کو اس تنزل اور ادبار سے نجات دلائے گی ؟ خد اتعالیٰ کی غیرت کبھی دنیا میں بھڑکتی ہے یا نہیں ، اور اگر بھڑکتی ہے تو مسلمانوں کو سوچنا چاہئے کہ اس کی غیرت کے بھڑکنے کا کونسا ذریعہ ہوا کرتا ہے.اگر وہ سوچتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ پہلے اپنا مامور دنیا میں بھیجتا ہے اور پھر اس مامور کے ذریعہ ہی اس کی غیرت بھڑکا کرتی ہے.اس کے سواخد اتعالیٰ نے کبھی کوئی طریق اختیار نہیں کیا اور یہی ایک طریق ہے جس پر چل کر وہ اب بھی خدا تعالیٰ کی غیرت کا نمونہ دیکھ سکتے ہیں.یہ بات مسلمانوں کے سامنے پیش کرو اور انہیں سمجھاؤ کہ تمہارا فائدہ اسلام کا فائدہ اور پھر ساری دنیا کا فائدہ اسی میں ہے کہ تم جلد سے جلد احمدیت میں شامل ہو جاؤ.آخر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے وہ ہم سے رکتے ہیں.ہماری تو ساری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے ہر موقع پر مسلمانوں کی خدمت کی ہے گو اس کے بعد ہمیشہ ان کی طرف سے مخالفت ہی ہوئی ہے مگر پھر بھی ہمارا کیا نقصان ہوا.ابھی کوئٹہ میں غیر احمدیوں کی طرف سے ایک جلسہ کیا گیا جس میں لوگوں کو ہمارے خلاف اکسایا گیا.ایک احمدی ڈاکٹر میجر محمود احمد رات کے وقت کسی مریض کو دیکھ کر کار میں واپس آرہے تھے کہ وہ تقریر کی آواز سن کر وہاں ٹھہر گئے.انہوں نے اپنی موٹر باہر کھڑی کی اور خود تھوڑی دیر کے لئے اندر چلے گئے.بعض
١١٢ غیر احمدیوں نے انہیں دیکھ کر دوسروں کو اکسا دیا اور انہوں نے ان پر پتھراؤ شروع کر دیا وہ پتھروں کی بوچھاڑ سے بچنے کیلئے ایک طرف اندھیرے میں چلے گئے اس پر کسی شخص نے وہیں اندھیرے میں خنجر مار کر انہیں شہید کر دیا اس واقعہ کے تیسرے چوتھے دن بعد میرے پاس ایک وفد آیا جس میں بلوچستان مسلم لیگ کے وائس پریذیڈنٹ بھی شامل تھے اور پٹھانوں کی قوم کے ایک سردار بھی شامل تھے ان سب نے آکر کہا کہ ڈاکٹر میجر محمود کے قتل کا جو واقعہ ہوا ہے اس میں صرف پنجابیوں کا قصور ہے ہمارا کوئی قصور نہیں آپ ہم پر گلہ نہ کریں.پنجابی مولویوں نے یہاں آکر مخالفانہ تقریریں کیں جس سے لوگ مشتعل ہو گئے.پھر اس سردار نے جو اپنی قوم کے رئیس اور میونسپل کمیٹی کے ممبر بھی تھے کہا کہ میں نے پنجابیوں کو بلوایا اور ان سے کہا کہ تم جو احمدیت کے خلاف شورش کر رہے ہو تم یہ بتاؤ کہ قادیان پنجاب میں ہے یا بلوچستان میں ؟ انہوں نے کہا پنجاب میں.میں نے کہا جب قادیان پنجاب میں تھا اور تم کو ایک لمبا عرصہ احمدیوں کی مخالفت کے لئے مل چکا ہے تو جب تم وہاں ان لوگوں کو تباہ نہیں کر سکے تو یہاں کیا مقابلہ کرو گے.اگر تم میں ہمت اور طاقت تھی تو تم نے ان لوگوں کو یہاں آنے ہی کیوں دیا وہیں کیوں نہ مار ڈالا.پھر میں نے پوچھا کہ پنجاب کی آبادی کتنی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اب دو کروڑ ہے پہلے تین کروڑ ہوا کرتی تھی.میں نے کہا بلوچستان کی کتنی آبادی ہے.انہوں نے کہا ۱۲ لاکھ.میں نے کہا تم دو تین کروڑ ہو کر ان لوگوں کو مار نہیں سکے تو ہم بارہ لاکھ کو کیوں ذلیل کرتے ہو اور کیوں ہمیں ان کی مخالفت کیلئے اکساتے ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا نے اپنا سارا زور ہماری مخالفت میں لگا لیا اور ابھی اور لگائے گی لیکن یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ احمدیت دنیا میں غالب آکر رہے گی کیونکہ احمدیت کے بغیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غالب نہیں آسکتے.اس کے ساتھ ہی میں اپنی ذات کے متعلق بھی یہ بات جانتا ہوں کہ میری زندگی کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی زندگی وابستہ ہے اس لئے خدا مجھے بھی دشمن کے ہاتھوں سے نہیں مرنے دے گا اور وہ میرے بچاؤ کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لے گا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے ساتھ اسلام کی ترقی کو وابستہ کر دیا ہے جو شخص احمدیت پر ہاتھ اٹھاتا ہے وہ اسلام پر ہاتھ اٹھاتا ہے.جو شخص احمدیت کو برباد کرنا چاہتا ہے وہ اسلام کو برباد کرنا چاہتا ہے.لیکن
١١٣ ہمارا بھی فرض ہے کہ جب خدا نے ہم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے اور ہم کمزوروں اور ناتوانوں کے ساتھ اسلام کی آئندہ ترقی کو وابستہ کر دیا ہے تو ہم اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیں.اسی لئے باوجود اس کے کہ شہروں میں ہمیں مکان مل سکتے تھے مگر ہم نے نہیں لئے کیونکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں بیداری پیدا کرتے رہیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان میں تنظیم پیدا کریں ، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کی تعلیم اور تربیت کا خیال رکھیں اور یہ چیز بڑے شہروں میں حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں جماعت بکھری ہوئی ہوتی ہے.پس باوجود اس کے کہ ہمیں شہروں میں جگہیں مل سکتی تھیں ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور اس وادی غیر ذی زرع کو اس ارادہ اور نیت کے ساتھ چنا ہے کہ جب تک یہ عارضی مقام ہمارے پاس رہے گا ہم اسلام کا جھنڈا اس مقام پر بلند رکھیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور جب خدا ہمارا قادیان ہمیں واپس دے دے گا یہ مرکز صرف اس علاقہ کے لوگوں کے لئے رہ جائے گا یہ مقام اجڑے گا نہیں کیونکہ جہاں خدا کا نام ایک دفعہ لے لیا جائے وہ مقام برباد نہیں ہوا کرتا.پھر یہ صرف اس علاقہ کے لوگوں کا مرکز بن جائے گا اور ساری دنیا کا مرکز پھر قادیان بن جائے گا جو حقیقی اور دائمی مرکز ہے.پس ہم یہاں آئے ہیں اس لئے کہ خدا کا نام اونچا کریں ہم اس لئے نہیں آئے کہ اپنے نام کو بلند کریں ہمارا نام شہروں میں زیادہ اونچا ہو سکتا تھا اور ہم اگر اپنے نام کو بلند کرنے کی خواہش رکھتے تو اس کے لئے بڑے شہر زیادہ موزوں تھے بلکہ خودان شہروں کے رہنے والوں نے بھی خواہش کی تھی کہ وہیں جماعت کے لئے زمینیں خرید لی جائیں چنانچہ لاہور کوئٹہ اور کراچی میں چوٹی کے آدمی مجھ سے ملنے کے لئے آتے اور خواہش کرتے تھے کہ انہی کے شہر میں ہم رہائش اختیار کریں.کراچی میں بھی لوگوں نے یہی خواہش کی اور کوئٹہ میں بھی لوگوں نے یہی خواہش کی.غرض اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں ظاہری عزت شہروں میں زیادہ ملتی تھی مگر ہمارا کام اپنے لئے ظاہری عزت حاصل کرنا نہیں بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اس جگہ کی تلاش کریں جہاں اسلام کی عزت کا بیج بو سکیں اور ہم نے اسی نیت اور ارادہ سے اس وادی غیر ذی زرع کو چنا ہے.” چنانچہ دیکھ لو یہاں کوئی فصلیں نہیں ، کہیں سبزی کا نشان نہیں گویا چن کر ہم نے
۱۱۴ وہ مقام لیا ہے جو قطعی طور پر آبادی اور زراعت کے ناقابل سمجھا جاتا تھا تاکہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ پاکستان نے احمدیوں پر احسان کیا ہے.مگر کہنے والوں نے پھر بھی کہہ دیا کہ کروڑوں کروڑ کی جائیداد پاکستان نے احمدیوں کو دے دی ہے.یہ زمین ہم نے دس روپیہ فی ایکٹر پر خریدی ہے اور یہ زمین ایسی ہے جو بالکل بنجر اور غیر آباد ہے اور صدیوں سے بنجر اور غیر آباد چلی آتی ہے یہاں کوئی کھیتی نہیں ہو سکتی کوئی سبزہ دکھائی نہیں دیتا کوئی نہر اس زمین کو نہیں لگتی.اس کے مقابلہ میں میں نے خود مظفر گڑھ میں نہروالی زمین آٹھ روپیہ ایکٹر پر خریدی تھی بلکہ اسی مظفر گڑھ میں ایک لاکھ ایکڑ زمین میاں شاہ نواز صاحب نے آٹھ آنے ایکڑ پر خریدی تھی جس سے بعد میں انہوں نے بہت نفع کمایا.یہ زمین ہم نے پہاڑی ٹیلوں کے درمیان اس لئے خریدی ہے کہ میری رویا اس زمین کے متعلق تھی.یہ رویا دسمبر ۱۹۴۱ء میں میں نے دیکھی تھی اور ۲۱.دسمبر ۱۹۴۱ء کے الفضل میں شائع ہو چکی ہے.اب تک دس ہزار آدمی یہ رویا پڑھ چکے ہیں اور گورنمنٹ کے ریکارڈ میں بھی یہ رویا موجود ہے.میں نے اس رویا میں دیکھا کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے اور ہر قسم کے ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں مگر مقابلہ کے بعد دشمن غالب آگیا اور ہمیں وہ مقام چھوڑنا پڑا.باہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کس جگہ جائیں اور کہاں جا کر اپنی حفاظت کا سامان کریں.اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا میں ایک جگہ بتاتا ہوں آپ پہاڑوں پر چلیں وہاں اٹلی کے ایک پادری نے گر جا بنایا ہوا ہے اور ساتھ اس نے بعض عمارتیں بھی بنائی ہوئی ہیں جنہیں وہ کرایہ پر مسافروں کو دیتا ہے وہ مقام سب سے بہتر رہے گا.میں ابھی متردد ہی تھا کہ اس جگہ رہائش اختیار کی جائے یا نہ کی جائے کہ ایک شخص نے کہا آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ یہاں مسجد بھی ہے.اس نے سمجھا کہ کہیں میں رہائش سے اس لئے انکار نہ کر دوں کہ یہاں مسجد نہیں.چنانچہ میں نے کہا اچھا مجھے مسجد دکھاؤ اس نے مجھے مسجد دکھائی جو نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی ، چٹائیاں اور دریاں وغیرہ بھی بچھی ہوئی تھیں اور امام کی جگہ ایک صاف قالینی مصلی بچھا ہوا تھا.اس پر میں خوش ہوا اور میں نے کہا لو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسجد بھی دے دی ہے اب ہم اس جگہ رہیں گے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ باہر سے آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ بڑی تباہی ہے بڑی تباہی ہے اور جالندھر کا
114 خاص طور پر نام لیا کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے.پھر انہوں نے کہا ہم نیلے گنبد میں داخل ہونے لگے تھے مگر ہمیں وہاں بھی داخل نہیں ہونے دیا.اس وقت تک تو ہم صرف لاہور کا ہی نیلا گنبد سمجھتے تھے مگر بعد میں غور کرنے پر معلوم ہوا کہ نیلے گنبد سے مراد آسمان تھا اور مطلب یہ تھا کہ کھلے آسمان کے نیچے بھی مسلمانوں کو امن نہیں ملے گا.چنانچہ لوگ جب اپنے مکانوں اور شہروں سے نکل کر ریفیوجی کیمپوں میں جمع ہوتے تھے تو وہاں بھی سکھ ان پر حملہ کر دیتے تھے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو مار ڈالتے تھے.اس رویا کے مطابق یہ جگہ مرکز کے لئے تجویز کی گئی ہے.جب میں قادیان سے آیا تو اس وقت یہاں اتفاقاً چوہدری عزیز احمد صاحب احمدی سب جج لگے ہوئے تھے.میں شیخوپورہ کے متعلق مشورہ کر رہا تھا کہ چوہدری عزیز احمد صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا میں نے اخبار میں آپ کی ایک اس رنگ کی خواب پڑھی ہے میں سمجھتا ہوں کہ چنیوٹ ضلع جھنگ کے قریب دریائے چناب کے پاس ایک ایسا ٹکڑا زمین ہے جو اس خواب کے مطابق معلوم ہوتا ہے.چنانچہ میں یہاں آیا اور میں نے کہا ٹھیک ہے خواب میں جو میں نے مقام دیکھا تھا اس کے ارد گرد بھی اسی قسم کے پہاڑی ٹیلے تھے صرف ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ میں نے اس میدان میں گھاس دیکھا تھا مگر یہ چٹیل میدان ہے.اب بارشوں کے بعد کچھ کچھ سبزہ نکلا ہے ممکن ہے ہمارے آنے کے بعد اللہ تعالی یہاں گھاس بھی پیدا کر دے اور اس رقبہ کو سبزہ زار بنا دے.بہر حال اس رویا کے مطابق ہم نے اس جگہ کو چنا ہے اور یہ رویا وہ ہے جس کے ذریعہ چھ سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ہمیں آئندہ آنے والے واقعات سے خبر دے دی تھی.دنیا میں کون ایسا انسان ہے جس کی طاقت میں یہ بات ہو کہ وہ چھ سال پہلے آئندہ آنے والے واقعات بیان کر دے؟ انگریزوں کی حکومت کے زمانہ میں بھلا قادیان پر حملہ کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا.پھر قادیان کو چھوڑنا کس کے خیال میں آسکتا تھا.کون خیال کر سکتا تھا کہ مسلمانوں پر ایک بہت بڑی تباہی آنے والی ہے اتنی بڑی کہ وہ اپنے شہروں اور گھروں سے نکل کر آسمان کے نیچے ڈیرے ڈالیں گے تو وہاں بھی وہ دشمن کے حملہ سے محفوظ نہیں ہوں گے.مگر یہ تمام واقعات رونما ہوئے اور پھر اللہ تعالٰی نے اس رویا کے مطابق ہمیں ایک
۱۱۶ نیا مرکز بھی دے دیا.یہاں جس قسم کی مخالفت تھی اس کے لحاظ سے اس مرکز کا ملنا بھی اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کا ایک کھلا ثبوت ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ مخالفین کے اخباروں نے پیچھے شور مچایا اور ہمارا سودا پہلے طے ہو چکا تھا.پھر اس قدر جھوٹ سے کام لیا گیا کہ اس زمین کے متعلق انہوں نے لکھا کہ حکومت کو پندرہ سو روپیہ فی ایکٹر مل رہا تھا اور کئی مسلمان انجمنیں اسے یہ روپیہ پیش کر رہی تھیں مگر حکومت نے یہ ٹکڑہ برائے نام قیمت پر احمدیوں کو دے دیا.گویا ان کے حساب سے پندرہ لاکھ روپیہ اس ٹکڑے کا حکومت کو مل رہا تھا مگر حکومت نے اس کی پروا نہ کی.جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے فوراً اعلان کرا دیا کہ پاکستان کا اتنا نقصان ہم برداشت نہیں کر سکتے اگر اتنا روپیہ دے کر کوئی شخص یہ زمین خرید سکتا ہے تو وہ اب بھی ہم سے یہ زمین اتنی قیمت پر لے لے تو ہم یہ سارے کا سارا روپیہ حکومت پاکستان کو دے دیں گے.مگر حقیقت یہ ہے کہ پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ تو کجا پندرہ روپیہ فی ایکڑ بھی کوئی شخص دینے کیلئے تیار نہیں تھا.گورنمنٹ نے خود اپنے گزٹ میں اس کے متعلق متواتر اعلان کرایا مگر اسے پانچ روپے فی ایکڑ کی بھی کسی نے پیشکش نہ کی.غرض اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہم قادیان سے باہر آئے ہیں اور اس کے منشاء کے ماتحت ہم یہاں ایک نیا مرکز بسانا چاہتے ہیں.ہر چیز میں روکیں حائل ہو سکتی ہیں اس لحاظ سے ممکن ہے ہمارے اس ارادہ میں بھی کوئی روک حائل ہو جائے لیکن ہمارا ارادہ اور ہماری نیت یہی ہے کہ ہم پھر ایک مرکز بنا کر اسلام کے غلبہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کی کوشش کریں اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کام میں ہمارا حامی و مددگار ہو.ہم نے اس وادی غیر ذی زرع کو جس میں فصل اور سبزیاں نہیں ہوتیں اس لئے چنا ہے کہ ہم یہاں بسیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کریں.مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ساری فصلیں اور سبزیاں اور ثمرات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں.پس اول تو ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہماری نیتوں کو صاف کرے اور ہمارے ارادوں کو پاک کرے.اور پھر ہم اس سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ مکہ مکرمہ کے ظل کے طور پر اور مکہ مکرمہ کے موعود کے طفیل ہم کو بھی اس وادی میں ہر قسم کے ثمرات پہنچا دے گا.ہماری روزیاں کسی بندے کے سپرد نہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اپنے پاس سے ہم کو کھلائے گا اور ہم اس سے دعا کرتے ہیں کہ وہ
116 یہاں کے رہنے والوں میں دین کا انتا جوش پیدا کر دے دین کی اتنی محبت پیدا کر دے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا عشق پیدا کرے کہ وہ پاگلوں کی طرح دنیا میں نکل جائیں اور اس وقت تک گھر نہ لوٹیں جب تک دنیا کے کونے کونے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم نہ کر دیں.بے شک دنیا کہے گی کہ یہ لوگ پاگل ہیں مگر ایک دن آئے گا اور یقیناً آئے گا.یہ آسمان مل سکتا ہے یہ زمین مل سکتی ہے مگر یہ وعدہ نہیں مل سکتا کہ خدا ہمارے ہاتھ سے محمد رسول اللہ علیہ کی حکومت دنیا میں قائم کر دے گا اور وہ لوگ جو آج ہمیں پاگل کہتے ہیں شرمندہ ہو کر کہیں گے کہ اس چیز نے تو ہو کر ہی رہنا تھا آثار ہی ایسے نظر آرہے تھے جن سے ثابت ہو تا تھا کہ یہ چیز ضرور وقوع میں آکر رہے گی.جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سب لوگ پاگل کہتے تھے مگر اب عیسائی کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا کے حالات ہی اس قسم کے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فتح ہوتی اور باقی مذاہب شکست کھا جاتے.جس طرح پہلے عقل مند کہلانے والے لوگ پاگل ثابت ہوئے اسی طرح اب بھی عقل مند کہلانے والے لوگ ہی پاگل ثابت ہوں گے اور دنیا پر اسلام غالب آکر رہے گا.آؤ اب ہم ہاتھ اٹھا کر آہستگی سے بھی اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ ہمارے ارادوں میں برکت ڈالے اور ہمیں اس مقدس کام کو دیانتداری کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق بخشے." الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء) حضرت فضل عمر نے اس مؤثر اور رقت انگیز خطاب کے بعد لمبی دعا فرمائی اور فرمایا کہ :.اب اس رقبہ کے چاروں کونوں میں قربانیاں کی جائیں گی اور ایک قربانی اس رقبہ کے وسط میں کی جائے گی یہ قربانیاں اس علامت کے طور پر ہوں گی کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے بیٹے کی قربانی کیلئے تیار ہو گئے تھے اور خدا تعالٰی نے ان کی قربانی کو قبول فرما کر بکرے کی قربانی کا حکم دیا تھا اس طرح ہم بھی زمین کے چاروں گوشوں پر اور ایک اس زمین کے سنٹر میں اس نیت اور ارادہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولادوں کو ہمیشہ اس راہ میں قربان ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین" سرزمین ربوہ کے وسط میں حضور نے اپنے دست مبارک سے ایک بکرا ذبح فرمایا اور چاروں
||A کونوں میں حضرت مولوی عبدالرحیم درد صاحب، حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بو تالوی حضرت چوہدری برکت علی خان صاحب تحریک جدید اور مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب مولوی فاضل نے ایک ایک بکرا ذبح کیا.لاہور سے واپسی سے قبل حضور نے نماز عصر بھی اسی شامیانے میں ادا کی اور بعد نماز عصر جماعت چنیوٹ کی طرف سے پیش کیا گیا کھانا تناول فرمایا.اس یادگار موقع پر جماعت کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے ایک مضمون میں تحریر فرمایا." سلسلہ کی تاریخ میں ایک خاص یادگاری موقعہ تھا جس میں دو قسم کے بظاہر متضاد لیکن حقیقتاً ایک ہی منبع سے تعلق رکھنے والے جذبات کا ہجوم تھا.ایک طرف نئے مرکز کے قیام کی خوشی تھی کہ خدا ہمیں اس کے ذریعہ سے پھر مرکزیت کا ماحول عطا کرے گا اور ہم ایک جگہ اکٹھے ہو کر اپنی تنظیم کے ماحول میں زندگی گزار سکیں گے اور دوسری طرف اس وقت قادیان کی یاد بھی اپنے تلخ ترین احساسات کے ساتھ دلوں میں جوش مار رہی تھی اور نئے مرکز کی خوشی کے ساتھ ساتھ ہر زبان اس ذکر کے ساتھ تازہ اور ہر آنکھ اس دعا کے ساتھ پر نم تھی کہ خدا ہمیں جلد تر اپنے دائمی اور عالمگیر مرکز میں واپس لے جائے." ا افضل ۲۲.ستمبر ۱۹۴۸ء) اس سفر کے دوران حضور نے نئے مرکز کا نام " ربوہ " رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا." نئے مرکز کا نام ربوہ تجویز کیا گیا ہے جس کے معنی بلند مقام یا پہاڑی مقام کے ہیں یہ نام اس نیک فال کے طور پر تجویز کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس مرکز کو حق و صداقت اور روحانیت کی بلندیوں تک پہنچنے کا ذریعہ بنائے اور خدائی نور کا ایک ایسا بلند مینار ثابت ہو جسے دیکھ کر لوگ اپنے خدا کی طرف راہ پائیں.اس کے علاوہ ظاہری لحاظ سے بھی یہ جگہ ایک ربوہ کا حکم رکھتی ہے کیونکہ وہ ارد گرد کے علاقہ سے اونچی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تو بعض چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بھی ہیں گویا ایک پہلو میں چناب کا دریا ہے جو پانی ذریعہ حیات کا منظر پیش کرتا ہے اور دوسرے پہلو میں بعض پہاڑیاں ہیں جو بلندی کی علامت کی علمبردار ہیں." الفضل ۲۲.ستمبر ۱۹۴۸ء)
119 ہر اول دستہ.جامعہ احمدیہ - خدائی مشیت قرار دیتے ہوئے فرمایا.۲۹.نومبر ۱۹۴۸ء کو حضور احمد نگر تشریف لے گئے اور جامعہ احمدیہ کے احمد نگر میں قائم و جاری ہونے کو خاص تم لوگ ہر اول دستے کے طور پر آئے ہو اور تم لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی ہیں حضرت اسماعیل کی اس اولاد کی طرح ہو جنہوں نے وادی غیر ذی زرع میں بستی کو آباد کیا تھا.یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے.تعلیم الاسلام کالج کو تولاہور میں جگہ مل گئی اور ہائی سکول کو چنیوٹ میں مکان مل گیا لیکن مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کو یہاں احمد نگر میں جگہ ملی جو ربوہ کا ہی حصہ ہے.بلکہ یہ خدائی منشاء کے ماتحت ہے." حضور نے اس موقع پر بطور نصیحت جامعہ کے رجسٹر پر اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا :.میں وہی کہتا ہوں جو رسول کریم میں اللہ نے جنگ احد کے موقع پر فرمایا.اللہ أَعْلَى وَاجَلٌ (الفضل ۲۵- دسمبر ۱۹۴۸ء) نٹے مرکز کی زمین کے حصول کے بعد زہریلے سانپوں کے اس مسکن اور بنجر د چٹیل افتتاح ربوہ میدان کو عالمی جماعت احمدیہ کا مرکز بنانے کا ابتدائی کام ۱۹.اپریل ۱۹۴۸ء کو شروع ہوا تھا.اس جگہ کو آباد کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی.قبروں کے پرانے نشانات اور آثار یہ بتاتے ہیں کہ اس جگہ کو آباد کرنے کی پہلے بھی کوششیں کی جاچکی تھیں.ایک ہندو سرمایہ دار کا ذکر بھی تاریخ میں موجود ہے جس نے اس جگہ کو آباد کرنے پر اپنا سرمایہ خرچ کیا مگرا سے بھی ناکامی سے ہی دو چار ہونا پڑا اور مشہور روایت کے مطابق اس ناکامی کا اسے اتنا شدید صدمہ پہنچا کہ وہ اپنا دماغی توازن ہی کھو بیٹھا.زمین و آسمان کے مالک قادر خدا نے یہ کام تین کو چار کرنے والے مصلح موعود کے لئے مقدر کر رکھا تھا.یا یوں کہہ لیجئے کہ اس جگہ کو آباد کرنے کیلئے سرمایہ یا دوسرے ظاہری سامانوں سے زیادہ تو کل علی اللہ اور پر سوز دعاؤں کی ضرورت تھی.اسی سرمایہ کے ساتھ مگر بظاہر بے سرو سامانی اور بے بضاعتی کے ساتھ شروع ہونے والا یہ شہر دیکھتے ہی دیکھتے ایک معقول آبادی جس میں سکول ، مساجد ہسپتال ڈا کھانہ اور جماعتی دفا تر یعنی ابتدائی ضرورت کے وسائل میسر تھے منصہ شہود پر اُبھر آیا اور ۱۹.ستمبر ۱۹۴۹ء کو اس جگہ مستقل رہائش کیلئے ہمارے پیارے امام حضرت فضل عمر بھی تشریف لے آئے.اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے حضرت
۱۲۰ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو جنہوں نے اس سفر کی تاریخی حیثیت و اہمیت کے پیش نظر لاہور سے ربوہ کا سفر حضور کی معیت میں کیا بلکہ اس سفر کی روئیداد اپنے مخصوص انداز میں تحریر فرمائی.ہو آپ لکھتے ہیں :.دراصل میرا دفتر ابھی تک لاہور میں ہے.مگر میں نے اس سفر کی تاریخی اہمیت کو محسوس کر کے یہ ارادہ کیا تھا کہ میں انشاء اللہ اس سفر میں حضرت صاحب کے ساتھ جاؤں گا اور سفر اور ربوہ کی دعا میں شریک ہو کر اسی دن شام کو لاہو رواپس پہنچ جاؤں گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس کی توفیق دی جس کے نتیجہ میں ذیل کی چند سطور ہدیہ ناظرین کرنے کے قابل ہوا ہوں.حضور کا فیصلہ تو یہ تھا کہ انشاء اللہ ۱۹.ستمبر ۱۹۴۹ء کو صبح ۸ بجے لاہور سے روانگی بیہ روانگی وقت مقررہ پر نہیں ہو سکی.چنانچہ حضور آٹھ بجے صبح کی بجائے دس بج کر پچاس منٹ پر یعنی تقریبا گیارہ بجے رتن باغ لاہور سے بذریعہ موٹر روانہ ہوئے.حضور کی موٹر میں حضور خود اور حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ اور شاید ایک دو بچیاں ساتھ تھیں اور حضور کے پیچھے دوسری موٹر میں حضرت صاحب کی بعض دوسری صاحبزادیاں اور ایک بہو اور بعض بچے اور میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری سوار تھے.تیسری موٹر میں سیدہ بشری بیگم مر آیا صاحبہ اور محترمہ ام وسیم احمد صاحبہ اور بعض دوسرے بچے تھے اور ان کے پیچھے چو تھی موٹر میں خاکسار مرزا بشیر احمد اور میرے اہل و عیال اور عزیزہ آمنہ بیگم سیال اور محترمی چوہدری عبد الحمید صاحب سپرنٹنڈنٹ انجینئر اور میاں غلام محمد صاحب اختر اے پی او (A PO) سوار تھے.شاہدرہ سے کچھ آگے نکل کر حضرت صاحب نے اپنی موٹر روک کر انتظار کیا کیونکہ ابھی تک تیسری موٹر نہیں پہنچی تھی اور کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد آگے روانہ ہوئے.ایک لاری اور دو ٹرک کافی عرصہ بعد روانہ ہوئے.ر تن باغ سے روانہ ہونے سے پہلے حضور نے ہدایت فرمائی کہ سب لوگ رتن باغ سے روانہ ہوتے ہوئے اور پھر ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے ہوئے یہ قرآنی دعا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی ہجرت کے وقت سکھائی گئی تھی پڑھتے جائیں.یعنی رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاخْرِ جُنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِى مِنْ
لَّدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا (بنی اسرائیل (۸۱) چنانچہ اس دعا کے ورد کے ساتھ قافلہ روانہ ہوا.اور رستہ میں بھی یہ دعا برابر جاری رہی.چونکہ روانگی میں دیر ہو گئی تھی اس لئے موٹریں کافی تیز رفتاری کے ساتھ گئیں اور سفر کا آخری حصہ تو غالبا ستر پچھتر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طے ہوا ہو گا اور اسی غرض سے رستہ میں کسی جگہ ٹھرا بھی نہیں گیا.یہی وجہ ہے کہ محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی موٹر جو لاہور سے قریبا ڈیڑھ گھنٹہ پہلے روانہ ہوئی تھی اور اس میں محترمی مولوی عبد الرحیم درد صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے.وہ ہمیں رستہ میں ہی ربوہ کے قریب چناب کے پل پر مل گئی تھی یہ گویا اس سفر کی پانچویں موٹر تھی.اس کے علاوہ ایک چھٹی موٹر بھی تھی جس میں محترمی ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان اور ہمارے بعض دوسرے عزیز بیٹھے تھے لیکن چونکہ یہ موٹر بعد میں چلی اور زیادہ رفتار بھی نہیں رکھ سکی اس لئے وہ حضور کے ربوہ میں داخل ہونے کے کچھ عرصہ بعد پہنچی.چناب کامل گزرنے کے بعد جس سے آگے ربوہ کی سرزمین کا آغاز ہوتا ہے.حضور اپنی موٹر سے اُتر آئے اور دوسرے سب ساتھی بھی اپنی اپنی موٹروں سے اُتر آئے.البتہ مستورات موٹروں کے اندر بیٹھی رہیں، اس جگہ اتر کر بعض دوستوں نے اعلان کی غرض سے اور اہل ربوہ تک اطلاع پہنچانے کے خیال سے ریوالور اور راکفل کے کچھ کارتوس ہوا میں چلائے اس کے بعد حضور نے اپنے رفقاء میں اعلان فرمایا کہ میں یہاں قبلہ رخ ہو کر مسنون دعا کرتا ہوں اور ہمارے دوست بھی اس دعا کو بلند آواز سے دہراتے جائیں اور مستورات بھی اپنی اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے یہ دعاد ہرا ئیں.اس کے بعد حضور نے ہاتھ اونچے کر کے یہ دعا کرنی شروع کی.رَبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ قَ اخْرِجُنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِى مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل: ۸۲٬۸۱) یعنی اے میرے رب ! مجھے اس بستی میں اپنی بہترین برکتوں کے ساتھ داخل کر اور پھر اے میرے آقا ! مجھے اس بستی سے نکال کر اپنی اصل قیام گاہ کی طرف اپنی بہترین برکتوں کے ساتھ لے جا.اور اے مومنو اتم خدا کی برکتوں کو دیکھ کر اس آواز کو بلند کرو کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کے لئے تو بھاگنا ہی مقدر ہو چکا ہے.
۱۲۲ " یہ دعا حضور نے چناب کا پل گزر کر اور قبلہ رخ ہو کر ربوہ کی سرزمین کے کنارے پر کھڑے ہو کر کئی دفعہ نہایت سوز اور رقت کے ساتھ دہرائی اور اس کے بعد موٹروں میں بیٹھ کر آگے روانہ ہوئے کیونکہ ربوہ کی موجودہ بستی چناب کے پل سے قریباً دو میل آگے ہے.اس عرصہ میں بھی سب دوست او پر کی دعا کو مسلسل دہراتے چلے گئے.جب ربوہ کی بستی کے سامنے موٹریں پہنچیں تو اس وقت ربوہ اور اس کے گردو نواح کے سینکڑوں دوست ایک شامیانے کے نیچے حضرت صاحب کے استقبال کے لئے جمع تھے.اس وقت جب کہ عین ڈیڑھ بجے کا وقت تھا سب کے آگے حضور کی موٹر تھی اس کے بعد ہماری موٹر تھی اس کے بعد غالبا سیدہ بشری بیگم صاحبہ مہر آپا کی موٹر تھی اس کے بعد حضرت صاحب کی صاحبزادیوں کی موٹر تھی اور اس کے بعد غالبا محترمی شیخ بشیر احمد صاحب کی موٹر تھی." جب حضرت صاحب اپنی موٹر سے اترے تو ربوہ کے چند نما ئندہ دوست جن میں محترم مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے ناظر اعلیٰ اور محترم سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامه و امیر مقامی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور عزیز ڈاکٹر منور احمد سلمہ اللہ اور بعض ناظر صاحبان اور تحریک جدید کے وکلاء صاحبان اور محترم مولوی ابو العطاء صاحب وغیرہ شامل تھے آگے آئے اور حضور کے ساتھ مصافحہ کر کے حضور کو اس شامیانہ کی طرف لے گئے جو چند گز مغرب کی طرف نصب شدہ تھا اور جس میں دو سرے سب دوست انتظار کر رہے تھے.حضرت صاحب اس وقت بھی رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ والى وعاد مرا رہے تھے اور دوسروں کو بھی ہدایت فرماتے تھے کہ میرے ساتھ ساتھ دعادُہراتے جاؤ.شامیانے کے نیچے پہنچ کر حضرت صاحب نے وضو کیا اور پھر سب دوستوں کے ساتھ قبلہ رخ ہو کر حضور نے ایک مختصری تقریر فرمائی.جس میں فرمایا کہ میں امید رکھتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کی سنت کو سامنے رکھ کر آپ لوگ رستہ تک آگے آکر استقبال کریں گے تاکہ ہم سب متحدہ دعاؤں کے ساتھ ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا اس لئے اب میں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے پھر اس دعا کو دُہراتا ہوں اور سب دوست بلند آواز سے میرے پیچھے اس دعا کو دُہراتے
١٢٣ جائیں چنانچہ آپ نے شاید تین یا پانچ دفعہ رَبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ اور قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ والی دعا برائی.اور سب دوستوں نے بلند آواز سے آپ کی اتباع کی.اس کے بعد حضرت صاحب نے مختصر طور پر اس دعا کی تشریح فرمائی.کہ یہ دعا وہ ہے جو مدینہ کی ہجرت کے وقت آنحضرت میں ہم کو سکھلائی گئی تھی اور اس میں اَدْخِلْنِى ( مجھے داخل کر) کے الفاظ کو آخرِجُنِی ( مجھے نکال) کے الفاظ پر اس لئے مقدم کیا گیا ہے تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مدینہ میں داخل ہو کر رک جانا ہی آنحضرت میں ولیم کی ہجرت کی غرض نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک درمیانی واسطہ ہے اور اس کے بعد پھر مدینہ سے نکل کر مکہ کو واپس حاصل کرنا اصل مقصد ہے اور پھر اس کے ساتھ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ والی دعا کو شامل کیا گیا تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مومن کی ہجرت حقیقتاً اعلاء کلمتہ اللہ کی غرض سے ہوتی ہے نیز اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ محمد رسول اللہ لی لی لی لی لیک کی ہجرت خدا کے فضل سے مقبول ہوئی ہے کیونکہ خدا نے اس کے ساتھ ہی حق کے قائم ہونے اور باطل کے بھاگنے کے لئے دروازہ کھول دیا ہے اور پھر اسی تمثیل کے ساتھ حضور ایدہ اللہ نے قادیان کا ذکر کیا کہ ہم بھی قادیان سے نکالے جاکر ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں.مگر ہمارا یہ کام نہیں کہ اپنی ہجرت گاہ میں ہی دھرنا مار کر بیٹھ جائیں بلکہ اپنے اصل اور دائمی مرکز کو واپس حاصل کرنا ہمارا اصل فرض ہے.اس تقریر کے بعد جس میں ایک طرف موٹروں میں بیٹھے بیٹھے مستورات بھی شریک ہوئی تھیں حضور اپنی ربوہ کی عارضی فرودگاہ میں تشریف لے گئے جو ریلوے سٹیشن کے قریب تعمیر کی گئی ہے.میں نے اس فرودگاہ کو عارضی فرودگاہ اس لئے کہا ہے کہ اب تک جتنی بھی عمارتیں ربوہ میں بنی ہیں وہ دراصل سب کی سب عارضی ہیں اور اس کے بعد پلاٹ بندی ہونے پر مستقل تقسیم ہوگی اور لوگ اپنے اپنے مکان بنوائیں گے.حضرت صاحب کے مکان میں ربوہ کی مستورات استقبال کی غرض سے جمع تھیں جن کی قیادت ہماری ممانی سیده ام داؤد صاحبہ فرما رہی تھیں.اس کے بعد حضرت صاحب اور دوسرے عزیزوں اور اہل قافلہ نے کھانا کھایا جو صدرانجمن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کی طرف سے پیش کیا تھا.غالبا ر بوه وارد
۱۳۴ ہونے کے معابعد یہ پروگرام بھی تھا کہ حضرت صاحب اپنی مجوزہ مستقل رہائش گاہ کے ساتھ متصل زمین میں مسجد کی بنیاد بھی رکھیں گے.لیکن چونکہ اس مسجد کی داغ بیل میں کچھ غلطی نظر آئی اس لئے اسے کسی دوسرے وقت پر ملتوی کر دیا گیا.عصر کی نماز حضور نے اس مسجد میں ادا فرمائی جو حضور کے عارضی مکان کے قریب ہی عارضی طور پر بنائی گئی ہے اور اسی لئے اسے مسجد کی بجائے ” جائے نماز " کا نام دیا گیا ہے.کیونکہ بعد میں یہ مسجد مستقل جگہ کی طرف منتقل کر دی جائے گی.یہ جائے نماز ایک کھلے چھپر کی صورت میں ہے جس کے نیچے لکڑی کے ستونوں کا سہارا دیا گیا ہے.اور اس کے سامنے ایک فراخ کچا صحن ہے اور اس مسجد کے علاوہ بھی ایک دو عارضی مسجد میں ربوہ میں تعمیر کی جا چکی ہیں کیونکہ اس وقت ربوہ کی آبادی ایک ہزار نفوس کے قریب بتائی جاتی ہے اور آبادی کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ عام نمازوں میں سب دوستوں کا ایک مسجد میں جمع ہونا مشکل سمجھا گیا ہے.عصر کی نماز کے بعد دوستوں نے حضور سے مصافحہ کا شرف بھی حاصل کیا." (الفضل ۲۲.ستمبر ۱۹۴۹ء) سهلا جلسہ سالانہ مرکز نو کی تعمیر کا کام قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا تھا.ہجرت کی وجہ سے دسمبر ۱۹۴۷ء میں روائتی طریق پر جلسہ سالانہ کا انعقاد نا ممکن تھا.مہاجرین پورے طور پر آباد نہیں ہوئے تھے.باہم رابطے بھی پوری طرح نہیں ہو سکے تھے.جماعتی سطح پر حضور نے رابطوں کی ایک سکیم جاری فرمائی تھی اور علماء کرام اور معززین جماعت کے وفود کو تمام جماعتوں اور افراد جماعت سے رابطہ کیلئے بھیجوایا تھا تاہم یہ کام ابتدائی مراحل میں تھا.دوسری طرف جلسہ سالانہ کی اہمیت کے پیش نظر حضور یہ بھی پسند نہ فرماتے تھے کہ اس میں کوئی تعطل ہو لہذا ساری جماعت کے باقاعدہ جلسہ سالانہ کی بجائے دسمبر۷ ۱۹۴ء میں جلسہ کی مقررہ تاریخوں پر لاہور کی جماعت کے زیر انتظام جلسہ سالانہ منعقد ہوا.اس جلسہ کے متعلق یہ وضاحت کر دی گئی تھی کہ یہ عالمی جماعت کا سالانہ جلسہ نہیں بلکہ لاہور جماعت کا جلسہ سالانہ ہے پھر بھی معشاق احمد یت اس روحانی مائدہ سے استفادہ کے لئے ہزاروں کی تعداد میں پہنچ گئے.جماعتی سالانہ جلسہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کا انعقاد ہمارے نئے مرکز میں اپریل ۱۹۴۸ء میں ہو گا.انتظامی لحاظ سے یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا.قادیان میں جماعتی سکول اور بعض دوسری بڑی بڑی عمارتوں کی وجہ سے مہمانوں کی اکثریت ان میں قیام کرتی تھی مگر ربوہ میں تو ابھی تک یہ صورت نہ تھی اس وجہ سے رہائش کا
۱۲۵ مسئلہ سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے.اتنے وسیع پیمانہ پر کھانے کا انتظام بھی بہت مشکل تھا مگر اس مشکل میں کارکنوں کی کمی اور پانی کی کمیابی اور اضافہ کر رہی تھی.حضرت مصلح موعود کسی مشکل سے ہمت ہارنے والے نہ تھے بلکہ ہر مشکل کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول فرماتے اور پھر پُر سوز دعاؤں اور محنت و کوشش کو آخر تک پہنچا دیتے.اس جلسہ سالانہ کا انعقاد بھی ایسا ہی ایک عظیم انسانی کارنامہ تھا جو عام محاورہ کے مطابق جنگی بنیادوں پر سرانجام دیا گیا.مہمانوں کی رہائش کے لئے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ دونوں طرف کچی اینٹوں اور سرکنڈے کی چھتوں والی پچاس بیر کیں تعمیر کی گئیں.مستورات کی بیرکوں کے ارد گرد پہرے اور حفاظت کی خاطر اونچی دیوار بنادی گئی.کھانے کی تیاری کے لئے چالیس تنور دن رات کام کرتے رہے اور ایک وقت میں ساتھ ساتھ دیگیں سالن تیار ہوا.حضرت فضل عمر نے اجناس لانے کی بھی تحریک فرمائی تھی اس وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اجناس کی کمی بھی نہ ہوئی حضرت مصلح موعود اس جلسہ کے انتظامی پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.افسوس ہے کہ کھانا بنے کا انتظام بعض وجوہ کی بناء پر صحیح نہیں ہو سکا.ہمارا اندازہ دس ہزار مہمانوں کا تھا لیکن حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۶ ہزار سے بھی زیادہ ہوئی ہے.ہم نے صرف پانی کے انتظام پر دس ہزار روپیہ خرچ کیا تھا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا.اگر گورنمنٹ کے محکمہ حفظان صحت کی مہربانی سے ہمیں ٹینک نہ مل جاتے تو پانی کی بہت ہی تکلیف ہوئی تھی.صفائی کے محکمہ نے بھی ہماری مدد کی ہے.اسی طرح ریلوے کے محکمہ نے بھی ہمارے ساتھ تعاون کا بہت اچھا ثبوت دیا ہے.در حقیقت ان تینوں محکموں کی امداد کے بغیر ہمارا یہ جلسہ کامیاب نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے ہم ان محکموں کا اور چونکہ یہ محکمے گورنمنٹ پاکستان کے ہیں اس لئے ہم حکومت پاکستان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں.پبلک ڈیوٹی کی ادائیگی کی وجہ سے یہ محکمے یقینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب کے مستحق ہوں گے." (الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۴۹ء) حضور نے جلسہ کے خطاب میں قادیان سے ہجرت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیش خبریوں اور اپنی خوابوں کا ذکر فرمایا اس تسلسل میں آپ نے فرمایا :.”مقدس مقامات کو چھوڑنا قدر تا طبع پر گراں گذرتا ہے بلکہ اسے گناہ تصور کیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں بعض دفعہ اس کام کو جو عام حالات میں گناہ سمجھا جاتا
ہے ثواب بنادیتی ہیں.مثلا خانہ کعبہ کتنی مقدس اور بابرکت جگہ ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے وہاں سے ہجرت کی.اگر مقدس مقامات کو چھوڑنا ہر حالت میں گناہ ہو تا تو آپ کبھی بھی سکے کے مقام کو نہ چھوڑتے.در حقیقت آپ کی ہجرت بھی آپ کی صداقت کا ایک نشان تھا کیونکہ سینکڑوں برس قبل اللہ تعالٰی نے مختلف انبیاء کے ذریعہ رسول کریم ملی علی علیہ کی ہجرت کی خبر دے رکھی تھی.پس مقدس مقامات سے نکلنا کوئی نئی بات نہیں.اگر رسول کریم ملی یا اللہ اور آپ کے صحابہ کے مکہ سے نکل جانے پر اسلام پر کوئی اعتراض نہیں آتا تو قادیان سے نکلنے پر کس طرح اعتراض کیا جا سکتا ہے خاص کر جب کہ ہمارا ایک حصہ ابھی تک قادیان میں بیٹھا ہوا ہے.ہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ گذشتہ انبیاء نے جس قدر ہجرتیں کیں ان کی خبر تو ضرور پہلے سے موجود ہوتی تھی.کیا قادیان سے ہجرت کی پیشگوئی کی خبر بھی پہلے سے موجود تھی.سو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں قادیان سے ہجرت کی پیشگوئی بھی پوری تفصیل کے ساتھ پہلے سے موجود ہے." اس پر معارف اور پُر شوکت خطاب کے آخر میں حضور نے کمیونزم کی اپنے ہاتھ پر تباہی کی خبر دیتے ہوئے فرمایا :."دیکھو جو کچھ خدا نے فرمایا تھا وہ پورا کر دیا یہ خدا کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے وعدے کے مطابق اس عظیم الشان ابتلاء میں مجھے جماعت کی حفاظت کرنے اور اسے پھر اکٹھا کرنے کی توفیق دی.تمہیں چاہئے کہ اپنے رب کا شکر ادا کرو اور سچے مسلمان بنو.اور اپنے خدا کے فضل کی تلاش میں لگے رہو.یاد رکھو تم وہ قوم ہو جو آج اسلام کی ترقی کے لئے بمنزلہ بیج کے ہو تم وہ درخت ہو جس کے نیچے دنیا نے پناہ لینی ہے تم وہ آواز ہو جس پر محمد رسول اللہ میں اہم فخر کریں گے اور اپنے خدا کے حضور کہیں گے کہ اے میرے رب! جب میری قوم نے قرآن پھینک دیا تھا اور تیرے نشانات کی قدر کرنے سے منہ موڑ لیا تھا تو یہی وہ چھوٹی سے جماعت تھی جس نے اسلام کے جھنڈے کو تھامے رکھا.اسے مارا گیا اسے بد نام کیا گیا، اسے گھروں سے بے گھر کیا گیا اور اسے مصیبت کی چکیوں میں پیسا گیا مگر اس نے تیرے نام کو اونچا کرنے میں کو تاہی نہیں کی.میں آسمان کو اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ خدا نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہوا.وہ بچے
۱۲۷ وعدوں والا خدا ہے.جو آج بھی اپنی ہستی کے زندہ نشان ظاہر کر رہا ہے.دنیا کی اندھی آنکھیں دیکھیں یا نہ دیکھیں اور بہرے کان سنیں یا نہ سنیں لیکن یہ امرائل ہے کہ خدا کا دین پھیل کر رہے گا.کیمونزم خواہ کتنی ہی طاقت پکڑ جائے مگر وہ میرے ہاتھ سے شکست کھا کر رہے گا اس لئے نہیں کہ میرے ہاتھ میں کوئی طاقت ہے بلکہ اس لئے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم ہوں.” خدا نے جو وعدے کئے وہ کچھ تو پورے ہو چکے اور باقی آئندہ پورے ہوں گے.آئندہ جو کچھ ظاہر ہو گا ہمیں اس کے لئے تیار رہنا چاہئے.جن کندھوں پر آئندہ سلسلہ کے کاموں کا بوجھ پڑنے والا ہے چاہئے کہ وہ ہمت کے ساتھ اس بوجھ کو اٹھائیں یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت پھر دنیا میں قائم ہو جائے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی زندگی کی آخری گھڑی تک مجھے اپنے دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور آپ لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ خدمت دین کی توفیق دے اور آپ اس وقت تک صبر نہ کریں جب تک کہ اسلام دوبارہ ساری دنیا پر غالب نہ آجائے." (الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۴۹ء) ایک لمبی پُر سوز دعا کے ساتھ سرزمین ربوہ میں پہلا تاریخی جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا.بے سرو سامانی کے عالم میں انتہائی مشکل حالات میں منعقد علمی ترقی کا عظیم الشان منصوبہ ہونے والے اس جلسہ میں ایسے لوگ بھی شامل ہوئے تھے جو قادیان سے ہجرت کے بعد احمدیوں کی شیرازہ بندی اور جماعتی اتحاد و تنظیم کو ایک قصہ پارینہ سمجھتے ہوئے جماعت کی پریشانی و ناکامی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے آئے تھے مگر جلسہ کے انتظامات اور ساری کارروائی بالعموم اور حضور کے ولولہ انگیز خطاب بالخصوص ایسے لوگوں کیلئے مایوسی اور حسرت کا باعث ہی بنے.اسی جلسہ میں جماعت کی عورتوں سے خطاب فرماتے ہوئے یا یوں کہہ لیجئے کہ جماعت کی آئندہ نسل کو ایمان وایقان میں پہلے سے بھی زیادہ ترقی کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اپنے مخصوص سحرانگیز انداز میں فرمایا." وہی عورت عزت کی مستحق ہے جو بچہ نہیں جنتی شیر جنتی ہے.جو انسان نہیں جنتی فرشتہ جنتی ہے.یہی وہ کام ہے جو صحابیات نے کیا اور یہی تمہارے لئے حقیقی نمونہ اور حقیقی رہنما ہے." (رساله مصباح مئی ۱۹۵۰ء)
۱۲۸ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضور نے اپنے اسی خطاب میں پاکستان کی حفاظت و استحکام کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اس غرض سے فنون جنگ سیکھنے اور ملک و قوم کے لئے مرنے مارنے کا جذبہ پیدا کرنے کی تلقین فرمائی.نئے مرکز کا قیام حضور کے اہم کارناموں میں سے ایک نمایاں کارنامہ ہے.اس نئے مرکز میں انتہائی مشکل حالات اور بے سرو سامانی کی کیفیت میں پہلا سالانہ جلسہ منعقد ہوتا ہے تو حضور خدا تعالی کے شکر کے ترانے گانے پر ہی اکتفا نہیں فرماتے بلکہ بغیر کوئی وقت ضائع کرنے کے مستورات سے خطاب کرتے ہوئے احمدیت کی بنیادوں کی مضبوطی کیلئے علمی ترقی کا ایک ظیم الشان منصوبہ پیش فرماتے ہیں.عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ منصوبہ پیش فرمانے میں یقینا یہ حکمت بھی کار فرما ہوگی کہ احمدی مائیں علمی ترقی کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے خود بھی علمی کاموں میں آگے آئیں اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی علمی ذوق سے آشکار کھیں تاکہ احمدیت کا کل ہمیشہ احمدیت کے آج سے بہتر ہو.حضور نے فرمایا.” میرے نزدیک اب وقت آگیا ہے کہ ہم دماغی ترقی کی طرف خاص طور پر توجہ دیں.اس وقت تک جو کتابیں ہماری جماعت کی طرف سے شائع ہوئی ہیں وہ کسی تنظیم کے بغیر شائع ہوئی ہیں.سوائے تفسیر کبیر کے.لیکن اب وقت آگیا ہے کہ جماعت کا ہر فرد وقتی ضرورتوں کے ماتحت ایک خاص پروگرام کے ماتحت چلے اور اس طرح ترقی کرنے کی کوشش کرے.اس لئے میں نے سمجھا کہ میں نیا مرکز بن جانے کے بعد ایک خاص نظام قائم کروں تا جماعت کے افراد کی خاص طور پر تربیت ہو اور اخلاق ، عقائد مذہب اور دیگر دنیوی علوم پر ہر آدمی آسانی کے ساتھ عبور حاصل کر سکے اور اس کا یہی طریق ہے کہ آسان اردو میں ایسی کتابیں شائع کی جائیں جو ہر مضمون کے متعلق ہوں اور علمی مطالب پر حاوی ہوں اور ایسی سیدھی سادی زبان میں ہوں کہ معمولی زمیندار بھی انہیں سمجھ سکیں وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جس کے صرف چند افراد عالم ہوں.ہم نے اگر ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنی جماعت کے علم کے درجہ کو بلند کرنا ہو گا.اس کا طریق یہی ہے کہ کتب کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے جس میں دنیا کے تمام موٹے موٹے علوم آجائیں اور وہ بچوں، درمیانی عمر والوں اور پختہ کار لوگوں غرض سب کے لئے کافی ہوں.اس کے تین سلسلے ہوں گے.پہلا سلسلہ مڈل سے نیچے پڑھنے
۱۲۹ مشتمل ہو والے بچوں کے لئے یا یوں سمجھ لیجئے کہ پہلا سلسلہ ۱۶ سے کم عمر والے بچوں کے لئے ہو گا.دوسرا سلسلہ انٹرنس پاس یا سولہ سترہ سال تک کے بچوں کے لئے ہو گا.اور تیسرا سلسلہ اس سے اوپر عمر والوں اور پختہ کار لوگوں کے لئے ہو گا.یہ کتابیں ایسی سلیس اردو میں لکھی جائیں گی کہ ایک ادنیٰ سے ادنی اردو لکھنے والا بھی اسے سمجھ سکے.اس طرح میری رائے یہ ہے کہ یہ کتابیں اس طرز پر لکھی جائیں کہ پہلی کتاب ۵۰ صفحات کی ہو گی.دوسری ۸۰ صفحات کی ہو اور تیسری کتاب اوسطاً سوا سو صفحات پر مشتمل ہو.اور پھر ہر وہ کتاب جو سولہ سترہ سال تک کے افراد کے لئے ہو وہ سولہ ہزار الفاظ پر اور ہر وہ کتاب جو اس سے اوپر والے افراد کے لئے ہو.وہ ۳۵ ہزار الفاظ پر اور اس لئے کہ لکھنے والے ان کتابوں کو غور سے لکھیں اور مطالعہ کر کے لکھیں ان کے لئے ایک رقم بطور انعام مقرر کی جائے گی.تاکہ وہ اس علم کی کتابیں مطالعہ کر کے مضمون لکھیں اور ایسی سلیس اردو میں لکھیں کہ ہر معمولی خواندہ اسے سمجھ سکے.میرا خیال ہے کہ ہر اس کتاب کے لئے جو پچاس صفحات کی ہو پچاس روپے سے ایک سو روپیہ تک کا انعام رکھا جائے.ان کتب کی خصوصیات یہ ہوں گی کہ.ا.ان میں تمام قسم کے علوم کے متعلق باتیں ہوں گی.مشتمل ہو.یہ سلیس اردو میں ہوں گے جسے ایک معمولی اردو جانے والا بھی سمجھ سکے..ان میں کسی قسم کی اصطلاح استعمال نہیں کی جائے گی.ان اصطلاحوں کی وجہ سے مضمون سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے.لیکن چونکہ کبھی کبھی بعض شوقین لوگ علماء کی مجلس میں بھی چلے جائیں گے اور ان کی باتوں سے لطف اندوز ہوں گے.اس لئے حاشیہ میں ان اصطلاحات کا بھی ذکر کر دیا جائے گا.اس طرح اسے یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ برکلے اور کانٹ نے کیا کہا ہے.بلکہ کتاب کے حاشیہ میں ہی یہ لکھا ہوا ہو گا کہ برکلے اور کانٹ کا یہ مقولہ ہے یا یہ فلاں کتاب میں لکھا ہوا ہے.غرض جب بھی وہ چاہے اپنے عام علم کو اصطلاحی علم میں بدل لے.یا سیدھی سادی اردو میں پڑھ لے.غرض ہر صفحہ کے نیچے ہر ایک امر کا حوالہ دیا جائے گا تا جس کو شوق ہو تحقیق کر سکے.اس سلسلہ کی کئی کڑیاں ہوں گی.اول: بچوں کے لئے یعنی ابتدائی تعلیم سے مڈل تک کے بچوں کے لئے مگر اس سے وہ
١٣٠ لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہوں جو معمولی لکھنا پڑھتا ہی جانتے ہوں.دوم: بڑے بچوں کے لئے یعنی ہائی سکولوں کے طالب علموں کے لئے.سوم بڑوں کے لئے قطع نظر اس کے کہ وہ کالجوں میں پڑھتے ہوں یا انہوں نے خود تحقیق کی ہو.چہارم: محض لڑکیوں کیلئے پنجم محض لڑکوں کے لئے ششم محض مردوں کے لئے ہفتم: محض عورتوں کے لئے ہشتم: بیوی کے لئے میاں کے لئے دھم: اچھے شہری کے لئے میرے نزدیک مختلف ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سلسلہ کتب میں ان مضامین پر بحث ہونی چاہئے.پہلا سلسلہ : 1.ہستی باری تعالی -۲ معیار شناخت نبوت ۳.دعا ۴.قضاء و قدر ۵.بعث بعد الموت ۶ بهشت و دوزخ ۷ معجزات ۸.فرشتے ۹.صفات الليه ۱۰.ضرورت نبوت و شریعت اور اس کا ارتقاء.دوسرا سلسلہ :.عبادت اور اس کی ضرورت ۲.نماز ۳.ذکر ۴.روزه ۵- حج زکوۃ.معاملات - اسلامی حکومت ۹.اچھے شہری کے فرائض.۱۰.ورثہ تعلیم ۱۲.اخلاق اور ان کی ضرورت ۱۳.تربیت افراد میں قوم کا فرض اور اس کی ذمہ داریاں ۱۴.ملت شخص پر مقدم ہے ۱۵ خاندان فرد پر مقدم ہے ۱۶.حکومت قوم پر مقدم ہے ۱۷.حکومت اور رعایا کے تعلقات ۱۸.ظاہر و باطن دونوں کی ضرورت اور اہمیت -۱۹ اخوت باہمی اور اس کی وجہ سے غریب امیر عالم جاہل پر ذمہ داریاں ۲۰.اسلام کا فلسفہ اقتصادیات ۲۱.مظلوم کے حقوق اور ان کا ایفاء اور اس کا طریقہ ۲۲.ماں باپ کے حقوق اور ان کی ادائیگی.شادی کے بعد ماں باپ اور خاوند بیوی کے حقوق کا تصادم اور اس کا علاج - میاں بیوی کے باہمی حقوق.
.میاں بیوی کے ایک دوسرے کے والدین کے متعلق فرائض.میاں بیوی کے حقوق تربیت اولاد کے متعلق ، میاں بیوی کے حقوق خاندان کے افراد کے درینہ کے لحاظ سے.۲۴.آقا اور نوکر کے تعلقات ۲۵ تجارتی لین دین اور قرضہ کی ذمہ داریاں اور جائدادوں کے تلف ہونے کی صورت میں اور دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہر فریق کی ذمہ داری ۲۶.جہاد ۲۷ حفظان صحت جسمانی -۲۸- حفظان صحت بحیثیت ماحول ۲۹.محنت کی عادت اور وقت کی پابندی ۳۰.تبلیغ اور اس کی اہمیت ۳۱.چندہ اور اس کی اہمیت ۳۲.احمدیت میں ہندوستان اور پاکستان کی خاص اہمیت ۳۳.زندگی وقف کرنے کی اہمیت.تیسرا سلسلہ :۱.تاریخ مذہب قبل تاریخ ۲.تاریخ ہند و مذهب بزمانه تاریخ ۳- تاریخ بدھ مت -۴ تاریخ زرتشت ۵- تاریخ مصلحین غیر معروف ارسطو، کنفیوشس و غیره تاریخ دنیا قبل از تاریخ ۷.تاریخ عرب قبل از تاریخ ۸- تاریخ هند قبل از تاریخ ۹ تاریخ علاقه جات پاکستان قبل از تاریخ ۱۰ تاریخ شمالی افریقہ قبل مسیح.تاریخ یونان قبل تیسری صدی مسیحی -۱۲ تاریخ ایران قبل بادشاہان مید و فارس ۱۳ تاریخ ایران بعد بادشاہان مید و فارس تا زمانه عمر ۶ ۱۴- سیره نبوی (اس کی ضرورت میری سیرت سے پوری ہو چکی ہے.۱۵- تواریخ خلفاء - ۱۶.سیرۃ حضرت مسیح موعود علیہ السلام - ۱۷.تاریخ احمدیت بزمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸.سیرت حضرت خلیفہ اول -۱۹ تاریخ احمدیت (خلافت اولی) ۲۰.تاریخ احمدیت خلافتِ ثانیہ ۲۱ تاریخ احمدیت افغانستان -۲۲ تاریخ احمدیت صحابه مسیح موعود ۲۳- تاریخ اکابر صحابه رسول کریم میلی لی لی لیلی - ۲۴ تاریخ اکابر اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵- تاریخ صحابیات رسول کریم ملی ۲۶ تاریخ صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام - ۲۷.تاریخ ہند بزمانہ اسلام تین حصوں میں.الف.افغانوں سے پہلے زمانہ کی.ب.افغانوں کے زمانہ کی.ج.مغلیہ زمانہ کی ۲۸.مبلغین اسلام ہندوستان ۲۹ سوانح صوفیائے کرام -۳۰ تاریخ اسلام اور یورپ ۳۱.تاریخ عرب از چهارم صدی ہجری - ۳۲- تاریخ اشاعت اسلام مغربی افریقہ ۳۳ تاریخ ایسے سینیا - ۳۴ تاریخ افریقہ وسطی و جنوبی گزشتہ ہزار سال کی.۳۵.تاریخ روما.
۱۳۲ الف قبل از مسیح -ب- بعد از مسیح - ج - بعد از زمانه نبوی ۳۶- تاریخ قسطنطنیه الف.زمانہ نبوی تک ب.زمانہ نبوی کے بعد اسلام کے قبضہ تک ۳۷.تاریخ ہسپانیه قبل از تسلط اسلام و بعد تسلط ۳۸ تاریخ مقلیه - قبل از تسلط اسلام و بعد تسلط اسلام -۳۹- تاریخ رو ما جنوبی بزمانه اسلام ۴۰ تاریخ چین بزمانہ اسلام - ۴۱.تاریخ فلپائن و ملحقہ جزائر بزمانہ اسلام ۴۲ تاریخ انڈونیشیا قبل از اسلام و بعد از اسلام تاریخ سیلون قبل از اسلام و بعد از اسلام ۴۴- تاریخ بخارا و ملحقات قبل از اسلام و بعد از اسلام -۴۵ تاریخ روس از ابتداء تا پندرھویں صدی اور پندرھویں صدی سے لے کر آج تک جس میں خصوصاً اسلام سے اس کے تعلقات پر روشنی ہو.- تاریخ مارکسنرم ۴۷ تاریخ بالشوزم -۴۸- تاریخ شمالی امریکہ و جغرافیه ۴۹ تاریخ جنوبی امریکہ و جغرافیه ۵۰ تاریخ جزائر آسٹریلیا و نیوزی لینڈ وغیرہ.۵۱ - احوال الانبیاء - چوتھا سلسلہ:1.رسالہ کیمسٹری ناواقفوں کے لئے ۲.رسالہ فزکس ۳.موٹے موٹے مضامین کے الگ الگ رسالے.۴.تاریخ سائنس ۵.مسلمانوں کا سائنس میں حصہ ۶.قرآن اور علوم ۷.اسلام اور علوم ۸.علم البحر 9.مسلمانوں کا علم البحری میں حصہ ۱۰.فلکیات ا.مسلمانوں کا فلکیات میں حصہ.۱۲.جغرافیہ عالم ۱۳.جغرافیہ میں مسلمانوں کا حصہ ۱۴.جغرافیائی طبیعات ۱۵.جغرافیہ طبیعات میں مسلمانوں کا حصہ ۱۶ درندے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۱۷.چرندے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۱۸.پرندے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۱۹.کوڑے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات رینگنے والے جانور اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۲۱.پانی کے اندر کے سانس لینے والے جانور اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۲۲.پانی میں رہنے والے لیکن باہر نکل کر سانس لینے والے جانور اور ان کی خصوصیات ۲۳.ساکن جانور بری اور بحری اور ان کی خصوصیات ۲۴ خوردبینی کیڑے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۲۵ انسانی پیدائش موجودہ دور میں مادہ حیات.اس کے تغیرات اور اس کی صحت اور بیماری کی حالت.اس کے انتقال کا طریقہ اور انتقال کے بعد ۲۰.
١٣٣ پیدائش تک کے ادوار ۲۶.انسانی جسم کی تشریح ۲۷.صحت کی حالت میں اعضائے انسانی کے فرائض اور وظائف ۲۸ مختلف بیماریاں اور ان کے اسباب علم النباتات ۳۰.علم الجمادات ۳۱ منطق ۳۲- فلسفه منطق ۳۳- فلسفه ۳۴.فلسفه فلسفه -۳۵ فلسفه تاریخ ۳۶ طبقات الارض ۳۷.ارتقائے نسل انسانی ۳۸.علم اللسان ۳۹ - علم النفس ۴۰ - ارتقائے عالم ۴۱.کائنات کے مختلف انواع میں امتیازی نشان -۴۲ انسان اور دیگر اشیاء میں فرق ۴۳.علم البرق ۴۴- کیفیت ماده - " (الفضل ۲۱.جون ۱۹۶۱ء) قادیان میں جماعتی دفاتر کیلئے باقاعدہ کوئی عمارت نہیں تھی.ابتدائی ضروریات اور مصروفیات "دار المسیح" کی حد تک ہی محدود تھیں.تالیف و تصنیف، خطو کتابت ملاقات مهمان نوازی و غیره تمام کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نگرانی میں سر انجام پاتے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کو نیل آہستہ آہستہ برگ و بار لانے لگی اور جیسے جیسے کام بڑھتا گیا کار کن اور جگہ کا انتظام ہو تا گیا.مسجد اقصیٰ قادیان کے قریب ہندوؤں کی ایک بڑی عمارت تھی.ہماری تاریخ کے ابتدائی دنوں میں اس عمارت کا ذکر اس رنگ میں آتا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں کثرت سے لوگوں کی آمدو رفت کی وجہ سے اس عمارت کے ہندو مالک اظہار ناراضگی کرتے تھے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے علم میں یہ بات لائی گئی تو آپ نے جو ارشاد فرمایا اس سے ظاہر ہو تا تھا کہ یہ عمارت جماعت کے قبضہ میں آجائے گی چنانچہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ نہ صرف یہ کہ وہ عمارت جماعت کے قبضہ میں آگئی بلکہ وہاں جماعتی دفاتر قائم ہوئے.مسجد مبارک کے متصل کچھ پرانے مکانات بھی بعض دفاتر کیلئے استعمال ہوتے رہے.تحریک جدید کا آغاز ہوا تو قصر خلافت کے قریب ایک چھوٹے سے پرانے مکان میں تحریک جدید کا دفتر شروع ہو گیا.ذیلی مجالس میں سے صرف مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا دفتر قادیان میں تعمیر ہوا تھا اور ابھی اس دفتر کی تعمیر کا کچھ کام باقی ہی تھا کہ تقسیم برصغیر کی وجہ سے جماعت کا اکثر حصہ ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور پھر حضرت فضل عمر کی اولو العزم قیادت و راہنمائی میں ربوہ کی تعمیر عمل میں آئی جس کا کسی قدر ذکر پچھلے صفحات میں ہو چکا ہے.قادیان سے ہجرت کے بعد ظلی صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے دفاتر ر تن باغ کے سامنے جو دھامل بلڈنگ میں قائم ہوئے.تعلیم الاسلام کالج اسی عمارت کے پہلو میں ایک
1 اور عمارت میں شروع کیا گیا.جو اس وقت سیمنٹ بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی.جامعہ احمدیہ کا آغاز بھی کوئی وقت ضائع کئے بغیر لاہور میں ہی ہو گیا.آہستہ آہستہ تعلیمی ادارے چنیوٹ اور پھر ربوہ میں منتقل ہو گئے.جامعہ احمدیہ کچھ عرصہ احمد نگر میں رہا اور اس کے بعد ربوہ میں منتقل ہو گیا.ربوہ میں بھی ابتداء خیموں سے ہوئی اس کے بعد کچی عمارتیں تعمیر ہوئیں اور شمع احمدیت کے پروانے ہر قسم کے حالات و مشکلات کے سامنے سینہ سپر رہے تا کہ خدا کی تقدیر پوری ہو اور نیا مرکز آباد ہو سکے.حضور کی ابتدائی رہائش گاہ بھی ایک کچی عمارت ہی تھی جس کے پاس نماز کی ادائیگی کیلئے ایک عارضی قسم کی عمارت " جائے نماز " کے طور پر تعمیر کی گئی تھی.پختہ عمارات کی تعمیر کے مرحلہ میں سب سے پہلے مسجد مبارک کی بنیاد ۳.اکتوبر ۱۹۴۹ ء کو رکھی گئی.حضور کی ذاتی رہائش گاہ کی بنیاد ۲۹.مئی ۱۹۵۰ء کو جب کہ ۳۱.مئی ۱۹۵۰ء کو قصر خلافت، تعلیم الاسلام ہائی سکول دفاتر صد را انجمن احمدیہ ، دفاتر تحریک اور دفتر لجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی گئی.مسجد مبارک کے افتتاح کے پر مسرت تاریخی موقع پر دور و نزدیک سے کثرت سے احمدی احباب تشریف لائے ہوئے تھے.حضور کی ہدایت کے مطابق بنیاد رکھنے کی جگہ اور اینٹ گار اوالی جگہ کے درمیان سات صفیں بنائی گئیں.پہلی صف صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوسری صف خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد.تیسری صف واقفین زندگی چوتھی صنف امراء ناظر صاحبان پانچویں صف مہاجرین قادیان ، چھٹی صف خاندان حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی خواتین مبارکہ اور ساتویں صف صحابیات و مهاجرات قادیان کی بنائی گئی.ہر صف نے دست بدست تین تین اینٹیں اور سیمنٹ کی تعاریاں حضور کی خدمت میں پیش کیں اور حضور نے اپنے دست مبارک سے بنیاد میں اینٹیں نصب فرما ئیں.بنیاد میں مسجد مبارک قادیان کی دو اینٹیں بھی لگائی گئیں.اس سارے عمل کے دوران زیر لب دعاؤں کا سلسلہ جاری رہا.بعد میں حضور نے نہایت سوزو گداز کے عالم میں تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام والی قرآنی دعائیں تلاوت فرمائیں اور اس کے بعد اجتماعی دعا کروائی.اور حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :." حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا کہ آپ کے ہم اور غم نے اسماعیل کا درخت اُگایا.اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا ان کی روح کے لئے نہایت تکلیف دہ ہو گا.ایسا تکلیف دہ کہ صف
۱۳۵ آپ کی روح تڑپ تڑپ کر اور زاری کر کر کے خدا تعالیٰ کے حضور جھکے گی اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اسماعیلی درخت اگائے گا.اسماعیل کا درخت کیا ہے ؟ اسماعیل کا درخت خانہ کعبہ ہے.اس الہام میں یہ پیشگوئی تھی کہ ایک زمانہ میں احمدیوں کو قادیان سے ایک حد تک ہاتھ دھونا پڑے گا اور ان کے ہاتھ دھونے کے بعد اللہ تعالی ایک نئے مقدس مقام کی بنیاد رکھے گا.ہم کہتے ہیں کہ ہم خداتعالی کے فضل سے اسی مقام کی بنیاد ee رکھ رہے ہیں..یہ مسجد ابتدائی اندازہ سے بہت زیادہ خرچ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابی حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب کی زیر نگرانی اگست ۱۹۵۱ء میں مکمل ہوئی اور حضرت مصلح موعود نے ۲۳.مارچ ۱۹۵۱ء کو اس مسجد میں پہلا جمعہ ادا فرمایا.۱۹.اکتوبر ۱۹۵۳ء کو ایک نہایت پر وقار تقریب میں حضرت مصلح موعود نے دفاتر تحریک جدید اور دفاتر صد را انجمن احمدیہ کا افتتاح فرمایا.حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے تحریک جدید کی طرف سے اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ایڈریس پیش کئے.یاد رہے کہ یہ افتتاح ان خونی فسادات اور شرمناک شرانگیزیوں کو کے بعد عمل میں آ رہے تھے جن میں دشمنانِ احمدیت نے خدا کی اس جماعت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ہر کوشش کر کے دیکھ لی تھی.دفاتر کا افتتاح ایک نہایت مؤثر اور خوبصورت جواب تھا اس دشمنی مخالفت اور طوفان بد تمیزی کا کہ ہم ان باتوں سے کوئی اثر لئے بغیر وہ نیک اور مفید کام جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے کرتے چلے جائیں گے.دفاتر کے افتتاح کے وقت اپنے خطاب میں حضور نے فرمایا :."......جن دنوں قادیان پر حملے ہو رہے تھے اور ہم سب دعاؤں میں مشغول تھے میں ایک دن بہت ہی زور سے دعا کر رہا تھا کہ مجھے الہام ہوا أَيْنَمَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا میں نے اس وقت سمجھ لیا کہ ہمارے لئے عارضی پراگندگی ضروری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی جاؤ میں کسی دن برکت اور یمن کے ساتھ تم سب کو واپس لے آؤنگا.یہ آیت قرآن کریم کی ہے اور در حقیقت یہ مسلمانوں کی ہجرت مکہ کے بعد مکہ واپس آنے پر دلالت کرتی ہے اور اس میں دونوں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں.ہجرت کی بھی اور ہجرت کے بعد مکہ آنے کی بھی یعنی پہلے ہجرت ہو گی اور پھر
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کامیابی کے ساتھ واپس لائے گا." اسی خطاب میں حضور نے ربوہ کی ابتدائی حالت کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرمایا :- ابتدائی حالت میں یہاں بسنے والے ۳۵ آدمی تھے ان کے لئے سڑک کے کنارے خیمے لگائے گئے جہاں اب بھی بعض کمرے بنے ہوئے ہیں...ایک سال کے قریب وہاں گزارا.پھر لاکھوں روپے خرچ کر کے عارضی مکان بنائے گئے تاوہ ان میں رہیں جنہوں نے شہر آباد کرنا ہے.پھر لاکھوں روپے خرچ کر کے یہ بلڈنگز بنیں جو اب تمہیں نظر آتی ہیں.اس عظیم الشان صدمہ کے بعد جماعت نے اتنی جلدی یہ جگہ اس لئے بنائی تاوہ مل کر رہ سکیں.اکٹھے رہ کر مشورہ کر سکیں.المصطلح ۲۵- دسمبر ۱۹۵۳ء) ۱۹۵۵ء میں جب حضور علاج کی خاطر یورپ تشریف لے گئے ہوئے تھے.آپ نے وہاں سے غلام محمد صاحب اختر ناظر اعلیٰ کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا :.”ربوہ میں لوگوں کی صحت کیلئے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے نہایت ضروری ہیں اور درخت بغیر پانی کے نہیں لگ سکتے.پہلے ٹیوب ویل کو درست کرایا جائے بلکہ بہتر ہو کہ بجلی کا انجن اس کی جگہ فوری لگ جائے تاکہ پانی با فراط مہیا ہو سکے اور پہلے لگے ہوئے درخت سوکھ نہ جائیں اس کے علاوہ بھی مزید ٹیوب ویل بھی جلدی لگائے جانے ضروری ہیں..موجودہ درختوں سے بھی دس پندرہ گنے بلکہ زیادہ درخت لگائے جائیں.بجلی سے اب کام بہت آسان ہو گیا ہے." ربوہ کی آبادی و خوبصورتی اور اہل ربوہ کی صحت و سلامتی کیلئے فکر مندی کی یہ عجیب مثال ہے کہ ہمارے پیارے آقا یہ ہدایات اس وقت جاری فرما رہے ہیں جب آپ شدید بیماری کی وجہ سے خود صاحب فراش ہیں.ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشورہ دے رکھا ہے مگر ایسی حالت میں بھی آپ جماعتی ترقی اور ربوہ کی آبادی کیلئے فکر مند اور کوشاں ہیں.ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا دعا گو ریوں کو پہنچتی رہیں کعبہ کی دعائیں حضرت مصلح موعود ربوہ کو ایک مثالی شہر بنانا چاہتے تھے جہاں تک اس کی ظاہری خوبصورتی اور عمدگی کا تعلق ہے.حضور کی وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی متعد دہدایات میں سے بعض کا ذکر ہو چکا
۱۳۷ ہے.تاہم حضور کی ترجیحات میں جماعتی تربیت کا مقصد ہمیشہ ہی اولین حیثیت رکھتا تھا.حضور اپنے ایک نہایت اثر انگیز خطاب میں جماعت کو اس مقصد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں....پس اس مقام کے رہنے والوں کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ تو کل سے کام لیں اور ہمیشہ اپنی نگاہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلند رکھیں.جو دیانتدار احمدی ہیں میں ان سے کہوں گا کہ اگر وہ کسی وقت یہ دیکھیں کہ وہ تو کل کے مقام پر قائم نہیں رہے تو وہ خود بخود یہاں سے چلے جائیں اور اگر خود نہ جائیں تو جب ان سے کہا جائے کہ چلے جاؤ تو کم سے کم اس وقت ان کا فرض ہو گا کہ وہ یہاں سے فورا چلے جائیں.یہ جگہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے بلند کرنے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے ، یہ جگہ خدا تعالیٰ کے نام کے پھیلانے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے ، یہ جگہ خد اتعالیٰ کے دین کی تعلیم اور اس کا مرکز بننے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے ہم میں سے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنی اولاد اور اپنے اعزہ اور اقارب کو اس رستہ پر چلانے کی کوشش کرے.یہ ضروری نہیں کہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہو سکے.نوح کی کوشش کے باوجود اس کا بیٹا اس کے خلاف رہا لوط کی کوشش کے باوجود اس کی بیوی اس کے خلاف رہی اسی طرح اور کئی انبیاء اور اولیاء ایسے ہیں جن کی اولادیں اور بھائی اور رشتہ دار ان کے خلاف رہے.ہم میں سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے خاندان میں سے کتنوں کو دین کی طرف لا سکے گا مگر اس کی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ اس کی ساری اولاد اور اس کی ساری نسل دین کے پیچھے چلے اور اگر اس کی کوشش کے باوجود اس کا کوئی عزیز اس رستہ سے دور چلا جاتا ہے تو سمجھ لے کہ وہ میری اولاد میں سے نہیں میری اولا د وہی ہے جو اس منشاء کو پورا کرنے والی ہے جو الہی منشاء ہے.جو شخص دین کی خدمت کے لئے تیار نہیں وہ ہماری اولاد میں سے نہیں.ہم اپنی اولاد کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ ضرور دین کے پیچھے چلیں.ہم ان کے دل میں ایمان پیدا نہیں کر سکتے خدا ہی ہے جو ان کے دلوں میں ایمان پیدا کر سکتا ہے لیکن ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ جو اولاد اس منشاء کو پورا کر نیوالی نہ ہوا سے ہم اپنے دل سے نکال دیں.بہر حال اگر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اعلیٰ مقام دے تو ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس مقام کو دین کا مرکز بنائے رکھیں اور ہمیشہ دین کی خدمت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے وہ
۱۳۸ اپنی زندگیاں وقف کرتے چلے جائیں لیکن اگر ہماری کسی غلطی اور گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہ مقام ہمیں نصیب نہ کرے اور ہماری ساری اولادیں یا ہماری اولادوں کا کچھ حصہ دین کی خدمت کرنے کیلئے تیار نہ ہو.اللہ تعالیٰ پر توکل اس کے اندر نہ پایا جاتا ہو.خدا تعالیٰ کی طرف انابت کا مادہ اس کے اندر موجود نہ ہو تو پھر ہمیں اپنے آپ کو اس امر کے لئے تیار رکھنا چاہئے کہ جس طرح ایک مردہ جسم کو کاٹ کر الگ پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح ہم اس کو بھی کاٹ کر الگ کر دیں اور اس جگہ کو دین کی خدمت کرنے والوں کے لئے ان سے خالی کروالیں." (الفضل ۶.اکتوبر ۱۹۴۹ء) ربوہ کی تعمیر پر خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرتے ہوئے اور جماعت کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ربوہ میں منعقد ہونے والے دوسرے جلسہ سالانہ کے افتتاحی خطاب میں حضور نے فرمایا :.” ہماری موجودہ مثال ان کمزور پرندوں کی سی ہے جو دریا کے کسی خشک حصہ میں ستانے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اور شکاری جو ان کی تاک میں لگا ہوا ہو تا ہے ان پر فائر کر دیتا ہے اور وہ پرندے وہاں سے اڑ کر ایک دوسری جگہ پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں.ہم بھی آرام سے اور اطمینان سے دنیا کی چالاکیوں اور ہوشیاریوں اور فریبوں سے بالکل غافل ہو کر کیونکہ مومن چونکہ خود چالاک اور فریبی نہیں ہوتا وہ دوسروں کی چالاکیوں اور فریبوں کا اندازہ نہیں لگا سکتا اپنے آرام گاہ میں اطمینان اور آرام سے بیٹھے تھے اور ارادے کر رہے تھے کہ ہم میں سے کوئی اڑ کر امریکہ جائے گا کوئی انگلستان جائے گا کوئی جاپان جائے گا اور دین اسلام کی اشاعت ان جگہوں میں کرے گا لیکن چالاک شکاری اس تاک میں تھا کہ وہ ان غافل اور سادہ لوح پرندوں پر فائر کرے چنانچہ اس نے فائر کیا اور چاہا کہ وہ ہمیں منتشر کر دے مگر ہماری جماعت جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے الہامات میں پرندے ہی قرار دیا گیا ہے اپنے اندر ایک اجتماعی روح رکھتی تھی." " مشرقی پنجاب سے بہت سی قومیں بہت سے گاؤں نکلے بہت سے شہر نکلے بہت سے علاقے نکلے لیکن انہوں نے اپنے فعل سے ثابت کر دیا کہ وہ قومی روح اپنے اندر نہیں رکھتے تھے.وہ پراگندہ ہو گئے وہ پھیل گئے وہ منتشر ہو گئے یہاں تک کہ بعض جگہ
۱۳۹ پر بھائی کو بھائی کا باپ کو بیٹے کا اور ماں کو اپنی لڑکی کا بھی حال معلوم نہیں.صرف وہ چھوٹی سی قوم وہ تھوڑے سے افراد جو دشمن کے تیروں کا ہمیشہ سے نشانہ بنتے چلے آئے ہیں اور جن کے متعلق کہنے والے کہتے تھے کہ دشمن کے حملہ کا ایک ریلا آنے دو پھر دیکھو گے کہ ان کا کیا حشر ہوتا ہے ؟ جو نہی حملہ ہوا یہ لوگ متفرق ہو جائیں گے منتشر اور پراگندہ ہو جائیں گے وہی ہیں جو آج ایک مرکز پر جمع ہیں وہ کثیر التعداد آدمی جو وہاں سے نکلے تھے وہ پھیل گئے ، وہ بکھر گئے وہ پراگندہ ہو گئے مگر وہ چھوٹی سی جماعت جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ایک معمولی سا ریلا بھی آیا تو یہ ہمیشہ کیلئے منتشر ہو جائے گی وہ مرغابیوں کی طرح اٹھی تھوڑی دیر کیلئے ادھر ادھراڑی مگر پھر جمع ہوئی اور ربوہ میں آکر بیٹھ گئی.چنانچہ جو نظارہ آج تم دیکھ رہے ہو یہ خواہ اتنا شاندار نہیں جتنا قادیان میں ہوا کر تا تھا کیونکہ ابھی ہماری پریشانی کا زمانہ ختم نہیں ہوا لیکن اور کونسی قوم ہے جس کی حالت تمہارے جیسی ہے اور کونسی جماعت ہے جو آج اس طرح پھر جمع ہو کر ایک مقام پر بیٹھ گئی ہے یقینا اور کوئی قوم ایسی نہیں.پس تمہارے اس فعل نے بتا دیا کہ تمہارے اندر ایک حد تک قومی روح ضرور سرایت کر چکی ہے.تم اڑے بھی ، تم پراگندہ بھی ہوئے ، تم منتشر بھی ہوئے مگر پھر جو تمہاری جبلت ہے جو تمہاری طینت ہے، جو چیز تمہاری فطرت بن چکی ہے کہ تم ایک قوم بن کر رہتے ہو اور ایک آواز پر اکٹھے ہو جاتے ہو یہ فطرت تمہاری ظاہر ہو گئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ کوئی طاقت تمہیں ہمیشہ کیلئے پراگندہ نہیں کر سکتی." حضور نے اپنے اس ولولہ انگیز خطاب میں رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا وہ مشهور واقعه بیان فرمایا کہ اس کے یہ کہنے پر کہ مدینہ واپس جا کر مدینہ کا سب سے معزز شخص (یعنی وہ خود) مدینہ کے سب سے ذلیل شخص (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کو مدینہ سے نکال دے گا یہ سن کر اس کے اپنے بیٹے نے دینی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے تو حضور کی خدمت میں جا کر عرض کیا کہ اگر اس گستاخی کے نتیجہ میں آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دینا چاہتے ہیں تو یہ کام کوئی اور نہیں بلکہ میں اپنے ہاتھ سے انجام دوں گا.حضور کے یہ بتانے پر کہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے حضرت عبداللہ واپس چلے گئے مگر ابھی اس تلخ بات کی تلخی بہت شدت سے محسوس کر رہے تھے.عبد اللہ بن ابی بن سلوں کے بیٹے کا اصل نام حباب تھا جب عبد اللہ بن ابی بن سلوں کا انتقال ہوا تو رسول کریم میں نے حباب کا نام بدی کہ عبداللہ رکھ دیا.سیرت حلبیه اراد جلد ۲ نصف قرص ۳۰۸ مطبوعہ تشکیل پرئیس کراتی ۱۹۹۹ء) "
۱۴۰ جب مدینہ میں داخل ہونے کا وقت آیا تو یہ غیرت مند صحابی اپنے باپ کا رستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور اسے اس وقت تک شہر میں داخل نہ ہونے دیا جب تک اس سے یہ نہ کہلوالیا کہ ”میں مدینہ کا سب سے ذلیل آدمی ہوں اور محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) مدینہ کے معزز ترین فرد ہیں".یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حضور نے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا :.ہم ایک دفعہ پھر یہاں جمع ہوئے ہیں خدا تعالٰی کی عنایت اور اس کی مہربانی سے آؤ ہم بچے دل سے یہ عہد کریں کہ ہم کم سے کم عبد اللہ جتنا ایمان دکھائیں گے اور جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا اقرار دنیا سے نہیں کروالیں گے اس وقت تک ہم اطمینان اور چین سے نہیں بیٹھیں گے.(الفضل ۳۱.دسمبر ۱۹۴۹ء)
۱۴۱ ملی خدمات - بین الاقوامی حضرت مصلح موعود کی درخشاں زندگی کے روشن پہلوؤں میں سے ایک نہایت نمایاں پہلو یہ تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کی محبت کا جذبہ دلگن کسی بھی دیگر جذبہ سے بڑھ کر تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کے تمام پروگرام ، سکیمیں تجاویز ، منصوبے اور سرگرمیاں اول و آخر اسلام کے مفاد کی خاطر ہی ہوتی تھیں تو بلا شائبہ ریب آپ کی حد درجہ مصروف و فعال زندگی کا ہر دن اس امر کی صداقت کا گواہ ہے.آپ کے غور و فکر کا محور یہی امر تھا کہ مسلمان خواہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں آباد ہوں، کسی رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں ، کسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں کس طرح متفق و متحد ہو کر دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے محفوظ ہو سکتے ہیں؟ کس طرح غیر اسلامی رسوم و قیود سے دستبردار ہو کر اسلامی رفعتوں سے ہم کنار ہو سکتے ہیں ؟ کس طرح باہم اختلاف و انشقاق کی نحوست سے بیچ کر بنیان مرصوص کی عظمت حاصل کر سکتے ہیں ؟ کس طرح اپنی غفلت و سستی کی پیداوار ذہنی و فکری انتشار دور کر کے ترقی یافتہ قوموں میں اپنا مقام بنا سکتے کاہلی ہیں بلکہ قرون اولیٰ کی طرح ترقی یافتہ اقوام کو پیچھے چھوڑ کر ان سے بھی آگے نکل سکتے ہیں ؟ قومی سطح پر اول تو ایسی کوئی تحریک سرے سے نظر ہی نہیں آتی اور اگر کہیں تھوڑی بہت حرکت نظر بھی آتی ہے تو وہ قومی تباہی پر آنسو بہانے یا مرضیہ نگاری سے آگے بڑھ نہیں پاتی.اگر انفرادی طور پر کوئی سنجیده و مخلص بہی خواہ قوم ہمدردی و غم خواری سے بہتری و بهبودی کیلئے کوشاں ہوا تو اس کی ٹانگ کھینچنے کیلئے اسے کفر کے فتووں کی یلغار پر رکھ لیا جاتا ہے.اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ اس طرح ہر اصلاحی کوشش ابن الوقتوں کے شور و غوغا میں دب کر اپنی موت آپ مرجاتی اور اس کی میت کو لالچ نفسانیت اور خود غرضی کے گدھ نوچ نوچ کر کھانے لگتے.قرآن کی مشعل اور صاحب قرآن کی روح کو فروزاں رکھنے والے قادر و کریم خدا نے دنیا کے معروف مذہبی مراکز اور خانوادوں سے الگ بہت دور سے ایک گم نام عاشق رسو میل کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی کشتی
کا ناخدا مقرر فرمایا جس نے بظاہر ہارتی ہوئی بازی کو زور دار یلغار کا رنگ دے دیا اور قرآنی بیج و براہین کو اس سلیقہ و قرینہ سے پیش فرمایا کہ خلاف اسلام طاقتیں جو اپنی یقینی کامیابی اور فتح کے نشہ میں سرشار آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی تھیں حیران و ششدر ہو کر پسپائی پر مجبور ہو گئیں.یہ قلمی لسانی مالی ، تبلیغی جہاد بڑی کامیابی سے جاری رہا.خلافت ثانیہ میں بھی اس جہاد نے ہر سمت میں دن دگنی رات چوگنی ترقی حاصل کی اور دنیا بھر میں اشاعت و تبلیغ کا کام پھیل گیا.حضرت مصلح موعود عالم اسلام کی حالت بیان کرتے ہوئے اپنے طبعی رنج اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں." آج کل جس قسم کے حالات میں سے مسلمان گزر رہے ہیں وہ نہایت ہی تاریک ہیں.ہندوستان، فلسطین ، مصر ، انڈونیشیا ان سب جگہوں میں مسلمانوں کی ہستی سخت خطرے میں ہے.ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، ایران میں روسی حکومت اپنا اثر و نفوذ پیدا کر رہی ہے اس لئے ایرانی حکومت کو نہایت خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، انڈونیشیا میں ڈچ حکومت مسلمانوں کو غلام بنانے کی خاطر تمام قسم کے ہتھیار استعمال کر رہی ہے ملایا میں چینیوں کو زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے.ہندوستان سے چل کر ایران پھر فلسطین ، مصر ، انڈو نیشیا ان سارے ہی علاقوں میں مسلمان سخت خطرات میں گھرے ہوئے ہیں.پس تمام دوستوں کو چاہئے ان دنوں خاص طور پر دعائیں کریں.دوسرے مسلمانوں کو بھی تحریک کرنی چاہئے کہ وہ بھی دعاؤں میں لگ جائیں.سوائے اس کے مسلمانوں کے لئے کوئی چارہ نہیں." (الفضل ۱۰.ستمبر ۱۹۴۶ء) بر صغیر پاک و ہند سے براہ راست تعلق کی وجہ ہے حضرت فضل عمر کی توجہ اس خطہ کے مسائل حل کرنے کی طرف تو ضرور رہی اور آپ ہندوستان کی بالعموم اور یہاں کے مسلمانوں کی بالخصوص ہمدردی اور خدمت میں ہمیشہ کوشاں رہے.تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ آپ کی دلچسپی یہاں تک ہی محدود تھی کیونکہ عالم اسلام کا مفاد و بهتری ہمیشہ آپ کی ترجیحات میں اول نمبر پر رہی.مقامات مقدسه مقامات مقدسہ کی عظمت و تقدس کے متعلق ایک نہایت ولولہ انگیز خطبہ جمعہ میں حضور نے بڑے درد اور جذبہ کے ساتھ فرمایا :.ہم ان مقامات کو مقدس ترین مقامات سمجھتے ہیں ، ہم ان مقامات کو خدا تعالیٰ
۱۴۳ کے جلال اور ظہور کی جگہ سمجھتے ہیں اور ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کو ان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا سعادت دارین سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص ترچھی نگاہ سے مکہ کی طرف ایک دفعہ بھی دیکھے گا خدا اس شخص کو اندھا کر دے گا اور اگر خدا تعالیٰ نے کبھی یہ کام انسانوں سے لیا تو جو ہاتھ اس بد بین آنکھ کو پھوڑنے کیلئے آگے بڑھیں گے ان میں ہمارا ہاتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے سب سے آگے ہو گا." آج سے کئی سال پہلے جب لارڈ چیمسفورڈ ہندوستان کے وائسرائے تھے مسلمانوں میں شور پیدا ہوا کہ انگریز بعض عرب رؤسا کو مالی امداد دے کر انہیں اپنے زیر سایہ لانا چاہتے ہیں.یہ شور جب زیادہ بلند ہو ا تو حکومت ہند کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہم عرب رؤسا کو کوئی مالی مدد نہیں دیتے.مسلمان اس پر خوش ہو گئے کہ چلو خبر کی تردید ہو گئی لیکن میں نے واقعات کی تحقیقات کی تو مجھے معلوم ہوا کہ گو ہندوستان کی حکومت بعض عرب رؤسا کو مالی مدد نہیں دیتی مگر حکومت برطانیہ اس قسم کی مدد ضرور دیتی ہے.چنانچہ ساٹھ ہزار پونڈ ابن سعود کو ملا کرتے تھے اور کچھ رقم شریف حسین کو ملتی تھی.جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے لارڈ چیمسفورڈ کو لکھا کہ گو لفظی طور پر آپ کا اعلان صحیح ہے مگر حقیقی طور پر صحیح نہیں کیونکہ حکومت برطانیہ کی طرف سے ابن سعود اور شریف حسین کو اس اس قدر مالی مدد ملتی ہے اور اس میں ذرہ بھر بھی شبہ کی گنجائش نہیں کہ مسلمان عرب پر انگریزی حکومت کا تسلط کسی رنگ میں بھی پسند نہیں کر سکتے ان کا جواب میں مجھے خط ملا کہ واقعہ صحیح ہے مگر اس کا کیا فائدہ کہ اس قسم کا اعلان کر کے فساد پھیلایا جائے.ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ عرب کو اپنے زیر اثر لائے.پس ہم ہمیشہ عرب کے معاملات میں دلچسپی لیتے رہے.جب ترک عرب پر حاکم تھے تو اس وقت ہم نے ترکوں کا ساتھ دیا جب شریف حسین حاکم ہو ا تو گو لوگوں نے اس کی سخت مخالفت کی مگر ہم نے کہا اب فتنہ و فساد کو پھیلانا مناسب نہیں.جس شخص کو خدا نے حاکم بنا دیا ہے اس کی حکومت کو تسلیم کر لینا چاہئے.تاکہ عرب میں نت نئے فسادات کا رونما ہونا بند ہو جائے اس کے بعد نجدیوں نے حکومت لے لی تو باوجود اس کے کہ لوگوں نے بہت شور مچایا کہ انہوں نے قبے گرا دیئے اور شعائر کی ہتک کی ہے...ہم نے
۱۴۴ سلطان ابن سعود کی تائید کی صرف اس لئے کہ مکہ معظمہ میں روز روز کی لڑائیاں پسندیدہ نہیں حالانکہ وہاں ہمارے آدمیوں کو دکھ دیا گیا.حج کیلئے احمد ی گئے تو انہیں مارا پیٹا گیا مگر ہم نے اپنے حقوق کیلئے بھی اس لئے صدائے احتجاج کبھی بلند نہیں کی کہ ہم نہیں چاہتے کہ ان علاقوں میں فساد ہوں.مجھے یاد ہے مولانا محمد علی صاحب جب مکہ مکرمہ کی مؤتمر سے واپس آئے تو وہ ابن سعود سے سخت نالاں تھے.شملہ میں ایک دعوت کے موقع پر ہم سب اکٹھے ہوئے تو انہوں نے تین گھنٹے اس امر پر بحث جاری رکھی وہ بار بار میری طرف متوجہ ہوتے اور میں انہیں کہتا کہ مولانا آپ کتنے ہی ان کے ظلم بیان کریں جب ایک شخص کو خدا تعالیٰ نے حجاز کا بادشاہ بنا دیا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ ہماری کوششیں اب اس امر پر ہونی چاہئیں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں فساد اور لڑائی نہ ہو اور جو شورش اس وقت جاری ہے وہ دب جائے اور امن قائم ہو جائے تا کہ ان مقدس مقامات کے امن میں کوئی خلل واقع نہ ہو." (فاروق.ستمبر ۱۹۳۵ء) اس غیر منصفانہ فیصلہ کے متعلق اپنے دکھ اور رنج کا اظہار کرنے سے بھی ایک عرصہ قبل آپ اہل شام پر انگریزوں کی زیادتی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.میں اس اظہار سے بھی نہیں رک سکتا کہ دمشق میں ان لوگوں پر جو پہلے ہی بے کس اور بے بس تھے یہ بھاری ظلم کیا گیا ہے.ان لوگوں کی بے بسی اور بے کسی کا یہ حال ہے کہ باوجود اپنے ملک کا آپ مالک ہونے کے دوسروں کے محتاج بلکہ دست نگر ہیں.میرے نزدیک شامیوں کا حق ہے کہ آزادی حاصل کریں.ملک ان کا ہے حکمران بھی وہی ہونے چاہئیں ان پر کسی اور کی حکومت نہیں ہونی چاہئے.یہ ظلم اس لحاظ سے اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ پچھلی جنگ میں اہل شام نے اتحادیوں کی مدد کی اور اس غرض سے مدد کی کہ انہیں اپنے ملک میں حکومت کرنے کی آزادی مل جائے گی.پھر کتنا ظلم ہے کہ اب ان کو غلام بنایا جاتا ہے.وہ ملک جو تلوار کے ذریعہ زیر نہ کئے جائیں بلکہ معاہدات کی رو سے سیاست اور علم کا چرچا نہ ہونے کے سبب جن کی تربیت کا ذمہ لیا جائے کیا ان کی یہی حالت ہونی چاہئیے کہ انہیں بالکل غلام بلکہ غلاموں سے بھی بد تر بنانے کی کوشش کی جائے ؟ پس نہ انگریزوں اور نہ کسی اور سلطنت کا حق ہے کہ وہ
۱۴۵ شامیوں کے ملک پر حکومت کریں اور نہ ہی فرانسیسیوں کا حق ہے کہ وہ ملک پر جبراً الفضل ۲۱.نومبر ۱۹۲۵ء صفحه ۸) قبضہ رکھیں." ۱۹۳۵ء میں سعودی حکومت نے ایک انگریز کمپنی کے ساتھ کان کنی کا معاہدہ کیا.سعودی حکومت اس زمانہ میں زیادہ مالدار نہیں تھی.(سیال سونے کی دریافت بہت بعد کی بات ہے) ہندوستان میں علماء اس کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.اس معاہدہ کی وجہ سے مخالف علماء کو پروپیگنڈہ کا ایک اور موقع مل گیا اور انہوں نے سعودی حکومت کے خلاف یہاں کے پریس میں ایک طوفان کھڑا کر دیا.حضرت فضل عمر نے اس معاہدہ کے متعلق اپنی متوازن رائے دیتے ہوئے فرمایا کہ اس میں بعض امور مزید احتیاط اور غور و فکر کے متقاضی تھے اور ان سے نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے.تاہم اسلامی شعائر سے گہری دلچسپی اور ہمدردی کی وجہ سے آپ نے جو مؤقف اختیار فرمایا اس میں ایک ماہر سیاستدان کی فراست و دور اندیشی کے ساتھ ساتھ ایک خدا پرست کا جذبہ صادق بھی پایا جاتا تھا.آپ نے فرمایا :- ابھی ایک عہد نامہ ایک انگریز کمپنی اور ابن سعود کے درمیان ہوا ہے.سلطان ابن سعود ایک سمجھ دار بادشاہ ہیں مگر یوجہ اس کے کہ وہ یورپین تاریخ سے اتنی واقفیت نہیں رکھتے وہ یورپین اصطلاحات کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے ایک دفعہ پہلے جب وہ اٹلی سے معاہدہ کرنے لگے تو ایک شخص کو جو ان کے ملنے والوں میں سے تھے میں نے کہا کہ اگر ہو سکے تو میری طرف سے سلطان ابن سعود کو یہ پیغام پہنچا دینا کہ معاہدہ کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لیں.یورپین اقوام کی عادت ہے کہ وہ الفاظ نہایت نرم اختیار کرتی ہیں مگر ان کے مطالب نہایت سخت ہوتے ہیں اب وہ معاہدہ جو انگریزوں سے ہوا شائع ہوا ہے اور اس کے خلاف بعض ہندوستانی اخبارات مضامین لکھ رہے ہیں.میں نے وہ معاہدہ پڑھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بعض غلطیاں ہو گئی ہیں اور اس.معاہدہ کی شرائط کی رو سے بعض قوموں پر بعض بیرونی حکومتیں یقینا عرب میں دخل دے سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کو پڑھ کر میرے دل کو سخت رنج پہنچا حالا نکہ انگریزوں سے ہمارا تعاون ہے...پھر بھی انگریز ہوں یا کوئی اور حکومت عرب کے معاملہ میں ہم کسی کا لحاظ نہیں کر سکتے.اس معاہدہ میں ایسی احتیاطیں کی جاسکتی تھیں کہ جن کے بعد عرب کے لئے کسی قسم کا کوئی خطرہ باقی نہ رہتا.مگر بوجہ اس کے کہ سلطان
ابن سعود یورپین اصطلاحات اور بین الاقوامی معاملات سے پوری واقفیت نہیں رکھتے انہوں نے الفاظ میں احتیاط سے کام نہیں لیا اور اس میں انہوں نے عام م مسلمانوں کا طریق اختیار کیا ہے.مسلمان ہمیشہ دوسرے پر اعتبار کرنے کا عادی ہے حالانکہ معاہدات میں کبھی اعتبار سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ سوچ سمجھ کر اور کامل غور و فکر کے بعد الفاظ تجویز کرنے چاہئیں.گو میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاہدہ بعض انگریز فرموں سے ہے حکومت سے نہیں اور ممکن ہے جس فرم نے یہ معاہدہ کیا ہے اس کے دل میں بھی دھوکا بازی یا غداری کا کوئی خیال نہ ہو مگر الفاظ ایسے ہیں کہ اگر اس فرم کی کسی وقت بھی نیت بدل جائے تو وہ سلطان ابن سعود کو مشکلات میں ڈال سکتی ہے.مگر یہ سمجھنے کے باوجود ہم نے اس پر شور مچانا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ ہم نے خیال کیا کہ اب سلطان کو بد نام کرنے کا کیا فائدہ ؟ اس سے سلطان ابن سعود کی طاقت کمزور ہو گئی تو عرب کی طاقت بھی کمزور ہو جائے گی.اب ہمارا کام یہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ سلطان کی مدد کریں اور اسلامی رائے کو ایسا منظم کریں کہ کوئی طاقت سلطان کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی جرات نہ کر الفضل ۳.ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰) جنگ عظیم ثانی میں جب جرمن افواج فتح پر فتح حاصل کرتی ہوئی مصر کی حدود کے اندر داخل ہو گئیں اور جر من جنرل رومیل کی کامیابیاں افسانوی حیثیت اختیار کر گئیں اور اتحادیوں کی فتح کے متعلق عام شک و شبہ کا اظہار ہونے لگا.اس وقت میدان جنگ سے دور سیاسی میدان سے الگ تھلگ مذہبی و روحانی امور میں شب و روز مصروف مگر بیدار مغز اولوالعزم امام جماعت احمدیہ حضرت فضل عمر نے مقامات مقدسہ کی عظمت و شان اور ان کی حفاظت کے متعلق ایک پُر شوکت سکے." خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :.اب جنگ ایسے خطر ناک مرحلہ پر پہنچ گئی ہے کہ اسلام کے مقدس مقامات اس کی زد میں آگئے ہیں.مصری لوگوں کے مذہب سے ہمیں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو وہ اسلام کی جو توجیہہ و تفسیر کرتے ہیں ہم اس کے کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہوں مگر اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ہمارے خدا ہمارے رسول اور ہماری کتاب کو ماننے والے ہیں.ان کی اکثریت اسلام کے خدا کیلئے غیرت رکھتی ہے ، ان کی اکثریت اسلام کی کتاب کیلئے غیرت رکھتی ہے ، اور ان کی اکثریت محمد میل کیلئے غیرت رکھتی ہے ، اسلامی
۱۴۷ لڑ پچر شائع کرنے اور اسے محفوظ رکھنے میں یہ قوم صف اول میں رہی ہے.آج ہم اپنے مدارس میں بخاری اور مسلم وغیرہ جو احادیث پڑھاتے ہیں وہ مصر کی چھپی ہوئی ہیں.اسلام کی نادر کتابیں مصر میں ہی چھپتی ہیں اور مصری قوم اسلام کیلئے مفید کام کرتی چلی آئی ہے.اس قوم نے اپنی زبان کو بھلا کر عربی زبان کو اپنا لیا، اپنی نسل کو فراموش کر کے یہ عربوں کا حصہ بن گئی اور آج دونوں قوموں میں کوئی فرق نہیں.مصر میں عربی زبان عربی تمدن اور عربی طریق رائج ہیں اور محمد عربی میں کامذ ہب رائج ہے.پس مصر کی تکلیف اور تباہی ہر مسلمان کیلئے دکھ کا موجب ہونی چاہئے خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھنے والا ہو اور خواہ مذہبی طور پر اسے مصریوں سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں."مصر کے ساتھ ہی وہ مقدس سر زمین شروع ہو جاتی ہے جس کا ذرہ ذرہ ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے.وہ مقدس مقام ہے جہاں ہمارے آقا کا مبارک وجو د لیٹا ہوا ہے ، جس کی گلیوں میں محمد مصطفی میں دی او لیول کے پائے مبارک پڑا کرتے تھے.جس کے مقبروں میں آپ کے والڈ و شیدا خدا تعالیٰ کے فضل کے نیچے میٹھی نیند سو رہے ہیں.وہ وادی ہے جس میں وہ گھر ہے جسے ہم خدا کا گھر کہتے ہیں اور جس کی طرف دن میں کم سے کم پانچ بار منہ کر کے ہم نماز پڑھتے ہیں...یہ مقدس مقام صرف چند سو میل کے فاصلہ پر ہے اور آج کل موٹروں اور ٹینکوں کی رفتار کے لحاظ سے چار پانچ دن کی مسافت سے زیادہ فاصلہ پر نہیں اور ان کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں.کھلے دروازوں اسلام کا خزانہ پڑا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دیوار میں بھی نہیں اور جوں جوں دشمن ان مقامات کے قریب پہنچتا ہے مسلمان کا دل لرز جاتا ہے." آنحضرت میں یا ای میل کی حفاظت کیلئے صحابہ کرام کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :."...ان کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے عرش سے آپ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ وہ اس کو بچانے کی طاقت رکھتا ہے اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے کیلئے سامان مہیا کر سکتا ہے مگر ان کی تمنا ان کی آرزو ان کی خواہش یہ تھی کہ اللہ تعالی محمدم ملک کو بچانے کیلئے جو ہتھیار اپنے ہاتھ میں لے وہ ہم ہوں.انہیں خدا تعالیٰ کے وعدے پر شک نہ تھا، آنحضرت میر کی زبان پر شک نہ تھا بلکہ حرص تھی کہ اس
۱۴۸ وعدہ کو پورا کرنے کا جو ذریعہ اللہ تعالیٰ اختیار کرے وہ ہم ہوں.وہ چاہتے تھے کہ کاش وہ ذریعہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچانے کا اختیار کرنا ہے وہ ہم بن جائیں اور وہ بن گئے....ان کی اول خواہش اور تمنا بھی اور ان کی آخری خواہش اور تمنا بھی یہی تھی کہ کاش وہ قتل ہو جائیں وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں مگر آنحضرت می پر کوئی آنچ نہ :........._zi یہ مقامات (مقامات مقدسہ) روز بروز جنگ کے قریب آرہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی مشیت اور اپنے گناہوں کی شامت کی وجہ سے ہم بالکل بے بس ہیں اور کوئی ذریعہ ان کی حفاظت کا اختیار نہیں کر سکتے.ادنی ترین بات جو انسان کے اختیار میں ہوتی ہے یہ ہے کہ ان کے آگے پیچھے کھڑے ہو کر جان دے دے مگر ہم تو یہ بھی نہیں کر سکتے اور اس خطرناک وقت میں ایک ہی ذریعہ باقی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ جنگ کو ان مقامات مقدسہ سے زیادہ سے زیادہ دور لے جائے اور اپنے فضل.ان کی حفاظت فرمائے.وہ خدا جس نے ابرہہ کی تباہی کیلئے آسمان سے دبا بھیج دی تھی اب بھی طاقت رکھتا ہے کہ ہر ایسے دشمن کو جس کے ہاتھوں سے اس کے مقدس مقامات اور شعائر کو کوئی گزند پہنچ سکے کچل دے....میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ وہ خود ہی ان مقامات کی حفاظت کے سامان پیدا کر دے.اور اس طرح دعا ئیں کریں جس طرح بچہ بھوک سے تڑپتا ہوا چلاتا ہے ، جس طرح ماں سے جدا ہونے والا بچہ یا بچہ سے محروم ہو جانے والی ماں آہ و زاری کرتی ہے اسی طرح اپنے رب کے حضور رو رو کر دعائیں کریں کہ.اے اللہ ! تو خودان مقامات کی حفاظت فرما اور ان لوگوں کی اولادوں کو جو آنحضرت کیلئے جانیں فدا کر گئے اور ان کے ملک کو ان خطرناک نتائج جنگ سے جو دوسرے مقامات پر پیش آ رہے ہیں بچالے ان کی حفاظت فرما اور اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھ.آمین (الفضل ۳.جولائی ۱۹۴۲ء) یہ دردمندانہ دعائیں اور اخلاص خدا تعالیٰ کے ہاں قبول ہوا اور اس کے فضل سے جنگ کا پانسہ پلٹا.مقدس مقامات جنگ کی لپٹ سے محفوظ رہے اور جرمن فوجوں کو شکست ہوئی.مندرجہ بالا خطبہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک احراری اخبار زمزم نے لکھا:.
۱۴۹ موجودہ حالات میں خلیفہ صاحب نے مصر اور حجاز مقدس کیلئے اسلامی غیرت کا جو ثبوت دیا ہے.وہ یقیناً قابل قدر ہے اور انہوں نے اس غیرت کا اظہار کر کے مسلمانوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے." زمزم ۱۹.جولائی ۱۹۴۲ء بحوالہ الفضل ۲۲.جولائی ۱۹۴۲ء) حضور کا اسلامی درد اور مسلمانوں کی بہتری کا جذبہ اس بیان کے ایک ایک لفظ سے ظاہر ہے.خدا تعالیٰ نے حضور کی مضطربانہ دعاؤں کو شرف قبولیت عطا فرمایا اور سعودی عرب کو سونے چاندی، میگیر، نکل، تانبا، سیسہ، جست، ایلومینیم گندھک ابرق اور گریفائیٹ کی دولت سے مالا مال فرمایا.تیل (جسے اس کی اہمیت و قیمت کی وجہ سے مائع سونا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے) نے تو سعودی عرب کی کایا پلٹ کر رکھ دی.ایک اندازے کے مطابق اگر سعودی کنوؤں سے دس لاکھ بیرل روزانہ تیل نکالا جائے تو بھی ایک صدی تک اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے.نومبر ۱۹۴۳ء میں لبنان نے فرانس سے مکمل آزادی حاصل کرنے کیلئے لبنان کی آزادی پارلیمنٹ میں آئین میں تبدیلی کا ایک بل پیش کیا لیکن فرانس نے آئینی طریق اختیار کرنے کی بجائے جبرو استحصال سے کام لیتے ہوئے تمام وزراء بشمول وزیر اعظم کو گر فتار کر کے کسی نامعلوم جگہ پر پہنچا دیا اور مارشل لاء نافذ کر کے مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے فرانسیسی فوج نے گشت کرنا شروع کر دیا.عرب پولیس کی جگہ فوج کام کرنے لگی.بیروت کے علاوہ ٹریپولی میں بھی نازک صورت پیدا ہو گئی.مظاہرے ہونے لگے.فرانسیسی فوج نے لبنان کی مجلس مندوبین کے ۲۰ ارکان کے علاوہ کئی اور ممتاز لیڈروں کو بھی گرفتار کر لیا اور ان اسلامی ممالک کے ساتھ اس ظلم و زیادتی کے متعلق حضور نے فرمایا :.شام اور لبنان وہ ملک ہیں جو کسی زمانے میں ترکوں کے ماتحت تھے اور ترکوں کی طرف سے انہیں ہر قسم کی وہ آزادی حاصل تھی جو کسی ما تحت قوم کو دی جاتی ہے.جب گذشتہ جنگ ہوئی تو ان اقوام کو یورپ کی حکومتوں نے کہا کہ ہم تمہیں آزادی دے دیں گے تم اپنے حاکموں کے خلاف کھڑے ہو جاؤ.چنانچہ یہ قومیں کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے اپنے حکام کے ساتھ غداری کی اور ان سے جنگ پر آمادہ ہو گئے اور سمجھا کہ اس کے نتیجہ میں ہم کو آزادی مل جائے گی مگر جب جنگ ختم ہو گئی اور ان کے خون سے عرب اور شام کے میدان رنگے گئے تو انہیں یہ آزادی دی گئی کہ کچھ حصہ پر انگریزوں کو
۱۵۰ نگرانی دی گئی اور کچھ حصہ فرانسیسیوں کے سپرد کر دیا گیا.اب پھر یہ دوسری جنگ آئی اور اس جنگ کے شروع میں ہی فرانس کو شکست ہو گئی چونکہ شام اور لبنان کے علاقے اس فرانسیسی حکومت کے ماتحت تھے جس کا جرمنی کے ساتھ تعلق تھا اس لئے اتحادیوں کو یہ فکر پیدا ہوئی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جرمنی اور اس کے فرانسیسی ساتھی ان ممالک کو اڈا بنا لیں اور ہمارے علاقہ میں شرارت پھیلانا شروع کر دیں.چنانچہ انہوں نے یہ نہایت اچھی چال چلی کہ ان ممالک پر حملہ کر دیا اور آزاد فرانسیسی دستوں کے کمانڈر نے اعلان کیا کہ تم مدت سے آزادی کے طالب تھے مگر تمہیں فرانسیسی گورنمنٹ آزادی نہیں دیتی تھی اب وقت آگیا ہے کہ تمہیں آزاد کر دیا جائے اور تمہارا شمار بھی دنیا کے آزاد ممالک کی صف میں ہو تم اس وقت ہماری مدد کرو تم کو عملاً آزادی دے دی جائے گی اور جنگ ختم ہونے پر ہم تمہیں پوری آزادی دے دیں گے.اس اعلان پر پھر وہ لوگ جو ایک عرصہ سے آزادی کا خواب دیکھ رہے تھے میدان میں نکل آئے اور انہوں نے کہیں سڑکیں تو ڑنی شروع کر دیں کہیں ریلوے کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا اور اس طرح ملک کے اندرونی حصہ میں بغاوت پیدا کر دی تاکہ انہیں آزادی حاصل ہو.باہر سے انگریزوں نے آزاد فرانسیسی دستوں کے ساتھ مل کر حملہ کروایا اور چند دنوں میں ہی شام اور لبنان وغیرہ پر قبضہ کر لیا.جب جنگ ختم ہوئی اور قبضہ مکمل ہو گیا تو آزاد فرانس کے نمائندہ کی طرف سے اعلان کر دیا گیا کہ لواب تم آزاد ہو کچھ عرصہ تک تو وہ خاموش رہے آخر انہوں نے سوچا کہ ہماری آزادی کا اعلان تو کر دیا گیا مگر ہم آزاد ہیں کس طرح؟ انہوں نے کہا بے شک آپ نے کہہ دیا ہے کہ ہم آزاد ہیں مگر ہم کس طرح سمجھیں کہ ہم آزاد ہیں.فوج تمہاری ہے گورنر تمہارے ہیں پولیس تمہاری ہے ، تمام طاقت کے عہدے تمہارے پاس ہیں، پھر ہم کس طرح آزاد ہو گئے ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس آزادی کے معانی کیا ہیں ؟ اس کشمکش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی کمیٹی نے فیصلہ کر دیا کہ جب حکومت کے اپنے اعلان کی رو سے ہم آزاد ہیں تو آج سے ہم اپنے لئے آپ قانون بناتے ہیں.چنانچہ اس غرض کیلئے پارلیمنٹ میں بھی ایک بل پیش کر دیا گیا.یہ دیکھ کر فرانس کی وہ آزادی کی کمیٹی جس کے ماتحت وہ آ گئے تھے اس نے ان کو دبانا شروع کر دیا کہ تمہیں اپنے ملک کا قانون بنانے کا کس نے اختیار دیا ہے اور تمہاراحق ہی
۱۵۱ کیا ہے کہ تم اس قسم کی باتیں کرو.بے شک ہمارے اعلان کے مطابق تم آزاد ہو مگر اس آزادی کی تعبیر بتانا ہمارا کام ہے ( اور اس آزادی کا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے ) کہ لبنان کے وزیروں کو پکڑ کر قید کر لیا گیا ہے.سوانح فضل عمر حصہ دوم میں حضور کی سیاسی معاملات میں (الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۴۳ء) سپین میں اشاعت اسلام غیر معمولی بصیرت و فراست کے متعلق بیان ہو چکا ہے.معاہدہ ترکی ، تحریک خلافت ، ترکِ موالات جیسے مسائل میں مسلمانوں کے مفاد کے تحفظ اور قرآن مجید کے غیر متبدل اصولوں کی روشنی میں رہنمائی کا ذکر بھی ہو چکا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ آپ کو مسلمانوں سے محبت اور اسلام کا درد حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے ورثہ میں ملا تھا.یہی وجہ ہے کہ اکناف عالم میں کسی جگہ بھی مسلمانوں پر نازل ہونے والی مصیبت و تکلیف آپ کے دردمند دل کو بے تاب کر دیتی تھی.مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی آخری نشانی سپین کا ذکر کرتے ہوئے آپ کس درد سے فرماتے ہیں:."سپین میں جو مسلمانوں کا حشر ہوا وہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایک تاریک ترین لمحہ تھا.میں سمجھتا ہوں کوئی مسلمان جس کے دل میں ایک ذرہ بھر بھی ایمان ہو وہ سپین کے مسلمانوں کی اس آخری جنگ کے حالات پڑھ کر جو انہیں عیسائیوں سے لڑنی پڑی بغیر اس کے نہیں رہ سکتا کہ اس کا دل خون ہو جائے اور اس کی آنکھیں پر نم وہ کبھی ٹھنڈے دل سے ان واقعات کو نہیں پڑھ سکتا وہ کبھی خشک آنکھوں سے ان واقعات کو نہیں پڑھ سکتا میں سمجھتا ہوں کہ کوئی درد رکھنے والا مسلمان ساکن جسم سے ان واقعات کو نہیں پڑھ سکتا.ایک ذرہ بھر در در رکھنے والا مسلمان بھی جب ان واقعات کو پڑھتا ہے اس کا دل دھڑ کنے لگ جاتا ہے ، اس کے آنسو رواں ہو جاتے ہیں اور اس کا جسم کانپنے لگ جاتا ہے.اسلام کی فوقیت کا جھنڈا لہرانے والا وہ ملک جس نے یورپ پر سینکڑوں سال حکومت کی اور جس نے اسلام کی برتری اور فوقیت کو نہایت مضبوطی سے قائم رکھا آج وہاں اسلام کا نام و نشان بھی نہیں سوائے ان چند عمارتوں کے جو مسلمانوں کے عہد ماضی کی یاد گار کے طور پر اب تک وہاں موجود ہیں.et میں یقین رکھتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ نے اسلام کو حیات تازہ بخشی تو اس نشأة ثانیہ میں ایسے لوگوں کی (نیچے قربانی کرنے والے مسلمان) روھیں پھر ظاہر ہوں گی.پھر
۱۵۲ ہسپانیہ محمد رسول اللہ میں کی دیوی کے جھنڈے کے نیچے آئے گا اور اس دفعہ اس طرح آئے گا کہ پھر نہیں نکل سکے گا." (الفضل ۱۴.ستمبر ۱۹۳۹ء) پین میں نور اسلام پھیلانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:." تاریخ اسلام کی ان باتوں سے جو مجھے بہت پیاری لگتی ہیں ایک بات ایک ہسپانوی جرنیل کی ہے جب پین میں مسلمانوں کی طاقت اتنی کمزور ہو گئی کہ ان کے ہاتھ میں صرف ایک قلعہ رہ گیا جو آخری قلعہ تھا تو عیسائیوں نے ان کے سامنے بعض شرائط پیش کیں اور کہا کہ اگر بچنا چاہتے ہو تو ان کو مان لو وہ شرائط ایسی تھیں کہ جنہیں مان کر اسلام سپین میں عزت سے نہ رہ سکتا تھا.بادشاہ وقت ان شرائط کو ماننے کیلئے تیار ہو گیا دو سرے جرنیل بھی تیار تھے مگر یہ جرنیل کھڑا ہوا اور کہا کہ اے لوگو! کیا کرتے ہو ؟ کیا تمہیں یقین ہے کہ عیسائی اپنے وعدوں کو پورا کریں گے.ہمارے باپ دادا نے پین میں اسلام کا بیج بویا تھا اب تم اپنے ہاتھوں سے اس درخت کو گرانے لگے ہو.ان لوگوں نے کہا کہ سوائے اس کے ہو کیا سکتا ہے؟ اس جرنیل نے کہا.یہ سوال نہیں کہ دشمن سے کامیاب مقابلہ کی صورت کیا ہے نہ ہمیں اس کے پوچھنے کی ضرورت ہے ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہئے اور ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ مرجائے مگران شرائط کو تسلیم نہ کرے اس طرح یہ ذلت تو نہیں اٹھانی پڑے گی کہ اپنے ہاتھ سے حکومت دشمن کو دے دیں جو کچھ تمہارے اختیار کی بات ہے وہ کر دو اور باقی خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو.یہ بات سنکر وہ لوگ بنے اور کہا اس قربانی کا کیا فائدہ ؟ اور سب نے انکار کیا مگر اس نے کہا اگر تم اس بے غیرتی کو پسند کرتے ہو تو کرو میں تو اپنے ہاتھوں اسلامی بھنڈا دشمن کے حوالے نہ کروں گا.قریباً ایک لاکھ کا لشکر تھا جو قلعہ کے باہر جمع تھا.وہ اکیلا ہی تلوار لے کر باہر نکلا.دشمن پر حملہ کر دیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گیا.بے شک اس کی شہادت کے باوجود سپین میں مسلمانوں کی حکومت تو قائم نہ رہ سکی مگر اس کا نام ہمیشہ کیلئے زندہ رہ گیا اور موت اسے مٹانہ سکی.وہ بادشاہ اور جرنیل جنہوں نے اس کے مشورہ کو تسلیم نہ کیا اور اپنی جانیں بچانی چاہیں وہ مٹ گئے.ان کا ذکر پڑھ کر اور سن کر ہم اپنے نفسوں کو بڑے زور سے ان پر لعنت کرنے سے روکتے ہیں.لیکن کبھی سپین کے حالات کا میں مطالعہ نہیں کرتا یا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ باتیں میرے ذہن میں آئی ہوں اور اس
۱۵۳ جرنیل کیلئے دعا ئیں نہ نکلتی ہوں.اس کے خون کے قطرے آج بھی چین کی وادیوں میں ہم کو آواز میں دیتے ہیں کہ آؤ اور میرے خون کا انتقام لو.بے شک بہادر جرنیل مر گیا.مگر مرنا ہے کیا؟ کیا یوں لوگ نہیں مرتے ؟ کیا وہ بادشاہ اور جرنیل جو دشمن سے نہ لڑے مر نہ گئے ؟ وہ بھی ضرور مرگئے لیکن ان کیلئے ہمارے دلوں سے لعنت نکلتی ہے اور اس جرنیل کیلئے دعا ئیں." آج بھی اس کی کشش ہمیں پسین کی طرف بلا رہی ہے اور اگر مسلمانوں کی غیرت قائم رہی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے ظاہر ہوتا ہے نہ صرف قائم رہے گی بلکہ ترقی کرے گی اور پہلے سے بڑھ کر ظاہر ہو گی اور وہ دن دور نہیں جب اس جرنیل کے خون کے قطروں کی پکار اس کی جنگلوں میں چلانے والی روح اپنی کشش دکھائے گی اور بچے مسلمان پھر سپین پہنچیں گے اور وہاں اسلام کا جھنڈا گاڑیں گے.اس کی روح آج بھی ہمیں بلا رہی ہے اور ہماری روحیں بھی پکار رہی ہیں کہ اے شہید وفا! تم اکیلے نہیں ہو محمد رسول اللہ میں اللہ کے دین کے سچے خادم منتظر ہیں.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی وہ پروانوں کی طرح اس ملک میں داخل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے نور کو وہاں پھیلائیں گے." (الفضل ۶ - مئی ۱۹۴۴ء) ۱۹۴۱ء میں جب جنگ عظیم کی ہولناک مصیبت دنیا پر چھائی ہوئی تھی اور عراق کی آزادی جنگ کے میدانوں سے ہٹ کر بھی ایک دوسرے کے خلاف انتہائی خوفناک جنگ لڑی جارہی تھی.عراق (جس کی اہمیت عالم اسلام میں مسلم ہے) میں نازیوں کی ریشہ دوانیوں سے بعض عراقیوں نے ایسی شورش پیدا کی جس کے نتیجہ میں مقامات مقدسہ کے خطرہ میں پڑنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے لاہور ریڈیو سے ایک تقریر فرمائی جس کا ایک ایک لفظ مقامات مقدسہ کی عظمت و محبت کا آئینہ دار اور عراق اور اسلام کے لئے نہایت بیش قیمت مشوروں اور بر وقت رہنمائی پر مشتمل تھا.حضور نے فرمایا:.عراق کی موجودہ شورش دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے اور ہندوستانیوں کے لئے بھی تشویش کا موجب ہو رہی ہے.عراق کا دار الخلافہ بغداد اور اس کی بندرگاہ بصرہ اور اس کے تیل کے چشموں کا مرکز موصل ایسے مقامات ہیں جن کے نام سے ایک مسلمان
۱۵۴ اپنے بچپن ہی سے روشناس ہو جاتا ہے.بنو عباس کی حکومت علوم و فنون کی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے طبعاً مسلمانوں کے لئے ایک خوشکن یاد گار ہے لیکن الف لیلہ جو عربی علوم کی طرف توجہ کرنے والے بچوں کی بہترین دوست ہے اس نے تو بغداد اور بصرہ اور موصل کو ان سے اس طرح روشناس کرایا ہے کہ آنکھیں بند کرتے ہی بغداد کے بازار اور بصرہ کی گلیاں اور موصل کی سرائیں ان کے سامنے اس طرح آکھڑی ہوتی ہیں گویا کہ انہوں نے ساری عمران ہی ممالک اسلامیہ کی سیر کی ہے.میں اپنی نسبت تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ بچپن میں بغداد اور بصرہ مجھے لندن اور پیرس سے کہیں زیادہ دلکش نظر آیا کرتے تھے کیونکہ اول الذکر میرے علم کی دیواروں کے اندر بند تھے.جب ذرا بڑے ہوئے تو علم حدیث نے امام احمد بن حنبل کو فقہ نے امام ابو حنیفہ اور امام یوسف کو تصوف نے جنید ، شبلی اور سید عبد القادر جیلانی کو تاریخ نے ابن قیم کو علم التدریس نے نظام الدین طوسی کو ادب نے مبرد سیبویہ جریر اور فرزدق کو سیاست نے ہارون مامون اور مالک شاہ جیسے لوگوں کو جو اپنے اپنے دائرہ میں یادگار زمانہ تھے اور ہیں ایک ایک کر کے آنکھوں کے سامنے لا کر اس طرح کھڑا کیا کہ اب تک ان کے کمالات کے مشاہدہ سے دل امیدوں سے پر ہیں اور افکار بلند پروازوں میں مشغول.ان کمالات کے مظهر اور ان دکشیوں کے پیدا کرنے والے عراق میں فتنہ کے ظاہر ہونے پر مسلمانوں کے دل دکھے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں.کیا ان ہزاروں بزرگوں کے مقابر جو دنیاوی نہیں روحانی رشتہ سے ہمارے ساتھ منسلک ہیں ان پر بمباری کا خطرہ ہمیں بے فکر رہنے دے سکتا ہے؟ عراق سنی اور شیعہ دونوں کے بزرگوں کے مقدس مقامات کا جامع ہے.وہ مقام کے لحاظ سے بھی اسلامی دنیا کے قلب میں واقع ہے.پس اس کا امن ہر مسلمان کا مقصود ہے.آج وہ امن خطرہ میں پڑ رہا ہے اور دنیا کے مسلمان اس پر خاموش نہیں رہ سکتے اور وہ خاموش نہیں ہیں.دنیا کے ہر گوشہ کے مسلمان اس وقت گھبراہٹ ظاہر کر رہے ہیں اور ان کی گھبراہٹ بجا ہے کیونکہ وہ جنگ جس کے تصفیہ کی افریقہ کے صحرا اور میڈ ٹرینین ( Mediterranean) کے سمندر میں امید کی جاتی تھی.اب وہ مسلمانوں کے گھروں میں لڑی جائے گی.اب ہماری مساجد کے صحن اور ہمارے
۱۵۵ بزرگوں کے مقابر کے احاطے اس کی آماجگاہ بنیں گے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ جرمنوں نے جن ملکوں پر قبضہ جمارکھا ہے ان کی کیا حالت ہو رہی ہے.اگر شیخ رشید علی جیلانی اور ان کے ساتھی جرمنی سے ساز باز نہ کرتے تو اسلامی دنیا کیلئے یہ خطرہ پیدانہ ہوتا.اس فتنہ کے نتیجہ میں ترکی گھر گیا ہے ایران کے دروازے پر جنگ آگئی ہے شام جنگ کا راستہ بن گیا ہے، عراق جنگ کی آماجگاہ ہو گیا ہے، افغانستان جنگ کے دروازے پر آکھڑا ہوا ہے اور سب سے بڑا خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ مقامات امکہ معظمہ اور مدینہ منورہ) جو ہمیں ہمارے وطنوں ، ہماری جانوں اور ہماری عزتوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں جنگ ان کی سرحدوں تک آگئی ہے.وہ بے فصیلوں کے مقدس مقامات “ وہ ظاہری حفاظت کے سامانوں سے خالی جگہیں جن کی دیواروں سے ہمارے دل لٹک رہے ہیں اب بم باری اور جھپٹانی طیاروں کی زد میں ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے ہی چند بھائیوں کی غلطی سے ہوا ہے کیونکہ ان کی اس غلطی سے پہلے جنگ ان مقامات مقدسہ سے سینکڑوں میل پرے تھی.ان حالات میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کو اس کی ابتداء میں ہی دبا دینے کی کوشش کرے ابھی وقت ہے کہ جنگ کو پرے دھکیل دیا جائے کیونکہ ابھی تک عراق اور شام میں جرمنی اور اٹلی کی فوجیں کسی بڑی تعداد میں داخل نہیں ہو ئیں.اگر خدانخواستہ بڑی تعداد میں فوجیں یہاں داخل ہو گئیں تو یہ کام آسان نہیں رہے گا.جنگ کی آگ سرعت کے ساتھ صحرائے عرب میں پھیل جائے گی." اس فتنہ کا مقابلہ شیخ رشید علی صاحب یا مفتی یروشلم کو گالیاں دینے سے نہیں کیا جا سکتا.انہیں غدار کہہ کر ہم اس آگ کو نہیں بجھا سکتے.میں شیخ رشید علی کو نہیں جانتا لیکن مفتی صاحب کا ذاتی طور پر واقف ہوں.میرے نزدیک وہ نیک نیت آدمی ہیں اور ان کی مخالفت کی یہ وجہ نہیں کہ ان کو جرمنی والوں نے خرید لیا ہے بلکہ ان کی مخالفت کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ عظیم میں جو وعدے اتحادیوں نے عربوں سے کئے تھے وہ پورے نہیں کئے گئے.ان لوگوں کو برا کہنے سے صرف یہ نتیجہ نکلے گا کہ ان کے واقف اور دوست اشتعال میں آجائیں گے.ان ہزاروں اور لاکھوں
۱۵۶ لوگوں کو جو عالم اسلام میں شیخ رشید اور مفتی یروشلم سے حسن ظن رکھتے ہیں ٹھو کر اور ابتلاء سے بچانے کیلئے ہمارا فرض ہے کہ اس نازک موقع پر اپنے بھائیوں کو جوش میں نہ آنے دیں اور جو بات ہو اس میں صرف اصلاح کا پہلو یہ نظر ہو ا ظہار غضب مقصود نہ ہو تاکہ فتنہ کم ہو بڑھے نہیں.یاد رہے کہ اس فتنہ کے بارہ میں ہمارے لئے اس قدر سمجھ لینا کافی ہے کہ شیخ رشید علی امن کو خطرہ میں ڈالنے کا موجب ہوا ہے.ہمیں ان کی نیتوں پر حملہ کرنے کانہ حق ہے اور نہ اس سے کچھ فائدہ ہے.اس وقت تو مسلمانوں کو اپنی ساری طاقت اس بات کیلئے خرچ کر دینی چاہئے کہ عراق میں پھر امن ہو جائے اور یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ مسلمان جان اور مال سے انگریزوں کی مدد کریں اور اس فتنہ کے پھیلنے اور بڑھنے سے پہلے ہی اس کے دبانے میں ان کا ہاتھ بٹائیں تاکہ جنگ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ سے دور رہے اور ترکی ، ایران، عراق، شام اور فلسطین اس خطرناک آگ کی لپٹوں سے محفوظ رہیں.یہ وقت بحثوں کا نہیں کام کا ہے.اس وقت ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے ہمسایوں کو اس خطرہ سے آگاہ کرے جو عالم اسلام کو پیش آنے والا ہے تاکہ ہر مسلمان اپنا فرض ادا کرنے کیلئے تیار ہو جائے اور جو قربانی بھی اس سے ممکن ہو اسے پیش کرے.جنگ کے قابل آدمی اپنے آپ کو بھرتی کیلئے پیش کریں ، روپیہ والے لوگ روپیہ سے امداد کریں اصل قلم اپنی قلمی قوتوں کو اس خدمت میں لگادیں اور جس سے اور کچھ نہیں ہو سکتا وہ کم سے کم دعا کرے کہ اللہ تعالی اس جنگ سے اسلامی ملکوں کو محفوظ رکھے اور ہمارے جن بھائیوں سے غلطی ہوئی ہے ان کی آنکھیں کھول دے وہ خود ہی پشیمان ہو کر اپنی غلطی کا ازالہ کرنے میں لگ جائیں.میرے نزدیک عراق کا موجودہ فتنہ صرف مسلمانوں کیلئے تازیانہ تنبیہہ نہیں بلکہ ہندوستان کی تمام اقوام کیلئے تشویش اور فکر کا موجب ہے کیونکہ عراق میں جنگ کا دروازہ کھل جانے کی وجہ سے جنگ ہندوستان کے قریب آگئی ہے اور ہندوستان اب اس طرح محفوظ نہیں رہا جس طرح کہ پہلے تھا.جو فوج عراق پر قابض ہو عرب یا ایران کی طرف سے آسانی سے ہندوستان کی طرف بڑھ سکتی ہے.پس ہندوستان کی تمام اقوام کو اس وقت آپس کے جھگڑے بھلا کر اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر برطانوی حکومت کی
۱۵۷ امداد کرنی چاہئے کہ یہ اپنی ہی امداد ہے.شاید رشید علی جیلانی کا خیال ہو کہ سابق عالمگیر جنگ میں عربوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ایک متحد عرب حکومت کے قیام میں ان کی مدد کی جائے گی مگر ہوا یہ کہ عرب جو پہلے ترکوں کے ماتحت کم سے کم ایک قوم تھے اب چار پانچ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے ہیں.بے شک انگریزوں نے عراق کو ایک حد تک آزادی دی ہے مگر عربوں نے بھی سابق جنگ میں کم قربانیاں نہ دی تھیں.اگر اس غلطی کے ازالہ کا عہد کر لیا جائے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ سب اسلامی دنیا متحد ہو کر اپنے علاقوں کو جنگ سے آزاد رکھنے کی کوشش کرے گی اور بالواسطہ طور پر اس کا عظیم الشان فائدہ انگریزی حکومت کو بھی پہنچے گا.اس جنگ کے بعد پولینڈ اور چیکو سلو یکیہ کی آزادی کا ہی سوال نہیں ہونا چاہئے بلکہ متحدہ عرب کی آزادی کا بھی سوال حل ہو جانا چاہئے جس میں سے اگر یمن ، حجاز اور نجد کو الگ رکھا جائے تو کوئی حرج نہیں.مگر شام، فلسطین اور عراق کو ایک متحد اور آزاد حکومت کے طور پر ترقی کرنے کا موقع ملنا چاہئے.انصاف اس کا تقاضا کرتا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ اس انصاف کے تقاضا کو پورا کر کے برطانوی حکومت آگے سے بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گی." الفضل ۲۷.مئی ۱۹۴۱ء صفحہ ۱.۲) حضور کے اس جرات مندانہ اور بصیرت افروز بیان پر ایک غیر مسلم صحافی سردار دیوان سنگھ مفتون نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:.غلام عوام اور غلام ملک کے کیریکٹر کا سب سے زیادہ کمزور پہلو یہ ہوتا ہے کہ ان کے افراد اخلاقی سچائی اور جرات سے محروم ہو جاتے ہیں اور چاپلوسی، جھوٹ خوشامد اور بزدلی کی سیرت ان میں نمایاں ہو جاتی ہے.عراق کا رشید علی برطانوی رعایا کے نقطہ نگاہ سے غلطی پر ہو یا اس کا برطانیہ سے جنگ کرنا غیر مناسب ہو مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ شخص اپنے ملک کی سیاسی آزادی کیلئے بڑھ رہا ہے اور اس کو کسی قیمت پر بھی اپنے ملک کا غدار یا ٹریٹر قرار نہیں دیا جا سکتا مگر ہمارے غلام ملک کے والیانِ ریاست اور لیڈروں کا کیریکٹر دیکھئے جو والی ریاست عراق کے متعلق تقریر کرتا ہے رشید علی کو غدار کہہ کر پکارتا ہے.اور جو لیڈر جنگ کے متعلق بیان دیتا ہے سب سے پہلے رشید علی کو ٹریٹر (Traitor) قرار دیتا ہے اور پھر اپنے بیان کی بسم اللہ کرتا ہے اور ان
۱۵۸ والیان ریاست اور لیڈروں کا کیریکٹر غلامی کے باعث اس قدر پست ہے کہ یہ غلط خوشامد اور چاپلوسی کو ہی ملک یا حکومت کی خدمت سمجھ رہے ہیں.ہمارے والیانِ ریاست اور لیڈروں کی اس احمقانہ خوشامد کی موجودگی میں قادیان کی احمدی جماعت کے پیشوا کی اخلاقی جرات آپ کا بلند کیریکٹر اور آپ کی صاف بیانی دلچسپی اور مسرت کے ساتھ محسوس کی جائے گی.جس کا اظہار آپ نے پچھلے ہفتہ اپنی ریڈیو کی ایک تقریر میں ریاست ۲ - جون ۱۹۴۱ء بحوالہ الفضل ۷.جون ۱۹۴۱ء) کیا." آج سے نصف صدی قبل جب کہ عالم اسلام کے تمام ممالک اور انڈونیشیا کی آزادی حکومتیں استعماری طاقتوں کے پنجے میں دبی ہوئی اپنی آزادی کا تصور بھی نہ کر سکتی تھیں اس وقت عالم اسلام کے لئے در در رکھنے والا ایک وجود قادیان میں بیٹھا ہوا سارے عالم اسلام کی بہتری کیلئے دن رات دعاؤں میں مشغول رہنے کے علاوہ دور رس نتائج کے حامل مفید مشوروں سے راہنمائی کر رہا تھا.آج جب ہم تاریخ کے اوراق پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہم اپنے لئے انتہائی خوشی اور مسرت کا سامان پاتے ہیں کہ ہمارے مؤید مِنَ اللہ امام نے ان مشوروں میں انسانی فلسفہ اور تدبر کو پیش نہیں کیا تھا بلکہ اس کے الفاظ میں خدا کی تقدیروں کے اسرار و رموز کھلتے تھے اور ملائکہ کی فوجیں اس کی تائید میں ایسی لہریں چلاتی تھیں جو بالآخر اس کی سکیم کی کامیابی پر منتج ہوتی تھیں.حضور نے انڈو نیشیا کی آزادی کی اہمیت اور اس غرض کیلئے اس عظیم اسلامی ملک کی ہر ممکن مدد کی تحریک کرتے ہوئے اپنے بصیرت افروز بیان میں فرمایا :.” جو حالات آج کل ہمارے ملک میں پیدا ہو رہے ہیں یہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو پھر بیدار ہونا چاہئے اور اپنے مذہب کو ایسے مقام پر کھڑا کرنا چاہئے کہ وہ تمام مذاہب کو اپنے حملوں سے خاموش کرا دے...ہماری جماعت کو گو سیاست سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی ہم سیاسیات میں الجھ کر اپنی توجہ مذہبی کاموں سے پھیرنا چاہتے تھے لیکن بعض اوقات ہمیں حالات مجبور کر دیتے ہیں اور ہمارے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا کہ ہم سیاسیات میں حصہ لیں.ایسی حالت میں ہم مجبوراً حصہ لیتے ہیں.فرض کرو جب کہ ڈاکٹر مونجے کا خیال ہے کہ مسلمان ہندوستان سے نکل جائیں اور کسی وقت ہندو اکثریت یہ قانون بنادے کہ مسلمان ہندوستان سے چلے جائیں تو ایسی حالت میں احمدی بھی باقی مسلمانوں میں شامل سمجھے جائیں گے اور ان کو یہ اجازت
۱۵۹ نہیں ہوگی کہ وہ ہندوستان میں رہ جائیں اس قسم کے حالات میں ہمیں مجبور اسیاسیات کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے.اس وقت مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ کسی بات کا صحیح نقشہ ذہن میں نہیں رکھتے اور ان کی یہ عادت ہو چکی ہے کہ اول تو وہ سوچتے ہی نہیں اور اگر سوچیں تو پھر بالکل جذباتی سکیم سوچتے ہیں جس کا چلانا ان کے لئے ناممکن ہو جاتا ہے.اس وقت مسلمان نہایت پراگندگی اور تشتت کی حالت میں ہیں اور ان کی کنی قسمیں ہیں.یورپ کے مسلمان ایشیائی مسلمانوں سے بالکل الگ ہیں.گو ان کی تعداد ایشیائی ممالک کے مقابلہ میں بالکل کم ہے لیکن اگر وہ بھی ایشیائی مسلمانوں سے متحد ہوں تو اس اتحاد سے یورپین ممالک اور ایشیائی ممالک کے مسلمانوں کو بہت بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے.میرا خیال ہے کہ یورپین ممالک میں مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ کے قریب ہے.پولینڈ میں کئی لاکھ مسلمان ہیں، رومانیہ میں کئی لاکھ مسلمان ہیں ، اسی طرح یورپین ترکی اور یونان میں کئی لاکھ مسلمان ہیں ممکن ہے ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہوں لیکن یہ سمارے کے سارے مسلمان بے بسی کی حالت میں ہیں اور اسلامی تعلیم سے بالکل ناواقف ہیں.وہ مغربی تعلیم کو ہی اپنا لائحہ عمل سمجھتے ہیں اور اسلامی تعلیم سے اس قدر دور جا چکے ہیں کہ اسلامی تعلیم ان میں رسم و عادت بن کر رہ گئی ہے لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ وہ مرتد نہیں ہوئے وہ اپنی قوم مسلمان سمجھتے ہیں اور کوئی شخص اپنی قومیت تبدیل کرنا پسند نہیں کرتا اس لئے وہ بھی اسلام کو نہیں چھوڑتے اور یہ چیز ان کی حفاظت کر رہی ہے.وہ عملاً عیسائیت اور یورپ کے اصولوں پر کار بند ہیں لیکن جب ان کا سے پوچھا جائے کہ آپ کون ہیں تو فخریہ طور پر کہیں گے کہ ہم مسلمان ہیں.ان کے نزدیک اسلام ایک قوم کا نام ہے مذہب کا نام نہیں کیونکہ وہ مذہب کے متعلق تو جانتے ہی کچھ نہیں.وہ اسلام کے نام پر اکٹھے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمار ا سیاسی طبقہ اسلام کے نام سے ہی قائم رہ سکتا ہے.اس کے بعد جنوبی افریقہ ہے اس میں بڑی بھاری تعداد میں مسلمان ہیں.لیکن وہ بہت گری ہوئی حالت میں ہیں اور ان سے یہ امید نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی اسلامی ملک کی تائید میں شور مچائیں گے.شمالی افریقہ کے بعد مشرق قریب ہے جو ہمارے لحاظ سے مغرب ہے اس میں مصر کی حکومت ہے، شام کی حکومت ہے فلسطین، عرب اور عراق کی حکومتیں ہیں ایران، افغانستان کی حکومتیں ہیں ان سب
14.ممالک کی مجموعی آبادی چھ سات کروڑ ہے لیکن یہ سب تقسیم شدہ علاقے ہیں.مصر کی آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ کے قریب ہے یہ ایک خود مختار علاقہ ہے.پھر شام اور لبنان کے علاقے ہیں.شام تقریباً کلی طور پر اور بنان تقریباً نصف مسلمان ہے.یہ علاقے گو عربی تحریک سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن اپنی آزادی کو برقرار رکھنے پر مصر ہیں.پھر ٹر کی ہے اسے ان عربی علاقوں سے اس قدر اختلافات تھے کہ تقریباً بتیس سال سے وہ ان ممالک سے بالکل روٹھا رہا ہے.اب قدرے ترکی کے رویے میں تبدیلی واقع ہوئی ہے.تمام عربی علاقوں کو ملا لیا جائے تو ان کی آبادی دو اڑھائی کروڑ ہے لیکن صرف عربی ممالک میں مصر کے سواسات حکومتین ہیں ان میں سے بعض بعض کی رقیب ہیں اور وہ ایک دوسری سے پوری طرح تعاون کرنے کو تیار نہیں.ایران آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ملک ہے اور اس میں شیعیت کی وجہ سے اور دوسرے قومی تفرقہ وانشقاق کی وجہ سے ابھرنے کے سامان موجود نہیں اس سے بھی کسی اسلامی علاقہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.افغانستان سنی ہے لیکن چھوٹا ملک ہے اور تعلیم اور صنعت و حرفت میں بہت پیچھے اس سے بھی امید نہیں کی جاسکتی کہ باوجود اُبھرنے کے دوسرے ممالک کی حمایت کر سکے.روس کے مسلمانوں کے متعلق بھی فی الحال ابھرنے کی کوئی امید نہیں کیونکہ وہ ایک ایسی حکومت کے ماتحت ہیں جس نے ان کی مذہبی اور قومی آزادی چھین لی ہے اور ان کی ترقی کے راستے مسدود کر دیئے ہیں.ہندوستان میں مسلمان بھاری اقلیت میں ہیں اور یہاں کے مسلمان اس وقت ایسی پوزیشن میں ہیں کہ ان کی آواز غیروں کے مقابلہ میں کوئی خاص اثر نہیں رکھتی اور خصوصاً مسلمانوں کی غیر ملکی آواز تو نہ ہونے کے برابر ہے.غیر ملکی گورنمنٹوں پر اثر ڈالنے کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اکثریت ایک آواز کی تائید میں ہو ورنہ اقلیت کی آواز فارن ( Foreign) گورنمنٹوں پر کوئی اثر نہیں کرتی.چین میں آٹھ دس کروڑ کے قریب مسلمان ہیں اور تازہ یورپین اعداد و شمار کے لحاظ سے اڑھائی تین کروڑ مسلمان ہیں.بہر حال وہ ملک کی آبادی کا چھٹا ساتواں حصہ ہیں اس لئے غیر ممالک میں ان کی کوئی آواز نہیں.غرض جس قدر علاقے میں نے گنوائے ہیں ان میں سے آج ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں کے مسلمانوں کی آواز اثر پیدا کر سکتی ہے.ہندوستان کے مشرق میں انڈونیشیا
141 یعنی جاوا سماٹرا کے جزائر ہیں جن میں سات کروڑ کے قریب مسلمان ہیں.ان کی ایک ہی مل اور ایک زبان اور ایک ہی مذہب اسلام ہے.اسلامی دنیا میں یہ ایک حصہ ایسا ہے جہاں کی آبادی بھی اچھی ہے اور جو ایک قوم ہونے اور ایک زبان بولنے کے علاوہ آپس میں متحد ہونے کے خواہشمند ہیں.ملایا کا ملک بھی گوان سے الگ ہے مگر قوم اور بولی کے لحاظ سے ان سے ملتا ہے.وہاں بے شک چینی اور ہندوستانی آباد بھی ہیں مگر اصل ملک ملائیوں کا ہے.سماٹرا، جاوا بورنیو سب جزائر مسلمان ہیں.صرف جاوا میں ہی چار کروڑ مسلمان آباد ہیں.اس علاقہ میں کوئی دس ہزار کے قریب چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں جو کہ قریباً سارے کے سارے مسلمان ہیں.کوئی پانچ مربع میل کا ہے ، کوئی ہمیں مربع میل کا ہے ، کوئی پچاس مربع میل کا ہے ، کسی جزیرہ میں ہیں ہزار کی آبادی ہے کسی میں دس ہزار کی آبادی ہے کسی جزیرہ میں پانچ ہزار کی آبادی ہے ، کسی میں دو ہزار کی آبادی ہے ، کسی میں ایک ہزار کی آبادی ہے اور سینکڑوں جزیرے ایسے ہیں جن میں کوئی آبادی نہیں اور جہاں انام اور سیام ان جزائر سے ملتے ہیں وہاں بھی لاکھوں لاکھ مسلمان موجود ہیں.انڈونیشیا کے مسلمانوں نے اس لڑائی میں جو آزادی کے لئے وہاں لڑی جارہی ہے اپنے متحد ہونے کا بہت اچھا نمونہ پیش کیا ہے اور یہ ایسا نمونہ ہے جو ہمیں عربی ممالک میں بھی نظر نہیں آتا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ عرب کی حکومتیں مصر سے ملنے کو تیار نہیں، شامی حکومت فلسطین حکومت سے متحد ہونے کو تیار نہیں ، یمن کی حکومت نجد سے تعاون کرنے کو تیار نہیں غرض کوئی علاقہ کسی دوسرے علاقے کے ماتحت یا اس سے متحد ہونے کو تیار نہیں لیکن انڈونیشیا کے جزائر نے ایسی اعلیٰ خوبی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے دوسری اسلامی دنیا قاصر رہی ہے.ان کی ابھی تک آواز ایک ہے ان کی بولی ایک ہے ، مجھے افسوس ہے کہ باقی اسلامی ممالک اتحاد کی خوبی کو محسوس نہیں کرتے ان میں سے ہر ایک کی آواز جداگانہ رنگ رکھتی ہے.اب اگر چہ عربوں نے بین الاقوامی معاملات میں اتحاد پیدا کیا ہے لیکن اندرونی معاملات میں ابھی تک انشقاق اسی طرح جاری ہے.انڈونیشیا کے جزائر ہی موجودہ وقت میں ایسے ہیں جن کی آواز ایک ہے اور جو اندرونی اور بیرونی معاملات میں متحد نظر آتے ہیں.یہ سات کروز آبادی کے پانچ
۱۶۲ سات جزائر ایشیائی ممالک کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ ایشیائی ممالک کی کنجی سنگا پور ہے اور وہ بھی ان جزائر سے علیحدہ نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ نسل اور زبان کے لحاظ سے ان کا جزو ہے اور جس قوم کے ہاتھ میں سنگا پور ہو گا اگر وہ مضبوط ہو گا تو دوسرے ممالک لازمی طور پر اس سے صلح رکھنے پر مجبور ہو نگے.سماٹرا جاوا میں یہ تحریک چل رہی ہے اگر وہ کامیاب ہو جائے تو بعید نہیں کہ ملایا بھی ان کے ساتھ مل جائے.اگر ان جزائر کو آزادی مل جائے تو یہ جزائر اسلامی تعلیم کو پھیلانے اور اسلامی عظمت کو قائم کرنے میں بہت بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ باقی اسلامی ممالک نے ان جزائر کی تائید میں بہت کم آواز اٹھائی ہے.اور ان جزائر کی ہمدردی میں بہت کم حصہ لیا ہے.یہی ایک خطہ ہے جہاں پر مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ان میں اتحاد ہے.ان کی آواز ایک ہے مسلمانوں کو ایسے علاقہ کی امداد کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اور ان کی آزادی کا ڈچ حکومت سے مطالبہ کرنا چاہئے.اگر ان کو آزادی مل جائے تو ان کی آزادی سے باقی ممالک کو بھی بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں کیونکہ ساری دنیا میں صرف انڈو نیشیا ایک ایسا علاقہ ہے جس میں چھ سات کروڑ مسلمان ایک زبان بولنے والے اور ایک قوم کے بسنے والے ہیں اور جن کے علاقہ میں غیر لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں اور جن میں اتحاد کی روح اس وقت زور سے بیدار ہو رہی ہے.دنیا بھر میں اور کوئی علاقہ اسلامی مرکز ہونے کی اس قدر اہلیت نہیں رکھتا.پس اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اخباروں میں ، رسالوں میں اپنے اجتماعوں میں مسلمان اپنے بھائیوں کے حق میں آواز اٹھائیں اور ان کی آزادی کا مطالبہ کریں.اگر اب ان کی امداد نہ کی گئی اور اگر اب ان کی حمایت نہ کی گئی تو مجھے خدشہ ہے کہ ڈچ ان کی آواز کو بالکل دبا دیں گے.وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ انڈونیشیا کے شور پر قابو پالیں اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہو گئے ہیں.اور دنیا کی نظریں اب انڈونیشیا سے ہٹ گئی ہیں اور انڈونیشیا کے لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب ہم اکیلے رہ گئے ہیں.لیکن اگر دنیا میں ان کی حمایت میں اور ان کی تائید میں آوازیں بلند ہوں ایک شور برپا ہو جائے تو وہ دلیری اور بہادری سے مقابلہ کریں گے کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ ہم اکیلے نہیں لڑ رہے
بلکہ ہمارے کچھ اور بھائی بھی ہماری پشت پر ہیں.یہ انسانی فطرت ہے کہ جب تک انسان یہ سمجھتا ہے کہ کچھ لوگ اس کے مقابلہ کو دیکھ رہے ہیں تو وہ زیادہ جوش کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ میں اکیلا ہوں اور مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا تو اس کے جوش میں کمی آجاتی ہے.پس اگر انڈونیشیا کے لوگوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے کہ ہم تمہاری ہر قسم کی امداد کریں گے اور جہاں تک ممکن ہو گا ہم تمہارے لئے قربانی کریں گے اس آزادی کی جنگ میں آپ لوگ اکیلے نہیں لڑ رہے بلکہ ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہیں اور پھر جہاں تک ممکن ہو دنیا کے مسلمان اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی کوشش کریں تو وہ اپنی آزادی کے لئے بہت زیادہ جد وجہد کریں گے اور امید کی جاسکتی ہے کہ ان کو جلد آزادی مل جائے." اس وقت تمہارا عارضی صلح کر لینا تمہاری طاقت کو ضائع ہونے سے بچالے گا.فرض کرو اگر اس وقت ڈچ انڈو نیشیا کو چھوڑ کر چلے جائیں تو انڈو نیشیا میں اپنی طاقت نہیں کہ وہ بیرونی طاقتوں کا مقابلہ کر سکے اور یہ بات قرین قیاس بلکہ صاف طور پر نظر آتی ہے کہ دوسری مغربی قومیں انڈونیشیا میں دخل اندازی شروع کر دیں گی اور خصوصاً روس کی نظریں تو ہر وقت انڈو نیشیا کی طرف لگی رہتی ہیں کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ نے چینی سمندر کے بعض اڈوں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ ان سمندروں میں اپنا اثر و نفوذ پیدا کر رہے ہیں.روس یہ چاہتا ہے کہ سماٹرا جاوا پر میرا قبضہ ہو جائے اور اس طرح سے امریکہ اور برطانیہ کے اثر و نفوذ کو کم کر دوں اور ان کا مقابلہ کر کے ان سمندروں پر اپنا قبضہ جما سکوں.ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے ان کے مناسب حال یہ مشورہ دیا تھا کہ ہالینڈ والوں سے زیادہ سے زیادہ جتنی آزادی تمہیں مل سکتی ہے وہ لے لو اور پھر اپنی بری اور بحری طاقت کو بڑھانے کی کوشش کرو.پھر جب یہ طاقت تمہارے ہاتھوں میں آجائے گی تو پچاس ساٹھ لاکھ کی آبادی کے ملک کی طاقت کیا ہے کہ وہ سات کروڑ انسانوں پر حکومت کر سکے.میں سمجھتا ہوں کہ ایشیا کے مسلمانوں کا سیاسی مستقبل جاد ا سماٹرا کے مسلمانوں سے وابستہ ہے کیونکہ آج کسی ملک میں اتنی تعداد میں مسلمان متحد نہیں جتنی تعداد میں انڈونیشیا میں متحد ہیں اور دوسرے جو اہمیت ان جزائر کو بوجہ جزائر ہونے کے حاصل ہے وہ اور کسی ملک کو حاصل نہیں.بڑا جزیرہ ہونا بہت بڑی
145 طاقت کا موجب ہوتا ہے بوجہ سمندری راستوں کے وہ دوسرے ملکوں سے زیادہ تعلق پیدا کر سکتا ہے اور اسے بڑی حد تک قدرتی حفاظت کے سامان ملے ہوئے ہیں.علاوہ از میں باقی ممالک میں سے کوئی ملک بھی ایسا نہیں جس پر مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہو جس کی وجہ سے اس کی غیر ملکی آواز مسلمانوں کے حق میں مفید ہو سکے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں چین اور ہندوستان کے مسلمان اپنے اپنے ملک میں اقلیت میں ہیں اس لئے باوجود تعداد میں انڈونیشیا کے مسلمانوں سے زیادہ ہونے کے ان کی آواز نہ ملک کے انتظام میں اور نہ غیر ملکی تعلقات میں کوئی خاص اثر پیدا کر سکتی ہے.ایران اور افغانستان چھوٹے چھوٹے ملک ہیں اور تعلیم میں اتنے پیچھے ہیں کہ ان کی آواز کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتی.نیز نیشنل و ہلتھ (National Wealth) ان کی زیادہ نہیں ہے لیکن جاوا سماٹرا کو وہ ذرائع حاصل ہیں.گو قوم چھوٹی ہے اور مختلف جزائر میں بٹی ہوئی ہے لیکن سب جزائر پاس پاس ہیں اور بعض جزائر تو اتنے بڑے ہیں کہ اس علاقہ کی آبادی آسانی سے چودہ پندرہ کروڑ تک بڑھائی جاسکتی ہے"." پھر سب ایک مقصد کے لئے متحد ہیں اور اپنے اندر تفرقہ اور انشقاق کو کسی صورت میں جگہ دینے کو تیار نہیں.ہالینڈ والوں نے انتہائی کوشش کی ہے کہ انڈونیشیا کے لوگ اتفاق کو چھوڑ دیں اور پراگندہ ہو جائیں لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے.اگر سماٹرا جاوا والوں کو آزادی مل جائے تو ارد گرد کے چھوٹے جزیرے بھی ان کا اثر ماننے کے لئے بہت جلد تیار ہو جائیں گے.اب بھی یہ حالت ہے کہ انڈونیشیا میں ہی جب بعض جزائر میں جاتے ہیں تو لوگ ان کے ساتھ مل کر بغاوت کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور ڈچ اثر کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں.اگر جاو اسماٹرا والوں کو آزادی مل جائے تو یہ یقینی بات نظر آ رہی ہے کہ باقی جزائر والے مسلمان بھی ان سے مل جائیں گے." اس پس منظر اور ان علاقوں کی آزادی کی اہمیت بیان کرنے کے بعد حضور ان امور کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں جو ان علاقوں کی آزادی کے حصول میں مفید اور مؤثر ہو سکتے ہیں.جاوا سماٹرا والوں کو آزادی دلانے کیلئے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کے مسلمان ان کی آزادی کیلئے آواز اٹھائیں.مجھے امید ہے کہ اگر یہ ملک آزاد "
۱۶۵ ہو جائے تو اسلامی عظمت اور شوکت کا ذریعہ بن سکتا ہے اور اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے آج اس امر کے متعلق خطبہ دیا ہے تاکہ ہماری جماعت جو اندرون ہندیا بیرون ہند میں ہے اس بات کو ہر وقت مد نظر رکھے اور ہمارے مبلغ جو مختلف ممالک میں ہیں اس آواز کو بلند کرنے کی کوشش کریں اور مختلف رسالوں اور اخباروں میں انڈونیشیا کی تائید میں مضامین لکھیں.ہمارے اپنے اخباروں اور رسالوں کا فرض ہے کہ وہ اس آواز کو جہاں تک ممکن ہو بار بار اٹھاتے رہیں تاکہ ہمارے اخباروں اور رسالوں کی آواز جتنے مسلمانوں تک پہنچ سکے وہ انڈونیشیا کی آزادی کی حمایت کرنے لگ جائیں یہ بات مسلمانوں کے سامنے بار بار آتی رہنی چاہئے.باہر کے مبلغوں کو بھی چاہئے کہ اپنے اپنے علاقوں سے اس آواز کو بار بار اُٹھاتے ہیں.وقتاً فوقتاً ہمارے اخباروں اور رسالوں میں ایسے مضامین چھپتے رہنے چاہئیں کہ جاوا سماٹرا کے لوگ اس بات کے حق دار ہیں کہ ان کو آزادی دی جائے.تعلیم اور دوسری صنعت و حرفت کے لحاظ سے وہ ترقی یافتہ ملک ہے اور اتنی بڑی قوم ہے اور اس کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ ڈچ جیسی چھوٹی قوم کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان پر حکومت کرے.غیر حکومت کی موجودگی کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ اس ملک کی حفاظت کر سکے لیکن ڈچ حکومت اس قابل نہیں کہ وہ انڈو نیشیا کو غیروں کے حملہ سے بچا سکے.برطانیہ بے شک باوجود ایک چھوٹی سی قوم ہونے کے اور باوجود اتنے فاصلہ کے ہندوستان کی حفاظت کر رہی ہے لیکن ڈچ یہ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس نہ اس قدر حفاظت کے سامان ہیں نہ ہی ان کی اتنی تعداد ہے کہ وہ کسی بڑی طاقت کا مقابلہ کر سکیں.اسی طرح ڈچ کی حکومت اور انڈو نیشیا کے لوگ نہ ہی ہم مذہب ہیں نہ ہی ہم قوم کہ انہیں حکومت کا حق حاصل ہو.پس جب ان وجوہات میں سے کوئی وجہ بھی موجود نہیں جو کسی قوم کو دوسری قوم پر حکومت کا حق دیتی ہے کیونکہ نہ ہی ڈچ حکومت انڈو نیشیا کی حفاظت کر سکتی ہے نہ ہی وہ ان کی ہم قوم یا ہم مذہب ہے تو ایسی حالت میں ڈچ حکومت کا انڈونیشیا کو آزادی نہ دینا سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں رکھتا کہ وہ اپنی اور جاوا سماٹرا والوں کی طاقت کو ختم کرنا چاہتی ہے.بجائے اس کے کہ کشمکش کے ذریعے ایک دو سرے کی طاقت کو کمزور کیا جائے ڈچ حکومت کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں سے اتحاد کر کے ان کو آزاد کر دے تاکہ وہ
ایک دوسرے کی ترقی کا موجب ہوں.جاوا سماٹرا والے نام کے طور پر ڈچ حکومت کو ہی اپنا حاکم سمجھ لیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ جب تک انڈونیشیا طاقت پکڑلے کوئی اور حکومت حملہ کر کے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کرے." ان مسلم علاقوں کو آزادی نہ ملنے کے نقصانات بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.پس اس قسم کے مضامین بار بار اخباروں میں لکھے جائیں اور ڈچ حکومت کو بتایا جائے کہ اگر وہ انڈو نیشیا کو آزاد نہ کرے گی تو خطرہ ہے کہ وہاں کمیونزم پھیل جائے گاجو تمام دوسری حکومتوں کے لئے مضر ہو گا.اس وقت امریکہ اور برطانیہ کمیونزم کے سخت دشمن ہیں ان کو اس وجہ سے توجہ پیدا ہوگی اور ڈچ حکومت کو سمجھوتہ کیلئے مجبور کریں گے.یورپ میں باقی ممالک کے علاوہ ہالینڈ والوں کو خاص توجہ دلانی چاہئے کہ تمہارا جاوا سماٹرا کو آزاد کرنا تمہارے لئے کمزوری کا باعث نہیں ہو گا.بلکہ تقویت کا موجب ہو گا....ہالینڈ والوں کو سمجھایا جائے کہ انڈونیشیا والے غیر زبانوں میں سے صرف ڈچ زبان بولتے ہیں اس لحاظ سے بھی وہ تم سے الگ نہیں ہو سکتے.اور انڈو نیشیا والے یوں بھی تم سے الگ نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے کئی لیڈروں نے ڈچ عورتوں سے شادی کی ہوئی ہے اور ہالینڈ میں تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور جس قدر اس ملک میں تعلیم یافتہ ہیں وہ ڈچ زبان بولتے اور لکھتے ہیں اور اس قسم کے تعلقات منقطع کرنا بہت مشکل ہو تا ہے.اگر تم محبت اور صلح کے ساتھ ان کو آزاد کرو گے تو ان کے دلوں میں تمہارے لئے محبت کے جذبات پیدا ہونگے اور اگر تم ان پر ظلم و تعدی کرو گے تو آزاد ہونے کے بعد ان کے دلوں میں تمہارے خلاف سخت بغض ہو گا کیونکہ ایک شخص سے اس کا بھائی لڑے تو اس کے دل میں اس کے خلاف بہت زیادہ بغض پیدا ہوتا ہے چونکہ وہ کہتا ہے کہ بھائی ہو کر اس نے مجھ پر ظلم کیا غیر کرتا تو مجھے افسوس نہ ہو تا.اس طرح اگر ڈچ انڈونیشیا کو آزاد نہ کر سکے تو ان کے خلاف ان کا بغض شدید ہو گا کیونکہ ہالینڈ نے اس ملک سے سینکڑوں سال فائدہ اٹھایا ہے.اتنا لمبا عرصہ فائدہ اٹھانے کے بعد بھی اور اتنے تعلقات کے بعد بھی وہ جو جونک کی طرح چمٹے رہیں گے تو دلوں میں بغض زیادہ پیدا ہو گا.لیکن اگر ڈچ حکومت انڈونیشیا والوں سے صلح کر لے اور ان کے مطالبات مان لے تو یہ اس کی تقویت کا موجب ہو گا اس کی کمزوری کا موجب نہ ہو گا کیونکہ پرانے تعلقات کی وجہ سے
146 یقیناً انڈونیشیا کی حکومت سب سے زیادہ ہالینڈ کے ساتھ تعلق رکھے گی اور اپنے طبعی ذرائع کی فراوانی کی وجہ سے جب طاقت پکڑے گی تو یقینا ہالینڈ کی مدد کیلئے اس طرح تیار رہے گی جس طرح امریکہ انگلستان کی مدد کیلئے تیار رہتا ہے.جماعت اپنے اخباروں اور رسالوں میں ان کی آزادی کی آواز اٹھاتی رہے اور دوسرے مسلمانوں میں بھی ان کے متعلق ہمدردی کے جذبات پیدا کرے.اس وقت حالت یہ ہے کہ ڈچ حکومت مغربی ممالک کی مدد لے کر جاوا اور سماٹرا کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے اگر وہ اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہو کامیاب ہو گئی تو یہ چھ سات کروڑ مسلمان بھی غلامی کی زنجیروں میں پھنس جائیں گے اور اگر ہماری جماعت ان کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئی تو جماعت کا یہ پہلا قدم ہو گا جو اسلام کی سیاسی مضبوطی کا موجب ہو گا." (الفضل ۲۷.اگست ۱۹۴۶ء) دنیائے اسلام کیلئے اسرائیل کا قیام ایک ناسور کی طرح ہے جو مخالف اسلام مسئله فلسطین استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے سرطان کے زخم کی طرح اپنی نقصان رسانی اور فتنہ آشامی میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے.اس انتہائی خوفناک سازش کو حضور نے شروع میں ہی بھانپ لیا اور ۱۹۴۵ء میں اپنے ایک خطاب میں آپ نے سورۃ ص کے دوسرے رکوع کی تفسیر بیان کرنے کے بعد فرمایا :- کل جب میں نماز پڑھ رہا تھا یہ آیات میرے قلب پر نازل ہو ئیں اور بتایا گیا کہ ان میں موجودہ زمانہ کے متعلق پیشگوئی ہے.دراصل یہود کی سلطنت کا قیام حضرت داؤد علیہ السلام کے ذریعے ہوا یہی وجہ ہے کہ یہودیوں میں داؤد کا تخت " اور " داؤد کا ورثہ " کے الفاظ بطور تمثیل رائج ہیں.پھر حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق بھی داؤد کے تخت پر بیٹھنے کا ذکر آیا ہے.قرآن کریم نے ان آیات میں ایک پیشگوئی کی جو اس آخری زمانہ کے متعلق تمثیلی بھی ہے اور رویا بھی.اس میں خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ داؤد کی نسل سے تعلق رکھنے والے یا اس پر ایمان لانے والے (جو یہودی بھی ہیں اور عیسائی بھی) ان کے پاس ننانوے حصے دنیا کی طاقت ہوگی اور ان کے مقابلہ میں رسول اکرم میں اہل علم کی امت کے پاس صرف ایک حصہ رہ جائے گی مگر پھر بھی یہ لوگ ریشہ دوانیاں کریں گے کہ وہ ایک حصہ بھی ان کے تصرف میں آجائے...یورپ
۱۶۸ کے لوگوں نے جن ملکوں کو گزشتہ جنگ کے بعد اپنے تصرف میں لیا ہے ان کے متعلق Mandate کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور Mandate کا ترجمہ کفالت ہے اور آج کل فلسطین کے متعلق یہی لفظ استعمال کیا جاتا ہے.پس ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ فلسطین کے متعلق عیسائی اور یہودی مسلمانوں سے یہ کہیں گے کہ یہ بھی ہمیں دے دو.چنانچہ اب صدر ٹرومین تاریں دے رہے ہیں کہ یہود کو فلسطین میں آباد ہونے دیا جائے.وہ خود اکاون لاکھ مربع میل کے ملک پر قابض ہیں مگر اپنے ہاں یہودیوں کو آباد نہیں ہونے دیتے اور فلسطین کا علاقہ ۲۵٬۲۴ ہزار زیادہ سے زیادہ ۵۰ ہزار مربع میل ، سمجھ لو اور اس طرح ممکن ہے کہ ننانوے اور ایک کی ہی نسبت ہو یہود کے آباد کرنے پر زور دے رہے ہیں.وہ یہ نہیں کہتے کہ یہودی ہمارے ہاں آبسیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہود کو فلسطین میں داخل ہونے دوورنہ ہمارے یہود کہاں جائیں.یہ کہتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی اور دنیا میں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ نانوے گنا زیادہ علاقہ رکھتے ہوئے امریکہ ننانوے گناہ زیادہ علاقہ رکھتے ہوئے آسٹریلیا اور نانوے گنا زیادہ علاقہ کی کالونیز (Colonies) رکھتے ہوئے انگریز کیوں یہود کو اپنے ممالک میں بسانے کیلئے تیار نہیں اور سو میں سے ایک حصہ جس کے پاس ہے اسے کہتے ہیں کہ یہود کو اپنے ہاں بسنے دو.“ الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحه ۲) حضرت فضل عمر نے قرآنی ارشادات کی روشنی میں جو بیان دیا تھا اس کی گونج امریکہ کے ایوان حکومت میں سنی گئی اور امریکی سینٹ کے ایک ممبر نے اپنی حکومت کے وزیر خارجہ کو لکھا ایوان حکومت میں سی گئی اور امریکہ کو فلسطین کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ وہ فلسطین میں یہود ریاست قائم کرنے کے متعلق امریکن گورنمنٹ کی کوششوں کے خلاف سینٹ میں مخالفت کریں گے.انہوں نے کہا میں یہ بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ امریکہ کو فلسطین میں کسی قسم کی ریاست قائم کرنے کے سلسلہ میں کوئی سروکار نہیں.اگر ہم نے فلسطین میں یهود ریاست بنانے کا ارادہ کیا تو ہمیں ان تمام طاقتوں سے اس ریاست کی حفاظت کرنی پڑے گی جو اس کے قیام کے خلاف ہیں." یہ تحریک تو امریکہ سے شروع ہوئی ہے جو فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرنے کے متعلق
149 سب سے زیادہ زور دے رہا تھا.ایک اور تحریک جس کی اطلاع ۲۹.اکتو بر کولندن سے شائع ہوئی ہے.برطانیہ اور امریکہ کے خلاف نیوز آف ورلڈ کے نامہ نگار نے یروشلم سے شائع کی.چنانچہ اس نے لکھا کہ :.فلسطین میں یہودیوں کی ریاست بنانے سے برطانیہ کو وہ تمام اڈے حاصل ہو جائیں گے جن کی اسے ضرورت ہے اور جن کی مدد سے وہ نہر سویز کا محافظ بن سکتا ہے.اس صورت میں فلسطین کے برطانوی نو آبادی بن جانے کا بھی امکان ہے.اس کے عکس اگر ۱۹۳۹ء کے قرطاس ابیض پر عمل کیا گیا تو اس صورت میں یہودی اپنے مستقبل کو عربوں کے مستقبل سے وابستہ کر دیں گے اور وہ اہل برطانیہ کو سارے مشرق وسطی اور ہندوستان سے بھی مٹانے کیلئے راہنمائی کریں گے.فلسطین کے مسئلہ کے متعلق نہ صرف برطانیہ اور امریکہ کے تمام لوگوں کو گمراہ کیا گیا ہے بلکہ ذمہ دار افسروں کو بھی فلسطین کے صحراؤں میں یورپ کے ہر ایک یہودی کو آباد کرنے کیلئے کونسی دلیل دی جارہی ہے.اگر امریکہ میں رہنے والے دس یہود کنبوں میں سے ایک کنبہ کو ایک یہودی کو پناہ دینے کی اجازت دے دی جائے تو ایک لاکھ یہودیوں کے متعلق صدر ٹرومین کا مسئلہ حل ہو جائے گا.یہودی کنبے پناہ دینے سے انکار نہ کریں گے.صدر ٹرومین کو امریکہ میں یہودیوں کے داخلہ پر سے پابندیاں دور کر دینی چاہئیں.ہر ایک اتحادی ملک اپنی طاقت کے مطابق یہودیوں کو داخلہ کے اجازت نامے دے." الفضل ۳.نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ - ۲) یہ خبریں شائع کرتے ہوئے اخبار شہباز نے یہ عنوان رکھا ہے کہ ”یہودیوں کو امریکہ میں آباد کیوں نہیں کیا جاتا." الفضل ۳.نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۱.۲) اس طرح اللہ تعالٰی نے ایسے ذرائع مہیا فرما دیئے کہ حضور نے جو کچی اور کھری بات امریکہ کے صدر کو سنائی تھی اس کی عام شہرت ہو گئی.فلسطین کا مسئلہ دن بدن زیادہ پیچیدہ ہو تا جارہا تھا.عالمی طاقتیں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بجائے اپنی مصلحت کے پیش نظر سراسر ظلم و تعدی سے کام لیتے ہوئے میحونی پودے کو پروان چڑھانے کے درپے تھیں.حضور اس تکلیف دہ حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.
14' ” وہ دن جس کی خبر قرآن کریم اور احادیث میں سینکڑوں سال پہلے سے دی گئی تھی ، وہ دن جس کی خبر تو رات اور انجیل میں بھی دی گئی تھی، وہ دن جو مسلمانوں کے لئے نهایت ہی تکلیف دہ اور اندیش ناک بتایا جاتا تھا معلوم ہوتا ہے کہ آن پہنچا ہے.فلسطین میں یہودیوں کو پھر بسایا جا رہا ہے.امریکہ اور روس جو ایک دو سرے کا گلا گھونٹنے پر آمادہ ہو رہے ہیں اس مسئلہ میں ایک بستر کے دو ساتھی نظر آتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے میں بھی یہ دونوں متحد تھے.دونوں ہی انڈین یونین کی تائید میں تھے اور اب دونوں ہی فلسطین کے مسئلے میں یہودیوں کی تائید میں ہیں.آخر یہ اتحاد کیوں ہے ؟ دونوں دشمن مسلمانوں کے خلاف اکٹھے کیوں ہو جاتے ہیں؟ اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں مگر شاید ایک جواب جو ہمارے لئے خوشکن بھی ہے زیادہ صحیح ہو.یعنی دونوں ہی اسلام کی ترقی میں اپنے ارادوں کی پامالی دیکھتے ہوں.جس طرح شیر کی آمد کی بُو پا کر کتے اکٹھے ہو جاتے ہیں شاید اس طرح یہ اکٹھے ہو جاتے ہیں.شاید یہ دونوں ہی اپنی دور بین نگاہوں سے اسلام کی ترقی کے آثار دیکھ رہے ہیں، شاید اسلام کا شیر جو ابھی ہمیں سو تا نظر آتا ہے، بیداری کی طرف مائل ہے ، شاید اس کے جسم پر خفیف سی کپکپی وارد ہو رہی ہے جو ابھی دوستوں کو تو نظر نہیں آتی مگر دشمن اس کو دیکھ چکا ہے.اگر یہ ہے تو حال کا خطرہ مستقبل کی ترقی پر دلالت کر رہا ہے مگر ساتھ ہی مسلمانوں کی عظیم الشان ذمہ داریاں بھی ان کے سامنے پیش کر رہا ہے." یہودیوں کے اسلام دشمنی کے واقعات بیان کرنے کے بعد حضور تمام مسلمانوں کو غیرت دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:." کیا یہ معاملہ صرف عرب سے تعلق رکھتا ہے.ظاہر ہے کہ نہ عربوں میں اس مقابلہ کی طاقت ہے اور نہ یہ معاملہ صرف عربوں سے تعلق رکھتا ہے.سوال فلسطین کا نہیں سوال مدینہ کا ہے، سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے سوال زید اور بکر کا نہیں سوال محمد رسول اللہ صلی الہ و سلم کی عزت کا ہے.دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہو گیا ہے کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکٹھا نہیں ہو گا.امریکہ کا روپیہ اور روس کے منصوبے اور ہتھکنڈے دونوں ہی غریب عربوں کے مقابل پر جمع ہیں.جن طاقتوں کا مقابلہ جرمنی نہیں کر سکا عرب قبائل
121 کیا کر سکتے ہیں.ہمارے لئے یہ سوچنے کا موقع آگیا ہے کہ کیا ہم کو الگ الگ اور باری باری مرنا چاہئے یا اکٹھے ہو کر فتح کے لئے کافی جد و جہد کرنی چاہئے.میں سمجھتا ہوں وہ وقت آگیا ہے جب مسلمانوں کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ یا تو وہ ایک آخری جدوجہد میں فنا ہو جائیں گے یا کلی طور پر اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا خاتمہ کر دیں گے.مصر شام اور عراق کا ہوائی بیڑا سو ہوائی جہازوں سے زیادہ نہیں.لیکن یہودی اس سے دس گنا بیژه نهایت آسانی سے جمع کر سکتے ہیں اور شاید روس تو ان کو اپنا بیڑہ نذر کے طور پر پیش بھی کر دے." آخر میں حضور نے تمام مسلمانوں کو آئندہ کا لائحہ عمل بتاتے ہوئے فرمایا:." آج ریزولیوشنوں سے کام نہیں ہو سکتا، آج قربانیوں سے کام ہو گا.اگر پاکستان کے مسلمان واقع میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنی حکومت کو توجہ دلائیں کہ ہماری جائیدادوں کا کم سے کم ایک فیصدی حصہ اس وقت لے لے.ایک فیصدی حصہ سے بھی پاکستان کم سے کم ایک ارب روپیہ اس غرض کیلئے جمع کر سکتا ہے اور ایک ارب روپیہ سے اسلام کی موجودہ مشکلات کا بہت کچھ حل ہو سکتا ہے.پاکستان کی قربانی کو دیکھ کر باقی اسلامی ممالک بھی قربانی کریں گے اور یقیناً پانچ چھ ارب روپیہ جمع ہو سکے گا جس سے فلسطین کیلئے باوجود یورپین ممالک کی مخالفت کے آلات جمع کئے جاسکتے ہیں.ایک روپیہ کی جگہ پر دو دو روپیہ کی جگہ پر تین ، تین روپیہ کی جگہ پر چار اور چار روپیہ کی جگہ پر پانچ خرچ کرنے سے کہیں نہ کہیں سے چیزیں مل جائیں گی.یوروپین لوگوں کی دیانتداری کی قیمت ضرور ہے خواہ وہ قیمت گراں ہی کیوں نہ ہو.انہیں خریدا ضرور جا سکتا ہے خواہ بڑھیا بولی پر مگر بولی دینے کے لئے جیب بھی بھری ہوئی ہونی چاہئے.پس میں مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس نازک وقت کو سمجھیں اور یاد رکھیں کہ آج رسول کریم ملی ایر کا یہ فرمان کہ الْكُفَرُ مِلَّةَ وَاحِدَةُ لفظ بلفظ پورا ہو رہا ہے.یہودی اور عیسائی اور دہریہ مل کر اسلام کی شوکت کو مٹانے کے لئے کھڑے ہو گئے ہیں.پہلے فرداً فرد ایو رو پین اقوام مسلمانوں پر حملہ کرتی تھیں مگر اب مجموعی صورت میں ساری طاقتیں مل کر حملہ آور ہوئی ہیں.آؤ ہم سب مل کر ان کا مقابلہ کریں کیونکہ اس معاملے میں ہم میں کوئی اختلاف نہیں.پس ہمیں چاہئے اپنے عمل سے اپنی قربانیوں سے اپنے اتحاد سے اپنی
۱۷۲ دعاؤں سے اپنی گریہ وزاری سے اس پیشگوئی کا عرصہ تنگ سے تنگ کر دیں اور فلسطین پر دوبارہ محمد رسول اللہ ملی و ایم کی حکومت کے زمانہ کو قریب سے قریب تر کر دیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم ایسا کر دیں تو اسلام کے خلاف جو رو چل رہی ہے وہ الٹ پڑے گی.عیسائیت کمزوری و انحطاط کی طرف مائل ہو جائے گی اور مسلمان پھر ایک دفعہ بلندی اور رفعت کی طرف قدم اٹھا ئیں گے.شاید یہ قربانی مسلمانوں کے دل کو بھی صاف کر دے اور ان کے دل بھی دین کی طرف مائل ہو جائیں ، پھر دنیا کی محبت ان کے دلوں سے سرد ہو جائے ، پھر خدا اور اس کے رسول میلی لی اور اس کے دین کی عزت اور احترام پر آمادہ ہو جائیں اور ان کی بے دینی دین سے اور ان کی بے ایمانی ایمان سے اور ان کی سستی چستی سے اور ان کی بد عملی معنی پیم سے بدل جائے." الفضل ۲۰- مئی ۱۹۴۸ء صفحه ۴۴۳) یہ مضمون ایک ٹریکٹ کی شکل میں مختلف زبانوں میں وسیع پیمانہ پر شائع کیا گیا.عرب دنیا نے اسے بہت پسند کیا.عراق کے ایک اخبار نے لکھا." ہمیں ایک ٹریکٹ ملا ہے جو بغداد میں طبع ہوا ہے.جس میں حضرت مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان کے ایک پر جوش خطبہ کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے نام نهاد اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے اعلان کے بعد لاہو ر پاکستان میں پڑھا.اس خطبہ کا عنوان ہے الْكُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَةً جن دوستوں نے اس مفید ٹریکٹ کو شائع کیا ہے.ہم ان کی دینی غیرت اور مساعی کا شکریہ ادا کرتے ہیں." روزنامه الشوری بغداد ۱۸ جون ۱۹۴۸ء الفضل ۱۷.جولائی ۱۹۴۸ء) حضور کے اس بروقت اور انتہائی ضروری انتباہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور عرب اخبار لکھتا ہے.تطبة ہمیں ایک ٹریکٹ موصول ہوا ہے جو حضرت مرزا محمود احمد صاحب کے ایک مشتمل ہے.اس میں خطیب نے تمام مسلمانوں کو اتحاد کی طرف دعوت دی ہے اور صیحونی مجرموں کے چنگل سے فلسطین کو نجات دلانے کے لئے ٹھوس اور مؤثر کام کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.اور اہل پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطین کے عربوں کی مساعدت کے لئے جلدی کریں اور رسول کریم میر کی یاد دلاتے ہوئے اور
۱۷۳ قرآن مجید کی آیات سے استشہاد کرتے ہوئے مسلمانوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ مجرم میحونیوں کے سیلاب کے مقابلہ کے لئے ایک صف میں کھڑے ہو جائیں.جن کی امریکہ اور کمیونسٹ روس اپنی مصالح اور خاص اغراض کے ماتحت مدد کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ ضعف اور کمزوری کا اظہار نہ کریں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے جہاد کے سلسلے میں جو فرض ان پر عائد ہوتا ہے اسے اپنے سامنے رکھیں.یہ ایک نہایت عمدہ خطبہ ہے اور فلسطینی مسلمانوں کے حق میں نہایت اچھا پروپیگنڈہ ہے.ہم اللہ تعالٰی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری نیک آرزؤں اور عمدہ خواہشات کو جو ہمارے دین کے لئے ہمارے دلوں میں موجزن میں متحقق کرے.آمین" ( روزنامه النهضه ۱۲.جولائی ۱۹۴۸ الفضل اگست ۱۹۴۸ء) اس کے علاوہ الیوم الف باء الكفاح الفيحاء، الاخبار، القبس، النصر، اليقظه، صوت الاحرار اور الاردن وغیرہ اخبارات و رسائل نے حضور کے تجویز فرمودہ لائحہ عمل کی تعریف میں اداریئے تحریر کئے.ملک شام کے ریڈیو نے اس مضمون کا خلاصہ نشر کر کے اس تجویز کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا دیا.فلسطین کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا، فلسطینی.طینی در بدر ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں اسرائیلی مظالم کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ، مسلم خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے ، بچوں اور عورتوں تک کی جان و عزت محفوظ نہیں ہے مگر جس اتحاد اور اجتماعی قربانی کی طرف مسلمانوں کو بلایا گیا تھا اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے.یہ مسئلہ ضرور حل ہو گا ارض مقدسہ ہمیشہ کے لئے عِبَادِی الصَّالِحُونَ" کے قبضہ میں آئے گی مگر اتحاد قربانی اور دلی دعاؤں کے اسی طریق پر عمل کرنے سے جو خدا کے ایک بندے نے ایک عرصہ قبل بیان کیا تھا.کیونکہ اس طریق کو چھوڑ کر دوسرے طریقوں پر عمل کر کے ناکامی اور ذلت کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوا.موجودہ حالات میں عالم اسلام کی حیثیت اور اس کا بہتر مستقبل کیلئے مفید تجاویز مستقبل " کے موضوع پر پاکستانی عدیہ کے مایہ ناز حج آنریبل جسٹس ایس اے رحمان کی صدارت میں خطاب فرماتے ہوئے حضور نے مندرجہ ذیل بیش قیمت تجاویز پیش فرما ئیں.
ICM ا.جب اسلامی ممالک سے معاملہ پڑنے پر یورپ خود ان کی ایک جداگانہ حیثیت قرار دے دیتا ہے تو کیوں نہ اسلامی ممالک سچ سچ آپس میں ایک قسم کا اتحاد پیدا کر کے صحیح معنوں میں ایک عالم اسلام قائم کر لیں جس کا ہر ایک رکن اپنے ملک کی قومیت کے علاوہ اپنے آپ کو ایک بڑی قومیت یعنی عالم اسلام کا رکن قرار دے.۲.اسلامی ممالک کو باہمی رقابتیں دور کر کے ایک دوسرے کی خاطر قربانی کرنے کا جذ بہ پیدا کرنا چاہئے.۳.اسلامی ممالک کے باشندوں کو ایک دوسرے کے ملک میں بکثرت آنا جانا چاہئے اس سلسلہ میں نوجوانوں کو سوسائٹیاں قائم کر کے اجتماعی طور پر کوشش کرنی چاہئے.۴.اسلامی ممالک کو ایک دو سرے سے بکثرت تعلقات قائم کرنے چاہئیں.۵.جن علاقوں کے مسلمان نسبتاً زیادہ پس ماندہ ہیں.مثلا مغربی اور مشرقی افریقہ وغیرہ وہاں ہمیں امدادی انجمنیں قائم کر کے ان کی مدد کرنی چاہئے.قرآن کریم نے اسلام کی ترقی کا سب سے بڑا گر تبلیغ اسلام بیان فرمایا ہے ہمیں اس کی طرف توجہ دینی چاہئے.ان تجاویز میں سے اکثر پر بہت عرصہ گزرنے کے بعد کسی قدر عمل کیا گیا اور اس کے اچھے نتائج بھی حاصل ہوئے.اگر پوری طرح ان پر عمل کیا جاتا تو عالم اسلام کی طاقت اور اس کے نتیجہ میں فوائد وبرکات میں کہیں زیادہ اضافہ ہو سکتا تھا.
ملی خدمات.برصغیر مسلم مفاد کا ہر ممکن طریق پر خیال رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا آل مسلم پارٹیز کانفرنس حضرت فضل عمر کی ترجیحات میں بنیادی امر تھا.آپ کی سیرت کے نمایاں نقوش کو ہم مختلف نام دے سکتے ہیں مگر بہ نظر غور دیکھنے سے یہی ثابت ہو گا کہ ہر کام میں ہر مہم میں ، ہر مشن میں ، ہر سکیم میں ایک ہی عظیم جذبہ کار فرما ہے اور وہ خدمت اسلام کا جذبہ ہے.کم علمی اور کم فہمی یا تعصب کی وجہ سے کوئی اس امر سے انکار کرے تو کرے مگر امر واقع یہی ہے کہ ہر موقع جہاں اسلام بانی اسلام یا قرآن مجید کے متعلق کسی نے کوئی غلط بات کی اس کی تردید و تصحیح کیلئے سب سے پہلے بولنے والی زبان امام جماعت احمدیہ کی ہی ہوتی تھی ، جہاں اسلام یا بانی اسلام کیلئے کوئی خطرہ پیدا کیا جاتا سب سے پہلے سینہ سپر ہونے والا میرا آقا ہی ہو تا تھا.اس کی متعدد شاندار مثالیں آپ کی سوانح میں نظر آتی ہیں مگر میرے جیسے بیچ مدان لکھنے والے کی تو کیا مجال ہے اچھے سے اچھا قادر الکلام نثر نگار یا شاعر بھی خدمت اسلام اور مسلمانوں کی ہمدردی کے اس جذبہ کی تصویر کشی جو حضرت فضل عمر کے قلب صافی میں موجزن تھا نہیں کر سکتا.یہ اس زمانے کی بات ہے جب مسلم لیگ ابھی عوام تک نہیں پہنچ پائی تھی.مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈر بھی مایوسی و بد دلی سے دوچار تھے بعض دردمند مسلم اکابرین نے " آل مسلم پارٹیز کانفرنس کی بنیاد رکھی.اس کے اجزائے ترکیبی کچھ اس طرح تھے کہ تمام کو نسلوں کے منتخب ارکان اسمبلی کے منتخب نمائندگان کونسل آف سٹیسٹ کے مسلم ارکان اس کے علاوہ میں ممبر کے ہیں جمعیۃ العلماء کے ، میں خلافت کمیٹی کے اور تمہیں ہندوستان کے عام شہرت رکھنے والے لیڈر.کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسلم لیگ کیلئے زمین کی تیاری تھی کیونکہ جیسے ہی مسلم لیگ ایک فقال شکل میں ظاہر ہوئی یہ کانفرنس از خود اس میں ضم ہو گئی.مسلمانوں کی تنظیم و اتحاد کی کوششوں کے سلسلہ میں حضور کا مندرجہ ذیل ارشاد بڑی اہمیت کا حامل ہے.
144 ”میرے نزدیک اس کا بہترین علاج یہ ہو سکتا ہے کہ تمام ممبروں کو جو قوم کے نمائندہ ہوں یا قوم کی نمائندگی کو تسلیم کرلیں ایک نظام میں منسلک کر دیا جائے اور ان کا ایک سیکرٹری بنا دیا جائے اس کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس کیا جائے اور اس میں ایک دفعہ اصلاحات کے سوال پر قومی اور ملکی دونوں نقطہ نگاہ سے غور کر لیا جائے اور یہ ایک مکمل سکیم تجویز کر کے جس میں حکومت کی تمام جزئیات پر بحث ہوا نہیں دے دی جائے...اور ساتھ ہی مخفی طور پر یہ ہدایات دے دی جائیں کہ اس سکیم میں اس قدر تغیر آپ لوگ حسب ضرورت کرنے کے مجاز ہونگے مگر اس سے زائد تغیر پر اگر آپ لوگ مجبور ہوں تو آل مسلم پارٹیز کانفرنس سے مشورہ کئے بغیر کارروائی نہ کریں...ہاں یہ امر مد نظر رکھا جائے کہ جو لوگ نمائندہ ہو کر گئے ہوں جہاں تک ہو سکے ان کی تجاویز کو اہمیت دی جائے اور بلا کافی وجہ کے ان کے مشورہ کو رد نہ کیا جائے جانتے." کیونکہ موقع پر موجود ہونے والا آدمی بعض ایسی باتوں کو جانتا ہے جنہیں دوسرے نہیں (الفضل ۲۸ جون ۱۹۳۰ء) آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے روح رواں ہمارے امام تھے.جولائی ۱۹۳۰ء میں حضور اس کانفرنس میں شرکت کیلئے تشریف لے گئے جسے مسلمانان ہند کی سیاسی جدوجہد میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے.حضور کی شمولیت مسلم نمائندگان کی شدید خواہش کے پیش نظر تھی.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے حضور کی خدمت میں ان نمائندگان کی دعوت پہنچاتے ہوئے ۱۵.جون ۱۹۳۰ء کے اپنے ایک خط میں تحریر کیا.” سائمن کمیشن کی رپورٹ کا خلاصہ حضور نے ملاحظہ فرمالیا ہو گا اکثر پہلوؤں سے مایوس کن ہے.سردار حیات خان اور اکثر احباب شملہ کی خواہش تھی کہ حضور ۵۴۴ جولائی کی کانفرنس میں ضرور شرکت فرما ئیں تا اس موقع پر مسلمانوں کی صحیح نمائندگی ہو سکے." ہفت روزہ خاور لاہور نے اس شملہ کا نفرنس کی اہمیت بتانے اور اس میں مسلمانان ہند کی مکمل نمائندگی کا ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ :." حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایک روحانی پیشوا سمجھے جاسکتے ہیں مگر راقم الحروف نے شملہ کانفرنس کے موقع پر آپ کو سیاسیات حاضرہ سے پورا واقف
126 راستباز اور صاف گو بزرگ پایا.حضرت مرزا محمود احمد صاحب نے ریزولیوشن کے حق میں چند منٹ کیلئے جو تقریر کی وہ مدروح کی انتہائی راستبازی اور راست گوئی کی دلیل تھی.११ (ہفت روزہ خاور لا ہو ر ۲۱.جولائی ۱۹۳۰ء.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحه ۲۳۸ ایڈیشن ۱۹۷۵ء) کانفرنس کے صدر مولوی شوکت علی خان صاحب نے اپنے تاثرات ( انقلاب ۱۶.جولائی ۱۹۳۰ء) میں لکھا." خدا کے فضل سے اتنی بات نمایاں طور پر دکھائی دی کہ حاضرین میں سے ہر شخص کے دل میں یہ تمنا تھی کہ وہ خود اور باقی تمام مسلمان بھی باتوں کو چھوڑ کر موجودہ سستی کاہلی اور بے ہمتی کو چھوڑ کر جلد تر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں.....میں سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو بشارت دیتا ہوں کہ ہماری قومی زندگی نے اپنا رنگ بدلا ہے اور آنے والے دو تین مہینوں میں ہندوستان دیکھ لے گا کہ کس شسرعت کے ساتھ وہ اپنی تنظیم کرتے ہیں.مہاتما گاندھی نے جو کام دس برس میں کیا مسلمان اس سے دگنا کام اس مہینے میں کر دیں گے......میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب امام جماعت احمدیہ کا خاص طور تذکرہ کروں کہ علاوہ چند مشوروں اور امداد کے اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے دو ہزار روپے کا وعدہ فرمایا اور سات سو روپے اس وقت مولانا شفیع داؤدی سیکرٹری آن १९ انڈیا مسلم کانفرنس کے خالی خزانے میں داخل کئے." (الفضل ۹.جولائی ۱۹۳۰ء) صدر محترم کے یہ عزائم اور بلند پردازی یقیناً حضرت فضل عمر کی شمولیت کی مرہونِ منت ہے ورنہ خالی خزانہ اور خالی امنگوں سے تو کوئی انقلاب نہیں آیا کرتا.اسی سلسلہ میں مولانا محمد علی کے اخبار "حمد رد" کا مندرجہ ذیل اقتباس بھی حضرت امام جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کی مسلم مفاد میں اخلاص و قربانی پر روشنی ڈالتا ہے." نا شکر گزاری ہوگی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی اس جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبود کیلئے وقف کر دی ہیں.یہ حضرات اس وقت اگر ایک طرف مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی تنظیم و تجارت میں
IZA بھی انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب کہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کیلئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کے بلند بانگ و در باطن بیچ دعادی " کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہو گا." (ہمدرد دہلی ۲۴.ستمبر۷ ۱۹۲ء) مکرم پروفیسر اختر اورینوی صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے مندرجہ ذیل بیان سے بھی یہی ثابت ہو تا ہے کہ حضور ہمیشہ اسلامی مفاد کیلئے سرگرم عمل رہتے تھے.میں خود اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میرے اور دوسروں کے سامنے بار بار مولانا محمد شفیع صاحب کے دست راست پر وفیسر نجم الهدی صاحب گیلانی یہ اظہار و اعلان کرتے رہتے تھے کہ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کی امداد کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مولانا شوکت علی کے توسط سے اور دوسرے ذریعوں سے پچیس تیس ہزار روپیہ عطا فرمائے تھے.پروفیسر موصوف پٹنہ کالج پٹنہ میں میرے سینئر شریک کار تھے اور مجھ سے بہت ہی برادرانہ اور مخلصانہ تعلقات رکھتے تھے." مسلم لیگ قائد اعظم کی مخلصانہ بے لوث اور پُر عزم قیادت اور دردمند مسلمانوں کی مسلم اتحاد کوشش سے دن بدن مقبولیت میں اضافہ حاصل کرتی جارہی تھی.اسلام دشمن طاقتیں اس اتحاد و اتفاق اور ترقی کو بآسانی ہضم نہ کر سکتی تھیں.ان کی طرف سے مسلم لیگ کو نقصان پہنچانے کی متعدد کوششیں کی گئیں.قائد اعظم پر ذاتی حملے ، انہیں کافر اعظم قرار دینا پاکستان کو ناپاکستان اور ناقابل عمل منصوبہ قرار دینا، نیشنلسٹ مسلمانوں اور بعض مذہبی جماعتوں کا ہندو سرمائے کے زور پر مذہب کے نام پر مخالفت کرنا اور مسلمانوں میں اختلاف و افتراق پیدا کرنا وغیرہ.پھوٹ اور اختلاف پیدا کرنے کی کوششوں میں سے ایک کوشش ۱۹۲۷ء میں کی گئی حضرت مفتی محمد صادق صاحب اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.۱۹۲۷ء میں سائمن کمیشن کے آنے کے سبب لیگ کے ممبروں میں اس امر پر اختلاف ہو گیا کہ سائمن کمیشن کے ساتھ اتفاق کیا جائے یا اس کا بائیکاٹ کیا جائے ایک پارٹی جس کے لیڈر سر محمد شفیع تھے اور جس میں پنجاب کے اکثر معززین تھے تعاون کو پسند کرتی تھی لیکن لیگ کے مستقل پریذیڈنٹ مسٹر جناح عدم تعاون کی رائے رکھتے تھے اس
169 اختلاف کے ساتھ کچھ اور چھوٹے موٹے اختلاف مل کر لیگ کے دو حصے ہو گئے.۱۹۲۷ء کے آخر کا جلسہ ایک فریق نے لاہور میں بصدارت سر محمد شفیع کیا اور دوسرے فریق نے جواب جناح لیگ کے نام سے مشہور ہوئی اپنا جلسہ کلکتہ میں کیا.اس اختلاف میں جناح لیگ کے اندر زیادہ تر ایسے ممبر رہ گئے جو نہرو رپورٹ کے حامی ہوئے.جب سے یہ اختلاف ہوا بعض بزرگوں کی یہ کوشش رہی کہ ہر دو فریق پھر متحد ہو جائیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے بھی مسٹر اقبال اور مسٹر جناح کو اتحاد کی طرف مائل کرنے کیلئے خطوط لکھے جن کا ذکر ہر دو اصحاب نے بعض مجالس میں کیا اور ہر دو احباب مصالحت کی طرف مائل ہوئے.مارچ ۱۹۲۹ء کی ابتدا میں سر محمد شفیع مسٹر جناح کی ملاقات دہلی میں ہوئی اس وقت عاجز بھی یہاں آیا ہوا تھا.ہر دو اصحاب نے تبادلہ خیالات کے بعد باہمی اتحاد کا ارادہ کیا اور اس کے واسطے اخیر مارچ کا جلسہ قرار پایا.چنانچہ اس جلسہ کے واسطے دعوتی خطوط حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی خدمت میں بھی بھیجے گئے کہ حضور بھی تشریف لائیں اور مسلمانوں کے درمیان باہمی مصالحت کے لئے سعی فرما دیں." الفضل ۱۲ اپریل ۱۹۲۹ء) حضور خود تو جماعت کی سالانہ مجلس مشاورت کی وجہ سے اس جلسہ میں تشریف نہ لے جا سکے اس لئے حضور نے اپنی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو دہلی بھیجا.حضور کے ارشاد کے مطابق بہار سے حکیم خلیل احمد صاحب مونکھیری بھی آگئے.حضرت مفتی صاحب مصالحت کے متعلق بہت پر امید تھے اور انہوں نے اس کیلئے ہر ممکن کوشش کی مگر سر محمد شفیع تو بیماری کی وجہ سے جلسہ میں شریک نہ ہوئے اور ان کے رفقاء لیت و لعل میں رہے.جناح صاحب نے ہر طرح کوشش کی کہ شفیع لیگ کے تمام احباب لیگ میں شامل کر لئے جائیں مگر لیگ کے ممبروں نے ان کی سخت مخالفت کی اور مسٹر جناح کی کوئی اپیل قبول نہ کی.مسلم لیگ کے اس اجلاس میں سبجیکٹ کمیٹی کے سامنے تین ریزولیوشن پیش ہوئے ایک مسودہ جناح صاحب کا تیار کیا ہوا تھا جس میں نہرو رپورٹ رد کی گئی تھی یہ ریزولیوشن راجہ غضنفر علی صاحب نے پیش کیا اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اس کی تائید کی مسلم لیگ کا اجلاس کوئی ریزولیوشن پاس کئے بغیر ملتوی ہو گیا لیکن حضرت مفتی صاحب نے اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں جو بالآخر بار آور ہو
۱۸۰ الفضل ۷.مارچ ۱۹۳۰ء کے مطابق ۱۸.فروری ۱۹۳۰ء کو مسٹر جناح کی زیر صدارت مسلم لیگ کو نسل کا اہم اجلاس دہلی میں منعقد ہوا..تالیوں کی گونج میں اعلان کیا گیا کہ دونوں شاخوں کو ملا دیا گیا ہے اس کے بعد مسٹر جناح اور سر شفیع ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور دونوں مسلم لیگیں ایک ہو گئیں.گویا حضور کی ذاتی توجہ اور کوشش سے پھوٹ اور نفاق کا وہ دروازہ جو مطالبہ پاکستان اور قومی مفاد کو سبو تا ثر کر سکتا تھا بند کر دیا گیا.ایسے ہی ایک اور موقع پر حضور مسلم رہنماؤں کو اتحاد و یکجہتی کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں.مسلم لیگ میں پھوٹ پڑ جانا نہایت درجہ افسوسناک ہے اور مسلم مفاد کیلئے بے حد ضرر رساں ہے میری رائے میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا مجوزہ جلسہ جو.جولائی کو منعقد ہونے والا تھا اس کو ملتوی کر دینے کی ضرورت نہ تھی.بہتر ہو تاکہ جلسہ کر لیا جاتا اور اس میں طے شدہ مسلم پروگرام کے متعلق التواء کا فیصلہ کیا جاتا.اگر اکثریت اس کے حق میں ہوتی تو جلسہ ملتوی کر دیا جاتا لیکن میرا خیال ہے کہ صدر نے التواء کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا.آپ نے صرف اس خواہش کا اظہار کیا لہذا کوئی وجہ نہ تھی کہ مولانا شفیع داؤدی استعفیٰ دے دیتے.مسلمانوں کے لئے بے حد نازک موقع ہے لہذا اتمام مسلمانوں کو چاہئے کہ بجائے اس کے کہ کوئی نئی پارٹی بنا کر مسلم مفاد کو نقصان پہنچایا جائے متحد ہو کر کام کریں.میں مولانا محمد شفیع داؤدی سے مخلصانہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لے لیں اور اگر وہ بورڈ کا جلسہ منعقد کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے دلائل کا نفرنس میں پیش کریں.اس صورت میں انہیں اختیار دیا جائے لیکن اس سے باہر کام کرنا درست نہیں.میرا خیال ہے کہ مسلمان اپنے جمود کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں.اگر ہمارے مسلم نوجوان دیکھیں گے کہ ہمارے لیڈر معمولی معمولی بات پر آپس میں جھگڑ رہے ہیں تو وہ باغی ہو جائیں گے اور نا تجربہ کار نوجوان کانگریس کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اور مسلم مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور مسلم رہنما بندوں اور خدا کے سامنے ذمہ دار ہوں گے.نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور قبل اس کے کہ معاملہ بڑھے اس کا (الفضل ۱۰.جولائی ۱۹۳۲ء) انسداد لازمی ہے."
مسلمانوں کے مفاد کے خلاف آل انڈیا کانگریس اپنے طریق پر سرگرم عمل تھی چنانچہ آل مسلم پارٹیز کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے مشہور ادیب صحافی مولانا عبدالمجید سالک مدیر روزنامہ انقلاب لکھتے ہیں.” یہ تو صرف مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس تھی لیکن کانگریس نے اپنی تاریخوں کلکتہ کے مقام پر "آل پارٹیز کنونشن" طلب کی جس میں کانگریس ، ہندو سبھا لبرل فیڈریشن، جسٹس پارٹی، مسلم لیگ وغیرہ کو دعوت دی.مقصد یہ تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو جمع کرکے ان سے نہرو رپورٹ پر مہر توثیق ثبت کرالی سرگزشت صفحه ۲۱۵) جائے." مسلم لیگ کے ابتدائی زمانہ میں قربانی کی عادت کے فقدان کی وجہ سے لیگ کو قومی مقاصد کے حصول کیلئے اپنی کوششوں میں جو مشکل پیش آتی تھی اس کے حل کیلئے لیگ کے لیڈروں کی نظریں حضور کی طرف اُٹھتی تھیں اور انہیں اس سلسلہ میں کبھی مایوسی سے دو چار نہ ہو نا پڑتا تھا.اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.چند سال پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کے کئی جلسے مجھ سے روپیہ لیکر کئے گئے.منتظمین کے پاس بعض دفعہ اتنا روپیہ بھی نہ ہو تا تھا کہ جلسہ کر سکیں اس موقع پر وہ مجھے لکھتے تھے اور میں روپیہ دیتا تو وہ جلسہ کرنے میں کامیاب ہوتے تھے." (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء) اس امر کے متعلق ایک اور موقع پر حضور نے فرمایا :.مجھے لاہور میں ایک دفعہ لکھنؤ کے ایک وکیل ملے انہوں نے کہا قریباً " نو سال مولانا محمد علی صاحب کا سیکرٹری رہا ہوں اور مجھے خوب یاد ہے کہ جب کبھی مسلم لیگ کا جلسہ ہو تا تھا آپ کو اس میں بلایا جاتا تھا اور آپ سے مشورہ لیا جا تا تھا.میں نے کہا دو سرے مسلمان تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارا مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں رہا.وہ کہنے لگے کوئی شخص جو حالات سے واقف ہو ایسا نہیں کہہ سکتا میں خود مسلم لیگ کے جلسوں میں شریک ہو تا رہا ہوں اور مجھے خوب یاد ہے کہ آپ کو ان جلسوں میں بلایا جا تا تھا اور جب روپیہ کی وجہ سے جلسہ نہ ہو سکتا تھا تو آپ سے مالی امداد لی جاتی تھی ہم لوگ جو ابھی تک زندہ موجود ہیں اس بات کے گواہ ہیں...الفضل ۱۴ جون ۱۹۵۶ء صفحه ۴)
قیام پاکستان یا حصول آزادی کے سلسلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں مسلم کی تعریف کے باہم اتحاد و اعتماد کا فقدان تھا.ہر مسلم فرقہ دوسرے مسلم فرقہ کو کافریان مسلم قرار دے کر افتراق و انشقاق کو وسعت دیتا چلا جارہا تھا.یہی وجہ ہے کہ کانگریس میں ایسے مسلمان موجود تھے جو ہندو مفاد کو آگے بڑھانے میں ان کے مد د معاون تھے.ستم ظریفی تو یہ ہے کہ باہم ایک دوسرے کو کافراور غیر مسلم قرار دینے والوں نے اس امر پر سوچنے کی کبھی زحمت ہی نہ کی کہ "مسلم" کی تعریف کیا ہے.اس امر کو نظر انداز کرنے سے باہم اختلاف اور نفرت بڑھتی چلی جاتی تھی.ظاہر ہے ایسی حالت میں کوئی لیڈر کتنا بھی مخلص اور پر عزم ہو وہ کیا کر سکتا ہے.قائد اعظم جن کا عزم و خلوص ہر شک وشبہ سے بالا ہے ان امور کو دیکھتے ہوئے جس طرح بد دل ہوئے اس کے متعلق فرماتے ہیں.میں مایوس ہو چکا تھا.مسلمان بے سہارا اور ڈانواڈول ہو رہے تھے.مجھے اب محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا.نہ ہندو ذہنیت میں خوشگوار تبدیلی پیدا کر سکتا ہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں آخر میں نے لندن میں ہی بود و باش کا فیصلہ کر لیا." ( حیات محمد علی جناح صفحہ ۲۰۰) فدائی ملت حضرت مصلح موعود بھی اس صورت حال کو دیکھ رہے تھے اور آپ کی یہ حالت تھی کہ :.” ہمارے دل مسلمانوں کی تکالیف کو دیکھ کر زخمی ہیں اور ان کی مشکلات کا معائنہ الساس الاتحاد صفحه 1 کر کے خون کے آنسو بہاتے ہیں." یہ امر کسی بھی قاری کی نظر سے مخفی نہیں ہے کہ جماعت احمد یہ بالعموم اور امام جماعت احمد یہ بالخصوص ضد و تعصب پر مبنی مسلسل خوفناک مخالفت کے تند و تیز طوفان کا سامنا کر رہے تھے مگر اس کے باوجود آپ کی حالت یہ تھی کہ :.تم کو مجھ سے ہے عداوت تو مجھے تم سے ہے پیار میری یہ کیسی محبت ہے کہ جاتی ہی نہیں ( مصلح موعود) مسلمان قوم کو یکجا کرنے اور انہیں اتحاد و اتفاق کی برکات سے مالا مال کرنے کیلئے حضور کے مسلسل جہاد میں سے یہ کارنامہ بہت ہی نمایاں ہے کہ آپ نے مسلمان کی ایک ایسی تعریف پیش
فرمائی جس کے مطابق سیاسی لحاظ سے مسلمان یکجان و متحد ہو سکتے تھے.آپ نے فرمایا :.سیاسی معاملات میں جب تک اختلاف کی بنیاد مذہب کی بجائے سیاست پر نہ رکھی جائے گی اس وقت تک ہر گز امن نہیں ہو سکتا پس ضروری ہے کہ مسلم لیگ کے دروازے ہر ایک اس فرقہ کیلئے کھلے ہوں جو اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے خواہ اس کو دوسرے فرقے کے لوگ مذہبی نقطہ نگاہ سے کافرہی سمجھتے ہوں اور اس کے کفر پر تمام علماء کی مہریں ثبت ہوں." اسی طرح آپ نے فرمایا:.(اساس الاتحاد صفحه ۴) "سیاسی نقطہ خیال کے مطابق ہر شخص جو رسول کریم میں اللہ پر ایمان لانے کا مدعی ہے اور آپ کی شریعت کو منسوخ قرار نہیں دیتا اور کسی جدید شریعت کا قائل نہیں لفظ مسلم کے دائرہ کے اندر آجاتا ہے".(اساس الاتحاد صفحه (۴) اس تعریف کو مزید قابل فہم اور قابل عمل بنانے کیلئے حضور نے یہی بات ایک اور پہلو سے بیان کرتے ہوئے فرمایا :.اسلام کی اس زمانے میں دو ہی تعریفیں ہیں.ایک مذہبی اور ایک سیاسی.مذہبی تعریف ہر ایک شخص کے اختیار میں ہے وہ جو چاہے تعریف کرے.دوسری تعریف سیاسی ہے اور یہ تعریف کوئی فرقہ خود نہیں کر سکتا بلکہ یہ تعریف اسلام کا لفظا و معنا انکار کرنے والے لوگ کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں.سیاسی طور پر کون لوگ مسلمان ہیں.اس کا جواب صرف ہندو اور عیسائی اور سکھ دے سکتے ہیں.جن سے مسلمانوں کا سیاسی واسطہ پڑتا ہے.اگر ایک جماعت کو دیگر مذاہب کے پیرو مسلمان کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو ایک لاکھ مولویوں کے فتاوی بھی اس کو سیاست اسلامیہ سے باہر نہیں نکال سکتے.سنی خواہ شیعوں کو اور شیعہ خواہ سُنیوں کو کافر کہیں.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی معاملات میں ہندو شیعوں اور منیوں سے کیا معاملہ کریں گے کیا سُنیوں کے شیعوں کو کافر کہنے سے ہندو لوگ سُنیوں اور شیعوں سے الگ الگ قسم کا معاملہ کریں گے نہیں ! وہ جو کارروائی ایک قوم کے خلاف کریں گے وہی دوسری کے خلاف بھی کریں گے.پس سیاست میں ان کے مفاد ایک ہیں جن پر اسلام کا لفظ حاوی ہے.اگر مسلمان اس نقطہ کو نہیں سمجھیں گے تو ان کو ایک ایک کر کے دوسری قومیں کھا جائیں گی
۱۸۴ اور ان کو اس وقت ہوش آئے گا جب ہوش آنے کا وقت نہ ہو گا." (الفضل ۴.جون ۱۹۲۶ء) حضور کی اس تعریف میں آزادی ضمیر و حریت خیال کی جو عملی شکل پائی جاتی ہے وہ قرآنی تعلیمات کا ایسا امتیاز ہے جس کے مقابل میں کسی اور مذہب کی ایسی کوئی تعلیم پیش نہیں کی جاسکتی.ایک موقع پر جب حضور لاہور تشریف لے گئے ہوئے تھے ایک معزز مسلمان لیڈر سردار حبیب اللہ صاحب بیر سٹرایٹ لاء لاہور آپ سے ملاقات کی غرض سے تشریف لائے.اتحاد کے متعلق ان سے گفتگو ہوتی رہی.جس میں حضور نے یہ زریں اصول بیان فرمایا کہ :." جب تک مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد اس بات پر رکھی جائے گی کہ ان سے کچھ باتیں چھڑائی جائیں اور سب کو ایک جیسے عقائد پر جمع کیا جائے اس وقت تک کبھی اتحاد نہیں ہو گا.اتحاد کی یہی صورت ہے کہ رواداری سے کام لیا جائے کسی کے مذہبی عقائد سے تعرض نہ کیا جائے اور مشترکہ مسائل میں مل کر کام کیا جائے." (الفضل ۲۰.جولائی ۱۹۲۸ء) اگر چہ بعض حلقوں نے اپنے مخصوص مفادات کے پیش نظر اس تعریف کو پسند نہ کیا تاہم مسلم لیگ اور قائد اعظم نے عملاً اس تعریف کو اپنالا ئحہ عمل بناتے ہوئے ہی مسلم لیگ کو بر صغیر کی نمائندہ مسلم جماعت بنا دیا اور مسلم حلقوں میں انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر کے پاکستان کا حصول ممکن بنا دیا.اگر یہ تعریف قبول نہ کی جاتی تو مسلم اتحاد یا قیام پاکستان کا مقصد کبھی بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا.یہی وجہ ہے کہ جب مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں قائدا اعظم کی موجودگی میں یہ سوال پیدا کر کے مسلم لیگ کے تمام کئے کرائے پر پانی پھیرنے کی کوشش کی گئی تو قائد اعظم نے اپنے مخصوص انداز سے اسے نظر انداز کرتے ہوئے درخور اعتناء ہی نہ سمجھا.اگر قائد اعظم مسلم کی تعریف کے اس چکر میں پھنس جاتے جس میں (بقول قائد اعظم) کانگریس کے سدھائے ہوئے پرندے انہیں پھنسانا چاہتے تھے تو وہ ۱۹۴۷ء تو کیا ۷ ۲۰۴ ء میں بھی اگر قدرت) انہیں اتنا لمبا عرصہ عطا فرماتی پاکستان سے اتنے ہی دور ہوتے جتنے وہ اپنی قوم سے مایوس ہونے کے بعد لندن میں رہائش پذیر ہو جانے کے وقت تھے.ہمارے بیدار مغز مؤید منَ اللہ رہنما جہاں ایک طرف مسلمانوں میں باہم اتحاد ہندو مسلم اتحاد کیلئے مسلسل کوشاں تھے اور آل مسلم پارٹیز کانفرنس میں مسلمان کی ایک ایسی
۱۸۵ جامع اور قابل عمل تعریف کا نسخہ کیمیا پیش کر چکے تھے جس کو مان کر تمام مسلمان قطع نظر اپنے روایتی اختلافات اور تفرقوں کے ایک قوم وملت کی شکل اختیار کر کے ایسی عظیم طاقت بن سکتے تھے جس کے مطالبات اور حقوق کو ہندو کانگریس ہی نہیں انگریزی حکومت بھی نظر انداز نہ کر سکتی وہاں دوسری طرف آپ اس وقت کی اہم ضرورت اور جدوجہد آزادی کو صحیح خطوط پر چلاتے ہوئے کامیابی سے ہم کنار کرنے کے وسیع تر مفاد کیلئے ہندو مسلم اتحاد کیلئے بھی برابر کوشاں تھے.یاد رہے کہ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب قائد اعظم ابھی محمد علی جناح کے نام سے ہی پہچانے جاتے اور کانگریس کے ایک ممبر تھے اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کی شہرت رکھتے تھے مسلم لیگ میں شمولیت اور قرار داد لا ہو ر یا قرار داد پاکستان بہت بعد کی باتیں ہیں.ہندو مسلم اتحاد یا ملک میں امن و امان کے قیام اور فسادات و خون خرابے کو ختم کرنے کیلئے حضور نے مندرجہ ذیل ۲۰ نکاتی پروگرام پیش فرمایا :- (1) ہر جماعت کو اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرنے اور دوسروں کو اپنے مذہب میں داخل کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے.(۲) کسی کے مذہب پر کسی ایسے عقیدہ یا دستور کی وجہ سے جسے وہ اپنے مذہب کا جزو نہ سمجھتی ہو کوئی اعتراض نہ کیا جائے.(۳) ہر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے کہ وہ اپنے افراد کی اقتصادی اصلاح کر سکے اور ان کو کاروبار کرنے یا دکانیں کھولنے کی ترغیب دے اور ان کی سرپرستی کی تحریک کرے.(۴) اپنی دکانیں کھولنے کی تحریک مسلم قوم کے لئے ایسی ہی مفید ہے جیسے کہ سودیشی تحریک لہذا اس سلسلہ میں ہماری کوششیں کسی انتقام یا دشمنی کی بناء پر نہ سمجھی جائیں.(۵) کسی قوم کے مذہبی یا سوشل عقائد سے کوئی تعرض نہ ہونا چاہئے.اگر مسلمان گائے ذبح کرنا چاہئیں تو ان کو پوری آزادی ہونی چاہئے.اسی طرح عیسائیوں سکھوں ، ہندوؤں کو سور مارنے یا جھٹکے کرنے یا باجہ بجانے میں پوری آزادی ہو.(1) مذہبی امور میں ہر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے اور یہ اصل ہندو مسلم اتحاد کا ایک ضروری جزو قرار دینا چاہئے.
TAM (۷) ہندوؤں کو ایک ایسا قانون پاس کرانے میں جس کی رو سے پرائیویٹ ساہو کارہ باضابطہ ہو سکے ہماری مدد کرنی چاہئے اور ہماری کوششوں کو جو ہم مسلم رقبوں میں مسلمانوں کے فائدہ کیلئے کو آپریٹو بینک کھلوانے کے سلسلہ میں کریں فرقہ وارانہ منافرت کا رنگ نہیں دینا چاہئے.(۸) جس طرح ملازمتوں کو ہندوستانیوں کے لئے مخصوص کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے.اسی طرح مختلف قوموں کے تناسب کے لحاظ سے ملازمتوں میں بھی ان کی نیابت منظور کی جائے اور ہر صوبہ میں ہر قوم کی نیابت اس کی تعداد کے لحاظ سے ہوئی چاہئے.(۹) یہ امر بطور اصل تسلیم کیا جائے کہ جس صوبہ میں جو قوم زیادہ تعداد میں ہو وہ کونسل میں قلیل تعداد نہ رکھے اور جب کسی قلیل التعداد قوم کو خاص مراعات دیتا ہوں تو مذکورہ بالا اصول کے عین مطابق کیا جائے.(۱۰) یونیورسٹیوں کے بارہ میں بھی یہی اصل ہونا چاہئے کیونکہ یہ ضروری ہے کہ ہر صوبے کی ذہنی بالیدگی ایسی قوم کے سپرد کی جائے جس کی تعداد اس صوبہ میں زیادہ ہو.(11) صوبہ سرحد میں اصلاحات کا نفاذ اسی طرح اور اسی حد تک ہونا چاہئے جہاں تک کہ دوسرے صوبوں میں ہے اور اس صوبہ میں ہندوؤں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں ملے ہیں جہاں وہ اقلیت میں ہیں.(۱۲) سندھ اور بلوچستان مستقل صوبے بنا دیئے جائیں اور یہاں ہندوؤں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں حاصل ہیں جہاں وہ قلیل التعداد ہیں.(۱۳) چونکہ ہندوستانی ریاستوں کو بھی برٹش انڈیا کے ہم پایہ ہونا چاہئے اس لئے یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ کسی ریاست میں وہاں کی حکمران قوم کو قطع نظر اس کی تعداد کے بعض خاص حقوق دیئے جائیں اور اس کو فوقیت ہونی چاہئے.(۱۴) مختلف صوبہ جات کے اختیار خود انتظامی کے اصول کو اس شرط پر تسلیم کرنا چاہئے کہ ایسے صوبہ جات ہمیشہ مرکزی حکومت کے قواعد و آئین کے اندر رہیں گے.(۱۵) مخلوط انتخاب کا طریقہ اصولاً صحیح ہے.مگر ہندوستان کی موجودہ حالت کے مطابق
IAZ نہیں اور ہمارے خیال میں یہ مسلم مفاد کے لئے خطرناک ہے.بہرحال جماعت احمدیہ اور پنجاب کے مسلمان اور بعض دوسرے صوبوں کے مسلمان بھی فى الحال مخلوط انتخاب کے طریقہ کو منظور کرنے کیلئے تیار نہیں اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ جداگانہ انتخاب کا حق مسلمانوں کے لئے جاری رہنا چاہیئے اور دوسری جماعتوں کو بھی جو اسے پسند کریں.(۱۲) مذہبی امور میں سے کوئی بات فیصلہ نہ کی جائے جب تک اس قوم کے تین چوتھائی ممبر جن پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے اس کے حق میں رائے نہ دیں اور فیصلے کرنے کے بعد بھی اگر اتنی ہی تعداد ممبروں کی اس کو چھوڑنا چاہے تو اس کو چھوڑ دیا جائے.(۱۷) اس وقت تمام فرقہ وارانہ مخالفت اور لڑائیوں میں ایک قوم دوسری کو پیش دستی کا الزام دیتی ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ اتحاد کانفرنس کے آخری فیصلہ سے پہلے یا تو یہ طے ہو جائے کہ تمام مصائب کی ذمہ داری کس قوم پر ہے یا پھر یہ طے ہو جانا چاہئے کہ اگر آئندہ کوئی رنجدہ واقع ہو تو کسی فریق کو گذشتہ واقعات کا حوالہ دینے کی اجازت نہیں ہوگی ورنہ فطرتا یہ خیال پیدا ہو گا کہ ذمہ داری کے اظہار کے ڈر سے صلح کی جارہی ہے.(۱۸) ہر صوبہ میں ایک بورڈ بنایا جائے جس کی شاخیں تمام اضلاع میں ہوں اور جب کبھی کوئی فرقہ وارانہ مخاصمت پیدا ہو تو لوکل بورڈ کے ممبروں کو فور آ جائے وقوع پر پہنچ کر تفتیش کرنا چاہئے اور جس قوم کی طرف سے ابتداء ثابت ہو اس کے لیڈروں کو اسے مناسب سزا اور مظلوم پارٹی کو ہر ممکن طریق سے مدد دینی چاہئے.(19) انڈین نیشنل کانگریس صحیح معنوں میں قومی جماعت ہونی چاہئے اور ہر خیال اور عقیدہ کے لوگوں کو اس کا ممبر ہونے کی اجازت ہو اور حلف وفاداری صرف انہیں الفاظ میں لیا جانا چاہئے کہ : ”میں اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ ہندوستان کی بہبودی کو مد نظر رکھوں گا.اس کے سوا ممبر کے لئے کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے تاکہ ہر خیال اور عقیدہ کے لوگ اس میں شامل ہو سکیں.(۲۰) ہر قوم یا فرقہ کو اس کی اپنی تنظیم سے متعلقہ باتوں میں کامل آزادی ہونی چاہئے تا وہ اپنے مفاد کی حفاظت کر سکے.الفضل ۱۹.ستمبر ۱۹۲۷ء)
I^^ مذکورہ بالا اصولی نکات میں حضور نے اپنی خداداد فراست سے ہندوستان کے مخصوص حالات میں جداگانہ انتخاب کو ضروری قرار دیا.حقیقت بھی یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں مخلوط انتخابات کا طریق جاری رہتا تو مسلمان کبھی بھی اپنے حقوق حاصل نہ کر سکتے.ہندو تو پہلے ہی اکثریت میں تھے چند صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں ہندو بآسانی اپنی سازشوں اور سرمایہ کے زور پر تمام نشستیں اپنے لئے یا اپنے ہم خیال نام نہاد نیشنلسٹ مسلمانوں کیلئے حاصل کر سکتے تھے اس طرح پاکستان کبھی بھی معرض وجود میں نہ آتا.یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک بلکہ شملہ کانفرنس کے انعقاد تک قائد اعظم بھی مخلوط انتخاب کے حامی تھے.مسلم قیادت نے جداگانہ انتخاب کے اصول پر عمل پیرا ہو کر ہی اپنی منزل مراد آزاد مملکت پاکستان حاصل کی.مگر بہت ہی دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آتی ہے جب حضور کی اس زمانہ کی رہنمائی میں یہ امر بھی نظر آتا ہے کہ آپ کی دور بین نگاہیں اور مومنانہ فراست یہ جانتی تھی کہ جداگانه انتخاب موجودہ حالات اور موجودہ فضا میں لابدی اور ضروری ہے تا ہم یہ صورت تبدیل ہو جائے تو جداگانه انتخاب نقصان دہ ثابت ہوں گے.آپ فرماتے ہیں.و بعض حالات ایسے پیدا ہو سکتے ہیں کہ جن کی موجودگی میں وہی قوانین جو آج قلیل التعداد جماعتوں کے لئے رگ گردن کی طرح ضروری ہیں کل اس جماعت اور تمام ملک کے لئے ضروری ہوں.مثلاً انتخاب جداگانہ قاعدہ ہی ہے اگر تمام اقوام میں کامل اعتماد پیدا ہو جائے اور دلی کدورتیں بالکل صاف ہو جا ئیں تو اس وقت اس پر کار بند رہنا ایسا ہی مضر ہو گا جیسا کہ اس وقت اس کا ترک کرنا." (اساس الاتحاد صفحه ۲۴) ان مفید تجاویز کو ایک اور موقع پر کسی قدر تفصیل سے بیان کرتے ہوئے فرمایا :.رواداری کے مفہوم کو بالکل غلط سمجھا گیا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں بہت سے جھگڑے مذہبی رسوم پر پیدا ہوئے ہیں.مثلاً عید، دسہرہ اور محرم کے مواقع پر جھگڑے ہو جاتے ہیں.باجا بجانا اور گائے کی قربانی کرنا فساد کی بنیاد بن جاتی ہے.لیکن میں بغیر کسی رو رعایت کے کہتا ہوں کہ باجہ مسلمانوں کی عبادت میں خلل انداز نہیں ہو سکتا.اس طرح گائے کی قربانی مسلمان کے اپنے گھر میں اس کے مذہبی احکامات کی بناء پر ہندوؤں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتی اس سلسلہ میں یہ اصول قابل غور ہے کہ کیا کسی
۱۸۹ قوم کو یہ حق ہے کہ جو باتیں وہ اپنے مذہب کی رو سے ناپسند کرتی ہو ان سے دوسرے مذاہب والوں کو جبرا رو کے خواہ ان کا مذہب ان کے کرنے کی تعلیم دیتا ہو.یہ طریق اختیار کرنے سے فساد کے موجبات بڑھتے ہیں اور سینکڑوں مثالیں ایسی مل جاتی ہیں جن میں فساد بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا.مثلاً مسلمان سود منع سمجھتے ہیں اگر وہ ہندوؤں سے کہیں کہ تم سود لینا بند کر دو کیونکہ اس سے ہماری دل آزاری ہوتی ہے اور ہمار انڈ ہب اس سے منع کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یقینا فساد ہو گا.اس طرح کئی مثالیں ہند و صاحبان پیدا کر سکتے ہیں اور اس طرح جھگڑے اور فساد کی کئی راہیں پیدا ہو سکتی ہیں.تعجب کی بات ہے کہ جب ہندو اور مسلمان اپنے مذہب کے اصول خود توڑتے ہیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جاتا لیکن جب کوئی دوسرے مذہب کا شخص کسی اصل کی پابندی اس وجہ سے نہیں کرتا کہ اس کے مذہب کی تعلیم نہیں تو پھر اس وجہ سے ایک دوسرے کے گلے کاٹے جاتے ہیں.مذہبی جھگڑوں میں ہم اخلاقی فرض کو جو فطرتی طور پر سب پر وارد ہوتا ہے بھول جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے مذہبی پیشواؤں اور قومی ہیروؤں کی عزت نہیں کرتے بلکہ ہتک کرتے ہیں.اس طرح سے ایک قوم کے ماضی کو تاریک ثابت کر کے اس کے مستقبل کو خراب کرتے ہیں.ہمیں ایک دوسرے کو اپنی قومی عمارت کیلئے بنیادوں کی جگہ دینی چاہئے تاکہ ان بنیادوں پر ہر ایک قوم اپنی قومی عمارت بنا سکے اور وہ بنیاد کسی قوم کے لئے اس کی ماضی ہوتی ہے.ہندو اور نگزیب کو اور مسلمان ہندوؤں کے قومی مشہور لوگوں کو بُرا کہتے ہیں جس سے منافرت بڑھتی ہے.دو تیسرا امر اس سلسلے میں یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی تبلیغ کو سخت نا پسند کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ایک بہت بڑا حملہ ہے حالانکہ ہمارا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ ایک دوسرے کے خیالات سنیں اور ایک قوم دوسری قوم کو بلا کر اس کے مذہبی خیالات سے آگاہی حاصل کرے لیکن ضروری ہو کہ وہ قوم اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے نہ کہ دوسرے مذاہب کے نقائص کیونکہ کسی قوم کے نقائص بیان کرنے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور اس سے اس کا مذہب کامل نہیں ہو سکتا.غرضیکہ یہ باہمی سمجھوتہ ہو جانا چاہئے کہ ایک دوسرے کی باتیں سنی جائیں.اس سے امن کے قیام میں مدد ملے گی.اس
19.بات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یوم پیشوایان مذاہب کی تحریک پہلے سے کر چکا ہوں.یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اقوام میں محبت پیدا کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بزرگوں کی عزت کریں.تمدنی بواعث میں سے جن کی وجہ سے ہندو مسلمانوں میں لڑائی ہوتی ہے ایک بڑا باعث چھوت چھات ہے.سکھ مذہباً چھوت چھات کے قائل نہیں، ہندوؤں میں تعلیم یافتہ لوگ اس کے قائل نہیں البتہ عام طبقہ کی بناء پر چھوت چھات جاری رہے گی تو مسلمان اگر اپنی اقتصادی نازک حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے کھانے پینے کی اشیاء ہندو صاحبان سے اس طرح نہ لیں جس طرح وہ (ہندو) مسلمانوں سے پر ہیز کرتے ہیں تو ہندو صاحبان کو بُرا نہ منانا چاہئے.لیکن اگر یہ مسئلہ صرف تمدنی اور حفظان صحت کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اختیار کیا گیا ہے تو پھر ہند و صاحبان ملک کے امن کی غرض سے اسے چھوڑ دیں.مسلمان اقتصادی طور پر بہت گرے ہوئے ہیں.۹۹ فیصدی مسلمان پنجاب میں مقروض ہیں اور ہندوؤں کی چھوت چھات کی وجہ سے ان کی فلاکت روز بروز بڑھ رہی ہے.سیاسی اختلافات کے سلسلے میں یہ ایک بات میں اپنے مسلمان بھائیوں سے اور ایک بات اپنے ہندو بھائیوں سے کہوں گا.ہندو صاحبان سے یہ کہ آپ لوگ اس ملک میں اکثریت ہیں اور اگر آپ کچھ رعایت مسلمانوں کو دے دیں گے تو اس سے آپ کی اکثریت میں کچھ فرق نہیں آئے گا.اور مسلمان صاحبان سے یہ کہوں گا کہ آپ لوگ یہ امر ثابت کر دیں اور اس بارے میں ہند و صاحبان کے شکوک دور کر دیں کہ باہر سے حملہ کی صورت میں....آپ لوگ ہندوؤں کے دوش بدوش اپنے ملک کی آزادی کی خاطر لڑیں گے." اسی سلسلے میں ایک نہایت پر حکمت نکتہ معرفت بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.میں تفصیلی طور پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو مسلمانوں کی صلح ہو سکتی ہے.لیکن اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ صلح نہیں ہو سکتی اور ہمیں اگر آپس میں لڑنا ہی پڑے تو بھی انسانیت کو بالائے طاق نہیں رکھنا چاہئے.لڑائی کے وقت اس قسم کے واقعات نہیں ہونے چاہئیں کہ ہم انسانیت کو ہی بھول جائیں.عورتوں اور چھوٹے
191 بچوں کو ہلاک کریں؟ چھوٹے بچوں پر تو جنگلی جانور بھی رحم کھاتے ہیں.بہادری سے لڑیں اس سے صلح ہو جانے کی امید قائم رہتی ہے نہ کہ بُزدلی سے کام لیں کہ یہ انسانیت الفضل ۲.مئی ۱۹۳۱ء) کے خلاف ہے." ملک میں امن و امان کے قیام اور صلح و آشتی کی فضا پیدا فسادات لاہور اور احمد یہ خدمات کرنے کی مخلصانہ کوششوں میں تو حضور پیش پیش تھے مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ مسلم مفاد عامہ کو نظر انداز کر کے ہند و دوستی کے پودے کو پانی دیا جاوے یہی وجہ ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی مسلمانوں کا مفاد خطرے میں نظر آیا حضور نے ہر ممکن طریق پر اس کے ازالہ کی جدوجہد فرمائی.مسلم مفاد و دلچسپی کے بعض ایسے ہی امور بطور مثال پیش خدمت ہیں.۱۹۲۷ء میں لاہور میں فسادات کے نتیجہ میں مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا.اس مصیبت کے وقت حضور نے مصیبت زدگان کی فوری امداد کا انتظام فرمایا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.وو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس سال ایسے سامان پیدا ہو گئے کہ ہماری جماعت کی جو عزت پہلے تھی اس سے کئی گنا زیادہ ہو گئی.وہ لوگ جو پہلے جماعت کے سخت دشمن تھے یہ محسوس کرنے لگ گئے ہیں کہ اگر اسلام کی حفاظت کرنے والی کوئی جماعت ہے تو وہ احمد کی جماعت ہی ہے......ان سامانوں میں سے پہلا سامان تو لاہور کے فسادات تھے جن کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ کچھ لوگوں کے اکسانے سے بعض سکھوں نے کچھ مسلمانوں کو نہایت بے دردی سے بے کسی کی حالت میں قتل کر دیا.یہ ایسا واقعہ تھا کہ دشمنوں کو بھی مسلمانوں سے ہمدردی پیدا ہونی چاہئے تھی مگر جنہوں نے مارا تھا ان کی قوم نے ان کی امداد شروع کر دی.ایسے موقع پر میں نے اپنا فرض سمجھا کہ مسلمانوں سے ہمدردی کی جائے اور جو لوگ مارے گئے ہیں یا گر فتار ہو گئے ہیں ان کے رشتہ داروں کی امداد کی جائے چنانچہ اس غرض سے ناظر اعلیٰ اور دو تین اور اصحاب کو لاہور بھیجا گیا اور جس حد تک ممکن ہو سکا لوگوں کی امداد کی گئی اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی ہمدردی کی رو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود ان لوگوں نے بھی جو ہمدردی کے محتاج تھے اس بات کو محسوس کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ احمدی مصیبت
۱۹۲ کے وقت ہماری امداد کے لئے آئے اور انہیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی مدد کرنے پر آمادہ ہو گئے." ( تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء صفحه ۹) لاہور میں ہونے والے اس فساد کے سلسلے میں مسلمانوں کی امداد کے لئے حضور ایدہ اللہ تعالٰی نے حضرت خان صاحب ذوالفقار علی خان اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو لاہور بھیجوانے کے علاوہ مسلم لیگ لاہور کے صدر کے نام ایک تار کے ذریعہ حسب ذیل جذبات کا اظہار فرمایا.میں لیگ کی توجہ اس طرف مبذول کروانی چاہتا ہوں کہ اس وقت فسادات لاہور کے مسلمان مظلومین کی مدد کے لئے فوری کارروائی کی ضرورت ہے.جماعت احمد یہ اس معاملے میں ہر واجبی امداد دینے کیلئے تیار ہے.میرے چیف سیکرٹری اس وقت لاہور میں ہیں اور میں نے انہیں ہدایت بھیجی ہے کہ اس معاملہ میں آپ سے ملاقات کریں.میں نے احمدی وکلاء کو بھی یہی تحریک کی ہے کہ وہ اپنی خدمات پیش کریں.اس معاملہ میں خاص کوشش ہونی چاہئے کہ پبلک کی نظر میں اس کو ثابت کیا جائے کہ ان فسادات میں مسلمانوں پر ابتلاء کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی بلکہ اس سارے قتل و غارت اور نقصان مال کی ذمہ داری ہندوؤں اور سکھوں پر ہے جنہوں نے بے گناہ مسلمانوں پر حملہ آور ہو کر فساد کی آگ کو مشتعل کیا." (الفضل ۲۴.مئی ۱۹۲۷ء) در تمان نامی ایک ہندو اخبار نے ہمارے پیارے آقا خاتم النبيين الا اللہ کے متعلق انتہائی دریدہ دھنی سے ایک اشتعال انگیز مضمون شائع کیا مسلمان اس پر بجاطور پر دُکھی دلوں کے ساتھ اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عدالت سے داد رسی کیلئے کوشاں ہوئے مگر غیر متوقع طور پر مسلمانوں کے جذبات اور انصاف کو مد نظر رکھنے کی بجائے جسٹس کنور دلیپ سنگھ نے اس کیس کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ قانون کے مطابق اس مضمون میں کوئی خرابی نہیں ہے اور لکھنے والے کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اس سراسر جانبدارانہ اور متعصبانہ فیصلہ کے خلاف مسلمانوں میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ گئی.مسلمانوں کے ایک مشہور اخبار مسلم آوٹ تک ( Muslim Out Look) نے اس فیصلہ کے خلاف مسلمانوں کے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ایک زور دار ادار یہ لکھا مگر عجیب بات ہے کہ وہ قانون جو دنیا میں بسنے والے
١٩٣ کروڑوں مسلمانوں کے محبوب رہنما کی تو ہین پر حرکت میں نہیں آیا تھا وہ ایک جج کی مزعومہ تو ہین پر حرکت میں آگیا اور مسلم آوٹ لک کے ایڈیٹرو پبلشر کو اس جرم میں سزا سنادی گئی.حضرت مصلح موعود ورتمان کے مضمون اور حج کے متعصبانہ رویہ کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے اور آپ نے اس کے خلاف اشتہار مضامین وغیرہ چھپوانے اور ایک محضر نامہ تیار کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے فرمایا :.۲۲.جولائی کے جلسوں میں مسلمانوں سے دستخط لے کر ایک محضر نامہ تیار کیا جائے کہ ہمارے نزدیک "مسلم آوٹ لک" کے ایڈیٹر اور مالک نے ہر گز عدالت عالیہ کی ہتک نہیں کی بلکہ جائز نکتہ چینی کی ہے جو موجودہ حالات میں ہمارے نزدیک طبعی تھی اس لئے ان کو آزاد کیا جائے اور جلد سے جلد جسٹس کنور دلیپ سنگھ کا فیصلہ مسترد کر کے مسلمانوں کی دلجوئی کی جائے." (الفضل یکم جولائی ۱۹۲۷ء) آنحضرت میمیک کی عقیدت محبت کے مقابل حکومت کی پسند نا پسند کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :." مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ گورنمنٹ کی خاطر قوم کو قربان کردوں.اس وقت قوم کی حفاظت کا سوال ہے." (لیکچر شمله صفحه ۳۳) مسلمانان بر صغیر اس احتجاج میں برابر شریک ہوئے اور ہندوستان کے ایک سرے سے وسرے سرے تک اس پر امن مگر موثر احتجاج سے حکومت وقت کو مسلمانوں کی رسول عربی سے گہری محبت و عقیدت کا علم ہونے کے علاوہ مسلمانوں میں حضور ملی کی محبت عقیدت کی ایک نئی لہردوڑ گئی.ہندوؤں کے مقابلہ میں مسلمانوں میں تنظیم کی کمی ، تعلیم کی کمی ، سرمایہ مسلم پریس کی حمایت کی کمی اثر و رسوخ کی کمی، تنظیم کی کمی کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی بھی بہت زیادہ کمی تھی.اس زمانے میں مسلم اخبارات بہت ہی کم تھے اور اس محدود تعداد میں سے بھی ایک بڑی تعداد کانگریس کے زیر اثر ہندوؤں کی ہمنوا تھی ان حالات میں پریس کی بہتری بھی حضور کے پیش نظر تھی.آپ جماعت کے اخبارات و رسائل کو ہمیشہ مسلم مفاد کیلئے زور قلم استعمال کرنے کی ہدایت فرماتے ، خود بھی زور دار مضامین اور کتب تحریر فرمائیں عام مسلم پریس کو مؤثر بنانے کیلئے مختلف تجاویز پیش فرمائیں، باہم اتحاد و اتفاق کی فضا سے جو فوائد حاصل ہو سکتے ہیں
۱۹۴ ان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.میں مسلمان اخبارات کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری آپس کی مخالفت خواہ کتنی پر زور ہو مگر اس میں نیتوں پر حملہ نہ ہو اگر دل میں ہمیں یقین بھی ہو جائے کہ ایک شخص محض نیک نیتی سے کام نہیں کر رہا تو بھی قومی کاموں میں ایسے خیالات کے اظہار سے ہم حتی الوسع باز رہیں تاکہ بجائے فائدہ کے نقصان نہ ہو.اگر اس شخص کی نیت خراب ہو گی تو اس کا اندازہ خود ظاہر ہو کر رہے گا اور خدا تعالیٰ اس سے گرفت کرے گا لیکن اگر ہم اپنے اندازہ میں غلطی کریں گے تو یقینا ہم گناہ گار بنیں گے پس ہمیں اپنی نکتہ چینی کو صرف ظاہر تک محدود رکھنا چاہئے اور دلوں کے اسرار کو نکالنے کی یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے.اس کے اختیار کرنے میں ہمارا کوئی نقصان نہیں بلکہ بالکل ممکن ہے کہ اگر وہ شخص جس سے ہمیں اختلاف ہے حد سے تجاوز نہیں کر جاتا تو اپنی اصلاح کی طرف مائل ہو جائے اور ہماری خرابی کا موجب نہ رہے بلکہ ہمار ا دست و بازو بن کر ہماری تقویت کا باعث ہو." (الفضل ۳۰.اگست ۱۹۲۹ء) موجودہ زمانے میں پراپیگینڈا کی غرض سے بے سروپا باتوں اور افواہوں کو شائع کرنا اور غلط باتوں کو پھیلاتے چلے جانا فن صحافت کا کمال سمجھا جاتا ہے مگر حضور کی مندرجہ بالا نصیحت میں اس کے بر عکس قرآنی ارشادات اور احادیث کی حکمتوں کا لطیف رنگ پایا جاتا ہے جو یقینا زیادہ مفید اور زیادہ موثر ہے.کانگریس کی طرف سے سول نافرمانی یا ترک موالات کی تحریک کے پیش نظر حکومت کو اخبارات بند کر دینے کی دھمکی بھی دی گئی.مسلم پریس کا وہ حصہ جو اپنی معقولیت و سنجیدگی کی وجہ سے اس شورش میں عملاً حصہ لینے پر تیار نہیں تھا ان کے خلاف کانگریس نے محاذ قائم کر لیا اور کوشش کی کہ مسلم مفاد کے اس اہم حصہ کو ختم کر کے مسلمانوں کی آواز ان کے گلے میں ہی دبادی جائے.تاہم حضور کی ہدایت پر جماعت کی طرف سے اخبار "انقلاب" اور "سیاست" کو بذریعہ تار ان کی حفاظت و سلامتی کے لئے مدد کی پیشکش کی گئی جس کے جواب میں اخبار "انقلاب" نے اپنی ۲۹.مئی ۱۹۳۰ء کی اشاعت میں " احمدی بھی انقلاب کی حفاظت کیلئے تیار ہیں" کے عنوان کے تحت لکھا:.
۱۹۵ ہم جماعت احمدیہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں.ہمیں یقین ہے کہ ان کی طرح ہر مسلمان اپنے اس خادم جریدے کی حفاظت کیلئے کمربستہ ہے.جب تک لمت اسلامیہ "انقلاب" کی پشت پناہ ہے."انقلاب" کو کفر کی طاقتیں کچھ نقصان لکھا:- " نہیں پہنچا سکتیں.سید حبیب صاحب مدیر اخبار "سیاست" نے جماعت کی امداد کی پیشکش کے جواب میں " جناب من میں دلی شکریہ کے ساتھ آپ کے مکتوب اور تار جس کا آپ نے اس مکتوب میں حوالہ دیا ہے کی رسید پیش کرتا ہوں اور آپ کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ اس موقع پر آپ نے جس برادرانہ ہمدردی اور کچی اسلامی سپرٹ کا اظہار کیا ہے اس نے مجھ پر اور میرے متعلقین پر ایک دیر پا اثر قائم کیا ہے.میں آپ کی معرفت آپ ، کی جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور انہیں اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ میں اس پیش کش کے لئے بے حد ممنون ہوں اب خطرہ گزر گیا ہے اور کانگریس نے میرے دفتر پر پکٹنگ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے.تاہم اگر کبھی ضرورت پیش آئی تو میں آپ کی مخلصانہ پیشکش سے فائدہ اٹھانے میں دریغ نہ کروں گا.آپ کا حبیب" الفضل ۳.جون ۱۹۳۰ء) سول نافرمانی کے نتیجہ میں حکومت کی طرف سے گرفتاریاں شروع ہو گئیں اور جابجا شورش پھیل گئی.حضور نے اصلاح احوال کی خاطر وائسرائے ہند کو ایک خط لکھا جس میں سات اہم بنیادی تجاویز پیش فرمائیں.ملک کی تمام امن و اعتدال پسند جماعتوں کے نمائندوں کی کانفرنس بلا کر مشورہ لیا جائے کہ کونسا طریق ہے جس سے قانون کا احترام بھی قائم رہے اور ہندوستانیوں کو تشدد کی شکایت بھی نہ ہو.تمام گورنروں کی کانفرنس منعقد کی جائے اور سب ہندوستان کے لئے ایک متفقہ طریق عمل تجویز کیا جائے..پریس پر پابندیاں لگانا ایک حد تک ضروری ہے لیکن اس قدر ضمانتوں کا طلب کرنا اردو پریس کے لئے ناقابل برداشت ہے اور شورش کو بڑھا دے گا پس اول صرف
194 تنبیہ ہونی چاہئے دوسری بار معمولی ضمانت طلب کی جائے تیسری بار زرضمانت زیادہ کر دیا جائے.حکومت کو اعلان کرنا چاہئے کہ موجودہ گرفتاریاں تحریک آزادی کو روکنے کیلئے نہیں بلکہ اس کے لئے بہتر فضا پیدا کرنے کی غرض سے ہیں.ورنہ ہندوستان کو بہرحال درجہ نو آبادیات دیا جائے گا.- مسلمان من حیث القوم موجودہ شورش سے الگ ہیں مگر ہنگامہ پشاور میں حکومت سے سخت غلطی ہوئی اور مقامی حکام نے ضبط نفس سے کام نہیں لیا حکومت کو اس کا ازالہ کرنا چاہئے.اس ضمن میں اس قسم کا اعلان بہت مفید ہو گا کہ صوبہ سرحد کو بھی دوسرے صوبوں کے ساتھ ساتھ ملکی اصلاحات دے دی جائیں.مسلمانوں کو شبہ ہے کہ حکومت فیصلہ کرتے وقت ان کے حقوق ہندوؤں کے شور کی وجہ سے تلف کر دے گی اس کا ازالہ ہونا چاہئے.ے.شاردا ایکٹ کے بارے میں بھی حکومت نے سخت غلطی کا ارتکاب کیا ہے میں خود بچپن کی شادیوں کا مخالف ہوں لیکن اس کے باوجود ہر گز پسند نہیں کرتا کہ ایک كثير التعداد جماعت سوشل اصلاح کے نام سے قلیل التعداد جماعتوں کے ذاتی معاملات میں دخل دے.وائسرائے ہند کے پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر کننگھم کی طرف سے اس خط کا مفصل جواب موصول ہوا جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا تھا کہ :." حفاظت حقوق کی نسبت مسلمانوں کی بد گمانی دور کرنے کیلئے ہزایکسلینسی اپنے اثر کو کام میں لائیں گے.ہر میجنی کی حکومت ہمیشہ اس امر پر زور دیتی رہی ہے کہ گول میز کانفرنس میں تمام قوموں اور خاص ذمہ داری رکھنے والی جماعتوں کی نمائندگی کا ضروری خیال رکھا جائے گا." الفضل ۵- جون ۱۹۳۰ء) سنجیدہ مزاج ہندو ر ہنماؤں کو بھی آپ نے اس طرف توجہ دلائی کہ ان کی اور ملک کی بہتری مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق ادا کئے جانے میں ہی ہے اس سلسلہ میں کی گئی زیادتی کسی کیلئے بھی مفید نہیں ہو سکتی.آپ نے فرمایا.پس میں تمام محبانِ وطن اور سنجیدہ مزاج ہندوؤں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ
194 مسلمانوں کے مطالبات منظور کرلیں کیونکہ اسی میں ملک کی بہتری ہے اگر ہندو مسلمانوں کو ان کے واجبی حقوق نہ دیں گے تو وہ کبھی بھی حقیقی ملکی ترقی کے متمنی نہیں سمجھے جا سکتے.مسلمان نیشنل سپرٹ کا اس وقت تک ثبوت نہیں دے سکتے جب تک کہ وہ ملک میں اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھیں اور یہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ انہیں ان کے حقوق جن کا مختصر خاکہ یہ ہے دے دیئے جائیں.سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے ایک مستقل صوبہ بنا دیا جائے.جغرافیائی، تاریخی ، زبانی اور تمدنی حالات اس کی علیحدگی کے متقاضی ہیں.صوبہ سرحد میں اصلاحات کا نفاذ کیا جائے..بنگال، پنجاب، سندھ، صوبہ سرحد میں مسلمانوں کو ان کی تعداد کے تناسب سے پورے پورے حقوق دیے جائیں.۴.صوبہ جات کو کامل خود اختیاری دی جائے تاکہ کم سے کم ان صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی کثرت ہے ان کے حقوق محفوظ رہ سکیں.۵ موجوده جداگانه انتخاب کا طریق برقرار رکھا جائے تاکہ مسلمانوں میں اپنے محفوظ ہونے کا احساس پیدا ہو سکے.۶.مسلمانوں کو ملازمتوں وغیرہ میں واجی حقوق دیئے جائیں اور نا قابلیت کے موہوم گذر کے ذریعہ ان کے واجبی حقوق کو دبانے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے.یہ ہیں مختصراً مسلمانوں کے مطالبات اور وہ امید کرتے ہیں کہ ملکی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے ہندو بھائی ان کو منظور کرنے میں تامل نہیں کریں گے.(الفضل ۱۰.جنوری ۱۹۳۰ء) ہندوؤں نے اپنی بالادستی قائم رکھنے اور مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرنے کیلئے یہ تحریک چلائی کہ ہم اس وقت مل کر انگریزوں سے آزادی حاصل کر لیں بعد میں حقوق کا تصفیہ کر لیا جائے گا.اس پر اپیگنڈہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :."میں سمجھتا ہوں کہ کانگریس کی (اس) پالیسی سے زیادہ دھوکا اور فریب کی پالیسی اور کوئی نہیں ہو سکتی اور مسلمانوں سے زیادہ کوئی احمق نہ ہو گا اگر انہوں نے اسے تسلیم کر لیا.یہ کہنا کہ حقوق کا تصفیہ بعد میں ہو جائے گا نہایت مضحکہ خیز بات
۱۹۸ ہے سیاسی لحاظ سے (مسلمانوں کے لئے ) یہ خود کشی کا معاملہ ہے......(سوال یہ ہے کہ آزادی ملنے پر) کون قابض ہو گا مسلمان یا ہندو یا مشترکہ طور پر تو پھر ان کا اشتراک کس نسبت سے ہو گا.اگر کہا جائے کہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوگی تو یہ بالبداہت غلط ہے کیونکہ ہندو مسلمانوں کو کچھ بھی دینے کیلئے تیار نہیں اس لئے فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ جب تک کوئی باقاعدہ حکومت قائم نہ ہوگی نظام مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے گا تاوہ مطمئن رہیں کہ ان کے حقوق پامال نہیں ہونگے لیکن اگر کہا جائے ہندوؤں کے ہاتھ میں ہوگی تو وہ ہندو جو آج جب کہ انگریزوں سے جنگ کرنے کیلئے انہیں مسلمانوں کی مدد کی ضرورت ہے مسلمانوں کے مطالبات نہیں مانتے تو بر سر حکومت آ جانے پر وہ کب سنیں گے بلکہ بر عکس ۷۵ فیصدی یہ امید ہے کہ ہندو مسلمانوں کو کچل ڈالیں گے.کہا جاتا ہے کہ گاندھی جی نے مسلمانوں کی حفاظت کا وعدہ کر لیا ہے مگر جب حکومت آئے گی گاندھی جی کو کون پوچھے گا....اگر کہا جائے کہ عارضی طور پر انتظام کر لیا جائے گا تو پھر وہی سوال آئے گا کہ اس میں مسلمانوں کی نگہداشت کا کیا انتظام ہو گا اور پھر اگر فیصلہ کے بعد اس عارضی حکومت نے حکومت سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا تو پھر کیا ہو گا.غرض یہ بات کہ تصفیہ حقوق بعد میں ہو گا سراسر عقل کے خلاف بات ہے...اس لئے جب تک کوئی فیصلہ نہ ہو اس وقت تک کون حکومت کرے گالہذا حکومت کی تشکیل پہلے ہو جانا ضروری ہے اور اگر نیت نیک ہو اور مسلمانوں کو کچھ دینے کا ارادہ ہو تو پیچھے ڈالنے کی ضرورت ہی کیا ہے.بعض لوگ نادانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ابھی کچھ ہے ہی نہیں.تو دیں کیا؟ لیکن ہم کب کہتے ہیں کہ عملاً کچھ دے دو.ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ فیصلہ کر لو کہ ہاتھ میں آنے کے بعد کیا دو گے.تصفیہ بهر حال ضروری ہے تا معلوم ہو سکے کہ مسلمانوں کو ایسی پوزیشن حاصل نہیں ہوگی جس سے اسلام ہی ہندوستان سے مٹ جائے....اور جب تک پہلے حقوق طے نہ کر لئے جائیں مسلمانوں کو کبھی مطمئن نہ ہونا چاہئے.نہرو رپورٹ کی تنسیخ بھی کانگریس کی طرف سے سخت دھوکا ہے اور جو مسلمان اس سے مطمئن ہو گئے ہیں ان کی عقل پر افسوس ہے پہلے تو ڈومینین سٹیٹس کا مطالبہ تھا اور اس صورت میں کچھ نہ کچھ تسلی اس طرح ہو سکتی تھی کہ اگر ہندوؤں نے
۱۹۹ ہمارے حقوق ہمیں نہ دیئے تو انگریزوں سے مددلی جا سکتی ہے اور وہ دلا دیں گے.لیکن جب انگریزوں کو نکال دیا جائے گا تو پھر مسلمانوں کا پرسان حال کون ہو گا وہ ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہونگے اگر کچھ چاہیں تو دے دیں وگرنہ ان کی مرضی.پس میں کہوں گا جو مسلمان کانگریس کی رو میں سے چلے جا رہے ہیں وہ اسلامی نقطہ نگاہ سے خود کشی کر رہے ہیں.اگر کہا جائے کہ ہم فرقہ وارانہ جذبات سے نہیں بلکہ نیشنیلٹی کے خیال سے کانگریس کے ساتھ ملے ہیں اور یہ ایک نیشنل سوال ہے تو میں کہوں گا اگر بعد میں جوتے کھا کر ہندو بنتا ہے تو پہلے ہی اپنی مرضی سے کیوں نہ بن جاؤ." (الفضل ۲۵.فروری ۱۹۳۰ء) ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندوؤں کے مقابلہ کانگریس کی ایک خوفناک سازش کا توڑ میں اقلیت میں ہونے کی وجہ سے قریباً ہر میدان میں نقصان اٹھانا پڑتا تھا مگروہ اپنے آپ کو ہندوؤں کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور پاتے تھے اور بقول مورخ پاکستان جناب رئیس احمد جعفری "انہیں کانگریس سے خدشات تھے اکثریت سے خطرات تھے ، ہندوؤں سے شکایات تھیں بایں ہمہ انہوں نے بار بار کانگریس کو دعوت مصالحت دی بكرات و مرات دست تعاون دراز کیا، بارہا انہوں نے کوشش کی کہ اکثریت ان پر اعتبار کرے جب کبھی متحدہ طور پر قدم اٹھانے یا مطالبہ پیش کرنے کا مرحلہ در پیش ہوا وہ کبھی پیچھے نہ ہے مسلمانوں نے کانگریس سے ملنا چاہا سو بار ملنا چاہا.مسلمانوں کی اکثریت کی طرف سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور بڑھائے رکھا.مسلمانوں نے ہندوؤں سے راہ و رسم پیدا کرنے کی کوشش کی اور کرتے رہے.(حیات محمد علی جناح صفحه ۶۸) ایسی ہی صلح و دوستی کی کوششوں میں سے ایک وہ کوشش بھی تھی جو بعد میں میثاق لکھنو کے نام سے مشہور ہوئی.1917ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کی ہائی کمان نے ایک ایسا سمجھوتہ کیا جس کی رو سے مسلمان ہندو اکثریت والے صوبوں میں کچھ زائد نشستیں حاصل کرنے کے عوض مسلم اکثریت کے صوبوں پنجاب اور بنگال میں اپنی اکثریت کو ختم کرنے پر تیار ہو گئے.اس وقت کی مسلم قیادت نے نیک نیتی کے ساتھ مسلمانوں کے مفاد میں ہی یہ سمجھوتہ کیا ہو گا مگر حضرت مصلح موعود کی مومنانہ فراست اس معاہدہ میں چھپے ہوئے اس انتہائی خطرناک امر کو بھانپ گئی کہ یہ تو عملاً اپنے ہاتھ پاؤں باندھ کر ہندو کی مستقل غلامی کا طوق اپنی گردن میں ڈالنے اور آزادی کی تمام کوششوں
اور قربانیوں کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے.آپ اس خطرناک معاہدے کے عواقب و نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اس سمجھوتے کے ماتحت مسلمانوں کو گو پنجاب یوپی بہار اور سی پی میں ان کی تعداد سے زیادہ حق نیابت مل گیا ہے مگر وہ پھر بھی ان صوبوں میں قلیل التعداد ہی رہے اور ان کی آواز برادران وطن سے نیچی ہی رہی لیکن اس کے مقابلہ میں پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی کثرت قلت سے بدل گئی.جب سے یہ سمجھوتہ ہوا ہے میں نے اس وقت سے اس کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی تھی اور واقعات نے میری رائے کی صحت کو ثابت کر دیا مجھے پرانی لیگ کے بعض پر جوش ممبروں سے گفتگو کا موقع ملا ہے اور میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی جب میں نے مسلمانوں کے ان نمائندوں کو مسلمانوں کے حقوق سے بالکل ناواقف پایا.جب میں نے یہ نقص ان لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ مسلمانوں کو سب صوبوں کی مجالس نیابتی میں قلیل التعداد رہنے کی وجہ سے نقصان پہنچے گا.اگر بنگال اور پنجاب میں وہ کثیر التعد اد رہتے تو یہ بہتر تھا بہ نسبت اس کے کہ دوسرے صوبوں میں انہیں کچھ زیادہ حق مل جاتا کیونکہ پنجاب ہندوستان کا ہاتھ ہے اور بنگال سر.ان دونوں جگہ کی طاقت سے مسلمان باقی صوبوں کے مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھ سکتے تھے.تو انہوں نے مجھے جواب دیا کہ صرف پنجاب کی دو فیصدی زیادتی کو قربان کیا گیا ہے ورنہ بنگال میں تو مسلمان کم ہی ہیں حالانکہ واقع یہ ہے کہ بنگال میں مسلمانوں کی طاقت پنجاب سے بھی بڑھ کر ہے.واقعات نے ثابت کر دیا کہ یہ سودا مسلمانوں کو مہنگا پڑا ہے." (الفضل ۱۴.فروری ۱۹۲۵ء) حضور کی بصیرت اور عارفانہ پیش بینی، بالکل صحیح اور بروقت تھی اور زیادہ عرصہ نہیں گزرنے پایا تھا کہ مسلم زعماء اپنے اس معاہدہ کے خطرناک مضمرات کو سمجھ کر اس سے دستبردار ہو گئے اور یہ اعتراف کیا کہ :."بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کرنا واقعی ایک ایسا اقدام تھا جو ہیں.اپنے ہاتھوں اپنی جڑوں پر تیر چلانے کے مترادف تھا." حیات محمد علی جناح میں جناب مولانار کیس احمد جعفری اس معاہدہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے
۲۰۱ مسلمانوں کا اس میثاق سے نقصان تھا یوپی میں انہیں پاسنگ نہ ملتا.سی پی بہار مدراس، بمبئی میں انہیں چند نشستیں زیادہ نہ دی جاتیں تو کوئی مضائقہ نہ تھا لیکن اس میثاق نے ستم یہ کیا کہ بنگال میں جہاں وہ برابر تھے انہیں اقلیت میں تبدیل کر دیا اور پنجاب میں جہاں وہ اکثریت رکھتے تھے برابر کر دیئے گئے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنگال اور پنجاب جیسے مسلم صوبوں میں بھی مسلمان ہمیشہ پسماندہ رہے.چاہئے تھا کہ مسلمان اس کی مخالفت کرتے لیکن انہوں نے اپنے دور رس ملی نقصان کو گوارا کر لیا." (حیات محمد علی جناح صفحہ ۷۷) اس معاہدہ کے انتہائی بھیانک خطرات (جن کی حضور نے نشان دہی فرمائی تھی) سے بچنے کیلئے مسلم لیگ کو اپنے بنیادی مطالبات میں جنہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے مرتب فرمایا تھا اور جو بعد میں ”مسٹر جناح کے چودہ نکات " کے نام سے مشہور ہوئے.یہ مطالبہ شامل کرنا پڑا کہ ” آئندہ کوئی ایسی تبدیلی نہ کی جائے جس کا اثر صوبہ پنجاب اور بنگال کی مسلم اکثریتوں پر پڑے." (حیات محمد علی جناح صفحہ ۱۷) ہماری قوم حضرت مصلح موعود کی بر وقت رہنمائی سے نہ صرف ایک بہت بڑے نقصان سے محفوظ ہو گئی بلکہ عملاً آزاد وطن پاکستان کے حصول کی منزل سے ایک قدم اور نزدیک ہو گئی.سوانح فضل عمر جلد دوم میں حضور کی ملی خدمات کے ضمن میں یہ ذکر ہو چکا ہے سکھ مسئلہ کا حل کہ آپ کی تمام تر سیاسی کارروائیاں قرآنی اصولوں کے تابع تھیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے کبھی اپنے اصولوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور یہ بھی کہ آپ کی تجویز کردہ راہ عمل ہی کامیابی کی ضامن ہوتی تھی.حضور کی ملی خدمات زیادہ قریب سے اور زیادہ غور سے دیکھی جائیں تو یہ امر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ حضور علی کے ارشاد مبارک أنْصُرُ أَخَاكَ ظَالِمًا اَوْ مَظْلُوما کی بڑی خوبصورت و عمدہ تشریح و تفسیر ہی نہیں تعمیل بھی ہو رہی ہے.ہندوستان میں غالب اکثریت ہندوؤں کی تھی ان کی سیاسی و معاشی سوجھ بوجھ ہندوستان کی کسی بھی اور قوم سے زیادہ تھی اور اس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں پر زیادتی کے کسی موقع کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.ان کا اثر و رسوخ اور وسائل و ذرائع بہت زیادہ تھے.مگر حضور نے ان کی اس حیثیت سے مرعوب ہونے کی بجائے انہیں ان زیادتیوں اور مظالم سے روکنے کی پوری
۲۰۲ کوشش کی اور انہیں انصاف کے تقاضوں سے باخبر کرتے رہے.دوسرے نمبر پر مسلمان تھے جو ہندوؤں سے صرف اپنی تعداد میں ہی کم نہ تھے بلکہ اپنے سیاسی تجربہ اور مالی وسائل و ذرائع میں بھی ہندوؤں سے بہت پیچھے تھے.تاہم حضور کی ساری خداداد صلاحیتیں مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت اور ان کی بہبودی و ترقی کیلئے وقف تھیں " کہ آخر کنند دعوی حب پیمبرم " ہندوستان میں سکھوں کی تعداد ہندوؤں اور مسلمانوں سے کہیں کم تھی.وہ اپنی غیر ذمہ دارانہ اور عاقبت نا اندیش قیادت اور ہندوؤں کی چکنی چپڑی باتوں کی وجہ سے ہندوؤں سے تعلقات رکھنے میں اپنی بہتری و بهبود خیال کرتے تھے.حضور نے تحریر و تقریر کے ذریعہ انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کا مفاد ہندوؤں کے ساتھ وابستہ نہیں بلکہ وہ مسلمانوں سے اتفاق و اتحاد کے نتیجے میں اپنے مفادات کی بہتر رنگ میں حفاظت کر سکتے ہیں.سکھوں نے اپنی سطحی سوچ اور وقتی مفاد کے پیش نظر ان باتوں کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور ہندوؤں کے ساتھ مل کر بربریت و بہیمیت کے ایک خونی باب کا اضافہ کیا.مگر وہ اپنے اس ظلم کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہے اور اپنے کئے پر پشیمان ہو رہے ہیں.اس سلسلے میں حضور کا مندرجہ ذیل کسی قدر طویل بیان اس مسئلہ کے علاوہ کئی اور ضروری امور پر بھی روشنی ڈالتا ہے.آپ تقسیم برصغیر کے برطانوی منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں.اس وقت تک جو تقسیم کا اعلان ہوا ہے اس کا حسب ذیل نتیجہ نکلا ہے.ہندو (انگریزی علاقے کے ۲۱ کروڑ میں سے ساڑھے انیس کروڑ ایک مرکز میں ہی جمع ہو گئے ہیں اور صرف ڈیڑھ کروڑ مشرقی اور مغربی اسلامی علاقوں میں گئے ہیں.گویا اپنی قوم سے جُدا ہونے والے ہندوؤں کی تعداد صرف سات فیصدی ہے.باقی ترانوے فیصدی ہندو ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں اور تین کروڑ ہندو اکثریت کے علاقوں میں ہی گئے ہیں.گویا اپنی قوم سے جدا ہونے والے مسلمان ۳۷ فیصدی ہیں.سکھ (انگریزی علاقے میں) ۲۱ لاکھ مشرقی پنجاب میں چلے گئے ہیں اور سترہ لاکھ مغربی پنجاب میں رہ گئے ہیں.گویا ۴۵ فیصدی سکھ مغربی پنجاب میں چلے گئے ہیں.اور ۵۵ فیصدی مشرقی پنجاب میں اور تینوں قوموں کی موجودہ حالت یہ ہو گئی ہے.ہندو ننانوے فیصدی اپنے مرکز میں جمع ہو گئے ہیں.مسلمان چونسٹھ فیصدی اپنے دو مرکزوں میں جمع ہو گئے ہیں.سکھ پچپن فیصدی اور پینتالیس فیصدی ایسے دو مرکزوں میں جمع ہو گئے ہیں جہاں انہیں
۲۰۳ اکثریت کا حاصل ہونا تو الگ رہا پچیس فیصدی تعداد بھی انہیں حاصل نہیں.کیا اس صورت حال پر سکھ خوش ہو سکتے ہیں؟ بات یہ ہے کہ اس بنوارہ سے ہندوؤں کو بے انتہاء فائدہ پہنچا ہے.مسلمانوں کو اخلاقی طور پر فتح حاصل ہوئی ہے لیکن سکھوں کو مادی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی نقصان پہنچا ہے.گویا سب سے زیادہ گھانا سکھوں کو ہوا ہے اور اس سے کم مسلمانوں کو.ہندوؤں کو کسی قسم کا بھی کوئی نقصان نہیں ہو ا صرف اس غنیمت میں کمی آئی ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے.و لیکن ابھی وقت ہے کہ ہم اس صورت حال میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں.سکھ صاحبان جانتے ہیں کہ احمد یہ جماعت کو کوئی سیاسی اور مادی فائدہ اس یا اس سکیم سے حاصل نہیں ہوتا.احمدی جماعت کو ہر طرف سے خطرات نظر آ رہے ہیں.ایک پہلو سے ایک خطرہ ہے تو دوسرے پہلو سے دوسرا.پس میں جو کچھ کہہ رہا ہوں عام سیاسی نظریہ اور سکھوں کی خیر خواہی کے لئے کہہ رہا ہوں کہ جس علاقے میں میں رہتا ہوں گو اس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن سکھ اس علاقے میں کافی ہیں اور ہمارے ہمسائے ہیں اور ان کی نسبت کوئی ۳۳ فیصدی تک ہے اس لئے سکھوں سے ہمارے تعلقات بہت ہیں.بعض سکھ رؤساء سے ہمارا خاندانی طور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ سے بھائی چارہ اب تک چلا آتا ہے اس لئے میری رائے مخفی خیر خواہی کی بناء پر ہے میرا دل نہیں چاہتا کہ سکھ صاحبان اس طرح کٹ کر رہ جائیں.اگر تو کوئی خاص فائدہ سکھوں کو پہنچا تو میں اس تجویز کو معقول سمجھتا مگر اب تو صرف اس قدر فرق پڑا ہے کہ سارے پنجاب میں مسلمان تعداد میں اول تھے.ہندو دوم اور سکھ سوم ہیں.سکھ اس بٹوارے سے دوم ہو جاتے تو کچھ معقول بات بھی تھی مگر صرف مسلمان اول سے دوم ہو گئے اور ہندو دوم سے اول.سکھوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا.پرانے پنجاب میں مسلمانوں نے اپنے حق سے ساڑھے پانچ فیصدی سکھوں کو دے دیا تھا.اب تک ہندوؤں کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا کہ وہ کتنا حصہ اپنے حصہ میں سے سکھوں کو دینے کو تیار ہیں.."پرانے پنجاب میں چودہ فیصدی سکھوں کو اکیس فیصدی حصہ ملا ہوا تھا.اب
۲۰۴ اٹھارہ فیصدی سکھ مشرقی پنجاب میں ہو گئے ہیں.اگر ہندو جو تعداد میں اول نمبر پر ہیں مسلمانوں کی طرح اپنے حق سے سکھوں کو دیں تو سکھوں کو نئے صوبہ میں چھبیس فیصدی حق ملنا چاہئے.گو سکھ پرانے انتظام پر خوش نہ تھے اس وجہ سے انہوں نے صوبہ تقسیم کروایا ہے اس لئے انہیں ہندوؤں سے تیس فیصدی ملے تب وہ دنیا کو کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو پر انے پنجاب سے ہم زیادہ فائدہ میں رہے ہیں.مسلمانوں نے ہمیں ڈیوڑھا حق دیا تھا اب ہندوؤں نے اپنے حق سے کاٹ کر ہمیں پونے دو گنا دے دیا ہے اس لئے ہمارا ہوارہ پر زور دینا زیادہ درست تھا.لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور ہندوؤں نے اپنے حصہ سے اس نسبت سے بھی سکھوں کو نہ دیا جس نسبت سے پرانے پنجاب میں مسلمانوں نے سکھوں کو دیا تھا تو سکھ قوم لازما گھاٹے میں رہے گی.نئے صوبہ میں اٹھارہ فیصدی سکھ ہونگے ، بتیس فیصدی مسلمان پچاس فیصدی ہندو.اگر ہندو اس نسبت سے اپنا حق سکھوں کو دیں جس طرح مسلمانوں نے پنجاب میں دیا تھا تو سکھوں کو ۲۶ فیصد حق مل جائے گا اور نمائندگی کی شکل یوں ہوگی کہ ۳۲ فیصدی مسلمان ۲۶۴ فیصدی سکھ ۴۳۴ فیصدی ہندو.لیکن اول تو ایسا کوئی وعدہ ہندوؤں نے سکھوں سے اب تک نہیں کیا.وہ غالبا یہ کوشش کریں گے کہ مسلمانوں کے حق سے سکھوں کو دینا چاہئے.لیکن سکھوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے فتنہ کا دروازہ کھلے گا جب مسلمان زیادہ تھے انہوں نے اپنے حصہ سے سکھوں کو دیا اب ہندو زیادہ ہیں اب انہیں اپنے حصہ سے سکھوں کو دینا چاہئے ور نہ تعلقات ناخوشگوار ہو جائیں گے." فرض کرد کہ ہندو سکھوں کو اپنی نیابت کے حق سے دے بھی دیں جتنا انہیں مسلمانوں نے اپنے حق سے دیا ہوا تھا تو پھر بھی سکھ صاحبان کو ان امور پر غور کرنا چاہئے.تمام سکھ امراء منٹگمری لائل پور (فیصل آباد) اور لاہور میں بستے ہیں.اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ لائلپور ، منٹگمری اور لاہور کے سکھ زمینداروں کو ملا کر فی سکھ آٹھ ایکڑ کی ملکیت بنتی ہے.لیکن لدھیانہ ہوشیار پور فیروز پور امر تسر کے سکھ ملکیت کے لحاظ سے ایک ایکڑ فی سکھ ملکیت بنتی ہے کیونکہ لدھیانہ اور جالندھر میں سکھوں کی ملکیت بہت کم ہے اور اس وجہ سے وہ زیادہ تر مزدور پیشہ اور فوجی ملازم ہیں.یا ملک سے باہر جا کر غیر ممالک میں کمائی کرتے ہیں.
۲۰۵ اس وجہ سے اگر یہ تقسیم قائم رہی تو اس کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ مالدار سکھ مغربی پنجاب سے جاملیں گے اور اگر مسلمانوں کا رویہ ان سے اچھا رہا اور خدا کرے اچھا رہے تو ان کی ہمدردی مشرقی سکھ سے بالکل جاتی رہے گی اور کوئی مالی امداد وہ اسے نہ دیں گے اور مشرقی علاقے کا سکھ جو پہلے ہی بہت غریب ہے اپنی تعلیمی اور تہذیبی انجمنوں کو چلا نہ سکے گا.دوسرے اسے یہ نقصان ہو گا کہ سکھ قوم مشرقی حصہ میں اقتصادی طور پر اپنا سر اونچا نہ رکھ سکے گی.تیسرے اس سے یہ نقص پیدا ہو گا کہ ہوشیار پور فیروز پور جالندھر اور لدھیانہ کے سکھ پہلے سے بھی زیادہ غیر ملکوں کی طرف جانے کیلئے مجبور ہونگے اور مشرقی پنجاب میں سکھوں کی آبادی روز بروز گرتی چلی جائے گی اور شاید چند سال میں ہی مشرقی پنجاب میں بھی سکھ چودہ فیصد ی پر ہی آجائیں.پانچویں اس امر کا بھی خطرہ ہے کہ اس بٹوارہ کی وجہ سے مغربی پنجاب کی حکومت یہ فیصلہ کرے کہ وہ زمین جو مشرقی پنجاب کے لوگوں کو مغربی پنجاب میں جنگی خدمات کی وجہ سے دی گئی ہے وہ اس.بناء پر ضبط کر لی جائے کہ اب خدمات کا صلہ دینا نٹے ہندو مرکز کے ذمہ ہے.کوئی وجہ نہیں کہ جب وہ الگ الگ ہو گئے ہیں تو اس خدمت کا صلہ جو در حقیقت مرکزی خدمت تھی وہ صوبہ دے جس کا وہ شخص سیاسی باشندہ بھی نہیں ہے."زمیندارہ کے نقصان کے علاوہ کہ سکھوں کی دو تہائی جائیداد مغربی پنجاب میں ہی رہ جائے گی ایک اور بہت بڑا خطرہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جو سکھ تجارت کرتے ہیں ان میں سے اکثر حصہ کی تجارت مغربی پنجاب سے وابستہ ہے.سکھوں کی تجارت جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں پنجاب میں، راولپنڈی ، کوئٹہ ، جہلم اور بلوچستان سے وابستہ ہے اور تجارت کی ترقی کیلئے آبادی کی مدد بھی ضروری ہوتی ہے.جب سکھوں کی دلچپسی مغربی پنجاب اور اسلامی علاقوں سے کم ہو گی تو لازما اس تجارت کو بھی نقصان پہنچے گا.سوائے سردار بلدیو سنگھ صاحب کے جنگی تجارت بہار سے وابستہ ہے.کو نسا بڑا سکھ تاجر ہے جو مشرقی پنجاب یا ہندوستان میں وسیع تجارت رکھتا ہو.ساری کشمیر کی تجارت جو راولپنڈی کے راستہ سے ہوتی ہے یا جہلم کے ذریعے سے ہوتی ہے سکھوں کے پاس ہے.ایران سے آنے والا مال اکثر سکھوں کے ہاتھ سے ہندوستان کی طرف آتا ہے اور اس تجارت کی قیمت کروڑوں تک پہنچتی ہے.اگر یہ تاجر موجودہ افراتفری میں اپنی
۲۰۶ تجارتوں کو بند کریں گے تو نئی جگہ کا پیدا کرنا ان کے لئے آسان نہ ہو گا اور اگر وہ اپنی جگہ پر رہیں گے تو اس حصہ ملک میں ان کی آبادی کے کم ہو جانے کی وجہ سے وہ اس سیاسی اثر سے محروم ہو جائیں گے جو اب ان کی تائید میں ہے اور پھر اگر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے پہلے علاقے میں ہی رہیں تو آہستہ آہستہ ان کی ہمدردی اپنے مشرقی بھائیوں سے کم ہو جائے گی اور سکھ انجمنیں ان کی امداد سے محروم رہ جائیں گی.اگر مغربی پنجاب نے مشرقی پنجاب کی ڈگریوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو وہ اٹھارہ لاکھ سکھ جو مغربی پنجاب میں بستے ہیں ایک بڑا کالج مغربی پنجاب میں بنانے پر مجبور ہونگے اور چونکہ بڑے زمیندار اور بڑے تاجر سکھ مغربی پنجاب میں ہیں ان کے لئے ایک بہت بڑا کالج بنانا مشکل نہ ہو گا.اس طرح خالصہ کالج امرتسر بھی اپنا نشان کھو بیٹھے گا اور سکھوں کے اندر دو متوازی سکول اقتصادی اور سیاسی اور تمدنی فلسفوں کے پیدا ہو جائیں گے.بے شک ساری قوموں کو ہی اس ہوارہ سے نقصان پہنچے گا لیکن چونکہ ہندوؤں کی اکثریت ایک جگہ اور مسلمانوں کی اکثریت ایک جگہ جمع ہو جائے گی انہیں یہ نقصان نہ پہنچے گا.یہ نقصان صرف سکھوں کو پہنچے گا جو قریباً برابر تعداد میں دونوں علاقوں میں بٹ جائیں گے اور دونوں ہی سے کوئی حصہ اپنی بڑائی کو دوسرے پر قربان کرنے کیلئے تیار نہ ہو گا.بعض سکھ صاحبان یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ جالندھر ڈویژن کی ایک سکھ ریاست بنا دی جائے گی.بے شک اس صورت میں سکھوں کی آبادی کی نسبت اس علاقے میں بڑھ جائے گی مگر اس صورت میں بھی مختلف قوموں کی نسبت آبادی یوں ہو گی.۲۵۶۶۰ سکھ.۳۴۶۵۰ مسلمان اور قریباً ۴۰ فیصد ہندو.اس صورت حال میں بھی سکھوں کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا.پرانے پنجاب میں بھی تو سکھوں کو ۲۲ فیصدی نمائندگی ملی.پس اگر جالندھر ڈویژن کا الگ صوبہ ہی بنا دیا گیا تو اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا کیونکہ انبالہ ڈویژن کے الگ ہو جانے کی وجہ سے انبالہ صوبہ پر گلی طور پر ہندوؤں کا قبضہ ہو جائے گا اور جالندھر ڈویژن میں بوجہ ۴۰ فیصدی رہ جانے کے سکھ ان سے اپنے لئے زیادہ نمائندگی کا مطالبہ نہیں کر سکیں گے اور توازن بہت مضبوطی سے ہندوؤں کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور وہ انبالہ کے صوبے میں
۲۰۷ ہیں:.بغیر کسی سے سمجھوتہ کرنے کے حکومت کر سکیں گے اور جالندھر میں کچھ سکھ یا مسلمانوں کو ملا کر حکومت کر سکیں گے." سکھوں کو ایک مفید اور مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:." میں سمجھتا ہوں کہ میں نے کافی روشنی ان خطرات پر ڈال دی ہے.جو سکھوں کو پیش آنے والے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ۲۳.جون کی ہونے والی اسمبلی کی میٹنگ میں وہ ان امور کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کریں گے.اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ سب سے زیادہ اثر عام سکھوں پر پڑنے والا ہے.وہ بھی اپنے لیڈروں پر زور دیں گے کہ اس خود کشی کی پالیسی سے ان کو بچایا جائے.” میں لکھ چکا ہوں کہ میں بوجہ ایک چھوٹی سی جماعت کے امام ہونے کے کوئی سیاسی غرض ان مشوروں میں نہیں رکھتا اس لئے سکھ صاحبان کو سمجھ لینا چاہئے کہ میرا مشورہ بالکل مخلصانہ اور ان کی ہمدردی کی وجہ سے ہے.اگر سیاست میرے اختیار میں ہوتی تو میں انہیں ایسے حقوق دے کر جن سے ان کی تسلی ہو جاتی انہیں اس نقصان سے بچا تا مگر سیاست کی طاقت میرے ہاتھ میں نہیں اس لئے صرف میں نیک مشورہ ہی دے سکتا ہوں.ہاں مجھے امید ہے کہ اگر سکھ صاحبان مسٹر جناح سے بات کریں تو یقیناً انہیں سکھوں کا خیر خواہ پائیں گے.مگر انہیں بات کرتے وقت یہ ضرور مد نظر رکھ لینا چاہئے کہ ہند و صاحبان انہیں کیا کچھ دینے کو تیار ہیں کیونکہ خود کچھ نہ دینا اور دوسروں سے لینے کے مشورے دینا کوئی بڑی بات نہیں.اس میں مشورے دینے والے کا کچھ حرج نہیں ہو گا.پس اچھی طرح اونچ نیچ کو دیکھ کر وہ اگر مسلم لیگی لیڈروں سے ملیں تو مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ کے لیڈر انہیں نا امید نہیں کریں گے.اگر مجھ سے بھی اس بارے میں کوئی خدمت ہو سکے تو مجھے اس سے بے انتہاء خوشی ہوگی." اپنے اس ہمدردانہ تجزیہ کے آخر میں ایک نہایت مفید نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے "آخر میں میں سکھ صاحبان کو مشورہ دیتا ہوں کہ سب کاموں کی کنجی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.وہ گرونانک دیو جی اور دوسرے گروؤں کے طریق کو دیکھیں وہ ہر
۲۰۸ مشکل کے وقت اللہ تعالٰی سے دعائیں کیا کرتے تھے.اس وقت ان کو بھی اپنی عقل پر سارا انحصار رکھنے کی بجائے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ انہیں وہ راستہ دکھاوے جس میں ان کی قوم کی بھی بھلائی ہو اور دوسری قوموں کی بھی بھلائی ہو یہ دن گزر جائیں گے یہ باتیں بھول جائیں گی لیکن محبت اور پریم کے کئے ہوئے کام کبھی نہیں بھولیں گے.اگر ہوارہ بھی ہونا ہے تو وہ بھی اس طرح ہونا چاہئے کہ ایک قوم کا گاؤں دوسری قوم کے گاؤں میں اس طرح نہ گھسا ہوا ہو کہ جس طرح دو کنگھیوں کے دندانے ملا دیئے جاتے ہیں.اگر ایسا ہوا تو سرحد میں چھاؤنیاں بن جائیں گی اور سینکڑوں میل کے بسنے والے لوگ قیدیوں کی طرح ہی ہو جائیں گے اور علاقے اُجڑ جائیں گے.”یہ میری نصیحت سکھوں کو ہی نہیں مسلمانوں کو بھی ہے.میرے نزدیک تحصیلوں کو تقسیم کا یونٹ تسلیم کر لینے سے اس فتنہ کا ازالہ ہو سکتا ہے.اگر اس سے چھوٹا یونٹ بنایا گیا تو جتنا جتنا چھوٹا ہوتا چلا جائے گا اتنا اتنا نقصان زیادہ ہو گا.ایک عرب شاعر اپنی معشوقہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے.فَإِنْ كُنْتِ قَدْ اَزْمَعْتِ صَوْمًا فَاجْمَلِي یعنی اے میری محبوبہ ! اگر تو نے جُدا ہونے کا فیصلہ ہی کر لیا ہے تو کسی پسندیدہ طریق سے جدا ہو.میں بھی ہندو مسلمان ، سکھ سے کہتا ہوں کہ اگر جدا ہو نا ہی ہے تو اس طرح جدا ہوں کہ سرحدوں کے لاکھوں غریب باشندے ایک لمبی مصیبت میں مبتلاء نہ ہو جائیں".(الفضل ۱۹.جون ۱۹۴۷ء) یہ مفصل بیان اس غرض سے یہاں پر دیا گیا ہے کہ اس سے صرف سکھ مسئلہ پر ہی روشنی نہیں پڑتی بلکہ حضور کے کسی مسئلہ کو پوری طرح سمجھنے اور اس کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہونے اور پھر اسے سادہ اور موثر طریق پر پیش کرنے کا انداز سامنے آتا ہے.حضور کی ژرف نگاہی اور فراست کا یہ کیسا روشن پہلو ہے کہ آپ نے سکھوں کے ان مسائل کی طرف پوری ہمدردی و خلوص سے بڑے موثر طریق پر توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ انہیں متنبہ کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ :.
۲۰۹ ” یہ تو مجھے یقین ہے کہ سکھ ضرور پشیمان ہو کر سامنے آئیں گے لیکن بہتر یہی ہے کہ وہ اس وقت سمجھ جائیں." (الفضل ۵.جون ۱۹۴۷ء) جماعت احمدیہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے تاہم قومی و ملی مفاد کی اقتصادی منصوبہ بندی خاطر جب اور جہاں ضرورت پیش آئی وہاں یہ جماعت صف اول میں موجود خدمت و رہنمائی کی سعادت میں پوری توجہ خلوص اور محنت سے سرگرم عمل نظر آتی ہے.قائد اعظم نے اپنے ایک حقیقت افروز بیان میں فرمایا تھا کہ پاکستان کی بنیاد تو اس دن ہی رکھ دی گئی تھی جب ہندوستان میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا.اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر چودھویں صدی کے ابتدائی زمانہ کی طرف نظر ڈالیں تو ایک انتہائی خوفناک اور بھیانک منظر سامنے آتا ہے.عیسائی پادریوں کی افواج انگریز حکومت کی پشت پناہی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی فتح اور یقینی کامیابی کے نشہ میں مسرور و شاداں ہر طرف چھائے ہوئی نظر آتی ہیں ، ہندو اپنی تجارتی سرگرمیوں میں مست جارحانہ انداز میں بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں.اس کے بالمقابل مسلمانوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہو رہی تھی.تعلیم ، تجارت اور ترقی کے تمام کاموں میں انتہائی پسماندہ سرکاری ملازمتوں میں چپراسی اور مددگار کارکن سے اوپر کوئی مسلمان خال خال نظر آتا تھا، کاروباری مراکز میں کوئی مزدور اور قلی تو مسلمان ہو سکتا تھا مگر تاجر اور متمول حیثیت میں نہ ہونے کے برابر حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ اکثر مسلمان زمینداروں کی زمین اور فصلیں بھی ہندو سرمایہ کاروں کے ہاتھوں فروخت یا گردی ہوتی جارہی تھیں.ان حالات کی وجہ سے مسلمان ہر طرف نکبت و ذلت کا نشانہ بنے ہوئے شکست خوردگی کے زخموں کو چاٹنے میں مصروف تھے.تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایسے بھیانک اور لرزہ خیز حالات میں مخالفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اگر کسی نے مدافعانہ تحریک شروع کی تو وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے سوا اور کوئی نہیں تھا.قائد اعظم کے مذکورہ بالا قول کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ مخالف طاقتیں پاکستان کی حدود کو کم کرنے بلکہ پاکستان کی بنیاد کو ختم کرنے میں مصروف تھیں مگر حضرت مرزا صاحب نے روحانی اور معنوی پاکستان کی بنیادیں استوار کرنی شروع کر دیں اور ایک برقی رو کی طرح یہ مدافعانہ جنگ یکدم چاروں طرف شروع ہو گئی اور پھر بڑھتے بڑھتے مدافعانہ جنگ ایسی جارحانہ جنگ کی شکل اختیار کر گئی کہ انگریز انگلستان میں اور ہندو آگرہ و بنارس میں اپنی مدافعت کی تدابیر سوچنے کی فکر
۲۱۰ میں غلطاں و پریشان ہو گئے.اس نہایت درجہ خوش کن حقیقت کی تفاصیل کو مختصر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود کی خدمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں.آپ کے زمانے میں اسلامی مدافعت کا نظام مزید مستحکم ہوا اور دعوت وارشاد کا مقدس فریضہ ہندوستان کی حدود کو پار کرتے ہوئے بیرونی ممالک میں بھی "پاکستان" بنانے لگا.شُدھی کی ناپاک تحریک اور اس کے مقابل جماعت کی شاندار کار کردگی کا ذکر حصہ دوم میں ہو چکا ہے یہاں اس کا تکرار مد نظر نہیں ہے تاہم یہ اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہند و سرمایہ اور تعصب پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا اور ان کی کوشش تھی کہ شروع میں آگرہ اور ملکانہ علاقہ کے غریب مسلمان ہندوؤں میں شامل ہو کر اسلامی مقاصد کے خلاف کام کرنے لگ جائیں اور اس کے بعد دوسرے علاقوں تک شدھی کی تحریک وسیع کر کے ہندو راج کو ہندوستان بلکہ دوسرے اسلامی ممالک تک پہنچا دیا جائے مگر حضرت مصلح موعود نے اس سیلاب کے آگے ایسا مضبوط بند باندھا کہ ہندو اپنی کوششوں اپنی اعلیٰ تعلیم اور بے شمار دولت کے باوجود اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے.جماعت احمدیہ کی مجاہدانہ سرگرمیوں اور مسلسل ہمہ جہتی قربانیوں سے کفر کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو گئے.شُدھی کی خوفناک تحریک و سازش کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو افلاس و نکبت کے خوفناک جبڑوں میں جکڑے رکھنے کیلئے ہندو اپنے روایتی طریق بغل میں چھری منہ میں رام رام " کے مطابق ذات پات کے خوفناک طریق اور چھوت چھات کے ہولناک رواج کے سہارے ایسی ہر تجارت اور کاروبار کے اجارہ دار بن گئے جو نفع اور سرمایہ میں یقینی اضافہ کا باعث تھی.مشہور آریہ اخبار " مسافر آگرہ " لکھتا ہے." یہ تجارت کا اصول ہے کہ جن اشیاء کی انسان کی زندگی میں روز مرہ ضرورت ہو ان کی تجارت ہی تجار کے لئے زیادہ مفید اور زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور انسانی زندگی کی سب سے پہلی ضرورت کھانا پینا ہے اور ان ہر دو اشیاء کی تجارت ہمارے ہاتھ میں ہے.اب آپ تھوڑی دیر کے لئے غور کیجئے کہ اگر ہندوؤں میں چھوت چھات نہ ہوتی اور وہ مسلمانوں کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھا لیا کرتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ تمام خوردنی و پوشیدنی اشیاء کی تجارت بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ ہوتی غور کیجئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آج جس قدر بھی تجارت ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے یہ صرف
۲۱۱ چھوت چھات کی بدولت ہی ہے اور اگر آپ کو اس پر یقین نہ ہو تو آج ہی چھوت چھات کو اڑا کر دیکھ لیجئے آپ کو حقیقت معلوم ہو جائے گی." مسافر آگرہ جلد ۶ نمبر ۲۲ بحوالہ ہندو راج کے منصوبے صفحہ ۱۹۳) تجارت کے اس دام ہمرنگ زمین سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندو سرزمین ہندوستان سے اسلام کا نام و نشان تک مٹا دینے کے درپے تھے ایک مشہور ہندو لیڈر نے ہندو ذہنیت اور منصوبوں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا." جب ہندو سنگھٹن کی طاقت سے سو راجیہ لینے کا وقت قریب آئے گا تو ہماری جو پالیسی) عیسائیوں اور مسلمانوں کی طرف سے ہوگی اس کا اعلان کر دیا جائے گا.اس وقت باہمی سمجھوتہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ہندو مہاسبھا اپنے فیصلہ کا اعلان کرے گی کہ نئی ہندو ریاست میں مسلمان اور عیسائیوں کے کیا حقوق و فرائض ہوں گے اور ان کی شدھی کی کیا شرائط ہوں گی.es یاد رہے کہ یہ رہنما اپنی اس تقریر میں یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ :." مسلمان تو محض جملہ معترضہ ہیں ان کا یہی مستقبل ہے کہ آہستہ آہستہ شدھی کے ذریعہ دوبارہ ہندو قوم کے اندر شامل ہو جائیں." اور یہ بھی کہ "ہر بچے ہندو کی یہ خواہش ہونی چاہئے کہ اپنے دیش کو اسلام اور عیسائیت سے پاک کر دے." ( ملاپ ۲۵.مئی ۱۹۲۵ء) حضرت فضل عمر نے ۱۹۲۶ء میں قوم کے سامنے ایک ایسی تجویز پیش فرمائی ایک انقلابی اقدام جو مسلمانوں کو ہندوؤں کی خوفناک اقتصادی غلامی سے نجات دلا کر انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والی بلکہ اقتصادی میدان میں ان کے برابر کر دینے والی تھی.ہندوؤں نے ذات پات کی تفریق اور چھوت چھات کی رسم کی وجہ سے نیچی ذات کے ہندوؤں اور دوسری اقوام کو کچھ اس قسم کی اقتصادی غلامی کے بھنور میں پھنسار کھا تھا کہ جس سے نکلنا بظاہر ناممکن تھا بلکہ ان کی معاشرتی اقدار اور تہذیب و تمدن میں جو ہندوؤں نے اپنی عددی اکثریت اور بہتر منصوبہ بندی کی وجہ سے قائم کر رکھا تھا اس بھنور سے بچنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے والا اس کی اتھاہ گہرائیوں میں اور زیادہ غرق ہو تا چلا جاتا تھا.ہندوستان کی اقلیتیں اس صورت حال کو خدائی تقدیر سمجھ کر نکھیں بند کر کے اسی طریق پر چلتے جانے میں ہی عافیت سمجھتی تھیں جو اکثریت نے ان کے لئے
۲۱۲ مقرر کر رکھا تھا.ستم ظریفی کی انتہاء یہ ہے کہ اس زمانے میں ایسے نام نہاد مسلم قائدین کی بھی کوئی کمی نہ تھی جو ہندوؤں کی چالوں کو سمجھ کر ان کا مداوا کر نیکی بجائے انہیں اپنے ہر دکھ کی دوا سمجھتے اور ان کے بتائے ہوئے رستہ پر آنکھیں بند کر کے چل پڑتے تھے.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایسا بیدار مغز رہنما عطا فرمایا تھا جس کی نظر ہر اس امر پر تھی جو قومی ترقی کیلئے ضروری تھا آپ نے بڑے موثر پیرائے میں بار بار ہندوؤں کے مقابلہ کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تلقین فرمائی.ایک موقع پر جب چند تعلیم یافتہ نوجوان حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قومی ترقی کے متعلق حضور سے مشورہ ورہنمائی طلب کی تو حضور نے فرمایا:.ہند و مالدار اور تجارت پر قبضہ کئے ہوئے ہیں اگر مسلمان اس طرف توجہ کریں تو بھی کامیابی ان کے لئے آسان نہیں.لیبر مسلمانوں کے قبضہ میں تھی وہ بھی نکل رہی ہے وجہ یہ ہے کہ مسلمان کسی پیشہ کو مد نظر رکھ کر تعلیم حاصل نہیں کرتے.اب ہوائی سروس ایک نیا کام شروع ہوا ہے اس میں ہندو داخل ہو رہے ہیں مگر مسلمان بہت کم توجہ کر رہے ہیں.صنعت و حرفت کے لحاظ سے شیشہ کا کام خوب چل سکتا ہے.انبالہ میں ایک کارخانہ ہے ( اس کے مینیجر نے مجھے لکھا ہے کہ دس ہزار روپیہ میں یہ کام چل.ہے پہلے اس کار خانہ میں جو چیزیں بنتی تھیں وہ معمولی ہوتی تھیں مگر اب اچھی اور صاف عا؟ سکتا بننے لگی ہیں." ہندو اکثریت اور اقتصادی برتری کی وجہ سے یہ تاثر عام پایا جاتا تھا کہ تجارت تو ہندو بنیا ہی کر سکتا ہے مسلمان تجارت اور حساب کتاب میں ہندو کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اس خیال کو اس امر سے بھی تقویت ملتی تھی کہ گنتی کے چند جاگیرداروں کے سوا جن کے مفادات بھی ہندوؤں سے وابستہ تھے) قریباً سبھی مسلمان مالی لحاظ سے خود کفیل نہ ہونے کی وجہ سے عملاً ہندو ساہو کاروں کے بالواسطہ یا بلا واسطہ قرض اور سود کے ایسے خوفناک جبڑوں میں پھنسے ہوئے تھے کہ اس میں سے نکلنے کی کوشش اپنی ہلاکت کو دعوت دینے والی بات تھی.ان حالات میں قوم کو کسی تبدیلی کی طرف توجہ دلانا ایک ایسے بالغ نظر قائد کا کام ہی ہو سکتا تھا جسے خدائی تائید اور نصرت پر پورا اعتماد اور بھروسہ ہو.اس انتہائی اہم اور بنیادی خدمت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے فدائی ملت حضرت فضل عمر کو منتخب فرمایا اور آپ نے کمال جرأت اور دلیری کے ساتھ اس اہم اور قومی خدمت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :-
٢١٣ " مسلمانوں میں کئی لوگ لاکھوں اور ہزاروں کی جائیدادیں رکھنے والے ہیں مگر باوجود اس کے ہندوؤں کے مقروض ہیں.پس جب کہ مسلمانوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی اور ہندو چھوت چھات کی وجہ سے اپنی برتری جتلا کر نا واقف اور جاہل مسلمانوں کو مرتد کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ مسلمان اس طرف متوجہ ہوں.پس میں دوستوں سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس تحریک کو خصوصیت سے جاری رکھیں گے اور ہر جگہ ہر مسلمان کے دل میں یہ بات ڈال دیں گے کہ اس تحریک پر عمل کرنے سے تمہارا ہی فائدہ ہے.ہماری جماعت میں تو تاجر پیشہ لوگ بہت کم ہیں.زمیندار اور ملازمت پیشہ زیادہ ہیں.اس وجہ سے چھوت چھات کی تحریک کے کامیاب ہونے پر دوسرے مسلمانوں کو ہی فائدہ ہو گا.کم از کم تین چار کروڑ روپیہ سالانہ مسلمانوں کا اس تحریک پر عمل کرنے سے بچ سکتا ہے اور مسلمانوں جیسی کنگال قوم کے لئے اتار و پیہ بچنا بہت بڑی بات ہے.میں نے عورتوں کو بتایا تھا کہ یہاں قادیان میں مسلمان مٹھائی والا کوئی نہ تھا اس لئے ہم نے مٹھائی خرید نا بند کر دیا اور سات سال تک یہ بندش مر ہی یہ بتا کر میں نے ان کو یقین دلایا کہ اتنے عرصہ میں کوئی ایک آدمی بھی مٹھائی نہ خریدنے کی وجہ سے نہ مرا.نہ ہمارے بچوں کی صحت کو اور نہ ہماری صحت کو کوئی نقصان پہنچا بلکہ فائدہ ہی ہوا کہ پیسے بیچ گئے.میں سمجھ نہیں سکتا کھانے پینے کی چیزیں غیر مسلموں سے نہ خریدنے میں کونسی مصیبت آجاتی ہے.پوری کچوری نہ کھائی روٹی کھائی.کیا ہندوؤں کی بنائی ہوئی کچوری میں اتنا مزا ہے کہ بے شک دین جائے ، غیرت جائے مگر پوری کچوری نہ جائے.میں اپنی جماعت کے لوگوں کو خصوصیت سے یہ تحریک کرتا ہوں کہ ہندوؤں کی چھوٹی ہوئی چیزیں اس وقت تک نہ کھانی چاہئیں جب تک ہندو بھی علی الاعلان عام مجلسوں میں مسلمانو) کے ہاتھوں سے لیکر وہ چیزیں نہ کھائیں اس طرح ایک لاکھ مسلمانوں کے لئے کاروبار نکل آئے گا اور اتنے خاندان پل سکیں گے." اسی طرح آپ نے فرمایا:.( تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء) ایک اور بات جو اس سال کے پروگرام میں رکھنی چاہئے وہ مسلمانوں کا آپس میں تعاون ہے.جہاں مسلمان سودا بیچنے والے ہوں وہاں ان سے خریدا جائے میں نے
۲۱ دیکھا ہے اس سال کی تحریک کے ماتحت سینکڑوں نہیں ہزاروں دکانیں نکلیں ہم نے جو کچھ کہا وہ صرف یہ ہے کہ ہندو جو چیزیں مسلمانوں سے نہیں خریدتے وہ مسلمان بھی ہندوؤں کی بجائے مسلمانوں سے خریدیں اور مسلمان اپنی دکانیں نکالیں تاکہ تجارت کا کام بالکل ان کے ہاتھ سے نہ چلا جائے.( تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء) اس سادہ مگر نہایت موثر و مفید ہدایت کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.نتیجہ یہ ہوا کہ دو تین مہینہ میں احمدیوں کی کئی دکانیں کھل گئیں اور اس وقت سے ترقی کرتے کرتے آج یہ حالت ہے کہ قادیان کی تجارت اسی فیصدی احمدیوں کے ہاتھ میں ہے....حالا نکہ اس وقت ایک فیصدی تجارت بھی احمدیوں کے ہاتھ میں نہ....اور قادیان کی ترقی جتنی سرعت کے ساتھ اس کے بعد ہوئی اتنی سرعت سے پہلے نہیں ہوئی تھی.یہ سب مشکلات موجود تھیں.یعنی ایسی قوم سے مقابلہ تھا جس کے ہاتھ میں سینکڑوں سال سے تجارت چلی آرہی تھی پھر مقابلہ تھا ان ساہوکاروں سے جن کے قبضہ میں زمینداروں کی گردنیں تھیں." خطبه جمعه فرموده ۶ - دسمبر ۱۹۳۵ء) ہر حال میں قومی مفاد مد نظر رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.” ہماری جماعت کے دوستوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے وجود سے سلسلہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے.سلسلہ تم سے سارا مال نہیں مانگتا لیکن تم سے یہ خواہش ضرور کرتا ہے کہ تم اپنے مالوں اور پیشوں میں ایسے طور پر ترقی کرو کہ اس سے سلسلہ کو فائدہ پہنچے مثلاً ایک تاجر اگر سلسلہ کو فائدہ پہنچانے کی خواہش رکھتا ہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے کہ وہ کسی احمدی کو اپنے ساتھ ملا کر تجارت کا کام سکھا دے جب وہ کام سیکھ جائے گا تو وہ دوسری جگہ اپنا کام چلا سکے گا اس طرح کام کرنے سے جماعت کو بہت تقویت پہنچے گی.ہماری جماعت تو نہ ہی جماعت ہے اس میں قومی جذ بہ زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہونا چاہئے.ہماری جماعت کو انفرادیت کی روح کچل دینی چاہئے اور ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہئے کہ میں ایک بیج ہوں جو اپنی قوم کے مفاد کے لئے زمین میں دفن ہو کر اچھے نتائج پیدا کروں گا." خطبہ جمعہ ۷.مارچ ۱۹۴۷ء)
۲۱۵ ہماری جماعت میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ متعد د احمدیوں نے اپنے عظیم رہنما اور قائد کی اس انتہائی مفید سکیم کی روشنی میں بعض ایسے کاروبار شروع کئے جن پر اس سے پہلے ہندوؤں کی مکمل اجارہ داری تھی اور ہندوستان بھر میں کوئی مسلمان اس کام میں شامل ہونے کی جرات تک نہ کر سکتا تھا.متحدہ پنجاب کے رہنے والوں کو آج بھی ملائی برف والا کی آوا زیاد ہو گی جو بچوں کو راغب کرنے کے لئے ہندو اپنے مخصوص انداز میں لگایا کرتے تھے اور اپنی لکڑی کی ٹرے میں آئس کریم لئے گھوم رہے ہوتے جسے وہ چُھری سے کاٹ کر پتوں پر رکھ کر دیا کرتے تھے.سوڈا واٹر اور مٹھائی اور ہر قسم کی اشیاء خوردنوش کا کاروبار بھی مسلمانوں کے لئے شجرہ ممنوعہ ہی تھا اور اس میں کسی مسلمان کی کامیابی ناممکن تھی کیونکہ چھوت چھات کی انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی ہندوانہ رسم کی وجہ سے کسی غیر ہندو کی بنائی ہوئی مٹھائی کے ہندو قریب تک نہ جاتا تھا.اس طرز عمل میں بھی ان کی وہی گھناؤنی سازش کار فرما تھی کہ اس طرح اپنی اقتصادی برتری اور اجارہ داری کو رکھتے ہوئے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے معاشی بد حالی اور اقتصادی غلامی میں مبتلاء رکھا جائے.پاکستان دشمن یا زیادہ صحیح لفظوں میں ہندو اور ہندو نواز قوموں کو قیام پاکستان کا منصوبہ ایک آنکھ نہ بھاتا تھا بلکہ وہ اسے اپنے مخصوص فوائد کے حصول میں روک سمجھتے تھے اور تقسیم ملک کو گئو ماتا کی ہتیا " قرار دیتے تھے مگر قائد اعظم کے خلوص ، اصول پسندی اور محنت اور صحیح منصوبہ بندی کے سامنے سب دشمنوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے مگر وہ دو اور دو چار کی طرح اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ پاکستان کا منصوبہ اقتصادی مشکلات کی وجہ سے ناکام ہو جائے گا اور ہمیں یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ ہم تو پہلے ہی تمہیں سمجھا رہے تھے کہ ایسی غلطی نہ کرو "پاکستان" قابل عمل نہیں ہے.یہ کوئی فرضی بات نہیں بلکہ ہندوؤں اور انگریزوں کے ایسے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں مگر حضور کی اس تحریک پر عمل کرنے کی برکت سے وہ مسلمان جو صنعت اور تجارت وغیرہ میں آگے آئے انہوں نے نوازائیدہ مملکت پاکستان کو سہارا دیا اور دشمنوں کے تمام تخمینے اور اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے.اور یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے مذکورہ تحریک پر لبیک کہتے ہوئے تجارت و صنعت کی طرف توجہ دی انہوں نے پاکستان کی بنیاد کو مضبوط کیا اور پاکستان کو خوفناک ابتدائی مشکلات (Teething Problems) سے بچانے میں مدد کی اور اس طرح مملکت پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی ہندو سرمائے اور تجربے کے خلا کی وجہ سے جو بھیانک صورت حال پیدا ہو سکتی تھی اس کی کافی حد تک تلافی ہو گئی.
جد وجہد آزادی میں ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں کی کوششیں اور ایک نہایت مفید اقدام قربانیاں کسی طرح بھی کم نہ تھیں تاہم آل انڈیا کانگریس بہت منتظم طریق پر کام کر رہی تھی.ہندوستان میں بہت وسیع پیمانہ پر اور بہت موثر انداز میں پراپیگنڈہ کے علاوہ بہت سوچے سمجھے طریق سے انگلینڈ میں بھی انگریزوں سے بہت اچھے تعلقات استوار کئے ہوئے تھے اسی طرح بہت سے ارکان پارلیمنٹ اور رائے عامہ کے نمائندگان سے ان کے دوستی کے تعلقات تھے اس کے بالمقابل مسلم مؤقف کو مؤثر رنگ میں پیش کرنے کیلئے کوئی باقاعدہ طریق اور ذریعہ نہ تھا.اس کمی کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت فضل عمر فرماتے ہیں.”ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم انگلستان کی رائے پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کریں.مجھے نہایت افسوس ہے کہ ہندو انتہاء پسند با وجود اپنے عدم تعاون کے دعووں اور سٹیجوں پر کھڑے ہو کر گورنمنٹ کو گالیاں دینے کے برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.جس سے نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس وقت دو تین درجن پارلیمنٹ کے ممبر انتہاء پسند ہندوؤں کے گہرے دوست ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں مسلمانوں سے حقیقی رنگ میں ہمدردی رکھنے والا ایک بھی ممبر نہیں.اس طرح انگریزی پریس کے ایک حصہ پر بھی ہندو اثر رکھتے ہیں لیکن مسلمانوں نے اس طرف توجہ نہ کی اور اس وجہ سے انگلستان کے سیاسی حلقوں میں ہندوؤں کی آواز کو جو اثر حاصل ہے مسلمانوں کی آواز اس سے محروم ہے." الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۲۸ء) اس بروقت اور ضروری مشورہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کے بعض مخلص رہنماؤں کو بھی اس طرف توجہ ہوئی.چنانچہ مولوی محمد یعقوب صاحب اور ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب نے جو اس زمانہ میں مسلم رہنماؤں میں بہت نمایاں مقام رکھتے تھے یہ تجویز پیش کی کہ انگلستان میں ایک ایسا وفد بھیجوایا جائے جو وہاں جا کر ان کے حقوق کے سلسلہ میں پراپیگنڈہ کرے اور وہاں اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرے.(الفضل ۲۵.جون ۱۹۲۹ء) اس تجویز کا عملاً کوئی مفید نتیجہ تو نظر نہیں آتا البتہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنے ذرائع سے اس خوفناک کمی کے ازالہ کی بھر پور کوشش فرمائی.جماعت انگلستان کے امیرو مبلغ ہر ضروری اور اہم موقع پر حضور کی ہدایات کے مطابق ارکان اسمبلی اور پریس کے نمائندگان سے
۲۱۷ ملاقات کر کے مسلم موقف کی وضاحت کرتے اور ضروری لٹریچر مہیا کرتے.چنانچہ امام مسجد لندن کے دار العلوم ( House of Commons ) میں ایک خطاب کا ذکر کرتے ہوئے روزنامہ الفضل لکھتا ہے." ۱۸ مئی ۱۹۳۱ء پیر کے روز خاکسار کی تقریر ہاؤس آف کامنز میں دونوں ایوانوں کے کنزرویٹو ممبروں کے سامنے ہوئی.......خاکسار نے بتایا کہ راؤنڈ ٹیبل کا نفرنس میں ڈومینین اسٹیٹس (Dominion Status) کے لئے متحدہ مطالبہ تھا کہ جب تک ہندو مسلمانوں کے ساتھ خاطر خواہ تصفیہ نہ کریں تب تک مسلمان مطمئن نہیں ہو سکتے......صاحب صدر اور سر سموئیل نے یقین دلایا کہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کیا جائے گا.خاکسار نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندو چونکہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کرتے نظر نہیں آتے اس لئے برٹش قوم کو ہمارے حقوق کا خیال کرنا چاہئے اور اس دوستی کا حق ادا کرنا چاہئے جس کا مسلمانوں نے برٹش قوم کے ساتھ تمام اوقات میں (الفضل ا.جون ۱۹۳۱ء) اظہار کیا ہے." روزنامہ الفضل قادیان کی ۲۳ اپریل ۱۹۴۶ء کی اشباعت میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب مشمس کی رپورٹ میں یہ امر بھی شامل ہے کہ :.حضرت فضل عمر نے وزارتی مشن اور ہندوستانی لیڈروں کے نام جو پیغام رقم فرمایا ہے اسے پارلیمنٹ کے ممبروں میں تقسیم کیا جارہا ہے." اس رپورٹ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمار الندن مشن دعوت و اصلاح کی خدمات کے ساتھ ساتھ حضور کی ہدایت ورہنمائی کے مطابق آزادی کے اس محاذ پر برابر سرگرم عمل تھا.گول میز کانفرنسوں کے موقع پر بھی مسلم وفد کو امام مسجد لندن کی طرف سے ہر قسم کی ضروری امداد میسر آتی رہی جس کا اعتراف ان وفود کے ممبروں کی طرف سے وقتاً فوقتاً پر لیں اور نجی مجالس میں ہو تا رہتا تھا.یہی وجہ ہے کہ جد وجہد آزادی کے عروج کے زمانہ میں ہر مسلمان رہنما کی توجہ احمد یہ مسجد لندن کی طرف رہتی.علامہ اقبال بھی احمدیہ مسجد میں تشریف لے گئے اور نو مسلموں قرآن مجید کی تلاوت سن کر خوشی کا اظہار کیا.لیگ آف نیشنز League of Nations میں ہندوستان کے نمائندہ خاں بہادر شیخ عبد القادر صاحب وزیر پنجاب پریذیڈنٹ لیجسلیٹو کونسل ( Legislative Council ) نے اس مسجد کو تمام سے
۲۱۸ مسلمانوں کیلئے اپنے ایمان کا ثبوت دینے کا ذریعہ قرار دیا اور قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی سیاسی زندگی کے دوسرے اور زیادہ کامیاب دور کا آغاز احمد یہ مسجد لندن میں ”ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل" کے عنوان پر تقریر سے کیا اور آپ کی اس تقریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امام مسجد لندن قومی مفاد کے کاموں میں گہری اور مسلسل دلچسپی رکھتے تھے.برطانیہ میں اسلامی مفاد کے اس نهایت ضروری پہلو پر پوری توجہ دینے کے ساتھ ساتھ آپ نے وطن میں انگریز حکمرانوں سے بھی برابر اس غرض سے رابطہ رکھا کہ مسلمانوں کے حقوق اور مطالبات نظر انداز نہ کر دیے جائیں.مثل ۱۹۲۱ء میں لارڈ ریڈنگ ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے تو حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر جماعت کا ایک وفد شملہ جاکر ان سے ملا.اس وفد نے ترکی کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ازالہ کرنے کیلئے وائسرائے کو ان الفاظ میں توجہ دلائی." ہم لوگ مذہب سلطان لڑکی کو خلیفہ نہیں مانتے مگر ہم اس کے متعلق یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم کو ٹرکی کی مصیبت میں ہمدردی ضرور ہے کیونکہ ہمارے نزدیک اس سے اس طرح معاملہ نہیں کیا گیا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا اور ہمارے نز دیک چونکہ یہ ایسی غلطی ہے جس کی بروقت اصلاح ہو سکتی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ گورنمنٹ ہند اس کے لئے جد و جہد ترک کردے.....اسی ایڈریس میں سرزمین حجاز کی آزادی کے احترام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ” یہ سوال اہم ہے کہ حجاز کی آزادی میں کسی قسم کا خلل نہیں آنا چاہئے.جب حجاز کی آزادی کا سوال پیدا ہوا تو اس وقت یہی سوال ہر ایک کے دل میں کھٹک رہا تھا کہ کیا ترکوں سے اس ملک کو آزاد کرانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ بوجہ بنجر علاقہ ہونے کے وہاں کی آمد کم ہوگی اور حکومت کے چلانے کے لئے اسے غیر اقوام سے مدد لینی پڑے گی اور اس طرح کوئی یورپین حکومت اس کو مدد دے کر اسے اپنے حلقہ اثر میں لے آئے گی.ہم امید کرتے ہیں کہ جناب اس غلط قدم کے اٹھانے کے خطرناک نتائج پر ہوم گورنمنٹ کو فور اتوجہ دلائیں گے." لارڈ ریڈنگ نے اس ایڈریس کے جواب میں ان مطالبات کو موثر رنگ میں حکومت تک پہنچانے اور ایسی صورت پیدا کرنے کی کوشش کرنے کا وعدہ کیا جو عدل و انصاف اور معقولیت پر مبنی
٢١٩ ہو اور جو اسلامی دنیا کے لئے اطمینان کا موجب ہو.وائسرے نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ :.آپ لوگوں نے اپنے ایڈریس میں لیجسلیچر (Legislature ) مجلس واضع قوانین میں مسلمانوں کی کافی نمائندگی کی ضرورت اور سرکاری ملازمتوں میں پورا پورا حصہ دیا جانے کے متعلق ذکر کیا ہے موجودہ وقت میں جو نظام حکومت جاری ہے بالفعل اس میں تبدیلی کرنے کا حکومت کا کوئی منشاء نہیں اور آئندہ بھی حکومت کوئی تبدیلی ان جماعتوں کے مشورے کے بغیر جن پر اثر پڑ سکتا ہے کبھی نہیں کرے گے.مسلمانوں کی سرکاری ملازمتوں پر تعیناتی کے متعلق یہ زیادہ پسندیدہ ہو گا کہ مسلمان اپنی تعداد اور سیاسی اہمیت کے حقوق کی نمائندگی کے دعوئی کو اپنی قابلیت کے ساتھ مضبوط کریں.حکومت کو شش کر رہی ہے کہ بعض ملازمتوں کو روکے رکھے تاکہ ان کے ذریعہ سے اس تفاوت کو پورا کرے جو موجودہ وقت میں ہے تا ہر جماعت کو پبلک سروس کے لئے مناسب موقع حاصل رہے." (الفضل ۸.مارچ ۱۹۲۷ء) ہندو اکثریت کے مفاد کی حفاظت و بالا دستی کے قیام کیلئے نہرو رپورٹ کے نام سے ایک دستاویز سامنے آچکی تھی جسے پیش کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ تمام ہندوستانیوں کی طرف سے ہے.اس موقع پر تساہل و لا پرواہی مسلمانوں کو شدید نقصان اور تباہی کی طرف دھکیل سکتی تھی.حضور بروقت اختباہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اگر مسلمانوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس فیصلہ کو جو آج سوراج کے متعلق ہو گا بد لنا ان کی طاقت سے باہر ہو گا تو پھر وہ کبھی جلدی نہ کریں گے اور اس ہزاروں خطرات سے پر قدم کے اٹھانے سے پہلے وہ لاکھوں قسم کے سوالات کو حل کرنا چاہیں گے اور بیسیوں راستے واپسی کے سوچیں گے مسلمان یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ صرف ایک تجربہ ہو گا.اگر اس میں یہ نقص نظر آئے گا تو ہم اور تدبیر سوچیں گے.لیکن میں انہیں خوب اچھی طرح اور واضح کر کے سمجھا دینا چاہتا ہوں کہ معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے.آج جو قدم وہ اٹھا ئیں گے اگر اس میں غلطی ہو گی تو الٹے پاؤں لوٹنا ان کے اختیار میں نہیں ہو گا بلکہ جن امور کا مطالبہ انہوں نے کیا ہے اگر وہ آج انہیں منوانا چاہیں تو بہت زیادہ آسان ہے لیکن سوراج کے ملنے کے بعد ان مطالبات کا منوانا بالکل ناممکن
۲۲۰ ہو گا." " الفضل ۹.اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷-۸).ملکی حالات اور جدوجہد آزادی کے مبصر اس امر پر متفق ہیں کہ نہرو رپورٹ کے بعد ہی مسلمانوں کی تحریک آزادی کو تقویت حاصل ہوئی.اسی طرح یہ امر بھی تاریخی حقائق و واقعات سے ثابت ہے کہ اس بد نام زمانہ رپورٹ کی باقاعدہ علمی و تحقیقی رنگ میں مخالفت سب سے پہلے حضرت امام جماعت احمدیہ نے کی اور اس پر ایک مدلل و مبسوط کتاب تصنیف کر کے اسے صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ اس کا انگریزی ترجمہ انگلستان کے ممبران پارلیمنٹ اور ارباب حل و عقد تک ایک باقاعدہ سکیم اور تنظیم کے ساتھ پہنچایا گیا.اس رپورٹ کی نمائندہ حیثیت واضح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.ہندو مسلمان بڑھتے ہوئے فسادات کو دیکھ کر نیشنل کانگریس نے ایک ریزولیوشن پاس کیا تھا کہ ورکنگ کمیٹی ہندو اور مسلمان لیڈروں سے مشورہ کر کے ایسی تجاویز کرے جن کے ذریعے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو قابل افسوس تنازعات ہو رہے ہیں دور کئے جا سکیں.(مگر) یہ کمیٹی (جس نے نہرو رپورٹ مرتب کی ہر گز تمام ہندوستان کی نمائندہ نہ تھی.چند آدمی اپنی مرضی سے ایک جگہ جمع ہو گئے تھے.....نہ مختلف صوبوں کی نمائندگی اس میں ہوئی تھی نہ مختلف جماعتوں کی.مثال کے طور پر میں اپنی ہی جماعت کو لیتا ہوں.ہماری جماعت سے شروع سے لیکر آخر تک کسی نے نہیں پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے.حالانکہ ہم تعداد میں کسی قدر کم بھی ہوں مگر پارسیوں سے زیادہ ہیں اور آل انڈیا حیثیت رکھتے ہیں.آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ حصہ جو مسٹر جناح کی صدارت میں کام کرتا ہے اس کی نیابت بھی اس کمیٹی کو حاصل نہ تھی اور اس طرح یہ کمیٹی مسلمانوں کی نمائندگی سے بالکل خالی تھی......(اس لئے نہ آل انڈیا کانفرنس ہندوستان کی نمائندہ تھی اور نہ نہرو کمیٹی مسلمانوں کے کسی فریق کی ہی نمائندہ تھی ایک خاص خیال کے لوگوں کی ایک کانفرنس ہوئی اور اس میں سے بھی مسلمانوں کی نیابت کو عملاً خارج کر کے ایک کمیٹی مقرر کر دی گئی جس کی رپورٹ اب ہندوستان کے نمائندوں کی رپورٹ کے نام سے مشہور کی جارہی ہے....جب قانون اساسی کے بناتے ہوئے مسلمانوں کی نیابت کا خیال نہیں رکھا گیا تو آئندہ چھوٹے چھوٹے قوانین بناتے ہوئے مسلمانوں کے احساسات کا خیال
۲۲۱ کب رکھا جائے گا.بہر حال چونکہ رپورٹ ہمارے سامنے آگئی ہے اس لئے اس کے حسن و فتح کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور میں افسوس سے کہتا ہوں کہ اس پر غور کرنے کے بعد بھی میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ سکیم ہر گز ملک کے لئے مفید نہیں ہو سکتی.خصوصاً مسلمانوں کو تو اس سے سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے." (الفضل ۲.اکتوبر ۱۹۲۸ء) مفاد ۱۹۲۹ء کے شروع میں جماعت کے ایک وفد نے گورنر پنجاب سے ملاقات کر کے مسلم مفا کے بعض ضروری مطالبات پیش کرتے ہوئے یہ امر بھی ذہن نشین کروایا کہ ہمارے مطالبات وہی ہیں جو عام مسلمانوں کے مطالبات ہیں.چنانچہ اس وفد نے گورنر کو بتایا کہ :.ابتداء میں ہم یہ عرض کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے سیاسی حقوق صوبہ کی مسلم اکثریت سے جدا نہیں...مختصر اہمارے مطالبات یہ ہیں کہ ہندوستان میں فیڈرل طرز کی حکومت ہو.....اور ہر صوبہ کو آزادی ہو کہ اپنی حالت کے موافق ترقی کے لئے جو راہ چاہے اختیار کر سکے.دوسرے جداگانہ انتخاب کو اس وقت تک قائم رکھنا ہے جب تک کہ سیاسی میدان سے فرقہ وارانہ جذبات معدوم نہ ہو جائیں.تیسرے یہ کہ اندریں اثنا مختلف اقوام کے لئے تناسب آبادی کے لحاظ سے صوبہ جاتی لیجسلیچر میں نشستیں مخصوص کر دی جائیں.چهارم یہ کہ سندھ کو علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے اور اسے بھی وہی حقوق حاصل ہوں جو دوسرے صوبہ جات کو ہیں.پنجم یہ کہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اصلاحات نافذ کر دی جائیں.ششم تمام مذاہب کے لئے کامل آزادی کا اصول تسلیم کیا جائے اور یہ بات تمام سابقہ باتوں کے ساتھ ملک کے کانسٹی ٹیوشن میں داخل سمجھی جائے.یہ ہمارے مطالبات ہیں اور یو را یکسی لینسی اس امر سے آگاہ ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت کے بھی یہی مطالبات ہیں." ۱۹۳۱ء میں تحفہ لارڈارون کے نام سے حضور نے وائسرائے کے نام مکتوب کی شکل میں ایک مؤثر تبلیغی کتاب تحریر فرمائی.سلسلہ احمدیہ کی سیاست کے متعلق اصولی
۲۲۲ تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں." سلسلہ احمدیہ کی سیاسیات کے متعلق یہ تعلیم ہے کہ حکومت اور رعایا کے تعلقات کی بنیاد قانون کے احترام اور پر امن جدوجہد پر ہونی چاہئے اور فساد سے دونوں کو پر ہیز کرنا چاہئے اور حکومت اور رعایا دونوں کا فرض ہے کہ قانون کی جب تک وہ بدلے نہیں پیروی کریں اور اگر غلط قانون ہے تو جائز ذرائع سے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے.اس تعلیم کے ماتحت ہماری جماعت جس جس حکومت کے ماتحت بستی ہے ہمیشہ فتنہ کی راہوں سے الگ رہتی ہے اور چونکہ اکثر حصہ جماعت احمدیہ کا انگریزی حکومت کے ماتحت ہے لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ جماعت انگریزوں کی جاسوس ہے لیکن آپ سے بہتر ا سے کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ یہ امر غلط ہے.ہم نے ہمیشہ دلیری سے ہندوستانیوں کے حقوق کا مطالبہ کیا ہے" (صفحہ ۴۱) ہم ( آزادی کے سلسلہ میں.ناقل ) کانگریس یا دوسری جماعتوں سے پیچھے نہیں کیونکہ اپنے ملک کی غلامی سوائے بیوقوف اور غدار کے کوئی شخص پسند نہیں کر سکتا." (تحفہ لارڈارون صفحہ ۷) انگلستان میں مسلم مفادات کے تحفظ کے سلسلہ میں لابنگ کی کمی کی طرف حضور ہمیشہ توجہ دلاتے رہے اور اس کے ازالہ کی ہر ممکن کو شش بھی فرماتے رہے.آزادی کے اعلان سے قبل کنزرویٹو پارٹی کی شکست کی وجہ سے (Labour ) پارٹی بر سراقتدار آچکی تھی.اس تبدیلی پر تبصرہ کرتے ہوئے اور مسلم امہ کے مفادات کے تحفظ کیلئے دعا کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں." برطانیہ نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ۱۹۴۸ء میں کسی نہ کسی کو حقوق دے دیئے جائیں گے.بظاہر کسی نہ کسی سے کوئی خاص قوم مراد نہیں لی جا سکتی لیکن یہ صاف بات ہے کہ جس کی آواز میں زیادہ طاقت ہوگی اور جس کے تعلقات زیادہ ہوں گے وہ انہی کو اختیارات عطا کریں گے.ہندوؤں نے نہایت دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے لیبر پارٹی سے بہت دیر سے تعلقات استوار کر رکھے ہیں لیکن اس کے بر عکس مسلمانوں نے ان سے تعلقات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ مسلمانوں کی آواز کو زیادہ قدر کی نگاہ سے نہ دیکھیں گے.ان ہولناک ایام کے تصور سے رونگٹے
۲۲۳ کھڑے ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی بچائے تو بچائے مسلمانوں کی وہ تیاری نہیں ہے اور نہ ہی وہ قربانی کا جذبہ ان میں پایا جاتا ہے جو ایک زندہ رہنے والی قوم میں ہونا چاہئے." الفضل ۲۷.فروری ۱۹۴۷ء) حضور کا ایک پیغام جد و جہد آزادی کے عروج کے زمانہ میں وزیر اعظم برطانیہ کو بھیجوایا گیا روزنامه الفضل ۱۳.دسمبر ۱۹۴۶ ء اس خبر کو شائع کرتے ہوئے لکھتا ہے.پٹنی کی احمد یہ مسجد کے امام جناب چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے رائٹر کو بتایا ہے کہ میں نے جماعت احمدیہ کے امام کا مکتوب گرامی مسٹرائیلی وزیر اعظم کے حوالہ کر دیا ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مفاد کو قربان کر کے کانگریس کے حلیف نہ بنیں." مندرجہ بالا واقعات ایسے بے شمار واقعات میں سے بطور مثال پیش کئے گئے ہیں.جن سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کی آئینی جدوجہد اور مسلمانوں کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرنے میں ہمارے محبوب امام کا مقام یقینا بہت اونچا ہے اور حضور کا زندگی بھر کا یہ مسلسل عمل ایک واقعاتی جواب ہے ان کو تاہ بین مخالفوں کا جو لوگوں کو از راہ ظلم و زیادتی یہ باور کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمدیہ انگریزوں کے خوشامدی اور وطن کی آزادی کے خلاف تھے.مسلم مفاد کا تحفظ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ مسلم مفاد کے حصول اور آزادی کیلئے کوشش کرنے کی طرف حضور جس خلوص سے توجہ دلا رہے تھے اس کا بھی مختصر ذکر کیا جائے.آپ کے اس سلسلہ میں بے شمار ارشادات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں." ہمیں اس امر کو یا د رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کی تاریخ قریب میں مسلمانوں کے حقوق کے طے کرنے کا موقع دوبارہ نہیں آئے گا اور یہ کہ اگر ہم آج غلطی کر بیٹھے تو ہمیں اور ہماری اولادوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور گو ہم اپنے آپ کو قربان کرنے کو تیار ہوں ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنی اولادوں کو قربان کر کے غلامی کے طوقوں میں جکڑ دیں یقیناً اس سے زیادہ بد قسمت انسان ملنا مشکل ہو گا جس کی اپنی اولاد یا جس کے آباء کی اولاد اس پر لعنت کرے اور اسے اپنی ذلت کا موجب قرار دے." راؤنڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمان صفحہ (۲)
۲۲۴ " آج جو قدم وہ اٹھا ئیں گے اگر اس میں غلطی ہو گی تو الٹے پاؤں لوٹنا ان کے اختیار میں نہیں ہو گا بلکہ جن امور کا مطالبہ انہوں نے کیا ہے اگر وہ آج انہیں منوانا چاہیں تو بہت زیادہ آسان ہے لیکن سوراج ملنے کے بعد ان مطالبات کا منوانا بالکل ناممکن (مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ صفحہ (۲۶) ہو گا." اسی امر کو مزید واضح کرنے اور اس پر اور زیادہ زور دینے کیلئے آپ فرماتے ہیں." وہ اس وقت اپنے مطالبات پر زور نہ دے کر اپنا اور اپنی اولادوں کا خون کر رہے ہیں.نہیں نہیں بلکہ وہ خود اسلام کی جڑوں پر تبر رکھ رہے ہیں اور ہندوستان میں سپین کی تباہی کی داغ بیل ڈال رہے ہیں.عِيَاذَا بِاللهِ" (مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ صفحہ ۲۶) آزادی سے محرومی اور ہند و بالا دستی کے خوفناک نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے آپ فرماتے مسلمانوں کو چند ہی سال میں پورے طور پر اپنے آپ کو ہندو کلچر کے آگے ڈال کر اپنی قومی ہستی کو کھو دینا پڑے گا." ( مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ صفحہ ۹۶) پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط اور وسیع کرنے کیلئے موثر ترین ذریعہ کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.وو ہندوستان ہندوؤں سے ہمار ا وطن زیادہ ہے.پھر ہم اسے کس طرح غیر کہہ سکتے ہیں.کیا سپین میں سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اسے بھول گئے ہیں ہم یقیناً اسے نہیں بھولے.ہم یقیناً ایک دفعہ پھر پین کو لیں گے.اسی طرح ہم ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتے.یہ ملک ہمارا ہندوؤں سے زیادہ ہے.ہماری ستی اور غفلت سے عارضی طور پر یہ ملک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے.ہماری تلواریں جس مقام پر جا کر کند ہو گئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہو گا اور اسلام کے خوبصورت اصل پیش کر کے ہم اپنے ہندو بھائیوں کو خود اپنا جزو بنالیں گے." (الفضل ۶.اپریل ۱۹۴۶ء) مسلمانوں میں حوصلہ پیدا کرنے کیلئے اور انہیں نظم و ضبط کی اہمیت کا احساس دلانے کیلئے آپ فرماتے ہیں.اب ایک اور زمانہ آرہا ہے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ انگریز ایک حد تک حکومت
۲۲۵ کر کے تھک گئے ہیں لا يَؤُدُهُ حِفْظُهُمَا تو خدا تعالیٰ کی شان ہے.انگریزوں نے زبانی نہیں تو عملی طور پر کہہ دیا ہے کہ ہم تھک گئے ہیں.ہندوستانی ہندوستان کی حکومت سنبھال لیں.ان حالات میں نہایت ہی نازک وقت آیا ہوا ہے.ایسا نازک کہ اگر ذرا کو تاہی کی گئی تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ایک ایسی منتظم قوم جسے سالہا سال سے بتایا جا رہا ہے کہ مسلمان تمہارے دشمن ہیں وہ مسلمانوں کے خلاف کھڑی ہو جائیں گی.ہندو راج کے منصوبے کتاب میں بڑے بڑے ہندو لیڈروں کے بہت سے اس قسم کے بیانات درج کر دیئے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو کچل کر رکھ دو.یا اپنے اندر شامل کر لو اور ہندوستان میں ہندو راج قائم کر لو.ان حالات میں نہایت ہی نازک مستقبل نظر آتا ہے جس سے ڈر آتا ہے.ان حالات میں مسلمان ہندوستان کے متعلق جس قدر خطرات ہو سکتے ہیں ان کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ایک طرف مسلمانوں کی پراگندگی اور آپس کے لڑائی جھگڑے اور دوسری طرف ہندوؤں کی ان کے خلاف تنظیم کوئی معمولی خطرہ کی بات نہیں.(الفضل ۲۷.مئی ۱۹۴۶ء) اس خطرہ کے پیش نظر آزادی کے آخری مراحل میں آپ نے دعا کی طرف غیر معمولی توجہ دیتے ہوئے خود بھی روزے رکھ کر دعائیں کیں اور جماعت کو بھی اس امر کی زوردار تحریک فرمائی اور حصول آزادی کی کوشش کرنے والے ہندو مسلم رہنماؤں سے اپنے رابطے بڑھا دیئے اور ہر مرحله پر مخلصانہ بروقت مشوروں سے رہنمائی فرماتے رہے.آپ کا ۱۹۴۶ء کا سفر دہلی جس کا آگے ذکر آئے گا اس سلسلہ کی ایک کامیاب کوشش تھی.حضرت فضل عمر کی سیاسی خدمات کی ایک جھلک سوانح جلد دوم میں دیکھی جا سکتی ہے.حضور نے اپنی کامیاب زندگی کا مطمح نظر اور مائو ” خدمت اسلام " قرار دے رکھا تھا.آپ کی تمام کوششیں اور توانائیاں اسی مقصد کی خاطر صرف ہوتی تھیں.عام مروج اور معروف معنوں میں آپ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا البتہ بنی نوع انسان کی خدمت کا کوئی بھی موقع ہو تا یا مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت کا سوال ہو تا تو اس وقت آپ صحیح اور بروقت رہنمائی اپنا فرض سمجھتے آپ نے مختلف سیاسی امور کے متعلق قریباً ۳۵ کتب تصنیف فرما ئیں ، سیاسی مسائل کے
۲۲۶ متعلق آپ کے بصیرت افروز خطبات اور تقاریر کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے ، آپ کی سیاس قرآن کی لازوال صداقتوں اور اصولوں کی روشنی سے منور تھی اور اس میں کسی ذاتی غرض لالچ اور مفاد کا شائبہ تک نہ تھا.آپ کی سیاست محض خدمت خلق اور اسلامی مفاد کے تحفظ کی خاطر تھی.آپ کا یہ طریق کار آپ کو دنیا بھر کے سیاسی لیڈروں اور دانشوروں سے ممتاز کر کے ایک الگ نمایاں مقام پر فائز کر دیتا ہے.سیاسی مسائل کے متعلق آپ کی تصانیف اور خطبات کا خلاصہ اور پس منظر ایک مستقل کتاب کا متقاضی ہے.اختصار کے پیش نظر اس جگہ حضور کی ایک کتاب ”ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئله کامل " (۱۹۳۰ء) کا ذکر کیا جاتا ہے.بر صغیر کی تاریخ کے نہایت پُر آشوب زمانہ ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کاحل میں جب کہ انگریز کسی بھی قیمت پر ہندوستان کو آزاد کرنے پر تیار نہ تھا اور ہندو آزادی کا مطلب مسلمانوں کو ہمیشہ اپنے زیر نگین رکھنا سمجھتے تھے.مسلمان بے نظمی اور صحیح قیادت کے فقدان کی وجہ سے اپنا نصب العین ہی متعین نہ کر پائے تھے.ان حالات میں حضرت فضل عمر نے ”ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل " کے عنوان سے ایک مدلل و مبسوط کتاب تصنیف فرمائی جس میں اس زمانے کی تمام الجھنوں اور مشکلات کا قابل عمل اور مبنی بر انصاف حل پیش فرمایا.اس کتاب کی وجہ تصنیف بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.میں سمجھتا ہوں کہ گو ایک مذہبی آدمی ہونے کے لحاظ سے مجھے سیاست ملکی سے اس قدر تعلق نہیں ہے جیسا کہ ان لوگوں کو جو رات دن انہی کاموں میں پڑے رہتے ہیں لیکن اس قدر میری ذمہ داری صلح اور آشتی پیدا کرنے کے متعلق زیادہ ہے.اور نیز میں خیال کرتا ہوں کہ شورش کی دنیا سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے میں شاید کئی امور کی تہہ کو زیادہ آسانی سے پہنچ سکتا ہوں یہ نسبت ان لوگوں کے کہ جو اس جنگ میں ایک یا دوسری طرف سے شامل ہیں.پس اس وقت جب کہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے اعلان کی وجہ سے لوگوں کی توجہات مسئلہ ہندوستان کے حل کرنے میں لگی ہوئی ہیں میں بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنے خیالات دونوں ملکوں کے غیر متعصب لوگوں کے سامنے رکھ دوں."
۲۲۷ حضور نے انگریزوں کو ان کے فرائض یاد دلاتے ہوئے واشگاف الفاظ میں فرمایا :.اس کے بعد میں انگریز افسران حکومت کو خواہ ہندوستان کے ہوں خواہ انگلستان کے خصوصا اور باقی انگریزوں کو عموما کہتا ہوں کہ آپ لوگوں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے.خدا تعالیٰ نے آپ کے سپرد ایک امانت کی ہے اس امانت کو صحیح طور پر ادا کرنا آپ کا فرض ہے.تم اس سیاسی امر میں اس کا ذکر کرنے پر منسو یا مجھے بیوقوف سمجھو لیکن حق یہی ہے کہ ایک دن سب کو اس کے حضور جوابدہ ہونا ہے.بہت ہیں جو اس زندگی میں اس کی ہستی کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن ان کی موت کے وقت کی گھڑیاں حسرت و اندوہ میں گزرتی ہیں.پس چاہئے کہ آپ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہندوستان کے تینتیس کروڑ آدمی کی قسمت کے فیصلہ کے وقت اپنے قلیل اور بے حقیقت فوائد کو بالکل نظر انداز کردیں کہ وہ روپیہ کی گنتی میں خواہ کروڑوں ہندسوں سے بھی اوپر نکل جائیں.لیکن اخلاق و روحانیت کے لحاظ سے ایک آدمی کی آزادی کے برابر بھی ان کی قیمت نہیں ہے.اگر آپ لوگ انصاف سے کام نیں گے تو خواہ آپ کے بعض ابنائے وطن اس وقت آپ کو گالیاں دیں اور غدار کہیں لیکن ایک دن آئے گا کہ آپ کی اپنی ہی نسلیں نہیں بلکہ تمام دنیا کے لوگ آپ کے نام کو عزت سے لیں گے اور آپ کی یاد کے وقت ادب سے وگوں کی گردنیں جھک جائیں گی اور آپ کا ذکر ہمیشہ کیلئے با برکت ہو جائے گا.( صفحہ ۳) اہل ہندوستان کے دلوں میں امنگ و عزم پیدا کرتے ہوئے اور دلوں کی کدورت اور بغض اور دور کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا :.اسی طرح میں اپنے اہل وطن سے کہتا ہوں کہ اس نازک موقع پر اپنے دلوں کو تعصب اور کینہ سے خالی کر دو کہ یہ جذبات بظاہر میٹھے معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ان سے زیادہ تلخ اور تکلیف دہ کوئی چیز نہیں.واقعات بتا رہے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی کا وقت آگیا ہے.خدا تعالیٰ نوں میں ایک نئی روح پھونک رہا ہے.تاریکی کے بادلوں کے پیچھے سے امید کی بجلی بار بار کوند رہی ہے.خواہ ہر آنے والی ساعت کی تاریکی پہلی تاریکی کی نسبت کس قدر ہی زیادہ کیوں نہ ہو ہر بعد میں ظاہر ہونے والی روشنی بھی
۲۲۸ پہلی روشنی سے بہت زیادہ روشن ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی مشیت کا اظہار کر دیتی ہے.پس اپنے کینہ اور بغض سے خدا تعالیٰ کی رحمت کو غضب سے نہ بدلو اور اس کے فضل کو اس کے قہر میں تبدیل نہ کرو کہ وہ ضدی اور ہٹ دھرم اور سچائی کے منکر کو نفرت کی نگہ سے دیکھتا ہے." (صفحه ۴۳) یہ کتاب کل اٹھارہ ابواب پر مشتمل ہے.اس میں اس وقت کے تمام اہم اور ضروری مضامین پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے.بعض عناوین درج ذیل ہیں.کیا ہندوستان آزادی کا مستحق ہے؟ اگر ہے تو کس حد تک؟ کیا ہندو مسلم اختلاف کی موجودگی میں آزادی دی جاسکتی ہے ؟ ہندوستان کی دو ہری مشکلات انگلستان سے سمجھوتہ اور اقلیتوں کے سوال کا حل ہندوؤں کے آئندہ ارادے اقلیتوں کے متعلق ہندوستان کا سیاسی آئین ہندوستان میں اتحادی حکومت جداگانہ انتخاب اور مختلف اقوام کا حق نیابت.فرنچائز اور عورتوں کی نمائندگی، عدالت، ملازمتیں ، مرکزی حکومت قانون سیاسی قانون ساز مجالس حکومت اور صوبہ جات کا تعلق ریاست ہائے ہند.مالی امور کے متعلق بعض اصولی ہدایات بیان فرما ئیں لیکن کمال سادگی سے فرمایا :.میں نے مالی امور کے متعلق کچھ نہیں لکھا اور نہ اس مضمون کی مجھے اس قدر واقفیت ہے لیکن اپنے اس معرکتہ الاراء مضمون کے آخر پر آپ نے نہایت دلسوزی اور غم خواری سے فرمایا.نفسانیت عارضی معاملات میں بھی بری ہے لیکن وہ فیصلے جن کا اثر شاید سینکڑوں ہزاروں سال تک قائم رہنا ہے اور اربوں انسانوں پر پڑتا ہے ان پر پہنچتے وقت ذاتی رنجشوں یا دنیوی فوائد کی خواہش کو اپنے اوپر غالب آنے دینا ایک بہت بڑا ظلم ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی نیتوں کو صاف اور ارادوں کو بلند اور عقلوں کو تیز کرے.اور اس اجتماع کے نتیجہ میں ہونے والے فیصلوں کو ہندوستان اور انگلستان اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان رشتہ اتحاد کے پیدا کرنے کا موجب بنائے.تاکہ ہم سب خدا تعالیٰ کی ذمہ داریوں سے بھی اور اپنے ہمعصروں اور اپنی آئندہ نسلوں کی ذمہ داریوں سے بھی عزت کے ساتھ سبکدوش ہوں اور تا اس وقت کہ ہم اس دنیا سے جدا ہوں دنیا اس وقت سے جب کہ ہم اس میں آئے تھے نیکی محبت اور یگانگت میں ایک
۲۷۹ لمبا فاصلہ طے کر چکی ہو.آمین ثم آمین" اس تصنیف کے سلسلہ میں صد را انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ ۱۹۳۱ء میں تحریر ہے کہ :.راؤنڈ ٹیبل کانفرنس لندن کے موقع پر خان صاحب فرزند علی صاحب امام مسجد لندن کی معرفت اس کا انگریزی ترجمہ انگلستان میں عام طور پر شائع کیا گیا اور انگریز اہل الرائے احباب کے علاوہ ہندوستان کے تمام نمائندوں کو بھی ایک ایک کاپی دی گئی اور اس سے اسلامی نقطہ نگاہ اس قدر واضح ہو گیا اور مسلمان نمائندوں کو اس قدر تقویت پہنچ گئی کہ مسلمان نمائندے جو متزلزل ہو رہے تھے وہ مضبوط ہو گئے اور یہ ان تصانیف کا ہی نتیجہ تھا کہ مسلمان نمائندوں نے دنیا کے سامنے پہلی مرتبہ متفقہ طور پر اپنے مطالبات کو کامیابی اور خوبی کے ساتھ پیش کیا اور انگلستان کے اہل الرائے لوگوں پر اس کا اس قدر گہرا اثر ہوا کہ وہ لوگ جو چند روز پہلے اس عظیم الشان ملک کو ہندوؤں کے ہاتھوں میں دینے کو تیار بیٹھے تھے اس غلطی سے متنبہ ہو گئے اور مسلمانوں کی ہندوستانی خصوصی حیثیت کے قائل ہو کر ان کے مطالبات کی معقولیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے اس موقع پر یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں مسلمانوں کے حقوق کی نمائندگی کرنے میں اور سیاسیات ہند کے متعلق ایڈیٹران اخبارات اور مدیران انگلستان سے ملاقاتیں وغیرہ کرنے میں جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر ایٹ لا اور جناب خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب امام لنڈن مسجد نے بہت بڑا حصہ لیا.جزاهم الله احسن الجزاء" در پورت سالانه صد رانجمن احمد به ۳-۱۹۳۰، ص ۱۱۰۹٬۱۰۸ اس کتاب کو مذکورہ بالا اہل الرائے اصحاب نے بہت پسند کیا ان میں سے بعض کی آراء اور تبصرے درج ذیل ہیں.لارڈ میسٹن سابق گور نریوپی.” میں آپ کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے امام جماعت احمدیہ کی نہایت دلچسپ تصنیف ارسال فرمائی ہے.میں نے قبل ازیں بھی ان کی چند تصنیفات دلچپی سے پڑھی ہیں.مجھے امید ہے کہ اس کتاب کا پڑھنا میرے لئے خوشی اور فائدے کا موجب ہو گا." لیفٹیننٹ کمانڈر کینوردی ممبر پارلیمینٹ.
۲۳۰ کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل“ کے ارسال فرمانے پر آپ کا بہت ممنون ہوں.میں نے اسے بہت دلچسپی سے پڑھا ہے." سر میلکم ہیلی گور نر صو بہ یو.پی و سابق گورنر پنجاب.” میرے پیارے مولوی صاحب (امام مسجد لندن) اس کتاب کے لئے جو آپ نے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے میرے نام بھیجی ہے میں آپ کا بہت ممنون ہوں.جماعت احمدیہ سے میرے پرانے تعلقات ہیں اور میں اس کے حالات سے خوب واقف ہوں اور اس روح کو خوب سمجھتا ہوں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جسے لیکر وہ ہندوستان کے اہم مسائل کے حل کے لئے کام کر رہی ہے.مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب میرے لئے مفید ہوگی اور میں اسے نہایت دلچسپی سے پڑھوں گا." وو سردار محمد اسماعیل بیگ دیوان ریاست میسور :- سر مرزا آپ کی کتاب پا کر بہت ممنون ہیں.وہ اسے بہت دلچسپی سے پڑھیں گے.على الخصوص اس وجہ سے کہ وہ آپ کی جماعت کے امام سے ذاتی واقفیت رکھتے ہیں." مسٹر اے.ایچ غزنوی آف بنگال:- کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے لئے مسٹر اے.ایچ غزنوی مولوی فرزند علی صاحب کے بہت ممنون ہیں.انہوں نے اس کتاب کو بہت دلچسپ پایا ہے." مسٹرڈ بلیو.پی.بارٹن Mr.W.P.Barton میں جناب کا امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب کے ارسال کرنے کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں.یہ ایک نہایت دلچسپ تصنیف ہے.میرے دل میں اس بات کی بڑی وقعت ہے کہ مجھے اس کے مطالعہ کا موقع ملا ہے." مسٹر آر ای ہالینڈ (انڈیا آفس ) (Mr.R, E.Holland (India (Office " جناب کے ارسال فرمانے کا بہت بہت شکریہ.میں نے اسے بہت دلچسپ پایا ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا ہے." سرمون اومر (Sir Hone O'Millar) اس چھوٹی سی کتاب کے بھیجوانے کے لئے جس میں مسئلہ ہند کے حل کے لئے
۲۳۱ امام جماعت احمدیہ کی تجاویز مندرج ہیں.میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.سائمن کمیشن کی تجاویز پر یہی ایک مفصل تنقید ہے جو میری نظر سے گزری ہے.میں ان تفصیلات کے متعلق کچھ عرض نہ کروں گا جن کے متعلق اختلاف رائے ایک لازمی امر ہے لیکن میں اس اخلاص، معقولیت اور وضاحت کی داد دیتا ہوں جس سے کہ ہر ہولی نس(His Holiness ، امام جماعت احمدیہ) نے آپ کی جماعت کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور میں ہر ہولی نس کے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے اس امر کے متعلق بلند خیالی سے بہت متاثر ہوا ہوں." مجھے افسوس ہے کہ میں ابھی تک بارنس میں حاضر ہو کر آپ کی مسجد کو نہیں دیکھ سکا اور نہ آپ سے ملاقات کر سکا ہوں.کل امید ہے کہ اگر موسم نے مجھے اتنا سفر کرنے کی اجازت دی تو میں چوہدری ظفر اللہ خان کی دعوت سے فائدہ اٹھا کر آپ کے ساتھ آپ کے اپنے لوگوں میں ملاقات کروں گا." لارڈ کریو.سابق وزیر ہند لارڈ کر یو مسئلہ ہند پر امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب بھیجوانے کے لئے امام مسجد لنڈن کے بہت ممنون ہیں.انہوں نے یہ کتاب دلچسپی سے پڑھی ہے." سرای گیٹ (Sir E.Gatt) میں جناب کا کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے ارسال کے لئے نہایت شکر گذار ہوں اور اسے نہایت دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں." سر گر یم بوور " میں مسئلہ ہند پر آپ کی ارسال کردہ کتاب کے لئے آپ کا بہت مشکور ہوں اور میں اسے نہایت دلچسپی سے پڑھوں گا.گول میز کے مندوبین نے ابتداء تو اچھی کی ہے.یوں تو میرا خیال ہے کہ فیڈرل سسٹم کو بھی پسند کرتے ہیں لیکن تفاصیل کے متعلق دقتیں ہیں.مثلا ہندوستان کی فوجی اقوام اکثر مسلمان ہیں اور ہندی افواج میں اعلیٰ ترین رجمنٹیں مسلمانوں کی ہیں.تو کیا یہ تجویز ہے کہ انگریز افسروں کی بجائے ہندی افسر مقرر کر دیے جائیں؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نظام چل نہ سکے گا.یہی میری رائے پولیس کے متعلق ہے.فوج اور پولیس کا سوال ظاہر ا تو بہت آسان ہے لیکن عملاً اتنا آسان نہیں.
۲۳۲ میں یہ کتاب سر جیمز آر انز سابق چیف جسٹس جنوبی افریقہ کو بھیجوں گا اور اگر اجازت دیں تو میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ اخبار ( کیپ ٹائمز کے ایڈیٹر کو اس کا دیباچہ شائع کرنے پر آمادہ کریں.جنوبی افریقہ میں یہودیوں کا بڑا اثر ہے اور ریاستہائے متحدہ کے یہودیوں کے علاوہ دوسرے درجہ پر صیہون فنڈ میں چندہ دینے والے ہیں کے یہودی ہیں.یہی صوبہ جاتی تحریک انہیں مسلمانوں کا دشمن بنائے ہوئے ہے.یورپین لوگ خاص کر انگریز مسلمانوں کے حق میں ہیں اس لئے میرا جی چاہتا ہے کہ اخبار (کیپ ٹائمز) ہر ہولی نس کی اس تصنیف کا دیباچہ شائع کرے.سر جان کر (Sir John Kerr) کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کی ایک جلدار سال فرمانے کے لئے میں آپ کا بہت مشکور ہوں اور میں اسے بہت دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں." لارڈ ڈارلنگ (Lord Darling) " لارڈ ڈارلنگ امام مسجد لندن کی طرف سے مسئلہ ہند کے متعلق کتاب پا کر بہت مشکور ہیں.انہیں یقین ہے کہ اس کتاب سے انہیں بہت سی کار آمد معلومات اور تنقید ملے گی." سر جیمز واکر (Sir Games Walker) " مجھے ایک جلد ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل، مصنفہ جناب امام جماعت احمدیہ ملی ہے.میں اس کے لئے آپ کا بہت مشکور ہوں.میں نے اس کے بعض بتہ جستہ مقامات دیکھے ہیں.مجھے یقین ہے کہ یہ تصنیف قابل دید ہو گی." میجر آر ای - فشری - بی ای (Major R.E.Fisher) " آپ نے از راہ کرم مجھے مسئلہ ہند پر امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب ارسال فرمائی.اس کا شکریہ مجھ پر واجب ہے.میں اسے بڑی دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں.مجھے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں جو تجارب حاصل ہوئے ہیں ان کی بناء پر آپ کے مقاصد سے ہمدردی ہے.بطور ممبر انڈین ایمپائرز سوسائٹی Indian Empire Society کے میں یقیناً ہمیشہ اس بات کا حامی رہوں گا کہ
۲۳۳ اسلام کے متعلق جو برطانیہ کی ذمہ داری ہے وہ ہماری قوم کے اعلیٰ ترین اخلاقی فرائض میں سے ہے.میں نے اپنی زندگی کے بہت سے سال مسلمانوں میں رہ کر گزارے ہیں.وہ رواداری اور مہمان نوازی اور سخاوت جو مسلمان اسلام اور عیسائیت میں ایک مجانست ہے.اسلام عیسائیت کی روایات کو قدر اور عزت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس سے دونوں مذاہب میں ایک مضبوط اتحاد پیدا ہو جانا چاہئے.اگر چہ میں خود عیسائی ہوں لیکن پھر بھی میں اسلامی روح کو جس نے ترقی اور تہذیب کے پھیلانے میں بڑی مدد دی ہے قدرو منزلت کی نظر سے دیکھتا ہوں." آنریبل پیٹرسن.سی.ایس.آئی.سہی.آئی ای Honourable Peterson کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے ارسال کا بہت بہت شکریہ.مجھے ابھی تک اس کے ختم کرنے کی فرصت نہیں ملی.امید ہے چند دنوں میں ختم کرلوں گا.لیکن جس قدر میں نے پڑھا ہے اس سے ضرور اس قدر ظا ہر ہوتا ہے کہ یہ تصنیف جودہ گتھی کے سُلجھانے کے لئے ایک دلچسپ اور قابل قدر کوشش ہے.مسلمانوں کا نقطہ نظر اس میں بہت وضاحت سے پیش کیا گیا ہے.امید ہے کہ میں آپ سے جلد ملوں گا.لارڈ یسم (Lord Hailsham) ” میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے وہ کتاب ارسال کی جس میں سائن رپورٹ کے متعلق مسلمانوں کی رائے درج ہے.میں اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہوں کہ سائمن رپورٹ کو خالی الذہن ہو کر پڑھنا بہت ضروری ہے اور اسے ناحق ہدف ملامت بنانا اور غیر معقول مطالبات پیش کرنا درست نہیں.اس لئے مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مجھے اس کے متعلق ہندوستان کے ایک ذمہ دار طبقہ کی رائے پڑھنے کا موقع ملا ہے." برطانیہ کا مشہور ترین اخبار ٹائمز آف لندن ( Times of London ) مورخہ ۲۰.نومبر ۱۹۳۰ء کے نمبر میں فیڈرل آئیڈیل (Federal Ideal) کے عنوان کے ماتحت ایک نوٹ کے دوران لکھتا ہے کہ :.
۲۳ ”ہندوستان کے مسئلہ کا حل ایک اور ممتاز تصنیف مرزا بشیر الدین محمود) خلیفة المسیح امام جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہوئی ہے." ایل.ایم ایمری.مشہور ممبر کنزرویٹو پارٹی ” میں نے اس کتاب کو بڑی دلچسپی سے پڑھا ہے اور میں اس روح کو جس کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی ہے اور نیز اس محققانہ قابلیت کو جس کے ساتھ ان سیاسی مسائل کو حل کیا گیا ہے.نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں." ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب آف علی گڑھ تحریر فرماتے ہیں.”میں نے جناب کی کتاب نہایت دلچسپی سے پڑھی.میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کی یورپ میں بہت اشاعت فرمائیں.ہر ایک ممبر پارلیمنٹ کو ایک ایک نقل ضرور بھیج دی جائے اور انگلستان کے ہر مدیر اخبار کو ایک ایک نسخہ ارسال فرمایا جائے.اس کتاب کی ہندوستان کی نسبت انگلستان میں زیادہ اشاعت کی ضرورت ہے.جناب نے اسلام کی ایک اہم خدمت سر انجام دی ہے." سیٹھ حاجی عبد اللہ ہارون صاحب ایم.ایل.اے.کراچی ” میری رائے میں سیاسیات کے باب میں جس قدر کتابیں ہندوستان میں لکھی گئی ہیں ان میں کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل بہترین تصانیف میں سے ہے." علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال لاہور تحریر فرماتے ہیں." تبصرہ کے چند مقامات کا میں نے مطالعہ کیا ہے.نہایت عمدہ اور جامع ہے." اخبار انقلاب لاہو ر اپنی اشاعت مؤرخہ ۱۲ نومبر ۱۹۳۰ء میں رقمطراز ہے:.جناب مرزا صاحب نے اس تبصرہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے.یہ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا کام تھا جو مرزا صاحب نے انجام دیا.اخبار سیاست اپنی اشاعت مؤرخہ ۲.دسمبر۱۹۳۰ء میں رقمطراز ہے:.ذہبی اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب بشیر الدین محمود احمد صاحب نے میدان تصنیف و تالیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت و افادہ ہر تعریف کا مستحق ہے اور سیاسیات میں اپنی جماعت کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے
۲۳۵ جس عمل کی ابتداء کر کے اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ بھی ہر منصف مزاج مسلمان اور حق شناس انسان سے خراج تحسین وصول کر کے رہتا ہے.آپ کی سیاسی فراست کا ایک زمانہ قائل ہے.اور نہرو رپورٹ کے خلاف مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں ، سائمن کمیشن کے روبرو مسلمانوں کا نقطۂ نگاہ پیش کرنے میں، مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے مدلل بحث کرنے اور مسلمانوں کے حقوق کے متعلق استدلال سے کتابیں شائع کرنے کی صورت میں آپ نے بہت ہی قابل تعریف کام کیا ہے.زیر بحث کتاب سائن رپورٹ پر آپ کی تنقید ہے جو انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے.جس کے مطالعہ سے آپ کی وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے.آپ کا طرز بیان سلیس اور قائل کر دینے والا ہو تا ہے.آپ کی زبان بہت شستہ ہے." ایڈیٹر صاحب اخبار لکھنؤ مورخه ۵ - دسمبر ۱۹۳۰ء کے پرچہ میں رقمطراز ہے:.”ہمارے خیال میں اس قدر ضخیم کتاب کا اتنی قلیل مدت میں اردو میں لکھا جانا انگریزی میں ترجمہ ہو کر طبع ہونا اغلاط کی درستی پروف کی صحت اور اس سے متعلقہ سینکڑوں وقتوں کے باوجود تحمیل پانا اور فضائی ڈاک پر لنڈن روانہ کیا جانا اس کا بین ثبوت ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے نقطہ نظر کے مطابق اپنے فرائض سمجھ کر وقت پر انجام دیتی ہے اور نہایت مستعدی اور تندہی کے ساتھ.غرضیکہ کتاب مذکور ظاہری اور باطنی خوبیوں سے مزین اور دیکھنے کے قابل ہے." حضرت مصلح موعود کی قیادت کی یہ قانونی ذرائع سے حقوق حاصل کرنے کی مثال نمایاں خصوصیت رہی کہ آپ نے ہمیشہ صلح و سلامتی کا رستہ اپنایا اور ہر اس کام سے خود بھی الگ رہے اور جماعت کو بھی الگ رکھا جس میں فساد اور قانون شکنی کی کوئی صورت نظر آتی ہو.تاہم جماعت میں جرات و بہادری پیدا کرنے ، اپنے جائز حقوق صحیح ذرائع سے حاصل کرنے اور غیرت ایمانی پیدا کرنے کے مقاصد بھی ہمیشہ آپ کے پیش نظر رہے.۷.اگست ۱۹۲۹ء کو حضور کی قادیان سے غیر حاضری میں جب کہ آپ بحالی صحت کی غرض سے کشمیر تشریف لے گئے ہوئے تھے چند سو سکھوں کے ایک پُر تشدد ہجوم نے گائے ذبح کرنے سے مذہبی منافرت پھیلنے کا بہانہ بناتے ہوئے قادیان کے مذبح کو پولیس کی موجودگی میں مسمار کر دیا.قانون شکنی اور فساد کی یہ حرکت جماعت کے حقوق اور عزت نفس کے
FFY خلاف تھی.حضور نے ملک بھر کے معزز اہل الرائے حضرات کو ایک خط کے ذریعہ اس فساد و قانون شکنی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا.میں امید کرتا ہوں کہ اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ مسلمان اپنے ہمسائیوں کے احساسات کا جائز احترام کرنے کو تیار ہیں اس امر کو ترجیح دی جائے گی کہ ان کے ہمسایوں کو نا واجب تکلیف نہ ہو اور ایسے حالات سے ملک کو بچایا جائے جو اس کے امن کو برباد کرنے والے اور اس کی آزادی کو نقصان پہنچانے والے ہوں.اس جابرانہ رویہ کو دیکھتے ہوئے جو قادیان کے مذبح کے انہدام میں اختیار کیا گیا ہے اور جو مسلمانوں کو کھلا چیلنج ہے اور اس رویہ کو دیکھتے ہوئے جو بعض ہندو اخبارات نے اس موقع پر اختیار کیا ہے میرے جذبات جس قدر متاثر ہیں میں نے اس کا اظہار نہیں ہونے دیا تاکہ میری اصل غرض فوت نہ ہو جائے مگر میں امید کرتا ہوں کہ باوجود اس کے آپ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کریں گے کہ ایک زندہ قوم اپنی آئندہ نسل کو روحانی و اخلاقی موت میں پڑنے کے خطرہ کو دیکھ کر انتہائی جدوجہد کرنے کے بغیر خاموش نہیں ہوگی." (الفضل ۲۰.ستمبر ۱۹۲۹ء) اس خط کے جواب میں سردار جو گندر سنگھ ، سردار تارا سنگھ بھائی پر مانند صاحب دیا نند کالج جالندھر ایک ایم ایل مہاسبھا کے سیکرٹری اور بعض مسلمان لیڈروں کے خطوط موصول ہوئے.(الفضل ۲۲.اکتوبر ۱۹۲۹ء) حضور نے سکھوں کی اشتعال انگیزی اور فساد کے مقابلہ میں عام سیاسی بیان بازوں کے بر عکس نهایت توازن و اعتدال سے اس معاملہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا.میں ہر وہ طریق اختیار کرنے کیلئے تیار ہوں جو ہماری عزت کو قائم رکھ سکے، ہماری ضرورت پوری کر سکے اور ان کے احساسات (ہندو پڑوسیوں کے.ناقل ) کا خیال رکھا جا سکے غرض ہم ان کے احساسات کو زیادہ سے زیادہ مد نظر رکھیں گے......باوجود اس کے کہ مقامی ہندوؤں کے تعلقات ہم سے اچھے نہ تھے وہ جھوٹی باتیں ہماری طرف منسوب کر کے فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے میں نے ہمیشہ ان کا خیال رکھا اور جب ایک گذشتہ سال مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ سیاسی تعلقات اچھے نہ ہونے
۲۳۷ کی وجہ سے یہ تحریک کی کہ گائے کی قربانی زیادہ کی جائے تو میں نے اعلان کر دیا کہ ہندوؤں کی دلآزاری کی غرض سے ایسا نہ کیا جائے اس طرح قربانی نہ ہوگی مگر ہماری ان باتوں کا کوئی خیال نہ رکھا گیا.ہماری امن پسندی کو بزدلی بتایا گیا اور کہا گیا قادیان کے ارد گرد سکھوں اور ہندوؤں کے ۸۴ گاؤں ہیں وہ مذبح قائم نہیں ہونے دیں گے.میں کہتا ہوں اگر ۸۴ گاؤں بھی ہوں تو کیا ہوا مومن تو ساری دنیا سے بھی نہیں ڈرتا میں تو اگر اکیلا ہوتا اور ۸۴ چھوڑ ۸۴ لاکھ گاؤں بھی ارد گرد ہوتے اور عزت کا سوال ہو تا تو میں اکیلا ہی گائے ذبح کرتا اور سب سے کہہ دیتا آؤ جو کر سکتے ہو کر لو.انسان زندہ رہتا ہے کچھ کرنے کیلئے اگر اس کی عزت ہی نہ رہی تو اس نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے.ادھر رسول کریم ملی الم نے فرمایا ہے مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ وَعِرْضِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ کہ جو اپنے مال اور عزت کی حفاظت کرتا ہوا مارا جاتا ہے وہ شہید ہے.پس مومن موت سے نہیں ڈر سکتا اگر کوئی اسے موت کی دھمکی دیتا ہے تو وہ بڑی خوشی سے خیر مقدم کرتا ہے کہ آؤ جو مارنا چاہتا ہے وہ مار ڈالے مگر جن کو خدا نے زندہ رکھنے کیلئے پیدا کیا ہے انہیں کون مار سکتا ہے.مومن تو اس دیو کی طرح ہوتا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس کے خون کی ایک ایک بوند سے ایک ایک دیو پیدا ہوتا جاتا تھا.اگر کوئی ایک احمدی کو مارے گا تو اس کی جگہ سو کھڑے ہو جائیں گے جس کا جی چاہے یہ تماشہ دیکھ لے اور ہم سے پہلے کونسی کمی کی گئی ہے لیکن ہمارا کیا بگاڑ لیا.پس ہم ان دھمکیوں سے گھبراتے نہیں ہاں کوئی صدمہ ہے تو یہ ہے کہ ہم دنیا میں جو صلح و آشتی پیدا کرنا چاہتے ہیں اسے نقصان نہ پہنچے.ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی عزت قائم رکھنے اور امن و آشتی سے زندگی بسر کرنے کی توفیق دے.ہم خود بھی امن میں رہیں اور اپنے ہمسایوں کو بھی امن میں رہنے دیں." الفضل ۸ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحه ۶) اسی موضوع پر اخبار " فاروق " میں بھی حضور کا مندرجہ ذیل بیان شائع ہوا جو کشمیر سے حضور کی واپسی پر اہل قادیان کے ایک ایڈریس کے جواب میں حضور نے ارشاد فرمایا:.دنیا جانتی ہے ہم نے بزدل کہلا کر خوشامدی کہلا کر ہر قسم کے برے "......سے برے نام رکھا کر بھی دنیا میں امن اور آشتی قائم رکھنے کیلئے ہر قسم کی سعی اور جد و جہد سے کام لیا ہے.لوگوں نے ہمارے نازک ترین احساسات کو صدمہ پہنچایا اور ہر
٢٣٨ طرح کے طعنوں سے بھڑکایا لیکن باوجود ان کے اشتعال اور غیرت دلانے کے ہم نے اپنے جذبات کو دبائے رکھا اور فتنوں اور فسادات کی آگ بھڑکانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کے مٹانے کی سعی کی ہے.لیکن ایک بات ہے جو میں اپنی جماعت کے دوستوں کو سنا دینا اور ساری دنیا کو بتا دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ مومن اگر ایک وقت اپنی نرمی آشتی اور صلح جوئی کے لئے ہر ایک قربانی کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے تو جس وقت اس کی اس آزمائش اور اس امتحان کو ایسے مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے جہاں سے آگے چلنے سے شریعت اسے روک دیتی ہے اس وقت اس سے بڑھ کر بہادر اور جری بھی کوئی نہیں ہو تا.اس وقت اسے بہادری اور شجاعت دکھانے سے نہ دنیا کی حکومتیں روک سکتی ہیں نہ گورنمٹیں اس کا کچھ کر سکتی ہیں کیونکہ دنیا میں کسی کام سے رکنے اور باز رہنے کی دو ہی وجوہ ہوتی ہیں.اول شریعت اور عقل کہتی ہے کہ یہ کام نہ کرو.دوسرے بُزدلی اور منافقت کہتی ہے اس سے پیچھے ہٹ جاؤ لیکن جب مومن کو معلوم ہو جائے کہ شریعت اور عقل فلاں کام کرنے سے روکتی نہیں بلکہ اس کے کرنے کا حکم دیتی ہے تو ایک ہی بات باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ بزدلی اسے کام کے کرنے سے روک دے.مگر خدا کے بندے کبھی بزدل نہیں ہوتے.پس ہم اپنی ان قدیم روایات کو قائم رکھتے ہوئے جن کی وجہ سے ہم نے اپنے ہم قوموں اور اپنے بھائیوں سے لڑائی مول لی ان کی ناراضگی برداشت کی، ان کے طعنے سنے انہیں قائم رکھتے ہوئے سعی کریں گے کہ دنیا میں امن قائم رہے فتنہ و فساد پیدا نہ ہو مگر دنیا کو یہ بھی معلوم ہو جانا چاہئے کہ جہاں ہم خود ابتداء نہ کریں گے وہاں اگر کوئی ہمارے متعلق ابتداء کرے گا تو ہم اس کی کوئی حرکت بھی برداشت نہیں کریں گے اور وہ وہ کچھ دیکھے گا جو اس کے وہم و خیال میں بھی نہ ہو گا.ہم کسی کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھاتے لیکن جو ہاتھ ہمارے خلاف اٹھے گاوہ شل کیا جائے گا اور وہ کبھی کامیابی سے نیچے نہیں جھکے گا.ہم نے کبھی باتیں نہیں بنا ئیں کبھی بڑھ بڑھ کر دعوے نہیں کئے اور اس وجہ سے لوگوں کے اعتراض بھی سنے جب انہوں نے بڑے بڑے دعوے کئے کہ ہم یہ کر دیں گے.وہ کر دیں گے اس وقت ہم ان کے دعووں میں شریک نہ ہوئے اس لئے کہ ہم جانتے تھے یہ محض دعوے ہیں جن پر کبھی عمل نہیں کیا جائے گا.غرض ہم نے کبھی نہیں کہا کہ ہم خون کی ندیاں بہادیں گے.ہم تو
۲۳۹ لوگوں کے زخم مندمل کرنے آئے ہیں نہ کہ خون بہانے کیلئے.پس ہم اب بھی یہی کہیں گے کہ ہم دنیا میں امن اور صلح قائم کریں گے مگر باوجود اس کے میں بتا دینا چاہتا ہوں اگر کوئی ہمارے اس امن پسندی کے جذبات سے غلط فائدہ اٹھا کر قدم اٹھانا چاہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے خدا تعالی کی جماعتوں نے کبھی پیٹھ نہیں دکھائی اور پہلوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے بتایا.ہم یوں دعویٰ نہیں کیا کرتے اور اس وقت بھی میں کوئی دعوئی کرنا پسند نہیں کرتا اس لئے میں اس بات کو طول دینا نہیں چاہتا بلکہ صرف اتنا کہتا ہوں جب کوئی ایسا موقع آئے گا اس وقت ہم دکھا دیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا کرتے ہیں.مومن کا کام وقت اور موقع پر کر کے دکھانا ہوتا ہے اس لئے اسے کسی دعویٰ کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن چونکہ خیالات کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے دوسرے دھوکا کھا سکتے ہیں اس لئے میں فساد بڑھانے کی غرض سے نہیں بلکہ امن پسندی کی نیت سے بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم قیام امن کیلئے سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن کوئی ایسی بات برداشت نہیں کر سکتے جس سے بے غیرتی اور بے قمیتی پیدا ہو.مدیح کے سوال پر میں نے ٹھنڈے دل سے غور کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سوال یہ نہیں کہ سکھوں اور ہندوؤں نے اینٹوں کی ایک چار دیواری گرادی یا یہ کہ ایک خاص غذا کھانے سے مسلمانوں کو روک دیا بلکہ سوال یہ ہے کہ کوئی قوم اپنی نجابت اور شرافت کو ثابت کرنے کیلئے کبھی ایسی درندگی برداشت نہیں کر سکتی کہ ایک دوسری قوم اسے کہے کہ جو میں کہوں وہ کرے اور جس کی میں اجازت دوں وہ کھائے.اس قوم سے بے غیرت قوم اور کوئی نہیں ہو سکتی جو اپنے کھانے پینے کو دوسری قوم کے اختیار میں دے دے.اور ہم نے کسی غیر مسلم کو مجبور نہیں کیا کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرے لیکن اس بات کی بھی کسی کو اجازت نہیں دی کہ مسلمانوں کو وہ اپنے مذہب کی تعلیم پر چلنے کیلئے مجبور کرے.ہم نے ان لوگوں (ہندوؤں) کا ہمیشہ خیال رکھا یہاں کے لوگ گواہ ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو یہاں سے اس لئے نکال دیا کہ اس نے گائے کا گوشت فروخت کیا اور جب تک میں نے یہ محسوس نہیں کیا کہ اس کام کی واقعی ضرورت ہے اس وقت تک اس کی اجازت نہیں دی.ممکن ہے یہاں کے لوگ غصہ کی حالت میں اس کا انکار کر دیں جس طرح انہوں نے کہا تھا کہ گورنمنٹ نے اجازت نہیں بڑھ کر
۲۴۰ دی تھی نہ کہ آپ نے روکا تھا حالانکہ اس وقت میں نے افسروں کو اجازت دینے سے رو کا تھا اور میرے پاس قادیان کے ایک معزز ہندو کا خط موجود ہے انہوں نے اقرار کیا ہے کہ میں نے پہلے مذبح کو روکا تھا.غرض ہم نے ہر طرح ان کا خیال رکھا اور لمبے عرصہ تک رکھا حالانکہ اس عرصہ میں بھی یہ لوگ ہمیں نقصان پہنچانے کی ہر طرح کوشش کرتے رہے اور میں سمجھتا ہوں جو طریق انہوں نے اس دفعہ اختیار کیا ہے اگر اس کی بجائے سیدھی طرح ہی میرے پاس آتے تو جس قدر ممکن ہو تا میں ان کا خیال رکھتا اور میرے ذہن میں ایسی تجاویز تھیں کہ ان پر عمل کرنے سے ہندو اور سکھ صاحبان کی دلجوئی ہو سکتی تھی.مگر ان میں سے ایک فریق نے تو دھمکی دی کہ اگر مدیح جاری ہوا تو فساد ہو جائے گا اور چونکہ دھمکی کوئی باغیرت انسان برداشت نہیں کر سکتا اس لئے میں نے بھی کہہ دیا جو فساد کرنا چاہتے ہوں وہ کر کے دیکھ لیں.دوسرا فریق ملنے کا وعدہ کر کے نہ آیا اس نے سمجھا وہ زور سے جو چاہے منوالے گاورنہ اگر یہ لوگ میرے پاس آتے تو ان کا مدعا ان کے اختیار کردہ طریق سے زیادہ بہتر حاصل ہو تا.میں نہیں سمجھتا گورنمنٹ کس طرح ایسا ظالمانہ اور خلاف عقل فعل کر سکتی ہے کہ مذبح کو روک دے....کئی ہندوؤں نے میری اس چٹھی کے جواب میں جو میں نے شائع کی ہے تسلیم کیا ہے کہ قانون کے ذریعہ اس کا تصفیہ نہیں ہو سکتا ایسی باتیں آپس کے سمجھوتہ سے ہی طے ہو سکتی ہیں اور قانون کی نسبت زیادہ عمدگی سے طے ہو سکتی ہیں مگر اس طریق کو چھوڑ کر جبر کا رنگ اختیار کیا گیا اس لئے ہم بھی مجبور ہیں کہ حریت کی روح دکھائیں اور اپنا حق حاصل کریں.پس ہم اب اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہاں غور کرنے کیلئے اب بھی تیار ہیں بشر طیکہ پہلے مذبح قائم کر دیا جائے.جنہوں نے مذیح گرایا ہے وہ پہلے اسے بنا دیں اور پھر میرے پاس آئیں اور مجھ سے بات کریں.مذبح کے کھڑے ہونے سے پہلے نہیں اس صورت میں ہم تمام وہ طریق اختیار کریں گے جن سے اپنی عزت قائم کر سکیں اور دنیا کو بتادیں کہ ہم کسی کے غلام ہو کر رہنے کے لئے تیار نہیں ہیں." ، (فاروق ۱۴.اکتوبر ۱۹۲۹ء) اس مسئلہ کی سنگینی اور اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور موقع پر حضور نے اپنے ایک تحریری بیان میں فرمایا :-
امم قادیان کا مذبح گرایا گیا اور ایسے حالات میں گرایا گیا کہ کوئی انصاف پسند انسان اس کو جائز نہیں قرار دے سکتا.ایک طرف ظلم تعدی بغاوت اور شرارت کا مظاہرہ تھا تو دوسری طرف نرمی ، عفو ، امن پسندی اور شرافت کا مظاہرہ تھا.پولیس کی موجودگی میں مدیح گرایا گیا.ایک سب انسپکٹر اور کئی کانسٹیبل وہاں موجود تھے.انہوں نے ان حملہ آوروں کو روکا نہیں بلکہ کھڑے دیکھتے رہے اور پھر مقدمہ میں ایک شخص بھی مجرموں میں سے اپنے کیفر کردار کو نہیں پہنچا.دوسری طرف احمدیوں نے نہایت بردباری اور امن پسندی کا ثبوت دیا اور باوجو د طاقت کے اس خوف کی وجہ سے ان شریروں کا مقابلہ نہ کیا کہ کہیں وہ امن شکنی کا موجب نہ ہو جائیں اور اسی یقین کی وجہ سے ہاتھ نہ اٹھایا کہ حکومت ان مفسدوں کو خود سزا دے گی لیکن ان کا اعتماد بے محل ثابت ہوا.حکومت نے ایک مفسد کو بھی سزا نہیں دی.میں ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ علاقہ کے تھانہ دار اور پولیس کی موجودگی میں ایک مجرم کی بھی شناخت صحیح طور پر نہ ہو سکی ہو.پس سب مجرموں کا چھوٹ جانا بتاتا ہے کہ یا تو اصل مجرموں کو پکڑا ہی نہ گیا تھا.یا یہ کہ مقدمہ کو جان بوجھ کر اس طرح چلایا گیا تھا کہ وہ لوگ بری ہو جائیں.تا کہ دنیا یہ خیال کرلے کہ گورنمنٹ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور سکھ بھی گورنمنٹ سے ناراض نہ ہوں.اس وقت ایک ہی سوال حکام کے سامنے تھا اور وہ یہ تھا کہ سکھوں کو دسمبر ۱۹۲۹ء کی کانگریس کے اجلاس میں شامل ہونے سے ہر قیمت پر روکا جائے لیکن اگر حکومت و فادار رعایا کے حقوق کو تلف کر کے اس قسم کی کارروائی کرے تو اسے کب یہ امید ہو سکتی ہے کہ آئندہ مشکلات کے وقت میں اس کی تائید کی جائے گی."مگر میں نے پھر بھی کانگرس کی شورش کے وقت میں ایسا کام کیا ہے کہ کوئی انجمن یا فرد اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا.اگر میں اس وقت الگ رہتا تو یقینا ملک میں شورش بہت زیادہ ترقی کر جاتی اور یہ صرف میری ہی راہنمائی تھی جس کے نتیجہ میں دوسری اقوام کو بھی جرات ہوئی اور ان میں سے کئی کانگرس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئیں.لیکن باوجود اس کے مذیح کے معاملہ میں حکومت ہمارے احساسات کے ساتھ کھیلتی رہی ہے.اس نے جان بوجھ کر اس معاملہ کو اس قدر لمبا کیا ہے کہ کوئی شخص اسے
۲۴۲ جائز نہیں قرار دے سکتا.وہ ہماری جیبوں سے سکھوں کو عارضی طور پر روکے رکھنے کی قیمت دلوانا چاہتی ہے لیکن ہم نیلام ہونے کے لئے ہر گز تیار نہیں ہیں.ذمہ دار افسر دو سال سے ہمیں یہ کہتے چلے آتے ہیں کہ مدیح کا فیصلہ ہو گیا ہے.بس اب جاری ہونا ہے کچھ دن آپ لوگ اور صبر کریں.اپنے حقوق چھوڑ کر بھی سکھوں کو خوش رکھیں تا کہ مدیح کے کھولنے میں دقت نہ ہو.یہی آواز ہے جو ڈیڑھ سال سے ہمارے کانوں میں پڑ رہی ہے لیکن ہنوز روز اول والا معاملہ ہے.مدیح ہمارا حق ہے، اس حق کے لینے کے لئے زائد قیمت ادا کرنے کے معنی ہی کیا ہوئے.لطف یہ ہے کہ جو تعزیری چوکی بٹھائی گئی ہے.علاوہ اس کے کہ اس کا رویہ نهایت قابل اعتراض ہے اس کے آنے پر چوریاں بڑھ گئی ہیں اور لوگ شبہ کرتے ہیں کہ یہ چوریاں خود بعض پولیس کے آدمی اس لئے کروا رہے ہیں تا کہ تعزیری چوکی کی معیاد بڑھائی جاسکے.نیت کو اللہ تعالی جانتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیان میں پچھلی سردیوں میں اس قدر چوریاں ہوئی ہیں کہ اس سے پہلے کئی سالوں میں بھی اس قدر نہ ہوئی ہوں گی.پس اگر بد دیانتی نہیں تو بعض لوکل افسروں کی نالائقی اس سے ضرور ثابت ہوتی ہے." دوسری عجیب بات یہ ہے کہ اس چوکی کا خرچ جو علاقہ پر تقسیم کیا گیا ہے اس میں مسلمانوں پر خاص ظلم کیا گیا ہے حالانکہ قصور سکھوں کا تھا.کمین لوگ جو بیچارے نہایت محنت سے مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں، ان پر بار بہت زیادہ ڈالا گیا ہے اور سکھ زمینداروں پر بہت کم ڈالا گیا ہے.یہ ظلم برابر جاری ہے اور باوجو د توجہ دلانے کی اس کی اصلاح نہیں ہوئی".اس زمانے کے اخبارات سے پتہ چلتا ہے کہ اس قابل نفرت اقدام نے ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی زبر دست بر دو ژادی اور مسلم پریس نے ایسا شاندار متحدہ احتجاج کیا جس کی نظیر نہیں ملتی.چنانچہ انقلاب لاہور مدینہ بجنور، پیغام صلح لاہور ، منادی دیلی الجمعیۃ دہلی، دور جدید لاہور ، تازیانہ لاہور مسلم آوٹ لک لاہور ، وکیل امرتسر مونس اٹاوہ اہلحدیث امرتسری زمیندار لاہور الامان ، دہلی ، شهاب راولپنڈی، حقیقت لکھنو ، ہمت لکھنو نے اس مسئلہ پر پُر زور اداریے لکھے.اس کے علاوہ ضلعی مسلم لیگ امرتسر، مسلم لیگ گورداسپور اور مجلس خلافت پنجاب
۲۴۳ نے اس کے خلاف ریزولیوشن پاس کئے.احمدیت اور سیاست علاقہ کے سکھ اور ہندوؤں نے اس قانون شکنی اور اشتعال انگیزی کے بعد عدالت میں مقدمہ بھی دائر کر دیا.الفضل یکم نومبر ۱۹۲۹ء سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور قادیان میں مدیح تعمیر ہو ا جو انسانی حقوق کے قیام میں حضور کی جد وجہد کا ایک نشان تھا.سوانح فضل عمر حصہ دوم میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے حضرت مصلح موعود کی ملی و قومی مفاد کے امور میں صحیح اور بروقت راہنمائی کے متعلق نہایت پر مغز مقالہ تحریر فرمایا ہے.جس میں وہ دس اصول بیان فرمائے ہیں جو حضور کی مخصوص کامیاب سیاست یا ملی خدمات میں کار فرما نظر آتے ہیں.جن کی روشنی میں حضور کے کار ہائے نمایاں کی عظمت و انفرادیت نمایاں ہوتی ہے.حضرت فضل عمر اپنے اس نوعیت کے بعض نهایت مفید اور دور رس نتائج کے حامل واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.”لوگ کہتے ہیں احمدیوں کو سیاست سے کیا تعلق جو لوگ ریلوے سٹیشن سے دور ایک گاؤں کے رہنے والے ہوں اور سیاسی معاملوں میں استاد خل بھی نہ دیتے ہوں ،کسی سیاسی جماعت سے تعلق بھی نہ رکھتے ہوں بھلا ان کو سیاسی امور کی کیا خبر ہو سکتی ہے.یہ سچ بات ہے ہم سیاست سے تعلق نہیں رکھتے مگر باوجود ان باتوں کے بات وہی صحیح ہوتی ہے جو ہم کہتے ہیں.خلافت کی تحریک کے دنوں میں جن مطالبات کو میں نے کہا کہ انہیں پیش کیا جائے ان کو اس وقت ٹال دیا گیا لیکن بعد میں ترکوں نے وہی مطالبات کئے اور سرمو فرق نہ کیا.ان کی کمیٹیاں بیٹھیں اور ان کے سیاسی مدبروں کی سوچ بچار کے بعد آخر ان ہی مطالبات کے پیش کرنے پر آئے جن کے پیش کرنے کا ایک عرصہ پہلے میں نے مشورہ دیا تھا.پھر ہجرت کا واقعہ پیش آیا اس میں بھی میں نے صلاح دی اور اس کے بھی نفع و نقصان سے آگاہ کیا مگر اس پر بھی اس وقت توجہ نہ کی گئی اور آخر میرے بتائے ہوئے نقصانات ان کو برداشت کرنے پڑے.پھر ہندو مسلم اتحاد کا شور پڑا اس میں بھی میں نے جو تجاویز بتا ئیں اس وقت تو ان پر ہنس دیا گیا لیکن آخر یہ لوگ خود ہی چلا دیئے کہ اگر ہندوؤں وغیرہ سے اتحاد ہو سکتا ہے تو ان شرائط اور ان تجاویز پر اور وہ شرائط اور دہ تجاویز کیا تھیں وہی تھیں جو میں نے پہلے ہی بتا دی تھیں.پھر نان کو آپریشن (Non-Cooperation) کی آواز اٹھی میں نے اس کے متعلق بھی کچھ مشورہ دیا مگر
مام سهم.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دوسرے موقعوں کی طرح اس موقع پر بھی جو کچھ میں نے کہا وہ انہوں نے نہ مانا اور گو اس کو نہ ماننے کا نتیجہ ان کو تکلیف دہ صورت میں بھگتنا پڑا لیکن آخر کار وہی ہوا جو میں نے پہلے ہی کہا تھا.اس طرح تقریباً تمام پیش آمدہ تحریکات اور حالات پر میں نے مشورہ دیا مگر انہوں نے نہ مانا اور گو اس وقت تو نہ مانا مگر جب وقت نکل جاتا رہا پھر اس کو مانا.اس سے کیا یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہماری رائے مذہب کی طرح سیاست میں بھی صائب ہوتی ہے جب کہ ہم ریل کے سٹیشن سے دور ایک گاؤں میں بیٹھنے والے ہیں ، جب ہم سیاسی مجلسوں سے تعلق رکھنے والے نہیں ، جب ہم ان کتابوں کو نہیں پڑھتے جن میں سیاسی بحث ہوتی ہے اور جب ہم سیاسی امور سے اس قدر واقف بھی نہیں جس قدر وہ لوگ خود ہیں پھر اگر وقت پر ہم کوئی صلاح دیں اور مشورہ بتا ئیں اور وہ صلاح اور مشورہ بعد میں صحیح اور درست ثابت ہو تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ ان معالموں میں خدا تعالیٰ ہماری رہبری کرتا ہے اور ہمیں صحیح رائے دینے اور مفید مشورہ بتانے کے لئے خود اپنے فضل سے سکھاتا ہے." (الفضل ۶.جولائی ۱۹۲۶ء) اس امر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اور جائز رنگ میں حقوق کے حصول کے لئے کوشش کرنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.ایسی تمام تحریکات جو قانون شکنی کا موجب نہ ہوں فساد اور بدامنی پیدا نہ کریں ان میں ہم شریک ہو سکتے ہیں اور دوسروں سے بڑھ کر ان میں حصہ لے سکتے ہیں کیونکہ مومن کا یہ بھی کام ہے کہ لوگوں کو ان کے حقوق دلائے یہ اسلام کا حکم ہے.مگر اس کے ساتھ ہی اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ شرارت نہ ہو فساد نہ ہو ، فتنہ نہ ہو.دنیا خواہ ہمیں کچھ کے ہم سب کچھ برداشت کرلیں گے لیکن جو دین کا حکم ہے اسے ہم کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے." (الفضل ۷.جنوری ۱۹۳۰ء) اس بنیادی امر کی طرف حضور به تکرار و اصرار توجہ دلاتے رہے کہ بد امنی ، تخریب کاری اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے.اس سلسلے میں حضور نے - کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا کہ :." آج ہماری اپنی حکومت نہیں ہے اگر ہمارے نوجوان بد امنی اور تشدد کے رستہ
۲۴۵ پر چل نکلیں تو کل جب اپنی حکومت ہوگی اس وقت اس باغیانہ تربیت کی وجہ سے وہ اپنی حکومت کیلئے بھی مشکل پیدا کرنے کا سبب بنیں گے." اس رہنما اصول کو مد نظر نہ رکھنے کی وجہ سے اس وقت کی قیادت اپنے بلند بانگ دعاوی اور کثیر التعداد حامیوں کی مدد کے باوجود ترک موالات ، تحریک خلافت تحریک ہجرت و غیره مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام اور خائب و خاسر رہی.جماعت احمدیہ نے اپنی مخصوص مذہبی و روحانی حیثیت کی وجہ سے کبھی بھی معروف معنوں میں سیاست میں دخل نہیں دیا.مگر امن و صلح پسندی کی فضاء میں شہری حقوق کے حصول اور آزادی ضمیر کے سلسلہ میں مفید و مؤثر خدمات سرانجام دیں تو اس پر بھی معتر نہین نے اعتراض کرنے شروع کر دیئے جس کے جواب میں حضور فرماتے ہیں.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم سیاست میں کیوں دخل دیتے ہیں ان کے لئے میرے تین جواب ہیں.اول یہ کہ ہم اپنا کام کر رہے تھے تم نے ستایا دق کیا اور بار بار اعتراض کئے کہ تم کیوں خاموش ہو اس لئے ہم مجبور ہو گئے کہ اپنی صحیح رائے کا اظہار کر دیں.دو سرے یہ کہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان کے ہر حصہ اور بیرونی ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اور ان میں سے کئی ایک ایسے دوست ہیں جنہیں سالہا سال قادیان آنے کا اتفاق نہیں ہو تا اس لئے ضروری ہے کہ ان کی رہنمائی کے لئے ہم اپنے نیز بیرونی پریس کے ذریعے بھی ملکی امور کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دیں اور انہیں مناسب ہدایات دیں.تیسرے یہ کہ ہم مبلغ ہیں اور ہمارا پیشہ یہی ہے کہ جو بات حق سمجھیں اسے دنیا میں پھیلا ئیں.(الفضل ۷.جون ۱۹۳۰ء) حضرت مصلح موعود نے برصغیر کی تاریخ کے ہنگامہ خیز دور مسلم مفاد کے تحفظ کیلئے قربانی میں ایک دور اندیش متوازن و ہمدرد رہنما کی حیثیت میں جہاں ہندو مسلم اتحاد کی بھر پور کوشش فرمائی اور اپنی ان کوششوں کو ہند و ضد اور تعصب کی نذر ہوتے ہوئے دیکھ کر مسلمانوں کو آنے والے حالات کے لئے مکمل تیاری اور ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہنے کی تلقین فرمائی.اس زمانہ کے آپ کے خطبات ، تقاریر اور مختلف مواقع کی گفتگو میں یہ امور واضح اور نمایاں ہیں جن کا یہاں تذکرہ موجب تطویل ہو جائے گا تاہم حضور کی سیاسی بصیرت دور اندیشی کا مظہر ایک خطبہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.اس قدرے طویل اقتباس کو پیش کرنا ناگزیر
ہے کیونکہ اس سے اس زمانہ کے سیاسی اتار چڑھاؤ ، ہندوؤں کی اسلام دشمنی اور حضور کے اس غیر معمولی کردار کا کہ آپ نے عام اسلامی مفاد اور حق و انصاف کی خاطر کسی خطرے اور نقصان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مطالبہ پاکستان اور حق و انصاف کی بھر پور حمایت فرمائی اظہار ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں." آج مجھے ایک عزیز نے بتایا کہ دلّی کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ احمدی اس وقت تو پاکستان کی حمایت کرتے ہیں مگر ان کو وہ وقت بھول گیا جبکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے بُرے سلوک کئے تھے.جب پاکستان بن جائے گا تو انکے ساتھ مسلمان پھر وہی سلوک کریں گے جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا اور اس وقت احمدی کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان میں شامل کر لو.کھنے والے کی اس بات کو کئی پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے اس کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ جب پاکستان بن جائے گا تو ہمارے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے وہی سلوک ہو گا جو آج سے کچھ عرصہ پیشتر افغانستان میں ہوا تھا.فرض کرو ایسا ہی ہو جائے پاکستان بھی بن جائے اور ہمارے ساتھ وہی سلوک روا بھی رکھا جائے لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایک دیندار جماعت جس کی بنیاد ہی مذہب اخلاق اور انصاف پر ہے کیا وہ اس کے متعلق اس نقطہ نگاہ سے فیصلہ کرے گی کہ میرا اس میں فائدہ ہے یا وہ اس نقطہ نگاہ سے فیصلہ کرے گی کہ اس امر میں دوسرے کا حق کیا ہے.یقینا وہ ایسے معاملہ میں مؤخر الذکر نقطہ نگاہ سے ہی فیصلہ کرے گی.پس قطع نظر اس کے مسلم لیگ والے پاکستان بننے کے بعد ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے.وہ ہمارے ساتھ وہی کابل والا سلوک کریں گے یا اس سے بھی بد تر معاملہ کریں گے.اس وقت سوال یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے جھگڑے میں حق پر کون ہے اور ناحق پر کون.آخر یہ بات آج کی تو ہے نہیں یہ تو ایک لمبا اور پرانا جھگڑا ہے.جو بیسیوں سال سے ان کے درمیان چلا آتا ہے."ہم نے بار بار ہندوؤں کو توجہ دلائی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کر رہے ہیں یہ امر ٹھیک نہیں ہے ، ہم نے بار بار ہندو کو متنبہ کیا کہ مسلمانوں کے حقوق کو اس طرح نظر انداز کر دیتا بعید از انصاف ہے اور ہم نے بار بار ہندو لیڈروں کو آگاہ کیا کہ یہ حق تلفی اور نا انصافی آخر رنگ لائے گی مگر افسوس کہ ہمارے توجہ دلانے ہمارے انتباہ
۲۴۷ اور ہمارے ان کو آگاہ کرنے کا نتیجہ کبھی کچھ نہ نکلا.ہندو سختی سے اپنے اس عمل پر قائم رہے ، انہوں نے اکثریت کے گھمنڈ میں مسلمانوں کے حقوق کا گلا گھونٹا انہوں نے حکومت کے غرور میں اقلیت کی گردنوں پر چھری چلائی اور انہوں نے تعصب اور ہندووانہ ذہنیت سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ مسلمانوں کے جذبات کا خون کیا اور ہندو لیڈروں کو بار بار توجہ دلانے کے باوجود نتیجہ ہمیشہ صفر ہی رہا.ایک مسلمان جب کسی ملازمت کیلئے درخواست دیتا تو چاہے وہ کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو تا اس کی درخواست پر اس لئے غور نہ کیا جاتا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کے مقابلہ میں ہندو چاہے کتنا ہی نالائق ہو تا اس کو ملازمت میں لے لیا جاتا اس طرح گورنمنٹ کے تمام ٹھیکے مسلمانوں کی لیاقت، قابلیت اور اہلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندوؤں کو دے دیئے جاتے.تجارتی کاموں میں جہاں حکومت کا دخل ہو تا ہندوؤں کو ترجیح دی جاتی سوائے قادیان کے کہ یہاں بھی ہم نے کافی کوشش کر کے اپنا یہ حق حاصل کیا ہے.باقی تمام جگہوں میں مسلمانوں کے حقوق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا.یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے خلاف ان کی فرقہ وارانہ زہنیت کی وجہ سے نفرت پیدا ہوتی رہی اور آخر یہ حالت ہو گئی جو آج سب کی آنکھوں کے سامنے ہے.یہ صورت کس نے پیدا کی؟ جس نے یہ صورت حالات پیدا کی وہی موجودہ حالات کا زمہ دار بھی ہے.یہ سب کچھ ہندوؤں کے اپنے ہی ہاتھوں کا کیا ہوا ہے اور یہ فسادات کا نتناور درخت وہی ہے جس کا بیج ہندوؤں نے بویا تھا اور اسے آج تک پانی دیتے رہے اور آج جب کہ اس درخت کی شاخیں سارے ہندوستان میں پھیل چکی ہیں ہندوؤں نے شور مچانا شروع کر دیا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ ہندوؤں کو اس وقت اس بات کا کیوں خیال نہ آیا کہ ہم مسلمانوں کے حقوق تلف کر رہے ہیں اور ہر محکمہ میں اور ہر شعبہ میں ان کے ساتھ بے انصافی کر رہے ہیں.مجھے پچیس سال شور مچاتے اور ہندوؤں کو توجہ دلاتے ہو گئے ہیں کہ تمہارا یہ طریق آخر رنگ لائے بغیر نہ رہے گا لیکن افسوس کہ میری آواز پر کسی نے کان نہ دھرا اور اپنی من مانی کرتے رہے.یہاں تک کہ جب ہمارا احرار سے جھگڑا تھا تو ہندوؤں نے احرار کی پیٹھ ٹھونکی اور حتی الوسع ان کی امداد کرتے رہے.ان سے کوئی پوچھے کہ جھگڑا تو ہمارے اور احرار کے درمیان مذہبی
۲۴۸ مسائل کے متعلق تھا تمہیں اس معاملہ میں کسی فریق کی طرف داری کی کیا ضرورت تھی؟" احرار کی طرف سے ہندو وکلاء مفت پیش ہوتے رہے.میں نے اس بارہ میں پنڈت نہرو کے پاس اپنا آدمی بھیجا کہ آپ لوگوں کی احرار کے ساتھ ہمدردی کس بناء پر ہے اور یہ طرفداری کیوں کی جارہی ہے.انہوں نے ہنس کر کہا سیاسیات میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے.اب جن لوگوں کی ذہنیت اس قسم کی ہو ان سے بھلا کیا امید کی جاسکتی ہے." یہ جو کچھ آج کل ہو رہا ہے یہ سب گاندھی جی ، پنڈت نہرو اور مسٹر پٹیل کے ہاتھوں سے رکھی ہوئی بنیادوں پر ہو رہا ہے اس کے ساتھ انگریزوں کا بھی اس میں ہاتھ تھا.ان کو بھی بار بار اس امر کے متعلق توجہ دلائی گئی کہ ہندوستان کے کروڑوں کروڑ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کیا جا رہا ہے جو ٹھیک نہیں ہے لیکن انہوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی یہ سب کچھ ہوتا رہا اور باوجود یہ جاننے کے ہو تا رہا کہ مسلمانوں کے حقوق تلف ہو رہے ہیں اور باوجود اس علم کے کہ مسلمانوں سے نا انصافی ہو رہی ہے مسلمان ایک مدت تک ان باتوں کو برداشت کرتے رہے مگر جب یہ پانی سر سے گزرنے لگا تو وہ اٹھے اور انہوں نے اپنے نمبے اور تلخ تجربہ کے بعد جب یہ سمجھ لیا کہ ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے حقوق خطرے میں ہیں تو انہوں نے اپنے حقوق کی حفاظت اور آرام اور چین کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے ایک علاقہ کا مطالبہ پیش کر دیا.کیا وہ یہ مطالبہ نہ کرتے اور ہندوؤں کی ابدی غلامی میں رہنے کے لئے تیار ہو جاتے کیا وہ اتنی ٹھوکروں کے باوجود بھی نہ جاگتے.پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمان اتنے طویل اور تلخ تجربات کے بعد ہندوؤں پر اعتبار کر سکتے تھے.ایک دو باتیں ہوتیں تو نظر انداز کی جا سکتی تھیں ، ایک دو واقعات ہوتے تو بھلائے جاسکتے تھے ، ایک دو چوٹیں ہوتیں تو ان کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا ایک آدھ صوبہ میں مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچا ہو تا تو اس کو بھی بھلایا جا سکتا تھا لیکن متواتر اور ہر سو سال سے ہر گاؤں میں، ہر شہر میں ہر ضلع میں اور ہر صوبہ میں ہر محکمہ میں ہر شعبہ میں مسلمانوں کو دکھ دیا گیا ان کے حقوق کو تلف کیا گیا اور ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا اور ان کے ساتھ وہ سلوک روارکھا گیا جو زر خرید غلام کے ساتھ بھی کوئی انصاف
۲۴۹ پسند آقا نہیں رکھ سکتا تھا.کیا اب بھی وہ اپنے اس مطالبہ میں حق بجانب نہ تھے ؟ کیا اب بھی وہ اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے تگ و دو نہ کرتے ؟ کیا اب بھی وہ اپنی عزت کی رکھوالی نہ کرتے ؟ اور کیا اب بھی وہ ہندوؤں کی بدترین غلامی میں اپنے آپ کو پیش کر سکتے تھے ؟ «مسلمانوں کو ہمیشہ باوجو د لائق ہونے کے نالائق قرار دیا جاتا رہا ان کو باوجود اہل ہونے کے نااہل کہا جاتا رہا اور ان کو باوجود قابل ہونے کے ناقابل سمجھا جاتا رہا ہزاروں اور لاکھوں دفعہ ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا ، لاکھوں مرتبہ ان کے احساسات کو کچلا گیا اور متعدد مرتبہ ان کی امیدوں اور امنگوں کا خون کیا گیا.انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا اور وہ چپ رہے، یہ سب کچھ ان پر بیتا اور وہ خاموش رہے انہوں نے خاموشی کے ساتھ ظلم سے اور صبر کیا.کیا اب بھی ان کے خاموش رہنے کا موقع تھا ؟ " یہ تھے وہ حالات جن کی وجہ سے وہ اپنا الگ اور بلا شرکت غیرے حق مانگنے کے لئے مجبور نہیں ہوئے بلکہ مجبور کئے گئے.یہ حق انہوں نے خود نہ مانگا بلکہ ان سے منگوایا گیا، یہ علیحدگی انہوں نے خود نہ چاہی بلکہ ان کو ایسا چاہنے کے لئے مجبور کیا گیا اور اس معاملہ میں وہ بالکل معذور تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ باوجو د لیاقت رکھنے کے باوجود اہلیت کے اور باوجود قابلیت کے انہیں نالائق اور نا قابل کہا جا رہا ہے تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس نا انصافی کے انسداد کا سوائے اس کے اور کوئی طریق نہیں کہ وہ ان سے بالکل علیحدہ ہو جائیں.میں ہندوؤں سے پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمان فی الواقع نالائق ، نا قابل اور نا اہل تھے ؟ ان کو جب کسی کام کا موقع ملا انہوں نے اسے باحسن سرانجام دیا.مثلاً سندھ اور بنگال میں ان کو حکومت کا موقع ملا انہوں نے اس کو اچھی طرح سے سنبھال لیا ہے اور جہاں تک حکومت کا سوال ہے ہندوؤں نے ان سے بڑھ کر کون سا تیر مار لیا ہے جو انہوں نے نہیں مارا.مدراس، بمبئی یوپی اور بہار وغیرہ میں ہندوؤں کی حکومت ہے جس قسم کی گورنمنٹ ان کی ان علاقوں میں ہے اس قسم کی گورنمنٹ سندھ اور بنگال میں بھی ہے.اگر لڑائی جھگڑے اور فساد و غیرہ کی وجہ سے کسی گورنمنٹ کو نا اہل قرار دینا جائز ہے تو لڑائی تو ہمیٹی میں بھی ہو رہی ہے، یوپی میں بھی ہو رہی ہے اور بہار میں بھی ہو رہی ہے.اگر نالائقی اور نا اہلی کی یہی دلیل ہو تو بمبئی ، یوپی اور بہار وغیرہ کی گورنمنٹوں
۲۵۰ کو کس طرح لائق اور اہل کہا جا سکتا ہے اور اگر کسی جگہ قتل و غارت کا ہونا ہی وہاں کی گورنمنٹ کو نا اہل قرار دینے کا موجب ہو سکتا ہے تو کیوں نہ سب سے پہلے بمبئی اور بہار کی گورنمنٹوں کو نا اہل کہا جائے.ایک ہی دلیل کو ایک جگہ استعمال کرنا اور دوسری جگہ نہ کرنا سخت نا انصافی اور بد دیانتی ہے.اگر یہی قاعدہ کلیہ ہو تو سب جگہ یکساں چسپاں کیا جانا چاہئے نہ کہ جب اپنے گھر کی باری آئے تو اس کو نظر انداز کر دیا جائے.کسی علاقے میں قتل و غارت اور فسادات کا ہونا ضروری نہیں کہ حاکم کی غلطی ہی سے ہو." حضور نے ملک و قوم کی بھلائی کیلئے سیاسی لیڈروں میں باہم موافقت پیدا کر نیکی نہایت بے لوث خدمات سرانجام دیں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.میں پچھلے سال اکتوبر نومبر میں اس نیت سے دہلی گیا تھا کہ کوشش کر کے کانگریس اور مسلم لیگ کی صلح کرا دوں.میں ہر لیڈر کے دروازہ پر خود پہنچا اور اس میں میں نے اپنی ذرا بھی ہتک محسوس نہ کی اور کسی کے پاس جانے کو عار نہ سمجھا.صرف اس لئے کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہو جائے.ان کے در میان انشقاقی اور افتراق رہنے کی وجہ سے ملک کے اندر کسی قسم کا فتنہ و فساد ہونے نہ پائے.میں مسٹر گاندھی کے پاس گیا اور کہا کہ اس جھگڑے کو ختم کراؤ لیکن انہوں نے ہنس کر ٹال دیا اور کہا میں تو صرف ایک گاندھی ہوں آپ لیڈر ہیں آپ کچھ کریں.مگر میں کہتا ہوں کہ کیا واقعہ میں گاندھی ایک آدمی ہے اور اس کا اپنی قوم یا ملک کے اندر کچھ رُعب نہیں.اگر وہ صرف ایک گاندھی ہے تو سیاسیات کے معاملہ میں دخل ہی کیوں دیتا ہے ؟ وہ صرف اس لئے دخل دیتا ہے کہ ملک کا اکثر حصہ اس کی بات کو مانتا ہے.مگر میری بات کو ہنس کر ٹلا دیا گیا اور کہہ دیا گیا میں تو صرف ایک گاندھی ہوں اور ایک آدمی ہوں حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ تیس کروڑ کے لیڈر ہیں اور میں صرف ہندوستان کے پانچ لاکھ کا لیڈر ہوں.کیا میرے کوئی بات کہنے اور تمہیں کروڑ کے لیڈر کے کوئی بات کہنے میں کوئی فرق نہیں بیشک میں پانچ لاکھ کا لیڈر ہوں اور میری جماعت بھی ہیں جو میری ہر بات پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور مجھے واجب الاطاعت تسلیم کرتے ہیں لیکن بہر حال وہ پانچ لاکھ ہی ہیں اور پانچ لاکھ کے لیڈر اور تمھیں کروڑ کے لیڈر کی آواز ایک سی نہیں ہو سکتی.تمیں کروڑ کے لیڈر کی آواز ضرور اثر میں مخلصين
۲۵۱ رکھتی ہے.لیکن افسوس کہ وہی گاندھی جو ہمیشہ سیاسیات میں حصہ لیتے رہتے ہیں میری بات سننے پر تیار نہ ہوئے.اسی طرح میں پنڈت نہرو کے دروازے پر گیا اور کہا کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان صلح ہونی نہایت ضروری ہے لیکن انہوں نے بھی صرف یہ کہہ دیا کہ یہ ٹھیک تو ہے.ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر اب کیا ہو سکتا ہے کیا بن سکتا ہے ؟ اسی طرح میں نے تمام لیڈروں سے ملاقاتیں کر کر کے سارا زور لگایا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہو جائے مگر افسوس کہ کسی نے میری بات نہ سنی اور صرف اس لئے نہ سنی کہ میں پانچ لاکھ کا لیڈر تھا اور وہ کروڑوں کے لیڈر تھے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ملک کے اندر جگہ جگہ فسادات ہو رہے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے.اگر یہ لوگ اس وقت میری بات کو مان جاتے اور صلح و صفائی کی کوشش کرتے تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.مگر میری بات کو مانا نہ گیا اور صلح سے پہلو تہی اختیار کی.اس کے تھوڑے عرصہ بعد بہار اور گڑھ مکتیسر کا واقعہ ہوا اور اب پنجاب میں ہو رہا ہے اگر اب بھی ان لوگوں کی ذہنیتیں نہ بدلیں تو یہ فسادات اور بھی بڑھ جائیں گے اور ایسی صورت اختیار کر لیں گے کہ باوجود ہزار کوششوں کے بھی نہ رک سکیں گے.اس وقت ضرورت صرف ذہنیتیں تبدیل کرنے کی ہے اگر آج بھی ہندو اقرار کر لیں کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی آؤ مسلمانو! ہم سے زیادہ سے زیادہ حقوق لے لو تو آج ہی صلح ہو سکتی ہے اور یہ تمام جھگڑے رفع دفع ہو سکتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ بغض پر بغض کی بنیادیں رکھتے چلے جاتے ہیں اور انجام سے بالکل غافل بیٹھے ہیں.اگر وہ صلح کرنا چاہیں اگر وہ پنپنا چاہیں اور اگر وہ گلے ملنا چاہیں تو یہ سب کچھ آج ہی ہو سکتا ہے مگر اس کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے زہنیتوں میں تبدیلی.پس آج یہ سوال نہیں رہا کہ ہمارے ساتھ پاکستان بن جانے کی صورت میں کیا ہو گا.سوال تو یہ ہے کہ اتنے لمبے تجربہ کے بعد جب کہ ہند و حاکم تھے گو ہندو خود تو حاکم نہ تھے بلکہ انگریز حاکم تھے لیکن ہندو حکومت پر چھائے ہوئے تھے جب ہندو ایک ہندو کو اس لئے ملازمت دے دیتے تھے کہ وہ ہندو ہے ، جب ہندو ایک ہندو کو اس لئے ٹھیکہ دے دیتے تھے کہ وہ ہندو ہے اور جب وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوؤں کو صرف اس لئے قابل اور اہل قرار
۲۵۲ دیتے تھے کہ وہ ہندو ہیں اور جب ہندو انگریز کی نہیں بلکہ اپنی حکومت سمجھتے ہوئے ہندوؤں سے امتیازی سلوک کرتے تھے اور جب وہ نوکری میں ہندو کو ایک مسلمان پر صرف یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ ہندو ہے فوقیت دیتے تھے اس وقت کے ستائے ہوئے دکھائے ہوئے اور تنگ آئے ہوئے مسلمان اگر اپنے الگ حقوق کا مطالبہ کریں تو کیا ان کا یہ مطالبہ ناجائز ہے؟ کیا یہ ایک روشن حقیقت نہیں کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا رہا ہے جو نہایت نا واجب نہایت ناروا اور نہایت نامنصفانہ تھا؟ حال کا ایک واقعہ ہے.ہمارا ایک احمدی دوست فوج میں ملازم ہے باوجودیکہ اس کے خلاف ایک بھی ریمارک نہ تھا اور دوسری طرف ایک سکھ کے خلاف چار ریمارکس تھے اس سکھ کو اوپر کر دیا گیا اور احمدی کو گرا دیا گیا.جب وہ احمدی انگریز کمانڈر کے پاس پہنچا اور اپنا واقعہ بیان کیا تو اس نے کہا واقعی آپ کے ساتھ ظلم ہوا ہے تم درخواست لکھ کر میرے پاس لاؤ لیکن جب وہ درخواست لے کر انگریز افسر کے پاس پہنچا تو اس نے درخواست اپنے پاس رکھ لی اور اسے اوپر نہ بھیجوایا.کئی دن کے بعد جب دفتر سے پتہ لیا گیا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ درخواست کو اوپر بھجوایا نہیں گیا تو دفتر والوں نے بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ شملہ سے آرڈر آگیا ہے کہ کوئی اپیل اس حکم کے خلاف اوپر نہ بھجوائی جائے.جس قوم کے ساتھ اتنا لمبا عرصہ یہ انصاف برتا گیا ہو کیا وہ اس امر کا مطالبہ نہ کرے گی کہ اسے الگ حکومت دی جائے ؟ اس مسئلہ کا ایک دوسرے نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.ان حالات کے پیش نظر ان کا حق ہے کہ وہ یہ مطالبہ کریں اور ہر دیانتدار کا فرض ہے کہ خواہ اس میں اس کا نقصان ہو مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائید کرے.پس ایک نقطہ نگاہ تو یہ ہے جس سے ہم اس اخبار کے متعلقہ مضمون پر غور کر سکتے ہیں.دوسرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ بے شک ہمیں مسلمانوں کی طرف سے بھی بعض اوقات تکالیف پہنچ جاتی ہیں اور ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ شاید وہ ہمیں پھانسی پر چڑھادیں گے لیکن میں ہندوؤں سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم لوگوں نے ہمیں کب سکھ دیا تھا؟ اور تم لوگوں نے کب آرام پہنچایا تھا؟ اور تم لوگوں نے کب ہمارے ساتھ ہمدردی کی تھی؟ کیا بہار میں بے گناہ احمدی مارے گئے یا نہیں ؟ کیا ان کی جائیدادیں تم لوگوں نے تباہ کیس یا نہیں ؟
۲۵۳ کیا ان کو بے جا دکھ پہنچایا یا نہیں ؟ کیا گڑھ مکتیسر میں شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار نور کالڑ کا تمہارے مظالم کا شکار ہو ایا نہیں ؟ حالانکہ وہ ہیلتھ آفیسر تھا اور وہ تمہارے میلے میں اس لئے گیا تھا کہ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو جائے تو اس کا علاج کرے ، اگر تم میں سے کسی کو زخم لگ جائے تو اس پر مرہم پٹی کرے.وہ ایک ڈاکٹر تھا اور ڈاکٹری ایک ایسا پیشہ ہے جس کو فرقہ وارانہ حیثیت نہیں دی جا سکتی.وہ بیچارا تمہارے علاج معالجہ کے لئے گیا تھا اس کو تم نے کیوں قتل کر دیا گیا؟ اس سے بڑھ کر بھی شقاوت قلبی کی کوئی اور مثال ہو سکتی ہے کیا اس سے آگے بھی کوئی ظلم کی حد ہے ؟ پھر اس کی بیوی نے خود مجھے اپنے درد ناک حالات سنائے.اس نے بتایا کہ غنڈوں نے اس کے منہ میں مٹی ڈالی، اسے مار مار کر ادھ موا کر دیا، اس کے کپڑے اتار لئے اور اسے دریا میں پھینک دیا اور پھر اس پر بس نہ کی بلکہ دریا میں پھینک کر سوٹیوں کے ساتھ دباتے رہے تاکہ اس کے مرنے میں کوئی کسر نہ رہ جائے.یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ تیرنا جانتی تھی اور وہ ہمت کر کے ہاتھ پاؤں مار کر دریا سے نکل آئی اور پھر کسی کی مدد سے ہسپتال پہنچی.کیا اس سے بڑھ کر بے دردی کی کوئی اور مثال ہو سکتی ہے کہ ایک ناکردہ گناہ شخص اور پھر عورت پر اس قسم کے مظالم توڑے جائیں.کیا اس قسم کی حرکات سفاکانہ نہیں ہیں ؟ ان حالات کی موجودگی میں اگر ہمارے لئے دونوں طرف ہی موت ہے تو ہم ان لوگوں کے حق میں کیوں رائے نہ دیں جن کا دعوی حق پر ہے ؟ تیرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ اگر ہم ان تمام حالات کی موجودگی میں جو اوپر ذکر ہو چکے ہیں انصاف کی طرفداری کریں گے تو کیا خدا تعالی ہمارے اس فعل کو نہ جانتا ہو گا کہ ہم نے انصاف سے کام لیا ہے.جب وہ جانتا ہو گا تو وہ خود انصاف پر قائم ہونے والوں کی پشت پناہ ہو گا.لکھنے والے نے تو لکھ دیا کہ احمدیوں کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا مگر میں ان سے پوچھتا ہوں کہاں ہے امان اللہ ؟ اگر اس نے احمدیوں پر ظلم کیا تھا تو کیا خدا تعالیٰ نے اس کے اسی جُرم کی پاداش میں اس کی دھجیاں نہ اُڑا دیں..حکومت کو تباہ نہ کر دیا حکومت کے تارو پود کو بکھیر کر نہ رکھ دیا...اس کی شان و شوکت رعب اور دبدبہ کو خاک میں نہ ملایا ؟ اگر ہم انصاف کا پہلو اختیار کریں گے اور اس کے باوجود ہم پر ظلم کیا جائے گا تو وہ ظالموں کا وہی حشر کرے گا جو
۲۵۴ امان اللہ کا ہوا تھا.ان تینوں نقطہ ہائے نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہمارے لئے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی.ہم نے اس معاملہ کو انصاف کی نظروں سے دیکھنا ہے اور انصاف کے ترازو میں تولنا ہے.ہندوؤں کے ہاں انصاف کا یہ حال ہے کہ برابر سو سال رو مسلمانوں کو تباہ کرتے چلے آرہے ہیں اور صرف ہندو کا نام دیکھ کر ہی ملازمت میں رکھ لیتے رہے اور مسلمان کا نام آنے پر اس کی درخواست کو مسترد کر دیتے رہے.جب درخواست پر دلارام کا نام لکھا ہوتا تو درخواست کو منظور کر لیا جاتا اور جب درخواست پر عبد الرحمن کا نام آجاتا تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا.اس بات کا خیال نہ رکھا جاتا کہ دلارام اور عبد الرحمن میں سے کون اہل ہے اور کون نا اہل...کون قابل ہے اور کون نا قابل....کون لائق ہے اور کون نالائق.صرف ہندوانہ نام کی وجہ سے اسے رکھ لیا جاتا اور صرف اسلامی نام کی وجہ سے اسے رد کر دیا جاتا.ہم نے اس کے متعلق بار بار شور مچایا ہندو لیڈروں سے اس ظلم کے انسداد کی کوشش کی مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور رینگتی بھی کیسے وہ اپنی اکثریت کے نشہ میں چور تھے ، وہ اپنی حکومت کے رعب میں مدہوش تھے اور وہ اپنی طاقت کی وجہ سے بد مست تھے انہوں نے مسلمانوں کو ہر جہت سے نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں، انہوں نے مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہر ممکن سازشیں کیں اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں چاہئے وہ ہمیں ماریں یا دُکھ پہنچا ئیں ہمیں تو ہر قوم نے ستایا اور دکھ دیا ہے لیکن ہم نے انصاف نہیں چھوڑا جب ہندوؤں پر مسلمانوں نے ظلم کیا ہم نے ہندوؤں کا ساتھ دیا جب ہندوؤں نے مسلمانوں پر ظلم کیا تو ہم نے مسلمانوں کا ساتھ دیا جب لوگوں نے بغاوت کی ہم نے حکومت کا ساتھ دیا اور جب حکومت نے ناواجب سختی کی ہم نے رعایا کی تائید میں آواز اُٹھائی اور ہم اس طرح کرتے جائیں گے خواہ اس انصاف کی تائید میں ہمیں کتنی ہی تکلیف کیوں نہ اُٹھانی پڑے." (الفضل ۲۱.مئی ۱۹۴۷ء) حضرت فضل عمر کا مذ کورہ بالا حقائق آفریں بیان قیام پاکستان اور آزادی وطن کے حصول سے چند ماہ پہلے کا ہے تا ہم حضور کا موقف ہمیشہ ہی حق و انصاف کی حمایت اور مسلمانوں کے مجموعی مفاد کا تحفظ ہی ہو تا تھا.حصول آزادی کے لئے ہندو کانگریس کی طرف سے جب ملک گیر
۲۵۵ " فسادات ہڑتالوں اور قانون شکنی کا ڈول ڈالا گیا تو حضور نے اس کی مخالفت فرمائی اور جماعت کو قانون کے احترام اور لاقانونیت سے بچنے کی تلقین فرمائی.یہاں تک کہ بعض لوگوں نے یہ اندیشہ ظاہر کرنا شروع کیا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد کانگریس کی حکومت ہوگی تو ہمارے لئے اس موقف اور کانگریس کی مخالفت کی وجہ سے پریشانی کی صورت ہو سکتی ہے.حضرت فضل عمر نے کبھی وقتی مصلحت یا ذاتی مفاد کی خاطر اپنے اصولوں اور قومی مفاد کو قربان نہ کیا تھا.اس بات کا علم ہونے پر آپ نے بڑے ہی خلوص اور دردمندی کے ساتھ فرمایا.(میں) نہیں سمجھ سکتا مومن بزدل بھی ہو سکتا ہے کس قدر شرم اور افسوس کی بات ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے جبرو تشدد اور ظلم ہو رہا ہو.مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے عملی صورت اختیار کر رہے ہوں اور ہم اس وجہ سے چُپ چاپ بیٹھے رہیں کہ لوگ ناراض ہو جائیں گے.لوگ ہمارے دوست کس دن ہوئے تھے ؟ اور پھر ہم نے کب لوگوں کی پوجا کی؟ احمدیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے کام میں سستی پیدا کر کے مقامی ہندو مسلمانوں کی مخالفت سے بچ بھی گئے تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور دکھ پیدا کر دے گا تا وہ غافل نہ ہو جائیں.مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا اس لئے ایسے خیالات دل میں نہ لانے چاہئیں.اس تحریک سے مسلمانوں کا صریح نقصان ہو رہا ہے اور اگر اسی طرح ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ان کی وہی حالت ہوگی جو سپین میں ہوئی یاد رکھو ہر وہ پتھر جو خدا تعالیٰ کی بات منوانے اور مسلمانوں کی ہمدردی کرنے کی وجہ سے پڑتا ہے وہ پتھر نہیں پھول ہے ایسے پتھر مبارک بادی کے پھول ہیں جو خدا تعالیٰ پھینکتا ہے ان سے ڈرنا نہیں بلکہ خوش ہونا چاہئے...ہم جو کچھ کرتے ہیں محض مسلمانوں کے فائدے کے لئے کرتے ہیں اگر وہ آج اس بات کو نہیں سمجھتے تو آئندہ نسلیں یقینا یہ کہنے پر مجبور ہوں گی کہ ایسے نازک موقع پر احمدیوں نے ان کی حفاظت کی پوری پوری کوشش کی." (الفضل ۵.جون ۱۹۳۰ء) قومی ترقی اور مسلمانوں کی بہتری و بہبودی کیلئے آپ کی طبیعت میں ایک خاص جوش اور جذبہ پایا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ آپ ہر اس پہلو کی طرف توجہ فرماتے جو کسی طرح بھی موجب تنزل ہو سکتا ہو.اسی طرح آپ انحطاط و زوال کی نشان دہی کرنے پر ہی اکتفاء نہ فرماتے بلکہ قومی کردار اور اخلاق کی بہتری کے ذرائع بھی تجویز فرماتے.قوم میں پائی جانے والی ستی اور کاہلی کا ذکر کرتے
۲۵۶ ہوئے آپ فرماتے ہیں.” جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے دماغ کے پیچھے ایک پریشانی اور تشویش پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ دل لگا کر اور انہماک کے ساتھ کام نہیں کر سکتے.چونکہ ہندوؤں کا مذہب کوئی تفصیلی مذہب نہیں ہے بلکہ دراصل ان کا خیال ہی ان کا مذہب ہے اس لئے وہ جو کام کرتے ہیں اس کو اپنا مذ ہب اپنا مقصود اور ذاتی اور قومی ترقی کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں اور اسے خوب دل لگا کر کرتے ہیں لیکن اس کے بالمقابل اسلام ایک تفصیلی مذہب ہے زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق وہ ہمیں بتاتا ہے کہ یوں کرو اور یوں نہ کرو یہ چیز گو برکت کا موجب ہونی چاہئے تھی لیکن مسلمانوں نے بد قسمتی سے اسے اپنے لئے ایک لعنت بنالیا ہے کیونکہ ایک طرف تو غیر اسلامی ماحول میں رہنے کی وجہ سے مسلمانوں کو اسلام کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنی پڑتی ہے اور دو سری طرف ہر قدم اور ہر مرحلہ پر ان کے دماغ یہ خلش اور دغدغہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم اسلام کے احکام کی خلاف ورزی کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں.ایک طرف تو ماحول کے اثر کی وجہ سے وہ مثلا سود کا لین دین کرنے اور حلال اور حرام کی تمیز نہ کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں اور دوسری طرف ہر غیر اسلامی فعل کرتے وقت انہیں یہ خیال بھی آتا رہتا ہے کہ ہم اسلام کے خلاف یہ کام کر رہے ہیں اس لئے اس کے بدلہ میں خدا ہمیں سزا دے گا.یہ خلش جو دلوں میں اکثر رہتی ہے ان کے اندر اضطراب بزدلی اور تزلزل کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے اور ان کی قوت عملیہ کو کمزور کرتی چلی جاتی ہے.ایک اور وجہ سستی اور کاہلی کی یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں بادشاہت رہی ان میں یہ غلط اطمینان رہا کہ ہم ہمیشہ بادشاہ رہیں گے لیکن جب بادشاہت سے وہ گرے تو ان کے دلوں میں مایوسی پیدا ہو گئی اور انہوں نے ملی بیداری کی جدوجہد چھوڑ دی.یہ نقص اسی وجہ سے پیدا ہوا کہ مسلمانوں کی ساری کی ساری تعلیم مذہبی درسگاہوں میں علماء کے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی اور علماء نے اول تو سار ا نصاب ہی خالص دینی مقرر کر رکھا تھا اور دوسرے انہوں نے دینی علوم میں بھی کوئی نئی ترقی اور نیا اضافہ کرنا بدعت قرار دے دیا.چونکہ انہیں مذہبی تقدس حاصل تھا اس لئے کسی کو بھی ان کی تردید کرنے کی
۲۵۷ مجرأت نہ ہوتی تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ سارے علوم میں ہی ترقی کے راستے بند ہو گئے اور ترقی رک جانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ طبیعتوں میں سستی اور کاہلی پیدا ہو گئی.گویا مسلمانوں نے نبوت کو تو کیا ختم قرار دیا آہستہ آہستہ انہوں نے ہر وصف کو ہی ختم کر ڈالا اور نہ فقہ رہی نہ طب رہی نہ فلسفہ رہا نہ اخلاق رہے اور نہ بہادری رہی.غرض اس ذہنیت نے کہ پہلوں کے دریافت کردہ علوم ہی ہمارے لئے کافی ہیں اب ان میں اضافہ بدعت ہے مسلمانوں کے ذہنوں پر مہر لگادی ہے اور سرعت کے ساتھ گرتے چلے گئے اور غفلت اور کوتاہی ان پر چھا گئی." (الفضل ۷.جنوری ۱۹۴۷ء) پر دوسری ترقی یافتہ اقوام سے آگے بڑھنے اور کامیابی کے حصول کا مفید و مؤثر لائحہ عمل بتاتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:." اصل کامیابی اللہ تعالی کی رضا کا حصول ہے.آرام اور آسائش اس کے نتیجہ میں ملتے ہیں خود مقصود بالذات نہیں ہوتے اور نیز یہ بتایا گیا ہے کہ کامیابی کاگر یہ ہے کہ کوئی قوم ان مقاصد عالیہ کے حصول کے لئے جو قربانی چاہتے ہیں اور جن کا فائدہ بادی النظر میں انسان کی اپنی ذات کو نہیں بلکہ دوسروں کو پہنچتا ہے دوسری اقوام سے آگے بڑھنے اور اول رہنے کی کوشش کرے یہی وہ گر ہے جسے ہماری قوم نے نظر انداز کر دیا ہے اور یہی وہ گر ہے جس کے بغیر کامیابی ناممکن ہے.ہمارے اند ر دولتمند بھی ہیں اور صاحب جائیداد بھی لیکن باوجود اس کے ہم کامیاب نہیں اس لئے کہ ہماری قوم اور ہمارے اہل ملک کی کوششیں اپنے نفس کی عزت اور اپنے آرام کے حصول کے لئے خرچ ہوتی ہیں لیکن کامیابی کا گر یہ ہے کہ قوم اپنے نفس کو بھلا کر ان کاموں میں لگ جائے جو بنی نوع انسان کی مجموعی ترقی کا موجب ہوں.(تو) یہ قوم کامیاب ہوتی ہے اور اس کا ذکر خیر دنیا سے کبھی نہیں مٹ سکتا.میں امید کرتا ہوں کہ میرے برادران وطن ای صداقت کو سمجھ کر اس کی طرف پوری توجہ کریں گے.خالی نقل سے وہ ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ بعض علوم و فنون میں اَلسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ ہونے کی کوشش نہیں کریں گے اور دوسری اقوام کو اپنے پیچھے چلانے میں کامیاب نہ ہونگے وہ برابر ناکامی کا منہ دیکھتے رہیں گے.لیکن کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری سابقہ ناکامیاں ہمیں بیدار کر دیں ، کیا ہماری پستی کیلئے اور کوئی قعر مذلت باقی ہے جہاں
۲۵۸ تک گرنا ہمارے لئے ضروری ہے....خدا نہ کرے کہ ایسا ہو بلکہ خدا کرے کہ ہماری قوم بیدار ہو کر مہاجر و انصار کا رنگ دکھاتی ہوئی دنیا کے ترقی کے میدانوں میں السَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ کے دوش بدوش کھڑی ہو اور ہر ایک قربانی اس پر عارضی نہیں بلکہ مستقل آسان ہو اور وہ کامیابی کے میدان میں ایک ایسی پائیدار یاد گار چھوڑے جس کے نقش مرور زمانہ سے بھی نہ مٹ سکیں.te (الفضل ۱۲.جولائی ۱۹۲۹ء) قومی سطح پر پائے جانے والے بعض نقائص اور کمزوریوں مثلا تعداد میں کم ہونا، مالی حالت کا کمزور ہونا، تعلیمی لحاظ سے پیچھے ہونا، سرکاری ملازمت میں بھر پور حصہ نہ لینا اور ان سب سے بڑھ کر عام انسانی قدروں میں بھی معیاری سطح پر نہ ہونا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اور ان کی اصلاح کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.میں خصوصیت سے مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس ملک میں تھوڑے ہیں تعداد کے لحاظ سے نہیں مال میں بھی بہت کم ہیں، مال ہی نہیں تعلیمی حالت میں بھی بہت پیچھے ہیں ، پھر تعلیمی حالت میں ہی نہیں بلکہ وہ اس حصہ میں بھی بہت پیچھے ہیں جو ہر ترقی کا موجب ہوتا ہے یعنی گورنمنٹ سرو سر....بلکہ میں باوجود شرم و ندامت محسوس کرنے کے کہوں گا کہ وہ انسانی حالت میں بھی بہت پیچھے ہیں.تو میں پوچھتا ہوں وہ بتائیں کہ کل ان کا کیا حال ہو گا؟ ایک معزز قوم کی زندگی تو جدا امر ہے وہ سوچیں کہ ایسی حالت میں کیا وہ ذلیل ہو کر بھی زندگی بسر کر سکیں گے ؟ پس قبل اس کے کہ معاملہ حد سے گزر جائے اور مرض لاعلاج ہو جائے اٹھو قومی اور شخصی اصلاح کی فکر کرو ورنہ حالت نہایت خطر ناک ہے." (لیکچر شملہ ۱۹۷۲ء صفحه ۵) مشتر کہ اسلامی مفاد کیلئے متحد ہونے کی پر زور و موثر تلقین کرتے ہوئے بڑے سوز اور درد کے ساتھ فرماتے ہیں:.میں پھر مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ مشترکہ امور میں اتحاد کریں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ہمارے خلاف نہ لکھیں میں صرف یہ کہتا ہوں کہ جو تحریکیں اسلام کے لئے کی جائیں ان کے خلاف نہ لکھیں بلکہ ان میں متحد ہو جائیں.اس خطبہ میں آگے چل کر آپ فرماتے ہیں:.
۲۵۹ ہیں.خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ حق کی مخالفت کی جاتی ہے اور حق پر ہونے والوں کو گالیاں دی جاتی ہیں تو میرے لئے گھبرانے کی کیا وجہ ہے اگر مجھے گالیاں دے کر ان کا دل خوش ہوتا ہے اور وہ متحدہ کاموں میں اتحاد کر سکتے ہیں تو میں سمجھوں گا کہ میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا.وہ سب مل کر مجھ کو گالیاں دے لیں مگر مشتر کہ اسلامی مفاد میں اکٹھے ہو جائیں تو میں سمجھ لوں گا کہ میری تمام تحریروں اور تقریروں کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو (الفضل ۵- جون ۱۹۲۸ء) گیا.ee آزادی اور عزت کے خواہاں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.ہر قوم کی حالت اس کی اپنی کوششوں سے بدلتی ہے جو قوم یہ چاہتی ہے کہ " دوسرے لوگ ہماری حالت کو بدلیں اور ہمیں ابھار میں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی.قانون ہمیں کبھی آزاد نہیں کر سکتا جب تک کہ اقتصادی طور پر اور تمدنی طور پر بھی ہم آزاد نہ ہوں.میں نے پچھلے دنوں تحریک کی تھی کہ مسلمان اپنی اقتصادی آزادی کے لئے کوشش کریں اور الحمد للہ اس تجویز سے ہزاروں جگہوں پر مسلمانوں کی دکانیں کھلیں اور لاکھوں روپیہ مسلمانوں نے کمایا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ پھر اس بات میں ستی ہو رہی ہے.بد قسمتی سے مسلمان جب اٹھتے ہیں جوش سے اٹھتے ہیں مگر پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں جب تک مستقل کوشش جاری نہ رہے گی اس وقت تک کامیابی نہ ہوگی.پس اگر حریت چاہتے ہو ، اگر آزاد زندگی کی تڑپ رکھتے ہو ، اگر پھر ایک دفعہ دنیا میں عزت کی سانس لینا چاہتے ہو تو خدارا ان مستیوں اور بے استقلالیوں کو چھوڑ دو.تعاون باہمی کی عادت ڈالو اور نقصان اٹھا کر بھی اپنے بھائی کا فائدہ کرو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو." مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت صفحہ ۲۰) قومی ترقی و بہبود کے اسی جذبہ کے تحت آپ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے جو باتیں مسلمانوں نے چھوڑی ہیں جب تک وہ دوبارہ ان میں پائی نہ جائیں کبھی اور کسی حال میں ترقی نہیں کر سکتے.محنت کی عادت ڈالیں دوسرے پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں، خدمت خلق کو اپنا فرض سمجھیں کیونکہ جب تک مسلمان اپنی مدد آپ نہ کریں گے ، محنت نہ کریں گے ، دیانتداری سے کام نہ لیں گے اپنے آپ کو مفید
نہ بنا ئیں گے ، مصیبت زدوں کی امداد نہ کریں گے تب تک ترقی نہ ہو گی." (الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۲۹ء) چین سے مسلمانوں کے انخلاء کے انتہائی درد انگیز واقعہ کو بطور مثال عبرت پیش کرتے ہوئے قومی اتحاد و یکجہتی کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.ہیں :.میں ہر احمدی کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے حلقہ اثر میں مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائے کہ تمہاری پھوٹ تمہاری تباہی کا موجب ہو گی.اس وقت تمہیں اپنی ذاتوں اور اپنے خیالوں اور اپنی پارٹیوں کو بھول جانا چاہئے اور ہر ایک مسلمان کہلانے والے کو اسلام کی حفاظت کے لئے متحد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اختلاف کو نظر انداز کر دینا چاہئے.ہر ایک سے یہ خواہش مت کرو کہ وہ سو فیصدی تمہارے ساتھ مل جائے بلکہ اس سے یہ پوچھو کہ اس جدوجہد میں تم کتنی مدد کر سکتے ہو.جتنی مددوہ کرنے کیلئے تیار ہو اس کو خوشی سے قبول کر لو اور اس وجہ سے کہ وہ سو فیصدی تمہارے ساتھ نہیں اس کو دھتکار و نہیں اور اسلام کی صفوں میں رخنہ پیدا مت کرو.ہر احمد ہی کا فرض ہے کہ وہ اس آواز کو اٹھائے اور رات اور دن اس کام میں لگ جائے.حتی کہ سیاسی پارٹیاں آپس میں اتحاد کرنے پر مجبور ہو جائیں.میں یقین کرتا ہوں اگر اب بھی مسلمان اختلاف پر زور دینے کی بجائے اتحاد کے پہلوؤں پر جمع ہو جائیں تو اسلام کا مستقبل تاریک نہیں رہے گا ورنہ افق سماء پر مجھے پین کا لفظ لکھا ہوا نظر آتا ہے." (الفضل ۲۸.اگست ۱۹۴۶ء) اسی سلسلہ میں آپ قومی کیریکٹرو کردار کی مضبوطی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلمان اپنا قومی کیریکٹر مضبوط کرتے ، ضرورت تھی اس بات کی کہ مسلمان غیر ممالک میں پرو پیگنڈہ کی اہمیت کو سمجھتے ، ضرورت تھی اس بات کی کہ مسلمان سیاسی طور پر غیر قوموں سے سمجھوتہ کرنے کی کو شش کرتے اور ضرورت تھی اس بات کی کہ مسلمان اس امر کو سمجھتے کہ تھوڑا بہت اختلاف جو قوم میں شقاق اور افتراق پیدا کرنے کا موجب نہ ہو اس کا برداشت کرنا قوم کے لئے مضر نہیں ہو تا بلکہ ترقی کیلئے مفید ہوتا ہے.اب بھی مسلمان اگر ان امور کی اہمیت کو محسوس کرلیں
۲۶۱ تو آئندہ ان کے بچاؤ کی بہت کچھ صورت پیدا ہو سکتی ہے.(الفضل ۳.جون ۱۹۴۶ء) مگر مسلمانوں کی غفلت کا یہ نتیجہ ہے کہ ان کی طرف سے ہمیشہ سیاسی شور مچایا جاتا رہا کہ پاکستان پاکستان پاکستان.مگر یہ کبھی خیال نہیں کیا گیا کہ مسلمانوں کے اندر جرات اور بہادری پیدا کی جائے ان کی اخلاقی حالت کی درستی کی کوشش کی جائے ان کی اقتصادی حالت کی درستی کی کوشش کی جائے اور ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ ان کی غلامی کی روح بالکل کچلی جائے.ایک ہندو انگریز کا جس قسم کا غلام تھا آج اس سے بہت کم غلام ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ انگریز کی غلامی سے بالکل آزاد ہو گیا ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ انگریز کی غلامی سے بہت حد تک نکل چکا ہے.لیکن ایک مسلمان ابھی انگریز کا ویسا ہی غلام ہے جیسے پہلے تھا بلکہ شاید اس میں غلامی کی روح اب کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے.ان امور کی اصلاح ضروری تھی مگر ان کی طرف توجہ نہیں کی گئی حالانکہ ان کے بغیر کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے.جب کسی قوم کی اخلاقی حالت گر جائے تو وہ لالچ اور فریب اور دھمکیوں سے بہت جلد متاثر ہو جاتی ہے اور جب تک مسلمانوں کے اندر یہ نقص موجود رہے گا کہ وہ دھمکیوں سے مرعوب ہو جائیں گے وہ لالچ اور حرص کا مقابلہ کرنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پائیں گے اس وقت تک ان کی ترقی کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی." (الفضل ۳ جون ۱۹۴۶ء) تعلق باللہ اور اخلاق فاضلہ سے مزین ہونے کیلئے حضور مسلسل توجہ دلاتے رہے.مسلم کاز کے موضوع پر حضور نے مستقل اہمیت کی کتب تصنیف فرمائیں.آپ کا کوئی خطبہ کوئی تقریر کوئی تحریر ایسی نہ تھی جس میں بنیادی حیثیت اخلاق فاضلہ کے حصول کی تلقین کو حاصل نہ ہو.آپ اقتصادیات کے مشکل مسائل حل فرما رہے ہوں ، زراعت کے متعلق فنی معلومات پیش فرمار ہے ہوں، آپ معاشرتی خرابیوں کا ذکر فرما رہے ہوں، آپ تصوف و الہیات کے دقیق مضامین پر روشنی ڈال رہے ہوں ، ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت یا ہندوستان کے سیاسی مسائل حل فرما ر ہے ہوں، غیر مسلم معترضین کے اسلام پر اعتراضات کا جواب دے رہے ہوں ، قیام و استحکام پاکستان پر اپنے پر مغزید برانہ بیانات ارشاد فرمارہے ہوں اخلاق فاضلہ کے حصول کی تلقین اور اخلاقی بنیادوں پر مسائل کے حل کو نظر انداز نہ فرماتے گویا آپ کی تصانیف و تقاریر ، قرآنی حسن بیان احادیث کی
۲۶۲ فصاحت و بلاغت اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے بلند پایہ علم کلام کے حسین امتزاج کا شاہکار ہیں.قائداعظم کادور ثانی قائد اعظم نے بر صغیر ہند و پاک کی سیاست اور آزادی کی جدوجہد میں نهایت قابل رشک کردار ادا کیا.آپ کی سیاسی زندگی کے دو دور تھے پہلے دور میں آپ آل انڈیا کانگریس کے ممبر تھے اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے نام سے جانے جاتے تھے.اس دور میں آپ کی زیادہ ترسیمی کوشش رہی کہ ہندو اور مسلمان باہم متحد ہو کر غیر ملکی حکمرانوں کی غلامی سے آزادی حاصل کر لیں.اپنی اس حیثیت میں بھی آپ کانگریس میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے اور اپنے اخلاق و کردار کی وجہ سے عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.اسی زمانہ میں آپ نے گول میز کانفرنسوں میں ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کی.تیسری گول میز کانفرنس کے بعد آپ دل برداشتہ ہو کر لندن میں ہی رہائش پذیر ہو گئے اور وہاں اپنی پریکٹس شروع کر دی.قائد اعظم اور ان کا عبد " میں اس امر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :." مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا.نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کر سکتا ہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں.آخر میں نے لندن میں ہی بود و باش کا فیصلہ کر لیا." ( قائد اعظم اور ان کا عہد صفحہ ۱۶۱.مقبول اکیڈمی لاہور.ایڈیشن (۱۹۹ ء )) قائد اعظم نے اپنے فیصلہ کی جن دو وجوہ کا ذکر کیا ہے ان میں سے پہلی وجہ ہندو ذہنیت میں تبدیلی نہ کر سکنا بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے کیونکہ ہندو ذہنیت کی وجہ سے ان کی مسلم آزاری میں کوئی کمی نہیں آسکتی تھی اور ہر وہ شخص جو اخلاص و نیک نیتی سے ہندو مسلم اتحاد کیلئے کوشاں رہاوہ اس حقیقت سے آگاہ ہو کر یقیناً بہت مایوس و دل برداشتہ ہوتا تھا خواہ وہ مولانا محمد علی جو ہر ہوں یا قائد اعظم محمد علی جناح.دوسری وجہ " مسلمانوں کی آنکھیں نہ کھول سکنا " پہلی وجہ سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور مایوس کن ہے.قائد اعظم نے نہایت خلوص و نیک نیتی سے جذبہ خدمت و حب الوطنی سے سرشار ہو کر قومی ترقی و بہتری کیلئے اپنی تمام صلاحیتیں صرف کر دیں مگر ان کو یہ تلخ تجربہ ہوا کہ اپنی قوم کے بعض علماء نے جو بزعم خویش قوم کی نمائندگی کر رہے تھے انہیں کا فراعظم کہہ کر اپنے فتوؤں کی زد پر رکھ لیا اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ تعاون پر آمادہ تھے ان میں سے بھی بعض کو آپ نے کھوٹے سکے قرار دیا.گویا آپ کی سیاسی زندگی کے پہلے دور کا نتیجہ آپ کے اپنے
۲۶۳ الفاظ میں یہ تھا کہ نہ تو ہندو ذہنیت تبدیل ہوئی اور نہ ہی مسلمان آنکھیں کھول کر یہ دیکھنے کے قابل ہوئے کہ وہ کس طرح قومی ترقی کیلئے قابل اعتماد ثابت ہو سکتے ہیں.حضرت امام جماعت احمدیہ کے ایماء پر احمدیہ مسجد لندن کے اس زمانہ کے امام حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب نے آپ کو واپس آکر مسلمانوں کی قیادت کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کی.قائد اعظم بڑے مصمم ارادے کے مالک تھے وہ نہ تو جلدی میں کوئی فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی اپنے فیصلہ کو تبدیل کرنے کے عادی تھے اس لئے مولانا در و صاحب کیلئے یہ کوئی آسان کام نہ تھا تا ہم ان کی مسلسل کوشش اور حضرت مصلح موعود کی توجہ کی برکت سے قائد اعظم نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا اور اپنی سیاسی زندگی کے اس نئے دور کا آغاز احمد یہ مسجد لندن میں ”ہندوستان کا مستقبل" کے عنوان پر تقریر کر کے کیا.آپ کی اس تقریر کا پہلا فقرہ ہی یہ تھا کہ :."The eloquent persuation of the Imam let me no escape" (امام صاحب کی مسلسل و مدلل کوشش نے میرے لئے اور کوئی رستہ باقی نہیں رہنے دیا) اس امر کی تائید تحریک پاکستان کے ممتاز رکن مشہور مورخ اور صحافی جناب محمد شفیع (جو مش کے نام سے زیادہ مشہور ہوئے) کے مندرجہ ذیل بیان سے بھی ہوتی ہے.وہ لکھتے ہیں: It was Mr.Liaquat Ali Khan and Maulana Abdur of London Mosque, who Imam an Dard Rahim persuaded Mr.M.A.Jinah to change his mind and return home to play his role in the national politics.(Pakistan Times 11 Sept.1981) مسٹر لیاقت علی خان اور امام مسجد لندن مولانا عبد الرحیم درد ہی تھے جنہوں نے مسٹر محمد علی جناح کو باصرار اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے وطن واپس آکر سیاست قومی میں اپنا حصہ ادا کریں) قائد اعظم کے متعلق حضور نے ۱۹۲۷ء میں اپنا تاثر بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا.میں مسٹر جناح کو ایک بہت زیرک ، قابل اور مخلص خادم قوم سمجھتا ہوں اور ان سے ملکر مجھے بہت خوشی ہوئی.میرے نزدیک وہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں اپنے ذاتی عروج کا اس قدر خیال نہیں جس قدر کہ قومی ترقی کا ہے." ( مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت صفحہ (۹) اسی وجہ سے حضور ہندوستان کی سیاست اور مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے انہیں انگلینڈ سے واپس بلانا ضروری سمجھتے تھے.
قائد اعظم ۱۹۳۴ء میں واپس تشریف لے آئے اور مرکزی اسمبلی میں بلا مقابلہ منتخب ہو کر مسلم مفاد کیلئے کو شاں ہو گئے.آپ کے بلند اخلاق ، مضبوط کردار اصول پسندی اور معاملہ فہمی کے نتیجہ میں مسلمان آپ پر اعتماد کرنے لگے اور آزادی وطن کی منزل جو بہت دور لگتی تھی نزدیک ہونے لگی.۱۶.جون ۱۹۴۶ء کو یہ اعلان کیا گیا کہ ملک میں ایک عارضی حکومت قائم کی جائے گی اور جو پارٹی اس میں شامل نہ ہوگی اسے چھوڑ کر دوسری پارٹی کے تعاون سے حکومت تشکیل دے دی ائے گی.کانگریس نے یہ دعوت رد کر دی.اصولاً اور انصافاً تو حکومت کیلئے ضروری تھا کہ مسلم لیگ کو حکومت بنانے کی دعوت دیتی مگر انگریز حکومت نے اپنے اعلان و اقرار کے خلاف حکومت بنانے کی دعوت واپس لے لی.اس پر مسلم لیگ نے بھی احتجا جا تعاون سے ہاتھ کھینچنے کا فیصلہ کر لیا.وائسرائے نے یہ موقع غنیمت سمجھا اور کانگریس سے ساز باز کر کے پنڈت نہرو کو عبوری حکومت بنانے کی دعوت دے دی.یہ مسلم لیگ کیلئے بہت ہی نازک وقت تھا.تمام قربانیاں اور کوششیں رائیگاں جاتی نظر آرہی تھیں.۲.ستمبر کو حضور دہلی تشریف لے گئے اس دوران آپ نے مسلم لیگ کے تمام اکابرین بشمول قائد اعظم، سردار نشتر نواب بھوپال خواجہ ناظم الدین وغیرہ سے اور گاندھی جی اور پنڈت نہرو سے بھی ملاقاتیں کیں.حضور کی توجہ دعاؤں اور کوششوں سے یہ بیل منڈھے چڑھی اور مسلم لیگ نے عبوری حکومت میں شمولیت کا فیصلہ کر کے کانگریس کے اس خطرناک داؤ کو بے کار کر دیا بلکہ اس عبوری حکومت کے وزیر خزانہ لیاقت علی خان نے نہایت متوازن بجٹ پیش کر کے جسے " غریب کا بجٹ " کی شہرت حاصل ہوئی کانگریسی وزارتوں کے دانت کھٹے کر دیئے اور بڑے بڑے حساب کے ماہر ہندوؤں کو جو مسلمانوں کی حساب سے روایتی عدم دلچسپی کے مفروضے کے بھروسہ پر مسلم لیگی وزارت خزانہ کی ناکامی اور نتیجہ مسلم لیگ اور مسلمانوں کی شرمندگی کے منتظر تھے دن کو تارے نظر آنے لگے.بر صغیر کی آزادی کی مہم ایک عرصہ سے جاری تھی تاہم انگریز یہ جانتے ہوئے حصول آزادی کہ ہندو مسلم اتحاد ممکن نہیں ہے آزادی کے سلسلہ میں ہندوستانیوں کی طرف سے متفقہ منصوبہ پیش کرنے پر مصر رہے.کانگریس ہندوستان کی تقسیم کو گنو ماتا کی تقسیم قرار دیتی اور مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی اس کے بر عکس مسلم لیگ مسلم اکثریت کے علاقوں کی آزاد مملکت کے قیام پر اصرار کرتی اور اپنے آپ کو مسلمانوں کی واحد
۲۶۵ نمائندہ جماعت قرار دیتی جب کہ شومئی قسمت سے مسلمانوں کے بعض مخصوص گروہ کو ہندو کانگریس کے ہم نوا ہو کر مسلم کاز کو نقصان پہنچاتے رہے.اس مسلسل کش مکش میں آزادی کا سرا کہیں نظر نہ آتا تھا.حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ہر سہ فریق کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے ایک پر درد مخلصانہ خطاب میں فرمایا :."....اے انگلستان! تیرا فائدہ ہندوستان سے صلح کرنے میں ہے..ہندوستان کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی انگلستان کے ساتھ اپنے پرانے اختلافات کو بھلا دے.میں اپنی طرف سے دنیا کو صلح کا پیغام دیتا ہوں.میں انگلستان کو دعوت دیتا ہوں کہ آؤ اور ہندوستان سے صلح کر لو اور میں ہندوستان کو دعوت دیتا ہوں کہ جاؤ اور انگلستان سے صلح کر لو اور میں ہندوستان کی ہر قوم کو دعوت دیتا ہوں اور پورے ادب و احترام کے ساتھ دعوت دیتا ہوں بلکہ لجاجت اور خوشامد سے دعوت دیتا ہوں کہ آپس میں صلح کر لو.اور میں دنیا کی ہر قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم کسی کے دشمن نہیں، کانگریس کے بھی دشمن نہیں ، ہم ہندو مہاسبھا والوں کے بھی دشمن نہیں، مسلم لیگ والوں کے بھی دشمن نہیں اور زمیندارہ لیگ والوں کے بھی دشمن نہیں ، خاکساروں کے بھی دشمن نہیں ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور ہم صرف ان کی ان باتوں کا بُرا مناتے ہیں جو دین میں دخل اندازی کرنے والی ہوتی ہیں ورنہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں اور ہم سب سے کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دو کہ ہم خدا تعالیٰ کی اور اس کی مخلوق کی خدمت کریں.ساری دنیا سیاسیات میں الجھی ہوئی ہے اگر ہم چند لوگ اس سے علیحدہ رہیں اور مذہب کی اشاعت کا کام کریں تو دنیا کا کیا نقصان ہو جائے گا؟ اس پُر در دو موثر بیان کے آخر میں آپ نے فرمایا :.اس میں شبہ نہیں کہ میرا ایسی نصیحت کرنا اس زمانہ میں جب کہ ہماری جماعت ایک نہایت قلیل جماعت ہے بالکل ایک بے معنی سی چیز نظر آتی ہے میں انگلستان کو نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں خواہ میری یہ نصیحت ہوا میں اڑ جائے.اور اب تو ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی پکڑنے کے سامان پیدا ہو چکے ہیں.یہ ریڈیو ہوا میں سے ہی آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے.پس مجھے اس صورت میں اپنی آواز کے ہوا میں اڑ جانے کا بھی کیا خوف ہو سکتا ہے جبکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اڑ جانے والی آواز کو بھی
۲۶۶ لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے".(الفضل ۱۷.جنوری ۱۹۴۵ء) خدا کے ایک بندے کے منہ سے نکلی ہوئی یہ مخلصانہ درد بھری آواز ہر قسم کے مخالف حالات کے باوجو د دار العوام اور دار الامراء کے ممبروں کے کانوں سے ٹکرائی کیونکہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے جو اس زمانہ میں وہاں مربی تھے اس خطبہ کے ضروری مضمون کا ترجمہ کر کے اس کی وسیع اشاعت کی.(الفضل ۹ جون ۱۹۴۵ء) مشرقی افریقہ میں بھی اس آواز کی گونج سنی گئی.چوہدری محمد شریف صاحب بی.اے نے ریڈیو مشرقی افریقہ سے حضور کے خطاب کا ترجمہ نشر کیا.یہ مخلصانہ بانگ درا انگلستان کے دار العوام اور دار الامراء کے ارکان اور مدیران جرائد کے کانوں تک کس شان سے پہنچی اس کی کسی قدر تفصیل حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بیان فرماتے ہیں.۱۹۴۵ء کے مارچ میں چیتھم ہاؤس لندن میں رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل افیئر ز کی سرپرستی میں دولت مشترکہ کے نمائندگان کی ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہندوستان کی انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے بھی ایک وفد نے اس کانفرنس میں شرکت کی.وفد کے اراکین میں میرے علاوہ کنور سر مہاراج سنگھ ، میر مقبول محمود ، مسٹر سی ایل مہتہ اور خواجہ سرور حسن شامل تھے.افتتاحی اجلاس میں ہر وفد کے قائد سے پانچ پانچ منٹ کی تقریر میں اختصارا اپنے اپنے ملک کی جنگی سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرنے کی استدعا کی گئی.ہندوستان کی باری آنے پر میں نے تین منٹ میں ہندوستان کی جنگی سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا ۱۲۵ اکھ ہندوستانی کسی نہ کسی حیثیت میں جنگ کے مختلف محاذوں پر برطانیہ اور اتحادیوں کی آزادی اور سالمیت کی حفاظت اور دفاع کے سلسلے میں مختلف انواع کی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں.اور ان کی طرف سے جان کی قربانی پیش کرنے میں بھی دریغ نہیں ہوا.علاوہ فوجی اور جنگی امداد کے ہندوستان نے سامانِ حرب اور ذخائر خوراک مہیا کرنے میں بھی نمایاں خدمت کی ہے اور قابل قدر نمونہ قائم کیا ہے.اس سلسلے میں بعض تفاصیل کا ذکر کرنے کے بعد میں نے کہا ” دولتِ مشترکہ کے سیاستدانوں! کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ ہندوستان کے ۲۵ لاکھ فرزندوں نے میدان جنگ میں مملکت برطانیہ کی آزادی کی حفاظت کیلئے داد شجاعت دی ہو لیکن خود ہندوستان ابھی تک اپنی آزادی کا منتظر اور اس کیلئے ملتیجی ہو ؟ شاید ایک مثال اس کیفیت
۲۶۷ کو واضح کرنے میں ممد ہو سکے.چین کی آبادی اور رقبہ ہندوستان کی آبادی اور رقبے سے بیشک زیادہ ہے لیکن وسعت اور آبادی کے علاوہ باقی ہر لحاظ سے چین آج ہندوستان سے کوسوں پیچھے ہے.تعلیم، صنعت و حرفت، وسائل آمد و رفت غرض خوشحالی کے تمام عناصر کے لحاظ سے ہندوستان چین سے کہیں آگے نظر آتا ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ چین تو آج دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے اور ہندوستان کسی گنتی میں نہیں ؟ کیا اس کی صرف یہی وجہ نہیں کہ چین آزاد ہے اور ہندوستان محکوم ؟ لیکن یہ حالت اب دیر تک قائم نہیں رہ سکتی.ہندوستان بیدار ہو چکا ہے اور آزاد ہو کر رہے گا.کامن ویلتھ (Common Wealth) کے اندر رہ کر اگر آپ سب کو یہ منظور ہو اور کامن ویلتھ کو ترک کر کے اگر آپ ہندوستان کیلئے اور کوئی رستہ نہ چھوڑیں".(تحدیث نعمت صفحہ ۴۸۱.ایڈیشن دسمبر ۱۹۷۱ء) اس بیان سے پریس میں خاصی ہلچل ہوئی.برطانوی وزراء نے بھی گہری دلچسپی ظاہر کی.پنڈت نہرو نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری صاحب نے تو ہم سے بھی کھل کر آزادی کی بات کی ہے اور چوہدری صاحب ابھی لندن میں ہی تھے کہ آپ کو بصیغہ راز پتہ چلا کہ لارڈ ویول وائسرائے ہند کو مشورہ کے لئے لندن بلایا گیا ہے.حضرت چوہدری صاحب فرماتے ہیں:.میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی کہ اس نے اس عاجز کی حقیر کوشش کو نوازا اور اس کو ( تحدیث نعمت) پر اثر بنایا.چنانچہ لارڈ ویول لندن میں تشریف لائے اور ہندوستان کی آئینی جدوجہد کا آخری مرحلہ شروع ہو گیا.لارڈ ویول ابھی انگلستان میں وزیر اعظم چرچل اور وزیر ہند اور دوسرے وزراء سے مشورہ وغیرہ میں مصروف تھے کہ حضرت چوہدری صاحب بھی دوبارہ انگلستان تشریف لے گئے.آپ کا یہ نجی نوعیت کا دورہ تھا تاہم آپ کی انگلستان میں موجودگی سے ہندوستان کی آزادی کے مسئلہ میں اچھی پیش رفت ہوئی.جس کا ذکر ہندوستان ٹائمز (۱۹۴۵-۱۹۵) اور لندن ٹائمز میں بڑے اچھے رنگ میں کیا گیا.حضرت چوہدری صاحب کی ان خدمات کو ملکی پریس نے بھی بہت اچھے الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.اخبار انقلاب " ۲۲.فروری ۱۹۴۵ء نے " سر ظفر اللہ کی صاف گوئی" کے عنوان سے اپنے اداریہ میں اسی طرح اخبار احسان ۲۳ - فروری ۱۹۴۵ء ' اخبار " پیام" "
РУЛ ee - حیدر آباد دکن ۲۲ فروری ۱۹۴۵ء میں حضرت چوہدری صاحب کی غیر معمولی خدمات کی تعریف کی گئی.غیر مسلم پریس بھی اس معاملہ میں پیچھے نہ رہا اور "پر بھارت " " ویر بھارت " " پر تاپ" "ریاست '' پریت لڑکی نے بڑے شاندار طریق پر اس بیان پر تبصرہ کیا.لارڈ ویول وائسرائے ہند نے انگلستان سے واپس آکر اپنی ایک نشری تقریر میں آزادی کے منصوبہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا:." میں ملک معظم کی طرف سے پورے اختیارات کے ساتھ یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہندوستان کی تمام منتظم سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل نئی انتظامیہ کونسل بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو دعوت دوں گا کہ وہ اپنے مشوروں سے مجھے مستفید کریں....انتظامیہ کونسل قریباً مکمل طور پر ہندوستانی ہوگی....اس عارضی گورنمنٹ کے قیام کا ہندوستان کے قطعی و آئینی تصفیہ پر کسی طرح بھی اثر نہ پڑے گا.نئی کو نسل کا بڑا کام یہ ہو گا کہ :.(1) جاپان کے خلاف پوری طاقت سے جنگ لڑی جائے تاکہ اسے شکست ہو جائے.(۲) برطانوی ہند کی حکومت کے کام کو.....چلایا جائے.(۳) یہ غور کیا جائے کہ کن ذرائع کو اختیار کرنے سے ہندوستانی پارٹیاں باہم افہام و تفہیم کر سکتی ہیں.میری رائے میں یہ کام بہت اہم ہے.میں یہ بات برملا یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ان تجاویز سے ملک معظم کی حکومت کا مقصد ہندوستانی لیڈروں کے سمجھوتہ کو ممکن بناتا ہے.اپنی تقریر کے آخر میں آپ نے کہا کہ ہمارے سامنے بہت سے نشیب و فراز ہیں.ہمیں معاف کرو اور بھول جاؤ کے سنہری اصول پر عمل کرنا پڑے گا." (نشری تقریر بحواله الفضل ۱۶ جون ۱۹۴۵ء) یہ امر بہت ہی تعجب خیز اور حیران کن ہے کہ طویل صبر آزما جد وجہد اور قربانیوں کے بعد آزادی کی منزل سامنے نظر آنے لگی تو ہندوستان کی دونوں بڑی جماعتوں نے اس پیشکش کو نا قابل قبول قرار دے دیا اور بظاہر یوں نظر آنے لگا کہ آزادی کی منزل قریب آنے کے بعد پھر پہلے کی طرح دور ہو گئی ہے.قومی آزادی کے اس انتہائی اہم موڑ پر اسیروں کے رستگار نے چالیس کروڑ غلاموں کی آزادی کیلئے اپنے ایک نہایت مئوثر خطاب میں فرمایا :.
۲۶۹ ".....دو سو سال سے ہندوستان غلامی کی زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے اور یہ ایک ایسی خطرناک بات ہے جو انسانی جسم کو کپکپا دیتی ہے.بے شک بعض لوگ ایسے اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں کہ خواہ انہیں قید خانوں کے اندر رکھا جائے تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں غلامی ان کے قریب بھی نہیں آتی مگر بیشتر حصہ بنی نوع انسان کا ایسا ہی ہوتا ہے جو ظاہری غلامی کے ساتھ دلی غلام بھی بن جاتا ہے.ہم ہندوستان میں روزانہ اس قسم کے نظارے دیکھتے ہیں جو اس غلامی کا ثبوت ہوتے ہیں جو ہندوستانیوں کے قلوب میں پائی جاتی ہے.ہندوستان کے لوگوں کی یہ حالت جو بیان کی گئی ہے اس میں اعلیٰ اخلاق کے لوگ شامل نہیں.ان لوگوں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ خواہ وہ صلیب پر لٹک رہے ہوں یا جیل خانوں میں بند ہوں تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں کیونکہ اصلی آزادی جسم کی آزادی نہیں بلکہ دل کی آزادی ہے.جب تک ہندوستان کے عوام الناس کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے، جب تک ہندوستان کے مزدوروں کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے، جب تک ہندوستان کے زمینداروں کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے اور جب تک ہم ان میں بیداری اور حرکت پیدا نہیں کر لیتے اس وقت تک نہ ہندوستان آزاد ہو سکتا ہے نہ ہندوستان حقیقی معنوں میں کام کر سکتا ہے.جس دن ہندوستانیوں کے ذہن سے یہ نکل جائے کہ ہم غلام ہیں ، جس دن ہندوستانیوں کے ذہن سے غلامی کا احساس نکل جائے اس دن ان میں تعلیم بھی آجائے گی ، ان میں جرات اور دلیری بھی پیدا ہو جائے گی اور ان میں قربانی و ایثار کی روح بھی رونما ہو جائے گی.” یہاں چالیس کروڑ انسان غلامی میں مبتلاء ہے.چالیس کروڑ انسان کی ذہنیت نهایت خطرناک حالت میں بدل چکی ہے ، نسلاً بعد نسل وہ ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں.وہ انگریز جس نے ہندوستان پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ ہندوستان کو آزادی دینے کا اعلان کر رہا ہے لیکن سیاسی لیڈر آپس میں لڑ رہے ہیں کہ تمہارے اتنے ممبر ہونے چاہئیں اور ہمارے اتنے ہم ایک قلیل جماعت ہیں اور ہم ان حالات کو دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں کر سکتے لیکن ہماری جماعت یہ دعا ضرور کر سکتی ہے کہ اے خدا خواہ مسلمان لیڈر ہوں یا ہندو تو ان کی آنکھیں کھول اور انہیں اس بات کی توفیق عطا فرما
۲۷۰ کہ وہ ہندوستان کے چالیس کروڑ غلاموں کی زنجیریں کاٹنے کے لئے تیار ہو جائیں کیونکہ یہ نہ صرف ہمارے لئے مفید ہے بلکہ آئندہ دنیا کے امن کے لئے بھی مفید ہے.وہ وائسرائے جو انگلستان کی طرف سے ہندوستان پر حکومت کرنے کے لئے آیا ہوا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرتا ہوں، انگلستان کا صناع جو ہندوستان کو لوٹ کر اپنی صنعت کو فروغ دے رہا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرنے کیلئے تیار ہوں، انگلستان کی وہ ٹوری (Conservative ) گورنمنٹ جو ہندوستان پر ہمیشہ جبری حکومت کے لئے کوشش کرتی چلی آئی ہے وہ کہتی ہے کہ میں ہندوستان کو آزادی دینے کیلئے تیار ہوں، انگلستان کی لیبر پارٹی (Labour) اعلان کر رہی ہے کہ ہم ہندوستان کو آزادی دینے کیلئے تیار ہیں، انگلستان کے پریس کا بیشتر حص......شور مچا رہا ہے کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے امریکہ اور فرانس اور بعض دوسرے ، ممالک جن کا براہ راست ہندوستان سے کوئی واسطہ نہیں وہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے لیکن اگر انگلستان ہندوستان کو آزادی دینے کے تیار ہے تو ہندوستان کے بعض اپنے سپوت آزادی لینے کے لئے تیار نہیں ہیں.پس ان دنوں میں اللہ تعالیٰ سے خاص دعائیں کرو کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں یہ معاملات ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ راہ راست پر آجائیں اور ہندوستانی غلاموں کی زنجیروں کو کاٹ کر وہ ہندوستان کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے والے ہوں".(الفضل ۲۳- جون ۱۹۴۵ء) اس خطبہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مشہور معاند احمدیت مولوی ثناء اللہ امرتسری نے اپنے اخبار اہلحدیث " میں لکھا ” یہ الفاظ جس جرأت کا ثبوت دے رہے ہیں کانگریسی تقریروں میں اس سے زیادہ نہیں ملتے.چالیس کروڑ ہندوستانیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کا ولولہ جس قدر خلیفہ جی کی اس تقریر میں پایا جاتا ہے وہ گاندھی جی کی تقریر میں بھی نہیں ملے (۶.جولائی ۱۹۴۵ء) گا." مندرجہ بالا معرکۃ الآراء خطبہ اور اس کا انگریزی ترجمہ جناب شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر نمائندہ الفضل نے کانگریس اور لیگ کے تمام بڑے بڑے لیڈروں کو جو اس وقت شملہ کانفرنس
۲۷۱ کے لئے وہاں جمع تھے پہنچایا اور اس طرح ہندوستانی رہنماؤں کو (حضرت صاحب) کے جذبات اور بروقت مشوروں سے آگاہی ہوئی.نہایت اہم انتخابات شملہ کانفرنس جو ۲۵.جون سے ۱۴.جولائی تک جاری رہی اس وجہ سے ہی ناکام ہو گئی کہ کانگریس مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ماننے پر تیار نہیں تھی اور مسلم لیگ بھی غیر لیگی مسلمانوں کی ایگزیکٹو کونسل میں شمولیت کو ماننے کے لئے آمادہ نہیں تھی.شملہ کانفرنس میں قائد اعظم نے ملک میں انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا.لارڈ ویول نے اس کا نفرنس میں تو اس مطالبہ کو تسلیم نہ کیا تاہم واپس انگلستان جا کر وہاں کی نئی لیبر حکومت سے مشورہ کے بعد مرکزی اور صوبائی مجالس قانون ساز کے انتخاب کا اعلان کر دیا.ان حالات میں انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ تھی کیونکہ انہی کے نتائج پر ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام یا مسلم لیگ کی حیثیت کا تعین و اظہار ہونا تھا.اس انتخاب کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے قائد اعظم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :." موجودہ حالات میں انتخابات کو خاص اہمیت حاصل ہے.ہم رائے دہندگان کی اس امر کے بارے میں رائے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ پاکستان چاہتے ہیں یا ہندو راج کے ماتحت رہنا چاہتے ہیں...مجھے معلوم ہے کہ ہمارے خلاف بعض طاقتیں کام کر رہی ہیں اور کانگریس ارادہ کئے بیٹھی ہے کہ ہماری صفوں کو ان مسلمانوں کی امداد سے پریشان کر دیا جائے جو ہمارے ساتھ نہیں ہیں.مجھے افسوس ہے کہ وہ مسلمان ہمارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہیں.یہ مسلمان ہمارے خلاف مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے کام میں بطور کارندے استعمال کئے جا رہے ہیں.یہ مسلمان سدھائے ہوئے پرندے ہیں.یہ صرف شکل و صورت کے اعتبار سے ہی مسلمان ہیں.ee (اخبار انقلاب لاہور ۱۸.اکتوبر بحواله تاریخ احمدیت جلد ۱۰ صفحه ۲۷۰) بر صغیر ہند و پاک میں حب الوطنی اور ذاتی اور گروہی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دینے کا ایسا مرحلہ پہلے کبھی کم ہی آیا ہو گا.یہ انتخابات مسلمانوں کی قسمت اور صدیوں تک ان کی بہتری یا اس کے بر عکس اثر انداز ہونے والے تھے.حضرت امام جماعت احمدیہ نے جن کی قومی فلاح و بہبود سے دلچسپی اور ہمدردی ہر مرحلہ پر ظاہر ہوتی رہی اس موقع پر بھی بہت سی روکوں اور مشکلات کے
۲۷۲ باوجود واشگاف الفاظ میں مسلم لیگ کے موقف کو درست اور مسلم بہتری کا ضامن قرار دیتے ہوئے جماعت کو تاکید فرمائی کہ وہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کو ہی ووٹ دیں اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ہر ممکن ذریعہ استعمال میں لائیں.اس سلسلہ میں آپ نے اپنے ایک مفصل بیان میں کانگریں اور لیگ کے مؤقف کا موازنہ کرتے ہوئے آخر میں فرمایا :.جو صورت حال میں نے اوپر بیان کی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی تائید کرنی چاہئے تا انتخاب کے بعد مسلم لیگ بلا خوف تردید کانگریس سے یہ کہہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے اگر ہم اور دوسری مسلم جماعتیں ایسا نہ کریں گی تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی اور ہندوستان کے آئندہ نظام میں ان کی آواز بے اثر ثابت ہو گی." (الفضل ۲۲.اکتوبر ۱۹۴۵ء) وقت کے اس اہم تقاضا کی طرف مزید توجہ دلاتے اور تاکید کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر پورے زور اور قوت کے ساتھ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کی مدد کریں اس طرح کہ : (1) جس قدر احمدیوں کے ووٹ ہیں وہ اپنے حلقہ کے مسلم لیگی امیدوار کو دیں.(۲) میرا تجربہ ہے کہ احمدیوں کی نیکی اور تقویٰ اور سچائی کی وجہ سے بہت سے غیر از جماعت بھی ان کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں.پس میری خواہش ہے کہ نہ صرف یہ کہ تمام احمدی اپنے ووٹ مسلم لیگ کو دیں بلکہ جو لوگ ان کے زیر اثر ہیں ان کے دوٹ بھی مسلم لیگ والوں کو دلائیں.(۳) ہماری جماعت چونکہ اعلیٰ درجہ کی منتظم ہے اور قربانی اور ایثار کا مادہ ان میں پایا جاتا ہے اور جب وہ عزم سے کام کرتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر دلوں کو ہلا دیتے ہیں.ہر احمدی سے یہ بھی خواہش کرتا ہوں کہ وہ اپنے علاقہ کے ہر مسلمان کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے اور اس قدر زور لگائے کہ اس کے حلقہ اثر میں مسلم لیگی امیدوار کی کامیابی یقینی ہو.تمام جگہوں پر مسلم لیگ کے کارکنوں کو یہ محسوس ہو جائے کہ گویا احمدی یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ کا امید وار کھڑا نہیں ہوا کوئی احمدی امیدوار کھڑا ہوا ہے.(انفضل ۲۲.اکتوبر ۱۹۴۵ء) et _
۲۷۳ حضرت صاحب کے مذکورہ بالا بیان کو درج کرنے کے بعد مشہور مؤرخ سید رئیس احمد جعفری اپنی کتاب " قائد اعظم اور ان کا عہد میں بڑے چھتے ہوئے انداز میں لکھتے ہیں.مسلم قوم کی مرکزیت ، پاکستان ، یعنی ایک آزاد اسلامی حکومت کے قیام کی تائید ، مسلمانوں کے پاس انگیز مستقبل پر تشویش ، عامتہ المسلمین کی صلاح و فلاح نجاح و مرام کی کامیابی ، تفریق بین المسلمین کے خلاف برہمی اور غصہ کا اظہار کون کر رہا ہے ؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور جماعت حزب اللہ کا داعی اور امام الہند ؟ نہیں! پھر کیا جانشین شیخ الہند اور دیو بند کا شیخ الحدیث ؟ وہ بھی نہیں ! پھر کون ؟ وہ لوگ جن کے خلاف کفر کے فتووں کا پشتارہ موجود ہے.جن کی نا مسلمانی کا چر چا گھر گھر ہے جن کا ایمان ، جن کا عقیدہ مشکوک ، مشتبہ اور محل نظر ہے کیا خوب کہا ہے ایک شاعر نے : کامل اس فرقہ زہاد سے اُٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے".( قائد اعظم اور ان کا عہد صفحہ ۴۲۱.ایڈیشن ۱۹۶۲ء.اشرف پر میں لاہو ر ) حضرت صاحب کا مندرجہ ذیل خط جو ایک احمدی کے استفسار کے جواب میں لکھا گیا تھا.قائد اعظم کی طرف سے پریس میں بھیجوایا گیا." آپ کو موجودہ انتخابات میں مسلم لیگ کی حمایت کرنی چاہئے.جس طرح بھی ممکن ہو مسلم لیگ سے تعاون کریں اور مسلم لیگ کی ہر ممکن مدد کریں.مسلمانوں کو موجودہ بحران میں ایک متحدہ محاذ کی شدید ضرورت ہے.اگر ان کے اختلافات موجود رہے تو صدیوں تک ان کے برے اثرات کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا." جیسے جیسے انتخابات کا زمانہ قریب آتا گیا.حضور کی توجہ اور دلچسپی بھی بڑھتی چلی گئی اور آپ نے کمال حکمت و دور اندیشی سے پوری منصوبہ بندی کرتے ہوئے مسلم مفاد کے اس عظیم معرکہ کو سر کیا.صوبہ سرحد میں خان برادران کے اثر سرخپوش تحریک اور کانگریس کی وجہ سے فضا مسلم لیگ کے خلاف تھی.قائد اعظم کو ملک کے اس حصہ میں جہاں غیر مسلمان بستے تھے کام کرنے مخلص کارکن مل گئے جن میں جماعت احمدیہ کے افراد اپنے امام کی مندرجہ ذیل ہدایت پر بدل و جان عمل کر رہے تھے.اس وقت سرحد میں لیگ منسٹری کو مضبوط کرنا ہے کسی طرح کا نگر میں کو ضرور
۲۷۴ ९९ نکالنا چاہئے." وا صوبہ سرحد حضور کی نظر میں کئی وجوہ سے خاص اہمیت رکھتا تھا آپ فرماتے ہیں:.صوبہ سرحد گو یا ہندوستان کی چھاؤنی ہے اس میں مسلمانوں میں اختلاف کو میں بالکل مناسب نہیں سمجھتا اور ہر احمدی سے امید کرتا ہوں کہ.......صوبہ سرحد کی مرکزی لیگ کی شاخ کے مقرر کردہ امیدوار کی حمایت کرے.اس کے حق میں ووٹ دے اور اپنے زیر اثر لوگوں سے اسے ووٹ دلوائے اور اس کے حق میں اپنے علاقہ میں پورے زور سے کارروائی کرے." (الفضل یکم فروری ۱۹۴۶ء) یہاں تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں مگر تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ انتہائی مخالف حالات کے باوجود سرحد سے کانگریس کو نکلنا پڑا اور مسلم لیگ کو غیر معمولی کامیابی ہوئی.سندھ کی جماعت نے حضور کی خدمت میں مسلم لیگ کی بعض انتظامی خامیوں کا ذکر کر کے رہنمائی کی درخواست کی تو اس پر بھی حضور نے یہی فرمایا.بہر حال مسلم لیگ کو ووٹ دینے ہیں" ہندوستان کے ایسے صوبوں جہاں مسلمانوں کی اکثریت نہ تھی اور ان کے پاکستان میں شامل ہونے کا کوئی امکان نہ تھا کے متعلق بھی مسلم مفاد عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے حضور کا یہی ارشاد تھا کہ :.لیگ کی ہر طرح مدد کریں اور اپنے ووٹ بھی دیں اور جن جن پر اثر پڑ سکتا ہو ان سے بھی دلوائیں.بنگال ، یو پی سی پی اور بمبئی وغیرہ میں ووٹ مسلم لیگ کو دیئے (الفضل ۲۷.فروری ۱۹۴۶ء) جائیں." خدا تعالیٰ کے فضل سے ہندو اور ان کے وظیفہ خوار سدھائے ہوئے پرندوں " کی خواہشات اور کوششوں کے بر عکس مسلم لیگ کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی اور قیام پاکستان کے رستہ کی ایک بہت بڑی روک دور ہو گئی.اس مقام پر قائد اعظم کے معتمد ساتھی رفیق کار پرانے مسلم لیگی سردار شوکت حیات کا وہ بیان جو انہوں نے اپنی کتاب The Nation that Lost its Soul p147 میں تحریر کیا ہے خالی از دلچسپی نہ ہو گا وہ لکھتے ہیں کہ میں پنجاب بھر میں مسلم لیگ کے جلسے کر رہا تھا جب میں ایسے ہی ایک جلسہ کے لئے بٹالہ پہنچا تو مجھے قائد اعظم کا پیغام ملا کہ تم بٹالہ جا رہے ہو قادیان وہاں سے چند میل کے فاصلہ پر ہے تم وہاں جا کر حضرت صاحب کو میری طرف سے دعا کی درخواست کرو اور پاکستان کے قیام کے سلسلہ میں مدد کرنے کو کہو.
۲۷۵ سردار صاحب کہتے ہیں کہ میں آدھی رات کے بعد جب کہ حضرت صاحب آرام کرنے کے لئے اپنے کمرے میں جا چکے تھے قادیان پہنچا تاہم میری طرف سے یہ اطلاع ملنے پر کہ میں قائد اعظم کا پیغام لے کر آیا ہوں آپ فورا نیچے تشریف لے آئے اور پوچھا کہ قائد کا کیا حکم ہے.میرے بتانے پر آپ نے فرمایا کہ آپ میری طرف سے قائد کو بتا دیں کہ جماعت احمد یہ شروع سے ہی ان کے عظیم مقصد سے ہمدردی رکھتی ہے اور یہ کہ میں پہلے ہی اس مقصد کے لئے دعا کر رہا ہوں اور آئندہ بھی دعا کرتا رہوں گا اور میں جماعت کو مسلم لیگ کی مکمل حمایت کی تاکید کر چکا ہوں.اس کتاب کے اسی صفحہ پر یہ گواہی بھی درج ہے کہ وہ قائد اعظم کا پیغام لے کر مولانا مودودی کے پاس پٹھانکوٹ بھی گئے مگر مولانا نے بڑی سرد مہری سے قائد اعظم کی خواہش کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ میں ”ناپاکستان کے لئے دعا اور اس مقصد کے لئے مدد کیسے کر سکتا ہوں؟ پنجاب اور سرحد کے انتخابات میں مسلم لیگ کی غیر معمولی کامیابی سر خضر حیات کا استعفیٰ کے بعد حصول پاکستان میں ایک اور بہت بڑی روک یا مشکل پیدا ہو گئی.پنجاب میں ان دنوں یو ننیسٹ پارٹی کی حکومت تھی جس کے سربراہ سر خضر حیات ٹوانہ تھے.یو ننیسٹ پارٹی ایک غیر فرقہ دارانہ پارٹی تھی جس میں ہندو مسلم اور سکھ سب ہی شامل تھے.مگر مسلم لیگ کے عروج و ترقی کے ساتھ ساتھ اس پارٹی میں مسلم اثرات کم ہوتے گئے.قائد اعظم نے سر خضر حیات کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے اس مشورہ کو درخور اعتناء سمجھا.سر خضر حیات پاکستان کے تو حق میں تھے مگر ان کے خیال میں ان کی پارٹی پنجاب کے مسلمانوں کی بہتر رنگ میں خدمت کر سکتی تھی.اس لئے وہ مسلم لیگ میں شامل ہونے اور پنجاب کی وزارت سے مستعفی ہونے کو غیر ضروری سمجھتے رہے.تاہم مسلم لیگ کی حکومت یا پاکستان کے قیام کیلئے ان کا حکومت سے الگ ہونا ضروری تھا.اس اہم موڑ اور اس سلسلہ میں پیش رفت کے متعلق حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا مندرجہ ذیل حقیقت افروز بیان بہت سے اور امور پر بھی روشنی ڈالتا ہے.آپ فرماتے ہیں:.وزیر اعظم اکیلے نے اپنے ۲۰.فروری ۱۹۴۷ء کے بیان میں اعلان فرمایا کہ تقسیم ملک کے بغیر چارہ نہیں اور یہ کہ ملک معظم کی حکومت ہندوستان کے نظم و نسق کے اختیارات ہندوستان کو سپرد کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے.اس پر عملدرآمد کا طریق یہ ہو گا کہ حکومت کے اختیارات صوبائی حکومتوں یا کسی متوازی ادارے کے سپرد کر دیئے
جائیں گے اور اس طور پر تقسیم کی کارروائی کی تکمیل کی جائے گی.جہاں اس بیان سے مجھے یہ اطمینان تو ہوا کہ آخر حکومت برطانیہ نے قیام پاکستان کو تسلیم کر لیا وہاں مجھے اس اعلان کے اس حصے سے سخت پریشانی بھی لاحق ہوئی کہ حکومت کے اختیارات عبوری مرحلے میں صوبائی حکومتوں کو تفویض کئے جانے کا امکان ہے.جب جناب قائد اعظم نے برطانوی وفد کے منصوبے کو منظور فرمالیا تھا اس وقت ان کے اس فیصلے سے میرا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا کہ وہ میرے اندازے سے بھی بڑھ کر صاحب تدبیر ثابت ہوئے.میری نگاہ میں برطانوی وفد کے منصوبے کا ایک قابل قدر پہلو یہ تھا کہ پہلے دس سال میں اکثریت کو موقع دیا گیا تھا کہ وہ اپنے منصفانہ رویے اور حسن سلوک کے ذریعہ اقلیتوں کا اعتماد حاصل کریں کہ آزاد ہندوستان میں ان کے جائز حقوق کی مناسب نگہداشت ہوگی اور ان کے جذبات اور احساسات کا احترام ہو گا.ہر چند کہ سابقہ تجربہ کچھ ایسا امید افزا نہیں تھا پھر بھی جناب قائد اعظم کا اس منصوبے کو عملاً آزمانے پر تیار ہو جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کا موقف کسی قسم کی ضد پر مبنی نہیں تھا.بعد کے حالات سے یہ بھی ترشح ہوتا ہے کہ ممکن ہے کانگریس کے بعض عناصر نے وفد کے منصوبے کو تسلیم کرنے کی تائید اس توقع میں کی ہو کہ مسلم لیگ اسے رد کر دے گی اور وفد کی ناکامی کی ذمہ داری لیگ پر ڈالی جائے گی جس کے نتیجے میں برطانوی حکومت کی نظروں میں پاکستان کا مطالبہ کمزور ہو جائے گا.جب لیگ نے وفد کا منصوبہ تسلیم کر لیا تو ان عناصر کا اندازہ غلط ثابت ہوا اور انہوں نے منصوبے کو نا کام کرنے کی راہیں تلاش کرنا شروع کیں.بہر صورت آخر نتیجہ یہ ہوا کہ ہر صاحب فہم کی نظر میں وفد کی ناکامی کی ذمہ داری کانگریس پر عائد ہوئی اور پاکستان کا مطالبہ مضبوط تر ہو گیا.لیکن اس مقصد تک پہنچنے کا پہلا مرحلہ جب یہ قرار دیا گیا کہ حکومت کے اختیارات صوبائی حکومتوں کو تفویض کئے جائیں گے تو پنجاب کے حالات کے پیش نظر میری طبیعت نہایت کرب میں مبتلاء ہوئی.” جناب سکندرحیات خان صاحب کی وفات کے بعد جناب ملک خضر حیات خان صاحب پنجاب میں وزیر اعظم ہوئے.یہ جناب سردار صاحب کے رفقاء میں سے تھے اور ان کی جگہ یونینسٹ پارٹی کے سربراہ ہوئے لیکن یو نینسٹ پارٹی کے عناصر میں جلد
۲۷۷ جلد تبدیلی ہو رہی تھی پارٹی کی رکنیت میں بتدریج مسلم عصر کم ہو رہا تھا اور غیر مسلم عنصر بڑھ رہا تھا صوبے میں مسلم لیگ کی تنظیم مضبوط ہو رہی تھی اور لیگ کارسوخ بڑھتا جا رہا تھا یہاں تک کہ لیگ نے عدم تعاون کے ذریعے یونینسٹ پارٹی کو حکومت سے برطرف کرنے کی کوشش کی.اس کوشش میں تو لیگ بظاہر کامیاب نہ ہوئی لیکن لیگ کی وقعت رائے عامہ میں بہت بڑھ گئی اور شہری حلقوں میں خصوصا لیگ کا اثر ہر جگہ پھیل گیا.جناب قائد اعظم نے اس سے قبل ہی جناب ملک صاحب پر زور دینا شروع کیا تھا کہ وہ لیگ میں شامل ہو کر اور لیگ سے مل کر کام کریں لیکن وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوئے.انہوں نے سکندر جناح پیکٹ کی آڑ لینے کی کوشش کی لیکن جناب قائد اعظم نے اسے ٹھکرا دیا.جناب ملک صاحب کا موقف تھا کہ پاکستان کا مطالبہ مرکز سے متعلق ہے اور ہم سو فیصدی اس کی تائید میں ہیں لیکن صوبے کے حالات کے پیش نظر یونینسٹ پارٹی جو ایک غیر فرقہ وارانہ پارٹی ہے اور جس کی تشکیل اقتصادی مقاصد کی بناء پر کی گئی تھی اور انہیں مقاصد کے حصول کے لئے وہ کوشاں رہی ہے ایک موزوں پارٹی ہے اور مسلم حقوق کا بخوبی تحفظ کر سکتی ہے.اور کرتی ہے.کشمکش کے دوران میں برطانوی وزیر اعظم کا ۲۰.فروری ۱۹۴۷ء کا اعلان ہو گیا جس کا ایک پہلو یہ تھا کہ پنجاب کے صوبے میں مرکزی اختیارات بھی صوبائی حکومت کو تفویض ہوں.اس وقت تک یونینسٹ پارٹی میں رکنیت کی کثرت غیر مسلم اراکین کو حاصل ہو چکی تھی.اگر اب بھی یہی پارٹی برسراقتدار رہتی تو مسلم لیگ کے رستے میں اور پاکستان کے قیام کے رستے میں ایک بہت بڑی روک پیدا ہو جاتی.میں جناب ملک سر خضر حیات خان صاحب کو عرصے سے جانتا تھا اور میرے ان کے درمیان دوستانہ مراسم تھے.جب تک میں حکومت ہند کار کن رہا مجھے گرمیوں کے موسم میں جناب ملک صاحب کے ساتھ شملے میں ملاقات کے مواقع میسر آتے رہتے تھے.جب میں حکومت سے علیحدہ ہو کر عدالت میں چلا گیا تو ہمارے ملاقات کے مواقع کم ہو گئے اور میں نے سیاسی سرگرمیوں میں براہ راست حصہ لینا کم کر دیا گو قومی معاملات میں میری دلچسپی میں کوئی کمی نہ آئی.اب اس مرحلے پر بڑی شدت سے میری طبیعت اس طرف مائل ہوئی کہ مجھے اسی
۲۷۸ جناب ملک صاحب کی خدمت میں گزارش کرنی چاہئے کہ اب وہ صورت نہیں رہی کہ پاکستان کے مطالبے کا تعلق مرکزی حکومت کے ساتھ ہے اور صوبائی حکومتیں اس سے ش میں الگ میں کیونکہ وزیر اعظم اٹیلے کے اعلان کے بعد صوبائی حکومتیں لازما اس کشمکش کھینچ لی جائیں گی اور مسلم لیگ اور پاکستان کے لئے یہ امر بہت کمزوری کا باعث ہو گا کہ پنجاب میں اختیارات حکومت ایک ایسی پارٹی کے ہاتھ میں ہوں جس کی اکثریت غیر مسلم ہے.ساتھ ہی مجھے کچھ حجاب بھی تھا کہ میں سیاسیات سے باہر ہوتے ہوئے اور پنجاب کے تفصیلی حالات سے واقفیت نہ رکھتے ہوئے جناب ملک صاحب کی خدمت میں کوئی ، ایسی گزارش کروں جسے وہ بیجا جسارت شمار کرتے ہوئے قابل التفات شمار نہ کریں.ادھر ہر لحظہ جوں جوں میں وزیر اعظم برطانیہ کے اعلان پر غور کر تا میری پریشانی میں اضافہ ہو تا.دو دن اور راتیں میں نے اسی کشمکش میں گزاریں.مجھے بہت کم کبھی ایسا اتفاق ہوا ہے کہ میں رات آرام سے نہ سو سکوں لیکن یہ دونوں راتیں میری بہت بے چینی کی نذر ہوئیں.آخر میں نے تیسری صبح جناب ملک صاحب کی خدمت میں عریضہ لکھا اور انہیں ان کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے گزارش کی کہ انہیں اس مرحلہ پر وزارت سے استعفیٰ دے کر مسلم لیگ کا رستہ پنجاب میں صاف کر دینا چاہئے اور اپنی ذمہ داری سے سر خرو ہو جانا چاہئے.اس عریضہ کے ارسال کرنے کے تیسرے دن جناب ملک صاحب نے ٹیلیفون پر مجھے فرمایا.تمہارا خط مجھے مل گیا ہے.میں ٹیلیفون پر مختصر بات ہی کر سکتا ہوں.مجھے اصو نا تمہارے ساتھ اتفاق ہے لیکن میں مزید مشورہ کرنا چاہتا ہوں.تم ایک دن کیلئے لاہور آجاؤ.میں نے گزارش کی میں انشاء اللہ آج رات روانہ ہو کر کل صبح حاضر خدمت ہو جاؤں گا.میرے حاضر ہونے پر جناب ملک صاحب نے فرمایا.جیسے میں نے ٹیلیفون پر تم سے کہا تھا مجھے اصولاً تمہارے ساتھ اتفاق ہے لیکن میں تمہاری یہاں موجودگی میں بھائی اللہ بخش ( نواب سر اللہ بخش خان ٹوانہ کے ساتھ مشورہ کرنا چاہتا ہوں اور پھر مظفر نواب سر مظفر علی قزلباش سے بھی مشورہ کرنا چاہتا ہوں.مظفر نے ہر مرحلے پر میرا ساتھ دیا ہے میں بغیر ان دو کے مشورہ کے کوئی پختہ فیصلہ نہیں کر سکتا.جناب نواب سر اللہ بخش خان صاحب تو جناب ملک صاحب کے بنگلے کے باغ میں خیمے میں فروکش تھے ہم دونوں
۲۷۹ ان کی خدمت میں حاضر ہو گئے.ملک صاحب نے فرمایا.بھائی جان! میں نے ظفر اللہ خان کی چٹھی کل آپ کو پڑھ کر سنادی تھی.اب آپ فرما ئیں.آپ کی کیا رائے ہے ؟ جناب نواب صاحب نے فرمایا.میں نے کل بھی کہا تھا اور آج بھی کہتا ہوں کہ مجھے ظفر اللہ خان کے ساتھ اتفاق ہے.اس مرحلے پر صحیح طریق یہی ہے کہ تم اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤ.چند منٹ کی گفتگو کے بعد وہیں سے جناب ملک صاحب نے جناب نواب سر مظفر علی خان صاحب کے ہاں ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا نواب صاحب اسٹیٹ تشریف لے گئے ہیں وہاں ٹیلیفون نہیں تھا.جناب ملک صاحب نے اپنے سائق کو ارشاد فرمایا فورا کار میں جا کر نواب سر مظفر علی خان صاحب کو ان کی اسٹیٹ سے لے آؤ.جناب نواب صاحب کی تشریف آوری پر جناب ملک صاحب نے خاکسار کے خط کا ذکر جناب نواب صاحب سے کیا اور ان کی رائے دریافت کی.اس پر انہوں نے فرمایا.ہم مسلم لیگ کی تحریک عدم تعاون کو نا کام کر چکے ہیں ، مجلس میں ہماری پوزیشن مضبوط ہے، بجٹ کا اجلاس چند دنوں میں شروع ہونے والا ہے اس بات سے تو مجھے اتفاق ہے کہ ہمیں حکومت سے دست بردار ہو جانا چاہئے لیکن میری رائے یہ ہے کہ بجٹ پاس کرنے کے بعد استعفیٰ دینا چاہئے.یہ سنتے ہی جناب نواب اللہ بخش صاحب نے فرمایا.یہ بات بالکل غلط ہے مشورہ طلب امر یہ نہیں کہ استعفیٰ کب دیا جائے مشورہ طلب امر یہ ہے کہ اس وقت استعفیٰ دیا جائے یا نہیں.فیصلہ یہ ہونا چاہئے استعفاء دیا جائے یا پھر یہ ہونا چاہئے استعفاء نہ دیا جائے.یہ کوئی فیصلہ نہیں آج سے ڈیڑھ ماہ یا دو ماہ بعد استعفاء دیا جائے.آپ کیا کہہ سکتے ہیں اس درمیانی عرصے میں کیا واقعات ہوں اور کیا مراحل پیش آئیں اور کن حالات کا آپ کو سامنا ہو.اگر اس وقت استعفاء نہیں ہونا چاہئے تو بس اسی پر اکتفا کرو ، استعفاء نہیں دینا چاہئے.کل کیا ہو گا یا ایک مہینہ بعد کیا ہو گا، یہ وقت آنے پر دیکھا جائے گا.پھر ایک اور امر بھی قابل غور ہے.اگر آپ آج یہ فیصلہ کریں.بجٹ پاس کرنے کے بعد استعفاء دیں گے تو یہ خلاف دیانت ہے.بجٹ آپ پارٹی کی مدد سے پاس کریں گے.اس وقت تو آپ انہیں بتا ئیں گے نہیں کہ آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بجٹ پاس کرنے کے بعد استعفاء دے دیں گے.اگر اس وقت آپ انہیں بتا ئیں گے تو ابھی سے پارٹی منتشر ہو جائے گی اور خود ہی آپ کا استعفاء ہو جائے
۲۸۰ گا.اور اگر اس وقت نہیں بتائیں گے اور ان کی مدد سے بجٹ پاس کرنے کے بعد ان کی خلاف مرضی استعفاء دے دیں گے تو گویا آپ نے ان سے فریب کیا کہ ان کی مدد سے بحبٹ پاس کر لیا اور پھر ان کی خلاف مرضی استعفاء دے دیا.اس لئے میری تو یہی رائے ہے کہ اس وقت صرف یہ طے ہونا چاہئے کہ اس مرحلے پر آپ استعفاء دیں یا نہ دیں.میں اپنی رائے بتا چکا ہوں کہ آپ کو استعفاء دینا چاہئے.آگے جیسے آپ مناسب سمجھیں.اس کے بعد جناب نواب مظفر علی خان صاحب چند منٹ ٹھہر کر تشریف لے گئے.جناب ملک صاحب نے اسی سہ پہر کے لئے پارٹی کا اجلاس اپنے دولت کدہ پر طلب فرمایا اور خود گور نر صاحب Sir Evans Jen ins) کو ملنے تشریف لے گئے.گور نر سے کہا.وزیر اعظم اٹیلے کے اعلان کے پیش نظر میں سوچ بچار کے بعد اس رائے کی طرف مائل ہوں کہ مجھے اس مرحلے پر استعفاء دے دینا چاہئے لیکن پختہ فیصلہ کرنے سے پہلے میں نے آج سہ پہر پارٹی کا اجلاس طلب کیا ہے.اگر پارٹی کے ساتھ گفتگو کے بعد میں اس رائے پر قائم رہا تو میں آج شام پھر آپ سے ملنے کے لئے آؤں گا اور اپنے فیصلے سے آپ کو مطلع کر دوں گا.گورنہ صاحب نے فرمایا.یہ امر خالصتہ آپ کی مرضی پر موقوف ہے.حالات کے پیش نظر میں آپ کی رائے پر کوئی اثر ڈالنا نہیں چاہتا لیکن کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے خود بخود یہ رائے قائم کی ہے یا کسی طرف سے آپ کو کوئی تحریک ہوئی ہے.اس پر ملک صاحب نے فرمایا کہ فیصلہ تو میرا جو کچھ ہو گا اپنا ہی ہو گا لیکن وزیر اعظم اٹیلے کے اعلان کے نتیجے میں توجہ مجھے ظفر اللہ خان نے ، ائی ہے.پارٹی کا اجلاس تین بجے سہ پہر سے چھ سات بجے تک رہا.میں تو اس میں شامل نہیں تھا لیکن میرے کمرے تک بعض دفعہ آواز پہنچتی تھی جس سے اندازہ ہو تا تھا کہ بحث گرم ہو رہی ہے.شام کے کھانے پر جناب ملک صاحب نے بتایا کہ پارٹی کے غیر مسلم اراکین میرے فیصلے پر بہت آزردہ تھے اور اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ میرا مجوزہ اقدام درست نہیں لیکن میرا موقف یہی رہا کہ برطانوی وزیر اعظم کے اعلان کے بعد میرے لئے اور کوئی رستہ کھلا نہیں رہا.کھانے کے بعد جناب ملک صاحب گور نر صاحب سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے اور
اپنا استعفیٰ پیش کر دیا اور ساتھ ہی گورنر صاحب کو مشورہ دیا کہ جناب نواب صاحب محروٹ کو بحیثیت قائد مسلم لیگ پارٹی دعوت دی جائے کہ وہ نئی وزارت کی تشکیل کریں." جناب ملک صاحب کے استعفاء کا اعلان ریڈیو پر ہو گیا.مسلم لیگ حلقوں میں اس خبر سے خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور صبح ہوتے ہی شہر بھر میں خضر حیات زندہ باد کے نعرے بلند ہونے لگے.جناب راجہ غضنفر علی صاحب اور جناب سردار شوکت حیات خان صاحب کی سرکردگی میں بہت سے مسلم لیگ کے سرکردہ اصحاب جناب ملک صاحب کے بنگلے پر تشریف لائے اور ملک صاحب کو مبارک باد دی ، گلے لگایا اور پھولوں کے ہار پہنائے گئے.اس کے بر عکس غیر مسلم حلقوں میں اس خبر سے بہت بے چینی پھیل گئی اور ان کی طرف سے مخالفانہ مظاہرے شروع ہو گئے.یہ رو صوبے بھر میں پھیل گئی اور بعض مقامات پر فرقہ وارانہ افسوس ناک وارداتیں بھی ہو ئیں میں اسی دن دلی واپس چلا ( تحدیث نعمت صفحه ۳۹۰٬۳۸۳) گیا".اس سلسلہ میں مکرم ملک حبیب الرحمن صاحب مرحوم (انسپکٹر تعلیم و ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول) کا مندرجہ ذیل بیان قومی مفاد کیلئے حضور کے غیر معمولی انہماک اور کوششوں کا آئینہ دار ہے.جب ملک خضر حیات صاحب نے پنجاب کی وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا اور مسلم لیگ کیلئے حکومت بنانا نا ممکن ہو گیا تو حضرت.......نے انہیں کہلا بھیجا کہ وہ مستعفی ہو جائیں اور قوم کے رستہ میں مشکلات پیدا نہ کریں.انہیں دنوں حضور سندھ تشریف لے جاتے ہوئے جب خانیوال سٹیشن پر پہنچے تو میں وہاں موجود تھا باتوں باتوں میں حضور نے فرمایا کہ میں نے ملک صاحب کو کہلا بھیجا ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں.امید ہے پرسوں تک اخبارات میں ان کے استعفیٰ کی خبر آجائے گی.میں نے اس کا ذکر وہاں کے بعض معززین سے کیا.چنانچہ اس طرح وقوع پذیر ہو ا جس طرح حضور نے فرمایا تھا." اس استعفی کے ساتھ قیام پاکستان کے رستہ کی ایک اور بہت بڑی روک دور ہو گئی.الحمد للہ آل انڈیا کانگریس نے اپنے اجلاس ۴ تا ۸ مارچ ۱۹۴۷ء میں پنجاب کی تقسیم کی قرار داد پاس کی اس کے بعد آل انڈیا ریڈیو پر بھی یہ اعلان ہوا کہ ایسی تجویز
۲۸۲ حکومت کے زیر غور ہے.ان امور کا علم ہونے پر حضرت فضل عمر نے بغیر کسی تاخیر کے فوری طور پر وائسرائے ہند کے نام ایکسپریس تار کے ذریعہ پر زور احتجاج کیا اس کے علاوہ ایک احتجاجی تار اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم مسٹرائیلی اور قائد حزب اختلاف مسٹر چرچل کو بھجوائی اسی طرح پنجاب کی تقسیم کے خلاف اپنے جذبات اور بعض ضروری مشورے بذریعہ تار قائد اعظم تک بھی پہنچائے گئے.آپ نے ان احتجاجی تاروں پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ " قیام امن و صلح" کے نام سے ایک خصوصی سیل قائم فرمایا جس نے پنجاب کے ہر گاؤں کے متعلق ضروری معلومات اور اعداد و شمار جمع کرنے شروع کر دیئے.حضرت فضل عمر نے اس سلسلہ میں ترکی اور عراق کے درمیان حد بندی کا لٹریچر اسی طرح امریکہ سے بین الاقوامی حد بندی کا لٹریچر منگوایا.اس مقصد کیلئے امام مسجد لندن نے وہاں کے پریس اور اہل علم حضرات سے معلومات حاصل کر کے بمشکل تمام ایسی نادر معلومات جمع کر کے بہ صرف زر کثیر قادیان بھجوائیں.اس طرح ایک ماہر جغرافیہ دان MT OH K Spate کی خدمات حاصل کر کے کیس کی تیاری اپنے طور پر شروع کر دی.قائد اعظم نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے کیس پیش کرنے کیلئے اپنے قابل اعتماد ساتھی حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو منتخب کیا.قائد اعظم کے پوچھنے پر چوہدری صاحب نے انہیں اپنی مصروفیات بتائیں تو قائد اعظم نے فرمایا کہ آپ کو کافی وقت میسر ہو گا.لاہور کے وکلاء کیس تیار کیا ہوا ہوگا آپ کو دلائل کی ترتیب اور اسلوب بحث ہی طے کرنا ہو گا.چوہدری صاحب کے یہ کہنے پر کہ میں لندن سے واپسی پر کراچی سے سید ھالا ہو ر چلا جاؤں گاوہاں میں کس کو اطلاع دوں.جناب قائد اعظم نے جواباً فرمایا نواب ممدوٹ سب انتظام کریں گے.جب محترم چوہدری صاحب اس پروگرام کے مطابق لاہور پہنچے تو لاہور سٹیشن پر آپ کا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا.نواب ممدوٹ صاحب نے چوہدری صاحب کو اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت بھی دی.جس سے بوجوہ استفادہ نہ کیا جا سکا مگر اصل کام یعنی کیسی کی تیاری بلکہ اس مقصد کیلئے وکلاء کا تقرر تک بھی نہیں کیا گیا تھا.دفتری سامان کی طرف توجہ دلانے پر اس کے انتظام کا وعدہ تو کیا گیا مگر کارروائی کے آخر تک ایسا کوئی انتظام نہ کیا گیا.چوہدری صاحب کے حلقہ احباب میں سے بعض نے اس موقع پر بہت خلوص و محنت سے تعاون کیا.جس کا مکرم چوہدری صاحب نے تحدیث نعمت میں بہت شکر گزاری کے ساتھ ذکر فرمایا ہے.اس صورت حال کے متعلق آپ فرماتے ہیں.اپنی بے کسی اور بے سرو سامانی کے بوجھ سے لدا ہوا قیام گاہ پر واپس ہوا نماز
۲۸۳ میں درگاہ رب العزت میں فریادی اور ملتجی ہوا.الہی میں تن تنہا عاجز اور بے کس اور ذمہ داری اس قدر بھاری.اس امانت کی کما حقہ ادائیگی کی کیا صورت ہوگی میں تو بالکل خالی اور صفر ہوں.لیکن تجھے ہر قدرت ہے تو اپنے فضل و کرم سے مجھے فہم اور توفیق عطا فرما اور خود میرا ہادی و ناصر ہو." اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام ضروری امور خاطر خواہ طریق پر میسر ہوتے چلے گئے اور حضرت چوہدری صاحب نے یہ قومی ذمہ داری اس طریق پر ادا فرمائی کہ پاکستانی پریس اور قائد اعظم نے ہی نہیں فریق مخالف نے بھی آپ کی وکالت کی تعریف کی.باؤنڈری کمیشن کے سراسر غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ طرز عمل اس سلسلہ میں سازشیں اور بہت سے گفتنی و نا گفتنی امور کی وجہ سے فیصلہ تو مسلم لیگ کی خواہش کے مطابق نہ ہو سکا تاہم اس موڈ پر حضرت مصلح موعود کا طرز عمل ہمیشہ کی طرح یہی تھا کہ آپ نے اپنے تمام ذرائع اور صلاحیتوں کو مکمل طور پر اس اہم قومی خدمت کیلئے وقف کر دیا.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اس زمانے کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.حضرت خلیفہ ثانی ان دنوں لاہو رہی میں تشریف فرما تھے.بدھ کی سہ پہر کو جنار مولانا عبد الرحیم درد صاحب خاکسار کے پاس تشریف لائے اور فرمایا حضرت صاحب نے مجھے بھیجا ہے کہ تم سے دریافت کروں کہ حضرت صاحب کس وقت تشریف لا کر تمہیں تقسیم کے بعض پہلوؤں کے متعلق معلومات بہم پہنچا دیں.خاکسار نے گزارش کی خاکسار جس وقت ارشاد ہو حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا.جناب در د صاحب نے فرمایا حضور کا ارشاد ہے تم نہایت اہم فرض کی سرانجام دہی میں مصروف ہو.تمہارا وقت بہت قیمتی ہے تم اپنے کام میں لگے رہو ہم وہیں آجائیں گے.یہی مناسب ہے چنانچہ حضور تشریف لائے اور بٹوارے کے اصولوں کے متعلق بعض نہایت مفید حوالوں کی نقول خاکسار کو عطا کیں اور فرمایا اصل کتب منگوانے کے لئے انگلستان فرمائش بھیجی ہوئی ہے اگر بروقت پہنچ گئیں تو وہ بھی تمہیں بھیجی جائیں گی نیزار شاد فرمایا ہم نے اپنے خرچ پر حد بندی کے ایک ماہر پروفیسر کی خدمات انگلستان سے حاصل کی ہیں وہ لاہور پہنچ چکے ہیں اور نقشہ جات وغیرہ تیار کرنے میں مصروف ہیں.متعلقہ کتب انگلستان سے قادیان پہنچیں اور وہاں سے ایک موٹر سائیکل سوار Side-Car
۲۸۴ میں رکھ کر انہیں لا ہو ر لائے اور دوران بحث وہ ہمیں میسر آگئیں اور ان سے ہمیں بہت مدد ملی.پروفیسرSpate نے دفاعی پہلو سے خاکسار کے ذہن نشین کرا دیا.ہندو فریق کی طرف سے ہندوستان کے دفاع کی ضروریات کی بناء پر بڑے زور سے دریائے جہلم تک کے علاقہ کا مطالبہ کیا گیا لیکن میری طرف سے پروفیسر Spate کے تیار کردہ نقشہ جات کے پیش کرنے اور ان کی اہمیت واضح کرنے کے بعد فریق مخالف کی طرف سے ایک لفظ بھی جو ابا اس موضوع پر نہ کہا گیا.بحث کے دوران حضرت خلیفہ المسیح خود بھی اجلاس میں تشریف فرمار ہے اور اپنی دعاؤں سے مدد فرماتے رہے.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ تحدیث نعمت صفحہ ۵۱۹٬۵۱۸.ایڈیشن ۱۹۸۱ء ) ان اہم قومی خدمات کے متعلق حضور فرماتے ہیں."ہم نے باؤنڈری کمیشن کے وقت کیا کیا کام کیا.باؤنڈری کمیشن کا کام ایک نادر چیز ہے.ہندوؤں کو بھی اس کے قواعد معلوم نہیں تھے اور نہ تازہ لٹریچر دستیاب ہو سکتا تھا میں نے فورا سینکڑوں روپیہ خرچ کر کے امریکہ اور برطانیہ سے تازہ لٹریچر منگوایا اور پھر ایک ماہر کو جو سکول آف اکنامکس کے پروفیسر تھے منگوایا اور کئی ہزار روپیہ خرچ کر کے ان کی مدد سے نقشے تیار کئے اور لیگ کو دیئے.مجھے تعجب ہے کہ حکومت کے افسر ہماری خدمات کو بھول گئے اور ان لوگوں کو منہ لگا لیا جو تقسیم سے پہلے یہ کہتے تھے کہ ہم پاکستان کی پ بھی نہیں بننے دیں گے." (الفضل ۲.جنوری ۱۹۵۱ء) حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ المسیح الثالث کے مندرجہ ذیل بیان سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ہر احمد ہی اس قومی اہمیت کے مشن کیلئے ہم تن وقف ہو رہا تھا.ے ۱۹۴ء میں جب باؤنڈری کمیشن بیٹھا تو اس کمیشن کے سامنے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے دجل کیا گیا.ہندوؤں نے یہ دجل کیا کہ انہوں نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے یہ بات پیش کر دی کہ گو ضلع گورداسپور کی مجموعی آبادی میں مسلمان زیادہ ہیں لیکن ضلع کی بالغ آبادی میں اکثریت ہندوؤں کی ہے اور چونکہ ووٹ بالغ آبادی نے دینا ہے اس لئے یہ ضلع بھارت میں شامل ہونا چاہئے.ہم جب وہاں سے واپس آئے تو ہم سب بہت پریشان تھے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالا کہ اگر ہمیں
۲۸۵ ۱۹۳۵ء کی سنسز رپورٹ Census Report مل جائے کہ اس وقت تک سب سے آخر میں ۱۹۳۵ء میں ہی سنسز Census ہوئی تھی اور ایک کلکولیٹنگ مشین (Calculating Machine) مل جائے جو جلد جلد ضرب اور تقسیم کرتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے راتوں رات ایک ایسا نقشہ تیار کر سکتا ہوں کہ اس سے ضلع گورداسپور کی بالغ آبادی کی صحیح تعداد منسز ( Census) کے اصول کے مطابق معلوم ہو جائے گی.سنسز کے متعلق انہوں نے بعض اصول مقرر کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے عمر کے لحاظ سے گروپ بنائے ہوئے ہیں اور ہر گروپ کی وفات کی فیصد انہوں نے مقرر کی ہوئی ہے.وہ تو ایک سال کی عمر سے شروع کرتے ہیں.لیکن ہم نے ایسی عمر سے یہ کام شروع کرنا تھا کہ انہیں ۱۹۴۷ء میں بلوغت تک پہنچادیں.مثلا انہوں نے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ تین سال کی عمر کے بچے چار سال کی عمر کے ہونے تک سو میں سے پچانوے رہ جائیں گے.پھر چار سال سے پانچ سال کی عمر ہونے تک وہ سو میں سے اٹھانوے رہ جائیں گے.پھر انہوں نے بعض اسی قسم کے اصول وضع کئے ہوئے ہیں اور ہمیں ہر گروپ کو ضربیں اور تقسیمیں دے کر ہندوؤں اور مسلمانوں کی علیحدہ علیحدہ تعداد نکالنی تھی اور وہ تعداد معلوم کرنی تھی جو ۷ ۱۹۴ء میں بالغ ہو چکی تھی اور جو پہلے بالغ تھے ان کی تعداد تو پہلے ہی دی ہوئی تھی.میں نے حضرت فضل عمر کی خدمت میں عرض کیا تو حضور نے فورا مناسب انتظام کر دیا.راتوں رات مجھے شاید پچاس ہزار یا ایک لاکھ ضربین دینی پڑیں اور تقسیمیں کرنی پڑیں.لیکن بہر حال ایک نقشہ تیار ہو گیا اور اس نقشہ کے مطابق ضلع گورداسپور مسلم بالغ آبادی کی فیصد مجموعی لحاظ سے کچھ زائد تھی کم نہیں تھی.اگلے دن صبح جب مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے یہ حساب پیش کیا تو ہندو بہت گھبرائے کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو حساب کا ماہر سمجھتے تھے.اور انہیں خیال تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا." (الفضل ۶.نومبر ۱۹۶۹ء) اس جگہ ضمنا یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کمیشن کے سامنے جماعت احمدیہ نے اپنا الگ میمورنڈم کیوں پیش کیا اس سلسلہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ کانگریس نے اپنا موقف مضبوط کرنے کیلئے سکھوں وغیرہ کے الگ میمورنڈم پیش کئے تو مسلم لیگ نے بالمقابل اپنا موقف مضبوط کرنے کیلئے جماعت احمدیہ کو میمورنڈم پیش کرنے کیلئے کہا اس طرح مسلم لیگ کے کیس کے ساتھ مسلم لیگ کے
۲۸۶ ایماء پر ہی جماعتی میمورنڈم پیش کیا گیا.یہ میمورنڈم حضور کی ذاتی نگرانی میں جماعت کے وکلاء نے تیار کیا اور حضور کی معیت میں کمیشن کے مسلم ممبران کو پیش کرنے سے پہلے دکھایا گیا اور انہوں نے لفظا لفظا پڑھ کر یہ تسلی کرلی کہ اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو مسلم لیگ کے موقف کو کمزور کرنے والی ہو اس کے بعد یہ میمورنڈم پیش کیا گیا.یہ میمورنڈم تاریخ کا حصہ ہے اور جماعت کے ریکارڈ میں ہی نہیں سرکاری ریکارڈ میں بھی موجود ہے اس کے مطالعہ سے بھی یہی امر ثابت ہو گا کہ یہ میمورنڈم گورداسپور کو پاکستان میں شامل کرنے کے دلائل پیش کرنے کیلئے کیا گیا تھا نہ کہ اس کے برعکس.تحریک آزادی کے عروج کے زمانہ میں حضور بعض نہایت ضروری امور کی یادگار سفرد هلی نگرانی اور سرانجام دہی کیلئے دہلی تشریف لے گئے.اپنے اس اہم سفر کی غرض و غایت اور مقاصد بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.میں نے دہلی کا سفر کیوں کیا.اس کی وجہ در حقیقت وہ خوابیں تھیں جو الفضل میں چھپ چکی ہیں.ان خوابوں سے مجھے معلوم ہوا کہ اس مسئلہ کے حل کو اللہ تعالیٰ نے کچھ میرے ساتھ بھی وابستہ کیا ہوا ہے.تب میں نے اس خیال سے کہ جب میرے ساتھ بھی اس کا کچھ تعلق ہے تو مجھے سوچنا چاہیئے کہ میں کس رنگ میں کام کر سکتا ہوں.اس مسئلہ پر غور کیا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ممکن ہے برطانوی حکومت اس غلطی میں مبتلا ہو کہ اگر مسلم لیگ کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو مسلمان قوم بحیثیت مجموعی ہمارے خلاف نہیں ہوگی بلکہ ایسے مسلمان جو لیگ میں شامل نہیں اور ایسی جماعتیں جو لیگ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں ان کو ملا کر وہ ایک منظم حکومت ہندوستان میں قائم کر سکے گی.اس خیال کے آنے پر میں نے مزید سوچا اور فیصلہ کیا کہ ایسے لوگ جو لیگ میں شامل نہیں یا ایسے لوگ جنہیں تعصب کی وجہ سے لیگ والے اپنے اندر شامل کرنا پسند نہیں کرتے.ان دونوں قسم کے لوگوں کو چاہئے کہ آپس میں مل جائیں اور مل کر گورنمنٹ پر یہ واضح کر دیں کہ خواہ ہم لیگ میں نہیں لیکن اگر لیگ کے ساتھ حکومت کا ٹکراؤ ہوا تو ہم اس کو مسلمان قوم کے ساتھ ٹکراؤ سمجھیں گے اور جو جنگ ہوگی اس میں ہم بھی لیگ کے ساتھ شامل ہوں گے.یہ سوچ کر میں نے چاہا کہ ایسے لوگ جو اثر رکھنے والے ہوں خواہ اپنی ذاتی حیثیت کی وجہ سے اور خواہ قومی حیثیت کی وجہ سے ان کو جمع
۲۸۷ کیا جائے." دو سرے میں نے مناسب سمجھا کہ کانگریس پر بھی اس حقیقت کو واضح کر دیا جائے کہ وہ اس غلطی میں مبتلا نہ رہے کہ مسلمانوں کو پھاڑ پھاڑ کر وہ ہندوستان پر حکومت کر سکے گی.اس طرح نیشنلسٹ خیالات رکھنے والوں پر یہ واضح کر دیا جائے کہ وہ کانگریس کے ایسے حصوں کو سنبھال کر رکھیں اور ان کے جوشوں کو دبا ئیں.جن کا یہ خیال ہو کہ وہ مسلمانوں کو دبا کر یا ان کو آپس میں پھاڑ پھاڑ کر حکومت کر سکتے ہیں.یہ سوچ کر میں نے ایک تار نواب صاحب چھتاری کو دیا وہ بھی لیگ میں شامل نہیں لیکن مسلمانوں میں بہت اثر ورسوخ رکھنے والے آدمی ہیں.یو.پی کے گورنر رہ چکے ہیں اور اب حکومت آصفیہ کے وزیر اعظم کے عہدہ سے واپس آئے ہیں.اس تار کا جواب آنے پر میں نے انہیں لکھا کہ میرا اب ایسا ارادہ ہے کیا آپ اس میں شریک ہو سکتے ہیں......" دو سرا فائدہ اس کا یہ بھی ہو گا کہ دہلی میں ہمیں تازہ بتازہ خبریں ملتی رہیں گی اور اگر حالات بگڑتے ہوئے معلوم ہوئے تو ہم فور ادعا کر سکیں گے.قادیان میں تو ممکن ہے کہ ہمیں ایسے وقت میں خبر ملے جب واقعات گزر چکے ہوں اور دعا کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہو.نیز مجھے یہ بھی خیال آیا کہ بعض اور بار سوخ لوگوں کو بھی اس تحریک میں شامل کرنا چاہئے.جیسے سر آغا خان ہیں.گو سر آغا خان ہندوستان میں نہیں تھے.مگر میں نے سمجھا کہ چونکہ ان کی جماعت بھی مسلمان کہلاتی ہے اگر ان کو بھی شریک ہونے کا موقع مل جائے تو گورنمنٹ پر یہ امر واضح ہو جائے گا کہ مسلمانوں کی ایک اور جماعت بھی ایسی ہے جو اس بارے میں مسلم لیگ کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے.چنانچہ لندن مشنری کی معرفت میں نے سر آغا خان کو بھی تار بھجوا دیا اس دوران میں نے قادیان سے بعض نمائندے اس غرض کے لئے بھجوائے کہ وہ نواب صاحب چھتاری سے تفصیلی گفتگو کریں اور انہیں ہدایت کی کہ وہ لیگ کے نمائندوں سے بھی ملیں اور ان پر یہ امر واضح کر دیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ لیگ کے مقاصد کے خلاف کوئی کام کریں اگر یہ تحریک لیگ کے مخالف ہو تو ہمیں بتا دیا جائے ہم اس کو چھوڑنے کیلئے تیار ہیں اور اگر مخالف نہ ہو تو ہم شروع کر دیں.اس پر لیگ کے بعض نمائندوں نے تسلیم کیا کہ یہ
۲۸۸ تحریک ہمارے لئے مفید ہوگی بالکل باموقع ہوگی اور ہم یہ سمجھیں گے کہ اس ذریعہ سے ہماری مدد کی گئی ہے.ہمارے راستہ میں روڑے نہیں اٹکائے گئے.ہندوستان کے چوٹی کے لیڈروں سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:." غرض گاندھی جی پر میں نے یہ بات واضح کی اور انہیں کہا کہ آپ کو اس بارہ میں کچھ کرنا چاہئے اور صلح کی کوشش کرنی چاہئے گاندھی جی نے اس کا جو جواب دیا تھا وہ یہ تھا کہ یہ کام آپ ہی کر سکتے ہیں میں نہیں کر سکتا.میں تو صرف گاندھی ہوں یعنی میں تو صرف ایک فرد ہوں.آپ تو ایک جماعت کے لیڈر ہیں میں نے کہا میں تو صرف پانچ سات لاکھ کا لیڈر ہوں اور ہندوستان میں پانچ سات لاکھ آدمی کیا کر سکتا ہے مگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ جو کچھ کر سکتے ہیں آپ ہی کر سکتے ہیں میں نہیں کر سکتا.” جب میں نے دیکھا کہ گاندھی جی اس طرف نہیں آتے تو میں نے اس بات کو چھوڑ دیا اور پھر بھی انہیں دوسری نصیحتیں کرتا رہا جن کی خدا نے مجھے اس وقت توفیق عطا فرمائی.گاندھی جی کہتے تھے میں تو کچھ نہیں کر سکتا جو کچھ کر سکتے ہیں آپ ہی کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کر دیا اور میرے وہاں جانے کی وجہ سے جھگڑے کا تصفیہ ہوا اس کا یہ مطلب نہیں کہ تصفیہ میں نے کیا مگر کوشش ہم برابر کر رہے تھے.مگر سوال یہ ہے کہ پہلے چار پانچ دفعہ صلح کی کوشش ہو چکی تھی.گورنمنٹ نے بھی زور لگایا مگر اس معاملہ کا کوئی تصفیہ نہ ہوا.آخر میرے وہاں ہونے اور دعائیں کرنے سے نہ معلوم کون سے دنوں کی کنجیاں کھول دی گئیں کہ میرے وہاں جانے سے وہ کام جو پہلے بار بار کوششوں کے باوجود نہیں ہوا تھا ہو گیا اور گاندھی جی کا یہ فقرہ درست ثابت ہوا کہ میں تو یہ کام نہیں کر سکتا آپ ہی کر سکتے ہیں.چنانچہ پنڈت نہرو صاحب نے یہی کہا کہ اس معاملہ میں گاندھی جی سے ہمارا کیا تعلق یہ گاندھی جی کا اپنا فیصلہ ہے.ہمارا فیصلہ نہیں.میرے نزدیک گاندھی جی نے محض بات کو ملانے کی کوشش کی تھی اور ان کا مطلب یہ تھا کہ میں اس تحریک میں حصہ بینا ضروری نہیں سمجھتا حالانکہ وہاں محض ہندوؤں اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے کہا گیا ورنہ وزارتوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں.کانسٹی ٹیوٹ میں ہمارا کوئی حصہ نہیں.اگر ہم دو تین ضلعوں میں اکٹھے ہوں تو یقینا ہم اپنے نمائندے زور سے بھیج سکتے ہیں.لیکن
۲۸۹ مشکل یہ کہ ہم سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے دسویں حصہ کے برابر بھی اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکتے.بس میں وہاں اپنے لئے نہیں گیا تھا بلکہ اس لئے گیا تھا کہ وہ ہزاروں ہزار ہند و جو مختلف علاقوں میں مارا جا رہا ہے ان کی جان بچ جائے نہ وہ میرے رشتہ دار ہیں نہ واقف ہیں نہ دوست ہیں کوئی بھی تو ان کا میرے ساتھ تعلق نہیں سوائے اس تعلق کے کہ میرے پیدا کرنے والے خدا نے ان کو بھی پیدا کیا ہے اور میرا فرض ہے کہ میں ان کی جانوں کی حفاظت کروں صرف اس دکھ اور درد کی وجہ سے میں وہاں گیا اور صرف اس دکھ اور درد کی وجہ سے میں نے ان کوششوں میں حصہ لیا.مگر مجھے افسوس ہے گاندھی جی نے میرے اخلاص کی قدر نہ کی اور انہوں نے کہہ دیا کہ میری بات کون مانتا ہے میں تو صرف گاندھی ہوں انہوں نے یہ فقرہ محض ٹالنے کے لئے کہا تھا مگر خدا تعالٰی نے واقع میں ایسا کر دکھایا اور پنڈت نہرو نے گفتگو کرنے والوں سے صاف کہہ دیا کہ یہ ہمارا فیصلہ نہیں.گاندھی جی کا فیصلہ ہے اور ہم گاندھی جی کا یہ فیصلہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں.”جب حالات یہ رنگ اختیار کر گئے تو مسٹر جناح نے نہایت ہوشیاری اور عظمندی سے کام لیتے ہوئے وائسرائے کو لکھ دیا کہ کانگریس سے تو ہمارا فیصلہ نہیں ہو سکا لیکن ہم آپ کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے حکومت میں شامل ہوتے ہیں.اس طرح کام بھی ہو گیا اور بات بھی بن گئی اور مسٹر گاندھی اس معاملہ میں خالی گاندھی بن کر رہ گئے.ہمارا دھلی سے جمعہ کو چلنے کا ارادہ تھا.مگر بدھ کے دن ہمیں معلوم ہوا کہ مصالحت کی گفتگو میں خرابی پیدا ہو رہی ہے.چونکہ ہمارے تعلقات تمام لوگوں کے ساتھ تھے اس لئے قبل از وقت ہمیں حالات کا علم ہو جا تا تھا جب مجھے معلوم ہوا کہ کام بگڑ رہا ہے تو میں نے دوستوں کو بلایا اور ان سے مشورہ لیا اور انہیں کہا کہ ہم اتنی مدت یہاں رہے ہیں اب ہمیں اتوار تک اور ٹھہر جانا چاہئے.پہلے تو اتوار تک ٹھہرنے کا ارادہ تھا لیکن معلوم ہوا کہ اتوار کو گاڑی ریزو نہیں ہو سکتی اس لئے ہم نے پیر کے دن چلنے کا فیصلہ کیا اور عین پیر کے دن صبح کے وقت فیصلہ ہو گیا اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اس جھگڑے کو نپٹا کر گھر واپس آئے.الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۴۶ء) دہلی کے اس تاریخی سفر کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا :.
۲۹۰ اس کے بعد میں دہلی گیا اور مسلمانوں کی پریشانی کو دور کرنے کے لئے ہم جو کوشش کر سکتے تھے ہم نے کی.ہم نے انتہائی کوشش کی کہ مسلم لیگ کسی طرح عارضی حکومت میں آجائے ہم نے دعاؤں کے ذریعہ تدبیروں کے ذریعہ کوششوں کے ذریعہ اس کام کو سرانجام دینے کے لئے سعی کی گو کانگریس یہ نہیں چاہتی تھی کہ مسلم لیگ عارضی حکومت میں آئے لیکن اللہ تعالی نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ مسلم لیگ عارضی حکومت میں داخل ہو گئی اور کانگریس پر ان کا اندر آنا گراں گزرنے لگا اور انہوں نے ایسی کارروائیاں شروع کیں کہ آزادی کے خیال خواب بننے لگے.آخر وہی جو میں نے کہا تھا پنڈت نہرو کو میرٹھ کے اجلاس میں کہنا پڑا.انہوں نے کہا ہم یہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں نے ہمیں آزادی دے دی ہے.اور جو آزادی ہمیں ملنی چاہئے تھی وہ مل گئی ہے اور لارڈ ویول ہمارے ساتھ اس طرح کام کرتے رہے کہ ہمیں ان کے متعلق حسن ظن تھا لیکن اب آہستہ آہستہ جب سے مسلم لیگ حکومت میں آگئی ہے پہلے جیسے حالات نہیں رہے اور مسلم لیگ اور انگریزوں میں کوئی سازش معلوم ہوتی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انگریز آہستہ آہستہ آزادی دینے سے بچ رہے ہیں اور انگریزوں کے ارادے اب بدلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب ہمیں آزادی دینے کو تیار نہیں اور مسلم لیگ ان کے پنجہ کو مضبوط کر رہی ہے.اب دیکھو کیسنی وضاحت کے ساتھ پنڈت نہرو نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اب انگریز اپنے ہاتھ کو پہلے کی نسبت مضبوط کر رہے ہیں".(الفضل ۶ - دسمبر ۱۹۴۶ء) ان حالات کو جانے والے بخوبی جانتے ہیں کہ قائد اعظم عارضی حکومت میں شمولیت سے انکار کر چکے تھے.قائد اعظم کی اصول پسندی اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی طبیعت اور عادت کی وجہ سے بظاہر یہ بات نا ممکن نظر آتی تھی کہ وہ اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کریں تاہم اللہ کے ایک بندے کی دعاؤں ، تدبیروں اور کوششوں سے یہ بات ہو کر رہی اور قائد اعظم نے عبوری حکومت میں شامل ہو کر کانگریس انگریز گٹھ جوڑ اور اس کے بداثرات سے مسلمانوں کو بچالیا اور قیام پاکستان کی بنیادی اینٹ نہایت مضبوطی سے رکھ دی گئی.یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کے اس اقدام کو ہندو پریس نے کانگریس کی مسلسل لمبی کوشش سے تعمیر کردہ عمارت کو گرانے سے تعبیر کیا.پر تاپ بحوالہ نوائے وقت ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۶ء)
۲۹۱ کا قیام.استحکام پاکستان خدا تعالیٰ کے فضل سے تاریخ عالم کا ایک نادر اور غیر معمولی واقعہ.مملکت اسلامیہ پاکستان عمل میں آگیا.حضور نے ملی مفاد کے اس مقصد کی خاطر دن رات جد وجہد اور محنت کی تھی ، اس کیلئے قربانیاں دی تھیں، دعائیں کی تھیں وہ مقصد حاصل ہو گیا تو آپ اس نوزائیدہ مملکت کی نشوونما اور پرورش کے لئے ایک دور اندیش مد برو راہنما ہی نہیں ایک باپ کی شفقت اور ماں کی مامتا کے جذبات کے ساتھ بغیر کسی توقف کے سرگرم عمل ہو گئے.آپ نے اپنے مخصوص ولولہ انگیز انداز میں فرمایا.اگر خدا تعالی چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگلوں میں رہنا چاہئے اور اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے.ہم چوہوں اور چیونٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں ، شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو انسان ان کا تیار کیا ہوا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہتی ہیں اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے مر جائیں.اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں خدا تعالیٰ نے تمہیں رکھا ہے تمہیں اس میں فورا کام شروع کر دینا چاہئے.اگر خدا تعالیٰ تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جا کر کام شروع کر دو لیکن کسی منٹ میں اپنے کام کو پیچھے نہ ڈالو.مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے موت آجاتی ہے گویا مومن کے لئے کام ختم کرنے کا وقت موت ہی ہوتی ہے." ( مشعل راه صفحه ۷۳۸) حضور کی یہ خدمت ہمیشہ تاریخ پاکستان میں ایک یاد گار کی حیثیت سے قائم رہے گی کہ آپ نے استحکام پاکستان کے موضوع پر لاہور کے منتخب معززین کے سامنے چھ خطاب فرمائے جن میں ! نهایت باریک بینی، فراست اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے وہ تمام ضروری امور بیان فرمائے
۲۹۲ جن کی مملکت پاکستان کے استحکام کیلئے ضرورت تھی.حضور کی ان تقاریر پر اب کم و بیش نصف صدی گزر چکی ہے تاہم ان کی اہمیت و افادیت آج بھی جب کہ انگریزی محاورے کے مطابق بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے نکل چکا ہے اور بعض نادان دوستوں کی ” مہربانی " سے پاکستان کا جغرافیہ تبدیل اور نقشہ سکڑ کر آدھا ہو چکا ہے ہر صاحب عقل و دانش اس بات سے اتفاق کرے گا کہ اگر ان باتوں پر اس طرح درد اور خلوص سے عمل کیا جاتا جس طرح وہ پیش کی گئیں تھیں تو یقینا آج پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ایک قابل احترام مقام پر ہو تا.حضور کے ابتدائی پانچ خطاب مینارڈ کالج ہال میں اور آخری پنجاب یونیورسٹی ہال میں ہوا.ان جلسوں کی صدارت مندرجہ ذیل اہم شخصیات نے کی.جسٹس محمد منیر صاحب (بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوئے) ملک فیروز خان نون (بعد میں وزیر اعظم پاکستان) ۳.ملک عمر حیات صاحب پر نسپل اسلامیہ کالج لاہو روائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی -۴ میاں فضل حسین مشہور مسلم رہنما ۵- جناب سر عبد القادر صاحب مشہور مسلم مؤرخ و دانشور حضور کی پہلی دو تقاریر کا خلاصہ حضور کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہے.ملک کی حفاظت اور اس کی ترقی کے لئے سوختنی اور تعمیری لکڑی کا وجود نهایت ضروری ہے.سوختنی لکڑی کو گلے کا بھی کام دے سکتی ہے.پرانے زمانہ کے تمام بڑے شہروں کے اردگرد سوختنی لکڑی کے رکھ بنائے جاتے تھے جہاں سے شہروں کو لکڑی مہیا کی جاتی تھی اور قصبات میں زمینداروں کے ذمہ لگایا جاتا تھا کہ وہ درخت لگائیں اور انہیں چھوٹے درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی تاکہ لکڑی ضائع نہ ہو.ہر گاؤں میں اتنے درخت ہوئے جاتے تھے کہ اس گاؤں کی سوختنی اور تعمیری ضرورتیں ان سے پوری ہو سکتی تھیں.انگریز چونکہ ایک صنعتی ملک کے رہنے والے ہیں ان کی حکومت کے زمانہ میں دیہات کی اقتصادی اور تمدنی حالت کی طرف توجہ کم ہو گئی اور شہروں کی طرف توجہ بڑھ گئی اس لئے پر انا نظام قائم نہ رہ سکا اور درخت کٹتے کٹتے گاؤں ننگے ہوئے اور مسلمان بھی ہندوؤں کی نقل میں جانور کا گو بر چولہوں میں جلانے لگے حالانکہ گوبر کا جلانا صفائی کے لحاظ سے بھی اور زراعتی لحاظ سے بھی نہایت مضر ہے.بائیبل میں
۲۹۳ یہودیوں کی سزا کے متعلق آتا ہے کہ تم انسان کے پاخانہ سے روٹی پکا کر کھاؤ گے.حز قیل باب ۴ آیت (۱۲) گو یہاں انسانی پاخانہ کا ذکر ہے مگر جانور کا پاخانہ بھی تو گندی شئے ہے خواہ نسبتا کم ہو اور اس سے روٹی پکانی بھی یقینا ایک سزا ہے.اس حوالہ کے مطابق گوبر کا چولہوں میں استعمال خدائی سزا اور قوم کی ذلت کی علامت ہے.پس مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہئے تھا.مگر دیہاتی اقتصادی حالت کے خراب ہونے کی وجہ سے وہ بھی مجبور ہو کر ہندوؤں کے پیچھے چل پڑے جو گائے کے گوبر کو متبرک خیال کرتے ہیں اور اسے چولہے میں جلانا تو الگ رہا کھانے کی چیزوں میں ملانے سے بھی دریغ نہیں کرتے.پاکستانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایسا انتظام کرے کہ سوختنی لکڑی کثرت سے تمام دیہات اور قصبات میں مل سکے اتنی کثرت سے کہ زمینداروں کو جلانے کیلئے اوپلوں کی ضرورت پیش نہ آئے.میرے نزدیک پاکستانی حکومت کو پانچ پانچ چھ چھ گاؤں کا ایک یونٹ بنا کر ان کی ایک پنچائت بنا دینی چاہئے جو اقتصادی اور صحت انسانی کے قیام کی ضرورتوں کے مہیا کرنے کی ذمہ دار ہو.ان گاؤں کے درمیان میں ایک حصہ درختوں کے لگانے کے لئے مخصوص کر دیا جائے.یہ درخت تعمیری کاموں کے لئے مخصوص ہوں.اس کے علاوہ ہر گاؤں میں چراگاہوں کی حفاظت ان کے سپرد ہو.جہاں چراگاہیں ہیں وہ ان پنچائتوں کے سپرد کی جائیں اور جہاں نہیں ہیں حکومت خود چراگاہیں بنا کر ان پنچائتوں کے سپرد کرے اور ہر گاؤں میں حکومت اتنے درخت سوختنی لکڑی کے لگوائے جو اس گاؤں کی ضرورت کو پورا کر سکیں اور ان پنچائتوں کا فرض ہو کہ وہ دیکھتی رہیں کہ ہر گاؤں مقررہ تعداد درخت کی لگاتا رہتا ہے.اگر یہ انتظام جاری کیا جائے تو یقینا سوختنی لکڑی کا سوال حل ہو جائے گا اور گو بر کھاد کے لئے بچ جائے گا جس سے ملک کی زراعت کو بھی فائدہ پہنچے گا.ہر ایسے قصبہ کے لئے جس کی آبادی دس ہزار سے زیادہ ہو قصبہ سے کچھ فاصلہ پر ڈسٹرکٹ بورڈوں کی نگرانی میں سوختنی لکڑی کی رکھیں بنوانی چاہئیں بلکہ میرے نزدیک تو جس طرح ڈسٹرکٹ بورڈ مقرر ہیں اسی طرح ہر ضلع میں اس کی میونسل کمیٹیوں کا ایک مشترکہ بورڈ ہونا چاہئے جس کے سپرد اس قسم کے رفاہ عام کے کاموں کی نگرانی ہو.اس طرح میونسپل کمیٹیوں کے کاموں میں ہم آہنگی بھی پیدا ہو جائے گی اور باہمی تعاون سے ترقی کے نئے راستے بھی نکلتے رہیں
۲۹۴ گے.پچاس ہزار سے اوپر کے جو شہر ہوں ان کے لئے سوختنی لکڑی سے رکھ بنانا صوبہ داری حکومت کا فرض ہو.ان شہروں کے لئے شہر کے ایسی طرف زمین حاصل کر کے جس طرف شہر کے بڑھاؤ کا رخ نہ ہو دو تین میل فاصلہ پر سوختنی لکڑی کی رکھیں بنادینی چاہئیں جہاں سے شہر میں لکڑی سپلائی ہوتی رہے.پچاس ہزار آدمی کی آبادی یا اس سے زیادہ کے شہروں کے لئے جتنی سوختنی لکڑی کی ضرورت ہوتی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایک اقتصادی یونٹ ہوگا اور حکومت کو اس انتظام میں کوئی مالی نقصان نہیں ہو گا بلکہ نفع ہی ہو گا.اس انتظام کے علاوہ مرکزی حکومت کے انتظام کے ماتحت بعض بڑے بڑے رکھ بنانے چاہئیں تا ضرورت کے موقع پر ملک کو سوختنی لکڑی مہیا کی جاسکے اور اگر کسی وقت کوئلہ میں کمی ہو تو کار خانے اس لکڑی کے ذریعہ سے چلائے جا سکیں.دو سرے ڈسٹر کٹو ڈسٹیلیشن (Distructive Distellation) کے ذریعہ بہت سارے کیمیاوی اجزاء ملک کے استعمال اور دساور کیلئے پیدا کئے جا سکتے ہیں.ڈسٹر کٹو ڈسٹیلیشن زیادہ تر سخت لکڑی سے کیا جاتا ہے جیسے کیکر ، شیشم ، چھلاہی وغیرہ.اس ذریعہ سے سپرٹ بھی پیدا کیا جا سکتا ہے جو جنگی ضرورتوں کے بھی کام آئے گا اور کئی کیمیاوی کارخانوں میں استعمال ہو گا اس کے علاوہ ایسی ٹون اسٹک ایسڈ اور فار سبلڈی ہائیڈ بھی اس سے بنائے جا سکتے ہیں.اول الذکر بارود کے بنانے میں کام آتا ہے.اور آخر الذکر پلاسٹک کے بنانے میں کام آتا ہے.شیشم اور کیکر کے درخت بہت حد تک تعمیری ضرورتوں کو بھی پورا کر سکتے ہیں.آج کل تعمیری ضرورتوں کے لئے زیادہ تر دیو دار کی قسم کی لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں جیسے دیار کیل ، پڑمل اور چیل یہ لکڑیاں پہاڑوں پر ہوتی ہیں.پہلے کشمیر، چنبہ اور مہنڈی سے یہ مہیا کی جاتی تھیں.ریلوں کی لا ئنین بنانے میں یہی لکڑی کام دیتی تھی کیونکہ ریل پر بچھائی جانے والی شہتیریاں ہر وقت ننگی رہتی ہیں اور ان پر بارش کا پانی پڑتا ہے.عام لکڑی زیادہ دیر تک گیلی رہنے سے خراب ہو جاتی ہے دیار کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ گیلے ہونے سے خراب نہیں ہوتی.ان لکڑیوں کو بعض ادویہ سے اس قابل بنایا جاتا ہے کہ ان کو کیڑا نہ لگ سکے اور پھر ریل کی پٹری پر استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح اچھی عمارتوں کی تعمیر میں بھی یہ کام آتی ہے.یہ لکڑی چنبہ اور مہنڈی کے ہندوستان میں چلے جانے کی وجہ سے اور کشمیر کی
۲۹۵ حالت مشتبہ ہو جانے کی وجہ سے اب پاکستان کو نہیں مل سکے گی.صرف مری اور ہزارہ سے کچھ لکڑی پاکستان کو مل سکے گی مگر وہ اس کی ضرورتوں کے لئے کافی نہیں.اس لکڑی کے مہیا کرنے کے لئے پاکستان کو کچھ اور علاقے تلاش کرنے ہوں گے.پاکستان کے ملحقہ علاقوں میں سے چترال اور بالائے سوات کے علاقہ میں یہ لکڑیاں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں اور بعض بعض حصوں میں تو ہزار ہزار سال کے پرانے درخت پائے جاتے ہیں جن کی قیمت عمارتی لحاظ سے بہت ہی زیادہ ہوتی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ان علاقوں سے لکڑی پاکستان میں پہنچائی نہیں جا سکتی.چترال سے صرف ایک دریائی راستہ پاکستان کی طرف آتا ہے اور وہ حکومت کابل میں سے گذرتا ہے.اس کے سوا کوئی دریائی راستہ نہیں.خشکی کے راستے ان لکڑیوں کا پہنچانا بالکل ناممکن ہے.دریائے کابل کے ذریعہ سے اس لکڑی کے لانے میں بہت سی سیاسی اور اقتصادی دقتیں ہوں گی.اگر ریاست کابل اجازت بھی دے دے تو لکڑی کا محفوظ پہنچنا نہایت ہی دشوار ہو گا.اسی طرح بالائے سوات کی لکڑی کا پہنچنا اور بھی زیادہ مشکل ہے.مگر بہر حال فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو کچھ معاہدوں کے ذریعہ سے اس وقت کو دور کرنا چاہئے اور ساتھ ہی اس بات کی سروے کرانی چاہئے کہ کچھ پہاڑی کو ملا کر کیا کوئی ایسا نالا نہیں نکالا جا سکتا جو کہ چترال اور بالائے سوات سے براہ راست پاکستان میں داخل کیا جا سکے.اگر ایسا ہو سکے تو یہ ضرورت پوری ہو جائے گی.لیکن اس کے علاوہ جنگلات کے ماہروں کو اس بات کے لئے ہدایت ملنی چاہئے کہ وہ درختوں کی مختلف اقسام پر غور کر کے ایسی اقسام معلوم کریں جو پاکستان کی آب و ہوا میں اگائے جاسکیں اور عمارتوں کی تعمیر اور جہازوں کی ساخت اور ریلوں کی پٹریاں بنانے کے کام میں استعمال کئے جا سکیں.لکڑی کی ایک قسم بہت ہی نرم ہوتی ہے.ان لکڑیوں سے دیا سلائی کی نرم لکڑی تیلیاں بنائی جاتی ہیں.اس وقت تک یہ لکڑیاں انڈیمان اور نکو بار سے ہیں.یہ نکوبار آتی تھیں.مگر دریافت سے معلوم ہوا ہے کہ بلوچستان میں بھی ایک اس قسم کا درخت پایا جاتا ہے جس کی لکڑی سے دیا سلائی کی تیلیاں بن سکتی ہیں اور یہ درخت اتنی مقدار میں پائے جاتے ہیں کہ اگر ان سے دیا سلائی کی تیلیاں بنائی جائیں تو نہ صرف پاکستان بلکہ سارے ہندوستان کی ضرورتیں اس سے پوری ہو سکتی ہیں.ضرورت ہے کہ ایسا
۲۹۶ کارخانہ بنایا جائے جو بلوچستان میں یہ تیلیاں بنا کر دیا سلائی کے کارخانوں کے پاس فروخت کرے.اور یہ صنعت جس کی سب سے بڑی مشکل ان تیلیوں کا مہیا ہونا ہے پاکستان میں فروغ پاسکے.لکڑی کی کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں فور پلاسٹک کے کار خانے جاری کرنے کی کوشش کرنی چاہئے مگر چونکہ یہ سوال میری تقریر کے زراعتی حصہ کے ساتھ متعلق ہے میں اس کا ذکر آگے چل کر کروں گا.ہیں.نباتی دولت کا ایک بڑا جزو جڑی بوٹیاں بھی ہوتی ہیں.شمالی (علاقہ کی) جڑی بوٹیاں جڑی بوٹیاں کشمیر، چنبہ ، چترال صوبہ سرحد اور بلوچستان میں ملتی کشمیر کا سوال مشتبہ ہے اور چنبہ قطعی طور پر انڈین یونین میں شامل ہو چکا ہے اس لئے پاکستان میں جڑی بوٹیاں چترال صوبہ سرحد اور بلوچستان میں سے جمع کی جاسکتی ہیں اور پاکستان کی خوش قسمتی سے ان تینوں علاقوں میں کافی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں بلکہ بعض جڑی بوٹیاں ایسی نادر ہیں کہ دنیا کے بعض دوسرے حصوں میں نہیں ملتیں.بلوچستان کی جڑی بوٹیوں کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ ان میں الکلائیڈ جو کہ دواؤں کا فعال جزو ہوتا ہے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں بارشیں کم ہوتی ہیں.جڑی بوٹیوں سے بہت سی ادویہ اور کیمیاوی اجزاء تیار کئے جاتے ہیں.ابھی تک ہندوستان کی جڑی بوٹیاں کامل سائنٹفک تحقیقات سے محروم ہیں اور ہزاروں ہزار مفید ادویہ اور کیمیاوی اجزاء ان میں مخفی پڑے ہوئے ہیں.یورپ کے لوگ قدرتی طور پر ان ادویہ کی تحقیق کرتے ہیں جو ان کے ملکوں کی جڑی بوٹیوں سے بنائی جاسکتی ہیں یا جو آسانی سے ان کے قبضہ میں آسکتی ہیں تاکہ ان کا تجارتی نفع انہیں کو ملے.اب پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اس کے لئے موقع ہے کہ اپنی نباتی دولت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے.اگر ایک محکمہ بنا دیا جائے جو جڑی بوٹیوں کے الکلائیڈ اور دوسرے کیمیاوی اجزاء دریافت کرے تو تھوڑے ہی عرصہ میں بیسیوں کئی دوائیں پاکستان میں ایجاد ہو جائیں گی جو دنیا کی ساری منڈیوں میں اچھی قیمت پر بک سکیں گی.حکیم اجمل خان صاحب مرحوم کو اس کا خیال آیا تھا اور انہوں نے طبیہ کالج دہلی کے ساتھ ایک چھوٹی سی لیبارٹری اس کام کے لئے مقرر کر دی تھی.مشہور ہندوستانی سائنس دان چوہدری صدیق الزمان صاحب اس کے انچارج مقرر
۲۹۷ کئے گئے تھے اور انہوں نے بنگال کی مشہور بوٹی چھوٹی چندن پر تجربات کر کے اس کا الکلائیڈ معلوم کر لیا تھا.اب چوہدری صدیق الزمان صاحب حکومت پاکستان میں آگئے ہیں ان کے مشورہ سے یا ان کی نگرانی میں اس قسم کا محکمہ پھر کھولا جاسکتا ہے.شاید ایک لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ کے خرچ سے ابتدائی لیبارٹری قائم کی جاسکتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس سے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ کا نفع حاصل ہونے کی امید پیدا ہو سکتی ہے.بعض جڑی بوٹیاں طبی طور پر اتنی مفید ہیں کہ انگریزی دوائیں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان کے استعمال کا طریق ایسا ہے کہ آج کل کے نزاکت پسند لوگ اس کی برداشت نہیں کر سکتے اگر الکلائیڈ اور دوسرے فعال اجزاء نکال لئے جائیں یا ایکسٹریکٹ بنائے جائیں تو یقینا نہ صرف طب میں ایک مفید اضافہ ہو گا بلکہ پاکستان کی دولت میں بھی ایک عظیم اضافہ ہو گا.ادویہ کے علاوہ جڑی بوٹیوں میں بعض اور کیمیاوی اجزاء بھی ہیں جو مختلف صنعتوں میں بڑا کام آ سکتے ہیں.چنانچہ بہت سی بوٹیوں کے نغدوں سے کشتے بنائے جاتے ہیں.آخر ان کے اندر ایسے اجزاء ہیں جو کہ دھاتوں کو تحلیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.اگر ان کو الگ کر لیا جائے تو نہ صرف کشتے بنانے آسان ہو جائیں گے بلکہ اور کئی قسم کی صنعتیں جاری کرنے کا امکان پیدا ہو جائے گا." الفضل ۹.دسمبر۷ ۱۹۴ء صفحہ ۶.۷) اس زمانہ کے ایک مشہور اخبار روزنامہ زمیندار نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا.امریکہ سے قرضہ لینا پاکستان کی آزادی کو خطرے میں ڈالنا ہے.پاکستان کی زراعت کو خطرہ فوری تدابیر کو عمل میں لانے کی اشد ضرورت.مرزا بشیر الدین امام جماعت احمدیہ کی تقریر.لاہور - - دسمبر - مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے کل شام مینارڈ ہال لاء کالج میں پاکستان اور اس کا مستقبل کے موضوع پر ایک عظیم اجتماع کے سامنے تقریر کرتے ہوئے پاکستان کی زراعت ، اقتصادیات اور معاشیات پر فصیح و بلیغ لیکچر دیا.ملک فیروز خان نون اس اجتماع کے صدر تھے.مرزا صاحب نے زراعت کے سلسلے میں ذرائع آب پاشی خصوصاً نہروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پچاس سال کے بعد نہروں کے خراب ہو جانے کے باعث پاکستان کی زراعت کو سخت خطرہ ہے اور اس خطرے کے
۲۹۸ تدارک کے لئے سائنس کے اصولوں پر کام کرنے کے لئے اتنی دولت کی ضرورت ہے اور اتنے اخراجات کا احتمال ہے بصورت موجودہ ہماری حکومت جن کی متحمل نہیں ہو سکتی لیکن بیرونی سلطنتوں خصوصاً امریکہ سے قرضہ لینا ہماری آزادی کے لئے زبردست خطرے کا باعث ہو گا.لہذا اس کا علاج صرف یہ ہے کہ بیرونی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے کی مشروط اجازت دی جائے ان فرموں کو چالیس فی صدی حصے دیئے جائیں اور چالیس فی صدی حکومت پاکستان دے.باقی ہیں فیصدی حصوں کے مالک پاکستان کے عوام ہوں.اس سلسلے میں فرموں سے یہ شرط بھی کی جائے کہ وہ ہمارے حصہ دار کو ساتھ ساتھ ٹریننگ دیں گے." ( زمیندار ۱۰دسمبر۱۹۴۷ء) اخبار " طاقت " کے نامہ نگار نے لکھا." جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد نے آج شب لاء کالج ہال میں ایک مجمع کو خطاب کرتے ہوئے اس تجویز کی سخت مخالفت کی ہے کہ حکومت پاکستان امریکہ سے ساٹھ کروڑ ڈالر کا قرضہ حاصل کرے.ملک فیروز خان نون نے اس جلسہ کی صدرات کی.سور مرزا بشیر الدین نے کہا کہ اس قرضہ کا مطلب پاکستان پر ساڑھے پانچ کروڑ سالانہ ود کا بوجھ اور ایک غیر حکومت کا معاشی غلبہ ہو گا.اس کے مقابلہ میں انہوں نے دو سری سکیم پیش کی ہے کہ حکومت پاکستان غیر ممالک کی فرموں کو اپناروپیہ پاکستان میں لگانے کی دعوت دے.ان فرموں کو سرمایہ کا کل چالیس فیصدی روپیہ لگانے کی اجازت دینی چاہئے.اور باقی روپیہ حکومت اور باشندگان پاکستان لگا ئیں.انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کا بھی انتظام کرنا چاہئے کہ باشندگان پاکستان ان فرموں کے ٹیکنیکل آدمیوں سے با قاعدہ کام سیکھ سکیں." (طاقت ۹- دسمبر۷ ۱۹۴ء) حضور نے استحکام پاکستان کے موضوع پر اپنی تیسری تقریر میں فرمایا.و کسی ملک کی معنوی دولت ہی اس کی اصل قوت ہوا کرتی ہے باقی سب چیزیں اس کے مقابل پر ثانوی حیثیت رکھتی ہیں.اگر پاکستان کا ہر نوجوان عقل سے کام لے، دماغ پر زور دے اور یہ اقرار کرے کہ میں نے اپنی تمام قوتیں ملک و ملت کے لئے وقف کر دینی ہیں تو یقینا ہماری ساری ضروریات پوری ہو سکتی ہیں اور ہم ملک کا اتنا اچھا دفاع کر
۲۹۹ سکتے ہیں کہ تو ہیں اور ہوائی جہاز اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے.حضور نے فرمایا.معنوی دولت افراد کے دماغ اور ان کے جسم مل کر پیدا کرتے ہیں اور اس لحاظ سے پاکستان کے پاس یہ دولت پیدا کرنے کے بہترین ذرائع موجود ہیں.دماغی لحاظ سے ایک مسلمان چار امور سے متأثر ہوتا ہے.(۱) عقیدہ توحید - (۲) عقیده عبودیت - (۳) دعا (۴) مذہب " حضور نے ان چاروں اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر مسلمان ان چاروں امور پر کامل یقین اور ان کے مطابق تبدیلی پیدا کریں تو اس کے نتیجہ میں ان کے اندر خود بخود جرأت ، دلیری، بہادری علوم کی ترقی کا شوق.غرض ترقی کرنے کی تمام صفات پیدا ہو جائیں گی." جسمانی قوت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.مغربی پاکستان کا بچہ بچہ بہادر ہے.میرا اندازہ ہے کہ ہندوستان کے بیس کروڑ افراد میں سے جتنے سپاہی نکل سکتے ہیں پاکستان کے دو کروڑ افراد میں سے اتنی ہی تعداد میں لیکن قابلیت کے لحاظ سے ان سے بہتر سپاہی مہیا ہو سکتے ہیں." حضور نے معنوی دولت سے فائدہ اٹھانے کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز بیان فرما ئیں.(1) پاکستان میں ہر مسلمان کے لئے قرآن مجید کا ترجمہ جانتالا زمی قرار دیا جائے.(۲) مادری زبان میں تعلیم دی جائے اس سلسلے میں مشرقی پاکستان پر زور نہ دیا جائے کہ وہ ضرو ر اردو کو ذریعہ تعلیم بنائے ورنہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہو جائے گا.کیونکہ وہاں کے باشندوں کو بنگالی زبان سے ایک قسم کا عشق ہے.(۳) اردو زبان کو لینگو افریز کا قرار دیا جائے.اس سلسلہ میں حضور نے یہ تجویز پیش فرمائی کہ غالب، مومن اور داغ کے گھرانوں میں جو اعلیٰ اور شیریں اردو رائج ہے اس کے تحفظ کے لئے دہلی کے مہاجرین کی ایک علیحدہ بستی آباد کی جائے.ورنہ اب یہ خاندان منتشر ہو رہے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کی زبان ناپید ہو جائے گی.حضور نے اس سلسلہ میں نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اخلاق کو درست کریں.سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالیں.وقت کی قدر کریں اور اسے ملک اور قوم کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید بنائیں.امیر اور غریب کے درمیان ارتباط
پیدا کریں اور اقتصادی حالت کو اونچا کرنے کی کوشش کریں." (الفضل ۱۴.دسمبر۷ ۱۹۴ء) حضور کا اس انتہائی اہم سلسلہ مضامین میں سے چوتھا مضمون ” بری ، فضائی اور بحری دفاعی طاقت کے لحاظ سے پاکستان کا مستقبل " کے موضوع پر تھا.اس نازک اور حساس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.موجودہ زمانہ میں جنگ تین ظاہری اور دو مخفی طریقوں سے لڑی جاتی ہے.جو یہ ہیں.(1) بری.(۲) فضائی (۳) بحری (۴) اقتصادی دباؤ.(۵) فتہ کالم.سب سے پہلے میں بری کو لیتا ہوں.اس میں پیادہ فوج ، ٹیکنیکل فوج توپ خانه خوراک لباس و غیره کی سپلائی اور سٹور کرنے والے علاج کرنے والے اور پیرا شوٹر ز شامل ہیں.اس کے بعد حضور نے نہایت تفصیل کے ساتھ پاکستان کی دفاعی طاقت کا جائزہ لیا.اس کے بعض قابل توجہ پہلوؤں کی نشاندہی فرمائی اور بعض ایسے اہم اور مفید طریق بتائے جو دفاع پاکستان کے لئے اس دور میں مفید تھے.حضور نے پاکستان کی فضائی طاقت کو مضبوط بنانے پر بھی بہت زور دیا اور فرمایا کہ عوام میں فضائی تربیت حاصل کرنے کا رجحان پیدا کرنا چاہئے اور یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس کا انتظام کرنا چاہئے.اس ضمن میں حضور نے فرمایا کہ ضرورت کے وقت ہوائی جہاز تو ایک دن میں خریدے جا سکتے ہیں لیکن آدمی ایک دن میں تیار نہیں ہو سکتے.لہذا ابھی سے اس طرف توجہ کرنی چاہئے.حضور کی تقریر کے بعد صاحب صدر میاں فضل حسین صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں حضور کی پیش کردہ تجاویز پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت ضرورت ہے کہ پاکستان کا ہر فرد فوجی تربیت حاصل کرے." (الفضل ۲۱ دسمبر۷ ۱۹۴ء) اس سلسلہ کا پانچواں لیکچر بحری دفاع اور سیاسی دفاع کے موضوع پر تھا.حضور نے اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا.ملکوں کی بحری طاقت مختلف اقسام کے جہازوں پر مشتمل ہوتی ہے.پھر حضور نے بحری طاقتوں کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے پاس اس وقت
۳۰۱ تجارتی بیڑے کی حفاظت کرنے والے چند چھوٹے جہاز موجود ہیں.اگر اچھے افسر ہوں تو ان ہی سے لڑائی میں کسی حد تک کام لیا جا سکتا ہے.بحری جہازوں میں کام کرنے کی ٹرینگ کے لئے کراچی میں دو سکول موجود ہیں ایک چھوٹے بچوں کے لئے اور ایک نوجوانوں کے لئے لیکن تارپیڈو کا کام سکھلانے اور مکینیکل ٹریننگ کے لئے کوئی سکول موجود نہیں ہے.یہ سکول فوری طور پر قائم ہو جانے چاہئیں.پاکستان کے پاس اچھی بندرگاه صرف کراچی کی ہے.حضور نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان کو Submarines (آبدوز کشتیاں) Minelayrs (سرنگ بچھانے والے) Mine Sweepers ( سرنگیں صاف کرنے والے)‘ Destroyers ( تباہ کن جہاز)‘ Air Craft Carriers (ہوائی جہاز بردار جہاز ).حاصل کرنے کیلئے فوری طور پر قدم اٹھانا چاہئے.زیادہ سے زیادہ کرو ڑ دو کروڑ روپیہ ان چیزوں پر خرچ کر کے ہم فوری طور پر کراچی کی بندرگاہ کو محفوظ کر سکتے ہیں.اس سلسلے میں تجارتی بیڑہ قائم کر نا بھی بہت ضروری ہے.کیونکہ اس وقت تمام بحری تجارتی کمپنیاں غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہیں.اس کی وجہ سے ہم جو سامان بھی باہر سے منگواتے ہیں وہ پہلے بمبئی جاتا ہے اور انڈین یونین مختلف ذرائع سے سامان پر قبضہ کرلیتی ہے.حضور نے یہ تحریک بھی کی کہ مسلمان نوجوانوں کو بحری ملازمتیں کرنے اور سمندری سفر کرنے کا اپنے دلوں میں خاص شوق پیدا کرنا چاہئے.پاکستان کی یونیورسٹیوں کو بحری ٹریننگ کے لئے کلبیں قائم کرنی چاہئیں کیونکہ در حقیقت بغیر سمندری طاقت کے صحیح معنوں میں آزادی مل ہی نہیں سکتی.مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے دنیا میں کھلے سمندر میں سفر کرنا شروع کیا تھا.لیکن افسوس کہ اب سب سے زیادہ اس سلسلے میں غفلت بھی مسلمانوں پر ہی طاری ہے.سیاست کے لحاظ سے پاکستان کے دفاع پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے بتایا.و ملکوں کے سیاسی تعلقات دو قسم کے ہوتے ہیں.(۱) جبری.یہ تعلقات بالعموم ہمسایہ ممالک سے ہوتے ہیں.(۲) اختیاری.پاکستان کے جبری تعلقات (اچھے یا برے) ہندوستان ، افغانستان ایران برما عرب اور برطانیہ کے ساتھ وابستہ ہیں.ان میں سے ایران، عرب اور برما سے پاکستان کے تعلقات اچھے ہیں.افغانستان میں گو ایک عنصر
۳۰۲ موجود ہے جس کی پاکستان کے بعض علاقوں پر نظر ہے لیکن وہاں کی رائے عامہ چونکہ ہمسایہ ممالک سے ہمدردی اور تعلقات بڑھانے کے حق میں ہے اس لئے یہ عصر سر دست پاکستان کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا.البتہ انڈین یونین سے ضرور خطرہ ہے کیونکہ ایک تو اسے لفظ پاکستان پر ہی غصہ ہے دوسرے مغربی پاکستان سے غیر مسلم قریبا نکل چکے ہیں لیکن ہندوستان میں ابھی چار کروڑ مسلمان باقی ہیں.جنہیں انڈین یونین بطور یہ عمال استعمال کر سکتی ہے اس لئے بھی وہ آسانی سے پاکستان پر حملہ کرنے پر آمادہ ہو سکتی ہے.اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں انڈین یونین کا ففتھ کالم موجود ہے لیکن انڈین یونین میں پاکستان کا فتہ کالم موجود نہیں.اس موقع پر حضور نے بتایا.کانگرس نے پنجاب میں بھی اور سرحد میں بھی بعض لوگوں کے ساتھ ساز باز کرلی ہے.یہ لوگ ایک تنظیم اور سکیم کے ماتحت آہستہ آہستہ پاکستان کو ضعف پہنچانے کی کوششیں شروع کر چکے ہیں.پاکستان کے عوام کو اور حکومت کو ان لوگوں سے خبردار رہنا چاہئے." حضور نے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں روس سے حملہ کے خطرہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا." روس ایک سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت آہستہ آہستہ ہندوستان پر حملہ کرنے کیلئے میدان تیار کر رہا ہے.روس کے خطرہ کی وجہ سے ہی انگریزوں نے ہندوستان کو آزاد کیا ہے.اس لئے ہمیں روس کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے.حضور نے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے سیاسی تعلقات کے سلسلے میں تیرہ اہم تجاویز پیش کرتے ہوئے مندرجہ ذیل امور پر خاص زور دیا.(1) پاکستان کو اپنی طرف سے کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہئے جس سے اس کے ہندوستان سے تعلقات خراب ہوں.اسے اپنی طرف سے صلح کی ہر ممکن کو شش کرنی چاہئے لیکن یہ صلح با عزت ہو نہ کہ ہتھیار ڈالنے کے مترادف.(۲) برطانیہ اور امریکہ سے بھی خوشگوار تعلقات رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن ان کی چالوں سے ہوشیار رہنا چاہئے.(۳) روس کے متعلق بھی امن پسندانہ رویہ رکھنا چاہئے اور اپنی طرف سے کوئی وجہ
اشتعال پیدا نہ ہونے دینی چاہئے.(۴) عرب ممالک سے زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعلقات قائم کرنے چاہئیں.(۵) عراق اور شام کے ساتھ ریل کے ذریعے پاکستان کا اتصال قائم کرنا ضروری ہے تا کہ ضرورت پر ان ممالک کے ذریعے سامان آسکے.(1) برما اور سیلون کے مخصوص ملکی حالات اس قسم کے ہیں کہ ان کے ساتھ بہت آسانی سے گہرے سیاسی تعلقات قائم کئے جاسکتے ہیں اور یہ تعلقات مشرقی پاکستان کی مدد کے لئے بالخصوص بہت اہمیت رکھتے ہیں.(۷) پین، ارجنٹائن، جاپان، آسٹریلیا، ابی سینیا اور ایسٹ افریقہ سے بھی دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ ممالک اپنے اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے بہت سے سیاسی فوائد کا موجب بن سکتے ہیں." الفضل ال.جنوری ۱۹۴۸ء) استحکام پاکستان کے سلسلہ میں حضور کے بلند پایہ خطابوں میں آخری اور چھٹا خطاب دستورِ اسلامی کے بنیادی اہم موضوع پر تھا.حضور نے فرمایا :." یہ سوال اس وقت بزور اٹھ رہا ہے کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہو یا قومی؟ اس بحث میں حصہ لینے والوں کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئین عام اور آئین اساسی میں فرق نہیں سمجھتے.آئین اساسی سے مراد وہ قانون ہوتے ہیں جن کی حد بندیوں کے اندر حکومت اپنا کام چلانے کی مجاز ہوتی ہے اور جن کو وہ خود بھی نہیں توڑ سکتی.بعض حکومتوں میں یہ آئین معین صورت میں اور لکھے ہوئے ہوتے ہیں اور بعض میں صرف سابق دستور کے مطابق کام چلایا جاتا ہے اور کوئی لکھا ہوا دستور موجود نہیں ہوتا.یونائیٹیڈ سٹیٹس امریکہ مثال ہے ان حکومتوں کی جن کا دستور لکھا ہوا ہوتا ہے اور انگلستان مثال ہے ان حکومتوں کی جن کا دستور لکھا ہوا نہیں.اس کی بنیاد تعامل سابق پر ہے.اسلام نام ہے محمد رسول اللہ میں مل رہی ہے اور ان پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لانے کا.پس اسلامی آئین اساسی کے معنی یہی ہوں گے کہ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو قرآن کریم ، سنت اور رسول کریم میں والوں کی تعلیم کے خلاف ہو.قرآن کریم ایک غیر مشتبہ
۳۰۴ " کتاب ہے ، سنت ایک غیر مشتبہ دستور العمل ہے ، قول رسول بلحاظ سند کے ایک اختلافی حیثیت رکھتا ہے.بعض اقوال رسول " متفقہ ہیں ، بعض مختلفہ.جو متفقہ ہیں وہ بھی کلام اللہ اور سنت رسول اللہ کا درجہ رکھتے ہیں.جن اقوال رسول کے متعلق مختلف فرق اسلام میں اختلاف ہے.یا ایک ہی فرقہ کے مختلف علماء میں اختلاف ہے ان کا قبول کرنا یا نہ کرنا اجتہاد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لئے وہ آئین اساسی نہیں کہلا سکتے.اسی طرح قرآن کریم کی آیات میں سے وہ حصہ احکام کا جن کے معنوں میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے وہ آیتیں تو آئین اساسی میں داخل سمجھی جائیں گی کیونکہ وہ غیر مشتبہ ہیں لیکن اس کے الف یا بے معنی آئین اساسی کا حصہ نہیں سمجھے جائیں گے بلکہ "الف " کو اختیار کر لینا یا ب کو اختیار کر لینا حکومت وقت کے اختیار میں ہو گا.پس جہاں تک آئین اساسی کا سوال ہے اگر پاکستان اسلامی آئین اساسی کو اختیار کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے آئین میں یہ دفعہ رکھنی ہوگی کہ پاکستان کے قوانین جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے قرآن و سنت پر مبنی ہوں گے اور جن امور میں قرآن و سنت سے واضح روشنی نہ ملتی ہو گی اور اجتہاد کی اجازت ہوگی وہاں قرآن کریم، سنت اور کلام رسول کی روشنی میں قانون تجویز کئے جائیں گے.اگر قانون اساسی اسلامی نہیں بلکہ حنفی یا شافعی یا حنبلی یا مالکی بنانا ہو گا تو پھر اوپر کے قانون میں یہ بھی اضافہ کرنا ہو گا کہ یہ قانون فلاں فرقہ کے علماء کے اجتہادوں پر مبنی ہوں گے مگر اس خصوصیت کی وجہ سے یہ قانون اسلامی آئین نہیں بلکہ حنفی آئین یا شافعی آئین یا خیلی آئین یا مالکی آئین کہلانے کے مستحق ہوں گے کیونکہ اسلام کے لفظ میں تو سب ہی فرق شامل ہیں.اسلامی اصول پر مبنی گورنمنٹ کے لئے چونکہ انتخاب کی شرط ہے اس لئے اگر اسلامی آئین پر گورنمنٹ کی بنیاد رکھی جائے گی تو مندرجہ ذیل شرائط کو مد نظر رکھنا ہو گا.اول: حکومت کا ہیڈ منتخب کیا جائے گا.انتخاب کا زمانہ مقرر کیا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان کا ہیڈ خلیفہ نہیں ہو گا.خلیفہ کو سارے مسلمانوں پر حکومت حاصل ہوتی ہے اور وہ صرف حکومت کا ہیڈ نہیں ہو تا بلکہ مذہب کا بھی ہیڈ ہوتا ہے.پاکستان کے ہیڈ کو نہ دوسرے ملکوں کے مسلمان تسلیم کریں گے اور نہ علماء نذہب کے مسائل میں اس کو اپنا ہیڈ ماننے
۳۰۵ کیلئے تیار ہوں گے اس لئے خلافت کے اصول پر اس کے اصول تو مقرر کئے جاسکتے ہیں مگر نہ وہ خلیفہ ہو سکتا ہے نہ خلافت کے سارے قانون اس پر چسپاں ہو سکتے ہیں." اسلام کا آئین اساسی صفحه ۱ تا ۳.ایڈیشن ۱۹۴۸ء) خلافت کے اصول اور پاکستانی حکومت پر اسلامی اثرات کے متعلق کچھ تفصیلی بیان کے بعد حضور نے فرمایا.اس اصولی تمہید کے بعد میں آئین کے لحاظ سے پاکستان کے مستقبل کے کچھ تفصیلی نوٹ دیتا ہوں :.آئین کے لحاظ سے پاکستان کا مستقبل بہت عظیم الشان ہے کیونکہ اس کے باشندوں کی کثرت اس منبع آئین میں یقین رکھتی ہے جس کی نسبت خالق جن و انس فرماتا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی مانده: ۴) یعنی میں نے تمہاری ضرورتوں کے تمام مدارج کیلئے قانون بنا دیئے ہیں اور تمہاری ساری ہی ضرورتوں کو قانون کے ذریعے سے پورا کر دیا ہے گویا قرآنی قانون انٹنسو (Intensive بھی ہے اور ایکسٹنسو (Extensive) بھی ہے.یہ سوال کہ ایک ہی قانون ہمیشہ کی ضرورتوں کو کس طرح پورا کر سکتا ہے ؟ اس کا جواب سمجھنے سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ آئین دو قسم کے ہوتے ہیں اجڈ اور فلیکسیبلز یعنی غیر پھلدار اور پھلدار غیر لچکد از قانون میں یہ کمزوری ہوتی ہے کہ اس کو جلد جلد بدلنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن کچکدار قانون کو فوری بدلنے کی ضرورت نہیں ہوتی.ان قانونوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کپڑے کا کرتہ اور سویٹر.کپڑے کا بنا ہوا کرتہ بچے کے بڑھنے کے ساتھ جلدی جلدی تبدیل کرنا پڑتا ہے.سویٹر بوجہ لچکدار ہونے کے بہت دیر تک کام آتا رہتا ہے.ایسا لچکدار قانون گو دیر تک کام دیتا ہے لیکن اس میں یہ نقص ہوتا ہے کہ وہ کبھی اپنے منبع سے بالکل دور چلا جاتا ہے.اور نئی نئی توجیہوں سے آخر اس کی شکل ہی بدل جاتی ہے.اسلام بعض حصوں میں انتہائی غیر لچکدار ہے مگر اس کی بعض تعلیمات انتہائی لچکدار ہیں اور یہ اس کا غیر معمولی امتیاز اور غیر معمولی کمال ہے کہ اس کا غیر لچکدار قانون کبھی بھی خلاف زمانہ نہیں ہوتا اور اس کا لچکدار قانون کبھی بھی ایسی شکل نہیں بدلتا کہ اپنے منبع سے بالکل کٹ جائے.
۳۰۶ اس لئے اسلام ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا قانون ہے." (اسلام کا آئین اساسی صفحہ ۷۶) مختلف قرآنی احکام اور ان پر عمل کرنے کی مثالیں دینے کے بعد آپ نے فرمایا :- اسلام قانون کو فردی پاکیزگی کے ساتھ وابستہ قرار دیتا ہے کیونکہ سوسائٹی کی اصلاح فرد کی اصلاح کے ساتھ وابستہ ہے اور اچھے سے اچھا قانون فرد کے طوعی تعاون کے بغیر اچھا نتیجہ نہیں دے سکتا.اسی لئے اسلام فرماتا ہے يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّ كُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ (مائدہ:۱۰۶) اس لئے کوئی اسلامی آئین جاری نہیں ہو سکتا.جب تک کہ فرد ذاتی احکام پر پہلے عمل نہ کرے.اگر قانون کو کامیاب کرنے والی روح نہ ہو تو قانون کیا کر سکتا ہے؟ ہر قانون تو ڑا جا سکتا ہے، ہر قانون کے مستثنیات ہیں اور ہر شخص اپنے آپ کو مستثنیٰ بنا سکتا ہے.یہ سچ ہے کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ راضی نہ ہوں تو بھی وہ قاضی غریب کو الو بنانے کے لئے سو جتن کر لیتے ہیں.پس اسلامی آئین بنانے (جس کے معنی ہیں اسلامی سوسائٹی بنانے) سے پہلے اسلامی فرد بنانا ہو گا.ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ جو اسلامی فرد نہ ہو گا اسے آئین اسلام سے کیا دلچسپی ؟ جو ذاتی احکام پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں وہ کیوں قومی آئین کے لئے فکرمند ہو گا؟ اگر وہ ایسا کرے گا تو کسی ذاتی غرض کے لئے اس لئے وہ آئین اسلام نہ بنائے گا بلکہ آئین اسلام کے نام سے ایسا قانون بنائے گا جو اس کی ذات کے لئے مفید ہو.ایسا آئین یقیناً غیر اسلامی آئین سے بھی خطرناک ہو گا کیونکہ وہ سوسائٹی کے لئے بھی مصر ہو گا اور اسلام کو بھی بگاڑنے اور بد نام کرنے والا ہو گا.پس جب تک فرد اپنے ذاتی اعمال کو اسلام کے مطابق کرنے کیلئے تیار نہیں اسے کوئی حق نہیں کہ اسلامی آئین بنانے کا مطالبہ کرے یا دعوی کرے.ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ اسلام کے آئین بنانے والے فردی قانون اسلام پر خود کار بند ہیں.اب میں تفصیل کو لیتا ہوں.اسلامی آئین کے جاری کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہئے کہ سود حرام کرنا ہو گا، موجودہ سینما بند کرنے ہوں گے ، اسلامی پردہ رائج کرنا ہو گا شراب پینے والی) بند کرنی ہو گی انشورنس حرام ہو گا، جوا، صرف بازاری نہیں بلکہ
۳۰۷ اس کے مشابہ کھیلیں بھی جو چانس گیمز کہلاتی ہیں منع ہوں گی ، ڈاڑھیاں رکھی جائیں گی ، مردوں کیلئے سونے کا زیور یا استعمال کی چیز چاندی سونے کے برتن بلکہ تالیاں بجانا بھی منع کرنا ہو گا ، جاندار کی مصوری اور ان تصویروں کی نمائش بھی ناجائز ہوگی.اگر مسلمان اس کے لئے تیار ہوں تو پھر وہ شوق سے اسلامی آئین جاری کریں لیکن اس کے لئے اس اعلان کی ضرورت نہیں کہ وہ اسلامی حکومت جاری کریں گے کیونکہ قرآن کریم تو صاف کہتا ہے کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ (مائدہ:۴۵) کیا مسلمان دوسری اقوام کو مجرم بنانا چاہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی اجازت کو چھین لیں گے اگر نہیں اور قرآنی حکم پر عمل ہو گا کہ ہر مذہب کے پیرو اپنے مذہب کے قانون کے مطابق عمل کریں گے تو پھر اس فتنہ کا دروازہ کھولنے کی کیا ضرورت ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو نقصان پہنچے.یہ کیوں نہ کہا جائے کہ پاکستان میں مسلمانوں کے باہمی معاملات اسلام کے مطابق طے ہوں گے اور دوسرے مذاہب اگر چاہیں تو ان کے معاملات ان کے مذہب کے مطابق ورنہ ان کی کثرت رائے کے مطابق قانون بنا دیا جائے گا.ان الفاظ میں وہی مطلب حاصل ہو گا جو اسلامی حکومت کے لفظوں میں ہے لیکن کسی کو اعتراض کرنے یا بدلہ لینے کا حق نہیں ہو گا.غیر مذاہب میں سے جو اعلان کر دیں کہ وہ اسلامی قانون یا اس کے فلاں حصہ کی پیروی کریں گے ان پر اسلامی قانون عائد کر دیا جائے گا.اب رہ جاتا ہے وہ حصہ قانون کا جو حکومت سے تعلق رکھتا ہے اس میں اسلامی قانون کی روشنی میں ملکی قانون بنایا جا سکتا ہے.بہر حال اسلامی ملک میں مسلمانوں ہی کی زیادتی ہوگی.اس طرح کوئی بھی جھگڑا پیدا نہیں ہوتا اور اسلام کا منشاء بھی پورے طور پر بغیر کسی کمی کے پورا ہو جاتا ہے.ورنہ دشمن کو اشتعال ہو کر دوسرے مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہے.اور قرآن کریم فرماتا ہے.وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ (انعام:١٠٩) اسلام کے اصول کے مطابق اصل مالک خدا تعالیٰ ہے اس نے سب چیزیں بنی نوع انسان کیلئے پیدا کی ہیں اس لئے ہراک کی کمائی میں دوسروں کا حق ہے وہ حق زکوۃ اور عشر اور شمس کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے جو رقوم کہ حکومت لیتی اور غرباء پر استعمال کرتی
ہے یا پبلک کاموں پر...ملکیت زمین کے نہایت اہم مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور فرماتے ہیں."زمین کی ملکیت کے بارہ میں اسلام نے ہر گز روک نہیں ڈالی.جو حوالے پیش کئے جاتے ہیں وہ سرکاری زمین یا عطیات سرکار یا غصب حکام کے بارہ میں ہیں.ایک حوالہ بھی خرید کردہ یا ورثہ کی زمین کے متعلق نہیں ہے.انصار صحابہ نے خود نصف زمین دینی چاہی مگر مہاجرین نے نہیں لی.فتوحات کے موقع پر رسول کریم میں ہم نے فرمایا کہ یا یہ زمین مہاجرین کے پاس رہنے دو یا اپنی نصف ان کو دیدو اور یہاں سے نصف لے لو.صاف ظاہر ہے کہ یہ معاملہ بالکل جداگانہ ہے.یہ انصار کے شک کو دور کرنے کے لئے تھا اور اس میں کیا شک ہے کہ حکومت کا مال غرباء کے پاس جانا چاہئے.انصار نے جواب دیا کہ ہم دونوں باتوں پر راضی نہیں.ہم یہ چاہتے ہیں کہ نئی آمدہ زمین مهاجرین کو ہی دی جائے اور ہماری زمین کا نصف بھی.مگر رسول کریم میں نے اسے قبول نہ کیا.زکوۃ ، سود کی ممانعت ورثہ برتھ کنٹرول کی مساوات رکھنے کا اسلامی نظام ممانعت‘ بھاؤ بڑھانے یا گھٹانے کو ناجائز قرار دیا.سادہ زندگی خوراک لباس، رہائش اور زیور میں.تمام افراد کا کھانا کپڑا اور مکان حکومت کے ذمہ ہے.حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی قانون کے غلط استعمال پر اس قانون میں جزوی تبدیلی عارضی طور پر کر دے.چنانچہ حضرت عمر نے ایک وقت میں تین طلاق دینے والے کی تینوں طلاقوں کو تین ہی قرار دینے کا فیصلہ فرمایا حالانکہ اصل میں وہ تین نہیں بلکہ ایک ہی ہیں.آپ کی غرض شریعت کی حد بندیوں کو توڑنے والے کو سزا دینا تھی.عورت کے حقوق اولاد کے حقوق عوام کے اسلامی احکام کی خصوصیات حقوق ملازموں کے حقوق، مجرموں کے حقوق مساوات انسانی اور بین الا قوامی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے.دوسری شرائع اس بارہ میں خاموش ہیں.اسلام کے بعض اہم مسائل جن پر اعتراض کیا جاتا ہے.ا.زنا کی سزا رجم بہت سخت ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اس سزا کا
۳۰۹ ذکر نہیں.قرآن کریم میں ہے اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَا جَلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ (النور:(۳) زانی مرد یا زانی عورت کو سو کوڑے لگاؤ اور جو جھوٹا الزام لگائے اسے اس کوڑے لگاؤ.ان دونوں حکموں کے بعد فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ.(النور:۲۰).پس یہ سو کوڑے بھی فحش کی سزا ہیں.ظاہر ہے کہ جو اس طرح زنا کرے گا کہ چار گواہ اس کے فعل کے مل سکیں گے وہ زنا سے زیادہ بخش کا مرتکب ہو گا اور فحش ہی کی یہ سزا ہے.اب رہا یہ سوال کہ زنا کی کیا سزا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ زنا کی سزا خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.چنانچہ زانی کے متعلق فرماتا ہے يَلْقَ أَثَامًا ( فرقان : ۶۹) یعنی وہ اپنے گناہ کی سزا خدا سے پائے گا.ہاں زنا کو روکنے کے لئے شریعت اسلامیہ نے اس کے مبادی کو روکا ہے.مثلاً غیر محرم مرد و عورت کے اختلاط کو روکا ہے.-۲- چوری کی سزا قطع ید.اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا - (مائدہ:۳۹) یہ سزا سخت بتائی جاتی ہے.جواب.یہ سزا ہر چوری کی نہیں.بلکہ اس کے لئے شرطیں ہیں.اول.چوری اہم ہو.دوم.بلا ضرورت ہو یعنی عادۃ.طعام کی چوری پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سزا نہ دی.اسی طرح بھاگے ہوئے غلام کے متعلق ہے کہ ہاتھ نہ کائے جائیں گے جس کی یہ وجہ ہے کہ وہ کما نہیں سکتا اور بھوک سے مجبور ہے.سوم.تو بہ سے پہلے گرفتار ہو تب سزا ملے گی.چہارم.مال چوری کر چکا ہو.صرف کوشش سرقہ نہ ہو.پنجم.اس کی چوری مشتبہ نہ ہو.یعنی اشتراک مال کا مدعی نہ ہو جن کے گھر سے چوری کرے وہ اس کے عزیز یا متعلق نہ ہوں جن پر اس کا حق ہو.( بیت المال کی چوری پر حضرت عمر نے سزا نہ دی) مثلا کسی مذہبی جنون کے ماتحت ہو.جیسے بت پر الینا.یہ مذہبی دیوانگی کہلائے گی اور حکومت تعزیری کار روائی کرے گی ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے گی.یا جوش انتقام میں چوری کرے جیسے جانوروں کی چوری کرتے ہیں.یا جبرا چوری کرائی جائے.ششم.وہ شخص نابالغ نہ ہو.ہفتم.عقلمند ہو بیوقوف یا فاتر العقل نہ ہو.ہشتم.اس پر اصطلاح چور کا اطلاق ہو سکتا ہو.چور سے مال واپس دلوایا
جائے گا.٣١٠ ۳.ڈاکہ.بغاوت اور ارتداد باغیانہ کی سزا قتل ہے.اِنَّمَا جَزَوا الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا اَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَا فِي أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ (مائده : ۳۴) اس میں چار الگ الگ سزا ئیں بتائی ہیں.یہ سزا ئیں جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ہیں.اگر ایسے لوگ ساتھ قتل کرتے ہوں تو قتل کئے جائیں گے.صلیب دیتے ہوں تو صلیب دئے جائیں گے.ہاتھ پاؤں کاٹتے ہوں تو ان سے یہی کیا جائے گا.محض دنگا فساد کرتے ہوں تو قید یا جلاوطنی کی سزا دی جائے گی.اس پر کیا اعتراض ہے ؟ اگر مسلمان یہی معاملہ غیر اسلامی حکومت میں کرے اور اس سے یہی سلوک ہو تو مسلمانوں کو کیا اعتراض؟ سوال یہ ہے کہ باغی کافی تھا مرتد کو کیوں شامل کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مرتد کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ وہ جنگی سپاہیوں کے حق کا مطالبہ نہ کرے جو باوجود قتل کے قاتل نہیں بن جاتے اور قتل نہیں کئے جاتے.مرتد کے قتل کے خلاف یہ بھی دلیل ہے کہ پھر ان کو بھی حق پہنچتا ہے.لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ میں اس حق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.غلامی.اسلام میں نہیں.جنگی قیدیوں کا ذکر ہے اور ان کے بارہ میں حکم ہے.إمَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْعَرَبِّ أَوْزَارَهَا (محمد: ۵) اور جس کو فداء حاصل نہ ہو اس کے لئے "کتابت " کا حکم ہے.پس غلامی کی کوئی صورت بھی موجود نہیں.جنگی قیدیوں کا ذکر ہے جو ہر زمانہ میں پکڑے جاتے ہیں اور ہر حکومت پکڑتی ہے اس کے علاوہ بھی اسلام نے قیدیوں کی آزادی کے مختلف حکم دیئے ہیں.قصاص قتل.اس میں معافی کی اجازت ہے.خواہ خطا کی دیت ہو خواہ عمد کی سزا ہو.مگر حکومت شرارت میں دخل دے گی.قصاص اعضاء - مار پیٹ کا یا السن بالسن وغیرہ.ہاں جلانے کی اجازت نہیں.نہ ہتک کرنے کی.اس قسم کی سزا کا ہو نا امن کے لئے ضروری ہے.مگر اس میں بھی عفو یا دیت جائز ہے اور عمد کی شرط ہے.ہاں قاضی دباؤ اور ڈر کی صورت میں معافی
۳۱۱ کو بر طرف کر سکتا ہے.ملزم کی تعذیب.بلکہ مجرم کی بھی جائز نہیں.اسے روکنے کیلئے اقرار جرم کے بعد انکار جرم کو جائز رکھا گیا ہے.جبری جرم ، جرم نہیں بلکہ جُرم کرانے والا مجرم ہے.حکومت عوام کی ہے.انتخاب ضروری ہے.ریفرنڈم بھی اسلام سے ثابت ہے اور مشوره بواسطہ نمائندگان بھی.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ كُمْ أَنْ تُؤَدُّو الا مَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ (نساء:۵۹) وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ (شوری (٣٩) شَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ( آل عمران: ۱۶۰) اور پھر حدیث نبوى لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ اس بارہ میں مشعل راہ ہیں.(اسلام کا آئین اساسی صفحه ۱۲ تا ۲۱) صنعتی ترقی کے موجودہ دور میں مزدور اور مالک کے تعلقات بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں.اس سلسلہ میں اسلام کے عادلانہ احکام بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:." مزدور کی مزدوری فورزا ادا ہو.اس پر سختی نہ کی جائے.اس سے وہ کام نہ لیا جائے جو انسان خود نہ کرے.اس کی مزدوری کا جھگڑا حکومت کے ذریعہ سے چکایا جا سکتا ہے.بین الا قوامی جھگڑوں کے متعلق لیگ آف نیشنز کا اصول مقرر فرمایا ہے.فرماتا ہے.وَاِنْ طَائِفَتْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إحْدُهُمَا عَلَى الأخرى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِى عَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الحجرات: ۱۰) (۱) جب دو قومیں لڑیں تو دوسری اقوام مل کر ان میں صلح کرا ئیں.(۲) اگر کوئی فریق صلح پر راضی نہ ہو تو دوسری سب اقوام اس کی مدد کریں جو صلح پر آمادہ ہے اور جنگ کرنے والی قوم سے لڑیں.(۳) جب جنگ کرنے والی قوم جنگ بند کر دے تو یہ بھی جنگ بند کر دیں.(۴) اس کے بعد پھر اصل جھگڑے کے متعلق باہمی تصفیہ کیا جائے.(۵) بوجہ اس کے کہ ایک قوم نے پہلے صلح پر رضامندی ظاہر نہ کی تھی اس سے سختی نہ کی جائے بلکہ تنازع کا فیصلہ انصاف سے کیا جائے.اس وقت مسلمانوں میں مفتی ہیں لیکن مقنن اور قاضی نہیں ہیں اور ادھر حکم ہے
۳۱۲ كُونُوا رَبانِتِينَ آہستگی سے دین کو جاری کرو.یعنی اسلامی قانون کو جاری کرنے میں نہایت غور اور فکر اور سہولت کی ضرورت ہے.مگر بہت سے کام فور اجاری کئے جا سکتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ جاری نہ کئے جائیں.مجلس قانون ساز کے متعلق دقت یہ ہے کہ اسلام ہر شخص کا عالم دین ہونا ضروری قرار دیتا ہے.لیکن اس زمانہ میں عیسائیوں کی طرح علماء اور عوام کا الگ الگ فرقہ بن گیا ہے.اس مشکل کو کون فور اصل کر سکتا ہے کہ مقنن اقتصادی ماہر اور سیاسی ماہر دین نہیں جانتے.دین جانے والے مقنن اقتصادی ماہر اور سیاسی ماہر نہیں ہیں.منہ سے دعویٰ کرنا اور بات ہے مگر حقیقت کی ہے.حالانکہ ہمارے آقا جرنیل بھی تھے ، اقتصادی ماہر بھی ، سیاسی ماہر بھی ، مقنن بھی تھے ، مفتی بھی تھے اور قاضی بھی تھے.فِدَاكَ نَفْسِى يَا رَسُولَ اللهِ - اللهم صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ (اسلام کا آئین اساسی صفحہ ۲۱ - ۲۲) ان لیکچروں کی افادیت اور پاکستان کی تعمیر و ترقی علمی طبقوں کی طرف سے قدر افزائی کیلئے ان کی اہمیت کو ملک بھر کے علمی طبقوں نے بڑی قدر کی نظر سے دیکھا.ملک عبد القیوم صاحب پر نسپل لاء کالج نے حضور کے نام اپنے ایک خط میں لکھا.پیارے حضرت صاحب ! کل میں نے پاکستان سے متعلق آپ کا لیکچر نہایت دلچسپی سے سنا اور بہت فائدہ اٹھایا.لیکچر نہ صرف نئے علوم پر مشتمل تھا بلکہ امید اور جرأت و دلیری کی روح سے بھی معمور تھا.مجھے یقین ہے کہ میرے دو سرے سننے والے ساتھی بھی یہی تاثر لے کر لوٹے ہوں گے.یہ صرف لیکچر ہی نہیں تھا بلکہ در حقیقت یہ وقت کا نہایت اہم انتباہ ہے ان لوگوں کیلئے جو اشیاء کو بالکل مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں.اثناء لیکچر میں آپ نے پاکستان کی بری اور بحری سرحدوں کے غیر محفوظ ہونے کی خوب وضاحت فرمائی ہے اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے یہ بھی محکلی حقیقت پر مبنی ہے کہ پاکستان کا قابل انتظام زمینی رقبہ ہی ہمارے حق میں ہو سکتا ہے....میں آپ کی اس تجویز سے بھی متفق ہوں کہ مشرقی پاکستان سے سمندر کے راستہ جزائر لگادیپ.
۳۱۳ (Laccadive Islands) اور مالدیپ کے ذریعہ تعلق قائم کریں.اگر ہمارے پاس زمینی راستہ نہ بھی ہو تو راستے میں ایک امدادی اسٹیشن تو ہونا چاہئے".تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحه ۴۰۸- ترجمه از انگریزی) لاء کالج کے ایک پروفیسر شیخ عبد الکریم صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:.حضور کا لیکچر اس قدر بلند تھا اور اس قدر پر از معلومات کہ ہر ڈیفنس ممبر کو حضرت صاحب سے مشورہ کرتے رہنا چاہئے." مرزا مسعود بیگ صاحب احمدیہ بلڈ نگس نے حضور کی تجاویز کو بیش قیمت نصائح قرار دیتے ہوئے لکھا:.و بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت مخدومی و معظمی زاد مجد کم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.جناب کے دو لیکچر مینار ڈ ہال میں ہو چکے ہیں اور اہالیان لاہو ر پر ان لیکچروں کا گہرا اثر ہے.ارباب حل و عقد کو بھی خدا توفیق دے کہ وہ آنجناب کے قیمتی مشوروں اور بیش قیمت نصائح سے استفادہ کر کے ملک و ملت کی مشکلات کا مداوا کریں.کل رات کے لیکچر کا جو حصہ باقی رہ گیا تھا وہ سب سے زیادہ اہم تھا.اس سلسلہ میں جناب سے یہ گزارش ہے کہ تیرا لیکچر صرف اسی حصہ پر ہو.....اگر کسی بڑے ہال (مثلاً حبيبه ہال اسلامیہ کالج میں لیکچر کا انتظام کیا جائے تو زیادہ تعداد میں لوگ استفادہ کر سکیں گے.یونیورسٹی امتحانات کی وجہ سے ممکن ہے روکاوٹ ہو تا ہم ایک دن کیلئے ہال خالی کرایا جا سکتا ہے.دعا ہے کہ جناب کے وجود سے مسلمانوں کو بیش از پیش فوائد حاصل ہوں." تحسین ایک اجلاس کے صدر جناب فیروز خان نون نے اپنے صدارتی خطاب میں خراج تحو پیش کرتے ہوئے کہا.حضرت صاحب کے دماغ کے اندر علم کا ایک سمندر موجزن ہے.انہوں نے تھوڑے وقت میں ہمیں بہت کچھ بتایا ہے اور نہایت فاضلانہ طریق سے مضمون پر روشنی ڈالی ہے." (الفضل ۹.دسمبر ۱۹۴۷ء) ملک عمر حیات صاحب پر نسپل اسلامیہ کالج، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا:.
۳۱۴ ”حضرت مرزا صاحب کی تقریر اتنی پر از معلومات اور جامع تھی کہ ہم نے اول سے آخر تک یکساں دلچسپی سے سنی ہے." (الفضل ۴.دسمبر ۱۹۴۷ء) پانچویں لیکچر کے متعلق جناب شیخ سر عبد القادر صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا." حضرت مرزا صاحب کے پر مغز اور پر از معلومات لیکچروں کا اصل منشاء یہی ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کو اس اہم موضوع پر غور و خوض کرنے کی طرف توجہ ہو اور انہیں معلوم ہو کہ گو ہمارے سامنے بہت سی مشکلات ہیں لیکن اگر ہم استقلال کے ساتھ ان مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کریں گے اور کام کرتے چلے جائیں گے تو یقینا ہم اپنی منزل کو پالیں گے.حضرت مرزا صاحب نے ان لیکچروں کے ذریعہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کی بہت بڑی خدمت کی ہے.ہم سب دل سے ان کے ممنون ہیں." १९ (الفضل 11 جنوری ۱۹۴۸ء) اسی طرح آپ نے چھٹے لیکچر کی صدارتی تقریر میں فرمایا:.حضرات میں سمجھتا ہوں کہ میں آپ سب کے دل کی بات کہہ رہا ہوں.جب کہ میں آپ سب کی طرف سے حضرت مرزا صاحب کا دلی شکریہ ادا کر تا ہوں.نہ صرف آج کے لیکچر کے لئے بلکہ گذشتہ پانچ لیکچروں کے لئے بھی جن میں بے شمار اہم معاملات اور مسائل کے متعلق نہایت مفید اور ضروری باتیں آپ نے بیان فرمائی ہیں.میں فاضل مقرر سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر ان لیکچروں کو کتاب کی شکل میں شائع کر دیا جائے تو پبلک آپ کی بہت ممنون ہو گی.ایک چیز کا میرے دل پر خاص اثر ہے باوجود اس کے کہ فاضل مقرر اور ان کی جماعت کو گذشتہ ہنگاموں میں خاص طور پر بہت نقصان اٹھانا پڑا لیکن آپ نے ان حوادث کی طرف اشارہ تک نہیں کیا.میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے میں ایک بہت بڑی حکمت مد نظر تھی اور وہ یہ کہ حضرت مرزا صاحب کا یہ طریق ہے کہ جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا اسے اب بدلا نہیں جا سکتا اس لئے اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں.اب جو کچھ آئندہ ہو سکتا ہے اور جو ہمارے اختیار میں ہے صرف اس پر گفتگو ہونی چاہئے." الفضل ۱۸.جنوری ۱۹۴۸ء) قومی پریس نے حضور کی اس بروقت راہنمائی پر خراج تحسین پیش کیا.مثلاً اخبار
" ۳۱۵ ” نوائے وقت" نے اپنی ۲ دسمبر ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں ” مشکلات حقائق پسندی پیدا کر دیں گی.مرزا بشیر الدین کی رائے“ کے دہرے عنوان سے لکھا:.مرزا بشیر الدین محمود نے کل مسٹر جسٹس محمد منیر کی صدارت میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کو اس وقت جن گونا گوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ قوم میں حقائق پسندی پیدا کر دیں گی جن کی مدد سے قوم کے لئے شاہراہ ترقی پر گامزن ہونا آسان ہو گا.مرزا بشیر الدین نے پاکستان کی زرعی پوزیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے بیکار زمینوں کو فورا آباد کرنے پر زور دیا.آپ نے کہا کہ لوہا کے علاوہ پاکستان کے پاس دوسری تمام معدنیات موجود ہیں جن سے پاکستان اپنی ضروریات بوجہ احسن پوری کر سکتا ہے.اگر کوشش کی جائے بلوچستان میں اتنا پڑول مل سکتا ہے کہ وہ اباد ان کو بھی مات کر دے گا.اسی طرح کو ئلہ کی کانوں کے لئے جستجو اور تلاش جاری رکھی جائے تو پاکستان اپنی جملہ ضروریات کا خود کفیل ہو جائے گا.مرزا صاحب نے کہا کہ حکومت پاکستان کو جزائر لگا دیپ اور مال دیپ کا مطالبہ کرنا چاہئے جہاں مسلم آبادی کی اکثریت ہے.اسی طرح پاکستان کو سالماتی قوت کے لئے ریسرچ بھی کرنا چاہئے." (نوائے وقت ۴ دسمبر۷ ۱۹۴ء.تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحه ۴۱۱) اخبار " نظام " نے اپنے تبصرہ میں لکھا:.کشمیر کی ہندوستان میں شمولیت کا مطلب پاکستان کو ہر سمت سے گھیرنا ہے.مسلمانان پاکستان اپنے ملک کی حفاظت کے لئے مجاہدین کشمیر کی ہر قسم کی مدد کریں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب کی تقریر.لاہور.۲.دسمبر.کل شام ملت احمد یہ (نقل مطابق اصل) کا ایک اجلاس) زیر صدارت جسٹس محمد منیر منعقد ہوا.اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے صد ر ملت احمد یہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود نے فرمایا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان کی زندگی اور موت کا سوال ہے.کشمیر کے ہندوستان میں جانے کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان کو ہر سمت سے گھیر لیا جائے اور اس کی طاقت کو ہمیشہ زیر رکھا جائے.انہوں نے فرمایا کہ باشندگان پاکستان کو کشمیر کے جہاد حریت میں ہر قسم کی امداد کرنی چاہئے.مجاہدین کشمیر نہایت بہادرانہ جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کو گرم کپڑوں کی فوری اشد ضرورت ہے جو ان کو فورا پہنچائے
۳۱۶ جائیں.پاکستان کی سرحدی حفاظت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا کہ سرحد سے متعلقہ دیہات اور آبادیوں کو مسلح کر دیا جائے اور انہیں فور املٹری تربیت دی جائے انہوں نے عوام میں نظم و ضبط کی سخت ضرورت کا اظہار کیا.ملک کی زراعتی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ پاکستان کی زراعتی حالت تسلی بخش ہے اور اگر شاہ پور جھنگ، مظفر گڑھ سرحد کے کچھ اضلاع اور پورے سندھ میں زراعتی پیداوار کی طرف دھیان دیا جائے تو ہماری زراعتی پیداوار قابل رشک ہو جائے گی.حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب نے پاکستان کی صنعتی خوشحالی کا بھی ذکر کیا ہے.آپ نے فرمایا.کوئلہ ، پڑول اور دیگر دھاتیں کافی تعداد میں موجود ہیں لیکن ابھی تک گمشدگی کی حالت میں ہیں اس کے لئے مکمل غور و خوض کی فوری ضرورت ہے مثال کے طور پر بلوچستان تیل کا زبردست منبع ہے لیکن ابھی تک اس سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا.حضرت مقرر نے پاکستان کی قومی لیبارٹری کھولنے اور پاکستان کی صنعتی پیداوار کو ترقی دینے کے لئے زور دیا.آپ نے یہ بتایا کہ پاکستان کی اس قسم کی ایک بھی لیبارٹری نہیں ہے." "نظام " لاہور ۴.دسمبر۷ ۱۹۴ء) اخبار زمیندار نے یہ خبر نمایاں طور پر شائع کی:.مجاہدین کشمیر کو ہر قسم کی امداد یجئے.باشندگان پاکستان سے امام جماعت احمدیہ کی اپیل.لاہور.۲.دسمبر.امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ایک میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے باشندگان پاکستان ہے اپیل کی کہ مجاہدین کشمیر کو جو پسماندہ عوام کی خاطر جنگ آزادی لڑ رہے ہیں.ہر قسم کی امداد دی جائے.مجاہدین کی فتح سے پاکستان کی دفاعی لائن بہت مضبوط ہو جائے گی.آپ نے پاکستان کے دفاعی نقطہ نظر سے جغرافیائی اور معدنی ذرائع کا وسیع سلسلہ بیان کرتے ہوئے کہا.کمرشل انڈسٹری زراعتی اور دفاعی صنعت کی ریسرچ کے لئے پاکستان کا ایک قومی ادارہ قائم کرنا چاہئے.مسٹر جسٹس محمد منیر نے میٹنگ کی صدارت کی.ee زمیندار ۴۴.دسمبر۷ ۶۱۹۴ زمیندار نے اسی اشاعت میں یہ بھی لکھا کہ :.
بیان.پاکستان کو جزائر منگلدیپ اور مالدیپ کا مطالبہ کرنا چاہئے.مرزا بشیر الدین محمود کا مرزائی قادیانی جماعت کے امیر مرزا بشیر الدین محمود نے ایک بیان میں حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کراچی سے چٹا گانگ جانیوالے بحری رستے پر واقع ہیں اور ان کی آبادی نوے فیصدی مسلمان ہے."زمیندار لاہور ۴.دسمبر۱۹۴۷ء.تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحہ ۴۱۳) اخبار ”سفینہ" نے مسئلہ کشمیر اور زرعی ترقی کے متعلق حضور کی مفید تجاویز کے متعلق لکھا کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی زندگی اور موت کا سوال ہے.تمام طبقوں میں تنظیم اور ضابطہ کی ایک مضبوط روح پھونک دی جائے.کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے.کشمیر کا انڈین یونین کے قبضے میں ہوناپاکستان کا ہر طرف سے محصور ہوتا ہے اور اسے ایک اجیر کی حیثیت تک پہنچانا ہے جسے ہر وقت تباہ کیا جا سکتا ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود امیر جماعت احمدیہ نے لاء کالج ہال میں ایک میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے کہا.یہ میٹنگ دائرہ معارف اسلامیہ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی.مسٹر جسٹس منیر اس کے صدر تھے.آپ نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے باشندوں کو کشمیر کی جنگ آزادی جیتنے کے لئے پوری پوری کوشش کرنی چاہئے.اس میں پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کے استحکام اور دفاع کا راز ہے.کشمیر میں مجاہدین مشکل ترین حالات کے باوجود جنگ لڑ رہے ہیں.انہیں گرم کپڑوں کی اشد ضرورت ہے اس کے کام کو آسان بنانے کے لئے گرم کپڑے انہیں بہت جلد پہنچ جانے چاہئیں.پاکستان کے سرحدی دفاع کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ سرحدات کے قریب رہنے والے لوگوں کو فورا مسلح کر دینا چاہئے.اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ آبادی کے تمام طبقوں میں تنظیم اور ضابطہ کی ایک روح پھونک دی جائے.آپ نے پر زور تائید کی کہ ملک کی زراعت کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے.اس کے لئے پاکستان میں بہت زیادہ امکانات ہیں.شاہ پور ، جھنگ، مظفر گڑھ کے اضلاع اور شمال مغربی صوبہ سرحد کے چند اضلاع
PIA اور سندھ کا تمام صوبہ موجودہ ترقی یافتہ طریقوں پر بہت جلد پاکستان کی زراعتی دولت میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں.پاکستان معدنیات کے طور پر بھی مالا مال تھا.یہاں کوئلہ‘سیسہ پڑول وغیرہ عام ہے.لیکن یہ تمام ذرائع ادھورے پڑے ہیں ان کی ملکی جانچ پڑتال وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے.مثلاً بلوچستان میں پٹرول عام تھا لیکن اس کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی.معزز ( مقرر) نے تقریر کے دوران کہا کہ پاکستان میں ایک قومی لیبارٹری کا قیام عمل میں لایا جائے.جہاں ملک کی صنعت و حرفت کی ترقی کے لئے ریسرچ کا نام اعلیٰ پیمانہ پر کیا جا سکے.ہنوز پورے پاکستان میں اس قسم کی کوئی لیبارٹری نہیں.تقریر دو گہ سے زیادہ دیر تک ہوتی رہی.پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کے مستقبل پر یہ پہلی تقریر ہے.آئندہ لیکچروں کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا." "سفینہ لاہور ۴.دسمبر۷ ۱۹۴ء) انگریزی اخبار ایسٹرن ٹائمز“ نے کشمیر کی جنگ آزادی اور فوجی تربیت کے حصول کے متعلق خبر دیتے ہوئے لکھا.کشمیر کی جنگ آزادی کے لئے بھر پور جدوجہد کی ضرورت ہے.حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان.سرحد کے ساتھ ساتھ بسنے والوں کے لئے فوجی ٹرینینگ وقت کا اہم تقاضا ہے.لاہور.۲.دسمبر ۱۹۴۷ء کشمیر کی آزادی پاکستان کے لئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے.کشمیر کا علاقہ ہندوستانی ہاتھوں میں ہونے کا مطلب یہ ہے گویا پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں میں گھر جائے اور بھارت کے لئے ایک لقمہ تربن جائے جسے وہ جب چاہے ہڑپ کر جائے." یہ بیان حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جماعت احمدیہ کا ہے جو آپ نے اپنے لیکچر میں گزشتہ شام ایک اجلاس میں دیا.جو لاء کالج ہال میں زیر انتظام "دائرہ معارف اسلامیہ " منعقد ہوا.اس کی صدارت مسٹر جسٹس محمد منیر فرما رہے تھے.پاکستان کے عوام کو چاہئے آپ نے تقریر کے درمیان فرمایا.کہ کشمیر کی جنگ آزادی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں.کیونکہ اسی میں پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کے
٣١٩ استحکام کا راز پنہاں ہے.مجاہدین اس وقت باطل کے خلاف شدائد و آلام کے باوجود استقلال سے نبرد آزما ہیں.ان کو اس وقت گرم ملبوسات کی اشد ضرورت ہے جو فوری طور پر پہنچانے چاہئیں تاکہ ان کو کچھ سہولت میسر ہو...پاکستان کی سرحدوں کے تحفظ اور دفاع کا ذکر کرتے ہوئے.حضرت امام جماعت احمدیہ نے فرمایا.” وہ لوگ جو سرحد کے ساتھ ساتھ بستے ہیں انہیں فوری طور پر مسلح کر دیا جائے اور انہیں فوجی اسلحہ کے استعمال کی تربیت دی جائے.وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ آبادی کے ہر طبقے میں تنظیم و ضبط کی روح بیدار کی جائے." ایسٹرن ٹائمز ؟ لاہور ۳.دسمبر۷ ۱۹۴ء) استحکام پاکستان کے متعلق مذکورہ بالا معرکۃ الآراء تقاریر کے علاوہ حضور نے ہر موقع ہے محب الوطن من الایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح پاکستان کی بہتری و بہبودی کیلئے کوششیں فرمائیں.پاکستانی نوجوانوں سے ایک ولولہ انگیز خطاب میں حضور فرماتے ہیں.پاکستانی نوجوانو! تم ایک نئے ملک کے شہری ہو دنیا کی بڑی مملکتوں میں سے بظاہر ایک چھوٹی سی مملکت کے شہری ہو ، تمہارا ملک مالدار ملک نہیں ہے ایک غریب ملک ہے، دیر تک ایک غیر حکومت کی حفاظت میں امن اور سکون سے رہنے کے عادی ہو چکے ہو ، تمہیں اپنے اخلاق اور اپنے کردار بدلنے ہونگے.تمہیں اپنے ملک کی عزت اور ساکھ دنیا میں قائم کرنی ہوگی.تمہیں اپنے وطن کو دنیا سے روشناس کرانا ہو گا.ملکوں کی عزت کو قائم رکھنا بھی ایک بڑا دشوار کام ہے لیکن ان کی عزت کو بنانا اس سے بھی زیادہ دشوار کام ہے اور یہی دشوار کام تمہارے ذمہ ڈالا گیا ہے تم ایک ملک کی نئی پود ہو تمہاری ذمہ داریاں پرانے ملکوں کی نئی نسلوں سے بہت زیادہ ہیں.انہیں ایک بنی بنائی چیز ملتی ہے انہیں آباؤ اجداد کی سنتیں یا روائتیں وراثت میں ملتی ہیں مگر تمہارا یہ حال نہیں ہے.تم نے ملک بھی بنانا ہے اور تم نے نئی روائتیں بھی قائم کرنی ہیں.ایسی روائتیں جن پر عزت اور کامیابی کے ساتھ آنے والی بہت سی نسلیں کام کرتی چلی جائیں اور ان روائتوں کی راہ نمائی میں اپنے مستقبل کو شاندار بناتی چلی جائیں.پس دو سرے قدیمی ملکوں کے لوگ ایک اولاد ہیں مگر تم ان کے مقابلے پر ایک باپ کی حیثیت
۳۲۰ رکھتے ہو وہ اپنے کاموں میں اپنے باپ دادوں کو دیکھتے ہیں تم نے اپنے کاموں میں آئندہ نسلوں کو مد نظر رکھنا ہو گا.جو بنیاد تم قائم کرو گے آئندہ آنے والی نسلیں ایک حد تک اس بنیاد پر عمارت قائم کرنے پر مجبور ہونگی.اگر تمہاری بنیاد ٹیڑھی ہو گی تو اس پر قائم کی گئی عمارت بھی ٹیڑھی ہوگی.اسلام کا مشہور فلسفی شاعر کہتا ہے.خشت اول چول نهد ثریا می روو i معمار سج دیوار سج پس بوجہ اس کے کہ تم پاکستان کی خشت اول ہو تمہیں اس بات کا بڑی احتیاط سے خیال رکھنا چاہئے کہ تمہارے طریق اور عمل میں کوئی کبھی نہ ہو کیونکہ اگر تمہارے طریق اور عمل میں کوئی کچھی ہوگی تو پاکستان کی عمارت ثریا تک ٹیڑھی چلتی چلی جائے گی.بے شک یہ کام مشکل ہے لیکن اتنا ہی شاندار بھی ہے اگر تم اپنے نفسوں کو قربان کر کے پاکستان کی عمارت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دو گے تو تمہارا نام اس عزت اور محبت سے لیا جائے گا جس کی مثال آئندہ آنے والے لوگوں میں نہیں پائی جائے گی.پس میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی منزل پر عزم و استقلال اور بلند حوصلہ سے قدم مار و قدم مارتے چلے جاؤ اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم بڑھاتے چلے جاؤ کہ عالی ہمت نوجوانوں کی منزل اول بھی ہوتی ہے، دوم بھی ہوتی ہے منزل سوم بھی ہوتی ہے لیکن آخری منزل کوئی نہیں ہوا کرتی.ایک منزل کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری وہ اختیار کرتے چلے جاتے ہیں وہ اپنے سفر کو ختم کرنا نہیں جانتے وہ ایک رخت سفر کو کندھے سے اتارنے میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں.ان کی منزل کا پہلا دور اسی وقت ختم ہوتا ہے جب کہ وہ کامیاب و کامران ہو کر اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور اپنی خدمت کی داد اس سے حاصل کرتے ہیں جو ایک ہی ہستی ہے جو کسی کی خدمت کی صحیح داد دے سکتی ہے.پس اے خدائے واحد کے منتخب کردہ نوجوانو! اسلام کے بہادر سپاہیو! ملک کی امید کے مرکز و! قوم کے سپوتو ! آگے بڑھو کہ تمہارا خدا تمہارا دین تمہارا ملک اور تمہاری قوم و محبت اور امید کے مخلوط جذبات سے تمہارے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں." الفضل ۱۴ اگست ۱۹۵۴ء صفحه ۲)
۳۲۱ قیام پاکستان کے حالات اور جماعت کی تاریخ سے واقف ہر منصف مزاج پر یہ امر ظاہر ہے کہ حضرت مصلح موعود نے قیام و استحکام پاکستان کیلئے بھر پور خدمات سرانجام دیں مگر بعض مخالف اس کے باوجود ضد اور تعصب سے کام لیتے ہوئے یہ الزام لگانے لگ گئے کہ حضور اور جماعت احمد یہ قیام پاکستان کے مخالف تھے.یہ اعتراض انتا بعید از عقل اور بے بنیاد ہے کہ جواب دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے.تاہم اس سلسلہ میں حضور کے بعض بیانات جو نہ صرف حقیقت حال کو واضح کرتے ہیں بلکہ حضور کی پاکستان سے محبت و عقیدت کے بھی مظہر ہیں درج ذیل ہیں.مخالفین کی طرف سے ایک اشتہار شائع کیا گیا کہ حضور اکھنڈ ہندوستان کے حامی تھے اور اس سلسلہ میں آپ نے اپنا کوئی الہام بھی شائع کیا تھا.اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا."حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہندو مسلمان میں اختلاف انتہاء کو نہیں پہنچا میری کوشش تھی کہ کسی طرح ملک تقسیم نہ ہو اور اس کے بارہ میں میں نے اپنے ذاتی خیالات کئی دفعہ ظاہر کئے تھے مگر کوئی الہام شائع نہیں کیا.مگر جب یہ بات ظاہر ہو گئی کہ اب یہ اختلاف مٹائے نہیں مٹ سکتا تو میں نے اپنی رائے بدل لی اور پورے زور سے پاکستان کی تائید شروع کر دی.چنانچہ تقسیم ملک سے پہلے ہی میں نے پاکستان کی تائید میں لکھنا شروع کر دیا جو "الفضل" اور دوسرے احمدی لٹریچر میں موجود ہے اور اس وقت جب احراری اس امر کی کوشش میں تھا کہ پاکستان کی "پ" بھی نہ لکھی جائے میں اس امر کی تائید میں تھا کہ پاکستان سب کا سب مکمل ہو جائے اور خدا تعالیٰ اسے عزت اور شان کے ساتھ قائم رکھے اگر مجھے کوئی الہام ہوا ہے تو یہی کہ اللہ تعالی اسلام کو عزت بخشے گا اور مسلمان ذلیل ہو کر دشمن کے سامنے نہیں گرے گا بلکہ قدم بقدم آگے بڑھے گا.مشکلات ہونگی عارضی طور پر قدم پیچھے بھی ہٹیں گے لیکن انجام اچھا ہی ہو گا اسلام کے لئے اب فتح مقدر ہے.محمد رسول الله علی معلوم ہوا کا جھنڈا اب بلند ہو کر رہے گا اور.احراری یا دوسرے لوگ اسے نیچا نہیں کر سکیں گے.انشاء اللہ.الفضل ۹ - مارچ ۱۹۵۰ء) ۱۹۴۸ء میں حضور پشاور تشریف لے گئے اور منجملہ اور قبائلی سرداروں اور رہنماؤں کے ڈاکٹر خان صاحب اور خان عبد الغفار خان صاحب سے بھی ملاقات فرمائی.اس ملاقات اور قیام پاکستان کے بعد ہندوؤں کی دشمنی اور ضد میں زیادتی کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.
۳۲۲ ۱۹۴۸ء میں جب میں پشاور گیا تو اس سلسلہ میں ڈاکٹر خان صاحب اور عبد الغفار خان صاحب سے بھی ملنے گیا.جہاں تک ظاہری اخلاق کا سوال ہے انہوں نے بڑا اچھا نمونہ دکھا یا مثلا دونوں بھائیوں میں ان دنوں کسی وجہ سے شکر رنجی تھی اس لئے وہ آپس میں ملتے نہیں تھے ہماری ملاقات کے متعلق یہ تجویز ہوئی کہ وہ ڈاکٹر خان صاحب کے گھر پر ہو درد صاحب میرے ساتھ تھے.میں نے انہیں کہا کہ وہ خان عبد الغفار خان صاحب سے ملاقات کریں اور کہیں کہ میں ڈاکٹر خان صاحب کے ہاں جاؤں گا شاید آپ ان کے مکان پر نہ آسکیں.انہوں نے کہلا بھیجا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان کی خاطر میں وہیں آجاؤں گا چنانچہ وہ وہیں آگئے اور ایک گھنٹہ تک ہماری آپس میں گفتگو ہوتی رہی.میں نے خان عبد الغفار خان صاحب سے سوال کیا کہ اگر پاکستان میں کوئی گڑ بڑ ہو اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کی فوجیں پاکستان میں آگئیں تو کیا یہاں کے مسلمانوں کی حالت ویسی ہی نہیں ہو جائے گی جیسی مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی ہوئی تھی اس پر انہوں نے بے ساختہ جواب دیا کہ اگر ایسا ہو تو پاکستان کے مسلمانوں کی حالت مشرقی پنجاب کے مسلمانوں جیسی نہیں بلکہ ان سے بھی بد تر ہو گی.حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے اس کا وجود ضروری تھا یا نہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان بننے کے بعد اگر کچھ ہوا تو اس کا اثر لازما مسلمانوں پر پڑے گا.اگر پاکستان خطرے میں پڑ جائے تو یہ یقینی بات ہے کہ پاکستان میں اسلام محفوظ نہیں رہ سکتا.ہندوؤں میں پہلے ہی بڑا تعصب تھا اور ہم نے اس اختلاف کی وجہ سے یہ برداشت نہ کیا کہ ان کے ساتھ مل کر رہیں اور ہم سب نے مل کر کوشش کی کہ ہمیں ایک علیحدہ ملک ملے.چنانچہ اللہ تعالٰی نے ہماری خواہش کو پورا کر دیا اور ہمیں پاکستان کی شکل میں ایک علیحدہ ملک عطا کیا.مسلمانوں کی اس جدوجہد کو دیکھ کر ہندوؤں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ مسلمانوں نے ہمیں سارے ہندوستان پر حکومت کرنے سے محروم کر دیا ہے اور انہوں نے سارے ملک میں مسلمانوں کی سیاست اور خود مسلمانوں کے خلاف شدید پروپیگنڈہ کیا.پہلے ان کی ذہنیت اتنی زیادہ مسموم نہیں تھی اور ان میں سے بعض کے دل میں مسلمانوں کے لئے رواداری کا جذبہ ایک حد تک پایا جاتا تھا.لیکن مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کی وجہ سے ان کی ذہنیت اب بالکل بدل گئی ہے اور مسلمان انہیں
۳۲۳ سانپ اور بچھو کی طرح نظر آنے لگ گئے.اگر خدانخواستہ پاکستان میں گڑ بڑ واقع ہوئی اور اس کے نتیجہ میں ہندوستانی فوجیں ملک میں داخل ہو ئیں تو وہ اس ذہنیت سے نہیں آئیں گی جو ان کی تقسیم ملک سے پہلے تھی اس وقت تعصب اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا اب ہے.ہم تو سمجھتے ہیں کہ پاکستان حاصل کر کے مسلمانوں نے اپنا ایک جائز حق لیا ہے کوئی جرم نہیں کیا لیکن سوال یہ نہیں کہ ہم کیا سمجھتے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ جس سے ہمارا معاملہ ہے وہ کیا سمجھتا ہے.اس وقت ہندوؤں کے ذہن کو اس طرح بگاڑ دیا گیا ہے اور پاکستان کے خلاف ان کو اس قدر مشتعل کر دیا گیا ہے کہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق نہیں لیا ان کا حق لیا ہے...الفضل ۲۶.اکتوبر ۱۹۵۴ء صفحه ۳-۴) اس بیان سے حضور کی سیرت کا یہ پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے کہ آپ ہر طبقہ فکر سے تعلقات رکھتے اور بر ملاحق بات کہنے اور منوانے کا خاص ملکہ رکھتے تھے.خان عبد الغفار خان صاحب اپنے مخصوص رجحانات و خیالات کی وجہ سے سرحدی گاندھی کے نام سے مشہور تھے اور تاریخ پاکستان کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ خان صاحب موصوف کو قائد اعظم نے قومی تحریک میں شامل کرنے کی پوری کوشش کی تھی مگر خان صاحب موصوف اپنے موقف سے دستبردار ہونے کو تیار نہ ہوئے.مگر حضور نے بغیر کسی دلیل یا حجت بازی کے سادہ طریق پر اس رنگ میں گفتگو فرمائی کہ انہیں بچی بات ماننے اور اس کا اعتراف کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا.پاکستان بن جانے اور غیر ملکی حکومت سے آزادی حاصل مخلص پاکستانیوں کی ذمہ داریاں کرلینے کے بعد حالات میں جو تبدیلی آئی اس کے پیش نظر پاکستانیوں کی بالعموم اور افراد جماعت کی بالخصوص ذمہ داریوں میں جو اضافہ ہوا اس کی طرف " نہایت مؤثر رنگ میں توجہ دلاتے ہوئے اور اسے جہاد قرار دیتے ہوئے حضور نے فرمایا :.دوسری بات جو میں جماعت سے کہنا چاہتا ہوں وہ بھی ایسی ہے کہ اب اس کے متعلق دو ٹوک فیصلہ کرنا چاہتا ہوں.ایک زمانہ ایسا تھا کہ غیر قوم ہم پر حاکم تھی اور وہ غیر قوم امن پسند تھی، مذہبی معاملات میں وہ کسی قسم کا دخل نہیں دیتی تھی.اس کے متعلق شریعت کا حکم یہی تھا کہ اس کے ساتھ جہاد جائز نہیں اور چونکہ حکومت کی باگ ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو غیر مسلم تھے اور جن کا براہ راست اسلامی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا اس لئے لازمی طور پر ان کے توسط سے بھی جہاد کا کوئی پہلو نہیں نکلتا تھا
۳۲۴ اور ہماری تعلیم یہی ہوتی تھی کہ امن سے رہو لیکن اس کے بعد زمانہ بدل گیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کے ایک حصہ میں ایسے لوگوں کو حکومت دے دی جن میں خواہ کتنی بھی کمزوریاں ہوں جن کی عملی حالت خواہ کتنی ہی گری ہوئی ہو بہر حال وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں دیتے بلکہ آپ پر درود پڑھتے ہیں.وہ نماز کے مخالف نہیں ، وہ قرآن کے مخالف نہیں ، وہ قرآن کریم کی عزت کرتے ہیں چاہے وہ اسے اٹھا کر جھوٹی قسم ہی کیوں نہ کھالیں بہر حال پہلا زمانہ گیا اور وہ زمانہ آگیا جس کے متعلق رسول کریم میں لی لی لیلی کی یہ حدیث صادق آتی ہے کہ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ وَ عرضِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ.جو شخص اپنے مال اور اپنی عزت کے بچاؤ کیلئے مارا جاتا ہے وہ شہید ہو تا ہے بلکہ صرف مال اور عزت کا ہی سوال نہیں حالات اس قسم کے ہیں کہ اگر کوئی خرابی پیدا ہوئی اور لڑائی پر نوبت پہنچ گئی تو وہ تباہی جو مشرقی پنجاب میں آئی تھی شاید اب وہ ایران کی سرحدوں تک بلکہ اس سے بھی آگے نکل جائے دوسروں کیلئے بھی مشکلات ہیں مگر ہماری جماعت کیلئے سب سے زیادہ مشکل ہے.دوسرے لوگ بکھر گئے تو بکھر گئے لیکن ہماری جماعت ایک منتظم جماعت ہے جب تک وہ کہیں منتظم ہو کر نہ بیٹھے گی اس وقت تک وہ کوئی کام نہیں کر سکے گی.یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو چلائے گا ٹھیک ہے مگر صرف اس بات پر مطمئن ہو جانا کہ خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو قائم رکھے گا اور مادی تدابیر سے غافل ہو جانا کسی صورت میں درست نہیں ہو سکتا.” میں نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے جماعت میں یہ تحریک کی تھی کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے کشمیر کے معاملہ میں لڑائی کا فن سیکھنے کا ایک نہایت اعلیٰ درجے کا موقع عطا فرمایا ہے.اگر پاکستانی احمدی وہاں کثرت کے ساتھ جائیں تو آئندہ انہیں اپنی طاقتوں کے صحیح استعمال کا بہترین موقع مل سکتا.یہ بات ایسی نہیں تھی کہ میں نے تم کو کہا ہو اور اس پر عمل نہ کیا ہو میرے قریباً سارے لڑکے سوائے اس لڑکے کے جو ہندوستان میں ہے کیونکہ وہ ہندوستان کا باشندہ ہے اور اس کے لئے اس تحریک میں حصہ لینا ہمارے ملک اور طریق کے مطابق نا جائز ہے اسے بہر حال ہندوستان کی حکومت کا وفادار رہنا چاہئے یا سوائے ایک چھوٹے بچے کے جو بالغ نہیں.باقی سب کے سب وہاں سے ہو کر آئے ہیں.پس یہ نہیں کہ دوستوں کو میں نے کوئی ایسی بات کہی ہو جس سے میں نے
۳۲۵ اپنوں کو بچایا ہو بلکہ میرے بعض بچے وہاں اس وقت کام کر کے آئے ہیں جب کہ صرف رات کے وقت وہ سفر کر سکتے تھے دن کو گولہ باری ہوتی رہتی تھی.رستے دشوار گذار تھے اور سامان وغیرہ بھی اپنی پیٹھوں پر لاد کر لے جانا پڑتا تھا اب تو ٹرک آنے جانے لگ گئے ہیں.سڑکیں بن گئی ہیں اور انتظام زیادہ عمدہ ہو گیا ہے....میں نے بارہا کہا ہے کہ بغیر خون کی ندی میں سے گزرنے کے تم کامیاب نہیں ہو سکتے اور یہ بات بالکل غلط ہے کہ کوئی قوم خون کی ندی میں سے آپ ہی آپ گذرنے لگ گئی ہو اور اسے فوجی مشق کی ضرورت پیش نہ آئی....قادیان میں رہتے ہوئے ہمارے لئے ایک مشکل تھی ورنہ ان دنوں میں بھی ہم یہی پسند کرتے کہ دشمن سے لڑ کر مر جائیں اور وہ مشکل یہ تھی کہ ہمیں حکومت سے لڑنا پڑتا تھا اور حکومت سے لڑنا ہمارے مذہب میں جائز نہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ قادیان سے ہمارا پیچھے ہٹنا حرام اور قطعی حرام ہو تا اگر حکومت سے مقابلہ نہ ہوتا.مگر چونکہ وہاں ہماری جنگ لوگوں سے نہیں ہوتی تھی بلکہ حکومت کے نمائندوں سے ہوتی تھی اور یہ چیز شرعا ہمارے لئے جائز نہیں تھی اس لئے ہم نے مقابلہ نہ کیا ورنہ اگر یہ صورت نہ ہوتی تو ہر شخص جو قادیان سے بھاگ کر آتا خواہ میں ہوتایا کوئی اور ہوتا بھگوڑا اور باغی ہو تا.مگر چونکہ خدا کا حکم تھا کہ حکومت سے نہیں لڑنا اس لئے ہم پیچھے ہٹ گئے.جیسے مکہ میں رہتے ہوئے رسولِ کریم یا ای میل کے لئے دشمن سے جنگ کرنا جائز نہیں تھا مگر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے تو لڑائی آپ کیلئے جائز ہو گئی.غرض اب حالات بالکل مختلف ہیں.اب اگر پاکستان سے کسی ملک کی لڑائی ہو گئی تو حکومت کے ساتھ ہو کر ہمیں لڑنا پڑے گا....اس لئے اب پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.جو لوگ فوجی خدمت دے رہے ہیں ان میں سے سوا سو کے قریب تو ایسے ہیں جن کو ہم کچھ گزارہ دیتے ہیں.لیکن بہت کم.در حقیقت یہ لوگ بڑے نیک ہیں بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں بڑے اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے ہیں اور سالہا سال سے اس فرض کو ادا کر رہے ہیں اور پھر اپنے عہدوں کے لحاظ سے بعض پانچواں بعض چھٹا اور بعض ساتواں حصہ گزارہ لے رہے ہیں.میں نے خود گورنمنٹ کی ایک رپورٹ دیکھی ہے جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے...غرض انتہائی قربانی کے ساتھ یہ لوگ
۳۲۶ کام کر رہے ہیں اور پھر فوجی ٹریننگ میں بھی یہ لوگ کسی سے پیچھے نہیں میں بتا چکا ہوں کہ پانچ سو آدمی ہر وقت کام پر رہنے چاہئیں.ان میں سے ایک سو ہیں تو وہ نکل گیا جو معمولی گذارہ لے کر کام کر رہا ہے.باقی چار سو کے قریب آدمی رہ گئے.لیکن اس وقت یہ حالت ہے کہ برابر آٹھ نو مہینوں سے ایک سو ہیں مخلصوں کو نکال کر جو جماعت کی طرف سے والٹیر ز جاتے ہیں ان کی نفری ایک سو پچاس تک رہ گئی ہے.ہمیں یہ خطر ناک صورت حالات دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ جس طرح وہ شخص جو چندہ نہیں دیتا اسے جماعت سے خارج کیا جاتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو فوجی ٹرمینگ کیلئے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے ان کو بھی جماعت میں سے خارج کر دیا جائے.بلکہ جہاد اور جنگ کی تیاری تو چندہ سے بہت زیادہ اہم ہے جیسے نماز پڑھنا فرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے.یہ کہنا کہ یہ دین کی خاطر جہاد نہیں بالکل لغو بات ہے.ملک کی حفاظت بھی تو ایک قسم کا جہاد ہو تا ہے گو وہ سو ہوتا رپورٹ مشاورت ۱۹۵۰ء صفحه ۹ تا ۱۳).فی صدی جہاد نہ ہو......" ای مضمون کے تسلسل میں حضور اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:." بے دین لوگ بھی ملک کی خاطر اور حمیت کی خاطر اور جاہلیت کی خاطر بڑی بڑی قربانی کیا کرتے ہیں.پس جان اتنی قیمتی چیز نہیں کہ اسے اس طرح سنبھال کر رکھا جائے.لیکن جب سینکڑوں سال کی غلامی کے بعد کسی کو آزادی ملے اور سینکڑوں سال کے بعد کسی کو اس بات کے آثار نظر آنے لگیں کہ خدا تعالیٰ پھر اسلام کی سربلندی کے مواقع بہم پہنچا رہا ہے تو اس وقت بھی اپنے حالات میں تغیر پیدا نہ کرنا اور غلامی کے احساسات کو قائم رکھنا بڑی خطرناک بات ہے ہم تو انگریزوں کے زمانہ میں بھی یہ کہا کرتے تھے کہ غلامی اور چیز ہے اور اطاعت اور چیز ہے جب گاندھی کہتا کہ ہم کب تک انگریزوں کے غلام رہیں گے تو میں ہمیشہ اس کے جواب میں یہ کہا کرتا تھا کہ میں تو انگریزوں کا غلام نہیں میری عمیر خدا تعالیٰ کے فضل سے اب بھی آزاد ہے.اور اگر مجھے جائز رنگ میں ان کا مقابلہ کرنا پڑے تو ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں.غرض غلامی کے غلط اور گندے احساسات اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے اندر نہیں تھے لیکن دوسرے لوگ اگر انہی احساسات کو اب بھی لئے چلے جائیں....تو
۳۲۷ یہ بالکل تباہی والی بات ہوگی.بہر حال جماعت کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اب ان باتوں کو قطعی طور پر برداشت نہیں کیا جا سکتا.یہ کہنا کہ پاکستان کی حکومت کو نسی احمدی حکومت ہے لغو بات ہے.سوال یہ ہے کہ اب تمہاری اپنی حکومت ہے چاہے موجودہ حکومت احمدی ہو یا نہ ہو.اکثریت کو بدلنا تمہارے ہاتھ میں ہے تم تبلیغ کر کے اکثریت بن جاؤ اس سے تم کو کون روکتا ہے یا دوسری جماعتوں سے سمجھوتے کر کے اکثریت بن جاؤ اس سے تم کو کون روکتا ہے.اگر تم تبلیغ کر کے اکثریت بن جاؤ یا مسلم لیگ یا دوسری جماعتوں سے سمجھوتہ کر کے اکثریت کا جزو بن جاؤ تو اس میں کیا شبہ ہے کہ پاکستان کی حکومت تمہاری حکومت ہی ہو گی." رپورٹ مشاورت ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۶.۱۷) مذکورہ بالا ارشاد میں جہاد کی ایک قسم کے التواء کے متعلق حضرت مسیح موعود کے ارشاد کی وضاحت اور صحیح صورت حال متعین ہوتی ہے.شرائط کے فقدان کی وجہ سے اگر ایک وقت جہاد اصغر کو ممنوع قرار دیا گیا تو ان شرائط کی موجودگی میں جہاد کی فرضیت میں کوئی امر مانع نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ جماعت نے ہر دو امور میں وقت کے تقاضوں کے مطابق خدائی احکام پر عمل کر کے خدا تعالی کی خوشنودی حاصل کی جب کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جہاد منسوخ کرنے کا اعتراض کرتے ہوئے نہیں تھکتے انہوں نے عملاً کبھی جہاد نہ کیا یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی زبان پر تو جہاد کے بلند بانگ دعاوی تھے مگر عمل اخلاص سے بالکل تہی دامن اور لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ کی صحیح تفسیر و تصویر تھے.حقیقی معنوں میں کسی مسلمان ملک کا استحکام باہم اتحاد و اتفاق کے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتا.اس بنیادی امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اور اسلام و بانی اسلام میں دیوی کے نام کی غیرت دلاتے ہوئے حضور فرماتے ہیں....اگر اسلام اور محمد رسول الله ل ل ا ل کے بد ترین دشمن یہودیوں اور " عیسائیوں کو یہ دعوت دی جا سکتی تھی کہ وہ رسالت نبوی کے لئے نہیں بلکہ محض وحدانیت خداوندی کیلئے مجتمع ہو جائیں اور باہمی تعاون سے کام لیں تو کیا وجہ ہے کہ آج مسلمان اپنے باہمی اختلافات کو نظر انداز کر کے رسول اکرم میر کی صداقت اور اسلام کی اشاعت کیلئے باہمی تعاون و اشتراک سے کام نہ لے سکیں !!!!
٣٢٨ اپنے اس نہایت مؤثر خطاب کے آخر میں آپ نے فرمایا :." آج مسلمانوں کے مختلف فرقے نہایت معمولی معمولی مسائل پر باہم دست و گریباں ہیں حالانکہ ان کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم محمد مصطفی میں تیار کی ذات اور اسلام پر ہونے والے حملوں کا دفاع کسی طرح کریں.آپ نے کہا کہ مسلمانوں کی مختلف تنظیمیں اور مختلف فرقے یورپ اور دو سرے ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے مشن کھولیں تو یقیناً چند ہی سالوں کے اندراندریورپ کی کثیر آبادی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ غلامی میں آسکتی ہے.آپ نے کہا اگر آج مسلمانوں نے بھی اپنی غفلتوں اور مستیوں کو ترک نہ کیا اور اسلام کی اصل ضرورت کو سمجھ کر میدان میں نہ آئے تو وہ قیامت کے روز شافع محشر کو اپنا منہ نہ دکھا سکیں گے.( تاریخ احمدیت جلد ۱۸ صفحه ۳۱) مسلمانوں میں باہم اتحاد کی یہ مؤثر و بر وقت تحریک اس وقت کے پرئیس نے نمایاں طور پر شائع کی.اس نصیحت کی اہمیت و ضرورت میں بہت لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی بلکہ یہ کہنا بھی کسی طرح غلط نہ ہو گا کہ اس نصیحت پر کان نہ دھرنے کی وجہ سے نا قابل بیان نقصان ہو چکا ہے اور افتراق و انشقاق کے عفریت بڑے خوفناک انداز سے ہر طرف سر اٹھائے ہوئے ہیں اور یہ امر بلا شائبه شک و شبہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو جب بھی استحکام حاصل ہو گا اسی نسخہ کیمیا پر عمل کرنے سے ہی ہوگا.وَنَرْجُو مِنَ اللَّهِ خَيْرًا
۳۲۹ ایام ابتلاء و مصائب ۱۹۵۳ء کے ہولناک فسادات
٣٣٠ اپنے ملک کی کچی خدمت کرنے کی راہ میں اس امر کو کبھی روک نہ بناؤ کہ ہماری مخالفت بہت ہوتی ہے.جب ہم یہ جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کر ہماری مخالفت کرنے والے ملک کے دشمن ہیں اور دوسری طرف ہم مجھتے ہیں کہ ہم ہی ملک کے حقیقی خیر خواہ اور وفادار ہیں تو خود اندازہ لگاؤ کہ اس مخالفت کے نتیجہ میں ہمیں ملک کی خدمت میں کمزور ہونا چاہئے یا پہلے سے بڑھ کر اس میں حصہ لینا چاہئے ؟ جس چیز کے لئے سچی محبت اور ہمدردی ہوتی ہے اسے خطرے میں دیکھ کر تو قربانی کا جذ بہ تیز ہوا کرتا ہے نہ کہ کم." ) مصلح موعود)
۳۳۱ جماعت احمدیہ کی مخالفت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی فسادات پنجاب کا پس منظر جماعت کی تاریخ بلکہ زیادہ صحیح تو یہ ہو گا کہ جمات احمدیہ کی مخالفت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کسی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی سچائی کی مخالفت کی تاریخ.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں آپ کے دعوئی کے ساتھ ہی بڑے بڑے علماء اور اکابر مشائخ نے مخالفت شروع کر دی اور ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے ان کے نزدیک اس نرم و نازک کو نپل کو ختم کیا جا سکے مگر خدائی حفاظت میں جماعت بڑھتی چلی گئی اور اس طرح دشمنوں کی ناکامی انہیں پہلے سے زیادہ مخالفت کے لئے انگیخت کرتی اور پھر کوئی اور فتنہ کھڑا کر دیا جاتا.خلافت ثانیہ میں بھی مخالفت کا سلسلہ برابر جاری رہا بلکہ جماعت کی غیر معمولی ترقی نے مخالفت کرنے والوں کی ضد تعصب اور عناد و دشمنی میں اور اضافہ کر دیا.۱۹۳۴ء میں مجلس احرار کی مخالفت اور اس کی ناکامی کا ذکر پچھلے صفحات میں بیان ہو چکا ہے.بر صغیر تقسیم ہوا اس وقت آگ اور خون کی جو ہولناک ہولی کھیلی گئی اور ننگ انسانیت شرمناک واقعات پیش آئے ان میں خدمت انسانیت کے تناظر میں جماعت کی کارکردگی نہایت نمایاں طور پر قابل رشک ثابت ہوئی.ہزاروں لٹے پٹے خاندانوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے جو رو ستم سے بچنے کے لئے قادیان میں پناہ لی.حضرت امام جماعت احمدیہ نے ان ستم گزیدگان سے ایسا عمدہ سلوک کیا جس کی مثال اسوہ رسول میں اللہ کے سوا اور کہیں نہیں مل سکتی.تمام پناہ گزینوں کو جن کی بھاری تعداد غیر از جماعت افراد پر مشتمل تھی ہر ممکن سہولت بہم پہنچائی گئی.اس زمانے کے پریس کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ قادیان دالوں نے بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے.جدوجہد آزادی میں مذہبی جماعتوں نے بالعموم پاکستان کی مخالفت کی جبکہ جماعت احمدیہ یہاں بھی اپنے تمام ذرائع اور اثر و رسوخ کے ساتھ پاکستان کی حمایت کی جنگ لڑ رہی تھی.استحکام پاکستان اور کشمیر کی آزادی کے لئے حضرت امام جماعت احمدیہ کو قابل رشک خدمات کی توفیق حاصل ہوئی.پاکستان کے مخالف قیام پاکستان پر منقار زیر پر ہی تھے کہ مہاجرین کی آباد کاری اور کشمیر کے جہاد کے دو نہایت اہم مسائل سامنے آگئے.مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلہ میں جماعت نے حکومت کی ہر ممکن مدد کی اور احمدیوں کے امام اور ان کی تنظیم کی وجہ سے آباد کاری کا مسئلہ (جماعت کی حد تک) خوش اسلوبی سے طے پاگیا.جہاد کشمیر میں جماعت نے ہمیشہ
۳۳۲ کی طرح تن من دھن کی بازی لگادی اور احمدی رضا کار عملاً جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے بلکہ بعض بڑے بڑے علماء اور ان کی جماعتیں ابھی تک جہاد کشمیر کے جواز کو ہی محل نظر سمجھتے ہیں.بلکہ بعض جماعتیں اور علماء تو اس حد تک چلے گئے کہ جہاد کشمیر کو ناجائز اور وہاں مرنے والوں کو حرام موت مرنے والے قرار دیا.مذکورہ بالا تمام مراحل میں جماعت کی کامیابی و کامرانی اور اس کے نتیجہ میں خدائی تائید و نصرت دشمنوں کو سراسیمہ کرنے کے لئے کافی تھی.چنانچہ وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے اور کسی مذہبی مسئلہ کی آڑ میں سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا کر دنیوی مفاد حاصل کرنے کی فکر میں لگ گئے اور اس طرح مجلس احرار اور بعض اور مجالس و جماعتوں نے " تحفظ ختم نبوت " کے م پر ملک کو لا قانونیت اور انار کی کے اندھے غار میں دھکیلنے کا منصوبہ شروع کر دیا حالانکہ فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق اسلام ان کے لئے ایک حربے کی حیثیت رکھتا تھا جسے وہ کسی سیاسی مخالف کو پریشان کرنے کے لئے جب چاہتے بالائے طاق رکھ دیتے اور جب چاہتے اٹھا لیتے." ( صفحه ۲۷۲) اس رپورٹ میں احرار کے رویہ کو بطور خاص مکروہ اور قابل نفرت قرار دیا گیا کیونکہ انہوں نے ایک دنیوی مقصد کے لئے ایک مذہبی مسئلے کو استعمال کر کے اس مسئلے کی توہین کی اور اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کے لئے عوام کے مذہبی جذبات و حسیات سے فائدہ اٹھایا.اس بات پر صرف احرار ہی یقین کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے اعمال میں مخلص تھے " (صفحہ ۲۷۷) حضرت امام جماعت احمد یہ جماعت کی ترقی و بہتری اور انسانیت کی خدمت کے ذہنی تیاری تعمیری اور ٹھوس کاموں میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن کی تخریبی سرگرمیوں سے بھی پوری طرح آگاہ و باخبر تھے.آپ نے جماعت کو آنے والے ابتلاؤں کے لئے تیار کرتے ہوئے اور دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا.اس قسم کے نازک مواقع پر میں جماعت کو اتنے حصہ میں شریک کر تا رہا ہوں کہ میں انہیں دعا کی طرف تحریک کیا کرتا ہوں اور مخلصین نے ہمیشہ میری اس تحریک کو قبول کیا ہے اور انہوں نے اس طرح دعائیں کی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مصیبت کو ٹلا دیا
۳۳ سلام میں ایک دفعہ پھر اس نازک موقع پر جس کی اہمیت کو جماعت نہیں سمجھتی حتی کہ قریب ترین لوگ اور اعلیٰ درجہ کے افسر بھی اسے نہیں سمجھتے میں دعا کی تحریک کرتا ہوں." (الفضل ۱۱.فروری ۱۹۵۱ء) آنے والے دور کے لئے جس میں پہلے سے زیادہ مخالفت کا اندیشہ ہے جماعت کو ایک انقلابی تغیر پیدا کرنے کے لئے جہاد کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں." جہاں تک جماعت کے متعدد ممالک میں پھیل جانے کا سوال ہے ہماری ترقی قابل تحسین و فخر ہے مگر جہاں تک تعداد کا سوال ہے ہماری جماعت ابھی بہت پیچھے ہے.جہاں تک مرکزی طاقت کا سوال ہے ہم اخلاقی اور عقلی طور پر اپنی پوزیشن قائم کر چکے ہیں بلکہ جہاں تک نفوذ کا سوال ہے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں بلکہ ہماری مخالفت ترقی کر رہی ہے اور اب ان گروہوں اور جماعتوں میں بھی پھیل رہی ہے جو پہلے ہمیں نظر انداز کر دیتی تھیں یا ہمارے افعال کو خوشی کی نگاہ سے دیکھتی تھیں.پس آنے والے سال میں ہمیں مزید جدوجہد کی ضرورت ہے ہمیں ایک انقلابی تغیر پیدا کرنے کی ضرورت ہے.ایک انقلابی تغیر پیدا کئے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.یہ انقلاب ہمارے دماغوں میں پیدا ہونا چاہئے ، ہماری روحوں میں پیدا ہونا چاہئے ، ہمارے دلوں میں پیدا ہونا چاہئے ، ہمارے افکار اور جذبات میں پیدا ہونا چاہئے.ہم اپنے دلوں روحوں اور دماغوں میں عظیم الشان انقلاب پیدا کئے بغیر اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے یا کم از کم اس مقام کو جلدی حاصل نہیں کر سکتے جس کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے.ہماری جماعت ایک جہاد کرنے والی جماعت ہے.بیشک ہم تلوار کے اس جہاد کے مخالف ہیں جو کسی ناکردہ گناہ پر تلوار چلانے کی اجازت دیتا ہے مگر ہم سے زیادہ اس جہاد کا قائل کوئی نہیں جو جہاد ذہنوں جذبات اور روحوں سے کیا جاتا ہے.پس حقیقتاً اگر کوئی جماعت جہاد کی قائل ہے تو وہ صرف ہماری جماعت ہی ہے.الفضل ۱۱.جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ (۳) جماعت کا حوصلہ بلند کرنے اور یہ سمجھانے کے لئے کہ مقامی مخالفت ہمیں مایوس و بد دل نہیں کر سکتی کیونکہ ہمارا کام بہت بڑا اور ہمارا مقصد بہت عظیم ہے آپ فرماتے ہیں.
۳۳۴ ”ہمارا مقابلہ اڑھائی کروڑ یا تین کروڑ سے نہیں بلکہ ہمارا مقابلہ اڑھائی ارب (ساری دنیا.ناقل) سے ہے اور یہ مقابلہ کم نہیں ہم نے دنیا میں تبلیغ کرنی ہے.حوصلہ پست نہ کیجیئے تم اپنا کام بھی کرو اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی تبلیغ کا کام کرو.کسی مومن کے ذمہ کوئی خاص گھر نہیں کوئی خاص گاؤں نہیں کوئی خاص شہر نہیں کوئی خاص ملک نہیں بلکہ ساری دنیا ہے.".لو پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء) حضور اپنی مومنانہ فراست اور مجاہدانہ پیش بینی سے جماعت کو آنے والے فتنوں کے پیش طر صبر و صلوة کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں.میں جب تم سے کہتا تھا کہ جماعت پر مصائب اور ابتلاؤں کا زمانہ آنے والا ہے اس لئے تم بیدار ہو جاؤ.اس وقت تم میری بات پر یقین نہیں کرتے تھے تم نہیں اُڑاتے تھے اور لکھتے تھے کہ آپ کہاں کی باتیں کرتے ہیں.ہمیں تو یہ بات نظر نہیں آتی اور جب کہ فتنہ آگیا ہے میں تمہیں دوسری خبر دیتا ہوں کہ جس طرح ایک بگولا آتا ہے اور چلا جاتا ہے یہ فتنہ مٹ جائے گا یہ سب کارروائیاں هَبَّا مَّنْثُورًا ہو جائیں گی.خدا تعالیٰ کے فرشتے آئیں گے اور وہ ان ابتلاؤں اور مشکلات کو جھاڑو دے کر صاف کر دیں گے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ تم صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ میری مدد مانگو.میں تمہیں مدد دوں گا.لیکن تم دو باتیں کرو اول مصائب اور ابتلاؤں پر گھبراؤ نہیں انہیں برداشت کرو.دوسرے نمازوں اور دعاؤں پر زور دو." (الفضل یکم اگست ۱۹۵۲ء) آئندہ پیش آنے والے خطرات کا پوری طرح ادراک ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ پر کامل ایمان و توکل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور جماعت کا حوصلہ بلند کرنے کے لئے فرماتے ہیں."کون ہے جو تمہارا کچھ بگاڑ سکتا ہے یا کون سی قوم ہے جو تمہارے مقابلہ میں کھڑی ہو سکتی ہے.دنیا کی سب قومیں دنیا کی سب طاقتیں دنیا کی سب حکومتیں خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں وہ جس کا بھی چاہے دل بدل سکتا ہے اور تمہارے دشمن خواہ کتنا بھی جتھا ر کھتے ہوں تمہارے مقابل میں بیچ ہیں کیونکہ تم خدا تعالیٰ کی گود میں ہو اور جو تلوار لے کر تمہارے سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ تم پر حملہ نہیں کرتا خدا تعالی پر حملہ کرتا
۳۳۵ ہے.خدا تعالیٰ لوگوں کے دل تمہاری تائید میں بھر دے گا اور سچائی کو لوگوں پر ظاہر کر دے گا اور یہ مصائب کے بادل فضل کی ہواؤں سے بکھر جائیں گے اور انشاء اللہ تم امن میں آجاؤ گے.؟ الفضل ۸ اگست ۱۹۵۳ء) مخالفت کی آندھیوں اور فتنہ و فساد کے بگولوں میں آپ جلسہ سالانہ کے ایک خطاب میں آنے والی ترقی اور کامیابی کا نہایت ایمان افروز اور یقین بخش انداز میں زخمی اور رنجیدہ دلوں پر خدائی انعامات کے سکون آفریں پھا ہے رکھتے ہوئے فرماتے ہیں.اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے تبلیغی مشنوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں تبلیغ میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور جماعت نے ترقی کی ہے جس مقام پر ہم آج ہیں یقینا گذشتہ سال وہ مقام ہمیں حاصل نہیں تھا اور جس قسم کے تغیرات اس وقت رونما ہو رہے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جس مقام پر ہم آج ہیں آئندہ سال انشاء اللہ ہم اس سے یقیناً آگے ہوں گے.یہ تغیرات نہ تمہارے اختیار میں ہیں نہ میرے.یہ خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں پس انسانی تدابیر کو نہ دیکھو بلکہ خدائی تقدیر کی اُنگلی کو دیکھو جو بتا رہی ہے کہ حالات خواہ اچھے ہوں یا بُرے احمدیت کی گاڑی بہر حال چلتی چلی جائے گی.انشاء اللہ " تقریر جلسه سالانه ۲ جنوری ۱۹۵۲ء) فتنوں اور شدائد کے مقابلہ پر نہایت روح پرور انداز میں اپنے ایمان ویقین کی پختگی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں." خدا تعالیٰ اس جماعت کی مدد کر رہا ہے.جب دشمن دیکھتا ہے کہ وہ تبلیغ کے ساتھ احمدیت پر غالب نہیں آسکتا تو وہ اشتعال انگیزی شروع کر دیتا ہے لیکن اس سے بنتا کیا ہے.دشمن کی اشتعال انگیزی سے ہمیں عارضی جسمانی نقصان تو پہنچ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے باوجود یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا اور بڑھتا ہی چلا جائے گا آسمان مل سکتا ہے زمین مل سکتی ہے مگر اس سلسلہ کی دنیا میں اشاعت کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ نہیں مل سکتیں خواہ دنیا کی تمام طاغوتی طاقتیں مل کر بھی اس کے راستہ میں کیوں نہ کھڑی ہو جائیں.إِنْشَاءَ اللَّهُ وَبِفَضْلِهِ وَرَحْمَتِهِ " الفضل ۱۳.فروری ۱۹۵۲ء صفحه ۵)
۳۳۶ فسادات اور شرانگیزی کے ان ایام میں سب سے زیادہ اے غلام مسیح الزماں ہاتھ اُٹھا بوجھ ہمارے پیارے امام پر تھا.آپ ہر چہار طرف سے احمدیوں پر ٹوٹنے والے مصائب کی خبریں سن رہے تھے.جماعت کو ختم کرنے کیلئے بظا ہر سارے سامان اور حالات مہیا کر لئے گئے تھے یہاں تک کہ مودودی صاحب نے حضرت امام جماعت احمدیہ بھجوانے کی کوشش کی کہ مخالفت بہت زیادہ ہے اس میں آپ کی جماعت کے بچ جانے کا کو یہ پیغام سوال ہی پیدا نہیں ہو تا بہتر ہو گا کہ آپ اپنے عقائد پر نظر ثانی کرتے ہوئے انہیں تبدیل کر لیں.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جنہیں یہ پیغام دیا جا رہا تھا فرمایا کرتے تھے کہ میں نے یہ بات سنتے ہی مودودی صاحب کو جواب دیا کہ یہ پیغام پہنچانے کی کیا ضرورت ہے.اگر تو یہ جماعت خدا کی جماعت ہے جیسا کہ ہمارا ایمان ہے تو اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا اور اگر آپ کے خیال کے مطابق یہ جھوٹی جماعت ہے تو کل ختم ہونے کی بجائے اس کا آج ہی ختم ہو جانا بہتر ہے.تاہم مودودی صاحب اور ان کے ہم خیال مصر تھے کہ یہ مخالفت پہلی مخالفتوں جیسی نہیں ہے اس سے جماعت کا عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں ہے.ان گھمبیر حالات میں خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی سوچ کا انداز کیا تھا؟ آپ فرماتے ہیں.ان ایام کو خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں گزار و اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو " خدا کی جماعتوں پر یہ دن آیا کرتے ہیں پس گھبرانے کی بات نہیں اپنے لئے اور اپنے ملک اور حکومت کے لئے دعا کرتے رہو اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ ہو." " خدا تعالٰی نے غیر معمولی ثواب کے مواقع آپ کے لئے بہم پہنچائے ہیں اس موقع کو بزدلی اور کمزوری سے جو شخص ضائع کرتا ہے وہ بہت بد بخت آدمی ہے کاش وہ پیدا نہ ہو تاکہ اس کی سیاہی سے دنیا داغدار نہ ہوتی." اس موقع پر قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق صبر اور دعا سے کام لیں اور کہنا ہے تو اپنے خدا سے کہیں لوگوں کے سامنے ایسی کوئی بات نہ کریں کہ جس سے اشتعال پیدا ہوا اور فساد کی صورت پیدا ہو کر حکومت کے لئے مشکلات کا موجب ہو." فسادات اور شرانگیزی میں غیر معمولی اضافہ ہونے پر حکومت کیلئے بعض احرار لیڈروں کی گرفتاری ناگزیر ہو گئی تو حضور نے اس پر نہ صرف یہ کہ خود کسی خوشی کا اظہار نہ فرمایا بلکہ جماعت کو اخلاق فاضلہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بڑی تاکید سے دشمنوں کی اس تکلیف اور ناکامی پر خوشی کا اظہار کرنے اور لاف و گزاف سے روکنے کے لئے ایک نہایت پر حکمت نصیحت کرتے
۳۳۷ ہوئے فرمایا." میں تمام احباب کو ان کے اخلاقی اور مذہبی فرض کی طرف توجہ دلا تا ہوں کہ ایسے دن جب آتے ہیں تو مومن خوشی اور لاف و گزاف سے کام نہیں لیتے بلکہ دعاؤں اور استغفار سے کام لیتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے گند بھی صاف کرے اور ان کے مخالفوں کو سمجھ بھی دے کہ آخر وہ بھی ان کے بھائی ہیں.ہم میں خواہ کتنے ہی اختلاف ہوں ہم اس امر کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ سب مسلمان کہلانے والے ہمارے آقا کی امت سے ہیں اور امت خواہ کتنی بھی غلطی کرے ان کی تکلیف کا رنج صاحب امت کو ضرور ہوتا ہے....پس ہمیں ان لوگوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے جو غلط فہمیوں میں مبتلاء ہو کر ہماری مخالفت کرتے ہیں.اور خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ان کو ایسے رستہ پر چلنے کی توفیق دے کہ وہ خود بھی عذابوں سے بچیں اور حکومت کے لئے بھی پریشانی کا موجب نہ بنیں.اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو آزادی اور حکومت بخشی ہے.ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ حکومت کو ضعف نہ پہنچے اور خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ ہمیں اور دو سرے پاکستانی مسلمانوں کو وہ ایسے اعمال کی توفیق دے کہ جس سے پاکستان مضبوط ہو اور غیروں میں ہماری عزت بڑھے اور ہم عالم اسلام کی تقویت اور اتحاد کا موجب بن الفضل ۲۸.فروری ۱۹۵۳ء) جائیں.جماعت کو ایک ضروری ہدایت دیتے ہوئے حضور نے فرمایا.حکومت کو بہر حال حالات سے آگاہ رکھنا ضروری ہے خواہ وہ ہماری داد رسی کرے یا نہ کرے کیونکہ ہمارا بھروسہ تو خداتعالی پر ہے.حکومت کو بتانے کا مقصد تو ان پر حجت تمام کرنا ہے تاوہ بعد میں یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں تو اس کے متعلق کسی نے بتایا ہی نہیں." اس پر حکمت اصول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.اگر کوئی شخص تم پر ظلم اور تعدی کرتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ افسر فرض شناس ہے اور وہ تمہاری مدد بھی کرے گا تو پھر بھی وہ اس وقت تک ظلم کو نہیں مٹا سکتا جب تک کہ وہ وقت نہ آجائے جو خد اتعالیٰ نے اسے مٹانے کے لئے مقرر کیا ہے.ایک صداقت کی دشمنی محض یہ نہیں ہوتی کہ اس کے قبول کرنے والے کو مارا جائے بلکہ دشمنی یہ
۳۳۸ ہوتی ہے کہ اسے جھوٹا کہا جائے.اب کیا حکومتیں کسی کو جھوٹا کہنے سے روک سکتی ہیں ؟ اگر وہ جلسے روک دیں گی تو لوگ گھروں میں بیٹھے باتوں باتوں میں جھوٹا کہیں گے اور اگر حکومت اور زیادہ دبائے گی تو وہ دلوں میں جھوٹا کہیں گے.اب دلوں میں برا منانے سے کون سی طاقت روک سکتی ہے ؟ اگر ایک شخص صداقت سے محروم ہے.وہ ناواقف ہے اس لئے وہ صداقت سے دشمنی کرتا ہے اور وہ شیطان کے ہاتھ میں پڑ گیا ہے تو جب تک اس کا دل صاف نہ ہو اس کی دشمنی کو دور نہیں کیا جا سکتا اور جس دن اس کا دل صاف ہو جائے گا تو کیا کوئی ایسی طاقت ہے یا کوئی ایسی حکومت ہے جو اس سے مخالفت کروا سکے ؟ جو لوگ احمدیت کے دشمن ہیں حکومت اگر چاہے بھی تو ان کے دلوں سے دشمنی کو نہیں نکال سکتی اسی طرح جن لوگوں نے احمدیت کو قبول کر لیا ہے اگر حکومت چاہے بھی تو ان کے دلوں سے بانی سلسلہ احمدیہ کی محبت کو نہیں نکال سکتی.ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے.اور جب ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے تو حکومت پر نظر رکھنی فضول ہے.تمہاری فتح دلوں کی فتح ہے اور جب دل فتح ہو جائیں گے تو تمہیں فتح حاصل ہو جائے گی.اگر تم نے دلوں کو فتح کر لیا تو تم دیکھو گے کہ یہی افسر جو آج تمہارے خلاف دوسروں کو اکساتے ہیں.ہاتھ جوڑ کر تمہارے سامنے کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے ہم تو آپ کے ہمیشہ سے خادم ہیں.پھر تم یہ بات بھی مت بھولو کہ تمہارا تو کل خدا تعالیٰ پر ہے حکومت پر نہیں.پھر جہاں تمہارا یہ فرض ہے کہ ان امور کو حکومت کے سامنے لے جاؤ وہاں اگر تمہیں مایوسی نظر آتی ہے تو مایوس مت ہو کیونکہ اصل بادشاہ خدا تعالیٰ ہے اور جو فیصلہ بادشاہ کرے گا وہی ہو گا.انسان جو فیصلہ کرے گاوہ نہیں ہو گا." خدائی تائید و نصرت کی بشارت دیتے ہوئے حضور نے بڑے پر شوکت الفاظ میں فرمایا."اگر تم نیکی اور معیار دین کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہو گے تو وہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.کبھی نہیں چھوڑے گا.کبھی نہیں چھوڑے گا.اگر دنیا کی ساری طاقتیں بھی تمہاری مدد کرنے سے انکار کر دیں تو خدا تعالیٰ تمہیں نہیں چھوڑے گا اس کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور تمہاری مدد کے سامان پیدا کریں گے." الفضل ۲۳.مئی ۱۹۵۲ء)
۳۳۹ ابتلاء اور مصائب میں ایک مومن کے لئے جو فوائد و برکات متوقع ہوتے ہیں ان کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا.مصائب کا وقت ایک مومن کے لئے خوشی کا موقع ہوتا ہے اس لئے کہ خدا تعالیٰ اس کے قریب آجاتا ہے.جتنا جتنا د شمن اس کے قریب آتا جاتا ہے خدا تعالیٰ اس سے بھی زیادہ تیز قدمی سے اس کے قریب آجاتا ہے اور جب دشمن اس کے قریب آ جاتا ہے تو خد اتعالیٰ اس کے اندر داخل ہو چکا ہوتا ہے اس طرح جب دشمن مومن پردار کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ پر وار کرتا ہے پس تمہارے لئے عزت حاصل کرنے کا موقع ہے.تم بہادری کے ساتھ کام کرو اگر یہ موقع تمہارے ہاتھوں سے چلا گیا تو تمہارے لئے عزت کے حاصل کرنے کا اور کون سا موقع آئے گا." الفضل ۸.اگست ۱۹۵۲ء) اسی اصول پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا.” یاد رکھو وہ دن اب قریب بلکہ قریب سے قریب تر آ رہا ہے جبکہ یا تو تم دنیا پر غالب آجاؤ گے اور یا پھر تم دنیا سے مٹادیے جاؤ گے اب دو ہی صورتیں باقی ہیں یا تو تم وہ دل پیدا کرو جو دنیا کی ساری شیطانی طاقتوں کو بھسم کر کے رکھ دے اور اگر تم نے ایسا دل پیدا نہ کیا تو پھر دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھسم کر دے گا اور تمہاری موت صرف تمہاری موت ہی نہ ہوگی بلکہ دنیا کی موت بھی ہوگی کیونکہ تمہاری موت کا مطلب یہی ہے کہ دنیا میں شیطانی نظام کو زندہ رہنے اور پنپنے کا موقع دے دیا جائے.اور اگر شیطانی نظام زندہ رہے تو اس میں کیا شک ہے کہ وہ دنیا کے لئے موت کا پیغام ہے پس تمہاری زندگی میں تو تمہاری بھی زندگی ہے اور دنیا کی بھی زندگی ہے لیکن تمہاری موت میں نہ صرف تمہاری بلکہ دنیا کی بھی موت ہے.پس اپنی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کرو اور اسے زیادہ سے زیادہ اسلامی رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرد....اپنی اصلاح کرو اور اپنی اصلاح کے سلسلہ میں پہلا قدم یہ اٹھاؤ کہ نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کی کوشش کرو اور جس جگہ نماز جمع کرنے کی اجازت بھی ہو وہاں بھی حتی الامکان نماز میں جمع نہ کرو تا کہ سختی کے ساتھ وقت پر نماز ادا کرنے کی جماعت میں رو پیدا ہو جائے اور کمزور لوگوں کے ایمان محفوظ ہو جائیں." (الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۴۸ء صفحه ۴)
۳۴۰ خدا تعالیٰ کی خاطر مصائب و ابتلاء میں ثابت قدم رہنے والوں کے ثواب و اجر کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنے فرائض کو ادا کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو رحمتیں اور برکتیں تمہیں ملنی ہیں تم انہیں زیادہ سے زیادہ حاصل کر لو.ایسا زمانہ بہت کم آتا ہے اور مبارک ہوتے ہیں وہ لوگ جو ایسے زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں یہی لوگ نحوست سے دور اور خدا تعالٰی کی جنت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ جو کہا ہے کہ اس دن جنت قریب کر دی جائے گی اس کا بھی یہی مفہوم ہے کہ خدا تعالی ایسی جماعت کھڑی کر دے گا جو دین کی خدمت کرے گی اور نہ صرف یہ کہ اسے اس خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا اسے جھاڑیں پڑیں گی اسے گالیاں دی جائیں گی.دنیا اسے دھتکارے گی کہ وہ کیوں خدا تعالیٰ کی ہو گئی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے دین کی کیوں خدمت کر رہی ہے.اس لئے لازمی طور پر خدا تعالیٰ اسے قبول کرے گا.پس تم ان وقتوں کی قدر کرو اور اپنے لئے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر لو تا خدا تعالیٰ کے سامنے بھی تم سر خرو ہو جاؤ اور آئندہ نسلوں کے سامنے بھی تمہارا نام عزت سے لیا جائے." الفضل ۳ فروری ۱۹۵۳ء صفحه ۳) " خدا تعالیٰ جس کی نصرت پر آتا ہے کوئی طاقت اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اگر وہ دنیوی امور میں اس طرح مدد کرتا ہے تو دینی باتوں میں کس طرح مدد نہ کرے گا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں دعاؤں کی طرف بہت کم توجہ ہو گئی ہے.دعاؤں کی ایک رسم پڑ گئی ہے لیکن دل میں اس کا کوئی اثر نہیں رہا.رستا سب لوگ یہی کہیں گے ہمارے لئے دعا کرنا.لیکن وہ یہ نہیں سمجھیں گے کہ وہ کس کے لئے دعا کے لئے کہہ رہے ہیں اور وہ ان کے لئے دعا بھی کرے گایا نہیں پھر اس کا ان کے اپنے دل پر بھی اثر ہے یا نہیں.پس راتوں کو اٹھو خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور انکسار کرو.پھر یہی نہیں کہ خود دعا کرو بلکہ یہ دعا بھی کرو کہ ساری جماعت کو دعا کا ہتھیار مل جائے.ایک سپاہی جیت نہیں سکتا جیتی فوج ہے اس طرح اگر ایک فرد دعا کرے گا تو اس کا اتنا فائدہ نہیں ہو گا جتنا ایک جماعت کی دعا کا فائدہ ہو گا.تم خود بھی دعا کرو اور پھر ساری جماعت کے لئے بھی دعا کرو کہ خدا تعالی انہیں دعا کرنے کی توفیق عطا فرما دے.ہر احمدی کے دل میں یقین پیدا ہو جائے کہ
۳۴۱ دعا ایک کارگر وسیلہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے.جماعت کے سب افراد میں ایک آگ سی لگ جائے.ہر احمد ی اپنے گھر پر دعا کر رہا ہو پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کا فضل کس طرح نازل ہوتا ہے." (الفضل ۱۷.نومبر ۱۹۵۱ء) اس جگہ حضرت فضل عمر کا ایک نہایت پر حکمت ارشاد جس میں آپ کی فراست و پیش بینی اور جماعت کو اخلاق کی بلندیوں پر فائز رکھنے کی خواہش اور امید کا نہایت عمدہ امتزاج پایا جاتا ہے پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں." مجھے تو ان غیر احمدی مولویوں پر رحم آیا کرتا ہے جب میں خیال کیا کرتا ہوں کہ ان کی تو اب ذلت اور رسوائی کے سامان ہو رہے ہیں اور خدا نے ہمیں قوت و سطوت عطا کرنی ہے یہ لوگ زیادہ سے زیادہ ایک سو سال تک اور بمشکل اس رنگ میں گزارہ کر سکیں گے.پھر جب خدا تعالیٰ احمدیوں کو حکومت دے گا احمدی بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوں گے ، الفضل کے پرانے فائل نکال کر پیش ہوں گے تو اس وقت ان بے چاروں کا کیا حال ہو گا.مجھے خطرہ ہے کہ اس وقت کے احمدی ان کے مظالم کو پڑھ پڑھ کر اور ان کے قتل اور سنگساری کے جرائم کے حالات کو دیکھ کر ان سے کیا سلوک کریں گے.اس وجہ سے مجھے ان پر رحم آتا ہے اور پھر اپنے اوپر بھی آتا ہے کہ اگر خدانخواستہ وہ لوگ کوئی ایسی حرکت کر بیٹھیں گے تو پھر وہ بھی اسی سزا کے مستوجب ہوں گے.فرمایا جب تک حضرت مسیح موعود دنیا میں نہ آئے تھے وہ یہود تھے اور ان پر وہ لعنت تھی جو حضرت مسیح علیہ السلام کو نہ ماننے کی وجہ سے ان پر نازل ہوئی تھی مگر جب سے حضرت مسیح موعود آگئے ہیں تب سے ان کی اور ان مولویوں کی پوزیشن برابر ہو گئی ہے بلکہ یہ ان سے بھی گر گئے ہیں اور زیادہ قابل مواخذہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب وہ یہود ابھرتے نظر آتے ہیں اور یہ مثیل یہود بیٹھتے چلے جارہے ہیں." فسادات کی ابتداء (الفضل ۱۵.نومبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵) وہ ہولناک فسادات جن میں کئی خوش نصیب احمدی شہادت کے مقام پر سرفراز ہو گئے ، جن میں کئی بچے یتیم اور کئی عورتیں بیوہ ہو گئیں ، جن میں زخمی پیاسوں کی پیاس انتہائی سنگ دلی سے پانی کی بجائے ریت سے بجھائی گئی، جن میں قیمتی
۳۲ جائدادوں کو اپنے اندرونی بغض کی آگ کی وجہ سے آگ لگا کر جلا دیا گیا اور کوشش کی گئی کہ ان مکانوں کے مکین بھی اس آگ میں جل جائیں ، جن میں کئی مخلص ، حاسدوں کے حسد کی وجہ سے اپنے کاروبار اور ملازمت سے محروم ہو گئے ان کی ابتداء پاکبازوں کے پاکباز رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ شَافِعُ الْمُذْنِبِینَ خاتم النبین سلام کی نسبت سے " تحفظ ختم نبوت " کے نام سے شروع کی گئی.مگر اس تحریک کو پروان چڑھانے کیلئے جھوٹ، دھوکا، بازاری زبان ، غلیظ گالیاں گندے کارٹون ، ننگ انسانیت حرکات اور ہر وہ بات کی گئی جس سے شرافت نجل اور نجابت لرزہ براندام ہو گئی.آج بھی جب کہ اس تحریک کو اپنی موت مرے ہوئے ایک مدت گزر چکی ہے یہ خیال ضرور آتا ہے کہ کاش اس دھرتی پر حضور کا نام لیکر ایسی ناپاک حرکات نہ کی جائیں کیونکہ یہ تو ایسا ظلم ہے کہ اس سے سورج تاریک ہو جائے اور چاند اپنی مدھر چاندنی کی بجائے شعلے اگلنے لگے.اس تحریک کی ابتداء کے لئے بہانہ یہ بنایا گیا کہ کراچی کے ایک جلسہ عام میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اسلام زندہ مذہب" کے عنوان پر تقریر کی.اس تقریر کے دوران میں ہی سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق نعرہ بازی اور خشت زنی سے جامہ کو درہم برہم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی اور اس کے بعد آمادہ فساد ہجوم نے کراچی میں احمدیوں کی املاک و جائداد کو تباہ کرنے کی کوشش کی.سندھ حکومت کی بروقت کوشش سے اس معاملہ پر جلد قابو پالیا گیا لیکن شرپسندوں نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے اس واقعہ کو آگے بڑھانا اور پھیلانا شروع کر دیا اور چند علماء نے جمع ہو کر حکومت کو اس امر کیلئے مجبور کرنے کیلئے مختلف طریق استعمال کرنے شروع کر دیئے کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو وزرات خارجہ سے الگ کیا جائے.تمام احمدیوں کو کلیدی اسامیوں سے الگ کر دیا جائے.اس تحریک کو مذہبی رنگ دے کر عوام کو مشتعل کرنے یا بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی.مگر اصل میں اس تحریک کا تو مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا بلکہ مشہور دانشور ، صحافی اور تحریک پاکستان کے مخلص کارکن جناب حمید نظامی کے نزدیک " یہ مطالبات بعض سیاسی طالع آزماؤں نے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کئے تھے." روزنامه ملت ۲۵- دسمبر (۱۹۵۳ء)
۳۴۳ مسٹر غیاث الدین احمد ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب کے نزدیک احرار......عوام کے مذہبی جذبات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کیلئے سیاسی غرض سے کام لے رہے تھے." روزنامه ملت ۹ جنوری ۱۹۵۴ء) مسٹر ابے آر شبلی چیف ایڈیٹر زمیندار کے مطابق ان کی موجودگی میں ( مجلس احرار اور ممتاز محمد دولتانہ کے درمیان سمجھوتہ یہ ہوا تھا کہ احرار احمدیوں کے خلاف تحریک جاری رکھیں گے اور مسٹر دولتانہ صوبہ میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے.املت ۱۳.نومبر ۱۹۵۳ء) جناب چوہدری فضل الہی صاحب جو تحقیقاتی عدالت میں حکومت پنجاب کی وکالت کر رہے تھے ( اور جو بعد میں صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے) کی تحقیق کے مطابق مسٹر دولتانہ کا مقصد یہ تھا کہ خواجہ ناظم الدین کو اقتدار کی کرسی سے اتار پھینکیں.خود اپنی قیادت میں مرکزی حکومت قائم کریں اور پاکستان کو ایک کمیونسٹ حکومت بنادیں." روزنامه آفاقی ۳۰ اکتوبر ۱۹۵۳ء) حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۲ء کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب فرماتے ہوئے اس لاقانونیت بد نظمی اور فتنہ و فساد کا پس منظر اور حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ :.یہ فتنہ گذشتہ دو سال سے جاری تھا مگر اس سال اس نے خاص شدت اختیار کر لی تھی کیونکہ ملک کے بعض عناصر نے اپنی اپنی سیاسی اور ذاتی اغراض کے ماتحت احراریوں سے جوڑ توڑ کرنے اور انہیں ملک میں نمایاں کرنے کی کوشش کی.احمدیت کی مخالفت اور اس طرح چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی مخالفت تو محض ایک آڑ تھی ورنہ اصل مقصد تو در پردہ اپنی سیاسی اغراض حاصل کرنا تھا.اس ایجی ٹیشن کی ابتداء تو انہی عناصر نے کی جو ہمیشہ پاکستان اور مسلم لیگ کے مخالف رہے ہیں.مگر جب انہوں نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں بنتا تو آہستہ آہستہ ایسے مولویوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کیا جو بظا ہر مسلم لیگ کے مخالف نہ تھے اور غیر جانبدار سمجھے جاتے تھے مگر اپنی اغراض کے ماتحت آگے آنا چاہتے تھے.چنانچہ مختلف گروہوں میں سے ایسے ہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس کا نام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ رکھ دیا گیا اور تحفظ ختم نبوت کے نام سے ایجی ٹیشن شروع کر دی گئی.حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ محمد رسول اللہ می وی کو اپنی ختم
۳۴۴ نبوت کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کی مدد کیا ضرورت تھی.ان کی ختم نبوت کا محافظ تو خود اللہ تعالیٰ ہے اور ختم نبوت کا جو مفہوم جماعت احمد یہ بیان کرتی ہے.وہی مفہوم صحابہ کرام اور امت کے بہت سے بزرگوں نے بیان کیا.پھر یہ مفہوم جماعت احمدیہ نے آج پیش نہیں کیا بلکہ ساٹھ سال سے پیش کر رہی ہے.پس آج کوئی بھی ایسی نئی بات اس مسئلہ کے متعلق پیدا نہ ہوئی تھی جسے اس ہنگامہ اور ایجی ٹیشن کی وجہ قرار دیا جا سکے.بہر حال ایجی ٹیشن اشتعال انگیزی اور جھوٹے پراپیگنڈا کے ساتھ بڑھتی چلی گئی حتی کہ حکومت کے بعض ذمہ دار افراد بھی ایک حد تک اس سے متاثر ہو گئے کیونکہ وہ اصل حالات سے ناواقف تھے." (الفضل یکم جنوری ۱۹۵۳ء صفحه ۲) ان فسادات کے دوران حکومت اور حکمران جماعت نے اپنی ذمہ داریاں کس حد تک یوری کیں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.”ہمارے خلاف ان فسادات کے ایام میں حکومت نے اکثر مقامات پر دیانتداری سے کام کرنے اور حالات کو سدھارنے کی کوشش کی.اس نے جو اعلانات کئے وہ بھی درست تھے گو عملاً بعض مقامات پر حکومت حالات پر قابو رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی.صوبائی مسلم لیگ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا مجھے خوشی ہے کہ مسلم لیگ کا رویہ بہت اچھا رہا.اس نے اپنے ہر اجلاس میں دلیری سے اصلی حالات کا جائزہ لیا.پاکستان کے دوسرے صوبوں نے تو پنجاب سے بھی بہتر نمونہ دکھایا بالخصوص سرحد کے وزیر اعظم ( مراد و زیر اعلیٰ.ناقل ) نے تو بڑی دلیری سے اس فتنے کو بڑھنے سے روکا اور اسے دبایا.اسی طرح سندھ میں بھی شرارتیں محدود رہیں اور اب تو پنجاب میں بھی حالات بہتر ہو رہے ہیں.گو پوری طرح فتنہ دبا نہیں ہے." (الفضل یکم جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۲) حکومت کے رویہ کے متعلق اپنی بچی تلی اور متوازن رائے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہوئے بعض افسروں کے افسوسناک طریق عمل کا ذکر فرمایا اس خطاب کے آخر میں آپ نے ایک متوکل خدا پرست رہنما کا نہایت عمدہ نمونہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہم اپنی حق تلفی پر احتجاج کرنے اور شور مچانے کی بجائے اس کی تلافی اس رنگ میں کرنے کی کوشش کریں گے کہ دوسروں کے مقابلہ میں ہمارا معیار ہر لحاظ سے بہتر اور بلند ہو.گویا
۳۴۵ اس طرح آپ نے Survival of the fittest کا نا قابل تبدیل اصول پیش کرتے ہوئے جماعت کو بہترین اخلاق و کردار کے حصول کی طرف توجہ دلائی.آپ فرماتے ہیں.جہاں مجھے خوشی ہے کہ اکثر مقامات پر حکومت نے دیانتداری سے کام کرنے کی کوشش کی ہے.وہاں مجھے افسوس ہے کہ حکومت کے بعض افسروں نے ہمارے متعلق غلطیاں بھی کی ہیں.مثلاً حکومت نے ایک اعلان میں یہ الزام لگایا ہے گو نام نہیں لیا گیا مگر اشاره ہماری ہی طرف تھا کہ احمدی افسر اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھا کر احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اپنے ہم مذہبوں کو ملازمت میں بھرتی کرتے ہیں.اسی طرح ایک ذمہ دار افسر نے کہا کہ احمدی افسر اپنے عہدے سے فائدہ اٹھا کر احمدیوں کو ناجائز الا ٹمنٹ کرتے ہیں.جو شخص اپنے عہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ناجائز طور پر ایسے کام کرتا ہے اور اس طرح حق داروں کی حق تلفی کرتا ہے میرے نزدیک وہ نہ صرف حکومت کا مجرم ہے بلکہ قرآن کا بھی مجرم ہے کیونکہ وہ قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک فعل کا جرم ہو نا کسی کو یہ حق دے دیتا ہے کہ وہ بغیر تحقیقات کے کسی پر اس جرم کے ارتکاب کا الزام لگا دے.کیا حکومت کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ یہ الزام لگانے سے پیشتر اس شکایت کی تحقیقات کرتی اور یوں بغیر تحقیقات کے ایک قوم پر الزام لگا کر اس کی ہتک کی مرتکب نہ ہوتی.کیا حکومت کے لئے یہ کوئی مشکل امر تھا کہ وہ ان الزامات کی باقاعدہ تحقیقات کراتی اور ان کے ثبوت بہم پہنچاتی ؟ پھر اگر یہ الزام کسی احمدی افسر کے متعلق درست ثابت ہو تا تو بے شک اسے سزا دیتی کیونکہ وہ واقعی مجرم ہے نہ صرف حکومت کا بلکہ اسلام کا بھی لیکن اگر یہ الزام درست ثابت نہ ہو تو یقینا یہ صریح بے انصافی ہے کہ ہم پر بغیر تحقیقات کے صرف اس لئے الزام لگا دیا جائے کہ ہم غریب اور کمزور ہیں.اسلامی حکومت کا تو یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کے ایک ادنیٰ سے ادنی انسان کی عزت کی بھی حفاظت کرے اور اس پر کوئی جھوٹا الزام نہ آنے دے.کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ گذشتہ پانچ سال کے عرصہ میں ظفر اللہ خان کے دفتر میں کسی چوہڑے نے بھی بیعت کی ہے اور احمدیت قبول کی ہے اگر یہ نہیں ثابت کیا جا سکتا تو یقیناً ایسا الزام لگانا ظفر اللہ خان پر ظلم نہیں ہے کہ اس قوم پر ظلم ہے جس کے وہ ایک فرد ہیں.اس کے
۳۴۶ بالمقابل مودودی جماعت کے کئی آدمی اس جرم میں پکڑے بھی گئے مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی.پھر الزام لگانے سے پہلے یہ بھی تو دیکھ لیا جاتا کہ کون کون سے احمدی افسر ایسے ہیں جو بھرتی کرنے کے قابل ہیں.کوئی فائیننشل Financial کمشنر احمدی نہیں ہے.کوئی ڈپٹی کمشنر احمدی نہیں ہے.مہاجرین کو زمین تقسیم کرنے والا کوئی اعلیٰ افسر احمدی نہیں ہے.پھر یہ ناجائز الاٹمنٹ کرنے والا اور احمدیوں کو بھرتی کرنے والا ایسا احمدی افسر کون ہے ؟ پھر یہ بھی تو سوچنے والی بات ہے کہ اگر احمدی افسر نا جائز الا ٹمٹیں کرتے تو سب سے پہلے وہ مجھے فائدہ پہنچانے کی کو شش کرتے لیکن مجھے تو انہوں نے کچھ نہ لے کر دیا بلکہ میری جو زمین قادیان میں تھی اس کے کاغذات ابھی ادھر ادھر ہی پھر رہے ہیں.گو احراری تو کہہ رہے ہیں کہ مجھے دس ہزار مربعے ملے ہیں.مگر مجھے دس ہزار مربعے چھوڑ دس مرتبان بھی نہیں ملے.یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ حکومت نے بغیر تحقیقات کے یہ الزام ہماری جماعت پر لگا دیا ہے اور انصاف کا طریق یہی ہے کہ حکومت اس کی پوری پوری تحقیقات کرے.اگر کسی احمدی افسر کے متعلق یہ الزام درست ثابت ہو تو بے شک اسے سخت سے سخت سزا دے لیکن اگر یہ غلط ثابت ہو تو پھر اس کی تردید کرے اور اعلان کرے کہ یہ الزام غلط ہے.حضور نے فرمایا کو الزام تو ہم پر لگایا جاتا ہے کہ احمدی افسر اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے احمدیوں کی مدد کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں احمدیوں سے تعصب برتا جاتا ہے اور ان کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے اور اس طرح ان کی حق تلفی کی جاتی ہے اور اس حق تلفی پر پر وہ ڈالنے کے لئے ان احمدیوں پر الزام لگایا جا رہا ہے.ہم حکومت کے سامنے کئی ایک ایسی مثالیں پیش کر سکتے ہیں جب کہ مختلف محکموں میں احمدیوں کو ملازمت یا ترقی سے صرف اس لئے محروم کیا گیا کہ وہ احمدی ہیں.حالانکہ ان کی تعلیم ، تجربہ ، قابلیت اور گذشتہ ریکارڈ ان کے حق میں تھے لیکن ہم نے ان حق تلفیوں پر کبھی شور نہیں مچایا کیونکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس قسم کی حق تلفی اور تعصب کا بہترین علاج نیہ ہے کہ ہم اپنی تعلیم ، قابلیت محنت، دیانت داری اور اچھے اخلاق کے معیار کو اور بلند کر کے ان
۳۴۷ کا مقابلہ کریں نہ کہ شور مچائیں.اگر ہمارے نوجوان ہماری تعلیم پر عمل کریں گے تو اس قسم کی حق تلفی زیادہ عرصہ نہیں ہو سکتی اور نوکریاں اور ملازمتیں آپ ان کے پاس آئیں گی." (الفضل یکم جنوری ۱۹۵۳ء صفحه ۳) حضور نے تحفظ ختم نبوت کی آڑ میں ذاتی اغراض اور سیاسی مقاصد کے حصول کا ذکر فرمایا ہے اس سلسلہ میں جناب علی الخیاط آفندی کا حقیقت افروز انکشاف جو بغداد کے اخبار الانباء میں شائع ہوا تھا اس مخالفانہ تحریک کے بہت سے مخفی گوشوں کو بے نقاب کرتا ہے.ان کے عربی بیان کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے.گزشتہ دنوں بعض اخبارات نے قادیانی جماعت کے خلاف پے در پے ایسی صورت میں نکتہ چینی کی ہے کہ جس کی طرف انسان کو توجہ کرنی پڑتی ہے قادیانیت کیا ہے؟ اور اخبارات میں اس کے متعلق اس طرح نکتہ چینی کرنے کی کیا وجہ ہے؟ قادیانیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان ایک مشکل در پیش ہے.قطع نظر اس امر کے کہ وہ اتہامات جو قادیانیوں پر لگائے گئے ہیں وہ درست ہیں یا غلط.قادیانی لوگ اپنے آپ کو جماعت احمدیہ کہتے ہیں اور وہ میرزا غلام احمد صاحب کے پیرو ہونے کے مدعی ہیں جو ہندوستان میں قادیان کی بستی میں رہتے تھے اور جنہیں ان کے دعووں کے مطابق اللہ تعالٰی نے بھیجا تھا کہ دین اسلام کو مستحکم کریں.قادیانی انہیں وہی مہدی موعود اور صحیح معہود سمجھتے ہیں جن کے آخری زمانہ میں آنے کے متعلق مختلف مذہبی کتابوں میں پیشگوئی پائی جاتی ہے.قادیانی اسلامی احکام پر عمل پیرا ہیں اور اسلام کے لئے غیرت رکھتے ہیں اور وہ حنفی مذہب کی پیروی کرتے ہیں.احمدیوں کے مخالف انہیں قادیانی کے لفظ سے پکارتے ہیں اور ان کے ظاہری طور پر اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے اور شریعت کے مطابق دینی فرائض کے ادا کرنے کے باوجود انہیں مرتد قرار دیتے ہیں.احمدیت یا قادیانیت کوئی آج نئی پیدا نہیں ہوئی بلکہ قریباً ستر سال پہلے ہندوستان کے شہر قادیان میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور جو لوگ اس طریقہ کو درست سمجھتے تھے انہوں نے اپنے عقیدہ کے مطابق اس کی پیروی کی.ہمارے نزد یک خواہ یہ طریقہ درست ہو یا باطل ہو خواہ یہ لوگ مسلمان ہوں یا اسلام سے خارج ہوں بہر حال اخبارات کے لئے کوئی معقول وجہ اس امر کی نہیں ہے کہ وہ اس نازک
۳۴۸ وقت میں جب کہ مسلمانوں کو چاروں طرف سے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد اور یک جہتی کی ضرورت ہے اس طرز پر قادیانیت کو اپنی تنقید کا ہدف بنائیں.شاید قارئین کو تعجب ہو گا جب انہیں یہ معلوم ہو گا کہ سارے عراق میں اس - جماعت کے صرف ۱۸ خاندان بستے ہیں.9 خاندان بغداد میں چار بصرہ میں چار حبانیہ میں اور ایک خاندان خانقین میں.اور یہ سب لوگ ہندوستان سے عراق میں تجارت کی نیت سے آئے تھے.بعض نے ان میں سے عراقی قومیت کے سرٹیفکیٹ حاصل کر لئے ہیں اور بعض اپنی ہندوستانی قومیت پر قائم رہے جسے انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستانی قومیت میں تبدیل کر لیا.عراق میں اتنے عرصہ سے رہنے کے باوجود انہوں نے کسی عراقی شخص کو اپنی جماعت میں داخل نہیں کیا.ان کا کوئی اپنا معبد نہیں ہے اور نہ ہی ان کے کوئی خاص مذہبی اجتماعات ہیں.ان کی ساری جدوجہد بعض اخبارات اور ایسے ٹریکٹ تقسیم کرنے میں منحصر ہے جن میں اسلام کے غلبہ کے متعلق دلائل دیئے گئے ہیں یا فلسطین اور بعض اسلامی حکومتوں کے دفاع پر گفتگو کی گئی ہے.اس جگہ پر پڑھنے والے کے دل میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ جب واقعہ یہ ہے تو اخبارات میں قادیانیوں پر اس طرح نکتہ چینی کرنے اور اس حملے کی کیا وجہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا صرف ایک سبب ہے اور وہ یہ کہ استعماری طاقتیں مسلمانوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا کرنے کیلئے خاص کو شش کر رہی ہیں اور وہ انہیں اپنی انگلیوں پر نچانا چاہتی ہیں کیونکہ مسلمان ابھی تک اس انتظار میں ہیں کہ وہ یوم موعود کب آتا ہے کہ جب وہ دوبارہ بلاد مقدسہ کو یہودیت کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے متحدہ قدم اٹھا ئیں گے اور فلسطین اس کے جائز اور شرعی حقداروں کو مل سکے گا.استعماری طاقتیں ڈرتی ہیں کہ کہیں عربوں کا یہ خواب پورا نہ ہو جائے اور اسرائیلی سلطنت صفحہ ہستی سے مٹ نہ جائے جس کے قائم کرنے کے لئے انہوں نے بڑی بڑی مشکلات برداشت کی ہیں اس لئے یہ غیر ملکی حکومتیں ہمیشہ کوشش کرتی ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف نعرے لگوا کر منافرت پیدا کی جائے اور بعض فرقے احمدیوں کی تکفیر اور ان پر نکتہ چینی کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں یہاں تک کہ اس طریق سے حکومت پاکستان
۳۴۹ اور بعض ان عرب حکومتوں میں بھی اختلاف پیدا ہو جائے جن کے اخبارات پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان احمدی کو کافر قرار دیتے ہیں.غالبا بہت سے پڑھنے والوں کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی بعض جماعتوں نے اس امر کی کوشش کی تھی کہ مسلمان حکومتوں کا ایک اسلامی بلاک قائم کیا جائے تاکہ ان کی ہستی اور ان کی آزادی قائم رہے اور ان کی بیرونی سیاست ایک نہج پر چلے مگر یہ کوششیں بعض دوسری مسلمان جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکیں.اس تجویز کی ناکامی کے اسباب میں در حقیقت بڑا سبب وہ مسئلہ تکفیر ہے جو بعض انتہاء پسند مولویوں کے ہاتھ میں استعماری طاقتوں نے دیا تھا تاکہ وہ اس تجویز کے محرکین کو قادیانی اور اسلام سے خارج کہہ کر اس کو ناکام بنانے کی کوشش کریں.شاید کسی شخص کو یہ خیال پیدا ہو کہ میرا اس معاملے میں استعماری طاقتوں کو دخل اند از قرار دینا صرف ظن اور گمان ہے مگر میں قارئین کرام کو پورے یقین کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے اس امر کی پوری پوری اطلاع ہے کہ در حقیقت یہ سب کار روائی استعماری طاقتیں کروارہی ہیں کیونکہ فلسطین کی گزشتہ جنگ کے ایام میں ۱۹۴۸ء میں استعماری طاقتوں نے خود مجھے کو اس معاملے میں آلہ کار بنانے کی کوشش کی تھی.ان دنوں میں ایک ظرافتی پرچے کا ایڈیٹر تھا اور اس کا انداز حکومت کے خلاف نکتہ چینی کا انداز تھا.چنانچہ انہی دنوں مجھے ایک غیر ملکی حکومت کے ذمہ دار نمائندہ مقیم بغداد نے ملاقات کے لئے بلایا اور کچھ چاپلوسی اور میرے انداز نکتہ چینی کی تعریف کرنے کے بعد مجھے کہا کہ آپ اپنے اخبار میں قادیانی جماعت کے خلاف زیادہ سے زیادہ دل آزار طریق پر نکتہ چینی جاری کریں کیونکہ یہ جماعت دین سے خارج ہے.میں نے جواب میں عرض کیا کہ مجھے تو اس جماعت اور اس کے عقائد کا کچھ پتہ نہیں میں ان پر کس طرح نکتہ چینی کر سکتا ہوں؟ اس نمائندہ نے مجھے بعض ایسی کتابیں دیں جن میں قادیانی عقائد پر بحث کی گئی تھی اور اس نے مجھے بعض مضامین بھی دیئے تاوہ مجھے اپنے لات کے لکھنے میں فائدہ دیں.چنانچہ ان کتابوں کے مطالعہ سے مجھے اس جماعت کے بعض عقائد کا علم ہوا.لیکن میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہ دیکھی جس سے میرے عقیدہ کے مطابق انہیں کافر قرار دیا جا سکے.اس استعماری نمائندہ سے چند ملاقاتوں کے
۰۵۶ بعد میں نے اس کام کے کرنے سے معذرت پیش کر دی اور کہا کہ میرے عقیدہ کے مطابق یہ طریق اس وقت اسلامی فرقوں میں اختلاف و انشقاق بڑھانے والا ہے.اس شخص نے مجھ سے کہا کہ قادیانی تو مسلمان ہی نہیں اور ہندوستان کے تمام فرقوں کے علماء انہیں کافر قرار دے چکے ہیں.میں نے اس سے کہا کہ ہندوستانی علماء کے اقوال قرآن مجید کی اس آیت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنَّا کہ جو شخص تمہیں السلام علیکم کہے اس کو کا فرمت کہو.میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ شخص غضب ناک ہو گیا اور کہنے لگا کہ معلوم ہو تا ہے کہ قادیانی پراپیگنڈے نے تمہارے دل پر بھی اثر کر دیا ہے اور تو قادیانی بن گیا ہے اور اسلام سے خارج ہو گیا ہے اسی لئے تو ان کی طرف سے جواب دے رہا ہے.میں نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ جناب یقین جانیں کہ میں اتنے لمبے عرصہ سے مسلمان کہلانے اور مسلمانوں میں رہنے کے باوجود یہ دعوی کرنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ میں صحیح معنوں میں مسلمان ہوں تو کیا قادیانیت کے متعلق چند کتب کا مطالعہ مجھے قادیانی بنا سکتا ہے؟ میں جن دنوں اس سفارت خانہ میں جایا کرتا تھا مجھے معلوم ہوا کہ میں اکیلا ہی اس کام کے لئے مقرر نہیں کیا جارہا بلکہ کچھ اور لوگوں کو بھی اس میں شریک کیا جارہا ہے.پھر مجھے یہ بھی پتہ لگا کہ اس کام کے کرنے سے صرف میں نے ہی انکار نہیں کیا بلکہ بعض دوسرے لوگوں نے بھی استعمار کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیا تھا.یہ ان دنوں کی بات ہے جب ۱۹۴۸ء میں ارض مقدسہ کا ایک حصہ کاٹ کر صیہونی حکومت کے سپرد کر دیا گیا تھا اور اسرائیلی سلطنت قائم ہوئی تھی اور میرا خیال ہے مذکورہ بالا سفارت خانه کا یہ اقدام در حقیقت ان دو ٹریکٹوں کا عملی جواب تھا جو تقسیم فلسطین کے موقع پر اسی سال جماعت احمدیہ نے شائع کئے تھے.ایک ٹریکٹ کا عنوان هَيْئَةُ الْأُمَمِ الْمُتَّحِدَةِ وَ قَرَارُ تَقْسِيْمِ فَلَسْطِيْنَ تھا جس میں مغربی استعماری طاقتوں اور صیہونیوں کی ان سازشوں کا انکشاف کیا گیا تھا جن میں فلسطینی بندر گاہوں کے یہودیوں کو سپرد کر دینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا.دوسرائریکٹ " الْكُفْرُ مِلَّةً وَاحِدَةً" کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں مسلمانوں کو کامل اتحاد اور اتفاق رکھنے کی ترغیب افکار
۳۵۱ دی گئی تھی اور صیہونیوں کے مقابلہ اور ارض مقدسہ کو ان سے پاک کرنے کے لئے اموال جمع کرنے کی ترغیب دی گئی تھی.یہ وہ واقعہ ہے جس کا مجھے ان دنوں ذاتی طور پر علم ہوا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ جب تک احمدی لوگ مسلمانوں کی جماعتوں میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور جب تک وہ ان ذرائع کو اختیار کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے جن سے استعماری طاقتوں کی پیدا کردہ حکومت اسرائیل کو ختم کرنے میں مدد مل سکے تب تک استعماری طاقتیں بعض لوگوں اور فرقوں کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں گی کہ وہ احمدیوں کے خلاف اس قسم کی نفرت انگیزی اور نکتہ چینی کرتے رہیں تاکہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہو سکے".(الانباء بغداد ۲۱.ستمبر ۱۹۵۴ء بحوالہ الفرقان د سمبر (۱۹۵۴ء) لا قانونیت اور انار کی کے ان بدترین اُڑ رہا ہوں میں فلک پر اس کو ہے بل کی تلاش ایام میں جب کہ نظم و ضبط اور امن و امان قائم رکھنے والی طاقتیں مکمل طور پر بے بس ہو چکی تھی اور مخالفوں کی کوشش تھی کہ جماعت بھی افرا تفری کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے نابود ہو جائے.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت اپنے اولو العزم امام کی قیادت میں بے پناہ مشکلات اور روکوں کے باوجود اپنی تنظیم قائم رکھنے میں پوری طرح کامیاب رہی.حضرت فضل عمر خدائی تائید و نصرت اور غیر معمولی صلاحیتوں کی برکت سے نہایت سکون اور دلجمعی کے ساتھ جماعت کی رہنمائی فرماتے رہے اور آپ کی حیثیت ایک ایسے جزیٹر Generator کی تھی جو خدا تعالیٰ سے طاقت حاصل کر کے افراد جماعت تک اس کو منتقل کر رہا ہو.حضور کی طرف سے صبر اور دعا کی تلقین نے مظلوموں کے ہاتھ میں ایک ایسا آلہ تھما دیا تھا کہ اس کی موجودگی میں مایوسی و بد دلی کا زہران پر اثر انداز نہیں ہو سکتا تھا.ایسے مشکل حالات میں کسی کو تاہ نظر افسر نے ۲۷.فروری ۱۹۵۳ء کو روزنامہ الفضل کی بندش کا حکم جاری کر دیا اور اس طرح جماعتوں اور امام کے رابطہ کا سب سے موثر ذریعہ منقطع کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی.الفضل پر پابندی کے بعد لاہور سے "فاروق" اخبار کی اشاعت شروع ہوئی اس کے پہلے ہی پرچہ میں جو ۳.مارچ کو شائع ہو ا حضور کا مندرجہ ذیل ولولہ انگیز ایمان اقرو ز پیغام شائع ہوا.
۳۵۲ برادران السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته الفضل کو ایک سال کے لئے بند کر دیا گیا ہے.احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے.پس دعا ئیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو.اس میں سب طاقت ہے ہم مختلف اخباروں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے.آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں انشاء اللہ فتح ہماری ہے.کیا آپ نے گذشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا ؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا.سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے وہ میرے پاس ہے.وہ مجھ میں ہے خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو.سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا.خاکسار مرزا محمود احمد.۳.مارچ ۱۹۵۳ء ہفت روزہ فاروق) اس پیغام میں خدائی نصرت کے متعلق جس یقین اور وثوق کا اظہار تھا اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.پچھلے دنوں جب فسادات ہوئے تو مجھے جماعت سے خطاب کرنا پڑا اور میں نے کہا کہ کیا تم نے گذشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا ہو پھر کیا وہ مجھے اب چھوڑ دے گا ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگروہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ تو میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے.میرے اس اعلان سے گورنمنٹ نے سمجھا کہ فساد ہو جائے گا اور اس نے سیفٹی ایکٹ کے ماتحت میری زبان بندی کر دی.مگر واقعہ یہی تھا که خدا میری طرف دوڑا چلا آرہا تھا اور جب مجھے دکھائی دے رہا تھا کہ خدا میری طرف آ رہا ہے تو میں اس کو کس طرح چھپا سکتا تھا اور سیفٹی ایکٹ خدا تعالیٰ کی تائید سے ہمیں کس طرح محروم کر سکتا تھا وہ شخص جس نے خدا تعالی کی تائید کو نہیں دیکھا وہ اگر انکار کرتا ہے تو دینی نابینائی کی وجہ سے کرتا ہے لیکن وہ شخص جس نے الہی نشانات کو بارش کی
۳۵۳ طرح برستا دیکھا ہو اور اس کی محبت کا مشاہدہ کیا ہوا سے یہ کہنا کہ تم نے ایسا کیوں کہا ہے بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے اس وقت میرے سامنے ہزاروں آدمی بیٹھے ہیں.اور میں انہیں دیکھ رہا ہوں لیکن گورنمنٹ کی طرف سے کہا جائے کہ تم کہو کہ میں ان آدمیوں کو نہیں دیکھ رہا بھلا اس سے زیادہ حماقت کی اور کیا بات ہو گی.جب وہ مجھے نظر آرہا ہے اور جب مجھے دکھائی دے کہ وہ میری تائید کے لئے دوڑا چلا آ رہا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ وہ میری تائید کے لئے دوڑا چلا آ رہا ہے.اس پر اگر سیفٹی ایکٹ کے ماتحت مجھے نوٹس بھی دے دیا جائے تب بھی یہ ایک محض عارضی چیز ہے جب میرا خد امیری مدد کے لئے آئے گا تو سیفٹی ایکٹ آپ ہی آپ ختم ہو جائے گا." (المصلح ۲۶.اکتوبر ۱۹۵۳ء) اس پیغام کے سلسلہ میں ایک اور موقع پر حضور فرماتے ہیں.اس وقت بعض افسروں نے کہا کہ آپ کے اس فقرہ سے اشتعال پیدا ہوتا ہے میں نے ان کو جواب دیا کہ جب مجھے خدا آتا ہوا نظر آتا ہے تو کیا میں جھوٹ بولوں ؟ خدا تعالی ہمیشہ ہی اپنے بچے بندوں کی مدد کے لئے آیا کرتا ہے اور اب بھی آئے گا اور ہمیشہ ہی آتا رہے گا اگر یہ سلسلہ جاری نہ ہو تو خدا تعالیٰ کے دین کے خادم تباہ ہو جائیں اور ان کے دل غم سے ٹوٹ جائیں." (الفضل ۱۰.جولائی ۱۹۵۷ء) دشمن جماعت کا نام و نشان مٹانے کے درپے ہے.ہر قسم کے سازو سامان اور کثرت پر نازاں ہے اسے اپنی ناکامی کا کوئی اندیشہ نہیں ہے اس کے مقابل پر جماعت کی کس مپرسی بے بسی اور بے مائیگی جنگ بدر کے ۳۱۳ نتے اور کمزور صحابہ کی سی ہے.مگر خدا تعالیٰ پر ایمان و ایقان بھی اس درجہ کا نظر آتا ہے جو اولیاء اللہ سے ہی مخصوص ہے.ان حالات میں جماعتوں سے رابطہ رکھنے کا کام انتہائی ضروری تھا.حضور نے اس امر کی طرف بطور خاص توجہ فرمائی.فاروق میں جو پیغام شائع ہو ا تھا اس میں حضور نے فرمایا.انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے " یہ پیغام ۳.مارچ کو شائع ہوا تھا.تین مارچ کو ہی حضور نے مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت کی نگرانی میں دفتر اطلاعات جسے بعد میں دفتر ریکارڈ کہا جاتا رہا قائم فرمایا.اس انتظام کے ماتحت کراچی سے المصلح اخبار کے اجراء تک اطلاع ناموں اور خطوط کے ذریعہ جماعت کو
۳۵۴ پیش آمدہ حالات سے مطلع رکھا جاتا اور بیرونی مشنوں کی حوصلہ افزا خبروں سے جماعت کے حو صلے بلند رکھنے کی کوشش کی جاتی.صدرانجمن احمدیہ کے بعض مربی اور کارکن مسلسل راتوں کو جاگ کر بہت ہی کم ذرائع اور وسائل کے باوجود ایسے خطوط کو سائیکلو سٹائل کرنے اور انہیں لفافوں میں ڈال کر ان پر پتے لکھ کر پوسٹ کرنے کے فرائض انجام دیتے رہے.رات کی اس پر مشقت اور تھکا دینے والی ڈیوٹی کے باوجود اس وقت کے حالات کے مطابق ان کارکنوں کو بسا اوقات بغیر دودھ کے چائے یا صرف قہوہ پی کر وقت گزارنا پڑتا تھا.تحقیقاتی عدالت جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے فاروق کی اشاعت ہنگامی حالات میں ہوئی تھی.حضور نے مکرم مولانا محمد شفیع صاحب اشرف کو اس کا ایڈیٹر مقرر فرمایا تھا.المصلح کراچی کی اشاعت تک یہ اخبار با ہم رابطہ کا اہم ذریعہ تھا.ان دنوں میں حضور کی طرف سے مختلف پیغامات جاری کئے گئے جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو جماعت کی مشکلات کا بخوبی اندازہ تھا اور آپ اپنی دعاؤں کے ساتھ ساتھ ہر ممکن طریق سے ان مشکلات کے ازالہ کے لئے اسی طرح مصروف و مشغول تھے جس طرح ایک پیار کرنے والا باپ اپنی اولاد کے لئے ہو سکتا ہے بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر اور کہیں زیادہ.فسادات کی روک تھام کے لئے وفاقی حکومت کی آخری وقت پر مداخلت کی وجہ سے (جبکہ بہت زیادہ نقصان ہو چکا تھا) لاہور میں مارشل لا لگا دیا گیا.جس کے سربراہ جنرل اعظم تھے.قیام امن کی اس ذمہ دارانہ کوشش سے چند گھنٹوں میں کشت و خون لوٹ مار اور غنڈا گردی تھم گئی اور حالات قابو میں آنے لگے.اس امر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب کے بعض افسران فسادات کو دور کرنے کی بجائے انہیں ہوا دینے میں مصروف تھے.ان فسادات کے عوامل اور ذمہ داری کا تعین کرنے کے لئے حکومت پنجاب نے ایک تحقیقاتی عدالت قائم کی.اس عدالت کے صدر جناب چیف جسٹس محمد منیر اور دوسرے ممبر جناب جسٹس محمد رستم کیانی (ایم.آر کیانی تھے.ان دونوں جوں نے نہایت محنت اور توجہ سے یکم جولائی ۱۹۵۳ء سے ۲۸.فروری ۱۹۵۴ء تک اپنی کار روائی جاری رکھی.اس عدالت کے سامنے حکومت پنجاب ، مسلم لیگ، مجلس عمل ، جماعت احرار ، جماعت اسلامی وغیرہ کے مشہور وکلاء پیش ہوئے.جماعت کی طرف سے محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب محترم جناب عبد الرحمان صاحب خادم پیش ہوئے اور نہایت عمدگی سے جماعت کا موقف پیش کیا.مکرم خادم صاحب کی وسعت معلومات کی تعریف فاضل جوں نے اپنی رپورٹ میں بھی کی ہے.
۳۵۵ اس عدالت کے سامنے پاکستان کے قریباً تمام مشہور علماء اکثر سیاستدان اور اخبار نویس و غیره پیش ہوئے.ہزاروں صفحات اور سینکڑوں دستاویزات و بیانات پر مشتمل عدالتی کارروائی کا بنظر غور جائزہ لینے کے بعد اپنا واضح اور دوٹوک فیصلہ دیتے ہوئے ان فسادات کے براہ راست ذمہ دار مجلس احرار ، جماعت اسلامی ، آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن کراچی ، آل مسلم پارٹیز کنونش لاہور تعلیمات اسلامی بورڈ کراچی، صوبائی مسلم لیگ مرکزی حکومت محکمہ اسلامیات اور بعض اخبارات کو قرار دیا.اس عدالت کے سامنے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بطور گواہ پیش ہوئے اور جماعت کے موقف اور اپنے طرز عمل کی نہایت موثر و معقول وضاحت فرمائی.جماعت کے نقطہ نظر سے عدالتی کارروائی کا نقطہ عروج ہمارے پیارے امام حضرت موعود کا عدالت میں بطور گواہ پیش ہونا تھا.پاکستانی عوام بالعموم اور غیر احمدی علماء اور وکلاء بالخصوص اس امر کو جماعت اور امام جماعت کی تذلیل اور سیکی کا باعث سمجھتے ہوئے بڑی شدت سے اس کے منتظر تھے.حضور ایک منفرد شان سے عدالت میں تشریف لے گئے نہایت وقار اور متانت سے عدالت کے منصفوں اور وکلاء کے سوالات کے جواب دیئے.حضور کا بیان ۱۲.جنوری ۱۹۵۴ء سے ۱۷.فروری ۱۹۵۴ء تک جاری رہا.جماعت لاہور کے بہت سے مخلص اس طرح ربوہ سے جامعتہ المبشرین کے طلبہ اساتذہ اور بعض اور بزرگ اس موقع پر ضروری خدمات کے لئے موجود رہے.عدالت میں حضور کے بیان کی تفصیل تو یہاں پیش نہیں کی جا سکتی البتہ اس بیان کے متعلق بعض آراء اور تاثرات درج ذیل ہیں.محترم چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ نے حضور کی خدمت میں بعض معزز غیر احمدیوں کے تاثرات تحریر کرتے ہوئے لکھا." ہر وکیل جو ملتا ہے تعریف کرتا ہے.بے حد تعریف اور اپنے اپنے رنگ میں.کوئی اپنی خفت مٹانے کے لئے اپنے وکیلوں کو کوستا ہے...کوئی کہتا ہے کہ ایسا مولوی تلاش کرنا چاہے تھا جس کو دینی اور دنیوی علوم پر عبور ہو تا.کوئی مظہر علی اظہر اور میکش ( مرتضی احمد خان میکش کو کوستا ہے اور نالائق بیان کرتا ہے اور بعض یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ واقعی ایسابیان ذہانت کا شاہکار ہے.میر قیوم (ایک مشہور وکیل) نے کہا کہ خیالات سے کوئی متفق ہو یا نہ ہو مگر بیان پڑھ کر
۳۵۶ یہ احساس شدید ہوا ہے کہ بیان نہایت (Straight) ہے اور پوری دیانت و امانت سے اپنی رائے کا اظہار ہے.....ان مولویوں کی زبر دست شکست ہے کہ کچھ بھی اپنے مطلب کی بات نہ پوچھ سکے.ایک نے کہا کہ یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ مرزا صاحب پاکستان میں واحد عالم ہیں.بیان میں تناقض قطعاً نہیں لوگ حیران ہیں کہ اس قدر اختصار اور ایسے مشکل اور حیران کن مسائل کے متعلق ایک وکیل نے کہا کہ مرزائیوں کے عقائد بڑے (Rational ) (معقول ) ہیں انہوں نے مذہب کو (Rational) کر دیا ہے...مرزائیوں کے عقائد عقل اور دلیل پر مبنی ہیں ایک ہنس کر کہنے لگا مجھے تو ڈر ہے منیر بھی (چیف جسٹس) مرزائی نہ ہو جاوے" محترم جناب گیانی عباد اللہ صاحب نے لاہور کے پڑھے لکھے لوگوں کے تاثرات بیان کرتے ہوئے حضور کے نام اپنے ایک خط میں لکھا » پڑھا لکھا طبقہ جن میں بعض کمیونسٹ بھی شامل ہیں کہہ رہا ہے کہ اگر تو اسلام کی یہی تعلیم ہے جو حضور نے بیان کی ہے تو پھر یہ اسلام ایا ہے جو مستقبل میں قابل قبول ہو گا.مولوی کا اسلام تو بہت گھناؤنا ہے اس کے لئے کوئی جگہ نہیں...اس طرح جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے اپنے خط میں تعلیم یافتہ طبقہ کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا." حضور کے بیان کا اثر تعلیم یافتہ طبقہ پر بہت گہرا ہوا ہے.اتنا گہرا کہ اندازہ بھی مشکل سے ہو سکتا ہے.ایک سب بج جو بیان کے وقت عدالت میں موجود تھا اس کا قول ہے کہ اگر ایمان مضبوط نہ ہو تو احمدی ہونے کو اس وقت جی چاہتا تھا.اس بیان سے بہت سی غلط فہمیاں احرار کی پھیلائی ہوئی دور ہو چکی ہیں.بہت سے پیچیدہ مسائل کے حل ہونے کا لوگ اعتراف کرتے ہیں.غرضیکہ تائید الہی اور نصرت بالرعب کا سماں ہے وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ ) تاریخ احمدیت جلد ۱۶ صفحه ۴۱۱) اس تصویر کا دوسرا رخ بھی بہت دلچسپ و عجیب ہے.عدالت میں مسلم لیگ اور مخالف جماعتوں کے وکلاء و علماء اس زعم میں پیش ہوئے تھے کہ وہ اپنی کثرت کے بل بوتے پر اپنا مؤقف ثابت کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کریں گے مگر فسادات کے دوران ان کے غلط طرز عمل اور ان کے بودے خیالات و استدلال کی وجہ سے انہیں اس مضحکہ خیز صور تحال کا سامنا کرنا پڑا کہ آج
۳۵۷ تک تحقیقاتی عدالت کا ذکر بھی علماء کی دکھتی ہوئی رگ پر انگلی رکھنے کے مترادف ہے.مسلم کی تعریف کے متعلق کوئی دو عالم بھی باہم متفق نہ تھے.اس بنیادی مسئلہ کے متعلق علماء کے بیانات کے پیش نظر تحقیقاتی عدالت کے فاضل ججوں نے لکھا.ان بہت سی تعریفوں کے پیش نظر جو کہ علماء نے پیش کی ہیں کیا ہمیں کسی تبصرے کی ضرورت ہے سوائے اس کے کہ کوئی بھی دو مقدس عالم اس بنیادی اصول پر متفق نہ تھے.اگر ہم خود اسلام کی تعریف پیش کرنے کی کوشش کریں جیسا کہ ہر فاضل عالم دین نے کی ہے اور ہماری تعریف ان سے مختلف ہو جو دوسروں نے کی ہے تو ہم متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج.اور اگر ہم کسی ایک عالم کی بتائی ہوئی تعریف کو قبول کر لیں تو ہم صرف اس ایک عالم کی تعریف کے مطابق ہی مسلمان رہتے ہیں لیکن باقی تمام علماء کی تعریفوں کے مطابق ہم کا فربن جاتے ہیں." فسادات کے دوران کس قدر نقصان ہوا اور کیسے شرمناک کرتوت نقصانات کا اجمالی ذکر اسلام اور بانی اسلام میں اللہ کے نام پر کئے گئے ان کی تفصیل ایک الگ کتاب کی متقاضی ہے.حضرت فضل عمر نے اپنے ایک خطاب میں اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا.ان دنوں پنجاب کے اکثر اضلاع میں احمدیوں کی حالت ایسی ہی تھی.جیسے لومڑ کا شکار کرنے کے لئے شکاری کتے اس کے پیچھے پیچھے دوڑتے پھرتے ہیں اور لومڑ اپنی جان بچانے کے لئے کبھی ادھر بھاگتا ہے اور کبھی ادھر بھاگتا ہے ان ایام میں لاریاں کھڑی کر کے احمدی کو نکالا جاتا اور انہیں پیٹا جاتا.اسی طرح زنجیریں کھینچ کر گاڑیوں کو روک لیا جاتا اور پھر تلاشی لی جاتی کہ گاڑی میں کوئی احمدی تو نہیں اور اگر کوئی نظر آتا تو اسے مارا پیٹا جاتا.اسی طرح ہزاروں ہزار جتھے بن کر دیہات میں نکل جاتے اور گاؤں کے دس دس پندرہ پندرہ احمدیوں پر حملہ کر دیتے یا اگر ایک ہی گھر کسی احمدی کا ہو تا تو اسی گھر پر حملہ کر دیتے.مال و اسباب لوٹ لیتے.احمدیوں کو مارتے پیٹتے اور بعض شہروں میں احمدیوں کے گھروں کو آگ بھی لگائی گئی.بیسوں جگہوں پر احمدیوں کے لئے پانی بھی روک دیا گیا اور وہ تین تین چار چار دن تک ایسی حالت میں رہے کہ انہیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں مل سکا.اسی طرح بعض جگہ ہفتہ ہفتہ دو دو ہفتے وہ بازار سے سودا بھی نہیں
۳۵۸ خرید سکے.بیرونی جماعتیں ان حالات سے ناواقف تھیں وہ گورنمنٹ کے اعلانوں کو سن کر کہ ہر طرح امن ہے اور خیریت ہے خوش ہو جاتی تھیں." (المصلح کراچی ۱۴.جولائی ۱۹۵۳ء) حضرت مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی گرفتاری ۱۹۵۳ء کے روح فرسا اور اندوہناک واقعات میں بے گناہ احمدیوں کو پتھر مار مار کر موت کے گھاٹ اتارنا باپ کے سامنے اس کے بیٹے کو شرمناک قسم کی اذیتیں دے دے کر ختم کرنا ، زخمی پیاسوں کے منہ میں پانی کی بجائے ریت ڈالنا وغیرہ شامل ہیں.جماعت صحابہ کرام جیسی یہ قربانیاں غیر معمولی اخلاص و فدائیت کے ساتھ پیش کر رہی تھی مگر وہ واقعہ فاجعہ جس نے دنیا بھر کی احمدی جماعت کو ہلا کر رکھ دیا وہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی یکم اپریل ۱۹۵۳ء کو لاہور سے گرفتاری تھی.اگر مخالفین کو یہ اندازہ ہو تاکہ وہ اپنی اس کارروائی سے جماعت کے زخمی دلوں پر نمک پاشی کر کے وہ کیفیت پیدا کر رہے ہیں جس میں دل و دماغ کے سوزو گداز اور آنکھوں کے اشکوں سے متى نَصْرُ اللہ کی صداد فریاد نکلتی اور عرش الہی کو ہلا کر رکھ دیتی ہے تو شاید وہ اس عاقبت نا اندیشی سے بازہی رہتے.فوجی عدالت نے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کو ایک سال قید با مشقت اور پانچ ہزار روپے جرمانہ اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ( جو ۱۹۶۵ء میں جماعت کے خلیفہ بنے) کو پانچ سال قید بامشقت اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی.یہاں اس امر کی وضاحت کی تو کوئی ضرورت نہیں کہ ان ہر دو بزرگ ہستیوں نے کسی قانون شکنی یا فساد وغیرہ کا ارتکاب نہیں کیا تھا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اسی موقع پر کہا تھا " چلاؤ کوئی جا کے مزار مسیح نصرت جہاں کی گود کے پالوں کو لے گئے؟ قادیان کے درویشوں نے تو مزار مسیح پر جا کر گریہ وزاری کو انتہا تک پہنچایا ہی ہو گا.دنیا بھر کے احمدیوں نے بھی اس میں کوئی کمی نہ رہنے دی.خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی عاجزانہ دعاؤں کو شرف قبول بخشا اور ۲۸.مئی ۱۹۵۳ ء کو ان کی رہائی عمل میں آگئی.اس سنت یو سفی کی پیروی کی سعادت حاصل ہونے پر ہر دو بزرگوں نے ایمان و توکل اور وقار و دلجمعی کا مثالی مظاہرہ فرمایا جس
۳۵۹ سے اپنے اور بیگانے بہت متاثر ہوئے.یہ گورنمنٹ کے بعض افسروں کی طرف سے اس بات کا بخوبی علم ہونے کے باوجود کہ جماعت امن پسند ہے اور کسی پر ظلم نہیں کر رہی بلکہ اس پر ظلم و زیادتی ہو رہی ہے جماعت کو ہی دبانے کی کوشش کی.ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ نے ۱۲.مارچ ۱۹۵۳ء کو ایسے بیانات شائع کرنے پر پابندی لگادی جن میں راست اقدام وغیرہ کا ذکر ہو.گورنر پنجاب نے بھی ۱۸.مارچ کو حضور پر تقریر کرنے یا بیان یا رپورٹ شائع کرنے پر پابندی لگادی.گورنر کا یہ حکم 19 مارچ کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس جھنگ کے ذریعہ حضور تک پہنچایا گیا.ہمارے آقا نے یہ نوٹس ملنے پر خدا تعالی پر ایمان و توکل کا نہایت شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا." آپ اس وقت اکیلے مجھ سے ملنے آئے ہیں اور کوئی خطرہ محسوس کئے بغیر میرے پاس پہنچ گئے ہیں اسی لئے کہ آپ کو یقین ہے کہ گورنمنٹ آپ کی پشت پر ہے.پھر اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ گورنمنٹ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے حکومت آپ کی مدد کرے گی تو کیا میں جو خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں مجھے یقین نہیں ہونا چاہئے کہ خدا میری مدد کرے گا.بے شک میری گردن آپ کے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے.آپ کے گورنرنے میرے ساتھ جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا اب میرا خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا." (الفضل ۵.ستمبر ۱۹۵۸ء) مذکورہ بالا پابندی مسٹر آئی.آئی چندریگر کے زمانہ میں لگائی گئی تھی.حضور کے مندرجہ بالا شوکت بیان کے مطابق ان کی گردن جلد ہی ناپ لی گئی اور ان کی جگہ میاں امین الدین صاحب پنجاب کے گورنر مقرر ہوئے اور انہوں نے یکم مئی ۱۹۵۳ء کو یہ غیر منصفانہ نوٹس واپس لے لیا.(المصلح کراچی ۵ - مئی ۱۹۵۳ء) اس سے قبل قصر خلافت اور بعض معزز احمدیوں کی ربوہ اور بیرون ربوہ خانہ تلاشی بھی ہوئی اور حکومت کو کسی جگہ بھی کوئی قابل اعتراض مواد نہ ملا.اس تلاشی کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے ایک موقع پر فرمایا.”انہی ایام میں جب کہ ابھی فتنہ کے آثار باقی تھے سپریٹنڈنٹ پولیس ضلع جھنگ ڈی ایس پی کو ساتھ لے کر میرے مکان کی تلاشی کے لئے آئے چونکہ (وہ......گورنر
٣٦٠ پنجاب کے نوٹس والا واقعہ سن چکے تھے اور وہ دیکھ چکے تھے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے چند دنوں کے اندراندر میری بات کو پورا کر دیا اور مسٹر چند دیگر کو پنجاب سے رخصت کر دیا اور پھر اس سے پہلے میری طرف سے یہ بھی شائع ہو چکا تھا کہ میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے اس لئے وہ اتنے متاثر تھے کہ مجھے کہنے لگے کہ مجھے حکم تو یہ ہے کہ عورتوں والے حصہ کی بھی تلاشی لی جائے مگر مجھے کسی تلاشی کی ضرورت نہیں.میں گورنمنٹ کو لکھ دوں گا کہ میں نے تلاشی لے لی ہے.میں نے کہا اگر آپ ایسا لکھیں گے تو میں اخبار میں اعلان کر دوں گا یہ بالکل غلط ہے انہوں نے کوئی تلاشی نہیں لی.آپ اندر چلیں اور ایک ایک چیز کو دیکھیں تاکہ آپ کے دل میں کوئی شبہ نہ رہے چنانچہ وہ اندر گئے اور انہوں نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سے کہا کہ وہ کاغذات دیکھ لیں." (الفضل ۵- ستمبر ۱۹۵۸ء) اس واقعہ سے بھی حضور کا مخالف حالات کے باوجود پورے طور پر سکون سے رہنے کا ثبوت ملنے کے علاوہ آپ کے ایمان و توکل اور ایقان و عرفان کا اظہار ہوتا ہے.اس واقع سے وہ تلاشی بھی یاد آتی ہے جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئی کے مطابق لیکھرام کے قتل کے بعد آپ کی ہوئی تھی اور آپ خود پولیس افسر کو سارے گھر میں ساتھ لے کر ہر چیز دکھاتے رہے.جس طرح اس تلاشی کے نتیجہ میں یہ ثابت ہوا تھا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کوئی سازش نہیں کی تھی اور آپ کی پیشگوئی کے پورا ہونے میں کسی انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہیں تھا اسی طرح اس موقع پر بھی یہ ثابت ہوا کہ جب حضرت فضل عمر نے یہ فرمایا تھا کہ خدا میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے تو آپ نے واقعی خدا تعالیٰ کو اپنی مدد کے لئے آتے ہوئے دیکھا تھا اور اسی وجہ سے آپ کو کسی خلاف قانون حرکت یا انسانی امداد کی ضرورت نہ تھی اور خدائے قادر آپ کی تائید و نصرت فرما رہا تھا.خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے پنجاب بھر میں امن و امان کی صور تحال جس خوفناک حد تک تحقیقاتی عدالت کا تبصرہ گرگوں ہو گئی تھی اس پر جامع تبصرہ کرتے ہوئے.تحقیقاتی عدالت کے فاضل جوں نے لکھا.یہ امر تمام جماعتوں کے نزدیک مسلم ہے کہ ۶.مارچ کو جو کوائف موجود تھے ان میں حالات کو فوج کے حوالے اور سول اقتدار کو فوج کے ماتحت کر دینا بالکل ناگزیر ہو
- چکا تھا.سول کے حکام جو عام حالات میں قانون و انتظام کے قیام کے ذمہ دار ہوتے ہیں کاملا بے بس ہو چکے تھے اور ان میں ۶.مارچ کو پیدا ہونے والی صورت حالات کا مقابلہ کرنے کی کوئی خواہش اور اہلیت باقی نہ تھی.نظم حکومت کی مشینری بالکل بگڑ چکی تھی اور کوئی شخص مجرموں کو گرفتار کر کے یا ارتکاب جرم کو روک کر قانون کو نافذ العمل کرنے کی ذمہ داری لینے پر آمادہ یا خواہاں نہ تھا.انسانوں کے بڑے بڑے مجمعوں نے جو معمولی حالات میں معقول اور سنجیدہ شہریوں پر مشتمل تھے ایسے سرکش اور جنون زدہ ہجوموں کی شکل اختیار کرلی تھی جن کا واحد جذیہ یہ تھا کہ قانون کی نافرمانی کریں اور حکومت وقت کو جھکنے پر مجبور کر دیں اس کے ساتھ ہی معاشرے کے ادنیٰ اور ذلیل عناصر موجودہ بد نظمی اور ابتری سے فائدہ اٹھا کر جنگل کے درندوں کی طرح لوگوں کو قتل کر رہے تھے ان کی املاک کو لوٹ رہے تھے اور قیمتی جائیداد کو نذر آتش کر رہے تھے.محض اس لئے کہ یہ ایک دلچسپ تماشہ تھا یا کسی خیالی دشمن سے بدلہ لیا جارہا تھا.پوری مشینری جو معاشرے کو زندہ رکھتی ہے پر زہ پر زہ ہو چکی تھی." (رپورٹ صفحہ ۱۹۳) تحقیقاتی عدالت کے وقیع سنجیدہ اور بالغ نظر جوں نے فتنہ احرار کے متعلق نہایت معنی خیز تمثیل سے جامع تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:.احرار نے ایک بچہ جنا جسے انہوں نے متبنی بنانے کے لئے علماء کی خدمت میں پیش کیا علماء نے اس کا باپ بننا منظور کر لیا لیکن مسٹر دولتانہ نے سمجھ لیا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر پنجاب میں شرارت کرے گا لہذا انہوں نے اسے ایک نہر میں بہا دیا جو مسٹر نور احمد کی مدد سے کھو دی گئی تھی اور جس کو پانی اخباروں نے اور خود مسٹر دولتانہ نے مہیا کیا تھا.جب یہ بچہ حضرت موسیٰ کی طرح بہتا ہوا خواجہ ناظم الدین تک پہنچا تو انہوں نے دیکھا کہ بچہ خوبصورت تو ہے لیکن اس کے چہرے پر ایک چین جبیں اور ایک غیر معمولی سی ناگواری نظر آتی ہے.چنانچہ انہوں نے اسے گود میں لینے سے انکار کیا اور پرے پھینک دیا اس پر بچے نے ایڑیاں رگڑنا اور شور مچانا شروع کر دیا.اس شور نے اس کی پیدائش کے بے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور خواجہ ناظم الدین اور دولتانہ دونوں کو موقوف کرا دیا.یہ بچہ ابھی زندہ ہے اور راہ دیکھ رہا ہے کہ کوئی آئے اور اسے اٹھا کر گود میں لے اس مملکت خداداد پاکستان میں سیاسی ڈاکوؤں، طالع آزماؤں اور گمنام و
۳۶۲ بے حیثیت آدمیوں غرض سب کے لئے کوئی نہ کوئی روزگار موجود ہے.(رپورٹ صفحہ ۳۰۷) تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کا یہ اقتباس موجودہ حالات میں بھی جبکہ اس تبصرہ کو چار دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ہمارے اہل فکر اور اصحاب حل و عقد کے لئے غور فکر کی راہ متعین کرتا ہے.ہندوستان کے مشہور ادیب ، مصنف، صحافی، قرآن پاک کے مترجم مولانا عبد الماجد دریا آبادی نے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں سے بعض اقتباسات بیان کرنے کے بعد نہایت مختصر اور جامع تبصرہ کرتے ہوئے " خارجیت کی جارجیت " کے زیر عنوان لکھا.”انٹی احمد یہ بلوؤں کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے دو سوالوں کے دو جواب:.(1) " کیا آپ ہندوؤں کا جن کی بھارت میں اکثریت ہے یہ حق تسلیم کریں گے کہ وہ اپنے ملک کو ہندو دہار لک کی ریاست بنائیں ؟ جواب.جی ہاں.کیا اس طرز حکومت میں منو سمرتی کے مطابق مسلمانوں سے ملیچھوں یا شودروں کا سا سلوک ہونے پر آپ کو کچھ اعتراض تو نہیں ہو گا.جواب.ہی نہیں.(۲) اگر پاکستان میں اس قسم کی اسلامی حکومت قائم ہو جائے تو کیا آپ ہندوؤں کو اجازت دیں گے کہ وہ اپنا آئین اپنے مذہب کی بنیاد پر بنا ئیں ؟ جواب.یقیناً بھارت میں اس قسم کی حکومت مسلمانوں سے شودروں اور ملیچھوں کا سا سلوک بھی کرے اور ان پر منو کے قوانین نافذ کر کے انہیں حقوق شہریت سے محروم اور حکومت میں حصہ لینے کے نااہل قرار دے ڈالے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا.یہ دونوں جوابات آپ کو یقین آئے گا کہ کن کی زبان سے ادا ہوئے ہیں ! پہلا جواب صدر جمعیت علماء پاکستان ابو الحسنات مولانا محمد احمد قادری رضوی (بریلوی) کا ہے.اور دوسرا بانی و امیر جماعت اسلامی مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کا.اِنَّا لِلَّهِ ثُمَّ إِنَّا لِلَّهِ کس نے ڈبوئی خضر نے! مسلمانان ہند کا بڑے سے بڑا دشمن بھی کیا اس سے بڑھ کر کوئی جواب دے سکتا تھا! فریاد بجز مالک حقیقی کے اور کس سے کیجئے !.کس شقاوت کے ساتھ چار کروڑ کلمہ گوؤں کو سیاسی موت کا حکم سنایا جا رہا ہے.اور ان میں سے ایک جمعیت علمائے پاکستان کے صدر ناؤ
۳۶۳ ہیں اور دو سرے جماعت اسلامی کے بانی و امیر" ( صدق جدید -۲۸ مئی ۱۹۵۴ء بحوالہ ماہنامہ الفرقان ربوہ جولائی ۱۹۵۴ء) پچھلے صفحات کے مطالعہ سے اس پر آشوب زمانہ کا کسی قدر اندازہ ہو جاتا ہے.ان حالات میں ہمارے پیارے امام نے جماعت کو ہر قسم کی لاقانونیت اور عدم تعاون سے جس طرح الگ رکھا وہ حضور کی قائدانہ صلاحتیوں کا ایک بھر پور مظاہرہ اور خدائی تائید و نصرت کا عظیم جلوہ ہے.۱۹۳۴ء کی مخالفانہ کاروائیوں کے جواب میں حضور نے تحریک جدید کا آغاز فرمایا تھا.اس موقع پر حضور نے جماعت کو صبر و صلوۃ " کی تلقین فرمائی اور حضور کے ارشاد پر ربوہ کی مرکزی مسجد میں علماء سلسلہ نے قرآن وحدیث کے درس دینے شروع کئے تا افراد جماعت اس روحانی اسلحہ سے لیس ہو کر وہ ایمانی طاقت و قوت حاصل کر لیں جس سے اخلاص و قربانی کے جذبہ کو ترقی ملے اور ایمانی جرأت و قربانی سے ٹکرا کر مخالفوں کی مخالفت ناکام ہو جائے.انتہائی مشکل حالات میں حضور جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے ہر احمدی سے یہ توقع اور خواہش کر رہے ہیں کہ ان میں سے ہر فرد اپنے مقاصد کو سامنے رکھ کر ان کے حصول کی کوشش کرتا چلا جائے.آپ فرماتے ہیں." تم نے اجتماعیت کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے.اب تم نے انفرادیت کا بھی نمونہ دکھانا ہے.بہت سے احمدی گھبرا کر میرے پاس آتے ہیں تو میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک خلیفہ کا قائم مقام ہے، تم میں سے ہر ایک دین کا مرکز ہے ، تم میں سے ہر ایک کو سمجھ لینا چاہئے کہ احمدیت اور اسلام کا احیاء اور بقا اس کے ذمہ ہے ، تم میں سے ہر ایک کا گھر احمدیت کا مرکز ہے جس سے احمدیت کا نور دنیا میں پھیلے گا تم نے اجتماعیت کا بہت اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم انفرادیت کا نمونہ بھی دکھاؤ.اگر مخالفت بڑھ جائے تو تم نے مرکز سے مشورہ کئے بغیر اپنا دعا اپنے سامنے رکھ کر اسلام کو پھیلانا ہے، احمدیت کی اشاعت کرنا ہے، تمہیں یہ عزم کر دینا چاہئے کہ اگر تمہارے چاروں طرف دشمن کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بھی ہو تو تمہاری گردن نیچے نہیں ہو گی بلکہ اسلام اور احمدیت کے پیغام کو مرتے دم تک لوگوں کو پہنچاتے چلے (خطبہ جمعہ.الفضل ۲۶.اگست ۱۹۵۲ء) جاؤ گے."
۳۶۴ ایک نہایت حساس اور نازک مذہبی مسئلہ کو بنیاد عدو شرے برانگیزد که خیر مادر آن باشد بنا کر.خدا اور رسول کے نام کو استعمال کرتے ہوئے حالات کو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اس حد تک پہنچادیا گیا کہ جماعت ہی نہیں بظاہر پاکستان کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا.قوت فیصلہ کی کمی اور مذہب کا نام درمیان میں آنے کی وجہ سے شور و شر میں اضافہ ہو تا چلا گیا اور وہ ذمہ دار لوگ جنہوں نے آخر وقت پر بہت تردد کے ساتھ اس فتنہ کو سختی سے کچلنے کا انتظام کیا وہ یقیناً جماعت کی حفاظت یا جماعت کی حمایت کی غرض سے یہ کام نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کے مد نظر اپنی کرسیوں اور عہدوں کا بچاؤ اور حفاظت تھی.تاہم اس طریق پر جب شرانگیزی کا گردو غبار بیٹھنے لگا تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت پہلے سے کہیں زیادہ آگے نکل چکی تھی اور دنیا نے دیکھا اور اقرار کیا کہ خدا کی نام لیوا جماعت خدائی تائید و نصرت کے نئے نئے نشانوں سے مزین ہو رہی ہے.پاکستان اور بیرون پاکستان تعداد میں معتد بہ اضافہ ہو چکا ہے.اشاعت اسلام اور اشاعت قرآن کا کام روز افزوں ترقی پر ہے.( تحقیقاتی عدالت کی کارروائی کے دوران قرآن مجید کا ڈچ اور سواحیلی ترجمہ صدر پاکستان اور جسٹس محمد منیر صد رعدالت کو پیش کیا گیا) اخبارات میں جماعت کے متعلق اتنا زیادہ چرچا ہوا کہ جماعت اپنے ذرائع سے اس قدر چر چا کسی صورت میں بھی نہ کر سکتی تھی.دوسری طرف مخالفین میں اس طرح پھوٹ پڑی کہ وہ فسادات کا الزام ایک دوسرے پر دھرتے ہوئے راز ہائے درون خانہ کھولنے لگے.دو لاکھ کی خطیر رقم جو تحفظ ختم نبوت کے نام پر دھوکے سے حاصل کی گئی تھی اس کی تقسیم پر جوتیوں میں دال بنتی رہی.وہ علماء جو بڑی غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں دینے میں سبقت لے جانے کا ادعا کر رہے تھے وہ جیل میں جاتے ہی معافی نامے داخل کر کے جیل سے باہر آنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے لگے.مارشل لا حکام نے خونریزی و فساد کے ذمہ دار بعض مولویوں کو سزائے موت دی جو بعد میں حالات کی تبدیلی سے بدل دی گئی.لیکن علیم و بصیر خدا تو خوب جانتا ہے کہ معصوم اور نہتے شہریوں پر صرف اس جرم میں کہ وہ اپنے عقائد پر اخلاص سے ثابت قدم رہنا چاہتے تھے مظالم کا پہاڑ گرانے والے کس انجام کے مستوجب ہیں.حضرت مصلح موعود فسادات اور شرانگیزی کے اس پہلو پر اپنے مخصوص رجائی انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں.
۳۶۵ " جہاں اس فتنے نے ہماری جماعت کے لئے نئی نئی مشکلا سے پیدا کیں اور انفرادی طور پر بعض احمدیوں کو نقصان بھی اٹھانا پڑا وہاں اس کے بعض فوائد بھی ہمیں اللہ تعالٰی کے فضل سے حاصل ہوئے.چنانچہ ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ملک کے جن ذمہ دار افراد کو جھوٹے الزامات کے ذریعے جماعت احمدیہ سے بدظن کیا جا رہا تھا.ہمیں بھی انہیں سمجھانے کا اور اصل حقیقت واضح کرنے کا موقع ملا.چنانچہ ان میں سے بعض نے بعد میں برملا کہا کہ ہم تو یہ سمجھتے تھے احمدی اسلام کا اور قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں.لیکن اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ یہ غلط ہے احمدی بھی رسول کریم میں اللہ پر اور قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں.اور ان کا دیگر مسلمانوں کے ساتھ جو اعتقادی اختلاف ہے اسے صرف تفسیر اور تاویل کا اختلاف کہا جا سکتا ہے.دو سرا اثر اس فتنے کا یہ ہوا کہ کراچی میں جماعت احمدیہ کے جلسہ میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے اسلام زندہ مذہب ہے " پر تقریر کی.یہ مولوی بھلا یہ کب برداشت کر سکتے تھے کہ اسلام کو زندہ مذہب ثابت کیا جائے انہوں نے اسلام کو زندہ مذہب ثابت کرنے کو اپنے لئے ایک بڑی اشتعال انگیزی قرار دیا اور ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی.کراچی میں چونکہ بیرونی ممالک کے سفیر بھی موجود ہوتے ہیں اس لئے جب انہوں نے یہ حالات دیکھے تو ان پر یہ اثر ہوا اور اسی اثر کے ماتحت انہوں نے اپنے اپنے ملک میں رپورٹیں بھیجیں کہ احمدی جماعت ایک فعال جماعت ہے اور مولویوں کا طبقہ محض اعتقادی اختلاف پر عوام کو مشتعل کر رہا ہے اور پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو رہا ہے.اور مذہبی تعصب کو ہوا دے کر اسے ایک تنگ نظر ملک بنانا چاہتا ہے.ان میں سے بعض نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک ترقی کرنے والا ملک ہے مگر اس ہنگامے کو دیکھ کر پاکستان کی ترقی کے متعلق ہمارے دل میں شبہات پیدا گئے ہیں.گویا انہوں نے سمجھا کہ شاید یہی مولوی ملک کی آواز ہیں حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے.یہ لوگ پاکستان کا ایک چھوٹا سا جز و تو سمجھے جاسکتے ہیں مگر انہیں پاکستان کا دل قرار نہیں دیا جا سکتا.پاکستان کا دل اور ہے.بے شک لوگ وقتی اشتعال کے ماتحت ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں مگر ملک کی حقیقی آواز ہر گز وہ نہیں ہے جو یہ لوگ بلند کرتے ہیں.پس اس فتنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ غیر ممالک میں ہمیں متعارف ہونے اور انہیں ہو
اسلام کی تبلیغ کرنے کا موقع مل گیا.الحمد للہ ایک اثر اس فتنے کا یہ ہوا کہ بنگالی نمائندوں نے اصل حقیقت کو بھانپ لیا اور انہیں علم ہو گیا کہ اہل غرض افراد مذہب کی آڑ میں سیاسی چالیں چل رہے ہیں.چنانچہ بنگال کے اخبارات میں سے سوائے ایک دو کے باقی سب نے یہی لکھا کہ ہم اس گند کو جو مغربی پاکستان میں پھیلایا جارہا ہے ہرگز بنگال میں نہیں آنے دیں گے.کراچی کے فساد کا ایک اور اثر یہ ہوا کہ ملک کے شریف اور سنجیدہ لیڈروں نے ان لوگوں کو سمجھانا شروع کیا جو کسی نہ کسی رنگ میں اس فتنہ سے متاثر ہو رہے تھے اور انہیں اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا.پھر جب جماعت اسلامی نے جو حکومت کی کھلی مخالف ہے ہماری مخالفت میں آگے آنا شروع کیا تو سیاسی لیڈروں کی بھی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے محسوس کیا جماعت احمدیہ کے مخالف دراصل اس آڑ میں حکومت نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں.چنانچہ جلد ہی اس کا ثبوت بھی مل گیا اور وہی لوگ جو شروع میں ہماری مخالفت کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ہمیں سیاست سے یا حکومت کی مخالفت سے کوئی واسطہ ہی نہیں.انہوں نے برملا حکومت کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں......(الفضل یکم جنوری ۱۹۵۳ء صفحه ۲) ee شریروں پر پڑے ان کے شرارے کہاں مرتے تھے تو نے ہی مارے
۳۶۷ حیات آفریں پیغامات و نصائح
یہ عشق و وفا کے کھیت کبھی خوں سینچے بغیر نہ پہنیں گے اس راہ میں جان کی کیا پرواہ جاتی ہے اگر تو جانے دو مصلح موعود)
۳۶۹ آنحضرت میں یا اللہ کا ارشاد ہے کہ کسی مسلمان پر کوئی ایک رات بھی اس طرح نہیں گزرنی چاہئے کہ اس نے وصیت نہ کی ہوئی ہو.اس ارشاد کی تعمیل میں حضرت فضل عمر زندگی کے بعض اہم مواقع پر وصیت تحریر فرماتے رہے.اسی طرح جماعتی تربیت و بهبود کی خاطر بعض خاص مواقع پر آپ جماعت کے نام پیغام بھی دیا کرتے تھے.یہ پیغامات بالعموم ساری جماعت کے نام ہوتے تھے تا ہم بعض اوقات پیغام تو کسی خاص جماعت کے نام ہو تا مگر اس سے بھی ساری جماعت فائدہ اٹھاتی.حضور کے خطبات تقاریر ، تحریرات و تصانیف کے ساتھ ساتھ آپ کی یہ وصایا.پیغامات اور وقتا فوقتا جاری ہونے والی نصائح بھی جماعتی تربیت و بهتری میں بہت مفید و مؤثر کردار ادا کرتی تھیں.ان پیغامات اور وصایا وغیرہ میں بیان فرمودہ امور آج بھی جماعت کے لئے مفید و موثر ہیں اور ان کو یک جائی طور پر دیکھنے سے یہ حقیقت اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے آقا زندگی بھر اعلاء کلمہ اسلام کے لئے کوشاں رہے.آپ کے بے شمار پیغامات و نصائح میں سے بعض درج ذیل ہیں.یورپ کے احمدی مبلغین کی ایک کانفرنس کی تقریب پر حضرت فضل عمر نے حقیقی قومی جذ به اپنے پیغام میں اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ ” تمہارا اولین مقصد لوگوں کو خدا کی طرف بلانا اور دنیا میں امن کی فضاء کو قائم کرنا ہے "اسلام کی تعلیم کے مطابق حقیقی قومی جذبہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا.میں آپ نمائندگان کو جو یورپین مشنوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کانفرنس کے لئے سوئٹزر لینڈ میں جمع ہیں.برکت کی دعا دیتا ہوں.اور اس امر کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراتا ہوں کہ تمہارا اولین مقصد لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے.اور دنیا میں امن کی فضاء کو قائم کرتا ہے.اسلام کبھی بھی حقیقی قومی جذبہ کا مخالف نہیں ہاں تنگ قومی نظریہ کا مخالف ضرور ہے.حقیقی قومی جذ بہ تو اسی نظریہ کا حامل ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کی جائے.نہ یہ کہ اس کے الٹ ہو.وہ قوم جو تمام دنیا میں امن کی خواہاں ہوا سے بہر حال دوسری قوموں کا اعتماد حاصل کرنا از بس ضروری ہوتا ہے.حقیقی قومی جذبہ کا دراصل مطلب یہی ہے کہ وہ دوسری قوموں کو عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے تا اس کے نتیجہ میں اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک روا رکھا جائے اگر کوئی قوم ایسا طرز عمل اختیار نہیں کرتی.تو وہ اپنی
سے بچائے." تباہی کے لئے خود گڑھا کھودنے کے مترادف عمل کرتی ہے اور اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے اور کسی صورت میں ظاہر نہیں ہوتا.پس تم ہمیشہ ایسے ہی قومی جذبہ کے لئے کوشاں ر ہو جو حقیقی قومی جذبہ کا حامل ہو اور اسی طرف راہنمائی کرے اور جس کا نتیجہ یہ ہو کہ تمام دنیا کی اقوام متحد ہو کر آستانہ الہی پر سر بسجود ہوں اور یک دل و یک زبان ہو کر خدا کی بادشاہت کی طالب ہوں کہ وہ اس زمین پر آئے اور خستہ حال بنی نوع انسان کو تباہی روزنامه الفضل ۱۷.اگست ۱۹۵۱ء) قرآنی تعلیم اور نظام کی نمایاں خوبی اور خدائی انعام " نظام خلافت" کے سلسلہ میں شیطانی و ساس اور رخنہ اندازیوں سے دور اول اور اس دور میں قوم کو جو تلخ تجربات ہوئے ان کے پیش نظر حضرت مصلح موعود زندگی بھر نظام خلافت کی مضبوطی اور استحکام کے لئے برابر کوشاں رہے آپ نے اپنی تقاریر و تصانیف مجالس شوری اور دوسری مجالس میں اس موضوع کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث فرمائی اور امکانی حد تک اختلاف و انشقاق کے تمام رستوں کو بند کرنے کی کوشش فرمائی.آپ کی مندرجہ ذیل وصیت جو آپ نے ۱۹۱۸ء میں تحریر فرمائی اگرچہ حضور کی ہدایات و نگرانی میں زیادہ جامع اور بہتر لائحہ عمل مقرر ہو جانے کی وجہ سے اس پر عمل کی نوبت تو نہ آئی تاہم اس وصیت سے حضور کی سیرت کے متعدد درخشاں پہلوں نمایاں ہوتے ہیں اور آپ کے انداز فکر اور ترجیحات کا بخوبی علم حاصل ہوتا ہے.میں ( مرزا محمود احمد ولد حضرت مسیح موعود ) خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر ایک وصیت جان کر ایسی حالت میں کہ دنیا اپنی سب خوبصورتیوں سمیت میرے سامنے سے ہٹ گئی ہے بقائمی ہوش و حواس رو بروان پانچ گواہوں کے جن کے نام اس تحریر کے آخر میں ہیں اور جن میں سے ایک خود اس تحریر کا کاتب ہے (حضرت مولانا شیر علی جماعت احمدیہ کی بہتری اور اس کی بہبودی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ وصیت کرتا ہوں کہ اگر میں اس کاغذ کی تحریر کو اپنی حین حیات میں منسوخ نہ کروں.تو میری وفات کی صورت میں وہ لوگ جن کے نام میں اس جگہ تحریر کرتا ہوں.(اراکین کمیٹی:.۱.نواب محمد علی خاں صاحب ۲.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ۳.مولوی شیر علی صاحب -۴- مولوی سرور شاہ صاحب ۵- قاضی سید امیر حسین صاحب ۶.چوہدری فتح محمد سیال صاحب.حافظ روشن علی صاحب -۸- سید حامد شاہ صاحب.میاں چراغ الدین -
المسل صاحب ۱۰.ذوالفقار علی خاں صاحب 11.میاں بشیر احمد صاحب) ایک جگہ پر جمع ہوں جن کے صدر اس وقت نواب محمد علی خاں صاحب ہوں گے اور اگر کسی وجہ سے وہ شامل نہ ہو سکیں (گو اگر حد امکان میں ہو تو میرا حکم ہے کہ وہ اس میں شامل ہوں) تو پھر یہ جمع ہونے والے لوگ آپ کے مشورے سے کسی شخص کو صدر مقرر کریں پہلے صدر جلسہ سب کے رو برو بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھ کر خدا کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اس معاملہ میں رائے دے گا.اور کسی قسم کی نفسانیت کو اس میں دخل نہ دے گا.پھر وہ ہر ایک نام زد شخص سے اس قسم کی قسم لے اور سب لوگ صد ر جلسہ سمیت اس بات پر حلف اٹھائیں کہ وہ اس معاملہ کو کسی پر ظاہر نہ کریں گے.حتی کہ وہ شرائط پوری ہو جائیں جو میں نے اس تحریر میں لکھی ہیں.اس قسم کے بعد یہ سب لوگ فردا فردا اس بات کا مشورہ دیں کہ جماعت میں سے کس شخص کے ہاتھ پر بیعت کی جاوے تا کہ وہ جماعت کے لئے خلیفہ اور امیرالمومنین ہو صدر جلسہ اس بات کی کوشش کرے کہ سب ممبروں کی رائے ایک ہو.اگر یہ صورت نہ ہو سکے تو سب لوگ جن کے نام اس کاغذ میں لکھے جاویں گے رات کو نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کریں کہ خدایا تو ہم پر حق کھول دے.دوسرے دن پھر جمع ہوں اور پھر حلف اٹھا ئیں اور پھر اسی طرح رائے دیں.اگر آج کے دن بھی وہ لوگ اتفاق نہ کر سکیں.تو ۳/۵ را ئیں جس شخص کے حق میں متفق ہوں.اس کی خلافت کا اعلان کیا جاوے لیکن اعلان سے پہلے یہ ضروری ہو گا کہ حاضر الوقت احباب سے نواب صاحب یا ان کی جگہ جو صد ر ہو اس مضمون کی بیعت لیں کہ وہ سب کے سب ان لوگوں کے فیصلہ کو بصدق دل منظور کریں گے اور اس بیعت میں وہ لوگ بھی شامل ہوں جن کے نام اس کاغذ پر لکھے جائیں گے اس کے بعد اس شخص کی خلافت کا صدر اعلان کرے جس پر ان ممبروں کا حسب قواعد مذکورہ بالا اتفاق ہو.بشرطیکہ وہ شخص ان ممبروں میں سے جو صد ر جلسہ ہو اس کے ہاتھ پر اس امر کی بیعت کرے ( جو بیعت کہ میری ہی سمجھی جائے گی اور اس شخص کا ہاتھ میرا ہاتھ ہو گا) کہ میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کی بتائی ہوئی تعلیم اسلام پر میں یقین رکھوں گا اور عمل کروں گا اور دانستہ اس سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوں گا.بلکہ پوری کوشش اس کے قیام کی کروں گا روحانی
۳۷۲ امور سب سے زیادہ میرے مد نظر رہیں گے اور میں خود بھی اپنی ساری توجہ اسی طرف پھیروں گا اور باقی سب کی توجہ بھی اسی طرف پھیرا کروں گا.اور سلسلہ کے متعلق تمام کاموں میں نفسانیت کا دخل نہیں ہونے دوں گا اور جماعت کے متعلق جو پہلے دو خلفاء کی سنت ہے اس کو ہمیشہ مد نظر رکھوں گا اس کے بعد وہ سب لوگوں سے بیعت لے.اور میں ساتھ ہی اس شخص کو وصیت کرتا ہوں.کہ حضرت صاحب کے پرانے دوستوں سے نیک سلوک کرے.نئیوں سے شفقت کرے امہات المومنین خدا کے حضور میں خاص رتبہ رکھتی ہیں.پس حضرت ام المومنین کے احساسات کا اگر اس کے فرائض کے رستہ میں روک نہ ہوں احترام کرے.میری اپنی بیبیوں اور بچوں کے متعلق اس شخص کو یہ وصیت ہے کہ وہ قرض حسنہ کے طور پر ان کے خرچ کا انتظام کرے جو میری نرینہ اولاد انشاء اللہ تعالیٰ ادا کرے گی.بصورت عدم ادائیگی میری جائیداد اس کی کفیل ہو ان کو خرچ مناسب دیا جائے عورتوں کو اس وقت تک خرچ دیا جائے جب تک وہ اپنی شادی کرلیں بچوں کو اس وقت تک جب کہ وہ اپنے کام کے قابل ہو جائیں.اور بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جائے کہ وہ آزاد پیشہ ہو کر خدمت دین کر سکیں.جہاں تک ہو سکے لڑکوں کو حفظ قرآن کرایا جاوے.حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفۃ المسیح اول کی وصیتیں میں پھر اس شخص کو اور جماعت کو یا دھولا تا ہوں.جو کام حضرت مسیح موعود نے جاری کئے ہیں ان کو کسی صورت بند نہ کیا جاوے ہاں ان کی صورتوں میں کچھ تغیر ہو تو ضرورتوں کے مطابق خلیفہ کو اختیار ہے.اس قسم کا انتظام آئندہ انتخاب خلفاء کے لئے بھی وہ شخص کر دے.اللہ تعالی اس شخص کا حافظ حامی اور ناصر ہو اس شخص کو چاہئے کہ اگر وہ دین کی ظاہری تعلیم سے واقف نہیں تو اس کو حاصل کرے دعاؤں پر بہت زور دے ہر بات کرتے وقت سوچ لے کہ آخر انجام کیا ہو گا؟ کسی کا غصہ دل میں نہ رکھے خواہ کسی سے کس قدر اس کو ناراضگی ہو.اس کی خدمات کو کبھی نہ بھلائے " اس تحریر پر حضرت مولانا شیر علی صاحب کے علاوہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ، حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب کے دستخط بطور گواہ ثبت ہیں.( تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحه ۲۳۴ تا ۷ ۲۳.ایڈیشن ۱۹۶۴ء) ee
۳۷۳ ۱۹۴۰ء میں بعض احمدی احباب کو اس قسم کی منذر خواہیں آئیں جن میں ایک اور وصیت حضور کی وفات کا ذکر تھا.ان خوابوں کے پیش نظر صدقات وغیرہ دیئے گئے اور حضور نے مندرجہ ذیل وصیت فرمائی.اس وصیت سے بھی حضور کی یہ شان نمایاں ہوتی ہے کہ آپ نے زندگی کے کسی موڑ پر کبھی بھی اپنے نفس کو ترجیح نہ دی بلکہ آپ ہمیشہ اعلاء کلمہ اسلام کے لئے ہمہ تن مصروف عمل رہے.آپ نے اپنی اولاد کو بھی جو نصیحت کی ہے اس میں کسی طرح بھی دنیا طلبی اور مالی منفعت کے حصول کا شائبہ تک نہیں ہے بلکہ انہیں بھی اپنی زندگی خدمت دین کے لئے خرچ کرنے کی تلقین فرمائی ہے.برادران! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.کئی ماہ سے دوستوں کی طرف سے مجھے ایسی خوابوں کی اطلاع آرہی ہے جس میں میری وفات کی خبرا نہیں معلوم ہوئی ہے.بعض خوابوں میں یہ ذکر بھی ہے کہ صدقہ سے یہ امر مل سکتا ہے.چونکہ خواب میں جو بات دکھائی جائے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اسے پورا کیا جائے.میں نے ان خوابوں کی بناء پر اس قسم کے صدقات کا انتظام کیا ہے جو بعض لوگوں کو بتائے گئے ہیں اور عام صدقہ کا بھی انتظام کیا ہے.مگر چونکہ آخر ہر انسان نے مرنا ہے میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تقوی خدا تعالیٰ پر توکل اور دین کی اشاعت کے لئے اپنے اندر جوش پیدا کریں اور اتحاد جماعت کو کبھی ترک نہ کریں.اگر وہ ان باتوں پر قائم رہیں گے ، اگر قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں گے ، اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی آواز پر ہمیشہ کان رکھیں گے اور ان کے پیغام کا جواب اپنے دلوں سے دیتے ہوئے دنیا تک اسے پہنچاتے رہیں گے تو اللہ تعالٰی ہمیشہ ان کا حافظ و ناصر رہے گا اور کبھی دشمن ان کو ہلاک نہ کر سکے گا.بلکہ ان کا قدم ہمیشہ آگے ہی آگے پڑے گا.انشاء اللہ تعالی.میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ میری نیت ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بغیر وصیت کے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کا حق دیا ہے اس لئے اس کے شکریہ میں نہ کہ مقبرہ بہشتی کی وصیت کے طور پر اپنی جائیداد کاوہ تھوڑا ہو یا بہت ایک حصہ ان اغراض کے لئے جو مقبرہ بہشتی کے قیام کی ہیں وقف کر دوں.سو اس کے مطابق میں اعلان کرتا ہوں کہ میری جائیداد جو بھی قرضہ کی ادائیگی کے بعد بچے.اس کی آمد کا
۳۷۴ دسواں حصہ میرے ورثاء صدرانجمن احمدیہ کے حوالے کر دیا کریں تا کہ وہ اشاعت اسلام کے کام پر خرچ کیا جائے.مگر یہ شکریہ بھی کافی نہیں.ایک کام جماعت کا اور بھی ہے جو توجہ کا مستحق ہے اور جس کی طرف سے جماعت کے احباب اکثر غافل رہتے ہیں اور وہ اس کے غرباء ہیں.سو میں یہ بھی وصیت کرتا ہوں کہ میری جائیداد کا ایک اور دسواں حصہ (جو قرض کے ادا کرنے کے بعد بچے) غرباء، مساکین تیائی اور بیواؤں کے لئے وقف ہو گا.پس میری جائیداد کی جو بھی آمد ہو کم یا زیادہ اس میں سے دسواں حصہ سلسلہ کے مساکین ، غربا، بتائی اور بیواؤں کی امداد کے لئے خرچ کیا جائے.اس رقم کو خرچ کرنے کے لئے میں ایک کمیٹی تجویز کرتا ہوں.جس میں دو نمائندے میرے ورثاء کی طرف سے ہوں اور ایک خلیفہ وقت کی طرف سے وہ باہمی مشورہ سے مذکورہ بالا مستحقین پر اس رقم کو خرچ کریں.اگر کبھی اختلاف ہو تو خلیفہ وقت کا فیصلہ اس بارہ میں ناطق ہو گا.میں اپنی اولاد سے امید کرتا ہوں.کہ وہ اپنی زندگیوں کو دین کے لئے خرچ کریں گے.اور دنیاوی ترقیات کو دین کی ضرورتوں پر قربان کریں گے.میرا ارادہ اپنی بقیہ جائیداد کو وقف علی الاولاد کرنے کا ہے جس کے لئے میں الگ قواعد مقرر کروں گا.اس صورت میں اگر کسی وقت میری اولاد باقی نہ رہے یا میری جائیداد سے فائدہ نہ اٹھا سکے تو کل جائیداد یا اس کا کوئی جزو جس پر بھی اس کا اثر ہو وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف ہو جائے گی.خدا تعالیٰ ہمارا انجام بخیر کرے اور ہمیں اپنی رضاء پر چلنے کی توفیق دے اور ما را مرنا جینا اسی کے لئے ہو.آمین.اللھم آمین" (خاکسار مرزا محمود احمد ۲۳ ماه و فا۱۳۱۹ھ ) ۱۹۳۷ء میں نئے سال کے آغاز پر محنت اور قربانی کی محنت اور قربانی کی عادت ڈالیں عادت ڈالنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.یاد رکھو کہ ہمارے لئے بہت نازک وقت آ رہا ہے....اپنی اصلاح کر لو محنت اور قربانی کی عادت ڈالو ورنہ تمہاری حالت اس بھیڑ کی سی ہو گی جو ہر وقت بھیڑیے کے رقم پر ہے جب تک تم بہت کوشش اور استقلال سے اپنے آپ کو شیروں میں تبدیل نہیں کر لیتے اس وقت تک تم بھیڑیں ہو جن کی جانیں ہر وقت غیر محفوظ ہیں.خدا تعالیٰ
۳۷۵ نے تمہیں اختیار دیا ہے کہ اگر چاہو تو شیر بن جاؤ جو جنگل میں اکیلا بھی محفوظ ہوتا ہے لیکن بھیڑیں دس میں بھی غیر محفوظ ہوتی ہیں پس اس کے لئے کوشش کرو اور دعاؤں میں لگے رہو.میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی لغو عادتوں کو دور کرنے کی توفیق دے اور توفیق دے کہ تم محنتی اور بہت کام کرنے والے بن جاؤ.اپنے اوقات کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے خرچ کرنے والے ہو جاؤ تا تھوڑے ہو کر بہتوں پر غلبہ حاصل کرنے والے بن سکو." الفضل ۳.فروری ۱۹۳۷ء) حضرت ام متین مریم صدیقہ حرم محترم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اپنے ایک مضمون میں حضور کی بعض وصایا کا اجمالی ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتی ہیں کہ :.جب ۱۹۱۸ء میں شدید انفلوئنزا کا حملہ ہو کر بیمار ہوئے تھے اور اپنی وصیت شائع کروائی تھی اس میں بھی یہ وصیت فرمائی تھی کہ ”بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جائے کہ وہ آزاد پیشہ خدمت دین کر سکیں.جہاں تک ہو سکے لڑکوں کو حفظ قرآن کرایا جائے." مئی ۱۹۵۹ء میں جب بیماری کا دوبارہ حملہ ہوا اس وقت بھی ایک وصیت کی تھی اس میں بھی یہی تاکید تھی کہ :.وہ ہمیشہ اپنی کوششوں کو خدا اور اس کے رسول کے لئے خرچ کرتے رہیں.خدا کرے قیامت تک وہ اس نصیحت پر عمل کریں اور اللہ تعالی اس دنیا میں ان کو قیامت تک اسلام کا سچا خادم بنائے اور اسلام کے ہر دشمن کے لئے حق کا ایک زبر دست پنجہ ثابت ہوں اور ان کی زندگیوں میں کوئی شخص اسلام کو ٹیڑھی نظر سے نہ دیکھ (الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۶) "E حضور نے ۱۹۳۹ء میں ایک عہد کیا تھا جو حضور کی ایک نوٹ بک میں جو حضور عموماً اپنے کوٹ کی اندر کی جیب میں زیاد داشت وغیرہ لکھنے کے لئے رکھا کرتے تھے آپ کے قلم سے درج ہے اور وہ یہ ہے." آج چودہ تاریخ کو (مئی ۱۹۳۹ء) میں مرزا بشیر الدین محمود احمد اللہ تعالیٰ کی قسم اس پر کھاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل سیدہ سے جو بھی اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت میں خرچ نہیں کر رہا میں اس کے گھر کا کھانا نہیں کھاؤں گا اور اگر
٣٧٦ مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے ایسا کرنا پڑے تو میں ایک روزہ بطور کفارہ رکھوں گا یا پانچ روپے بطور صدقہ ادا کروں گا یہ عہد سر دست ایک سال کے لئے ہو گا." (الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۶۷ء صفحہ ۷) اسلام پر عمل کرنا عادت میں شامل کریں تعلیم الاسلام ہائی سکول میگزین کے اجراء پر حضور نے اپنے پیغام میں جو اس میگزین کی پہلی اشاعت میں شائع ہوا اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا." مجھے تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ایک سابق طالب علم ہونے کی حیثیت سے دو ہری خوشی ہے کہ سکول کے طلبہ ایک رسالہ اپنے اندر کام کا جوش پیدا کرنے کے لئے نکالنے لگے ہیں.میرے نزدیک یہ رسالہ مفید ہو سکتا ہے اگر طالب علم اس کا پورا بوجھ خود اٹھا ئیں اور اسے ایک سکول میگزین سے زیادہ حیثیت نہ دیں.میں جب چھوٹا تھا تو ہم نے ایک رسالہ تشحیذ الا زبان نکالا تھا اور صرف ہم سات طالب علم اس رسالہ کو شائع کرتے تھے اور کسی سے مدد طلب نہیں کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ رسالہ اپنوں کے علاوہ غیروں میں بھی مقبول تھا.......اسلام اس وقت بالکل لاوارث ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے کہ تم اس کے وارث بنو وہ اس وقت پامال ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے کہ تم اس کے حامل بنو “ وہ اس وقت بے یار ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے کہ تم اس کے یار بنو وہ اس وقت بے وطن ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے کہ تمہارے دل اور تمہارے گھر اس کا وطن بنیں تم زبانوں سے کئی دفعہ کہہ چکے ہو کہ ایسا ہو گا مگر (اب) دقت ہے کہ ہمارے عمل بھی اس کا ثبوت دیں...زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرو اور اس کی تعلیم کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرو تاکہ یہ امر تمہاری عادت میں داخل ہو جائے اور آپ ہی آپ ایسے اعمال ظاہر ہوتے چلے جائیں جو تعلیم الاسلام کے ظاہر کرنے والے ہوں اور آپ ہی آپ وہ کلمات نکلنے شروع ہو جائیں جو تعلیم الاسلام کی گونج پیدا کرنے والے ہوں اور آپ ہی آپ وہ ملفوظات قلم پر آنے لگیں جو تعلیم الاسلام کا رنگ رکھتے ہوں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور اگر بچے دل سے کوشش کرو گے تو انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا." ( تعلیم الاسلام میگزین)
۳۷۷ محترم میر داؤد احمد صاحب (پرنسپل جامعہ احمدیہ.ناظر خدمت درویشاں) کی خدا کاسپاہی درخواست پر حضور نے اپنے دست مبارک سے مندرجہ ذیل نصیحت تحریر فرمائی.انسان کو چاہئے اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو یا درکھے اور مسلمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ یاد رکھے کہ وہ خدا کا سپاہی ہے جس طرح دوسرے لوگ شیطان کے سپاہی ہیں.اگر شیطان کے سپاہی اپنے مقاصد کے لئے دن رات ایک کر کے کوشش کر رہے ہیں.تو خدا کے سپاہی کو ان سے زیادہ ہوشیار ان سے زیادہ سمجھدار ان سے زیادہ محنتی ہو نیکی کوشش کرنی چاہیئے." (الفضل یکم ستمبر۷ ۱۹۴ء) مکرم ملک خادم حسین صاحب (سابق ناظر امور عامہ ) نے بیعت کے بعد کوئی نصیحت فرمانے کی درخواست کی تو حضور نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا.تقویٰ اللہ کو اپنا شعار بنا ئیں.اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کریں.کہ اللہ تعالیٰ کی محبت سب دکھوں اور تکلیفوں اور جسمانی روحانی بیماریوں کا علاج ہے.آپ فوج میں ملازم ہیں.اور آپ نے وہاں اطاعت کا سبق سیکھا ہے.اب مزید یہ سبق سیکھیں کہ خدا تعالی اور اسلام کی اطاعت سب اطاعتوں سے افضل ہے".الفضل ۴.مارچ ۱۹۴۷ء) محترم میر صاحب کو حضور نے جو نصیحت فرمائی وہ ۱۹۳۹ء کی ہے اسی طرح مکرم ملک صاحبہ کو جو نصیحت فرمائی وہ بھی اسی سال کی ہے مگر اس جگہ ایک لطیف قابل غور بات یہ ہے کہ حضور نے ایک فوجی سپاہی کو اس کی تربیت اور مشق کے مطابق مزید ترقی اور قرب پانے کی نصیحت فرمائی جب کہ اسی قسم کی نصیحت کرتے ہوئے خدا کے سپاہی" کے الفاظ سے اس نصیحت کے مفہوم اور اثر میں ناقابل بیان اضافہ فرما دیا.۱۹۳۸ء میں حضور حیدر آباد دکن تشریف لے گئے.اسلامی عظمت کیلئے متحدہ کوشش یہ وہی مشہور سفر ہے جس سے واپسی کے بعد حضور نے سیر روحانی" کے عنوان سے اپنا معرکۃ الآراء سلسلہ تقاریر شروع فرمایا.اس سفر میں آپ سے مسلمانان حیدر آباد کے نام کوئی پیغام دینے کی خواہش کی گئی جس پر آپ نے مسلمانوں کو باہمی اتحاد کانهایت ضروری پیغام دیتے ہوئے فرمایا.
۳۷۸ ” میں آج اس بلدہ سے جا رہا ہوں.ایک صاحب نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں اس موقع پر کوئی پیغام مسلمانان حیدر آباد کے نام دوں.اس مختصر سے وقت میں میں ایک ضروری بات کی طرف تمام احباب کو توجہ دلاتا ہوں.ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت ایسی ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے.اس جگہ کی حالت میں نے خود کسی قدر دیکھی ہے اور بہت سے لوگوں کی زبان سے سنا ہے جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ کام جو ہمارے آباؤ اجداد نے اشاعت اسلام کے بارہ میں کیا تھا، آج مسلمان اس سے غافل ہیں بلکہ اختلافات کا شکار ہو رہے ہیں.آج مسلمان اقلیت میں ہیں.ان کے پاس اسباب نهایت محدود ہیں اور ان کا مقابلہ ان لوگوں سے ہے جو بہت بڑی اکثریت رکھتے ہیں اور جن کی تنظیم نہایت اچھی ہے.اگر ان حالات میں بھی مسلمان یک جہتی سے کھڑے نہ ہوئے تو قریب زمانہ میں ان کی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں.اس لئے اپنی جماعت سے بھی اور دوسرے فرقہ والے دوستوں سے بھی میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ ان حالات میں اتحاد و اتفاق کی قیمت کو سمجھیں اور اختلاف کو اپنی تباہی کا ذریعہ نہ بنا ئیں.میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان ایسے حالات میں سے گذر رہے ہیں جن میں جانور بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور لڑائی جھگڑے چھوڑ دیتے ہیں.آپ نے دیکھا ہو گا کہ چڑیاں آپس میں لڑتی ہیں.لیکن جب کوئی بچہ انہیں پکڑنا چاہتا ہے تو لڑائی چھوڑ کر الگ الگ اڑ جاتی ہیں.اگر چڑیاں خطرہ کی صورت میں اختلاف کو بھول جاتی ہیں تو کیا انسان اشرف المخلوقات ہو کر خطرات کے وقت اپنے تفرقہ و اختلاف کو نظر انداز نہیں کر سکتا؟ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں میں موجودہ وقت میں یہ احساس بہت کم پایا جاتا ہے.اسلام جس کی عظمت کو اس کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں اور جس کی تعلیم کے ارفع و اعلیٰ ہونے کو مخالف بھی مانتے ہیں اس کی اشاعت و نصرت سے منہ پھیر کر ذاتی اختلافات میں وقت ضائع کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے.موجودہ خطرات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ مسلمان باہمی اختلاف کو ایسا رنگ دیں جس سے اسلام کے غلبہ اور ترقی میں روک پیدا ہو.سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ پرچم اسلام کو بلند رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانی کریں.جنوبی ہند میں ہمارے بزرگوں نے اسلام کی شوکت کو قائم کیا.اس زمانہ میں ہمارا فرض ہے کہ اس عظمت کو دوبارہ قائم کریں اور اس کے لئے
۳۷۹ تمام مسلمانوں کی متحدہ کوشش نہایت ضروری ہے.پس اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں تحریک کرتا ہوں کہ ہندوستان کے جنوب میں موکز اسلام کی حفاظت کے لئے جملہ مسلمان مل کر کوشش کریں.اللہ تعالٰی ان کے ساتھ ہو." آنحضرت ممی نے بنی نوع انسان کی عزت و تکریم اور آنحضرت میم کی وصیت مساوات کے قیام کے لئے جو وصیت فرمائی تھی اس کی عام اشاعت کی سعادت حاصل کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.رسول کریم میں لیا اور ہم نے حجتہ الوداع میں جب کہ آپ کی وفات قریب آگئی بطور وصیت سب مسلمانوں کو جمع کر کے فرمایا اِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ (اور ابى بكره کی حدیث میں ہے وَأَعْرَاضَكُمْ) حَرَام عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا.اس شہر میں اس مہینہ میں اس دن کو اللہ تعالیٰ نے جو حفاظت بخشی ہے (حج کے ایام کی بات ہے) وہی تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں (اور ابی بکرہ کی روایت کے مطابق تمہاری عزتوں) کو خدا تعالیٰ نے حفاظت بخشی ہے.یعنی جس طرح مکہ میں حج کے مہینہ اور حج کے وقت کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح پر امن بنایا ہے.اسی طرح مومن کی جان اور مال اور عزت کی سب کو حفاظت کرنی چاہئے.جو اپنے بھائی کی جان، مال اور عزت کو نقصان پہنچاتا ہے.گویا وہ ایسا ہی ہے جیسے حج کے ایام اور مقامات کی بے حرمتی کرتا ہے.پھر آپ نے دو دفعہ فرمایا کہ جو یہ حدیث سنے آگے دوسروں تک پہنچاوے.میں اس حکم کے ماتحت یہ حدیث آپ تک پہنچاتا ہوں آپ کو چاہئے کہ اس حکم کے ماتحت آپ آگے دوسرے بھائیوں تک مناسب موقع پر یہ حدیث پہنچادیں اور انہیں سمجھا دیں کہ ہر شخص جو یہ حدیث سنے اسے حکم ہے کہ وہ آگے دوسرے مسلمان بھائی تک اس کو پہنچاتا چلا جائے " والسلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الفضل ۳.جنوری ۱۹۴۰ء)
۱۷.جون ۱۹۴۳ء کو قادیان کے ایک نواحی گاؤں میں خدا حافظ آج بھی اور ہمیشہ ہی جماعت کا جلسہ ہوا.قادیان سے بہت سے احمد کی جن میں الب علم اور بعض نابینا افراد بھی تھے اس جلسہ میں شمولیت کے لئے گئے.غیر از جماعت افراد نے اس جلسہ میں روک ڈالنے کی کوشش کی بعض غیر مسلموں کے تعاون سے جلسہ تو بخیر و خوبی ہو گیا مگر واپسی پر گاؤں والوں نے احمدی افراد پر حملہ کر دیا.احمدیوں نے روایتی امن پسندی اور صبر کا مظاہرہ کیا بعض احمدی شدید زخمی بھی ہوئے لیکن بعض مقامی افسران کے تعصب اور مخالفانہ رویہ کی وجہ سے جماعت کے بعض معزز افراد پر ناحق مقدمہ قائم کر کے انہیں پریشان کرنے اور جماعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی.مندرجہ ذیل پیغام حضور نے اس زمانہ میں جاری فرمایا.خدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۴۴ء کے شروع میں حکومت کو مقدمہ واپس لینا پڑا اور مخالفوں نے منہ کی کھائی.اس وقت جماعت پر اس کے دشمنوں نے ایک سخت حملہ کیا ہے اور حکومت کے کچھ کل پرزے بھی اس میں شامل معلوم ہوتے ہیں احمدیت کے لئے پھر ایک ابتلاء کی صورت پیدا ہو رہی ہے.گورنمنٹ کے دلی دشمن جو اس کے ملازموں میں شامل ہیں انہیں ہماری جنگی خدمات نہیں بھا ئیں اور چونکہ وہ کھلا مقابلہ نہ کر سکتے تھے انہوں نے دوسرے اوچھے ہتھیاروں سے کام لینا شروع کیا ہے.چند دنوں تک حقیقت واضح ہو جائے گی.میں زندہ رہوں یا مروں جماعت کی عزت کی حفاظت کے لئے آپ لوگوں کا ہر قربانی کرنا فرض ہے.کیا پچاس سال شکست کھا کر دشمن اب غالب آجائے گا.کیا آج احمدیت کا ایمان جماعت کو گذشتہ قربانیوں سے زیادہ قربانیاں پیش کرنے کے لئے آمادہ نہ کرے گا.میں امید کرتا ہوں کہ آپ میں سے ہر شخص کہے گا کہ ضرور ضرور اور آسمان آپ کی آواز پر تصدیق کرے گا اور احمدیت کے پوشیدہ دشمن ایک دفعہ پھر منہ کی کھائیں گے.اچھا خداحافظ آج بھی اور ہمیشہ ہی.اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی.بہادر بنو اور کسی انسان سے نہ ڈرو سوائے خدا کے." دعوت الی اللہ کی تاکید تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں بعض مشکلات اور روکوں کا علم ہونے پر بڑے درد اور دل سوزی سے فرماتے ہیں.صحابہ کی طرح تبلیغ کریں.جس طرح جو تک چھٹ جاتی ہے منتیں کریں.غیرت
٣٨١ دلا ئیں.جوش دلائیں اور ایک ایک کو نہیں ہزاروں کو " (مکتوب بنام مکرم ڈاکٹر بدرالدین صاحب) اسی طرح جماعت کے ہر فرد کو فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.میں نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی مبلغ تمہارے کام نہیں آئے گا جب تک تم میں سے ہر فرد مبلغ نہ بنے.یاد رکھو کہ خدا اور بندہ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں.ہر انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق ہے.ہاں رہنما ہوتے ہیں لیکن وہ اس راہ میں روک نہیں بلکہ وہ تو رستہ دکھانے والے ہوتے ہیں اور اگر کسی کا وجود اس راہ میں روک ہو تو وہ دنیا کے لئے زحمت ہے نہ کہ رحمت.پس کوشش کرو کہ تم میں سے ہر فرد مبلغ بنے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق پیدا ہو".(الفضل ۶.اپریل ۱۹۳۱ء) بیرونی ممالک کے احمدیوں سے انگریزی زبان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا.قربانی کرو اور کرتے چلے جاؤ.خدا تعالیٰ کے احکامات پر مجنونانہ عمل کرو اور کرتے چلے جاؤ.نتائج کے متعلق کوئی تردد نہ کرو کیونکہ جس کے ہاتھ میں نتائج ہیں وہ انشاء اللہ اپنے سلسلہ کو خود بار آور کرے گا اور اسے ہر قسم کی تباہی سے بچالے گا." (الفضل ۲۶.جنوی ۱۹۵۰ء) جماعت سیرالیون کے نام ان کے سالانہ جلسہ ۱۹۵۱ء پر جماعت کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنے پیغام میں ارشاد فرمایا." یہ پیغام میں آپ کے ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ھ جلسہ کے لئے بھجوا رہا ہوں آپ کے ملک میں مغربی افریقہ کے ممالک میں سب سے آخر میں تبلیغ شروع ہوئی لیکن آپ کا ملک چار طرف سے ایسے علاقوں سے گھرا ہوا ہے جو احمدیت سے نا آشنا ہیں.پس آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے اور آپ کے لئے کام کے مواقع بھی بہت پیدا ہو جاتے ہیں.پس آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے محنت اور کوشش کریں بلکہ لائبیریا اور فرنچ افریقن علاقوں میں بھی تبلیغ کا کام اپنے ذمہ لیں.مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے فرائض کو ادا کریں گے تو آپ کے لئے آخرت میں بہت ساتواب جمع ہو جائے گا اور اس دنیا میں آپ شمالی افریقہ کے رہنما بن جائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کے
۳۸۲ ساتھ ہو اور آپ کو اسلام کی تعلیم پر بچے طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمادے اور اخلاق اور قربانی اور اتحاد اور نظام کے احترام کا مادہ آپ میں پیدا کرے." حضور اپنے لندن کے پہلے سفر کے سلسلہ میں شہداء کی روحیں فرض یاد دلا رہی ہیں قادیان سے باہر تھے جب آپ کو حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کی کابل میں شہادت کی خبر ملی.حضور کی براہ راست نگرانی اور ہدایت کے مطابق یورپ اور ہندوستان کے پریس میں اس واقع کے پس منظر میں جو مذہبی تعصب تھا اس کی اشاعت کی گئی.مناسب رنگ میں اس پر احتجاج کیا گیا.جماعت کے نام ایک ولولہ انگیز پیغام دیتے ہو.حضور نے فرمایا.برادران! غم کے اس وقت میں ہمیں اپنے اس فرض کو نہیں بھلانا چاہئے جو ہمارے اس مبارک بھائی کی طرف سے ہم پر عائد ہوتا ہے جس نے اپنی جان خدا کے لئے قربان کر دی ہے.اس نے اس کام کو شروع کیا ہے جسے ہمیں پورا کرنا ہے.آؤ ہم اس لحہ سے یہ معم ارادہ کر لیں کہ ہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک ہم ان شہیدوں کی زمین کو فتح نہیں کر لیں گے (یعنی وہاں احمدیت نہیں پھیلالیں گے ) صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب نعمت اللہ خاں صاحب اور عبد الرحمن صاحب کی روحیں آسمان سے ہمیں ہمارے فرائض زیاد دلا رہی ہیں اور میں یقین کرتا ہوں کہ احمد یہ جماعت ان کو نہیں بھولے گی." (الفضل ۱۱.ستمبر ۱۹۲۴ء) بر صغیر کی تقسیم کے پر آشوب حالات میں ہر ملک کے احمدی اس ملک کے وفادار رہیں حضرت مصلح موعود اور جماعت کے اکثر کو قادیان چھوڑنا پڑا.حضور نے اس وقت یہ عہد فرمایا کہ اس صدمہ کو زندہ تو رکھا جائے گا مگر کوئی جزع فزع نہیں کی جائے گی اور صبر و صلوۃ سے کام لیتے ہوئے پوری تندہی اور مستعدی سے جماعتی کاموں کو آگے سے آگے بڑھایا جائے گا.تقسیم کے بعد پہلے جلسہ سالانہ پر حضور نے مندرجہ ذیل پیغام درویشان قادیان کے نام بھیجوایا.اس پیغام کا لفظ لفظ تربیت یاد دہانی اور نصیحت پر مشتمل ہے اور یہ پیغام بھی بتاتا ہے کہ صبر و رضا کی یہ بے مثال کیفیت کسی مقبول بارگاہ الہی اور متوکل علی اللہ کو ہی نصیب ہوتی ہے.رت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ امیر جماعتہائے بھارت نے رقت و خشوع کے حضرت
٣٨٣ ماحول میں بڑی درد بھری آواز سے یہ پیغام شمع احمدیت کے پروانوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا.قادیان موجود ہے ، اس کے مقدس شعائر موجود ہیں ، اس کی مساجد موجود ہیں اس کا لنگر خانہ موجود ہے، لیکن افسوس ہمارا پیارا امام یہاں موجود نہیں.آنکھیں اپنے آقا کو دیکھنے کے لئے ترستی ہیں مگر پاتی نہیں.تاہم ہمیں ایک گونہ خوشی ضرور ہے کہ حضور نے ہم خادموں کو اپنے پیغام سے نوازا ہے.کر سنایا.اس کے بعد حضرت مولوی صاحب نے امام ہمام سید نا المصلح الموعود کا مندرجہ ذیل پیغام پڑھ ۱۹۱۲ء میں جب میں حج کے لئے گیا تھا تو حج سے واپسی ایام دسمبر میں ہوئی تھی.جہاز دو دن لیٹ ہو گیا اور میں جلسہ میں شمولیت سے محروم رہا.اس کو پورے پینتیس سال ہو گئے.آج پورے ۳۵ سال کے بعد پھر اس سال کے جلسہ میں شامل ہونے سے محروم ہوں.ہم قادیان کے جلسہ کی یاد گار میں باہر بھی جلسہ کر رہے ہیں لیکن اصل جلسہ وہی ہے جو کہ قادیان میں ہو رہا ہے اور پورے چالیس ۴۰ سال کے بعد پھر یہ جلسہ مسجد اقصیٰ میں ہو رہا ہے.مسجد اقصیٰ میں ہونے والا آخری جلسہ وہی تھا جو کہ حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخری سال میں ہوا.آپ کی وفات کے بعد پہلا جلسہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ہوا.1911 ء سے جلسے مسجد نور میں ہونے شروع ہوئے اور گزشتہ سال تک دار العلوم کے علاقہ میں ہی جلسے ہوتے چلے آئے ہیں.خدا تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت آج پھر مسجد اقصیٰ میں ہمارا جلسہ ہو رہا ہے اس لئے نہیں کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے مشتاقوں کی تعداد کم ہو گئی ہے بلکہ شمع احمدیت کے پروانے سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے قادیان نہیں آسکتے.یہ حالات عارضی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیں پورا یقین ہے کہ قادیان احمدیہ جماعت کا مقدس مقام اور خدائے وحدہ لا شریک کا قائم کردہ مرکز ہے وہ ضرور پھر احمدیوں کے قبضہ میں آئے گا اور پھر اس کی گلیوں میں دنیا بھر کے احمدی خدا کی حمد کے ترانے گاتے پھریں گے.جو لوگ اس وقت ہمارے مکانوں اور ہماری جائیداد پر قابض ہیں.اس میں
۳۸۴ کوئی شبہ نہیں کہ ان کا قبضہ مخالفانہ ہے.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ مجبور اور معذور ہیں وہ لوگ بھی اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں اور ان کی جائیدادوں سے انہیں بے دخل کیا گیا ہے.گو وہ ہمارے مکانوں اور ہماری جائیدادوں پر جبراً قابض ہوئے ہیں مگر ان کے اس دخل کی ذمہ داری ان پر نہیں بلکہ ان حالات پر ہے جن میں سے ہمارا ملک گذر رہا ہے.اس لئے ہم ان کو اپنا مہمان سمجھتے ہیں.اور آپ لوگ بھی انہیں اپنا مہمان سمجھیں ان سے بھی اور تمام ان شریف لوگوں سے بھی جنہوں نے ان فتنہ کے ایام میں شرافت کا معاملہ کیا ہے.محبت اور درگذر کا سلوک کریں اور جو شریر ہیں اور انہوں نے ہمارے احسانوں کو بھلا کر ان فتنے کے ایام میں چوروں اور ڈاکوؤں کا ساتھ دیا ہے آپ لوگ ان کے افعال سے بھی چشم پوشی کریں.کیونکہ سزا دینا خد اتعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے یا حکومت کے سپرد کیا ہے اور حکومت آپ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اور لوگوں کے ہاتھ میں ہے.اگر حکومت اپنا فرض ادا کرے گی تو وہ خود ان کو سزا دے گی.بہر حال یہ آپ لوگوں کا یا ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم حکومت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیں.خدائے واحد لاشریک کے سامنے رعایا بھی اور حاکم بھی پیش ہوں گے اور ہر ایک اس کے سامنے اپنے کاموں کا جواب دہ ہو گا.پس خدا کے حکم کے ماتحت اس حکومت کے فرمانبردار رہو جس حکومت میں تم بستے ہو.یہی احمدیت کی تعلیم ہے جس پر گزشتہ ستاون سال سے ہم زور دیتے چلے آئے ہیں.یہ تعلیم آج کل کے حالات سے بدل نہیں سکتی اور نہ آئندہ کے حالات کبھی بھی اسے بدل سکتے ہیں.دنیا میں کبھی بھی امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس تعلیم پر عمل نہ کیا جائے کہ ہر ملک میں بسنے والے اپنی حکومت کے فرمانبردار رہیں اور اس کے قانون کی پابندی کریں.کوئی اس تعلیم کو مانے یا نہ مانے احمدی جماعت کا فرض ہے کہ ہمیشہ اس تعلیم پر قائم رہے.ملک کے قانون کے ماتحت اپنے حق مانگنے منع نہیں لیکن قانون تو ڑنا جائز نہیں.میں نے سنا ہے کہ بعض غیر مسلموں نے میری ایک تقریر کے بعض فقرات کو بگاڑ کر قادیان میں اشتہار دیا کہ میں نے کہا ہے کہ تمام ہندوستان کے احمدیوں کو آزاد کشمیر کی گورنمنٹ کی امداد کرنا چاہئے اور جنگ میں ان کا ساتھ دینا چاہئے.میری اس تقریر میں جنگ کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ سردی میں ٹھٹھرنے والے لوگوں کے لئے کپڑے کی امداد کا ذکر تھا.اسی
۳۸۵ طرح ہندوستان کے احمدیوں کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں سے خطاب تھا اور جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں احمدیت کی یہ تعلیم ہے کہ جس حکومت میں کوئی رہے اس کی اطاعت کرے پاکستان کے احمدی پاکستان کے مفاد کا خیال رکھیں گے اور ہندوستان کے احمدی ہندوستان کے مفاد کا خیال رکھیں گے.اسی طرح جس طرح پاکستان کے رہنے والے ہند و پاکستان کا خیال رکھیں گے اور ہندوستان میں رہنے والے عام مسلمان ہندوستان کے مفاد کا خیال رکھیں گے.یہی وہ بات ہے جس کی پاکستان کے لیڈر ہندوستان کے مسلمانوں کو تلقین کر رہے ہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو ہندوستان کے لیڈر پاکستان کے ہندوؤں کو سمجھا رہے ہیں.اگر ہندوستان کے بعض باشندے اپنے چوٹی کے لیڈروں کی بات بھی نہیں سمجھ سکتے تو وہ میری بات کس طرح سمجھ سکتے ہیں.پس تم ان کی باتوں پر صبر کرو اور احمدیت کی اس نصیحت پر ہمیشہ کار بند رہو کہ جس حکومت میں رہو اس کے فرمانبردار رہو.میں آسمان پر خدا تعالیٰ کی انگلی کو احمدیت کی فتح کی خوشخبری لکھتے ہوئے دیکھتا ہوں.جو فیصلہ آسمان پر ہو زمین اسے رد نہیں کر سکتی اور خدا کے حکم کو انسان بدل نہیں سکتا.سو تسلی پاؤ اور خوش ہو جاؤ اور دعاؤں اور روزوں اور انکساری پر زور دو اور بنی نوع انسان کی ہمدردی اپنے دلوں میں پیدا کرو کہ کوئی مالک اپنا گھوڑا بھی کسی ظالم سائیس کے سپرد نہیں کرتا.اسی طرح خدا بھی اپنے بندوں کی باگ ان ہی کے ہاتھ میں دیتا ہے جو بخشتے ہیں اور چشم پوشی کرتے ہیں اور خود تکلیف اٹھاتے ہیں تا کہ خدا کے بندوں کو آرام پہنچے.ہر ایک مغرور خود پسند اور ظالم عارضی خوشی دیکھ سکتا ہے مگر مستقل خوشی نہیں دیکھ سکتا.پس تم نزمی کرو اور عفو سے کام لو اور خدا کے بندوں کی بھلائی کی فکر میں لگے رہو.تو اللہ تعالیٰ جس کے ہاتھ میں حاکموں کے دل بھی ہیں وہ ان کے دل کو بدل دے گا اور حقیقت حال ان پر کھول دے گا یا ایسے حاکم بھیج دے گا جو انصاف اور رحم کرنا جانتے ہوں.تم لوگ جن کو اس موقع پر قادیان میں رہنے کا موقع ملا ہے اگر نیکی اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تاریخ احمدیت میں عزت کے ساتھ یاد کئے جاؤ گے اور آنے والی نسلیں تمہارا نام ادب و احترام سے لیں گی اور تمہارے لئے دعا ئیں کریں گی اور تم وہ کچھ پاؤ
۳۸۶ گے جو دوسروں نے نہیں پایا.اپنی آنکھیں نیچی رکھو لیکن اپنی نگاہ آسمان کی طرف بلند کرو - فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضُهَا " (مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحه ۴۴-۴۶) حضرت مصلح موعود نے ۱۹۴۸ء کے جلسہ سالانہ قادیان کی تقریب پر احمدی جماعتوں کے نام مندرجہ ذیل پیغام بھیجوایا.اس پیغام میں حضور نے درویشان کرام کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے انہیں مبارکباد دی اور ساتھ ہی بدلے ہوئے حالات میں انہیں ان کی عظیم ذمہ داریوں کی طرف بڑے موثر رنگ میں تلقین فرمائی.میں آپ لوگوں کو سالانہ جلسہ کے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت قائم رکھنے کی توفیق پانے پر مبارکباد دیتا ہوں.سنا گیا ہے کہ ہندوستان یونین نے سو کے قریب ہندوستانی احمدیوں کو جلسہ میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے گو یہ اجازت بہت بعد میں ملی ہے اور شاید اس سے جماعت کے لوگ فائدہ نہ اٹھا سکیں لیکن اگر بعض افراد کو اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق ملی ہو تو میں انہیں بھی اس اہم موقع پر حصہ لینے پر مبارک باد دیتا ہوں.برادران ! جماعتیں بڑے صدمات میں سے گذرے بغیر کبھی بڑی نہیں ہو تیں.قربانی کے مواقع کا میسر آنا اور پھر قربانی کرنے کی قابلیت ظاہر کر دینا یہی افراد کو جماعتوں میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس سے جماعتیں بڑی جماعت بنتی ہیں.ہماری قربانیاں اس وقت تک بالکل اور قسم کی تھیں اور ان کو دیکھتے ہوئے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ہماری جماعت کے بڑے بننے کے امکانات موجود ہیں.مگر اب جو قادیان کا حادثہ پیش آیا ہے وہ اس قسم کے واقعات میں سے ہے جو قوموں کو بڑا بنایا کرتے ہیں.اگر اس وقت ہماری جماعت نے اپنے فرائض کو سمجھا اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا تو بڑائی اور عظمت اور خدائی برکات یقیناً اس کے شامل حال ہوں گی اور وہ اس کام کو پورا کرنے میں کامیاب ہو گی جو خد اتعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے.میں قادیان میں رہنے والے احمدیوں کو اس امر کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ شور و شر کا زمانہ جس نے عمل کے مواقع کو بالکل باطل کر دیا تھا اب ختم ہو رہا ہے.آہستہ آہستہ امن فساد کی جگہ لے رہا ہے.بہت سی جگہوں کے راستے
۳۸۷ کھل گئے ہیں اور باقی کے متعلق امید ہے کہ آہستہ آہستہ کھل جائیں گے.مگر جس رنگ میں کام چل رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا کی جماعت احمدیہ کا ایک مرکز پر جمع ہونا ابھی کچھ وقت چاہتا ہے.وہ وقت لمبا ہو یا چھوٹا لیکن بہر حال جب تک وہ وقت نہ آئے جس حد تک موجودہ تعطل کو دور کیا جا سکے اس کا دور کیا جانا ضروری ہے.گذشتہ سال جو تعطل واقع ہوا وہ معافی کے قابل تھا کیونکہ تمام علاقے آپس میں کئے ہوئے تھے اور ایک دوسرے تک خبر پہنچانا نا ممکن تھا.لیکن اب وہ حالت نہیں رہی.اب کسی نہ کسی ذریعہ سے قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں کا تعلق قائم رکھا جا سکتا ہے اور تبلیغ اور اشاعت کے کام کو بھی ہاتھوں میں لیا جا سکتا ہے.گذشتہ ایام میں جو تباہی آئی اس موقع پر قادیان کے اکثر احباب نے نہایت عمدہ نمونہ دکھایا اور قابل تعریف قربانی پیش کی جس پر میں ہی نہیں ہندوستان اور پاکستان کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا کے دور دراز ملکوں کے لوگ بھی قادیان کے لوگوں کی قربانی کی تعریف کر رہے ہیں.امریکہ اور یورپ کے لوگ اب قادیان کو صرف ایک مذہبی مرکز کے طور پر نہیں دیکھ رہے بلکہ قربانی کرنے والے ایثار کرنے والے اور اس دکھ بھری دنیا کو اس کے دکھوں سے نجات دینے کی کوشش کرنے والے لوگوں کا مرکز سمجھ رہے ہیں.اس نقطہ نگاہ سے قادیان اب صرف احمدیوں کا مرکز نہیں رہا بلکہ وہ مختلف مفید عام کاموں کی خواہش رکھنے والے لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی ہو گیا ہے.ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ ایک مجلس میں شامل ہونے کا مجھے موقع ملا.میرے پاس امریکن قونصل جنرل کی بیوی تشریف رکھتی تھیں.مجلس سے اٹھتے وقت میں نے ان سے کہا کہ اپنے خاوند سے مجھے انٹر ڈیوس کرا دیں.انہوں نے اپنے خاوند کو مجھ سے ملوایا.ملنے کے بعد سب سے پہلے فقرہ جو امریکن قونصل جنرل نے کہا وہ یہ تھا کہ مجھے قادیان دیکھنے کی بہت خواہش ہے افسوس ہے کہ اس وقت تک میں اس خواہش کو پورا نہیں کر سکا.میں نے کہا ہمیں بھی بہت خواہش ہے لیکن افسوس کہ اس وقت ہم بھی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکتے.اسے سن کر نہایت افسوس سے امریکن قونصل جنرل نے کہا.ہاں ہمیں بھی اس بات کا بہت افسوس ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے گو احمد یہ جماعت کی اکثریت قادیان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہے اور اب صرف چند سواحمدی قادیان میں رہ گئے ہیں
۳۸۸ لیکن قادیان پہلے سے بھی زیادہ دنیا کی توجہ کا مرکز ہو گیا ہے اور اس کی وجہ وہی قربانی اور شاندار نمونہ ہے جو قادیان کے احمدیوں نے پیش کیا اور آپ لوگ اس قربانی کی مثال کو زندہ رکھنے والے ہیں اور اس وجہ سے اس معاملہ میں سب سے زیادہ مبارک باد کے مستحق ہیں.لیکن صرف کسی چیز کو زندہ رکھنا کافی نہیں ہوا کرتا اس چیز کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا اصل کام ہو تا ہے.اگر محمد رسول اللہ میں لیا ہے اس نور آسمان کو اپنے دل میں زندہ رکھتے جو آسمان ہے اس وقت نازل ہوا تھا تو یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہو تا لیکن اتنا بڑا کام نہیں جو اس صورت میں ہوا کہ آپ نے اس نور کو اپنے دل ہی میں زندہ نہیں رکھا بلکہ ہزاروں لاکھوں اور انسانوں کو بھی اس نور سے منور کر دیا.صحابہ کرام نے اس نور کو اپنی زندگیوں میں زندہ رکھ کر ایک بہت بڑا نمونہ دکھایا لیکن ان کا یہ نمونہ اس سے بھی زیادہ شاندار تھا کہ انہوں نے نور محمدی کا ایک حصہ اپنے سینوں سے نکال کر لاکھوں اور کروڑوں دیگر انسانوں کے دلوں میں بھی بھر دیا.پس اے میرے عزیزو! آپ کی زندگی کا پہلا دور ختم ہوتا ہے اور نیا دور شروع کرنے کا وقت آگیا ہے.پہلے دور کی مثال ایسی تھی جیسے چٹان پر ایک لیمپ روشن کیا جاتا ہے تا کہ وہ قریب آنے والے جہازوں کو ہو شیار کرتا رہے اور تباہی سے بچائے.لیکن نئے دور کی مثال اس سورج کی سی ہے جس کے گرد دنیا گھومتی ہے اور جو باری باری ساری دنیا کو روشن کر دیتا ہے.بیشک آپ کی تعداد قادیان میں تین سو تیرہ ہے.لیکن آپ اس بات کو نہیں بھولے ہوں گے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان میں خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے کام کو شروع فرمایا تھا تو اس وقت قادیان میں احمدیوں کی تعداد صرف دو تین تھی.تین سو آدمی یقینا تین سے زیادہ ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی کے وقت قادیان کی آبادی گیارہ سو تھی.گیارہ سو اور تین کی نسبت ۱/۳۶۶ کی ہوتی ہے.اگر اس وقت قادیان کی آبادی بارہ ہزار سمجھی جائے تو موجودہ احمد یہ آبادی کی نسبت باقی قادیان کے لوگوں سے ۱/۳۶ ہوتی ہے.گویا جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کام شروع کیا اس سے آپ کی طاقت دس گنا زیادہ ہے.پھر جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے کام شروع کیا اس وقت قادیان سے باہر کوئی احمد یہ جماعت نہیں تھی لیکن
۳۸۹ اب ہندوستان میں بھی بیسیوں جگہ پر احمد یہ جماعتیں قائم ہیں.ان جماعتوں کو بیدار کرنا، منظم کرنا ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑا کرنا اور اس ارادہ کے ساتھ ان کی طاقتوں کو جمع کرنا کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو ہندوستان کے چاروں گوشوں میں پھیلا دیں.یہ آپ لوگوں کا ہی کام ہے.ہم کہتے ہیں کہ قادیان احمدیوں کا مرکز ہے.آپ لوگ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس لئے قادیان میں بیٹھے ہیں کہ یہ ہم احمدیوں کا مرکز ہے.اب یہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ مرکز کو مرکز کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کریں.مرکز چند مجاوروں کے جمع ہو کر بیٹھ جانے کا نام نہیں.مرکز ایک بے انتہاء جذبہ کا نام ہے جو اپنے ماحول پر چھا جانے کا ارادہ کر کے کھڑا ہو.مرکز کا نام قرآن کریم میں ماں رکھا ہے اور ماں وہی ہوتی ہے جو اپنا خون پلا کر بچوں کو پالتی بڑا کرتی اور جو ان کرتی ہے.پس قادیان مرکز اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی چھاتیوں کا دودھ تمام طالبان صداقت کو پیش کرے ، ان کو پالے اور ان کی پرورش کرے اور ان کو پروان چڑھائے.پس آپ لوگ اب اپنی نئی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے نئے سرے سے اپنے دفاتر کی تنظیم کریں اور ہندوستان کی باقی جماعتوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کی کوشش کریں.صرف یہی نہیں بلکہ ان کو بڑھانے اور پھیلانے کی کوشش کریں.وہ تمام اغراض جن کے لئے احمد یہ جماعت قائم کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہیں.ان اغراض کو سامنے رکھ کر صد رانجمن احمدیہ کی تنظیم کریں اور تمام ہندوستان کی جماعتوں کے ساتھ خط و کتابت کر کے ان کو منظم کریں اور پھیلنے اور پھولنے میں مدد دیں.اس کام کے متعلق میں چند تجاویز آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں:.اول.ہندوستان یونین کی تمام احمد یہ جماعتوں کی لسٹیں جمع کریں.(جو لسٹیں وہاں موجود نہ ہوں وہ لسٹیں پاکستان کے مرکز سے منگوالیں) ۲:.پریس کو دوبارہ جاری کرنے کی کوشش کریں.جب تک قادیان کا پریس واگذار نہیں ہوتا اس وقت تک ضروری اشتہارات لکھ کر دہلی بھیجوا دیا کریں اور وہاں سے چھپوا کر ریل میں منگوا لیا کریں اور پھر ڈاک کے ذریعہ تمام ہندوستانی جماعتوں میں تقسیم کر دیا کریں.
۳۹۰ : چونکہ گذشتہ صدمہ سے بعض جماعتوں میں کمزوری پیدا ہو گئی ہے اس کو دور کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں مبلغ مقرر کریں تا کہ وہ پھر پھر کے جماعتوں کی دوبارہ تنظیم کریں.اس وقت مبلغ صرف دہلی ، بمبئی، حیدر آباد دکن ، بہار، اڑیسہ اور کلکتہ میں ہیں.جو نہی آپ کام کرنے کے قابل ہو جائیں اور اپنے انتظامات کو مکمل کر لیں دہلی کے مبلغ کی طرح باقی مبلغوں کو بھی براہ راست قادیان کے ماتحت کر دیا جائے گا.مگر اب بھی حقیقتا وہ آپ ہی کے ماتحت ہیں اور آپ کو ان سے کام لینا چاہئے.۴:.اس وقت قادیان میں قریب دو درجن دیہاتی مبلغ ہیں.ان لوگوں کو کوشش کر کے دہلی پہنچایا جائے اور وہاں سے آگے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جہاں احمدیہ جماعتیں قائم ہیں پھیلا دیا جائے.یہ لوگ وہاں جا کر نہ صرف موجودہ جماعتوں کی تنظیم کریں بلکہ جماعت کو وسیع کرنے کی کوشش کریں.چونکہ آپ لوگ انڈین یونین میں ہیں اور وفادار شہریوں کی حیثیت میں ہیں کوئی وجہ نہیں کہ حکومت آپ میں اور دو سرے کام کرنے والے مسلمانوں میں کوئی فرق کرے.ان جانے والوں کے بدلے میں ہندوستان کی جماعتوں میں تحریک کر کے نئے واقفین بلو ا کے قادیان میں رکھے جائیں جو قادیان میں آکر تعلیم حاصل کریں اور پھر بیرونی جماعتوں میں پھیلا دیئے جائیں.سردست اگر جلسہ میں کچھ احمدی باہر سے آکر شامل ہوئے ہیں تو ان کے ساتھ پانچ دیہاتی مبلغ بھجوا دیے جائیں جو مولوی بشیر احمد صاحب دہلوی کی نگرانی میں یو.پی کے مختلف علاقوں میں کام کریں.یو.پی کی جماعتوں میں سے لکھنو ، شاہجہانپور “ اور بریلی، آگرہ کی اچھی جماعتیں تھیں لیکن اب دیر سے ان کا پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کہاں ہیں.اگر یہ لوگ وہاں جا کر کام کریں تو نہ صرف وہ جماعتیں جلد منظم ہو جائیں گی بلکہ نئے سرے سے پھولنے اور پھلنے لگ جائیں گی.ان جانے والے مبلغین کو سمجھا دیا جائے اگر بعض جماعتیں گذشتہ صدمات کی برداشت نہ کر کے بالکل مردہ ہو چکی ہوں تب بھی گھبرائیں نہیں.ایک دو تین جتنے احمدی مل سکیں ان کو جمع کر کے نئے سرے سے کام شروع کر دیں.پھر وہ انشاء اللہ دیکھیں گے کہ ابھی چند دن بھی نہیں گذرے ہوں گے اور پہلے سے بھی زیادہ مضبوط جماعتیں وہاں قائم ہو جائیں گی بلکہ ارد گرد کے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلنے لگ جائے گی.یہ یاد رہے کہ سب کے سب مبلغوں کو اکٹھا
۳۹۱ نہ بھیجوایا جائے کیونکہ ممکن ہے کہ ان کے قائم مقاموں کے آنے میں دقت پیدا ہو اور قادیان کی احمدی آبادی کم ہو جائے.اس خطرہ کو آپ کبھی نہ بھولیں اور ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں.ہمیشہ پہلے باہر سے آنے والوں کو اند رلایا کریں اور پھر بعض دو سروں کو باہر جانے کی اجازت دیا کریں سوائے ان پانچ کے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.۵:.چونکہ اب ملک میں ہندی کا زور ہو گا اس لئے آپ لوگ بھی دیوناگری رسم الخط کے سیکھنے کی کوشش کریں اور ہندی زبان میں لٹریچر کی اشاعت کی طرف خاص توجہ دیں.4 :.جب تک باہر سے واقفین کے آنے کی پوری آزادی نہ ہو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ طالب علموں کو مولوی بشیر احمد صاحب اپنے ساتھ رکھ کر دہلی میں پڑھائیں اور کچھ طالب علموں کو ساتھ رکھ کر مولوی محمد سلیم صاحب کلکتہ میں پڑھائیں اور کچھ طالب علموں کو ساتھ رکھ کر مولوی عبد المالک صاحب حیدر آباد میں پڑھائیں اور پھر ان کو اردگرد کے علاقوں میں پھیلاتے چلے جائیں لیکن یہ مد نظر رکھا جائے کہ ہندوستان کے چندوں سے ہندوستان کا خرچ چل سکے اور قادیان کی آبادی کا خرچ بھی وہیں سے نکل سکے.۷:.قادیان میں احمدیوں کے آنے اور قادیان کے احمدیوں کو ہندوستان یونین میں جانے کے متعلق آزادی کرانے کے لئے آپ لوگ باقاعدہ کوشش کریں اور کوشش کرتے چلے جائیں تا کہ قادیان میں پھر زائرین آنے لگ جائیں اور قادیان کی نہر ایک کھڑے پانی کے جوہر کی سی شکل اختیار نہ کرلے.آبادی کی زندگی کے لئے عورتوں اور بچوں کا ہونا بھی ضروری ہے.آپ لوگ متواتر حکومت کے ساتھ خط و کتابت کریں اور کوشش کریں کہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ قادیان کے ساکنان کے بیوی بچے حفاظت کے ساتھ رہ سکیں.: جو نسی قادیان میں کچھ ایسے نوجوان آجا ئیں جن کا تعلیم پانے کا زمانہ ہو تو " فورا ایک سکول کی بنیاد رکھ دی جائے جس کے متعلق کوشش ہو کہ وہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جائے.۱۰:.ہندوستان یونین کی صدرانجمن احمدیہ نے ایک دن کے لئے بھی ہندوستان
۳۹۲ نہیں چھوڑا.اسی طرح وہاں کی تحریک جدید انجمن بھی وہیں ہے.یہ انجمنیں قادیان کی جائیداد کا مطالبہ کر سکتی ہیں.آپ کو بڑے زور سے اس امر کا مطالبہ کرنا چاہئے.افراد کی جائیداد کا بیشک جھگڑا ہو لیکن صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید جب کہ ہندوستان یونین میں موجود ہیں تو کیوں حکومت ان کے سپرد ان کی جائیداد نہ کرے.کالج سکول ہسپتال ریتی چھلہ زمانہ سکول، دار الانوار کا گیسٹ ہاؤس ، خدام الاحمدیہ کے دفاتر، تحریک جدید کی زمینیں ، ان کے مالک قادیان میں بیٹھے ہیں.آپ لوگ اس کے متعلق دعوی کریں اور ان لفظوں میں کریں کہ جب کہ ان جگہوں کے مالک صد را انجمن احمدید تحریک جدید اور خدام الاحمدیہ قادیان میں موجود ہیں اور جب کہ ان جگہوں سے فائدہ اٹھانے والے احمدی ہندوستان یونین میں موجود ہیں تو کس قانون کے ماتحت ان چیزوں پر قبضہ کیا گیا ہے.یہ چیزیں ہمارے سپرد ہونی چاہئیں اور ہمیں ان کے استعمال کا موقع دینا چاہئے عقل کے ساتھ اور ادب کے ساتھ اگر ان مطالبات کو حکام کے سامنے بار بار رکھا جائے اور ان پر یہ روشن کیا جائے کہ ہندوستان یونین کے احمدی ہندوستان یونین کے وفادار ہیں جس طرح پاکستان کے احمدی پاکستان کے وفادار ہیں پھر ان سے باغیوں کا ساسلوک کیوں کیا جاتا ہے تو یقیناً حکومت ایک دن اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوگی.ال:.جب تک پریس نہیں ملتا اس وقت تک جماعتوں کے نام چٹھی لکھ کر ہر پندرہویں روز بھیجوانا شروع کریں جس میں جماعتوں کو ان کے فرض کی طرف توجہ دلائی جائے.اگر عہدہ داران جگہ چھوڑ گئے ہیں تو نئے عہدہ دار مقرر کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے.اگر عہدہ دار عہدوں پر موجود ہیں لیکن کام نہیں کرتے تو ان کو کام کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے.اگر بالکل بیدار نہیں ہوتے تو ان کو بدلنے کی طرف توجہ دلائی جائے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَذَكِرْاِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرُى اگر آپ پیچھے پڑ جائیں گے تو یقیناً ایمان کی چنگاری پھر سلگ اٹھے گی سونے والے پھر بیدار ہو جائیں گے بلکہ مردے بھی زندہ ہو جائیں گے اور پھر ترو تازگی اور نشو و نما کے آثار ظاہر ہونے لگ جائیں گے.آپ تین سو سے زیادہ آدمی وہاں ہیں.اگر ان میں سے سو آدمی کا خط پڑھے جانے کے قابل ہو اور ہر چٹھی تین تین سو کی تعداد میں باہر بھیجی جائے تو ہر لکھے پڑھے آدمی کو پندرہ دن میں صرف تین چٹھیوں کو نقل کرنا پڑتا ہے اور
۳۹۳ یہ کوئی بڑا کام نہیں.ان چٹھیوں میں ایمان کو ابھارنے یا زندگی کو قائم رکھنے ، ہمت سے کام لینے اور خدا تعالیٰ کے ان بے انتہا فضلوں میں حصہ لینے کی دعوت ہو جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے وعدہ کیا گیا تھا.طرح طرح سے اور بار بار جماعتوں کو ہلایا جائے جگایا جائے اور نہ صرف ہلایا اور جگایا جائے بلکہ تبلیغ کر کے اپنے آپ کو وسیع کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے.اس وقت مسلمان بے کسی کی حالت میں پڑا ہے.اس وقت وہ سچائی پر غور کرنے کے لئے تیار ہے.وہ اس ہاتھ کے لئے ترس رہا ہے جو اس کو پکڑ کر نجات کی طرف لے جائے.اگر آج آپ لوگ صحیح طور پر جماعتوں کو بیدار کرنے کی طرف توجہ کریں تو ہندوستان میں احمدیت کے پھیلنے کا بے نظیر موقع ہے.سر دست مولوی بشیر احمد صاحب یو.پی کی جماعتوں کو منظم کریں اور یو.پی کے تمام چندے سوائے تحریک جدید کے چندہ کے جو غیر ممالک کی تبلیغ پر خرچ ہو تا ہے قادیان بھجوائیں آپ لوگ باقاعدہ خط و کتابت کے ذریعہ سے ہمیں بتاتے رہیں کہ فلاں فلاں جماعت منتظم ہو گئی ہے اور ان کا چندہ قادیان میں آنے لگ گیا ہے تا ایسا نہ ہو کہ دو عملی کی وجہ سے کوئی جماعت بالکل تباہ ہو جائے.جب آپ یو.پی کی جماعتوں کو منظم کرلیں گے تو ہم دوسرے صوبوں کو باری باری آپ کے سپرد کرتے چلے جائیں گے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اب خاموشی سے جھنڈے کو پکڑ کر کھڑے رہنے کا وقت گذر چکا.وہ کام آپ نے شاندار طور پر کیا جس کے لئے دنیا بھر کے احمدی آپ لوگوں کے ممنون ہیں اور آنے والی نسلیں بھی آپ کی ممنون رہیں گی.مگر انسان ایک بڑھنے والی ہستی ہے.ہر روز اس کے حالات متغیر ہوتے ہیں اور ہر روز کے بدلے ہوئے حالات کے مطابق اسے کام کرنا پڑتا ہے کل کی روٹی آج کام نہیں آسکتی اور آج کی روٹی آنے والے کل کام نہیں آسکتی.پس وہ عظیم الشان خدمت جس کے کرنے کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق بخشی ہے اس کا تقاضا ہے کہ آپ اب اگلا قدم اٹھائیں اور قادیان کے خاموش مرکز کو ایک زندہ مرکز میں تبدیل کر دیں.ہندوستان یونین کی آبادی ۲۸.۲۹ کروڑ کے قریب ہے.اس کی اصلاح اور اس کی نجات کوئی معمولی کام نہیں ، کسی زمانہ میں ساری دنیا کی آبادی اتنی ہی تھی.پس آج سے سینکڑوں سال پہلے ساری دنیا کی اصلاح کا کام جتنا اہم تھا اتنا ہی آج ہندوستان کی اصلاح کا کام اہم ہے.جن لوگوں کو خدا
۳۹۴ تعالی نے قادیان کی چھوٹی سی بستی کو بڑھا کر ایک سعی و عمل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بنانے کی توفیق بخشی وہ بھی انسان تھے اور آپ بھی انسان ہیں آپ اپنے آپ کو افراد کی حقیقت میں دیکھنا چھوڑ دیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةٌ (النحل : (۱۲۱) ابراہیم ایک امت تھا.جو لوگ خدا تعالیٰ پر نظر رکھتے ہوئے اس کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو فرد سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں.ان میں سے ہر شخص اپنے آپ کو امت سمجھتا ہے اور ان میں سے بعض شخص تو اپنے آپ کو دنیا سمجھتے ہیں.آپ لوگ بھی اور وہ دوسرے دوست بھی جو باہر سے اس وقت قادیان میں تشریف لا سکے ہوں وہ بھی آج سے اپنا نقطہ نگاہ بدل دیں.آج سے ان میں سے ہر شخص اپنے آپ کو امت سمجھنے لگ جائے.وہ یہ سمجھ لے کہ جس طرح آم کی گٹھلی میں سے ایک بڑا درخت پیدا ہو جاتا ہے، جس طرح بڑ کے چھوٹے سے بیچ میں سے سینکڑوں آدمیوں کو سایہ دینے والا بڑا پیدا ہو جاتا ہے ، اسی طرح وہ امت بن کر رہے گا.وہ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں اپنی نسلیں پھیلا دے گا.وہ خاموش قربانی کی جگہ اب اصلاح کے لئے اپنی قربانی کو پیش کرے گا.ہندوستان اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے اندر پھر سے انسانیت کو قائم کیا جائے.پھر سے صلح اور آشتی کو قائم کیا جائے پھر سے خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں پیدا کی جائے اور یہ کام سوائے آپ لوگوں کے اور کوئی نہیں کر سکتا.عزم صمیم کے ساتھ اٹھیں ، طوفان کا ساجوش لے کر اٹھیں اور ہندوستان پر چھا جائیں جس کا نتیجہ ضرور یہ نکلے گا کہ وہ لوگ جو آج احمدیت کو بغض اور کینہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایک دشمن کی حیثیت میں دیکھتے ہیں وہ اور ان کی نسلیں آپ لوگوں کے ہاتھ چومیں گی.آپ لوگوں کے لئے برکتیں مانگیں گی اور دعائیں دیں گی کہ آپ لوگ اس بد قسمت ملک کو امن دینے والے اور صلح اور آشتی کی طرف لانے والے ثابت ہوئے.احمدیت ایک نور ہے احمدیت صلح کا پیغام ہے احمدیت امن کی آواز ہے تم اس نور سے دنیا کو منور کرو.تم اس پیغام کی طرف لوگوں کو بلاؤ.تم اس آواز کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں بلند کرو.خدا تمہارے ساتھ ہو." (مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحه ۴۸ تا ۵۵ - اگست ۱۹۵۲ء از ملک صلاح الدین صاحب) خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت قادیان نے ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بہت کامیابیاں
۳۹۵ حاصل کیں تبلیغ و تربیت کے کام میں غیر معمولی ترقی ہوئی.جماعت کی جائیدادیں بھی جماعت کو واپس ملیں اور قادیان ایک موثر و متحرک مرکز بن گیا.۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے افتتاحی اجلاس میں پاکستانی قافلہ کے امیر مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ لاہور نے حضرت فضل عمر کا مندرجہ ذیل زبانی پیغام سامعین تک پہنچایا.اپنے رب پر بھروسہ رکھو.اس کی کامل اطاعت کرو.اس پر کامل یقین اور اس کی کامل اطاعت کے ساتھ دنیا میں امن قائم ہو سکے گا." حضور کا یہ پیغام چند الفاظ پر مشتمل ہے تاہم اس میں جس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ اتنا اہم اور ضروری ہے کہ اس کے بغیر انسان کی پیدائش کا مقصد ہی حاصل نہیں کیا جاسکتا.۱۹۵۰ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضور نے مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے جلسہ سالانہ کی ابتداء کے حالات بیان فرمانے کے بعد ایک نہایت ولولہ انگیز پیغام میں سات بنیادی امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا.اے برادران کرام جو قادیان میں مسنون جلسہ سالانہ کے موقع پر ہندوستان کے مختلف کناروں سے جمع ہوئے ہیں میں پہلے تو آپ لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ مرکز میں اس کے مقرر کردہ جلسہ میں اس کے مامور کے مقرر کردہ ایام میں خدائے وحدہ لا شریک کا ذکر بلند کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں آپ لوگوں کو یا درکھنا چاہئے کہ احمدیت ایک صوفیوں کا فرقہ نہیں ہے بلکہ احمدیت ایک تحریک ہے ایک پیغام آسمانی ہے جو دنیا کو بیدار کرنے اور خدا تعالی کی طرف سے بندے کے لئے ایسے وقت میں نازل ہوا ہے جبکہ دنیا خدا کو بھول چکی تھی اور مذہب سے بیزار ہو چکی تھی اور اسلام ایک نام رہ گیا تھا اور قرآن صرف ایک نقش رہ گیا تھا.نہ اسلام کے اندر کوئی حقیقت باقی رہ گئی تھی اور نہ قرآن کے اندر کوئی معنی رہ گئے تھے.اسلام اسلام کہنے والے تو کروڑوں دنیا میں موجود تھے قرآن پڑھنے والے بھی کروڑوں موجود تھے لیکن نہ مسلمان کہلانے والے اسلام پر غور کرتے تھے نہ قرآن پڑھنے والے قرآن کے معنی سمجھتے تھے.خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس غفلت اور اس سستی کو دور کرے اور اسلام کو نئے سرے سے دنیا میں قائم کرے اور پھر اپنا وجو د اپنے تازہ نشانوں کے ساتھ دنیا پر ظاہر کرے اور رسول کریم ملی او لیول کے روحانی کمالات اپنے پیروؤں اور اپنے جانشینوں کے
۳۹۶ ذریعہ سے دنیا کو دکھلائے اور آپ کے حسن سے جہان کو روشناس کرے.پس جہاں تک فرد کی اصلاح کا سوال ہے کسی ایک فرد کا بھی اس طریق کار کو اختیار کر لینا احمدیت کے مقصد کو پورا کر دیتا ہے لیکن جہاں تک اسلام کو دنیا میں پھیلانے کا سوال ہے کسی ایک فرد یا دس ہزار افراد کے ساتھ بھی یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا بلکہ یہ مقصد اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جبکہ اسلام اور احمدیت کے پیغام کو ہندوستان اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا دیا جائے ، سوتوں کو جگایا جائے غافلوں کو ہوشیار کیا جائے ، وہ جن کو توجہ نہیں ان کو توجہ دلائی جائے وہ جو اسلام سے متنفر ہیں ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا کی جائے جو اسلام سے ناواقف ہیں انہیں اسلام سے واقف کیا جائے.کوئی کان نہ رہے جس میں اسلام اور احمدیت کی آواز نہ پڑے کوئی آنکھ نہ رہے جو احمدیت کا لٹریچر پڑھنے سے محروم ہو کوئی دل باقی نہ ہو جس کو خدائے وحدہ لا شریک کے سندیسے سے آگاہ نہ کر دیا جائے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ کام بغیر تنظیم کے بغیر کوشش کے بغیر جد وجہد کے بغیر سعی لامتناہی کے پورا نہیں ہو سکتا." آپ کے دل بیشک اس صدمہ سے چور ہوں گے کہ ایک بڑی بھاری جماعت کٹ کے ٹکڑے ہو گئی ہے اور آپ ہندوستان جیسے وسیع ملک میں تھوڑے سے رہ گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ لوگ جو آج قادیان میں جمع ہوئے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جو ۱۸۹۱ء کے جلسہ قادیان میں جمع ہوئے تھے.وہ ان سے بھی بہت زیادہ ہیں جو ۱۸۹۲ء کے جلعہ قادیان میں جمع ہوئے تھے.وہ ان سے بھی بہت زیادہ ہیں جو ۱۸۹۳ء کے جلسہ قادیان میں جمع ہوئے تھے.وہ ان سے بھی بہت زیادہ ہیں جو ۱۸۹۴ء کے جلسہ قادیان میں جمع ہوئے تھے.وہ ان سے بھی بہت زیادہ ہیں جو ۱۸۹۵ء کے جلسہ قادیان میں جمع ہوئے تھے.لیکن یہ ۱۸۹۱ ء اور ۱۸۹۲ء اور ۱۸۹۳ء اور ۱۸۹۴ء اور ۱۸۹۵ء میں قادیان میں جمع ہونے والے لوگ ہر سال اس یقین سے زیادہ سے زیادہ معمور ہوتے چلے جاتے تھے کہ ہم دنیا پر غالب آنے والے ہیں اور دنیا کو احمدیت کی تعلیم منوانے والے ہیں.آپ لوگ تو ان سے بہت زیادہ ہیں ، آپ کی مالی حیثیت بھی ان سے زیادہ ہے ، آپ کی دنیوی تعلیم بھی ان سے زیادہ ہے صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ ان لوگوں والا ایمان پیدا کریں اور یہ آپ کے لئے کوئی مشکل بات نہیں کیونکہ وہ نشان
۳۹۷ جو ان لوگوں کے سامنے تھے ان سے بہت بڑے نشان آپ کے سامنے ہیں.۱۸۹۵ء کے بعد تیرہ سال برابر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نشانات ظاہر ہوتے رہے اور آپ کی وفات سے لے کر اس وقت تک بھی آپ کے نشانات نئی نئی صورتوں میں دنیا پر ظاہر ہو رہے ہیں.پھر خدا نے میرے ذریعہ سے بہت سے غیب ظاہر کئے ہیں جو کہ مُردوں کو زندہ کرنے والے بہروں کو شنوائی بخشنے والے اور اندھوں کو بینائی بخشنے والے ہیں.پس آپ کے ایمانوں کو زیادہ کرنے والے جو سامان موجود ہیں وہ ان لوگوں سے بہت زیادہ ہیں جو ۱۸۹۵ء کے لوگوں کو میسر تھے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ آپ لوگ اپنے اوقات کو ان نشانوں کے پڑھنے اور سوچنے اور ان پر غور کرنے میں صرف کریں اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اگر آپ ایسا کریں تو دنیا کی محبت آپ کے دلوں سے یقیناً سرد ہو جائے گی اور دین کی محبت کی آگ آپ کے دلوں میں سلگنے لگ جائے گی اور آپ صرف انہی نشانوں پر جو ظاہر ہو چکے ہیں زندہ نہیں رہیں گے بلکہ خدا تعالٰی آپ کے اندر سے بولنے لگے گا اور آپ خود خد اتعالیٰ کا نشان بن جائیں گے.کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارا اخد ا سب دنیا کو پیدا کرنے والا خدا ہے کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کا ذرہ ذرہ اس کا مملوک اور غلام ہے، کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کی تمام بادشاہتیں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتیں جتنا کہ ایک مچھر ایک ہاتھی کے مقابلہ میں حیثیت رکھتا ہے پھر آپ کے حوصلوں کو پست کرنے والی کیا چیز ہے؟ صرف ارادے کی کمی ہے ورنہ نشانوں کی کوئی کمی آپ کے پاس نہیں.آج آپ لوگ یہ عہد کرلیں کہ ہم احمدیت کو نئے سرے سے پھر ہندوستان میں قائم کریں گے.اس کے گوشے گوشے میں احمدیت کا پیغام پہنچا دیں گے.اس کے خاندان خاندان سے احمدیت کے سپاہی نکال کر لائیں گے.اس کی قوم قوم کو احمدیت کا غلام بنا کر چھوڑیں گے اور یہ کام مشکل نہیں ہے.حق ہمیشہ غالب ہوتا ہے اور ناراستی ہمیشہ مغلوب ہوتی ہے.پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ (۱) ایک تو اس بات کا عزم کرلیں کہ ایک زندہ احمدی کی زندگی آپ بسر کریں گے نہ کہ مردہ احمدی کی.(۲) آپ اپنے علاقہ اور اس کے ارد گرد جماعت کے پیغام کو اس زور -
۳۹۸ پھیلا ئیں گے کہ لوگ مجبور ہو جائیں اس پر کان دھرنے کے لئے اور لوگ مجبور ہو جائیں اس کو ماننے کے لئے.(۳) صدرانجمن احمد یہ قادیان کے ساتھ مل کر سلسلہ کے لٹریچر کی اشاعت کے لئے ایک وسیع سکیم بنا ئیں گے کہ ہندوستان کی ہر زبان بولنے والے کے لئے احمدی لٹریچر موجود ہو.(۴) اپنے نوجوانوں کو یہ تحریک کریں گے کہ وہ زندگیاں وقف کریں اور دین سیکھیں اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں دین پھیلانے کی طرف توجہ کریں.(۵) قادیان میں پریس کے قیام کے لئے کوشش کریں گے کہ بغیر قادیان میں پر لیس کے قیام کے با قاعدہ لٹریچر یا ہر کی جماعتوں کو نہیں پہنچ سکتا.(۶) اپنے چندوں میں باقاعدگی اختیار کریں گے اور نئے آنے والے احمدیوں پر بھی چندوں کی اہمیت ظاہر کریں گے تا کہ جماعتی فنڈ مضبوط ہو اور تبلیغ کے کام کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جاسکے.(۷) جلسہ سالانہ میں تو اب آپ لوگ آنا شروع ہو ہی گئے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی قادیان میں آتے رہیں گے تاکہ مرکز سے آپ کے تعلقات زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوں اور آپ لوگوں کے آنے سے مرکز والوں کا حوصلہ بلند رہے اور مرکز کے لوگوں کے ساتھ ملنے سے آپ کے ایمان میں تازگی ہو.اگر آپ لوگ ان باتوں پر عمل کریں گے تو میں امید کرتا ہوں کہ اگلے سال کا جلسہ اس سال کے جلسے سے بہت بڑا ہو گا اور اگلے سال کی جماعت اس سال کی جماعت سے زیادہ مخلص ہو گی اور اگلے سال کی مالی وسعت اس سال کی مالی وسعت سے کہیں بڑھ کر ہوگی اور خدا تعالیٰ کے فضل کی ہوائیں چلنے لگ جائیں گی.مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے امیدیں دلوں میں کلبلانے لگ جائیں گی.عزم اور یقین قلوب میں ڈیرہ لگالیں گے اور پھر احمدیت کی روحانی فوج بنی نوع انسان کو گھیر کر خدا تعالیٰ کے دروازے کے آگے لانے کے لئے ایک پر شوکت اور پر ہیبت مارچ کر رہی ہوگی.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.“ (الفضل ۳۱.دسمبر ۱۹۵۰ء) نونهالان جماعت مجھے کچھ کہنا پر ہے یہ شرط کہ ضائع مرا پیغام نہ ہو ہے
۳۹۹ ظاہری سامانوں کی کمی بلکہ عدم موجودگی اور ذرائع کے فقدان ساری دنیا کیلئے مفید وجود کے باوجود جذبہ ایمان سے قوم کے حوصلہ میں اضافہ اور ان میں کام کی لگن پیدا کرنے میں حضرت مصلح موعود کو ید طولی حاصل تھا.آپ کے ۱۹۵۲ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے لئے مندرجہ ذیل پیغام سے اس امر کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے." برادران جماعت احمدیه ! السلام عليكم ورحمة اللہ.آج پانچ سال سے اوپر ہو گئے کہ قادیان کی جماعت کا اکثر حصہ ہجرت کر کے پاکستان آچکا ہے اور بر صغیر ہندوستان کی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اب بھی ہندوستان میں اتنی جماعت موجود ہے کہ اگر وہ صحیح طور پر خدمت کرے تو ایک اعلیٰ درجہ کی پنیری کا کام دے سکتی ہے اور میں آپ لوگوں کو آپ کے اس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.آپ جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ ہم ایک دو سرے کی مالی مدد نہیں کر سکتے.اسی وجہ سے ہم نے ہندوستان کو پاکستان کی انجمن کو مدد دینے سے بالکل آزاد کر دیا ہے اور تمام ہندوستانی جماعت کو یہ نصیحت کی ہے کہ وہ اپنا روپیه صدرانجمن احمدیہ کو دیں اور اس کے ساتھ مل کر کام کریں تا کہ کسی قسم کی بین الاقوامی پیچیدگی پیدا نہ ہو.بہت سے لوگ شرارت سے آپ لوگوں کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے رہتے ہیں کہ گویا خلیفہ وقت کے پاکستان آجانے کی وجہ سے آپ لوگ بھی پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں.ان لوگوں کی غرض محض حکومت اور جماعت کے درمیان منافرت پیدا کرنا ہے حالانکہ میرے نزدیک ہندوستان کے ہر احمدی کو سوائے اس کے کہ اسے مجبور کر کے نکال دیا جائے ہندوستان میں ہی رہنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ ہماری جماعت کا وہ مرکز جسے بانی سلسلہ احمدیہ نے قائم کیا تھا ہندوستان میں ہی ہے.اور یہ کتنی حماقت کی بات ہو گی کہ وہ قوم جو اپنے مبلغ امریکہ اور جرمنی سپین اور ہالینڈ اور فرانس اور انگلستان کو مسلمان بنانے کے لئے بھجوا رہی ہے وہ ہندوستان کو خالی چھوڑ دے جو کہ کسی زمانہ میں اسلام کی شان و شوکت کا ایک بڑا بھاری نشان تھا.ہم تو اسے خدا تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان اور حکومت ہند کے معاہدات میں دونوں طرف دونوں قوموں کو رہنے کی اجازت ہے اور اس طرح وہ مواد موجود ہے جو کسی وقت دونوں ملکوں میں صلح پیدا کرنے کا موجب ہو جائے گا.
۴۰ دو پس آپ لوگ اس قسم کے پراپیگنڈا سے بالکل متاثر نہ ہوں اور آپ کے دل غمگین نہ ہوں کیونکہ شریر لوگ ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں.آپ اسی طرح اپنے ملک کی وفاداری کریں جس طرح کہ ہم لوگ پاکستان کے وفادار ہیں.لیکن اس بات کو یاد رکھیں کہ ہندوستان کا یہ اعلان ہے کہ وہ دنیوی حکومت ہے اور مذہبی حکومت نہیں ہے اور اس طرح اس نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ کسی کے مذہب میں دخل اندازی نہیں کرے گی جس کے معنے یہ ہیں کہ حکومت ہندوستان خدا کے سامنے اپنے آپ کو بری کر چکی ہے.اسی طرح مہذب دنیا کے سامنے بھی اپنے آپ کو بری کر چکی ہے.اگر اس کے اس اعلان کے بعد آپ لوگ تبلیغ میں سستی کریں یا آپ لوگ اشاعت میں سستی کریں تو یقیناً خدا کی نگاہ میں اور دنیا کی نگاہ میں مجرم ہوں گے حکومت ہندوستان مجرم نہیں ہوگی.”ہندوستان میں اس وقت مسلمان جس کمزوری کی حالت میں سے گزر رہے ہیں وہ یقینا ان کے دلوں میں خوف خدا پیدا کرنے کا موجب ہو رہی ہے.اسی طرح ہندو قوم بھی آزادی کے بعد سیاست میں اب اتنی رغبت نہیں رکھتی جتنی کہ پہلے رکھتی تھی.ان میں بھی ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو دین کی جستجو کرنے لگ گیا ہے اور صداقت کی تلاش اسکے دل میں پیدا ہو گئی ہے.پس ان مسلمانوں تک پہنچنا جن کے دل شکستہ ہیں اور خدا کے خوف سے معمور ہو چکے ہیں آپ کا فرض ہے.اسی طرح وہ غیر مسلم جن کے دل میں اب دین کی جستجو پیدا ہو گئی ہے اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست کا کام ہم نے پورا کر لیا ہے ، ہمارا ملک آزاد ہو گیا، اب ہمیں خدا کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے ان کی طرف بھی آپ کا جانا ضروری ہے.دیکھو مسیح نے کہا تھا کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لئے آیا ہوں اور مسیح صلیب کے شدید طور پر تکلیف دہ واقعہ کے بعد جس طرح بھی ہو اگر تا پڑتا ان گمشدہ بھیڑوں کی طرف گیا.قادیان میں جو انقلاب ہوا ہے وہ تمہارے لئے بھی ایک صلیب جیسا ہی واقعہ ہے مگر اس صلیب پر سے صرف ایک شخص بچا تھا اور تم ہزاروں آدمی اس دوسری صلیب سے بچ گئے ہو.اگر تم بھی مسیح کی طرح یہ ارادہ کر لو کہ خدا کی گمشدہ بھیڑوں کو تم نے جمع کرنا ہے تو تم ایک عظیم الشان کام کر سکتے ہو.لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہندوستان کی جماعتوں نے موقع کی نزاکت کو نہیں
سمجھا اور مجھے افسوس ہے کہ صدر انجمن احمدیہ قادیان نے بھی اب تک اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھا.وہ صرف ایک گاؤں کی پنچائت کی حیثیت اپنے آپ کو دیتے ہیں اور ایک ملک کا بوجھ اٹھانے والے اور ملک کی آزادی کا بیڑہ اٹھانے والے لیڈروں کی حیثیت اپنے آپ کو نہیں دیتے.ایک پیاسے کو پانی پلانا ثواب کا موجب ہے لیکن ایک گمراہ کو ہدایت دینا تمہارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا.نہ صد رانجمن احمدیہ قادیان نے نہ تم نے اس بارہ میں کوئی مؤثر قدم اٹھایا ہے." سب سے پہلی چیز تو یہ تھی کہ امن کے قیام کے بعد قادیان کے جلسہ میں ہزاروں ہزار احمدی آتا مگر آپ لوگ تو اب بھی اسی طرح آرہے ہیں جس طرح کہ خطرہ کے وقت میں آتے تھے وہ وقت گذر چکا ملک میں خدا کے فضل سے امن ہو گیا اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ سال میں کم سے کم ایک دفعہ تو قادیان آئیں اور یہاں آکر ان امور پر غور کریں جو آپ لوگوں کی بہتری کے لئے ضروری ہیں اور جو آپ کی ترقی کا موجب ہو سکتے ہیں.پس جب آپ لوگ واپس جائیں تو ہر احمدی کے کان میں یہ بات ڈالیں کہ وہ آئندہ جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان چلنے کی کوشش کریں اور دوران سال میں بھی اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ زور سے قادیان آتے رہیں جیسا کہ تقسیم سے پہلے آتے تھے." دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو اردو انگریزی، ہندی گورمکھی اور گجراتی پریس قائم کرنے چاہئیں ہندی تو ہندوستان کی حکومتی زبان ہو گئی ہے اور گور لکھی گویا پنجاب کی ایک رنگ میں حکومتی زبان ہے اور اردو ملک کی غیر سیاسی ملکی زبان ہے.انگریزی جانے والے اب تک بھی اس کثرت سے اس ملک میں پائے جاتے ہیں کہ جن علاقوں میں کسی اور زبان میں تبلیغ نہیں کی جا سکتی ان میں انگریزی کام دیتی ہے لیکن اب تک اردو کا پریس بھی جاری نہیں ہوا کجا یہ کہ اسے ترقی دے کر بڑھایا جائے پھر مبلغین کا سوال ہے میں متواتر کئی سال سے صد را انجمن احمدیہ کو لکھ رہا ہوں مگر اب تک مبلغین پیدا کرنے کی طرف ہر گز پوری توجہ نہیں ہوئی.ہندوستان میں کم سے کم ہمارے دس بارہ علماء موجود ہیں میں نے کہا تھا کہ ہر عالم کے ساتھ دو دو لڑ کے لگاؤ وہ چھ سات سال میں ان کو عالم بنا کر نکالے اس طرح دس بارہ سال میں تمہارے پاس سینکڑوں علماء ہو
1 ۲۰۲ جائیں گے لیکن افسوس ہے کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی." کہا جاتا ہے کہ خرچ نہیں.کیا صحابہ کے پاس خرچ ہوا کر تا تھا؟ کیا موت کے منہ آئی ہوئی قومیں بحثوں کو دیکھا کرتی ہیں ؟ کیا عظیم الشان ارادوں والے لوگ اپنی کو تاہ دامنیوں کا کبھی خیال کیا کرتے ہیں؟ اپنی مستیوں کو چھوڑو غفلتوں کو ترک کرو اپنی ، تنگ دامنیوں کو بھول جاؤ.خدا نے انسان کے دل کو بڑی وسعت دی ہے تم اس وسعت کو دیکھو جو خدا نے تمہارے دل میں پیدا کی ہے ، تم اس کام کو دیکھو جو خدا نے تمہارے سامنے رکھا ہے، تم بنی نوع انسان کی ان تکلیفوں کو دیکھو جو کہ روحانی طور پر ان کو پہنچ رہی ہیں، تم مظلوموں کی ان آوازوں کو سنو جو خدا کا رستہ دکھانے کے لئے کرب اور اضطراب کے ساتھ بلند کی جارہی ہیں اور تم اس بات کو دیکھو کہ تمہارے ان کاموں کو کرنے والا کوئی نہیں اور خدا کے ان وعدوں کو دیکھو جو تمہارے لئے کئے گئے ہیں اور اپنے اندر ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرد ، جلد سے جلد علماء پیدا کرو.جلد سے جلد تبلیغ کا کام اپنے ہاتھ میں لو جلد سے جلد لٹر پچر پیدا کرنے اور اس کو شائع کرنے کی کوشش کرو اور تم میں سے ہر شخص اپنے عمل میں تبدیلی پیدا کرے.اپنے دل میں محبت الہی پیدا کرے اور اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ خد اتعالیٰ اس کی مدد کرے."کاش ! خدا تعالیٰ تمہارے دلوں میں ان باتوں کی عظمت اور اہمیت ڈال دے اور کاش! اس جلسہ پر تم ایک نئے وجود بن کر جاؤ.ملک کو روحانی دعوت دینے والے ملک کو روحانی ترقی بخشنے والے اور پھر ساری دنیا کے لئے مفید وجود ثابت ہونے والے بن کر جاؤ.خدا کے وعدوں کو ساتھ لے کر جاؤ اور خدا کی مدد کو ساتھ لے کر جاؤ.اللهم آمین." الفضل ۱۶.جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۳۴۲) ۱۹۵۳ء کے جلسہ سالانہ کے لئے حضور نے بذریعہ تار مندرجہ ذیل پیغام ارسال فرمایا جس کا ترجمہ پاکستانی قافلہ کے امیر مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب نے پڑھ کر سنایا.”حضرت مصلح موعود نے تمام حاضرین جلسہ کو سلام کہا ہے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں فرمائی بلکہ اس وقت جلسہ کے اندر جو لوگ موجود ہیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو ہوں یا سکھ ہوں یا عیسائی ہوں سب کو سلامتی کا پیغام دیا ہے اور فرمایا ہے کہ
۴۰۳ سلامتی ہو خدا کی طرف سے تم سب پر.حضور نے اپنی جماعت کو یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اپنے ارادوں اور امنگوں کو بلند رکھو اور اپنے اخلاق کو ایسے عمدہ نمونہ میں لوگوں کے سامنے پیش کرو کہ وہ تمہارے گرویدہ ہو جائیں.پھر فرمایا ہے کہ تم سب اتحاد اور اتفاق کو قائم رکھ کر انسان اور انسانیت کے حقوق کے تحفظ کے لئے وہ قربانیاں کرتے چلے جاؤ جو اس کے لئے ضروری ہیں اور تم چونکہ دعوی کرتے ہو کہ ہم دنیا میں امن کے لئے کھڑے کئے گئے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اتنے بڑے اور اہم کام کے لئے اسی نسبت سے قربانیاں بھی کرو اور اپنے اندر خدائی صفات اور خدائی اخلاق پیدا کرو اور اپنے آپ کو اس رنگ میں ڈھال لو کہ تمہارا چلنا، تمہارا پھرنا تمہارا بیٹھنا، تمہارا اٹھنا، تمہاری حرکت بلکہ تمہار ا سکون اور تمہاری خاموشی بھی اپنے اند رامن اور محبت کا پیغام رکھتی ہو." (هفت روزه بدر قادیان ۷.جنوری ۱۹۵۴ء) ۱۹۵۴ء کے جلسہ سالانہ قادیان پر حضور نے اپنے ایک مختصر سے پیغام میں حاضرین جلسہ کو ایک بہت بڑے کام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا.السلام علیکم و رحمہ اللہ و برکاتہ.جماعت احمدیہ ہندوستان! اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کی مدد کرے اور آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کیلئے اپنی ضرورتوں پر غور کریں اور اپنی مشکلات کے حل سوچیں اور اپنے مستقبل کے لئے پروگرام تجویز کریں.یاد رکھیں کہ یہ زمانہ سخت ابتلاؤں کا ہے قوم پر قوم چڑھ رہی ہے اور ملک ملک کے خلاف کھڑا ہے.آپ کو امن کے قیام کے لئے کھڑا کیا گیا ہے اس لئے وہ کام کریں جن سے امن پیدا ہو اور وہ جماعت پیدا کریں جس کو خدا اعتقاد ہو اور بندوں کی محبت سے بھی سرشار ہو.جو خالق اور مخلوق کے درمیان تعالیٰ پر ایک پل کا کام دے.آمین ثم آمین." ہفت روزه بد رے.جنوری ۱۹۵۵ء) ۱۹۵۵ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت مصلح موعود نے خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق جماعت کو نیک اور پاک تبدیلی پیدا کرنے اور ہر احمدی کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا.
۴۰۴ برادران جماعت احمدیہ ہندوستان! السلام علیکم و رحمہ اللہ وبرکاتہ.پارٹیشن کے بعد اکثر حصہ جماعت کا پاکستان آگیا اور ادھر جماعت بہت کم رہ گئی.مگر بڑا نقص یہ ہوا ہے کہ جماعت کے اکثر حصہ اور خود میرے ادھر آجانے کی وجہ سے وہ جوش اور اخلاص ہندوستانی جماعت میں نہیں رہا جو پہلے ہو تا تھا.اے عزیز و امذ ہب کا تعلق کسی شخص یا چند افراد سے نہیں ہو تا بلکہ ہر شخص کا تعلق خدا تعالیٰ سے براہ راست ہے.پس ہمت کرو اور دلوں کو مضبوط کرو اور تبلیغ کو وسیع کرو اور اپنے ارد گرد کے ہر مذہب اور ملت کے آدمیوں تک پیغام حق پہنچاؤ.خصوصاً قادیان کی جماعت کو چاہئے کہ اپنے ارد گرد کے ہندوؤں اور سکھوں سے ایسے گھل مل کر رہیں اور ایسے پریم و محبت سے رہیں کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ احمدی ان کی ترقی کے خواہاں ہیں ان کے بدخواہ نہیں.حضرت بادا نانک کو دیکھو کہ کس طرح اکیلے اٹھے اور خالص اسلامی علاقوں ملتان اور ہزارہ (تک) چلے گئے وہاں دعائیں کیں اور چلہ کشیاں کیں اور اپنے سے محبت پیدا کرنے والے لوگ پیدا کر لئے.تم بھی اگر خداتعالی سے تعلق پیدا کرو گے اور تجد اور ذکر الہی پر زور دو گے تو تمہارے ارد گرد کے رہنے والے لوگ تم سے دعائیں کروائیں گے تم سے محبت کریں گے اور تمہاری بزرگی کا اثر ان کے دلوں پر ہو گا.اب تم میں سے ہر شخص یہ بھول جائے کہ وہ زید یا بکر ہے.بلکہ یہ یقین کر لے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ اور رسول کریم میہ کا اس ملک میں نمائندہ ہے.پس اپنے مقام کو سمجھو اور مجھے یہ خوش خبریاں بھجواؤ کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری زبانوں میں اثر دیا ہے اور جوق در جوق لوگ احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں اور تمہارے ایمانوں میں اتنی طاقت دی ہے کہ مالی حالت روز بروز درست ہوتی جارہی ہے اور تبلیغ کا سلسلہ وسیع ہو رہا ہے." بدر قادیان ۷.جنوری ۱۹۵۶ء) حضرت مصلح موعود منصب خلافت پر فائز ہوئے تو جماعت قربانی کی ضرورت و اہمیت ظاہری لحاظ سے بہت تھوڑی اور کمزور تھی جماعت کی تعداد بہت محدود تھی.مالی حالت کسی طرح بھی تسلی بخش نہ تھی تاہم حضرت مسیح موعود کی صحبت سے فیض یافتہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے حضرت مصلح موعود کی شدید خواہش اور کوشش تھی کہ آپ
۴۰۵ جماعت کی ایسی تنظیم اور تربیت کر جائیں جو آئندہ نسلوں کے لئے بھی مفید اور موثر ہو.آپ کی قائم کی ہوئی تنظیموں کا ذکر ہو چکا ہے اور جماعت اس امر کا تجربہ اور مشاہدہ کر چکی ہے کہ جماعت ان بنیادوں پر خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی ترقی کر رہی ہے.مالی نظام بھی بنیادی طور پر آپ کی نگرانی میں آپ کی ہدایات کے مطابق قائم ہوا او ر اب تک ان ہی بنیادوں پر آگے ترقی پا رہا ہے.مالی قربانی جسے قرآنی اصطلاح میں زکوۃ کہا جاتا ہے مومن کی روحانی ترقی و تزکیہ اور قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے اس کے پیش نظر آپ ہمیشہ جماعت کو مالی قربانی کے لئے تحریک کرتے رہے.مندرجہ ذیل ارشادات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے پیش نظر صرف آپ کے مخاطب احمدیوں کی تربیت نہ تھی بلکہ احمدیہ مستقبل کی بہتری اور آئندہ نسلوں کی روحانی ترقی بھی آپ کے پیش نظر رہتی تھی.قربانی کی اہمیت و ضرورت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.یاد رکھو کہ آمد کی زیادتی کے ہر گز یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی وقت تم اپنے چندوں سے آزاد ہو جاؤ گے یا کوئی وقت جماعت پر ایسا بھی آئے گا جب تم سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا میں ایک انسان ہوں اور آخر ایک دن ایسا آئے گا جب میں مرجاؤں گا اور پھر اور لوگ جماعت کے خلفاء ہوں گے.میں نہیں جانتا اس وقت کیا حالات ہوں اس لئے میں ابھی سے تم کو نصیحت کرتا ہوں تا کہ تمہیں اور تمہاری اولادوں کو ٹھوکر نہ لگے کہ اگر کوئی خلیفہ ایسا آیا جس نے یہ سمجھ لیا کہ جب جماعت کو زمینوں سے اس قدر آمدنی ہو رہی ہے ، تجارتوں سے اس قدر آمدنی ہو رہی ہے ، صنعت و حرفت سے اس قدر آمدنی ہو رہی ہے تو پھر اب جماعت سے کسی اور قربانی کے مطالبہ کی کیا ضرورت ہے اس قدر روپیہ آنے کے بعد ضروری ہے کہ جماعت کی مالی قربانیوں میں کمی کر دی جائے تو تم سمجھ لو وہ خلیفہ خلیفہ نہیں ہو گا بلکہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ خلافت ختم ہو گئی اور اب اسلام کا دشمن پیدا ہو گیا ہے اور جس دن تمہاری تسلی اس بات پر ہو جائے گی کہ روپیہ آنے لگ گیا ہے اب قربانی کی کیا ضرورت ہے اسی دن تم سمجھ لو کہ جماعت کی ترقی بھی ختم ہو گئی ہے." (الفضل ۷.اپریل ۱۹۴۴ء) آئندہ آنے والے خلفاء اور اپنی اولاد کے نام وصیت کرتے ہوئے حضور تحریر فرماتے
۴۰۶ "جب تک دنیا کے چپہ چپہ پر اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کر لیں اس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کو تاہی سے کام نہ لیں.خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کو نصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے." (الفضل ۱۷.فروری ۱۹۶۰ء) جماعت کو تفرقہ اور اختلاف سے بچنے اور قیامت تک آنے والے احمدیوں کو نصیحت اتحاد سے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں." جماعت میں تفرقہ اندازی سے بڑھ کر ہلاکت کی راہ کوئی نہیں.جو رستہ پہلے خطرناک ثابت ہوا ہو کوئی دانا اس پر نہیں چلتا.کیا کوئی شخص ہے جو گلے پر چھری پھیر لیتا ہو ؟ ہر گز نہیں.کیوں نہیں ؟ اس لئے کہ جانتا ہے کہ چھری پھیرنے سے گلا کٹ جائے گا.کوئی نہیں جو سانپ کے بچے سے کھیلے وہ جانتا ہے کہ سانپ ڈنگ مارے گاجس سے جان جائے گی.کوئی انسان نہیں دیکھا ہو گا جو جنگلی شیر کے منہ میں دیدہ و دانستہ اپنا ہاتھ ڈال دے کیونکہ جانتا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شیر چیر پھاڑ کر ٹکڑے کر ڈالے گا.مگر فتنہ کی راہ اس سے بھی زیادہ تجربہ شدہ ہے.سانپوں کے ڈسے ہوئے بچ جاتے ہیں شیر کے پھاڑے ہوؤں کا علاج ہو جاتا ہے ، آگ سے سلامتی ہو جاتی ہے اگر نہیں سلامتی تو فتنہ کے بعد نہیں.کوئی نظیر نہیں بتلائی جا سکتی کہ فتنہ کے بعد کوئی قوم سلامت رہی ہو پس میں ہو شیار کرتا ہوں کہ ان تمام بلاؤں اور ہلاکتوں سے بچنے کا صرف ایک ہی گر ہے وہ ہے اتفاق و اتحاد.جب تک اتفاق و اتحاد سے رہو گے اور جب تک اسی کوشش میں رہو گے کہ کسی طرح اس راہ کو نہ چھوڑیں.کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی فتح نہیں پاسکے گا لیکن اگر یہ باتیں چلی گئیں اختلاف رونما ہو گیا تو چھوٹے چھوٹے آدمی بھی تم پر غالب آجا ئیں گے.ایک وقت تھا کہ جب مسلمان اتفاق و اتحاد رکھتے تھے ان کے سینکڑوں ، غیروں
۴۰ کے لاکھوں پر بھاری ہوتے تھے لیکن جب یہ اتفاق و اتحاد مفقود ہو گیا پھر یہی مسلمان تھے کہ ان کو چھوٹی چھوٹی حکومتوں نے پسپا کر دیا اور تباہ کر ڈالا.اسی تسلسل میں ہسپانیہ کے زوال کی درد بھری مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں." میری حالت رنج سے غیر ہوتی ہے جب میں تاریخ میں ہسپانیہ کا حال پڑھتا ہوں وہاں پر کتب کا وہ ذخیرہ تھا اگر وہ آج ہو تا تو ہمیں اسلام کی تائید میں نقلی طور پر بہت مدد ملتی لیکن تفرقہ نے جب اسلامی حکومت کو کمزور کر دیا تو وہ سلطنت ایسی مٹی کہ جہاں مسلمانوں کی حکومت تھی آج اس جگہ ایک بھی مسلمان نظر نہیں آتا.مسلمانوں نے حملہ آوروں سے صرف اتنی اجازت چاہی تھی کہ ہمیں اپنی کتابیں لے جانے دو انہوں نے اجازت دیدی.مسلمانوں نے کتابوں کا انتخاب کیا اور کئی جہاز بھر لئے جس وقت روانگی کا وقت آیا ظالموں نے مسلمانوں کے بھرے ہوئے جہازوں کو آگ لگا کر غرق کر دیا."مسلمانان سپین کا یہ نتیجہ کس لئے ہوا.صرف اس لئے کہ انہوں نے اتفاق و اتحاد کو مٹا دیا.پس میں تم کو نصیحت کرتا ہوں تم کو ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے احمدیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ فتنہ سے بچیں اگر تم اتفاق و اتحاد کے رشتہ کو نہیں چھوڑو گے کامیابی نصرت فتح مندی و ظفریابی تمہارے ہمرکاب رہے گی ورنہ ہلاکت در پیش ہے کیونکہ فتنہ و فساد کا کچھ بھی علاج نہیں.خدا نے اپنے فضل سے تم پر ایک نورانی کھڑکی کھولی ہے دنیا میں اس نور کو پھیلاؤ کہ خدا کے فضلوں کے وارث بنو.فتنہ و فساد کی راہوں سے بچو کیونکہ یہ ہلاکت کی راہیں ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اتفاق و اتحاد پر قائم رکھے.فتنہ و فساد سے بچائے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہماری جماعت کا شعار ہو.اللہ تعالیٰ ان کو ہر میدان میں کامیابی دے.ہماری جماعت تھوڑی اور دشمن زیادہ ہیں.ہم کمزور ہیں دشمن قوی.ہمارا آسرا صرف اس رب العالمین پر ہے جو رازقی ہے.ہمارے تعلقات آپس میں نہایت اتفاق و اتحاد کے ہوں.فتنہ و فساد سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ بچائے.آمین.الفضل ۴ ستمبر ۱۹۱۷ء)
۴۰۸ قومی نشان کا احترام ۱۹۳۵ء کی مجلس شوری کے افتتاحی اجلاس میں حضور نے عام معمول کے خلاف نمائندگان مجلس شوری کے علاوہ زائرین کو بڑے پُر جوش انداز میں خطاب فرماتے ہوئے ان سے مندرجہ ذیل عہد لیا:.اس وقت ہم جنگ کے میدان میں کھڑے ہیں اور جنگ کے میدان میں اگر سپاہی لڑتے لڑتے سو جائے تو مر جاتا ہے.ہمارے سامنے نہایت شاندار مثال ان صحابه کی ہے جن کے مثل ہونے کے ہم مدعی ہیں.ایک دفعہ رسول کریم ملی یم نے فرمایا ، یہ جھنڈا وہ لے جو اس کا حق ادا کرے.ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ مجھے دیں.آپ نے اس کو دے دیا.جنگ میں جب اس کا ہاتھ کاٹا گیا جس سے اس نے جھنڈا تھاما ہوا تھا تو اس نے دوسرے ہاتھ سے تھام لیا اور جب دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا تو لاتوں میں لے لیا اور جب ٹانگیں کاٹی گئیں تو منہ میں پکڑ لیا.آخر جب اس کی گردن دشمن اڑانے لگا تو اس نے آواز دی.دیکھو مسلمانو اسلامی جھنڈے کی لاج رکھنا اور اسے گرنے نہ دینا.چنانچہ دو سرا صحابی آگیا اور اس نے جھنڈا پکڑ لیا.آج ہمارے جھنڈے کو گرانے کی بھی دشمن پوری کوشش کر رہا ہے اور سارا زور لگا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں جو جھنڈا دے گئے ہیں اسے گرا دے.اب ہمارا فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھوں میں پکڑے رہیں اور اگر ہاتھ کٹ جائیں تو پاؤں میں پکڑلیں اور اگر اس فرض کی ادائیگی میں کسی کی جان چلی جائے تو دوسرا کھڑا ہو جائے اور اس جھنڈے کو پکڑ لے.میں ان نمائندوں کو چھوڑ کر ان بچوں اور نوجوانوں سے جو اوپر بیٹھے سن رہے ہیں کہتا ہوں.ممکن ہے یہ جنگ ہماری زندگی میں ختم نہ ہو گو اس وقت لوہے کی تلوار نہیں چل رہی.لیکن واقعات کی زمانہ کی اور موت کی تلوار تو کھڑی ہے.ممکن ہے یہ چل جائے.تو کیا تم اس بات کے لئے تیار ہو کہ اس جھنڈے کو گرنے نہ دو گے؟ (اس پر سب نے بیک آواز لبیک کہا) ہمارے زمانہ کو خدا اور اس کے رسولوں نے آخری زمانہ قرار دیا ہے اس لئے ہماری قربانیاں بھی آخری ہونی چاہئیں.ہمیں خدا تعالٰی نے دنیا کی اصلاح کے لئے چنا ہے اور ہم خدا تعالیٰ کی چنیدہ جماعت ہیں.ہمیں دنیا سے ممتاز اور علیحدہ رنگ میں رنگین ہونا چاہئے.صحابہ ہمارے ادب کی جگہ ہیں مگر عشق میں رشک پیاروں سے بھی ہوتا ہے.پس ہمارا مقابلہ ان سے ہے جنہوں نے رسول کریم میں او یا لیلی کے دوش بدوش
۴۰۹ جنگیں کیں اور اپنی جانیں قربان کیں.ہم ان کی بے حد عزت کرتے اور توقیر کرتے ہیں لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ان کی قربانیوں پر رشک نہ کریں اور ان سے بڑھنے کی کوشش نہ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء) کریں" مسئلہ خلافت کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے خلافت لمبے عرصہ تک چلے گی ایک مقالہ اسلامی خلافت کا صحیح نظریہ " پر بصیرت افروز تبصرہ کرتے ہوئے حضور بڑے یقین کے ساتھ خلافت کے لمبے عرصہ تک چلنے کی خوش خبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں.پس جہاں میرے نزدیک یہ بحث نہ صرف یہ کہ بیکار ہے بلکہ خطرناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصہ کے متعلق بحثیں شروع کر دیں وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصہ تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جا سکتا اور اگر خدانخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہو گا بلکہ ایسا ہی وقفہ ہو گا جیسے دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھس جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرونِ اولیٰ میں ہو ا وہ ان حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانہ کے لئے الفضل ۳ اپریل ۱۹۵۲ء) نہیں تھا." فتنہ کافور اعلاج کریں فرماتے ہیں.وو آئندہ زمانہ میں ہونے والے فتنوں سے ہوشیار کرتے ہوئے اور ان سے بچنے کے لئے مرکز میں بار بار آنے کی تاکید کرتے ہوئے آپ یہ وہ فتنہ تھا جس نے مسلمانوں کے بہتر فرقے نہیں بلکہ بہتر ہزار فرقے بنا دیئے مگر اس کی وجہ یہی ہے جو میں نے کئی دفعہ بتائی ہے کہ وہ لوگ مدینہ میں نہ آتے تھے.ان باتوں کو خوب ذہن نشین کر لو کیونکہ تمہاری جماعت میں بھی ایسے فتنے ہوں گے جن کا علاج یہی ہے کہ تم بار بار قادیان آؤ اور صحیح صحیح حالات سے واقفیت پیدا کرو.میں نہیں جانتا کہ یہ فتنے کسی زمانہ میں ہوں گے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہوں گے ضرور لیکن اگر تم قادیان آؤ گے اور بار بار آؤ گے تو ان فتنوں کے دور کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے پس تم اس بات کو خوب یا درکھو اور اپنی نسلوں در نسلوں کو یاد کراؤ.....صحابہ کی درد ناک تاریخ سے فائدہ اٹھاؤ اور وہ باتیں جو ان کے لئے مشکلات کا باعث ہو تیں ان
۴۱۰ کے انسداد کی کوشش کرو فتنہ و فساد پھیلانے والے پر کبھی حسن ظنی نہ کرنا اور ان کی کسی تحقیق کے بغیر اعتبار نہ کرنا اور جہاں کہیں فتنہ دیکھو فورا اس کا علاج کرو.بات پر تو به اور استغفار پر بہت زور دینا" (الفضل ۱۰.جنوری ۱۹۳۳ء) یورپ میں اسلام کی جلد جلد اشاعت حضور کی بہت بڑی خواہش جرمن قوم کے نام پیغام تھی اس کا اظہار کرتے ہوئے جرمن قوم کے نام ایک پیغام میں حضور نے فرمایا " خدا کرے کہ جرمن قوم جلد اسلام قبول کرے اور اپنی اندرونی طاقتوں کے مطابق جس طرح وہ یورپ میں مادیات کی لیڈر ہے روحانی طور پر بھی لیڈر بن جائے.في الحال اتنی بات تو ہے کہ ایک جرمن نو مسلم زندگی وقف کر کے امریکہ میں تبلیغ اسلام کر رہا ہے مگر ہم ایک مبلغ یا درجنوں نو مسلموں پر مطمئن نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں مبلغ جرمنی سے پیدا ہوں اور کروڑوں جرمن باشندے اسلام قبول کر لیں تا اسلام کی اشاعت کے کام میں یورپ کی لیڈری جرمن قوم کے ہاتھ میں ہو." (الفضل ۲۶.جون ۱۹۵۷ء) عشق و محبت الہی کی جو آگ حضور کے سینہ میں تھی اسے آگے سب سے آگے نکل جاویں منتقل کرنے کے لئے ہر درد مند اور مخلص کو خطاب کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں." میں کہتا ہوں کہ اپنی اولاد کے اندر یہ آگ لگا دو کہ وہ کسی کو آگے نہ بڑھنے دیں اور زندگی کے ہر شعبہ میں سب سے آگے نکل جاویں علم میں، اخلاق میں ا قتصادی حالات میں سیاست میں مذہب میں غرض کسی چیز میں کسی سے پیچھے نہ رہیں مگر یاد رکھو کہ یہ مقابلہ امن اور اخلاق کا مقابلہ ہے.دوسروں سے آگے بڑھنے میں کبھی تمہاری اخلاقی کمزوری ظاہر نہ ہو بلکہ اخلاقی فتح کے ساتھ.امن کو قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھو." (لیکچر شمله صفحه ۲۲) حضور اپنی شدید علالت اور کمزوری کی وجہ سے یورپ تشریف لے گئے ہوئے تھے وہاں پر عید کی تقریب اس حال میں آئی کہ آپ مرکز اور جماعت کے اکثر حصہ سے دور اور الگ تھے اس
وقت بھی آپ کے سامنے جو مقصد تھا وہ وہی تھا جس کی آپ کو زندگی بھر لگن رہی تھی کہ اسلام کو جلد فتح نصیب ہو.اپنے عید کے مختصر پیغام میں آپ فرماتے ہیں.تمام بھائیوں کو عید الاضحیہ مبارک ہو.میری صحت بفضلہ ترقی کر رہی ہے.احباب درد دل کے ساتھ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ وہ حقیقی عید کا دن بھی دکھائے جب کہ تمام مذاہب پر اسلام کو فتح نصیب ہوگی " (الفضل ۳.اگست ۱۹۵۵ء) جنوبی ہند اور مدراس کے احمدیوں کو تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اعلیٰ تعلیم دلوں کو موہ لے گی کی طرف توجہ دلانے کے لئے ان کے نام ایک پیغام میں آپ نے تحریر فرمایا.برادران صوبہ مدراس و جنوبی ہند! اللہ نے اسلام ایسے وقت میں بھیجا کہ جب اس سے پہلے مختلف مذاہب موجود تھے گویا دنیا کی مختلف کھیتیاں مختلف مالکوں میں تقسیم ہو چکی تھیں اور سوائے عرب کے کوئی خالی زمین رسول کریم ملی و لیوری کے لئے باقی نہیں تھی مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم دیا ہے کہ جَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر قرآنی دلائل کے ساتھ اپنے مخاطبین سے جہاد کرو چنانچہ رسول کریم میں لی لی ہے اور صحابہ نے اس پر عمل کیا.کسی دشمن پر خود حملہ نہیں کیا بلکہ اگر اس نے حملہ کیا تو آپ اس کے دفاع کے لئے پہنچے تو بھی پو پھٹنے سے پہلے کبھی اس پر حملہ نہیں کیا تا کہ وہ ہشیار ہو جائے اور جنگ کے لئے تیار ہو جائے اور جب ایسی دفاعی جنگوں سے بھی آپ واپس آئے تو آپ نے فرمایا رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْاَكْبَرِ ہم چھوٹے جہاد سے واپس آئے ہیں اور اب بڑے جہاد کے لئے فارغ ہیں یعنی تبلیغ کے لئے.پھر قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے تم کو جب اللہ تعالیٰ غلبہ بھی دے تب بھی تبلیغ سے غافل نہ ہو نا بلکہ اسلام کی تبلیغ لوگوں کے کانوں میں ڈالتے رہنا اور جہاں تم غالب اور زیادہ ہو وہاں ان لوگوں کے لئے امن پیدا کرنا تاکہ وہاں آکر اسلام کی تعلیم سن اور سیکھ سکیں اور جب وہ واپس وطن جانا چاہیں تو آرام سے ان کو وطن پہنچادو.آپ لوگ اب اس حال سے گزر رہے ہیں کہ منکرین اسلام زیادہ ہیں اور
۴۱۲ آپ کم ہیں پس آپ کا فرض تبلیغ تو اور بھی بڑھ جاتا ہے اگر آپ لوگ اچھا نمونہ دکھا ئیں اور اسلام کی تبلیغ کا جوش جنون کی حد تک بڑھا دیں تو اسلام کی اعلیٰ تعلیم آج بھی دلوں کو موہ لے گی اور آپ کے خیر خواہ اور آپ کے محب کثرت سے پیدا ہو جائیں گے مگر ضرورت یہ ہے کہ اسلام کو معقول صورت میں ان کے سامنے پیش کیا جائے.اس پیغام کے آخر میں آپ نے نصیحت فرمائی کہ ہمیشہ اپنے بھائی کی مدد کرو مگر نیکی اور تقویٰ کے متعلق گناہ اور ظلم پر کبھی اس کی مدد نہ کرو.اپنی طبیعتوں میں سے درشتی نکال دو نرمی اور دعا پر زور دو پھر اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا اور زیادہ سے زیادہ آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا." (بدر قادیان ۲۸ نومبر ۱۹۵۵ء) سرزمین بلال کے سادہ دل مخلص لوگوں کو امید کا پیغام دیتے ہوئے حضور نے غانا کے نام پیغام اس غلط تاثر کی تردید فرمائی کہ افریقن کسی طرح کمتر او ر ادنی درجہ کے لوگ اور ہیں آپ نے نانا کے احمدیوں کو ایک پیغام دیتے ہوئے فرمایا.اگر آپ لوگوں کے پاس ذہانت نہیں یا دوسرے لفظوں میں آپ ایک کمتر نسل ہیں تو نعوذ باللہ یہ خدا کا نقص ہے کہ اس نے ایک ایسی قوم کی طرف اپنا مامور بھیجا جو ذہانت سے خالی تھی کہ اس کو قبول کر سکے.لیکن معاملہ یہ نہیں ہے اسلام کہتا ہے یورپ ، امریکہ ، ایشیا، افریقہ اور دور دراز جزیروں کے سب باشندے برابر ہیں.تمام کو قوت عقل اور قوت علم و ایجاد عطا کی گئی ہے.گو امریکن اپنے تئیں ایک فوق البشر مخلوق سمجھتے ہیں اور یورپین سے بھی نفرت کرتے ہیں اور یورپ کے لوگ ایشیائیوں کو بہ نظر حقارت دیکھتے ہیں مگر جہاں تک احمدیت کا تعلق ہے میں آپ کو یقین دلا تا ہوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ زمین پر بسنے والے تمام لوگ برابر ہیں.ہم تمام برابر ہیں اور ایک جیسی صلاحیتیں رکھتے ہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اپنی زندگی میں کبھی کسی احمدی کو یہ اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گا کہ وہ مذکورہ بالا خیالات کو جو دنیا میں رائج ہیں اختیار کرے.بالکل اسی طرح جس طرح آنحضرت مسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ ایسے خیالات کو اپنی ایڑیوں کے نیچے کچل دیں گے.پس میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں بھی ایسے نظریات کو اپنے پاؤں تلے مسل دوں گا..
۴۱۳ پاکستانی اپنے افریقن بھائیوں کو اپنے عزیز و اقارب کی طرح دیکھتے ہیں میں افر قنوں سے بھی اسی قربانی کی توقع رکھتا ہوں اور آپ سے کہتا ہوں کہ آپ تبلیغ کریں اور پیغام اسلام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیں.ربوہ ہمیشہ آپ کا انتظار کرے گا کہ آپ گولڈ کوسٹ (غانا) کے ہر فرد کو احمدیت کی آغوش میں لے آئیں جو حقیقی اسلام اور خدا کا دین ہے." (ریویو آف ریلیجز ستمبر ۱۹۵۵ء) اپنے روحانی ورثہ کے حصول کی بڑے ہی موثر انداز میں تلقین کرتے ہوئے ہمارا اخلاقی ورثہ آپ فرماتے ہیں.لوگ اپنے باپ کی زمینوں اور مکانوں کو نہیں چھوڑتے اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں تک جاتے ہیں کہ ہمارا اور یہ ہمیں دلوایا جائے اگر مسلمانوں میں سے کوئی بد بخت اپنے روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ کے ورثہ کو نظر انداز کرتا ہے تو اس پر افسوس ہے اس کو تو فیڈرل کورٹ تک نہیں عرش کی عدالت تک اپنے مقدمہ کو لے جانا چاہئے اور اپنا ورثہ لیکر چھوڑنا چاہئے اگر وہ ہمت نہ ہارے گا اگر وہ دل نہ چھوڑے گا تو محمد رسول اللہ لی لی ہے اور نہ اس کو ملے گا اور ضرور ملے گا.صاحب العرش کی عدالت کسی کو اس کے حق سے محروم نہیں کرتی." الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۵ء)
۴۱۵ حضرت فضل عمر کی تصانیف
عہدہ خلافت سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت کے ساتھ کھولے کہ اب قیامت تک امت مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے.اور ان سے فائدہ اٹھائے " (مصلح موعود)
حضرت فضل عمر کی تصانیف حضرت مصلح موعود کی چند ابتدائی کتب اور ابتدائی ایام کے منظوم کلام کا ذکر سوانح فضل عمر کی پہلی جلدوں میں ہو چکا ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن نے ان علمی و روحانی خزانوں کی ضرورت و اہمیت اور احباب جماعت کی خواہش و اصرار کے احترام میں حضور کی کتب انوار العلوم اور علوم و معارف کے بکھرے ہوئے روحانی خزائن " خطبات محمود " کے نام سے شائع کرنے کا پروگرام بنایا ہے.اس سلسلہ کی بعض کتب ہمارے قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں.اس وجہ سے اس تالیف میں حضور کی تصانیف و تقاریر الگ پیش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی.یہاں یہ اعتراف بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی کتب کا خلاصہ و تعارف پیش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.آپ کی تصانیف میں علوم و معارف کا اتنا ہجوم ہے کہ اس کا اپنے اپنے ظرف کے مطابق کسی قدر اندازہ انتہائی مفید و موثر کتب کو پڑھ کر ہی کیا جا سکتا ہے.یہ روحانی ورثہ جو قرآن کریم کی ایسی تشریح و تفسیر ہے جس سے خاتم الکتب کی ارفع و اعلیٰ شان ظاہر ہوتی ہے.جس سے صاحب لولاک کے بے مثال مقام کی توضیح و تبیین ہوتی ہے اتنا متنوع ہے کہ انہیں پڑھنے کے بعد یہی شعور و احساس حاصل ہوتا ہے کہ ان سے صحیح طور پر استفادہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان کا بار بار بالالتزام مطالعہ کیا جاتا رہے.تفسیر قرآن تو آپ کا مرغوب و پسندیدہ موضوع تھا.صاحب جوامع الکلم کے ارشادات کی حکمت و فلسفہ بیان کئے بغیر تو کوئی بھی سنجیدہ موضوع مکمل ہو ہی نہیں سکتا.ان معارف کے پهلو به پهلو علم تمدن علم معاشیات، علم سیاست علم مناظره، علم تاریخ و فلسفه تاریخ علم نفسیات ، علم زراعت علم صنعت و حرفت علم تہذیب و اخلاق اور دوسرے مفید علوم آپ کی تصانیف و تقاریر کی پہچان ہیں.اس جگہ یہ بیان کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک ایسے گوشہ نشین مصنف ہی نہ تھے جو ہمہ وقت مطالعہ میں مصروف کتابوں میں مگن اور اپنی تصانیف کے متعلق تحقیق اور غور و فکر
۴۱۸ میں منہمک رہے بلکہ آپ ایک عالم گیر تحریک کے ایسے فعال و متحرک رہنما تھے جسے اپنی جماعت کے لاکھوں افراد سے رابطہ رکھنا ہو تا تھا.جسے ان کے ذاتی امور تک میں رہنمائی کرنا ہوتی تھی.جماعت کا ہر فرد اپنی عقیدت و محبت کی وجہ سے اس بات کو اپنے لئے خوش قسمتی اور سعادت سمجھتا تھا کہ حضور مجھے جانتے اور پہچانتے ہیں.اسی محبت کی وجہ سے ہر احمدی اپنے نوزائیدہ بچے کا نام رکھوانے اور اس کی پیدائش سے بھی پہلے اس کے لئے دعا کی درخواست کرنے سے لیکر ہر خوشی و غم کے موقع پر حضور کو اس میں شامل کرنا اور حضور کی توجہ اور دعا حاصل کرنا اپنے لئے سکون بخش اور موجب سعادت و برکت گردانتا تھا.شدید مخالفت کے طوفانی تھپیڑوں میں جماعت کی حفاظت و رہنمائی ، جماعت کی بہتری و ترقی کے پروگرام بنانا.ان پر جماعت کو چلانا اور اس کی نگرانی کرنا ایک مستقل اور مسلسل ذمہ داری تھی.دنیا بھر میں پھیلے ہوئے افراد جماعت تو حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کرنا حل مشکلات کا ذریعہ سمجھتے ہی تھے.ایسے لوگوں کی بھی کمی نہ تھی جو جماعت سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود اس مقصد کیلئے خط لکھتے رہتے تھے.اس طرح روزانہ ملنے والے خطوط کی تعداد سینکڑوں خطوط سے متجاوز ہوتی تھی.بنی نوع انسان کی محبت اور انسانیت کے احترام اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے ہر خط کو پڑھنا اور اس کا جواب دینا اور خطوط میں بیان کی گئی مشکلات کے حل کی تجاویز بھجوانا اور پیش کردہ ضروریات کو حتی الامکان پورا کرنا حضور نے اپنے لئے ضروری قرار دے رکھا تھا.روزانہ پانچوں نمازوں کی امامت ہی بہت سا وقت لے لیتی ہے اس کے علاوہ راتوں کو اٹھ کر دعا اور گریہ و زاری بھی آپ کے معمولات میں شامل تھی اس طرح دن رات کی کبھی ختم نہ ہونے والی ایسی مصروفیت تھی جو اپنی مثال آپ ہے اس پر طرہ یہ کہ یہ مصروفیات جو کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہیں ان میں ہفتہ میں یا مہینہ میں یا سال میں بلکہ زندگی بھر کے تمام سالوں میں چھٹی کا کوئی تصور نہیں تھا.ہنگامی اور وقتی کام ان تمام مصروفیات پر زائد تھے اور پھر یہ بھی کہ آپ کی صحت بچپن سے ہی کمزور رہتی تھی اور کوئی نہ کوئی بیماری و علالت بھی دامنگیر رہتی تھی.ایسی صورت میں علمی کتب کی تصنیف اور پر معارف مضامین کا بیان ایسا محیر العقول کارنامہ ہے کہ اس ایک خدمت کو دیکھ کر ہی یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی
۴۱۹ تقدیر و منشاء کے مطابق آپ کے مسیحی نفس کی برکت سے دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہوا اور حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ ظاہر ہوا اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگنے پر مجبور ہوا.جہاں تک حضور کی ظاہری تعلیم کا تعلق ہے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل دلچسپ مکالمہ بہت حقیقت افروز ہے.حضور فرماتے ہیں.ایک دفعہ لاہور میں دو شخص مجھ سے ملنے آئے ایک نے دریافت کیا کہ آپ نے کس مدرسہ میں تعلیم پائی ہے ؟ اس کا مطلب دیو بند و غیرہ علمی مدارس سے تھا.میں نے کہا کسی مدرسہ میں نہیں.اس نے کہا کسی سے کوئی سند حاصل کی ہے ؟ میں نے کہا نہیں.پھر اس نے کہا کہ کون کون سے علوم پڑھے ہیں ؟ میں نے کہا کوئی نہیں.اس کی غرض ان سوالات سے صرف یہ تھی کہ ظاہر کرے کہ یہ تو جاہل آدمی ہے اس سے ہم کیا گفتگو کریں.میں اسے یہ جواب بھی دے سکتا تھا کہ تمہیں ان سوالات کا کیا حق ہے.مگر وہ پوچھتا گیا اور میں جواب دیتا گیا.دوست بیٹھے تھے اور وہ ایسے سوالات کرنے سے اسے روکنا بھی چاہتے تھے.مگر میں نے کہا نہیں پوچھنے دو.اس نے اپنے ساتھی سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ تو خود مانتے ہیں کہ جاہل ہیں پھر ان سے کیا سوال کریں.میں نے کہا کہ ایک سوال آپ نے نہیں کیا وہ بات میں خود بتا دیتا ہوں.وہ کہنے لگے کیا میں نے کہا میں انگریزی مدرسہ میں پڑھتا تھا اور پرائمری میں بھی فیل ہوا اور مڈل میں بھی اور انٹرنس میں بھی مگر ان سب باتوں کے باوجود میں ایک چیز پڑھا ہوا ہوں.میں نے وہ پڑھا ہے جو محمد ( ) نے پڑھا تھا اور میں نے قرآن کریم پڑھا ہے.گو محمد رسول اللہ ( م ) کا مقام اعلیٰ تھا اور میرا ادنی، بے شک میں نے دنیا کا کوئی علم نہیں پڑھا مگر نہ پڑھنے کے باوجود میرا دعویٰ ہے کہ دنیا کا کوئی علم نہیں کہ جس کے رو سے قرآن کریم یا اسلام پر اس کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر کوئی اعتراض کرے اور میں اس کا جواب نہ دے سکوں.یہ بات سن کر اس شخص کے ساتھی نے کہا کہ میں نے تم کو اشارہ کیا تھا کہ ان کے جواب میں کوئی اور بات ہے اور میں نے تمہیں پہلے ہی منع کیا تھا کہ یہ سوالات نہ کرو.مجھے اقرار ہے کہ میرے پاس کوئی سند نہیں.مگر پھر بھی میرا یہ دعویٰ ہے کہ مجھے قرآن کریم آتا ہے جو چاہے میرے اس دعویٰ کو پرکھ لے.میں نے کبھی کسی سے یہ نہیں کہا کہ مجھے
۴۲۰ فلسفہ خوب آتا ہے.مجھ سے پڑھ لو یا حساب بہت آتا ہے وہ پڑھ لو.ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ قرآن کریم مجھ سے ہی پڑھ سکتے ہو اور میرا کسی اور علم کا ماہر نہ ہونا کوئی بنک کی بات نہیں.ایک نجار اگر لوہار کا کام نہیں جانتا تو اس میں اس کی کوئی ہتک نہیں یا اگر ایک جولاہانائی کا کام نہیں جانتا تو اسے جاہل نہیں کہا جا سکتا.جو شخص جس فن کو جانتا ہے اس کے علم کا امتحان اس فن میں کیا جا سکتا ہے.اس سے باہر نہیں.پس میرے قرآن کریم کے سوا کسی علم میں ماہر نہ ہونے کو کوئی اگر جہالت قرار دیتا ہے تو بڑے شوق سے دے.میرے لئے اس میں ہتک کی کوئی بات نہیں...اصل عزت وہی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے.چاہے دنیا کی نظروں میں انسان ذلیل سمجھا جائے.اگر وہ خدا تعالیٰ کے رستہ پر چلے تو اس کی درگاہ میں وہ ضرور معزز ہو گا اور اگر کوئی شخص جھوٹ سے کام لے کر اپنے غلط دعویٰ کو ثابت بھی کر دے اور اپنی چستی یا چالاکی سے لوگوں میں غلبہ بھی حاصل کرلے تو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں وہ عزت حاصل نہیں کر سکتا اور جسے خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت حاصل نہیں وہ خواہ ظاہری لحاظ سے کتنا معزز کیوں نہ سمجھا جائے اس نے کچھ کھویا ہی ہے حاصل نہیں کیا اور آخر ایک دن وہ ذلیل ہو کر رہے گا." الفضل ۲۳- مارچ ۱۹۴۰ء) اسی حقیقت کی نشان دہی کرتے ہوئے جلسہ سالانہ خلافت جو بلی (۱۹۳۹) کی تقریر میں بطور تحدیث نعمت آپ فرماتے ہیں:.میں وہ تھا جسے احمق اور نادان قرار دیا جاتا تھا.مگر عہدہ خلافت کو سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت کے ساتھ کھولے کہ اب قیامت تک امت مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے اور ان سے فائدہ اٹھائے.وہ کونسا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا.مسئلہ نبوت، مسئله کفر مسئلہ خلافت، مسئله تقدیر قرآنی ضروری امور کا انکشاف اسلامی اقتصادیات اسلامی سیاست اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا.مجھے خدا نے اس خدمت دین کی توفیق دی اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی ان مضامین کے متعلق قرآن کے معارف کھولے جن کو آج دوست دشمن سب نقل کر رہے ہیں.مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے، مجھے لاکھ برا کہے جو
۴۲۱ شخص اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے لگے گا اسے میرا خوشہ چیں ہونا پڑے گا اور وہ میرے احسان سے کبھی باہر نہیں جا سکے گا.پیغامی ہو یا مصری ان کی اولاد میں جب بھی خدمت دین کا ارادہ کریں گی وہ اس بات پر مجبور ہونگی کہ وہ میری کتابوں کو پڑھیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں.بلکہ میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ اس بارہ میں سب خلفاء سے زیادہ مواد میرے ذریعہ جمع ہوا ہے اور ہو رہا ہے.پس مجھے یہ لوگ خواہ کچھ کہیں خواہ کتنی بھی گالیاں دیں ان کے دامن میں اگر قرآن کے علوم پڑیں گے تو میرے ذریعہ ہی اور دنیا ان کو یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ اے نادانو ! تمہاری جھولی میں جو کچھ بھرا ہوا ہے وہ تم نے اس سے لیا ہے پھر اس کی مخالفت تم کس منہ سے کر رہے ہو." (خلافت راشده صفحه ۲۵۴) حضرت فضل عمر نے حضرت حکیم حافظ مولانا نور الدین خلیفہ المسیح الاول سے قرآن مجید و حدیث کا علم حاصل کیا تھا.تاہم تدریس کا یہ کوئی باقاعدہ سلسلہ نہیں تھا بلکہ بسا اوقات حضرت خلیفة المسیح الاول خود کتاب پڑھتے جاتے اور عاشق قرآن استاد کا یہ عاشق اسلام شاگر د سن رہا ہوتا.یہ طریق تعلیم ویسے تو حضرت محمود کی کمزور صحت کی بناء پر اختیار کیا جاتا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس موعود فرزند کے عظیم مقام و مرتبہ کی وجہ سے اس سلسلہ میں زیادہ محنت کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی.حضرت فضل عمر فرماتے ہیں:.اگر دل پاکیزہ ہو خدا تعالیٰ سے تعلق ہو تو خدا تعالیٰ قرآن کریم کے علوم خود سکھاتا ہے.چنانچہ ایک وہ وقت بھی آیا کہ جب میں حج کیلئے جانے لگا تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.میں نے کبھی پہلے یہ بات ظاہر نہ کی تھی تاکہ تمہاری ترقی میں روک نہ ہو.اب ظاہر کرتا ہوں کہ یوں تو میں نے تمہیں قرآن پڑھایا لیکن کئی معارف قرآنیہ تم سے سنے اور یاد رکھے اور اس طرح تم سے قرآن پڑھا.اب چونکہ تم جارہے ہو اس لئے سنا دیا ہے کہ شاید پھر ملاقات ہو یا نہ ہو.تو میرا دعویٰ ہے کہ دنیا کا کوئی شخص اٹھے جو کہے کہ میں قرآن کے معارف اور حقائق بیان کرنے میں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں تو میں اس سے مقابلہ کیلئے تیار ہوں.وہ خود تسلیم کرے یا نہ کرے دنیا اور حقائق پسند دنیا تسلیم کرے گی کہ جو حقائق و معارف میں نے بیان کئے ہوں گے وہ بہت بڑھ کر ہوں گے.(الفضل ۵ فروری ۱۹۲۹ء)
۴۲۲ حضور کا معمول تھا کہ آپ جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک افتتاحی خطاب فرماتے جس میں بالعموم جلسہ کی اہمیت جلسہ سے پوری طرح استفادہ کرنے کے متعلق نصائح اور افتتاحی دعا ہوتی جلسہ سالانہ کے دوسرے دن کی تقریر میں دوران سال اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے فضلوں اور انعامات کا تذکرہ ہو تا تھا.جلسہ سالانہ کے آخری دن کسی علمی موضوع پر خطاب فرماتے تھے.۱۹۲۴ء سے جلسہ سالانہ میں خواتین سے ایک الگ خطاب کا سلسلہ شروع ہوا جس میں بالعموم تربیتی مسائل کا بیان ہو تا تھا.حضور کی یہ تقاریر جلسہ کی روح اور خاصے کی چیز ہوتی تھی.سارا سال مخلصین جماعت جلسہ سالانہ کا بڑے اشتیاق سے انتظار کرتے اور جلسہ سالانہ کی دو سری بے شمار برکات و فوائد کے ساتھ ساتھ ان تقاریر کا بھی شدت سے انتظار ہو تا تھا.آپ کی تقاریر کی یہ نمایاں خصوصیت تھی کہ بہت سادہ الفاظ میں بہت عام فہم انداز میں مشکل سے مشکل پر مسائل کو بیان فرماتے اور کئی کئی گھنٹوں کی تقریر میں بھی سامعین کی دلچسپی برابر قائم رہتی.ہستی باری تعالٰی تعلق باللہ ملائکہ اور تقدیر الہی ، حقیقۃ الرؤیا ، اسلام کا اقتصادی نظام نظام نو وغیرہ عنوانات سے ہی ان تقاریر کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے.جلسہ سالانہ کی ہر تقریری اپنے فوائد و تاثر کے لحاظ سے ایک سے ایک بڑھ کر ہے تاہم فضائل القرآن اور سیر روحانی کے عنوان سے آپ نے جو تقاریر بیان فرمائیں ان کی شان ہی نرالی ہے.فضائل القرآن چھ تقریروں مشتمل ہے.پہلی تقریر ۱۹۲۸ء کے جلسہ سالانہ میں ہوئی اور آخری تقریر ۱۹۳۶ء کے جلسہ سالانہ میں.قرآن مجید کے ہر طالب علم کیلئے ان میں ایسا بیش قیمت مواد پایا جاتا ہے جس سے قرآن مجید کے اسرار و انوار معلوم کرنے کیلئے ضروری اور اصولی باتوں کا علم حاصل ہو تا ہے.میر روحانی نام کی تقاریر کا آغاز ۱۹۳۸ء میں ہوا اور اس سلسلہ کی آخری بارھویں) تقریر ۱۹۵۸ء کے جلسہ سالانہ میں ہوئی.یہ روح پرور خطابات خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت حضور کی وجدانی و روحانی کیفیت قوت مشاہدہ ظاہری و باطنی علوم کی وسعت و تنوع اور قوت بیان کے بے نظیر مرقع ہیں.بیا در بزم مستاں تابه بینی عالم دیگر بهشت دیگر و ابلیس دیگر آدم دیگر ان تقاریر کے متعلق حضور فرماتے ہیں:.کل ہی میرا علمی مضمون ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ ان میں سے بہت سی باتیں ایسی ہیں جو عام ہیں اور روزمرہ ہمارے سامنے آتی
۴۲۳ رہتی ہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ ایسی ہی مثال ہو گی.جیسے معمولی معمولی چیزوں سے ایک عجوبہ تیار کر لیا جائے.جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون مجھے سمجھایا ہے وہ بالکل نرالا ہے اور اگر اسے سننے کے بعد کوئی کہے کہ یہ تو وہی باتیں ہیں جو عام طور پر ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں تو گو اس کی بات صحیح تو ہو گی لیکن اگر وہ ان کی ترتیب کو دیکھے گا تو اسے معلوم ہو گا کہ وہ اس رنگ کی ہے کہ یہ مضمون کسی کے ذہن میں پہلے نہیں آیا اور وہ محسوس کرے گا کہ یہ قرآن کریم کا ایک بڑا کمال ہے کہ اس کے اندر سے نئے نئے علوم نکلتے رہتے ہیں.میں قرآن کریم پر بہت غور کرنے والا آدمی ہوں اور اس مضمون کی ترتیب دیکھ کر میں خود بہت حیران ہوں کہ جو آیات روزانہ ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں ان میں سے بعض ایسے مضامین پیدا ہوتے ہیں کہ مجھے خود حیرت ہوتی ہے." ان معركة الآراء تقاریر میں مندرجہ ذیل عناوین پر جسمانی روحانی امور کو بالمقابل پیش کرتے ہوئے عالم روحانیت کے عظیم الشان جلوے اور نظارے پیش کئے گئے ہیں.یا یوں کہ لیجئے کہ یہ تقاریر قرآنی پیش گوئی لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّہ کی صداقت کی ایک روشن دلیل ہیں.ا.آثار قدیمہ ۲.جنتر منتر ۴ قرآنی قلعه مساجد ۵- مقابر ۶ مینا بازار ے.مینار دیوان عام ۹ - دیوان خاص ۱۰- دفاتر ا.نہریں ۱۲.باغات ۱۳.لنگر خانے ۱۴.کتب خانے ۱۵ نوبت خانے فرمایا :- نوبت خانے کے عنوان پر حضور نے اپنی تقریر کے آخر میں بڑے ولولہ انگیز پیرایہ میں دو غرض اس نوبت خانہ سے جو یہ نوبت بجی یہ کیا شاندار نوبت ہے.پھر کیسی معقول نوبت ہے.وہاں ایک طرف بینڈ بج رہے ہیں.ٹوں ٹوں ٹوں ٹیں ٹیں ٹیں
۴۲۴ اور یہ کہتا ہے اللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ - حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ - حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کیا معقول باتیں ہیں.کیسی سمجھدار آدمیوں کی باتیں ہیں.بچہ بھی سنے تو وجد کرنے لگ جائے اور ان کے متعلق کوئی بڑا آدمی سوچے تو شرمانے لگ جائے بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ نوں نوں ٹوں.ٹیں ٹیں ٹیں.مگر افسوس ! کہ اس نوبت خانہ کو آخر مسلمانوں نے خاموش کر دیا.یہ نوبت خانہ حکومت کی آواز کی جگہ چند مرضیہ خوانوں کی آواز بن کر رہ گیا.اور اس نوبت کے بجنے پر جو سپاہی جمع ہوا کرتے تھے وہ کروڑوں سے دسیوں پر آگئے اور ان میں سے بھی ننانوے فیصدی صرف رسما اٹھک بیٹھک کر کے چلے جاتے ہیں تب اس نوبت خانہ کی آواز کار عب جاتا رہا.اسلام کا سایہ گھٹنے لگ گیا خدا کی حکومت پھر آسمان پر چلی گئی اور دنیا پھر شیطان کے قبضہ میں آگئی.اب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو ہاں تم کو ہاں تم کو خدا تعالیٰ نے پھر اس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے.اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسقیارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اٹھیں تاکہ تمہاری درد ناک آواز میں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادت و توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آجائے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے.اسی غرض کیلئے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کیلئے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں.سیدھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جاؤ.محمد رسول اللہ ملی یوالی کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے تم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخت محمد رسول اللہ میں ایم کو دینا ہے اور محمد رسول اللہ نے وہ تخنت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہونی ہے.پس میری سنو اور میری بات کے پیچھے چلو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے میری آواز نہیں ہے.میں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں.تم میری مانو.خدا تمہارے ساتھ ہو.خدا تمہارے ساتھ ہو.خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دنیا میں بھی عزت پاؤ اور
۴۲۵ آخرت میں بھی عزت پاؤ." (سیر روحانی جلد سوم صفحه ۲۸۷٬۲۸۵) حضور کی تحریروں کے جستہ جستہ چند اقتباس تبر کا پیش خدمت ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات بیان کرتے ہوئے آپ نے جو نقشہ کھینچا ہے اس سے "کوثر " کی ایک دلکش تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے.آپ فرماتے ہیں:.عالم روحانی کے سب سے بڑے سمند ر تو محمد رسول اللہ میں لا رہی ہیں مگر ان سے آگے کئی قسم کی نہریں جاری ہو ئیں چنانچہ دیکھ لو ایک نہر شریعت کی چلی پھر اسی نہر میں سے ایک حنفی نہر نکلی ، ایک شافعی نہر نکلی ، ایک جنبلی نہر نکلی یہ مختلف قسم کی نہریں ہیں جو شریعت کی نہر سے جاری ہو ئیں.پھر ایک شیعوں کی نہر جاری ہوئی ایک سنیوں کی نہر جاری ہوئی ایک خارجیوں کی نہر جاری ہوئی اور ان کے ذریعہ سے شریعت کے مختلف پہلو زیر بحث آتے رہے.پھر ایک تصوف کی نہر چلی ، ایک فلسفہ شریعت کی نہر چلی ، جس کے بہت بڑے بانی ہمارے شاہ ولی اللہ اور امام ابن تیمیہ تھے اور آخر میں سب سے زیادہ اہم کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا.پھر سیاست کی ایک نہر چلی جو حضرت ابو بکر حضرت عمررؓ، حضرت عثمان حضرت علی سے شروع ہوئی اور پھر آگے نکلتی چلی گئی اور اس طرح یہ روحانی سلسلہ جو سیاست مذہبی اور فلسفہ مذہبی اور احکام شریعت کی حکمتوں اور ان کی ضرورتوں کے ساتھ تعلق رکھتا تھا دنیا میں وسیع تر ہو تا چلا گیا.پھر اخلاق فاضلہ کی ایک نہر جاری ہوئی جسے امام غزالی نے اور بھی لمبا کیا اور اس سے زمین کو سیراب کیا اس طرح تصوف میں جنید ، شبلی حضرت معین الدین چشتی ، بہاء الدین نقش بندی شهاب الدین سهروردی وغیرہ جیسے عظیم الشان لوگ گزرے اور پھر یہ ساری نہریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں آکر یہ غم ہو گئیں اور پھر ایک نئی نہر دنیا میں چل پڑی اور آپ کے ذریعہ سے پرانی روحانی نہریں بھی جاری رہیں.پرانے زمانے کے بادشاہوں نے جتنی نہریں بنائی تھیں وہ سب کی سب ختم ہو گئیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نہراب تک چل رہی ہے.(سیر روحانی صفحہ ۷۷) اسی سلسلہ میں حضور می یا ای میل سے گہری محبت و شیفتگی اور دلی لگاؤ اور عقیدت کے بیان میں
۴۲۶ فرماتے ہیں:.”ہمارے جسم کا ہر ذرہ محمد رسول اللہ علی یار پر قربان ہونے کا متمنی ہے.ہماری جان بھی اسی کیلئے ہے ، ہمار ا مال بھی اس کے واسطے ، ہم اس پر راضی ہیں.بخدا راضی ہیں.پھر کہتا ہوں بخدا راضی ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے بچے قتل کر دو.ہمارے دیکھتے دیکھتے ہمارے اہل و عیال کو جان سے مار دو لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ کو گالیاں نہ دو.ہمارے مال لوٹ لو، ہمیں اس ملک سے نکال دو لیکن ہمارے سردار حضرت نبی کریم میں ترمیم کی ہتک اور توہین نہ کرو.انہیں گالیاں نہ دو.اگر یہ سمجھتے ہو کہ محمد رسول الله ملی و لیور کو گالیاں دینے سے تم رک نہیں سکتے تو پھر یہ بھی یاد رکھو کہ کم سے کم ہم تمہارا اپنے آخری سانس تک مقابلہ کریں گے اور جب تک ہمارا ایک آدمی بھی زندہ ہے وہ اس جنگ کو ختم نہیں کرے گا.ہندو مسلم فسادات ان کا علاج صفحہ ۵۷) خدا تعالیٰ کے دربار میں آنحضرت ملی لی لی او لیول کو جو عدیم النظیر مقام حاصل تھا اسے ایک نہایت دلکش اور مؤثر رنگ میں بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں." غرض یہ کیسا عظیم الشان دربار ہے کہ اس میں بادشاہ کی طرف سے اپنے درباری کو جو مقام دیا گیا وہ دنیا کی شدید مخالفت کے باوجود قائم رہا.قائم ہے اور قائم رہے گا.حکومتیں اس روحانی گورنر جنرل کے مقابلے پر کھڑی ہو ئیں تو وہ مٹادی گئیں.بڑے بڑے جابر بادشاہوں نے اس کا مقابلہ کیا تو وہ مچھر کی طرح مسل دیئے گئے کیونکہ اس دربار خاص کا بادشاہ یہ برادشت نہیں کر سکتا کہ اس کے مقرر کردہ گورنر جنرل کی کوئی ہتک کرے یا اس کے پہنائے ہوئے جبہ کو کوئی اُتارنے کی کوشش کرے وہ اپنے درباریوں کے لئے بڑا غیور ہے اور سب سے بڑھ کر وہ اس دربار کے لئے غیرت مند ہے جس کا مبارک نام محمد مصطفی میں الا یہی ہے.خدا تعالیٰ کی اس پر لاکھوں برکتیں اور کروڑوں سلام ہوں.آمین.(مسیر روحانی صفحه ۲۷۹٬۲۷۸) بر صغیر پاک و ہند میں ہندوؤں کے معاشرتی غلبہ و تفوق کی وجہ سے نہایت ظالمانہ قسم کی طبقاتی تفریق ہر طرف چھا چکی تھی.انسانی غلامی اور ذلت کی اس نفسیاتی کیفیت کا قلع قمع کرنے کیلئے حضور نے متعدد مواقع پر نہایت مفید کوششیں کیں.نہایت مؤثر زبانی نصائح پر اکتفاء نہ کرتے
۴۲۷ ہوئے جماعت میں " وقار عمل" کے نام سے ہاتھ سے کام کرنے کو ذلیل سمجھنے کے خیال کو جڑھ سے اکھاڑ پھینکنے کی نہایت کامیاب کوشش کی.ہاتھ سے کام کرنے کی افادیت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:."کوئی پیشہ ذلیل نہیں.ہندوستانیوں نے اپنی بیوقوفی سے بعض پیشوں کو ذلیل قرار دے دیا اور پھر خود ذلیل ہو گئے.انگریز آج کس وجہ سے ہم پر حکومت کر رہا ہے.اگر غور کیا جائے تو فن بافندگی ہی ان کی اس عظمت و شوکت کا موجب ہے مگر ہم یہ کہہ کر کہ جو لا ہے کا کام ذلیل ہے خود محکوم اور ذلیل ہو گئے.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی ہل کو پکڑ کر جانوروں کے پیچھے نخ نخ کرتا پھرے تو معزز ہو.لیکن اگر ہتھو مڑا چلائے تو ذلیل ہو جائے یا اگر کوئی دفتر میں کام کرے تو معزز ہو لیکن اگر کپڑا بنے تو ذلیل ہو جائے.یہ عجیب قسم کی ذلت و عزت ہے.جب وہی دماغ ، وہی جسم ہے تو پیشہ اختیار کر لینے سے ذلیل کیوں ہو گیا.ایک شخص اگر نکا بیٹھا رہے لوگوں کا صدقہ کھائے اور مانگتا رہے تو وہ معزز ہو لیکن اگر کوئی کھڑی پر کپڑا بنے تو ذلیل ہو جائے.یہ عجیب قسم کی ذلت اور عزت ہے.ہماری عقل میں تو یہ آتی نہیں.پس ہماری جماعت میں احساس ہونا چاہئے کہ محنت کرنا برا نہیں.اپنے لئے اپنے خاندان کیلئے ، اپنی قوم کیلئے دین کیلئے اور خدا کے لئے کوئی کام کرنا ذلت کا موجب نہیں بلکہ اس میں عزت ہے اس لئے جو لوگ کوئی نہ کوئی کام کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں اور ہر حال میں مفید بننے کی کوشش کریں.میری غرض یہ ہے کہ ہماری جماعت کے تمام افراد دین و دنیا کیلئے مفید بنیں." ( افضل ۱۹ مارچ ۱۹۳۱ء) پیشیوں اور پیشہ وروں کی تذلیل کی مذموم سوچ کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.کوئی انسان غلطی سے پاک نہیں ہو سکتا اور غلطی کرنا قابل الزام نہیں.بد نیتی اور کو تاہی قابل الزام بناتی ہے مگر میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے وہ بعض لوگوں کی غلطیاں دیکھ کر ہمت ہار دیتے ہیں.میں کہتا ہوں دنیا میں کونسا انسان ایسا ہو گا جس سے کبھی غلطی نہیں ہوئی.ہر انسان سے غلطی ہوتی ہے اور بغیر غلطی کے کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی وہ قوم جو اس بات سے ڈرتی ہے کہ اس سے غلطی نہ ہو جائے وہ کبھی کامیاب :
۴۲۸ نہیں ہو سکتی....کارکنوں کا فرض ہے کہ جو کام ان کے سپرد ہو اسے نیک نیتی سے کریں اور ایسے طریق سے کریں جس سے نیک نتیجہ نکلنے کی امید ہو لیکن اگر باوجود اس کے پھر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا تو جو کچھ صرف ہوا اسے ضائع نہیں قرار دیں گے بلکہ وہ ایسا ہی ہو گا جیسے کھیت میں بیچ وہ کسی نہ کسی وقت پھل لائے گا." (الفضل ۲۶.جنوری ۱۹۲۶ء) قربانی اور محنت کے صحیح نتائج حاصل کرنے اور ناکامی و مایوسی کے اندھیروں سے نکلنے کا طریق بتاتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.” ہمارے نوجوانوں کو ذہین بننا چاہئے اور ان کی نظر وسیع ہونی چاہئے وہ جب بھی کوئی کام کریں انہیں چاہئے کہ اس کے سارے پہلوؤں کو سوچ لیں اور کوئی بات بھی ایسی نہ رہے جس کی طرف انہوں نے توجہ نہ کی ہو.یہی نقص ہے جس کی وجہ سے میں نے دیکھا ہے کہ روحانیت میں بھی ہمارے آدمی بعض دفعہ فیل ہو جاتے ہیں اور وہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں مگر ہمیں خدا تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہوتی.حالانکہ میں نے بار ہا بتایا ہے کہ صرف نمازیں پڑھنے سے خدا تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ اس کا قرب انسان کو حاصل ہو سکتا ہے حقیقی دین تو ایک مکمل عمارت کا نام ہے مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم مکمل عمارت کا فائدہ صرف ایک دیوار سے حاصل کرنا چاہتے ہو تم خود ہی بتاؤ اگر کسی قلعہ کی تین دیوار میں تو ڑ دی جائیں اور صرف ایک دیوار باقی رہنے دی جائے تو کیا اس ایک دیوار کی وجہ سے اس قلعہ کے اندر رہنے والا محفوظ رہ سکتا ہے حقیقتاً جب تک اس کی چاروں دیوار میں مکمل نہیں ہوں گی اس وقت تک قلعہ کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قرب محض نمازوں سے حاصل نہیں ہو تا بلکہ اور جس قدر احکام اسلام ہیں ان سب پر عمل کرنے کے بعد ہوتا ہے." (الفضل ۲۱.مارچ ۱۹۳۹ء) کامیابی کیلئے محنت بلند ہمتی اور یقین لازمی امور ہیں.اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.میں اپنی جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی تباہی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ وہ جس کو امید سمجھتے ہیں وہ ان کی سستی ہوتی ہے اور جس کا
۴۲۹ نام تو کل رکھتے ہیں وہ ان کی بے عملی کا نشان ہے.آپ لوگوں کو ایسی محنت اور مشقت سے کام کرنا چاہئے کہ وہ باقی لوگوں سے مقابلہ میں بہت بڑھ کر ہو....اور یہ یادر کھیں کہ وہ عمل جس کے ساتھ ستی چھا جاتی ہے عمل نہیں.عمل وہی ہے جس کے ساتھ بشاشت پیدا ہو.پس محنت سے کام کرو.اپنی ہمتوں کو بلند کرو اور یقین رکھو کہ اب دنیا کی نجات تم سے وابستہ ہے.“ الفضل ۳ مارچ ۱۹۳۲ء) علم کی ترویج و اشاعت کی طرف حضور کو خاص توجہ رہتی تھی اور اس سلسلہ میں ہمارے آقا نے وقتاً فوقتاً جماعت میں جو تحریکات جاری فرما ئیں ان کے نتیجہ میں افراد جماعت نے بالعموم اور احمدی خواتین نے بالخصوص غیر معمولی علمی ترقی حاصل کی یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح کی نسبت سے جماعت میں خواندگی کی شرح غیر معمولی طور پر زیادہ ہے.حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات کے موقع پر حضور نے جماعت کی علمی ترقی کی طرف بڑے پر زور طریق پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :.یاد رکھو مومن بہادر ہوتا ہے اور بہادر انسان کا یہ کام نہیں ہو تاکہ جب کوئی ابتلاء آئے تو وہ رونے لگ جائے یا اس پر افسوس کرنے بیٹھ جائے.بہادر آدمی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ فورا اپنی غلطی کو درست کرنا شروع کر دیتا ہے اور نقصان کو پورا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے.وہ شخص جو رونے لگ جاتا ہے مگر اپنی غلطی کی اصلاح نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.کامیاب ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو ابتلاء کے بعد اپنے آپ کو ایسے رنگ میں تیار کرنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور باہمت ہو جاتا ہے.ہمارے لئے جو ابتلاء آئے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑا تازیانہ ہیں کہ تم کیوں ایسی حالت میں بیٹھے ہوئے ہو کہ جب کوئی شخص چلا جاتا ہے تو تم کہتے ہو اب کیا ہو گا.تم کیوں اپنے آپ کو اس حالت میں تبدیل نہیں کر لیتے کہ جب کوئی شخص مشیت ایزدی کے ماتحت فوت ہو جائے تو تمہیں ذرا بھی یہ فکر محسوس نہ ہو کہ اب سلسلہ کا کام کس طرح چلے گا بلکہ تم میں سینکڑوں لوگ اس جیسا کام کرنے والے موجود ہوں.ایک غریب شخص جس کے پاس ایک ہی کوٹ ہو اگر اس کا کوٹ ضائع ہو جائے تو اسے سخت صدمہ ہوتا ہے لیکن ایک امیر شخص جس کے پاس پچاس کوٹے ہوں اس کا اگر ایک تا.کوٹ ضائع بھی ہو جائے تو اسے خاص صدمہ نہیں ہو تا کیونکہ وہ جانتا ہے میرے پاس
۴۳۰ انچاس کوٹ اور موجود ہیں.اسی طرح ہماری جماعت اگر روحانی طور پر نهایت مالدار بن جائے تو اسے کسی شخص کی موت پر کوئی گھبراہٹ لاحق نہیں ہو سکتی.تم اپنے آپ کو روحانی لحاظ سے مالدار بنانے کی کوشش کرو.تم میں سینکڑوں قیمہ ہونے چاہئیں ، تم میں سینکڑوں محدث ہونے چاہئیں ، تم میں سینکڑوں مفسر ہونے چاہئیں ، تم میں سینکڑوں علم کلام کے ماہر ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں علم اخلاق کے ماہر ہونے چاہئیں ، تم میں سینکڑوں علم تصوف کے ماہر ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں منطق اور فلسفہ اور فقہ اور لغت کے ماہر ہونے چاہئیں ، تم میں سینکڑوں دنیا کے ہر علم کے ماہر ہونے چاہئیں تاکہ جب ان سینکڑوں میں سے کوئی شخص فوت ہو جائے تو تمہارے پاس ہر علم اور ہر فن کے ۴۹۹ عالم موجود ہوں اور تمہاری توجہ اس طرف پھرنے ہی نہ پائے کہ اب کیا ہو گا.جو چیز ہر جگہ اور ہر زمانہ میں مل سکتی ہو اس کے کسی حصہ کے ضائع ہونے پر انسان کو صدمہ نہیں ہو تا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسی سینکڑوں چیزیں میرے پاس موجود ہیں.اسی طرح اگر ہم میں سے ہر شخص علوم و فنون کا ماہر ہو تو کسی کو خیال بھی نہیں آ سکتا کہ فلاں عالم تو مرگیا اب کیا ہو گا یہ خیال اسی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے وجودوں کو نادر بننے دیتے ہیں.اور ان جیسے سینکڑوں نہیں ہزاروں وجود اور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے.اگر ان کے نادر ہونے کا احساس جاتا رہے جس کی سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیں ہو سکتی کہ ان کے قائم مقام ہزاروں کی تعداد میں ہمارے اندر موجود ہوں تو کبھی بھی جماعت کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ فلاں شخص تو فوت ہو گیا اب کیا ہو گا.دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ تم نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.اگر ہم قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق یہ اشتیاق رکھتے کہ ہم دوسروں سے آگے بڑھ کر رہیں اگر ہم میں سے ہر شخص استباق کی روح کو اپنے اندر قائم رکھتا تو آج ہم میں سے ہر شخص بڑے سے بڑا محدث ہو تا‘ بڑے سے بڑا مفسر قرآن ہو تا، بڑے سے بڑا عالم دین ہو تا اور کسی کے دل میں یہ احساس تک پیدا نہ ہو تاکہ اب جماعت کا کیا بنے گا.جب کثرت سے علماء قوم میں موجود ہوں، جب کثرت سے فقہاء قوم میں موجود ہوں تو کسی کی موت کسی کو متزلزل نہیں کر سکتی بلکہ کسی ایک شخص کی موت کی حیثیت ایسی ہی رہ جاتی ہے جیسے کسی کی جھولی میں بہت سے
رانے موجود ہوں اور ان میں سے کوئی ایک دانہ زمین پر گر جائے.جس طرح چنے چہاتے وقت یا مکی کے دانے کھاتے وقت کوئی ایک کھیل زمین پر گر جاتی ہے تو انسان پروا بھی نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسے سینکڑوں دانے میری جھولی میں موجود ہیں.اسی طرح جب قوم میں کثرت سے ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو علوم و فنون کے ماہر ہوں تو ان میں سے کسی کی موت جماعت کے لئے پریشانی کا موجب نہیں ہو سکتی.در حقیقت زندہ قوم کی علامت ہی یہی ہے کہ اس کے اندر اس قدر علماء کی کثرت ہوتی ہے کہ کسی ایک کے فوت ہونے پر اسے ذرا بھی احساس نہیں ہو تاکہ آئندہ کام کس طرح چلے گا.بے شک شخصی لحاظ سے ایک شخص کی وفات دکھ اور رنج کا موجب ہو سکتی ہے اور ہمیشہ ہوتی ہے مگر بہر حال یہ ایک شخصی سوال ہو گا قومی سوال نہیں ہو گا.ایک شخص کا باپ مر جاتا ہے ایک شخص کی ماں مرجاتی ہے تو اس کا دل زخمی ہوتا ہے.اس میں سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہوتے ہیں مگر وہ یہ نہیں کہتا کہ اب قوم کا کیا حال ہو گا.وہ جانتا ہے کہ دنیا بس رہی ہے اور بستی چلی جائے گی.آج ایک مرتا ہے تو کل اور پیدا ہو جاتا ہے کل دو سرا مرتا ہے تو پرسوں تیسرا پیدا ہو جاتا ہے.بہر حال کسی قوم کی زندگی کی یہ علامت ہے کہ اس میں علم کی کثرت ہو اس میں علماء کی کثرت ہو اس میں ایسے نفوس کی کثرت ہو جو قوم کے سرکردہ افراد کے مرنے پر اس وقت ان کی جگہ کو پر کرنے کیلئے تیار ہوں.ہمارے لئے یہ خطرہ کی بات نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ اول بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے ، یا مولوی عبد الکریم صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے ، یا مولوی برہان الدین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے ، یا حافظ روشن علی صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے ، یا قاضی امیر حسین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا میر محمد اسحق صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے بلکہ ہمارے لئے خطرہ کی بات یہ ہے کہ جماعت کسی وقت بحیثیت جماعت مرجائے اور ایک عالم کی جگہ دوسرا عالم ہمیں اپنی جماعت میں دکھائی نہ دے.پس اپنے آپ کو اس مقام پر لاؤ اور جلد جلد ترقی کی طرف اپنے قدموں کو بڑھاؤ.میں نہیں جانتا کہ جب خدا نے میرے متعلق یہ کہا ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ میری موت جلد آنے والی ہے.یا یہ مطلب ہے کہ میں جلد جلد ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاؤں گا.تم ان دو
میں سے کوئی بھی پہلو لے لو...بہر حال اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ اب جماعت میں سے وہی شخص اپنے ایمان کو سلامت رکھ سکے گا اور وہی شخص با ایمان مرسکے گا جو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس کے سلسلہ کی ترقی کیلئے جلد جلد قدم اٹھائے گا....جب خدا نے مجھے خبر دی کہ زمین میرے پاؤں کے نیچے سمٹتی چلی جارہی ہے کہ اور میں تیزی کے ساتھ بھاگتا جا رہا ہوں تو اس کے معنی بھی در حقیقت یہی تھے کہ جب میں تیزی کے ساتھ بھاگوں گا اور زمین میرے قدموں کے نیچے سمٹنی شروع ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان کچے مخلصوں کو بھی جنہیں میرے ساتھ وابستگی حاصل ہوگی.اس امر کی توفیق عطا فرمادے گا کہ وہ زمین کو جلد جلد طے کریں اور آنا فانا دور دراز فاصلوں کو طے کرتے ہوئے دنیا کے کناروں تک پہنچ جائیں.پہیں اپنے اندر ایک غیر معمولی تغیر پیدا کرو اور جلد سے جلد عظیم الشان قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ.اب تم زیادہ انتظار مت کرو.پیشگوئیوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ وقت اب آگیا ہے جب زیادہ انتظار نہیں کیا جائے گا جب تمہیں دیر تک منتظر رہنا نہیں پڑے گا.رسول کریم میں لیلی فرماتے ہیں کہ میں اور قیامت اس طرح اکٹھے ہیں جس طرح انگشت شہادت کے ساتھ دوسری انگلی ملی ہوئی ہوتی ہیں.پس بہت بڑے تغیرات ہیں جو دنیا میں رونما ہونے والے ہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تغیرات بڑی بھاری اہمیت رکھتے ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ اب کیا ہو جائے گا مگر اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ کسی عظیم الشان تغیر یا بہت بڑے عظیم الشان تغیرات کی بنیادیں جلد سے جلد رکھ دی جائیں گی اور وہ شخص جو ان مہمات میں میرا ساتھ نہیں دے گا وہ شخص جو جلد جلد اپنے قدم کو نہیں بڑھائے گا اس کے دل پر زنگ لگ جائے گا اور وہ اس خطرہ میں ہو گا کہ اپنے پہلے ایمان کو بھی کھو بیٹھے.یوب میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے فضل سے اس رنگ میں کام کرنے کی ہمت بخشے کہ ہم اس کے دین کی باتیں لوگوں تک پہنچائیں ان پر خود عمل کریں اور دوسروں سے بھی عمل کرائیں.اسی طرح اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان وعدوں کا اہل بنائے جو اس نے رسول کریم م ل ل ل ای میل کے ذریعہ اسلام کے دوبارہ احیاء کے متعلق کئے اور ہمارے ذریعہ سے وہ اسلام کا نور دنیا کے چاروں کونوں تک پھیلائے اور ہمیں ہر قسم کی کوتاہیوں اور
۴۳۳ ہر قسم کے گناہوں سے بچائے." (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء) سورة آل عمران کی آیت نمبر ٢٠١ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا کی تشریح میں قومی ترقی کے بعض نہایت ضروری اور بنیادی امور بیان کرتے ہوئے فرمایا :.".اس آیت میں قرآن کریم نے دائمی ترقی حاصل کرنے کا ایک بے نظیر گر بتایا ہے.فرمایا ہے کہ جو شخص اصبر و ا پر عمل کرے گا شیطان اس کے نفس کے لئے مر جائے گا مگر اس کے ہمسایہ کے لئے رہ جائے گا.پھر جو شخص صَابِرُوا پر عمل کرے گا وہ اپنے ہمسایہ کو بھی شیطان کے حملہ سے بچائے گا.اس کے بعد دشمن نکل تو جائے گامگروہ کہیں دور نہیں جائے گا بلکہ باہر چھپ کر بیٹھ رہے گا اور اس کی اولاد پر حملہ کرنے کی تاک میں رہے گا اور اس بات کا انتظار کرتا رہے گا کہ کب یہ قوم غافل ہو اور میں اس پر حملہ کردوں اس لئے فرمایا کہ اس کے بعد تمہارے لئے ضروری ہے کہ رابطوا کے حکم کو مد نظر رکھو.اگر تم ہمیشہ مرابطہ کرتے رہو اور ہمیشہ اپنی سرحدات کی حفاظت کرتے رہو تو دشمن کبھی تم پر حملہ آور نہیں ہو سکتا اور تم ہمیشہ کیلئے اس کے فتنہ سے محفوظ ہو جاؤ گے.پس اس آیت میں خدا تعالیٰ نے مستقل اور دائمی ترقی کا راز بتایا ہے مگر افسوس کہ قومیں اور حکومتیں اِصْبِرُوا پر عمل کر لیتی ہیں وہ صَابِرُوا پر عمل کر لیتی ہیں مگر رَابِطُوا پر عمل نہیں کرتیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر روحانیت دنیا سے مٹ جاتی ہے ، پھر کفر کا غلبہ ہو جاتا ہے، پھر گناہ دنیا میں پھیل جاتا ہے ، پھر صداقت نا پید ہو جاتی ہے اور پھر خدا دنیا کی اصلاح کے لئے ایک نیا نبی مبعوث کرتا ہے.اس پر پھر ا صبر و ا کی جنگ لڑی جاتی ہے ، پھر صَابِرُوا کی جنگ لڑی جاتی ہے، پھر را بطوا کی جنگ لڑی جاتی ہے ، مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد لوگ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ اب تو دشمن مرگیا آؤ ہم اپنی سرحد کے سپاہیوں کو واپس بلا لیں.وہ ان سپاہیوں کو واپس بلاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی چوروں کی طرح دشمن فاتح قوم کے اندر داخل ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں پھر اس قوم کا تختہ الٹ جاتا ہے ، پھر اس کی ترقی مٹ جاتی ہے ، پھر اس کی عزت ذلت سے اور اس کی نیک شہرت بدنامی سے بدل جاتی ہے.پس را بِطُوا کا معاملہ سخت نازک ہوتا
ہے اور قومیں اس حکم پر عمل کرنے میں سب سے زیادہ کمزوری دکھایا کرتی ہیں.بیسیوں احمدی اس وقت قادیان میں ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ نظام کی طرف سے فلاں سختی کی جاتی ہے.نظام کی طرف سے فلاں سختی کی جاتی ہے جس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم رابِطُوا پر عمل کرنا چھوڑ دیں اور ہمیں قادیان میں اور بعض دوسرے گاؤں میں جو روحانی غلبہ حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے.پس شیطان ہمیشہ ایسی آوازیں نکالتا رہتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ رَابِطُوا پر عمل کرنا چھوڑ دیا جائے مگر جب تک ہماری جماعت کے لوگ مرابطہ کو قائم رکھیں گے ، جب تک وہ یہ سمجھتے رہیں گے کہ اگر مرابطہ کے خلاف کوئی آواز اٹھتی ہے تو یا تو وہ شیطان کی آواز ہے یا ہمارے کسی ایسے بھائی کی ہے جس پر شیطان نے قبضہ کیا ہوا ہے یعنی یا تو ایسی شکایت کرنے والا منافق ہے اور جھوٹے طور پر احمدی بنا ہوا ہے.یا ہے تو سچا احمدی مگر بے وقوف ہے اور جب تک ہماری جماعت اس قسم کے اعتراضات کے باوجو د دلیر اور نڈر ہو کر مرابطہ کا کام جاری رکھے گی اس وقت تک ہماری جماعت کو برابر فتوحات حاصل ہوتی رہیں گی.مگر جس دن ہماری جماعت کے دوستوں میں یہ کمزوری پیدا ہو گئی کہ لوگوں کے اعتراضات سے ڈر کر انہوں نے مرابطہ کا کام کرنا ترک کر دیا تو یہ ان کے اس بات پر دستخط ہوں گے کہ ہم اب دنیا میں غلبہ حاصل کرنے کے قابل نہیں رہے ہمارا تختہ الٹ دیا جائے اور کسی اور قوم کو ہماری جگہ لایا جائے.لیکن اگر تم را بِطُوا پر عمل کرتے رہو گے تو یقینا تم ہمیشہ کامیاب رہو گے.میں نہیں کہہ سکتا کہ تم اس پر عمل کر سکو گے یا نہیں کیونکہ آج تک دنیا کی کسی قوم نے اس پر ہمیشہ کے لئے عمل نہیں کیا.ایک لمبے عرصہ کے بعد تمام قومیں ست ہو جاتی رہی ہیں مگر ہم تو ابھی ابھر رہے ہیں ہمارے لئے ست ہونے کا ابھی کو نسا وقت ہے.اگر دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے سینکڑوں سال بعد ہم میں سستی پیدا ہو تب بھی ہم صرف پہلی قوموں کے ساتھ مشابہہ ہونگے.ہاں دنیا پر کامل غلبہ کے بعد اگر ہزاروں ہزار سال تک ہم مرابطہ کی ذمہ داری کو ادا کرتے رہیں اور دشمن کے حملوں سے ہر وقت چوکس اور ہوشیار رہیں تو پھر ہم ایسی قوم بنیں گے جس کی مثال روئے زمین پر نہیں مل سکے گی.کوئی قوم تاریخ میں سے ایسی نظر نہیں آتی جس نے ہزاروں سال مرابطہ کیا ہو.بعض جماعتیں تو ابتدائی چند سالوں میں ہی مرابطہ کے فرض کو بھول کر تباہ ہو گئیں اور
۴۳۵ بعض نے تین چار سو سال تک اس فرض کو ادا کیا اور پھر بھول گئیں مگر بہر حال پچھلوں کو پہلوں سے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان کے زمانہ سے زیادہ ملبے عرصہ تک اس فرض کو ادا کرتے رہنا چاہئے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ابھی ہمارا مرابطہ کا اصل کام شروع نہیں ہوا.ہمارا ا مرابطہ کا اصل کام اس دن شروع ہو گا جس دن دنیا پر روحانی طور پر ہمیں کامل غلبہ حاصل ہو جائے گا.ہاں چھوٹے پیمانہ پر اب بھی بعض جگہ ہم نے یہ کام شروع کیا ہوا ہے جیسے قادیان میں یہ کام جاری ہے مگر اصل دن ہمارے کام کی ابتداء کا وہی ہو گا جب ساری دنیا پر ہمیں روحانی غلبہ حاصل ہو جائے گا.اس دن سے شروع کر کے اگر ہم مرابطہ کو صرف تین چار سو سال تک قائم رکھیں گے تو زیادہ سے زیادہ ہم عیسائیوں کے مشابہہ ہو سکیں گے کیونکہ انہوں نے بھی تین چار سو سال تک اپنے غلبہ کو قائم رکھا.ہاں اگر ہم سات آٹھ سو یا ہزار سال تک اس عرصہ کو بڑھا دیں گے تب بے شک ہم ایک ایسی قوم ہوں گے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملے گی.پس یہ ماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کا کام ہے کہ وہ اپنے عمل سے دنیا کو بتائیں کہ وہ کن لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں." (الفضل ۲۸ - نومبر ۱۹۴۱ء) حضرت مسیح موعود کی عظیم الشان پیشگوئی جو جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے معروف ہے اور جو بہت کی پیشگوئیوں اور نشانات کا مجموعہ ہے اس پیشگوئی کے مہتم بالشان ظہور اور اس کے نتیجہ میں خدائی تائید و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت فضل عمر فرماتے ہیں.” وہ عظیم الشان پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۶ء میں فرمائی تھی پوری ہو گئی.اس پیشگوئی کی صداقت پر وہ لاکھوں لوگ گواہ ہیں جو میرے ذریعہ پر قائم ہوئے ، جو میرے ذریعہ توحید پر قائم ہوئے ، جو میرے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کے والہ وشیدا بنے.عیسائی اس بات کے گواہ رہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، آریہ اس بات کے گواہ رہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، مسلمان اس بات کے گواہ رہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی آج سے اُنسٹھ سال پہلے خدائے علیم و خبیر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو خبر دی تھی کہ میرا ایک بیٹا ہو گا اور وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا یہ پیشگوئی پوری ہو گئی.انگلستان اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی اسلام
۴۳۶ پوری ہو گئی ، پین اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، اٹلی اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، برلن اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی، ہنگری اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی، البانیہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، یوگو سلاویہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، پولینڈ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، زیکو سلو یکیا اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی شمالی امریکہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، جنوبی امریکہ اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی، سیرالیون اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی گولڈ کوسٹ اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، نائیجیریا اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی مصر اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی کینیا کالونی اس بات پر گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی یوگنڈا اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی زنجبار اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ٹانگانی کا اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، سیلون اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ماریشس اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی، فلسطین اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، شام اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، روس اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، چین اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، جاپان اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، سماٹرا اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، جاوا اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ملایا اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، بورنیو اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، ایران اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، کابل اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگو کی پوری ہو گئی ، ہندوستان کا گوشه گوشہ اس بات کا گواہ ہے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، دنیا میں کون ایسا انسان ہے جس میں یہ طاقت ہو کہ وہ دلوں کو فتح کر سکے دنیا میں کون ایسا انسان ہے جو لوگوں کو اس عظیم الشان قربانی پر آمادہ کر سکے.یہ خدا تعالی کا ہی ہاتھ تھا جس نے دنیا میں اس قدر تغیرات پیدا کئے.یہ خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے لوگوں کے دلوں کو کھینچا اور انہیں اسلام کیلئے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربان کرنے کیلئے آمادہ کر دیا.چنانچہ ایک طرف اگر خدا نے یہ خبر دی کہ وہ میرے ذریعہ دنیا میں اسلام کا نام روشن کرے گا تو دوسری طرف اس نے
۳م ایک غریب جماعت میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے وہ ایمان پیدا کر دیا جس کی مثال آج روئے زمین پر اور کوئی جماعت پیش نہیں کر سکتی.ایک خطبہ جمعہ میں میں نے جماعت کے سامنے اعلان کیا کہ اسلام اس وقت تم سے خاص قربانی کا مطالبہ کر رہا ہے تم اگر خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی تمام جائدادیں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دو تاکہ جب بھی اسلام پر کفر کا حملہ ہو ہمیں اس کے مقابلہ کے لئے یہ پریشانی نہ ہو کہ ہم روپیہ کہاں سے لا ئیں بلکہ ہر وقت ہمارے پاس جائدادیں موجود ہوں جن کو فروخت کر کے یا گرو رکھ کر ہم اسلام کی تبلیغ آسانی سے کر سکیں ہماری جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے مگر جمعہ کے دن دو بجے میں نے یہ اعلان کیا اور ابھی رات کے دس نہیں بجے تھے کہ چالیس لاکھ روپیہ سے زیادہ کی جائیدادیں انہوں نے میری آواز پر خدمت اسلام کیلئے وقف کر دیں جن میں پانچ سو مربع سے زیادہ زمین ہے اور ایک سو سے زیادہ مکان ہیں اور لاکھوں روپیہ کے وعدے ہیں.” یہ وہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کے نشانات ہیں جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.میں نے اس سے پہلے جس قدر مبلغ دنیا میں بھجوائے وہ قریباً سب کے سب اناڑی تھے کوئی کالج میں سے نکلا تو میں نے اس سے کہا کہ خدا کے لئے آج مبلغوں کی ضرورت ہے تم اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہو اور میرے کہنے پر وہ تبلیغ کیلئے نکل کھڑا ہوا.یہی مولوی ظہور حسین صاحب جنہوں نے ابھی روس کے حالات بیان کئے ہیں جب انہوں نے مولوی فاضل پاس کیا تو اس وقت لڑکے ہی تھے میں نے ان سے کہا کیا تم روس جاؤ گے انہوں نے کہا میں جانے کے لئے تیار ہوں میں نے کہا جاؤ گے تو پاسپورٹ نہیں ملے گا کہنے لگے بے شک نہ ملے میں بغیر پاسپورٹ کے ہی اس ملک میں تبلیغ کے لئے جاؤں گا.آخر وہ گئے اور دو سال جیل میں رہ کر انہوں نے بتا دیا کہ خدا نے کیسے کام کرنے والے وجود مجھے دیئے ہیں.خدا نے مجھے وہ تلوار میں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں ، خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کیلئے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہیں میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے
۴۳۸.اپنے آپ کو گرانے کیلئے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرادیں میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کود جانے کا حکم دوں تو وہ جلتے تنوروں میں کود کر دکھا دیں.اگر خوش کشی حرام نہ ہوتی اگر خود کشی اسلام میں ناجائز نہ ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سو آدمیوں کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اس وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مرجاتا.خدا نے ہمیں اسلام کی تائید کے لئے کھڑا کیا ہے ، خدا نے ہمیں محمد رسول اللہ کا نام بلند کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے، دنیا مایوس ہو چکی تھی اسلام کی ترقی سے دنیا کہہ رہی تھی کہ اسلام اب دنیا پر غالب نہیں آسکتا تب خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ سے ان اناڑی لوگوں کو دنیا میں بھجوایا اور انہوں نے ہزاروں ہزار افراد کو اسلام کا حلقہ بگوش بنا دیا.جہاں آج خدائے واحد کا نام بھی نہیں لیا جاتا وہاں تھوڑے دنوں تک ہی تم دیکھو گے کہ ان علاقوں کے کونے کونے سے یہ آواز اٹھتی سنائی دے گی کہ اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَريكَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ قوموں نے ہماری مخالفت کی ملکوں نے ہماری مخالفت کی مگر خدا نے ہمارا ساتھ دیا اور جس کے ساتھ خدا ہوا سے نہ حکومتیں نقصان پہنچا سکتی ہیں نہ سلطنتیں نقصان پہنچا سکتی ہیں نہ بادشاہتیں نقصان پہنچا سکتی ہیں.پس اے اہل لاہور میں تم کو خدا کا پیغام پہنچا تا ہوں.میں تمہیں اس ازلی ابدی خدا کی طرف بلاتا ہوں جس نے تم سب کو پیدا کیا تم مت سمجھو کہ اس وقت میں بول رہا ہوں.اس وقت میں نہیں بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے.میرے سامنے دین اسلام کے خلاف جو شخص بھی اپنی آواز بلند کرے گا اس کی آواز کو دبا دیا جائے گا.....خدا بڑی عزت کے ساتھ میرے ذریعہ اسلام کی ترقی اور اس کی تائید کے لئے ایک عظیم الشان بنیاد قائم کر دے گا.میں ایک انسان ہوں میں آج بھی مر سکتا ہوں اور کل بھی مرسکتا ہوں لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ میں اس مقصد میں ناکام رہوں جس کے لئے خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے.میں ابھی سترہ اٹھارہ سال کا ہی تھا کہ خدا نے مجھے خبر دی کہ إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ اے محمود میں اپنی ذات کی ہی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یقیناً جو تیرے متبع ہوں گے وہ قیامت تک تیرے
۴۳۹ منکروں پر غالب رہیں گے.یہ خدا کا وعدہ ہے جو اس نے میرے ساتھ کیا.میں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے بے شک دو دن بھی زندہ نہ رہوں مگر یہ وعدہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا جو خدا نے میرے ساتھ کیا کہ وہ میرے ذریعہ سے اشاعت اسلام کی ایک مستحکم بنیاد قائم کرے گا اور میرے ماننے والے قیامت تک میرے منکرین پر غالب رہیں گے.اگر دنیا کسی وقت دیکھ لے کہ میرے ماننے والوں پر میرے انکار کرنے والے غالب آ گئے تو بے شک تم سمجھ لو کہ میں ایک مفتری تھا لیکن اگر یہ خبر سچی نکلی تو تم خود سوچ نو تمہارا کیا انجام ہو گا کہ تم نے خدا کی آواز میری زبان سے سنی اور پھر بھی اسے قبول نہ الفضل ۸- اپریل ۱۹۷۴ء صفحه ۳۴۲) کیا.قومی زندگی اور تیزی و ترقی کے لئے قربانی اتنی ہی ضروری ہے.جتناز ندگی کے لئے سانس یا جسم کے لئے ریڑھ کی ہڈی.قرآن و حدیث کی روشنی میں حضرت مصلح موعود نے اپنی تقاریر و تصانیف میں اس امر کی طرف بڑی کثرت سے توجہ دلائی ہے.ذیل میں حضور کا ایک خطبہ عید الاضحی پیش کیا جاتا ہے جس سے حضور کا انداز بیان بھی نمایاں ہوتا ہے اور قربانی کی ضرورت و اہمیت بھی.حضور کے ایسے ہی خطبات جماعت کے اندر جوش و جذبہ اور ولولہ پیدا کرنے کا باعث بنتے تھے."عید الاضحیہ ہمیں ایسی قربانیوں کی یاد دلاتی ہے جو انسانی احساسات کے لحاظ سے نازک ترین جذبات کی قربانیاں کہلاتی ہیں.دنیا میں انسان ہر روز ہی قربانیاں کرتا ہے اور قربانیاں کرنے پر مجبور ہوتا ہے.اس میں نیک اور بد کی کوئی تمیز نہیں ہے ، محنتی اور آوارہ گرد کی کوئی تمیز نہیں ہے ، ایک با اصول اور عیاش انسان کی بھی کوئی تمیز نہیں ہے صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ کوئی اچھی چیز کے لئے قربانی کرتا ہے اور کوئی بری چیز کے لئے قربانی کرتا ہے.ان تمام قربانیوں پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بھاری قربانی انسان کے لئے اپنی اولاد کی قربانی ہوتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض انسان جن کی فطرت مرجاتی ہے اور جو انسانیت سے خارج ہو جاتے ہیں ان میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے عیش اور اپنی لذت کی خاطر قربان کر دیتے ہیں لیکن یہ استثنائی وجود ہوتے ہیں اور در حقیقت اپنی مردہ فطرت کے لحاظ سے انسانوں میں شمار ہونے کے قابل ہی نہیں ہوتے.”فطرت انسانی کا اصل جو ہر انسانوں کی اکثریت سے معلوم کیا جا سکتا ہے اور اگر
۴۴۰ ہم اپنے گردو پیش کے حالات پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ انسان کی دنیوی زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے نانوے فیصدی آدمی بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ اپنی عمریں محض اپنی اولاد کی بہتری کی خاطر قربان کر رہے ہوتے ہیں.ایک عجیب قسم کا نظارہ دنیا میں نظر آتا ہے کہ دادا بیٹے کے لئے اور بینا پوتے کے لئے اور دادی بیٹی کے لئے اور بیٹی نواسی کے لئے اپنی جان قربان کر رہے ہیں اور یہ اوپر سے نیچے اترنے والی قربانی نہ زمانے کی قید سے واقف ہے نہ مذہب کی قید سے واقف ہے نہ ملک کی قید سے واقف ہے نہ علم کی قید سے واقف ہے نہ زبان کی قید سے واقف ہے نہ رنگوں کی قید سے واقف ہے.ایک مسلمان اور ایک عیسائی اور ایک ہندو ایک کالا اور ایک گورا اور ایک زرد رنگ کا ایک مرد اور ایک عورت ایک ہندوستانی اور ایک انگریز اور ایک افریقی ایک جاہل اور ایک پڑھا لکھا انسان ایک سیدھا سادہ اور ایک فلاسفر اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اور اپنے کاموں کی تمام شاخوں میں بس ایک ہی دھن میں لگے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اپنے آپ کو قربان کر دیں اور اس قربانی کے نتیجہ میں کچھ عزت یا کچھ جائیداد یا کچھ روپیہ یا کچھ رتبہ یا کچھ آرام حاصل کر کے اپنی اولادوں کو ورثہ میں دے دیں.نہ آج اس کے خلاف کوئی بات نظر آتی ہے نہ پچھلی صدی میں اس کے خلاف لوگوں کا دستور تھا نہ اس سے پہلی صدی کے لوگ اس کے خلاف تھے نہ اس سے پہلی کے نہ اس سے پہلی کے." آج سے لے کر آدم تک آدم کا ہر بچہ اور حوا کی ہر بیٹی سوائے اس کے جو انسانیت سے خارج ہو گیا ہو صرف ایک ہی کام میں مشغول نظر آتا ہے کہ اپنے آپ کو قربان کر دے اور اپنی اولاد کو آرام اور راحت بخشے یہ عجیب ، مسلسل ، پیم اور متواتر قربانی ہے جس کی مثال شاید کسی اور جذبے میں ملنی مشکل ہو.پس یہ ایسی چیز نہیں ہے جو انسانی نگاہ سے اوجھل ہو.چلے جاؤ فلاسفروں کے گھروں میں یا چلے جاؤ اُجڈ اور جاہل لوگوں کے گھروں میں چلے جاؤ شہریوں کے گھروں میں یا چلے جاؤ گنواروں اور دور دراز گاؤں میں رہنے والوں کے گھروں میں وہاں اس بات کا مشاہدہ کر کے دیکھ لو کہ ایک باپ اور ایک ماں اپنی جان کی قیمت زیادہ سمجھتے ہیں یا اپنی اولاد کی قیمت زیادہ سمجھتے ہیں.تمہیں یہی نظر آئے گا کہ وہ سب کے سب الا ما
شَاءَ اللہ اپنے آپ کو بھولے ہوئے ہیں اور پیدائش مخلوق کا ایک ہی مقصد ان کے سامنے ہے کہ وہ اپنی اولادوں کی راحت اور آرام اور ترقی کے سامان پیدا کریں.وہ اس امر میں غلطی کر سکتے ہیں کہ اولاد کو راحت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے.ممکن ہے کوئی علم میں اس کی راحت سمجھتا ہو اور کوئی جہالت میں اور کوئی محنت میں ان کی راحت سمجھتا ہو اور کوئی آرام طلبی میں لیکن اپنے اپنے نقطۂ نگاہ کے ماتحت جس جس چیز کو وہ راحت اور آرام کا سبب سمجھتے ہیں اس چیز کو وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی اولادوں کے سپرد کر دیتے ہیں.ایک تعلیم یافتہ ماں اگر اپنے بچے کی بہتری اس میں خیال کرتی ہے کہ اس کی بیماری کے ایام میں ڈاکٹر کی کڑوی کڑوی دوائیں اس کو پلائے تو وہ تمہیں اپنے بچے کی لاتیں اپنی لاتوں میں دبائے ہوئے اور اس کا سر اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے چمچے سے اس کے منہ میں دوائی ڈالتی ہوئی نظر آئے گی.اس کے بچے کے آنسو اس کی آنکھوں میں آنسو لا رہے ہونگے اور اس کی تکلیف اس کے دل میں درد پیدا کر رہی ہوگی لیکن وہ اپنے اس فعل سے باز نہیں آئے گی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس کے بچہ کی راحت اس دوا کے پلانے میں ہے.اسی طرح ایک جاہل عورت جو اس عارضی تکلیف کو بیماری کی مستقل تکلیف سے زیادہ سمجھتی ہے.یا جس کا یہ خیال ہے کہ صحت تو خدا ہی کی طرف ، آتی ہے دوائیاں تو صرف ایک بہانہ ہے.قضاء و قدر جس طرح جاری ہونی ہے جاری ہو کر رہے گی تم اسے دیکھو گے کہ اپنے خاوند کی لائی ہوئی دوائی کو وہ اپنے ہاتھوں سے پرے پھینک دے گی اور اپنے بچے کو اپنے گلے سے لپٹا کر پیار کرتے ہوئے کہے گی کہ میرے پیارے بچے تو رو نہیں میں تجھے دوائی نہیں پلاتی.یہاں عمل مختلف ہیں مگر جذبہ ایک ہے.وہ تعلیم یافتہ عورت دوائی پلاتے وقت اور وہ جاہل عورت دوائی پھینکتے وقت ایک ہی روح سے متاثر ہو رہی تھیں.ایک دوائی کے پلانے میں اپنے بچے کا آرام دیکھتی تھی تو دوسری دوائی کے پھینکنے میں اس کی راحت پاتی تھی.پس تم اس قسم کے فرق تو ضرور دیکھو گے لیکن جذبے کا فرق کہیں نظر نہ آئے گا.کالے اور گورے مشرقی اور مغربی ، جاہل اور عالم ، مذہبی اور بد مذہبی ہر ایک قسم کے انسان کو اس جذبے سے متاثر پاؤ گے اور ان کو اسی جذبے کے ماتحت اپنی زندگیاں
۴۴۲ بسر کرتے ہوئے دیکھو گے.پس اولاد کی محبت ایک ایسا طبعی جذبہ ہے جو صرف دیوانوں اور انسانیت سے خارج انسانوں کے دلوں سے ہی باہر ہوتا ہے ورنہ ہر انسان اس سے متاثر ہوتا ہے اور اس کے ماتحت اپنی زندگی کے اعمال بجالاتا ہے.خواہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے خواہ صرف حیوانی جذبہ سے متاثر ہو کر." پس آج کی عید ہمیں اس جذبے کی قربانی کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو انسانی جذبات میں سے قوی تر اور وسیع تر ہے.قوی ہے کہ اس سے زیادہ قوی کوئی اور انسانی جذ بہ نہیں اور وسیع ہے کہ اس سے زیادہ وسیع کوئی اور انسانی جذ بہ نہیں.آج کے دن ہزاروں سال پہلے ابراہیم نے خدا سے حکم پایا کہ وہ اس چیز کو جس کو دنیا سب سے زیادہ عزیز قرار دیتی ہے اور جس کی زندگی کے لئے دنیا بھر کے باپ اور ماں زندہ رہ رہے ہیں وہ خدا کے لئے اسے قربان کر دے.ابراہیم کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنے رب سے یہ نہیں پوچھا کہ اے میرے خدا یہ جذ بہ لطیف جو باپ کے دل میں اپنے بیٹے کی محبت کے متعلق پیدا ہوتا ہے یہ تو تیرا ہی پیدا کیا ہوا ہے اور ایک مقدس امانت ہے اس مقدس امانت کی قربانی کا مطالبہ کیا ایک غیر طبعی حکم نہیں ہے اور کیا اس ماں کے جذبات کو جس کی تمام امیدیں اس ایک نقطہ کے ساتھ وابستہ ہیں ایک ایسی ٹھیس نہیں لگے گی جس کا ازالہ بالکل ناممکن ہو گا.ابراہیم بھول گیا اپنے جذبات کو او ر وہ بھول گیا ہاجرہ کے جذبات کو وہ بھول گیا اپنے آباء کی ارواح کے جذبات کو جو ابراہیم کے ذریعہ سے اپنی نسلوں کے دوام کی امیدوار تھیں اور ایسی حالت میں جب کہ وہ بوڑھا تھا اور ایک ہی اس کی اولاد تھی وہ اس ایک ہی اولاد کو ایسے وقت میں جبکہ دوسری اولاد کی امید نہیں کی جاسکتی تھی قربان کرنے کے لئے تیار ہو گیا بغیر ہچکچاہٹ کے بغیر سوال کے بغیر تشریح طلب کرنے کے بے چون و چرا گویا کہ یہ ایک ایسا عام واقعہ ہے جس میں کوئی بھی تعجب کی بات نہیں.یا ایک ایسا فرض ہے جسے ہر انسان ہر روز ہی ادا کر رہا ہے اور اس میں کوئی اچنبھا نظر نہیں آتا.اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو زمین پر گرایا اور چھری اپنے ہاتھ میں پکڑ لی اور اس کام کو جو بظاہر خلاف فطرت نظر آتا ہے ایسے شوق سے کرنے کے لئے تیار ہو گیا گویا انسان پیدا ہی اس کام کے لئے کیا گیا ہے.انسان ابراہیم کے فعل کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اور چونکہ ابراہیم کے زمانہ کو ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے ایک مذہب سے ناواقف اور
۴۴۳ ش ابراہیم کی خوبیوں سے جاہل انسان یہ خیال کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاید ابراہیم نَعُوذُ بِاللہ دیوانہ تھا شاید وہ انسانی جذبات سے عاری تھا، شاید بنی نوع انسان میں وہ سب سے زیادہ شقی القلب تھا کہ اس چیز کی قربانی کے لئے آمادہ ہو گیا جس چیز کی قربانی کے لئے ایک جاہل اور اجڈ انسان بھی تیار نہیں ہوتا ایسے ہی لوگوں کے شک کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ اِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمُ أَوَّاهُ مُّنيب (ہود: ۷۶ ) ابراہیم تو بہت ہی دانا بڑا ہی نرم دل اور خدا تعالیٰ کا عشق رکھنے والا انسان تھا.یعنی ایک ذرہ سی دکھ درد کی بات دیکھ کر اس کے دل کو ٹھیس لگ جاتی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو اور اس کے منہ سے آہیں نکلنے لگ جاتی تھیں اور وہ تھیں اور وہ تکلیف سے بے تاب ہو جاتا تھا." جب لوط کی قوم پر عذاب آیا تو اللہ تعالیٰ نے وہ فرشتے جو اس عذاب کی تکمیل کے لئے ارسال فرمائے خواہ وہ انسان تھے یا حقیقی ملائکہ تھے.میں اس موقعہ پر اس بحث میں نہیں پڑتا وہ ابراہیم ہی کے پاس آئے اور ان کو بتایا کہ اس اس طرح لوط کی قوم پر عذاب آنے والا ہے.اس وقت ابراہیم کے قلب کی جو حالت ہوئی اور ان کافروں کے مارے جانے کی خبر پر جو دکھ ان کو پہنچا.قرآن کریم میں اور بائیبل میں اس کا ذکر موجود ہے.شاید وہ مائیں بھی اس طرح بے تاب نہ ہوں گی جن کے بچے اس عذاب میں تباہ ہوئے جس طرح ابراہیم ان کی موت کی خبر سن کر بے تاب ہوا اور وہ لوگ جو اس کے ہم مذہب اور بھائی.ایک نبی کو دکھ دے رہے تھے اور ہر روز ا سے ایڈا میں پہنچا رہے تھے جب ان کی تباہی کی خبر ابراہیم کو سنائی گئی تو وہ خوش نہیں ہوا اس نے بے پرواہی بھی ظاہر نہیں کی وہ گھبرا کر اٹھا اور اس نے اپنے خدا کے سامنے رو رو کر التجا شروع کی کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! کیا تو اس شہر کو ہلاک کر دے گا جب کہ اس میں تیرے نیک بندے بھی موجو ہیں اور اگر ہزاروں بد ہیں تو سینکڑوں نیک بھی ہوں گے.تب خدا نے ابراہیم کے رحم اور اس کے دکھ کو دیکھتے ہوئے فرمایا.اے ابراہیم میں تیری خاطر اگر سینکڑوں نیک بندے وہاں ہوں گے تو اس شہر کو بچالوں گا.تب ابراہیم نے سمجھا کہ شاید اس شہر میں سینکڑوں نیک بند نے موجود نہیں ہیں اور اس نے کہا.اے خدا کیا اگر ایک سو نیک بندہ ہو گا تو تو اس کو تباہ ہونے دے گا.تب خدا
۴۴۴ تعالی نے کہا کہ نہیں اگر ایک سو نیک بندہ بھی ہوا تب بھی میں اس شہر کو تباہی سے بچالوں گا.تب ابراہیم نے سوچا کہ شاید سو نیک بندہ بھی اس شہر میں نہیں ہے اور اس نے دعا کی.اے میرے خدا! اے میرے خدا! جو سو نیک بندوں کے لئے اس شہر کو بچانے کے لئے آمادہ ہے اگر صرف دس اس میں سے کم ہوں اور نوے نیک بندے اس جگہ پر موجو د ہوں تو کیا تیری سی رحیم ہستی صرف دس آدمیوں کی کمی کی وجہ سے اس شہر کو تباہ ہونے دے گی.تب خدا تعالیٰ نے کہا.اے ابراہیم اگر نوے نیک بندے بھی اس شہر میں موجود ہوئے تو میں تیری خاطر اس کو تباہی سے بچالوں گا.تب ابراہیم نئے جوش سے دعا کے لئے کھڑا ہوا اور اس نے خدا تعالیٰ سے عرض کیا.کہ اے میرے رحیم خدا! جو نوے نیک بندوں کی خاطر اس علاقے کو بچانے کے لئے تیار ہے اگر صرف دس نیک بندے اس میں سے کم ہوں اور صرف اسی نیک بندے اس میں پائے جائیں.اے میرے رب کیا تو ان اسی کی خاطر اس شہر کو نہیں بچائے گا.تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اے ابراہیم میں ان اسی کی خاطر بھی اس شہر کو بچاؤں گا.اور ابراہیم کی امید اور بھی کم ہو گئی اور وہ سمجھ گیا کہ اس شہر میں اس نیک بندے بھی موجود نہیں ہیں مگر اس نے دعانہ چھوڑی اور دس دس کے فرق کے ساتھ وہ خدا کی رحمت کو جوش میں لاتا گیا یہاں تک کہ آخری دعا اس کی یہ تھی کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! دس نیک بندے بھی تو بڑی چیز ہیں اگر دس نیک بندے اس شہر میں پائے جاتے ہوں تو اے میرے رب تو اس شہر کو ہلاک ہونے دے گا.اللہ تعالیٰ نے جواب دیا.ابراہیم ! میں تیرے درد کی خاطر دس نیک بندوں کی موجودگی میں بھی اس شہر کو بچالوں گا لیکن ابراہیم اس میں تو دس نیک بندے بھی موجود نہیں.تب ابراہیم نے سمجھ لیا کہ لوط اور اس کی اولاد کے سوا اس شہر میں سے کوئی بچائے جانے کے قابل نہیں ہے اور اس نے جان لیا کہ ان کمزور اور گنہ گار بندوں کے بچانے کے لئے جو لوط کی بستیوں میں بستے تھے شفاعت کے تمام سامان ختم ہو گئے اور وہ اس بارے میں بالکل بے بس اور بے طاقت ہے اور وہ درد اور دکھ کے ساتھ اپنی ہی جان کو ہلکان کرتا ہوا خاموشی سے بیٹھ گیا اور اس کے دل کا یہ درد اور اس کے جذبات کی یہ نزاکت اللہ تعالی کو ایسی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ اِبْرَاهِيمَ لَعَلِيمُ أَوَّاهُ تُنِيْب (صور:۷۶) ابرہیم کو دیکھو کہ یہ ہمارا بندہ کیسا
۴۴۵ دانا پھر کیسا دردمند ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی تکلیف پر آہیں بھرنے لگ جاتا اور دکھ اور تکلیف محسوس کرنے لگ جاتا ہے اور ہمارا بھی کیسا عاشق ہے.یہ کیسے پیارے الفاظ ہیں.جن میں خدا تعالیٰ ابراہیم کو یاد کرتا ہے.و تمثیل کی زبان سے اس واقعہ کو بیان کریں تو ہمیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک محبت کرنے والی ماں ہے اور ابراہیم ایک کمزور دل بچہ ہے.جس نے ایک درد ناک واقعہ دیکھا اور بلک بلک کر اپنی ماں کو چمٹ گیا.ماں اس کو ممنون کرنا چاہتی تھی مگر حالات سے مجبور تھی.وہ واقعات کو تبدیل نہیں کر سکتی تھی مگر وہ اس کے دکھ کو بھی برادشت نہیں کر سکتی تھی.اس موقع پر اس نے وہی کیا جو وہ کر سکتی تھی.یعنی اس نے اس کو اپنے گلے سے لگالیا اور پیار کرتے ہوئے بولی کہ ہائے میرا بچہ.ہائے میرا بچہ یہ کتنا نازک دل والا اور کتنا رحم والا ہے.لفظ مختصر ہیں مگر جذبات کا ایک وسیع سمند ر پیچھے لہریں مار رہا ہے.اللہ تعالیٰ انسانی جذبات سے بالا ہے اور ہم اس کی صفات کی کیفیات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے مگر اس موقعہ پر جب خدا نے ابراہیم کے لئے حَلِيمُ اوَّاهُ کے الفاظ استعمال کئے تو اس وقت اس کی صفت شفقت اور صفت رافت جس جوش میں ظاہر ہو رہی ہو گی وہ ایسی کیف انگیز ہے کہ ہم گو الفاظ میں اس کو بیان نہ کر سکیں لیکن ہمارے دل اس کی لذت سے آشنا ہیں اور ہمارے قلوب اس سے مزہ لے رہے ہیں اور ہم پر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جو خدا کے لئے تکلیف اٹھاتا ہے خدا تعالٰی بھی اس کے لئے ایک ایسی صفت کا اظہار فرماتا ہے کہ گو الفاظ میں یہ کہنا بے ادبی ہو مگر وہ کچھ ایسی ہی چیز ہوتی ہے کہ جس طرح ماں کا دل اپنے بچہ کی تکلیف کو دیکھ کر خون ہو جاتا ہے.گویا خداتعالی کا دل بھی ابراہیم کی تکلیف کو دیکھ کر درد سے بھر گیا."یہ تمثیلی زبان ہوگی اور حقیقت سے کوسوں دور لیکن ہمارے پاس اور کوئی الفاظ بھی تو نہیں کہ جن سے اس حقیقت کا کوئی قریب تر نقشہ کھینچ سکیں.یہ تمثیل خواہ کوسوں دور ہو مگر اس حقیقت کے بیان کرنے کے لئے قریب ترین ہے اور شاید انسانی ذہن اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات کے سمجھنے کے لئے اس سے زیادہ اور الفاظ کے ذریعہ حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے.یہی وجہ ہے کہ بعض مذاہب نے خدا کو باپ کی صورت میں پیش کیا ہے اور بعض مذاہب نے ماں کی صورت میں.اسلام نے ایسی تمثیلوں سے
۴۴۶ اجتناب کیا ہے مگر پھر بھی وہ یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکا کہ خدا کا تعلق اس کے بندہ سے اپنے باپ اور اپنی ماں اور اپنے دوسرے رشتہ داروں سے زیادہ قریب کا ہے.شاید میں اپنے اصل مضمون سے کسی قدر دور ہو گیا ہوں مگر جذباتی دنیا کا یہی حال ہوتا ہے.انسان جذبات کے تابع ہوتا ہے نہ کہ جذبات انسان کے.پس شاید جذبات مجھے بھی کہیں سے کہیں لے گئے ہیں.میں یہ مضمون بیان کر رہا تھا کہ ابراہیم جس نے اپنے بیٹے کی قربانی خدا کے لئے پیش کی وہ دیوانہ نہیں تھا کیونکہ خدا اس کو حلیم کہتا ہے جس کے معنی دانا کے ہیں اور وہ جذبات سے عاری نہیں تھا اور سنگدل نہیں تھا کیونکہ خدا اسے اَواہ کہتا ہے جس کے معنی یہ ہے کہ اس کے جذبات نہایت ہی ابھرے ہوئے اور نازک تھے اور یہی دو سبب ہیں جن کے ماتحت انسان ان فطرتی تقاضوں کو بھول جاتا ہے جن کا پورا کرنا ہر انسان کی فطرت کا جزو ہے.پس جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی تو اس کے دلی جذبات کا اندازہ بہترین محبت کرنے والے ماں باپ کے جذبات سے کیا جا سکتا ہے.اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ابراہیم ان محبت کرنے والے اور ان دکھ اٹھانے والے ماں باپ سے جُدا قسم کا انسان تھا جو اپنے بچے کی ایک ذراسی تکلیف بھی نہیں دیکھ سکتے بلکہ لوط کے واقعہ سے ظاہر ہے کہ اپنے تو الگ رہے وہ بیگانوں کا دکھ بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا.اب تم لوط کے واقعہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے ہوئے اس حساس دل کا خیال کرو جو دشمن کی تکلیف بھی برداشت نہیں کرتا تھا اور اس کے آرام کے لئے بھی خدا سے جھگڑتا تھا کہ جب کہ اس نے شدید ترین دشمنان مذہب اور خود اپنے خاندان کے اشد ترین مخالفوں کی تباہی کی خبر سن کر ساری رات خدا سے جھگڑے میں گزار دی اور قدم بقدم اس کے رحم سے اس اس طرح اپیل کی کہ خدا کے رحم کو مانے بغیر کوئی چارہ نہ رہا اور وہ تب تک خاموش نہ ہوا جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو گیا کہ رحم کی اب کوئی بھی صورت باقی نہیں رہی اسی ابراہیم کو جب اس کے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا تو جس ابراہیم نے دشمنوں کی ہلاکت کے لئے ساری رات خدا سے بحث کی تھی اپنے بیٹے کے متعلق اس نے ایک لفظ بھی تو نہیں کہا اور فور البیک کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور ا.اکلوتے بیٹے کی قربانی پیش کرنے پر آمادہ ہو گیا.
۴۴۷ " حج کے دن حاجی لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لا شَريكَ لَكَ لَبَّيْكَ کے نعرے لگاتے ہوئے خانہ کعبہ اور وہاں سے منیٰ کی طرف جاتے ہیں.وہ اسی نظارہ کی تمثیل ہوتی ہے گویا وہ ابراہیم کی نقل کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے منہ سے اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ جس وقت خدا نے اس سے کہا اے ابراہیم اپنے بیٹے کی قربانی کر تو اس نے قربانی کے وقت کا انتظار نہیں کیا بلکہ اس خیال سے کہ اس حکم کے سننے اور قربانی کے پیش کرنے میں جو دیر لگے گی وہ میرے رب کو گراں نہ گزرے.اس نے اسی وقت سے پکارنا شروع کیا.لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ اے میرے رب میں حاضر ہوں.اے میرے رب میں حاضر ہوں.تیرا اور کوئی شریک نہیں ہے.اے خدا میں پھر کہتا ہوں کہ میں حاضر ہوں.اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم خدا تعالیٰ کے قربانی کے مطالبہ کو پورا کرنے میں اسی والہانہ رنگ سے کھڑا ہو تا ہے جیسا ایک سخی انسان جو درد مند دل رکھتا ہو کسی پیاسے کی آواز سن کر جو شدت پیاس سے کراہ رہا ہو دور سے ہی چلاتا ہے کہ میں پانی لا رہا ہوں پانی لا رہا ہوں تا اسے انتظار کی مزید تکلیف نہ اٹھانی پڑے.یہ کیسا دردناک نظارہ اور عشق کا مظاہرہ ہے.پیش تو ایک لڑکے کی جان کرنی ہے اور وہ بھی اکلوتا لڑکا اور اکلوتا لڑکا بھی وہ جو بڑھاپے میں پیدا ہوا تھا اور جس کے بعد کسی اور لڑکے کے پیدا ہونے کی بظاہر کوئی امید نہیں ہو سکتی تھی لیکن اسے پیش اس طرح کیا جاتا ہے جیسے ایک پیاسے کو پانی کا گلاس دیا جاتا ہے یا بھو کے کو کھانا دیا جاتا ہے.لوگ آج کل چھوٹی چھوٹی باتوں اور چھوٹی چھوٹی قربانیوں کے بعد جب ان قربانیوں کے پیش کرنے والے اپنی قوم کی مجلسوں میں حاضر ہوتے ہیں تو بے اختیار ہو کر نعرے لگاتے ہیں کہ فلاں شخص زندہ باد.مگر ابراہیم علیہ السلام نے جو کام کیا اس کے مقابل پر یہ لوگ حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں کہ ان کے لئے زندہ باد کے نعرے لگائے جائیں اور تم جانتے ہو کہ یہ عید دوسرے لفظوں میں خدا تعالیٰ کی آواز ہے جو مسلمانوں کے ذریعہ سے تمام دنیا سے ایک وقت میں بلند کی جاتی ہے اور جس کا اگر تمثیلی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اردو میں اس کے لئے یہی الفاظ ہوں گے کہ ابراہیم زندہ باد.ہم جب اس عید کے موقع پر کپڑے بدلتے ہیں نہاتے ہیں، ایک مجمع میں جمع ہونے کے لئے تیاری کرتے ہیں تو گویا روحانی طور پر ہم اس امر کی تیاری کرتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی
۴۴۸ روح کا استقبال کریں گے اور جب ہم نماز میں کھڑے ہو کر تکبیر کہتے ہیں تو دوسرے الفاظ میں ابراہیم کی قربانی کے موقع پر اپنے ہدیہ تبریک پیش کرنے کی تکبیر ہوتی ہیں کیونکہ اسلامی طریق کے مطابق جب کوئی شاندار نظارہ نظر آئے جس میں خدا کا جلال ظاہر ہو تو اس وقت تکبیر کہی جاتی ہے".خدا تعالیٰ کے جلال کے ظہور پر نعرہ تکبیر بلند کرنے کی سنت نبوی پیش کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.رسول کریم صلی اللہ کے زمانہ میں جنگ احزاب کے موقع پر دشمنوں کی کثرت کی وجہ سے ایک خندق کھودنے کی ضرورت پیش آئی تھی تاکہ دشمن رات اور دن کسی وقت بھی چھاپہ نہ مار سکے کیونکہ مسلمانوں کی فوج اتنی تھوڑی تھی کہ وہ چوبیس گھنٹے ہر مقام کا پہرہ نہیں دے سکتے تھے تب آدمیوں کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ایک خندق کھودی گئی تاکہ تھوڑے آدمیوں کے ذریعہ سے بہت آدمیوں کا کام لیا جا سکے.جب وہ خندق کھودی جارہی تھی تو ایک جگہ پر ایک پتھر نظر آیا جسے باوجود کوشش کے صحابہ نہ توڑ سکے اور انہوں نے رسول کریم ملی و و و و ویو کے پاس شکایت کی کہ ایک چٹان ایسی آگئی ہے کہ اسے توڑا نہیں جا سکتا اور خندق مکمل نہیں ہو سکتی.تب رسول کریم ملی ایل خود اس جگہ پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ گدال میرے ہاتھ میں دو اور آپ نے زور سے گدال اس چٹان پر ماری.ایسے زور سے کہ لوہے اور پتھر کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے ایک آگ کا شعلہ نکلا.آپ نے فرمایا الله اكبر اور سارے صحابہ نے ساتھ کہا.اللهُ أَكْبَرُ پھر آپ نے دوسری دفعہ گدال اٹھائی اور اپنے پورے زور سے پھر وہ کدال چٹان پر ماری اور پھر اس میں سے ایک آگ کا شعلہ نکلا اور پھر آپ نے فرمایا.اللهُ اَكْبَرُ اور سب صحابہ نے ساتھ ہی کہا.اللَّهُ أَكْبَرُ.پھر آپ نے تیسری دفعہ گدال اٹھائی اور اپنے پورے زور سے کدال پتھر پر ماری اور پھر اس میں سے ایک شعلہ نکلا اور پھر آپ نے فرمایا.الله اكبر اور صحابہ نے بھی اسی طرح زور سے آواز دی.اللهُ أَكْبَرُ اس تیسری ضرب سے وہ پتھر ٹوٹ گیا.اور صحابہ نے خندق کو مکمل کر لیا.تب رسول کریم میں ان کی دیوی نے صحابہ سے دریافت کیا کہ تم نے تین دفعہ تکبیر کے نعرے مارے ہیں تم نے ایسا کیوں کیا.انہوں نے کہا.یا رسول اللہ ہم نے آپ کی نقل کی آپ
۴۴۹ نے بھی تین دفعہ اللہ اکبر کہا تھا سو ہم نے بھی آپ کی نقل میں تین دفعہ تکبیر کے نعرے لگائے.آپ نے فرمایا کیا تم کو معلوم ہے کہ میں نے تکبیر کیوں کسی تھی.صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله ل ل ل ا للہ ! اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.آپ نے فرمایا.جب میں نے پہلی دفعہ گدال ماری اور اس پتھر میں سے آگ کا شعلہ نکلا تو میں نے اس شعلہ میں یہ نظارہ دیکھا کہ اسلامی فوجوں کے سامنے روما کی حکومت کی فوجیں تہ و بالا کر دی گئیں اور میں نے اس موقعہ کے مناسب حال اللهُ أَكْبَرُ کیا.پھر جب میں نے دوسری دفعه کدال ماری اور پتھر کی چٹان میں سے آگ کا شعلہ نکلا تو مجھے یہ نظارہ دکھایا گیا کہ اسلامی سطوت کے سامنے کرائے ایران کے قصر پر زلزلہ آگیا ہے.اور اس کی شوکت توڑ دی گئی ہے.تب میں نے اس کے مناسب حال تکبیر کا نعرہ بلند کیا.اور جب میں نے تیسری دفعہ کدال پتھر پر ماری اور پھر اس میں سے ایک شعلہ نکلا تو مجھے یہ نظارہ دکھایا گیا کہ حمیر کی طاقت اور قوت اسلام کے مقابلہ میں برباد کر دی گئی.تب پھر میں نے خدا کی بڑائی بیان کی اور تکبیر کا نعرہ لگایا.صحابہ نے کہا.یا رسول اللہ ! پھر جس بات پر آپ نے تکبیر کی ہم نے بھی تکبیر کی.اس مثال سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ اسلامی آداب ہیں کہ جب کوئی خدا کا جلال ظاہر ہو تو مومن اس پر بلند آواز سے اللهُ اَكْبَرُ کہتا ہے.سو ہم عید کی نماز میں جو بہت سی تکبیریں کہتے ہیں بلکہ ایام تشریق میں برابر تکبیر بلند کرتے رہتے ہیں تو گویا ابراہیم کی قربانی کیلئے اپنے جذبات استحسان کا ہدیہ پیش کرتے ہیں اور اپنے منہ سے اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی قربانی میں خدا کی شوکت اور اس کے جلال کو دیکھا.مگر کیا یہ ہمارے لئے افسوس کی بات نہیں کہ ہم ابراہیم علیہ السلام میں تو خدا کو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم اپنے نفس میں خدا کو دیکھنا نہیں چاہتے.ہم ابراہیم کے ایک مستحسن فعل پر تو اللہ اکبر کہتے ہیں مگر ہمارے دل میں یہ تڑپ پیدا نہیں ہوتی کہ ہم سے بھی کچھ ایسے افعال ظاہر ہوں کہ جنہیں دیکھ کر خدا کے بندے بے تاب ہو کر تکبیریں بلند کریں اور زمین اور آسمان اسی طرح ہمارے افعال کی وجہ سے خدا کی بڑائی سے گونج جائیں جس طرح قانون قدرت کے ذریعہ سے وہ تسبیح کے ساتھ گونج رہے ہیں اور یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے کیونکہ ابراہیم کوئی خدا کا سگا بیٹا نہ تھا اور ہم کوئی سوتیلے بیٹے
۴۵۰ نہیں ہیں.کمی خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ کمی ہماری طرف سے ہے.دنیا میں عاشق ہاتھ پھیلائے بیٹھے رہتے ہیں اور معشوق منہ پھلائے بیٹھے رہتے ہیں مگر روحانی دنیا نرالی ہے.ہمارا معشوق ہاتھ پھلائے بیٹھا ہے اور ہم میں سے کچھ بد قسمت ہیں جو منہ پھیرے بیٹھے ہیں.اگر سوئے ادبی نہ ہوتی اور انسانی الفاظ خدا تعالیٰ کیلئے استعمال کرنے جائز ہوتے تو میں کہتا.اے نادان انسان دیکھ تو سہی تیرا معشوق تیرا خدا کب سے تیری طرف ہاتھ پھیلائے بیٹھا ہے.اتنی دیر سے کہ اتنی دیر میں انسان کی تو رگوں کا خون بھی خشک ہو جاتا ہے مگر وہ تمثیلوں سے بالا ہے.وہ نقصوں سے پاک ہے وہ عیبوں سے مبرا ہے.وہ تمہار امنتظر ہے مگر تمہارا انتظار اس کی بادشاہت میں کمی نہیں پیدا کرتا.وہ تمہاری طرف بڑھتا ہے مگر تمہاری بے رغبتی اس کی شان میں کمی نہیں کر سکتی کیونکہ وہ سب نقائص سے پاک ہے اور تمام کمزوریوں سے بالا ہے.انسانی زبان اس کی صفات کی حقیقت کو بیان کرنے سے قاصر ہے اور انسانی الفاظ اس کی محبت کی کیفیت کو ادا ہی نہیں کر سکتے وہ عاشقوں کے عشق سے زیادہ جوش والی وہ ماں باپ کے جذبات سے زیادہ نازک وہ دوستوں کی دوستی سے زیادہ گرم ہے لیکن پھر بھی وہ اس کی اذیت کا موجب نہیں ہوتی اور اس کی شان کی کمی کا باعث نہیں ہوتی.وہ راغب ہو کر بھی بالا ہے اور انسان مستغنی ہو کر بھی بیٹا ہے وہ متوجہ ہو کر بھی بڑا ہے اور یہ منہ پھیر کر بھی چھوٹا ہے کیونکہ اس کی توجہ احتیاج کی توجہ نہیں ہے بلکہ رحم کی توجہ ہے اور اس کی تڑپ کمزوری کی تڑپ نہیں ہے بلکہ علم کی تڑپ ہے اور حلم کی تڑپ ہے مگر انسان ان باتوں کو نہیں دیکھتا.وہ قدم آگے اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا.وہ اس بات کا عادی ہو گیا ہے کہ تھیٹروں میں جائے اور جھوٹے بادشاہوں کی شان و شوکت کو دیکھے اور بد بخت یہ نہیں سمجھتا کہ اس کے گھر میں اس وقت ایک خلعت شاہانہ اور ایک تاج اس کے پیدا کرنے والے کی طرف سے آیا ہوا ہے اور ایک بادشاہت کا پروانہ اس کیلئے لکھا ہوا موجود ہے.وہ دوسروں کے ایکٹ دیکھنے پر فدا ہوتا ہے مگر اپنی بادشاہت سے منہ موڑ لیتا ہے.بد قسمت ہے ایسا انسان کاش اس کی ماں اسے پیدا نہ کرتی کہ وہ اپنے وجود میں انسانیت کیلئے عار ہے بلکہ حیوانات کیلئے بھی باعث ننگ ہے کہ وہ بے عقل ہو کر خدا کی تسبیح کو بلند کرتے لیکن یہ عظمند ہو کر بھی اس سے غافل رہتا ہے.اسے آنکھیں دی گئیں
۴۵۱ مگر اس نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا اسے کان دیئے گئے مگر اس نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا اسے ناک دیا گیا مگر اس نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اسے چھونے والا جسم دیا گیا مگر اس نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا، خدا کی محبت کی شیرینی اس کے سامنے پیش کی گئی مگر یہ بد بخت دنیا کا منظل کھاتا رہا مگر اس شیرینی سے اس نے منہ پھیر لیا مگر اس کا خدا اس سے پھر بھی مایوس نہیں ہے.دیکھو وہ کس شان سے اپنے آخری کلام میں فرماتا ہے کہ انسانوں نے میرے نبیوں کا انکار کیا لیکن ان کے انکار نے مجھے نبی بھیجنے سے باز نہیں رکھا.میں اب بھی نبی بھیجتا ہوں اور بھیجتا رہوں گاوہ ماننے سے انکار کرتے جائیں میں بلانے سے نہیں ہٹوں گا اور آخر ان کو کھینچ کر ہی لاؤں گا کیونکہ میں نے ان کو اپنی عبودیت کیلئے پیدا کیا ہے اور میری جنت کا گھر اپنے مکین کے بغیر ویران پڑا ہے خواہ وہ براہ راست آکر اس گھر کو آباد کریں یا دو زخ کے ہسپتال میں سے گزر کر آئیں مگر بہر حال انہیں میرے ہی پاس آنا ہو گا اور میں انہیں اپنے پاس لا کر رکھے بغیر نہیں رہوں گا.یہ ہے ہمارا محبت کرنے والا خدا.ابراہیم نے بڑی نرم دلی دکھائی مگر ابراہیم کے نرم دل کو پیدا کرنے والا بھی ہمارا خدا ہی تھا.پس تمام رحم اسی سے ہے اور تمام خوبیاں اسی کی طرف سے ہیں.کوئی حسن نہیں ہے جو اس کی طرف سے نہ آتا ہو.سب نیکی اسی سے ہے اور سب نیکی اسی کی طرف جاتی ہے.وہ ایک ہے اور باقی سب ایک افسانہ ہے اور کوئی افسانہ بغیر ایک مرکزی نقطہ کے قائم نہیں رہتا.پس جب تک ہمارا افسانہ اس نقطۂ مرکزی سے وابستہ ہے وہ ایک حقیقی اور تاریخی افسانہ ہے جب وہ اس سے جدا ہو جائے وہ ایک خیالی افسانہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں جس کے لئے کوئی دوام نہیں.پس کوشش کرو کہ تمہاری زندگیاں ایک حقیقی اور تاریخی افسانہ نہیں جس طرح ابراہیم کی زندگی ایک حقیقی اور تاریخی افسانہ بن گئی اور اپنے آپ کو خدا سے دور کر کے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے اپنی زندگیوں کو صرف کر کے ایک بے معنی اور لغو و جو د مت بناؤ.کیونکہ دائمی زندگی ہی اصل زندگی ہے اور وہ چیز جو آئی اور ختم ہو گئی محض ایک حیوانی زندگی کا مظاہرہ ہے.جس طرح کتے کے مرنے سے دنیا میں کوئی تغیر نہیں ہو تا اسی طرح اس انسان کے مرنے سے بھی کوئی تغیر نہیں ہو تا جس کی زندگی ابراہیم علیہ السلام کی طرح خدا کے نور کے گرد پروانه وار چکر نہیں لگا رہی ہوتی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم اس عید
۴۵۲ سے سبق حاصل کریں اور ہمارے دل اس کے آستانہ محبت کے گرد لبَّيْكَ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ کہتے ہوئے اس وقت تک گھومتے رہیں جب تک کہ شمع پروانے کو جلا کر اپنے نور میں غائب نہ کر دے اور ہمارا وجود لَا شَرِيكَ لَكَ کی بین دلیل نہ ہو جائے." الفضل ۴ مارچ ۱۹۳۷ء صفحه ۳ تا۸) اسلام کے اقتصادی نظام پر آپ کی مفصل و مدل نقار پر کتابی شکل میں طبع ہو چکی ہیں.ان کتب میں آپ نے سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت سے مدلل موازنہ کرتے ہوئے اسلامی نظام کی برتری ثابت فرمائی ہے.آپ اس علم کے ماہر نہ تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آپ اس علم کے طالب علم بھی نہ تھے تاہم آپ نے موجودہ دنیا کے مسلمہ ماہرین اقتصادیات کے بہت سوچے سمجھے ہوئے نظاموں کے تار پود بکھیر کر رکھ دیئے اور زیادہ زمانہ گزرنے نہیں پایا کہ وہ خرابیاں اور کمزوریاں جو آپ نے بہترین انسانی دماغوں کے مفروضہ بہترین نظاموں میں بیان فرمائی تھیں وہ عملاً ظاہر ہو گئیں اور تجربہ نے بتا دیا کہ خدائی علم و معرفت سے بیان کی گئی باتیں ہی عمل و تجربہ کی کسوٹی پر پوری اتر سکتی ہیں.اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے حضور نے یہ پر شوکت اعلان فرمایا :- " غرض نظام نو کی بنیاد ۱۹۱۰ ء میں روس میں نہیں رکھی گئی نہ وہ آئندہ کسی سال میں موجودہ جنگ کے بعد یورپ میں رکھی جائے گی بلکہ دنیا کو آرام دینے والے ہر فرد بشر کی زندگی کو آسودہ بنانے والے اور ساتھ ہی دین کی حفاظت کرنے والے نظام نو کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں قادیان میں رکھی جا چکی ہے اب دنیا کو کسی نظام نو کی ضرورت نہیں.اب نظام نو کا شور مچانا ایسے ہی ہے جیسے کہتے ہیں گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر جو کام ہونا تھا وہ ہو چکا اب یورپ کے مدیر صرف لکیر کو پیٹ رہے ہیں.اسلام اور احمدیت کا نظام نو دہ ہے جس کی بنیاد جبر پر نہیں بلکہ محبت اور پیار پر ہے.اس میں انسانی حریت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے، اس میں افراد کی دماغی ترقی کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے اور اس میں انفرادیت اور عائلیت جیسے لطیف جذبات کو بھی برقرار رکھا گیا ہے." (نظام نو صفحه ۱۲۵)
۴۵۳ اقتصادیات و معاشیات کو آپ نے ریاضی کے خشک سوالوں کی طرح اخلاق و روحانیت کو الگ رکھتے ہوئے حل نہیں فرمایا بلکہ قرآن کے ایک طالب علم کی حیثیت میں انسانیت کی خدمت اور مذہب کی اہمیت و ضرورت کو ایسے رنگ میں پیش کیا جس سے انسان اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کر سکے اور خدا تعالیٰ سے دور جانے کی بجائے اس کے احسانات و انعامات کی قدر کرتے ہوئے اس کے قرب کی تلاش میں رہے.آپ فرماتے ہیں.یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور دشمن سے دشمن انسان کی بدخواہی کا خیال بھی ہمارے دل کے کسی گوشہ میں نہیں آتا ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں اخلاق کی فتح ہو ، روحانیت کی ترقی ہو خدا اور اس کے رسول کی حکومت قائم ہو اور ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں جو بھی نظام جاری ہو خواہ وہ اقتصادی ہو یا سیاسی ، تمدنی ہو یا معاشرتی بہر حال خدا اور اس کے رسول کا خانہ خالی نہ رہے اور دنیا کو ان کے احکام کی اتباع سے نہ روکا جائے.پس ہم روس یا کمیونزم کے دشمن نہیں بلکہ روس سے مجھے دلی ہمدردی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ قوم جو سینکڑوں سال ظلموں کا شکار رہی ہے ترقی کرے اور اس کے دن پھریں.ہاں میں یا کوئی اور حریت پسند یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک غلط فلسفہ کو بعض قوموں کی ترقی اور دوسروں کے تنزل کا جب بنایا جائے.پس اسلام اور رسول کریم میں دل کی دیوی کی بیان فرمودہ ہدایات کو اگر دنیا کا کوئی نظام اپنا لے اور اپنا نظام اسلامی رنگ میں ڈھال لے تو اس کی باتیں ہمارے سر آنکھوں پر لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو نہ ہی لوگ اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اس نظام کو قبول نہ کریں کیونکہ بے شک روٹی کی تکلیف بھی بڑی تکلیف ہے مگر مذ ہب ایسی چیز ہے جسے انسان کسی حالت میں بھی قربان کرنے کیلئے تیار نہیں ہو سکتا." اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ ۱۱۳- ۱۱۴.ایڈیشن ۱۹۴۵ء) آپ کی کتب میں تاریخ ادیان سے متعلق بعض نہایت شاندار تحقیقی کتب موجود ہیں.ان کتابوں سے آپ کی معلومات کی وسعت اور جذبہ تحقیق و جستجو کی عظمت ظاہر ہوتی ہے تاریخی الجھنوں کو دور کرنے کیلئے ایک رہنما اصول پیش کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.اس زمانہ (ابتدائی اسلامی زمانہ - ناقل) کی تاریخ کے متعلق بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اس زمانہ کے بعد کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا جو ایک یا دوسرے فریق
۴۵۴ سے ہمدردی رکھنے والوں سے خالی ہو اور یہ بات تاریخ کیلئے نہایت مُفتر ہوتی ہے کیونکہ جب سخت عداوت یا ناواجب محبت کا دخل ہو روایت کبھی بعینہ نہیں پہنچ سکتی اگر راوی جھوٹ سے کام نہ بھی لیں تب بھی ان کے خیالات کا رنگ ضرور چڑھ جاتا ہے.لیکن صحیح حالات معلوم کرنا نا ممکن بھی نہیں کیونکہ خدا تعالٰی نے ایسے راستے کھلے رکھے ہیں جن سے صحیح واقعات کو خوب عمدگی سے معلوم کیا جا سکتا ہے اور ایسے راوی بھی موجود ہیں جو بالکل بے تعلق ہونے کی وجہ سے واقعات کو کماحقہ بیان کرتے ہیں اور تاریخ کی تصحیح کا یہ زریں اصل ہے کہ واقعات عالم ایک زنجیر کی طرح ہیں کسی منفرد واقع کی صحت معلوم کرنے کیلئے اسے زنجیر میں پرو کر دیکھنا چاہئے کہ وہ کڑی ٹھیک اپنی جگہ پر پروئی جاتی ہے کہ نہیں.غلط اور صحیح واقعات میں تمیز کرنے کیلئے یہ ایک نہایت ہی کار آمد مددگار ہے." اسلام میں اختلافات کا آغاز صفحہ ۵۴) قیام و استحکام پاکستان کے متعلق آپ کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا مختصر تذکرہ ہو چکا ہے.اس سلسلہ میں بھی آپ نے متعدد کتب تحریر فرمائی ہیں.دفاع پاکستان کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:."اگر پاکستان نے شکست کھائی تو یقیناً اس کے لئے موت ہے پاکستان میں بھی موت ہے اور پاکستان سے باہر بھی موت ہے اور جب موت ایک لازمی چیز ہے تو اب سوال یہ نہیں رہ جاتا کہ مسلمان جائیں کہاں؟ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لاہور کے آگے لڑتے ہوئے مارے جائیں یا کراچی کے سمندر میں غرق ہو کر مریں...دونوں موتیں آپ لوگوں کے سامنے ہیں اب آپ خود ہی فیصلہ کرلیں کہ آپ کونسی موت قبول کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ لاہور کے سامنے دشمن سے لڑتے ہوئے مرنا زیادہ پسند کرتے ہیں یا یہ پسند کرتے ہیں کہ بھاگتے ہوئے کراچی کے سمندر میں غرق ہو جائیں اور مارے جائیں.قیام پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ ۵۱) دعوت الی اللہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر آپ نے بہت کثرت سے بہت تکرار سے متعدد پیرایوں میں توجہ دلائی ہے.اقتباسات کے اس گلدستہ میں اس پھول کا رنگ عجیب بہار پیدا کر رہا ہے دیکھئے:.آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لیکر اس وقت تک جو نہیں ہو اوہ اب بھی نہیں
۴۵۵ ہو گا اور جس ذریعہ سے آج تک خدا تعالیٰ کے پیغام دنیا میں پھیلتے رہے ہیں اس طرح اب بھی محمد رسول اللہ میں دل کی ریلی کا پیغام دنیا میں پھیلے گا.پس اپنی جانوں پر رحم کرتے ہوئے اپنی اولادوں پر رحم کرتے ہوئے اپنے خاندانوں اور اپنی قوموں پر رحم کرتے ہوئے اپنے ملک پر رحم کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے پیغام کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے دروازے آپ کے لئے جلد سے جلد کھل جائیں اور اسلام کی ترقی پیچھے نہ پڑتی چلی جائے.ابھی بہت کام ہے جو ہم نے کرنا ہے مگر اس کے لئے ہم آپ کی آمد کے منتظر ہیں کیونکہ خدا کی ترقیات علاوہ معجزات کے دین کی اشاعت کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں.آپ آئیں اور اس بوجھ کو ہمارے ساتھ مل کر اٹھائیں جس بوجھ کا اٹھانا اسلام کی ترقی کیلئے ضروری ہے.بے شک قربانی اور ایثار اور ملامت اور تعذیب ان سب چیزوں کا دیکھنا اس رستہ میں ضروری ہے مگر خد اتعالیٰ کی راہ میں موت ہی حقیقی زندگی بخشتی ہے اور اس موت کے اختیار کئے بغیر کوئی شخص خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا اور اس موت کو اختیار کئے بغیر اسلام بھی غالب نہیں ہو سکتا.ہمت کریں اور موت کے اس پیالہ کو منہ سے لگالیں تاکہ ہماری اور آپ کی موت سے اسلام کو زندگی ملے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ کا دین پھر ترو تازہ ہو جائے اور اس موت کو قبول کر کے ہم بھی اپنے محبوب کی گود میں ابدی زندگی کا لطف اٹھا ئیں.اللھم آمین" (احمدیت کا پیغام صفحه ۴۸) عارفانه و عالمانہ مضامین بیان کرنے کے ساتھ ساتھ پیدائش انسان کے مقصد کو پیش نظر رکھنے اور تربیتی ذمہ داریوں کے عملی تقاضوں کی طرف متوجہ کرنا بھی ہمیشہ آپ کے مد نظر رہتا تھا.آپ فرماتے ہیں:." جب تک ہم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدا کردہ طاقت ہے اس وقت تک اگر ہم نے دنیا فتح نہ کی تو جب مردہ ہو جائیں گے اس وقت کیا کریں گے.اگر تم لوگ اس فورس (Force) اور اس قوت اور اس روح سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کی ہے کام نہ لو گے اور ساری دنیا کو ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک ہلانہ دو گے تو یاد رکھو اس کے نکل جانے کے بعد اس کھاد کی طرح ہو جاؤ گے جو دوسروں کو تو فائدہ پہنچا سکتی ہے مگر خود اس قدر ذلیل و ناپاک ہوتی ہے کہ کوئی اپنے
۴۵۶ دامن پر اس کا دھبہ بھی گوارا نہیں کرتا." (ارشادات مجلس مشاورت صفحه ۲۷) اسی اہم مقصد کی طرف بڑے مؤثر رنگ میں توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.اے خدا کے بند و خدا تعالیٰ نے تمہیں بڑی غرض کیلئے پیدا کیا ہے.ان باتوں کو چھوڑ دو جو اس غرض سے دور لے جانے والی ہیں.محبت پیار اور خدا کا خوف دلوں میں پیدا کرد که انہی چیزوں سے خدا مل سکتا ہے.انہی سے انسانوں کے دلوں پر اثر ہو سکتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ بندہ سچا ہے تو اس کا سچ اس کے کام آئے گا لیکن اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ ہی اسے تباہ کر دے گا.سچائی ہمیشہ اپنے لئے آپ رستے نکال لیتی ہے اور جھوٹ کو خواہ کتنا بھی کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے وہ کبھی کھڑا نہیں رہ سکتا جھوٹ کبھی غالب نہیں آسکتا.(خطاب فیصل آباد (لائل پور ) ۱۹۴۶ء میں حضرت مصلح موعود دہلی تشریف لے گئے مجالس علم و عرفان وہاں ترتیب پانے لگیں.دہلی کی احمد یہ جماعت اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگ گئی.غیر از جماعت افراد جن میں عقیدت مند اور متلاشیان صداقت بھی ہوتے تھے اور ضد و تعصب رکھنے والے معاندین بھی.کثرت سے ملاقات کیلئے آتے رہے.مجلس خدام الاحمدیہ دہلی کی درخواست پر حضور نے نوجوانوں کو بڑے مؤثر رنگ میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :.خدام نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں انہیں نصیحت کروں.انہیں کچھ باتیں بتاؤں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں باتوں کا زمانہ لمبا ہو گیا ہے...باتیں یا تو سونے کے لئے ہوتی ہیں یا باتوں کے بعد کام ہوا کرتے ہیں.اب سونے کا زمانہ ہمارے لئے نہیں ہے.ہر قسم کے مصائب اور تکالیف اسلام پر آرہی ہیں.تذلیل اور تحقیر کے سامان اسلام کے لئے ہو رہے ہیں.اس وقت سونا سونا نہیں ہو گا بلکہ ہماری موت ہو گی.باقی رہی دوسری بات کہ باتوں کے بعد کام کیا جائے.سو اب باتیں بہت ہو چکی ہیں.۱۸۹۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوئی مسیحیت فرمایا.جس کو آج ۵۶ سال گزر رہے ہیں.اگر اتنی لمبی باتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا تو پھر کب اٹھاؤ گے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِيْنَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ
۴۵۷ کیا مومنوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ خدا تعالیٰ کے ذکر کو سن کر ان کے دل میں خشیت پیدا ہو.یہی بات میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِيْنَ آمَنُوا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ کیا ابھی انہیں اور باتوں کی ضرورت ہے کیا ان کے لئے ابھی کام کا زمانہ نہیں آیا.چین ؟ " ہر مسلمان کو محسوس ہونا چاہئے اگر اس کے دماغ میں جذبات اور کیفیات ہیں اگر اس کے دل میں احساسات اور خواہشات ہیں ، اگر اس کی آنکھیں کھلی ہیں کہ وہ کہاں سے گر کر کہاں پہنچ گیا.میں حیران ہوتا ہوں کہ مسلمان جغرافیہ پڑھتے ہیں اور نقشہ دیکھتے ہیں.مگر نقشہ دیکھتے ہی یہ دیکھ کر ان کے دل بیٹھ کیوں نہیں جاتے کہ کسی وقت یہ سارا نقشہ مسلمانوں کے قبضہ میں تھا لیکن آج ہر جگہ مسلمان ذلیل ہیں.ایک وہ زمانہ تھا کہ اسلامی رنگ نقشہ پر چین سے لے کر آخر تک پھیلا ہوا تھا.مسلمانوں نے حکومت کی جاپان کی عورتیں آج تک جب اپنے بچوں کو ڈراتی ہیں تو کہتی ہیں.جپ گریٹ مرغو.یعنی چپ ہو جا بڑا مغل آگیا.پھر یورپ کے کناروں تک اسلامی حکومتیں تھیں.امریکہ میں بھی پرانی مسجدیں ملی ہیں.وہاں حکومت مسلمانوں کو ملی یا نہ ملی مگر مسلمان وہاں پہنچے ضرور تھے.پس آج میں تم کو کیا بتاؤں کونسی چیز باقی ہے جو میں تمہیں سکھاؤں کیا آسمان نے نہیں سکھایا زمین نے تمہیں نہیں سکھایا ، اردگرد کے ہمسایوں نے تمہیں نہیں سکھایا ، پھر کونسی چیز باقی ہے جو تمہیں عمل سے روک رہی ہے تم اور کس دن کا انتظار کر رہے ہو جب تمہارے نفوس کی قربانیاں پیش ہوں گی یہ زندگی کس کام آئے گی.آج دنیا میں ضلالت پھیل رہی ہے ، گمراہی بڑھ رہی ہے ، جھوٹ اور فریب کی کثرت ہے ایسی حالت میں تم اپنی زندگیاں اسلام کی اشاعت کے لئے پیش نہیں کرتے تو کب کرو گے ؟ " ہر احمدی وعدہ کرتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا اور مقدم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وقت کا اکثر حصہ دین کے لئے صرف کرے اور تھوڑا دو سرے کاموں کے لئے اگر تم ایسا کرتے ہو تو واقع میں خدام الاحمدیہ ہو واقع میں تمہارے ذریعہ اسلام پھیلے گا لیکن اگر تم ایسا نہیں کرتے تو کام تو پھر بھی ہونا ہی ہے مگر تم خدا تعالیٰ کے سامنے اچھے اور نچے خادم اور بہادر سپاہی کی صورت میں پیش نہیں ہو سکو گے کیونکہ تمہارے اعمال تمہیں
۴۵۸ تمہارے وعدوں کو جھوٹا ثابت کر دیں گے.پس اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرو اور عمل کرو کیونکہ باتیں کرنے کا اب وقت نہیں.اپنی تنظیم کو مضبوط بناؤ دین کے لئے قربانی کرد بنی نوع انسان کی خدمت کرد.آدم سے لیکر محمد رسول اللہ میم تک روحانی جماعتوں کے لئے جو طریق خدا تعالیٰ نے رکھا ہے وہی ہمارے لئے ہے.خدا تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جماعت کا دشمن نہ تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کا دشمن نہ تھا، حضرت عیسی علیہ السلام کی جماعت کا دشمن نہ تھا، محمد رسول اللہ کی جماعت کا دشمن نہ تھا اور ہمارا رشتہ دار نہیں ہے.جب تک تم انہی بھٹیوں میں نہیں پڑو گے جن میں وہ لوگ پڑے ، جب تک وہ مصیبتیں نہ اٹھاؤ گے جو انہوں نے اٹھائیں ، جب تک ان آروں سے چیرے نہ جاؤ گے جن سے وہ چیرے گئے اس وقت تک ہر گز ہرگز تم فلاح نہیں پاسکتے.موت اور صرف خدا تعالیٰ کے لئے موت میں ہی زندگی ہے." (الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۴۶ء) قرآن مجید کے ناصحانہ انداز میں یہ امر نمایاں ہیں کہ ایک ہی بات کو بار بار مگر مختلف انداز سے پیش کیا جائے تاکہ تکرار سے تنوع کا حسن اور مختلف طبائع سے مناسبت کی خوبصورتی پیدا ہو.حضرت مصلح موعود کا ناصحانہ انداز بھی کچھ ایسا ہی ہے.آپ نے مئی ۱۹۴۸ء میں " آپ کی تلاش ہے " کے عنوان سے ایک نہایت اچھوتے انداز میں جماعت کو ان کی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :..کیا آپ محنت کرنا جانتے ہیں؟ اتنی محنت کہ تیرہ چودہ گھنٹے دن میں کام کر سکیں..کیا آپ سچ بولنا جانتے ہیں؟ اتنا کہ کسی صورت میں آپ جھوٹ نہ بول سکیں.آپ کے سامنے آپ کا گہرا دوست اور عزیز بھی جھوٹ نہ بول سکے.آپ کے سامنے کوئی اپنے جھوٹ کا بہادرانہ قصہ سنائے تو آپ اس پر اظہار نفرت کئے بغیر نہ رہ سکیں.- کیا آپ جھوٹی عزت کے جذبات سے پاک ہیں؟ گلیوں میں جھاڑو دے سکتے ہیں؟ بوجھ اٹھا کر گلیوں میں پھر سکتے ہیں؟ بلند آواز سے ہر قسم کے اعلان بازاروں میں کر سکتے ہیں ؟ سارا سارا دن پھر سکتے ہیں اور ساری ساری رات جاگ سکتے ہیں؟ - کیا آپ اعتکاف کر سکتے ہیں؟ جس کے معنی ہوتے ہیں.(الف) ایک جگہ دنوں
۴۵۹ بیٹھ رہنا (ب) گھنٹوں بیٹھے وظیفہ کرتے رہنا (ج) گھنٹوں اور دنوں کسی انسان سے بات نہ کرنا.کیا آپ سفر کر سکتے ہیں؟ اکیلے اپنا بوجھ اٹھا کر بغیر اس کے کہ آپ کی جیب میں کوئی پیسہ ہو.دشمنوں اور مخالفوں میں ناواقفوں اور نا آشناؤں میں ؟ دنوں، ہفتوں اور مہینوں..کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ بعض آدمی ہر شکست سے بالا ہوتا ہے؟ وہ شکست کا نام سننا پسند نہیں کرتا.وہ پہاڑوں کو کاٹنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.وہ دریاؤں کو کھینچ لانے پر آمادہ ہو جاتا ہے.اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اس قربانی کے لئے تیار ہو سکتے ہیں؟.کیا آپ میں ہمت ہے کہ سب دنیا کے نہیں اور آپ کہیں ہاں؟ آپ کے چاروں طرف لوگ نہیں اور آپ اپنی سنجیدگی قائم رکھیں.لوگ آپ کے پیچھے دوڑیں اور کہیں کہ ٹھر تو جاہم تجھے ماریں گے اور آپ کا قدم بجائے دوڑنے کے ٹھہر جائے اور آپ اس کی طرف سرجھکا کر کہیں لو مارو.آپ کسی کی نہ مانیں کیونکہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں مگر آپ سب سے منوا لیں کیونکہ آپ بچے ہیں.آپ یہ نہ کہتے ہوں کہ میں نے محنت کی مگر خدا تعالیٰ نے مجھے نا کام کر دیا.بلکہ ہر ناکامی کو آپ اپنا قصور سمجھتے ہوں.آپ یقین رکھتے ہوں کہ جو محنت کرتا ہے کامیاب ہوتا ہے اور جو کامیاب نہیں ہو تا اس نے محنت ہر گز نہیں کی.اگر آپ ایسے ہیں تو آپ اچھا مبلغ اور اچھا تاجر ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں.مگر آپ ہیں کہاں خدا کے ایک بندہ کو آپ کی دیر سے تلاش ہے.اے احمدی نوجوان! ڈھونڈھ اس شخص کو اپنے صوبہ میں اپنے شہر میں اپنے محلہ میں اپنے گھر میں اپنے دل میں کہ اسلام کا درخت مرجھا رہا ہے اس کے خون سے وہ دوبارہ سرسبز ہو گا.“ (مرزا محمود احمد) الفضل ۲۲.مئی ۱۹۴۸ء)
۴۶۰ حضرت فضل عمر کا منظوم کلام سوانح فضل عمر جلد اول میں حضرت مصلح موعود کے منظوم کلام کے چند منتخب اشعار پیش کئے گئے تھے.حضور زندگی بھر اس خداداد ملکہ سے کام لیتے ہوئے جماعت کی تربیت و تلقین کیلئے اردو، عربی اور فارسی میں اشعار کہتے رہے.آپ کی شاعری سادگی، بے ساختگی، روانی اور مقصدیت کا ایک شاندار مرقع ہے.کوئی شعر تکلف سے نہیں کہا گیا.کسی شعر میں لفاظی اور بناوٹ نہیں ہے.ہر شعر میں کوئی پیغام ہے.اکثر اشعار میں کسی آیت کی تشریح یا کسی حدیث کا مضمون بیان ہوا ہے.ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ کسی جگہ بھی ادبی لحاظ سے کوئی جھول یا بے وزنی یا فنی سقم بھی نہیں ہے.آپ کے اشعار کا مجموعہ "کلام محمود" کے عنوان سے مختلف ایجنسیوں اور ناشروں نے اتنی دفعہ چھاپا ہے کہ یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہے کہ اس کے کتنے ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.اس کلام کی اثر پذیری اور افادیت کا اس امر سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کے اشعار ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود جماعت کے افراد میں آج بھی اسی طرح مقبول و معروف ہیں جیسے آپ کی زندگی میں تھے.آپ کے چار ہزار سے زیادہ اشعار میں سے چند اشعار درج ذیل ہیں.ان اشعار کے مطالعہ سے یقینا ہر قاری کو خواہش پیدا ہو گی کہ وہ ایک بار پھر آپ کے مجموعہ کلام کا مطالعہ کرے اور عرفان و وجدان کی ناقابل بیان کیفیت سے سرشار ہو.ہے زمین پر سر مرا لیکن وہی مسجود ہے آنکھ سے اوجھل ہے گو دل میں وہی موجود ہے جب تلک تدبیر پنجه کش نہ ہو تقدیر سے آرزو بے فائدہ ہے التجا بے سود ہے و بے کاری اکٹھے ہو نہیں سکتے عشق عرصه سعی محبان تا ابد محدود ہے
۴۶۱ میں واحد ہوں دلداده اور واحد میرا پیارا ہے گر تو بھی واحد بن جائے میری آنکھ کا تارا ہے.*..* مومن تو جانتا ہی نہیں بزدلی ہے کیا اس قوم میں فرار کا دستور ہی نہیں دل دے چکے تو ختم ہوا قصہ حساب معشوق سے حساب کا دستور ہی نہیں اے شعاع نور یوں ظاہر نہ کر میرے عیوب غیر ہیں چاروں طرف ان میں مجھے رسوا نہ کر ہے محبت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز عشق کی عزت ہے واجب عشق سے کھیلا نہ کر ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پرواہ نہ کر *.محمود راز حسن کو ہم جانتے ہیں خوب صورت کسی کی نور کے سانچے میں ڈھل گئی نگاہیں جن پر پڑیں فرشتوں کی رشک سے اے میرے محسن ایسے انسان مجھ کو دے دے دجال کی بڑائی کو خاک میں ملا دوں قوت مجھے عطا کر سلطان مجھ کو دے دے
ہو جائیں جس سے ڈھیلی سب فلسفہ کی چولیں میرے حکیم ایسا برہان مجھ کو دے دے دنیا کا غم ادھر ہے ادھر آخرت کا خوف بوجھ میرے دل سے الہی اُتار دے یہ تو بارگاہ حسن ہے میں ہوں گدائے حسن مانگوں گا بار بار میں بار بار دے ثار دل چاہتا ہے جان ہو اسلام پر توفیق اس کی اے میرے پروردگار دے بگاڑے کوئی ان کیلئے جو دنیا وہ سات پشت کو اس کی سنوار دیتے ہیں جیتنے ہوں مائل تو عاشق صادق خوشی سے جان کی بازی بھی ہار دیتے ہیں وہ *.خاموشی سی طاری ہے مجلس کی فضاؤں پر فانوس ہی اندھا ہے یا اندھے ہیں پروانے فرزانوں نے دنیا کے شہروں کو اُجاڑا ہے آباد کریں گے اب دیوانے یہ ویرانے ہے ساعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی آغاز تو میں کر دوں انجام خدا جانے آہ غریب کم نہیں غیض شہ جہاں سے کچھ جس سے ہوا جہاں تباہ دل کا مرے غبار تھا
شکر خدا گذر گئی نازو نیاز میں ہی عمر مجھ کو بھی ان سے عشق تھا ان کو بھی مجھ سے پیار تھا *.*.دامن تھی ہے، فکر مشوش، نگہ غلط آئیں تو تیرے در مگر ساتھ لائیں کیا حرص و ہوا و کبر و تغلب کی خواہشات چمٹی ہوئی ہیں دامن دل سے بلائیں کیا را اس کو دیں سلامت دل مجھ کو دیا تھا آپ ہی نے مهاجر بننے والو بھی سوچا مدینے کہ پیچھے چھوڑے جاتے ہو ✰.* مردوں کی طرح باہر نکلو اور ناز و ادا کو رہنے دو سل رکھ لو اپنے سینوں پر اور آہ و بکا کو رہنے دو پر اب تیر نظر کو پھینک کے تم اک خنجر آہن ہاتھ میں لو یہ فولادی پنجوں کے ہیں دن اب دست حنا کو رہنے دو مسلم جو خدا کا بندہ تھا افسوس کہ اب یوں کہتا ہے اسباب کرو کوئی پیدا جبریل و خدا کو رہنے دو مانے نہ مانے اس سے کیا بات تو ہو گی دو گھڑی قصہ دل طویل کر بات کو تو بڑھائے جا منزل عشق ہے کٹھن راہ میں راہزن بھی ہیں پیچھے نہ مڑ کے دیکھ تو آگے قدم بڑھائے جا
۴۹۴ اپنی خوش اخلاقیوں سے موہ لے دشمن کا دل دلبری کر چھوڑ سودا نالہ دل گیر کا پیٹ کے دھندوں کو چھوڑ اور قوم کے فکروں میں پڑ ہاتھ میں شمشیر کے عاشق نہ بن کفگیر کا ملک کے چھوٹے بڑے کو وعظ کر پھر وعظ کر وعظ کرتا جا نہ کچھ بھی فکر کر تاثیر کا کل کے کاموں کو بھی ممکن ہو اگر تو آج کر اے مری جاں وقت یہ ہر گز نہیں تاخیر کا کم نہیں کچھ کیمیا سے سوز الفت کا اثر اشک خوں جو بھی بہا لعل بدخشاں ہو گیا اک مکمل گلستان ہے وہ مرا غنچہ دہن وہ خنده زن میں گل بداماں ہو گیا جب ہوا کون کہتا *.ہے لگی دل کی بجھائے کوئی عشق کی آگ مرے دل میں لگائے کوئی قرب اس کا نہیں پاتا نہیں پاتا محمود کو خاک میں جب تک نہ ملائے کوئی.*.چادر فضل و عنایت میں چھپا کے پیارے مجھ گنہ گار کو اپنا ہی بنا کے پیارے نام کی طرح مرے کام بھی کر مجھ کو ہر و محمود قسم کے عیبوں سے بچا لے پیارے
۴۶۵ آہ کیسی خوش گھڑی ہوگی کہ با نیل مرام باندھیں گے رخت سفر کو ہم برائے قادیاں کبھی تم کو ملے موقع دعائے خاص کا یاد کر لینا ہمیں اہل وفائے قادیاں مجھ کو حاصل نہ اگر ہوتی خدا کی امداد کب کے تم چھید چکے : * ہوتے مجھے تیروں سے.ہمیشہ نفس امارہ کی باگیں تھام کر رکھیو گرا دے گا یہ سر کش ورنہ تم کو سیخ پا ہو کر علاج عاشق مضطر نہیں ہے کوئی دنیا میں اسے ہو گی اگر راحت میسر تو فنا ہو کر تجھ میں ہمت ہے تو کچھ کر کے دکھا دنیا کو اپنے اجداد کے اعمال پہ نازان نہ ہو آگ ہوگی تو دھواں اس سے اٹھے گا محمود غیر ممکن ہے کہ ہو عشق اعلان نہ ہو.*.تکلیف میں ہوتا نہیں کوئی بھی کسی کا احباب بھی کر جاتے ہیں اُس وقت کنارا مانا کہ تیرے پاس نہیں دولت اعمال ترا دنیا میں نہیں کوئی سہارا صورت احوال انہیں جا کے بتا تو مانا شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا
سر ہے پر فکر نہیں ، دل ہے پر امید نہیں اب ہیں بس شہر کے باقی یہی ویرانے دو تمہیں تریاق مبارک ہو مجھے زہر کے گھونٹ دو غم ہی اچھا ہے مجھے تم مجھے غم کھانے پر بوجھ ہی ڈالو گے تو ہوگی اصلاح نفس رو اونٹ لاتے ہیں یونہی چیخنے چلانے اک طرف عقل کے شیطان ہے تو اک جانب نفس ایک دانا کو نہیں کھیرے ہوئے دیوانے دو محمد عربی کی ہو آل میں برکت ہو اس کے حسن میں برکت جمال میں برکت ملے گی سالک زه تجھ کو حال میں برکت کبھی بھی ہوگی میسر نہ قال میں برکت لگائیو نہ درخت شکوک دل میں کبھی نہ اس کے پھل میں ہے برکت نہ ڈال میں برکت گنہ کے بعد ہو تو بہ سے باب رحمت را خطا کے بعد ملے بعد ملے انفعال میں برکت ہے دست قبلہ نما لا اله الا الله ہے درد دل کی دوا لا اله الا الله قریب تھا کہ میں گر جاؤں بار عصیاں سے بنا ہے ایک عصا لا اله الا الله ہزاروں بلکہ ہیں لاکھوں علاج روحانی ہے روح شفا لا اله الا الله مگر
ہو پھیلائیں گے صداقت اسلام کچھ بھی جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہمیں محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار روئے زمین کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں *.ہماری خاک تک بھی اڑ چکی ہے اس کے رستہ میں ہلاکت تو بھلا کس بات سے ہم کو ڈراتی ہے غم دل لوگ کہتے ہیں نہایت تلخ ہوتا ہے مگر میں کیا کروں اس کو غذا یہ مجھ کو بھاتی ہے کہ وصل کا لطف تبھی ہے رہیں ہوش بجا دل بھی قبضہ میں رہے پہلو میں دلدار بھی ہو عشق کی راہ میں دیکھے گا وہی روئے فلاح جو کہ دیوانہ بھی ہو عاقل و ہشیار بھی ہو دل میں اک درد ہے پر کس سے کہوں میں جاکر کوئی دنیا میں مرا مونس و غم خوار بھی ہو غیر ممکن کو اے میرے ممکن میں بدل دیتی ہے فلسفیو زور دعا دیکھو تو عاشقو دیکھ چکے عشق مجازی کے کمال مرے یار سے بھی دل کو لگا دیکھو تو کیا ہوا تم سے جو ناراض ہے دنیا محمود کس قدر تم ہیں الطاف خدا دیکھو تو
i ۴۲۸ اگر تم دامن رحمت میں اپنے مجھ کو لے لیتے تمہارا کچھ نہ جاتا لیک میری آبرو ہوتی در میخانه الفت اگر میں وا کبھی پاتا تو بس کرتا نہ گھونٹوں پر صراحی ہی سیو ہوتی مری جنت تو یہ تھی میں ترے سایہ تلے رہتا رواں دل میں مرے عرفان بے پایاں کی جو ہوتی * *....وہ عمر جس میں کہ پاتی ہے عقل نور و جلا تم اس کو شیب کہو ہم شباب کہتے ہیں نگاہ یار سے ہوتے ہیں سب طبق روشن رموز عشق کی اس کو کتاب کہتے ہیں ہمیں بھی تجھ سے ہے نسبت او رند بادہ نوش نگاه یار کو ہم بھی شراب کہتے بڑھا کے نیکیاں میری خطائیں کر کے معاف وہ اس ظہور کرم کو حساب کہتے ہیں ہیں * *.مجھے ہر گز نہیں ہے کی ނ میں دنیا میں سب نکالا مجھے جس نے میں اس کا بھی دل کا بھلا چاہتا ہوں میرے چمن سے سے بھلا چاہتا ہوں رقیبوں کو آرام و راحت کی خواہش مگر میں تو کرب بلا چاہتا ہوں امیدوں کو مار اے دشمن جاں امیدیں ہی مغز زندگی ہیں تو مغز
۴۶۹ حق کی جانب سے ملا ہو جس کو تقویٰ کا لباس جسم پر اس کے اگر گاڑھا بھی ہو کم خواب ہے جسم ایمان سعی و کوشش سے ہی پاتا ہے نمو آرزوئے بے عمل کچھ بھی نہیں اک خواب ہے.*.*.* تم کو مجھ سے ہے عداوت تو مجھے تم سے ہے پیار میری یہ کیسی محبت ہے کہ جاتی ہی نہیں غیر بھی بیٹھے نہیں اپنے بھی ہیں گھیرا ڈالے مجھ میں اور تجھ میں وہ خلوت ہے کہ جاتی ہی نہیں طعن پاکاں پاکان شغل صبح و شام ہے مولوی صاحب کی لسانی تو دیکھ وعظ قرآن پر کبھی تو کان دھر علم کی اس میں فراوانی تو دیکھ ہے اکیلا کفر ނ زور آزما روح ایمانی تو دیکھ احمدی کی کی روح راتیں تو ہوا کرتی ہیں راتیں ہی ہمیشہ پر ہم کو نظر آتے ہیں اب دن کو بھی تارے سچ بیٹھا ہے اک کونہ میں منہ اپنا جھکا کر اور جھوٹ کے اُڑتے ہیں فضاؤں میں غبارے
اندھیاری راتوں میں سجدے کرنا تو پہلی باتیں تھیں اب دن اک مجلن عیش کی ہے اور رات جو ہے دیوالی ہے اب صوفے کوچیں گرجا میں اک شان سے رکھے رہتے ہیں مسجد میں چٹائی ہوتی تھی سو ظالم نے سرکا لی ہے *.*.غلامی روس کی ہو یا غلامی مغربیت کی کوئی بھی نام رکھ لے تو وہ ہے زنجیر لعنت کی کھیل اضداد کی عرصہ سے تیرے گھر میں جاری ہے کبھی ہے مارکس کا چرچا کبھی درس بخاری ہے جو مسلم کی دولت تھی کافر نے کھالی گنگا تو الٹی سے جا رہی ہے ترے باپ دادوں کے مخزن مقفل ترے دل کو بھائی ہے دولت پرائی ނ مشکر وراثت کا دعوی ذرا دیکھنا مولوی کی ڈھٹائی نبوت ** بطور ہم دل دوستاں کو نہ توڑیں گے ہر گز نہ ٹوٹے گا ہر گز مبارک ہو یہ ڈارون کو ہی رشتہ قرابت نہیں رکھتے لنگور ہم فکر انسانی فلک پر اڑ رہا ہے آج کل فلسفہ دکھلا رہا ہے خوب اپنا زور و بل پر مسلماں راستہ پر محو حیرت ہے کھڑا کہہ رہا ہے اس کو ملا اک قدم آگے نہ چل تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں سے
بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے حاصل ہو تم کو دید کی لذت خدا کرے مل جائیں تم کو زہد و امانت خدا کرے مشہور ہو تمہاری دیانت خدا کرے راضی رہو خدا کی قضاء پر ہمیش تم لب پر نہ آئے حرف شکایت خدا کرے اخلاص کا درخت بڑھے آسمان تک ھتی رہے تمہاری ارادت خدا کرے قرآن پاک ہاتھ میں ہو دل میں نور ہو مل جائے مومنوں کی فراست خدا کرے اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی پر رحمت خدا کرے ھر سے عزیز و دل رہیں آباد بس اس کی محبت بنو زاہد کرو الفت نہ گر مال و دولت سے تعلق کوئی بھی رکھنا نہ تم بغض و عداوت سے که مومن کو ترقی ملتی ہے مہر و محبت سے مغرب کی باتوں میں نہ آنا اے میرے پیارو کبھی نہیں کوئی ثقافت پڑھ کے اسلامی ثقافت * لڑھکنا ہی تھا قسمت میں تو بے ہوشی بھی دی ہوتی نہ احساس وفا رہتا نہ پاس آشنا رہتا مگر یہ کیا کہ میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر تو نے لگا دی آگ اور وقف تمنا کر دیا مجھ کو
۴۷۲ تصانیف / مضامین اتقاریر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد لمصلح الموعود خلیفة المسیح الثاني حضرت مصلح موعود کی تصانیف /مضامین و تقاریر کی بعض فہرستیں اس سے قبل سلسلہ کے اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکی ہیں.مندرجہ ذیل فہرست مکرم بشارت احمد صاحب صابر کار کن فضل عمر فاؤنڈیشن نے بڑی احتیاط توجہ اور تحقیق کے بعد تیار کی ہے تاہم ابھی تحقیق کا یہ سلسلہ جاری ہے.اس وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فہرست مکمل ہو چکی ہے.١٩٠٦ء چشمہ تو حید یعنی شرک کی تردید ( تقریر جلسه سالانه ) ۱۹۰۷ء محبت الہی.۱۹۰۸ء * صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے ( پہلی تصنیف) ١٩٠٩ء * ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں ( تقریر جلسه سالانه ) نجات (اول) دین حق ١٩١٠ء نجات ( دوم ) * +1911 فرعون موسیٰ مسلمان وہی ہے جو سب ماموروں کو مانے من انصاری الی الله ؟ پہاڑی وعظ گوشت خوری * مدارج تقویٰ ( تقریر جلسه سالانه ) ۱۹۱۲ء * جواب اشتہار غلام سرور کانپوری * خدا کے فرستادہ پر ایمان لاؤ ١٩١٣ء دس دلائل ہستی باری تعالی اخبار الفضل“ کا پر اسکیٹس تصدیق اسیح (مجموعه مضامین)
* امر بالمعروف (مجموعه مضامین) تادیب النساء ( مجموعہ مضامین) إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ( مجموعه مضامین) ۴۷۳ یاد محبوب طریق تبلیغ شہزادہ امن کی باتیں کیونکر پوری ہو رہی ہیں فیشن تجارت میں کون ہوں، تبلیغ احمدیت * اداریہ جات الفضل (مجموعه مضامین ) ضرورت امام اور تبلیغ احمدیت / بیت المال / * میرا محمد تبلیغ اسلام : مسلمان غیر مسلم حکومت کے ماتحت کس طرح خدا سے ڈرو رہ سکتے ہیں؟ تعلم وتعلیم کی ضرورت نبی اور رسول تبلیغ اسلام / معاہدہ جاپان و برطانیہ دروغ کبھی فروغ نہیں پاتا فلسطین میں مدرسہ اظہار صداقت * خلافت اسلامیه * انصار الله تبلیغ اسلام * مسیحی قانون کا نقص * مذاہب باطلہ کی بناء بدظنی پر ہے (i) * چین کا فلاسفر ( کنفیوشس) * مذاہب باطلہ کی بناء بدظنی پر ہے (ii) * یورپ میں جراثیم کی ترقی ایام اللہ غیر ممالک میں تبلیغ قوم کا لیڈرکون ہونا چاہئے * اختلاط / بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا تبلیغ الاسلام * گناہوں سے نجات کس طرح مل سکتی ہے غیر مذاہب کی تبلیغی کوششیں سیرة النبی ( مجموعہ مضامین ) ل کیا مسلمان اسلام کے سواترقی نہیں کر سکتے ١٩١٤ء * اسلام کے متعلق ایک انگریز کی رائے من انصاری الی اللہ نشانات نبوت محمدیہ * ایک پیسہ کا کارڈ ایمان بچا سکتا ہے اپنے گھر کی فکر کرو قومیت و سلطنت تہذیب اور مداہنت صحابہ کی ہمت بلنده * ہم میں سے کس کا حق ہے کہ مست ہو ؟ اسے احمدی قوم بڑھی چل !
۴۷۴ خود کرده را چہ علاج + ابھی سے فکر کرو اسلامی نماز تقریری ۱۳- مارچ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی خوشخبری ( تقریر جلسه سالانه ۲۶ دسمبر ) ١٩١٦ء * کلمات طیبات ( خلافت کے بعد پہلی تقریر ) * اسلام اور دیگر مذاہب (مضمون) کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے منصب خلافت شکریہ اور اعلان ضروری تحفۃ الملوک جماعت احمدیہ برکات خلافت ( تقریر جلسه سالانه ) ۱۹۱۵ء نصائح مبلغین نجات کی حقیقت پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید سیرۃ مسیح موعود (تصنیف) متفرق امور ( تقریر جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ) جماعت احمد یہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں ( تقریر جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ) القول الفصل (مضمون) ذکر الہی ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ دسمبر ) اللہ تعالیٰ کی مددصرف صادقوں کے ساتھ ہے تبلیغ احمدیت کے آسان طریق (طلباء سے حقيقة النبوة ( تصنيف) مبلغین کیلئے ہدایات * چند غلط فہمیوں کا ازالہ خطاب) ۱۹۱۷ء مفتی محمد صادق صاحب کی دعوت کے موقع پر * ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب مہ مستورات میں وعظ * پیغام مسیح موعود (لا ہور میں تقریر ) تقریر طلباء ہائی سکول کے جلسہ دعوت پر حضور کی تقریر خواجہ کمال الدین صاحب کی اس تحدی کا احمد یہ کانفرنس میں تقریر جواب کہ احمد قادیانی کو ساحر نہیں کہا گیا.احمد یہ کانفرنس میں افتتاحی تقریر (۷- اپریل) (مضمون) عید الاضحی اور مسلمانوں کا فرض (مضمون) فاروق“ کے فرائض زندہ خدا کے زبرست نشان (مضمون) انوار خلافت ( تقریر جلسه سالانه ) خدا کے قہری نشان (مضمون)
* اطاعت اور حق شناسی جماعت قادیان کو نصائح ۴۷۵ اسلام اور تعلقات بَيْنَ الاقوام ( تقریر بریڈ لا ہال لاہور ) ترقی اسلام کے متعلق ارشاد ( از شملہ ) * اسلام میں اختلافات کا آغاز زندہ مذہب (مسیا تک ہال شملہ ) ( تقریر حبیبیہ ہال لاہور ) * عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے عرفانِ الہی ( تقریر جلسه سالانه ۱۹۱۸ء در بوبیت باری تعالیٰ کا ئنات کی ہر چیز پر محیط ہے منعقده ۱۶ مارچ ۱۹۱۹ء) قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام خطاب جلسہ سالانہ (جلسه سالانه ۱۹۱۸ء منعقدہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء) ایک اہم پیغام فیصله حق و باطل خواجہ حسن نظامی صاحب کا ایک جلسہ دعوت میں تقریر چیلنج منظور ) مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کی انفلوئنزا کے متعلق حفظ ماتقدم کی تدابیر جماعت کو سیاست میں دخل نہ دینے کی نصیحت عادت تحریف (مضمون) نہ حقیقة الرؤیا ( تقریر جلسه سالانه ۲۸/۲۷ دسمبر ) * ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض ( تحریر ) طلباء کو نصائح +191A آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے فضیلت الاسلام علی ادیان الا قوام جماعت احمدیہ کی پیروان مسیح ناصری سے خواجہ حسن نظامی صاحب کے جواب الجواب کا مماثلت اور اس کے متعلق مولوی محمد علی جواب ( مباہلہ مطابق کتاب وسنت ضرور کرو) صاحب کے غلط خیالات کی تردید خواجہ حسن نظامی صاحب آخر اقرار کرنے پر خطاب جلسه سالانه (۲۷ - دسمبر ) مجبور ہوئے ( حق و باطل میں امتیاز ) * تقدیر الهی ( تقریر ۲۸-۲۹ دسمبر ) خواجہ حسن نظامی صاحب کا حق پوشی حقيقة الامر ١٩١٩ء * اصلاح اعمال کی تلقین نمائندگان بنگال کے ایڈریس کا جواب ۱۹۲۰ء احمدیہ مسجد لندن کے متعلق مستورات میں تقریر (خلاصه)
قیام توحید کیلئے غیرت * خاتم النبین کی شان کا اظہار مذہب کی حقیقت اور ضرورت ( ہائی سکوں اور (سیالکوٹ میں تقریر ) مدرسہ احمدیہ کے طلباء سے خطاب) فرائض مستورات کیا دنیا کے امن کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جا احمد یہ ہال سیالکوٹ کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب سکتی ہے یا اسلام پر (i) (لیکچر بریڈ لا ء ہال لاہور ۱۵- فروری ) موجودہ مشکلات میں دعاؤں پر خاص زور دو واقعات خلافت علوی اور تبلیغ اسلام کیلئے نکل کھڑے ہو ( مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی لاہور میں لیکچر ) ایک غلط بیانی کی تردید (مضمون) معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ صداقت اسلام ( بندے ماترم ہال امرتسر میں لیکچر ) مذہب اور اسکی ضرورت (مضمون) بچوں، بچونکے والدین اور نگرانوں کیلئے نصائح ( تقریر احمد یہ ہوٹل لاہور ) غیور اور با اخلاق بننے کا زمانہ بچپن ہے صداقت احمدیت ( تقریر احاطہ میاں سراج * سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے دین صاحب دہلی دروازہ لاہور ) لوح الهدی * جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں اسلام پر ایک آریہ پروفیسر ( رام دیو ) کے حملہ کا ( جماعت احمدیہ لاہور سے خطاب) * تقریر سیالکوٹ جواب اسلام اور تربیت و مساوات ( نمبر ۲۶) اسلامی عقائد صحیحہ کے پر لکھنے کا معیار اصلاح نفس ( تقریر ۲۷ دسمبر جلسہ سالانہ ) * (تقرير) اسلام بمقابلہ تہذیب کے (مضمون) ملائكة الله ( تقریر جلسه سالانه ۲۹/۲۸ دسمبر ) کیا دنیا کے امن کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جا ترک موالات اور احکام اسلام (مضمون) سکتی ہے یا اسلام پر (ii) * مسیحی ممالک اور ترک شراب (مضمون) (لیکچر بندے ماترم ہال امرتسر ۱۴- اپریل ) * دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا ہدایات زرین
ضرورت مذہب موازنہ مذاہب مستجلین سے خطاب * مولوی محمد علی صاحب کی گھنٹی چٹھی کا جواب * معیارِصداقت( تقریر بر مکان مرز انگل محمد غیر از جماعت مسلمانوں سے تعلقات کی تلقین صاحب) * بیعت کرنے والوں کیلئے ہدایات تحفه شهزاده ویلز (مضمون) مستورات میں تقریر ( جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ) قاضی امیر حسین صاحب کی خدمت میں خطاب (جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ) ایڈریس کے موقع پر تقریر نجات ( خطاب جلسه سالانه ۲۸ دسمبر ) تین باتیں (احمدی طلباء کو خطاب) دعوۃ الامیر (محرره ۱۹۲۲ء) آئینه صداقت ١٩٢٣ء * مستورات میں تقریر ( تقریر جلسہ سالانہ ) مومنانہ جذبات ( به تقریب الوداعی مولوی محمد ہستی باری تعالی ( تقریر جلسه سالانه ) دین صاحب) حقیقی مقصد اور اسکے حصول کے طریق نئی دنیا کو مسلمان بنانے کا عزم (امریکہ جانے والے مبلغ کو ہدایات) لاہور میں تقریر ) * کونسامذہب دنیا کی تسلی کا موجب ہوسکتا ساڑھے چار لاکھ مسلمان ارتداد کیلئے تیار ہیں ہے؟ * پروفیسر رام دیو اور صداقت اسلام طلباء کو نصائح.۱۹۲۲ء مالی اور جانی قربانی کی تحریک فتزارتداد کے انسداد کے متعلق اعلان ملکانے راجپوتوں میں جانے والے وفد کیلئے تقریر * ہدایات ( نائیجریا جانے والے مبلغ شیخ فضل فتنہ ارتداد کے قلع قمع کے متعلق الرحمن صاحب کو ) * دعوت العلماء (مضمون) غیر احمدی علماء کو دعوت طلباء کو انصاری * ایک کروڑ مسلمان ارتداد کی چوکھٹ پر ہیں اور احمدی خدامِ دین کی ضرورت مسلمانوں کا فرض ہے کہ اپنے ہمسایہ ہندو کو تبلیغ اسلام کریں اسلام کی ترقی کے غیبی سامان (مضمون) تبلیغی وفد کو ہدایات (آگرہ جانے والے وفد کو )
نمائندگان جماعت احمدیہ سے خطاب احمدی مجاہدین سے خطاب مستورات کو نصائح ( جلسہ سالانہ کے متعلق ) احمدی غیر احمدی میں فرق (مضمون) مجاہدین علاقہ ارتداد کے استقبال میں تقریر تقریر جلسه سالانه (۲۷ دسمبر ) * مجاہدین علاقہ ارتداد سے خطا.تبلیغ ملکانہ کیلئے روپیہ کی ضرورت نجات تقریر جلسہ سالانہ / متفرق امور خوشنودی نامه بنام مجاہدین علاقه ارتداد احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت (۲۸ دسمبر) دشمن کی شرارت کا مقابلہ نہ کرو ماریں کھاؤ اور ہاتھ نہ اٹھاؤ مسائل مختلفہ کا تصفیہ (مضمون) تبلیغ میں کامیابی کا ایک گر * تائید دین کا وقت * بولشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ کیا احمدی گورنمنٹ برطانیہ کے ایجنٹ ہیں؟ ۱۹۲۴ء مجاہدین علاقہ ارتداد سے خطاب کالجوں کے احمدی طلباء سے خطاب میدان ارتداد میں مبلغین کی اشد ضرورت حقیقت کیا ہے؟ دین کیلئے ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار ہو جاؤ بہائی فتنہ اور جماعت احمد یہ (طلباء مدرسہ احمدیہ سے خطاب) * پیغام صلح اور موجودہ مشکلات کا صحیح حل ( تقریر بریڈ لا ہال لاہور ) اسلام پر مغربی علماء کی نکتہ چینی ( تقریر حبیبیہ ہال اسلامیہ کالج لاہور ) تقاریر ثلاثہ (مستورات سے خطاب) * ہدایات برائے مبلغین * تقسیم انعامات کے موقع پر تقریر بہائی فتنہ انگیزوں کا راز کیونکر فاش ہوا ؟ قول الحق ( حضرت مسیح موعود پر غیر احمدی علماء کے عتراضات کا جواب) پیشہ طبابت کے متعلق ہدایات (ڈاکٹر محمد شاہنواز صاحب کو ) امام جماعت احمدیہ کا عزم یورپ یاد ایام پاکیزگی اختیار کرو تا خدا تمہارے ذریعہ اپنا طلباء مدرسہ احمدیہ کے جلسہ دعوت میں تقریر قدس ظاہر کرے مفتی محمد صادق صاحب کے اعزاز میں * اغراض سفر کی اہمیت اور مشکلات تقریب) سمندر پار کی آواز
انگلستان کی روحانی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے افراد سلسلہ کی اصلاح وفلاح ( محترمہ امتہ ائی * پیغام آسمانی (لندن میں لیکچر ) حضور کا پیغام اہل لندن کے نام حضور کا پہلا انگریزی لیکچر کانفرنس مذاہب میں کامیاب لیکچر بیگم صاحبہ کی وفات پر ) کارکنان نظارت اور صدرانجمن احمد یہ کے ایڈریس کا جواب افتتاحی تقریر جلسه سالانه (۲۶ دسمبر ) مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کی عظیم قربانی * بہائی ازم کی تاریخ و عقائد ہندوستانی طلباء کا ایڈریس اور اسکا جواب ( تقریر جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) لندن میں ہندوستانی طلباء سے گفتگو مکتوب بنام ایڈیٹر الفضل * مستورات سے خطاب جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر) ہندوستان کے حالات حاضرہ اور اتحاد پیدا * مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کی شہادت کا کرنے کے ذرائع ( سیاسی لیکچر ) * رسول کریم کی زندگی اور تعلیم ( لیکچر ) اساس لاتحاد * کانفرنس مذاہب کے اختتام پر لیکچر لندن کے نو مسلموں کو پیغام احمدیت ذکر ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) - احمدیت یعنی حقیقی اسلام (مضمون) مجمع البحرین لندن کی مسجد کے سنگ بنیاد پر حضور کا مضمون سفر یورپ کی غیر معمولی کامیابی (انگریزی میں ) مذهبی مسائل پر گفتگو ساکنانِ دار الرحمت کے سپاسنامہ کا جواب لندن مشن کے متعلق ہدایات فرقہ وارانہ نیابت کا سوال اور اس کاحل احمدیہ انٹر کالجیئٹ ایسوسی ایشن لاہور ۱۹۲۵ء کے نوجوانوں سے خطاب اساتذہ و طلباء مدرسہ احمدیہ سے خطاب * جماعت سے اپیل کہ ایک لاکھ روپیہ تین ماہ * اسا تذہ وطلباء ہائی سکول سے خطاب کے اندر جمع کردیں دار الامان کی وسعت کا خیال اور اس کیلئے عملی احمدی مستورات کے ٹرینگ سکول کے افتتاح لندن میں حضور کی بہائیوں سے گفتگو احمدی افغانان قادیان کے ایڈریس کا جواب کوشش تختی جہاز پر لیڈی لٹن سے گفتگو
پر تقریر ۸۰سم کی مراجعت پر تقریر جلسہ تقسیم انعامات احمد یہ ٹورنامنٹ میں تقریر * حکومت کابل کی ظالمانہ کارروائیوں پر اعلیٰ درجہ کے اردو لٹریچر کے مطالعہ کا ارشاد صبر وسکون سے کام لو * مجاہدین شام کی الوداعی دعوت میں تقریر حج بیت اللہ اور فتنہ مجاز * جماعت احمدیہ کے عقائد مخالفین کے بارہ میں جماعت احمدیہ کو نصیحت مولوی محمد دین صاحب کے اعزار میں سینگ مین ایسوسی ایشن کی دعوت چائے میں تقریر چند ضروری باتیں * آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے پروگرام پر ایک مولوی محمد دین کے اعزاز میں طلباء مدرسہ نظر احمدی طلباء کو نصائح احمدیہ کی دعوت چائے پر تقریر جدائی کا فلسفہ تبلیغ کے متعلق نصائح ( حضرت مولوی رحمت یورپ میں تبلیغ اسلام کی ضرورت واہمیت علی صاحب کی روانگی پر تقریر ) * جماعت احمد یہ کا جدید نظام عمل طلباء مدرسہ احمدیہ کی طرف سے شیخ محمود احمد صاحب کے ایڈریس میں تقریر احمد یہ ٹورنامنٹ کے جلسہ تقسیم انعامات میں احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت تقریر مجاہدین شام کی واپسی پر طلباء مدرسہ احمدیہ کی طلباء مدرسہ احمدیہ کے ایڈریس کے جواب میں دعوت میں تقریر تقریر ( قاضی امیر حسین صاحب کی خدمت بیش قیمت نصائح احمدیہ انٹر کالجینٹ میں) افتتاحی تقریر جلسه سالانه (۲۶- دسمبر ) منہاج الطالبین ( تقریر جلسه سالانه ۲۷-۲۸ دسمبر ) مستورات میں تقریر ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) ایسوسی ایشن لاہور کے ممبران سے خطاب چھاؤنیوں میں رہنے والے احمدی (لاہور چھاؤنی میں تقریر ) احمد یہ ٹورنامنٹ کے جلسہ تقسیم انعامات میں تقریر دشمن میں تبلیغ احمدیت حضرت مولوی محمد دین صاحب مبلغ امریکہ * طالبات مدرسہ خواتین میں تقریر
حق الیقین (مضمون) جماعت احمدیہ شملہ کے ہفتہ وار جلسہ میں تقریر افتتاحی تقریر (جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) مذہبی رواداری کی بے نظیر مثال متفرق امور ( تقریر جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ) مسلمانوں کی انفرادی اور قومی ذمہ داریاں مسئلہ نبوت ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) * ہندو مسلم اتحاد کے متعلق تجاویز (شملہ ) مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت ۱۹۲۷ء ہندو مسلم فسادات ان کا علاج اور مسلمانوں کا حضرت مسیح موعود کی آواز پر لبیک کہنے والوں آئندہ طریق عمل ( تقریر بریڈ لا ء ہال لاہور ) کا اجتماع ( افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) مستورات میں تقریر ( جلسہ سالانہ ۲۷ - دسمبر ) مذہب اور سائنس ( تقریر حبیبیہ ہال لاہور ) قصور میں ملک غلام محمد صاحب کی فلور ملز میں تقریر دلپذیر ( جلسہ سالانہ ۲۷ - دسمبر ) تقری فسادات لاہور پر تبصرہ اسلام کی آواز * حضرت مسیح موعود کے کارنامے ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) مسلمانوں کا اہم فرض سائمن کمیشن کے متعلق * آپ اسلام اور مسلمانوں کیلئے کیا کر سکتے ۱۹۲۸ء ہیں؟ منشی فرزند علی خان صاحب کی خدمت میں رسولِ کریم سے محبت کرنے والے کیا اب بھی طلباء مدرسہ احمدیہ کے ایڈریس کے موقع پر تقرير بیدار نہ ہونگے ؟ رسول کریم کی عزت کا تحفظ اور ہمارا فرض سائمن کمیشن اور پنجاب کونسل * کیا آپ اسلام کی زندگی چاہتے ہیں؟ امریکہ اور ماریشس کے مبلغین کی دعوت میں * اسلام کے غلبہ کیلئے ہماری جد و جہد تقریر عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبی اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے؟ سرحد سے ہندؤوں کا اخراج ملاپ کی شرانگیز (مضمون) تحریر دنیا کا حسن ( تقریر ) موجودہ بے چینی کے چند شاخسانے دین کی راہ میں قربانی سے نہ گھبراؤ (مضمون) فیصله در تمان“ کے بعد مسلمانوں کا فرض ''پیغام صلح کا پیغام جنگ (مضمون)
۴۸۲ اظہار حقیقت * جامعہ احمدیہ کے افتتاح کے موقع پر تقریر توحید باری تعالیٰ کے متعلق آنحضرت کی تعلیم * نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح مسئلہ ذبیحہ گائے ملک غلام فرید صاحب کے اعزاز میں دعوت * مذبح قادیان کے انہدام کے متعلق احمدی خواتین کے فرائض اور ذمہ داریاں میں تقریر مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے اعزاز میں نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے کئے جاتے دعوت میں تقریر ( طلباء) مولوی عبد الرحیم صاحب درد کے اعزاز میں احمدی مبلغین کی خدمات اور احمدی نوجوانوں دعوت ( کارکنان سلسلہ ) میں تقریر سے خطاب مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے اعزاز میں وسیع ہمت اور بلند ارادوں کے ساتھ کوشش بھی طلباء جامعہ احمدیہ کی دعوت میں تقریر کرو لجنہ اماءاللہ کی دعوت میں تقریر افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) قرآن کریم کی سابقہ الہامی کتب پر فضیلت مستورات میں تقریر ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) ١٩٢٩ء * لڑکوں اور لڑکیوں میں تقسیم انعامات کے جلسہ ۲۸ - دسمبر) * ہدایت کے متلاشی کو کیا کرنا چاہیئے ؟ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر (جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) چند اہم اور ضروری امور ( خطاب جلسہ سالانہ میں تقریر قرآن کریم کی افضلیت کے عقلی نقلی شواہد لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی تغییر ( تقریر جلسه سالانه ۲۹ - دسمبر ) لاہور میں تقریر ) ١٩٣٠ء رسول کریم ایک انسان کی حیثیت میں مولوی ابو بکر صاحب انڈونیشین کی روانگی کے * رسول کریم ایک نبی کی حیثیت میں موقع پر تقریر کامیابی * حکیم فضل الرحمان صاحب کی آمد پر تقریر * پنجاب سائمن کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ ( طلباء مدرسہ احمدیہ کی دعوت )
۲۸۳ * حکیم فضل الرحمان صاحب کی آمد پر تقریر (مرکزی مبلغین کی دعوت ) ١٩٣١ء ندائے ایمان نمبر ۲ دین کی خدمت خدا کیلئے کرو نہ کہ بندوں کیلئے خلافت کی اہمیت خلافت وحدت قومی کی جان ( طلباء ہائی سکول کی دعوت ) ندائے ایمان نمبرا نہرو کمیٹی کی تمہ رپورٹ پر تبصرہ * اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں احمدی طلباء اور زبان دانی * گول میز کانفرنس اور مسلمانوں کی نمائندگی طلباء ہائی سکول سے خطاب مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب کی الوداعی تحفہ لارڈارون (مضمون) دعوت میں تقریر رسول کریم ایک دشمن کی نظر میں رسول کریم ایک ملہم کی حیثیت میں گورنمنٹ اور آریوں سے خطاب * جماعت احمد یہ دہلی کے ایڈریس کا جواب زمینداروں کی مشکلات کا حل عرفان الہی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ جس پر ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی حالت رسول کریم دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے.( تقریر ) لڑکیوں کی تعلیم و تربیت مبلغین سائر او جاوا کی دعوت کے موقع پر تقریر مبلغین لندن اور دمشق کی دعوت، طلباء مدرسہ * احمدیہ میں تقریر مبلغین سماٹر او جاوا کونصائح امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت * دنیا میں ترقی کرنے کے گر ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل * امیر اہل حدیث کے چیلنج کا جواب افتتاحی تقریر (جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) مسلمانانِ جموں و کشمیر کی حالت اور مسلمانوں مستورات میں تقریر ( جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ) کا فرض * تفسیر نویسی کے متعلق مولوی ثناء اللہ صاحب کو احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی * چیلنج ( تقریر جلسه سالانه ۲۷- دسمبر ) صدقہ و خیرات اور حقوق العباد کے متعلق مومنوں کیلئے قربانی کا وقت قضیہ کشمیر کے متعلق چند تلخ و شیریں یا دیں اسلام کی جامع تعلیم * آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام اور اس کا کام ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) * آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور احرار اسلام
۴۸۴ مظلمومین کشمیر کے متعلق مسلمانانِ ہندوستان اپنا فرض ادا کریں * * ریاست کشمیر مسلم نمائندگان کے درمیان چاہئے شرائط صلح پر ایک نظر مبلغین جماعت احمدیہ کو ضروری ہدایات انعام حاصل کرنے کیلئے ہر ایک کو کوشش کرنی احمدی طلباء کو دنیا کے فتح کرنیکی تیاری کرنی مدیر اخبار وفاء العرب دمشق سے گفتگو حریت انسانی قائم کرنے والا رسول چاہئے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمان * نبی کریم کے پانچ عظیم الشان اوصاف جماعت احمد یہ دہلی کی دعوت میں تقریر * مہاراجہ کشمیر کے بیان پر اظہار اطمینان سید محمد شریف صاحب کے اشتہار مباہلہ نمبر ۳ * چھوٹے اور بڑے سب مل کر کام کریں کا جواب * مسلمانان کشمیر کی فوری ضروریات- اگر آج گلینسی رپورٹ کے متعلق ہدایات آپ امداد نہیں کرتے تو کل پچھتائیں گے دفاتر صدرانجمن کی جدید عمارت کے افتتاح پر اللہ تعالیٰ کے فضل کا شکریہ اور آئندہ کیلئے جماعت کو ہدایت افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) اہم اور ضروری امور ( تقریر جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) تقریر * الہی سلسلہ کے ابتدائی ایام کے کارکنوں کا مقام مسئلہ کشمیر "پیغام صلح اور الفضل سلسلہ احمدیہ کی تعلیم قرآن کریم کو ہی کلام اللہ ہونے کا شرف * صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا پیغام مسلمانانِ حاصل ہے ( تقریر جلسہ سالانہ ۲۸ - دسمبر ) ریاست کشمیر کے نام احمدیت کی کامیابی پر یقین رکھو.آنحضرت کی سادہ زندگی من کی حقیقت (بنی اسرائیل پر نازل ہونے * رسول کریم نے صحیح تمدن کی بنیا د رکھی والے من کی حقیقت) ندائے ایمان نمبر ۳ ١٩٣٢ء افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) مستورات میں تقریر ( جلسہ سالانہ ۲۷ - دسمبر ) اہم اور ضروری امور تبلیغ احمدیت کے متعلق ایک اہم تقریر ( تقریر جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر )
۴۸۵ رسول کریم کی بعثت کے متعلق پیشگوئیاں مستورات میں تقریر ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف برداشت کرنا حضرت مسیح موعود کی وحی کے متعلق پر معارف مومن کا خاصہ ہے ١٩٣٣ء تقریر (جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) اسوۂ کامل دنیا میں سچا مذ ہب صرف اسلام ہی ہے * برادرانِ کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا قرآن کریم پر سیتا رتھ پرکاش کے اعتراضات مکتوب اول کی حقیقت غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات * صداقت اسلام معلوم کرنے کا طریق * برادرانِ کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا مکتوب دوم ۱۹۳۴ء ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تو گل * احمدیت کے اصول پر ہونی چاہئے احمد یہ سپورٹس کلب کے ڈنر میں تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں جو * مسجد کا دروازہ ہر مذہب کے عبادت گزاروں نعمتیں ملی ہیں ان کی عظمت پہنچا نو ! * میری ساره * کیلئے کھلا رہنا چاہئے تبلیغ حق احمدیوں کو اردو سیکھنے کیلئے حضرت مسیح موعود کی سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو کتب پڑھنی چاہئیں دعوت حق ندائے ایمان نمبر ۴ * عربی زبان کا مقام الْسِنَهُ عَالَم میں پکارنے والے کی آواز * کیا انسان مذہب کا محتاج نہیں؟ آہ نادر شاہ کہاں گیا“ حضرت مسیح موعود کی صداقت کے تین شاہد رحمة اللعلمين (مضمون) افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) مبلغین جماعت احمد یہ کونصائح اہم اور ضروری امور حکومت پنجاب اور جماعت احمدیہ ( تقریر جلسہ سالانہ ۲۷ - دسمبر ) افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر )
۴۸۶ مستورات میں تقریر ( جلسہ سالانہ ۲۷ - دسمبر ) احرار خدا تعالیٰ کے خوف سے کام لیتے ہوئے حالات حاضرہ کے متعلق جماعت کو اہم نصائح مباہلہ کی شرائط طے کریں (مضمون) ( تقریر جلسہ سالانہ ۲۷ - دسمبر ) * جماعت احمدیہ کو نصائح حضرت مسیح موعود کی وحی کے متعلق پر معارف کیا احرار واقع میں مباہلہ کرنا چاہتے ہیں؟ آل انڈیا نیشنل لیگ کی والنٹیئر کور سے خطاب احمدی نوجوانوں کو نصائح تقریر (جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) اصلاح ہمارا نصب العین ۱۹۳۵ء زنده خدا کا زنده نشان سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں زلزلہ کوئٹہ بانی مسلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے حضور کا بیان * جماعت احمد یا کناف عالم تک پھیل کر افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۵ - دسمبر ) رہے گی سپیشل مجسٹریٹ گورداسپور کی عدالت میں بیان بسنت ہال حیدر آباد میں تقریر مستورات میں تقریر ( تقریر جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) تحریک جدید کے مقاصد اور انکی اہمیت ( تقریر جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) کوئٹہ کا زلزلہ اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داری دنیا کی تاریخ میں احمدیت کیا تغیر پیدا کرنا احرار اور منافقین کے مقابلہ میں ہم ہرگز کوئی چاہتی ہے.( تقریر جلسہ سالانہ ۲۷- دسمبر ) کمزوری نہیں دکھا ئیں گے..ڈاکٹر سر محمد اقبال اور جماعت احمدیہ نمبرا منتظمین جلسہ سالانہ کو ہدایات اور کارکنان کا جماعت احمدیہ کے متعلق حکومت پنجاب کے آل انڈیا نیشنل لیگ کور کے متعلق اظہار خوشنودی بعض افسروں کا قابل مذمت رویہ حقیقت حال (مضمون) نو جوانوں کو کام کرنے کی تلقین اور لندن میں طلباء کو ہم نصائح تبلیغ اسلام ١٩٣٦ء مجلس احرار کا مباہلہ کے متعلق نا پسندیدہ رویه مبلغین سلسلہ کو اہم ہدایات (مضمون) * * مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کی اہمیت
طلباء مدرسہ احمدیہ و جامعہ احمدیہ سے خطاب مقابلہ میں بہادرانہ طریق اختیار کرنا چاہیئے صنعتی سکول کے افتتاح کے موقع پر تقریر قیام امن اور قانون کی پابندی کے متعلق * وہی ہمارا کرشن (یوم تبلیغ پر مضمون ) * اچھوت بھائیوں کے نام * جماعت احمدیہ کا فرض آل انڈیا نیشنل لیگ کو رز کے اجتماع لاہور میں تحریک جدید کے متعلق ایک اہم تقریر تقریر سر میاں فضل حسین صاحب کی وفات پر تقریر افتتاحی تقریر (جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) حکومت برطانیہ کا تازہ انقلاب اور " الفضل" * مصری فتنہ کے متعلق اور مختلف امور افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) ( تقریر جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) مستورات میں تقریر (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) * انقلاب حقیقی ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) * تقریر جلسہ سالانہ (۲۷ - دسمبر ) تمہاری عمر کھیل کود کی عمر نہیں بلکہ ایک نئی ترتیب قرآن اور استعارات کی حقیقت دنیا بسانے اور نیا عالم تعمیر کرنے کی ہے ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ۱۹۳۸ء ١٩٣٧ء چندہ تحریک جدید اور دیگر مطالبات سے متعلق صاحب اور جماعت احمدیہ خطاب نصرت گرلز ہائی سکول میں ایک اہم تقریر فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد * جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ.تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے نتائج افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) دنیا کی تمام زبانیں سیکھو اور خدمت اسلام میں كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان بڑی سے بڑی قربانی کو بیچ سمجھو جماعت احمدیہ کے خلاف تازہ فتنہ میں میاں کیسے ہونے چاہئیں فخر الدین ملتانی کا حصہ موجودہ فتنہ میں کفر کی تمام طاقتوں کا ہمارے کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات خلاف اجتماع ہماری صداقت کا روشن ترین آسمان روحانیت کے دروازے کھل گئے تقریر جلسه سالانه (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) ثبوت ہے * جماعت احمدیہ کے تمام افراد کو مشکلات کے خواتین سے خطاب (جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر )
۴۸۸ تقریر سیر روحانی نمبر ا ( جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) * جلسہ سیرۃ النبی میں تقریر * عراق کے حالات پر تبصرہ آنحضرت اور امن عالم احمدی طلباء سے بصیرت افروز خطاب اللہ تعالی خاتم النبین اور امام وقت نے مسیح احباب جماعت اور اپنی اولاد سے اہم خطاب موعود کو رسول کہا ہے ١٩٣٩ء * روس اور موجودہ جنگ مولوی محمد علی صاحب میرے خطبہ کے جواب میں افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) * مولوی محمد علی صاحب کی تازہ چٹھی کا جواب خواتین سے خطاب (جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ) افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) متفرق امور تقریر (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) مستورات خطاب (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) اہم امور پر ارشادات (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) خلافت راشده ( تقریر جلسه سالانه ۲۸-۲۹ دسمبر ) سیر روحانی نمبر ۳ ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) ١٩٤٠ء میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا * ہمارا آئندہ رویہ (مضمون) ۱۹۴۲ء کی تحریک امته الودود میری بچی اجتماع خدام الاحمدیہ میں خطاب افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۵ - دسمبر ) چاند میرا چاند * مستورات سے خطاب افتتاحی تقریر (جلسه سالانه ۲۶ دسمبر ) (جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) * مستورات سے خطاب چند ضروری ارشادات (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) (جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) * تقریر سیر روحانی نمبر ۲ ( جلسہ سالانہ ۲۸ دسمبر ) * نظام نو ( تقریر جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) ١٩٤١ء ١٩٤٣ء خدام الاحمدیہ کے تیسرے سالانہ اجتماع میں * بر باد کرنے والا علم تقریر افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر )
۴۸۹ مستورات سے خطاب (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) مسائل حاضرہ پر تقریر ( تقریر جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) اسوه حسنه ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) مستورات میں تقریر (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) اہم اور ضرور امور پر خطاب (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) الموعود ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) مجلس انصاراللہ کے سالانہ اجتماع پر تقریر تم میں سے ہر ایک وہی نمونہ دکھائے جو غزوہ ۱۹۴۴ء تقریر جلسہ ہوشیار پور تقریر جلسہ لاہور تقریر جلسه لدھیانہ تقریر جلسہ دہلی حسنین کے موقع پر صحابہ کرام نے دکھایا سيرة رسول كريم لجنہ اماءاللہ سے خطاب ساری دنیا میں تبلیغ احمدیت کیلئے زندگی وقف کرنے کی تحریک * اپنے آپ کو خدمت دین کیلئے وقف کرو اجتماع انصار اللہ میں خطاب قادیان کے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام ( تقریر ) روزانہ کم از کم ایک نماز مسجد مبارک میں پڑھے ۱۹۴۵ء اس کی حکمت مزار حضرت مسیح موعود پر چالیس روزہ دعا اور اسلام کا اقتصادی نظام ( تقریر ) خدا کی بات پھر پوری ہوئی تعلیم الاسلام کا لج کے قیام کی غرض و غایت قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کے متعلق فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا قیام اور اس کے جماعت احمدیہ کو پُر زور تاکید اغراض و مقاصد میری مریم آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی * خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں تقریر سرزمین فلسطین کے متعلق قرآن کریم کی فضل عمر ہوٹل کے افتتاح کے موقع پر خطاب قربانیوں کی عید افریقہ جانے والے مبلغین کے اعزاز میں پیشگوئی تقریب سے خطاب افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) *
۴۹۰ افریقہ کی سرزمین کا اسلام کی ترقی کے ساتھ افتتاحی تقریر جلسه سالانه (۲۶- دسمبر ) نہایت گہرا تعلق ہے.* مستورات سے خطاب مجلس خدام الاحمدیہ کا آئندہ کیلئے تفصیلی (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) پروگرام * سال کے اہم واقعات پر تبصرہ نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر) جاتی ہیں ( تقریر جلسہ سالانہ ۲۷ - دسمبر ) اختتامی تقریر ( جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) خطاب جلسه سالانه (۲۸ - دسمبر ) زمین کی عمر ( تقریر ) سفر دہلی کی تفصیل ایک بصیرت افروز تقریر اسلام نے فطرت کے ہر تقاضہ کا لحاظ رکھا ہے مصلح موعود کا مقام ( مجلس مشاورت تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء سے خطاب ۱۹۴۶ء کی افتتاحی تقریر ۱۹- اپریل ) نمائندگان جماعت احمدیہ سے خطاب تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء سے خطاب (۲۱- اپریل) پارلیمینٹری مشن اور ہندوستانیوں کا فرض دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش (مضمون) کرتا ہے؟ ( یارک روڈ نئی دہلی میں تقریر ) نمائندگان جماعت احمد یہ لاہور سے خطاب موجودہ زمانہ کی ہولناک تاریکی تقاضا کرتی * زمانہ گذشتہ میں یورپ میں اسلام یورپ کا پہلا احمد ہی شہید شریف دوستا (مضمون) فریضہ تبلیغ اور احمدی خواتین ( تقریر جلسه لجنہ اماءاللہ دہلی) ہے کہ آسمان سے نور ہدایت نازل ہو ایک اہم تقریر (۲۹ - اپریل ) * صرف اسلام ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسکی مذہبی اور الہامی ) * خدام الاحمدیہ سے خطاب مولانا جلال الدین صاحب شمس کے اعزاز ۱۹۴۷ء میں تقریب سے خطاب چائے کی دعوت میں تقریر خدام الاحمدیہ کے آٹھویں اجتماع میں تقریر ہم تو ہر حال میں مظلوموں کا ساتھ دیں گے ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے خواہ وہ ہمیں دکھ ہی دیں
۴۹۱ مؤمن خدا کا مینار ہے جس سے دنیا کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں.قو میں اخلاق سے بنتی ہیں مشرقی اور مغربی پنجاب کا تبادلہ آبادی ہندوستانی الجھنوں کا آسان ترین حل * پاکستان کی سیاست خارجہ خوف اور امید کا درمیانی راستہ اختیار کرو قادیان (i) * سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل * جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت * کچھ تو ہمارے پاس رہنے دو قادیان (ii) پاکستان کا مستقبل دفاع زراعت اور صنعت قادیان کی خون ریز جنگ کے لحاظ سے * سیاست پاکستان پاکستان کا مستقبل نباتی ، زراعتی، حیوانی اور * پاکستان کا دفاع (i) پاکستان کا دفاع (ii) معدنی دولت کے لحاظ سے پاکستان کا مستقبل معدنی دولت کے لحاظ سے * پاکستانی فوج اور فوجی مخزن پاکستان کا مستقبل اسکی بڑی فضائی اور بحری کشمیر اور حیدرآباد دفاعی طاقت کے لحاظ سے ⭑ کشمیر کی جنگ آزادی افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) * پاکستان کی اقتصادی حالت دوسرا خطاب (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) اختتامی تقریر (جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) کشمیر اور پاکستان الَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کی تشریح سپریم کمانڈر کا خاتمہ جب بھی دل میں نیکی کی کوئی تحریک پیدا ہو مسٹرائیلی کا بیان ۱۹۴۷ء - ۱۹۴۸ء صوبجاتی مسلم لیگ کے عہدیداروں میں تبدیلی حضور کا نام لکھے بغیر مضامین بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر ۱۱ صفحه ۵۶ صفحه ۵۷) کانگریس ریزولیشن * پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات برطانیہ اور مسلمان گوالیار کے مسلمان خطرے میں.تقسیم فلسطین کے متعلق روس اور U.S.A کے اتحاد کا راز * مسلم لیگ پنجاب کا نیا پروگرام
کشمیر کے متعلق صلح کی کوشش (i) ۴۹۲ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ لاہور کشمیر کے متعلق صلح کی کوشش (ii) آخر ہم کیا چاہتے ہیں؟ دوسری تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ لاہور ٹاؤن ہال کوئٹہ میں لیکچر خطرہ کی سُرخ جھنڈی خواتین اسلام سے خطاب پاکستان اور ہندوستان یونین صلح یا جنگ ( تھیوسافیکل ہال کراچی) قادیان ننکانہ اور کشمیر ١٩٤٨ء * موجودہ حالات میں عالم اسلام کی حیثیت اور اسکا مستقبل ( لیکچر مینارڈ ہال لاہور ) پاکستان کی حکومت اور عوام کو فتھ کالم سے نیا ماحول اور نئی ذمہ داریاں ( قادیان کیلئے خبر دار رہنا چاہیئے پاکستان کا آئین پیغام) دیباچہ تفسیر القرآن (مضمون) * کشمیر قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ ہے * اسلام کا آئینی اساس (لا ہور میں لیکچر ) پاکستانیوں سے چند صاف صاف باتیں.۱۹۴۹ء ( خالق دینا ہال کراچی) اُردو پاکستان کی ہی نہیں ہندوستان کی بھی دعوت میں تقریر زبان بننے والی ہے جرمن تو مسلم عبدالشکور کنزے کے اعزاز میں جماعت احمد یہ اور حکومت مجاز کی وفاداری افتتاحی تقریر (جلسه سالانه مارچ ۱۹۴۸ء) * افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۱۹۴۸ء سیر روحانی ( نمبر ۴) منعقده ۵ - اپریل ۱۹۴۹ء) ( تقریر جلسہ سالانہ مارچ ۱۹۴۸ء ) خواتین سے خطاب (جلسہ سالانہ ۱۹۴۸ء الْكُفْرُ مِلَّةً وَّاحِدَةً (اردو) منعقدہ اپریل ۱۹۴۹ء) مسلمانان بلوچستان سے خطاب (کوئٹہ) متفرق امور پر تقریر ( جلسه سالانه ۱۹۴۸ء مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب ”ربوہ“ کے افتتاح پر خطاب احمدیت کا پیغام (مضمون سیالکوٹ کے جلسہ کیلئے ) منعقدہ اپریل ۱۹۴۹ء) * اختتامی تقریر ( جلسه سالانه ۱۹۴۸ء منعقدہ اپریل ۱۹۴۹ء) ربوہ کے پہلے جلسہ سالانہ کا پس منظر
۴۹۳ مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ کے ایڈریس کے دینیات سے خطاب جواب میں تقریر لجنہ اماءاللہ کوئٹہ سے خطاب * اسلام اور موجودہ مغربی نظریے ( تقریر پارک ہاؤس کوئٹہ ) تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ کے طلباء کی دعوت میں تقریر لجنہ اماءاللہ لاہور سے خطاب لجنہ اماءاللہ کوئٹہ سے خطاب مسجد مبارک ربوہ کے سنگ بنیاد کی تقریب * اجتماع خدام الاحمدیہ میں خطاب میں خطاب اجتماع خدام الاحمدیہ سے عہد تعلیم الاسلام کالج لاہور کے طلباء سے خطاب * اجتماع خدام الاحمدیہ سے خطاب * خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں تقریر بھیرہ میں جماعت سے خطاب * سرگودھا میں پبلک لیکچر افتتاحی تقریر (جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) کشمیر میں استصواب رائے کے متعلق بیان مستورات سے خطاب افتتاحی تقریر (جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) مستورات سے خطاب (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) دوسری تقریر (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) اسلام اور ملکیت زمین جماعت احمد یہ راولپنڈی سے خطاب احمدی نوجوانوں سے خطاب * خدام الاحمدیہ کوئٹہ سے خطاب ۱۹۵۰ء (جلسه سالانه ۲۷- دسمبر ) تقریر جلسه سالانه (جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) سیر روحانی نمبر ۵ ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) ۱۹۵۱ء جامعه نصرت ربوہ کا افتتاح اور حضور کا خطاب نوجوانانِ جماعت کو اہم نصائح نوجوانان جماعت سے خطاب ( تربیتی کلاس) * جلسه یوم تحریک جدید پر خطاب بیرون ممالک سے تشریف لانے والے * اجتماع خدام الاحمدیہ میں خطاب احباب سے خطاب جامعۃ المبشرین میں خطاب تعلیم الاسلام کالج لاہور کے طلباء سے خطاب افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶- دسمبر ) مبلغین اسلام علمائے جماعت اور طلباء تقریر ( جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر )
۴۹۴ چشمہ ہدائت ( تقریر جلسہ سالانہ ۲۷ - دسمبر ) اجتماع خدام الاحمدیہ میں خطاب سیر روحانی نمبر 1 ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) * دفاتر صدرانجمن، تحریک جدید کے افتتاح پر تقری جلسہ سیرۃ النبی میں تقریر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء سے خطاب * تقریر جلسه سالانه (۲۷ - دسمبر ) * موت آدمیوں کے مرنے کا نام نہیں ( تقریر) سیر روحانی نمبرے ۱۹۵۲ء ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) اتحاد المسلمین حیدرآباد سندھ میں تقریر ) * مسئلہ خلافت کے متعلق تقریر ( مومن کا کام ہے کہ..( تقریر) * مساجد فتنہ کو پناہ نہیں دیتیں ( تقریر ) احرار کو چیلنج اخبار ”پیغام صلح کی تردید اجتماع خدام الاحمدیہ ( افتتاحی تقریر ) ( اجتماع خدام الاحمدیہ ) ۱۹۵۴ء دین کی خدمت کا ثواب دائمی ہے ( تقریر ) اجتماع خدام الاحمدیہ میں خطاب (افتتاحی) اجتماع خدام الاحمدیہ میں خطاب (اختتامی) اجتماع خدام الاحمدیہ (اختتامی تقریر ) طلبا تعلیم الاسلام کالج کے طلباء سے خطاب * جلسہ تقسیم انعامات (جامعه نصرت ربوہ ) افتتاحی تقریر (جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) خواتین میں تقریر ( جلسہ سالانہ ۲۷ - دسمبر ) افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) تقریری مستورات میں (جلسہ سالانہ ۲۷ - دسمبر ) * تقریر جلسه سالانه (۲۷ - دسمبر ) * تقریر جلسه سالانه (۲۷- دسمبر ) سیر روحانی نمبر ۸ ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) تعلق بااللہ ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر )) * طلباء کو زریں ہدایات ۱۹۵۳ء ۱۹۵۵ء * اگر تم نے احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے تو ہیمبرگ کے نازی ہال میں تقریر (جرمنی) (تقرير) انصار الله / خدام الاحمدیہ کے اجتماع سے خطاب فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں خطاب حقیقی اسلام ( تقریر ) (اختتامی)
۴۹۵ سید زین العابدین صاحب کی دعوت میں تقریر ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) * تقریر جلسه سالانه (۲۷ - دسمبر ) سیر روحانی نمبر ۹ سیر روحانی نمبر ۱۰ تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) ۱۹۵۷ء * کراچی میں یوم مصلح موعود پر خطاب مغربی افریقہ میں تبلیغ کیلئے پانچ مبلغین کے * خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب اعزاز میں دعوت میں تقریر بری تقدیر ( تقریر ) ۱۹۵۶ء اجتماع خدام الاحمدیہ میں تقریر ( افتتاحی ) دعوی مصلح موعود کے متعلق اعلان اجتماع خدام الاحمدیہ میں خطاب (اختتامی ) طلباء سے خطاب اجتماع انصار اللہ میں خطاب مسلمان طلباء کو نصائح ( گورنمنٹ کالج لاہور کے افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ (۲۶- دسمبر ) منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق اعلان تقریر جلسه سالانه (۲۷ - دسمبر ) کراچی میں خدام الاحمدیہ سے خطاب سیر روحانی نمبرا خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں خطاب ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) (۲۴- اپریل) خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں خطاب (۲۸- اپریل ( یکم مئی ) انصار اللہ کے اجتماع میں خطاب (افتتاحی) انصار اللہ کے اجتماع میں خطاب (اختتامی) اجتماع مستورات میں خطاب افتتاحی تقریر ( جلسه سالانه ۲۶ - دسمبر ) * نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس ۱۹۵۸ء اجتماع انصار اللہ سے خطاب افتتاحی تقریر جلسه سالانه (۲۶ - دسمبر ) تقریر جلسه سالانه (۲۷ - دسمبر ) سیر روحانی نمبر ۱۲ ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر ) ۱۹۵۹ء منظر ( تقریر جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر ) * لائل پور کے طلباء سے خطاب خلافت حقہ اسلامیہ * مجلس انصاراللہ کراچی سے خطاب
۴۹۶ اجتماع خدام الاحمدیہ میں خطاب اجتماع انصار اللہ میں خطاب * تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۵۹ء (۲۴- جنوری ۱۹۶۰ء) ١٩٦٠ء عید الاضحی کے متعلق مضمون افتتاحی تقریر جلسه سالانه (۲۶ - دسمبر ) اختتامی تقریر جلسه سالانه (۲۸ - دسمبر ) الوصیت اور پیشگوئی مصلح موعود کے متعلق وضاحت ۱۹۶۱ء افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۲۷ - دسمبر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھی ) اختتامی تقریر جلسه سالانه ۲۸ - دسمبر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھی)
۴۹۷ استحکام خلافت
مونم ” خلیفہ خدا بنایا کرتا ہے.اگر ساری دنیا مل کر خلافت کو تو ڑنا چاہیے اور کسی ایسے شخص کو خلیفہ بنانا چاہے جس پر خدا راضی نہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو اور اس کے سارے خاندان کو اس طرح پیس ڈالے گا جس طرح چکی میں دانے پیس ڈالے جاتے ہیں." (مصلح موعود)
۴۹۹ انسانی تاریخ میں مختلف طرز حکومت کا ذکر ملتا ہے ابتدائی زمانہ میں بادشاہت کا دور نظر آتا ہے جس میں بالعموم کوئی انسان اپنی ذہنی یا جسمانی صلاحیتوں کی بناء پر اپنے ساتھیوں پر فوقیت حاصل کر لیتا اور پھر ان کو اپنا تابع اور مطیع بنا کر ان پر حکومت کرتا.یہ سلسلہ بالعموم وراثت میں چلتا اور آہستہ آہستہ ایک خاندان کی حکومت ختم ہو کر دوسرا کوئی اور خاندان سامنے آجاتا ہے.بادشاہت کی متعدد اور مختلف شکلیں سامنے آتی رہیں تا آنکہ جمہوریت کا زمانہ آگیا اور یہ بات عام انسانوں کو بہت ہی بھلی اور پیاری لگی کہ عوام کے ذریعہ عوام کی حکومت ، تاہم ہر ملک اور علاقہ میں وہاں کے حالات کے مطابق جمہوریت کی تعریف اور شکل بدلتی رہی اور موجودہ دور میں جمہوریت کا جو عام تصور ہے وہ یقیناً اس تصور سے بہت مختلف ہے جو ابتداء میں پیش کیا گیا تھا.جمہوریت کی کوکھ سے کئی اور نظام جنم لیتے رہے.کچھ عرصہ پہلے تک کمیونزم اور سوشلزم کا بہت چرچا تھا مگر یہ عجیب بات ہے کہ کمیونزم اپنے عروج کی بلندیوں تک پہنچنے کے بعد زوال کی بد ترین شکل کو پہنچ چکا ہے مگر کبھی بھی اپنی کتابی تعریف کے مطابق کہیں بھی روبہ عمل نہیں آسکا یہی حال سوشلزم کا ہے.اس کا حلیہ بھی ہر جگہ تبدیل ہو تا رہا کبھی اسے کمیونزم کی ابتداء کے طور پر پیش کیا گیا کبھی اس کے ساتھ افریقی سوشلزم کا لاحقہ لگا کر اس کی شکل تبدیل کی گئی اور کبھی اسلامی سوشلزم کے نام سے اسلام سے بھونڈا نداق کیا جاتا رہا.اسلامی نظام حکومت جسے خلافت کا نام دیا جاتا ہے ایک ایسا نظام ہے جسے انسانی نظاموں کے مقابل پر خدائی تائید و نصرت کا غیر معمولی امتیاز حاصل ہے اور اس میں ہر زمانہ کی ضرورت اور حالات کے تقاضوں سے کلی طور پر عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت موجود ہے.یہ نظام جس کی بنیاد قرآن مجید میں پیش کی گئی اور جس کا عملی نفاذ اور طریق کار خیر القرون میں متعین ہو گیا انسانوں کے بنائے ہوئے طریقوں اور ازموں کے مقابل پر ہمیشہ ہی ایک کامیاب چیلنج کے طور پر موجود رہا.آنحضرت کی پیش گوئی کے مطابق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اس بابرکت نظام کا پھر سے ڈول ڈالا گیا.حضرت مولانا نور الدین نے اپنی قرآنی بصیرت و روشنی سے اس نظام کی برکات کو واضح کیا.حضرت مصلح موعود کو بھی اس مقدس کام کو آگے بڑھانے میں نمایاں خدمات بجالانے کی توفیق حاصل ہوئی.جن کا کسی قدر تذکرہ سوانح کی ابتدائی جلدوں میں بیان ہو چکا ہے.جماعت میں وقتا فوقتا بعض فتنے سر اٹھاتے رہے جن میں وقتی طور پر بہت شدت اور جوش
۵۰۰ و خروش ہو تا تھا مگر حضرت مصلح موعود کی اولو العزم قیادت ، دور اندیشی اور حزم واحتیاط سے وہ خوفناک فتنے یکے بعد دیگرے دیکھتے ہی دیکھتے فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء کے مطابق جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے رہے اور فتنہ کے بانی مبانی اور ان کے ساتھی اور مددگار اپنی طاقت ، تعداد اثر و رسوخ ، علمیت و تقویٰ کے بلند بانگ دعاوی کے باوجود خائب و خاسر اور نسیا منسیا ہو جاتے.تائید الہی اور خدائی نصرت کا یہ نشان اتنی بار دہرایا گیا کہ عقل و بصیرت رکھنے والا ہر شخص یہ سمجھنے اور ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یقینا خد اتعالیٰ کا سایہ آپ کے سر پر تھا جس کی برکت سے آپ ناکامیوں اور نامرادیوں سے محفوظ رہتے اور کامیابیوں کامرانیوں سے نوازے جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعد آنے والی قدرت کو قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ سے تعبیر فرمایا تھا.حضرت مصلح موعود اس کے متعلق فرماتے ہیں.قدرت ثانیہ آئی اور اس کا ظہور ہوا مگر افسوس کئی لوگ ہیں جنہوں نے " اس کو شناخت نہیں کیا.میں دنیا کے ہر مقدس سے مقدس مقام پر کھڑے ہو کر خد اتعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ قدرت ثانیہ کا جو ظہور ہونا تھاوہ ہو چکا.“ (الفضل ۱۹.فروری ۱۹۶) عمائدین سلسلہ احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر حضرت خلیفتہ المسیح الاول مولانا حاجی الحرمین نورالدین کی بیعت کر کے عملاً یہ ثابت کیا کہ وہ خدا کی منشاء و مشیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کے مطابق جماعتی بہتری و ترقی اور اتحاد و اتفاق کیلئے ایک واجب الاطاعت امام و خلیفہ کی بیعت کرنا ضروری سمجھتے ہیں.خلافت کے قیام میں بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے تربیت یافتہ بزرگوں نے اپنے میں سے سب سے زیادہ اَعْلَم اور انقی کو اس منصب کیلئے تجویز کیا مگر در حقیقت یہ خدا تعالٰی کا انتخاب اور خدائی تقدیر تھی جو اس طرح ظاہر ہوئی.وہ جماعت جو دنیا بھر میں اسلام و احمدیت کی ضوفشانی کیلئے بدل و جان مصروف تھی اسے حضرت خلیفہ اول کی وفات کے صدمہ کے ساتھ ہی اس آتش فشاں کا بھی سامنا تھا کہ ایک حلقہ جس میں اچھے پڑھے لکھے تجربہ کار سلسلہ کے پرانے خدام بھی شامل تھے بعض وجوہ سے (جن کے ذکر کی یہاں چنداں ضرورت نہیں خلافت کی ضرورت سے ہی انکار کرنے لگا اور اس طرح اللہ تعالیٰ جس درخت کے خوشگوار سایہ میں جماعت کی تربیت و ترقی کے اسباب و ذرائع مہیا فرما رہا تھا اسے ہی کاٹنے کے درپے ہو گیا.حضرت فضل عمر اس فتنہ کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے
۵۰۱ فرماتے ہیں."پیغامی کس زور سے اٹھے کس شان سے اٹھے کن زبر دست ارادوں سے اٹھے.کیا کیا تدبیریں تھیں جو انہوں نے ہمیں زیر کرنے کیلئے اختیار نہ کیں اور کیا کیا منصوبے تھے جو انہوں نے ہمیں ذلیل کرنے کے لئے نہ باندھے جو شوکت اور جوڑ تبہ اس وقت ان لوگوں کو جماعت میں حاصل تھا آج جو بعد میں آنے والے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.وہ شاید یہی سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ہی غالب رہے ہیں اور وہ ہمیشہ ہی مغلوب رہے ہیں حالانکہ ان ایام میں ان کو اتنا رتبہ اور زور حاصل تھا کہ بہت سے لوگوں کے دل ڈرتے تھے کہ نہ معلوم کیا ہو جائے گا اور بعض تو یہ خیال کرتے تھے کہ شاید وہ ہمیں قادیان سے ہی نکال دیں گے.دنیوی سامان جس قدر ہوا کرتے ہیں وہ سب ان کے ساتھ تھے.صدر انجمن کا نظام ان کے قبضہ میں تھا خزانہ ان کے قبضہ میں تھار سالے اور اخبار ان کے قبضے میں تھے یعنی وہ جو انجمن کے ماتحت تھے بیرونی دنیا میں انہی کا نام روشن تھا جماعت پر ان کو اقتدار حاصل تھا اور بہت سے لوگ اس دُبُدھا اور شک میں پڑے ہوئے تھے کہ کیا اتنے بڑے لوگ بھی غلطی کر سکتے ہیں ؟ پھر وہ ایک عرصہ سے اپنے متعلق جماعت میں پروپیگنڈا کر رہے تھے اور ”پیغام صلح اسی غرض کے لئے انہوں نے جاری کیا ہوا تھا.غرض جماعت میں ایک ہیجان پیدا تھا اور وہ خود دنیوی سامانوں کی کثرت کی وجہ سے اس قدر مغرور تھے کہ انہوں نے ایک دفعہ لکھا کہ ابھی تک تو جماعت کے بیسویں حصہ نے بھی بیعت نہیں کی.گویا خود ان کے اقرار کے مطابق جماعت کے انیس حصے ان کے ساتھ تھے اور صرف ایک حصہ ہمارے ساتھ تھا.لیکن جب کہ جماعت کی تمام اہم چیزیں انہی کے قبضہ میں تھیں جب کہ جماعت کے تمام اہم ادار ے انہی کے پاس تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور کرم کے ساتھ مجھ پر الهام نازل کیا اور فرمایا کہ "کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے اور میں نے یہ الہام ای وقت اشتہارات کے ذریعہ شائع کر دیا جو آج تک دوستوں کے پاس موجود ہونگے...اس طرح اس نے مجھے الہاما فرمایا.کہ لَيُمَزِّ قَنَّهُمْ کہ اللہ تعالیٰ ضروران کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا انہیں پراگندہ کر دے گا اور ان میں اختلاف پیدا کر کے ان کی طاقت کو توڑ دے گا.اس وقت ان لوگوں کے زور کی یہ حالت تھی کہ انہی Jee
۵۰۲ لوگوں میں سے ایک صاحب نے مدرسہ ہائی سکول کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا تھا کہ عمارتیں ہم نے بنائی تھیں اور ہم ہی ان کی حفاظت کر رہے تھے مگر اب جماعت نے غلطی کی جو اس نے ایک بچہ کو خلیفہ بنا لیا اب ہم تو یہاں سے جاتے ہیں مگر ابھی دس سال نہیں گذریں گے کہ ان عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب چھبیس سال گذر چکے ہیں اور ہمارا ان عمارتوں پر پہلے سے بھی زیادہ قبضہ ہے.عمارتیں بنتی ہیں اور بگڑتی ہیں اور سوائے ایسی عمارتوں کے جو خدا تعالیٰ کے خاص نشانوں میں سے ہوں جیسے خانہ کعبہ وغیرہ باقی عمارتیں ایسی نہیں ہوتیں کہ ان کا کسی وقت کسی جماعت کے قبضہ سے نکل جانا کوئی قابل اعتراض بات ہو سوال جماعتی ترقی کا ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ ہی ہمیں حاصل رہی ہے." الفضل ۵ اپریل ۱۹۴۰ء) اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.اس وقت موجودہ صورت میں وہ کام جو ۲۵ سال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور ان کے بعد 4 سال تک حضرت خلیفۃ المسیح نے کیا تھا خطرہ کی حالت میں ہے.ایک جماعت جو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے میں کوئی فرق نہیں کرتی ان کے مد نظر ہے کہ مقابل والوں کو شکست دے دیں.وہ زور لگا رہے ہیں وہ اپنے علم اور طاقت کو اس مقصد کے لئے صرف کر رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک طاقت ہیں اور ہم یہ کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں میں کہتا ہوں کہ ہم بالکل ناتواں ہیں.ہاں ہمارا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہے وہ بڑی طاقتوں اور قدرتوں والا ہے وہ اپنے سلسلہ کو ہر ایک شر اور ضرر سے بچا سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ بچائے گا." (الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۳۱ء) ہے سفر دور کا منزل ہے کٹھن جاں ہے نحیف اس تلاطم میں الہی تیرے محمود کی خیر انکار خلافت کے متعلق مختلف وقتوں میں اٹھنے والے فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں." تم جانتے ہو کہ کتنے ہی لوگ ہیں جنہوں نے سر نکالا اور جماعت میں انہوں نے بغاوت کی.پھر تم یہ بھی جانتے ہو کہ کس کس طرح تم ان فتنوں کو دیکھ کر کانپ اٹھے تھے
۵۰۳ اور کس کس طرح رقعوں پر رقعے لکھ کر مجھے پریشان کرتے تھے کہ ان لوگوں سے نرمی اور رعایت کی جائے ورنہ فساد بڑھ جائے گا مگر تاؤ پھر وہ لوگ کہاں گئے.ابھی دو سال کا عرصہ نہیں ہو ا تم میں سے ہر شخص دل پر ہاتھ رکھ کرتا ہے کہ کیا ایک بہت بڑی مصیبت تمہارے سامنے نہیں آئی تھی.تم کس طرح اس مصیبت کو دیکھ کر گھبرا اُٹھے تھے مگر آج باوجود اس بات کے کہ وہ تمہارے پہلو میں رہتے ہیں تمہیں کوئی پریشانی نہیں تمہیں کوئی تکلیف اور بے چینی نہیں بلکہ آج تو تمہیں ان کی اتنی بھی پرواہ نہیں جتنی سوکھے ہوئے پتے کی ہوتی ہے اور جو راہ چلتے ہوئے پاؤں کے نیچے آ جاتا ہو...بهر حال ہماری جماعت چونکہ خلافت کے نظام میں منسلک ہے اس لئے جب بھی کوئی فتنہ اٹھا تو گو بظاہر اس کی شکل ہیبت ناک تھی مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس کا نام و نشان مٹ گیا اور یہ سب اس نظام کی برکت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں (الفضل ۲.اگست ۱۹۳۹ء) قائم ہے." اس موضوع پر حضور کے لاتعداد ارشادات میں سے چند ایک بطور خدائی تائید و نصرت نمونہ پیش کئے گئے ہیں.حضور کے ان بیانات میں جہاں فتنوں کی شدت کا ذکر ہے وہاں ساتھ ہی حضور کے اس ایمان و ایقان کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کو کوئی فتنہ اور کوئی طاقت مرعوب نہیں کر سکتی اور اسی وجہ سے وہ کسی دباؤ کو قبول نہیں کرتا.اس بات کو سمجھنے کیلئے زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے کہ دنیوی یا سیاسی لیڈر تو مخالفت مخالف حالات میں کلیتہ ظاہری سامانوں پر بھروسہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس طرح جلد مایوسی اور ناکامی سے دوچار ہو جاتے ہیں مگر خلیفہ خدائی نصرت و تائید سے بہرہ ور ہوتا ہے اور یہ امر اسے باقی ہر قسم کے رہنماؤں اور لیڈروں سے ممتاز اور نمایاں کر دیتا ہے.حضور فرماتے ہیں.خلیفہ وقت کا کام ہے کہ وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح ہو ایسی چٹان کہ دنیا بھر کے سمندر بھی مل کر اسے ہلا نہ سکیں اگر چند منافقوں سے میں ڈر جاؤں اور ایسے موقع پر رحم کرنے پر آمادہ ہو جاؤں جب کہ رحم مناسب نہیں تو میں اپنی خلافت کی ذمہ داریوں میں کو تاہی کرنے والا ہوں گا مجھے یہ چند منافق کیا اگر دنیا کی حکومتیں بھی مل کر ایک مقصد سے ہٹانا چاہیں تو نہیں ہٹا سکتیں اور اگر میں یا کوئی اور خلیفہ اس لئے نرمی کرے کہ لوگ اسے مجبور کرتے ہیں تو یقینا وہ خدا کا قائم کردہ خلیفہ نہیں ہو سکتا.رحم ہمارا کام ہے.
۵۰۴ لیکن دباؤ سے ماننا ہمارا کام نہیں بلکہ دباؤ کو کچلنا ہمارا کام ہے." بعض مخالفوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.الفضل ۸.جون ۱۹۳۳ء) میں نہیں کہتا کہ تم خدائی سزا کا انتظار کرو میں جانتا ہوں کہ وہ آ رہی ہے.آسمانوں والا خدا میرے ساتھ ہے اس لئے مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خدائی فیصلہ کا انتظار کرو اور پھر حق کو پہچانو.میں تم سے صرف یہ کہتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے اور جو کوئی بھی میرے خلاف اٹھتا ہے وہ یقینا خدا کی طرف سے سزا پائے گا اور اس کا اور اس کی پارٹی کا اثر و رسوخ اسے خدا کے غضب سے نہیں بچا سکے گا." (الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۵۰ء) خدائی تائید و نصرت کے متعلق اپنے یقین کا اظہار کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.و جس کو خدا خلیفہ بناتا ہے.کوئی نہیں جو اس کے کاموں میں روک ڈال سکے.اس کو ایک قوت اور اقبال دیا جاتا ہے اور ایک غلبہ اور کامیابی اس کی فطرت میں رکھ دی جاتی ہے." الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۱۴ء) قرآن مجید میں سچائی کے مخالفوں کے رد عمل کا اس طرح ذکر آتا ہے کہ يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُ وَن وائے حسرت کہ جب بھی کوئی نوید حق و صداقت دنیا میں جلوہ گر ہوئی لوگوں نے سنجیدگی سے اس کی طرف توجہ کرنے کی بجائے استہزاء و تمسخر سے کام لیا.ایسے ہی سلوک اور رد عمل کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں اور ان کے ماننے والوں کے لئے اور کوئی چارہ کار نہیں رہتا سوائے اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکیں اور ان کی زبان ہی نہیں ان کی کیفیت و حالت سے متی نصر اللہ کی آواز بلند ہوتی اور چارہ گر بے کساں کی طرف سے اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ کی بشارت ملتی ہے.حضور کے درج ذیل ارشادات میں اسی بشارت کا ذکر و اظہار نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں مطمئن ہوں اور ہر شخص جو تم میں سے سچا ایمان رکھتا ہے وہ دیکھے گا بلکہ ابھی تم میں سے اکثر لوگ زندہ ہوں گے کہ تم ان تمام فتنوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑتے دیکھو گے اور اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کی مدد سے سلسلہ احمدیہ ایک مضبوط چٹان پر قائم ہو جائے گا." (الفضل ۴.جولائی ۱۹۳۷ء)
۵۰۵ منصب خلافت پر فائز ہونے کے ابتدائی ایام میں ہی نہایت انکساری و خاکساری سے اپنے آپ کو نالائق قرار دیتے ہوئے مگر خدائی انتخاب کی عظمت و غیرت کی وجہ سے اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتے ہوئے ایک ولولہ انگیز پر جوش بیان میں آپ فرماتے ہیں." میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کبھی انسان سے خلافت کی تمنا نہیں کی اور یہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ وہ مجھے خلیفہ بنائے.یہ اس کا اپنا فعل ہے یہ میری درخواست نہ تھی.میری درخواست کے بغیر یہ کام میرے سپرد کیا گیا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے اکثروں کی گردنیں میرے سامنے جھکا دیں.میں کیونکر تمہاری خاطر خدا تعالی کے حکم کو رد کر دوں.مجھے اس نے اسی طرح خلیفہ بنایا جس طرح پہلوں کو بنایا.گو میں حیران ہوں کہ میرے جیسا نالائق انسان اسے کیو نکر پسند آگیا لیکن جو کچھ بھی ہو اس نے مجھے پسند کر لیا اور اب کوئی انسان اس کر تہ کو مجھ سے نہیں اتار سکتا جو اس نے مجھے پہنایا ہے.یہ خدا کی دین ہے اور کون انسان ہے جو خدا کے عطیہ کو مجھ سے چھین لے.خدا تعالیٰ میرا مددگار ہو گا.میں ضعیف ہوں مگر میرا مالک بڑا طاقت ور ہے.میں کمزور ہوں مگر میرا آقا بڑا تو انا ہے.میں بلا اسباب ہوں مگر میرا باد شاہ تمام اسبابوں کا خالق ہے.میں بے مددگار ہوں.مگر میرا رب فرشتوں کو میری مدد کے لئے نازل فرمائے گا ( انشاء اللہ ) میں بے پناہ ہوں مگر میرا محافظ وہ ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی پناہ کی ضرورت نہیں.اب کون ہے جو مجھے خلافت سے معزول کر سکے.خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے انتخاب میں غلطی نہیں کرتا.اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میری خلافت بڑی نہیں ہو سکتی اور اگر سب کے سب خدانخواستہ مجھے ترک کر دیں تو بھی خلافت میں فرق نہیں آسکتا.جیسے نبی اکیلا بھی نبی ہوتا ہے اس طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے.پس مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے.خدا تعالیٰ نے جو بو جھ مجھ پر رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اگر اسی کی مدد میرے شامل حال نہ ہو تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا لیکن مجھے اس پاک ذات پر یقین ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گا".الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۳۱ء) میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلیفہ ہوں اور انہی خلفاء میں سے ہوں جنہیں خدا
A.4 مقرر کرتا ہے.باقی ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو الہام کے ذریعہ مقرر نہ کیا گیا.تو اب مجھے کیوں الہام کے ذریعہ بتایا جاتا کہ میں خلیفہ ہوں.ان میں سے ایک کے الہام کا بھی ثبوت نہیں دیا جا سکتا.اور اگر کہا جائے کہ ان کو الہام ہو تا تھا تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کہ سکتا ہوں کہ مجھے بھی الہام ہوتا ہے اور کثرت سے اللہ تعالیٰ مجھے امور غیبیہ پر اطلاع دیتا ہے.فَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ.(الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۳۱ء) صد را انجمن احمدیہ کے انتظامی امور کی بہتری اور اصلاح کے لئے حضور نے ایک کمیشن مقرر فرمایا.کمیشن نے بڑی محنت سے بہت مفید اور قابل عمل مشورے دیئے تاہم کمیشن کی رپورٹ کے ایک حصہ سے ظاہر ہو تا تھا کہ خلیفہ اور خلافت کے بلند مقام اور روحانی مرتبہ کا اس میں پوری طرح اظهار و ادراک نہیں ہے.حضور نے اس حصہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اور خلافت کی حقیقت و عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا.اللہ تعالٰی ہمارا گواہ ہے ہم ایسے لوگوں سے تعاون کر کے کام نہیں کر سکتے.ہم نے اس قسم کے خیالات رکھنے والے لوگوں سے اختلاف کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہے آپ کے پاس بیٹھے آپ کی باتیں سنیں.خلافت خدا تعالیٰ کی ایک برکت ہے اور یہ اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک جماعت اس کے قابل رہتی ہے لیکن جب جماعت اس کی اہل نہیں رہتی تو یہ مٹ جاتی ہے.ہماری جماعت بھی جب تک اس قابل رہے گی اس میں یہ برکت قائم رہے گی اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ مجلس شوری جماعت کی نمائندہ ہے اور اس کی نمائندہ مجلس معتمدین ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہم یہ خیال سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہو سکتے اور ہم اس کے مقابلہ میں ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن خلافت کو نقصان پہنچنے دینے کے لئے تیار نہیں.اللہ تعالیٰ گواہ ہے میں صاف صاف کہہ رہا ہوں ایسے لوگ ہم سے جس قدر جلد ہو سکے الگ ہو جائیں....اگر سارے کے سارے بھی الگ ہو جائیں اور میں اکیلا ہی رہ جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ میں خدا تعالیٰ کی اس تعلیم کا نمائندہ ہوں جو اس نے دی ہے.مگر یہ پسند نہ کروں گا کہ خلافت میں اصولی اختلاف رکھ کر پھر کوئی ہم میں شامل
۵۰۷ رہے.یہ اصولی مسئلہ ہے اور اس میں اختلاف کر کے کوئی ہمارے ساتھ نہیں رہ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء) سکتا." اس موقع پر ہر طرف سے پر زور آواز میں آئیں کہ ہم سب حضور کے ساتھ متفق ہیں.خدا تعالی کی تائید و نصرت کی برکت سے خلافت کے انعام سے سرفراز جماعت کی غیر معمولی ترقی اور حیرت انگیز فتوحات سے مخالفوں کی مخالفت اور حاسدوں کے حسد میں بھی اسی طرح اضافہ ہو تا چلا جاتا ہے اور ابتدائی انفرادی اور وقتی مخالفت کی بجائے منظم مخالفت شروع ہو جاتی ہے تاہم اطاعت اور تقوی شعاری کی برکت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مارنے والے سے زندہ رکھنے والا اور ترقی دینے والا زیادہ طاقتور ہے.اسی اصول پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور ارشاد فرماتے ہیں.یاد رکھو اگر تقویٰ سے آپ لوگوں نے کام لیا اور میری اطاعت اور فرمانبرداری میں کام کیا تو ایک کیا دنیا بھر کی حکومتیں مل کر بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں.تم خدا کے ہو جاؤ اور اس کے احکام مانو پھر خدا تمہارا ہو جائے گا اور اس کا حکم تمہاری تائید میں ہو جائے گا اور کوئی نہیں جو خدائی حکم کو توڑ سکے." (الفضل ۲۵- جون ۱۹۳۶ء) خدائی تائید و نصرت کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.”اے میرے دوستو! میں اپنے لئے کسی عزت کا خواہاں نہیں.نہ جب تک خدا تعالیٰ ظاہر کرے کسی مزید عمر کا امیدوار.ہاں خدا تعالیٰ کے فضل کا امیدوار ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ رسول کریم میں لیا اور اسلام کی عزت کے قیام اور دوبارہ اسلام کو پاؤں پر کھڑا کرنے اور مسیحیت کے کچلنے میں میرے گزشتہ کاموں یا آئندہ کاموں کا انشاء اللہ بہت کچھ حصہ ہو گا اور وہ ایڑیاں جو شیطان کا سر کچلیں گی اور مسیحیت کا خاتمہ کریں گی ان میں ایک ایڑی میری بھی ہو گی." (الفضل ۱۱.جنوری ۱۹۴۵ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدائی بشارتوں کے مطابق جب اس جہان فانی سے عالم جاودانی کی طرف سدھارے تو ان انوار و برکات سماویہ کو جاری رکھنے کے لئے حضرت مولانا نورالدین پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.حضرت خلیفہ اول کے انتخاب سے یہ امرا ظْهَرُ مِنَ الشَّمْسِ
۵۰۸ ہو گیا کہ اس انتخاب میں کسی جانبداری، قرابت داری اور دنیوی عوامل کا شائبہ تک نہیں ہے اور انتخاب اسی منشاء خداوندی و مشیت الہی کی کار فرمائی و جلوہ گری ہے جس کی طرف پہلے سے موجود خبریں اشارہ کر رہی تھیں.حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جو خلافت قائم ہوئی اس کی امتیازی حیثیت تھی اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کراتا ہے اور پھر اسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں.یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیا بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا.پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں.میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سر خرد ہو جائے.جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفہ بھی روز روز نہیں آتے؟ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۷) خلافت کی عظمت و شان سے بے بہرہ بعض مخالفوں کو خطاب کرتے ہوئے آپ فرماتے " یاد رکھیں کہ خدا کے کام کوئی نہیں روک سکتا.خدا تعالیٰ میری مدد کرے گا اور میرے ہاتھ پر اسلام کو فتح دے گا.درمیانی ابتلاء اس کی سنت ہیں اور میں ان سے نہیں گھبراتا.وہ خدا سلسلہ کا رکھوالا ہے اور وہ خود اس کی حفاظت کرے گا میرا مقابلہ انسان کو دہریت سے ورے نہیں رکھے گا.خدا تعالیٰ کے اس قدر نشانوں کا انکار ایمان کو ضائع کرنے کیلئے کافی ہے." (فاروق ۳۱.جنوری ۱۹۲۹ء) خلافت کی منفرد قسم کی ذمہ داریوں کے بیان میں حضور ایک نہایت اہم مسئلہ ”عزل خلفاء" کی تشریح و وضاحت کرتے ہوئے اس بنیادی حقیقت کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں کہ خلیفہ.
۵۰۹ اس خداداد منصب سے نہ تو خود الگ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور اسے اس منصب سے الگ کر سکتا ہے.و پھر میں کہتا ہوں کسی کو خلیفہ ہونے سے فائدہ کیا ہے سوائے اس کے کہ لوگوں کے مصائب اور ان کی اصلاح کے لئے غم کھاتا اور کڑھتا رہے کہ کسی طرح جماعت کا جہاز پار ہو جائے.خلافت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ ایک مردم کش چیز ہے وہ کسی کے قتل کیلئے ایک نہایت سریع التاثیر آلہ ہے جو مضبوط اور جو ان سے جوان آدمی کو تھوڑے عرصہ میں مار دیتا ہے اور یہ ایک آزاد آدمی کو غلام بنا دیتی ہے اور گھن کی طرح اس کو کھا جاتی ہے.باقی رہے خدا کے فضل اور احسانات وہ صرف خلافت کے ساتھ وابستہ نہیں.بے شک روحانی فضل خلیفہ پر ہی ہوتے ہیں لیکن خدا کے فضلوں میں داخل ہونے کے لئے صرف یہی روحانی دروازہ نہیں....میرے نزدیک خلافت کی عظیم الشان مشکلات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خلیفہ خلافت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا وہ مجبور و معذور ہو تا ہے وہ اعتراض کرنے والوں کو عملی جواب نہیں دے سکتا خلیفہ ہی وہ شخص ہوتا ہے کہ جس کے ہاتھ بند ہوتے ہیں.اس لئے دوسرے کے مکر کے جواب نہیں دے سکتا اس کی زبان بھی بند ہوتی ہے اور کسی شریف انسان کے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کوئی کمینگی نہیں ہو سکتی کہ اس شخص حملہ کیا جائے جس کی زبان اور ہاتھ بند ہوں......اگر خلیفہ کو دست بردار ہونے کا اختیار ہوتا تو کئی خلیفے ایسے ہوتے جو معترضوں کو کہہ دیتے کہ لو تم خلافت کو سنبھالو ہم الگ ہوتے ہیں لیکن چونکہ خلیفہ سے یہ اختیار چھین لیا جاتا ہے اس لئے خواہ کیسی حالت ہو وہ خلافت سے دستبردار ہونے کا خیال بھی نہیں کر سکتا.(الفضل ۲۱.دسمبر ۱۹۲۲ء) پچھلے صفحات میں حضرت فضل عمر کے جوار شادات نقل کئے گئے ہیں ان سے بلند روحانی نظام یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ خلیفہ مقرر فرماتا ہے اگر چہ بظا ہر اس میں مومنوں کا ہی عمل دخل نظر آتا ہے اس طرح یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ خلیفہ کی اطاعت ضروری ہے اور یہ بھی کہ خلیفہ کی مخالفت کرنے والے ناکام ہوتے ہیں اور خلیفہ خدا تعالیٰ کی تائید
۵۱۰ و نصرت سے مظفر و منصور ہوتا ہے.اس جگہ خلافت کے موضوع پر کوئی علمی مضمون پیش کرنا مد نظر نہیں ہے بلکہ خلافت ثانیہ کے دوران پیش آنے والے واقعات اور ان کے تناظر میں قرآنی بصیرت و عرفان کے مطابق حضور کی رہنمائی اور ہدایات کا ذکر کیا جارہا ہے.اس جگہ یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ خلیفہ کسی حال میں معزول نہیں کیا جا سکتا تو کیا وہ کوئی غلطی نہیں کر سکتا ؟ حضور اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں.میں اس بات کا قائل نہیں کہ خلیفہ کوئی غلطی نہیں کر سکتا.مگر اس بات کا قائل ہوں کہ وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کر سکتا جس سے جماعت تباہ ہو.وہ اس اور اس کام میں غلطی کر سکتا ہے.مگر سب کاموں میں غلطی نہیں کر سکتا.اور اگر وہ کوئی ایسی غلطی کر بھی بیٹھے جس کا اثر جماعت کے لئے تباہی خیز ہو تو خدا تعالیٰ اس غلطی کو بھی درست کر دے گا.اور اس کے نیک نتائج پیدا ہوں گے.یہ عصمت کسی اور جماعت یا کسی اور مجلس کو حاصل نہیں ہو سکتی.میں مانتا ہوں کہ خلفاء غلطی کرتے رہے.اور اب بھی کر سکتے ہیں.بعض اوقات میں فیصلہ کرتا ہوں جس کے متعلق بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ غلطی ہوئی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ غلطی سے زیادہ محفوظ کون ہے.اجتہادی اور سیاسی غلطیاں تو رسول سے بھی ہو سکتی ہیں.پھر خلیفہ ایسی غلطیوں سے کس طرح بچ سکتا ہے.نبی اجتہاد کی غلطی کر سکتا ہے.بحیثیت فقیہ غلطی کر سکتا ہے.بحیثیت بادشاہ غلطی کر سکتا ہے.لیکن بحیثیت نبی غلطی نہیں کر سکتا.اور وہ باتیں جو نبی سے بحیثیت فقیہ اور بحیثیت حاکم تعلق رکھتی ہیں.خلفاء ان میں نبی کے وارث ہوتے ہیں.خلفاء نبی کی ہر بات کے وارث ہوتے ہیں سوائے نبوت کے.اور جو احکام نبوت کے سوا نبی کے لئے جاری ہوتے ہیں وہی خلیفہ کے لئے جاری ہوتے ہیں..بے شک خلفاء غلطی کر سکتے ہیں.مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ان کے آگے سر تسلیم خم نہ کیا جائے تو کوئی جماعت جماعت نہیں رہ سکتی.پس خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے اور تم بھی غلطی کر سکتے ہو.مگر فرق یہی ہے کہ خلیفہ کی خطرناک غلطی کی خدا تعالٰی اصلاح کر دے گا.مگر آپ لوگوں سے خدا کا یہ وعدہ نہیں ہے." (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء)
۵۱۱ حضور نے جس امکانی غلطی کے ارتکاب کا ذکر فرمایا ہے اس کی وجہ سے بھی خلیفہ کی اطاعت سے انحراف کی اجازت نہیں ہو سکتی بلکہ اس غلطی کی اصلاح کے لئے مومنانہ طریق کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.تم خود نیک بنو اور دعاؤں کے ذریعہ نہ کہ فتنہ انگیزی کے ذریعہ جو غلطی اور نقص معلوم ہو اس کی اصلاح چاہو " (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء) اسی سلسلہ میں آپ کا ارشاد ہے.بیرونی مخالفت کو چھوڑ دو وہ خود بخود مٹ جائے گی تم اندرونی مخالفت کو مٹانے کی طرف توجہ کرو.وہ اندرونی مخالفت جس کا موجود رہنا خدا تعالیٰ کے فضلوں سے جماعت کو محروم کر دیتا ہے......(الفضل ۵- اگست ۱۹۴۳ء) خلیفہ وقت کی انشراح صدر سے پوری پوری اطاعت کے ساتھ خلیفہ کے مقرر کردہ امراء اور نمائندگان کی مکمل اطاعت بھی جماعتی ترقی و استحکام کے لئے ضروری ہے.اس بنیادی اصول کو "" بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.سلسلہ جن کو نمائندہ بنا کر بھیجے مقامی جماعت کے وہ لوگ جن کی آمد نیاں زیادہ ہوں وہ اُن کو ملانوں کی سی حیثیت دیدیں اور وہ ماتحت کی حیثیت میں رہیں غلط بات ہے.اسے ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے.جو ہمار انمائندہ ہو کر جائے گا وہی افسر ہو گا دوسرا خواہ لاکھ روپے کماتا ہو وہ اس کا ماتحت ہو گا.بہر حال سلسلہ کا نمائندہ دنیوی دولت مندوں سے زیادہ معزز ہے اور مقامی لوگوں کو اس کا ادب و احترام کرنا ہو گا اگر وہ نہیں کریں گے تو فتنہ کا موجب ہوں گے اور اپنے کئے کی سزا پائیں گے.یہ ہم نہیں کہتے کہ ہمارا نمائندہ غلطی نہیں کر سکتا اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نمائندے کی پرسش نہیں ہوگی وہ غلطی بھی کر سکتا ہے اور پرسش بھی ہو گی اور اس کے مجرم کے مطابق اسے سزادی جائے گی لیکن سب کچھ آئین کے مطابق ہو گا.افراد کو کوئی حق نہیں کہ اپنا فیصلہ کر کے حکومت جتانا چاہیں.اسلام نا واجب حکومت کے خلاف ہے اور وہ نشوز کے بھی الفضل ۲۶.مارچ ۱۹۴۹ء) خلاف ہے.ہے.....ce نظام سلسلہ کو مضبوط کرنے کے لئے مذکورہ بالا ضروری ہدایت کے ساتھ ساتھ حضور نے اسلامی تو ازن و اعتدال اور مساوات کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا.
۵۱۲ نظام سلسلہ کا جہاں تک تعلق ہے کوئی بڑا نہیں اور کوئی چھوٹا نہیں.دارالصحت کے آدمی کیوں سفارشیں لے کر نہیں آتے.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم غریب ہیں ہماری بات کون سنے گا اور جو آتے ہیں وہ یہی سمجھ کر آتے ہیں کہ ہمیں ایک عزت اور رسوخ حاصل ہے اور ہم بڑے آدمی ہیں لیکن میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ نظام سلسلہ میں ان کی بھی اتنی ہی عزت ہے.جتنی دار الصحت کے رہنے والوں کی.(دار الصحت قادیان کا ایک محلہ جہاں ان لوگوں کی رہائش تھی جنہیں عام طور پر اچھوت یا پنچ سمجھا جاتا ہے.حضرت مصلح موعود کی ہدایت و نگرانی میں ان لوگوں کی اصلاح کی بھر پور کوشش کی گئی اور ان میں سے بہت سے افراد اسلامی اخوت و مساوات کی نعمت سے مالا مال ہوئے.ناقل ) اور جو اس سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ آج بھی گیا اور کل بھی اچھی طرح سن لو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد اور پوتے یا داماد سب کی جہاں تک نظام کا تعلق ہے ان کی ویسی ہی حیثیت ہے جیسی ایک ادنیٰ خادم کی اور جو اس سے زیادہ سمجھتا ہے اسے ارتداد کفر اور یا پھر خدا تعالیٰ کے عذاب کے لئے تیار ہو جانا چاہئے اور جو ناظروں میں سے سفارش سنتا ہے وہ بھی تیار ہو جائے کہ یا تو اسے ٹھو کر لگے گی اور یا پھر وہ عذاب میں مبتلا ہو گا.ناظریا جسے کوئی اور عہدہ ملے اس کے کان اس معاملہ میں بہرے ہونے چاہئیں اور کسی کی بات کی اسے کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ جب کوئی اس کے پاس ایسی سفارش لے کر آئے اسے کہنا چاہئے کہ نکل جاؤ یہاں سے.ee الفضل ۵ اگست ۱۹۳۸ء) اس سلسلہ میں اسلامی اخلاق و آداب کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے صدر انجمن احمدیہ کے سربراہ اور انتظامی لحاظ سے سب سے بڑے عہدیدار کو خطاب کرتے ہوئے نصیحت فرمائی." آپ کو اور دیگر ناظروں اور عہدیداروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جب کوئی شخص ملنے یا کام کے لئے آئے ہر کارکن کا فرض ہے کہ کھڑا ہو کر ا سے ملے.خواہ کام والا چوہڑا ہی کیوں نہ ہو.اس کی خلاف ورزی کرنے والا سزا کا مستوجب سمجھا جائے گا.نیز سب ناظروں اور نائب نا ظروں کا فرض ہو گا کہ وہ جب بازاروں گلیوں سے گزریں تو حتی الوسع سلام میں تقدم کریں." (الفضل ۶.ستمبر ۱۹۳۴ء)
۵۱۳ خدائی جماعتیں ابتداء میں اسی طرح کمزوری کی حالت میں ہوتی ہیں جس طرح بڑے بڑے سایہ دار درخت ابتداء میں ایسی معمولی کمزور کونپل کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جنہیں آسانی سے تو ڑا مسلا اور ختم کیا جا سکتا ہے.ظاہر بین لوگ تو ابتدائی حالت کو کمزور دیکھ کر پہلو تہی سے کام لیتے بلکه مخالفت و استهزاء سے کام لیتے ہیں مگر دور اندیش معاملہ فہم بیج کو دیکھ کر اس کی ان تمام خوبیوں اور صلاحیتوں سے جو اس کے اندر قدرت نے ودیعت کر رکھی ہوتی ہیں استفادہ کرنے کیلئے کماحقہ غور و پرداخت کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.جماعت کی ابتدائی حالت اور آہستہ آہستہ پیدا ہونے والی روحانی و جسمانی تبدیلی کی عظمت و شان بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.جس طرح آج بنک آف انگلینڈ میں ذرہ سی کمزوری پیدا ہونے سے حکومتیں بدل جاتی ہیں وزارتیں تبدیل ہو جاتی ہیں ، ایکینج میں تغیر ہو جاتا ہے ایک وقت آئے گا که اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ تغیرات ہوں گے جب سلسلہ احمدیہ کے بیت المال میں کسی قسم کا تغیر ہو گا.بنک آف انگلینڈ کا اثر تو صرف ایک ملک پر ہے لیکن یہ دنیا کی ساری حکومتوں پر اثر انداز ہو گا اور اس وقت یہاں کے کارکنوں کا دنیوی معیار بھی اس قدر بلند ہو گا کہ حکومتوں کی وزارتوں کی ان کے سامنے کچھ حقیقت نہیں ہو گی.یہ چیزیں ایک ایسے مستقبل کو پیش کر رہی ہیں جسے مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے احباب کی خدمات کی قیمت کا اندازہ کرنا چاہئے.دراصل ان کی خدمات کی قیمت وہ چند روپے نہیں جو بطور مشاہرہ دیئے جاتے ہیں بلکہ جماعت کا آئندہ شاندار مستقبل ہے اور اس کا اندازه خدا تعالیٰ ہی لگا سکتا ہے.بندہ نہیں لگا سکتا اور جب یہ وقت آئے گا اس وقت ان کی خدمات کا اندازہ ہو سکے گا اور ان میں سے ہر ایک کام کرنے والا خواہ وہ چپراسی ہو یا ناظر الاماشاء اللہ اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں حصہ لے رہا ہے.(الفضل ۲۲ - مئی ۱۹۳۲ء) ایمان و اخلاص کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے بلند روحانی نظام کے عظیم نتائج پر پختہ یقین د ایمان کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں." میں آدمیوں کو نہیں دیکھ رہا بلکہ خدا کو دیکھ رہا ہوں میں ایسا بے وقوف نہیں کہ سمجھوں اس وقت جو لوگ میرے سامنے بیٹھے ہیں ان کے ذریعہ میں دنیا کو فتح کر سکتا ہوں یا جماعت میں اس وقت جتنے آدمی شامل ہیں ان کے ذریعہ ساری دنیا فتح کی جا
۵۱۴ سکتی ہے.پچاس ہزار یا لاکھ دولاکھ آدمی ساری دنیا کے مقابلہ میں کیا کر سکتے ہیں پھر مال کے لحاظ سے انہیں دیکھو تو ان کے پاس مال کہاں ہیں.طاقت کے لحاظ سے انہیں دیکھو تو ان کے پاس طاقت کہاں ہے.پس میں دنیا کی فتح کا آدمیوں کے ذریعہ اندازہ نہیں کرتا.آدمی میرا ساتھ نہیں دے سکتے بلکہ ایمان اور اخلاص میرا ساتھ دے سکتے ہیں اور جب کسی انسان کے ساتھ ایمان اور اخلاص شامل ہو جائے تو ساری دنیا کے خزانے مل کر بھی اس کے مقابلہ میں بیچ ہو جاتے ہیں." (الفضل ۱۹.اگست ۱۹۳۶ء) دنیوی ذرائع دنیوی سامان و اسلحہ سے دنیوی اور ملکی فتوحات کی زیادہ اہمیت نہیں بلکہ ایمان و اخلاص کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی فتح جس میں نفس انسانی شیطان پر غالب آجائے اور نفس مطمئنہ نیکی کے راستوں پر رواں دواں ہو تو وہی اصل اور حقیقی فتح اور خوشی و مسرت کی وجہ ہے حضور اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں.” ہم خدا تعالی کے فضل سے ضرور ترقی کریں گے اور جب جوانی کو پہنچیں گے تو ہمارے اس بچپن کو دیکھنے والوں کو یہ یقین ہی نہیں آئے گا کہ یہ وہی جماعت ہے.مگر ہماری جماعت کو یہ سبق کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ قومیں جب تعداد میں بڑھتی ہیں تو اخلاص میں گرنے لگتی ہیں اور جب زمین پر پھیلتی ہیں تو آسمان پر سکڑنے لگتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ بد نصیب کوئی نہیں ہو سکتا جو زمین میں پھیلتا مگر آسمان میں سکڑتا ہے.ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم جتنا زمین میں پھیلیں اس سے زیادہ آسمان میں پھیلتے جائیں اور ہمار اخد ا ہم سے خوش ہو." الفضل ۹ - مارچ ۱۹۴۰ء) فتوحات اور کامیابیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بعض امکانی خرابیوں اور نقائص سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے اپنی عارفانہ بصیرت سے بڑے انداری رنگ میں جماعت کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ابھی ہم نے ترقی کرنی ہے.اس سلسلہ کو مٹانے کی بہتوں نے کوشش کی اور ابھی کچھ اور کوشش کرنے والے پیدا ہوں گے مگر وہ سارے کے سارے تھک جائیں گے اور اس سلسلہ کو نقصان پہنچانے کی بجائے اس کی عزت اور ترقی کا ذریعہ بنیں گے.جس طرح پہاڑ پر چڑھتے وقت پہلے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں آتی ہیں پھر اس سے بڑی
۵۱۵ پہاڑیاں آتی ہیں پھر اس سے بڑی پہاڑیاں آتی ہیں.پھر اس سے بڑی پہاڑیاں آتی ہیں یہاں تک کہ انسان پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے اس طرح خدا ہر مخالفت کے بعد اس سلسلہ کو ترقی دیتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ وقت آجائے گا جب خدا اپنے وعدوں کے مطابق اس سلسلہ کو ساری دنیا میں پھیلا دے گا.اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ سلسلہ میں بگاڑ پیدا ہو جائے وہ تکبر میں مبتلا ہو جائیں اور خدا تعالیٰ ان کو سزا دینے کے لئے ان سے اپنی برکات چھین لے اور یا پھر ممکن ہے کہ اس وقت تک قیامت ہی آجائے.پس یا تو اس مقام پر پہنچ کر جب احمدیت اپنی تمام اندرونی طاقتیں ظاہر کر دے گی اور اپنی تمام قابلیتیں نمایاں کر دے گی لوگوں میں بگاڑ پیدا ہونے پر قیامت آجائے گی اور یا پھر اللہ تعالی اسلام کی ترقی کے لئے کوئی اور راستہ تجویز کرے گا.بہر حال جس طرح زمین میں بیج ڈالا جاتا ہے تو اس کے بعد ضروری ہوتا ہے کہ فصل اگے اور پیج اپنی تمام مخفی طاقتیں ظاہر کرے.اسی طرح روحانی جماعتیں جب اپنی تمام پوشیدہ طاقتیں ظاہر کر دیتی ہیں اور اپنے تمام حسن کو نمایاں کر دیتی ہیں تو اس کے بعد ان پر زوال آیا کرتا ہے اس سے پہلے (الفضل ۱۰ اگست ۱۹۷۰ء) اسلامی نظم و ضبط اطاعت و فرمانبرداری اور افسروما تحت کے باہم خوشگوار تعلقات پر حضور نے متعدد مقامات پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے.ہمارے زمانہ میں مزدوروں میں پائی جانے والی عام بے چینی کی وجہ سے اس مسئلہ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے تاہم اسلام کی متوازن اور پر حکمت تعلیم کو پیش نظر ر کھا جائے تو اس سلسلہ میں پیش آنے والی تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں.حضرت فضل عمر سورۃ جمعہ کی تفسیر میں اس اہم مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں.نہیں."خدا تعالیٰ کی حکومت بھی نظر نہیں آتی اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہی بات ہر شخص میں پیدا ہو.ہر شخص بادشاہ ہے جو اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہو گا.اس سے پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی بیوی ، بچوں ، مزدوروں کلرکوں اور ماتحتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا.پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ دیکھیں وہ اپنے دائرہ حکومت میں ایسے کام کر رہے ہیں یا نہیں جن سے ان کی تسبیح ہو ؟ اگر ایسا ہے تو وہ اس آیت کے مصداق ہو جاتے ہیں.پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنے ماتحتوں سے کیا سلوک کرتے ہیں.کیا ہم اپنے ملازموں سے وہی سلوک کرتے ہیں جو خدا اپنے بندوں سے کرتا ہے.پچھلے
۵۱۶ سے پچھلے سال ایک افسر کے متعلق میرے پاس شکایت کی گئی تھی کہ وہ ماتحتوں کو " تو " کہہ کر مخاطب کرتا ہے.حالانکہ وہ سلسلہ کا افسر تھا اور میں نے متواتر بتایا ہے کہ ہمارا معیار فضیلت اخلاق ہے.یہ افسری ماتحتی تو صرف نظام کیلئے ہے تمدنی طور پر اس کا کوئی اثر نہیں.ممکن ہے افسر اخلاق کے لحاظ سے ادنیٰ اور ماتحت اعلیٰ ہو.اسی طرح ممکن ہے بادشاہ اس لحاظ سے رعایا کے بعض افراد سے ادنی ہو.انسانیت کے لحاظ سے چھوٹا بڑا کوئی نہیں.ایک قربانی کرنے والا غریب یقینا ظالم بادشاہ سے ہزار گنا اعلیٰ ہے.میں حیران ہوں کہ اس افسر نے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ ماتحت پر اسے تمدنی طور پر بڑائی جتانے کا بھی حق حاصل ہے.مجھے اس سے بہت افسوس ہوا.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں چونکہ بہت جہالت ہے اس لئے بعض بچے اپنے والد کو بھی اوئے باپو " کہہ کر مخاطب کرتے ہیں لیکن ہمیں اسلام کے اخلاق دکھانے چاہئیں کیونکہ ہم نے تمدنی طور پر دنیا میں مساوات قائم کرنی ہے.اگر ناظر کیلئے یہ جائز ہے کہ کلرک کو " تو " کہے تو خلیفہ کیلئے ناظر کو ایسا کہنا درست ہو گا مگر کیا اسے پسند کیا جائے گا؟ پس افسروں کو ماتحتوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا چاہئے کہ جس سے ظاہر ہو کہ وہ انہیں ادنی نہیں سمجھتے بلکہ برابر کاہی سمجھتے ہیں.ہاں انتظام کے بارے میں ماتحت کا فرض ہے کہ افسر کی فرمانبرداری کرے.اس کے احکام پر نکتہ چینی نہ کرے اور حجت نہ کرے کیونکہ یہ بھی بڑا نقص ہے اور مساوات کے اصول کے خلاف ہے.ماتحت کا فرض ہے کہ اسے جو حکم دیا جائے اگر ضرورت ہو تو مؤدب طور پر اس کے متعلق اپنی رائے پیش کر دے اور پھر اطاعت کرے.ماتحتوں کیلئے ملکیت کے اعتراف کا طریق یہی ہے کہ افسروں کی اطاعت کریں.ہاں جو بات سچ ہو وہ کہہ دیں.جو سچی بات کو چھپائے رکھتا ہے وہ نالائق ہوتا ہے.اسی طرح افسر سمجھیں کہ خدا تعالیٰ نے اگر ان کو حکومت دی ہے تو انہیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت کا نمونہ دکھانا چاہئے.مزدور کو مزدوری وقت پر دینا بھی ضروری ہے.یہ نہیں کہ بیچارے نے پیسے مانگے تو گالیاں دینے لگ گئے اور ٹھڈے مار کر نکال دیا.جو شخص ایسا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی نقل نہیں کرتا اور انعامات کے مستحق وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اس کی ملکیت کی نقل کرتے ہیں.پس اگر کوئی رعایا میں سے ہے تو اسے چاہئے اپنے حاکموں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جو خدا چاہتا
۵۱۷ ہے.اور اگر قوت حاصل ہے ، افسر ہے ، ہیڈ ماسٹر ہے ، سپرنٹنڈنٹ ہے اور اس طرح بعض دوسرے لوگ ہیں جن کو اوروں پر تصرف حاصل ہے تو اس تصرف کو اتنا پیارا اور میٹھا بنا دیں کہ دوسروں کو ذرا بھی گراں نہ گذرے.پھر یہ بھی نہیں چاہئے کہ آج ایک سے لڑائی ہوئی تو دوسرے دن اس کے خلاف محض جھوٹی سازش شروع کر دی.اگر کسی سے لڑائی ہوئی ہے اور اسے معاف نہیں کر سکتے تو اختلاف کو اس کی حد کے اندر رکھو.یہی بات خدا کی بادشاہت میں ہمیں دکھائی دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی تسبیح کر رہی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ تم میں سے جس کو جتنی بادشاہت دے اسے چاہئے کہ اس میں اس کی نقل کرے.اگر ہندوستان کا بادشاہ بنا دیا جائے تو ہندو سکھ اور مسلمان میں کوئی تمیز نہ کرو غریب و امیر کا خیال نہ کرو، ہندی کو اڑا کر اردو زبر دستی جاری کرنے کے منصوبے نہ کر دیا ایک تمدن کی جگہ دو سمرا تمدن ایک مذہب کی جگہ دوسرا مذ ہب جبرا قائم کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ بلکہ جس طرح خدا تعالی کر رہا ہے تم بھی اسی طرح کرو.پھر جو وزارت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے دائرہ حکومت میں اللہ تعالیٰ کی جتنی نقل کر سکتا ہے کرے.اس سے نیچے اتر کر سیکرٹری اور ڈائریکٹر اور دوسرے افسر سب جس قدر ممکن ہو اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی نقل کریں.” دوسری صفت یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قدوس ہے.دنیا اسے پاک قرار دیتی ہے.ملکیت کی تسبیح اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ظاہر معاملہ صحیح ہو.لیکن قدوسیت کا یہ مطلب ہے کہ دل میں بھی معاملہ صحیح ہو.یعنی منافقت سے نہ ہو.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص دوسرے کے پاس جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ آئیے تشریف رکھئے ، آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی لیکن دل میں اس کے متعلق یہ ارادہ رکھتا ہے کہ موقع ملے تو اسے تباہ کر دوں.یہ بات قدوسیت کے خلاف ہے.قدوسیت یہ ہے کہ ظاہر و باطن دونوں میں پاکیزگی ہو.اللہ تعالیٰ قدوس ہے وہ فریب منافقت مداہنت اور ٹھگی نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ لوگ گمراہی سے بچ جائیں.یہ نہیں کہ بظاہر اچھا سلوک کرے لیکن دراصل سزا دینے کیلئے موقع کا منتظر رہے.وہ جب سزا نہیں دیتا تو چاہتا بھی یہی ہے کہ نہ دے بلکہ جب دیتا ہے اس وقت بھی چاہتا یہی ہے کہ نہ دے.لیکن سزا پانے والا اپنے اعمال سے اسے سزا دینے پر مجبور کر دیتا ہے.پس دیکھو 1,
۵۱۸ اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کس طرح ثابت ہو رہی ہے.....kr (الفضل ۲۶.فروری ۱۹۳۵ء) نظم و ضبط اور جماعتی ترقی کیلئے خلیفہ وقت اور اس کے مقرر کردہ کارکنوں اور عہدیداروں کی مکمل اطاعت.افسروں کا اپنے ماتحتوں اور عام افراد سے عزت نفس کو قائم رکھنے بلکہ زیادہ کرنے والے سلوک کی تلقین فرماتے ہوئے آپ کی نظر سے یہ پہلو بھی مخفی نہ تھا کہ ہر جماعت میں بعض منافق طبع لوگ ایسے چھپے ہوئے دشمن ہوتے ہیں جو بیرونی دشمنوں اور مخالفوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں.تاریخ عالم میں ایسے افسوسناک واقعات کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ نفاق کا کینسر اندر ہی اندر بڑھتا اور پھیلتا رہا اور اس کی نحوست سے بڑی بڑی حکومتیں اور طاقتیں تہ و بالا ہو گئیں.اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر حضور کثرت سے جماعت کو تنبیہ فرماتے رہے اور آپ ہمیشہ اس امر کے لئے کوشاں رہے کہ جماعت اس فتنہ سے محفوظ رہے.یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی میں جو فتنے بھی اٹھے آپ نے ان کا ایک بیدار اور چوکس رہنما کی طرح مقابلہ کیا اور ایسے ہر فتنے کے بعد جماعت مضبوط سے مضبوط تر ہو کر ترقی و استحکام کی منزلیں طے کرتی چلی گئی.نفاق کی خرابیوں اور نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے ایک خطبہ میں آپ نے فرمایا.وو جماعت کو زندہ رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس قسم کے (منافق.ناقل) لوگوں کی اصلاح کی جائے.میں پھر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ رحم کے یہ معنی نہیں کہ باغ میں گھاس اگا ہو اور اسے کاٹانہ جائے اگر کوئی باغبان اس گھاس پر رحم کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ درخت مرجائے گا.اگر کوئی شخص سانپ پر رحم کرتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ سانپ اس کے بچہ کو کاٹ لے گا.باؤلے کتے پر اگر کوئی رحم کرتا ہے تو اچھے شہری مارے جائیں گے یہ رحم نہیں ظلم ہے.رحم کی مستحق سب سے اول جماعت ہے، رحم کا مستحق سب سے اول سلسلہ ہے ، رحم کا مستحق سب سے اول نظام سلسلہ ہے اور جو شخص ان کے خلاف باتیں کرتا ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے جماعت میں رہنے دیا (الفضل یکم دسمبر ۱۹۴۹ء) جائے." اس انتہائی تباہ کن خرابی اور فتنہ سے پوری طرح ہوشیار رہنے اور اپنے دامن کو اس آلودگی سے ہمیشہ کیلئے بچانے کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.منافق لوگ جماعت کو یا مجھے اس وقت تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ یہ
۵۱۹ ہماری ترقی کا زمانہ ہے.اس وقت ان کی حیثیت ایک مچھر کی بھی نہیں.مچھر کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے مگر وہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے لیکن پھر بھی انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ اگر یہ بیچ قائم رہا تو جب جماعت کمزور ہو جائے گی اس وقت اسے نقصان پہنچائے گا اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ نہ صرف ہم اپنی اصلاح کریں بلکہ ایسے لوگوں کی بھی اصلاح کریں جو جماعت کے لئے آئندہ کسی وقت بھی مضر ہو سکتے ہیں.پس ان لوگوں کو کچلنا ہمارا فرض ہے خواہ ان کے ساتھ ان سے ہمدردی رکھنے والے بعض بڑے لوگ بھی کچلے جائیں اور ہر مخلص اور بچے مبائع کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بارہ میں میری مدد کرے اور ایسے لوگوں کے متعلق مجھے اطلاع دے.اور اگر کوئی احمدی میرے اس اعلان کے بعد اس کام میں کو تاہی کرے گا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک مومن نہیں ہو گا بلکہ اس کی بیعت ایک تمسخر بن جائے گی کیونکہ اس نے جان ومال اور عزت کے قربان کرنے کا وعدہ کیا لیکن جب خلیفہ وقت نے اسے آواز دی تو اس نے کسی کی دوستی کی وجہ سے اس آواز کا جواب نہیں دیا.پس ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ منافقین کی اطلاع مجھے دے.تم اس بات سے مت ڈرو کہ سو میں سے پچاس احمدی نکل جائیں گے.تم پچاس سے ہی سو بنے ہو بلکہ تم ایک سے سو بنے ہو پھر اگر سو میں سے پچاس نکل جائیں گے تو کیا ہوا.پس یہ مت خیال کرو کہ ان لوگوں کے نکل جانے سے جماعت کو کوئی نقصان پہنچے گا.گھاس کاٹ دینے سے باغ سے سبزہ تو کم ہو جاتا ہے لیکن درخت نشو و نما پاتا ہے اور باغ زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے." (الفضل یکم دسمبر ۱۹۴۹ء).جماعتی نظم و ضبط اور اتحاد کو قائم رکھنے اور جماعت کی روحانی و اخلاقی حالت کو معیاری بنانے کیلئے بعض کمزور طبع لوگوں کو ان کی کمزوری پر کئی طرح سے فہمائش و تادیب ہو سکتی ہے.حضور نهایت حکمت و دانائی سے ہر پیش آمدہ صورت پر شریعت کے مطابق عمل فرماتے.زیر نظر مضمون کی مناسبت سے آپ جو ذرائع اصلاح عمل میں لاتے تھے ان میں سے اخراج از نظام جماعت کی تشریح ضروری معلوم ہوتی ہے.حضرت فضل عمر اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں."جماعت کے معنے یہ ہیں.کہ ہم لوگ متفق ہو کر ایک اقرار کرتے ہیں.اور وہ یہ کہ ہم نظام سلسلہ کی مضبوطی کے لئے مل کر کوشش کرتے رہیں گے.لیکن وہ جو نظام سلسلہ کو توڑتا ہے ہم ہر وقت اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ جب اسے نظام کا احترام نہیں
۵۲۰ تو ایسے شخص کی جماعت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا جائے.لیکن جماعت سے نکالنے کا مفہوم احمدیت سے نکالنا نہیں ہو تا.احمدیت اعتقاد اور ایمان سے تعلق رکھتی ہے.یہ علیحدہ چیز ہے.ہو سکتا ہے ایک شخص کو ہم جماعت سے نکالیں اور وہ احمدیت پر قائم ہو.یہ ایک غلطی ہے جو بعض لوگوں کو لگ جاتی ہے.پہلے بھی میں نے بیان کیا تھا کہ اس قسم کا اخراج احمدیت سے اخراج نہیں ہوتا.ہم اس قسم کی کفر بازی کا سلسلہ جماعت احمدیہ میں جاری کرنا نہیں چاہتے.خلفاء تو کیا در اصل انبیاء کو بھی اس قسم کا اختیار نہیں ہوتا...در حقیقت اسلام سے خدا بھی نہیں نکالتا بندہ ہی ہے جو خود اپنے آپ کو اس سے نکال لیتا ہے.جب ایک بندہ اپنے منہ سے کہتا ہے کہ میں اللہ اور رسول پر ایمان لاتا ہوں تو خدا تعالیٰ بھی یہی کہتا ہے.بہت اچھا.پس جماعت سے اخراج کا جو بھی اعلان ہو.وہ احمدیت سے اخراج کا مفہوم نہیں رکھتا.میں یہ تشریح کر دیتا ہوں تالوگ دھوکے میں نہ رہیں.اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ جس غرض کے لئے خلافت کو قائم کیا گیا ہے اور جو عظیم الشان مقصد اس کا رکھا گیا ہے کہ لوگ ایک نظام کے ماتحت رہیں چونکہ وہ شخص اس میں اشتراک عمل کے لئے تیار نہیں ہوتا اس لئے وہ ہمارے ساتھ کام نہیں کر سکتا.ہم اسے جماعت سے علیحدہ کر دیتے ہیں مگر احمدیت سے نہیں نکالتے بلکہ نکال سکتے ہی نہیں.ہمارا احمدیت سے نکالنے میں کسی قسم کا اختیار نہیں." (الفضل ۲۶.مارچ ۱۹۳۱ء) ، کوه و قار مخالف حالات سے عہدہ بر آہونے کے لئے دنیوی رہنما بالعموم جن طریقوں سے کام لیتے ہیں ان میں سازش ، چالا کی جوڑ توڑ، رشوت خوشامد اور ایسے ہی دوسرے خلاف شرع اور غیر اخلاقی حربے شامل ہوتے ہیں.جن کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں.تاہم حضرت مصلح موعود نے کبھی کسی مخالفت یا کبھی کسی مخالف کے مقابلہ میں کوئی غیر اخلاقی اور غیر شریفانہ طریق عمل اختیار نہیں کیا.یہی وجہ ہے کہ مخالفانہ حرکات میں تمام اخلاقی و قانونی پابندیوں کو پھلانگ کر آپ پر رکیک الزامات لگانے والے بھی خود اپنے عمل سے یہ شہادت دیتے تھے کہ وہ اپنے زبانی دعاوی و الزامات کے بر عکس حضور کی عظمت و بزرگی کے قائل ہیں ایسے ہی ایک مخالف کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں.” جب مستریوں نے میرے خلاف بہت شور مچایا تو میں نے مستری فضل کریم اور
۵۲۱ ان کے بڑے بیٹے مستری عبد الکریم کو بلایا اور ان سے کہا تم میری صداقت کا مجھ سے ثبوت مانگتے ہو.میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میری صداقت کا تم خود ثبوت ہو.وہ کہنے لگے کس طرح.میں نے کہا مرزا ارشد بیگ یہاں موجود ہے اور وہ علانیہ شراب پیتا ہے.اب تو وہ فوت ہو گیا ہے اور بعد میں اس نے توبہ بھی کرلی تھی.ہم امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کر دیا ہو گا) تم یہ بتاؤ کہ قادیان میں مرزا ارشد بیگ کی زیادہ حکومت ہے یا میرنی.وہ کہنے لگے آپ کی.میں نے کہا تو کیا تم میں یہ جرات ہے کہ بازار میں کھڑے ہو کر مرزا ارشد بیگ صاحب کے خلاف ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکال سکو.پھر میں نے کہا مفتی فضل الرحمن صاحب کی طرف دیکھو (مفتی صاحب بھی فوت ہو چکے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ اس نے مرنے سے پہلے ان کو ہدایت دے دی ہوگی اور ان کو بھی اپنے فضل سے معاف کر دیا ہو گا مگر بہر حال ان میں یہ نقص تھا کہ وہ نماز کیلئے مسجد میں نہیں آتے تھے میں نے کہا کیا تم میں یہ طاقت ہے کہ چوک میں کھڑے ہو کر کہہ سکو کہ مفتی فضل الرحمٰن صاحب نماز میں نہیں آتے.پھر میں نے کہا یہ دو شخص وہ ہیں جن کی دنیوی لحاظ سے ہمارے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں.ہم قادیان کے مالک ہیں اور ہمیں دینی لحاظ سے وہ مقام حاصل ہے کہ قادیان کی اکثریت میرے ایک اشارہ پر اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہے.مگر اس کے باوجود تم میرے خلاف کئی قسم کی باتیں پھیلاتے رہتے ہو لیکن ان دو کے خلاف جن کا میں نے نام لیا ہے تمہیں کبھی جرأت نہیں ہو سکتی کہ ایک لفظ بھی کہہ سکو حالا نکہ سب لوگ ان باتوں کو جانتے ہیں.جب حالت یہ ہے تو کیا تم نے کبھی سوچا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ محض یہ ہے کہ تمہارے دلوں میں میرے متعلق یہ یقین ہے کہ خواہ میرے متعلق تم کچھ کہو میں تمہارے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا لیکن ان کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ اگر ہم نے ایک لفظ بھی ان کے خلاف کہا تو یہ ہمیں سیدھا کر دیں گے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ میں شریف ہوں اور تمہارا اپنا عمل میری شرافت پر ایک زندہ گواہ ہے".الفضل ۱۲- فروری ۱۹۴۵ء) دشمن کے سوقیانہ حملوں اور رکیک بازاری الزامات کے مقابل پر آپ کا کوہ و قار بنے رہنا
۵۲۲ اس جرات و طاقت کی وجہ سے تھا جو خدائے رحمن کے خاص بندوں کو خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کے وعدوں پر بھروسے کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے.اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.و مجھ پر ان کا حملہ بتاتا ہے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ میں پُر امن ہوں ورنہ دنیا میں کسی ادنیٰ سے ادنی آدمی پر بھی کوئی شخص اس طرح حملہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا جس طرح مجھ پر حملہ کیا جاتا ہے گویا میں اس وسیع دنیا میں ایک ہی یتیم اور بے بس ہوں جس کی عزت پر حملہ کرنا کوئی نقصان نہیں پہنچا تا مگر دشمن نادان ہے بے شک بظاہر میں ایک ہی یتیم ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان مجھے چھوڑ دیں مگر خدا تعالیٰ مجھے نہیں چھوڑے گا میں نے اس دنیا میں ان لوگوں سے جو میری محبت کا دم بھرتے تھے ظلم پر ظلم دیکھے ہیں مگر ایک ہے جس نے مجھے کبھی نہیں چھوڑا اور اسی کے منہ کے لئے میں یہ سب برداشت کر رہا ہوں.یہ خلافت میرے لئے پھانسی سے کم ثابت نہیں ہوئی لوگوں نے مجھے تختہ دار پر کھینچا اور فخر کرنے لگے کہ انہوں نے مجھے تخت بخش دیا ہے مگر میرے خدا نے مجھے کہا کہ تو یہ سب کچھ برداشت کر او راف نہ کر کیونکہ تیرے دکھ میرے لئے ہیں نہ کہ بندوں کے لئے.پس جن کے لئے تیرے دکھ نہیں تیرا حق نہیں کہ ان سے صلہ کا امیدوار ہو.تیرا کام بندوں کے لئے بغیر اجرت کے ہے مگر تو بے اجرت نہیں چھوڑا جائے گا میں تو تیرے زخموں پر مرہم رکھوں گا اور تیری ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جو ڑ دوں گا.انسانوں نے بے شک تیرے ساتھ ظلم کیا ہے مگر کیا میری محبت اس کا کافی سے زیادہ بدلہ نہیں اور کیا میری محبت کا دعوی کرتے ہوئے اس کے سوا تجھے کسی اور چیز کی خواہش ہو سکتی ہے.میرے رب کی یہی آواز ہے جس نے تاریکی کے وقتوں میں میرا ساتھ دیا اور جب میرا دل بیٹھنے کو ہو تا تھا تو اس نے میرے دل کو سہارا دیا ہے ورنہ مجھ پر ہزاروں گھڑیاں آئی ہیں کہ موت مجھے حیات سے زیادہ عزیز تھی اور قبر کا کونہ گھر کے کمروں سے مجھے زیادہ پیارا تھا." (الفضل ۲۹.جولائی ۱۹۳۷ء) دشمنوں کے مقابل پر کسی سازش وغیرہ کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا آپ نے کبھی کوئی دھمکی تک نہ دی.ایک شدید معاند کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں."" کہتے ہیں، مجھے خلافت پر گھمنڈ ہے لیکن میری کسی تحریر میں سے ہی کوئی ایسا
۵۲۳ فقرہ دکھا دیں کہ میں نے کہا ہو میں ایسا کروں گا ہاں یہ میں نے سینکڑوں دفعہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ میری نصرت کرے گا اور یہ میں اب بھی کہتا ہوں یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پیغام ہے جس کا پہنچانا میرا فرض ہے اس کے سوا کوئی ثابت کر دے کہ کسی چھوٹے سے چھوٹے آدمی نے بھی مجھے دھمکی دی ہو اور میں نے اسے کہا ہو کہ میں تمہیں سیدھا کر دوں گا.میرا ہزاروں لاکھوں انسانوں سے واسطہ ہے کوئی بتادے اگر میں نے کبھی ایسا کہا ہو میں نے کبھی شدید غصہ کی حالت میں بھی ایسی بات نہیں کی میری تحریرات کا سلسلہ بہت وسیع ہے کسی جگہ کوئی یہ لکھا ہوا دکھا دے کہ میں یوں کروں گا میں دنیا کو دکھا دوں گا......(الفضل ۱۷ اگست ۱۹۳۷ء) اپنے خداداد منصب کے تقاضوں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے وعدوں اور تسلیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور فرماتے ہیں."خدا کا بنایا ہو ا خلیفہ کبھی کسی سے نہیں ڈرتا کیا میں اس بات سے ڈر جاؤں گا کہ لوگ مرتد ہو جائیں گے.جس کے لئے ارتداد مقدر ہے وہ کل کی بجائے بے شک آج ہی مرتد ہو جائے مجھے کیا فکر ہے میں جب جانتا ہوں کہ میں خدا کا بنایا ہوا خلیفہ ہوں خواہ ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ ہو تو بھی کیا ڈر ہے.جب خدا تعالیٰ مجھے تسلیاں دیتا ہے تو میں انسانوں سے کیوں ڈروں ادھر یہ لوگ مجھے ڈراتے ہیں اور ادھر خدا تعالیٰ مجھے تسلی دیتا ہے ان چند روز میں اتنی کثرت سے مجھے الہام اور رویا ہوئے ہیں کہ گزشتہ دو سال میں اتنے نہ ہوئے ہوں گے ابھی چند روز ہوئے کہ مجھے الہام ہوا جو اپنے اندر دعا کا رنگ رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اے خدا میں چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہوں.تو میری مدد فرما." اور پھر اس کے تین چار روز بعد الہام ہوا جو گویا اس کا جواب ہے میں تیری مشکلات کو دور کروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کر دوں گا....جب خدا تعالیٰ مجھے تسلیاں دیتا ہے تو میں بندوں سے کیوں ڈروں....خدا تعالیٰ نے بار بار مجھے انسانوں کی کمزوی پر آگاہ کر دیا ہے پھر کیا میں اب بھی بندوں پر بھروسہ کر سکتا ہوں...اگر ایک شخص بھی تم میں سے میرے ساتھ نہ رہے تو بھی مجھے کوئی پرواہ نہیں کیونکہ میرا خد امجھ سے کہتا ہے کہ میں تیرا ساتھ دوں گا." (الفضل ۳۰.جولائی ۱۹۳۷ء)
۵۲۴ دشمن کی اشتعال انگیزی کے بالمقابل اسلامی اخلاق و صفات کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.اشتعال کے موقعہ پر انسان کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے پس اپنے ایمانوں کو درست رکھو اور کبھی کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو اسلام اور شریعت کے خلاف ہو تم کو اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن میرے دل میں خلافت کی ایک بکری کی مینگنی کے برابر بھی قیمت نہیں ہو سکتی اگر اس کی تائید کے لئے جھوٹ اور فریب سے کام لیا جائے.خلافت ای وقت تک قابل قدر ہے جب صداقت کی تلوار سے اس پر حملہ آوروں کا مقابلہ کیا جائے اور انصاف کے تیروں سے اس کی حفاظت کی جائے.پس یا د رکھو کہ خواہ کیسی ہی حالت پیش آئے تم عدل و انصاف کو نہ چھوڑو اور جو سچائی ہو اسے اختیار کرد تا دشمن کو تمہارے متعلق کسی قسم کے اعتراض کا موقعہ نہ ملے اور یاد رکھو کہ اگر کوئی شخص تمہیں جھوٹ بولنے کی ترغیب دیتا ہے تو خواہ وہ ناظرہی کیوں نہ ہو تم فورا اس کی رپورٹ میرے پاس کرو کیونکہ ہمارے پاس ایمان کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہم کنگال اور خالی ہاتھ ہیں اگر ایمان کی دولت بھی ہمارے ہاتھ میں نہ رہی او راگر ہم نے اسے بھی چھوڑ دیا تو پھر ہماری حالت وہی ہو گی جو کسی شاعر نے یوں کھینچی ہے کہ خدا ہی وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے پس صداقت اور انصاف سے کام لو اور غیرت قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کرو مگریاد رکھو تم نے ظلم نہیں کرنا اور جھوٹ نہیں بولنا اور اگر کوئی شخص تمہیں ظلم کرنے یا جھوٹ بولنے کی تعلیم دیتا ہے....تو تم فوراً سمجھ جاؤ کہ تمہارے سامنے ایمان کا جبہ پہنے ایک شیطان کھڑا ہے اور تم فورا سمجھ لو کہ وہ میری نافرمانی کرنے والا اور میری اطاعت سے منہ موڑنے والا انسان ہے.تم فوراً میرے پاس آؤ اور ایسے شخص کی شکایت کرد اور اس گندے وجود کو کاٹنے کی بلا تردد کوشش کرو ایسا نہ ہو کہ وہ باقی قوم کو بھی گندہ کر (الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۳۷ء) دے." اسی طرح دعا اور صبر سے کام لینے کی نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.” میری پالیسی یہی ہے کہ صبر سے کام لو اور اینٹ کا جواب اینٹ سے اور پتھر کا
۵۲۵ جواب پتھر سے نہ دو بلکہ گالیاں سنو اور خاموش رہو.اشتعال پیدا ہو تو اس جگہ کو چھوڑ دو کیونکہ یہ سب ہمارے خدا کے امتحان ہیں وہ ہم کو اس روحانی جنگ کے لئے جو اسلام کی فتح کے لئے روحانی ہتھیاروں سے لڑی جانے والی ہے تیار کر رہا ہے اگر اس نے ہم سے ظاہری تلواریں چلوانی ہوتیں تو وہ ہم کو ظاہری حکومت اور ظاہری فوج بھی عطا کر تا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ہم سے دعا اور صبر کی تلوار چلو انا چاہتا ہے نہ کہ لوہے کی تلوار." (الفضل ۲۰.اگست ۱۹۳۷ء) مخالفت اور فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے آپ کو غیر معمولی عزم و ہمت سے نوازا جاتا تھا چنانچہ آپ فرماتے ہیں.” میری صحت ہمیشہ سے خراب رہی ہے اس صحت کی خرابی کی وجہ سے میری طبیعت پر ہمیشہ ایک بوجھ رہتا ہے اور اگر ذراسی بھی کوئی بیماری آجائے تو وہ اس پرانی بیماری کو اُبھار دیتی ہے لیکن باوجود اس کے کہ ان فتن کی وجہ سے کام بہت زیادہ ہو گیا سوائے آنکھوں کی تکلیف کے کہ میں متواتر دیکھ رہا ہوں میری آنکھیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں.عام صحت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے میں ایسی تبدیلی دیکھتا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس فتنہ کا ہر ظہور میرے لئے دوا کا کام دے رہا ہے اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا فتنے کی موجودگی میں اس کا مقابلہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے پورے جسم میں ایک نئی طاقت نئی ہمت نیا ولولہ اور نیا جوش داخل کر دیا جاتا ہے اور اب موجودہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے میرے اندر اتنی ہمت پیدا کر دی ہے کہ میں آج کل اپنے آپ کو کئی سال پہلے سے بہت زیادہ مضبوط جوان محسوس کر رہا ہوں.بیماریاں وہی ہیں جو پہلے تھیں مگر میرے ارادہ اور میری ہمت اور میرے عزم میں اتنا عظیم الشان تغیر پیدا ہو گیا ہے کہ میں اسے الہی فیضان سمجھتا ہوں." الفضل ۶ - اگست ۱۹۳۵ء صفحه ۶) حضرت مصلح موعود کا یہ بیان اس وقت کا ہے جب آپ کی عمر چالیس سال سے متجاوز ہو چکی تھی.عام قانون قدرت کے مطابق چالیس سال کے بعد انسانی قومی میں نقاہت و اضمحلال کا عمل شروع ہو جاتا ہے مگر اس بیان میں تو یہ خارق عادت اور غیر معمولی امر نظر آتا ہے کہ ایسے حالات میں جبکہ عام انسان بو کھلا کر ادھر ادھر بے مقصد ہاتھ پاؤں چلانے لگتا ہے اور بسا اوقات اس سے
۵۲۶ ایسی حرکات بھی سرزد ہو جاتی ہیں جو اس کی ثقاہت وجاہت اور بلند اخلاق سے کسی طرح بھی مطابقت نہیں رکھتیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نہ صرف یہ کہ ایسے مواقع پر معمول کے مطابق پر سکون اور ہشاش رہتے تھے بلکہ آپ کی خداداد صلاحیتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا تھا.ہر وہ خوش قسمت جسے ایسے مواقع پر آپ کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی وہ اس امر کا گواہ ہے کہ سب سے زیادہ محنت ، سب سے زیادہ توجہ اور سب سے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ حضور کے ناتواں اور کمزور جسم سے ہی ہو تا تھا.ایسے مشکل مواقع پر سارے کام کی باگ ڈور حضور کے اپنے دست مبارک میں ہوتی تھی اور آپ کی طرف سے یہ مستقل اور تاکیدی ہدایت بھی تھی کہ جیسے ہی کوئی رپورٹ موصول ہو بلا تاخیر حضور کی خدمت میں پیش کر کے حضور سے رہنمائی حاصل کی جائے.یہ ایک غیر معمولی اور حیران کن حقیقت ہے کہ دن رات کے چوہیں گھنٹوں میں جب بھی حضور کی خدمت میں کوئی رپورٹ پیش کی گئی آپ کے چہرے مہرے یا کسی حرکت سے کبھی بھی نیند کے غلبہ یا تکان دستی کا اظہار نہ ہو تا بلکہ آپ ہر وقت پوری مستعدی سے رپورٹ کا معائنہ فرماتے اور حسب موقع ہدایات سے نوازتے.۱۹۵۶ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت مصلح موعود نے خلافت حقہ ایک گراں قدر خدمت اسلامیہ کے موضوع پر خطاب فرمایا.اس پر معارف خطاب میں حضور نے ابتدائے آفرینش سے خدائی سلسلوں کی مخالفت کی تاریخ اور پس منظر بیان کرنے کے بعد ) جماعت میں خلافت کو دائمی بنانے کے لئے خلیفہ کے انتخاب کا طریق کار بیان کرتے ہوئے فرمایا.اگر جماعت احمد یہ خلافت کے ایمان پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے " صحیح جد و جہد کرتی رہی تو اس میں بھی قیامت تک خلافت قائم رہے گی.....آئندہ جب کبھی خلافت کے انتخاب کا وقت آئے تو صد را انجمن احمدیہ کے ناظر ، ممبر اور تحریک جدید کے وکلاء اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے زندہ افراد....حضرت مسیح موعود کے صحابہ بھی اور جامعۃ المبشرین کا پرنسپل اور جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ اور تمام جماعت ہائے پنجاب اور سندھ کے ضلعوں کے امیر اور مغربی پاکستان اور کراچی کا امیر اور مشرقی پاکستان کا امیر مل کر اس کا انتخاب کریں." اس تقریر پر نظر ثانی کرتے ہوئے حضور نے اس فہرست میں مندرجہ ذیل اضافہ فرمایا.ایسے سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہ چکے ہوں....اسی طرح ایسے
۵۲۷ تمام مبلغ جو ایک سال تک غیر ملک میں کام کر آئے ہوں اور بعد میں سلسلہ کی طرف سے ان پر کوئی الزام نہ آیا ہو.اسی طرح ایسے (مربی) جنہوں نے پاکستان کے کسی ضلع یا صوبہ میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم سے کم ایک سال کام کیا ہو." اس انتخاب کی اطلاع کے متعلق طریق کار کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.سیکرٹری شوری تمام ملک میں اطلاع دے دے کہ فورا پہنچ جاؤ اس کے بعد جو نہ پہنچے اس کا اپنا قصور ہو گا اس کی غیر حاضری خلافت کے انتخاب پر اثر انداز نہ ہوگی." اس مجلس انتخاب کی کارروائی کو قطعی قرار دیتے ہوئے حضور نے فرمایا.” یہ سب لوگ مل کر جو فیصلہ کریں گے وہ تمام جماعت کے لئے قابل قبول ہو گا اور جماعت میں سے جو شخص اس کی مخالفت کرے گاوہ باغی ہو گا." اس مقررہ طریق پر منتخب ہونے والے خلیفہ کو خدائی تائید و نصرت اور کامیابی کی بشارت دیتے ہوئے حضور نے فرمایا." مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالٰی اس کے ساتھ ہو گا اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہو گا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ جو بھی خلیفہ چنا جائے وہ کھڑے ہو کر یہ قسم کھائے کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے کوشش کرتا رہوں گا اور میں ہر غریب اور امیر آدمی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور اگر میں بدنیتی سے کہہ رہا ہوں یا اگر میں دانستہ ایسا کرنے سے کو تاہی کروں تو خدا کی مجھ پر لعنت ہو.جب وہ یہ قسم کھائے گا تو پھر اس کی بیعت کی جائے گی اس سے پہلے نہیں کی جائے گی.اس طرح منتخب کرنے والی جماعت میں سے ہر شخص حلفیہ اعلان کرے کہ میں خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اور کسی ایسے شخص کو روٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین میں سے خارج ہو یا اس کا تعلق غیر مبالعین یا غیر احمدیوں سے ثابت ہو.......حضور نے اپنے اس خطاب میں بزرگان امت کے طریق کار اور اقوال کو پیش کر کے خلافت
۵۲۸ اور شوری کے موضوع پر علمی بحث کرنے کے بعد آخر میں فرمایا.میں نے خلافت کا مذکورہ بالا قاعدہ بنایا ہے جس پر پچھلے علماء بھی متفق ہیں.محدثین بھی اور خلفاء بھی متفق ہیں.پس وہ فیصلہ میرا نہیں بلکہ خلفاء محمد علی ایم کا ہے اور صحابہ کرام کا ہے اور علماء امت کا ہے جن میں حنفی ، شافعی ، وہابی سب شامل ہیں.......حضور نے مذکورہ بالا مجلس انتخاب میں بعد میں بعض اور ناموں کا اضافہ فرمایا جیسے امیر جماعت احمدیہ قادیان اور ممبران صدر انجمن احمدیہ قادیان.اس کے علاوہ حضور نے انتخاب خلافت کے سلسلہ میں مجلس علماء کی تجویز کے مطابق بطور بنیادی قانون یہ فیصلہ فرمایا کہ آئندہ انتخاب خلافت کے لئے یہی قانون جاری رہے گا سوائے اس کے کہ دوبارہ خلیفہ وقت کی منظوری سے شوری میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوری کے مشورہ کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے.“ ( الفضل ۲۳.مارچ کے ۱۹۵ء) ۱۹۵۹ء کے سالانہ اجتماع خدام پر حضور نے ایک تاریخی عہد لیا جس کے الفاظ یہ ہیں.اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - ہم الله تعالی کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ میں اللہ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے.تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے.اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے.اور محمد رسول اللہ میں ایم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللهم أمِيْنَ اللَّهُمَّ مِيْنَ اللَّهُمَّ أَمِينَ - ا
۵۲۹ اور اس عہد کے متعلق آپ نے یہ ارشاد بھی فرمایا کہ ید عمد...متواتر چار صدیوں بلکہ چار ہزار سال تک جماعت کے نوجوانوں سے لیتے چلے جائیں.اور جب تمہاری نئی نسل تیار ہو جائے تو ہم اسے کہیں کہ وہ اس عہد کو اپنے سامنے رکھے اور ہمیشہ اسے دہراتی چلی جائے.اور پھر وہ نسل یہ عہد اپنی تیسری نسل کے سپرد کر دے اور اس طرح ہر نسل اپنی اگلی نسل کو اس کی تاکید کرتی چلے جائے.اسی طرح بیرونی جماعتوں میں جو جلسے ہوا کریں ان میں بھی مقامی جماعتیں خواہ خدام کی ہوں یا انصار کی یہی عہد دہرایا کریں.یہاں تک کہ دنیا میں احمدیت کا غلبہ ہو جائے.اور اسلام اتنا ترقی کرے کہ دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائے." الفضل ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحه (۴) حضرت مصلح موعود کا انتہائی دور اندیشی اور تدبر کا مظہر یہ کارنامہ جماعت اور اسلام کی سر بلندی کے لئے ایک ایسی ناقابل فراموش اور بے مثال خدمت ہے جو ہمیشہ یاد گار رہے گی.اس اقدام سے نہ صرف تمام امکانی رخنوں اور اختلاف و انشقاق کے تمام رستوں اور ذرائع کو بند کر دیا گیا بلکہ اتفاق و اتحاد اور نظم و ضبط کی ایک مضبوط و مستحکم بنیاد مہیا ہو گئی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بعد میں ہونے والے انتخاب خلافت اس امر کا ثبوت بن گئے کہ حضرت مصلح موعود کی قیادت و نگرانی میں جماعت بنیان مرصوص بن گئی اور ہمیشہ کے لئے ایمان و عمل صالح کے اس بلند مقام پر فائز ہو گئی جہاں عظیم خدائی انعام ” خلافت " حاصل ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے اس انعام کے ایک ضمنی فائدہ یا نتیجہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور جماعت کو یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ :.وو...دنیا میں کون سا ایسا نبی آیا ہے.جسے پہلے ہی دن حکومت مل گئی ہو.رسول کریم میں یا تو یہ تیرہ برس مکہ میں رہے.مگر کون کہہ سکتا تھا کہ وہی شخص جو مکہ کی گلیوں میں کسمپرسی کی حالت میں پھرا کرتا تھا.ایک دن دنیا کا بادشاہ بن جائے گا.حضرت مسیح ناصری کی امت واقعہ صلیب کے بعد سینکڑوں سال تک تکلیفیں اٹھاتی رہی.پھر خدا نے انہیں جب حکومت دی تو اتنی لمبی حکومت دی کہ اب تک قائم ہے.ایک وقت تھا که اسلامی حکومت نے عیسائی سلطنت کو تباہ کر دیا تھا.مگر پھر بھی آگ کی چنگاری کی طرح عیسائی حکومت دبی رہی.اسلامی حکومتوں کے زمانہ میں تو وہ دبے رہے مگر پھر
۵۳۰ بھڑک اٹھے.پس یک لخت سلطنت اور حکومت تو کبھی نہیں ملتی.یہی حال جماعت احمدیہ کا سمجھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو اللہ تعالٰی حکومت دے گا مگر اپنے وقت پر چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے (دیہ آمدہ زراو دور آمدہ) یہ الہام ہے تو ایک شخص کے متعلق مگر اس میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ جو چیز دیر سے ملتی ہے.وہ دیر پا بھی ہوتی ہے زراہ دور آمدہ کا منشا یہی ہے کہ خدا نے اس کو بہت دور سے بھیجا ہے اور وہ بہت دیر پا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ رسول کریم میں ایل او لیول کا جو یہ دوسرا ظہور ہوا ہے.اس میں جب احمدیہ جماعت کو حکومت ملی تو اس کا بڑا لمبا دور ہو گا کہ اس سے بڑھ کر لمبا دور اور کسی حکومت کا نہ ہو گا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے دشمنوں کو اس بات کی سمجھ عطا فرمائے کہ خدا کے شیروں کے مقابل کھڑا ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے." (الفضل ۲۷.جون ۱۹۳۱ء) مذکورہ بالا لائحہ عمل جلسہ سالانہ میں جماعت کے سامنے پیش کیا گیا.حضور کی نظر ثانی کے بعد الفضل میں شائع ہوا اور اس کے بعد مزید غور و فکر کرنے اور معین رنگ دینے کے لئے کے ۱۹۵ ء کی مجلس شوری میں پیش کیا گیا.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون کا خاتمہ پیارے رہنما حضرت فضل عمر کی مندرجہ ذیل دلی خواہش اور دعا پر کیا جائے.ایجنڈا ختم ہو گیا ہے اس لئے اب دعا کے ساتھ میں دوستوں کو رخصت کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اور آپ کو دعائیں کرنے اور قرآن کریم اور اسلام پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کا جو عہد آپ نے کیا ہے اس کے پورا کرنے کی آپ کو اور آپ کی اولاد کو ہمیشہ توفیق ملتی رہے اور قیامت تک اس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پھیلتا رہے.حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلی طور پر ملتا ہے اصل میں یہ سب کچھ محمد رسول اللہ یتیم کا مال ہے انہی کے مال کی حفاظت کیلئے ہم لڑ رہے ہیں ورنہ ہمیں اپنی کسی عزت کی ضرورت نہیں اگر محمد رسول اللہ ملی و ویلی کی فتح ہو جائے تو ہمیں دنیا کے تمام دکھ اٹھانے منظور ہیں.خواہش ہے تو صرف اتنی کہ محمد رسول اللہ صلی وی کی عزت دنیا میں قائم ہو".(رپورٹ مشاورت ۱۹۵۷ء صفحہ ۱۲۱٬۱۲۰)
۵۳۱ نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جانا پر اپنے نام ۱۹۱۴ء سے شروع ہونے والا مبارک دور خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ کامیابی و کامرانی کی عظیم منزلیں طے کرتے ہوئے برابر آگے بڑھتا گیا.نصف صدی کی اس خوشگوار اور ایمان افروز داستان میں بعض نہایت مشکل اور کڑے وقت بھی آئے.خلافت ثانیہ کے بابرکت دور کے آغاز ہی میں قادیان سے تعلق منقطع کرنے والوں نے قادیان کی بعض عمارتوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ہم نے یہ عمارتیں خدمت اسلام کیلئے بنائی تھیں مگر جلد ہی ان پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا.ایک اور طرف سے یہ آواز گونجتی ہوئی سنائی دی کہ جماعت کی اکثریت تو ہمارے ساتھ ہے.اقلیت جلد ہی ختم ہو جائے گی.اس سے بھی بڑھ کر ایک بھاری بھر کم آواز یہ کہتے ہوئے سنی گئی کہ مینارہ المسیح کی اینٹیں دریائے بیاس میں بہادی جائیں گی اور قادیان سے احمدیت کا نام و نشان تک مٹادیا جائے گا.بعض لوگوں نے اپنی اس خوش فہمی کی بناء پر ا کے ساتھ فاتح قادیاں " لکھنا شروع کر دیا.ان شدید ترین مخالفتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے احیاء دین اور قیام شریعت کی خوشنما کو نپل آہستہ آہستہ زمین میں مستحکم ہوتی گئی.اس کی جڑیں مضبوط اور اس کا تنا اور پھل پھول بڑھتے اور پھیلتے چلے گئے افریقہ کے متعدد ممالک امریکہ کی متعدد ریاستیں یورپ کے متمدن و مہذب ممالک ایشیاء اور آسٹریلیا کے مختلف مقامات احمدیہ خدمات سے استفادہ کرنے لگے.بیرونی ممالک میں تحریک جدید پھلنے پھولنے لگی.اندرون ملک اصلاح و ارشاد اور وقف جدید کا اصلاحی جال طائران قدس کو اپنی طرف مائل کرنے لگا.مخالفوں کی مخالفتیں هَبَاءً ا مَنْشُورًا ہوتی چلی گئیں اور احمدیت اپنے نیک اثرات دنیا بھر میں پھیلانے لگی.حضرت فضل عمر کا قائم شدہ نظام جس کی آپ نے لمبا عرصہ خود نگرانی اور حفاظت فرمائی قدرتی اور طبعی طریق سے ہمہ جہتی ترقی کرنے لگا اور احمدیت کا ہر آنے والا دن پہلے دن سے بہتر حالت پر ہی طلوع ہوا.حضرت فضل عمر طبعی و بشری تقاضوں کے مطابق عمر کے آخری حصہ میں بیمار ہو گئے.آپ سے والہانہ محبت و عقیدت کی وجہ سے جماعت کے ہر فرد کو یہ بیماری بہت دکھ دینے
۵۳۲ والی اور بہت لمبی لگی مگر اس میں بھی کئی مصالح اور فوائد مضمر تھے.حضور کا مندرجہ ذیل ارشاداس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتا ہے.آپ فرماتے ہیں.ایک رجس تو یہ دور ہوا کہ پہلے احمدی سمجھتے تھے کہ میں نے پانچ چھ سو سال زندہ رہنا ہے.بیماری آئی تو انہیں ہوش آگیا کہ ہم بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء صفحہ ۱۹۹) حضور کی بیماری اور علاج کا ذکر سوانح کی جلد سوم میں سفر یورپ کے سلسلہ میں ہو چکا ہے.حضور کے آخری لمحات کی منظر کشی کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (امام) جماعت احمدیہ) فرماتے ہیں.”ہمارے نہایت ہی پیارے امام میرے محبوب روحانی اور جسمانی باپ حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثانی کی بیماری کے آخری چند لمحات کی یاد ایک نہ مٹنے والا نقش ہے.شام سے طبیعت زیادہ خراب تھی اور مسلسل سانس کو درست رکھنے کے لئے آکسیجن دی جارہی تھی.چھاتی میں رسوب زیادہ بھر رہا تھا جسے بار بار نکالنے کی ضرورت پیش آتی تھی اور مکرم و محترم ڈاکٹر قاضی مسعود احمد صاحب اور برادرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب بار بار معائنہ فرماتے اور رسوب کا اخراج خود اپنے ہاتھوں سے کرتے رہے.بچوں میں سے دو تو ڈیوٹی پر تھے اور باقی تمام ویسے ہی جمع تھے.خاندان کے بڑے چھوٹے سبھی کے دل اندیشوں کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے تاہم زبان پر کوئی کلمہ بے صبری کا نہ تھا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا تھا.اندیشے دھوئیں کی طرح آتے اور جاتے تھے.تو کل علی اللہ اور نیک امید غیر متزلزل چٹان کی طرح قائم تھے.وہ جو صاحب تجربہ نہیں شاید اس بظاہر متضاد کیفیت کو نہ سمجھ سکیں لیکن وہ صاحب تجربہ جو اپنے رب کی قضاء کے اشاروں کو سمجھنے کے باوجود اس کی رحمت سے کبھی مایوس ہونا نہیں جانتے میرے اس بیان کو بخوبی سمجھ جائیں گے.پس افکار کے دھوئیں میں گھری ہوئی ایک امید کی شمع ہر دل میں روشن تھی اور آخر تک روشن رہی تاہم کبھی کبھی یہ فکر کا دھواں دم گھونٹنے لگتا تھا.دعا ئیں سب ہونٹوں پر جاری تھیں اور ہر دل اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھا.
۵۳۳ حضور پر کبھی غنودگی طاری ہوتی تو کبھی پوری ہوش کے ساتھ آنکھیں کھول لیتے اور اپنی عیادت کرنے والوں پر نظر فرماتے.ایک مرتبہ بڑی خفیف آواز میں برادرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو بھی طلب فرمایا.لیکن جیسا کہ مقدر تھا رفتہ رفتہ یہ غنودگی کی کیفیت ہوش کے وقفوں پر غالب آنے لگی اور جوں جوں رات بھیگتی گئی غنودگی بڑھتی رہی.اس وقت بھی گو ہماری تشویش بہت بڑھ گئی تھی لیکن یہ تو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ حضور کی یہ آخری رات ہے جو آپ ہمارے درمیان گزار رہے ہیں.تقریباً گیارہ بجے شب میں ذرا ستانے اور ایک لاہور سے تشریف لائے ہوئے مہمان کو گھر چھوڑنے گیا.اور عزیزم انس احمد کو تاکید کر گیا کہ اگر ذرا بھی طبیعت میں کمزوری دیکھو تو اسی وقت بذریعہ فون مجھے مطلع کر دو.نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹے ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ فون کی دل دہلا دینے والی گھنٹی بجنے لگی.مجھے فوری طور پر پہنچنے کی تاکید کی جارہی تھی.اسی وقت جلدی سے وضو کر کے نا قابل بیان کیفیت میں وہاں پہنچا.قصر خلافت میں داخل ہوتے ہی مکرم ڈاکٹر مسعود احمد صاحب اور مکرم ڈاکٹر ز کی الحسن صاحب کے پژمردہ چہروں پر نظر پڑی جو باہر برآمدے میں کرسیوں پر بیٹھے تھے.حضور کے کمرہ میں پہنچا تو اور ہی منظر پایا.کہاں احتیاط کا وہ عالم کہ ایک وقت میں دو افراد سے زائد اس کمرہ میں جمع نہ ہوں اور کہاں یہ حالت کہ افراد خاندان سے کمرہ بھرا ہوا تھا.حضرت سیدہ ام متین اور حضرت سیدہ مہر آپا بائیں جانب سرہانے کی طرف اداسی کے مجھے بنی ہوئی پٹی کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں.برادرم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب دائیں طرف سرہانے کے قریب کھڑے تھے اور حضرت بڑی پھوپھی جان اور حضرت چھوٹی پھوپھی جان بھی چارپائی کے پہلو میں ہی کھڑی تھیں.میرے باقی بھائی اور بہنیں بھی جو بھی ربوہ میں موجود تھے سب رہیں تھے اور باقی اعزاء و اقرباء بھی سب ارد گرد اکٹھے تھے سب کے ہونٹوں پر دعائیں تھیں اور سب کی نظریں اس مقدس چہرے پر جمی ہوئی تھیں.سانس کی رفتار تیز تھی اور پوری بے ہوشی طاری تھی.چہرے پر کسی قسم کی تکلیف یا جد وجہد کے آثار نہ تھے.میں نے کسی بیمار کا چہرہ اتنا پیارا اور ایسا نظر آتا ہوا نہیں دیکھا.میں نہیں جانتا کہ اس حالت میں ہم کتنی دیر کھڑے رہے اور سانس کی کیفیت میں وہ کیا تبدیلی تھی جس نے ہمیں غیر معمولی طور پر چونکا دیا.معصوم
۵۳۴ اس وقت مجھے پہلی مرتبہ یہ غالب احساس ہوا کہ گو خد اتعالیٰ قادر مطلق اور حی و قیوم ہے اور ہر آن اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے لیکن وہ تقدیر جس سے ہمارے نادان دل گھبراتے تھے وہ تقدیر آپہنچی ہے.پس اسی وقت میں نے قرآن کریم طلب کیا اور اس مقدس وجود کی روحانی تسکین کی خاطر جس کی ساری زندگی قرآن کریم کے عشق اور خدمت میں صرف ہوئی سورہ یسین کی تلاوت شروع کر دی.یہ ایک مشکل گھڑی تھی اور سر سے پاؤں تک میرے جسم کا ذرہ ذرہ کانپ رہا تھا.اس وقت مجھے صبر کی طنابیں ڈھیلی ہوتی ہوئی محسوس ہو ئیں.اس وقت میں نے اپنے چاروں طرف سے گھٹی گھٹی سسکیوں کی آواز میں بلند ہوتی ہوئی سنیں.لیکن خدا گواہ ہے کہ ہر سسکی دعاؤں میں لپٹی ہوئی اور ہر دعا آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی.سورہ یسین کی تلاوت کے دوران ہی میں سانس کی حالت اور زیادہ تشویشناک ہو چکی تھی اور تلاوت کے اختتام تک زندگی کی کشمکش کے آخری چند لمحے آپہنچے تھے.میں نے قرآن کریم ہاتھ سے رکھ دیا اور دوسرے عزیزوں کی طرح قرآنی اور دیگر مسنون دعاؤں میں مصروف ہو گیا.حضور نے ایک گہری اور لمبی سانس لی جیسے معصوم بچے روتے روتے تھک کر لیا کرتے ہیں اور ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے آپ کی آخری سانس ہے.اسی وقت میں نے ایک ہو میو پیتھک دوا کے چند قطرے پانی میں ملا کر اپنی تشہد کی انگلی سے قطرہ قطرہ حضور کے ہونٹوں میں ٹپکانے شروع کئے اور ساتھ ہی بے اختیار ہونٹوں پر یہ دعا جاری ہو گئی کہ يَا حَيٌّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ نَسْتَغِيْثُ اس وقت سانس بند تھے اور جسم ٹھنڈا ہو رہا تھا اور بظاہر زندگی کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا لیکن اچانک ہم نے حی و قیوم خدا کا ایک عظیم معجزہ دیکھا.مجھے حضرت پھوپھی جان کی بے قرار آواز سنائی دی کہ دیکھو ابھی پاؤں میں حرکت ہوئی تھی اور ان الفاظ کے ساتھ ہی ہونٹوں میں بھی خفیف سی حرکت ہوئی اور سانس لینے کا سا اشتباہ ہوا.معا شدید کرب اور بے چینی سکینت میں بدل گئے اور ہر طرف سے یا حی یا قیوم کی صدائیں بلند ہونے لگیں.اور جوں جوں ہم دعا کرتے رہے حضور کے سانس زیادہ گہرے ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ ڈاکٹر بھی جو جسم کو بظاہر مُردہ چھوڑ کر چلے گئے تھے واپس بلائے گئے اور بڑی حیرت سے اس معجزانہ تبدیلی کا مشاہدہ کرنے لگے.مگر معلوم ہو تا ہے کہ حضور کی زندگی کا بظا ہر
۵۳۵ جسم کو چھوڑ دینے کے بعد معجزانہ طور پر پھر واپس لوٹ آنا محض ہمارے دلوں کو سکینت عطا کرنے کی خاطر تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے گویا ایک فضل و احسان کا چھایا تھا جو ہمارے قلوب پر رکھا گیا.چنانچہ اس کے تقریباً بیس منٹ کے بعد حضور کو اپنے آسمانی آقا کا آخری بلاوا آ گیا.اس وقت کا منظر اور کیفیت نا قابل بیان ہیں.ہم نے آسمان سے صبر اور سکینت کو اپنے قلوب پر نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور یوں محسوس ہوا جیسے ضبط و تحمل کی باگ ڈور رحمت کے فرشتوں کے ہاتھوں میں ہے.آنکھوں سے آنسو ضرور جاری تھے اور دلوں سے دعا ئیں بھی بدستور اٹھ رہی تھیں مگر سب دل کامل طور پر راضی برضا اور سب سر اپنے معبود خالق و مالک کے حضور جھکے ہوئے تھے.ہم ٹکٹکی لگا کر اسی طرح خدا جانے کب تک اس پیارے چہرے کی طرف دیکھتے رہے جسے موت نے اور بھی زیادہ معصوم اور حسین بنا دیا تھا.اس تقدس کے ماحول میں جس کی فضاء ذکر الہی سے معمور تھی اور جس کی یاد کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی.حضور کی نعش مبارک نور میں نہائی ہوئی ایک معصوم فرشتے کی طرح پڑی تھی.دل بے اختیار ہم سب کے دل و جان سے زیادہ پیارے آقا حضرت رسول اکرم میں تو دلم پر درود بھیجنے کے بعد یہ کہتا تھا یا يّتها النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِى إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّة ۸.نومبر ۱۹۶۵ء کو یہ دور تکمیل کو پہنچا.اس دور کی محیر العقول غیر معمولی کامیابیوں کے پس پر دہ یقینا خدائے قادر و توانا کا مضبوط ہاتھ تھا جس نے آپ کی پیدائش سے قبل آپ کی غیر معمولی خوبیوں کی خوشخبری دے رکھی تھی.حضور کی عظیم الشان قیادت کا پوری طرح احاطہ کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے.خدا تعالیٰ نے فرزند موعود کی خوبیوں اور صفات کو بیان کرتے ہوئے تمثیلی زبان میں اس کی شان میں فرمایا كَاَنَّ اللهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ایسے وجود کی شاندار کامیابیوں، ترقیوں اور ہمہ جہتی عروج و عظمت کی داستان کے بیان کا پوری طرح حق ادا کرنا.این خیال است و محال است و جنوں سوانح کا زیر نظر کام کسی طرح بھی مکمل اور مثالی نہیں ہے تاہم اس فدائی ملت کے کارنامے مرور زمانہ کے ساتھ مدھم ہونے کی بجائے زیادہ نمایاں ہوتے چلے جائیں گے اور اس موضوع پر تحقیق و تحریر کا کام بھی ہمیشہ جاری رہے گا.
۵۳۶ ہو ثبت گز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق است بر جریده عالم دوام ما حضور کی المناک وفات پر اس وقت کے صدر مملکت جناب محمد ایوب خاں اور گورنر مغربی پاکستان مکرم ملک امیر محمد خاں نے بہت اچھے انداز میں تعزیتی پیغام بھجوائے اس طرح ملکی اور غیر ملکی پریس نے بھی حضور کی ملکی و قومی خدمات کو سراہتے ہوئے آپ کی وفات کی خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا.ان میں سے بعض درج ذیل ہیں.نوائے وقت ۹.نومبر ۱۹۶۵ء کے صفحہ اول پر مندرجہ ذیل خبر شائع ہوئی.احمدیہ فرقہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود انتقال کر گئے."....آپ کو ۱۹۱۴ ء میں جماعت کا سربراہ منتخب کیا گیا.آپ نے ساری دنیا میں بالعموم اور افریقہ یورپ اور امریکہ میں بالخصوص احمد یہ مشن کھولے.اس سلسلہ میں آپ دو مرتبہ خود یورپ گئے.آپ نے کل ۹۶ نئے مشن قائم کئے.یہ مشن افریقہ کے مغربی ساحل کے ملکوں میں خصوصیت سے عیسائی مشنوں کے مقابلہ میں کام کر رہے ہیں.تحریک پاکستان کے دوران مرحوم مرزا بشیر الدین محمود احمد نے مسلم لیگ کی حمایت کی.۱۹۲۲ء میں آریہ سماجیوں نے یوپی میں مسلمانوں کو ہندو بنانے کی جو مہم شروع کی تو مرزا صاحب نے ارتداد کو روکنے کے لئے کافی کام کیا.آپ نے قرآن پاک کا ایک درجن سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کروایا جن میں ڈچ ، جرمن ، انڈو نیشن اور سواحیل شامل ہیں.آپ ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر بھی تھے.۱۹۴۸ء میں آپ نے جہاد کشمیر میں حصہ لینے کے لئے رضا کاروں کی فرقان بٹالین تیار کر کے ہائی کمان کے سپرد کردی.....روزنامہ نوائے قوت کی ۱۲.نومبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں مشہور صحافی محمد شفیع (م - ش) نے اپنے کالم میں لکھا.۷۷ سال کی عمر میں ربوہ (مغربی پاکستان) میں سوموار کی صبح کو مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی" کے انتقال سے تاریخ احمدیت کا ایک دور ختم ہو گیا ان کی جگہ ان کے سب سے بڑے بیٹے ۵۶ سالہ مرزا ناصر احمد کو جو آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے ہیں جماعت کا تیسرا ظیفہ منتخب کیا گیا ہے.انتقال سے بہت عرصہ پہلے خلیفہ دوم نے
۵۳۷ خلیفہ سوم کے انتخاب کے لئے ایک انتخابی ادارہ قائم کر دیا تھا جس میں بانی سلسلہ احمدیہ کے خاندان کے افراد کے علاوہ صدرانجمن احمدیہ کے عہدیدار اور اضلاعی شاخوں کے امیر شامل تھے ایک مقامی روزنامہ کی اطلاع کے مطابق مقابلہ دو امیدواروں میں تھا.مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ۱۹۱۴ء میں خلافت کی گڈی پر متمکن ہونے کے بعد جس طرح اپنی جماعت کی تنظیم کی اور جس طرح صد را انجمن احمدیہ کو ایک فعّال اور جاندار ادارہ بنایا اس سے ان کی بے پناہ تنظیمی قوت کا پتہ چلتا ہے اگر چہ ان کے پاس کسی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں تھی لیکن انہوں نے پرائیویٹ طور پر مطالعہ کر کے اپنے آپ کو واقعی علامہ کہلانے کا مستحق بنا لیا تھا.انہوں نے ایک دفعہ ایک انٹرویو میں مجھے بتایا کہ میں نے انگریزی کی مہارت ” سول اینڈ ملٹری گزٹ " کے باقاعدہ مطالعہ سے حاصل کی.ان کے ارشاد کے مطابق جب تک یہ اخبار خواجہ نذیر احمد کے دور ملکیت میں بند نہیں ہو گیا انہوں نے اس کا باقاعدہ مطالعہ جاری رکھا.ہوئی.مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اپنی عمر میں سات شادیاں کیں جن سے ۲۳ بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئے وہ تعدد ازدواج کے زبر دست حامی تھے اور سالانہ جلسہ کے موقع پر عورتوں اور مردوں کے اجتماع میں کھلے بندوں تعدد ازدواج کی ضرورت اور اہمیت پر لیکچرز دیا کرتے تھے.مرزا صاحب ایک نہایت سلجھے ہوئے مقرر اور منجھے ہوئے نثر نگار تھے اور ہر ایک اس موقع کو بلا دریغ استعمال کرتے تھے جس سے جماعت کی ترقی کی راہیں نکلتی ہوں.جماعتی نقطۂ نگاہ سے ان کا یہ ایک بڑا کارنامہ تھا کہ تقسیم برصغیر کے بعد جب قادیان ان سے چھن گیا تو انہوں نے ربوہ میں دوسرا مرکز قائم کر لیا.ان کا یہ یقین واثق تھا کہ فتح کے ذریعے انہیں ان کا مرکز اول یعنی قادیان مل کر رہے گا.یہ ایک وجہ تھی کہ نہ تو خود انہوں نے اور نہ ان کی جماعت کے لوگوں نے قادیان کے مکانوں کے کلیم داخل کئے.روزنامہ مشرق لاہور ۱۰.نومبر ۱۹۶۵ء میں بھی اس سانحہ کی خبر مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد کو کل بعد نماز عصر ربوہ
۵۳۸ کے بہشتی مقبرہ میں ان کی والدہ کے پہلو میں امانتاً سپرد خاک کر دیا گیا نماز جنازہ میں پچاس ہزار افراد نے شرکت کی یہ لوگ اپنے روحانی پیشوا کی آخری زیارت کے لئے پاکستان کے ہر خطہ سے آئے ہوئے تھے بہت سے حضرات غیر ممالک سے یہاں پہنچے تھے.مرزا بشیر الدین محمود کی تجہیز و تکفین کی رسومات میں شرکت کے لئے سوگوار احمدیوں کی آمد کا سلسلہ پیر کی صبح سے شروع ہو گیا تھا اور جنازہ کے وقت تک آنے والوں کا تانتا بندھا رہا.تدفین کے لئے منگل کی صبح دس بجے وقت مقرر تھا لیکن مشرقی پاکستان اور غیر ممالک سے آنے والے احمدیوں کے انتظار میں تدفین میں تاخیر ہوتی رہی اور بالآخر عصر کے بعد تدفین ہوئی.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اللہ سال بعد یہ مرحلہ آیا کہ وہ اپنے رہنما سے محروم ہو گئی اور اسے نئے رہنما کے انتخاب کا مسئلہ در پیش آیا.بانی جماعت مرزا غلام احمد کی وفات کے بعد پہلے خلیفہ مولوی نور الدین منتخب ہوئے تھے وہ اپنی وفات تک چھ سال اسی منصب پر رہے ان کے بعد مرزا غلام احمد کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد ۱۹۱۴ء میں خلیفہ ثانی منتخب ہوئے.اب سے چند سال قبل جب مرزا صاحب کی صحت خراب ہوئی تو انہوں نے اپنے جانشین کے انتخاب کے لئے قواعد و ضوابط مرتب کر دیئے تھے احمد یہ جماعت کی مجلس شوری نے ان قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی تھی.احمد یہ جماعت کی مجلس انتخاب خلافت کا کل رات ربوہ میں اجلاس ہوا جس میں ۳۸۲ میں سے ۲۰۵- ارکان شریک ہوئے جو ارکان مجلس کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے ان میں سے بیشتر غیر ملکی ارکان معلوم ہوتے ہیں." روزنامہ امروز لا ہو ر ۹.نومبر ۱۹۶۵ء میں رقمطراز ہے.لاہور.نومبر.جماعت احمدیہ کے سر براہ مرزا بشیر الدین محمود احمد آج صبح ربوه میں انتقال کر گئے.انہیں کل صبح دس بجے جماعت کے نئے سربراہ کے انتخاب کے بعد ربوہ میں دفن کیا جائے گا.انتقال کے وقت مرزا صاحب کی عمرے ۷ برس تھی.وہ ۱۹۱۴ء میں اپنی جماعت کے خلیفہ مقرر ہوئے وہ دو مرتبہ یورپ بھی گئے.انہوں نے افریقہ یورپ اور امریکہ میں جماعت کی طرف سے تبلیغی مشن قائم کرنے میں گہری دلچسپی لی.
۵۳۹ انہوں نے دوسرے ملکوں میں ۹۶ مشن قائم کئے اس وقت تک جماعت کی طرف سے ۱۵۲ مشن قائم کئے جاچکے ہیں.انہوں نے ۱۹۲۲ء میں شدھی تحریک کی مخالفت کی اور آریہ سماجیوں کے خلاف مناظرے کئے.۱۹۳۱ ء میں کل ہند کشمیر کمیٹی کی قیادت کی.تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور ۱۹۴۸ء میں احمدی رضا کاروں کی ایک بٹالین تیار کر کے کشمیر میں لڑنے کے لئے بھیجی.ان کے ماننے والوں کی تعداد تمہیں لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے اور دنیا میں ۲۹۱ مسجدیں تعمیر کرنے کے علاوہ تبلیغی اداروں کا جال پھیلایا ان کی جماعت نے کلام پاک کا جرمن ولندیزی انڈو نیشن اور سواحیلی زبان کے علاوہ اور کئی زبانوں کے ترجمے شائع کئے ان کی جماعت کے ارکان ان کے جنازے میں شریک ہونے کے لئے پاکستان کے مختلف حصص اور بیرونی ملکوں سے ربوہ پہنچ رہے ہیں." ہفت روزہ "انصاف" راولپنڈی نے اپنی ا.نومبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں لکھا.فرقہ احمدیہ کے پیشوا مرزا بشیر الدین محمود احمد بڑا عرصہ علیل رہنے کے بعد وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مرزا صاحب فرقہ احمدیہ کے امام ہونے کے علاوہ کشمیر کے تعلق میں ایک بڑی سیاسی اہمیت کے حامل تھے.آپ کو اگر کشمیر کی تحریک آزادی کے بانیوں میں سے قرار دیا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہو گا.مرزا صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے بانی اور صد راول تھے.اب سے پینتیس سال قبل اس کمیٹی نے جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کو فروغ دیا اور اس کی آبیاری کی.۱۹۳۱ء میں اور اس کے بعد جو ریاست گیر ایجی ٹیشن کئی بار ظہور پذیر ہوئی اس کی قیادت اور حمایت کشمیر کمیٹی کرتی رہی.دیگر تحریکوں کی طرح سیاسی تحریکیں بھی مالی امداد کے بغیر نہیں چل سکتیں.چنانچہ ۱۹۳۱ء میں کشمیر کمیٹی اور جماعت احمدیہ نے کشمیر کی ایجی ٹیشن کے لئے بھاری رقوم خرچ کیں اور درجنوں احمدی وکلاء نے مفت خدمات ریاستی عوام کے لئے پیش کیں.چنانچہ جہاں بھی کشمیر کا ذکر آتا ہے مرزا صاحب کا ذکر خیر بھی لازمی طور پر آتا ہے.۱۹۳۱ء کے بعد ڈوگرہ حکومت کی شہ پر شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ پر بعض رجعت پسند ریاستی حضرات نے الزام لگایا کہ وہ بھی احمد کی ہو گئے ہیں اور ان کے ذریعہ احمدی فرقہ ریاست کشمیر کے مسلمانوں کو بھی احمدی
۵۴۰ بنانا چاہتے ہیں اس طرح سے ریاستی مسلمانوں میں پھوٹ کی ابتداء پڑ گئی جو کہ سالہا سال تک جاری رہی لیکن اس الزام تراشی کے باوجود کشمیر کے معاملات میں مرزا صاحب کی دلچپسی اس سے کم نہیں ہوئی." روزنامہ جنگ کراچی نے اپنی ۱۰.نومبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں لکھا.وو ان کی عمرے ۷ سال تھی.انہیں کل صبح ربوہ میں دفن کیا جائے گا تمام دنیا میں مرحوم کے ۳۰ لاکھ معتقدین ہیں اور ان کے مبلغوں اور داعیوں کا جال بچھا ہوا ہے.مرزا بشیر الدین محمود نے جو ۱۹۱۴ ء میں اپنے فرقہ کے خلیفہ منتخب کئے گئے تھے.بڑی پر مشقت زندگی گزاری.انہوں نے یورپ امریکہ اور افریقہ میں خاص طور پر زبر دست تبلیغی مساعی کیں اور اس مقصد کے لئے دو بار مغربی ممالک کا دورہ بھی کیا تبلیغی وفود کو افریقہ کے مغربی ساحل پر واقع ممالک میں کافی کامیابی بھی ہوئی.مرزا صاحب نے اپنی یادگار کے طور پر خاص مذہبی لٹریچر چھوڑا ہے.انہوں نے سیاسی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.......۱۹۲۲ء میں انہوں نے یوپی میں آریہ سماجیوں کی شُدھی سنگھٹن تحریک کا مقابلہ کیا اور ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی قیادت کی اور ۱۹۴۸ء میں تحریک آزادی کشمیر میں حصہ لینے کے لئے احمد یہ رضا کاروں کی ایک بٹالین کی خدمات حکومت کو پیش کیں..احمدید اس کے علاوہ روزنامہ نئی روشنی کراچی روزنامه حریت کراچی، روز نام انجام کراچی روزنامہ جنگ راولپنڈی، روزنامہ تعمیر راولپنڈی اور دوسرے متعدد اخبارت و رساکا نے بھی حضور کو خراج عقیدت پیش کیا.اس موقع پر اندرون و بیرون پاکستان کے دانشوروں صحافیوں اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد نے حضور کو خراج تحسین پیش کیا.ذیل میں صرف دو دانشوروں کے تاثرات پیش کئے جارہے ہیں.مولانا غلام رسول مہر ( مشہور صحافی و مورخ) جو حضور کے بہت قریب تھے اور کئی مواقع پر حضور کی رہنمائی میں خدمات سرانجام دینے کی توفیق بھی پائی لکھتے ہیں." آپ لوگوں کی کسی کتاب میں اس عظیم الشان انسان کے کارناموں کی مکمل عکاسی نہیں ملتی.ہم نے انہیں قریب سے دیکھا ہے.کئی ملاقاتیں کی ہیں.پرائیویٹ
۵۴۱ تبادلہ خیال کیا ہے مسلم قوم کے لئے تو ان کا وجود سرا پا قربانی تھا.مجھے ایک دفعہ راتوں رات قادیان جا کر حضرت صاحب سے مشورہ کرنا پڑاوہ منظر اب بھی آنکھوں کے سامنے ہے.انسانیت کے لئے ان کے دل میں بڑا درد تھا اور جہاں کہیں مسلم قوم کی بہتری اور بہبودی کا مسئلہ در پیش ہو تا ان کی قابل عمل تجاویز ہمارا حوصلہ بڑھانے کا موجب بنتیں.ایسے موقع پر آپ کا رواں رواں قومی درد سے تڑپ " اٹھتا تھا.فرقہ بازی کا تعصب میں نے اس وجود میں نام کو نہیں دیکھا.مرزا صاحب بلا کے ذہین تھے.میں نے پاک و ہند میں سیاسی نہ مذہبی لیڈر ایسا دیکھا ہے جس کا دماغ پولیٹیکل پالیٹکس میں ایسا کام کرتا ہو جیسا مرزا صاحب کا دماغ کام کرتا تھا بے لوث مشورہ واضح تجویز اور پھر صحیح خطوط پر لائحہ عمل یہ ان کی خصوصیت تھی.مجھے ان کی وفات پر بڑا صدمہ ہوا...افسوس مسلمانوں نے مرزا صاحب کی قدر نہیں کی مخالفت کی سخت آندھیوں کے باوجود میں نے مرزا صاحب کو کبھی افسردہ اور سرد مہر نہیں دیکھا.مرزا صاحب کے دل کی شمع ہمیشہ روشن رہتی.ہم یاس و افسردگی کی تصویر بنے ان سے ملاقات کے لئے جاتے اور جب ان کے کمرہ سے باہر آتے تو یوں معلوم ہو تاکہ ناامیدی کے بادل چھٹ چکے ہیں اور مقصد میں کامیابی سامنے نظر آ رہی ہے.وزنی دلیل دیتے قابل عمل بات کرتے اور پھر اس پر بس نہیں ہر نوع کی قربانی اور تعاون کی پیشکش بھی ساتھ ہوتی جس سے ہم میں جرأت اور حوصلے کے جذبات پیدا ہوتے." اقبال اور احمدیت صفحه ۵۰۲ - ۵۰۳) اسی طرح ایک اور ادیب و صحافی سید ابو نازش ظفر رضوی نے حضور کی وفات پر لکھا.افسوس کہ وہ وجود جو انسانیت کے لئے سراپا احسان و مروت تھا آج اس دنیا میں نہیں وہ عظیم الشان سپر آج پیوند زمین ہے جس نے مخالفین اسلام کی ہر تلوار کا وار اپنے سینے پر برداشت کیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ اسلام کو گزند پہنچے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی وفات سے جماعت احمد یہ یقیناً بہت غمگین ہے کیونکہ اس کا وہ امام اور سر براہ رخصت ہو گیا جس نے اس جماعت کو بنیان مرصوص بنا دیا لیکن اس جماعت سے باہر بھی ہزاروں ایسے افراد موجود ہیں جو اختلاف عقائد کے باوجود آپ کی وفات کو دنیائے اسلام کا ایک عظیم سانحہ سمجھ کر بے اختیار اشکبار ہیں.
۵۴۲ آپ نے دنیا کے (مختلف) ممالک میں چار سو کے قریب مساجد تعمیر کرائیں.تبلیغ اسلام کے لئے یکصد مشن قائم کئے جو عیسائیت کی بڑھتی ہوئی کرو کے سامنے ایک آھنی دیوار بن گئے.مختصر یہ کہ حضرت صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک سانس اپنے مولیٰ کی رضا اور اسلام کی سربلندی کے لئے وقف کر رکھا تھا.خدا ان سے راضی ہوا وہ خدا سے راضی ہوئے.اگر میں ایک شیعہ ہوتے ہوئے انہیں رضی اللہ عنہ لکھتا ہوں تو یہ ایک حقیقت کا اظہار ہے محض اخلاقی رسم نہیں." الفضل ۴.اپریل ۱۹۷۶ء)
۵۴۳ حضرت فضل عمر کی حیات طیبہ ایک نظر میں پیدائش کی پیشگوئی تقریب عقیقہ تقریب آمین داخلہ سکول قیام انجمن تشحیذ الاذهان پہلی شادی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء ۱۸ جنوری ۱۸۸۹ء جون ۱۸۹۷ء FIA¶A *1900 ۱۹۰۳ء مجلس معتمدین صد را انجمن احمد یہ میں شمولیت رسالہ تشحیذ الاذھان کا اجراء اجراء اخبار الفضل مسند خلافت پر ممکن درس قرآن پاک کا آغاز پہلی مجلس شوری احمد یہ مشن لندن کا قیام قیام ماریشس مشن مینارة المسیح کی تکمیل پہلے پارہ (انگریزی ترجمہ) کی اشاعت مختلف حکمرانوں کو دعوت الی اللہ نظارتوں کا قیام امریکہ افریقہ میں آغاز دعوت جنوری ۱۹۰۶ء مارچ ۱۹۰۶ء جون ۱۹۱۳ء ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء امارچ ۱۹۱۴ء ۱۲ اپریل ۱۹۱۴ء اپریل ۱۹۱۴ء ۱۹۱۵ء دسمبر ۱۹۱۶ء ۱۹۱۸ء F1819 ۱۹۲۱ء
۵۴۴ مجلس مشاورت کا با قاعدہ آغاز توسیع مسجد اقصیٰ قادیان لجنہ اماءاللہ کی تنظیم شدهی یافتنه ارتداد کا مقابله پہلا سفر یورپ.بنیاد مسجد فضل لندن اجراء دار القضاء قیام مشن انڈو نیشیا احمدی مستورات کے جلسہ سالانہ کا آغاز اجر اور سالہ مصباح سيرة النبي الیہ کے جلسوں کی شاندار سکیم کا آغاز سیاسی و اقتصادی بہبود کے لئے عظیم الشان پروگرام کا آغاز نصرت گرلز سکول کا اجراء جامعہ احمدیہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام اور اس کی صدارت ایک عظیم منصوبہ.تحریک جدید - کا آغاز مجلس خدام الاحمدیہ ، مجلس اطفال الاحمدیہ کا قیام خلافت جوبلی کی عظیم الشان تقریب شکر و امتنان ہجری شمسی تقویم کا آغاز مجلس انصار اللہ کا قیام دعوی مصلح موعود.ہوشیار پور لدھیانہ دہلی اور لاہور کے شاندار جلسے تعلیم الاسلام کالج کا احیاء شملہ کانفرنس کے نام اہم پیغام فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام حفاظت مرکز کا عظیم کار نامہ ۱۹۲۱ء ۴۱۹۲۳ ۱۹۲۳ء ۱۹۲۴ء ۶۱۹۲۴ ۴۱۹۲۵ ۱۹۲۵ء ۱۹۲۷ء ۶۱۹۲۷ ۱۹۲۸ء ۱۹۲۸ء ۱۹۳۱ء ١٩٣٩ء ۱۹۴۰ء ۱۹۴۰ء ۶۱۹۴۴ ۱۹۴۴ء ۱۹۴۴ء ۱۹۴۵ء ۱۹۴۶ء
۵۴۵ مسلم لیگ کی مؤثر شاندار حمایت یادگار سفر دبلی ، قیام پاکستان کے سلسلہ میں شاندار خدمات سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل حد بندی کمیشن کے سلسلہ میں نہایت قیمتی خدمات قادیان سے ہجرت نئے مرکز ربوہ کا افتتاح ربوہ میں مستقل رہائش جامعہ نصرت کا قیام فسادات پنجاب میں کامیاب رہنمائی قاتلانہ حملہ سواحیلی، ڈچ ترجمہ قرآن کی اشاعت بیماری ( دوسرا سفر یورپ) فتنہ منافقین کا کامیاب سد باب تفسیر صغیر کی اشاعت تحریک و قف جدید کا آغاز جرمن ترجمه قرآن ( طبع ثانی) نگران بورڈ کا قیام پچاس سالہ دور مکمل ہونے پر اظہار تشکر اور دعائیں سفر آخرت ۱۹۴۶ء ۱۹۴۷ء ۱۹۴۷ء ۱۹۴۷ء ۱۹۴۸ء ١٩٤٩ء ۱۹۵۱ء ۱۹۵۳ء ۱۹۵۴ء ۱۹۵۴ء ۱۹۵۵ء ۱۹۵۶ء ۱۹۵۷ء ۱۹۵۸ء ۱۹۵۹ء ۱۹۷۰ء ۱۹۶۵ء