SF3

SF3

سوانح فضل عمر (جلد سوم)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

سوانح فضل عمر حضرت فضل عمر مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خليفة السي الثاني کے سوانح حیت تالیف عبد الباسط شاہد جلد سوم ناشرین فضل عمر فاؤنڈیشن

Page 2

Page 3

بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيدِ پیش لفظ الہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فض عمر فاونڈیشن کو سوانح حضرت فضل عمر عبد سوم احباب جمات کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الحمد للہ علی ذلك فضل عمر فاونڈیشن کے مقاصد میں حضرت فضل عمر کی سوانح کی تالیف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اس سوانح کی اہمیت کے پیش نظر اس کی تالیف کا کام مسند خلافت پر متمکن ہونے سے قبل حضرت خلیفہ ایسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سر انجام دے رہے تھے.نہ میں متذکرہ تالیف کا پہلا ایڈیشن حصہ اول کے طور پر شائع ہوا.حضور نے دوسرا حصہ مرتب فرما کر اس کی کتابت وغیرہ بھی مکمل کروالی تھی جو بعد میں شالہ میں شائع ہوئی.اس کے بعد مختلف مواقع کی وجہ سے مؤلف کے تقرر میں تاخیر ہو گئی اور بالآخر حضور انور نے مکرم مولانا عبدالباسط صاحب شاہد مربی سلسلہ کا تقرر بطور مولف سوانح حضرت فضل عمر منظور فرمایا.مکرم مولانا موصوف نے سوانح حضرت فضل عمر جلد سوم کا مسودہ مکمل کر کے دفتر کے سپرد کر دیا.حضور انور نے اس سلسلہ میں مسودہ کا جائزہ لینے کے لیے مندرجہ احباب پر مشتمل ایک جائزہ کیٹی منقر فرمائی.حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظهر محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب محترم مولانا نسیم سیفی صاحب چنانچہ پر مستوده ان بزرگوں کی خدمت میں جائزہ کے لیے بھجوایا گیا.حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی لہی بیماری کی وجہ سے اس کام میں کافی تاخیر ہوتی چلی گئی.درمیان میں محترم شیخ صاحب کی طبیعت کچھ بحال ہوئی تو مستورہ سن کر اس کی ضروری اصلاح بھی فرماتے لیکن اس میں کئی دفعہ کئی کئی ہفتوں کا وقفہ بھی پڑ جاتا.اس بیماری کے دوران محترم شیخ صاحب کی خدمت میں یہ عرض

Page 4

کیا گیا کہ آپ کی بیماری کی نوعیت ایسی ہے کہ آپ کے لیے یہ کام بہت وقت طلب ہے.اس لیے اگر آپ پسند فرمائیں تو مسودہ واپس بھیجوا دیں لیکن ان کا ہر بار یہی جواب ہوتا کہ حضور نے یہ کام میرے سپرد فرمایا ہے.اس لیے میں اس کو مکمل کروں گا.حضرت شیخ صاحب نے اپنی وفات تک اس کتاب کا اکثر حصہ ملاحظہ فرما کر نہایت مفید مشورے دیتے اور ضروری اصلاح فرمائی.اللہ تعالے ان کے درجات بلند فرماتے اور اعلیٰ علیین میں اپنے خاص مقام قرب سے نوازے.آمین اسی طرح باقی دو بزرگوں نے بھی نہایت محنت اور اخلاص سے اس مسودے کا جائزہ لے کر اپنی قیمتی آراء سے نوازا.فجزاهم الله احسن الجزاء فضل عمرفاو نڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی خواہش کے مطابق نے بھی بہت محنت توجہ اور اخلاص سے یہ سارا مسودہ پڑھا.اور اس میں زبان کے لحاظ سے صلاح فرمائی.ادارہ ہذا ان کا بھی دلی شکریہ ادا کرتا ہے.مکرم مولانا عبد الباسط صاحب شاہد بھی خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں.جنہوں نے اس کام کو ایک عظیم سعادت سمجھتے ہوتے نہایت محنت.اخلاص اور محبت سے پایہ تکمیل تک پہنچایا.اور یہ کام ابھی جاری ہے.چوتھی جلد پر کام ہو رہا ہے.پانچویں جلد جو زیادہ تر سیرت کئے اقعات پر مشتمل ہو گی.اس کا مواد بھی اکٹھا ہو چکا ہے ، صرف اس کو ترتیب دنیا باتی ہے.کا بھی خاکسار دلی شکریہ ادا کرتا ہے ایک لمبا عرصہ انہوں نے بھی مکرم مولانا عبدالباسط صاحب شاہد کے ساتھ مل کر حوالہ جات کی تلاش ان کی نقل اور ضروری مواد کی فراہمی کے سلسلہ میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں.اللہ تعالی ان کو بھی احسن جزا دے.بہت سے دوست احباب اور جماعتوں کی طرف سے یہ تقاضے ہو رہے تھے کہ حضور کی سوانح کی اشاعت میں بہت تاخیر ہو رہی ہے.اس کے لیے چند مجبوریاں حائل تھیں جن میں سے بعض کا تذکرہ میں پہلے کر چکا ہوں.اس تاخیر کے لیے معذرت کرتے ہوتے میں امید کرتا ہوں کہ احباب کو بہت لمبا عرصہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا.اور انشاء اللہم کوشش کریں گے کہ اس کام کوجلد پایہ تکمیل تک پہنچائیں.دو باللہ التوفيق

Page 5

ضبط عرض حال سوانح فضل عمر کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں جو ہمارے پیارے امام حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرز نگارش و ترتیب و تحقیق کا حسین مرقع ہیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے منصب خلافت پر سرفراز ہوئے اور اس کے نتیجہ میں غیر معمولی مصروفیات و بے اندازہ ذمہ داریوں کی وجہ سے جماعت.شدید اشتیاق و انتظار کے باوجود حضور کی مصنفہ سوانح سے محروم رہ گئی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت و خادم نوازی خاکسار کو سوانح فضل عمر کے بحر بے کنار کو م میں لانے کا ارشاد فرمایا.اپنی کوتاہ علمی - کوتاہ نظری اور تصنیف کے کام میں ناپختگی ونا تجربہ کاری کے با وجود عمیل ارشاد کو سعادت گردانتے ہوئے جو بری بھلی کوشش ہو کی ہے آپ کی خدمت میں پیش ہے.سوانح نگاری میں بالعموم مبالغہ آمیزی اور عبادت آفرینی کار جان ہوتا ہے مگر زیر نظر کام میں اس کا اندیشہ تو نہیں تھا کیونکہ حضرت مصلح موعود کی تعریف ان کی پیدائش سے بھی پہلے خداوند عظیم بان فرما چکا ہے اور حضرت فضل عمر کی بھر پور کامیاب زندگی کا ہر لمحہ اسبات کا شاہد ہے کہ آپ ہی اس تعریف کے مستحق و مصداق تھے.اس لحاظ سے بیان یا ترتیب میں مقیم اور کمی کا اندیشہ ضرور ہو سکتا تھا جسے کم سے کم کرنے کیلئے بالعموم حضرت مصلح موعود کے ارشادات کی روشنی میں ہی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اس میں آپ بیتی کی حلاوت و چاشنی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.یہ کام کسی طرح بھی مکمل اور مثالی نہیں ہے.اس پر مزید تحقیق و محنت کی ضرورت ہے تاہم یہ سطور حضرت مصلح موعود کے زمانہ کی خوشگوار یادوں کو تازہ کرنے اور نئے آنے والوں کو اس عظیم ہستی سے کسی قدر متعارف کرواتے ہوئے ان میں پرانی یادوں اور قدروں کو زندہ رکھنے کی سعی وکوشش اور عزم وارادہ پیدا کر سکیں تو این است کام دان اگر ایک میمیرم خادم عبد الباسط شاہد

Page 6

។ ذلی عنوان تی تنظیمیں خدام الاحمدیہ) مجلس کا انتظام صحت جسمانی وقار عمل تعلیم اطفال سالانہ اجتماع مجلس انصار الله متفرق تنظیس فہرست صفحه عنوان ۱۳ پوپ کا ملاقات سے گریز ۲۴ احمدیت یعنی حقیقی اسلام حضور کا تبصرہ ۲۰ مسجد فضل لندن 61 AN مسجد فنڈ اور جماعت کا جذبہ قربانی ۸۲ ۲۹ اسلامی رواداری افتتاح ۳۸ مسجد کی افادیت کا ایک خاص پہلو جماعت کے اندر مختلف ذیلی تنظیموں حضور کی بیماری ۴۲ سفر یورپ ایک نظر میں کی اہمیت و ضرورت جماعت اور ذیلی تنظیمیں ۴۵ ڈاکٹری مشورہ ۴۹ ایک شبہ کا ازالہ ۸۴ ۸۶ ۹۲ ۱۸ ٩٩ ÷ ÷ * 1 1 ۱۰۵ ۱۰۸ سفر یورپ سفر یورپ کا مقصد سفر کی غرض وغایت قائم مقام امیر اور ناظر اعلیٰ کا تقرر ۵۴ بعض نهایت ضروری اور اہم پیغامات ۱۰۸ تقریر امیر مقامی و دیگر منتظمین ٥٩ صدق جدید کا تبصرہ - قابل رشک خوش قسمت اصحاب قافله جماعت سے محبت کا عجیب نظارہ ایک نشان ۲۰ عزم آغاز سفر قصر خلافت سے روانگی 114 116 S

Page 7

عنوان صدقہ کے طور پر بکروں کی قربانی مختصر کو الف سفر تفسیر قرآن پر خطبات مبلغین کی کانفرنس حضور کی واپسی حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی خصوصی خدمات لندن میں اہم دینی مصروفیات صفحہ 119 عنوان انگریزی ترجمه قرآن مجید ۱۲۳ تفسیر صغیر جنگ عظیم ۱۲۷ جلال الٹی اور خدائی نشانات کا ظہور جنگ کا آغاز ۱۲۸ اسلامی مفاد کے لیے اضطراب ١٣٠ 149.14► 169 169 1A.جنگ کے حالات پر حقیقت افروز تبصره ۱۹۲ ۱۳۰ ایک اہم رویا کراچی میں خیر مقدم حضور کا ایک نہایت اہم خطاب ۱۳ انگلستان پر جرمنی کے حملہ اور حکومتوں کے خدمت قرآن الحاق کی پیش خبری ایک اور اہم انکشان حضرت مصلح موعود کی ابتدائی تعلیم ۱۳۹ حکومت امریکہ کے جنگ میں شامل ہونے عظمت قرآن درس قرآن فضائل القرآن قرآن مجید کا خاص درس دیباچه تفسیر القرآن تفسير كبير تفسیر کبیر کی نمایاں خصوصیات تغییر کبیر کے سلسلہ میں حضور کی غیر معمولی محنت و مصروفیت بعض خصوصی معاونین بعض اہل علم حضرات کے تبصرے ۱۴۱ کی خبر ۱۴۳ بعض خدائی نشانوں کا ذکر ۱۴۷ ایٹمی تباہی پر تبصرہ ۱۳۹ قیام امن کے متعلق قرآنی رہنمائی ۱۵۲ انذار و نصیحت jor ۱۵۵ آل انڈیا کشمیر کمیٹی پس منظر 1 لارڈ ولنگڈن کا ایک خط ۱۹۴ 14A 194 € 7 3 3 3 ۲۱۲ ۲۲۱ ۱09 پرسنل اسسٹنٹ وزیر اعظم کشمیر کاخط ۲۲۴ زمینداروں میں بیداری کی رُوح

Page 8

عنوان مسٹر ویکفیلڈ کا تازہ وعدہ مسٹر ویکفیلڈ کی شخصیت تمام مسلمانوں کا فرض عنوان ۲۲۸ جماعت کا والہانہ رد عمل مطالبات تحریک جدید اور حضور کا نمونہ ۲۲۹ چند ایمان افروز مثالیں آل انڈیا کشمیر کیٹی کا قیام ۲۳۹ وقف کی اہمیت و حقیقت پیلا یوم کشمیر آل جموں و کشمیر مسلم پولیٹیکل کا نفرنس ٢٣٨ تحریک جدید کا انتظام ۲۲۱ وقف جدید ایک اور بابرکت تحریک ۲۲۹ اغراض و مقاقند کشمیر کمیٹی کی خدمات آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی شاندار خدمات ۲۵۵ وسعت کار اور بعض مشکلات حضور کا استعفیٰ استعفیٰ کے بعد خدمات کا تسلسل آزاد کشمیر ۲۹۰ ۲۶۲ ایک معلم کیا کرتا ہے مجالس کے احیاء کے سلسلہ میں کوششیں و عوامی مصلح موعود تحریک جدید - وقف جدید ایک اہم انکشاف جماعت احمدیہ کی منظم اجتماعی مخالفت ۱۹ ۲۷۹ پیشگوئی کا مصداق احرار کے سر پرست ۲۷۱ ایک خوشخبری احرار کے مقاصد پیشگوئی کی عظمت عدالت کی رائے ۲۷ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغی کا نفرنس صداقت کا زندہ ثبوت مباہلہ کا چیلنج FAL تصویر کا دوسرا رخ بعض اہم تحریکات ۲۹۴ تحدیث نعمت راہم مقامات پر جلسوں کا تحریک جدید کا آغاز ۲۹۷ انعقاد ۳۸۵ ۳۳۴ ۳۴۵ ۳۴۷ ٣٥٠ ٣٥١ Wor ۳۷۳ اند

Page 9

لسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ پیشگوئی مصلح موعود اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صارت تکو د اور عظمت اور دولت ہو گا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے نیچی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کر گیا.وہ کلمہ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت اور غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا.دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الاول والأخر مظهر الحق والعلاكان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.ٹور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف JAAY اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ اَمْرًا مَقْضِيَّا ( اشتهار ۲۰ فروری شده)

Page 10

کوئی آدمی اپنے کام کے متعلق آپ رائے نہیں لگا سکتا اور حقیقت یہ ہے کہ اس کی زندگی میں بھی اس کے وسیع کام کے متعلق فیصلہ نہیں کیا جا سکتا.میرا کام تمام جماعت سے تعلق رکھتا ہے جو ایک جگہ نہیں ایک ملک میں نہیں بلکہ براعظموں میں پھیلی ہوتی ہے.اس کا اندازہ نہ میں لگا سکتا ہوں اور نہ کوئی اور اس وقت لگا سکتا ہے.اس کا اندازہ کئی نسلوں کے بعد قومیں کریں گی " مصلح موعود ) الفضال ارمتى ۱۹۲۶ -

Page 11

ند H تنظي خدام الاحمدية انصار الله

Page 12

خادم کا عہد "اَشْهَدُ ان لا الهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.میں اقرارہ کرتا ہوں کہ دینی ، قومی اور ملی مفاد کی خاطر میں اپنی جان - مال.وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے ہر دم تیار رہوں گا.اسی طرح خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کی خاطر ہر قربانی کیلئے تیار رہوں گا.اور خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا.انشاء الله "

Page 13

۱۳ انة الرحمن الرحيم والحيرة الشاملة پس منظر: قادیان کے روح پرور ماحول اور حضرت مصلح موعود کی روحانی توجہ اور تربیت سے فیض یافتہ چند خوش قسمت نوجوانوں کو شہ میں یہ خیال سوجھا کہ وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی خدمت اور فریضہ تبلیغ و اشاعت سر انجام دینے کے لیے ایک مجلس قائم کریں.حضور کی خدمت میں یہ تجویز بغرض منظوری پیش ہوئی تو حضور نے بخوشی اس نیک کام کی اجازت مرحمت فرمائی اور مجلس کا نام خدام الاحمدیہ تجویز فرمایا.اس مجلس کے قیام کے وقت کس نے یہ سوچا ہوگا کہ یہ نھا سا بیج جو سرزمین قادیان میں حضور کی نگرانی میں بویا جارہا ہے وہ قدم بہ قدم اتنی ترقی کر جاتے گا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا بھر میں اس کی سرسبز و شمر شاخیں پھیل جائیں گی اور قوم کی ریڑھ کی ہڈی اور مستقبل کی ترقی کے ضامن نوجوان اس تربیت گاہ سے نکل کر دنیا بھر میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے نتے ریکارڈ اور تاریخی کارنامے سرانجام دیں گے.اس جگہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ میں حضور تحریک جدید کی انقلابی سیم جاری فرما چکے تھے.مجلس خدام الاحمدیہ اس تحریک کی ولولہ انگیز سرگرمیوں کا ایک طبعی نتیجہ اور شیریں پھل ہے جو تحریک کو آگے بڑھانے اور اس کے مقاصد کے حصول کے لیے جہاد کرنے والوں کا ہراول دستہ بن گئی حضور نے ابتداء میں یہ صراحت فرما دی تھی کہ کوئی نیا پروگرام بنا نا تمہارے لیے جائزہ نہیں پروگرام تحریک جدید کا ہی ہوگا اور تم تحریک جدید کے والنٹیرز ہو گے تمہارا فرض ہوگا کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو.تم سادہ زندگی بسر کرو.تم دین کی تعلیم دو.تم نمازوں کی پابندی کی نوجوانوں میں عادت پیدا کرد تیم تبلیغ کے لیے اوقات وقف کرد کچھ عرصہ گذرنے کے بعد تحریک جدید کے بعض معین کام مجلس کی ذمہ داری اور نگرانی میں دے دیتے گئے.اس طرح مجلس براہ راست تحریک جدید کے مجاہدین میں اضافہ ، چندوں کی بر وقت وصولی اور واقفین زندگی مہیا کرنے کی مہم میں بھی نمایاں خدمت سرانجام دینے لگی.اس مجلس کے آغاز کا ذکر الفضل از اپریل ـ

Page 14

کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :- بعض نوجوانوں نے مجھ سے اجازت حاصل کرتے ہوئے ایک مجلس خدام الاحمدیہ کے نام سے قائم کی ہے.چونکہ ایک حد تک کام میں ایک دوسرے کے ذوق کا منا بھی ضروری ہوتا ہے.اس لیے شروع میں میں نے انہیں یہ اجازت دی ہے کہ وہ ہم ذوق لوگوں کو اپنے اندر شامل کریں، لیکن میں نے انہیں یہ ہدایت بھی کی ہے کہ جہاں تک ان کے لیے ممکن ہو باقی لوگوں کو بھی اپنے اندر شامل کریں.مگر میں نے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوتے کہ نو جوانوں میں کام کرنے کی روح پیدا ہو یہ ہدایت کی کہ جو لوگ جماعت میں تقریر و تحریر میں خاص مہارت حاصل کر چکے ہوں.ان کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے جس کی وجہ سے بعض دوستوں کو غلط فہمی بھی ہوتی ہے.چنانچہ ہماری جماعت کے ایک مبلغ مجھ سے ملنے کے لیے آئے اور کہنے لگے.کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟ میں نے کہا میں تو ناراض نہیں.آپ کو یہ کیونکر وہم ہوا کہ میں ناراض ہوں وہ کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ میں میری شمولیت کی اجازت نہیں دی میں نے کہا یہ صرف آپ کا سوال نہیں.جس قدر لوگ خاص مہارت رکھتے ہیں ان سب کی شمولیت کی میں نے ممانعت کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بڑے آدمیوں کو بھی اُن میں شامل ہونے کی اجازت دیدی جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ پریذیڈنٹ بھی اپنی کو بنائیں گئے.سیکرٹری بھی اپنی کو بنائیں گے مشورے بھی انسی کے قبول کریں گے.اور اس طرح اپنی عقل سے کام نہ لینے کی وجہ سے وہ خود بڑھو کے بدھو رہیں گے.....پس میں نے انہیں ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے روک دیا.میں نے کیا تم مشورہ بے شک لومگر جو کچھ لکھو وہ تم ہی لکھو، تاتم کو اپنی ذمہ داری محسوس ہو.گواس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شروع میں وہ بہت گھبراتے.انہوں نے ادھر ادھر سے کتابیں ہیں اور پڑھیں.لوگوں سے دریافت کیا کہ فلاں بات کا کیا جواب دیں مضمون لکھے اور بار بار کائے مگر جب مضمون تیار ہو گئے اور انہوں نے شائع کئے تو وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ دوسرے مضمونوں سے دوسرے نمبر پر نہیں ہیں.....اگر اس قسم کے علمی کام یہ انجمنیں کریں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلامی تاریخ کی کتا ہیں.اسلامی تفسیر کی کتا ہیں.حدیث کی کتا ہیں.فقہ کی کتاب ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی کتابیں اور اسی

Page 15

طرح اور بہت سی کتب اُن کی زیر نظر آجائیں گی.اور انہیں اپنی ذات میں بہت بڑا علمی فائدہ حاصل ہوگا.دوسرا فائدہ جماعت کو اس قسم کی انجمنوں سے یہ پہنچے گا کہ اُسے کئی نئے مصنف اور مؤلف مل جائیں گے.تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ نو جوانوں میں اعتماد نفس پیدا ہو گا اور انہیں یہ خیال آئے گا کہ ہم بھی کسی کام کے اہل ہیں.اب اگر میں بڑے آدمیوں کو بھی انہیں اپنے اندر شامل کرنے کی اجازت دے دیتا تو یہ سارے فوائد جاتے رہتے......میں چاہتا ہوں کہ باہر کی جماعتیں بھی اپنی اپنی جگہ خدام الاحمدیہ نام کی مجالس قائم کریں.یہ ایسا ہی نام ہے جیسے " لجنہ اماء الله لجنہ امام اللہ کے معنے ہیں اللہ کی لونڈیاں اور خدام الاحمدیہ سے مراد بھی یہی ہے کہ احمد تیت کے خادم.یہ نام انہیں یہ بات بھی ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ وہ خادم ہیں مخدوم نہیں ؟ د الفضل ۱۰ را پریل شاه مجلس کے قیام کی غرض وغایت جاننے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعود کی رہنمائی سے استفادہ کیا جائے کیونکہ میں طرح ایک مادر مهربان اپنے شیر خوار بچے کی دیکھ بھال کرتی ہے.اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضور کی توجہ اور رہنمائی اس مجلس کے شامل حال رہی.حضور کے بعض ارشادات ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں." میں نے جو خدام الاحمدیہ نام کی ایک مجلس قائم کی ہے اس کے ذریعہ اسی روح کو میں نے جماعت میں قائم کرنا چاہا ہے اور اس کے ہر رکن کا یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنی قوتوں کو ایسے رنگ میں استعمال کرے کہ اپنے فوائد کو وہ بالکل بھلا دے اور دوسروں کو نفع پہنچانا اپنا منتہی قرار دیدے.چنانچہ جہاں جہاں بھی اس کے ماتحت کام کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں.اور خود انہوں نے بھی اپنی روحانیت میں بہت بڑا فرق محسوس کیا ہو گا.کیونکہ جب کوئی شخص ایک منٹ کے لیے بھی اپنے فوائد کو نظر اندازہ کر کے دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے خیال سے کوئی کام کرتا ہے اس ایک منٹ کے لیے وہ خدا تعالیٰ کا مظہر بن جاتا ہے.کیونکہ خدا ہی ہے جو اپنے فائدہ کے لیے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تمام کام کرتا ہے.) الفضل.ارجون شلة ) قوموں کی کامیابی کے لیے کسی ایک نس کی دوستی کافی نہیں ہوتی.جو پروگرام بہت ہے

Page 16

14 ہوتے ہیں وہ اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جبکہ متواتر کئی نسلیں ان کو پورا کرنے میں لگی رہیں جتنا وقت ان کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہو اگر اتنا وقت ان کو نہ دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ کسی صورت میں مکمل نہیں ہو سکتے.اور اگر وہ عمل نہ ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ پہلوں نے اس پروگرام کی تکمیل کے لیے جو محنتیں.کوششیں اور قربانیاں کی ہیں وہ بھی سب رائیگاں گئیں.الفضل ۷ ار فروری ۹۳ ) قومی ترقی کا تمام تر انصار نوجوانوں پر ہوتا ہے.اگر کسی قوم کے نوجوان ان روایات کے صحیح طور پر حامل ہوں جو اس قوم میں چلی آتی ہوں تو وہ قوم ایک لیے عرصہ تک زندہ رہ سکتی ہے لیکن اگر آئندہ پو د کمی ہو تو قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی بلکہ جو ترقی حاصل ہو چکی ہو وہ بھی تنترل سے بدل جاتی ہے " الفضل ۲۷ دسمبر دسمبر خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ دینی اور تمدنی کاموں میں حصہ لینے کی تحریک بجائے اس کے کہ بڑی عمر کے لوگ انہیں کریں.ان کے ہم عمر ہی انہیں ان کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دے دیا کریں.اگر بڑی عمر کے لوگ یہ کہیں کہ نمازیں پڑھو تو مکن ہے وہ اس پر کسی قدر بُرا منائیں، لیکن اگر ہم عمر کیں گے کہ نمازیں پڑھو تو وہ اس تحریک کو زیادہ جلد قبول کرنے کے لیے تیار ہونگے.اور چونکہ وہ آپس میں لڑ جھگڑ بھی لیتے ہیں اس لیے ان میں انٹر کی اور مردنی پیدا نہیں ہو سکتی.غرض خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ نئی پود دینی رنگ میں رنگین ہو جائے اور وہ ایک دوسرے سے مل کر تعلیم و تربیت کا انتظام کرنے والی ہوئی ( رپورٹ مجلس مشاورت له م ) آج نوجوانوں کی ٹرینینگ اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹرینینگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے.لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا.مگر جب قوم تربیت پا کر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے.درحقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اُٹھنے پر اُٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جاتے.دنیا میں عظیم الشان تغییر پیدا کر دیا کرتی ہے " الفضل ، اپریل ) " در حقیقت خدام الاحمدیہ میں داخل ہونا اور اس کے مقررہ قواعد کے ماتحت کام کرنا ایک اسلامی فوج تیار کرنا ہے.مگر ہماری فوج وہ نہیں جس کے ہاتھوں میں بندوقیں یا

Page 17

تلواریں ہوں بلکہ ہماری فوج وہ ہے جس نے دلائل سے دنیا پر غلبہ حاصل کرنا ہے.ہماری تلواریں اور ہماری بندوقیں وہ دلائل ہیں جو احمدیت کی صداقت کے متعلق ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.ہماری بندوقیں اور ہماری تلواریں وہ دعائیں ہیں جو ترقی احمدیت کے متعلق ہم ہر وقت مانگتے رہتے ہیں اور ہماری بندوقیں اور ہماری تلواریں وہ اخلاق فاضلہ ہیں جو ہم سے صادر ہوتے ہیں.لیپس دلائل مذہبی ، دعائیں اور اخلاق فاضلہ نہی ہماری تو ہیں اور یہی ہماری تلواریں ہیں اور اپنی توپوں اور اپنی تلواروں سے ہم نے دنیا کے تمام ادیان کو فتح کر کے اسلام کا پرچم لہرانا اور ان پر غلبہ و اقتدار حاصل کرنا ہے.اور اگر نوجوانوں میں یہ مہم جاری رہی توہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی مسلح فوج تیار کر لیں گے جس کے مقابلہ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکے گا " الفضل ، اپریل مه ) در حقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اُٹھنے پر اُٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جاتے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے اور یہ چیز ہماری جماعت میں ابھی پیدا نہیں ہوتی.ہماری جماعت میں قربانیوں کا مادہ بہت کچھ ہے مگر ابھی یہ جذبہ ان کے اندر اپنے کمال کو نہیں پہنچا کہ جونہی ان کے کانوں میں خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی آوازہ آئے اس وقت جماعت کو یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں نے ان کو اُٹھا لیا ہے اور صور اسرافیل ان کے سامنے پھونکا جا رہا ہے.جب آواز آئے کہ بیٹھو تو اس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں کا تصرف ان پر ہو رہا ہے اور وہ ایسی سواریاں ہیں جن پر فرشتے سوار میں جب وہ کے بیٹھ جاؤ تو سب بیٹھے جائیں جب کسے کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہو جائیں جس دن بہ روح ہماری جماعت میں پیدا ہو جائے گی اس دن جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا ہے اور اسے توڑ مروڑ کر رکھ دیتا ہے اسی طرح احمدیت اپنے شکار پر گرے گی اور تمام دنیا کے ممالک چڑیا کی طرح اس کے پنجہ میں آجائیں گے اور دنیا میں اسلام کا پر جیم پھرنئے سرے سے لہرانے لگ جائے گا " الفضل ، اپریل ۱۹۳۹ ) ایک اور موقعہ پر نظام کی اہمیت مجلس خدام الاحمدیہ کی توسیع اور اس میں شمولیت کی طرف توجہ دلاتے

Page 18

ہوئے آپ نے فرمایا :- میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے دباؤ کے ماتحت بہت سے لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے.جماعتی دباؤ ایک بہت بڑا حربہ ہے.تم غیر احمدیوں سے کئی دفعہ سنتے ہو کہ احمدیت تو بستی ہے، لیکن رشتہ دار نہیں چھوڑے جا سکتے.اور رشتہ داروں کی مخالفت برداشت نہیں ہو سکتی.پس اگر قومی دباؤ جھوٹ کی تائید میں ہوگا تو جھوٹ پھیلے گا.اگر قومی دباؤ سچ کی تائید میں ہو گا تو سیچ پھیلے گا اور لوگوں کو امن ملے گا.کیونکہ سچ سے دنیا میں ہمیشہ امن قائم ہوتا ہے.پس تم اس قومی دباؤ سے فائدہ اُٹھاؤ" مشعل راه ام ، خطبه جمعه ۱۴ فروری شه ) اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا :- "اگر دوست چاہتے ہیں کہ وہ تحریک جدید کو کامیاب بنا ئیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ جس طرح ہر جگہ بنات امام اللہ قائم ہیں.اسی طرح ہر جگہ نوجوانوں کی انجمنیں قائم لوگوں سے اقرار لیے جائیں کہ وہ آئندہ اسلامی تمدن اور تہذیب کے مطابق عمل کریں گے.اور جہاں تک حکومت کا قانون ان کو اجازت دیتا ہے.تمدنی.معاشی معاشرتی اور دوسرے معاملات میں اسلامی تعلیم کو رائج کریں گے.یہ کوئی معمولی کام نہیں بعض چیزیں جو دل میں گڑ جاتی ہیں ان کا نکالنا مشکل ہوتا ہے.اس لیے اس کام پر سخت جد وجہد کرنی ہوگی.مثلاً بد دیانتی اور محنت نہ کرنے کا مرض ہے.یہ ایسا مرض ہے جو بہت ہی خطرناک ہے اور بہت سے نقصانات کا موجب ہے......ان چیزوں کو دور کرنے کے لیے ہمارے دوستوں کو بہت سی لڑائی اپنے نفسوں سے اور دوسروں سے کرنی پڑیگی لیکن نتیجہ نہایت اچھا ہوگا.کیونکہ اگر ہماری جماعت اپنی دیانت کا سکہ بٹھا دے اور اس لحاظ سے اپنی شہرت قائم کرے تو اقتصادی مشکلات کا خود بخود حل ہو سکتا ہے؟ الفضل ۲۱ جنوری شاته ) میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوںکہ وہ اتنے اعلی درجہ کا نمونہ قائم کریں کہ نسل بعد السل اسلام کی روح زندہ رہے.اسلام اپنی ذات میں تو کامل مذہب ہے لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ شربت

Page 19

۱۹ سته کے لیے بھی کسی گلاس کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح اسلام کی روح کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے کسی گلاس کی ضرورت ہے اور ہمارے خدام الاحمدیہ وہ گلاس ہیں جن میں اسلام کی روح کو قائم رکھا جائے گا.اور ان کے ذریعہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے گا الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۹۵ ) ایک بیدار مغز ماہر باغبان کی طرح جو اپنے باغ کے ہر درخت پر ہر وقت نظر رکھتا ہے آپ کی نظر نو جوانوں کی اخلاقی، روحانی و جسمانی بہتری و ترقی کی طرف رہتی تھی.اور اس مقصد کے رستہ میں حائل ہونے والی ہر چیز کو دور کرنے کے لیے آپ ہر وقت قول بلیغ اور موعظہ حسنہ سے کام لیتے ہوئے نوجوانوں کے معیار کو ہر لحاظ سے بلند سے بلند تر دیکھنا چاہتے تھے.آپ کے بعض نہایت مفید ارشادات جو آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں.درج ذیل ہیں : " ہماری کوئی انجمن ہو اس کا پروگرام قرآن کریم ہی ہے.اگر قرآن اور احادیث میں بیان کردہ اسلامی تعلیم سے الگ ہو کر ایک شوشہ بھی بیان کیا جاتے بلکہ ایک زبرا در ایک زیر کا بھی اضافہ کیا جائے تو وہ یقیناً گھر ہوگا.الحاد ہوگا اور اس کی اشاعت سے دُنیا میں علم نہیں پھیلے گا.بلکہ جہالت اور بے دینی میں ترقی ہوگی.پس ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآنی تعلیم کو بجھیں اور اس کو اپنے دلوں اور دماغوں میں پوری مضبوطی سے قائم کریں " الفضل 9 نومبر اته ۲۱۹۴۴ نوجوانوں میں صحیح اسلامی عقائد کے متعلق کامل ایمان پیدا کیا جائے.توحید الہی اور رسالت و خاتمیت محمدی پر نوجوان سچا یقین رکھتے ہوں اور اس کے لیے ان کے دل میں سیقی غیرت ہو جو ان کی روح اور رگ و ریشہ میں سرایت کر کے انکی زندگی اور ہر حرکت و سکون پر محیط ہو جائے اور پھر خدا تعالیٰ اور اس کے پاک حبیب حضرت محمد مصطفے " سے محبت و الفت کی آگ غیر اللہ کے خس و خاشاک کو چھونک دے.نوجوان اچھی طرح سمجھے ہیں کہ ان کا خدا واحد خُدا ہے.اس کی قدرتوں میں کوئی شریک نہیں.اس کی عبادت میں کوئی شریک نہیں.اس کا حکم چلتا ہے اور اسی کے حکم کے مطابق اس کے رسولوں کی اطاعت فرض اور حضرت محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاتمیت پر ایمان لانا اور آپ سے محبت کرنا واجب ہے.نوجوانوں کو تلقین کی جائے کہ وہ اسوہ رسول کی پیروی کرتے ہوئے اخلاق فاضلہ

Page 20

کو اپنا ئیں.صدق و صفا.دیانت و امانت اور عدل وانصاف میں وہ نمونہ ہوں.اخبار و استقلال کا مجسمہ بن جائیں اور شجاعت اور دلیری کا وہ پیکیر ہوں.انکی عفت و عصمت کی ملا تک تک قسمیں کھائیں علم اور بردباری.نرمی اور درگذر کی خو ان کے رگ وریشہ میں سرایت کر جاتے.خدمت خلق کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو.تکبر - نخوت.بدلتی اور غیبت ریا اور نام ونمود کی زہروں سے ان کا دامن پاک ہو.غرض تمام اخلاق فاضلہ سے ان کا قلب صافی متصف اور تمام اخلاق رویہ سے ان کا چین دل مکمل طور پر پاک ہو.اسی تسلسل میں فرمایا :- " اس امر کو اچھی طرح سمجھ لوکہ جب تک یہ جسم مکمل نہیں ہو گا اس وقت تک مذہب کی روح بھی قائم نہیں رہ سکتی.گویا ایمان ایک روح ہے اور اخلاق فاضلہ اس روح کا جسم ہیں پس میں.خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نوجوانوں میں ان باتوں کو پیدا کرنے کی کوشش کریں.....ان میں جھوٹ کی عادت نہ ہو.غیبت کی عادت نہ ہو.چغل خوری کی عادت نہ ہو.ظلم کی عادت نہ ہو.دھوکہ اور فریب کی عادت نہ ہو.غرض جس قدر اخلاق ہیں وہ ان میں پیدا ہو جائیں اور جس قدر بدیاں ہیں اُن سے وہ بچ جائیں تاکہ وہ قوم کا ایک مفید جسم بن سکیں.اگر ان میں یہ بات نہیں تو وفات مسیح پر لیکچر دنیا یا منہ سے احمدیت زندہ باد کے نعرے لگاتے رہنا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا کیونکہ کوئی روح بغیر جسم کے نہیں رہ سکتی اور کوئی جسم بغیر روح کے مفید کام نہیں کر سکتا.جسم کی مثال ایک پیالے کی سی ہے اور روح کی مثال دُودھ کی سی.جس طرح دودھ بغیر پیالہ کے زمین پر گر جاتا ہے.اسی طرح اگر اخلاق فاضلہ کا جسم تیار نہیں ہوگا توتمہارے نیچر اور تمہاری تمام تقریریں زمین پر گر کرمٹی میں دھنس جائیں گی، لیکن اگر اخلاق فاضلہ کا پیالہ انکے دلوں میں رکھ دو گے.تو پھر وعظ بھی انہیں فائدہ دے گا.اور تقریریں بھی ان میں نیک تغیر پیدا کر دیں گی " ) الفضل ۴ ۱ مارچ ۹۱ ) اسی طرح آپ نے ہدایت فرمائی کہ نوجوانوں میں وہ خوبیاں اور خصوصیات پیدا کی جائیں جو دنیادی نقطہ نظر سے ان کی کامیابی اور ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہوں.اور ان کی سیرت و کردار کی تشکیل کے لیے

Page 21

M ممد و معاون ثابت ہوں.نوجوان محنت کے عادی ہوں.ہاتھ سے کام کرنے کو عار نہ سمجھیں.سادہ زندگی کو پسند کریں.جسمانی ورزش میں وہ کبھی کوتاہی نہ کریں.صحت مند مشاغل سے دلچسپی رکھیں اور مسابقت نی روح پیدا کریں.اور حواس خمسہ کو زیادہ سے زیادہ تیز اور حساس بنانے کی کوشش کریں.صفائی اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوں.گھر اور اس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں.خوش اسلوبی اور سلیقہ مندی سے ہر کام سرانجام دیں.نگاہ بلند اور نظر میں وسعت ہو.عزت نفس اور خود داری کا ہمیشہ خیال رکھیں.مطالعہ اور غور وفکر کی عادت ہو.اعلیٰ تعلیم کا شوق ہو.جن میں شوق اور ملکہ ہو وہ پیشہ ورانہ تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیں.اظہار خیال اور تقریر و تحریر کا ملکہ ہو علمی اور دینی موضوعات پر صحت مندانہ گفتگو کا شوق ہو.ان میں مشورہ دینے کی اہلیت ہو.ووٹ کا صحیح استعمال جانتے ہوں بلک و مدت اور مخلوق خدا کی خدمت کا جذبہ ہو.قومی زبان اور اسلامی ثقافت سے محبت ہو.خدام خود بھی بیکاری سے بچیں اور دوسروں کو بھی اس مہلک مرض سے بچائیں.آوارگی سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا : کھیلنا آوارگی میں داخل نہیں.....ورزش انسان کے کاموں کا حصہ ہے.ہاں گلیوں میں بیکار پھر نا گاتے ہوتے گذرنا.بے کار بیٹھے باتیں کرنا اور بخشیں کرنا.آوارگی ہے اور ان کا انسداد خدام الاحمدیہ کا فرض ہے.اگر تم لوگ دنیا کو وعظ کرتے پھرو لیکن احمدی بچے آوارہ پھرتے رہیں تو تمہاری سب کوششیں رائیگاں جائیں گی." مشعل راه صفحه ۱۱۶ - ۱۱۷ ).محنت - استقلال اور قربانی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا : " آج میں جماعت کے نوجوانوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان کو اپنے اند رفت اور قربانی کی عادت پیدا کرنی چاہیئے اوراس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا چاہتے کسی قوم کی حالت ترقی پذیر نہیں ہوسکتی جب تک اس قوم کے خواص و عوام میں محنت اور قربانی کی عاد نہ ہو.دنیا میں کئی شکلوں میں مشکلات اور کئی صورتوں میں ابلا آتے رہتے ہیں مگر ان سب کا جواب صرف ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ استقلال اور بہادری سے ایسی مشکلات کا مقابلہ کیا جائے مگر یہ روح تبھی پیدا ہو سکتی ہے جب نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوتے ان کے مطابق کام بھی کریں یعنی جتنی زیادہ ذمہ داریاں ہوں اتنا ہی زیادہ کام بھی کیا جائے.1941 ) الفضل ١٦ متى ١٩٦١.(

Page 22

احساس ذمہ داری پیدا کرنے اور غلط اجتہاد سے بچنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا : نوجوانوں کو غلط قیاس آرائی سے بچایا جائے.مثلاً اگر حکم دیا جائے کہ خدام فلاں جگہ جمع ہو جائیں.مگر وقت مقررہ پر آندھی آجاتے یا بارش ہونے لگے تو کوئی خادم یہ قیاس نہ کرے کہ آندھی یا بارش میں کون آئے گا.بہر حال خواہ کچھ ہو خادم کو وقت مقررہ پر ضرور پہنچ جانا چاہیئے اور اگر وہاں اس کے سوا کوئی نہیں آتے تب بھی خادم مقررہ وقت تک وہاں ٹھہرا رہے.اس طرح نوجوان غلط اجتہاد سے بچ جائیں گے.۴۵۰ ) تاریخ احمدیت جلد هشتم خند۲۵ ) شعائر اسلامی کے احترام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :- نوجوانوں میں شعائر اسلامی کے احترام کا جذبہ پیدا کیا جائے.تا ان میں ایسی روح اجاگر ہو کہ وہ اسلام کے تمام احکام پر صدق دل سے عمل کرنے لگیں.ارکان اسلام - نماز - روزہ.حج اور زکوۃ کی پابندی کریں.دنیوی تعلیم اور یورپ کے اثرات کی وجہ سے اسلامی تعلیمات اور احکام کو تخفیف اور استہزاء کی نظر سے دیکھنا ایک فیشن سا ہو گیا ہے.احمدی نوجوان ان اثرات سے بچیں.رعب دجال سے محفوظ رہنے کی کوشش کریں اور بے راحمدی کی رو کا مقابلہ کریں.غرض اپنے قول و فعل سے اس نازک دور میں اسلامی تعلیمات اور حرمات اسلام کی برتری ثابت کر دیں " ایک اور موقعہ پر فرمایا :- خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اسی لیے کیا گیا ہے کہ بچپن اور نوجوانی میں بعض لوگ بیرونی اثرات کے ماتحت کمزور ہو جاتے ہیں.اور ان میں کسی قسم کی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں بعض لوگ دوسری سوسائٹیوں سے بُرا اثر قبول کر لیتے ہیں اور بعض تربیت کے نقائص کی وجہ سے آوارگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.خُدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ اس بیرونی تغییر کو احمدیہ نہ.کو جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہونے دیں.اور اس مقصد کو ہمیشہ نوجوانوں کے سامنے رکھیں جس کے پورا کرنے کے لیے جماعت احمدیہ قائم کی گئی ہے ؟ ( مشعل راہ ملا) احمدی نوجوانوں کو روحانیت میں ترقی کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا : " تم نے ابدال کا ذکر سُنا ہو گا.ابدال در حقیقت وہی ہوتے ہیں جو جوانی میں اپنے اندر تغیر پیدا کر لیتے ہیں اور اللہ تعالٰی کے ساتھ ایسا تعلق پیدا کر لیتے ہیں کہ بڑھے بڑھے

Page 23

بھی آکر کہتے ہیں کہ حضور ہمارے لیے دُعا کیجئے.احمدیوں کے بڑھے تو اقطاب ہونے چاہئیں.اور احمدیوں کے جوان ابدال ہونے چاہئیں.وہ خوب دُعائیں مانگیں اور اللہ تعالٰی نے ایسی محبت کریں کہ وہ اپنے فضل سے ان سے بولنے لگ جاتے اور وہ جوانی میں ہی وہ صاحب کشف و کرامات ہو جائیں اور محلہ کے لوگوں کو جب مصیبت پیش آئے وہ دوسرے دوڑے ایک خادم احمدیت کے پاس آتیں اور اگر کہیں کہ دعا کرو ہماری یہ مصیبت ٹل جائے.جب تم جذبہ اخلاص سے ان کے لیے دُعا کرو گے تو پھر خدا تمہاری دعائیں بھی زیادہ قبول کرنے لگ جائے گا.اور لوگوںکو ماننا پڑے گا کہ تمہاری دعا ایک بڑی قیمتی چیز ہے؟ ) الفضل ۲ مارچ ۱۹۵۶ اس مجلس کی غیر معمولی افادیت اور وسیع و گہرے اثرات کو دیکھتے ہوتے جو نائی نگاہ میں آپ نے تمام احمدی نوجوانوں کے لیے اس مجلس میں شمولیت کو لازمی قرار دے دیا.چنانچہ مجلس شور می ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :- میں جماعتوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میں نے اس سال یہ پابندی عائد کر دی ہے کہ وہ تمام نوجوان جو پندرہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کے ہیں وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہو جائیں......چونکہ اس وقت تمام جماعتوں کے نمائندے جمع ہیں.اس لیے میں پھر اس معاملہ کو دوستوں کے سامنے پیش کرتا ہوں “ رپورٹ مجلس مشاورت ۹۲۷ ه ص ۱۲ ( سید نا حضرت خلیفتہ البیع الثانی کے ارشادات کی روشنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کے لائحہ عمل کے نمایاں امور مندرجہ ذیل قرار پائے.خدام احمدیت کے متعلق اپنے دلوں میں جذبہ احترام پیدا کریں.استقلال کا مادہ پیدا کریں.محنت کی عادت ڈالیں.ہر ہدایت کی پوری پوری اطاعت کریں اور اپنے اجتہادات اور قیاسات سے کام لینے سے اجتناب کریں.وسعت نظرہ پیدا کریں اور حالاتِ حاضرہ سے گہری واقفیت حاصل کریں.دیانت کی روح پیدا کریں.

Page 24

خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.سچائی کو اختیار کریں.اپنے مقصد کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں.اپنے آپ کو کام کے نتائج کا ذمہ دار قرار دیں.اگر کوئی قصور ہو تو سزا برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں.اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ جو شخص قوم کے لیے فنا ہوتا ہے وہ فنا نہیں ہوتا.جنگ قوم زندہ ہے اس وقت تک ہی حقیقی زندگی باقی ہے.قومی زندگی کے قیام کے مقابلہ میں انفرادی قربانی کوئی حقیقت نہیں رکھتی.صرف اپنی ہی اصلاح نہ کریں بلکہ ماحول کی بھی اصلاح کریں.غور و فکر کی عادت ڈالیں اور عقل سے کام لیں.اطاعت کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں.ہمیشہ یہ خیال رکھیں کہ جماعت کا قدم ترقی کی طرف ہی بڑھے " الفضل ۲۷ دسمبر ۹۳ة ) مجلس کا انتظام : مجلس خدام الاحمدیہ ایک منتخب صدر کی قیادت میں کام کرتی ہے جسے دنیا بھر کی مجالس کے نمائندے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر ہر دو سال کے بعد منتخب کرتے ہیں.صدر مجلس کی جملہ سرگرمیوں کا نگران اور اس کے لائحہ عمل کو کامیابی سے چلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے.صدر مجلس کو حضرت خلیفقہ اسح کی نگرانی میں مجلس سے متعلق جملہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں.(خلافت رابعہ میں اس انتظام میں کسی قدر تبدیلی کی گئی ہے اور ہر ملک کی مجلس کا صدر براہ راست خلیفتہ المسیح کی نگرانی میں کام کرتا ہے) مجلس خدام الاحمدیہ کے پہلے صدر مولوی قمر الدین صاحب مقرر ہوتے تھے.اس کے ایک سال بعد ۱۹۳۹ میں حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد مجلس کے صدر منتخب ہوئے.اس وقت سے اہ تک اپنی غیر معمولی خدمات اور صلاحیتوں کی وجہ سے آپ ہی اس عہدہ کے لیے منتخب ہوتے رہے.اکتوبر 190 میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مجلس کی صدارت کے فرائض خود سنبھال لیے اس تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : " میں نے یہ قدم اس لیے اُٹھایا ہے کہ نو جوانوں کو زیادہ تر دین کی طرف مائل کیا جاتے.جہاں

Page 25

۲۵ تک تنظیم اور حفاظت مرکز کا تعلق ہے خُدام الاحمدیہ نے اچھا کام کیا ہے، لیکن اس کے قیام کی غرض یعنی.نو جوانوں میں صحیح دینی روح پیدا کی جائے.پوری نہیں ہوئی حقیقت یہ ہے کہ روحانی جماعتوں کا اُوڑھنا بچھونا سب روحانی ہوتا ہے.اس میں کوتاہی ہو جائے تو اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے.اس وجہ سے میں نے صدارت خود سنبھال لی ہے تاکہ میں خود براہ راست ان کی نگرانی کر سکوں الفضل.ار جنوری شاه ) 121900 اس تبدیلی کے بعد حضور نے نائب صدر کے عہدے کو انتخابی قرار دیا تا نوجوان اپنی رائے کے اظہار اور اس کے بر محل استعمال کے مواقع سے محروم نہ ہوں.اس بدلے ہوئے انتظام کے مطابق ۹۵ تک ہر دفعہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ہی نائب صدر منتخب ہوتے رہے اور آپ حضور کی زیر ہدایت یہ فرائض خوش اسلوبی سے بجا لاتے رہے.مجلس کے کام کو احسن طریق پر چلانے کے لیے حضور کی اجازت اورمنشاء کے مطابق اس تنظیم کو مندرجہ ذیل شعبوں میں تقسیم کیا گیا.اعتماد - تجنید - مال - تعلیم - تربیت - اصلاح و ارشاد - تحریک جدید - خدمت خلق - صحت جسمانی - وقار عمل - صنعت و تجارت - اشاعت - اطفال - شعبہ اعتماد کے انچارج کو معتمد اور باقی شعبہ جات میں سے ہر شعبہ کے انچارج کو مستم کہا جاتا ہے.حضور ان شعبوں کے متعلق خدام کو وقتاً فوقتاً نہایت مفید ہدایات سے نوازتے رہے.جو مشعل راہ کے نام سے ایک ضخیم کتاب کی شکل میں طبع ہو چکی ہیں.ان میں سے بعض ہدایات جو آپ کی غیر معمولی خداداد قائدانہ صلاحیت و تدبر کا شاہکار ہیں درج ذیل ہیں.حقوق العباد کی ادائیگی اور خدمت خلق کی اہمیت کے متعلق حضور فرماتے ہیں :- میں نے بار ہا بتایا ہے کہ خدمت خلق کے کام میں جہاں تک ہو سکے وسعت اختیار کرنی چاہیے اور مذہب اور قوم کی حد بندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر مصیبت زدہ کی مصیبت کو دور کرنا چاہیئے.خواہ وہ ہندو ہو یا عیسائی ہو.یا سکھ.ہمارا خُدا رب العلمین ہے اور میں طرح اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اسی طرح اس نے ہندوؤں اور سکھوں اور عیسائیوں کو بھی پیدا کیا ہے.پس اگر خدا ہمیں توفیق دے تو ہیں سب کی خدمت کرنی چاہیئے....حسن سلوک میں کسی مذہب کی قید نہیں ہونی چاہتے.جو شخص بھی اس قسم کے حسن سلوک میں مذہب کی قید لگاتا اور اپنے ہم مذہبوں کی خدمت کے کام کرنا تو ضروری سمجھتا مگر غیر مذہب والوں کی خدمت کرنا

Page 26

ضروری نہیں سمجھتا وہ اپنا نقصان آپ کرتا ہے اور دنیا میں لڑائی جھگڑے کی رُوح پیدا کرتا ہے.پھر جو تبلیغی جماعتیں ہوتی ہیں ان کے لیے تو یہ بہت ہی ضروری ہوتا ہے کہ وہ ساری قوموں سے حسن سلوک کریں اور کسی کو بھی اپنے دائرہ احسان سے باہر نہ نکالیں تا تمام قومیں ان کی مداح نہیں.پس وہ (خدام الاحمدیہ ) خدمت خلق کے کاموں میں مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر حصہ ہیں.اور جماعت کے جو اغراض و مقاصد میں ان کو ایسی وفاداری کے ساتھ لیکر کھڑے ہو جائیں کہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں ان کے لیے اپنی جان قربان کر دینا کوئی دو بھر نہ ہو.جب کسی قوم کے نوجوانوں میں یہ روح پیدا ہو جاتے کہ اپنے قومی اور مذہبی مقاصد کی تکمیل کے لیے جان دے دیا وہ بالکل آسان سمجھنے لگیں.اس وقت دنیا کی کوئی طاقت انہیں مار نہیں سکتی.جس چیز کو مارا جا سکتا ہے وہ جسم ہے.مگر جس شخص کی روح ایک خاص مقصد لیکر کھڑی ہو جاتے اس روح کو کوئی فنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.بلکہ ایسی قوم کا اگر ایک شخص مرے تو اس کی جگہ دس پیدا ہو جاتے ہیں " مشعل راه صفحه ۵۹ - ۲۰) صحت جسمانی : صحت جسمانی اور محنت کی عادت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور ارشاد فرماتے ہیں:.دنیا کے اعداد وشمار کا مقابلہ ذہانت ہی کرسکتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.كُمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِاِذْنِ اللہ کہ کئی گروہ ایسے ہوتے ہیں جن کی تعداد تھوڑی ہوتی ہے لیکن بوجہ ہمت اور ذہانت وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے كثیر التعداد گروہوں پر غالب آجاتے ہیں.اگر ہمارے نوجوان اچھی طرح محنت کریں اور کوشش کرکے اعلیٰ قابلیتیں پیدا کریں تو ہم تھوڑے ہو کر بھی کامیاب ہو سکتے ہیں رہیں ہماری کامیابی ہمارے طالب علموں کے ہاتھ میں ہے.ہمارے نوجوان اگر اعلیٰ قابلیتیں پیدا کر لیں تو دنیا کے اعداد و شمار ہمارے راستے میں روک نہیں بن سکتے.....اگر ہمارے نوجوان ہرفن میں کمال پیدا کرلیں تو ترقی کرنا بہت آسان ہو جاتے.کیونکہ ایسی صورت میں ہمارا مبلغ جہاں بھی تبلیغ کر رہا ہوگا وہاں یہ بات اس کی مدد کر رہی ہوگی کہ یہ اس قوم کا مبلغ ہے جس میں ایسے ایسے اعلیٰ پایہ کے انسان پائے جاتے ہیں.جب کوئی قوم قابلیت اور لیاقت میں بڑھ جاتی ہے تو اس کے ہر فرد کی قیمت و قدر بھی بڑھ جاتی ہے بس ہمارے نوجوانوں کو زندگیاں سُدھارنے کی کوشش کرنی چاہیئے.اور اپنی نگاہوں کو اونچا کرنا چاہیتے اور یہ عزم کر لیا

Page 27

۲۷ چاہتے کہ میں نے فلاں فن میں چوٹی کا آدمی بنا ہے یا اسی کوشش میں فنا ہو جانا ہے" ) الفضل ٢٤ ستمبر ة ) ( بلند پروازی اسی کو کہتے ہیں کہ انسان اپنی موجودہ حالت سے اوپر ایک مقصد معین کرے.پھر یہ سوچے کہ یہ مقصد کن ذرائع سے حاصل ہو سکتا ہے.جب ذرائع اپنی معین صورت میں سامنے آجائیں تو پھر اس امر پر غور کرے کہ کن طریقوں سے یہ ذرائع فراہم ہو سکتے ہیں.جب کوئی شخص یہ طریقے معلوم کر کے مصروف عمل ہو جاتا ہے تو ذرائع خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں.اور بالآخر وہ مقصد مل جاتا ہے جس کے لیے یہ سب کوشش ہو رہی تھی.اگر ایسا ظہور میں نہیں آتا تو وہ بلند پروازی نہیں.خام خیالی یا واہمہ ہے.ایسا شخص ہمیشہ خوابوں کی دُنیا میں اُلجھا رہتا ہے.پس ہماری جماعت کے نوجوانوں کو غور و فکر اور بلند پروازی کی مشعل را و صفحه ۷۵۳-۷۵۴ ) عادت ڈالنی چاہیتے " شعبه وقار عمل :- وقار عمل کی اصطلاح امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے ہاتھ سے کام کرنے اور اسے عار نہ سمجھنے کے متعلق استعمال فرماتی ہے.اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا."میں چاہتا ہوں کہ اس کام کو اتنا وسیع کیا جائے کہ نہ صرف قادیان میں بلکہ بیرونی جماعتوں میں بھی کوئی بیوہ اور غریب عورت ایسی نہ رہے جو کام نہ ملنے کی وجہ سے بھو کی رہتی ہو.ہمارے ملک میں یہ ایک بہت بڑا عیب ہے کہ وہ بھوکا رہنا پسند کریں گے مگر کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوں گے.یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیئے اور یہ اصلاح اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ہر شخص یہ عہد کرے کہ وہ مانگ کر نہیں کھائے گا بلکہ کما کر کھائے گا.اگر کوئی شخص کام کو عیب سمجھتا ہے اور پھر بھو کا رہتا ہے تو اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ، لیکن اگر ایک شخص کام کے لیے تیار ہو لیکن بوجہ کام نہ ملنے کے وہ بھوکا رہتا ہو تو یہ جماعت اور قوم پر ایک خطرناک الزام اور اس کی بہت بڑی بہتک اور سبکی ہے اس کام مبا کرنا جماعتوں کے ذمہ ہے ، لیکن جو لوگ کام نہ کریں اور سستی کر کے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالیں ان کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ ان کے اپنے نفسوں پر ہے.کہ انہوں نے باوجود کام ملنے کے محض نفس کے کسل کی وجہ سے کام کرنا پسند نہ کیا اور بھوکا رہنا گوارا کرلیا...نکما بیٹھ کرکھانا نہایت غلط طریقی ہے کام کر کے کھانا چاہیے.اور کسی کام کو

Page 28

اپنے لیے عار نہیں سمجھنا چاہتے.قادیان میں ابھی ایک اچھا خاصہ طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جنہیں جب کام دیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کام کے کرنے میں ہماری تنگ ہے.حالانکہ ہتک کام کرنے میں نہیں بلکہ نکما بیٹھ کر کھانے میں ہے ؟ ) الفضل ۱۷ - فروری ۱۹۳۹ ) اسی طرح فرمایا :- اس "جب میں کہتا ہوں کہ ہمیں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے تو اس مں دونوں باتیں شامل ہیں.یعنی یہ بھی اس میں شامل ہے کہ کسی کام کو اپنے لیے عار نہ سمجھا جائے...پس ہاتھ سے کام کرنے کو جب میں کہتا ہوں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ عام کام جن کو دنیا میں عام طور پر بُرا سمجھا جاتا ہے.اُن کو بھی کرنے کی عادت ڈالی جائے مثلاً مٹی ڈھونا یا ٹوکری اُٹھانا ہے.کئی رکشتی چلانا ہے اوسط طبقہ اور امیر طبقہ کے لوگ اگر یہ کام کبھی کبھی کریں تو یہ ہاتھ سے کام کرنا ہوگا.ورنہ یوں تو سب ہی ہاتھ سے کام کرتے ہیں.یہ کام ہمارے جیسے لوگوں کے لیے ہیں.کیونکہ ہمیں ان کی عادت نہیں.اگر ہم نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو ہو سکتا ہے کہ ہماری عادتیں ایسی خراب ہو جائیں یا اگر ہماری نہ ہوں تو ہماری اولادوں کی عادتیں ایسی خراب ہو جائیں کہ وہ ان کو بُرا سمجھنے لگیں.اور پھر کوشش کریں کہ دنیا میں ایسے لوگ باقی رہ ہیں جو ایسے کام کیا کریں.اس کا نام " غلامی ، ہے.....اس تحریک سے دوضروری فوائد حاصل ہوں گے.ایک تو نکما پن دو ہوگا دوسرے غلامی کو قائم رکھنے والی روح کبھی پیدا نہ ہوگی.یہ فیصلہ کر لینا چاہیئے کہ فلاں کام بُرا ہے اور فلاں اچھا ہے.بُرا کام کوئی نہ کرنے اور اچھا چھوٹے بڑے سب کریں.بُرا کام مثلاً چوری ہے.یہ کوئی بھی نہ کرے اور جو اچھے ہیں اُن میں سے کسی کو عاد نہ سمجھا جائے.تا اس کے کرنے والے ذلیل نہ سمجھے جائیں.اور جب دنیا میں یہ مادہ پیدا ہو جاتے کہ کام کرنا ہے اور نکما نہیں رہنا اور کسی کام کو ذلیل نہیں سمجھنا تو اس طرح کوئی طبقہ ایسا نہیں رہے گا جو دنیا میں غلامی چاہتا ہو.“ تعميرة الفضل ۷ ار مارچ ۱۹۳۹ دور میں اپنے نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تعلیم محض اس لیے حاصل نہ کریں کہ اس

Page 29

۲۹ کے نتیجے میں انہیں نوکریاں مل جائیگی، نوکریاں قوم کو کھلانے کا موجب نہیں ہوتیں بلکہ نوکر ملک کی دولت کو کھاتے ہیں، اگرتم تجار میں کرتے تو صنعتوں میں حصہ لیتے ہو.ایجادوں میں لگ جاتے ہو توتم ملک کو کھلانے ہو.اور یہ صاف بات ہے کہ کھلانے والا کھانے والے سے بہتر ہوتا ہے.نوکریاں بیشک ضروری ہیں لیکن یہ نہیں کہ ہم سب نوکریوں کی طرف متوجہ جو جائیں ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ پیشے اختیار کریں ، تاکہ ملک کو ترقی حاصل ہوئی الفضل ۱۴ دسمبر ۹۵ ) اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا :- میں نے پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ ہر خادم کو کوئی نہ کوئی ہنر آنا چاہئے پڑھنا لکھنا غیر طبعی چیز ہے اور ہر ایک طبعی چیز ہے جو ہر جگہ کام آسکتی ہے.مثلاً معماری ہے لوہاری ہے نجاری ہے یا اسی قسم کے اور پیتے ہیں.پیشہ ور ہر جگہ اپنے گزارے کی صورت پیدا کر لیتا ہے اور لوگ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.آپ کو اگر اچھی عربی آتی ہو اور آپ افغانستان چلے جائیں تو آپ کی کوئی قیمت نہیں، لیکن اگر آپ لوہار کا یا نجار کا کام جانتے ہیں.یا آپ درزی ہیں یا آپ جوتا بنانا جانتے ہیں تو آپ کی بڑی قیمت ہے.اسی طرح آپ کو اچھی انگریزی آتی ہے اور آپ آزاد علاقے میں چلے جائیں تو آپ کی کوئی قیمت نہیں.لیکن اگر آپ لو ہارا کام جانتے ہیں یا اچھے بڑھٹی ہیں تو وہ آپ کو سر پر اٹھا لیں گے.یہی حال جرمنی اور فرانس وغیرہ کا ہے.وہاں بھی محض علم کی کوئی قیمت نہیں.لیکن اگر آپ کو کوئی پیشہ آتا ہے تو آپ کی بڑی قیمت ہے -- --- لیس ایک تو نو جوانوں کو تعلیمی ڈگریوں کی طرف توجہ کرنی چاہیتے اور دوسرے نہیں کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا چاہیئے.الفضل یکم اگست ة ) کا شعبہ اطفال :- جولائی نگاہ میں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مجلس خدام الاحمدیہ کوحکم دیا کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کو منظم کریں اور " اطفال الاحمدیہ " کے نام سے ان کی جماعت قائم کریں کیونکہ یہ بچے دراصل مجلس خدام الاحمدیہ کی نرسری ہیں.آگے پیکر انی بچوں نے مجلس کے کام سنبھالنے ہیں.اس لیے شروع سے ہی ان کی ایسی ٹرینینگ ہونی چاہیئے کہ وقت آنے پر وہ اپنے آپ کو ان اہم ذمہ داریوں کے اُٹھانے کا اہل ثابت کریں جو بھی خدام الاحمدیہ کا رکن بننے کی حیثیت سے اُن پر عائد ہوتی ہیں.بچپن میں انسان کے دل و دماغ کی تختیاں صاف ہوتی

Page 30

وم ہیں.ان پر جو نقش بناتے جاتے ہیں وہ پائیدار اور دائمی ہوتے ہیں.پیدائش کے وقت بچے کے کان میں اذان دینے میں بھی یہی بہتر ہے کہ شروع سے ہی اس کے کان میں اللہ اور اس کے رسول کا نام ڈال دیا جائے اور یہ صداقت اس کے ذہن میں پوری طرح مرتسم ہو جائے.حضور نے جماعت اور خدام کو خطاب کرتے ہوئے ایک اور موقعہ پر فرمایا: " میں جماعت کے دوستوں کو بالخصوص مرکزی مجلس خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ کہ نوجوانی میں بے شک خدمت دین کا کام کرنا اچھا ہوتا ہے کیونکہ ادھیڑ عمر میں بعض دفعہ انسان ان کاموں کے کرنے کی ہمت کھو بیٹھتا ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور کام ہے اور وہ یہ کہ بچوں کے اندر بھی یہی جذبات اور یہی خیالات پیدا کئے جائیں کیونکہ بچپن میں ہی اخلاق کی داغ بیل پڑتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کاموں کی داغ بیل جوانی میں پڑتی ہے.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض کاموں کی داغ بیل بچپن میں پڑتی ہے..عادت کا زمانہ بچپن کا زمانہ ہوتا ہے اور علم کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے.....بہر حال بچوں کی ایک الگ شاخ ہونی چاہ بنے اور ان کے الگ نگران مقرر ہونے چاہتیں.مگر یہ امر مد نظر رکھنا چاہتے کہ ان بچوں کے نگران نوجوان نہ ہوں.بلکہ بڑی عمر کے لوگ ہوں.پس خدام الاحمدیہ کو اس مقصد کے ماتحت اپنے اندر کچھ بوڑھے نو جوان بھی شامل کرنے چاہیں.یعنی ایسے لوگ جن کی عمریں گو زیادہ ہوں مگر ان کے دل جوان ہوں.اور وہ خدمت دین کے لیے نہایت بشاشت اور خوشی سے کام کرنے کے لیے تیار ہوں.ایسے لوگوں کے سپرد بچوں کی نگرانی کی جائے اور ان کے فرائض میں یہ امر داخل کیا جائے کہ وہ بچوں کو پنج وقتہ نمازوں میں باقاعدہ لائیں.سوال و جواب کے طور پر دینی اور مذہبی مسائل سمجھائیں.پریڈ کرائیں اور اسی طرح کے اور کام اُن سے لیں جس کے نتیجہ میں محنت کی عادت پنج کی عادت اور نماز کی عادت ان میں پیدا ہو جائے.اگر یہ تین عادتیں ان میں پیدا کر دی جائیں تو یقیناً جوانی میں ایسے بچے بہت کارآمد اور مفید ثابت ہو سکتے ہیں پیس بچوں میں محنت کی عادت پیدا کی جائے.سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے اور نمازوں کی باقاعدگی کی عادت پیدا کی جائے.نماز کے بغیر اسلام کوئی چیز نہیں.اگر کوئی قوم چاہتی ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں میں اسلامی زوح قائم رکھے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی قوم کے ہر بچے کو نماز کی عادت ڈالے.اسی طرح سچ کے بغیر

Page 31

اخلاق درست نہیں ہو سکتے.جس قوم میں سچ نہیں اس قوم میں اخلاق فاضلہ بھی نہیں.اور محنت کی عادت کے بغیر سیاست اور تمدن کوئی چیز نہیں جس قوم میں محنت کی عادت نہیں اس قوم میں سیاست اور تمدن بھی نہیں.گویا یہ تین معیار ہیں جن کے بغیر قومی ترقی نہیں ہوتی.ہمارے ملک میں بعض اور بھی اخلاقی خرا بیاں ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہے مثلاً ہمارے ملک میں گالی دینے کا عام طور پر رواج ہے اور اس میں شرم و حیا سے کام نہیں لیا جاتا.....گالی دینے کی عادت ہی جب کسی شخص میں پیدا ہو جاتی ہے اس کا مٹانا بہت مشکل ہو جاتا ہے.اسی طرح اور کئی قسم کی بُری عادتیں ہیں جو ہمارے ملک میں لوگوں کے اندر پائی جاتی ہیں.ان عادتوں کو مٹا کر ان کی جگہ اگر نیک عادتیں پیدا کر دی جائیں تولا زنگا قوم کی اصلاح ہو سکتی ہے.پس خدام الاحمدیہ کے ارکان کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ نوجوانوں کی اصلاح کریں بلکہ ان کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کی اصلاحی شاخ الگ قائم کریں اور اس کے ذریعہ جو چھوٹی عمر کے بچتے ہیں ان کی تربیت کریں.میں اس کے لیے بھی انشاء اللہ تعالی انہیں قواعد تیار کر دوں گا.سر دست جو تین باتیں میں نے بتاتی ہیں.ان پر عمل کرنا چاہتے یعنی بچوں میں نماز کی عادت پہنچ کی عادت اور محنت کی عادت پیدا کرنی چاہیئے محنت کی عادت میں آوارگی سے بچنا خود بخود آجاتا ہے" الفضل ۱۲۲ اپریل ۱۹۳۷ ) اسی طرح تہ کی مجلس مشاورت میں نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اطفال کے لیے میں نے ضروری قرار دیا ہے کہ انہیں موٹے موٹے دینی مسائل سکھاتے جائیں اور وہ باتیں بتائی جائیں جو مذہب کی بنیاد ہوتی ہیں.اسی طرح میرا مقصد اطفال الاحمدیہ کے قیام سے یہ ہے کہ کھیل کود میں بچوں کی نگرانی کی جائے.یہ نہیں کہ انہیں کھیل کود روکا جائے.بلکہ کھیل کود کے نامناسب اور گندے اثرات سے انہیں بچایا جائے مثلاً بعض دفعہ جب کسی لڑکے سے ہٹ نہیں لگتی تو ہاکی یا بیٹ کو گالی دے دیتا ہے.بعض دفعہ بال کو گالی دے دیتا ہے.بعض دفعہ فیلڈ کے متعلق کوئی ناشائستہ لفظ اپنی زبان سے نکال دیتا ہے......اب یہ ایک نقص ہے جس کو دور کرنا خدام الاحمدیہ کا فرض ہے.اور ان کا کام ہے کہ وہ بچوں کو اپنی نگرانی میں کھلائیں اور ---- دیکھیں کہ گالی تونہیں

Page 32

دیتے اور اگر دیں تو اس کا تدارک کریں.دوسرے اس تنظیم کے ماتحت اطفال الاحمدیہ میں سے ہر ایک کو کھیلنے کا موقعہ مل سکے گا.اب تو کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ امراء کے تڑکے آپس میں مل کر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں.اور غرباء کو اپنے اندر شامل نہیں کرتے.مگر اس تنظیم کے ماتحت غربا بہ کو بھی کھیلوں میں شریک کیا جا سکے گا اور اس طرح ان کے دلوں میں بھی یہ احساس پیدا ہو گا کہ وہ قوم کا جزو اور اس کا ایک حصہ ہیں.یہ نہیں سمجھنا چاہیتے کہ جو لڑ کے کھیلوں میں حصہ نہیں لیتے وہ اس لیے حصہ نہیں لیتے کہ کھیلنا نہیں چاہتے بلکہ کئی اس لیے کھیلوں میں شریک نہیں ہوتے کہ امراء انہیں حقارت کی وجہ سے اپنے اندر شامل نہیں کرتے.ان کا دل اندر سے کڑھتا ہے مگر وہ کچھ کر نہیں سکتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑی محبت میں بیٹھنے لگ جاتے ہیں اور اخلاقی لحاظ سے نقصان اُٹھاتے ہیں اسی طرح اور بیسیوں خرابیاں ہیں جو اس لیے پیدا نہیں ہوتیں کہ لڑکے کھیلتے ہیں بلکہ اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ کھیلوں میں ان کی نگرانی نہیں کی جاتی.پس خدام الاحمدیہ کا فرض ہوگا کہ وہ کھیلوں میں اطفال کی نگرانی کریں اور نہ صرف پہلے سے زیادہ اچھی اور زیادہ عمدہ کھیلیں انہیں کھلائی جائیں.بلکہ ایسی نئی نئی کھیلیں ایجاد کی جائیں جو بچوں کی دلچسپی کا موجب ہوں.اور ان کی آئندہ ترقی کے لیے مفید ہوں....اگر خدام الاحمدیہ چاہیں تو وہ آنکھوں اور کانوں اور ناک اور زبان کے میٹ کے متعلق ایسی ایسی دلچسپ کھیلیں ایجاد کر سکتے ہیں کہ لڑکے ٹوٹ پڑیں اور وہ بڑے شوق سے ان میں حصہ لینے لگ جائیں.یہ امر یاد رکھو کہ اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ تم اپنے لڑکوں کو افسردہ دل اور افسردہ دماغ بناؤ.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.الصبح صبى ولو كان نبیا.یعنی بچہ بچہ ہی ہوتا ہے خواہ اس نے بعد میں نبی ہی کیوں نہ بن جانا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے متعلق بھی ثابت ہے کہ آپ بچپن میں کبھی چڑیوں کا شکار کرتے کبھی غلیلیں بناتے اور کبھی سواری سیکھتے.پس اطفال الاحمدیہ کا قیام صرف اس لیے نہیں ہوا کہ اطفال جمع ہوں اور یہ دیکھ لیا جائے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں.بے شک نماز پڑھنا بھی اطفال کے لیے ضروری ہے، لیکن جو بچے نماز نہیں پڑھتے.در حقیقت ان کے ماں باپ مجرم ہوتے ہیں مگر بہر حال یہ ایسی چیز ہے جس کی نگرانی ان کے ماں باپ کر سکتے ہیں.انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ جو مدد دے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ کھیل کود کے وقت انکی نگرانی کریں.جبکہ

Page 33

۳۳ بچوں کے ماں باپ ان کے ساتھ نہیں ہوتے.اگر یہ کام کیا جاتے تو ہمارے بچے زیادہ عقل زیادہ سمجھے زیادہ فہم اور زیادہ فراست والے پیدا ہوسکتے ہیں یا رپورٹ مجلس مشاورت راست صفر ۲۲ تا ۱۲۹) سالانہ اجتماع : مجلس کے قیام کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ حضور نے تربیت تنظیم کا جائزہ لینے اور سالانہ ترقی کا اندازہ کرنے کے لیے ایک تربیتی کیمپ کی شکل میں سالانہ اجتماع کا سلسلہ شروع فرمایا حضور نے مجلس کے ہر کام کی طرح اس عظیم الشان کام میں بھی مجلس کی بھر پور رہنمائی فرمائی اور شاہ میں بہت چھوٹے پیمانہ پر منعقد ہونے والا سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ کے پروگرام کالازمی جزو بن کر مجلس کی سال بہ سال ترقی کا ایک سنگ میل بن گیا.اس اجتماع پر حسن کارکردگی کے اعتراف واعلان اور مسابقت کی روح کو بیدار رکھنے کے لیے اچھا کام کرنے والی مجانس کو علم انعامی دیا جانے لگا.سالانہ اجتماع کے موقعہ پر جہاں متعد د علمی مقابلوں سے خدام کی اعلیٰ صلاحیتوں کو اُجاگر کیا جاتا تھا وہاں ورزشی مقابلوں سے صحت جسمانی کی بہتری کے لیے مختلف کھیلوں کے مقابلے کروائے جاتے تھے جن سے تین روزہ اجتماع کا پروگرام اتنا دلچسپ ہو جاتا تھا کہ خدام اس تربیتی کیمپ سے گھبرانے کی بجائے سال بھر اس کی آمد کا انتظار کرتے تھے.اجتماع میں دلچسپی اور اس کی افادیت کا اس امر سے بھی بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ انہیں لائنوں پر مجلس اطفال الاحمدیہ کا الگ اجتماع ہونے لگا اور ملک بھر میں ضلعی اور علاقائی سطح پر اجتماعات منعقد ہونے کے علاوہ بیرونی ممالک کی مجالس میں بھی اس مفید پروگرام پر مل شروع ہوگیا.سالانہ اجتماع کی روح رواں حضور کی پر شفقت شمولیت و رہنمائی اور آپ کی نایت موثر تقاریر تھیں.خدام الاحمدیہ کے ہر شعبہ سے متعلق نہایت کارآمد و مفید ہدایات بالعموم اجتماع کی تقاریر کے دوران ہی بیان کی گئی تھیں.سالانہ اجتماع کے سینکڑوں پر معارف خطابوں میں سے صرف ایک خطاب ذیل میں پیش کیا جاتا ہے جو یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ حضور کے پیش نظر خدام میں کیسی روح اور جذبہ پیدا کرنا تھا.اگر کوئی کام کرنا چاہتے ہو تو واقعات کی دنیا میں قیاسات سے کام لینا چھوڑ دو جسے کوئی کام میپرز کیا جائے وہ جب تک خود نہ دیکھ لے کہ ہو گیا ہے یا جس نے خود کیا ہے وہ نہ بتا دے کہ وہ خود ہو کر آیا ہے تسلی پالینا اول درجہ کی نالائقی اور حماقت ہے.کام کی نگرانی ایسے رنگ میں کرنی چاہتے کہ اس کے ساتھ دلی تعلق اور محبت ظاہر ہو.دیکھو جب بچہ ماں کی آنکھوں سے اوجھل ہو تو اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور یہ اس کی انتہائی محبت کا تقاضا ہوتا ہے.اسی طرح تمہارے ذمہ جو کام کیا جائے اس

Page 34

کے متعلق تمہیں اس وقت تک اطمینان نہیں ہونا چاہتے جب تک اس کو تکمیل تک نہ پہنچا لو.پھر کسی بات کے متعلق یہ خیال نہ کرو کہ ہو نہیں سکتی.کام تجویز کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ یہ نا مکن تو نہیں اور طاقت سے زیادہ بوجھ تونہیں ڈال رہے اور جب ایک دفعہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لو کہ فلاں کام مفید ہے اور اسے کرنا ضروری ہے تو پھر یہ خیال مت کرو کہ کوئی اور کرے گا یا نہیں.کوئی تمہارے ساتھ چلے گا یا نہیں.تم یہ تہیہ کرلو کہ اسے ضرور کرنا ہے یہ جو کہا جاتا ہے کہ لوگ فلاں بات مانتے نہیں یہ اول درجہ کی بزدلی ہے تمہیں لوگوں سے کیا واسطہ.اگر وہ اچھا کام ہے تو تم اکیلے ہی اس کو شروع کر دو.یہ میچ توکل ہے اور اس کے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی ہیں ہمارے نوجوان اس تو کل سے کام کریں کہ جب کام اچھا ہے تو ہم نے اسے ضرور کرتا ہے.خواہ کوئی ہمارے ساتھ ملے یا نہ ملے پیس کام سے پہلے پوری احتیاط سے سوچ لو اور وہ کام اپنے یا کسی دوسرے کے ذمہ نہ لگاؤ جو جانتے ہو کہ نہیں ہو سکتا ، لیکن جب اطمینان کرلو کہ کام اچھا ہے اور ہو سکتا ہے تو پھر دوسروں پر نگاہ نہ رکھو.اسی طرح جب دیکھو کہ کوئی کام ضروری ہے اور اچھا ہے، لیکن نفس کہتا ہے کہ تم اسے نہیں کر سکتے تو اسے کہو کہ تو جھوٹا ہے اور اس کام میں لگ جاؤ.خدا تمہاری مدد کے لیے دوسروں کے دلوں میں الہام کرے گا اور تم ضرور کامیاب ہوکر رہو گے.افضل اور برسات مجلس خدام الاحمدیہ کو تبلیغ واشاعت کے کام میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دینے کا موقعہ ملا مجلس کے قیام کے بالکل ابتدائی دنوں میں مسئلہ خلافت کے متعلق ایسا لٹریچر شائع کرنے کی توفیق ملی جسے حضور نے پسند فرمایا اور کئی مجالس میں اس کی تعریف بھی کی.اس تنظیم کے اہتمام میں الطارق نام کا ایک رسالہ قادیان سے نکلنا شروع ہوا جس میں مجلس کے پروگرام مجلس کی رپور میں اور اطلاعات وغیرہ شائع ہوتی تھیں.قیام پاکستان کے بعد خالد کے نام سے ایک ماہوار رسالہ با قاعدہ شائع ہو رہا ہے جو تربیتی وتنظیمی اور علمی ضروریات کو بہت عمدگی سے پورا کر رہا ہے.ان کے علاوہ مجلس کو بعض بنیادی اہمیت کی علمی و تربیتی کتب شائع کرنے کی توفیق حاصل ہوئی مشعل راہ کے نام سے حضرت سلطان البیان خلیفہ المسیح الثانی کی نوجوانوں سے تعلق رکھنے والی تقاریر و خطبات کا مجموعہ بھی شائع کیا گیا ہے جو اپنی افادیت و تاثیر اور مضامین کے تنوع کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے.لوائے خدام الاحمدیہ : مانہ میں خلافت احمدیہ کی سلور جوبلی کے مشن تشکر کے جلسہ سالانہ پر لوائے احمدیت کیساتھ

Page 35

لواتے خدام الاحمدیہ بھی لہرایا گیا جو ۱۸ فٹ لمبا اور فٹ چوڑا تھا جس کے یا میں لوائے احمدیت کے نقوش تھے بقیہ حصہ تیرہ سیاہ وسفید دھاریوں پر شتمل تھا.ہرانے کی تقریب کے لیے 4 فٹ لمبا پول تیار کیا گیا.جس پر سفید وسیاہ رنگ کیا گیا تھا.لوائے خدام الاحمدیہ کا پلیٹ فارم جلسہ سالانہ کے سٹیج کے باتیں طرف لواتے احمدیت کے پیچھے تھا.لوائے مجلس برایتے جانے کے وقت اس جلسہ میں موجود ہزاروں خدام بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ یہ عہد دہرا رہے تھے.أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عبده ورسوله میں اقرار کرتا ہوں کہ قومی اور یتی مفاد کی خاطر اپنی جان، مال اور عزت کی پرواہ نہیں کروں گا.میں اقرار کرتا ہوں کہ اپنی جان مال اور عزت کو قربان کر دوں گا.اور اس صداقت کی عزت کو قائم رکھوں گا جس کے ظاہری نشان کے طور پر یہ قومی جھنڈا اس وقت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نصب کر رہے ہیں اور جو علامت ہے ان تمام خوبیوں کی جو حضور خدام الاحمدیہ کے ذریعہ خدام میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور میں ہر مکن کوشش کروں گا کہ یہ جھنڈا اسب دُنیا کے جھنڈوں کے اوپر لہراتا ہے اور کبھی اسے شکست نہ دیکھنی پڑے " کسی قوم یا مجلس کا جھنڈا اس کی عزت و وقار کا نشان ہوتا ہے اور جھنڈے کی عظمت و حفات سے قومی روایات و مزاج جنم لیتا ہے.اس سلسلہ میں ایک بہت دلچسپ اور سبق آموز واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- لاہور کے خدام جب جلسہ میں شمولیت کے لیے آرہے تھے رسالانہ اجتماع.ناقل تو اس وقت جبکہ ریل سٹیشن سے نکل چکی تھی اور کافی تیز ہوگئی تھی ایک لڑکے سے جسکے پاس جھنڈا تھا ایک دوسرے خادم نے جھنڈا مانگا.وہ لڑکا جس نے اس وقت جھنڈا پکڑا ہوا تھا ایک چھوٹا بچہ تھا.اس نے دوسرے کو جھنڈا دے دیا اور یہ سمجھ لیا کہ اس نے جھنڈا پکڑ لیا ہے مگر واقعہ یہ تھا کہ اس نے ابھی جھنڈے کو نہیں پکڑا تھا.اس قسم کے واقعات عام طور پر ہو جاتے ہیں.گھروں میں بعض دفعہ دوسرے کو کہا جاتا ہے کہ پیالی یا گلاس پکڑاؤ.اور دوسرا برتن اٹھا کر دے دیتا ہے.اور یہ خیال کر لیتا ہے کہ اس نے پیالی یا گلاس کو پکڑ لیا ہوگا مگر اس نے ابھی ہاتھ نہیں ڈالا ہوتا نتیجہ

Page 36

یہ ہوتا ہے کہ برتن گر جاتا ہے.اسی طرح جب اس سے جھنڈا مانگا گیا اور اس نے جھنڈا دوسرے کو دینے کے لیے آگے بڑھا دیا تو اس نے خیال کیا کہ دوسرے نے جھنڈا پکڑ لیا ہو گا.مگر اس نے ابھی پکڑا نہیں تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ جھنڈا ریل سے باہر جاپڑا.مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ چھوٹا لڑکا جس کے ہاتھ سے جھنڈا گرا تھا فورا نیچے کودنے لگا.مگر وہ دوسرا جس نے جھنڈا مانگا تھا.اس نے اسے فوراً روک لیا اور خود نیچے چھلانگ لگا دی.لاہور کے خُدام کہتے ہیں ہم نے اسے اوندھے گرے ہوئے دیکھ کر سمجھا کہ وہ مر گیا ہے.مگر فوراً ہی وہ اُٹھا اور جھنڈے کو پکڑ لیا اور پھر ریل کے پیچھے دوڑ پڑا دیل تو وہ کیا پکڑ سکتا تھا.بعد میں کسی دوسری سواری میں بیٹھ کر اپنے قافلہ سے آملا ئیں سمجھتا ہوں اس کا یہ فعل نہایت ہی اچھا ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی تعریف کی جاتے.خدام الاحمدیہ نے اس کے لیے انعام مقرر کیا تھا اور تجویز کیا تھا کہ اسے ایک تمغہ دیا جائے.مگر اس وقت یہ روایت میرے پاس غلط طور پر پہنچی تھی اس لیے میں نے وہ انعام اسے نہ دیا.بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ صحیح بات یہ ہے کہ جھنڈا اس کے ہاتھ سے نہیں گرا تھا بلکہ دوسرے کے ہاتھ سے گرا تھا.پہلے مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ اسی کے ہاتھ سے جھنڈا گرا تھا.گویا جھنڈا ہاتھ سے چھوڑنے میں بے احتیاطی کی وجہ سے اس کے قابل تعریف فعل کے باوجود اسے انعام دینا مناسب خیال نہ فرمایا ) بہر حال یہ ایک نہایت ہی قابل تعریف فعل ہے.خدام الاحمدیہ سے ہمیشہ اس بات کا اقرار لیا جاتا ہے کہ وہ شعائر اللہ کا ادب اور احترام کریں گے.اسی طرح قومی شعائر کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے.اس اقرار کو پورا کرنے میں لاہور کے اس نوجوان نے نمایاں حصہ لیا ہے اور میں اس کے اس فعل کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا.اس نوجوان کا نام مرزا سعید احمد ہے اور اس کے والد کا نام مرزا شریف احمد ہے.بظاہر یہ بجھا جائے گا کہ اس نوجوان نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا مگر جہاں قومی شعائر کی حفاظت کا سوال ہو وہاں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.اور در حقیقت وہی لوگ عزت کے مستحق سمجھے جاتے ہیں جو اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لیے تیار رہتے ہیں.وہ لوگ جو اپنی جان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں کی جانیں دُنیا میں سب سے زیادہ سستی اور بے حیثیت کبھی جاتی ہیں.آخر غلام قومیں کون

Page 37

ہوتی ہیں.وہی لوگ غلام بنتے ہیں جو اپنی جانوں کو قربان کرنے سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم مر نہ جائیں.وہ ایک وقت کی موت قبول نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ انہیں بعض دفعہ صدیوں کی موت دیدیتا ہے.الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۶ ) اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ جماعتی جھنڈے اور دوسرے شعائر کے تحفظ اور احترام کے جذبہ کی حضور کے دل میں کتنی قدر و منزلت تھی ، لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کو یہ بھی خیال تھا کہ یہ جذبہ عدا عتدال سے کبھی باہر نہ جائے.نجتیں کبھی کبھی شرک کا رنگ بھی اختیار کر لیا کرتی ہیں.جیسے میں نے بتایا ہے کہ کانگریسی اپنے جھنڈے کو سلام کرتے ہیں اور بعض تو می جھنڈے کے سامنے اس طرح جھک جاتی ہیں.جیسے رکوع کیا جاتا ہے.یہ سب نا جائزہ امور ہیں.پس جہاں تم شعائر اللہ کی حفاظت کرو اور قومی شعائر کا ادب و احترام اپنے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرو.وہاں تم اس بات کو بھی یاد رکھو کہ ان چیزوں کو کبھی ایسا مقام مت دو کہ یہ زندہ خدا کی جگہ لے لیں.ہمارا خدا واحد خدا ہے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا جائز نہیں.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن چیزوں کو ہم خادم سمجھتے ہیں ان کو آقا کی جگہ دے دیں.اس سے زیادہ بے وقوفی اور حماقت کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی.پس جہاں میں تمہیں شعائر اللہ اور قومی شعائر کی صفات کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا اور اس کے دین کے لیے تمہیں بلایا جائے اس وقت تم اپنی جانوں کی اتنی قیمت بھی نہ سمجھو جتنی ایک مری ہوئی سکھی کی ہوتی ہے.وہاں میں تمہیں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ کسی چیز کو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں مت کھڑا کرو.ہمارا خدا ایک خدا ہے.اس کی قدرتوں میں کوئی شریک نہیں.اس کی حکومت میں کوئی شریک نہیں.اس کی عبادت میں کوئی شریک نہیں.جو شخص کسی کو خدا تعالیٰ کا شریک قرار دیتا ہے.چاہے شریک قرار دیا جانے والا خدا کا نبی اور رسول ہی کیوں نہ ہو وہ راندہ درگاہ ہو جاتا ہے.مگر جو تمام چیزوں کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے خدا کو خدا کی جگہ دیتا ہے.رسول کو رسول کی جگہ دیتا ہے شعائر کو شعائر کی جگہ دیتا ہے.وہی خدا کے حضور عزت پاتا ہے.اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی “ ( الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۳ته )

Page 38

مجلس انصار الله : مسیحی نفس حضرت فضل عمر نے اسلام کے درد اور دینی خدمات کا جو غیر معمولی والہانہ جذبہ پایا تھا اس کا اظہار اس عظیم الشان عمد سے بھی ہوتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر آپ نے کیا اور جسے پورا کرنے کے لیے آپ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور آپ کے ذہن کی تمام تر استعدادیں وقف تھیں آپ بزبان حال من انصاری الی اللہ کا نعرہ لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی توجہ اور دعاؤں سے زندگی پانے والے حضرت مولانا نور الدین کی محبت سے فیض پانے والے آسمان رُوحانیت کے بلند پرواز پرندے يأتينك سعيا کی صورت میں آپ کی راہنمائی میں خدمت دین کی مہم میں مصروف ہو جاتے ہیں.انصار اللہ نے خلافت اولی کے زمانے میں بنیادی اہمیت کی خدمات کی توفیق پائی اور نعمت خلافت کی قدر دانی اور اس کے استحکام واستقلال کے سلسلہ میں اپنی خدمت کے انمٹ نقوش تاریخ میں ثبت کر گئے.ہ اور پھر ان میں بھی انصار کے نام سے علمی و روحانی ترقی کی منزلیں طے کیں نشتہ میں آپ نے اس مبارک گروہ کو ایک مستقل تنظیم و ترتیب میں پرونے کے لیے اسی نام سے ایک مجلس کے قیام کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا :- " چالیس سال سے اوپر عمر والے میں قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں مجلس انصاراللہ کے عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب ہونگے اور سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینے کے لیے میں مولوی عبدالرحیم صاحب در در چوہدری فتح محمد صاب سیال اور خانصاحب مولوی فرزند علی کو مقرر کرتا ہوں.....سر دست میں نے جن لوگوں کو اس کام کے لیے مقرر کیا ہے وہ عارضی انتظام ہے اور اس وقت تک کے لیے ہے جب تک سب لوگ منظم نہ ہو جائیں.جب منظم ہو جائیں تو وہ چاہیں توکسی اور کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بنا سکتے ہیں.مگر میری منظوری اس کے لیے ضروری ہوگی.اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ.ہر جگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لیے مجالس انصاراللہ قائم کرنی چاہتیں.ان مجالس نے وہی قواعد ہوں گے جو قادیان میں مجلس انصاراللہ کے قواعد ہونگے مگر سر دست باہر کی جماعتوں میں داخلہ فرض کے طور پر نہیں ہوگا.بلکہ ان مجالس میں شامل

Page 39

۳۹ سے ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہوگا.لیکن جو پریذیڈنٹ یا امیر یا سیکرٹری ہیں.ان کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں.کوئی امیر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ انصار الله یا خدام الاحمدیہ کا مہر نہ ہو.اور کوئی سیکرٹری نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا مر نہ ہو.اگر اس کی عمر پندرہ سال سے اوپر اور چالیس سال سے کم ہے تو اس کے لیے خدام الاحمدیہ کا میر ہونا ضروری ہوگا اور اگر وہ چالیس سال سے اوپر ہے تو اس کے لیے انصار اللہ کا ممبر ہونا ضروری ہوگا.اس طرح ڈیڑھ سال تک دیکھنے کے بعد خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ باہر بھی ان مجالس میں شامل ہونا لازمی کر دیا جائے گا.کیونکہ احمدیت صحابہ کے نقش قدم پر ہے.صحابہ سے جب جہاد کا کام لیا جاتا تھا تو ان کی مرضی کے مطابق نہیں لیا جاتا تھا بلکہ کہا جاتا تھا کہ جاؤ اور الفضل یکم اگست واته ) کام کرو مجلس کے اغراض و مقاصد اور انصار اللہ کوان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوتے آپ نے فرمایا :- میں انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو یا صحابی ہیں یا کسی صحابی کے بیٹے ہیں یا کسی صحابی کے شاگرد ہیں.اس لیے جماعت میں نمازوں.دُعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا ان کا کام ہے.ان کو تتحدہ ذکر الہی اور مساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہیئے کہ نوجوان ان کو دیکھ کر خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں.) الفضل ۱۵ر دسمبر ۵۵ ) پھر آپ نے فرمایا :- مجلس انصاراللہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ عمر کے اس حصہ میں جب انسان عمل میں سست ہو جاتا ہے.دین کے کاموں میں سُست نہ ہو.اور وہ اپنے آپ کو بے کا راور عضو معطل خیال نہ کرے بلکہ سمجھے کہ وہ بھی ابھی کام کرنے کا اہل ہے جب خدام الاحمدیہ چالیس سالہ مر کے بعد انصار اللہ میں شامل ہوتے جائیں گے تو خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے نتیجہ میں چونکہ ان میں بیداری اور ہوشیاری پیدا ہو چکی ہو گی اس لیے وہ یہی بیداری اور ہوشیاری انصار میں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنے مشوروں اور نیک نمونوں

Page 40

سے نوجوانوں کو فائدہ پہنچاتے رہیں گے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ نه ۱۲۵ اراکین محبس کو ان کے کام کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا :- میں سمجھتا ہوں انصاراللہ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے.وہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں سے گزر رہے ہیں اور یہ آخری حصہ وہ ہوتا ہے جب انسان دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہان جانے کی فکر میں ہوتا ہے.اور جب کوئی انسان اگلے جہان جارہا ہو تو اس وقت اسے اپنے حساب کی صفائی کا بہت زیادہ خیال ہوتا ہے.اور وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ ایسی حالت میں اس دُنیا سے کوچ نہ کر جاتے کہ اس کا حساب گندہ ہو.اس کے اعمال خراب ہوں اور اس کے پاس وہ زاد راہ نہ ہو جو اگلے جہان میں کام آنے والا ہے.جب احمدیت کی غرض یہی ہے کہ بندے اور خدا کا تعلق درست ہو جاتے تو ایسی عمر میں اور عمر کے ایسے حصہ میں اس کا جس قدر احساس ایک مومن کو ہونا چاہیئے وہ کسی شخص سے مخفی نہیں ہو سکتا نوجوان تو خیال بھی کر سکتے ہیں کہ اگر ہم سے خدمت خلق میں کوتاہی ہوتی تو انصار اللہ کام کو ٹھیک کر لیں گے.مگر انصار اللہ کی پر انحصار کر سکتے ہیں.وہ اگر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیں گے اور اگر دین کی محبت اپنے نفوس میں اور پھر تمام دنیا کے قلوب میں پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوں گے.وہ اگر احمدیت کی اشاعت کو اپنا اولین مقصد قرار نہ دیں گے اور وہ اگر اس حقیقت سے اغماض کر لیں گے کہ انہوں نے اسلام کو دنیا میں پھر زندہ کرتا ہے.تو انصار اللہ کی عمر کے بعد اور کونسی عمر ہے جس میں وہ یہ کام کریں گے.انصار اللہ کی عمر کے بعد تو پھر ملک الموت کا زمانہ ہے اور ملک الموت اصلاح کے لیے نہیں آتا بلکہ وہ اس مقام پر کھڑا کرنے کے لیے آتا ہے جب کوئی انسان سنترا یا انعام کا مستحق ہو جاتا ہے.۱۹۴۲ الفضل ۷ار نومبر ١٩٢٣ ) حضور کی ہدایت کے مطابق مجلس انصاراللہ نے بھی سالانہ اجتماع منعقد کرنے شروع کئے.میں پہلے اجتماع پر حضور نے انصار کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنے مخصوص پرکشش و مؤثر انداز میں فرمایا :-

Page 41

مجلس میں زندگی کے آثار پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اقول تنظیم کامل ہو جائے.دوسرے متواتر حرکت عمل پیدا ہو جائے اور میرے اس کے کوئی اچھے نتائج نکلنے شروع ہو جاتیں.......غالباً مجلس انصاراللہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع ہے.ہمیں امید کرتا ہوں کہ اس اجتماع میں وہ ان کاموں کی بنیاد قائم کرنے کی کوشش کریں گے.اور قادیان کی مجلس انصار اللہ بھی اور بیرونی مجالس بھی اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کرینگی که بیر کا ہوشیاری اورکال بیداری کے کبھی قومی زندگی حاصل نہیں ہوسکتی.اور ہمسایہ کی اصلاح میں ہی انسان کی اپنی اصلاح بھی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ اس کے ہمسایہ کا اثر اس پر پڑتا ہے نہ صرف انسان بلکہ دنیا کی ہر ایک چیز اپنے پاس کی چیز سے متاثر ہوتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاس پاس کی چینیوں ایک دوسرے کے اثر کو قبول کرتی ہیں بلکہ سائنس کی موجودہ تحقیق سے تو یہاں تک پتہ چلتا ہے کہ جانوروں اور پرندوں وغیرہ کے رنگ ان پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جہاں وہ رہتے ہیں مچھلیاں پانی میں رہتی ہیں.اس لیے ان کا رنگ پانی کی وجہ سے اور سورج کی شعاعوں کی وجہ سے جو پانی پر پڑتی ہیں سفید اور چمکیلا ہوگیا.مینڈک کناروں پر رہتے ہیں اس لیے ان کا رنگ کناروں کی سبنر سبز گھاس کی وجہ سے سبنری مائل ہو گیا ہے.ریتلے علاقوں میں رہنے والے جانور مٹیالے رنگ کے ہوتے ہیں.سر سبز درختوں پر بسیرا رکھنے والے طوطے سبز رنگ کے ہو گئے.جنگلوں اور سوکھی ہوئی جھاڑیوں میں رہنے والے تیتروں وغیرہ کا رنگ سوکھی ہوئی جھاڑیوں کی طرح ہو گیا.غرض پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے اور ان کے اثرات قبول کرنے کی وجہ سے پرندوں کے رنگ بھی اس قسم کے ہو جاتے ہیں.پس اگر جانوروں اور پرندوں کے رنگ پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے بدل جاتے ہیں حالانکہ ان میں دماغی قابلیت نہیں ہوتی تو انسانوں کے رنگ جن میں دماغی قابلیت بھی ہوتی ہے پاس کے لوگوں کی وجہ سے کیوں نہیں بدل سکتے.خدا تعالے نے اسی لیے قرآن مجید میں فرمایا ہے عُونُوا مَعَ الصَّادِقِين - یعنی اگر تم اپنے اندر تقویٰ کا رنگ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کا گریہی ہے کہ صادقوں کی مجلس اختیار کرو تاکہ تمہارے اندر بھی تقویٰ کا وہی رنگ تمہارے نیک ہمسایہ کے اثر کے ماتحت پیدا ہو جاتے.جو اس میں پایا جاتا ہے...اگر تم روحانی طور پر زندہ رہنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لیے صرف اپنی اصلاح کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے گرد و پیش کی

Page 42

۴۲ اصلاح کرنا اور مجموعی طور پر اس کے لیے کوشش کرنا اور مل کر خدا سے دعا مانگنا ضروری ہے.چنانچہ اسی غرض کے لیے میں نے مجلس انصار الله، لجنہ امام الله مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس اطفال قائم کی ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ مجلس انصاراللہ مرکز یہ اس اجتماع کے بعد اپنے کام کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ کر پوری تندہی اور محنت کے ساتھ ہر جگہ مجالس انصار اللہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی.تاکہ ان کی اصلاحی کوششیں صرف اپنے تک ہی محدود نہ ہوں بلکہ گرد و پیش کی اصلاح کے لیے بھی ہوں اور ان کی کوششیں دریا کی طرح بڑھتی چلی جائیں.اور دنیا کے کونے کونے کو سیراب کر دیں.....خدا کرے مجلس انصار اللہ کا آج کا اجتماع اور آج کی کوششیں بیج کے طور پر ہوں.جن سے آگے خدا تعالیٰ ہزاروں گنا اور بیج پیدا کرے اور پھر وہ بیج آگے دوسری فصلوں کے لیے بیج کا کام دیں.یہانتک کہ خدا کی روحانی بادشاہت اسی طرح دنیا پر قائم ہو جاتے میں طرح کہ اس کی مادی بادشاہت دنیا پر قائم ہے.آمین " الفضل و راگست ۱۹۳۵ ) مجلس النصار اللہ کا سالانہ اجتماع اپنی افادیت کے لحاظ سے جماعتی سرگرمیوں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور اس کے فوائد کو عام کرنے کے لیے اب علاقائی اجتماعات کا پروگرام بھی شروع ہو چکا ہے.مجلس انصار اللہ نے اپنی سرگرمیوں کی اشاعت اور تزکیہ نفس کے سرچشموں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے نشہ سے انصار اللہ کے نام سے ایک ماہنامہ بھی جاری کیا ہے جو بڑی کامیابی کے ساتھ نکل مذکورہ بالا عام ذیلی تنظیموں کے علاوہ مختلف قومی اور جماعتی ضرورتوں کے مطابق آپ کی رہنمائی میں بعض اور نظمیں بھی قائم ہوئیں جن میں سے ایک مجلس ارشاد ہے.جو شانہ میں آپ نے قائم کی جس کا مقصد دشمنان اسلام کے اعتراضات کے جوابات شائع کرنا تھا.۹۲ تہ میں اس مجلس کا احیام حضور کی اجازت حضرت سید میر محمد اسحتی صاحب کی کوششوں سے ہوا.ایک عرصہ تک اس مجلس کے زیر اہتمام مختلف علمی مقالے پڑھے جاتے رہے جو جماعت میں علمی بیداری کا باعث بنے.حضورہ بھی بعض اوقات اس کے اجلاسوں میں شرکت کرتے اور اپنے پر معارف خطاب سے حاضرین کو مشرف فرماتے.الفضل ۲۱ مئی ۱۹۴۷)

Page 43

علاوہ ازیں بعض اور تنظیمیں بھی آپ کی اجازت سے قائم ہوئیں جن میں سے احمدیہ انٹیرز کور.اور آل انڈیا نیشنل لیگ زیادہ مشہور ہیں.احمدیہ والٹیرز کو بعض ملکی حالات کے پیش نظر رفاہ عامہ - خدایت خلق مسلمانان ہند کی بہبود اور احمدی نوجوانوں میں تنظیمی روح پھونکنے کی غرض سے نہ میں قائم کی گئی اس کے افسر اعلیٰ حضرت صاجزادہ مرزا شریف احمد صاحب مقرر ہوتے اور اس میں شامل ہونیوالے وانٹیرز کا نام عباد اللہ رکھا گیا.مجلس شوری میں غور وفکر کے بعد حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کور کے قیام کی منظوری دیتے ہوئے فرمایا......اس تجویز کو ہم دو نقطہ نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں.ایک وقتی اور سیاسی حالات کے ماتحت اور یہ بہت محدود نقطہ نگاہ ہے کیونکہ وقتی اور سیاسی حالات بدلتے رہتے ہیں، لیکن جب یہ حالات پیدا ہوں تو ان کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے.ان کے علاوہ ایسے حالات ہیں جن کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے.اور وہ مستقل تربیت کی ضرورت ہے جس سے کبھی کوئی جماعت مستغنی نہیں ہو سکتی.نیک خاندانوں میں شریر اور شریر خاندانوں میں نیک لوگ پیدا ہوجاتے ہیں.نوجوانوں کو خطرہ میں پڑنے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی صحیح طور پر تربیت کی جائے.مگر اس میں دقت یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں جوش ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی تربیت کریں.ان کے سامنے نہ لڑکے ہوتے ہیں اور نہ لڑکوں کے جرائم.نہ لڑکوں کی نیکیاں ہوتی ہیں اور نہ ان کی غلطیاں - ایک جماعت کا مقامی امیر اپنی جماعت کے لڑکوں کی تربیت کر سکتا ہے مگر لڑکوں کی برائیاں اور نقائص اس کے سامنے نہیں آتے.اگر ہر جگہ وانٹیرز کو ربنا لیں تو اس سے یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں جماعت کی تربیت کی طرف نگاہ رکھنے والے آدمیوں کے سامنے سارے نوجوان آجایا کریں گے.اور وہ ان کو نصائح کر سکیں گے.مذہبی اور اخلاقی و حفظ کیا جاسکے گا.گویا اس طرح تربیت اور نصائح کرنے کے مواقع زیادہ ملنے لگ جائیں گے.اس کے علاوہ ایک دوسرے کے ذریعہ نگرانی بھی کرائی جائے گی.پھر عارضی ضرورتوں کی وجہ سے بھی اس قسم کے انتظام کی ضرورت ہے.قسمتی سے ملک میں یہ احساس پیدا کیا جا رہا ہے کہ میں کی لاٹھی اس کی بھینس.بیرون نہایت گندی ہے مگر پیدا ہو گئی ہے.میں گذشتہ سال جب سیالکوٹ گیا تو وہاں ایک جلسہ میں ہم پر پتھر برسائے گئے اور سوا گھنٹہ تک برسائے گئے.ہماری جماعت نے ان پتھروں کا

Page 44

کامیاب مقابلہ کیا.تاہم معلوم ہوا کہ ابھی اور زیادہ تربیت کی ضرورت ہے.اگر مکمل تربیت ہو تو ہماری جماعت کے لوگ زیادہ عمدگی سے کام کر سکتے ہیں.ایسے حالات میں چونکہ مخالف اس طرح بھی نہیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے اس لیے ایسے انتظام کی ضرورت ہے اور ہم خدا کے فضل سے ایسے منظم وانٹیر کور بنا سکتے ہیں کہ ہم سے سو سو گئی تعداد رکھنے والے لوگ بھی ویسے نہیں بنا سکتے.پس ہمیں اس قسم کا انتظام کرنا چاہیتے.اور یہی ضروری نہیں کہ اپنے جلسوں کا ہی انتظام کیا جائے.بلکہ ایک آریہ بھی اگر تقریر کر رہا ہو اور کوئی اس میں دخل اندازہ ہو تو کور کے والنٹیرز کا فرض ہوگا کہ اسے روکیں ؟ رپورٹ مجلس مشاورت ۹۳۷ یه صفحه ۹۰ تا ۹۲ ) احمدیہ کور کے اغراض و مقاصد کو ہر وقت ذہن میں مستحضر رکھنے کے لیے کور کا مندرجہ ذیل عہد تجویز میں خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اقرار کرتا ہوں کہ جو فرائض خُدا اس کے رسول اور خلیفہ وقت کی طرف سے مجھے پر عائد ہیں میں تا بمقدور انہیں سرانجام دینے کی کوشش کروں گا.-۲- ملک میں نہ صرف خود امن سے رہوں گا بلکہ حتی الوسع دوسروں کو بھی اس کی تحریک کرونگا اور بغاوت و بدامنی کا ہمیشہ مقابلہ کروں گا.باہمی مقدمات تنازعات اور فسادات سے ہمیشہ اجتناب کروں گا.۴.مسلمانوں سے خصوصاً اور دیگر بنی نوع انسان سے عموماً ہمدردی کروں گا.احمدیہ والنٹیٹرز کور کے قواعد اور ضوابط کی ہمیشہ پابندی کروں گا." ) الفضل ۱۸ر اگست ۱۹۳۲ته ) ۱۹۳۵ دوسری تنظیم آل انڈیانی لیگ کے نام سے شاہ میں قائم ہوئی.یہ پلی سیاسی نظم تھی جو جماعت احمد کے افراد کی کوششوں سے لاہور میں منظم کی گئی.جماعت کو ایسی تنظیم قائم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے سید نا حضرت امام جماعت احمدیہ نے فرمایا: " میں جماعت کو سیاسیات بلکہ سیاسی امور کے مشابہ باتوں سے بھی روکتا رہا ہوں، لیکن موجودہ حکومت چونکہ صداقت اور راستی کے مقابلہ میں ایجی ٹیشن سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اور ایک شخص کے ہا تھ پر خواہ دس کروڑ انسانوں نے بیعت کر رکھی ہو پھر بھی اس کی آواز کو ایک فرد واحد

Page 45

کی آواز قرار دے کر اس سے بے اعتنائی برتی ہے اور جب کسی امر کی طرف توجہ دلائی جائے تو اس کی طرف سے یہی جواب دیا جاتا ہے کہ اس کے متعلق پبلک میں کوئی اینی میشن نہیں.اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر وہ جماعت جو یہ بھتی ہے کہ اس کے حالات ایسے ہیں کہ اسے قانونی مد کے اندر رہتے ہوئے حکومت کے پاس اپنا معاملہ پیش کرنے کی اجازت ہونی چاہیتے اُسے لازم ہے کہ موجودہ انہین سے الگ ایک ایسی انجمن بنائے جس میں کوئی سرکاری ملازم نہ ہو الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۳۵ ) آل انڈیا نیشنل لیگ کا مرکزی دفتر لاہور میں قائم کیا گیا اور محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ اس کے صدر مقرر ہوتے.....کے صدر اس انجن کے ساتھ ایک ذیلی تنظیم آل انڈیا مینل لیگ کور کے نام سے بھی قائم کی گئی.جس کے ناظم جیش اور سالا را عظم چوہدری اسد اللہ خان صاحب بارایٹ لا تجویز کئے گئے.اس کورکا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے احمدی نوجوانوں میں تنظیم کی روح پھونکی اور اس کے ذریعہ وہ جماعتی اور قومی معاملات میں پہلے سے زیادہ دلچسپی لینے لگے.کور کے زمہ جو کام بھی کیا گیا وہ ایسی خوش اسلوبی سے سرانجام دیا گیا کہ حضور نے ان کے کام کی متعدد مرتبہ تعریف فرمانی مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام سے ان مختلف تنظیموں کا کام مستقل طور پر زیادہ بہتر رنگ میں ہونے لگا.جماعت کے اندر مختلف ذیلی تنظیموں کی اہمیت اور ضرورت سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے صدر انجمن احمدیہ مجلس شوری اور انجمن احمدیہ تحریک جا جیسی بنیادی تنظیموں کی موجودگی میں مختلف ذیلی تنظیمیں کیوں قائم کیں اور ان کی ضرورت کیا تھی ؟ اس اہم سوال کا جواب ہم خود حضور کے الفاظ میں بیان کرنا چاہتے ہیں حضور نے اپنے مختلف خطبات میں اس کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :- دوستوں کو معلوم ہے کہ میں نے جماعت کو تین حصوں میں منظم کرنے کی ہدایت کی تھی ایک حصہ اطفال الاحمدیہ کا یعنی ۱۵ سال تک کی عمر کے لڑکوں کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ کا یعنی ۱۵ سے ۴۰ سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا اور ایک حصہ انصار اللہ کا جو چالیس سال سے اوپر کے ہوں.خواہ کسی عمر کے ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ وہ نوجوان جو خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کی عمر رکھتا ہے لیکن وہ اس میں شامل نہیں ہوا.اس نے ایک قومی جرم کا ارتکاب

Page 46

کیا ہے.اور اگر کوئی شخص ایسا ہے جو چالیس سال سے اوپر کی عمر رکھتا ہے مگر وہ انصاراللہ کی مجلس میں شامل نہیں ہوا تو اس نے بھی ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اگر کوئی بچہ اطفال الاحمدیہ کی عمر کھتا تھا اور اس کے ماں باپ نے اسے اطفال الاحمدیہ میں شامل نہیں کیا تو اس کے ماں باپ نے بھی ایک قومی جرم کا اور پنجاب کیا ہے " الفضل ۱۳ ستمبر ( ) اگر ہر جگہ مجالس اطفال الاحمدیہ قائم ہو جائیں ، اگر ہر جگہ مجالس خدام الاحمدیہ قائم ہو جائیں اور اگر ہر جگہ مجلس انصاراللہ قائم ہو جائیں تو ساری جماعت پروئی جاتی ہے اور اس طرح جماعت کے تین بار بن جاتے ہیں.ایک اطفال الاحمدیہ کا ہار.ایک خدام الاحمدیہ کا ہار.اور ایک انصار اللہ کا ہار اس تنظیم کے ساتھ ہر فرد جماعت کے سامنے آجاتا ہے اور اس کے متعلق یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کیا کام کرتا ہے.اور دینی کاموں میں وہ کس حد تک ہیپی لیتا ہے.پھر اس طرح ایک رنگ میں منظم جماعت کی مردم شماری بھی ہو جاتی ہے.بے تک جلسوں وغیرہ میں پہلے بھی جماعت کے افراد شامل ہوا کرتے تھے.مگر اس وقت ان پر کوئی پابندی عائد نہیں تھی.اور نہ زیادہ تعہد سے یہ دیکھا جاتا تھا کہ کون غیر حاضر ہے اور اس کی غیر حاضری کی کیا وجہ ہے لیکن اس تحریک کے ماتحت چونکہ سب ہم عمر ایک جگہ اکٹھے کر دیئے گئے ہیں اس لیے وہ ایک دوسرے کی نگرانی کر سکتے ہیں اور انہیں کام کرنے کی مشتق بھی ہوسکتی ہے.پھر سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح چھوٹی عمر سے ہی بچوں کی تربیت اسلامی اصول کے ماتحت شروع ہو جائے گی.جو بڑے ہو کر ان کے کام آتے گی.علاوہ ازیں چونکہ ان می ایس میں شامل ہونے والوں میں سے ہر ایک کوکوئی نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے.اس لیے ہر فرد کسی نہ کسی رنگ میں سامنے آجاتا ہے.غرض یہ ایک اتنا اہم کام ہے کہ اگر اس طرف توجہ نہ کی جائے تو جماعتی ترقی کبھی نہیں ہو سکتی اور تر بیتی حصہ میں بھی ہم کامیاب نہیں ہو سکتے " رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ صفحه ۱۲۱ - ۱۲۲ ) خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ ور لجنہ اماءاللہ اسی نظام کی کڑیاں ہیں.اور ان کو اس لیے قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ نظام کو بیدار رکھنے کا باعث ہوں........اگر ایک طرف نظارہ میں جو نظام کی قائم مقام میں عوام کو بیدار کرتی رہیں اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ امام اللہ جو عوام کے قائمقام میں نظام

Page 47

کو بیدار کرتے رہیں تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کسی وقت جماعت کلی طور پر گر جائے اور اس کا قدیم ترقی کی طرف اُٹھنے سے رک جائے جب بھی ایک غافل ہو گا دوسرا اسے جگانے کے لیے تیار ہو گا.جب بھی ایک شست ہوگا دوسرا اسے ہوشیار کرنے کے لیے آگے نکل آتے گا کیونکہ وہ دونوں ایک حصہ کے نمائندہ ہیں.ایک نمائندہ ہیں نظام کے اور دوسرے نمائندہ ہیں عوام کے.بعض دفعہ اگر نظام کے نمائندے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں غفلت اور کوتاہی سے کام لیں گے تو عوام کے نمائندے ان کو بیدار کر دیں گے.اور جب عوام کے نمائندے غافل ہونگے تو نظام کے نمائندے ان کی بیداری کا سامان پیدا کریں گے " الفضل در نومبر ۳ة ) یاد رکھو اگر اصلاح جماعت کا سارا دارو مدار نظارتوں پر ہی رہا تو جماعت احمدیہ کی زندگی کبھی کبھی نہیں ہو سکتی.یہ خدائی قانون ہے جو کبھی بدل نہیں سکتا کہ ایک حصہ سوئے گا اور ایک حصہ جاگے گا.ایک حصہ غافل ہو گا اور ایک حصہ ہوشیار ہو گا.خدا تعالیٰ نے دنیا کو گول بنا کر فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے قانون میں یہ بات داخل ہے کہ دنیا کا ایک حصہ سوتے اور ایک حصہ جاگے.....یہی نظام اور عوام کے کام کا تسلسل دونیا میں دکھائی دیتا ہے جو در حقیقت پر تو میں تقدیر اور تدبیر کے کبھی عوام سوتے ہیں اور نظام جاگتا ہے اور کبھی نظام سوتا ہے اور عوام جاگتے ہیں.اور بھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظام بھی جاگتا ہے اور عوام بھی جاگتے ہیں اور وہ وقت بڑی بھاری کامیابی اور فتوحات کا ہوتا ہے.وہ گھڑیاں جب کسی قوم پر آتی ہیں.جب نظام بھی بیدار ہوتا ہے اور عوام بھی بیدار ہوتے ہیں تو وہ اس قوم کے لیے فتح کا زمانہ ہوتا ہے وہ اس قوم کے لیے کامیابی کا زمانہ ہوتا ہے.وہ اس قوم کے لیے ترقی کا زمانہ ہوتا ہے.وہ شیر کی طرح گرجتی اور سیلاب کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے.ہر روک جو اس کے راستہ میں حائل ہوتی ہے اسے مٹا ڈالتی ہے.ہر عمارت جو اس کے سامنے آتی ہے اسے گرا دیتی ہے.ہر چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اسے بکھیر دیتی ہے اور اس طرح وہ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف.اس طرف بھی اور اس طرف بھی بڑھتی چلی جاتی ہے اور دنیا پر اس طرح چھا جاتی ہے کہ کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.مگر پھر ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب نظام سو جاتا ہے اور عوام جاگتے ہیں یا عوام سو جاتے ہیں اور نظام جاگتا ہے

Page 48

اور پھر آخر میں وہ وقت آتا ہے جب نظام بھی سو جاتا ہے اور عوام بھی سو جاتے ہیں تب آسمان سے خدا تعالیٰ کا فرشتہ اترتا ہے اور اس قوم کی روح کو قبض کر لیتا ہے.یہ قانون ہمارے لیے بھی جاری ہے.جاری رہے گا اور کبھی بدل نہیں سکے گا.پس اس قانون کو دیکھتے ہوئے ہماری پہلی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہمارا نظام بھی بیدار رہے اور ہمارے عوام بھی بیدار رہیں اور در حقیقت یہ زمانہ اسی بات کا تقاضا کرتا ہے.خدا کا میسج ہم میں ابھی قریب ترین زمانہ میں گذرا ہے.اس لیے اس زمانہ کے مناسب حال ہمارا نظام بھی بیدار ہونا چاہیتے اور ہمارے عوام بھی بیدار ہونے چاہئیں.مگر چونکہ دنیا میں اضمحلال اور قوتوں کا انکسار انسان کے ساتھ ساتھ لگا ہوا ہے.اس لیے عوام کی کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ وہ نظام کو جگاتے رہیں اور نظام کی کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ وہ عوام کو جگاتا رہے.تا خدانخواستہ اگر ان دونوں میں سے کوئی سو جاتے.غافل ہو جائے اور اپنے فرائض کو بھول جائے تو دوسرا اس کی جگہ لے لے.اور اس طرح ہم زیادہ سے زیادہ اس دن کو بعید کر دیں جب نظام اور عوام دونوں سو جاتے ہیں اور خُدائی تقدیر موت کا فیصلہ صادر کر دیتی ہے.میں دونوں کو اپنے اپنے فرض ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.تاکہ اگر دونوں نہ جاگیں تو کم از کم ایک تو جاگے.اور اس طرح وہ دن جو موت کا دن ہے ہم سے زیادہ سے زیادہ دُور رہے." الفضل ۷ار نومبر ۱۴۳ ہماری جماعت کو نیکی تقوی - عبادت گذاری - دیانت - راستی اور عدل و انصاف میں ایسی ترقی کرنی چاہیئے کہ نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی اس کا اعتراف کریں.اسی غرض کو پورا کرنے کے لیے میں نے خدام الاحمدیہ - انصار اللہ اور لجنہ امام اللہ کی تحریکات جاری کی الفضل ۲۱ فروری ۱۹۲۳) ہیں.ایک پھول کسی گھر میں لگا ہوا ہو تو تمام گھرکے افراد کو اس کے وجود کا احساس ہو جاتا ہے اور مشخص کے ناک میں جب ہوا داخل ہوتی ہے وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس گھر میں گلاب لگا ہوا ہے یا موتیا لگا ہوا ہے یا چنبیلی کا پودا لگا ہوا ہے تو زندگی کے آثار ہونے ضروری ہیں.ان آثار کے بغیر کوئی شخص زندہ نہیں کہلا سکتا.چاہے بظاہر وہ زندہ ہی دکھائی دے.جب کوئی شخص اس دنیا میں آتا ہے تو اسے دنیا میں اپنی زندگی کا کوئی ثبوت دینا.

Page 49

۴۹ چاہیئے.اور ایسے نقوش چھوڑ نے چاہئیں جن سے دُنیا اس کی زندگی کا احساس کر سکے اور اسے معلوم ہو کہ اس دنیا میں فلان شخص آیا تھا اور اس نے فلاں فلاں کام کیا.میں کام کرنے والی جماعت وہ نہیں ہو سکتی جو چند ر پور میں شائع کر دے بلکہ کام کرنے والی جماعت وہ کہلا سکتی ہے کہ جب کوئی غیر شخص قادیان میں آئے تو بغیر اس کے کہ اسے کوئی بتاتے کہ یہاں خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کی جماعتیں ہیں.اُسے خود بخود محسوس ہونے لگے کہ یہاں کوئی کام کرنے والی جماعت موجود ہے.جب کوئی لاہور میں جائے یا امرتسر میں جائے یا اور کسی شہر میں جاتے تو اس شہر میں داخل ہوتے ہی اُسے یہ محسوس ہونے لگ جائے کہ وہ کسی ایسے شہر میں آیا ہے جہاں کوئی نمایاں کام کرنے والی زندہ جماعت موجود ہے.چیز ہے جو میں انصار اللہ میں پیدا کرنا چاہتا ہوں.الفضل ۱۷ - نومبر ۳ جماعت اور ذیلی تنظیمیں جماعت احمدیہ کے نظام پر ایک جامع بیان جلد دوم میں گذر چکا ہے جس میں صدر انجمن احمدیہ کے قیام اور اس کی ترقی یافتہ موجودہ صورت کا تعارف کروایا گیا ہے.مقامی جماعتوں میں نظم وضبط کو قائم رکھنے اور ہر فرد کی رُوحانی، اخلاقی و جسمانی حالت پر نظر رکھنے اور اس کی بہتری کے لیے کوشش کرنے کے لیے سر جگہ کی جماعت کو حسب حالات محلوں یا حلقوں میں تقسیم کر کے ہر حلقہ کا الگ سر براہ ہوتا ہے جو جماعت کے افراد کی طرف سے منتخب کیا جاتا ہے اور ناظر اعلی کی منظوری سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے اس کی مدد کے لیے مختلف عہدیداروں کی ایک مجلس ہوتی ہے جسے مجلس عاملہ کہتے ہیں اور جسے صدر محلہ اپنی صوابدید سے مقرر کرتے اور نظارت علیا کی منظوری کے بعد انفرادی اور اجتماعی مفاد کے کاموں میں ان سے مدد لیتے ہیں.اس نظام کی موجودگی میں تنظیم در تنظیم کے طور پر مختلف مجالس کے قیام پر یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ ان تنظیموں کے باہم تصادم کا خدشہ ہے اور تنظیمی کام کا تجربہ اور علم رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ بہت ہی مشکل کام ہے جو قوموں کی ترقی و عروج یا زوال و تباہی کا باعث بن سکتا ہے.مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعود نے تسخیر کائنات سے متعلق آیات اور نظام فلکی کا بہت گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ دیکھتے ہوئے کہ آسمان دنیا میں نظر آنے والے بے شمار تارے جو ہمہ وقت گردش میں ہیں اور جو ایک دوسرے پر کتنی لحاظ سے انحصار رکھنے کے باوجود اپنے اپنے مدار میں بے روک ٹوک بغیر کسی تصادم کے رواں دواں اپنا مقصد تخلیق پورا کر رہے ہیں.

Page 50

اسی طرح ذیلی مجالس مجلس انصار الله - خدام الاحمدیہ - اطفال الاحمدیہ.لجنہ اما الد اور ناصرات الاحمدیہ کا انتظام تجویز کیا گیا کہ تمام مجالس اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے دائرہ کار میں پوری طرح آزاد بھی ہیں اور جماعت کے افراد ہونے کے لحاظ جماعتی تنظیم سے پوری طرح والبستہ اور منسلک اور ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بھی.حضرت مصلح موعود ی نظیمی صلاحیتوں اور تدبر کا یہ منہ بولتا شاہکار ہے جس کا حسن مرور زمانہ اور تجربات و مشکلات کی بھٹی میں سے گزرنے کے ساتھ اور نکھرتا چلا جاتا ہے.آیئے اس سلسلہ میں حضور کے ارشادات سے استفادہ کریں.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ مقامی انجمن کے بازو ہیں.اور ہماری غرض ان کے قیام سے یہ ہے کہ جماعت ترقی کرے.پس آپس میں تعاون کی روح پیدا کرد.خدام الاحمدیہ کی تنظیم تمہارے لیے ٹرینگ کے طور پر ہے تا کہ جب تمہیں خدمت کا موقعہ ملے تو تم میں اتنی قابلیت ہو کہ تم امیر بن جاؤ یا سیکرٹری بن جاؤ.اس لیے تمہیں جماعت کے عہدیداروں سے بجائے ٹکراؤ کے تعاون سے کام لینا چاہیئے ؟ الفضل ۱۸ اکتوبر ۹۶ ) بر مجلس کے دائرہ عمل کی حدود اور باہمی تعلقات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : " ہر احمدی جو چالیس سال سے کم عمر کا ہے وہ خدام الاحمدیہ کا نمبر ہے ہر احمدی جو چالیس سال سے اوپر ہے وہ انصار اللہ کا ممبر ہے اور ہر احمدی جو چالیس سال سے نیچے یا چالیس سال سے اوپر ہے وہ مقامی انجمن کا بھی مہر ہے.اس سے کوئی علیحدہ چیز نہیں.پس خدام الاحمدیہ کے یہ معنے نہیں کہ وہ جماعت احمدیہ مقامی کے مبر نہیں ہیں.یا انصار اللہ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ جماعت احمدیہ کے مقامی ممبر نہیں ہیں بلکہ خدام الاحمدیہ اور انصار الله کے مجموعے کا نام مقامی انجمن ہے " الفضل ۳۰ ر جولاتی ۱۹۳۵ ) مجلس خدام الاحمدیہ کا نظام میں نے الگ بنا دیا ہے اور ان کا الگ مرکز قائم ہے.میں چاہتا ہوں کہ نوجوان اپنے پاؤں پر آپ کھڑے ہو جائیں.ان میں خود کام کرنے کی اور اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کی عادت پیدا ہو جائے.امیر جماعت مجلس کے نظام میں دخل نہیں دے سکتا.اگر وہ کوئی خامی دیکھے تو مجلس کے مرکز میں رپورٹ کر سکتا ہے.اگر اسے کوئی کام لینا ہو تو

Page 51

مجلس کو حکم نہیں دے سکتا.البتہ جماعتی کاموں (مثلاً جلسے وغیرہ) کے متعلق مجلس کو EST (یعنی گذارش کر سکتا ہے اور مجلس خدام الاحمدیہ کو ایسے کاموں میں تعاون کرنا چاہتے کیونکہ وہ بنائی ہی اس غرض کے لیے گئی ہے.اگر وہ تعاون نہ کرے گی تو اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گی.نیز امیر کسی فرد جماعت سے بحیثیت فرد ہونے کے کام لے سکتا ہے نہ بحیثیت رکن مجلس ہونے کے ایک شخص جماعت کا سیکرٹری ہے اور مجلس خدام الاحمدیہ کا رکن بھی ہے.جب جماعتی کام ہو گا تو اسے ہر حال مجلس کے کام پر جماعتی کام مقدم رکھنا ہوگا اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص گورنمنٹ کا ملازم ہو تو اسے ہر حال پہلے گورنمنٹ الفضل ۲۵ ستمبر ۱۳۲ ) کا کام کرنا ہو گا.مختلف تنظیموں سے صحیح فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت ان کی کامیابی اور موثر رہنمائی اور اس کے شاندار نتائج.یہ ایسے واضح حقائق تھے جن سے اپنے تو اپنے غیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.چنانچہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں بدنامی کی حد تک شہرت یافتہ مجلس احرار کا ترجمان " زمزم "جماعت کی اس قابل رشک تنظیم کا ذکر کرتے ہوئے بصد حسرت و یاس لکھتا ہے : ایک ہم ہیں کہ ہماری کوئی بھی تنظیم نہیں اور ایک وہ ہیں کہ جنکی تنظیم در تنظیم کی نظمیں ہیں.ایک ہم ہیں کہ آوارہ منتشر اور پریشان ہیں.ایک وہ ہیں کہ حلقہ در حلقہ محدود ومحصور اور مضبوط اور منظم ہیں.ایک حلقہ احمدیت ہے.اس میں چھوٹا بڑا زن و مرد بچہ بوڑھا.ہر احمدی مرکز" نبوت پر مرکوز و مجتمع ہے مگر تنظیم کی ضرورت اور برکات کا علم و احساس ملاحظہ ہو کہ اس جامع و مانع تنظیم پر بس نہیں.اس وسیع حلقہ کے اندر متعدد چھوٹے چھوٹے حلقے بنا کر ہر فرد کو اس طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ ہل نہ سکے.عورتوں کی منتقل جماعت لجنہ اماءاللہ ہے.اس کا مستقل نظام ہے، سالانہ جلسہ کے موقعہ پر اس کا جدا گانہ سالانہ جلسہ ہوتا ہے.خدام الاحمدیہ نو جوانوں کا جدا نظام ہے.پندرہ تا چالیس سال کے ہر فرد جماعت کا خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا ضروری ہے.چالیس سال سے اوپر والوں کا مستقل ایک اور حلقہ ہے.انصار اللہ جس میں چوہڑی سر محمد ظفر اللہ خان تک شامل ہیں.میں ان واقعات اور حالات میں مسلمانوں سے صرف اس قدر دریافت کرتا ہوں کہ کیا ابھی تمہارے جاگنے اور اُٹھنے اور منظم ہونے کا وقت نہیں آیا؟ تم نے ان متعدد مورچوں کے مقابلہ میں کوئی ایک بھی مورچہ لگایا ؟ حریف نے عورتوں تک

Page 52

۵۲ کو میدان جہاد میں لاکھڑا کیا.میرے نزدیک ہماری ذلت و رسوائی اور میدان کشاکش میں شکست و پسپائی کا ایک بہت بڑا سبب یہی غلط معیار شرافت ہے؟ از مزم لاہور ۲۳ جنوری یہ بحواله الفضل (۱۸ اپریل ۱۹۳۵) مجلس خدام الاحمدیہ نے جہاں تنظیمی و تربیتی امور میں بہت مفید خدمات کی توفیق پائی وہاں علمی میدان میں بھی اس کا ریکارڈ قابل رشک ہے.ہر سال منعقد ہونے والی دینیات کلاسیں، تربیتی کلاسیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام و خلفاء سلسلہ کی کتب کے امتحانات مختلف فنی کورسز مجلس حسن بیان و مجلس سلطان القلم کے اجلاس مختلف فنون و علوم میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے جلسہ سالانہ اور سالانہ اجتماع کے مواقع پر نمائش کا انعقاد غرضیکہ ہر اس ذریعہ کو استعمال کرتے ہوئے جو مجلس کے اغراض و مقاصد اور لائحہ عمل کے خلاف نہیں تھا.جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلوں کی ذہنی وسعت و ترقی اور علم کی ترویج کا انتظام کیا مجلس کی کامیابی اور اس کے دور رس مفید اثرات کا اندازہ اس امر سے بھی ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو جماعت میں اسے جزو لاینفک کی حیثیت حاصل ہوگئی اور جہاں ہرا ہم کام اس مجلس کے سپرد کر کے اس کی تکمیل وکامیابی کا یقین ہو جاتا تھا وہاں دوسری طرف وہ لوگ جو اپنے آپ کو جماعت کے مخالف سمجھتے ہیں ان کے لیے یہ مجلس ایک افسانوی طرز کا ہوا بن گئی اور وہ مخالفانہ پروپے گنڈا کے لیے جماعت کے ہر کام کو غلط رنگ دیر اسے خدام کی کارگزاری میں ڈال کر لوگوں کو خدام کے نام سے ڈرانے لگے حالانکہ مجلس نے تو اپنے نام اور لائحہ عمل کی رعایت سے خدمت کے نئے نئے میدان دریافت کر کے اپنی خادمانہ حالت میں ترقی کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبُدُ رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَابِعَةِ کو " پیش نظر رکھ کر غیر معمولی کامیابی اور رفعت حاصل کی.به وبره

Page 53

۵۳ سفر یورپ

Page 54

۵۴ سفر کو وسیلہ ظفر کہنے والے نے ایک ابدی سچائی تو ضرور بیان کی ہے.مگر اس کے تخیل کی پرواز میں فتح و ظفر کی وہ وسعت و عظمت ہرگز نہیں ہوگی جو خدا تعالیٰ کی خاطر اختیار کئے جانے والے سفروں کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے.ایسے ہی ایک مقدس سفر کی مختصر رو تیداد آئندہ اوراق میں پیش کی جارہی ہے.مقصد زندگی : حضور کی زندگی میں آپ کی تمام کاروائیوں کو ششوں اور تحریکات کا محور و مرکز اشاعت و تبلیغ اسلام نظر آتا ہے.آپ کی خواہشات ، آپ کی دُعائیں ، آپ کی تقریریں آپ کی تحریریں غرض ہر ممکن طریق جو میسر آ سکتا تھا وہ تبلیغ کے لیے وقف تھا.آپ خود فرماتے ہیں :- " جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں نہیں جانتا کیوں بچپن ہی سے میری طبیعت میں تبلیغ کا شوق رہا ہے.اور تبلیغ سے ایسا انس رہا ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا.میں چھوٹی سی عمر میں بھی ایسی دُعائیں کرتا تھا اور مجھے ایسی حرص تھی کہ اسلام کا جو کام بھی ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو.میں اپنی اس خواہش کے زمانہ سے واقف نہیں کہ کب سے ہے میں ------ دُعائیں کرتا تھا کہ اسلام کا جو کام ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو پھر اتنا ہو کہ قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو جس میں اسلام کی خدمت کرنے والے میرے شاگرد نہ منصب خلافت ص ) گویا احیاء دین و قیام شریعت کا جو بیج حضرت مسیح موعود کے مبارک ہاتھوں سے لگایا گیا تھا.وه نشونما پاکر أَصْلُهَا ثَابِتُ وفَرْعُهَا فِي السَّمَاء کا مصداق بن گیا اور غیروں نے بھی ہوں.اس کی تصدیق کی.سفر یورپ کا مقصد : سید نا حضرت خلیفتہ ایسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خدا داد منصب خلافت پر متمکن ہوتے ہی رہے زیادہ اسی نیک مقصد کی طرف توجہ دی اور جماعت میں تبلیغ و اشاعت کی ایک نئی روح پھونک دی.اشاعت اسلام کے لیے دُعائیں.جیسے.مناظرے، مباحثے.مباہلے.تقاریر چیلنج اور مقابلے.ہر طریقے یہ مہم کامیابی کے ساتھ رواں دواں تھی.خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے عجیب کرشمے اور جلوسے قدم قدم پر

Page 55

۵۵ نظر آرہے تھے.اسی تسلسل میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مشہور عالم ویلے کا نفرنس لندن کے منتظمین کے دلوں میں ڈالا کہ وہ حضور کی خدمت میں درخواست کریں کہ حضور اس کانفرنس میں بنفس نفیس شامل ہو کر خطاب فرمائیں.یہ ایک خدائی تصرف و انتظام تھا کہ آپ تبلیغ اسلام کی قسم کو بین الاقوامی سطح پر پھیلا کر مامور وقت کے ساتھ نازل ہونے والی برکات و انوار کو وسیع سے وسیع تر کر سکیں.۱۹۲۴ء میں یہ سفر کئی لحاظ سے بہت مشکل اور لمبا تھا.معاصر الفضل کے مندرجہ ذیل بیان سے اس اہم سفر کے پس منظر پر روشنی پڑتی ہے : حضور کے اس سفر کی تیاری نے احباب جماعت کے قلوب میں جو جذبات پیدا کر دیتے ہیں اور جن احساسات کو بیدار کر دیا ہے انہیں احاطہ تحریر میں لانا قطعا محال ہے.ایک ہی لمحہ اور ایک ہی وقت میں جہاں دل میں خوشی اور مسرت کی ہر اٹھتی ہے وہاں صدمہ اور تکلیف بھی پیدا ہوتی ہے.خوشی اور فرحت تو اس لیے کہ یہ سفر جن اغراض طلیہ و مقاصد دینیہ کو مد نظر رکھ کر اختیار کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے وہ نہایت ہی عظیم الشان ہونے کے علاوہ اسلام کی آئندہ ترقی اور شوکت کے لیے بطور بنیاد کے ہیں.اور ان بنیادی امور کی صحت اور درستی کو جانچنے اور انہیں مضبوط اور پختہ بنانے کا اہل اس پاک اور مقدس وجود سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے جسے خدا تعالیٰ نے اس انسان کو قائم مقام بنا کر دنیا میں کھڑا کیا جو اس زمانہ میں اسلام میں زندگی کی روح ڈالنے کے لیے آیا.ایسے مبارک اور متبرک مقصد کے لیے جو سفر اختیار کیا جائے وہ ایک ایسی جماعت کے لیے جس کے پیدا ہونے کی غرض ہی حفاظت اور اشاعت اسلام ہے جس قدر بھی خوشی اور مسرت کا باعث ہو کم ہے.اور خاص کر اس صورت میں جبکہ اس سفر کے ذریعہ بعض عظیم الشان پیشگو تیوں کے زیادہ وضاحت اور خوبی کے ساتھ پورا ہونے کا خیال ہو لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ اپنے پیارے اور محبوب امام کا ایسی حالت میں کالے کوسوں کا سفر اختیار کرنا جماعت احمدیہ کے لیے کم بے چینی اور اضطراب کا باعث نہیں جبکہ ایک تو حضور کو ایسی اہلی ضروریات اور شکلات کا سامنا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ پر کامل توکل اور پورا بھروسہ ہی وجہ اطمینان ہو سکتا ہے.دوسرے آپ کی صحت جو ہمیشہ کمزور رہتی ہے سفر کی گوفت اور دیگر تکالیف کی وجہ سے متفکر کرتی ہے.تیرے ساری جماعت کی ان تمام ذمہ داریوں کا جو مرکزہ

Page 56

۵۶ سے تعلق رکھتی ہیں بارگراں جو حضور کے کندھوں پر ہے اس میں اس صورت میں اور اضافہ ہو جائے گا.جبکہ جماعت کے مفصل حالات اور پورے واقعات سے آگاہ ہونے میں توقف ہو گا.چوتھے جماعت کے قلیل اور غریب ہونے کی وجہ سے جو مالی مشکلات درپیش ہیں وہ اس سفر کی مشکلات میں اور اضافہ کر دیں گی.) الفضل ، جولائی ۱۹۲۳ ه ) حضرت مصلح موعود اس سفر کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- " میری مالی مشکلات جن کی موجودگی میں اور بوجھ کا اُٹھا نا طبیعت پر ایک حد تک گراں گذرتا ہے.دوسرے میری صحت بہت خراب رہتی ہے اور اتنے لمبے سفر اور اس کی مشقتوں کو برداشت کرنا میرے لیے شاید ایک بارگراں ثابت ہو کیونکہ اس قدر کثیر اخراجات کے برداشت کرنے کے بعد اگر وقت کو پوری طرح استعمال نہ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ کام نہ کیا جائے تو یہ ایک اسراف ہوگا.جس کو میری طبیعت پسند نہیں کرتی تیرے قادیان سے اس قدر عرصہ تک اتنے فاصلہ پر رہنا کہ جو گویا ایک نئی دنیا ہے مجھے ناپسند ہے.چوتھے اپنی صحت کی خرابی اور عمر کی نا پائیداری کا خیال کر کے طبیعت ایک تکلیف محسوس کرتی ہے.پانچویں میری دو بیویاں اس وقت حاملہ ہیں اور دونوں کو اسقاط کا مرض ہے اور بچے ان کو سخت تکلیف سے ہوتے ہیں یہاں تک کہ جان کی فکر پڑھاتی ہے اور ان کے وضع حمل کا زمانہ وہی ہے جو اس سفر میں خرچ ہو گا ؟" الفضل ۲۴ جون ۱۹۲۲ ته ان مشکلات کے باوجود حضور نے دُعاؤں.استخاروں کے ساتھ ساتھ قادیان اور بیرونی جماعتوں سے مشورہ بھی لیا.روز نامہ الفضل لکھنا ہے " جماعت احمدیہ نے اس امر کے متعلق نہایت آزادی سے اپنی راہیں دیں خود مرکز سلسلہ میں اس معاملہ کو ایک عام مجلسی میں پیش کیا گیا جس میں ہر شخص کو اظہار رائے کا موجد دیا گیا.چنانچہ مخالف اور موافق دونوں قسم کی رائیں مع دلائل پیش کی گئیں اور اچھی طرح وضاحت کے ساتھ تقریریں ہو چکنے کے بعد جب راتیں لی گئیں تو بہت بڑی کثرت حضور کے بذات خود تشریف لے جانے کے حق میں تھی.اسی طرح بیرو نجات کی جماعتوں کو بھی

Page 57

۵۷ ہدایت کی گئی تھی کہ اس معاملہ کو عام مجلس میں پیش کریں اور پھر جو فیصلہ ہو اس سے آگاہ کریں اس طرح جب جماعت کے نہایت ہی کثیر حصہ نے سلسلہ کے اغراض و مقاصد کے لیے یہی ضروری سمجھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی - - - - - - بذات خود اس سفر کی تکلیف گوارا فرمائیں تو حضور نے جماعت کی اس رائے کے احترام اور اغراض اسلام کی خاطر با وجود کثیر مشکلات کے خود ہی عزم سفر فرمایا " الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۲۴ ته اس انتہائی اہم سفر پرآمادگی کا اظہار کرتے ہوئے حضور نے فرمایا..ساری دنیا کو اسلام کے حلقہ میں لانا ہمارا فرض ہے.اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے متعلق ہم ایک مکمل نظام تجویز کریں........مغربی ممالک میں تبلیغ کے کام کو اگر ہم نے جاری رکھنا ہے اور اگر اس پر جو رو به پیہ خرچ ہوتا ہے.اس کی خدا تعالیٰ کو جواب دہی سے عہدہ برآ ہونا ہے تو ضروری ہے کہ خود خلیفہ وقت ان علاقوں میں جاکر ان کی مشکلات کو دیکھے اور وہاں کے ہر طبقہ کے لوگوں سے مشورہ کر کے ایک سکیم تجویز کرے.........ان ضروریات کو مد نظر رکھ کر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مذہبی کا نفرنس کی تحریک کو ایک خدائی تحریک سمجھ کر اس وقت با وجود مشکلات کے اس سفر کو اختیار کروں.مذہبی کا نفرنس میں شمولیت کی غرض سے نہیں بلکہ مغربی ممالک کی تبلیغ کے لیے ایک مستقل سکیم تجویز کرنے اور وہاں کے تفصیلی حالات سے واقف ہونے کے لیے کیونکہ وہ ممالک ہی اسلام کے راستہ میں ایک دیوار میں جس دیوار کا توڑنا ہمارا مقدم فرض ہے ؟" الفضل ۲۴ جون ۱۹۲۲ ) یہ لٹریچر کے ہر طالب علم پر بخوبی واضح ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض رویا و کشوف اور خاص طور پر پیشگوئی مصلح موعود میں بین الاقوامی اشاعت و تبلیغ اور قوموں کے برکت پانے کا جو ذکر تھا وہ بھی اس عظیم الشان سفر کی طرف اشارہ کر رہے تھے.جماعت کے افراد اور بعض غیرانہ جماعت لوگوں نے بھی یہ نظارے دیکھے کہ یہ سفر کئی لحاظ سے پرانی پیش خبریوں کو پورا کرنے والا اور بابرکت ہوگا.حضرت مصلح موعود کو بھی اس سفر کے نتیجہ میں فتح و ظفر کے حصول کی بشارت ملی جسے بیان کرتے ہوئے حضور ارشاد فرماتے ہیں :.اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلے ہی بشارت دی تھی کہ میرے ولایت جانے سے

Page 58

اسلام کی فتوحات شروع ہونگی بعض دوستوں نے کہا بھی کہ میرے وہاں جانے سے کیا ہوا.حالانکہ اول تو جماعت نے ہی مجھے وہاں بھیجا تھا.میں خود اپنے ارادہ سے وہاں نہیں گیا تھا.بلکہ مجھے تو خواب میں بعض مصائب و مشکلات بھی دکھائے گئے.جو میری غیر حاضری میں ہمارے خاندان میں پیدا ہونے والے تھے لیکن با وجود اس کے جماعت کی کثرت رائے دیکھ کر میں وہاں گیا.اور پھر میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جماعت یہ خیال نہ کرے کہ میرے وہاں جاتے ہی احمدی ہونا شروع ہو جائیں گے.میں تو وہاں تبلیغ کے لیے حالات دیکھنے جاتا ہوں.پھر بعد کے حالات سے معلوم ہوا کہ میرے وہاں جانے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ وہ فتوحات جو میرے وہاں جانے کے نتیجہ میں اب شروع ہوتی ہیں.وہ کسی اور شخص کی طرف منسوب نہ ہوں اور اسلام پر کسی خاص شخص کا احسان نہ ہو بلکہ براہ راست حضرت مسیح موعود کی طرف منسوب ہوں.پھر میں کہتا ہوں کہ جب نبی بھی کوئی ایسا نہیں گذرا جس نے ایک دن میں فتح حاصل کی ہو تو ایک خلیفہ کو کس طرح ایک دن میں فتوحات مل سکتی ہیں، لیکن بہر حال اب تو اللہ کے فضل سے سلسلہ ایسی ترقی کر رہا ہے کہ ایک انگریز لکھتا ہے کہ اس سلسلہ کی ترقی کی نظیر پچھلی صدیوں کے کسی سلسلہ میں نظر نہیں آتی " تقریر جلسه سالانه ۲۷ دسمبر تا بحواله الفضل مورخہ ۱۴ جنوری تله ) قادیان سے روانگی کے وقت حضور کے جو جذبات تھے ان کا اندازہ آپ کے مندرجہ ذیل بیان سے ہو سکتا ہے.صبح.....اس آخری خوشی کو پورا کرنے کے لیے چلا گیا جو اس سفرسے پہلے میں قادیان میں حاصل کرنی چاہتا تھا یعنی آقاتی دسیدی و راحتی و سروری و حبیبی و مرادی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے مزار مبارک پر دعا کرنے کے لیے.مگر آہ وہ زیارت میرے لیے کیسی افسردہ گن تھی......یہ جدائی میرے لیے ایک تلخ پیالہ تھا اور ایسا تلخ کہ اس کی تلخی کو.میرے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا.میری زندگی کی بہت بڑی خواہشات میں سے ہاں ان خواہشات میں سے جین کا خیال کر کے بھی میرے دل میں سرور پیدا ہو جاتا تھا ایک یہ خواہش تھی کہ جب میں مرجاؤں تو میرے بھائی جن کی محبت میں میں نے عمر بسر کی ہے اور جنکی خدمت میرا واحد شغل رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مین قدموں کے نیچے میرے ہم کو دفن

Page 59

کر دیں تاکہ اس مبارک وجود کے قرب کی برکت سے میرا مولی مجھ پربھی رحم فرمادے ہاں شاید اس قرب کی وجہ سے وہ عقیدت کیش احمدی جو جذ بہ محبت سے لبریز دل لے کر اس مزار ب کر حاضر ہو میری قبر بھی اس کو زبان حال سے یہ کیسے کہ اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی اور وہ کوئی کلمہ خیر میرے حق میں بھی کہہ دے جس سے میرے رب کا فضل جوش میں آکر میری کوتاہیوں پر سے چشم پوشی کرے اور مجھے بھی اپنے دامن رحمت میں چھپا ہے....پس میری جدائی حسرت کی جدائی تھی کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ میری صحت جو پہلے ہی کمزور تھی پچھلے دنوں کے کام کی وجہ سے بالکل ٹوٹ گئی ہے.....ادھر ایک تکلیف دہ سفر درپیش تھا.جو ---- کام ہی کام کا پیش خیمہ تھا.اور ان تمام باتوں کو دیکھ کر دل ڈرتا تھا اور کہتا تھا کہ شاید کہ یہ زیارت آخری ہو.شاید وہ اُمید حسرت میں تبدیل ہونے والی ہو.سمندر پار کے مُردوں کو کون لا سکتا ہے ان کی قبر یا سمندر کی تہ اور مچھلیوں کا پیٹ ہے یا دیار بعیدہ کی زمین جہاں مزار محبوب پر سے ہو کر آنے والی ہوا بھی تو نہیں پہنچ سکتی " الفضل ۱۶ اگست ۱۹۲۴ته ) تقریر امیر مقامی و دیگر منتظمین : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق مبارک تھا کہ آپ سفر پر روانہ ہوتے ہوئے اپنی غیر حاضری کے ایام کے لیے کسی کو امیر مقرر فرماتے جو جماعتی مفاد اور افراد جماعت کی بہبودی و خیر خواہی کو مد نظر رکھتا.جیسا کہ جلد دوم میں ذکر ہوچکا ہے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بھی اپنے ہر سفر پر روانہ ہوتے وقت اس سنت پر ضرور عمل فرماتے.اس دور رس نتائج و اثرات کے غیر معمولی سفر پر روانہ ہوتے وقت حضور نے اپنے بعد تمام امور اور انتظامات کی نگرانی کے لیے امیر حضرت مولوی شیر علی صاحب، نائب امیر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو مقرر فرمایا.اس کے ساتھ ہی آپ نے مندرجہ ذیل حضرات پرمشتمل ایک چودہ رکنی مشاورتی مجلس بھی مقر فرمائی.حضرت حجتہ اللہ نواب محمد علی خان صاحب - حضرت میر محمد اسحق صاحب - حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب - حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب حضرت قاضی امیر حسین صاحب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حضرت ماسٹر عبد المغنی خان صاحب حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب.حضرت مولوی فضل الدین صاحب وکیل - حضرت مولوی محمداسماعیل صاح فاضل حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب.

Page 60

حضرت میر قاسم علی صاحب.جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور - جناب خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل.حضور نہ خوب جانتے تھے کہ عشاق احمدیت مرکز میں علمی وروحانی رہنمائی کے حصول کے لیے بڑی کثرت سے آتے ہیں.اور حضور نے پسند نہ فرمایا کہ آپ کی قادیان سے غیر حاضری کے عرصہ کے لیے بھی یہ مفید سلسلہ بند ہو.چنانچہ آپ نے علمی و روحانی سیرانی کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے مسجد اقصیٰ میں قرآن مجید اور حدیث شریف کا باری باری درس دینے کے لیے علی الترتیب حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت سید سرور شاہ صاحب کو مقررہ فرمایا.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب نے قادیان سے روانگی سے لندن پہنچنے تک حضور کے پرجوش خیر مقدم کے متعلق انتہائی اختصار سے کام لیتے ہوئے تحریر کیا ، قادیان سے بہتی تک کے ہندوستان کے الوداعی نظارے اور دشتق اور لندن کے پر جوش خیر مقدم صرف دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں.اخبارات نے سفید عمامے والے نائب صیح اور اس کے سبز عمامہ والے بارہ حواریوں کی تصویر یں مع سلسلہ کے حالات اور خصوصیات کے دُنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچا دیں.لندن وکٹوریہ سٹیشن سے آپ اور آپ کی جماعت ہوتی ہوئی سینٹ پال کے عظیم الشان اور انگلستان کے سب سے بڑے گر جا کے سامنے پہنچی اور اس کے سامنے ٹھہر کر خدائے ذوالجلال سے اسلام و توحید کی فتح کی دُعا کر کے شہر میں داخل ہوئی.مکان آپ کے لیے نہایت معزز محلہ میں پہلے سے لیا گیا تھا.وہاں سب لوگ فروکش ہوتے اس مکان کا نام CHE SHAM ( تاریخ مسجد فضل لندن صدا ) PALACE تھا " خوش قسمت اصحاب قافله : - اس تاریخی یادگار سفر میں مندرجہ ذیل اصحاب کو حضور رضی اللہ عنہ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب.حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال - حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب در در حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.حضرت ذو الفقار علی خان صاحب - حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ، حضرت بھائی عبدالرحمان قادیانی صاحب - شیخ عبدالرحمان مصری صاحب - چوہدری علی محمد صاحب.میاں رحم دین صاحب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب انگلستان سے حضور کے ساتھ شامل ہوتے اور حضور کے ترجمان کی

Page 61

خدمات ادا کرنے کے علاوہ اور بھی متعدد خدمات سرانجام دینے کی توفیق حاصل کی ، چوہدری محمد شریف صاحب وکیل نے بھی اپنے طور پر حضور کے ہم سفر ہونے کی سعادت حاصل کی.حضور نے اپنی خدا داد حسن انتظام کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مندرجہ بالا رفقا سفر کی ایک انتظامیہ کیٹی مقر فرمائی اور انتظامات کی اس طرح تقسیم فرمائی.پریذیڈنٹ انتظامیہ کمیٹی : حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال سیکرٹری انتظامیہ کمیٹی : حضرت مولوی محمد دین صاحب رابطہ پریس رپورٹنگ انتظام ڈاک انتظام ملاقات حضرت مولوی محمد دین صاحب حضرت مولوی عبد الرحیم صاه نیر حضرت ملک غلام فرید صاحب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حضرت حافظ روشن علی صاحب - حضرت چوہدری محمد شریف صاحب - شیخ عبدالرحمان صاحب مصری : حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حضرت ذو الفقار علی خانصاب حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال انتظام خوراک متفرق خدمات : حضرت بھائی عبد الرحمان قادیانی صاحب - چوہدری علی محمد صاحب حضور رضی اللہ عنہ کے یہ خوش قسمت رفقا.اس سفر کے دوران التزاما سبز پگڑی پہنتے رہے جس کی وجہ سے ہر موقعہ پر لوگوں کی توجہ ان کی طرف ہو جاتی تھی اور یہ امر بھی حصول مقصد یعنی تبلیغ و اشاعت اسلام میں ممد و معاون ثابت ہوتا رہا.حضرت ام المومنین بنے اور قادیان و بیرون قادیان سے آتے ہوئے احمدیوں کی پرسوز دعاؤں کے جلو میں حضور مع اپنے رفقائے سفر ۱۲, جولاتی ۲۴ نہ کو موٹر پر سوار ہو کر بٹالہ تشریف لے گئے.بٹالہ سے آگے دہلی اور دہلی سے بہتی تک کا سفر بذریعہ ریل کیا گیا.سارے رستہ میں اردگرد کی جماعتوں کے افراد دیوانہ وار حضور کی زیارت کے لیے مختلف سیشنوں پر آتے رہے.حضور بھی لوگوں کے جذ به شوق و محبت کی قدر دانی کے طور پر دن اور رات کے ہر حصہ میں احباب کی آمد پر اپنے آرام اور مصروفیات کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں ملاقات کا شرف بخشتے رہے.جماعت سے محبت کا عجیب مظاہرہ : ۱۵ جولاتی ۹۲ تہ کو بتی سے ایک اٹالین کمپنی کے افریقہ نامی بحری جہاز کے ذریعہ لندن کے

Page 62

۶۲ لیے روانہ ہوئے.روانگی سے قبل محویت و توجہ کی ایک خاص کیفیت سے حضور نے ایک پر سوز بھی اجتماعی دعا کروائی.حضور نے عرشہ جہاز سے جماعت کے نام ایک محبت بھرا پیغام دیا." تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ مجھے کسقدر محبت تم سے ہے.....یہ جدائی صرف جهانی ہے میری روح ہمیشہ تمہارے ساتھ تھی اور ہے اور رہے گی.میں زندگی میں یا موت میں تمہارا ہی ہوں.الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۲۴ ) جس طرح اس تار کے ہر لفظ سے حضور کی دلی محبت ظاہر ہوتی ہے اسی طرح جب جہاز حرکت میں آیا تو جہاز کا جوحصہ بھی دوستوں کے قریب ہوتا یا جہاں سے دوست نظر آرہے ہوتے حضور دوڑ کر اس طرف جاتے اور پھر دُعا شروع کر دیتے اس طرح کبھی اس طرف سے اور کبھی اس طرف سے اور کبھی وسط جہاز میں کھڑے ہو کر دعائیں کرتے.آپ کی محرومیت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ آپ نے برستی بارش کی بھی پرواہ نہ کی اور یہ بھی خیال نہ کیا کہ بارش میں کھڑے کھڑے آپ کے کپڑے بھیگ چکے ہیں.جہاز کے روانہ ہوتے ہی مون سون کا موسم ہونے کی وجہ سے سمندر میں شدید تلاطم و طوفان کی سی صورت ہوگئی اور حضور کے اکثر ساتھی سمندری بیماری تھے اسهال وغیرہ سے شدید بیمار ہو گئے اس حالت میں بھی حضور نے احباب کے آرام کا ہر وقت خیال رکھا سب کی عیادت فرما نے انکی ضروریات معلوم کر کے انہیں پورا کر وانے کی کوشش کرتے رہے.دوران سفر قادیان کی یاد یں نظمیں پڑھی سنی جاتی رہیں.مگر ان سب باتوں سے مقدم اسلام کی سربلندی اور شعار اسلامی کے قیام کا فکر تھا.چنانچہ ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا : یورپ کے متعلق مجھے اس بات کا خطرہ اور فکر نہیں ہے کہ اس کا مذہب کیونکر فتح کیا جائے گا.مذہب کے متعلق تو مجھے یقین ہے کہ عیسائیت اسلام کے سامنے جلد سرنگوں ہوگی مجھے اگر فکر ہے تو صرف یہ ہے کہ یورپ کا تمدن اور یورپ کی ترقی اور دماغی ترقی کا کیونکر مقابلہ کیا جائے.یہی دو باتیں ایسی ہیں جن پر غور و فکر کرتے ہوتے راتیں گزار دیتا ہوں اور گھنٹوں اسی سوچ میں پڑا رہتا ہوں " اسلامی شعار اور تمدن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : " جس قوم کے پاس لباس بھی اپنا نہیں اور دوسرے کے لباس کو اپنے لباس سے اچھا سمجھ کر اسے اختیار کر لینا چاہتی ہے اس قوم نے اس کا مقابلہ کیا کرتا ہے.فرمایا.آنحضرت اور

Page 63

۶۳ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کی آنکھ کھلتے ہی اس اصل کو معلوم کر لیا تھا......اس لیے آپ نے فرمایا : خَالِفُوا الْيَهُودَ وَالتَّصَاری اور مَن نَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمُ اور حقیقت یہی ہے کہ جو کسی قوم کے لباس کو اور تمدن کو قبول کر لیتا ہے وہ دل سے اپنی میں سے ہوتا ہے کیونکہ دل اس کا ان کی عظمت اور بڑائی کا قائل ہو چکا ہوتا ہے؟ ) الفضل ۲۳ اگست ۱۹۲۴ ) مختصر کوائف سفر : خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک خاص وجاہت کوشش عطافرمائی تھی اس کی وجہ سے سفر اور قیام لیورپ کے دوران لوگ آپ کی طرف کھیچھے آتے اور آپ سے اسلام کی برتری و حقانیت کے دلائل معلوم کرتے اور متاثر ہوتے.ایک موقعہ پر جب حضور اپنے رفقا.سفر کے ہمراہ نماز با جماعت ادا فرما رہے تھے ایک اٹالین ڈاکٹر نے حضور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : "JESUS CHRIST AND TWELVE DESCIPLES." یعنی مسیح علیہ السلام اور ان کے بارہ حواری.حضور کا جہاز عدن سے ہوتا ہوا ۲۹ جولائی کو پورٹ سعید پہنچا.پورٹ سعید سے قاہرہ کا سفر بذریعہ ریل گاڑی کیا گیا.قاہرہ سے بیت المقدس اور حیفا کے رستے حضور دمشق تشریف لے گئے.ہم اگست سے 9 اگست تک آپ کا دمشق میں قیام رہا.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عظیم پیشگوئی کے پورے کرنے کا جس کی تفصیل آگے آرہی ہے باعث بنا.حضور ۱۰ راگست کو دمشق سے روانہ ہو کر بیروت سے ہوتے ہوئے حیفا پہنچے.۱۳ راگست کو آپ پورٹ سعید سے بریڈزی تشریف لے گئے جہاں آپ کا جہانہ 14 اگست و بجے صبح پہنچا.اسی دن شام کو حضور بذریعہ گاڑی روما تشریف لے گئے جہاں آپ نے چار روز قیام فرمایا.اگست شام کو روما سے روانہ ہو کر اگلے دن صبح نو بجے پیرس پہنچے.پیرس سے کیلئے جاکر بذریعہ جهاز رودبار انگلستان عبور کر کے ڈوور اور وہاں سے گاڑی پر ۲۲ اگست قریباً 4 بجے لندن کے وکٹوریہ سٹیشن پر پہنچے.جہاں احباب جماعت نے حضور کا استقبال کیا.حضور نے پلیٹ فارم پر احباب سمیت لمبی دُعا کی.سٹیشن سے حضور لڈ گیٹ تشریف لے گئے اور سینٹ پال کے گر جا کے پاس

Page 64

۶۴ اسلام کی فتح و کامرانی اور کسر صلیب کے لیے دعا کی اور اپنی رہائش گاہ واقع چیشم پلیس تے میں تشریف لے گئے.برطانوی پولیس میں غیر معمولی ذکر و چرچے کا اندازہ اس ایک امرسے ہو سکتا ہے کہ ایک متعصب رومن کیتھولک اخبار کو لکھنا پڑا کہ سارا برطانوی پریس کسی سازش کا شکار ہو گیا ہے ؟ بڑی کثرت سے آپ کی تصاویر اور جماعت کا تعارف اخبارات میں شائع ہوا بلکہ بعض فلم کمپنیوں نے ان مناظر کی فلم بندی کی اس طرح غیر معمولی شہرت و اشاعت اور قبولیت و تائید الہی کے نشان ظاہر ہوئے.لندن سے واپسی کے لیے حضور ۲۵ اکتوبر ۹۶ تہ کو واٹرلوٹیشن سے جہاں مختلف رنگ و نسل کے ایک کثیر مجمع نے آپ کو دُعاؤں اور اخلاص سے الوداع کیا.گاڑی میں سوار ہوتے ساؤتھ پٹنی سے حضور نے رودبار انگلستان بذریعہ بحری جہاز عبور کی.۱۲۶ اکتوبر کو بند بعد گاڑی حضور پیرس پہنچے.اس جگہ بھی پولیس کے نمائندوں نے آپ سے ملاقات کی اور تصویریں لیں.پیرس میں ایک نو تعمیر مسجد میں حضور نے پہلی نماز پڑھائی.۳۱ اکتوبر کو حضور پیرس سے روانہ ہوئے.۲ نومبر کو دنہیں (اٹلی) سے بحری جہاز کے ذرایعیہ ۱۸ نومبر کو بتی کے ساحل پر رونق افروز ہوئے.دو سو سے زائد نمائندگان جماعت نے حضور کا استقبال کیا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے تمام جماعت کی نمائندگی میں خیر مقدمی سپاس نامہ پیش کیا.حضور جناب سید محمد رضوی صاحب کے ہاں "لیاقت منزل“ میں فروکش ہوئے.بمبئی کے تمام بڑے بڑے اخبارات نے حضور کے انٹرویو لئے اور اس طرح پریس کے ذریعہ خوب تبلیغ و اشاعت ہوئی.حضور نے بمبئی پہنچنے پر اپنی ہمہ تن مشتاق دو منتظر جماعت کے نام بذریعہ تار اپنے سفر کی کامیابی اور خدائی تائید و نصرت کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ پیغام ارسال فرمایا : میں اپنی طرف سے اور اپنے رفقا سفر کی طرف سے تمام احباب جماعت احمدیہ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے مشن کی کامیابی کے لیے دعائیں کیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ حیرت انگیز کامیابی جو ہمیں اپنے اس سفر کے دوران میں حاصل ہوتی محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی وجہ سے تھی.اس نے ہر قدم پر ہماری نصرت فرمائی اور ہمارے لیے ایسے اوقات میں دروازے کھولے جبکہ ہمیں کوئی رستہ نظر نہیں آتا تھا.میں تمام احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے آقا و مولیٰ کے اس خاص فضل کو یاد رکھیں اور اپنے آپ کو ان بڑی قربانیوں کے لیے تیار کریں جو انہیں ان اثمار کے حاصل کرنے

Page 65

۶۵ کے لیے کرنی پڑیں گی.جو گذشتہ چار ماہ کے کام کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والے ہیں " الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۲۳ ) بمبئی سے بٹالہ تک حضور نے ریل گاڑی میں سفر کیا.رستہ میں تمام بڑے بڑے سٹیشنوں پر افراد جماعت پروانہ وار حضور کی زیارت کی سعادت حاصل کرتے رہے.قادیان کی جماعت نے بٹالہ سٹیشن پر اور پھر قادیان میں حضور کا والہانہ خیر مقدم کیا - ۲۴ نومبر بروز دوشنبه مبارک دوشنبه کو یہ نہایت مبارک سفر اپنے جلو میں عظیم الشان کامیابیوں اور کامرانیوں کو لیے ہوتے ایک وسیع تر تبلیغی پروگرام کے ارہاص کے طور پر اختتام پذیر ہوا.اس سفر کے خوش قسمت رفقا کی خدمات اور ان کے اخلاص و محنت کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.میں اس سفر کے ساتھیوں کے متعلق بھی یہ اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ان سے ہوسکا انہوں نے کام کیا.انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ان سے بھی ہوتی ہیں.میں ان پر بعض اوقات ناراض بھی ہوا ہوں مگر میری ناراضگی کی مثال ماں باپ کی ناراضگی سی ہے.جو ان کی اصلاح اور اس سے بھی زیادہ پر جوش بنانے کے لیے ہوتی ہے.مگر انہوں نے اچھے کام کئے اور بڑے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے اور میرے نزدیک وہ جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں.خصوصاً اس لیے کہ میرے جیسے انسان کے ساتھ انہیں کام کرنا پڑا.جب کام کا زور ہو تو میں چاہتا ہوں کہ انسان مشین کی طرح کام کرے نہ اپنے آرام کا اسے خیال آتے نہ وقت بے وقت دیکھیے.جب اس طرح کام لیا جائے تو بعض اوقات اچھے سے اچھے کام کرنے والے کے ہاتھ پاؤں بھی پھول جاتے ہیں.مگر انہوں نے اخلاص سے کام کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے لیے خصوصیت سے دُعائیں کی جائیں.پھر میں سمجھتا ہوں ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر خصوصیت سے جماعت کی دُعاؤں کے اور شکریہ کے مستحق ہیں.واقفیت کی وجہ سے انہوں نے اس سفر میں بہت کام کیا ہے........ان کی وجہ سے بھی سلسلہ کے کاموں میں بہت کچھ مدد ملی " الفضل دسمبر ۱۹۲۳ة ) دوران سفر کے بعض اہم ارشادات : اس مقدس سفر کی روئیداد بالعموم جماعت کے اولین بزرگ صحافی حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی محاسب

Page 66

نے قلمبند کی حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی بھی بہت دلچسپ اور مفصل ڈائری بھجواتے رہے تاہم حضور نے اپنے قلم سے اس سفر کے متعلق جو ارشادات تحریر فرمائے ان سے اس سفر کے مقاصد اور فوائد و نتائج اور حضور کی جماعت سے محبت و تعلق کے علاوہ اور بھی متعدد اہم امور پر روشنی پڑی ہے.لہذا حضور کے بعض بیانات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.۲۲ - جولائی کو عدن کے قریب پہنچنے پر حضور نے آدھی رات کے بعد جماعت کے ساتھ اپنے تعلق اور محبت کے جذبہ سے مجبور ہو کر ایک مفصل خط لکھا جس کا اختصار درج ذیل ہے." رات کا وقت ہے اور رات بھی خاصی گذر گئی ہے مجھے لوگ کہتے ہیں کل رات آپ کم سوتے تھے اب سو جاہیئے.مگر عدن قریب آرہا ہے......اگر میں اس وقت اپنا قلم رکھ دیتا ہوں تو پھر مجھے عدن کے بعد ہی کچھ لکھنے کا موقع ملے گا.اس لیے میں دوستوں کی نصیحت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے.....یہی کہتا ہوں کہ خط نصف علاقات ہوتی ہے.میں خدا کی مشیت کے ماتحت اپنے دوستوں کی پوری ملاقات سے تو ایک وقت تک محروم ہوں پس مجھے آدھی ملاقات کا تو لطف اُٹھا نے دو مجھے چھوڑو کہ میں خیالات و افکار کے پر لگا کر کاغذ کی ناقہ پر سوار ہو کر اس مقدس سرزمین میں پہنچوں جس سے میرا جسم بنا ہے اور جس میں میرا بادی اور رہنما مدفون ہے اور جہاں میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی راحت دوستوں کی جماعت رہتی ہے.ہاں پیشتر اس کے کہ ہندوستان کی ڈاک کا وقت نکل جاتے مجھے اپنے دوستوں کے نام ایک خط لکھنے دو تا میری آدھی ملاقات سے وہ مسرور ہوں اور میرے خیالات تھوڑی دیر کے لیے خالص اس سر زمین کی طرف پرواز کر کر کے مجھے دیار محبوب سے قریب کر دیں " ر الفضل و راگست ۹۲۴لته : اس خطہ میں جماعت کو ایک نہایت موثر اور قیمتی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اپنے آپ کو صاف رکھو تا قدوس خدا تمہارے ذریعہ سے اپنے قدس کو ظاہر کرے اور اپنے چہرہ کو بے نقاب کرے - اتحاد محبت - اخبار - قربانی - اطاعت ہمدردی بنی نوع انسان - عضو شکر احسان اور تقویٰ کے ذریعہ سے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کا ہتھیار بننے کے قابل بناؤ.یاد رکھو تمہاری سلامتی سے ہی آج دین کی سلامتی الفضل و راگست ۹۲ ) (~

Page 67

44 ۲۰ جولائی کو آدھی رات کے وقت جہاز جب جدہ اور مکہ مکرمہ کے قریب سے گزرا تو حضور نے دورکعت نماز باجماعت پڑھائی جس میں لمبی رقت انگیز دعائیں کی گئیں.۲۷ جولاتی رات کے وقت جنہوں نے ایک خیال انگیز مکتوب رقم فرما یا جین میں آپ نے یورپ میں اسلام کے پھیلنے کے یقین کا اظہار کرتے ہوئے بڑے پر شوکت الفاظ میں انتباہ فرمایا کہ کہیں ایسا نہ ہو یورپ اسلام کی آغوش میں آتے ہوئے اپنے تمدن و فرسودہ روایات کو اسلام کی چھاپ لگا کر وہی صورت پیدا کر دے جو مشرک رومیوں کے سیمی ہونے سے مسیحیت کے مسخ و مبدل ہونے کی صورت میں ہو چکی ہے.آپ نے تحریر فرمایا : " ہمارا فرض ہے کہ اس مصیبت کے آنے سے پہلے اس کا علاج سوچیں اور یورپ کی تبلیغ کے لیے ہر قدم جو اُٹھائیں اس کے متعلق پہلے غور کر لیں اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہاں کے حالات کا عینی علم حاصل نہ ہو پس اسی وجہ سے باوجود صحت کی کمزوری کے میں نے اس سفر کو اختیار کیا ہے اگر میں زندہ رہا تو انشا اللہ اس علم سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کروں گا.اگر میں اس جدوجہد میں مرگیا تو اسے قوم میں ایک نذیر عریاں کی طرح تجھے منتخبہ کرتا ہوں کہ اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا.اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا جس خدا نے مسیح موعود کو بھیجا ہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات کا نکال دے گا.پس کوشش نہ چھوڑنا.نہ چھوڑنا.نہ چھوڑنا.آہ نہ چھوڑنا.میں کس طرح تم کو یقین دلاؤں کہ اسلام کا ہر اک حکم نا قابل تبدیل ہے خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا.جو اس کو بدلت ہے وہ اسلام کا دشمن ہے وہ اسلام کی تباہی کی پہلی بنیاد رکھتا ہے.کاش وہ پیدا نہ ہوتا......یورپ سب سے بڑا دشمن اسلام کا ہے.وہ مانے نہ مانے تمہاری کوشش کا کوئی اثر ہو یا نہ ہو تم کو اسے نہیں چھوڑنا چاہتے اگر تم دشمن پر فتح نہیں پا سکتے تو تمہارا یہ فرض ضرور ہے کہ اس کی نقل و حرکت کو دیکھتے رہو.......یورپ کے لیے تو اسلام قبول کرنا مقدر ہو چکا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم دیکھیں کہ وہ ایسی صورت سے اسلام کو قبول کرے کہ اسلام ہی کو نہ بدل دے " را نفضل ۱۲ راگست ۱۹۲۳مه پورٹ سعید سے حضور ایکسپریس گاڑی کے ذریعہ قاہرہ تشریف لے گئے.مجاہد احمدیت شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کو حضور اور دوسرے بزرگوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا.قاہرہ میں دو روزہ

Page 68

4A قیام کے متعلق حضور فرماتے ہیں :- ہم قاہرہ میں صرف دو دن ٹھہر ہے......میرے نزدیک مصر مسلمانوں کا بچہ ہے جسے یورپ نے اپنے گھر میں پالا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے بلاد اسلامیہ کے اخلاق کو خراب کرے.مگر میرا دل کہتا ہے اور جب سے میں نے قرآن کریم کو سمجھا ہے میں برا بر اس کی بعض سورتوں سے استدلال کرتا ہوں اور اپنے شاگردوں کو کتنا چلا آیا ہوں کہ یورین فوقیت کی تباہی مصر سے وابستہ ہے اور اب میں اسی بنا پر کہتا ہوں....- مصر جب خدا تعالیٰ کی تربیت میں آجائے گا تو وہ اسی طرح یورپین تہذیب کے مخرب اخلاق حصوں کو توڑنے میں کامیاب ہو گا جس طرح حضرت موسی فرعون کی تباہی ہیں.بے شک اس وقت یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے مگر جو زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے.میں نے قاہرہ پہنچتے ہی......اس بات کا اندازہ لگا کر کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ ساتھیوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا.ایک حصہ اخبارات و جرائد کے مدیروں کے ملنے میں مشغول ہوا اور دوسرا پاسپورٹوں اور ڈاک کے متعلق کام میں لگ گیا.میر اسفر کی بعض ضرورتوں کو میتا کرنے میں.......یہ علاقے تبلیغ کے لیے بہت روپیہ چاہتے ہیں مگراسی طرح جب ان میں تبلیغ کامیاب ہو جاتے تو اشاعت اسلام کے لیے ان سے مدد بھی بہت کچھ مل سکتی ہے......علاوہ ان لوگوں کے جن سے ملنے ہمارے لوگ خود جاتے رہے بعض لوگ گھر پر بھی ملنے آتے رہے.چنانچہ جامعہ ازہر کے ماتحت جو خلافت کمیٹی بنی ہے ----- اس انجمن کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اور بعض دوسرے لوگ ملنے کے لیے آتے ----- اس کے بعد مصر کے ایک مشہور صوفی سید ابوالعزائم صاحب ملنے کو آتے یہ صاحب مصر کے بہت بڑے پیر ہیں.مجھے جو مصر میں سب سے زیادہ خوشی ہوتی وہ وہاں کے احمدیوں کی ملاقات کے نتیجہ میں تھی.تین مصری احمدی مجھے ملے اور تینوں نہایت ہی مخلص تھے.دو از ہر کے تعلیم یافتہ اور ایک علوم جدیدہ کی تعلیم کی تحصیل کرنے والے دوست تینوں نہایت ہی مخلص اور جوشیلے تھے.اور ان کے اخلاص اور جوش کی کیفیت کو دیکھ کر دل رقت سے بھر جاتا تھا.تینوں نے نہایت درد دل سے اس بات کی خواہش کی کہ مصر کے کام کو مضبوط کیا جائے.الفضل ۱۳ ستمبر ۲۳ ۲۴)

Page 69

49 قاہرہ سے حضور بیت المقدس تشریف لے گئے.حضور اپنے مشاہدات و تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : دو دن کے قیام کے بعد ہم مشق کی طرف روانہ ہوئے مگر چونکہ راستہ میں بیت المقدس پڑتا تھا.مقامات انبیاء کے دیکھے بغیر آگے جانا مناسب نہ سمجھا اور دو دن کے لیے وہاں ٹھر گئے.......بیت المقدس کا سب سے بڑا معبد جسے پہلے مسیحیوں نے یہودیوں سے چھین لیا اور بعد میں مسیحیوں سے چھین کر مسلمانوں نے اسے مسجد بنا دیا اس کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر ہفتہ میں دو دن برا بر دو ہزار سال سے یہودی روتے چلے آتے ہیں جس دن ہم اس جگہ کو دیکھنے کے لیے گئے وہ دن اتفاق سے ان کے رونے کا تھا.عورتوں اور مردوں ، بوڑھوں اور بچوں کا دیوار کے پیچھے کھڑے ہو کر با تیل کی دُعائیں پڑھ پڑھ کر اظہار عجز کرنا ایک نہایت ہی افسردہ کن نظارہ تھا........وہاں کے بڑے بڑے مسلمانوں سے میں ملا ہوں میں نے دیکھا کہ وہ مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے.مگر میرے نزدیک ان کی یہ رائے غلط ہے.یہودی قوم اپنے آبائی ملک پر قبضہ کرنے پر تلی ہوئی ہے...قرآن شریف کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود کے بعض اللانه سے معلوم ہوتا ہے کہ سیودی ضرور اس ملک میں آباد ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے.پس میرے نزدیک مسلمان روسا کا یہ اطمینان بالآخر ان کی تباہی کا موجب ہوگا.سر کلین صاحب (قائم مقام ہائی کمشنر کو پہلی ملاقات میں ہمارے سلسلہ سے بھی بہت سی دلچسپی ہو گئی.اور گور ہم نے دوسرے دن روانہ ہونا تھا مگر انہوں نے اصرار کیا کہ ڈیڑھ بجے ہم ان کے ساتھ کھانا کھا ئیں.چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ تک دوسرے دن بھی ان کے ساتھ گفتگو ہوتی رہی اور فلسطین کی حالت کے متعلق بہت سی معلومات مجھے ان سے حاصل ہوئیں.فلسطین سے چل کر ہم حیفا آتے جہاں سے کہ مشق کیلئے گاڑی بدلتی ہے......صبح گاڑی لیکر میں سیر کے لیے گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ بھائیوں کے لیڈر مسٹر شوقی آفندی عکہ کو چھوڑ کر حیفا میں آن بسے ہیں......ہم ایک سڑک پر آرہے تھے ہمیں معلوم ہوا کہ اس کے پاس چند قدم پر ہی مرزا عباس علی صاحب عرف عبد البہاء کا مکان ہے.شوقی آفندی تو وہاں موجود نہ

Page 70

تھے.....نہ کوئی علماء کی جماعت تھی نہ انتظام تھا.و ۱۹۲۴ الفضل ۱۳ ستمبر ۳ ایک نشان : اس عظیم سفر کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی اور صداقت احمدیت کا ایک عجیب نشان ظاہر ہوا.اس انعام خداوندی کا ذکر کرتے ہوتے حضور فرماتے ہیں : " جب ہم دمشق میں گئے تو اول تو ٹھہرنے کی جگہ ہی نہ ملتی تھی.مشکل سے انتظام ہوا مگر دو دن تک کسی نے کوئی توجہ نہ کی.میں بہت گھبرایا اور دعا کی کہ اسے اللہ ! پیشگوئی جو مشق کے متعلق ہے کسی طرح پوری ہوگی.اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ہاتھ لگا کر واپس چلے جائیں.تو اپنے فضل سے کامیابی عطا فرما.جب میں دعا کر کے سویا تو رات کو یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے.عَبْدُ مُكَرَم یعنی ہمارا بندہ جس کو عزت دی گئی.....چنانچہ دوسرے ہی دن جب اُٹھے تو لوگ آنے لگے یہاں تک کہ صبح سے رات کے بارہ بجے تک دو سو سے لیکر بارہ سو تک لوگ ہوٹل کے سامنے کھڑے رہتے.اس سے ہوٹل والا ڈر گیا کہ فساد نہ ہو جائے.پولیس بھی آگئی اور پولیس افسر کہنے لگا فساد کا خطرہ ہے.میں نے یہ دکھانے کے لیے کہ لوگ فساد کی نیت سے نہیں آتے.مجمع کے سامنے کھڑا ہو گیا.چند ایک نے گالیاں بھی دیں.لیکن اکثر نہایت محبت کا اظہار کرتے اور هَذَا ابْنُ المَهْدِي کہتے اور سلام کرتے مگر باوجود اس کے پولیس والوں نے کہا کہ اندر بیٹھیں.ہماری ذمہ داری ہے.اور اس طرح ہمیں اندر بند کر دیا گیا.اس پر ہم نے برٹش قونصل کو فون کیا......اس پرالیسا انتظام کر دیا گیا کہ لوگ اجازت لے کر اندر آتے رہے.....غرض عجیب رنگ تھا کالجوں کے لڑکے اور پروفیسر آتے.کا پہیاں ساتھ لاتے اور جو میں بولتا لکھتے جاتے اگر کوئی لفظ رہ جاتا تو کہتے یا استناد ذرا ٹھر لیتے.یہ لفظ رہ گیا ہے.گویا انجیل کا وہ نظارہ تھا جہاں اسے استاد کر کے حضرت میسج کو مخاطب کرنے کا ذکر ہے.اگر کسی مولوی نے خلاف بولنا چاہا تو وہی لوگ ایسے ڈانٹ دیتے ایک مولوی آیا جو بڑا با اثر سمجھا جاتا تھا.اس نے ذرا نا واجب باتیں کیں توتعلیم یافتہ لوگوں نے ڈانٹ دیا اور کہ دیا کہ ایسی بیہودہ باتیں نہ کرو.ہم تمہاری باتیں سننے کے لیے نہیں آتے اس پہ پر وہ چلا گیا.اور روسا معذرت کرنے لگے کہ وہ بیوقوف تھا.اس کی کسی بات

Page 71

پر ناراض نہ ہوں.یہ ایک غیر معمولی بات تھی.پھر منارۃ البیضاء کا بھی عجیب معاملہ ہوا.ایک مولوی عبد القادر صاحب سید ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست تھے.ان سے میں نے پوچھا کہ وہ منارہ کہاں ہے جس پر تمہارے نزدیک حضرت عیسی نے اُترنا ہے کہنے لگے مسجد امویہ کا ہے، لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا کہ عیسائیوں کے محلہ میں ہے ایک اور نے کہا حضرت عیسی آکر خود بنائیں گے.اب ہمیں حیرت تھی کہ وہ کونسا منارہ ہے.دیکھ تو چلیں صبح کوئیں نے ہوٹل میں نماز پڑھائی اس وقت میں اور ذوالفقار علی خان صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے.یعنی میرے پیچھے دو مقتدی تھے جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا سامنے منا رہے اور ہمارے اور اس کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے.میں نے کہا یہی وہ منار ہے اور ہم اس کے مشرق میں تھے.یہی وہاں سفید منارہ تھا اور کوئی نہ تھا.مسجد امویہ والے منار نیلے سے رنگ کے تھے جب میں نے اس سفید منارہ کو دیکھا اور پیچھے دو ہی مقتدی تھے تو میں نے کہا کہ وہ حدیث بھی پوری ہو گئی یہ الفضل هر دسمبر ۱۹۲۳ة ) " دمشق میں توقع سے بہت بڑھ چڑھ کر کامیابی ہوئی......اخبارات نے لمبے لمبے تعریفی مضامین شائع کئے.دمشق کے تعلیم یافتہ طبقے نے نہایت گہری دلچسپی لی.تمام وہ اخبارات جن میں ہمارے مشن کے متعلق خبریں اور مضامین نکلتے تھے کثرت سے فوراً فروخت ہو جاتے تھے.الفضل ۲۸ اگست ۱۹۲۴ ) یوپ کا ملاقات سے گریز : اس یادگار سفر میں مقتدر مذہبی شخصیت پوپ کو اسلام کی پرکشش و حسین تعلیم سے آگاہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی.پوپ نے اس شاندار موقع کو بعض معمولی عذرات سے ٹال دیا اور نہ اسلام کی حقانیت و دلکشی کے اظہار کا ایک بہت ہی اچھا نظارہ دیکھنے میں ملتا.البتہ اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ دنیائے عیسائیت پر اتمام محبت ہو گئی جو اپنی جگہ بہت بڑا فائدہ ہے.پوپ کی ٹال مٹول کا بیان حضور کے اپنے الفاظ میں پیش ہے : " ہ میں جب میں یورپ گیا تو روم میں بھی ٹھہرا وہاں میں نے پوپ کو لکھا کہ تم عیسائیت کے پہلوان ہو اور میں اسلام کا پہلوان ہوں.مجھے ملاقات کا موقع دو

Page 72

تا کہ بالمشافہ اسلام اور عیسائیت کے متعلق میں بات کر سکوں اس کے جواب میں پوپ کے سیکوٹری کی طرف سے مجھے چٹھی آئی کہ پوپ صاحب کی طبیعت خراب ہے.اس لیے وہ مل نہیں سکتے انہی دنوں اٹلی کے ایک اخبار کا ایڈیٹر جو سوشلسٹ تھا مجھے ملنے آیا وہ ایسا اخبار تھا جس کے دن میں بارہ ایڈیشن نکلتے تھے......اس نے مجھے کہا کہ آپ یہاں پہلی دفعہ آتے ہیں.یہ بڑا اچھا موقعہ ہے آپ پوپ سے ملاقات کی کوشش کریں ہمیں مسلمانوں کے لیڈر کے خیالات سننے کا موقع مل جائے گا اور بالمقابل عیسائیوں کے لیڈر کے خیالات سننے کا بھی موقع مل جائے گا.میں نے کہا میں نے تو خود اس سے ملاقات کی کوشش کی تھی مگر اس کے سیکرٹری کی طرف سے جواب آگیا ہے کہ پوپ صاب کی طبیعت اچھی نہیں.کہنے لگا آپ ایک دفعہ پھر انہیں میری خاطر لکھیں.میں نے کہا اس کے معنے تو یہ ہیں کہ تم مجھے بے عزت کروانا چاہتے ہو کیونکہ اس نے ملاقات کا موقع نہیں دینا.کہنے لگا ہماری نظروں میں تو اس سے آپ کی عزت بڑھے گی کم نہیں ہوگی....میں نے اس کے کہنے پر پھر خط لکھ دیا اس کے جواب میں اس کے چیف سیکرٹری کی مجھے میٹھی آئی کہ پوپ کا محل آج کل زیر مرمت ہے اس لیے افسوس ہے کہ وہ ملاقات نہیں کر سکتے دو چار دن کے بعد پھر وہی ایڈیٹرھنے کے لیے آیا تو اس نے پوچھا کہ کیا پوپ کی طرف سے کوئی جواب آیا ہے میں نے کہا ہاں.اس نے یہ جواب دیا ہے تم پڑھ لو اس چھٹی کو پڑھ کر اسے بڑا غصہ آیا اور کہنے لگا کہ اب میں اپنے اخبار میں اس کی خبر لوں گا.چنانچہ دوسرے دن اخبار چھپا تو اس میں اس نے ایک بڑا مضمون لکھا کہ یہاں آجکل مسلمانوں کا ایک بہت بڑا لیڈر آیا ہوا ہے اس نے پوپ کو خط لکھا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں مجھے طاقات کا موقعہ دیا جائے تاکہ اسلام اور عیسائیت کے متعلق باہم گفتگو ہو جاتے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ موقعہ بڑا اچھا تھا اور اگر ملاقات ہو جاتی تو پتہ لگ جاتا کہ ہمارے لیڈر اپنے مذہب سے کتنے واقف ہیں اور مسلمانوں کے لیڈر اپنے مذہب سے کتنی واقفیت رکھتے ہیں.مگر پوپ کے چیف سیکرٹری نے اس کا یہ جواب دیا کہ پوپ کا محل آجکل زیور است ہے اس لیے وہ علاقات نہیں کر سکتے.اس کے بعد اس نے طنز لکھا کہ ہم یقین کرتے ہیں کہ اب پوپ کا محل قیامت تک زیر مرمت ہی رہے گا.خطبه جمعه ۲۳ اگست ۹۵۷اه مطبوعه الفضل سے ستمبر یه ،

Page 73

۷۳ احمدیت یعنی حقیقی اسلام : ویلے مذہبی کانفرنس میں اسلام کی برتری و حقانیت کے متعلق حضور نے جو معرکتہ الآراء مضمون تیار فرمایا وہ " AHMADIYYA OR TRUE ISLAM " (احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہے.اس مضمون میں اسلام کی بنیادی تعلیمات ان کی حکمت و فلسفہ بڑے دلنشیں انداز اور مدلل طریق پر بیان کیا گیا ہے.اس کتاب پر کوئی تفصیلی بیان تو بیاں درج نہیں کیا جا سکتا.مندرجہ ذیل عناوین ہی جن پر اس کتاب میں بحث کی گئی ہے اس کی قدر و قیمت اور اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں.ا پہلا مقصد - خدا تعالیٰ کے متعلق اسلام کی تعلیم ۲- دوسرا مقصد : اخلاق اخلاق کی تعریف - اخلاق قلب و جوارح اخلاق کی مثالیں.اخلاق کے مدارج - اخلاق حسنہ کے حصول اور اخلاق سینہ سے بچنے کے سات ذرائع.-۳- تیرا مقصد تمدن - تمدن کے متعلق اسلام کی تعلیم - مسائل نکاح، عام شہریت کے اصول - تیامی کے متعلق احکام لین دین کے معاملات کا نفرنسوں.مجلسوں کے آداب - حکومت اور رعایا کے متعلق احکام - حقوق و فرائض حکومت اسلامی - رعایا کے فرائض - آجر اور اجیر کے تعلقات.حکومتوں کے آپس کے تعلقات.مذہبی تعلقات ۴- چوتھا مقصد - حالات بعد الموت حضور نے اپنے مضمون میں بین الاقوامی تعلقات کے متعلق اسلامی تعلیم بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَإِنْ طَائِفَتَنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدُهُمَا عَلَى الأخرى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تفى إِلَى أَمْرِ اللهِ فَإِن فَاءَتْ فَاصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ المُقْسِطِينَ.(الحجرات : ١٠ ) اس آیت میں بین الا قوامی صلح کے قیام کے لیے مندرجہ ذیل لطیف گر بتاتے ہیں :- سب سے اول جب دو قوموں میں لڑائی اور فساد کے آثار ہوں معا دوسری قومیں بجائے ایک یا دوسری کی طرف داری کرنے کے ان دونوں کو نوٹس دیں کہ وہ قوموں کی پنچایت سے

Page 74

۷۴ اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرائیں.اگر وہ منظور کر لیں تو جھگڑا مٹ جائیگا، لیکن اگر ان میں سے ایک نہ مانے اور لڑائی پر تیار ہو جائے تو دوسرا قدم یہ اٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام اس کے ساتھ مل کر لڑیں اور یہ ظاہر ہے کہ سب اقوام کا مقابلہ ایک قوم نہیں کرسکتی ضرور ہے کہ جلد اس کو ہوش آ جاتے اور وہ صلح پر آمادہ ہو جاتے ہیں جب وہ صلح کے لیے تیار ہوتو میرا قدم یہ اٹھائیں کہ ان دونوں قوموں میں جن کے جھگڑے کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی تھی صلح کرا دیں.یعنی اس وقت اپنے آپ کو فریق مخالف بنا کر خود اس سے معاہدات کرنے نہ بیٹھیں بلکہ اپنے معاہدات تو جو پہلے تھے وہی رہنے دیں صرف اسی پہلے جھگڑے کا فیصلہ کریں جس کے سبب سے جنگ ہوئی تھی.اس جنگ کی وجہ سے نئے مطالبات قائم کر کے ہمیشہ کے فساد کی بنیاد نہ ڈالیں.چوتھے یہ امر مد نظر رکھیں کہ معاہدہ انصاف پر مبنی ہو یہ نہ ہو کہ چونکہ ایک فریق مخالفت کر چکا ہے اس لیے اس کے خلاف فیصلہ کر دو، بلکہ باوجود جنگ کے اپنے آپ کو ثالثوں کی ہی صف میں رکھو فریق مخالف نہ بن جاؤ.ان امور کو مد نظر رکھ کر کوئی انجمن بنائی جائے تو دیکھو کہ کس طرح دنیا میں بین الاقوامی صلح ہو جاتی ہے سرب فساد اسی امر سے پیدا ہوتا ہے کہ اول تو جب جھگڑا ہوتا ہے دوسری طاقتیں الگ میٹھی دیکھتی رہتی ہیں.اور جب دخل دیتی ہیں تو الگ الگ دخل دیتی ہیں.کوئی کسی کے ساتھ ہو جاتی ہے اور کوئی کسی کے ساتھ اور یہ جنگ کو بڑھاتا ہے گھٹاتا نہیں.اگر دوسری طاقتیں آپس میں مل کر بغیر اپنے خیالات کے اظہار کئے کے پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ حکومتوں کی پنچایت کے ذریعہ اس جھگڑے کو طے کیا جائے اور سب مل کر متفقہ طور پر ایک کو نہیں دونوں کو یا جس قدر حکومتیں جھگڑ رہی ہوں سب کو توجہ دلائیں کہ لڑنے کی ضرورت نہیں بین الاقوامی مجلس میں اپنے خیالات پیش کرو.اور انصاف کے اس اصل کو مد نظر رکھیں کہ وہ پہلے سے کوئی خیالات نہ قائم کر لیں جس طرح حج فریقین کی باتیں سننے سے پہلے کوئی رائے قائم نہیں کرتا.پھر دونوں فریق کی بات سن کر ایک فیصلہ کریں جو فریق تسلیم نہ کرے سب مل کر اس سے لڑیں اور جب وہ زہیر ہو جائے تو اس وقت اپنے مطالبات اپنی طرف سے نہ پیش کریں بلکہ پہلے ہی جھگڑے کو سمجھا دیں.کیونکہ اگر ایسے موقع پر شکست خوردہ قوم کو لوٹنے کی تجویز ہوئی اور ہر ایک قوم نے مختلف ناموں سے

Page 75

اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی تو لازما ان فائدہ اُٹھانے والی قوموں میں آپس میں بھی تباغض اور تحاسد بڑھے گا.اور جس قوم کو وہ زیر کرنیگی اس کے ساتھ بھی نیک تعلقات پیدا نہیں ہو سکیں گے.اور مجلس بین الا قوام سے دنیا کی حکومتوں کو سچی ہمدردی بھی پیدا نہ ہو سکے گی.پس چاہتے کہ اس جنگ کے بعد صرف اسی جھگڑے کا تصفیہ ہو جس پر جنگ شروع تھی نہ کہ کسی اور امر کا.اب رہا یہ سوال کہ جو اخراجات جنگ پر ہوں گے وہ کس طرح برداشت کئے جائیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اخراجات جنگ سب قوموں کو خود برداشت کرنے چاہئیں اور یہ بوجھ ہرگز زیادہ نہیں ہوگا.اول تو اس وجہ سے کہ مذکورہ بالا انتظام کی صورت میں جنگیں کم ہو جائیں گی اور کسی قوم کو جنگ کرنے کی جرات نہ ہوگی.دوسرے چونکہ اس انتظام میں خود غرضی اور بوالہوسی کا دخل نہ ہو گا سب اقوام اس کی طرف مائل ہو جائیں گی اور مصادرت جنگ اس قدر تقسیم ہو جائیں گے کہ ان کا بوجھ محسوس نہ ہوگا.تیسرے چونکہ اس انتظام کا فائدہ ہر اک قوم کو پہنچے گا.کیونکہ کوئی قوم نہیں جو جنگ میں مبتلا ہونے کے خطرہ سے محفوظ ہو.اس لیے انجام کو مد نظر رکھتے ہوتے یہ خرج موجودہ اخراجات سے جو تیاری جنگ کی نیت سے حکومتوں کو کرنے پڑتے ہیں کم ہوں گے اور اگر بفرض محال کچھ زائد خرچ کرنا بھی پڑے تو جس طرح افراد کا فرض ہے کہ امن عامہ کے قیام کی خاطر قربانی تحریں اقوام کا بھی فرض ہے کہ قربانی کر کے امن کو قائم رکھیں.وہ اخلاق کی حکومت سے بالا نہیں ہیں بلکہ اس کے ماتحت ہیں.میرے نزدیک سب فساد اسی اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو قرآن کریم کی پیش کردہ تجویز سے کیا جاتا ہے.1- یعنی آپس کے انفرادی سمجھوتوں کی وجہ سے جو پہلے سے کئے ہوئے ہوتے ہیں، حالانکہ ان کی بجاتے سب اقوام کا ایک معاہدہ ہونا چاہیئے.- جھگڑے کو بڑھنے دینے کے سبب سے.حکومتوں کے جنبہ داری کو اختیار کر کے ایک فریق کی حمایت میں دخل دینے کے سبب ہے.۴.شکست کے بعد اس قوم کے حصے بخرے کرنے اور ذاتی فوائد اُٹھانے کی خواہش کے پیدا ہو جانے کے سبب سے.

Page 76

24 - امن عامہ کے لیے قربانی کرنے کے لیے تیار نہ ہونے کے سبب سے.ان پانچوں نقائص کو دور کر دیا جائے تو قرآن کریم کی بتائی ہوتی لیگ آف نیشنز نفتی ہے.اور اصل میں ایسی ہی لیگ کوئی فائدہ بھی دے سکتی ہے.نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لیے لوگوں کی مہربانی کی نگاہوں کی جستجو میں بیٹھی رہے.اصل بات یہ ہے کہ کبھی بین الاقوامی جھگڑ سے دور نہ ہونگے جب تک اقوام بھی اپنے معاملات کی بنیاد اخلاق پر نہ رکھیں گی.جس طرح کہ افراد کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کاموں کی بنیاد اخلاق پر رکھیں اسی طرح حکومتوں کو بھی اخلاق کی نگہداشت کی طرف توجہ دلانی چاہیتے فساد بعض اسباب سے پیدا ہوتے ہیں.پہلے ان کی اصلاح کرنی چاہیئے.پھر خود جھگڑے کم ہو جائیں گے.اور اگر باوجود اس اصلاح کے کسی وقت کوئی جھگڑا پیدا ہو جاتے تو اس کے دور کرنے کے لیے اسلامی اصول پر ایک انجمن اصلاح بنانی چاہیئے جو ان جھگڑوں کا فیصلہ کرے.دہ وجوہ جن سے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں چند اخلاقی نقص ہیں.(۱) یہ کہ حکومتوں اور رعایا کے تعلقات درست نہیں.اگر اسلامی نقطہ نظر کو مد نظر رکھا جائے کہ ہر ایک ملک کی رعایا کا فرض ہے کہ یا تو اس حکومت سے تعاون کرے میں کے ماتحت وہ رہتی ہے یا اس ملک کو چھوڑ کر چلی جائے تا دوسروں کا بھی امن برباد نہ ہو تو کبھی کسی قوم کو دوسری قوم پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہو.کیونکہ کوئی قوم اس امرکو پسند نہیں کرے گی کہ ایک بنجر ملک پر قبضہ کرے.اور (۲) یہ نقص ہے کہ مختلف حکومتوں کو یہ یقین ہے کہ ان کی قومیں صرف اس خیال سے کہ وہ ان کی حکومتیں ہیں ان کا ساتھ دینے کو تیار ہیں.اس لیے وہ بے خوف ہو کر دوسری قوموں پر حملہ کر دیتی ہیں اگر مندرجہ ذیل اصل جسے اسلام نے پیش کیا ہے قبول کیا جائے کہ " تو اپنے بھائی کی مدد کر.اگر وہ مظلوم ہے تو دوسروں کے حکم سے اسے بچا اور اگر وہ ظالم ہے تو اس کو اپنے نفس کے ظلم سے بچا تو جنگوں میں بہت کچھ کی آجاتے.اس وقت قومی تعصب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اپنی قوم کا سوال پیدا ہوتا ہے تو سب لوگ بلا غور کرنے کے ایک آواز بہر جمع ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہماری حکومت کی غلطی ہے تو ہم اس کو سمجھا دیں.غرض ایک طرف غداری اور ایک طرف قومی تعصب جنگوں کا بہت

Page 77

بڑا موجب ہیں.اور ان کا دور ہونا نہایت ضروری ہے.دنیا جب تک اس گر کو نہیں سمجھے گی کہ حب الوطنی اور حُب الانسانیت کے دونوں جذبات ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا.اسلام نے کیا چھوٹے سے فقرے میں اس مضمون کو ادا کیا ہے.انصُرُ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُو ما رمتفق علیہ یعنی تو اپنے بھائی کی خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم مدد کر مظلوم کی اس طرح کہ اسے دوسروں کے حکم سے بچا اور ظالم کی اس طرح کہ تو اس کو ظلم کرنے سے بچا.- کیا لطیف پیرایہ میں حب الوطنی اور محب الانسانیت کے جذبات کو جمع کر دیا ہے.جب کوئی شخص اپنے ہم قوموں کو دوسری قوموں پر ظلم کرنے اور ان کے حقوق غصب کرنے سے روکتا ہے تو وہ حب الوطنی کے خلاف کام نہیں کرتا.کیونکہ اس سے زیادہ حُب الوطنی اور کیا ہو گی کہ اپنے ملک کے نام کو ظلم کے دھبہ سے بچائے اور پھر ساتھ ہی وہ حب الانسانیت کے فرض کو بھی ادا کر رہا ہوتا ہے.کیونکہ وہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ خود زندہ رہو اور دوسروں کو زندہ رہنے دو.(۳) تیرا اخلاقی نقص یہ ہے کہ قومی برتری کا خیال بہت بڑھ گیا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے.لَا يَسْخَرُ قَوْمَ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمُ الحجزت (۱۲۱) کوئی قوم دوسری قوم کو حقیر نہ سمجھے.شاید وہ کل کو اس سے اچھی ہو جاتے اور فرماتا ہے.تِلكَ الأَيَّامُ نُدَاوِ لَهَا بَيْنَ النَّاسِ (آل عمران : ۱۳۱) یہ دن ترقی و تنزل کے بدلتے رہتے ہیں.ایک قوم جو ترقی کی طرف جارہی ہو دوسری قوموں کو حقیر سمجھے کہ فساد کا بیج نہ ڈالے کہ کل شاید اس کی باری آئے جسے آج حقیر سمجھا جا رہا ہے.جب تک کہ لوگ اسلام کی تعلیم کے مطابق یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم سب ایک ہی جنس سے میں اور یہ کہ ترقی تنزل سب قوموں سے لگا ہوا ہے کوئی قوم شروع سے ایک ہی حالت پر نہیں چلی آئی اور نہ آئندہ چلے گی کبھی فساد نہ ہوگا.لوگوں کو یاد رکھنا چاہتے کہ قوموں کو زیر وزیر کرنے والے آتش فشاں مادے دُنیا سے ختم نہیں ہو گئے.نیچر جس طرح پہلے کام کرتی چلی آتی ہے اب بھی کر رہی ہے.پس جو قوم دوسری قوم سے حقارت کا معاملہ کرتی ہے وہ ظلم کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر چلاتی ہے " احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحه ۲۲۸ تا صفحه ۲۳۲ )

Page 78

ان نقائص اور خرابیوں کی وجہ سے جن کا یہاں ذکر کی گیا ہے لیگ آف نیشنز عرصہ ہوا دم توڑ گئی دنیا ایک ہولناک جنگ کی خوفناک تباہی سے دوچار ہوئی لاکھوں جانوں اور کروڑوں کی جائیداد و املاک کو ہوس ملک گہری کے بھیانک دیو کی بھینٹ چڑھا کہ دنیا کے بہترین دماغوں نے یونائیٹڈ مینز قائم کی مگر سے عقل خود اندھی ہے گر نیر الہام نہ ہو ابھی بھی قرآنی تعلیمات پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا.معاہدات میں انصاف کی بجائے جنبہ داری اور دھڑے بندی سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ کے فساد کی بنیاد اور بغض و حسد کی چنگاری پیچھے رہنے دی گئی ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو کسی وقت بھی ایک خوفناک دھماکے کے ساتھ آگ کی شکل میں تبدیل ہو کر اس چکا چوند کرنے والی تہذیب و تمدن اور ساری مایہ ناز ترقیات کو اپنی پیٹ میں لے کر اس طرح بھسم کر سکتی ہے کہ جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو.اس تباہی سے بچنے کے لیے جو ہر وقت دنیا کے سروں پر مسلط ہے وہی رہنما اصول کام آسکتا ہے جو حضور نے ۱۹۷۳ء میں قرآن مجید سے مستقبط کرکے بیان فرمایا تھا.حضرت مصلح موعود نے اس عظیم قرآنی انکشاف پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں جو نظام نو کے نام سے شائع ہو چکی ہے فرمایا : ۱۹۲۴ م قریباً ہر جگہ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو بالشو ازم کے مداح ہوتے ہیں.اس لیے میں نے بالشوازم کی خوبیاں بھی بنادی ہیں اور اس کی خرابیاں بھی بتا دی ہیں.اس طرح دوسری تحریکات کی خوبیاں اور ان کی خامیاں بھی بنا دی ہیں.پس ان پر غور کرو اور تعلیم یافتہ طبقہ سے ان کو لوظ رکھ کر گفتگو کرو.میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دلائل ایسے ہیں جن کا کوئی جواب ان تحریکات کے مؤیدین کے پاس نہیں.دنیا میں اگر امن قائم ہو سکتا ہے تو اسی ذریعہ سے جس کو میں نے آج بیان کیا ہے.اسی طرح آج سے اٹھارہ سال پہلے یہ میں امن عامہ کے قیام کے متعلق خدا تعالیٰ نے میر سے ذریعہ سے کتاب " احمدیت میں ایک عظیم الشان انکشاف کیا.میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ الیسا عظیم الشان اظهار گذشته تیره سو سال میں پہلے مفسرین میں سے کسی نے نہیں کیا.اور یقینا وہ ایسی تعلیم ہے کہ گو اس قسم کا دعوی کرنا میری عادت کے خلاف ہے.مگر میں یقینی طور پر کہ سکتا ہوں کہ اس قسم کا انکشاف سوائے نبیوں اور ان کے خلیفوں کے آج تک کبھی کسی نے نہیں کیا.اگر کیا و تو لاؤ مجھے اس کی نظیر دکھاؤ" ر نظام نوصت

Page 79

یہ مضمون میں تفصیل و بیان کا تقاضا کرتا تھا اس کی وجہ سے اس کی ضخامت اتنی ہوگی کہ کانفرس کے مجوزہ وقت میں اسے بیان کرنا ممکن نہ تھا.چنانچہ حضور نے ایک مختصر مضمون تیار فرمایا.اس کا انگریزی ترجمہ AHMADIYYA MOVEMENT کے نام سے شائع ہوا ) جو اس مجلس میں حضور کے ارشاد به بر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے پڑھا.حضور اپنے تمام رفقا سمیت اس مجلس میں موجود تھے.یہاں اس امر کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جب حضرت چوہدری صاب مضمون پڑھنے کے لیے اُٹھنے لگے تو حضور نے ان کے کان میں فرمایا گھبرانا نہیں میں دعا کروں گا.حضرت چوہدری صاحب جیسے انگریزی زبان پر عبور رکھنے والے مشاق لیکچرار کے لیے یہ الفاظ اور زیادہ خدائی امداد و یقین کا باعث ہوتے اور یہ تقریر تمام سامعین نے ہمہ تن گوش ہو کر سنی.اور مضمون کے خاتمہ پر اجلاس کے صدر مسٹر تھیوڈور مارلین نے اپنے تبصرہ میں کہا کہ : مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرالیا ہے.میں صرف اپنی طرف سے اور حاضرین جلسہ کی طرف مضمون کی خوبی ترتیب ، خوبی خیالات اور اعلی درجہ کے طریق استدلال کے لیے حضرت خلیفہ المسیح کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.حاضرین کے چہرے زبان حال سے میری رائے کے ساتھ متفق ہیں اور مجھے یقین ہے کہ میں ان کی طرف سے شکریہ ادا کرنے میں حق پر ہوں.اور ان کی ترجمانی کر رہا ہوں.ایک مشہور فرانسیسی عالم جو مذاہب کے تقابلی مطالعہ میں بہت مہارت رکھتے تھے.مضمون سُن کر بے ساختہ کہنے لگے "WELL PUT, WELL ARRANGED, WELL DELT." یعنی ، ین و بیان کیاگیا خوب ترتیب دیاگیا اورخوب پیش کی گی.ب اکثر حاضرین کی زبان پر تھا کہ "RARE ADDRESSES, ONE CANNOT HAVE SUCH ADDRESSES EVERY DAY." " ایک نا در خطاب.ایسے اچھوتے مضامین ہر روز سننے میں نہیں آتے.بعض تبصرہ کرنے والوں نے کہا کہ یہ اس زمانہ کا لوتھر (مصلح) معلوم ہوتا ہے اور یہ کہ یہ موقعہ احمدیوں کے لیے ایک ٹرنگ پوائنٹ ہے اور یہ ایسی کامیابی ہے کہ آپ لوگ ہزاروں پونڈ بھی خرچ کر دیتے تو ایسی شہرت !

Page 80

ایسی کامیابی کبھی نہ ہوتی جیسی کہ اس لیکچر کے ذرایہ سے ہوئی ہے.برطانوی پریس میں اس مضمون کا بطور خاص چرچا ہوا.صرف ایک اخبار کے تبصرہ کا ایک حصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے." آپ نے اپنے مضمون کو جس میں زیادہ تر اسلام کی حمایت اور تائید تھی ایک پر جوش اپیل کے ساتھ ختم کیا جس میں انہوں نے حاضرین کو اس نئے مسیح.......کے قبول کرنے کے لیے مدعو کیا.اس بات کا بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس پرچہ کے بعد جس قدر تحسین و خوشنودی کا چیئرز (CHEERS) کے ذریعہ اظہار کیا گیا اس سے پہلے کی پرچھ پر الیسا نہیں کیا گیا تھا.مانچسٹر گارڈین ۲۴ ستمبر ا بحواله الفضل ۱۸/ نومبر) ایک پریس رپورٹر نے دنیا بھر کے پولیس کو مندرجہ ذیل خبر بھجوائی." مرزا بشیر الدین امام جماعت احمدیہ کا مضمون پڑھے جانے پر سر تھیوڈور مارین نے اپنے پریذیڈنشل ریمارکس میں کہا کہ اس سلسلہ (احمدی ) ---- کا پیدا ہونا ثابت کرتا ہے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے - (حضرت) مرزا بشیر الدین نے جن کے ہمراہ بہت سے سبز عماموں والے متبعین تھے فرمایا کہ سلسلہ احمدیہ سلسلہ موسویہ میں سلسلہ عیسویہ کی طرح اسلام میں ایک ضروری اور قدرتی تجدید ہے جس کی غرض کسی نئے (شرعی) قانون کا اجرا نہیں بلکہ اصلی اور حقیقی اسلامی تعلیم کی اشاعت کرنا ہے.اس مضمون پر حضور کا تبصرہ الفضل ۳۰ ستمبر ۹۲ ).....پرانے زمانوں میں لوگ فلسفہ، منطق، احادیث اور تفاسیر اور کیا کیا علوم پڑھتے تھے اور پھر صوفی بنتے تھے.اور روحانی علوم سیکھتے تھے.مگر آج وہ لوگ روحانی علوم رکھتے ہیں جو بظاہر بالکل جاہل ہیں.لوگ جاہل کہے جانے پر ناراض ہوتے ہیں گریں تو خوش ہوتا ہوں کیونکہ جب وہ مجھے جاہل کہتے ہیں تو گویا اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ میں تو خدا تعالیٰ کا ہتھیار ہوں.اور جب اس نے دین کی خدمت کا مجھے موقعہ دیا تو یہ اس کا فضل ہے.اگر میں ان پڑھ ہونے کے باوجود علم کی باتیں بیان کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خُدا نے مجھے چن لیا اور مجھے جاہل کہ کہ میرے مخالف گویا یہ تسلیم کرتے ہیں

Page 81

کہ میری باتیں میری نہیں بلکہ خدا کی سکھائی ہوئی ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جو لوگ حضر مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھتے ہیں وہ مانتے ہیں کہ ان میں بڑا علم ہے.حالانکہ آپ کے دشمن آپ کو جاہل کہتے ہیں.آپ کا درجہ تو بڑا ہے ہم جو آپ کے ادنی خدام میں ہمارے ساتھ بھی اس کا یہی معاملہ ہے.مجھے اپنے اور بیگانے جاہل کہتے چلے آتے ہیں لیکن چند سال ہوئے فرانس کی رائل ایشیا تک سوسائٹی نے جو بہت وقیع سوسائٹی ہے اور جس کی ممبر شپ کا اظہارہ لوگ فخریہ طور پر اپنے ناموں کے ساتھ کرتے ہیں.میری کتاب احمدیت کا حوالہ دے کر اسلام کے متعلق ایک مضمون لکھا اور میری کتاب کے متعلق لکھا کہ اسلام کے متعلق وہ تصنیف اہم ترین ہے.پس میں گو جاہل ہوں مگر ایسی بانسری ہوں جو خدا کے منہ میں ہے.اور خدا تعالی کی آواز پہنچانے والی بانسری کے متعلق کون کہ سکتا ہے نیر لکڑی ہے.حقیر لکڑی بھی خدا تعالی کا آلہ بن کر بڑی قیمتی ہو جاتی ہے.لوگ پرانے بادشاہوں کی تلواروں کو بڑی حفاظت سے رکھتے ہیں حالانکہ وہ کسی خاص لو ہے کی بنی ہوئی نہیں ہوتیں.ان کی فضیلت اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ خاص ہاتھوں میں استعمال کی جاچکی ہیں.پھر جو تلوار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہو اسے فضیلت کیوں نہ ہو گی.بے شک ہے تو وہ لوہا مگر خُدا کے ہاتھ میں ہے.حضرت خالد بن ولید کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سَيفٌ مِن سُيُونِ اللَّهِ کہا تو کوئی نہیں کہ سکتا تھا کہ ان کی پتنگ کی گئی ہے.انہیں لوہا کہا گیا ہے جو بے جان چیز ہے کیونکہ جو لوہا خدا کے ہاتھ میں ہو وہ حقیر نہیں ہو سکتا.اسے خدا نے نوازا ہے نہیں صرف جاہل کہہ دینے سے کچھ نہیں بنتا.دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کام عالموں والے ہیں یا نہیں ہیں.اگر ہیں تو ماننا پڑے گا کہ کسی عالم ہستی کے ساتھ تعلق ہے." ) الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۳۵-) اس کتاب کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور موقعہ پر حضور نے فرمایا : " احمدیت اور دعوۃ الامیر کے بعض حصے ایسے ہیں جن کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ خدائی تائید شامل ہے اور وہ انسانی الفاظ نہیں رہے بلکہ خدا تعالیٰ کے القامہ کردہ الفاظ ہو گئے ہیں.) الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۳۷ -

Page 82

مسجد فضل لندن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سفر یورپ کا مقصد تو ویمبلے کا نفرنس میں شرکت اور اس کانفرنس میں اسلامی نقطہ نظر کا بیان اور اشاعت و تبلیغ تھا جو نمدا تعالیٰ کے فضل سے احسن رنگ میں پورا ہوا اس کا کسی قدر ذکر ان صفحات میں ہو رہا ہے.۱۹ اکتوبر ہ کی تاریخ کو اس سفر کے یادگار دن ہونے کا اعزاز حاصل ہے.جب حضور نے اپنی اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جماعت کے ہزاروں افراد کی دلی دُعاؤں اور نیک خواہشات کے مطابق خدا تعالیٰ کے فضل سے مسجد فضل لندن کی بنیاد رکھی.یہ امر محتاج بیان نہیں کہ لندن کو مرکز تثلیث کی حیثیت حاصل ہے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب نے اپنی تالیف تواریخ مسجد فضل “ میں لندن کی اس حیثیت کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ : "خدا کی شان ہمارے مبلغ بھی گئے تو کس ملک اور قوم کی طرف دیکھ کر حیرت ہوتی ہے یورپ اور پھر یورپ میں انگلستان اور انگلستان میں لندن جہاں وہ لوگ رہتے ہیں جو اپنے آپ کو دنیا و مافیہا سے بالا تر سمجھتے ہیں.جن کے خیالات اور دماغی کیفیات کو آپ ٹولیں گے تو محسوس کریں گے کہ ان کے خمار کو اتارنا کسی انسانی عقل اور کوشش کا کام نہیں.فتوحات کا نشہ عیش و عشرت کا نشہ - آزادی کا نشہ فلسفہ اور سائنس کا نشہ علم و عقل کا نشہ.دنیا کے استاد ہونے کا نشہ پولیٹیکل چالبازی کا نشہ بحری طاقت کا نشہ.بڑی سلطنت کا نشہ ہوائی قوت کا نشہ فیشن کا نشہ جشن وصورت کا نشہ گور سے رنگا نشہ لامذہبی دہریت اور شریعت سے (آزاد) ہونے کا نشہ - عالم پر فرمانروائی کانشہ غرض تمام دنیوی لذات کے نشے ان کے رگ رگ میں سرایت کر گئے ہیں اور اس طرح سرایت کر گتے ہیں کہ ان کا اتارنا سوائے کسی ایسے تریاق کے ممکن ہی نہیں جو خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ہو.ا تواریخ مسجد فضل لندن صدا مسجد فنڈ اور جماعت کا جذبہ قربانی : حضور نے اس مرکز تثلیث میں اپنے مبارک ہاتھوں سے مرکز توحید یعنی مسجد کی بنیاد رکھ کر اس دي

Page 83

اور خدائی منشا ومشیت کا اظہار فرمایا کہ کا سر صلیب کی جماعت کسر صلیب کے سفر پر رواں دواں ہے اور یہ کہ رستہ میں آنے والی کوئی مشکل کوئی طوفان کوئی گھائی اس کے سفر میں روک نہیں بن سکتی اور یہ بھی کہ احمدیوں کی مٹھی بھر کمزور جماعت خدائی فضلوں اور احسانات کی وجہ سے ایسا کامل یقین اور جذبہ رکھتی ہے جو نا کامی و شکست کا نام نہیں جانتا.اس مسجد کی تعمیر کے لیے نہایت مشکل مساعد حالات میں خدا تعالیٰ کے غیر معمولی سلوک کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جنوری کو مستورات میں صبح کے وقت اور اسی دن شام کے وقت مردوں میں اور پھرہ، جنوری کو جمعہ کے خطبہ میں ۳۰۰۰۰ روپے جمع کرنے کی تحریک فرمانی گیارہ تاریخ تک قادیان کی تفریب جماعت کا چندہ بارہ ہزار تک پہنچ گیا.اس غیر معمولی قربانی پر اظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :." اس غریب جماعت سے اس قدر چندہ کی وصولی خاص تائید الہی کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی.اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اس چندہ کے ساتھ شامل ہے ان دنوں میں قادیان کے لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا.اور اس کا وہی لوگ ٹھیک اندازہ کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا ہو مرد اور عورت اور بچے سب ایک خاص نشہ محبت میں چور نظر آتے تھے.کئی عورتوں نے اپنے زیور اتار دیئے اور بہتوں نے ایک دفعہ چندہ دے کہ پھر دوبارہ جوش آنے پر اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا شروع کر دیا.پھر بھی جوش کو دیتا نہ دیکھ کر اپنے وفات یافتہ رشتہ داروں کے نام سے چندہ دیا کیونکہ جوش کا یہ حال تھا کہ ایک بچہ نے جو ایک غریب اور محنتی آدمی کا بیٹا ہے مجھے ساڑھے تیرہ روپے بھیجے کہ مجھے جو پیسے خرچ کے لیے ملتے تھے ان کو میں جمع کرتا رہتا تھا وہ میں سب کے سب اس چندہ کے لیے دیتا ہوں نہ معلوم کن کن اُمنگوں کے ماتحت اس بچے نے وہ پیسے جمع کئے ہوں گے لیکن اس کے مذہبی جوش نے خُدا کی راہ میں ان پیسوں کے ساتھ ان اُمنگوں کو بھی قربان کر دیا.مدرسہ احمدیہ کے غریب طالب علموں نے جو ایک سو سے بھی کم نہیں اور اکثر ان میں سے وظیفہ خوار ہیں ساڑھے تین سو روپے چندہ لکھوایا.ان کی مالی حالت کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کئی ماہ کے لیے اپنی اشد ضروریات کے پورا کرنے سے بھی محرومی اختیار کرلی.......یہ حال عورتوں اور بچوں کا تھا جو بوجہ کم علم یا قلت تجربہ کے دینی ضروریات کا اندازہ پوری طرح

Page 84

نہیں کر سکتے تو مردوں کا کیا حال ہو گا.اس سے خود خیال ک که بری تعداد ایسے آدمیوں کی تھی جنہوں نے اپنی نا زوار آمد بہوں سے زیادہ چندہ لکھوایا....بعض لوگوں کا حال مجھے معلوم ہوا کہ جو کچھ نقد پاس تھا انہوں نے دے ، اور قرض لیکر کھانے پینے کا انتظام کیا.ایک صاحب نے جو بوجہ غربت زیادہ رقم چندہ ، داخل نہیں کر سکتے تھے.نہایت حسرت سے مجھے لکھا کہ میرے پاس اور تو کچھ نہیں میری دکان کو نیلام کر کے چندہ میں دے دیا جائے........لوگوں نے بجائے آہستہ آہستہ ادا کرنے کے زیورات وغیرہ فروخت کر کے اپنے وعدے ادا کر دیتے.( تواریخ مسجد فضل لندن م) اسلامی رواداری : مسجد کی تعمیر سچائی کے ان دشمنوں کا عملی جواب تھا جو جماعت پر محض تعصب اور ضد کی وجہ سے یہ الزام لگاتے ہیں کہ احمدی دوسرے مسلمانوں سے دب کر ان کی کثرت کی وجہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ورنہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے.عیسائی یورپ کے مرکز لندن میں جماعت نے مسجد کی بنیاد رکھی حالانکہ اگر مذکورہ بالا الزام میں بال برابر بھی صداقت ہوتی تو یورپ میں مسجد کی بجائے عیسائیوں سے دب کر گر جا بنایا جاتا.مگر یورپ میں بننے والی یہ مسجد جس کی تعمیر ایک بہت ہی کمزور غریب اور نا قابل ذکر جماعت کے چندہ سے ہو رہی تھی.اعلان تھا اس امرکا کہ اس جماعت کا مقصد وحید اسلامی عظمت کا قیام ہے.اس جماعت کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا میں بلند ہو جس وقت لندن میں مسجد کی بنیاد رکھی جارہی تھی اسی وقت اس تقریب کے بابرکت ہونے کے لیے حضرت مولانا شیر علی صاحب کی قیادت میں قادیان کی جماعت اور دنیا بھر کی جماعتیں انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ اجتماعی دُعا کر رہی تھی.حضرت فضل عمرہ نے مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے سے قبل اسلامی رواداری اور امن و سلامتی کی عالمگیر تعلیم کے مطابق مندرجہ ذیل عظیم الشان اعلان فرمایا : پیشتر اس کے کہ میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھوں.میں اس امر کا اعلان کرنا چاہتا ہوں که یه مسجد صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنائی جاتی ہے تاکہ دنیای خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور لوگ مذہب کی طرف جس کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں متوجہ ہوں اور ہم کسی شخص کو جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہیے ہرگز اس میں عبادت کرنے سے

Page 85

AB نہیں روکیں گے بشرطیکہ وہ ان قواعد کی پابندی کرے جو اس کے منتظم انتظام کے لیے مقرر کریں اور بشر طیکہ وہ ان لوگوں کی عبادت میں محل نہ ہوں جو اپنی مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس مسجد کو بناتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رواداری کی روح جو اس مسجد کے ذریعہ سے پیدا کی جاوے گی دُنیا سے فتنہ و فساد دور کرنے اور امن و امان کے قیام میں بہت مدد دے گی اور وہ دن جلد آجائیں گے جبکہ لوگ جنگ و جدال کو ترک کر کے محبت اور پیار سے آپس میں رہیں گے.اور سب دنیا اس امر کو محسوس کرے گی کہ جب سب بنی نوع انسان کا خالق ایک ہی ہے تو ان کو آپس میں بھائیوں اور بہنوں سے بھی زیادہ محبت اور پیار سے رہنا چاہیئے اور بجائے ایک دوسرے کی ترقی میں روک بننے کے ایک دوسرے کو ترقی کرنے کے لیے مدد دینی چاہیئے..در حقیقت گل جھگڑے خدا تعالیٰ سے دُوری کا نتیجہ میں اور حضرت مسیح موعود علی الصلاة والسلام بانی جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اسی غرض سے دُنیا میں بھیجا ہے کہ وہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کریں تا کہ اہمی اختلافات پر سے نظر ہٹ کر موجبات اتحاد کی طرف لوگوں کی توجہ پھر جاتے پس جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی تمام ان نسلی جنگوں اور سیاسی جنگوں کو مٹانے میں کوشاں رہے گی.ہم امید کرتے ہیں کہ ہر ملک و مذہب کے نیک دل لوگ ان کوششوں، میں اس کے مدد گار ہوں گے.الفضل ۲۰ نومبر ۲۳ ( حضور نے اس یاد گار تقریب کے موقع پر جو کتبہ مسجد کی دیوار میں اپنے دست مبارک سے نصب فرمایا اس پر مندرجہ ذیل دعائیہ کلمات اردو اور انگریزی ہر دو زبانوں میں درج تھے.اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ لسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيم هُوَ ا لن خُدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اصر قُلْ إِنَّ صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ جس کا مرکز قادیان (پنجاب) ہندوستان ہے.خدا کی رضا کے حصول کے لیے اور اس غرض سے کہ خدا کا ذکر

Page 86

AN انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو نہیں ملی ہے.آج 19 ربیع الاول ۱۳۳۳ ہجری المقدس کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس ادنی کوشش کو قبول فرما دوسے اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لیے اس مسجد کو نیکی تقوی ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بناتے اور یہ جگہ حضرت محمدمصطفیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعود نبی الله بروز نائب محمد علی الصلوۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لیے روحانی سورج کا کام دے.اے خدا ایسا ہی کر ۱۹ار اکتوبر ۱۹۲۳ افتتاح : الفضل ۱۵ نومبر 11 ۱۹ ) کم و بیش دو سال کے عرصہ میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی اور اس کے افتتاح کی تیاریاں شروع ہوئیں ویسے تومسجد کے افتتاح کی کسی رسمی تقریب کی ضرورت نہیں ہوتی تاہم تبلیغی نقطہ نظر سے اس مسجد کو وسیع پیمانہ پر متعارف کرانے کے لیے افتتاح کی تقریب کا اہتمام کیا گیا.اس سلسلہ میں کئی مسلم اکابرین کے ناموں میں سے خادم حرمین شاہ سعود کے ولی عہد امیر فیصل کو اس غرض سے مدعو کیا گیا جنہوں نے بخوشی اس تقریب میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے لندن کا سفر اختیار کیا.جماعت انگلستان اور دوسرے مسلمانوں نے شہزادہ موصوف کا لندن پہنچنے پر شاندار استقبال کیا تاہم شہزادہ صاحب کسی غلط فہمی کی وجہ سے تقریب افتتاح میں شامل نہ ہوتے اور خدائی منشاء مصلحت کے مطابق لیگ آف نیشنز میں ہندوستان کے نمائندہ خان بہادر شیخ عبد القادر صاحب روزیر پنجاب پریزیڈنٹ یجسلیٹو کونسل کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ آپ نے اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - - یکی جرات سے اس خیال کا اظہار کرتا ہوں کہ ہمیں اس کام کو فرقہ بندی کے کسی تنگ پیمانہ سے نہیں ناپنا چاہتے بلکہ اس پر کمال فراخ حوصلگی اور وسعت قلبی سے نظر ڈالنی چاہیئے.میں جب مغربی لوگوں کی پاک فطرت کے سامنے اسلام کے احکام کو رکھنے اور اس کی خوبیوں کے اظہار کی اشد ترین ضرورت کا اندازہ لگاتا ہوں تو مجھے مختلف فرقوں کے اختلاف ایسے معلوم ہوتے ہیں جو آسانی سے نظر انداز کئے جاسکتے ہیں.کسی مذہب کے متعلق استقدر غلط فہمیاں نہیں پھیلائی گئیں اور اس کو اتنا بدنام نہں کیا گیا

Page 87

AL وہ جتنا اسلام کو کیا گیا ہے.ہ سلمان جو اپنے دل میں دین کی خدمت کرنے کی امنگ رکھتا ہے اور اس کے پاس اس کے لیے ضروری سامان اور علم بھی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ مغربی لوگوں پر اسلام کی اصل حقیقت کو آشکارا کرے........اسلام کے مضبوط اور غیر متزلزل اصولوں کا یہ ثبوت ہے کہ اس نے زمانہ کے اثرات اور اس کی تباہ کن کوششوں کا خوب دلیری سے مقابلہ کیا ہے اور اب بھی اس کی مضبوط بنیادوں کی یہ حالت ہے کہ اسلام کی وسیع عمارت کو صدمہ پہنچائے بغیر کسی زہریلے اثرات کا مقابلہ کر سکتی ہے.مجھے یقین ہے کہ جزائر برطانیہ کے رہنے والے مسلمان اور خصوصاً جولندن کے رہنے والے ہیں وہ فرقہ بندی کے اختلافات سے اپنے آپ کو بالا قرار دیتے ہوئے اپنے ہم مذہبوں کے ایک گروہ کثیر کے لیے قابل تقلید نمونہ پیش کریں گے.مجھے امید ہے کہ وہ اس مسجد کے وجود سے جو اسلام کے اصولوں پر روشنی ڈالنے کے لیے عیسائیت کے مرکز میں بنائی گئی ہے پورا فائدہ اُٹھائیں گے.......اب یہ بات اس ملک کے طالب علموں.پیشہ وروں تاجروں اور مبلغوں کے اختیار میں ہے جو اسلام کی نمائندگی کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے ہونہار فرزند ہونے کا ثبوت دیں یا اس کو بدنام کرنے والے ہوں.ان لوگوں کی اخلاقی اور روحانی حالت کا اندازہ ان کی روزمرہ کی زندگی کے حالات ان کے ایفائے عہد فرائض کی ادائیگی اور بنی نوع انسان سے دوستانہ سلوک سے لگایا جائے گا اور اسی سے ان کی مذہبی تعلیم کا اندازہ ہو سکے گا.یہاں پر ایک مسجد بنا کر اور اس طرح مسلمانوں کی سوسائٹی کا ایک مرکزی نقطہ قائم کرکے ہمیں اپنے ایمانوں کی آزمائش کا موقعہ ملا ہے.اب ہمارے نفس پر اسلام اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرض ہے کہ ہم اس آزمائش میں پورا اتریں " ( تواریخ مسجد فضل صفحه ۶۷-۶۸) مها را جه بردوان نے جو اس تقریب میں شامل تھے اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ : سچے ہندوؤں اور بچے مسلمانوں کے دل صاف ہیں جیسا کہ میرے دوست سر عبد القادر) خان بہادر آف پنجاب نے فرمایا کہ با وجود دوسرے اسلامی فرقہ کے ساتھ تعلق رکھنے کے میں نے یہاں آنا اور اس مسجد کی رسم افتتاح ادا کرنا جو کہ اس ملک میں احمدیہ سلسلہ کی انتہائی کامیابی کو ظاہر کر رہی ہے اپنا فرض خیال کیا ویسے ہی اسی جوش اور اسی روح کے ساتھ میں بھی بحیثیت ایک غیر مسلم ہونے کے کھڑا ہوا ہوں کہ میں احمدیوں کو اس بہت بڑے کام کے لندن میں

Page 88

سرانجام دینے پر مبارکبا د عرض کروں.ر تواریخ مسجد فضل منگ اسی طرح مها را خیر الور کی طرف سے پیغام ملا کہ : ہنزہائی نس آپ کو اور آپ کی جماعت کو دلی مبارکباد دیتے ہیں کہ آپ نے مسجد کے نام سے ایک عبادت گاہ بنائی ہے جہاں ہم سب کے محبوب اور مشترک رب العالمین کا ذکر و ( تواریخ مسجد فضل مد ) عبادت ہوگی " حضرت فضل عمران نے اس تاریخی تقریب پر بذریعه نار مندرجہ ذیل پیغام ارسال فرما با جو اس تقریب میں پڑھ کر سنایا گیا.ہم لوگوں کا مقصد اس مرکز توحید میں بیٹھ کر محبت اور اخلاص کے ساتھ واحد خدا کی پرستش کا رائج کرنا اور اس کی محبت کو قائم کرنا ہوگا ہم مذاہب سے منافرت اور تباغض کو دور کر کے تحقیق کی سچی روح کو پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور اخلاق کی درستی اور نظلم کے مثانے کی سعی کریں گے.آقا اور نوکر گورے اور کالے مشرقی اور مغربی کے درمیان تعلقات اخلاص اور حقیقی مساوات جس میں جائز فوقیتوں کا تسلیم کرنا شامل ہوگا ہمارا مقصد ہوگا........اسے بھائیو ! دنیا شرک ، بے دینی ، خدا سے بے توجہی ملکی تباغش، قومی تنافر اور جماعتی کش مکشوں کی جولان گاہ ہو رہی ہے.پس ہر ایک جو خدا تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی غفلت سے بیدار ہو اور خدا کے نام پر بناتے ہوئے گھروں کو بے دینی اور شقاق کا مرکز بنانے کی بجائے توحید اور اتحاد کا مرکز بنائے.آؤ ہم سب مل کر توحید کو حیں پر سب کا اتفاق ہے قائم کریں.ہم لوگوں کے اندر یہ روح پیدا کریں کہ وہ تعصب سے آزاد ہو کر جو سب سے بڑا ئیت ہے خُدائے واحد کی دیانت داری سے جستجو کریں اور خواہ وہ کسی مذہب میں ہو اسے قبول کرلیں.ہم اس خدا کی طرف نہ جھکیں جو ہمارے دماغوں نے پیدا کیا ہے کیونکہ خواہ ہم اس کا نام کچھ رکھیں وہ ایک بہت ہے بلکہ اس خدا کی طرف جھکیں کہ جو سب دنیا کا خالق ہے جس کے جلوسے دنیا کے ہر ذرے میں نظر آتے ہیں جو اپنی زندہ طاقتیں ہمیشہ اپنے مقدسوں کے ذریعہ سے ظاہر کرتا رہتا ہے.اور پھر اس مشرق و مغرب کے خدا پر ایمان لاتے ہوئے یہ کوشش کریں کہ دنیا میں امن و امان قائم ہو.ایک ملک کے اندرونی

Page 89

19 نظام میں بھی اور مختلف ممالک کے درمیان بھی.ہماری بڑائی اس میں نہ ہو کہ ہم اپنے مال اور طاقت کے ذریعہ سے لوگوں کو زیر کریں نہ اس میں کہ ہم اپنے جتھے کے ذریعہ سے لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کریں بلکہ ہماری بڑائی کمزور پر رحم کرنے اور حق دار کو اس کا حق دینے میں ہی ہو.اسے خدا ! تیرا جلال دنیا میں ظاہر ہو اور یسجد تیرے نام کو بلند کرنے اور تیرے بندوں کے دلوں میں محبت و اخلاص پیدا کرنے کا ایک بڑا مرکز ہو.آمین ! ) الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۲۶ ) اس عظیم تاریخی مرکز توحید کے افتتاح کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- اس مسجد کے افتتاح میں بڑے بڑے لوگ شامل ہوتے.تین لارڈ تیرہ مبر بارہ منٹ اور مختلف ممالک کے سفراء وزراء نواب اور دیگر معزز اور سر بر آوردہ لوگوں نے ایک کافی تعداد میں شمولیت اختیار کی اور نہ صرف یہ کہ شمولیت ہی اختیار کی بلکہ ان اعلیٰ طبقہ کے لوگوں نے پرلے درجے کی دلچسپی بھی لی اور خوشی محسوس کی.بعض نے تو کام کرنے میں بھی فخر سمجھا اور بڑے شوق سے انہوں نے ہر کام میں حصہ لیا پھر ہندوستان کے بڑے بڑے لوگ بھی اس میں شامل ہوئے حتی کہ مہا راجہ بردوان بھی شامل ہوتے جنہوں نے اس موقعہ پر تقریر کرنے کی اجازت مانگی اور خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ گو میں ہندو ہوں مگر میں اس میں شامل ہونا اپنا فرض سمجھتا ہوں.پھر گیارہ حکومتوں کے قائم مقام بھی اس موقعہ پر آتے.جرمنی.اٹلی چین وغیرہ ملکوں کے وزیر بھی تھے.اخراجات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.------- مکان اور زمین پر ستر ہزار کے قریب خرچ ہوا ہے.ساٹھ ہزار مسجد کی تعمیر اور سامان وغیرہ پر صرف ہوا.ستر ہزاز وہاں تجارت پر لگا ہوا ہے جو اس لیے وہاں لگایا گیا ہے کہ اس کے نفع سے وہاں کے مشن کے اخراجات پورے کئے جائیں.ساٹھ ستر ہزارہ کی زمین قادیان میں موجود ہے.پس جس محنت محبت اور دانائی کے ساتھ یہ روپیہ خرچ کیا گیا ہے اگر اس سے کام نہ لیا جاتا تو اس سارے روپے سے جو ہمیں دیا گیا اتنا کام بھی نہ ہوتا جتنا کہ اب ہوا ہے.....پس یہ کام نہایت ہی اخلاص اور دیانت داری ! اور کے ساتھ کیا گیا ہے.....".اسی ضمن میں حضور نے ارشاد فرمایا :-

Page 90

۹۰ انگلستان کے اخبار نویسوں اور دیگر سر بر آوردہ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اگر ہم دو کروڑ روپیہ بھی خرچ کرتے تو اتنی اشاعت نہ ہوئی جتنی اب ہو گئی ہے بلکہ بعض نے تو ی بھی کہا کہ دو کروڑ روپیہ نہیں دو کروڑ پونڈ بھی یہ کام نہ کرتا جو اس رو پیر نے کر دیا جو اس مسجد بہ پر خرچ ہوا" الفضل 9 نومبر ) مرکز تثلیث میں خانہ خدا کی تعمیر کی توفیق پانے کا ایک اور پہلو سے ذکر کرتے ہوئے حضرت فضل عمرہ فرماتے ہیں :." پندرہ سال سے مسلمان کوشش کر رہے تھے مسلمان حکومتیں ان کی تائید میں تھیں.دولت مند لوگ اس کے لیے تیار تھے مگر باوجود ان سب باتوں کے وہ کچھ نہ کر سکے اور کوئی مسجد وہاں کھڑی نہ کرسکے لیکن احمدی قوم نے جب اس کام کا بیڑا اٹھی تو کام کر لیا اور ایک مسجد وہاں مکمل کر دی.سلطان عبد الحمید ترکی کے سابق بادشاہ ہندوستان کے روساء اور دوسری مسلمان سلطنتیں اور مسلمان امراء سب ہی اس کی تائید میں تھے کہ ضرور لندن میں ایک مسجد بنانی چاہئے.مگر وہ باوجود ہرقسم کے سامان ہونے کے نہ بنا سکے ، لیکن احمدیوں نے جب اس مسجد کا ارادہ کیا تو اسے کوئی دیر نہ لگی.کلکتہ کے انگلشمین نے بھی یہی لکھا ہے کہ مسلمانوں کی ہیں پچیس سال کی کوشش تھی حکومتیں بھی اس خیال میں تھیں ، لیکن احمدیوں کو اس میں کامیابی ہوئی اور انہوں نے جب ارادہ کیا کہ ایک مسجد لندن میں بنانی چاہیئے تو فوراً بنا لی " الفضل 9 نومبر ة ) اس با برکت تقریب کا پریس میں بھی خوب چرچا ہوا.ایونگ سٹینڈرڈ.ڈیلی میل.ڈیلی ایکو - ڈیلی ایمپریس.ویسٹ منسٹر گزٹ - برسٹل ایوننگ نیوز- ریفری - ایونگ سٹینڈرڈ ٹائمز - ابزرور ڈیلی ٹیلی گراف.ڈیلی کرانیکل.مارننگ پوسٹ ناردرن ایکو ساؤتھ ویلیز نیوز - یارک شائر پوسٹ.مانچسٹر گارڈین وغیرہ بلند پایہ اخبارات نے اس تقریب کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا بلکہ بعض اخبارات رجین میں ٹائمز بھی شامل تھا، نے اس تقریب کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایک سے زیادہ دفعہ اسکے متعلق لکھا.مسجد کے افتتاح اور جماعت کو اس مہتم بالشان واقعہ سے کما حقہ فائدہ اٹھا نے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت فضل عمرہ فرماتے ہیں :......اس تقریب اور اس شاندار افتتاح پر جس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیامیں ایک دید

Page 91

۹۱ تہلکہ اور زلزلہ برپا کر دیا ہے اور ایک شور پیدا کر دیا ہے اور اس کی طرف تمام دنیا کی نگاہیں اُٹھا دی ہیں.اس سے پہلے ایسی شاندار تقریب کبھی انگلستان کی تاریخ میں نظر نہیں آتی.چنانچہ یورپ کے بڑے بڑے اخباروں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ انگلستان میں اس قسم کا عظیم الشان نظارہ عیسائی مذہب کی تقریب پر بھی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا.یہ ان لوگوں کی آواز ہے جو انگلستان کے عیسائی ہیں ایک تو وہ لوگ انگلستان کے رہنے والے پھر عیسائی اور عیسائی بھی پختہ اور اس کے ساتھ متعصب اور قومی تعصب میں بھی تمام دنیا کے عیسائیوں سے بڑھے ہوتے ہیں اور اس تعصب کے باعث کبھی کوئی عجیب بات کسی اور قوم کی طرف منسوب ہونا پسند نہیں کرتے.باوجود ان باتوں کے پھر ولایت کے بڑے بڑے اخبار والوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ بھی کوئی ایسا شاندار اجتماع اور اس قدر دیپی رکھنے والی تقریب اس سے پہلے انگلستان میں نظر نہیں آتی......پھر صرف انگلستان میں ہی اس افتتاح کا چرچا نہیں بلکہ تمام ملکوں اور تمام زبانوں میں اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے........بعض اخباروں میں تین تین دن تک افتتاح کی خبروں کا تا نا لگارہا یورپ کے اخباروں کی طاقت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ایک ایک خبر کے شائع کرنے میں سبقت کرنے کے لیے ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں اور پھر ایک دفعہ شائع ہونے کے بعد دوسری دفعہ وہ کبھی شائع نہیں کرتے ------ لیکن افتتاح مسجد کے متعلق ولایت کے ایک ایک اخبار مثلاً ٹائمز جیسے اخبار نے بھی تین دن متواتر خبریں درج کیں اور یہ نہیں خیال کیا کہ اب یہ خبر پرانی ہو گئی ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انگلستان کے ہر گھر میں مسجد کے متعلق ایک شور پڑا ہوا ہے.اور چرچا ہو رہا ہے " اس کے بعد حضور نے جماعت کو بہت مؤثر و دلنشیں انداز میں انگریزی زبان میں معیاری ٹریچر تیار کرنے.مالی خدمت میں زیادہ با قاعدگی اختیار کرنے اور زیادہ مستعدی و محنت سے کام لیتے ہوئے دُعاؤں میں لگے رہنے کی تلقین فرمائی.تواریخ مسجد فضل من ) جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے امیر فصل کسی غلط فہمی کی وجہ سے افتتاح کی تقریب میں تو شامل نہ ہو سکے تاہم بعد میں غلط فہمی رفع ہونے پر وہ مسجد میں تشریف لاتے جیسا کہ ذیل کی خبر سے ظاہر ہے.نار جولائی ۱۹۳۵ء کو ولی عہد شہزادہ امیر سعود مسجد فضل لندن میں تشریف لائے

Page 92

امام مسجد الندان حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد نے آپ کے اعزاز میں ایک دعوت استقبالیہ دی جس میں امریکہ برازیل میکسیکو اور عرب کے سفراء کے علاوہ سر عبدالقادر اور پروفیسر گب جیسی نامور شخصیتیں بھی شامل ہوئیں.امیر سعود دو گھنٹے تک مسجد میں موجود رہے اور انگریز نومسلموں سے عربی زبان میں نماز سنگر اور ان کی دستی تحریریں دیکھ کر بہت خوش ہوتے " : الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۳۵ مسجد کی افادیت کا ایک خاص پہلو حضرت مولانا شیر علی صاحب نے جو قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کے سلسلہ میں انگلستان تشریف لے گئے تھے مسجد فضل لندن کی افادیت پر اس زمانہ میں ایک مضمون لکھا تھا جو ذیل میں پیش کیا جاتا ہے " خدا تعالیٰ کے فضل سے مسجد فضل لندن کا وجود بھی تبلیغ کا ایک زبر دست ذریعہ ثابت ہو رہا ہے.جو لوگ بیرونی ممالک مثلاً ممالک یورپ - افریقہ ایشیا - امریکہ اور جزائر سے سیر کے لیے لندن آتے ہیں کئی ان میں سے مسجد کے دیکھنے کے لیے آجاتے ہیں اور بعض ان میں سے نہایت تعلیم یافتہ اور سمجھدار آدمی ہوتے ہیں اور بیرونی ممالک کے علاوہ خود انگلستان کے مختلف شہروں کے آدمی جب لندن آتے ہیں تو بعض ان میں سے مسجد کو دیکھنے کے لیے آجاتے ہیں.گویا ہماری مسجد اب لندن کے قابلِ دید مقامات میں سے ہو جیکی ہے اور لندن کی جو گائیڈ بکس سیاحوں کی راہنمائی کے لیے بنی ہوتی ہیں ان میں ہماری مسجد کا بھی ذکر ہے مسجد کی شہرت کا ایک باعث وہ جلسے ہیں جو وقتا فوقتا مسجد میں نہایت کامیابی کے ساتھ کئے جاتے ہیں جن میں لندن کے ہر طبقہ کے نامی آدمی شریک ہوتے ہیں.اور جن کا ذکر لندن کے مختلف اخبارات میں شائع ہوتا ہے.کچھ عرصہ ہوا انگلستان کے ایک قصبہ کا ایک بوڑھا آدمی مسجد میں آیا اس نے کہا کہ میرا یہ دستور العمل ہے کہ جب مجھے فرصت ملتی ہے تو میں لندن آجاتا ہوں اور لندن کا کوئی نہ کوئی مشہور مقام دیکھتا ہوں اور اس مقام کے متعلق لٹریچر خرید کر کے اپنے ساتھ لے جاتا ہوں.میں نے اپنے گھر میں ایک لائبریری بنائی ہوئی ہے جس میں دلچسپ معلومات می شتمل کتا میں جمع کرتا ہوں.کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک اخبار میں اس مسجد کا فوٹو اور حالات دیکھے تھے اور اس وقت میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کی دفعہ جب میں لندن جاؤں گا تو اس مسجد کو جا کر دیکھوں گا.گذشتہ سال ایک صاحب آئے انہوں نے کہا کہ میں ایک کتاب تصنیف کر رہا ہوں جس میں لندن کی عجیب چیزوں کے

Page 93

۹۳ حالات جمع کر رہا ہوں.میں اس کتاب میں اس مسجد کے متعلق اور اسلامی طریق عبادت اور اسلامی تعلیم کے متعلق بھی کچھ لکھنا چاہتا ہوں.چنانچہ اس نے ضروری حالات جمع کئے.اور اپنے مضمون کا مسودہ درد صاحب کے پاس بغرض اصلاح بھیجا.افراد کے علاوہ بعض سوسائیٹیوں کے مبر ملکر بھی مسجد میں آتے ہیں.اور نہایت دلچسپی کے ساتھ سلسلہ کے حالات اور اسلامی تعلیم کا ذکر سنتے ہیں اور سیسوسائیٹیاں صرف لندن سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ بیرونی ممالک سے بھی تعلق رکھتی ہیں.اور اس طرح اس جگہ کے مبلغ صرف انگلستان میں ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی احسن طور پر تبلیغ کا حق ادا کر رہے ہیں.اس کی ایک دلچسپ مثال جرمنی کے طلباء کی پارٹی ہے جو ہر سال انگلستان میں ایک رنگ کا علمی دورہ کرنے کے لیے آتے ہیں.یہ مختلف سکولوں سے آتے ہیں اور ہر سال عموماً نئے طالب علم ہوتے ہیں.ان کے ساتھ ان کے استاد اور استانیاں بھی ہوتی ہیں اور با قاعدہ انتظام کے ساتھ لندن اور دوسرے مقامات کا دورہ کرتے ہیں.یہ اچھی پختہ عمر کے نوجوان ہوتے ہیں.میری موجودگی میں ایسی پارٹیاں دو دفعہ آتی ہیں یہاں کے ایک ہیڈ ماسٹر درد صاحب کے گہرے دوست ہیں.اور وہ ایسی پارٹیوں کے مسجد میں لانے کے محرک ہوتے ہیں.ان کو راور ایسا ہی دوسری سوسائیٹیوں کے ممبروں کو مسجد دیکھ کر طبعاً اسلام اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق دلچسپی پیدا ہوتی ہے.اور ان کی اس دلچسپی سے پورا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اس سال ان جرمن طالب علموں کی پارٹی ۲۰ جولائی کو مسجد میں آئی.درد صاحب نے ان کو پہلے سے چائے کی دعوت دی ہوئی تھی.چائے کے موقعہ پر درد صاحب نے ایسا انتظام کیا کہ ہر میز پہ ایک احمدی دوست بٹھا دیا تا کہ دوران گفتگو میں وہ ان کو سلسلہ اور اسلام کے متعلق تبلیغ کریں اور چونکہ ان جرمن سٹوڈنٹس میں عورتیں بھی تھیں.اس لیے تبلیغ کرنے والوں میں بعض ہماری نو مسلم خواتین بھی شامل تھیں.ہر ایک نے اپنے اپنے دائرہ میں تبلیغ کی.جس کے نتیجہ میں بعض کو اسلام سے خاص دلچسپی بھی پیدا ہو گئی.چنانچہ ان میں سے ایک صاحب نے ہمارے ایک دوست سے وعدہ کیا کہ میں کل پھر مسجد میں آؤں گا.اور اسلام کے متعلق مزید معلومات حاصل کروں گا.چنانچہ دوسرے دن وہ خود بھی آیا اور اپنے ایک دوست کو بھی ساتھ لایا.اور ہمارے احمدی دوست نے اور درد صاحب نے بہت دیر تک ان سے گفتگو کی.اور وہ

Page 94

۹۴ جاتے ہوئے کچھ لٹریچر بھی لے گئے.ان سٹوڈنٹس میں سے کئی ایک نے خط و کتابت کیلئے ان دوستوںکو اپنا پتہ بھی دیا اور ان کا پتہ خود لکھ لیا.اور دوسرا طریق درد صاحب نے ایک نیا تجویز کیا جو حاضرین کے لیے دلچسپی کا موجب بھی ہوا اور اس طرح تبلیغ بھی ہو گئی.آپ نے جرمن سٹوڈنٹس کو مخاطب ہو کہ کہا کہ اس جگہ مختلف زبانیں جاننے والے دوست موجود ہیں.آپ لوگوں کے لیے انہیں اپنی اپنی بولی میں تقریر کرتے ہوئے سُننا دلچسپی کا موجب ہو گا.پس ان دوستوں میں سے بعض اپنی اپنی زبان میں تقریر کریں بعد میں وہ خود یا میں انگریزی زبان میں ان تقریروں کا ترجمہ کر دوں گا.سب نے اس تجویز کو پسند کیا.چنانچہ اپنے دوستوں میں سے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے پنجابی میں.مولوی جلال الدین صاحب شمس نے عربی میں.میر عبدالسلام صاحب نے اردو میں اور ایک کینیا کے دوست نے افریقہ کی سواحیلی زبان میں تقریریں کیں.اور ان میں سے بعض نے خود بعد میں اپنی تقریر کا مضمون انگریزی میں بیان کیا.اور بعض کی تقریر کا جناب درد صاحب نے انگریزی میں ترجمہ کیا.اور خود بھی انگریزی میں تقریر کی.اور ان سب تقریروں میں تبلیغ کے مقصد کو مدنظر رکھا گیا.چنانچہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنی تقریر میں اس بات کو واضح کیا کہ آج تمام قوموں میں صلح اور محبت صرف مذہب کے ذریعہ قائم ہو سکتی ہے.اور وہ مذہب جو ایسی صلح اور محبت قائم کر سکتا ہے اسلام ہے.ان سب تقریروں کا جواب ایک جرمن خاتون نے جرمن زبان میں دیا.اس کے بعد جناب در و صاحب نے ہر ایک کو احمدیہ الہم کی ایک ایک کاپی بطور تحفہ دی جو انہوں نے بڑی خوشی سے قبول کی.یہ کتاب بھی ایک قسم کا آئینہ ہے جس سے انسان سلسلہ احمدیہ کی بڑھتی ہوئی ترقی کا ایک حد تک اندازہ لگا سکتا ہے.یہ تحفہ بھی اور تبلیغ کا ذریعہ بھی ہے.اس کے بعد انہوں نے مسجد کے اندر جاکر مسجد کو دیکھا اور اسلام کے متعلق مزید معلومات حاصل کیں.ایک نومسلم خاتون سلیمہ نامی نے جو قادیان بھی گذشتہ سالانہ جلسہ کے موقعہ پر پہنچ گئی تھی.اس وقت جرمن خواتین کو اچھی طرح تبلیغ کی اور رب وار دین ایک نیک اثر لے کر رخصت ہوئے.اس موقعہ پر جن احمدی احباب کو ان جزین سٹوڈنٹس سے تعارف حاصل ہوا.اگر وہ خط وکتابت کے ذریعہ اس تعارف سے فائدہ اُٹھائیں تو بہتر نتائج پیدا ہونے کی توقع ہو سکتی ہے.سٹوڈنٹس کی تعداد ۷۵ کے قریب

Page 95

۹۵ تھی.مسجد لندن نہ صرف لوگوں کے لیے ایک زبر دست کشش کا ذریعہ ہے بلکہ اس کا وجود خود ایک تبلیغ مجسم ہے جس اسلامی تعلیم کو ہمارے مبلغ الفاظ کے ذریعہ لوگوں کے آگے پیش کرتے ہیں مسجد تصویری زبان میں اس کا ایک نمونہ ہے میں تبلیغ کے مقصد میں مسجد لندن بڑی ممد و معاون ہے.وہ خود ایک مستقل مبلغ ہے اور اس کا وجود نہایت مبارک ہے.ر الفضل ۲۸ اگست ۹۳۷له ) ر اس مرکز توحید کے ذریعہ تبلیغ و اشاعت اسلام اور مسلمانوں کی تربیت کے وہ نا قابل فراموش عظیم کام سرانجام پائے جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے.اور تو اور برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد اسی مسجد میں رکھی گئی.جب قائد اعظم محمد علی جناح نے جو ایک عرصہ سے دل شکستہ و مایوس ہو کر لندن میں ہی رہائش پذیر ہو چکے تھے.مولانا عبدالرحیم صاحب درد امام مسجد لندن کے متواتر و پیم اصرار سے اپنی سیاسی زندگی کا پھر سے آغاز کرتے ہوئے پہلی تقریر اس مسجد میں کی جس کا سارا انتظام امام رضا موصوف نے کیا تھا اور جس کا ذکر برٹش پریس نے بھی کیا.اور یہ امرکسی بھی باخبر پاکستانی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ یہی آغاز جو مسجد فضل لندن سے ہوا تھا.مسلمانوں کی امیدوں کے مرکز پاکستان کے قیام پر مسیح ہوا.ر اس امر کی تفصیل حضرت مصلح موعوضو کی ملی وسیاسی خدمات کے تذکرہ میں آگے آئے گی انشاء الله اس مسجد کے ذریعہ جو تبلیغی اور رفاہی خدمات انجام پائیں اور اکابرین امت نے اس مرکز کی غیر معمولی اسلامی خدمات کو جو خراج تحسین پیش کیا اور پھر موجودہ زمانہ میں حضرت امیرالمومنین خلیفہ مسیح الرائع ایدہ اللہ تعالیٰ کے وہاں قیام کی وجہ سے خدمت و ترقی کے جو نئے افق سامنے آرہے ہیں وہ ایک مستقل اور مفصل تصنیف کے متقاضی ہیں.البتہ یہاں یہ امر بہت نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے کہ ء میں اس مسجد کی بنیاد رکھتے ہوئے خدا کے ایک مقرب بندے نے خاص قبولیت کی گھڑی میں کہا تھا کہ : خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرماتے اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لیے اس مسجد کو نیکی.تقویٰ.انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیهما الصلوۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک میں اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے رو

Page 96

کے لیے روحانی سورج کا کام دے کا یہ دُعا بڑی شان سے پوری ہو رہی ہے اور تبلیغ واشاعت کے جہاد اکبر کو جبران کن اور مسرت انگیز وسعتیں حاصل ہو رہی ہیں.الحمد لله - اللهم زد فزد.رو

Page 97

ند 94 سفر یورپ اے میرے خدا جو میرا حقیقی باپ اور آسمانی باپ ہے مجھے اپنے بچوں کی فکر نہیں کہ وہ یتیم رہ جائیں گے مجھے اس کی فکر ہے کہ وہ جماعت جو سینکڑوں سال کے بعد تیرے مامور نے بنائی تھی وہ تیم ) حضرت مصلح موعود ) رہ جائے گی.۲۲ ر تاریخ ۱۹۵۵

Page 98

سفر یورپ برائے علاج ایک نظر میں ۲۶ فروری بیماری کا حملہ ۲۳ مارچ ۱۹۵۵.نو بجے صبح بذریعہ کا ر لاہور لمبی پر سوز دعا.دو بکرے بطور صدقہ - ام المومنین کے مزار پر دعا.۲۶ مارچ بذریعہ خیبرمیں روانگی برائے کراچی.۱۴ اپریل بیماری کے بعد نماز ظہر و عصر پڑھائی.۱۵ را پریل پیلا مختصر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.۲۹/۳۰ اپریل کی درمیانی شب..K کے ذریعہ کراچی سے دشق.روانگی کے وقت ربوہ میں اجتماعی دُعا.۳۰ ر ا پریل - دمشق مئی.دمشق سے بیروت.دمشق کی جماعت کے بعض مخلصین نے بطور مشایعت بیروت تک جانے کی سعادت حاصل کی.بیروت ائر پورٹ پر حضور کی انگلی کار کے دروازہ میں اگر زخمی ہو گئی.د رمتی - بیروت سے ایتھنز - روم قریباً بارہ بجے جنیوا.و رمئی.ایک بجے زیورک (ٹرین) امتی پروفیسر روسیو PROSSIER - زیورک کے ہسپتال KANTOSPITZEL - ۱۲ رمتی ہو میو ڈاکٹر گیزل GiSEL ۳۰ مئی.ڈاکٹر شمٹ ہو میو پیتھ سے مشورہ کے لیے جنیوا اور یکم کو واپس زیورک در جون - سوئیس ۳۰۷ پر انگریزی میں انٹرویو شیخ ناصر احمد صاحب نے ترجمہ کیا.۱۰ رجون - بذریعہ کار لوگانو (سوئٹزر لینڈ ) ادر جون - ونیس (اٹلی) ۱۴ جون - ومیں سے اننتز بردک (آسٹریا ) ۱۵ جون - آسٹریا سے جرمنی 4 بجے (نیور نبرگ ) رجون کو نیور نبرگ سے روانہ ہوتے.

Page 99

۱۸ر جون - پانچ بجے ہیگ.۹۹ ۱۹- ۲۴ جون قیام ہالینڈ اور پھر جرمنی ۲۵ جون - ہیمبرگ پہنچے.۲۶ جون ہیمبرگ یونیورسٹی کے پروفیسر PROF.DR.N.PE THE معائنہ کیا.نے حضور کا مکمل تور جون ہیمبرگ گورنمنٹ کے نمائندگان کے استقبالیہ میں تشریف لے گئے.PROF.DR JUNPER سے مشورہ - ۲۹ جون جماعت کی طرف سے استقبالیہ - بذریعہ ہوائی جہاز ایگ.۳- جولائی ہیگ سے لندن ۲۴ اگست - حضور کے قافلہ کا ایک حصہ کراچی پہنچ گیا.۲۵ - اگست - لندن کے ایک اجتماع سے جس میں لندن کے میر - پاکستان کے ہائی کمشنر پارلیمنٹ کے ممبر اور بہت سی ممتاز شخصیتوں نے شرکت کی خطاب فرمایا.۲۶ اگست - لندن سے واپسی کا سفر شروع ہوا.۲۷ اگست - زیورچ - ۲۸ کو الوداعی مجلس میں خطاب فرمایا.۲۹ اگست ڈاکٹر روز ویر نے آخری معائنہ کر کے حضور کی صحت کو تسلی بخش قرار دیا.۳۱ را گست - اسلام کی روح اور اس کے بنیادی اصول پر ایک علمی ادارہ میں تقریر فرمائی.۵ ستمبر کو کراچی.اصل پروگرام میں واپسی منگل کو تھی اور کسی خدائی مصلحت کے تحت پروگرام میں تبدیلی ہوگئی اور حضور پیر کو مع الخیر کراچی پہنچے اور اس طرح " دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ خدائی کلام ایک دفعہ پر پورا ہوا.حضور کی بیماری : حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو جماعت کی شاندار قیادت کرتے چالیس سال سے زیادہ کا لیا زمانہ گذر چکا تھا.جو غیر معمولی مصروفیات اور عظیم ذمہ داریوں کا زمانہ تھا.جماعتی ترقی کی طرف ایک چوکس کشتی بان کی طرح جس کی کشتی طوفان کی زد میں ہو ہر وقت نظر رکھنا.تربیتی امور کے متعلق رہنمائی کرنا تبلیغ کی مہم کو آگے سے آگے چلانا.دنیا بھر میں ہونے والی بالعموم اور دنیا کے اسلام میں ہونے والی بالخصوص تمام تبدیلیوں پر نظر رکھنا.موقعہ کے مطابق ہمدردی ، نصیحت، غم خواری سے کام لینا ایسا کام تھا جو

Page 100

ایک انسان کی ہمت وطاقت سے بہت بڑھ کر تھا.اس کے ساتھ ہی ساتھ حضور کی عام صحت جو بچپن سے ہی کمزور چلی آتی تھی اور پھر شاہ کا قاتلانہ جملہ ان سارے امور پر یکجائی نظر ڈالنے سے ہی نظر آتا ہے کہ جلد جلد بڑھنے والا یہ ذہین و فهیم وجود ایک خاص قرب کے مقام پر فائز ہے.تاہم بتقاضائے بشریت ۲۶ فروری شاہ مغرب کے وقت حضور پر اعصابی کمزوری.گھبراہٹ اور بائیں طرف بے حسی کا حملہ ہوا.حضرت سیدہ ام متین نے جو اس وقت حضور کے ہمراہ تھیں بمشکل حضور کو چارپائی پر لٹایا.حضرت صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے فوری طور پر حضور کو طبی امداد ہم پہنچائی.نو بجے رات تک بیماری کی ان علامات میں قدرے تخفیف ہوئی ، تاہم لاہور سے ڈاکٹراسلم پیر زادہ نے کوئی ایک بجے رات ربوہ پہنچ کر حضور کا معائنہ کیا اور علاج تجویز کیا.ان کے علاوہ خانصاحب ڈاکٹر محمد یوسف صاحب.ڈاکٹر کرنل الہی بخش صاحب نے بھی علاج میں حصہ لیا.پیشاب اور خون کے بعض ٹیسٹوں کے لیے ڈاکٹر غلام محمد صاحب انچارج کلینکل لیبارٹری میوہسپتال کی خدمات کی ضرورت پڑی تو انہوں نے بڑی توجہ اور ہمدردی سے یہ خدمات سرانجام دیں.ہر احمدی حضور کی صحت کے لیے مسلسل دُعاؤں میں مصروف تھا.بیرون ملک بھی جماعتوں نے اس خبر کو اسی طرح سنا اور ہر جگہ صدقات دینے اور خصوصی اجتماعی دعاؤں کا التزام و اہتمام کیا گیا.ڈاکٹری مشورہ : بیماری کی نوعیت اور حضور کی عام صحت بالخصوص قاتلانہ حملے کی شدت کو دیکھتے ہوتے بہت پریشانی اور گھراہٹ تھی.تاہم مومنوں کی گریہ وزاری اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کا ذریعہ بنی اور حضور کی بیماری میں افاقہ ہونے لگا اور تمام علامات میں آہستہ آہستہ تخفیف ہونے لگی تاہم ڈاکٹروں نے غالباً یہ دیکھتے ہوئے کہ حضور کی ذمہ داریوں اور کام کی نوعیت ایسی ہے کہ حضور یہاں رہتے ہوئے ضروری آرام نہیں کر سکتے.حضور کو بغرض علاج و آرام یورپ یا امریکہ جانے کا مشورہ دیا.اس سے قبل جماعت کے نمائندگان حضور کو بغرض علاج یورپ تشریف لے جانے کی درخواست بھی کر چکے تھے حضور اپنے ایک پر کیف پیغام میں بیماری کی تفصیل اور ڈاکٹری مشورہ کا ذکر کرنے کے بعد جماعت سے غیر معمولی لگاؤ اور محبت اور خدا تعالیٰ پر توکل و اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں." ہر انسان جو پیدا ہوا ہے.اس نے مرنا ہے.اُن گھڑیوں میں جب میں محسوس کرتا تھا کہ میرا دل ڈوبا کہ ڈوبا.مجھے یہ غم نہیں تھا کہ میں اس دنیا کو چھوڑ رہا ہوں.مجھے یہ غم تھا کہ میں آپ لوگوں کو چھوڑ رہا ہوں.اور مجھے یہ نظر آ رہا تھا کہ ابھی ہماری جماعت میں وہ آدمی

Page 101

H نہیں پیدا ہوا.جو آپ کی نگرانی ایک باپ کی شکل میں کرے.میرا دماغ بوجھ نہیں برداشت کر سکتا تھا مگر اس وقت میں برابر یہ دعا کرتا رہا کہ اے میرے خدا جو میرا حقیقی باپ اور آسمانی باپ ہے مجھے اپنے بچوں کی فکر نہیں کہ وہ قیم رہ جائیں گے.مجھے اس کی فکر ہے کہ وہ جماعت جو سینکڑوں سال کے بعد تیرے مامور نے بنائی تھی.وہ قیم رہ جائے گی.اگر تو مجھے نیستی دلا دے کہ ان کے یتیم کا میں انتظام کر دوں گا.تو پھر میری یہ تکلیف کی گھڑیاں سہل ہو جائیں گی.مگر تو مجھ سے یہ کس طرح اُمید کر سکتا ہے کہ یہ لاکھوں روحانی بچے جو تو نے مجھے پیتے ہیں.جن کے دشمن چپے چپے پر دنیا میں موجود ہیں.اور جن کو ختم کرنے کے لیے ہر وقت شیطانی نیزے اُٹھ رہے ہیں.جب میرے بعد ان نیزوں کو اپنی چھاتی پر کھانے والا کوئی نہیں رہے گا تو تو ہی بتا کہ میں اس بات کو کسی طرح برداشت کر لوں.مجھے موت کا ڈر نہیں.مجھے اُن لوگوں کے تقسیم ہو جانے کا ڈر ہے جنہوں نے تیرے نام کو روشن کرنے کے لیے پچاس سال متواتر قربانیاں کیں.ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا.دنیا نے ان کو کمائی سے محروم کر دیا تھا.پھر بھی وہ ہر اس آوازہ پر آگے بڑھے جو تیرے نام کے روشن کرنے کے لیے میں نے اُٹھائی تھی.اب اسے میرے وفا دار آقا ! تجھے تیری ہی وفاداری کی قسم دیتا ہوں.ان کمزوروں نے اپنی کمزوریوں کے باوجود تجھ سے وفاداری کی.تو طاقتور ہوتے ہوئے ان سے بے وفائی نہ کیجیو کہ یہ بات تیری شان کے شایاں نہیں.اور تیری پاکیزہ صفات کے مطابق نہیں.میں ان لوگوں کو تیری امانت میں دیتا ہوں اسے سب امینوں سے بڑے امین - اس امانت میں خیانت نہ کیجیو.اور اس امانت کو پوری وفاداری کے ساتھ سنبھال کر رکھیو.ڈاکٹر مجھے کہتے ہیں حکومت کرو لیکن میں اس امانت کا فکر کس طرح نہ کروں جسے میں نے پچاس سال سے زیادہ عرصہ تک اپنے سینہ میں چھپائے رکھا اور ہر عزیز ترین شے سے زیادہ عزیز سمجھا.اے میرے عزیزو! تم سے کوتاہیاں بھی صادر ہوئیں.تم سے قصور بھی ہوتے بگریں نے یہ دیکھا کہ ہمیشہ ہی خدا تعالی کی آواز پر تم نے لبیک کہا.تم موت کی وادیوں میں سے گزر کر بھی خدا تعالیٰ کی طرف دوڑتے رہے ہو.مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں نہیں چھوڑے گا.خدا تعالیٰ تمہیں بے کسی اور بے بسی کی موت نہیں دے گا......ہمارا خدا سچا خدا ہے.زندہ خدا ہے.وفادار خدا ہے.تم ہمیشہ اس پر توکل رکھو.اور اس دعا کے

Page 102

١٠٢ الشبانه طریقہ کو یاد رکھو جو میں نے اوپر بیان کیا ہے.میں نے ساری عمر جیب بھی اس رنگ میں اخلاص کے ساتھ دعا کی ہے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس دعا کے قبول ہونے میں دیر ہوئی ہو.اگر تم اس رنگ میں اپنے رب سے محبت کرو گے اور اس کی طرف جھکو گے تو وہ ہمیشہ تمہاری مدد کے لیے آسمان سے اترتا رہے گا.ایک دولت میں تمہیں دیتا ہوں.ایسی دولت جو کبھی ختم نہیں ہو گی.ایک علاج میں تمہیں عطا کرتا ہوں وہ علاج جو کسی بیماری میں خطا نہیں کرے گا.ایک عصا میں تمہارے حوالے کرتا ہوں.ایسا عصا جو تمہاری عمر کی انتہائی کمزوری میں بھی تمہیں سہارا دے گا.اور تمہاری کمر کو سیدھا کر دیگا.اسے خُدا تو اپنے ان بندوں کے ساتھ ہو.جب انہوں نے میری آواز پر لبیک کمی تو انہوں نے میری آواز پر لبیک نہیں کی بلکہ تیری آواز پر لبیک کہی.اسے وفادار اور صادق الوعد خدا.اسے وفادار اور پیچھے وعدوں والے خدا تو ہمیشہ ان کے اور ان کی اولادوں کے ساتھ رہیو اور ان کو کبھی نہ چھوڑ یو.دشمن ان پر کبھی غالب نہ آئے اور یہ بھی اسی مایوسی کا دن نہ دیکھیں جس میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں سب سہاروں سے محروم ہوگیا ہوں.یہ ہمیشہ محسوس کریں کہ تو ان کے دل میں بیٹھا ہے.ان کے دماغ میں بیٹھا ہے اور ان کے پہلو میں کھڑا ہے.اللهم آمین.بعض ڈاکٹر جو زیادہ ماہر نہیں ہیں وہ تو میرے جانے پر گھبراتے ہیں مگر ماہر ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ جلدی جاؤ اور جلدی آؤ.بہر حال شخص کے مرتبہ کے مطابق اس کی بات پر یقین کیا جاتا ہے.میں ان ماہرین کی رائے پر اعتبار کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے جاتا ہوں.خدا کرے میرا یہ سفر صرف میرے لیے نہ ہو بلکہ اسلام کے لیے ہو اور خدا کے دین کے لیے ہو.اور خدا کرے کہ میری عدم موجودگی میں تم غم نہ دیکھو.اور جب میں لوٹوں تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت میرے بھی ساتھ ہو اور تمہارے بھی ساتھ ہو.ہم سب خدا کی گود میں ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے پاس کھڑے ہوں.مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ۲۱/۳/۵۵ الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۵۵

Page 103

ایک شبہ کا ازالہ : اس لیے اور اہم سفر پر جاتے ہوئے ایک انتہائی بیدار مغز رہنما کی طرح حضور کی جماعت کی تربیت کی طرف پوری توجہ تھی اور غیر حاضری کے زمانہ میں پیدا ہونے والی امکانی خرابیوں کوبھی ذہن میں رکھتے ہوئے حضور نے ان کے متعلق مختلف مواقع پر اپنے پیغامات کے ذریعہ ہدایات دیں.ان اہم پیغامات میں سے ایک ایسا پیغام جس میں نصیحت اور انتباہ کے علاوہ حضور کی قیادت کے بعض اہم کام نہایت اختصار سے خود حضور کی اپنی زبان مبارک سے بیان ہوتے ہیں درج ذیل ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض مفسد اور شر پسند لوگ یہ مشہور کر رہے ہیں کہ گویا میرا بیوی بچوں کو ساتھ لیکر جانا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ گویا میرے نزدیک ربوہ خدا نخواستہ اب تباہ ہونے والا ہے.جو احمدی یا خیر احمدی یہ خیال رکھتا ہے وہ خود تباہ ہونے والا ہے.ربوہ تباہ ہونے والا نہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے شرارتی لوگوں کو ذلیل اور رسوا کر دے گا.اور وہ اس تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے میں تباہی.کی انہوں نے ربوہ اور اس کے رہنے والوں کے متعلق خبر دی تھی.اس نظارہ کو دیکھنے کے بعد کہ قادیان کی تمام آبادی کو میں بحفاظت نکال کرنے آیا.اور کئی سال تک ہے مسلمانی میں ان کے کھانے پینے کا سامان کیا اور سینکڑوں احمدیوں کی لاکھوں روپے کی امانتیں بجھات ان کے گھروں تک پہنچا دیں اور یہ دیکھتے ہوئے کہ باوجود ہرقسم کی مخالفت کے اور کلی بے سامانی کے میں نے ہزاروں آدمیوں کو ربوہ میں بسا دیا اور کالج اور سکول بھی بنوا دیئے اور زنانہ کالج بھی بنوا دیا جو قادیان میں نہیں تھا اور پختہ دفتر بھی بنوا دیئے جو قادیان میں نہیں تھے اور خدا کے فضل سے پختہ جامعتہ المبشرین بھی بن رہا ہے.ان تمام باتوں کو دیکھنے کے بعد اگر کوئی احمدی یہ خیال کرتا ہے کہ میں ربوہ چھوڑ کر بھاگ گیا ہوں اور ربوہ تباہ ہونے والا ہے تو اس بدبخت کو کوئی زمینی طاقت نہیں بچا سکتی.کیونکہ میں نے خدا تعالیٰ کو دیکھ کہ انکا ر کیا اس کے دل میں ایمان اور دماغ میں عقل کوئی شخص نہیں پیدا کر سکتا.میں جب انسان ہوں تو بیماری سے بالا نہیں اور جب میں ایسی بیماری میں مبتلا ہوں جس کے متعلق چھ سات چوٹی کے ڈاکٹروں نے کہا ہے جو احمدی نہیں تھے کہ یہ محنت شاقہ ا نتیجہ ہے بلکہ ایک ڈاکٹر نے تو یہ بھی کہا کہ اگر میرا بس چلتا تو میں دو سال پہلے ان کو پکڑ کر نکال دیتا کہ کیوں انہوں نے جبراً آپ کو کام سے نہیں روکا.پس ان منافقین کے

Page 104

اعتراضوں کا یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی خلیفہ محنت کرتے کرتے بیمار ہو جاتے تو اس کو یہ بھی اجازت نہیں کہ وہ علاج کے لیے باہر جاتے اور اگر وہ باہر جاتے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ جماعت کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے.اگر ان خبیثوں کے اعتراض میں کوئی صداقت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خلافت ایک لعنت ہے.مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میرے با ہر علاج کرانے سے مجھے کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں مگر مجھے اس بات کا یقینی علم ہے کہ جن منافق احمدیوں کے دل میں ایسا خیال گذرا ہے ان کے گھروں کو خدا تعالی برباد کر کے چھوڑے گا.اور وہ ربوہ کی موجودگی اور ترقی میں اپنے گھروں کو برباد ہوتے دیکھیں گے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں سارے کارکن نکال کر اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ دو ڈاکٹر میرے ساتھ جارہے ہیں، لیکن ایک مزید ڈاکٹر کو ربوہ کے کام کے لیے میں نے خدمات وقف کرنے کے لیے آمادہ کیا ہے اور وہ اس وقت ربوہ میں کام کر رہا ہے.جو دو ڈاکٹر میں اپنے ساتھ لے جارہا ہوں ان میں سے ایک میرا بیٹا ہے جس کو میں نے اپنے خرچ سے پڑھوا کر احمدیہ جماعت کے لیے وقف کیا جب کہ سینکڑوں دوسرے ڈاکٹر اس خرچ پر دو مہینے کے لیے بھی آنے کو تیار نہیں تھے.اگران معترضین کے دل میں دیانت ہے تو آٹھ سال کے لیے نہیں صرف چھ چھ مینے کے لیے اپنے رشتہ داروں کو خدمت جماعت کے لیے لے آئیں اور منور احمد سے دگنا گذارہ لے لیں.اب بھی میں اسے اپنے خرچ پر لے جا رہا ہوں تاکہ وہاں و بڑے بڑے ہسپتالوں میں نئی دریافتیں سیکھ کر آئے اور ربوہ پہنچ کر جماعت کی خدمت کرے پس اس کا لے جانا بھی آپ لوگوں پر احسان ہے کیونکہ اس کا خرچ میں خود دے رہا ہوں اور اس کے علم کا فائدہ آپ کو پہنچے گا.جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے دنیا کے آخر میں جنت بھی قریب آجائے گی اور دوزخ بھی قریب آجائے گی.میں نے ساری عمر کوشش کی کہ قریب آتی ہوئی جنت میں تم داخل ہو جاؤ.اگر تم میں سے بعض پھر بھی دوزخ ہی میں گھسنے کی کوشش کریں تو میں حسرت بھرے دل سے انا للہ ہی پڑھ سکتا ہوں اور کیا کر سکتا ہوں خدا تعالیٰ تمہاری آنکھیں کھولے اور ان دشمنوں کی بھی آنکھیں کھولے جو احمدیت پر جھوٹے

Page 105

۱۰۵ اعتراض کرتے ہیں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی از کراچی ۱۸/۴/۵۵ " الفضل ۲۳ را پریل شسته ) سفر کی غرض و غایت : ظاہر ہے حضور کا یہ سر علاج و آرام کی غرض سے تھا.مگر جیساکہ حضور کی زندگی کا ہرلمحہ یہ بتاتا ہے کہ آپ کا سارا آرام و سکون تبلیغ و ترقی اسلام سے وابستہ تھا.اسی طرح اس موقع پر بھی یہ وصف خاص نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے.حضور حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے نام خط میں بیماری اور بیرونِ ملک بغرض علاج جانے کے مشورہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنے سفر کی غرض و غایت رحصول صحت و زندگی سے بھی زیادہ ) علیہ اسلام کے کام کی توفیق پانا سمجھتے ہیں حضور فرماتے ہیں :- مجھے جس دن فالج کا حملہ ہوا تھا اس سے ایک یا دو روز قبل آپ کو خط لکھ چکا ہوں اُمید ہے کہ مل گیا ہو گا.اس دوران میں آپ نے اخباروں میں پڑھ لیا ہوگا کہ مجھ پر فالج کا حملہ ہوا.اور اب میں پاخانہ پیشاب کے لیے بھی امداد کا محتاج ہوتا ہوں.دو قدم بھی چل نہیں سکتا.گذشتہ سال دوستوں نے مشورہ کیا تھا کہ امریکہ علاج کے لیے جانا چاہیئے.اور انہوں نے مل کر شوری میں بھی ایک چندہ کی سکیم بنائی تھی..بیماری کے اس حملہ کے بعد زندگی کا تو سوال نہیں رہا.کیونکہ زندگی کوئی اہم چیز نہیں ہے.سوال یہ پیدا ہوگیا کہ میرا دماغ بیکار ہو گیا ہے.نہ میں سوچ سکتا ہوں نہ میں تفصیلی طور پر کوئی سکیم اسلام کی فتح کی بنا سکتا ہوں.نہ تفسیر لکھ سکتا ہوں.اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں یورپ ہو آؤں.تاکہ میں کام کے قابل ہو جاؤں.ایسی حالت میں میں بیوی بچوں کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا.اس لیے سب کو ساتھ ہی لیے جا رہا ہوں.انشاء اللہ.لوگوں کی نگاہ میں اتنے بڑے قافلہ کو لے جانا عجیب معلوم ہوتا ہے جگر میرا یقین ہے کہ وہ عجیب خدا ان حالات میں بھی میرے لیے عجائب ہی دکھائے گا.انشاء اللہ مشکلات رائی کائی ہو جائیں گی.آسمان گرائے گا اور زمین اگاتے گی اور خدا کے فرشتے ہر جگہ پر انتظام کرتے پھریں گے.کیونکہ آخر وہ میرے دوست اور ساتھی ہیں.خدا تعالیٰ نے

Page 106

ہمارے درمیان دوستی اور بھائی چارہ پیدا کیا ہے پس آسمان پر جبرائیل اور زمین پر جبرائیل کے مظہر میرے کام میں لگیں گے.پھر مجھے فکر کس بات کی ہو.فکریں عارضی آتی ہیں.مگر خدا تعالیٰ ان فکروں کو بھی نرم کر دے گا.....انشاء اللہ میں اس سفر میں آپ کے خاندان کو دعاؤں میں یاد رکھوں گا.آپ میری زندگی کے سفر کے ساتھی ہیں.پھر میں آپ کو کس طرح بھول سکتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس اللہ تعالیٰ نے سیٹھ عبد الرحمن الہ رکھا مدراسی کی شکل میں اپنے فرشتے بھجواتے تھے.میرے پاس اللہ تعالیٰ نے آپ کی شکل میں فرشتے بھجواتے ہیں.اس لیے لازما جب بھی کوئی فرشتہ آئے گا.تو آپ کو یاد کرا جاتے گا کیونکہ بھائی بھائی اور دوست دوستوں کو یاد رکھتے ہیں.جن کو خدا علاقے ان کا رشتہ کوئی نہیں توڑ سکتا.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد میں بھی آپ جیسا اخلاص پیدا کرے بلکہ آپ سے بھی بڑھ کر اور جو دنیوی برکات آپ کو اور آپ کے بھائیوں کو نصیب ہوئی تھیں.وہ آپ کی اولاد کی طرف منتقل ہو جائیں اللہ تعالی احد بھائی مرحوم کی اہلیہ مکرمہ کو بھی صبر جمیل عطا فرماتے.اور ان کی اولاد پر بھی بڑے فضل کرے.اور ان کو اپنی ماں بہنوں کی خدمت کی توفیق بخشے.تا ان کے باپ کی روح خوش رہے ؟ " ہندوستان کی جماعت کا خیال رکھیں.آپ کی طبیعت میں جو شرم و حیا ہے اس کی وجہ.سے میں آپ پر کام کی بڑی ذمہ داری نہیں ڈالتا.مگر وقت آگیا ہے کہ آپ آگے آکر جماعت کو مضبوط کریں اور مرکز قادیان کو مضبوط کرنے کی سعی فرمائیں.میں نے اپنا ایک بیٹا اس وادی غیر ذی زرع میں بسا دیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو کام کی توفیق دے.اور آپ دونوں مل کر اس وسیع ملک کے باوا آدم ثابت ہوں.ایک دن آنے والا ہے کہ ان ملکوں میں آپ لوگوں ہی کی روحانی اور جسمانی نسل ہوگی.آپ نے ہمیشہ میرے ساتھ وفاداری کا سلوک کیا.حالانکہ آپ انسان اور کمزور تھے.خدا تعالیٰ جو طاقتور اور مالک سازوسامان ہے وہ کس طرح آپ سے بے وفائی کر سکتا ہے اگر وہ آپ سے بے وفائی کرے گا تو گویا مجھے سے بے وفائی کرے گا.مگر مجھ سے بے وفائی نہ پہلے اس نے کی نہ آئندہ کرے گا.وہ میر دائیں بھی باتیں بھی آگے بھی پیچھے بھی سر کے اوپر تھی اور دل کے اندر بھی ہے.ہر ایک شخص جو میری طرف ہاتھ بڑھاتا ہے.خدا کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے.اور جو مجھ پر زبان چلاتا ہے خدا کی طرف چلاتا ہے.اس کی ماں اسے نہ جنتی تو اچھا تھا.اس کی دردناک

Page 107

حالت پر فرشتے رحم کریں.1·4 و شخط مرز امحمود احمد 1900, الفضل ۷ ار مارچ ۱۹۵۵ ) اس تاریخی سفر میں مندرجہ ذیل افراد خاندان واحباب جماعت کو حضور کے ہمراہ جانے کی سعادت حاصل ہوئی.حضور کی بیگمات ، حضرت سیدہ ام ناصر مرحومه حضرت سیده ام وسیم مرحومه حضرت سید اتم من صاحبه حضرت سیده در آپاشان مکرم صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (وکیل التبشير - محرم بیگم صاحبہ صاحبزاده مرا مبارک احمد صاحب - محترمہ صاحبزادی عائشه صاحبه بنت صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب - مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب - مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی) مکرم صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب - مکرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب مکرم صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب - مکرم میردا و و احمد (مرحوم) محترمہ صاجزادی امتہ الباسط صاحب بیگم میر داؤد احمد مرحوم - محترم صاحبزادہ قمر سلیمان صاحب - محترمہ صاحبزادی امتها الجمیل صاحبہ محترمہ صاحبزادی امته المتین صاحبہ - حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب معالج خاص مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ قائم مقام پرائیویٹ سیکرٹری محرم چوہدری محمد شریف اشرف صاحب اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری مکرم کیپٹن محمد حسین صاحب چیمه افسر حفاظت مکرم بابا رحم دین صاحب رانہیں حضور کے پہلے سفر یورپ میں بھی خدمت کی سعادت حاصل ہوئی تھی.) حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اس سفر میں اپنے طور پر حضور کے ہمراہ رہے اور خوب خدمت کی.مکرم میر محمود احمد صاحب اس وقت انگلستان میں موجود تھے اور انہیں بھی حضور کی معیت کی سعادت حاصل رہی.اس خوش قسمت قافلہ میں سے مندرجہ ذیل آٹھ افراد تو کراچی سے دمشق اور پھر باقی سفر میں حضور کے ہمراہ رہے مگر دوسرے اصحاب قافلہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی زیر امارت کراچی براه راست لندن گئے اور وہاں حضور کے ہمراہ رہے.حضرت سیده ام متین صاحبہ - حضرت سیده مهر آیا صاحبه محترمه صاجزادی امتہ المتین صاحبه محترمہ صاحبزادی امتہ الجمیل صاحبہ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب - حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاب

Page 108

مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه - مکرم کیپٹن محمدحسین چیمہ صاحب - قائم مقام امیر اور ناظرا علیٰ کا تقرر.حضرت مصلح موعود نے اس اہم اور لیے سفر پر جاتے ہوئے جماعتی انتظام کے متعلق مندرجہ ذیل ہدایات جاری فرمائیں."میں چونکہ بیماری کے علاج کے لیے یورپ جارہا ہوں.اس لیے میری غیر حاضری میں قائم مقام امیر مرزا بشیر احمد صاحب اور ناظر اعلی اختر صاحب (میاں غلام محمد اختر) ہونگے.تحریک اور صدر انجمن کے تعاون اور صحیح کام کے لیے میں نے کچھ ہدایات دے دی ہیں.میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ میں نے جو نئے ناظر اعلیٰ اور مقامی امیر مقرر کہتے ہیں ان کی بھی تمام افسر اطاعت کرینگے.اور ان سے تعاون کریں گے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ تا احکام ثانی صدر انجین احمدیہ سے تعلق رکھنے والے تمام کاموں میں صدر انجین کا حکم آخری ہوگا.اور تحریک جدید سے متعلقہ تمام کاموں میں تحریک جدید کا فیصلہ آخری سمجھا جائے گا میں اُمید کرتا ہوں کہ ہر ایک افسر اور ہر ایک انجمن بغیر جنبہ داری اور بغیر رعایت کے اور بغیر دوستی کے خیال کے اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کریگی.قادیان سے تعلق رکھنے والے سب امور میں صدر انجمن قادیان کا حکم آخرتی ہوگا.مگر اس کی نگرانی کا حتی میاں بشیر احمد صاحب کو ہو گا مگر وہ کسی شخص کو وہاں سے آنے کی اجازت نہیں دے سکیں گے.یہ فیصلہ ہر حال میری زندگی میں مجھ سے تعلق رکھے گا " مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ۱۸/۳/۵۵ ) الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۵۵) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے بعض نہایت ضروری اور اہم پیغامات : ۱- برادران ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته جیسا کہ آپ کو معلوم ہے.گذشتہ ہفتہ ۲۶ فروری کو مغرب کے قریب مجھ پر بائیں طرف فالج کا حملہ ہوا.اور تھوڑے سے وقت کے لیے میں ہاتھ پاؤں چلانے سے معذور ہو گیا.پہلے ڈاکٹروں کا خیال ہوا کہ شاید کہ CEREBERAL THROMEOS کا حملہ ہوا ہے

Page 109

1-9 یعنی بعض شریانوں میں خون منجمد ہو گیا اور جوخون دماغ کو غذا پہنچا تا ہے اور جس سے فکر انسانی ور عقل انسانی پیدا ہوتے ہیں.اس کی کمی کی وجہ سے دماغ کا عمل معطل ہوگیا اور دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا.مگر بعد میں دوسرے ماہر ڈاکٹر جو لاہور سے بلوائے گئے.انہوں نے راتے ظاہر کی کہ یہ حملہ اتنی جلد گذر گیا ہے کہ یہی سمجھنا چاہتے کہ دماغ کی رگ پھٹی نہیں اور نہ ہی دماغ یا دل کے THROM Bosis کا حملہ ہوا ہے بلکہ صرف بعض خون کی رگیں سکڑ گئیں.(VASO SPASIN) اور ان کی وجہ سے دماغ کو خوراک پہنچنی بند ہوگئی ہے.ان ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ چند ہفتوں میں دماغی حالت اپنے معمول پر آجاتے گی ، لیکن اب تک جو ترقی ہوتی ہے اس کی رفتار اتنی تیز نہیں.پہلے دن تو میں کسی چیز کو اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑ نہیں سکتا تھا.ہاتھ ڈالتا کہیں تھا اور پڑتا کہیں تھا اب ہاتھ کی جس میں یہ تبدیلی پیدا ہو گئی ہے کہ جس چیز کو پکڑنے کا ارادہ کرتا ہوں اس تک ہاتھ پہنچ جاتا ہے یعنی فاصلہ اور جہت کا اندازہ ٹھیک ہونے لگ گیا ہے.مگر اس بیماری میں لیٹے رہنے کی وجہ سے پاؤں میں کمزوری محسوس ہوتی ہے.آدمیوں کے سہار سے ایک دو قدم چل سکتا ہوں.مگر وہ بھی مشکل سے اور چلنے سے پیر لڑکھڑا جاتے ہیں.اور گھٹنوں میں درد معلوم ہوتی ہے.دماغ اور زبان کی کیفیت ایسی ہے کہ یں تھوڑی دیر کے لیے بھی خطبہ نہیں دے سکتا اور ڈاکٹروں نے دماغی کاموں سے قطعی طور پر منع کر دیا ہے.حتی کہ معمولی ملاقاتوں سے بھی ان کے خیال میں مجھے کسی چیز کے متعلق سوچنا نہیں چاہیتے اور ابھی میرے سامنے تفسیر قرآن کا بہت بڑا کام پڑا ہے.ان حالات میں ڈاکٹری مشورہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ میں اہل وعیال اور دفتری شملہ کو لے کر کچھ عرصہ کے لیے یورپ چلا جاؤں تا کہ جلد ہی اس مرض کی روک تھام ہو جائے.پہلے امریکہ کا خیال تھا مگر چونکہ امریکہ کا ایکسچینج نہیں ملتا.اس لیے اس ارادہ کو چھوڑنا پڑا لیکن یورپین علاقہ میں انگریزی سکتہ مل جاتا ہے.اور برطانوی کامن ویلتھ کے مختلف علاقوں میں ہماری جماعت خدا کے فضل سے کافی تعداد میں موجود ہے.مثلاً افریقہ کے کئی علاقے وغیرہ وغیرہ اس لیے یورپ جانے میں مشکلات بہت کم ہیں.میں نے عزیزم چوہدری ظفر اللہ خانصاحب کو مشورہ کے لیے تار دی تو انہوں نے تار میں جواب دیا ہے کہ خدا کے فضل سے یورپ کے بعض ممالک میں علاج کی بہت سی سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں.اور کامل سامان مل سکتا ہے.

Page 110

اس لیے پیشتر اس کے کہ تکلیف بڑھ جائے میں یورپ چلا جاؤں.اور وہاں کے ڈاکٹروں سے علاج کرواؤں تاکہ میں اچھا ہو کر خطبہ بھی دے سکوں تفسیر بھی مکمل کر سکوں اور جماعتی ترقی کے لیے جس غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ قائم رہے.........جب میں ۱۹۲۳ تہ میں انگلینڈ گیا تھا.تو ہندوستان کی مالی حالت بہت خراب تھی اور ہندوستانی جماعت اخراجات سفر برداشت نہیں کر سکتی تھی.اس وقت زیادہ الیسٹ افریقہ عراق اور چند اور غیر ممالک کے احمدیوں نے اکثر حصہ بوجھ کا اُٹھایا تھا.قادیان کی انجمن ہمارے کھانے کے بھی خرچ نہیں بھیجو اسکتی.مگر اللہ تعالیٰ نے افریقہ اور عرب کی جماعتوں کے اندر اس قدر اخلاص اور ایمان پیدا کر دیا کہ سارے قافلہ کے کھانے اور تبلیغ کا خرچ میں ادا کرتا تھا.یا یوں کہو کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ سے ادا کرتا تھا.واقعہ اس طرح ہوا کہ میں نے مالی مشکلات کو دیکھتے ہوتے ایسٹ افریقہ کے چند دوستوں کو لکھا کہ مجھے سفر کی ضرورتوں اور جماعت کے وفد کے اخراجات کے لیے کچھ انگریزی سکہ قرض کے طور پر دے دیں.وہ آدمی تو تھوڑے سے تھے.مجھے یاد ہے کہ اس وقت تک ایسی حیثیت کے آدمی چند تھے.جہاں تک مجھے یاد ہے.میاں اکبر علی صاحب.سید معراج الدین صاحب اور بابو محمد عالم صاحب ممبا سوی ایسی حالت میں تھے کہ کچھ قرض دے سکیں، لیکن ایمان دنیا کے خزانوں سے بڑا ہوتا ہے.ایمان نے ان کی تمام مالی کمزوریوں کو دور کر دیا.مجھے یاد ہے کہ بابو اکبر علی صاحب نے اپنی تجارت کا ایک حصہ نیلام کر دیا اور روپیہ مجھے قرض بھجوا دیا چونکہ یہ جماعتی حساب میں تھا.جماعت نے ادا کر دیا.مگر اس وقت ایک عجیب لطیفہ ہوا جو خدا کی قدرت کا نمونہ تھا.عراق میں ہمارے صرف ایک احمدی دوست تھے.اور ان کی مالی حالت کچھ اچھی نہیں تھی.میں نے ان کو بھی خط لکھا.انہوں نے اپنے کسی اور دوست سے ذکر کر دیا.ایک دن لندن کے ایک بنک نے مجھے اطلاع دی کہ تمہارے نام اتنے سو پونڈ آیا ہے.میں نے سمجھا کہ قادیان نے مبلغین کے قافلہ کا خرچ بھجوایا ہے، لیکن دریافت پر بنک نے بتایا کہ قادیان یا ہندوستان سے وہ روپیہ نہیں آیا بلکہ عراق سے آیا ہے میں نے بیت المال قادیان کو اطلاع دی کہ آپ لوگوں نے قرض کی تحریک کی تھی.اور میں نے بھی اس کی تصدیق کی تھی.اس سلسلہ میں رو پیر آنا شروع ہوا ہے.آپ نوٹ کر لیں اور چونکہ بعد میں ادا کرنا ہے.اور عراق کا پتہ ان کو

Page 111

THE بتا دیا کہ یہاں سے اتنے سو پونڈ آیا.جب میں ہندوستان واپس آیا تو میں نے اس وقت کے ناظر صاحب بیت المال سے کہا کہ کیا اس روپیہ کا پتہ لیا ہے.انہوں نے کہا کہ ہم جھٹڑیاں لکھ لکھ کر تھک گتے ہیں.سارے احمدی انکاری ہیں کہ ہم نے روپیہ نہیں بھیجا.میں نے اس سعید غیر احمدی کو خط لکھنے شروع کئے کہ اتنا روپیہ آپ کی طرف سے ملا ہے.یہ غالباً اس قرضہ کی تحریک کے نتیجہ میں ہے جو بیت المال کی طرف سے کی گئی تھی.آپ اطلاع دیں تاکہ سلسلہ اس کو اپنے حساب میں درج کرے.لیکن کئی ماہ مسلسل رجسٹری خطوط بھیجوانے کے بعد ایک جواب آیا.اور وہ جواب یہ آیا کہ آپ کو غلطی لگی ہے کہ میں نے سلسلہ احمدیہ کو کوئی قرض دیا ہے.چھ سو یا آٹھ سو پونڈ انہوں نے لکھے کہ میں نے لندن بنگ کے ذریعہ آپ کو بھجواتے تھے.مگر وہ بیت المال کو قرض نہیں بھجواتے تھے بلکہ وہ آپ کو نذرا نہ تھے اس خط کے وصول ہونے پر میری حیرت کی حد نہ رہی کہ اس غیر احمدی کو اللہ تعالیٰ نے وہ توفیق دی جو کئی احمدیوں کو بھی نہ ملی تھی.ممکن ہے غیر احمدیوں میں کوئی مالدار ہو مگر میرے علم میں تو غیر احمدیوں میں بھی کوئی اتنا مالدار نہیں تھا.جو اس بشاشت سے چھ سو یا آٹھ سو پونڈ نذرانہ بھیجواد سے مگر بہر حال چونکہ وہ سلسلہ کے لیے مد نظر تھا.اور وہ بھیجنے والا غیراحمدی تھا.اس لیے میں نے نوٹ کر لیا کہ یہ روپیہ سلسلہ کا ہے اور مسجد لندن کے حساب میں میں نے وہ رقم بنک میں جمع کرادی اور حساب کر کے گذشتہ سال تحریک جدید کو مسجد لندن کے حساب میں ۳۱ ۷ یا ۷۵۰ پونڈ ادا کر دیتے جس سے مسجد لندن کی مرمت وغیرہ ہوئی.ہر حال اس طرح میں بھی اپنے فرض سے سبکدوش ہوا، اور مسجد کی موت بھی ہوگئی اور خدا تعالیٰ نے خانہ خدا خانہ کفر میں بنوانے کی توفیق بخشی.اسی نے وہ نذر نہ بھیج کر مجھ پر احسان کیا اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی کہ میں اس کے احسان کی قدر اس صورت میں ظاہر کروں کہ ده رو پیر خانہ خدا کے بنانے پر خرچ ہو جائے....حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے سَيَنْصُرُكَ رِجَالُ نُوحِی اليهِم مِّنَ السَّمَاءِ - عنقریب تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن پر ہم وحی کریں گے.گویا جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مدد کرتا تھا وہ وحی کے ماتحت کرتا تھا.یہی معاملہ خدا کا میرے ساتھ رہا ہے.میں نے تو ہمیشہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ پکڑا ہے، اور اس سے کہا ہے کہ اپنے نوکر کو دوسروں کی ڈیوڑھی سے مانگ کر گزارہ کرنے پر مجبور مت کر.اس میں

Page 112

نوکر کی ہتک نہیں.آقا کی ہتک ہے.اگر میرا نو کر دوسرے سے روٹی مانگے تو وہ میری عزت برباد کرتا ہے.اس لیے کبھی انسان کے مال پر نہ میں نے نظر رکھی ہے نہ آئندہ کبھی رکھوں گا.اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ میری خود ہی مدد کی ہے.اور آئندہ بھی وہی مدد کریگا.کسی نے میری مدد نہیں کی کہ خدا تعالیٰ نے اس سے بیسیوں گنے اس کی مدد نہ کی ہو.درجنوں مثالیں اس کی موجود ہیں جو چاہے میں اس کا ثبوت دے سکتا ہوں تاکہ کوئی یہ نہ شبہ کرے کہ میں لوگوں پر اثر ڈالنے کے لیے یہ بات کر رہا ہوں.آخر وہ اس کا کیا جواب دے گا کہ شخص جو بالکل غریب حالت میں تھا.اس نے میری مدد کی.تو اللہ تعالیٰ نے اس کو دولت دے دی یا اس کی اولاد کو اتنی تعلیم دلادی کہ وہ صاحب......اس موقعہ پر میں یہ کہنے میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ مجھے جو شکوہ پیدا ہوا تھا کہ اس سال تحریک کے وعدے پورے نہیں آرہے.خدا تعالیٰ نے جماعت کو اس شکوہ کے دور کرنے کی توفیق بخش دی ہے.اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے آج کی تاریخ تک قریباً چھ ہزار کے وعدے زائد آچکے ہیں.اور موجودہ رفتار پر قیاس رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ میعاد کے آخر تک اللہ تعالٰی کی مدد اور نصرت سے چالیس پچاس ہزار روپے کے وعدے بڑھ جائیں گئے.دنیا کی نظروں میں یہ بات عجیب ہے.مگر خدائے عجیب کی نظر میں یہ بات عجیب نہیں کیونکہ اس کے مخلص بندوں کے ہاتھوں سے ایسے معجزے ہمیشہ ہی ظاہر ہوتے چلے آتے ہیں.اور قیامت تک ظاہر ہوتے چلے جائیں گے.پہلے بھی خدا تعالیٰ ایسے ہی بندوں کے چہروں سے نظر آتا رہا ہے.اور اب ہمارے زمانہ میں بھی ایسے ہی انسانوں کے چہروں سے خدا نظر آئے گا.اور ان کے دلوں اور ایمانوں سے ایسے معجزے ظاہر نہیں ہوں گے بلکہ برسیں گے منکر انکار کرتے چلے جائیں گے.جبرائیل کا قافلہ بڑھتا جائے گا.اور آخر عرش تک پہنچ کر دم لے گا.عرش کا راستہ محمدرسول اللہصلی اللہ علیہ سلم نے معراج کی رات اپنی امت کے لیے کھول دیا ہوا ہے.اب کوئی ماں ایسا بیٹا نہیں جنے گی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھولا ہوا راستہ بند کر سکے.شیطان حسد سے مرجائے گا.مگر خدا تعالیٰ کی مد و محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوشیطانی حسد کی آگ سے بچالے گی.دوزخ چاہے

Page 113

گندھک کی آگ سے بنی ہوئی ہو یا حسد کی آگ سے صاحب الخلق رسول اس سے محفوظ کیا گیا ہے.اور قیامت تک محفوظ رہے گا.دوزخ کے شرارے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے لیے ہیں.اس کے دوستوں کے لیے کوثر کا خوشگوار پانی اور جنت کے ٹھنڈے ساتے ہیں.صرف اتنی ضرورت ہے کہ وہ ہمت کر کے ان سالوں کے نیچے جا بیٹھیں اور آگے بڑھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے کوثر کا پانی لے ہیں.لوگ اپنے باپ کی زمینوں اور مکانوں کو نہیں چھوڑتے اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں تک جاتے ہیں کہ ہمارا ورثہ ہمیں دلوایا جائے.اگر مسلمانوں میں سے کوئی بدبخت اپنے روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثہ کو نظر انداز کرتا ہے تو اس پر افسوس ہے کہ اس کو تو فیڈرل کورٹ تک نہیں بلکہ عرش کی عدالت تک اپنے مقدمہ کو لے جانا چاہیئے.اور اپنا ورثے کر چھوڑنا چاہئے.اگر وہ ہمت نہ ہارے گا.اگر وہ دل نہ چھوڑے گا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ اس کو ملے گا اور ضرور ملے گا.....سو دوستو بڑھو کہ تمہیں ترقی دی جائے گی.قربانی کرد کہ تمہیں دائمی زندگی عطا کی جائیگی.اپنے فرض کو پہچانو کہ خدا تعالیٰ اس سے بڑھ کر اپنے فرض کو پہچانے کا درجب وقت آئے گا تو نہ صرف تمہارے گھر برکتوں سے بھر جائیں گے بلکہ ہر وہ گوشت کا لوتھڑا جو تمہارے تہم سے نکلے گا اس کو بھی برکتوں کی چادر میں لپیٹ کر بھیجا جائے گا.اور جو تمہارے ہمسائے میں رہے گا اس پر بھی برکتیں نازل ہوں گی.جو تم سے محبت کرے گا اس سے خدا تعالیٰ محبت کریگا جو تم سے دشمنی کرے گا اس سے خدا تعالی دشمنی کرے گا......قادیان میں ایک امانت فنڈ کی میں نے تجویز کی تھی اور وہ یہ تھی کہ قادیان کی ترقی کیلئے احباب کثرت سے امانتیں قادیان میں جمع کروائیں......اس سے احباب کا روپیہ بھی محفوظ رہے گا اور بغیر ایک پیسہ چندہ لیے جماعت کے کام ترقی کرتے رہیں گے قادیان میں اس تحریک کے مطابق ترقی کرتے کرتے ستائیس لاکھ روپیہ اس امانت میں پہنچ گیا تھا اور بغیر ایک پیسہ کی مدد کے احباب کرام سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق پا جاتے تھے.چنانچہ اس تحریک کا نتیجہ تھا کہ پارٹیشن کے بعد جب سارا پنجاب کٹ گیا.تو جماعت احمدیہ کے افراد محفوظ رہے اور ان کو اس امانت کے ذریعے دوبارہ پاکستان میں قدم جمانے کا موقعہ مل گیا.اس کی تفصیل کہ کس کس طرح اس روپیہ کو نکالا اور خرچ کیا.اور پھر احباب کو واپس

Page 114

۱۱۴ کیا.یہ تو جب اس زمانہ کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں تفصیلاً آئے گا.مگر ہر حال جس طرح جماعت کے افراد اپنے پاؤں پر کھڑے رہے وہ ظاہر ہے.اگر اب بھی دوست میری بات کو مانیں گے تو انشاء اللہ بڑی بڑی برکتیں حاصل کریں گئے.اپنی اغراض کے ما تحت روپیہ جمع کرانا ہو گا جو میں نے اوپر بیان کی ہیں.تحریک.صدر انجمن احمدیہ اور میں انشاء اللہ ذاتی طور پر ان امانتوں کے واپس کرنے کے ذمہ دار ہوں گے جس طرح پہلے دور میں ذمہ دار تھے.اور ایک ایک پیسہ احباب کو ادا کر دیا تھا.روپیہ کا گھر میں پڑا رہنا یا سونے کی صورت میں عورتوں کے پاس رہنا قومی ترقی کے لیے روگ ہے.اس لیے اپنی اولادوں کی ترقی کی خاطر ان کی تعلیم اور پیشوں کی ترقی کی خاطر اپنی آمدن میں سے تھوڑی ہو یا بہت.پس انداز کرنے کی عادت ڈالیں.اور امانت کے طور پر تحریک جدید یا صدرانجمن کے خزانہ میں جمع کراتے رہیں.اور اس کا نام امانت خاص رکھیں.یہ امانت اوپر کے بیان کردہ اغراض کے لیے ہو گی.میں امید رکھتا ہوں کہ سلسہ کی تمام خواتین اور مرد میری اس تحریک پر لبیک کہیں گے.اور بغیر پیسہ خرچ کرنے کے دین ودنیا کے لیے ثواب عظیم کھائیں گے اور انشاء اللہ یہ امانت ان کی مالی ترقی کا بھی موجب بنے گی.اور اس کیلئے سکیم آئندہ بنائی جائے گی.چونکہ یہ ایک موقت امانت ہو گی جس کے لیے آٹھ دن کے نوٹس کی شرط ہو گی.یہ قرضہ بن جاتے گا اور زکوۃ سے آزاد ہو جائے گا.اور ان کے کام میں کوئی نقص نہیں ہوگا.اگر جماعت کے مرد اور عور نہیں اس طرف توجہ کریں.تو پندرہ نہیں لاکھ روپیہ چند روز میں جمع ہونا مشکل نہیں.اور یورپ کا سفر اور سلسلہ کے کام بہولت جاری رہ سکیں گے.اور مالی اعتبار سے بھی مجھے بے فکری رہے گی.میں اس وقت بالکل بے کار ہوں اور ایک منٹ نہیں سوچ سکتا.اس لیے اپنے پرانے حق کی بناء پر جو پچاس سال سے زیادہ عرصہ کا ہے تمام بہنوں اور بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بے عملی کی زندگی سے بچاتے کیونکہ اگر یہ زندگی خدا نخواستہ یہی ہوتی ہے تو مجھے اپنی زندگی سے موت زیادہ بھلی معلوم ہوگی.سو میں خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ اسے میرے خدا جب میرا وجود اس دنیا کے لیے بے کار ہے تو تو مجھے اپنے پاس جگہ دے.جہاں میں کام کر سکوں.سو اگر چاہتے ہو کہ میری نگرانی میں اسلام کی فتح کا دن دیکھو تو دعاؤں اور قربانیوں میں لگ جاؤ تاکہ

Page 115

۱۱۵ خدا تمہاری مدد کرے اور جو کام ہم نے ملکر شروع کیا تھا.وہ ہم اپنی آنکھوں سے کامیاب طور پر پورا ہوتا دیکھیں.۲ برادران والسلام مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ۱۱/۳/۵۵ الفضل ۱۵ ر مارچ السلام علیکم ورحمة الله و بركاته " -1900 آج ۲۰ تاریخ ہے اور انشاء اللہ ۳۰ کو ہم جا رہے ہیں.گرمی ان دنوں کراچی میں بڑی شدید پڑرہی ہے.اور اس وجہ سے طبیعت میں کمزوری محسوس ہوتی ہے، مگر باوجود اس کے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ بیماری کے بعض حصوں میں کمی ہے.آج ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بڑے اصرار سے اپنا خیال ظاہر کرتے تھے کہ فالج حقیقی نہیں ہے بلکہ محض عرضی ہے چونکہ ہوائی سفر قریب آرہا تھا.اس لیے خیال کیا گیا کہ ایک دفعہ دل کے ماہر ڈاکٹروں سے پھر مشورہ کر لیا جائے.چنانچہ کراچی کے سب سے بڑے ماہر قلب ڈاکٹر ایم شاہ صاحب جو اس فن کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور امریکہ سے خاص طور پر اس کا مطالعہ کر کے آتے ہیں سے خواہش کی گئی کہ وہ ایک دفعہ جانے سے پہلے اگہ تحقیق قلب سے دل کا پھر مطالعہ کر لیں.چونکہ اس آلہ کا گھر پر لانا ناممکن تھا.اس لیے ہسپتال میں دکھانے کا فیصلہ ہوا.چنانچہ میں آج صبح دس بجے وہاں گیا.ڈاکٹر شاہ صاحب نے نہایت محبت اور توجہ سے آلہ تحقیق قلب لگا کر دل کی حرکات کا مطالعہ کیا.اور آلہ کھولنے کے بعد میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ مبارک ہو دل سو فیصدی ٹھیک ہے.پھر فرمایا کہ ہوائی سفر کا فیصلہ نہایت مبارک ہے.میں آپ کو یہی مشورہ دینا چاہتا تھا مگر ڈرتا تھا کہ آپ کسی وجہ سے اس سفر سے گھبراتے نہ ہوں.مگر دل یہی چاہتا تھا کہ آپ ہوائی سفر کریں تاکہ سفر کی کوفت نہ ہو اور علاج جلدی ہو جائے.ہر حال ماہر ڈاکٹروں کے مشورہ سے ہوائی سفر کا فیصلہ ہوا ہے انشاء اللہ چند روز میں چل پڑیں گے.میں اُمید کرتا ہوں کہ جماعت نمازوں اور دعاؤں میں

Page 116

119 لگی رہے گی اور ہر فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہے گی.اور خدا تعالیٰ سے اتنی محبت کرے گی کہ خدا اس کا ہو جائے گا.جہاں تک احساس کا سوال ہے.میری طبیعت محسوس کرتی ہے کہ اگر گرمی کچھ کم ہو جائے تو انشاء اللہ طبیعت بہت جلد بحال ہونے لگ جائے گی.آج میں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے پھر ظہر، عصر کی نماز پڑھائی اور الہ تعالیٰ کے فضل سے پہلی بار تھی کہ ساری نماز ٹھیک پڑھائی.اور کوئی غلطی نہ ہوئی.آج میں نے یورپ کی تبلیغ پر بھی غور کیا اور مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ میں خیریت سے وہاں پہنچا تو یورپ کی تبلیغ میں نمایاں تبدیلی ہو جائے گی.۱۹۲۳ء میں جب میں نے سفر کیا تو گوئیں نوجوان تھا اور مضبوط تھا.مگر اتنا تجربہ کار نہیں تھا، لیکن اب گوگز در اور ناتوان ہوں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک وسیع تجربہ میری پشت پر ہے اور میرا دماغ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے تھوڑا بہت کام کرنے لگ گیا ہے.خداتعالی مدد فرماتے تو انشاء اللہ برکت اور رحمت اور فضل کے درواز سے گھلیں گے اور اسلام ترقی کی طرف قدم بڑھائے گا.انشاء الله انشاء اللہ.انشاء الله - اسے خدا ایسا ہی ہو.تیرا دین پھر اپنی جگہ حاصل کمرے اور گھر پھر غار میں اپنا سر چھپا ہے.میرا ارادہ ہے کہ میں یورپ اور امریکہ کے تمام مبلغین کو اکٹھا کر کے قضیہ زمین بر سرزمین طے کرنے کی کوشش کروں مگر ابھی منزل مقصود کے درمیان ایک بہت بڑا سمندر حائل ہے جس کو پار کروانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر مبنی ہے.کیا تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھنا نصیب کر دے اور ہماری موتیں ہماری پیدائشوں سے زیادہ مبارک ہوں اور کامیابی ہمارے قدم چومے اور ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فاتح جرنیل بن جائیں.اور قیامت کے دن تمام دنیا کی حکومت کی گنجیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رکھنے کا فخر حاصل کریں.اپنے فرض کو سمجھو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار سپاہیوں کی طرح کفر کے مقابلہ کے لیے تیار ہو جاؤ - خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تمہارے خاندانوں کی زندگیوں کو با برکت بنائے.آمین اللهم آمین : مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی از کراچی ۲۰/۳/۵۵ ) الفضل ۲۶ اپریل شدوا )

Page 117

116 مشہور صحافی و عالم دین مولنا عبدالماجد صاحب دریا آبادی نے اپنے اخبار صدق جدید میں قابل رشک عزم کے عنوان سے حضور کی اوالوالعزمی اور جذبہ خدمت کو سراہتے ہوئے تحریر کیا." آج میں نے یورپ کی تبلیغ پر بھی غور کیا اور مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ میں خیریت سے وہاں پہنچا تو یورپ کی تبلیغ میں نمایاں تبدیلی ہو جائے گی.۹۳ میں جب میں نے سفر کیا تو میں نوجوان تھا اور مضبوط تھا.مگر اتنا تجربہ کار نہیں تھا.اب گو کمزور اور ناتواں ہوں ، لیکن خدا کے فضل سے اب وسیع تجربہ میری پشت پر ہے....----- خدا تعالیٰ مدد فرمائے.تو انشاء اللہ برکت اور رحمت اور فضل کے دروازے کھلیں گے.اور اسلام ترقی کی طرف قدم بڑھائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اسے خدا ایسا ہی ہو.تیرا دین پھر اپنی جگہ حاصل کرلے اور کفر پھر غار میں اپنا سر چھپا لے.میرا ارادہ ہے کہ میں یورپ اور امریکہ کے تمام مبلغین کو اکٹھا کر کے قضیہ زمین کو بر سرزمین طے کرنے کی کوشش کروں گا.مگر ابھی منزل مقصود کے درمیان ایک بہت بڑا سمندر حائل ہے جس کو پار کرنا محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر مبنی ہے.کیا تعجب ہے کہ ہمیں اللہ تعالی اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھنا نصیب کر دے اور ہماری موتیں ہماری پیدائشوں سے زیادہ مبارک ہوں اور کامیابی ہمارے قدم چوہے.اور ہم رسول کریم صلعم کے فاتح جو نیل بن جائیں اور قیامت کے دن تمام دنیا کی حکومت کی گنجیاں رسول کریم صلعم کے قدموں میں رکھنے کا فخر حاصل ہو.اپنے فرض کو سمجھوا اور رسول کریم مسلم کے وفا دار سپاہیوں کی طرح کفر کے مقابلہ کے لیے تیار ہو جاؤ.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.....خدمت اسلام کے ولولہ جس کسی کی بھی زبان سے ادا ہوں.بہر حال باعث مسرت و موجب شکر ہی ہوتے ہیں.یہ مسرت بدرجہا زائد ہوتی اگر یہ الفاظ اہل سنت کے کسی عالم کی زبان سے یورپ کی روانگی کے وقت ادا ہوتے.آغاز سفر : ) صدق جدید ۱۰ جون ۹۵۵له ) د الفضل ۲۵ جون ۱۹۵۵ حضرت مصلح موعود نے ربوہ سے ۲۳ مارچ کو اپنے اس تاریخی سفر کا آغاز فرمایا حضور لاہور سے

Page 118

۱۱۸ ہوتے ہوئے کراچی تشریف لے گئے.لاہور میں حضور کا قیام مختصر تھا.کراچی کے چند روزہ قیام میں جات کراچی نے انتہائی پیار و محبت اور خلوص سے حضور اور قافلہ کی تمام ضروریات کا ہر طرح خیال رکھا.ربوہ سے روانگی کا نظارہ بیان کرتے ہوئے روزنامہ الفضل نے لکھا : " ربوه ۲۳ مارچ - سید نا حضرت خلیفہ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز علاج کے لیے یورپ جانے کے ارادے سے آج صبح نو بجے بذریعہ کار لا ہور تشریف لے گئے.صدر انجمن اور تحریک جدید کے ناظر و و کلام صاحبان ، دیگر شعبہ جات کے افسران مجلوں کے پریذیڈنٹ صاحبان اور اہالیان ربوہ نے کثیر تعداد میں قصر خلافت کے باہر جمع ہو کر محبت و ارادت اور اخلاص و عقیدت کے گہرے جذبات اور در دو سوزہ میں ڈوبی ہوئی دُعاؤں کے ساتھ اپنے محبوب امام کو رخصت کیا.تمام احباب اپنے آقا کی اس عارضی جدائی پر بے چین ہو ئے جارہے تھے اور عجب اضطراب کے عالم میں میں زیر لب نہایت درجہ عاجزی اور الحاج سے رب العزت کے حضور دعائیں کر رہے تھے کہ اسے خدا تو اس مقدس وجود کا جو تیری ہی عنایت اور تیری ہی شفقت سے ہمارے لیے سایہ رحمت ہے ہر گھڑی اور ہر لمحہ نگہبان ہو اور اسے اپنے خاص الخاص فضل کے تحت اپنی بارگاہ سے شفائے کامل و عامل عطا کرتا یہ بہت جلد ہمارے درمیان پھر رونق افروز ہو کر ہمارے دلوں کو شاد کام کرے اور اس کے وجود کی برکت سے ہم میں خدمت اسلام کا ایک نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا ہو کہ جو دنیا کی کایا پلٹ دے.قصر خلافت سے روانگی : حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نو بجے سے چند منٹ قبل قصر خلافت کے اس دروازے سے باہر تشریف لائے جو مسجد مبارک کے عقب کی جانب ہے تمام احباب جماعت قصر خلافت کے باہر راننے کے دونوں طرف صف بستہ کھڑے زیر لب دعاؤں میں مصروف تھے.(محرم اسید داؤد احمد صاحب کے کندھے کا سہارا لے کر حضور موٹر کار میں سوارہ ہوتے.کار کی پچھلی سیٹ پر رونق افروز ہونے کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کروائی در دو سوز میں ڈوبی ہوئی دُعاؤں کا یہ روح پرور نظارہ ایک خاص کیفیت کا حامل تھا.احباب کرام حضور ایدہ اللہ کی اقتداء میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفر کے بابرکت ہونے

Page 119

119 اور کامل شفایابی کے بعد حضور کے بخیر و عافیت واپس آنے کے لیے اس قدر عاجزی اور الحاج سے دعائیں کر رہے تھے کہ مسجد مبارک اور قصر خلافت سے ملحقہ سارا علاقہ ہچکیوں ر سسکیوں کی درد انگیز آوازوں سے گونج رہا تھا.اور ہر دل گواہی دے رہا تھا کہ مولا کریم اور اس کے محبوب بندوں کا یہ راز و نیاز انشاء اللہ العزیز اثر لاتے بغیر نہ رہے گا.دُعا کے اختتام پر ہر آنکھ سے آنسو رواں تھے اور ہر فرد اپنے محبوب آقا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بتیاب تھا.صدقے کے طور پر بکروں کی قربانی : ٹھیک نو بجے جب حضور کی کار حرکت میں آئی تمام فضا فی امان اللہ تعالیٰ اور لسلامت روی و باز آئی کی آوازوں سے گونج اٹھی.موٹر کے حرکت میں آتے ہی مسجد مبارک کے عقب میں صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی طرف سے دو بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے ایک بکرا صدرانجمن کی طرف سے مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس نے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا.اور دوسرا بکرا تحریک جدید کی طرف سے قائمقام وکیل اعلی جناب چوہدری غلام مرتضی صاحب نے ذبح کیا.حضور کی کار قافلے کی دوسری کاروں کے ہمراہ آہستہ آہستہ روانہ ہوئی.احباب جماعت جو قصر خلافت کے دروازے سے لے کر چنیوٹ جانے والی پختہ سڑک تک دو رویہ کھڑے ہوتے تھے.پرنم آنکھوں کے ساتھ بلند آواز سے اسلام علیکم امیر المؤمنین “ اور فی امان اللہ تعالیٰ " کہتے جاتے تھے.حضور کی کار جو سنی احاطہ مسجد مبارک کے صددروازے سے باہر آئی.ربوہ کی مقامی جماعت کی طرف سے دو بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے.دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے لے کر چنیوٹ جانے والی پختہ سڑک تک احباب کے ہجوم کا یہ عالم تھا کہ کھوے سے کھوا چھیل رہا تھا.حضرت ام المومنین کے مزار مبارک پر دُعا : حضور قصر خلافت سے روانہ ہونے کے بعد پہلے موصوں کے قبرستان میں حضرت ام المومنین کے مزار پر دعا کیلئے تشریف لے گئے.مزار مبارک کی چار دیواری کے باہر دروازے کے عین سامنے موٹر میں بیٹھے ہوتے ہی حضور نے دعا فرمائی جس میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے اکثر افراد اور بعض خدام شریک ہوتے.دُعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور لاہور الفضل ۲۴ مارچ ۹۵۵له ) روانہ ہوتے"

Page 120

۱۲۰ ہمارا پہلا قافلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوائی جہانہ کے ذریعہ قاہرہ پہنچ چکا ہے.19 کومیں نشاء اللہ تعالی رات ساڑھے بارہ بجے بقیہ قافلہ کے ساتھ دشق روانہ ہونگا.وہاں سے انشاءاللہ تعالیٰ دوسری تار دی جائے گی.احباب جماعت نے خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے فکر سے بچانے کی کوشش کی ہے.الا ماشاء اللہ بعض اشخاص کے جنہوں نے باوجود سفر اور بیماری کے نیش زنی سے پر میز نہیں کیا....خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلص گروہ ہی جیتے گا.اور وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ میری بیماری کی وجہ سے انہیں سر اُٹھانے کا موقعہ مل گیا ہے ناکام و نامراد ہوں گے.اور خدا تعالیٰ مخلص حصہ کا ساتھ دیگا.اور دن اور رات کے کسی حصہ میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا.خدا تعالیٰ کے فضل سے کراچی آنا بہت مفید ثابت ہوا ہے اور یہاں یورپ کے علاج کے متعلق نہایت مفید مشورے حاصل ہوئے ہیں.اور ڈاکٹروں نیے نہایت محبت سے علاج کے مثبت اور منفی پہلو سمجھا دیتے ہیں.اب صرف ایک تشخیص باقی ہے.ڈاکٹروں کی رائے یہ ہے کہ وہ تشخیص یورپ میں ہی ہو سکتی ہے اور یہ کہ اگر وہ بھی تسلی دلانے والی ہو تو انشاء اللہ تعالی بیماری کا کوئی حصہ بھی تشویشناک باقی نہیں رہے گا......اگر جماعت کے احباب کی دُعائیں اللہ تعالیٰ سُن سے تو کوئی تعجب نہیں ایسی صورت نکل آتے کہ میں چند دن یا چند ہفتے اس وقت کے قیاس سے پہلے آسکوں.والعلم عنداللہ گو زور ان کا یہی ہے کہ وہاں کی آب و ہوا سے فائدہ اُٹھانا چاہیئے.جو اس مرض کے لیے بہت فائدہ مند ہے.بعض علاجوں کے متعلق انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ سخت تکلیف دہ ہیں.اگر وہاں کے ڈاکٹر وہ علاج تشخیص کریں تو اس سے انکار کر دیا جائے اور کہا جائے کہ ہم یہ علاج کراچی میں کروا لیں گے.جہاں یہ سب سامان موجود ہے.مگر ان کی رائے یہی ہے کہ ایسے سخت علاج کی ضرورت پیش نہیں آئے گی.انشاء اللہ.مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ۲۷۴/۵۵ الفضل تیم متی را هوا کراچی سے حضور دمشق تشریف لے گئے تھے.اس سفر اور قیام دمشق کے متعلق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا :

Page 121

وشق ۳-۵-۵۵ عزیزم مرندا البشیر احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! آج دمشق آئے تیسرا دن ہے.ہوائی جہاز میں تو اس حادثہ کے سوا کہ اس کے کمبل گلو بند کی طرح چھوٹے عرض کے تھے اور کسی طرح بدن کو نہیں ڈھانک سکتے تھے خیریت رہی.سردی کے مارے میں ساری رات جاگا اور پھر وہم ہونے لگا کہ شاید مجھے دوبارہ حملہ ہوا ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں ساری رات مجھے کمبلوں سے ڈھانکتے رہے مگر یہ ان کے بس کی بات نہ تھی.آخر جب میں بہت نڈھال ہو گیا توئیں نے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا جو ساتھ کی گرمی پر تھے.تو ان کا چہرہ مجھے بہت نڈھال نظر آیا اور مجھے یہ وہم ہو گیا کہ چوہدری صاحب بھی ہمار ہوگئے ہیں.اب یہ دو وہم جمع ہو گئے.ایک یہ کہ مجھ پر دوبارہ فالج کا حملہ ہو گیا اور ایک یہ کہ چوہدری صاحب بھی بیمار ہو گئے.اس سے تکلیف بہت بڑھ گئی.آخر میں نے منور احمد سے کہہ کر نیند کی دوائی منگوائی.چوہدری صاحب نے قہوہ منگوا کر دیا.وہ گرم گرم پیا ایک ایسپرین کی پڑیا کھائی تو پھر جا کر نیند آئی اور ایسی گہری نیند آتی کہ جب چوہدری صاحب صبح کی نماز پڑھ چکے تو میں جاگا چو ہدری صاحب نے عذر کیا کہ آپ کی بیماری اور بے چینی کی وجہ سے میں نے آپ کو نماز کے لیے نہیں جگایا.بہر حال قضائے حاجات کے بعد کرسی پر نماز ادا کی اور پھر ناشتہ یا.اتنے میں روشنی ہو چکی تھی.دُور دُور سے عرب اور شام کی زمینیں نظر آ رہی میں بہر حال بقیه سفر نہایت عمدگی سے کٹا اور ہم سات بجے دمشق پہنچ گئے.ایرو ڈرم به بر دشتی کی جماعت کے احباب تشریف لاتے ہوئے تھے جو سب بہت اخلاص سے پر ملے.برادرم منیر الحصنی بھی جماعت کے ساتھ تشریف لاتے ہوئے تھے.ایروڈرم کے ہال میں جا کر بیٹھ گئے جہاں پاکستان کے منسٹر بھی چوہدری ظفر اللہ خاں کے ملنے کے لیے تشریف لاتے ہوئے تھے.مستورات کے لیے برا دارم سید بدرالدین حصنی جو منیر الحصنی صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں کی مستورات تشریف لائی ہوئی تھیں.وہ مستورات کو گھر لے گئیں.پیچھے پیچھے ہم بھی پہنچ گئے.محبت اور اخلاص کی وجہ سے بدرالدین صاحب حسنی نے سارا گھر ہمارے لیے خالی کر دیا ہے.اس وقت بھی ہم اس

Page 122

۱۲۲ میں ہیں.جس محبت سے یہ سارا خاندان ہماری خدمت کر رہا ہے.اس کی مثال پاکستان میں مشکل سے ملتی ہے.برادرم سید بدرالدین حصنی شام کے بہت بڑے تاجر ہیں لیکن خدمت میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ اپنے اخلاص کی وجہ سے وہ خادم زیادہ نظر آتے ہیں رقمیں کم نظر آتے ہیں.یہاں چونکہ سردی بہت ہے اور یورپ کی طرح HEATING SYSTEM نہیں ہے.مجھے سردی کی وجہ سے تکلیف زیادہ ہو گئی ہے.یہاں کے قابل ڈاکٹر کو بلایا گیا جس کے معائنہ کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ واقعی قابل ہے.فرانس کا پڑھا ہوا ہے.بعض امور جو تجربہ سے بیماری کو بڑھانے 01 والے معلوم ہوئے تھے ان کو اس نے بڑی جلدی اخذ کر لیا.منور احمد نے بتایا کہ جب ہم ڈاکٹر کو فیس دینے لگے تو سید منیر الحصنی صاحب نے بڑے زور سے رو کا یہ ہمارا خاندان کا ڈاکٹر ہے ہم اس کو سالانہ فیس ادا کرتے ہیں.اس کو فیس نہ دیں.....اب یہ برگردام ہے کہ انشاء اللہ سات تاریخ کو ہم بیروت جائیں گے اور آٹھے کو اٹلی روانہ ہوں گے.چوہدری صاحب انشاء اللہ ساتھ ہی ہونگے.ان کی ہمراہی بہت تسلی اور آسائش کا موجب رہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے دلوں میں ایسی محبت کا پیدا کرنا محض اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے.انسان کی طاقت نہیں.اس لیے ہم اللہ تعالیٰ کے ہی شاکر ہیں کہ اس نے ہمارے لیے وہ کچھ پیدا کر دیا جو دوسرے انسانوں کو باوجود ہم سے ہزاروں گنے طاقت رکھنے کے حاصل نہیں ؟ الفضل درمئی ۹۵لة ) حضرت مصلح موعود کے قائم مقام پرائیویٹ سیکرٹری مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے قیام وشتق کے سلسلہ میں اپنی رپورٹ میں تحریر کیا کہ : " سید نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی کی اپنی زبان مبارک سے احباب نے یہ واقعہ سنا ہوگا کہ جب حضور ہ میں یہاں تشریف لائے تو میاں کے ایک مشہور فاضل جناب عبد القادر مغربی سے ملے.انہوں نے گو اس بد خلقی کا اظہار نہ کیا جو بعض دوسر گلاں کرتے تھے لیکن حضور سے کہا کہ آپ ہرگز یہ امید نہ رکھیں کہ یہ لوگ جن کی زبان عربی ہے اور جو خود دین کو بخوبی سمجھتے ہیں کسی وقت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوة والسلام

Page 123

۱۲۳ تھا.پر ایمان لاویں گئے.یہ ہرگز ممکن نہیں.اولوالعزم فضل عمر اس چیلنج پر خاموش نہ رہ سکے اور فرمایا کہ میں اب قادیان واپس جاتے ہی یہاں مبلغ بھیج دوں گا.اور انشاء اللہ ! یہاں لوگ احمدیت کو قبول کریں گے.اللہ ! اللہ ! کس توکل علی اللہ اور کس عزم کا اظہار تھا ------ اب تقریباً ۳۱ سال بعد وہی اولو العزم اور متوکل انسان دشتی میں دارد ر ہوتا ہے اور کتنے عاشق خدام اس کی ایک جھلک کے لیے اس کے ہاتھ کو بوسہ دینے اور پیشانی پر لگانے کے لیے اس کے روح پرور کلمات سننے کے لیے اس کی امامت میں نماز ادا کرنے کے لیے اس سے تعارف کا فخر حاصل کرنے کے لیے لیے تاب ہیں.کتنے اس کے در کی پاسبانی میں فخر و عزت محسوس کرتے ہیں.....کتنے اس کی دُعاؤں کے حصول کی تڑپ رکھتے ہیں.یہ نظارے دیکھنے کی آج سعادت حاصل ہوئی ہے.پس میں خدائے کریم کا شکر کرتا ہوں.آج حضور جب نماز ظہر کے لیے تشریف لاتے حضور نے نماز سے قبل ہی سیدہ نجمیه بنت سیٹھ حسن الجابی مرحوم کا نکاح سید سعید القبانی کے ساتھ پڑھنے کی منظوری عطا فرمائی.کیونکہ یہاں کے قانون کے مطابق محکمہ شرعیہ کا کاتب رجبرات میں تقریب نکاح کا اندراج کرتا ہے اور وہ منتظر تھا.چنانچہ حضور نے سیدہ نجمیہ کا نکاح سید القبانی کے ساتھ ایک ہزار لیرا ------ پر پڑھا.اور دعا فرمائی.اللہ تعالیٰ جانبین کے لیے مبارک و با برکت کرے.یہ پہلا نکاح ہے جو حضور نے ایک شامی احمدی مرد کا ایک شامی احمدی بی بی سے پڑھا یا سیدہ نجمہ سید سلیم من الحجابی کی جو ربوہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں ہمشیرہ ہیں.نماز کے بعد حضور نے مجلس میں تشریف رکھی اور شامی احباب کے ساتھ بلا تقف عربی زبان میں گفتگو فرماتے رہے.مختصر کوالف سفر : الفضل ۱۵ مئی ۱۹۵۵ )...چھ مئی کو حضور نے فصیح و بلیغ عربی زبان میں ایک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ تعالٰی نے آج سے قریباً نصف صدی قبل جب کہ آپ میں سے اکثرا بھی پیدا بھی نہیں ہوتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الماما بتا یا کہ يَدعونَ لَكَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَصُلَحَاءُ الْعَرَبِ

Page 124

۱۲۴ یعنی تیرے لیے شام کے ابدال اور عرب کے صلحا - دعائیں کرتے ہیں.یہ نشان تمہارے وجود سے پورا ہو رہا ہے.مرمتی کو حضور بیروت کی جماعت کی درخواست پر شامی مخلصین کی مشایعت میں بیروت کے لیے روانہ ہوئے.لبنان کی جماعت کا ایک وفد مولنا شیخ نور احمد صاحب میر مبشر بلاد اسلامیہ کی قیادت میں "عالیہ" سے کوئی ہار ہیں آگے آکر حضور کے لیے چشم براہ تھا.عالیہ سے حضور اس قافلہ کے ہمراہ بیروت تشریف لے گئے.زیورچ جانے کے لیے بیروت ائرپورٹ پر جب حضور کار سے اُترنے لگے تو ڈرائیور نے تیزی سے اپنا دروازہ کھولا.حضور کا ہا تھ اس پر تھا.اس نے بے احتیاطی کی اور جلدی سے حضور کا دروازہ کھولنے کے لیے اسے بند کر دیا.حضور کی انگلی اس میں آگئی.حضور کی بے چینی کے ساتھ جماعت بے چین ہو گئی.ڈاکٹر مرزا منورا حمد صاحب نے بیٹی کی.خدا تعالے کا شکر ہے کہ زیادہ زخم نہ آیا.ڈرائیور گو احمدی نہیں تھا ، لیکن عقیدت مندوں کے اجتماع سے متاثر تھا اور سخت نادم تھا کہ اس کی بے احتیاطی سے حضور کی انگلی پر زخم آیا حضور ایر پورٹ کیے ہال میں تشریف فرما تھے.اور زخمی اُنگلی والا ہاتھ سلنگ میں تھا.اس ڈرائیور نے حضور کی نفرت میں حاضری کی اجازت چاہی اور موقعہ پاکر بڑھ کر حضور کے زخمی ہاتھ پر بوسہ دیکر اپنی ندامت کا اظہار کیا.) الفضل ۲۲ مئی ۹۵۵لة ) حضور نے زیورچ پہنچ کر حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے نام ایک تارمیں اپنے خیریت سے پہنچنے کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا : " ہم خدا کے فضل سے اہل و عیال کے ساتھ بخریت زیورچ پہنچ گئے ہیں.جنیوا سے آگے تمام انتظامات شیخ ناصر احمد صاحب (مبلغ سلسلہ) نے کتے تھے جوکہ بہت عمدہ تھے شروع میں مکان میں تازہ روغن ہونے کی وجہ سے کچھ تکلیف ہوئی لیکن چند گھنٹے کے بعد یہ تکلیف رفع ہو گئی.بیروت میں بھی تمام انتظامات اچھے تھے.دمشق کے صورت ہمیں رخصت کرنے کے لیے بیروت آتے ہوتے تھے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب روم تک ہمارے ساتھ آتے اور پھر وہاں سے ہیگ (ہالینڈ ) روانہ ہو گئے.ان کا ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک نعمت ثابت ہوا.اللہ تعالیٰ تمام ان دوستوں پر فضل فرما دے جنہوں نے اس سفر کے تعلق میں مدد کی ہے.اب عنقریب یہاں ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جائے گا.احباب خاص دُعا تیں جاری رکھیں.کیونکہ یہ میرے علاج کی کوششوں کا

Page 125

۱۲۵ آخری مرحلہ ہے." الفضل ۱۲ر منتی ۱۹۵۵ بیماری اور کمزوری کے با وجود جماعت سے محبت اور قلبی تعلق کی وجہ سے حضور نے عید مبارک اور دعا کا مندرجہ ذیل برقی پیغام ارسال فرمایا : }) پاکستان ، ہندوستان اور دنیا کے تمام احمدی بھائیوں کو عید مبارک ہو.میں ان سب کی مشکلات اور تکالیف کے دُور ہونے اور روحانی ترقی کے لیے دُعا کرتا ہوں.) الفضل ۲۲ متی ۹۵۵ اس سفر میں حضور نے متعد دمشہور ڈاکٹروں سے مشورہ لیا تا ہم اصل علاج ڈاکٹر پروفیسر روسیو PROSSIER نے کیا.یہ وہ مشہور معالج ہیں جنہوں نے گورنر جنرل پاکستان غلام محمد کا علاج بھی کیا تھا.ان کی ہدایت و نگرانی میں حضور کے سر کے مختلف ایکسرے لیے گئے.ڈاکٹر نے پوری توجہ کے ساتھ کیس ہسٹری تیار کی.ان کی توجہ اور طریق علاج سے حضور بہت مطمئن ہوئے.ایک ہو میو پیتھ ڈاکٹر گیزل GISEL سے بھی مشورہ لیا گیا.ان کی ہشاش بشاش طبیعت اور طریق علاج کو حضور نے پسند فرمایا اور ان سے ہو میو پیتھی کے متعلق گفتگو کرتے رہے.مشہور معالج ڈاکٹر بوسیو 80510 سے بھی مشورہ لیا گیا.اس کے متعلق حضور نے اپنے ایک پیغام میں ارشاد فرمایا :- " خدا کا شکر ہے تمام طبی ٹیسٹ مکمل ہو گئے ہیں اور بیماری متعین کیر لی گتی ہے.مشہور معالج ڈاکٹر بوسیو نے رپورٹوں کا مطالعہ کرنے کے بعد آج اپنی تشخیص ہے مطلع کر دیا ہے.ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خون اور شریانیں اور باقی ہر چیز معمول کے مطابق پائی گئی ہے لیکن یہ کہ مجھے بہت زیادہ آرام کرنا چاہیئے اور اگر ممکن ہو سکے تو مجھے یہاں کچھ زیادہ عرصہ قیام کرنا چاہیئے.پھر یہ کہ میری تقریریں مختصر ہونی چاہئیں.انہوں نے مزید کہا ہے کہ گذشتہ سال حملہ کے نتیجہ میں جو زخم لگا تھا وہ خطرناک تھا اور یہ کہ سرجن کی رائے درست نہیں تھی ایکسرے فوٹو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چاقو کی نوک گردن میں ٹوٹ گئی تھی جو اب بھی اندر موجود ہے اور ریڑھ کی ہڈی SPINAL CORD SPINA L کے قریب ہے.خدا کا شکر ہے کہ جن خطرناک معاتنوں سے بچنے کی کوشش کی جار ہی تھی اب ان کی ضرورت باقی نہیں رہی.میرا کمل آرام دوستوں کے ہاتھ میں ہے.اگر دوست میری پوری طرح مد کریں تو ڈاکٹروں کی

Page 126

IFY رائے کے مطابق کچھ مزید کام کر سکتا ہوں اگر دوستوں نے تعاون نہ کیا تو خطرہ موجود ہے.ر الفضل ۲۴ مئی ۱۹۵۵ تفسیر قرآن پر خطبات : زیورچ میں حضور نے ۲۰ مئی شہدا کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :- چند سال ہوئے کہ میں ایک دفعہ برف دیکھنے کے لیے ڈلہوزی گیا وہاں پر میں دوسپر کے وقت تھوڑی دیر کے لیے بیٹھا تو مجھے الہام ہوا کہ دنیا میں امن کے قیام اور کمیونزم کے مقابلہ کے لیے سارے گر سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں.مجھے اس کی تفسیر سمجھائی گئی.جو عرفانی طور پر تھی نہ کہ تفصیلی طور پر - عرفانی کے معنے یہ ہیں کہ دل میں ملکہ پیدا کر دیا جاتا ہے لیکن وہ تفصیل الفاظ میں نہیں نازل ہوتی.کچھ دنوں کے بعد دوستوں سے اس کا ذکر آیا اور وہ پوچھتے رہے کہ اس کی کیا تفسیر ہے میں نے کہا کہ میں کبھی اس کے متعلق مفصل رسالہ لکھوں گا.خصوصاً جب مخالف دعوای کرے کہ اس کے پاس ان دونوں کا جواب موجود ہے.لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ مجھے اب تک یہ رسالہ لکھنے کا موقعہ نہ ملا.اب جبکہ میں بیمار ہو گیا ہوں اور بظاہر اس کا موقعہ ملنا مشکل ہے میں نے مناسب سمجھا کہ خواہ اشارہ ہی چند الفاظ میں ہو ئیں اس کا مضمون بیان کرتا ہوں تا وہ علماء کے کام آئے اور وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں." حضور نے چار خطبوں میں اس وہی علم کی روشنی میں سورۃ فاتحہ کی ایمان افروز تفسیر بیان فرمائی.ان خطبوں سے جماعت میں نئی امنگ اور حوصلہ پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور کی بیماری کے اثرات ختم ہو رہے ہیں اور حضور نے پہلے کی طرح علمی کام شروع کر دیتے ہیں.مبلغین کی کانفرنس : ان خطبات اور حضور کی دوسری تبلیغی مصروفیات سے یہ بھی پتہ چلا کہ علاج وصحت سے کہیں بڑھ کر حضور کو خدمت قرآن اور اشاعت اسلام میں دلچسپی ہے.یہی وجہ ہے کہ حضور نے علاج کے دوران ہی زیورچ سے دنیا بھر کے مبلغین کو ایجنڈا سوالنام ارسال فرمایا تھا تا وہ جماعتوں اور دوسرے مبلغوں سے مشورہ کر کے مبلغین کی کانفرنس میں شریک ہوں یہ کانفرنس ۱۲۲ ۲۴۱۲۳ جولائی کو لندن میں ہوئی.حضور نے کانفرنس میں شرکت فرمائی.اہم اور

Page 127

۱۲۷ دور رس ہدایات سے نوازا.یورپ.امریکہ اور افریقہ میں تبلیغی مساعی کو تیز تر کرنے کی تجاویز پر غور ہوا اور اس طرح دنیا نے ایک دفعہ پھر اس بات کا مشاہدہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بعد دنیا بھر میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے لیے کوشاں رہنے والی جماعت جماعت احمدیہ ہی ہے اور اس کے فتح نصیب امام کی اولوالعزمی اسلامی ترقیات کے نئے سنگ میل نصب کر رہی ہے.فیصل آباد کے ایک شدید مخالف اخبار المنبر نے (جو پہلے المنیر کے نام سے شائع ہوتا تھا) انس کا نفرنس کی تفصیلی روئیداد اپنے اخبار میں درج کرنے کے بعد لکھا :- " خدا را غور کیجئے کتنی دور اس سکیم ہے.تمام دنیا میں وسیع پیمانہ پراسلامی لٹریچر کی اشاعت" ایک اسی شق کو سامنے رکھتے اور تبلا یے کہ آپ کی یہ شور و غل بپا کرنے والی جماعتیں اس کا توڑ کیا مہیا کر رہی ہیں ؟ اور جیسی معیاری تقاریر ہمارے ہاں قادیانیوں کے خلاف کی جارہی ہیں کیا وہ اس منصوبہ بندی کا توڑ ہو سکتی ہیں......خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کام کا جواب نعروں سے ؟ مسلسل جدوجہد کا توڑ اشتعال انگیزی سے علمی سطح پر مساعی کو ناکام بنانے کا داعیہ صرف پھستیوں بے ہودہ جلوسوں اور نا کارہ ہنگاموں سے پورا نہیں ہو سکتا.اس کے لیے جب تک وہ انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے فکری اور عملی تقاضے پورے ہوں ، ہنگامہ خیزی کا نتیجہ وہی برآمد ہو گا جس پر مرزا صاحب کا العام إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَاهَا نَتَكَ صادق آئے گا.جو لوگ اس طرفہ پر مثبت کام نہیں کر سکتے وہ قادیانی تحریک کے صیحح حامی و مدد گار ہیں.وہ اس نہج پر جتنا کام کریں گے.اس سے بہ تحریک تقویت حاصل کرے گی " ر المنبر فصل آباد ار اگست شاته مدیر المنبر نے احمدیہ مساعی کا تجزیہ تو خوب کیا ہے اور نتیجہ بھی درست نکالا ہے مگر یا حسرة على العباد اس تجزیہ اور نتیجہ سے کوئی فائدہ اور نصیحت حاصل نہ کر سکے.حضور کی واپسی : ۲۴ اگست کو اس خوش قسمت قافلہ کا ایک حصہ بجریت کراچی پہنچ گیا.۲۵ اگست کو حضور نے ایک وسیع ہال میں خطاب کرتے ہوئے اپنی جماعت کے افراد کو تلقین فرمائی کہ وہ پوری طرح پاکستان کی وفادار اور دیانتدار رعایا بن کر رہیں.یوروپین حاضرین کو نصیحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ وہ مادی اسباب کی بجائے خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ

Page 128

کریں اور یہ کہ صرف اسی صورت میں دنیا ایتمی تباہی سے بچ کر امن حاصل کر سکتی ہے.اس خطاب میں لندن کے میئر ، پاکستان کے ہائی کمشنر پارلیمنٹ کے نمبر اور متعد د دوسری سر بر آوردہ شخصیات نے شرکت کی.حضور ۲۶ اگست کو لندن سے پاکستان کے لیے روانہ ہوئے.۲۹ تاریخ کو ڈاکٹر روز ویر نے حضور کا آخری معائنہ کر کے حضور کی صحت کو پوری طرح تسلی بخش قرار دیا.۳۱ اگست کو زیورج کے ایک مشہور علمی ادارہ FREEC SOYCEAM میں اسلام کی روح اور اس کے بنیادی اُصول" کے عنوان پر ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا.۵ ستمبر کو حضور بخیر و عافیت کراچی پہنچے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک خیر مقدمی تار دیا.قادیان اور ربوہ میں اس موقعہ پر خوب چراغاں کیا گیا اور خوشی منائی گئی.حضرت چوہدری ظفر اللہ خانصاحب کی خصوصی خدمات : اس سفر میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بطور خاص خدمت کرنے کا موقعہ ملا.ان کا تجربہ اور مشورے کئی لحاظ سے بہت مفید ثابت ہوئے.حضور نے ان کی خدمات کی قدر کرتے ہوئے متعدد مرتبہ ان کی تعریف فرمائی ایک موقعہ پر حضور اپنی کئی سال پرانی خواب کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور چوہدری عبداللہ خان صاحب اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب حضور کے پاس حضور کی طرف سر کر کے لیٹے ہوتے ہیں اور حضور انہیں اپنے بیٹے سمجھتے ہیں کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :- " عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ساری عمر دین کی خدمت میں لگاتی ہے اور اس طرح میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا ہے.میری بیماری کے موقعہ پر توالہ تعالی نے نہ صرف ان کو اپنے بیٹا ہونے کو ثابت کرنے کا موقعہ دیا بلکہ میرے لیے فرشتہ رحمت بنا دیا وہ میری محبت میں یورپ سے چل کر کراچی آئے اور میرے ساتھ چلنے اور میری صحت کا خیال رکھنے کے ارادہ سے آتے.چنانچہ ان کی وجہ سے سفر بہت اچھی طرح کٹا اور بہت سی باتوں میں آرام رہا.آخر کوئی انسان پندرہ بیس سال پہلے تین نوجوانوں کے متعلق اپنے پاس سے کس طرح ایسی خبر دے سکتا تھا.دُنیا کا کون سا ایسا مذہبی انسان ہے جس کے ساتھ محض مذہبی تعلق کی وجہ سے کسی شخص نے جو اتنی بڑی پوزیشن رکھتا ہو جو چو ہدری ظفر اللہ خان صاحب رکھتے ہیں اس اخلاص کا ثبوت دیا ہو.کیا یہ نشان نہیں ! مخالف مولوی اور پیر گالیاں تو مجھے دیتے ہیں مگر کیا

Page 129

دوند ۱۲۹ وہ اس قسم کے نشان کی مثال بھی پیش کر سکتے ہیں.کیا کسی مخالف مولوی اور پیر نے ۲۰ سال پہلے کسی نوجوان کے متعلق ایسی خبر دی اور ہمیں سال تک وہ خبر پوری ہوتی رہی اور کیا کسی ایسے مولوی اور پیر کی خدمات کا موقعہ خدا تعالیٰ نے کسی ایسے شخص کو دی جو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی پوزیشن رکھتا تھا.اللہ تعالیٰ ان کی خدمت کو بغیر معاوضہ کے نہیں چھوڑے گا " الفضل ۲۹ متى شلة ) حضور نے نیکم جولائی شعلہ کو ہیگ (ہالینڈ) میں جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.اس میں آپ فرماتے ہیں :." برادران ! کل صبح میں آپ کے ملک سے جارہا ہوں اور طبعی طور پر یہ جدائی مجھے شاق گزر رہی ہے افسوس ہے کہ میں یہاں ایسے وقت میں آیا جبکہ میں بیمار تھا اور اس بیماری کی وجہ سے میری نظر کان اور قوت یاد داشت کافی حد تک اثر پذیر ہیں.اس لیے میں احباب کے چہروں اور ان کے ناموں کو بہت جلد بھول جاتا ہوں مجھے ڈر ہے کہ میرے بھائی یہ محسوس نہ کریں کہ میں ان کی طرف توجہ نہیں کرتا حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.واقعہ یہ ہے کہ میں بعض اوقات ان کے چہروں کو بھول جاتا ہوں اور دوسروں سے پوچھتا ہوں کہ وہ صاحب کون ہیں لیس یہ بات صرف میری بیماری کی وجہ سے ہے عدم توجہ کی وجہ سے نہیں.......میں یہاں تھوڑے عرصہ کے لیے آیا تھا اور جلد ہی آپ لوگوں سے رخصت ہو رہا ہوں اور موجودہ حالات میں میں یہ خیال نہیں کر سکتا کہ دوبارہ جلد آپ کے پاس آسکوں گا......جب میں نوجوانی کو پہنچا تو اس وقت میں نے اپنا ایک اخبار" الفضل" نامی جاری کیا تھا، بلکہ اس سے بھی پہلے جب میں صرف چودہ سال کی عمر کا تھا تو میں نے ایک ماہوار رسالہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے نکالا اور پہلا مضمون جو میں نے اس میں لکھا اس کا مضمون یہ تھا کہ تم یہ نہ دیکھو کہ اس وقت کتنے احمدی ہیں بلکہ تم قدرت کے کام کی طرف دیکھو تم دیکھتے ہو کہ یہ بڑے بڑے جنگلات جو سینکڑوں میں میں پھیلے ہوتے ہیں یہ صرف چھوٹے سے بیج سے شروع ہوئے ہیں.اسی طرح ایک چھوٹا سا بیج اس زمین میں بویا گیا اور اس نے اس زمین میں جڑیں پکڑ لی ہیں.اب اس سے ایک عظیم الشان درخت پیدا ہوا ہے........اب تم اس زمانے پر جس وقت میں نے بیمضمون لکھا نظر ڈالو اور

Page 130

١٣٠ جماعت کی موجودہ حالت کو دیکھو تمہیں پتہ لگے گا کہ ہماری جماعت نے کیسی حیرت انگیز ترقی کی ہے " لندن میں اہم دینی مصروفیات : الفضل ۱۹ اگست را ۱۹۵۵ { لندن میں دنیا کے تمام براعظموں کے مبلغین اسلام کی عظیم الشان تاریخی کا نفرنس منعقد ہوئی.دنیا میں اسلامی لٹریچر کی وسیع پیمانے پر اشاعت نئے مشنوں کا قیام اور نئے مقامات پر مساجد کی تعمیر کے متعلق غور و مشورہ کیا گیا.نائیجریا (مغربی افریقہ کی جماعت نے حضور رضی اللہ کی خدمت میں عقیدت و اخلاص کا اظہار کرنے کے لیے اپنے ایک نمائندہ مسٹر عبدالغفار اگو گو نائب صدر جماعت احمدی نائیجریا کو بھجوایا.....انہوں نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے جذبات عقیدت پیش کئے اور عرض کیا کہ حضور ہمارے روحانی باپ ہیں اور ہم حضور کے بچے ہیں.ہماری یہ شدید خواہش ہے کہ حضور نائیجریا تشریف لائیں اور اپنے روحانی بچوں کو اپنی شفقت اور محبت سے نوازیں.حضور کی بیماری ہمارے لیے باعث تشویش رہی ہے......مسٹر گو گو نے مزید عرض کیا کہ میں الفاظ میں اظہار نہیں کرسکتا کہ میں کس قدر خوش ہوں اور خدا کا شکر گزار ہوں کہ مجھے خود اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ارجمند اور خلیفہ ایسیح کو دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی...جماعت نایجریا کی طرف سے محبت و عقیدت کے اظہار کی نشانی کے طور پر ایک چھڑی حضور کی خدمت میں پیش کی گئی اور مستعمل چھڑی کے لیے عرض کیا گیا.جسے حضور نے منظور فرما لیا.حضور نے جب اپنی چھڑی مٹرا گو گو کو مرحمت فرمائی.تو انہوں نے فرط محبت سے چھڑی سینہ سے لگائی.اور ان پر ایک وجد اور سرور کی کیفیت طاری تھی اور بے ساختہ الحمد للہ الحمد للہ کہہ رہے تھے" الفضل ۱۲ راگست ۱۹۵۵ه ) کراچی میں خیر مقدم : ستمبر شاہ کراچی میں ایک نمائندہ اجتماع میں جس میں احباب کراچی کے علاوہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش صوبہ سرحد صوبہ سندھ صوبہ پنجاب صوبہ بلوچستان جماعت کراچی اور صد را نمین احمدیہ ربوہ کے نمائندگان شامل تھے.چوہدری عبداللہ خان صاحب نے حضور کی خدمت میں خیر مقدمی ایڈریس

Page 131

۱۳۱ پیش کیا جس میں حضور کی صحت یابی پر خوشی کا اظہار اور حضور کے اس سفر کے ذریعہ پوری ہونے والی پیشگوئیوں کا ذکر کرنے کے علاوہ یہ عہد بھی کیا کہ سب جماعتیں حضور کی صحت کے پیش نظر اقرار کرتی ہیں کہ اپنے جذبات کو ایک حد تک دبا کر بھی حضور کے آرام کے لیے ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی.حضور نے اس ایڈریس کے جواب میں مندرجہ ذیل ولولہ انگیز خطاب فرمایا جس میں علاج معالجہ اور ڈاکٹروں کے تاثرات کا ذکر تو ضرور تھا مگر زیادہ زور اور توجہ ہمیشہ کی طرح غلبہ اسلام کی طرف تھی." میں ان تمام جماعتوں کے لیے دُعا کرتا ہوں جن کے نمائندے اس وقت کراچی میں تشریف لاتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرماتے اور ان کا حافظ و ناصر ہو.چونکہ یہ ایک اہم موقعہ ہے اس لیے میں اس وقت کچھ ضروری باتیں کہنا چاہتا ہوں جو ان ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق ہیں جنہوں نے وہاں مجھے دیکھا ہے.ڈاکٹر روسیو جن کا علاج تھا انہوں نے مجھے ایک بات کہی ہے.یوں تو یورپ کے بعض دوسرے ممالک میں اور بھی کئی ڈاکٹروں نے مجھے دیکھا ہے.جرمن ڈاکٹروں نے بھی دیکھا ہے.انگریز ڈاکٹروں نے بھی دیکھا ہے، لیکن اصل علاج ڈاکٹر روسیو کا تھا جو زیورک کے یونیورسٹی ہاسٹل کے میڈیکل ڈائریکٹر ہیں.پہلے بھی انہوں نے مجھے متواتر کیا تھا مگر چلتے وقت انہوں نے خصوصیت سے کہا کہ یہ بات ایک بار پھر میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک معین طاقت رکھی ہے اور وہ اس طاقت کے مطابق کام کر سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں.آپ نے اپنی گذشتہ عمر میں نارمل حالت سے ڈیڑھ سو فیصدی زیادہ کام کیا ہے اب میں آپ کی بیماری کی آخری حالت کو دیکھ کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر پہلے آپ نارمل حالت سے ڈیڑھ سو فیصدی زیادہ کام کر چکے ہیں تو اب ایک نارمل آدمی کی صلاحیت کے مطابق کام کریں لیکن اس سے زیادہ کام نہ کریں آپ کو اب آرام کی زیادہ ضرورت ہے.آپ آرام کریں اور طبیعت کو ہمیشہ خوش رکھیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی صحت میں جو ترقی ہو رہی ہے وہ ضائع ہو جائے.دوستوں کو چاہیتے کہ وہ ایک دوسرے کو یہ باتیں اچھی طرح سمجھا دیں تاکہ ڈاکٹری مشورہ کے مطابق وہ میری صحت کے لیے کسی تشویش کا موجب نہ نہیں.اس کے بعد حضور نے مغرب میں تبلیغ اسلام کے موضوع پر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار فرمایا اور بتا یا کس طرح ان لوگوں کے دلوں میں

Page 132

۱۳۲ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی سچائی اثر کرتی چلی جارہی ہے اور وہ قرآنی تعلیم کی افضلیت اور اس کی برتری کے قائل ہوتے جا رہے ہیں.حضور نے جماعت کو مسلسل قربانیوں کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.اگر کسی سلسلہ کا صرف ایک فرد پر انحصار ہو تو آج نہیں توکل و پس ختم ہوجائیگا، لیکن اگر جماعت کا ہ فرد اپنے آپکو قربانی کیلئے پیش کرے اوروہ اوراسکی اولاد اسلام کی اشاعت کیلئے مسل کوشش کرتی چلی جائے تو ایک لیے عرصے تک یہ سلسلہ محمد ہو سکتا ہے اور بہت جلد اسلام دنیا پر غالب آ سکتا ہے.یہ بیاد رکھو کہ ابتداء میں ترقی ہمیشہ آہستگی کے ساتھ ہوتی ہے، لیکن الہی سنت یہ ہے کہ کچھ وقفہ کے بعد بڑے زور کے ساتھ بند ٹوٹتا ہے اور لاکھوں لاکھ لوگ بچے مذہب میں شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں.پس اپنی جدوجہد کو جاری رکھو اور اس دن کا انتظار کرو جب خُدائی نصرت اور اس کی مدد کا وقت آجائے گا.اگر ہماری جماعت نے قربانی کی اس سپرٹ کو قائم رکھا تو جب کامیابی کا وقت آئے گا تو وہ لوگ جو ہمت ہار کر بیٹھ چکے ہوں گئے.حسرت کریں گے کہ کاش ہم ہمت نہ ہارتے اور ہم بھی اس فتح میں شریک ہو جاتے " الفضل.استمبر ممثلة ) الہ تعالیٰ کے فضل سے حضور کے اس کامیاب دورہ میں جہاں ڈاکٹروں کو صحت تشخیص اور علاج کرنے کی توفیق حاصل ہوئی وہاں خدمت اسلام کے بعض انتہائی اہم کام بھی سر انجام پاتے.جیسے دنیا بھر کے مبلغین کے نمائندگان کی کانفرنس سوئس ٹی.وی پر حضور کا موثر پروگرام مختلف مقامات پر پریس کانفرنسیں اور عام خطاب حضور کی زبان مبارک سے اسلام کی دلنشیں تعلیمات کے بیان سے متاثر ہو کر بعض غیرمسلم معززین جن میں ایک متاز جرمن مستشرق بھی شامل تھے کا قبول اسلام وغیرہ.اس طرح اگر ایک طرف ایسی دور رس نتائج کی غیر معمولی تجاویز منظور ہوئیں جن کے ثمرات و تاریخ آج ہمارے سامنے ہیں اور آئندہ نسلیں بھی ان سے مستفیض ہوں گی.تو دوسری طرف حضور کی صحت میں افاقہ تبلیغ و اشاعت اسلام کے تازہ بتازہ پھل اور شاندار نتائج بھی حاصل ہوئے.حضور کا ایک نہایت اہم خطاب : جماعت کے صاحب الرائے بزرگوں نے حضور کے آرام و صحت کی خاطر ایک دفعہ پھر یورپ جانے کی درخواست کی تو حضور نے نمائندگان شوری سے خطاب کرتے ہوئے بعض بنیادی امور کی وضاحت فرمائی جن سے حضور کے کردار کے نہایت حسین پہلو نمایاں ہوتے ہیں.حضور نے فرمایا.

Page 133

۱۳۳ " یہ بات تو ڈاکٹروں کی مرضی پر ہے.میں جب ولایت سے واپس آیا تھا تو چونکہ وہاں موسم ایک قسم کا رہتا ہے اور یہاں بدلتا رہتا ہے اس لیے مجھے وہاں یقینا فائدہ ہوا اس سال جلسہ سالانہ پر میری طبیعت اچھی رہی لیکن بعد میں جنوری سے فروری تک جو بارشیں شروع ہو تیں اور پھر گر کی ہی نہیں.روزانہ بارش ہوتی رہتی ہے اس سے طبیعت خراب ہو گئی.کل خدا تعالیٰ کے فضل سے باوجود کام کرنے کے طبیعت بحال رہی.اسی طرح آج بھی کچھ نہ کچھ کام کرنے کی توفیق مل گئی.اس قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی ہیں کے متعلق میں سمجھوں کہ کام میں روک پیدا ہوتی ہے، لیکن جب تک ڈاکٹری مشورہ نہ ہوئیں کہیں نہیں جا سکتا.میں تو سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر کئے تو پھر تو حکم ہو گیا.اور اس صورت میں مجبوری ہوتی ہے.میں نے بعض ڈاکٹروں سے بات کی ہے انہوں نے ملک سے باہر جانے کا مشورہ نہیں دیا.انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت حالت اور ہے اور جب ہم نے یورپ جانے کا مشورہ دیا تھا اس وقت حالت اور تھی.اس وقت ضروری تھا کہ ہم آپ سے یورپ جانے کے لیے کہتے لیکن اب ہم نہیں کہ سکتے اگر ہمیں نظر آیا کہ آپ کو وہاں جانے سے فائدہ ہوگا تو ہم پھر کہیں گے کہ آپ یورپ چلے جائیں.........جب میں پچھلی دفعہ یورپ گیا تھا تو گو اب اتنے قافلہ کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن اس وقت میں اپنی بیویوں کو بھی ساتھ لے گیا تھا اور ان بچوں کو بھی ساتھ لے گیا تھا جن کی مائیں پیچھے نہیں تھیں.جماعت کے دوستوں نے جو چندہ جمع کیا تھا اس کے علاوہ میرا ۳۸ ہزار روپیہ خرچ ہو گیا.واپس آکر میں نے ۳۸ ہزار روپیہ میں ۳۲ ۳۳۱ ہزار روپیہ ادا کر دیا ہے 44 ہزار روپیہ ابھی ادا کرنا باقی ہے.ابھی میں وہی ادا کر رہا ہوں.اس لیے ابھی اس بات کا سوال پیدا نہیں ہوتا کہ میں کہیں باہر جاؤں کیونکہ ابھی پچھلے سفر کا قرضہ مجھے پر باقی ہے.جو چیزیں ایسی تھیں جو کہ لفظاً اس ریزولیوشن کے نیچے آتی تھیں جو جماعت نے پاس کیا تھا مثلاً میرا کرایہ یا میری ڈاکٹری فیس وہ تو میں نے چندہ سے لے لیا.باقی جو بیویوں اور بچوں کے اخراجات تھے وہ میں نے خود سارے کے سارے ادا کئے تاکہ جماعت پر بوجھ نہ ہو........جب میں یورپ گیا تھا تو میں اپنے پیچھے اپنے ایک داماد کو کام سپرد کرگیا تھا اسے کام کا تجربہ نہیں تھا اس لیے میری غیر حاضری میں اس نے مجھے بہت مقروض کر دیا.

Page 134

پھر سارا سال خروج میں تنگی کرنی پڑی.میرے ایک بیٹے کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی اور اس کچھ کام کیا تو اس جلسہ پر میں نے اعلان کیا کہ وہ قرضہ میں نے اس حد تک ادا کر دیا ہے لیکن کچھ حصہ قرضہ کا ابھی باقی ہے جو میں چاہتا ہوں کہ اپنے سامنے ادا کر دوں.اس طرح بچوں کو بھی توجہ رہتی ہے کہ وہ قرضہ ادا کریں.ہر حال خدا تعالیٰ میں سب طاقتیں ہیں.جو خدا باہر جا کر صحت دے سکتا ہے وہ یہاں بھی ایسے سامان کر سکتا ہے کہ میری صحت میں ترقی ہو جاتے.پچھلی دفعہ بھی میں باہر جانے پر راضی نہیں تھا مگر سامان ایسے ہو گئے کہ مجھے باہر جانا پڑا.میں یکدم ایسا بیمار ہو گیا کہ ڈاکٹروں نے رائے دی کہ میں باہر چلا جاؤں........ڈاکٹروں نے کہا اب دوائیں ختم ہو چکی ہیں دوائیں اب آپ کو فائدہ نہیں دے سکتیں اب ایک ہی علاج ہے کہ آپ فورا باہر چلے جائیں یورپ کی جو آب و ہوا ہے وہ آپ کو مفید پڑے گی......چنانچہ ایسا ہی ہوا جب ہم وہاں پہنچے تو میں فوراً کچھ نہ کچھ چلنے پھرنے لگ گیا اور جسم میں طاقت آگئی.واپس آکر جو صحت میں پروگریس PROGRESS ہوتی ہے وہ ظاہر ہی ہے.سولہ میں میں نے مجلس شوری میں کچھ کام کیا تھا لہ میں میں بیمار ہو گیا اس لیے اس سال شوری میں میں نہ آسکا.1907ء میں بھی میں صرف ایک دن اجلاس میں آیا تھا اور پھر واپس چلا گیا تھا.کوئی کام نہیں کیا تھا.آج کہ میں چار سال کے بعد پھر خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی ہے کہ میں شوری میں تمام اجلاسوں میں شریک ہوا ہوں اور کام بھی کیا ہے.یہ الہ تعالی کا فضل ہے کہ میری صحت میں ترقی ہوئی اور ہو رہی ہے لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں کوئی نمایاں فرق نہیں پڑا.مثلاً ہاتھوں میں جو بے حسی تھی وہ ابھی تک دُور نہیں ہوتی.اس سے بعض اوقات بڑی گھرا ہٹ ہو جاتی ہے.پیر کی انگلیاں اندر کو کھپتی ہیں اور ہاتھ بے حس ہو جاتا ہے.ہوتی تو یہ مذاق کی بات ہے لیکن گھر میں میرا کوئی چھوٹا پوتا یا نواسہ آجائے تو وہ بیمار نہیں سمجھتا.وہ میرا ہاتھ پکڑے تو میں فوراً گھبرا جاتا ہوں کہ کیا ہوگیا ہے اور میرا ہاتھ کدھر چلا گیا ہے.غرض ان چیزوں کو کوئی نمایاں فائدہ نہیں ہوا.پس جب تک مجھے یقین نہ ہو جاتے کہ یورپ میں کوئی نیا علاج نکل آیا ہے اس وقت تک میرا وہاں جانا مشکل ہے......سوئٹزر لینڈ میں جس ڈاکٹر کے زیر علاج تھا اس نے کہا کہ آپ کو خود

Page 135

۱۳۵ زور لگانا چاہتے کہ آپ اچھے ہو جائیں.آپ جب تک یہ خیال نہ کریں کہ میں اچھا ہوں.اس وقت تک آپ کو کوئی دوائی فائدہ نہیں دے سکتی.میں نے کہا جب مجھے نظر آتا ہے کہ میں بیمار ہوں تو میں اپنے آپ کو تندرست کیسے خیال کر لوں.وہ کہنے لگا چاہے آپ کو سیسی نظر آتا ہے کہ آپ بیمار ہیں لیکن جب تک آپ یہ خیال نہیں کریں گے کہ آپ تندرست ہیں اس وقت تک آپ تندرست نہیں ہو سکتے.میں نے کہا اچھا پھر آپ مجھے ایسی دوائی دیں جس کے استعمال سے میں بُھول جاؤں کہ میں بیمار ہوں تو وہ کہنے لگا یہی بات تو میں کہہ رہا ہوں کہ اس کا ہمیں پتہ نہیں.اگر کوئی فائدہ ہو تو پھر میں وہاں جانے کی کوشش بھی کروں.ورنہ خواہ مخواہ اپنے دوستوں اور عزیزوں سے جُدا بھی ہوں اور کوئی فائدہ بھی نہ ہو تو وہاں جانے کا فائدہ کیا ہے.میں اس ٹوہ میں لگا رہتا ہوں کہ اس بیماری کا کوئی علاج نکل آئے تو میں اس سے فائدہ اُٹھاؤں.رسالوں اور اخباروں میں اس بیماری کے متعلق جو مضامین چھپتے ہیں میں ان کا خیال رکھتا ہوں.پچھلے دنوں امریکہ سے ایسی خبریں آئی تھیں کہ فالج کا بڑا یقینی علاج نکل آیا ہے ، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ابھی زیر تجربہ ہے.ابھی اس پر مزید چار پانچ سال لگ جائیں گے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کے جتنے تجربے ہوتے ہیں.اس سے یقینی اور سو فیصدی فائدہ ہوا ہے.ڈاکٹر حیران تھے اور کہتے تھے کہ آپ کا فالج عجیب ہے فالج والوں کے ہاتھ ٹیڑھے ہو جاتے ہیں میرے ہاتھ کی صرف حسن میں فرق ہے.ذراسی گرم چیز بھی ہاتھ میں پکڑوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں نے آگ کا انگارا ہاتھ میں پکڑ لیا ہے..پس اگر بیماری کا کچھ حصہ باقی ہے تو وہ دُعاؤں کے ساتھ دُور ہو گا.اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا اور سلسلہ کی خدمت کی توفیق دینا اس کے مدنظر ہوگا تو وہ تو فیق دے دیگا.میں تو ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پڑھ کر حیران ہوا کرتا تھا کہ آپ کے اس الہام کا کیا مطلب ہے کہ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ أَن يُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرُكُمُ تَطْهِيرًا ------ جب مجھ پر فالج کا حملہ ہوا تو میں نے سمجھا کہ یہ بیماری آئی ہے کئی قسم کے ریس دُور کرنے کے لیے.مثلاً ایک رجیں تو بہ دُور ہوا کہ پہلے احمدی سمجھتے تھے کہ میں نے پانچ چھ سو سال زندہ رہنا ہے.م

Page 136

بیماری آئی تو انہیں ہوش آگیا کہ ہم بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں.تو ایک رجسں تو یہ دُور ہوا کہ جماعت میں یہ غلط خیال پیدا ہو گیا تھا کہ خلیفہ المسیح قیامت تک زندہ رہیں گے ہمیں کوئی فکر نہیں یہ ہمارا کام کرتے رہیں گے.دوسرار جس یہ تھا کہ حضرت خلیفہ البیع الاول کی اولاد کو یہ خیال تھا کہ ہم خلیفہ بنیں گے.اگر میں بہار نہ ہوتا اور ان کو پتہ نہ گلتا کہ میں پاکستان سے باہر گیا ہوں تو وہ اس طرح دلیری سے آگے آتے ہیں اس واقعہ نے اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البيت والی بات کو پورا کر دیا.خدا تعالیٰ کا منشا یہی ہے کہ وہ ان باتوں سے جماعت کو ہوشیار کرتا رہے.تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد جب اخبار میں چھپتا ہے کہ طبیعت اچھی نہیں تو جماعت میں بیداری پیدا ہوتی ہے اور انہیں بیماری کا احساس ہوتا ہے.ادھر کچھ دعائیں ہوتی ہیں اور کچھ منافقوں کی منافقت ظاہر ہوتی ہے.اب مثلاً ہماری جماعت کو اس قسم کا اخلاص دکھانے کا جو موقعہ ملا ہے اور کل جو خلافت کے استحکام کے لیے ریزولیوشن پیش کئے گئے دراصل یہ وہی بات تھی کہ خدا تعالیٰ نے جماعت سے رجس کو دور کیا اور جماعت کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ ہم نے خلافت کا جھنڈا ہمیشہ کھڑا رکھنا ہے اگر یہ بیماری نہ ہوتی تو یہ باتیں بھی پیدا نہ ہوئیں پس میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ بیماری محض تطہیر کے لیے ہے.یہ بیماری اس لیے ہے کہ جماعت کی اصلاح ہو اور ہم سلسلہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں.اس کے لیے نہیں خدا تعالیٰ سے بھی دُعائیں کرنی چاہئیں.کوئی تعجب نہیں کہ خدا تعالیٰ موجودہ عارضوں کو بھی دور رپورٹ مشاورت ۱۹۵۷ - صفحه ۱۵ تا ۱۱۹ ) کر دے

Page 137

ند ۱۳۷ خدمت قرآن پانی کر دے علوم قرآن کو گاؤں گاؤں میں ایک کے ازی بخش سب سے اول اور ضروری چیز جس کی جماعت کو ضرورت ہے وہ اصلاح | نفس ہے.خدا تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ اس لیے قائم کیا ہے کہ ہم اسلام کی حقیقی شکل دنیا پر ظاہر کریں اور یہ کام بغیر اس کے ہو نہیں سکتا کہ ہمارا خدا تعالیٰ سے کامل تعلق ہو.اور یہ تعلق بغیر اصلاح نفس کے نہیں ہو سکتا.پس میں دوستوں سے کہوں گا کہ وہ اصلاح نفس کریں اس کے لیے نہایت ضروری بات قرآن کریم ( حضرت مصلح موعود ) کا مطالعہ ہے" مين

Page 138

۱۳۸ ضرت مصلح موعود کی ابتدائی تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعود کو مختلف رنگوں میں خدمت قرآن کی غیر معمولی توفیق حاصل ہوئی.حقیقت تو یہ ہے کہ آسمان احمدیت پر ابھرتے ہوتے اس ستارے کی طرف اپنوں اور غیروں کی نظریں اسی وجہ سے اٹھنی شروع ہو گئی تھیں کہ آپ کی زبان و قلم سے قرآن مجید کے معارف خارق عادت طور پر اس طرح بیان ہوتے تھے جو ایک نوعمر کی استعداد سے بہت بڑھ کر تھے.اس کے ساتھ ہی اگر یہ امر بھی پیش نظر رکھا جائے کہ حضرت مصلح موعود کی کمزوری صحت کی وجہ سے آپ کی تعلیم کا بخوبی اہتمام نہیں کیا جا سکا تھا.تو معارف قرآنی کا بیان اور بھی غیر معمولی بات بن جاتی ہے.اس امر کا کسی قدر تذکرہ پہلی جلد میں ہو چکا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے تین ماہ میں قرآن مجید اور دو ماہ میں بخاری شریف کی تعلیم مکمل کرلی تھی اور وہ بھی اس طرح کہ آپ کے محترم استاد (حضرت مولنا نورالدین خلیفہ ایسیح الاول خود جلد جلد پڑھتے جاتے تھے اور ان کا یہ شاگر د صرف سُن کر ہی سیکھ رہا تھا.ظاہر ہے کہ یہ طریق اور عرصہ تعلیم اتناکم اور منحصر ہے کہ اس میں تو کسی علم کی بنیادی باتیں بھی نہیں سیکھی جاسکتی تھیں.چہ جائیکہ قرآن و حدیث کے معارف و مطالب سیکھ لیے جائیں.یوں لگتا ہے کہ تعلیم کا یکسی قدر اہتمام بھی محض رعایت اسباب کو ادب کا طریق سمجھتے ہوتے کیا گیا.حضر مسیح موعود علیہ السلام بخوبی سمجھتے تھے کہ عظیم پیش خبر لوں کے اس مصداق کا معلم و مربی خود خدا تعالیٰ ہے اور وہی اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ اپنے وعدہ کے مطابق آپ کو ظاہری و باطنی علوم سے پُر کر دے.قرآن کا علم فرشتوں سے حاصل ہوا مذکورہ بالا مفر قسم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی اصل تربیت تعلیم یعنی فرشتوں کے ذریعہ قرآنی علوم و معارف سکھانے کا سلسلہ شروع ہوا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- " میں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا.مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لیے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے وہم اور گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا اور وہ چشمہ روحانی جو میرے سینے میں چھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا

Page 139

ہے جویہ دعوی کرتا ہوکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھا یا گیا ہے تو میں ہروقت اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو.خدا..نے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانے میں اس نے قرآن سکھانے کیلئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے.....ایک اور موقعہ پر آپ نے فرمایا :- الموعود و صفحه ۲۱۰ - ۲۱۱ ) " میں نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا.ہر دفعہ فیل ہی ہوتا رہا ہوں.مگر اب میں خدا کے فضل سے کہتا ہوں کہ کسی علم کا مدعی آجاتے اور ایسے علم کا مدعی آجاتے جس کا میں نے نام بھی نہ گنا ہو اور اپنی باتیں میرے سامنے مقابلہ کے طور پر پیش کرے اور میں اسے لاجواب نہ کر دوں تو جو اس کا جی چاہیے کہے.ضرورت کے وقت ہر علم خدا مجھے سکھاتا ہے اور کوئی شخص نہیں ہے جو مقابلہ میں ٹھہر سکے.۵۳ ر ملائكة الله منه ) ہ مجھے الہ تعالی نے ایک رویا - دکھایا میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ کھڑا ہوں مشرق کی طرف میرا منہ ہے کہ آسمان پر سے مجھے ایسی آواز آئی جیسے گھنٹی بجتی ہے یا جیسے پتیل کا کوئی کٹورہ ہو اور اسے ٹھکوریں تو اس میں سے باریک سی مٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے.پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز پھیلنی اور بلند ہونی شروع ہوئی.یہانتک کہ تمام جو میں پھیل گئی.اس کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ آواز متشکل ہو کر تصویر کا چوکھٹا بن گئی پھر اس چوکھٹے میں حرکت پیدا ہونی شروع ہوئی اور اس میں ایک نہایت ہی حسین اور خوبصورت وجود کی تصویر نظر آنے لگی.تھوڑی دیر کے بعد وہ تصویر ملنی شروع ہوئی اور پھر یکدم اس میں سے کود کر ایک وجود میرے سامنے آگیا اور کہنے لگا میں خدا کا فرشتہ ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ میں تمہیں سورۃ فاتحہ کی تفسیر کھاؤں میں نے کہا سکھاؤ وہ سکھاتا گیا.سکھاتا گیا اور سکھاتا گیا یہاں تک کہ جب وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین تک پہنچا تو کہنے لگا آج تک میں قدر مفسرین گزرے ہیں ان سب نے ہیں تک تفسیر کی ہے، لیکن میں تمہیں آگے بھی سکھانا چاہتا ہوں میں نے کہا سکھاؤ.چنانچہ وہ سکھاتا چلا گیا یہاں تک کہ ساری سورۃ فاتحہ کی تفسیر اس نے

Page 140

۱۴۰ مجھے سکھا دی.جب میری آنکھ کھلی تو اس وقت فرشتہ کی سکھاتی ہوئی باتوں میں سے کچھ باتیں مجھے یاد تھیں مگر میں نے ان کو نوٹ نہ کیا.دوسرے دن حضرت خلیفہ اول سے میں نے اس رویا کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ مجھے کچھ باتیں یاد تھیں مگر میں نے ان کو نوٹ نہ کیا اور اب وہ میرے ذہن سے اُتر گئی ہیں.حضرت خلیفہ اول پیار سے فرمانے لگے کہ آپ ہی تمام علم لے لیا.کچھ یاد رکھتے تو ہمیں بھی سناتے.یہ رویا.اصل میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بیج کے طور پر میرے دل اور دماغ میں قرآنی علوم کا ایک خزانہ رکھ دیا ہے.چنانچہ وہ دن گیا اور آج کا دن آیا کبھی کسی ایک موقع پر بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے سورۃ فاتحہ پر غور کیا ہو یا اس کے متعلق کوئی مضمون بیان کیا ہو تو اللہ تعالے کی طرف سے نئے سے نئے معارف اور نئے سے نئے علوم مجھے عطا نہ فرمائے گئے ہوں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے قرآن کریم کے تمام مشکل مضامین مجھ پر حل کر دیتے ہیں یہاں تک کہ بعض ایسی آیات جن کے متعلق حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ان کے معانی کے متعلق پوری تسلی نہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان آیات کے معانی بھی مجھ پر کھول دیئے گئے ہیں " ( الموعود صفحه ۸۴ تا ۸۶ ) اسی طرح آپ فرماتے ہیں : سمہ حضرت خلیفہ اول کی زندگی کا واقعہ ہے کہ منشی فرزند علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے قرآن پڑھنا چاہتا ہوں.اس وقت ان سے میری اس قدر واقفیت بھی نہ تھی.میں نے عذر کیا مگر انہوں نے اصرار کیا میں نے سمجھا کہ کوئی منشاء الہی ہے.آخر میں نے ان کو شروع کر دیا ایک دن میں پڑھا رہا تھا کہ میرے دل میں بجلی کی طرح ڈالا گیا کہ آیت رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ (البقره : ۱۳۰) سورة بقره کی کلید ہے اور اس سورۃ کی ترتیب کا راز اس میں رکھا گیا.اس کے ساتھ ہی سورۃ بقرہ کی ترتیب پورے طور پر میری سمجھ میں آگئی یا ر منصب خلافت صفحه ۱۲-۱۳ ) اپنی عمر کے آخری حصے میں شدید بیماری کے دوران جب حضور بغرض علاج بیرون ملک گئے ہوتے تھے.خدمت قرآن کے مقدس فریضہ کی ادائیگی کا سلسلہ وہاں بھی جاری تھا.اس سلسلہ میں الہی تائید کا دید

Page 141

۱۴۱ ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- " چند سال ہوتے کہ میں ایک دفعہ برف دیکھنے کے لیے ڈلہوزی گیا وہاں پر میں دوسپر کے وقت تھوڑی دیر کے لیے بیٹھا تو مجھے الہام ہوا کہ دنیا میں امن کے قیام اور کمیونزم کے مقابلہ کے لیے سارے گر سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں.مجھے اس کی تغیر سمجھائی گئی جو عرفانی طور پر تھی نہ کہ تفصیلی طور پر.عرفان کے معنی یہ ہیں کہ دل میں ملکہ پیدا کر دیا جاتا ہے لیکن وہ تفصیلی الفاظ میں نہیں نازل ہوتی.کچھ دنوں کے بعد دوستوں سے اس کا ذکر آیا اور دہ پوچھتے رہے کہ اس کی کیا تفسیر ہے.میں نے کہا کہ میں کبھی اس کے متعلق مفصل رسالہ لکھوں گا.خصوصاً جب مخالف دعوای کرے کہ اس کے پاس ان دونوں کا جواب موجود ہے لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ مجھے اب تک یہ رسالہ لکھنے کا موقعہ نہ ملا.اب جبکہ میں بیمار ہو گیا ہوں اور بظاہر اس کا موقعہ ملنا مشکل ہے میں نے مناسب سمجھا کہ خواہ اشارہ ہی چند الفاظ میں ہو میں اس کا مضمون بیان کرتا رہوں تادہ علماء کے کام آتے اور وہ اس سے فائدہ اُٹھا سکیں " ) الفضل ریوه ۳۱ رمتی ۱۹۵۵ ) چنانچہ اس موضوع پر حضور نے پر معارف خطبات ارشاد فرمائے جو اخبار الفضل میں چھپ چکے ہیں.عظمت قرآن : فرشتوں کے ذریعہ خدائی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں آپ کو قرآن مجید سے جو قلبی لگاؤ پیدا ہوا اور جو قرآنی عظمت و شان آپ پر عیاں ہوئی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- " میں نے تو آج تک نہ کوئی ایسی کتاب دیکھی اور نہ مجھے کوئی ایسا آدمی ملا جس نے مجھے کوئی ایسی بات بتائی ہو جو قرآن کریم کی تعلیم سے بڑھ کر ہو یا قرآن کریم کی کسی غلطی کو ظاہر کر رہی ہو یا کم از کم قرآن کریم کی تعلیم کے برا بر ہی ہو.تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالی نے وہ علم بخشا ہے جس کے سامنے تمام علوم ایچ ہیں.چودہویں صدی علمی ترقی کے لحاظ سے ایک ممتاز صدی ہے.اس میں بڑے بڑے علوم نکلے ، بڑی بڑی ایجادیں ہوتیں اور بڑے بڑے سائنس کے عقدے حل ہوتے مگر یہ تمام علوم حمدصلی الہ علیہ سلم کےعلم کی گرد کوبھی نہیں پہنچ سکے.(الفضل ۱۳۰ جون ۳ )

Page 142

۱۴۲ اپنی شہرہ آفاق تقریر سیر روحانی میں آپ فرماتے ہیں :- پس اے دوستو ! میں اللہ تعالے کے اس عظیم الشان خزانہ سے تمہیں مطلع کرتا ہوں دُنیا کے تمام علوم اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں.دنیا کی تمام تحقیقاتیں اس کے مقابلہ میں پیچ ہیں اور دنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلہ میں اتنی حقیقت بھی نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میں ایک کرم شب تاب حقیقت رکھتا ہے.دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں.قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور وہ غیر محدود معارف و حقائق کا حامل ہے.یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لیے گھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لیے کھلا ہے.یہ ابوبکر رض کے لیے بھی کھلا تھا یہ عمرہ کے لیے بھی کھلا تھا.یہ عثمان کے لیے بھی کھلا تھا.یہ علی نے کے لیے بھی کھلا تھا.یہ بعد میں آنے والے ہزار ہا اولیا.وصلحاء کے لیے بھی کھلا تھا اور آج جبکہ دنیا کے علوم میں ترقی ہو رہی ہے یہ پھر بھی کھلا ہے بلکہ جس طرح دنیوی علوم میں آج کل زیادتی ہو رہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آج کل نئے سے نئے نکل رہے ہیں......ہمیشہ ہی قرآن نئے سے نئے علوم پیش کرتا رہے گا.یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنا ہماری جماعت کا اولین فرض ہے.....یہی وہ خزائن ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقسیم کئے اور یہی وہ خرائن ہیں جو آج ہم تقسیم کر رہے ہیں.دنیا اگر حملہ کرتی ہے تو پرواہ نہیں وہ دشمنی کرتی ہے تو سو بار کرے وہ عداوت و عناد کا مظاہرہ کرتی ہے تو لاکھ بار کرے ہم اپنے فرض کی ادائیگی سے غافل ہونے والے نہیں.ہم انہیں کہتے ہیں کہ تم بینک ہمارے سینوں میں خنجر مارے جاؤ.اگر ہم مرگئے تو یہ کہتے ہوتے مریں گے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے مارے گئے ہیں اور اگر جیت گئے تو یہ کہتے ہوئے جیتیں گے کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں بلند کر دیا ( سیر روحانی صفحه ۱۱۷ - ۱۱۸) اسی طرح آپ فرماتے ہیں :."ہم نے صرف قرآن کے لفظوں کو نہیں دیکھا بلکہ ہم خود اس کی محبت کی آگ میں داخل ہوتے اور وہ ہمارے وجود میں داخل ہوگئی.ہمارے دلوں نے اس کی گرمی کو محسوس کیا اور

Page 143

۱۴۳ لذت حاصل کی.ہماری حالت اس شخص کی نہیں جو دیکھتا ہے کہ بادشاہ باغ کے اندر گیا ہے اور وہ باہر کھڑا اس بات کا انتظار کرتا رہے کہ کب بادشاہ با ہر نکلے تو میں اس کی دست بوسی کروں بلکہ ہم نے خود بادشاہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اس کے ساتھ باغ میں داخل ہوتے اور روش روش پھرے اور پھول پھول کو دیکھا.ہم رازی کو نہیں جانتے ، ہم ابن حیان کونہیں مانتے بلکہ مسیح موعود کی صحبت سے نہیں وہ علوم حاصل ہوتے کہ اگر یہ لوگ بھی ہمارے زمانہ میں ہوتے تو ہماری شاگردی کو اپنے لیے فخر سمجھتے خدا تعالیٰ نے ہمیں وہ علوم عطا فرماتے ہیں کہ جن کی روشنی میں ہم نے دیکھ لیا کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے اور محمد رسول اللہ ایک زندہ رسول ہے" الفضل ۴ را پریل ۱۹۲۳ ) درس قرآن : آئندہ اوراق میں حضرت مصلح موعوضو کی خدمت قرآن کا مختصر تذکرہ پیش کیا جارہا ہے مگر اس سلسلہ میں یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیئے کہ قرآن مجید کی عظمت و شان اور اس کی تفسیر و مطالب کو عام کرنے کی جو دھن آپ کو لگی ہوئی تھی وہ آپ کی زندگی کے ہر ہر لمحہ سے عیاں ہوتی ہے اور آپکی سوانح کا سرورق اس پر شاہد ہے.آپ نے نشاء سے قرآن مجید کا درس دینا شروع کر دیا تھا اور سب سے پہلے جس چیز نے لوگوں کی توجہ آپ کی طرف کھینچی وہ آپ کا پر معارف درس قرآن ہی تھا.آپ نے اپنی اولاد میں سے سب سے بڑے لڑکے کو کسی بھی مروجہ تعلیم دلانے سے قبل قرآن مجید حفظ کروانے کا اہتمام فرمایا اور باقی ساری اولاد کو بھی عام تعلیم شروع کرنے سے قبل قرآن پڑھانے کا التزام رکھا جو عملی ثبوت تھا اس امر کا کہ آپ ہر علم ہر شان اور ہر چیز سے زیادہ قرآن مجید کو ترجیح دیتے ہیں.آپ نے جماعت میں درس قرآن کے اہتمام و انتظام کی بار بار تاکید فرمائی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.صدر انجمن احمدیہ کو چاہیئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں.اسی طرح جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے ان کو ترجمہ پڑھا دیں.اگر صبح و شام وہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جاتے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی ان سے کام لیا جاسکے گا.ہر حال قرآن کریم کا چرچا عام کرنے کے لیے ہمیں حفاظ کی سخت الفضل ۲۶ اگست له ) ضرورت ہے.

Page 144

۱۴۴ درس قرآن کے متعلق حضور نے جماعت کو نصیحت فرمائی : قرآن شریف دل سے تعلق رکھتا ہے اپنے دلوں کو کھولو اور اس کی طرف توجہ کرو جب تک دل نہ کھلے گا اس وقت تک یہ نور نہیں مل سکتا.ساری برکتیں اسی میں ہیں اس لیے اس کی طرف توجہ کی بہت ضرورت ہے.نوجوانوں کے لیے بھی درس کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہیتے کیونکہ ان کے سامنے لوگ نئے نئے اعتراض کرتے رہتے ہیں اور دوسرے دوستوں کے لیے بھی مساجد اور محلوں میں درس کا انتظام ہونا چاہیئے.علیحدہ طور پر پڑھنے میں نقص ہے کہ بعض لوگوں میں استقلال نہیں ہوتا اور وہ باقاعدہ نہیں پڑھ سکتے.درس سے وہ بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں پھر ایک دوسرے کی معلومات اور اعتراضات سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے.اگر درس کے اختتام پر درس دینے والا یہ کہدے کہ اس کے متعلق اگر کسی کو کوئی اور نکتہ سُوجھا ہو تو بتا دے تو اس سے بھی بہت فائدہ ہو سکتا ہے اور قرآن کریم سیکھنے کا یہ بہت آسان ذریعہ ہے.تعجب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس قدر تاکید کے باوجود ابھی تک ایک طبقہ ایسا ہے جو اس طرف متوجہ نہیں.حالانکہ دروازہ کھلا ہے معشوق سامنے بیٹھا ہے مگر قدم اُٹھا کر آگے نہیں جاتے " الفضل یکم فروری ۱۹۳۳) ( اسی طرح حضور نے فرمایا :- " ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیتے کہ دیوانہ وار نکلیں اور دنیا کو قرآن سے بہرہ ور کرنے کی پوری پوری کوشش کریں.بے شک آج دنیا خدا سے دُور ہو رہی ہے.دین سے غافل ہے قسم قسم کی بدیوں میں مبتلا ہے.آج کل کا تمدن اور تہذیب قرآن کے خلاف ہیں.موجودہ طرز حکومت قرآن کے بتاتے ہوئے طرز حکومت کے خلاف ہے.اس وقت لوگوں کے مشاغل اور عادات و اطوار قرآن کے خلاف ہیں.ان حالات میں قرآن کو مان لینا بہت مشکل ہے مگر اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ سوائے قرآن کے ان تمام کا علاج بھی کوئی نہیں " الفضل ، ستمبر ) درس قرآن مجید کو قرآن کی محبت کے حصول اور فتنوں کے ازالہ کا باعث قرار دیتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.اصلاح نفس اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک قرآن کریم کا مطالعہ نہ ہو.قرآن

Page 145

۱۴۵ جان ہے سارے تقوی وطہارت کی.قرآن کریم کی ایک ایک ی تقلبی میں تغیر پیدا کر دیتی ہے جو دنیا کی ہزاروں کتا ہی نہیں کر سکتیں.قرآن کریم پڑھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ درس جاری کیا جائے.بہت سی ٹھوکریں لوگوں کو اس لیے لگتی ہیں کہ وہ قرآن کریم پر تدبر نہیں کرتے.پس ضروری ہے کہ ہر جگہ قرآن کریم کا درس جاری کیا جائے.تاکہ قرآن کریم کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو.میں سمجھتا ہوں درس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت راسخ ہو جائے گی اور بہت سے فتن کا آپ ہی آپ ازالہ ہو جائے گا." تقریر دلپذیر جلسه سالانه ۱۹۲۵ صفحه ۳۱ ۳۲۰ ) حضور کے ایسے ارشادات کی تعمیل میں جماعت میں یہ نہایت با برکت طریق جاری ہے کہ قریباً ہر جماعت میں اور بہت سے خوش قسمت اپنے گھروں میں بھی درس قرآن مجید کا اہتمام کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے عام افراد کاعلمی معیار و ذوق دوسروں کی نسبت بہت بہتر ہونے میں اس مبارک طریق کا بہت بڑا دخل ہے.خدمت قرآن کا وسیع دائرہ : کم و بیش ۲ ہزار خطبات جمعہ.جلسہ سالانہ اور عیدین کی تقاریر وخطبات کے علاوہ خدام انصار - اطفال ولجنات اور مجلس تشخید الا زبان اسی طرح مدرسہ احمدیہ - جامعہ احمدیہ - جامعه المبشرين مجلس ارشاد نیشنل کور - انجمن ترقی اسلام - انجمن اشاعت اسلام کشمیر کیٹی وغیرہ کی مختلف تقاریب اور جلسوں میں حضور کی ہزاروں پر معارف تقاریر و مضامین قرآن مجید کی تفسیر پر ہی مشتمل ہیں کیونکہ حضور کا یہ طریق مبارک تھا کہ آپ بالعموم قرآن مجید کے کسی مقام کی نہایت پیارے لحن و انداز میں تلاوت فرماتے اور پھر اس کی دلوں کو گرما دینے والی پر معارف تشریح و تفسیر بیان فرماتے اور بعض مواقع پر آپ کی تقریر میں قرآنی تلاوت کے بغیر بھی قرآن مجید کے کسی مقام کی ایسی واضح تشریح ہوتی کہ سننے والے کا ذهن خود بخود اس مقام کی طرف جاتا اور وہ علوم و معارف کے ایک نئے عالم سے متعارف ہو جاتا.ان ہزاروں تقاریر وخطبات کے علاوہ آپ کی تمام مستقل تصانیف بھی قرآنی انوار کی ایسی بارش کی طرح ہیں جو ضرورت کے وقت نازل ہو کہ ہر گوشہ زمین کو سیراب کر دیتی ہے.حضور کے ذریعہ اکناف عالم میں جو تبلیغی وتعلیمی مشن قائم ہوئے وہ قرآنی تعلیم کے ایسے مراکز ہیں جہاں حضور کے شاگردان علوم و معارف کے سکھانے میں دیوانہ وار مصروف و مشغول ہیں جو انہوں

Page 146

۱۴۶ نے حضور سے سیکھے تھے.اس تعلیم و خدمت قرآن کے دائرہ اثر و وسعت سے مشرق باہر ہے اور نہ مغرب نہ شمال باہر ہے اور نہ جنوب.مصر کا دریا تے نیل تو اپنی طغیانی سے مصر کی سرزمین کو سیراب کرتا ہے.مگر حضرت مسیح موعود کی دعاؤں اور تضرعات کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والے اس بابرکت وجود کے ذریعہ ساری دنیا میں کلام اللہ کا مرتبہ اس طرح ظاہر ہوا کہ اس نے ساری دنیا کو سیراب کیا اور دریائے نیل کی طغیانی تو کسی خاص موسم کی مرہون منت ہوتی ہو گی مگر سیاں جو سیرابی کا عمل شروع ہوا اس میں کبھی کی نہیں آتی اور اس کا جال بخش اور روح پرور عمل کسی دریا کے کناروں تک ہی محدود نہیں زمین کے کناروں تک پھیل گیا اور قوموں نے اس سے برکت حاصل کی اور آئندہ بھی حاصل کرتی رہیں گی.انشاء اللہ ! حضور خدا تعالیٰ کے اس خاص فضل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :." میں اسی خدا کے فضلوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرا نام دنیا میںہمیشہ قائم رہے گا اور گوئیں مرجاؤں گا مگر میرا نام کبھی نہیں مٹے گا.یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا اور ہر شخص جو میرے مقابلہ میں کھڑا ہوگا وہ خدا کے فضل سے ناکام رہے گا.....خدا نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ خواہ مخالف مجھے کتنی بھی گالیاں دیں.مجھے کتنا بھی برا سمجھیں ہر حال دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے بھی اختیارمیں ہیں کہ وہ میرا نام اسلام کی تاریخ کے صفحات سے مٹا سکے " تقریر جلسه سالانه ۲۸ دسمبر الله ) پچیس سالہ خلافت جو بلی کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں بھی آپ نے بطور تحدیث نعمت فرمایا.میں وہ تھا جسے احمق اور نادان قرار دیا جاتا تھا.مگر عہدہ خلافت کو سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت کے ساتھ کھولے کہ اب قیامت تک امت مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے اور ان سے فائدہ اُٹھاتے.وہ کونسا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا مسئله نبوت مستله گهر مسئله خلافت مسئله تقدیر - قرآنی ضروری امور کا انکشاف اسلامی اقتصادیات - اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا.مجھے خدا نے اس خدمت دین کی توفیق دی اور اللہ تعالے سيم

Page 147

۱۴۷ نے میرے ذریعہ سے ہی ان مضامین کے متعلق قرآن کے معارف کھولے جن کو آج دوست دشمن سب نقل کر رہے ہیں.مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے.مجھے لاکھ برا کہے جو شخص اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے لگے گا اسے میرا خوشہ چین ہونا پڑے گا.اور وہ میر احسان سے کبھی باہر نہیں جاسکے گا ---- ان کی اولادیں جب بھی خدمت دین کا ارادہ کریں گی وہ اس بات پر مجبور ہونگی کہ وہ میری کتابوں کو پڑھیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں بلکہ میں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ اس بارہ میں سب خلفاء سے زیادہ مواد میرے ذریعہ سے جمع ہوا ہے اور ہو رہا ہے.اس مجھے یہ لوگ خواہ کچھ کہیں خواہ کتنی بھی گالیاں دیں ان کے دامن میں اگر قرآن کے علوم پڑیں گے تو میرے ذریعہ ہیں.اور دنیا ان کو یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ اسے نادانو ! تمہاری جھولی میں تو جو کچھ بھرا ہوا ہے وہ تم نے اسی سے لیا ہے پھر اس کی مخالفت تم کس منہ سے کر رہے ہو یا خلافت را شده صفحه ۲۵۴ تا ۲۵۶ ) قرآن مجید کا خاص درس : جماعت احمدیہ کی بنیاد يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ کے مطابق احیاء دین و اقامت شریعت کے لیے رکھی گئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مشہور عالم تصنیف براہین احمدیہ کے ذریعہ اس مہتم بالشان کام کا آغاز فرمایا.اس کے بعد آپ کے تمام ملفوظات.مکتوبات - تقاریر تحریرات اور تصانیف میں قرآنی نکات ورموز حسین پیرا یہ میں بیان ہوتے.حضرت مولنا نور الدین خلیفہ امسیح الاول " کو قرآن مجید سے عشق تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت صافی سے اور نکھار آگیا اور آپ دن رات کے مختلف اوقات میں کئی کئی درس دیا کرتے تھے.حضرت مصلح موعودہؓ کے زمانہ میں بھی یہ مبارک طریق جاری رہا.عمومی طور پر تو حضور مردوں اور عورتوں میں الگ الگ درس دیا ہی کرتے تھے مگر شاستہ میں آپ نے ایک خاص درس کا اہتمام فرمایا اس کے لیے اخبار الفضل میں بار بار اعلان کیا گیا.درس میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی قبل از وقت فہرستیں تیار کی گئیں.روزانہ درس سے قبل گذشتہ دن کے درس کے متعلق حضور خود جائزہ و امتحان لیتے اس خصوصی درس کے لیے جو ، اگست شاہ کو مسجد اقصیٰ قادیان میں شروع ہوا اور جس میں قادیان کے مخلصین کے علاوہ بیرونی جماعتوں کے پڑھے لکھے معزز افراد بھی اپنے دفتروں اور دوسرے کاموں سے رخصت حاصل کر کے کثیر تعداد میں شامل ہوتے.شروع میں تو ا ۲ بجے سے ۵ بجے تک اور 4 سے لے

Page 148

بجے تک کا وقت مقرر تھا گر جیسے جیسے یہ پروگرام آگے بڑھتا گیا اور اس کی افادیت نمایاں ہوتی گئی حضور اس کے لیے اور زیادہ وقت دینے لگے اور بعض اوقات تو یوں لگتا تھا کہ حضور نے اپنا سارا وقت اس انتہائی مفید کام کے لیے مختص کر دیا ہے.اس درس کے اختتام پر جو الوداعی تقریب ہوئی اس کے متعلق الفضل کے نامہ نگار نے لکھا: حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ نے درس میں شامل ہونے والے اصحا سے اپنی محبت اور شفقت کا اظہار اس طرح بھی فرمایا کہ سب کو 4 ستمبر تہ دار سیح موعود علیہ اسلام میں دعوت طعام دی جس میں بہت سے مقامی احباب کو بھی شمولیت کا فخر بخشا.اس دعوت کی قدر وقیمت وہی اصحاب جانتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ننگر خانہ کے سوکھے ٹکڑے بطور تبرک لے جاتے ہیں اور اپنے عزیزوں میں بطور تحفہ تقسیم کرتے ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی دعوت دینے والے ہوں.حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود کے دوسرے نونہال دعوت کھلانے والوں میں ہوں اور دار مسیح موعود میں بیٹھ کر دعوت کھانے کا موقعہ نصیب ہو اس سے بڑھکر ایک احمدی کے لیے کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے........چونکہ حضرت خلیفة المسیح الثانی سورۃ کہف تک درس ختم کرنا چاہتے تھے جس کا د ستمبر سے قبل ختم ہونا محال تھا لیکن کئی اصحاب ستمبر کو واپس جانے کے لیے مجبور تھے اس لیے ے ستمبر کو گیارہ بجے تک درس دینے کے بعد حضور نے جانے والے اصحاب کو اجازت دیدی اور اس موقعہ پر ایک مختصر سی تقریر کے بعد جس میں تبلیغ اسلام کرنے.قرآن کریم کے حقائق و معارف پھیلانے ، تحریری طور پر خدمت دین کرنے کے بعد اگلے سال پھر درس دینے کا اعلان فرمایا اور سب حاضرین کے ساتھ مل کر نہایت خشوع و خضوع سے طویل دعا فرمائی.دوران دُعا میں احباب کے گریہ و بکا سے مسجد میں گونج پیدا ہوگئی.خود حضرت خلیفہ مسیح کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے " (الفضل الر ستمبر 9ة ) حضور نے درس میں شامل ہونے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : ------ اپنے اپنے مقام پر جاکر جماعتوں کو سنبھالنے اور چست بنانے کی کوشش کریں اور ان میں زندگی کی روح پیدا کریں اور انہیں بتائیں کہ ان کا معیار آگے والے کی طرف دیکھنا ہوتا ہے.دنیا دار قربانی کرتے وقت پیچھے کی طرف دیکھتا ہے اور شکریہ کے

Page 149

۱۴۹ وقت آگے کی طرف.پھر ارشاد فرمایا.آپ لوگوں نے قرآن کریم کا جو حصہ پڑھا ہے اسے ضبط کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش تحریں اور دوسروں سے عمل کرانے کی کوشش کریں تا کہ جو شکلات دین پر آرہی ہیں وہ دُور ہوں اور خدا تعالیٰ اپنے فضل سے دین کی ترقی کا سامان پیدا کرے اور ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اس کے دین کو نقصان نہ پہنچے.درس کے خاتمہ پر حضور نے دوبارہ اجتماعی دعا کروائی.اور فرمایا کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ حضور علیہ السلام رمضان کے دنوں میں جبکہ قرآن نازل ہوتا تھا بہت صدقہ دیا کرتے تھے اس لیے میں بھی اس موقعہ پر اپنی طرف سے دس روپے بطور صدقہ دیتا ہوں اور بھی جن دوستوں کو توفیق ہو قادیان کے غربا ہ کے لیے صدقہ دیں.اس پر قریباً دوسو روپے اسی وقت جمع ہو گئے.آخر میں حضور نے اپنے دست مبارک درس کے امتحانات میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعامات عطا فرمائے“ الفضل ار ستمبر ٩لة ) سلسلہ فضائل القرآن : ۱۹۲۵ء کے جلسہ سالانہ پر حضور نے فضائل قرآن مجید کے عنوان پر ایک بلند پای لمی تقاریر شروع فرمایا.اپنی ان چھ تقریروں میں حضور نے قرآن شریف کے انوار و محاسن مختلف پہلوؤں سے اس انداز سے بیان فرمائے کہ اس کی مثال کم ہی کہیں مل سکتی ہے.ان تقاریر سے جہاں ایک طرف حضور کے بیان فرمودہ حقائق و معارف کا علم حاصل ہوتا ہے وہاں ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ جماعت میں قرآن مجید سے محبت اور قرآنی علوم کے حصول کے لیے رغبت پیدا ہوئی.گویا ان تقاریر کے ذریعہ سے آپ نے خدمت قرآن کا ایک بیج بویا جو بعد میں آپ کی کامیاب خلافت کے لیے عرصہ میں پڑھتا پھلتا اور پھولتا گیا.خصوصی درس قرآن کا اہتمام.گھروں میں درس قرآن کی تلقین اور پھر تفسیر کبیر انگریزی ترجمه قرآن و تفسیر: دیباچه تفسیر القرآن - تفسیر صغیر اسی بیج کے شاندار پھول پھل ہیں جو قرآن کی برکت سے ہمیشہ ہی ترو تازہ رہیں گے.انشاء اللہ ان تقاریر میں آپ نے قرآن سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مضامین بیان فرماتے.چند عنوانات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں جو ان مضامین کی اہمیت کا کسی قدر اندازہ کرنے کے لیے محمد ہوں گے.ضرورت قرآن

Page 150

۱۵۰ حفاظت و جمع قرآن پر بحث ترتیب قرآن فہم قرآن کے اُصول قرآنی قسموں کی حقیقت قرآن کریم کے روحانی کمالات عربی زبان اختیار کرنے کی وجہ متشابہات کا حل مقطعات کا حل قرآن کریم ایک بے نظیر روحانی جسمانی تمدنی اور سیاسی قانون.قرآن کریم کا کوئی ترجمہ اس کے مضامین پر حاوی نہیں ہوسکتا.کتب سابقہ پر افضلیت کے عقلی و نقلی شواہد قرآنی فضیلت کے ۲۶ وجوہ قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کے دلائل قرآن پر دعوی کے ساتھ دلیل پیش کرتا ہے.قرآنی قصص میں آئندہ زمانہ کے لیے پیشگوئیاں بعث بعد الموت کی حقیقت قرآن کریم کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب فحش کلامی اور ہر قسم کی بد اخلاقی سے منزہ کتاب روحانی طاقتوں کی تکمیل کے لیے کام تعلیم عالم معاد کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم مسیح موعود کی بعثت سے مسلمانوں کو کیا طاقت حاصل ہوئی.صدقہ و خیرات کے بارہ میں اسلامی تعلیم کی جامعیت - ۲۵ ذیلی عنوانات عورت اور مرد کے تعلقات پر بحث - ۱۲ ذیلی عنوانات کتب سابقہ میں تحریف ه کلام اللہ کے منفرد نام کی کتاب صرف قرآن کریم ہے.

Page 151

مخالفین اسلام کے اعتراضات کا رد (دس اعتراضوں کا جواب ) پہلی کتب کی پیشگوئیاں پوری کرنے والی کتاب الفرقان قرآن کریم ہی ہے.قرآن کریم کی پہلی اُصولی اصلاح مہستی باری تعالیٰ کے متعلق (آٹھ صفات کے متعلق اصلاح) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سابقہ انبیاء کی پیشگوئیاں قانون شریعت اور قانون طبیعی کی باہم مطابقت کا حیرت انگیز سلسلہ قرآن کریم کے سوا اور کسی کتاب کو افضل الکتب ہونے کا دعوی نہیں.قرآنی علوم سے فائدہ اُٹھانے کے اصول قرآن کریم اپنے استعاروں کو آپ حل کرتا ہے.شریعت کا بوجھ انسان کے سوا کسی اور پر نہیں ڈالا گیا.بعض استعارات کی قرآنی تشریح آپ نے ان عالمانہ تقاریر کے آخر میں قرآنی فضیلت کے متعلق مذاہب عالم کے پیروں کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا :- " غرض قرآن مجید کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اگرکسی کو یہ دعوی ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میر سامنے آتے اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو میرے سامنے آتے اگر کوئی تو ریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے.اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں بھی استعارہ سمجھوں پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی نہ پیش کر دوں.تو وہ بیشک مجھے اس دعوی میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں ؟ ) فضائل القرآن صفحه ۴۳۹ ) ان تقاریر کے مطالعہ سے قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت اور معانی و تفسیر کا ایک نیا اور دلکش رخ سامنے آتا ہے اسی طرح اصول تفسیر قرآن کا انتہائی اہم موضوع مفصل و مؤثر رنگ میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ کسی دوسری کتاب میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی.اس علم سے پورے طور پر استفادہ تو و ہی خوش قسمت کر سکتے ہیں جو حضور کی ان تقاریر کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کریں.

Page 152

۱۵۲ تاہم حضور کی اس موضوع پر ایک مختصر عبارت جو حضور نے ایک سائل کے جواب میں ارتجالا تحریر فرمائی تھی ذیل میں پیش کی جاتی ہے.اصول تفسیر قرآن تو بہت ہیں مگر چند بیان کرتا ہوں.دل کو پاک کرنا اور اپنے خیالات کو دل سے نکال کر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہوئے قرآن کریم کا مطالعہ کرنا.قرآن کریم میں آیا ہے.لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.-- عربی لغت - ترجمہ اور مضمون کے لیے سب سے مقدم ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اسے قرآنا عربياً اُتارا ہے.پس بجائے اپنے پاس سے معنی نکالنے کے عربی لغت کو دیکھنا چاہیئے.-- دُعا.قرآن کریم شروع میں فرماتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.ایسے معنی نہ کئے جائیں جو دوسری آیات کے خلاف ہوں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيْهِ اخْتِلَا فَا كَثِيرًا - -A -A سنت اللہ کے خلاف معنی نہ کرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لَن تَجِدَ لِسُنَةِ اللَّهِ تَبْدِيلاً ہر آیت پہلی اور پچھلی آیتوں سے مل کر معنی دیتی ہے.پس وہ معنی کرے جو قرآن کریم میں ترتیب ثابت کرتے ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قرآن بیان لِلنَّاسِ ہے.یعنی خود اس کی آیات ایک دوسرے کی مفسر ہیں..وہ معنی جو اخلاق کے خلاف ہوں یا انسان کے لیے تباہی کا موجب ہوں درست نہ ہوں گے.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے قرآن کریم ذکر کر ہے یعنی تمہاری عزت اور شرف کی زیادتی کے لیے نازل ہوا ہے.معرفت کی زیادتی کے لیے فرماتا ہے قرآن کریم میں متشابہات بھی ہیں یعنی پہلی کتب سے ملتی ہوئی تعلیم اور محکمات بھی ہیں یعنی وہ تعلیمات جو پہلی کتب سے زائد ہیں یا ان کی تعلیم کو ترقی دیگر کامل کر کے بتایا ہے.فرمایا من ام الکتاب یعنی باعث نزول قرآن وہی ہیں.پس ان کی جستجو ضروری ہے کہ وہی اسلام کی فوقیت دوسرے ادیان پر ثابت کرتی ہیں " الفضل ۲۶ اگست ۱۹۳۷ ) دیا چه تفسیر القرآن : سوا تین سو صفحات سے زائد کی یہ نہایت مفید کتاب ضرورت نذہب کے بنیادی سوال کا دلچسپ اور

Page 153

مکمل جواب پیش کرتی ہے.مختلف مشہور مذاہب کی تعلیم کا یا ہم موازنہ.مذہبی کتب کی حفاظت اور مقابلہ قرآن مجید کی عظمت و شان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی کی صداقت مختلف پہلووں سے ثابت کی گئی ہے.اس سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قدیم مذہبی کتب کی پیشگوئیاں بیان کرنے کے بعد سے اگر خواہی دیلے عاشقش باش و محمد مهست بربان محمد کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ نہایت پیار و جذب کے اندازہ میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ قاری حضورہ کی ذات اقدس اور آپ کی تعلیم میں زبردست کشش محسوس کرتا ہے.اس کتاب کے مضامین اور ان کی ترتیب و پیش کش اس حسن و خوبی سے کی گئی ہے کہ پڑھنے والا ایک ایسی کمی اور پیاس محسوس کرنے لگتا ہے جو قرآن مجید اور اس کی تفسیر سے ہی بجھائی جاسکتی ہے.اس عظیم کتاب میں مذکورہ بالا مضامین کے علاوہ جمع قرآن - حفاظت قرآن - ترتیب قرآن استور و آیات کی ترتیب اور ان کا باہم تعلق ) قرآن مجید کی پیشگو تیاں معجزات - اسلامی عبادات کی فضیلت قرآنی اخلاق اور ان کی عظمت و فضیلت.پیدائش عالم اور پیدائش روح کے متعلق قرآنی تعلیم اور حیات بعد الموت جیسے اہم مضامین بڑے فصیح و بلیغ انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور مخالفین اسلام کے اعتراضات کا مکمل اور تسلی بخش جواب دیا گیا ہے.حضور کی تفاسیر کی عظمت و شان تو اپنی جگہ ہے جس کا ادراک و عرفان ہر شخص اپنے ظرف و علم کے مطابق کر سکتا ہے تاہم یہ دیباچہ ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس کا مصنف ان پاک و مظہر وجودوں میں سے ہے جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے قرآنی علوم سے بہرہ ور کیا گیا ہے.تفسير كبير : حضرت مصلح موعود کی تمام تصانیف کلام اللہ کا مرتبہ اور قرآن مجید کی عظمت و شان ظاہر کرتی ہیں تاہم تفسیر کبیران کتب میں اور قرآن مجید کی دیگر بے شمار تفاسیر میں ایک نمایاں اور اعلی مقام رکھتی ہے.قرآن مجید جو کیا بلحاظ فصاحت و بلاغت اور کیا بلحاظ تاثیر و افادیت ایسے درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے، کہ اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.تمام ضروری علوم اس میں موجود ہیں سے وحلُّ الْعِلْمِ فِي الْقُرآنِ لكِنُ تَقَاصَرَ عَنْهُ أَنْهَامُ الرجال خدا تعالیٰ کی حکمت کا ملہ اور مصلحت تامہ کے مطابق یہ خزائن اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں.وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَانَهُ وَمَا نَنَزَلُةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومِ الحجر : ۲۲) نبه

Page 154

۱۵۴ لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کے خدائی اصول کے مطابق اس بحر بے کراں کے حقیقی خواص صاحب ماں اولیا.اللہ ہی ہو سکتے ہیں.بے عنایات خدا کا راست خام پخته داند این سخن را والسّلام (مسیح موعود ) حضرت مصلح موعود خدا تعالیٰ کی ان عنایات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- " اب میں ان مآخذ کا ذکر کرتا ہوں جن سے مجھے نفع ہوا اور سب سے پہلے اس انزلی ابدی ماخذ علوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے سب علوم نکلتے ہیں اور جس کے با ہر کوئی علم نہیں وہ عظیم وہ نور ہی سب علم بخشتا ہے اس نے اپنے فضل سے مجھے قرآن کریم کی سمجھے دی اور بہت سے علوم مجھ پر کھولے اور کھولتا رہتا ہے، جو کچھ ان نوٹوں میں لکھا گیا ہے ان علوم میں سے ایک حصہ ہے.سُبحَانَ اللهِ وَالحَمدُ لِلَّهِ وَلَا حَولَ وَلَا قوة الا بالله دوسرا ماخذ قرآنی علوم کا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.آپ پر قرآن نازل ہوا.آپ نے قرآن کو اپنے نفس پر وار د کیا حتی کہ آپ قرآن مجسم ہو گئے.آپ کی ہر حرکت اور آپ کا سکون قرآن کی تفسیر تھے.آپ کا ہر خیال اور ہر ارادہ قرآن کی تفسیر تھا.آپ کا ہرا حساس اور ہر ہر جذ بہ قرآن کی تفسیر تھا.آپ کی آنکھوں کی چمک میں قرآنی نور کی بجلیاں تھیں اور آپ کے کلمات قرآن کے باغ کے پھول ہوتے تھے.ہم نے اس سے مانگا اور اس نے دیا.اس کے احسان کے آگے ہماری گرد میں خم ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ محمدٍ وَبَارَكَ وَسَلَمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ تَجِيد.پھر اس زمانہ کے لیے علوم قرآنیہ کا ماخذ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود اور مہدی : مسعود کی ذات علیہ الصلوۃ والسلام ہے جس نے قرآن کے بلند و بالا درخت کے گرد جھوٹی روایات کی آکاس بیل کو کاٹ کر پھینکا اور خدا سے مدد پاکر اس جنتی درخت کو سینچا اور پھر سر سبز و شاداب ہونے کا موقعہ دیا.الحمدللہ ہم نے اس کی رونق کو دوبارہ دیکھا اور اس کے پھل کھاتے اور اس کے ساتے کے نیچے بیٹھے.مبارک وہ جو قرآنی باغ کا با غبان بنا.مبارک وہ جس نے اسے پھر سے زندہ کیا اور اس کی خوبیوں کو ظاہر کیا.مبارک وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اور خدا تعالیٰ کی طرف چلا گیا.اس کا نام زندہ ہے اور

Page 155

۱۵۵ زندہ رہے گا.مجھے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم سے بہت کچھ دیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس میں میرے فکر یا میری کوشش کا دخل نہیں وہ صرف اس کے فضل سے ہے، مگر اس فضل کے جذب کرنے میں حضرت استاذی المکرم مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اسیح اول کا بہت سا حصہ ہے.میں چھوٹا تھا اور بیمار رہتا تھا وہ مجھے پکڑ کے اپنے پاس بٹھا لیتے تھے اور اکثر یہ فرماتے تھے کہ میاں تم کو پڑھنے میں تکلیف ہوگی میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ اور اکثر اوقات خود ہی قرآن پڑھتے.خود ہی تفسیر بیان کرتے.اس کے علوم کی چاٹ مجھے انہوں نے لگائی اور اس کی محبت کا شکارہ بانی سلسلہ احمدیہ نے بنایا.بہر حال وہ عاشق قرآن تھے اور ان کا دل چاہتا تھا کہ سب قرآن پڑھیں.مجھے قرآن کا ترجمہ پڑھایا اور پھر بخاری کا اور پھر فرمانے لگے.لومیاں سب دُنیا کے علوم آگئے ان کے سوا جو کچھ ہے یا زائد یا ان کی تشریح ہے.یہ بات ان کی بڑی سچی تھی.جب تک قرآن و حدیث کے متعلق انسان کا یہ یقین نہ ہو علوم قرآنیہ سے حصہ نہیں لے سکتا تفسیر کبیر کی نمایاں خصوصیات : ( تفسیر کبیر جلد ۳ صفحه ۳-۴ ) تفسیر کبیر کی بعض نمایاں خوبیوں اور خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:." میرے نزدیک ان نوٹوں کی یہی خوبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل فرما کر موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے متعلق بہت کچھ انکشاف فرمایا ہے.مگر ہر زمانہ کی ضرورت الگ ہوتی ہے اور ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق قرآن کریم میں علوم موجود ہیں جو اپنے موقع پر کھولے جاتے ہیں.پہلے مفسرین نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق بہت بڑی خدمت قرآن کریم کی کی ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا.اگر وہ دو غلطیاں نہ کرتے تو ان کی تفاسیر داتی خوبیاں رکھتیں.1.منافقوں کی باتوں کو جو انہوں نے مسلمانوں میں ملکر شائع کیں.ان تفاسیر میں جگہ دے دی گئی ہے اور اس وجہ سے بعض مضامین اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لیے بنک کا موجب ہو گئے ہیں.۲ - انہوں نے یہودی کتب پر بہت کچھ اعتبار کیا ہے.اور ان میں سے بھی مصدقہ باتیل

Page 156

104 پر نہیں بلکہ یہود کی روایات پر اور اس طرح دشمنوں کو اعتراض کا موقع دے دیا ہے اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ لا تَصَدِ تُوهُمْ وَلَا تُكَذِبُوهُمُ ان کے ذہن میں رہتا تو یہ مشکل پیش نہ آتی بہرحال ان دو غلطیوں کو چھوڑ کر جو محنت اور خدمت ان لوگوں نے کی ہے اللہ تعالیٰ ہی ان کی جزا ہو سکتا ہے " کچھ تفسیر کبیر کے متعلق) اس تفسیر کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں آیات و سور کے باہم تعلق و ترتیب کے حسن کو نمایاں کیا گیا ہے.حضور فرماتے ہیں :- " پس میں چونکہ ہمیشہ ترتیب آیات اور ترتیب سور کو ملحوظ رکھ کر تفسیر کیا کرتا ہوں اس لیے اگر کوئی شخص میری ترتیب کو سمجھ لے تو گو میں نے کسی آیت کی کہیں تفسیر کی ہوگی اور کسی آیت کی کہیں درمیانی آیات کا حل کرنا اس کے لیے بالکل آسان ہوگا.کیونکہ ترتیب مضمون اسے کسی اور طرف جانے ہی نہیں دے گی......اسی طرح میری تفسیر کے نوٹوں سے انسان سارے قرآن کریم کی تفسیر سمجھ سکتا ہے.بشرطیکہ وہ ہوشیار ہو اور قرآن کریم کو سمجھنے کا تقریر جلسه سالانه ۱۹۲۵ ) مادہ اپنے اندر رکھتا ہو اسی طرح حضور فرماتے ہیں :- حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآن کریم کی ترتیب کو مد نظر رکھا جائے اور اس پر غور اور تدبر کرنے کی عادت ڈالی جاتے تو اس کی بہت سی مشکلات خود بخود حل ہو جاتی ہیں" ( تفسير كبير سورة مريم ص۳۲۳ ) قرآن مجید کی بہت سی ایسی پیشگوئیاں جو ہمارے زمانہ سے تعلق رکتی ہیں انہیں بیان کرنے میں یہ تفسیر بے نظیر ہے.حضرت مصلح موعود کے اس سوانحی خاکہ میں تفسیر کبیر کے مضامین کا خلاصہ یا نمونہ پیش کرنا تو مکن نہیں ہے تاہم مندرجہ ذیل مشکل مقامات و مضامین کی تفسیر پڑھ کر سرور و کیف اور علم و معرفت کا ایک اور ہی عالم نظر آتا ہے.من و سلوای - حضرت موسی کی ہجرت اور گزرگاہ - اصحاب کہف - عرش الہی.کلام الہی کے امتیاز اور شجرہ طیبہ سے مماثلت.قوم عاد قوم ثمود - قوم مدین اور دوسری پرانی اقوام کے متعلق تحقیق - ترتیب نزول و موجودہ ترتیب میں اختلاف کی حکمت.پیدائش عالم و تخلیق آدم - آنحضرت صلی الہ علیہ سلم کا رفیع التا

Page 157

104 مقام مسئلہ ارتقا.آئندہ زمانہ کے متعلق عظیم الشان پیش خبریاں - فلسفه حلت و حرمت قرآنی تمثیلات و استعارات کی پر حکمت تشریح.مقطعات جن و انس کی حقیقت - شیطان اور سجدہ آدم - ذوالقرنین کے متعلق تحقیق - قرآنی قسمیں وغیرہ.یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محترم پیر معین الدین صاحب نے کمال خلوص و محنت سے مخزن معارف کے نام سے تفسیر کبیر کا خلاصہ تیار کر کے شائع کروا دیا ہے.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء تغیر کے سلسلہ میں حضور کی غیر معمولی محنت ومصروفیت : تفسیر کبیر کا کام حضور کی سالوں کی محنت شاقہ اور الی تائید کے نتیجہ می مکن ہوا میں دھن اور لگن سے یہ کام کیا گیا اس کا کسی قدر نقشہ حضور کے مندرجہ ذیل بیان سے سامنے آتا ہے.میری طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ علیل رہتی ہے اور چونکہ قرآن شریف کے ترجمہ اور تفسیر کے کام کا بہت بڑا بوجھ ان دنوں ہے اور جلسہ تک دن بہت تھوڑے رہ گتے ہیں.مگر ابھی کوئی ایک سو صفحہ کتاب کا یا چارسو کالم مضمون کا لکھنا باقی ہے اور آج کل اکثر ایام میں رات کے ۳ - ۴ بلکہ ۵ بجے تک بھی کام کرتا رہتا ہوں.اس لیے اس قسم کی جسمانی کمزوری محسوس کرتا ہوں کہ اس قدر بوجھ طبیعت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی.چونکہ جلسہ تک دن تھوڑے رہ گئے ہیں اس لیے دوستوں سے چاہتا ہوں کہ دُعا کریں.اللہ تعالیٰ خیریت سے اس کام کو پورا کرنے کی توفیق دے.وہ لوگ جو میرے ساتھ کام کر رہے ہیں اور جن کا کام کتابت کا پہیوں کی تصحیح کرنا اور مضمون صاف کر کے لکھنا وغیرہ ہے.وہ بھی بہت محنت سے کام کر رہے ہیں.اتنی دیر تک روزانہ کام کرنے کی انہیں عادت نہیں.پھر بھی ۲ - ۳ بجے رات تک کام کرتے ہیں.ممکن ہے اس سے بھی زیادہ دیر تک کام کرتے ہوں.مگر ۲- ۳ بجے تک تو کئی دفعہ بات پوچھنے کے لیے میرے پاس آتے رہتے ہیں.ایسی طرح کا پہیاں لکھنے والے کاتب ہیں.بے شک وہ اُجرت پر کام کرتے ہیں.مگر جس قسم کی محنت انہیں کرنی پڑتی ہے اور ނ وہ کر رہے ہیں.وہ اخلاص کے بغیر نہیں ہو سکتی.روزانہ کام کیا جائے معمول - دو گنا کیا جائے اور اچھا کیا جائے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.کاتب کا کام آنکھوں

Page 158

۱۵۸ کا تیل نکالنا ہوتا ہے.کیونکہ وہ ایک منٹ کے لیے بھی آنکھ اوپر نہیں اُٹھا سکتا.آنکھ کا غذ پر اور قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھا رہتا ہے اور بیٹھنا بھی ایک خاص طریق سے ہوتا ہے میں تو اس کام کے متعلق سمجھتا ہوں کہ عمر قید کی سزا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ کاتب لوگ بہت جلد بوڑھے ہو جاتے ہیں کیونکہ کتابت کے کام میں انہیں سخت محنت کرنی پڑتی ہے.اس کے بعد اہم کام چھپوائی کا ہے مگر خدا تعالیٰ نے اس کے لیے بہت کچھ سہولت عطا کر رکھی ہے.ایک وقت تو وہ تھا جب کہ دستی پریس چلانا بھی مشکل تھا مگر اب دو پولیس کام کر رہے ہیں.اور ایک میں دومشینیں چل رہی ہیں کجا تو یہ کہ دستی پر لیس بھی نہ تھا اور کجا یہ کہ مشینیں کام کر رہی ہیں اور بجلی سے دو دو پرنیس چل رہے ہیں.پریس والوں نے وعدہ کیا ہے کہ ۴۸ صفحے روزانہ چھاپ کر دیتے رہیں گے اس وقت تک ساڑھے سات سو صفحے چھپ چکے ہیں.اور پونے دو سو کے قریب چھپنے باقی ہیں مگر ان کے متعلق کوئی فکر نہیں ہے.البتہ کاتبوں کا کام ایسا ہے کہ اگر ایک کی بھی صحت خراب ہو گئی تو کام رک جانے کا اندیشہ ہے.پھر جلد سازی کا مرحلہ تھے ہونا باقی ہے.جلد ساز سے عہد لے لیا گیا ہے کہ تمام کا پہیاں چھپ جانے کے بعد کم از کم 20 جلدیں روزانہ کے حساب سے دے گا.اور اس لحاظ سے ۳۱۱۳۰ دسمبرنگ ۸-۹ سوکتا ہیں مجلد مل سکتی ہیں.اور باقی بعد میں بھیجی جاسکتی ہیں.غرض اس وقت کئی مرحلے ہمارے رستہ میں پڑے ہیں.دوست دُعا کریں.خدا تعالیٰ سب مراحل کو طے کرنے کی توفیق عطا کرے.ابھی سورۃ کہف کی تفسیر لکھنے کا کام میرے ذمہ ہے.سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ کہف کی کتابت کاتبوں کے ذمہ ہے اور سورۃ نحل سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ کہف کی چھپائی پریس کے ذمہ ہے.کاپیوں اور پروفوں کا پڑھنا اور میرے مضمون کو صاف کر کے لکھنا میرے مددگاروں کے ذمہ ہے.پس بہت ہی دُعاؤں کی ضرورت ہے.اس کام کی وجہ سے دو ماہ سے انتہائی بوجھ مجھے پیر اور ایک ماہ سے میرے ساتھ دوسرے کام کرنے والوں پر پڑا ہوا ہے.یہ بوجھ عام انسانی طاقت سے بڑھا ہوا ہے اور زیادہ دیر تک برد است کرنا مشکل ہے.جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اور نصرت نہ ہو پس دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ کامیابی عطا کرے “ ) الفضل ۱۷ دسمبر 19 (

Page 159

۱۵۹ بعض خصوصی معاونین : تفسیر کبیر حضور کے لکھے ہوئے ان نوٹوں اور درسوں سے ترتیب دی گئی ہے جو حضور نے قادیان ربوہ - ڈلہوزی اور کوئٹہ میں دیتے.اس ضمن میں مکرم خواجہ غلام نبی ایڈیٹر روز نامہ الفضل کو ابتدائی مراحل میں خدمت بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی ، مگر زیادہ تر کام مولانا محمد یعقوب طاہر انچارج شعبه زود نویسی نے انجام دیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مولانا موصوف کو درس القرآن کے علاوہ حضور کے اکثر د بیشتر خطبات - تقاریر اور کتب مرتب و مدون کرنے کی سعادت حاصل ہوتی.حوالوں کی تلاش اور پروف ریڈنگ کا کام شروع میں حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلالپوری اور ان کی وفات کے بعد مکرم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب نے بڑی محنت اور خلوص سے کیا.حضور نے ان کی اس خدمت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : تفسیر کبیر جلد سوم...کی لغت - ترجمہ اور تدوین کا اکثر کام ان کے سپرد کیا گیا تھا ر حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل حلالپوری ، گو آخری حصہ کے وقت مولوی صعاب وفات پاچکے تھے.تاہم تیسری جلد ----- کی تدوین لغت اور ترجمہ کا بہت کچھ کام انہوں نے ہی کیا.ان کی وفات کے بعد مولوی نورالحق صاحب کے سپرد یہ کام کیا گیا.باوجود اس کے کہ ان کا علمی پایہ مولوی محمد اسماعیل جیسا نہیں اور باوجود نوجوان اور ناتجربہ کار ہونے کے انہوں نے میرے منشا کو سمجھا اور خدا تعالیٰ نے انہیں میرے منشا کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی " الفضل وار جولائی ۹۲۵ ) مکرم مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب کا بیان ہے کہ اس کام کی تکمیل پر حضور نے بطور خاص انہیں شرف باریابی بخشا اور ایک خوبصورت قیمتی چوغہ پہنایا جو ایک متبرک یادگار کے طور پر ان کے پاس محفوظ ہے.اس انتہائی ذمہ داری کے کام کو جس محنت اور لگن سے حضور نے کیا اس کی ایک جھلک حضور کے مذکورہ بالا بیان سے نظر آتی ہے.اسی سلسلہ میں حضرت سیدہ ام متین فرماتی ہیں : " قرآن مجید سے آپ کو جو عشق تھا اور جس طرح آپ نے اس کی تفسیریں لکھ کر اس کی اشاعت کی وہ تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہے.خدا تعالیٰ کی آپ کے متعلق پیشگوئی کہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی.جن

Page 160

دنوں میں تفسیر کبیر لکھی نہ آرام کا خیال رہتا تھا نہ سونے کا نہ کھانے کا بس ایک دھن تھی کہ کام ختم ہو جائے.رات کو عشا کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھتے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہو گئی." الفضل ۲۵ مارچ ۹۶۶لته ) تفسیر کبیر کی طباعت و اشاعت کا انتظام مولوی عبدالرحمان انور صاحب کے ذمہ تھا ان کے بیان کے مطابق." جب تفسیر کبیر کی سورۃ یونس کی تفسیر والی پہلی جلد رات کو چار بجے کے قریب مکمل ہوئی تو حضور کی ہدایت کے بموجب کہ جونی کتاب کی پہلی جلد تیار ہو حضور کی خدمت میں فوراً پیش کی جاوے.جب پیش کرنے کے لیے دستک دی تو حضور فوراً تشریف لے آئے اور تیار شدہ جلد کو ملاحظہ فرما کر بہت خوش ہوئے " ( الفرقان فضل عمر نمبر ۱۹۶۵ ة ) 1946 حضرت مصلح موعود کو اس کام کے جلد مکمل ہونے کا جس قدر خیال تھا اس کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کر تقسیم ملک کے قیامت خیز انقلاب میں جب ماؤں کے لیے بچوں کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا.حضور اپنی کسی جائیداد اور اولاد سے بھی پہلے تفسیر کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں.حضور نے انخلام آبادی کی ہدایات میں فرمایا : جو کنوانے آتے گا اس کے ساتھ تفسیر کے تین بکس دفتر سے ضرور بھجوا دیں.اور مولوی محمد یعقوب کو.تاکہ دو چار دن میں تفسیر کی آخری جلد مکمل کر دوں تا اس طرف سے دلجمیعی ہو جائے.باقی کام ہوتا رہے گا کون شخص ہے میں نے سارے دنیا کے کام کئے ( تاریخ احمدیت شد جلد نهم ) ہوں " ۱۴۵ اس ہدایت کی تعمیل ہوتی اور تفسیر کبیر کا کام پاکستان میں آکر بھی جاری رہا.حضرت مصلح موعود نے جماعتی کاموں کی سرانجام دہی میں جس جذبہ خدمت و وقت اور قربانی کا مظاہر فرمایا اور جس انہماک و توجہ سے تفسیر کبیر کی تالیف و ترتیب کا عظیم الشان کام کیا اس کی ایک جھلک پچھلے صفحات میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے.اس تفسیر کی اشاعت کے سلسلہ میں آپ نے اپنی علمی و دماغی صلاحیتوں کو پوری طرح فی سبیل اللہ صرف کرنے کے ساتھ ساتھ گراں قدر مالی امداد بھی فرمائی.

Page 161

141 حضور فرماتے ہیں :.۱۰,۰۰۰ پارہ عم کی تفسیر کی طباعت کے لیے میں نے دس ہزار روپیہ دیا ہے.اور یہ پارہ اس رقم سے شائع کیا جائے گا.یہ رقم اور اس کا منافع بطور صدقہ جاریہ میری مرحومہ بیوی مريم بكم أم طاہر غَفَرَ اللهُ لَهَا وَاَحْسَنَ مَثْوَاهَا کی رُوح کو ثواب پہنچانے کے لیے وقف رہے گا.اور اس کی آمد سے قرآن کریم احادیث اور سلسلہ احمدیہ کی ایسی کتب جو تائید اسلام کے لیے لکھی جائیں شائع کی جاتی رہیں گی اور اس کا انتظام تحریک جدید کے ماتحت رہے گا.اللہ تعالیٰ اس صدقہ جاریہ کو مرحومہ کی درجات کی بلندی اور قرب الہی کا دیبا چه تفسیر کبیر جلد شتم ) موجب بنائے اور اس جگہ یہ بیان کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ باوجود برسوں کی مجاہدانہ محنت و کاوش کے با وجود اشاعت کی مد میں گراں قدر مالی اعانت کے آپ نے خود اپنے مطالعہ کے لیے بھی تفسیر کبیر بلا معاوضہ حاصل نہ کی حضور فرماتے ہیں :."- ہر احمدی باپ کا فرض تھا کہ اپنی اولاد کے لیے تفسیر کبیر خرید تا.میں نے خود اپنی ہر لڑکی اور ہر لڑکے سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے تفسیر خریدی ہے یا نہیں اور جب تک ان سب نے نہیں خریدی مجھے اطمینان نہیں ہوا.میں نے تو خود سب سے پہلے اسے خریدا اور حق تصنیف کے طور پر اس کا ایک نسخہ لینا پسند نہیں کی کیونکہ میں اس پر اپنا کوئی حق نہ سمجھتا تھا.میں نے سوچا کہ مجھے علم خدا تعالیٰ نے دیا ہے، وقت بھی اسی نے دیا ہے اور اسی کی توفیق سے میں یہ کام کرنے کے قابل ہوا ہوں.پھر میرا اس پر کیا حق ہے اور میرے لیے یہی مناسب ہے کہ خود بھی اسے اسی طرح خریدوں جیس طرح دوسرے لوگ خریدتے ہیں.....یہ تفسیر ایک بہترین تحفہ ہے جو دوست دوست کو دے سکتا ہے.ایک بہترین تحفہ ہے جو خاوند بیوی کو اور بیوی خاوند کو دے سکتی ہے.باپ بیٹے کو دے سکتا ہے.بھائی بہن کو دے سکتا ہے یہ بہترین جیز ہے جو لڑکیوں کو دیا جا سکتا ہے" الفضل ۱۶ جنوری تغیر کبیر کے متعلق لبعض اہل علم حضرات کے تبصرے : ۱۹۳۷ تغیر کبیر کے مطالعہ کے بعد مشہور نقاد و ادیب اختر اورینوی (پٹنہ.انڈیا ) لکھتے ہیں :.

Page 162

یہ تفسیریں سراج منیر ہیں.ان سے قرآن حکیم کی حیات بخش شعاعوں کا انعکاس ہوتا ہے.تفسیر قرآنی کی یہ دولت سرمدی دنیا اور عقبیٰ کے لیے لاکھوں سلطنتوں اور ہزاروں ہزار جنتوں سے افضل ہے.علوم قرآنی کے گھر ہائے آبدار کان معانی و معدنِ عرفان سے نکالے گئے ہیں.خواص معارف پر فدا ہونے کو جی چاہتا ہے.ان تفسیروں کی خوبیاں بیان کرنے کے لیے ایک دفتر چاہیئے...میری ناچیز راتے میں تفسیر کبیر مندرجہ ذیل خوبیوں کی حامل ہے.اس میں قرآن کریم کے تسلسل ، ربطہ تنظیم ، ترتیب، تعمیر اور سورتوں کے موضوعات و معانی کی ہم آہنگی کوصاف ، روشن و مدتی طور پر ثابت کیا گیا ہے.قرآن مجید صرف ایک مسلک مروارید نہیں بلکہ یہ ایک مانی قصر الحمراء ہے.ایک زندہ تاج محل ہے.اس کے عناصر ترکیبی کے حسن کارانہ نظم و ضبط ، اس کے تراشیدہ ایجاز بیان ، اس کی معجزانہ صنعت گری ، اس کی گھری، وسیع اور بلند معنی آفرینی اور اس کے غیر مختتم خزینہ علم و عرفان کا شعور تفسیر کبیر کے مطالعہ سے حاصل ہونے لگتا ہے.......حضرت مرزا محمود احمد نے نہایت لطیف و بلیغ انداز میں اس امر کو درجہ یقین تک پہنچا دیا کہ قرآن مجید ایک کتاب عظیم ہے اور اس کے ابواب و عناصر اس کی سورتیں اور آیات گل و سیدہ کی طرح حسین یوسف کی مانند نظام شمسی کی مثال مربوط و منظم ، متناسب.ہم آہنگ اور حسین میں تفسیر کبیر کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ اس میں انسانی تقاضوں ، ضرورتوں اور مسلوں سے وابستہ بہ کثرت نئے مضامین ، نکتے اور تفصیلیں ملتی ہیں اور ہماری روح اور ذہن کی تشنگی بجھاتی ہیں.ہر سورۃ ہر پارہ کی تفسیر می معارف اور علوم کا دریا تے رواں جوش مارتا ہوا نظر آتا ہے.اس کے ذریعہ نئے علوم اور نئے مسائل پر گہری تنقید میں ملتی ہیں اور اسلامی نظریوں کا اتنا تسلی بخش اظهار و بیان ملتا ہے کہ آخرالذکر کی برتری ثابت ہو جاتی ہے.تفسیر کبیر میں قص قرآن کی عارفانہ تعبیری اور تفصیلیں ملی ہیں علم و حکمت، روحانیت و عرفان ، نکسته دانی و وضاحت کی تجلیاں شکوک و شبہات کے خس و خاشاک کو دور کر کے تقیم و تسکین کی راہیں صاف و روشن کر دیتی ہیں.تاریخ عالم قوموں کے عروج و زوال، اسباب زوال ، سامان عروج ، نفسیات اجتماعی فرد و جماعت کے روابط اور بندے کے اللہ سے تعلق کی اعلیٰ تحقیق و توضیح ملتی ہے.پالت

Page 163

۱۶۳ معجزات ، پیش گوئیوں ، انبیاء اور غیر انبیاء کے خوابوں ، رموز استعارات قرآنی و مقطعات کی حقیقی حکمتی اور ایمان افروز تعبیروں سے تفسیر کبیر کے اوراق تابناک ہیں.اس عظیم تفسیر میں تعلیمات اسلامی کا فلسفہ نہایت عمدہ طور پر پیش کیا گیا ہے دوسرے مذاہب کی تعلیموں اور معروف فلسفوں سے موازنہ و مقابلہ بھی عالمانہ منصفانہ رنگ میں کیا گیا ہے.اسلامی تعلیمات کی پر شوکت فضیلت سے دل کو طمانیت گیا راحت و تسکین ملتی ہے اور ذہن کو رفعت حاصل ہوتی ہے اس تفسیر کا انداز نظر عصری اور سائنسی بھی ہے.فلسفیانہ اور حکمتی بھی اور وجدانی و عرفانی بھی.اس تفسیر کر کے عالم علم و عرفان کی تجلیات بیان کرنے کے لیے دفتر در دفتر چاہئیں.یہ تفسیر ملت اسلامیہ کی بے بہا دولت ہے.قرآن حکیم کی اس تفسیر سے امت محمدیہ کا مستقبل وابستہ ہے" مجلہ الجامعہ ربوہ شمارہ نمبر ۹ صفحه ۳ ۶ تا ۲۵) یہ معلوم کرنا آسان کام نہیں ہے کہ حضور کے اس علمی معجزہ نے کتنی زندگیوں میں روحانی انقلاب پیدا کیا معمولی ہی کوشش سے ہزاروں ایسے افراد نکل آئیں گے جنہوں نے تفسیر کبیر پڑھ کر قرآن مجید سے ایک نیا تعلق اور خدا تعالیٰ کے قرب کا مقام حاصل کیا.کتنے ہی خوش قسمت ہیں کہ اس کتاب نے ان کی عملی زندگی میں نیک و پاک تبدیلی پیدا کر دی.ذیل میں صرف بطور مثال بعض مشہور غیر از جماعت افراد کے تاثرات دیتے جا رہے ہیں.علامہ نیاز فتح پوری ایک مشہور ادیب ہیں جنہوں نے حضور کی خدمت میں تغیر کبیر کے مطالعہ کے بعد تحریر کیا.تفسیر کبیر جلدسوم آجکل میرے سامنے ہے اور میں اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں.اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے.آپ کی تبحر علمی ، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیر معمولی فکر 3 ہم فراست ، آپ کا حسین استدلالی اس گے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا.کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور

Page 164

140 بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا.آپ نے ھؤلاء بناتی کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں.خدا آپ کو تا دیر سلامت رکھے " الفضل ارنومبر) بر صغیر ہند و پاک کی ایک محبوب شخصیت قائد اعظم کے رفیق کار پر جوش خطیب نواب بہادر یار جنگ تغیر کبیر ے اتنے متاثر تھے کہ جنب سیٹھ محمد اعظم حیدر آبادی کے بیان کے مطابق اسے ہمیشہ زیر مطالعہ رکھتے اور بڑی محبت و عقیدت کے ساتھ ایک مخصوص بلند جگہ پر اپنے قرآن مجید کیسا تھ رکھتے تھے اور اپنی مجالس میں اکثر اس امر کا ذکر بھی کرتے تھے.اسی طرح جناب اختر اورینوی صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے بیان کے مطابق پروفیسر عبدالمنان بیدل صدر شعبه فارسی پٹنہ یونیورسٹی نے تفسیر کبیر خود بڑھنے کے علاوہ بہت سے مشہور دانش وروں اور شیوخ کو مطالعہ کے لیے دیں اور ان سے تبادلہ خیالات اور گفتگو کے بعد اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : " مرز امحمود کی تفسیر کے پایہ کی کوئی ایک تفسیر بھی کسی زبان میں نہیں ملتی.آپ جدید تفسیریں بھی مصر و شام سے منگوا لیجئے اور چند ماہ بعد مجھ سے باتیں کیجئے.عربی وفارسی کے علما.مبہوت رہ گئے " (مجله الجامعه ربوه شماره نمیره صفحه ۶۳ تا ۶۵) سید جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ جو حیدر آباد دکن کی اتحاد المسلمین نامی تنظیم کے لیڈروں میں سے تھے بعض سیاسی وجوہ کی بناء پر قید کر دیئے گئے.سکندر آباد جیل کی تاریکی و تنہائی انکی خوش قسمتی سے تفسیر کبیر کے مطالعہ کے نتیجہ میں روشنی وہدایت کا ذریعہ بن گئی.اپنی نو ماہ کی قید و بند کے بعد جب آپ کو رہائی ملی تو انہوں نے مولانا عبد الماجد دریا بادی کو مندرجہ ذیل دلچسپ خط لکھا جو صدق جدید میں ایک صدق خواں کا قبول احمدیت" کے عنوان سے مدیر صدق کے تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا.دکن کے ایک بی.اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ کا جو سالہا سان، انجمن اتحاد المسلمین کے بڑے پر جوش رکن رہے اور اسی سلسلہ میں جیل بھی گئے اور صدق سے بھی مخلصانہ تعلق برسوں قائم رکھا ، تازہ مکتوب صرف ان کے نام اور سابق مستقر کے حذف کے بعد :- حیدر آباد دکن ۲۸ مارچ ۱۹۶۷ حضرت قبلہ - السلام علیکم ! دار السلام مجلس اتحاد المسلمین کے سلسلے میں گورنمنٹ آندھرا پردیش نے مجھے ۲۶

Page 165

140 ستمبر نشاء کو نظر بند کیا اور حال میں میری رہائی ہوئی.ان دنوں مستقر.......تھا.جیل لے جانے والے عہدہ داروں سے میں نے درخواست کی کہ مجھے اسٹیشن پر گرفتار کیا گیا تھا جبکہ میں ایک پیشی کر کے...سے واپس ہو رہا تھا ، مجھے گھر سے جاکر قرآن کریم ساتھ لینے کی اجازت دیں.پولیس کے عہدیدار بڑے شریف مزاج تھے.اپنی حراست میں مجھے گھرے گئے.میرے ایک دوست تھے جنہوں نے مجھے حضور خلیفہ صاحب جماعت احمدیہ کی لکھی ہوئی تفسیر کبیر کی جلد دی تھی.مجھے پڑھنے کی فرصت نہ ملتی تھی.ایک دن دوپہر کے وقت جب میں کھانے کے لیے آفس سے گھر آیا تو بیوی نے دستر خوان چننے میں کچھ دیر کی.تفسیر کبیر کی جلد میز پر بازو میں تھی.میں نے اُٹھالی اور چند اوراق الٹ کر دیکھنے شروع کئے.یہ وَ الْعَدِیتِ ضَبعًا کی تفسیر کے صفحات تھے.میں حیران ہو گیا کہ قرآن مجید میں ایسے مضامین بھی ہیں.پھر میں نے قادیان خط لکھا اور تفسیر کبیر کی جملہ جلدیں منگوائیں ، لیکن پڑھنے کا مجھے وقت نہ ملتا تھا.جیل کو روانگی کے وقت میں نے یہ جلدیں ساتھ رکھ لیں اور نو ماہ کے عرصہ میں جب کہ میں جیل میں تھا متعدد بار صرف یہی تفسیر پڑھتا رہا.جیل ہی میں میں نے بیعت کرلی اور جماعت احمدیہ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا.آپ بھی دُعا فرمائیں".الفضل ه ر مئی ۹۶۲ 1945 سید جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ نے اس مختصر مکتوب کے بعد ایک مفصل مضمون بھی اخبار " صدق جدید کو بھجوایا جس میں انہوں نے تفسیر کبیر کے مبارک اثرات اور قبول حق کے حالات پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی.یہ مضمون " صدق جدید" کے دو نمبروں میں قسط وار (۸-۱۵ جون له شائع ہوا.اس اہم مضمون کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے :- حصول دار السلام کی جدوجہد میں مجھے جب جیل پہنچایا گیا تو تیسرے دن مجھے وجوہات نظر بندی تحریری شکل میں میتا کئے گئے جس میں میری گذشتہ تین چار برسوں کی تقریروں کے اقتباسات تھے اور الزام یہ تھا کہ میں ہندوستان کی حکومت کا تختہ الٹ کہ اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں.میں حیران تھا کہ مجھ جیسا چھوٹا آدمی اور یہ پہاڑ جیسا الزام لیکن مجھے آہستہ آہستہ محسوس ہوا کہ میری تقریروں سے کچھ ایسا ہی مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے.میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ میں بھٹکا ہوا مسافر تھا جس کی منزل

Page 166

144 تو متعین تھی لیکن راستہ نہ تھا مسلمانوں کی انجمن اتحاد المسلمین ہو یا کوئی اور جماعت ان سب کی حالت یہی ہے.دوسرے دن میں نے تفسیر کبیر کا مطالعہ شروع کیا جو میں اپنے ساتھ لے کر گیا تھا.تو مجھے اس تفسیر میں زندگی سے معمور اسلام نظر آیا.اس میں وہ سب کچھ تھا جس کی مجھے کو تلاش تھی.تفسیر کبیر پڑھ کر میں قرآن کریم سے پہلی دفعہ روشناس ہوا جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے.اپنا مسلک چھوڑ کر احمدیہ جیسی جماعت میں داخل ہونا جس کو تمام علمائے اسلام نے ایک ہوا بنا رکھا ہے.کچھ معمولی بات نہیں لیکن حق کے گھل جانے کے بعد میاں خطرات کی پر وابھی کسی کو نہ تھی.تاہم سجدہ میں گر کر شب و روز میں نے دُعائیں شروع کیں کہ یا اللہ مجھے صراط المستقیم دکھا.کئی ماہ اسی حالت میں گزر گئے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری سجدہ کی زمین آنسوؤں سے تر ہو جاتی تھی.مجھے یقین ہے کہ میری دعائیں قبول ہوئیں کیونکہ احمدیت کو سچا سمجھنے کے عقیدے میں مستحکم ہو گیا اور قادیان سے حضرت میاں مرزا وسیم احمد صاحب کی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ سے میں نے درخواست کی کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں......میری قید کا بڑا حصہ سکندر آبادجیل میں گذرا وہاں کے جیلر ایک مسلمان اور رسم دوست کم بھی تھے.قیدیوں کی پوری خط وکتابت ان لوگوں کے علم میں رہتی ہے.کیونکہ انکے دستخط کے بعد ہی قیدیوں کے خطوط روانہ یا حوالہ ہوتے ہیں.اگر چہ یہ بات کچھ اچھی نہ تھی لیکن جرات کی کمی کے باعث میری یہ کوشش رہتی تھی کہ قادیان کو لکھے ہوئے میرے خطوط حکام جیل کے علم میں نہ آنے پائیں.مجلس اتحاد المسلمین حیدر آباد ایک بڑی ہی ہر دلعزیزہ جماعت ہے.جیل کا عملہ جیل کے سارے ہی قیدی مجھ سے بڑی محبت اور عقیدت سے پیش آتے تھے.اگر چہ پہرہ والوں کے سوا مجھ سے کوئی نہ مل سکتا تھا.ان وجوہ سے حکام کے علم میں آئے بغیر میرے خطوط قادیان کو پوسٹ ہو جاتے تھے لیکن جو خط قادیان سے آتا تھا وہ ہر صورت جبیر کے علم میں آنا ضروری تھا.جب قادیان بیعت کا فارم آیا تو جیل میں بڑی گڑ بڑ ہوئی.راز باقی نہ رہ سکا.کمرہ کی صفائی کرنے والے قیدی، کھانا پہنچانے والے ، اخبار لانے والے وغیرہ وغیرہ کسی نہ کسی بہانے آتے اور مجھ سے پوچھتے کہ کیا آپ قادیانی ہو گئے ہیں ؟ میں انہیں غلط نہ کہ سکتا تھا، لیکن ابھی چونکہ

Page 167

ند 144 میں نے بیعت نہیں کی تھی اس لیے میں اُن سے کہتا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے.بالآخر جیلہ میرے پاس آئے اور میرا خط مع بیعت فارم کے اُن کے پاس تھا مجھ سے بڑی ہی ہمدردانہ گفتگو کی کہ یہ آپ کیا رہے ہیں.قرآن کی اس تفسیر کو چھوڑیئے میں آپ کو ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی کی تفسیر قرآن دیتا ہوں آپ کے خیالات ٹھیک ہو جائیں گے.چنانچہ انہوں نے وہ دونوں تفسیر میں لادیں جو اصل میں ترجمہ تھے اور کہیں کہیں تفسیر تھی بیعت کا فارم تکمیل کر کے بھیجنے سے قبل میں نے ان دونوں تفاسیر کا مطالعہ کیا.تفسیر کبیر کے طالب علم میں اتنی اہمیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دیگر تمام تفاسیر پر تنقید سے کر سکے.چنانچہ میں نے جیلر صاحب کو بلایا کہ ان دونوں تفاسیر میں کون کون مقامات مبہم ہیں.کہاں کہاں ترجمہ کی غلطی ہے اور کہاں کہاں معنی محدود ہیں مجھے ایسا کرنے میں آسانی اس لیے ہوئی کہ تفسیر کبیر میں لغت قرآن بھی موجود ہے.لا یمسئے الا المُطَهَّرُونَ صرف مظہر لوگ ہی قرآن کریم کے مطالب کو سمجھ سکیں گے.جیلر صاحب ۲۴ گھنٹے اپنے سرکاری فرائض میں مشغول رہتے.قرآن کریم کو دیکھنے کا بھی انہیں موقعہ نہ ملتا.میری بات میں انہوں نے دلچسپی نہ لی.پھر میں نے جبلیہ صاحب کو تفسیر کبیر کی پہلی جلد دی اور ان سے درخواست کی کہ وہ کم از کم اس میں سے سورۃ فاتحہ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں جو بہ شکل (۵۰) صفحات پرمشتمل ہے.وہ لے گئے لیکن چند دن کے بعد یہ کیکر واپس کر گئے کہ مجھے تو پڑھنے کی فرصت نہ ملی.البتہ میری خوشدامن صاحبہ یہ کتاب دیکھ چکی ہیں وہ اس کی بڑی تعریف کرتی ہیں.میں نے بیعت کا فارم پُر کرکے بھیج دیا.یہ تفصیل آپ کی خدمت میں اس لیے لکھی کہ مجھ پر سے یہ الزام دُور ہو جاتے کہ میں نے بیعت میں عجلت کی.بیعت کا فارم بھیج کر میں دعاؤں میں لگ گیا کہ میری بیعت کے قبول ہونے میں کچھ رکاوٹیں ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو دُور فرمائے میرا اندیشہ غلط نہ نکلا.میری بیعت قبول کرنے سے پہلے حضور خلیفہ صاحب نے دریافت فرمایا کہ ایک احمدی مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حکومت وقت کا بھی وفادار رہے.اور قانون کے اندر رہ کر کام کرے.میں نے جواب دیا کہ حضور کی تفسیر نے یہ ساری باتیں میرے دل پر نقش کر دی ہیں.کچھ دنوں کے بعد جب قادیان سے مجھے معلوم ہوا کہ میری بیعت قبول کر لی گئی تو میں سجدہ میں گر گیا.

Page 168

تفسیر کبیر میں ایک مقام پر میں نے پڑھا تھا کہ خلیفہ جو مصلح موعود ہوگا وہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہوگا.میں نے حضور سے درخواست کی کہ وہ میری رہائی کے لیے دُعا فرمائیں.حضور خلیفہ صاحب نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی رہائی کے سامان کرے اس کے چند ہی دنوں بعد میں رہا ہو گیا.خلیفہ موعود کی نسبت یہ پیش گوئی کہ وہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہوگا میں اس کا زندہ ثبوت ہوں.الفضل ۲۳ رحون ۱۹۶۲مه مشهور مفسر قرآن علامہ عبد الماجد دریا آبادی مدیر صدق جدید نے حضور کی وفات پر ایک شذرہ تحریر کیا جس میں حضور کی خدمت قرآن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- قرآن اور علوم قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی اور الوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں.ان کا اللہ انہیں صلہ دے علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح و تبیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں.اس قرآنی جوتشریح وہ کر گئے ہیں.کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ہے؟ والا ( صدق جدید لکھنو ۱۸/ نومبر شاه ) تفسیر کبیر کے اس تعارفی مضمون کو حضور کی مندرجہ ذیل پیر در د نصیحت پر ختم کیا جاتا ہے :- ---- اسے پڑھنے والو میں آپ سے کہتا ہوں قرآن پڑھنے پڑھانے اور عمل کرنے کے لیے ہے.پس ان نوٹوں میں اگر کوئی خوبی پاؤ تو انہیں پڑھو پڑھاؤ اور پھیلاؤ عمل کرد.عمل کراؤ اور عمل کرنے کی ترغیب دور یہی اور یہی ایک ذریعہ اسلام کے دوبارہ احیاء کا ہے.اسے اپنی فانی اولاد سے محبت کرنے والو اور خدا تعالیٰ سے ان کی زندگی چاہنے والو! کیا اللہ تعالٰی کی اس یادگار اور اس تحفہ کی رُوحانی زندگی کی کوشش میں حصہ نہ لو گے تم اس کو زندہ کرو.وہ تم کو اور تمہاری نسلوں کو ہمیشہ کی زندگی بخشے گا.اُٹھو کہ ابھی وقت ہے.دوڑو کہ خدا کی رحمت کا دروازہ ابھی کھلا ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں پر بھی رحم فرماتے اور مجھ پر بھی کہ ہر طرح بے ہیں.بے کس اور پر شکستہ ہوں.اگر مجرم بنے بغیر اس کے دین کی خدمت کر سکوں تو اس کا بڑا احسان ہوگا.يَا سَارُ يَا غَفَّارُ ارْحَمْنِي يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ بِرَحْمَتِكَ اسْتَغِيتُ (کچھ تفسیر کبیر کے متعلق صت ) و

Page 169

ند 149 انگریزی ترجمہ قرآن مجید : کلام اللہ کے مرتبہ کو ظاہر کرنے اور اشاعت و خدمت قرآن کی جو سعادت حضرت مصلح موعود کو قرآن مجید کے دروں اور جلسہ سالانہ کی تقاریر وخطبات جمعہ کے ذریعہ حاصل ہو رہی تھی اس کی افادیت کے دائرہ کو وسیع کرنے اورغیرمسلم دنیا کو قرآنی حسن و خوبی سے آشنا کرنے کے لیے قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی.حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اپنی نگرانی میں اس اہم خدمت کی سیر انجام دہی کے لیے مقرر فرمایا.حضرت میاں صاحب نے ابتداء میں تو بڑی تو جہ اور محنت سے یہ کام کیا مگر تقسیم ملک کے بعد اپنی دیگر علمی و انتظامی مصروفیات کی وجہ سے اس کام کے لیے زیادہ وقت نہ دے سکے.حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بڑی محنت و عرقریزی - حضور ایدہ اللہ کے نوٹوں سے قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کا کام کیا.اس کام کے سلسلہ میں حضرت مولوی صاحب قریباً تین سال انگلینڈ بھی رہے تا زبان وبیان میں کسی قسم کا جھول اور کی نہ رہ جائے.حضرت مولوی صاحب کے ساتھ اس کام پر ملک غلام فرید صاحب مقرر ہوتے جنہوں نے مولوی صاحب کی وفات کے بعد بھی یہ کام جاری رکھا اور یہ معرکۃ الآراء ترجمہ وتفسیر تین جلدوں میں اس ترتیب سے شائع ہوا.پہلی جلد اور دیباچہ تفسیر القرآن - جون شلة - دوسرا حصہ ۱۹۳۹ة دوسری جلد ستمبر - تعمیری جلد مارچ ۱۹۶۳ ته اس ترجمہ کی افادیت اس امر سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ فاضل مترجمین نے اس کا آغاز شاہ میں کیا تھا.ایک ایک لفظ پر غور و فکر کر کے بہترین ترجمہ کرنے کے لیے اس عظیم کام پر کوئی پچاس سال کا عرصہ لگا اور آخری جلد انہ میں شائع ہوئی.اس ترجمہ سے نومسلموں کی تربیت اور غیرمسلموں میں تبلیغ قرآن کے کام کو بہت پیش رفت حاصل ہوئی.خدا تعالیٰ کے فضل سے ترجمہ کی صحت اور زبان کی عمدگی کا اعتراف اپنوں اور غیروں نے کیا اس سلسلہ میں بعض بیانات بطور مثال درج ذیل ہیں.ایک عربی اخبار نے لکھا : - اپنی دنیوی مصروفیات میں بے حد شغول و منہمک ہونے کے باوجود لوگ تحریک احمدیت اور اس کی نتیجہ خیز کوششوں اور ساتوں براعظموں میں تبلیغ واشاعت اسلام کے لیے جدوجہد اور قربانیوں کو استعجاب و پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں.گذشتہ جنگ عالمگیر کے چند

Page 170

سالوں میں ان کا عظیم ترین و نمایاں کا رنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے امام جماعت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی راہنمائی اور آپ کی زیر ہدایات مختلف رائج الوقت کسی غیریکی اہم زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کہتے ہیں.جیسے انگریزی - فریج.روسی - اطالوی اور ہسپانوی وغیرہ - انگریزی ترجمہ جو زیور طباعت سے آراستہ ہو کہ منظر عام پر آچکا ہے دیکھ کر ہم یہ کے بغیر نہیں رہ سکتے کہ قرآن مجید کے جتنے بھی انگریزی تراجم اس سے قبل شائع ہو چکے ہیں یہ ان سب پر فوقیت لے گیا ہے.کیا بلحاظ طباعت کی خوبی اور دیدہ زیب ہونے کے اور کیا بلحاظ اپنی عمدگی اور ترتیب و با محاورہ ترجمہ ہونے کے اور کیا بلحاظ لفظی ترجمہ کی صحت کے اور کیا بلحاظ اس کی تشریح و تفسیر کے جو جدید سلوب و پیرایہ میں ایک مبسوط تفسیر ہے.جسے پڑھ کر نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے کہ حضرت امام جماعت علم دین کے رموز و حقائق اور اس کی اعلی درجہ کی تعلیم اور روحانیت سے متعلق جملہ علوم سے غیر معمولی طور پر بہرہ ور ہیں اور دین کے بارہ میں بھر لور علم رکھتے ہیں......اس جدید تفسیر کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اسلام پر اعتراضات کے جواب اصل اسلام کو مد نظر رکھ کر دیتے ہیں.وہ حقیقی اسلام جس میں تمام لوگ اپنے رب سے ملاقات کا طریق مستقیم پاتے ہیں.بالخصوص ایسے وقت میں جبکہ سالکین کے سامنے بے شمار راستے رونما ہو چکے ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ اصل راستہ سے بہت دُور جا پڑے ہیں.جناب امام جماعت احمدیہ نے اپنی اس تفسیر میں دشمنان اسلام کا بخوبی رد کیا ہے بالخصوص منتشرقین کے پیدا کردہ غلط خیالات اور ان کے اعتراضات کا جواب ببینظیر علمی رنگ میں دیا ہے.اخبار الاردن عمان (شرق الاردن ) ۲۱ نومبر ۹۳له ) اسی طرح عمان کے ایک اور رسالے "وكالة الانباء العربية " نے بھی انگریزی ترجمہ قرآن پر شاندار الفاظ میں تبصرہ کیا اور اسے تمام سابق ترجموں سے بہتر قرار دیا.وہ لکھتا ہے :- ہمیں عمان میں مقیم جماعت احمدیہ کے اسلامی مبلغ مرزا رشید احمد صاحب چغتائی کے ذریعہ جماعت احمدیہ کا قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ موصول ہوا ہے.اس کے شروع میں کوئی تین سوصفحات پر مشتمل ایک دیباچہ ہے.جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسی انسان

Page 171

کی تالیف ہے اور جس میں قرآن مجید سے متعلق متعدد قیمتی مضامین کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ بھی شامل ہے.قرآن مجید کا یہ ترجمه گذشته تمام انگریزی ترجموں سے ترجمہ کی عمدگی اور طباعت وغیرہ کی خوبیوں کی وجہ سے سبقت لے گیا ہے اس میں کی گئی عمدہ تفسیر کا جدید علمی انداز بہت سی نئی معلومات اور حقائق و معارف دین حنیف پر آگاہی بخشتا ہے.در پیانچہ میں نہایت عالمانہ رنگ میں معترضین اسلام با الخصوص مستشرقین کے احترات باطلہ کا رد کیا گیا ہے " مستشرقین نے قرآنی تراجم و تفاسیر کی آڑ میں اسلام پر اعتراضات کا ایسا طرز عمل اختیار گئے رکھا ہے کہ ان کی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام ایک دقیانوسی اور ناقابل عمل ہی نہیں ایک وحشیانہ اور خوفناک مذہب نظر آتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعانہ جنگیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر حکمت تعقد و ازدواج اسلامی پر وہ مسلمان عورتوں کے حقوق اور متعدد دوسرے مسائل بلکہ اسلامی عبادات پر بھی ایسے متعصبانہ طریق پر اعتراض کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا اصل مقصد تحقیق یا علمی خدمت کی بجاتے غلط پروپیگنڈہ اور نفرت کے جذبات پیدا کرنا ہے.اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض سادہ کوح مسلمان مصنفین نے اپنی سادگی کی وجہ سے اپنی کتب میں بعض ایسی روایات بھی درج کر دی ہیں جن کا ماخذ و منبع صحیح اسلامی تعلیم نہیں بلکہ یہودی روایات ہیں.قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ وتفسیر بلکہ تمام احمد بہ لٹریچر میں اس امر کا پورا التزام کیا گیا ہے کہ کلام الہی کی عظمت ظاہر ہو اور مستشرقین کے اعتراضات کا مدتل و مسکت جواب دیا جائے.یہی وجہ ہے کہ اسلامی عرب پولیس نے اس امر کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے تبصرہ میں جہاں ترجمہ کی انگریزی زبان و طباعت وغیرہ کے لحاظ سے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے وہاں یہ امر بھی نمایاں طور پر بیان کیا ہے کہ اس ترجمہ میں مستشرقین کے اعتراضات کا قلع قمع کیا گیا ہے.....

Page 172

144 ڈاکٹر ایس ایس بیان صدرشعبه تاریخ ادب ادبیات ارت ایران یونیورسٹی یونسٹن امریکہ نے " اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ------ - بحیثیت مجموعی انگریزی زبان کے اسلامی لٹریچر میں یہ ایک قابل قدر اضافہ ہے جس کے لیے دنیا جماعت احمدیہ کی از حد ممنون ہے ؟ ۶۷۴ ( تاریخ احمدیت جلد دہم ) پروفیسر ایچ اے آر گب نے اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تحریر کیا.په ترجمه قرآن مجید کو انگریزی زبان کا جامہ پہنانے کی ہر سابقہ کوشش.در هم ) کے مقابلہ میں زیادہ قابل تحسین ہے ( تاریخ احمدیت جلد دہم ص رچرڈ بیل نے لکھا : زبان کے لحاظ سے اس کی انگریز می نقائص سے پاک ہے......یقیناً قرآنی تعلیمات کو جامعیت کے ساتھ پیش کرنے کا یہ انداز جدت کا حامل اور ہر طرح تحسین کے قابل ہے.اگر انجمن اقوام متحدہ اس میں بیان کردہ اصولوں پر عمل پیرا ہو سکے تو یقیناً کسی حد تک وہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر سکتی ہے.تفسیر جامع ہے اور بہت حد تک روحانی اقدار اور ان کی احسن تقسیم کی آئینہ دار ہے.460.( تاریخ احمدیت جلد دهم ۷۵ ) مدرسہ السنہ شرقیہ پیرس کے پروفیسر ادبیات MR REGIS BLACHERE نے اسی ترجمہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا : ترجمہ کی یہ صحت جس سے قرآن کے مشکل اور مبہم مقامات کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے ہر تعریف سے بالا ہے.اس ترجمہ کے بارہ میں یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اس سے قبل قرآن کریم کے یورپی زبانوں میں جس قدر تراجم ہوتے ہیں وہ اس اہتمام سے عاری ہیں کہ وہ لوگ بھی جو عربی متن کے ظاہری و باطنی مطالب سے نابلد ہوں اس سے فائدہ اُٹھا دشق کے مشہور عیسائی اخبار النصر نے اس ترجمہ کو بے نظیر قرار دیتے ہوئے لکھا:." ہمیں قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوتی ہے.یہ ترجمہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی زیر نگرانی کیا گیا ہے.ترجمہ جاذب نظر اور بلند پایہ

Page 173

۱۷۳ خیالات کا حامل ہے.......مطالعہ کرنے والا ان تفاسیر جدیدہ میں مستشرقین اور یوروپین معاندین کے اعتراضات کے مفصل جواب پاتا ہے......یہ امر قابل ذکر ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے اس ترجمہ کے ساتھ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی تحریر کی ہے اور یہ سیرت و ترجمہ بے نظیر ہیں " دشق کے الاخبار نے جماعت احمدیہ کا قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ اپنی مثال آپ ہے " کے عنوان سے اس ترجمہ کی خبر نمایاں طور پر شائع کی.تاریخ احمدیت جلد دہم صفحه ۶۷۶۶۷۵۰۶۷۴) حضرت مصلح موعورت کے عہد مبارک میں انگریزی ترجمہ کے علاوہ مندرجہ ذیل زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ ہوا تا یہ زبانیں بولنے والی قومیں بھی قرآنی برکات سے بہرہ ور ہو سکیں.جرمن ڈچ ڈینش سواحیلی ه لو گنڈا روسی مینڈی 0 فرانسیسی.ہسپانوی 0 اٹالین پرتگیزی نگویوں کی کامیا ہ انڈونیشین 0 اسیرا تغیر کبیر کا عظیم کام جاری تھا اور دُنیا اس سے بصد شوق استفادہ کر رہی تھی مگر حضور کی غیر معمولی مصروفیات اور ذمہ داریاں اس کام کے تسلسل میں روک نہتی تھیں.حضور کی کمزور صحت بھی کسی حد تک کام کی رفتار پر اثر انداز ہوتی تھی.ان امور کو دیکھتے ہوتے حضور نے مناسب خیال فرمایا کہ قرآن مجید کے با محاورہ سلیس اردو ترجمہ کا کام جلد مکمل کر دیا جاوے.حضور کے عزم و ہمت کی پر ایک عجیب مثال ہے کہ جب عمر اور صحت کے لحاظ سے ڈاکٹر آپ کو بجا طور پر آرام کرنے اور کام کم کرنے کا مشورہ دے رہے تھے اور بعض حساد نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ آپ اپنی بیماری اور کمزوری کی وجہ سے کوئی قابل ذکر کام کرنے کے اہل نہیں رہے آپ نے بنی نوع انسان تک قرآن مجید کے صحیح ترجمہ کو پہنچانے کے انتہائی مشکل مگر ضروری کام کا بیڑا اٹھایا اور اس طرح قرآن مجید کے ہر طالب و شیدائی کے لیے تفسیر صغیر جیسی نعمت غیر مترقبه مهیا فرما دی.تغییر صغیر سے پہلے عام مروج اُردو ترجموں نے اپنے اپنے وقت میں بہت اچھا کام کیا اور یہ ان مشاہیر کی بہت بڑی خدمت تھی جو انہوں نے قرآنی معارف کو عام کرنے کے لیے بڑے پیارا در خلوص سے سرانجام دی.مگر زمانے کے تقاضے.غیر مسلموں کے اعتراضات اور اردو زبان کی ترویج و ترقی سے یہ

Page 174

۱۷۴ ضروری ہوگیا تھا کہ عام فہم زبان میں قرآنی الفاظ کے ساتھ ساتھ قرآنی روح وفلسفہ سے مطابقت رکھتا ہوا سلیس ترجمہ کیا جائے جسے پڑھ کر عام عقل و فہم کا قاری قرآن مجید کے مفہوم کو سمجھنے اور غیر مسلموں کے اعتراضات کا جواب دینے کے قابل ہو سکے.تفسیر صغیر کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ عربی زبان کی باریکیوں اور قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قسم کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اس سے قرآن مجید کا وہ حسن نظر آنے لگتا ہے جو بڑی بڑی تفسیروں کے مطالعہ سے ہی نظر آسکتا تھا.مزید کمال یہ ہے کہ لفظوں کے صحیح انتخاب سے ترجمہ اس طرح مربوط و مسلسل ہو گیا ہے کہ اس کے سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی.لأريت فاکر میری یہ خوبی بھی ات و شک کی گرد ڈالنے کی کوشش کر کریں لے جہاں جہاں اس کا اس جگہ بے ہے کہ فہم غیر کتاب پر کی ہے وہاں صحیح ترجمہ کے ذریعہ سے اس شک کی بنیاد ہی ختم کر دی گئی ہے.بعض پرانے ترجموں اور تفسیر صغیر کے ترجمہ کا باہم موازنه و مقابلہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا.وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْاً......الله (البقرة :٢٢) متداول تراجم : اور جب تم لوگوں میں سے کسی نے ایک آدمی کا خون کر دیا پھر ایک دوسرے پر اس کو ڈالنے لگے اور اللہ تعالیٰ کو اس کا ظاہر کرنا مقصود تھا جس کو مخفی رکھنا چاہتے تھے اس لیے ہم نے حکم دیا کہ اس کو اس کے کوئی سے ٹکڑے سے چھوا دو.اس طرح حق تعالیٰ قیامت میں مردوں کو زندہ کریں گے.ترجمہ کا ابہام قابل غور ہے.تفسیر صغیر اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب تم نے ایک شخص کو قتل کرنے کا دعوی کیا پھر تم نے اس کے بارے میں اختلاف کیا.حالانکہ (جو کچھ تم چھپاتے تھے اللہ اسے ظاہر کرنے والا تھا.اس پر ہم نے کہا کہ اس (واقعہ ) کو اس (نفس) کے ساتھ پیش آنے والے بعض اور واقعات سے ملا کر دیکھو پھر تمہیں حقیقت معلوم ہو جائے گی ، اللہ تعالیٰ اسی طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تم کو اپنے نشان دکھاتا ہے تاکہ تم عقل کرو.O وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ..الآيم (البقرة : ۶۵) مند اول تراجم : اور تم جانتے ہی ہو ان لوگوں کا حال جنہوں نے تم میں سے شروع تجاوز کیا تھا درباره راس حکم کے جو ) یوم ہفتہ کے متعلق تھا، سو ہم نے ان کو کہ دیا کہ تم بندر دیل بن جاؤ.

Page 175

تفسیر صغیر :- اور تم ان لوگوں کے انجام کو جنہوں نے تم میں سے رہوتے ہوتے سبت کے معاملہ ہیں زیادتی کی تھی یقیناً جان چکے ہو.اس پر ہم نے انہیں کہا تھا جاؤ ذلیل بندر بن جاؤ.ه وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ.الآيه (البقرة : ۹۳ ) متداول تراجم :- اور جب ہم نے تمہارا قول و قرار لیا تھا اور طور کو تمہارے سروں کے اوپر لاکھڑا کیا تھا.تغیر صغیر اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا اور طور کو تمہارے اوپر بلند کیا تھا.ه فَصُرُهُنَّ إِليكَ...(البقرة : ۲۶۱) متداول تراجم : اپنے پاس منگا لو اور ٹکڑے ٹکڑے کر دو.تفسیر صغیر : ان کو اپنے ساتھ سدھا لے.ه اللهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ (البقرة : ١٦ ) متداول تراحم : 1 - اللہ منہی کرتا ہے ان سے - اللہ تعالیٰ بھی استہزا کر رہا ہے ان کے ساتھ.اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے.تفسیر صغیر اللہ انہیں ان کی منہی کی سزا دے گا.وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَئِكَةِ اسْجُدُ وَ الأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا ابليين - (البقره: ۳۵) وَ متداول تراجم اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو.تفسیر صغیر اور (اس وقت کو بھی یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ فرمانبرداری کرور پس انہوں نے فرمانبرداری کی مگر ابلیس نے نہ کی) ه قُلِ اللهُ اَسْرَعُ مَكْرًا....ر یونس : ۲۲) مند اول تراجم : 1- ان سے کہو اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے.- آپ کہہ دیجئے اللہ چالوں میں ان سے بڑھا ہوا ہے.ان تراجم سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا چالبازی کا کوئی مقابلہ ہو رہا ہے.تفسیر صغیر : تو انہیں کہہ کہ اس کے مقابل پر اللہ کی تدبیر تو بہت ہی جلد کارگر ہوا کرتی ہے.ه وَاللهُ خَيْرُ المَاكِرِينَ.رانغال : ٣١ )

Page 176

متداول تراجم : اور خدا خوب چال چلنے والا ہے.یہ ترجمہ خدائی تقدس و عظمت سے کہاں تک مطابقت رکھتا ہے.؟ تفسیر صغیر : اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے.وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهُم بِهَا ؟ ( يوسف : ۲۵ ) متداول تراجم : 1- اور اس عورت کے دل میں تو ان کا خیال جم ہی رہا تھا اور انہیں بھی اس کا (عورت) کا خیال ہو چلا تھا.اور اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا.کسی نبی کی شان معصومیت سے اس ترجمہ کو کیا نسبت ہے ؟ : تفسیر صغیر اور اس عورت نے اس کے متعلق اپنا ارادہ پختہ کر لیا اور اس (یوسف ) نے بھی اس کے متعلق (اپنا ارادہ (یعنی اس سے محفوظ رہنے کا پختہ کر لیا.ه قَالَ هَؤُلاءِ بنتِى إِن كُنتُمْ فَعِلِينَ (الحجر : ۷۲ ) مند اول تراجم : بولا یہ حاضر ہیں میری بیٹیاں اگر تم کو کرنا ہے.ایک پاک نبی کے کردار و اخلاق کی کیا تصویر ذہن میں بنتی ہے ؟ تغیر صغیر اس نے کہا اگر تم نے میرے خلاف کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں (تم میں موجود ہی) جو کافی ضمانت ہیں.ه لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهِ مَا تَقَدَمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَاخَرَ - (الفتح : ٣) متداول تراجم : 1- تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دے.۲ - تا معاف کرے تجھہ کو اللہ جو آگے ہو چکے تیرے گناہ اور جو پیچھے رہے.تفسیر صغیر : جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تیرے متعلق کئے گئے وہ گناہ بھی جو پہلے گزر چکے ہیں ڈھانک دے گا اور جواب تک ہوتے نہیں لیکن آئندہ ہونے کا امکان ہے، ان کو بھی ڈھانک دے گا.پہلے ترجموں پر جو اعتراض ہوتے ہیں اور تفسیر صغیر کے ترجمہ سے جو شان نمایاں ہوتی وہ ظاہر ہے.وَوَجَدَكَ صَالاً فَهَدَى متداول تراجم : 1- اور پایا تجھے کو بھٹکتا پھر راہ سمجھائی.ا.(الضحى : ٨) (.اور تم کو دکھا راہ حق کی تلاش میں بھٹکے بھٹکے پھر رہے ہو توتم کو دین حق کا سیدھا

Page 177

رستہ دکھا دیا.تغیر صغیر اور جب اس نے تجھے اپنی قوم کی محبت میں سرشار دیکھا تو ان کی اصلاح کا، صحیح رستہ تجھے بتا دیا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع و اعلیٰ شان کا اظہار تفسیر صغیر کے ترجمہ میں ہی ہے.وَالرَّجُزَفًا هجرة متداول تراجم : 1- اور بہتوں سے دور رہو.- اور نیتوں سے الگ رہو.اور گندگی سے دور رہو.• ۴.اور ناپاکی سے دُور رہو.المدثر :) اس ترجمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گندگی سے نسبت پائی جاتی ہے.العیاذ باللہ تفسیر صغیر اور شرک کو مٹا ڈال.یہاں محض بطور مثال چند آیات کا ترجمہ بیان کیا گیا ہے.تفسیر صغیر کے ترجمہ میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ اس کا قاری اپنی قرآن فہمی میں ترقی کرتا اور قرآن مجید سے زیادہ قرب اور دل لگاؤ حاصل کرتا ہے.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

Page 178

14 A جنگ عظیم (ایک خبر یہ دی گئی تھی کہ اس کا نزول جلال الٹی کے ظہور کا موجب ہوگا.یہ خبر بھی میرے زمانہ میں پوری ہوئی چنانچہ میرے خلافت پر متمکن ہوتے ہی پہلی جنگ ہوئی اور اب دوسری جنگ شروع ہے.جس سے جلال الٹی کا دُنیا میں ظہور ہو رہا ہے.( حضرت مصلح موعوض ) ( وبس

Page 179

169 جلال الہی کا ظہور اور خُدائی نشانات : حضرت مصلح موعود ۹ہ میں مسند آرائے خلافت ہوتے آپ کو خُدائی کلام میں "عالم کباب قرار دیا گیا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے موعود فرزند کے زمانہ میں ایک عالمگیر تباہی آنے کی پیش خبری بیان فرمائی تھی.یہ مجیب خدائی تصرف ہے کہ تاریخ عالم میں جو سب سے خوفناک اور خونریز جنگیں ہوئیں وہ آپ کے زمانہ میں ہوئیں.چنانچہ جنگ عظیم اول (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ م ) میں میں کم و بیش ایک کروڑہ افراد ہلاک ہوئے اور دو کروڑ سے زیادہ اپاہج ہو کر ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو گئے (انسائیکلو پیڈیا اردو ص۳) اور نومبر کو جرمنی نے جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا.۲۸ جون شاشاتہ کو وارسائی کے مقام پر معاہدہ صلح ہوا.مگر یہ صلح کا معاہدہ ایسی شرائط پر طے پایا تھا جو مفتوحین کے ساتھ سراسر بے انصافی پر مبنی تھا اور جس میں جنگ عظیم ثانی کا بیج بو دیا گیا تھا.حضور نے اس جنگ کے موقع پر جماعت کی رہنمائی اور جماعتی مفادات کا خیال رکھنے کیلئے ایک گیارہ رکنی کمیٹی مقرر فرمائی جس نے حضور کی ہدایات کے مطابق نہایت مفید کام سرانجام دیئے.جنگ کا آغاز : جنگ عظیم دوم اپنی ہلاکت و خونریزی میں جنگ عظیم اول سے کئی گنا زیادہ خوفناک ثابت ہوئی.اس جنگ میں جو ۱۹۳ سے ۱۹۳۵ یہ تک لڑی گئی جس میں ایک طرف جرمنی اور اس کے حلیف محوری ) اور دوسری طرف انگریز اور ان کے حلیف (اتحادی ) تھے.- - اس جنگ کا آغاز جرمنی کے پولینڈ پر حملہ سے ہوا.امتی یہ جرمنی نے بیجیم ہالینڈ ا لکسمبرگ پر حملہ کیا.اس تاریخ کو چرچل برطانیہ کا وزیر اعظم بنا.ارجون نہ اٹلی نے فرانس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا.۱۳ جون نشانہ جرمنی نے پیرس پر قبضہ کر لیا ۲۲ جون نشسته فرانس نے ہتھیار ڈال دیتے.6 دسمبر را شانہ بغیر کسی اعلان کے جاپان کی جنگ میں شمولیت.۲۸ - اپریل ۱۹۴۵ تہ کو اٹلی میں مسولینی کے خلاف بغاوت ہوگئی اور اسے پھانسی دے دی گئی.رمئی ۱ - جرمنی نے ہتھیار ڈال دیئے.4 اگست ۱۹۴۵ہ امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹمی حملہ کیا.ور اگست ۹۴۵ہ - امریکہ نے جاپان کے شہر ناگا ساکی پر ایٹمی حملہ کیا.۱۴ اگست ۱۹۴۵ ته جاپان نے بھی اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے.

Page 180

اس جنگ میں 41 ملکوں نے حصہ لیا جنکی مجموعی آبادی دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ۸۰ فیصدی بنتی ہے.دونوں طرف سے لڑنے والی فوجوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ تھی.محتاط اندازے کے مطابق اس جنگ نے ۵ کروڑ انسانی جانوں کو تلف کیا.زخمی و ناکارہ ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی.ایٹمی حملہ کے بد اثرات تو قریباً نصف صدی کے بعد آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں.اسلامی مفاد کے لیے اضطراب : # اب یہ سینگیں ہماری تاریخ کا حصہ اور قصہ پارینہ بن چکی ہیں مگر سنتہ کے دہا کے کے آخری سالوں اور تہ کے دہا کے کے ابتدائی سالوں میں اس سے زیادہ عام ۱۰ ہم اور ضروری اور کوئی موضوع نہیں تھا.اس عظیم تباہی کی وجوہ و اسباب تو اس کتاب کا موضوع نہیں ہے تاہم حضرت فضل عمر کا اسلامی مفاد کے لیے اضطراب و دردمندی پر مبنی مندرجہ ذیل بیان ضرور ہر قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچے گا.البانیہ ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست ہے جو پہلے ترکوں کے ماتحت تھی، لیکن جنگ عظیم کے زمانہ میں عیسائی حکومتوں کی شہ پر وہ آزاد ہوگئی اور ان حکومتوں کی عادت ہے کہ پہلے ایک علاقہ کو ایک حکومت سے آزاد کراتی ہیں اور پھر خود ہڑپ کر جاتی ہیں.ایسا ہی البانیہ سے ہونے والا ہے چونکہ یہ اسلامی حکومت ہے اس لیے کوئی عیسائی حکومت اس صریح ظلم میں کوئی مؤثر مداخلت کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن اس قسم کے صریح مظالم خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکا دیتے ہیں اور وہ ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ مظلوم کی حمایت نہ کرنے والے کسی اور رنگ میں مبتلاتے آلام ہو جاتے ہیں ہو سکتا کہ البانیہ پر حملہ کسی رنگ میں کسی عیسائی حکومت کو بھی اپنی پیٹ میں لے آئے اور پھر بڑی بڑی حکومتوں کو جنگ میں شامل ہونا پڑے " الفضل ۱۱ را پریل ۱۹۳۹ حضرت مصلح موعود نے اس جنگ کی ابتداء سے ایک عرصہ قبل دنیا کو انتباہ کرتے ہوئے آنیوالے خوفناک حالات کے متعلق آگاہ فرمایا تھا.حضور نے فرمایا : عہ کی مجلس شوری میں میں نے بیان کیا تھا کہ آج سے دس سال کے اندراندر ہندوستان میں اس بات کا فیصلہ ہو جانے والا ہے کہ کونسی قوم زندہ رہے اور کسی کا نام و نشان مٹ جائے.حالات اس سرعت اور اس تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں کہ جو قوم یہ سمجھے کہ آج سے ہیں پچیس سال بعد کام کرنے کے لیے تیار ہو گی وہ زندہ نہ رہ

Page 181

سکے گی..HAI ۱۹۲ہ کی مجلس مشاورت میں میں نے کہا تھا.قریب ہے کہ چند سال کے اندر اندر قومیں فیصلہ کر لیں کہ کون زندہ رہنے کے قابل ہے اور کسے برباد ہو جانا چاہیئے" (الفضل ۲۸ مارچ ة ) حضور نے اس عظیم تباہی کے وقت ایک دور اندیش صاحب فراست پر ہنما کا کردار ادا کرتے ہوئے جنگ کے فریقین اور عوام کو ایسے ایسے قیمتی مشورے دیئے جن سے عقل حیران رہ جاتی ہے.مزید براک آپ نے جنگ میں بعض ناقابل یقین اور اچانک تغیرات کے متعلق اپنے رویا.دوکشوف سے ثابت کیا کہ آپ ہی وہ مصلح موعود ہیں جن سے قوموں کا برکت پانا مقدر ہے.ویسے تو اب ان تفصیلات میں وہ دلچسپی نہیں ہو سکتی جو جنگ کے دوران ہو سکتی تھی پھر بھی حضور کی علو ہمتی دُور اندیشی و فراست اور خُدائی تائید کے اظہار کے طور پر حضور کے بعض ارشادات کا مطالعہ باعث دلچسپی ہو گا.حضور نے اپنے اس مئی الہ کے خطبہ جمعہ میں جنگ کے حالات کا اس تفصیل و خوبی سے جائزہ لیا ہے کہ کم ہی کسی جرنیل نے جو بذات خود جنگ کی کمان کر رہا ہو اس طرح جائزہ لیا ہو گا.اُس دور کی استحصال و استعماریت کی ظالمانہ ذہنیت کا ذکر کرنے کے بعد ایک عالمگیر خوفناک تباہی کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : " میں اس وقت جماعت کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس زمانہ میں پھر دنیا میں شدید تغیرات پیدا ہو رہے ہیں اور عنقریب شدید لڑائی لڑی جانے والی ہے جو انگریزوں و جرمنوں کی گذشتہ جنگ سے بھی سخت ہوگی.یہ اس وقت تک اس وجہ سے کرکی ہوئی ہے کہ انگریز ابھی تیار نہیں.اگر تیار ہوتے تو امی نے جس وقت حبشہ پر حملہ کیا تھا اسی وقت جنگ چھڑ جاتی.جنگ عظیم کے بعد انگریز بیچارے تو صلح صلح پکارتے رہے اور یورپ کی دوسری قومیں اپنی فوجی طاقت کو بڑھاتی رہیں اور اب نتیجہ یہ ہے کہ اٹلی جو چھوٹا سا ملک ہے خم ٹھونک کر چھیلنج دے رہا ہے اور انگریز خاموش ہیں.اس کی وجہ یہ نہیں کہ انگریز لڑنا نہیں چاہتے بے شک انگریزوں میں بعض ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر جرمنی انگلستان پر بھی قبضہ کرلے تو کیا.اور ایک لیبر لیڈر نے تو اس قسم کی ایک تقریر حال ہی میں کی ہے.مگر بعض ایسے بھی تھے جو محسوس کر رہے تھے کہ ہماری ذلت ہو رہی

Page 182

TAY ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر لڑائی ہوئی تو اس سے بھی زیادہ ذلت ہو گی.اس وقت سے انگریز بھی برابر سامان جنگ بڑھا رہے ہیں مگر جرمنی اور اٹلی بھی اب بہت سمجھدار ہو رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انگریز شاہ کے آخر تک نہیں لڑ سکتے.اس لیے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں گو یہ بھی مکن ہے کہ اگر بہت زیادہ مجبور کیا جائے تو برطانوی حکومت عہ میں ہی لڑ پڑے لیکن یوں حکومت کا پروگرام شانہ میں پورا ہو گا.ابی سینیا کے بعد اٹلی نے سپین میں سوال اُٹھا دیا ہے.انگریزی اخبارات کے بیان کے مطابق اٹلی والوں کا ڈھنگ عجیب ہے وہ ایک کام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ صلح کی ہر مجلس میں بھی شریک ہوتے ہیں اور جب صلح کی تجاویز ان کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تو کہ دیتے ہیں کہ ہم سوچ کر جواب دیں گے.اس سوچنے کے دوران میں حملہ بھی جاری رکھتے ہیں اور جب وہ علاقہ فتح ہو جاتا ہے یا کام ختم ہو جاتا ہے تو کہ دیتے ہیں کہ ہم تو صلح پر تیار تھے مگر افسوس اب تو وہ علاقہ فتح ہی ہو گیا.اور پھر کسی اور جگہ پر اپنا رسوخ بڑھانے لگ جاتے ہیں.اور پھر جب انگریز اور فرانسیسی سوال اُٹھاتے ہیں تو کہ دیتے ہیں کہ یہ معاملہ ذرا پیچیدہ ہے سوچ سمجھ کر جواب دیں گے.ادھر برطانیہ اور فرانس بھی جانتے ہیں کہ اس سوچنے کا کیا مطلب ہے گر کر کچھ نہیں سکتے.مثلاً آج کل والنٹیروں کا سوال ہے اٹلی اور جرمنی سے برابر وانٹیر سپین جا رہے ہیں.انگریز اور فرانسیسی کتنے ہیں یہ ٹھیک نہیں.اٹلی اور جرمن والے کہتے ہیں کہ اچھا ہم غور کر کے جواب دیں گے مگر ساتھ ہی ۲۲ دسمبر ۱۹۳۷ء سے ۲ جنوری تہ تک دس ہزار والنٹیر اٹلی سے اور دس ہزار جرمنی سے پین پہنچ گئے ہیں.باغیوں نے ساٹھ ہزار کا مطالبہ کیا تھا اگر یہ درست ہے تو غالباً جب ساٹھ ہزارہ آدمی پہنچ جائیگا پھر یہ اقدام کہ دیں گی کہ اچھا اب والنٹیر روانہ نہ کئے جائیں.اگر غور کیا جائے تو اصل میں یہ قصور دونوں کا ہے، اٹلی والے دیکھتے ہیں کراس اور انگلستان کے پاس بہت سی نو آبادیات ہیں اور ہمارے پاس کوئی نہیں.وہ سمجھتے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ یہ دوسرے ملکوں سے فائدہ اُٹھائیں اور تم نہ اٹھا ئیں.چونکہ انگلستان کے بعض مقتدر مصنف اور سیاست دان غلطی سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم ہندوستان کو تہذیب اور شائستگی سکھانے جاتے ہیں جو بات غلط ہے اور میں بار بار اسکے متعلق

Page 183

١٨٣ انگریزوں کو توجہ دلا چکا ہوں کہ اس دلیل کا خود ان کو نقصان پہنچے گا.ان کو صاف کہنا چاہتے کہ ہندوستان کو اس وقت کے رائج الوقت قوانین ملک بازی کے مطابق ہم نے لیا تھا اور اب ہم عدل اور انصاف سے اس پر حکومت کرنا چاہتے ہیں.خلاصہ یہ کہ انگریز سیاستدانوں کی اس غلط دلیل سے اٹلی اور جرمنی فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بھی دوسرے ملکوں کو تہذیب اور شائستگی سکھائیں گے.چنانچہ اٹلی والوں نے یہی دلیل ابی سینیا کی جنگ کی تائید میں دی تھی.....پس غلطیاں دونوں طرف ہیں اور حالت وہی ہو رہی ہے کہ جو گی جو گی لڑیں اور کھپروں کا نقصان.جو گی آپس میں لڑنے لگے تو چھپروں کی چھتوں کو توڑ کر لکڑیاں اور سکیں ایک دوسرے کو مارنے کے لیے اُتار لیں.ان لڑائیوں کے نتیجہ میں وہ قومیں جن کے پاس لڑائی یا حفاظت کے سامان نہیں ہیں تباہ ہو رہی ہیں پس یہ صحیح نہیں کہ ہم ان باتوں سے بے دخل ہو سکتے ہیں.انگلستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ جس چیز سے اسے نقصان پہنچے اس سے ہندوستان کو بھی پہنچے گا خواہ ہندوستانی انگریزوں سے بے تعلقی ہی ظاہر کریں.مثلاً اگر اٹلی والے ابی سینیا میں فوجی مرکز قائم کر کے ہندوستان پر حملہ کریں تو اس سے ہندوستانی ہی مریں گے.پس ہمارے لیے خاص کر ان قوموں کے لیے جو انگریزوں سے تعلقات رکھتی ہیں بہت خطرات ہیں.حالات ایسے ہیں کہ انگریز اس جنگ سے باہر نہیں رہ سکتے.چین اور افغانستان وغیرہ ممالک ممکن ہے بیچ جائیں مگر انگلستان کا ان اثرات سے محفوظ رہنا الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۳۷ ته محال ہے.حضور جنگ کے حالات بیان کرتے ہوئے قوت واہمہ اور اس کے اثرات کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :- موجودہ جنگ میں اسی پروپیگینڈا یا قوت واہمہ کو انگیخت کرنے سے کام لیا جا رہا ہے اور جرمن اس مہتھیار کو خاص طور پر استعمال کر رہے ہیں.....ان کی باتیں دلوں پر زیادہ اثر کرنے لگ گئی ہیں پہلے انہوں نے پولینڈ پر حملہ کیا جہاں انگریز پہنچ نہیں سکتے تھے اور اس ملک کو انہوں نے ترتیغ کر کے فتح کر لیا.پھر انہوں نے ڈنمارک پر حملہ کیا اور اسے راتوں رات لے گئے......اس کے بعد انہوں نے ناروے پر حملہ کیا اور

Page 184

۱۸۴ وہاں بھی انہیں بہت حد تک کامیابی ہوئی.پھر بالینڈ پر حملہ کیا اور ایسے بھی جیت لیا.پھر جرمنی نے بیلجیم پر حملہ کر دیا.اور یہاں اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت اتحادیوں سے ایک ایسی غلطی ہوگئی جس کا وہ اب تک خمیازہ بھگت رہے ہیں........وہ غلطی جہاں تک میں سمجھتا ہوں اُن سے اپنی طاقت کے خیال کی وجہ سے ہوئی.فرانسیسی کمان یہ یقین رکھتی تھی کہ اس کے پاس اتنے سامان ہیں کہ وہ جب بھی چاہے گی اُن سامانوں کو استعمال کر کے جرمنوں کو آگے بڑھنے سے روک دے گی مگر یہ بات غلط ثابت ہوئی، کیونکہ جہاں ان کے پاس سامان زیادہ تھا وہاں انہوں نے اس سامان کو پورے طور پر استعمال نہیں کیا تھا اور جرمنی کے پاس گو سامان کم تھا مگر جو کچھ بھی تھاوہ سب کا سب اپنے استعمال میں لا رہا تھا.مثلاً جرمنی کے پاس لوہا کم تھا اس گھی کو پورا کرنے کے لیے جرمنی میں اعلان کر دیا گیا کہ ہر جرم کا یہ فرض ہے کہ وہ ہٹلر کو سالگرہ کا تحفہ پیش کرے اور تحفہ یہ ہو کہ اس کے گھر میں جو لوہے کی چیز ہو وہ قوم کے لیے دیدے.اگر کسی کے گھر زنجیر پڑی ہو تو وہ زنجیر ے آئے.لوہے کا کوئی کنڈا بے کار پڑا ہو تو دہی لے آتے.برتن ہیں تو وہی لے آئے انگیٹھیاں ہیں تو وہ پیش کر دے غرض لوہے کی جو چیز بھی کسی کے پاس موجود ہو وہ ہٹلر کو ہدیہ پیش کر دے.اب اتنے بڑے ملک میں جس کی آٹھ کروڑ کی آبادی ہو تم سمجھ سکتے ہو کہ لوگوں کے گھروں میں کتنا لو ہا ہو گا.بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ اُن ملکوں میں لوہے کا استعمال نسبتاً زیادہ کیا جاتا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے دروازے توڑ دیئے.جنگے توڑ دیتے چھتیں توڑ دیں اور لوہے کے ڈھیر لگا دیتے حکومت نے اس تمام لوہے کو لیا اور اس سے ٹینک اور جہانہ وغیرہ بنا لیے.اتحادیوں کے پاس لوہا زیادہ تھا مگر اس کی زیادتی ان کے کسی کام آسکتی تھی جب تک وہ ٹینکوں اور ہوائی جہازوں وغیرہ میں تبدیل نہ ہو جاتا.اس غلطی کی وجہ سے انہیں یہ خیال رہا کہ ہم جرمنی کو آگے بڑھنے نہیں دیں گے مگر اُن کا یہ خیال غلط ثابت ہوا.اب اتحادی بلیم اور با لینڈ وغیرہ پر الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے ہٹلر پر کیوں اعتبار کیا اور کیوں یہ سمجھ لیا کہ وہ اُن کی غیر جانبداری کا احترام کرے گا

Page 185

۱۸۵ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ خود اتحادی بھی یہی خیال کیا کرتے تھے کہ جرمنی ہالینڈ اور بیلجیم کے راستہ سے حملہ آور نہیں ہو گا ورنہ انہیں چاہتے تھا کہ ان کے سامنے بھی میجنیو لائن (MAGINOT LINE) بناتے مگر فرانس نے بیلجیم کی حد تک میجنیو لائن بنا کر اُسے چھوڑ دیا اور یہ سمجھ لیا کہ ایک دفعہ تو جرمنی بیلجیم کی راہ سے حملہ آور ہو چکا ہے مگر آئندہ اس راہ سے نہیں آئے گا..جب جرمنی نے عملی طور پر اس راستہ سے حملہ کر دیا تو گو یہ اس حملہ کو روکنے کے لیے تیار نہ تھے ان کے پاس ابھی سامان بھی مکمل نہ تھا لیکن تمام دنیا میں چونکہ شور پڑا ہوا تھا کہ برطانیہ اور فرانس چھوٹی چھوٹی قوموں کو لڑائی کے لیے اُبھار تو دیتے ہیں مگر خود ان کی کوئی مدد نہیں کرتے.انہوں نے سمجھا اس وقت نہیں فوری طور پر ہالینڈ اور بیلجیم کی مد کرنی چاہیئے اور اس اعتراض کو دُور کرنا چاہتے جو تمام دنیا میں ہم پر کیا جاتا ہے کہ ہم وعدہ تو کر دیتے ہیں مگر عملی رنگ میں کوئی مدد نہیں کرتے حالانکہ اگر کبھی بدنامی سے بے پرواہ ہونے کا کوئی وقت ہوسکتا تھا تو یہی وقت تھا اور برطانیہ اور فرانس کا فرض تھا کہ وہ اس اعتراض کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کرتے اور اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہٹتے جب تک تیار نہ ہو جاتے مگر وہ اس وقت ایک رو میں بہہ گئے اور انہوں نے کہا لوگ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے سینیا پر حملہ ہوا مگر تم نے کوئی مدد نہ کی.البانیہ پر حملہ ہوا....---- آسٹریا پر - فن لینڈ ہر چیکوسلواکیہ پر پولینڈ پر ---- ڈنمارک پر حملہ ہوا مگر تم نے کوئی مرد نہ کی گویا ایسے سینیا - البانیہ - آسٹریا فن لینڈ - چیکوسلواکیہ.پولینڈ اور ڈنمارک کی سات مثالیں ان کے سامنے موجود تھیں اور لوگوں کے یہ اعتراضات بھی ان کے سامنے تھے کہ ان تمام ممالک پر حملے ہوئے مگر اتحادیوں نے ان کی کوئی مدد نہ کی.نتیجہ یہ ہوا کہ جب ناروے.ہالینڈ اور بیلجیم پر حملہ ہوا تو انہوں نے سمجھا اگر اب بھی ہماری فوجیں ان کی مدد کو نہ پہنچیں تو یہ اعتراض اور بھی پختہ ہو جائے گا چنانچہ انہوں نے اس اعتراض سے گھبرا کر اپنی فوجیں آگے کی طرف دھکیل دیں جس کے نتیجہ میں ان کے شمالی مورچے بالکل خالی ہو گئے اس کے ساتھ ہی جس جرنیل کو انہوں نے بیلجیم کی سرحد پر بھیجا اس سے ایک خطرناک نادانی یہ ہوئی کہ اس نے دریا کے پل نہ اُڑائے حالانکہ قاعدہ یہ ہوتا ہے

Page 186

۱۸۶ کہ جب فوج کے ڈیفنس کا پہلو اختیار کرنا ہو تو وہ دریاؤں کے پل فوراً اُڑا دیتی ہے تا کہ دشمن اُن کیلوں کے ذریعہ سے ملک کی حدود میں داخل نہ ہو جائے مگر اس جبرئیل نے پلوں کو نہ اُڑا یا نتیجہ یہ ہوا چونکہ جرمنوں کی توپوں سے انکی تو ہیں اور اُن کے ٹینکوں سے ان کے ٹینک کم تھے.ابتدائی بمبارڈمنٹ کے بعد ہی اتحادیوں کی فوجوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور جرمن فوج بغیر کسی روک کے فلنڈر زمیں گھس آئی.دوسری غلطی اُن سے یہ ہوئی کہ انہوں نے فوج کے پیچھے دوسری ڈیفنس لائن نہیں بنائی تھی حالانکہ جو فوج ڈیفنس کر رہی ہو اس کے لیے ایک دوسری ڈیفنس لائن ضروری ہوتی ہے تا اگر دشمن کسی جگہ سے پہلے مورچوں کو توڑ دے تو اسے بڑھنے سے روکا جاسکے مگر اُن سے ہی غلطی ہوئی کہ انہوں نے ڈیفنس کی ایک ہی لائن پر اکتفا کی اور جب دشمن نے پہلی صفوں کو توڑ دیا تو اب مقابلہ کے لیے کوئی اور فوج اس کے سامنے نہیں تھی اور سارا فرانس اس کے سامنے کھلا پڑا تھا.غرض اس جنگ میں ایسے اتفاقات جمع ہوگئے کہ جن کے نتیجہ میں جرمنی کار شعب آپ ہی آپ قائم ہوتا چلا گیا اور لوگوں نے مجھ لیا کہ یہ ہاں بھی ہاتھ مارتا ہے جیت جاتا ہے.اس کا اثر یہ ہے کہ عام طور پر جنگی فنون سے ناواقفیت کی وجہ سے خیال کیا جاتا ہے کہ جرمنوں کی خبریں زیادہ صحیح ہوتی ہیں اور انگریزوں اور فرانسیسیوں کی خبریں غلط ہوتی ہیں.حالانکہ میرا تجربہ اس کے بالکل الٹ ہے.میں جرمن کی خبریں بھی سنتا ہوں اور انگریزوں اور فرانسیسیوں کی خبریں بھی سنتا ہوں مگر مجھ پر یہی اثر ہے کہ ان کی خبریں زیادہ صحیح ہوتی ہیں اور جرمن کی خبروں میں نسبتاً زیادہ جھوٹ ہوتا ہے اور میں تو سمجھتا ہوں اگر کوئی عقلمند انسان صرف ان خبروں کو لے لے جو جرمنی سے ریڈیو کے ذریعہ ہندوستان کے متعلق نشر کی جاتی ہیں تو وہ ان کوسن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ انکی خبروں میں کسی حد تک صداقت پائی جاتی ہے.چند مہینے کی بات ہے جرمنی سے ریڈیو کے ذریعہ یہ خبر سنائی گئی کہ پنجاب میں سخت بغاوت پھوٹ پڑی ہے جگہ جگہ ڈا کے پڑ رہے ہیں اور انگریزوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ رہے ہیں حالانکہ ان دنوں چند وزیریوں نے سرحد افغانتان پر کوئی ڈاکہ ڈالا تھا جو ایک معمولی بات تھی مگر اسے پنجاب اور تمام صوبہ سرحد پر پھیلا کر اس زنگ میں بیان کیا گیا کہ گویا پنجاب اور سرحد میں طوائف الملوکی کی حالت ہوگئی ہے.

Page 187

JAL تو لوگ عام طور پر جرمنی کی خبروں کو زیادہ وقعت دے دیتے ہیں اور انگریزوں اور فرانسیسیوں کی خبروں کو اپنی نادانی سے غلط سمجھتے ہیں اور پھر ان خبروں کو بھی ایسے مبالغہ آمیز رنگ میں بیان کرتے ہیں کہ بات کچھ کی کچھ بن جاتی ہے اور یہ ہمارے ملک میں عام دستور ہے کہ لوگ بات کو بڑھا کر کہیں کا کہیں لے جاتے ہیں.........نتیجہ یہ ہے کہ اس قسم کی خبروں کے پھیلنے کی وجہ سے آج ملک میں بغاوت کے آثار نظر آرہے ہیں چنانچہ میں نے سول (CIVIL AND MILITARY GAZETTE) میں پڑھا ہے کہ سکھوں نے اعلان کیا ہے کہ بارہ ڈویژن کی قومی فوج بھرتی کی جائے مطلب یہ کہ سکھ ڈیڑھ لاکھ کی فوج تیار کرنا چاہتے ہیں اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں سے خاکسار بھرتی ہو رہے ہیں اور وہ اپنی ایک الگ فوج بنا رہے ہیں.گویا ہمارے ملک کے لوگوں کی وہی مثال ہو رہی ہے کہ آب ندیده موزه از پاکشیده " کی کو پانی کے آثار بھی نظر نہیں آئے اور جرابیں ابھی سے اتارنی شروع کر دی گئی ہیں.آپ ہی آپ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ برطانیہ و فرانس کو جرمنوں کے مقابلہ میں شکست ہو گئی ہے انہوں نے کیلے کو بھی فتح کر لیا ہے انہوں نے ڈنکرک کو بھی فتح کر لیا انہوں نے فلنڈرز کو بھی جیت لیا.انہوں نے انگلستان کے دارالحکومت پر بھی قابو پالیا انہوں نے پریس بھی لے لیا اور اب انگریز جرمنوں کے مقابلہ میں بھاگتے چلے جارہے ہیں اسی طرح یہ بھی فرض کر لیا گیا کہ ہندوستان میں ان کی کوئی طاقت نہیں رہی اور حکومت بالکل بے دست ویا ہوگئی ہے اس لیے آؤ اب ہم لوٹ مار شروع کر دیں.اس قسم کے خیالات کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلا کرتا.اور ہر ہندوستانی کا فرض ہے کہ وہ ان حالات کو درست کرنے کی کوشش کرے اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے کی خاطر اس قسم کی باتوں سے احتراز کرے ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ انگریز انشاء اللہ نہیں ہاریں گے......جنگ میں برطانیہ و فرانس کو اب پہلے سے بہت زیادہ مضبوط پوزیشن حاصل ہو چکی ہے.اس مہینہ (منی) کی چودہ تاریخ کو کس طرح سمجھا جاتا تھا کہ شاید ایک دو دن میں انگریز اور فرانسیسی ہتھیار ڈال دیں گے اور کس طرح عام طور پر یہ احساس تھا کہ انگریزوں اور فرانسیسیوں کے لیے اب ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں خود فرانسیسی وزیراعظم نے تقریر

Page 188

JAA کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کو اب معجزہ کے سوا کوئی چیز نہیں بچا سکتی.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خود فرانسیسیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ فرانس اب کہاں بیچ سکتا ہے.صفیں ٹوٹ گئی ہیں اور فوجیں پسپا ہو رہی ہیں مگر جہاں برطانیہ و فرانس کی صفیں ٹوٹیں وہاں جرمن فوجیں جو اپنے مورچوں سے سینکڑوں میں آگے نکل چکی تھیں اُن کو سامان رسد پہنچنا بھی کوئی آسان نہ تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ ادھر برطانیہ فرانس کی فوجیں پسپا ہوئیں اور ادھر جرمنوں نے اپنے اندر کمزوری محسوس کی اور انہوں نے سمجھا کہ سامان کی کمی کی وجہ سے اگر ہم اس وقت آگے بڑھے تو مارے جائیں گے.چنانچہ ادھر جرمنی میں ٹھریں اور ادھر برطانیہ و فرانس نے اس التواء سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فوراً نتے مورچے بنانے شروع کر دیتے نتیجہ یہ ہوا کہ چودہ پندرہ تاریخ کو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی جو حالت تھی اس سے آج اس تاریخ کو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی حالت بہت زیادہ بہتر ہے.اس دن خود انگریزوں اور فرانسیسیوں میں بے چینی پیدا ہو چکی تھی مگر آج وہ اطمینان کا سانس لے رہے ہیں اور اب پھر انہوں نے فتح کے نعرے لگانے شروع کر دیتے ہیں.انگریزی وزیر اشاعت نے تو ایک تقریر کرتے ہوئے گھلے طور پر کہہ دیا ہے کہ ہٹلر کے لیے پہلے صلح کی مجلس میں ہم نے ایک کرسی رکھی ہوئی تھی مگر اب اُسے معلوم ہونا چاہتے کہ وہ کرسی اُٹھا دی گئی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم میں سامانوں کے جمع ہو جانے اور بیداری اور ہوشیاری کی وجہ سے اس بات کا احساس پیدا ہو چکا ہے کہ اب وہ شکست نہیں کھا سکتے.اس کے مقابلہ میں جرمن کو بھی اس بات کا احساس ہوتا چلا جا رہا ہے کہ جتنی جلدی فتح کی امیدیں اس نے ابتدا.میں لگائی تھیں وہ درست نہیں تھیں.......اب جرمن کے براڈ کاسٹنگ میں یہ ہوتا ہے کہ ہماری قوم کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیتے یہ ایک بڑی بھاری لڑائی ہے جو لڑی جارہی ہے.ہمیں بے شک کامیابی کی امید رکھنی چاہیتے لیکن بہت جلد کامیابی حاصل کرلینے کا خیال درست نہیں.حالانکہ رہٹلر نے) آپ ہی تقریر کی تھی جو میں نے خود سنی کہ جو لوگ فرانسیسی ایپس رٹھنڈے پہاڑوں پر گرمیاں گزارنا چاہیں یا سیر کا شوق رکھتے ہوں وہ اپنے نام لکھا دیں.

Page 189

۱۸۹ بہر حال تمام گھبراہٹ، اضطراب اور تشویش کا موجب وہ نادان لوگ ہیں جن کو حالات کا صحیح علم نہیں ہوتا اور جو جنگی فنون سے ناواقفیت کی وجہ سے خبروں کا کچھ کا کچھ بنا کر لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں......یہ نہایت ہی غلط طریقی ہے کہ قیاسات سے کام لے کر ملک میں بدامنی پیدا کی جائے اور سول وار کے سامان پیدا کئے جائیں.یہ انگریزوں سے نہیں ہندوستان سے دشمنی ہوگی لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہتے کہ جہاں ان حالات کی اصلاح کی کوشش کی جائے وہاں ان خرابیوں کو بھی نظر اندا نہ نہیں کرنا چاہتے جو اس قسم کی غلط خبروں کی اشاعت سے پیدا ہوگئی ہیں.اگر بعض لوگوں میں یا حساس پیدا ہوگیا ہے کہ انگریزی طاقت کمزور ہو چکی ہے اور اگر ملک میں اندر ہی اندر ملکی امن برباد کرنے کے لیے سازشیں ہو رہی ہیں تو وہ قوم سخت بیوقوف ہوگی جو اس کے مقابلہ کے لیے تیار نہ ہو.......پچھلی جنگ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا.چنانچہ جھنگ کے ایک آدمی نے جب یہ دیکھا کہ فرانس لڑائی میں مُردہ ہو رہا ہے اور انگریز جرمنی کے مقابلہ میں پیسا ہو رہے ہیں تو اس نے اعلان کر دیا کہ میں اپنے علاقہ کا بادشاہ ہوں اور ضلع میں فساد پیدا کر دیا.اس جنگ میں بھی اس قسم کے واقعات پیدا ہو سکتے ہیں.اور ایسے موقعہ پر ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایسے فسادیوں کا مقابلہ کرے.......ہمارے ملک کے....نوجوان جب آپس میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اودھر فرانسیسیوں نے جرمن حملہ کو روکا ہوا ہے ادھر جنرل ودیگان چپ کر کے بیٹھا ہوا ہے وہ کیوں جرمنوں پر جوابی حملہ نہیں کر دیتا محض جنگی فنون کی نا واقفیت کی وجہ سے اس قسم کے اعتراضات دل میں پیدا ہوتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ وہ اس وقفہ کو خدا تعالیٰ کی نعمت سمجھ رہے ہیں کیونکہ صاف بات ہے جب فرانسیسی اور انگریزی فوجیں اپنے مورچوں سے ہٹ گئیں اور جرمن فوجوں کے مقابلہ میں انہوں نے پسپا ہونا شر قرع اور کر دیا تو پسپا شدہ فوج کبھی ایک جگہ تک نہیں سکتی.اس کے لیے خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت نہیں ہوتی ہے کہ چند دن کی اُسے مہلت مل جاتے تاکہ وہ اپنے مور وں کواس دوران میں مضبوط کرے.چنانچہ جرمنی نے جب شمالی فرانس پر حملہ کر دیا اور چاہا کہ انگلش چینل (CHANNEL ) تک پہنچ جائے تو اتحادیوں نے اپنی فوج کا ایک حصہ اس کے مقابلہ

Page 190

19.کے لیے رہنے دیا اور باقی فوج کو اپنے مورچے مضبوط کرنے کے لیے پیچھے ہٹا لیا اور یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو فتح ہوتی اور کس کو شکست، مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ معقول بات ہے کہ بجائے اس کے کہ ساری فوج شمالی حصہ کی جنگ میں شامل ہوتی.انہوں نے شمالی فوج کو جنگ کا زور برداشت کرنے کے لیے چھوڑ دیا اور جنوبی فوجوں کو نئے مورچوں کی مضبوطی کے کام پر لگا دیا تاکہ جب شمال سے فارغ ہو کر دشن جنوب پر حملہ کرے تو وہ اپنے سامنے سر سکندری کھڑی پاتے........پس انہوں نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے فوج کے ایک بڑے حصہ کو تو جنوب میں جمع کرنے اور مضبوط مورچوں میں بٹھانے کو جھوٹی بڑائی پر مقدم سمجھا.نتیجہ یہ ہوا کہ گو بظاہر فرانسیسی کمان پر یہ اعتراض ہے کہ اس نے شمالی فوج کو اس کے حال پر چھوڑ کر جرمن فوج کے لیے زیادہ خطرہ پیدا کر دیا.کیونکہ بوجہ بالکل گھر جانے کے اس فوج نے جرمن فوج کا نہایت سختی سے مقابلہ کیا اور ان کا بہت نقصان کر دیا ایسا حملہ دہی سپاہی کر سکتے ہیں جو موت کو اپنے سامنے کھڑا دیکھتے ہیں.اس کے ساتھ فرانسیسی کمان نے جنوبی فوج کے لیے سانس لینے کا وقت نکال لیا اور انہیں مورچے مضبوط کرنے کا موقع دے دیا.شمالی فوج کو جس بے بسی میں چھوڑا گیا اس کا یہ نتیجہ ہے کہ اس فوج کا ہر سپاہی جرمن حملوں کا مقابلہ کر رہا ہے کیونکہ ایک جرمن کے سامنے صرف فتح کا خیال ہے مگر ایک اتحادی کے سامنے صرف فتح کا ہی سوال نہیں بلکہ اپنی جان کا بھی سوال ہے بلکہ اس کی عزت اس کی قوم اور اس کے ملک کے خطرات بھی اس کے سامنے ہیں مگر اس کے علاوہ ہر سیاہی سمجھتا ہے کہ اگر ایک دفعہ بھی اس کی آنکھ جھپک گئی تو وہ زندہ نہیں رہے گا.اس وجہ سے ایک ایک اتحادی چار چار پانچ پانچ جرمن سپاہیوں کا مقابلہ کر رہا ہے اور جنوبی فوجوں پر جرمن حملے کا جو زور تھا وہ رک گیا ہے اس کے ساتھ ہی فرانسیسی اور انگریز تے مورچے بنا رہے ہیں اور انہیں مضبوط سے مضبوط تر بناتے جا رہے ہیں.....اس وقت دنیا کی عزت کا سوال ہے.اس وقت دنیا کے امن چین راحت اور زندگی کا سوال ہے.یہیں کیسا ہی بے شرم اور بے حیا وہ شخص ہے جو گھر میں بیٹھ کر نبوی سُنتا اور کبھی اس پر تمسخر اڑا دیتا ہے اور کبھی اس پر.اور یہ نہیں دیکھتا کہ اس وقت پندرہ میں لاکھ آدمی چاہے وہ جرمنی کے ہوں...برطانیہ کے ہوں....فرانسی ہوں...پولش ہوں...اور چاہے وہ کسی

Page 191

۱۹۱ اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں کہ وہ بھی انسان ہیں.بہرحال پندرہ بیس لاکھ انسان رات اور دن بغیر دم لیے لڑرہے ہیں اور ٹینکوں اور موٹر گاڑیوں کے نیچے کٹتے چلے جارہے ہیں...- ادھر مرنے والے مرتے ہیں اور ادھر فوج کو حکم ملتا ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹو پھر اور آدمی مرتے ہیں تو پھر حکم ملتا ہے کہ ایک قدم اور پیچھے ہٹو اس طرح وہ لاشوں کے انبار چھوڑتے ہوئے پیچھے کو ہٹتے چلے جاتے ہیں ؟ الفضل در جون ته ) - اس خطبہ کے آخر میں بنی نوع انسان کی ہمدردی و خیر خواہی کے اسلامی جذبات بھی نمایاں نظر آتے ہیں جو خدا کے مقرب بندوں ہی کا حصہ ہیں اور دنیوی سیاسی لیڈروں میں یہ بات کم ہی نظر آسکتی ہے.یہاں یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہو گا کہ حضور اپنی خداداد فراست بلکہ اللی نوشتوں کے مطابق یہ یقین رکھتے تھے کہ اس جنگ میں مخالف حالات کے باوجود بالاخر اتحادیوں کی فتح ہوگی.تاہم حضور نے انگریزوں کے خلاف حق بات کہتے ہوئے بڑے واشگاف الفاظ میں فرمایا :- "اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان دنوں برطانیہ پر جو ابتلا آیا ہوا ہے اس کے متعلق چاہے ہنسیں چاہے ٹھٹھا اور مذاق کریں چاہے ہمیں پاگل اور مجنون سمجھیں حقیقت یہ ہے کہ یہ اُن آہوں کا نتیجہ ہے جو ۱۹۳۷ - ۱۹۳۵ تہ اور ۱۹۳۶ تہ میں ہمارے دلوں سے بند ہوئیں.میرے اس وقت کے خطبات چھپے ہوئے موجود ہیں.انکو نکال کر پڑھ لیا جائے میں نے متواتر ان خطبات میں کہا ہے کہ انگریز یہ مت خیال کریں کہ اُن کے پاس تو ہیں ، فوجیں، ہوائی جہانہ اور ہم ہیں.کیونکہ میں خدا پر ہمارا انحصار ہے اس کے مقابلہ میں ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں.انہوں نے اس وقت میری اس آوازہ پر کان نہ دھرا اور کہا اس کی کیا حیثیت ہے یہ ایک چھوٹی سی جماعت کا فرد ہے جسے ہم جب چاہیں تباہ کرسکتے ہیں اور جب چاہیں مار سکتے ہیں.اور یہ نہ سمجھا کہ خدائی مذہب انسانوں کے قید ہونے یا انسانوں کے مارے جانے کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے......(الفضل (۲ جون نا ) یہ الفاظ جہاں ایک طرف اس غیر متزلزل ایمان ویقین کے منظر ہیں جو خدا تعالیٰ کی ذات پر حضور کو حاصل تھا وہاں یہ بھی سوچنے کی دعوت دیتے ہیں کہ ہمارے معاند ہمارے خلاف انتہائی ظالمانہ طریق پر بالکل خلاف واقعہ و خلاف قیاس انگریزوں کی خوشامد کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں.کیا مندرجہ بالا خیالات کسی خوشامدی ذہن میں آسکتے ہیں ؟ کیا کوئی خوشامدی ایسے خیالات کا اس طرح بر ملا جنگ کے.۴

Page 192

۱۹۲ ہنگامی حالات میں اظہار کر سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں.حقیقت یہی ہے کہ خدا کے بندے خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور حق بات کہنے سے انہیں دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی.جنگ کے حالات پر حقیقت افروز تبصرہ : جنگ کی تباہی و ہونا کی بڑھتی جارہی تھی موت کا حبیب دیو اپنا جبڑا پھیلاتے آبادیوں کی آبادیاں نگلتا جارہا تھا.خونریزی اتنی وسیع ہو گئی تھی کہ خود جنگ کی ابتداء کرنے والوں کو بھی اس کا اندازہ نہ تھا کہ وہ دنیا کو کسی تباہی کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں حضور جنگ کے ان حالات کے متعلق ۱۴ جون شانہ کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :- "جنگ کے حالات زیادہ سے زیادہ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں اور اب تو ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ قریب ہے ہندوستان بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے.۱۹۳۸ء کی مجلس شوری کے موقعہ پر میں نے ذکر کیا تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ ہم ایک کشتی میں بیٹھے ہیں جو سمندر میں ہے اور سمندر بہت وسیع ہے.اس کے ایک طرف اٹلی کی مملکت ہے اور دوسری طرف انگریزوں کی.اٹلی کی مملکت شمال مغربی طرف معلوم ہوتی ہے اور انگریزی علاقہ مشرق کی طرف اور جنوب کی طرف ہٹ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کشتی اس جانب سے آرہی ہے جس طرف اٹلی کی حکومت ہے اور اس طرف جارہی ہے جس طرف انگریزوں کی حکومت ہے.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ یکدم شور اٹھا اور گولہ باری کی آواز آنے لگی اور اتنی کثرت اور شدت سے گولہ باری ہوئی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا ایک گوٹے اور دوسرے گولے کے چلنے میں کوئی فرق نہیں ہے اور یکساں شور ہو رہا ہے.میں نے دیکھا کہ گولے متواتر پڑ رہے تھے اور اتنی کثرت سے پڑ رہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا کہ ان گولوں سے جو بھرا ہوا ہے.یہ ایک لمبا رویا ہے جو شائع شدہ ہے.اس سے اور بعض اور خوابوں سے جو میں نے دیکھی ہوئی ہیں ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا پر ایک خطرناک مصیبت کا وقت آگیا ہے مگر ان خوابوں کا عام ذکر میں مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ اللی علم قبل از وقت ہوتا ہے اور لوگ ان باتوں کو سُن کر یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہمارے متعلق تخویف سے کام لیا جا رہا ہے اور بلا وجہ ڈرایا اور خوفزدہ کیا جا رہا ہے.موجودہ جنگ کے متعلق گذشتہ نو ماہ میں له الفضل ۲۶ - جولائی ۹۳

Page 193

۱۹۳ اللہ تعالیٰ نے متواتر اور کثرت کے ساتھ مجھ پر غیب کی خبروں کا اظہار کیا ہے.مگر میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان کی عام اشاعت کروں.......جن دوستوں کو میں نے رویا و کشوف بتاتے ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبل از وقت جبکہ اتحادی ابھی بالکل امن میں تھے اور جبکہ انہیں اپنی طاقتوں پر کامل اطمینان اور بھروسہ تھا مجھے بڑی بڑی تباہیوں بڑی بڑی ہلاکتوں اور بڑے بڑے تغیرات کی خبر دی گئی تھی اور ان رویا و کشوف اور الہامات کے مطابق میں سمجھتا ہوں کہ ابھی مصائب کا دروازہ اور زیادہ وسیع ہو گا، لیکن جس حد تک مصائب میں وسعت ظاہر ہو چکی ہے وہ بھی ایسی ہے کہ ہر عقل و سمجھ رکھنے والے اور خدا تعالیٰ کی خشیت اور اس کا خوف اپنے دل میں محسوس کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جائے اور دُعاؤں میں مشغول ہو جائے.ہمارے قیاسات اور ہماری عقلیں بہت ہی محدود درنگ رکھتی ہیں ایک خیال کر لیتا ہے کہ اس وقت جرمنی کا ترقی کرنا بہتر ہے دوسرا قیاس کر لیتا ہے کہ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی ترقی دُنیا کے لیے مفید ہے کوئی کسی کی فتح کو مفید سمجھتا ہے اور کوئی کسی کی شکست کو دُنیا کے لیے ضروری سمجھتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ خواہ کسی کا جینا بہتر تصور کیا جائے انگریزوں اور فرانسیسیوں کا یا جرمنی اور اطالیہ کا دنیا کی تباہی اور بربادی میں تو کوئی شبہ نہیں وہ بہتری جس کی لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں وہ تو شاید سینکڑوں سال میں ظاہر ہو مگر آج کی جنگ میں جس طرح لوگ ہلاک ہو رہے ہیں.جس طرح تباہی اور بربادی چاروں طرف محیط ہو رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ جنگ اس طرح جاری رہی تو دُنیا میں سو میں سے شاید دس پندرہ آدمی ہی زندہ رہیں گے......اس قسم کی پیشگوئیاں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کا یہ آخری فتنہ نہایت ہی ہیبت ناک ہے......ان پیشگوئیوں) کے پورا ہونے کے آثار اب ظاہر ہورہے ہیں اور سخت قابل رحم حالت ہے ان ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی جو روزانہ میدان جنگ میں زخمی ہوتے اور تباہ وبرباد ہوتے جارہے ہیں پھر تعجب یہ کہ اس لڑائی کی وجہ کوئی اعلیٰ درجہ کے رُوحانی اصول نہیں.جن کی خاطر اس قسم کی لڑائی کو جائز قرار دیا جاسکے وہ اس لیے نہیں لڑ رہے کہ خدائے واحد کی

Page 194

۱۹۴ ست حکومت کو دُنیا میں قائم کریں وہ اس لیے نہیں لڑرہے کہ شرک اور کفر کو مٹا دیں..بلکہ محض دنیا کے لیے کچھ تجارتی میدانوں کے لیے کچھ زمینوں اور ملکوں کے لیے تمام لڑائیاں ہو رہی ہیں.اور اس آگ کے ارد گرد ایک بگولہ چکر لگا رہا ہے........ایسے حالات میں یہ لڑا ئی جتنی بڑھیگی اتنی ہی زیادہ دنیا میں تباہی اور بربادی پھیلے گی ؟ الفضل ۱۸ جون اس جنگ میں بعض عظیم الشان نشانات اور پیش خبر لوں کے حیرت انگیز طریق پر پورا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :."گذشتہ جنگ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت جبکہ ابھی املی ترکی دونوں جنگ میں شامل نہیں تھے ایک رویا دکھایا میں نے دیکھا کہ جرمنی سے لڑکی کی طرف کنکشن ہوا ہے اور کوئی خبر ہے جوٹر کی کے نام جرمنی کی طرف سے پہنچائی جارہی ہے اسی دوران میں کسی نے آلہ میرے کان میں لگا دیا.اور میں نے سنا کہ جرمن حکومت لڑکی سے یہ گفتگو کر رہی ہے کہ امی ہمارے خلاف انگریزوں سے ملنے والا ہے.تم ہمارے ساتھ مل جاؤ.یہ رویا مجھے اس وقت ہوا جبکہ اٹلی جرمنی کا حلیف تھا اور آسٹریا.جرمنی اور اٹلی تینوں کا آپس میں معاہدہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے اسی لیے اُن کو (TRIPLE ALLIANCE) ٹریل الائنس یعنی تین طاقتوں کا اتحاد قرار دیا جاتا تھا.مگر اس رویا کے عین مطابق واقعہ یہ ہوا کہ اٹلی انگریزوں سے جا مل اور ترکی جرمنوں کے ساتھ شامل ہو گیا.گویا دو پہلو تھے جو اس رویا میں بنائے گئے تھے ایک یہ کہ اٹلی جرمنوں سے غداری کرے گا اور دوسرا یہ کہ ٹمر کی اس کے مقابلہ میں جرمنوں سے جائے گا.دُنیا میں کوئی بڑے سے بڑا سیاست دان بھی قبل از وقت ایسی بات نہیں کہہ سکتا.مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خبر بتائی.اور جیسا کہ مجھے دیکھایا گیا تھا ویسا ہی وقوع میں آگیا الموعود ص ) ایک اور اہم رویا گذشتہ جنگ کے موقعہ پر جب تعلیم پر حملہ ہوا اور جرمن بڑے زور سے آگے بڑھ رہے تھے ہیں نے رویا میں دیکھا کہ ایک طرف انگریز اور فرانسیسی ہیں اور دوسری طرف جرمن اور دونوں میں فٹ بال کا میچ ہو رہا ہے.جرمن فٹ بال کو لاتنے لاتے گول کے قریب پہنچ گئے.مگر گول ہو نہیں سکا.اتنے میں

Page 195

۱۹۵ پھر اتحادی ٹیم نے طاقت پکڑ لی اور انہوں نے فٹ بال کو دوسری طرف دھکیل دیا جرمن یہ دیکھ کر واپس دوڑے اور انگریز بھی فٹ بال کو لے کر دوڑنے لگے.مگر جب وہ گول کے قریب پہنچ گئے تو وہاں انہوں نے کچھ گول گول سی چیزیں بنا لیں جن کے اندر وہ بیٹھے گئے اور باہر یہ بھی بیٹھ گئے.بعینہ اسی طرح گذشتہ جنگ میں جرمن شکر نے جب حملہ کیا تو اس کی فوجیں بڑھتے بڑھتے پیرس تک پہنچ گئیں.یہاں تک کہ گورنمنٹ کے ذخائر بھی دوسری جگہ تبدیل کر دیئے گئے.مگر پھر اسے واپس لوٹنا پڑا.اور جب وہ سرحد پر واپس لوٹ آیا تو وہاں اس نے ٹرینچز (TRENCHES ) بنائیں اور اس کے اندر بیٹھ گیا.اور اس طرح چار پانچ سال تک وہاں لڑائی ہوتی رہی.) الموعود صفحه ۱۱۲ ) انگلستان پر جرمنی کے عملہ اور انگریزی اور فرانسیسی حکومتوں کے الحاق کی پیش خیری." انگلستان اور جرمنی کی بھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ میں نے دہر مسالہ میں جہاں میں ان دنوں تبدیل آب و ہوا کے لیے مقیم تھا.رویارہ میں دیکھا کہ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوں اور میرا منہ مشرق کی طرف ہے کہ ایک فرشتہ آیا.اور اس نے جیسا کہ سرشتہ دار ہوتے ہیں بعض کا غذات میرے سامنے پیش کرنے شروع کر دیتے.وہ کا غذات انگلستان اور فرانس کی باہمی خط و کتابت کے ساتھ تعلق رکھتے تھے مختلف (DOCUMENTS ) خط کے ڈاکو منٹس کے بعد ایک ڈاکو منٹ میرے سامنے پیش کیا گیا.میں نے اُسے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک چٹھی ہے جو انگریزی حکومت کی طرف سے فرانسیسی حکومت کو لکھی گئی ہے اور اس کا مضمون یہ ہے کہ ہمارا ملک سخت خطرہ میں گھر گیا ہے.جرمنی اس پر حملہ آور ہونے والا ہے اور قریب ہے کہ اُسے مغلوب کرے.اس لیے ہم آپ سے خواہش کرتے ہیں کہ انگریزی اور فرانسیسی دونوں حکومتوں کا الحاق کر دیا جائے.دونوں ایک نظام کے ماتحت آجائیں اور دونوں کو آپس میں اس طرح ملا دیا جائے کہ دونوں کے شہریت کے حقوق کیساں ہوں.یہ چٹھی پڑھ کر خواب میں میں سخت گھبرا گیا اور قریب تھا کہ اسی گھبراہٹ میں میری آنکھ گھل جاتی کہ یکدم مجھے آواز آئی کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے یعنی اس حالت کے چھ ماہ بعد حالات بالکل بدل جائیں گے.اور انگلستان کی خطرہ کی حالت جاتی رہے گی.یہ رویا.میں نے اپنی دنوں بعض دوستوں کو سنا دیا تھا.جب میں نے یہ رویا.دیکھا.اس وقت

Page 196

194 لوگوں کو بھی جنگ کے شروع ہونے کا بھی یقین نہیں آتا تھا.لوگ عام طور پر کتے تھے کہ شٹر ڈراوے دے رہا ہے.یہ رویا.دھرم سالہ میں جولائی ۹۳ہ کے آخر یا اگست کے شروع میں ہوئی اور وہ بھی ایسے رنگ میں کہ مارچ تک کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ہٹلر غالب آجائے گا.بالعموم یہ خیال کیا جاتا تھا کہ برابر کی ٹکر ہے.مارچ کے آخر تک یہی حالت رہی.مگر اس کے بعد جرمنی نے نہایت شدت سے حملہ کیا اور ڈنمارک ، ناروے، ہالینڈ اور بیلجیم پر قبضہ کر لیا.پھر وہ فرانس کی طرف بڑھا اور اس پر بھی شدید حملہ کیا.جب فرانس گرنے لگا تو اس وقت برطانیہ نے خیال کیا کہ اگر فرانس صلح نہ کرے تو کچھ نہ کچھ مزاحمت اس کی طرف سے جاری رہے گی.اس کے جہاز بھی لڑتے رہیں گے اور اس کی نو آبادیاں بھی جنگ کو کسی نہ کسی صورت میں جاری رکھیں گی.لیکن اگر وہ صلح کرے تو اُس کے جہاز بھی جرمنی کو مل جائیں گے.نو آبادیاں بھی اُسے مل جائیں گی اور اس صورت میں جرمنی کے حملے کا سارا زور ہم پر آپڑے گا.چنانچہ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت برطانیہ نے وہ کام کیا جس کی نظیر جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی آج تک نہیں ملتی یعنی اس نے ۱۷ جون ۱۹۱۲ تہ کو فرانسیسی حکومت کو تار دیا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے الحاق کر دیا جائے حکومت ایک ہو.پارلیمینٹیں بھی ملا دی جائیں اور خوراک کے ذخائر اور خزانہ بھی ایک ہی سمجھا جاتے.رلنڈن ٹائمز مورخه ۱۸ رجون ۹۴انه میں دنیا کے تمام تاریخ دانوں کو موقع دیتا ہوں کہ وہ دنیا کی تاریخ پر غور کریں اور اس قسم کی کوئی ایک مثال ہی پیش کریں کہ دوز بر دست طاقتوں میں سے ایک نے دوسری کے سامنے یہ تجویز رکھی ہو کہ دونوں حکومتوں کو ایک بنا دیا جائے.یہ وہ واقعہ ہے جسکی آدم سے لیکر اب تک کوئی مثال نہیں ملتی اور جسکی ایک بھی مثال دنیا کی ہزاروں سال کی تاریخ میں نہ ملتی ہو.اسے یقینا انسانی دماغ نہیں بنا سکتا.اس وقت انگریزوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ مسٹر چرچیل نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا.اب وہ دن آگیا ہے کہ ہماری قوم پر جرمن حملہ آور ہوں یم سمندر کے کناروں پر جرمنوں کا مقابلہ کرینگے اور اگر سمندر کے کناروں پر مقابلہ نہ ہو سکا اور وہ اندر داخل ہوگئے تو ہم اپنے شہرمیں انکا مقابلہ کرینگے ہم لندن کی گلیوںمیں انکا مقابلہ کرنے اور اگر پر بھ ہم دشمن کا مقابلہ ہ کر کے اوروہ ہمارے ملک پر قابض ہو گیا تو ہم کینیڈا چلے جائینگے اور وہاں سےاسکا مقابلہ کرنے گویا برطانہ کا وزیراعظم بھی

Page 197

196 اس بات کا امکان سمجھتا تھا کہ جرمن ساحل انگلستان پر حملہ کریگا.اور اس میں کامیاب ہو جاتے گا.پھر لنڈن پر حملہ کردیگا اور اس میں کامیاب ہو جائیگا.یہانتک کہ وہ اس بات کا بھی امکان سمجھتے تھے کہ حکومت لنڈن سے بھاگ جاتے اور کینیڈا چلی جائے مگر ایسی حالت میں خدا تعالیٰ نے مجھے دوسری خبر یہ دی کہ یہ چھے مہینے پہلے کی بات ہے یعنی چھ ماہ کے بعد انگریزوں کی حالت بدل جائے گی.اس وقت چوہدری ظفراللہ خان صاحب سے جیسا کہ انہوں نے بعد میں سنایا.وائسرائے یا کسی اور نے ایک دفعہ پوچھا کہ ظفر اللہ خان تم اس جنگ کا کیا نتیجہ سمجھتے ہو.انہوں نے کہا کہ ہمارے امام نے خواب دیکھا ہوا ہے کہ چھ ماہ کے بعد یہ حالات بدل جائیں گے.اس لیے میں تو یقین رکھتا ہوں کہ چھ ماہ تک یہ خطرہ کی حالت دور ہو جائیگی.چنانچہ عین چھ ماہ کے بعد ار دسمبر کو اٹلی کو پہلی شکست ہوئی اور انگریزوں کی حالت میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوگئی اور وارد میر کو پرائم منٹ نے ہاؤس آف کامنز میں اعلان کیکہ " اب ہم پہلے سے محفوظ ہو گئے ہیں.اور ہم نے ایک ایسی حالت سے ترقی کی ہے جبکہ ہمارے بہترین دوست بھی اس بات سے مایوس ہوچکے تھے کہ ہم مقابلہ جاری رہ سکیں گے.النڈن ٹائمز مورخہ ۱۹ر دسمبر اته یہ دو دھاری تلوار تھی جو مجھے عاکی گئی کہ یک رویاء کے ذریعہ دو جری دی گئیں ، ایک خبر تو ایسی دی گتی کہ جس کی دُنیا کی تاریخ میں اور کوئی مثال نہیں ملتی.اور دوسری خبر یہ دی گئی کہ چھ ماہ کے بعد یہ خطرہ کی حالت جاتی رہے گی.چنانچہ ٹھیک چھ ماہ کے بعد حالات میں تبدیلی رونما ہوئی اور مٹر الیگزینڈر جو انگریزوں کے وزیر بکری تھے انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جون جولائی میں رجب حکومت برطانیہ نے حکومت فرانس کو تار دیا تھا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کردی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے الحاق ہو جانا چاہیئے ) ہر وہ شخص جو جنگی فنون سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے یہ نہیں کر سکتا تھا کہ ہم پھر امن میں آجائیں گے.اگر کوئی ایسی بات کہتا تو یا تو میں اُسے سیاست سے بالکل نابلد اور نا واقف کہتا اور یا میں اُسے احمق اور پاگل خیال کرتا.گویا انگریزوں کی حالت اتنی نازک اور خراب تھی کہ اُن کے نزدیک اس قسم کا خیال کرنا بھی کہ اُن کی حالت چھ ماہ تک بدل جائے گی ، احمقانہ اور مجنونانہ خیال تھا مگر جبکہ حکومت کے بڑے بڑے مدیر یہ کہ رہے تھے کہ انگر یز خطرہ میں گھر گئے ہیں.اب ان کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ کینیڈا پہلے جائیں اور مقابلہ جاری رکھیں، خدا نے انی

Page 198

مجھے خبر دی کہ ۱۵ر دسمبر تک یہ حالات بدل جائیں گے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ مین ۱۵ر دسمبر کو حالات نے یک دم پلٹا کھایا اور انگریزوں کے قدم مضبوط ہو گئے ؟ (الموعود ام ) ایک اور اہم انکشاف : ایک اور خبر جو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس جنگ کے متعلق بتائی.اور نہایت ہی عجیب رنگ میں پوری ہوئی وہ یہ ہے کہ میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ میں انگلستان گیا ہوں اور انگریزی گورنمنٹ مجھ سے کہتی ہے کہ آپ ہمارے ملک کی حفاظت کریں.میں نے اُس سے کہا کہ پہلے مجھے اپنے ذخائر کا جائزہ لینے دو.پھر میں بتا سکوں گا کہ میں تمہارے ملک کی حفاظت کا کام سرانجام دے سکتا ہوں یا نہیں.اس پر حکومت نے مجھے اپنے تمام جنگی محکمے دکھائے اور میں اُن کو دیکھتا چلا گیا.آخر میں میں نے کہا کہ صرف ہوائی جہازوں کی کمی ہے.اگر مجھے ہوائی جہاز مل جائیں تو میں انگلستان کی حفاظت کا کام کر سکتا ہوں.جب میں نے یہ کہا تو معاً میں نے دیکھا کہ امریکہ کی طرف سے ایک تار آیا ہے.جس کے الفاظ یہ ہیں کہ "THE AMERICAN GOVERNMENT HAS DELIVERED 2800 AEROPLANES TO THE BRITISH GOVERNMENT.” یعنی امریکن گورنمنٹ نے دو ہزار آٹھ سو (۲۸۰۰) ہوائی جہاز برطانوی گورنمنٹ کو دیتے ہیں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.یہ روبابہ میں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بتا دیا تھا اور انہوں نے آگے اپنے کئی انگریز دوستوں سے اس کا ذکر کر دیا.یہاں تک کہ سرکلو د جو اس وقت ریلوے کے وزیر تھے اور بعد میں آسام کے گورنر مقرر ہوئے.اُن کو بھی چوہدری صاحب نے یہ روبیا.بتا دیا تھا.اس رویایہ.ہ کے چھ ہفتہ کے بعد ایک دن عصر کی نماز کے بعد میں مسجد مبارک میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ایک ضروری فون آیا ہے.میں گیا اور امرتسر والوں سے میں نے پوچھا کہ مجھے کون بلا رہا ہے مجھے بتایا گیا کہ شملہ یا دہلی سے کوئی دوست بات کرنا چاہتے ہیں.تھوڑی دیر گزری تو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی آواز آئی.اُن کا پہلا فقرہ یہ تھا کہ کیا آپ نے وہ خبر پڑھ لی ہے اور دوسرا فقرہ یہ تھا کہ مبارک ہو آپ کی خواب پوری ہو گئی.میں نے کہا.کیا بات ہے.وہ کہنے لگے ابھی ابھی وہ تار آیا ہے

Page 199

۱۹۹ جو برطانوی نمائندہ نے امریکہ سے انگریزی حکومت کو بھجوایا ہے اور وہ میرے سامنے پڑا ہوا ہے.اس کے الفاظ یہ ہیں :."THE AMERICAN GOVERNMENT HAS DELIVERED 2800 AERO- PLANES TO THE BRITISH GOVERNMENT." یعنی امریکن گورنمنٹ نے دو ہزار آٹھ سو ہوائی جہاز برطانوی حکومت کو بھجواتے ہیں پھر چوہدری صاحب کہنے لگے میں نے اسی وقت ان تمام لوگوں کو فون کیا ہے جن کوئیں پہلے سے یہ خبر بتا چکا تھا کہ دیکھو امام جماعت احمدیہ نے جو خواب دیکھی اور جو میں نے تمہیں قبل از وقت بتا دی تھی ، کس شان کے ساتھ پوری ہوئی.چونکہ انہوں نے سرکلو د کو بھی فون کیا کہ کیا آج کا تار تم نے پڑھا ہے.وہ کہنے لگا میں نے ابھی نہیں پڑھا.چوہدری صاحب نے کہا.پڑھو.اس نے پڑھا تو کہنے لگا.ظفر اللہ خاں تار تو آیا ہے مگر جہازوں کی جتنی تعداد تم نے بتائی تھی.اتنی تعداد کا تو اس میں ذکر نہیں چوہدری صاحب نے کہا تمہیں کیا یاد ہے.وہ کہنے لگا تم نے تو ۲۸ سو ہوائی جہازوں کا ذکر کیا تھا اور تار میں پچیس سو لکھا ہے معلوم ہوتا ہے اس نے جلدی میں اٹھائیں سو کو پچیس سو پڑھ لیا.چوہدری صاحب کہنے لگے تار کو پڑھو.اس نے دوبارہ تار پڑھی تو کہنے لگا.اور ہو اس میں تو اٹھا ئیں سو ہوائی جہازوں کا ہی ذکر ہے.اب دیکھو چھ ہفتے پہلے خدا تعالیٰ نے یہ کیسی عظیم الشان خبر مجھے دی.جو اسی شکل میں پوری ہوئی جس شکل میں مجھے بتائی گئی تھی.گورنمنٹ کے بڑے ذمہ دار افسر دو چار دن پہلے تک یہ نہیں کہ سکتے تھے کہ امریکہ ۲۸ سو ہوائی جہاز بھجوائے گا مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے چھ ہفتے پہلے بتادیا کہ تار آتے گا.تار امریکن گورنمنٹ کی طرف سے آئے گا.اور تار کا مضمون یہ ہوگا کہ امریکہ ۲۸ سو ہوائی جہاز برطانیہ کے لیے بھیجوا رہا ہے.گویا تا رتبا دیا.تار کا مضمون بتا دیا.یہ بتادیا کہ تارکس کی طرف سے آئے گا.یہ بتا دیا کہ چیز کیا ہے اور پھر یہ بتا دیا کہ اس چیز کی تعداد کیا ہے؟ الموعود صفحه ۱۳۶ تا ۱۳۹ ) حکومت امریکہ کے جنگ میں شامل ہونے کی خبر میں میں نے رویا.بیان کیا تھا کہ میں نے دیکھا.ہمارے باغ اور قادریان

Page 200

۲۰۰ کے درمیان جو تالاب ہے اس میں قوموں کی لڑائی ہورہی ہے.مگر بظا ہر چند آدمی رسرکشی کرتے نظر آتے ہیں.اور کوئی شخص کہتا ہے کہ اگر یہ جنگ یونان تک پہنچ گئی تو یکدم حالات میں تغیر پیدا ہو جائے گا اور جنگ بہت اہم ہو جائے گی.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اعلان ہوا ہے کہ امریکہ کی فوج ملک میں داخل ہو گئی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ امریکہ کی فوج بعض علاقوں میں پھیل گئی ہے.مگر وہ انگریزی حلقہ اثر میں آنے جانے میں کوئی روکاوٹ نہیں ڈالتی.یہ رویا نہ کے شروع میں میں نے اُس وقت دیکھا تھا.جب کسی کے وہم اور گمان میں بھی یہ بات نہیں آتی تھی کہ امریکن گورنمنٹ اس لڑائی میں شامل ہو جائے گی.مگر پھر ایسے حالات بدلے کہ امریکہ کو اس جنگ میں شامل ہونا پڑا.یہاں تک کہ امریکن فوجیں ہندوستان میں آگئیں.چنانچہ اب کراچی اور بہتی ہیں جگہ جگہ امریکن سپاہی دیکھے جاسکتے ہیں.الموعود ص ) خُدائی نشانات کے اس ایمان افروز تذکرہ کو مختصر کرتے ہوئے حضور کے ایک ایسے بروقت اور مدیرانہ مشورہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو آپ نے روس کی حکومت کے ایک اقدام کے متعلق برطانیہ کی حکومت کو دیا.جنگ کے انجام کو دیکھتے ہوتے بغیر کسی شک و شبہ کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس بروقت مشورہ ه بر اس وقت عمل نہ کیا جاتا تو جنگ کا انجام ایک بالکل دوسری صورت میں ہوتا اور اس کے نتیجہ میں دنیا کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی.ستمبر 1925 ء میں جرمنی پولینڈ پر قبضہ کر چکا تھا اور روس نے جرمن سے اپنے معاہدہ کی وجہ سے پولینڈ کے ایک حصہ پر اپنا قبضہ جمالیا تو اس گھمبیر صورت حال میں جبکہ اندیشہ تھا کہ روس اتحادیوں کے خلاف جنگ میں شامل ہو جائے گا حضور نے برطانوی مدبرین کو مشورہ دیتے ہوئے فرمایا : " باقی رہی موجودہ جنگ.اگر اتحادی میری بات مانیں تو ان کے لیے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ روس کے پولینڈ پر حمہ کو نظر انداز کر دیں روس نے جو کچھ کیا جرمنی کے حمل کے نتیجہ میں کیا.پس وہ جرمنی سے کہہ دیں کہ تقسیم تمہارے فعل کا نتیجہ ہے ہم جنگ کے بعد اس کا بدلہ پولینڈ کو تم سے دلوائیں گے اور میرے نزدیک پولینڈ کے قضیہ کا بہترین حل بھی یہی ہے یوکرائن ( UKRAINE ) کا روس کے ساتھ شامل ہونا پولینڈ کو مضبوط کرتا ہے کمزور نہیں.پھر کیا حرج ہے کہ اسے روس کے پاس ہی رہنے دیا جائے.جب جنگ میں اللہ تعالیٰ فتح

Page 201

اروند ۲۰۱ دے اور پولینڈ کی حکومت پھر سے قائم کی جائے تو جو پولز اس علاقہ میں لیتے ہیں ان کا تبادلہ ان علاقوں کے جرمنوں سے کر دیا جائے جو کو منگنز برگ سے لے کر پوشش کاریڈو رنگ رہتے ہیں ان علاقوں کے جرمنوں کو اپنے حلیف کے ملک میں رہنے کے لیے بھجوا دیا جائے اس طرح جرمنوں اور یوکرینین کی آبادی پولینڈ میں فساد بھی پیدا نہ کرتی رہے گی اور پولینڈ کو سمندر تک کا اچھا راستہ بھی مل جائے گا.غرض میرے نزدیک اس نبی مشکل کا سہل حل یہی ہے کہ جرمنی کے فعل کی قیمت اسی سے وصول کی جائے اور روس سے جھگڑے کی صورت کو نظر انداز کر کے جرمن کی تدبیر کو نا کام کر دیا جائے ؟ ) الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۳۹ اس امر کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے حضور نے مزید فرمایا : " اب روس اور جرمنی انگریزوں کی طاقت کو توڑنے کے لیے متحد ہو چکے ہیں بیشک ان میں شدید اختلاف ہیں.بے شک وہ ایک وقت میں ظاہر ہوں گے لیکن کوئی نہیں کہ سکتا کہ یہ اختلافات ابھی ظاہر ہو جائیں گے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ فضل کرکے کل ہی جرمنی اور روس میں لڑائی چھڑا دے " الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۳۹) جنگ کے حالات پر نظر ڈالنے سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ روس کے جرمنی سے بہت اچھے تعلقات تھے اور وہ جرمنی کو غیر فوجی امداد بھی برابر دے رہا تھا مگر خدائی تصرف سے حالات میں کچھ اتش طرح کا انقلاب آیا کہ روس اور جرمنی کے تعلقات اس حد تک بگڑ گئے کہ روس باقاعدہ اتحادیوں کیسا تحفہ شامل ہو گیا اور جنگ کا سارا نقشہ ہی بدل کر رہ گیا اور جرمنی کی ساری توقعات حسرتوں میں تبدیل ہوگئیں.بعض خدائی نشانات کا ذکر : جنگ عظیم کی تباہ کاریوں اور اس سلسلہ میں بعض خدائی نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے جلسہ سالانہ ۹۳۱ نہ کی تقریر میں ارشاد فرمایا : " یہ جنگ اب ہندوستان کے کناروں تک آگئی ہے پہلے تو جرمن مشرق کی طرف بڑھ رہے تھے وہ تو روس میں رک گئے مگر ادھر سے جاپان نے جنگ شروع کر دی ہے.رنگون پر بمباری ہو چکی ہے اور وہاں سے چند سو میل کے فاصلہ یہ کہ ہی ہندوستان ہے اور جاپانی اب بھی اگر چاہیں تو ہندوستان کے شہروں پر بمباری کر سکتے ہیں اور آجکل کی بمباری بھی نہایت خطرناک ہے.....بمباری کیا ہے گویا ایک جہنم کا دروازہ کھل گیا ہے.امریکہ

Page 202

٢٠٢ کتنی بڑی طاقت تھی مگر جاپان نے یکدم حملہ کر کے اس کے بیڑے کو سخت نقصان پہنچا دیا ہے اور ظاہر ہے کہ جو طاقت امریکہ ایسی بڑی بڑی حکومتوں کو اس طرح نقصان پہنچا سکتی ہے اس کا مقابلہ ہندوستانی کیا کر سکتے ہیں.اب لڑائی اتنی قریب آگئی ہے کہ پانچ چھ دن میں موٹروں اور ٹینکوں کی لڑائی کلکتہ میں پہنچ سکتی ہے.ہندوستان کی آبادی بیشک بڑی ہے اوربعض کا نگری یہ کہا کرتے ہیں کہ اگر تمام ہندوستانی پیشاب کریں تو انگر یز ی میں ہر جائی مگر یہ سب باتیں ہیں.مقابلہ صرف وہ قوم کرسکتی ہے جو ہتھیار رکھتی اور انہیں چلانا جانتی ہو اور دلیر اور بہادر بھی ہو جس قوم اور ملک کی آبادی کا کثیر حصہ بزدل غیر مسلح اور بے ہنر ہو چکا ہو وہ کیا مقابلہ کر سکتی ہے.ہندوستان میں بہت تھوڑی تو میں ہیں جو لڑ سکتی ہیں.پنجاب.صوبہ سرحد اور یوپی کی بعض قومیں ہیں اور سی پی وغیرہ کے لوگ تو سب کشمیری ٹائپ کے ہیں اور لڑائی کے قابل نہیں ہیں کیونکہ ان میں فوجی ملکہ نہیں رہا اور قوموں میں بہادری صرف فوجی ملکہ کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے.آج کشمیری بُزدل سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ان میں فوجی ملکہ نہیں رہا، لیکن کسی وقت بی قوم اتنی بہادر تھی کہ محمود غزنوی نے ہندوستان پر جتنے حملے کئے ان میں سے صرف دو میں اسے شکست ہوئی اور یہ دونوں وہی تھے جو کشمیر پر کئے گئے.اپنے بعض رویا.بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : مجھے رویانہ میں دکھایا گیا کہ مارشل پٹیان کی حکومت بعض ایسی حرکات کر رہی ہے جن سے انگریزوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور مجھے تشویش پیدا ہوتی ہے کہ انگری بزرکس طرح مقابلہ کریں گے ان کی تو فرانس کے ساتھ صلح ہے اور ان کے راستہ میں یہ روک ہے کہ اگر اس سے لڑیں تو دنیا کے گی کہ اپنے اتحادی سے لڑرہے ہیں اتنے میں آواز آئی کہ یہ ایک سال کی بات ہے.اصل بات یہ تھی کہ پہلے چونکہ فرانس کے ساتھ انگریزوں کی دوستی تھی اس لیے وہ پیرانی دوستی کی وجہ سے اس پر حملہ نہ کر سکتے تھے یہ بات نہ تھی کہ فرانس کی طاقت جرمنی سے بھی زیادہ تھی اور انگریز اس سے ڈرتے تھے بلکہ وہ اس وجہ سے اس کا مقابلہ نہ کرنا چاہتے تھے کہ دنیا کہے گی کہ اپنے پرانے دوست پر حملہ کر دیا جب تک کہ ایسے حالات پیدا نہ ہو جاتے کہ ان کے لیے اس کا مقابلہ جائزہ کہلا سکتا وہ اس کے ساتھ تصادم نہ چاہتے تھے آخر عین سال گذرنے پر عراق کی بغاوت نے وہ حالات پیدا کر دیئے "

Page 203

٢٠٣ ایک اور خواب میں نے پچھلے سال دیکھا تھا جس کا دوسرا حصہ اب پورا ہوا ہے میں شملہ میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے مکان پر تھا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک جگہ ہوں اور وہاں ایک بڑا ہاں ہے جس کی سیڑھیاں بھی ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا ملک ہے مگر نظر ہاں آتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ سیڑھیوں میں سے اٹلی کی فوج لڑتی آرہی ہے اور انگریزی فوج دیتی چلی جارہی ہے یہاں تک کہ اطالوی فوج ہال کے کنارے تک پہنچ گئی......اتنے میں میں نے دیکھا کہ انگریزی فوج اٹلی والوں کو دبانے لگی ہے اور اس نے پھر اپنی سیڑھیوں پر واپس چڑھنا شروع کر دیا ہے جن پر سے وہ اُتری تھی.اس وقت میں دل میں سمجھتا ہوں کہ دو تین بار اسی طرح ہوا ہے چنانچہ یہ خواب لیبیا میں پورا ہو چکا ہے جہاں پہلے دشمن مصر کی سرحد تک پہنچ گیا تھا مگر انگریزوں نے پھر اسے پیچھے ہٹا دیا پھر دشن نے انگریزوں کو پیچھے ہٹا دیا اوراب پھر انگریزوں نے انکو پیچھے ہٹا دیا ہے اور یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی مثال کہیں تاریخ میں نہیں ملتی کہ چار دفعہ ایسا ہوا ہو کہ پہلے ایک قوم دوسری کو ایک سرے سے دباتی ہوئی دوسرے سرے تک جا پہنچی ہواور پھر وہ اسے دبا کر اسی سرے تک لے گئی ہو اور ایک مرتبہ پھر وہ اسے دبا کر وہیں پہنچا آتی ہو اور چوتھی دفعہ پھر وہ اُسے دبا کر واپس لے گئی ہو " الفضل ۷ ار جنوری ۱۹۴۲ئه حضور خطبہ جمعہ مورخہار اپریل 12ء میں جنگ کی تباہیوں پر اظہار تاسف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.یہ دن بہت نازک ہیں.ایسے نازک کہ اس سے زیادہ نازک دن دنیا پر پہلے کبھی نہیں آتے اور پھر ہمارے جیسی سنتی اور کمزور قوم کے لیے تو یہ بہت ہی نازک ہیں ایک جہاز بھی اگر آکریم پھینکے تو ہم تو اس کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے کیا ہم اس پر تھوکیں گے.موجودہ جنگ کی تباہی و بربادی کا ایک نیا سیلو ہمارے سامنے آیا ہے یعنی بلگریڈ کی بربادی کئی لاکھ کی آبادی کا شہر ۲۴ گھنٹوں کے اندر اندر تباہ ہو گیا اور وہاں سواتے لاشوں اور اینٹوں کے ڈھیروں کے کچھ نظر نہیں آتا......اس زمانہ میں انسان کی طاقت مقابلہ کی حیثیت ہی کیا رہ گئی ہے اور جب لاکھوں انسانوں کی آبادیوں والے شہر اس طرح اُٹھ سکتے ہیں تو گاؤں کا ذکر ہی کیا ؟ ایسے ایسے بم ایجاد ہو چکے ہیں جو دودو

Page 204

۲۰۴ سو بلکہ چار چار سو گز تک مار کر جاتے ہیں.ہمارے ملک میں اتنے بڑے گاؤں کتنے ہیں.بالعموم ایسے چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں کہ ایک ایک ہم سے اُڑ جائیں نہ کسی انسان کا پتہ لگے اور نہ کوئی جانور باقی رہے....مگر میں نے دیکھا ہے کہ غفلت اور سنگدلی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بعض لوگ ایسے مزے سے لے کر جنگ کی خبریں بیان کرتے ہیں کہ گویا دُنیا پر کوئی آفت آتی ہی نہیں..چاہتے کہ رات دن گریہ وزاری میں گذریں آج وہ زمانہ نہیں کہ ہنسو زیادہ اور رقو کم انسان کو چاہیے کہ آج روئے زیادہ اور ہنسے کم بلکہ چاہیئے کہ انسان روتے ہی روتے اور مہنی اس کے لبوں پر بہت ہی کم آئے تا آسمان سے وہ سامان پیدا ہوں جو ہماری بھی اور دوسرے لوگوں کی بھی کہ وہ بھی ہمارے بھائی ہیں.ان تباہ کن سامانوں سے حفاظت کر سکیں ذرا غور کرو کہ ایک منٹ میں آکر گولہ لگتا ہے یا مائن پھٹتی ہے اور چشم زدن میں ہزار دو ہزار انسان سمندر کی تنہ میں پہنچ کر مچھلیوں کی خوراک بن رہے ہوتے ہیں.اگر انسان کو کہیں ایک لاش بھی باہر پڑی ہوئی مل جائے تو دل دہل جاتا ہے مگر یہاں تو ہزاروں لاشیں روزانہ سمندر میں غرق ہو رہی ہیں.انگریزی بحری جہازوں کے ڈوبنے کی اوسط ہفتہ وار ساٹھ ہزار ٹن ہے.....پس ساٹھ ہزار ٹن جہازوں کے غرق ہونے کے منے یہ ہوئے کہ چھ ہزار ۱۹۴۱ جانیں ہر ہفتہ سمندر کی تہ میں پہنچ جاتی ہیں ( الفضل ۴ جوان ۱۹ ) جنگ لمبی ہوتی جا رہی تھی مسلسل شکستوں کے بعد اتحادیوں کے حالات کسی قدر بہتر ہو رہے تھے.کہ جاپان بھی اتحادیوں کے خلاف جنگ میں شامل ہو گیا.اس وجہ سے محور یوں کے حملوں میں غیر معمولی شدت آگئی اور بظاہر یوں معلوم ہونے لگا کہ اتحادی شکست کھا جائیں گے.جاپانی بھی اپنے حملوں کی کامیابی پر اتنے نازاں تھے کہ ان کے خیال میں جنگ کا خاتمہ ان کی مرضی کے مطابق اس وقت ہوگا جب چاہیں گے اور انہیں یقین تھا کہ وہ بآسانی دس میں سال جنگ کو جاری رکھ کر اپنے دشمنوں کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے.ان حالات میں حضور نے خُدائی اشارہ کے تحت بالآخر اتحادیوں کی کامیابی اور فتح کی خبر دیتے ہوئے فرمایا :- اگر ایسی حالت میں انگریزوں نے مقابلہ کو جاری رکھا تو امید ہے کہ ان کی شکست فتح سے بدل جائے گی " وہ دید

Page 205

خاتمه جنگ : ۲۰۵ جنگ کے خاتمہ کے متعلق حضور نے فرمایا :- جہاں تک جنگ کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ نہ تک یا ہوسکتا ہے.تک یا اس سے پہلے اگر خدا چاہیے ختم ہو جائے گی " حضور کا یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب جاپان نہ صرف جنگ کو لمبا لے جانے کے دعوائے کر رہا تھا بلکہ ان کی طرف سے یہ بھی دعوی کر دیا گیا تھا کہ : " جاپان بہت جلد اس پوزیشن میں ہو جاتے گا کہ امریکہ سے غیر مشروط طور ہتھیار ڈالو تے امریکہ کو بھی جاپان کی جنگی طاقت اور عزائم کا پوری طرح احساس تھا چنانچہ صدر ٹرومین نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ جاپانیوں کے پاس چالیس لاکھ مسلح فوج موجود ہے جو اس جرمن فوج سے بہت زیادہ ہے جس سے ہمیں مغربی یورپ میں مقابلہ تھا.جاپان ابھی مزید فوج بھرتی کر سکتا ہے ابھی تک ہمیں جاپان کی بڑی فوجی طاقت سے سامنا نہیں ہوا.جاپانی ہوائی طاقت میں ابھی تین ہزار سے زائد جنگی طیارے موجود ہیں اور بمباری کے باوجود جاپان ابھی تک ہر ماہ ایک ہزار سنتے طیار سے تیار کر رہا ہے.ان مخالف و موافق اندازوں کے مطابق جنگ ابھی ایک لمبے عرصہ تک چلنے والی تھی مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے غیر معمولی تصرفات ہوتے کہ جنگی فنون کے ماہرین کے سب اندازوں کے برعکس حضور کے ارشاد کے مطابق جنگ شاہ میں ختم ہو گئی ہے گفته او گفته الله بود گرچه از حلقوم عبدالله بود حضور اپنے اس انکشاف کی بنیاد بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :-........اب یہ عجیب بات ہے کہ جس دلیل پر میری بنیاد تھی کہ تحریک جدید کے آخری سال (پہلے دور کا آخری سال کے اختتام پر یہ جنگ ختم ہوگی میری وہ بات اس رنگ میں پوری ہوتی کہ جنگ نہ صرف اسی سال اور اسی مہینہ میں ختم ہوئی جوئیں نے بتایا تھا بلکہ عین سات مئی کو آکر شیر دگی کے کاغذات پر دستخط ہوتے چونکہ وعدوں کی ادائیگی کے لیے ایک سال مقرر ہے.اس لیے دس سالہ دور تحریک کے چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ حسب قاعدہ کے رمتی ۱۳۵ تہ ہوتی ہے اور اسی تاریخ کو سپردگی کے کاغذات پر جرمنی کے نمائندوں نے دستخط کئے.گویا قانونی طور پر عین اسی تاریخ پر اگر جنگ

Page 206

ختم ہوئی جو تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے سارے ہندوستان کے لیے آخری تاریخ ہے.اور جس کے بارے میں میں بار بار اور متواتر اڑھائی سال سے اعلان کر رہا تھا خدا تعالیٰ کی قدرت کا یہ کتنا بڑا نشان ہے.صوفیا.لکھتے ہیں کہ بعض دفعہ بندہ کی زبان اور ہاتھ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں بھی خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَالعِنَ اللَّهَ رھی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بدر کے موقعہ پر جب تو نے مٹھی بھر کر کنکر پھینکے تھے بظاہر تو وہ تونے ہی دُعائیہ رنگ میں پھینکے تھے لیکن ہم نے تیرے ہاتھ کو اپنا ہاتھ بنا لیا اور اسے کفار کی تباہی کا موجب بنا دیا.....تواللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے یہ سلوک رہا ہے کہ وہ ان کے ہاتھ کو اپنا ہا تھ ان کی زبان کو اپنی زبان بنالیتا ہے.میں نے متواتر بیان کیا تھا کہ میں جو کہتا ہوں کہ جنگ ۱۹۳۵ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی میں یہ کسی الہام کی بنا پر نہیں کہتا بلکہ میرے استدلال کی بنیاد اس بات پر ہے کہ چونکہ تحریک جدید کا آخری سال چندوں کی ادائیگی کے کے لحاظ سے شاہ کے شروع میں یعنی اپریل میں جا کر ختم ہوتا ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جنگ ۱۹۳۵ء کے شروع یعنی اپریل میں ختم ہو جائے گی.خدا تعالیٰ نے میری اس بات کو لفظاً لفظاً پورا کیا اور نہ صرف سال اور مہینہ کے لحاظ سے بلکہ تاریخ اور دن نے لحاظ سے بھی یہ بات لفظاً لفظاً پوری ہوتی.الحمد لله" (الفضل ۴ ارمنی ۱۹۳۵) مذکورہ بالا واقعات و حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس جنگ کا آغازہ اور خاتمہ بلکہ اس جنگ کے دوران ہونے والے اہم واقعات متعدد خُدائی نشانوں کے ظہور اور اضافہ ایمان کا باعث ہوتے.ایٹمٹی تباہی پر تبصرہ :- جیسا کہ دنیا جانتی ہے اس جنگ کا خاتمہ اس خوفناک ترین ایجاد کے استعمال کے نتیجہ مں عمل میں آیا تھا جسے ایٹم بم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.جاپان پر ایسے دو بہم ہی گرائے گئے تھے کہ انکی قوت مدافعت جواب دے گئی اور اتحادیوں نے اس عظیم جنگ میں فتح حاصل کی.حضور جنگ کے آغاز سے ہی اس تباہی کے جلد خاتمہ کے لیے دعائیں کر رہے تھے حضور اتحادیوں کی فتح کو دنیا کے لیے کہ نقصان کا باعث سمجھتے تھے مگر جن حالات میں اتحادیوں کو فتح حاصل ہوئی آپ اس پر خوش نہیں ہوتے اور رحمۃ للعالمین کے اس پیچھے خادم نے سب سے پہلے ایٹمی حملہ کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے فرمایا : " یہ ایک ایسی تباہی ہے جو جنگی نقطہ نگاہ سے خواہ تسلی کے قابل سمجھی جائے لیکن جہانتک

Page 207

۲۰۷ انسانیت کا سوال ہے اس قسم کی بمباری کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا.ہمیشہ سے جنگیں ہوتی چلی آتی ہیں اور ہمیشہ سے عداوتیں بھی رہی ہیں لیکن با وجود ان عداوتوں کے اور با وجود ان جنگوں کے ایک حد بندی بھی مقرر کی گئی تھی جس سے تجاوز نہیں کیا جاتا تھا.لیکن اب کوئی حد بندی نہیں رہی کون کر سکتا ہے کہ وہ شہر جس پر اس قسم کی بمباری کی گئی ہے وہاں عورتیں اور بچے نہیں رہتے تھے کون کہہ سکتا ہے کہ لڑائی کی ذمہ داری میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں.اگر جوان عورتوں کو شامل بھی سمجھا جائے تو کم از کم موقت پہلے کے لڑکے اور لڑکیاں لڑائی کے کبھی بھی ذمہ وار نہیں سمجھے جاسکتے ہیں گو ہماری آواز بالکل بیکار ہو لیکن ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خونریزی کو جائز نہیں سمجھتے.خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان بُرا لگے یا اچھا." اسی سلسلہ میں حضور نے مزید فرمایا کہ : : " میرا مذہبی فرض ہے کہ میں اس کے متعلق اعلان کر دوں.گو حکومت اسے برا سمجھے گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امن کے رستے میں یہ خطرناک روگ ہے.اس لیے میں نے بیان کر دیا ہے کہ ہمیں دشمن کے خلاف ایسے مہلک حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جو اس قسم کی تباہی لانے والے ہوں.ہمیں صرف وہی حربے استعمال کرنے چاہئیں جو جنگ کے لیے ضروری ہوں لیکن ایسے حربوں کو ترقی دینا اور ایسے حربوں کو استعمال کرنا جن سے عورتوں بچوں اور ان لوگوں کو جن کا جنگ کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تکلیف پہنچے.ہمارے لیے جائز نہیں اور ہمارا فرض ہے کہ خواہ ہماری آواز میں اثر ہو یا نہ ہو حکومت سے کہ دیں کہ ہم آپ کی خیر خواہی کے جذبے کی وجہ سے مجبور ہیں کہ اس امر کا اظہار کر دیں کہ ہم آپ کے اس فعل سے متفق نہیں اور مجبور ہیں کہ آپ کو ایسا مشورہ دیں جس کے نتیجہ میںآئندہ جنگیں اور فتنے بند ہو جائیں." الفضل ۱۶ اگست ۹۴۵ ه ) قیام امن کے متعلق قرآنی رہنمائی: ایٹمی حملہ کے خلاف اس زبر دست اعلان حق کے علاوہ آپ نے مستقل قیام امن کے متعلق قرآن مجید سے مستنبط رہنما اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا : یاد رکھو وہ دن قریب ترین آتے جاتے ہیں جب دنیا کی کسی فیصلہ پر پہنچنے کی

Page 208

۲۰۸ کوشش کرے گی.اس وقت فاتح مغربی اقوام کے دماغ اس امر کی طرف مائل ہورہے ہیں کہ وہ جنگ کے بعد مفتوح قوموں کو بالکل کچل کر رکھ دیں اور ان کو ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیں.گویا پرانے زمانہ میں جس غلامی کا دنیا میں رواج تھا اسی غلامی کو بلکہ اس سے بدتر غلامی کو وہ اب پھر دنیا میں رائج کرنا چاہتی ہیں.اور ان اقوام میں سے بعض سرکردہ لوگ اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ پرانے زمانہ کے غلاموں سے بھی بدترین سلوک جرمنی اور جاپان کے ساتھ کریں.دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لوکہ جیسے ابتدائی ایام میں آرین اقوام نے ہندوستان کی دیگر اقوام سے سلوک کیا تھا اور انہوں نے ان اقوام کے لیے بعض خاص پیشے مقرر کر دیتے تھے...اس طرح آج انگلستان اور امریکہ کے بعض اکابرین کی طرف سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جنگ کے بعد جرمنی اور جاپان دونوں کے لیے بعض پیشے مقرر کر دیئے جائیں گے اور فیصلہ کر دیا جائے گا کہ وہ ان مخصوص پیشوں کے علاوہ اور کوئی پیشہ اختیار نہیں کر سکتے.یہ چیزیں جب ظاہر ہوتی ہیں اس وقت طبائع قدرتی طور پر فیصلہ کی طرف مائل ہوتی ہیں اور وہ اس نتیجہ پر پہنچتی ہیں کہ موجودہ نظام کے علاوہ کوئی اور نظام دنیا میں رائج ہونا چاہتے جو کمزور کی حق تلفی نہ کرے اور طاقتور کو ناجائز حقوق نہ دے.پس اگر جنگ کے بعد مفتوح اقوام سے اسی قسم کا وحشیانہ سلوک کیا گیا جس قسم کا وحشیانہ سلوک اچھوت اقوام سے کیا گیا تھا.تو یہ لازمی بات ہے کہ یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی اور جاپان میں بھی اور جرمنی میں بھی دنیا کے موجودہ نظام کے خلاف آوازیں اٹھنی شروع ہو جاتیں گی.طبائع میں ایک ہیجان پیدا ہو جاتے گا.اور لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو گا کہ موجودہ نظام تسلی بخش نہیں.اور وہی وقت ہو گا جب گرم گرم لوہے پر چوٹ لگا کر اسے اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھالا جاسکے گا.دیکھو قرآن کریم نے لیگ آف نیشنز (LEAGUE OF NATIONS) کے بعض اصول بیان کئے ہیں اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ جب تک ان اصول پر لیگ آف نیشنر کی بنیاد نہیں رکھی جائے گی اس وقت تک دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکیگا میں نے سہ میں اپنی کتاب "احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں ان اصول کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بیان کیا تھا.اسی طرح جب میں ولایت گیا تو وہاں مختلف لیکچروں میں

Page 209

نہایت وضاحت اور تفصیل کے ساتھ میں نے ان اصول کا ذکر کیا.اس کے بعد 19.میں جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے اپنے لیکچر میں جو سیاسیات عالم کے متعلق تھا اس امر کو بڑی تفصیل سے بیان کیا تھا اور بتایا تھا کہ جب تک قرآنی اصول پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد نہیں رکھی جائے گی اس وقت تک دنیا بین الاقوامی جھگڑوں سے کبھی امن حاصل نہیں کرسکتی.آج لیگ آف نیشنز اگر اپنے مقصد میں ناکام ہوتی ہے تو اسی وجہ سے کہ ان اصول کو اس نے اپنے نظام میں شامل نہیں کیا تھا انہی اصول میں سے ایک اصل میں نے یہ بیان کیا تھا کہ یہ خیال کر لینا کہ اس نظام کے قیام کے لیے کسی فوجی طاقت کی ضرورت نہیں نادانی حماقت ہے.یہ نظام قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ساتھ فوج کی بہت بڑی طاقت نہ ہوتا کہ جب بھی کوئی قوم بیگ آف نیشنز کے فیصلہ کی خلاف ورزی کرے اس کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے اسے اپنے ناجائز طریق عمل سے روک دیا جائے........مگر یور بین لوگوں کی طرف سے ہمیشہ ہی کا گیا کہ یہ بالکل غلط ہے ہم تو دنیا کو لڑائی سے بچاتا چاہتے ہیں اور آپ پھر ایسی تجویز پیش کر رہے ہیں جس میں فوج اور طاقت کا استعمال ضروری قرار دیا گیا ہے.انگلستان میں جب میرے لیکچر ہوتے تو ان کے بعد عام طور پر لوگ یہی کہا کرتے کہ نہیں تو وہ پرانی جنگی سپرٹ ہے جو دنیا میں پہلے سے قائم ہے ہمارے نزدیک یہ تجویز درست نہیں.ہم نے لیگ کے اُصول ایسے رکھتے ہیں جن میں فوجی طاقت کو استعمال کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آسکتی.اس کے اصول میں یہی روح کام کر رہی ہے کہ فوجی طاقت سے نہیں بلکہ دوسروں کو سمجھا کر صلح اور پیایہ کی طرف مائل کیا جائے ----- یورپین مدبرین نے اس وقت میری بات کو قابل اعتنا نہ سمجھا مگر آج تمام مدبرین یک زبان ہو کر کہ رہے ہیں کہ لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس فوجی طاقت نہیں ہے.اگر اس کے پاس فوجی طاقت ہوتی تو اس کا یہ انجام نہ ہوتا...........رحضور نے اس کے بعد قرآن مجید کا یہ اصول بیان فرما یا که مفتوح قوم پر اپنا غصه نه نکالو بلکہ جھگڑے کی حد تک اپنے فیصلے کو محدود رکھو.حدود سے تجاوز کرتے ہوئے مفتوح وم کوظلم وستم کا نشانہ نہ بناو ناجات پابندیاں یو یا دباؤ نہ ڈالو اگر تم ایسا کروگے تو اس کے نتیجہ میں پھر فساد پیدا ہو گا پھر بدامنی پیدا ہوگی پھر لڑائی شروع ہوگی اور پھر دنیا

Page 210

بس ۲۱۰ کا امن برباد ہو جاتے گا.....چنانچہ اس قسم کی آوازیں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کے بعد جب روس برطانیہ امریکہ اور چین سب طاقتیں مل کر دنیا ملا من قائم کریں گی توجر من اور جاپان سے نہ صرف وہ تمام چیزیں لے لی جائیں گی جن پر انہوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تھا بلکہ ان کی بغاوت کی سزا کے طور پر ہمیشہ کے لیے ان کی قوت کو کچل دیا جائے گا اور انہیں ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے گا.ابتدائی انسانی حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ شخص کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ جو پیشہ اپنے لیے مناسب سمجھتا ہے اس پیشہ کو اپنی زندگی کا جزو بنا تے..مگر اس حق سے بھی جرمنی اور جاپان کو محروم کرنے کی سکیمیں تیار ہو رہی ہیں...الفضل اا راکتو بر ۹۲۳لته ) انصاف کے تقاضوں کو مد نظر نہ رکھنے کی صورت میں تیسری عالمگیر جنگ کے بیج بونے کے متعلق انتباہ کرتے ہوئے حضور نے بڑے واشگاف الفاظ میں فرمایا : ----- اگر اس جنگ کے بعد اتحادیوں نے اپنی غلطی سے لڑائی کے حقیقی اسباب کو دور کرنے کی کوشش نہ کی اور مفتوح قوموں پر نا جائز دباؤ سے کام لیا تو جلد یا پندرہ میں سال کے بعد.....جنگ کی ہولناکیوں سے دو چار ہونا پڑے گا پھر انہیں لوگوں کے سامنے لیکچر دینے پڑیں گے کہ جاؤ اور میدان جنگ میں اپنی جانیں قربان کرد......اگر حکمت عملی سے کام لے کر تباہی کے دروازے کو بند کیا جا سکے تو وجہ کیا ہے کہ ابھی ایک نسل اپنی قربانی سے فارغ بھی نہیں ہوئی کہ پھر پھانسی کا پھندا دوسری نسل کے لیے تیار ہو جاتے.پھر گولیاں ان کے سینے کو چھلنی کرنے کے لیے تیار ہونی شروع ہو جائیں اور پھر تباہی اور بربادی ان کو اپنا لقمہ بنانے کے لیے منہ کھولے کھڑی ہوپس اگر اس تباہی کو روکا جاسکتا ہو تو ہمارے لیے اس کا روکنا نہایت ضروری ہے تاکہ ہماری آئندہ نسل اس مصیبت سے محفوظ رہے اور اسے اپنی جانوں کی قربانی نہ کرنی پڑے.مگر یہ کام ایسا ہے جس کو سرانجام دینے کی ہم میں طاقت نہیں ہم دوسروں کو نت نصیحت کر سکتے ہیں......اگر اس جنگ کے بعد تیسری جنگ ہوئی تو وہ اس دوسری جنگ سے بہت زیادہ خطرناک ہوگی.یہ خیال بھی کسی قوم کے افراد کو اپنے دلوں میں نہیں لانا چاہتے کہ جب ہم لوگوں سے تو ہیں چھین لیں گے تلواریں....ہوائی جہاز...ہم چھین لیں گے اسی

Page 211

۲۱۱ طرح ان کی فیکٹریوں اور کار خانوں وغیرہ پر قبضہ کر لیں گے تو اس کے بعد لڑائی کے لیے ان کے پاس کونسی چیز باقی رہ جاتے گی ؟ کیونکہ ایجادات کا سلسلہ دنیا میں جاری ہے اور اس وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر ان ہتھیاروں کو چھین لیا گیا تو اس کے بعد لڑائی کے لیے کسی نئی چیز کی ایجاد نہیں ہو سکے گی.گذشتہ جنگ میں توپوں کی کثرت تھی اور خیال کیا جا تا تھا کہ اگر کسی قوم سے تو ہیں لے لی جاتیں تو وہ لڑائی کے ناقابل ہو جاتی ہے مگر اس کے بعد ہوائی جہاز نکل آتے اور اب موجودہ جنگ میں تو فلائنگ ہم کی ایجاد سے خطرہ بہت بڑھ گیا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کے اس کو برباد کرنے والی ایک خطرناک ایجاد ہے جو بنی نوع انسان کو توپوں اور ہوائی جہازوں سے بھی بڑھ کر نقصان پہنچا سکتی ہے.جب آج تک ایجادات کا سلسلہ جاری رہا اور جنگ کے اسلحہ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے تو کسی کو کیا پتہ کہ کل کوئی ایسی گیس نکل آتے جس کا لوگوں کو علم بھی نہ ہو اور وہ آناً فاناً ان کو ہلاک کر دے پیپس یہ بالکل احمقانہ بات ہو گی اگر یہ خیال کر لیا جاتے کہ فلاں ملک کو ہم نے مغلوب کر لیا ہے وہ ایک چھوٹا سا ملک ہے چند لاکھ اس کی آبادی ہے ہتھیار اس سے چھین لیے گئے ہیں اور اب وہ ہمارے خلاف لڑائی کے لیے کبھی کھڑا نہیں ہو سکتا جب دلوں میں بغض اور کینہ موجود ہو اور لوگوں کے اندر یہ احساس ہو کہ ہم نے دوسری قوم سے انتقام لینا ہے تو وہ ایسے ہتھیار ایجاد نہیں کرتے جن کے کارخانے لوگوں کو نظر آتے ہوں بلکہ وہ اس قسم کے ہتھیاروں کے بنانے میں مشغول ہو جاتے ہیں جن کے کارخانے نظر نہیں آتے اور اس طرح باوجود ہتھیار بنانے کے وہ پکڑے نہیں جاتے " الفضل ۲ جنوری ۹۳۵له ) جنگ اور خونریزی کے متعلق اپنا اصولی موقف بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : "ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خونریزی کو جائز نہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان بُرا لگے یا اچھا“ نیز ان باتوں کے نتیجہ میں مجھے نظر آرہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں جنگیں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی اور وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اٹانک سے بڑی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے اور ان کے مقابلہ میں کوئی جنگی طاقت حاصل نہیں کر سکے گا.یہ لغو اور بچوں کاسا

Page 212

دوند ۲۱۲ خیال ہے.اگر بعض کو اٹامک ہم مل گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی سائنس دان کو کسی اور نکتہ کی طرف توجہ دلا دے اور وہ ایسی چیز تیار کرلے جس کے تیار کرنے کے لیے بڑی بڑی لیبارٹریوں کی بھی ضرورت نہ ہو بلکہ ایک شخص گھر میں بیٹھے بیٹھے اس کو تیار کرے اور اس کے ساتھ دنیا پر تباہی لے آئے اور اس طرح وہ اٹامک ہم کا بدلہ لینے لگ جاتے.تیرہ سوسال پہلے دنیا کو رسول کریم صلی الہ علیہ سلم نے لڑائیوں کے کم کرنے کا ایک راستہ بتایا تھا.جب تک دنیا اس راستہ پر نہیں چلے گی لڑاتیاں کم نہیں ہونگی.بلکہ بڑھیں گی امریکہ اور یورپ والے امن نہیں پائیں گے جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کی اس تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے.وہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ نہ کہیں گے کہ ہمیں ان آگ کی چیزوں کو نا جائز قرار دینا چاہیئے اس وقت تک حقیقی امن ان کو نصیب نہیں ہو گا ؟ الفضل دار اگست ۱۹۴۵ ) اندار و نصیحت : یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے سے قبل بڑی وضاحت سے اس کی خبر دیتے ہوئے حضور نے بطور اندار و نصیحت فرمایا تھا:.دُنیا پر ایک ایسا نازک وقت آچکا ہے کہ دُنیا میں عنقریب بہت بڑا تغیر ہونے والا ہے.تین سال ہوتے میں نے کہا تھا کہ دس سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہو گا اور ابھی میری اس بات پر صرف تین سال گزرے ہیں کہ اس تغیر کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہو گئی ہیں.اب اگر دنیا میں لڑائی شروع ہوتی تو یقینا سمجھ لو کہ اس لڑائی کے بعد کی دنیا وہ دنیا نہیں ہوگی جو اب ہے بلکہ بالکل بدلی ہوئی دُنیا ہوگی.....ا دنیا کے سامنے ایک ایسی خطرناک تباہی نظر آرہی ہے جو قیامت کا نمونہ ہوگی.بالکل ممکن ہے وہ بڑے بڑے شہر جن میں تیں تمہیں چالیس چالیس لاکھ کی آبادی ہے.ایک دن آدمیوں سے بھرے ہوتے ہوں مگر دوسرے دن تمہیں یہ اطلاع ملے کہ اس شہر میں ایک آدمی بھی باقی نہیں رہا سب مار دیتے گئے ہیں.....پس مت سمجھو کہ تم محفوظ جگہوں میں ہو اس وقت ایسی زبر دست تباہی کے سامان پیدا ہو چکے ہیں کہ کسی انسان کی زندگی بھی محفوظ نہیں جب انسانی زندگی کے خون کی اس قدر ارزانی ہو رہی ہے اور جب

Page 213

۲۱۳ زندگی کا کوئی اعتبار ہی نہیں رہا تو کیوں نہ اس زندگی کو خدا تعالیٰ کے دین کے لیے خرچ کیا جائے.اگر آج تم اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرو گے تو کل والی دنیا کو خدا تمہارے سپرد ) الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۳۵ة ) کر دے گا" یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بعض سیاسی لیڈروں نے ظاہری حالات اور انگریزوں کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے عدم تعاون اور سول نافرمانی وغیرہ کی تلقین شروع کر دی تھی جو مادر وطن کی آزادی کے لیے کسی طرح بھی مفید نہ تھی.حضور ایک دور اندیش مرتبہ کی طرح صحیح رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.ガ انگریزی قوم کا میلان اس وقت ہندوستانیوں کے متعلق اس قسم کا ہے کہ وہ آئندہ انہیں زیادہ سے زیادہ آزادی دیں گے اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ انگریز اب ہندوستان کو پیچھے کی طرف لے جائیں اب ہندوستانی آگے کی طرف ہی بڑھیں گے اور یقیناً اس جنگ کے بعد جو ہندوستان کو آزادی حاصل ہو گی وہ اس سے بہت زیادہ ہو گی جو اب ہندوستانیوں کو حاصل ہے لیکن اگر اس جنگ میں انگریز ہار جائیں اور ان کی جگہ کوئی اور قوم آجاتے تو اس وقت ہندوستان کی وہی حالت ہو جائے گی جو غدر کے وقت تھی بلکہ اس سے بھی بدتر ہونے کا امکان ہے...میرے نزدیک آج ہمیں اپنے تمام اختلافات کو بھول جانا چاہیتے اور انگریزوں سے پورا پورا تعاون کرنا چاہیے تاکہ جنگ کی بلائل جائے اور ہندوستان کے لوگ بھی اور برطانوی ایمپائر بھی انس عظیم الشان مصیبت ) الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۳۹ ) سے بچ جاتے حضور کا یہ مشورہ حالات کے مطابق اور حکمت و مصلحت کے تقاضوں کے عین مطابق تھا ورنہ ایک دور اندیش مسلم رہنما اور مدتیر کے طور پر حضور کو یہ بخوبی معلوم تھا کہ ہماری جماعت کا انگریزوں سے ایک وقت مقابلہ ناگزیر ہوگا.چنانچہ حضور اس سے تھوڑا عرصہ قبل ہی یہ بیان فرما چکے تھے کہ :- ہم وہ حکم نظر انداز نہیں کر سکتے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہم پر عائد ہوتا ہے (حکومت وقت کی اطاعت) اور نہ ہم وہ پیش گوئیاں نظر انداز کر سکتے ہیں جنہوں نے ہمیں آئندہ کا رستہ بتایا ہوا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی زمانہ ایسا بھی آتے گا جب ہمیں انگریزی قوم کے ایک حصہ سے لڑنا پڑے گا.مگر ہماری لڑائی مادی ہتھیاروں سے نہیں ہوگی.- انگریز قوم کے ایک

Page 214

۲۱۴ حصہ کو جب یہ محسوس ہوگا کہ انگریز احمدیت میں داخل ہوتے جارہے ہیں تو وہ ہم سے فساد کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے اور ہمارا فرض ہو گا کہ ہم ان کا مقابلہ کریں مگر وہ زمانہ ابھی دُور ہے." ۱۹۳۹ ) الفضل ١٤ ستمبر ١٩٣٩.

Page 215

۲۱۵ آل انڈیا کشمیرکمیٹی

Page 216

۲۱۶ آل آل انڈیا کشمیرکیٹی " خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا " ) پیشگوئی مصلح موعود ) پس منظر : جماعت احمدیہ کی تاریخ میں کشمیر کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی محرکة الآراء تصنیف میں جو مسیح ہندوستان میں" کے نام سے مشہور ہے تاریخی و عقلی دلائل سے روز روشن کی طرح یہ واضح اور ثابت فرمایا ہے کہ حضرت مسیح ناصری واقعہ صلیب کے بعد ہجرت کر کے ہندوستان تشریف لائے اور کشمیر میں ایک عرصہ تک بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی ہدایت و راہنمائی کرنے کے بعد اسی سرزمین میں مدفون ہوئے اور یہ کہ آپ کا مزار سرینگر میں آج تک موجود اور مرجع خلائق ہے.کشمیر سے تعلق اور اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :- اور چونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اس لیے کشمیر بھی ہمیں بہت پیارا

Page 217

۲۱۷ ہے پھر کشمیر میں اسلئے بھی پیارا ہے کہ وہاں قریباً اتنی ہزار احمدی ہیں....پس ہیں دعائیں کرتے رہنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کشمیری بھائیوں کی مدد کرے.آخر کشمیر وہ ہے جس میں مسیح اول دفن اور مسیح ثانی کی بڑی بھاری جماعت وہاں موجود ہے.....جس ملک میں دو مسیجوں کا دخل ہے وہ ملک ہر حال مسلمانوں کا ہے اور مسلمانوں کو ہی ملنا چاہیئے.ہمیں ہر وقت خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہنا چاہیئے کہ لہ تعالیٰ انہیں اپنے مستقبل کے متعلق خود فیصلہ کرنے کی توفیق بخشے......اور ان کے رستہ میں کوئی منصوبہ اور کوئی سازش روک نہ بنے ؟ ر الفضل ۲۳ فروری ۹۵له مسلمانان کشمیر ایک عرصہ سے ڈوگرہ راج کے استداد و ظلم کی چکی میں میں رہے تھے اور انہیں عام انسانی حقوق سے محروم کر کے غلاموں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا.حضور کو ان ائیروں کی رستگاری کے لیے شاندار خدمات سرانجام دینے کی توفیق حاصل ہوئی.اس کی کسی قدر تفصیل حضور کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہے." پھر اسیروں کی رستگاری کے لحاظ سے کشمیر کا واقعہ بھی اس پیشگوئی کی صفات کا ایک زبر دست ثبوت ہے اور ہر شخص جو ان واقعات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے، تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی کشمیر لوں کی رستنگاری کے سامان پیدا کئے اور ان کے دشمنوں کو شکست دی کشمیر کی قوم اس طرح غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی کہ گورنمنٹ کا یہ فیصلہ تھا کہ زمین انکی نہیں بلکہ راجہ صاحب کی ہے گویا سارا ملک ایک مزارع کی حیثیت رکھتا تھا.اور راجہ صاحب کا اختیار تھا کہ جب جی چاہا.اُن کو نکال دیا.انہیں نہ درخت کاٹنے کی اجازت تھی اور نہ زمین سے کسی اور رنگ میں فائدہ حاصل کرنے کی.بے گار کا یہ حال تھا کہ شہ میں میں کشمیر گیا تو ایک مقام سے چلتے وقت میں نے تحصیلدار سے کہا کہ ہمارے لیے کسی مزدور کا انتظام کر دیا جائے.اس نے رستہ میں سے ایک شخص کو پکڑ کر ہمارے پاس بھیج دیا کہ اس کے سر پر اسباب رکھوا دیں.ہم نے اُسے سامان دے دیا.مگر ہم نے دیکھا کہ وہ راستہ میں بار بار ہائے ہائے کرتا تھا.آخر ایک جگہ پہنچ کر اس نے تھک کر رنگ نیچے رکھدیا.میں نے اس کی یہ حالت دیکھی تو مجھے

Page 218

۲۱۸ بڑا تعجب ہوا اور میں نے اس سے کہا کہ کشمیری تو بہت بوجھ اُٹھانے والے ہوتے ہیں.تم سے یہ عمولی ٹرنک بھی نہیں اُٹھایا جاتا.وہ کہنے لگا میں مزدور نہیں ہوں میں تو زمیندار ہوں.اپنے گاؤں کا معزز شخص ہوں اور دولہا ہوں جو برات میں جا رہا تھا کہ مجھے راستہ میں تحصیلدار نے پکڑ لیا اور اسباب اُٹھانے کے لیے آپ کے پاس بھیج دیا.میں نے اسی وقت اُسے چھوڑ دیا کہ تم جاؤ ہم کوئی اور انتظام کر لیں گے.اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ کس قدر ادتی اور گری ہوئی حالت میں تھے.میں نے خود کشمیر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سو دو سو کے قریب مسلمان جمع ہیں اور ایک ہندو ان کو ڈانٹ رہا ہے اور وہ بھی کوئی افسر نہیں تھا بلکہ معمولی تاجر تھا اور وہ سارے کے سارے مسلمان اس کے خوف سے کانپ رہے تھے " تحریک کشمیر کے ابتدائی واقعات بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- نے.جب تحریک کشمیر کا آغاز ہوا.اس وقت شملہ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں میں بھی شامل ہوا.سراقبال اس وقت زندہ تھے.وہ بھی شریک ہوئے.سر میاں فضل حسین صاحب بھی موجود تھے.ان سب نے مجھ سے کہا کہ اس بارہ میں آپ وائسراے سے ملیں اور اس سے گفتگو کر کے معلوم کریں کہ وہ کس حد تک کشمیر کے معاملات میں دخل دے سکتا ہے جس حد تک وہ دخل دے سکتا ہو.اس حد تک ہمیں یہ سوال اُٹھانا چاہتے.چونکہ گورنمنٹ کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ ریاستی معاملات میں زیادہ دخل نہ دیا جائے.اس لیے وائسرائے سے پہلے مل لینا ضروری ہے.تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ وہ کسی حد تک ان معاملات میں دخل دے سکتے ہیں.میں نے ان سے کہا کہ میں اس مجلس میں اس شرط پر شریک ہو سکتا ہوں کہ وائسرائے سے نہیں بلکہ ہم کشمیر لوں سے پوچھیں گے کہ تمہارے کیا مطالبات ہیں اور پھر ہم کوشش کریں گے کہ گورنمنٹ اُن مطالبات کو منظور کرے.یہ طریق درست نہیں کہ وائسرائے سے پوچھا جائے کہ وہ کس حد تک دخل دے سکتا ہے بلکہ ہم سب سے پہلے کشمیر کے لوگوں سے پوچھیں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور پھر ان کے مطالبات کو پورے زور کے ساتھ گورنمنٹ کے سامنے رکھیں گے.سراقبال کہنے لگے.پھر آپ ہی اس کمیٹی کے پریذیڈنٹ بن جائیں.ہمیں آپ کی صدارت پر اتفاق ہے.میں نے کہا میں ند

Page 219

۲۱۹ پریذیڈنٹ بنا تو لوگ شور مچا دیں گے کہ ایک کافر کو پریذیڈنٹ بنا لیا گیا ہے.کسی اور کو بنا لیجئے.وہ کہنے لگتے ہیں تو تیار ہوں کہ آپ کو پریذیڈنٹ تسلیم کروں دوسر لوگوں نے بھی اس پر زور دیا اور آخر میں پریذیڈنٹ بن گیا.کیونکہ خدا چاہتا تھا کہ میرے ذریعہ سے اسیروں کی رستگاری ہو.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی پوری ہو.جب میں صدر بنا تو اس کے بعد لارڈ ولنگڈن سے میں اس غرض سے ملا.پہلے تو وہ بڑی محبت سے باتیں کرتے رہے.جب میں نے کشمیر کا نام کیا تو وہ اپنے کوچ سے کچھ آگے کی طرف ہو کر کہنے لگے کہ کیا آپ کو بھی کشمیر کے معاملات میں انٹرسٹ ہے.آپ تو مذہبی آدمی ہیں.مذہبی آدمی کا ان باتوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے.میں نے کہا ئیں بے شک مذہبی آدمی ہوں اور مجھے مذہبی امور میں ہی دخل دینا چاہتے مگر کشمیر میں تو لوگوں کو ابتدائی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں.اور یہ وہ کام ہے جو ہر مذہبی شخص کر سکتا ہے بلکہ اسے کرنا چاہیئے.اس لیے مذہبی ہونے کے لحاظ سے بھی اور انسان ہونے کے لحاظ سے بھی میرا فرض ہے کہ میں انہیں وہ ابتدائی حقوق دلواؤں جو ریاست نے چھین رکھتے ہیں.آپ اس بارہ میں کشمیر کے معاملات میں دخل دیں تا کہ کشمیریوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں ان کا انسداد ہو.وہ کہنے لگے آپ جانتے ہیں کہ ریاستوں کے معاملات میں ہم دخل نہیں دیتے ہیں نے کہا ئیں یہ جانتا تو ہوں مگر کبھی کبھی آپ دخل دے بھی دیتے ہیں.چنانچہ میں نے کہا گیا حیدر آباد میں آپ نے انگریز وزیر بھجواتے ہیں یا نہیں.کہنے لگے تو کیا آپ کو پتہ نہیں.نظام حیدر آباد کیسا برا مناتا ہے.میں نے کہا یہی بات تو میں کہتا ہوں کہ آخر وجہ کیا ہے کہ نظام حیدر آباد برا منائیں تو آپ اُن کی کوئی پرواہ نہ کریں اور مہاراجہ صاحب کشمیر بُرا منائیں تو آپ اُن کے معاملات میں دخل دینے سے رک جائیں.یہ ہندو اور مسلم میں سوتیلے بیٹوں والا فرق آپ کیوں کرتے ہیں.آخر یا تو وہ یہ کہ رہے تھے کہ گورنمنٹ ریاستی معاملات میں دخل نہیں دے سکتی اور یا کہنے لگے کہ جب مجھے وائسرائے مقرر کیا گیا تھا تو وزیر ہند نے مجھ سے کہا کہ ہندوستان کی سیاسی حالت سخت خراب ہے.کیا تم اس کو سنبھال لو گے.میں نے کہا کہ میں سنبھال تو لوں گا مگر شرط یہ ہے کہ مجھے چھے مہینہ کی مہلت دی جائے.اور مجھ پر اعتراض نہ کیا جائے کہ

Page 220

۲۲۰ تم نے کوئی انتظام نہیں کیا.ہاں اگر چھ مہینے کے بعد بھی میں انتظام نہ کر سکا تو آپ بیشک مجھے الزام دیں.انہوں نے کہا بہت اچھا چھ مہینے یا سال نہیں ہیں آپ کو ۱۸ مینے کی مہلت دیتا ہوں.آپ اس عرصہ کے اندر یہ کام کر کے دکھادیں لارڈ ولنگڈن کہنے لگے وزیر ہند نے تو مجھے ۱۸ مینے کی مہلت دی تھی اور آپ مجھے کچھ بھی مہلت نہیں دیتے.بلکہ چاہتے ہیں کہ فوری طور پر میں یہ کام کردوں.میں نے کہا اگر سی بات ہے تو پھر جھگڑے کی کوئی بات ہی نہیں.انہوں نے جو ۱۸ جینے کی آپ کو مہلت دی ہے میں آپ کو ۱۸ سال کی مہلت دینے کیلئے تیار ہوں.بشرطیکہ آپ مجھے یقین دلائیں کہکشمیر کے مسلمانوں کی حالت سدھر جاتے گی.انہوں نے کہا پانچ چھ ماہ تک مجھے حالات دیکھنے دیں.میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس عرصہ میں مجھ سے جو کچھ ہو سکا ئیں کروں گا.اور کشمیر کے مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کی پوری پوری کوشش کروں گا.چنانچہ اس کے بعد بڑے بڑے واقعات ہوئے.جن کو تفصیل کے ساتھ منایا نہیں جا سکتا.بہر حال میں نے کوشش جاری رکھی.یہاں تک کہ آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسی طاقت عطا فرما دی کہ کشمیر کی گورنمنٹ سخت گھبرا گئی اور اس نے دو دفعہ مجھے پیغام بھیجا کہ آپ جموں آئیں اور مہاراجہ صاحب سے مل کر فیصلہ کر لیں.آپس کی گفتگو کے بعد جن حقوق کے متعلق اتفاق ہوگا وہ کشمیر کے مسلمانوں کو دے دیتے جائیں گے.میں نے کہا میرے فیصلے کا کوئی سوال نہیں کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کا فیصلہ ہونا ہے اور یہ فیصلہ کشمیر کے نمائندے ہی کر سکتے ہیں.میں نہیں کر سکتا.میں یہ نہیں چاہتا کہ میں آؤں اور آپ سے باتیں کر کے کچھ فیصلہ کر لوں بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کے حقوق کا سوال ہے اُن کے نمائندوں کو بات کرنے کا موقعہ دیا جائے.آخر وہی وائسرائے جنہوں نے کہا تھا کہ میں ان معاملات میں دخل نہیں دے سکتا.جب بار بار اُن کو واقعات بتاتے گئے تو انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ کشمیر میں بہت سی خرابیاں ہیں.جن کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.چنانچہ گورنمنٹ آف انڈیا نے بھی کشمیر گورنمنٹ پر زور دینا شروع کر دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سر بہری کشن کول جو وزیراعظم تھے نت

Page 221

۲۲۱ تھے اس بات پر مجبور ہوئے کہ میری طرف توجہ کریں اور آخر انہوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ آپ اپنے آدمی بھجوا دیں جن سے بات کر کے وہ حقوق جو مسلمانوں کو دیتے جاسکتے ہوں اُن کو دے دیئے جائیں.لارڈ ولنگڈن کا ایک خط میں اس وقت دو خطوط سُناتا ہوں جن میں سے ایک لارڈ ولنگڈن کے پرائیویٹ سیکرٹری کیا ہے.لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ کشمیریوں کو جو حقوق ملے ہیں.وہ دوسروں کی کوشش کے نتیجہ میں طے ہیں.حالانکہ یہ صحیح نہیں.چنانچہ اس کے ثبوت کے طور پر میں یہ خط پیش کرتا ہوں جو لارڈ ولنگڈن کے پرائیویٹ سیکرٹری الکیو ٹنڈ آئیلے کا لکھا ہوا ہے.اور ۱۳ نومبر ۱۹۳۷ کا ہے وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں D.O.NO.10407 G.M The Viceroy's House, New Delhi, 13th.November, 1931.Your Holiness, His Excellency wishes me to thank you for your letter of the 7th November.He regrets much to learn that you are dissatisfied with his previous reply and feel that the efforts made by you and your community in the interests of peace in Kashmir have received scanty appreciation or attention from the Government of India.His Excellency is sure that this is due to some misunderstanding for it has certainly never been his intention to belittle in any way the loyal assistance which your community is always ready to render to Government, you will recognise, however, that in the internal affairs of an Indian state it is practically impossible for Government to insist upon the state

Page 222

۲۲۲ dealing with any outside committee, however well intentioned and representative, and the negotiations must take place, if the ruler so desires, direct with the Government of India.His Excellency wishes me to assure you that he has throughout given the Kashmir question his most anxious and sympathetic consideration and has left nothing undone which in his view could lead to a peaceful and satisfactory solution of the present troubles.He would be the last to say that all Government action has been exactly right or has been taken at exactly the right moment but he does claim that it has been with the one purpose of obtaining an early and satisfactory settlement between the Maharaja and his Muslim subjects.He trusts that his efforts in this direction will soon begin to have effect and that confidence will be restored among the Muslim community in Kashmir.His Excellency wishes me to thank you for the frank and candid expression of your views and opinions which will be of much value to him in appreciating and dealing with a very difficult situation.His Excellency is assured that he can rely upon you and the other members of the All-India Kashmir Committee to use your best efforts to produce the peaceful atmosphere which will go far to assist an early and satisfactory solution.To, Yours sincerely.His Holiness M.B.Mahmud Ahmad, Head of the Ahmadiya community.and president, All-India Kashmir Committee, Al-Faiz, 6, Lytton Road, Lahore.

Page 223

۲۲۳ اس خطہ کا ترجمہ یہ ہے :- ”ہز ایکسی لینسی حضور وائسرائے نے فرمایا ہے کہ میں آپ کے خط مورخہ سے نومبر ہ کا شکریہ ادا کروں.ہر کیسی کیسی کو اس بات کے معلوم ہونے پر افسوس ہوا کہ آپ اُن کے پہلے جواب کو نائکستی بخش خیال فرماتے ہیں.اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ جو آپ نے اور آپ کی جماعت نے کشمیر میں امن کی خاطر کوششیں فرماتی ہیں ان کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا اور یہ کہ حکومت ہند نے اُس کی طرف توجہ نہیں فرمائی ہز ایکسی لینسی کو یقین ہے کہ اس کا باعث کوئی غلط فہمی ہے.کیونکہ اُن کا ہرگز کبھی یہ ارادہ نہیں ہوا کہ آپ کی اور آپ کی جماعت کی اس وفا دارانہ امداد کو جو آپ ہمیشہ حکومت کی کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں.کسی طرح استخفاف کی نظر سے دیکھا جاتے، لیکن آپ اس بات کو تسلیم فرمائیں گے کہ حکومت کے لیے یہ بات عملاً ناممکن ہے کہ کسی ہندوستانی ریاست پر یہ زور دے کہ وہ کسی بیرونی کمیٹی کے ساتھ معاملہ کرے خواہ وہ کمیٹی ہی نیک نیت اور نمائندہ حیثیت رکھتی ہو اور اگر والی ریاست ایسا چاہے تو اس صورت میں ضروری ہے کہ اسبارہ میں براہ راست حکومت ہند کیسا تھ گفت و شنید کی جائے.حضور وائسرائے نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں آپ کو یقین دلاؤں کہ انہوں نے شروع سے ہی سوال کشمیر پر پورے فکر اور ہمدردی کے ساتھ غور کیا ہے اور انہوں نے موجودہ مشکلات کے تسلی بخش اور پرامن حل کا ذریعہ نکالنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا.حضور وائسرائے آخری آدمی ہوں گے جو یہ کہیں کہ حکومت نے جو کچھ کیا ہے وہ بالکل درست ہے یا یہ کہ وہ صحیح وقت کیا گیا ہے ، لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کیا گیا ہے اس کا واحد مقصد یہی تھا کہ مہا راجہ صاحب اور ان کی مسلمان رعایا کے مابین جلد سے جلد اور تسلی بخش تصفیہ ہو جاتے اور انہیں امید ہے کہ اس معاملہ میں انکی کوششیں جلد ہی نتیجہ پیدا کریں گی.اور یہ کہ مسلمانان کشمیر میں پھر اعتماد پیدا ہو جائیگا.حضور وائسرائے فرماتے ہیں کہ میں آپ کا شکر یہ ادا کروں کہ آپ نے نہایت صفائی سے اپنے خیالات اور آرام کو ظاہر فرما دیا ہے.اور یہ اُن کے لیے ایک مشکل سوال کے صحیح طور پر سمجھنے اور اس کے حل کرنے میں بہت مفید اور قیمتی ثابت ہوگا.ہز ایکسی لینسی کو یقین ہے کہ وہ آپ پر اور آل انڈیا کشمیر کیٹی کے دوسرے ممبروں پر

Page 224

۴۲۴ یہ اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ آپ اپنی بہترین کوششوں کے ساتھ ایک پر امن ماحول پیدا کریں گے جس سے جلد اور تسلی بخش حل کرنے میں بہت بڑی مدد ملے گی " پرسنل اسسٹنٹ وزیر اعظم کشمیر کا خط دوسرا خط وزیر اعظم کشمیر کے پرسنل اسسٹنٹ کا ہے جو انہوں نے میرے پرائیویٹ سیکرٹری کے نام لکھا.وہ خط یہ ہے :- سرینگر کشمیر مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۳۷ته مکرمی پرائیویٹ سیکرٹری صاحب تسلیم ! آپ کا گرامی نامه مورخه ۳ ر نومبراستہ جناب حضور والا ان پرائم منسٹر صاحب بہادر کے ملاحظہ سے گذرا مختصراً جواب عرض کرتا ہوں کہ ابتداء سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانان کشمیر کو ابتدائی جائز حقوق دینے میں بے حد جلدی کی جاوے اور خاص طور پر گذشتہ ایک ہفتہ سے تو شب و روز سوائے اس کام کے پرائم منسٹر صاحب کسی دوسرے کام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.البتہ دوتین روز کے لیے جموں کے واقعات نے مجبور کیا کہ وہاں پرائم منسٹر صاحب خود تشریف لے جاویں.جموں کے واقعات نے جس کے ذمہ دار احرارہ ہیں.معاملہ مطالبات کو قدرے التواء میں ڈال دیا.اور صدر صاحب کے ساتھ گفت و شنید یا خط و کتابت میں بھی دیر محض اسی وجہ سے ہوئی دلوگ کہتے ہیں کہ احرار کی وجہ سے کشمیر میں کامیابی حاصل ہوتی.اور وہ یہ کہتے ہیں کہ احرار کی وجہ سے معاملہ مطالبات کے منظور ہونے میں دیر ہو گئی ورنہ بات جلدی ملے ہو جاتی ) علاوہ بریں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نمائندگان مقیمی سرینگر عبدالرحیم صاحب درد اور مولانا اسماعیل غزنوی صاحب کے ساتھ اکثر تبادلۂ خیالات ہو تا رہتا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ آپ کو تبلا سکیں گے اور حکومت ہند نے اس معاملہ میں کس قدر دلچسپی لی ہے.(دراصل گورنمنٹ کشمیر نے مجھے لکھا تھا کہ اپنے دو نمائندے یہاں بھیجوا دیں جن سے ہم وقتاً فوقتاً گفتگو کرتے رہیں اس پر شد

Page 225

۲۲۵ ند میں نے مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.ایسے اور مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کو بطورنمائندہ بھیجوا دیا تھا، کسی قدریہ نہیں تھی بھی تھی کہ صدر صاحب خود ریاست کی سرحد پر آکر اپنے نمائندگان سے مل گئے ہیں اور تمام حالات معلوم کر گئے ہیں.ریہ درست ہے میں ہزارے کی طرف جا کر کشمیر کے نمائندوں سے ملا تھا.اور اُن سے میں نے تمام حالات معلوم کئے تھے ) صدر صاحب کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ مساجد غیرہ کے اعلان میں صدر صاحب اور ہماری منشاء کے خلاف ہمیں اعلان کو جلد شائع کرنے کے لیے کس طرح سے رائے دی گئی.جو مجبوری کی حد تک پہنچ گئی.رہیں نے انہیں کہا تھا کہ تم نے اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے.اس پر وہ لکھتے ہیں کہ ہمیں کشمیر کے نمائندوں نے مجبور کیا تھا کہ ہم اس قسم کا اعلان کر دیں ، آپ نے صدر صاحب کے خیال کو اس شکل میں رکھا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم معاملہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں اور سنجیدگی کے ساتھ کسی مفید نتیجہ پر پہنچنے کی غرض سے گفتگو کرنا ہمارا مقصد نہیں.یہ محض غلط فہمی ہے.افسوس ہے کہ صد رصاحب نے ہماری مصروفیت اور مشکلات کا اندازہ نہیں کیا ، لیکن ہر بات کا علاج وقت اور میعاد ہے.صدر صاحب عنقریب یقین کرنے پر تیار ہو جاویں گے کہ ہم معاملہ کولمبا کرنا چاہتے ہیں یا مختصر اور کہاں تک ان کے مشورہ صاحب کے مطابق عمل کر رہے ہیں.آپ کے لکھنے کے مطابق صدر صاحب کی خواہش محض مسلمانان کشمیر کو حقوق دلوانے کی ہے جس میں حکومت پورے طور سے خود مصروف ہے.آپ کا صادق جیون لعل پرسنل اسسٹنٹ ان خطوط سے معلوم ہو سکتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا بھی میری تحریک پر کام کر رہی تھی اور کشمیر گورنمنٹ کے وزیر اعظم بھی میرے مشورہ سے ہی کام کرتے تھے.مگر کچھ عرصہ کے بعد جب کامیابی حاصل ہوئی تو انہوں نے احرار کو اپنے ساتھ ملا کر اس معاملہ کو خراب کرنا شروع کر دیا.میں نے پھر زور سے مقابلہ شروع کر دیا.آخر سر ہری کشن کول نے مجبور ہو کہ مجھے لکھا کہ آپ اپنے چیف سیکرٹری کو بھیج دیں.

Page 226

۲۲۶ مہاراجہ صاحب کہتے ہیں میں خود اُن سے بات کر کے ان معاملات کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں.میں نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو بھیج دیا مگر ساتھ ہی انہیں کہ دیا کہ پرائم منسٹر کی کوئی چال کے ہو.تیسرے دن اُن کا تارپہنچا کہ میں یہاں تین دن سے بیٹھا ہوا ہوں مگر مہاراجہ صاحب ملاقات میں لیت و لعل کر رہے ہیں.میں نے کہا آپ آن پر حجت تمام کر کے واپس آجائیں.چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ پھر ملاقات کی کوشش کی مگر جب انہیں کامیابی نہ ہوئی تو وہ میری ہدایت کے ماتحت واپس آگئے.چوہدری صاحب کے واپس آنے کے بعد سر ہری کشن کول کا خط آیا کہ مہا راجہ صاحب ملنا تو چاہتے تھے مگر وہ کہتے تھے کہ مرزا صاحب خود آتے تو میں اُن سے ملاقات بھی کرتا.ان کے سیکر ٹری سے ملاقات کرنے میں تو میری ہتک ہے.اتفاق کی بات ہے.اس کے چند دن بعد ہی میں لاہور گیا.تو سر ہری کشن کول مجھ سے ملنے کے لیے آتے.میں نے اُن سے کہا کہ مہاراجہ صحاب خود آتے تو میں اُن سے ملاقات بھی کرتا.آپ تو اُن کے سیکرٹری ہیں.اور آپ سے ملنے میں میری ہتک ہے.میرا یہ جواب سن کر وہ سخت گھبرایا.میں نے کہا پہلے تو میں تم سے ملتا رہا ہوں کیونکہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ سیکرٹری کے ساتھ ملنے سے انسان کی ہتک ہو جاتی ہے.لیکن اب مجھے معلوم ہوا کہ اگر سیکرٹری سے ملاقات کی جائے تو ہتک ہو جاتی ہے.اس لیے میں اب تم سے نہیں مل سکتا.گویا خُدا نے فوری طور پر مجھے اُن سے بدلہ لینے کا موقع عطا فرما دیا.غرض کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کا تمام کام میرے ذریعہ سے ہوا.اور اس طرح اللہ تعا نے مجھے اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا بنایا کہ مصلح موعود اسیروں کا رستگار ہوگا یا الموعود صفحه ۱۵۶ تا ۱۷۴ ) آل انڈیا کمی کیٹی کا مختصر تذکرہ حضور کے الفاظ میں ہم پڑھ چکے ہیں.درحقیقت کیٹی اس وقت کے مسلمانوں کے دل کی آواز اور ان کے دبے ہوئے جذبات کے اظہار کا ایک بہت ہی کامیاب ذریعہ بن گئی.قارئین کرام کی دلچسپی کے لیے کشمیر کمیٹی کے قیام کا پس منظر اور اس کیٹی کے ذریعہ ہونے والی اصلاح احوال کا کسی قدر ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.یہاں یہ تصریح بھی بے محل نہ ہو گی که کشمیری مسلمانوں کی خدمت کے لیے حضور نے اس کمیٹی کے قیام سے قبل اور اس کے بعد بھی اپنے آپ کو وقف رکھا.اس غرض سے عوام کی بیداری اور حکومت تک نہ صرف ہندوستان بلکہ انگلینڈ میں بھی موثر احتجاج کا نہایت عمدہ اہتمام فرمایا.

Page 227

۲۲۷ آپ نے کشمیری مسلمانوں کی حوصلہ افزائی اور عام بیداری کے لیے متعدد پریس بیان جاری فرماتے ان میں سے دو ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں.میں متواتر کئی سال سے کشمیر میں مسلمانوں کی جو حالت ہو رہی ہے اس کا مطالعہ کر رہا ہوں اور لیے مطالعہ اور غور کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوا ہوں کہ جب تک مسلمان ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے تیار نہ ہوں گے.یہ زرخیز خطہ جو نہ صرف زمین کے لحاظ سے زرخیز ہے بلکہ دماغی قابلیتوں کے لحاظ سے بھی حیرت انگیز ہے کبھی بھی مسلمانوں کے لیے فائدہ بخش تو کیا آرام دہ ثابت نہیں ہو سکتا.زمینداروں میں بیداری کی روح میں 1914ء میں جب کشمیر گیا تو مجھے یہ بات معلوم کر کے نہایت ہی خوشی ہوئی کہ مسلمانوں میں ایک عام بیداری پائی جاتی تھی حتی کہ کشمیری زمیندار جو کہ لیے عرصہ سے فلموں کا تختہ مشق ہونے کی وجہ سے اپنی خود داری کی روح بھی کھو چکے تھے.ان میں بھی زندگی کی روح داخل ہوتی ہوئی معلوم دیتی تھی.اتفاق حسنہ سے زمینداروں کی طرف سے جو جدوجہد کی جارہی تھی.اس کے لیڈر ایک احمدی زمیندار تھے.جناب خلیفہ عبدالرحیم ، ناقل ) زمینداروں کی حالت کے درست کرنے کے لیے جو کچھ وہ کوشش کر رہے تھے.اس کی وجہ سے ریاست انہیں طرح طرح سے دق کر رہی تھی.وہ ایک نہایت ہی شریف آدمی ہیں.معززہ زمیندار ہیں.اچھے تاجر ہیں.اور ان کا خاندان ہمیشہ سے ہی اپنے علاقہ میں معزز چلا آیا ہے.اور وہ بھی اپنی گذشتہ عمر میں نہایت ہی معزز اور شریف سمجھے جاتے رہے ہیں، لیکن محض کسانوں کی حمایت کی وجہ سے ان کا نام بدمعاشوں میں لکھنے کی کوشش کی جارہی تھی.جب مجھے یہ حالات معلوم ہوئے تو میں نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم.اے کو اس بارہ میں انسپکٹر جنرل آف پولیس ریاست جموں و کشمیر سے ملاقات کے لیے بھیجا گفتگو کے بعد انسیٹر جنرل آف پولیس نے یہ وعدہ کیا کہ وہ جائز کوشش بے شک کریں، لیکن زمینداروں کو اس طرح نہ ان سائیں جس سے شورش پیدا ہو اور اس کے مقابلہ میں وہ بھی یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ان کو جو نا جائز تکلیفیں پولیس کی طرف سے پہنچ رہی ہیں.وہ اُن کا ازالہ کر دیں گے اور اسی طرح یہ یقین دلایا کہ جو جائز تکالیف کسانوں کو ہیں.ان کا ازالہ کرنے

Page 228

ند ۲۲۸ کے لیے ریاست تیار ہے.ہم نے یہ یقین کرتے ہوئے کہ یہ وعدے اپنے اندر کوئی حقیقت رکھتے ہیں.ان صاحب کو جو اس وقت کسانوں کی رہنمائی کر رہے تھے یہ قین دلایا کہ ان کی جائز شکایات پر ریاست غور کرے گی.اس لیے وہ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے شورش اور فتنہ کا خوف ہو، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ زمینداروں کی جائز شکایات کا دور ہونا تو الگ رہا.برا بر دو سال سے ان صاحب کے خلاف ریاست کے حکام کوششیں کر رہے ہیں اور باوجود مقامی حکام کے لکھنے کے کہ وہ صاحب نہایت ہی شریف انسان ہیں ان کا نام بدمعاشوں میں درج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.یہ معاملہ مسٹر ویک فیلڈ کے سامنے بھی لایا جا چکا ہے ، لیکن افسوس ہے.وہ بھی اس طرف توجہ نہیں کر سکے.مسٹر ویکفیلڈ کا تازہ وعدہ اس تجربہ کو مد نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ وہ تازہ خبر جو انقلاب " مورخہ ۱۲ جون کے پرچہ میں شائع ہوتی ہے کہ مسٹر ویکفیلڈ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی تکالیف کو مہاراجہ صاحب کے سامنے پیش کرینگے اور ان کے دُور کرنے کی کوشش کریں گے.اس پر زیادہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا.مسٹر ویکفیلڈ کی شخصیت وہ لوگ جن کو مسٹر ویکفیلڈ سے ملنے کا موقعہ حاصل ہوا ہے.یقین دلاتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں نہایت اچھے آدمی ہیں اور جہاں تک ہو سکے.مسلمانوں کی خیر خواہی کرتے ہیں ، لیکن مسٹر ویک فیلڈ ہر حال ایک ہندو ریاست کے ملازم ہیں اور ریاست بھی وہ جس میں آج سے ساٹھ ستر سال پہلے یہ سکیم بنائی گئی تھی کہ کس طرح مسلمانوں کو شدھ کر کے بند و بنا لیا جائے.ہم سب کو اس بات کی امید تھی کہ سر ہری سنگھ بہا در مہاراجہ کشمیر کے گدی نشین ہونے پر ریاست کی حالت اچھی ہو جائے گی ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے بدتر ہو گئی ہے.نہ اس لیے کہ مہا راجہ ہری سنگھ بہادر اپنے پیشرو سے زیادہ متعصب ہیں.کیونکہ واقعہ اس کے خلاف ہے بلکہ اس وجہ سے کہ ریاست میں ایک ایسا عنصر اس وقت غالب ہو رہا ہے.جو نہایت ہی متعصب ہے اور آرمی راج کے قائم کرنے کے خیالی پلاؤ پکا رہا ہے.یہ عنصر چونکہ مہاراجہ صاحب بہادر کے

Page 229

۲۲۹ گرد و پیش رہتا ہے.اور ریاست کی بدقسمتی سے اس وقت ریاست کے سیاہ وسفید کا مالک بن رہا ہے.اس لیے مہا راجہ صاحب بہادر جموں و کشمیر بھی یا تو اس عنصر کے بڑھے ہوئے نفوذ سے خوف کھا کر یا بوجہ نا واقفیت کے ان کی پالیسی کونہ سمجھتے ہوتے کسی مخالف آواز کے سننے کے لیے تیار نہیں ہیں.ہر ایک شخص اس بات کو جانتا ہے کہ مسٹر ویکفیلڈ چند سال پہلے ریاست میں سب سے بڑی طاقت سمجھے جاتے تھے لیکن یہ امر بھی ہر شخص کو معلوم ہے کہ مسٹر ویکفیلڈ کی اب وہ حالت نہیں ہے.کشمیر میں مسلمانوں کو حقوق دینے کے متعلق جو تجاویز تھیں ان کا جو حشر ہوا.اس سے مسٹر ویکفیلڈ کی طاقت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.پس ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوتے میرے نزدیک مسٹر ویکفیلڈ کے وعدہ پر اعتبار کرتے ہوئے خواہ ہم ان کی نیت کو کتنا ہی صحیح سمجھیں نہیں اپنی کوششوں کو ترک نہیں کرنا چاہیئے.تمام مسلمانوں کا فرض کشمیر ایک ایسا ملک ہے.جسے صنعت و حرفت کا مرکز بنایا جا سکتا ہے اس ملک کے مسلمانوں کو ترقی دیگر ہم اپنی صنعتی اور حرفتی پستی کو دور کر سکتے ہیں.اس کی آب و ہوا ان شدید تغیرات سے محفوظ ہونے کی وجہ سے جو پنجاب میں پائے جاتے ہیں.بارہ مہینے کام کے قابل ہے.ہندوستان کی انڈسٹریل ترقی میں اس کا موسم بہت حد تک روک ہے، لیکن کشمیر اس روک سے آزاد ہے.اور پھر وہ ایک وسیع میدان ہے جس میں عظیم الشان کارخانوں کے قائم کرنے کی پوری گنجائش ہے پس تمام مسلمانوں کا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ وہ اس ملک کو اس تباہی سے بچانے کی کوشش کریں جس کے سامان بعض لوگ پوری طاقت سے پیدا کر رہے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان اخبارات جیسے "انقلاب" مسلم اوٹ لک" "سیاست اور سن رائز" اور اسی طرح نیا اخبار "کشمیری مسلمان " جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں بہت کچھ حصہ لے رہے ہیں لیکن خالی اخبارات کی کوششیں ایسے معاملات کو پوری طرح کامیاب نہیں کر سکتیں.ضرورت ہے کہ ریاست کشمیر کو اور گورنمنٹ کو پوری طرح اس بات کا یقین دلا دیا جائے کہ اس معاملہ میں سارے کے سارے مسلمان خواہ وہ بڑے ہوں یا کہ چھوٹے ہوں کشمیر کے سلمانوں کی تائید اور حمایت پر ہیں.اور ان مظالم کو جو

Page 230

۲۳۰ وہاں کے مسلمانوں پر جائز رکھے جاتے ہیں کسی صورت میں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں.ریاست پر اور گورنمنٹ پر زور ڈالنے کے سلمان مفقود نہیں ہیں.ہم دونوں طرف زور ڈال سکتے ہیں.ضرورت صرف متحدہ کوشش اور عملی جدوجہد کی ہے.مسلمانوں کے مطالبات میں نے ان مطالبات کو جو مسلمانان کشمیر کی طرف سے مسٹرویکفیلڈ کے پیش ہوتے ہیں.دیکھا ہے.میرے نزدیک وہ نہایت ہی معقول اور قلیل ترین مطالبات ہیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں.ان میں اس مطالبہ کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے سرہ کشمیر کے علاقہ میں انجمنیں قائم کرنے پر جو روک پیدا کی جاتی ہے اس کو بھی دور کیا جائے.جہاں تک مجھے علم ہے یہی پونچھ کے علاقہ میں بھی روک ہوتی ہے اور اجازت کی ضرورت ہوتی ہے یعنی جس طرح تحریر و تقریر کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا گیا ہے اسی طرح اجتماع کی مکمل آزادی کا بھی مطالبہ کیا جائے.اور میرے نزدیک علاقہ کشمیر کے مسلمانوں کے زمیندارہ حقوق جو ہیں ان پر نظر ثانی کا مطالبہ بھی ہونا چاہیئے.کشمیر کے مسلمانوں کا بیشتر حصہ زمیندار ہے، لیکن وہ لوگ ایسے قیود میں جکڑے ہوئے ہیں کہ سر اٹھانا ان کے لیے ناممکن ہے.عام طور پر کشمیر کے علاقہ میں کسی نہ کسی بڑے زمیندار کے قبضہ میں جائیدادیں ہوتی ہیں.اور وہ لوگ انہیں تنگ کرتے رہتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دو چار مسلمان زمیندار بھی ہیں، لیکن دو چار مسلمانوں کی وجہ سے کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو غلام نہیں بنے رہنے دینا چاہیئے.مسٹر ویکفیلڈ کے وعدوں کے نیچے خطرہ کا احتمال جہاں تک میں سمجھتا ہوں.اگر ہمیں کشمیر و جموں کے مسلمانوں کی آزادی کا سوال حل کرنا مطلوب ہے تو اس کا وقت اس سے بہتر اور نہیں ہو سکتا.ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے نتیجہ میں قدرتی طور پر انگلستان اپنے قدم مضبوط کرنے کیلئے ریاستوں کو آئندہ بہت زیادہ آزادی دینے پر آمادہ ہے.اگر اس وقت کے آنے سے پہلے جموں اور کشمیر کے مسلمان آزاد نہ ہو گئے تو وہ بیرونی دباؤ جو جمہوں اور کشمیر ریاست پر آج ڈال سکتے میں کل نہیں ڈال سکیں گے.پس میرے نزدیک اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک کانفرنس

Page 231

۲۳۱ جلد سے جلد لاہور یا سیالکوٹ یا راولپنڈی میں منعقد کی جائے.اس کا نفرنس میں جموں اور کشمیر سے بھی نمائندے بلوائے جائیں اور پنجاب اور اگر ہو سکے تو ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے مسلمان لیڈروںکو بھی لگایا جاتے.اس کا نفرنس میں نہیں پورے طور پر جموں اور کشمیر کے نمائندوں سے حالات سنگر آئندہ کے لیے ایک طریق عمل تجویز کر لینا چاہیئے.اور پھر ایک طرف حکومت ہند پر زور ڈالنا چاہیئے کہ وہ کشمیر کی ریاست کو مجبور کرے کہ مسلمانوں کو حقوق دیتے جائیں.دوسری طرف مہاراجہ صاحب کشمیر وجموں کے سامنے پورے طور پر معاملہ کو کھول کر رکھ دینے کی کوشش کی جائے تاکہ جس حد تک ان کو غلط فہمی میں رکھا گیا ہے وہ غلط فہمی دور ہو جائے اور اگر ان دونوں کوششوں سے کوئی نتیجہ نہ نکلے تو پھر ایسی تدابیر اختیار کی جاتیں کہ جن کے نتیجہ میں مسلمانان جموں و کشمیر وہ آزادی حاصل کر سکیں جو دوسرے علاقہ کے لوگوں کو حاصل ہے چونکہ ریاست ہندو ہے.ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ ہم اپنے حقوق میں سے کچھ حصہ رتیں کے خاندان کے لیے چھوڑ دیں، لیکن یہ سی صورت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ ۹۵ فیصدی آبادی کو پانچ فیصدی بلکہ اس سے بھی کم حق دے کر خاموش کرا دیا جائے میرے خیال میں کشمیری کا نفرنس نے جو کچھ کام اس وقت تک کیا ہے.وہ قابل قدر ہے لیکن یہ سوال اس قسم کا نہیں کہ جس کو باقی مسلمان کشمیریوں کا سوال کہہ کر چھوڑ دیں.مسلمانان جموں و کشمیر کو اگر ان کے حق سے محروم رکھا جائے تو اس کا اثر صرف کشمیریوں پر ہی نہیں پڑے گا.بلکہ سارے مسلمانوں پر پڑے گا.اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے مسلمان تماشائی کے طور پر اس جنگ کو دیکھتے رہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس کا نفرنس کی دعوت کشمیری کا نفرنس کی طرف سے جاری ہونی چاہیئے ، لیکن دعوت صرف کشمیر لوں تک ہی محدود نہیں رہنی چاہیتے بلکہ تمام مسلمانوں کو جو کوئی بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں.اس مجلس میں شریک ہونے کی دعوت دینی چاہیئے.اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر متحدہ کوشش کی جائے تو اس سوال کو جلد سے جلد حل نہ کیا جا سکے (۱۲ جون له ) ) الفضل ۶ ارجون ۱۹۳۱ة ) او مجھے جو اطلاعات کشمیر سے آرہی ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں سینکڑوں آدمی اس امر کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں کہ اپنی جان اور مال کو قربان کر کے

Page 232

۲۳۲ مسلمانوں کو اس ذلت سے بچائیں.جس میں وہ اس وقت مبتلا ہیں اور کشمیر والوں نے ایک انجین سات آدمیوں کی ایسی بناتی ہے.جس کے ہاتھ میں سب کا ہم دے دیا گیا ہے ہو سکتا ہے کہ انجمن اپنے میں سے کسی کو یا اپنے حلقہ سے باہر سے کسی شخص کو نمائندہ مقرر کر کے بھیج دے.اسی طرح گاؤں کے علاقوں سے بھی نمائندے بلوائے جا سکتے ہیں.اگر ریاست کشمیر کی طرف سے روک کا احتمال ہو تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان نمائندوں کا علم بھی کسی کو نہ دیا جائے لیکن اگر بفرض محال ہم کشمیر سے نمائندے طلب نہ بھی کر سکیں.تو پھر ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ایک دو معتبر آدمیوں کو اپنی طرف سے کہ بھجوا دیں.وہ بہت معروف نہ ہوں اور نہ ان کے نام شائع کئے جائیں کشمیر پہنچ کر وہ کشمیر کی انجمن اور دوسرے علاقوں کے سر بر آوردہ لوگوں سے مشورہ کرکے ان کے خیالات کو نوٹ کر کے لیے آئیں اور کانفرنس میں ان سے فائدہ اٹھا لیا جائے.کا نفرنس کی ہیئت ترکیبی بہر حال کشمیر کے حقیقی مطالبات کا علم ہونا بھی ضروری ہے.کیونکہ مختلف علاقوں میں مختلف طور سے ظلم ہو رہا ہے.اور ہم دور بیٹھے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے.لیکن باوجود اس کے میرا یہ مطلب نہیں کہ اگر کشمیر کے نمائندے نہ آسکیں.تو ہم کوئی کام ہی نہ تحریں.اگر ان سب تجاویز میں سے کسی پر بھی کم نہ ہو تو بھی ہمیں کانفرنس کرنی چاہیئے.جو باشندگان کشمیر کشمیر سے باہر ہیں.وہ کہ کشمیری نہیں ہیں.ہم ان کی مدد سے جس حد تک مکمل ہو سکے اپنی سکیم تیار کر سکتے ہیں.یہ ضروری ہے کہ یہ کانفرنس تمام فرقوں اور تمام اقوام کی نمائندہ کا نفرنس ہو.تاکہ متفقہ کوشش سے کشمیر کے سوال کو حل کیا جائے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس غرض کے لیے ان مسلمانوں کو بھی ضرور دعوت دینی چاہیتے جو کانگرس سے تعلق رکھتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ لوگ اس کام میں دوسرے مسلمانوں سے پیچھے رہیں گے.پبلسٹی کمیٹی کی ضرورت سیاست کے مضمون نگار صاحب نے ایک پلیسی کمیٹی کشمیر کے قیام کی بھی تجویز کی ہے.میں اس سے بالکل متفق ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس بارہ میں میں کشمیر کے دوستوں کو پہلے سے لکھ چکا ہوں کہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو کامیاب

Page 233

۲۳۳ کرنے کے لیے ہندوستان اور اس کے باہر بھی پرو پیگنڈا کی ضرورت ہوگی اور میں اس کام میں سے یہ حصہ اپنے ذمہ لیتا ہوں.کہ پارلیمنٹ کے ممبروں اور گورنمنٹ ہند کو کشمیر کے مسلمانوں کے حالات سے آگاہ کرتا رہ ہوں.اس کے جواب میں مجھے یہ اطلاع بھی آگئی ہے کہ وہاں بعض دوست ایسے حالات جمع کرنے میں مشغول ہیں جن سے ان مظالم کی نوعیت ظاہر ہو گی.جو اس وقت کشمیر کے مسلمانوں پر روا رکھے جاتے ہیں.اس فہرست کے آتے ہی میں ایک اشتہار میں ان کا مناسب حصہ درج کر کے پارلیمنٹ کے ممبروں میں اور دوسرے سر بر آوردہ لوگوں میں تقسیم کراؤں گا.اور گورنمنٹ ہند کو بھی توجہ دلاؤں گا.غلاموں کو آزاد کرو اس وقت غلامی کے خلاف سخت شور ہے اور کوئی وجہ نہیں کہکشمیر کی لاکھوں کی آبادی بلا قصور غلام بنا کر رکھی جائے.آخر غلام اسی کو کہتے ہیں.جسے رہ پیر کے بدلے میں فروخت کر دیا جائے.اور کیا یہ حق نہیں کہ کشمیر کو روپیہ کے بدلے میں حکومت ہند نے فروخت کر دیا تھا.پھر کیا ہمارا یہ مطالبہ درست نہیں کہ جبکہ انگریز عرب اور افریقہ کے غلاموں کے آزاد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ان غلاموں کو بھی آزاد کرائیں.جن کی غلامی کا موجب وہ خود ہوتے ہیں.میں سمجھتا ہوں.ہر ایک دیا نندار آدمی اس معاملہ میں ہمارے ساتھ ہو گا.بلکہ میرا تو خیال ہے کہ خود مہاراجہ سر ہری سنگھ صاحب بھی اگر ان کے سامنے سب حالات رکھے جائیں تو اس فلم کی جو ان کے نام سے کیا جا رہا ہے.اجازت نہ دیں گے.اور مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق دیکر اس فیڈریشن کے اصل کو مضبوط کریں گے جس کی وہ تائید کر رہے ہیں ور نہ کشمیر جیسے غلام ملک اور آزاد ہندوستان میں فیڈریشن کے قیام میں مہا راجہ صاب خواہ کسقدر عقلمند ہوں....یہ امید نہیں کر سکتے کہ ہم باشندگان ہندوستان اس امر کو پسند کریں گے کہ مہاراجہ صاحب خود ہی چار پانچ میر اپنی طرف سے مقرر کر کے بھجوا دیں.اور ہم لوگ ان کی رائے کو اہل کشمیر کی رائے قرار دیکر اس کو وہی عظمت دیں جو کئی لاکھ آبادی والے ملک کے نمائندوں کی رائے کو حاصل ہونا چاہیئے " الفضل ۲ جولائی اسفله )

Page 234

صرف باتوں مشوروں اور تجاویز میں وقت ضائع کرنے کی بجائے آپ نے حکومت تک مسلمانوں کی حالت زار اور ڈوگرہ حکومت کی زیادتیوں اور مظالم کو پہنچانے کے لیے وائسرائے کے نام مندرجہ " ذیل مفصل تار دیا جو الفضل ۱۸ جولائی اساتہ کے پہلے صفحہ پر شائع ہوا.یور اکیسی لنسی کشمیر میں مسلمانوں کی خستہ حالی سے ناواقف نہیں.تازہ ترین اطلاعات سے پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں پر نہایت ہی خلاف انسانیت اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب شروع ہو گیا ہے.۱۳ جولائی کو سری نگر میں جو کچھ ہوا.وہ فی الواقعہ تاسف انگیز ہے ایسوسی ایٹڈ پریس کی اطلاع کے مطابق نو مسلمان ہلاک اور متعدد مجروح ہوتے ہیں لیکن پرائیویٹ اطلاعات سے پایا جاتا ہے کہ سینکڑوں مسلمان ہلاک اور مجروح ہوتے ہیں.ریاست سے آنے والی تمام خبروں پر سخت سنسر ہے.یہی وجہ ہے کہ ہمیں جو تار موصول ہوا.وہ سیالکوٹ سے دیا گیا ہے.ہز ہائنس مہاراجہ کشمیر کے تازہ اعلان کے معا بعد جس میں انہوں نے اپنی مسلم رعایا کو کئی طرح کی دھمکیاں دی ہیں اس قسم کی واردات کا ہونا صاف بتاتا ہے کہ یا تو غریب مسلمانوں پر بلا وجہ حملہ کر دیا گیا ہے اور یا ایک نہایت ہی معمولی سے بہانہ کی آڑ لے کر ان بے چاروں کو سفاکی کے ساتھ ذبح کر دیا گیا ہے.کشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے، لیکن ان کے حقوق بے دردی سے پامال کئے جا رہے ہیں.اس وقت وہاں مسلم گریجوایٹوں کی تعداد بہت کافی ہے.مگر انہیں کوئی ملازمت نہیں دی جاتی.یا اگر بہت مہربانی ہو تو کسی ادنی سے کام پر لگا دیا جاتا ہے.اور جب ایک ملک کی ۹۵ فیصدی آبادی کو اس کے جائز حقوق سے صریح نا انصافی کر کے محروم رکھا جائے.اس کے دل میں ناراضگی کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے ، لیکن نہایت ہی افسوس ہے کہ ریاست کے ذمہ دار حکام بجائے اس کے کہ مسلمانوں کے جائز مطالبات منظور کریں.ان کی خفگی کو رائفلوں اور بک شاٹ سے دُور کرنا چاہتے ہیں.جموں کے حکمرانوں نے کشمیر کو فتح نہیں کیا تھا بلکہ انگریزوں نے اسے ان کے ہا تھے ایک حقیر سی رقم کے بدلے فروخت کر دیا تھا.لہذا وہاں جو کچھ ہو رہا ہے.حکومت برطانیہ بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی.مزید برآں

Page 235

۲۳۵ ریاست آخر کار برطانیہ کے ماتحت ہے.اور موجودہ حکمران جو محض ایک چیف تھا.ریاست اور اختیارات کے لیے حکومت برطانیہ کا ممنون احسان ہے.اس لیے حکومت برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ کشمیر کے لیے بے میں مسلمانوں کی شکایات کے ازالہ کے لیے جو کچھ کر سکتی ہے کرنے سے دریغ نہ کرے.کشمیر کی اپنی علیحدہ زبان ہے اور اس کا تمدن اور مذہب وغیرہ جیبوں سے بالکل جدا گانہ ہے.اس لیے ڈوگرا وزراء سے کشمیری مسلمانوں کے حق میں کسی بہتری کی توقع نہیں ہو سکتی.اور انہیں اس وقت تک امن حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان کی اپنی وزارت کے ذریعہ مہاراجہ جموں ان پر حکومت نہ کریں.لہذا انسانیت کے نام پر میں یورا یکیسی نسی سے پُر زور اپیل کرتا ہوں کہ آپ کشمیر کے لاکھوں غریب مسلمانوں کو جنہیں برٹش گورنمنٹ نے چند سکوں کے عوض غلام بنا دیا.ان مظالم سے بچائیں تا کہ ترقی اور آزاد خیالی کے موجودہ زمانہ کے چہرہ سے یہ سیاہ داغ دور ہو سکے.کشمیر بے شک ایک ریاست ہے.مگر اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ نا انصافی سے پنجاب سے علیحدہ کیا گیا ہے.اور دوسرے صوبہ جات کے مسلمانوں کی طرح پنجاب کے مسلمان کشمیری مسلمانوں پر ان مظالم کو کسی صورت میں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے.اگر حکومت ہند اس میں مداخلت نہ کرے گی تو مجھے خطرہ ہے مسلمان اس انتہائی ظلم و ستم کو برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوئے گول میز کانفرنس میں شمولیت سے انکار نہ کر دیں اور انتہائی مایوسی کے عالم میں کانگریسی رو میں نہ بعد الفضل ۱۸ جولائی اولة ) ایک زمانہ قبل 1911ء میں حضور کشمیر تشریف لے گئے.اہالیان کشمیر پر ظلم وستم کے واقعات آپ کے ذہن میں تھے.اس سفر میں بھی آپ نے وہاں کے حالات کا بنظر غائر مشاہدہ فرمایا اور ایک حاذق طبیب کی طرح مرض کی وجوہ و اسباب معلوم کر کے اس کے سدباب کے لیے جو علاج تجویز فرمایا جائیں.وہ مختصراً یہ تھا کہ " باہم اتفاق و اتحاد سے رہو" " تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دو " " اقتصادی حالت کی بہتری کے لیے کوشش کرو"

Page 236

بر ۲۳۶ اسی سلسلہ میں حضور نے فرمایا :- اگر کامیابی یا ترقی کرنا چاہتے ہو تو جہاں خُدا کا حکم آوے اسے کبھی حقیر نہ سمجھو.رسم و رواج کو جب تک خدا کے لیے چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو گے تب تک نمازیں روزے اور دوسرے اعمال آپ کو مسلمان نہیں بنا سکتے.جہاں نفس فرمانبرداری سے انکار کرتا ہے اسی موقعہ پر حقیقی فرمانبرداری کرنے کا نام اسلام ہے.اگر کوئی ایسا فرمانبردار نہیں ہے اور رسم و رواج کو مقدم کرتا ہے تو اس کا اسلام اسلام نہیں ہے.الفضل يحكم ستمبر الله ) یہی وہ بنیادی امور ہیں جن پرعمل کرنے سے کشمیر اورمسلمانان کشمیر کی حالت میں ایک انقلاب پیدا ہوا.برصغیر میں مظلومین کشمیر کی داد رسی کے لیے کوئی معین لائحہ عمل اختیار کرنے کے لیے حضور نے ایک سرکولر پنجاب اور دوسرے صوبوں کے سر بر آوردہ مسلمانوں کو بھجوایا اور بذریعہ تاربھی تحریک فرمائی کہ ۲۵ جولائی.کو شملہ میں جمع ہو کر مظلوم کشمیری مسلمانوں کی امداد کے لیے ہر مکن تدبیر بروئے کار لانے کے لیے پروگرام تجویز کیا جائے مسلم اکابرین کے مشورہ و فیصلہ سے بھی پہلے فوری طور پر آپ نے مندرجہ ذیل اہم اور دور رس نتائج پیدا کرنے والے اقدامات کئے.D احمد میشن لندن کو اس سلسلہ میں موثر احتجاج کرنے کی ہدایت فرمائی.D روزنامہ الفضل کو مظلوم کشمیر یوں کے حق میں لکھنے کا ارشاد فرمایا.۱۸ جولائی اللہ کو قادیان میں زبر دست احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا.جس میں ڈوگرہ حکومت کے مظالم بیان کرتے ہوئے متعدد احتجاجی قرار دادیں پاس کی گئیں.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام : آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام کے متعلق چوہدری ظہور احمد صاحب جنہیں مسلمانان کشمیر کی خدمت کا مختلف حیثیتوں میں ایک لمبے عرصہ تک موقعہ ملا.لکھتے ہیں :- " ۲۵ جولائی اللہ کو نماز ظہر کے بعد FAIR VIEW (فیرولو) (نواب سر ذوالفقار علی کی کوٹھی میں اجلاس شروع ہوا جس میں امام جماعت احمدیہ.ڈاکٹر سر محمد اقبال - نواب سر ذو الفقار علی خان - خواجہ حسن نظامی - نواب گنج پورہ سید حسن شاہ خان بها در شیخ رحیم بخش - مولانا اسماعیل غزنوی - مولانا عبد الرحیم در د- مولانا نور الحق سید حبیب شاہ اور نمائندگان ریاست د سرحد شامل ہوتے.مولوی عبدالرحیم

Page 237

۲۳۷ ایم اے.ایل ایل بی نے صوبہ کشمیر کی.جناب اللہ رکھا ساغر نے صوبہ جموں کی صاحبزادہ سر عبد القیوم کے بھائی صاحب - صاحبزادہ عبداللطیف نے صوبہ سرحد کی نمائندگی کی.دراقم الحروف نے اس کانفرنس کی روئیداد کی اخبارات میں رپورٹنگ کا فریضہ ادا کیا.---- فیصلہ ہوا کہ ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی جائے تمام شہر کا.مجلس نے.....اقرار کیا کہ وہ بھی اس کمیٹی میں شمولیت اختیار کریں گے بلکہ وہ اسی وقت ممبر بھی بن گئے.اب مرحلہ اس کمیٹی کے مدار المہام کے انتخاب کا تھا.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امام جماعت احمدیہ کے دائیں ہاتھ ایک ہی صوفہ پرڈاکٹر سر محمد اقبال بیٹھے تھے اور دائیں طرف دوسرے صوفہ پر نواب سر ذوالفقار علی تھے.اور امام جماعت احمدیہ کے بائیں طرف پہلے خواجہ حسن نظامی اور ان کے بعد نواب صاحب آف کنج پورہ تھے....ڈاکٹر سر محمد اقبال نے تجویز کیا کہ اس کمیٹی کے صدر امام جماعت احمدیہ ہوں.ان کے وسائل مخلص اور کام کرنے والے کا رکن.یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ان سے بہتر ہمارے پاس کوئی آدمی نہیں.خواجہ حسن نظامی صاحب نے فوراً اس کی تائید کی اور سب طرف سے درست ہے، درست ہے" کی آوازیں آئیں.اس پر امام جماعت احمدیہ نے فرمایا که مجھے اس تجویز سے ہرگز اتفاق نہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میری جماعت ہر رنگ میں کمیٹی کے ساتھ تعاون کرے گی ، لیکن مجھے صدر منتخب نہ کیا جائے " ڈاکٹر سر محمد اقبال نے امام جماعت احمدیہ کو مخاطب کر کے پنجابی میں فرمایا : حضرت صاحب جب تک آپ اس کام کو اپنے ہاتھ میں صدر کی حیثیت سے نہ لیں گے.یہ کام نہیں ہو گا.ان کے بعد خواجہ حسن نظامی صاحب اور دوسرے اراکین نے بھی بڑے زور سے تائید کی اور جب چاروں طرف سے زور پڑا تو کرہا نہ کہ طوعاً امام جماعت احمدیہ نے اس عہدہ کو قبول کیا اور سب حاضرین کی رضا مندی سے مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم.اسے

Page 238

کو کمیٹی کا سیکرٹری مقرر کیا گیا." کشمیر کی کہانی صفحه ۴ ۵ تا ۵۶) کشمیر کمیٹی کی قیادت قبول کرنے کے متعلق ڈاکٹر علامہ اقبال کا مندرجہ ذیل بیان بہت دلچسپ حقیقت افروز ہے.اور اس سے حضور کی عظمت کردار اور خصوصی مقام بھی نمایاں ہوتا ہے." سیتھی بات تو یہ ہے کہ جب کشمیر میں تحریک آزادی شروع ہوئی اور ہم نے دیکھا کہ بے چارے کشمیریوں کو مہاراجہ تباہ کر کے رکھ دے گا تو مجھے اور دیگر مسلمان لیڈروں کو خیال پیدا ہوا کہ کشمیریوں کی کیسے مدد کی جاتے.ہم نے سوچا اگر ہم نے جیسے وغیرہ کئے اور کارکنوں اور سرمایہ کے لیے تحریک کی تو اول تو دیانتدار کا رکن نہ ملیں گے اور سرمایہ جمع نہیں ہوگا اور جو سرمایہ جمع ہو گا وہ بے ایمان کا رکن کھا جائیں گے.اور اس دوران میں مہاراجہ تحریک کو کچل کر رکھ دیگا.کام فوراً شروع ہو جانا چاہیئے.ہم نے سوچا کہ ہندوستان میں صرف ایک ہی شخصیت ہے کہ اگر وہ اس تحریک کی قیادت منظور کرے تو دیانتدار کا رکن بھی مہیا کرے گی.سرمایہ بھی جمع کرے گی.وکلا - وغیرہ بھی خود دیگی اخبارات میں ، ولایت میں اور یہاں بھی پراپیگنڈہ وہ خود کرلے گی.اور وائسرائے اس کے سیکرٹریوں سے ملاقات بھی خود کرے گی.وہ شخصیت مرزا محمود احمد ہیں؟" ہفت روزہ لاہور ۲۶ مئی ۱۹۶۵ ( اور اور اس بیان کی تائید ان کے اس خط سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے ہر ستمبر نستہ کو حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری کے نام لکھا : رو چونکہ آپ کی جماعت منظم ہے اور نیز بہت سے مستعد آدمی اس جماعت میں موجود ہیں.اس واسطے آپ بہت مفید کام مسلمانوں کے لیے انجام دے سکیں گے؟ اس غلط کا عکس تاریخ احمدیت صفحہ ۴۶۵ جلد ۶ میں شائع ہو چکا ہے.پہلا یوم کشمیر ، حضرت مصلح موعود نے حیرت انگیز تیزی ومستعدی کے ساتھ مسلمانان کشمیر کی خدمت کا کام شروع فرما یاور کشمیر کمیٹی کے قیام کے ابتدائی چند دنوں میں ہی ہندوستان بھر میں ایک جوش و ولولہ پیدا کر دیا اور ۱۴ اگست دست کو یوم کشمیر منانے کی اپیل کی.خود حضور نے اس غرض کے لیے ایک مضمون لکھا جس میں آپ نے فرمایا :

Page 239

۲۳۹ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کے تمیں لاکھ بھائی بے زبان جانوروں کی طرح قسم قسم کے ظلموں کا تختہ مشق بناتے جارہے ہیں.جن زمینوں پر وہ ہزاروں سال سے قابض تھے ان کو ریاست کشمیر اپنی ملکیت قرار دیگه نا قابل برداشت مالیه وصول کر رہی ہے.درخت کاٹنے.مکان بنانے.بغیر اجازت زمین فروخت کرنے کی اجازت نہیں.اگر کوئی شخص کشمیر میں مسلمان ہو جائے تو اس کی جائیداد ضبط کی جاتی ہے بلکہ کہا جاتا ہے اہل وعیالی بھی اس سے زبر دستی چھین کر الگ کر دیتے جاتے ہیں.ریاست جموں و کشمیر میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں.انجمن بنانے کی اجازت نہیں.اخبار نکالنے کی اجازت نہیں.غرض اپنی اصلاح اور فلموں پر شکایت کرنے کے سامان بھی اُن سے چھین لیے گئے ہیں.وہاں کے مسلمانوں کی حالت اس شعر کی مصدق ہے.نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی میر صیاد کی ہے " کا الفضل راگست ماه ) حضور کی اس تحریک پر ملک بھر میں زبر دست جلسے ہوئے.قادیان میں مردوں اور عورتوں کے الگ الگ جلسے ہوئے - ایک عظیم الشان جلوس نکالا گیا.چندہ جمع کیا گیا اور مظلومن کشمیر کی دادرسی کے لیے قرار دادیں پاس کی گئیں.متحدہ ہندوستان کے تمام مقامات پر بہت جوش و خروش سے یہ دن منایا گیا.چنانچہ دیوبند کے جلسہ میں مولوی محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم - مولوی حسین احمد صاحب مدنی اور مولوی میرک شاہ صاحب کی تقریریں ہوتیں.لاہور کا جلسہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کی صدارت میں ہوا جس میں ایک لاکھ مسلمان شریک ہوئے.کلکتہ کے جلسہ کی صدارت حسین شہید سہروردی صاحب نے کی بہتی ہیں شاندار جلوس نکالا گیا.جلسہ میں مولوی شوکت علی صاحب نے تقریر کی.سیالکوٹ میں ڈوگرہ حکومت کے مظالم کے خلاف پر جوش مظاہرہ کیا گیا.پٹنہ میں مولوی شفیع داؤدی صاحب کی صدارت میں جلسہ ہوا.علی گڑھ میں حاجی محمد صالح خان صاحب آنریری مجسٹریٹ - خالق دنیا ہال کراچی میں جلسہ کی صدارت حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون نے کی.اس طرح اخبار الفضل کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی - پونا.لکھنو - رنگون - مالابار گیا.حیدرآباد - بنگال - بنگلور- بہار- اٹر لیہ اور بیشمار قصبات

Page 240

۲۴۰ میں زبر دست جلسے ہوئے.جن سے مسئلہ کشمیر کی اہمیت اور مظلومین کشمیر سے ہمدردی ملک کے گوشہ گوشہ میں پہنچ گئی.یہ ایسی کامیابی تھی جو ڈوگرہ حکومت بلکہ انگریزی حکومت کے وہم وگمان میں بھی نہ آ سکتی تھی.اندرون کشمیر بھی اس دن اس طرح جلسے ہوتے کہ کوئی جگہ اور کوئی شخص پوری وادی اور جمہوں میں ایسا نہ رہا جو ڈوگرہ حکومت کے مظالم سے پوری طرح واقف ہوکر سراپا احتجاج نہ بن گیا ہو جوں کے ملبوس پر جونے اور پرامن شہریوں پر شتمل تھا پولیس نے گولی چلائی جس کے نتیجہ میںایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے.حضور نے نہایت پر حکمت طریق پر اس حکم کی تصاویر حاصل کر کے ہندوستان اور انگلستان کے اخبارات میں اس ظلم کی وسیع پیمانہ پر اشاعت کروائی.وائسرائے ہند کو بذریعہ تار متنبہ کیا گیا کہ وہ حالات کے قابو سے باہر ہو جانے سے قبل فوری طور پر ان مظالم کے تدارک کی موثر کوشش کریں.اس کے ساتھ ہی حضور نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احمدی مشنوں کو ہدایت کی کہ وہ ڈوگرہ حکومت کے مظالم اور مسلمانوں کی حالت زار کے متعلق حقائق دنیا کے سامنے پیش کریں.اس کا میاب : صم کا ذکر کرتے ہوئے نمائندہ انقلاب " مولانا غلام رسول مہر نے لندن سے لکھا :- کشمیری مسلمانوں کے تعلق میں برطانوی جرائد کا رویہ پہلے کی نسبت بہتر ہے اور اس میں بلا شما تبہ ریب مولوی فرزند علی صاحب امام مسجد احمد یہ لندن کا بڑا حصہ ہے جو شروع سے لیکر کشمیر کے تعلق میں اور دوسرے اسلامی مسائل کے تعلق میں مسلسل جدوجہد فرماتے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں.اخبارات میں جو خبریں شائع ہوتی رہیں ان کے علاوہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی طرف سے متعدد تارہ موصول ہوئے جن کی کاپیاں ایک ایک مسلم مندوب کے پاس بھیجی جاتی رہیں " ) انقلاب ۱۹ نومبر را بحواله الفضل ۲۴ نومبر ۳ اس پہلے یوم کشمیر کی کامیابی کے متعلق کشمیر کی کہانی " کے مصنف لکھتے ہیں کہ :- ار اگست کا کشمیر ڈے اور اس کی کامیابی تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کی سب سے پہلی اور نہایت مضبوط اینٹ تھی جو حضرت مصلح موعود کے ہاتھوں رکھی گئی.یہ کیسا عجیب خدائی تصرف ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لیے وسیع پیمانہ پر باقاعدہ ہم کے آغاز کے لیے حضور نے جو تاریخ مقرر فرمائی وہ خدا تعالیٰ کے ہاں اتنی مقبول ہوئی کہ یوم کشمیر کے کامیاب مظاہرے جہاں کشمیریوں کے حقوق کی بحالی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں وہاں سولہ سال بعد

Page 241

۲۴۱ جب بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی نے کامیابی کا منہ دیکھا تو ٹھیک اسی تاریخ کو پاکستان مسلمانوں کی آزاد مملکت کا قیام عمل میں آیا.آل جموں و کشمیر مسلم پولیٹیکل کانفرنس کشمیر میں بعض تعلیم یافتہ نوجوان حضور کی ہدایات کے مطابق بہت اچھا کام کر رہے تھے مگر ابھی تک وہاں مسلمانوں کے حقوق و مفادات کا خیال رکھنے والی کوئی منظم سیاسی جماعت نہیں تھی.اس ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.ایک ضروری بات میں یہ کتنی چاہتاہوں کہ مسلمانوں کی کامیابی کو دیکھ کر ہندو نے بھی ایجی ٹیشن شروع کیا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو جو تھوڑے بہت حقوق ملے ہیں وہ بھی انہیں حاصل رہیں...پس اس وقت ضرورت ہے کہ مسٹر عبد اللہ کی عدم موجودگی میں ایک انجمن مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت میں بنائی جائے یہ مت خیال کریں کہ بغیر اجازت کے انجمن نہیں بن سکتی.انجمنوں کی ممانعت کا کوئی قانون دنیا کی کوئی حکومت نہیں بنا سکتی.آخر ہندو انجمنیں بنا رہے ہیں.آپ کی انجمن نہ خفیہ ہوگی نہ باغیانہ پھر حکومت اس بارہ میں کس طرح دخل دے گی.میں اُمید کرتا ہوں کہ نوجوان فوراً اس طرف قدم اُٹھائیں گے اور اس ضرورت کو پورا کریں گے ورنہ سخت نقصان کا خطرہ ہے اور بعد میں پچھتانے سے کچھ نہ ہوگا؟ (مطبوعہ مکتوب بنام برادران کشمیری ) اس بر وقت مشورہ در ہنمائی کے سلسلہ میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا: جناب حضرت میاں صاحب دام اقبالہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! میں حضور کی نوازشات کا نہ دل سے مشکور ہوں آج میں لاہور ہوتے ہوتے جموں اور پھر کشمیر واپس جا رہا ہوں.میں ستمبر کے پہلے ہفتے میں ایک پولیٹیکل کا نفرنس کشمیر میں بلا رہا ہوں....اگر حضور اگست کے دوسرے ہفتہ میں کشمیر چند دن کے لیے تشریف لے آویں تو کانفرنس کے بنانے میں ہمیں بہت امداد مل سکتی ہے.بلکہ ضرورت بھی ہے کہ حضور ابھی سے مجھے شملہ جانے اور کانفرنس کے پروگرام کے متعلق تفصیلی ہدایات و تجاویز بھیج کر میری رہنمائی فرما دیں.مشکور ہونگا..مجھے امید ہے کہ حضور آج سے کانفرنس کے کامیاب بنانے میں

Page 242

ستی فرمائیں گے.۲۴۲ والسلام آپ کا تابعدار عبدالله ۵۹۷ ر تاریخ احمدیت جلد ۶ ماه ) حضور نے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت کوی عبدالرحیم صاحب درد کے علاوہ اور بھی کئی رضا کاروں کو اس کا نفرنس کی کامیابی و انعقاد کی کوشش کیلئے کشمیر بھجوایا.حکومت نے کانفرنس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مسٹر جار ڈین پولیٹیکل سیکرٹری سے ملے اور اسے بتایا اس طرح آزادی کی کوششیں کشمیر سے با ہر زور پکڑ جائیں گی اور بہت ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کو آگے آنے کا موقع مل جاتے جو پُر امن ذرائع پر زیادہ اعتماد نہ کرتے ہوں.اسی روز ایک جلسہ میں یہ اعلان کیا گیا کہ حکومت کی طرف سے روک پیدا کرنے کی وجہ سے کانفرنس کا انعقاد ریاست کی حدود سے باہر سیالکوٹ میں ہو گا.اس پر حکومت کشمیر نے شاہ صاب کو بلا کر ان سے تحریر لی کہ وہ کانفرنس میں قیام امن کے ذمہ دار ہوں گے.گویا پہلی سلم کا نفرنس حضور کی رہنمائی میں قائم ہوئی.حضور کے نمائندوں نے اس کا سارا انتظام کیا.حکومت کی طرف سے پیدا ہونے والی روک کو اپنی حکمت عملی سے دور کیا.حکومت کے ساتھ معاہدہ پر حضور کے نمائندہ نے دستخط کئے اور بالآخر کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوا.۱۵ سے ۱۹ اکتوبر سنہ تک یہ جلسہ ہوا اور اس میں شیخ محمد عبداللہ نے سب سے پہلے صدر آل انڈیا کشمیر کیٹی کا عزم و استقلال آفریں پیغام پڑھ کر منایا جس میں حضور نے فرمایا :- -------- برادران میں آپ کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں اور مجھے اُمید ہے کہ کانفرنس کی کارروائی میں سیچی حب الوطنی کے جذبہ کے ماتحت.جرات میانہ روی.رواداری - تشکر دانائی اور تدبر کے ذریعہ آپ ایسے نتائج پر پہنچیں گے جو آپ کے ملک کی ترقی میں بہت محمد ہوں گے اور اسلام کی شان کو دوبالا کرنے والے ہوں گے.برادران ! میرا آپ کے لیے یہی پیغام ہے کہ جب تک انسان اپنی قوم کے مفاد کے لیے ذاتیات کو فنا نہ کر دے وہ کامیاب خدمت نہیں کر سکتا بلکہ نفاق اور انشقاق پیدا کرتا ہے.پس اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو نفسانی خیالات کو ہمیشہ

Page 243

۲۴۳ کیلئے ترک کر دو اور اپنے قلوب کو صاف کر کے قطعی فیصلہ کر دو کہ خالق ہدایت کے ماتحت آپ ہر چیز اپنے اس مقصد کے لیے قربان کر دیں گے جو آپ نے اپنے لیے مقرر کیا ہے.ئیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم یعنی مسلمانان ہندوستان آپ کے مقصد کے لیے جو کچھ ہماری طاقت میں ہے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں اور خدا کے فضل - آپ ضرور کامیاب ہوں گے.اور امیدوں سے بڑھ کر ہوں گے اور آپ کا ملک موجودہ مصیبت سے نکل کر پھر جنت نشان ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ آپ کیساتھ ہو کانفرنس میں یہ پیغام شیخ محمد عبد اللہ صاحب ) ایم ایس سی.شیر کشمیر نے پڑھ کر سُنایا الفضل ۲۵ اکتوبر سنة چوہدری ظہور احمد صاحب کے بیان کے مطابق اس کا نفرنس میں مصلحت کسی غیر کشمیری لیکچر کو شامل نہیں کیا گیا تھا مگر دوران اجلاس حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ایک غیر معمولی کامیابی کی خبر لے کر آتے اور انہوں نے ہی جلسہ میں یہ خوش آئند اعلان کیا کہ راجہ صاحب پونچھ نے مسلمانوں کے مطالبات میں سے اکثر مطالبات منظور کر لیے ہیں.جلسہ میں جوش کی ایک عجیب کیفیت تھی.حاضرین نے زین العابدین زندہ باد کے نعرے لگاتے اور شاہ صاحب پر پھول نچھاور کئے.اسی جلسہ میں مفتی ضیاء الدین صاحب نے آل انڈیا کشمیر کیٹی اور اس کے صدر کی خدمات کو زبر دست خراج تحسین پیش کیا.شیخ محمد عبد اللہ نے کانفرنس کی کامیابی کی اطلاع حضور کی خدمت میں بھیجواتے ہوئے تحریر کیا :.نہ میری زبان میں طاقت ہے اور نہ میرے علم میں زور اور نہ میرے پاس وہ الفاظ ہیں جن سے میں جناب کا اور جناب کے بھیجے ہوتے کا رکن مولانا درد سید زین العابدین صاحب وغیرہ کا شکریہ ادا کر سکوں.یقیناً اس عظیم الشان کام کا بدلہ جو کہ آنجناب نے ایک بے کس اور مظلوم قوم کی بہتری کے لیے کیا ہے صرف خدا تے لایزال سے ہی مل سکتا ہے.میری عاجزانہ دعا ہے کہ خداوند کریم آنجناب کو زیادہ سے زیادہ طاقت دے تاکہ آنحضور کا وجود مسعود بے کسوں کے لیے سہارا ہو...

Page 244

۲۴۴ کانفرنس بخیر و خوبی ختم ہوئی.بجائے تین دن کے کانفرنس برابر پانچ دن ہوتی رہی اور بڑی شان سے.دستور اساسی نے بڑا وقت لیا........الغرض جناب کی دُعا سے کانفرنس نهایت کامیاب رہی.......میرا بھی خیال ہے پنجاب آنے کا.انشاء اللہ شرف قدم بوسی حاصل کرونگا.احراری خیال کے چند افراد غلط پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ میں کشمیر کمیٹی کے ہاتھ کٹھ پتلی کا کھیل بنا ہوا ہوں کبھی کہتے ہیں کہ میرا عقیدہ بھی بدل گیا ہے.مگر خدا وند کریم بہتر جانتا ہے کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں.اس لیے ہمیشہ ان کو ذلیل ہونا پڑتا ہے.مجھے اُمید ہے کہ جناب کی دُعائیں ہمیشہ میرے شامل حال ہونگی.آخر مجھے اپنا بچہ سمجھتے ہوتے مجھے حق حاصل ہونا چاہیئے کہ کبھی کبھی مجبوری کی وجہ سے جناب سے گستاخی کا بھی مرتکب ہو جاؤں اور پھر معافی بھی طلب کروں.امید کرتا ہوں کہ جناب کا ارشاد گرامی جلد ہی میری تسلی کر دیگا.شیخ محمد عبد الله " ۲۲/۱۰/۳۲ ( تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحه ۶۰۱ ۲۰۲۰) چوہدری ظهور احمد صاحب ان خوشگوار یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :." راقم الحروف اس جلسہ میں شروع سے آخر تک موجود رہا.تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اللہ اکبر - اسلام زندہ باد اور صدر کشمیر کمیٹی زندہ باد کے نعرے بلند ہوتے تھے اور حاضرین خوشی سے اُچھلتے تھے.اس جلسہ میں جو تین ریزولیوشن متفقہ طور پر منظور ہوئے ان میں سے سب سے پہلا آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اس کے محترم صدر کے شکریہ پرمشتمل تھا.....جلسہ سے فراغت کے بعد ہم لوگ کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد جب رات گئے اپنے ہاؤس بوٹ پر پہنچے تو ہمارا ہاؤس بوٹ پھولوں ہاروں اور بجلی کے قمقموں سے روشن تھا اور گھاٹ پر بھی چراغاں تھا.یہ سب کام رضا کاروں نے خود بخود کیا تھا.ان میں بخشی غلام محمد اور خواجہ غلام قادر ڈکٹیٹر نخواجہ غلام محمد صادق اور خواجہ غلام محی الدین کرہ پیش پیش تھے.اور یہ سب دوسرے رضا کاروں کے ہمراہ موجود تھے.ہمارے ہاؤس بوٹ پر پہنچتے ہی ان لوگوں نے پھر خوشی سے نعرے لگاتے.(کشمیر کی کہانی صفحہ ۱۱۷ - ۱۱۸) اس کانفرنس کو غیر معمولی مقبولیت اور کامیابی حاصل ہوتی.اس کی شاخیں جموں و کشمیر مں ایک اندند

Page 245

۲۴۵ سرے سے دوسرے تک پھیل گئیں.ایک موقعہ پر جب اس کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی نے بعض مطالبات کے سلسلہ میں راست اقدام کا اعلان کرنے کے لیے اجلاس بلایا تو ریاستی حکام نے کہا که اجلاس بلانے کی ضرورت نہیں.مطالبات تسلیم کہتے جاتے ہیں.اس متحدہ سیاسی پلیٹ فارم کی اہمیت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ۲۷ دسمبر کو سرینگر میں ایک عظیم جلسہ میں شیخ محمدعبدالله خواجہ غلام احمد اشنائی اور چوہدری غلام عباس نے اتحاد کی برکات بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کو بتایا کہ احمدی غیر احمدی سوال اُٹھا نا ریاست کے باشندوں کے مفاد کے منافی ہے.ایک شیعہ نمائندہ نے اپنے پیغام میں یہ بھی یاد دلایا کہ جب انتخاب نمائندگان ہوا تھا تو ہم تمام نمائندگان نے اپنا اصول بنا رکھا تھا بلکہ ایک قسم کا حلف لیا تھا کہ فرقہ وارانہ سوال کو کبھی عامہ المسلمین ہی نہیں اٹھانا چاہیے.اور تمام فرقوں کو خواہ وہ کتنی ہوں یا شیعہ.اہل حدیث ہوں یا احمدی - مقلد ہوں یا غیر مقلد متحد اور متفق ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ اس تحریک میں اشتراک عمل کرنا چاہیئے.انقلاب ۴ جنوری ۳۳ ه ) ( تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحه ۶۰۴ ) کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے حصول کی جدوجہد ایک طویل داستان ہے وہ لوگ جنہوں نے اس جہاد میں حضور کے ساتھ شامل ہو کر حصہ لیا وہ بتاتے ہیں کہ حضور نے اس کام کے لیے دن رات ایک کر دیا تھا اور جماعت کے ہر طبقہ کے لوگوں میں سے رضا کار حضور کی تفصیلی ہدایات کے مطابق ہندوستان اور کشمیر میں ہی نہیں انگلستان اور دوسرے ممالک میں بھی سرگرم عمل ہو گئے تھے.اس سلسلہ میں سیالکوٹ کا ایک جلسہ حضور کے آہنی عزم و ارادہ اور یقین و استقامت کا ایک نشان بن گیا.حضور آل انڈیا کشمیر کیٹی کے ایک اجلاس کی صدارت کے لیے سیالکوٹ تشریف لے گئے اجلاس کے بعد کمیٹی کے بعض ممبروں نے حضور کی خدمت میں سیالکوٹ کے عوام کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضور ان سے جلسہ عام میں خطاب فرمائیں جسے حضور نے منظور فرمالیا اور استمبر داستہ) کو جلسہ ہونا قرار پایا.احمدیت کے حساد اور سچائی کے ازلی مخالفوں کو حضور کی یہ مقبولیت اور ہر دلعزیزی ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے مخالفانہ پروپیگینڈہ اور اشتعال انگیزی شروع کر دی جسے دیکھتے ہوئے جلسہ کے منتظمین نے حضور کی خدمت میں تمام حالات پیش کر کے اور متوقع خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے جلسہ میں شامل ہونے سے روکنا چاہا مگر حضور اپنے پروگرام پر فَاذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله کا مظاہرہ کرتے ہوئے پتھروں کی بارش میں سے ہوتے ہوئے جلسہ گاہ میں پہنچ گئے.باوجود اس کے کہ احمدی فدائی حضور کے اردگرد پروانہ وار

Page 246

۲۴۶ شار ہونے کے لیے ہر وقت موجود رہے تین پھر حضور کو بھی لگے جبکہ دوسرے متعدد افراد زخمی ہوئے اس فساد انگیزی اور ہنگامہ آرائی کے دوران حضور نے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں فرمایا :- جوش کی باتیں عارضی ہوتی ہیں دُنیا میں جو شخص کام کرنے کے لیے کھڑا ہو آج جو اسے پتھر مارتے ہیں کل کو ضرور وہی اس پر پھول برسائیں گے.جون آف آرک ایک فرانسیسی عورت تھی جس نے اپنے ملک کو آزاد کرایا تھا اس کو اپنے زمانے میں اس قدر تکلیف دی گئی کہ خود اس کے ابنائے وطن نے اسے پکڑ کر انگریزوں کے حوالہ کر دیا.....تو جو لوگ دوسروں کی خاطر پتھر کھاتے ہیں ان پر ضرور پھول برستے ہیں یہ جو پتھر آج پھینکے گئے ہیں....یہ خدا تعالی نے اس لیے پھینکواتے ہیں کہ کل کو پھول بن کہ ہمیں لگیں....یہ پھر بھی جن لوگوں نے مارے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ کشمیر کی طرف سے مارے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست نے علاقہ پر رعایا کو قبضہ دے دیا ہے.سو اللہ کے فضل سے ہم امید کرتے ہیں وہ مظلوم جو سینکڑوں سال سے ظلم وستم کا شکار ہو رہے ہیں ان کی آہیں اور سسکیاں آسمان پر جا پہنچیں اور خدا تعالیٰ نے ظالموں سے ظلم کی آخری اینٹیں پھینکوائیں تا اس ملک پر اپنا فضل نازل کرے...لیکن ہمارا قلب وسیع ہے ہم ان ہاتھوں کو جنہوں نے یہ تھر برساتے ان زبانوں کو جنہوں نے اس کے لیے تحریک کی اور اس کنجی کو جو اس کا باعث ہوئی معاف کرتے ہیں کیونکہ جس کام کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے اس کے مقابلہ میں تیری کلیف جو ہمیں پہنچائی گئی ہے بالکل معمولی ہے " ) الفضل ۲۴ ستمبر است ) حضور کے استقلال و عزیمت اور جماعت کے جذبہ قربانی کا یہ ایسا مظاہرہ تھا جسے مخالفوں کے حلقہ میں بھی بہت سراہا گیا اور جس کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی.ایک روایت کے مطابق ان پتھروں کو جو مخالفین نے حضور کو مارے تھے خدائی نشان کے اظہا را اور کشمیر کی آزادی کا سنگ بنیاد سمجھتے ہوئے دو ٹرنکوں میں ڈال کر حضور اپنے ساتھ قادیان لے گئے تھے.کشمیر کمیٹی کو بخوبی معلوم تھا کہ ریاست کے حکام قدم قدم پر ان کے لیے مشکلات پیدا کریں گے.اس لیے اس کام کا آغاز جس طریق پر ہوا اس کا دلچسپ تذکرہ حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں درج ذیل ہے.حضور کے اس بیان سے شیر کشمیر، شیخ محمد عبداللہ کی سیاسی زندگی کے آغاز پر بھی روشنی

Page 247

۲۴۷ پڑتی ہے." جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہوگئی اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آل انڈیاکشمیر کمیٹی کو آزادانہ طور پر باہر کام نہیں کرنا چاہتے بلکہ کشمیر اور جموں کے لوگوں سے مل کر کام کرنا چاہیئے.تو میں نے جموں اور کشمیر کے نمائندے قادیان بلوائے اور ان سے مشورہ لیا.کوئی پندرہ سولہ آدمی آتے ہیں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا کوئی اور آدمی ایسا رہ تو نہیں گیا جس کا کشمیر میں اثر ہو انہوں نے کہا کہ شیخ عبداللہ ایک نوجوان ہیں جن کا نوجوان لڑکوں پر اچھا خاصہ اثر ہے.اور وہ بول بھی سکتے ہیں اور نڈر بھی ہیں میں نے پوچھا کہ آپ لوگ ان کو کیوں ساتھ نہیں لاتے.انہوں نے جواب دیا کہ ان کے متعلق ہمیں معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے مخفی آرڈر کئے ہوتے ہیں کہ اگر یہ ریاست سے باہر نکلیں تو پھر ان کو واپس نہ آنے دیا جائے.مجھے جو شیخ عبداللہ کے حالات معلوم ہوئے ان سے میں نے سمجھا کہ یہ آدمی کام کا ہے.پس کشمیر کی تحریک کی بیٹری کے متعلق ہیں نے اس وقت تک کوئی فیصلہ کرنا مناسب نہ سمجھا جب تک میں شیخ عبداللہ سے نہ مل لوں.چنانچہ میں نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو جو آل انڈیا کشمیر کیٹی کے سیکرٹری تھے اسی غرض کے لیے کشمیر بھیجوایا کہ وہ کشمیر کے حالات بھی دریافت کریں اور دوسرے اس بات کا انتظام کریں کہ شیخ عبداللہ کشمیر کی کسی سرحد پر مجھ سے مل لیں.چنانچہ درد صاب نے اس بات کا انتظام کیا.میں قادیان سے گڑھی حبیب اللہ گیا اور درد صاحب شیخ عبداللہ صاحب کو لیکر گڑھی حبیب اللہ آتے.چونکہ گڑھی حبیب اللہ سرحد کشمیر پر تو واقع ہے لیکن سرحد کشمیر سے باہر.اس لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ شیخ عبداللہ پر کو چھپا کر لایا جائے.چنانچہ جب ریاست کشمیر کے کسٹم پر پہنچے تو درد صاحب نے شیخ عبداللہ صاحب کو کار کے بیچ میں لٹا دیا اور ان کے اوپر کپڑے ڈال دیتے تاکہ سٹیٹ کے افسروں کو پتہ نہ لگے اور اس طرح چھپا کہ وہ میرے پاس گڑھی حبیب اللہ کے ڈاک بنگلہ پر ان کو لاتے.وہ میری اور شیخ عبد اللہ صاحب کی پہلی ملاقات تھی شیخ محمدعبدللہ صاحب سے میں نے بڑی لہی گفتگو کی.....میں نے کہا کہ....میں آپ کو کشمیر کی تحریک آزادی کا لیڈر مقرر کرنا چاہتا ہوں.شیخ محمد عبداللہ نے کہا کہ میں لیڈری کے قابل نہیں دند

Page 248

۲۴۸ سے ہے سے میر مجھے تو کچھ آتا نہیں.(انہیں کام کی تفصیلات سمجھا کر پوچھا تم یہ بتاؤ کہ کیا یہ آواز تم کشمیر سے زور کے ساتھ اٹھوا سکتے ہو یا نہیں ؟ شیخ محمد عبد اللہ نے جواب دیا یہ آوانہ تو نہایت شاندار طور پر اٹھا سکتا ہوں.اس پر میں نے کہا بس آپ اس کام کے اہل ہیں اور خدا کا نام لے کر اس کو شروع کر دیں.میں نے ان کو اخراجات کے متعلق ہدایتیں دیں کہ اس طرح دفتر بنانا چاہئیے اور وعدہ کیا کہ دفتر کے اخراجات اور دوسری ضرور ہیں جو پیدا ہوں گی ان کے اخراجات میں موتیا کرتارہ ہوں گا " حضور نے اپنے وعدہ کے مطابق آزادی کشمیر اور مسلمانوں کی امداد کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال فرمایا اس سلسلہ میں شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کا اخباری بیان اور مولانا عبدالرحیم صاحب درد سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نام ایک خط دلچسپی سے پڑھا جائے گا.بسم الله الرحمن الرحيم.نحمده ونصلى على رسوله الكريم برادران ملت -------- آل انڈیا کشمیر کیٹی نے اس وقت اپنے قیمتی مشورہ سے اعداد کرنے کے علاوہ ہماری قانونی امداد بھی کی ہے.اور مالی امدا د بھی ہمیں صرف انہی سے پہنچی ہے اس لیے ہم برادران ملت سے پر زور اپیل اور استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس کے فنڈز کو مضبوط کرنے کی طرف فوری توجہ فرماویں تا کہ مالی تنگی کی وجہ سے ضروری کاموں میں حرج واقع نہ ہو.مجلس احرار نے جو تکالیف جسمانی مظلومان کشمیر کی ہمدردی میں برداشت کی ہیں ان کے ہم تہ دل سے مشکور ہیں مگر اس بات کا افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جماعت احرارہ کی طرف سے ہمیں مالی امداد ایک روپیہ کی بھی اس وقت ینک نہیں پہنچی.مکرم مولا نا در و صاحب ! والسلام شیخ محمد عبدالله السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکا تها! آج میں غلام قادر کو آپ کے پاس بدیں وجہ روانہ کرتا ہوں کہ تاوہ جناب کو یاد دلاتا رہے.ممبر شپ فارمز - رجسٹرات - رسید یک فارمز - دفتر پولیس پیڈ کے متعلق انتظام مکمل ہو سکے.....آپ وقت بتا دیجیئے کہ کب ہم لاہور آئیں گے.میرا خیال ہے کہ دستور اساسی مکمل ہو.تاہم کام کو شروع کرتے..میری

Page 249

بت ۲۴۹ طرف سے جناب حضرت صاحب کو دست بستہ عرض سلام.آپ کا شیخ محمد عبد الله تاریخ احمدیت جلد ششم صفحه ۴۸۸ تا ۴۹۲ ) کشمیر کمیٹی کی خدمات : کشمیر کیٹی کی خدمات اور کارناموں کا اجمالی تذکرہ حضور کے الفاظ میں بیان ہو چکا ہے اس کی تفصیل کے لیے تو ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے.ڈوگرہ حکومت نے اس کمیٹی کے ذریعہ سارے ہندوستان میں ہی نہیں انگلستان میں بھی نہایت منظم و موثر طریقی پر کام شروع ہوتے دیکھکر اپنی حکومت کو آخری سنبھالا دینے کے لیے مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا.مسلمانوں پر پہلے سے بھی زیادہ سختیاں شروع کر دیں.جلسے اور جلوس بزور بند کئے گئے.معززین پر غلط مقدمات قائم کر کے انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا.مگر ڈوگرہ حکومت کو بہت جلد یہ معلوم ہوگیا کہ ان کا مقابلہ عام سیاسی لیڈروں اور کانگریسی مسلمانوں سے نہیں بلکہ ایک با اصول اولو العزم متوکل علی اللہ انسان سے ہے جس کے ساتھ سرفروشوں کی ایک ایسی جماعت ہے جو اس کے ایک اشارہ پر اپنا سب کچھ قربان کر دینا اپنے لیے سعادت سمجھتی ہے.جماعت نے حضور کے ارشاد کی تعمیل میں مسلمانان کشمیر کی خدمت کے لیے دل کھول کر چندہ دیا جماعت کے چوٹی کے وکلا نے ریاست میں جاکر مقدمات کی بلا اجرت و معاوضہ پیروی کی.ذہین طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا.ویسے تو جماعت کا ہر فرد ہی کسی نہ کسی رنگ میں اس خدمت میں شامل تھا مگر جن لوگوں کو اس میں نمایاں کام کرنے کا موقعہ ملا ان میں سے بعض کے اسماسہ درج ذیل ہیں :.حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب در در ایم اے حضرت مولانا جلال الدین صاحب تشمت حضرت خانصاحب فرزند علی خانصاحب حضرت ملک غلام فرید صاحب مکرم خواجہ غلام نبی صاحب گل کاراتور مکرم خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار مکرم مولوی عبدالواحد صاحب مدیر اصلاح (حضور کے ارشاد پر ساری ریاست کا دورہ کیا اور اپنے اخبار کے ذریعہ نہایت گرانقدر کام کیا.ہمارے و کلام میں جن کو وہاں خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ان میں سے بعض پیر سے مکرم شیخ بشیر احمد صاحب مکرم چوہدری اسداللہ خان صاحب مکرم شیخ محمداحمد صاحب مظهر مکرم چوہدری یوسف خان صاحب - مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ - مکرم قاضی عبدالحمید صاحب مکرم میر محمد بخش صاحب.ان مجاہدین نے اپنی کامیاب پریکٹس کو خیر باد کہ کر مسلسل کئی کئی ماہ تک تھے.

Page 250

۲۵۰ یہ رضا کارانہ خدمات سرانجام دیں اور اپنوں اور غیروں سے خراج تحسین حاصل کیا.ہندو مظالم کے خلاف قانون کے اندر رہتے ہوئے حقوق کے حصول کی یہ کامیاب جد وجہد بڑی کامیابی سے آگے بڑھ رہی تھی.مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو رہے تھے.اور آزادی کی منزل سامنے نظر آنے لگی تھی مگر ہندووں کو یہ بات کسی طرح بھی پسند نہ تھی چنانچہ ہندوؤں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے خلاف اپنے پروپیگنڈہ کا محاذ کھول دیا.ہندو اخبارہ ملاپ نے لکھا:."ریاست کشمیر کو اس بارہ میں اپنی تسلی کر لینی چاہیتے کہ کہیں خلیفہ صاحب ریاست کشمیر کی مسلم آبادی میں اپنے تبلیغی و عظوں سے کوئی سنتے کانٹے نہ ہوائیں املاپ ۲۲ ر خون شسته الفضل ۲۸ جون شسته ) تبلیغی و عفوں کی طرف سب سے پہلے توجہ دلانے والا اور حکومت کشمیر کو خبر دار کرنے والا یہ متعصب آریہ اخبار تھا.اس اخبار نے اس موضوع پر مختلف مواقع پر نیش زنی کرتے ہوئے یہ بھی تحریر کیا کہ : قادیانی سازش کا نتیجہ ہے کہ کشمیر کے امن پسند مسلمان اب شورش اور شرارت اور بغاوت کے شرارے بن چکے ہیں.اب کشمیری مسلمانوں کو وہ پہلے جیسا صلح جو میانہ رو اور علیم الطبع انسان نہ سمجھو بلکہ قادیانی روپیہ نے.قادیانی پراپیگنڈہ نے اور قادیانی گدی کے خلیفہ کی حرص و آز نے ان کشمیری مسلمانوں کو مرنے مارنے پر تیار کر دیا ہے.مسئلہ کشمیر اور ہندو مہاسبھائی صفحہ ۹۵) "مرزا قادیانی نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی اسی غرض سے قائم کی ہے تاکہ کشمیر کی موجودہ حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے " اپ یکم اکتوبر سته مه مسئلہ کشمیر اور ہندو مہاسبھائی مثه ) ( " کشمیر کے چاروں طرف مسلمان حکومتیں ہیں.کشمیر پر اگر اسلامی جھنڈا لہرایا تو گورنمنٹ کے لیے خطرناک ہوگا " طلای ۱۸ اگست راستہ مسئلہ کشمیر اور بند و مهاسھاتی منگا ) ہندوؤں کی طرف سے ایسا پراپیگینڈہ تو غیر متوقع بات نہ تھی کیونکہ ان کے نزدیک تو مسلمانوں کی ترقی میں جھوٹ اور ظلم کی تباہی تھی مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلمانوں نے بھی اسلامی

Page 251

۲۵۱ بهبود و ترقی کی اس تحریک کے خلاف محاذ کھول لیا اور یہ بہانہ بنا کر احمدی کشمیر میں تبلیغ کر رہے ہیں بانی اتحاد کو سبوتاثر کرنا شروع کردیا.مسلم پریس نے بجا طور پر ان سازشوں کا نوٹس لیا اور مسلمانوں کو باہم مل کر مظلوم کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے حصول کی جدوجہد کو جاری رکھنے کی تلقین کی.اخبار انقلاب اور سیاست نے مسلسل اپنے اداریوں میں اس طرف توجہ دلائی.۲۲ مسلم اکا برین نے ایک مشترکہ اپیل کرتے ہوئے لکھا : " بعض مضبوط قرائن سے یہ اندیشہ پیدا ہو رہا ہے کہ حکام ریاست کشمیر مسلمانوں کی قوت کو توڑنے کے لیے یہ حربہ استعمال کرنے کے درپے ہیں کہ ان کے اندر فرقہ وارانہ سوال پیدا کریں.مسئلہ کشمیر ایک مہتم بالشان اسلامی مسئلہ ہے کسی قسم کے فرق داران خیالات کی وجہ سے اس کو کسی قسم کا ضعف پہنچانا اسلام کے ساتھ غداری کے مترادف ہے" الفضل دار اكتوبر السلة ).اس قابل نفرت جھوٹے پروپیگنڈہ کی تردید کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا : " میرے نزدیک ایسا فعل یقیناً بد دیانتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اس بد دیانتی سے محفوظ ہیں.میں.....سب احمدیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ کشمیر کی خدمت ایک انسانی ہمدردی کا فعل ہے.اس نیکی کو کسی ایسی غلطی سے جو بد دیانتی کا رنگ رکھتی ہو خراب نہ کریں اور دوسرے مسلمانوں سے مل کر پوری تندہی سے خالص براداران کشمیر کے نفع کو مد نظر رکھ کر سب کام کریں." الفضل ۲۵ اکتوبر السلامه ) آل انڈیا کانگریں اور ان کے ہمنوا مسلمانوں کا مقصد تو مسلم ترقی کی اس کوشش میں رخنہ ڈالنا تھا.انہیں حقیقت و سچائی سے کوئی سروکار نہیں تھا.چنانچہ مسلم مفاد کو پس پشت ڈالتے ہو ہے.ان لوگوں نے ڈوگرہ حکومت سے ساز باز کی اور مالی منفعت حاصل کرتے رہے.مشہور کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ صاحب نے اس تشویشناک صورت حال کی اطلاع حضور کی خدمت میں بذریعہ تار بھجواتے ہوئے لکھا: "SECRETARY KASHMIR COMMITEE QADIAN 8SEP, 1931 AHRAR DEPUTATION ARRIVED HERE STAYING AS STATE GUEST.SHOULD WE CO-OPERATE.YOUR DEPUTATION BADLY NEEDED." (ABDULLAH)

Page 252

۲۵۲ سلم پریس میں بھی انکے ان کارناموں کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے.یہاں پر صرف دو اقتباس بطور مثال درج کئے جا رہے ہیں." اختر علی ابن ظفر علی خان مالک زمیندار دو ہزار کا ایک چیک امپریل بنک سرینگر سے بھنانے کے بعد لاہور روانہ ہو گیا اور ریاست کے حقوق میں پراپیگنڈہ کرنے کے لیے وعدہ کر گیا." انقلاب لاہور اگست سست.(بحوالہ کشمیر کی کہانی مت ) " ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس مصیبت کے وقت غدار اور قوم فروش اخبار "زمیندار" یہ کونسی خدمت انجام دے رہا ہے کہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے سارا اخبار قادیانیت کے جھگڑے میں سیاہ کر کے ہماری پریشانی کا باعث بن رہا ہے.ہم خوب جانتے ہیں کہ مسٹر اختر علی خان نے کشمیر میں آکر اور سرکاری مہمان بن کر اپنی عاقبت کس طرح خراب کی ہے.اب ہمارے بڑے خیر خواہ بن کر آریہ اخبارات کی کسی طرح حمایت شروع کر رکھی ہے ؟" ر انقلاب در ستمبر راستہ ).(بحوالہ کشمیر کی کہانی من نے مشہور کشمیری لینڈ رشیخ محمد عبداللہ نے آل انٹرا کشمیر کیٹی کی کوشش کے نتیجہ میں جیل سے رہا ہے کے بعد حضور کی خدمت میں مندرجہ ذیل خط لکھا : " مکرم و معظم جناب حضرت میاں صاحب السلام علیکم ورحمة الله و بركاته ! سب سے پہلے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کروں.اس بے لوث اور بے غرضانہ کوشش اور جدوجہد کے لیے جو آپ نے کشمیر کے درماندہ مسلمانوں کے لیے کی.پھر آپ نے جس استقلال اور محنت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو لیا.....مجھے اُمید رکھنی چاہیئے کہ آپ نے جس ارادہ اور عزم کے ساتھ مسلمانان کشمیر کے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد فرماتی ہے.آئندہ بھی اسے زیادہ کوشش اور زیادہ توجہ سے جاری رکھیں گے.آخر میں میں پھر آپکا شکر یہ ادا کرتے ہوئے اس عریضیہ کو ختم کرتا ہوں.میں ہوں آپ کا تابعدار شیخ محمد عبد الله" ( تاریخ احمدیت جلد ا م )

Page 253

۲۵۳ نبویست کشمیر کیٹی کی خدمات کا تمام کشمیری لیڈروں اور دردمند مسلمانوں نے برملا اعتراف کیا.مثال کے طور پر عض اکابرین کے بیانات پیش خدمت ہیں.میاں احمد یار وکیل صدر مسلم کانفرنس : "جب تحریک حریت کی ابتداء ہوئی.ہندوستان کے سر بر آوردہ مسلمانوں نے شملہ میں ایک میٹنگ کر کے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی.اس انجین نے مالی اور جانی رنگ میں قربانی دیگر ہماری مدد کی.ہماری تکالیف سے دُنیا کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک آگاہ کیا.یورپ اور امریکہ میں پراپیگنڈہ کیا.تحریک کے حامیوں.مظلومین اور شہداء کے لپسماندگان کو مدد دی اور ہر حالت میں بے لوث اور ہمدردانہ.خدمات انجام دیں....تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحه ۶۳۱ - اخبار اصلاح ۲۳ نومبر است ) اخبار انقلاب کے ایڈیٹر و مشہور مسلم رہنما مولا نا عبدالمجید سالک نے لکھا : " انگلستان میں آل انڈیا کشمیر کیٹی نے جو کام کیا وہ ہندوستان کے کام سے بھی زیادہ بیش بہا تھا....آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے جو معزز و محترم ارکان گول میز کانفرنس میں شریک ہیں ان کو ہندوستان سے مفصل تار پہنچتے رہے جن میں حوادث کشمیر بیان کئے جاتے تھے اور ان حضرات نے انہی تاروں سے متاثر ہو کر وزیر ہند سے متعدد ملاقاتیں کہیں اور یہ وعدہ لیا کہ کشمیر کے معاملہ میں مظلوموں کی امداد کی جائے گی " انقلاب ۲۰ نومبر الله - الفضل ۲۶ نومبر راسته ) اخبار ہمارا کشمیر (مظفر آباد ) لکھتا ہے :- جناب مرزا صاحب نے) جنگ آزادی میں شہید ہونے والوں کی تصویریں اپنے آدمیوں سے کھینچوا کر انگلستان ارسال کیں.شہیدوں کے خونی جامے پارلیمنٹ کو دکھاتے گئے.تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحه ۵۰۶) (۱۶ مارچ ششه) مظلومین کشمیر کی امداد کے لیے صرف دو جماعتیں بیدار ہوئیں.ایک کشمیر کمیٹی دوسری احرار - تعمیری جماعت نہ کسی نے بنائی نہ بن سکی.احرار پر مجھے اعتبار نہ تھا اور اب دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر کے تیتامی مظلومین اور بیواؤں کے نام سے روپیہ وصول کرکے احرار شیر مادر کی طرح مہضم کر گئے.ان میں سے ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جو بالواسطہ یا

Page 254

۲۵۴ بلا واسطہ اس جرم کا مرتکب نہ ہوا ہو.کشمیر کمیٹی نے انہیں دعوت اتحاد عمل دی مگر اس شرط پر کہ کثرت رائے سے کام ہو اور حساب با قاعدہ رکھا جائے.انہوں نے دونوں اُصولوں کو ماننے سے انکار کر دیا.اور میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی ، محنت ہمت، جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا " د تحریک قادیان حصته اول صدا از سید حبیب مدیر سیاست لاہور ) " آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی معرفت ہماری شکایات سمندر پار کے مسلمانوں میں بھی زبان زد ہر خاص و عام ہوگئیں.اس نزاکت حال کے پیش نظر حکومت کشمیر کے لیے ہماری شکایات کو ٹالنا اور بزور طاقت عمومی محرکات کو بلا فکر نتائج کچلتے چلے جانا مشکل ہو گیا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پیم اصرار کے باعث حکومت ہند کا معاملات کشمیر میں دخل اندازہ ہونا ناگزیر ہو گیا.....نومبر راستہ کے آخری دنوں میں حکومت کشمیر اللہ کو مجبوراً مسلمانان ریاست کی شکایات اور مطالبات کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن کا اعلان کرنا پڑا.یقین غالب ہے کہ اس کمیشن کے تقریر میں حکومت ہند کا بھی زبر دست دخل تھا.“ کشمکش صفحه ۱۱۱ - ۱۱۲ مصنفہ چوہدری غلام عباس ) اعترافِ حقیقت میں نہ تو قادیانی ہوں اور نہ مرزا محمود احمد صاحب کا پیرو ہوں.میں احمدی فرقہ کی لاہوری شاخ سے تعلق رکھتا ہوں جس سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے اہم اختلافات رکھتی ہیں، لیکن آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ایک رکن کی حیثیت سے میں یہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ کمیٹی متذکرہ کے سابق صدر کی اہم خدمات سے پبلک کو روشناس کراؤں اور خود بھی ان کا معترف ہوں کیونکہ انہوں نے کشمیر کے بے کسی مسلمانوں کو نہایت نازک مرحلوں میں مدد دی ہے اور اب بھی ان کو چاہ ضلالت سے نکال کر ترقی کی سطح پر لانے کے لیے شب و روز مصروف ربان ڈاکٹر مرزا لعقوب بیگ الفضل ۱۵ را گست مسلمة ) عمل ہیں.

Page 255

۲۵۵ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی شاندار خدمات جناب خواجہ حسن نظامی صاحب اپنے روز نامچہ مورخہ ۲۴ اکتوبرمیں تحریر فرماتے ہیں :- " کشمیر کے لیے ہر طبقہ اور ہر درجہ اور ہر فرقہ اور ہر عقیدہ کے مسلمانوں نے کام کیا لیکن سب سے زیادہ آل انڈیا کشمیر کیٹی کے اراکین اور صدر اور سیکرٹری نے کام کیا بعد میں احرار کمیٹی قائم ہوئی اور اس نے جتھے بھیجے.اس کے بعد کشمیر کی ریاست مُجھک گئی اور صلح پر آمادہ ہو گئی جس کے لیے آج کل بات چیت ہو رہی ہے.کہا جاتا ہے کہ احرار کمیٹی کی وجہ سے حکام ریاست صلح پر آمادہ ہوتے.ہندو اخبارات لکھتے ہیں کہ مہاراجہ کشمیر نے اپنی سالگرہ کی خوشی میں مسلمان رعایا سے صلح کر لی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اس کے اراکین کی اندرونی کوششوں کا یہ نتیجہ ہے.بیشک احرار کمیٹی کے کام کا بھی اثر پڑا اور مہا راجہ کی سالگرہ کا بھی کچھ نہ کچھ اس سے تعلق ہے لیکن زیادہ تر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ولایتی پراپیگنڈہ کا ہے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر نے ممتاز مسلمانوں کے ذریعہ لندن میں کوشش کی، انگلستان کے بڑے بڑے اخباروں میں ریاست کشمیر کے مظالم کی اطلا میں شائع ہوئیں اور اخباروں نے ریاست کشمیر کو مطعون کیا اور مسلمان لیڈروں نے آل انڈیا کشمیر کیٹی کے صدر کی تحریک کی وجہ سے وزیر مہند پر زور ڈال اور وائسرائے نے ریاست کی حکومت پر زور ڈالا جب یہ نتیجہ نکلا.آل انڈیا کشیر کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری اور اراکین کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس موقع پر مسلمانوں کو باہمی تفریق سے بچانے کی کوشش کی ورنہ بعض مسلمان ریاست کی حکمت عملی کا شکار ہو گئے تھے.اور انہوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری کی نسبت یہ لکھنا اور کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ صحیح عقیدہ کے مسلمان نہیں ہیں.اس واسطے مسلمان ان کیسا تھ کام نہیں کر سکتے مگر آل انڈیا کشمیر کیٹی کے صدر اور سیکرٹری اور اراکین نے نہایت عقلمندی اور صبر وضبط سے کام لیا.ورنہ بات بڑھ جاتی اور مسلمان آپس میں لڑنے لگتے اور کشمیر کی حمایت کا کام رک جاتا اور کشمیر کے مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم ہونے لگتے کیونکہ ریاست کے حکام مسلمانوں کی خانہ جنگی سے مضبوط ہو جاتے ؟ الفضل دار نومبر ۹۳ته )

Page 256

۲۵۶ شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کا برقی پیغام کشمیر کمیٹی کی خدمات کا اعتراف : " سری نگر ۱۶ - دسمبر - شیخ محمد عبداللہ صاحب نے "الفضل" کے نام سری نگر سے یہ برقی پیغام ارسال فرمایا ہے کہ میرے متعلق غلط بیانیاں کی گئی ہیں.مثلاً یہ کہ میں سول نافرمانی اور محاصل کی عدم ادائیگی کی تیاریاں کر رہا ہوں اور مساوی عدالتیں قائم کر رہا ہوں.نیز یہ کہ میں احرار کے بے غرض کا رہناموں اور کشمیر کیٹی کے شاندار کام کا معترف نہیں.اس کے جواب میں میں مندرجہ ذیل حقائق شائع کرانا چاہتا ہوں : " ہم نے ابھی سول نافرمانی کا مشورہ نہیں دیا ، لیکن ہمارا خیال ہے کہ لوگ اس کے لیے تیار ہیں اور اگر آئندہ ضرورت محسوس ہوتی تو یہ مہم شروع کی جاسکتی ہے.ہم نہیں چاہتے کہ مسلمان عدالتوں میں وقت اور روپیہ فضول ضائع کریں.لیکن ہم نے عدالتوں کے اختیار کو زائل کرنے کی کوشش نہیں کی.ہمارا خیال ہے کہ ہمارے ہزاروں بھائیوں نے جو عدیم المثال قربانیاں کی ہیں اور ہمارے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر جیلوں میں گئے ہیں.اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا اور کشمیر کمیٹی کی مفید خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا.گائے کی حفاظت کے مسئلہ کی ہم مہا راجہ صاحب اور ہندو بھائیوں کے جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے مخالفت نہیں کرتے اور گاتے کی حفاظت کی جاسکتی ہے لیکن ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ گاؤ کشی کو موجودہ طریق پر جُرم قرار دیا جائے ؟ د الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۳۷ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضور نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت کشمیری مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت اور مسلم اکابرین کے اصرار پر قبول کی تھی اور حضور کا منشا یہ تھا کہ اس مشترکہ مقصد کے لیے قومی سطح پر مختلف الخیال مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے متحدہ کوششوں سے ریاستی مسلمانوں کی غلامی کی زنجیریں توڑی جائیں.اس امر کی وضاحت کہ حضور اس کمیٹی کی صدارت کو اپنے لیے کوئی وجہ افتخار سمجھ کر اس سے چھٹے رہنا چاہتے تھے یا آپ کا مقصد محض قومی خدمت تھا.حضور کے مندرجہ ذیل بیان سے بخوبی ہو جاتی ہے." - جبس وقت آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا پہلا اجلاس شملہ میں منعقد ہوا تو جو ممبراس

Page 257

۲۵۷ وقت موجود تھے اور جن میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور خواجہ حسن نظامی صاحب اور خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب بھی تھے اس وقت تجویز کی گئی کہ اس کمیٹی کو آل انڈیا کشمیرکمیٹی کی حیثیت دینی چاہیئے.اور صدر کو اختیار دیا جائے کہ وہ اور ممبروں کو کمیٹی میں شامل کریں.اس اختیار سے کام لے کر پہلا کام جوئیں نے کیا یہ تھا کہ مظہر علی صاحب اظہر اور چوہدری افضل حق صاحب (مشہور احرار رہنما کو خطوط لکھواتے کہ مجھے امید ہے آپ اس میں شامل ہو کر ہمارا ہاتھ بٹائیں گے.......میرا منشاء یہ تھا کہ اس کمیٹی میں کانگریس کے مؤید مسلمانوں کی بھی نمائندگی ہو اور سب جماعتیں مل کر کام کریں.....اس کے بعد کشمیر ڈے کی تحریک ہوئی اور لاہور سے مجھے اطلاع ملی کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ آل انڈیا کشمیر کیٹی کا صدر احمدیہ جماعت کا امام ہے.اس لیے ہم اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار نہیں.قطع نظر اس سے کہ یہ سوال درست تھا یا نہیں.مجھے جب یہ بات پہنچی تو میں نے فیصلہ کیا کہ ہمارا مقصد کشمیر کے لوگوں کی حالت کو درست کرنا ہے اور ان جھگڑوں میں پڑنا نہیں.اس لیے میں نے تین خط لکھے ایک ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کو دوسرا مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کو اور تیسرا مولوی غلام رسول صاحب مهر کو که اگر احرار کی مجلس کا یہی اعتراض ہے کہ میں صدر ہوں تو آپ انہیں تیار کریں کہ وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے مبر ہو جائیں.اور مسلمانوں کی کثرت رائے کے ماتحت چلنے کا اقرار کریں اگر وہ اس امر کے لیے تیار ہوں.تو میں فوراً مستعفی ہو جاؤں گا.بلکہ بعض صاحبان کو تو میں نے یہ بھی لکھا کہ اس صورت میں وہ میرے اس خط کو ہی استعفی اسمجھ لیں.الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۳۷ ) کشیر کیٹی کے کارناموں پر پردہ ڈالنے کے لیے کانگریس مسلمانوں نے یہ پراپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ حضور کا اصل مقصد تو احمدیت کی تبلیغ و اشاعت ہے ، مگر آل انڈیا کشمیر کیٹی کی خدمات اتنی وسیع اتنی متنوع اتنی موثر اور اتنی دور رس اور نتیجہ خیز تھیں کہ باشعور مسلمانوں نے اس پروپیگینڈا کو بجاطور پر ہندوؤں اور ریاستی حکام کی سازش قرار دیا.حضور نے بھی اس کے متعلق اپنے بیانات میں خوب روشنی ڈالی.اپنی ایک معرکۃ الآرامہ تقریر میں کشمیر کمیٹی کے بعض ساتھیوں جیسے علامہ اقبال - ڈاکٹر ضیا الدین.ملک برکت علی.مشیر حسین قدوائی.مولانا حسرت موہانی مولانا شفیع داؤدی.ڈاکٹر شفاعت احمد - خواجہ حسن نظامی مولانا ابوالحمید نظر مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی.

Page 258

ا بدمين مولوی محمد اسماعیل غزنوی مولوی میرک شاہ کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :- " یہ کیا ہوا چلی کہ مذہبی لیڈر - علوم دینیہ کے ماہر آزادی و حریت کے راه نما فلسفہ و شعر میں کمال رکھنے والے سب کے سب نے مل کر میدم فیصلہ کر لیا کہ آو ایسا دھوکا کریں کہ سب دنیا احمدی ہو جائے.میرے پاس وہ کونسا جادو تھا کہ ان سب کو میں نے اس سازش میں شامل کر لیا.مولوی میرک شاہ صاحب اور خواجہ حسن نظامی صاحب بھی میرے ساتھ اس میں شامل ہو گئے.پھر ابو بکر صاحب کو بنگال میں مذہبی لحاظ سے جو پوزیشن حاصل ہے وہ پنجاب میں ایک شخص کو بھی نہیں ہیں تیس لاکھ کے درمیان ان کے مرید ہیں.انہوں نے بھی اپنے بیٹے کو اس سازش میں شریک کر دیا.اور اگر یہ صحیح ہے کہ میں نے مسلمانوں کے ان تمام لیڈروں پر جادو کر دیا ہے تو کیا میں ایسا جادو سیالکوٹ کے عوام پر ہی نہیں کر سکتا.وہ میرے فسوں سے بچ جانے کی امید کسی طرح کر سکتے ہیں.میں تو اس صورت میں سیالکوٹ کی گلی گلی میں احمدیت پھیلا دوں گا.جو قوم یہ تسلیم کرتی ہے کہ اس کے چوٹی کے لیڈروں پر میرا جادو چل گیا وہ کس طرح یہ گمان کر سکتی ہے کہ اس کے عوام محفوظ رہ سکتے ہیں مگر یہ کہنا میری نہیں خود ان لوگوں کی اپنی ہتک ہے جو الیسا کہتے ہیں.یہ بات بالکل غلط ہے.اگر ان لوگوں کو اس تحریک میں احمدیت کا ذرا بھی اثر نظر آتا تو ان کو کیا مجبوری تھی کہ میرے ساتھ اس طرح شامل ہو جاتے اگر مخالفت کا موقعہ ہوتا تو یقیناً یہی لوگ مخالفت کرتے جو اس وقت میرے ساتھ ہیں.سو یہ محض وہم ہے بلکہ وہم بھی نہیں.ہنگامی جوش کی وجہ سے جنون کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے جس کے باعث خلاف حقیقت باتیں ان لوگوں کی طرف سے کہی جارہی ہیں..میں احرار والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ان میں سے کوئی یہاں بیٹھا ہو تو جا کر اپنے دوستوں کو سُنا دے.میں ان پتھروں کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کرتا.اور اس وجہ سے ان پر کوئی غصہ نہیں.انہیں چاہتے کشمیر کے مظلوم بھائیوں کی خاطر اب بھی ان باتوں کو چھوڑ دیں.وہ آئیں میں صدارت چھوڑنے کے لیے تیار ہوں، لیکن وہ عہد کریں کہ مسلمانوں کی اکثریت کے فیصلہ کی اتباع کریں گے.ان کے اخلاق آج ہم نے دیکھے لیے ہیں.وہ آئیں اور ہمارے اخلاق بھی دیکھیں.میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ صدارت

Page 259

۲۵۹ چھوڑ دینے کے بعد بھی میں اور میری جماعت ان کے ساتھیوں سے بھی زیادہ ان کا ہاتھ بنائیں گے.صدارت میرے لیے عزت کی چیز نہیں.عزت خدمت سے حاصل ہوتی ہے.ستید القوم خادمهم - اگر کام نہ کیا جائے تو صرف صدر بنے سے کیا عربت ہوسکتی ہے.وہ تو ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی مجنون کے میں بادشاہ ہوں.بغیر خدمت کے اعزازہ حاصل نہیں ہو سکتا.میرے ذمہ تو پہلے ہی بہت کام ہے.اتنی عظیم الشان جماعت کا میں امام ہوں.اور اس قدر کام کرنا پڑتا ہے کہ بارہ ایک بجے سے پہلے شاید ہی کبھی سونا نصیب ہوتا ہو.میں نے تو یہ بوجھ صرف اس لیے اُٹھایا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی آئندہ نسلیں دعائیں دیں گی.اور کہیں گی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا بھلا کرے جن کی کوشش سے آج ہم آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں.ان کے لیے بھی موقع ہے کہ کشمیر میلوں سے دُعائیں لیں......آخر میں سب حاضرین سے اور ان سب سے جن تک میرا یہ پیغام پہنچے کہتا ہوں کہ اُٹھو اپنے بھائیوں کی امداد کرو.اپنے کام بھی کرتے رہو.مگر کچھ نہ کچھ یاد ان مظلوموں کی بھی دل میں رکھو.جہاں اپنے خانگی معاملات اور ذاتی تکالیف کے لیے تمہارے دلوں میں ٹیسیں اٹھتی ہیں وہاں ایک ٹیس ان مظلوموں کے لیے بھی پیدا کرو.اور ان آنسوؤں کی جھڑیوں میں سے جو اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے برساتے ہو اور نہیں تو ایک آنسو ان ستم رسیدہ بھائیوں کے لیے بھی ٹپکاؤ.مجھے یقین ہے کہ تمہاری آنکھوں سے ٹپکا ہوا ایک ایک آنسو جس کی محرک سچی ہمدردی ہوگی.ایک ایسا دریا بن جائے گا.جوان غریبوں کے تمام مصائب کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جائیگا اور اس ملک کو آزاد کر دیگا الفضل ۲۴ ستمبر ٣ ) اس انتہائی کامیاب تحریک - جو قدم قدم کامیابی حاصل کرتی ہوئی تیزی سے کامل آزادی کی منزل کی طرف رواں دواں تھی.کے خلاف ڈوگرہ حکومت اور ہندو کانگریس نے اندرونی و بیرونی سازشوں کا جال پھیلا دیا.شیخ محمد عبد اللہ صاحب کشمیر کے مسلم لیڈر تھے اور اپنی سیاسی زندگی کے آغاز سے ہی حضور کی رہنمائی و ہدایات کے مطابق کامیابیاں حاصل کر رہے تھے.ایک ہندو لیڈر پنڈت پریم ناتھ بزاز

Page 260

نے لکھا ہے کہ میں نے شیخ محمد عبد اللہ کے دل میں نیشنلزم کا بیج بویا تھا.شیخ صاحب اس دام ہمرنگ زمین کو نہ سمجھ سکے اور مخلص مسلمان لیڈروں کی مخالفت کے باوجود مسلم کانفرنس کو مشیل کانگریس میں بدل کر عملاً مسلمانوں کی ترقی کی بجائے ہندوؤں کی ترقی اور ان کے مقاصد کے حصول کے لیے کام کرنے لگے.اور اس طرح مظلوم کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے حصول میں تاخیر کا باعث بن گئے اور وہ شاندار کامیابی جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ذریعہ نظروں کے سامنے تھی اسے معرض تاخیر و تعویق میں ڈال دیا.حضور کا استعفیٰ : حضور کی کوششوں کا محور و مقصد تو کلیتہ مسلمانوں کی خدمت کرنا تھا مگر بعض خود غرض مسلمان لیڈروں اور کشمیری مسلمانوں کے نام سے استحصال کرنے والوں کے بدار ا دوں کو دیکھتے ہوئے حضور نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا.آپ کا خُدا داد مقام و مرتبہ تو اس سے کہیں بلند تھا کہ آپ کو ایک سیاسی لیڈر کا مرتبہ حاصل ہوتا.اسی لیے آپ نے شروع میں ہی آل انڈیا کشمیر کیٹی کی صدارت قبول کرنے سے انکار فرمایا تھا اور جب بعض مسلمان لیڈروں کے اصرار پر اسے قبول فرمایا تو محض اللہ اسیروں کی رستگاری اور مظلوموں کی حق رسی کے لیے قبول فرمایا تھا یہی وجہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں سے حضور کی ہمدردی اور ان کی عملی خدمت آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ آپ نے شروع سے ہی کشمیر یوں کی مفید و موثر خدمات کی تھیں صدارت کے عہدہ سے الگ ہو کر بھی آپ کی خدمات برابر جاری رہیں.حضور نے ابتداء میں ہی کشمیری مسلمانوں کو تعلیم کے حصول کی طرف توجہ دلاتی تھی اس سلسلہ میں حضورہ ہمیشہ عملاً مدد بھی فرماتے رہے.حضور کی حوصلہ افزائی درہنمائی سے کشمیریوں کی توجہ تجارت و سیاست وغیرہ کی طرف ہوئی اور اس طرح جو بیج بویا گیا تھا اس کے شیریں ثمرات آج بھی مل رہے ہیں اور یہ کہنا کسی طرح بھی مبالغہ نہیں ہے کہ ریاست کشمیر میں آج جو لوگ مخلصانہ خدمات بجالا رہے ہیں وہ یا ان کے بزرگ اس تحریک کے زمانہ میں آگے آتے تھے اور حضور کی قیادت کا فیض آج بھی جاری ہے اور ریاست میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی ہر ترقی اور کامیابی کے پیچھے ایک مخلص پر درد دل کی دُعائیں اور نیک خواہشات پائی جاتی ہیں سے اک وقت آتے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس خدائی پہ رحمت خدا کرے حضور نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد بھی خدمت اسلام اور انصر أَخَاكَ

Page 261

کی ظَالِماً او مظلوما کے ارشاد کی تعمیل برابر جاری رکھی.آپ کی ہدایات و رہنمائی کے مطابق دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جماعت ہر ممکن طریق پر اس مشن کے حصول کے لیے برا بر کوشاں رہی.منظومین کشمیر بھی خوب جانتے تھے کہ ان کا ہمدرد و غم خوار کون ہے.ذیل میں درج ایک واقعہ سے اس امر پر سنجوبی روشنی پڑتی ہے.نور الدین ولد مفتی ضیا الدین سرینگر عیسائی مشن کی طرف سے ایک پیچیدگی پیدا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- " میں علماہ گدی نشینوں اور لیڈروں کے پاس امداد کے لیے گیا لیکن کسی نے میری مدد نہ کی اور عیسائیوں نے بذریعہ عدالت میرے چھوٹے بھائی پر قبضہ حاصل کر لیا.اس کے بعد عیسائیوں نے میری ہمشیرہ کے حصول کے لیے کوشش کی جب میں نے سب طرف سے اپنے آپ کو بے یارو مددگار پایا تو میں نے اس کس مپرسی کی حالت میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کے حضور امداد کے لیے درخواست کی.گو میں سُستی ہوں اور جماعت احمدیہ کے خیالات و عقائد سے متفق نہیں لیکن انہوں نے بروقت امداد فرمائی......خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مقدمہ میں ہمیں کامیابی ہوئی.عیسائیوں کی اپیل خارج ہوگئی.) اخباره اصلاح سرینگر از اکتوبر ) حضرت مصلح موعود نے آل انڈیا کشمیر کیٹی کی صدارت سے جب استعفی دیا تو وہ مذکورہ کمیٹی کے شباب کا زمانہ تھا ہر تحریک بڑی عمدگی و سرعت سے جاری تھی.نتائج حسب دلخواہ مکمل رہے تھے اور شاندار کامیابی آنکھوں کے سامنے اور یقینی تھی.ایسے میں کشمیر کیٹی کے کام کو آگے بڑھانا اور ترقی دینا زیادہ مشکل کام نہیں تھا.مگر تاریخ آزادی کشمیر کا یہ عجیب سانحہ ہے کہ جیسے ہی حضور نے استعفیٰ دیا اور حضور کی جگہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کو جو اپنی شہرت کے بام عروج پر نیچے ہوئے تھے.صدارت کا کام تفویض ہوا تو اپنوں اور بیگانوں نے یہ ناقابل یقین نظارہ دیکھا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا سورج نصف النہار پر غروب ہو گیا.علامہ صاحب نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں.بے شمار مداحوں اور کارکنوں اور بے شمار وسائل و ذرائع کے باوجود اس کمیٹی کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا.جس سے آزادی کشمیر اور مسلمانوں کے اعلیٰ مقاصد کو زیر دست نقصان پہنچا.یہی وجہ ہے کہ مخلص مسلمان لیڈروں اور پریس نے آل انڈیا کشمیر کیٹی سے حضور کی علیحدگی اور اس کمیٹی کو ختم کرنے کے متعلق بہت سخت لفظوں میں احتجاج کیا.چنانچہ

Page 262

۲۶۲ خیر کشمیر" شیخ محمد عبداللہ نے لکھا: ایک عریضہ ارسال خدمت کر چکا ہوں.اب پھر التماس ہے کہ میری رائے ناقص میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کام برابر جاری رکھا جاتے اور جو کمیٹی پہلے بنی تھی وہ برابر کام کرے.یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اس کی ہر سیاسی جماعت کی خود غرضی باہم اتفاق کو نقصان پہنچا کر ساری قوم کو نقصان پہنچانے کے لیے اور نیز اس انجمن کو ختم کر دینے کے لیے اسباب پیدا کر دیتی ہے.آل انڈیا کشمیر کیٹی کو ضرور کام کرنا تاریخ احمدیت جلد ها صفحه ۲۲۷-۲۲۸) چاہیے" استعفی کے بعد خدمات کا تسلسل : حضور نے کشمیر کیٹی کی صدارت کسی لالچ اور غرض سے تو حاصل نہیں کی تھی.بلکہ بی نصب باصرار آپ کے حوالہ کیا گیا تھا.اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کی خدمت تھا.جس کا ثبوت یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے آپ ہمیشہ اپنے تمام ذرائع و وسائل کو بروئے کارلاتے رہے اور اس سلسلہ میں ہر مفید و ضروری کام میں شامل ہوتے رہے.یہی وجہ ہے کہ آزادی وطن کے معاً بعد جب پاکستانی لیڈروں کو نئے اور بے سروسامان ملک کو چلانے اور جوق در جوق آنے والے لٹے پٹے مہاجرین کی آبادی و بحالی کی مصروفیت در پیش تھی.آپ نے آزادی کشمیر کے عظیم مقصد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک نہایت موثر اور قابل عمل طریق کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :- کشمیر اور حیدر آباد کا فیصلہ اکٹھا اور ایک ہی اُصول پر ہونا چاہیئے ورنہ ڈر ہے کہ دونوں ہی ہاتھ سے نکل جائیں.اگر حکمران کی مرضی پر فیصلہ ہو تو ہمیں حیدر آبادل جائیگا اور اگر رعایا کی مرضی پر ہو تو ہمیں کشمیر مل جاتے گا.اگر اکٹھا فیصلہ نہ ہو تو اس سے مسلمانوں کو سخت نقصان ہوگا.کیونکہ ایک فیصلہ کو اپنے حق میں کرا کے انڈین یونین پھر اپنا اصول بدل کر دوسری ریاست کے بارے میں جھگڑا کر سکتی ہے.بالآخر آپ نے فرما یا گو حیدر آباد اور کشمیر دونوں کا سوال اہم ہے مگر بعض لحاظ سے میرے خیال میں کشمیر کا معاملہ بہت زیادہ اہم ہے.خصوصاً اس لیے کہ اس سے پاکستان کی حفاظت اور مضبوطی پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے.الفضل ۱۷ اکتوبر ) اگر اس تجویز پر موثر رنگ میں عمل ہوتا تو یقینی طور پر کشمیر پاکستان کے ساتھ شامل ہوتا.اور وہ بے شمار نقصانات جو مسئلہ کشمیر کے صحیح طور پر حل نہ ہونے کی وجہ سے تمہیں اُٹھانے پڑے ان سے بیچ جانے کی وجہ سے پاکستان اپنے موجودہ مقام سے کہیں آگے اور بہتر ہوتا.

Page 263

آپ کی کشمیر سے دلچسپی اور آزادی کی تڑپ اور مسلمانوں کی بھلائی و بہبودی کی خواہش کا ایک پل آزادکشمیر کا قیام ہے.سرداری احمدخان کو رسائی چیف پیٹی غیر حکومت آزادک شیراس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.تیم اکتو بر دار کو جوناگڑھ میں عارضی متوازی حکومت کا اعلان کیا گیا اور نواب جونا گڑھ کو معزول کیا گیا.جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعات احمدیہ نے دیکھا کہ یہی وقت کشمیریوں کی آزادی کا ہے تو آپ نے کشمیری لیڈروں اور در کروں کو بلایا.میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا کہ مفتی اعظم ضیاء الدین صاحب ضیاء کو عارضی جمہوریہ کشمیر کا صدر بنایا جائے.مگر انہوں نے انکار کیا......آخر میں قرعہ خواجہ غلام نبی صاحب گل کار انور کے نام پڑا.۲ اکتوبرکو گجرات میں ایک اور میٹنگ ہوئی جس میں غضنفر علی خان وغیرہ سے مشورہ ہوا.بمشورہ ملک عبدالرحمان صاحب خادم گجراتی پلیڈر مسودہ تیار کیا گیا.اس کی نقل بذریعہ ماسٹر امیر عالم صاحب کو ٹلی اور چوہدری رحیم داد صاحب ----- جناب مرزا صاحب کی خدمت میں لاہور بھیج دیا گیا.سیلاب کی وجہ سے راولپنڈی اور لاہور کی ریل بند تھی.مرزا صاحب نے خواجہ غلام نبی صاحب گل کار انور کو اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں لاہور سے گوجرانوالہ بھیج دیا.۱۳ اکتوبر کو بمقام پیرس ہوٹل متصل ریلوے پل راولپنڈی کارکنوں کی کئی میٹنگیں ہوئیں.آخر مسودہ پاس ہو کر خواجہ غلام نبی صاحب گل کار انور کے ہاتھ سے لکھے کہ انور بانی صدر عارضی جمہور یہ حکومت کشمیر" کے نام سے ہری سنگھ کی معزولی کا اعلان ہوا.روز نامه همارا کشمیر منظر آباد ۲ اکتوبر ۱۹۵۳) پروفیسر قریشی محمد اسحاق ایم.اے مسلم کانفرنس کے ایک اہم عہدیدار کو شاہ کے آخرمیں کشمیر سے ریاست بدر کر دیا گیا.سردار گل احمد خان کے مندرجہ بالا بیان کو پروفیسر صاحب مذکور کے مندرجہ ذیل بیان کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے آزادی کشمیر اور استحکام پاکستان کے لیے مساعی کے کئی اور گوشے نمایاں ہوتے ہیں.وہ تحریر کرتے ہیں :- ۲۱ ر ستمبر سنہ میں جب مجھے تین سال کے لیے ریاست بدر کر دیا گیا تو مقام

Page 264

۲۶۴ لاہور وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان مرحوم نے ایک سیاسی میٹنگ میں مجھے کہا کہ میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے رابطہ قائم کروں......چنانچہ میں نے حضرت صاحب سے رابطہ قائم کیا اور اس سلسلہ میں ان کے ساتھ ستمبر اکتوبر نومبرمیں تین چار ملاقاتیں پریذیڈنٹ مسلم کانفرنس چوہدری حمید اللہ خان صاحب کے ساتھ کیں ہیں ذاتی علم کی بنا پر کہ سکتا ہوں کہ امام جماعت احمدیہ کشمیر کی آزادی کے سلسلہ میں بہت اہم رول ادا کر رہے تھے اور حکومت پاکستان کے وزیراعظم کی بالواسطہ یا بلاواسطہ اس سلسلہ میں انہیں حمایت حاصل تھی......کشمیر کو آزاد کرانے کے سلسلہ میں جو تڑپ میں نے ان کے دل میں دیکھی ہے وہ دنیا کے بڑے بڑے محب وطنوں میں ہی پائی جاتی ہے...میں نے ان جیسی صاف سوچ اور ان جیسا تدبیر بہت کم مدیروں میں دیکھا.میرا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں، لیکن میں نے میاں بشیر الدین صاحب کا ان جذبات کے لیے ہمیشہ احترام کیا ہے.میں نے اب تک حضرت مرزا صاحب جیسا عالی دماغ مدیر اور آزادی کشمیر میں مخلص کسی کو نہیں دیکھا " (مقاله قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل ) پاکستان کے لیے کشمیر کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر جس غیر معمولی کوشش و قربانی کی ضرورت تھی.اس کی طرف نہایت موثر الفاظ میں توجہ دلاتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- " ہم تمام مسلمانوں کی توجہ اس طرف پھراتے ہیں کہ اس وقت بخل سے کام نہ لیں کیونکہ کشمیر کا مستقبل پاکستان کے مستقبل سے وابستہ ہے.آج اچھا کھانے اور اچھا پہننے کا سوال نہیں.پاکستان کے مسلمانوں کو خود فاقے رہ کر اور نگے رہ کر بھی پاکستان کی مضبوطی کے لیے کوشش کرنی چاہیئے اور جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں پاکستان کی مضبوطی کشمیر کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے " ) الفضل ۱۲ نومبر ۱۳) ملک کے مختلف مقامات پر حضور نے مسئلہ کشمیر کی اہمیت اور کشمیر کی آزادی کا پاکستان کی ترقی و استحکام کے ساتھ تعلقی پر لیکچر دیئے اس سلسلہ میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کی یو این او میں پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت میں مجاہدانہ کوششیں تاریخ پاکستان کا سنہری باب ہے.تاہم حضرت مصلح موعود کی فراست اور پیش بینی نے بعد میں آنے والی صورت کو بھی خوب سمجھ لیا تھا.چنانچہ آپ نے فرمایا :

Page 265

۲۶۵ " سیکیورٹی کونسل اپنے دوسرے فیصلوں کی طرح کشمیر کا فیصلہ بھی حقائق اور واقعات کی روشنی میں تقاضائے انصاف کے مطابق نہیں کرے گی بلکہ اس کا فیصلہ بین الاقوامی سیاست کے پیش نظر ہو گا " رہنما را ولپنڈی ۱۵ را اپریل 19 تاریخ احمدیت جلد (4) بین الاقوامی حالات اور بڑی طاقتوں کے حوالے سے مسئلہ کشمیر کی عظمت و اہمیت اور مسلمانان عالم کی ذمہ داریوں کے متعلق حضور نے بروقت متنبہ کرتے ہوئے فرمایا :- " امریکہ اور روس جو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر آمادہ ہو رہے ہیں اس مسئلہ میں ایک بستر کے دو ساتھی نظر آتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ کشمیر کے معاملہ میں بھی یہ دونوں متحد تھے.دونوں ہی انڈین یونین کی تائید میں تھے اور اب دونوں ہی فلسطین کے مسئلہ میں یہودیوں کی تائید میں ہیں.آخر یہ اتحاد کیوں ہے ؟ یہ دونوں دشمن مسلمانوں کے خلاف اکٹھے کیوں ہو جاتے ہیں ؟ اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں مگر شاید ایک جواب جو ہمارے لیے خوش کن بھی ہے زیادہ صحیح ہو یعنی دونوں ہی اسلام کی ترقی میں اپنے ارادوں کی پامالی دیکھتے ہوں جس طرح شیر کی آمد کی بُو پا کر گئے اکٹھے ہو جاتے ہیں شاید اسی طرح یہ اکٹھے ہو جاتے ہیں.شاید یہ دونوں ہی اپنی دور بین نگاہوں سے اسلام کی ترقی کے آثار دیکھ رہے ہیں.شاید اسلام کا شیر جو ابھی ہمیں بھی سوتا نظر آتا ہے.بیداری کی طرف مائل ہے.شاید اس کے جسم پر ایک خفیف سی کیسی وارد ہو رہی ہے جو ابھی دوستوں کو تو نظر نہیں آتی مگر دشمن اس کو دیکھ چکا ہے اگر یہ ہے تو حال کا خطرہ مستقبل کی ترقی پر دلالت کر رہا ہے ، مگر ساتھ ہی مسلمانوں کی عظیم الشان ذمہ داریاں بھی ان کے سامنے پیش کر رہا ہے " ) الفضل الورمئی ۱۹۴۷ م جنوری شکلہ سے لندن میں دولت مشترکہ کے وزرائے اعظم کی کانفرنس ہو رہی تھی.خان لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ جب تک مسئلہ کشمیر اس کا نفرنس کے ایجنڈا میں شامل نہ کیا جائے گا وہ اس میں شامل نہیں ہوں گے.اس بر وقت اور دلیرانہ اقدام پر حضرت مصلح موعود نے انہیں مندرجہ ذیل پیغام دیا :- آپ نے دولت مشترکہ کے وزارا.اعظم کی کانفرنس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کی

Page 266

شمولیت پر زور دیتے ہوئے جس عزم و ثبات کا اظہار کیا ہے میں اس پر آپکو مبارکباد دیتا ہوں.اگر چہ ہماری جماعت کے نزدیک دولت مشترکہ کی رکنیت بھی اہم ہے لیکن اس کے نزدیک یقیناً پاکستان کی سلامتی اور حفاظت کا سوال اس سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہے.خیر سگالی کا جذبہ بیشک ایک ناقابل قدر اور نهایت بیش قیمت چیز ہے لیکن اپنے ملک کے مفاد کے لیے ثابت قدمی دکھانا بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے.خدا آپ کے ساتھ ہو الفضل ۶ جنوری ۱۹۵۷) کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے استحکام سے متعلق حضور کا مندرجہ ذیل بیان اس بنیادی اہمیت کے مسئلہ سے حضور کی نہ ختم ہونے والی دلچسپی اور جدوجہد کا مظہر ہے." حکومت پاکستان کے محکمہ بغیر پورٹ فولیو نے ۰ ارمئی ۹ہ کو ایک اعلان شائع کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں استصواب رائے عامہ کے لڑنے کے لیے انہوں نے ایک پالیسی طے کرلی ہے اور اس کے اُصول انہوں نے شائع کر دیتے ہیں اور مختلف کاموں کے لیے سب کمیٹیاں بنادی ہیں...اس اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کشمیر کی جدوجہد کے خاتمہ کا زمانہ اب قریب آرہا ہے اور یہ جد وجہد اب اپنے آخری دور میں داخل ہونے والی ہے.مجھے چونکہ قدرتاً اس نئی جدوجہد سے دلچسپی ہے جو اس سابقہ سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کا میں صدر رہا ہوں.مجھے خصوصیت سے یہ تڑپ ہے کہ کشمیر کے مسلمان آزاد ہوں اور اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں سے مل کر اسلام کی ترقی کی جدوجہد میں نمایاں کام کریں اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوتے میں تمام ان لوگوں سے جو کشمیر کے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں اپیل کرتا ہوں کہ اب جبکہ آزادی کی یہ تحریک آخری ادوار میں سے گزر رہی ہے اپنی سب طاقتیں اس کی کامیابی کے حصول کے لیے لگا دیں اور ایسی باتوں کو ترک کر دیں جو اس مقصد کے حصول میں روک ثابت ہو سکتی ہوں.یہ صاف اور سیدھی بات ہے کہ جو اہمیت مقصد کو حاصل ہوتی ہے ذریعہ کو حاصل نہیں ہوتی.ہم خیال لوگوں کے ذرائع مختلف ہو سکتے ہیں مگر مقصد الگ الگ نہیں ہو سکتے.یہ بھی ظاہر امر ہے کہ ایک متحد خیال کو مختلف تدابیر پر قربان نہیں کیا جا سکتا.مختلف تدابیر ہی

Page 267

۲۶۷ میں سے بعض کو مقصد وحید کے لیے قربان کیا جائے گا.یہیں پاکستان کے ارباب حل و عقد کو یہ موقع دینے کے لیے کہ وہ ایسی پالیسی کو جسے وہ صحیح سمجھتے ہیں اچھی طرح چلا سکیں.تمام مہاجرین کشمیر اور پاکستانی مسلمانوں کو سہولتیں بہم پہنچائی جائیں تا پاکستانی حکومت دلجمعی سے کام کر سکے اور ان نتائج کو پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکے.جو وہ پیدا کرنا چاہتی ہے.یہ میں نہیں کہتا کہ کوئی شخص اپنے اختلاف رائے کو ان لوگوں کے سامنے بھی پیش نہ کرے جو حکام مجاز ہیں.ان کے سامنے اپنے خیالات کو بغیر جوش اور تعصب کے رکھ دینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہتے کہ اصل کام کی جگہ لڑائی جھگڑوں کے تصفیہ میں وہ لگے رہیں اور اصل کام کا حرج ہو جاتے.پس تمام مختلف الخیال کشمیری مہاجرین کو اس کام کے لیے اکٹھا ہو جانا چاہیتے اور حکومتِ پاکستان کے مقرر کردہ اداروں سے مل کر اس طرح زور لگانا چاہیئے کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو جائے اور یہ عظیم الشان خطرہ جو ہر وقت پاکستان کے سامنے رہتا ہے کلی طور پر دُور ہو جائے.یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اول تو اعلان میں کشمیر کے نمائندوں کا نام نہیں ہے.اگر اہل کشمیر میں سے بعض کو بعض سے اختلاف بھی ہو تو یہ کون کہ سکتا ہے کہ ہر نمائندہ ضرور ان سے اختلاف خیال رکھتا ہو گا ، لیکن اگر فرض کرو ایسا ہو بھی تو کیا چند دنوں کے لیے ایک مخصوص کام کے لیے جس پر کشمیر کے مسلمانوں کی زندگی اور موت کا انحصار ہے وہ صبر سے کام نہیں لے سکتے.میں تمام اہل کشمیر سے جن پر میرا پہلی جنگ آزادی کی خدمات کی وجہ سے یقیناً حتی ہے کہتا ہوں کہ پاکستانی حکومت کی مذکورہ بالا تجاویز کو کامیاب کرنے کے لیے وہ پوری طرح تعاون کی روح کا مظاہرہ کریں.کشمیر اگر پاکستان سے ملا تو دوسروں کا ہی نہیں ان کا بھی فائدہ ہوگا.اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور ان اسباب کو دور کر دے جو تفرقہ اور انشقاق کا موجب ہوتے ہیں " الفضل ۱۷ متى -

Page 268

تحریک جدید وقف جدید " خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی زندگی میں جو خاص کا میا بیاں اپنے فضل سے عطا فرماتی ہیں ان میں ایک اہم کامیابی تحریک جدید کو عین وقت پر پیش کر کے مجھے حاصل ہوئی.اور یقینا یں سمجھتا ہوں جس وقت میں نے یہ تحریک کی وہ میری زندگی کے خاص مواقع میں سے ایک موقعہ تھا اور میری زندگی کی بہترین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی تھی.) مصلح موعود )

Page 269

جماعت احمدیہ کی نظم اجتماعی خافت جرمنی کے نازی لیڈر ہٹلر- گوئیلز وغیرہ اور کمیونزم کی اشاعت کے ذمہ داروں نے جھوٹ گھڑنے.جھوٹ بولنے.جھوٹ پھیلانے کے ریکارڈ ضرور قائم کئے اور اس غرض کے لیے نت نئے طریق دریافت کئے مگر انہوں نے خدا اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وستم کا مقدس نام اپنی دنیوی ذلیل اغراض کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا تھا.یہ اعزانہ ہمارے ہاں کے بعض نام نهاد علماء (علما شھم ) کے حصہ میں آتا ہے.جنہوں نے مذہب کے نام پر رحمتہ للعالمین کے نام پر اس بے دردی و ظالمانہ طریق سے جھوٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا کہ صاحب جوامع الکلم کے ارشاد " شر من تحت ادیم السماء " کے سوا اور کوئی ذریعہ اس کے بیان واظہار کا نہیں ہو سکتا.مجلس احرار.آل انڈیا کانگریس (جو مسلمانوں کی حق تلفی اور قیام پاکستان کی مخالفت پر قائم تھی ) کی معنوی اولاد ہے.کانگریسی قیادت کی مسلم دشمنی کوئی سربستہ راز نہیں ہے.پاکستان کے قیام کی بنیاد دو قومی نظریہ کو دقیانوسی خیال قرار دیتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو اپنی کتاب میری کہانی میں لکھتے ہیں :- " ایسے لوگ ابھی زندہ ہیں جو ہند و مسلمانوں کا ذکر اس طور پر کرتے ہیں گویا دوملتوں اور قوموں کے بارہ میں گفتگو ہے.جدید دنیا میں اس دقیانوسی خیال کی گنجائش نہیں " تحریک پاکستان اور نیشنلسٹ علما صا ) کانگریس کے ایک اور بہت بڑے لیڈر جو کسی طرح بھی پنڈت نہرو سے کم درجہ نہ رکھتے تھے اور ند با مسلمان تھے.دو قومی نظریہ کے خلاف ہندوستانی قوم کو ایک قرار دیتے ہوئے یہ باور کروانے کی کوشش میں رہے کہ اس امر پر تو قسمت کی مہر لگ چکی ہے.لکھتے ہیں : - ہماری ایک ہزار برس کی مشترک زندگی نے ایک متحدہ قومیت کا سانچہ ڈھال

Page 270

دیا ہے.ایسے سانچے بناتے نہیں جاسکتے وہ قدرت کے مخفی ہاتھوں سے صدیوں میں خود بخود بنا کرتے ہیں.اب یہ سانچہ ڈھل چکا اور قسمت کی مہر اس پر لگ چکی ہم پسند کریں یا نہ کریں مگر اب ہم ایک ہندوستانی قوم اور ناقابل تقسیم ہندوستانی قوم بن چکے ہیں.علیحدگی کا کوئی بناوٹی تخیل ہمارے اس ایک ہونے کو دو نہیں بنا سکتا.....(خطبات مولانا ابوالکلام آزاد م۳ ) مولانا ابوالکلام آزاد ہی کی اشیر باد سے مجلس احرار کی بنیاد رکھی گئی جیسا کہ مندرجہ ذیل دو حوالوں سے بخوبی واضح ہوتا ہے.کے کانگریس کے اجلاس میں ۲۹؍ دسمبر ہ کو مولانا آزاد کے مشورہ پرال انڈیا کانگریس کے اسٹیج پر چودہری افضل حق صاحب کی صدارت میں مجلس احرار کا پہلا جلسہ ہوا.....احرار رہنماؤں نے یکسو ہو کر کانگریس کے نئے فارمولے پر غور کرنا شروع تحریک پاکستان اور نیشنلٹ علما ، صفحہ ۴۹۶ - ۴۹۷ ) کیا" - امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام صاحب آزاد کی موجودگی میں یہ مسئلہ پیش ہوا کہ مسلمانوں کی ایک علیحدہ آزاد خیال جماعت قائم کی جائے جو مسلمانوں کو مذہب کیسا تھ ساتھ وطنیت کا بھی سبق دیتی رہے......سب نے اس پر اتفاق کیا.....باہمی مشورہ سے یہ طے پایا کہ اس مجلس کا نام مجلس احرار اسلام ہو جسے سب دوستوں نے بخوشی قبول اخبار مجاهد ار اگست - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۷ صفحه ۳۹-۴۰) کر لیا ۹۳۵ اس مجلس نے اپنی ابتدا سے ہی مسلمانوں کے حق میں ہر مفید بات کی مخالفت بلکہ ہر اسلامی حکمت عملی کی مخالفت کو اپنا لائحہ عمل بنایا مسلم لیگ جس کے ذریعہ پاکستان کا حصول ممکن ہوا اس کی نفی کرتے ہوئے ایک مشہور احراری لیڈر لکھتے ہیں : ہندوستان میں صرف دو جماعتیں ہیں ایک کانگریس اور دوسری حکومت برطانیہ تاریخ احمدیت جلد ۷ ۳۲ - اخبار مشینل کانگریس ۳ جنوری ) ہندوؤں کے مفادات مجلس احرار کے اس حد تک مد نظر رہے کہ انہیں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ :- ہماری ایماندارانہ رائے ہے کہ کانگریس سے علیحدہ ہو کر ہم نے جس قدر تحریکوں میں حصہ لیا ہے ان تمام میں بے کار وقت ضائع کیا اور فضول ہنگامے برپا کتے " 907 ر اخبار زمیندار ۲۱ جون له بحوالہ فسادات شاہ کا پس منظر مت )

Page 271

۲۷۱ کانگریس کا ایک حصہ اور جزو ہونے کی وجہ سے ان کا یہ طریق عمل قدرتی اور طبعی نظر آتا ہے.یہاں تک ہی نبی نہیں کہ اُن کا قیام کا نگر میں کا مرہون منت تھا.بلکہ ان کی خلاف اسلام دپاکستان سرگرمیوں کے لیے اخراجات کسی سلم تنظیم یا جماعت کی طرف سے نہیں بلکہ کانگریس کے ہند وسرمایہ داروں کی طرف سے ادا کئے جاتے تھے.احرار کے سر پرست مجلس احرار کے پر جوش ممبر شورش کا شمیری جو ایک وقت میں جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر بھی فائز رہے اور سید عطا اللہ شاہ بخاری سے عقیدت اور جماعت احمدیہ کی مخالفت میں اپنے آپ کو سرخیل سمجھتے تھے لکھتے ہیں :- " جب مولانا (مظہر علی) دھتکار کر جانے لگے تو شاہ جی نے روک لیا.مولوی صاحب آپ کہاں جا رہے ہیں.آپ تشریف رکھیں آپ کے خلاف یا جماعت کے خلاف شورش کچھ چارج لگا رہا ہے ؟ مولوی صاحب رُک گئے.میں نے ترتیب وار چارج لگانے شروع کئے.کانگریس کا روپیہ ساٹھ ہزار دس ہزار کی ایک قسط اور پچاس ہزار کی دوسری قسط اور یونینسٹ پارٹی.......کچھ دیر تو سناٹا چھایا رہا.پھر سکوت ٹوٹا.مولانا نے تسلیم کیا کہ روپیہ لیاگیا ہے لیکن اس وقت ان کے ذہن میں صحیح یاد نہیں کہ یہ رقم کتنی ہے بات صبح پر ملتوی ہو گئی...---- رات جو گزری سو گزری صبح پھر وہی حیص بیص صاحبزادہ صاحب نے ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کہیں یہ کہہ دیا کہ شورش اپنے الزام واپس لیتا ہے.میں موجود نہ تھا.جب پہنچا تو مجھے حیرت ہوئی.خیر دوبارہ وہی قصہ چھڑ گیا.مولانا مظہر علی نے تسلیم کیا کہ روپیہ لیا گیا ہے لیکن اس کے سزا وار وہ تنہا نہیں بلکہ باقاعدہ مشورہ سے رقم قبول کی گئی ہے.....پچاس ہزار روپے کی رقم کا چیک کا لالہ بھیم سین سحر کی تحویل میں دیا گیا جوان کی معرفت دفتر احرار میں پہنچا.پھر اس رقم کی بندر بانٹ کی گئی.......جب مولا نا منظر علی نے بتایا کہ نواب زادہ نصر اللہ خاں کے سوا در کنگ کمیٹی کے ہر امید وار نے ان سے روپیہ لیا ہے تو سب نے تسلیم کیا.شیخ حسام الدین بھی مان گئے.ماسٹر تاج الدین نے بھی سر ہلا دیا.مولانا حبیب الرحمن نے بھی صادر کیا.اس مجموعی رقم میں سے لے دیگر صرف بیس ہزار بچتے تھے.مولانا مظہر علی اظہر نے دس ہزار اپنے الیکشن کا صرفہ بتایا اور دس ہزار روپیہ کے متعلق کہا کہ وہ روزنامہ آزاد نکالنے

Page 272

۲۷۲ کے لیے جمع رکھا گیا ہے ؟ تحریک پاکستان اور نیشنلسٹ علما - صفحه ۱۴ - ۱۶ - چٹان ۱۶ اپریل الته ) دین حق کی مخالفت اور ریشہ دوانیوں کیلئے کانگریسی انعامات کے علاوہ ان کی غیبی امداد کے بعض اور ذرائع بھی تھے جن کا ذکر کرتے ہوئے تحقیقاتی عدالت نے تسلیم کیا کہ مخالف احمدیت تحریک کی سرپرستی کے لیے ایک سرکاری افسر نے تعلیم بالغاں کی مد سے دولاکھ میں ہزار روپے حاصل کئے بان اخراجات کی تفصیل بتاتے ہوئے عدالت نے لکھا : " اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ مجموعی حیثیت سے ایک لاکھ روپیہ آفاق کو.اٹھاون ہزارہ " احسان" کو.پندرہ ہزارہ مغربی پاکستان کو اور میں ہزارہ زمیندار کو دیا گیا.ان اخباروں کے لیے جن میں سے دو اخباروں کی اشاعتیں بہت کم تھیں یہ عطیات امدادِ غیبی سے کم نہ تھے اور وہ اس قدر ممنون اور زیر بار احسان تھے کہ اگر حکومت چاہتی تو جس پالیسی پر ان کو چلانا چاہتی وہ فوراً اسی پر کار بند ہو جاتے ، لیکن ان اخباروں کے تراشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سب کے سب اس تنازع میں سرگرمی سے مصروف تھے اور جن دنوں میں انہیں یہ رقوم دی جا رہی تھیں ان دنوں میں بھی برابر اس شورش کی آگ کو ہوا دے رہے تھے " تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۸۴) گویا پاکستان دشمن اسلام دشمن حرکات بطور حق نمک ادا ہو رہی تھیں.ان حالات میں اگر احرار نے جماعت احمدیہ کی (جو اسلام سے عقیدت و محبت اپنی قربانی کی روح اور ہندو چالوں کو بخوبی سمجھ کر ان کا توڑ کرنے والی تھی مخالفت اور اس مخالفت میں جھوٹ و نفرت کے ہتھیاروں کو استعمال کرنا ضروری سمجھا تو اس کی وجہ خوب سمجھ آتی ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک ایک ورق یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے مقصد کو سامنے رکھ کر اپنی جدوجہد کا آغا نہ کیا.آریوں اور عیسائیوں کی مخالفانہ یورش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا.ہر وار جو اسلام یا بانی اسلام پر کیا گیا وہ اپنی چھاتیوں پر لیا.تبلیغ اسلام کا جہاد شروع کیا.ان باتوں کی مخالفت کوئی مسلمان یا اسلام کا درد رکھنے والا کیوں کرے گا.اور یہی وجہ ہے کہ عملاً جماعت احمدیہ کی خدمات کو ہمیشہ بنظر استحسان ہی دیکھا گیا جس کا ثبوت اس کتاب اور احمدیہ لٹریچر میں بکثرت ملتا ہے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے عقائد اور مسلمات اور ہمارے حقوق اللہ و حقوق العباد کی ادائیگی کے تمام پروگرام کسی بھی

Page 273

۲۷۳ واقعی اسلام پسند کو نا پسند نہیں.یہی وجہ ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی احراری قسم کی تائید ہوئی تو غیر مسلموں کی طرف سے ہوئی.چنانچہ ایک مشہور غیر مسلم اخبار نے ہماری مطالبہ کی تائید کرتے ہوئے لکھا :." ہم اس کی بزور تائید کرتے ہیں اور گورنر صاحب بہادر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیگر پنجاب میں کم از کم 2 فیصدی نشتیں مقامی کونسل میں اور دو نشستیں مرکزی اسمبلی میں دی جائیں اس سے پولیٹیکل پیچیدگیاں سلجھ جائیں گی.(اخبار شیر پنجاب - بحواله الفضل ۱۴ مئی ۱۹۳۵-) اس کے برعکس معقول اور لکھے پڑھےمسلمانوںنے کبھی بھی احرار کے طرز عمل کو بند نہ کیا.قائداعظم کے سوانح نگار اور مشہور مصنف سید ر میں احمد صاحب جعفری نے اپنی کتاب اقبال اور سیاست ملی میں لکھا:." اسلام اور قادیانیت مسلمان اور قادیانی ایک خالص دینی اور علمی مسئلہ ہے.اس پر اسی حیثیت سے بحث و گفتگو ہونی چاہتے.بدقسمتی سے اس مسئلہ کو جذباتی بنالیا گیا جس سے عوام متاثر بھی ہوئے اور مشتعل بھی.پھر اس کے نتیجہ میں ہنگامہ آرائیاں اور فساد انگیزیاں بھی ہوئیں.قتل و غارت اور گشت و خون کے مناظر بھی لوگوں نے دیکھے چنانچہ مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ ان حرکتوں کے باعث یا تو سرے سے مذہب سے بیزار ہوگیا یا کم از کم اس مسئلہ کو اس نے کوئی اہمیت نہیں دی اور دین ملا فی سبیل اللہ فساد کہہ کر خاموش ہو گیا.(اقبال اور سیاست علی صلا۳ ) مگر مجلس احرار کے خمیر میں تو کانگریس کا نمک تھا.یہی وجہ ہے کہ وہ علمی رنگ میں جماعت کی مخالفت کرنے والے تمام ان لوگوں کو جو اپنے وقت میں مشاہیر و اکابر میں شمار ہوتے تھے قطعی نا کام قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : حجۃ الاسلام حضرت علامہ انورشاہ صاحب کا شمیری حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور حضرت مولوی ثنا اللہ صاحب امرتسری و غیر ہم رحم اللہ کے علمی اسلحہ فرنگی کی اس کاشتہ داشتہ نبوت کو موت کے گھاٹ نہ اُتار سکے تو مجلس احرار اسلام کے مفکر اکابر نے جنگ کا رُخ بدلا.نئے ہتھیار لیے اور علمی بحث و نظر کے میدان سے ہٹ کر

Page 274

帅 سیاست کی راہ سے فرنگی سیاست کے شاہ کار پر حملہ آور ہو گئے ؟“ ) اخبار آزاد ۳۰ اپریل سدا ( تاریخ احمدیت جلد ۷ صفحه (۳۸-۳۸۲) مجلس احرار کی سیاست جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اول آخر جھوٹ کی سیاست تھی.اسی وجہ سے انہوں نے اپنے اسلحہ خانہ میں فرنگی استعمار کا کاشتہ پودا ایک ایسا داؤ چُھپا رکھا تھا جس کے متعلق مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب کو یقین تھا کہ " اس داؤ کا گھاؤ گہرا ہے " مگر به ایجاد بندہ دار اندھے کی لاٹھی کی طرح خود احراری تصریحات کے مطابق خاکسار تحریک - مسلم لیگ.ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال نظریہ پاکستان مختلف مسلم اکابر علما مرستید - غلام احمد پرویز ادارہ ثقافت اسلامیہ وغیرہ پر بھی جب اور جس طرح چاہا استعمال کیا گیا قطع نظر اس کے کہ انس میں حقیقت کا کوئی شائبہ تھا بھی یا نہیں.احرار کے مقاصد احمدیوں کی.علی رغم انف اعدام کامیابیاں اور ترقیات مجلس احرار کے بغض و حسد میں اضافہ کا باعث بنے لگیں چنانچہ مشہور احراری لیڈر مولوی حبیب الرحمان لدھیانوی نے اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے مسجد خیر الدین امرتسر میں اپنی ایک تقریر میں کہا : احمدی اپنی سیاسی طاقت کو بڑھا کہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں.ہماری اور گورنمنٹ کی سیاسی طاقت کو یہ آہستہ آہستہ چھین رہے ہیں....ہم نے ان کی طاقت کو دبانا اور سیاسی قوت کو تباہ کرنا ہے......ہم نے ایک سال کے لیے عہد کر لیا ہے کہ نہ چاروں کو نہ ہندوؤں اور سکھوں کو نہ عیسائیوں کو تبلیغ کریں گے اور نہ ان کے پاس جائیں گے صرف استیصال مرزائیت کریں گے......ایک ہندو نے مجھ سے سوال کیا کہ جب نبوت کا دروازہ کھلا ہے تو مہاتما گاندھی نبی کیوں نہیں ہو سکتے.کیا انہوں نے نبیوں اور رسولوں والے فضائل اور اخلاق کا نمونہ نہیں دکھایا.میں نے اس ہندو کو کہا کہ واقعی تمہارا سوال درست اور وزنی ہے.بحواله الفضل ۲۹ ؍ مارچ ۱۹۳۳-) ---- اس بیان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جماعت کی مخالفت کی وجوہ سراسر سیاسی تھیں.مذہبی اقدار و شعائر کا احترام تو ان کے ہاں اتنا ہی تھا کہ گاندھی جی میں انہیں رسولوں والے فضائل و اخلاق نظر آتے ہیں.اور مشہور احراری لیڈر مولوی عطا اللہ بخاری کی تو ہر تقریر میں یہ ٹیپ کا بند

Page 275

۲۷۵ ہوتا تھا کہ مرزائی پاکستان کے حکمران بن جائیں گے اور گویا ان کی ساری پریشانی اور تگ و دو پاکستان کی حکمرانی کے حصول اور سیاسی کامیابی کے لیے ہے.اسلام یا دین کی خدمت کا کوئی سوال نہیں ہے.اس امر کی تائید ان کے ایک اور گھر کے بھیدی جو ابتداء میں مجلس احرار کے بہت ہی پرجوش د سرگرم رہنما اور قائد تھے یعنی مولانا ظفر علی خان مدیر زمیندار کے اس حقیقت افروز بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ مسلمانوں کو آستانہ کفر و شرک پر مجھکانا ہی مجلس احرار کا مقصد وحید قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :- " مجلس احرار اسلام جو اپنے آپ کو سر فروش مسلم جماعتوں کی صف اول میں شامل کرنے کی دعویدار بنتی ہے اور اپنی سرفروشیوں اور جان بازیوں کے ڈھنڈورسے دنیا بھر میں پیٹتی پھرتی ہے آج عبرتناک موت کی نیند کیوں سوگئی.آج اس کی آواز نہ مرکزی اسمبلی میں سنی جاتی ہے نہ صوبجاتی اسمبلیوں میں.پھر کہاں گئی مجلس احرار ---- مجلس احرار اسلام نے ہمیشہ مسلمانوں کو ہی اسلام اور ا کا بر اسلام اور خُدا رسول کے واسطے دیگر قربانیوں کے لیے بلایا.مسلمان ان مقدس ناموں کو سنتے ہی مست ہو کر جھومنے لگتا اور ان مقدس ناموں کی عزت و ناموس پر جان و مال و آبرو کی قربانیاں دینے کے لیے والہانہ دوڑتا اور زیادہ سے زیادہ قربانیاں دیتا.ذرا مجلس احرار کا محاسبہ کیجئے کہ ان قربانیوں سے مجلس کا مقصد کیا تھا اور کیا حاصل ہوا.اگر حاصل نہیں ہوا تو مسلمانوں کی قربانیاں اور خون رائیگاں نہیں گئے.دنیا پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ مجلس کے سامنے صرف ایک مقصد تھا کہ مسلمانوں کو صرف کانگریس کے آستانہ کفرو شرک پر جھکا دیا جاتے ، لیکن مسلمانوں نے لعنت کے اس بار گراں کو نہ اُٹھا یا اور نہ اُٹھاتے گا انشاء اللہ ہاں مسلمانوں کی قربانیوں کا خون مجلس احرار کے سر پر ہے اور رہتی دنیا تک مجلس کے سر رہے گا.زمیندار ۲۱ جنوری یہ فسادات کا پس منظر ص ) سیفی کا شمیری سابق سیکرٹری مجلس احرار کا مندرجہ ذیل بیان بھی اُن کے مقاصد کو خوب واضح کرتا میں تمام ان مسلمانوں کی خدمت میں جن کے دل میں خدائے قہار و جبار اور اس کے برگزیدہ رسول سرور کائنات حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کی محبت

Page 276

144 کا جذبہ ہے اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر جو کچھ مجھ کو احرار کے سرکردہ لیڈروں کی معیت.احرار کے دفتر مرکزی میں ایک لیے عرصہ کی رہائش اور زعمائے احرار کی پرائیویٹ مجالس کی کارروائی سننے کے بعد حاصل ہوا تھا.خدائے وحدہ لاشریک کی قسم کھا کر جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے قطعی اور یقینی طور پر کہتا ہوں کہ مجلس احرار کی مرزائیت یا قادیانیت کے خلاف تمام تر ---- جد و جہد اور قادیان کے خلاف یہ سب پروپیگنڈا محض مسلمانوں سے چندہ وصول کرنے اور کونسل کی مہبری کے لیے ان سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے زمیندار ۲۸ اگست ۱۹۳۶ ہے؟ عدالت کی رائے بحواله الفضل ۳۰ اگست تا ) مجلس احرار کے اکابرین کے ان بیانات کے ساتھ فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کے فاضل جوں کی رپورٹ جیسی سنجیدہ اور وقیح دستاویز میں بھی اس امر کی صراحت ملتی ہے کہ یہ لوگ اسلام کے نام سے دھوکہ دیگر لوگوں کے جذبات سے کھیلا کرتے تھے.چنانچہ لکھا ہے کہ :- " احراریوں کی پالیسی کا غالب اور بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ کسی کے ماتحت ہو کر کام نہیں کریں گے اسی اصول کے مطابق وہ کانگریس سے علیحدہ ہوتے گو اس کے بعد بھی انہوں نے کانگریس سے ملنے جلنے اور اس کے آگے دُم ہلانے کا رویہ جاری رکھا.ان کے اور سلم لیگ کے درمیان کامل مغائرت تھی اور مسلم لیگ کے پاکستان کو انہوں نے کبھی قبول نہیں کیا تھا.---- اسلام ان کے لیے ایک حربے کی حیثیت رکھتا تھا جسے وہ کسی سیاسی مخالف کو پریشان کرنے کے لیے جب چاہتے بالائے طاق رکھ دیتے اور جب چاہتے اُٹھا لیتے.....ان کے نزدیک قائد اعظم کا فراعظم تھے.....انہوں نے اسلام کو حربہ بناکر مسلم لیگ کو شکست دینے کی جو کوشش کی وہ احراری لیڈر مولانا مظر علی اظر کے بعض اقوال سے واضح ہوتی ہے اپنی مولانا سے وہ شعر منسوب کیا جاتا ہے جس میں قائد اعظم کو کا فراعظم کہا گیا تھا.تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ ص۲۷۲ ) احرار کی شاطرانہ چالوں کو دیکھ کر ہماری مایہ ناز عدلیہ کے ججوں نے کیا خوب نتیجہ نکالا ہے کہ " احرار کے رویے کے متعلق ہم نرم الفاظ استعمال کرنے سے قاصر ہیں ان کا طر یل

Page 277

بطور خاص مکروہ اور قابل نفرین تھا.اس لیے کہ انہوں نے ایک دنیوی مقصد کیلئے ایک مذہبی مسئلے کو استعمال کر کے اس مسئلے کی تو ہین کی اور اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کے لیے ا عوام کے مذہبی جذبات و حسیات سے فائدہ اُٹھایا اس بات پر صرف احرار ہی یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے اعمال میں مخلص تھے کیونکہ ان کی گذشتہ تاریخ استقدر واضح طور پر غیر مستقل رہی ہے کہ کوئی احمق ہی ان کے دعوائے مذہبیت سے دھوکا کھا سکتا ہے.خواجہ ناظم الدین نے ان کو دشمنان پاکستان قرار دیا اور وہ اپنی گذشتہ سرگر میوں کی وجہ سے اسی لقب کے مستحق تھے؟ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۲۷۷ - ۲۷۸ ) ایک تجربہ کار پاکستان فرمان انور علی کی مندرجہ ذیل رائے ہر محب وطن پاکستانی کے لیے صحیح راہ عمل متعین کرنے اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرنے میں ہمیشہ مدد گار ثابت ہوگی." میری رائے یہ ہے کہ اگر اس ملک کو صحت مند اُصولوں پر ترقی کرنی ہے تو ان سیاسی برو بیوں اور غنڈوں کو جو ایک دوسرے کو گالیاں دیگر مقبول عام بنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو ملک کی سیاسی ترقی میں کوئی تعمیری حصہ نہیں لیتے بے دردی سے دبا دینا چاہیئے.احراریوں کو یہ احساس ہے کہ مسلم لیگ ان کی پشت پر ہے ورنہ ان کا ماضی اس قدر تاریک ہے کہ انہیں کبھی سیاسی میدان میں داخل ہونے کی جرات نہ ہو سکتی تھی.یہ کانگریس کے پٹھو تھے ان میں سے بعض اب بھی کانگریس ہی کے وفا دار ہیں.مشہور احراری حبیب الرحمان تقسیم کے بعد اس صوبے کو چھوڑ کر بھارت چلا گیا.بعض احراری اپنے دلوں کی گہرائیوں میں اب تک پاکستان کے غدار ہیں.رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص ۴۹ ) کانگریس سے مجلس احرار کی ساز باز اور مخالف پاکستان ہونے کے متعلق بھی اس رپورٹ میں یہ صراحت موجود ہے کہ : " قوم پرست مسلمانوں کی ایک ٹولی نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کر کے ۴ رمئی 1ء کو لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا....اگر چہ احراری کا نگریس سے الگ ہو گئے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تقسیم ملک تک برابر کانگریس سے ساز باز کرتے ہی رہے

Page 278

YLA بعض احرار لیڈروں نے اپنی تقریروں میں پاکستان کو پلیدستان بھی کہا.احرار نے مجوزہ تقسیم کی مخالفت کی اور اس کو وطن کی چیر پھاڑ قرار دیا.احرار کے ہر لیڈر نے اپنی ہرا ہم تقریر میں مسلم لیگ پر تنقید کی.اس کے لیڈروں پر نکتہ چینی کی.یہاں تک کہ قائد اعظم کو بھی نہ چھوڑا جن سے وہ سخت متنفر تھے کہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ منفہ ۱۱۱) تبلیغی کانفرنس : تو یہ تھا نہ کا وہ منظر جس میں مذہبی اور سیاسی طاقتوں نے مجتمع ہو کر جماعت کے خلاف ایک محاذ کھولا اور یہ اعلان کیا کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ؟ ہم منارة المسیح کی اینٹیں دریائے بیاس میں بہا دیں گے “ " " قادیان اور اس کے گرد و نواح سے احمدیت کا نام و نشان ختم کر دیں گے؟ یہ اور ایسے ہی بڑے بڑے دعاوی اور تعلیوں کے جلومیں مجلس احرار نے مخالفت کی مہم چلائی اور نظریہ ظاہر یہ تعلیات زیادہ بعید از قیاس بھی نہ تھیں کیونکہ جس قدر ذرائع و وسائل ان کو میسر تھے اس کے مقابل میں جماعت تو کنجشک بے مایہ ہی تھی مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس وقت ان کے کان میں کوئی یہ بھی کہ دیتا کہ فرعون بھی انار بکم الاعلیٰ کا دعوی کرتا تھا.ابو جہل اپنے کو رمیں الوادی اور کتہ کا بے تاج بادشاہ سمجھتا تھا مگر ان کے ذرائع اور وسائل " العروة الوثقى لا انفصام لها “.کے مقابل تار عنکبوت کی طرح بے حقیقت ثابت ہوئے.یہ اس مجلس احرار کا مختصر تعارف ہے جو حضرت مصلح موعود کے مقابلہ پرختم ٹھونک کر میدان میں آتے انہیں خوب معلوم تھا کہ ہندو سیٹھوں کا سرمایہ ان کی پشت پر ہے.گاندھی نہرو چانکیہ ان کی پالیسی وضع کرتے ہیں.علما شہر کی فتنہ انگیزی بدرجہ کمال انہیں میتر ہے.اسی کیل کانٹے پر منحصر نہیں انگریزی حکومت کے بعض افسر بھی ان کی تائید میں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ میں احرار کو قادیان میں اپنی تبلیغی کا نفرنس کرنے کی اجازت اس شان سے دی جاتی ہے کہ احمدیوں کو اس جلسہ میں شامل ہونے سے روک دیا جائے کہ وہ تبلیغ سن ہی نہ سکیں اور یہ بھی کہ احمدی خود حفاظتی کے طور پر کوئی اقدام نہ کرسکیں اور کسی متوقع یا موہوم اقدام کے پیش نظر گورنمنٹ یہ بھی ضروری سمجھتی ہے کہ جماعت کے ہر دلعزیز محبوب رہنما کو ایک ذلت آمیز نوٹس جاری کرے.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ حقیقت آفرین بیان حضرت مصلح موعود کی زبان سے ہی مناجاتے

Page 279

۲۷۹ آپ فرماتے ہیں :- "میں نے جماعت کو صبر اور تحمل کی ہدایت کی تھی اور نصیحت کی تھی کہ لوگ سوئے لے کر نہ پھریں.اور ان تمام احکام کی جو حکومت برطانیہ کے نمائندوں کی طرف سے دیتے جائیں اطاعت کریں.میں آج کے خطبہ میں پہلے دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کے اس فعل پر اظہار خوشنودی کرتا ہوں کہ با وجود اشتعال انگیزی کے سامانوں کے پیدا ہونے کے انہوں نے صبر اور تحمل سے کام لیا.اور سوائے شازو نادر کے یا سوائے کسی غلط فہمی کے پیدا ہو جانے کے ان کی طرف سے کوئی بات ایسی نہیں ہوتی جو میرے لیے موجب شرمندگی اور ان کے لیے موجب پریشانی ہو.بے شک ہم ان دنوں میں سنتے تھے.بے شک حکومت نے اپنے زور اور طاقت سے باوجود اس کے کہ یہ ہمارا گھر تھا.ہمیں خود حفاظتی کی تدابیر سے محروم کر دیا تھا.پھر بھی میں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت کے بچے اور مخلص ممبر خدا تعالیٰ کے فضل سے شیر ہیں اور شیر بغیر ہتھیاروں کے ہی لڑا کرتا ہے.میں نے سلسلہ کے مصالح کے لحاظ سے آپ کی زبانیں بند کر دی تھیں آپ کے ہاتھ باندھ دیتے تھے.لیکن باوجود اس کے میں جانتا ہوں کہ آپ کے کل اخلاص اور اس محبت کے وفور کی وجہ سے جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی ذات اور سلسلہ سے ہے.ایسے جوش سے پُر تھے کہ جس کے سامنے دنیا کی کوئی دیوار اور کوئی قلعہ ٹھہر نہیں سکتا.آپ کی فرمانبرداری ذلت اور بے چارگی کی فرمانبرداری نہیں تھی.بلکہ طاقت کے ساتھ فرمانبرداری تھی.....بعض پولیس افسروں اور ماتحتوں کے شریفانہ رویہ کی تعریف کرنے اور موقع پر موجود مجسٹریٹوں کی جانبداری کا ذکر کرنے کے بعد حضور نے فرمایا : مومن کا کوئی کام خفیہ نہیں ہوتا....ہمارے کاموں میں پہلے کبھی اخفا ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا.کیونکہ ہمارا حساب صاف اور ہماری نہیں نیک ہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ یہ ساری باتیں ان الفاظ میں آجائیں جن میں میں پیش کرتا ہوں یا قریب قریب انی الفاظ میں اور ہر ایک کو معلوم ہو جائیں لیکن مضمون شروع کرنے سے پیشتر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو دوباتیں یاد رکھنی چاہئیں.اول یہ کہ ہر شخص جو سلسلہ میں داخل ہے جس نے میرے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اور آپ کے ذریعہ آنحضرت

Page 280

البر چیست صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ان کے ذریعہ خدا کی بیعت کی ہے.وہ اپنی جان.مال بعزت آبرو - اولاد - جائیداد - غرضیکہ ہر چیز خدا.رسول اور اس کے نمائندوں کے لیے قربان کر چکا ہے اور اب کوئی چیز اس کی اپنی نہیں.میں یہ کھول کر بتا دینا چاہتا ہوں کہ جس کے دل میں بیعت کے اس مفہوم کے متعلق ذرہ بھی شبہ ہے.وہ اگر منافق کہلانا نہیں چاہتا تو وہ اب بھی بیعت کو چھوڑ دے جس بیعت میں نفاق ہو وہ کسی فائدہ کا رجب نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ایک لعنت ہے جو اس کے گلے میں پڑی ہوتی ہے پس جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس نے میری بیعت کسی شرط کے ساتھ کی ہوئی ہے اور کوئی چیز اس کی اپنی باقی ہے اور اس کے لیے میری اطاعت مشروط ہے.وہ میری بیعت میں نہیں.اور میں آپ سب کے سامنے اور پھر اخباروں میں اس خطبہ کی اشاعت کے بعد ان لاکھوں لوگوں کو جو دنیا کے گوشہ گوشہ میں رہتے ہیں.صاف صاف الفاظ میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں کوئی استثنے باقی ہے تو میں اسے اپنی بیعت میں نہیں سمجھتا.میرا خدا گواہ ہے اور آپ لوگ جو سن رہے ہیں.آپ بھی گواہ ہیں کہ میں نے یہ بات پہنچا دی ہے.کیا پہنچا دی ہے (اس پر چاروں طرف سے آوازیں بلند ہوئیں کہ ہاں پہنچا دی ہے، میرا خُدا گواہ ہے اور آپ لوگ مقر ہیں کہ میں نے یہ بات پہنچا دی ہے کہ مشروط بیعت کوئی بیعت نہیں.بیعت وہی ہے جس میں ہر چیز قربان کرنے کے لیے انسان تیار ہو ایپس میرا ہر حکم جو خدا تعالیٰ کے احکام کے ماتحت ہو اور جس کے خلاف کوئی نص صریح موجود نہ ہو اسے ماننا آپ کا فرض ہے.جب اجتہاد کا معاملہ آجاتے تو وہی اجتہاد صحیح ہو گا جو میرا ہے اور اس میں ناز ما پا بندی کرنا آپ کا فرض ہے --- دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں خدا.رسول اور اس کے نمائندوں کی اطاعت کا حکم ہے وہیں اولی الامر کی اطاعت بھی ضروری قرار دے دی گئی ہے.اور ان کی اطاعت بھی ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے متواتر یہ تعلیم دی ہے.آپ کی کوئی کتاب نہیں میں میں آپ نے یہ حکم نہ دیا ہو اور میں جسں قدم پر آپ لوگوں کو لے جانا چاہتا ہوں وہ ایسا جوش پیدا کر دینے والا ہے کہ کن ہے کسی کو حکومت کی اطاعت میں بھی کوئی شک پیدا ہو جاتے ہیں اگر کوئی اس سے آگے نکل جاتے یا شبہ کرے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نافرمانی کرنے والا ہوگا.اگر

Page 281

۲۸۱ ہیں یہ قدم اُٹھا نا پڑا تو بالکل ممکن ہے ایک وقت تمہیں تلوار کی دھار پر چلنا پڑے.ایک طرف تو میری اطاعت کے متعلق ذراسی خلش بیعت سے خارج کر دینے والی ہوگی اور دوسری طرف ذرا سا عدوان جو حکومت کی اطاعت سے برگشتہ کر دے.تمہیں حضرت میسج موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تعلیم سے منحرف کر دے گا.ان دونوں حدود کے اندر رہتے ہوئے تمہیں ہر ایک قسم کی قربانی کرنی ہوگی.اور سلسلہ کے وقار کو قائم کرنے کے لیے ہر ایک جدوجہد کرنی پڑے گی.آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہتے کہ ہمارے لیے یہ وقت بہت نازک ہے.ہر طرف سے مخالفت ہو رہی ہے اور اس کا مقابلہ کرتے ہوئے سلسلہ کی عزت اور وقار کو قائم رکھنا آپ لوگوں کا فرض ہے.ایک دفعہ ایک پرائیویٹ میٹنگ کے موقعہ پر سردار سکندر حیات خان کے مکان پر چودھری افضل حق صاحب نے مجھے یہ کہا تھا کہ ہمارا مقصد یہی ہے کہ احمدیہ جماعت کو کچل دیں.پس دشمنوں نے ہمیں چیلنج دیا ہے.پس جب تک تمہاری رگوں میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی ہے تمہارا فرض ہے کہ اس چیلنج کو منظور کرتے ہوتے اس گروہ کے زور کو جو یہ دھمکیاں دے رہا ہے.توڑ کر رکھ دو.اور دنیا کو بتا دو کہ تم پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرسکتے ہو سمندروں کو خشک کر سکتے ہو.اور جو بھی تمہارے تباہ کرنے کے لیے اُٹھے وہ خواہ کسقدر طاقت ور حریف کیوں نہ ہو.اسے خدا تعالیٰ کے فضل سے اور جائز ذرائع سے تم مٹاسکتے ہو.کیونکہ تمہارے مٹانے کی خواہش کرنے والا در حقیقت خدا تعالی کے دین کو مٹانے کی خواہش کرتا ہے......جہاں میں آپ لوگوں کو اس بات کی ہدایت کرتا ہوں کہ کسی جوش کی حالت میں آپ میں سے کوئی بھی قانون شکنی کی طرف توجہ نہ کرنے ہاں حکومت کو بھی اس نہایت ضروری امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے افسران کو شرافت اور اخلاق کی تعلیم دے " جلسہ قادیان میں احرار کی اشتعال انگیزی حضور کی ہدایت کے مطابق احمدیوں کے غیر معمولی صبر تحمل اور بعض سرکاری افسروں کی جانبداری اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کے متعلق تفصیل سے بیان کرنے کے بعد حضور نے سرکاری نوٹس کا ذکر فرمایا جو ذیل میں درج ہے." حکم زیر سیکشن ۳ (۱) (۱) پنجاب کر بیل لا.امنڈ منٹ ایکٹ سے چونکہ پنجاب گورنمنٹ کو نستی ہے اور چونکہ یہ باور کرنے کے لیے معقول قرائن موجود ہیں کہ

Page 282

YAY تم مرزا بشیرالدین محمود احمد ساکن قادیان ضلع گورداسپور لوگوں کو قادیان بلا رہے ہو.اس غرض سے کہ وہ مجلس احرار کے شعبہ تبلیغ کی اس کانفرنس پر جو کہ وہ ۲۱ لغایت ۲۳ راکتو بر یا اسکے قریب قادیان یا اس کے قرب و جوار میں کرنا چاہتے ہیں.موجود ہوں اور چونکہ تمہارا ہے فعل امن عامہ میں خلل ڈالنے والا ہے.اس لیے گورنمنٹ پنجاب تمہیں زیر دفعہ ۳ (۱) (ه) پنجاب کریمینل لا- امنڈمنٹ ایکٹ نہ ہدایت کرتی ہے کہ تم ایسے تمام دعوت ناموں کو جوان تاریخوں پر لوگوں کو قادیان بلانے کے لیے تم نے بھیجے ہیں یا تمہارے زیر کم بھیجے گئے ہیں منسوخ کردو - ۲۲ اکتو بر سر تک کسی شخص یا اشخاص کو قادیان بلانے کی غرض سے کوئی دعوت نامہ مت بھیجو - ۱۲۴ اکتوبر شاہ تک نہ کوئی جلسہ قادیان میں کرو نہ جلسہ کرنے میں محمد بنو - ۲۴۵ اکتوبر تک کسی ایسے شخص کا جس کو تم نے بلایا ہو قادیان میں استقبال کرنے یا اس کے لیے کھانے اور رہائش کا انتظام کرنے.محترز رہو.آج مورخہ ۱۷ اکتوبر شاہ کو میرے دستخط سے جاری ہوا.دستخط گار بٹ چیف سیکریٹری گورنمنٹ پنجاب.یہ قانون سالہ میں پاس کیا گیا ہے اور اس کی تمہید میں لکھا ہے کہ وہ سول نافرمانی اور حکومت برطانیہ کو تہ و بالا کر دینے والی تحریکات کو روکنے کے لیے ہے اور مجھے یہ حکم دے کر گویا حکومت نے یہ الزام لگایا ہے کہ میں سول نافرمانی کرنے والا یا حکومت برطانیہ کو تہ وبالا کرنے کی تحریک کرنے والا ہوں.میں نے اس حکم کو پڑھتے ہی اس پر حسب ذیل جواب لکھ کر مجسٹریٹ کو دے دیا.جواب : " مجھے گورنمنٹ کے حکم سے اطلاع ہوئی اور میں اپنے مذہب کے حکم اور سلسلہ کی روایات کی وجہ سے اس کی تعمیل کرنے پر مجبور ہوں ورنہ یہ حکم ایسا غیر منصفانہ اور نا جائز ہے کہ ایک شریف آدمی کے لیے یہ مجھنا بھی مشکل ہے کہ ایک مہذب حکومت الیسا حکم کس طرح جاری کر سکتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس فتنہ کو دیکھ کر کہ احرار قادیان میں ایک جلسہ کر رہے ہیں اور وہ علی الاعلان سلسلہ احمدیہ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.ایک ہدایت دی تھی کہ جماعت احمدیہ کے کچھ لوگ سلسلہ کے مقدس مقامات کی حفاظت کیلئے جمع کر لیے جائیں لیکن اس ہدایت کے جاری کرنے کے دو گھنٹہ بعد مرزا معراج الدین صاحب سپرنٹنڈنٹ سی.آئی.ڈی

Page 283

ندي ۲۸۳ میرے پاس آتے.اور میں نے خود ان کو اس ہدایت سے اطلاع دی.اور انہوں نے کہا کہ میں پورا انتظام پولیس کا کرا دوں گا.اس لیے آپ آدمی نہ بلوائیں.اور ان کے کہنے کے مطابق اس ہدایت کا جاری کرنا منسوخ کر دیا گیا.اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایک ایسی ہدایت جماعت کے کسی افسر نے بغیر میرے مشورہ کے پہلے سے جاری کی ہوتی ہے ! اسے بھی منسوخ کر کے جماعتوں کو ہدایت کر دی گئی کہ وہ آدمی نہ بھیجیں.میں کل فیروز پور گیا تھا.مجھ سے راستہ میں بعض احمدیوں نے پوچھا کہ کیا انہیں احرار کے جلسہ پر قادیان آنے کی اجازت ہے اور میں نے انہیں اس سے منع کیا.حکومت سے ایسے تعاون کرنے کے بعد اس قسم کے حکم کا بھجوا دیا حکومت کے وقار کو کھونا ہے اور حکومت کی مضبوطی نہیں بلکہ کمزوری کا موجب ہے اور مجھے افسوس ہے کہ حکومت نے اس قسم کے حکم کو جاری کر کے اس اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے جو اس پر ملک معظم اور ان کی حکومت نے کیا تھا.بہر حال چونکہ میرا مذہب مجھے وفاداری اور اطاعت کا حکم دیتا ہے.میں اس حکم کی جس کی غرض سواتے تذلیل اور تحقیر کے کچھ نہیں پابندی کروں گا.اور انشاء اللہ پوری طرح اس کی تعمیل کروں گا.باقی اس حکم کی نسبت آئندہ نسلیں خود فیصلہ کریں گی کہ اس کے دینے والے حق پر تھے یا نہ تھے.وافوض امرى الى الله وهو احكم (خاکسار مرزا محمود احمد ) الحاكمين - ان واقعات سے ظاہر ہے کہ (اول) میں نے جو ہدایت آدمی بلانے کے لیے دی تھی.اس کے ماتحت احکام جاری ہی نہیں ہوتے.اور اجراء سے قبل ہی ہدایت منسوخ کر دی گئی.(دوم) ہمیں حکومت نے کبھی بھی آدمی بلانے سے منع نہیں کیا.اس لیے سول نافرمانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.گذشتہ تاریخ اور روایات بتاتی ہیں کہ اگر ہمارے دس لاکھ آدمی بھی جمع ہو جائیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ شورش کریں گے.سوائے کسی ایسے افسر کے جو دن شراب پینے میں اور رات عیاشی اور برج کھیلنے میں گزار دے کوئی ہمارے اجتماع پر بدگمانی نہیں کر سکتا.ہر احمد ی جس کے دل میں ایمان ہے اس کا فرض ہے کہ جماعت کے وقار اور عزت کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہے.احمدیت صرف نماز روزہ کا نام ہی نہیں اور جو شخص احمدیت کے اعزازہ اور وقار کے لیے اپنی جان اور مال قربان کرنے کو تیار نہیں وہ احمدی نہیں کہلا سکتا.حکومت نے ہماری پچاس سالہ روایات کو جن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فخر کرتے رہے.حضرت خلیفہ اول فخر کرتے رہے اور

Page 284

۲۸۴ میں فخر کرتا رہا.بیدردی سے کچل دیا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اسے پھر قائم کریں اور ثابت کر دیں کہ جو کہتا ہے ہم نے ان روایات کو قائم نہیں رکھا وہ غلط بیانی کرتا ہے......ہم کو فخر تھا کہ ہم نے پوری کوشش کر کے ملک میں امن قائم رکھا ہے اور ملک میں ایک ایسی داغ بیل ڈال دی ہے کہ فساد مٹ جاتے مگر حکومت نے ہماری اس عمارت کو گرا دیا ہے.ہمارے نازک احساسات مجروح کئے گئے ہیں ہمارے دل زخمی کر دیئے گئے ہیں.ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا.کسی سے کچھ نہیں مانگا.مگر حکومت اور رعایا خواہ مخواہ ہماری مخالف ہے.اور مسیح ناصری کا قول بالکل ہمارے حسب حال ہے کہ : لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابنِ آدم کیلئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں.“ پس اے احمدی جماعت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان بنائے گا.تمہارا فرض ہے کہ اپنے لیے خدا کے فضل سے آپ گھر بناؤ.اس الہام میں یہی اشارہ ہے کہ یہ زمین اور آسمان تمہیں کانٹوں کی طرح کاٹیں گے.آخر ہم نے کیا قصور کیا ہے.ملک کا یا حکومت کا کہ ہم سے یہ دشمنی اور عناد کا سلوک روارکھا جا رہا ہے.کل پہرہ دینے والوں میں سے ایک خوش الحانی سے غالب کا شعر پڑھ رہا تھا کہ سے ) منی ۲:۸ ) دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم کوئی ہمیں اُٹھاتے کیوں میرے دل میں اس وقت خیال گذرا کہ یہ ہمارے حسب حال ہے.ہم کسی کے گھر پر حملہ آور نہیں ہوتے حکومت سے اس کی حکومت نہیں مانگی.رعایا سے اس کے اموال نہیں چھینے.بلکہ اپنی مساجد ان کے حوالہ کر دیں.اپنی بیش قیمت جائیدادیں ان کو دے کر ہم میں سے بہت سے لوگ قادیان میں آگئے کہ امن سے خدا کا نام لے سکیں.مگر پھر بھی ہم پر حملے کئے جاتے ہیں اور حکومت بھی ہمارے ہاتھ باندھ کر ہمیں ان کے آگے پھینکنا چاہتی ہے.اور کوئی نہیں سوچتا کہ ہمارا قصور کیا ہے جو ہم پر اس قدر ظلم کئے جاتے ہیں.گورنمنٹ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم بے شک صابر ہیں متحمل نہیں مگر ہم بھی دل رکھتے ہیں اور ہمارے دل بھی درد کو محسوس کرتے ہیں.اگر اس طرح بلا وجہ انہیں مجروح کیا جاتا رہا تو ان دلوں سے ایک آہ نکلے گی.جو زمین و آسمان کو ہلا دیگی.جس سے خدائے قہار کا عرش ہل جائے گا.اور جب خدا تعالیٰ کا عرش ہلتا ہے تو اس دُنیا میں ناقابل برداشت عذاب آیا کرتے ہیں ؟ ) الفضل میکم نومبر ) -۱۹۳۴

Page 285

میاں فضل حسین صاحب نے جو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے نمبر اور ایک بیدار مغز مسلمان رہنما تھے حضور کے جراتمندانہ موقف کے مقابل پر یہ دیکھتے ہوتے کہ حکومت کے افسران نقصان نے پر آمادہ ہیں اس معاملہ میں مزید غور و فکر اور باہم غلط فہمیوں کے دُور کرنے کی کوشش کا مشورہ دیا.حضور نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے نام ایک خطہ میں تحریر کیا." اگر جماعت اس فعل کو بلا احتجاج اور اصلاح چھوڑ دے تو امام جماعت احمدیہ کوئی کام کر ہی نہیں سکتا.سلسلہ کے ہر افسر کی غلطی پر اسے نوٹس ملے گا ہر احمدی کی غلطی پر اسے نوٹس ملے گا وہ صرف نوٹسوں کا ہدف بنا رہے گا....جماعت احمدیہ ہرگز اس امر کی مدعی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو یا اپنے امام کو حکومت کی رعایا ہونے کے مقام سے بالا سمجھتی ہے نہ میں بحیثیت امام جماعت احمدیہ اپنے آپ کو قانون سے بالا سمجھتا ہوں میرا نظریہ یہ ہے کہ مجھے دوسروں سے زیادہ قانون کا پابند ہونا چاہیئے، تاکہ میں دوسروں کے لیے نمونہ بنوں.....پس یہ ایک ایسی غلطی ہے جیسے جماعت احمدیہ کی طرح برداشت نہیں کر سکتی اور اس کا ازالہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ حکومت تسلیم کرے کہ اس سے یہ غلطی ہوتی ہے.میرا پروگرام ہی ہے کہ پہلے حکومت پنجاب سے اپیل کروں گا پھر حکومت ہند سے پھر حکومت انگلستان سے.اگر کہیں داد خواہی نہ ہوئی پھر جو علاج ممکن ہوا کروں گا..." تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحه ۵۱۵ - ۵۱۷ ) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت پر حقائق و واقعات کے برعکس محض تعصب و دشمنی کی راہ سے یہ الزام بڑے اصرار اور تکرار سے لگایا جاتا ہے کہ یہ جماعت انگریزوں کی خوشامدی اور کاسہ لیس ہے.پھر اتنے جھوٹ کو کافی نہ سمجھتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ جماعت انگریزوں کی جاسوس ہے اور جھوٹ کے دوزخ کی شکم سیری نہ ہونے کی وجہ سے اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ جماعت تو انگریزوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کھڑی کی تھی.ان جھوٹوں کو سہارا دینے کے لیے دُور دُور کی کوڑیاں ملائی جاتی ہیں اور علما " اس کوشش میں رہتے ہیں کہ جھوٹ کی سٹری میں کوئی دوسرا ان سے آگے نہ نکل جاتے اور اس طرح ھل من مزید کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے حالانکہ ایک غیر جانبدار صحیح العقل انسان کے لیے یہ سمجھنا بہت ہی آسان ہے

Page 286

۲۸۶ که به ایسا خود ساختہ واضح جھوٹ ہے جس کی تردید عقلی و نقلی دلائل اور ٹھوس واقعات اور حقائق کرتے ہیں بلکہ ہر غور کرنے والا اس ایک بات پر غور کر کے ہی سچ اور جھوٹ کے نمایاں فرق کو دیکھ سکتا ہے.حضرت فضل عمرہ کی ساری زندگی اس ناپاک الزام کی تردید کرتی ہے.حکومت کی اطاعت اور فرمانبرداری کا بھی آپ نے بہت عمدہ نمونہ دکھایا اور اس میں کوئی کوتا ہی نہ ہونے دی گردو سری طرف حکومت کے غلط کاموں اور بے انصافی کی پوری جرات سے نشان دہی کی کشمیر کمیٹی کے قیام اور اس کے صدر کی حیثیت سے ڈوگرہ حکومت کو آپ نے ہلا کر رکھ دیا حالانکہ ریاستی حکومت کو انگریزی حکومت کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی.ڈلہوزی میں حضور کے قیام کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے حضور نے عزت نفس کے خلاف سمجھا.آپ نے وہاں سے فوری طور پر گورنر پنجاب کو بذریعہ تار اس بے جا طرز عمل کی طرف زور دار طریق پر توجہ دلائی.قادیان واپس آکر اپنے خطبات میں بڑی تفصیل اور غیر معمولی جرات سے کام لیکر غیر ذمہ دار افسروں کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار فرمایا.حکومت کی طرف سے آپ سے معذرت کی گئی مگر آپ نے اس کو کافی نہ سمجھتے ہوئے فرمایا کہ یہ میری عزت کا انفرادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر ہندوستانی کی عزت کا معاملہ ہے اور معاملہ پبلک میں آچکا ہے اس لیے باقاعدہ تحریری معذرت ضروری ہے اور گورنمنٹ انگریزی کو اپنے سارے جاہ و جلال اور طاقت و جبروت کے باوجود حضور کا موقف تسلیم کرتے ہوئے باقاعدہ معذرت کرنی پڑی.قادیان میں احرار کا نفرنس کے انعقاد کی اجازت دیگر جس طرح انصاف اور معاملہ نمی کا خون کیا گیا اس کا ذکر ہم پچھلے صفحات میں پڑھ چکے ہیں.اس کے ساتھ اس جھوٹے الزام کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے حضور کا مندرجہ ذیل اصولی بیان ہر حقیقت پسند کے لیے بہت کافی اور ہر طرح مکمل و تسلی بخش ہے.مگر لوگ نادانی سے یہ خیال کرتے رہے کہ تم گورنمنٹ کے ایجنٹ ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی مفت بھی ایجنٹ ہوا کرتا ہے.اور نہ صرف مفت بلکہ الیسا ایجنٹ بھی جس کو ادھر سے مار پڑے اور اُدھر سے بھی.کیا کوئی ایجنٹ اس لیے کسی کی نوکری کیا کرتا ہے کہ تم بھی مارو اور تمہارے دشمن بھی ماریں.اگر ہیں تو بتاؤ - گورنمنٹ نے ہمیں کیا دیا ہے.سب سے زیادہ گورنمنٹ کی تائید میں لکھنے والا تو میں ہوں.اگر یں گورنمنٹ کی تائید ذاتی یا قومی فوائد کے لیے کرتا ہوں.تو یہ دیکھنا چاہیئے کہ میں نے یا میرے خاندان نے گورنمنٹ سے کیا حاصل کیا ہے.میں تو گورنمنٹ کے بڑے بڑے انعام کو بھی اس کے مقابلہ میں نہایت ہی ادنی اسمجھتا ہوں.جو مجھے خدا تعالیٰ نے دیا ہے مگر لوگ گورنمنٹ کے خطاب کو برا سمجھتے ہیں.

Page 287

۲۸۷ کیا میں نے گورنمنٹ سے کوئی خطاب لیا ہے ؟ پھر لوگ عہدہ کو بڑا سمجھتے ہیں اور اس کے لیے خوشامد کرتے ہیں.کیا میں نے کسی رشتہ دار کو گورنمنٹ کا نو کر کرایا ہے ، پھر لوگ اس لیے خوشامد کرتے ہیں کہ زمین ملے.کیا میں نے گورنمنٹ سے زمین لی ہے ، پھر لوگ اس لیے خوشامد کرتے ہیں کہ کرسی نشین ہو جائیں.کیا میں نے کبھی ایسی خواہش کی ہے ؟ یہ تو ذاتی اور خاندانی فوائد کے متعلق ہے.رہا قومی فائدہ کوئی کہ سکتا ہے کہ ذاتی فائدہ نہیں اُٹھایا تو کیا ہوا قوم کو فائدہ پہنچانے کے لیے گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہو.میں کہتا ہوں ہماری قوم سے مراد احمدی ہیں مغل نہیں.کیونکہ جو مغل احمدی نہیں وہ تو ہماری جان کے دشمن ہیں.احمدی قوم کو گورنمنٹ نے کونسا ایسا انعام دے دیا ہے جو دوسروں کو نہیں دیا.بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے.دوسروں کے فساد کرنے پر گورنمنٹ احمدیوں پر جرمانہ کرنے کے لیے تو تیار ہوگئی.گورنمنٹ نے اس موقع پر عیسائیوں کو چھوڑ دیا جنہوں نے بھاگ بھاگ کر جانیں بچائیں.اور کچھ مددنہ کی.یور پہینوں کو بھی چھوڑ دیار جو اپنی کو ٹھیوں میں بیٹھے رہے.مگر احمدیوں سے جرمانہ وصول کر لیا.جنہوں نے فسادیوں سے گالیاں سنیں.ماریں کھائیں اور نقصان اُٹھاتے اور یہی نہیں کہ فساد سے الگ رہے بلکہ گورنمنٹ کی مدد کرتے رہے اور باوجود اس اقرار کے وصول کر لیا کہ احمدیوں نے اس موقع پر بہت اچھا کام کیا ہے اگر یہی انعام ہے تو کیا اسی کے لیے ہم گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہیں ؟ ( تقریر فرموده ۲۴ اگست - ٹرکیٹ ہند و مسلم اتحاد ) مباہلہ کا چیلنج : ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ احرار کی سیاست اور لائحہ عمل جھوٹ گھڑنے اور جھوٹ بولنے کے سوا اور کچھ نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام - حضرت خلیفہ ایسے اور آپ کے خاندان کے متعلق ذلیل قسم کے افتراؤں کی اشاعت - مضامین و تقاریر میں سوقیانہ اندازہ اور دُشنام رہی ان کا عام طریق تھا.حضور ایسے تمام الزامات پر جن کا تعلق آپ یا آپ کے اعزہ و اقارب سے تھا ہمیشہ واذا خاطبهم الجاهلون قالو اسلاما کے مطابق عفو و چشم پوشی سے کام لیتے رہے اور کبھی بھی صبر کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑا مگر احرار نے اپنی تقاریر اور بیانات میں جب یہ الزام بھی پھیلا نا شروع کیا کہ احمدی لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے اور مقدسوں کے مقدس کی توہین کرتے اور مکہ و مدینہ کا احترام نہیں کرتے تو یہ ایسا امر تھا جس پر وہ سچا عاشق رسول صبر نہیں کر سکتا تھا آپ

Page 288

۲۸۸ نے جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانے کے لیے اس الزام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- میں سمجھتا ہوں وہ لوگ جو ہمارے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں وہ بار بار ہمارے متعلق اس اتمام کو دوہرا کر خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں.کیونکہ کسی کو گالی دینے کا ایک طریق یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ دوسرے کی طرف گالی منسوب کر کے اس کا ذکر کیا جائے....پس اگر یہ تصفیہ کا طریق جو میں نے بیان کیا ہے اس پر مخالف عمل نہ کریں تو میں کہوں گا ایسے اعتراض کرنے والے در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خود تک کرتے ہیں گو اپنے منہ سے نہیں بلکہ ہماری طرف ایک غلط بات منسوب کر کے " الفضل ٣ ستمبر ۱۹۳۵-) مقامات مقدسہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی نسبت احمدیوں کے دلوں میں جو عقیدت واحترام ہے اسے بیان کرتے ہوئے حضور نے اپنے ولولہ انگیز بیان میں فرمایا :- خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجا نا تو الگ رہا ہم تو یہ بھی پسند نہیں کر سکتے کہ خانہ کعبہ کی کسی اینٹ کو کوئی شخص بدنیتی سے اپنی انگلی بھی لگاتے اور ہمارے مکانات کھڑے رہیں.....بے شک ہمیں قادیان محبوب ہے اور بے شک ہم قادیان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں مگر خُدا شاہد ہے خانہ کعبہ نہیں قادیان سے بدرجہا زیادہ محبوب ہے.ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی پناہ چاہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ خدا وہ دن نہیں لا سکتا ، لیکن اگر خدانخواستہ کبھی وہ دن آئے کہ خا کہ عبد بھی خطرہ میں ہو اور قادیان بھی خطرہ میں ہو اور دونوں میں سے ایک کو بچایا جا سکتا ہو تو ہم ایک منٹ بھی اس مسئلہ پر غور نہیں کریں گے کہ کس کو بچایا جائے بلکہ بغیر سوچے کہہ دیں گے کہ خانہ کعبہ کو بچانا ہمارا اولین فرض ہے.پس قادیان کو ہمیں خدا تعالیٰ کے حوالہ کر دینا چاہیئے.ہم سمجھتے ہیں کہ مکتر وہ مقدس مقام ہے جس میں وہ گھر ہے جسے خدا نے اپنا گھر قرار دیا اور مدینہ وہ بابرکت مقام ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری گھر بنا.جس کی گلیوں میں آپ چلے پھرے اور جس کی مسجد میں اس مقدس نبی نے جو سب نبیوں سے کامل نبی تھا اور سب نبیوں سے زیادہ خدا کا محبوب تھا.نمازیں پڑھیں اور اللہ تعالیٰ

Page 289

۲۸۹ کے حضور دعائیں کیں اور قادیان وہ مقدس مقام ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات مقدسہ کا خدا تعالیٰ نے دوبارہ حضرت مرزا صاحب کی صورت میں نزول کیا.یہ مقدس ہے باقی سب دنیا سے مگر تابع ہے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے.پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے تو احمدی خوش ہوں گے وہ جھوٹ بولتا ہے وہ افتراء کرتا ہے اور وہ ظلم اور تعدی سے کام لے کر ہماری طرف وہ بات منسوب کرتا ہے جو ہمارے عقائد میں داخل نہیں اور ہم اس شخص سے کہتے ہیں لعنۃ اللہ علی الکاذبین.تے ہم تو سمجھتے ہیں کہ عرش سے خدا مکہ اور مدینہ کی حفاظت کر رہا ہے.کوئی انسان ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا.ہاں ظاہری طور پر ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی دشمن پر ان مقدس مقامات پر حملہ کرے تو اس وقت انسانی ہاتھ کو بھی حفاظت کے لیے بڑھایا جائے لیکن اگر خدانخواستہ کبھی ایسا موقعہ آئے تو اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائیگا کہ حفاظت کے متعلق جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے انسانوں پر عائد کی ہے اس کے ماتحت جماعت احمدیہ کسی طرح سب لوگوں سے زیادہ قربانی کرتی ہے ہم ان مقامات کو مقدس ترین مقامات سمجھتے ہیں.ہم ان مقامات کو خدا تعالیٰ کے جلال کے ظہور کی جگہ سمجھتے ہیں اور ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کو اُن کی حفاظت کے لیے قربان کرنا سعادت دارین سمجھتے ہیں.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص ترچھی نگاہ سے مکہ کی طرف ایک دفعہ بھی دیکھے گا.خُدا اس شخص کو اندھا کر دے گا.اور اگر خدا تعالیٰ نے کبھی یہ کام انسانوں سے لیا تو جو ہا تھ اس بد میں آنکھ کو پھوڑنے کے لیے آگے بڑھیں گے ان میں ہمارا ہاتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے.سب سے آگے ہو گا." ) الفضل ٣ ستمبر ۱۹۳۵ ) احرار کے ان بے سروپا الزامات کی مدلل و مسکنت تردید سے آگے بڑھ کر حضور نے انہیں مباہلہ کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا : دوسرا طریق یہ ہے کہ ان مخالفین میں سے وہ علما م جنہوں نے سلسلہ احمدیہ کی گتب کا مطالعہ کیا ہوا ہو پانچ سو یا ہزار میدان میں نکلیں ہم میں سے بھی پانچ سو یا ہزار میدان میں نکل آئیں گے.دونوں مباہلہ کریں اور دعا کریں کہ وہ فریق جو حق پر نہیں خدا تعالیٰ اسے اپنے عذاب سے ہلاک کرے.ہم دعا کریں گے کہ اے خدا تو جو ہمارے سینوں کے

Page 290

۲۹۰ رازوں سے واقف ہے اگر تو جانتا ہے کہ ہمارے دلوں میں واقعی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت نہیں.اور ہم آپ کو سارے انبیاء سے افضل و برتر یقین نہیں کرتے اور نہ آپ کی غلامی میں نجات سمجھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا ایک خادم اور غلام نہیں جانتے بلکہ درجہ میں آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بلند سمجھتے ہیں.تو اسے خُدا ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کو اس جہاں میں ذلیل ورسوا کر اور ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک کر.اس کے مقابلے میں وہ دُعا کریں کہ اسے خدا ہم کامل یقین رکھتے ہیں کہ احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ، آپ کی تحقیر و تذلیل پر خوش ہوتے اور آپ کے درجہ کو گرانے اور کم کرنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں.اے خدا اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو تو اس دنیا میں ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کو ذلیل و رسوا کر اور اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک کر.یہ مباہلہ ہے جو وہ ہمارے ساتھ کرلیں اور خدا پر معاملہ چھوڑ دیں.پانچ سو یا ہزار کی تعداد میں ایسے علماء کا اکٹھا کرنا جو ہمارے سلسلہ کی کتب سے واقفیت رکھتے ہوں آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کے نمائندہ کہلانے والوں کے لیے کوئی مشکل نہیں بلکہ معمولی بات ہے.اور ہم تو ان سے بہت تھوڑے ہیں مگر پھر بھی ہم تیار ہیں کہ پانچ سو یا ہزار کی تعداد میں اپنے آدمی پیش کریں.شرط صرف یہ ہے کہ جن لوگوں کو وہ اپنی طرف سے پیش کریں وہ ایسے ہوں جو حقیقت میں اُن کے نمائندہ ہوں.اگر وہ جاہل اور بے ہودہ اخلاق والوں کو اپنی طرف سے پیش کریں تو ہمیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا بشر طیکہ وہ یہ تسلیم کرلیں کہ وہ ان کی طرف سے نمائندہ ہیں.ہاں احرار کے سرداروں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اس میں شامل ہوں.مثلاً مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب شامل ہوں.مولوی حبیب الرحمان صاحب شامل ہوں.مسٹر مظہر علی اظہر شامل ہوں.چودہری افضل حق صاحب شامل ہوں.مولوی داؤد غزنوی صاحب شامل ہوں اور ان کے علاوہ اور لوگ جن کو وہ منتخب کریں شامل ہوں.پھر کسی ایسے شہر میں جس پر فریقین کا اتفاق ہو یہ مباہلہ ہو جاتے.مثلاً گورداسپور میں ہی یہ مباہلہ ہو سکتا ہے.جس مقام پر انہیں خاص طور پر ناز ہے یا لاہور میں اس قسم کا اجتماع ہو سکتا ہے.ہم قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر اللہ تعالیٰ کا مذاب نازل ہو.اگر ہم رسول کریم صلی الہ

Page 291

۲۹۱ علیہ وسلم پر کامل یقین نہ رکھتے ہوں.آپ کو خاتم النبیین نہ سمجھتے ہوں آپ کو افضل الرسل لقین نہ کرتے ہوں اور قرآن کریم کو تمام دنیا کی ہدایت و راہنمائی کے لیے آخری شریعت نہ سمجھتے ہوں.اس کے مقابلے میں وہ قسم کھا کر کہیں کہ ہم یقین اور وثوق سے کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے نہ آپ کو دل سے خاتم النبیین سمجھتے ہیں اور آپ کی فضیلت اور بزرگی کے قاتل نہیں بلکہ آپ کی توہین کرنے والے ہیں.اسے خدا اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کر.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود بخود فیصلہ ہو جائے گا کہ کون سا فریق اپنے دعویٰ میں سچا ہے کون رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق رکھتا ہے اور کون دوسرے پر جھوٹا الزام لگاتا ہے.مگر یہ شرط ہو گی کہ عذاب انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور ایسے سامانوں سے ہو جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کئے جاسکیں ؟ الفضل ٣ ستمبر ۹۳۵ ) خانہ کعبہ کی حرمت و عظمت کے متعلق الزام کا فیصلہ کرنے کیلئے بھی حضور نے دعوت مباہلہ دیتے ہوتے فرمایا : - " اس کے لیے بھی دہی تجویز پیش کرتا ہوں جو پہلے امر کے متعلق پیش کر چکا ہوں کہ اس قسم کا اعتراض کرنے والے آئیں اور ہم سے مباہلہ کر لیں ہم کہیں گے کہ اسے خدا نکرہ اور مدینہ کی عظمت ہمارے دلوں میں قادیان سے بھی زیادہ ہے.ہم ان مقامات کو مقدس سمجھتے اور ان کی حفاظت کے لیے اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن اسے خدا اگر ہم دل سے یہ نہ کہتے ہوں بلکہ جھوٹ اور منافقت سے کام لے کر کتے ہوں اور ہمارا اصل عقیدہ یہ ہو کہ مکہ اور مدینہ کی کوئی عزت نہیں یا قادیان سے کم ہے تو تو ہم پیر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کرے اس کے مقابلہ میں احرار اٹھیں اور وہ یہ قسم کھا کر کہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ احمدی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے دشمن ہیں اور ان مقامات کا گرنا اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجاتی جانا احمدیوں کو پسند ہے.پس اسے خدا اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے اور احمدی مکہ و مدینہ کی عزت کرنے والے ہیں تو تو ہم پر اور ہمارے ہیوی بچوں پر عذاب نازل کرے.وہ اس طریق فیصلہ کی طرف آئیں اور دیکھیں کہ خدا اس معاملہ میں اپنی قدرت کا کیا ہاتھ دکھاتا ہے لیکن اگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہوں تو یاد رکھیں

Page 292

۲۹۲ جھوٹ اور افترار دنیا میں کبھی کامیاب نہیں کر سکتا " ) الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۵-) حضرت خلیفہ ایسے کے اس اعلان کے ساتھ ہی جماعت نے اپنے اخلاص اور ایمان کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے جذبے اور شہیت سے اپنے نام مباہلہ کے لیے جماعت کی طرف سے شامل ہونے والوں میں پیش کرنے شروع کر دیتے.اس روح پرور ایمانی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: " ہم نے اپنی جماعت کے لوگوں کے نام طلب کئے اور کہا کہ استخارہ کر کے اپنے آپ کو پیش کریں تو اس کا ایسا اثر پیدا ہوا جو بتاتا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں میں ایمان کی مضبوطی سے قائم ہے.تاروں کے ذریعہ شمولیت کی کئی درخواستیں آئیں.اور ان میں لجاجت سے کہا گیا کہ انہیں شمولیت کا ضرور موقعہ دیا جائے.اس کثرت سے درخواستیں آئیں کہ لوگ ٹوٹے پڑتے تھے.بعض نے لکھا کہ شامل ہونے والوں کے لیے کڑی شرطیں لگائی جائیں مثلاً یہ کہ وہ دین کے لیے زندگیاں وقف کریں یا اپنی جائیدادیں وقف کر دیں اس طرح مقابلہ کرایا جائے اور پھر جو مقابلہ میں بڑھیں انہیں شامل کیا جائے الفضل ، جنوری ) دوسری طرف احرار جو اپنے الزامات کی حقیقت کو خوب سمجھتے تھے مختلف جیلوں اور بہانوں سے مباہلہ کے اس چیلنج کو ٹالنے کی کوشش کرنے لگے.اتمام محبت کے طور پر اپنے چیلنج کو دہراتے ہوئے حضور نے فرمایا :- "اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اتنا یقین ہوتا کہ سمجھتے ہم بیچتے ہیں اور مباہلہ کر سکتے ہیں تو جس طرح میں نے قسم کھا کر مباہلہ کر ہی دیا ہے یہ لوگ بھی اسی طرح کیوں نہ کر دیتے وہ اخباروں میں اعلان کر رہے ہیں کہ احمدی مباہلہ سے ڈر گئے حالانکہ میں نے پہلے ہی قسم کھا لی تھی اور کیا ڈرنے والا پہلے ہی قسم کھا لیا کرتا ہے.جو الزام وہ لگاتے تھے ان کو مدنظر رکھتے ہوتے اور ان کے مطابق الفاظ میں میں نے قسم شائع کر دی ہے تا کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مباہلہ سے ڈر گئے ہیں اسی طرح اگر وہ یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو نعوذ بالله من ذلك رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل سمجھتے تھے بلکہ آپ ایمان نہ رکھتے تھے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عظمت آپ کے دل میں نہ تھی اور آپ چاہتے تھے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی نعوذ باللہ من ذلک اینٹ سے اینٹ بج

Page 293

۲۹۳ جاتے (نصیب دشمناں ) اور یہ کہ جماعت احمدیہ کا بھی یہی عقیدہ ہے تو کیوں احرار کے لیڈروں نے میرے الفاظ کے مترادف الفاظ میں بالمقابل قسم شائع نہیں کر دی اگر وہ بھی قسم کھا لیتے لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ وہ بھی مباہلہ کے لیے تیار ہیں یا پھر میرے پیش کردہ شرائط ہی شائع کر دیتے اور لکھ دیتے کہ ہمیں یہ منظور ہیں یا کو الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۳۵-) احراریوں کا مباہلہ سے فرار اتنا واضح اور نمایاں تھا کہ یہ ان کی دُکھتی رگ بن گئی جسے چھیڑتے ہوئے ایک مشہور صحافی نے یہاں تک لکھ دیا." میں مرزا بشیر الدین محمود نہیں جس سے مباہلہ کرنے کا نام مٹن کو رہنمایان احرار کے بدن پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے ؟ احسان یکم نومبر ۳- بحواله الفضل ، نومبر ۱۹۳۵-) آسمانی میں عدو میرا زمینی اس لیے میں فلک پر انٹر رہا ہوں اسکو ہے بل کی تلاش مصلح موعود ) اس سے قبل انہ میں سید محمد شریف صاحب گھڑیالہ امیر جماعت اہلِ حدیث نے حضور کو مباہلہ کا چیلنج دیا اور بغیر تراضی فریقین اپنی طرف سے تاریخ اور جگہ کا بھی اعلان کر دیا.اس موقعہ پر بھی کوئی ذاتی الزامات اور بہتک عزت کی صورت نہیں تھی جسے حضور ہمیشہ نظر انداز فرما دیا کرتے تھے بلکہ سلسلہ کی سچائی اور عظمت کا سوال تھا اس لیے حضور نے فوراً یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے انہیں مسنون طریق مباہلہ اور اس کے انعقاد کے لیے معقول طریق کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے اپنی طرف سے ان امور کے تصفیہ کے لیے حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی.اور حضرت مولوی فضل دین صاحب وکیل کو اپنا نمائندہ مقرر فرمایا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت سے مخالفین کا طریق چلا آتا ہے کہ وہ ایسے مواقع کو مختلف غیر شرعی اور لایعنی عذرات سے ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں.سید صاحب موصوف نے بھی یہی طریق اختیار کیا.حضور نے انکے عذروں کی حقیقت بتانے اور انہیں اس روحانی مقابلہ پر قائم رکھنے کے لیے یکے بعد دیگرے تین مضامین شائع فرماتے جن میں نہایت شرح وبسط سے ان کے تمام اعتراضات کا منقولی و معقولی مدلل و مسکت جواب دیا گیا تھا.حضور نے اس موقعہ پر مباہلہ میں جماعت کے نمائندہ وفد کی تیاری کے لیے اعلان فرمایا کہ ایسے احمدی حضرات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی سچائی اور صداقت

Page 294

۲۹۴ پر کامل ایمان ویقین رکھتے ہوں وہ استخارہ کے بعد اس مقصد کے لیے اپنے نام پیش کریں.احقاق حق اور تبلیغ واشاعت کی غرض سے قائم ہونے والی جماعت کے لیے اتمام حجبت اور خدا تعالیٰ سے مدد اور فرقان مانگنے کا یہ ایک نادر موقعہ تھا جس کے لیے ہزاروں کی تعداد میں احباب نے اپنے نام پیش کئے اور نہایت عاجزی اور اصرار سے درخواست کی کہ ان کے نام ضرور اس فہرست میں شامل کئے جائیں.یہ لکھنے کی تو چنداں ضرورت نہیں ہے کہ سید صاحب دعوتِ مباہلہ دینے کے بعد اس مکانی مقابلہ پر آنے کی جرات نہ کر سکے اور اس طرح یہ امر بھی احباب جماعت کیلئے ازدیاد ایمان کا باعث ہوا.تصویر کا دوسرا رخ : آیتے اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں کہ مسیح محمدی کی بھیڑوں کا گلہ بان اور احمدیت کا کشتی بان حضرت مصلح موعود طوفانوں کی زد میں آتی ہوئی اور بغض و عداوت کی منجدھار میں پھنسی ہوئی اس چھوٹی سی کشتی کو کس طرف لے جا رہا ہے اور کس طرح لے جا رہا ہے.انسانی عقل یقیناً اپنے عجز کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گی جب وہ یہ دیکھے گی کہ بالمقابل کوئی نعرہ نہیں ہے.کوئی تعلی نہیں ہے.کوئی دھمکی نہیں ہے کہ ہم تمہیں سیدھا کر دیں گے ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے بلکہ چشم حیران اس نفس مطمئنہ کو اور زیادہ عاجزانہ راہیں اختیار کرتے ہوئے اسی طرح دیکھتی ہے جس طرح اس کے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن فتح مکہ کی خوشی میں اکڑنے کی بجائے اور زیادہ جھکتی جارہی تھی اور مسیح پاک کے فرمان - نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں " کی حسین و دلکش عملی تفسیر کرتے ہوئے دیکھتی ہے.حضرت مصلح موعود کے خطبات و تقاریر کو بطور خلاصہ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے : " ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارا مقصد فتح نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی فتح حاصل کرنا ہے.ہمارا مقصد دین اور اسلام کے مطابق فتح حاصل کرنا ہے اور یہ چیزیں مل نہیں ہوتیں جب تک انسان خدا کے لیے موت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو.موت اور صرف موت کے ذریعہ یہ فتح حاصل ہو سکتی ہے.....پھر موت بھی ایک وقت کی نہیں بلکہ وہ جو ہر منٹ اور ہر گھڑی آتی ہے.پس اپنے نفوس میں تبدیلی پیدا کرو.قلوب کو پاک کرو.زبانوں کو شائستہ اور اپنے آپ کو اس امر کا عادی بناؤ کہ خدا کے لیے دُکھ اور تکلیفوں کو برداشت کر سکو.تب تم خُدا کا

Page 295

۲۹۵ تمام ہتھیار ہو جاؤ گے او پھر خدا ساری دنیا کو کھینچ کر تمہاری طرف لے آتے گا...تحریک جدید کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوتے آپ فرماتے ہیں :.تحریک جدید کی غرض بھی یہی ہے کہ وہ لوگ جو اس ---- - میں حصہ لیں خدا ان کے ہاتھ بن جائے.خدا ان کے پاؤں بن جائے.خدا ان کی آنکھیں بن جاتے اور خدا ان کی زبان بن جاتے اور وہ ان نوافل کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے ایسا اتصال پیدا کرلیں کہ ان کی مرضی خدا کی مرضی اور ان کی خواہشات خدا کی خواہشات ہو جائیں " الفضل ۲۷ جون ۹۲ ) دُعاؤں - انابت الی اللہ تزکیہ نفس - اسلامی تمدن و طریق کے مطابق زندگی بسر کرنے یعنی تحریک جدید کی الہامی و انقلابی سکیم پر عمل کرنے سے مخالفت کے طوفان کا رخ کس طرح تبدیل ہوا اس کا بیان حضرت فضل عمر سے بہتر کون کر سکتا ہے.آپ فرماتے ہیں :- اسی طرح احرار میرے مقابل پر اُٹھے، احرار کو بعض ریاستوں کی بھی تائید حاصل تھی کیونکہ کشمیر کیٹی کی صدارت جو میرے سپرد کی گئی تھی اس کی وجہ سے کئی ریاستوں کو یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ اس زور کو توڑنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ سیکسی اور ریاست کے خلاف کھڑے ہو جائیں.احرار نے ہفتہ میں شورش شروع کی اور اس قدر مخالفت کی کہ تمام ہندوستان کو ہماری جماعت کے خلاف بھڑ کا دیا.اس وقت مسجد میں منبر پرکھڑے ہو کر میں نے ایک خطبہ میں اعلان کیا کہ تم احرار کے فتنہ سے مت گھیراؤ " خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دیگا کیونکہ خدا نے جس راستہ پر مجھے کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے جو تعلیم مجھے دی ہے وہ کامیابی تک پہنچانے والی ہے اور جن ذرائع کے اختیار کرنے کی اس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و با مراد کرنے والے ہیں.اسکے مقابلہ میں زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے اور میں ان کی شکست کو ان کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں.وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں اتنی ہی نمایاں مجھے ان کی موت دکھائی دیتی ہے " الفضل ۳۰ رمتی ۱۹۳۵ ( تحریک جدید کے اغراض و مقاصد میں سے ایک بنیادی مقصد بیان کرتے ہوئے حضور نے ارشاد فرمایا :- س

Page 296

۲۹۶ تحریک جدید کے دوسرے دور کی تحریک سے میری غرض یہی ہے کہ ہم دنیا میں اسلامی تعلیم قائم کریں.اسلامی تعلیم اس وقت مٹی ہوتی ہے اور ہم یہ کہہ کر اپنے دل کو خوش کر لیتے ہیں کہ اس کا قیام حکومت سے تعلق رکھتا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ تعلق رکھنے والی باتیں بہت تھوڑی ہیں اور ان کا دائرہ بہت ہی محدود ہے باقی زیادہ تر ایسی ہیں کہ ہم حکومت کے بغیر بھی ان کو رائج کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی محبت اسکی توحید اور عرفان کی خواہش دل میں رکھنا اور اس کے لیے جدوجہد کرنا صفات الیہ کو اپنے اندر پیدا کرنا اور پھر اس کو دنیا میں رائج کرنا.قرب الہی کے حصول کی کوشش کرنا.امانت دیانت به راستبازی وغیرہ سینکڑوں باتیں ہیں جن کا حکومت سے کوئی واسطہ نہیں......اسلامی تعلیم کو اپنے اندر اس طرح جاری کر لینا چاہیئے کہ اگر دنیوی سکول توڑ بھی دیئے جائیں تو ہر احمدی اپنی جگہ پر پروفیسر اور فلاسفر ہو جو اپنے بچوں کو گھروں میں وہی تعلیم دے جو ہم نے سکولوں میں دینی ہے یعنی اگر کوئی وقت ایسا بھی آجاتے جب دینی تعلیم کا انتظام حکومت ہمیں نہ کرنے دے اس وقت وہ وقت جو بچے والدین کے پاس گزاریں ان کی دینی تعلیم کو مکمل کرنے کا ذریعہ بن جائے؟ الفضل ۲۴ اگست ۱۹۵۷ته ) احمدیت کا وہ پودا جو خدائی منشا و حکمت کے تحت قادیان کی سرزمین میں مامور زمانہ کی شبانہ دعاؤں اور آنسوؤں کے ساتھ بویا گیا تھا.جسے آپ کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی جانی.مالی.جذباتی اور ہر قسم کی قربانیاں خدائی فضلوں کو جذب کرتے ہوئے پروان چڑھا رہی تھیں اپنی خوبصورتر اٹھان اور سرسبزی کی وجہ سے جہاں دین حق اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق میں خوشی و انبساط کا عالم پیدا کرتا تھا وہاں دشمنوں اور حاسدوں کے لیے سوہان روح بن رہا تھا.یہی وہ زمانہ تھا جب احمدیت کی منظم طریقی پر مخالفت شروع ہوئی جس کا کسی قدر ذکر گذشتہ اوراق میں آچکا ہے اس مخالفت کے کئی پہلو تھے.مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس قوت و مضبوطی سے آواز اٹھائی تھی اور دنیا کو ڈوگرہ راج کے منصوبوں سے آگاہ کیا تھا وہ اپنے اثر افادیت اور نتائج میں انگریزی حکومت اور ہندوؤں کے اندازے اور توقع سے کہیں بڑھ کر تھی.چنانچہ اس آواز کو دبانے کے لیے مسلمانوں کے ایک ایسے گروہ کو آگے لانے کی کوشش کی گئی جو اسلام کا مقدس نام استعمال کرتے ہوئے ہند و مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں ہو کشمیر میں اسی گروہ کی وجہ سے اسلامی اتحاد میں رخنہ

Page 297

۲۹۷ پڑا اور آزادی کشمیر کے کارواں کی رفتار سست پڑگئی.ہندوستان میں کسی بھی اسلامی تنظیم کا استحکام وترقی ہند و مقاصد کے خلاف تھا.چنانچہ اس گروہ نے جماعت کی مخالفت شروع کر دی گویا اس نازک وقت میں ہماری جماعت کے لیے مخالفت کی ایک ایسی آگ بھڑکائی گئی جس کا ایندھن مہیا کرنے میں انگریزی حکومت کے بعض بااثر افراد ہندو ذہنیت ، ہندو سرمایہ اور ہندو پریس پیش پیش تھا.اس تناظر میں حضرت مصلح موعودؓ نے تزکیہ نفس کے جہاد اکبر اور تبلیغ اسلام و اشاعت قرآن کے جہادِ کبیر کے لیے ایک نئی سکیم کا اعلان فرمایا جو بعد میں تحریک جدید کے نام سے مشہور ہوئی.تحریک جدید کا آغاز : وہ پس منتظر جس میں تحریک جدید کا آغازہ ہوا.اس کا ذکر کرتے ہوئے سید نا حضرت خلیفہ ایچ الثانی رض فرماتے ہیں :- یہ تحریک ایسی تکلیف کے وقت میں شروع کی گئی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری طاقتیں جماعت احمدیہ کو مٹانے کے لیے جمع ہو گئی ہیں.ایک طرف احرار نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو مٹا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اس وقت تک سانس نہ لیں گے جب تک مٹا نہ لیں.دوسری طرف جو لوگ ہم سے ملنے جلنے والے تھے اور بظاہر ہم سے محبت کا اظہار کرتے تھے انہوں نے پوشیدہ بغض نکالنے کے لیے اس موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سینکڑوں اور ہزاروں روپوں سے انکی امداد کرنی شروع کر دی.اور تیسری طرف سارے ہندوستان نے ان کی پیٹھ ٹھونکی.یہاں تک کہ ایک ہمارا وفد گورنر پنجاب سے ملنے کے لیے گیا تو اسے کہا گیا کہ تم لوگوں نے احرار کی اس تحریک کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا.ہم نے محکمہ ڈاک سے پتہ لگایا ہے.پندرہ سور و پیر روزانہ ان کی آمدنی ہے.تو اس وقت گورنمنٹ انگریزی نے بھی احرار کی فتنہ انگیزی سے متاثر ہو کر ہمارے خلاف ہتھیار اُٹھا لیے اور یہاں کئی بڑے بڑے افسر بھیج کر اور احمدیوں کو رستے چلنے سے روک کر احرار کا جلسہ کرایا گیا " تقریر فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۳۳ ) آپ نے ایک اور موقع پر فرمایا :- " گورنمنٹ نے جو ہماری ہتک کی یا احرار نے جو اذیت پہنچائی.اس کا یہ فائدہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ ہمارے دلوں میں درد کی نعمت پیدا کر دی اور وہی بات

Page 298

۲۹۸ ہوئی جو مولانا روم نے فرمائی ہے.ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است یعنی ہر آفت جو مسلمانوں پر آتی ہے اس کے نیچے ایک خزانہ مخفی ہوتا ہے.یہیں یقیناً یہ بھی ایک خزانہ تھا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دیا کہ جماعت کو بیدار کر دیا.اور جو لوگ شست اور غافل تھے ان کو بھی چوکنا کر دیا.پس یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو دنیوی نگاہ میں مصیبت تھا.مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک رحمت تھا.اور میں نے نہیں چاہا کہ اس سے صرف موجودہ نسل ہی حصہ ہے.بلکہ یہ چاہا کہ آئندہ نسلیں تھی اس سے حصہ پائیں.اور میں نے اس سکیم کو ایسا رنگ دیا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس طریق پر نہیں جو شیعوں نے اختیار کیا ہے بلکہ عقل سے اور اعلی طریق پر جو خدا کے پاک بندے اختیار کرتے آتے ہیں.اسے یاد رکھ سکیں اور اس سے فائدہ اُٹھا سکیں " الفضل ۱۳ دسمبر ۳۲ ) تحریک جدید کے پیش کرنے کے موقع کا انتخاب ایسا اعلیٰ انتخاب تھا جس سے بڑھ کر اور کوئی اعلیٰ انتخاب نہیں ہو سکتا اور خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی زندگی میں جو خاص کامیابیاں اپنے فضل سے عطا فرماتی ہیں ان میں ایک اہم کامیابی تحریک جدید کو عین وقت پر پیش کر کے مجھے حاصل ہوئی.اور یقیناً میں سمجھتا ہوں جس وقت میں نے یہ تحریک کی وہ میری زندگی کے خاص مواقع میں سے ایک موقع تھا اور میری زندگی کی ان بہترین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی تھی جبکہ مجھے اس عظیم الشان کام کی بنیاد رکھنے کی توفیق ملی.اس وقت جماعت کے دل ایسے تھے جیسے چلتے گھوڑے کو جب روکا جائے تو اس کی کیفیت ہوتی ہے " الفضل ۸ فروری ) ہر حال حکومت، احرار اور بعض دوسرے عناصر کی ملی بھگت سے فتنہ کی جو اگ جماعت احمدیہ کے خلاف بھڑک اُٹھی تھی اسے بجھانے اور اس کے بداثرات سے جماعت کو بچانے کے لیے حضرت امام جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کر رہے تھے کہ الہی القامہ کے ذریعہ قوموں کو برکت بخشنے والی زندگی بخش سکیم آپ کے قلب صافی پر مرتسم ہوئی.اس عجیب و غریب رُوحانی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :-

Page 299

۲۹۹ تحریک جدید ایک ہنگامی چیز کے طور پر میرے ذہن میں آتی تھی.اور جب میں نے اس تحریک کا اعلان کیا ہے اس وقت خود مجھے بھی اس تحریک کی کئی حکمتوں کا علم نہیں تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک نیت اور ارادہ کے ساتھ میں نے یہ کیم جماعت کے سامنے پیش کی تھی.کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ جماعت کی ان دنوں حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے شدید ہتک کی گئی تھی اور سلسلہ کا وقار خطرے میں پڑ گیا تھا.پس میں نے چاہا کہ جماعت کو اس خطرہ سے بچاؤں.مگر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی رحمت انسانی قلب پر تصرف کرتی ہے اور روح القدس اس کے تمام ارادوں اور کاموں پر حاوی ہو جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں میری زندگی میں بھی یہ ایسا ہی واقعہ تھا جبکہ روح القدس میرے دل پر اُترا اور وہ میرے دماغ پر الیسا حاوی ہو گیا کہ مجھے یوں محسوس ہوا گویا اس نے مجھے ڈھانک لیا ہے اور ایک نئی سکیم ، ایک دُنیا میں تغیر پیدا کرنے والی سکیم میرے دل پر نا نزل کر دی.اور میں دیکھتا ہوں کہ میری تحریک جدید کے اعلان سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے.قرآنی سکتے مجھ پر پلے بھی کھلتے تھے اور اب بھی گھلتے ہیں.مگر پہلے کوئی معین سکیم میرے سامنے نہیں تھی جس کے قدم قدم کے نتیجہ سے میں واقف ہوں اور میں کہ سکوں کہ اس اس رنگ میں ہماری جماعت ترقی کرے گی.مگر اب میری حالت ایسی ہی ہے کہ جس طرح انجینئر ایک عمارت بناتا ہے اور اسے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ عمارت یہ کب ختم ہوگی ؟ اس میں کہاں کہاں طاقچے رکھے جائیں گے کتنی کھڑکیاں ہونگی.کتنے دروازے ہونگے.کتنی اونچائی پر چھت پڑے گی.اسی طرح دنیا کی اسلامی فتح کی منزلیں اپنی بہت سی تفاصیل اور مشکلات کے ساتھ میرے سامنے ہیں.دشمنوں کی بہت سی تدبیریں میرے سامنے بے نقاب ہیں.اس کی کوششوں کا مجھے علم ہے اور یہ تمام امور ایک وسیع تفصیل کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں.تب میں نے سمجھا کہ یہ واقعہ اور فساد خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے کھڑا کیا تھا تا وہ ہماری نظروں کو اس عظیم الشان مقصد کی طرف پھرا دے.جس کے لیے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا.پس پہلے میں صرف ان باتوں پر ایمان رکھتا تھا.مگر اب میں صرف ایمان ہی نہیں

Page 300

رکھتا بلکہ میں تمام باتوں کو دیکھ رہا ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ کو کس کس رنگ میں نقصان پہنچایا جائے گا.میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ پر کیا گیا حملہ کیا جائے گا.اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا.ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے." الفضل ، راپریل ۳ ) تحریک جدید کو تمام کامیابیوں کے حصول کا ذریعہ اور الہامی تحریک قرار دیتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :." پس جماعت کو اپنی ترقی اور عظمت کے لیے اس تحریک کو سمجھنا اور اس پر غور کرنا نہایت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ جس طرح مختصر الفاظ میں ایک الہام کر دتیا ہے اور اس میں نہایت باریک تفصیلات موجود ہوتی ہیں.اسی طرح اس کا القا بھی ہوتا ہے ہے اور جس طرح الہام مخفی ہوتا ہے.اسی طرح انتقام بھی مخفی ہوتا ہے.بلکہ القار الہام سے زیادہ مخفی ہوتا ہے.یہ تحریک بھی جو القامہ الٹی کا نتیجہ تھی پہلے مخفی تھی مگر جب اس پر غور کیا گیا تو یہ اس قدر تفصیلات کی جامع نکلی کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالے نے ہمارے زمانہ کے لیے اس میں اتنا مواد جمع کر دیا ہے کہ اصولی طور پر اس میں وہ تمام باتیں آگئی ہیں جو کامیابی کے لیے ضروری ہیں ؟ الفضل ۲۶ فروری ۹۷ ) تحریک جدید کی جو سکیم اللہ تعالی نے آپ کے دل میں اتفاہ کی اس کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے جماعت کو اس کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے بطور تمہید آپ نے 19 اکتوبر سا کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- سات یا آٹھ دن تک اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی اور توفیق بخشی تومیں ایک نہایت ہی اہم اعلان جماعت کے لیے کرنا چاہتا ہوں چھ یا سات دن سے قبل میں وہ اعلان کرنا مناسب نہیں سمجھتا.اس اعلان کی ضرورت اور اس کی وجوہ بھی میں اُسی وقت بیان کروں گا.لیکن اس سے پہلے میں آپ لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ احمدی کہلاتے ہیں.آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی چنیدہ جماعت ہیں.آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے مامور پر کامل یقین رکھتے ہیں.آپ

Page 301

لوگوں کا دعوی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے آپ نے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر رکھے ہیں.اور آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان تمام قربانیوں کے بدلے اللہ تعالیٰ سے لوگوں نے جنت کا سودا کر لیا.یہ دعویٰ آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر دوہرایا.بلکہ آپ میں سے ہزاروں انسانوں نے اس عہد کی ابتداء میرے ہاتھ پر کی ہے.کیونکہ وہ میرے ہی زمانہ میں احمدی ہوتے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے باپ ، تمہارے اللہ بیٹے، تمہاری بیویاں، تمہارے عزیز و اقارب، تمہارے اموال اور تمہاری جائیدادیں تمہیں خدا اور اس کے رسول سے زیادہ پیاری ہیں تو تمہارے ایمان کی کوئی حقیقت نہیں.یہ ایک معمولی اعلان نہیں بلکہ اعلان جنگ ہو گا ہر اس انسان کے لیے جو اپنے ایمان میں ذرہ بھر بھی کمزوری رکھتا ہے.یہ اعلان جنگ ہو گا ہر اس شخص کے لیے جس کے دل میں نفاق کی کوئی بھی رگ باقی ہے ، لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے تمام افراد الا ماشاء اللہ سوائے چند لوگوں کے سب پیچھے مومن ہیں.اور اس دعوے پر قائم ہیں جو انہوں نے بیعت کے وقت کیا اور اس دعوے کے مطابق جس قربانی کا بھی ان سے مطالبہ کیا جائے گا اسے پورا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۳۳ ) اس امر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ ارشاد فرماتے ہیں :- " اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس رنگ میں قربانی کریں جو بہت جلد نتیجہ خیز ہو کہ ہمارے قدموں کو اس بلندی تک پہنچا دے جس بلندی تک پہنچانے کے لیے حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام دُنیا میں مبعوث ہوئے.میں امید کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں میں سے بعض کو دور دراز ملکوں میں بغیر ایک پیسہ لیے نکل جانے کا حکم دیا گیا تو آپ لوگ اس حکم کی تعمیل میں نکل کھڑے ہونگے.اگر لبعض لوگوں سے ان کے کھانے پینے اور پہننے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا تو وہ اس مطالبہ کو پورا کریں گے.اگر بعض لوگوں کے اوقات کو پورے طور پر سلسلہ کے کاموں کے لیے وقف کر دیا گیا تو بغیر چوں و چرا کئے اس پر رضامند ہو جائیں گے اور جو شخص ان مطالبات کو پورا نہیں کریگا وہ ہم میں سے نہیں ہو گا بلکہ الگ کر دیا جائے گا " ) الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۳۳)

Page 302

اس پر شوکت اعلان کے بعد 4 نومبر لا کے خطبہ جمعہ میں اس جدید کیم کے موید من اللہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : یہ ساری تکالیف خواہ حکومت کی طرف سے ہوں خواہ رعایا کی طرف سے ایک ی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیں.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم نہایت ہوشیاری سے ان کا مقابلہ کریں اور اسی لیے میں نے اللہ تعالیٰ سے متواتر دُعا کرتے ہوئے اور اسکی طرف سے مبشر رویا حاصل کرتے ہوئے ایک سکیم تیار کی ہے جس کو میں انشاء اللہ آئندہ جمعہ سے بیان کرنا شروع کروں گا.میں نے ایک دن خاص طور پر دعا کی تو میں نے دیکھا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب آتے ہیں اور میں قادیان سے باہر پرانی سڑک پر ان سے ملا ہوں.وہ ملتے ہی پہلے مجھ سے بغل گیر ہو گئے ہیں.اس کے بعد نہایت جوش سے انہوں نے میرے کندھوں اور سینہ کے اوپر کے حصہ پر بوسے دینے شروع کئے ہیں.اور نهایت رقت کی حالت ان پر طاری ہے اور وہ بو سے بھی دیتے جاتے ہیں اور یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ میرے آقا ! میرا جسم اور روح آپ پر قربان ہوں.کیا آپ نے خاص میری ذات سے قربانی چاہی ہے ؟ یا کہا کہ خاص میری ذاتی قربانی چاہی ہے اور میں نے دیکھا کہ ان کے چہرہ پر اخلاص اور رینج دونوں قسم کے جذبات کا اظہار ہو رہا ہے.میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ اول تو اس میں چوہدری صاحب کے اخلاص کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے کہ انشاء اللہ جس قربانی کا ان سے مطالبہ کیا گیا خواہ کوئی ہی حالات ہوں وہ اس قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.دوسرے یہ کہ ظفر اللہ خان سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی فتح ہے.اور ذات سے قربانی کی اپیل سے منی نصر الله کی آیت مراد ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے اپیل کی گئی اور وہ آگئی اور سینہ اور کندھوں کو بوسہ دینے سے مراد علم اور یقین کی زیادتی اور طاقت کی زیادتی ہے اور آقا کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ فتح و ظفر مومن کے غلام ہوتے ہیں اور اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا.اور جسم اور روح کی قربانی سے مراد جسمانی قربانیاں اور دعاؤں کے ذریعہ سے نصرت ہے.جو اللہ تعالیٰ کے بندوں اور اس کے فرشتوں کی طرف سے ہمیں حاصل ہوں گی.....پھر دوسرے دن میں نے دُعا کی تو میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر فضل کریم صاحب آتے ہیں.....اور میں نہایت محبت سے اُن سے ملا ہوں اور میں

Page 303

* کہتا ہوں آپ کے خلاف کسی نے شکایت کی تھی مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ جھوٹی ہے.فضل کریم سے مراد بھی یہی ہے کہ خُدا کہتا ہے کہ سب قسم کے کرم یعنی عزتیں تو میرے قبضہ میں ہیں.کون آپ کو ذلیل کر سکتا ہے جبکہ میرا فضل ساتھ ہو اور شکایتیں جھوٹی ہونے سے یہ مراد ہے کہ یہ جو لوگوں نے خیال کیا کہ گویا خدا تعالیٰ ہم سے غداری کریگا اور دشمن کا حملہ کامیاب ہوگا.یہ سب جھوٹ ہے ہمارا خدا وفادار خدا ہے اس کے خلاف سب الزام جھوٹے ہیں......بہر حال ترقیات اور کامیابیوں کی بشارتیں ہیں لی ہیں.اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ حاصل ہو کر رہیں گی.لیکن ان کے حصول کے لیے حسب سنت اللہ ہمیں قربانیوں کی ضرورت ہے اور حسب احکام شریعیت کچھ تدابیراختیار کرنے کی بھی.لیکن میں نے پورے غور کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ قربانیاں بالعموم جبری اور لازمی نہ ہوں بلکہ اختیاری ہوں تاکہ ہر شخص اپنے حالات اور اخلاص کے مطابق کام کر سکے " الفضل ۱۸ نومبر ۳۳ ) جس قسم کی قربانیوں کا آپ مطالبہ کرنے والے تھے جماعت کو ان کے لیے ذہنی طور پر تیار او مستعد کو رہنے کی خاطر آپ نے تین حکم دیتے.اس سلسلہ میں ایک حکم آپ نے یہ دیا کہ ا.ہفتہ کے اندر اندر ہر وہ شخص جس کی کسی سے لڑائی ہو چکی ہے.ہر وہ شخص جس کی کسی سے بول چال بند ہے ، وہ جاتے اور اپنے بھائی سے معافی مانگ کر صلح کرے.اور اگر کوئی معاف نہیں کرتا تو اس سے لجاجت اور انکسار کے ساتھ معافی طلب کرے اور ہر قسم کا تذتل اس کے آگے اختیار کرے تاکہ اس کے دل میں رحم پیدا ہو اور وہ نبخش کو اپنے دل سے نکال دے اور الیسا ہو کہ جس وقت میں دوسرا اعلان کرنے کے لیے کھڑا ہوں اس وقت کوئی دو احمدی ایسے نہ ہوں جو آپس میں لڑے ہوئے ہوں.اور کوئی دو احمدی ایسے نہ ہوں.جن کی آپس میں بول چال بند ہو پیس جاؤ اور اپنے دلوں کو صاف کرو.جاؤ اور اپنے بھائیوں سے معافی طلب کر کے متحد ہو جاؤ.جاؤ اور ہر تفرقہ اور شقاق کو اپنے اندر سے دُور کر دو.تب خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہاری مدد کے لیے اُتریں گے.آسمانی فوجیں تمہارے دشمنوں سے لڑنے کے لیے نازل ہونگی اور تمہارا دشمن خدا کا دشمن سمجھا جائے گا......جس شخص کو یہ خطبہ پہنچے وہ اس وقت تک سوئے نہیں جب تک کہ اس حکم پر عمل نہ کرے سوائے اسکے کہ اس کے لیے ایسا کرنا نا ممکن ہو.مثلاً جس شخص سے لڑائی ہوئی ہو وہ گھر میں موجود نہ ہو یا اسے

Page 304

تلاش کے باوجود مل نہ سکا ہو یا کسی دوسرے گاؤں یا شہر میں گیا ہوا ہو.جماعتوں کے سیکرٹریوں کو چاہیے کہ وہ میرے اس خطبہ کے پہنچنے کے بعد اپنی اپنی جماعتوں کو اکٹھا کریں اور انہیں کہیں کہ ---- امیر المومنین بنے کا حکم ہے کہ آج وہی شخص اس جنگ میں شامل ہو سکے گا جس کی اپنے کسی بھائی سے رنجش یا لڑائی نہ ہو.اور جو صلح کر کے اپنے بھائی سے متحد ہو چکا ہو اور جب میں قربانی کے لیے لوگوں کا انتخاب کروں گا تو میں ہر ایک شخص سے پوچھ لوں گا کہ کیا تمہارے دل میں کسی سے رنجش یا بغض تو نہیں اور اگر مجھے معلوم ہوا کہ اس کے دل میں کسی شخص کے متعلق کینہ اور بغض موجود ہے تو میں اس سے کہوں گا کہ تم بنیان مرصوم نہیں تمہارا کندھا اپنے بھائی کے کندھے سے ملا ہوا نہیں.بالکل ممکن ہے کہ تمہارے کندھے سے دشمن ہم پر حملہ کر دے.پس جاؤ مجھ کو تمہاری ضرورت نہیں.دوسری بات آپ نے یہ کسی کہ آپ کو فوراً جلد سے جلد ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو سلسلہ کے لیے اپنے وطن چھوڑنے کے لیے تیار ہوں.اپنی جانوں کو خطرات میں ڈالنے کے لیے تیار ہوں اور بھوکے اور پیاسے رہ کر بغیر تنخواہوں کے اپنے نفس کو تمام تکالیف سے گزارنے پر آمادہ ہوں ریس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو نوجوان ان کاموں کے لیے تیار ہوں وہ اپنے نام پیش کریں.تیرا حکم آپ کا یہ تھا کہ ہر شخص جس کے چندوں میں کوئی نہ کوئی بقایا ہے یا ہر وہ جماعت جس کے چندوں میں بتاتے ہیں وہ فوراً اپنے اپنے بقائے پورے کرے اور آئندہ کیلئے چندوں کی ادائیگی نہیں باقاعدگی کا نمونہ دکھلا ہے ) الفضل ١٨ر نومبر ة ) قربانی کے ماحول کو اور زیادہ نکھارنے کے لیے ان تین حکموں کے علاوہ آپ نے جماعت کو یہ تلقین بھی فرمائی کہ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ماحول ٹھیک ہو اور گردوپیش کے حالات موافق ہوں.اگر گرد و پیش کے حالات موافق نہ ہوں تو کامیابی نہیں ہو سکتی.اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں.ان کے اندر نیکی کرنے کا مادہ بھی موجود ہوتا ہے اور جذبہ بھی.مگر وہ الیسا ماحول نہیں پیدا کر سکتے جس کے ماتحت صحیح قربانی کر سکیں.پس ماحول کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے.میرے ایک بچہ نے ایک دفعہ ایک جائز امر کی خواہش کی تو میں نے اسے لکھا کہ یہ بے شک جائز ہے مگر تم یہ سمجھ لو کہ تم نے خدمت دین کے لیے زندگی وقف کی ہوتی ہے اور تم نے دین کی خدمت کا کام کرنا ہے.اور یہ امر تمہارے لیے اتنا بوجھ ہو جائے گا کہ تم دین

Page 305

کی خدمت کے رستہ میں اسے نبھا نہیں سکو گے.اور یہ تمہارے رستہ میں مشکل پیدا کر دیگا.تو میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ نیکیوں سے اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ ماحول پیدا نہیں کر سکتے.وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جب کہا کہ قربانی کریں گے تو کر لیں گے.حالانکہ یہ صحیح نہیں....مجھے ہزار ہا لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم قربانی کے لیے تیار ہیں اور جنہوں نے نہیں لکھا وہ بھی اس انتظار میں میں کر سکیم شائع ہوئے تو ہم بھی شامل ہو جائیں گے بیگ میں بتاتا ہوں کہ کوئی قربانی کام نہیں دے سکتی جب تک اس کے لیے ماحول پیدا نہ کیا جائے.یہ کہنا آسان ہے کہ ہمارا مالی سلسلہ کا ہے.مگر جب ہر شخص کو کچھ روپیہ کھانے پر اور کچھ لباس پر اور کچھ مکان کی حفاظت یا کرایہ پر کچھ علاج پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کے پاس کچھ نہیں بچتا تو اس صورت میں اس کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ میرا سب مال حاضر ہے.اس قسم کی قربانی نہ قربانی پیش کرنے والے کو کوئی نفع دے سکتی ہے اور نہ سلسلہ کو ہی اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے سلسلہ اس کے ان الفاظ کو کہ میرا سب مال حاضر ہے کیا کرے جبکہ سارے مال کے معنے صفر کے ہیں.جس شخص کی آمد سو روپیہ اور خرچ بھی سو روپیہ ہے.وہ اس قربانی سے سلسلہ کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا.جب تک کہ پہلے خرچ کو سو سے نوے پر نہیں لے آتا.تب بے شک اس کی قربانی کے معنے دس فیصدی قربانی کے ہونگے....پس ضروری ہے کہ قربانی کرنے سے پیشتر اس کے لیے ماحول پیدا کیا جائے.اس کے بغیر قربانی کا دعویٰ کرنا ایک نادانی کا دعویٰ ہے یا منافقت.یاد رکھو کہ یہ ماحول اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا.جب تک عورتیں اور بچے ہمارے ساتھ نہ ہوں.مرد اپنی جانوں پر عام طور پر پانچ دس فیصدی خرچ کرتے ہیں.سوائے اُن عیاش مردوں کے جو عیاشی کرنے کے لیے زیادہ خرچ کرتے ہیں.ورنہ گنیه دار مرد عام طور پر اپنی ذات پر پانچ دیس فیصدی سے زیادہ خرچ نہیں کرتے.اور باقی توے پچانوے فیصدی عورتوں اور بچوں پر خرچ ہوتا ہے.اس لیے بھی کہ انکی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور اس لیے بھی کہ ان کے آرام کا مرد زیادہ خیال سکتے ہیں.پس ان حالات میں مرد جو پہلے ہی پانچ یا دس یا زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس فیصدی اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں اور جن کی آمدنی کا اسی نوے فیصدی عورتوں اور بچوں پر خرچ ہوتا ہے.اگر قربانی کرنا بھی چاہیں تو کیا کرسکتے ہیں.جب عورتیں اور بچے ساتھ نہ دیں اور جب تک وہ یہ نہ کہیں کہ ہم ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں کہ مرد قربانی کر سکیں.پس تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قربانی کیلئے پہلے ماحول پیدا کیا جائے اور اس کے لیے ين

Page 306

ہمیں اپنے بیوی بچوں سے پوچھنا چاہتے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں گے یا نہیں ؟ اگر وہ ہمارے ساتھ قربانی کے لیے تیار نہیں ہیں تو قربانی کی گنجائش بہت کم ہے.مالی قربانی کی طرح جانی قربانی کا بھی یہی حال ہے.جسم کو تکلیف پہنچا نا کسی طرح ہو سکتا ہے جب تک اُس کے لیے عادت نہ ڈالی جائے جو مائیں اپنے بچوں کو وقت پر نہیں جگاتیں ، وقت پر پڑھنے کے لیے نہیں بھیجتیں ، ان کے کھانے پینے میں ایسی احتیاط نہیں کرتیں کہ وہ آرام طلب اور عیاش نہ ہو جائیں.وہ قربانی کیا کر سکتے ہیں.عادتیں جو بچپن میں پیدا ہو جائیں وہ نہیں چھوٹتیں.اس میں شک نہیں کہ وہ بہت بڑے ایمان سے دب جاتی ہیں.مگر جب ایمان میں ذرا بھی کمی آتے پھر عود کر آتی ہیں.پیس جانی قربانی بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک عورتیں اور بچے ہمارے ساتھ متحد نہ ہوں.جب تک ماتیں متحد نہیں ہوں گی تو وہ روز ایسے کام کریں گی جن سے بچوں میں شکستی اور غفلت پیدا ہو.پس جب تک مناسب ماحول پیدا نہ ہو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا." الفضل ۲۹ نومبر ۳۳ ) i مطالبات تحریک جدید - پہلا مطالبہ : حضور نے سب سے پہلے جماعت سے اس تحریک کے سلسلہ میں جو مطالبہ فرمایا وہ سادہ زندگی اختیار کرنے کا تھا.حضور اس امر کی اہمیت و افادیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :..ہر احمدی جو اس جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہیے یہ اقرار کرے کہ وہ آج سے صرف ایک سالن استعمال کرے گا.روٹی اور سالن یا چاول اور سالن یہ دو چیزیں نہیں بلکہ دونوں مل کر ایک ہونگے ، لیکن روٹی کے ساتھ دو سالنوں یا چاولوں کے ساتھ دوسالنوں کی اجازت نہ ہوگی......سوائے اس صورت کے کہ کوئی دعوت ہو یا مہمان گھر پر آتے.اس کے احترام کے لیے اگر ایک سے زائد کھانے تیار کئے جائیں تو یہ جائز ہوگا.مگر مہمان کا قیام لمبا ہو تو اس صورت میں اہل خانہ خود ایک ہی کھانے پر کفایت کرنے کی کوشش کرے یا سوائے اس کے کہ اس شخص کی کہیں دعوت ہو اور صاحب خانہ ایک سے زیادہ کھانوں پر اصرار کرے یا سوائے اس کے کہ اس کے گھر کوئی چیز بطور تحفہ آجائے یا مثلاً ایک وقت کا کھانا تھوڑی مقدار میں بیچ کر دوسرے وقت کے کھانے کے ساتھ استعمال کر لیا جائے......مہمان بھی اگر جماعت کا ہو تو اسے بھی چاہیئے کہ میزبان کو مجبور نہ کرے کہ ایک سے زیادہ سالن اس کے ساتھ مل کر کھائے.ہر احمدی اس بات کا پابند نہیں بلکہ اس کی

Page 307

پابندی صرف ان لوگوں کے لیے ہو گی جو اپنے نام مجھے بتا دیں......لباس کے متعلق میرے ذہن میں کوئی خاص بات نہیں آتی.ہاں بعض عام ہدایات میں دیتا ہوں.مثلاً یہ کہ جن لوگوں کے پاس کانی کپڑے ہوں وہ ان کے خراب ہو جانے تک اور کپڑے نہ بنوائیں.پھر جو لوگ نئے کپڑے زیادہ بنواتے ہیں وہ نصف پر یاتین چوتھائی پریا ہے پر آجاتیں ہاں سب سے ضروری بات عورتوں کے لیے یہ ہوگی کہ محض پسند پر کپڑا نہ خریدیں....بلکہ ضرورت ہو تو خریدیں.دوسری پابندی عورتوں کے لیے یہ ہے کہ اس عرصہ میں گوٹہ کناری فیتہ وغیرہ قطعا نہ خریدیں.تیسری شرط اس مد میں یہ ہے کہ جو عورتیں اس عہد میں اپنے آپ کو شامل کرنا چاہیں وہ کوئی نیا زیور نہیں بنوائیں گی اور جو مرد اس میں شامل ہوں وہ بھی عہد کریں کہ عورتوں کو نیا زیور بنوا کر نہیں دیں گے.پرانے زیور کو تڑوا کر بنانے کی بھی ممانعت ہے.....جب ہم جنگ کرنا چاہتے ہیں تو روپیہ کو کیوں خواہ مخواہ ضائع کریں.خوشی کے دنوں میں ایسی جائز باتوں سے تم نہیں روکتے ، لیکن جنگ کے دنوں میں ایک پیسہ کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے.ہاں ٹوٹے ہوئے زیور کی مرمت جائز ہے.....- علاج کے متعلق میں کہہ چکا ہوں کہ اطباء اور ڈاکٹر سستے نسخے تجویز کیا کریں.پانچواں خرج سینما اور تماشے ہیں.ان کے متعلق میں ساری جماعت کو حکم دیتا ہوں کہ تین سال تک کوئی احمدی کسی سینما سرکس.تھیٹر وغیرہ غرضیکہ کسی تماشہ میں بالکل نہ جائے.....چھٹا شادی بیاہ کا معاملہ ہے چونکہ جذبات کا سوال ہے اور حالات کا سوال ہے.اس لیے میں یہ حد بندی تو نہیں کر سکتا کہ اتنے جوڑے اور اتنے زیور سے زیادہ نہ ہوں.ہاں اتنا مد نظر رہے کہ تین سال کے عرصہ میں یہ چیزیں کم کر دی جائیں.جو شخص اپنی لڑکی کو زیادہ دینا چاہیے وہ کچھ زیور کپڑا اور باقی نقد کی صورت میں دے دے.ساتواں مکانوں کی آرائش و زیبائش کا سوال ہے اس کے متعلق بھی کوئی طریق میرے ذہن میں نہیں آیا.ہاں عام حالات میں تبدیلی کے ساتھ اس میں خود بخود تبدیلی ہو سکتی ہے.جب غذا اور لباس سادہ ہوگا تو اس میں بھی خود بخود لوگ کی کرنے لگ جائیں گے.پس میں اس عام نصیحت کے ساتھ کہ جو لوگ اس معاہدہے میں شامل ہوں وہ آرائش و زیباتش پر خواہ مخواہ روپیہ ضائع نہ کریں.اس بات کو چھوڑتا ہوں......آٹھویں چیز.

Page 308

تعلیمی اخراجات ہیں.اس کے متعلق کھانے پینے میں جو خرچ ہوتا ہے.اس کا ذکر میں پہلے کہ آیا ہوں.جو خرچ اس کے علاوہ ہیں یعنی فیس یا آلات اور ازاروں یا سٹیشنری اور کتابوں وغیرہ پر جو خرچ ہوتا ہے اس میں کمی کرنا ہمارے لیے مضر ہوگا.اس لیے نہ تو اس میں کمی کی نصیحت کرتا ہوں اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے.پس عام اقتصادی حالات میں تغیر کے لیے میں ان آٹھ قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہوں “ ر الفضل ۲۹ نومبر ۳ ۱۹۳۷ سینما جو اخلاقی اقدار کی تباہی کا باعث ہو رہا ہے اس کے بداثرات سے بچانے کیلئے حضور وقتاً فوقتاً اس کے بعد بھی جماعت کو نصیحت کرتے رہے.ایک موقعہ پر حضور نے فرمایا :- " بعض لوگوں کے منہ سے یہ بات بھی نکلی ہے کہ سینما کی ممانعت دس سال کیلئے ہے.انہیں یا درکھنا چاہیئے کہ برائی کا تعلق دس سال یا بیس سال سے نہیں ہوتا جبیں چیز میں کوئی خرابی ہو وہ کسی میعاد سے تعلق نہیں رکھتی.اس طرح تو میں نے صرف آپ لوگوں کی عادت چھڑا دی ہے اگر میں پہلے ہی یہ کہہ دیتا کہ اس کی ہمیشہ کے لیے مانعت ہے تو بعض نوجوان جن کے ایمان کمزور تھے اس پر عمل کرنے میں تامل کرتے مگر میں نے پہلے تین سال کے لیے ممانعت کی اور جب عادت ہٹ گئی تو پھر مزید سات سال کے لیے ممانعت کردی اور اس کے بعد چونکہ عادت بالکل ہی نہیں رہے گی.اس لیے دوست خود ہی کہیں گے کہ جہنم میں جاتے سینما.اس پر پیسے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے " رپورٹ مجلس مشاورت ص۸۵ ۱۳۹ ) اسی طرح حضور فرماتے ہیں :.سینا کے متعلق میرا خیال ہے کہ اس زمانہ کی بدترین لعنت ہے.اس نے سینکڑوں شریف گھرانے کے لوگوں کو گویا اور سینکڑوں شریف خاندانوں کی عورتوں کو ناچنے والی بنا دیا ہے میں ادبی رسالے وغیرہ دیکھتا رہتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ سینما کے شوقین اور اس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مضامین میں ایسا تمسخر ہوتا ہے اور ان کے اخلاق اور ان کا مذاق ایسا گندہ ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے.سینما والوں کی عرض تو روپیہ کمانا ہے نہ کہ اخلاق سکھانا اور وہ روپیہ کمانے کے لیے ایسے لغو اور بے ہودہ فسانے اور گانے پیش کرتے ہیں کہ جو اخلاق کو سخت خراب کرنے والے ہوتے ہیں اور شرفا جب

Page 309

ان میں جاتے ہیں تو ان کا مذاق بھی بگڑ جاتا ہے اور ان کے بچوں اور عورتوں کا بھی جن کو وہ سینما دیکھنے کے لیے ساتھ لے جاتے ہیں اور سینما ملک کے اخلاق پر ایسا تباہ کن اثر ڈال رہے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ میرا منع کرنا تو الگ رہا.اگر میں ممانعت کروں تو بھی مومن کی روح کو خود بخود اس سے بغاوت کرنی چاہیئے ؟ ) الفضل ۱۲ دسمبر ة ) دوسرا مطالبہ :- دوسرا مطالبہ جو دراصل پہلے ہی مطالبہ پر مبنی ہے میں یہ کرتا ہوں کہ جماعت کے مخلص افراد کی ایک جماعت ایسی نکلے جو اپنی آمد کالا سے یہ حصہ تک سلسلہ کے مفاد کے لیے تین سال تک بیت المال میں جمع کراتے.تیسرا مطالبه : تیسرا مطالب میں یہ کرتا ہوں کہ دشمن کے مقابلہ کے لیے اس وقت بڑی ضرورت ہے کہ وہ جو گندہ لٹریچر ہمارے خلاف شائع کر رہا ہے اس کا جواب دیا جائے یا اپنا نقطہ نگاہ احسن طور پر لوگوں تک پہنچایا جائے اور وہ روکیں جو ہماری ترقی کی راہ میں پیدا کی جا رہی ہیں انہیں دُور کیا جائے.اس کے لیے بھی خاص نظام کی ضرورت ہے.رو پیر کی ضرورت ہے.آدمیوں کی ضرورت ہے اور کام کرنے کے طریقوں کی الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۳) ضرورت ہے".چوتھا مطالبہ :- چوتھے مطالبے کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا :- قوم کو مصیبت کے وقت پھیلنے کی ضرورت ہوتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کہتا ہے کہ مکہ میں اگر تمہارے خلاف جوش ہے تو کیوں باہر نکل کر دوسرے ملکوں میں نہیں پھیل جاتے.اگر باہر نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری ترقی کے بہت سے راستے کھول دیگا.اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت میں بھی ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں کچلنا چاہتا ہے اور رعایا میں بھی.نہیں کیا معلوم ہے کہ ہماری مدنی زندگی کی ابتدا.کہاں سے ہوتی ہے قادیان بے شک ہمارا مذہبی مرکز ہے.مگر ہمیں کیا معلوم کہ ہماری شوکت و طاقت کا مرکز کہاں ہے.یہ ہندوستان کے کسی اور شہر میں بھی ہو سکتا ہے اور چین، جاپان ، فلپائن

Page 310

سماٹرا - جاوا - روس امریکہ غرضیکہ دنیا کے کسی ملک میں ہو سکتا ہے.اس لیے جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ لوگ بلاوجہ جماعت کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں.کچلنا چاہتے ہیں تو ہمارا ضروری فرض ہو جاتا ہے کہ باہر جائیں اور تلاش کریں کہ ہماری مدنی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے.نہیں کیا معلوم ہے کہ کونسی جگہ کے لوگ ایسے ہیں کہ وہ فوراً احمدیت کو قبول کر لیں گے..پس میں اس تحریک کے ماتحت ایک طرف تو ایسے نوجوانوں کا مطالبہ کرتا ہوں جو کچھ خرچ کا بوجھ خود اٹھائیں ورنہ وقف کرنے والوں میں سے اُن کو چُن لیا جائے گا جو کرایہ اور چھ ماہ کا خرچ لیکر ان ملکوں میں تبلیغ کے لیے جانے پر آمادہ ہونگے جو ان کے لیے تجویز کئے جائیں گے.اس چھ ماہ کے عرصہ میں ان کا فرض ہو گا کہ علاوہ تبلیغ کے وہاں کی زبان بھی سیکھ لیں.اور اپنے لیے کوئی کام بھی نکالیں.جس سے آئندہ گزارہ کر سکیں اس تحریک کے لیے خرچ کا اندازہ میں نے دس ہزار روپیہ کا لگایا ہے.یہیں دوسرا مطالبہ اس تحریک کے ماتحت میرا یہ ہے کہ جماعت کے ذی ثروت لوگ جو سو رو پسی یا زیادہ رو پید دے سکیں اس کے لیے رقوم دیگر ثواب حاصل کریں......ایسے نوجوان با قاعدہ مبلغ نہیں ہوں گے مگر اس بات کے پابند ہوں گے کہ باقاعدہ رپورٹیں بھیجتے رہیں اور ہماری ہدایات کے ماتحت تبلیغ کریں الفضل ۲۹ نومبر ) پانچواں مطالبہ : - " تبلیغ کی ایک سکیم میرے ذہن میں ہے جس پر سو روپیہ ماہوار خرچ ہو گا.اور اس طرح ۱۲۰۰ روپیہ اس کے لیے درکار ہے.جو دوست اس میں بھی حصہ لے سکتے ہوں وہ لیں.اس میں بھی غربابہ کو شامل کرنے کے لیے میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں حصہ لینے کے پانچ پانچ روپے دے سکتے ہیں لا الفضل ۲۹ نومبر ) چھٹا مطالبہ :- چھٹا مطالبہ آپ نے یہ فرمایا کہ :.میں چاہتا ہوں کہ وقف کنندگان میں سے پانچ افراد کو مقرر کیا جائے کہ سائیکلوں پر سارے پنجاب کا دورہ کریں اور اشاعت سلسلہ کے امکانات کے متعلق مفصل رپورٹیں مرکز کو بھجوائیں.مثلاً یہ کہ کس علاقہ کے لوگوں پر کس طرح اثر ڈالا جا سکتا ہے.کون سمون

Page 311

سے با اثر لوگوں کو تبلیغ کی جائے تو احمدیت کی اشاعت میں خاص مدد مل سکتی ہے کس کس جگہ کے لوگوں کی کس کس جگہ کے احمدیوں سے رشتہ داریاں ہیں کہ ان کو بھیج کر وہاں تبلیغ کرائی جاتے.وغیرہ وغیرہ.پانچ آدمی جو سائیکلوں پر جائیں گے مولوی فاضل یا انٹرنس پاس ہونے چاہئیں.تین سال کے لیے وہ اپنے آپ کو وقف کریں گے.پندرہ روپیہ ماہوار ان کو دیا جائے گا تبلیغ کا کام ان کا اصل فرض نہیں ہو گا.اصل فرض تبلیغ کیلئے میدان تلاش کرنا ہوگا.وہ تبلیغی نقشے بنائیں گے.گویا جس طرح گورنمنٹ سروے (SURVEY) کرواتی ہے.وہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے پنجاب کا سروے کریں گے.ان کی تنخواہ اور سائیکلوں وغیرہ کی مرمت کا خرچ ملا کر سو روپیہ ماہوار ہوگا.اور اس طرح کل رقم جس کا مطالبہ ہے ۲۷ ہزار بنتی ہے.مگر اس میں سے اہزار کی فوری ضرورت ہے ؟ ساتواں مطالبہ :.۱۹۳۴ الفضل ۲۹ نومبر ۹۳ة ) اس مطالبہ کے متعلق حضور نے فرمایا : تبلیغ کی وسعت کے لیے ایک نیا سلسلہ مبلغین کا ہونا چاہیئے.اور وہ یہی ہے کہ سرکاری ملازمین تین ماہ کی چھٹیاں لے کر اپنے آپ کو پیش کریں.تاکہ ان کو وہاں بھیج دیا جائے جہاں ان کی ملازمت کا واسطہ اور تعلق نہ ہو.- ----- ایسے اصحاب کا فرض ہوگا کہ جس طرح مل کا نہ تحریک کے وقت ہوا.وہ اپنا خرچ آپ برداشت کریں.ہم اس بات کو مد نظر رکھیں گے کہ انہیں اتنی دور نہ بھیجا جاتے کہ ان کے لیے سفر کے اخراجات برداشت کرنے مشکل ہوں اور اگر کسی کو کسی دُور جگہ بھیجا گیا تو کس قدر بوجھ اخراجات سفر کا سلسلہ برداشت کرلے گا.اور باقی اخراجات کھانے پینے پہننے کے وہ خود برداشت کریں.ان کو کوئی تنخواہ نہ دی جائے گی نہ کوئی کرایہ.سوائے اس کے جسے بہت دُور بھیجا جاتے ؟ الفضل 9 دسمبر ۹۳) آٹھواں مطالبہ :- آٹھواں مطالبہ یہ ہے کہ " ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو تین سال کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں ؟ ) الفضل ۹؍ دسمبر ۱۹۳۳)

Page 312

۳۱۲ نواں مطالبہ :- نواں مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا : ” جو لوگ تین ماہ نہ دے سکیں.وہ اپنی موسمی چھٹیاں یا حق کے طور پر ملنے والی چھٹیاں وقف کر دیں.ان کو قریب کے علاقہ میں ہی کام پر لگا دیا جائیگا.---- زمینداروں کے لیے بھی چھٹی کا وقت ہوتا ہے.انہیں سرکار کی طرف سے چھٹی نہیں ملتی بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے.یعنی ایک موقعہ آتا ہے جو نہ کوئی فصل بونے کا ہوتا ہے اور نہ کاٹنے کا.اس وقت جو تھوڑا بہت کام ہو اُسے بیوی بچوں کے سپرد کر کے وہ اپنے آپ کو تبلیغ کے لیے پیش کر سکتے ہیں.ہم انکی لیاقت کے مطابق اور انکی طرز کا ہی کام انہیں بتا دیں گے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے اعلیٰ نتایج رونا ہوں گے.مثلاً ان سے پوچھیں گے کہ تمہاری کہاں کہاں رشتہ داریاں ہیں اور کہاں کے رشتہ دار احمدی نہیں پھر کہیں گے جاؤ اُن کے ہاں مہمان ٹھہرو اور انکو تبلیغ کروا" الفضل و دسمبر ۳۳) ۹ر دسوال مطالبہ : دسواں مطالبہ پیش کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- " اپنے عہدہ یا کسی علم وغیرہ کے لحاظ سے جولوگ کوئی پوزیشن رکھتے ہوں یعنی ڈاکٹر ہوں و کلا.ہوں یا اور ایسے معزز کاموں پر یا ملازمتوں پر ہوں.جن کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ایسے لوگ اپنے آپ کو پیش کریں تا کہ مختلف مقامات کے جلسوں میں مبلغوں کے سوائے اُن کو بھیجا جاتے...میں سمجھتا ہوں اگر اچھی پوزیشن رکھنے والا.اپنے حالات بیان کرے اور بتاتے کہ اُسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کر کے کسقدر روحانی ترقی حاصل ہوتی اور کسی طرح اس کی حالت میں انقلاب آیا.پھر ڈاکٹر یا وکیل یا بیرسٹر ہو کر قرآن اور حدیث کے معارف بیان کرے تو سنے والوں پیر اس کا خاص اثر ہو سکتا ہے.....یہ لوگ اگر لیکچروں کے لیے معلومات حاصل کرنے اور نوٹ لکھنے کے لیے قادیان آجائیں تو میں خود ان کو نوٹ لکھوا سکتا ہوں یا دوسرے مبلغ لکھا دیا کریں گے.اس طرح ان کو سہارا بھی دیا جا سکتا ہے " الفضل و ستمبر ٩٣ة ند

Page 313

گیارہواں مطالبہ :- گیارہواں مطالبہ پیش کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- - آج سے دس سال قبل میں نے ریزرو فنڈ قائم کرنے کے لیے کہا تھا تا کہ اس کی آمد سے ہم ہنگامی کام کرسکیں مگر افسوس جماعت نے اس کی اہمیت کو نہ سمجھا اور صرف ۲۰ ہزار کی رقم جمع کی....ہنگامی کاموں کے لیے تو بہت بڑی رقم ہونی چاہیئے.جس کی معقول آمدنی ہو.پھر اس آمدنی میں سے ہنگامی اخراجات کرنے کے بعد جو کچھ بچے اس کو اسی فنڈ کی مضبوطی کے لیے لگا دیا جائے تاکہ جب ضرورت ہو اس سے کام لیا جا سکے.جماعت کو یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک ہنگامی کاموں کے لیے بہت بڑی رقم خلیفہ کے ماتحت نہ ہو کبھی ایسے کام جو سلسلہ کی وسعت اور عظمت الفضل و دسمبر ۱۹۳۳) کو قائم کریں نہیں ہو سکتے " بارہواں مطالبہ :- بار ہواں مطالبہ حضور نے یہ فرما یا کہ :- " وہ بیسیوں آدمی جو پٹیشن لیتے ہیں اور گھروں میں بیٹھے ہیں.خدا نے ان کو موقع دیا ہے کہ چھوٹی سرکار سے پیشن ہیں اور بڑی سرکار کا کام کریں.یعنی دین کی خدمت کریں..تا ان سکیموں کے سلسلہ میں ان سے کام لیا جائے.یا جو مناسب ہوں انہیں نگرانی کا کام سپرد کیا جائے" الفضل و دسمبر مة ) ( تیرھواں مطالبہ :- تیرھواں مطالبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا : --- باہر کے دوست اپنے بچوں کو قادیان کے ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ میں سے جس میں چاہیں تعلیم کے لیے بھیجیں......قادیان میں پرورش پانے والے بچوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے اور سلسلہ کی محبت ان کے دلوں میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ خواہ ان میں سے کسی کی حالت کیسی ہی ہو جب دین کی خدمت کے لیے آواز اٹھتی ہے تو ان کے اندر سے بھیک کی سر پیدا ہو جاتی ہے.الا ماشاء اللہ.لیکن اس وقت میں ایک خاص مقصد سے یہ تحریک کر رہا ہوں.ایسے لوگ اپنے بچوں کو پیش کریں جو اس بات کا اختیار دیں کہ ان بچوں کو ایک خاص رنگ اور خاص طرز میں رکھا جائے اور دینی

Page 314

تربیت پر زور دینے کے لیے ہم جس رنگ میں ان کو رکھنا چاہیں رکھ سکیں.اس کے ماتحت جو دوست اپنے لڑکے پیش کرنا چاہیں کریں ان کے متعلق میں ناظر صاحب تعلیم و تربیت سے کہوں گا کہ انہیں تہجد پڑھانے کا خاص انتظام کریں.قرآن کریم کے درس اور مذہبی تربیت کا پورا انتظام کیا جائے.اور ان پر ایسا گہرا اثر ڈالا جاتے کہ اگر انکی ظاہری تعلیم کو نقصان بھی پہنچ جائے تو اس کی پرواہ نہ کی جائے.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان کی ظاہری تعلیم کو ضرور نقصان پہنچے اور نہ بظاہر اس کا امکان ہے.لیکن دینی ضرورت پر زور دینے کی غرض سے میں کہتا ہوں کہ اگر ان کی دینی تعلیم و تربیت پر وقت خرچ کرنے کی وجہ سے نقصان پہنچ بھی جاتے تو اس کی پرواہ نہ کی جائے.اس طرح ان کے لیے ایسا ماحول پیدا کیا جائے جو ان میں نئی زندگی کی روح پیدا کرنے والا ہو ر الفضل و دسمبر ۹۳ جود ہواں مطالبہ : چودہویں مطالبے کے سلسلہ میں حضور فرماتے ہیں :- " بعض صاحب حیثیت لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانا چاہتے ہیں ان سے میں کہوں گا کہ بجائے اس کے کہ بچوں کے منشاء اور خواہش کے مطابق ان کے متعلق فیصلہ کریں.....وہ اپنے لڑکوں کے مستقبل کو سلسلہ کے لیے پیش کردیں.موجودہ حالات میں جو احمدی اعلیٰ عہدوں کی تلاش کرتے ہیں وہ کسی نظام کے ماتحت نہیں کرتے اور نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بعض صیغوں میں احمدی زیادہ ہو گئے ہیں اور بعض بالکل خالی ہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ اعلیٰ تعلیم ایک نظام کے ماتحت ہو.اور اس کے لیے ایک ایسی کمیٹی مقرر کر دی جاتے کہ جو لوگ اعلی تعلیم دلانا چاہیں وہ لڑکوں کے نام اس کمیٹی کے سامنے پیش کر دیں.پھر وہ کیسی لڑکوں کی حیثیت.ان کی قابلیت اور انکے رجحان کو دیکھکر فیصلہ کرے کہ فلاں کو پولیس کے محکمہ کے لیے تیار کیا جاتے.فلاں کو انجینئر نگ کی تعلیم دلائی جائے.فلاں کو بجلی کے محکمہ میں کام سیکھنے کے لیے بھیجا جاتے فلاں ڈاکٹری میں جائے.فلاں ریلوے میں جاتے.وغیرہ وغیرہ یعنی ان کے لیے الگ الگ کام مقرر کریں تاکہ کوئی صیغہ ایسا نہ رہے جس میں احمدیوں کا کافی دخل نہ الفضل و دسمبر ة ) ہو جاتے "

Page 315

۳۱۵ پندرہواں مطالبہ : وہ نوجوان جو گھروں میں بے کار بیٹھے روٹیاں توڑتے ہیں اور ماں باپ کو مفروض بنا رہے ہیں انہیں چاہتے کہ اپنے وطن چھوڑیں اور نکل جاتیں.....مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بعض نوجوان ماں باپ کو اطلاع دیتے بغیر گھروں سے بھاگ جاتے ہیں.یہ بہت بُری بات ہے.جو جانا چاہیں اطلاع دے کر جاتیں اور اپنی خیر و عافیت کی اطلاع دیتے رہیں " الفضل ۹ - دسمبر ۹۳۳ة ) اس سلسلہ میں نوجوانوں کی ترقی و بہتری کے لیے رہنمائی کرتے ہوئے حضور نے قبل ازیں یہ بھی فرمایا تھا کہ : " وہ تعلیم یافتہ احمدی نوجوان جو بے کاری کی حالت میں اپنے خاندانوں کے لیے بار بنے ہوتے ہیں اور اپنی عمریں ضائع کر رہے ہیں اگر غیر ملکوں میں جاکر اپنی قسمت آزمائی کریں تو ان کے لیے بھی بہتر ہوگا اور اس طرح جماعت کے نوجوانوں میں ترقی کرنے کی روح بھی پیدا ہو گی.بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ملک میں کسی کے لیے ترقی کرنے کا موقع نہیں ہوتا ، لیکن دوسرے ممالک میں جا کر اس کے لیے ترقی کا رستہ کھل جاتا ہے.اس میں مشکلات اور خطرات بھی ہوتے ہیں.حتی کہ جان کا خطرہ بھی ہوتا ہے، لیکن ترقی کی امنگ رکھنے والوں کو اس قسم کے خطرات کی پرواہ نہیں ہوتی در اصل جس چیز کی وجہ سے ترقی حاصل ہوتی ہے وہ عزم و استقلال حوصلہ اور قربانی کا مادہ ہوتا ہے.جو نو جوان اس ارادہ کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں کہ خواہ کچھ ہو قدم آگے ہی آگے بڑھائیں گے وہ دنیوی ترقی کی منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں؟ الفضل ، متى ١٩٣٣ ) رمتی سولھواں مطالبہ -: " جماعت کے دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.میں نے دیکھا ہے اکثر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ذلت سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ذلت نہیں بلکہ عزت کی بات ہے.یہ تحریک میں قادیان سے شروع کرنا چاہتا ہوں اور با ہر گاؤں کی احمدیہ جماعتوں کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنی مساجد کی صفائی اور لیاتی و غیر

Page 316

خود کیا کریں اور اس طرح ثابت کریں کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا وہ عار نہیں سمجھتے.شغل کے طور پر لوہار، انجار اور معمار کے کام بھی مفید ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے.......یہ تربیت ثواب اور رعب کے لحاظ سے بھی بہت مفید چیز ہے.جو لوگ یہ دیکھیں گے کہ ان کے بڑے بڑے بھی مٹی ڈھونا اور مشقت کے کام کرنا عار نہیں سمجھتے.ان پر خاص اثر ہوگا " ) الفضل ۹ - دسمبر ۱۹۳۳ته سترھواں مطالبہ : " جو لوگ بے کار ہیں وہ بے کار نہ رہیں اگر وہ اپنے وطنوں سے باہر نہیں جاتے تو چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی انہیں مل سکے وہ کر لیں.اخباریں اور کتابیں ہی بیچنے لگ جائیں.......غرض کوئی شخص بے کار نہ رہے" (الفضل و دسمبر شاہ ) - ۱۹۳۴ اٹھارہواں مطالبہ : قادیان میں مکان بنانے کی کوشش کریں..جوں جوں قادیان میں احمدیوں کی آبادی بڑھے گی ہمارا مرکزہ ترقی کرے گا....کیا کو الفضل وردسمبر ( انیسواں مطالبہ : " دنیوی سامان خواہ کسقدر کئے جائیں آخر دنیوی سامان ہی ہیں اور ہماری ترقی کا انحصار ان پر نہیں بلکہ ہماری ترقی خُدائی سامان کے ذریعہ ہوگی اور یہ خانہ اگر چہ سب سے اہم ہے مگر اسے میں نے آخر میں رکھا اور وہ دُعا کا خانہ ہے.وہ لوگ جو ان مطالبات میں شریک نہ ہو سکیں اور ان کے مطابق کام نہ کر سکیں وہ خاص طور پر دعا کریں کہ جو لوگ کام کر سکتے ہیں خدا تعالیٰ انہیں کام کرنے کی توفیق دے اور ان کے کاموں میں برکت ڈالے.....پس وہ لولے لنگڑے اور اپا ہے جو دوسروں کے کھلانے سے کھاتے ہیں.جو دوسروں کی امداد سے پیشاب پاخانہ کرتے ہیں اور وہ بیمار اور مریض جوچارپائیوں پر پڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاش ہمیں بھی طاقت ہوتی اور ہمیں بھی صحت ہوتی تو ہم بھی اس وقت دین کی خدمت کرتے.ان سے میں کہتا ہوں کہ ان کے لیے بھی خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت کرنے کا موقعہ پیدا کر دیا ہے وہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا دروازہ

Page 317

۳۱۷ کھٹکھٹائیں اور چار پائیوں پر پڑے پڑے خدا تعالیٰ کا عرش ہلائیں تاکہ کامیابی فتح مندی آتے.پھر وہ جو ان پڑھ ہیں اور نہ صرف ان پڑھ ہیں بلکہ کند ذہن ہیں اور اپنی اپنی جگہ گڑھ رہے ہیں کہ کاش ہم بھی عالم ہوتے.کاش ہمارا بھی ذہن رسا ہوتا اور ہم بھی تبلیغ دین کے لیے نکلتے ان سے میں کہتا ہوں کہ ان کا بھی خدا ہے جو اعلی درجہ کی عبارت آرائیوں کو نہیں دیکھتا.اعلیٰ تقریروں کو نہیں دیکھتا بلکہ دل کو دیکھتا ہے وہ اپنے سیدھے سادھے طریق سے دُعا کریں.خدا تعالیٰ ان کی دُعائنے گا اور ان کی الفضل و دسمبر ) جلسه سالانه ۱۳ء کے خطاب میں جو بعد میں انقلاب حقیقی" کے نام سے شائع ہوا.حضور نے مدد کریگا مندرجہ ذیل پانچ مزید مطالبات پیش فرمائے.بیسواں مطالبہ : " اپنی جائیداد میں سے عورتوں کو ان کا شرعی حصہ ادا کریں " اکیسواں مطالبہ : " عورتوں کے حقوق اور احساسات کا خیال رکھیں " بائیسواں مطالبہ :- ہر احمدی پورا پورا این ہوگا اور کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر یگا " تیسوال مطالبه :- " مخلوق خدا کی خدمت کرو " چوبیسواں مطالبہ : " ہر احمدی کو اپنے دل میں یہ اقرار کرنا چاہیئے کہ آئندہ وہ اپنا کوئی مقدمہ جس کے متعلق گورنمنٹ مجبور نہیں کرتی کہ اسے سرکاری عدالت میں لے جایا جائے.اپنے عدالتی بورڈ اور اپنے قاضی سے شریعت کے مطابق اس کا فیصلہ کرائے گا اور جو بھی وہ فیصلہ کریگا اسے شرح صدر کے ساتھ قبول کریگا." تحریک جدید کے مطالبات ہماری امنگوں بھری اُبھرتی ہوئی جماعت کے لیے ایک مہینہ تھی جس سے جماعت کے جذبہ قربانی اور ایمان ویقین میں اتنا اضافہ ہو گیا کہ اس تحریک کے بعد پیش کی جانیوالی

Page 318

قربانیوں کی مثال جماعت کی اپنی پہلی قربانیوں کی شاندار روایات میں تلاش کرنا بھی بے سود ہے.بلکہ بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ ایسی قربانیوں کی مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی خوش قسمت بانی تحریک جدید حضرت مصلح موعود جماعت کو ایسی ہی قربانیوں کے لیے تیار کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے تحریک جدید کو قربانیوں کے سمندر کا ایک قطرہ قرار دیتے ہوئے فرمایا :- ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ پہلے اس چیز کو سمجھے کہ وہ ہے گیا.جب تک اس مقام کو وہ نہیں سمجھتی اس وقت تک اسے اپنے کاموں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی تحریک جدید تو ایک قطرہ ہے اس سمندر کا جو قربانیوں کا تمہارے سامنے آنے والا ہے.جو شخص فطرہ سے ڈرتا ہے وہ سمندر میں کب کو دے گا.پانی کے قطرے سے تو وہی ڈرتا ہے جسے دباؤ لے ) گتے یعنی شیطان نے کاٹ لیا ہوئی الفضل در جولاتی سولة ) اس تحریک کو زندگی بخش قرار دیتے ہوئے حضور اپنے ایک ولولہ انگیز بیان میں فرماتے ہیں :.میں نے تحریک جدید شروع کی میں سمجھتا ہوں اپنے دل میں اسلام کا درد رکھنے والا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہو سکتا تھا جس کے سامنے یہ تحریک پیش کی جاتی کہ اس چندہ کے ذریعہ ایک مستقل فنڈ قائم کر دیا جائے گا جو دائمی طور بالا اسلام کی تبلیغ کے کام آئیگا اور وہ یہ تحریک سننے کے باوجود اس میں حصہ نہ لیتا بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر ایک مرتے ہوئے یا ایمان انسان کے کانوں میں بھی یہ تحریک پہنچ جاتی تو اس کی رگوں میں خون دوڑ نے لگتا اور وہ سمجھتا کہ میرے خدا نے میرے مرنے سے پہلے ایک ایسی تحریک کا آغاز کرا کے اور مجھے اس میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرما کر میرے لیے اپنی جنت کو واجب کر دیا.........میں جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کی ہرقسم کی قربانیوں میں حصہ لیں اور جو وعدے انہوں نے کئے ہوتے ہیں انہیں پورا کریں اور سمجھ لیں کہ یہ ایک موت ہے جس کا ان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے.تم میں سے گئی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے سینما نہیں دیکھا ہم مر گئے.تم میں سے کئی ہیں جو کتے ہیں ہم ہمیشہ ایک کھانا کھاتے ہیں ہم تو مر گئے.تم میں سے کہتی ہیں جو کہتے ہیں نہیں تو ہمیشہ سادہ رہنا پڑتا ہے ہم تو مر گئے.تم میں سے کئی نہیں جو کہتے ہیں ہیں رات دن چندے دینے پڑھتے ہیں ہم تو مر گئے.میں کہتا ہوں ابھی تم زندہ ہو میں تو تم سے حقیقی موت کا مطالبہ

Page 319

کرتا ہوں کیونکہ خدا یہ کہتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے تو پھر میں تمہیں زندہ کروں گا.پس یہ موت ہی ہے جس کا میں تم سے مطالبہ کرتا ہوں اور یہ موت ہی ہے جس کی طرف خدا اور اس کا رسول تمہیں بلاتا ہے اور یاد رکھو کہ جب تم مر جاؤ گے تو اس کے بعد خدا تمہیں زندہ کریگا پس تم مجھے یہ کہ کر مت ڈراؤ کہ ان مطالبات پر عمل کرنا موت ہے.میں کہتا ہوں یہ موت کیا اس سے بڑھ کر تم پر موت آنی چاہیئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کافی امید تمہیں حاصل ہو.پس اگر یہ موت ہے تو خوشی کی موت ہے.اگر یہ موت ہے تو رحمت کی موت ہے.اور بہت ہی مبارک وہ شخص ہے جو موت کے اس دروازہ سے گزرتا ہے کیونکہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے زندہ کیا جائے گا " ز الفضل ۲۲ اگست ۱۹۳۹ ت ) ہر قسم کی قربانی کے لیے ہر وقت پوری طرح تیار رہنے کی تلقین کرتے ہوئے حضور ارشاد فرماتے ہیں "پس جو تحریکیں میں نے جماعت میں کی ہیں ان کی طرف میں ایک دفعہ پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کوئی شخص میری ان تحریکات کو اس رنگ میں نہ سمجھے کہ شاید کل ہی وہ دن آنیوالا ہے جب اسلام کی ترقی کے لیے جماعت سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے گا.ہم تو کہتے ہیں اس دن کے آنے میں ابھی اور دیرہ ہو تا کہ ہمارے کمزور بھی تیاری کر میں اور ہم میں سے ہر شخص کے اندر ایسا مادہ پیدا ہو جاتے کہ وقت آنے پر ہم اپنے اموال.اپنے اوقات اپنی جانیں اپنی اولادیں اپنی بیویاں اور اپنے دوست سب کچھ خدا کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں جس طرح سفر پر جانے سے پہلے لوگ اپنی پوٹلیوں اور اپنے ٹرنکوں میں اسباب بند کر کے بیٹھے جاتے ہیں اور وہ اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ گاڑی کی سیٹی بجھے تو وہ اپنا اسباب اُٹھا کر ڈبے میں بیٹھ جائیں.اسی طرح ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ دین کے لیے اپنی تمام چیزیں تیار رکھے الفضل و رمتى ٢٢) ایک اور موقعہ پر حضور نے فرمایا :- ---- اس امتحان میں ایک قوم ہم سے پہلے کامیاب ہو چکی ہے اور وہ مسیحیوں کی قوم ہے انہیں کامیابی تین سو سال کے بعد ہوئی جس عرصہ میں لاکھوں عیسائی قتل کیا گیا.لاکھوں وطن سے بے وطن ہوا.لاکھوں کے مال و اسباب لوٹ لئے گئے.صدی کے بعد

Page 320

صدی آئی، لیکن اس قوم نے ہمت نہ ہاری آخر تین سوسال بعد فقیری کی گھڑی پھینک کہ بادشاہت کا خلعت پہنا اور آنا فانا سب دنیا پر چھا گئی.اس لیے انتظار کا نتیجہ تھا کہ وہ اس قدر لیے عرصہ تک حکومت کرنے کے قابل ہو گئی.جماعت احمدیہ کے انتظار کا زمانہ تو اس سے بہت کم ہے پھر کیا ہمارا صبر پہلے مسیح کی امت سے زیادہ شاندار نہیں ہونا چاہیئے.ہمارے میں نے جو معجزات دکھاتے وہ پہلے میچ سے بہت زیادہ اور اہم ہیں.پھر کیا ہمارے ایمان ان سے بہت زیادہ قومی نہیں ہونے چاہتیں اور کیا اسی کے مطابق ہماری قربانیاں بڑھی ہوئی نہیں ہونی چاہتیں." الفضل ۱۳ار اکتوبر ) - جماعت کو پہلے سے بڑھ کر قربانیاں پیش کرنے کے لیے نہایت موثر اور دل نشیں انداز میں حضور نے ارشاد فرمایا : ہر وہ شخص جس کے دل میں سلسلہ کا درد ہے اور جو اس جماعت میں سچے طور پر اور سمجھ کر داخل ہوا ہے نہ کہ محض رسم کے طور پر وہ اس امر کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کہ اب ہماری وہی مثال ہے جس طرح کسی نے کہا تھا تخت یا تختہ...کیا عجب ہے کہ ہمارے لیے بھی ایسا ہی وقت آچکا ہو.جبس احمدی میں ذرہ بھی غیرت اور شرافت کا کوئی حصہ ہو.آج اس ارادہ اور اس نیت کے بغیر اس کے لیے کام کرنا ممکن ہی نہیں کہ یا تو سلسلہ احمدیہ کے لیے فتح حاصل کریں گے یا ہر چیز کو اس راہ میں قربان کر دیں گے (یہ) دو ہی تحفے ہیں جو ہم خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر سکتے ہیں ؟ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۳۶ ) اپنی کامیابی پر یقین و ایمان اور قربانی کی اہمیت و ضرورت بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: " حق یہ ہے کہ میں آپ لوگوں کے سامنے وہ بات پیش کر رہا ہوں جو ایسی ہی یقینی ہے جیسے سورج کا نکلنا.اگر یہ یقینی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اگر یہ یقینی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت منہاج نبوت یہ پر قائم کی گئی ہے تو جب تک ہماری گردن پر تلواریں نہیں رکھی جاتیں اور جب تک ہمارے خون کی ندیاں دُنیا میں نہیں بھاری جاتیں اس وقت تک ہمارا کامیابی حاصل کرنا ناممکن اور بالکل ناممکن ہے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے ہماری کمزوریوں کو دیکھتے ہوتے اس

Page 321

۳۲۱ زمانہ کولیا کر دیا نہ علوم اس نے یہ زمانہ سو سال تک پھیلا دیا ہے یا ڈیڑھ سو سال تک لیکن بہر حال یہ زمانہ تین سو سال گزرنے سے بہت پہلے آئے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علی السلام فرما چکے ہیں کہ ابھی تیری صدی پوری نہیں ہوگی کہ احمدیت کو کامل غلبہ حاصل ہو جائے گا اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا اور یہ وسیع کامیابیاں اگر تین سوسال سے پہلے آتی ہیں تو لازماً اس کامیابی کے ابتدائی دور سے پہلے یہ تکلیفیں جماعت کو پہنچنی ہیں نہیں ہمارے لیے خون کی ندیوں میں سے گذرنا مقدر ہے اور وہ زمانہ ہر حال تین سو سال سے پہلے ہے.اس وجہ سے جب تک اس قسم کی ذہنیت رکھنے والے نفوس ، ہمارے اندر شامل نہ ہوں جن کے چہروں سے ہی یہ ظاہر ہو رہا ہو کہ اگر ہیں آمروں سے چیر دیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے ہم احمدیت سے منحرف نہیں ہو سکتے..یہ وہ ذہنیت ہے جس کے مطابق ہمیں اپنے نفوس میں تغیر پیدا کرنا چاہیئے.بے شک مجھے ان تمام باتوں پر یقین ہے مگر میرا یقین تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اگر تم چاہتے ہو کہ تم اور تمہاری نسلیں آئندہ نا کامی کا منہ نہ دیکھیں تو خیالات کی وہ رو جو میں پیدا کرنا چاہتا ہوں اسے اپنے اور اپنی آئندہ نسلوں کے دلوں میں پیدا کرو.جب خیالات کی یہ کرو چل پڑے گی تو تمہاری آئندہ نسلیں بالکل محفوظ ہو جائیں گی.میں یہ نہیں کہتا کہ جن مصائب کا میں نے ذکر کیا ہے یہ ضرور میری زندگی میں آئیں گے.ہو سکتا ہے کہ یہ میری زندگی میں نہ آئیں، لیکن اگر تم اپنے اندر یہ ذہنیت پیدا کر لو گے تو یقیناً تمہاری اولادوں کے قدم بھی لڑکھڑانے سے محفوظ رہیں گے اور اگر یہ ذہنیت پیدا نہیں کرو گے تو خود تمہارے قدم بھی لڑکھڑا جائیں گے.ایک کشمیری کا بیٹا کشمیری ہوتا ہے اور پٹھان کا پٹھان.اسی طرح اس ذہنیت کے نتیجہ میں جو تمہارے ہاں اولاد ہو گی وہ بھی اسی ذہنیت کی حامل ہوگی...اگر کسی کو بنیائی نصیب نہیں اور وہ موجودہ حالات میں آئندہ کے واقعات کو نہیں دیکھ سکتا تو میں اسے کہوں گا کہ جاؤ اور قرآن کریم پڑھو اور اندھوں کی طرح اس کی آیتوں پر سے ست گزرو تم جاؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا مطالعہ کرو مگر نا بینوں اور بہروں کی طرح ان پر سے مست گزارو.تم ان دونوں کو دیکھیو اور پھر سوچو کہ کیا وہاں یہ لکھا ہے کہ تمہیں کانٹوں کے بستر پر سونا پڑے گا اگر تمہیں یہ دکھائی دے کہ وہاں یہی لکھا ہے کہ تمہارے لیے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کے

Page 322

۳۲۲ بستر تیار کئے گئے ہیں اور میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم اس دن کے لیے تیاری کرو.ایسا نہ ہو کہ جب تمہارے سامنے یا تمہاری اولادوں کے سامنے وہ قربانی کے مطالبات آئیں تو تم فیل ہو جاؤ.......رپورٹ مجلس مشاورت صفحه ۱۴۲-۱۴۳ یوم تحریک جدید کے ایک پیغام میں جماعت کو غیرت دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا :- دنیا میں اس قدر گالیاں کسی سابق نبی کو نہیں دی گئیں بلکہ دسواں حصہ بھی نہیں دی گئیں جتنی کہ مسیحی اور آریہ لٹریچر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تھیں.صرف ایک احمدیہ جماعت ہے جو سب راستبازوں کو مانتی ہے اور ان کی سچائی کو دُنیا میں ظاہر کرنے کی مدعی ہے.جماعت احمدیہ کی تعداد اتنی کم ہے کہ اتنے بڑے حملہ کا جواب دینے کی اس میں طاقت نہیں سوائے اس کے کہ وہ انتہائی قربانی سے کام لے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قسم کی قربانی کے قریب بھی ابھی جماعت نہیں آئی.اس لیے ایک دفعہ پھر میں آپ لوگوں سے خواہ مرد ہوں خواہ عورت خواہ بیچتے ہوں کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کو مارنے کے لیے دشمن جمع ہیں.اپنی غفلت چھوڑ دو.قربانی کو بڑھاؤ اور اس کی رفتار تیز ترکر دو تحریک جدید کے چندوں کو جلد سے جلد ادا کرو.سادہ زندگی اور پیسے بچانے کی عادت ڈالو اور تبلیغ کو وسیع کر دو.دنیا پیاسی مر رہی ہے.محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ارواح مومنوں کو روحانی جہاد کے لیے آگے بگا رہی ہیں.تم کب تک خاموش رہو گے.کب تک بیٹھے رہو گے.قربانی کرو اور آگے پڑھو اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کرو" الفضل ۲۸ اگست 19 ( دنیا داروں کی طرف سے جماعت کی جو مخالفت ہو رہی تھی اُسے ایک چیلنج قرار دیتے ہوئے حضور جماعت کو اس کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوتے ارشاد فرماتے ہیں." آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارے لیے یہ وقت بہت نازک ہے ہر طرف سے مخالفت ہو رہی ہے اور اس کا مقابلہ کرتے ہوئے سلسلہ کی عزت و وقار کو قائم رکھنا

Page 323

آپ لوگوں کا فرض ہے ایک دفعہ ایک پرائیویٹ میٹنگ کے موقعہ پر سردار سکندر حیات خان کے مکان بے چوہدری افضل حق صاحب ( ایک مشہور احراری لیڈر نے مجھے یہ کہا تھا کہ ہمارا مقصد یہی ہے کہ احمدیہ جماعت کو کچل دیں.پس دشمنوں نے میں چیلنج دیا ہے.پس جبتک تمہاری رگوں میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی ہے تمہارا فرض ہے کہ اس چیلنج کو منظور کرتے ہوئے اس گروہ کے زور کو جو یہ دھمکیاں دے رہا ہے توڑ کر رکھو.اور دنیا کو تبا دو کہ تم پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر سکتے ہو.سمندروں کو خشک کر سکتے ہو اور جو بھی تمہارے تباہ کرنے کے لیے اُٹھے وہ خواہ کس قدر طاقت ور حریف کیوں نہ ہو اسے خدا تعالیٰ کے فضل سے اور جائز ذرائع سے تم مٹا سکتے ہو.کیونکہ تمہارے مٹانے کی خواہش کرنے والا درحقیقت خدا تعالیٰ کے دین کو مٹانے کی خواہش کرتا ہے.اس چیلنج کو ہم نے قبول کرنا ہے.میں نے شروع میں اس چیلنج کو نظر انداز کر دیا تھا اور اسے ایک احمقانہ چیلنج سمجھا تھا.مگر ان کے اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ پھر قادیان آ کر بھی انہوں نے اسی چیلنج کو دہرایا ہے.ماله پس جیسا کہ حکومت پنجاب کے بعض افراد نے سلسلہ کی ہتک کی ہے.احرار کا بھی چیلینج موجود ہے اور آپ لوگوں کا کام ہے کہ بنک کا بھی ازالہ کریں اور چیلنج کا بھی جواب دیں اور ان دونوں باتوں کے لیے جو بھی قربانیاں کرنی پڑیں.کریں یا خبر بہ مطبوع الفضل یکم نومبر انت ) جماعت کا والہانہ رد عمل : جماعت نے اس چیلنج کا جواب دیتے ہوئے بقول ایک احمدی شاعر ( مولوی برکت علی صاحب لاتی لدھیانوی ) کمات خار ظلم ناروا سو بار اُلجھے غم نہیں ! ہم بھریں گے آخرش پھولوں سے اپنی جھولیاں کیا ہے گر کانٹے بچھے ہیں راہ میں دلدارہ کی ہم قدم رکھ دیں گے بڑھ کر دھار پر تلوار کی یہ جماعتی رو عمل صرف شاعری یا زبانی جمع خرچ نہیں تھا بلکہ قربانی کے ہر میدان میں نئے ریکارڈ قائم ہونے گئے.حضور نے ساڑھے ستائیس ہزار روپے کا مطالبہ کیا تھا جماعت نے لاکھوں روپے پیش کر دیتے.حضور نے واقفین زندگی کا مطالبہ کیا تھا جماعت کے پڑھے لکھے افراد نے اپنی زندگیاں وقف کیں ا ے

Page 324

۳۲۴ احمدی ماؤں نے اپنے اکلوتے بچوں کو راہ خدا میں پیش کر دیا.حضور نے سادہ زندگی گزارنے کی تلقین فرمائی تھی.جماعت حضور کی توقعات پر پوری اُتری اور سادہ زندگی کی وجہ سے اپنے اخراجات کم کر کے بلکہ اپنے پیٹ کاٹ کر اپنے اموال خدا کی راہ میں پیش کر دیتے.امانت فنڈ کے مطالبہ کو حضور کی توقع سے بھی بڑھ کر پورا کیا.تبلیغ کے میدان کو وسیع کرنے کا مطالبہ تھا جماعت نے دیوانہ وار اس کام کو شروع کیا اور کوئی دشت خار اور کوہ ماراں ان کے رستہ کو نہ روک سکا.حضور جماعت کی قربانی اور مطالبات کی تعمیل پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.دنیا میں تو یہ جھگڑے ہوتے ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائی ہوتی ہے تو بیوی کہتی ہے مجھے زیور بنوا دو اور میاں کہتا ہے میں کہاں سے زیور بنوا دوں میرے پاس تو روپیہ ہی نہیں، لیکن میں نے اپنی جماعت میں سینکڑوں جھگڑے اس قسم کے دیکھتے ہیں کہ بیوی کہتی ہے میں اپنا زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتی ہوں مگر میرا خاوند کہتا ہے کہ نہ دو کسی اور وقت کام آجائے گا.غرض خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایسا اخلاص بخشا ہے کہ اور عورتیں تو زیور کے پیچھے پڑتی ہیں اور ہماری عورتیں زیور لے کر ہمارے پیچھے پھرتی ہیں.میں نے تحریک وقف کی تو ایک عورت اپنا زیور میرے پاس لے آئی.میں نے کہا ئیں نے سر دست تحریک کی ہے کچھ مانگا نہیں.اس نے کہا یہ درست ہے کہ آپ نے مانگا نہیں ، لیکن اگر کل ہی مجھے کوئی ضرورت پیش آگئی اور میں یہ زیور خرچ کر بیٹھی تو پھر میں کیا کروں گی.میں نہیں چاہتی کہ میں اس نیکی میں حصہ لینے سے محروم نہ ہوں.اگر آپ اس وقت لینا نہیں چاہتے تو ہر حال یہ زیور اپنے پاس امانت کے طور پر رکھ لیں اور جب بھی دین کو ضرورت ہو خرچ کر لیا جائے.میں نے بہتیرا اصرار کیا کہ اس وقت میں نے کچھ مانگا نہیں مگر وہ یہی کہتی چلی گئی کہ میں نے تو یہ زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا ہے اب میں اسے واپس نہیں لے سکتی.یہ نظارے غربابہ میں بھی نظر آتے ہیں اور امراءہ میں بھی لیکن الفضل ۲۲ جون ۱۹۴۶ امراء میں کم اور غرباء میں زیادہ " اسی طرح حضور فرماتے ہیں :.".١٩٤٦ ۹۳۴اہ کے آخر میں جماعت میں جو بیداری پیدا ہوتی اس کے نتیجہ میں جماعت نے ایسی غیر معمولی قربانی کی روح پیش کی جس کی نظیر اعلیٰ درجہ کی زندہ قوموں میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے......تحریک جدید کے پہلے دور میں ؛ حباب نے غیر معمولی کام کیا اور ہم

Page 325

۳۲۵ اسے فخر کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں.مؤرخ آئیں گے جو اس امر کا تذکرہ کریں گے کہ جماعت نے ایسی حیرت انگیز قربانی کی کہ جسکی مثال نہیں ملتی اور اس کے نتائج بھی ظاہر ہیں حکومت کے اس عنصر کو جو نہیں مثانے کے درپے تھا متواتر ذلت ہوئی.......اور احرار کو تو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذلیل کیا ہے کہ اب وہ مسلمانوں کے سیٹج پر کھڑے ہونے کی جرات نہیں کر سکتے.تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سب دشمنوں کو ایسی سخت شکست دی ہے کہ حکام نے خود اس کو تسلیم کیا ہے؟ الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۳۵ ) تحریک جدید کے مختلف مطالبات پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ مں جو با برکت انقلاب جماعت میں پیدا ہوا اس کا ذکر کرنے کے بعد حضور فرماتے ہیں :-.مگر یہ سب فتوحات جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں حاصل ہوئیں.ہمارا مقصد نہیں.ہمارا مقصد ان سے بہت بالا ہے.اور اس میں کامیابی کے لیے ابھی بہت قربانیوں کی ضرورت ہے ؟ ( الفضا ) " اس تحریک (جدید) کے پہلے دور کی میعاد دس سال تھی......اس دور میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جس قربانی کی توفیق دی ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس نے اس عرصہ میں جو چندہ اس تحریک میں دیا وہ تیرہ چودہ لاکھ روپیہ بنتا ہے اور اس روپیہ سے جہاں ہم نے اس دس سال کے عرصہ میں ضروری اخراجات کہتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ریز رو فنڈ بھی قائم کیا ہے اور اس ریز رونڈ کی مقدار ۲۸۰ مربع زمین ہے.اس کے علاوہ بھی ایک سو مربع زمین ایسی ہے جس میں سے کچھ حصہ کے خریدنے کا ابھی وقت نہیں آیا.کچھ حصہ گو خریدا تو گیا ہے مگر اس پر ابھی قرض ہے اسے اگر شامل کر لیا جائے تو کل رقبہ ۳۸۰ مربع ہو جاتا ہے........اس دوران میں تحریک جدید کے ماتحت ہمارے مبلغ جاپان میں گئے.تحریک جدید کے ماتحت چین میں مبلغ گئے.تحریک جدید کے ماتحت سماترا اور جاوا میں مبلغ گئے اور اس تحریک کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے سپین - اٹلی.ہنگری - پولینڈ البانیہ - یوگو سلاویہ اور امریکہ میں بھی مبلغ گئے اور افریقہ کے بعض ساحلوں پر بھی اسی تحریک کے ماتحت مبلغ گئے.اور ان مبلغین کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.

Page 326

۳۲۶ اور سلسلہ سے لاکھوں لوگ روشناس ہوتے “ و الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۲۳ ) تحریک جدید کے مطالبات کی اہمیت و افادیت دنیا بھر میں رونما ہونے والے انقلاب سے ظاہر ہے حضور نے ابتداء میں ہی ان مطالبات کے متعلق جماعت کو برملا بتا دیا تھا کہ : " جن حالات میں سے سلسلہ اس وقت گزر رہا ہے ان کے ماتحت خاص ہوشیاری کی ضرورت ہے.اپنے منہ میاں مٹھو بننا بُری بات ہے.مگر چونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ تمام باتیں سکھاتی ہیں اس لیے میں یہ کہنے سے نہیں رہ سکتا کہ اگر کسی حکمران قوم کو یہ باتیں بتائی جاتیں تو اس میں ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک قوت عملیہ کی لہر دوڑ جاتی ------- اگر تمام جماعت اس سکیم کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد کو سمجھ جائے تو تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہو جاتے.ہیں" یا درکھو جو باتیں میں نے جماعت کی ترقی کے لیے پیش کی ہیں وہ نہ ہٹلر کی سکیموں میں ہیں نہ مسولینی کی سکیموں میں........اگر پھر بھی آپ لوگ قربانیاں نہ کریں تو یہ اتنی بڑی غفلت اور کوتاہی ہوگی جس پر نہ صرف آپ بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی افسوس کریں گی........اور یقیناً یاد رکھو کہ جتنی قربانیاں آپ لوگ اس وقت کریں گے وہ اخروی زندگی میں آپ کو فائدہ پہنچائیں گی اور دنیوی زندگی میں آپ کی اولادوں کو فائدہ پہنچائیں گی.اور یہ قربانیاں آپ کی تباہی کا باعث نہیں بلکہ بہت بڑی ترقی کے سامان ر تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۵ الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۳۷ ) سادہ زندگی کے مطالبہ کو ایک حیرت انگیز انقلابی مطالبہ قرار دیتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:." میں نے ایک کھانا کھانے ، سادہ کپڑے پہنے اور ہاتھ سے محنت کرنے کی جو تحریک کی ہے یہ کوئی چھوٹی باتیں نہیں ہیں.یہ اپنے اندر اس قدر فوائد رکھتی ہیں کہ ہر ایک پر اگر مفصل تقریر کی جائے تو سینکڑوں گھنٹے کی جاسکتی ہے اور اگر جماعت ان کو مدنظر رکھے تو قریب ترین عرصہ میں حیرت انگیز انقلاب پیدا ہو سکتا ہے اور جماعت اس پر جتنا عمل کرتی ہے اس کے اثرات بھی مشاہدہ کر رہی ہے " الفضل (ار جولائی ۱۹۳ ) تحریک جدید کے عظیم الشان مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :-

Page 327

۳۲۷ " ان تمام مطالبات کا مقصد محض جماعت کے اندر اخلاق حسنہ کو قائم کرنا تھا اور ان مطالبات کا مقصد محض یہ تھا کہ جماعت اپنے حالات کے مطابق خرچ کرنے کی عادت ڈالے اور تباہی کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے.اسی طرح امرامہ اور غرباء میں جو تفاوت پایا جاتا ہے وہ روز بروز کم ہوتا چلا جائے.سینما دیکھنے کی جو ممانعت کی گئی تھی وہ بھی اسی کے ماتحت آجاتی ہے کیونکہ انس سے روپیہ الگ ضائع ہوتا ہے اور اخلاق الگ تباہ ہوتے ہیں.مجھے افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت میں اب یہ تحریک اتنی مضبوط نہیں رہی جتنی پہلے ہوا کرتی تھی بلکہ آہستہ آہستہ اس کے اُصول پر عمل کرنے میں کمی واقع ہو گئی ہے میں اور لوگوں کو کیا کہوں........خود ہمارے گھروں میں اس پر پوری طرح عمل نہیں رہا تھا اور کئی بہانوں سے حکم کو زور کیا جاتا رہا.آخر اس دفعہ ڈلہوزی نہیں میں نے وہی طریق اختیار کیا جو قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ یا تو ان قواعد کی پابندی کرو ورنہ مجھ سے طلاق لے لو.میں نے بھی اپنی بیویوں سے کہہ دیا کہ یا تو تم تحریک جدید پر عمل کرو اور اگر تم عمل کرنا نہیں چاہتیں تو مجھ سے طلاق لے لو.اس پر سب نے عہد کیا کہ وہ آئندہ تحریک جدید پر باقاعدگی سے عمل کیا کریں گی.چنانچہ اس دن کے بعد ہمارے گھروں میں اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم اپنے حالات کو نہیں بدلتے جب تک ہم اپنے اخراجات کو بعض حدود میں نہیں رکھتے اور جب تک اپنے اندر جفاکشی اور محنت کی عادت پیدا نہیں کرتے اس وقت تک ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس وقت دُنیا سے جو ہماری لڑائی جاری ہے وہ اتنی عظیم انسان ہے کہ اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کروڑوں کروڑ روپیہ پانی کی طرح نہیں گرد و غبار کی طرح اُڑانا پڑے گا ، مگر سوال یہ ہے کہ ہماری غریب جماعت یہ کروڑوں کروڑ روپیہ لائے گی کہاں سے.جب تک ہماری جماعت اپنے اخراجات پر پابندی عائد نہیں کر لیتی جب تک ہماری جماعت کے اندر امراء اور غرباء میں برابری پیدا نہیں ہو جاتی.جب تک ہمارے اندار کامل طور پر احساس پیدا نہیں ہو جاتا کہ ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں.جب تک کھانے کے لحاظ سے ہمارے اند ر سادگی نہیں آجاتی.جب تک کپڑوں کے لحاظ سے ہمارے اندر سادگی نہیں آجاتی.جب تک زیورات کے لحاظ سے ہمارے اندر سادگی نہیں آجاتی.جب

Page 328

۳۲۸ یک قربانی اور ایشیار اور محنت کی عادت ہمارے اندر پیدا نہیں ہو جاتی اس وقت تک ہم دین کے لیے قربانی کسی طرح کر سکتے ہیں.اگر کبھی دین کے لیے نہیں اپنے وطنوں سے ہجرت کرنی پڑی تو ہم ہجرت کسی طرح کر سکیں گے.اگر ہماری جماعت کے افراد کو جیل خانوں میں جانا پڑے تو وہ جیل خانوں میں کس طرح جاسکیں گے......غرض تحریک جدید کے تمام اصول ایسے ہیں کہ ان پر عمل قومی ترقی کے لیے نہایت ضروری چیز ہے" (المفضل ۱۵ نومبر ۱۹) مطالبات تحریک جدید اور حضور کانمونہ : حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے زمانے کے مذہبی رہنماؤں.فقیہوں اور فریسیوں کے متعلق یہ کہ کر کہ " جو کچھ یہ کہتے ہیں وہ تو ضرور کرو.مگر جو کچھ یہ کرتے ہیں وہ نہ کرو“ ایک مسلمہ حقیقت کی نشان دہی فرمائی تھی.عیسائی ممالک میں عیسائی پادریوں کی بے راہ روی کے لطائف اور تفتے زبان زد خاص و عام ہیں.ہندو آبادیوں میں ہندو پنڈتوں اور ان کے رہنماؤں کے ایسے واقعات کوئی برانہ کی بات نہیں ہیں.جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیم اور خود اپنے مواعیظ پر عمل کرنا تو گیا اس کے قریب بھی نہیں جاتے.زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان علماء ، پیر اور مشائخ بھی اس بات میں کوئی استثنار نہیں رکھتے اور اسی لیے کسی عارف باللہ نے اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ے و اعطاں کیں جلوه بر محراب و منبر می کنند چون بخلوت می روند آن کار دیگر می کند حضرت مصلح موعودہ اس قومی المیہ کے متعلق اکثر یہ واقعہ یا لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک مولوی صاحب نے مسجد میں صدقہ کی اہمیت و فضیلت اور اجر و ثواب کے متعلق بہت مؤثر وعظ کیا اور اس میں صدقہ نہ کرنے والوں کے متعلق خدا تعالیٰ کے عذاب و ناراضگی کا بیان بہت رقت انگیز انداز میں کیا ان کی بیوی بھی اتفاق سے یہ وعظ سُن رہی تھی اور اس پر اس کا بہت اثر ہوا اور اس نے وعظ سُن کر گھر جاتے ہی غرباء میں تقسیم کرنے کے لیے اچھے اچھے کھانے پکانے شروع کر دیتے.مولوی صاحب جب اپنے پراثر وعظ کی داد و تحسین وصول کرنے کے بعد گھر پہنچے تو طرح طرح کے کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو نے ان کا استقبال کیا اور مولوی صاحب بہت خوش ہوتے کہ کسی نے ان کا وعظ سُن کر اور اس سے متاثر ہو کر ان کے ہاں اچھے اچھے کھانے بھجوا دیتے ہیں مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ کھانے تو انکی بیگم صاحبہ نے غرباء کی ضرورت پوری کر کے ثواب حاصل کرنے اور عذاب الٹی سے بچنے کی کوشش میں تیار

Page 329

۳۲۹ کتے ہیں تو مولوی صاحب سخت برافروختہ ہوتے اور گالی گلوچ سے آگے بڑھ کر نوسیت مار پیٹ تک پہنچ گئی..حضرت مصلح موعود نے تحریک جدید جاری فرمائی اور جماعت کے سامنے جن مطالبات کی شکل میں ایک نهایت جامع اور مفید پروگرام پیش فرمایا.ان مطالبات پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر خود عمل تحر کے اپنا نهایت شاندار نمونہ دنیا کے سامنے پیش فرمایا :- حضور کا ایک مطالبہ وقت زندگی کا تھا.حضور نے اپنی زندگی کا ہر ہر لمحہ اپنی ہر قوت و ہر طاقت اور ہر صلاحیت اس طرح خدمت دین کے لیے وقف کی کہ اس کا بیان کسی ایک مضمون میں ممکن نہیں ہے آپ کی سوانح کا ہر ورق اس پر شاہد ناطقی ہے.وقت زندگی کے متعلق حضور کا ارشاد تھا :- ایمان کی کم سے کم علامت یہ ہونی چاہیئے کہ ہر خاندان ایک لڑکا دے.الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۳۵-) مگر خود حضور کا اپنا نمونہ یہ تھا کہ آپ نے اپنی ساری اولاد کو ہی راہِ خدا میں وقف کیا ہوا تھا حضور کا ارشاد ہے : "میں نے اپنا ہر ایک بچہ خدا تعالیٰ کے دین کے لیے وقف کر رکھا ہے.میاں ناصر احمد وقف ہیں اور دین کا کام کر رہے ہیں.چھوٹا بھی وقف ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اسے کس طرح دین کے کام پر لگایا جاتے اس سے چھوٹا ڈاکٹر ہے وہ امتحان پاس کر چکا ہے اور اب ٹریننگ حاصل کر رہا ہے تا سلسلہ کی خدمت کر سکے.اس عرصہ میں دونوں سلسلہ کے کام پر لگ چکے ہیں الحمد للہ ) باقی چھوٹے پڑھ رہے ہیں اور وہ سب بھی دین کے لیے پڑھ رہے ہیں.میرے تیرہ لڑکے ہیں اور تیرہ کے تیرہ دین کے لیے وقف ہیں." رپورٹ مجلس مشاورت مش ۱۹۴۲ ) اسی طرح 192ء کی مجلس مشاورت میں بھی آپ نے وقف زندگی کی تحریک کرتے ہوئے اپنے متعلق فرمایا :- "آخر میرے تیرہ بیٹوں نے زندگیاں وقف کی ہیں یا نہیں......وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے وقت چھوڑا تو میں نے ان کی شکل نہیں دیکھنی.میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں رہے گا "

Page 330

٣٣٠ آپ کی حرم محترم سیدہ ام متین صاحبہ کے مندرجہ ذیل بیان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وقف زندگی اور خدمت دین کے لیے حضور کی توجہ اور اہتمام کس حد تک پہنچا ہوا تھا.حضور نے ۱۹۳۹ء میں ایک عہد بھی کیا تھا جو حضور کی ایک نوٹ بک میں جو حضور عموماً اپنے کوٹ کی اندر کی جیب میں یاد داشت وغیرہ لکھنے کے لیے رکھا کرتے تھے آپ کے قلم سے درج ہے اور وہ یہ ہے :- " آج چودہ تاریخ کو دستی شاہ میں مرزا بشیرالدین محمود احمد اللہ تعالیٰ کی قسم اس پر کھاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل سیدہ سے جو بھی اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت میں خرچ نہیں کر رہا ئیں اس کے گھر کا کھانا نہیں کھاؤں گا اور اگر مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے مجھے ایسا کرنا پڑے تو میں ایک روزہ بطور کفارہ رکھوں گا یا پانچ روپے بطور صدقہ ادا کروں گا.یہ عہد سر دست ایک سال کے لیے ہوگا.مرزا محمود احمد الفضل ۲۵ مارچ ۹۶ ) سادہ زندگی گزارنے کے مطالبہ پر بھی باوجود اس کے کہ حضور کی عام صحت کمزور تھی اور حضور کودن رات جماعتی رہنمائی اور اپنے علمی کاموں کی وجہ سے دماغی کام کرنا پڑتا تھا اور آپ کے لیے خصوصی خوراک اور غذا کی ضرورت تھی.آپ نے اپنی خوراک کے متعلق کسی الگ اہتمام کی کبھی اجازت نہ دی.آپ کی حرم محترم حضرت سیدہ مہر آپا فرماتی ہیں کہ : " ڈلہوزی کا واقعہ ہے کہ آپ میز پر کھانا کھانے کے لیے تشریف لاتے تھوڑی دیر میں کیا دیکھتی ہوں کہ آپ خاموشی سے بغیر کھانا کھاتے اپنے کرہ میں چلے گئے ہیں.میں کچھ نہ سمجھ سکی کہ آپ کی ناراضگی کی وجہ کیا ہے ؟ سب حیران تھے کہ اب پھر تمام دن فاقہ سے رہیں گے اور کام کی استقدر بھرمار ہے کہیں آپ کو ضعف نہ ہو جائے.آخر میرے پوچھنے پر حضرت بڑی آپا جان را می جان نے بتایا کہ حضرت اقدس نے اپنے کمرہ میں جاکر چٹ بھیجوائی ہے کہ میں نے تحریک جدید کے ماتحت روکا ہوا ہے کہ میز پر صرف ایک ڈش ہوا کرے آج میں نے ایک کی بجائے تین ڈوش دیکھتے ہیں.ایسا کیوں ہے ؟ میں کھانا ہر کھنہ نہیں کھاؤں گا" الفضل فضل عمر نمبر ة )

Page 331

خود حضور نے اپنا طریق کار بتاتے ہوئے فرمایا : عوت میں نے ہدایا کو استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے مگر جب وہ میرے سامنے لاتے جاتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ایک سے زیادہ چیزیں کیوں ہیں.کیا جاتا ہے کہ یہ کسی نے تحفہ بھیج دیا تھا.تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے تعلقات توساری حیجات سے ہیں اس لیے ہمارے ہاں تو ایسی چیزیں روز ہی آتی رہیں گی اس لیے جب ایسی چیزیں آئیں تو کسی غریب بھائی کے ہاں بھیج دیا کرو.ضروری تو نہیں کہ سب تم ہی کھاؤ.اس سے غربامہ سے محبت کے تعلقات بھی پیدا ہو جائیں گے اور ذہنوں میں ایک دوسرے سے انس پیدا ہو گا.الفضل ۷ار جنوری ۹۳۵ یہ پیار بھرا بیان سادہ زندگی کے علاوہ حضور کی سیرت کے بعض نہایت حسین پہلوؤں کی بھی نشان دہی کرتا ہے.لباس کے متعلق تو ہر احمدی جس نے حضور کو دیکھا ہے گواہی دے گا کہ آپ کا لباس نہایت سادہ تھا.حضور کے بیان فرمودہ مندرجہ ذیل واقعہ سے بھی اس کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے.کل ہی ایک عجیب اتفاق ہوا جس پر مجھے حیرت بھی آئی.ایک دوست ملنے آتے اور انہوں نے ایک تحفہ دیا کہ فلاں دوست نے بھیجا ہے.وہ ایک کپڑے کا تھان تھا.اس کے ساتھ ایک خط تھا جس میں اس دوست نے لکھا تھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ آپ آتے ہیں اور کہا ہے کہ قمیصوں کے لیے کپڑے کی ضرورت ہے بازا ر سے لا دو.اس پرمیں نے دریافت کیا کہ آپ صاف کپڑا پسند کرتے ہیں یا دھاری دار.آپ نے اس کا کوئی جواب لفظوں میں تو نہیں دیا ، لیکن میرے دل پر یہ اثر ہوا کہ دھاریدار آپ کو پسند نہیں.اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے میں یہ کپڑا بھیجتا ہوں.میں نے وہ تھان لا کر گھر میں دیا کہ کسی نے بھیجا ہے اور اس سے قمیصیں بنوائی جائیں.انہوں نے اسے لے کر کہا کہ الحمدللہ چار سال کے عرصہ میں آپ نے قمیصوں کے لیے کپڑا نہیں خریدا تھا.اور آپ کی پہلی قمیصیں ہی سنبھال کر اب تک کام چلایا جا رہا تھا.یا ایک دو قمیصوں کے کپڑوں سے جو کوئی تحفہ کے طور پر دے جاتا تھا.اب یہ مشکل دُور ہوئی.توخود میں نے کپڑوں میں بہت احتیاط سے کام لیا ہے " الفضل ۲ دسمبر ۹ ) یہ امور بیان پر تحریک جدید کے مطالبات کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں.ان کا تفصیلی ذکر حضور کی

Page 332

بحدة الرملة ۳۳۲ سیرت کے باب میں آتے گا.وباللہ التوفیق.مالی قربانی کے سلسلہ میں بھی حضور کا ذاتی نمونہ انتہائی قابل رشک اور بے مثال ہے.آپ نے ذاتی طور پر اس ایک مد میں سنہ یعنی تحریک کے آغاز سے یہ اپنی زندگی کے آخری سال تک ۲٫۵۴,۴۶۸ روپے چندہ ادا کیا.اس کے علاوہ ایک نہایت قیمتی ذاتی جائیداد ملکیتی ۱,۵۲۷۰ روپے بطور عطیہ عنایت فرمائی جس کی موجودہ قیمت کئی گنا زیادہ ہو چکی ہوگی، گویا مجموعی طور پر ان سالوں میں حضور نے چار لاکھ سات ہزار ایک سواڑسٹھ روپے چندہ ادا فرمایا.حضور کے بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے چندے اس کے علاوہ ہیں) ذاتی قربانی کی اس شاندار مثال کی عظمت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور کا اپنی زندگی میں آخری وعدہ ۱۲۵۰۰ روپے تھا اور یہ میں چندہ حضور کی وفات کے بعد بھی آپ کی طرف سے باقاعدہ بغیر کسی وقفہ اور تعطل کے ادا ہو رہا ہے جو یقیناً ایک نہایت کار آمد صدقہ جاریہ کے طور پر حضور کے درجات کی بلندی اور رفعت و قرب کا باعث بن رہا ہو گا.اور اس طرح حضور کی وہ مقدس خواہش بھی بطریق احسن پوری ہو رہی ہے کہ تبلیغ اسلام کا جو بھی کام ہو اس میں حضور کا حصہ ہو اور وہ حضور کے ہاتھوں سے انجام پاتے.تحریک جدید کا ایک نمایاں اور اہم مطالبہ مالی قربانی کا تھا اس پہلو میں جماعت کی قربانیوں نے دنیا کو انگشت بدنداں کر دیا.حضور نے ساڑھے ستائیس ہزار کا مطالبہ کیا تھا جو اس وقت ایک بہت بڑی رقم سمجھی جاتی تھی.(یاد رہے یہ سنہ کی بات ہے جب گندم دو روپے من بلکہ اس سے بھی سنی تھی) مگر جماعت نے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی انتہائی ضروری حاجات کو ملتوی کر کے اپنے گھر کا اثاثہ بیچ کر قرض لیکر.غرض جس طرح بھی ممکن ہوا حضور کی خدمت میں قریباً ایک لاکھ روپے گویا مطالبہ سے تین گنا سے بھی زیادہ پیش کر دیا.ہمارے موجودہ امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے اور تحریک جدید کی مالی فتوحات اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی برکات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مخصوص پیارے انداز میں فرمایا.اگر کسی دعویدار کو ایسے لوگ نصیب ہو جائیں جن کے خرچ کی ایسی ادائیں ہوں.جن کی یہ خصلتیں ہوں جن کے ساتھ خدا کا یہ سلوک ہو کہ ان کے اعمال بھی ساتھ ہی سدھر رہے ہوں اور ان کے اموال بھی کم نہ ہو رہے ہوں بلکہ بڑھ رہے ہوں.اس دُنیا میں بھی ان کو پہلے سے بڑھ کر عطا ہو رہا ہو.ایسے لوگ دکھاؤ کہ غیروں میں بھی کہیں ملتے ہیں.....یہ ایک انبیاء کی عظیم الشان امتیازی شان ہے کہ ان کو ایسے انصار عطا

Page 333

۳۳۳ کئے جاتے ہیں جو ہر لحاظ سے باقی انسانوں سے ممتاز ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتایا ہے کہ ان کے ماننے والے ایمان لانے کے بعد ان شکلوں کے ہو جاتے ہیں.ان صفات کے ہو جاتے ہیں.ان انعامات کے مور د ہو جاتے ہیں.خدا تعالٰی سے یہ یہ رحمتیں ان کو نصیب ہوتی ہیں.یہ یہ فضل عطا کئے جاتے ہیں.آج جماعت احمدیہ کی تصویر ان آیات میں موجود ہے.لاکھ دنیا شور مچاتے.چیخنے چلاتے تمہیں گالیاں دے ظلم وستم کا بیڑا اٹھاتے مگر ان تین آیات (سورۃ بقرہ ۲۷۱ تا ۲۷۳) میں جو مضمون بیان ہوا ہے اسے جماعت احمدیہ کوئی چھین نہیں سکتا......ہر پہلو سے یہ مضمون خدا کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کے اوپر پورا اترتا ہے.خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے جانتے ہیں.ان کی اولادیں جانتی ہیں.ان کی اولاد در اولاد جانتی ہے کہ جن لوگوں نے بھی خدا کی خاطر کچھ خرچ کیا تھا خدا تعالیٰ نے انہیں بڑھ چڑھ کر عطا کرنے میں کوئی نسبت ہی نہیں چھوڑی.......کتنا عظیم الشان مقام ہے اللہ خرچ کرنے والوں کا اور کتنا بڑا احسان ہے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا کہ اس زمانہ میں نہیں صحابہ کی خصلتیں عطا فرما دیں اس زمانہ سے چودہ سو سال دور بیٹھے ہوتے لوگوں کو مختلف خواص کے لوگوں کو مختلف براعظموں کے لوگوں کو الغرض ساری دنیا تک حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیض پہنچا دیا.تحریک جدید کی جو تحریک حضرت مصلح موعود نے نہ میں فرمائی تھی اس کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا یہی سلوک ہو رہا ہے.ایک اور رنگ میں اللہ تعالیٰ کا سلوک اضعافا مضاف ہوا کرتا ہے تحریک جدید نے جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کیا ہر آئندہ سال اسے بہت بڑھ کر خدا تعالیٰ نے پھر عطا کر دیا اور یہ سلسلہ حیرت انگیز طور پر مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا ہے......جتنے چندے بڑھے ہیں یہ سب تحریک جدید کے چندے کے بچے ہیں اگر ان غریب قادیان والوں نے اور ہندوستان کی جماعتوں نے بکریاں بیچ بیچ کر اور کپڑے بیچ بیچ کر اور مینوں روپیہ روپیہ دو دو روپے اکٹھے کر کے تحریک جدید کے چند سے نہ دیتے ہوتے تو آج کروڑوں تک بجٹ نہیں پہنچ سکتا تھا......جتنے چندے آپ کو اس وقت یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور دیگر جماعتوں میں نظر آرہے ہیں یہ سارے تحریک جدید کے ان چندوں کی برکتیں ہیں جو آغاز میں دیئے گئے تھے اور بڑی خاص معاؤں کے ساتھ دیتے گئے تھے.ان چندوں میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے صحابہ شامل تھے.مه وله

Page 334

۳۳۴ اول درجہ کے تابعین شامل تھے.مہاجرین الی اللہ شامل تھے......اس وقت تقویٰ اور نیکی کا عجیب ماحول تھا جس رنگ میں وہاں چندے دیئے جاتے تھے وہ ایک ایسا منظر ہے کہ شاذو نادر ہی تاریخ میں ایسے مناظر آیا کرتے ہیں.کئی کئی مہینوں کی تنخواہیں انجمن کے غریب کا رکن دیا کرتے تھے.آج بھی یہ مناظر ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں اور احمدیت کی برکت سے بڑے حسین نقوش ظاہر ہو رہے ہیں، لیکن ان کا آغا نہ قادیان سے ہوا ہے..------- اور تحریک جدید نے اس مالی قربانی کی رغبت پیدا کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے اسے ہم کسی صورت بھی نظر اندازہ نہیں کر سکتے.) خطبه جمعه ۲۵ اکتوبر ) چند ایمان افروز مثالیں : چند مخلصین کے اخلاص کی مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں مگر ایسے لوگ جنہوں نے غیر معمول مشکل حالات میں نہایت اخلاص سے شاندار قربانیاں پیش کیں جنہیں خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے ان کا شمار کسی طرح بھی مکن نہیں ہے.ایک دوست نے حضور کی خدمت میں لکھا :- پچھلے سال اور اس سال میں سخت مالی مشکلات میں مبتلا رہا ہوں اور ہوں.پہلے ارادہ کیا تھا کہ اس سال نہیں روپے حضور کی خدمت میں پیش کر کے باقی کی اس شرط پر معافی چاہوں گا کہ اگر بقایا ادا کر سکا تو بہتر ورنہ حضور معافی دے دیں.مگر حضور کا خطبہ پڑھ کر اسی وقت سے میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اگر مجھے گھر کا تمام سامان فروخت کرنا پڑے تو کر دوں گا.مگر حضور کے ارشاد کی تعمیل ضرور کروں گا ؟ ایک اور مخلص نے تحریر کیا.الفضل در نومبر لة......اب جو حضور کے پاک کلمات پہنچے تو بدن میں آگ سی لگ گئی.روح بے چین ہو گئی.پیارے آقا ! اس ماہ میں مقروض بھی ہوں تاہم اپنا وعدہ حضور کے قدموں میں ڈال رہا ہوں اگر چہ یہ حقیر رقم ہے مگر قبولیت پر ممکن ہے میری عاقبت بخیر ہو؟ الفضل در نومبر له ) ایک اور فدائی نے کہا : 台糖 خاکسار نے حضور سے ملت کی درخواست کی جو منظور ہو چکی ہے مگر میرے دل خت نے کہا کہ آخری تاریخ سے پہلے ہی چندہ داخل کرنا ضروری ہے اس لیے میں نے زیور فروست

Page 335

۳۳۵ کر کے ادا کر دیا ہے ؟ اسی طرح ایک اور مجاہد نے لکھا :- ۱۹۴۰ الفضل ۲۴ نومبر ) خاکسار گذشتہ چھ سالوں میں کم و بیش حصہ لیتا رہا یہ صرف حضور کی دُعاؤں کا نتیجہ ہے ورنہ میرے جیسا انسان اور خصوصاً ان حالات میں سے گزرنے والا جس کے پاس ایک پائی جمع نہ ہو بلکہ دو ہزار روپے کا مقروض ہو جس کی ماہوار آمدنی بمشکل تمام گھر کے افراد کے لیے کافی ہوسکتی ہو وہ محض اللہ تعالیٰ کے رحم اور حضور کی دُعاؤں کے طفیل ہی اس تحریک میں حصہ لے سکتا ہے.الفضل ۱۹؍ دسمبر شانه ) ایک معمر مخلص احمدی اپنے ایمان و اخلاص کا کس والہانہ انداز میں اظہار کر رہے ہیں :.か سیدی میں چندہ میں اضافہ کرتا ہوں میرا مولا میری آمدنی میں اضافہ کرتا ہے.اور میرے مال و اولاد میں برکت بخشتا ہے.....چندہ میں نہیں دیتا میرا مالک خالق مجھے دیتا ہے میں منی آرڈر کر دیتا ہوں.میں نے قرض بھی دیا تھا ان سالوں میں وہ بھی اتر گیا.مکان کچے تھے پختہ ہو گئے.میں تو سمجھتا ہوں تحریک جدید کا چندہ اکسیر ہے کیمیا گری ہے.الفضل ۱۸ دسمبر ۹۲ ) { " ---- اس دفعہ چندہ تحریک جدید ادا کرنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہ آتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کی ادائیگی کی توفیق دی......حالت یہ ہے کہ اس وعدہ کے پورا کرنے کے بعد میرے گھر میں ایک پیسہ بھی نہیں سارا مہینہ ہی قرض پر گزارنا ہے" الفضل ۱۸ نومبر ۳۷ ) فی سبیل الله خرچ کرنے کی وجہ سے مقروض ہونے والے خوش قسمت مخلص نہ جانے کس کس انداز میں خدائے شکور کے ہاں نوازے گئے ہوں گے.سندھ سے ایک صاحب نے اپنے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا :- " میرے دل میں تحریک ہو رہی تھی کہ سلسلے کی ضروریات اور زمانے کے حالات کے پیش نظر تحریک جدید کے اگلے سال کا روپیہ پہلے ہی ادا کر دوں.میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور کو چیک دے رہا ہوں......" لا ہو لہ سے ایک دوست نے اپنے اخلاص نامہ میں لکھا کہ : پیارے آقا خاکسارتحریک جدید کے دفتر اول میں پلے تیرہ سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے

Page 336

برابر حصہ لیتا رہا مگر بد قسمتی اور مالی تنگی کی وجہ سے فسادات کے بعد وعدہ نہ کر سکا....میں حضور کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ از راہ ذرہ نوازی خاکسار کو تحریک جدید کے دفتر اول میں گذشتہ چار سالوں کا بقایا ادا کر کے قربانی میں شامل ہونے کی اجازت عطا فرمائی جائے حضور کی طرف سے اجازت ملتے ہی نگیشت رقم ادا کروں گا.الفضل در ستمبر اثلة ) حضرت مصلح موعود اخلاص کی ایک عجیب ادا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:." آج ہی باہر سے ایک شخص کا خط آیا ہے.........وہ شخص معمولی ملازم یعنی ڈاکیا ہے اس نے لکھا ہے کہ تراجم قرآن مجید کی تحریک میں قرآن مجید کا ایک زبان میں ترجمہ اور اس کی چھپوائی کا خرچ اور کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور اس کی چھپوائی کا خرچ ۲۰۰۰۰ روپیہ دینے کی تو مجھے توفیق نہیں مگر خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ اور کچھ نہیں تو ہمت کر کے ۲۸۰۰۰ پائیاں اس مد میں ادا کردوں.....میں نے حساب کیا ہے ۲۸۰۰۰ پاتیاں اس کی نو ماہ کی تنخواہ بنتی ہے.بہر حال دیکھو یہ بھی خدا کے حضور قبولیت حاصل کرنے کا ایک رنگ ہے کہ جس شخص کو اٹھا میں ہزار روپیہ دینے کی توفیق نہیں تھی خدا تعالیٰ نے اس کے دل میں ۲۸۰۰۰ پاتیاں ادا کر کے ثواب حاصل کرنے کا خیال ڈال دیا اور ایک رنگ فضیلت کا اسے دے دیا.....یہ ایک مثال ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو توفیق دے دی اور اس کے ذہن میں ایک خیال پیدا کر دیا کہ اس پر عمل کرکے میں ثواب حاصل کروں " (الفضل ۲۵ جون ۱۱۶ وقف کی اہمیت و حقیقت ← جن پر پڑیں فرشتوں کی رشک سے نگاہیں اسے میرے محسن ایسے انسان مجھ کو دیدے وقف زندگی کے سلسلہ میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضور نے اپنی خلافت کی ابتداء میں ہی دین کی خدمت کے لیے بے نفس کا رکنوں کو آگے بڑھ کر خدمات بجالانے کی تحریک فرمائی.اس کے بعد بھی کئی مواقع پر حضور اس کار خیر میں شامل ہونے کی تحریک فرماتے رہے.تحریک جدید کے آغاز کے ساتھ واقفین کا با قاعدہ نظام شروع ہوا.ابتدائی خوش قسمت واقفین کی تعلیم و تربیت حضور کی ذاتی نگرانی میں ہوتی تھ

Page 337

واقفین کو با قاعدہ ڈائری کی صورت میں اپنی ہر روزہ کی تمام مصروفیات کو ضبط تحریر میں لاکر پندرہ روزہ ریپور کی شکل میں حضور کی خدمت میں پیش کرنا ہوتا تھا.حضور سے مہر پندرہ روز کے بعد ملاقات کی سعادت بھی حاصل ہوتی تھی جس میں رپورٹوں کا جائزہ لینے کے علاوہ آئندہ لائحہ عمل کے متعلق ہدایات جاری ہوتیں.واقفین کو محنت مشقت کی عادت ڈالنے کے لیے بعض خصوصی پروگرام جن میں پیدل چلنا اور بعض دوسری مشقیں شامل تھیں.حضور کی زیر ہدایت بناتے جاتے تھے.ایسے خوش قسمت واقفین کو بعد میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے میدان میں غیر معمولی خدمات بجالانے کی توفیق ملی اور وہ ہمیشہ اپنی اس ابتدائی تربیت کا خوشی سے ذکر کرتے اور اس کے عملی زندگی میں مفید و با برکت اثرات و نتائج بیان کیا کرتے تھے.حضور نے اپنے ایک ابتدائی خطاب میں واقفین زندگی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : " یہ مت خیال کرو کہ دنیوی دولت کے نہ ہونے کی وجہ سے تم ذلیل ہو جاؤ گے ذلیل وہی ہوتا ہے جو آدھا خدا کا ہوتا ہے اور آدھا شیطان کا اور آدھا تیتر آدھا بیٹر خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ہوتا......مگر وہ جو دنیا کی محبت اپنے دل سے بالکل نکال دیتا ہے اور کہتا ہے اگر مجھے بادشاہت ملی تو میں بادشاہت سے لوں گا اور اگر فقیری ملی تو فقیری قبول کر لوں گا.اگر تخت ملا تو تخت پر بیٹھ جاؤں گا اور اگر پھانسی کا تختہ ملا تو اس پھانسی کے تختہ پر چڑھ جاؤں گا.ایسے شخص کو کوئی نہیں جو ذلیل سمجھ سکے یہ خود کسی کے پاس اپنی کوئی غرض لے کر جائے گا نہیں اور جو اس کے پاس آتے گا وہ اس سے کوئی علمی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہی آئے گا.اور اگر یہ سچا مومن ہے تو یہ خترانہ اس کے پاس اس کثرت سے ہو گا کہ باوجود خرچ کرنے کے ختم ہونے میں نہیں آتے گا.پس دین کی خدمت اور خدا تعالیٰ کی محبت میں ہر قسم کی عزت ہے.بشرطیکہ دنیا کا در عجب دل سے مٹ جاتے اور خدا تعالیٰ کا رعب دل پر چھا جائے.اور دراصل ایسے شخص کا وقت ہی حقیقی وقف ہے.) الفضل دسمبر ة ) A ۱۹۲۵ء میں اپنے ایک خطاب میں حضور نے تبلیغ اسلام کے کام کی وسعت اور واقفین کی ضرورت کے متعلق نہایت موثر انداز میں فرمایا :- "حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ اسلام کرنے کے لیے ہمیں لاکھوں

Page 338

.مبلغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے.جب میں رات کو اپنے بستر پر لیٹتا ہوں تو بسا اوقات سارے جہان میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لیے میں مختلف رنگوں میں انداز سے لگاتا ہوں کبھی کہتا ہوں ہمیں اتنے مبلغ چاہتیں اور کبھی کہتا ہوں اتنے مبلغوں سے کام نہیں بن سکتا.اس سے بھی زیادہ مبلغ چاہتیں.یہاں تک کہ بعض دفعہ میں ہمیں لاکھ تک مبلغین کی تعداد پہنچا کہ میں سو جایا کرتا ہوں.میرے اس وقت کے خیالات کو اگر ریکارڈ کیا جائے تو شاید دنیا یہ خیال کرے کہ سب سے بڑا شیخ چلی میں ہوں.مگر مجھے اپنے ان خیالات اور اندازوں میں اتنا مزہ آتا ہے کہ سارے دن کی کوفت دُور ہو جاتی ہے.اپنے ان مزے کی گھڑیوں میں میں نے نہیں ہیں لاکھ مبلغ تجویز کیا ہے.دنیا کے نزدیک میرے یہ خیالات ایک واہمہ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتے مگر اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو چیز ایک دفعہ پیدا ہو جاتے وہ مرتی نہیں جب تک اپنے مقصد کو پورا نہ کرے.لوگ بے شک شیخ چلی کہ لیں مگر میں جانتا ہوں کہ میرے ان خیالات کا خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ فضا میں ریکارڈ ہوتا چلا جا رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب اللہ تعالیٰ میرے ان خیالات کو عملی رنگ میں پورا کرنا شروع کر دیا آج نہیں تو آج سے ساٹھ یا سو سال کے بعد اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ ایسا ہوا جو میرے ان ریکارڈوں کو پڑھ سکا اور اسے توفیق ہوتی تو وہ ایک لاکھ مبلغ تیار کر دیگا پھر اللہ تعالیٰ کسی اور بندہ کو کھڑا کر دے گا جو مبلغوں کو دولاکھ تک پہنچا دے گا.پھر کوئی اور بندہ کھڑا ہو جائے گا جو میرے اس ریکارڈ کو دیکھ کر مبلغوں کو تین لاکھ تک پہنچا دے گا.اس طرح قدم بقدم اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی لے آتے گا جب ساری دُنیا میں ہمارے ۲۰ لاکھ مبلغ کام کر رہے ہونگے.اللہ تعالیٰ کے حضور ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اس سے ہلے کسی چیز کے متعلق اُمید رکھنا بے وقوفی ہوتی ہے.میرے یہ خیال بھی اب ریکارڈ میں محفوظ ہو چکے ہیں اور زمانے سے مٹ نہیں سکتے.آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں میرے یہ خیالات عملی شکل اختیار کرنے والے ہیں " الفضل ۲۸ اگست ۱۹۵۹) تحریک جدید کے تقاضوں کو اور بہتر رنگ میں پورا کرنے اور مزید قربا نیوں کے لیے نہایت موثر اور ولولہ انگیز رنگ میں خطاب کرتے ہوئے حضور نے ارشاد فرمایا :-

Page 339

ht اسے ہندوستان کے احمد یو! ذرا غور تو کرو تمہاری اور تمہارے باپ دادوں کی قربانیاں ہی یہ دن لاتی ہیں.تم شہید تو نہیں ہوتے مگر تم شہید گر ضرور ہو.افغانستان کے شہدا.ہندوستان کے نہ تھے مگر اس میں کیا شک ہے کہ انہیں احمدیت ہندوستانیوں ہی کی قربانیوں کے طفیل ملی.مصر کا شہید ہندوستانی تو نہ تھا مگر اسے بھی ہندوستانیوں ہی نے نوید احمدیت سے روشناس کروایا تھا.اب یورپ کا پہلا شہید کو ہندوستانی نہ تھا مگر کون تھا جس نے اس کے اندر اسلام کا جذبہ پیدا کیا.کون تھا جس نے صداقت ی یہ قائم رہنے کی ہمت دلاتی ؟ بے شک ایک ہندوستانی احمدی.اے عزیز و فتح تمہاری سابق قربانیوں سے قریب آرہی ہے مگر جوں جوں وہ قریب آگر ہی ہے تمہاری سابق قربانیاں اس کے لیے ناکافی ثابت ہو رہی ہیں.نئے مسائل نئے زاویہ نگاہ چاہتے ہیں نئے اہم امور ایک نئے رنگ کی قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں.اب ہماری سابق قربانیاں بالکل ویسی ہی ہیں جیسے ایک نوجوان کے لیے بچہ کا لباس.کیا وہ اس لباس کو بین کر شریفوں میں گنا جا سکتا ہے یا عقلمندوں میں شمار ہو سکتا ہے اگر نہیں تو جان لو کہ اب تم بھی آج سے پہلے کی قربانیوں کے ساتھ وفاداروں میں نہیں گئے جا سکتے اور مخلصوں میں شمار نہیں ہو سکتے ---- اسے غافلو جاگو ! اے بے پروا ہو ہوشیار ہو جاؤ.تحریک جدید نے تبلیغ اسلام کے لیے ایک بہت بڑا کام کیا ہے.مگر اب وہ کام اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ موجود چندے اس کے بوجھ کو اُٹھا نہیں سکتے.مبارک ہے وہ سپاہی جو اپنی جان دینے کے لیے آگے بڑھتا ہے مگر بد قسمت ہے اس کا وہ وطنی جو اس کے لیے گولہ بارود مہیا نہیں کرتا.گولہ بارود کے ساتھ ایک فوج دشمن کی صفوں کو تہ و بالا کر سکتی ہے مگر اس کے بغیر وہ ایک بکروں کی قطار ہے.جیسے قصائی کے بعد دیگرے ذبح کرتا جائے گا.تمہارے بیٹے.ہاں بیٹوں سے بھی زیادہ قیمتی وجود جان دینے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں.کیا تم اپنے مالوں کی محبت کی وجہ سے اپنی آنکھوں کے سامنے انہیں مرتا ہوا دیکھو گے.اگر وہ اس حالت میں مرے کہ تم نے بھی قربانی کا پورا نمونہ دکھا دیا ہو گا تو وہ اگلے جہان میں تمہارے شفیع ہونگے اور خُدا کے منصورہ میں تمہاری سفارشیں کریں گے لیکن اگر وہ اس طرح جان دینے پر مجبور ہوتے کہ ان کی قوم نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور ان کے وطن نے ان کو مدد نہ پہنچائی تو وہ شہید ہی ہونگے مگر ان کے اہل وطن کا کیا حال ہو گا.دنیا میں ذلت اور عقلی ہیں ؟

Page 340

هم سلام اس سوال کا جواب نہ دینا جواب دینے سے اچھا ہے.اس دُنیا کی ذلت سے تو انسان منہ چھپا کر گزارہ کر سکتا ہے مگر اُس دُنیا میں وہ کیا کرے گا ؟ ذوق - ناقل ) نے خوب کہا ہے سے اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے جو ذلت صرف اس دنیا کے متعلق ہو موت اس سے نجات دے سکتی ہے مگر جو دونوں جہانوں سے متعلق ہو اس میں کیا فائدہ دے گی وہ تو کلنک کے ٹیکہ کو اور بھی سیاہ کر دے گی.پس اے عزیز و ا کریں کسی لو اور زبانیں دانتوں میں دبالو - جو تم میں سے قربانی کرتے ہیں وہ اور زیادہ قربانیاں کریں.اپنے حوصلہ کے مطابق نہیں دین کی ضرورت کے مطابق.اور جو نہیں کرتے قربانی کرنے والے انہیں بیدار کر دیں.........وہ پھل جو درخت بن گیا وہی پھل ہے جو کسی کے پیٹ میں جا کر فضلہ بن گیا اور اپنی نسل کو قائم نہ رکھ سکا وہ کیا پھل ہے.خدا ہی اس پر رحم کرے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد گی که الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۲۶ جماعت کو غیر معمولی قربانیوں کی تلقین کرتے ہوئے اور تحریک جدید کے اجراء کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے حضور کا ارشاد ہے.تحریک جدید سے میری غرض جماعت میں صرف سادہ زندگی کی عادت پیدا کرنا نہیں بلکہ میری غرض انہیں قربانیوں کے تنور کے پاس کھڑا کرنا ہے تاکہ جب ان کی آنکھوں کے سامنے بعض لوگ اس آگ میں کود جائیں تو ان کے دلوں میں بھی آگ میں گودنے کے لیے جوش پیدا ہو اور وہ بھی اس جوش سے کام لے کہ آگ میں گود جائیں.اور اپنی جانوں کو اسلام اور احمدیت کے لیے قربان کر دیں.اگر ہم اپنی جماعت کے لوگوں کو اس بات کی اجازت دے دیتے کہ وہ باغوں میں آرام سے بیٹھے رہ ہیں تو وہ گرمی میں کام کرنے پر آمادہ نہ ہو سکتے اور بزدلوں کی طرح پیچھے ہٹ کر بیٹھ جاتے مگر اب جماعت کے تمام افراد کو قربانیوں کے تنور

Page 341

اسلام س کے قریب کھڑا کر دیا گیا ہے تاکہ جب ان سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے تو وہ اپنی جان کو قربان کرتے ہوتے آگ میں کود جاتیں.چنانچہ جب قربانی کا وقت آئے گا اس وقت یہ سوال نہیں رہے گا کہ کوئی مبلغ کب واپس آئے گا اس وقت واپسی کا سوال بالکل عبث ہو گا.دیکھ لو عیسائیوں نے جب تبلیغ کی تو اسی رنگ میں کی.تاریخوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی حواری یا کوئی اور شخص کسی علاقہ میں تبلیغ کے لیے گیا تو پھر یہ نہیں ہوا کہ وہ واپس آگیا ہو بلکہ ہم تاریخوں میں یہی پڑھتے ہیں کہ فلاں مبلغ کو فلاں جگہ پھانسی دے دی گئی فلاں مبلغ کو فلاں جگہ قید کر دیا گیا.ہمارے دوست اس بات پر خوش ہوا کرتے ہیں کہ صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید نے سلسلہ کے لیے اپنی جان کو قربان کردیا حالانکہ ایک عبداللطیف نہیں جماعت کو زندہ کرنے کے لیے سینکڑوں عبداللطیف در کار ہیں جو مختلف ملکوں میں جاتیں اور اپنی جانیں اسلام اور احمدیت کے لیے قربان کر دیں.جب تک ہر منگ اور ہر علاقہ میں عبد اللطیف پیدا نہیں ہو جاتے اس وقت تک احمدیت کا رعب قائم نہیں ہوسکتا.جب سب لوگوں کو گھروں سے نکال کر ایک میدان میں قربانی کی آگ کے قریب کھڑا کر دیا جائے تا جب پہلی قربانی دینے والے قربانی دیں تو ان کو دیکھ کر خود بخود آگ میں گودنا شروع کر دیں اور اسی ماحول کو پیدا کرنے کے لیے میں نے تحریک جدید جاری کی ہے." ) خطبه جمعه فرموده ۷ در نومبر - الفضل ٢ دسمبر ) یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس ولولہ انگیز خطبہ کے لیے حضور اس حال میں تشریف لاتے تھے کہ بوجہ درد نقرس آپ چلنے پھرنے بلکہ کھڑے ہونے تک سے بھی معذور تھے اور آپ ایک آرام کرسی پر بیٹھ کر جسے چند خدام نے اُٹھایا ہوا تھا مسجد اقصیٰ (قادیان میں پہنچ سکے تھے.قومی مفاد کے لیے قربانی کی صیحیح روح کا تصور حضرت مصلح موعود کے نزدیک یہ تھا.اصل چیز جس کا قائم رہنا ضروری ہے وہ اسلام اور احمدیت ہے ہر احمدی قصر احمدیت کی اینٹ ہے اور اگر کسی وقت کسی اینٹ کو اس لیے توڑ کر پھینکنا پڑے کہ قصر احمدیت کے لیے یہی مفید ہے تو اسے اپنی انتہائی خوش قسمتی سمجھنا چاہیئے.دیکھو نیٹ جب تک مکان کی دیوار میں لگی رہے صرف اینٹ ہے ، لیکن مکان میں اگر کسی جگہ سوراخ ہو جاتے جس میں سے پانی اندر آنے لگے اور اس وقت ایک اینٹ نکال کر اسے پیا جائے اور اس طرح مصالحہ بنا کر سوراخ کو بند کر دیا جائے تو وہ اینٹ مکان بن جائے گی.اسی

Page 342

طرح جو شخص قوم کے لیے فنا ہو جاتا ہے وہ ثابت کر دیتا ہے کہ اس نے قوم کے لیے قربانی کی اور جو قوم کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیتا ہے وہ خود نہیں رہتا بلکہ قوم بن جاتا ہے.یہ ہے وہ روح جو ہر احمدی نوجوان کے دل میں پیدا کرنی چاہیتے اور یاد رکھنا چاہتے کہ جن میں یہ روح پیدا ہو جاتی ہے وہ معمولی انسان نہیں رہتے انکے چہروں سے ان کی باتوں سے ان کے اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندہ انسان نہیں بلکہ محسم موت ہیں.......جب نوجوانوں میں ہمیں یہ روح نظر آ جائے گی اور ہم دیکھیں گے کہ وہ اسلام کے لیے قربان ہونے کے منتظر بیٹھے ہیں اور پر تو لے ہوئے اس بات کے منتظر ہیں کہ گھر کی چڑیا آئے اور وہ اس پر جھپٹ پڑیں اس دن ہم سمجھیں گے کہ تحریک جدید - کا جو مقصد تھا وہ حاصل ہو گیا.--- الفضل ۱۳ را پریل ۹۶ ه ) وقف زندگی کی ایک اور رنگ میں اہمیت بتاتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.......جنگ عظیم میں دو کروڑ آدمی مارے گئے یا زخمی ہوتے تھے.اریوں ارب روپیہ خرچ ہوا تھا.صرف انگریزوں کا دو کروڑ روپیہ روزانہ صرف ہوتا تھا.مگر ہمارے لیے اس سے بڑھ کر جنگ در پیش ہے.کیونکہ ہمارا کام دلوں کو فتح کرنا اور انسانوں کی عادتوں اور اخلاق اور خیالات کو بدلنا ہے ہم جب تک اپنے اوقات اور اپنے اموال کو ایک حد بندی کے اندر نہ لے آئیں اور اس کے بعد خدا تعالیٰ سے عرض نہ کریں کہ اسے خدا تو نے ہمیں بلایا اور ہم تیرے حضور حاضر ہو گئے ہیں.اس وقت تک سب دعوے باطل اور امنگیں اور خواہشیں بے سود ہیں اور کوئی چیز نہیں فائدہ نہیں دے سکتی.خالی دعوای تو پاگل بھی کرتا ہے لیکن اس کے دعووں کو کون وقعت دیتا ہے کیونکہ وہ جو کہتا ہے کرتا نہیں ہے اور عمل کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہو سکتی.ریں اللہ تعالیٰ پر اس تحریک کی تکیل کو چھوڑتا ہوں کہ یہ کام اسی کا ہے اور میں صرف اس کا ایک حقیر خادم ہوں.لفظ میرے ہیں مگر حکم اس کا ہے وہ غیر محدود خزانوں والا ہے اسے میرے دل کی تڑپ کا علم ہے اور اس کام کی اہمیت کو جو ہمارے سپرد ہے وہ ہم سے بہتر سمجھتا ہے پس میں اسی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جماعت کے سینوں کو کھولے اور ان کے دلوں کے زنگ کو دور کرے تا وہ ایک مخلص اور باوفا عاشق کی طرح اس کے دین

Page 343

کی خدمت کے لیے آگے بڑھیں اور دیوانہ وار اپنی بڑی اور چھوٹی قربانی کو خدا تعالیٰ کے قدموں میں لاڈالیں اور اپنے ایمان کا کھلا ثبوت دے کر دشمن کو شرمندہ کریں اور اس کی منسی کو رونے سے بدل دیں اور نہ صرف یہ (مالی) قربانی کریں بلکہ دوسرے مطالبات جو جانی اور وقتی قربانیوں سے تعلق رکھتے ہیں ان میں دل کھول کر حصہ لیں.اللہم یا رب آمین : الفضل وار نومبر ۹۳ وقف کی حقیقت و عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.سب سے پہلی بات جس کی طرف میںتوجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے زندگیاں وقف کی ہیں ان میں سے بعض کے متعلق یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ وہ ----- انٹرویو کے لیے قادیان پہنچ جائیں تاکہ ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ سلسلہ ان کا وقف قبول کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں......اگر یہ ثابت ہوا کہ ان لوگوں کو اطلاع تو مل گئی تھی مگر با وجود اطلاع مل جانے کے وہ نہیں آئے اور کم سے کم انہوں نے یہ اطلاع بھی نہیں دی کہ ہم وقت پر فلاں مجبوریوں کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتے تو ایسے احمدی جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا انہیں یاد رہنا چاہیئے کہ اب ان کو انٹرویو کے لیے نہیں بلایا جائے گا بلکہ ان کو اس لیے بلایا جائے گا کہ کیوں نہ ان کو اس جرم کی بناء پر سلسلہ سے خارج کر دیا جائے ؟ اسی وقت وقت زندگی کے عہد میں بھی سنجیدگی سمجھی جاسکتی تھی جب فرض کرو قادیان ایک پہاڑی مقام پر ہوتا اور اس کے چاروں طرف برف جمی ہوئی ہوتی ہیں پ پر چلنا مشکل ہوتا مگر پھر بھی مرکز کی طرف سے اعلان ہونے پر اپنی زندگی وقف کر نیوالے پیٹوں کے بل گھٹتے ہوئے اور اپنے ناخن زمین میں گاڑتے ہوتے یہاں تک پہنچ جاتے تب بے شک ان کو مومن سمجھا جا سکتا تھا کہ انہوں نے اپنے عہد کو پورا کر دیا...ر الفضل ۳۱ متی ۹۲۴...تریک جدید کے بعض مجاہدوں کی قربانیوں کا ذکر کرنے کے بعد حضور نے فرمایا :- " ان لوگوں کی ان قربانیوں کا کم سے کم بدلہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے اور ان کے اعزہ اور اقربا پر بھی رحم فرمائے.میں تو سمجھتا ہوں جو احمدی مبلغین کو اپنی دعاؤں میں یاد نہیں رکھتا اس کے ایمان میں ضرور کوئی نقص ہے اور مجھے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ایمان میں خلل

Page 344

واقع ہو چکا ہے.یہ لوگ ایسے نہیں کہ جماعت ان کی قربانیوں کے واقعات کو تسلیم کرنے سے انکار کر سکے.میں قربانیوں کے واقعات کو تسلیم کرنے کی بجائے " ان کے احسانات کو تسلیم کرنے کے الفاظ استعمال کرنے لگا تھا مگر پھر میں نے لفظ احسان اپنی زبان سے ہیں نکالا کیونکہ دین کے لیے قربانی کرنا ہر مومن کا فرض ہے اسی لیے میں نے کہا ہے کہ جماعت ان لوگوں کی قربانیوں کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرسکتی، لیکن بہر حال اس میں کیا شبہ ہے کہ جو کام یہ لوگ کر رہے ہیں وہ ساری جماعت کا ہے اور اس لحاظ سے جماعت کے ہر فرد کو اپنی دعاؤں میں ان مبلغین کو یاد رکھنا چاہیئے ؟ ) الفضل حکیم اکتوبر ۱۹۳۷ ) ایک واقعت زندگی کی میدان جہاد میں وفات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان نشان ہے جب حافظ صاحب کو تبلیغ کے لیے ماریشس روانہ کیا گیا تو جماعت کی مالی حالت نہایت کمزور تھی روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے درخواست کی کہ انہیں بیوی اور بچوں کو بھی ماریشس ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے.کیونکہ ان کے خاندانی حالات اس کے مقتضنی تھے.ان کی درخواست منظور تو کر لی گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ زندگی بھر اپنے وطن واپس نہیں آئیں گے...کافی مدت ماریشیس میں رہنے کے بعد......ربوہ کے قیام پر ان کو اجازت دیدی.گتی تا کہ وہ نئے مرکز کی زیارت کر سکیں.لیکن تقدیر الٹی دیکھتے کہ وہ پاکستان روانہ ہونے سے بیشتر ہی ماریشیس میں وفات پاگئے.گویا اس طرح ان کا وہ عمد کہ وہ زندگی بھروٹن کا منہ نہ دیکھیں گے پورا ہو گیا........وہ زمین مبارک ہے جس میں الیسا اولوالعزم اور پارسا انسان مدفون ہوا اگر چہ آپ نے مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ نہیں پایا تھا مگر آپ بہت ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے تھے" ) الفضل ، ار جنوری له ) خدا کی راہ میں موت کو حقیقی زندگی قرار دیتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.جب تحریک جدید کے خطبات کا سلسلہ میں نے شروع کیا تو.....قادیان کے بعض منافق کہنے لگ گئے کہ اب تو گورنمنٹ سے لڑائی شروع کر دی گئی ہے.بھلا

Page 345

۳۴۵ گورنمنٹ کا اور ہمارا کیا مقابلہ ہے.ان کی اتنی بات تو صحیح ہے کہ گورنمنٹ کا اور ہمارا کیا مقابلہ ہے مگر اس لحاظ سے نہیں کہ گورنمنٹ بڑی ہے اور ہم چھوٹے ، بلکہ اس لحاظ سے کہ ہم بڑے ہیں اور گورنمنٹ چھوٹی.اگر ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑے کئے گئے ہیں اور یقینا اسی کی اور طرف سے کھڑے کئے گئے ہیں تو پھر اگر ہم مربھی جائیں تو ہماری موت موت نہیں بلکہ زندگی ہے.اللہ تعالی کی جماعتیں کبھی مرا نہیں کرتی.حکومتیں مٹ جاتی ہیں، لیکن الٹی سلسلے کبھی نہیں ملتے.حکومت زیادہ سے زیادہ بہی کرسکتی تھی کہ ہم میں سے بعض کو گرفتار کر لیتی یا بعض کو بعض الزامات میں پھانسی دے دیتی مگر کسی آدمی کے مارے جانے سے توالی سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ الی سلوں میں سے اگر ایک مرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی جگہ دی قائم مقام پیدا کر دیتا ہے.رپورٹ مجلس مشاورت صفحه ۲۱-۲۲ شه ) تحریک جدید کا انتظام تحریک جدید کے انتظامی امور میں حضور کے ارشاد کے مطابق ابتدائی طور پر مکرم مولوی عبدالرحمن صا انور کو بطور سیکرٹری تحریک جدید بنیادی خدمات بجالانے کی توفیق علی اور اسی طرح چندوں کے انتظام کے سلسلہ میں مکرم منشی برکت علی صاحب نے نہایت محنت و جانفشانی کے ساتھ کام کیا جس کے متعلق حضور نے متعدد مرتبہ اپنے خطبات میں اظہار خوشنودی فرمایا.یہ دونوں بزرگ کام کی لگن اور محنت کی عادت کی وجہ سے دن رات اپنے کام میں مصروف رہ کر کئی آدمیوں کے برابر کام کرتے رہے.بعد میں جیسے جیسے کام بڑھتا گیا کارکنوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا.شاہ میں حضور نے تحریک جدید کا دستور العمل تجویز فرمایا اور مندرجہ ذیل دفاتر قائم فرمائے : وکالت دیوان • وکالت تبشیر • وکالت مال • وکالت تعلیم.وکالت تجارت و صنعت وکالت قانون • وکالت اشاعت و تصنیف وکالت جائیداد ابتداء میں مجلس شوری میں تحریک جدید کا الگ بجٹ پیش نہیں ہوتا تھا.12 ایہ سے تحریک جدید کا الگ بجٹ پیش ہونا شروع ہوا.قادیان میں تحریک جدید کے دفاتر کے لیے کوئی الگ عمارت نہیں تھی بلکہ بعض پرانی عمارتوں اور دفاتر میں ہی کام چلایا جاتا تھا.مگر کام اس طرح ترقی کرتا چلا گیا کہ د یو میں تحریک جدید کے شاندار وسیع دفاتر تعمیر ہوئے حضور نے ان دفاتر کی اس رمتی نشا کو بنیاد رکھی اور عمارت مکمل ہونے پر ۱۹ نومبر 2 کو دُعاؤں اور نصائح کے ساتھ افتتاح فرمایا.

Page 346

تحریک جدید کی افق تا افقی عظیم الشان کامیابیوں اور ترقیات کا لامتناہی سلسلہ اور غیر معمولی افضال برکات الہی کے جلوے دیکھتے ہوئے اس باب میں دشمنان اسلام کے بغض و حسد اور ناکامی کے ذکر کی چنداں ضرورت معلوم نہیں ہوتی مگر تحریک جدید کے پس منظر کے طور پر ابتداء میں اس امر کا ذکر ضروری معلوم ہوتا تھا تا تحریک جدید کی عظمت و شان کا پوری طرح اندازہ ہو سکے.یہاں آخر میں بھی خدائی تائید و نصرت کے اس نشان کا ذکر بطور تحدیث نعمت غیر ضروری نہ ہوگا.ہم پڑھ چکے ہیں کہ حضرت فضل عمران نے احرار کے متعلق فرمایا تھا کہ میں ان کے پاؤں تلے سے زمین نکلتے دیکھ رہا ہوں.جس وقت یہ الفاظ کئے گئے اس وقت بہت سے لوگوں نے حیرت و تعجب کا اظہار کیا اور مخالفین میں سے اکثر نے تو مذاق و تمسخر کا طریق بھی اختیار کیا مگر خدائے ذوالعجائب نے جو خود اپنے بے کس و بے بس بندوں کی آواز متی نصر الله" کا جواب بن جایا کرتا ہے ایسی صورت پیدا فرمائی کہ تھوڑے عرصہ میں ان کا یہ حال.ہو گیا کہ سے پڑھ چکے احرار بس اپنی کتاب زندگی ہو گیا پھٹ کر ہوا ان کا حباب زندگی ٹوٹنے نیچلے تھے وہ امن وسکون بیکساں خود انہی کے لٹ گئے حسن و شباب زندگی اور احرار اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں.اپنی ظاہری شان و شوکت اپنی کثرت وسائل و ذرائع اور حکومت کے افسروں.ہندو سرمائے اور ہندو پریس کی تائید کے باوجود حسرت و یاس اور عبرت ناک ناکامی کا مرقع بنا دیتے گئے ان کی اس حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک مسلم اخبار نے لکھا :- " شہید گنج کی تحریک جیسے احرار نے جو کانگریس کے اشاروں پر ناچتے ہیں چلایا تھا.کچھ عرصہ تک ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سکندری وزارت کی جڑیں کھوکھلی کر دیگا، لیکن سر سکندر نے انہیں انہی کے داؤں پر مارا.وہ ایک دلیرانہ بیان لے کر قوم کے سامنے آئے جس سے احراریوں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی.اور یہ ایسی تدبیر تھی کہ جس پر کانگریسی لیڈروں نے بھی انہیں مبارکباد کے تار بھیجے " اخبار احسان در اکتوبر ته بحواله الفضل ۲۱ اکتوبر شسته ) ایک غیرمسلم اخبار نے حضرت فضل عمران کی پیشنگوئی کا ذکر کرتے ہوئے احرار کی ناکامی و نامرادی کے متعلق لکھا :.

Page 347

مناک کام سرا " تھوڑا عرصہ ہوا کہ مرزا بشیر الدین محمود امام جماعت مرزا نبیہ نے پیشنگوئی کی تھی کہ یں دیکھتا ہوں کہ احراریوں کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی جارہی ہے.یہ پیشینگوئی آج بالکل پوری ہو رہی ہے.بھرتی کے سلسلہ میں سارے ہندوستان کے خلاف احرار نے مخالفت کا جو بیڑا اٹھایا تھا اس پر حکومت نے جب کمیشن لیا اور چند احراری لیڈروں کوگرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ چلایا تو احراریوں کی یہ حالت ہوئی کہ سنیچے سے ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، شرخ قمیصیں (احرار کا امتیازی نشان ناقل اتار کر پھاڑ کر نالیوں میں پھینک دی گئیں اور آگ میں بھی جلا دی گئیں.چنانچہ آج امرتسر میں ایک بھی سُرخ تمیمی نظر نہیں آتی.کئی گرفتار شدہ احراریوں نے تحریری معافی مانگ کر رہائی حاصل کی اور کئی جن کو پولیس تلاش کر رہی ہے.مفرور ہیں ، چوہدری افضل حق صاحب کی گرفتاری پر ہڑتال کا اعلان کیا گیا، لیکن ایک دکان بھی بند نہ ہوئی.یہ ہے احرار کی کامیابی کا ایک نمونہ - اب یوں نظر آتا ہے کہ شہر امرت سر میں کبھی کوئی احراری تھا ہی نہیں اور نہ کوئی لال قمیص - ارجن سنگھ عاجز ایڈیٹر اخبار رنگین امرت سر بحواله الفضل در اکتوبر ۳ه مث { د یاد رہے کہ امرتسر احرار کے مشہور لیڈروں کا شہر اور ان کا بہت بڑا مرکز تھا.ناقل ) وقف جدید ایک اور بابرکت تحریکیت جماعت کی مالی جہاد اور قربانیوں کی تاریخ نہایت شاندار اور قابل رشک ہے.اس عظیم مثالی کارنامہ کے پیچھے حضرت مصلح موعود کی ولولہ انگیز قیادت کا کسی قدر تذکرہ تحریک جدید کے ضمن میں ہو چکا ہے تحریک جدید کا اجرا ہ میں ہوا.جبکہ حضور کی جوانی کا زمانہ اور شدید طوفانی مخالفت کی وجہ سے جماعت کے اندر غیر معمولی جذبہ و جوش کا زمانہ تھا.مگر شہوا.میں جبکہ حضور ایک ایسے خوفناک قاتلانہ حملہ سے دوچار ہو چکے تھے جس میں نادان دشمن کا دار شہ رگ سے چھوتے ہوئے اور اپنے اثرات پیچھے چھوڑتے ہوتے نکل گیا تھا.اس کے نتیجہ میں حضور ایک انتہائی تکلیف دہ اعصابی بیماری میں مبتلا ہو چکے تھے.مگر عمر کی زیادتی.بیماری کی شدت ذمہ داریوں کے ہجوم میں ہمارا یہ خدا رسیدہ قائدہ ایک عجیب شان کے ساتھ جماعت کی روحانی ترقی اور تربیت کے لیے ایک نہایت وسیع پروگرام اس جماعت کے سامنے پیش

Page 348

کرتا ہے جو تقسیم وطن کے نتیجہ میں ایک بہت بڑے دھکے کو برداشت کر کے نئے سرے سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں مصروف ہے.اور ایک دفعہ پھر دنیا پر یہ ثابت کر دیتا ہے کہ خدائی تائب یافتہ اولیا.اللہ کی شان دنیوی لیڈروں اور خود ساختہ پیروں سے کتنی مختلف اور ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے.اس سکیم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ حضور کے مندرجہ ذیل ارشاد سے ہوتا ہے."میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں وہ اپنی زندگیاں براہ راست میرے سامنے وقف کریں تاکہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کرسکیں......ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے بران نہیں ہے، لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے.....پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لیے وقف کریں.....اور باہر جاکر نتے رہوے اور نئے قادیان بسائیں.......وہ جا کر کسی ایسی جگہ بیٹھے جائیں اور حسب ہدایت وہاں لوگوں کو تعلیم دیں.لوگوں کو قرآن کریم اور حدیث پڑھائیں اور اپنے شاگرد تیار کریں جو آگے اور جگہوں پر پھیل جائیں.اسی طرح حضور فرماتے ہیں :..۱۹۵۸ الفضل ۶ فروری سے ) " یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لیے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں.کپڑے بیچنے پڑیں میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا.خداتعالی ------ میری مدد کے لیے فرشتے آسمان سے اتاریگا الفضل جنوری شدولة ) اس یقین اور وثوق - اعتماد اور توکل علی اللہ سے جاری ہونے والی سکیم جس طرح قدم بہ قدم آگے بڑھی اور جس طرح شاندار شیریں ثمرات کی حامل ہوئی اس کا ایمان افروز تذکرہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک پرانے مضمون میں بیان ہوا ہے.حضور کو بطور ناظم وقت جدید ایک لمبا عرصہ اس تحریک سے بہت قریبی تعلق رہا حضور کا یہ حقیقت افروز مضمون ذیل میں پیش کیا

Page 349

۳۴۹ پس منظر : وقت جدید کا ایک پس منظر تو وہ تربیتی کمزوری اور اخلاقی انحطاط ہے جس کی رفتار بالخصوص تقسیم ہندو پاک کے بعد کئی وجوہ سے خطرناک حد تک بڑھ گئی تھی.حضرت اقدس المصلح الموعود نے اپنی خدا داد فراست سے اس خطرے کو بڑی شدت سے محسوس فرمایا میں کی اگر بر وقت روک تھام نہ کی جاتی تو یہ ایک ایسی مہیب شکل اختیار کر سکتا تھا جو قا بو سے یا ہر ہو جاتی اور پیشتر اس کے کہ ہم اسلام کو غیر ملکوں اور غیر مذاہب میں پھیلانے میں کامیاب ہوتے یہ خطرہ تھا کہ خدا نخواستہ ہم خود از سر نو ہدایت کے محتاج ہو چکے ہوتے.ایسی صورت میں وہ لوگ جنہیں ہم ہدایت کی طرف بلانے جاتے ہمارے پیغام کو ٹھکرا کر بڑی حفارت سے نہیں یہ کہہ سکتے تھے کہ PHYSICIAN HEAL THY SELF! اسے طبیب خود اپنا علاج کر دوسرا پس منظر اس فوری اور اشد ضرورت سے بہت قبل کا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواہش سے تعلق رکھتا ہے حضور علیہ السلام کے مندرجہ ذیل الفاظ احباب پر خوب روشن ہوجائیگا کہ حضرت اقدس علیہ اسلام وقف جدید ہی کی قسم کا کوئی نظام بر صغیر ہند و پاک میں جاری فرمانا چاہتے تھے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں :- "اس عاجز کا ارادہ ہے کہ اشاعتِ دینِ اسلام کے لیے ایک احسن انتظام کیا جائے کہ ممالک ہند میں ہر جگہ ہماری طرف سے واعظ و مناظر مقرر ہوں اور بندگان خدا کو دعوت حق کریں تا حجیت اسلام تمام روئے زمین پر پوری ہو.لیکن اس ضعف اور قلت کی حالت میں ابھی یہ اراده کامل طور پر انجام پذیر نہیں ہو سکتا " فتح اسلام ) اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ وقت جدید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواہش کو پورا کرنے کی غرض سے جاری کی گئی.یہ کون نہیں جانتا کہ انبیاء کی خواہش ایک عام انسان کی خواہش کی طرح نہیں ہوتی بلکہ اُن کے دل کے میلانات اور آرزوئیں اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور باریک دربار یک حکمتوں پر مبنی ہوتے ہیں پیس ایک طرف اس خواہش کا راستی ) ۸۰ برس قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں پیدا ہونا اور دوسری طرف ہماری آنکھوں کے سامنے وہ حالات پیدا ہوجانا جوبڑی شدت سے نظام وقف جدید کا تقاضہ کر رہے تھے

Page 350

اس تحریک کا پس منظر بناتے ہیں.عالی حضرت الصلح المولوم پر بے مارتین از فرماتے کہ حضرت موعود الاسلام کی نام خواہشات آپ کے زمانہ میں یا پوری ہوئیں یا اُن کی بنیادیں رکھی گئیں.وقف جدید کی بنیاد بھی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق آپ ہی کے مبارک ہاتھوں رکھی جانی مقدر تھی.چنانچہ نشانہ میں عیدالاضحیہ کے موقع پر آپ نے اس الیمن کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا :- پشاور سے کراچی تک گر شد و اصلاح کا جال پھیلایا جائے.بلکہ اصلی حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم نے رشد و اصلاح کے لحاظ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کا گھیرا کرتا ہے تو اس کے لیے ہمیں ایک کروڑ روپے سالانہ سے بھی زیادہ کی ضرورت ہے ؟ حضرت المصلح الموعود کے یہ الفاظ پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آپ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی اس آرزو ی پر یس کا ذکر او پر گزر چکا ہے لبیک یا سیدی بھیک کہ رہے ہوں.پھر فرما." اب مہا جال ڈالنے کی ضرورت ہے اور اس کے ذریعہ گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ کے لوگوں تک ہماری آواز پہنچ جاتے.بلکہ گاؤں کے ہر گھر تک ہماری پہنچ ہوا پس یہی صا حال ہے جو مصلح موعود کے ہاتھوں ڈالا گیا اور اسی کا دوسرا نام و قفت جدید امین احمدیہ ہے.اغراض و مقاصد :- جیسا کہ قبل ازیں ذکر گزر چکا ہے وقفت جدید کے قیام کا بنیادی مقصد دیہاتی جماعتوں کی تربیت و اصلاح ہے تاکہ ان کا رخ انحطاط سے موٹر کمر انہ سر نو ترقی کی جانب پھیر دیا جائے.گویا جس طرح احمدیت اسلام کے احیات نو کی تحریک ہے اسی طرح نسبتاً محدود پیمانے پر وقف جدید احمد تیت کے احیائے نو کی ایک تحریک ہے جس کے زیر انتظام دبیاتی علاقوں میں احمدیوں کے مذہبی ، روحانی اور اخلاقی اقدار کو اسلامی معیار کے مطابق بلند تر کرتے چلے جانے کا عظیم الشان کام سرانجام دیا جاتا ہے.یعنی مقصد یہ ہے که خصوصاً اُن علاقوں میں جو تعلیم کی کی یا مرکز کی آنکھ سے اوجھل ہونے کے باعث مرور زمانہ کا شکار ہونے کا زیادہ خطرہ رکھتے ہیں.اُن کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کا ایسا عمدہ اور مستقل انتظام کیا جائے کہ ان میں روحانی زندگی کو نہ صرف برقرار رکھنے کی اہمیت پیدا ہو جاتے بلکہ اس زندگی میں نمو اور افزائش بھی ہو اور دیہات میں بننے والی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کروحانی اولاد ایسے ہرے بھرے شاداب باغوں کی طرح ہو جائے جن کا ذکر حضور علیہ السلام کی اس منظوم پیشنگوئی میں ملتا ہے.

Page 351

الٹی تیرے فضلوں کو کروں یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد کہا ہرگز نہیں ہونگے یہ برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہو شمشاد بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فسبحان الذى اخرى الأعادي وسعت کار اور بعض مشکلات -:- اس عظیم الشان مقصد کے حصول کے لیے وقفت جدید انین احمدیہ اپنی تمام طاقتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دن رات کوشاں ہے، لیکن یہ کام اتنا عظیم الشان اور وسیع ہے اور ذرائع اتنے تھوڑے اور کمزور ہیں کہ خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے سوا اس کا سرانجام پانا ممکن نظر نہیں آتا.مشرقی اور مغربی پاکستان میں گیارہ سو جماعتیں قائم ہوچکی ہیں جو تمام کی تمام خصوصی توجہ در تربیت کی محتاج ہیں اور اس بات کی حقدار ہیں کہ وہاں ایک ایسا واقف زندگی معلم مقرر ہو جو ایک طرف تو افراد جماعت ، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو کم سے کم ضروری دینی تعلیم سے آراستہ کرے اور دوسری طرف اپنی اعلیٰ روحانی زندگی اور عملی نمونے سے ایک ایسا روحانی انقلاب برپا کر دے کہ کثرت سے جماعتوں میں ولی صفت انسان پیدا ہونے لگیں.اسی کا ذکر کرتے ہوتے حضور فرماتے ہیں :- " جن لوگوں نے ہمارے ملک میں اسلام کو پھیلا یا امنی کے نقش قدم پر چل کر تم بھی قدرت اسلام کرد - روحانیت کے لحاظ سے آج بھی ہمارے ملک کو چشتیوں ، نقشبندیوں سرور دلوں کی ضرورت ہے.جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور ان بزرگوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدمت دین کے لیے پیش کریں.اس مقصد کے حصول کی راہ میں دو بڑی مشکلات حائل ہیں.اول معیاری واقفین زندگی کی کمی.دوسرے مالی تنگی.واقفین زندگی کی کمی سے مراد یہ ہے کہ وقف کرنے والوں میں اس نہایت اہم کام کے قابل افراد بہت کم ملتے ہیں اور زیادہ تعداد ایسے وقف کرنے والوں کی ہے جن کی تعلیمی حالت اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ اس کم از کم معیار پر بھی پورے نہیں اُترتے جو یک سالہ تربیتی کلاس میں شامل ہونے کیلئے ضروری ہے نیز خلوص اور جوش خدمت کے لحاظ سے بھی اُن میں سے اکثر اس معیار سے بہت نیچے ہوتے ہیں جو حضرت مصلح موعود کا مطمح نظر تھا.پس وقف جدید کو ضرورت ہے ایسے ڈی ہوش مخلص تعلیم یافتہ واقفین زندگی کی جو دین کو دنیا پر

Page 352

408 مقدم کرتے ہوئے دنیا کی دولتوں اور ملازمتوں کو ٹھکرا کر محض خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایسی درویشانہ زندگی قبول کرنے کے لیے تیار ہوں جو آسودگی سے خالی ہے اور دنیاوی لحاظ سے کئی قسم کی مشکلات سے گھری ہوئی.ایسے واقفین جب دنیا کے بظا ہر ہتر مواقع کو ترک کر کے عمداً ایک غربت کی زندگی اپنے اوپر وارد کریں گے تو بعید نہیں کہ انہیں میں سے وہ جیلانی اور قادری اور چشتی اور سہروردی پیدا ہوں جین کی مصلح موعود کو تلاش تھی اور دنیا کو بیسیوں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ضرورت ہے.مالی تنگی کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ اگر فی الحال ملک کی بستی بستی میں نہ سہی صرف ایسے دیات ہی میں معلم مقرر کئے جائیں جہاں احمدی جماعتیں موجود ہیں تو موجودہ تناسب کے لحاظ سے تقریباً ستر لاکھ روپے سالانہ درکار ہیں جبکہ گزشتہ سال کی اصل آمد صرف ایک لاکھ چونتیس وه ہزار روپے تھی.اللہ تعالیٰ پیر ہی نگاہ ہے کہ وہ اپنے خاص فضل سے فرشتوں کو اتا رہے.احباب کے قلوب کو اس اہم تحریک کی طرف مائل کریں اور ان کی قربانی کے جذبے کو فروغ دیں.تاہم ایک بار پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھیں کہ :- ينصرك رجال نوحى اليهم من السماء کہ ایسے مردانہ صفت انسان تیری مدد کریں گے جن پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے کہ اُٹھو اور میرے بندے کی نصرت کے لیے آگے بڑھو ! ) طریق کار : تعلیمی کلاس :- گو ابتداء میں شدید ضرورت کے پیش نظر واقفین زندگی کو کسی تعلیم و تربیت کے بغیر ہی جماعتوں میں بھجوا دیا گیا تھا اور ان کے پہلے سے حاصل کردہ دینی علم اور خلوص پر ہی انحصار کیا گیا تھا کہ وہ انشاء اللہ حسب استطاعت جماعت کی تربیت عمدگی سے کریں گے ، لیکن چند سال کے تجربہ نے ثابت کر دیا کہ معلمین کی اپنی تربیت کا ٹھوس انتظام ہونا ضروری ہے.چنانچہ اب باقاعدہ دفتر وقف جدید کی عمارت میں ہی ایک مکتب وقف جدید جاری کر دیا گیا ہے جس میں ایک سالہ نصاب مقرر کیا گیا ہے.نصاب میں اس امر کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ بنیادی دینی علوم کے علاوہ جدید دنیاوی علوم سے بھی معلمین کو ضروری ابتدائی واقفیت ہو جائے.چنانچہ انہیں حساب ، جغرافیہ ، تاریخ ، سوشیالوجی، اقتصادیات سیاسیات، زراعت، کیمیسٹری اور فزکس کے علوم سے بھی کچھ نہ کچھ واقفی کروائی جاتی ہے.اسی طرح خانہ داری ، کپڑے دھونا.استری کرنا وغیرہ بھی سکھایا جاتا ہے اور مخدوش

Page 353

۳۵۳ حالات کے پیش نظر شہری دفاع کی تربیت بھی نصاب میں شامل کر دی گئی ہے.سال ۹۶۵ہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۸ معلمین نے کامیابی کی سند حاصل کی.اور اب جماعتوں میں نہایت عمدگی سے خدمت دین بحالا رہے ہیں ہیں.ایک معلم کیا کرتا ہے :-.ایک معلم کا سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ جس جماعت میں مقرر ہو وہاں جاتے ہی حالات کا جائزہ یہ لیکر معین اعداد و شمار کے ساتھ ابتدائی رپورٹ دفتر کو ارسال کرے کہ کتنے مرد، عور ہی بچوں میں سے کتنے نماز باترجمہ جانتے ہیں.قرآن کریم ناظرہ یا با ترجمہ جانتے ہیں نماز با جماعت کے عادی ہیں.تلاوت کے عادی ہیں مسائل وفات مسیح، ختم نبوت ، صداقت مسیح موعود وغیرہ سے کما حقہ واقفیت رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ ایس کے بعد وہ ان تمام امور میں جماعت کی حالت کو بہتر بنانے میں دن رات مصروف ہو جاتا ہے اور اپنی ہر آئندہ رپورٹ میں اعداد و شمار کے ساتھ ظاہر کرتا ہے کہ فلاں فلاں تربیتی پہلو کے لحاظ سے جماعت کے اتنے اتنے مرد، عورتوں یا بچوں نے اتنی اتنی ترقی کرتی ہے.صرف یہی نہیں بلکہ اس اہم تربیتی کام کے علاوہ معلم کو اصلاح وارشاد کے کام پر بھی خاصہ تقویت صرف کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے مرکز کے پانچ پانچ میں کے دائرہ میں اس طریق پر احمدیت کا پیغام پہنچاتے اور بالخصوص عیسائیوں اور اچھوت اقوام کو اسلام کی نعمت سے سرفراند کرنے کی کوشش کرے.یہ کام صرف محنت طلب ہی نہیں بلکہ حکمت اور موعظہ حسنہ کو چاہتا ہے اور بسا اوقات اس راہ میں معلمین کے صبر آزماتے جاتے ہیں.چنانچہ ایسا بھی ہوا کہ محض اس جرم کی بنا پر کہ ایک معلم نے محض بنی نوع انسان کی ہمدردی میں لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا.اس پر اس حد تک جسمانی سختی کی گئی کہ مارنے والے مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے پھر زندگی عطا کی.ان سختیوں کے باوجود معلم اس اہم فریضہ سے بھی غافل نہیں اور حسب توفیق ایزدی حقیقی اسلام کی منادی کر رہے ہیں.متفرق فرائض ان معلمین کے فرائض میں بعض متفرق امور مثلاً جماعتی چندوں میں اضافہ کروانا مجلس انصارالله ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ امام اللہ میں دلچسپی کو بڑھانا بھی شامل ہیں.

Page 354

۳۵۴ اسی طرح دبیات سُدھارا اور خواندگی کا معیار بڑھانے کی کوشش کرنا بھی اُن کے دائرہ عمل میں ہے اور ان سب کے علاوہ اکثر معلمین اپنے اپنے گاؤں کے حکیم - وید.کمپونڈر یا ہومیو پیتھک ڈاکٹرز بھی ہیں اور اس پہلو سے بھی انہیں ایسے علاقوں میں جہاں طبی سہولتیں مہیا نہیں خدمت خلق کا بہت موقع ملتا ہے.آئندہ کے لیے ان میں سے مستحق اور قابل معلمین کی رجسٹریشن کا انتظام بھی کروایا جارہا ہے.مدارس : تمام معلمین اپنے اپنے مراکز میں دینی تعلیم و تربیت کی کلاس تو لگاتے ہی ہیں لیکن ان کلاسوں کے علاوہ بعض جگہوں پر باقاعدہ مدارس کھولے گئے ہیں جن میں نصاب کے مطابق بعض جگہ پرائمری اور بعض جگہ مڈل تک تعلیم دی جاتی ہے.اس وقت ان مدارس کی تعداد چار ہے لیکن عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ ایک ہندو علاقہ میں ایک اور مدرسہ کھولا جائے گا.ان مدارس کا معیار خدا کے فضل سے بہت اچھا ہے چنانچہ ایک مدرسہ کے معائنہ کے بعد انسپکٹر صاحب تعلیم اس قدر خوش ہوئے کہ ہمارے معلم کو ساتھ دوسرے پر چلنے کے لیے کہا تاکہ دوسرے اساتذہ کو کام کا طریق سکھا سکیں.بفضلہ تعالیٰ مقصد میں کامیابی :- اس امر کا اندازہ کہ وقعت جدید کسی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہے اور دیہاتی جماعتوں پر اس کے کیا خوشکن اثرات ظاہر ہو رہے ہیں مندرجہ ذیل امور سے لگایا جا سکتا ہے.1- چندوں میں غیر معمولی اضافہ معلمین کے ذریعہ دو طرح پر جماعتی چندوں میں اضافہ ہوتا ہے.اول اُن کی تربیت کے نتیجہ میں جماعت میں قربانی کی روح ترقی کرتی ہے اور جماعتی چندوں پر بھی اس کا نہایت خوشگوار اثر پڑتا ہے.اس مثلاً ایک جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب تحریر فرماتے ہیں :- "جماعت کے چندہ میں معلم کے آنے سے قبل بقایا در بقایا تھا.اُن کے آنے سے اب بز ۷۵ چندہ ادا ہو چکا ہے جبکہ ابھی سال کے چار پانچ ماہ باقی ہیں.ایک اور پریذیڈنٹ معلم کی تقرری سے قبل اور بعد کا موازنہ کرتے ہوتے تحریر فرماتے ہیں :.چندہ عام دو صد روپے صرف تھا.اب شاہ کا بجٹ جس میں حصہ آمد بھی شامل ہے دو ہزار روپے ہے.دوم : چونکہ معلمین کو تاکید کی جاتی ہے کہ کو مبایعین کو فوری طور پر جماعتی چندوں میں شامل کریں ورنہ اُن کے ذریعے ہونے والی بیعتیں حقیقی بیعتیں شمار نہیں ہوں گی.اس لیے جوں جوں تو میامین نو

Page 355

۳۵۵ کی تعداد بڑھتی جاتی ہے چندوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے.اس ضمن میں ایک سیکرٹری مال نے جو اعداد و شمار بھجواتے ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت کا چندہ عام کا کل سالانہ بجٹ ۴۹۰۷ روپے ۴۰ پیسے ہے جس میں ۱۲۱۵ روپے بجٹ اُن کو مبایعین کا ہے جو وقف جدید کے ذریعہ سلسلہ میں داخل ہوتے.نہیں نہیں بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ اس بجٹ میں ۵۰ - ۲۵ ۷ روپے کی وہ رقم بھی شامل ہونی چاہیئے جو بعض نو مبایعین کی نقل مکانی کی وجہ سے دوسری جماعتوں میں منتقل کی گئی.گویا چار ہزار نو سو سات روپے میں سے ایک ہزار نو سو چالیس روپے صرف نو مبایعین کا بجٹ ہے.فالحمد الله على ذلك - ب - نماز با جماعت کا قیام اس اہم دینی فریضہ کی سرانجام دہی میں معلمین کو خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ حیرت انگیز کامیابی ہو رہی ہے.مختلف صدر صاحبان اور امراء کی طرف سے اس بارہ میں بیٹیوں خوشنودی کے اظہار موصول ہوتے ہیں.مثال کے طور پر ایک بڑی جماعت کے صدر صاحب لکھتے ہیں:." نماز با جماعت کے قیام میں معلم نے مختلف کوششوں کے طریق جاری رکھے.مثلاً صبح نماز کے وقت گاؤں میں بلند آواز سے درود شریف پڑھنا.معلم صاحب کے آنے سے پہلے تقریباً ساری جماعت ہی بے جماعت سمجھ لیں کیونکہ خاکسار اگر گھر پر ہوتا تو نماز ہو جاتی.اگر خاکسار گھر پر نہ ہوتا تو نماز با جماعت نہ ہوتی ، لیکن محترم معلم صاحب کے آنے سے یہ بیماری دور ہو گئی اور باقاعدہ نماز با جماعت ہونے لگی اور پھر نماز با جماعت ہی نہیں بلکہ نماز تتجد باجماعت کا سلسلہ بھی جاری رہنے لگا اور اس دوران میں ایک ماہ سے اوپر مستقل نمازہ تجد جاری ہے.ایک جماعت کے صدر صاحب تحریر فرماتے ہیں :- " پہلے سے دُگنے نمازی جماعت میں شامل ہوتے ہیں.جنگ کے دنوں میں صبح صل علیٰ پڑھنے کا پروگرام کر کے مسجد میں بہت رونق پیدا کر دی جاتی رہی ہے اور ڈیڑھ ماہ تک عورتیں دو نمازیں مسجد میں باجماعت ہمارے ساتھ پردہ کے انتظام سے ادا کرتی رہی ہیں" ایک اور جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب مندرجہ ذیل الفاظ میں جماعت کی پہلی حالت اور بعد میں پیدا ہونے والی خوشگوار تبدیلی کا ذکر فرماتے ہیں :-

Page 356

۳۵۶ جب معلم پہلے دن یہاں ہمارے گاؤں میں تشریف لائے تو ان کو اکیلے ہی نماز اداکرنی پڑی.احمدی احباب کے گھروں میں جانا اور نماز کی طرف توجہ دلانا اور نماز ہے جماعت اور باجماعت کے متعلق تقریر کرنا اور اُن کے مُردہ شعور کو زندہ کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹے وقت صرف کرنا پڑا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تمام مرد پانچ وقت نمازوں میں برابر شریک ہوتے اور نماز با جماعت ادا کرتے ہیں اور ہماری عورت میں بھی گھروں پر باقاعدہ نماز ادا کرتی ہیں.نماز تہجد کا شعور پیدا ہو چکا ہے " : دینی تعلیم : محض نماز با جماعت کے قیام تک ہی معلمین کی سرگرمیاں محدود نہیں بلکہ نماز ناظرہ یاد کروانا ، نمازہ کا ترجمہ سکھانا، قرآن کریم کی سورتیں حفظ کروانا اور دیگر دینی مسائل کی تعلیم دیگر ان کے ایمان اور عمل کو زیور علم سے آراستہ کرنابھی معلم کے فرائض میں داخل ہے معلمین کی اپنی نیک کوششوں سے متاثر ہو کر مختلف صدر صاحبان ہمیں اپنی خوشنودی سے مطلع فرماتے رہتے ہیں.مثلاً ایک جماعت کے صدر لکھتے ہیں :- معلم نے ساری جماعت کی نماز درست کروائی ہے اور خاص کر بچوں کی نماز کی درستگی کی ہے.جماعت کے تمام افراد کو نماز یا ترجمہ یاد کروائی ہے اور نماز سے متعلق تمام مسائل بھی یاد کرواتے ہیں اور قرآنی دعائیں بھی یاد کراتی ہیں.ترجمہ قرآن کریم سکھایا جا رہا ہے اور دوسرے پارہ تک قرآن مجید کا ترجمہ مردوں اور عورتوں اور بچوں نے پڑھ لیا ہے" ایک اور جماعت کے صدر صاحب اعداد و شمار میں معلم کے کام کی رپورٹ دیتے ہوتے لکھتے ہیں، " معلم کی کوشش سے ۱۴ مرد ، ۱۲ عور تیں اور ۲۲ بچے نماز سیکھ چکے ہیں اور ا مرد ۸ عورتیں اور ۹ بیچے نماز کا ترجمہ سیکھ رہے ہیں " صدر صاحبان کی طرف سے ایسی متعدد سندات ہر سال دفتر وقعت جدید کو موصول ہوتی ہیں لیکن طوالت کے خوف سے سب کا ذکر ممکن نہیں.آخر پر صرف ایک پسماندہ جماعت کے صدر صاحب کے مندرجہ ذیل الفاظ پیش خدمت کرنے کے بعد یہ ذکر بند کرتا ہوں.نمانہ کے متعلق گزارش ہے کہ ہم سیاڑ کے رہنے والے ہیں اور ہم میں سے کسی ایک کو بھی نمازہ صحیح یاد نہیں تھی اور بچوں کو بالکل آتی نہ تھی لیکن اب معلم کی کوشش سے سال رواں میں نمازہ ناظرہ کے علاوہ مسجد میں آنے جانے کی دعائیں، نماز کی نیت ، اذان کے

Page 357

۳۵۷ بعد کی دُعا ، وضو کرنے کی دُعا اور نماز کے مکمل ارکان سکھائے گئے " جب ان کو الف پر اور ایسی ہی بیسیوں دیگر جماعتوں کے رو با صلاح حالات پر نظر پڑتی ہے تو دل بے اختیار حضرت مصلح موعود کو دُعائیں دینے لگتا ہے.اللہ اللہ ! آپ کو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی ٹھوس اور باقی رہنے والی خدمت کی توفیق علی اور آپ کی دن رات کی دُعاؤں اور پر حکمت و بر وقت اقدامات کو اللہ تعالی نے کیسا نوازا کہ گرتی اور لڑکھڑاتی ہوئی جماعتیں اس کے فضل اور احسان کے طفیل یکدفعہ سنبھل کر نئی قوت اور توانائی کے ساتھ جادہ ترقی پر گامزن ہونے لگیں ! ! مجالس کے احیا کے سلسلہ میں کوششیں سلسلے کی ذیلی تنظیمات کو تقویت دینے اور جماعت میں انہیں راسخ کرنے کے سلسلہ میں بھی معلمین وقف جدید مقدور بھر کوشش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بھی خاطر خواہ نتائج ظاہر ہو رہے ہیں.اس ضمن میں ایک صدر صاحب ہمیں ان الفاظ میں مطلع فرماتے ہیں :.معلم کے آنے سے پہلے انصار الله، لجنہ اماء اللہ اور اطفال الاحمدیہ کی کوئی تنظیم نہ تھی اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم برائے نام تھی معلم کے آنے سے لجنہ کی تنظیم قائم ہوتی.جمعہ کے دن مسجد میں پردے کا انتظام کروایا گیا اور لجنہ کے اجلاس شروع کروائے گئے.اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ کے اجلاس شروع کروائے گئے - ایک اور صدر صاحب اس حقیقت کا ان الفاظ میں اعتراف فرماتے ہیں :- " معلم صاحب نے تینوں تنظیموں کو بہت کوشش کر کے قائم کیا ہے، ماہانہ رپورٹ میں بھیجوائی جاتی ہیں اور باقاعدہ ہفتہ وار اجلاس ہوتے رہتے ہیں.اطفال ، انصار، خدام الاحمدیہ کو امتحانوں کی تیاری بھی معلم نے کرواتی ہے.سات اطفال نے ستارة اطفال" کا امتحان دیا اور تین نے " ہلال اطفال" کا امتحان پاس کیا ہے " اس قسم کی خوش گن رپور میں اکثر مراکز وقف جدید سے موصول ہوتی ہیں جن سے دل خدا تعالیٰ کے شکر کی طرف مائل ہو جاتا ہے.یہ محض اس کا احسان ہے اور اُسی کی رحمت کی پرتاثیر ہوا کا اثر ہے جس نے طبیعتوں میں دینی ترقی کی ایک روچلادی ہے اور ایسے آثار ظاہر ہو رہے ہیں جو بڑے خوش آئند مستقبل کا پتہ دیتے ہیں.!

Page 358

۳۵۸ غیروں پہ براثر :- معلمین سے صرف اپنے ہی متاثر نہیں بلکہ جیسا کہ ایک جماعت کے صدر تحریر فرماتے ہیں :- " غیر از جماعت احباب پر بھی معلم صاحب کا نیک اثر ہے اور دلی محبت سے لوگ ان کی عزت کرتے ہیں......گفتگو میں غیروں کے ساتھ بڑی حکمت اور سمجھ سے بات کرتے ہیں اور حسن سلوک سے پیش آتے ہیں اور محبت اور پیار سے تبلیغ کرتے ہیں اور اسی وجہ سے علاقہ میں ان کا اثر ہے.بعض غیر احمدی یہ اظہار کرتے ہیں کہ ان کو خاص ایسی ٹریننگ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ ایسے اخلاق ظاہر کرتے ہیں ؟ " خاص ایسی ٹرینینگ تو کیا دی جاتی ہے یہ محض حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپکے بزرگ خلفا کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ٹھیکریوں سے بھی کام لے رہا ہے.یہ محض دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احیائے نو کے لیے ان کی پُر درد تڑپ کا اثر ہے جس نے سینکڑوں غلاموں کے قلوب کو بھی اسی جذبے سے گرما دیا ہے اور وہ تنگی اور ترشی، دکھوں اور تکلیفوں میں دنیاوی سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر اپنا تن من دھن اس راہ میں فدا کر رہے ہیں.کم علمی اور کم مائیگی ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتیں.کیونکہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں محض پاک نیتوں اور پُر خلوص حسب توفیق جد وجہد کی قیمت ہے اور وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کے تہی دامنوں کو خدا تعالیٰ کا فضل چوٹی تک بھر دے گا اور ان کے سب خالی خانے کناروں تک اس کی رحمت سے لبریز ہو جائیں گے.پس وقف جدید کو اگر آج حقیقی اسلام یعنی احمدیت کی کچھ خدمت کی توفیق مل رہی ہے تو کسی انسانی کوشش یا تدبیر کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کا ایک چھینٹا ہے اور اس تائید آسمانی کی ایک جھلک ہے، جو مصلح موعود اور آپ کی جاری کردہ تمام نیک تحریکات کو حاصل تھی اور ہے اور رہے گی.یہ اسی آسمانی پانی کا کرشمہ ہے کہ آج ہم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کھیتیوں کو جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آنسوؤں بلکہ خون سے سینچا تھا پھر سے ہرا بھرا ہوتے اور لہلہاتے ہوتے دیکھ رہے ہیں.ایک ایسا روحانی انقلاب برپا ہو رہا ہے جس کی ترجمانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر ہی کر سکتا ہے سے بہار آتی ہے اس وقت خنداں میں کھلے ہیں پھول میرے بوستاں میں پس اسے مخلصین جماعت کہ جن کی مالی اور جانی قربانیاں اپنے رب کے حضور مقبول ہو رہی ہیں

Page 359

۳۵۹ کچھ اور آگے قدم بڑھاؤ اور ان قربانیوں کی رفتار کو تیز تر کر دو.اگر اپنی جانیں پیش کرنے کی ہمت اور توفیقی پاتے ہو تو خلوص کی طشتریوں میں سجا کر اپنی جانیں رب العزت کے حضور پیش کرو تاکہ ان واقفین زندگی کی صف میں شمار کئے جاؤ جن کے نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور جن کے کاموں کو ابد الآباد تک مرنے نہیں دیا جائے گا.لیکن اگر ابھی اتنی ہمت اور توفیق نہیں پاتے تو مالی قربانی کے میدان میں قدم مارو اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اعلانیہ بھی مال نچھاور کرو اور خفیہ تھی.لاکھوں پر خوش نہ ہو کہ تمہاری توفیق اور استطاعت کے ساتھ ضروریاتِ دینیہ بھی بڑھتی جاتی ہیں.آج دین اسلام کو اپنی اشاعت کے لیے لاکھوں نہیں کروڑوں بلکہ اربوں روپے کی ضرورت ہے.آج ضرورت ہے لاکھوں ایسے فدائیان اسلام کی جن کا دنیا کمانے سے مقصد سوائے اس کے کچھ اور نہ ہو کہ وہ اپنے اموال کو دین اور بنی نوع انسان کی خدمت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ بڑھ کر خرچ کریں.آج ضرورت ہے کہ ہم میں سے وہ نور الدین پیدا ہوں جو اپنی جانی اور مالی قربانی میں صدیقیت کے نمونے پیچھے چھوڑ گئے اور امام وقت کے حضور یوں کمال فدائیت کے ساتھ اپنا سب کچھ پیش کر دیا.اگر اجازت ہو تو نوکری سے استعفیٰ دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں.یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں میں آپ پر قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیر و مرشد ! میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جاتے تو میں مراد کو پہنچ گیا.مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لیے تیار ہوں.دُعا وا فرماویں میری موت صدیقیت کی موت ہو " اسے صدیق تجھ پر سلام کہ تیری دُعائیں قبول اور تیری قربانیاں بارگاہ عزت میں مقبول ہوئیں اور خود امام وقت نے مجھے ان قابل صدر شک الفاظ میں یاد کیا کہ : " خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی رو میں مجھے عطا کی ہیں.سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کے لیے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نورِ اخلاص کی طرح نور دین ہے.....اور میں تجربہ سے نہ صرف حسن ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عربت

Page 360

تک سے دریغ نہیں.وہ محبت اور اخلاص کے جذبہ کاملہ سے چاہتے ہیں کہ سب کچھ میاں تک کہ اپنے عیال کی زندگی بسر کرنے کی ضروری چیزیں بھی اسی راہ میں فدا کر دیں.ان کی روح محبت ، جوش اور ستی سے ان کی طاقت سے زیادہ قدم بڑھانے کی تعلیم دے رہی ہے اور مہردم اور ہر آن خدمت میں لگے ہوتے ہیں، لیکن یہ نہایت درجہ کی بے رحمی ہے.کہ ایسے جاں نثار پر وہ سارے فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتے جائیں جن کو اُٹھانا ایک گروہ کا کام ہے " " اسے مخلصین جماعت آپ ہی تو وہ گروہ ہیں جنہیں مل جل کر دین اسلام کے سب بوجھ اُٹھانے کی خدمت سونپی گئی اور آپ ہی اربوں انسانوں کا وہ رُوحانی خلاصہ ہیں جنہیں یہ عظیم الشان سعادت نصیب ہوئی.پس اس راہ میں نہ تھیں نہ ماندہ ہوں بلکہ اپنی خوش بختی اور سعادت سمجھتے ہوئے اپنی اپنی توفیق اور استقطاعت کے مطابق دین اسلام کی خدمت سے حصہ پائیں.وقفت جدید بھی اسی کارخانہ کی ایک شاخ ہے اور آپ کی قربانیوں کا انتظار کر رہی ہے.“ ماہنامہ خالد اپریل ۱۹۶۶ ه )

Page 361

دعویٰ مصلح موعود مه That ا ا ا ال البستان الحملة الات ساعة

Page 362

۳۶۲ دعوی مصلح موعود O دین اسلام کی حقانیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وقت کی صداقت قرآن کی عظمت و شان اور خدا تعالیٰ کی سہتی کا ایک روشن نشان - پیشگوئی مصلح موعود.اور اس پیشگوئی کا علی رغم انت اعدام شاندار طور پر پورا ہونا جلد اول میں بیان ہو چکا ہے.حضرت مصلح موعود کے دینی کارنامے اور تبلیغ و اشاعت اسلام کے نئے نئے افقی بزبان حال ! اس امر کا ثبوت ہیں کہ حضور ہی اس پیش خبری کا مصداق تھے.مگر یہ عجیب بات ہے کہ ان تمام باتوں اور اس بات کے با وجود کہ جماعت کے متعد د صاحب حال بزرگ جیسے حضرت مولانا نورالدین خلیفہ امسیح الاقوال حضرت پیر سراج الحق نعمانی جمالی صاحب حضور کو اس پیشگوئی کا مصداق سمجھتے تھے.حضور نے احباب جماعت کی خواہش اور درخواست کے با وجود ایک عرصہ تک ایسا کوئی دعوی نہ کیا بلکہ یہ فرماتے رہے کہ اگر میرے ذریعہ سے وہ علامات پوری ہو جائیں جو پیش گوئی میں بیان ہوئی ہیں تو دعوی کی کیا ضرورت ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- " میں مصلح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا اگر میں ہوں تو الحمد للہ ! دعوی سے فائدہ نہیں اگر میں نہیں تو اس احتیاط سے میں ایک غلطی سے محفوظ ہو گیا.بعض لوگ مجھے وہ موعود سمجھتے ہیں میں ان کو بھی نہیں روکتا.ہر ایک شخص کا اپنا خیال و تحقیق ہے اور خلاف الفضل ۲ فروری ۹۶لة ) شریعت نہیں اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ حضور کو اس پیشگوئی کے مصداق کے متعلق کوئی شک تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا :- سبز اشتہار میں جو مصلح موعود کی پیشگوئی ہے اس میں مجھے کوئی شہر نہیں کہ وہ میرے ہی متعلق ہے.الفضل ۲۷ فروری له ) تاہم دعوی کے متعلق آپ کا محتاط متوقف یہی تھا کہ : لوگوں نے کوشش بھی کی ہے کہ مجھ سے دعوی کرائیں کہ میں مصلح موعود ہوں مگر 辣

Page 363

۳۶۳ میں نے کبھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی.مخالف کہتے ہیں آپ کے مرید آپ کو مصلح موعود کہتے ہیں مگر آپ خود دعوی نہیں کرتے.مگر میں کہتا ہوں کہ مجھے دعوی کی ضرورت کیا ہے ؟ اگر میں مصلح موعود ہوں تو میرے دعوی نہ کرنے سے میری پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آسکتا.جب میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو پیشگوئی غیر مامور کے متعلق ہو اس کے لیے دعوی کرنا ضروری نہیں ہوتا تو پھر دعوی کی مجھے کیا ضرورت ہے ؟“ ( الفضل ۲۳ مارچ ۱۹ة ) حضرت مولانا ابو العطا - صاحب کے ایک سوال کے جواب میں واضح اور معین طور پر تحریر فرمایا." مکر می مولوی ابو العطار صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته - ! آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اول میرے نزدیک مصلح موعود بر حال حضرت مسیح موعود کی موجودہ اولاد میں سے ایک لڑکا ہے نہ کہ آئندہ زمانہ میں آنے والا کوئی فردر دوم: میرے نزدیک جس حد تک میں نے اس پیشگوئی کا مطالعہ کیا ہے اس کی نوے فیصد باتیں میرے زمانہ خلافت کے کاموں سے مطابق ہیں.سوم: چونکہ میں اس پیشگوئی کے موعود کے لیے دعوی کو شرط قرار نہیں دیتا اس لیے میرے نزدیک میرے لیے دعوی کی ضرورت نہیں.ہاں میں سمجھتا ہوں کہ اس پیشگوئی کی جو غرض ہے وہ بڑی حد تک میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی ہے لیکن میں اس میں تعجب کی بات نہیں دیکھتا.اگر میرے بھائیوں میں سے کسی دوسرے کے ذریعہ سے بھی اسی قسم کے کام یا ان سے بڑھ کر کام خدا تعالیٰ کروائے.خاکسار مرزا محمود احمد ۱۸/۶/۳۷ ایک اہم انکشاف الفضل ۳ جولائی ۹۳) ۹۴۴انہ میں حضور نے ایک مبارک رویا.دیکھی جس سے بڑی وضاحت سے پتہ چلتا تھا کہ حضور ہی اس عظیم پیش خبری کے مصداق ہیں.حضور اس سال کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں یہ رویا.بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :-

Page 364

۳۶۴ اس پیشگوئی کو جماعت کے کئی افراد مجھ پر چسپاں کیا کرتے تھے مگر میں سنجیدگی سے کبھی اس مسئلہ پر غور نہیں کرتا تھا.کیونکہ جیسا کہ میں نے بارہا بتایا ہے میں سمجھتا تھا کہ اگراس پیشگوئی کے مصداق کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ الہام الہی سے دعوی کرے تو مجھے اپنی طرف سے اس دعوای کی ضرورت نہیں.اگر خدا میری زبان سے اس کے متعلق کوئی اعلان کرانا چاہیے گا تو وہ خود کرا لے گا.اور اگر اس کے مصداق کے لیے کسی الہام کی ضرورت نہیں.تو مجھے بھی کسی دعوای کی ضرورت نہیں.بہرحال یہ ایک پیشگوئی ہے جس پر غور کر کے لوگ فیصلہ کر سکتے ہیں.اگر اس کے لیے الہام کی ضرورت ہے تو میں بغیر الہام کے دعوی کر کے کیوں گنہ گار بنوں.جسے الہام ہوگا وہ خود دعوی کر دے گا اور اگر اس کے لیے الہام کی ضرورت نہیں تو پھر دعوای کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں.یہاں تک کہ جنوری ۹۳لہ کے دوسرے ہفتہ میں مجھے ایک رویا.ہوا.یہ رویا.میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں مگر اس موقعہ پر میں وہ رویا.ایک بار پھر دوستوں کو سُنا دیتا ہوں.میں نے دیکھا کہ میں ایک مقام پر ہوں.جہاں جنگ ہو رہی ہے وہاں کچھ عمارتیں ہیں.نہ معلوم وہ گڑھیاں ہیں یا ٹر نچز ہیں.بہر حال وہ جنگ کیسا تھے تعلق رکھنے والی کچھ عمارتیں ہیں.وہاں کچھ لوگ ہیں جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ آیا وہ ہماری جماعت کے لوگ ہیں یا یونہی مجھے ان سے تعلق ہے.میں اُن کے پاس ہوں.اتنے میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جرمن فوج نے جو اس فوج سے کہ جس کے پاس میں ہوں.برسر پیکار ہے یہ معلوم کر لیا ہے کہ میں وہاں ہوں اور اس نے اس مقام پر حملہ کر دیا ہے اور وہ حملہ اتنا شدید ہے کہ اس جگہ کی فوج نے پسپا ہونا شروع کر دیا.یہ کہ وہ انگریزی فوج تھی یا امریکن فوج یا کوئی اور فوج تھی.اس کا مجھے اس وقت کوئی خیال نہیں آیا.بہر حال وہاں جو فوج تھی اس کو جرمنوں سے دینا پڑا.اور اس مقام کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئی.جب وہ فوج پیچھے ہٹی تو جر من اس عمارت میں داخل ہو گئے.جس میں میں تھا.تب میں خواب میں کہتا ہوں.دشمن کی جگہ پر رہنا درست نہیں اور بی مناسب نہیں کہ اب اس جگہ ٹھہرا جائے.یہاں سے ہمیں بھاگ چلنا چاہیئے اس وقت میں رویا.میں صرف یہی نہیں کہ تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں.میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ ہی دوڑتے ہیں اور جب میں نے دوڑنا

Page 365

۳۶۵ شروع کیا تو رویا.میں مجھے یوں معلوم ہوا جیسے میں انسانی مقدرت سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑ رہا ہوں.اور کوئی ایسی زبر دست طاقت مجھے تیزی سے لے جارہی ہے کہ میلوں میں ایک آن میں میں طے کرتا جا رہا ہوں.اس وقت میرے ساتھیوں کو بھی دوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی جگہ پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور میرے پیچھے ہی جرمن فوج کے سپاہی میری گرفتاری کے لیے دوڑتے آرہے ہیں مگر شاید ایک منٹ بھی نہیں گذرا ہو گا کہ مجھے دویا.میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ جرمن سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں چلتا چلا جاتا ہوں.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹی چلی جارہی ہے بیان تک کہ میں ایک ایسے علاقہ میں پہنچا جو دامن کوہ کہلانے کا مستحق ہے.ہاں جس وقت جرمن فوج نے حملہ کیا ہے.رویا میں مجھے یاد آتا ہے کہ کسی سابق نبی کی کوئی پیشگوئی ہے یا خود میری کوئی پیشگوئی ہے اس میں اس واقعہ کی خبر پہلے سے دی گئی تھی اور تمام نقشہ بھی بتایاگیا تھا کہ جب وہ موعود اس مقام سے دوڑے گا تو اس اس طرح دوڑے گا.اور پھر فلاں جگہ جاتے گا.چنانچہ رویا میں جہاں میں پہنچا ہوں وہ مقام اس پہلی پیشگوئی کے عین مطابق ہے.اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئی میں اس امر کا بھی ذکر ہے کہ ایک خاص رستہ ہے جسے میں اختیار کروں گا.اور اس رستہ کے اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بہت اہم تغیرات ہوں گے اور دشمن مجھے گرفتار کرنے میں ناکام رہے گا.چنانچہ جب میں یہ خیال کرتا ہوں تو اس مقام پر مجھے کئی ایک پک ڈنڈیاں نظر آتی ہیں جن میں سے کوئی کسی طرف جاتی ہے اور کوئی کسی طرف.میں اُن پک ڈنڈیوں کے بالمقابل دوڑتا چلا گیا ہوں تا معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق مجھے کسی راستہ پر جانا چاہیئے.اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہوں کہ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ میں نے کسی راستہ سے جانا ہے اور میرا کس راستہ سے جانا خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے.ایسا نہ ہو میں غلطی سے کوئی ایسا راستہ اختیار کرلوں جس کا پیشگوئی میں ذکر نہیں.اس وقت میں اُس سڑک کی طرف جارہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے اس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر میرا ایک اور ساتھی ہے اور وہ مجھے آواز سے کہ کہتا ہے کہ اس سڑک پر نہیں.دوسری سڑک پر جاتیں.اور میں اس کے کہنے پر اس سڑک کی طرف جو بہت دُور ہٹ کر ہے واپس لوٹتا ہوں.وہ جس سڑک کی طرف مجھے آوازیں دے رہا ہے.انتہائی دائیں طرف ہے اور نھیں سڑک کو میں نے اختیار کیا تھا وہ انتہائی باتیں

Page 366

طرف تھی.پس چونکہ میں انتہائی بائیں طرف تھا اور جس طرف وہ مجھے بلا رہا تھا وہ انتہائی دائیں طرف تھی.اس لیے میں لوٹ کر اس سڑک کی طرف چلا.مگر جس وقت میں پیچھے کی طرف واپس ہٹا.ایسا معلوم ہوا کہ کسی زبر دست طاقت نے مجھے پکڑ کر درمیان میں سے گزرنے والی ایک پک ڈنڈی پر چلا دیا.میرا ساتھی مجھے آواز میں دیتا چلا جاتا ہے کہ اس طرف نہیں اس طرف.اُس طرف نہیں اس طرف.مگر میں اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ہوں اور درمیانی پگڈنڈی پھر بھاگتا چلا جاتا ہوں.راس جگہ کی شکل رویانہ کے مطابق اس طرح بنتی ہے ).مغرب دایاں پہاڑی راسته درمیانی پگڈنڈی جو آگے جا کہ پھر دوشاخوں میں تقسیم ہو جاتی ہے بایاں پہاڑی راستت شمال دامن کوہ کا علاقہ مشرق جب میں تھوڑی دور چلا تو مجھے وہ نشانات نظر آنے لگے.جو پیشگوئی میں بیان کئے گئے تھے اور میں کہتا ہوں.میں اسی راستہ پر آگیا جو خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں بیان فرمایا تھا.اس وقت رویا.میں میں اس کی کچھ توجیہ بھی کرتا ہوں کہ میں درمیانی پک ڈنڈی پر جو چلا ہوں تو اس کا کیا مطلب ہے.چنانچہ جس وقت میری آنکھ کھلی.معا مجھے خیال آیا کہ دایاں اور بایاں استہ جو رویا.میں دکھایا گیا ہے.اس میں بائیں رستہ سے مراد خالص دنیوی کوششیں اور تدبیریں ہیں اور دائیں رستہ سے مراد خالص دینی طریق.دعا اور عبادتیں وغیرہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کی ترقی درمیانی راستے پر چلنے سے ہوگی.یعنی کچھ تدبیریں اور کوششیں ہونگی اور کچھ دعائیں اور تقدیریں ہونگی.اور پھر یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ دیکھو قرآن شریف نے اُمت محمدیہ کو امة وسطاً قرار دیا ہے.اس وسطی راستہ پر چلنے کے یہی معنے ہیں کہ یہ امت اسلام کا کامل نمونہ ہو گی.اور چھوٹی پگڈنڈی کی یہ تعبیر ہے کہ درمیانی راستہ گو درست راستہ ہے مگر اس میں مشکلات بھی

Page 367

ہوتی ہیں..عرض میں اس راستہ پر چنا شروع ہوا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ دہن بہت پیچھے رہ گیا ہے.اتنی دور کہ نہ اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور نہ اُس کے آنے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے.مگر ساتھ ہی میرے ساتھیوں کے پیروں کی آہٹیں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں.اور وہ بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں دوڑتا چلا جاتا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹی چلی جارہی ہے.اس وقت میں کہتا ہوں کہ اس واقعہ کے متعلق جو پیش گوئی تھی.اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس رستہ کے بعد پانی آئے گا اور اس پانی کو عبور کرنابہت مشکل ہوگا.اس وقت میں رستے پر چلتا تو چلا جاتا ہوں.مگر ساتھ ہی کہتا ہوں.وہ پانی کہاں ہے ؟ جب میں نے کہا.وہ پانی کہاں ہے تو یکدم میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی جھیل کے کنارے پر کھڑا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جھیل کے پار ہو جانا پیشگوئی کے مطابق ضروری ہے.میں نے اس وقت دیکھا کہ جھیل پر کچھ چیزیں تیر رہی ہیں.وہ ایسی لمبی ہیں جیسے سانپ ہوتے ہیں اور ایسی باریک اور ہلکی چیزوں سے بنی ہوئی ہیں جیسے بیتے وغیرہ کے گھونسلے نہایت باریک تنکوں کے ہوتے ہیں.وہ اوپر سے گول ہیں جیسے اثر دھا کی پیٹھ ہوتی ہے اور رنگ ایسا ہے جیسے بیٹے کے گھونسلے سے سفیدی.زردی اور خاکی رنگ ملا ہوا.وہ پانی پر تیر رہ ہی ہیں اور اُن کے اوپر کچھ لوگ سوار ہیں جو ان کو چلا رہے ہیں.خواب میں میں سمجھتا ہوں.یہ بت پرست قوم ہے اور یہ چیزیں جن پر یہ لوگ سوار ہیں، اُن کے بت ہیں اور یہ سال میں ایک دفعہ اپنے بتوں کو نہلاتے ہیں.اور اب بھی یہ لوگ اپنے بتوں کو سہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جارہے ہیں جب مجھے اور کوئی چیز پارے جانے کے لیے نظر نہ آئی تو میں نے زور سے چھلانگ لگائی اور ایک بت پر سوار ہو گیا.تب میں نے سُنا کہ مبتوں کے پجاری زور زور سے مشرکانہ عقائد کا اظہارہ منتروں اور گیتوں کے ذریعہ سے کرنے لگے.اس پر میں نے دل میں کہا کہ اس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے اور بڑے زور زور سے میں نے توحید کی دعوت ان لوگوں کو دینی شروع کی اور شرک کی براتیاں بیان کرنے لگا.تقریر کرتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہوا کہ میری زبان اُردو نہیں بلکہ عربی ہے.چنانچہ میں عربی میں بول

Page 368

رہا ہوں.اور بڑے زور سے تقریر کر رہا ہوں.رویا میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کی زبان تو عربی نہیں.یہ میری باتیں کس طرح سمجھیں گے مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ گو ان کی زبان کوئی اور ہے مگر یہ میری باتیں خوب سمجھتے ہیں.چنانچہ میں اسی طرح اُن کے سامنے عربی میں تقریر کر رہا ہوں.اور تقریر کرتے کرتے بڑے زور سے اُن کو کہتا ہوں کہ تمہارے یہ بہت اس پانی میں غرق کئے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی.ابھی میں یہ تقریر کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ اسی کشتی نما بنت والا بت پرستی کو چھوڑ کر میری باتوں پر ایمان سے آیا ہے اور موجد ہو گیا ہے اس کے بعد اثر بڑھنا شروع ہوا اور ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد میرا اور تیسرے کے بعد جو تھا اور چوتھے کے بعد پانچواں شخص میری باتوں پر ایمان لاتا اور مشرکانہ باتوں کو ترک کرتا اور مسلمان ہوتا چلا جاتا ہے.اتنے میں ہم جھیل پار کر کے دوسری طرف پہنچ گئے.جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تو میں اُن کو حکم دیتا ہوں کہ ان بتوں کو جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا تھا.پانی میں غرق کر دیا جائے اس پر جو لوگ موحد ہو چکے ہیں وہ بھی اور جو ابھی موقد تو نہیں ہوتے مگر ڈھیلے پڑ گئے ہیں.میرے سامنے جاتے ہیں اور میرے حکم کی تعمیل میں اپنے بتوں کو جھیل میں غرق کر دیتے ہیں.اور میں خواب میں حیران ہوں کہ یہ تو کسی تیرنے والے مادے کے بنے ہوئے تھے.یہ اس آسانی سے جھیل کی تہ میں کس طرح پہلے گئے.صرف پجاری پکڑ کر ان کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں اور وہ پانی کی گہرائی میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں.اس کے بعد میں کھڑا ہو گیا اور پھر انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا.کچھ لوگ تو ایمان لا چکے تھے.مگر باقی قوم جو ساحل پر تھی.ابھی ایمان نہیں لائی تھی.اس لیے میں نے ان کو تبلیغ کرنی شروع کر دی.یہ تبلیغ میں ان کو عربی زبان میں ہی کرتا ہوں.جب میں انہیں تبلیغ کر رہا ہوں تاکہ وہ لوگ بھی اسلام لے آئیں تو یکدم میری حالت میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور مجھے یوں معلوم سلام میں ہوتا ہے کہ اب میں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جارہی ہیں جیسے خطبہ الہامیہ تھا.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا.غرض میرا کلام اس وقت بند ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ میری زبان سے بولنا شروع ہو جاتا ہے بولتے بولتے ہیں بڑے زور سے ایک

Page 369

شخص کو جو غالباً سب سے پہلے ایمان لایا تھا.غالباً کا لفظ میں نے اس لیے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ رہتی تشخص پہلے ایمان لایا ہو ہاں غالب گمان یہی ہے کہ وہی شخص پہلا ایمان لانے والا یا پہلے ایمان لانے والوں میں سے با اثر اور مفید وجود تھا.بہر حال میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہے اور میں نے اس کا اسلامی نام عبد الشکور رکھا ہے.میں اس کو مخاطب کرتے ہوتے بڑے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ پیشگوئیوں میں بیان کیا گیا ہے.میں اب آگے جاؤں گا.اس لیے اسے عبدالشکور تجھے کوئیں اس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں.تیرا فرض ہو گا کہ میری واپسی تک اپنی قوم میں توحید کو قائم کرے اور شرک کو مٹا دے.اور تیرا فرض ہو گا کہ اپنی قوم کو اسلام کی تعلیم پر عامل بناتے ہیں واپس آکر تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تجھے ہیں نے جن فرائض کی سرانجام دہی کے لیے مقرر کیا ہے اُن کو تو نے کہاں تک ادا کیا ہے.اس کے بعد وہی الہامی حالت جاری رہتی ہے اور میں اسلام کی تعلیم کے اہم امور کی طرف اُسے توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تیرا فرض ہو گا کہ ان لوگوں کو سکھاتے کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں.اور کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے سکھانے کا اسے حکم دیتا ہوں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کی اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی اور سب لوگوں کو اس ایمان کی طرف بلانے کی تلقین کرتا ہوں جس وقت میں یہ تقریر کر رہا ہوں (جو خود الہامی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میری زبان سے بولنے کی توفیق دی ہے اور آپ فرماتے ہیں انا محمد عبده ورسوله اسکے بعد حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر پربھی ایسا ہی ہوتا ہے اور آپ فرمتے ہیں انا المسلح الموعود اس کے بعد میں ان کو اپنی طرف توجہ دلاتا ہوں.چنانچہ اس وقت میری زبان پر جو نفرہ جاری ہوا وہ یہ ہے دانا المسلح الموعود مثيله وخليفته اور میں بھی مسیح موعود ہوں.یعنی اس کا مثیل اور اس کا خلیفہ ہوں.تب خواب نہیں ہی

Page 370

مجھ پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہوا.اور اس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں.اس وقت معاً میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ مثیلہ میں اس کا نظیر ہوں و خلیفته اور اس کا خلیفہ ہوں.یہ الفاظ اس سوال کو حل کر دیتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.اس کے مطابق اور اسے پورا کرنے کے لیے یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہوا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس کا مثیل ہونے اور اس کا خلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں میں بھی مسیح موعود ہی ہوں.کیونکہ جو کسی کا نظیر ہوگا اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لے گا.وہ ایک رنگ میں اس کا نام پانے کا مستحق بھی ہوگا.پھر میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لیے انہیں سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں.اور جب میں کہتا ہوں " میں وہ ہوں جس کے لیے انیس سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عورت ہیں.جو سات یا نو ہیں.جن کے لباس صاف ستھرے ہیں دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں.مجھے السلام علیکم کہتیں اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کے لیے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں ہاں ہاں ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم انہیں سو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں ؟ اس کے بعد میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جیسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے.رویا میں جو ایک سابق پیشگوئی کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تھی.اس میں یہ بھی خبر تھی کہ جب وہ موعود بھا گے گا.تو ایک ایسے علاقہ میں پہنچے گا جہاں ایک تھیل ہوگی اور جب وہ اُس جھیل کو پار کر کے دوسری طرف جائے گا تو وہاں ایک قوم ہوگی جس کو وہ تبلیغ کرے گا اور وہ اس تبلیغ سے متاثرہ ہو کر مسلمان ہو جائے گی.تب وہ دشمن جس سے وہ موعود بھاگے گا.اس قوم سے مطالبہ کرے گا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے مگر وہ قوم انکار کر دے گی.اور کیسے گی ہم لڑ کر مر جائیں گے مگر اسے تمہارے حوالے نہیں کریں گے.چنانچہ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے.جرمن قوم کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ تم ان کو ہمارے حوالے کردو.اس

Page 371

وقت میں خواب میں کہتا ہوں یہ تو بہت تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے مگر وہ قوم با وجود اس کے کہ ابھی ایک حصہ اس کا ایمان نہیں لایا.بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ ہم ہرگز ان کو تمہارے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں.ہم لڑ کر فنا ہو جائیں گے مگر تمہارے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کریں گے.تب میں کہتا ہوں.دیکھو وہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی.اس کے بعد میں پھر ان کو ہدایتیں دے کر اور بار بار توحید قبول کرنے پر زور دیگر اور اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کر کے آگے کسی اور مقام کی طرف روانہ ہو گیا ہوں.اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اس قوم میں سے اور لوگ بھی جلدی جلدی ایمان لانے والے ہیں.چنانچہ اسی لیے میں اس شخص سے جسے میں نے اُس قوم میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے کہتا ہوں.جب میں واپس آؤں گا تو اسے عبدالشکور میں دیکھوں گا کہ تیری قوم شرک چھوڑ چکی ہے.موحد ہو چکی ہے اور اسلام کے تمام احکام پر کاربند ہو چکی ہے " الفضل یکم فروری سالة ) پیشگوئی کا مصداق : یہ رویا سات آٹھ جنوری ۱ کی درمیانی شب خدا تعالیٰ نے مجھے دکھا یا جس سے یہ بات آسمانی طور پر مجھ پر ظاہر ہو گئی کہ وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنے ایک بیٹے کے متعلق فرمائی تھی.اور جس کے متعلق یہ تعین فرمائی تھی کہ وہ ۲۰ فروری شاہ سے 9 سال کے عرصہ کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا تھا کہ وہ اُسے آپکا جانشین بنائے گا.اس سے آپ کے کام کی تکمیل کروائے گا.اور اس کے وجود میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں کو بھی پورا کرے گا.وہ میں ہی ہوں.چنانچہ ۲۸ ؍ جنوری کو قادیان کی مسجد اقصیٰ میں جمعہ کے دن میں نے اپنے خطبہ میں اس کا اعلان کر دیا.اور چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر یہ انکشاف کیا گیا ہے.اس لیے گو میں پہلے بھی مختلف مقامات پر اس کا اعلان کر چکا ہوں.مگر اب جبکہ ساری جماعت یہاں جمع ہے میں اس کے سامنے ایک بار پھر یہ اعلان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے اذن اور اسی کے انکشاف کے ماتحت میں اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ وہ مصلح موعود جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے ماتحت دنیا میں آنا تھا اور جس کے متعلق یہ مقدر تھا کہ وہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائیگا

Page 372

اور اس کا وجود خدا تعالیٰ کے جلا لی نشانات کا حامل ہوگا.وہ میں ہی ہوں اور میرے ذریعہ ہی وہ پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک موعود بیٹے کے متعلق فرماتی تھیں.یاد رہے کہ میں کسی خوبی کا اپنے لیے دعویدار نہیں ہوں.میں فقط خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعوی ہے نہ مجھے کسی دعوی میں خوشی ہے.میری ساری خوشی اسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسل کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آ جاتے اور اللّہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہو جاتے اور میرا خاتمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو.مجھے کسی دعوامی کا شوق نہیں ہے.اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی جب خدا ان کو کہتا ہے تو وہ دعوی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.خود ان کو دعوی کرنے کا شوق نہیں ہوتا.میری ذاتی کیفیت تو جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے.یہ ہے کہ اگر خدا مجھ سے دین کی خدمت کا کام لے لے.تو چاہے کوئی شخص میرا نام چوڑھا یا چوڑھے سے بھی بد تر رکھ دے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوسکتی.مگر چونکہ خدا نے مجھے دعوی کرنے کے لیے کہا ہے اور چونکہ اس اجتماع میں بعض ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کو میرے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع نہ ملا ہو اور وہ اس امر کو نہ سمجھتے ہوں کہ میں سچ بولنے والا ہوں.یا جھوٹ بولنے والا.اس لیے جس طرح پہلے مختلف مقامات پر میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس امر کا اعلان کر چکا ہوں.اسی طرح اب جبکہ جماعتوں کے نمائندے یہاں ہزاروں کی تعداد میں چاروں طرف سے جمع ہیں اور غیر بھی سینکڑوں کی تعداد میں یہاں موجود ہیں.میں اللہ تعالیٰ کی جو زمین اور آسمان کو پیدا کرنے والا ہے جس نے مجھے بھی پیدا کیا اور میرے آباؤ اجداد کو بھی جس کی بادشاہت سے کوئی چیز باہر نہیں جس کا مقابلہ کرنا انسان کو لعنتی بنا دیتا اور دینی اور دنیوی تباہیوں کا مستوجب بنا دیتا ہے ہیں اُسی وحدہ لاشریک خدا کی جو قرآن اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خدا ہے قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میں نے اس وقت جو روبانہ بیان کیا ہے وہ میں نے حقیقتاً اسی رنگ میں دیکھا تھا اور مکی نے بغیر کسی قطع و برید کے اور بغیر کسی زیادتی کے رسوائے اس کے کہ رویایہ کو بیان کرتے ہوئے کوئی لفظ بدل گیا ہو اس کو اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رویا.دکھایا گیا.اگر میں اپنے اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے جھوٹوں کی سزا دے، لیکن میں جانتا ہوں کہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی مجھے دکھایا گیا ہے اور خدا تعالیٰ خود ایک نظارہ دکھا کر اپنے کسی بندہ کو ذلیل نہیں کیا کرتا.

Page 373

ایک خوشخبری : مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی خبر اب تک نہیں ملی کہ میرے ذمہ کوئی کام پاتی ہے یا نہیں.میکین خواہ میری زندگی میں سے ایک منٹ بھی باقی رہتا ہو میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا دشمن خواہ کتنا زور لگا لے وہ اسلام کی تاریخ سے میرا نام نہیں مٹا سکتا کیونکہ میں راستباز ہوں اور میں نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر دنیا کو یہ اطلاع دی ہے اپنی طرف سے کوئی بات بیان نہیں کی ؟ ) الموعود صفحه ۳ ۵ تا ۷۰ ) پیشگوئی کی عظمت : اس پیشگوئی کی اغراض بیان کرتے ہوئے اپنے اسی خطاب میں جس کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے حضرت مصلح موعود و فرماتے ہیں : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ۲۰ فروری شاہ کے اشتہار میں ذکر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر فرمایا ہے کہ یہ پیشگوئی جو دنیا کے سامنے کی گئی ہے.اس کی کتی اغراض ہیں.اول :- یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی ہے کہ جو زندگی کے خواہاں ہیں.موت سے نجات پائیں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آئیں.اگر یہ سمجھا جائے کہ اس پیشگوئی نے چار سو سال کے بعد پورا ہونا ہے تو اس کے معنے یہ نہیں گئے کہ میں نے یہ پیشگوئی اس لیے کی ہے کہ جو آج زندگی کے خواہاں ہیں وہ بیشک مرے رہیں چار سو سال کے بعد اُن کو زندہ کر کر دیا جائے گا.یہ فقرہ بالبداہت باطل اور غلط ہے.آپ فرماتے ہیں یہ چلہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ وہ لوگ جو دین اسلام سے منکر ہیں.ان کے سامنے خدا تعالیٰ کا ایک زندہ نشان ظاہر ہو اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرامت کا انکار کر رہے ہیں اُن کو ایک تازہ اور زیر دست ثبوت اس بات کا مل جائے کہ اب بھی خدا تعالیٰ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے وہ الہامی الفاظ جو اس پیشگوئی کی غرض و نمایت پر روشنی ڈالتے ہیں.یہ ہیں کہ : ہ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پادیں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں " اب اگر ان لوگوں کے نظریہ کو صحیح سمجھ لیا جائے جو یہ کہتے ہیں کہ مصلح موعود تین چار سو سال کے بعد

Page 374

۷۴ آئے گا تو اس فقرہ کی تشریح یوں ہوتی ہے کہ یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی ہے تاکہ وہ لوگ جو آج زندگی کے خواہاں ہیں مرے رہیں چار سو سال کے بعد اُن کی نسلوں میں سے بعض لوگوں کو زندہ کر دیا جائے گا میگر کیا اس فقرہ کو کوئی شخص بھی صحیح تسلیم کر سکتا ہے.دوسرے یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی تھی تا دین اسلام کا شرف ظاہر ہو اور کلام اللہ کا رتبہ لوگوں پر عیاں ہو.اس فقرہ کے صاف طور پر یہ معنے ہیں کہ دین اسلام کا شرف اس وقت لوگوں پر ظاہر نہیں اسی طرح کلام اللہ کا مرتبہ اس وقت لوگوں پر ظاہر نہیں.مگر کہا یہ جاتا ہے کہ خدا نے یہ پیشگوئی اس لیے کی ہے تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ آج سے تین سو سال کے بعد یا چار سو سال کے بعد جب یہ لوگ بھی مر جائیں گے اُن کی اولاد میں بھی مر جائیں گی اور اُن کی اولادیں بھی مر جائیں گی.لوگوں پر ظاہر کیا جائے.جب نہ پنڈت سکھرام ہو گا نہ منشی اندر من مراد آبادی ہو گا نہ ان کی اولادیں ہوں گی اور نہ ان اولادوں کی اولادیں ہوں گی.اس وقت دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کیا جائے گا.بتاؤ کہ کیا کوئی بھی شخص ان معنوں کو درست سمجھ سکتا ہے.تیسرے آپ نے فرمایا.یہ پیشنگوئی اس لیے کی گئی ہے تاکہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جاتے.اس کے معنے بھی ظاہر ہیں کہ حق اس وقت کمزور ہے اور باطل غلبہ پر ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایسا نشان ظاہر ہو کہ عقلی اور علمی طور پر دشمنان اسلام پر محبت تمام ہو جاتے اور وہ لوگ اس بات کو ماننے پر مجبور ہو جائیں کہ اسلام حق ہے اور اس کے مقابل میں جس قدر مذاہب کھڑے ہیں وہ باطل ہیں.چوتھی غرض اس پیشگوئی کی یہ بیان کی گئی تھی کہ تا نا سمجھیں کہ میں قادر ہوا ، اور جو چاہتا ہوں کرتا ہوں.اب یہ غور کرنے والی بات ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو اس صورت میں کس طرح قادر سمجھ سکتے تھے.اگر یہ کہہ دیا جاتا کہ تین سو سال کے بعد یا چار سو سال کے بعد ایک ایسا نشان ظاہر ہو گا جس سے تم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاؤ گے کہ اسلام کا خدا قادر ہے.ایسی پیشنگوئی کو سکھرام کیا اہمیت دے سکتا تھا یا وہ لوگ جو اس وقت دین اسلام پر اعتراضات کر رہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نشانات کو باطل قرار دے رہے تھے.اسلام کو ایک مردہ مذہب قرار دے رہے تھے.ان پر کیا حجت ہو سکتی تھی کہ تم چار سو سال کے بعد خدا تعالیٰ کو قادر سمجھنے لگ جاؤ گے، چار سو سال کے بعد پوری ہونے والی پیشگوئی سے وہ لوگ خدا تعالیٰ کو کس طرح قادر سمجھ سکتے تھے.وہ تو یہی کہتے کہ ہم ان زبانی دعووں کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ چار سو سال کے بعد ایسا ہو جائے گا.یہ تو ہر کوئی کہ سکتا ہے.بات تب ہے کہ ہمارے

Page 375

۳۷۵ سامنے نشان دکھایا جائے اور اسلام کے خُدا کا قادر ہونا ثابت کیا جائے.پانچویں عرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں.اگر اس پیشگوئی نے چار سو سال کے بعد ہی پورا ہوتا تھا.تو اس زمانہ کے لوگ سیکس طرح یقین کر سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہے.چھٹی غرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور اس کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفے کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک گلی نشانی ملے.اس کے معنی بھی یہی بنتے ہیں کہ وہ لوگ جو میرے زمانہ میں اسلام کی تکذیب کر رہے ہیں.انکے سامنے میں یہ پیشنگوئی کرتا ہوں.کہ انہیں اسلام کی صداقت کی ایک بڑی کھلی نشانی ملے گی.مگر ملے گی چار سو سال کے بعد جب موجودہ زمانہ کے لوگوں بلکہ اُن کی اولادوں اور ان کی اولادوں میں سے بھی کوئی زندہ نہیں ہوگا.ساتویں آپ نے بیان فرمایا کہ یہ پیشنگوئی اس لیے کی گئی ہے تاکہ مجرموں کی راہ ظاہر ہو جاتے اور پتہ لگ جاتے کہ وہ جھوٹے ہیں.چار سو سال کے بعد آنے والے وجود سے اس زمانہ کے لوگوں کو کیونکر پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے ؟ ) الموعود صفحه ۳۸ تا ۴۲) اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا زندہ ثبوت اس معرکتہ الآراء خطاب کے آخر میں حضور نے نہایت پر شوکت الفاظ میں اتمام حجت کرتے ہوئے ا علان فرمایا : " میں کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے اُن پیشگوئیوں کا مورد بنایا ہے جو ایک آنے والے بوعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائیں.جو شخص سمجھتا ہے کہ میں نے افتراء سے کام لیا ہے یا اس بارہ میں جھوٹ اور کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے وہ آئے اور اس معامہ میں میرے ساتھ مباہلہ کرلے.اور یا پھر اللہتعالیٰ کی موکد بعذاب قسم کھا کر اعلان کمر دے کہ اسے خُدا نے کہا ہے کہ میں جھوٹ سے کام لے رہا ہوں.پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اپنے آسمانی نشانات سے فیصلہ فرما دے گا کہ کون کا ذہب ہے اور کون صادق.......غرض

Page 376

اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے وہ پیشگوئی جس کے پورا ہونے کا ایک لمبے عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق اپنے الہام اور اعلام کے ذریعہ مجھے بتا دیا ہے کہ وہ پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہو چکی ہے.اور اب دشمنان اسلام پر خدا تعالیٰ نے کامل حجبت کر دی ہے.اور ان پر یہ امر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں.جھوٹے ہیں وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب کہتے ہیں.خدا نے اس عظیم الشان پیشگوئی کے ذریعہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے.بعض اہم تحریکات : ) الموعود صفحه ۲۰۷ - ۲۰۸ ) اس غیر معمولی عظیم نشان کے اس روشن طریق پر پورا ہونے اور اس کے انکشاف واعلان کے بعد حضرت مصلح موعود کی ولولہ انگیز انقلابی قیادت میں پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر تیزی و مستعدی آگئی اور آپ سے کل کے کاموں کو بھی ممکن ہو اگر تو آج کر اسے مری جاں وقت یہ ہرگز نہیں تاخیر کا کی عملی تصویر نظر آنے لگے.انابت الی اللہ اور خشوع و خضوع کی ایک نا قابل بیان عجیب کیفیت پیدا ہو گئی اور آپ نے جماعت کی روحانی و جسمانی ترقی کی.یکے بعد دیگرے متعدد تجاویز و تحریکات پیش فرمائیں.آپ کے مبارک معمول کے مطابق یہاں بھی دُعاؤں کو اولیت کا مقام حاصل رہا چنانچہ آپ نے د مارچ 1991 تہ سے چالیس روز تک خاص دُعائیں کرنے کی تحریک فرماتی اور پھر چند روز بعد ہی آپ نے تسبیح و تحمید اور درود شریف پڑھنے کی تحریک کرتے ہوئے فرما یا : " مر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ روزانہ بارہ دفعہ سُبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم پڑھ لیا کرے گا اسی طرح دوسری چیز جو اسلام کی ترقی کے لیے ضروری ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اور آپ کے فیوض کا دُنیا میں وسیع ہوتا ہے اور ان برکات اور فیوض کو پھیلانے کا بڑا ذریعہ درود ہے.بے شک ہر نماز میں تشہد کے وقت درود پڑھا جاتا ہے مگر وہ جبری درود ہے اور جبری درود اتنا فائدہ نہیں دیتا جتنا اپنی مرضی سے پڑھا

Page 377

ہوا درود انسان کو فائدہ دیتا ہے.وہ درود بے شک نفس کی ابتدائی صفائی کیلئے ضروری ہے لیکن تقرب الی اللہ کے حصول کے لیے اس کے علاوہ بھی درود پڑھنا چاہتے ہیں.میں دوسری تحریک بیہ کرتا ہوں کہ ہر شخص کم سے کم بارہ دفعہ روزانہ درود پڑھنا اپنے اوپر فرض قرار دے لے........پس جو لوگ محبت اور اخلاص کے ساتھ درود پڑھیں گے وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے اللہ تعالیٰ کی برکات سے حصہ پائیں گے ان کے گھر رحمتوں سے بھر دیتے جائیں گے.ان کے دل اللہ تعالیٰ کے انوار کا جلوہ گاہ ہو جائیں گے اور نہ صرف ان روحانی نعماء سے لطف اندوز ہوں گے بلکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے چونکہ ان کی خواہش ہوگی کہ اسلام پھیلے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اکناف عالم تک پہنچے اس لیے وہ اپنے اس ایمانی جوش اور دردمندانہ دعاؤں کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کا دن بھی دیکھ لیں گے اور پیچھی بات تو یہ ہے کہ دُعائیں ہی ہیں جن سے یہ عظیم الشان کام ہو سکتا ہے دنیوی کوششیں تو محض سہارے اور ہمارے اخلاص کے امتحان کا ذریعہ ہیں ورنہ قلوب کا تغیر محض خدا کے فضل سے ہو گا اور اس فضل کے نازل ہونے میں ہماری وہ دُعائیں محمد ہونگی جو ہم عاجزانہ طور پر اس سے کرتے رہیں گے ؟ الفضل ۲۳ مئی ۱۹۴۳ ) اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی طرف توجہ دلاتے ہوتے خاندان مسیح موعود کو بطور خاص خدمت دین کرنے اور اس مقصد کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کی تحریک کرتے ہوئے حضور نے ارشاد فرمایا : "دیکھو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات ہیں کہ اگر سجدوں میں ہمارے ناک گھس جائیں.ہمارے ہاتھوں کی ہڈیاں گھس جائیں تب بھی ہم اس کے احسانات کا شکر ادا نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں نہیں پیدا کیا ہے اور اس فخر کے لیے اس نے اپنے فضل سے ہمیں چن لیا ہے......دنیا کے لوگوں.کے لیے دنیا کے اور بہت سے کام پڑے ہوتے ہیں مگر ہماری زندگی تو کلین دین کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لیے وقف ہونی چاہیے کہ ر الفضل ۴ار مارچ ۱۹۲۳ (2 سوانح فضل عمر جلد دوم کے آخر میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ حضرت فضل عمر عورتوں کی فلاح وبہبود اور معاشرہ میں ان کو صحیح مقام دلانے کے لیے کسی طرح کوشاں رہے.دعوای مصلح موعود کے بعد

Page 378

بھی اس فریضہ کی طرف بطور خاص توجہ دلاتے ہوئے فرمایا : " اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائیگی.حضور کی اس توجہ کے نتیجہ میں لجنہ کے کاموں میں بھی غیر معمولی مستعدی اور خیستی آگئی.اسلامی معاشرہ میں غریب اور محتاج انسانوں کی مدد اور ان کی خبر گیری کی طرف بطور خاص توجہ دلائی گئی ہے.اس اسلامی حکم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا :- ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسایوں کے متعلق اس امر کی نگرانی ریکھنی چاہتے کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں اور اگر کسی ہمسایہ کے متعلق اسے معلوم ہو کہ وہ بھوکا ہے تو اس وقت تک اسے روٹی نہیں کھانی چاہیتے جب تک وہ اس بھوکے کو نہ کھلائے " ) الفضل اارجون ۱۹۴۵ ) ہرا ہم اور ضروری کام میں بنیادی طور پر مضبوط مالی حیثیت کی ضرورت ہوتی ہے.حضور نے جماعت کی ایسی تربیت فرمائی کہ چندوں کی ادائیگی میں بشاشت و رغبت اور مسابقت کے جو نمونے یہاں نظر آتے ہیں ان کی مثال آج کی دُنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی.اس سلسلہ میں حضور نے وقف جائیداد کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا : " ہم میں سے کچھ لوگ جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے اپنی جائیدادوں کو اس صورت میں دین کے لیے وقف کر دیں کہ جب سلسلہ کی طرف سے ان سے مطالبہ کیا جائے گا انہیں وہ جائیداد اسلام کی اشاعت کے لیے پیش کرنے میں قطعاً کوئی عذر نہیں ہوگا " الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۲۳ ) " میں نے جاتیداد وقف کرنے کی تحریک کی تھی.قادیان کے دوستوں نے اس کے جواب میں شاندار نمونہ دکھایا ہے اور اس تحریک کا استقبال کیا ہے.بہت سے دوستوں نے اپنی جائیدادیں وقف کر دی ہیں " الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلصین جماعت نے چند گھنٹوں کے اندر اندر ۲۰ لاکھ کی جائیدادیں قف کردیں.وقت زندگی کی تحریک : خدمت دین کے لیے زندگی وقف کرنے کی اہمیت اور یہ بتانے کے بعد کہ اصل عزت خدمت دین میں ہے حضور نے فرمایا :-

Page 379

بعض لوگ حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو تقریر اور تحریر کرے وہی مبلغ ہے.حالانکہ اسلام تو ایک محیط کل مذہب ہے.اس کے احکام کی تکمیل کے لیے ہیں ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.وہی مبلغ نہیں جو تبلیغ کے لیے باہر جاتا ہے.جو سلسلہ کی جائیدادوں کا انتظام تندہی اور اخلاص سے کرتا ہے اور باہر جانے والے مبلغوں کے لیے اور سلسلہ کے لٹریچر کے لیے روپیہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں کماتا ہے وہ اس سے کم نہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک مبغلوں میں شامل ہے جو سلسلہ کی عمارتوں کی اخلاص سے نگرانی کرتا ہے.وہ بھی مبلغ ہے جو سلسلہ کے لیے تجارت کرتا ہے.وہ بھی مبلغ ہے جو سلسلہ کا کارخانہ چلاتا ہے.وہ بھی مبلغ ہے جو زندگی وقف کرتا ہے اور اسے سلسلہ کے خزانہ کا پریدار مقرر کیا جاتا ہے وہ بھی مبلغ ہے.کسی کام کی نوعیت کا خیال دل سے نکال دو اور اپنے آپ کو سلسلہ کے ہاتھ میں دے دو.پھر جہاں تم کو مقرر کیا جائے گا وہی مقام تمہاری نجات اور برکت کا مقام ہو گا.الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۳۳ کالج فنڈ کی تحریک -:- جماعت کے نوجوانوں کی علمی و تربیتی ضروریات کو بہتر رنگ میں پورا کرنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپیہ چندہ کی تحریک فرمانی اور حضور نے اس مد میں گیارہ ہزار روپے چندہ ادا فرمایا.الفضل ۲۳ متى ۹۴ ماہرین علوم پیدا کرنے کی تحریک :- اس سلسلہ میں حضور ارشاد فرماتے ہیں :- " تم اپنے آپ کو روحانی لحاظ سے مالدار بنانے کی کوشش کرو.تم میں سینکڑوں فقیہ ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں محدث ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں مفسر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں علم کلام کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں علم اخلاق کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں علم تصوف کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں منطق اور فلسفہ اور فقہ اور لغت کے ماہر ہونے چاہئیں تاکہ جب ان سینکڑوں میں سے کوئی شخص فوت ہو جاتے تو تمہارے پاس ہر علم اور ہر فن کے ۴۹۹ عالم موجود ہوں.ہمارے لیے یہ خطرہ کی بات نہیں ہے کہ

Page 380

حضرت خلیفہ اول بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا مولوی عبدالکریم صاحب بہت برہاہے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا مولوی برہان الدین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا حافظ روشن علی صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا قاضی امیرین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا میر محمد اسحق صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے بلکہ ہمارے لیے خطرہ کی بات یہ ہے کہ جماعت کسی وقت بحیثیت مھمانے مرجاتے اور ایک عالم کی جگہ دوسرا ہمیں اپنی جماعت میں دکھائی نہ دے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ به صفحه ۱۷۴ تا ۱۷۸ ) شور است حفظ قرآن و تبلیغ کی تحریک ، حفظ قرآن کی طرف حضور کو خاص توجہ تھی اس سلسلہ میں آپ نے متعد د تجاویز جاری فرمائی اور حیات کو اس سعادت سے برہ اندوزہ ہونے کی تلقین فرمائی.(الفضل ۲۶ جولائی ۹۳۳) دیوانہ وار تبلیغ کی تحریک فرماتے ہوئے حضور نے ارشاد فرمایا : دُنیا میں تبلیغ کرنے کے لیے نہیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مبلغ کہاں سے آئیں اور ان کے اخراجات کون برداشت کرے.میں نے بہت سوچا ہے مگر بڑے غور وفکر کے بعد میں سوائے اس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ جب تک وہی طریق اختیار نہیں کیا جائے گا جو پہلے زمانوں میں اختیار کیا گیا تھا.اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.......حضرت مسیح ناصری نے اپنے حواریوں سے کہا کہ تم دنیا میں نکل جاؤ اور تبلیغ کرو جب رات کا وقت آئے تو جس بستی میں تمہیں ٹھہرنا پڑے اس لیستی کے رہنے والوں سے کھانا کھاؤ اور پھر آگے چل دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑی حکمت سے یہ بات اپنی امت کو سکھاتی ہے.آپ نے فرمایا.ہر بستی پر باہر سے آنے والے کی مہمان نوازی تین دن فرض ہے......میں سمجھتا ہوں اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے طریق کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے اگر تم کسی بستی سے تین دن کھانا کھاتے ہو تو یہ بھیک نہیں ہاں اگر تین دن سے زائد ٹھہر کہ تم ان سے کھانا مانگتے ہو تو یہ بھیک ہو گی.اگر ہماری جماعت کے دوست بھی اسی طرح کریں کہ وہ گھروں سے تبلیغ کے لیے نکل کھڑے ہوں ایک ایک گاؤں اور ایک ایک بستی اور ایک ایک شہر میں تین تین دن ٹھہرتے جائیں اور تبلیغ کرتے جائیں.اگر کسی گاؤں والے لڑیں تو جیسے

Page 381

حضرت مسیح ناصری نے کہا تھا وہ اپنے پاؤں سے خاک جھاڑ کر آگے نکل جائیں تو یں سمجھتا ہوں تبلیغ کا سوال ایک دن میں حل ہو جاتے.حلف الفضول : ) الفضل ۱۲۱ دسمبر ۹۲ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل مظلوموں کی حمایت اور انہیں ان کا حق دلوانے کے لیے ایک معاہدہ ہوا جو تاریخ میں حلف الفضول کے نام سے مشہور ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس میں شامل ہوتے اور اس معاہدہ کی روح پر مدت العمر عمل پیرا رہے.حضرت مصلح موعود نے بھی احباب جماعت کو اس نہایت اہم تحریک کی طرف بڑا یا.آپ فرماتے ہیں." جو لوگ اس میں شامل ہونا چاہیں ان کے لیے لازمی ہے کہ سات دن تک متواتر اور بلاناغہ استخارہ کریں.عشاء کی نماز کے بعد دو نفل الگ پڑھ کر دعا کریں کہ اسے خُدا اگر میں اسکو نباہ سکوں گا تو مجھے اس میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما.ایک اور شرط یہ ہوگی کہ ایسا شخص خواہ امام الصلوۃ کے ساتھ اسے ذاتی طور پر کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو مرکزی حکم کے بغیر اس کے پیچھے نماز پڑھنا ترک نہ کریگا اور اپنے کسی بھائی سے خواہ اسے شدید تکلیف بھی کیوں نہ پہنچی ہو اس سے بات چیت کرنا ترک نہ کرے گا.اور اگر وہ دعوت کرے تو اسے رد نہ کرے گا.ایک اور شرط یہ ہے کہ سلسلہ کی طرف سے اسے جو سزا دی جائے گی اسے یہ بخوشی برداشت کرے گا اور ایک یہ کہ اس کام میں نفسانیت اور ذاتی نفع نقصان کے خیالات کو نظر انداز کر دیگا.“ الفضل یکم جنوری ۱۹۴۵ ) الفضل گیارہ جون ۹۵ہ کے مطابق وہ خوش نصیب مخلصین جو اس بابرکت تحریک میں شامل ہوتے ان کی تعداد ۱۷۷ تک پہنچ چکی تھی.نماز تہجد پڑھنے کی تحریک :- ذکر الہی.نوافل اور نماز تہجد کی ادائیگی کی تحریک حضور ہمیشہ ہی فرماتے تھے.اس بابرکت دور میں نوجوانوں کو خصوصیت سے اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا : " خدام کا فرض ہے کہ کوشش کریں سو فیصدی نوجوان نماز تحیر کے عادی ہوں یہ ان کا اصل کام ہو گا جس سے سمجھا جائے گا کہ دینی روح ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہوگئی ہے " نماز تہجد کے فوائد بیان کرنے کے بعد حضور نے فرمایا :

Page 382

با قاعدہ تہجد پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ سو فیصدی تہجد گزار ہوں الا ماشاء اللہ سواتے الیسی کسی صورت کے کہ وہ مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کرسکیں اور خدا تعالیٰ کے حضور ایسے معذور ہوں کہ اگر فرض نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا نہ کر سکیں تو قابل معافی ہوں " الفضل 2 جولاتی ۱۹۴۳-) سات مراکتہ قائم کرنے کی تحریک : تبلیغ اسلام کو زیادہ منظم و موثر طور پر کرنے کے لیے حضور نے ہندوستان کے مندرجہ ذیل سات اہم شہروں میں مساجد تعمیر کرنے اور تبلیغی مراکز قائم کرنے کی تحریک فرمائی.کراچی.مدراس بمبئی - کلکتہ.دہلی - لاہور - پشاور (الفضل راگست ۱۹۳۳ ) ۴ یہ تو ابتدا تھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ان سات شہروں کے علاوہ اور بھی قریباً ہر شہر اور قصبہ میں ایسے مراکز قائم ہو چکے ہیں جہاں جماعت کے قیام کے الہی اغراض و مقاصد کے حصول کی خاطر مخلصین جماعت بڑی توجہ اور محنت سے سرگرم عمل ہیں.مستورات کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی بہتر تعلیم و تربیت کے متعلق حضور پہلے تحریک فرما چکے تھے تاہم ایک سے زیادہ بیویوں کی صورت میں ہمارے معاشرہ میں بالعموم افسوسناک صورت حال سامنے آتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف بھی توجہ دلانے کی صورت فرمائی اور حضور نے رویاء میں دیکھا کہ کوئی احمدی دوست ہیں جن کی دو بیویاں ہیں اور ان کے ساتھ انصاف سے معاملہ نہیں کرتے اور حضور کی زبان پر مندرجہ ذیل الفاظ جاری ہوتے."آؤ اس فلم کو مٹا دیں" حضور نے ایک مجلس میں یہ رویا سنانے کے بعد فرمایا : " ہماری جماعت کے دوستوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیئے.جہاں انہیں کوئی ایسا واقعہ نظر آئے اور دیکھیں کہ ظلم ہو رہا ہے تو اس آدمی کو مجبور کریں کہ وہ انصاف کرے یا جائز طور پر ایک کو طلاق دیدے.......جو شخص احکام شریعت کی اس طرح اعلانیہ خلاف ورزی کرتا ہے وہ قیامت کے دن آدھا اُٹھایا جائے گا.الفضل ۳۱ اگست ۱۹۴۳ )

Page 383

۳۳ قرآن مجید اور بنیادی لٹریچر کے تراجم کی تحریک : انگریزی زبان میں ترجمہ کا کام تو جماعت میں ہو رہا تھا حضور نے اس مبارک دور میں اس کے علاوہ دنیا کی مشہور سات زبانوں میں قرآن مجید اور بعض دوسری بنیادی اہمیت کی گنتب کے تراجم شائع کرنے کی تحریک فرمائی.اور حضور نے فرمایا کہ اطالوی زبان میں ترجمہ کا خرچ میں ادا کروں گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ چونکہ پہلے مسیح کا خلیفہ کہلانے والا رپوپ - ناقل ) اٹلی میں رہتا ہے اس مناسبت سے قرآن مجید کا جو ترجمہ اطالوی زبان میں شائع ہو وہ صیح محمدی کے خلیفہ کی طرف سے ہونا چاہیتے اس تحریک پر جماعت نے جس عجیب والہانہ رنگ میں لبیک کہا اس پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ ادھر بات منہ سے نکلتی ہے اور ادھر پوری ہو جاتی ہے باوجو د خطیبہ کے دیر سے شائع ہونے کے 4 دن کے اندر سات زبانوں کے تراجم کے اخراجات کے وعدے آگئے.......نو تراجم کے اخراجات کے وعدے آچکے ہیں یہ خُدا کا کتنا بڑا فضل اور انعام ہے کہ جماعت کے ایک تھوڑے سے حصہ نے نهایت قلیل عرصہ میں مطالبہ سے بڑھ کر وعدے پیش کر دیتے ہیں.خاص کر قادیان کی غریب جماعت نے اس تحریک میں بہت بڑا حصہ لیا " الفضل ۲ نومبر ۳ة ) نیز فرمایا : - قرآن مجید کے سات تراجم کے متعلق تحریک کی تھی جہاں تک اس کی کامیابی کا سوال تھا مجھے اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس وقت تک خدا تعالی کا میرے ساتھ ہمیشہ یہ معاملہ رہا ہے کہ وہ جب کبھی میرے منہ سے کوئی بات نکلواتا ہے تو اس کی کامیابی کے سامان بھی کر دیتا ہے لیکن اس میں ایک نئی بات پیدا ہوگئی ہے کہ اس تحریک کے بعد جو درخواستیں آتی ہیں وہ ہمارے مطالبہ سے بہت زیادہ ہیں.......اب ان جماعتوں یا افراد کی طرف سے جن کا حصہ نہیں لیا جاسکا الحارج کی چٹھیاں آرہی ہیں اور وہ اصرار کے ساتھ لکھ رہی ہیں کہ نہیں بھی اس چندہ میں حصہ لینے کا موقع دیجئے ؟ ۱۹۴۴- A الفضل نومبر ۹۴ ) کمیونزم جو موجودہ زمانے کا بہت بڑا فتنہ اور روحانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے کا ایک بہت

Page 384

مسم بڑا ذریعہ ہے اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا ؛ " جماعت کے علما اور واقفین اور مدرسہ اور جامعہ کے طلباء بھی اچھی طرح کمیونسٹ تحریک کا مطالعہ کریں اور ان کے جوابات سوچ چھوڑیں اور اگر کسی امر کے متعلق تسلی نہ ہو نو میرے ساتھ بات کرلیں اسی طرح کا لجوں کے پروفیسروں اور سکولوں کے اساتذہ کو ماہیئے کہ میونسٹ تحریک کے متعلق اپنا مطالعہ وسیع کریں اور اگر گوئی کی رہ جائے تو مجھ سے مل کر ہدایات لے لیں......یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ زیادہ مقابلہ ہمارا کمیونسٹوں سے ہی ہے.انہوں نے دہریت کو مذہب کے طور پر بنالیا ہے.خدا تعالیٰ سے یہاں تک ہنسی اور تمسخر کیا جاتا ہے اور ایسے ڈرامے کھیلے جاتے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کو نعوذ باللہ مجرم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے نعوذ باللہ دنیا میں فساد اور خرابی پیدا ہوئی اور پھر کمیونسٹ حج خدا تعالیٰ کو نعوذ بالہ پھانسی کی سزا دیتا ہے کہ میں اس پہلے کو پھانسی کی سزا دیتا ہوں کیونکہ اس کے وجود کے خیال کی وجہ سے دنیا میں تمام خرابی پیدا ہوئی ---- اس کی تمام کامیابی عارضی اور سطحی ہے.موجودہ جنگ کے بعد اس تحریک کا کلی طور پر دنیا کو مقابلہ کرنا ہوگا اور یہی وہ آخری لڑائی ہوگی جو ظاہری لحاظ سے سیاسی وجوہ کی بنام پر لڑی جائے گی مگر وہ لڑائی ایسی ہوگی کہ خدا تعالیٰ دوسروں کو آگے کر کے مذہب کے لیے راستہ کھول دیگا " الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۲۳ ) خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ حضور کی اس پیش خبری کے مطابق کمیونزم کے طوفان کا زور ٹوٹ چکا ہے اور مذہب کے لیے رستے کھل رہے ہیں.حضرت مصلح موعودہؓ کی ان تحریکات کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے پہلے سے نازل ہونے والے افضال و برکات میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا.جماعت کی کثرت کی وجہ سے مسجد مبارک میں توسیع کی ضرورت پیش آگئی.حضور اس کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں : " میں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس مسجد کو پہلو کی طرف بڑھا دیا جائے.اس سے انشاء اللہ یہ مسجد موجودہ مسجد سے دگنی ہو جائے گی.......میں اپنے قلب میں ایسا محسوس کرتا ہوں جیسے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ انکشاف ہوتا ہے گو س العام یا روبار کی بناء پر میں یہ نہیں کہہ رہا مگر میرا قلب یہ محسوس کرتا ہے کہ ہر شخص جو یہاں نماز پڑھنے کے لیے آتا ہے وہ سلسلہ کی ترقی کے لیے ایک نیا باب کھولتا ہے.(الفصل 4 اپریل لہ ) ۱۶

Page 385

۳۸۵ تحدیث نعمت : اہم مقامات پر جلسوں کا انعقاد : حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی تضرعات اور ابتہال کی قبولیت اور رحمت و قدرت اور قربت کے اس نشان کے اس شان سے پورا ہونے پر کہ جس سے دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہوا اور باطل اپنی نحوستوں کے ساتھ بھاگتا ہوا اور حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ جلوہ نما ہوتا ہوا نظر آنے لگا.حضرت مصلح موعود نے تحدیث نعمت - دعوت و تبلیغ اور اتمام حجت کی خاطر بعض اہم مقامات پر عام جلسے منعقد کرنے کا فیصلہ فرمایا چنانچہ : ۲۰ فروری ۱۳ہ کو ہوشیار پور ۱۲ مارچ نہ کو لاہور ۲۳ مارچ ۹۴۳ہ کو لدھیانہ ۱۶ اپریل ۱۹۴۷ تہ کو دہلی میں شاندار جلسے منعقد ہوئے.ان جلسوں میں شرکت کے لیے حضور کی طرف سے خاص ہدایت جاری ہوتی تھیں جس کے مطابق جلسہ میں شریک ہونے والے خوش قسمت احمدی ذکر الہی اور دعاؤں کے خاص التزام کے ساتھ بڑے وقار اور بردباری سے صحیح اسلامی تعلیم و تربیت کا نقشہ پیش کرتے ہوئے اس طرح سفر کرتے کہ دیکھنے والے اس نظارہ سے اس قدر متاثر ہوتے تھے کہ ایک مشہور معاند احمدیت نے اپنے اخبار میں لکھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ صحابہ مکہ فتح کرنے جارہے ہیں ان سفروں کے انتظامات کی نگرانی بالعموم حضرت میر محمد احاق صاحب کے زمہ تھی.جنہوں نے اپنے حسن انتظام اور مومنانہ تدبر و فراست سے ان جلسوں میں شرکت کے لطف کو دوبالا کر دیا.ان جلسوں میں حضور کی خواہش کے مطابق بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے فریضہ کی ادائیگی کی سعات پانے والے مبلغین کرام اپنی خدمات کا مختصر تذکرہ کرتے جس سے ثابت ہوتا کہ حضرت مصلح موعود کے ذریعہ قور میں برکت حاصل کر رہی ہیں اور دین اسلام کا شرف ومرتبہ ظاہر ہو رہا ہے.حضور اپنی تقریر سے پہلے بعض قرآنی ادعیہ کا اس طرح ورد فرماتے کہ سارے مجمع پر سوز در قمت طاری ہوتی.معاصر الفضل اس کیفیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتا ہے : " حضرت مصلح موعود تقریر کے لیے کھڑے ہوتے اور تشہد و تعوذ کے بعد حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت فرمائی.حضور جب اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْقِيمَ صِرَا الَّذِينَ الْعَمْتَ عَلَيْهِمْ" کے قرآنی الفاظ پر پہنچے تو حضور نے دوبارہ اپنی با برکت

Page 386

ا الفاظ کو نہایت سوز، تضرع اور ابتہال کے ساتھ اللهُمَّ يَارَتِ " اهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيمَ.صِرَاطَ الَّذِينَ الْغَمُتُ عَلَيْهِمْ " کہہ کر دوہرایا.ان الفاظ میں اور حضور کی آواز میں جو اس وقت الہی تصرف کے ماتحت معلوم ہوتی تھی.ایسا درد بھرا ہوا تھا کہ سنے والوں کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں.ان کے قلوب درد سے بھر گئے.رقت خالہ آگئی اور گریہ وزاری کا عالم طاری ہوگیا.اور انہوں نے بھی اپنے دل میں انہی الفاظ کو نہایت عجز و انکسار کے ساتھ دہرایا.ازاں بعد حضور نے مندرجہ ذیل ادعیہ ماثورہ پڑھیں جنہیں جماعت کے احباب نے بھی حضور کی آواز کے ساتھ ساتھ نہایت رقت اور سوز سے دہرایا.ا رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلُ عَلَيْنَا إصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرُ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَولَنَا فَانْصُرُنَا عَلَى الْقَوْمِ الكَافِرِينَ.-٣ رَبَّنَا امَنَا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ رسورة آل عمران ۵۴۰ ) ز سورة بقره : ۲۸۷ ) الشَّاهِدِينَ - -٣- رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَاسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتُ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكَفِرِينَ (آل عمران : ۱۳۸ ) يَتَنَا إِنَّنَا سِمعُنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلإِيمَانِ اَنْ أمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَا مَنَارَتِنَا فَاغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا وَحَفِر عَنَّا سَبِياتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأَبْرَارِه رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقَيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادِ - (آل عمران : ١٩٣ ١٩٥٠ ) ۱۹۴ - ۱۹۵) ه - رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.رال عمران : ٩) یہ دُعا میں حضور کی زبان مبارک سے کچھ ایسے درد اور سورہ کے ساتھ بلند ہوئیں کہ تمام مجمع کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں.دل اللہ تعالیٰ کی حیثیت اور اس کی محبت سے بھر گئے اور آہ و بکا کی آوازہ ہر طرف سنائی دینے لگی.حضور نے دعائیں پڑھنے کے بعد فرمایا:

Page 387

" یہ اللہ تعالیٰ کی وہ دُعائیں ہیں جن میں انبیا.اور اُن کی ابتدائی جماعتوں کے لیے خدا نے ایک طریق راہ بیان فرمایا ہے.اس کے بعد میں قرآنی الفاظ میں ہی اپنے رب کو مخاطب کر کے اس کے حضور نذر عقیدت پیش کرتا ہوں.دوست بھی ان الفاظ کو دہراتے جائیں : چنانچہ حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ اپنی زبان مبارک سے ادا فرمائے.امَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعُقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ ( آل عمران : ۸۵ ) مُسلِمُونَ.تمام مجمع نے ایک بار پھر اشکبار آنکھوں اور دردمند قلوب کے ساتھ ان الفاظ کو دہرایا اور اس وقت یوں محسوس ہوا کہ آسمان سے انوار الہیہ کا نزول ہو رہا ہے اور فرشتے دلوں کو ہر قسم کی میں کھیل سے صاف کر کے انہیں پاکیزہ و مطر بنا رہے ہیں ؟ الفضل وار فروری ۹۵۶انه ) ان جلسوں میں حضور مصلح موعود کی پیشگوئی اس بارہ میں خدائی انکشاف اور پھر اس نشان کے پورا ہونے کا نہایت پر شوکت اور موثر رنگ میں بیان فرماتے.وہ نظارہ بہت رُوح پرور اور وجد آفرین تھا جب حضور نے اس مکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلہ کشی فرمائی تھی یہ اعلان فرمایا کہ : " میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس شہر ہوشیار پور میں سامنے والے مکان میں نازل ہوئی جس کا اعلان آپ نے اس شہر سے فرمایا.وہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے پوری ہو چکی ہے اور اب کوئی نہیں جو اس - الفضل 9 فروری شاه ) پیشگوئی کا مصداق ہو سکے.لاہور کے جلسہ میں بھی مبلغین کی تقاریر اور عرش الہی کو ہلا دینے والی دعا کے بعد حضور نے حق تبلیغ ادا کرتے ہوئے فرمایا : " اسے اہل لاہور میں تم کو خُدا کا پیغام پہنچاتا ہوں میں تمہیں سے ازلی ابدی خدا کی طرف بلاتا ہوں جس نے تم سب کو پیدا کیا تم مت سمجھو کہ اس وقت میں بول رہا ہوں اس وقت میں نہیں.

Page 388

بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے.میرے سامنے دین اسلام کے خلاف جوشخص بھی آواز بلند کرے گا اس کی آواز کو دبا دیا جائے گا.وہ رسوا کیا جائے گا وہ تباہ اور برباد کیا جائے گا مگر خدا بڑی عزت کے ساتھ میرے ذریعہ اسلام کی ترقی اور اس کی تائید کے لیے ایک عظیم الشان بنیاد قائم کر دے گا.میں ایک انسان ہوں میں آج بھی مرسکتا ہوں اور کل بھی مرسکتا ہوں لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ میں اس مقصد میں ناکام رہوں جس کے لیے خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے.......اگر دنیا کسی وقت دیکھ لے کہ اسلام مغلوب ہو گیا.اگر دنیا کسی وقت دیکھ لے کہ میرے ماننے والوں پر میرے انکار کرنے والے غالب آگئے تو بے شک سمجھ لو کہ میں ایک مفتری تھا، لیکن اگر یہ خبر سیتی نکلی تو تم خود سوچ لو تمہارا کیا انجام ہو گا کہ تم نے خدا کی آواز میری زبان سے سنی اور پھر الفضل ۱۸ار فروری شو ) بھی اسے قبول نہ کیا اسی خطاب میں آپ نے اپنے دعوی کے متعلق حلفیہ بیان دیتے ہوئے فرمایا : میں اسی واحد و قہارہ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھا نا لعنتیوں کا کام ہے اور جس پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بیچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں سا ٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی ہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دُنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہو گی." الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۴۷ اس جلسہ میں حضور نے جماعت احمدیہ کی بے مثال جانی و مالی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ایک طرف اگر خدا نے یہ خبر دی کہ وہ میرے ذریعہ دنیا میں اسلام کا نام روشن کر گیا تو دوسری طرف اس نے ایک جماعت میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے وہ ایمان پیدا کر دیا جس کی مثال آج روئے زمین پر اور کوئی جماعت پیش نہیں کر سکتی.ابھی ایک خطبہ جمعہ میں میں نے جماعت کے سامنے اعلان کیا کہ اسلام اس وقت تم سے خاص قربانی کا مطالبہ کر رہا ہے.تم اگر خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی تمام جائیدادیں اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دو تا کہ جب بھی اسلام پر کفر کا حملہ ہو ہیں اس کے مقابلہ کے لیے یہ پریشانی نہ ہو کہ ہم روپیہ کہاں سے لاتیں بلکہ ہر وقت ہمارے پاس جائیدادیں موجود ہوں

Page 389

۳۸۹.جن کو فروخت کر کے یا گروی رکھ کر ہم اسلام کی تبلیغ آسانی سے کر سکیں.ہماری جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے.ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے مگر جمعہ کے دن دو بجے میں نے یہ اعلان کیا اور ابھی رات کے دس نہیں بجے تھے کہ چالیس لاکھ روپیہ سے زیادہ کی جائیدادیں انہوں نے میری آوازہ پر خدمت اسلام کے لیے وقف کر دیں.جن میں پانچ سو سے زیادہ مربع زمین ہے اور ایک سو سے زیادہ مکان ہیں اور لاکھوں رو پیر کے وعدے ہیں یہ وہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کے نشانات ہیں جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہتے ہیں اور جن کے بعد کوئی ازلی شقی ہی خدا تعالیٰ کے اس نور کو قبول کرنے سے انکار کر سکتا ہے.میں نے اس سے پہلے جس قدر مبلغ دنیا میں بھیجو اتے وہ قریباً سب کے سب انڈی تھے.کوئی کالج میں سے نکلا تو میں نے اس سے کہا کہ خدا کے دین کے لیے آج مبتخوں کی ضرورت ہے.کیا تم اس خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہو ؟ اور میرے کہنے پر وہ تبلیغ کے لیے نکل کھڑا ہوا یہی مولوی ظور حسین صاحب جنہوں نے ابھی روس کے حالات بیان کئے ہیں جب انہوں نے مولوی فاضل پاس کیا تو اس وقت لڑکے ہی تھے ہیں نے اُن سے کہا کیا تم روس جاؤ گے ؟ انہوں نے کہا میں جانے کے لیے تیایہ ہوں.میں نے کہا جاؤ گے تو پاسپورٹ نہیں لے گا.کہنے لگے بے شک نہ ملے.میں بغیر پاسپورٹ کے ہی اس ملک میں تبلیغ کے لیے جاؤں گا.آخر وہ گئے اور دو سال جیل میں رہ کر انہوں نے بتا دیا کہ خدا نے کیسے کام کرنے والے وجود مجھے دیتے ہیں.خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو گھر کو ایک لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں.خدا نے مجھے وہ دل بجھتے ہیں جومیری آواز پر ہر قربانی کے لیے تیار ہیں.میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لیے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہیں.میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لیے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرا دیں.میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کود جانے کا حکم دوں تو وہ جلتے تنوروں میں گود کر دکھا دیں.اگر خود کشی حرام نہ ہوتی ، اگر خود کشی اسلام میں نا جائز نہ ہوتی تو ہیں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سو آدمیوں کو ئیں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر بلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتا.خدا نے نہیں اسلام کی تائید کے لیے کھڑا کیا ہے.خدا نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرنے کے لیے کھڑا کیا ہے؟ الفضل ١٨ فروری ۱۹۵۷ مصلح موعود نمبر ) ۱۸ -

Page 390

لدھیانہ کے جلسہ کے وقت شدید بارش کی وجہ سے موسم خراب تھا رستہ دشوار گزار اور انتظام کرنے ہیں مشکلات پیش آرہی تھیں.مگر خُدائے ذوالعجائب برکتوں کے وعدے دے رہا تھا.اس فضل الہی کے متعلق حضور فرماتے ہیں: جب ہم لدھیا نہ جا رہے تھے تو اس روز بارش ہو رہی تھی.رستے خراب تھے نہ والوں نے بھی انکار کر دیا کہ ہم دروازہ نہیں کھول سکتے.دنہر کی پٹری پر سفر کے لیے.یاد رہے کہ نہر کی پینٹری کا رستہ بہتر اور مختصر تھا.ناقل ) غرض ایسی حالت ہو گئی کہ میں ڈرتا تھا کہ شاید ہمارا جلسہ بھی ہو سکے یا نہ ہو سکے.مگر اسی حالت میں مجھے الہام ہوا : " بہت سی برکتوں کے سامان کروں گا......میں حیران ہوا کہ حالت تو یہ ہے کہ بارش ہو رہی ہے اور نہروالے بھی رستہ نہیں دے رہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بہت سی برکتوں کے سامان کرونگا به الهام لدھیا نہ جانتے ہوئے راستہ میں ہی مجھے ہوا " الفضل ۲۵ جون ۱۹۳۲ : یہ ان مشکلات میں مخالفین کی طرف سے تمسخر و استہزاء اور گالی گلوچ کے طوفان نے اور زیادہ مشکل صورت حال پیدا کر دی.مگر لاکھوں کی جماعت کا محبوب امام بارش میں بھیگتا ہوا اپنی مخصوص نشان دلربانی کے ساتھ جلسہ گاہ میں آیا اور اپنے خطاب میں اپنی روایتی اولوالعزمی اور مخصوص حلم و فہم کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا.ہم ان لوگوں سے ناراض نہیں ہیں.جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی باتوں سے استہزار کیا.ہم ان کے لیے بھی دعا ہی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے خدا ان لوگوں نے جو کچھ کیا ، نادانی سے کیا.نا واقعی سے کیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بھلانے کی وجہ سے استہزاء کیا مگر اے خدا تو ان کو معاف کر اور ان کو ہدایت دے اور ان کے قلوب کو سچ کے قبول کرنے کے لیے کھول دے ----- انہوں نے آج اس بات پر استہزاء کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جس پر استہزاء کا اب تک نہ ہونا مجھے حیران کر رہا تھا.سو اللہ تعالیٰ نے آج میری یہ خواہش بھی ان لوگوں کے ذریعہ سے پوری کردی کیونکہ انہوں نے خوب مخالفت کی ہنسی اڑائی.اس قسم کا سلوک اب تک کسی اور شہر میں نہیں ہوا تھا.سوئیں ان لوگوں کے لیے دنما کرتا ہوں.سواے اہل لدھیانہ جنہوں نے میری موت کی تمنا کی.میں تمہارے لیے زندگی کا پیغام لایا ہوں.ابدی زندگی اور دائمی زندگی کا پیغام - ایسی ابدی زندگی کا پیغام جس کے بعد فنا نہیں

Page 391

۳۹۱ اور کوئی موت نہیں.میں تمہارے لیے خدا تعالیٰ کی رضا کا پیغام لایا ہوں جیسے حاصل کرنے کے بعد انسان کے لیے کوئی دکھ نہیں رہتا اور مجھے یقین ہے کہ آج کی مخالفت کل دلوں کو ضرور کھولے گی " الفضل ۱۸ فروری ۹۵ ) جلسه دلی : دلی جو ہندوستان کا دارالحکومت اور حضرت مصلح موعود کا نہال ہونے کی وجہ سے جماعت پر ایک حق رکھتا تھا.وہاں پر بھی ایک عظیم الشان جلسہ ہو ا جس میں اس سلسلہ حقہ کی صداقت بیان کرنے اور تبلیغ اسلام کے دنیا کے کناروں تک پہنچ جانے کی شہادت و گواہی اور نہایت رقت انگیز ڈھا کے ساتھ جلسہ ہوا.اس جگہ مخالفین کی کوشش تھی کہ وہ کسی بھی قیمت پر ہمارا جلسہ نہ ہونے دیں.دشمنوں کی مخالفت اور اس کے مقابل پر حضرت مصلح موعود کا صبر و تحمل اور جرات و بہادری سلسلہ کی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے جس سے تائید الہی اور حضور کی سیرت کے بہت سے حسین پہلو نمایاں ہوتے ہیں.اس لیے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تفصیل حضور کی زبانی ہی سنی جائے.حضور اس امر کا ذکر کرنے کے بعد کہ مخالفین ہمارے جلسہ کو روکنے کے لیے ہر طرح کے منصوبے بہت پہلے سے ہی بنا رہے تھے اور یہ کہ تلاوت قرآن مجید کے وقت جب قاری کے منہ سے ایک مقام پر زمیہ کی جگہ زیر ادا ہوئی تو اس کو بہانہ بناتے ہوتے شور و شرارت شروع کر دی گئی.حضور فرماتے ہیں :." پس ان لوگوں کا شروع سے ہی طریق اشتعال انگیز تھا.ہم نے پہلے جلسہ گاہ میں نماز پڑھی.پھر قرآن کریم کی تلاوت شروع ہوئی.مگر ان سب باتوں سے بھی پہلے سے یہ لوگ آوازے کس رہے تھے.اس جھگڑے کے بعد ان لوگوں نے سارے شہر میں یہ اعلان کیا کہ احمدیوں نے تم پر حملہ کردیا ہے اور لوگوں کو وہاں چلنا چاہتے.نتیجہ یہ ہوا کہ چاروں طرف سے لوگ اکٹھے ہو گئے اور سات آٹھ ہزار کی تعداد میں جلسہ گاہ کے اردگرد جمع ہو گئے.لاؤڈ سپیکر تو خراب ہی تھا.اس لیے ان لوگوں کا شور و شر جلسہ کی کارروائی کو خراب کر رہا تھا.پھر بھی اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ میری تقریر کے دوران میں وہ کوئی ایسی بات نہ کر سکے کہ تقریر رک جائے.لیکن جب مبلغین نے تقریریں شروع کیں اور انہوں نے سمجھا کہ شاید اب ہماری تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ہم حملہ کرسکتے ہیں تو انہوں نے اور بھی زور سے نعرے لگانا اور آگے بڑھنا شروع کیا.پولیس نے ان کو روکا.مگر وہ رکے نہیں.اتنے میں مجھے پاؤں کی آوازیں زور سے آنی شروع ہوئیں اور میں نے کھڑے ہو کر

Page 392

۳۹۲ دیکھا تو سینکڑوں لوگوں کا ایک گروہ عورتوں کی جلسہ گاہ کی طرف حملہ کرنے کے لیے بھاگا جا رہا تھا.یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے کوئی شریف قوم برداشت نہیں کر سکتی.پولیس بھی ان کو روکنے کے لیے دوڑی وہ لوگ پولیس کے پہلو بہ پہلو دوڑ رہے تھے مگر پہلے وہاں پہنچ گئے.زنانہ جلسہ گاہ کے اردگرد قناتیں تھیں.ایک قنات کے اندر صحن تھا اور پھر آگے جا کر دوسری قنات تھی اور اس کے اندر عورتیں بیٹھی تھیں.اگر ایسا نہ ہوتا تو جلسہ کا ایسا خطرناک انجام ہوتا کہ ممکن ہے بہت زیادہ خون خرابہ ہو جاتا.ان لوگوں نے پہلی قنانوں کو پھاڑ دیا اور گرا دیا.اتنے میں پولیس بھی پہنچ گئی.مگر معلوم ہوتا ہے کہ باہر کے پردہ کے اندر جب انہوں نے دیکھا کہ عورتیں نہیں ہیں تو غالباً یہ سمجھا کہ عورتیں یہاں سے چلی گئی ہیں.اور اگلی قناتوں تک وہ نہ گئے.اور اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس بڑے خطرہ سے ہمیں بچا لیا.ورنہ اگر عورتوں کی بے حرمتی تک نوبت پہنچتی تو پھر کوئی شریف آدمی صبر سے کام نہ لے سکتا تھا.اگر خدانخواستہ ایسا ہو جاتا تو دہلی وہ نظارہ دیکھیتی جو اس نے گذشتہ انٹی سال میں نہیں دیکھا.جب انہوں نے عورتوں پر حملہ کا ارادہ کیا تو میں نے حکم دیا کہ ایک سو مضبوط نوجوان جاکر عورتوں کی جلسہ گاہ کے باہر کھڑے ہو کر پہرہ دیں.عورتوں کا احترام نہایت ضروری اور لابدی ہے.اس لیے وہی کھڑا ہو جو مرنا جانتا ہے بلکہ میں نے یہاں تک کہا کہ اگر تم میں سے کوئی مرنا نہیں جانتا تو وہ ہرگز نہ جائے.وہ واپس آجاتے اس کی جگہ میں خود جانے کو تیار ہوں کیونکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مرنا جانتا ہوں.اس وقت جو غیر مسلم اور غیر احمدی خواتین وہاں تھیں.ان کے رشتہ داروں نے کہلا بھیجا کہ ہمیں اپنی مستورات کی نسبت بہت گھبراہٹ ہے.خطرہ بہت ہے کوئی انتظام کیا جائے.اس پر میں نے ان کی تسلی کے لیے اعلان کیا کہ آپ فکر نہ کریں.اپنی عورتوں سے پہلے ہم آپ کی عورتوں کی حفاظت کریں گے.چنانچہ وہ اس امر کے شاہد ہیں کہ ہم نے وہ وعدہ پورا کر دیا.بعض غیر احمدی مستورات کے ساتھ میری بیٹیاں گئیں اور ان کو گھر پہنچا کہ پھر اپنے گھر آئیں.جب وہ ہجوم وہاں سے ہٹا تو پھر مختلف جہات سے سنگباری شروع ہوگئی اور وہ لوگ آگے بڑھنے لگے.حتی کہ ایک دفعہ اتنے قریب آگئے کہ سٹیج کے پاس پتھر پڑنے لگے یہ وہی موقع تھا جب میرے داماد میاں عبدالرحیم احمد صاحب کے سر پر چوٹ آئی.بعد

Page 393

۳۹۳ میں ایکسرے سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے سر کی ہڈیاں تین جگہ سے ٹوٹ چکی ہیں اور حالت خطر ناک ہے.اسی طرح اور بھی بہت سے احمدی زخمی ہوئے.پہلے تو خیال تھا کہ زخمیوں کی تعداد ۲۴ ۲۵ ہے.مگر بعد میں معلوم ہوا کہ چالیس کے قریب ہے.ان میں سے بعض کی ضربات شدید ہیں.جیسے میاں عبدالرحیم احمد صاحب اور میاں فضل کریم صاحب پراچہ کی.ان کے ہاتھ کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں.چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی.اے.ایل.ایل.بی واقف تحریک جدید کے بھی سخت چوٹ آتی ہے اور شبہ ہے کہ ان کی آنکھ کے پاس کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے.اب تک وہ سر نہیں اُٹھا سکتے.مگر میں اس تمام عرصہ میں متواتر اپنے تمام آدمیوں کو یہ نصیحت کر رہا تھا کہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں.ماریں کھائیں مگر جواب نہ دیں.اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ دشمن کی جو غرض تھی کہ جلسہ نہ ہو اور میں تقریر نہ کر سکوں.وہ پوری نہ ہوسکی.اور ہم نے دعا اور تقریر کے بعد جلسہ ختم کیا.جب خطرہ بڑھا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ عورتوں کو وہاں سے پرہ کے اندر محفوظ مقامات پر پہنچا دیا جائے.پہلے غیر مسلم اور غیر احمدی خواتین کو پہنچائیں پھر احمدی خواتین کو.اس کے لیے لاریاں منگوائی گئیں اور جس جس جگہ کو عورتوں نے اپنے لیے محفوظ سمجھا وہاں ان کو پہنچا دیا گیا.مثلا سکھ عورتوں نے کہا ہمیں گوردوارہ میں پہنچا دیا جاتے.چنانچہ ان کو گوردوارہ میں پہنچا دیا گیا.اور عورتوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک ہمیں جلسہ گاہ میں انتظار کرنا پڑا.مگر ان لوگوں کی شرافت کا یہ حال تھا کہ انہوں نے اُن لاریوں پر بھی حملہ کیا جو عور توں کوئے جارہی تھیں.چنانچہ ایک لاری جس میں عورتیں تھیں انہوں نے اس کے آگے لاٹھیاں وغیرہ رکھکر روک لی.مگر میں چونکہ جانتا تھا کہ یہ لوگ ایسے اخلاق کے مالک ہیں.اس لیے میں نے ہر لاری کے ساتھ محافظ بھیجوانے کا حکم دیا تھا.جب لاری رُک گئی تو انہوں نے بے تحاشا پتھر برسانے شروع کر دیتے.ان حملوں میں بھی ہمارے بعض نوجوان زخمی ہوئے اور بعض تو جب واپس آتے تو سر سے پاؤں تک خون میں نہائے ہوتے تھے.مگر اس موقعہ پر بھی اللہ تعالیٰ نے دشمن کو یہ بتا دیا کہ گو احمدی صبر کرتے ہیں مگر جب اُن پر خواہ مخواہ حملہ کیا جاتے خصوصاً جب عورتوں کی حفاظت کا سوال ہو تو وہ ڈرتے نہیں.اسی سلسلہ میں ایک ہندو ر میں نے ڈاکٹر لطیف صاحب کو سنا یا کہ میں سٹرک پر جا رہا تھا کہ سامنے

Page 394

۳۹۴ سے ایک لاری آتی دیکھی جس میں عورتیں تھیں کئی سو آدمیوں کا ایک ہجوم آگے بڑھا اور لاری کو روک لیا.لاری کے ساتھ چند ایک نوجوان تھے.جب ہجوم نے لاری کو روکا تو میں نے خیال کیا کہ اب ان جوانوں کی خیر نہیں.ہجوم نے پتھر برسانے شروع کئے مگر میرے دیکھتے دیکھتے پانچ سات نوجوان آگے آئے اور انہوں نے سینکڑوں لوگوں کا مقابلہ کیا.میں یہ دیکھ کر حیران تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ نوجوان مارے جائیں گے مگر ابھی دو تین منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ میں نے دیکھا وہ ہجوم بھیڑوں بکریوں کی طرح بے تحاشا بھاگا جارہا تھا اور لاری اور اس کے محافظ سائیکلسٹ آرام سے اپنی منزل مقصود کی طرف جارہے تھے.بات یہ ہے کہ ہم امن کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اور گورنمنٹ کا کام اپنے ہاتھ میں لینا نہیں چاہتے.ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتیں جہاں صبر کرنا جانتی ہیں وہاں مرنا بھی جانتی ہیں.اور جو قوم مرنے کے لیے تیا بہ ہو اسے کوئی نہیں مار سکتا.میں خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہ سکتا ہوں کہ یہ سات آٹھ ہزار آدمی نہیں اگر دہلی کے تمام لوگ بھی ہم پر حملہ کرتے تو بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم ان کو بھگا دیتے.مگر ہم نے پولیس کے کام میں دخل دینا پسند نہ کیا.جب عورتوں کی لاریوں پر انہوں نے حملہ کیا تو وہاں احمدیوں نے مقابلہ کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے چند آدمی سینکڑوں کو بھگا کرے گئے.غیر مسلم اور غیر احمدی خواتین کو خطرہ کا بہت احساس تھا.بعض تو گھبراہٹ میں کا نینے لگیں.مگر اس وقت احمدی عورتوں نے بھی بہادری دکھائی اور ان کے ارد گرد قطار باندھ کر کھڑی ہو گئیں اور کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں.اگر کوئی اندر آیا بھی تو ہم مقابلہ کرینگی.حکومت ہند کے سیکرٹری صاحب کی اہلیہ صاحبہ بھی جلسہ میں تھیں.اُن کو جب موٹر میں بٹھایا گیا تو اُن کے ایک طرف میری لڑکی بیٹھ گئی اور دوسری طرف ایک اور غیر احمدی خاتون جو بہا در دل کی تھیں تا اگر باہر سے پتھر وغیرہ آئیں تو ان کو نہ لگیں اور اس طرح موٹر میں بٹھا کر ان کو گھر پہنچایا گیا.تواللہ تعالیٰ کے فضل سے اس موقعہ پر عورتوں نے بھی ثابت کر دیا کہ اگر موقعہ آتے تو وہ جان دینے سے دریغ نہیں کرتیں.بہر حال رات تک یہ شور و شہر ہوتا رہا.آخر جب عورتیں چلی گئیں.تب میں نے افسروں سے کہلا بھیجا کہ اب ہم نے جانا ہے کیا آپ لوگ ہمارے لیے رستہ بنادینگے یہام خود بائیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم خود آپ لوگوں کو بحفاظت پہنچائیں گے.چنانچہ پولیس گاردہمارے آدمیوں کے آگے پیچھے ہو کر انہیں محفوظ

Page 395

۳۹۵ جگہ پہنچا آئی...الفضل ۲ رمتی ۱۹۲۴ ۳ ہمارے جلسہ کو ناکام بنانے اور جماعت کی مخالفت میں شر و فساد کرنے والوں کو نہایت پر حکمت انداز میں مقابلہ کی دعوت دیتے ہوئے حضور نے فرمایا :- اس شور و شر سے کچھ فائدہ نہ ہوگا.آپ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے دلوں میں اسلام کا در دہے اور آپ اپنے زعم میں نہیں دشمن اسلام تصور کرتے ہوئے ہمارے مٹانے کے درپے ہیں.انسان نے بہر حال ایک دن مرنا ہے.کوئی پہلے مرجاتے گا کوئی پیچھے مرے گا.اس لیے آؤ میں ایک مفید اور صحیح طریق فیصلہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو بتا دیا کہ ہم میں سے کونسا فراق اپنے دلوں میں اسلام کی سچی محبت اور اس کے لیے سچا در درکھتا ہے اور اس سے تبلیغ اسلام کو بھی بہت بڑا فائدہ پہنچے گا.اور وہ طریق فیصلہ یہ ہے کہ آپ لوگ اپنی اپنی جماعت اور اپنے اپنے ہم خیال لوگوں میں سے اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے نوجوانوں اور تبلیغ دین کے لیے اپنی جائیدادیں اور اموال راہِہ خُدا میں دینے والے اشخاص کا مطالبہ کریں تاکہ اس کے ذریعہ سے بلا د عر بیہ اور اطراف و اکناف عالم میں اسلام کی تبلیغ ہو سکے.میں بھی اپنی چھوٹی اور غریب جماعت سے یہی مطالبہ کروں گا.اس کے نتیجہ سے دنیا پر واضح ہو جائے گا کہ کن کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ہاتھ ہے اور کونسا فریق اسلام کا حقیقی خیر خواہ اور دلوں میں اس کا سچا درد رکھتا ہے.میری تازہ تحریک پر جو میں نے اپنی جماعت میں ابھی حال ہی میں کی ہے اس وقت تک ڈیڑھ سو اعلی تعلیم یافتہ نوجوان اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر چکے ہیں.اور ایک کروڑ روپیہ کی جائیداد اس وقت تک وقف ہو چکی ہے.پس گالیاں دینے.اینٹ اور پتھر برسانے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.اگر آپ لوگ سچے ہیں تو میں دعوت دیتا ہوں کہ میدان میں نکلیں اور اس طریق فیصلہ کو قبول کرکے اپنے دعوی کی صداقت کو ثابت کریں.الفضل ۶ رمتی ۱۹۴۲ تر : مخالف علماء کو قرآنی معارف و تفسیر لکھنے میں مقابلہ کی دعوت دیتے ہوتے آپ نے فرمایا :- میں یہ دعوی کرتا ہوں کہ بے شک ہزار عالم بیٹھ جائیں اور قرآن مجید کے کسی حصہ کی تفسیر میں میرا مقابلہ کریں.مگر دنیا تسلیم کرے گی کہ میری تفسیر ہی حقائق و معارف اور روایات کے لحاظ سے بے نظیر ہے" ا فرقان اپریل کے ا م ) (

Page 396

۳۹۶ جماعت احمدیہ کی صداقت اور دعاوی پر کامل یقین وایمان کا آئینہ دار یہ پر شوکت بیان بھی حضور نے اسی جلسہ میں ارشاد فرمایا کہ : "اگر میں اس بیان میں سچا ہوں اور آسمان وزمین کا خدا شاہد ہے کہ میں سچا ہوں تو یاد رکھنا چاہتے کہ آخر ایک دن میرے اور میرے شاگردوں کے ذریعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ساری دنیا پڑھے گی اور ایک دن آئے گا جب ساری دنیا پر اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شان کے ساتھ اسلام کی حکومت قائم ہو جائے گی جیسا کہ پہلی صدیوں میں ہوتی تھی " (فرقان اپریل ۱۹۲۲ م ) حضور کے عزم و ہمت اور جماعت کی ترقی و بہبودی اور تبلیغ و اشاعت اسلام کے فریضہ کی بہتر ادائیگی کے لیے یکے بعد دیگرے ان تحریکات اور تجاویز اور حضور کے اس لائحہ عمل کی خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی تائید ہوتی.جس کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے ۱۴ ر اپریل ۱۹۳۳ء کے خطبہ جمعہ میں خدا تعالیٰ کا یہ پیغام سناتے ہوئے فرمایا : " مجھ پر ایک الہام نازل ہوا جس نے میرے ہوش اُڑا دیئے.وہ الہام یہ تھا جو خود ایک مصرعہ کی شکل میں ہے کہ 8 روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے" ------- اللہ تعالیٰ اس الہام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو مخاطب کرتا اور اسے فرماتا ہے کہ اسے احمدی جماعت ! جو ہمارا حصہ تھا ہم نے اسے پورا کر دیا.جننے سامان یوم جزا کو قریب تر لانے کے لیے ضروری تھے وہ ہم نے سب مہیا کر دیتے اور اسلام اور احمد تیت کی فتح کے سامان ہم نے جمع کر لیے.پس اب قریب ترین زمانہ میں اس فتح کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے.قریب ترین زمانہ میں اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے راستے دنیا میں کھل جائیں گے مگر بعید ہے وہ راستہ جو ابھی تم نے طے کرنا ہے اور جس پر چل کر تم نے اس روز جزا سے فائدہ اُٹھانا ہے وہ ابھی بہت بعید ہے مجھے جب یہ الہام ہوا تو میں نے اس وقت سوچا کہ گو میں جماعت کو جلدی جلدی آگے کی طرف اپنا قدم بڑھانے کی تحریکات کر رہا ہوں جس سے بعض لوگ ابھی سے گھبرا اٹھے ہیں کہ کتنی جلدی جلدی نئی سے نئی تحریکیں کی جارہی ہیں کبھی وقف جائیداد کی تحریک کی جاتی ہے کبھی وقف زندگی کی تحریک کی جاتی ہے کبھی کالج کی تعمیر کے لیے چندہ کی تحریک کی جاتی ہے.

Page 397

۳۹۷ مگر اللہ تعالیٰ اس کو بھی نا کافی قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے تمہارا کرہ بعید ہے یعنی ابھی تم نے کچھ بھی نہیں کیا.سفر ابھی بہت باقی ہے اور تمہارا قدم خطرناک طور پر ست ہے حالانکہ میں نے جو کام کرنا تھا وہ کر لیا.میرا ٹھیکہ پورا ہوگیا.اور جو چیز میں نے تم کو دینی تھی وہ دیدی مگر تم ابھی اپنے کام کے لیے تیار نظر نہیں آتے.اس مفہوم کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اس الہام کا ایک اور امر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے.گونزول الہام کے وقت میں نے اس کے وہی معنی سمجھے تھے جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں، لیکن پھر بھی اس الہام کا ایک اور مطلب بھی ہو سکتا ہے، لیکن وہ بھی اپنی ذات میں کوئی خوش کن نہیں یعنی اس الہام کا ایک یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہر شخص جو تم میں سے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لیے کوشش کر رہا ہے اس کی یہ کوشش اتنی تھوڑی اور اس قدر کم ہے کہ اس کی اس کوشش اور جدوجہد کے مقابلہ میں اس کی زندگی کے جس قدر ایام ہیں ان میں ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.گویا تم میں سے ہر شخص جو کوشش آج اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے لیے کر رہا ہے اگر مرتے دم تک وہ اسی رنگ میں کوشش اور جدوجہد کرتا رہے اور اپنا قدم تیز نہ کرے تو یہ کوششیں اس قدر کم ہیں کہ تمہارا یہ خیال کرنا کہ ان کوششوں کے نتیجہ میں تم اسلام کا غلبہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو گے یہ ناممکن ہے.اگر تمہاری کوشش اور جدوجہد کی یہی رفتار رہی تو تم اپنی زندگی میں یوم جزا کو نہیں دیکھ سکو گے.یہ معنی اگر لیے جائیں تو یہ بھی کوئی خوشکن معنے نہیں بینگر جو معنے اس وقت میں نے سمجھے وہ یہی تھے کہ روز جزاء قریب ہے" کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے متعلق جو و عدسے فرماتے ہیں ان کے پورا سے ا ہونے کا وقت آگیا.آسمان پر فرشتوں کی فوجیں اس دن کو لانے کے لیے تیار کھڑی ہیں.مگر جو کوشش تم کر رہے ہو وہ بہت ہی حقیر اور بہت ادنی اور معمولی ہے.جب ہم نے اپنے فضل کا دروازہ کھول دیا.جب آسمان سے فرشتوں کی فوجیں زمین میں تغیر پیدا کرنے کے لیے نازل ہوگئیں.جب گھر کی بربادی کا وقت آپہنچا.جب اسلام کے غلبہ کی گھڑی قریب آگئی تو اس وقت تم اگر پوری طرح تیار نہیں ہو گے تم نے اپنے اندر کامل تغیر پیدا نہیں کیا ہوگا تم نے اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ نہیں کی ہوگی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس دن سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جاؤ گے اور اسلام کی دائی ترقی میں روگ بن جاؤ گے.کیا تم نہیں دیکھتے

Page 398

سة کہ میں پانی کو سنبھالا نہ جائے وہ بجائے فائدہ پہنچانے کے لوگوں کو تباہ کر دیتا ہے میں دودھ کو محفوظ نہ رکھا جائے وہ پھٹ جاتا ہے.وہی پانی فائدہ پہنچاتا ہے جس کو سنبھالا جائے اور وہی دودھ انسان کو طاقت بخشتا ہے جس کو پھٹنے سے محفوظ رکھا جاتے.پھٹا ہوا دودھ کس کام آ سکتا ہے ؟ گرا ہوا سالن کون استعمال کرتا ہے کے آگے پڑی ہوئی روٹی کون کھا سکتا ہے ؟ اسی طرح اگر ہم نے اس دُودھ کو محفوظ نہ رکھا جو خُدا نے ہمارے لیے نازل کیا ہے ، اگر ہم نے اس کھانے کی حفاظت نہ کی جو خدا نے نہیں دیا ہے.اگر ہم نے اس پانی کونہ سنبھالا جو خدا نے آسمان سے اتارا ہے تو یہ پانی اور یہ دودھ اور یہ کھانا ہمارے لیے ایک طعنہ کا موجب بن جائے گا کیونکہ ہمیں چیز تو ملی مگر ہم نے اس کی قدر نہ کی.پس میں آج پھر خدا تعالیٰ کے اس پیغام کو جماعت تک پہنچاتا ہوں.پہلے میری طرف سے ہی گھبراہٹ تھی اور میں جماعت کو بار بار کہتا تھا کہ جلد جلد بڑھو.جلد جلد اپنا قدم آگے کی طرف بڑھاؤ.مگر اب خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی یہ گھبرا دینے والا پیغام آگیا ہے کہ روز جزا.قریب ہے اور رہ بعید ہے" جزاء کا دن بہت قریب ہے مگر تمہاری رہ بہت بعید ہے." الفضل ۲۷ را پریل ۱۹۹۲

Page 398