SF2

SF2

سوانح فضل عمر (جلد دوم)

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ

Book Content

Page 1

سوانح فضل عمر جلد دوم حضرت فضل عمر مرزا بشیر الدین محمود احمد ل المونو خلیفه ای شانی کے سوانح حیت تصنيف مرزا طاہر احمد ناشرین فضل عمر فاؤنڈیشن ریو

Page 2

فهرست مضامین سوانح فضل عمر جلد دوم صفحه عناوین محمد خلافت ثانیه حضرت خلیفہ الی الاول کی ایک پر تاثیر دعا انکار خلافت کا پہلا فتنہ دعا.عزم اور توکل علی اللہ 1 4 دوسری شادی صفر عناوین ۱۹۱۴۳ م کا جلسہ سالانہ اہل قادیان کو نصیحت ۱۳ ملاقات کے آداب احمدیہ کا نفرنس کا انعقاد و تقریر منصب خلافت ۱۷ مقام خلافت زبانیں سکھانے کا پروگرام زکوۃ خلیفہ وقت کے پاس آنی چاہئیے ترقی تعلیم جماعت کی دنیوی ترقی جماعتی ترقی کا مسلسل محاسبه کالج کا قیام خلافت پر عمومی اعتراضات کے جوابات متفرق مصروفیات ۲۱ آپ کے طرز استدلال کا ایک نمونہ ازدواجی رشتے طے کرنے کے لئے رہنما اصول ۲۲ زکوۃ کی اہمیت تعلیمی ترقی کے لئے سکولوں کا قیام ۲۳ سب سے زیادہ حسین ۲۴ ایک نئے اخبار کا اجراء احمدیہ ہوسٹل کا قیام ۲۶ سفیر لاہور چندہ جات کا نظام ستحکم کرنے کے بارہ میں سفر شمله ایک اہم اقدام انجمن ترقی اسلام ۲۶ اطاعت امیر قادیان ایک عظیم درسگاه تحفة الملوک بعض دیگر علمی کاوشیں منارة المسیح کی تکمیل wy آپس کی محبت ا حضرت مسیح موعود کا انداز تربیت ۲۲ خلیفہ وقت پر اعتراض ۴۲ خلیفہ وقت کے مشاغل حقیقت حال سے بے خبر اعتراض کرتے ہیں ۴۵ 3 ۴۷ है ۴۸ ۵۳ 04 ۵۸ 4.۶۹ 44 A+ Al Al AI AM

Page 3

عناوین صفح بعض غیر مسلم زائرین سے انفرادی ملاقاتیں ۸۹ نظارت تعلیم عناوین صفر تین یورپین عیسائی علماء کی قادیان میں آمد اور دونوں انمینوں کا ادغام حضرت خلیفہ ایسیح سے دلچسپ تبادلہ خیالات ۸۹ کارکنوں کا انتخاب قادیان میں پروفیسر مارگولیتھ کی آمد اور حضرت نظارت علیا خلیفتہ ایسیح الثانی سے دلچسپ گفت گو ۹۲ نظارت تالیف و تصنیف جماعت احمدیہ کے باہمی معاملات میں قانونِ نظارت تعلیم و تربیت شریعت اسلامیہ کے نفاذ کا مطالبہ ایک نئے تبلیغی مشن کا قیام تبلیغ میں تزکیہ نفس سے غافل نہ ہوں روزه کتابیں اپنی خرید و سوال اور خوشامد کی عادت نہ ڈالو اللہ پر تو مل کر و وہ خود تمہارا کفیل ہو گا لوگوں سے تعلقات دعائیں کرتے رہو ۱۱۰ نظارت امور عامه ۱۱۱ نظارت زراعت نظارت تجارت ۱۱۲ نظارت ضیافت ۱۱۳ نظارت بہشتی مقبره ١١٣ انٹرنیشنل انجمن صدر انجمن احمدیہ کی رہنمائی اور اس کی سفارشات پر ۱۱۵ حضور کے فیصلہ کا طریق.۱۱۵ کارکنان کے حقوق کی حفاظت اور قدردانی روزمرہ کے انتظامی امور میں طریق کار جو بدری کسی قوم میں ہو اس کی تردید میں جرات ناظروں کی رہنمائی سے لیکر دو.HV ۱۳۲ ۱۳۳ ۱۳۵ ۱۳۵ ۱۳۷ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۳۳ ۱۴۴ ۱۲۵ ۱۴۷ ۱۵۱ ۱۵۲ ۱۵۶ 14- 14.141 ۱۶۶ 174 اپنے کام کی پڑتال کرتے رہو قادیان آنے کی تاکید کرتے رہو جلسه سالانه ۶۱۹۱۵ اسلوب بیان میں تبدیلی ۱۱۸ عمومی نگرانی اور محاسبہ.119 ۱۹ حسین سلوک ۱۲۵ حضور کی رہائش و سادگی محاسبہ کے متعلق آپ کے اصولی ارشادات نظام جماعت احمدیہ کی تشکیل و ترویج ۱۲۶ اور طریق کار صدر انجمن احمدیه نظارت بیت المال ۱۲۸ نظامی امارت امارت کے فرائض ۱۳۱

Page 4

امیر کی پوزیشن عناوین اطاعت کی روح پیدا کرد مجلس مشاورت کا با قاعدہ قیام آداب مشوره عناوین مت اسلامیہ کی سیاسی خدمات - مقاصد اور ۱۹۸ لائحہ عمل.140 میٹر بانٹیگو کی ہند وستان آمد اور بعض اہم معاہدہ ترکیه - تحریک خلافت و ترک موالات مجلس شوری کا طریق کار ۱۸۰ سیاسی مشور ہے.۲۶۳ ٢٤١ سب کمیٹیوں کی تشکیل کے متعلق ہدایات ۱۸۹ مذہبی معاملہ میں مسلمان مسٹر گاندھی کی اقتداء میں ۲۹۹ نظام مجلس شوری کی امتیازی خصوصیات اور اس وقت اس مجرب نسخہ موالات کو استعمال کرو جو تدریجی ترقی.عورتوں کی نمائندگی حاضری کا معیار مجلس شوری کے ایجنڈا کی ترتیب اور رد شده تجاویز فیصلوں کی منظوری کا طریق ۱۹۲ ہلاکو خان کے ہاتھ سے عباسی سلطنت کے مٹنے پر ۱۹۴ استعمال کیا گیا نہ کہ اس کے برعکس ترک موالات ۱۹۶ کا نسخہ 194 تحریک شدهی 19 تحریک شدھی اور اس کا پیش گوئی مصلح موعود 14 A کے ساتھ ایک خاص تعلق.حضرت خلیفہ ایسی الثانی کا کثرت رائے سے اختلاف ۲۰۱ اسلامی معاشرہ میں عورت کو اس کا مقام دلوانے مجلس شوری کے فیصلوں کی اہمیت ۲۰۳ کی جد و جہد.مجلس شوری کا منصب مجلس مشاورت کا پاکیزہ اور بے مثال ماحول ۲۰۴ عورتوں کے حقوق کی حفاظت عورت کے حقوق وراثت کی بحالی بعض اہم تقاریر و تصانیف ۶۱۹۲۰۰۶۱۹۱۷ ۲۱۳ بیاہ شادی میں عورت کی رضامندی کا حق انفلوئنزہ کی عالمی وبا اور حضور پر اس کا اثر ۲۲۹ طلاق کی حوصلہ شکستی ۳۱۱ ۳۲۶ ۳۳۵ Fra ۳۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز عرفان الهی ایک قادر الکلام کا انجاز تقدیر الهی ملائکۃ اللہ ۲۳۲ عورتوں کی تربیت ۲۳۵ عورتوں کا اولین مقام ۲۴۴ عورت کا منصب آپ کے اپنے الفاظ میں ۳۴۱ ۳۴۳ ۳۴۳ ۲۴۵ مساوات کے نتیجہ میں عائد ہونے والی ذمہ داریاں ۳۴۵ ۲۵۱ احمدی عورت سے آپ کی توقعات

Page 5

عناوین صفحہ اند از تربیت اور ٹھوس عملی پروگرام ۳۲۷ تعلیم نسواں عناوین صفر احمدی خواتین سے ایک منفرد قربانی کی تحریک ۳۲۷ مجلس شوری میں عورتوں کی نمائندگی نیکی کی عادت ڈالنا لجنہ اماء اللہ کا قیام اصلاحی امور میں باریک بینی ۳۵۳ مسلمان عورتوں کے حالات میں تغییر ۳۵۵ حصول مقاصد میں لجنہ کی کامیابی کا مختصر ذکر ۳۶۲۲ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم اغیار کی نظر میں ۳۷۹ PAP

Page 6

عهد خلافت ثانیه ار مارچ بروز ہفتہ بعد نماز عصر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اللہ تعالے کی مشیت کے مطابق مخلصین جماعت احمدیہ کی دردمندانہ دعاؤں کے ساتھ مسند خلافت پر متمکن ہوئے.آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السّلام کی پر درد اور مقبول دعاؤں کا ثمرہ تھے.آپ کا وجود قبولیت دعا کا ایک زندہ اور محبتم نشان تھا.دُعاؤں کے ساتھے آپ کو ایک عجیب نسبت تھی.دُعاؤں نے ہی آپ کو خلعت وجود بخشا.دعائیں ہی آپ کے سرمایہ حیات رہیں.دُعاؤں کی لوریاں سنتے ہوئے آپ کا بچپن گزرا.گنگناتی ہوئی دعائیں آپ کو ٹھیک ٹھیک کر سلایا کرتی تھیں اور دُعاؤں کی نرم و ملائم آواز ہی آپ کو خواب راحت سے بیدار کرتی تھی.آپ کی تعلیم دعاؤں کے ساتھ ہوئی.آپ بیمار ہوئے تو دعاؤں اچھے ہوئے.آپ کمزور ہوئے تو دعاؤں نے آپ کو توانائی بخشی.زندگی کے ہر گز سے ہوئے دور نے دعاؤں کے ساتھ آپ کو الوداع کی.زندگی کے ہر آنیوالے دور نے دعاؤں کے ساتھ آپ کا استقبال کیا.ہر دروازہ جو آپ پر کھلا دعاؤں کے ساتھ کھلا.اور ہر باب جو آپ پر بند ہوا دُعاؤں کے ساتھ بند ہوا.حضرت خلیفہ ایسی اول کی ایک تن تاثیر ما آئیے ہم کچھ دیر کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الاول کے دور خلافت کے آخرمی ایام کی طرف ایک مرتبہ پھر نظر دوڑائیں.یہ ان ایام کا ذکر ہے جب حضرت خلیفہ ایسے الاول بیمار تھے.اور بسا اوقات بیماری اتنی شدت اختیار کر جاتی تھی کہ بھنیا دو بھر

Page 7

ہو جاتا.ایک ایسے ہی وقت میں جبکہ آپ سخت تکلیف میں مبتلا تھے آپ نے اپنے بعد آنے والے کے حق میں ایک پُر درد دُعا کی جس کا ذکر خود آپ کے ہی الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے :- " آج مجھے بہت تکلیف ہوئی.میں نے سمجھا اب اس دنیا میں نہیں رہوں گا.سوئیں نے دو رکعت نماز پڑھی اور الحمد شریف کے بعد پہلی رکعت میں سورۃ الضحی اور دوسری رکعت میں آکر نشرح لك صدرك کی تلاوت کی.پھر یکیں نے دُعا کی.الہی ہم پر ہر طرف سے غدر ہو گیا......الهی اسلام پر بڑا تبر چل رہا ہے.مسلمان اول تو سست ہیں پھر دین اسلام - قرآن کریم اور نبی کریم سے بے خبر تو ان میں ایسا آدمی پیدا کر جس میں قوت جاذبہ ہو وہ کاہل و سست نہ ہو ہمت بلند رکھتا ہو.باوجوہ دان باتوں کے وہ کمال استقلال رکھتا ہو.دُعاؤں کا مانگنے والا ہو تیری تمام یا اکثر رضاؤں کو پورا کیا ہو.قرآن وحدیث سے باخبر ہو.پھر اس کو ایک جماعت بخش اور وہ حجات ایسی ہو جو نفاق سے پاک ہو.تباغض ان میں نہ ہو.اس جماعت کے لوگوں میں خوب ہمت اور استقلال ہو.قرآن وحدیث سے واقف ہوں اور ان پر عامل اور دعاؤں کے مانگنے والے ہوں.ابتلاء تو ضرور آدیں گے.ان ابتلاؤں میں اُن کو ثابت قدمی عطا فرما.ان کو ایسے ابتلاء نہ آئیں جو اُن کی طاقت سے مطبوعہ الحکم ، را پریل سه ) آج وہ دن تھا کہ اس دعا کی قبولیت کا محتم نشان ، بے پناہ قوت جاذبہ کا مالک بلند ہمت اور کمال درجہ کا استقلال رکھنے والا ، دُعاؤں کا بکثرت مانگنے والا اور رھنا الہی کے پورا کرنے میں ہمیشہ مستعد ، قرآن و حدیث سے با خبر، ایک ایسا با ہمت اور اولو العزم رہنما ، جماعت کو عطا ہوا جس کی کامیاب سیادت میں جماعت احمدیہ نصف صدی سے زائد عرصہ تک ترقی کی بلند سے بلند تر منازل طے کرتی چلی گئی.پھر اللہ تعالیٰ باہر ہوں "

Page 8

نے اس با ہمت نوجوان کو وہ جماعت بھی بخشی جو نفاق اور تباغض سے پاک تھی، ہے اور رہے گی دانشاء اللہ) اس میں جذب اور بہت اور استقلال کے حامل اور قرآن و حدیث کے ایسے عاشق با عمل پیدا کئے جو دعاؤں کا سہارا لیتے ہوئے خطرناک سے خطرناک ابتلاؤں میں بھی ثابت قدم رہے ، اور ان کے پائے ثبات و استقلال میں کبھی کوئی لغزش نہ آئی اور صدق و وفا بڑھتا ہی رہا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا مسند خلافت پر متمکن ہونا گویا آپ کی زندگی میں ایک خلق آخر کا مقام رکھتا تھا.اور ایک نئی حیثیت سے ایک نئے خلعت کے ساتھ آپ جماعت احمدیہ اور دنیا کے سامنے ظاہر ہوئے.اس موقعہ پر ذہن اس خلق اول کی طرف پھر رجوع کرتا ہے جبکہ آپ کی پیدائش سے قبل آپ کے دش نے بڑی تعلی کے ساتھ آپ کے بچپن ہی میں ہلاک ہو جانے اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے تنباہ ہونے کی پیش گوئی کی تھی.اس خلق آخر کے دوران بھی کم و بیش ویسی ہی صورت پیدا ہوئی اور آپ کے ذاتی مخالفین اور معاندین نے بڑی شدت کے ساتھ یہ دعوے کئے کہ یہ خلافت چند دن کی مہمان ہے جلد ہی صفحہ ہستی سے مٹ کو نیا مستیا ہو جائے گی اور ساتھ ہی جماعت احمدیہ قادیان کا شیرازہ بھی بکھر جائے گا.جس طرح خلق اول کے وقت ہمنوں کی پیشگوئی باطل اور محض ایک نفسانی آرزو ثابت ہوئی اسی طرح خلق آخر کے وقت بھی وہی منظر دنیا نے دیکھا اور جس خلافت کے متعلق کہا جاتا تھا کہ چند سال سیسک سیساک کو دم توڑ دے گی وہ ۵۲ سال تک دنیا میں بڑے جاہ وجلال اور تمکنت کے ساتھ مسند افروز رہی اور خدا نے اس نوجوان کو اس کے نفسی نقطۂ آسمان کی طرف نہ اُٹھایا جب تک وہ کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر کر کے زمین کے کناروں تک شہرت نہ پا گیا.لیکن ابھی ان باتوں کے ظاہر ہونے کا وقت نہ آیا تھا.ابھی تو اولوالعزمی کے امتحان کے دن تھے.ابھی تو یہ سوال تھا کہ مخالفت کی شدید آندھی کے مقابل پر یہ نازک پودا قائم بھی رہیگا یا نہیں.جیسا ابتداء اس وقت آیا تھا اور جس طرح گھر گھر یہ ایک زلزلہ کی سی کیفیت طاری ہوئی تھی.گو بعد میں بھی بہت ابتلاء آئے لیکن اولوالعزمی کے امتحانوں میں پہلا شبہ یہ ایک خاص امتحان تھا اس موقعہ پر آپ کی ایک رڈیا کا ذکر مناسب ہوگا میں میں آپ کو آئندہ پیش آنے والے مہیب خطرات سے پہلے ہی متنبہ کر دیا گیا تھا.اور ان

Page 9

سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا رُوحانی طریق بھی سکھا دیا گیا تھا.اس رڈیا کا ذکرہ کرتے ہوئے جو نہ میں اپنے قیام شملہ کے دوران آپ نے دیکھا آپ فرماتے ہیں." میں نے دیکھا کہ کوئی بہت بڑا اور اہم کام میرے سپرد کیا گیا ہے ++ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ میرے رستہ میں مشکلات کے پہاڑ ہیں.میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ تمھیں پتہ ہے اس کام کی تکمیل کے راستہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں تے یہ راستہ بڑا خطرناک ہے.اس میں بڑے مصائب اور ڈراؤ نظارے ہیں ایسا نہ ہو تم ان سے متاثر ہو جاؤ اور منزل پر پہنچنے سے رہ جاؤ اور پھر کہا کہ میں تمھیں ایسا طریق بتاؤں جس سے تم محفوظ رہو.میں نے کہا ہاں بتاؤ.اس پر اس نے کہا کہ بہت سے بھیانک نظارے ہوں گے مگر تم ادھر اُدھر نہ دیکھنا اور نہ ان کی طرف متوجہ ہونا.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتے ہوئے سیدن چلے جانا.اُن کی غرض یہ ہوگی کہ تم ان کی طرف متوجہ ہو جاؤ.اگر تم ان کی طرف متوجہ ہو گئے تو اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہ جاؤ گے.اس لئے اپنے کام میں لگ جاؤ.چنانچہ میں جب چلا تو میں نے دیکھا کہ نہایت اندھیرا اور گھنا جنگل تھا.اور ڈر اور خون کے بہت سے سامان جمع تھے.اور جنگل بالکل سنسان تھا.جب میں ایک خاص مقام پر پہنچا ہو بہت ہی بھیانک تھا تو بعض لوگ آئے اور مجھے تنگ کرنا شروع کیا تب مجھے معا خیال آیا کہ فرشتہ نے مجھے کہا تھا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " کہتے چلے جانا.اس پر میں نے ذرا بلند آوازہ سے یہ فقرہ کہنا شروع کیا اور وہ لوگ چلے گئے.اس کے بعد پھر پہلے سے بھی زیادہ خطرناک راستہ آیا

Page 10

اور پہلے سے بھی بھیانک شکلیں نظر آنے لگیں حتی کہ بعض سرکئے ہوئے جن کے ساتھ دھڑ نہ تھے ہوا میں معلق میرے سامنے آئے اور طرح طرح کی شکلیں بناتے اور منہ چڑاتے.مجھے غصہ آنا لیکن معا فرشتے کی نصیحت یاد آجاتی اور میں پہلے سے بھی بلند آواز سے خدا کے فضل اور رسم کے ساتھ " کہنے لگتا اور پھر وہ نظار بدل جاتا یہاں تک کہ سب بلائیں دُور ہو گئیں اور میں منزل پر خیریت سے پہنچ گیا " • الفضل ا پریلی ۱۹۳۵ء الموعود ما تقر بر جلبت لانه ) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی نہایت مشکل اور صبر آزما حالات اور ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑا.لیکن اللہ تعالے نے آپ کو ہر مشکل وقت میں اپنے خاص فضل اور رحم کا سہارا دیا اور خطرناک سے خطرناک وادی سے آپ اپنی جماعت کو نہایت کامیابی اور کامرانی سے بچاتے ہوئے فتح و نصرت کی نئی منازل کی طرف بڑھتے چلے گئے.دوست تو الگ رہے اولوالعزمی کے اس پیکر کو وہ مشاہیر بھی خراج تحسین پیش کئے بغیر نہ رہ سکے جو دوستوں کے زمرہ میں شامل نہ تھے.چنانچہ خواجہ حسن نظامی شدید مخالفانہ حالات میں آپ کے ثبات قدم سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں :- مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان سے کام کر کے اپنی " جوانمردی کو ثابت کر دیا ہے.رقامی چہرے مصنفہ خواجہ حسن نظامی) راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مغلئی جوانمردی مت کہو کہ یہ جوانمردی تو بہادر شاہ ظفر کے ساتھ دفن ہو کہ ایک قصہ پارینہ بن گئی.کہو تو یوں کہو کہ لاریب اس نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان سے کام کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک صاحب شکوه و عظمت اولو العزم "مرد تھا جس کے سر پر خدا کا سایہ تھا.

Page 11

انکار خلافت کا پہلا فتنہ سب سے پہلے آپ کو فتنہ انکا یہ خلافت کا سامنا کرنا پڑا.جماعت احمدیہ پر ایک کڑا وقت آن پڑا تھا.قادیان میں حاضر احمدیوں میں سے اگرچہ جمہور نے بڑے اخلاص اور پاک نیت کے ساتھ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کے ہاتھ پر بیعت کر کے نظام خلافت کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا تھا لیکن نظام جماعت کے اہم عہدوں پر ابھی تک منکرین خلافت قابض تھے.پریس کا بیشتر حصہ ان کے ہاتھ میں تھا.روپے پیسے کی کنجیاں ان کے پاس تھیں اور ایسی معروف اور بظا ہر عظیم شخصیتیں ان کی ہمخیال تھیں جن کا اثر جماعت پر بلاشبہ بڑا گہرا اور وسیع تھا.ان میں مولانا محمد علی صاحب پیش پیش تھے جن کو دنیا وی علم کی برتری کے باعث اور انگریزی تفسیر القرآن کا مقصدک م تفویض ہونے کے سبب نیز صدر انجمن احمدیہ کے سیکرٹری ہونے کی وجہ سے جماعت میں ایک غیر معمولی عزت اور احترام کا مقام حاصل تھا.پھر سلسلہ کے بعض اور اہم افراد جن میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب خواجہ کمال الدین صاحب کیل شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں بھی اس گروہ میں شامل تھے.اور مولومی محمد علی صاحب کی سر کردگی میں منکرین خلافت کی صف اول میں کھڑے تھے را گرچہ خواجہ صاحب اس وقت ملک سے باہر تھے.لیکن ان کا اس گروہ سے گہرا تعلق اور بشدت اُن کا ہمخیال ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی ، ان میں سے اکثر صدر انجمن احمدیہ کے نمبر ہونے کی وجہ سے بھی جماعت میں ایک خاص مقام رکھتے تھے.انتخاب خلافت کے ساتھ ہی انہوں نے جماعت کے تمام ابلاغ و اشاعت کے ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے سارے ہندوستان میں نظام خلافت کی تردید میں ایک خطرناک اور زہریلے پراپیگینڈا کی مہم بڑی کے ساتھ شروع کر دی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پراپیگنڈا کا یہ منصوبہ خفیہ طور پر خليفة أسح الاول رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ہی تیار ہو کر آپ کی وفات کے بعد منظر عام پر آنے کا منتظر تھا.اس منصوبہ کے تحت بکثرت جماعتوں میں یہ ملک خیال پھیلایا گیا کہ مرزا محمود احمد اور اُن کے رفقاء نے اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کی - سرعت

Page 12

یہ خاطر نظام خلافت کا یہ ڈھونگ رچایا ہے.جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام واضح طور پر صدر انجمن احمدیہ کو اپنا جانشین مقرر فرما گئے تھے.نیز یہ کہا گیا کہ ابھی سے ان لوگوں نے دین کو بگاڑنا شروع کر دیا ہے اور اگر اس نعوذ باللہ گمراہ کن غیر ذمہ دار کچی عمر کے نوجوان کی قیادت کو جماعت احمدیہ نے قبول کر لیا تو دیکھتے دیکھتے احمدیت کا شیرازہ بکھر جائے گا.اور قادیان پر عیسائیت قابض ہو جائے گی.اس قسم کے زہر یلے پراپیگنڈہ سے لیس بیسیوں کا رندے ہر طرف جماعتوں میں دوڑا دیئے گئے اور انہیں خلافت کی بعیت سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی.ان حالات کے پیش نظر حضرت خلیفة المسیح الثانی نے خلافت پر متمکن ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بکثرت رسائل اور اشتہارات کے ذریعے جماعت پر اصل صورت حال واضح فرمائی اور منکرین خلافت کے ہر قسم کے اعتراضات کا مؤثر جواب دیا.اس ضمن میں سب سے پہلے آپ کا اشتہار مون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے" بشدت ہماری توجہ اپنی جانب کھینچتا ہے.پراشتہا جہاں ایک طرف ہمیں آپ کی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں اور واضح قوت استدلال سے روشناس کرواتا ہے وہاں آپ کے توکل علی اللہ، عزم صمیم، یقین کا مل اور خلوص قلب کی بھی روشن دلیل ہے.آپ فرماتے ہیں :." مجھے اس مضمون کے لکھنے کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں تفرقہ کے آثار ہیں بعض لوگ خلافت کے خلاف لوگوں کو جوش دلا ر ہے ہیں یا کم سے کم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خلیفہ ایک پریزیڈنٹ کی حیثیت میں ہو اور یہ کہ ابھی تک جماعت کا کوئی خلیفہ نہیں ہوا.مگر میں اس اعلان کے ذریعہ سے تمام جماعت کو اطلاع دیتا ہوں، کہ خلیفہ کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں.اس کی بعیت کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح حضرت خلیفہ اول کی تھی.یہ بات بھی غلط مشہور کی جاتی ہے کہ جماعت کا اس وقت تک کوئی خلیفہ مقرر نہیں ہوا.بلکہ خدا نے جسے خلیفہ بنانا تھا بنا دیا اور اب جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے، وہ

Page 13

خدا کی مخالفت کرتا ہے.میں نے کسی سے درخواست نہیں کی کہ وہ میری بعیت کرے، نہ کسی سے کہا کہ وہ میرے خلیفہ بننے کے لئے کوشش کرے اگر کوئی شخص ایسا ہے تو وہ علی الاعلان شہادت دے کیونکہ اس کا فرض ہے کہ جماعت کو دھوکے سے بچائے.اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ خدا کی لعنت کے نیچے ہے اور جماعت کی تباہی کا عذاب اس کی گردن پر ہو گا.اسے پاک نفس انسانو! جن میں بدظنی کا مادہ نہیں میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کبھی انسان سے خلافت کی تمنا نہیں کی اور یہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ وہ مجھے خلیفہ بنا دے یہ اس کا اپنا فعل ہے یہ میری درخواست نہ تھی.میری درخواست کے بغیر یہ کام میرے سپرد کیا گیا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے اکثروں کی گردنیں میرے سامنے جھکا دیں میں کیونکہ تمہاری خاطر خدا تعالیٰ کے حکم کو رد کروں مجھے اس نے اسی طرح خلیفہ بنایا جس طرح پہلوں کو بنایا تھا.گو میں حیران ہوں کہ میرے جیسا نالائق انسان اُسے کیونکر پسند آگیا.لیکن جو کچھ بھی ہو اس نے مجھے پسند کر لیا اور اب کوئی انسان اس کرتہ کو مجھے سے نہیں اتار سکتا جو اس نے مجھے پہنایا ہے یہ خدا کی دین ہے اور کونسا انسان ہے جو خدا کے عطیہ کو مجھ سے چھین لے.خدا تعالے میرا مددگار ہوگا.میں ضعیف ہوں مگر میرا مالک بڑا طاقتور ہے.میں کمزور ہوں.مگر میرا آقا بڑا توانا ہے.میں بلا اسباب ہوں مگر میرا بادشاہ تمام اسبابوں کا خالق ہے.میں بے مدد گار ہوں مگر میرا رب فرشتوں کو میری مدد کے لئے نازل فرمائیگا انشاء الله میں بے پناہ ہوں مگر میرا محافظ وہ ہے جس کے ہوتے ہوئے

Page 14

کسی پناہ کی ضرورت نہیں.بعض لوگ کہتے ہیں میں جھوٹا ہوں اور یہ کہ میں مدتوں سے بڑائی کا طلب گار تھا اور فخر میں مبتلا تھا جاہ طلبی مجھے چین لینے دیتی تھی.مگر میں ان لوگوں کو کہتا ہوں کہ تمہارا اعتراض تو وہی ہے جو نمود نے صالح پر کیا یعنی بَلْ هُوَ كَذَاب اخر وہ تو جھوٹا اور متکبر اور بڑائی کا طالب ہے اور میں بھی تم کو وہی جواب دیتا ہوں جو حضرت صالح علیہ السّلام نے دیا کہ سَيَعْلَمُونَ غَدًا مَّنِ الْكَذَابُ الْأَشِر ذرا صبر سے کام لو، خدا تعالے کچھ دنوں تک خود بتا دے گا کہ کون جھوٹا اور متکبیر ہے اور کون بڑائی کا طلب گار ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلافت کے انتخاب کے لئے ایک لمبی میعاد مقرر ہونی چاہیے تھی کہ کُل جماعتیں اکٹھی ہوتیں اور پھر انتخاب ہوتا لیکن اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی جاتی کہ ایسا کیوں ہوتا نہ تو ایسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی وفات پر ہوا.حضرت مولوی نورالدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بعیت کرنے والے بارہ سو آدمی تھے اور جو میں گھنٹے کا وقفہ ہوا تھا.لیکن اب اٹھائیس گھنٹے کے وقفہ کے بعد قریباً دو ہزار آدمی نے ایک شخص کے ہاتھ پر سبعیت کی.......حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر تو ابتداء میں صرف تین آدمیوں نے بعیت کی تھی یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ نے مہاجرین میں سے اور قیس ابن سعد نے انصار میں سے اور بیت کے ات بعض لوگ تلواروں کے ذریعے بیعت کو روکنا چاہتے تھے یکڑ کر لوگوں کو اُٹھانا چاہتے تھے اور بعض تو ایسے جوش میں تھے کہ طعنہ دیتے تھے اور سبعیت کو لغو قرار دیتے تھے ے سورہ قمر آیت ۲۶ - سے سورہ قمر آیت ۲۷

Page 15

تو کیا اس کا نتیجہ یہ سمجھنا چاہیئے کہ نعوذ باللہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلافت کی خواہش منتھی کہ صرف تین آدمیوں کی بعیت پر آپ بیعت لینے کے لئے تیار ہو گئے.اور با وجود سخت مخالفت کے بیعت لیتے رہے یا یہ نتیجہ نکالا جائے کہ آپ کی خلافت نا جائز تھی مگر جو شخص ایسا خیال کرتا ہے وہ جھوٹا ہے....پس خدا کا خوف کرو اور اپنے منہ سے وہ باتیں نہ نکالو جو تمہارے لئے مصیبت کا باعث ہوں.اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرو اور وہ سلسلہ تو اس کے مامور نے سالہا سال کی مشقت اور محنت سے تیار کیا تھا اُسے یوں اپنے بغضوں اور کینوں پر قربان نہ کرو.مجھ پر اگر اعتراض ہوتے ہیں کیا ہوا ؟ مجھے وہ شخص دکھاؤ جس کو خدا نے اس منصب پر کھڑا کیا جس پر مجھے کیا اور اس پر کوئی اعتراض نہ ہوا ہو.جبکہ آدم پر فرشتوں نے اعتراض کیا تھا.تو میں کون ہوں جو اعتراضوں سے محفوظ رہوں فرشتوں نے بھی اپنی خدمات کا دعوی کیا تھا.اور ابلیس نے بھی اپنی بڑائی کا دعوی کیا تھا.مگر بے خدمت آدم جو ان کے مقابلہ میں اپنی کوئی بڑائی اور خدمت نہیں پیش کر سکتا تھا.خدا کو وہی پسند آیا اور آخر سب کو اس کے سامنے مجھکنا پڑا.وہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں یا اب تک بعیت میں داخل نہیں ہوئے آخر کیا چاہتے ہیں.کیا وہ چاہتے ہیں کہ آزاد رہیں.مگر وہ یاد رکھیں کہ ان کا ایسا کرنا اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے مترادف ہوگا.پھر کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی اور خلیفہ مقرر کریں اگر وہ ایسا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہو سکتے اور شریعت اسلام اسے قطعاً حرام قرار دیتی ہے پیس اب وہ جو کچھ بھی

Page 16

kk کریں گے اس سے جماعت میں تفرقہ پیدا کریں گے میرا دل اس تفرقہ کو دیکھ کر اندر ہی اندر گھلا جاتا ہے اور میں اپنی جان کو پگھلتا ہوا دیکھتا ہوں رات اور دن غم و رنج سے ہم صحبت ہوں اس لئے نہیں کہ تمہاری اطلاعات کا ئیں شائی ہوئی بلکہ اس لئے کہ جماعت میں کسی طرح اتحاد پیدا ہو جائے.لیکن میں اس کے ساتھ ہی کوئی ایسی بات نہیں کر سکتا جو عہدۂ خلافت کی ذلت کا باعث ہو.وہ کام جو خدا نے میرے سپرد کیا ہے خدا کرے کہ عزت کے ساتھ اس سے عہدہ برآ ہو سکوں اور قیامت کے دن مجھے اپنے موئے کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے.اب کون ہے جو مجھے خلافت سے معزول کر سکے یہ خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور خدا تعالے اپنے انتخاب میں غلطی نہیں کر سکتا اگر سب دنیا مجھے مان نے تو میری خلافت بڑی نہیں ہو سکتی اور اگر سب کے سب خدا نخواستہ مجھے ترک کر دیں تو بھی خلافت میں فرق نہیں آسکتا.جیسے نبی اکیلا بھی نبی ہوتا ہے اسی طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے.مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلے کو قبول کرے.خدا تعالیٰ نے جو بو مجھ مجھے پر رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اگر اسی کی مدد میرے شامل حال نہ ہو تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا.لیکن مجھے اس پاک ذات پر یقین ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گی میرا فرض ہے کہ جماعت کو متحد رکھوں اور انہیں متفرق نہ ہونے دوں.اس لئے ہر مشکل کا مقابلہ کرنا میرا کام ہے اور انشاء اللہ آسمان سے میری مدد ہو گی.میں اس اعلان کے ذریعہ ہر ایک اس شخص پر جو ابتک سبعیت میں داخل نہیں ہوا یا بعیت کے عہد میں متردد ہے.ججوت

Page 17

۱۲ پوری کرتا ہوں اور خدا کے حضور میں اب مجھ پر کوئی الزام نہیں مجھ خُدا کرے میرے ہاتھ سے یہ فساد فرو ہو جائے اور یہ فتنہ کی آگ بجھ جائے تاکہ وہ عظیم الشان کام جو خلیفہ کا فرضِ اول ہے یعنی کل دنیا میں اپنے مطاع کی صداقت کو پہنچانا میں اس کی طرف پوری توجیہ کر سکوں.کاش میں اپنی موت سے پہلے دنیا کے دُور دراز علاقوں میں صداقتِ احمدیت روشن دیکھ لوں.وَمَا ذلِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيز ختنے ہیں اور ضرور ہیں مگر تم جو اپنے آپ کو اتحاد کی رستی میں جکڑ چکے ہو خوش ہو جاؤ کہ انجام تمہارے لئے بہتر ہوگا تم خدا کی ایک برگزیدہ قوم ہو گے اور اس کے فضل کی بارشیں انشاء اللہ تعالیٰ تم پر اس زور سے برسیں گی کہ تم میران ہو جاؤ گے.خاکسار مرزا محمود احمد از قادیان ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ داشتهار بعنوان کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے" مندرجہ ضمیمه اخبار الفضل قادیان ۲۵ مارچ ساله) -1911

Page 18

دُعاء - حرم اور توکل علی اللہ س دور میں سب سے نمایاں خصوصیت جو حضرت خلیفہ امیج کے کردار میں نظر آتی ہے وہ دعاء - عزم اور توکل علی اللہ کا ایک دلکش امتزاج ہے.فتنہ انکار خلافت کے مقابلہ کے لئے حصّہ امکان تک جو ظاہری اسباب اختیار کئے جا سکتے تھے وہ آپ نے کئے لیکن ایک لحظہ کے لئے بھی کبھی ان اقدامات پر بھروسہ نہ کیا اور انہیں کافی سمجھا بلکہ مسلسل عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی.اور جماعت کو بھی بار بار اس طرف توجہ دلاتے رہے.صاحب عزم تو آپ تھے ہی دُعاوی نے اس عزم کو دوبالا کر دیا.اور دعاء اور عزم کے ملاپ سے ایک ایسا تو کل آپ کے اندر پیدا ہوا جس کی نظیر دنیوی رہنماؤں میں تلاش کرنا محض عبث اور بے معنی ہے.آپ کے عزم اور توکل کا امتزاج نور علی نور کا ایک دلکش منظر پیش کرتا تھا ایک طرف آپ دُعا کرتے.خدا تعالے کی طرف جھکتے اور جماعت کو بھی اس کی تلقین فرماتے تو دوسری طرف بار بار بلا اشتباه یہ بات واضح کرتے چلے جاتے کہ یہ کوئی کار یا ہے دنیا نہیں میں محض خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق فیصلے کروں گا اور اس کے بعد مجھے ایک ذرہ بھی اس بات کی پرواہ نہیں ہوگی کہ دُنیا میں کوئی اور میرا ساتھ دیتا ہے یا نہیں.آپ کے اس کردار کو نمایاں طور پر سمجھنے کے لئے 19 مارچ سالہ کی ایک تقریب کے دوران آپ کے مندرجہ ذیل ملفوظات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں.اگر اس کے ساتھ اس اعلان کے ایک دوسرے حصہ کو ملا کر پڑھا جائے جو آپ نے 4 ر ا پریل ۱ء کو شائع فرمایا تو تصویر مکمل ہو جاتی ہے.خوب یاد رکھو اس وقت موجودہ صورت میں وہ کام جو پچپی سال میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام اور ان کے بعد اپیتال تک حضرت خلیفہ ایسیح نے کیا تھا خطرہ کی حالت میں ہے ایک جماعت ہے جو اس کے ٹکڑے کر دینے میں فرق نہیں کرتی ان کو مد نظر ہے کہ مقابل والوں کو شکست دے دیں.وہ

Page 19

۱۴ زور لگا رہے ہیں.اپنے علم اور طاقت کو اس مقصد کے لئے صرف کر رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک طاقت ہیں اور ہم یہ کر سکتے ہیں.اللہ تعالے بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ ہم تو بالکل ناتواں ہیں.ہاں ہمارا بھروسہ اللہ تعالے یہ ہے.وہ بڑی طاقتوں اور قدرتوں والا ہے.وہ اپنے سلسلہ کو ہر ایک شر اور ضرر سے بچا سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ بچائے گا.میں اس وقت اُس دل کو متقی نہیں سمجھتا جس میں اس کے لئے درد نہ ہو.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں گر جاؤ اور کہو کہ اسے مولیٰ کریمیم ! یہ نظارہ تو ہمارے دہم میں بھی نہ تھا کہ وہ جماعت جس کو تو نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس سال سے تو اس کی حفاظت کرتا آیا ہے اب اس پر یہ ابتلاء آیا ہے کہ وہ غیروں کے نہیں اپنوں کے ہاتھ سے خطرہ میں ہے.مجھے تو اس تصویر اور وہم سے ہی جنون ہونے لگتا ہے کہ وہ جماعت جو بڑی کوشش اور عقدِ ہمت.سوزو گداز سے تیار کی گئی تھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاوے.مگر چندا تعالیٰ سے ڈھارس آتی اور اس سے تسلی ملتی ہے کہ ایسا نہیں ہوگا.پس تم راتوں کو اُٹھ کر تہجد پڑھو.جو روزے رکھ سکتے ہیں وہ روزے رکھیں.صدقات اور خیرات کریں اور دن کی عبادتوں میں بھی زیادتی کرو.ایک شخص نے مجھے کہا کہ نماز کے لئے آنکھ نہیں کھلتی.مجھے اس پر رونا آیا کہ اس کو نیند کس طرح آتی ہے.یہ خوب یاد رکھو کہ روزے اور عبادت زیادہ کرنے صدقات و خیرات سے مصائب مل جایا کرتے ہیں.پس تم تجد اور نوافل میں سستی نہ کرو.اور مل کر دعائیں کرو کہ موئے کریم احمدی جماعت کو ایک نقطہ پر متحد کر دے.مجھے تسکی

Page 20

10 اور یقین ہے اور ذرا بھی وہم نہیں.خدا تعالے مظفر و منصور کرے گا اور ضرور کرے گا.مگر خدا تعالے کی نصرت اور تائید کے لئے اپنے آپ کو اہل ثابت کر دو.بدر کی جنگ میں حضرت ابو بکر صدیق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعاؤں میں لگے ہوئے تھے کہ کیا آپ سے اللہ تعالے کے وعدے نہیں ہیں.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ وعدے ہیں مگر میں غنا سے ڈرتا ہوں.پس یاد رکھو کہ اس کے بڑے بڑے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہیں.وہ اس سلسلہ کو غالب کرے گا.اس کی حفاظت کرے گا ضرور کرے گا.مگر اللہ تعالیٰ کے غنا سے میں بھی ڈرتا ہوں.اس لئے ہمیں اپنے اعمال سے بتا دینا چاہیئے کہ ہم ان وعدوں کے مستحق ہیں.دکھ ایک دن کا بھی بُرا ہے.دن تو پھر دن ہے آدھ گھنٹہ کا بھی برا ہوتا ہے.جان نکلنے لگتی ہے اب تو اس مصیبت پر پانچ دن گزر گئے.یہ چھوٹا سا غم نہیں کسی کا چھوٹا سا بچہ بیمار ہو تو وہ گھبرا جاتا ہے.یہاں تو وہ بیمار ہیں جنہیں برسوں میں پرورش کیا گیا.(الفضل ۲۵ مارچ سلسلہ مل ۳ (ب) میرا فرض ہے کہ جماعت کو ایک نقطہ پر جمع کروں.اس لئے خواہ اس کام میں میرے راستہ میں کتنی ہی مشکلات پیش آئیں میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے توفیق دے گا کہ جرات سے ہر ایک وقت کا مقابلہ کروں.میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ میرا ساتھ دینگے

Page 21

یا نہیں.میرا اللہ تعالے پر بھروسہ ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں جو میرا کوئی نقصان کر سکے یا مجھے کوئی نفع دے سکے.پس اگر میں لوگوں کے جذبات کے ماتحت چل کر اتحاد جماعت کے خیال کو چھوڑ دوں تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ میں حکومت کا خواہاں ہوں نہ کہ خادم سلسلہ ہوں.پس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ اُسی کی توفیق سے ہی میں ہر ایک ایسی تدبیر کروں گا.جس سے جماعت کو پھر ایک فرد واحد کے ہاتھ پر جمع کرنا ممکن ہو.میں اللہ تعالے پر امید رکھتا ہوں کہ وہ میرا دل بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح مضبوط کر دے اور میں بھی کہہ سکوں کہ خواہ تم سب مجھے چھوڑ دو اور جنگل کے درندے بھی میرے مخالفوں کے ساتھ مل کر مجھے پر حملہ کریں تو میں اکیلا ان کا مقابلہ کروں گا جب تک کہ وہ میرے ہاتھ پہ اسی طرح نہ اکٹھے ہو جائیں جس طرح کہ خلیفہ اول کے ہاتھ پر اکٹھے ہو گئے تھے والله المستعان " الفضل ۶ اپریل ۱۹۱۳ ۱۶۰ اس دعاء ، اس عزم، اس توکل ، اس انابت الی اللہ اور سعی بپیچ بالآخر یہ نکلا کہ منتشر ہوتی ہوئی جماعت بڑی سرعت کے ساتھ پھر ایک ہاتھ پر اکٹھی ہونے لگی اور بکھرتے ہوئے اوراق پھر مجتمع ہو کر ایک مضبوط شیراز سے میں بندھ گئے وَلَيُبَةِ لَتَهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَهْنا کا وعدہ ایک مرتبہ پھر پورا ہوا.ایک بار پھر یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ اسلام کی زندگی اس کی نمکنت اور اس کا امن ہمیشہ کے لئے نظام خلافت سے وابستہ ہو چکے ہیں.کے سُوره نور آیت ۵۶

Page 22

16 احمدیہ کا نفرنس کا انعقاد اور تقریر منصب خلافت منصب خلافت پر فائز ہونے کے ایک ماہ کے اندر ہی فتنہ انکارِ خلافت سے پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اور آئندہ جماعت احمدیہ کو ایک ٹھوس لائحہ عمل دینے کی خاطر آپ نے ۱۲؍ اپریل کو جماعت احمدیہ کے نمائندگان کی ایک کانفرنس بلائی جیسے احمدیہ کا نفرنس" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.اس کا نفرنس میں ایسے اہم اور دور رس فیصلے کئے گئے جن سے ہمیشہ کے لئے مقام خلافت واضح اور روشن ہو کہ جماعت کے سامنے آگیا.اور اس بارہ میں فتنہ و فساد اور شکوک و ابہام کے خطرات ختم ہو گئے اگرچہ الہی سلسلوں پر فتنے ہمیشہ آتے ہی رہتے ہیں اور ان کی تطہیر کی غرض سے بتلاء ان کا مقدر ہے لیکن جہاں تک اس سوال کا تعلق تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حقیقی جانشین کون ہے اور کسی انجمن کو خلافت کے مقابل پر کیا حیثیت حاصل ہے اس کانفرنس میں اس سوال کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ کر دیا گیا اور اس کے بعد جماعت مبائعین کو کبھی اس بارہ میں وسوسہ یا تردد پیدا نہ ہوا.نہ انشاء اللہ آئندہ کبھی ہوگا یہ بنیادی فیصلہ جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں.حسب ذیل تھا :- اس قاعدہ میں حسب حالات ترمیم ہونی چاہیئے جس میں صدر المین احمدیہ اور امام وقت کے تعلق کی وضاحت کی گئی ہے.تاکہ جماعت میں تفرقہ اور دو عملی کے حالات پیدا نہ ہوں اور جماعت کا حقیقی اتحاد قائم رہے.بعد میں مختلف مقامی جماعتوں کی اکثریت نے بھی مجلس مشاورت کے اس فیصلہ کی تائید میں ریزولیوشن پاس کئے اور مجلس معتمدین سے درخواست کی کہ وہ جماعت کی خواہش کے مطابق اس مسئلہ سے متعلق قاعدہ نمبر ۱۸ میں مجوزہ تبدیلی کا فیصلہ کرے.چنانچہ مجلس معتمدین نے اس جماعتی مطالبہ کو منظور کرتے ہوئے اپنے اجلاس مورخه ۲۶ اپریل ۱۹۱۲ ء میں زیر ریزولیوشن نمبر ۱۹۸ فیصلہ کیا کہ صدر انجمن احمدیہ کے قاعدہ نمبر ۸ ۱ میں الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام" کی جگہ حضرت

Page 23

خلیفة المسیح مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ ثانی " درج کئے جاتے ہیں.لہذا اس ترمیم کے بعد قاعدہ نمبر ۸ ا کا پورا متن اس طرح پر ہو گا :- مہر ایک معاملہ میں مجلس معتمدین اور اس کی ماتحت مجلس یا مجالس اگر کوئی ہوں اور صدر انجمن احمدیہ اور اس کی کل شاخھائے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ ثانی کا حکم قطعی اور ناطق ہوگا." سی کانفرنس سفارش پر جماعت سے مشورہ کے بعد مجلس معتمدین نے ۲ در اپریل ۱۹۱۴ء کو اُسے باضابطہ صدر انجمن کے دستوری ترم کی صورت میں داخل کیا.یہ فیصلہ نظام خلافت کی ایک عظیم الشان فتح تھی.اور اس کا ہمیشہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی روحانی جانشینی کا سوال حل ہو گیا.اس کا نفرنس کی دوسری اہمیت یہ تھی کہ اس نے آئندہ جماعت احمدیہ میں نظام شوری کی بنیاد ڈالی اور اس مسئلہ کو خوب اچھی طرح واضح کر دیا کہ خلیفہ وقت کے مقابل پر مجلس شوری کی کیا حیثیت ہے اور خلیفہ وقت اور مجلس شوری کا باہمی تعلق کن اسلامی اصولوں پر استوار ہے.تیسرا اہم فائدہ اس کا نفرنس سے یہ ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس کا نفرنس سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی وہ تاریخی تقریر فرمائی جس میں جماعت کے لئے ایک عظیم الشان اور وسیع لائحہ عمل کا ڈھانچہ پیش کیا.خلافت اور نبوت کے باہمی تعلق کو واضح کیا خلافت کے کاموں کی تعیین کی اور ان حدود کو واضح کیا جن کے اندر رہتے ہوئے ایک رُوحانی خلافت اپنے فرائض کو سر انجام دیتی ہے.پھر ان فرائض کو واضح کیا جو تبعیت خلافت کے نتیجے میں جماعت مبائعین پر عائد ہوتے ہیں.اس تقریر کو آپ کے لٹریچر اور علم کلام میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے.حضرت مسیح موعود یہ السّلام نے اپنی ابتدائی تصنیف " فتح اسلام میں اسلام کے احیائے نو اور ترقی کی جس عمارت کا خاکہ کھینچا تھا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس خاکے میں رنگ بھرے اور خطوط کو مزید واضح اور اُجاگہ کیا یہاں تک کہ جماعت احمدیہ کے لئے اس چھوٹی سی تقریرہ میں گویا ایک ہزار سالہ منصوبہ پیش کر دیا گیا.اس تقریبہ

Page 24

۱۹ کو ایسی بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ اگر طوالت کا خوف مانع نہ ہوتا تو اس موقعہ پر اسے من و عن پیش کر دیا جاتا مگر فی الوقت اسی پر اکتفا کی بجھاتی ہے.کہ قارئین کے سامنے اس کے چند اہم اقتباس پیش کر دیئے جائیں.میرا مذہب یہ ہے لا خلافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ خلافت جائز ہی نہیں جب تک اس میں شوری نہ ہو.اسی اصول پر تم لوگوں کو یہاں بلوایا گیا ہے-" (ص ) راد میں دیکھتا ہوں کہ چاروں طرف سے محض دین کی خاطر اسلام کی عزت کے لئے اپنا روپیہ خرچ کر کے اور اپنے وقت کا خرج کر کے احباب آئے ہیں.میں جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالے میرے مخلص دوستوں کی محنت کو ضائع نہیں کرے گا وہ بہتر سے بہتر بدلہ دے گا ؟ ان دوستوں کو دیکھا تو میرا دل خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر سے بھر گیا.پھر میرے دل میں اور بھی جوش پیدا ہوا جب لیکس نے دیکھا کہ وہ میرے دوستوں کے ہوانے ہی پر جمع ہو گئے ہیں.اس لیئے آج رات کو میں نے بہت دعائیں نہیں اور اپنے رب سے یہ عرض کیا کہ الہی میں تو غریب ہوں میں ان لوگوں کو کیا دے سکتا ہوں.حضور آپ ہی اپنے خزانوں کو کھول دیجیئے اور ان لوگوں کو جو محض دین کی خاطر یہاں جمع ہوئے ہیں اپنے فضل سے حصہ دیجیئے".پھر میں نے اس کے حضور دعا کی کہ میں ان لوگوں کے سامنے کیا کہوں ؟ تو آپ مجھے تعلیم کر اور آپ ؟ در آپ مجھے سمجھا......اس نے میرے قلب کو اسی آیت کی طرف متوجہ کیا اور مجھ پر ان رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (سورة بقره آیت ۳)

Page 25

حقائق کو کھولا جو اس میں ہیں.میں نے دیکھا کہ خلافت کے تمام فرائض اور کام اس آیت میں بیان کر دیئے گئے ہیں.تب میں نے اسی کو اس وقت تمہارے سامنے پڑھ دیا پہلا فرض خلیفہ کا تبلیغ ہے.جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں نہیں جانتا کیوں بچپن ہی سے میری طبیعت میں تبلیغ کا شوق رہا ہے.اور تبلیغ سے ایسا اُنس رہا ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا.میں چھوٹی سی عمر میں بھی ایسی دعائیں کرتا تھا اور مجھے ایسی حرص تھی کہ اسلام کا جو کام بھی ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو.میں اپنی اس خواہش کے زمانہ سے واقف نہیں ، کہ کب سے ہے میں جب دیکھتا تھا اپنے اندر اس جوش کو پاتا تھا اور دعائیں کرتا تھا کہ اسلام کا سجود کام ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو پھر اتنا ہو اتنا ہو کہ قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو جس میں اسلام کی خدمت کرنے والے میرے شاگرد نہ ہوں.میں نہیں سمجھتا تھا اور نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ خوش اور انس اسلام کی خدمت کا میری فطرت میں کیوں ڈالا گیا.ہاں اتنا جانتا ہوں کہ یہ جوش بہت میرا نا رہا ہے.غرض اسی جوش اور خواہش کی بناء پر میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ میرے ہاتھ سے تبلیغ اسلام کا کام ہو..اگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا کوئی خادم اور غلام توفیق دیا جاوے کہ ایک حد تک تبلیغ اسلام کے کام کو کرے تو یہ اس کی اپنی کوئی خوبی اور کمال نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا کام ہے.میرے دل میں تبلیغ کے لئے اتنی تڑپ تھی کہ میں حیران تھا اور سامان کے لحاظ سے بالکل قاصر.پس میں اس کے حضور ہی مجھکا اور دُعائیں کیں....

Page 26

پچپی اور میرے پاس تھا ہی کیا ؟ میں نے بار بار عرض کی کہ میرے پاس نہ علم ہے نہ دولت نہ کوئی جماعت ہے نہ کچھ اور ہے جس سے یکیں خدمت کر سکوں.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ اس نے میری دعاؤں کو سُنیا اور آپ ہی سامان کر دیئے اور تمھیں کھڑا کر دیا کہ میرے ساتھ ہو جاؤ" (ص ۱۷) "چونکہ مجھے تبلیغ کے لئے خاص دلچسپی رہی ہے.اس کے ساتھ عجیب عجیب ولولے اور جوش پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اس تبلیغی عشق نے عجیب عجیب ترکیبیں میرے دماغ میں پیدا کی ہیں.ایک بار خیال آیا کہ جس طرح پر اشتہاری تاجر اخبارات میں اپنا اشتہار دیتے ہیں میں بھی چین کے اخبارات میں ایک اشتہار تبلیغ سلسلہ کا دوں.اور اس کی اُجرت دے دوں.تاکہ ایک خاص عرصہ تک وہ اشتہار چھپتا رہے مثلاً یہی اشتہار کہ مسیح موعود آگیا بڑی موٹی مسلم سے اس عنوان سے ایک اشتہار چھپتا رہے.غرض میں اس جوش اور عشق کا نقشہ الفاظ میں نہیں بھینچ سکتا.جو اس مقصد کے لئے مجھے دیا گیا ہے " (ص ۲۳) زبانیں سکھانے کا پروگرام ر یہ ضروری سوال ہے کہ مبلغ کہاں سے آویں ؟ اور پھر چونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہر قوم اور ہر زبان میں ہماری تبلیغ ہو" اس لئے ضرورت ہے کہ مختلف زبانیں سکھائی جاویں حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی میں میں نے ارادہ کیا تھا کہ بعض ایسے طالب علم ملیں جو سنسکرت پڑھیں اور پھر وہ ہندوؤں کے گاؤں میں جا کر کوئی مدرسہ کھول دیں.اور تعلیم کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رکھیں.اور ایک ".

Page 27

۳۲ A عرصہ تک وہاں رہیں.جب اسلام کا بیج بویا جائے تو کسی شاگرد کے سپرد کر کے آپ دوسری جگہ جا کر کام کریں.غرض جس رنگ میں تبلیغ آسانی سے ہو سکے کریں " (ص۲) زکوة خلیفہ وقت کے پاس آنی چاہیے!.حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں بھی یہ تجویز میں نے پیش کی تھی پہلے تو میں ان سے بے تکلف تھا.دو دو گھنٹہ تک مباحثہ کرتا رہتا تھا.لیکن جب وہ خلیفہ ہو گئے تو کبھی میں اُنکے سامنے چوکڑی مار کر بھی نہیں بیٹھا کرتا تھا.جاننے والے جانتے ہیں خواہ مجھے تکلیف بھی ہوتی مگر یہ جرات نہ کرتا اور نہ اونچی آوازہ سے کلام کرتا.کسی ذریعہ سے میں نے انہیں کہلا بھیجا تھا کہ زکوۃ خلیفہ کے پاس آنی چاہیئے.میں نے بتایا تھا کہ یزکیھم کے معنوں میں اُبھارنا اور بڑھانا بھی داخل ہے اور اس کے مفہوم میں قومی ترقی داخل ہے اور اس ترقی میں علیمی ترقی بھی شامل ہے اور اسی میں انگریزی مدرسه - اشاعتِ اسلام و غیر هما امور آجاتے ہیں.اس سلسلہ میں میرا خیال ہے کہ ایک مدرسہ کافی نہیں ہے جو یہاں کھولا ہوا ہے.اس مرکزی سکول کے علاوہ ضرورت ہے کہ مختلف مقامات پر مدر سے کھولے جائیں.زمیندار اس مدرسہ با نہ میں لڑکے کہاں بھیج سکتے ہیں.زمینداروں کی تعلیم بھی تو مجھ پر فرض ہے پس میری یہ رائے ہے کہ جہاں جہاں بڑی جماعت ہے.وہاں سردست پرائمری سکول کھولے جائیں.ایسے مدارس یہاں کے مرکزی سکول کے ماتحت ہوئی گے.

Page 28

FM ایسا ہونا چاہیئے کہ جماعت کا کوئی فرد عورت ہو یا مرد باقی نہ رہے جو لکھنا پڑھنا نہ بھانتا ہو.صحابہ نے تعلیم کے لئے بڑی بڑی کوششیں کی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ جنگ کے قیدیوں کا فدیہ یہ مقرر فرمایا ہے کہ وہ مسلمان بچوں کو تعلیم دیں.جب دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کیا فضل لے کر آئے تھے تو جوش محبت سے رُوح بھر جاتی ہے.آپ نے کوئی بات نہیں چھوڑی.ہر معاملہ میں ہماری رہنمائی کی ہے.پھر حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ ایج نے بھی اس نقش قدم پر چل کر ہر ایسے امر کی طرف توجہ دلائی ہے جو کسی بھی پہلو سے مفید ہو سکتا ہو (۳۵۵-۳۶) جماعت کی دنیوی ترقی - تعلیم کے سوال کے ساتھ ہی یہ بھی قابل غور امر ہے کہ جماعت کی دنیوی ترقی ہو.ان کو فقر اور سوال سے سبچایا جائے جو واعظین تبلیغ اور تعلیم شرائع کے لئے جائیں اُن کا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ وہ جماعت کی مادی ترقی کا بھی خیال رکھیں.رق) جماعتی ترقی کا مسلسل محاسبہ.." واعظین اپنے دوروں میں اس امر کو خصوصیت سے مد نظر رکھیں کہ جماعتیں بڑھ رہی ہیں یا گھٹ رہی ہیں اور تعلیمی اور دنیوی ترقی کیا ہو رہی ہے ؟ عملی پابندیوں میں جماعت کی کیسی حالت ہے.باہم اخوت اور محبت کے لحاظ سے وہ کس قدر ترقی کہ رہے ہیں.ان میں باہم نزا ئیں اور جھگڑے تو نہیں.یہ تمام امور ہیں جن پر واعظوں کو نظر رکھنی ہوگی اور اس کے متعلق مفصل رپوٹ میں میرے پاس آتی رہیں " دحت ۳) ره

Page 29

۲۴ کالج کا قیام اس بات کی بھی ضرورت ہے.کہ ہمارا اپنا ایک کالج ہو.حضرت خلیفہ اسیح کی بھی یہ خواہش تھی.کالج ہی کے دنوں میں کیر کیر بنتا ہے " خلافت پر عمومی اعتراضات کے جوابات بعض کہتے ہیں کہ خلیفہ نے انجمن کا حق غصب کر لیا.پھر کہتے ہیں کہ یہ لوگ شیعہ ہیں.میں جب ان باتوں کو سنتا ہوں تو مجھے افسوس آتا ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ؟ کہتے ہیں بیٹے کو خلافت کیوں مل گئی ؟ میں حیران ہوں کہ کیا کسی ولی یا نبی کا بیٹا ہونا ایسا نا قابلِ عضو جرم ہے کہ اس کو کوئی حصہ خدا کے فضل سے نہ ملے اور کوئی عمدہ وہ نہ پائے ؟ اگر یہ درست ہے تو پھر نعوذ باللہ کسی نبی یا ولی کا بیٹا ہونا تو ایک لعنت ہوئی برکت نہ ہوئی.پھر انبیاء علیهم السّلام اولاد کی خواہش یوں ہی کرتے تھے؟" سوچ کر بتاؤ کہ شیعہ کون ہوئے ؟ شیعہ بھی تو یہی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا منشاء تھا کہ حضرت علیؓ خلیفہ ہوں.آپ کے خیال وو ہم میں بھی نہ تھا کہ ابوبکہ عمر عثمان رضی اللہ عنہم خلیفہ ہوں تو جیسے ان کے اعتقاد کے موافق مسئلہ خلافت میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے منشاء کو لوگوں نے بدلی دیا اسی طرح یہاں بھی ہوا.افسوس کیا حضرت مسیح موعود کی کوئی عزت اور عظمت تمہار سے دلوں میں ہے کہ تم قرار دینے ہو کہ وہ اپنے منشاء میں نعوذ باللہ ناکام رہے.خدا سے ڈرو اور توبہ کرو.پھر ایک تحریر لئے پھرتے ہیں.اور اس کے فوٹو چھپوا کر *

Page 30

۲۵ شائع کئے جاتے ہیں.یہ بھی وہی شیعہ والے قرطاس کے اعتراض کا نمونہ ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے قرطاس نہ لانے دیا.اگر قرطاس آجاتا تو ضرور حضرت علی کی خلافت کا فیصلہ کر جاتے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ افسوس قرطاس لکھ کر بھی دے گئے پھر بھی کوئی نہیں مانتا.بتاؤ شیعہ کون ہوا.میں کہتا ہوں کہ اگر وہ قرطاس ہوتا تو کیا بتا.وہی کچھ ہونا تھا جو ہو گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ لکھوایا اور شیعہ کو خلیفہ ثانی پر اعتراض کا موقع ملا.یہاں مسیح موعود نے لکھکر دیا اور اب اس کے ذریعہ اس کے خلیفہ ثانی پر اعتراض کیا جاتا ہے " (ص۳)

Page 31

متفرق مصروفیات چندہ جات کا نظام مستحکم کرنیکے بارہ میں ایک اہم اقدام به ایام حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے لئے انتہائی مصروفیت کے ایام تھے.دشمن کے بیرونی حملے ایک طرف اور کئی اپنے کہلانے والوں کی طرف سے طرح طرح کی اذیتیں دوسری طرف.غیر مبائین نے تو احمد تیت کا مشن ہی یہ سمجھ رکھا تھا کہ کسی طرح مبائعین کی شاخ کو کیسر کاٹ ڈالا جائے.اور (حضرت) مرزا محمود احمد کو ناکام و نامراد کر کے دکھا دیا جائے.گویا نعوذ باللہ یہی احمدیت کے قیام اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے مشن کی غرض و غایت تھی.ان کے اعتراضات کے جوابات دنیا ، جماعت کو ان کے زہریلے پروپیگنڈے سے مامون و محفوظ رکھنا.نئی جماعتوں کے ایمان کی تقویت کے سامان پیدا کرنا.جماعت کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو از سر نو مجتمع کرنا.خلافت کی اہمیت اور اصل منصب کو جماعت پر واضح کرنا.کثرت سے آنے والے زائرین سے ملاقاتیں کرنا اور خطوط کا جواب دیا.درس قرآن کریم اور پانچ وقت نماز کی امامت کے علاوہ رات کو تہجد میں گریہ وزاری کے ذریعہ اپنے رب سے مدد مانگنا.جماعت کے پریشان حال افراد کی ڈھارس کے سامان پیدا کرنا اور ان کے لئے دُعائیں کرنا.انجمن کے ایسے مہران کی پیدا کردہ مشکلات کا ازالہ کرنا جو بیعت خلافت میں داخل نہ تھے.اس کے علاوہ جماعت کی ترقی کے لئے کئی عارضی اور ستنتقل اقدامات کرنا ، غیر از جماعت اور غیر مسلم زائرین کے سوالات اور اعتراضنا کے جواب زبانی اور تحریری طور پر دنیا.غرضیکہ آپ کی زندگی ایک مصروف ترین انسان کی زندگی تھی.اللہ ! اللہ پچیس برس کی عمر میں کتنے بوجھ تھے جو اسلام در کے غم میں آپ نے اپنے نوجوان کندھوں پر اُٹھا لئے تھے.اس ایک دُکھ کے لئے کتنے دکھ تھے جو آپ کے جواں سال دل میں سما گئے.کتنے فکر تھے جو ہجوم کر کے آئے اور آپ کے ذہن کی فضا پر چھا گئے......لیکن اس میں آپ کا اختیار بھی کیا تھا

Page 32

یہ علیم و خبیر خدا کا انتخاب تھا جس نے یہ گراں قدر امانت آپ کے سپرد کی اس عظیم ذمہاری کا لباس خدا نے ہی آپ کو پہنایا تھا.پس ممکن نہ تھا کہ کوئی انسان آپ سے یہ لباس چھین سکے.اور حق یہ ہے کہ آپ کا ہر سائنس آخر دم تک اس عہد کے نباہنے میں گزرا.اور زندگی کی آخری رمق تک آپ اس پر قائم و دائم رہے.یہ تو زندگی بھر نفس نفس کا ساتھ تھا جسے ہر طور نباہنا تھا.دُکھ میں بھی اور آرام میں بھی.صبح اور شام دن اور رات خلافت کی عظیم ذمہ داریوں کو سینے سے لگائے دل و جان سے عزیز تر کئے ہوئے زندگی کے آخری سانس تک آگے ہی آگے بڑھنا تھا.آپ نے ایسے ہی کیا اور زندگی کی آخری رمق تک ایسا ہی کئے چلے گئے اور ہر صبح اور ہر شام نے گواہی دی کہ خدا کا انتخاب غلط نہ تھا.آپ لَا يُكلف الله نَفْسًا إِلَّا دُعا کے اپنی فرمان کی ایک زندہ اور محبتم تفسیر بن گئے.آپ کے روزانہ مشاغل کی تفصیل کو چھوڑ کر جو مختصر روئداد سلسلہ کے اخباروں میں چھپتی رہی اگر وہی پیش کی جائے تو بھی ابتدائی چند سالوں کے ذکر سے ہی ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے.لہذا محض چند اہم اور دور رس نتائج کے حامل اقداماتنا اور بعض دنیا وی اہمیت کی تقاریر یا پھر بطور نمونہ ایک آدھ ملاقات کا واقعہ بیان کر کے ہم آپ کی خلافت کے پہلے سال کا ذکر کرنا چاہتے ہیں.جماعتی انتظام کو بخوبی چلانے کے لئے سب سے پہلی ضرورت روپے کی تھی اس وقت حالت یہ تھی کہ سلسلہ کا تمام روپیہ اس انجمن کے قبضہ میں تھا جس میں ایک خاصی تعداد بیت نہ کرنے والوں کی تھی اور یہ اشخاص کسی وقت بھی مالی رکاؤ میں کھری کر سکتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے یہ تو مناسب نہ سمجھا کہ روپیہ کسی اور نام پر جمع ہو مگر یہ شرط لگادی کہ تمام سبعیت کنندگان اپنا ہر قسم کا چندہ حضرت خلیفة امسیح کی معرفت بھجوائیں.اس سے ایک طرف تو یہ خطرہ دُور ہو گیا کہ انجین کے مخالف ممبران اس روپیہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں.دوسری طرف مبائعین اور غیر مبائعین کے چندوں میں امتیاز کی ایک عمدہ صورت پیدا ہو گئی.اس صف ایک اور خطرہ بھی سامنے آیا.کہ منکرین خلافت کے اخبار پیغام صلح نے جو ہمہ تن خلافت کی مخالفت کے لئے وقت تھا جماعت سے مختلف چندوں کی اپیلیں شروع کر دیں ضمن میں

Page 33

چونکہ ابھی تک مبائعین اور غیر مبائعین کے نظام میں کوئی واضح اور غیر مسیم امتیاز پیدا نہ ہوا تھا اور سادہ لوح دیہاتی جماعتیں سلسلہ کے پرانے کارکنوں کی ہر تحریک کھنا موجب سعادت سمجھتی تھیں اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جماعت کو ایک نہایت اہم اور دور رس نتائج کی حامل یہ نصیحت فرمائی کہ سلسلہ احمدیہ میں کسی چندہ مانگنے والے کو چندہ نہ دیا جائے خواہ چندہ مانگنے والا کوئی ہی کیوں نہ ہو.اور چندہ کیسے ہی نیک کام کے لئے کیوں نہ مانگا جائے.جب تک اس کام کو خلیفۂ وقت نی منظوری حاصل نہ ہو.یہ ہدایت نہ صرف وقتی غلط فہمیوں کی روک تھام کے لئے مفید ثابت ہوئی بلکہ اس کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے جماعت احمدیہ کے چندے کا نظام محفوظ اور مستحکم ہو گیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی ہدایت کے اصل الفاظ حسرب ذیل ہیں : بہت سے احباب خطوط کے ذریعہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم چندوں کا کیا کریں آیا انجمن کو بھیجیں یا نہ بھیجیں.ان سب دوستوں کی اطلاع کے لئے ایسا ہی اُن دوسرے احباب کی اطلاع کے لئے جو میرے ہاتھ پر سبعیت کرچکے ہیں میں اشتہار کے ذریعہ اعلان کرتا ہوں کہ چندے برابر صدر انجمن میں آنے چاہئیں.ہاں چونکہ ابھی تک مجھے اطمینان نہیں کہ انجمن اس موجودہ فتنہ میں کیا حصہ لے گی اس لئے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ انجمن کے سب چندے میری معرفت ارسال ہوں.میں انہیں خدا نہ انجمن میں داخل کر کے انجمن کی رسید بھجوادوں گا.ایسے مقامات جہاں کے سیکرٹری یا محاسب نے ابھی بیعت نہیں کی وہاں یہ انتظام ہو سکتا ہے کہ اگر محاسب یا سیکرٹری اس انتظام کو منظور کر لیں تو فبہا ورنہ ان کی بجائے کوئی اور شخص مقرر کر دیا جاوے جو مبائین کا چندہ وصول کر کے بھیج دیا کرے.دوسری بات میں یہ بھی کہنی چاہتا ہوں کہ آئندہ انجمن کے چندں

Page 34

کے علاوہ کوئی چندہ آپ اس وقت تک نہ دیں جب تک کہ میری طرف سے اجازت شائع نہ ہو کیونکہ اس سے اب تک جماعت کو بہت کچھ نقصان ہو چکا ہے.اور آئندہ خطرہ ہے خواہ کیسے ہی مفید کام کے لئے چندہ کی تحریک ہو اگر میری طرف سے اجازت شائع ہوتی ہے تو اس میں چندہ دیا جاوے ورنہ نہیں.میری اس نصیحت کو یاد رکھو اور اپنی انجمنوں کے دفاتر یا اپنے اپنے گھروں میں لٹکا رکھو.یہ ایک ایسی بات ہے جس سے تمہاری طاقت بہت کچھ مضبوط ہو جائے گی.اور ہر ایک کام تھی مفید ہو سکتا ہے جبکہ ایک مرکز کے ماتحت ہو یا اے جہاں تک انفرادی ملاقاتوں اور گفت و شنید کا تعلق ہے اس کے اثرات اور کیفیت کا اندازہ مولوی عمر دین صاحب شملوی کی حسب ذیل روایت سے ہو سکتا ہے.مولوی صاحب موصوف نے جو ایک ناقدانہ نظر رکھتے تھے ہمارے نامور ادیب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پینتی مرحوم کو ایک مرتبہ یہ واقعہ سنایا کہ حضور ایدہ اللہ تعالے کے خلیفہ ہونے کے چند ماہ بعد امریکہ کا ایک بڑا پادری قادیان آیا جو بڑا عالم فاضل بھی تھا اور اپنے علم و فضل پر نازاں بھی.قادیان پہنچے کہ اُس نے ہم لوگوں کے سامنے چند مذہبی سوالات پیش کئے جو نہایت وقیع اور بڑے اہم تھے.اور ساتھ ہی کہا کہ میں امریکہ سے چل کر یہاں تک آیا ہوں.اور یکں نے مسلمانوں کی ہر مجلس میں بیٹھ کر ان سوالات کو دہرایا ہے.مگر آج تک مجھے مسلمانوں کا بڑے سے بڑا عالم اور فاضل ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا.میں یہاں ان سوالوں کو آپ کے خلیفہ صاحب کے سامنے پیش کرنے کے لئے خاص طور پر آیا ہوں دیکھئے خلیفہ صاحب ان سوالوں کا کیا جواب دیتے ہیں ؟ الفضل قادیان ۶/ اپریل ۹۱

Page 35

سوالات اتنے پیچیدہ اور عجیب قسم کے تھے کہ انہیں شنکر مجھے یقین ہو گیا کہ حضرت صاحب ابھی بالکل نوجوان ہیں اور الہیات کی کوئی باقاعدہ تعلیم بھی انہوں نے نہیں پائی.عمر بھی چھوٹی ہے.اور واقفیت بھی بہت تھوڑی ہے.وہ ان سوالوں کا جواب ہر گز نہیں دے سکیں گے اور اس طرح سلسلہ احمدیہ کی بڑی بدنامی اور شبکی ساری دنیا میں ہوگی.کیونکہ جب حضرت صاحب اس کے سوالوں کا جواب نہ دے سکے تو یہ امریکن پادری واپس جا کر ساری دنیا میں اس امر کا پروپیگنڈا کرے گا کہ احمدیوں کا خلیفہ کچھ بھی نہیں جانتا اور عیسائیت کے مقابلہ میں ہر گز نہیں ٹھہر سکتا.وہ صرف نام کا خلیفہ ہے ورنہ علمیت خاک بھی نہیں رکھتا.اس صورتِ حال سے میں کافی پریشان ہوا.اور میں نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ امریکن پادری حضرت صاحب سے نہ ملے اور ویسے ہی واپس چلا جائے.مگر مجھے اس کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی.وہ امریکن اس بات پر مصر رہا کہ میں ضرور خلیفہ صاحب سے مل کر جاؤں گا ناچار میں گیا اور میں نے حضرت صاحب سے کہا کہ ایک امریکن پادری آیا ہے اور آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہے.اب کیا کریں ؟ اس پر حضرت صاحب نے بغیر توقت کے اور بلا تامل فرمایا کہ بلا لو ناچار میں اُسے لے کر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.دونوں کے درمیان ترجمان میں ہی تھا.امریکن پادری نے کچھ رسمی گفتگو کے بعد اپنے سوالات حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کئے.جن کا ترجمہ میں نے آپ کو سُنا دیا.حضرت صاحب نے نہایت سکون کے ساتھ ان سب سوالوں کو سنا اور پھر فوراً اُن کے ایسے تسلی بخش جوابات دیئے کہ میں سنکر حیران ہو گیا.مجھے ہرگز یقین نہ تھا کہ ان سوالوں کے حضرت صاحب ایسے پر معارف اور بینظیر جواب دے سکیں گے.جب میں نے یہ جوابات انگریزی میں امریکن پادری کو سُنائے تو وہ بھی حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ میں نے آج تک انیسی

Page 36

معقول گفتگو اور ایسی مدتل تقریرہ کسی مسلمان کے منہ سے نہ نہیں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی عیسائی مذہب سے گہری علمی واقفیت صرف احمدیوں پر یہی اللہ انداز نہیں ہوتی تھی بلکہ خود تجربہ کار عیسائی مشاد بھی حضور کی علمی قابلیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جایا کرتے تھے.چنانچہ انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک مسیحی دوست نے جو قادیان ٹھر کر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے مذہبی تبادلہ خیالات کر رہے تھے اپنا تاثر نمائندہ الفضل سے ان الفاظ میں بیان کیا : میرا زمانہ تجربہ ۲۵ سال کا ہے اور اس شخص (حضرت خلیفہ سیج الثانی کی عمر ۲۵ سال ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ مسیحی مذہب کا علم ان کو مجھ سے زیادہ ہے.میں نے بہت وعظ اور تقاریر سنی ہیں مگر یہ حالت نہیں دیکھی یہ تو خدا داد قابلیت ہے.الفضل در مارچ (واع) یه تأثر بیان کرنے کے چند روز بعد جب ان کو حضور سے گفت وشنید اور صحبت سے استفادہ کرنے کا مزید موقع ملا.تو ان کی حالت میں ایک غیر معمولی تبدیلی واقع ہوگئی اور ایک دن اپنی قلبی کیفیت کا اظہار قادیان کی ایک مجلس میں ان الفاظ میں کیا :- میں نے عیسائیوں کی اعلیٰ سوسائٹی میں تربیت پائی ہے بہت سے ملکوں میں پھرا ہوں مگر مجھے اس جماعت کو دیکھ کر رشک آتا ہے کہ کاش یہ روحانیت عیسائیوں میں ہوتی.بڑے تو بڑے میں نے یہاں کے بچوں میں بھی وہ شائستگی دیکھی ہے کہ حیرت ہوتی ہے.آپ لوگوں کا شوق عبادت آپ کی مہمان نوازی آپ کی تواضع دیکھ کر مجھے یسعیاہ کا وہ باب یاد آتا ہے جس میں مسیح کی آمد ثانی کے متعلق لکھا ہے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پئیں گے اور ناگ بچوں سے کھیلیں گے.میں نے یہاں دیکھا کہ سرحدی جو بہت آزاد اور اکھڑ قوم ہے ان کے ایک فرد نے اندھیرے میں میرا جوتا تلاش کر کے میرے آگے نہایت تواضع اه تاریخ احمدیت جلد تم ماشا

Page 37

سے رکھ دیا.پھر آپ کے سردار حضرت صاحب با وجود اس نوجوانی کے وہ روشن ضمیری رکھتے ہیں کہ میں نے کئی مولویوں اور مقرروں کے وعظ سنے مگر یہ اثر یہ جادو بیانی ان میں ہر گز نہیں پائی جاتی.میں جب آپ کی صحبت میں بیٹھا تو کئی اعتراضات لے کر بیٹھا مگر بغیر اس کے کہ میں انہیں زبان پر لاؤں حضرت صاحب نے ایسی تقریر شروع کی کہ وہ خود بخود دُور ہو گئے.باوجود عیسائی ہونے کے پیغمبر عرب کی اب مطلقاً نفرت میرے دل میں نہیں بلکہ بہت بڑی عزت ہو گئی.قرآن مجید کو پہلے لغو کتاب سمجھتا تھا اب میں اسے اعلیٰ کتاب سمجھتا ہوں.میرے دل میں ایک جنگ شروع ہو گئی ہے لیکں نے جو کچھ حضرت صاحب نے فرمایا سب نوٹ کر لیا ہے اب میں اطمینان سے اس پر غور کروں گا.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ میرے حق میں دعا کریں گے کہ جو خدا کے نزدیک راہِ راست ہے وہ مجھے دکھائے میں پھر اقرار کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کے بیان میں ایک تبادو کا اثر ہے اور نہایت اعلیٰ معلومات رکھتے ہیں اور میں بہت شکر گزار ہوں.والفضل ۲۳ مارچ ۱۹۱۵) اسی طرح ماسٹر عبد الرحمن صاحب خاکی راولپنڈی کی ایک روایت بھی پڑھنے کے لائق ہے جو مناظرہ کے وقت آپ کی حاضر جوابی اور بائیبل سے گہری واقفیت کے موضوع پر عمدہ روشنی ڈالتی ہے.ماسٹر صاحب لکھتے ہیں کہ :.ایک عیسائی جس نے 12 سال تک عیسائیت کی تبلیغ کی تھی، قادیان میں آیا.مغرب کی نماز کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے گفتگو شروع کی.حضرت حافظ روشن علی صاحب بھی اس مجلس میں موجود تھے.گفتگو کے دوران حضور نے کسی بات پر اگر کا لفظ استعمال فرمایا.یعنی فرمایا کہ اگر ایسا ہو تو ایسا ہوسکتا ہے.اس پر پادری نے کہا کہ اگر والی بات تو کمزور ہوتی ہے

Page 38

سوس اس پر حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح علیہ السّلام نے فرمایا ہے کہ اگر میں چاہوں تو دس ہزار فرشتے میری مدد کو آسکتے ہیں.کیا حضرت مسیح علیہ السّلام کی بات کمزور تھی ؟ یہ بات سُن کر وہ پادری ہنس پڑا.اور لاجواب ہو گیا.یہ خلافت ثانیہ کے بالکل ابتدائی زمانے کی بات ہے.ایسی ملاقاتوں کا بعض اوقات فوری نتیجہ ظاہر ہوتا.چنانچہ پیشاور کے ایک قابل پادری عبد الخالق صاحب جو قبل ازیں اسلام سے ارتداد کر کے پادری بن چکے تھے اور انہیں بائیبل پر اتنا عبور تھا کہ وہ فخریہ کہا کرتے تھے کہ میرے علم کا پادری شاذ و نادر ہی کوئی او ہلے گا.مناظرے کے ماہر اور منطقی داؤ پیچ سے خوب واقف ، اس پادری کی زندگی کا چیپ مشغلہ یہ تھا کہ بڑے بڑے مولویوں کو منطقی داؤ پیچ سے شکست فاش دے کر اہل اسلام پر اپنی برتری ثابت کرتے.یہ پادری صاحب شوق مبارزت لئے اپریل کے شروع میں قادیان آ نکلے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے تبادلہ خیالات کی خواہش ظاہر کی خیال تو ان کا یہ تھا کہ ایک نوجوان رہنما ہے ، عیسائیت کا تو سوال ہی کیا خود اپنے دینی علوم میں بھی سند یافتہ نہیں، چند ہی اعتراضات میں شکست فاش دے کر اپنا نام بلند کروں گا.لیکن اللہ تعالے کو کچھ اور ہی منظور تھا.بحث اس حال پر ختم ہوئی کہ اُن کا ذہن اسلام قبول کہ چکا تھا اور دل مطمئن ہو چکا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسیح موعود یقین کرتے ہوئے جناب سابق پادری صاحب نے حضرت مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کا عہد سبعیت کیا.یہ پادری صاحب جن کا نام عبد الخالق تھا.کسی وقتی اور ہنگامی جذبہ کے تحت از سر نو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ حضرت خلیفہ اسیح کے خدا داد علم میں کچھ ایسی قوت قدسیہ تھی کہ وہ ان کے عقل اور دل دونوں کو مسلمان کو گئی.مکرم پادری عبد الخالق صاحب بڑی عمر با کیر آج سے چند سال قبل فوت ہوئے.راقم الحروف نے خود ان کو دیکھا ہے.ان سے بائیبل پڑھی ہے.اور عیسائیت کے بارہ میں معلومات حاصل کی ہیں.وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے اور ان کے دل پر آپ کے علم اور تقوی کا ایسا رعب تھا کہ ہمیشہ غیر معمولی عجز و انکسار اور احترام کے ساتھ آپ کا ذکر کیا کرتے تھے.

Page 39

سلام السلام اس ذکر میں محبت کی چاشنی شامل تھی.حضرت خلیفہ المسیح کے اس احسان کو انہوں نے کبھی دل سے فراموش نہ ہونے دیا.کہ آپ کی بدولت ان کو اسلام کی دولت از سر تو نصیب ہوئی.یہ بات نہیں تھی کہ انہیں اپنے علم پر ناز نہ رہا ہو.یہ ناز آخر وقت تک قائم رہا اور کیوئی نہ رہتا حقیقتا آپ بائیبل کے ایک متبحر عالم تھے ہزاروں آیات حفظ تھیں کثرت سے حوالے نوک زباں تھے.عیسائی ہو یا مسلمان کسی دوسرے عالم کو کبھی خاطر میں نہ لاتے تھے.ہاں حضرت خلیفہ ایسے ایک ایسا استثناء تھے جن کے سامنے ایک فرمانبردار با ادب شاگرد کی طرح ہمیشہ زانوے ادب تہہ کئے رہے.حضرت خلیفہ ایسیح غیر از جماعت دوستوں کے علاوہ احباب جماعت احمدیہ سے بھی بکثرت ملاقاتیں فرمایا کرتے.آپ ان کے سوالات کا شافی جواب دیتے.انکی مشکلات میں انہیں قیمتی مشوروں سے نوازنے حوصلہ دیتے اور ڈھارس بندھاتے.مصائب میں ان کے لئے دردمندانہ دعائیں کرتے اور دلی تسکین اور راحت کا سامان پیدا کرتے ساتھ سی نهایت دلکش انداز میں تزکیۂ نفس کا کام بھی جاری رہتا.کوئی کمزوری دیکھتے تو اسے نہایت پیارے انداز میں دُور کرنے کی کوشش فرماتے.مکرم مرزا احمد بیگ صاحب وو ساہیوال اسی قسم کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- ابتدائے خلافت سے ہی حضور کو احباب کی اصلاح کا شدید خیال تھا.چنانچہ میرے ماموں جان حضرت مرزا غلام اللہ مرحوم رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ فرمایا کہ مرزا صاحب دوستوں کو حقہ چھوڑنے کی تلقین کیا کریں.اب در حقیقت ماموں صاحب خود حفہ پیا کرتے تھے.انہوں نے کہا بہت اچھا حضور یہ گھر میں آئے.اپنا حصہ جو دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اس کا نیچہ ٹوپی وغیرہ توڑ دی.ممانی جان نے سمجھا کہ آج شاید حقہ دھوپ میں پڑا رہا ہے اس لئے یہ فعل نارا جنگی کا نتیجہ ہے لیکن جب انہوں نے کسی کو بھی کچھ نہ کہا تو ممانی صاحبہ نے پوچھا.آج حصے پر کیا ناراضنگی آگئی تھی.فرمایا مجھے حضرت صاحب نے حقہ پینے سے لوگوں کو منع کرنے کی تلقین کے لئے ارشاد فرمایا ہے.اور میں خود حقہ

Page 40

۳۵ پیتا ہوں.اس لئے پہلے اپنے حقے کو توڑا ہے.پھر وہ نمازوں کے اوقات میں بھی اور دوسرے وقتوں میں لوگوں کو خفتہ چھوڑ دینے کی تلقین کرتے رہے اور خود مرتے دم تک حقے کو نہ لگایا ہے

Page 41

انجمن ترقی اسلام مجلس شورای س۱۹۱ء کی روئداد کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی تفصیلی رہنمائی کی روشنی میں جماعت احمدیہ نے تبلیغ اسلام کا جو وسیع منصوبہ بنایا اس پر خوش اسلوبی اور تیزی سے عمل درآمد کرنے کے لئے حضور نے ایک نئی انجمن انجمن ترقی اسلام کے نام سے قائم فرمائی.آپ نے پوری احتیاط کے ساتھ یہ واضح فرما دیا ، کہ یہ انجمن پرانی انجمن کی متبادل نہیں ہے بلکہ خالصہ تبلیغ اسلام کے کام تک ہی اپنی دلچسپیاں مرکوز رکھے گی.اور صدر انجین احمدیہ کے دیگر فرائض حسب سابق صدا آلمین احمدیہ ہی ادا کرتی رہے گی.اس انجمن کے قیام کے تھوڑے دنوں کے بعد اپریل کے آخری ہفتہ میں آپ نے ایک مضمون شکریہ اور اعلان ضروری " کے عنوان کے تحت شائع فرمایا جس میں خلافت احمدیہ کے گرد پروانہ وار اکٹھے ہونے والے احباب جماعت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جماعت کو قربانی کے ایک نئے میدان کی طرف بلایا اور پر زور اور پر درد تحریک فرمائی کہ انجمن ترقی اسلام کے مقاصد پورا کرنے کی خاطر جماعت احمدیہ ۱۲ ہزار روپیہ بطور چندہ ادا کرے.۱۲ ہزارہ اس زمانہ میں چندوں کے معیار کے لحاظ سے اور روپے کی رائج قیمت کے اعتبار سے ایک بہت بڑی اپنیل شمار کی جاسکتی ہے.یہ اعلان کا نیب کو دینے سے قبل ہی آپ نے درس قرآن کے وقت حاضر ا حباب کو پڑھ کر سنایا جس کے چند اقتباسات مشته نمونه از خروارے کے طور پر پیش ہیں :- میں اپنے مولا کے احسانات کا شکریہ کس منہ سے ادا کروں.اور اس کے احسانات کو کس زبان سے گنوں کہ میرا منہ اور میری زبان اس کام کو پورا نہیں کر سکتے میرے جسم کا ذرہ ذرہ بھی اگر گویا ہو تو اس کے تجر عطایا کے ایک قطرہ کا شکریہ ادا نہ ہوئے ایسے خطرناک متلاطم سمندر میں سے جماعت کا جہاز گزرے اور میرے جیسے ناتجربہ کار اور ناواقف اور کمزور ملاح کے

Page 42

ہاتھوں میں اس کی پتوار ہو.اور پھر بھی کشتی سلامت گذر جائے یہ کس کا کام ہو سکتا ہے صرف خدا کا.خلیفہ اول ایک شان رکھتا تھا اور اس کے کاموں کو اس کی طرف منسوب کیا بھی جانتا تھا.مگر میں کیا ہوں کہ کسی کو یہ خیال گذر بھی سکے کہ اس فتنہ کے دُور کرنے میں کچھ میرا بھی ہاتھ تھا.یہ طاقت نمائی شرک کے تمام شائیوں سے پاک تھی.اور انبیاء اولیاء کا محبوب بے نقاب اس وقت دنیا پر ظاہر ہوا تا کہ ان شرک کے ایام میں لوگوں کو بتا دے کہ ایک مٹی کے ڈلے اور لکڑی کے کندہ بھی کہیں وہ کام لے سکتا ہوں جو دنیا کے بادشاہ نہیں کر سکے " اُسے میرے رب ! تیرے حضور میں عاجزانہ عرض کرتا ہوں اسے قبول فرما کہ بادشاہوں کے دروازوں پر سے گدا گر خالی ہاتھ نہیں لوٹا کرتے.جس طرح تو نے اس جماعت کے کثیر حصہ کو مجتمع اور متحد کر دیا ہے قلیل کو بھی ہمارے ساتھ ملا دے.میرے پیارے رب تو جانتا ہے کہ مجھے اپنی بڑائی کی خواہش نہیں مجھے حکومت کا شوق نہیں لیکن جماعت کا استحاد مجھے مطلوب ہے اور تفرقہ کو دیکھ کر میرا دل بیٹھا جاتا ہے.پس خدایا اپنا فضل کیجئے میرے زخمی دل پر مرہم کا فور لگائیے.مجھے جو کچھ بھی حضور نے دیا امید سے بڑھ کر دیا.مگر مولی مجھے اس معاملہ میں حرص سے معذور رکھئیے.ابھی میری حرص کی آگ نہیں تجھی اور میرے دل میں تڑپ ہے کہ کسی طرح سب کی سب جماعت پھر ایک سلک میں پروٹی جائے.اور ہم سب مل کر تیرے نام کو دنیا پر روشن کریں.طاقتور شہنشاہ ! یہ تیرے لئے کچھ مشکل نہیں.احمد کے نام کو دو ٹکڑے ہونے سے بچالے پیار یہ جماعت تیری پیاری جماعت ہے اور کون چاہتا ہے کہ اپنے پیاروں کے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھے یہ (مش)

Page 43

اللہ تعالے نے اس کام کو پورا کرنے کے لئے میرے دل میں ڈالا ہے کہ میں اب اسلام واحمد تیت کی اشاعت کے لئے خاص جد و جہد کروں.اور میں نے فی الحال اندازہ لگایا ہے کہ اس کام کا ایک سال کا خرچ بارہ ہزار روپیہ ہو گا.میں نے بہت دعاؤں کے بعد اس بات کا اعلان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ میری دعاؤں کو ضرور قبول کرے گا اور خود اشاعت اسلام کے لئے سامان کر دے گا.اور جو لوگ اس کام میں میرا ہاتھ بٹائیں گے ان پر خاص فضل فرمائیگا میرے دوستو ! بارہ ہزارہ روپیہ سالانہ کی رقم بظاہر بہت معلوم ہوتی ہے.لیکن جس رب نے مجھے اس کام پر مقرر کیا ہے اس کے سامنے کچھ بھی نہیں.وہ بڑے خزانہ والا ہے.وہ خود آپ لوگوں کے دل میں الہام کرے گا اور آپ ہی اس کے لئے سابان کردے گا یا (من) د از اشتهار شکریہ اور اعلان ضروری مندر جی میم الفضل قادیان ۲ منی شاه اس وقت تک حضرت خلیفہ مسیح الثانی کا جماعت پر کیسا گہرا اثر پیدا ہو چکا تھا.اور خلافت کے شیدائیوں کو آپ سے کتنی گہری محبت اور عقیدت کا تعلق تھا اس کا کچھ اندازہ اس اعلان کے اثرات سے لگایا جا سکتا ہے.قادیان کی غریب جماعت نے ایک عجیب جوش اور خلوص کے ساتھ اپنے امام کی مالی قربانی کی اس تحریک پر لبیک کہا درس سے فارغ ہوتے ہی حضور کا یہ اعلان گھر گھر پہنچا دیا گیا اور دوسرے ہی روز ایک بڑے ہی پر جوش جلسہ کا اہتمام کیا گیا جس میں اہل قادیان نے مسابقت کی ایک عجیب روح کے ساتھ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر وعدے لکھوائے اور اسی جلسہ میں تقریباً تین ہزارہ کے وعدے اور پانچ صد سے زیادہ نقد وصول ہو گئے.جماعت کے آج کے حالات پر نظر کرنے والے شاید اس رقم کو معمولی سمجھیں لیکن ان دنوں جماعت کی غربت کا یہ حال تھا کہ یہ تین ہزار روپیہ بھی غیر معمولی اور دل گداز قربانیوں کے ذریعہ سے اکٹھا کیا گیا.ایسے مخلصین بھی ان میں تھے جنہوں نے اپنی ساری زمین تبلیغ اسلام

Page 44

۳۹ کے لئے پیش کر دی.کچھ ایسے تھے جنہوں نے اپنی عمر بھر کا اندوختنہ حاضر کر دیا.تنخواہ داروں نے ایک ایک مہینہ کی تنخواہ دی اور عورتوں نے اپنے زیورات دینِ اسلام کی ترقی کی نذر کئے.قادیان کی اس غیر معمولی قربانی کے مظاہرے سے قبل ہی قادیان کی اس درویش جماعت کے متعلق حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو یہ نظارہ دکھایا گیا تھا کہ ایک شخص عبد الصمد کھڑا ہے اور کہتا ہے مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی ہیں" منصب خلافت ص۳۳ ) مختصر سا واقعہ اس لحاظ سے بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ اس نے آئندہ ہمیشہ کے لئے جماعت کی مالی قربانیوں اور خلیفہ وقت کی آواز پر والہانہ انداز میں لبیک کہنے کی ایک ایسی روایت قائم کر دی جس کے نیک اور میٹھے ثمرات آج تک جماعت احمدیہ پا رہی ہے.اس دن سے لے کر خلیفہ المسیح الثانی کی وفات کے دن تک کبھی جماعت کا قدم پیچھے نہیں ہٹا بلکہ خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آج جبکہ خلافت ثالثہ پر بارہ سال گزر چکے ہیں.جماعت مالی قربانی میں اور اپنے امام کی آواز پر لبیک کہنے میں مسلسل آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی ہے.اور سخت مخالفانہ حالات میں بھی اس نے کبھی ایک قدم پیچھے نہیں ہٹایا.پس یہ رویا جس میں قادیان کی غریب جماعت کو یہ عظیم الشان نمونہ دکھانے پر مبارکباد پیش کی گئی تھی برحق اور سیجا تھا اور قیامت تک جماعت کی قربانیاں قادیان کی اس غریب جماعت پر سلام بھیجتی رہیں گی.ورہ یعنی آپ کی خلافت کا پہلا سال جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اس لحاظ سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس سال جماعت کو دین کی خاطر مالی قربانی کے نئے میدانوں کی طرف بلایا گیا.اور وہ غیر معمولی رفتار متعین کر دی گئی جس کو برقرار رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ نے دین حق کی خاطر اپنے اموال لٹانے تھے.پھر اس لحاظ سے بھی یہ سال خاص اہمیت کا حامل ہے کہ وقت زندگی کی تحریک کا بیج جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة د السلام نے اپنے دست مبارک سے بویا تھا اس سال مزید لہلہاتی ہوئی کونپلوں کی صورت میں رونما ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے آقا کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے

Page 45

م بڑی شدت اور بڑے جذبے کے ساتھ احمدی نوجوانوں کو ترک دنیا کر کے دینِ محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے درویشانہ چلے آنے کی تلقین فرمائی اور اس اپیل کے گہرے خلوص سے متاثر ہوتے ہوئے بکثرت نوجوان حضور کی آواز پر لبیک کہکر اور نذیر جاں لئے ہوئے مرکز احمدیت میں حاضر ہونا شروع ہو گئے.آپ کو جس اعلیٰ کردار کے نوجوانوں کی ضرورت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.یہ نوجوان ایسے ہوں جو دین اسلام کی خدمت کے لئے دن کو دن اور رات کو رات خیال نہ کریں.بہت تھوڑے گزارہ پر اوقات بسری کرسکیں اخلاص اور محبت سے کام کریں.ایسے نوجوانوں کے مختلف حصے کر کے بعض کو مسیحی مذہب کے مقابلہ کے لئے تیار کیا جاوے گا.بعض کو آریہ مذہب کے مقابلہ کے لئے بعض کو سکھ مذہب کے مقابلہ کے لئے بعض کو جینیوں بعض کو ساتن دھرمیوں اور بعض کو بدھوں کے مقابلہ کے لئے تعلیم دی جاؤ گی ایک دو سال تک ان کو ان مذاہب کی تعلیم کے ساتھ خود اسلام کی تعلیم دے کر خدمت اسلام پر مختلف مقامات پر مامور کیا جا دیگا پس جو مخلصین کہ اس موقعہ پر السابقون الاولون میں داخل ہو کر ثواب حاصل کرنا چاہیں بہت جلد مجھ کو اطلاع دیں اور قادیان آنے کے لئے تیار ہو جاویں.میرے پیارو! لوگ چند رویوں کے لئے اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں.پھر کیا یہ ممکن ہے کہ احمد کی مجمعات میں ایسے لوگوں کی کمی ہوگی جو دین کے لئے اپنی زندگی وقف کر دیں.خوب یاد رکھو کہ جو قوم قربانی نہیں کر سکتی وہ ترقی بھی نہیں کر سکتی " الفضل قادیان ۲۳ جولائی ساله) وقت زندگی کی یہ وہ تحریک تھی جس پر لبیک کہتے ہوئے بہت سے نوجوانوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے پیش کر دیں.لیکن ان واقفین کی مثال ابھی بارش کے ابتدائی قطروں کی طرح تھی یہ وہ ابتدائی بنگل تھا جو اسلام سے محبت کرنے والوں کو بیدار کرنے کے لئے بجایا گیا.پھر وہ وقت بھی آیا کہ یہ بگل آپ نے پے بہ پے پوری قوت

Page 46

الم اور پوری شان کے ساتھ سجایا یہاں تک کہ اس کی دل ہلا دینے والی پر شوکت آواز سے احمدیت کے ایوان گونجنے لگے.اس آواز میں ایک اثر تھا.اس آواز میں جذب و مستی تھی اس آواز میں ایک ایسا درد تھا جو دلوں کو بتیاب کرتا تھا.ایک ایسی کشش تھی جو دینِ محمدؐ کی طرف والہانہ کھینچتی تھی.اور دنیا و مافیہا سے بے نیاز کر دیتی تھی.ہائید با نیر کی کہانی تو آخر ایک کہانی تھی اور نفیسی کی وہ آواز محض ایک افسانہ ہی تو تھی جسے سنکر بچے ماؤں سے الگ ہو کر فیسی بجانے والے کی طرف دوڑ پڑتے تھے.لیکن تاریخ احمدیت گواہ ہے کہ اس منبسی بجانے والے نے حقیقتا ایک ایسی پر اسرار آسمانی شر میں نفسی بجائی کہ ہزاروں ماؤں کے لال کشاں کشاں گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور اپنی جانوں کے نذرانے لئے ہوئے دین محمد کی قربان گاہوں کی طرف بڑھنے لگے.قادیان ایک عظیم درسگاه تبلیغ اسلام کا کام اچھے ٹھوس قابل اور مخلص علماء کا تقاضا کرتا تھا.اس غرض کے لئے قادیان آپ کی سرپرستی میں بزرگ اور باخدا گرے اور ٹھوس علماء پیدا کرنے کا ایک کارخانہ بن گیا.قرآن کریم کا درس آپ خود بھی دیتے تھے لیکن باقاعدہ تبلیغی کلا میں جاری فرما کہ آپ نے قرآن کریم کے درس کے علاوہ مشکوۃ وقدوری کے درس بھی جاری فرمائے جو مسجد مبارک اور مسجد اقصے ہمیں روزانہ ہوتے تھے.اور سلسلہ کے جید علماء مثلاً حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب.حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت میر محمد اسحق صاحب وغیرہ تدریس میں حصہ لیتے تھے.ان کوششوں کا یہ نتیجہ کلا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکریم سے انجمن ترقی اسلام جلد جلد ترقی کرنے لگی.اور چند ماہ کے قلیل عرصہ میں ہی مبلغین اسلام کی تعداد صدر انجمن احمدیہ کے زیر اہتمام کام کرنے والے چار مبلغین سے بڑھ کر پندرہ تک جاپہنچی جو مندرجہ ذیل علاقوں میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دیتے رہے :- پشاور - انبالہ - گوجرانوالہ - گجرات - مالوہ - آگرہ - بهار بنگال - کلکتہ کٹک.گورداسپور - لنڈن - مصر- شام - الفضل قادیان ارجون شاه)

Page 47

ستحفة الملوك خلافت کے ابتدائی مہینوں مئی جون 1917 ء میں آپ نے ایک مختصر کتاب بعنوان تحفة الملوك تصنیف فرمائی ہو شاہ دکن کو مخاطب کر کے لکھی گئی تھی اور اس میں بڑے و کش انداز میں انہیں احمدیت قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی.اس کتاب کی تصنیف کا باعث یہ ہے کہ آپ کو ایک دلچسپ طویل رویا میں ایک تمہیں اعظم کو تبلیغ کا طریق سکھایا گیا.اسی رویا کی بناء پر سکھائے ہوئے طریق کے مطابق آپ نے تاجدار دین کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کتاب رقم فرمائی.کتاب کا مسودہ مکمل ہونے پر طباعت سے قبل ہی حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے احباب قادیان کے ایک جلسہ میں بعد نماز عصر اسے خود پڑھ کر سُنایا.اس وقت سامعین کی جو کیفیت تھی اس کا کسی قدر اندازہ نمائندہ الفضل کے مندرجہ ذیل الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے :- با وجود گرمی کی تپش اور ہوا کی بندش کے سامعین ثبت بنے بیٹھے تھے اور ایک عجیب عالم محویت طاری تھا.ہمارے خواجہ کرم داد صاحب (جموں) تو ایسے وجد میں آئے کہ چالیس منٹ تک سجدے میں پڑے رہے.حضور نے ایک گھنٹہ میں مضمون کا بہت سا حصہ سُنا دیا.پھر نماز مغرب ادا کی گئی بعد انہاں باقی حصہ سنانے میں ہنستیس منٹ خرچ ہوئے.اگر ٹھہر ٹھہر کوسنایا جائے تو اڑھائی گھنٹوں میں ختم نبو" والفضل قادیان ۲۰ر جون ) بعد ازاں جب یہ کتاب شائع ہوئی تو اعلحضرت نظام دکن کے علاوہ دیگر ارباب حکومت کو بھی بھیجوائی گئی.اس کے مطالعہ کے نتیجہ میں بکثرت احباب احمدیت کی طرف مائل ہوئے.بالخصوص دکن کی ایک بہت بڑی شخصیت کو اس کے ذریعہ قبول حق کی توفیق ملی.ہماری مراد حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب سے ہے جو اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور دکن کے ایک بڑے ہی متمول اور صاحب حیثیت گھرانے کے چشم و چراغ تھے.کہنے کو تو آپ ایک تھے لیکن فی الحقیقت پوری جماعت کی شان آپ میں جھلکتی تھی.سیٹھ صاحب کا

Page 48

ستم علم و فضل - آپ کی دلکش صورت اور فرشتہ سیرت اور دیگر اوصاف حمیدہ اس علاقہ میں احمدیت کے لئے بڑی کشش کا موجب بنے.اور متعدد دوسرے دوستوں کو آپ کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا.لیکن آپ کی تبلیغی کوششوں کی حد شخصی تعلقات تک ہی نہ تھی.آپ نے اپنی دولت کا بیشتر حصہ تبلیغ احمد تیت کے لئے وقف کر دیا اور بکثرت اشتہاروں اور رسالوں کے ذریعہ سے ہندوستان کے طول و عرض میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا پیغام پہنچایا اور آپ کے شائع کردہ لٹریچر کے اثر سے دور و نزدیک سے بہت سی سعید روحیں قادیان کی طرف کھینچی چلی آئیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنے مبایعین میں سے ان لوگوں کا خاص احترام فرمایا کرتے تھے ، جو عالم فاضل ، منتقی اور خدا رسیدہ ہوں اور غیر معمولی محبت ان سے رکھتے تھے.بکثرت ایسے لوگوں کے لئے دعائیں کرتے اور بسا اوقات اپنے کلمات اور تقریروں میں بھی پیار سے ذکر کر کے ان کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے.حضرت سیٹھ صاحب کا ذکر بھی حضور بڑی ہی محبت کے انداز میں فرمایا کرتے.اللہ تعالے نے رویا میں بھی آپ کو حضرت سیٹھ صاحب کا مقام اس رنگ میں دکھایا کہ آپ ایک تخت پر بیٹھے ہیں اور آسمان سے ایک نور ان پر گر رہا ہے اور وہ ذکر الہی میں مصروف ہیں " ابشارات رحمانیہ جلد اول ما انام یہ کتاب اپنے گہرے خلوص اور پر زور دلائل کی بناء پر دین داروں پر ہی نہیں مدینوں پر بھی اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہ سکی.چنانچہ ایک دوست ڈاکٹر کریم الہی صاحب اپنے ایک دہری شنا سا پر اس کتاب کے اثر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.ایک دہریہ نے حضور کا شخفۃ الملوک پڑھا.کہنا تھا کہ شخص اس طاقت اور قوت کا معلوم ہوتا ہے کہ جس پر کوئی بھی انسان غالب نہیں آ سکے گا یا پھر اس نے القول الفصل " پڑھ کر بھی رہاہے قائم کی کہ یہ ایک عجیب ہی شان کا انسان معلوم ہوتا ہے.جس کے کلام میں بچپن یا جوش شباب یا نا تجربه کاری یا پست ہمتی کا شائبہ تک نہیں بلکہ بہت بڑے دماغ اور عجیب شان کا انسان ہے جس کے کلام میں قوت عظمت اور جلال کی روح پائی جاتی ہے.) الفصل (۲ مارچ ۱۹۱۵)

Page 49

بعض دیگر علمی کاوشیں لٹریچر کم بهم الہ کی تاریخی مجلس مشاورت کے اہم فیصلوں میں یہ امر بھی شامل تھا کہ سلسلہ کے غیر کو اُردو کے علاوہ دنیا کی دوسری زبانوں خصوصا عربی اور انگریزی میں ترجمہ کر کے شائع کیا جائے.چنانچہ اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بلاد اسلامیہ تک مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانے کے لئے الدین الحی " کے نام سے عربی زبان میں ایک ٹیکیٹ لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی ایک ایسی پیشگوئی کا ذکر کیا گیا جو ان دنوں بڑی شان سے پوری ہوئی تھی.اس کے علاوہ اہل بنگال کو مخاطب کرتے ہوئے ایک رسالہ تحریر فرمایا جس کا بنگالی میں ترجمہ کروا کر جولائی سولہ میں کلکتہ سے شائع کیا گیا.1917ء کے نہایت مصروف سال میں آپ نے والی بھوپال کے نام بھی ایک تبلیغی خط تحریر فرمایا اور خلیفہ المسلمین ترکی کو بھی مخاطب کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ ترکی کا جنگ عظیم میں جرمنی کی طرف سے شامل ہو جانا غیر مناسب اور بے سود ہے اور ترکی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی یاد دلائی جس میں ترکی کی نام نهاد خلافت کی زبوں حالی کا ذکر ہے.خلافت کے پہلے سال کی شدید مصروفیات کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ آپ کو ٹھوس علمی تصانیف کے لئے وقت کیسے میسر آتا تھا لیکن اپنے عظیم باپ کی طرح آپ کو بھی اللہ تعالے نے غیر معمولی استعدادوں سے نوازا تھا جیسا کہ آپ خود اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ میں تیز قدم ہوں کاموں میں بجلی ہے مری رفتار نہیں یہ کلام محمودم اس سال کی جملہ تصانیف میں امتیازی شان اور غیر معمولی کشش کا حامل آپ کا وہ سلسلہ وار مضمون تھا جو تاریخ اسلام کے وسیع عنوان کے تحت سیرت نبوی صلے اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر ہفتہ والد الفضل میں شائع ہوتا رہا.یہ مضمون آپ نے منصب خلافت پر متمکن ہونے سے قبل ہی شروع کر رکھا تھا.لیکن خلافت کی غیر معمولی اور وسیع ذمہداریوں کی بناء پر کچھ عرصہ یہ سلسلہ تعطل کا شکار رہا.پھر اچانک آپ کی توجہ اس اہم مضمون کی طرف پھیری گئی اور دیگر مصروفیات کے باوجود آپ نے بالاقساط اس مضمون کو رقم کرنے کا ارادہ فرمایا.الفضل کی جلدوں کو اس مضمون نے ایک عجیب دلکشی اور نشان محبوبی

Page 50

۴۵ خطا کر دی ہے.سیرت نبوی پر ایسے انوکھے.سادہ مگر پر اثر اور دل نشین انداز میں شاید ہی کسی کو قلم اُٹھانے کی توفیق ملی ہو.یہ مضمون ایک دریا ہے عشق و عرفان کا جسے طوالت کے خون سے نہ تو من وعن نقل کرنا سہل ہے اور نہ یہ فیصلہ کرنا آسان ہے کہ کس حصے کو نمونے کے طور پر اخذ کیا جائے اور کسے چھوڑا جائے.منازہ ایسیح کی تکمیل اسی سال آپ نے جماعت کو منارہ اسیح کی عمارت کی تکمیل کی طرف توجہ دلائی، جو بنیا دوں تک پہنچ کر رُکی ہوئی تھی.چنانچہ تعمیر نو کا آغاز کرتے ہوئے آپ نے ۲۷ نومبر 19ء کو دردمندانہ دعاؤں کے ساتھ اپنے ہاتھ سے پہلی اینٹ نصب کی.بفضلہ تعالیٰ یہ کام دو سال کی مدت میں مکمل ہو گیا.دوسری شادی 191ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا دوسرا نکاح حضرت خلیفہ اسیچ الاول رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت امتہ الحی صاحبہ سے ہونا قرار پایا.یہ نکاح سلسلہ کے مشہور بزرگ اور عالم دین حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے ایک ہزار روسی حق مهر پر اس مٹی شاہ کو پڑھایا ہے حضرت صاحبزادی امتہ الحی صاحبہ کی طرف سے اُن کے بھائی میاں عبد الحی صاحب ولی تھے.جنہوں نے حاضر احباب جماعت سے اجازت لے کر اس نکاح کی منظوری دی.اس شادی کے متعلق حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی زندگی ہی میں آپ کو خیال پیدا ہو چکا تھا.اور ایک رویا کی بناء پر آپ کو یہ یقین تھا کہ رشتہ نہیں ہوگا لیکن با وجود کئی مرتبہ ارادہ کرنے کے حضرت خلیفہ ایسیح کی خدمت میں پیغام نہ بھیجوا سکے.کچھ تو طبعی حجاب مانع رہا اور کچھ جماعت میں ابتلاء کا خوف.بہت سے منہ پہلے ہی سو قسم کی باتیں بنا رہے تھے.اگر یہ پیغام دے دیا جاتا تو مزید فتنہ پھیلانے کے لئے یہ بہانہ بنایا جاتا کہ داماد بن کہ خلافت پر قبضہ کرنے کی مزید کوشش کی جا رہی ہے.الفضل ۳ جون ۱۹۱۴ ص ۲۲

Page 51

۴۶ کا سال ایک اور پہلو سے بھی جماعت احمدیہ کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے.قارئین کو یاد ہو گا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کی ولادت کی پیشگوئی میں آپ کو ایک لقب عالم کباب بھی دیا گیا تھا.جس کا مطلب اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السّلام پر منکشف نہ ہوا یہ وہ سال ہے جس میں عملاً دنیا کو اس لقب کا مطلب سمجھا دیا گیا اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کے خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اسی سال ایک عالمی جنگ نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کہ زبان حال سے ایک عالم کباب کے ظاہر ہونے کی خبر دی یعنی ایک ایسے وجود کے ظاہر ہونے کی خبر دی جس کے زمانہ میں ایک عالمی جنگ نے دنیا کو کباب کر دیا تھا.اس جنگ نے کچھ اس طرح ایک عالم کے جسموں اور دلوں کو کباب کیا کہ اس کی کوئی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی.تاریخ انسانی میں یہ وہ جنگ تھی جس میں حقیقتا انسان نے انسان پر آگ کی بارش برسائی اور لکھوکھا انسان اور ہزاروں شہر اس جنگ کی نذر ہو گئے.یہ وہ پہلی جنگ تھی جس میں ہار جیت کا استحصار کلیہ آگ کی قوت یعنی FIRE POWER پر تھا.یہ وہ پہلی جنگ تھی جسے فی الحقیقت عالمی جنگ قرار دیا جا سکتا تھا.اور کوئی ایک ملک بھی ایسا نہ تھا جو اس کی تباہ کاریوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر نہ ہوا ہو.شہروں کے شہر جل کر خاکستر ہو گئے.ملکوں کے ملک ویران ہو گئے.اس کی ہلاکت خیزیوں سے از منہ گزشتہ کی ہولناک ترین جنگوں کو بھی کوئی نسبت نہیں.ذرا تصور کیجیئے کہ صرف مغربی محاذ کے ایک سیکٹر پر ایک ہولناک طویل معرکے میں تین لاکھ برطانوی سپاہی کام آئے بوڑھوں بچوں اور عورتوں کا تو ذکر ہی کیا.اسی لاکھ صرف ان نوجوانوں کی تعداد ہے جو اس جنگ میں موت کے گھاٹ اتارے گئے.مشرقی یورپ کی ایک ریاست سربیا کی نصف آبادی اس جنگ میں ہلاک ہو گئی بیٹے ۱۹۱۴ء کا جلسہ سالانہ اس سال کا ذکر اب ہم ان تقاریر پر ختم کرتے ہیں جو جماعت احمدیہ کے شاہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر چار دن تک مختلف وقتوں میں آپ نے ۲۶ تا ۲۹ ؍ دسمبر ا حباب جماعت کے سامنے فرمائیں.یہ چاروں تقریریں اس لحاظ سے پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں.اه A HISTORY Of Europe By RT.HON, H.A.L, FISHER, PP.1156–1157.

Page 52

کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ذہن کی پختگی اور وسعت کی یہ ایک روشن دلیل ہیں کوئی ضروری مسئلہ ایسا نہیں جس پر رہنمائی کی ان دنوں جماعت کو ضرورت ہو اور آپ نے اس پر روشنی نہ ڈالی ہو.ان تقریروں کا مجموعہ برکات خلافت کے نام سے شائع ہو چکا ہے.ان کے تفصیلی تعارف کی تو گنجائش نہیں ہاں بعض اقتباسات نمونہ کے طور پر ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں تاکہ اس زمانہ میں مختلف مسائل کے بارے میں آپ کا انداز فکر و نظر معلوم ہو سکے.اہل قادیان کو نصیحت وہ لوگ جو قادیان کے رہنے والے ہیں ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ پانچ باتیں جن لوگوں میں پائی جاتی ہوں وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتے اور ان پانچوں میں سے ایک نعمان کی قدر کرنا ہے.قادیان کے رہنے والے کہتے ہیں کہ ہماری نسبت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے الہامات ہیں اور آپ نے ہماری نسبت بہت عمدہ الفاظ فرما ہیں میں ان باتوں کو مانتا ہوں.مگر تم اپنے اعمال سے بھی ثابت کر دکھاؤ کہ واقعی تم ان باتوں کے مستحق ہو.پس جو مہمان تمہارے پاس آتے ہیں ان کی خاطر اور تواضع میں لگ جاؤ اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ میرے مہمان نہیں ہیں.اس لئے مجھے خدمت کرنے کی کیا ضرورت ہے.اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے جہان ہیں اور تم اللہ کے بندے ہو تو کیا یہ بندے کا فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے آقا کے مہمان کی خبر گیری کرے.......اگر تمھیں کسی سے تکلیف بھی پہنچ جائے تو اس کو برداشت کرو.اور کسی کی ہتک کرنے کا خیال بھی دل میں نہ فاؤ.جو مہمان کی ہتک کرتا ہے وہ اپنی ہی بہتک کرتا ہے کیونکہ مہمان اس کی عزت ہوتا ہے نہیں اس سے زیادہ احمق کون ہے جو اپنی عزت آپ بر باد کر ہے " د برکات خلافت سنگ

Page 53

る ملاقات کے آداب جماعت کے اُن احباب کو جو ملاقات کے وقت آپ کے گھٹنوں اور پاؤں کو اتھاتا ہے تھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :- بعض لوگ گھٹنوں یا پاؤں کو ہاتھ لگاتے ہیں گو وہ یہ کام شرک کی نیت سے نہیں کرتے بلکہ محبت اور عقیدت کے جوش میں کرتے ہیں لیکن ایسے کاموں کا انجام ضرور شرک ہوتا ہے.اس وقت ایسا کرنے والوں کی نیست شرک کی نہیں ہوتی مگر نتیجہ شرک ہی ہوتا ہے بخاری شریف میں آیا ہے.ابن عباس کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں حضرت نوح کی قوم کے جن بتوں کے نام آئے ہیں، وہ دراصل مشترک اقوام کے بڑے بڑے آدمی تھے.ان کے مرنے پر پھیلیوں نے ان کی یادگاریں قائم کرنی چاہیں تا کہ ان کو دیکھ کر ان میں جو صفات تھیں ان کی تحریک ہوتی رہے.اس کے لئے انہوں نے سٹیچو مجسمہ بنا دیئے.لیکن ان کے بعد آنے والے لوگوں نے جب دیکھا کہ ہمارے آبا وو اجداد ان مجسموں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے تو انہوں نے ان کی اور عزت کرنی شروع کر دی.پھر اسی طرح رفتہ رفتہ ان کی تعظیم بڑھتی گئی بالآخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے آگے سجدے کئے جانے لگے اور ان کی اصل حالت کو بھلا کر انہیں خدا کا شریک بنا لیا گیا.تو بعض باتیں ابتداء میں چھوٹی اور بے ضرر معلوم ہوتی ہیں مگر ان کا نتیجہ ایسا خطرناک نکلتا ہے کہ پھر اس کی تلافی ناممکن ہو جاتی ہے.میری اپنی حالت اور فطرت کا تو یہ حال ہے کہ میں ہاتھ چومنا بھی ناپسند کرتا ہوں مقام خلافت اب میں ایک بات بیان کرنا شروع کرتا ہوں اور وہ خلافت کے متعلق

Page 54

۴۹ ہے.شاید کوئی کہے کہ خلافت کے بڑے جھگڑے سنتے رہے ہیں.اور یہاں بھی کل اور پرسوں سے سُن رہے ہیں آخر یہ بات ختم بھی ہوگی یا نہیں.اصل بات یہ ہے کہ پہلے جو باتیں تم خلافت کے متعلق سن چکے ہو وہ تو تمھیں ان لوگوں نے سنائی ہیں جو رہرو کی طرح ایک واقعہ کو دیکھنے والے تھے.دیکھو! ایک بیمار کی حالت اس کا تیمار دار بھی بیان کرتا ہے مگر بیمار جو اپنی حالت بیان کرتا ہے وہ اور ہی ہوتی ہے.اسی طرح دوسرے لوگوں نے اپنی سمجھے اور عقل کے مطابق تمھیں باتیں سُنائی ہیں مگر میں جو کچھ تمھیں منا سکا وہ آپ بیتی ہوگی جگ بیتی نہیں ہوگی.دوسرے کے درد اور تکلیف کا خواہ کوئی کتنا ہی بیان کرے لیکن اس حالت کا وہ کہاں اندازہ لگا سکتا ہے جو مریض خود جانتا ہے اس لئے جو کچھ مجھے پر گذرا ہے اس کو میں ہی اچھی طرح سے بیان کر سکتا ہوں.دیکھنے والوں کو تو یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہو گی کہ کئی لاکھ کی میرات پر حکومت مل گئی.مگر خدا را غور کرو کیا تمھاری آزادی میں پہلے کی نسبت کچھ فرق پڑ گیا ہے.کیا کوئی تم سے غلامی کرواتا ہے یا تم پر حکومت کرتا ہے یا تم سے ماتحتوں غلاموں اور قیدیوں کی طرح سلوک کرتا ہے کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے رُوگردانی کی ہے کوئی فرق ہے کوئی بھی فرق نہیں.لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا.تمہاری محبت رکھنے والا.تمہارے دُکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا.تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے.مگر اُن کے لئے نہیں ہے.تمہارا اسے فکر ہے درد ہے اور وہ

Page 55

نے اپنے مولیٰ کے حضور ترتیا رہتا ہے.لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے.کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا.ہاں تمہارے لئے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عاید ہو گئی ہیں " خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو ایک پہلے شخص کا کام کرے.اور خلیفہ جس کا قائم مقام ہوتا ہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ رَه ہم نے تیرا وہ بوجھے جس نے تیری کمر توڑ دی تھی اتار دیا ہے.تو جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ اس بوجھ سے ٹوٹنے کے قریب تھی تو اور کون ہے جو یہ بار اٹھا کر سلامت رہ سکے.لیکن وہی خدا جس نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ہو مجھ کو ہلکا کیا تھا اور اس زمانہ میں بھی اپنے دین کی اشاعت کے لئے اس نے ایک شخص کو اس بوجھ کے اٹھانے کی توفیق دی.وہی اس کے بعد اس کے دین کے پھیلانے والوں کی کمریں مضبوط کرتا ہے." آپ کی طرز استدلال کا ایک نمونہ "ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو بادشاہ ہو.یا مامور ہو.تم کون ہو ؟ بادشاہ ہو ؟ میں کہتا ہوں نہیں.مامور ہو؟ میں کہتا ہوں نہیں.پھر تم خلیفہ کس طرح ہو سکتے ہو ؟ خلیفہ کے لئے بادشاہ یا مامور ہونا شرط ہے.یہ اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر ذرا بھی تدبیر نہیں کیا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص درزی کی دکان پر جائے اور دیکھے کہ ایک لڑکا اپنے له سورة العد نشراح - آیت ٣-٤

Page 56

۵۱ استاد کو کہتا ہے خلیفہ جی.وہ وہاں سے اگر لوگوں کو کہنا شروع کر دے کہ خلیفہ تو درزی کو کہتے ہیں اور کوئی شخص جو در نبی کا کام نہیں کرتا وہ خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح ایک شخص مدرسہ میں جائے اپہلے زمانہ میں مانیٹر کو خلیفہ کہتے تھے ، اور لڑکوں کو ایک لڑکے کو خلیفہ کہتے سُنے اور باہر آکر کہدے کہ خلیفہ تو اسے کہتے ہیں جو لڑکوں کا مانیٹر ہوتا ہے.اس لئے وہ شخص جو لڑکوں کا مانیٹر نہیں وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا.خلیفہ کے لئے تو لڑا ہوں کا مانیٹر ہونا شرط ہے.- اسی طرح ایک شخص دیکھے کہ آدم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا اور ان کے لئے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو.وہ کے کہ خلیفہ تو وہی ہو سکتا ہے جس کو سجدہ کرنے کا حکم فرشتوں کو ملے کو ور نہ نہیں ہو سکتا.اسی طرح ایک اور شخص آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کو دیکھے جن کے پاس سلطنت اور حکومت تھی تو کسے کہ خلیفہ تو اس کو کہتے ہیں جس کے پاس سلطنت ہو اس کے سوا اور کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا کیونکہ خلیفہ کے لئے سلطنت کا ہونا شرط ہے لیکن ایسا کہنے والے اتنا نہیں سمجھتے کہ خلیفہ کے لفظ کے معنی کیا ہیں ؟ اس کے یہ معنے ہیں کہ جس کا کوئی خلیفہ کہلا ئے اس کا وہ کام کرنے والا ہو.اگر کوئی درزی کا کام کرتا ہے تو وہی کام کرنے والا اس کا خلیفہ ہے.اور اگر کوئی طالب علم کسی اُستاد کی غیر حاضری میں اس کا کام کرتا ہے تو وہ اس کا خلیفہ ہے.اسی طرح اگر کوئی کسی لیبی کا کام کرتا ہے تو وہ اس نبی کا خلیفہ ہے.اگر خدا نے نبی کو بادشاہت اور حکومت دی ہے تو خلیفہ کے پاس بھی بادشاہت ہونی چاہیے اور خدا خلیفہ کو ضرور حکومت دے گا اور اگر نبی کے پاس ہی حکومت نہ ہو تو خلیفہ کہاں سے

Page 57

لائے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو چونکہ خدا تعالیٰ نے دونوں چیریں یعنی روحانی اور جسمانی حکومتیں دی تھیں اس لئے ان کے خلیفہ سکتے پاس بھی دونوں چیزیں تھیں.لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حکومت نہیں دی تو اس کا خلیفہ کس سے لیتا پھرے کہ مجھے حکومت دو.ایسا اعتراض کرنے والے لوگوں نے علیفہ کے لفظ پر غور نہیں کیا " میں ایک دفعہ قسم کھا چکا ہوں اور پھر اسی ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے اور جو اس گھر (مسجد) کا مالک ہے اور میں اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں جو آسمان اور زمین کا حاکم ہے جس کی جھوٹی قسم لعنت کا باعث ہوتی ہے.اور جس کی لعنت سے کوئی جھوٹا بچ نہیں سکتا کہ میں نے کسی آدمی کو کبھی نہیں کہا کہ مجھے خلیفہ بنانے کے لئے کوشش کرو.اور نہ ہی کبھی خدا تعالیٰ کو میں نے یہ کہا ہے کہ مجھے خلیفہ بنائیں.پس جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس کام کے لئے خود اپنے فضل سے چن لیا ہے تو میں کس طرح اسے ناپسند کرتا ؟ کیا اگر تمہارا کوئی دوست تمھیں کوئی نعمت ہے اور تم اس کو لے کر نالی میں پھینک دو تو تمہارا دوست خوش ہوگا ؟ اور تمہاری یہ حرکت درست ہوگی ؟ ہرگز نہیں.تو اگر خدا تعالیٰ نعمت دے تو کون ہے تو اس کو مٹا سکے.جب دنیا کے دوستوں کی نعمتوں کو کوئی رو نہیں کرتا بلکہ بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو میں خدا تعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت کو کس طرح رو کر دوں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو رد کرنے والوں کے بڑے خطرناک انجام ہوتے رہے ہیں.مراد پس اگر مجھے خلیفہ ماننے والے بھی سب کے سب نہ ماننے والے ہو جاتے اور کوئی بھی نہ مانتا اور ساری دنیا میری دشمن اور جان کی پیاسی ہو جاتی جو کہ زیادہ سے زیادہ یہی کرتی کہ میری جان نکال

Page 58

۵۳ ✔ لیتی تو بھی میں آخری دم تک اس بات پر قائم رہتا.اور کبھی خدا تعالیٰ کی نعمت کے رو کرنے کا خیال بھی میرے دل میں نہ آتا.کیونکہ یہ غلطی بڑے بڑے خطرناک نتائج پیدا کرتی ہے ؟ اُس شخص کو خدا کی معرفت سے کوئی حصہ نہیں ملا اور وہ جندا کی حکمتوں کے سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا جو مجھے کہنا ہے کہ آپ خلافت کو چھوڑ دیں.اس نادان کو کیا معلوم ہے کہ اس کے چھوڑنے کا کیا نتیجہ ہو گا.پس حضرت عثمان کی طرح میں نے بھی کہا کہ جو قبا مجھے خدا تعالے نے پہنائی ہے وہ میں کبھی نہیں اتاروں گا خواہ ساری دنیا اس کے چھیننے کے درپے ہو جائے.پیس میں آگے ہی آگے بڑھوں گا خواہ کوئی میرے ساتھ آئے یا نہ آئے.مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ابتلاء آئیں گے مگر انجام اچھا ہوگا پس کوئی میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے خواہ وہ کوئی ہو انشاء اللہ تعالے میں کامیاب رہونگا بعض دن تو مجھ پر ایسے آتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ شافت تیک میں زندہ نہیں رہوں گا.اس وقت میں یہی خیال کرتا ہوں کہ مبتنی دیہ زندہ ہوں اتنی دیر کام کئے جاتا ہوں.جب میں نہ رہوں گا تو خدا تعالے کسی اور کو اس کام کے لئے کھڑا کر دے گا.مجھے اپنی زندگی تک اس کام کا فکر ہے جو میرے سپرد خدا تعالیٰ نے کیا ہے بعد کی مجھے کوئی فکر نہیں ہے.یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ نے ہی چلایا ہے اور وہی اس کا انتظام کرتا رہے گا.ازدواجی رشتے طے کرنے کیلئے رہنما اصول "آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی طرز کلام بھی کیسی پیاری ہے کہ ہر ایک جو فطرتِ صحیحہ رکھتا ہے شنکر آپؐ پر قربان ہو جاتا ہے.اہل مغرب میں حسب نسب کا بڑا رواج تھا اس لئے صحابہ نے آنحضرت صلعم سے پوچھا.یا رسول اللہ اسب سے شریف کون ہے ؟ اس سے ان کا یہ منشاء تھا کہ آپ چند قبیلوں کے نام لے

Page 59

۵۴ دیں گے اور انہیں اچھا سمجھا جائے گا.آپؐ نے فرمایا.سب سے شریف وہی ہے جو سب سے زیادہ نیک اور متقی ہو.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ با ہمارے سوال کا یہ مطلب نہ تھا.فرمایا تو پھر سب سے شریف یوسف تھا کیونکہ یوسف نبی تھا اس کا باپ نبی تھا اس کے باپ کا باپ نبی تھا.یسبحان اللہ ! کیا ہی لطیف طرز سے آپ نے صحابہ کے سوال کا جواب دیا کہ ان کی بات کا جواب بھی آگیا اور ان کی دل شکنی بھی نہ ہوئی.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ا ہمارا یہ مطلب بھی نہیں تھا.فرمایا اچھا تو تم لوگ قبائل عرب کے متعلق سوال کرتے ہو.ان میں سے جو جاہلیت میں شریف سمجھے جاتے تھے اسلام میں بھی وہی شریف ہیں مگر شرط یہ ہے کہ دین سے اچھی طرح واقف ہوں “ اخلاق اسی لئے دیکھے جاتے ہیں کہ نتیجہ نیک نکلے.اگر کسی کو اپنے اخلاق اور عادات کے مطابق کوئی لڑکا مل جائے خواہ وہ کسی قوم کا ہو تو اس سے رشته کر دنیا چاہیئے جو آج وضیع سمجھا جاتا ہے وہ کل شریف ہو سکتا ہے.ایک شخص اگر ادتی حیثیت سے مثلاً چوڑھے سے مسلمان ہو تو میں اسی وقت اس کے ساتھ مل کر کھانا کھا لوں گا اور تمہیں اس کا جوٹھا کھا سکتا ہوں اور وہ میرا جو ٹھا کھا سکتا ہے.کیونکہ جب اُس نے لا الہ الا الله محمد رسول الله کہا تو میرے اور اس میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا.اسلام کے لحاظ سے جو میرے حقوق ہیں وہی اس کے ہیں.اس میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک بادشاہ مسلمان ہو کر آیا تھا.کعبہ کا طواف کرتے وقت کسی صحابی کے پاؤں کے نیچے اس کا کپڑا آ کر گر گیا.اس نے اس کو تھپڑ مارا.کسی نے اس سے کہا کہ حضرت عمر " تجھ سے اس کا بدلہ لیں گے.اس نے کہا کیا مجھ غسان کے بادشاہ سے اس مفلس کے مارنے کا بدلہ لیں گے ؟ اور کیا مجھے بھی نہیں چھوڑیں گے ؟ اس نے کہا نہیں.اس کو جو زیادہ شک ہوا تو جا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کہنے لگا کہ کیا اگر کوئی بڑا آدمی تکسی رذیل کو مارے تو آپ اس کا بدلہ تو نہیں لیں گے ؟ انہوں نے کہا.اوجبلہ تو کسی کو نار تو نہیں بیٹھا.اگر تم نے کسی کو مارا ہے تو خدا کی قسم میں ضرور تم سے اس کا بدلہ

Page 60

۵۵ لوں گا.یہ شنکر رات کو وہ بھاگ گیا اور اس کی تمام قوم عیسائی ہو گئی.حضرت عمرؓ نے فرمایا اس کی ہمیں کوئی پروا نہیں ہے.تو حقوق کے لحاظ سے سب مسلمان برابر ہیں یہ مگر شادی میں صرف اسی بات کا خیال نہیں رکھنا بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ جن دو شخصوں کا پیوند ساری عمر کے لئے ہونے لگا ہے ان میں آپس میں اخلاق کا کوئی فرق تو نہیں.اور بعض اقوام کے اخلاق گرے ہوئے ہوتے ہیں.پس ان سے ضرور علیحدہ رہنا پڑے گا تا کہ ہمیشہ کا جھگڑا نہ پیدا ہو جائے لڑکے لڑکی کے امن اور آرام کی وجہ سے ایک حد تک کفو کا خیال بھی رکھنا پڑے گا.لیکن جیسا کہ میں بنا چکا ہوں ہر ایک چیز کی حد ہوتی ہے.خدا تعالے نے اِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ الكُمُ فرما کر یہ قاعدہ بتا دیا ہے کہ اصل شرافت تقومی ہی ہے.پس تم کبھی اس بات پر دلیری نہ کرو.کہ فلاں قوم کمینی ہے.تم بے شک بعض قوموں سے اختلات اخلاق و عادات کی وجہ سے رشتہ سے پر ہیز کرو لیکن کسی کو وضیع نہ کہو.کیونکہ جو آج شریف ہوتا ہے وہ حالات کے بدلنے سے وضع ہو جاتا ہے.اللہ تعالے کے حضور سارے ایک جیسے ہیں جیس کے اخلاقی اور عادات اچھے ہیں وہی اصلی ہے.پس اگر ایسا ہو کہ مرد کے ایسے خیالات اور عادات ہیں جو لڑکی کے خاندان کے خلاف ہیں تو ان کی شادی نہیں ہونی چاہیئے.مگر ایسی شرائط لگانا کہ مغل اور مغل بھی برلاس ہو وغیرہ وغیر یہ نہیں ہونا چاہیئے.تم نیکی اور تقویٰ کو شادی کے معاملہ میں اول دیکھو اب ضرورت مجبور کرتی ہے کہ کچھ مدت کے لئے پھر اسی حکم پر عمل کیا جائے یعنی نہ غیر احمدیوں کو لڑکیاں دی جائیں اور نہ سوائے کسی اشد ضرورت کے ان کی لڑکیاں کی جائیں.کیونکہ اس وقت ہماری جماعت تھوڑی ہے اور یرقت پیش آرہی ہے کہ احمدی تو غیر احمدیوں کی لڑکیوں سے شادی کرلیتے ہیں اور جو احمدی لڑکیاں ہیں وہ غیروں کے ہاں جا نہیں سکتیں.میں ان کے لئے رشتہ ملنے میں دقت ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض کمزور احمدیوں کو ابتلاء آ جاتا ہے اور وہ غیر احمدیوں کو اپنی لڑکیاں دے دیتے ہیں.مجھے بہت سے لوگ لکھتے ہیں کہ لڑکی جوان ہے آپ کہیں شادی کا انتظام کر دیں.میں اس لسورة حجرات - آیت ۱۴

Page 61

09 کے لئے جب اپنی جماعت کے لڑکوں پر نظر ڈالتا ہوں تو ان کی شادیاں غیروں کے گھر ہوتی جاتی ہیں.ہم کہتے ہیں کہ اگر احمدی لڑکوں کی شادیاں غیر احمدیوں کے ہاں کی جائیں تو احمدی لڑکیاں کہاں جائیں.کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ وہ غیر احمدیوں کے ہاں جا کر ابتلاؤں میں پھنسیں.پس جماعت وہی قائم رہ سکتی ہے جو اپنے تمام افراد کا خیال رکھے.آج کل تم اس بات کا خیال کر کے غیروں کی لڑکیاں نہ لو.اور اپنوں کو ابتلاؤں سے بچاؤ تا کہ تمھاری جماعت مضبوط ہو رفت) نماز با جماعت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا : نماز باجماعت پڑھنے میں احمدیوں کو ایک وقت ہے.اور وہ یہ کہ غیر احمدیوں کے پیچھے تو وہ نماز پڑھ نہیں سکتے.اور بعض جگہ احمدی صرف ایک ہی ہوتا ہے اس لئے اسے نماز با جماعت ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا.اور چونکہ نماز با جماعت ادا کرنے میں انسان کو وقت کی پابندی کرنی پڑتی ہے جب نماز با جماعت نہ ملے تو رفتہ رفتہ انسان سُستی کرنی شروع کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے جماعت کے ساتھ تو نماز پڑھنی ہی نہیں جس وقت چاہوں گا پڑھ لوں گا.اس طرح وہ وقت کی پابندی نہیں کرتا اور آخر اول وقت نماز پڑھنے کی عادت جاتی رہتی ہے یا جمع کر کے نماز ادا کرنے کی عادت ہو جاتی ہے.اور نماز باجماعت ادا کرنے سے تو ایسا غافل ہو جاتا ہے کہ اگر کہیں باجماعت نماز پڑھنے کا موقع مل بھی جائے تو بھی سستی کر دیتا ہے.گو یہ عادت ایک مجبوری کی وجہ سے اسے پڑتی ہے لیکن احمدیوں میں ہرگز ہرگز شستی نہ ہونی چاہئیے.جس وقت سستی پیدا ہوئی اسی وقت سے اس جماعت کی تباہی کا آغاز ہو جائیگا انعُوذُ بِالله مِن ذلك، پس جس گاؤں میں کوئی کیلا احمدی ہے وہ کوشش کرے کہ دوسرا پیدا ہو جائے.مجھے امید ہے کہ اگر اس طرح کوشش کرے گا تو خدا تعالئے ضرور اس کا ساتھی پیدا کر دے گا لیکن اگر دوسرا ساتھی نہ ہو تو دوسرے گاؤں میں جا کر جہاں کوئی احمدی ہو دوسرے تیسرے دن نماز باجماعت پڑھو.اور سستی کی عادت نہ ڈالو.اگر تم اس کو بھولے تو یاد رکھو کہ پھر تم ترقی نہیں کر سکو گے.

Page 62

وہ احمد بی جو بڑے بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے مکان تک ان کا جانا مشکل ہوتا ہے ان کے لئے یہ بات نہایت مشکل ہے کہ ہر نماز کے وقت ایک جگہ جمع ہو سکیں.لیکن ان کو چاہیئے کہ اپنے محلہ کے احمدی مل کر با جماعت نماز پڑھا کریں.اور کبھی کبھی سارے اکٹھے ہو کر بھی پڑھیں بستی ہر گز نہیں ہونی چاہیئے.یہ ایسی خطرناک بات ہے کہ اس کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں.مجھے قرآن شریف سے یہی معلوم ہوا ہے کہ جس کو نماز با جماعت پڑھنے کا موقع ملے اور وہ نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی.حضرت ابن عباس کا بھی یہی مذہب ہے " (صامت) زکوة کی اہمیت 〃 زکوۃ کا حکم ایک بے نظیر حکم ہے اور اسلام کی بے انتہاء خوبیوں میں سے ایک روشن خوبی ہے اور بہت سی جماعتوں پر اس کے ذریعہ اسلام کی عظمت کی حجت قائم کی جاسکتی ہے.مثلاً یورپ میں آجکل دو گروہ ہیں.ایک کہتا ہے کہ جتنا کوئی کماتا ہے اسے کمانے دو اور اس کو اپنی محنت کا مثرہ اُٹھانے دو.دوسرا گروہ کہتا ہے کہ سارے ملک کے لوگ کام کرتے ہیں تب ہی دولت آتی ہے اس لئے جو لوگ بہت مالدار ہیں ان سے چھین کر مفلس اور نادار لوگوں کو دنیا چاہیئے تاکہ وہ بھوکے نہ مریں اور ملک کے کاروبار میں خلل واقع نہ ہو.خدا تعالٰی نے ان دونوں گروہوں کی باتوں کو روکر کے ٹھیک اور درست بات بیان فرما دی ہے.اور اسلام نے افراط اور تفریط دونوں کو چھوڑ کر عمدہ بات لے لی ہے.میرا یقین ہے کہ اگر صرف زکوٰۃ کا مسئلہ لے کر یورپ کے سامنے پیش کیا جائے تو کسی کی طاقت نہیں کہ اس کی صداقت اور عمدگی سے انکار کر سکے.بعض لوگ زکوۃ کو ایک چٹی خیال کرتے ہیں لیکن زکوۃ چٹی نہیں ہے.اس کے سمجھنے کے لئے میں تمھیں ایک موٹی بات بتاتا ہوں.گورنمنٹ رعایا سے ٹیکس لیتی ہے..پھر اس ٹیکس سے ملک اور رعایا کی شفاف کے لئے فوج اور پولیس تیار کرتی ہے.رعایا کے آرام کے لئے سڑکیں اور شفا خانی...طت

Page 63

۵۸ بناتی ہے اور طرح طرح کے آرام بہم پہنچاتی ہے تو چونکہ گورنمنٹ رعایا کے آرام کے لئے ہی ٹیکس لیتی ہے اس لئے اس کے اس ٹیکس لینے کو کوئی چیتی خیال نہیں کرتا.اسی طرح زکوۃ بھی چٹی نہیں بلکہ خود انسانوں کے پھلے کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے.جس طرح گورنمنٹیں اپنی رعایا کی بہتری کے لئے ٹیکس وصول کرتی ہیں.اسی طرح اللہ تعالے نے بھی زکوۃ مقرر فرمائی ہے اور اس کے بدلہ میں یہ نر کیا ہے کہ تمھارے اموال میں برکت ہوگی اور وہ ہر ایک قسم کی ہلاکتوں سے محفوظ ہو جائیں گے جیسا کہ فرمایا.خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ تُطَهِّرُهُمْ وتركيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتُكَ سَكَنُ لَهُمْ - (۹: ١٠٣) ان لوگوں کے اموال میں سے صدقات کا مال لو اور اس ذریعہ سے ان کو ظاہری اور باطنی نقصوں سے پاک کر دو.اور ان کے لئے دُعائیں کرو کیونکہ تمھاری دعائیں ان کے لئے آرام اور راحت کا موجب ہیں.غرضیکہ زکوۃ خدا تعالے کی طرف سے ایک ایسا ٹیکس ہے جس کے بدلہ میں انسان پر رحمت اور اس کی ظاہری و باطنی پاکیزگی کا وعدہ ہے.جب سے مسلمانوں نے زکوۃ دینی چھوڑ دی ہے اس وقت سے ان کا مال کم ہی کم ہو رہا ہے.کہاں تو ایک وقت تھا کہ یہ دنیا کے بادشاہ تھے لیکن آج ذلیل وخوار ہو رہے ہیں.زکوٰۃ دینے والے کو اللہ تعالے اسی طرح کامیابی اور پاکیزگی کا وعدہ دیتا ہے جس طرح گورنمنٹ ٹیکس لے کر حفاظت کا وعدہ کرتی ہے.لیکن افسوس کہ لوگ گونمنٹ کے وعدہ کو تو سچا سمجھتے ہیں اور بڑی خوشی سے ٹیکس ادا کر دیتے ہیں لیکن خدا تعالے کے وعدہ کو سچا نہیں سمجھتے اسی لئے زکوۃ نہیں دیتے.زکوۃ کے ذریعہ سے انسان بہت سے دکھوں اور تکلیفوں سے بچ جاتا ہے کیونکہ خدا کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا - رفت تا صه) تعلیمی ترقی کیلئے سکولوں کا قیام ایک اور امر جس کی طرف میں آج آپ لوگوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ جماعت کی تعلیمی ترقی کے لئے میں نے تجویز کی ہے کہ ہر جگہ پرائمری سکول کھولے

Page 64

۵۹ جائیں.چنانچہ میں نے یہ کام شروع کر وا دیا ہے اور اس وقت تک دس کے قریب سکول کھل چکے ہیں.......پس سکولوں کے کھلوانے کی کوشش کرو.اس کے لئے انجمن ترقی اسلام کے ماتحت ہیں نے ایک سب کمیٹی بنا دی ہے جو سکولوں کے کھلوانے کا انتظام کرتی ہے " (ص) مذکورہ بالا مسائل پر اظہار خیال ، تجاویز اور نصائح کرنے کے علاوہ آپ نے دیگر بہت سے مسائل پر بھی گفتگو فرمائی مثلاً سلسلہ کے لئے واعظین اور علماء کی ضرورت اور ان کے متعلق مناسب اقدامات - قرآن با ترجمہ پڑھانے کی ضرورت اور اس کے مناسب انتظامات خط و کتابت کے ذریعہ دینی تعلیم کا انتظام.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور ان کے مطالعہ کا شوق پیدا کرنا اور ان کے امتحانات سلسلہ کے خصوصی عقائد کا انضباط اور ان پر رسالہ جات کی تدوین تاکہ جماعت میں بعد میں کسی قسم کا نظریاتی اختلاف یا غلط فہمی کا استمان نہ رہے.منارة امسیح کی تعمیر نو سے متعلق تحریک بذریعہ ٹریکٹ تبلیغ کرنے کی ضرورت اور قوم کو اس غرض کے لئے قربانیوں کی طرف بلانا وغیرہ وغیرہ.ان سب امور پر آپ نے سیر حاصل بحث فرمائی اور نہایت عمدہ اور ٹھوس پروگرام جماعت کے سامنے پیش کیا.۲۸؍ دسمبر کی دوسری تقریر خالصہ دعوت الی اللہ پر مبنی تھی.یه نهایت گهری علمی تقریر جس میں جگہ جگہ جماعت کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے خدائے واحد و یگانہ کی طرف دوڑے چلے آنے کی دعوت دی گئی ہے.دراصل اول تا آخر قرآن کریم کی مشہور آیت ، آیت الکرسی کی ایک نہایت دلکش تفسیر ہے جس میں خدا تعالیٰ کی مختلف صفات کا نہایت ہی دل آویز نقشہ کھینچا گیا ہے.اس تقریر کا صرف ایک اقتباس نمونہ پیش ہے تا کہ آپ کے طرز بیان کا کچھ اندازہ ہو سکے.اب میں بتاتا ہوں کہ وہ کیا شے ہے جس کی طرف میں آپ لوگوں کو بلاتا ہوں اور وہ کونسا ئکتہ ہے جس کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں.سنو! وہ ایک لفظ ہے.زیادہ نہیں صرف ایک ہی لفظ ہے اور وہ اللہ ہے اسی کی طرف میں تم سب کو بلاتا ہوں اور اپنے نفس کو بھی اسی کی طرف بلاتا ہوں اسی کے لئے میری پکا رہے.اسی کی طرف جانے کے لئے میں بگل بجاتا ہوں.پس جس کو خدا تعالی

Page 65

توفیق دے آئے اور جس کو خدا تعالے ہدایت دے وہ اسے قبول کرے.سب سے زیادہ حسین دنیا میں بہت سی چیزیں ہیں جو بڑی حسین اور بڑی خوبصورت ہیں لیکن جو کوئی چیز بھی دنیا میں ممکن سے ممکن حسین ہو سکتی ہے.وہ خدا تعالے ہی کی مخلوق ہے.خدا تعالے نے ہی اس کو حسن اور خوبی دمی ہے اس کے حسن کو کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی.مگر باوجود اس کے کہ اللہ تعالے سب سے زیادہ حسین ہے.سب سے زیادہ پیارا ہے.سب سے زیادہ خیر و برکت رکھنے والا ہے.مگر دنیا اور نا اہل دنیا اس کو حقارت اور ناقدری کی نظر سے دیکھیتی ہے.وہ رب العالمین ہے اور اس کی عظمت اور دبدبہ کے سامنے سب چیزیں ہیچ ہیں مگر اس سے جو سلوک دنیا کر رہی ہے وہ بہت نفرت اور حقارت کے قابل ہے.حضرت خلیفہ اسح الاول رضی اللہ عنہ اپنے ایک اُستاد کا ذکر سنایا کرتے تھے کہ انہوں نے بھوپال میں خواب میں دیکھا کہ میں شہر سے باہر ایک پل کے پاس کھڑا ہوں.وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کوڑھی پڑا ہے جس کے تمام جسم میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں.اس پر تھیاں ہیں اور سخت تکلیف کی حالت میں ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو.اس نے کہا.میں اللہ میاں ہوں.تمہارا خدا ہوں.میں نے کہا ہم نے تو قرآن شریف میں اپنے خدا کی بڑی تعریفیں پڑھی ہیں کہ وہ ایسا خوبصورت ہے کہ اور کوئی اس کی مانند ہے ہی نہیں.یہ آپ کی کیا حالت ہے.اس نے آگے سے جواب دیا کہ تم یہ جو شکل میری دیکھ رہے ہو یہ میری اصل شکل نہیں ہے بلکہ بھوپال کے لوگوں کی نظروں میں میری یہ شکل ہے.پس تم لوگ بھی اپنے دلوں کو ٹولو.اپنے اعمال کو اپنی باتوں کو اپنے اقوال کو اپنی حرکات کو.اپنی سکنات کو دیکھو کہ دنیا کی جو چیزیں تمھیں پیاری لگتی

Page 66

41 ہیں ان کے مقابلہ میں تمھارے سامنے اللہ تعالیٰ کی کیا شکل ہے.آیا بھوپال والا خدا تو نہیں ہے یا اس کے قریب قریب ہے مگر خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سب بدصورتیوں ساری بدیوں اور تمام برائیوں سے پاک اور منزہ ہے - (۱۰۸) ای سال آپ کے ہاتھ سے جماعت احمدیہ کے لئے بہت سی اہم حمات سر ہوئیں کیا بلحاظ فوری ضرورت کے اور کیا بلحاظ لمبی اور دور رس منصوبہ بندی کے.آپ نے جماعت کے تمام اہم مسائل کی طرف نہایت ہی حکیمانہ توجہ فرمائی اور غیر معمولی قوت کے ساتھ جماعت کو خدمت دین کی راہ پر گامزن فرما دیا.آپ کی مجلس مشاورت کی تقریر جس کا پہلے ذکر گذر چکا ہے اور جلسہ سالانہ کی یہ تقاریر جن کا ابھی ذکر گزرا ہے جماعت کے ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگوں میں نہایت گہرے رنگ میں اثر انداز ہوئیں اور جماعت نے قرآن کریم میں بیان کردہ عروۃ الوثقی کو نہایت مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا.ان تقاریر کے اثر کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جماعت کے وہ بزرگان جو اس زمانہ میں نو عمر تھے آج تک ان تقاریر کی انقلابی تاثیرات کو نہیں بھولے.چند ماہ قبل مکرم محترم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اسے (کینٹب ) (جو پاکستان کے علمی حلقوں میں ایک بہت معروف سی ہیں) کی خدمت میں میں نے اپنے ایک نمائندہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں تاثرات قلمبند کروانے کے لئے بھیجوایا تھا تو انہوں نے از خود ہی ان دونوں مواقع پر کی جانے والی تقریروں کے اثر کا ذکر چھیڑ دیا اور فرمایا :- حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ابتدائی تقاریر جو مجلس شورتی اور پہلے سال کے جلسہ سالانہ پر کی گئیں بڑی عظیم الشان اور انقلاب انگیز تھیں.میرے بھائی قاضی عبد الحمید صاحب ان دنوں نوجوان طالب علم تھے اور ہم سب میں آزاد خیال سمجھے جاتے تھے.لیکن جب انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی یہ تقریریں سنیں تو اتنا گہرا اثر قبول کیا کہ گویا ان کے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا ہو گیا اور وہ ہمیشہ ان کے اثر کا ذکر خود کیا کرتے تھے.یہ قاضی عبدالحمید صاحب وہی ہیں جن کے دل میں اللہ تعالی

Page 67

۶۲ نے نیکی اور تقویٰ کو بعد ازاں اس قدر بڑھایا کہ بالآخر انہوں نے عملاً خدمت دین کے لئے اپنی زندگی کے بہترین سال وقف کر دیئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو ۱۹۳۰ء میں سن رائزہ کے لئے ایک انگریزی دان ایڈیٹر کی ضرورت تھی.حضرت کی نظر انتخاب قاضی صاحب پر پڑی چنانچہ قاضی صاحب موصوف نے آپ کے ایک اشارہ پر وکالت کا کامیاب پیشہ چھوڑ کر بلا چون و چرا اس ذمہ واری کو اُٹھا لیا اور بڑی عمدگی سے سالہا سال تک نباہا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی جو عزت اور احترام اُن کے دل میں قائم ہو چکا تھا یہ اسی کا اثر تھا کہ اپنی زندگی کے ہر اہم موڑ پر انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ہی سے رہنمائی حاصل کی اور انہی کے مشورہ کو رہنما بنایا.یہانتک کہ شادی جیسا نجی معاملہ بھی حضور ہی کی مرضی اور اجازت ہے طے کیا.تقسیم ملک کے بعد ذریعہ معاش کے طور پر جب دوبارہ دوستان کو اختیار کرنے کا ارادہ ہوا تو اس میں بھی حضور نہی سے رہنمائی حاصل کی.یہ فیصلہ بھی کہ کہاں وکالت کی جائے آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا.یہ ایک نمونہ اس اثر کا پیش ہے جو حضرت خلیفہ اسح کی تقاریہ کو اللہ تعالے نے عطا فرمایا تھا.یہ مثال ایک نوجوان تک ہی محدود نہیں بلاشبہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے خطابات سے اس درجہ متاثر ہوتے تھے کہ اپنی زندگی کی باگ ڈور کامل اطاعت کے ساتھ حضرت خلیفہ ایسیح کے ہاتھوں میں تھما دیتے تھے.ایسے بعض اور نوجوانوں کا ذکر مختلف جگہوں پر موقع و محل کے مطابق آتا رہے گا.جلسہ سالانہ کی تقاریر کا عمومی تاثر جو حاضرین جلسہ نے قبول کیا اس کا ذکیہ کرتے ہوئے اخبار الفضل مورخہ ۱۳۱ دسمبر ۹۱اه بعنوان خلافت ثانیہ کا پہلا جلسہ سالانہ رقمطراز ہے: "نور الدین اعظم رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہمارا پہلا سالانہ جلسہ اپنے معمول کے مطابق ہوا.مگر خدا کے فرشتوں نے اس کو غیر معمولی

Page 68

طور پر کامیاب بنایا.عدو نے چاہا کہ قادیان کی رونق کو کم کرے اور خلافت محمود کی عظمت کو نقصان پہنچائے.لیکن خدا نے چاہا کہ اس کے منصوبوں کو پیوند خاک کرے اور خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے الفاظ خلیفہ خدا بناتا ہے اپنے جلال کے ساتھ پورے ہوں چنانچہ زمینی اسباب پر بھروسہ رکھنے والوں نے دیکھ لیا کہ ان کی مخالفانہ کوششیں کچھ کام نہ آئیں اور با وجود ایام جلسہ کی زیادتی اور قادیان کے سفر کی صعوبت کے رُوئے احمد پہ قربان ہونے والے زائرین پروانہ وار دیار جیب میں پہنچے غرض خدا تعالے نے اپنے ہاتھ سے سب کام کر کے دکھا دیا اور بتا دیا کہ خلیفہ ہم بنایا کرتے ہیں.اس سال کا جلسہ سالانہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے قابل ممبارک اور اپنی شان کے لحاظ سے اپنی نظیر آپ رہا ہے.........سب سے بڑی خصوصیت اب کی مرتبہ یہ تھی کہ قادیان میں آنے والے وہ مخلصین تھے.جو دامن محمود سے وابستہ ہو کر یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا جلسہ محض میں ملاقات نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور ہم قادیان میں ایک مزکی نفس کی پاک صحبت سے مستفیض ہونے اور اس کی دعاؤں سے حصہ لینے کے لئے آئے ہیں.جلسہ پر آنے والے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے شن لیا کہ انہوں نے جس ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے وہ ایک معمولی انسان کا ہاتھ نہیں بلکہ اسس اولوالعزم انسان کا ہاتھ ہے جو سیح کے ہاتھوں میں پلا ہوا اور نور الدین کے ہاتھوں میں تربیت پایا ہوا اور خود خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے کھڑا کیا ہوا ہے.اور پھر انہوں نے یہ بھی ملاحظہ کر لیا کہ ان کا خلیفہ اگر چہ کسی قابلیت اور کسی علم کا تدعی نہیں تاہم خدا نے اُسے وہ کچھ سکھایا ہے جس کا علم فرشتوں کو بھی نہ تھا اور وہ طرز بیان و فہم قرآن بخشا ہے جو خاصان خدا کا

Page 69

۶۴ خاصہ ہے.اس کے کلام میں اثر اس کی تقریر میں لذت اس کے احکامات میں رعب ہے.اگر وہ فرماتا ہے بیٹھ جانا مناسب ہے تو جھٹ کھڑے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں.......پھر اگر وہ فرماتا ہے کہ مسجدوں میں با جماعت نماز پڑھنے کی نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے بہت تاکید فرمائی ہے تو اس کے حکم کی تعمیل میں فوراً تینوں مسجدیں بھر جاتی ہیں.اور مسجد مبارک میں تو یہ کیفیت نظر آتی ہے کہ کیا چھت اور کیا فرش کیا بازار کیا دکانیں اور کیا قرب وجوار کے مکانات سب کے سب دور دور تک خدا کے مقرر کردہ امام و خلیفہ کے مقتدیوں سے بھر جاتے ہیں.کاش قادیان کے ساتھ محبت کرنے والے لوگ اس منظر کو دیکھتے اور صفائی قلب سے خدا تعالے کے فعل اور اس کی پیدا کردہ کشش قلوب پر غور کرتے اور فضل عمر کے ساتھ آنے والے فضل سے حصہ لیتے.مگر ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده (اتفضل اور دسمبر ۱۹۱۳ ص۲) املہ کا سال بھی سلسلہ کی طرح ایک حد تک اندرونی فتنوں کے استیصال میں میر ہوا.اس دور کی تقاریر اور کتب کا موضوع زیادہ تر اختلافی مسائل تھے یا وہ ذاتی اعتراضنا تھے جو غیر مبایعین کی طرف سے بڑی شدت اور بے رحمی کے ساتھ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر کئے جاتے تھے.چنانچہ اس سلسلہ میں سب سے پہلا رسالہ آپ نے ۲۱ جنوری شاہ کو تحریر فرمایا جو القول الفصل" کے نام سے شائع ہوا.یہ رسالہ جو اٹھراہ ، صفوان پر مشتمل ہے.آپ نے ایک ہی دن میں لکھوا کر اور نظر ثانی کر کے طباعت کے لئے دے دیا.اس سے آپ کی بے پناہ قوت تصنیف کا اندازہ ہو سکتا ہے اس رسالہ کی تصنیف کی تقریب اس طرح پیدا ہو ئی کہ خواجہ کمال الدین صاحب جب ولایت سے واپس تشریف لائے تو اپنی قابلیت اور فصاحت و بلاغت کے زعم میں ان کو یہ خیال گذرا کہ مرزا محمود احمد کی مخالفت میں ابھی کچھ کمی رہ گئی ہے اور جماعت کے سنجیدہ طبقہ کو معقولی دلائل کے ساتھ جو اپیل ہونی چاہیے تھی اس میں کوتاہی ہوئی ہے.علاوہ ازیں اہل پیغام کی قیادت کے ی

Page 70

۶۵ بعض بنیادی فیصلوں سے بھی ان کو اختلاف تھا.مثلاً ان کا قادیان چھوڑ کر لاہور چلے آنا وغیرہ.چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے ایک بسیط اور بظاہر بہت مدتل لیکچر اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب کے موضوع پر دیا جسے بعد میں کتابی صورت میں شائع کر کے مبائعین میں بکثرت مفت تقسیم کیا گیا.جب حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ تک اس کا ایک نسخہ پہنچا تو اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر اور اس خیال سے کہ اگر مؤثر رنگ میں اس کا فوری رد نہ کیا گیا تو احبات جماعت میں غلط فہمیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے.نیز اس لئے بھی کہ اس مضمون میں متعدد مرتبہ آپ کا نام لے کر مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس بات کا جواب مرزا نمود احمد صاحب خود دیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خود ہی اس موضوع پر تسلیم اٹھانا مناسب سمجھا.اور بلا تاخیر ایک ہی دن میں اس کام کو مکمل کر کے جوابی مضمون شائع فرما دیا.اس رسالہ کی اشاعت پر آپ کے کردار کے دو پہلو نکھر کر سامنے آتے ہیں.اول آپ کی بے پناہ تصنیفی صلاحیت - دوم - انہم کاموں کو غیر معمولی تیزی اور انہماک کے ساتھ سرانجام دنیا.یہ دونوں پہلو آپ کی وفات تک اسی طرح قائم و دائم رہے اور عمر اور حوادث زمانہ ان پر اثر انداز نہ ہو سکے.آپ کی تصنیفی صلاحیت کا دوسرا اظہار تین ہی ماہ کے بعد ایک اور کتاب حقیقۃ النبوۃ " کی صورت میں ہوا.یہ کتاب مولانا محمد علی صاحب امیر جماعت اہل پیغام کے ایک رسالے کے جواب میں ہے جس کا نام القول الفصل کی ایک غلط فہمی کا اظہار ہے.یہ جواب تین سو صفحات پر مشتمل ہے.۱۴؍ فروری کو آپ نے اس ٹھوس علمی تصنیف کا آغاز فرمایا اور ۲۰ دن کے اندر اندر مارچ 1912ء میں طبع کروا کر شائع کر دی ہیے ے یہاں حضرت مولنا غلام رسول صاحب را نیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت درج کی جاتی ہے.جو اسی تصنیت منیف سے تعلق رکھتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں : 191ء میں خاکسار لاہور سے مرکز مقدس میں سید نا حضرت خلیفہ ایسیح الثانی ایدہ اللہ نصره العزیز کی خدمت میں حاضر ہوا.میں اپنے ساتھ مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائعین کا ایک ٹریکی بھی لیتا آیا جو ان دنوں تازہ شائع ہوا تھا اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کر دیا حضور نے ارشاد فرمایا کہ اب اس ٹریکیٹ کا جواب بھی طبع ہونے پر لے جائیں اور مولوی محمد علی صاحب کو پہنچا دیں " رحیات قدسی حصہ نیم ۳۵)

Page 71

اس کتاب میں مسئلہ نبوت کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور شرح وبسط کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت ایک خلقی اور تابع نبوت ہے اور کسی پہلو سے بھی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شان میں کمی کرنے والی نہیں ہے بلکہ آپ کی شان کو دوبالا کرنے کا موجب ہے.آپ نے خاتم النبیین کی نہایت عمدہ اور لطیف حقیقت بیان فرمائی اور فرمایا کہ آیت خاتم النبیین کے وہ معانی جو غیر مبائعین کی جماعت کرتی ہے نہ صرف یہ کہ عقل اور محاورہ عرب کے مطابق نہیں ہیں بلکہ حضور اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کی کسر شان کا موجب بنتے ہیں.اس کے برعکس جماعت احمدیہ قادیان کے پیش کردہ معانی سے حضور کی ارفع شان اور بے نظیر مراتب کا اظہار ہوتا ہے.یہ کتاب جو ٹھوس عقلی اور نقلی دلائل پر مشتمل ہے.حضور اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کا ذکر آنے پر ایک نیا ہی رنگ اختیار کر لیتی ہے اور آپ کی طرز نگارش عاشقانہ جذبات میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے.کتاب میں ایسا ربط و ضبط اور تسلسل ہے کہ سیاق وسباق سے الگ کر کے کوئی اقتباس پیشیں کرنا مشکل ہے.یہ کتاب تمام تر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے.اس کتاب کے فوائد اور اثرات کا ذکر کرتے ہوئے الفضل ۱۲۲ فروری ۱۹۱۶ء رقمطراز ہے :- اس وقت تک غیر مبائعین کے ایک کثیر حصہ کے سوا غیر احمدی لوگوں میں سے بہت سے اصحاب نے بھی اس سے فائدہ اُٹھایا ہے.یعنی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے ہیں.اس کی تازہ مثال اس خط سے مل سکتی ہے.جو چو ہدری محمد رمضان صاحب مولوی فاضل پلیڈر نے تحریر فرمایا ہے.آپ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھتے ہیں کہ خاکسار جناب حضرت مسیح موعود علیہ السّلام مرحوم و مغفور کی ہمیشہ 1914ء حضرت خلیفہ ایسی الثانی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی اس تصنیف میں اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.کل شام کو حتی فی اللہ مولوی غلام رسول صاحب ساکن را نیکی لاہور سے تشریف لائے اور ایک کاپی اس رسالہ کی اپنے ساتھ لیتے آئے جس سے مجھے اس کا علم ہوا.اور آج ۱۴ فروری کو دوپہر کے وقت یہ رسالہ پڑھنے کے بعد نماز ظہر سے فارغ ہو کر اس کا جواب میں نے لکھنا شروع کر دیا ہے" (حقیقة النبوة مش طبع اول)

Page 72

عزت کرتا رہا ہے اور یہ خدا وند کریم کا فضل ہے کہ کبھی کوئی کلمہ آپ کی ذات مبارک کی نسبت ہے ادبی پا گستاخی کا سرزد نہیں ہوا.اور نہ ہی کبھی کوئی بد خیال آپ کی نسبت میرے دل میں پیدا ہوا فَالْحَمْدُ لِلّهِ عَلى ذلِكَ - مگر خاکسارہ ابھی سلسلہ میں داخل نہیں ہوا تھا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ نبوت کے مسئلہ کے متعلق مجھے تردد تھا.سو خداوند کریم کا نہایت شکر ہے کہ آپ کی کتاب حقیقۃ النبوۃ کو میں نے غور سے مطالعہ کیا ہے جس سے یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے کیونکہ جس نبوت کے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام مصداق ہیں وہ ب وہ ہرگز خاتم النبین کے منافی نہیں ہے اور ایسی نبوت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شان کو زیادہ کرتی ہے نہ کہ کم.اور میں جناب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جناب کی اس کتاب نے مجھے ہدایت کی ہے.خدا وند کریم حضور کے درجات بلند کرے اور اجر عظیم عطا فرمائے " (صت) اس دور کی ایک اہم تصنیف سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے جو سیرت پر سادہ اور سلیس اردو میں ایک نہایت دلکش مضمون ہے.اور جون شاملہ کو آپ نے زندہ خدا کے زبر دست نشان "کے موضوع پر ایک مقالہ لکھا جس میں انقلاب روس کو صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طور پر پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ کس طرح سہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایہ روس کی حالت زار کی خبر دی تھی زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار" در ثمین) جبکہ کوئی زار روس کی حالت زار کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن پیشگوئی کے پورے بارہ سالی کے بعد بعینہ اسی طرح جس طرح بتایا گیا تھا.زار انتہائی ذلت اور رسوائی کے ساتھ مارا گیا اور اس کی حالت زار حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی صداقت پر ایک عالمگیر شہرت رکھنے والانشان بن گئی.اس دور کی بعض دوسری تصانیف حسب ذیل ہیں :- (۱) چند غلط فہمیوں کا ازالہ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب.(۳) ایک فرمانروائے ریاست کو تبلیغی خط.(۴) عظیم الشان بشارت ریزبان سندھی)

Page 73

ایک نئے اخبار کا اجراء اسی سال یعنی ، اکتوبر اللہ کا واقعہ ہے کہ حضور کے ایماء پر محترم میر قاسم علی صد علی صاحب مرحوم نے ایک نیا اخبار فاروق جاری کیا ر میر صاحب موصوف دہلی سے ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان میں سکونت پذیر ہو گئے تھے، جس نے خلافت حقہ کی تائید اور اہل پیغام کی تردید میں گرانقدر خدمات سر انجام دیں.انہیں دونوں کا ذکر ہے کہ مدیر فاروق جناب میر قاسم علی صاحب مرحوم کو ایک دفعہ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے آپ کے گھر پر بے تکلف ماحول میں ملاقات کا موقع ملا.یہ موقع اس لحاظ سے بیش قیمت تھا کہ مدیر موصوف کو حضرت صاحب کی خوابگاہ اور زمین سمین کے طریق کو قریب سے دیکھنے کا موقع میستر آیا اور انہوں نے اپنے قلم سے اس کی سادہ مگر دلکش اور زندہ جاوید تصویر فاروق کے اوراق میں ہمارے لئے محفوظ کر دی.آپ لکھتے ہیں :- میں نے دیکھا کہ کوئی تکلف کا فرنیچر نہیں.معمولی فرشی دری بچھی ہوئی تھی اور ایک طرف حضور کے آرام فرمانے کی چار پائی ہے.البتہ سب سے بڑی آرائش جو حضور کو پسند ہے یہ تھی کہ دیواروں پر قطعات بلا چوکھٹے و آئینہ آویزاں تھے جن پر نہ کوئی گل کاری یا بیل بوٹے بنے ہوئے تھے نہ وہ سنہری یارو پہلی روشنائی سے لکھے ہوئے تھے معمولی سیاہی سے نستعلیق حروف میں سفید کاغذوں پر قلمی لکھ کر لٹکا دیتے ہیں.ان کے مضمون کیا ہیں وہ اس مکان سے مکین کے اس تعلق کو زبان حال سے ظاہر کر نیوالے ہیں جو اس کو خدائے واحد ولا شریک سے ہے.....میں ذرا ہیں ہر ایک قطعہ کا مضمون نقل کرتا ہوں :- (1) تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَ اللهُ يُرِيدُ الخِرَةَ - (الانفال آیت ! د تر جمہ :.تم دنیوی اموال کے طالب قرار پاؤ گے ان کےاللہ تعالی ہمارے لئے آخرت کی نعمتیں چاہتا، (۲) بدین دار فانی دلِ خود مبند که دار و نهان را حقش صد گزرند دتر جمہ.اس فانی گھر میں دل مت لگا کہ اسکی خوشیاں سینکٹوتی کلیفوں پر ہیں.

Page 74

49 (۳) منه دل در منتہائے دنیا گر خدا خواہی کرنے خواہد نگاره من تهی دستان عشرت را دتر جمہ.اگر خدا کو چاہتا ہے تو دنیوی نعمتوں پر فریفتہ نہ ہو میرا محبوب انہیں لوگوں کو پسند کرتا ہے جو عیش و عشرت ترک کر چکے ہیں.(۴) بیٹے دار عقے کمر بستہ چست - (۵) دیدم از هجر خلق جلوه یار (4) برونگر انجام کن اسے غنوی.(6) وہ جو معائنہ عذاب سے پہلے اپنا تارک الدنیا ہونا ثابت کر دیں گے.(م) (۸) نادان کہتا ہے کہ ہم دنیا کو چھوڑ دیں.واللہ میرا دل پھڑک اٹھا ان تحریروں کو پڑھ کر یا احمد لہ ہوٹل کا قیام د فاروق قادیان - - ار فروری شد ۱۹۱۵ء میں آپ نے لاہور میں احمدیہ ہوسٹل جاری فرمایا.آپ کا یہ اقدام احمدی نوجوانوں کے لئے دُور رس فوائد کا حامل ثابت ہوا.احمد یہ ہوسٹل کے قیام کی بڑی غرض یہ تھی کہ احمدی نوجوانوں کو مغربی تعلیم کے بداثرات سے محفوظ رکھا جائے اور ان کی ذہنی نشونما ایک ایسے ماحول میں ہو جس پر احمد تیت کا رنگ غالب ہو.یہ مقصد بفضلہ تعالے اس ہوٹل کے قیام سے بدرجہ اتم پورا ہوا اور جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کو ایک ایسا پاکیزہ ماحول میسر آگیا جس میں رہ کر نئی تعلیم کے بد اثرات سے محفوظ رہتے ہوئے وہ مغربی علوم کو اسلام کی تائید میں پیش کرنے کے قابل ہو گئے.غرضیکہ جدید علوم کے وہ ہتھیار جو عیسائی دنیا کی طرف سے اسلام کے خلاف استعمال کئے جارہے تھے احمدی نوجوانوں کے ہاتھوں میں نہایت مئوثر رنگ میں اسلام کی تائید میں استعمال ہونے لگے.اس دور کے احمدی نوجوانوں کی اعلیٰ تربیت کے اسباب میں سب سے بڑا سبب یہ امر ثابت ہوا کہ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نوجوان طلباء سے براہ راست تعلق رکھتے.ان کی تربیت فرماتے نئی تعلیم کی طرف سے پیدا ہونے والے اعتراضات کے تسلی بخش جواب

Page 75

ان کو سمجھاتے اور وہ طریق سکھاتے جس سے یہی اعتراضات بڑے موثر رنگ میں دشمنان اسلام کے خلاف استعمال کئے جاسکتے تھے.طلباء بے تکلف حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے اور نئے علوم اور فلسفوں سے پیدا ہونے والی الجھنوں کا ذکر کر کے رہنمائی کے طالب ہوتے.حضور جب لاہور تشریف لے جایا کرتے تو اکثر احمدیہ ہوسٹل میں قیام فرماتے.جہاں مغرب کی نماز کے بعد کمرہ نماز ہی میں مجلس علم و عرفان قائم ہوتی.ان مجالس میں احمدی طلباء بسا اوقات اپنے غیر از جماعت دوستوں اور اساتذہ کو بھی لے کر آتے جن میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی فراست اور تبحر علمی کا پہلے سے ہی شہرہ تھا اور چاہتے تھے کہ کوئی ملاقات کا موقع میتر آئے.ہر مذہب اور ہر مکتب فکر کے دانشور طلباء اور اساتذہ ایسے موقعوں پر بڑے دلچسپ سوال کرتے جن کے جوابات سائلین کے علاوہ احمدی نوجوانوں کے لئے علمی تربیت کا نہایت عمدہ ذریعہ ثابت ہوتے.اس ہوسٹل کے حسن تربیت سے ایسے ایسے سعید درشید نوجوان تیار ہوئے جنہوں نے توفیق الہی عمر بھر سلسلہ حقہ کی گراں قدر خدمات انجام دیں.جزا ہم اللہ احسن الجزاء افسوس ہے کہ یہ سلسلہ مستقل طور پر جاری نہ رہ سکا اور ایک وقت ایسا آیا کہ حضرت خلیفتہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے احمدیہ ہوسٹل میں قیام ترک فرما دیا.اس واقعہ میں چونکہ ایک گرا سبق ہے اس لئے اس کا بیان کر دیا نا مناسب نہ ہوگا.ایک مرتبہ ایک ایسے طالب علم کے والد نے جو احمدیہ ہوسٹل میں قیام پذیرتھا حضرت خلیفہ ایچ الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ آپ جب لاہور آتے ہیں احمدیہ ہوسٹل میں قیام فرماتے ہیں اور بعض اوقات یہ قیام بہت لمبا ہو جاتا ہے.احمدی طالب علموں کو آپ سے ہیں محبت ہے کہ وہ اس دوران پڑھائی کو یکسر بھلا کر اپنا سارا وقت آپ کے لئے وقف کر دیتے ہیں.جس کے نتیجہ میں اُن کی پڑھائی میں بہت خرج واقع ہو جاتا ہے.حضور کو اس خط سے بہت جذباتی تکلیف پہنچی.حضور جانتے تھے کہ لکھنے والے نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ درست نہیں اور احمدی نوجوانوں کی تعلیم پر حضور کے قیام سے کوئی برا اثر نہیں پڑتا.تاہم اس بناء پر کہ ہر حال والدین تو تعلیم کی غرض سے اپنے بچوں کو احمدیہ ہوسٹل میں بھجواتے ہیں ان کا حق ہے کہ ایسی وجوہات دور کرنے کا مطالبہ کریں جن سے ان کی دانست میں بچوں کی پڑھائی میں حرج واقع ہوتا ہو آپ نے احمدیہ ہوسٹل میں قیام فرمانا ترک کر دیا.لیکن افسوس ہے کہ اس کا نتیجہ کسی پہلو

Page 76

سے بھی اچھا نہ نکلا.اس واقعہ کے کئی سال کے بعد ایک خطبہ میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی منی اللہ تعالی عنہ نے اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خلیفہ وقت کا احمدی طالب علموں کے پاس ٹھہرنا در حقیقت کسی پہلو سے بھی ان کے لئے نقصان کا موجب نہیں تھا بلکہ ہر پہلو سے برکت ہی کا موجب تھا.پس تم اس وقت سے پہلے اور بعد کے طلباء کے نتائج پر نظر ڈال کر دیکھ لو.جب تک میں احمدیہ ہوسٹل میں ٹھہرتا رہا.بظاہر طلباء کا وقت ضائع ہو جانے کے باوجود وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے طالب علم ثابت ہوئے اور ان کے تعلیمی نتائج نہایت شاندار تھے لیکن اس اعتراض کے بعد جب سے میں نے رہائش ترک کی ہے دینی لحاظ سے جو نقصان پہنچا وہ تو الگ ہے تعلیمی لحاظ سے بھی حالت پہلے سے بہت گر گئی ہے اور نتائج کا معیار قابل افسوس ہے.یہ واقعہ لکھنے سے مقصد یہ ہے کہ احمدی نوجوانوں کے دلوں میں خلیفہ وقت کی حقیقی عظمت قائم ہو اور وہ جان لیں کہ خلافت احمدیہ اپنے ساتھ بعض ایسی برکات رکھتی ہے جن کو منطقی موشگافیوں کے پیمانے سے نہیں ناپا جاسکتا اور خلافت پر بعض اوقات اوئی اعتراض بھی بہت سی دینی و دنیوی برکتوں اور سعادتوں سے محرومی کا باعث بن جاتا ہے.سفر لاہور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے بعض سفروں کی مختصر رویداد پہلی جلد میں قارئین کی نظروں سے گذر چکی ہے.ان سفروں کی روئداد پڑھتے ہوئے انسان خصوصیت سے یہ بات محسوس کرتا ہے کہ آپ کا کوئی سفر بھی تبلیغی مصروفیات اور دینی مشاغل کے بغیر نہیں تھا تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے کام ہمیشہ ساتھ ساتھ جاری رہتے.1912ء میں بھی آپ کو کئی سفر پیش آئے.جن میں سفیر لاہور خاص اہمیت رکھتا ہے اس سفر میں آپ نے لاہور پہنچتے ہی جماعت کو ایک سند نکاتی پروگرام دیا جو حسب ذیل تھا :.اول - تمام احمدی احباب جو وعظ و تبلیغ کا ملکہ رکھتے ہیں ایک ہی شام مقررہ اوقات میں لاہور سے محلے محلے میں دل نشین پیرایہ میں احمدیت کا پیغام پہنچانا شروع کر دیں.اور یہ کام اس زور و شور اور لگن کے ساتھ ہو کہ شہر لاہور اس کا نوٹس لئے بغیر نہ رہ سکے.کھلی گلی کوچے کوچے میں احمدیت کا ذکرہ چل پڑے اور دلوں میں احمدیت کے لئے بکثرت جستجو پیدا ہو جائے.

Page 77

دوم - اہل پیغام کو ایک دفعہ پھر عمدہ پیرایہ میں اختلافات چھوڑ کر باہمی اتحاد کی دعوت دی جائے اس کے لئے تجویز ہوئی کہ اہل پیغام کی بڑی بڑی شخصیتوں مثلاً مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب وغیرہ کو خصوصی ایلچی بھیج کر بعد احترام و تاکید دعوت پر بلایا جائے اور حضرت خلیفہ ایسے ایک مرتبہ خود ان کے سامنے اختلافی مسائل پر گفتگو فرما کہ اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کو واپس آنے کی ترغیب دیں.سوھ - ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا جائے جس میں لاہور کے ہر طبقے ہر حلقے اور ہر ندید وملت کی نمائندگی ہو اور معززین شہر خاص طور پر مدعو ہوں.اور اس موقعہ حضرت خلیفہ ایسیح خود انہیں اپنی زبان مبارک سے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا پیغام پہنچائیں.ان تجاویز نے عملاً لا ہور کی آبادی کے ہر طبقہ اور ہر حلقہ پر اثر ڈالا.اور جیسا کہ حضور کا ارشاد تھا تمام جماعت لاہور منتظم طریق پر تبلیغ میں مصروف ہو گئی اور لاہور شہر میں نہیں تبادلہ خیالات کی سینکڑوں دلچسپ مجالس قائم ہوئیں.دوسری طرف تجویز ۲۰ کو عملی جامہ پنانے کے لئے مبارک منزلی لاہور میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا.اور اہل پیغام وغیر مبانین) کے رہنماؤں کو فردا فردا دعوت دی گئی کہ وہ در جولائی بعد نماز مغرب اس دعوت طعام میں شریک ہو کر شکریہ کا موقع دیں.اس میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ متنازعہ فیہ مسائل کے متعلق بے تکلفانہ اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں گے.افسوس ہے کہ کسی بھی قابل ذکر غیر مبائع رہنما نے اس دعوت کو قبول نہ کیا.البتہ ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب نے جو ایا یہ پیشکش کی کہ صرف حضرت صاحب کی تقریر رکھنے کی بجائے دو تقریریں رکھی جائیں تو غور ہو سکتا ہے.ایک تقریر آپ کے امام کی ہو اور ایک جوابی تقریر ہمارے امیر مولوی محمد علی صاحب کی.ڈاکٹر صاحب کی اس تجویز کو رو کرنے کی سجائے اس کا فوری جواب دیا گیا.اور بعض شرائط کے ساتھ اس طریق کو قبول کر لیا گیا.نتیجہ اس مسئلہ پر دو طرفہ خط و کتابت کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اس تمام خط و کتابت کا کسی قدر تفصیل کے ساتھ تذکرہ الفضل ۲۵ جولائی شاہ میں درج ہے رفته رفته تقریروں کی تجویز مناظرہ میں تبدیل ہوگئی اور مناظرہ کی شرائط بھی کم وبیش طے پاگئیں لیکن آخر پر اہل پیغام نے یہ عذر پیش کیا کہ جب تک ان کی مجلس عاملہ اس مسئلہ پر کوئی فصیلہ

Page 78

نہیں کرتی کسی قطعی نتیجہ تک نہیں پہنچا جا سکتا.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تجویز کی کہ خط و کتابت کی بجائے اس مرحلہ پر معمولی اختلافات گفت وشنید کے ذریعہ مٹانا زیادہ سهل طریق ہے اور کم سے کم وقت میں نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے.لہذا آپ نے ایک وفدا احمد یہ بلڈنکس لاہور اس مرض سے روانہ کیا کہ جلد از جلد سب امور طے کر کے مناظرہ کی تاریخ اور جگہ کا فیصلہ کیا جائے.یہ وقد اس روز احمدیہ بلڈنگس میں رات کے بارہ بجے تک مصروف گفتگو رہا اور جب تقریباً سب معاملہ طے ہو گیا تو دوسرے روز صبح ڈاکٹر محمد حسین صاحب کی طرف سے از سر تو تحریری خط و کتابت کی پیشکش موصول ہوئی.اس پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فیصلہ فرمایا کہ وہ مزید وقت ضائع کئے بغیر قادیان واپس تشریف لے جائیں اور ایک ایسے با اختیار وفد کو پیچھے چھوڑ جائیں جو اہل پیغام سے مناظرہ کا معاملہ طے کرلے.لیکن افسوس ہے کہ اس وفد کی تمام تر کوشش بالآخر نا کام ہوئی اور اہل پیغام نے کسی نہ کسی عذر کے تحت خود اپنی پیش کردہ تجویز مناظرہ سے بھی دامن چھڑا لیا.جہاں تک تیسری تجویز کا تعلق ہے یعنی جلسہ عام کا اہتمام اور اس میں تمام اہل مذاہب کو شمولیت کی دعوت دنیا یہ تجویز خدا کے فضل سے نہایت موثر بلکہ توقع سے بڑھ کر کامیاب ثابت ہوئی.اس تقریر کا موضوع حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا پیغام تھا.اور تمام اہلِ مذاہب بیک وقت مخاطب تھے.آپ کے فن خطابت کا یہ کمال تھا کہ بیک وقت مختلف طبقات اور علم کے مختلف درجے رکھنے والے سامعین کو ایسے رنگ میں مخاطب فرماتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک بات کو خوب سمجھتا تھا خواہ وہ عارف ہو یا عامی حتی کہ ایک ان پڑھ کے لئے بھی آپ کی بات کا سمجھنا آسان ہوتا تھا.اور تقریر کے دوران خواہ کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو ایک ناخواندہ آدمی بھی کبھی یہ محسوس نہ کرتا تھا کہ یہ اس کے فہم و ادراک سے بالا ہے بلکہ مسلسل ہمہ تن گوش رہتا.بایں ہے ایک عالم بھی ان سادہ اور آسان باتوں کو معمولی نہ جانتا بلکہ ہمیشہ یہ تاثر لے کر اٹھتا تھا کہ وہ ایک ایسے سمندر میں غوطہ زن ہو کر آیا ہے جو علم و عرفان کے جواہر سے پُر ہے علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک ہی وقت میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو احمدی کی طرف بلایا جاتا تھا اور تمام عرصہ ہر فرقے اور ہر مذہب کے پیرو مسلسل تقریر کا اپنے ہی آپ کو مخاطب سمجھتے تھے اور کبھی یہ احساس پیدا نہ ہوتا تھا کہ یہ باتیں دوسروں کے لئے ہیں،

Page 79

میرے لئے نہیں.حضور کی مذکورہ تقریر بھی اس فن خطابت کا ایک شاہر کار تھی.جس طرح کثرت سے ہر طبقے اور ہر مکتب خیال کے لوگ اور مختلف مذاہب کے ماننے والے وہاں اکٹھے ہوئے اور جس طرح ہمہ تن گوش رہ کر اس تقریر کوسنا - اخبار الفضل کا نمائندہ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:.حضور کے تقریر شروع فرمانے کے بعد چند منٹوں میں سامعین پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ ہر وہ شخص جو جلسہ گاہ میں موجود تھا مثل تصویر نقی حیرت نظر آتا تھا.حضور نے خدا تعالے کے رب العالمین ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تقریر شروع فرمائی پھر اسلام کے سچے اور اعلیٰ مذہب ہونے کے دلائل بیان فرمائے.بعدہ دنیا میں انبیاء کے آنے کی ضرورت کو واضح طور پر مختصر مگر نهایت موثر و دل نشین الفاظ میں بیان فرمایا.اس کے بعد انبیاء جو دنیا کی اصلاح کرتے ہیں اس کی تشریح فرمائی.اور حضرت مسیح موعود نبی اللہ کے ان کا مون کو سر انجام دینے کی طرف سامعین کو توجہ دلائی جو انبیاء دنیا میں آکر کیا کرتے ہیں.بالآخر آپ نے حضرت مسیح موعود کے پیغام صلح" کی طرف لوگوں کو دعوت دی.......تقریر کا مئوثر اور دلکش ہونا اور یہ امر کہ خدا تعالے نے خود لوگوں کے دلوں میں شرکت جلسہ کی تحریک، فرمائی تھی اس سے ظاہر ہے کہ باوجود اس کے کہ سخت گرمی کا موسم تھا.لوگ نہایت تنگی سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھے ہوئے بلکہ بہت سے کھڑے تھے لیکن پھر بھی جب حضرت خلیفہ ایسی نے دن بجکر دس منٹ پر اپنی تقریر کوختم فرمایا اور کرسی پر رونق افروز ہو گئے تو کوئی شخص بھی نہ اپنی جگہ سے ہلا اور نہ کسی قسم کی آواز نکالی.تمام کی تمام جلسہ گاہ میں خاموشی اور سکوت کا عالم طاری تھا.جب کچھ دیر تک لوگ نہ اُٹھے تو حضرت خلیفہ المسیح نے حکم فرمایا کہ اذان کہی جائے.اور اذان کہی گئی تو

Page 80

۷۵ بریز لوگوں کو اختتام تقریر کا یقین ہوا.اور وہ بصد حسرت و افسوس اُٹھے اُٹھ کر چلنے لگے چونکہ ہر مذہب و ملت ہر حیثیت، ہر مذاق و خیالات کے لوگ موجود تھے اس لئے کچھ محل تعجب نہ ہوتا اگر حاضرین میں سے کوئی شخص کسی بات پر اظہار ناپسندیدگی دبے لطفی کرتا.لیکن سامعین پر فرداً فرداً نظر کرنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب کے سب ہمہ تن گوش ہوش بنے ہوئے کامل توجہ اور پی پی سے لیکچر سنتے میں محو ہیں اور ختم تقریر کے بعد ابھی کچھ اور سُفنے کے منتظر تھے؟ داخبار الفضل قادیان ۱۵ جولائی اور جلد ۳ ص ۲) - لیکن برا ہو حسد کا کہ اس تقریر کی کامیابی بعض معاندین کو ایک آنکھ نہ بھائی.اور انہوں نے اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے غلط رپورٹنگ کرتے ہوئے معاندانہ حاشیہ آرائی کے ساتھ اس کا ذکر کیا.جماعت احمدیہ کی طرف سے تو ان امور کا نوٹس نہیں لیا گیا.کیونکہ یہ حاسدانہ رویہ خود تقریر کی عظمت اور کامیابی پر دال تھا.لیکن ایک سکھ جریدہ لائل گزٹ نے اس نامناسب رویہ کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا.معاندانہ رنگ اختیار کرنے میں اہل پیغام کے علاوہ آریہ سماجی اخبارات پیش پیش تھے.سکھ معاصر لامل گزٹ اپنی اشاعت د راگست میں آریہ سماجیوں کے اس غلط اور غیر منصفانہ رویہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے :.مرزا بشیر الدین محمود احمد خلف الرشید مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے گزشتہ دنوں لاہور میں تشریف لا کر ایک دلچسپ اور مفید لیکچر دیا.لیکن سننے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ غریب احمدیوں کو منتظمان جلسہ نے فرش سے اُٹھا کر ایک ناہموار سی ہے فرش جگہ پر جگہ کی قلت کے سبب بیٹھنے کی تکلیف دی.........ہم نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ جب تک آریہ سماجی فرقہ موجود ہے یہ بیل منڈھے چڑھنے نہ پائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور مرزا صاحب کے اس لیکچر پر ایک آریہ اخبار نے بہت کچھ دروغ بیانی سے کام لے کر ان پر ایسے نا واجب حملے کئے ہیں کہ افسوس آتا ہے ؟ اس سفر کی ایک اور اہمیت یہ تھی کہ آپ نے عورتوں کی خصوصی تربیت کی مہم کا آغاز فرمایا

Page 81

اور پہلی مرتبہ لاہور میں مستورات کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مختلف اہم موضوعات پیر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.مرد اور عورت کے حقوق بیان فرمائے.عورتوں کی اسلامی خدمات کا بڑے دل نشین الفاظ میں ذکر فرمایا تاکہ احمدی عورتوں میں جذبہ خدمت بیدار ہو.احمدی عورتوں پر خوب واضح کیا کہ خدمت دین کے معاملہ میں وہ مردوں سے کسی طرح پیچھے رہنے پر مجبور نہیں بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ خدمت دین کے ہر کام میں حصہ لے سکتی ہیں.اور اُن کو لینا چاہیئے.احمدی مستورات پر اس پہلو سے اُن کی حیثیت اور اہمیت واضح فرمائی کہ لاہور جیسے عظیم ثقافتی اور علمی مرکز میں رہ کر اُن کی جماعتی ذمہ داریاں غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں.پھر اُن پر یہ بھی واضح فرمایا کہ دین کو مشکل نہیں سمجھنا چاہیئے اور اس خوف سے دینی علم سیکھنے ی.گریز نہیں کرنا چاہیئے کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں.آپ نے آیہ کریمیہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ للذكر هل من مذکر کی نہایت لطیف تفسیر کرتے ہوئے انہیں نہایت سادہ پیرا یہ میں اس کے مطالب سمجھائے.اور عورت کے مقام کی عظمت کو واضح کرتے ہوئے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے دین کا علم اس کثرت سے لوگوں کو پہنچا کہ ساری اسلامی دنیا اُن کی عزت کرتی ہے اور رہتی دنیا تک ان کا نام زندہ رہے گا.پھر اختلافی مسائل مثلاً حضرت عیسی علیہ السّلام کی وفات کے مسئلے اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی صداقت کے مسائل کو بھی نہایت آسان پیرایہ میں سمجھا کہ اس بات کا عملی ثبوت دیا کہ دین نہ تو تفقہ کے اعتبار سے مشکل ہے اور نہ نظریات اور عقائد کے اعتبار سے.اور کسی بھی علمی معیار کا مرد ہو یا عورت ، دونوں دینی مسائل کو آسانی سے ذہن نشین کر سکتے ہیں.غرضیکہ یہ اصلاحی تقریر خورتوں میں ایک نیا ولولہ اور شوق اور خدمت دین کا عزم پیدا کرنے کا موجب بنی.اس تقریر کے موقع پر کچھ غیر احمدی خواتین بھی موجود تھیں.جنہوں نے اسی وقت آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس تقریر کے اثر پر مہر تصدیق ثبت کر دی.احمدی خواتین کی تربیت کے سلسلہ میں یہ تقریر محض ایک نقطہ آغاز تھی.بعد ازاں طویل عمد خلافت میں مستورات کی تربیت کی طرف آپ ہمیشہ خصوصی توجہ دیتے رہے ، اور احمدی خواتین کی دینی حالت سنوارنے کے لئے اور اسلام کی راہ میں ہر قسم کی قربانی پر اُن کو آمادہ کرنے کے لئے آپ ہمیشہ نئی تجاویز اور نئے لائحہ عمل اُن کے سامنے پیش کرتے رہے لیکن ان امور کا تذکرہ آئندہ صفحات میں اپنے وقت پر ہوتا رہے گا.سوره قمر آیت اہم

Page 82

66 اسی سال مستورات کی بہبود کے لئے دوسرا اہم اور مستقل نوعیت کا اقدام آپ نے یہ کیا کہ جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر احمد می خواتین کے لئے الگ نشست کا انتظام فرمایا ہے چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک باقاعدہ مستورات کے لئے الگ جلسہ گاہ تیار کی جاتی ہے اور یہ طریق کار احمدی مستورات کی تربیت کے لئے بہت ہی دُور رس نتائج پیدا کرنے والا ثابت ہوا.رفتہ رفتہ یہ جلسہ گاہ ایک الگ جلسہ گاہ کی شکل اختیار کر گئی.چنانچہ بعد ازاں حضرت خلیفہ ایسیح اور بعض دوسرے بزرگان کی اہم تقاریر کے علاوہ جو مردانہ جلسہ گاہ کے ساتھ زنانہ جلسہ گاہ میں بھی سنائی جاتی تھیں مستورات کو اپنا الگ پروگرام مرتب کرنے کا بھی موقع ملنے لگا.اور احمدی مستورات میں علمی تقاریر کرنے والی خواتین پیدا ہونے لگیں.سفر شمده ماه ستمبر ۱۹۱۷ ء میں حضور نے بعض مصالح کے پیش نظر شملہ کا سفر اختیار فرمایا.اس سفر کا مقصد بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :- پچھلے دنوں میں ترجمے کا کام کرتا رہا ہوں جس سے میرے دماغ پر اتنا میں رہا ہوں بوجھ پڑا کہ ایسی حالت ہوگئی جو میں ایک سطر بھی لکھنے سے رہ گیا، اور بخار ہو گیا.اس لئے اب میرا ارادہ باہر جانے کا ہے.اصل نشاء تو یہی ہے کہ ذرا سا آرام ہو سکے.مگر پھر بھی میں اپنے فرائض سے اور اس کام سے جو خدا نے میرے سپرد کیا ہے غافل نہیں ہوں.بعض رویا، میں نے دیکھی ہیں جن کی بناء پر میں کہ سکتا ہوں کہ کچھ اور مصالح بھی میرے سفر میں ہیں.الفضل قادیان مستمری اوائ مٹ حضرت صاحب نے یہ سفر اگرچہ خلافت کے ابتدائی ایام میں اختیار کیا مگر اس سفر کی رو نداد کو دیکھکر معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ آپ کے سفروں کا کم و بیشیں ایک ہی اندازہ رہا.آغاز خلافت کے سفر ہوں یا آخری دور کے سب میں تقریباً بنیادی نقوش ایک سے نظر آتے ہیں.سفر پر له الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۱۵

Page 83

LA جانے سے پہلے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی میں آپ ایک امیر مقرر فرمایا کرتے تھے اور ایک امام الصلوۃ - امیر کو مقامی امور میں اسی طرح واجب الاطاعت قرار دیتے تھے جس طرح خود آپ کی اطاعت مبائین پر فرض تھی.بعض اوقات کبھی سفر سے پہلے خطبہ جمعہ میں یا کسی تقریب کے موقعہ پر وقتی تقاضوں کے مطابق نصائح فرمایا کرتے لیے سفروں سے پہلے عمو با حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے مزار مقدس پر دعا کے لئے جاتے.روانگی سے قبل اجتماعی دعا ہوتی اور کچھ صدقہ بھی دیا جاتا.آئندہ کے سفروں کی روئداد بیان کرتے وقت ہمیں یہ باتیں دہرانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ ہر سفر میں آپ کایی معمول رہا.سفر کے ساتھیوں کا انتخاب بھی دلچسپ مطالعہ کا مواد پیش کرتا ہے.اہل خانہ کے علاوہ آپ بسا اوقات بھائیوں، بہنوں، بھتیجوں ، بھانجوں وغیرہ میں سے بعض کو ساتھ لے جاتے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی شفقت کا دائرہ محض آپ کے اہل و عیال تک محدود نہ تھا بلکہ دیگر اقرباء کو بھی آپ اکثر اپنی محبت و شفقت سے نوازتے رہتے تھے.علاوہ ازیں غالباً ایک مقصد یہ بھی تھا کہ سفر کے موقع پر چونکہ بے تکلفی کے ماحول میں باہم ملنے کے مواقع زیادہ میسر آتے ہیں اس لئے دیگر اہل خاندان کو بھی آپ کی صحبت اور تربیت کا موقع میتر آتا رہے.اہل قافلہ کے انتخاب کے وقت آپ سلسلہ کے بعض نئے اور میرا نے خدام اور بزرگان کی اولاد کو بھی پیش نظر رکھ لیا کرتے تھے اور کبھی اپنے ازواج کے رشتے داروں کو بھی شامل کر لیا کرتے تھے اسی طرح کبھی ایسے بزرگان سلسلہ کو بھی ساتھ لے جاتے جن میں خود سفر کی استطاعت نہ ہوتی لیکن ان کی صحت متقاضی ہوتی کہ انہیں کچھ آرام میسر آئے.اور تبدیلی آب و ہوا ہو جائے.مندرجہ بالا طریق انتخاب بھی ہمیشہ آخر عمر تک تبدیل ہوئے بغیر قائم رہا.زیر نظر سفر میں آپ نے اہل خانہ کے علاوہ حسب ذیل ساتھیوں کا انتخاب فرمایا.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب (برادر خورد) (۲) صاحبزادہ میاں عبدالسلام صاحب عمر دربرادر نسبتی وخلف الرشید حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ) (۳) حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیتر رم حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی (نومسلم)

Page 84

(۵) مولوی عطا محمد صاحب - 69 (4) نیک محمد خانصاحب غزنوی (مهاجر افغانستان ) بعد میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی شملہ بلوا لیا گیا.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کے ساتھ جماعت کو جو محبت اور پیار کا تعلق تھا اس کا کسی حد تک اندازہ اس سفر کی روئداد پڑھنے سے لگایا جاسکتا ہے.آپ کے سفری کے بارہ میں لکھنے والے خاص محبت کے جذبات میں ڈوب کر قلم اُٹھاتے تھے.سفر کا پہلا اعلان اس شعر سے کیا گیا ہے شاد باش اے کو ہ شملہ شادزی فضل " سویت میهمان آید ہے اس کے بعد قادیان سے روانگی کے وقت آپ کی الوداعی تقریر کا ذکر کرتے ہوئے محترم قاضی الحمل صاحب نائب مدیر الفضل نے جس انداز میں اس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے اس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ جماعت کا آپ سے تعلق صرف انتظامی رنگ میں مطاع اور مطبع کا نہ تھا بلکہ عاشق اور محبوب کا تعلق تھا.مکرم قاضی صاحب کا یہ مختصر نوٹ من وعن پیش ہے.وہ رات جس کی صبح ، احباب شملہ مجھے معاف فرمائیں گے ہمارے لئے شام فراق لانے والی تھی حضور کی ایک تقریر دلپذیر کی وجہ سے جو بعد از نماز مغرب فرمائی دارالامان میں رہنے والے احباب کو بالخصوص یاد رہے گی.سامان کتابت پاس نہیں تھا.عزیز عطا کی عطا اور کچھ اپنے جیب و داماں کے پرزے کام آئے.گیارھویں کا چاند بلکے ابر کی نقاب ڈالے عالم بانا کے جھروکے سے زمین قدس کے بدر و نجوم ایک ہی برج میں ہم دیکھ رہا تھا.اس کی چاندنی میں صرف پنسل کی حرکت صفحہ قرطاس پر نظر آسکتی تھی.گلچین بہار کو دامان تنگ کا گلہ ہونے کے علاوہ یہ مشکلات تھیں.مگر پھر بھی وہ ایک دستنبو تیار کر سکا جو پیشکش محفل مودت منزل احباب دومی الالباب ہے.(الحمل) جس تقریر کا قاضی صاحب نے ذکر فرمایا ہے.یہ اہل قادیان کے لئے خصوصا اور جماعت احمدیہ کے لئے عموما نہایت قیمتی نصائح پر مشتمل تھی اور حضرت صاحب کے کردار

Page 85

خیالات اور رحجانات کا مطالعہ کرتے ہیں آج بھی ہماری محمد ہے.نظر نہایت باریک اور حکیمانہ تھی.انداز گفتگو سادہ اور دلنشین - نصیحت نہایت دلربا انداز رکھتی تھی.ایسی جو دل کی گہرائیوں میں اُتر جائے.دوران گفتگو بعض ضمنی اعترافا کا بھی نہایت عمدہ ترانہ میں جواب دیتے چلے جاتے تھے.یہی انداز آخر تک قائم رہا.جماعت کو اس اہم نقطہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ خدا کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں ہوتا آپ نے فرمایا :- یہ خوب یاد رکھو کہ اللہ کا کوئی حکم نہ تو بوجھل ہے نہ چھوٹا.5 لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ.ذکر کے معنے عمل کے بھی ہوتے ہیں.یعنی ہم نے قرآن کو عمل کے لئے آسان کر دیا ہے.پیارے کی ہر چیز پیاری ہوتی ہے اور بڑے کی ہر چیز بڑی.پس خدا کے کسی حکم کو چھوٹا نہ سمجھو البتہ چھوٹا یوں ہو سکتا ہے کہ اس کی سزا کم رکھی ہے.ورنہ یوں تو خدا کی ہر ایک نا فرمانی بڑی بات ہے.میں تو کفر کا مسئلہ بھی اسی طرح حل کیا کرتا ہوں کہ نبی کا اس کے بذاتہ کفر نہیں.وہ تو ہمارے جیسا ہی ایک انسان ہوتا ہے.بلکہ اس وحی کا انکار کفر ہے جو اس پر نازل ہوتی ہے " اطاعت امیر جماعت قادیان کو دوسری جماعتوں کے لئے نمونہ بننے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا :- یکیں یہاں کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خلافت اور امارت ہیں فرق ہے.خلیفہ کے ساتھ مذہبی تعلقات (سبعیت بھی ہوتے ہیں اس لئے خلفاء کی تو مان لیتے ہیں اور اپنے امیروں کی نہیں مانتے یا اس کے لئے شرح صدر نہیں پاتے.یہی وجہ ہے کہ میں تاکید کرتا ہوں اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں کہتا ہوں جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور میں نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی یہ

Page 86

آپس کی محبت دوسرے میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ آپس میں محبت بڑھاؤ اور اپنے کو دوسروں کے لئے نمونہ بناؤ جیسے تمہار سے درجے بڑے ہیں ، ویسے ہی تمہاری ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں.تمہاری معمولی سی لغزش بھی خطرناک ہے.ایک بد شکل کریمہ المنتظر کے چہرے پر مکھیاں سمیٹی ہوں تو چنداں بُری معلوم نہیں ہو ہیں.لیکن ایک حسین کے منہ پر ایک نبی سکھی ہو تو تیری معلوم ہوتی ہے.پس تمہاری پوزیشن اور ہے اور باہر والوں کی اور یہ نہ کہو کہ جھگڑے تو باہر بھی ہوتے ہیں اگر چہ مجھے جھگڑے کہیں بھی پسند نہیں.پھر بھی قادیان میں تو اس کے متعلق بڑی احتیاط چاہئیے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انداز تربیت حضرت صاحب کی اصلاح کا اندازہ بڑا لطیف اور عجیب تھا.ایک شخص آیا اُس نے باتوں ہی باتوں میں یہ بھی بیان کر دیا کہ ریلوے ٹکٹ میں میں اس رعایت کے ساتھ آیا ہوں.آپ نے ایک روپیہ اس کی طرف پھینک کر مسکراتے ہوئے کہا کہ اُمید ہے جاتے ہوئے ایسا کرنے کی آپ کو ضرورت نہ رہے گی.خلیفہ وقت پر کئے جانے والے اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے کہ حضرت عمر تو را توں کو پھر پھر کر خبر گیری کیا کرتے تھے جماعت کو زمانے کے بدلے ہوئے تقاضوں کی طرف تو یہ دلائی اور فرمایا :- خلیفہ وقت پر اعتراض حضرت عمر کہتا ہیں نہیں لکھا کرتے تھے اور نہ ان کے نام باہر ہے اتنے لمبے سو سوا سو خطوط روزانہ آیا کرتے تھے جن کے جواب بھی اُن

Page 87

کو لکھنے یا لکھانے پڑتے ہوں پھر فی زمانہ خلیفہ وقت کے مشاغل پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے فرمایا :- خلیفہ وقت کے مشاغل اس کے علاوہ میرے ذہن میں جماعت کی ترقی کی سیکس میں ہیں.از انجلہ ایک یہ کہ وہ کیا تدابیر ہیں جن پر چلنے سے جماعت میں آئندہ خلافت کے متعلق کوئی فتنہ نہ ہو.(ب) عورتوں کی تعلیم کے متعلق نصاب (ج) سیاسی امور سے ہمارے تعلقات کس طرح ہوں.ان سب پر کچھ لکھنے والا ہوں اور یہ سب کام میرے ہی ذمہ ہیں جو تیں کروں گا اور کر رہا ہوں.اگر مقامی احباب کی خبر گیری اور شہر میں پھر بھی کر ان کے گھروں میں جا جا کر فرداً فردا حال پوچھنا تھی پر ڈالتے ہو اور آپ لوگ خود یہ نہیں کریں گے کہ اپنے اپنے محلہ کی بیواؤں، یتیموں ، بیکسوں ، ضرورت مندوں کی خبر رکھو تو یہ کام میں بڑی خوشی سے بآسانی کر سکتا ہوں.مگر پھر جماعت کی بیرونی ترقی کے امکانات کم ہو جائیں گے.میں بتا چکا ہوں کہ اب زمانہ اور طرز پر آگیا ہے.اب خلیفہ کے لئے صرف سلسلہ کے مرکز کا مقام ہی نہیں بلکہ باہر کی تمام جماعتوں کی باگ بھی براہ راست اپنے ہاتھ میں لکھنی پڑتی ہے اور مخالفین سے بھی زیادہ تر خود ہی پیٹنا پڑتا ہے اور یہ کام ہے بھی سارا دماغ کے متعلق.میں جب باہر نہیں آتا یا کوچہ کوچہ پھر کر خبر گیری نہیں کرتا تو کئی لوگ سمجھتے ہوں گے کہ مزے سے اندر بیٹھا ہے.انہیں کیا معلوم کہ میں تو سارا دن ترجمہ وغیرہ لکھنے یا جماعت کی ترقی کی تجاویز سوچنے ، ڈاک کا جواب دینے دلانے میں جنوح کر کے ان گرمی کے دنوں میں بھی رات کے ایک بجے تک اس کام کے لئے جاگتا رہا ہوں.پھر تمہارے لئے دعائیں کرنا بھی میرا فرض ہے کبھی کبھی مجھے خیال

Page 88

آیا کرتا ہے کہ میں ہفتہ بھر کسی کو اپنے ساتھ رکھوں تا معلوم ہو کہ میں فارغ نہیں بیٹا اور نہ آرام طلب ہوں.غرض اب خلیفہ کے کام کی نوعیت بدل گئی ہے اور ان حالات کی موجودگی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تقلید مجھ پر ضروری نہیں.حقیقت حال سے بے خبر اعتراض کرتے ہیں زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا ایک بار پھر ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : み " پھر کاموں کی نوعیت میں بھی فرق ہوتا ہے.جنگ کا تعلق اس زمانہ میں جسمانی حالت سے تھا.اس لئے اس کے واسطے جفا کشی محنت اور خشن پوشی کی ضرورت تھی اور چاہیے تھا کہ غذا بھی سادہ ہو بلکہ اکثر بھوکے رہنے کی عادت ہو.مگرا تصنیف کا تعلق دماغ سے ہے.اس کے لئے نرم لباس - نرم غذا چاہیئے اور اپنے آپ کو حتی الوسع تنہائی میں رکھنا کیونکہ تصنیف کا اثر اعصاب پر پڑتا ہے.اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں نے حضرت عیسے پر اعتراض کیا کہ وہ روز کم رکھتا ہے اور کھاؤ پیو ہے.نادان یہ نہیں سمجھتے کہ حضرت موسیٰ کا زمانہ نہ تھا.وہ تو ایک علمی زمانہ تھا.ان کو مخالفین کے مقابل پر تقریریں کرنی پڑتی تھیں اور یہود کی کتابوں کا مطالعہ - موقع موقع کی بات ہوتی ہے چونکہ آپ کو اس بات کی سخت فکر دامنگیر رہتی تھی کہ آپس کے جھگڑوں کی بناء پر احباب جماعت کی مثالی محبت میں رخنہ نہ پڑ جائے.اس لئے آخر پر محور جماعت کو باہم محبت اور بیار سے رہنے کی نصیحت حسب ذیل پر اثر الفاظ میں فرمائی : دیکھو ایک وقت حضرت ابوبکر و حضرت عمر میں جھگڑا ہو گیا.بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ باتیں کرتے کرتے ہاتھ کو بھی حرکت دے لیتے ہیں اس طرح نادانستہ طور پر حضرت ابو بکر کا تہبند پھٹ گیا بایں ہمہ حضرت ابو بکر نے باوجود بزرگ ہونے کے حضرت عمری سے معافی

Page 89

چاہی وہ اس وقت جوش میں تھے.لہذا ابو بکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں حاضر ہوئے اور آکر یہ شکایت نہیں کی کہ عمران نے مجھ سے لڑائی کی یا مجھے دُکھ دیا.بلکہ یہ کہ عمر مجھے معاف نہیں کرتا.حضرت عمر بھی آگئے اور معذرت کی.دیکھو یہ تھے خیرالقرون کے یتھیں بھی ایسا ہی بنتا چاہیے کہ اگر کبھی بتقاضائے بشریت جھگڑا ہو جائے تو فوراً صلح کرلو اور دل میں کینہ نہ بٹھا چھوڑو الفضل در ستمبر ۱۹۱ئه مهتام بیماری کے باوجود اس سفر کے دوران آپ کو اہم جماعتی امور کی طرف توجہ دینے کا وقت بھی میسر آتا رہا.جماعت کے کاموں کی جو لگن آپ کے دل میں تھی.وہ دست با کار اور دل بایار کا منظر پیش کرتی ہے.صحت کی بحالی کے لئے تشریف لے جاتے ہیں لیکن جماعتی غم اور شکر مسلسل جان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.آپ نے شملہ سے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے بذریعہ اشتہار ایک اہم پیغام دیا جس کا مندرجہ ذیل اقتباس میرے مافی الضمیر کو مزید واضح کرنے میں محمد ثابت ہوگا:.میں نے احباب سے جلسہ سالانہ کے موقع پر کہا تھا کہ ان انجمنوں کی مالی حالت کی کمزوری میری صحت اور میرے کام پر بد اثر ڈالتی ہے کیونکہ جس شخص کے کانوں میں ہر وقت یہ آواز آدے کہ اس سلسلہ کے کاموں کے چلانے کے لئے جس کا امر خدا تعالے نے اس کے سپرد کیا ہے روپیہ کی سخت تنگی ہے اور ہر ایک کام سخت خطرہ کی حالت میں ہے وہ کب تندرست رہ سکتا ہے اور کب وہ ان زیادہ ضروری کاموں کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے جو جماعت کی حقیقی ترقی سے متعلق ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ خلفاء پر صرف مالی انتظام کا ہی بوجھہ نہیں.اور امور بھی ان کی طبیعت پر بوجھ ڈالنے کا باعث ہوتے ہیں مگر اس وقت جبکہ روپیہ پر بہت سے کاموں کا دار ومدار ہے جماعت کی رُوحانی ترقی کے خیال کے بعد یہ بوجھ بھی ایک بہت بڑا بوجھ ہے.پس میں اس اشتہار کے

Page 90

ذریعہ ہے اپنی جماعت کے احباب کو پھر اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ انجمن ترقی اسلام کی مالی حالت کی درستی کی بھی فکر کریں.میں ان دنوں بیمار ہوں اور مجھے فکر ہے کہ یکن اپنی زندگی میں جماعت کی ہر قسم کی حالت کو درست دیکھ لوں شملہ آنے سے میری صحت میں ترقی معلوم ہوتی ہے لیکن پھر بھی طبیعت ابھی بہت کمزور ہے.چنانچہ تین چار دن سے پھر تپ کا دورہ ہے اور اس وقت بھی کہ میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں میں تپ محسوس کرتا ہوں.پس مجھے جلدی ہے کہ کسی طرح احمدی جماعت کے تمام کام میری زندگی میں تکمیل کے درجہ پر پہنچ جائیں اور اس کی طرف میں آپ لوگوں کو خاص طور پر متوجہ کرتا ہوں.اللہ تعالے کا فضل ہے کہ اُس نے مجھے ایک ایسی جماعت کا انتظام سپرد کیا ہے جس کی نسبت اگر میں یہ کہوں کہ وہ میری آواز پر کان نہیں رکھتی تو یہ ایک سخت ناشکری ہوگی.میری بات کی طرف توجہ کرنا تو ایک چھوٹی سی بات ہے میں دیکھتا ہوں کہ بہت ہیں جو میرے اشارے پر اپنی جان اور اپنا مال اور اپنی ہر عزیز چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِك - اور اس اخلاص بھری جماعت کو مخاطب کرتے وقت میرا دل اس یقین سے پر ہے کہ وہ فورا اس نقص کو رفع کرنے کی کوشش کرے گی.جس کی طرف میں نے ان کو متوجہ کیا ہے" (اخبار الفضل فضمیمه ۲۲ ستمبر اور ملا ) شملہ کے قیام کے دوران حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خطبات جمعہ اور عید کے علاوہ تین اہم لیکچر دیئے اور منتقد در غیر از جماعت دوستوں اور احباب جماعت سے ملاقاتیں کیں.حضور کے شملہ پہنچنے کے بعد اور بھی بہت سے احمدی خاندان وہاں پہنچے گئے اور شملہ میں خوب رونق ہو گئی.حضرت صاحب کا پہلا خطاب جماعت احمدیہ شملہ کے ایڈریس کے جواب میں تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی طبیعت بہت ناساز تھی.لیکن جماعت کی دل شکنی کے احتمال سے آپ نے یہ دعوت قبول فرمائی.اس موقع پر آپ نے

Page 91

AY حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا جسے من وعن اس لئے پیش کیا جارہا ہے کہ احباب جماعت کو اندازہ ہو سکے کہ اللہ تعالے کے برگزیدہ بندے کس طرح اپنے اوپر غیر معمولی مشقت عاید کر کے بھی دوستوں کی دلداری کرتے ہیں.لیکن پھر بھی تن آسان معترضین کی زبانیں ہیں کہ طعن و تشنیع سے باز نہیں آتیں اور راحت کا سامان کرنے والوں کے لئے دُکھ کا سامان فراہم کر تی ہیں.میں اگر چہ بیمار ہوں اور گلے میں درد ہے.اور میرا ارادہ آج تقریبیہ کرنے کا نہ تھا لیکن بعض وقت انسان کو اپنے ارادے کے خلاف مجبورا کرنا ہی پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک موقع پر جلسہ کے دنوں میں بوجہ ہماری باہر تشریف نہ لا سکتے لوگ حضرت صاحب کو دیکھنے اور آپ کا کلام سننے کے بہت خواہشمند تھے.کچھ لوگوں نے مجھے کہا کہ میاں صاحب جا کر آبا سے کہو کہ حضور باہر تشریف لاویں.میں اس وقت چھوٹا تھا.میں نے جا کر حضرت صاحب سے اسی طرح کہہ دیا.اس پر حضرت صاحب خفا ہوئے اور فرمایا کہ میاں کیا تم نہیں جانتے کہ میں بیمار ہوں.تم نے کیوں خود ہی ان لوگوں کو جواب نہ دے دیا.میرے پاس کیوں آئے یکیں واپس آگیا اور آکر ابھی لوگوں سے یہ واقعہ بیان ہی کر رہا تھا کہ کسی نے کہا کہ حضرت صاحب بڑی مسجد کو تشریف لے جا رہے ہیں.اور آپ کی وہاں تقریر ہوگی.اب میں دل میں بہت شرمندہ ہو رہا تھا کیونکہ مجھے خیال آیا کہ میں تو ابھی آپ سے پوچھ کر آیا تھا اور حضرت صاحب کے کہنے کے مطابق ہی ان لوگوں کو بتا رہا تھا کہ حضرت صاحب بیمار ہیں وہ نہیں آ سکتے.اب یہ لوگ کہیں گے کہ شاید میں نے یہ بات یونہی آکر کہہ دی تھی.سو بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ باوجود ہماری کے اور با وجود ارادہ نہ ہونے کے بھی انسان کو بولنا ہی پڑتا ہے کہ الفضل ۲ اکتوبرت له من (9)

Page 92

دوسرا لیکچر اس پبلک جلسہ میں ہوا جو جماعت احمدیہ شملہ نے اس مبارک موقع سے فائد اُٹھاتے ہوئے منتقد کیا تھا اس جلسہ میں حضرت میر قاسم علی صاحب ، حضرت میر محمد اسحق صاحب اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی دلچسپ اور موثر تقاریر کے بعد آخری روز ۳۰ ستمبر ا ل کو حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے زندہ مذہب کے عنوان سے ایک نہایت موثر اور مفید لیکچر دیا.اس لیکچر کے آخر پر آپ نے دنیا کے تمام مذاہب کے پیروؤں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ چیلنج دیا کہ مبادا تم لوگ یہ خیال کرو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو دنیا سے گزر گئے.اب اسلام کی سچائی کا زندہ ثبوت کہاں سے حاصل کیا جائے.ہیں اللہ تعالے پر توکل کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خود اپنے آپ کو زندہ ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہوں اور یہ بیچ دیتا ہوں کہ آج بھی اگر کسی مذہب کے پیرو آزمائیش کرنا چاہیں تو کچھ مریضوں کا انتخاب کر کے انہیں قرعہ اندازی کے ذریعہ بانٹ لیا جائے.میں اپنے حصہ کے مریضوں کے لئے دعا کروں گا وہ اپنے حصے کے مریضوں کے لئے دعا کریں پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کے ساتھ ہے.اور کسی کی دھارے کو نمایاں اور امتیازی شان کے ساتھ قبول کرتا ہے.تغییر الیکچر ۲ اکتوبرت والے کو مستورات میں ہوا.یہ ایک انتہائی دل نشین اور دلگداز لیکچر ہے.اور اس لائق ہے کہ اسے ہر زمانہ میں احمدی مستورات کے سامنے پیش کیا جاتا رہے.ان تینوں تقاریر کے مطالعہ سے بشدت یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسے قاری کو جیں نے حضور کے آخری زمانہ کی تقاریر شنی ہوں یہ معلوم نہ ہو کہ مذکورہ بالا تقاریر کس دور میں کی گئی تھیں تو وہ نفسِ مضمون اندازیہ بیان اور کلام کی پختگی کے اعتبار سے ہرگز یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ خلافت کے ابتدائی ایام کی تقاریر ہیں جبکہ حضور کی عمر صرف ۲۵-۲۶ برس کی تھی.کچھ عرصہ ہوا ایک دوست نے مجھ سے بعینہ اسی تاثر کا اظہار کرتے ہےجو تعجب ظاہر کیا اور ساتھ یہ سوال بھی کیا کہ اگر نو عمری میں بھی آپ کا ذہن اتنا پختہ ہو چکا تھا اور طرز کلام ایسی موثر ہو گئی تھی تو پھر کیا آپ نے خلافت کے بقیہ پچاس سالوں میں کوئی ترقی نہیں کی ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ علمی ترقی اور چیز ہے اور پختگی فکر اور چیز.اگر چہ کم عمری ہی میں آپ کو بالغ نظری میسر تھی مگر وسعت نظر کوئی ایسی جامد حقیقت نہیں کہ کسی ایک

Page 93

AA مقام پر جا کر ٹھہر جائے بلکہ ہر بالغ نظر کے فکری آفاق ہمیشہ پھیلتے اور وسیع تر ہوتے رہتے ہیں اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالے نے خلافت کی ذمہ داری عطا کرنے کے ساتھ ہی آپ کے تمام ذہنی اور قلبی قومی کو ایسی پختگی عطا کی جو احمدیت کے امام کے شایان شان تھی اور اس زمانہ کے معتمر بزرگ اور بڑے بڑے علماء بھی اس خاص موسیتِ الہی کے نتیجہ میں آپ کے علم و فضل کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہو گئے لیکن علم و فضل میں ترقی کا سلسلہ اس مقام پر رک نہیں گیا بلکہ بعد ازاں بھی علم و فضل میں آپ کی ترقی دو طرح سے جاری رہی.اول تو اس کی وسعتیں بڑھتی چلی گئیں اور روز بروز نئے علوم پر آپ کو دسترس حاصل ہوتی گئی.دوسرے نئے نئے قرآنی معارف پر آپ اطلاع پاتے رہے اور قرآنی علوم پر آپ کی فکر و نظر اور گھری ہوتی چلی گئی.آپ کے علم و فضل کی مثال گویا ایسے شفاف اور سیراب کرنے والے دریا کی طرح تھی جو اپنے منبع سے دور ہوتے ہوئے وسعت پذیر ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک بحر ذخار میں تبدیل ہو جاتا ہے.ر اکتوبر اوار کو جب آپ شملہ سے واپس تشریف لائے تو راستے میں حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر دعا کرنے کی خاطر را جپورہ اسٹیشن پر اُتر گئے.پھر بیاں سے واپسی پر ستور اور پٹیالہ کی پرانی مخلص جماعتوں کی پر زور خواہش کے پیش نظر کچھ عرصہ وہاں ڈر سے اور صداقت اسلام کے موضوع پر ایک موثر اور مدکل تقریر فرمائی.جس کا سامعین مسلموں پر گہرا اثر پڑا.

Page 94

بعض غیر مسلم زائرین سے انفرادی ملاقاتیں قادیان ہمیشہ مرجع خاص و عام رہا ہے جہاں ہر مذہب و ملت اور ہر مکتب خیال کے لوگ کبھی تو تلاش حق میں اور کبھی اپنے مذہب اور نظریے کی برتری ثابت کرنے کے شوق میں چلے آتے.کبھی احمدیت کے متعلق انوکھی باتیں سن کر اپنے تجسس کی پیاس بجھانے کے نئے.بسا اوقات ایسے زائرین کی یہ خواہش ہوتی کہ وہ عام علماء سے نہیں بلکہ خود حضرت خلیفہ مسیح سے تبادلہ خیالات کریں.اگر چہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ انتہائی مصروف زندگی گزارتے تھے.لیکن سوائے اس کے کہ کوئی شدید مجبوری مانع ہو ایسے نہاثرین کو کچھ نہ کچھ وقت ضرور دیا کرتے.زیر نظر دور میں سے ہم ایسی ہی چند طاقاتوں کی تفصیل پیش کرتے ہیں جو حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرفہ استدلال تبحر علمی - حلم، حوصلہ اور گھری فراست پر روشنی ڈالتی ہیں.تین یورپین عیسائی علماء کی قادیان میں آمد اور خلیفتہ اسیح الثانی سے دلچسپ تبادلۂ خیالات اوائل 1912ء میں لاہور کے تین یورپین عیسائی علماء تحقیق اور احمدیت کے مطالعہ کی غرض سے قادیان تشریف لائے ان میں ایک مسٹر والٹرینگ تین کرسچن ایسوسی ایشن لاہور کے سیکرٹری تھے.دوسرے مسٹر ہیوم اسی ایسوسی ایشن کے ایجو کیشن سیکرٹری اور تیسرے مسٹر لیوکس ایم سی کالج لاہور کے وائس پرنسپل تھے.مسٹر والڑ کا ارادہ قادیان اور تحریک احمدیت پر ایک کتاب لکھنے کا تھا.چنانچہ وہ مختلف مقامات کی زیارت کے علاوہ مختلف پرانے اور نئے احمدیوں سے گفت وشنید اور تبادلہ خیالات کرتے رہے.حضرت خلیفہ ایج سے مذہبی امور پر آپ کی ایک طویل گفتگو ہوئی ہو الفضل ۱۵ جنوری نشاء

Page 95

” میں شائع ہوئی اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے.یہ مد مقابل ایک عیسائی مستشرق ہے، جسے بائیبل پر بھی گہرا عبور ہے اور اسلامیات پر بھی وہ نظر رکھتا ہے.گہری تنقیدی نظر سے وہ سحر یک احمد ثیت کا مطالعہ کر رہا ہے اور ایسے پیچیدہ اور گہرے سوالات کرتا ہے کہ جن کے جوابات دیتے وقت مد مقابل الجھن میں پڑ جائے.اور بعض ایسے سوالات کرتا ہے جن کے متعلق وہ جانتا ہے کہ ان کے جوابات دیگر فرقوں اور مذاہب کے ماننے والوں کے سامنے حضرت خلیفہ المسیح الثانی" کی پوزیشن کو مشکل میں ڈال دیں گے.یہ ایسا سنجیدہ اور اعلیٰ پایہ کا علمی مکالمہ و مخاطیہ ہے کہ اس کا خلاصہ پیشیں کرنا ہمارے لئے مشکل ہے اور طوالت کے خوف سے من و عن پیش کرنا بھی محال ہے.صرف ایک سوال اور اس کا جواب پیش کرنے پر اکتفا کی جاتی ہے :.مسٹر والٹر.کیا سوائے احمدیوں کے سب لوگ دوزخ میں جائیں گے.احمدی تو بہت تھوڑے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح :- آپ کے نزدیک حضرت مسیح جب آئے تھے تو اس وقت صرف تیرا آدمی نجات یافتہ نکلے تھے.اگر ان کے وقت سوم تیرہ کے اور کوئی نجات نہیں پاسکتا تو اس وقت کئی لاکھ کے سوا اگر اور نجات نہیں پائیں گے تو کیا حرج ہے یا تاریخ احمدیت میں مسٹر والٹر اور ان کے ساتھیوں کے تاثرات کا پیچیپ ذکر ملتا ہے قادیان میں آمد حضرت خلیفہ ایسیح اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام سے ملاقات کا ایسا گہرا اثر ان زائرین کے دل پر پڑا کہ مسٹر والٹر نے بعد میں اپنی ایک کتاب (AHMADIYYIA MOVEMENT) میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے گھر سے تاثرات کا اظہار کیا جو احباب قادیان سے مل کر ان کے دل پر پڑے.پھر مدتوں بعد ایک موقعہ پر سیلون میں تقریر کرتے ہوئے مسٹر لیو کس نے سامعین کے سامنے بڑے وثوق کے ساتھ یہ اظہار خیال کیا له له بحوالہ تاریخ احمدیت جلد پنجم مد

Page 96

- کہ عیسائیت اور اسلام کی جنگ کا فیصلہ دنیا کے کسی بڑے شہر میں نہیں ہوگا.نہ لنڈن میں نہ نیو یارک میں نہ ہی واشنگٹن میں بلکہ دنیا کی ایک نا معلوم چھوٹی سی بستی میں اسلام اور عیسائیت کی آخری جنگ لڑی جائے گی اور اس بستی کا نام قادیان ہے لیئے اسی دور میں ایک اور عیسائی محقق کی قادیان میں آمد کا تفصیلی ذکر الفضل ۲۷ مئی 194 ء میں ملتا ہے.اس کے مطالعہ سے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عیسائیت کے بارہ میں نہایت گہرے مطالعہ اور لدنی علم کا حال معلوم ہوتا ہے.ان صاحب نے جو نجات دہندہ کی تلاش میں گھومتے ہوئے قادیان پہنچے اور ایسے وقت میں حضرت صاحب سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے کہ حضور ڈاک دیکھنے کے لئے باہر تشریف لائے تھے.آتے ہی بڑے دکھ سے اس امر کا اظہار کیا کہ میں نے سنجات دہندہ کی تلاش میں دنیا کی خاک چھان ماری ہے مگر ابھی تک سوائے میسوع مسیح کے کوئی سنجات دہندہ میرے معیار پر پورا اترتا نظر نہیں آتا.اگر آپ اس بارہ میں میری رہنمائی فرما سکیں تو میری خوش سختی ہوگی.حضرت صاحب نے اس موضوع پر جو فی البدیہ تقریر فرمائی وہ آج بھی احمدی میلیغین کے لئے اور عیسائیت میں دلچسپی رکھنے والے محققین کے لئے ایک روشنی کا مینار ہے.یہ فی البدیہ تقریر میں کو ایک زود نویں نے جو غالبا ڈاک کے نوٹس لینے کے لئے حاضر تھا اسی وقت کم و بیش انہی الفاظ میں نوٹ کر لیا اور جلد ہی اسے الفضل میں شائع کروا دیا.افضل کے قریباً سات صفحات پر مشتمل ہے اور پڑھنے والا یوں محسوس کرتا ہے کہ مقرر نے بہت گرمی تحقیق اور غور کے بعد باقاعدہ نویش تیار کر کے اور انہیں عمدہ ترتیب دینے کے بعد یہ تقریر فرمائی ہے.مربوط جامع و مانع دلائل اور حکمت و فلسفہ سے پُر یہ مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ہے اس تقریر کا نتیجہ بھی بہت جلد ایک شیریں ثمر کی صورت میں ظاہر ہوا اور سوال کرنے والا متلاشی حق جو خدا جانے کب سے تلاش حق میں سرگرداں تھا.اس تقریر کے اثر سے مسلمان ہو گیا اور اسے بالآخر حضرت محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم کے اکمل وجود میں وہ آخری نجات دہندہ مل گیا جس کی اُسے ایک مدت سے تلاش تھی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی تقریر کا جو گہرا اور دیر پا اثر اس کے دل پر پڑا اس کا اس امر سے بھی اندازہ ہوتا له تفسیر کبیر (سورة الفيل ) ۱۹ - الفضل ۲۷ مئی ۱۹۱۶ - "

Page 97

۹۲ ہے کہ قبولِ اسلام کے بعد اس نے قادیان ہی میں عمر کہ اسلامی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور قادیان کے دینی مدرسہ میں داخل ہو کر ایک لمبے عرصہ تک تعلیم پاتا رہا.قادیان میں پر وفیسر مارگولیتھ کی آمد سے اور حضرت خلیفہ ایسی الثانی منی للہ عنہ سے یورپ گفت گو " مسٹر والٹر اور مسٹر لیوکس کی قادیان میں آمد کا ذکر گزر چکا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ قادیا روز بروز ایک عالمی پچیسپی کا مرکز بنتا چلا جا رہا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے اس کلام کی صداقت ہر آنے والے سال میں پہلے سے بڑھ کر ظاہر ہوتی جا رہی تھی کہ میں تھا غریب دیکس و گمنام دبے ہر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کو دھر لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظریہ یقی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی H اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا پس قادیان مرجع عوام بھی ہوا اور مرجع خواص بھی بنا اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی ایک دوسر می پیشگوئی کے پورا ہونے کے بھی آثار ظا ہر ہونے لگے کہ آپ کا موعود بیٹا زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا گو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السّلام کے زمانہ ہی سے قادیان کی حیثیت اس لحاظ سے تو خوب متعارف ہو چکی تھی کہ یہ دورِ حاضر کی ایک مذہبی تحریک کا مرکز ہے جو اسلام کے احیائے نو کی دعویدار ہے.لیکن جہاں تک حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا تعلق تھا ابھی آپ نے عالمی شہرت نہ پائی تھی.ایک نو عمر رہنما جو نہ بڑے مذہبی مدارس کا سند یافتہ ہو نہ دنیوی تعلیم کے زیور سے آراستہ ایسے نوجوان رہنما سے ملاقات کا امکان یقینا دلوں کو بڑا حوصلہ بخشتا ہوگا اور بعض جوشیلے ملاقاتیوں کے دل میں تو یقیناً یہ امید چٹکیاں لیتی ہوگی کہ کیس کیس طرح اس نا تجربہ کانہ اور مجھے کو نبھا دکھائیں گے.مگر واقعہ ایسی ملاقاتوں کا جو نتیجہ نکلتا وہ اس کے برعکس ہوتا جس کا کچھ حال پہلے بیان ہو چکا ہے اور کچھ اب بیان کیا جاتا ہے.پروفیسر مارگولیتھ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں.یہ وہ شہرہ آفاق مستشرق

Page 98

۹۳ مورخ ہیں.جن کے علم کا سکہ ان کے عہد زندگی میں ہی سب دنیا کے علمی حلقوں پر بیٹھ چکا تھا اور آج تو وہ تار یخ اسلام پر ایک وقیع سند کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں.اس زمانہ میں قادریان کی کی شہرت کی پہلی کرنیں یورپ کے علمی حلقوں تک ابھی پہنچنا ہی شروع ہوئی تھیں چنانچہ پروفیسر بار گولیتھ نے جو آکسفورڈ میں تاریخ اسلام کے پروفیسر تھے اور لاہور ایک لیکچر کے سلسلہ میں تشریف لائے تھے.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود قادیان جا کر تھر یک احمدیت کا مطالعہ کرنا ضروری سمجھا.چنانچہ شدید مصروفیات اور وقت کی کمی کے با وجود تقریباً نصف دن قادیان میں گزار کر تاریخی اہمیت کے مقامات کا معائنہ کیا اور مختلف احمدی دوستوں سے تبادلہ خیالات کرتے رہے.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے آپ کی ملاقات اور گفت گو الفضل نے ہمارے لئے من و عن محفوظ کر دی ہے جس کے مطالعہ سے حضرت خلیفہ ایسیح کی شخصیت کے بعض پہلو نکھر کر سامنے آجاتے ہیں.اول یہ کہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا عالم آپ کو قطعا مرغوب نہ کر سکتا تھا اور آپ کسی ادمی اسی نفسیاتی الجھن کا شکار بھی نہیں ہوتے تھے جس طرح کامل خود اعتمادی کے ساتھ آپ پروفیسر صاحب موصوف سے مخاطب ہوتے ہیں آپ کی معمولی دنیوی تعلیمی سطح اور پروفیسر صاحب موصوف کی عالمی علمی شہرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ امر حیران کن ہے.اس خود اعتمادی میں خودستائی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا.نہ ہی یہ کسی کھو کھلی غلط فہمی پر مبنی ہے.یہ ایک ایسی خود اعتمادی ہے جو ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے اور وجہ جوازہ اپنے ساتھ رکھتی ہے.چنانچہ اس تبادلہ خیالات کو پڑھتے ہوئے قاری جب آگے بڑھتا ہے تو یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ پروفیسر مارگولیتھے صاحب ہر قدم پر رائے بدلنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور اس نوجوان کے متعلق تیزی کے ساتھ اپنے تاثرات میں تبدیلی پیدا کر رہے ہیں اور آپ کی بات کو پہلے سے بڑھ کر وزن دینے کے علاوہ اپنے جوابات اور سوالات میں پہلے سے کہیں زیادہ محتاط ہوتے چلے جاتے ہیں.ابتداء میں آپ نے بظاہر خالصہ تاریخی پچسپی کے سوال کچھ اس رنگ میں کئے که پروفیسر صاحب موصوف آپ کے سوالات کو ایک عام نا واقف طالب علم کے سوالات پر محمول کرتے ہوں گے.چنانچہ ابتداء میں پروفیسر صاحب موضون کے جواب میں ایسی شفقت کا عنصر دکھائی دیتا ہے جو ایک قابل اور با اخلاق استاد اپنے شاگردوں سے

Page 99

۹۴ گفتگو کرتے ہوئے دکھایا کرتا ہے لیکن معا اس گفتگو کا رخ بدلتا ہے اور حضرت صاحب اچانک یہ نیا نکتہ گفتگو میں پیش فرماتے ہیں کہ جب تاریخ فی ذاتہ کامل طور پر قابل اعتماد نہیں اور اس کے چہرے پر جگہ جگہ اشتباہ کے پردے لٹکے ہوئے ہیں اور بعض حالات کی راہ میں تو جھوٹ کی تاریکیاں بھی حائل ہیں.تو کیا کسی تاریخ کی صداقت پر رکھنے کا بہترین طریق یہ نہ ہو گا کہ اس زمانہ میں بھی اس کی صداقت کا کوئی شاہد ملے.پروفیسر صاحب موصوف نے اس کے جواب میں پُر زور تائید فرمائی کہ ہاں اس سے بہتر ذریعہ کسی تاریخ کی صداقت کا اور نہیں ہو سکتا.تب آپ نے مضمون کو خالصتہ مذہبی رنگ دیتے ہوئے اچانک بحث کا نقشہ بدل دیا اور پروفیسر صاحب کو ایک ایسی ؟ گفت گو پر مجبور کر دیا جس کا ابتداء میں وہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے.یہاں پہنچے کہ پروفیسر صاحب نہ صرف اور زیادہ محتاط نظر آتے ہیں بلکہ نہایت فراست اور ذہانت کے ساتھ بظاہر بڑے کاری ہتھیاروں کے ساتھ اس نوجوان پر جوابی حملہ کرنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں اور غالباً یہی حضرت صاحب کا منشاء تھا.کہ کسی طرح کھل کر بے تکلفی کے ساتھ وہ اسلام اور احمدیت پر اپنے اعتراضات ظاہر کریں ورنہ مغربی تہذیب کے پابندان پروفیسر صاحب کے چند رسمی با اخلاق کلمات سے تو کچھ حاصل نہ ہوتا.آپ نے فرمایا کیوں نہ تمام مذاہب کو اس کسوٹی پر پرکھا جائے کہ جو جو معجزات اور نشانات اُن کی قدیم تاریخ ہمیں باور کرنے پر مجبور کر تی ہے ان کے متعلق اس زمانہ میں شاہد طلب کئے جائیں یعنی اگر حضرت کوشن بیچتے تھے تو اس زمانہ میں بھی اُن کے ماننے والے ویسے ہی معجزات پیش کر کے اپنی تاریخ کو سچا کر کے دکھائیں.اگر مسیحیت کی تاریخ سچی ہے تو حضرت سیشم کی طرف منسوب کر وہ معجزات کا اس زمانہ میں سبھی کچھ مشاہدہ کروا دیا جائے.وعلی ہذا القیاس.ہاتھ کنگن کو آرسی کیا.جب کسی مذہب کی تاریخ پر زمانہ حال کے شاہد گواہی دینے کو اُٹھ کھڑے ہوں گے تو جس طرح ایک تاریخی شہر کے کھنڈرات کو دیکھ کر کسی کے لئے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر بیچتے مذہب کی تاریخ کی صداقت روز روشن کی طرح ظاہر ہو جائے گی.آپ نے انہیں بتایا کہ احمدیت اس کسوٹی پر اسلام کی نمائندگی کرنے کے لئے تیار ہے اور اسلامی تاریخ کو سچا ثابت کر دکھانے کے لئے ہر چیلنج کو قبول کرتی ہے

Page 100

پروفیسر صاحب کے لئے گفتگو کا یہ نیا موڑ بہت اچنبھے کا موجب بنا لیکن وہ دانشور جو اسلامی تاریخ اور اسلامی لٹریچر پر گہری نظر رکھتا تھا اس آسانی سے مات کھانے کے لئے تیار نہ تھا چنانچہ انہوں نے ایک چھوٹا سا معصومانہ سوال ایسا کیا جو حضرت صاحب کو بہت الجھن میں ڈال سکتا تھا.آپ نے مہذبانہ رنگ میں استفسار کیا.کیا کتاب دلائل النبوت میں جو معجزے درج ہیں اُن کو آپ مانتے ہیں؟" کتاب دلائل النبوت ایک ایسی کتاب ہے جس میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے واجب التسلیم معجزات کے ساتھ ایسے بہت سے قصے بھی درج کر دیئے گئے ہیں جو افسانوی رنگ رکھتے ہیں.چنانچہ اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ اگر اثبات میں سر بلاتے تو ایسے خیالی معجزوں کے ثبوت پیش کرنے کے بھی وہ پابند ہو جاتے جن کی قرآن و سنت تصدیق نہیں کرتے.اگر انکار فرماتے تو گویا دوسرے لفظوں میں متحجرات کے وجود ہی کا سرے سے انکار ہو جاتا.چنانچہ آپ نے اس شرط کے ساتھ مذکورہ کتاب کے معجزات کو تسلیم کرنے کا دعوی کیا کہ قرآن اور سنت ان کی تائید کرتے ہوں.ہم پروفیسر صاحب کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ فضول کچ بیٹیوں میں پینے کی بجا انہوں نے فی الفور اس کسوٹی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے ترکش سے وہ سب سے کاری تیر نکالا.جوست شرق اسلام کے خلاف استعمال کیا کرتے ہیں یعنی معجزہ شق القمر جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے کو پیش کر کے یہ توقع ظاہر کی کہ آج بھی ایسا ہی معجزہ رونما ہو تو ہم تسلیم کر لیں گے کہ واقعی زمانہ حال نے زمانہ ماضی پر شہادت دے دی.اس کا جواب حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کے اپنے الفاظ میں من وعن پیش کیا جاتا ہے :.جس رنگ میں قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے اسی طرح ہو سکتا ہے قرآن کریم نے جو کچھ اس کے متعلق بتایا ہے وہ اس سے بالکل الگ ہے جو عام طور پر مشہور ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ شق القمر ساعت کی علامت ہے.اب اس کے وہی معنے کئے جائیں گے جن کے رو سے ساعت کی علامت ٹھہرے.اور وہ یہ ہیں کہ قمر عرب کی مملکت کا نشان تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشفی رنگ میں دکھایا گیا کہ تمر دو ٹکڑے ہو گیا ہے اور یہ کشف دوسروں کو بھی

Page 101

۹۶ دکھایا گیا.اس قسم کا کشف جو دوسروں کو بھی دیکھائی دے.اس زمانہ میں بھی ہوا اور ہو سکتا ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو اس کشف میں دکھایا گیا ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے جس سے یہ مراد تھی کہ عرب کی حکومت تباہ ہو جائے گی.اس قسم کے کشف کا دروازہ بند نہیں ہوا اب بھی کھلا ہے.اس بات کا ثبوت کہ قمر سے مراد عرب کی حکومت تھی اس مشہور واقعہ سے ملتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر حملہ کیا تو وہاں کے سردار کی لڑکی صفیہ نے رویا دیکھا کہ چاند میری گو ہیں آگیا ہے.اس نے جب یہ رویا اپنے باپ کو سُنائی تو اس نے اسے تھپڑ مارا کہ کیا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے یہ خواب اس کی اس رنگ میں پوری ہوئی کہ جب خیبر فتح ہوا تو حضرت صفیہ کا نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا.غرض چاند اہل عرب کی حکومت کا نشان تھا اور اس کے پھٹنے میں اس وقت کے انتظام حکومت کی تباہی کی پیشگوئی تھی ؟" یہ جواب شنکر پر و فیسر صاحب نے اس میں کسی اعتراض کی گنجائش نہ پائی.البتہ ایک اور سخت تر جملہ اس سوال کی صورت میں کیا.کہ قرآن کے بے مثل ہونے کا جو معجزہ ہے کیا وہ دوبار دکھایا جا سکتا ہے.شاید ان کا خیال تھا کہ اگر مرزا صاحب کہیں کہ دکھایا جا سکتا ہے.تو قرآن کا بے مثل ہونا بظا ہر مشکوک ہو جائے گا.اور اگر کہیں نہیں دیکھایا جا سکتا تو یہ دعوئی کہ اس زمانہ میں شواہد پیش کئے جا سکتے ہیں غلط ثابت ہوگا لیکن حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا پورا جواب جو ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.ان دونوں خطرات سے بچ کر حقیقت کو اس رنگ میں واضح کر گیا.کہ پروفیسر صاحب موصوف کے لئے مزید جرح کی گنجائش نہ رہی اور اس چیلنج کو جو احمدیت نے پیش کیا تھا قبول کرنے کے امکانات کا جائزہ لینے لگے حضرت صاحب نے فرمایا :- اس زمانہ میں کم از کم بنیں دفعہ تو دکھایا جا چکا ہے.ہمارے امام حضرت مرزا صاحب نے کئی ایک کتابیں عربی زبان میں لکھیں تعین

Page 102

94 ہزار روپیہ تک انعام رکھا اور تمام دنیا کے لوگوں کو چیلینج دیا کہ آن کے مقابلہ پر لکھیں لیکن کوئی مقابلہ نہ کر سکا.آپ نے نہ کسی عربی مدرسہ میں پڑھا نہ آپ کبھی عرب میں گئے.نہ آپ نے کسی مشہور معروف استاد سے تعلیم حاصل کی.لیکن باوجود اس کے آپ نے تمام دنیا کے عربی دانوں کو چیلنج دیا لیکن کسی نے قبول نہ کیا.یہ ثبوت تھا اس بات کا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ آپ جب پڑھے ہوئے نہیں تھے تو پھر قرآن کس طرح بنا لیا.قرآن کریم کسی انجمن نے مل کر بنایا ہے وہ اعتراض غلط تھا.اب بھی ایک شخص نے جو ایک لحاظ سے ناخواندہ تھا.اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کے ساتھ بے مثل کتاب لکھ کر ثابت کر دیا کہ جب خدا تعالیٰ پہنجا اور استاد ہو تو ایک امتی کی زبان پر بے مثل کلام کا جباری ہونا ہرگز ناقابل قبول امر نہیں.حضرت مرزا صاحب پر کفر کے فتوے دینے والے اب بھی مہندستان میں موجود ہیں.وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ آپ نے کسی عربی مدرسہ میں تعلیم نہیں پائی.آپ کبھی عرب ممالک میں نہیں گئے آپ کی مادری زبان عربی نہ تھی مگر با وجود اس کے آپ نے عربوں اور تمام دنیا کے عربی دانوں کو چیلنج دیا.جسے قبول کرنے کی جرات کسی کو نہ ہوئی.المنار کا ایڈیٹر مقابلہ پر تو کچھ نہ لکھ سکا.ہاں دیکھ دیا کہ آپ کی کتب میں بہت سی غلطیاں پائی جاتی ہیں.لیکن جب اُسے جواب دیا گیا اور پیلینج کیا گیا تو پھر ایسا نادم اور شرمند ہوا کہ کچھ بول نہ سکا اور مقابلہ سے دل میرا گیا.پروفیسر صاحب نے یہ شنکر غالبا یہ سوچتے ہوئے کہ کیوں نہ اس چیلنج کو قبول کر لیا جائے یہ بڑا معقول سوال کیا :- اگر کوئی اس چیلنج کو قبول کرے تو فیصلہ کون کرے گا.حضرت صاحب نے جواباً فرمایا :

Page 103

۹۸ حضرت مرزا صاحب نے اس کا بھی فیصلہ کر دیا ہوا ہے اور وہ یہ کہ جو چیلنج منظور کرے وہی بیج بھی منظر کرے دبشر طیکہ وہ حج اس کے مریدین وغیرہ میں سے نہ ہوں ، البتہ وہ حج فیصلہ کرتے وقت یہ قسم کھائیں کہ اگر ہم جھوٹا فیصلہ کریں تو ایک سال کے اندر اندر ہم پر خدا کا عذاب نازل ہو.پھر اگر ایک سال تک ان پر کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہو جو خاص شان اور ہیبت رکھتا ہو تو انعام سپرد کر دیا جائے گا.پروفیسر صاحب :- یہ تو بہت وسیع حوصلہ دکھایا گیا ہے.آپ سے گفتگو کر کے مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا ہے.اور میں آپ کا شکر گزار ہوں " الفضل 9 دسمبر ۱۹) ایک تیسرا پہلو اسلام کے سپہ سالار کی حیثیت سے آپ کے کردار کی عظمت کا اس گفتگو کے دوران یہ ظاہر ہوا کہ اُن مستشرقین کو جو اسلام کو غیر اخلاقی جارحیت اور ضد اور تعصب کے طعنے دیا کرتے تھے خود انہی کے ہتھیاروں سے مجروح کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ اسلام سے مقابلہ کرتے وقت جاہلانہ سختی اور درشتی سے کام نہ چلے گا.اپنے اندر کچھ حوصلہ پیدا کریں اور اخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے حقیقت کی چار دیواری میں محدود ہو کہ محققانہ رنگ میں اہل اسلام سے گفتگو کریں.اس میں دونوں فریق کا فائدہ ہے.پروفیسر مار گولیتھ نے آپ سے یہ وعدہ کیا کہ وہ آپ کا یہ پیغام یورپ کے علمی حلقوں تک پہنچا دینگے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند عربی کتب لے کر جو شخفتہ پیش کی گئی تھیں قادیاں سے رخصت ہوئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی شخصیت ہر پہلو سے ہمہ گیر تھی اور ہر دائرہ فکر و عمل حیرت انگیز وسعت اور لچک رکھتا تھا.بعض بڑے بڑے عالم فاضل زائرین سے آپ کی گفتگو کے مناظر گزرچکے ہیں.اب ایک ایسے زائر سے تبادلہ خیالات کا منظر بھی پیش کیا جاتا ہے جو علمی لحاظ سے محض واجبی حیثیت رکھتا تھا اور ذہانت کا معیار بھی کوئی خاص بلند نہ تھا.ایک صاحب علم و فضل انسان کا ایسے شخص سے مباحثہ کرنا جو کم علم ہونے کے علاوہ

Page 104

۹۹ کچھ بحثی کی طرف بھی مائل ہو بڑا صبر آزما کام ہوتا ہے.بڑے با اخلاق علماء کے منہ سے بھی ایسے موقع پر کوئی سخت کلمہ منہ سے نکل ہی جاتا ہے لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالے نے غیر معمولی حلم اور حوصلہ عطا فرمایا تھا اور کسی متلاشی حق سے گفت گو کے وقت آپ ضبط و تحمل کی باگیں بڑی مضبوطی سے تھامے رہتے خواہ مد مقابل کی کی سمتی کیسی ہی بار خاطر کیوں نہ ہو.یہ صاحب جن کے ساتھ بحث کا ایک منتظر الفضل سے اخذ کر کے من و عن پیش کیا جا رہا ہے ، ایک دہریہ سکھ تھے جو خدا کی مہستی کا ثبوت ڈھونڈنے نکلے تھے.سیکھ صاحب نے سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ " ہم کسی کی عبادت کیوں کریں ؟ اس کی کیا ضرورت ہے ؟ " حضرت خلیفہ ایسیح : پیشتر اس کے کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ آیا کوئی ایسی مہتی ہے بھی میں کی عبادت کی جائے یا نہیں.اگر وہ ہستی ثابت ہو گئی تو عبادت کرنے کا سوال خود بخود حل ہو جائے گا........میں چونکہ مسلمان ہوں، اس لئے میں اسلام کے بیان کردہ دلائل دُوں گا اور قرآن شریف سے دُوں گا.اس کے بعد یہ سوال حل ہو جائے گا کہ عبادت کیوں کی جائے اور اس کی کیا ضرورت ہے ؟ سکھ :.آپ قرآن شریف سے جو دلائل دیں گے وہ میرے لئے کس طرح قابل سند ہو سکتے ہیں جبکہ میں قرآن کو مانتا ہی نہیں.حضرت: ہر ایک مدعی اپنے دعوئی کے متعلق کچھ ایسے دلائل رکھتا ہے جو اس کے نزدیک درست ہوتے ہیں......میں نے جو مشر آن شریف کو دلائل کے لئے پیش کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جو مذہب کوئی دعوی کرتا ہے اور دلائل نہیں دیتا اور دلائل کے لئے انسانوں کا محتاج ہے وہ سچا نہیں ہو سکتا.دوسرے میری یہ بھی عرض ہے کہ آپ کو قرآن شریف کے دلائل سے خدا تعالے کا ثبوت دیکر جہاں اس کی ہستی بتاؤں وہاں ساتھ ہی یہ بھی ثابت کر دوں ، کہ

Page 105

اسلام سچا مذہب ہے اور اپنی سچائی کے خود دلائل رکھتا ہے نہ کہ آوروں کا محتاج ہے اس کے لئے سب سے بہتر طریق یہی ہے کہ میں آپ کو ان کے ماننے کے لئے اس طرح مجبور نہیں کروں گا کہ چونکہ قرآن شریف کھتا ہے اس لئے ضرور مان ہی لو.بلکہ میں ایسی دلیل دوں گا جو آپ کو ماننی پڑے گی اور آپ کا دلی اطمینان کرتا جاؤں گا...ہم قرآن شریف کو لیتے اور دیکھتے ہیں کہ آیا وہ خدا تعالے کی ہستی کی کوئی دلیل دیتا ہے یا نہیں.دیکھئے میں آپ کے سامنے ایک آدمی بیٹھا ہوں.آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ نہیں آدمی ہوں.اسی طرح کہ میں آدمیوں کی طرح بولتا دیکھتا ہوں اور وہی صفات مجھ میں پائی جاتی ہیں جو آدمیوں میں ہوتی ہیں.لیکن اگر ایک آدمی پر دے کے مجھے بیٹھا ہوا باتیں کر رہا ہو تو آپ کس طرح اسے پہچانیں گے کہ آدمی ہے ؟ اس کی باتوں کے اثر سے کیونکہ وہ خود تو نظر نہیں آتا تو ایک چیز کے معلوم کرنے کے لئے کئی ایک طریق ہوتے ہیں.....ایک پھول ہو میں کہوں اس میں بڑی اعلیٰ درجہ کی خوشبو ہے تو آپ یہ نہیں کہیں گے کہ مجھے خوشبو دکھا دو بلکہ یہی کہو گے کہ منگھا دو.اسی طرح عمدہ آوازہ ہے.اس کی نسبت آپ یہ نہ کہیں گے گرسنگھا دو بلکہ یہی کہیں گے کہ شنا دو.اسی طرح ایک چیز کڑوی با سیٹی ہے، تو آپ یہ نہیں کہیں گے کہ سُناد و بلکہ یہی کہیں گے کہ چکھا دو.پس اس سے معلوم ہوا کہ مختلف چیزوں کے معلوم کرنے کے لئے مختلف طریق ہوتے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں خدا کو آنکھوں سے دکھا دو تو ہم مانیں گے.بعض باتیں ایسی ہیں جن کو ان حواس ظاہری سے معلوم نہیں کیا جاتا.بلکہ اور طرح بھی ماننا پڑتا ہے.مثلاً لنڈن ایک شہر ہے جسے آپ نے نہ دیکھا سونگھا نہ چھوا اور نہ چکھا بلکہ لوگوں سے شنکر مانا ہے.سکھ زائر :.میں نہیں مانتا کہ لنڈن کچھ ہے.

Page 106

هر چند که سردار صاحب کا یہ مختصر جواب کج بحثی کے دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے اور اس جواب کے بعد گفتگو جاری رکھنے کا سوال ہی باقی نہیں رہنا چاہیئے.لیکن حضرت صاحب کے دل میں بنی نوع انسان کی جو بے پناہ ہمدردی تھی اس کا تقاضا تھا کہ سائل کی مند کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے حق کی روشنی دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے.چنانچہ آپ نے بڑے تحمل سے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا :- آپ یوں انکار کر دیں تو اور بات ہے لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا انکار ہو سکے.اگر آپ یہ کہیں کہ لنڈن کا جو طول و عرض یا مکانات کی وضع قطع وغیرہ بتائی جاتی ہے ممکن ہے ایسی نہ ہو لیکن لنڈن کے وجود سے آپ انکار نہیں کر سکتے.کیونکہ وہ اس طرح ثابت ہو چکا ہے کہ اس کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا.اچھا اگر آپ نہیں مانتے تو نہ مانیے.قرآن شریف کی دلیل سُن لیجئیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لا تذرهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَيدَرِكَ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبیری خدا کوئی ایسی ہستی نہیں جو ان آنکھوں سے نظر آسکے بلکہ وہ خود انسانوں تک پہنچتا ہے.یعینی آثار اور شواہد سے نظر آتا ہے کیونکہ وہ لطیف اور خبیر ہے پراس لئے بتایا کہ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمیں خدا دکھاؤ قرآن شریف کہتا ہے کہ جب خدا کی ایسی صفات ہیں تو چاہیے کہ اس کا ثبوت بھی ان سے ہی ملے نہ کہ کسی مجسم چیز کی طرح لوگوں کے سامنے آجائے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا الله - کوئی انسان زمین و آسمان کی باتوں کے متعلق غیب کا علم نہیں رکھتا.مگر اللہ ہی رکھتا ہے.انسان کو تو اپنی حالت کا بھی پتہ نہیں ہوتا چہ جائیکہ غیب کے متعلق خبر رکھ سکے.سکھ: چونکہ انسانی طاقت کی اس طرح حد بندی نہیں کی جاسکتی کہ اب اس سے بالا تر نہیں جا سکتی اور محدود ہو گئی ہے.اس لئے کوئی بات ه سوره انعام آیت ۱۰۴- ۵۲ سوره نمل آیت ۶۶

Page 107

انسانی طاقت سے باہر بھی نہیں کہ سکتے.آپ کو معلوم ہے کہ پہلے زمانہ میں ہوا میں اُڑنا.بیجان چیزوں سے آواز کا نکلنا غیر ممکن تھا لیکن اب ہوائی جہازوں اور فونوگرافوں نے یہ ممکن کر دیا ہے.حضرت.ہم مانتے ہیں کہ بعض وہ باتیں جو پہلے معلوم نہ تھیں اب معلوم ہوئیں اور ہو رہی ہیں لیکن اس کے متعلق یا درکھنا چاہیئے کہ جس قدر انسانی کام ہو رہے ہیں وہ اسباب کے ذریعہ ہو رہے ہیں.اور کوئی ایسا کام نہیں جو ان کے بغیر انجام پا رہا ہو اس سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ دنیا پر واقع ہونے والی باتیں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک وہ جو انسانی طاقت اور قدرت میں ہیں اور دوسری وہ جو اس سے بالاتر ہیں.اس لئے ہم بعض باتوں کی نسبت تو کہہ سکتے ہیں کہ انسانی طاقت سے بالا تر نہیں اور ممکن ہے کہ ان میں کوئی اور بات نکل آئے لیکن بعض ایسی ہیں جن کی نسبت یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اب ان میں تغییر نہیں ہو سکتا اور ناممکن ہے کہ ان باتوں میں کچھ کمی ہو سکے.مثلاً ثابت ہو گیا ہے کہ پانی مفرد نہیں بلکہ مرتب ہے.اب یہ تو ممکن ہے کہ وہ اجزاء جن سے پانی مرکب ہے اور اجزاء میں منقسم ثابت ہو جائیں لیکن یہ ناممکن ہے کہ پانی مفرد ثابت ہو سکے.تو اس سے ثابت ہوا کہ دنیا کی تمام اشیاء ایسی نہیں جن کی نسبت یہ کیا جا سکے کہ ممکن ہے ان میں تغیر ہو جائے.پس اگر ایسی باتوں میں جن کے متعلق فتوئی مل چکا ہو کہ تغیر نہیں ہو سکتا.انسانی طاقتوں سے بالا تر قدرت نمائی کا جلوہ نظر آئے تو مان لینا چاہیئے کہ یہ خدا ہی کا کلام ہے.خدا تعالے قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جو لوگ میرے احکام پر چلیں گے میں ان میں اپنی قدرت کی جلوہ نمائی کروں گا.اُن کو آئندہ کے لئے اخبار دوں گا.ان کی خبریں نجومیوں کی سی نہ ہوں گی بلکہ اپنے اندر ایک شوکت و جلال رکھنے والی ہوں گی میرے ان فرمانبردار

Page 108

۱۰۳ بندوں کے جو مخالف ہوں گے ان کو تباہ و برباد کروں گا اور انہیں کامیاب کروں گا.پس اگر کسی انسان کے متعلق یہ باتیں بھی ثابت ہو جائیں تو خدا تعالے کی ہستی کی یہ ایک دلیل سمجھنی چاہئیے.سکھ.ایسی باتیں بائی چانس (اتفاقاً ، ہو جاتی ہیں.سردار صاحب کا یہ جواب سن کر اگرچہ بے اختیار سر تھام لینے کو جی چاہتا ہے لیکن حضرت صاحب اس جواب کو شنکر مایوس نہیں ہوئے اور پہلے مضمون کو زیادہ وضاحت سے بیان کرتے ہوئے ان کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جن امور کو آپ پیش کریں گے ، اُن پر بائی چانس کا فتویٰ صادر نہیں ہو سکتا.آپ نے فرمایا :- جو بات تواتر سے ثابت ہو اسے بائی چانس نہیں کیا جاسکتا مثلاً آگ جلاتی ہے اس لئے جہاں بھی اور جب بھی اس میں کوئی ہاتھ ڈالے گا جلائے گی.اگر کسی کا ہاتھ جل جائے تو یہ نہیں کہا جائیگا کہ آگ نے بائی چانس جلا دیا ہے.اسی طرح خدا تعالے قاعدہ کلیہ کے طور پر بیان فرماتا ہے.کہ مجھ سے تعلق رکھنے والے ہمیشہ ایسے ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے جن پر میں اپنی قدرت نمائی کرتا ہوں اس لئے اُسے بائی چانس نہیں کہا جاسکتا.اگر اسلام ایسے انسان پیدا کر دے کہ اُن کا خدا سے تعلق پیدا ہو اور وہ لوگوں کو ایسی باتیں بتائیں جن میں خدائی قدرت اور حیرت پائی جائے تو ماننا پڑے گا کہ کوئی ایسی زبر دست مہستی ہے جو علیم ہے کلیم ہے قادر و مقتدر اور متعرف بالا راده سمیع و بصیر ہے اور جس کا پتہ اسلام کے ذریعہ سے لگایا جاسکتا ہے.اسلام نے اس زمانہ میں ایک شخص پیدا کیا ہے اُس نے آکر کہا کہ جس طرح قرآن شریف کہتا ہے اسی طرح کا میں نے اُسے پایا ہے کوئی کہے یہ انسان یونہی کہتا ہے ثبوت کیا تو اس کا ثبوت یہ ہے کہ اُس نے دعوی کیا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ جو تیرا مقابلہ کرے گا وہ ذلیل اور

Page 109

خوار کیا جائے گا.خواہ کوئی کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو پھر قبل از وقت ایسی اخبار اسے دی گئیں جو غیب کی ہیں اور ایسی ہیں جن میں اقتداری شرکت پائی جاتی ہے اور جن کے دیکھنے والے اس وقت ہر مذہب کے لوگ موجود ہیں.خواہ وہ ان کی کچھ ہی تاویل کریں.لیکن پورا ہونے سے انکار نہیں کر سکتے اور بعض خبریں اب بھی پوری ہو رہی ہیں.آپ وہ انسان تو سمجھ گئے ہوں گے جس کے متعلق میں نے یہ بائیں بیان کی ہیں وہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب ہیں.اب میں ایک واقعہ کو مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں جس میں آپ کی قبولیت دعا کا ثبوت ملتا ہے.یہاں ایک لڑکا عبد الکریم پڑھا کرتا تھا اس کو ایک ہلکا گتا کاٹ گیا اسے علاج کے لئے کسولی بھیجا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد اسے ہلکا ہو ہی گیا.کسولی سے بذریعہ تار پو چھا گیا تو جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں ہے.چنانچہ اب تک ایسے مریض کا کوئی علاج نہیں تجویز ہوا لیکن اس کے متعلق حضرت مرزا صاحب نے دُعا کی اور فرمایا کہ میرا دل نہیں چاہتا کہ یہ لڑکا جو اتنی دور سے علم حاصل کرنے کے لئے آیا ہے اس طرح مرے.میں اس کی صحت کے لئے دُعا کرتا ہوں آپ کی دعا قبول ہو گئی اور وہ لڑکا اس وقت تک زندہ ہے.اس واقعہ کو اپنی آنکھوں دیکھنے والے اس مجلس میں بیٹھے ہیں.سیکھا.یہ تو ایک کہانی ہے دیگر مذاہب والے بھی اپنے بزرگوں کی اس سے بڑھ چڑھ کر کرامات سنا سکتے ہیں اور میں بھی بہت سی اسی طرح کی باتیں بتا سکتا ہوں.غالب نے شاید اسی موقع کے لئے کہا تھا کہ ہم تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟" لیکن حضرت صاحب کا حوصلہ اس سے وسیع تر تھا.آپ نے سزار صاب پر کہانی اور حقیقت کا فرق ظاہر کرتے ہوئے فرمایا :- حضرت :.یہ کہانی نہیں بلکہ واقعہ ہے جس کے دیکھنے والے یہاں آپ کے سامنے

Page 110

۱۰۵ موجود ہیں اُن سے آپ پوچھ سکتے ہیں.پھر کسولی موجود ہے وہاں سے پتہ لگ سکتا ہے پھر وہ لڑکا موجود ہے.اس سے دریافت ہو سکتا ہے.اچھا آپ بہت سی باتوں کو چھوڑ کہ کوئی ایک ہی اس نے اس قسم کی مثال بنائیے جس میں اس طرح کے واقعات پائے جاتے ہوں.سکھ.میں اس وقت نہیں بنا سکتا.آپ تو ان باتوں کو اکثر پیش کرتے رہتے ہیں اس لئے آپ کو یاد نہیں لیکن مجھے چونکہ ان کی ضرورت نہیں پڑتی اس لئے یاد نہیں.دریافت کر کے بتاؤنگا.حضرت.اچھا جب آپ بتائیں گے اُس وقت دیکھا جائے گا لیکن خوب یا درکھیے.کہیں سے آپ اس کی مثال نہ لاسکیں گئے.یہ شرف صرف اسلام ہی کو حاصل ہے.کہ ہر زمانہ میں ایسے انسان پیدا کرتا رہتا ہے جن کی دُعائیں حیرت انگیز طور پر پوری ہوتی ہیں.اب بھی ہم یہ ثبوت دینے کے لئے تیار نہیں کہ خدا تعالے ایسے رنگ میں ہماری تائید کرتا ہے جو اور کسی مذہب والے کو نصیب نہیں ہو سکتی.اس کا ثبوت ہم اسی طریق سے دے سکتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب نے قرار دیا ہے.مثلاً کچھ مریض ہوں.ان میں سے قرعہ اندازی کے ذریعہ نصف ہم لے لیں اور نصف دہر یہ لوگ ہیں ہم اپنے حصے کے مریضوں کا دعا اور دوا سے علاج کریں اور وہ اپنے مریضوں کا ڈاکٹروں سے کرائیں پھر معلوم ہو جائیگا کہ کون سے بیمار زیادہ اچھے ہوتے ہیں آیا وہ جو ہمارے حصہ میں آئے یا وہ جو اُن کے حصہ میں آئے یا اسی طرح کا کوئی اور طریق اختیار کیا جا سکتا ہے یعنی ایک محدود وقت تک ایک معاملہ کے متعلق دعا کریں اور دہریے اسباب و تدابیر سے کام لیں اور فیصلہ نتائج پر کیا جائے.مثلاً بارش ہے

Page 111

1-4 اس کے لئے چند علاقے یا دیہات اس طرح مقرر کر لئے جائیں کہ ایک ہمارے حصہ میں آئے.تو اس سے اگلا اُن کے حصہ میں پھر اگلا ہمارے حصہ میں.پھر ایک طرف ہم دعا ہے کام لیں اور دوسری طرف وہ مادی اسباب سے کوشش کریں پھر دیکھیں کون سے دیہات میں نمایاں فرق ظاہر ہوتا ہے.یہاں آکر یکھ صاحب (بالآخر !....) دھیمے پڑ گئے.رواہ رے زویہ صداقت خوب دکھلایا اثر !، اور کہنے لگے، کہ مجھے کوئی ایسا طریق بتایا جائے کہ جس سے خدا کا یقین ہو جائے.اس کے متعلق حضور نے فرمایا.علیحدگی میں دُعائیں کرو اور کہو اے خدا میں تو تجھے نہیں مانتا کیونکہ مجھے تیرا یقین حاصل نہیں ہے لیکن اور لوگ کہتے ہیں کہ تو ہے پس اگر تو ہے تو میری تسلی کر دے اور مجھے اپنی نسبت یقین کرا دے.سکھ.ایسے فیصلے کے لئے کوئی میعاد مقرر ہونی چاہیئے.اچھا اس طرح ہو کہ میں کسی سخت سے سخت گستاخی کا جو خدا کے متعلق ہو سکتی ہے مرتکب ہوتا ہوں خدا اس پر مجھے سزا دے کہ اپنی ہستی کا ثبوت دے.سردار صاحب کے اس سوال کا جو جواب حضرت صاحب نے دیا وہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی حیثیت ایک مناظر کی نہیں بلکہ ایک بہی خواہ اور مصلح کی تھی اور بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی آپ کے دل میں تھی.آپ نے فرمایا حضرت.جو خدا سخت سے سخت سزا دے سکتا ہے وہ اعلیٰ سے اعلیٰ انعام بھی کر سکتا ہے آپ کیوں اپنے لئے فضل نہیں مانگتے.انسان کی دانائی یہی ہے کہ اپنے لئے ہلاکت نہ طلب کرے کیونکہ اگر وہ ہلاک ہو گیا تو پھر مانے گا کون ؟ اور اُسے

Page 112

1-6 فائدہ کیا ہوا.پس آپ اپنے لئے فضل ہی مانگیں.سکھ.بہر حال جلدی کچھ ہونا چاہیے.اس کے لئے آپ کچھ دن مقرر کر دیں ورنہ میں کس طرح سمجھ سکوں گا کہ یہ دعا کا نتیجہ ہے ممکن ہے کہ کوئی اور ایسے اسباب پیدا ہو جائیں یا ئیں کسی وجہ سے بیمار ہی ہو جاؤں.تو یہ میرے لئے خدا کی ہستی کا کوئی ثبوت نہیں ہوگا.حضرت.آپ کا یہ اعتراض اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ آپ مجھے ج بنائیں اور میں اس بات کا فیصلہ دوں.چونکہ آپ کے متعلق فلاں واقعہ ظہور پذیر ہو چکا ہے اس لئے آپ خدا تعالے کی ہستی کو ضرور ہی مان لیں.لیکن میں تو یہ کہہ رہا ہوں آپ یہ دعا کریں کہ اے خدا اگر تو ہے تو مجھ پر اپنی ہستی کا کوئی ثبوت نازل کہ جس سے مجھے یقین ہو جائے کہ فی الواقعہ تو ہے.پس جب آپ کی تسلی ہو جائے گی خواہ کسی طرح ہو تو یہ سوال خود بخود حل ہو جائے گا.میں اس کے متعلق کوئی میعا نہیں مقرر کر سکتا.کیونکہ خدا تعالے کسی کا محکوم نہیں بلکہ احکم الحاکمین ہے.......آپ ایک گھر کے دروازہ پر جا کہ آوازہ دیں کہ مجھے دومنٹ میں آگ دو.اور گھر والے دو منٹ میں تو نہیں بلکہ دو گھنٹہ کے بعد آپ کو آگ بھیج دیں.تو آپ کو اس آگ کے وجود میں تو شک نہیں ہو سکتا کہ چونکہ اتنی دیر کے بعد ملی ہے اس لئے آگ ہی نہیں ہے اسی طرح جب آپ کی مضطربانہ پکار کے جواب میں خدا نے اپنی ہستی کو آپ پر ظاہر کر دیا.تو بہر حال آپ کو اسے ماننا پڑے گا.اس پر سیکھ صاحب نے دُعا کرنا منظور کیا اور اُن کی درخواست کے مطابق سورۃ فاتحہ کا ترجمہ ان کو لکھ کر دینے کا حضرت خلیفہ المسیح نے ارشاد فرمایا اور مجلس برخاست ہوئی یہ (الفضل ۲۴ اگست ۹۵ )

Page 113

حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے کردار کے متعلق پہلے بھی ذکر آچکا سے کہ اس میں غالب عنصر جوش تبلیغ تھا جس طرح انگریزی کا محاورہ ہے.ALL ROADS LEAD TO ROME کہ سب سڑکیں روم ہی کی طرف جاتی ہیں آپ کے ذہن کی ہر کوشش کا بھی آخری رخ اشاعت اسلام ہی کی جانب تھا.فکر و نظر کو اُبھارنے کا محرک اول خواہ کوئی بھی ہو فکر و نظر کی آخری منزل دینِ اسلام کے عالمگیر غلبہ کا موضوع ہی ہوتا.ہر موقع اور ہر تغیر آپ کی توجہ نئی تبلیغی تجاویز کی طرف مبذول کرا دیتا تھا یہاں تک کہ بیماری میں بھی نئے و تشکیل پاتے تھے.ایک مرتبہ اوائل 1914لہ میں آپ کی ران پر ایک تکلیف دہ پھوڑا نکلا.جس کا آپریشن کروانا پڑا.چنانچہ اس بیماری میں زیادہ تر آپ کی فکر و نظر کا مرکز نے تبلیغی منصوبے بنے رہے ان میں سے ایک یہ تجویز تھی کہ ہندوستان کے دارالسلطنت دہی شہر میں ایک ایسا تبلیغی جلسہ کیا جائے جس میں اُردو کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان میں بھی تقاریر ہوں.آپ کو اس جلسہ کا خیال یوں پیدا ہوا کہ اہلِ دہلی خصوصا دہلی کے مسلمان علماء جماعت احمدیہ کے متعلق یہ پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ جماعت احمدیہ علومِ عربیہ سے ناواقف ہے اور اُردو زبان پر بھی عبور نہیں رکھتی پھر یہ دنیا کے سامنے کیا اسلام پیش کرے گی چنانچہ ہماری کے ایام میں مختلف تجاویز سوچتے ہوئے آپ کو خیال آیا کہ اللہ تعالی کے فضل سے جب ہمارے پاس ان تینوں زبانوں میں چوٹی کے علماء موجود ہیں تو کیوں نہ اہلِ دہلی پر یہ حقیقت منکشف کر دی جائے کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے فاضل علماء اپنے علم و فضل کے ساتھ بڑے بڑے مدعیان علم و فضل کا منہ بند کر سکتے ہیں.چنانچہ ہماری کے ایام میں ہی اس تجویز کو عملی جامہ پہناتے ہوئے دہلی میں ایک نئی طرز کے جلسہ کا اہتمام کیا گیا جو حسب ذیل امتیازی خصوصیات رکھتا تھا :- اول.مختلف اہم اختلافی مسائل پر عربی ، انگریزی اور اُردو میں متعدد تقاریر رکھی گئی تھیں مسلسل چار روز یک سلسله تقاریر جاری رہا )

Page 114

1-4 دوم- تمام اہلِ دہلی خصوصاً علماء کو صلائے عام تھی کہ اس جلسہ میں نہ صرف شرکت فرمائیں بلکہ دل کھول کر جو جی میں آئے سوال کریں.نہایت عمدہ انتظام کے ساتھ گھر گھر اس دعوت کو پہنچانے کا اہتمام کیا گیا تھا.سومر - سوالات کی عام اجازت تو تھی مگر صرف ایک شرط کے ساتھ کہ تقریریں زبان میں ہو معترض اعتراض نہیں اسی زبان میں کرے اور منقرر بھی اسی زبان میں جواب دے.مقررین میں حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب بھی شامل تھے جنہوں نے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا.اس نئی طرز کے جلسے نے دہلی کے علمی حلقوں میں ہی نہیں عوام الناس میں بھی ایک تقلیلی مچادی.لیکن افسوس کہ علماء نے اس قدر شور مچایا اور لوگوں کو اس جلسہ سے باز رکھنے کی ایسی نامسعود کوشش کی کہ دہلی کا ایک بڑا طبقہ اس کی برکات سے محروم رہ گیا.تا ہم حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا یہ مقصد پورا ہو گیا کہ ایک مرتبہ دہلی شہر کو ہلا دیا جائے اور گھر گھر احمدیت کے چرچے ہونے لگیں.اس شرط نے کہ معترض اسی زبان میں اعتراض کرے جس میں تقریر کی گئی ہو برا پر لطف مناظر پیدا کئے.بڑے بڑے جبہ پوش علماء کو جو اعتراضات کی جھولیاں بھر بھر کر لائے ہوئے تھے عربی تقاریر کے بعد نام لے لے کر اُبھارا گیا کہ اس نہایت عمدہ موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اہلِ قادیان پر اپنی علمی برتری ثابت فرمائیں، اور لمبی تقریر نہیں.زبان عربی میں صرف چند جملوں ہی کا کوئی اعتراض پیشیں کر دیں مگر افسوس کہ وہ جن کی زبانیں اُردو کے وقت بند نہ ہوتی تھیں عربی اور انگریزی کے وقت کسی طرح کھلنے میں نہ آتی تھیں چنانچہ اس جلسہ کا اہل دہلی پر یہ اثر ہوا، کہ مخالفت کے باوجود جماعت احمدیہ کے علم کی گہری دھاک دلوں پر بیٹھ گئی اور صاب فراست ذہین اور فہیم خلیفہ کے فکر و تد تیر نے جماعت احمدیہ کی برتری اور سر بلندی کے نئے سامان پیدا کر دیئے.اس جلسہ میں خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ایک مضمون بعنوان اسلام اور دیگر مذاہب کا انگریزی میں ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا گیا جس کا سامعین پر گہرا اثل

Page 115

11- ہوا.اس مضمون کی تیاری کا واقعہ بھی دلچسپی کا حامل ہے.دراصل یہ مضمون انگریزی زبان میں لکھا جانا تھا اور مکرم مولوی محمد دین صاحب بی.اے ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول رحال صدره صدره النجمین احمدیہ پاکستان.ربوہ ) کے سپرد تھا.مگر مولوی صاب موصوف اپنی شدید مصروفیات کے باعث اس طرف کما حقہ توجہ نہ فرما سکے.اد مصر سر مارچ کو جلسہ شروع ہونا تھا اُدھر ۲ مارچ کی صبح کو حضرت خلیفہ اینچ الثانی رضی اللہ عنہ نے اس مضمون کی تیاری کا خود ہی بیڑا اٹھایا.وقت چونکہ تھوڑا تھا.انگریزی میں اس کا ترجمہ بھی کیا جانا تھا.اکثر مقررین دہلی جاچکے تھے یا جارہے تھے اس لئے اس کی تصنیف اس عجیب رنگ میں ہوئی کہ ہر مارچ کو ظہر کی نماز تک آپ نے ایک حصہ لکھ کر امیر قافلہ حضرت مولوی محمد دین صاحب کے سپرد کیا تا کہ دہلی جاتے ہوئے راستہ ہی میں انگریزی ترجمہ مکمل کر لیں.پھر رات کے ۲ بجے پیچھے پیچھے منشی فخر الدین صاحب کے ہاتھ دوسرا حصہ بھجوایا.دوسرے روز جمعہ کا دن تھا چنانچہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہوتے ہی تیسرا حصہ شیخ عبد الخالق صاحب ماہر عیسائیت کے سپرد کیا جو اسی وقت دہلی کے لئے روانہ ہو رہے تھے.اس کے باوجود ابھی کچھ حصہ مضمون کا باقی تھا.چنانچہ دو گھنٹے کے اندر کچھ اور حصہ مضمون نکھر کر شیخ عبد الخالق صاحب کے پیچھے پیچھے ایک سائیکل سوار کو دوڑایا کہ بٹالہ پہینچ کر گاڑی روانہ ہونے سے قبل بقیہ مضمون شیخ صاحب کے سپرد کر دے لطف کی بات یہ ہے کہ اس سلسلہ کی یہ کڑی بھی آخری نہ تھی.چنانچہ دن کا بقیہ حصہ بھی مضمون نویسی ہی میں صرف ہوا یہاں تک کہ رات بھیگ گئی لیکن آپ نہ تھکے نہ ماندہ ہوئے اور رات کے تین بجے آخری حصہ مضمون شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی کے سپرد کیا گیا کہ وہ لے کر جلد از جلد دہلی پہنچیں ہے مندرجہ بالا واقعہ سے آپ کی خداداد اور حیرت انگیز قوت تصنیف اور علو ہمت ظاہر وباہر ہے.لو جماعت احمدیہ کے باہمی معاملا میں قانون شریعت اسلامیہ کے نفاذ کا مطالبہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو جاعت احمدیہ میں قانون شریعیت له الفضل مارچ 1917ء

Page 116

رائج کرنے کی جو گن تھی انہی ایام میں اس کے اظہار کا ایک موقع اس طرح پیش آیا کہ حکومت کی طرف سے مسلمانوں سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ اپنے مقدمات وراثت کا فیصلہ رواج کے مطابق چاہتے ہیں یا شریعت کے مطابق.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تاکیدی ہدایت پر جماعتوں نے حکومت کو میموریل بھیجے کہ ہمارے فیصلے قومی رواج کے مطابق نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ کے مطابق کئے جائیں.البتہ جو مسائل اسلامی فرقوں میں متنازعہ فیہ ہوں ، اُن میں احمدی علماء کی رائے معتبر مانی جائے ایک نئے تبلیغی مشن کا قیام اسی سال آپ کو ماریشس کا نیا مشن قائم کرنے کی توفیق ملی جس کے پہلے مبلغ حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی.اے مقرر ہوئے جو پہلے مدراس سے ہوتے ہوئے پہنچے اور وہاں تین ماہ تک فرائض تبلیغ ادا کرنے کے بعد ۱۵رجون کو ماریشس چلے گئے جہاں آپ ایک لمبے عرصہ تک اشاعت دین کا کام سرانجام دیتے رہے.آپ نے ۲ ار مارچ ۱۹۱۶ء کو نصائح مبلغین کے عنوان کے تحت مبلغین سلسلہ کو بیش قیمت نصائح فرمائیں جو گہری حکمت سے پر ہیں اور آج بھی احمدی مبلغین کے لئے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں.یه تقریر جو الفضل ۲۹ اگست سنوار میں شائع ہوئی.اس کے چند اہم اقتباسا ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں :.تبلیغ میں تزکیہ نفس سے غافل نہ ہو سب سے پہلے مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تزکیہ نفس کرے.صحابہ کی نسبت تاریخوں میں آتا ہے جنگ پر موگ میں دس لاکھ عیسائیوں کے مقابل میں ساٹھ ہزار صحابہ تھے.قیصر کا داماد اس فوج کا کمانڈر تھا.اس نے جاسوس کو بھیجا کہ مسلمانوں کا جا کر حال دریافت کرے.جاسوس نے اگر بیان کیا.مسلمانوں پر کوئی فتح نہیں پا سکتا.ہمارے سپاہی لڑ کر آتے ہیں ، اور

Page 117

کمریں کھول کر ایسے سوتے ہیں کہ انہیں پھر ہوش بھی نہیں رہتی.لیکن مسلمان با وجود دن کو لڑنے کے رات کو گھنٹوں کھڑے رہ رہ کر دعائیں مانگتے ہیں ، خدا کے حضور گرتے ہیں.یہ وہ بات تھی جس سے صحابہ نے دین کو قائم کیا با وجود اپنے تھکے ماندے ہونے کے بھی اپنے نفس کا خیال نہیں رکھا....تبلیغ بہت عمدہ کام ہے.مگر تبلیغ کرنے میں بھی انسان کے دل پر زنگ لگتا ہے.کبھی اگر تقریر اچھی ہو گئی اپنے مقابل کے مباحث کو ساکت کرا دیا تو دل میں غرور آگیا اور کبھی اگر تقریہ اچھی نہ ہوئی.لوگوں کو پسند نہ آئی تو مایوسی ہو گئی اور تھی یہ ایک دلیل دنیا ہے.دل ملامت کرتا ہے کہ تو دھوکہ دے رہا ہے.اس قسم کی کئی باتیں ہیں جو دل پر زنگ لاتی ہیں.حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے تو آپ استغفار پڑھ لیا کرتے تھے حالانکہ آپ اعلیٰ درجے کے انسان تھے اور آپؐ کی مجلس میں بھی نیک ذکر ہوتا تھا.یہ اس لئے تھا کہ آپ ہمارے لئے ایک نمونہ تھے.یہ ہمیں سکھایا جاتا تھا کہ ہم ایسا کیا کریں.کہ جب کسی مجلس میں بیٹھیں تو استغفار کرتے رہیں اس لئے کہ کسی قسم کا ہمارے دل پر زنگ نہ بیٹھے.اس لئے ذکر الہی پر زیادہ زور دینا چاہیئے.نماز وقت پر ادا کرنی چاہیئے ہاں اگر کوئی ایسا سی خاص موقع آجائے تو اگر نماز جمع کرنی پڑے تو کرے.لیکن ہیں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں لوگ جھوٹ نماز جمع کر لیتے ہیں.یہ مرض نماز جمع کرنے کی بہت پھیلی ہے.ایسا نہیں چاہیئے.روزہ بھی بڑی اچھی چیز ہے اور زنگ کے منتقل کرنے کے لئے بہت عمدہ آلہ ہے.صحابہ بڑی کثرت سے روزہ رکھتے تھے......بعض ایسے موقعے تلاش کرے جن میں کسی سے کلام نہ کرے.خاموش ہو کر بیٹھے خواہ یہ وقت پندرہ بیس منٹ ہی ہو.بہت وقت نہ سہی مگر کچھ وقت

Page 118

ضرور ہونا چاہیے تا کہ خاموشی میں ذکر کرے......تبلیغ کے کام میں مطالعہ بہت وسیع چاہئیے.......سلسلہ کی کتابوں کا مطالعہ رہے.حضرت صاحب کی کتابیں اور پھر دوسرے آدمیوں کی کتا ہیں.اتنی اتنی دفعہ پڑھو کہ فورا حوالہ ذہن میں آجائے.کھتا ہیں اپنی خرید و ! ایک مرض مولویوں میں ہے.یاد رکھو مولوی کبھی کتاب نہیں خریدتے.اس کو لغو یا اسراف سمجھتے ہیں.شاذ و نادر زیادہ سے زیادہ مشکوۃ رکھ لی اور ایک کا فیہ رکھ لیا.لیکن انسان کے لئے جہاں وہ اور بہت سے چندے دیتا ہے ، کتاب خرید یا نفس کے لئے چندہ ہے.کچھ نہ کچھ ضرور کتاب کے لئے بھی نکالنا چاہیے.خواہ سال میں آٹھ آنے کی ہی کتاب خریدی جائے.یہ کوئی ضروری نہیں کہ لاکھوں کی ہی کتابیں خریدی جائیں.بلکہ جس قدر خرید کر سکو ، خرید و.یہ اس لئے کہ خرید نے والا پھر اس کتاب کا آزادی سے مطالعہ کر سکے گا اور اس طرح اس کے علم نہیں اضافہ ہو گا فراست بڑھے گی.سوال د خوشامد کی عادت نہ ڈالو پھر نفس کے لئے لجاجت ، خوشامد ، سوال کی عادت نہیں ہونی چاہیے.یہ بھی علماء میں بڑا بھاری نقص ہے کہ وعظ کیا اور بعد میں کچھ مانگ لیا.اور اگر کوئی ایسا گیا ہوا نہ ہوا تو اس نے دوسرے پیرا یہ میں اپنی ضرورت جتا دی.مثلاً ہمارا کنبہ زیادہ ہے، گزارہ نہیں ہوتا.یا کسی دوسرے الفاظ میں لوگوں کو شنا دیا کہ کچھ روپے کی یا کوٹ وغیرہ کی ضرورت ہے.ایسا نہیں ہونا چاہئیے.اللہ تعالے پر تو کل چاہئیے.اسی سے مانگنا چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ تیرے پاس ایسا مال لایا جائیگا کہ مال لانے والوں کو الہام ہو گا کہ مسیح موعود کے پاس لے کر جاؤ.پھر وہ

Page 119

۱۱۴ مال آتا تھا کوئی کہتا تھا کہ حضور مجھے فلاں بزرگ نے آکر خواب میں کہا اور کوئی کہتا تھا حضور مجھے الہام ہوا.اللہ پر توکل کرو وہ خود تمہارا کفیل ہوگا میرا اپنا تجربہ ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو خدا تعالے کہیں نہ کہیں سے بھیج دیتا ہے.خدا تعالے خود لوگوں کے دلوں میں تحریک کرتا ہے جو دوسری کا محتاج ہو پھر اس کے لئے ایسا نہیں ہوتا.ہاں اللہ تعالے پر کوئی بھروسہ کرے تو پھر اللہ تعالے اُس کے لئے سامان پیدا کرتا ہے.حضرت مولوی صاب شنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے کچھ ضرورت پیش آئی میں نے نماز میں دُعا مانگی.مصلے اُٹھانے پر ایک پونڈ پڑا تھا.میں نے اسے لے کر اپنی ضرور پر خرچ کیا.......تم کبھی دوسرے پر بھروسہ نہ رکھو.سوال ایک زبان سے ہوتا ہے اور ایک نظر سے.تم نظر سے بھی کبھی سوال نہ کرو.پس جب تم ایسا کرو گے تو پھر خدا تعالے خود سامان کرے گا.اس صورت میں جب کوئی تمھیں کچھ دے گا بھی تو دینے والا پھر تم پر احسان نہیں سمجھے گا.بلکہ تمہارا احسان اپنے اوپرہ سمجھے گا.لوگوں سے تعلقات مبلغ کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خادمانہ حیثیت رکھے.لوگوں نے یہ نکتہ نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے.بعض نے سمجھا.کہ نوکر چاکروں کی طرح کام کرے.یہ مراد نہیں.اس غلط فہمی کی وجہ سے ملانے پیدا ہوئے جن کے کام مُردے نہلانا ہوا کرتا ہے.کوئی بیمار ہو جائے تو کتنے ہیں بلاؤ میاں جی کو وہ آکر اس کی خدمت کریں.کھیتی کاٹنی ہو تو چلو میاں جی گویا میاں جی سے......وہ نائی دھوبی جس طرح ہوتے ہیں اس طرح کام لیتے ہیں.دوسری صورت پھر پیروں والی ہے.پیر صاحب چار پائی پر بیٹے ہیں کسی کی مجال نہیں کہ پیر صاحب کے سامنے چار پائی پر بیٹھ جائے حافظ

Page 120

۱۱۵ صاحب سُناتے تھے اُن کے والد بھی بڑے پیر تھے.لوگ ہمیں آکر سجدے کیا کرتے تھے.........دونوں کا نتیجہ خطرناک نکلا.یہ بڑی نازک راہ ہے مبلغ خادم ہو اور ایسا خادم ہو کہ لوگوں کے دل میں اس کا رعب ہو.مخدرات کرنے کے لئے اپنی مرضی سے جائے....اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی تشفی دینے والا ہمارا مبلغ ہو.کوئی بیوہ ہو تو حسب ہدایات شریعت اسلامیہ اس کا حال پوچھنے والا ، اس کا سودا وغیرہ لانے والا اور اس کے دیگر کا روبار میں اس کی مدد کرنے والا ہمارا مبلغ ہو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اُن کے دلوں میں دو چیزیں پیدا ہوں گی.ادب ہوگا اور محبت ہوگی.تو کل کا نتیجہ ادب ہوگا اور خدمت کا نتیجہ محبت ہو گی.مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف اگر ان میں دنائت نہ ہو تو دوسری طرف تکبیر بھی نہ ہو.لوگ نوکر اس کو سمجھیں گے......جو اُن سے سوال کرتا ہو.جو سوال ہی نہیں کرتا اس کو وہ نوکر کیونکر سمجھیں گے......تو یہ دو رنگ ہونے چاہئیں کہ اگر سب سے بڑا خادم ہو تو ہمارا مبلغ ہو.اور اگر لوگوں کے دلوں میں کسی کا ادب ہو تو وہ ہمارے مبلغ کا ہو.اس کے لئے وہ اپنے بال مشتریان کرنے کے لئے تیار ہوں، اس کے لئے جان دینے کے لئے تیار ہوں.دُعائیں کرتے رہو پھر مبلغ کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ دعائیں کرتا رہے کہ الہی میں ان لوگوں کو ناراستی کی طرف نہ لے جاؤں.جب سے خلافت قائم ہوئی ہے میں یہی دعا مانگتا ہوں......دیکھو مولوی گرے.مسلمان بھی کر گئے یہ دو باتیں ہر وقت مد نظر رہنی چاہئیں.اول کوئی ایسی بات نہ کرے، جس پر پہلے سوچا اور غور نہ کیا ہو.دوم دُعا کرتا رہے کہ الہی میں جو کہوں وہ ہدایت پر پہنچانے والا ہو.اگر غلط ہو تو الہی ان کو اس پر نہ چلا اور اگر یہ درست ہے تو الہی توفیق دے کہ یہ لوگ اس راہ پر چلیں.

Page 121

114 جو بدی کسی قوم میں ہو اس کی تردید میں جرات لیے کچھ دو.اپنے عمل دیکھتا رہے کبھی سستی نہ کرے.لوگوں کو اُن کی غلطی سے روکے.ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے نیچے آئے.لَوْ لَا يَنْهُهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ والاخبارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَآلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ کیوں انہوں نے نہ روکا.......غریبوں پر اگر وہ ظلم کرتے ہیں.شریفوں کا ادب نہیں کرتے.چوری کرتے ہیں.جھوٹ بولتے ہیں.ان پر تب پھر دو...کبھی کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہ ہو.میں اپنا طریق بتاتا ہوں میں نے کبھی کسی کی مرض کے متعلق بیان کرنا ہو توئیں دو تین مہینے کا عرصہ درمیان میں ڈال لیتا ہوں تا کہ وہ بات لوگوں کے دلوں سے بھول جائے تو اتنا عرصہ کر دینا چاہیئے.اگر موقع ملے تو اس شخص کو جس میں یہ مرض ہے علیحدہ تخلیہ میں نرم الفاظ کے ساتھ سمجھاؤ ایسے الفاظ میں کہ وہ چڑ نہ جائے.ہمدردی کے رنگ میں وعظ کرو.ایک طرف اتنی ہمدردی دکھاؤ کہ غریبوں کے خدمتگار تم ہی معلوم ہو.دوسری طرف اتنا بڑا ہو کہ تمھیں دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو.دو فریق بننے نہ دو.دو شخصوں کے جھگڑے کے متعلق کسی خاص کے ساتھ تمہاری طرفداری نہ ہو.کوئی مرض پاؤ تو اس کی دوا فورا دو.کسی موقع پر چشم پوشی کر کے مرض کو بڑھنے نہ دو.ہاں اگر اصلاح چشم پوشی ہی میں ہو تو کچھ حرج نہیں.لوگوں کو جو تبلیغ کرو اس میں ایک جوش ہونا چاہیے.جب تک تبلیغ میں ایک جوش نہ ہو وہ کام ہی نہیں کر سکتا.۲۱۰۰۰۰۰) سٹے باز نہیں ہونا چاہیئے.لوگوں کے دلوں سے ادب اور رعب جاتا رہتا ہے.ہاں مذاق نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم بھی کر لیا کرتے تھے اس میں حرج نہیں.احتیاط ہونی چاہیے سنجیدہ معلوم ہو.(۳) اور ہمدردی ہونی چاہیئے.نرم الفاظ ہوں سنجیدگی سے ہوں.سمجھنے والا سمجھے میری زندگی اور موت کا سوال ہے.تمہاری ہمدردی وسیع ہونی چاہیئے.احمدیوں سے بھی ہو غیر احمدیوں سے بھی ہو کے سورہ مائدہ آیت ۶۴

Page 122

118........آج تک ہمارے مبلغوں کا زور غیر احمدیوں پر ہی رہا ہے.کثرت سے ہندو آباد ہیں.ان میں بھی تبلیغ ہونی چاہیے.بہت سی سعید روحیں ان میں بھی ہوتی ہیں.تمہاری ہمدردی ان کے ساتھ بھی ایسی ہی ہونی چاہئیے......حضرت معین الدین چشتی کوئی اتنے بڑے عالم نہ تھے بلکہ انہوں نے اپنے اعمال کے ساتھ دعاؤں کے ساتھ ہندوؤں کو مسلمان بنایا نیز مبلغ کا فرض ہے کہ ایسا طریق اختیار نہ کرے کہ کوئی قوم اُسے اپنا دشمن سمجھے.تبلیغ میں یہ یاد رکھو کہ کبھی کسی شخص کے اقوال سے گھبراؤ نہیں اور نقول پر دارومدار رکھو.دلیل اور قول میں فرق ہے.دلیل پر زور دینا چاہیئے لوگ دلیل کو نہیں سمجھتے.مسلمان آریوں سے بات کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں قرآن میں یوں آیا ہے.آریوں کے لئے قرآن حجت نہیں.تم رویہ دلیل کو پیش کرنے کا اختیار کرو تا جماعت احمدیہ میں یہ رنگ آجائے.......جب بحث کرو تو مد مقابل کی بات کو سمجھو کہ وہ کیا کہتا ہے.مثلا تناسخ کی بات شروع ہوتی ہو تو فورا تناسخ کے رد میں دلائل دینے نہ شروع کرد کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے میں بھی اختلاف آرہا ہے.اب اگر تم اس کے بر خلاف دلیلیں دینے لگ پڑو اور آخر میں وہ کہہ دے کہ آپ تو میری بات سمجھے ہی نہیں تو تقریر بے فائدہ جائے گی...بغیر خیالات معلوم کئے بات نہ کرو.تناسخ کے متعلق بات کرو تو پوچھو، کہ تمہار ا تناسخ سے کیا مطلب ہے.اس کی ضرورت کیا پیش آئی.غرض ایسے سوالات کر کے پہلے اس کی اصل حقیقت سے آگاہ ہو اور پھر بات کرو.....تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا سیکھو.تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا ایسا گر ہے کہ انسان اس کے ذریعے سے بڑے بڑے عہدے حاصل کرنا ہے.....اسی کا نام لیاقت ہے.دوسرا طریق دوسروں سے کام لینے کا ہے بڑے بڑے عہدیدار خود تھوڑا کام کرتے ہیں.دوسروں سے کام لیتے ہیں.لیکن وہ تو خوب تنخواہیں پاتے ہیں.لیکن ایک محنتی مزدور آٹھ آنے ہی کماتا ہے.یہ لیاقت کام کرنے کی لیاقت سے بھی بڑی ہے.پس جتنی لیاقت کام

Page 123

کروانے کی ہوگی اتنا ہی بڑا عہدہ ہو گا...ایسے رنگ میں کام کروا کہ لوگوں کے اندر ایک روح پھونک دو.کبھی مت سمجھو کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مانتے نہیں.عرب کی زمین کیسے شریروں کی تھی پھر کیسے شریفوں کی بن گئی.یہ بات غلط ہے کہ وہ مانتے نہیں تم ایک دفعہ سُناؤ دو دفعہ سُناؤ آخر مانیں گے یہ اس شخص کی اپنی کمزوری ہوتی ہے جو کہتا ہے مانتے نہیں.اپنے کام کی پڑتال کرتے رہو ہمیشہ اپنے کام کی پڑتال کرو.کیا کامیابی ہوئی.تمہارے پاس ایک رجسٹر ہونا چاہیئے اس میں لکھا ہوا ہو کہ فلاں جگہ گئے وعظ فلاں مضمون پر کیا.اس اس طبقے کے لوگ شامل ہوئے.فلاں فلاں وجوہات پر مخالفت کی گئی.فلاں فلاں بات لوگوں نے پسند کی.یہ رجسٹر آئندہ تمہارے علم کو وسیع کرنے والا ہوگا.تم سوچو گے.کیوں مخالفت ہوئی.اہم مسائل کا تمھیں پتہ لگ جائے گا.اُن پر آئندہ غور کرتے رہو گے اگر تم وہاں سے بدل جاؤ گے تو پھر تمہارے بعد آنے والے کے کام آئے گا......کبھی اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے.یہ خیال کر کے کہ اگر یہ یوں نہیں مانتا تو اس طرح مان لیگا اس میں وہ تو نہ ہارا.تم ہار گئے.......ایسی محبت احمدی لوگوں سے ہونی چاہیے کہ رشتہ داری کی محبت سے بھی بڑھ جائے.حق کی تائید ہونی چاہئیے.یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ اگر احمدی کے مقابل میں رشتہ دار آگیا ہے تو اپنے رشتہ دار کی طرفداری اختیار کر لی جائے اس بات کو پیدا کرو کہ ہر ایک آدمی مبلغ ہے.صحابہ سب مبلغ تھے.اگر ہر ایک آدمی مبلغ ہو گا تب اس کام میں کچھ آسانی پیدا ہوگی اس لئے ہر ایک احمدی میں تبلیغ کا جوش پیدا کرد...پھر مالی امداد کا احساس پیدا کرو......یہ احساس پیدا ہونا چاہیئے کہ ضروریات کو کم کر کے بھی دین کی راہ میں روپیہ خرچ کیا جائے......جماعت کی یہ حالت ہے کہ اخبار میں چندے کے متعلق تکلے تو کان ہی نہیں

Page 124

119 دھرتے ہاں علیحدہ خط کی انتظار میں رہتے ہیں.لیکن اگر کسی شخص کا لڑکا گم ہوا ہو اور اخبار میں نکل جائے تو جس کے ہاں ہوتا ہے وہ اُسے وہیں روک لیتا ہے خط کا انتظار نہیں کرتا.ان کے دلوں میں ایسا جوش پیدا کرو.کہ جو نہی یہ دین کیلئے آواز سنیں فورا دوڑ پڑیں....جب کوئی اعتراض پیش آوے پہلے خود اس کے حل کرنے کی کوشش کرو فوراً قادیان لکھ کر نہ بھیج دو.خود سوچنے سے اس کا جواب مل جائے گا اور بیسیوں مسائل پر غور ہو جائے گی.قادیان آنے کی تاکید کرتے رہو لوگوں کو قادیان بار بار آنے کے لئے اور تعلق پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہو جب تک کسی شاخ کا جڑ سے تعلق ہوتا ہے وہ ہری رہتی ہے لیکن شاخ کا جڑ سے تعلق ٹوٹ جانا اس کے سوکھ جانے کا باعث ہوتا ہے.موجودہ فتنے میں توے فیصدی ایسے لوگ ہیں جو اسی وجہ سے کہ اُن کا تعلق قادیاں سے نہ تھا فتنے میں پڑے.بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ قادیان میں کچھ کام نہیں رہا.روپیہ جاتا ہے اور وہ لوگ بانٹ کر کھالیتے ہیں اس لئے لوگوں کو قادیان سے تعلق رکھنے کے لئے کوشش کرتے ر الفضل قادیان مورخه ۱٫۲۲ اپریل ۱۹۱۷ ه ، رہو" جلسه سالانه ۱۹۱۵ء جلسه سالانه شاشاء منعقده ۲۶ - ۲۷-۱۲۸ دسمبر جماعت احمدیہ کے لئے بہت خوشیوں کے سامان لایا.اس سے پہلے کبھی اس کثرت سے احباب جماعت اور دیگر زائرین جلسہ پر تشریف نہ لائے تھے.اُس زمانہ کے لحاظ سے یہ کہنا جائز ہوگا کہ ایک ہجوم خلائق تھا جو قادیان کی طرف کھنچا چلا آیا.ایک اور نمایاں پہلو اس جلسہ کا یہ تھا کہ بڑی کثرت کے ساتھ لوگ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور جماعت کے ازدیاد ایمان کا موجب بنے.نہ صرف یہ کامیابی فی ذاتہ خوشی کی بات تھی بلکہ ہر پہلو سے منکرین خلافت

Page 125

پر جماعت احمدیہ مبائعین کی ایک روشن اور نمایاں فتح تھی.قومی رہنماؤں پر فتح و نصرت کے اثرات ان کے کردار کے مطالعہ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں.آئیے دیکھیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر اس کا کیا اثر پڑا.عموما ایسے موقع پر فتح مند رہنما فخر و مباہات کا اظہار کرتے ہیں.تعلی کے کلمات منہ سے نکالتے اور خود اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں یا پھر اپنی قوم کی بڑائی اور عظمت کے گیت گاتے ہیں.لیکن آپ کا رد عمل اس سے بالکل مختلف تھا.نہ تو آپ فخر و مباہات کی طرف مائل ہوئے نہ اپنی ذاتی صلاحیتوں کے گن گائے بلکہ کامل نعجز کے ساتھ اپنے خدا کے حضور اسی کی حمد کے گیت گاتے ہوئے جھک گئے اور ہر کامیابی کو اللہ تعالٰی ہی کے فضل اور نصرت کا نتیجہ قرار دیا.بعض اوقات فتوحات انسان میں غفلت اور سستی پیدا کرنے کا موجب بھی بن جاتی ہیں.لیکن حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا کردار اس پہلو سے بھی امتیازی شان کا حامل تھا زندگی بھر کسی کامیابی نے آپ کی قوت عمل کو کمزور نہیں کیا.بلکہ ہمیشہ اس کا برعکس نتیجہ پیدا کرتی رہی.ہر کامیابی آپ کو پہلے سے زیادہ تیزرو بنا جاتی.اور ہر فتح کے موقعہ پر آپ کی تیز نظر آن خطرات کو بھانپ لیتی جو عموماً فتوحات کے عقب میں قوموں کے کردار پر شب خون مارنے کے لئے گھات لگائے رہتے ہیں.پس اس موقع پر بھی جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کے احسانات پر آپ کا دل حمد سے بھر گیا وہاں آپ کا ذہن ان خطرات کی طرف بھی منتقل ہو گیا جو کامیابی کی ہر منزل کے بعد جماعت کو پیش آسکتے تھے.زیر نظر جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کی چوتھی تقریر اسی مضمون سے تعلق رکھتی ہے.اس تقریر میں آپ نے جماعت کو متنبہ کیا کہ کس طرح عظیم فتوحات اور فوج در فوج جماعت مومنین میں غیروں کی شمولیت اپنے عقب میں بعض خطرات بھی لے کہ آتی ہے.مُرتبیان کی کمی اور قابل تربیت لوگوں کی کثرت نئے نئے خیالات اور جاہلانہ روایات کی اکاس بیل امام وقت براه راست تربیت پانے والے معلمین کا کم ہو جانا وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے متعلق فکر کرنا لانہمی ہوتا ہے.پس ضروری ہے کہ جماعت فوری طور پر کثرت سے مرتبیان اور معلمین پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہو.

Page 126

۱۲۱ اس کے بعد آپ نے سورہ نصر کی نہایت لطیف تفسیر فرمائی اور تاریخ اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے ان خطرات کی نشاندہی فرمائی جن کا سورۂ نصر میں ذکر ہے.آپ نے ان مشکلات کا نہایت دردناک پیرایہ میں ذکر فرمایا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو درپیش تھیں اور اُن فتنوں کا تفصیلی ذکر کیا جو ہر طرف سے اسلام کے خلاف سر اُٹھا رہے تھے.اور بڑے گہرے عالمانہ تشخص کے ساتھ ان موجبا اور محرکات کا تجزیہ فرمایا جو ان فتنوں کے پس پردہ کار فرما تھے.پھر جماعت کو نہایت ورد انگیز طریق پر بار بار توجہ دلائی کہ اپنی فتح کے گھمنڈ میں مستقبل کے خطرات سے غافل نہ ہو جاتا.کل اس سے بڑی فتوحات تمھارے لئے مقرر ہیں بلکہ ہر آنیوالا دن پہلے سے بڑھ کر فتح و ظفر کی خوشخبریاں لے کر آئے گا.یہ خدا کے وعدے ہیں جو ضرور پورے ہو کر رہیں گے اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں.ہاں مجھے فکر ہے تو اس بات کی کہ ان فتوحات کے بعد بڑے بڑے حبیب فتنے بھی سر اُٹھائیں گے.ایسے ہولناک فتنے بھی رونما ہو سکتے ہیں.جو اس فتنے سے بہت زیادہ پُر خطر اور نیب ہوں گے.جس میں سے تم ابھی فتح مند اور کامران ہو کر سکتے ہو.آج اس وقت کی فکر کرو اور کل پیش آنے والے خطرات کے دفاع کا انتظام کرو.ورنہ وہ فتنے تھیں غفلت کی حالت میں آپکڑیں گے.آپ نے خلافت ثالثہ راشدہ کی مثالیں دے کر بڑی تفصیل سے ان چور دروازوں کی نشاندہی فرمائی جن سے فتنے رفتہ رفتہ مؤمنین کی جماعت میں در آتے ہیں.اُن بظاہر دلکش نعروں کا ذکر کیا جنہیں بلند کر کے خدا کا نام نہیں بلکہ شیطان کا نام بلند کرنا مقصود ہوتا ہے.ان اعتراضات کا ذکر کیا جو عموما خلفائے وقت کے خلاف اُٹھائے جاتے ہیں.غرضیکہ ایک ایک سنگِ راہ - ایک ایک کھائی ایک ایک گڑھے اور ایک ایک پر خطر گھائی کا نقشہ اس طرح کھینچا کہ تمام مناظر سننے والوں کی آنکھوں کے سامنے رُونما ہو گئے.ان فتنوں سے بچنے کے طریق بھی بیان کئے اور سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ کثرت کے ساتھ مرکز سلسلہ میں آتے رہو تا کہ جس طرح ایک قصاب ایک چھری کو دوسری کند چھری کے ساتھ رگڑ کو تیز کرتا رہتا ہے تمہارے دلوں کے زنگ بھی ایک دوسرے سے مل کر اور تبادلہ خیالات کر کے چھٹتے رہیں اور تم ان صالحین کی صحبت سے فائدہ اُٹھا سکو جو محض اللہ مرکز احمدیت

Page 127

۱۲۲ میں دھونی رمائے بیٹے ہیں.دُنیا میں کم ہی کسی آنکھ نے فتح و ظفر کا جشن منانے والی کوئی ایسی تقریب دیکھی ہوگی.کچھ ابتدائے اسلام کے دردناک حالات کا اللہ کچھ بیان کرنے والے کے دل کا سوز اور نمن کا گداز ہزار ہا کے مجمع پر ایک ایسا وجد اور رقت کا عالم طاری تھا کہ ہمارے قلم میں اس کے بیان کی طاقت نہیں.موقع کے شاہد بیان کرتے ہیں، اور الفضل کا رپورٹر رقمطراز ہے کہ ہزاروں کا مجمع بلک بلک کر رو رہا تھا اور فرش زمین کی یہ گریہ و زاری عرش بریں کے کینگرے ہلا رہی تھی.یہ تقریر جو بعد میں انوار حالات کے نام سے چھپ چکی ہے اس لائق ہے کہ نسلاً بعد نسل اس کی اشاعت ہوتی رہے اور ہر آنے والی نوجوان نسل اس کے مضمون سے باخبر ہو کہ آنے والے فتنوں سے متنبہ رہے اور اُن سے مقابلہ کرنے کی اہل ثابت ہو.آپ کی جلسہ کی دوسری تقاریر میں سے پہلی ایک طویل گہری علمی تقریبہ تھی ، جیس میں جماعت احمدیہ کے امتیازی نظریات اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات کے بارہ میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے.خاص طور پر اسمہ احمد کی پیشگوئی کے تمام پہلو بڑی عمدگی کے ساتھ زیر بحث لائے گئے ہیں.۲۷ دسمبر کی درمیانی تقریر کا ایک حصہ پہلے مضمون کا نتمہ تھا.اور دوسرے حصے میں متفرق امور مثلاً تحصیل علم اور عورتوں کو علم دین سکھانا وغیرہ پر گفتگو فرمائی گئی تھی.اس جلسہ پر خلافت کے دوسرے سال کا افتتاح ہوا.اور احباب جماعت نئے ولولے اور نئی امنگوں، نئے ارادوں اور دین محمد کو پہلے سے بڑھ کر سیکھنے کا عزم لے کر گھروں کو کوئے.اس جلسہ کی ایک امتیازی شان یہ بھی تھی کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ جماعت احمدیہ کو یہ عظیم خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے جماعت احمدیہ کو قرآن کریم کے پہلے پارہ کا انگریزی زبان میں ترجمہ شائع کرنے کا موقع ملا ہے.احباب جماعت کو اس بات کا بہت رنج تھا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے سلسلہ کے خرچ پر تفسیر قرآن انگریزی کا جو کام کر رہے تھے اُسے وہ اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر لاہور نے گئے اور جماعت احمدیہ اپنے ایک جائز حق سے محروم ہو گئی.حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا یہ کارنامہ قابل تحسین ہے کہ آپ نے ایک قلیل

Page 128

عرصہ یعنی دو سال کے اندر جماعت کے اس زخم پر سکینت بخش هرم رکھا اور یہ اعلان کرتے ہوئے کہ اس وقت قرآن کریم کے پہلے پارے کے انگریزی ترجمے کی جلد میرے ہاتھ میں ہے نہایت ہی دل نشین انداز میں جماعت کو تسلی دی کہ جسے تم نقصان سمجھتے ہو اُسی میں اللہ تعالے کی طرف سے بھلائی مضمر ہو سکتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ترجمہ کی نسبت ایک بہتر ترجمہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور آئندہ بھی توفیق عطا فرماتا رہے گا.اس ترجمہ کی خصوصیات یہ تھیں کہ اس سے پہلے کبھی کوئی انگریزی ترجمہ عربی متن کے ساتھ نہیں چھپا تھا.مزید خوبی اس میں یہ پیدا کر دی گئی کہ عربی متن کے تلفظ او لہجہ کو رومن الفاظ میں بھی ظاہر کیا گیا.تاکہ یورپین قومیں جو عربی رسم الخط سے نا واقف ہیں قرآن کریم کا اصل متن بھی پڑھ سکیں.ترجمہ بہترین با محاورہ زبان میں ہونے کے باوجود کہیں بھی متن کے اصل منشاء سے ہٹنے نہیں پایا اور جہاں ضرورت پیش آئی تفسیری نوٹ بھی دے دیئے گئے.حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب محبت کرنے والے اور محبوب لوگ دیر کے بعد ملتے ہیں تو ان کو تحفہ دیا جاتا ہے.میں جماعت کو اس جلسہ پر یہ تحفہ پیش کرتا ہوں جس سے زیادہ بیش قیمت اور کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا.یہ ترجمہ حضور کی مسلسل نگرانی اور ہر قدم پر آپ کی رہنمائی کا مرہونِ منت ہے بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ تمام تر حضور ہی کے تفسیری نوٹوں سے تیار کیا گیا.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ فاضل مترجمین نے آپ کے منشاء اور ہدایت کے مطابق بڑی خوبی سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور بہت ہی توجیہ اور دن رات کی محنت اور لگن اور خلوص کے ساتھ اس فریضہ کو سر انجام دیا.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنِ الجزاء دنیا کے مختلف علمی حلقوں نے اس ترجمہ کو بڑے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.اخبار ایمپائر کلکتہ.سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کے علاوہ لنڈن کے ایک جریدہ ایسٹ اینڈوکیٹ نے بھی اس کی بہت تعریف کی ہے لیکن ان سب سے بڑھ کر مسلم ورلڈ کا ریویو قابل ذکر ہے جو قاہرہ سے چھپنے والا ایک مؤقر عیسائی ماہنامہ تھا.اس کے ذہین اور عالم مدیر نے خاص تنقیدی نظر سے اس ترجمہ کا مطالعہ کر کے ے ریویو آن ریچیز اُردو جنوری ۶۱۹۱۷ ۳۲۰ -

Page 129

۱۲۴ س پر تبصرہ لکھا.اگر چہ عیسائی نقطۂ نظر سے بعض جگہ اعتراضات بھی کئے لیکن بالعموم اس کی خوبیوں کو بہت سراہا اور تسلیم کیا کہ اسلام میں یہ ایک بالکل نئی پیش کش ہے جو معقولیات کے قریب تر ہے.اور گہری ٹھوس علمی کاوش کا نتیجہ ہے.اس ترجمہ کے مطالعہ نے جماعت احمدیہ کا جو گہرا اثر تبصرہ نگار مسٹر آر.ایف میکنیل کے دل پر چھوڑا اس کا کچھ اظہار اس تبصرہ کے حسب ذیل آخری چند فقرات سے ہو سکتا ہے :- بہر حال خواہ کچھ بھی ہو ہمارے سامنے اسلام کی ایک ایسی جماعت ہے جو کارکن اور ترقی کرنے والی ہے اور ان تمام اشکال سے پاک ہے جن کے خلاف عام طور پر سیمی دلائل کا رخ ہوتا ہے.ہمیں اس سے بحث نہیں کہ یہ نیا فرقہ ترقی کریگا یا نہ.لیکن اس جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ یقینا ہمیں اس آخری اور اہم امر یہ فیصلہ کا اندازہ کرنے میں مدد دے گا جس پر اسلام اور مسیحیت کے درمیان بازی لگ رہی ہے پہلے ه ریویو آن ریلیجیز اُردو اگست ۶۱۹۱۶ ۳۰۵۰

Page 130

۱۲۵ اسلوب بیان میں تبدیلی حضرت مرزہ البشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کا یہ دور جس پر اب ہم نظر ڈالیں گے نمایاں اہمیت کا حامل ہے.آپ کی قائدانہ اور مصلحانہ صلاحیتیں اس دور میں پورے عروج پر جلوہ افروز نظر آتی ہیں عظیم الشان اور دور رس منصوبے تیار ہو رہے ہیں.اور جماعت کو اُن پر باحسن طریق عمل پیرا ہونے کا ڈھنگ سکھایا جا رہا ہے.پس مناسب ہوگا کہ ابواب کو سال بسال منقسم کرنے کی بجائے اہم کاموں اور منصوبوں کے اعتبار سے ابواب قائم کر کے ان پر یکجائی نظر ڈالی جائے.بایں ہمہ بعض کام اتنے وسیع ہیں اور اتنے طویل زمانہ کو محیط ہیں کہ شاید انہیں مزید ابواب میں بھی منقسم کرنا پڑے.بهر حال اس نئے طریق کار پر عمل کرتے ہوئے ہم سب سے پہلے جماعت احمدیہ کے اس عظیم الشان نظام کا ذکر کرتے ہیں جو آپ کی قیادت میں مختلف مراحل سے گزرتا ہوا قائم و رائج ہوا.یہ نظام اپنی خطوط پر آج بھی جاری ہے.ہاں وقتاً فوقتاً اس میں نئی ارتقائی شاخیں نمودار ہوتی رہتی ہیں.

Page 131

۱۲۶ نظام جماعت احمدیہ کی تشکیل و ترویج بحیثیت امام جماعت احمدیہ، ابتدائے خلافت ہی سے آپ کی توجہ جماعتی نظام کو اس طرح مستحکم کرنے کی طرف لگی ہوئی تھی کہ خلافت راشدہ اسلامیہ کو حین خطرات کا سامنا کرنا پڑا.اگر دوبارہ اسی قسم کے خطرات خلافت احمدیہ کو درپیش ہوں تو جماعت اُن کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کر سکے.علاوہ ازیں قوموں کی ترقی اور تنزل کے اسباب پر نظر کرتے ہوئے آپ ایسے تمام ذرائع اختیار کرنا چاہتے تھے جو الا ماشاء اللہ جماعت کے لئے رختوں سے پاک اور ہمیشہ قائم رہنے والی نچی اور فعال زندگی کے ضامن ہو سکیں.اس پہلو سے آپ کی زندگی کا مطالعہ دلچسپی کا گہرا مواد اپنے اندر رکھتا ہے جماعت کی تشکیل کے سلسلہ میں آپ نے جو جو ذرائع اختیار فرمائے اور جو جو تدابیر سوچیں وہ ایک ایسے شخص سے ہی ممکن تھیں جو مورخ بھی ہو.اور مفکر بھی.صاحب علم بھی ہو اور صاحب عمل بھی.فطرت انسانی سے بھی آشنا ہو اور مختلف انسانی طبقات کے مزاج پر بھی گہری نظر رکھتا ہو اور ان سب کے علاوہ ایک صاحب تجربہ روحانی وجود ہو.یہ تمام کمالات آپ کی ذات میں جمع تھے اور اُن کے امتزاج نے اس نظام کو جنم دیا جو آج نظام جماعت احمدیہ کی شکل میں نہایت مستحکم صورت میں دنیا کے سامنے ایک مثالی نظام کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے.نظام به وہ قدرت ثانیہ جس کی اللہ تعالے کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کو بشارت دی گئی تھی کہ آپ کے جانے کے بعد آئے گی وہ نظام خلافت احمدیہ کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے وصال کے بعد ظاہر ہوئی اور یہی خلافت احمدیہ ہے جو نظام جماعت احمدیہ کا مرکز کی نقطہ ہے جو ایک دل کی طرح جماعت احمدیہ کے سینے میں دھڑک رہا ہے.خلیفہ ایسیح، حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی طرح ہی جماعت احمدیہ کے مطاع اور روحانی پیشوا ہیں.ایک پہلو سے جماعت احمدیہ میں خلیفہ ایسیح کو وہی حیثیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں دل کو ہوتی ہے.اور ایک دوسرے پہلو سے اس کی مثال دماغ کی سی ہے.باقی تمام نظام سلسلہ انہی دو

Page 132

۱۲۷ مرکزی قوتوں سے متحرک رہتا اور اپنی طبعی تشکیل کے مقاصد سر انجام دنیا ہے اور انہی کی رہنمائی میں مختلف روحانی اغراض کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہے.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اسی رہنما اصول کی روشنی میں تمام نظام جماعت کی تشکیل کی اور یہ سلسلہ ہمیشہ آپ کی رہنمائی میں ارتقائی منازل طے کرتا رہا.آپ کا طریق یہ تھا کہ جب بھی ذہن میں کوئی انتظامی تدبیر آتی تو اس کے مماثل پر نظر دوڑاتے اور دنیا میں رائج ایسے نظاموں کا بھی مطالعہ فرماتے جو کسی نہ کسی پہلو سے آپ کی زیر نظر تجویز پر روشنی ڈال سکتے ہوں.اس سلسلہ میں مکرم و محترم ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ کی ایک دلچسپ روایت پیش ہے جو آپ نے راقم الحروف کے سامنے متعدد بار بیان کی.مکرم ڈاکٹر صاحب کو ایک لمبا عرصہ حضور کے ذاتی معالج کی حیثیت سے حضور کے قریب رہنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ فرماتے تھے:.ایک مرتبہ حضور نے مجھے یاد فرمایا اور بتایا کہ آپ نظام جماعت میں اصلاحی تبدیلیاں کرنے پر غور فرما رہے ہیں لہذا چاہتے ہیں کہ انسانی جسم کے نظام کا مطالعہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو ایک کامل نظام کی شکل میں پیدا کیا ہے.اور اس کے مطالعہ سے بہت سی مفید رہنمائی حاصل ہو سکے گی چنانچہ آپ نے ANATOMY اور PHYSIOLOGY وغیرہ کی مختلف کتب حاصل کر کے ان کا مطالعہ فرمایا اور بہت سے مفید نتائج اخذ کئے.غالباً اسی تحقیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے ایک مرتبہ فرمایا.اللہ تعالے نے نظام جسم میں ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے بکثرت متبادل راستے تجویز کر رکھتے ہیں مثلاً اگر ایک شریان بند ہو جائے تو اس کی جگہ دوسری شہریان نیا راستہ مہیا کر دیتی ہے.لہذا انسان کو کسی نظام کی تشکیل کے وقت اس رہنما اصول کو مد نظر رکھنا چاہیئے.اسی طرح آپ کی تقاریر میں بکثرت ایسے حوالے ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ

Page 133

SYSTEMS POLITICAL ) پر بھی نظر آپ نے نظام سلسلہ کی تشکیل کے وقت نہ صرف تاریخ عالم کا گہرا مطالعہ فرمایا بلکہ دنیا میں رائج الوقت سیاسی نظاموں ) ڈالی لیکن اہم جماعتی امور میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے آپ محض علمی تحقیق پر انحصار نہ فرماتے بلکہ سنت نبوئی پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ آخری فیصلہ سے پہلے صائب الرائے احباب جماعت سے مشورہ حاصل کیا کرتے.اس کے بعد دعاؤں اور استخاروں کے ذریعہ اللہ تعالے سے رہنمائی حاصل کرتے اور جس امر پر اللہ تعالے آپ کو شرح صد عطا فرما دیا اسے اختیار کر لیتے.صدر انجمن احمدیہ جماعت احمدیہ کا مرکزی انتظامی ادارہ جو صدر انجمن احمدیہ کے نام سے موسوم ہے، ابتداء میں اس کی یہ صورت نہ تھی بلکہ مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس نے رفتہ رفتہ موجودہ شکل اختیار کی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السّلام نے الہام الہی کی روشنی میں جس انجمن کی تشکیل فرمائی تھی اس کا نام حضور علیہ السّلام نے مجلس کارپردازان مصالح قبرستان رکھا تھا جس کا اصل کام نظام وصیت کو رائج کرنا تھا.اس انجمن کی تشکیل نے رفتہ رفتہ بعض اور تجاویز کو جنم دیا.چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب کو خیال آیا کہ کیوں نہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کو یہ مشورہ دیا جائے کہ جماعت کے تمام اموال کو اس انجمن کی نگرانی میں دے دیا جائے جس کی صورت یہ ہو کہ ایک نئی انجمن بنام صدر انجمن احمدیہ قائم کی جائے جو دُنیا کے تمام احمدیوں پرمشتمل ہو یعنی بحیثیت احمدی ہر شخص اس کا رکن متصور ہو.اس انجمن کی ایک مرکزی انتظامیہ قائم کی جائے جس کا نام مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ رکھا جائے اور یہ انجمن امام وقت حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی رہنمائی نگرانی اور کامل اطاعت میں سلسلہ کے مختلف مالی اور تنظیمی امور چلانے کی ذمہ دار ہو.چنانچہ جب یہ تجویز حضرت اقدس کے سامنے پیش ہوئی تو مختلف احباب کے مشورہ کے

Page 134

۱۲۹ بعد بالآخر حضور علیہ السلام نے اس تجویز کو اس شکل میں منظور فرما لیا کہ اس مجلس کے جملہ ممبران خود حضور علیہ السلام نے نامزد فرمائے اور اس مجلس کا صدر بھی خود حضور نے منقہ یہ فرمایا جو حضرت مولانا حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ تھے.ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ان کی رائے چالیس آدمیوں کی رائے کے برابر شمار ہوگی یا جب یہ عرض کیا گیا کہ اس کی ضرورت نہیں کیونکہ صدر مجلس کو ویٹو کا حق ہوگا تو حضور علیہ السّلام نے فرمایا کہ آپ کا بھی یہی منشاء تھا.بہر حال اس مجلس کے قیام کے وقت جو سب سے اہم اور مرکزی قائدہ ضبط میں لایا گیا وہ یہ تھا :- ہر ایک معاملہ میں مجلس معتمدین اور اس کی ماتحت مجلس یا خجالس اگر کوئی ہوں ، اور صدر امین احمدیہ اور اس کی گل شاخہائے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم قطعی اور ناطق ہو گا" مندرجہ بالا امور سے صاف ظاہر ہے کہ اس مجلس کی حیثیت امام وقت کے تابع ایک انتظامی ادارے سے بڑھ کر نہ تھی جس کی تشکیل اور جس کے اختیارات کلیہ امام وقت کی مرضی کے تابع تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السّلام کی زندگی میں اس کی بعینہ یہی شکل رہی اور آپ کے وصال کے بعد جب ساری جماعت نے بشمول مجلس معتمدین حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی نیابت میں اپنا امام اور خلیفہ اسلمین تسلیم کر لیا اور اللہ تعالے کی مشقت نے خلافت احمدیہ کی شکل میں قدرت ثانیہ خطا کرنے کا وعدہ پورا فرما دیا تو خلافتِ اُولیٰ کے اولین سالوں میں یہ انجمن اسی طرح امام وقت کے ارشادات کے کلیت تابع رہ کر مفوضہ امور سر انجام دیتی رہی جیسے پہلے دیا کرتی تھی تاہم کچھ ایسی علامات بھی ظاہر ہونی شروع ہوئیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ مجلس معتمدین کے بعض ممبران اپنی حیثیت سے بڑھ کر اختیارات حاصل کرنے کے متمنی ہیں اور خلافت احمدیہ کی بجائے مجلس معتمدین ہی کو خلافت کا مقام دنیا چاہتے ہیں اس فتنہ کا کسی قدر تفصیل سے پہلے ذکر گزر چکا ہے.لہذا یہاں تکرر کی ضرورت نہیں." ہر حال حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جب خلافت کی اہم ذمہ داریاں نبھائیں تو ان تمام خرا ہیوں پر آپ کی نظر تھی جو اس قسم کی انجمنوں کے قیام کی غرض و غایت کونہ مجھے کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتی ہیں.علاوہ ازیں جماعت کے بڑھتے ہوئے کاموں کے پیش نظر بعض ه رپورٹ مجلس مشاورت ۴۱۹۲۰ هک ۳ -

Page 135

ایسی نئی انتظامی ضرور میں بھی سامنے آرہی تھیں جن کو یہ انجمن پورا نہ کر سکتی تھی.عہد خلافت اولی تک دستور یہ تھا کہ ہر قسم کے انتظامی معاملات براہ راست مجلس معتمدین میں ہی پیشی ہوتے تھے جبکہ صیغہ جات کے افسران جو انتظامی امور کو چلانے کے ذمہ دار تھے اس انجمن کے رکن نہیں تھے.پس انتظامی مسائل کا عملی تجربہ رکھنے والے کارکنان الگ تھے اور انتظامی امور کا فیصلہ کرنے والی انمین الگ ، جسے براہ راست کوئی انتظامی تجربہ نہ تھا.یہ صورت حال فی ذاتہ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتی تھی.چنانچہ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مختلف احباب جماعت سے مشورہ کے بعد جو پہلا انتظامی اصلاحی قدم اٹھایا وہ یہ تھا کہ ایک الگ مجلس انتظامیہ قائم کی جو صیغہ جات کے سربراہوں پر مشتمل تھی اور براہ راست خلیفہ وقت کی رہنمائی میں کام کرتی تھی.انتظامی امور سے متعلق مشورے اسی مجلس انتظامیہ میں پیش ہوتے جو آخری فیصلہ کے لئے حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں پیش کئے جاتے.اس مجلس کا نام مجلس نظارت رکھا گیا.لیکن اس مجلس کے قیام کے با وجود مجلس معتمدین اسی طرح قائم رہی البتہ ان دونوں مجلسوں کے دائرہ عمل اور طریق کار کو علیحدہ علیحدہ متعین کردیا گیا.اس نئی انتظامیہ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : احباب جماعت کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ ضروریاتِ سلسلہ کو پورا کرنے کے لئے قادیان اور بیرونی جماعت کے احباب سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے یہ انتظام کیا ہے کہ سلسلہ کے مختلف کاموں کے سر انجام دینے کے لئے چند ایسے افسران مقرر کئے جائیں جن کا فرض ہو کہ وہ حسب موقعہ اپنے متعلقہ کاموں کو پورا کرتے رہیں اور جماعت کی تمام ضروریات کو پورا کرنے میں کوشاں رہیں.فی الحال میں نے اس غرض کے لئے ایک ناظر اعلیٰ.ایک ناظر تالیف و اشاعت.ایک ناظر تعلیم و تربیت اور ایک ناظر امور عامہ اور ایک ناظر بیت المال مقرر کیا ہے اور ان عہدوں پر سر دست ان احباب کو مقرر کیا ہے.ناظر اعلیٰ مکرمی مولوی شیر علی صاحب ، ناظر تالیف واشاعت مکرفی مولوی شیر علی صاحب - ناظر تعلیم و تربیت مکرمی

Page 136

مولوی سید سرور شاہ صاحب ناظر امور عامه عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب ناظر بیت المال مکرمی ماسٹر عبد المغنی صاحب.ان کے علاوہ جماعت کی ضروریات افتاء اور قضاء کو مد نظر رکھ کر افتاء کے لیئے مکرمی مولوی سید سرور شاہ صاحب معرفی مولوی محمد اسماعیل هنات اور مکرمی حافظ روشن علی صاحب اور قضاء کے لئے مکرمی قاضی امیرحسین صاحب ، مکرمی مولوی فضل الدین صاحب اور مکرمی میر محمد اسحق صاحب کو مقرر کیا ہے آئندہ جو تغیرات ہوں گے ان سے احباب کو اطلاع دی جاتی رہے گی.میں امید کرتا ہوں کہ احباب ان لوگوں کے کام میں پوری اعانت کریں گے.اور سلسلہ کی کسی مفادات سے دریغ نہ کریں گے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے قائم کردہ سلسلہ کے استحکام کے لئے مجھے یقین ہے کہ سب احباب اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کریں گے اور ی طرح ان کا رکنوں کا ہاتھ بٹا کر ثواب کے مستحق ہوں گے اور ان کی تحریرات کو میری تحریرات سمجھیں گے.نظارت ببیت المال وَاخِرُ دَعْوَنَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ خاکسار مرزا محمود احمد آپ نے نئے نظام کے تحت نظارت بیت المال کی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرمایا.ان کاموں کے علاوہ جن کا تعلق صدر انجین سے ہے باقی تمام کاموں کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت پیش آئے اُسے دیہ صیغہ جیتا کرے.اس سے پہلے ہمارے افسروں کا یہ کام ہوتا تھا کہ ان عام کا ہو کے لئے جو کچھ کوئی دے جائے یا بھیج دے ، وہ لے لیں.لیکن جن لوگوں نے کوئی خاص کام کرنا ہو ان کے خزانے دوسروں کی رائے الفضل ۴ جنوری ۱۹۱۹ء صدا -۲

Page 137

۱۳۲ پر نہیں چھوڑے جا سکتے.ان کے کارکنوں کا فرض ہے کہ ضرورت کے مطابق رویہ ہم پہنچائیں.البتہ ایسی حکمت و ترکیب سے وصول کریں، کہ افراد تباہ و برباد نہ ہوں.کیونکہ جماعتیں افراد سے ہی بنتی ہیں اور وہ حکومتیں جو افراد کو برباد کر دیتی ہیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں پہلے نظارت تعلیم نظارت تعلیم ایک ایسی نظارت تھی جس کے کام کا ایک حصہ پہلے ہی صد را تخمین احمدیہ کے سپرد تھا اور تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ کا انتظام پہلے سے ہی صدر انجین احمدیہ کے زیر نگرانی تھا.آپ نے صدر انجمن کی اس علیحدہ حیثیت کو برقرار رکھا اور نئی نظار تعلیم کے سپر د حسب ذیل نئے کام کئے.آپ نے فرمایا :- اس صیغہ کے ذمہ یہ کام ہوگا کہ جماعت کے لڑکوں کی فہرستیں تیار کرائے اور معلوم کرے کہ مثلاً زید کے تین لڑکے ہیں ان کی تعلیم کا کوئی انتظام ہے یا نہیں اور وہ دینی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں یا نہیں.اگر معلوم ہو کہ نہیں تو اُسے لکھتا اور سمجھایا جائے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کرے.ایسے لوگ خواہ کہیں رہتے ہوں ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی نگرانی یہ صیغہ کرے گا اور ممکن سہولتیں مہیا کرنا اس کا فرض ہوگا اس طرح تمام جماعت کے بچوں پر اس صیفہ کی نظر ہوگی پھر شخص فوت ہو جائے گا اس کی اولاد کے متعلق یہ دیکھا جائے گا کہ اس کی تعلیم و تربیت کا کیا انتظام ہے.اس کے رشتہ داروں نے کچھ کیا ہے یا نہیں.اگر کیا ہے تو وہ تسلی بخش ہے یا نہیں اور کس قدر امداد دینے کی ضرورت ہے یہ نیز فرمایا.اس صیفہ کی ذمہ داری جماعت کے عام افراد کو ایسے مسائل سے واقف کرانا بھی ہے جس کے بغیر کوئی مسلمان، عرفان التی تقریر جلاس سالانه ۹۱اء ما تا ۸۰

Page 138

۱۳۳ مسلمان نہیں ہوسکتا.......عورتوں کی تعلیم کو عام کرنا بھی اس صیغہ کی ذمہ داری میں شامل ہے.لے دونوں انجمنوں کا ادغام کچھ عرصہ تک نئی قائم کر دہ انتظامیہ (جو نظارت کہلاتی تھی ، اور مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ پہلو بہ پہلو اپنے اپنے دائرہ عمل میں مختلف فرائض سر انجام دیتی رہیں.لیکن ایک لمبے تجربہ کے بعد جب اس میں بعض قباحتیں محسوس ہوئیں تو ۲۵ طلہ میں آپ نے ان دونوں تنظیموں کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا.اب جملہ نظارتوں کے ذمہ دار افسر جو ناظر کہلاتے تھے صدر انجمن احمدیہ کا جو و بن گئے اور انتظام کی نئی شکل یہ اُبھری ، کہ خلیفہ وقت کے ماتحت صدر انجمن احمدیہ بحیثیت مجلس عاملہ تمام اہم اصولی فیصلوں کی ذمہ دار تھی.اور تمام مسائل پر غور و فکر کے بعد اپنی سفارشات آخری منظوری کے لئے خلیفہ ایسیح کی خدمت میں پیش کرتی تھی.صدر انجین احمدیہ کے ایسے ممبران جو مختلف انتظامی شعبوں کے سر براہ ہوتے تھے وہ ناظر کہلاتے تھے.ناظر اصولی طور پر صدر امین احمدیہ کے ایسے فیصلوں کی روشنی میں کام کرتے تھے جن کو خلیفتہ ایسیج کی منظوری حاصل ہو.لیکن انتظامی امور میں وہ براہِ راست خلیفہ اسیح ہی کے ماتحت تھے اور خلیفہ مسیح کے سامنے جواب دہ تھے اور ان کا انتخاب بھی کلیتہ خلیفہ المسیح کے منشاء کے مطابق ہوتا تھا.صدر انجمن احمدیہ اور نظارتوں کے ادغام کے نتیجہ میں نئی انجمن کی صورت حسب ذیل تھی.اس میں مندرجہ ذیل چھ ناظر اور دو بیرونی ممبران مقرر ہوئے :.ناظر علی و بہشتی مقبرہ : حضرت چوہدری نصر اللہ خانصاحب ڈسکہ ضلع سیالکوٹ ر والد محترم حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب) ناظر دعوت وتبلیغ : حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ عنہ ناظر بیت المال : حضرت مولوی عبد المغنی خانصاحب رضی اللہ عنہ ناظر امور عامه : حضرت مولوی ذوالفقار علی خانصاحب گو ہر رضی اللہ عنہ ر برادر مولانا محمد علی جو شہر بانی تحریک خلافت) اے رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۲۲ ص ۲۲

Page 139

۱۳۴ ناظر امور خارجہ - حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ ناظر ضیافت :- حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ.بیرونی ممبران 1 (1) ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ (۲) ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ عنہ رفتہ رفتہ ان نظارتوں کے علاوہ حسب ضرورت صدر انجین احمدیہ کے انتظام میں بعض دوسری نئی نظارتوں کا اضافہ اور شعبوں میں رد و بدل ہوتا رہا.مثلاً نظارت تعلیم کے ساتھ تربیت کو شامل کر کے اس نظارت کا نام تعلیم و تربیت رکھ دیا گیا.وہ تمام نظارتیں جو بعد میں مختلف سالوں میں قائم ہوئیں حسب ذیل ہیں :- نظارت تجارت و صنعت - نظارت تعلیم و تربیت - نظارت تالیف و تصنیف - نظارت زراعت - نظارت خدمت درویشان اور نظارت دیوان.اس کے علاوہ ان نظارتوں میں بعض اور تبدیلیاں بھی عمل میں لائی گئیں.مثلاً نظارت دعوۃ و تبلیغ کو ختم کر کے اس کی جگہ نظارت اصلاح وارشاد کا قیام عمل میں لایا گیا جس کو تبلیغ کے علاوہ تربیت کا کام بھی تفویض کیا گیا.نظارت تعلیم و تربیت سے تربیت کا حصہ نکال دیا گیا اور ایک مرتبہ پھر ابتدائی شکل کی طرف لوٹا کر صرف نظارت تعلیم بنا دیا گیا.اس وقت رائج الوقت نظام جماعت میں بعینہ یہی تنظیم مصروف کار ہے.آپ نے اپنے وہ سالہ دور خلافت میں میں عمدگی اور قاطعیت کے ساتھ اس نظام کی نگرانی اور رہنمائی فرمائی اور پیش آمدہ نقائص کو دور کرتے ہوئے اسے مسلسل روبہ اصلاح رکھا اس کی داستان بہت طویل ہے.صدر انجمن احمدیہ کے فیصلوں پر آپ کے ارشادات، علم وحکمت کا خزینہ ہیں جو ہمیشہ جماعت احمدیہ کے نظام کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتے رہیں گئے.بسا اوقات آپ مجلس مشاورت کے موقع پر یا بعض دیگر تقاریر اور خطبات میں بھی جماعت کی عمومی تربیت کی خاطر انتظامی امور پر حالات کے مطابق روشنی ڈالتے رہے، اور مختلف نظارتوں کی رہنمائی فرماتے رہے.محض نمونے کے طور پر ایسے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں.

Page 140

۱۳۵ کارکنوں کا انتخاب سلسلہ کا اصل ذمہ دار خلیفہ ہے اور سلسلہ کے انتظام کی آخری کڑی بھی خلیفہ ہے.خلیفہ مجلس معتمدین مقرر کرتا ہے اور وہی مجلس شوری مقرر کرتا ہے.دونوں مجلسیں اپنی اپنی جگہ خلیفہ کی نمائندہ ہیں.....میں صاف طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ کارکنوں کا انتخاب سوائے خلیفہ کے اور کسی کے اختیار میں نہیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے انتخاب کارکنان کے متعلق تو مشورہ بھی ثابت نہیں ہوتا.خلفاء کے وقت میں کبھی اس کے متعلق مشورہ کی پابندی نظر نہیں آتی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت سارے کہتے رہے کہ خالد کو معزول نہ کیا جائے مگر انہوں نے اُن کی بجائے ابو عبیدہ کو مقرر کر دیا.لے نظارت ملیا ایک تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ سے اختلاف کرتے ہوئے جس نے نظارت علیا کو غیر ضروری قرار دیا تھا.آپ نے فرمایا :- دنیا کی کوئی کانسٹی ٹیوشن ایسی نہیں جس میں کسی ممبر کو سینیٹر ممبر قرار نہ دیا جائے.کہیں اس کا نام وزیر اعظم رکھ لیا جاتا ہے اور کہیں کچھ اور.میں نے خصوصیت سے کئی ممالک کی کانسٹی ٹیوشنز کا مطالعہ کیا ہے.رشین کانسٹی ٹیوشن میں ایک کو ڈکٹیٹر مقرر کر لیا جاتا ہے.امریکن حکومت میں کوئی خاص سربر مقرر نہیں کیا جاتا.مگر اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ پریذیڈنٹ اپنی ذات میں انتظامی طور پر جوابدہ ہوتا ہے اس لئے علیحدہ طور پر پر ٹیٹر مقرر کرنے کی ضرورت نہیں.مگر اب اس میں بھی ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۱۹۳۰ ۲۵۰

Page 141

۱۳۶ تغییر کیا جا رہا ہے سیکرٹری آف سٹیٹ کو بھی اختیارات دے دیئے گئے ہیں.پس رپورٹ کا یہ حصہ اصول کے خلاف ہے.میرے پاس ہر روز اپیسے کا غذات آتے ہیں جن پر غور کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں کسی ناظر کے پاس نہیں بھیج سکتا.آخر مجھے یہی لکھنا پڑتا ہے کہ ناظر اعلیٰ کے پاس جائیں....ناظر اعلیٰ کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ اگر کوئی ناظر غلطی کرتا ہے، تو ناظرا علیٰ کو اس کے متعلق رپورٹ کرنے کے لئے مقرر کیا جاتا ہے.یہ کام ہر حال کسی سینیٹر ممبر ہی کے سپرد کرنا پڑے گا یہ ہے نظارت تالیف و تصنیف تصانیف ہمیشہ کسی اصول کے ماتحت ہونی چاہئیں.ہر سال ایک میٹنگ بلائی جائے جس میں اس امر پر غور ہو کہ زمانہ کا دماغ کدھر جارہا ہے.اور لوگوں کے خیالات کی روکس طرف ہے.پھر اس کے مطابق کام ہونا چاہئیے.کسی زمانہ میں خالی وفات مسیح کے مسئلہ سے کام ہو جاتا تھا.لیکن اب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام پیٹ کے دھندوں کا کیا علاج کرتا ہے امن کے قیام کے لئے وہ کونسی تجاویز پیش کرتا ہے.یا کونسی تدابیر ہیں جن سے پاکستان مضبوط ہو جائے اور اسلام دنیا پر غالب آجائے.چونکہ اب مسلمانوں کو حکومت مل گئی ہے اس گئے نئے نئے سوالات ان کے دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں ان سوالات کے متعلق ہماری طرف سے کتا بیں شائع ہوتی کوئی پلاننگ نہیں ہوئی.اب چاہئیں.ان امور کے متعلق ہونے کا شوق ہے وہ اپنے طور پر رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں کسی معین اور واضح سکیم کے مانستخوت ان کا کام نہیں ہوتا یہ ہے کے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳ ص۱۹ - ۵۲ رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۵۷ ص۳۲

Page 142

١٣٧ نظارت تعلیم و تربیت نظارت تعلیم نوجوانوں کو قومی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دلوائے اس غرض کے لئے وہ نوجوانوں کی ذہنیت کا جائزہ لیتی رہے.یہ کام تیبھی ہو سکتا ہے جب سکولوں اور کالجوں کے طلباء سے رابطہ رکھا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ وہ کس کس لائن میں ترقی کر سکتے ہیں.۲.یہ محکمہ غرباء کو اُبھارنے کی کوشش کرے.مثلاً اگر محکمہ کی طرف سے تحریک کی جائے کہ پندرہ میں زمیندار مل کر ایک لڑکے کی اعلیٰ تعلیم کا بوجھ اٹھائیں اور اسے قرمنہ کے طور پر ماہوار کچھ وظیفہ دے دیا کریں تو چند سالوں میں کئی لڑکے گریجوایٹ بن سکتے ہیں.- معلم پیدا کرنا بھی ہمارے اس محکمہ کا کام ہے.۴.سلسلہ کی ضرورتوں کے مطابق مختلف فنون ، زبانوں اور کاموں کی تعلیم دلوانا بھی محکمہ تعلیم کے فرائض میں شامل ہے.ہ اس بات کی کوشش کرنا کہ جماعت کا ایک ایک مرد ایک ایک بچہ ایک ایک عورت دین سے اس قدر واقفیت حاصل کرتے جومسلمان بننے کے لئے ضروری ہے جب تک ایسا نہ ہو ، تب تک ترقی نہیں ہو سکتی ایسے ایک اور موقع پرنر مایا :- "اس سے غرض جماعت کی دینی تعلیم و تربیت ہے.علماء بنانا نہیں بلکہ ایسے مسائل سے واقف کرتا ہے کہ جن کے سوائے کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہو سکتا.اب کئی عورتیں آتی ہیں جو کلمہ بھی نہیں پڑھ سکتیں اور جب کلمہ نہیں پڑھ سکتیں تو نماز کس طرح رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء ص ۲۲

Page 143

۱۳۸ جھ سکتی ہوں گی اور جب نماز نہیں پڑھ سکتیں تو مسلمان کس طرح ہو سکتی ہیں اور وہ غرض کس طرح قائم رہ سکتی ہے جو اس سلسلہ کی ہے جبکہ یہ حالت ہے نماز کوئی ٹونہ نہیں بلکہ با ترجمہ آنی چاہیئے.کیونکہ جو ترجمہ نہیں جانتا وہ مجھ کہاں سکتا ہے اور معارف پر غور کہاں کر سکتا ہے اور جسے یہ بات حاصل نہیں وہ خدا سے تعلق کس طرح پیدا کر سکتا ہے اس کے بغیر تو یہ ناٹک ہے کہ تماشا کے طور پر ادا کی جاوے.ہم جلسے اور انجمنیں کرتے ہیں.مگر کیا نہیں اسی لئے آتے ہیں.یہ تو اور لوگ بھی کر لیتے ہیں ہماری غرض اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب ہمارا ایک ایک مرد ایک ایک بچہ اور ایک ایک عورت اس قدر واقفیت دین سے رکھے جو مسلمان بننے کے لئے ضروری ہے.جب تک ایسا نہ ہو تب تک ترقی نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ بعض خاص آدمی اپنی ریاضت سے آگے نکل جائیں.مگر جماعتیں اسی لئے بنائی جاتی ہیں.کہ سارے مل کر ترقی کریں.اگر ساری جماعت ترقی نہ کرے تو پھر کیا ضرورت ہے چندہ جمع کرنے کی.اور کیا ضرورت ہے کا نفرنس اور جلسوں کی.تو تعلیم و تربیت سے یہ مراد ہے کہ ہر احمدی کو ظاہری علوم کا اتنا حصہ سکھا دیا جاوے کہ اُسے که بر علوم کاما سال ها ، آئندہ ترقی کی بنیاد قرار دے سکیں.......دوسری چیز اس سے اوپر اخلاقی تربیت تھی......تبلیغ کے رستہ میں بھی اتنی روکیں نہیں جتنی تربیت کے رستہ میں ہیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا سچا ہونا چونکہ احمدی خود سمجھتے ہیں اس لئے دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں لیکن اخلاق سے چونکہ خود واقف نہیں اس لئے دوسروں کو سکھلا نہیں سکتے.اور موٹی موٹی باتیں مثلاً غیبت بد اخلاقی کیا ہوتی ہے یہ بھی نہیں جانتے اور مذاق اس قدر بگڑا ہوا ہے کہ اول تو اخلاق سکھانا ضروری

Page 144

۱۳۹ ہے.پھر اس پر عمل کرانا.کہتے ہیں کوئی ہندو مسلمان ہو گیا تھا.جب کبھی کوئی بات ہوتی تو رام رام کہتا.جب پوچھا گیا تو کہنے لگا رام نکلتے ہی کلیگا یہی حالت ہماری جماعت کی ہے.ابھی اخلاق کو سمجھے نہیں مگر جب سمجھائیں گے تو پھر بھی عمل کرتے وقت بھول جائیں گے اس لئے مشق کرانے کی ضرورت ہوگی.میں نے ابھی تجربہ کیا ہے.لاہور سے واپس آتے وقت میں ریل میں لیٹ گیا.ابھی لیٹا ہی تھا کہ ایک صیغہ کے اعلیٰ رکن کی ایک ریل والے سے لڑائی شروع ہو گئی.میں چُپ سنتا رہا کہ دیکھوں کس طرح گفتگو ہوتی ہے.کوئی بیس منٹ تک جھگڑا ہوتا رہا.اس ساری لڑائی میں وہ کارکن بہت بڑی غلطی میں مبتلا اور ناحق پر تھا.اور باوجود اس کے بد اخلاقی سے کام لے رہا تھا.اگر اس وقت میرے پاس وہ معاملہ فیصلہ کے لئے آتا تو میں اس کے خلاف فیصلہ کرتا.تو وہ با وجود اخلاق کو جاننے کے اُن کے خلاف کر رہا تھا اور عمل کے وقت پورا نہ اتر رہا تھا.پس اول ہمیں یہ بتانا ہے کہ اخلاق کیا ہیں اور جب یہ بتا دیں تو یہ بتانا ہوگا کہ ان کے قو عد کیا ہیں اور یہ بھی بتا دیں تو موقع پر استعمال کرانا ہوگا.جب تک یہ نہ ہو اخلاق کی تربیت نہیں ہو سکتی.یہ ایک آدمی کو سکھانا بھی بڑا مشکل کام ہے کجا یہ کہ جماعت کے ہر فرد کو سکھائے جا دیں اور ابھی تک تو بڑے بڑے آدمی بھی نہیں استعمال کر سکتے کجا یہ کہ جنگلی احمدی بھی استعمال کریں.سب کے تربیت یافتہ ہونے کا خیال اتنا بڑا ہے کہ ذہن میں لاتے ہوئے دل ڈرتا ہے کہ کیا ایسا ہوگا.مگر کرنا ہے کیونکہ ہمارا فرض ہے.پھر روحانیت کی تعلیم ہے.اخلاقی تعلیم کے بعد اس کا درجہ شروع ہوتا ہے.روحانی تعلیم سے باطن کی صفائی ہوتی ہے.لوگ موٹے موٹے مسائل سے واقفیت نہیں رکھتے مثلاً آداب خلیفہ اور

Page 145

۱۴۰ شیخ کیا ہیں.خدا سے کیا تعلق ہوتا ہے کس طرح محسوس کرے کہ خدا سے اُسے تعلق ہو گیا.یہ باتیں تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتی ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ نہ صرف ان سے ناواقف ہیں بلکہ ان میں سوال بھی پیدا نہیں ہوتا کہ ان باتوں کے حاصل کرنے کا کوئی انتظام ہونا چاہیئے.قادیان کے سنجیدہ لوگوں سے میں نے سُنا ہے کہ ان صیغوں کی کیا ضرورت ہے.تو کام کرنا تو الگ رہا ان کے متعلق سوال بھی نہیں پیدا ہوتا کہ ایسا ہونا چاہیئے.اس کے لئے بڑی جد وجہد کی ضرورت ہے.پھر یہ ہمیں موجودہ نسل ہی کی اصلاح نہیں بلکہ یہ بھی کرتا ہے کہ آئندہ نسلوں کی حفاظت کا بھی اتنظام کریں.لیکن اگر سلسلہ کا انتظام اعلیٰ چٹان پر قائم نہیں تو اگر آج نہیں تو کل اس کی موت ہو جائے گی.پھر ہماری جماعت کا فائدہ کیا ہوا.جس طرح آئیڈیل مکین (یعنی مثالی انسان.ناقل ) کہنے ہیں اسی طرح چاہیئے کہ ہم آئیڈیل مسلم بنائیں اور یہ کوشش کریں کہ ہر ایک احمدی ایسا ہو.اور جو آئندہ پیدا ہو.وہ بھی ایسا ہی ہو بلکہ یہ کہ آئندہ نسلیں بڑھ کر ہوں.کیونکہ اگر اگلی نسل میں ترقی نہ ہو تو تنزل شروع ہو جاتا ہے.اس وقت میں چند موٹی موٹی باتیں بتاتا ہوں.ان کو یاد رکھو.بعض لوگ تمسخر مین قرآن کی آیتیں پڑھ دیتے ہیں یا دوسرے کہہ دیتے ہیں یہ مولوی جو ہوئے ایسی باتیں کر دیتے ہیں گویا دین کی وقعت بٹھانے کی بجائے بُرا اثر ڈالا جاتا ہے اور آئندہ نسلوں پر اس کا بُرا اثر ہونا لازمی ہے.اس قسم کی باتوں کا اس قدر اثر ہوتا ہے کہ مجھے اپنے بچے کو مارنا بھی پڑا.ایک بھائی نے ہنسی کی دوسرے بھائی پر کہ تو مولوی ہے کہ قرآن حفظ کرتا ہے.میں نے اس کو مدرسہ انگریزی میں داخل کیا تھا اس سے پہلے اس نے کبھی یہ نہ کہا تھا اس لئے معلوم ہوا کہ مدرسہ سے ایسا خیال اس کے دل میں پیدا ہوا اس پر

Page 146

۱۴۱ مجھے اُسے مارنا پڑا کہ مولوی ہونا کونسی ہنسی کی بات ہے.ہمارا تو فرض ہے کہ جو دین کے لئے تیاری کرتا ہے اس کا زیادہ ادب و لحاظ کریں اُسے اپنا سردار سمجھیں.خدمت دین کرنے والوں کی عزت کریں.مگر انھی تو یہ حالت ہے کہ ایک دنیا دی اعلیٰ پوزیشن والے کی بات دین کے معاملہ میں بھی اس کی نسبت زیادہ توجہ سے لوگ سنتے ہیں جو دین کا کام کرنے والا ہے.پھر مومن میں بڑی جرات ہونی چاہیئے.مومن کو کسی چیز کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے.لیکن یہاں ذرا افسر ناراض ہو تو بڑی مصیبت آجاتی ہے.ایک نے لکھا کہ افسر ناراض ہو گیا ہے.اب میں کیا کروں.میں نے کہا کیا ہوا کیا افسر خدا ہے.مومن کا کام یہ ہے کہ ساری دنیا کو حقیر سمجھے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کا ادب نہ کرے.ادب کرے مگر کسی سے ڈرے نہیں.دلیر ہو.تو مومن کو جرات و دلیری پیدا کرنی چاہیئے.جوش پر قابو پانا چاہیئے.دیانت حق کی محبت.بے رعایتی.سچی شہادت دنیا.بدی کے مٹانے کا احساس رکھنا.محبت عامہ رکھنا.زبان کو پاک رکھنا.یہ بہت سے اخلاق ہیں بلکہ سینکڑوں ہیں.مگر بہت سے لوگ واقف نہیں.اگر واقف ہیں تو ان کی کیفیت معلوم نہیں.ان کا خیال رکھنا ضروری ہے.ایک ایک مرد کا ایک ایک عورت کا ایک ایک بچے گا.جب تک ان کی طرف خیال نہیں ہوگا.تعلیم و تربیت کا صیغہ اپنے کام میں ناقص ہوگا.پر عورتوں کی تعلیم ہے اس کی طرف توجہ نہیں.اس کے لئے ضروری انتظام کرنا ہے پہلے نظارت امور عامه وال امور عامہ.قضا اور احتساب کا صیغہ ضروری ہے جو ہر جگہ ہونا ے رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۲۴ ص۲۲ تا ۲۵۰

Page 147

۱۴۲ چاہیئے کیونکہ یہاں کے صیغہ والے کس طرح معلوم کر سکتے ہیں کہ لاہور میں سارے احمدی نماز با قاعدہ پڑھتے ہیں یا نہیں.یا تو نو کر رکھیں جو انہیں پتہ دیں مگر روپیہ کہاں سے لائیں اس لئے ضروری ہے کہ ان دفاتر کی شاخیں ہر جگہ ہوں اور ان کے ذریعے کام کیا جاوے اب چندہ کے لئے تو سارے جمع ہو جاتے ہیں لیکن یہ ہو کہ حقہ کے روکنے کے لئے یا گالیاں بند کرنے کے لئے مشورہ کرنا ہے تو جمع نہیں ہوتے حالانکہ یہ بہت اہم باتیں ہیں.تو ہر جگہ قضا.امور عامہ اور احتساب ہو مثلاً امور عامہ کا کام ہے کہ سرکاری افسروں کو جماعت کے معاملات سے واقف کریں.اگر ہر جگہ ایسے آدمی ہوں جن کو مقرر کیا جا وے تو جماعت کی بہت سی مشکلات دور ہو سکتی ہیں.مگر یہ لوگ افسروں سے اپنی ملاقاتوں کو ذاتی فوائد کا ذریعہ نہ بنائیں اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے ہٹا دیا جاوے اور دوسرے کو مقرر کر دیا جاوے.اسی طرح شادی بیاہ کے لئے لوگ کہتے ہیں کہ کوئی رشتہ نہیں ملتا.اگر وہاں بھی ایسا انتظام ہو جیسا کہ یہاں ہے تو جو لوگ اپنی قوم کے خیال سے رشتہ نہیں کرتے یا بڑے چھوٹے کو دیکھتے ہیں انہیں سمجھا سمجھا کر آپس میں رشتہ کرا دیں تو یہاں اتنا کام نہ بڑھے اسی طرح لڑائی جھڑے ہیں اُن کا خیال رکھنا ہے.لین دین ہے لہ نظارت زراعت میں نے احمدی زمینداروں کو توجہ دلائی تھی کہ وہ بیدار ہوں اور زیادہ سے زیادہ پیداوار بڑھانے کی کوشش کریں اس سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کو چاہیے کہ وہ ایک نظارت زراعت قائم کرے جس کے افسر تمام زرعی علاقوں کا دورہ کر کے زمینداروں کی مناسب رہنمائی کریں کہ کسی کسی علاقے میں کس کس چیز کی فصل ہونی چاہیئے سے رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۲۲ ۲۷۵

Page 148

۱۴۳ اور پیداوار کو بڑھانے کے لئے کون سے ذرائع استعمال کرنے چاہئیں اسی طرح جہاں جہاں بڑی جماعتیں ہوں وہاں زراعتی سوسائٹیاں بنائی جائیں تا کہ وہ باہمی مدد اور تعاون کے ساتھ کام کر سکیں.اگر ایسا ہو جائے تو امید ہے ہمارے زمینداروں کی اخلاقی اور دینی حالت پر گہرا اثر پڑے گا اور جماعت کی آمد بھی بڑھے گی یا سے نظارت تجارت یا د رکھو ہر وہ تجارت یا صنعت یا ملازمت جو قوم کے اکثر افراد کے ہاتھوں میں آجاتی ہے اُسے کوئی دشمن تباہ نہیں کر سکتا.کیونکہ وہ فرد کے ہاتھ سے نکل کر قوم کے ہاتھ میں پہنچ چکی ہوتی ہے.اگر ہمارے آدمی مختلف فن سیکھ کر کافی تعداد میں ایک ایک پیشہ میں کام کر رہے ہوں تو مخالف ہمیں نکال نہیں سکتے.وہ اسی وقت نکال سکتے ہیں جب ہمارے افراد خال خال ہوں.یہی حال تاجروں کا ہے.اگر وہ مختلف مقامات پر چھائے ہوئے ہوں اور اپنی تجارت کو فروغ دے کہ ارد گرد پھیلتے جائیں تو ان کا بائیکاٹ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.کیونکہ اگر وہ ان کا بائیکاٹ کریں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنے فوائد کو آپ قربان کر دیں.دنیا میں کون ایسا احمق ہے جو اس شاخ کو کاٹنا شروع کر دے جس پر خود بیٹھا ہوا ہو.پس جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایسے اصول یقینا اختیار کئے جا سکتے ہیں جن سے کام کو وسیع طور پر پھیلایا جا سکتا ہے.صرف اسی لئے کہ ہمارے تاجر کمپنیاں بنا کر کام کرنے کے عادی نہیں ان کی تجارت وسیع نہیں ہوتی.اجتماعی ضرورت کی وجہ سے ہی ایک لمبے عرصے سے یورپ و امریکہ تجارت پر چھائے ہوئے ہیں.فرد کبھی لمبی تجارت کو یہی نہیں سکتا.آخر ایک نہ ایک دن وہ ٹوٹ جاتی ہے.اه تقریر جلسه سالانه ۹۵ ۱۹۵۵ و رپورٹ مجلس مشاوت ۱۹۵۶ء مثلا

Page 149

۱۴۴ اسی لئے کمپنیاں بنا کر تجارت کرنا ہی تجارت کا کامیاب طریق ہے.میر محمد اسحق صاحب جو بڑے ذہین آدمی تھے ایک دفعہ بمبئی کے بڑے بڑے بوہرہ تاجروں سے ملے.وہ مذہبا شیعہ ہیں.مگر تجارت میں اُن کو بڑا غلبہ حاصل ہے.ان سے پوچھا کہ تم لوگوں کو جو طاقت حاصل ہے اس کی وجہ کیا ہے اور وہ کونسا گر ہے جو تمہاری اس ترقی کا باعث ہے انہوں نے کہا ہم نے اپنی جتھہ بندی اس رنگ میں کی ہوئی ہے کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.مثلاً ہم میں سے ایک شخص کا دیوالیہ نکل جائے تو جب ہمیں اس کا علم ہوتا ہے تو ہم اُسے بلا کر کہتے ہیں آج سے ہم فلاں چیز اپنی تمہیں دیتے ہیں اس کی تجارت کرو.جب ہمارے پاس کوئی تھا یک آئے گا تو ہم اسے تمہارے پاس بھیجوا دیا کریں گے چنانچہ کسیٹی بیٹھتی ہے اور فیصلہ کر دیتی ہے کہ آج سے کسی بوہرے نے تیل یا صابن یا ماچس فروخت نہیں کرنا.وہ ہول سیل تاجر ہیں.اس وجہ سے چند دن یا چند ہفتوں میں ہی لاکھ دو لاکھ روپیہ وہ کما لیتا ہے یہ لے نظارت ضیافت فرمایا.یہ وہ کام ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود کرتے رہے اور آپ نے اسے سلسلہ کا بہت اہم کام قرار دیا.اگر دوسرے کام مجھے اجازت دیتے اور لوگ اعتراض نہ کرتے کہ خلیفہ روپیہ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے تو وہ کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود کرتے رہے ہیں خود اسے اپنے ہاتھ میں رکھتا یہ کام اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت اہم ہے.ہر طبقہ کے اور ہر قسم کے لوگ یہاں آتے ہیں.اُن سے ملاقات اور ان کے لئے ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۵۷ ۲۶۰ تا ۴۲

Page 150

۱۴۵ ضروری انتظام کوئی معمولی شخص نہیں کر سکتا.اور جو شخص یہاں جماعت کے مہمان کی حیثیت سے آتا ہے اُسے ریسیو کرنے والا ناظر ہونا چاہیے.میری غیرت برداشت نہیں کر سکتی کہ اس صیغہ کو نظارت کے درجہ پر نہ رکھوں.میں تو اپنی زندگی میں اس کام کے انچارج کا نام ناظر نہی رکھوں گا.پیچھے معلوم نہیں کیا ہوتا ہے نظارت بہشتی مقبرہ اس نظارت کے متعلق فرمایا :- مقبرہ بہشتی کا ناظر مقرر کرنے کی بھی یہ وجہ ہے کہ یہ صیغہ خدا تعالئے کے الہام کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے مقرر کیا.اور اس کے لئے جو کمیٹی بنائی اسے ایسے اختیارات دیئے کہ آج تک ان کو پیش کر کے غیر مبائعین ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے.پس اس صیغہ کے لئے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے الہام الہی سے بنایا میں نے آنریری ناظر رکھ دیا ہے.اس صیغہ کے وقار کے لئے.کیونکہ یہ اسم صیغہ ہے اور خدا تعالے کے الہام سے مقرر کیا گیا ہے ا سکے ے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء مرا

Page 151

فرمایا: انگریشنل انجین باہر سے نوجوانوں کو یہاں آنے کی کوشش کرنی چاہیے.بلکہ بہتر ہوگا کہ مختلف ممالک کے لوگ یہاں آئیں اور انجمن کا کام سنبھالیں تا ہماری مرکزی انجمن انٹرنیشنل انجمن بن جائے.صرف پاکستانی نہ رہے.بعض لحاظ سے بے شک پاکستان کے لوگ دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں لیکن اگر ان کے ساتھ ایک ایک ممبر نائیجیریا.گولڈ کوسٹ.امریکہ.مشرقی افریقہ - ہالینڈ جرمنی اور انگلینڈ وغیرہ ممالک کا بھی ہو تو کام زیادہ بہتر رنگ میں چل سکتا ہے.جب یہ لوگ یہاں آکر کام کریں گے تو باہر کی جماعتوں کو اس طرف زیادہ توجہ ہوگی اور وہ سمجھیں گے کہ مرکز میں جو انجمن کام کر رہی ہے وہ صرف پاکستان کی جماعتوں کی انجمن نہیں بلکہ ہماری بھی انجمن ہے " خطبه جمعه ۱۴ر اکتوبر شار ) الفضل ۱۲۵ نومبر ۱۹۵۵ء) ه

Page 152

رسم صدر اشمین احمدیہ کی بنانی اور.اس کی سفارشات پر حضور کے فیصلے کا طریق صدر انجمن احمدیہ کے اجلاسات میں جو فیصلے بھی کئے جاتے ہیں وہ ایک سفارش کا رنگ رکھتے ہیں جو حضرت خلیفہ مسیح کی خدمت میں منظوری کے لئے پیش کئے جاتے ہیں.حضرت مصلح موعود کا عام دستور یہ تھا کہ صدر انجمین احمدیہ کی اکثر سفارشات حضور منظور فرمالیا کرتے لیکن ہر سفارش کا بڑی باریک نظر سے مطالعہ فرماتے اور جس سفارش کو نا مناسب سمجھتے اُسے رو کرتے ہوئے نہایت معقول اور ٹھوس استدلال کے ساتھ رو کرنے کی وجہ بھی ضبط تحریر میں لاتے.بالخصوص حضور ایسے فیصلوں کو رو فرما دیا کرتے جن سے کمزور اور ماتحت کارکنان کے حقوق کی پامالی کا خدشہ ہوتا.اسی طرح بعض اوقا کسی ضرورت کو محسوس فرما کر صدر انجمن کو یہ ہدایت فرماتے کہ فلاں مصلحت یا ضرورت کے پیش نظر اس قسم کا قاعدہ بنایا جائے.صدر انجمن کے مطاع کی حیثیت سے آپ نے مندرجہ بالا طریق پر صدر انجمن کی جو رہنمائی فرمائی اس کا مطالعہ حضور کی بالغ قوتِ فکر و نظر کا جائزہ لینے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے.صدر انجمن کے ریکارڈمیں سے محض چند نمونے ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں.ناظروں کے وقار کو قائم کرنے.اور ان کے عہدہ کے پیش نظر فیصلہ فرمایا :- صدر انجمن کو چاہیے کہ ناظروں کے گریڈ اصولی طور پر ۵۰۰ روپیہ تک قرار دے اور یہ نوٹ بھی دے دے کہ چونکہ اس قدر رقم ماہوار دینے کی گنجائش نہیں ہے اس لئے فی الحال یہ گریڈ دیئے نہیں اس طرح ناظر صاحب اعلیٰ کا گریڈ ۱۰۰+ ۵۰۰ اسی طرح پر رکھا جائے اور اسے ریکارڈ کیا جائے.اس کو سمیٹ قابل اشاعت میں دکھانے

Page 153

کی ضرورت نہیں.اصولی قاعدہ بنا دیا جائے ہے.ریزولیوشن نمبر ۲۰۰ م صدر انجین احمدیہ پاکستان) صدر انجین احمدیہ کے جو کارکن نیشن لینا اختیار کرتے تھے اگر وہ دورانِ ملازمت فوت ہو جاتے تو قواعد کے مطابق ان کے ورثاء کو صرف کارکن کا جمع شدہ پراویڈنٹ فنڈ ملت تھا.حضور نے ورثاء کی امداد کا خیال کرتے ہوئے یہ قاعدہ بنانے کا ارشاد فرمایا:.صدر انجمن کا جو کارکن دوران ملازمت فوت ہو جائے.اُسے پراویڈنٹ فنڈ پورا یعنی انجمن کے حصہ سمیت ملے اور جو زندگی میں پینشن لیں.انہیں پینشن ملے یہ د ریز و لیوشن نمبر ی صدر انجمن احمدیة ریزولیوشن ۴ ۴ کارکنان کو سلسلہ کے کاموں کے سلسلہ میں باہر بھی جانا پڑتا ہے.ان کے اہل وعیال کی خبر گیری کے لئے یہ قاعدہ بنوایا :- " جب کسی صیغہ کی طرف سے کوئی کارکن یا غیر کا رکن باہر بھجوایا جائے تو اس صیغہ کا فرض ہوگا کہ صدر محلہ کے ذریعہ سے براہِ راست ایسے کارکن یا کارکنوں کے اہل وعیال کا پرسان حال رہے اور اس بات کا خیال رکھے کہ ایسے باہر جانے والے کارکن کی غیر حاضری میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہویا ز قواعد صد را نمین احمدیہ ایڈیشن شاء قاعدہ نمبر ہے ، صدر انجمن احمدیہ نے حسب ذیل قاعدہ منظور کر کے جب حضرت المصلح الموعود کے حضور بغرض منظور ی پیش کیا.کہ اگر کسی قاعدہ کی تشریح میں اختلاف ہو تو ناظر اعلیٰ کی تشریح اس وقت تک کہ صدرہ امین احمدیہ کوئی فیصلہ صادر نہ کرے.آڈیٹر کے لئے واجب التعمیل ہوگی.حضور نے اس قاعدہ کو نا منظور کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- اس صورت میں آڈیٹر کی کوئی حیثیت نہیں رہتی." کسی نجی ملازم نے شکایت کی کہ اسے مالک نے بلا نوٹ الگ کر دیا ہے.اس پر

Page 154

۱۴۹ الزام بھی کوئی نہیں.تو حضور نے اس شکایت کے انسداد کے لئے جس میں مالک اور ملازم دونوں کے حقوق کی حفاظت ہے یہ قانون نافذ فرمایا :- "جو شخص لیے عرصہ کے لئے مشاہرہ ملازم ہو اس کو فورا بلا نوٹس الگ کر دینا درست نہیں.اس لئے یہ اصولی فیصلہ کیا جاتا ہے.کہ تا وقتیکہ کوئی معاہدہ اس کے خلاف نہ ہو تو اگر کوئی شخص متواتر چھ ماہ یا اس سے زائد عرصہ تک کسی کا ملازم ماہوار تنخواہ پر رہا ہو.تو اس کو کم از کم پندرہ دن کا نوٹس یا پندرہ دن کی تنخواہ دی جاتی ضروری ہے.اس طرح ایسا ملازم بھی اگر پندرہ دن کا نوش دیئے بغیر یا پندرہ دن کی تنخواہ کٹوائے بغیر چلا جائے تو اسے مجبور کیا جائے گا کہ یا وہ دوبارہ ملازمت اختیار کر کے پندرہ دن کا نوٹس دے کر الگ ہو.یا پندرہ دن کی تنخواہ کے برابر رقم مالک کو ادا کرے.اگر علیحدگی کے عرصہ میں مالک کوئی اور ملازم رکھ چکا ہو تو اس صورت میں رقم کی ادائیگی ضروری ہوگئی پندرہ دن کی ملازمت اختیار کرنے کا اختیار زائل ہو جائے گا یہ قاعدہ صرف احمدی ملازمین کے متعلق ہے.دوسرے چونکہ بہار تابع فرمان نہیں.اس لئے ہم ان سے اپنی جماعت کے حقوق نہیں دلوا سکتے.پس ان کے حقوق کے متعلق بھی ہماری قضاء کوئی دعوئی سننے کی مجاز نہیں.و د ریزولیوشن نمبر ۳۲۰ قواعد صد را نمین احمدیہ ایڈیشن ۹۳۷) ۱۹۴۷ء کی بات ہے کہ صدر انجین احمدیہ کے ایک قاعدہ کی عبارت حضر المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے حضور پیش ہوئی جو یہ تھی :- " اگر کوئی شخص انجمن کے کسی صیغہ میں کارکن رہ کر برخاست یا مستعفی ہوا ہو.تو دوبارہ اس کا تقریر برخاستگی کی صورت میں بغیر منظوری مجلس نہیں ہو سکتا.اور استعفیٰ کی صورت میں ضروری ہو گا کہ جس افسر کے ماتحت وہ استعفیٰ کے وقت تھا بغیر اس کی

Page 155

۱۵۰ رائے حاصل کرنے کے نہ رکھا جائے سوائے اس کے کہ رائے لینا نا ممکن ہو.اسی طرح کوئی شخص جو گورنمنٹ یا کسی ریاست یا بورڈ یا کمپنی وغیرہ کے کسی صیغہ کی طرف سے برطرف ہوا ہو.اس کو بغیر صدر انجمن کی خاص منظوری کے نہیں رکھا جائے گا.ایسی منظوری کے حصول میں یہ صراحت کرنی ضروری ہوگی کہ پیش خص گورنمنٹ وغیرہ کی ملازمت سے برطرف شدہ ہے اور ایسے استعفے جو برطرفی کے قائم مقام ہیں.اُن کے متعلق بھی یہی قاعدہ چسپاں ہوگا " قواعد صدر انجمن احمدیہ ایڈیشن شاہ قاعدہ نمبر ۴۰۱) اس پر حضور نے مندرجہ ذیل ارشاد فرمایا : یہ نادرست ہے اس میں استعفے والا حصہ ظالمانہ ہے.اگر یہ کہا جائے کہ استعفے بعض دفعہ سزا سے بچنے کے لئے ہوتا ہے.تو افسر استعفیٰ کو نا منظور کر کے کارروائی مکمل کر سکتا ہے.اگر وہ اپنے فرض کو ادا نہیں کرتا تو اس کی سزا کا رکن کو کیوں ملے.برخاستگی کی صورت میں بھی غیر معتین قید لگائی گئی ہے.برخاستگی باقاعدہ ہونی چاہیئے که بوجه ناپسندیدہ حالات کے برخاست کیا گیا ہے.اگر اس قسم کی برخاستگی ہو تو بغیر منظوری انجمن نوکر نہ رکھا جائے.لیکن اس صورت میں ملازم کو اپیل کا حق ہونا چاہیئے.اگر تمام برخاستگی ہو جیسے شست آدمی مل جاتا ہے.اور ایسی ہی صورتوں میں کوئی وجہ نہیں کہ انجمن سے منظوری لی جائے.بہر حال جب زیر الزام برخاست ہو.تو اپیل کا حق ہونا چاہیئے اور صراحتاً اس کا ذکر ہونا چاہیئے.اور انجمن کو اس کی اطلاع با قاعدہ اور فورا دی جانی چاہیئے " د ریزولیوشن پولی صدر انجین احمدیه)

Page 156

101 کارکنان کے حقوق کی حفاظت اور قدردانی تجویز :- جب کوئی کارکن بالا افسر کے پاس کسی فیصلہ کی اپیل کرے تو درمیانی افسر کوحق نہیں کہ وہ اسے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک اپنے پاس روک رکھے.اس عرصہ میں بہر حال اسے اپنی رپورٹ پیشیں کر دینی چاہیئے.حضور نے فرمایا :- اس بارہ میں ہمارا تجربہ بہت تلخ ہے.میرے پاس کئی شکایات پہنچی ہیں کہ صدر انجمن کارکنوں کے کاغذات کو نا واجب طور پر روک لیتی ہے بعض کا غذات تو میرے سامنے سال سال اور ڈیڑھ ڈیڑھ سال بعد لائے گئے ہیں اور اس تاخیر کی وجہ کوئی نہیں سوائے اس کے کہ وہ اسے چونکہ اپنے خلاف سمجھتی ہے اس لئے نہیں چاہتی ، کہ پیش ہوں حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ اس کے خلاف ہی فیصلہ ہو مثلاً یہی واقعہ جو مرزا ناصر احمد صاحب نے پیش کیا ہے اگر یہ میرے سامنے پیش ہوتا تو یقینا ناصر احمد کے خلاف فیصلہ کرتا.کسی کارکن کو بحق نہیں کہ کسے میں فلاں حکم کی تعمیل نہیں کرتا.ہاں وہ یہ لکھ سکتا ہے کہ چونکہ مجھے اپیل کا حق ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ میری اپیل منتظور ہوگی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے حق ہے کہ اپیل کے فیصلہ تک اس کی تعمیل نہ کروں.اگر میری یہ رائے صحیح نہیں تو مجھے بتا دیا جائے کہ میں حکم کی تعمیل کروں.لیکن جو الفاظ بیان کئے گئے ہیں وہ بغاوت کا رنگ رکھتے ہیں اس کاغذ کو روک رکھنے کی کوئی وجہ نہ تھی سوائے اس کے کہ نظارت نے سمجھا کہ اس سے غلطی ہوئی ہے........بریخت افسوس کی بات ہے.بہر حال کارکنوں کے کاغذات کو اتنا اتنا عرصہ تک دیا چھوڑ نا کسی طرح بھی جائزہ نہیں.میرے پاس تو جو کا غذات محکمانہ رنگ میں اپیل کے آتے ہیں

Page 157

۱۵۲ انھیں کسی تجربہ کار احمدی افسر کے پاس بھیج دیتا ہوں.اسی طرح کا ایک کیس آیا اور میں نے بابو عبد الحمید صاحب شملوی کے پاس بھیجا انہوں نے رپورٹ اس کا رکن کے حق میں کی.لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ کارکن دو سال معطل رہا.اتنا عرصہ غرباء کو معطل رکھنا بہت بڑا ظلم ہے وہ بیچارہ نہ کہیں اور نوکری کر سکتا ہے اور نہ کوئی کام کر سکتا ہے.اور جو کچھ پونجی تھوڑی بہت ہوتی ہے وہ فیصلہ کے انتظار میں بیٹھ کر ختم ہو جاتی ہے.اس لئے میں اس تجویز کو منظور کرتا ہوں.درپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء ۳۵۵-۳۲) ناظروں کی رہنمائی حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا طریق کار یہ تھا کہ روزمرہ کے انتظامی امور میں ناظروں کو بلوا کہ براہ راست ہدایات دیتے تھے.اور ان کے کام کی خود نگرانی فرماتے تھے.لیکن اس کے علاوہ جماعتی تربیت کی خاطر بعض اوقات پبلک تقاریر میں بھی ناظروں کی اس رنگ میں رہنمائی فرماتے کہ جماعت بھی سلسلہ کے انتظامی طریق کار سے آگاہ ہو جائے اور آئندہ سلسلہ کو تربیت یافتہ کارکنان تیا ہونے میں مدد ملے.اس ضمن میں حضور کے بعض ارشادات پیش خدمت ہیں :- ا.میرے نزدیک یہ نہایت ضروری ہے کہ ناظروں کو اس بات کی مشق ہو کہ اپنے خیالات کی اہمیت لوگوں پر ثابت کر سکیں.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ کام کرنے والے کا یہی فرض نہیں کہ خود کام کر سکے.بلکہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کی توجہ اور امداد اپنے کام کے لئے حاصل کر سکے.اس لئے ناظروں کے فرائض میں سے ایک یہ بھی فرض ہے کہ عمدگی کے ساتھ تقریر کرنے اور مشکل امور کو سہل الفاظ میں لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں یہاں -۲- یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ جو قوم اپنا وقار قائم رکھنا چاہتی ہے اس ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء منا

Page 158

۱۵۳ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے معززین کا احترام کرے ہیں یہ اجازت نہیں دوں گا کہ ایک ناظر، محصل کی طرح جائے بلکہ اس کا واجب احترام کرنا ضروری ہوگا کیونکہ وہ خلیفہ کا نائب ہوتا ہے.ضروری ہو گا کہ جس صیغہ کا ناظر کہیں جائے وہاں کی جماعت میں اس صیغہ کا جو انچارج ہو وہ اسے ریسیو کرے.پہلے سے جلسہ کا انتظام کر دیا گیا ہو اور جماعت کو ایک جگہ جمع کرنے کا انتظام ہو چکا ہوتا -۳- سب سے بڑا نقص مجلس معتمدین کا یہ ہے کہ اس کے قواعد کی پابندی نہیں ہوتی.اور جب کسی فیصلہ کے متعلق پکڑا جاتا ہے کہ اس پر عمل کیوں نہیں ہوا تو کہا جاتا ہے عمل نہیں ہو سکتا.میں کہتا ہوں اگر عمل نہیں ہو سکتا تو اُسے منسوخ کر دیا جاتا یہ کیا صورت ہے کہ قائد تو موجود ہو مگر کہا جائے اس پر عمل نہیں ہو سکتا.یہ بہت بڑا نقص ہے" در پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صل۱ - ۲۶ و مشاورت ۶۱۹۳۹ ص۳۶) ناظروں کا فرض ہے کہ جو لوگ اُن سے ملنے آئیں ان سے عزت اور احترام سے پیش آئیں.میں خود بھی کوئی کونے میں بیٹھنے والا شخص نہیں ہوں.ہر روز دس پانچ بلکہ میں تمہیں اشخاص مجھے سے ملنے آتے ہیں جن میں غریب سے غریب بلکہ سائل بھی ہوتے ہیں لیکن جیسا اعزاز بڑے سے بڑے آدمی کا کرتا ہوں ویسا ہی چھوٹے کا بھی کرتا ہوں.مثلاً حکومت کے عہدہ کے لحاظ سے ہماری ہندوستان کی جماعت میں چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب سب سے بڑے عہدیدار ہیں لیکن اُن کے آنے پر بھی لکیں ان کا استقبال اسی طرح کرتا ہوں جس طرح ایک غریب کے آنے پر.اور میں اس بارہ میں چوہدری صاحب اور ایک غریب کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا.اسی طرح چوہدری صاحب کو کھڑا ہو کر ملتا ہوں جس طرح ایک غریب آدمی کو اور پہلے اُسے بٹھا کر پھر خود بیٹھتا ہوں بعض غریب آدمی اپنے اندازہ سے زمین پر بیٹھنا چاہتے ہیں.مگر

Page 159

۱۵۴ میں نہیں بیٹھنے دیتا اور ان سے کہہ دیتا ہوں کہ جب تک آپ نہ بیٹھیں گے میں بھی کھڑا رہوں گا.بعض دفاتر کے چپڑاسی آتے ہیں اور وہ زمین پر بیٹھنا چاہتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ نہیں.آپ چپڑاسی کی حیثیت سے نہیں بلکہ مجھے خلیفہ سمجھ کر ملنے آئے ہیں.غرضکہ جب تک آنے والے کو نہ بٹھالوں میں خود نہیں بیٹھتا.مجھے ملنے والوں کی تعداد ہزاروں تک ہے مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کبھی تخلف ہوا ہو سوائے اس کے کہ میں بیمار ہوں ، یا کسی کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے کیمیمی غلطی ہو جائے.ہاں جلسہ سالانہ کے ایام مستثنیٰ ہیں.ان دنوں میں ملنے والے اس کثرت سے آتے ہیں کہ ہر ایک کے لئے اٹھنا مشکل ہوتا ہے ہاں ان دنوں میں بھی جب کوئی غیر احمدی آئے تو چونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ میری مشکلات کو نہیں سمجھ سکتا اس لئے کھڑا ہو جاتا ہوں.یا پھر ان ایام میں جب ملاقات کا زور نہ ہو تو کھڑا ہوتا ہوں.یہ میرا اصول ہے اور میں سمجھتا ہوں ناظروں کو بھی ایسا کرنا چاہیئے اور اگر اس کے خلاف کبھی شکایت آئے تو میں چاہتا ہوں کہ میں کے خلاف شکایت ہو اُسے تنبیہ کی جائے جب تک یہ بات نہ ہو اسلام کی روح قائم نہیں ہو سکتی " والفضل ۲۷ اپریل ۱۹۳۶ ص۳) ایک اور موقع پر فرمایا :- کامل اطاعت اور فرمانبردار می نہایت ضروری ہے اور یہ صرف خلیفہ سے ہی مخصوص نہیں.بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہوتے ہیں، کہ بس خلیفہ کی بات ماننا ہی ضروری ہے اور کسی کی ضروری نہیں خلیفہ کی طرف سے مقرر کردہ لوگوں کا حکم بھی اسی طرح مانت ضروری ہوتا ہے جس طرح خلیفہ کا.کیونکہ خلیفہ تو براہ راست ہر ایک شخص تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتا.رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم

Page 160

۱۵۵ نے فرمایا ہے کہ مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِى وَ مَنْ علَى آمِيْرِي فَقَدْ عَصَانِي : اسی طرح فرمایا : الفضل ۲۲ دسمبر ۳۶ صلا) میں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اگر ایک طرف ناظروں کا احترام اور اعزاز جماعت کے دلوں میں پیدا کیا جائے تو دوسری طرف جماعت کی عظمت کو بھی قائم رکھا جائے.میں جانتا ہوں کہ اگر ایک حصہ کو چھوڑ دیا جائے تو با وجود نیک نیتی نیک ارادہ کے ایک حصہ دوسرے کو کھا جائے گا.اگر کارکنوں کے اعزاز اور احترام کا خیال نہ رکھا جائے تو نظام کا چلنا مشکل ہو جائیگا اور اگر جماعت کے حقوق کی حفاظت نہ کی جائے اور اس کی عظمت کو تباہ ہونے دیا جائے تو ایک ایسا آئین بن جائے گا جس میں خود رائی اور خودستائی غالب ہو گی.اس لئے میں ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھتا ہوں کہ جس کی غلطی ہو اُسے صفائی کے ساتھ کہہ دیا جائے.الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۳۵ء ص ۳۷)

Page 161

۱۵۶ روزمرہ کے انتظامی امورمیں طریق کار عمومی نگرانی اور محاسبہ انتظامیہ کے سربراہ اعلیٰ کی حیثیت سے آپ جہاں اصولی اور بسا اوقات تفصیلی رہنمائی فرمانے وہاں وقتاً فوقتاً کام کا محاسبہ بھی کرتے رہتے اور کبھی سختی اور کبھی نرمی کے ساتھ کبھی سخت گرفت اور کبھی دل موہ لینے والے عفو کے ساتھ منتظمین اور کارکنان کی اصلاح فرماتے رہتے.عضو کے وقت آپ کے در گزر کا انداز بہت پیارا ہوتا اور کئی غفلتوں سے آنکھیں بند کر لیتے اور گرفت کے وقت نہایت باریک نظر کے ساتھ انتظامی کمزوریوں کو کرید کرید کر باہر نکالتے.اگر چہ عام کارکنان کے لئے روزمرہ کے دفتری اوقات مقرر تھے.مگر اہم جماعتی ضرورت کے وقت آپ دفتری اوقات کا کبھی لحاظ نہ کرتے اور ہر کارکن سے توقع رکھتے کہ اگر چو میں گھنٹے حاضر رہنے کا مطالبہ کیا جائے تو چہ میں گھنٹے حاضر رہنے کے لئے تیار ہو.جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے آپ دفتری اوقات سے قطع نظر اور دن رات کی گردش سے بے نیاز حتی الامکان اپنا اکثر وقت جماعتی کاموں کے لئے وقف رکھتے.تقریبا سولہ گھنٹے روزانہ کام آپ کا عام دستور تھا.اپنے ماتحت کارکنان سے بھی آپ اسی طرح محنت کی توقع رکھتے تھے.چنانچہ جب کبھی جماعتی مفاد کا تقاضا ہوتا وقت کا لحاظ کئے بغیر آپ متعلقہ افسران کو یاد فرمالیتے اور ضرورت سمجھتے تو پورے دفتر سی کو کسی اہم فریضہ کے سر انجام دینے کے لئے کھلا رکھنے کی ہدایت فرما دیتے.دفاتر کو کھلا رکھنے کے مواقع عموماً تین وجہ سے پیدا ہوتے.اول سلسلہ کے اوپر مشکلات اور ابتلاء کے خاص ادوار آنے سے ر ایسے وقتوں میں دفاتر بعض اوقات ۲۴-۲۴ گھنٹے کھلے رہتے.اور کبھی یہ سلسلہ حسب حالات دنوں ہفتوں بلکہ مینوں تک بھی جاری رہتا.کارکنان کی باری باری ڈیوٹیاں لگا دی جائیں لیکن عموما ناظروں سے ہمہ وقت حاضر رہنے کی توقع کی جاتی تھی.چنانچہ بعض دفعہ ناظر صاحبان اپنا بوریا بستر اُٹھا کر دفاتر میں ہی رہائش پذیر ہو جاتے.اور حالات کے معمول پر آنے تک گھر کی خبر نہ لیتے.

Page 162

۱۵۷ دوم :- بیرونی جماعتوں پر آنے والے ناگہانی حالات اور ابتلاؤں کی اطلاع ملنے پر بھی متعلقہ دفاتر کو کھلا رہنے کی ہدایت دے دی جاتی اور کارکنان سے توقع کی جاتی کہ وہ دن رات متعلقہ جماعتوں کی مشکلات دور کرنے کی سعی کریں.بعض احباب جماعت کی انفرادی مصیبت کی اطلاع پر بھی خواہ دن رات کا کوئی حصہ بھی ہو سلسلہ کے متعلقہ کارکنان کو طلب فرما کر فی الفور ان کی مدد کے لئے بھیجوا دیا جاتا.شوھرہ ایسی شکایات کی صورت میں جو دفتر کی انتظامیہ سے تعلق رکھتی ہوں، اور جن کے نتیجہ میں جماعت کے کسی حصہ پر برا اثر پڑ رہا ہو یا کسی اہم فائل یا کاغذ کے گم ہو جانے کے نتیجہ میں سلسلہ کے کاموں کا نقصان ہو رہا ہو تو برائے اصلاح احوال آپ متعلقہ دفاتر کو اس وقت تک کھلا رہنے کی ہدایت فرما دیتے جب تک شکایت کا ازالہ نہ ہو جائے.مندرجہ بالا تینوں صورتوں میں حضور خود بھی دفاتر کے عملہ کے ساتھ اسی طرح جاگتے جس طرح باقی کارکنان جاگ رہے ہوتے.اور متعلقہ کارکنان سے مسلسل رابطہ قائم رکھتے.اور عموما یہ ہدایت ہوتی کہ جہاں تک حضرت صاحب کی ذات کا تعلق ہے آپ کے آرام اور وقت کو قطعاً نظر انداز کرتے ہوئے جس وقت کوئی ضروری اطلاع دینی ہو وہ بلا روک ٹوک دی جائے اور جو ہدایت طلب کرنی ہو فی الفور طلب کی جائے.بچپن میں جس گھر میں ہماری رہائش تھی اس کے ایک طرف قریب ہی صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر تھے اور دوسری طرف حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا پرائیویٹ دفتر واقع تھا جو ہمارے گھروں کے ساتھ ملحق تھا.یہ دفتر حضور کے لئے دفتر کے علاوہ ذاتی رہائش گاہ کا کام بھی دیتا تھا.ہم نے اکثر دیکھا کہ بعض ایسے مواقع پر جب دفتروں کو رات بھر کھلا رمنے کا حکم دیا جاتا تو ایک طرف ہمیں دفاتر کی بتیاں جلتی ہوئی نظر آتیں تو دوسری طرف حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ذاتی دفتر کی بنیاں بھی روشن دکھائی دیتیں.کئی مرتبہ جب حضور دفتر کی بجائے اپنے حرم میں کسی کے گھر شب باشی فرماتے تو رات مختلف وقتوں میں دروازے کھٹکتے رہتے اور کارکنان بار بار حاضر ہو کر کوئی ضروری اطلاع دیتے یا کوئی ضروری ہدایت حاصل کرتے.دس گیارہ بجے رات تک تو بچے یا بعض ملازم پیغام رسانی کا کام کیا کرتے.دروازہ کھول کر پتہ کرتے کیا بات ہے اور پیغام پہنچا کہ حضور سے ہدایت لیتے.لیکن رات کے دوسرے حصوں میں اکثر حضور خود ہی اُٹھ کر دروازے پر پہنچ کر آنے والے کا مدعا معلوم کیا کرتے.پہلی صورت میں بھی اہم

Page 163

10A معاملات میں خود دروازے پر جا کر بالمشافہ گفتگو فرمانا حضور کی عادت تھی.کسی ناظر یا کارکن کی غفلت سے اگر کسی فرد جماعت کی دل آزاری ہو.یا جماعتی مفاد کو نقصان پہنچا ہو تو حضور نہایت سختی سے متعلقہ کا رکن کا محاسبہ فرماتے اور بعض اوقات اس جلال کے ساتھ تنبیہ فرماتے کہ شخص مذکور کی کائنات پر گویا زلزلہ سا آجاتا.بعض کارکنان اس کے نتیجہ میں نہایت طول اور نڈھال ہو جاتے لیکن ان سب کی تربیت ایسے عمدہ رنگ میں کی گئی تھی اور ایسا اعلیٰ درجہ کا اخلاص ان میں پایا جاتا تھا کہ اپنے قصور پر استغفار کرتے لیکن حضرت صاحب کے ساتھ محبت اور وفا اور اطاعت کے تعلق میں سر مو فرق نہ آتا.جن کارکنوں کی گرفت ہوتی وہ دوسرے تمام کارکنوں کے لئے نصیحت بن جاتے.اور ایسے کسی واقعہ کے بعد ایک عرصہ تک انتظامیہ نہایت مستعدی اور احتیاط سے کام کرتی رہتی بعض اوقات بعد کی تحقیق سے ثابت ہو جاتا کہ جس کا رکن کے خلاف شکایت تھی اس کا کوئی قصور نہ تھا.ایسی صورت میں دوہرے التفات کے ساتھ آپ اس کی دلجوئی کرتے اور وہ ایسی خوشی محسوس کرتا گویا اُسے کبھی آپ کی ناراضگی کا صدمہ نہیں پہنچا تھا.کارکنان میں بعض ایسے بھی تھے جنہیں صف اول کے کارکنان کا ساصبرو رضا کا ارفع مقام حاصل نہ تھا بعض ایسے ہی کبیدہ خاطر کارکنان اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے سامنے دل کا غبار نکال لیتے اور آپ مختلف رنگ میں اُن کی تسلی اور تشفی فرمانے کے علاوہ نہایت قیمتی مشوروں سے ان کی رہنمائی بھی فرماتے اور انہیں سمجھاتے کہ ان کے قصور کی نوعیت کیا ہے اور کسی طرح اس کا ازالہ ہونا چاہیے اور از سر تو حضور کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے صحیح طریق کار کیا ہے.ایک مرتبہ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہ حضور بعض اوقات انتظامی کوتاہیوں پر بڑی سخت گرفت کرتے ہیں کیسی دوست نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے پوچھا کہ الہام الہی میں تو حضرت صاحب کو دل کا حلیم قرار دیا گیا ہے لیکن آپ تو بعض دفعہ بڑے جلال کا مظاہرہ کرتے ہیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ حلیم نہیں بلکہ دل کا حلیم فرمایا ہے.جس میں اشارہ اس طرف ہے کہ بعض اوقات وہ بظاہر سختی بھی کرے گا لیکن عفو اور علم کے

Page 164

109 جذبات وقتی طور پر دب جانے کے باوجود ہر حال غالب آئیں گے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی اس تشریح سے اُس شکایت کنندہ کا دل مطمئن ہو گیا اور اس باریک نکتہ کو وہ سمجھ گیا کہ کیوں محض حلیم کہنے کی بجائے آپ کو دل کا حلیم کہا گیا ہے آپ جب بھی ناراض ہوتے انصاف کے تقاضوں اور جماعتی ذمہ داریوں اور فرائض کے پیش نظر ہمیشہ لومة لائم سے بے نیاز اپنا فرض ادا فرماتے.نہ رشتے کی کوئی پرواہ ہوتی اور نہ تعلقات کا کوئی خیال محض اللہ تعالے کا تقویٰ پیش نظر ہوتا.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے جس فریضہ کی ادائیگی آپ کو کرنی تھی.وہ بہر حال کی جانی تھی.مگر آپ کی گرفت دل کی سختی کے نتیجہ میں نہیں بلکہ فرض شناسی کے نتیجہ میں حالات کے تقاضوں کے مطابق ہوا کرتی اور جہاں تک دل کا تعلق ہے آپ اس سختی کی تکلیف کو جو مجبورا کرنی پڑتی خود بھی محسوس فرماتے اور دکھ اُٹھانے والے کے ساتھ خود بھی دکھ اُٹھاتے.یہی وجہ ہے کہ ادائیگی فرض کے بعد آپ متعلقہ کا رکن سے ہی نہیں بلکہ بعض صورتوں میں اس کے سارے خاندان سے انتہائی مشفقانہ سلوک کرتے اور ان کی دلداری فرمایا کرتے.بحیثیت منتظم اعلیٰ منتظمین اور دفاتر کے عملہ سے آپ کا تعلق محض افسر ماتحت کے رسمی رشتے تک محدود نہ تھا بلکہ اصل تعلق روحانی تھا اور یہی تعلق غالب اور قومی تر تھا لہذا آپ کی ناراضگی پر کارکنان کی بے چینی اور بے قراری اس بناء پر نہ ہوتی کہ کسی دنیاوی منفعت سے محروم کئے جارہے ہیں.بلکہ اس بناء پر ہوتی کہ اپنے روحانی پیشوا کی نظر لطف و عنایت سے محروم ہو رہے ہیں.اسی وجہ سے وہ سخت بے قراری محسوس کرتے اور جس طرح بن پڑتا اپنے عمل سے تلافی مافات کی کوشش کرتے.

Page 165

140 حضور کی رہائیش و سادگی حضور کی رہائیش کا جو کمرہ تھا وہ نہایت سادہ اور مختصر تھا.ایک طرف میز پر چند کتا ہیں پڑی ہو ئیں اور دوسری طرف میز پر کچھ خطوط ہوتے اور ایک طرف ہو میو پیتھیک کی کچھ شیشیاں پڑی ہوئیں اور ایک طرف حضور کی چار پائی ہوتی جس پر معمولی سا بستر بچھا ہوا ہوتا ساتھ والا کمرہ لائبریری روم کہلاتا تھا جس میں مختلف قسم کی کتابیں الماریوں میں ہوتیں.نیچے فرش پر قالین بچھا ہوتا تھا جس پر کچھ کتابیں اور کچھ خطوط پڑے ہوتے اور حضور نیچے فرش پر بیٹھ کر مطالعہ فرماتے.اور دفتر کا کام بھی کرتے.باہر برآمدہ میں طلاقات کے لئے کرسیاں بچھی ہو تیں اور ایک طرف پلنگ پر ڈاک پڑی ہوتی.حضور رات گئے تک کام میں مصروف رہتے.حسن سلوک حضور سلسلہ کے کارکنوں کے ساتھ کس طرح حسن سلوک فرماتے.اس ضمن میں مکرم و محترم قاضی عبدالحمید صاحب سابق ایڈیٹر سن رائز" مرحوم کی حسب ذیل روایت بھی بیان کے لائق ہے.۱۹۳۵ ء میں جب مجھے سن رائز " کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا.اور اگر چہ میں واقف زندگی نہیں تھا.میرا گزارہ الاؤنس جس پر کام شروع ہوا.ایک سو روپے ماہوار تھا.اور سن رائز کی ایک نگران کمیٹی تھی.جس کے صدر شیخ مبشر احمد صاحب معصوم تھے اس کمیٹی نے ایک سال کے بعد میرے گزارہ الاؤنس میں دس روپے اضافہ کیا.کمیٹی کو کبھی یہ خیال بھی نہ آیا کہ وہ سالانہ ترقی کا کوئی قاعدہ مقرر کرے.سارا کام حسب دستور ہوتا رہا.چنانچہ جب میرا نکاح ہوا تو اس وقت میرا یہی ایک سو دس روپے ماہوار گزارہ تھا.اس کے علاوہ بجلی، پانی اور رہائش کی مفت سہولت ملی ہوئی تھی.لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اس تیرہ سال کے عرصہ میں جب کبھی میں نے اپنی ضرورت کے

Page 166

141 متعلق اور گذارہ میں اضافہ کی اشارہ درخواست کی تو حضور نے کمال شفقت سے اُسے بلا تردد قبول فرمایا.یہاں تک کہ ایک ایک وقت میں ۵۰-۵۰ روپے ماہوار اضافہ منظور فرمایا " قاضی صاحب مرحوم نے اسی موضوع پر مزید فرمایا.خاکسار نے تقسیم ملک کے وقت فسادات اور گشت وخون کے ایام میں سن رائزہ کا چارج چھوڑا تھا اس وقت مجھے وکالت کا کام کرتے ہوئے جو امرت سر میں کیا کرتا تھا تیرہ سال ہو چکے تھے جس طرح ہندوستان سے ہمارے احمدی احباب لٹے پٹے ہوئے آئے تھے اور پریشان حال تھے میری حالت بھی کچھ اسی قسم کی تھی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے میری اس پریشانی کے پیش نظر کمال شفقت اور بندہ نوازی سے ایک ہزار روپے کا چیک بھجوایا جسے اس وقت میں نے نعمت غیر مترقبہ سمجھا اور حضور کی ذرہ نوازی کا شکریہ ادا کیا عمار کے متعلق آپکے اصولی ارشادات اور طریق کار انتظامی محاسبہ کے ضمن میں آپ نے مختلف تقاریر میں جو موقف جماعت احمدیہ پر واضح فرمایا وہ جماعت کے لئے انشاء اللہ ہمیشہ مشعل راہ کا کام دیتا رہے گا.اس یقین محکم کا اظہار کرتے ہوئے کہ دُنیا کی تقدیر اب احمدیت سے وابستہ ہو چکی ہے آپ نے فرمایا.میں اپنے آپ کو اور آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو ان ذمہ داریوں کا احساس کرو، جو ہم پر عاید ہیں.آئندہ سینکڑوں سالوں کے لئے دنیا کی قسمتوں کا فیصلہ ہم سے وابستہ ہے.ہم آج جو فیصلے کریں گے وہ آئندہ سینکڑوں سالوں کے لئے دنیا کی قسمتوں کا فیصلہ کر دیں گے.ان تغیرات کی باگ اللہ تعالے نے ہمارے ہاتھوں میں دی ہے اور یہ کام خدا تعالے کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا.پس اللہ تعالے سے دعا کرو.اور اپنی یتوں کو درست کرو.میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ جب تک نظارتیں میل ملاپ نہیں بڑھاتیں ، وہ اپنے فرائض کو اچھی طرح ادا نہیں کر سکتیں.بار بارہ ملنا ، جماعتوں کی مشکلات معلوم کرنا.سادگی سے ان کی تقاریب میں شرکت کرنا ان کے لئے بہت

Page 167

۱۶۲ ضروری ہے یہ سل مختلف اداروں کی کڑی اور منصفانہ نگرانی کے سلسلہ میں فرمایا :- وہ دوست جو اس وقت باہر سے تشریف لائے ہیں اگر ان کو مرکز میں کام کرنے کا موقعہ ملے تو انہیں معلوم ہو کہ کیسی حالت ہے.اگر انہیں وہ تحریریں جن میں میں ناظروں اور دوسرے کارکنوں کی خیر لیتا ہوں پڑھنے کا موقع ملے تو وہ تسلیم کر لیں کہ موجودہ کا رکن جس طرح کام کر رہے ہیں اس طرح وہ خود نہ کر سکیں الا ماشاء اللہ ہر ایک آدمی دفاتر کے کاغذات سے یہ بات معلوم کر سکتا ہے کہ تمدن کے لحاظ سے کوئی حقیر سے حقیر اور ادنیٰ سے ادنی آدمی بھی ایسا نہیں ہوگا جس نے کوئی شکایت کی ہو اور میں نے اس کی شکایت کی طرف توجہ نہ کی ہو اور وہ حق پر ہو تو جس کے خلاف اس کی شکایت تھی اس سے سختی کے ساتھ باز پرس نہ کی ہو.ایک طالب علم تھا جس کا ایک صیغہ کے ناظر سے کچھ مطالبہ تھا میں نے اسے جرمانہ کر کے دلا دیا یہ ہے ایک اور موقعہ پر فرمایا :- یکی اللہ تعالے کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں سلسلہ کے کام میں کسی کی رعایت کروں.مجھے نہ نظارت کی پرواہ ہے نہ جماعت کی.اگران کی اصلاح نہ ہوئی تو مجھے ان میں سے کسی کو نکالنے میں کوئی دریغ نہ ہوگا خواہ کوئی میرا بھائی ہو یا بیٹا یا کوئی اور رشتہ دار.میں خدا تعالے سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس امر کی توفیق دے کہ میں سلسلہ کے مفاد کے لحاظ سے کسی کی کوئی پرواہ نہ کروں بات اصلاح احوال کے لئے پبلک محاسبہ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :.میرے نزدیک انتظامی نقائص کی بڑی وجہ عدم محاسبہ ہے جانت سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۵ ص سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ ر ۱۵ تا ۲۰ سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء ص ۱۲ -

Page 168

147 کی طرف سے کوئی محاسبہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ہمارے اداروں کے کاموں میں غفلت اور سمستی چھائی ہوئی ہے بستی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور جب قوم میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو افسروں کے اندر شستی کا احساس ترقی کر جاتا ہے : اے پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ جب اسے جماعتی اداروں میں کوئی خوابی یا نقص نظر آئے یا کسی محکمہ کی غفلت اور سستی کا اسے علم.ہو تو وہ پوری تفصیل کے ساتھ بلا خوف و خطر اس کی اطلاع دے پھر سیلک محاسبہ کے لئے صحیح راہ عمل اختیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.میرے نزدیک ہر آدمی کا حق ہے کہ سلسلہ کے کاموں میں دخل دیے مگر کسی کا بھی یہ حق نہیں کہ بے موقع اور ایسے رنگ میں کہ بھائی بھائی کے مقابلہ میں اور قوم قوم کے مقابلہ میں کھڑی ہو جائے دخل دے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اگر وہ ایماندار ہے تو تو نادانی سے کام کرتا ہے ورنہ وہ جماعت کا دشمن ہے اور تباہی کی کوشش کرنے والا ہے یا سے علاوہ ازیں محاسبہ کے اصول کو زیادہ منظم شکل دینے کے لئے مجلس شوری کے مشورہ سے آپ نے وقتاً فوقتاً تحقیقاتی کمیشن مقرر کرنے کا سلسلہ بھی جاری فرمایا.چنانچہ اپریل ۲۹۲ میں پہلی بار آپ نے ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر فرمایا اور پھر ۱۹۲۹ء میں اس کی تجدید فرمائی.اس کمیشن کے پریزیڈنٹ چوہدری نعمت اللہ خان صاحب سب حج دہلی اور ممبر پیرا کبر علی صفات وکیل فیروز پور اور چوہدری غلام حسین صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس منتخب ہوئے.حضو نے کمیشن کو ہدایت فرمائی.کہ وہ سارے دفاتر کا معائنہ کرے اور مندرجہ ذیل امور کے متعلق تفصیلی رپورٹ مرتب کرے.ا.کمیشن تحقیقات کرے کہ ناظر اپنے مقررہ فرائض منظور شدہ رقم میں پوری طرح ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ص ۲ - ۲ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ ص ۱ تا ۲۰

Page 169

-۲- کیا نظارتیں ان قواعد کی جو وہ پاس کرتی ہیں اور ان ہدایتوں کی جو انہیں دی جاتی ہیں پابندی کرتی ہیں اور کراتی ہیں یا نہیں ؟ نیز کیا دفاتر کا عملہ کم ہے اور کام زیادہ.یا عملہ زیادہ ہے کام کم ہے ؟ - نظار میں مجلس شوری کے فیصلوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا نہیں ؟ - انجمن کے کارکن اپنے اختیارات ایسے طور پر تو استعمال نہیں کرتے کہ لوگوں کے حقوق ضائع ہوں ؟ ۵.کیا کوئی صیغہ اخراجات کے بارے میں اسراف سے کام تو نہیں لے رہا ؟ چنانچہ کمیشن کے ارکان نے اپنے مفوضہ کام کو پوری تندہی سے سر انجام دیا.کثیر شہادتیں نہیں جو ہزاروں صفحات پر مشتمل تھیں اور مکمل چھان بین کے بعد ایک مفصل اور ضخیم رپورٹ تیار کر کے حضرت خلیفتہ ایسیح کی خدمت میں پیش کی.کمیشن کے سپرد یہ کام چونکہ پہلی بار ہوا تھا اور سابق میں اسے جماعتی اداروں کے معائنہ اور ان کے طریق کار کا وسیع تجربہ نہ تھا اس لئے کمیشن سے رپورٹ مرتب کرنے میں کئی ایک غلطیاں بھی ہو تیں لیکن بحیثیت مجموعی کمیشن کی یہ رپورٹ بڑی عمدہ اور قابل قدر تھی.چنانچہ نساء کی مجلس مشاورت میں جب یہ رپورٹ پیش ہوئی تو اس کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے حضرت امیر المؤمنین خلیفة المسیح الثانی نے فرمایا :- جو کام انہوں رکمیشن کے ممبران) نے کیا ہے اُسے مد نظر رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ پہلی دفعہ یہ کام کیا گیا ہے جس کے لئے انہوں نے پوری محنت کی ہے کافی وقت صرف کیا ہے اور ایک لمبی رپورٹ تیار کی ہے جس کے لئے وہ جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں اور دوسروں کے لئے نمونہ.کمیشن کا کا مر باعث خوشی ہے اور میں اس پر خوشی اور امتنان کا اظہار کرتا ہوں نے اس کے بعد آپ نے دوسرا کمیشن مقرر کیا اور اس سلسلہ میں فرمایا :." اب میں پھر کمیشن مقرر کرتا ہوں جو نظارہ توں کا کام دیکھے لیکن اس وقت آج (اپریل نسکہ) سے نہیں بلکہ آئندہ آنے والے سالانہ جلسہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ صد

Page 170

140 کے بعد شروع ہوگا.یعنی جنوری، فروری مارچ ۹۳الہ میں وہ کام کرے اور مٹی ، جون تک اپنی رپورٹ پیش کرے میں یہ پسند کروں گا کہ پہلے کمیشن سے ایک ممبر اس میں ضرور شامل ہوں ، تاکہ کمیشن آسانی سے دیکھ سکے کہ کام میں پہلے کی نسبت کچھ اصلاح ہوئی ہے یا نہیں.اس وقت پہلے کمیشن سے ایک ہی نمبر موجود ہیں ان سے میں دریافت کرتا ہوں کہ وہ دوسری بار بھی کام کر سکیں گئے ؟ داس موقع پر خان صاحب چوہدری نعمت اللہ صاحب نے جواب میں عرض کیا کہ کر سکوں گا ، اس پر آپ نے فرمایا :- میں انہیں ممبر مقرر کرتا ہوں دوسرے ممبر چونکہ نہیں آئے.اس لئے ان میں سے کسی کو مقرر نہیں کیا جا سکتا.دو اور ممبر ہوں.یہ کمیشن جون ۳۱ ماہ تک رپورٹ مرتب کر کے دے سکتا ہے.نظارتوں کو اس وقت تک کا عرصہ کام کرنے کے لئے مل سکتا ہے اور وہ اصلاح کر سکتی ہیں.یہ کمیشن چوہدری نعمت اللہ صاحب ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اور پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب پر مشتمل ہو اس کے صدر چوہدری صاحب ہی ہوں گے.نئے کمیشن کو یہ بات خاص طور پر مد نظر رکھنی چاہیئے کہ وہ دیکھے کہ ہر کام قاعد کی پابندی سے کیا جاتا ہے یا نہیں کالے ادائیگی فرض کے سلسلہ میں آپ کو خوب احساس تھا کہ آپ کے بعض فیصلے بعض لوگوں کے لئے تلخی کا موجب بن جاتے ہیں لیکن آپ ایک ایسے مقام پر فائز تھے کہ ان مواقع سے صرف نظر کی کوئی صورت نہ تھی.اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :.جب میں جماعت کے دوستوں کو ان کی غلطی کی وجہ سے سمجھاتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ ضمیر کی حریت کہاں گئی.اور جب میں دیکھوں کہ ناظروں نے غلطی کی ہے اور ان کی گرفت کروں تو بعض دفعہ ان ے رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۳۵ ۲۵-۲۹

Page 171

144 کو بھی شکوہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کام میں رکا نہیں پیدا کی جا رہی ہیں مگر مجھ پر یہ اللہ تعالے کی طرف سے ایسا فرض ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کر سکتا اور دراصل خلافت کے معنی ہی یہ ہیں یا سے نظامی امارت صدر انجمن احمدیہ کے نظام کی تکمیل کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جماعت احمدیہ کی متفرق شاخوں کی از سیر تو تنظیم کی طرف بھی تو قبر دی اور ہر جگہ باقاعدہ امارت کا نظام رائج کرنے کے علاوہ صدر انجمین احمدیہ کے شعبہ جات کا ایک مقامی نمائندہ بھی مقرر کرنے کا انتظام فرمایا.امیر کی اصطلاح اسلام میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے.جس کے معنے ایک لحاظ سے امیر مقرر کرنے والے کے نائب کے ہوتے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امیہ کی اطاعت پر بڑا نہ ور دیا ہے.امارت کا نظام قائم کرنے میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تمام رہنمائی آنحضور صلے اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہی سے حاصل کی اور اطاعت امیر کی روح کو نظام جماعت میں بڑی کوشش اور محنت سے جاری و ساری کیا.ابتداء میں جب آپ نے باقاعدہ نظام امارت قائم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس ارادہ کا اظہار مجلس مشاورت میں کیا اور مشورہ مانگا تو اس بارہ میں بڑی دلچسپ آراء کا اظہار کیا گیا.عملاً مشورہ دینے والے دو گروہوں میں بٹ گئے.جو اس شدت سے ایک دوسرے کی مخالفت کر رہے تھے کہ گویا امیر بنانے کے حق میں جو لوگ تھے ان کے نزدیک امیر مقرر نہ ہونے کی صورت میں ایمان جاتا رہے گا.اور جو مخالف تھے ان کے نزدیک نظام امارت کے مقام سے اس بات کا شدید خطرہ تھا کہ یہ نظام خلافت کا متوازی نظام بن کر جماعت کو تباہ کر دے گا.دونوں طرف کے قائلین نہایت مخلص اور سلسلہ کے اعلیٰ درجہ کے وفادار الفضل ۲۷ ر ا پریل ۱۹۳۶ مگ

Page 172

142 اور اطاعت گزار خدام تھے جو سوائے سلسلہ کی بہبود اور فلاح کے اور کوئی جذبہ نہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود آراء میں دیانتدارانہ اختلاف اس قدر تھا اور ایسے دلائل دونوں طرف سے پیش کئے جارہے تھے کہ بظاہر دونوں گروہوں کے مابین اتفاق رائے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا.لیکن حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے دونوں آرا ء شنکر اس عمدگی اور حکمت سے تمام صورت حال کا تجزیہ کیا کہ تمام حاضرین مطمئن اور متفق ہو گئے کہ بعض ضروری احتیاطوں اور شرائط اور استثناء کا لحاظ رکھتے ہوئے جماعت کی مختلف شاخوں میں امیر مقرر کئے جائیں.چنانچہ امیر کے فرائض اور اختیارات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ ایسے الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- امارت کے فرائض در اصل امارت کے فرائض کو لوگوں نے نہیں سمجھا جو میں نے بتائے تھے.گو اس تفصیل سے احادیث میں نہیں ملتے کیونکہ تیرہ سو سال کی بات ہے.مگر ان کا پتہ ضرور چلتا ہے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جو مشورہ سے کام نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں اور میں نے امیر کے لئے رکھا تھا.کہ علی العموم کثرت رائے سے فیصلہ کریں.لیکن میں بھی یہی کرتا ہوں کوئی ایک آدھ ہی معاملہ سال میں ہوتا ہوگا جس میں میں کہوں کہ میری یہ رائے ہے اس کے مطابق عمل ہو ورنہ عموما کثرت رائے سے جو تجویز ہو اسی کو عمل میں لایا جاتا ہے.دیکھو اُحد کے دن رسولِ کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں پسند نہیں کرتا کہ باہر جا کر مقابلہ کیا.جائے.مگر سب نے کہا کہ لوگ ہمیں بزدل کہیں گے.جب ہم کفر میں بزدل نہیں ہوئے تو اب کیوں کہلائیں.تاریخ میں لکھا ہے کہ عبد الله بن ابی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مشورہ نہیں لیا تھا مگر اس دن اس کو بلایا اور پوچھا کہ وہ کیا کہتا ہے.شاید وہی کہے کہ یا ہر نہ جائیں.اور لوگوں میں اس بات کی تحریک ہو.مگر اس نے بھی

Page 173

14^ کہا کہ باہر سہی جانا اچھا ہے.جب باہر جانے لگے اور جوش کم ہوا تو صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے کہ باہر آنا غلطی تھی، اور ہم نے غلطی کی.مگر آپ نے نہ مانا اور کہا کہ نبی جب تیار ہو جاتا ہے تو پھر نہیں کوٹتا اس وقت انہیں سبق دینے کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات مان لی.اور اس جنگ میں ایک امیر مقررہ کیا کہ اس کے حکم کے بغیر نہیں ہٹنا.مگر پھر جو حالت ہوئی وہ ظاہر ہے.امیر کی پوزیشن تو یہ بات کہ امیر کثرت رائے کی اتباع کرے.۹۹ فیصد یہی ہوگا، کہ ایسا ہی کرے اور ممکن ہے کہ پانچ پانچ سال ایسا ہی ہو کہ اس کو اپنی بات منوانے کی ضرورت ہی نہ ہو.تجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی ایسی بات ہوئی ہو جس کے خلاف مشورہ دیا گیا ہو اور میں نے کہا ہو کہ یہی کرو.تو امیر کے لئے یہ رکھا ہے کہ کثرت رائے سے فیصلہ کرے اور اگر اس کے خلاف کرے تو وجو ہات لکھے.دوسرے لوگ اگر چاہیں تو خلیفہ وقت کے پاس شکایت کریں.اطاعت کی روح پیدا کرو ہماری جماعت میں اطاعت کی رُوح ہونی چاہیئے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم جان بوجھ کر ایسے لوگوں کو مقرر فرماتے جو کم حیثیت ہوتے اور اشارۃ بیان کیا کہ دیکھوں لوگ اطاعت کرتے ہیں یا نہیں.اسامہ کو ایک بڑے تشکر کا سردار مقرر کیا اس خیال سے کہ آیا لوگ اطاعت کرتے ہیں یا نہیں.مدینہ میں والی غیر معروف مقرر کئے اور ماتحت بڑے بڑے صحابی کئے.پس جماعت میں یہ مادہ ہونا

Page 174

149 چاہیئے کہ ذاتی فوائد کو جماعت کے لئے قربان کر دیں.یہی گڑہتے ہیں سے دشمن پر فتح پا سکتے ہیں.تو امراء کے تقرر سے انجمن ٹوٹتی نہیں بلکہ یہ فائدہ ہے کہ پارٹی فیلنگ ( Feelina) پیدا نہیں ہوگی.اور کثرت رائے صحیح کثرت رائے ہوگی.انجمنوں میں پارٹی فیلنگ پیدا کی جاتی ہے ممبروں سے کئی کئی وعدے خطابوں عہدوں کے دے کر ان کی رائے لی جاتی ہے.اصل میں اسلام ہی کی جمہوریت ہے جو امراء کے ذریعہ قائم ہوتی ہے.اسی طرح حضرت صاحب کے قواعد بنانے خلاف نہیں جبکہ صدر انجمین احمدیہ کے قواعد ہوتے خلافت کو مانا اور بعیت ہوئی کیا ہے اسلام نے امارت کا جو تصور قائم کیا ہے ، حضور اس سے بدرجہ کمال واقف تھے.اور اس کے ہر پہلو پر آپ کی گہری نظر تھی.چنانچہ زیر نظر مجلس مشاورت سے قبل بھی آپ نے متعدد بار اس موضوع پر جماعت کو بڑی قابل قدر نصائح فرمائیں اور منصب امارت کو اچھی طرح احباب جماعت کے ذہنوں میں جاگزین کرنے کی کوشش فرمائی.ذیل میں آپ کے اس خطاب سے دو اقتباس پیش کئے جا رہے ہیں جو آپ نے ۱۲ فروری 1913ء کو لاہور روانگی سے قبل اہل قادیان سے فرمایا.آپ فرماتے ہیں:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ سے باہر کسی مقام پر تشریف ے جاتے تھے تو مدینے میں اپنے بعد کسی کو امیر مقرر فرما دیتے تھے میں کے سپرد مقامی انتظام ہوتا تھا.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ میں یہ بھی تھا کہ آپ ہمیشہ بدل بدل کر آدمی منظر کیا کرتے تھے اور اس طریق میں بہت سے فوائد ہیں.اول تو یہ کہ اگر ہمیشہ ایک ہی شخص کو مقرر کیا جائے تو لوگ اس کے متعلق عجیب عجیب خیال اور قیاس خود بخود کر لیتے ہیں.دوسرے یہ کہ جب بدل بدل کر امیر مقرر کئے جاتے ہیں تو ہر ایک میں فرما نزاری کی عادت پیدا ہوتی ہے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض بڑے ے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ مته تا حدات )

Page 175

16+ بڑے صحابہ پر ایسے لوگوں کو بھی امیر مقرر فرمایا کرتے تھے جو بظاہر چھوٹے نظر آتے تھے.مثلاً اُسامہ کے ماتحت ابو بکر و عمر جیسوں کو کر دیا.اس میں حکمت یہی تھی کہ لوگوں میں ایک دوسرے کی اطاعت کا مادہ پیدا ہو.ایک اطاعت تو ایک شخص کی ذات کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن ایک اور اطاعت ہے جو خالصہ اللہ ہوتی ہے.جب ایک انسان خدا کے نبی یا خدا کے مقررہ کردہ خلیفہ یا کسی خلیفہ کے مقرر کئے ہوئے شخص کی اطاعت کرتا ہے تو دراصل وہی اطاعت خالص اور خدا کے لئے ہوتی ہے یا لے اور فرمایا :- میرے نزدیک امارت کا سوال ساری جماعتوں کے لئے محتاج توجہ ہے اور میرا ارادہ ہے کہ ساری جماعتوں کے لئے امیر منظرہ کئے جائیں اور مد میں اور اس میں بعض مقامات میرے مد نظر ہیں.جن میں ابتداء امیر مقرر کئے جائیں گے.بعض لوگوں نے مقامی امارت کو سمجھا نہیں اس لئے لیکن اس کے متعلق مختصراً بیان کرتا ہوں.چونکہ قادیان مرکز ہے.تو بعض لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ خلیفہ کے بعد قادیان کی جماعت کا امیر بھی خلیفہ ہی ہو جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ چلو ان سے بعض معاملات ان کی خلافت کی حیثیت میں حل کرائیں.سو یا د رکھنا چاہیئے کہ مقامی امارت کے ساتھ صرف مقامی امور وابستہ ہوتے ہیں.جیسے مثلاً جماعت سیالکوٹ کا امیر ہو تو اس کے متعلق سیالکوٹ کے ہی معاملات ہونگے پیر د نجات کے نہیں ہوں گے.اسی طرح قادیان کے متعلق بھی ہے.در نہ مرکزی معاملات جن کا تعلق خلافت سے ہوگا وہ بہر حال خلیفہ سے ہی متعلق ہوں گے.خواہ خلیفہ کہیں ہو اور جو ناظروں یا صد آئین احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کو وہی انجام دیں گے.تعلیم کے متعلق له الفضل ۱۸ / فروری شاه منته

Page 176

141 آخری فیصلہ ناظر تعلیم و تربیت کا ہوگا اور محاسبہ کے متعلق ناظر محاسبہ کا اور امور عامہ کے متعلق ناظر امور عامہ کا اور امیر سے صرف وہی معاملات متعلق ہوں گے جو مقامی ہیں کہ لے امارتوں کے قیام کے علاوہ اسی سال حضور نے مجلس شوری کے مشورہ کے ساتھ ہر جمبات میں مختلف سیکرٹریوں کا تقرر بھی فرمایا جو مرکزی نظارتوں کے کام میں اپنی اپنی جماعت کی نمائندگی کریں.اس اہم انتظامی فیصلہ کے نتیجہ میں جماعت کی ہر شاخ میں ایک قسم کی چھوٹی سی صدر انجمن احمدیہ کی تصویر بن گئی.ہر نظارت سے تعلق رکھنے والا ایک ایک سیکرٹری ہر جماعت میں اس غرض سے مقرر ہوا کہ متعلقہ نظارت کے ہر قسم کے کاموں کی یہ نگرانی کرے اور تعمیری کاموں کو فروغ دینے کی کوشش کرے.یہ نظام آج بھی جماعت احمدیہ میں قائم ہے اور مزید مستحکم ہو چکا ہے البتہ چھوٹی جماعتوں میں امیر کی بجائے صدر منظر ہوتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے امارت کے نظام کو نافذ کرنے کے بعد اُسے نہایت عمدہ رنگ میں پروان چڑھایا اور بڑی احتیاط اور پیار کے ساتھ جماعت کی اس بارہ میں تربیت فرمائی یہاں تک کہ آج قریباً ہر احمدی نظام جماعت کے اس پہلو سے خوب واقف ہو چکا ہے.فرائض اور اس کے بارہ میں ہدایات کا اُسے علم ہے.اور احباب جماعت اپنے حقوق اور فرائض سے خوب واقف اور آشنا ہیں.چنانچہ جب کبھی بھی کسی فتنہ پرواز نے اس نظام میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کی جماعت نے بیک آواز اُسے ناکام کر دکھایا.اختلافات کا پیدا ہونا تو ایک طبعی امر ہے.اور زندگی کی علامت ہیں لیکن حضرت مصلح موعود نے اختلافات سمجھانے کا ایک ایسا عمدہ اسلوب جماعت میں رائج کر دیا کہ بڑے بڑے اہم اختلافات بھی بغیر کسی قباحت اور فتنے کے اس اعلیٰ نظام اور تربیت کی برکت سے زائل ہو جاتے ہیں.جب بھی جماعت کے کسی فرد نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو کسی ایسے امر سے آگاہ کیا جو اس کے نزدیک امیر کو نہیں کرنا چاہیئے تھا.تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایسے موقع پر عموما حسب ذیل طریق اختیار فرمایا:.اگر وہ شکایت بے نام ہوتی تو اس پر کوئی کارروائی نہ فرماتے اور خطبات میں بھی اس امر پر کئی دفعہ اظہار رائے فرمایا اور بتایا کہ اگر اس طرح ہے نام شکایت کرنے والے ہوں ، تو له الفضل ۱۸؍ فروری شاه حه -

Page 177

۱۷۲ اس سے جماعت میں بُزدلی پیدا ہوگی اور جھوٹی شکایات کا ایک ایسا سلسلہ چل پڑے گا.جس کی روک تھام ممکن نہ رہے گی.اگر شکایت کنندہ اپنا نام اور یہ و غیرہ درج کرتا لیکن امیر جماعت کی وساطت کے بغیر شکایت بھیجتا تو حضور فوری طور پر امیر متعلقہ سے اس بارہ میں وضاحت طلب فرماتے.حضور عموما یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ شکایت اس منتظم کی وسات کے بغیر کی جائے جس کے خلاف وہ شکایت کر رہا ہے اس خطرہ کے ازالہ کے لئے کہ شکایت کہیں راستہ میں روک نہ لی جائے بلا وجہ تاخیر سے پہنچنے والی شکایات کی نقل براہ راست بھیجوانے کے طریق کو پسند فرماتے.چنانچہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ اگر شکایت کنندہ کوئی صائب الرائے شخص ہوتا اور شکایت میں سرسری مطالعہ ہی سے کوئی وزن نظر آتا تو متعلقہ منتظم کی طرف سے اصل شکایت پہنچنے کا انتظار کئے بغیر فوری رپورٹ طلب فرمالیا کرتے.اس طریق پر امراء کو یہ حق حاصل تھا کہ نائب ناظروں یا ناظروں کے خلاف شکایت کریں لیکن ہر دو صورت میں حضور ہر گز یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ شکایت کنندہ ادب کے پہلو کو نظر انداز کردے یا کوئی ایسی زبان یا طرز کلام اختیار کرے جس سے افسر صیغہ کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا احتمال ہو.بڑی بڑی جماعتوں کے امراء میں سے ایسے امراء جن کو جماعت کی غیر معمولی خدمت اور تعلیم و تربیت کا موقع ملا ہو حضور ان کو خاص احترام کی نظر سے دیکھتے اور جماعت میں بھی مختلف زنگ میں اُن کی عزت کو قائم فرماتے تاکہ جماعت میں اچھے کارکنان کے احترام کا جذبہ پیدا ہو بعض اوقات ایسے امراء کو اس بات کی اجازت دیتے کہ مناسب حدود کے اندر رہتے ہوئے کسی ایسے ناظر کے کام پر کھل کر تنقید کریں جس کی کوتاہی کی وجہ سے کسی اہم جماعتی مفاد کو نقصان پہنچا ہو اور جماعت کی تربیت کے لئے ضروری ہو کہ اس معاملہ پر کسی قدر تفصیل سے بحث کی جائے.چنانچہ مجلس مشاورت کی کارروائی میں قارئین کو بعض اوقات ناظروں پر ایسی سخت تنقید نظر آئینگی جس کی عام حالات میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اجازت نہیں دیا کرتے تھے اسی طرح جب تنقید کرنے والے امراء کے عمومی مزاج اور کردار پر نظر ڈالیں تو ان کی اس غیر معمولی تنقید پر مزید تعجب ہوگا کیونکہ ایسی تنقید کرنا عموماً ان کی عادت میں داخل نہ تھا.کئی مرتبہ میں نے محسوس کیا کہ بعض دوست کم فہمی میں ایسے مواقع سے غلط نتیجہ اخذ کرتے ہوئے سلسلہ کے مرکزی کارکنان پر مشاورت میں تنقید شروع کر دیتے گویا دنیا کی کسی پارلیمنٹ میں وزراء کی گوشمالی کی جارہی ہو تو حضور ایسے موقع پر فوری طور پر ان کو سمجھا کر سلسلہ کلام بند کر دیتے اگر ناظر کی

Page 178

غلطی ہوئی تو خود اسے سمجھا دیتے ورنہ بدظنی اور مبالغہ کرنے والے ناقد کی خاطر خواہ گو شمالی فرماتے گھوگا امراء کے ساتھ حضور کا سلوک نہایت مشفقانہ تھا.خصوصا پرانے خدام سلسلہ سے تو گرا قرب کا تعلق تھا.ان پر غیر معمولی اعتماد فرماتے.وقتاً فوقتاً اہم امور میں مشورہ کے لئے طلب فرماتے رہتے.امارت کے کام کے علاوہ بھی اہم جماعتی ذمہ داریاں ان کے سپرد کرتے کبھی ناراض بھی ہوتے لیکن ناراضگی کے بعد میں غیر معمولی شفقت اور دلداری کا سلوک فرماتے وہ قلوب میں کچھ ایسی کیفیت پیدا کرتا کہ شخص متعلقہ زبان حال سے یہ کہ اٹھتا کہ ہ صیحتیں لاکھوں مری بیماری غم پر نشار جس میں اُٹھے بارہا انکی عیادت کے مزے خفا ہوتے لیکن ناز برداری بھی کرتے.بے تکلف مجالس میں بے تکلف اظہار خیال کی نہ صرف اجازت دیتے بلکہ پسند فرماتے کہ احباب کھل کر اپنے دل کی بات کریں.خود اپنے خلاف شکوے بھی سنتے اور بڑے دلپذیر انداز میں ان کا ازالہ بھی فرماتے.اپنے مقرر کردہ امراء سے حضور خاص محبت اور شفقت کا تعلق رکھتے تھے.خلیفہ اور امیر کے مابین محض رسمی قانونی رشتہ نہ تھا بلکہ اس میں ذاتی تعلق اور گری ہمدردی اور شفقت کی وجہ سے ایک غیر معمولی جذباتی قوت بھی پیدا ہو جاتی تھی.اگر اس سلسلہ میں ان تمام امراء کے ذاتی تجارب مشاہدات اور واردات کو اکٹھا کیا جائے جنہیں حضور کے ساتھ آپ کے مقرر کردہ امیر کی حیثیت سے کام کرنے اور اس تعلق سے لطف اندوز ہونے کا موقعہ ملا، تو بلاشبہ یہ ایک طویل داستان بن جائے گی.سردست صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ جب بھی بعض ایسے امراء سے گفتگو ہوئی جنہیں آپ کے زمانہ میں امارت کے فرائض سرانجام دینے کا موقع ملا تو میں نے دیکھا کہ حضور کی شفقت کی یادیں برساتی گھٹاؤں کی طرح ان کے قلب و ذہن کی کائنات پر چھا گئیں.مکرم مرزا عبد الحق صاحب سلسلہ کے اُن پرانے مخلص خادموں میں سے ہیں جنہیں امیر جماعت مقامی وضلع وصوبہ کی حیثیت سے بہت لمبا عرصہ سلسلہ کی خدمت کی توفیق علی ہے.ایک مرتبہ سیالکوٹ سے واپسی پر ہمیں اکٹھے کار میں سفر کرنے کا موقع ملا.اس سفر میں سیالکوٹ سے لے کر سرگودھا تک مسلسل حضرت خلیفہ مسیح اللہ کی رضی اللہ عنہ کا ذکر چلتا رہا.محترم مرزا صاحب مختلف واقعات بیان کرتے رہے.بات سے بات نکلتی چلی گئی.یہ ذکر

Page 179

۱۷۴ اتنا دلچسپ اور دل گداز تھا کہ اس لیے سفر کے ختم ہونے کا احساس بھی نہ ہوا.محترم مرزا حساب حضرت صاحب کی غیر معمولی شفقت کے واقعات بیان کرتے تو بسا اوقات آواز گلو گیر ہو جاتی.اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے.مختلف واقعات میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ ایک مرتبہ مرزا صاحب کو ایک غیر از جماعت دوست کی سفارش کے سلسلہ میں ان کے ساتھ حضور کی ملاقات کے لئے دھرم سالہ جانا پڑا.دھرم سالہ ایک صحت افزاء پہاڑی مقام ہے جہاں حضور کبھی کبھی گرمیوں میں تشریف لے جایا کرتے تھے.مرزا صاحب کو رہائش کے لئے ان کوارٹروں میں جگہ ملی جہاں مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رضی اللہ عنہ اور مکرم مولانا عبدالرحیم صاحب درد رضی اللہ عنہ قیام پذیر تھے.وہ جگہ کوئی خاص آرام دہ جگہ نہیں تھی.حضرت صاحب سے ملاقات کے بعد مرزا صاحب جب واپس اپنے گھر گورداسپور پہنچے تو حضرت صاحب نے خط لکھ کر آپ سے دریافت فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کے چہرے پر بہت افسردگی تھی.اس پر مرزا صاحب نے بے تکلفی سے یہ لکھ دیا کہ کچھ تو سفر کی تکان کا اثر تھا لیکن زیادہ تر اس وجہ سے کہ جہاں میں ٹھہرا تھا وہ جگہ کوئی آرام دہ جگہ نہ تھی.جب حضور پہاڑ پر تشریف لے جاتے ہیں تو کو بھی کوئی ایسی لیا کریں.جہاں مہمانوں کے ٹھرنے کے لئے نسبتاً زیادہ مناسب انتظام ہو.بظاہر یہ بات آئی گئی ہو گئی.لیکن دوسرے ہی سال جب حضرت صاحب دوبارہ دھرم سالہ تشریف لے گئے تو مرزا صاحب کو تار دے کر طلب فرمایا.وہ کہتے تھے کہ میں گیا تو اس حصہ میں جہاں حضور خود قیام فرما تھے.ساتھ کا کمرہ خالی کروا دیا اور بے حد تلطف کے ساتھ غیر معمولی مہمان نوازی کے علاوہ خود میرے کمرے میں تشریف لائے اور میری چار پائی پر بیٹھ کر دیر تک بڑی محبت سے گفتگو فرماتے رہے.میں جانتا تھا کہ یہ سب اُس شکوہ کا ازالہ ہو رہا ہے جو میں نے بے تکلفی میں گزشتہ سال کیا تھا.گموگا سب احباب جماعت سے حضور کا سلوک ایسا ہوتا تھا کہ سب یہی تاثر لیتے کہ خاص مقرب ہیں.لیکن امراء میں تو بالخصوص یہ تاثر غیر معمولی شدت سے پایا جاتا تھا.چنانچہ میں نے چین پرانے امراء سے بھی بات کی ہر ایک نے یہی بیان کیا کہ اُن پر حضور کی شفقت کی نظر غیر معمولی تھی.یہ ایسی یادیں ہیں جو دل سے مٹائی نہیں جاسکتیں.حضور کے پرانے ساتھی اور سلسلہ کے دیرینہ کارکنان جس محبت اور عشق کے ساتھ آپ کا ذکر کرتے ہیں اس جذبے کو

Page 180

140 ط تحریر میں لانا ممکن نہیں.ذکر کرنے والے پر ایک عجیب سوز و گداز کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.جو ذکر سننے والے کے دل کو بھی گرمی عشق سے پچھلا دیتی ہے اور آہیں دعائیں بن کر دل سے اُٹھنے لگتی ہیں.مجلس مشاورت کا باقاعد قیام قرآن کریم نے مثالی اسلامی معاشرہ کا تصور پیش کرتے ہوئے جو مختلف رہنما اصول بیان فرمائے ہیں ان میں ایک باہمی مشورہ کا اصول بھی ہے جیسا کہ فرمایا :- وامرهم شوری بننَهم (سوره شوری آیت (۳۹) اس مشورہ کے امر کو جماعت احمدیہ میں ایسے رنگ میں قائم کرنا جو صحیح اسلامی اقدار کے عین مطابق ہو اور افراط و تفریط سے پاک ہو قیامِ جماعت احمدیہ کے اولین اغراض و مقاصد میں شامل ہے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اہم امور میں صائب الرائے احباب سے مشورہ لینے کی سنت پر ہمیشہ کاربند رہے اور وقتا فوقتا عند الضرورت کبھی انفرادی طور پر اور کبھی اجتماعی طور پر احباب جماعت سے مشورہ لینے کا انتظام فرما یا ی نائی مشورہ کی ایک اہم مثال ۱۸۹۱ ء میں ہمارے سامنے آتی ہے جبکہ دسمبر میں جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا.جماعت کی تعداد اس وقت اتنی قلیل تھی کہ جلسہ کے موقع پر صرف ۷۵ زائرین شامل ہوئے.اس قلیل تعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے جلسہ اور مشاورت کا الگ انتظام کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی لہذا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی جلسہ سالانہ سے مشاورت کا کام بھی لیا.اور جماعت احمدیہ کی اس پہلی مجلس مشاورت میں جو تجویز پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ اللہ تعالے کی طرف سے بکثرت ظاہر ہونے والے نشانا کا ریکارڈ محفوظ کرنے کی خاطر ایک ایسی انجمن بنائی جائے جو احمدی اور غیر احمدی حضرات پرشتمل ہو.یہ تجویز بالاتفاق اس ترمیم کے ساتھ منظور ہوئی کہ فی الحال حضرت مسیح موعود کے رسالہ آسمانی فیصلہ کو جس میں یہ تجویز موجود ہے شائع کر دیا جائے.اس پر مخالفین سلسلہ کا عندیہ معلوم کرنے کے بعد بتراضی فریقین مجوزہ انجمن کے ممبران مقرر کئے جائیں.

Page 181

124 اجتماعی مشاورت کا یہ سلسلہ باقاعدہ سالانہ صورت میں جاری نہیں کیا گیا تھا بلکہ خلافت ثانیہ کے آغاز تک ایسی مجلس حسب ضرورت بلائی جاتی رہی.۱۹۲۷ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ با قاعدہ سالانہ مجلس مشاورت کا نظام قائم فرمایا.حضور کے اس فیصلہ پر جسے جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک بنیادی حیثیت حاصل تھی، بعض کم فہم اشخاص نے اعتراضات بھی کئے کہ یہ ایک ایسا مالی بوجھ ہوگا جو جماعت برداشت نہیں کر سکتی.کیونکہ اس زمانہ میں چندوں کی کیفیت یہ تھی کہ بعض اوقات کارکنوں کو ماہانہ تنخواہ دینے کے لئے بھی کئی کئی ماہ انجمن کے پاس پیسے نہ ہوتے تھے اس پر مصر کرتے ہوئے آپ نے اس اقدام کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور فرمایا است." کہا جاتا ہے کہ اس قدر کام جاری کرنے کی طاقت نہیں.مگر مشکل کے وقت یا نا سمجھی کے باعث ایسے خیال پیدا ہونے کوئی بڑی بات نہیں اور میں سمجھتا ہوں جو کہنا ہے کہ جماعت یہ بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں، وہ معذور ہے.مگر میں بھی معذور ہوں.میری طبیعت خدا نے ایسی بنائی ہے کہ میں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ کونسا کام کریں.جس سے دنیا میں ہدایت پھیلے.......وہ دن یا وہ سال میں میں نجات کا قدم آگے نہ ہو میرے لئے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے......میری نظر اس بات پر پڑ رہی ہے کہ ہماری جماعت نے آج ہی کام نہیں کرنا بلکہ ہمیشہ کرتا ہے.دنیا کی انجمنیں ہوتی ہیں جو یہ کہتی ہیں آج کام کر کے دکھا دو اور لوگوں کے سامنے رپورٹ پیش کر دو.مگر میں نے رپورٹ خدا کے سامنے پیش کرنی ہے.اور خدا کی نظر اگلے زمانوں پر تبھی ہے.اس لئے مجھے یہ فکر ہوتی ہے کہ آج جو کام کر رہے ہیں یہ آئندہ زمانہ کے لئے بنیاد ہو.ہمارا کام یہ نہیں کہ دیکھیں ہمارا کیا حال ہوگا بلکہ یہ ہے کہ جو کام ہمارے سپرد ہے اُسے اس طریق پر چلائیں کہ خدا کو کہ سکیں کہ اگر بعد میں آنے والے احتیاط سے کام لیں، تو تباہ نہ ہوں گے.پس مجھے آئندہ کی فکر ہے اور میری نظر آئندہ پر ہے کہ ہم آئندہ کے لئے بنیاد رکھیں.جس کی نظر وسیع نہیں اُسے تکلیف

Page 182

162 نظر آرہی ہے.مگر اس کی آئندہ نسل ان لوگوںپر جو یہ یادیں رکھی گے درود پڑھے گی.......وہ زمانہ آئے گا جب خدا ثابت کر دے گا، کہ اس جماعت کے لئے یہ کام بنیادی پتھر ہے " مجلس شوری کا قیام خالصہ ایک مذہبی حیثیت رکھتا تھا اور دنیوی بالیمنٹوں اور ہم شکل مجالس کو اس روحانی ادارے سے سوائے ظاہری مشاہت کے اور کہ ڈی نسبت نہ تھی.آپ نے مجلس مشاورت کے اغراض و مقاصد کو واضح کرتے ہوئے فرمایا :- اللہ تعالے نے اپنے فضل سے ہمیں پھر توفیق دی کہ ہم ساری دنیا سے اختلاف رکھتے ہوئے آج اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ باقی دنیا کو جو اپنی مادی ترقی کے لئے مشورے کرتی اور دنیوی ترقی کے لئے اپنے دماغوں کو خرچ کرتی ہے دین کی دعوت دیں اور روحانیت کی طرف متوجہ کریں.باقی دنیا صرف دنیا کے لئے جد و جہد کر رہی ہے لیکن ہم خدا کے فضل سے اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ وہ نور وہ ہدایت اور وہ صداقت جو اللہ تعالے نے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجی ہے اس کی ترقی کے لئے کوشش کریں اس کی اشاعت کے لئے غور کریں اور اسے پھیلانے کے لئے تجاویز سوچیں.اور ان کے ضمن میں جو مادی تمدنی اور سیاسی باتیں پیدا ہوں اُن پر غور کریں.لیکن اس لئے نہیں کہ اپنی ذات کے لئے کچھ حاصل کریں بلکہ اس لئے کہ ساری دنیا کو فائدہ پہنچائیں کیونکہ کوئی نبی کی محجبات ایسی نہیں ہو سکتی جس کے کسی کام کی غرض محض اپنی ذات کو فائدہ پہنچانا ہو بلکہ اس کی ہر کوشش اور ہر کام کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچائے.دوسروں کی مشکلات کو دور کرے اور دوسروں کی بہتری اور بھلائی مد نظر رکھے.پس ہم بھی اگر نبی کی جماعت بننا چاہتے ہیں تو ہماری تمام کوششیں اور تدبیریں ایسی ہونی چاہئیں کہ اُن سے سب دنیا کو فائدہ پہنچے.قطع نظر اس کے کہ کوئی احمدی ہو یا غیر احمدی، مسلم ہو یا غیر مسلم.سب کی

Page 183

16^ خدمت ورسب کی بھلائی ہمارا فرض ہے کیونکہ مومن سب دنیا کا خدمت گزار ہوتا ہے.پس یہ اللہ تعالے کا احسان ہے کہ جب دوسرے لوگ اس لئے جلسے کرتے ہیں کہ چھینا جھپٹی کر کے خود فائدہ اُٹھائیں.ہم اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ دنیا میں امن قائم کریں.راستی اور انصاف پر دنیا کو کاربند کریں.پس ساری دنیا ہماری مخاطب ہے اور ہم ساری دنیا کی خدمت کرنے والے ہیں.اور یہ ہم پر اللہ تعالے کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے یہ ملہ لہ کی یہ مجلس مشاورت جو ایک باقاعدہ ادارہ کی پہلی کڑی تھی ، جماعت کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے بالخصوص حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا افتتاحی خطاب جس میں آپ نے مجلس شوری کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے اسلامی طریق مشاورت آداب شوری، رائے دہندہ کے فرائض ، ایجنڈے پر غورہ کا طریق اور شوری کے فیصلے اور ان کی حیثیت کو بیان فرمایا ہے.آپ کی یہ افتتاحی تقریر جماعت احمدیہ کے نظام شوری کے لئے بلاشبہ ایک چارٹر کی حیثیت رکھتی ہے.فکر و تدبر اور علم معانی کا ایک بنتا ہوا دریا ہے اور حضور کی ان استعدادوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جو ایک عند مصلح میں بدرجہ اتم پائی جانی چاہئیں اس خطاب میں سے بعض ایسے اقتباسات پیشین کئے جاتے ہیں جو جماعت احمدیہ کے نظام شوری کا تعارف کروانے کے لئے کافی وشافی ثابت ہوں گے اور کسی مزیدہ حاشیہ آرائی کی ضرورت انشاء اللہ پیش نہ آئے گی.مجلس مشاورت کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا:.سب سے پہلے میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مجلس جس کو پرانے نام کی وجہ سے کارکن کا نفرنس کے نام سے یاد کرتے رہے ہیں کیا چیز ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ أَمْرُهُمْ شُور بَيْنَهُم اپنے معاملات میں مشورہ لے لیا کریں.مشورہ بہت مفید اور ضروری چیز ہے اور بغیر اس کے کوئی اے رپورٹ مجلس مشاورت ۹۳ه مدت ۲

Page 184

169 کام مکمل نہیں ہو سکتا.اس مجلس کی غرض کے متعلق مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسی اغراض جن کا جماعت کے قیام اور ترقی سے گہرا تعلق ہے ان کے متعلق جماعت کے لوگوں کو جمع کر کے مشورہ لے لیا جائے، تا کہ کام میں آسانی پیدا ہو جائے یا ان احباب کو ان ضروریات کا پتہ لگے جو جماعت سے لگی ہوئی ہیں تو یہ مجلس شوری ہے." رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشورہ کا طریق بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.اب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفاء کے زمانہ میں مشورہ کا جو طریق تھا وہ بیان کرتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء تین طریقے سے مشورہ لیتے تھے.را، جب مشورہ کے قابل کوئی معاملہ ہوتا تو ایک شخص اعلان کرتا کہ لوگ جمع ہو جائیں اس پر لوگ جمع ہو جاتے.عام طور پر یہی طریق رائج تھا کہ عام اعلان ہوتا اور لوگ جمع ہو کر مشورہ کر لیتے اور معاملہ کا فیصلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلیفہ کر دیتے.(۲) دوسرا طریق مشورہ کا یہ تھا کہ وہ خاص آدمی جن کو رسول کریم صلی للہ علیہ وسلم مستورہ کا اہل سمجھتے ان کو الگ جمع کر لیتے.باقی لوگ نہیں بلائے جاتے تھے.جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ لیتے تھے.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے تیس کے قریب ہوتے تھے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سب کو ایک جگہ بلا کر مشور لے لیتے.کبھی تین چار کو بلا کر مشورہ لے لیتے.(۳) تیسرا طریق یہ تھا کہ آپ کسی خاص معاملہ میں جس میں آپ سمجھتے تھے کہ دو آدمی بھی جمع نہ ہونے چاہئیں.علیحدہ علیحدہ مشورہ لیتے.پہلے ایک کو بلا لیا.اس سے گفتگو کر کے اس کو روانہ کردیا اور دوسرے کو بلا لیا.یہ ایسے وقت میں ہوتا جب خیال ہوتا کہ ممکن ہے رائے کے اختلاف کی وجہ سے دو بھی آپس میں لڑ پڑیں.ے رپورٹ مجلس مشاورت ۹۲۶ه صدا

Page 185

۱۸۰ یہ تین طریقے تجھے مشورہ لینے کے اور یہ تینوں اپنے اپنے رنگ میں بہت مفید ہیں.میں بھی ان طریق سے مشورہ لیتا ہوں یہ ہے آداب مشورہ مشورہ کے لئے ہدایات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :- ہمارے مشورے تبھی مفید ہو سکتے ہیں کہ خدا پر نظر رکھیں.اس لئے پہلی نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ ہر شخص خدا کی طرف توجہ کرے اور دعا کرے کہ الہی ! میں تیرے لئے آیا ہوں.تو میری راہ نمائی کی.کسی معاملہ میں میری نظر ذاتیات کی طرف نہ پڑے.نہ ایسا ہو کہ کوئی رائے غلط دُوں.اور اس پر زور دُوں کہ مانی جائے اور اس سے دین کو نقصان پہنچے.نہ ایسا ہو کہ کوئی ایسی رائے دے جو ہو تو غلط مگر اس کی چکنی باتوں یا طلاقت لسانی سے میں اس سے متفق ہو جاؤں.میں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ نہ ایسا ہو کہ مجھ میں نفسانیت آجائے.یا اپنی شہرت و عزت کا خیال پیدا ہو یا یہ کہ بڑائی کا خیال پیدا ہو یا یہ کہ بڑائی کا خیال آجائے.نہ ایسا ہو کہ میری رائے غلط اور مضر ہو.نہ یہ ہو کہ میں کسی کی غلط رائے کی تائید کروں.میری نیت درست رہے.میری رائے درست ہو اور تیری منشاء کے ماتحت ہو.یہ دعا ہر دوست کو کر لینی چاہئیے اور ہمیشہ کرنی چاہیے.جب بھی ہماری جماعت مشورہ کرنے لگے.صرف آج کے لئے ہی نہیں..یہ کہ پہلی نصیحت دعا کے متعلق ہے مگر کوئی دعا قبولیت کا جا نہیں پہنتی جب تک اس کے ساتھ عمل نہ ہو.مثلاً انسان دعا تو کرے کہ اُسے خدمت دین کی توفیق ملے.مگر عملاً ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اُسے کیا توفیق ملے گی.تو دعا ے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ منت

Page 186

JAI کے ساتھ عمل کی ضرورت ہے.اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ آج بھی اور کل بھی اور پھر بھی جب کبھی مشورہ ہو ذاتی باتوں کو دل سے نکال دیا جائے.لوگوں نے بعض باتیں دل میں بٹھائی ہوتی ہیں کہ یہ منوائیں گے.لیکن مشورہ کے یہ معنی نہیں کہ ایسی باتوں کو بیان کرو بلکہ یہ ہیں کہ اپنے دماغ کو صاف اور خالی کر کے بیٹھو اور صحیح بات بیان کرنی چاہئیے.عام طور پر لوگ فیصلہ کر کے بیٹھتے ہیں کہ یہ بات منوانی ہے اور پھر اس کی پہنچ کرتے ہیں.مگر ہماری جماعت کو یہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ صحیح بات مانتی اور منوانی چاہیئے..یہ کہ جب مشورہ کے لئے بیٹھیں تو مقدم نیست یہ کر لیں کہ جس کام کے لئے مشورہ کرنے لگے ہیں اس میں کس کی رائے مفید ہو سکتی ہے نہ یہ کہ میری رائے مانی جائے.۴.یہ بات مدنظر رکھنی چاہیئے کہ آج بھی اور آئندہ بھی ہر وقت جب مشورہ لیا جائے کسی کی خاطر رائے نہیں دینی چاہئیے.بعد میں بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ میری تو یہ رائے نہ تھی مگر فلاں دوست نے کہا تھا اس لئے دی تھی.روپیہ غبن کرنا اتنا خطرناک نہیں جتنی یہ بات خطرناک ہے مگر یہ ایسی آسان سمجھی جاتی ہے کہ بڑے بڑے مرتبہ بھی اس کا ارتکاب کرتے ہیں.ہندوستان کی کونسل کا واقعہ ہے کہ ایک ممبر نے کہا میری یہ رائے نہ تھی مگر فلاں دوست نے چونکہ کہا تھا اس لئے میں نے اس کی خاطر رائے دے دی.تعجب ہے اس نے اس بات کے بیان کرنے میں بھی کوئی حرج نہ سمجھا مگر یہ سخت بد دیانتی ہے.ہماری جماعت کے لوگ اس سے بچیں اور کسی کی خاطر نہیں بلکہ جو رائے صحیح سمجھیں وہ دیں.یخسی اور حکمت کے ماتحت رائے نہیں دینی چاہیے بلکہ یہ مد نظر ہو کہ جو سوال درپیش ہے اس کے لئے کونسی بات مفید ہے اس کی تشریح میں مثال دیتا ہوں.مثلاً ایک سوال پیش ہے کہ فلاں

Page 187

TAY کام جاری کرنا تو مفید سمجھتے ہیں مگر یہ خیال کر کے کہ اگر جاری ہوگیا تو فلاں اس پر مقرر ہوگا اس کی مخالفت کرتے ہیں.یہ بد دیانتی سے بھی کرتے ہیں اور کبھی اس شخص کو مناسب نہیں سمجھتے.مگر سجائے اس کے کہ اس کے تقریر کا جب سوال آئے تو اس وقت بحث کریں.یا اس طرح کہیں کہ اس کو جاری نہیں کرنا چاہیے کیونکہ فلاں کے سوا اور کوئی نہیں جسے اس کام پر لگا یا جاوے اور وہ موزوں نہیں.یہ کھتے ہیں یہ کام ہی موزوں نہیں.چونکہ یہ بد دیانتی ہے اس لئے یہ نہیں ہونا چاہیئے.یا اس طرح کہ ایک مشن مقرر کرنا ہے جس کے لئے فلاں کو مقرر کرتا ہے.اس پر ان کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ جائے مگر بحث یہ شروع کر دیتے ہیں کہ مشن قائم کرنا ہی ٹھیک نہیں.ایسا نہیں ہونا چاہیئے.اصل معاملہ میں صحیح رائے دینی چاہئے.-4 جو سچی بات ہو اُسے تسلیم کرنے سے پر ہیز نہیں کرنا چاہیئے خواہ اُسے کوئی پیش کرے مثلاً ایک بات ایسا شخص پیش کرے جس سے کوئی اختلاف ہو مگر ہو سیتی.تو اگر کوئی اس کو اس لئے چھوڑتا ہے کہ پیش کرنے والے سے اس کی مخالفت ہے تو بد دیانتی کرتا ہے.چاہئیے کہ کوئی رائے قائم کرتے وقت جلد بازی سے کام نہ لے.کئی لوگ پہلے رائے قائم نہیں کرتے مگر فورآ بات سن کر رائے ظاہر کرنے لگ جاتے ہیں.چاہیے کہ لوگوں کی باتیں سنیں.ان کا موازنہ کریں.اور پھر رائے پیش کریں.اور نہ ایسا ہو کہ دوسروں کی رائے پر انکار کریں.ایک تو میں نے یہ کہا تھا کہ دوسرے کے لئے رائے نہ دی جائے، اور ایک یہ کہ دوسرے کے کہنے پر رائے قائم نہ کی جائے.مثلاً ایک کے فلاں کام میں خرابی ہے.دوسرا بغیر خرابی معلوم کئے کہے کہ ہاں خرابی ہے.اُسے خود اپنی جگہ تحقیقات کرنی چاہیئے.کبھی اس بات کا دل میں یقین نہ رکھو کہ ہماری رائے مضبوط

Page 188

JAY اور بے خطا ہے.بعض آدمی اس میں ٹھوکر کھاتے ہیں.کہتے ہیں کہ ہماری رائے غلط نہیں ہو سکتی اور پھر حق سے دُور ہو جاتے ہیں بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ بچے بھی عجیب بات بیان کر دیتے ہیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم بیویوں سے بھی مشورہ پوچھتے تھے.حدیبیہ کے وقت ہی جب لوگ غصہ میں تھے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا کیا جائے.انہوں نے کہا آپ جا کر قربانی کریں اور کسی سے بات نہ کریں آپ نے ایسا ہی کیا اور پھر سب لوگوں نے قربانیاں کر دیں.تو اپنی کسی برائے پر اصرار نہیں ہونا چاہیے.کیونکہ بڑوں بڑوں سے رائے میں غلطی ہو جاتی ہے.اور بعض اوقات معمولی آدمی کی رائے درست اور مفید ہوتی ہے.مجلس میں علم کی وسعت کے خیال سے بیٹھنا چاہئیے ہاں یہ بھی عیب ہے کہ انسان دوسرے کی ہر بات کو مانتا جائے.سچی اور علمی بات کو تسلیم کرو اور جہالت کی بات کو نہ مانو.ہمیشہ واقعات کو مد نظر رکھنا چاہیے.احساسات کی پیروی نہ کرنی چاہیے.کئی لوگ احساسات کو اُبھار دیتے ہیں اور پھر لوگ واقعات کو مد نظر نہیں رکھتے.میں نے بھی ایک دفعہ احساسات سے فائدہ اٹھایا ہے مگر ساتھ دلائل بھی پیش کئے تھے..احساسات کو تائیدی طور پر پیش کرنا اور ان سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے مگر محض ان کے پیچھے پڑنا یا ان کو اُبھار کر رائے بدلنا خیانت ہے.اگر کوئی یہ جانتا ہو کہ اس کے دلائل کمزور ہیں.اور پھر وہ جذبات کو اُبھارے تو وہ بددیانت ہے اور اگر کوئی یہ جانتا ہوا کہ دلائل غلط ہیں مگر احساسات کے پیچھے لگ کر رائے دے دے تو وہ بھی بددیانت ہے.۱۰- دو قسم کی باتیں ہوتی ہیں.ایک وہ جن میں دنیوی فائدہ زیادہ ہوتا ہے اور دینی کم.چونکہ ہم دینی جماعت ہیں اس لئے ہمیں اس

Page 189

۱۸۴ بات کے حق میں رائے دینی چاہیئے جس میں دینی فائدہ زیادہ ہو.۱۱.ہمیشہ یہ بات مد نظر رکھنی چاہیئے کہ ہماری تجاویز نہ صرف غلط نہ ہوں بلکہ یہ بھی تو نظر رہے کہ جن کے مقابلے میں ہم کھڑے ہیں اُن کی تجاویز سے بڑھ کر اور مؤثر ہوں اور ہمارا کام ایسا ہونا چاہیئے کہ دشمن کے کام سے مضبوط ہو.مثلاً اگر ایسی جگہ ایک مکان بناتے ہیں جہاں پانی کی رو نہیں آتی وہ اگر زیادہ مضبوط نہیں تو خیر لیکن جہاں زور کی کو آتی ہو، وہاں اگر مضبوط نہیں بنائیں گے تو غلطی ہوگی.پس ہماری مجلس شوری میں یہی نہیں ہونا چاہیے کہ اس میں غلطی نہ ہو بلکہ یہ بھی ہو کہ ایسی اعلیٰ اور زبر دست نتجاویز ہوں جو دشمن کا مقابلہ کر سکیں.پھر ایک تو یہ بات ہے کہ دشمنوں کے مقابلہ سے ہماری کوششیں اور تجاویز اعلیٰ ہوئی.دوسری یہ کہ ہماری تجاویز ہماری پچھلی تجاویز سے اعلیٰ ہوں.ان دونوں باتوں کو بھولنے سے قومیں منزل میں پڑ جاتی ہیں.ان میں سے اگر ایک کو چھوڑ دیں تو بھی تنزل شروع ہو جاتا ہے ۱۲.رائے دیتے وقت یہ بات دیکھ لینی چاہیے کہ جو بات پیش ہے وہ واقعہ میں مفید ہے یا مضر - مقابلہ میں آکر کسی معمولی سی بات پر بحث شروع ہو جاتی ہے حالانکہ اس کا اصل بات کے مضر یا مفید ہونے سے تعلق نہیں ہوتا.پس فروعی باتوں پر بحث نہ شروع کرنی چاہیے بلکہ واقعہ کو دیکھنا چاہئیے کہ مفید ہے یا مضر ۱۳ - سوائے کسی خاص بات کے یونہی دہرانے کے لئے کھڑا نہ ہو.ضروری نہیں کہ ہر شخص بولے.ہاں اگر نئی تجویز ہو تو پیش کرکے -۱۴ چاہئیے کہ ہر ایک اپنا وقت بھی بچائے اور دوسروں کا وقت بھی ضائع نہ کرے.مشورے اور اس کے اثر کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :-

Page 190

اے یہ نہیں کہ دوٹ لئے جائیں اور ان پر فیصلہ کیا جائے بلکہ جیسا اسلامی طریق ہے کہ مختلف خیالات معلوم کئے جائیں اور مختلف تجاویز کے پہلو معلوم ہوں تاکہ ان پر جو مفید باتیں معلوم ہوں وہ اختیار کرلیں.اس زمانہ کے لحاظ سے یہ خیال پیدا ہونا کہ کیوں رائے نہ لیں اور ان فیصلہ ہو.مگر ہمارے لئے دین نے یہی رکھا ہے کہ ایسا ہونا ذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ مشورہ لو مگر جب ارادہ کر لو تو پھر اس بات کو کر لو.یہ نہ ہو کہ لوگ کیا کہیں گے.اور اسلام میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے.جب ایران پر حملہ کیا گیا تھا تو دشمن نے ایک پل کو توڑ دیا اور بہت سے مسلمان مارے گئے تھے.سعد بن ابی مقاص نے لکھا کہ مسلمان تباہ ہو جائیں گے.اگر جلد فوج نہ آئے گی تو عرب میں دشمن گھس آئیں گے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رائے طلب کی تو سب نے کہا خلیفہ کو خود جانا چاہیئے.حضرت علی رضی اللہ عنہ خاموش رہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اُن کی خاموشی پر خیال آیا اور پوچھا آپ کیوں چُپ ہیں ؟ کیا آپ اس رائے کے خلاف ہیں انہوں نے کہا کہ ہاں میں خلاف ہوں.پوچھا کیوں تو کہا اس لئے کہ خلیفہ کو جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیئے اس کا کام یہ ہے کہ لڑنے والوں کو مدد دے.جو قوم ساری طاقت خرچ کر دے اور جسے مدد دینے کے لئے کوئی نہ رہے تو وہ تباہ ہو جاتی ہے.اگر آپ کے جاننے پر شکست ہو گئی تو پھر مسلمان کہیں نہ ٹھر سکیں گے.اور عرب پر دشمنوں کا قبضہ ہو جائے گا.اس پر حضرت عمر رضی اللہ خنہ نہ گئے اور انہی کی بات مانی گئی.تو مشورہ کی غرض دوسٹ لینے نہیں بلکہ مفید تجاویز معلوم کرنا ہے.پھر چاہے تھوڑے لوگوں کی اور چاہے ایک ہی کی بات مانی جائے.پیس صحابہ کا یہ طریق تھا اور یہی قرآن سے معلوم ہوتا ہے اور عارف کے لئے یہ کافی ہے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ مشت ۱۳

Page 191

JAY لیمنٹ کی نسبت شوری کے طریق کی فضیلت واضح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : پارلیمینٹ میں یہی ہوتا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ رائے نہ ملی تو گورمنٹ ٹوٹ جائے گی.اس لئے سارے رائے دے دیتے ہیں تو عام طبائع ایسی نہیں ہوتیں کہ صحیح رائے قائم کر سکیں.اس لئے اکثر لوگ دوسروں کے پیچھے چلتے ہیں اگر کہیں کہ وہ اہل الرائے ہوتے ہیں تو بھی یہی ہوتا ہے کہ بڑے کی رائے کے نیچے ان کی رائے دب جاتی ہے اس لئے یہی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے دونوں کا مقابلہ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں.ہر وقت مقابلہ رہتا ہے.مگر شوری میں یہ بات نہیں ہوتی کیونکہ اس میں پارٹی کا خیال نہیں ہوتا.....پیس چونکہ پارٹی ہوتی نہیں اور خلیفہ سب سے تعلق رکھتا ہے.اس لئے اس کا تعلق سب سے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے باپ بیٹے کا بھائی بھائی تو لڑ پڑتے ہیں مگر باپ سے لڑائی نہیں ہو سکتی.چونکہ خلیفہ کا سب سے محبت کا تعلق ہوتا ہے.اس لئے اگر ان میں لڑائی بھی ہو جائے تو وہ دور کر دیتا ہے اور بات بڑھنے نہیں پاتی کاہے شوری کے فوائد گنواتے ہوئے فرمایا :- اب میں شوری کے فوائد بیان کرتا ہوں.- کئی نئی تجاویز سوجھ جاتی ہیں.۲.مقابلہ کا خیال نہیں ہوتا اس لئے لوگ صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش " کرتے ہیں..یہ بھی فائدہ ہے کہ باتوں باتوں میں کئی باتیں اور طریق معلوم ہوتے ہیں..یہ بھی فائدہ ہے کہ باہر کے لوگوں کو کام کرنیکی مشکلات معلوم ہوتی ہیں.في.یہ بھی فائدہ ہے کہ خلیفہ کے کام میں سہولت ہو جاتی ہے.وہ بھی انسان ہوتا ہے اس کو بھی دھوکا دیا جا سکتا ہے.اس طرح معلوم ہو جاتا ے رپورٹ مجلس مشاورت ۹۲۲له صدا

Page 192

ہے.کہ لوگوں کا رجحان کدھر ہے.یوں تو بہت نگرانی کرنی پڑتی ہے کہ غلط راستہ پر نہ پڑ جائیں.مگر جب شوری ہو تو جب تک اعلیٰ درجہ کے دلائل عام رائے کے خلاف نہ ہوں.لوگ ڈرتے ہیں کہ اس پر عمل کریں اور اس طرح خلیفہ کی نگرانی میں سہولت ہو جاتی ہے.مجلس شوری کا طریق کار ا خلیفہ عام ہدایات پیش کرے گا کہ کن باتوں پر مشورہ لینا ہے اور کین - باتوں کا خیال رکھنا ہے.۲- اس کے بعد ہر محکمہ کے لئے سب کمیٹیاں مقرر ہو جائیں گی.کیونکہ فورا رائے نہیں دینی چاہیئے.بلکہ تجربہ کار بیٹھ کر سکیم تجویز کریں اور پھر اس پر بحث ہو.پہلے کمیٹی ضرور ہونی چاہیے جیسے معاملات ہوں اُن کے مطابق وہ غور کریں میسکیم بنائیں پھر اس پر غور کی جائے.کمیٹی پوری تفاصیل پر بحث کرے اور پھر رپورٹ کرے.وہ تجاویز مجلس عام میں پیش کی جائیں اور ان پر گفتگو ہو.۳.جب تجاویز پیش ہوں تو موقع دیا جائے کہ لوگ اپنے خیالات پیش کریں کہ اس میں یہ زیادتی کرنی چاہیے یا یہ کمی کرنی چاہیئے.یا اس کو یوں ہونا چاہیئے.تینوں میں سے جو کہنا چاہے کھڑے ہو کر پیش کر دے.ان تینوں باتوں کے متعلق جس قدر تجاویز ہوں ایک شخص یا بہت سے لکھتے جائیں پھر ایک طریق یا ایک طرز کی باتوں کو لیکر پیش کیا جائے کہ فلاں یہ کمی چاہتا ہے اور فلاں یہ زیادتی.اس پر بحث ہو مگر ذاتیات کا ذکر نہ آئے.اس بحث کو بھی لکھتے جائیں.جب بحث ختم ہو جائے تو وہ اس وقت یا بعد حلفیہ بیان کردے ، کہ یہ بات یونی ہو یا لے مجلس شوری کے طریق آغاز کے متعلق ہدایت دیتے ہوئے آپ نے فرمایا.ہماری مجلس کی ابتداء میں ہمیشہ دُعا ہوتی ہے.آئندہ میں اس نے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ ص۱۷۱

Page 193

I^^ کے لیے ایک طریق مقرر کر دیتا ہوں.ایک دعا افتتاح کے موقعہ پر تینوں دنوں میں ہوا کرے گی اور ایک دعا آخر میں شوری کے اختتام پر.گویا شوری کے تینوں دنوں میں چار دفعہ دعا ہو گی ایک پہلے دن پھر دوسرے پھر تیسرے دن ابتداء میں اور کے شوری کے اختتام پر.پس میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے ہم کو صحیح طور پر غور کرنے اور صحیح نتائج پر پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمارا کام وسیع لیکن ذرائع محدد ذمہ داریاں نہایت اہم لیکن ہمارے مزاج نہایت سبک ہم اپنی تعلیم کی کمی یا تربیت کے نقص کی وجہ سے اہم چیزوں کو موقعہ پر اہم سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں اور بعض چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اتنی اہمیت دے دیتے ہیں.کہ ہمارا وقت سجائے صحیح طور پر خرچ ہونے کے ضائع ہو جاتا ہے.اور ہماری طاقت منتشر ہو جاتی ہے.پس ہم اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ ہم کو عقل اور ہمت بخشے تا کہ ہم ان تھوڑے تھوڑے سے سامانوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر طور پر استعمال کر سکیں ہماری تدبیر اور سعی کے نتیجہ میں ہمارے سامان آنے والے کل میں آج سے زیادہ ہوں.جو ذمہ داریاں ہمارے سپرد کی گئی ہیں.ہم ان کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں.ہماری باتیں باتیں ہی نہ ہوا کریں.بلکہ وہ عمل کا پیش خیمہ ہوں اور ہماری فکر کتو ہی نہ ہو بلکہ وہ ایک سنجیدہ اور اٹل حقیقت ہو جس کے بعد دنیا کا کوئی عزم اس کے آگے ٹھہر نہ سکے اور کوئی طاقت اس کو دیا نہ سکے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.اَصْحَانی کا لنجوم بِاتِهِمُ افتديهم اهتديتم کہ میرے سب صحابہ ستاروں کی مانند ہیں.انہیں لوگوں نے بڑے بڑے دُکھ دیئے.بڑے بڑے مصائب ان پر وارد گئے مگر وہ صبر و استقلال سے کام لیتے چلے گئے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے مدرسہ میں سبق پڑھتے پڑھتے انہوں نے نیکی اور تقوی کے امتحان میں

Page 194

Inq کامیابی حاصل کر لی.اب تمہارا یہ فرض ہے کہ تم ان کی اتباع کرو.اور سجائے اس کے کہ اپنے لئے نیا راستہ اختیار کرو اپنی تربیت کے لئے نئے مدر سے کھولو اور اپنے آپ کو نئے تجربات کی بھٹی میں سے گزارو تم ان کو دیکھو اور جو کچھ انہوں نے کیا ہو وہی خود بھی کرنے لگ جاؤ ہائے سب کمیٹیوں کی تشکیل متعلق ہدایات اس موضوع پر کہ سب کمیٹیوں کی تشکیل کیسے کی جائے ہدایات دیتے ہوئے آپ نے عام بھی طریق کا بھی معین فرمایا اور باریک در باریک مصالح کو بھی پیش نظر رکھا اور ان غلطیوں کی نشاندھی بھی کی جو ایسے مواقع پر ارادی یا غیر ارادی طور پر سرزد ہو جاتی ہیں.اس ضمن میں حسب ذیل دو اقتباسات پیش خدمت ہیں :- "سب کمیٹیوں کے لئے ایسے آدمی کا نام پیش کرنا چاہیے جو اس کا اہل ہو.یہ ضروری ہے جس فن کے متعلق کسی کا نام پیشیں کریں وہ اسے سمجھتا ہو.اگر مالی معاملہ ہو تو اُسی دوست کا نام تجویز کیا جائے جو وسعیت معلومات بھی رکھتا ہو اور اپنے علاقہ کے حالات اور چندہ کی وصولی وغیرہ کا اُسے تجربہ ہو یا چندوں کے حصول میں جو دقتیں پیش آتی ہیں ان کو وہ جانتا ہے یا وہ ذرائع جو جماعت کی ترقی کے لئے اختیار کرنے ضروری ہیں اُن سے آگاہ ہو.پھر یہ بھی تو نظر رہے کہ ایسے نمائندے جو پاکستان کے مختلف صوبوں سے تعلق کھتے ہیں کمیٹیوں میں ضرور آنے چاہئیں.گویا نبنگال - کراچی سندھ بلو پستان کشمیر - سرحد - بهاولپور پنجاب آٹھ صوبے ہیں.آٹھے صوبوں کی نمائندگی ہونی چاہیئے.پنجاب کی جماعتیں چونکہ زیادہ ہیں اس لئے لانگا ان کی نمائندگی بھی زیادہ ہو گی.مگر ایسے آدمی آنے چاہئیں جو ہمیں زیادہ سے زیادہ مدد دے سکیں لیے ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ص ۲۵ نیز دیکھیں رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء صلا رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء ص - - -

Page 195

19" مسلہ میں ایک اور موقع پر نمائندگان کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا :- سب کمیٹیوں کے لئے ممبران کا انتخاب کرتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیئے.مجھے شکایت پہنچی ہے کہ اس بارہ میں دوست اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس نہیں کرتے بلکہ خود میرے کانوں نے ایک دفعہ سنا کہ ایک شخص دوسرے سے کہ رہا تھا کہ فلاں سب کمیٹی کیلئے میرا نام پیش کر دو.کسی سب کمیٹی کے لئے خود اپنا نام پیش کر دیا بشرطیکہ جس امر پر غور کرنے کے لئے سب کمیٹی بنائی گئی ہو اس میں کوئی مہارت رکھتا ہو کوئی حرج کی بات نہیں مگر دوسرے سے اپنا نام پیش کرانا اور کہنا کہ تم میرا نام پیش کرو ایک معیوب امر ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عہدہ کے لئے اپنا نام پیش از کروہ تاہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں چونکہ وہی لوگ شامل ہوتے تھے جو رات دن آپ کے قرب و جوار میں رہتے تھے اس لئے آپ جانتے تھے کہ کون مشورہ دینے کا اہل ہے اور کون نہیں مگر ہماری مجلس شوری مختلف جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے اور میں ہر ایک کے متعلق نہیں جانتا کہ وہ کسی امر کے متعلق مشورہ دینے کا اہل ہے یا نہیں.اگر قادیان کے لوگوں تک ہی یہ مجلس شوری محدود ہو تو میں خود ہی سب کمیٹیوں کے لئے ممبروں کا انتخاب کرلوں لیکن چونکہ ہماری اس مجلس میں بیرونی جماعتوں کے دوست بھی کثرت سے شریک ہوتے ہیں.اور مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں سے کون قانون کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتا ہے.کون اخلاق کے متعلق کون تعلیم کے متعلق کون آڈٹ کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتا ہے اس لئے اگر کوئی دوست اپنا نام پیش کر دیں یا کوئی دوست اپنی ذاتی واقفیت کی بناء پر کسی اور دوست کا نام پیش کر دیں تو یہ گوئی معیوب بات نہیں لیکن دوسرے کو کہنا کہ تم میرا نام پیش کرو سخت معیوب بات ہے کا مسلہ ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۹۳۷ به هشت

Page 196

۱۹۱ وقتاً فوقتاً آپ سب کمیٹیوں کی بھی رہنمائی فرمایا کرتے تھے جو نہایت قیمتی نصائح پر مشتمل ہوتی.ا جو سب کمیٹی بجٹ پر غور کرے وہ آمد بڑھانے کے ذرائع پر پوری طرح غور کرے.اب جنگ کے ختم ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں.اور جنگ کے خاتمہ پر آمد پر بہت اثر پڑے گا.اس سے پہلی جنگ کے متعلق ہمارا جو تجربہ ہے وہ یہ ہے کہ جنگ کے ختم ہونے کے معا بعد آمدنی کم ہوگئی اور یہ کمی برا ہر دس سال تک جاری رہی.پس اس وقت غور کرنا چاہیئے کہ زیادہ سے زیادہ آمدنی کس طرح بڑھائی جاسکتی ہے.اس طرح زیادہ سے زیادہ ریزرو فنڈ قائم کر لینا چاہیئے.اس کے ساتھ ہی یہ بھی غور کرنا چاہیئے کہ جس قدر شرح گھٹایا جاسکے گھٹا دیا جائے یا ہے O ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء مره

Page 197

۱۹۲ نظام مجلس شوری کی امتیازی خصوصیا اور بید کی ترقی مجلس مشاورت کا نظام ایک دلچسپ اور اہم مطالعہ کا مواد پیش کرتا ہے.سولہ سے لیکر ۱۹۶۵ ء تک یہ ادارہ براہِ راست حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی زیر تربیت اور زیر نگرانی نشو و نما پاتا رہا.اس میں جو بھی نئی نئی شاخیں نکلیں اور جو خد و خال ظاہر ہوئے وہ دو امور کی بالخصوص عکاسی کرتے ہیں.اول - حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ذہن میں اسلام کے مشاورتی نظام کا تصور کیا تھا.دوم.اس تصور کے نفاذ میں اور عملی صورت میں اُسے با حسن جاری کرنے میں آپ نے کیا اہم کردار ادا کیا.جماعت احمدیہ میں رائج مجلس شوری کے نظام کا مطالعہ فی ذاتہ بھی اس زمانہ میں خاص لچسپی کا حامل ہے کیونکہ مذاہب اور نظریات کے موازنہ میں پچسپی رکھنے والے اہل فکر و نظر کے لئے یہ تحقیق کا ٹھوس مواد اور اسلامی نظام شوری کا دیگر مذہبی اور غیر مذہبی مشاورتی اداروں سے مقابلہ اور موازنہ کا بہترین موقعہ فراہم کرتا ہے.ضمنا یہ ذکر بے جانہ ہوگا کہ اس زمانہ میں بعد ازاں جماعت اسلامی کے سربراہ جناب مولوی مودودی صاحب نے بھی جماعت اسلامی میں ایک مجلس شوری قائم کی.قطع نظر اس سوال کے کہاں تک انہوں نے نظام جماعت احمدیہ سے استفادہ کیا یا برعکس شکل اختیار کی.اُن کے تصویر اسلام اور جماعت احمدیہ کے تصویر اسلام کی عملی تشکیل کی ان دو صورتوں کے مابین مقابلہ و موازنہ کا مضمون آئندہ محققین کے لئے ایک دلچسپ مطالعہ کا سامان فراہم کرے گا.اور دن بدن به حقیقت زیادہ عیاں اور روشن تر ہوتی چلی جائے گی کہ دونوں نظاموں میں سے کونسا نظام در حقیقت الہی نظام کہلانے کا مستحق ہے اور خدا تعالے کی براہ راست آسمانی ہدایت اور رہنمائی کے تحت جاری ہوا ہے.اب ہم ذیل میں اس مشاور کی ادارے کے خدو خال کو اجمالی صورت میں پیش کرتے ہیں جماعت احمدیہ میں مجلس مشاورت کا نظام نظام خلافت سے وابستہ اور اسی پر منحصر ہے اور

Page 198

١٩٣ جماعت احمدیہ کے نزدیک خلیفہ اسیح شَاوِرْهُمْ فِی الامر کے مخاطب کی حیثیت سے جب چاہیے اور جس رنگ میں چاہے مشورہ کے لئے صائب الرائے احباب کو دعوت دے سکتا ہے.ہر ایسے مشورہ کی ابتداء دعاؤں اور ذکر الہی کے ساتھ ہوتی ہے تاکہ فیصلہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا خوف اور تقویٰیٰ مدنظر رہے اور اس کی نصرت اور رہنمائی شامل حال رہے.وہ شخص جسے کوئی مشورہ پیش کرتا ہو اُسے پوری آزادی ہے کہ باجازت صدر مجلس بے تکلفانہ رائے کا اظہار کرے.لیکن ضروری ہے کہ اس مشورہ میں اصل مخاطب حاضرین مجلس نہ ہوں بلکہ خلیفہ ایسے ہوں بعد مشورہ خلیفہ ایسیح کو پورا اختیار ہے کہ خواہ کثرت رائے کے مشورہ کو قبول کریں یا رد کر دیں.یہ جماعت کی مجلس مشاورت کے نظام کا اصولی خلاصہ ہے.اب ہم اس کے ارتقائی ادوار کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کرتے ہیں اور خصوصاً ایسے پہلوؤں کو ہم ملحوظ رکھیں گے جو کسی نہ کسی نقطہ نظر سے حضرت خلیفہ ایسے کی قلبی ذہنی اور عمانی صلاحیتوں پر روشنی ڈالنے والے ہوں.ابتداء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے نمائندوں کے انتخاب کا یہ طریق اختیار فرمایا کہ جن صائب الرائے دوستوں کو آپ ذاتی طور پر جانتے تھے.اور ان کی ضرورت محسوس فرماتے تھے ان کو براہ راست دعوت دے کر مجلس مشاورت میں شمولیت کے لئے بلایا جاتا تھا.لیکن اکثر ممبران مجلس مشاورت ایسے نمائندگان پرمشتمل ہوتے تھے جنہیں جماعت احمدیہ کی مختلف شاخیں یعنی مقامی جماعتیں اپنے میں سے صائب الرائے سمجھ کر یا کسی ایسے فن کا ماہر دیکھ کر جیس پر بحث مطلوب ہو منتخب کر لیتی تھیں.لیکن تعداد نمائندگی پر کوئی پابندی نہ تھی.جب جماعت کی تعداد بڑھ گئی اور مجلس مشاورت کے متعلق پچیس پی میں بھی نمایاں اضافہ ہو گیا.تو ضروری سمجھا گیا کہ تعداد نمائندگان کی حد بندی کی جائے اس ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : اس سال نمائندگان کے انتخاب کو بعض خاص شرائط عائدہ کر کے محدود کر دیا گیا ہے.بعض جماعتوں کو اس طرح اب کھلی آزادی حاصل نہیں رہی کہ وہ اپنی جماعتوں میں سے جتنے نمائندے چاہیں بھیجوا دیں.بلکہ حد بندی کر دی گئی ہے اور جوں جوں ہماری جماعت ترقی کرے گی اس کے ساتھ ساتھ یہ پابندیاں شاید اور بھی بڑھانی پڑیں گی بلکہ

Page 199

۱۹۴ شاید کیا یقینا ایسا وقت آئے گا جب سجائے جماعتوں کے مختلف اضلاع بلکہ صوبوں سے نمائندے منتخب کرنے پڑیں گے.کیونکہ کوئی مجلس شوری ایسی وسیع نہیں ہو سکتی کہ ہزاروں لاکھوں آدمی اس میں بلائے جاگیں جب خدا ہماری جماعت کو ساری دنیا میں پھیلا دے گا تو اس وقت ضلعوں اور صوبوں بلکہ مختلف ملکوں کے نمائندے ہی لئے جائیں گے ہر جماعت سے نمائندہ نہیں لیا جا سکے گا.پس اس پابندی پر جماعتوں کو بُرا نہیں منانا چاہیئے یہ ایک مجبوری ہے اور یہ مجبوری اب بڑھتی ہی جائے گی.لیکن بہر حال جب تک چھوٹی جماعتوں کو اپنے نمائندے بھیجنے کا حق حاصل ہے انہیں چاہیئے کہ وہ اپنے حق سے فائدہ اٹھائیں کے موقع پر بہترین نمائندے منتخب کر کے بھیجا کریں اللہ نمائندگی کا یہ طریق اب تک جاری ہے البتہ نمائندگان کی تعداد میں مختلف حالات کے اور میں پیش نظر ترمیم ہوتی رہتی ہے.منتخب نمائندوں کے علاوہ تمام جماعتوں کے امراء بحیثیت اپنے عہدے کے اس مجلس کے ممبر ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کو بھی بحیثیت صحابی نمائندگی کا حق دیا جاتا ہے.علاوہ ازیں مرکز کی تنظیمات کو بھی مجلس مشاورت میں بحیثیت عہدیدار مختلف شعبوں کی نمائندگی کا حق دیا جاتا ہے اور یہ طریق بھی مسلسل جاری ہے.کہ خلیفہ وقہ بینتخب نمائندگان کے علاوہ ایسے اہل علم وفن دوستوں اور بزرگوں کو براہ راست دعوت بھیجتے ہیں جن کی شمولیت خلیفہ ایسج کے نزدیک کسی پہلو سے مفید ہو سکتی ہے.عورتوں کی نمائندگی ابتداء میں مستورات کی آراء معلوم کرنے کا کوئی علیحدہ انتظام نہ تھا لیکن بنت شہداء میں حضرت خلیفہ ربیع الثانی رضی اللہ عنہ نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حسب ذیل طریق پر اہم مسائل پر عورتوں کی آراء معلوم کرنے کا طریق معین فرمایا :- ر عورتوں کے حق نمائندگی کے متعلق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جہاں سے رپورٹ مجلس مشاورت نه ما نیز دیکھیں یہ پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ مده

Page 200

140 جہاں لجنہ اماءاللہ قائم ہیں وہ اپنی لجنہ رجسٹرڈ کرائیں بیسی میرس، دفتر سے اپنی بجند کی منظوری حاصل کر نہیں.ان کو جنہیں میری اجازت سے منظور کیا جائے گا مجلس مشاورت کا ایجنڈا بھیج دیا جائے وہ رائے مکہ پرائیویٹ سیکرٹری کے پاس بھیج دیں.میں جب ان امور پر فیصلہ کرنے لگوں گا تو ان آراء کو بھی مد نظر رکھ لیا کروں گا.اس طرح عورتوں اور مردوں کے جمع ہونے کا جھگڑا بھی پیدا نہ ہوگا اور مجھے بھی پتہ لگ جائے گا کہ عورت میں مشورہ دینے میں کہاں تک مفید ثابت ہو سکتی ہیں.اُن کی رائیں فیصلہ کرتے وقت مجلس میں سُنادی جائیگی است ۹۴ارہ تک اسی طریق پر عمل ہوتا رہا.لیکن جب آپ نے اس طریق میں کئی نقص محسوس کئے تو اللہ کی مجلس شوری میں اس میں تبدیلی کرتے ہوئے حسب ذیل فیصلہ فرمایا :.ایک ضروری بات میں لجنہ کی نمائندگی کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں ہر سال مجنہ سے رائے لی جاتی ہے اور ہر سال اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور کبھی اُسے مجلس شوری میں پیش نہیں کیا جاتا.میری تجویز یہ ہے کہ آئندہ مجلس شوری میں ایک لجنہ اماءاللہ کا نمائندہ بھی ہوا کرے.اور بیرونی جماعتوں کی لجنات سے جو تجاویز پرائیویٹ سیکرٹری کو موصول ہوں وہ سب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری نجنہ کے اس نمائندے کو پہنچا دیا کرے.اس نمائند ے کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ہر موقع پر جنات کی رائے بھی پیش کرتا چلا جائے اور بتائے کہ فلاں لجنہ کی اس کے متعلق یہ رائے ہے اور فلاں کی یہ رائے.اس طرح نہ صرف ان کی آراء کا پتہ لگ جائے گا بلکہ ممکن ہے کہ بعض دفعہ کوئی لطیف اور مفید بات بھی معلوم ہو جائے.اور اگر اس طریق کا کوئی اور فائدہ نہ بھی ہوا تو بھی کم سے کم اس طرح یہ پتہ لگتا رہے گا کہ ہماری جماعت کی مستورات کی دینی ترقی کا کیا حال ہے جب ان کی آراء پڑھی جائیں گی تو اس وقت معلوم ہوگا کہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ئه ص۱۲۷

Page 201

194 بعض دفعہ تو ان کی رائے نہایت ہی مضحکہ خیز ہو گی جس سے ہم یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ فلاں فلاں معاملہ میں عورتوں کو حالات کا بالکل علم نہیں اور بعض دفعہ ان کی رائے بہت اعلیٰ ہوگی جس سے ہم بیاندازہ لگا سکیں گے کہ فلاں فلاں معاملہ میں عورتوں کا علم زیادہ پختہ ہے.تو ان کی آراء پڑھے جانے پر ہماری جماعت کے دوست ساتھ ساتھ یہ موازنہ بھی کرتے چلے جائیں گے کہ ہماری عورتوں کی دماغی اور ذہنی ترقی کس طرح ہو رہی ہے اور بعض دفعہ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ یہ دیکھ کر کہ عور توں کی فلاں معاملہ میں جو ان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے یہ رائے ہے وہ ان کا احترام کرتے ہوئے اپنی رائے بدل لیں اور ان کے حق میں فیصلہ کر دیں کاشف حاضری کا معیار جماعت احمدیہ کی مجلس شوری کے ممبران سے جو توقعات وابستہ ہیں ان کا معیار اتنا بلند ہے کہ دنیا کے کسی بھی ہم شکل ادارہ میں انفرادی طور پر ممبران کے اخلاق و آداب اور نظم و ضبط کے بارہ میں ایسی بلند توقعات تو درکنارہ اس کا عشر عشیر بھی پیش نظر نہیں رکھا جا سکتا.مجلس مشاورت کے کورم کو ہی لیجئے.توقع یہ کی جاتی ہے کہ سو فیصد نمائندگان حاضر ہوں اور مسلسل حاضر رہیں اور وقت کی پابندی اتنی ہو کہ خلیفہ وقت یا ان کے نمائندہ کے آنے سے قبل تمام نمائندگان اپنی اپنی نشستوں پر موجود ہوں.نیکم و ضبط کی عادت اور حاضری کا یہ بلند معیار بھی بلاشبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی عظیم الشان تربیت کا مرہونِ منت ہے.نا ہے.آپ نے ابتداء ہی سے ایسے خطوط پر مجلس مشاورت کو چلایا کہ نظم و ضبط اور حاضری کا اعلیٰ معیار گویا اس مجلس کی فطرت ثانیہ بن گیا.حاضری کی ایسی تعداد جو دنیا کی کسی دوسری مجلس میں قابل فخر بھی جاسکتی ہے آپ کے نزدیک قابل افسوس شمار ہوتی تھی ایک موقع پر حاضری کی کمی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :..نکل ۴۳۲ نمائندہ سے مجلس میں شامل ہیں اور اس وقت صرف ۱۱م دوست 114-116 ماہ رپورٹ مجلس مشاورت له ما - ۱۱۸

Page 202

196 موجود ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنے ممبران کے نام ٹکٹ جاری کئے گئے تھے وہ سارے کے سارے اجلاس میں موجود نہیں.اور یہ افسوسناک امر ہے.میرے نزدیک جو ممبران شورای اس وقت اجلاس میں حاضر نہیں ان کا پتہ لگایا جائے کہ وہ کون کون ہیں اور اُنہیں آئندہ کے لئے شوری کی ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا جائے.وہ گھر سے شوری میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں لیکن اجلاس میں وہ حاضر نہیں ہوئے.میں بیماری کے با وجو د شورای میں شامل ہونے کیلئے نتومیل رحضور ان دنوں محلہ میں قیام فرما تھے ، سے چل کر یہاں آیا ہوں اور یہ لوگ ربوہ میں موجود ہونے کے باوجود یہاں حاضر 2 نہیں ہوئے کیا ہے مجلس شوری کے ایجنڈے کی ترتیب اور رو شدہ تجاویز مجلس مشاورت میں جو اینڈ ا پیش ہوتا ہے اس کی ترتیب کے متعلق حضور نے جو طریق کا مقرر فرمایا وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں یا افراد اپنی تجاویز جو وہ مناسب سمجھیں حسب قواعد دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ارسال کر دیتے ہیں یہ تجاویز پرائیویٹ سیکرٹری صاحب صدر آئین احمدیہ میں بھجوا دیتے ہیں.صدر انجمن احمد یہ ان تجاویز پر غور کر کے اپنی رائے کے ساتھ انہیں سید نا حضرت خلیفہ ایسیج کی خدمت میں پیش کرتی ہے کہ اس کے نزدیک کونسی تجاویزہ اس سال کی مجلس شوری میں پیش کرنے کے لائق ہیں اور کون سی قابل رو ہیں.یہ لہر شدہ تجاویز شوی کے اجلاس میں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تا کہ نمائندگان کو معلوم ہو کہ اس سال کس نوعیت کی تجاویز جماعتوں نے ارسال کی تھیں اور کون سی تجاویز کو صدر انجین احمدیہ نے شوری میں پیش کرنے کی رائے نہیں دی سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس طریق کار کے سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کو یہ ہدایت فرمائی کہ جن متجاویز کو صدر انجین احمدیہ نے کہ وہ کر دیا ہے مناسب یہ تھا، کہ صدر امین احمدیہ ان کو رد کرنے کی وجوہ بھی ساتھ ہی بیان کر دیتی ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۱۹۵۰ ۳۲۰

Page 203

تاکہ دلوں پر یہ اثر نہ ہوتا کہ صدر انجمن احمدیہ نے بعض نہایت ہی مفید تجاویز کو بغیر غور و فکر کرنے کے یونسی رو کر دیا ہے اور اگر ان کے جواب کے بعد بھی کسی قسم کی کمزوری رہ جاتی تو جماعت کو غور کرنے کا موقعہ مل جاتا.اور صدر انجمن کو صحیح مشورہ حاصل ہو جاتا......وجودہ بیان کئے بغیر نہیں کہا جاسکتا کہ کس بناء پر انہوں نے تجاویز کو رو کیا ہے......تجاویز کو رد کر دینا ہی کافی نہیں بلکہ ان کے رقہ لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ان کو رد کرنے کی وجوہ بھی بیان کریں اور در حقیقت اگر وہ غور کریں تو اُن کا اپنا فائدہ بھی اسی میں ہے اگر وہ محض تجاویز سُنا دیں اور ان کو رد کرنے کی وجوہ بیان نہ کریں تو لوگ کہیں گے کہ انتین والے کیسے کم عقل ہیں جن باتوں میں اپنی عزت اور نیک نامی ہے ان کو بھی وہ رو کر رہے ہیں.پس انجمن کے ناظر اگر دنیا کی نگاہ میں کم عقل بننا نہیں چاہتے تو وہ تجاویز کو رو کرنے کے ساتھ ہی دلیل بھی دیا کریں تا لوگ سمجھ سکیں کہ محض قلیت تدبر سے نہیں بلکہ کسی معقولیت کی بناء پر اُن کو رد کیا گیا ہے ویسے فیصلوں کی منظوری کا طریق حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ آخری فیصلے پر پہنچنے سے قبل حاضرین مجلس کو ظہار رائے کی نہ صرف آزادی دیتے تھے بلکہ بعض اوقات ایسے دوستوں کو جو خاموش طبع ہوں اور پبلک میں خطاب سے جھجکتے ہوں لیکن صائب الرائے اور وقیع ہوں خود بلوا کر ا ظہار یہ ہائے کی ترغیب دیتے پھر اس بات کو بھی ملحوظ رکھتے تھے کہ کوئی اہم مشورہ میں شمولیت سے محروم نہ رہ جائے.بعض اوقات دیہاتی نمائندوں کو خاص طور پہ بلو ا کر اُن کی آراد لیتے.بعض اوقات شہری یا قصباتی نمائندوں کو کبھی تجانہ کو بلوایا جاتا.کبھی اہل حرفت دوستوں کو، کبھی وکلاء کبھی ڈاکٹروں کبھی اساتذہ کو نام لے لے کر رائے دینے کی ترغیب دی جاتی.پابندی اگر تھی تو صرف اتنی کہ اخلاق کی حدود سے کوئی تجاوز نہ کرے اور ذاتیات میں نہ انھے.ے رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۲۵ ۱۵-۱۸

Page 204

199 اسی طرح وقت کی قیمت کا احساس پیدا کرنے کے لئے بھی تربیت دی جاتی کہ جو بکتر ایک مرتبہ بیان ہو چکا ہے بعد میں آنے والا مقرر اُسے دُہرا کر وقت ضائع نہ کر ہے.اگر کسی شخص کو رائے دیتے وقت کسی پہلو سے غیر محتاط پاتے یا اس میں انانیت کی بو دیکھتے یا شخصی دوستی کی بناء پر رہے دینے کا رحجان محسوس فرماتے تو کبھی نرمی اور کبھی سختی کو کام میں لا کر نمائندگان کے دل میں باریا اس تعلیم کو مزید گہرائی کے ساتھ اتارتے چلے جاتے کہ مشورہ محض اللہ ہونا چاہیئے اور کسی نفسانی محرک کو مشورہ میں راہ پانے کی مجال نہیں ہونی چاہیئے.اس ماحول میں مشورہ کے بعد جب رائے شماری کی جاتی تو اکثر اوقات ممبران مسئلہ کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ ہو کہ بھاری اکثریت کے ساتھ ایک رائے پر متفق ہو جاتے.ہاں کبھی کبھی تقسیم ایسی بھی ہوتی جو تقریبا برا بر ہوتی.ہردو صورت میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ الا ماشاء اللہ اکثریت کی رائے کو بالعموم منظور فرمایا کرتے اور یہی طریق آج تک رائج ہے.وہ لوگ جو جماعت احمدیہ کے اس روحانی نظام کو دنیا وی پیمانوں سے جانچتے ہیں اور اس امر پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر خلیفہ قیمت کو آراء کو رد کرنے کا آخری اختیار حاصل ہے تو ایسے مشورہ کا فائدہ ہی کیا اور اس طریق مشورہ کو محض ایک پر وہ سمجھتے ہیں جو گویا آمریت کو چھپائے ہوئے ہے.ان کے لئے مجلس مشاورت جماعت احمدیہ کی کارروائیوں کا مطالعہ یقینا آنکھیں کھولنے کا باعث بن سکتا ہے.وہ حیرت سے اس حقیقت کا مشاہدہ کریں گے کہ خلیفہ وقت 99 فیصدی سے زائد مرتبہ کثرت رائے کی تائید کرتا ہے اور جب کثرت رائے سے اختلاف کرتا ہے تو ایسے قومی دلائل اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتا ہے کہ کثرت رائے ہی نہیں تمام مجلس بالاتفاق خلیفہ وقت کی رائے کی فضیلت کی قائل ہو جاتی ہے.گویا یہ ایک ایسی مجلس مشاورت ہے جس کا آخری تیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو مشوروں کو قبول یا رو کرنے کا اختیار رکھنے والا عوامی نمائندوں کی آراء سے متفق ہو یا عوامی نمائندے بشرح قلب اس فیصلہ کرنے والے کے فیصلہ سے مطمئن ہوں دنیا سے پر وہ پر ایسے عظیم طوعی اتفاق نظر و فکر کی کوئی مثال نظر نہیں آسکتی.مزید برآن تربیت یہ کی گئی ہے.اور واقعہ اس طریق کار پر سو فیصد ہی عمل بھی ہے کہ جن دوستوں کی آراء کو کثرت رائے نے رد کر دیا ہو وہ آخری فیصلہ کے بعد عملدرآمد کے وقت اپنی رائے کو اتنی بھی اہمیت نہیں دیتے جو ر دی کی ٹوکری میں پھینکے ہوئے ایک کاغذ کے پرزے کو ہو سکتی ہے بلکہ بلا استثناء اپنی تمام استعدادوں کے ساتھ کثرت رائے کے اس فیصلہ پر بشرح صدر عمل پیرا ہو جاتے ہیں جیسے

Page 205

خلیفہ وقت کی منظوری حاصل ہو اس حیرت انگیز نظام مشاورت کی تشکیل و ترویج میں جسے آج ہم انتہائی کامیابی سے رو عمل دیکھتے ہیں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ۵۲ سالہ محنت اور لگن اور ان تھک محنت کا غالب دخل ہے اور مجلس مشاورت کا جو ورثہ آپ جماعت کے لئے چھوڑ گئے ہیں وہ ایک احسان جاریہ ہے جو قیامت تک جماعت کی ہر آنے والی نسل کو مجبور کرتا رہے گا کہ دلی دعاؤں کے ساتھ اس عظیم مصلح کا شکریہ ادا کرتے رہیں والله الموفق.سمند فکر کو ٹھوکروں سے بچانے کے لئے جو سب سے زیادہ شاندار اسلامی اصول آپ نے بار بار ذہن نشین کر وایا وہ یہ تھا کہ رائے دیتے وقت محض تقوی اللہ کو پیش نظر رکھا جائے دیگر حاضرین کی رائے کا لحاظ تو در کنار آپ کا موحدانہ مسلک تو یہ تھا کہ آخری فیصلہ سے قبل خود خلیفہ ایسیح کی رائے کے با وصف بھی اپنے ذاتی مشورہ کو تبدیل نہ کیا جائے محض اللہ ایسی رائے دی جائے ہو مشورہ دینے والا دیانتداری کے ساتھ رکھتا ہو.ایک مرتبہ اسی طرز فکر کو تقویت دینے کی خاطر آپ نے ایجنڈے میں اپنی طرف سے بھی ایک تجویز رکھی اور جب یہ دیکھا.کہ بعض مخلصین محض اس لئے اس تجویز کی تائید کر رہے ہیں کہ وہ خلیفہ المسیح کی طرف سے ہے.تو آپ نے اپنے مدعا کو واضح کرتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی : یکیں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ محض اس خیال سے کہ کوئی تجویز میری طرف سے ہے اس پر غور نہ کرنا اور یہ سمجھ لینا کہ جو تجویز خلیفہ کی طرف سے پیش کی گئی ہے اس میں ضرور برکت ہوگی اس لئے ہمیں اس پر غور کرنے کی کیا ضرورت ہے درست نہیں.دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ بحیثیت مشیر آپ لوگوں کا فرض ہے کہ دیانتداری کے ساتھ تجاویز پر غور کریں اور اگر سمجھیں کہ کسی تجویز میں نقائص ہیں یا اس پر عمل کرنے سے سلسلہ کو نقصان ہوگا یا مشکلات میں اضافہ ہو گا تو دلیری کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کریں.......آپ محض اس وجہ سے اس پر غور کرنے سے پہلو تہی نہ کریں کہ میری طرف سے یہ پیش کی گئی ہے.بلکہ آپ کے دل کی گہرائیوں سے یہی آواز نکلے کہ اس تبدیلی کی ضرورت ہے تو اُسے چھپائیں نہیں بلکہ دلیری سے

Page 206

F گفتگو کر کے اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کریں.اگر تغیر کے متعلق مشورہ کو میں قابل قبول نہ سمجھوں گا تو اپنی ذمہ داری پر اسے رد کر دوں گا.جب اس پر عمل کرنے کا وقت آئے اس وقت اختلافِ رائے کے اظہار کی اجازت نہ ہوگی لیکن مشورہ کے وقت ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنا مشور پیش کرتے حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا کثربے ائے سے اختلاف نمائندگان شوری کی کثرتِ رائے سے اختلاف کی پسند مثالیں پیش کی جاتی ہیں.جہاں جہاں بھی حضرت خلیفة المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے کثرتِ رائے سے اختلاف کیا تو اس اختلاف کی وجہ بیان فرمائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف اس وقت کے حاضر ممبران آپ کی رائے سے دلی طور پر مطمئن ہو گئے بلکہ آج بھی ہر معقول آدمی ان معاملات پر نظر ڈالکر یقینا اس فیصلہ تک پہنچے گا کہ آپ کا کثرت رائے کو قبول نہ کرنا نہ صرف معقول اور مناسب تھا بلکہ ایسا نہ کرنا قومی مفادات کے لئے مضر ثابت ہوتا.کہیں ایک جگہ بھی محقق آپ کے اختلاف رائے میں آمریت کا شائبہ تک نہ پائے گا.یہ تمام امور جماعت احمدیہ کے ریکارڈ میں موجود اور رسائل و جرائد میں شائع شدہ نہیں.اور ہر پچسپی رکھنے والے کو دعوت فکر و نظر دے رہے ہیں.چند مثالیں پیش خدمت ہیں.اول :- مجلس شوری میں یہ تجویز پیش تھی کہ صوبائی امیر جمعہ کے روز اگر کہیں موجود ہوں اور وہاں کا امیر مقامی کوئی اور شخص ہو تو جمعہ کے پڑھانے کا اصل حق امیر مقامی کا ہوگا.البتہ صوبائی امیر مقامی امیر کو اطلاع دے کو حسب ضرورت جمعہ پڑھا سکے گا.اس تجویز کے متعلق جب رائے شماری ہوئی تو اکثریت نے اس کے حق میں رائے دی.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اکثریت کے اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا :- میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں اکثریت کی رائے درست نہیں ہے میرے نزدیک جب تک یہ عہد سے الگ الگ ہیں.اس وقت تک یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جہاں پراونشل امیر ہو وہاں اُسے اپنے خیالات کے اظہار اور ان کی اشاعت کے لئے کوئی موقعہ حاصل ہونا ے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء متتا

Page 207

٢٠٢ چاہئیے.مجھے تو یہ ذریعہ حاصل ہے کہ اخبار ہے اور اخبار والے میری تقریریں اور خطبے نوٹ کر کے شائع کرتے اور جماعت تک پہنچاتے ہیں مگر صوبہ کی جماعتوں کے امراء کو یہ ذریعہ حاصل نہیں کہ ایک جگہ اپنے جن خیالات کا وہ اظہار کریں وہ سارے صوبہ کی جماعتوں تک پہنچ جائے اس لئے باوجود اس کے کہ اکثریت دوسری طرف گئی ہے میں یہ فیصلہ کرنا ہوں کہ اپنے صوبہ میں جہاں بھی پراونشل امیر ہو جمعہ کا خطبہ دینے کا حق اسے مقدم طور پر حاصل ہوگا.اس کی موجودگی میں اس کی اجازت سے لوکل امیر یا کوئی اور شخص خطبہ پڑھا سکتا ہے.ہاں جہاں پر پراونشل امیر موجود نہ ہو یا اس غرض کے لئے کوئی دوسرا امام مرکز سلسلہ کی طرف سے مقرر نہ ہو تو خطبہ دینے کا اقول حق لوکل امیر کو حاصل ہو گا ہائے ثانیا: مجلس شوری میں یہ تجویز پیشی تھی کہ کراچی اور لاہور اور راولپنڈی کو مقامی ضروریا کے لئے ان کے چندوں کا تیسرا حصہ بطور گرانٹ دیا جائے.جماعت کے مالی حالات کے لحاظ سے یہ تجویز اپنی موجودہ صورت میں درست نہ تھی لیکن اس تجویز کو اپنے اختیارات کے تحت رو کرنے کی سجائے آپ نے اس تجویز کے ناموزوں ہونے کے دلائل دیئے اور اس کے نقصان دہ پہلوؤں کی جماعت کے نمائندگان کے سامنے وضاحت فرمائی.چنانچہ اس تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :- " چندوں کو متے نظر رکھتے ہوئے اگر اس تجویز کو منظور کر لیا جائے، تو قریبا دو لاکھ روپیہ بجٹ آمد سے کم ہو جاتا ہے.ہمارا کل بجٹ بارہ لکھ ننانوے ہزار کا ہے اور اگر یہ دو لاکھ روپیہ اس سے نکال دیا جائے تو آمد دس لاکھ ننانوے ہزارہ بلکہ اس سے بھی کم رہ جاتی ہے.اور اس دس لاکھ ننانوے ہزار روپیہ کی آمد سے بارہ لاکھ نانو سے ہزار کے اخراجات چلانا کسی انجمن کی طاقت سے باہر ہے.در حقیقت یہ بحث اخراجات کی کمیٹی کے سامنے اُٹھانی چاہیئے تھی کہ اس قدر اخراجات کم کر دیئے جائیں.کالج بند کر دو.زنانہ کا لج بند کر دو س مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء مره

Page 208

تقسیم لنگر خانہ بند کرد و به نظارت امور عامہ بند کر دو.نظارت اصلاح دارشاد کے کارکنوں کو رخصت کر دو اور اخراجات کے بجٹ کو دس لاکھ ننانوے ہزار پر لے آؤ.ورنہ یہ کہ خرچ تو وہی رکھو اور آمد تیم کر لو یہ وہی بات ہے جیسے کوئی شخص ایک ناممکن چیز کی خواہش کرے یا جیسے بچے روتے ہیں تو کہتے ہیں ستار سے دے دو.دس لاکھ ننانوے ہزارہ میں بارہ لاکھ ننانوے ہزارہ کے اخراجات کا بجٹ پورا کرنا بھی ستارے لانے والی بات ہے یہ ایک ناممکن العمل بات ہے اس لئے اس تجویز پر رائے دیتے وقت سوچ لیا جائے کہ آیا اس بجٹ کو نا منظور کیا جائے یا رہنے دیا جائے.کیونکہ تخفیف کے بعد خرچ نہیں چل سکتا.کہا گیا ہے کہ اس کی ضرورت ہے.ٹھیک ہے.اس کی ضرورت ہے لیکن اگر کوئی ضرورت ہو تو اس کے لئے آمد بڑھانی جانی چاہیئے.دعائیں کرتے رہو اللہ تعالے کو سب طاقت ہے اور وہ سب برکتیں دے سکتا ہے.ایک وقت وہ تھا کہ جب مجھے خلیفہ بنایا گیا.تو خزانہ مقروض تھا اور اس میں صرف اٹھارہ آنے تھے اور اب آپ کا سٹ تحریک کے سالانہ بجٹ کو ملا کر انتیس لاکھ روپے کا ہے.اب دیکھو گیا اشارہ آنے اور کجا انتیس لاکھ روپیہ.تو اللہ تعالیٰ میں بڑی طاقت ہے.مجلس شوری کے فصیلوں کی اہمیت مجلس شوری کے فیصلوں کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا :- مجلس شوری میں جو فیصلہ ہوتا ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ خلیفہ کا فیصلہ ہے کیونکہ ہر امر کا فیصلہ مشورہ لینے کے بعد خلیفہ ہی کرتا ہے اس لئے ان فیصلوں کی پوری پوری تعمیل ہونی چاہیئے.جب تک سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء ص ۸ - ۹۱

Page 209

۲۰۴ کام کرنے والوں میں یہ روح نہ ہو کہ جو حاکم ہو اس کے احکام کی اطاعت کی جائے اس وقت تک ان کے حکم کا بھی کوئی انتدام نہ کرے گا لے حقیقت یہ ہے کہ جب تک قانون کی پابندی پورے طور پر نہ کرائی جائے اس وقت تک کوئی نظام قائم نہیں رہ سکتا.یں سمجھتا ہوں قانون کو بدلوائے بغیر اس کا توڑنا جائز نہیں لیکن مجھے جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ان میں سے بہت کم لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں یہ ہے مجلس شوری کا منصب مجلس شوری کا منصب اور جماعتی نظام میں اس کا مقام کیا ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- خلیفہ وقت نے اپنے کام کے دو حھتے کئے ہوئے ہیں ایک حصہ انتظامی ہے اس کے عہدیدار مقرر کرنا خلیفہ کا کام ہے.دوسرا حصہ خلیفہ کے کام کا اصولی ہے اس کے لئے وہ مجلس شوری کا مشورہ لیتا ہے.پس مجلس معتمدین انتظامی کاموں میں خلیفہ کی ایسی ہی ہے جانشین ہے جیسی مجلس شوری اصولی کاموں میں خلیفہ کی جانشین ہے ہے مجلس شوری ہو یا صدر انجمن احمدیہ خلیفہ کا مقام بہر حال دونوں کی سرداری ہے.انتظامی لحاظ سے وہ صدر انجین احمدیہ کا راہنما ہے اور آئین سازی اور بحث کی تعیین کے لحاظ سے وہ مجلس شوری کے نمائندوں کے لئے بھی صدر اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے ہے ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۱۳ء ص ۳ کے رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۳۹ ص۳۶ رپورٹ مجلس مشاورت ۹۳لہ الفضل ۲۷ را پریل ۶۱۹۳۶

Page 210

۲۰۵ مجلس مشاورت کا پاکیزه و بیمثال ماحول جماعت احمدیہ کی مجلس شوری صرف اپنے تنظیمی ڈھانچے اور طریق کار کے لحاظ سے ہی دنیا کی دوسری ایسی مجالس سے مختلف نہیں بلکہ اس کی فضا اور ماحول بھی دنیوی مجالس سے اس درجہ مختلف ہیں کہ کوئی ظاہری نسبت نظر نہیں آتی.جب تک کوئی شخص اس ماحول کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھے.وہ اس کی کیفیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا.تاہم ذیل میں اسے لفظوں میں بیان کرنے کی کسی قدر کوشش کی جائے گی.قومیں ایک دن میں نہیں بنا کرتیں.بلکہ قومی تربیت سالما سال کی مسلسل عرقریزی اور بھر ٹوپر نگرانی کی محتاج ہوتی ہے.مشاورت کے جس ماحول کا یکس نے ذکر کیا ہے اس کو قائم کرتے ہیں حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی سالہا سال کی شدید منت عرقریزی نگرانی اور پر خلوص دعاؤں کا بہت بڑا دخل ہے.اس مشاورت کے گوشہ گوشہ پر جسے ہم آج دیکھ رہے ہیں.حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے کردار اور شخصیت کی چھاپ ہے اور یہ پاکیزہ ماحول جو آج ہمیں نظر آرہا ہے اس کا ہر منظر آپ کی یاد دلوں میں تازہ کر دیتا ہے.ایک پسماندہ ملک کے ایک پسماندہ علاقہ کے عوام کی تربیت کا کام آپ کو سونپا گیا اور وہ علاقہ دنیا کے کسی معیار کے اعتبار سے بھی مہذب اور متمدن کہلانے کا مستحق نہیں تھا.بالخصوص پنجاب کی سر زمین تہذیب و تمدن کے لحاظ سے خود ہندوستان کے ہی دوسرے علاقوں میں پسماندہ مشہور تھی.پس حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا کام ایک انتہائی مشکل کام تھا کیونکہ نہ صرف یہ کہ ایک پسماندہ غیر مہذب اور غیر متمدن اور غیر تعلیم یافتہ قوم کو آپ نے تہذیب و تمدن کے اعلیٰ اصول سکھانے اور ان پر کار بند کروانا تھا.بلکہ اسلامی نظام مشاورت کی ایک ایسی حسین تصویر عمل کے سانچے میں ڈھالنی تھی.جو دنیا کی تمام متمدن قوموں کے لئے قابل تقلید نمونہ بن جائے.اور عمل کے اس میدان میں بھی اسلام کی تعلیم کی برتری دیگر ادیان اور نظریات پر ثابت ہو جائے.یہ کام بہت مشکل تھا.بسا اوقات بار بار کی انتہائی موثر تقاریر اور نصائح کے بعد بھی یہ بات مشاہدہ میں آتی کہ سامعین میں سے بعض یا تو بات سمجھتے ہی نہیں یا عادت سے مجبور ہو کہ پھر اس غلطی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.بار بار وہی غلطیاں کرتے اور ان کو سمجھانا پڑتا.بار بار

Page 211

وہی ٹھوکریں کھاتے اور ان کو اُٹھانا پڑتا.ایک ماں جیسے بچے کو چلنا پھرنا کھانا پینا سکھاتی ہے ایک استناد جیسے بار بار غلطی کرنے والے بچے کو بالآخر صحیح تلفظ سکھا دیتا ہے اسی طرح حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جماعت احمدیہ کو مجلس مشاورت کے آداب و اخلاق اور حکمت و فلسفہ سکھانے میں محنت کی.اور آخری سانس نہ لیا جب تک اپنے پیچھے ایک ایسا مہذب و متمدن ادارہ مشاورت نہ چھوڑ گئے جو بلاشبہ دنیا کے تمام مشاورتی اداروں کے لئے قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے.ابھی چند صفحات پیشتر ہی قارئین حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ۱۹۶۲ ء کی مجلس شوری کے افتتاحی خطاب میں سے بعض اقتباسات پڑھ چکے ہیں لیکن تربیت کی کمی کی وجہ سے دوسرے ہی روز جب بعض حاضرین نے بولنے میں محبت سے کام لیا تو حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :- کل میں نے سمجھایا تھا.کہ صرف بولنے کی خواہش سے نہیں بولنا چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ بولنا مفید ہے یا نہیں اور پھر بولنا چاہیے لیکن بوجہ عجلت کے جو حکمت کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے یونسی بول پڑتے ہیں.شائد کہ اپنے ہی خیالات میں محو ہوتے ہیں دوسرے کی سنتے ہی نہیں.اس لئے ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو پہلے بیان کر چکتے ہیں یہ ہے اسی طرح ہر مجلس مشاورت پر ایسے مواقع پیدا ہوتے رہتے کہ حضور کو نہایت حکیمانہ انداز میں احباب کو نصائح کرنی پڑتیں.مثلاً ۱۹۲۳ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر حضرت شیخ يعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ کے ایک سوال کا لہجہ قابل اعتراض پایا تو آپ نے فرمایا.شیخ یعقوب علی صاحب کا لہجہ اطلاع حاصل کرنے کا نہ تھا.یہ پارلیمنٹ نہیں ہے کہ اس میں ایک فریق کو دوسرے کے خلاف اُبھارنا ہے.بلکہ یہ مجلس مشاورت ہے.اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئی ہو تو اس کے متعلق سوال کیا جاسکتا ہے اعتراض نہیں کیا جاتا بعض لہجوں کا بھی اثر ہوتا ہے.گو ان لوگوں کی نیت نہ ہو جوان کے لیجے سے ظاہر ہوتی ہے.مگر عادت کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے.رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۲۲ ۳۲۵

Page 212

F-6 مثلاً جب یہ آیت نازل ہوئی کہ رسول کے سامنے بلند آواز سے نہ بولو تو ایک صحابی جن کی آواز بڑی تھی چپ ہو گئے اور مجلس میں آنا بند کر دیا.کہ میں منافق ہوں میری آوانہ اونچی ہے.مگر پھر ان کو سمجھایا گیا.پس اگر بلند آواز سے ایسے لہجہ میں بولنے کی عادت ہو تو اپنے لہجہ اور آواز پر قابو رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے کے لئے ایک طرف سوال کرنے والوں کی نگرانی کی جاتی تھی تو دوسری طرف ناظروں کے جوابات کا محاسبہ بھی جاری رہتا تھا.کہ قولِ سدید اور واقعات کے عین مطابق ہیں یا نہیں.اگر کہیں کوئی ناظر غلطی کرتا تو اسے ایسے رنگ میں سمجھاتے کہ حاضرین مجلس کے لئے کسی مزید سوال یا اعتراض کی گنجائش نہ رہتی.مثلاً مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء کے دوسرے روز سید زین العابدات ولی اللہ شاہ صاحب کے ایک جواب کو غیر تسلی بخش پا کہ آپ نے فرمایا :- ر افسوس ہے کہ شاہ صاحب نے بجائے یہ کہنے کے کہ میں اس قلیل عرصہ میں رپورٹ تیار نہیں کرسکا.انہوں نے کام کی ہی نفی کر دی.حالانکہ یہ اس دفتر کے نائب ناظر ہیں.ان کے دفتر نے رپورٹ شائع کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ کوئی ریکارڈ نہیں اگر یہ صاف لفظوں میں کتنے کہ میں اس قلیل عرصہ میں یہ نہیں کر سکا تو بات کا یہ نیا پہلو نہ کلتا ہے ناظر صاحبان کی رپورٹوں پر بھی حضور ہمیشہ کڑی نظر رکھتے کہ کہیں رپورٹوں کا کوئی پیلو اسلام کے نہایت بلند اخلاقی معیار سے گرا ہوا تو نہیں.خانصاحب مولوی فرزند علی خانصاب کی ایک رپورٹ میں ایک جید عالم کا ذکر کچھ اس رنگ میں ہوا کہ ہلکا سا طنز کا پہلو پایا جانا تھا حضور نے اس بات کو قابل اصلاح سمجھا اور فرمایا :- انسان روحانی امراض خود محسوس نہیں کر سکتا مگر تندرست سمجھنا ہے کہ بیمار ہیں یہ ہماری ہے.رپورٹ کے متعلق مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ خانصاحب نے اپنی رپورٹ میں فقہ کی کتاب جو حافظ روشن علی صاحب نے تالیف کی ہے اس کا ذکر ایسے رنگ میں کیا ہے جس سے رپورٹ مجلس مشاورت ۴۱۹۲۳ ۲۶۰ ے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ ۳۰۲

Page 213

۲۰۸ طنز ہوتی ہے.مثلاً خانصاحب کا یہ کہنا کہ خدا کا شکر ہے 9 مہینہ کے بعد چند روزہ ہوتے ہیں حافظ صاحب نے تیار کر کے دی ہے یہ ایک طنز کا پہلو ہے.خواہ خانصاحب کا یہ منشاء نہ ہو.اس میں کیا شک ہے کہ اگر حافظ صاحب نے تو جہینہ میں بھی تیار کر دی تو بڑا کا کیا یہ ایک علمی کام ہے.اس میں تحقیقات کرنی ہوتی ہے.اگر حافظ صاحب ایک دن میں تیار کر لاتے تو مجھے ان کے علم پر شک پڑھاتا ہے یہ تو صرف چند مثالیں ہیں لیکن وہ دوست جنہیں سالہا سال تجلس مشاورت میں شامل ہونے کی توفیق ملی ہے وہ جانتے ہیں کہ کسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس ادارہ میں اسلامی روح اور اسلامی طرز فکر و تدرتبہ پیدا کرنے کی مسلسل جد و جہد کی ہے.حضور جب بعض ایسی غلطیوں کو دیکھتے جو کام کے اصول اور بنیادی امور سے تعلق رکھتی ہوں تو بعض دفعہ بحث کے دوران ہی جماعت کو مختلف رنگ میں نصیحت فرماتے.جن میں قرآن و حدیث سے استنباط کے علاوہ تاریخ اسلام سے دل پر اثر کرنے والے واقعات بھی بیان کرتے اور کبھی معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر اپنے آخری خطاب میں مزید تفصیل کے ساتھ اس معاملہ پر روشنی ڈالتے.پچھوٹی موٹی یا روز مرہ کی معمولی غلطیوں اور کوتاہیوں کے موقعہ پر بسا اوقات آپ کبھی نرمی سے ایک آدھ فقرہ میں غلطی کرنے والوں کو سمجھا دیتے.کبھی کوئی لطیفہ سنا کر فضاء کو خوشگوار بناتے ہوئے آگے گزر جائے.عموما یہ طریق اس وقت اختیار فرماتے جب کوئی مقرر بلا وجہ وقت کو ضائع کرنے کی کوشش کرتا یا غیر مناسب تکرار کے ذریعہ حاضرین مجلس کو طول کر رہا ہوتا.اس وقت آپ جس لطیف انداز میں اس کی غلطی کی نشاندہی کرتے اس سے سامعین کی ساری کوفت دُور ہو جاتی.تھکے ہوئے اعصاب تازہ دم ہو جاتے، اور سوتے ہوئے دماغ اچانک بیدار ہو کر ہمہ تن گوش ہو جاتے.اس طریق سے نہ صرف غلط عادتوں کی اصلاح ہوتی بلکہ وقتاً فوقتاً تکان بھی دُور ہوتی رہتی اور معاملات میں پچپی قائم رہتی.کبھی کبھی بعض دوستوں کے نامناسب انداز اختیار کرنے پر آپ ناراض بھی ہوتے اور بعض اشخاص کو تنبیہ بھی فرماتے.ایسے مواقع عموما اس وقت پیدا ہوتے جب کسی شخص میں انانیت کی بو دیکھتے یا کسی کی گفتگو میں تکبر اور تمسخر کا رنگ پایا جاتا ے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ ۶ ص ۳۳

Page 214

یا کوئی اپنے کسی بھائی کی دل شکنی کا موجب بنتا.یا ذاتیات میں اُلجھ کر اصل مقصد کو پھیلا دیتیا اسی طرح اگر کسی کی باتوں سے بچتے احمدی کی بجائے ریا اور منافقت کی بو آتی تو ایسے تمام مواقع پر آپ علی العموم سخت ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار فرماتے.ہاں اگر محض برادرانہ محبت کے اندازہ میں کوئی کسی مقرر کی بات کی طرف لطیف مزاحیہ رنگ میں اشارہ کرتا تو اُسے آپ ہرگز نا پسند نہ کرتے بلکہ بعض دفعہ اس مومنانہ اخوت کی نوک جھونک میں خود بھی شامل ہو جاتے.اور جس شخص کو نشانہ بنایا گیا ہوتا.اس کی طرف سے ایسا پر لطف جواب دیتے کہ حاضرین آپ کی حاضر جوابی پر عش عش کر اُٹھتے.اور محفل کشت زعفران بن جاتی.سلسلہ کے پرانے کارکنوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے خدام کی آپ کے دل میں بڑی عزت اور قدر تھی.چنانچہ مشاورت کے موقعہ پر بھی ان کے ساتھ احترام اور اعزاز کا غیر معمولی سلوک فرماتے ان کی باتوں کو بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ سنتے ان کی غلطیوں سے درگزر فرماتے اور وقت کی بھی کوئی خاص قید عائد نہ کرتے.پنجاب کی اکثریت چونکہ زمیندار دیہاتی جماعتوں پر مشتمل تھی اور مجلس شوری میں بھی عموٹا پنجاب ہی کے نمائندگان کی کثرت ہوا کرتی تھی اس لئے جہاں ایک طرف آپ دیہاتی نمائندوں کی رائے سننے کا خصوصیت سے اہتمام فرمایا کرتے.وہاں اس طرف بھی خاص توجہ دیتے کہ دور سے آنے والے نمائندگان خواہ تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہوں ان کو ضرور اظہار رائے کا موقعہ ملے.چنانچہ صوبہ سرحد سندھ.بنگال - مدراس بمبئی اور یوپی کے نمائندگان کے نام آپ عموما خود کہہ کر اہم سب کمیٹیوں میں رکھواتے اور اگر وہ مجلس میں اظہار رائے کے لئے اپنا نام نہ بھی پیش کرتے تو بھی خود ارشاد فرما کر اظہار رائے کے لئے انہیں تاکید فرماتے.یہ مجلس ہر قسم کے مشیروں پرمشتمل ہوتی.کہیں علوم سے آراستہ بڑے بڑے ماہر تعلیم اور حکومت کے اعلیٰ افسران ، کہیں انجینئر، وکلاء اور ڈاکٹر صاحبان اور کہیں پیشہ ور حضرات حتی کہ بڑھتی اور لوہار جو مجلس شوری میں اپنے علم اور استطاعت کے مطابق مشورہ کے لئے حاضر ہو جاتے معمولی دکاندار اور آڑھتی سادہ لوح ان پڑھ زمیندار چوہدری اور غیر جوہری پنجابی سندھی.بنگالی- مدراسی.مالا باری اور یوپی کے منجھی ہوئی نہ بان بولنے والے سبھی اس مجلس میں ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر محمود و ایاز کا منظر پیش کر رہے ہوتے.زبان اور بیان کی مشکلات ان کی راہ میں کبھی حائل نہ ہوتیں.ایسے احباب جن کو اپنے اظہار خیال میں

Page 215

۲۱۰ مشکل پیش آتی وہ کبھی انگریزی کے الفاظ بکثرت استعمال کر کے کبھی اپنی علاقائی زبان کے الفاظ بول کر کبھی اُردو میں پنجابی کا پیوند لگا کر اپنا مقصد بیان کر ہی لیتے.بایں ہمہ ایسے لوگوں کو انخفاف کا نشانہ نہیں بنایا گیا.زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ کبھی تو محبت اور پیار کی مسکراہٹیں چہروں پر بکھر جاتیں اور کبھی آنکھیں اس تصور سے نم آلود ہو جاتیں اور زبانوں پر درود جاری ہو جاتے کہ اللہ اللہ ! اسلام کے احیائے نو کی خاطر مسیح موعود کو کہاں کہاں سے کیسی کیسی پاک اور سعید رو میں علی ہیں جو محض اللہ اسلام کے غلبہ نو کے لئے تدبیریں سوچنے کے لئے قادیان کی دُور افتادہ بستی میں حاضر ہو گئیں.ایسے رائے دہندگان کو ایک سہولت یہ بھی تھی کہ ایک نہایت زیرک اور صاحب بصیرت امام ان کے سامنے بیٹھا ہوا بڑی توجہ سے ان کے مافی الضمیر کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوتا اور جہاں کبھی سامعین ان کو سمجھنے میں غلطی کرتے نہایت فصاحت اور بلاغت اور روانی کے ساتھ اپنے الفاظ میں ان کے منشاء کو اس طرح ظاہر کر دیتا کہ ایک طرف تو سننے والے خوب اچھی طرح اس بات کو سمجھ جاتے دوسری طرف کہنے والے کے چہرے پر امتنان اور مسرت کے جذبات انڈ آتے کہ ہاں میں جو کچھ بیان کرنا چاہتا تھا وہ یہی کچھ تھا.مختلف اہم مسائل پر بحث کے دوران کبھی حضرت خلیفتہ ایسے اسلام کے مستقبل کے تصور میں منہمک ہو جاتے اور دل اس فکر سے بے چین ہو جاتا کہ آنے والی نسلوں پر جو ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں وہ انہیں کما حقہ نبھا بھی سکیں گی یا نہیں.مشاورت کے دوران آپ کے متعدد خطبات ہمیں اسی فکر اور درد کے آئینہ دار دکھائی دیتے ہیں.ایسے مواقع پر آپ کے خطابات کا رنگ ایک خاص شان اپنے اندر رکھتا تھا.دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی آواز نوائے آسمانی معلوم ہوتی تھی اور فضا برقی لہروی سے بھر جاتی تھی.دل خدمت اسلام کے لئے نئی امنگوں اور نئے ولولوں سے معمور ہو کر مچلنے لگتے اور بے اختیار تمام حاضرین کبھی زبان حال اور کبھی زبان قال سے میکار اُٹھتے کہ ہاں ! ہمارے آقا ! ہم حاضر ہیں.ہم حاضر ہماری نسلیں حاضر ہیں.ہماری جانیں ہمارے اموال ہماری عزتیں سب کچھ جو ہم رکھتے ہیں ہمارا نہیں آپ کا ہے.جس طرح آپ چاہیں دین اسلام کی قربان گاہوں کی نذر کر دیں.اسلام کی زندگی اگر ہم سے ہماری جان اور مال اور عزتوں کا فدیہ مانگتی ہے تو جان اور مال اور عزتیں پیش ہیں.اگر نسلاً بعد نسل مسلسل قربانی کا مطالبہ ہے تو خدا گواہ ہم قیامت تک اپنی نسلیں اسلام کی زندگی کی خاطر مرنے کے لئے پیش کرتے چلے جائیں گے.

Page 216

اسے خاص مواقع کی صحیح کسی تو ویسے ہی میں ہیں.ہاں ان خطابات میں سے چند فرات پیش کرتا ہوں جو دلوں میں تلاطم برپا کر دیا کرتے تھے:.اس وقت ہم جنگ کے میدان میں کھڑے ہیں اور جنگ کے میدان میں آکر سپاہی لڑتے لڑتے سو جائے تو مر جاتا ہے.ہمارے سامنے نہایت شاندار مثال ان صحابہ کی ہے جن کے مثیل ہونے کے ہم تدعی ہیں......دشمن پوری طرح کوشش کر رہا ہے اور سارا زور لگا رہا ہے کہ حضرت میسج موعود علیہ السّلام ہمیں جو جھنڈا دے گئے ہیں اُسے گرا دے اب ہمارا فرض ہے کہ اُسے اپنے ہاتھوں میں پکڑے رہیں.اور اگر ہاتھ کٹ جائیں تو پاؤں میں پکڑ لیں اور اگر اس فرض کی ادائیگی ہیں ایک کی جان چلی جائے تو دوسرا کھڑا ہو جائے اور اس جھنڈے کو پکڑے.میں ان نمائندوں کو چھوڑ کر ان بچوں اور نوجوانوں سے جو اوپر بیٹھے سن رہے ہیں کہتا ہوں.ممکن ہے یہ جنگ ہماری زندگی میں ختم نہ ہو گو اس وقت لوہے کی تلوار نہیں چل رہی لیکن واقعات کی.زمانہ کی اور موت کی تلوار تو کھڑی ہے ممکن ہے یہ چل جائے تو کیا تم اس بات کے لئے تیار ہو کہ اس جھنڈے کو گرنے نہ دو گے داس پر سب نے بیک آواز لبیک کہا، ہمارے زمانہ کو خدا اور اس کے رسولوں نے آخری زمانہ قرار دیا ہے.اس لئے ہماری قربانیاں بھی آخری ہونی چاہئیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا یہ بھی طریق تھا کہ بار بار مختلف رنگ میں حاضرین کی توجہ دعاؤں اور استغفار اور تقوی اللہ کی طرف مبذول کرواتے رہتے.جس کی وجیسے فضا تقدس سے اس طرح بھر جاتی جیسے برساتی ہوائیں نمی سے.ایسے مواقع پر بسا اوقات وفور جذبات سے آنکھیں بھی اُمنڈ آئیں.بالخصوص الوداعی تقریر کے بعد کی دعا، نمدا تعالیٰ کے حضور الحاج اور عاجزی اور انابت کا ایک ایسا عجیب منظر پیش کرتی.جس کی کوئی نظیر دنیا میں کہیں نظر نہیں آسکتی.آپ کا عظیم اعجاز یہ نہیں کہ آپ نے اپنی زندگی ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء من ۹-۹۲

Page 217

۲۱۳ میں یہ پاکیزہ ماحول پیدا کر دیا.بلکہ عظیم اعجاز یہ ہے کہ اس ماحول کو دوام بخشا اور جماعہ احمدیہ سے اس کو اس طرح پیوست کر دیا کہ آج بھی یہ پاکیزگی اور تقدس کی روح مجلس مشاور میں اُسی طرح زندہ نظر آتی ہے.آج بھی وہی پاکیزہ فضا ہے آج بھی وہی قدوسیوں کا اجتماع انابت الی اللہ کا منظر پیش کرتا ہے.آج بھی محض للہ مشورے دیئے جاتے اور محض اللہ قبول کئے جاتے ہیں.آج بھی دُعاؤں کا وہی رنگ ہے اور خلافت کی وہی عظمت اور دیسی احترام دنوں میں قائم ہے.دُعائیں آج بھی اسی طرح آنسوؤں ہی کی زبان سے کی جاتی ہیں دنیا میں ایسے بھی رہنما ہوئے ہیں.جن کے قائم کردہ نقوش ان کے مرنے کے ساتھ مٹ جاتے ہیں اور بے ساختہ قومیں یہ کہہ کر ان کو یاد کرتی ہیں پر اب نظر کا ہے کو آئیں گی وہ تصویریں کہیں لیکن عظیم تو رہنما وہ ہوتے ہیں جن کے مرنے کے بعد بھی ان کی بنائی ہوئی تصویریں زندہ رہتی ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک ایسے ہی عظیم رہنما تھے.جن کی بنائی ہوئی تصویریں نقش دوام کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں.زمانے کا ہاتھ انہیں دھندلا تو سکتا ہے لیکن مٹانے کی قدرت نہیں رکھتا :

Page 218

بعض اہم تقاریر اور تصانیف ۶۱۹۲۰ - ۱۹۱۷ ملہ سے لے کر مسلئہ تک حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جو خطبات اہم تقاریر اور تصانیف فرمائیں ان میں سے چند کا ذکر یہاں کسی قدر اختصار سے کیا جاتا ہے.حقيقة الرؤياء ۹۱۷لہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے زیر عنوان حقیقۃ الرؤیاء ایک بلند پایہ علمی تقریر فرمائی.اس میں سب سے پہلے تو آپ نے الہام، کشف اور رویاء کی ایک عام فہم تعریف بیان کی.اور اس کے بعد ایسے جدید تحقین کی علمی تحقیق کا خلاصہ پیش کیا جنہوں نے انسانی خوابوں کے نظام پر غور و فکر کے علاوہ سائنسی طور پر تجربے کرنے کے بعد کئی قسم کے نئے انکشافات کئے تھے.ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ بنتا تھا کہ چونکہ رویاء دکشون وغیرہ کے محرکات انسانی جسم میں موجود ہیں جن کا تجربہ سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اس لئے کسی غیر جسمانی محترک کا تصور لغو اور جاہلانہ ہے.حضور جب بھی گفتگو فرمایا کرتے تو یہ طرز اختیار کرتے کہ پہلے مخالف کے سخت ترین اعتراضات کو ایسے عمدہ رنگ میں پیش فرماتے کہ اس سے بہتر شاید وہ خود بھی بیان نہ کر سکتا ہو.یہی طرز کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی تھی.اس لئے جیسا اوقات صحابہ کرام کو حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقریر کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی یاد بہت ستاتی اور وہ بے کل ہو کر بے اختیار چشم شیر ب ہو جاتے.چنانچہ آپ نے جدید لامذہب مفکرین اور محققین کے خیالات اور تجارب کے ماحصل کو ایسے عمدہ رنگ میں پیش فرمایا کہ گویا وہ اعتراضات فی ذاتہ اتنے ٹھوس اور مضبوط ہیں کہ ان کا کوئی عقلی جواب ممکن نہیں.اس کے بعد آپ نے اُن تجارب کی صحت کو تسلیم کرنے کے باوجود اسلامی نظریہ رویاء و کشون کی حقیقت کو اس عمدگی سے پیش کیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.یہی نہیں بلکہ ان کے تجارب کے ماحصل کو اسلام کی مخالفت کی

Page 219

۲۱۴ بجائے اسلام کی تائید میں ایک نئے ظاہر ہونے والے نشان کے طور پر پیش کیا نے فرمایا کہ اگر نئی تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ انسانی دماغ کے بعض حصے ہوتے ہیں جو بعض تصورات کو واقعات کے رنگ میں دیکھ لیتے ہیں اور سوئے ہوئے آدمی پر بعض بیرونی محرکات مثلاً چھاتی پر بوجھے پڑنا.پاؤں کا بے حس ہو جانا.سردیوں میں کپڑے کا اُوپر سے اُتر جانا وغیرہ بعض مخصوص خواہیں دکھانے کا موجب بن جاتے ہیں تو یہ تحقیق نہ صرف یہ کہ قرآنی دعوئی کے خلاف نہیں بلکہ قرآن کی تائید میں ایک سائنسی انکشاف کی حیثیت رکھتی ہے.قرآن کا تو پہلے ہی یہ دعوئی ہے کہ بعض خوا ہیں اضغاث احلام ہوتی ہیں یعنی لغو احادیث نفس ہوتی ہیں جن کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر ان کے وجود سے ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ بعض دوسری قسم کی خواہیں آہی نہیں سکتیں.اس مضمون کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ زید بول سکتا ہے تو کیا یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ عمر و نہیں بول سکتا.ہر گز نہیں.اسی طرح اس بات کے ثابت ہو جانے سے کہ خواہیں مادی اسباب کی بناء پر بھی ہوتی ہیں یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ خدا کی طرف سے کلیہ ہوتی ہی نہیں.اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ کا ذہن بعض ایسے خطرات کی طرف منتقل ہو گیا جو اس ضمن میں آئندہ جماعت کو پیش آسکتے تھے اور آپ کا یہ ذہنی انتقال آپ کے عظیم تدبیر اور فکر کو ظاہر کرتا ہے کہ کسی طرح آپ بظا ہر چھوٹی پھوٹی باتوں پر غور کرتے ہوئے مستقبل میں رونما ہونے والے عظیم خطرات کو بھانپ لیا کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں:.قرآن کریم کہتا ہے کہ کسی خواہیں ہوتی ہیں اور وہ شیطانی ہوتی ہیں کوئی انسان جب یہ خواہش کرتا ہے کہ میں بھی نبیوں کی طرح خوا ہیں دیکھوں تو شیطان اس کی اس خواہش کو دیکھ کر اس سے تعلق پیدا کر لیتا ہے اور اُسے شیطانی خوا میں آنی شروع ہو جاتی ہیں.میں نے اس جماعت کے متعلق بڑا مطالعہ کیا ہے جس سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہماری جماعت کے راستہ میں ہندوستان اور یورپ میں اگر کوئی روک پیدا ہوگی تو اسی قسم کے لوگ ہوں گے اور اُن کا مقابلہ بہت مشکل کام ہو گا کیونکہ وہ بھی اسی بات کے تدعی ہوں گے

Page 220

۲۱۵ جس کے ہم ہیں.لیکن جو کچھ وہ پیش کریں گے وہ وہ نہیں ہوگا جو ہم پیشیں کرتے ہیں بلکہ اس کے بالکل خلاف ہو گا اس لئے یہی خطرناک دشمن ہوں گے.ابھی تک ہماری جماعت نے اس خطرہ کو محسوس نہیں کیا مگر میرے دل میں خدا نے آج سے دو سال پہلے یہ بات ڈالی تھی.کہ ہماری ترقی کے راستے میں یہی جماعت روک بنے گی اس لئے میں نے ان کی باتوں کا خوب مطالعہ کیا ہے اور خدا کے فضل سے ان کے شہر سے محفوظ رہنے کا توڑ بھی نکالا ہے جس کے متعلق ارادہ ہے کہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں مضمون لکھوں اور اس کا انگریزی ترجمہ یورپیں اور اس بھی تقسیم کیا جائے ہوتے اس اقتباس میں جماعت کو تو تنبیہ کی گئی تھی اس کو بعد میں جماعت نے مختلف رنگ میں ہندوستان اور پاکستان میں بھی اور بیرونی ملکوں میں بھی پورے ہوتے دیکھا.امریکہ میں اس کی مثال علی جاہ محمد کی تحریک ہے جو ابتداء میں احمدی مسلمان تھا لیکن بہک کر ایسے دعوے شروع کر دیئے کہ اسلام میں ان کی کوئی گنجائش نہیں تھی.اور اس کی اس تحریک سے یقیناً جماعت احمدیہ کی راہ میں بہت سی مشکلات پیدا ہوئیں.اس کے بعد آپ نے بڑی تفصیل سے رحمانی پیشیطانی اور نفسانی خوابوں کے مابین تمیز کرنے کے اصول بیان فرمائے جن میں سے ایک آپ ہی کے الفاظ میں بطور نمونہ پیش ہے.آپ فرماتے ہیں : اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب شیطان کی بتائی ہوئی بعض باتیں پوری ہو جاتی ہیں تو پھر کیونکر مانا جائے کہ مومنوں کی خوا ہیں قیاسی نہیں ہوتیں.وہ بھی قیاسی ہی ہوتی ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ جو شیطانی خواہیں ہوتی ہیں ان کے دو ایسے نشان ہیں.جن سے قطعی طور پر اُن کا شیطانی ہونا ثابت ہو جاتا ہے ایک تو یہ کہ ایسے لوگوں کو ہمیشہ خواہیں اور کشوف انہی امور کے متعلق ہوتے ہیں جن کے کچھ نہ کچھ آثار ظاہر ہو چکے ہوتے ہیں لیکن جو رحمانی خواہیں اور کشوف ہوتے ہیں وہ اس وقت دکھائے جاتے ہیں جبکہ آثار و علامات کا کہیں له حقيقة الرؤياء ص۳۱۳

Page 221

نام و نشان نہیں ہوتا.اس کے متعلق یہی مثال دیکھ لو کہ اس علم کے تدیوں نے قیصر کے معزول ہونے کی خواب اس وقت دیکھ کر میں کوئی کی جب لڑائی شروع ہو چکی تھی.مگر حضرت مرزا صاحب نے عمر زار بھی ہوگا تو ہوگا اُس گھڑی باحال زار کی پیشگوئی اس وقت کی جب کہ لڑائی کا کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا.تو یہ ایک بہت بڑا فرق ہوتا ہے رحمانی اور شیطانی خواب میں.رحمانی خواہیں ان امور کے متعلق ہوتی ہیں جن کے اُن کے دکھانے کے وقت کوئی آثار نہیں ہوتے بلکہ اُن کے خلاف لوگوں کے خیالات ہوتے ہیں مثلاً قرآن کریم میں بتایا گیا تھا کہ نہر سویز نکالی جائے گی.چنا نچہ سورہ رحمن میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيْنِ ، بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِينِ فَبِاي اللَاء رَبِّكُمَا تُكَذِينِ ، يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللولو و الْمَرْجَانُ.زهه : ۲۰تا۲۳) کہ اسے انسانو اور جو بینی بڑے اور چھوٹے لوگو سنو ! خدا نے اس وقت دو سمندر ایسے چھوڑے ہوئے ہیں جو ایک وقت آئے گا کہ آپس میں بل جائیں گے یعنی اُن کے درمیان کی خشکی دور ہو جائے گی اور دونوں سمندروں کے پانی اکٹھے ہو جائیں گے اور ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک سمندر ہی کے ذریعے جاسکیں گے.اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ کون سے سمندر ہیں جن کے ملنے کی خبر دی گئی ہے تو اس کا جواب یہ دیا کہ يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللولو وَ الْمَرْجَانُ کہ دونوں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے.اب جغرافیہ میں دیکھ لو کہ وہ کون سے دوسمندر ہیں کہ جن میں سے ایک میں موتی اور دوسرے میں سے مونگا نکلتا ہے اور جن دونوں کے درمیان ایک چھوٹی سی خشکی واقع تھی کہ جس کی وجہ سے ایک کا پانی دوسرے کے پانی سے نہیں مل سکتا.جغرافیہ بالاتفاق کہے گا کہ یہ دونوں سمندر بحیرہ احمر اور بحر قلزم ہیں.کہ

Page 222

۲۱۷ اول الذکر اپنے قیمتی موتیوں کی وجہ سے مشہور ہے اور ثانی الذکر مونگے کی وجہ سے پس اس علامت سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ اس آیت میں بحیرہ احمر اور بحیرہ قلزم مراد ہیں.اور قرآن کریم نے آج سے تیرہ سو سال پہلے ان دونوں کے ملنے کی خبردی ہے اور گوان کا نام نہیں لیا مگر ایسی علامتیں بتا دی ہیں جن کے ذریعہ سے ان کے معلوم کرنے میں کوئی روک نہیں رہتی.چنانچہ ایک علامت تو میں ابھی بنا چکا ہوں.دوسری یہ ہے.وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنشئتُ فِي الْبَحْرِ كَا لا ملا یہ کہ خدا تعالے کی طرف سے ان سمندروں میں بڑے بڑے جہاز کھڑے کئے جائیں گے.اب دیکھ لو دنیا میں سب سے زیادہ جہازات نہر سویز ہی سے گزرتے ہیں.غرض یہ باتیں بہت ہی قبل از وقت بتا دی گئیں.کیا کوئی انسانی عقل اور قیاس ہے جو ایسا کر سکے.ہرگز نہیں " (حقیقة الرویا ۳ تا ۳۵ ).ایک اور علامت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.ان کے امتیاز کی ایک اور بھی علامت ہے اور وہ یہ کہ شیطانی خواہیں کئی باتوں سے مرکب نہیں ہوتیں بلکہ مفرد ہوتی ہیں اور مرکب بات کا ہی قبل از وقت بتانا مشکل ہوتا ہے.مثلاً قیاس کر کے یہ تو کہا جاتا ہے کہ زید آئے گا اور ممکن ہے کہ وہ آ بھی جائے لیکن اگر کہا جائے کہ زید آئے گا اس کے سر پر فلاں قسم کی پگڑی ہوگی.پائجامہ ایس اپنے ہوگا تو یہ قیاس نہیں ہو سکتا.تو ان لوگوں کی خوا ہیں بسیط ہوتی ہیں اور قیاس بسیط کبھی پورا بھی ہو جاتا ہے اور مرکب ہوں اور کبھتی پوری ہو جائیں تو پھر ان کا صرف ایک جزو ہی پورا ہوتا ہے اور باقی غلط ہو جاتے ہیں.مگر رحمانی خوابیں مرتب ہوتی ہیں اور اُن میں بنائی ہوئی ساری کی ساری باتیں پوری ہو جاتی ہیں.اس کی مثال حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبد الحمی مرحوم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی پیشگوئی ہے.مسیح موعود علیہ السّلام نے خبر دی کہ مولوی صاحب بے سوره رحمن آیت ۲۵

Page 223

PIA ہاں لڑکا ہوگا یہ خبر اس وقت دی گئی جب مولوی صاحب بڑھاپے کی عمر میں تھے.ان کی بی بی کو ایسی مرض تھی کہ اس کی وجہ سے بچے چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو جاتے تھے.دو تین سال سے زیادہ کوئی لڑکا زندہ نہیں رہتا تھا.خود حضرت مولوی صاحب کی اولاد دوسری بیوی سے بھی سوائے لڑکیوں کے چھوٹی ہی عمر میں فوت ہو جاتی تھی ان حالات مخالف کی موجودگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اپنا خواب بیان فرمایا کہ آپ کے ہاں بیٹا ہوگا اور اس دوسری بیوی سے ہو گا جس کی اولاد کے فوت ہونے پر دشمنوں نے ہنسی بھی کی تھی.اب گو اس عمر میں ہو سکتا ہے کہ اولا د بند ہی ہو جائے.لیکن ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ خیال ہو سکتا تھا کہ آپ کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو مگر اس کے ساتھ رویاء میں یہ شرط بھی لگی ہوئی تھی کہ وہ لڑکا ہوگا مگر اسے بھی سمجھ لیتے ہیں کہ قیاس سے ایسا ہو سکتا تھا مگر آگے جو علامات بتائی گئی ہیں وہ کسی قیاس سے نہیں بتلائی جاسکتیں چنانچہ آپ کو دکھلایا گیا کہ (۱) وہ لڑکا خوش رنگ اور سانولا ہوگا.(۲) خوبصورت ہوگا (۳) اس کی آنکھیں بڑی بڑی ہوں گی (۴) اس عمر سے بڑھ جائے گا جس میں پہلے بچے فوت ہوتے رہے ہیں (۵) اس کے جسم پر اور خاصکر پنڈلیوں پر پھوڑے ہوں گے (۶) وہ پھوڑے اتنی دیر تک رہیں گے کہ اُن کے نشان قائم ہو جائیں گے (۷) اُن پھوڑوں کا علاج بتایا گیا.یہ اتنی بات ہیں میں جو قیاس سے ہرگز معلوم نہیں ہو سکتیں.تیسری علامت شیطانی خواب کی پہنچان کی ایک یہ بھی ہے کہ اس خواب کی تائید کسی دوسرے شخص کی خواب سے نہیں ہوتی لیکن رحمانی خواب کی تائید خدا تعالئے دوسری جگہوں میں بکثرت پیدا کرتا رہتا ہے اور اپنے ماموروں کی تائید میں (ا) ان کے ظاہر ہونے سے پہلے لوگوں کو خبر دنیا ہے (۲) ان کے وقت میں ایسے لوگوں کو خبر دیتا

Page 224

۲۱۹ ہے جنہوں نے اس وقت تک اُس کا نام بھی نہیں سنا ہوتا (۳) ایسے لوگوں کو خبر دیتا ہے جن کا مذہب اُن کے مذہب سے بالکل مختلف ہوتا ہے اور اسی طرح ایسے بعض اور بندوں کے لئے جن کو وہ چن لیتا ہے کرتا ہے.مگر شیطان ایسا نہیں کر سکتا.کیونکہ یہ بات اقتدار کو چاہتی ہے اور شیطان کو کوئی اقتدار حاصل نہیں ہے اسے حدیث نفس اور اس کی پہچان کے متعلق بعض دلچسپ امور بیان فرمانے کے بعد یہ سبحث فرمائی کہ شیطانی خوابوں کی پہچان کے کیا طریق ہیں اور رحمانی خوابوں کے کیا طریق ہیں.رحمانی خوابوں پر گفت گو کرتے ہوئے اس خطرہ کی بھی نشاندہی فرمائی کہ بعض دفعہ رحمانی خوا ہیں بھی ایک انسان کے لئے سخت ابتلاء اور ٹھو کر کا موجب بن جاتی ہیں.آپ فرماتے ہیں :- دوسرے وہ خواہیں جو ابتلاء کے لئے آتی ہیں یہ بہت خطرناک ہوتی ہیں اور ان کی حقیقت نہ سمجھنے سے اکثر لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں.اس لئے اس کو خوب غور سے سنو اور سمجھو.یہ ایسی خوابیں ہوتی ہیں کہ ایک انسان بظاہر متقی اور نیک ہوتا ہے.عبادتیں کرتا ہے.احکامِ شریعت پر چلتا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے دل میں پوشیدہ طور پر اپنی بڑائی کا خیال بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ خیال ایسا پوشیدہ اور نہاں در نہاں ہوتا ہے کہ وہ خود بھی نہیں جانتا.تو ایسا انسان بظاہر انکسار کا پتلا، نہایت عبادت گزار اور متقی نظر آتا ہے.مگر اس کے دل کے کسی کونے میں عجب اور تکبر کی آلائش ہوتی ہے جو بڑھتی رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی وقت خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں میرا بھی کوئی حق ہے.ایسا انسان جب اپنی ظاہرہ نیکی پر پھولتا اور تکبر میں آتا ہے تو ابتلاء میں ڈالا جاتا ہے.اس وقت کن بھی اُسے آواز آتی ہے کہ تو مینے ہے کبھی یہ سنائی دیتا ہے کہ تو موسی ہے.کبھی یہ کہ تو ابراہیم ہے اور کبھی یہ کہ تو محمد ہے اور آجکل کبھی یہ آواز آجاتی ہے کہ تو مسیح موجود ہے ، اس کا بروز ہے اس کا موعود ہے.غرض له حقيقة الرؤياء من تا صلا

Page 225

۲۲۰ اس قسم کی آوازیں اُسے آنے لگ جاتی ہیں اور وہ خدا ہی کی طرف سے ہوتی ہیں نہ کہ شیطان کی طرف سے.اور اس وجہ سے بالکل مورت ہوتی ہیں.مگر با وجود اس کے ان رؤیاء کا آنا یا الہامات کا ہونا انتلار کے طور پر ہوتا ہے.کیوں ؟ اس کا جواب جو کچھ صوفیاء نے دیا ہے اور جو نہایت سچا جواب ہے.میں آپ کو سُناتا ہوں.فتوحات مکیہ میں محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ ایک وقت انسان پر ایسا آتا ہے جبکہ اس کے لئے ترقیات کے دروازے کھلنے والے ہوتے ہیں.اس وقت اس کی سخت خطرناک طور پر آزمائش کی جاتی ہے اور بہت کم ہوتے ہیں جو اس میں پورے اُترتے ہیں اور وہ یہ کہ ایسے انسان کو ایسے مقام پر کھڑا کیا جاتا ہے جہاں سے وہ محمد ابراہیم موسی علینی انبیاء علیہم السلام کے ساتھ جو کچھ خدا تعالیٰ کلام کرتا ہے وہ بھی سنتا ہے اور بعض دفعہ اس سے دھوکا کھا کر اپنے آپ کو مخاطب سمجھ لینا ہے اور اپنے آپ کو ان ناموں کا مصداق سمجھ لیتا ہے اور اپنی ذات کو مخاطب قرار دے لیتا ہے حالانکہ اگر وہ اپنی ذات پر غور کرے تو اُسے معلوم ہو جائے کہ میں کہاں اور یہ نام کہاں.پنجابی میں کہتے ہیں :.ایہہ منہ تے مسمراں دی دال " یعنی یہ منہ اور مسور کی دال.تو وہ اگر اپنے آپ کو دیکھے اور اپنی حالت پر نظر کرے، تو اُسے صاف پتہ لگ جائے کہ مجھے مخاطب نہیں کیا جا رہا بلکہ ان ناموں کے مخاطب کوئی اور ہی ہیں.کیونکہ وہ صفات جو ان ناموں کے انبیاء میں پائی جاتی ہیں وہ اس میں نہیں ہوئیں جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ میں خدا تعالے کا مخاطب نہیں.ورنہ خدا تعالیٰ ان ناموں کے ساتھ ان ناموں والے کے علوم اور ان کی صفات مجھے کیوں نہ دنیا سے اس مضمون کے آخر پر آپ نے الہامات اور رویا، وکشون کی صداقت معلوم کرنے کے کچھ طریق بیان فرمائے اور اس ذکر میں اپنی ایک رؤیاء بیان کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ کس طرح اللہ تعالٰی ره حقيقة الرؤياء مشتاده

Page 226

۲۲۱ کی طرف سے دکھائی جانے والی خواہیں انسانی دماغ کی دسترس سے بالا ہوتی ہیں.آپ فرماتے ہیں " اسی سال ایک معاملہ کے متعلق جو گورنمنٹ کے ساتھ تھا ایسا واقعہ ہوا کہ کمشنر صاحب کی چٹھی میرے نام آئی کہ فلاں امر کے متعلق میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.لیکن مجھے آجکل اتنا کام ہے کہ میں گورداسپور نہیں آسکتا اور قادیان سے قریب تر جو میرا مقام ہے وہ امرتسر ہے یہاں اگر آپ آسکیں تو لکھوں.اس چیٹی میں معذرت بھی کی گئی کہ اگر مجھے فرصت ہوتی تو میں گورداسپور ہی آتا لیکن مجبور ہوں.اس میٹھی کے آنے سے تین دن بعد مجھے رؤیار ہوئی کہ میں کمشنر صاحب کو ملنے کے لئے گورداسپور جا رہا ہوں اور یوں وغیرہ کا انتظام ڈاکٹر رشید الدین صاحب کر رہے ہیں.لیکن جس دن میں نے رویا، دیکھی اس دن ڈاکٹر صاحب قادیان میں موجود نہیں تھے بلکہ علی گڑھ گئے ہوئے تھے اور اسی رات کی صبح کو کمشنر صاحب کی میٹھی آگئی.جو بلا کسی ہماری تحریک کے تھی کہ مجھے کچھ کام گورداسپور کا نکل آیا ہے اگر آپ کو امر تسر آنے میں تکلیف ہو تو میں فلاں تاریخ گورداسپور آرہا ہوں آپ وہاں آجائیں.اس میٹھی سے ایک حصہ تو پورا ہو گیا مگہ دوسرا حصہ باقی تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کی موجودگی تھی.ڈاکٹر صاحب ایک مہینہ کے ارادہ سے علی گڑھ اپنی چھوٹی بیٹی کی لات پر آپریشن کرانے کے لئے گئے تھے اور ابھی اُن کے آنے کی کوئی امید نہ تھی.مگر دوسرے دن ہمیں گورداس پور جانا تھا کہ اتنے میں ڈاکٹر صاحب آگئے اور بیان کیا کہ جس ڈاکٹر نے آپریشن کرنا تھا اس نے ابھی ٹانگ کاٹنے سے انکار کر دیا ہے اور کہتا ہے کہ ایسا کرنا سرجری کی شکست ہے.میں پہلے یونہی علاج کروں گا.اس لئے میں نے سر دست ٹھہر نا مناسب نہ سمجھا اور واپس آگیا ہوں (گو چند ماہ بعد اس ڈاکٹر کو مجبورا ٹانگ کاٹنی پڑی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلی تحریک محض اللہ تعالے کی طرف سے تھی، غرض اس طرح

Page 227

دوسرا حصہ بھی پورا ہو گیا.اب دیکھو یہ ایک مرکب خواب تھی اور اس وقت آئی تھی جب حالات بالکل خلاف تھے.کیونکہ کشتر صاب کی چٹھی آچکی تھی کہ میں اس ضلع میں اس وقت نہیں آسکتا اور کوئی انسانی دماغ اس بات کو تجویز نہیں کر سکتا تھا کہ فورا وہاں اُن کو کام پیدا ہو گا اور پھر وہ اس کی اطلاع دے کر امرتسر آنے سے روک دیں گے اور اُدھر ڈاکٹر صاحب بھی غیر متوقع طور پر واپس آجائیں گے.اس خواب کے جس قدر جزو ہیں وہ نہ صرف یہ کہ ایسے وقت میں بنائے گئے ہیں کہ جب ان کی تائید میں کوئی سامان موجود نہ تھا.بلکہ ایسے وقت میں تبائے گئے جبکہ اُن کے خلاف سامان موجود تھے اللہ ایک اور علامت پر بحث کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.چوتھی علامت یہ ہے کہ خواب کے ذریعہ نئے نئے علوم سکھلائے جاتے ہیں.شیطان میں نئے علوم سکھلانے کی طاقت نہیں اور نہ ہی نفس کو یہ طاقت ہے کہ جو باتیں اسے معلوم ہی نہیں وہ بتا دے.تو جیں خواب کے ذریعہ سے نئے علوم معلوم ہوں سمجھ لو کہ یہ اللہ تعالے کی طرف سے ہے.نئے علوم کی تازہ مثال حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا واقعہ ہے.آپ کو اللہ تعالے نے بتایا کہ آپ عربی میں عید کا خطبہ پڑھیں.آپ کو خدا تعالے کی طرف سے علم دیا جائے گا.آپ نے اس سے پہلے کبھی عربی میں تقریر نہ کی تھی.لیکن جب تقریر کرنے کے لئے آئے اور تقریر شروع کی تو مجھے خوب یاد ہے.گو میں چھوٹی عمر میں ہونے کی وجہ سے عربی نہ سمجھ سکتا تھا مگر آپ کی ایسی خوبصورت اور نورانی حالت بنی ہوئی تھی کہ میں اوّل سے آخر تک برابر تقریر سنتا رہا حالانکہ ایک لفظ بھی نہ سمجھ سکتا تھا.تو ایسی خواب جس میں زائد علم دیا جائے وہ ضرور رحمانی ہوتی ہے اور میں نے خود اس کا کئی بار تجربہ کیا ہے کہ رو یار میں اللہ تعالنے کی طرف سے نیا علم دیا جاتا ہے چنانچہ جب خواجہ صاحب نے ہندوستان میں ایسی طرز پر تبلیغ شروع ت حقيقة الروياء ص۶۲۶

Page 228

۲۲۳ کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا نام نہ لیتے تھے تو مجھے بہت برا معلوم ہوا یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہماری یونسی مخالفت شروع کر دی گئی کچھ سوچا نہ سمجھا ہے، لیکن وہ نہیں جانتے کہ اس وقت پہلے میں نے استخارہ کیا کہ الہی اگر یہی طریق تبلیغ اچھا ہے تو مجھے بھی اس پر انشراح کر دے.بار بار دعا کرنے پر رڈیار میں میری زبان پر ایک اُردو شعر جاری ہوا جو شعر تو یاد نہیں رہا مگر اس کا مطلب یاد ہے جو یہ ہے کہ جن کے پاس قاق نہیں ہوتا وہ نان ہی کو قاق سمجھ لیتے ہیں.اس لفظ قاق کے متعلق میں نے کئی لوگوں سے دریافت کیا کہ اس کے کیا معنی ہیں.لیکن وہ کچھ نہ بتا سکے.پھر کئی لغت کی کتابوں کو دیکھا وہاں سے بھی نہ ملا.آخر بڑی تلاش کے بعد ایک لغت کی کتاب سے معلوم ہوا کہ قاق کیک کو کہتے ہیں اور یہ عربی لفظ ہے تو اس قسم کے نئے الفاظ کا بتایا جانا ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ یہ خواب خدا کی طرف سے ہے یاسہ آپ کی یہ تقریرہ محض ایک علمی کارنامہ ہی نہیں بلکہ ایک ایسے صاحب تجربہ بزرگ کی شہادت کا درجہ رکھتی ہے جو رڈیار و کشون کے کوچے سے خوب آشنا ہو.آج بھی اس کے پڑھنے سے دل پر آپ کے اعلیٰ روحانی مقام کا نقش ثبت ہو جاتا ہے.اس تقریر میں آپ نے علم تعبیر کا بھی مختصراً ذکر فرمایا.اس ضمن میں تمہیں یہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ خود آپ کو خوابوں اور رڈیار کی تعبیر کا غیر معمولی ملکہ حاصل تھا جو انسان کو اکثر ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا تھا.بلاشبہ ہزارہا مردوں اور عورتوں نے جن میں احمدی بھی شامل تھے اور غیر احمد می بھی ، آپ سے اپنی خواہیں بیان کیں یا لکھ کر اُن کی تعبیر پوچھی اور آپ کی تعبیر ہمیشہ نہایت حکیمانہ اور عارفانہ ہوتی اور ایسے نکات نکالتے جن کی طرف عام حالات میں انسانی ذہن منتقل نہیں ہو سکتا.ایک مرتبہ ربوہ کے ابتدائی ایام میں جبکہ یہ شہر ابھی نیا نیا آباد ہوا تھا اور حضرت حیات اپنے اہل خانہ سمیت عارضی طور پر بنے ہوئے کچے مکانوں میں رہائش پذیر تھے دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے سید نعیم احمد شاہ صاحب نے جو سیدہ مہر آیا صاحبہ کے چھوٹے بھائی ہیں حضرت صاحب سے عرض کیا کہ رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ کنڈی سے مچھلی پکڑ رہے ہیں.غالبا یہ بھی ل حقيقة الرؤياء من

Page 229

۲۲۴ بتایا کہ ایک مچھلی پکڑی جاتی ہے.بہر حال حضرت صاحب نے فورا پوچھا کہ چھوٹی تھی یا بڑی.نعیم احمد شاہ صاحب نے جواب دیا چھوٹی تھی.آپ نے پوچھا.تم نے کوئی امتحان دیا ہوا ہے تو انہوں نے جواب دیا.جی میں ابھی امتحان دے کر آرہا ہوں.آپ نے فرمایا تم فیل ہو جاؤ گے حضور کا یہ جواب شنکر نعیم احمد شاہ صاحب کا رنگ فق ہو گیا لیکن ہوا یہی.کہ وہ اس امتحان میں فیل ہو گئے.بعد ازاں میں نے حضور سے سوال کیا کہ آپ کو اس خواب سے کس طرح تبہ لگا، کہ نعیم فیل ہو جائے گا تو آپ نے فرمایا.خوابوں کی تعبیر اس کے موقع اور محل کے مطابق کی جاتی ہے بڑی مچھلی نے حضرت یونس علیہ السّلام کو نگلا تھا لیکن زندہ اُگل دیا جس کا مطلب ہے کہ ایسا غم آیا جو گذر گیا لیکن چھوٹی مچھلی جو چیز نگل جائے اس کو اگلا نہیں کرتی.ایک طالب علم کی زندگی میں خوشی و غم کا ایک خاص موقع امتحان میں کامیابی یا ناکامی کے وقت پیدا ہوتا ہے اس لئے مجھے خیال آیا کہ شاید یہ کوئی امتحان دے کر آیا ہے جس میں یہ کامیاب نہیں ہوگا.جہاں تک میں نے دیکھا ہے مچھلی کی تعبیر غم کے طور پر مجھے کسی اور جگہ نہیں ملی.عام طور پر تعبیر الرویاء کی کتابوں میں نعمت.مال دولت اور فائدے کی چیز وغیرہ بیان کی جاتی ہے.حضرت صاحب کی یہ نئی تعبیر کرنا کسی ظاہری علم کے نتیجہ میں مکن نہیں تھا بلکہ یقینا یہ اللہ تعالے کی طرف سے کوئی خاص روحانی ملکہ تھا جس کے نتیجہ میں آپ ملائک کی رہنمائی میں تعبیر فرمایا کرتے تھے.تعبیر الرویاء کے سلسلہ میں چند اور واقعات پیش کئے جاتے ہیں جن کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ حضور کو علم تعبیر بر کیسی زبردست دسترس حاصل تھی.کوئی ماسٹر عبدالکریم توسلم جو گذشتہ سال فوت ہوئے ہیں انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی یادوں سے متعلق جو تحریری بیان داخل کیا اس میں دو خوابوں اور ان کی تعبیر کا بھی ذکر ملتا ہے یہ دونوں خوا ہیں اس زمانہ کی ہیں جب ابھی یہ ہندو ہی تھے اور اسلام قبول کرنے کی توفیق نہیں ملی تھی.وہ لکھتے ہیں : مجھے خواب آئی کہ دو شخص مجھے ملے ہیں ایک مجبتہ والا بڑا بزرگ جنہوں نے شرعی پاجامہ پہنا ہوا تھا سر پر پگڑی تھی.دوسرے بزرگ اُن سے قدمیں چھوٹے تھے.بڑے قد والے بزرگ نے مجھ سے کہا کہ اگر تم ان کو مان لو گے تو تمہارے لئے اچھا ہے" ان کی یہ خواب حضرت مولوی عبداللہ صاحب سفوری رضی اللہ عنہ نے حضرت خلیفہ اساسی یانی

Page 230

۲۲۵ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھی ران کا بڑا بھائی بھی جو ہندو تھا مولوی صاحب کے پاس ملازم تھا، تو حضور نے جوابا لکھا:.بڑے قد والے بزرگ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہیں اور چھوٹے بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام ہیں.یہ جو لڑ کا ہے یہ مسلمان ہو جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بڑا بھائی جو بہت عرصہ تک مولوی عبداللہ صاحب سنورٹی کی صحبت میں رہا اُسے تو توفیق نہ ملی لیکن ان کو جلد ہی اسلام قبول کرنے کی توفیق مل گئی.ایک دوسرا خواب اسی زمانہ میں مسلمان ہونے سے قبل انہوں نے یہ دیکھا کہ آسمان سے دو بندر اُترے ہیں وہ آدمیوں کو اُٹھا اُٹھا کر پٹخ رہے ہیں.ان کے پاؤں کو بھی ایک بندر نے کاٹا ہے لیکن انہوں نے چھڑا لیا.یہ خواب بھی حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھ بھیجی.تو حضور کا جواب آیا کہ بالکل ایسی ہی خواب میں نے خود بھی دیکھی ہے.دنیا میں کوئی سخت بیماری آنے والی ہے جس کا اس لڑکے پر بھی حملہ ہو گا اس کا خاص طور پر خیال رکھنا.ماسٹر عبدالکریم صاحب کا بیان ہے کہ اس کے بعد شاہ کی جنگ عظیم اول وانا ، ائی انفلونزا چھوٹا جس میں میں اس بُری طرح جکڑا گیا کہ کچھ دن تک میرے دماغ پر بھی اثر یہ ہا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بھی انفلوئنزا سے بیمار ہو گئے جس کا علیحدہ ذکرہ آگے آئے گا اور اس طرح یہ تعبیر دونوں صورتوں میں بعینہ پوری ہو گئی.شیخ فضل احمد صاحب کی روایت ہے کہ انہوں نے ایک رویا، دیکھی کہ قرآن شریف کی اصل عبارت تو حاشیہ میں لکھی ہوئی ہے لیکن متن کی جگہ تصویر بنی ہوئی ہے جس کا اس عبارت سے تعلق ہے.مثلاً حضرت یوسف علیہ السّلام کے واقعہ کا حاشیہ میں جہاں ذکر ہے وہاں متن کی جگہ پر حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائیوں کی تصویر بنی ہوئی ہے کہ وہ کس طرح انہیں کنوئیں میں ڈال رہے ہیں.حضرت خلیفہ ایسی الثانی رضی اللہ عنہ نے اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ قرآن کریم کے عملی ظہور کا زمانہ آگیا ہے.ایک دوست نے خواب دیکھا کہ میرا دایاں بازو کہنی سے کاٹ دیا گیا ہے، خون جاری ہے اور اُسے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں.حضرت صاحب نے یہ تعبیر فرمائی کہ بازو خواب میں بیٹا ہوتا ہے.صدقہ دیں اور دعائیں اور استغفار کریں.

Page 231

ایک شخص نے دیکھا کہ اُن کے والد فوت ہو گئے ہیں اور وصیت کر گئے ہیں کہ انہیں قائد اعظم کے مزار میں دفن کرنا.بعد ازاں پولیس کی اجازت سے دفن کرنے لگے ہیں تو وہ زندہ ہیں مگر کہتے ہیں جلدی دفن کرو.حضور نے اس خواب کی یہ تعبیر فرمائی کہ ان کے والد کی عمر لمبی ہو گی اور ان کو قومی خدمت کرنے کا موقع ملے گا.ایک احمدی نوجوان نے ایک عجیب خواب دیکھا کہ وہ اپنے آپ کو حاملہ عورت کی صورت میں پاتا ہے اور اس کی والدہ اس کے ساتھ ایک کمرہ میں جاتی ہے جہاں اس کے ہاں ایک بچی پیدا ہوتی ہے.اس کی تعبیر آپ نے یہ فرمائی کہ بظاہر ناممکن کام ممکن ہو جائے گا.ایک دوست نے خواب میں دیکھا کہ ان کے مرحوم والد نے انگوروں کی پیٹی بھیجی ہے جس میں سوراخ کر کے ایک چوہا داخل ہو جاتا ہے.حضور نے یہ تعبیر فرمائی کہ چوہے سے مراد منافق ہے دعاء استغفار کریں.صدقہ بھی بھیج دیں.سلسلہ کے ایک بزرگ نے خواب دیکھا کہ اُن کے اُوپر کا دانت ٹوٹتا ہے اور ہلانے سے گکھڑ جاتا ہے.حضرت صاحب نے تعبیر فرمائی کہ اگر دانت زمین پر نہیں گر گیا اور صاف تھا سڑا ہوا نہ تھا تو خواب بُری نہیں.کئی مرتبہ حضور کے سامنے کوئی خواب زبانی بیان کی جاتی تو آپ اسے بڑی توجہ سے سنتے اور یہ ضروری نہ ہوتا کہ ہر خواب کی تعبیر کریں.بعض اوقات خاموش رہتے اور کوئی جواب نہ دیتے بعض اوقات فرماتے کہ یہ نفسانی خیالات یا پیٹ کی خرابی سے ہوا ہے.لیکن زیادہ تر یا تو خواب کی تعبیر فرما دیتے یا دعا، استغفار اور درود پڑھنے اور صدقات دینے کی نصیحت پر اکتفا فرماتے بہر حال یہ طریق نہیں تھا کہ ہر خواب کی خواہ وہ کیسی ہی ہو فورا تعبیر بتا دی جائے.صرف احمدی احباب ہی آپ کو خوابوں کی تعبیر کے لئے نہیں لکھا کرتے تھے بلکہ متعد د غیر احمدی شرفاء بھی جو حضور کی روحانیت اور علم و فضل سے متاثر تھے بسا اوقات حضور کی خدمت میں اپنی بعض غیر معمولی خوابیں لکھ کر تعبیر اور دعا کی درخواست کیا کرتے.اس کی ایک دلچسپ مثال جو ذاتی طور پر میرے علم میں ہے ہدیہ قارئین کرتا ہوں :- میجر جنرل شیر خان صاحب مرحوم اگر چه احمدی نہیں تھے مگر حضرت صاحب کی رُوحانیت سے بڑے متاثر تھے اور دعا کے لئے کبھی کبھی خط لکھتے رہتے تھے.ایک مرتبہ تعبیر کر وانے کی غرض سے اپنی ایک خواب حضور کو لکھی جس کو پڑھتے ہی حضور نے فورا پرائیویٹ سیکرٹری کو ہدایت کی

Page 232

که جنرل صاحب کی طرف سے فوری طور پر صدقہ کرو اور ان کو بھی خط لکھو کہ فورا صدقہ کر دیں کیونکہ آپ کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے.افسوس یہ خط ابھی ان تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ ہوائی جہاز کے ایک حادثہ میں ان کی ناگہانی وفات کی خبر اخباروں میں چھپ گئی.میں ان دنوں جامعہ احمدیہ میں طالبعلم تھا خبر پڑھی تو فورا پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں جا کر خود اس امر کی تصدیق کروائی اور تحب کیا کہ حضور کو اللہ تعالیٰ نے تعبیر کا کیا غیر معمولی ملکہ عطا فرمایا ہے.لنڈے تعویذ سے حضور کو سخت نفرت تھی لیکن بعض اوقات مسنون دعائیں یا قرآن کریم کی سورتیں پڑھ کر جسم پر پھونکنے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ انگلستان سے ایک عورت نے لکھا کہ اس کے خاوند کو بُرے برے خواب آتے ہیں تو حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا.رات کو سوتے وقت آیۃ الکرسی اور تینوں قل پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک کر سویا کریں.آپ کا خوابوں کی تعبیر بتانا یا دعائیں کر کے پھونکنے کی نصیحت کرنا کسی واہمے یا خوش اعتقادی کے نتیجہ میں نہیں تھا بلکہ سنت کی پیروی اور خداداد علم کی بناء پر تھا.تو ہمات وغیرہ سے سخت بیزار تھے.جنوں بھوتوں کے عامیانہ تصویر کو ہمیشہ لغو اور بے بنیاد قرار دیا کرتے.اور چیلنج کیا کرتے کہ مجھے بھی کسی جن یا بھوت کا سامنا کرایا جائے تاکہ میں دیکھوں کہ یہ کس بلا کا نام ہے.اس ضمن میں مکرم میاں روشن دین صاحب زرگر بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک موقعہ پر جنوں کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ کسی نے جنوں کو کچھ دیتے دیکھا.اس پر میں نے اپنی ایک سو پچھی کا واقعہ لکھ کر دیا کہ اس طرح بے موسم موتیا کی کلیاں اور آم آگئے.آپ نے فرمایا.میرے سامنے یا میرے نمائندہ کے سامنے وہ کچھ نہیں لاتے.لیکن اس کے باوجود مشاہدات خواہ کتنے ہی عجیب کیوں نہ ہوں، ان کو تسلیم کرنے میں کبھی کوئی انقباض نہیں ہوا.چنانچہ جنوں کے ذکر پر ایک دفعہ خود مجھ سے یہ ذکر فرمایا کہ میں جنوں کے عام تصور کا قائل نہیں ہوں یعنی ایسی مخلوق جسے اشرف المخلوقات پر کسی قسم کا غلبہ حاصل ہو اور اس کے شر اور خیر میں دخل رکھتی ہو دیا لفاظ حضرت صاحب کے نہیں لیکن مفہوم یہی تھا، لیکن ایک دفعہ خود میرے ساتھ ایسا گزرا ہے کہ میں نہیں کہ سکتا کہ اس کے ہیں پر وہ کون سی قوت کام کر رہی تھی.ایک دفعہ میں اپنے دفتر میں کام میں مصروف تھا اور پڑھتے پڑھتے رُومال کی ضرورت محسوس کر کے بغیر دیکھے اس طرف ہاتھ بڑھایا جس طرف میں نے خود رومال رکھا تھا تو تعجب ہوا کہ رُومال وہاں نہیں تھا اس پر میں نے کتاب سے نظر اُٹھا کر جو دیکھا تو مجھ سے کچھ فاصلے پر رومال زمین سے تقریبا

Page 233

دوفٹ اونچا ہوا میں معلق تھا.میرے دیکھنے پر وہ میرے قریب آیا.جب میں نے لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو وہ اس طرح پیچھے ہٹا جس طرح بعض دفعہ بڑی عمر والے بچوں سے کھیلتے ہیں اور پیز بظاہر دیتے ہیں لیکن ہاتھ بڑھانے پر کھینچ لیتے ہیں.دو تین مرتبہ اسی طرح ہوا لیکن اس سے میری طبیعت پر یہ اثر نہیں ہوا کہ گویا کوئی چڑا رہا ہو بلکہ پیار کے ساتھ کھیلنے کا سا احساس تھا.آخر میں نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا تو وہ رُو مال قریب آکر دو تین دفعہ ہوا میں جھولنے کے بعد خود ہی میری گود میں آن گرا.یہ واقعہ کم وبیش اسی طرح حضور نے خود میرے سامنے بیان فرمایا.خوابوں کی تعبیر کا ذکر چل رہا تھا اور بات یہ ہو رہی تھی کہ لغو خوابوں کو آپ لغو ہی قرار دیتے اور یونہی ہر خواب کی تعبیر کرنا آپ کی عادت نہ تھی.ایک دفعہ ایک خاتون کی نف اہر متوحش خواب کی تعبیر کرتے ہوئے آپ نے لکھا:- عزیزہ ہمشیرہ.بسم اللہ تعالے ! السّلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کا خط ملا.خواب بعض بے شک توحش ہیں مگر بعض نہیں.بجائے الہی ہونے کے بیمار اول تھکے ہوئے دماغ کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مبشرہ دیاء خدا تعالے کی طرف سے اور منذر رویا شیطان کی طرف سے ہوتی ہے اس کا مطلب لوگ نہیں سمجھتے.اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر زیادہ منذر رڈیا آئیں تو وہ دماغی کمزوری کا نتیجہ ہوتے ہیں نہ کہ خدا تعالے کی طرف سے.لیکن عمدہ رویاء اگر زیادہ آئیں.تو وہ بالعموم اللہ تعالے کی طرف سے ہوتی ہیں پارہ فی الحال اس دلچسپ مضمون کو یہیں ختم کیا جاتا ہے.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے اپنے رویا، اور کشوں کا ذکرہ ایک علیحدہ باب کا متقاضی ہے اور انشاء اللہ علیحدہ باب کی صورت میں ان کا ذکر کیا جائے گا : له الفضل ۲۴ فروری ۱۹۲۵ء صل

Page 234

۲۲۹ انفلوئنزا کی عالمی دباء اور حضور پر اس کا اثر شاور میں جنگ عظیم کے خاتمہ پر جو انفلوئنزا کی ہولناک وبار پھوٹی اُس کا رُخ مشرق سے مغرب کی جانب تھا گویا کہ جنگ کی زہرہ گداز تباہی تو مغرب سے مشرق کی سمت چلی تھی.انفلوئنزا کی وباء مشرق سے مغرب کی طرف بڑھی اور بر صغیر کے مشرقی کنارے سے داخل ہوتے ہوئے رفتہ رفتہ تمام ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.اس کی ہولناک تباہی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ہندوستان ہی میں اس کے نتیجہ میں 40 لاکھ اموات ہوئیں.اس خوفناک و بار کا جور و عمل حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر ہوا وہ یہ نہیں تھا کہ جماعت کو ایسی جنگوں پر جانے سے روکتے جہاں وباء کا شدید حملہ تھا بلکہ اس کے برعکس حضرت صاحب نے تمام جماعت کو تاکید فرمائی کہ ہر صحت مند آدمی بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے نکل کھڑا ہو اور جس حد تک بھی بیماروں کی خدمت کی توفیق ملے سر انجام دی جائے.چنانچہ انفرادی طور پر سی نہیں جماعتی تنظیم کے ماتحت بھی جماعت احمدیہ کے طبیب اور دوسرے صحت مند نوجوان بمیاروں کی خدمت پر کمر بستہ ہو گئے خصوصاً قادیان کے ماحول میں جماعت کو بھاری خدمت کا موقع ملا.وباؤں کے ایام میں جبکہ دوسرے ڈاکٹر زرو جواہر سے اپنی جھولیاں بھر رہے تھے احمدی اطباء کو ان کے امام کا یہ حکم تھا کہ وہ خود بیماروں تک پہنچیں اور ان کا مفت علاج کریں چنانچہ احمدی اطباء نے اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایسا ہی کیا اور اطباء کے ساتھ مخلص نوجوانوں کی ایک جماعت معاون کے طور پر شامل ہو گئی.ہمارے چچا جان حضرت صاحب کے چھوٹے بھائی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو اس وباء کے دوران بیماروں کی خدمت کی بہت توفیق ملی.یہاں تک کہ بالآخر خود ان پر بھی اس بیماری کا حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں مجبورا آپ کو علاج کے لئے قادیان واپس آنا پڑا.اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر بھی اس بیماری کا شدید حملہ ہوا.اور اس کے نتیجہ میں کمزوری اتنی بڑھ گئی کہ بار بار دل ڈوبنے کی شکایت پیدا ہو گئی اس وقت اس

Page 235

خیال سے کہ شاید آپ کا آخری وقت آن پہنچا ہے آپ نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو بعض دوسرے خدام سلسلہ کی موجودگی میں ایک وصیت لکھوائی جس میں آئندہ انتخاب خلافت کے متعلق طریق کار بیان فرماتے ہوئے آنے والے خلیفہ سے بھی ایک عہد لینے کی تلقین فرمائی.چونکہ یہ واقعہ جماعت کی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتا ہے اور اس سے حضرت صاحب کے کردار کے اس پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ جب آپ سمجھے کہ وقت آخر آن پہنچا ہے تو ایسے وقت میں سب سے زیادہ کون میں منکر آپ کو دامنگیر ہوئی.اس لئے اس عہد کے الفاظ کو جیسے آپ نے آنے والے خلیفہ کے لئے تجویز کیا من وعن پیش کیا جاتا ہے:.میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کی بنائی ہوئی تعلیم اسلام پر میں یقین رکھوں گا اور عمل کروں گا اور دانستہ اس سے ذرا بھی اِدھر اُدھر نہ ہوں گا بلکہ پوری کوشش اس کے قیام کی کروں گا.روحانی امور سب سے زیادہ میرے مد نظر رہیں گے اور میں خود بھی اپنی ساری توجہ اسی طرف پھیروں گا.اور باقی سب کی توجہ بھی اسی طرف پھیرا کروں گا اور سلسلہ کے متعلق تمام کاموں میں نفسانیت کا دخل نہیں ہونے دوں گا اور جماعت کے متعلق جو پہلے دو خلفاء کی سنت ہے اس کو ہمیشہ مد نظر رکھوں گا؟ آئندہ خلیفہ کے لئے جو عہد آپ نے تجویز فرمایا وہ دراصل آپ کی اپنی فطرت اور شخصیت کا خلاصہ ہے جو اس وقت آپ کے ذہن میں اُبھرا جب آپ یہ سمجھتے تھے کہ گویا اس دُنیا سے کوچ کرنے کا وقت آگیا ہے چنانچہ آپ کی وصیت کا پہلا فقرہ ہی اس قلبی کیفیت کو ظاہر کر رہا ہے.آپ نے فرمایا :- تیں مرزا محمود احمد ولد حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر ایسی حالت میں کہ دنیا اپنی سب خوبصورتیوں سمیت میرے سامنے سے ہٹ گئی ہے بقائمی ہوش و حواس رُو برو ان پانچ گواہوں کے جن کے نام اس تحریر کے آخری ہیں اور جن میں سے ایک خود اس تحریر کا کاتب ہے ، جماعت احمدیہ کی بہتری اور اس کی بہبودی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ وصیت کرتا ہوں "

Page 236

۲۳۱ اس وصیت میں آپ نے آئندہ آنے والے خلیفہ کو یہ بھی نصیحت فرمائی." امہات المؤمنین خدا کے حضور میں خاص رتبہ رکھتی ہیں پس حضرت ام المومنین کے احساسات کا اگر اس کے فرائض کے رستہ ہیں روک نہ ہوں احترام کرے.میری اپنی بیویوں اور بچوں کے متعلق اس شخص کو یہ وعیت ہے کہ وہ قرضہ حسنہ کے طور پر ان کے خروج کا انتظام کرے جو میری نرینہ اولاد انشاء اللہ ادا کرے گی.بصورت عدم ادائیگی میری جائداد اس کی کفیل ہو" اس وصیت میں دوسرے امور کے علاوہ یہ امر بھی عجیب محسوس ہوتا ہے.کہ میں مرزا محمود احمد ولد حضرت مرزا غلام احمد قادیانی لکھوانے کی بیجائے آپ نے میں مرزا محمود احمد ولد حضرت مسیح مود علیه السلام لکھوایا.شاید اس میں یہ حکمت ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی اولاد یعنی خلیفہ کی حیثیت سے یہ وصیت لکھوا رہے تھے اس لئے ولدیت میں آپ کا نام لکھوانے کی بجائے مقام اور مرتبہ کو ملحوظ رکھا.دوسرے یہ کہ حضرت ام المؤمنین کے اعلیٰ اور ارفع مقام کی نشاندہی کرنے کے باوصف اور باوجود اس کے کہ آپ کو حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے شدید محبت تھی آپ نے آنے والے خلیفہ کو جہاں نصیحت فرمائی کہ آپ کے احساسات کا خیال رکھے وہاں ساتھ یہ شرط بھی لگا دی کہ اگر اس کے فرائض کے رستہ میں روک نہ ہوں.اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کے نزدیک مقام خلافت کتنا بند تھا اور خلیفہ وقت کے فرائض کتنی اہمیت رکھتے تھے.یہ وصیت تاریخ احمدیت جلد جسم کے ص ۲۳ تا ص ۲۳ پر درج ہے اور اصل وصیت جو حضرت مولانا شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے خلافت لائبریری میں محفوظ ہے.اگر چہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے وصیت لکھوا کر اپنا فرض ادا فرما دیا اور دنیا سے منہ موڑ کر رفیق اعلیٰ کی بقا کے لئے ہمہ تن تیار ہو گئے مگر اللہ تعالے کی مشقت ایک دوسرے رنگ میں ظاہر ہوئی اور وصیت لکھوانے کے بعد سے ہی آپ کی طبیعت سنبھلنی شروع ہو گئی اور اس کے بعد ہر آنے والے دن میں آپ کی صحت پہلے سے بہتر ہوتی چلی گئی.لیکن اس بیماری کا آپ کے جسم پر ایسا گہرا اثر پڑا کہ اس سال معینی دسمبر مشالہ میں آپ کے لئے یہ ممکن نہ ہو سکا کہ جلسہ سالانہ کا اہتمام فرماتے اور جماعت کو حسب معمول نصیحتوں اور ملاقاتوں سے

Page 237

۲۳۲ نوازتے لہذا اس جلسہ کو مارچ 1919ء پر ملتوی کرنا پڑا.اس بیماری کے اثرات کئی ماہ تک جاری رہے یہاں تک کہ بعض ماہر اطباء سے مشورہ کے لئے حضرت صاحب نے ماہ فروری میں لاہور کا سفر اختیار فرمایا.اور ۱۲؍ فروری اشارہ کو حضور رضی اللہ عنہ لاہور پہنچے جہاں ۲۲ فروری تک قیام کا ارادہ تھا.لیکن کچھ تو جماعت لاہور کو حضور سے لمبی جدائی کے بعد ملنے کا اشتیاق کچھ غیر از جماعت دوستوں کا ملاقات کے لئے ذوق وشوق.نتیجہ یہ نکلا کہ کہاں کا علاج اور کیسے مشورے صبح سے لے کر رات گئے تک متفرق جماعتی ذمہ داریوں میں تیزی سے وقت گزرنے لگا یہاں تک کہ جماعت احمدیہ لاہور کی درخواست پر آپ نے ۱۲۳ فروری کو بریڈ لا ہال میں اسلام اور تعلیقات بین الاقوام" کے اہم موضوع پر ایک نہایت عالمانہ اور پر حکمت خطاب فرمایا.جو مسلسل تین گھنٹے تک جاری رہا.ہال شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور لوگوں کا کہنا تھا کہ اس ہال میں پہلے کبھی اس کثرت سے کسی دوسرے موقع پر اتنے سامعین اکٹھے نہیں ہوئے.اس تقریر میں آپ نے غیر مذاہب سے تعلقات کے موضوع پر اسلامی نظریات کو ایسے رنگ میں پیش فرمایا کہ غیر مذاہب سے تعلق رکھنے والے سامعین پر اسلام کا غیر معمولی حسن و کمال بخوبی ظاہر ہو گیا.یہ وہ دن تھے کہ جہاں ایک طرف پنجاب کا تعلیم یافتہ طبقہ حضرت صاحب کے غیر معمولی ظاہری اور باطنی علوم سے متاثر ہو کہ روز بروز پہلے سے بڑھ کہ آپ کی رہنمائی کی حاجت محسوس کر رہا تھا اور دقیق علمی مضامین کے بارہ میں روشنی حاصل کرنے کے لئے نظریں قادیان کے اس خلیفہ کی طرف اُٹھ رہی تھیں وہاں دوسری طرف مذہبی تعصبات بھی زوروں پر تھے اور عامتہ الناس میں علماء، پنڈتوں اور پادریوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے نتیجہ میں اخبارات اس بات سے ڈرتے تھے کہ حضور کے علم وفضل کا اعتراف جرات کے ساتھ کر سکیں.یہی وجہ ہے کہ گوپنجاب سے باہر کے بعض دور دور از اخبارات نے اس تقریر کو غیر معمولی وقعت کی نظر سے دیکھا، اور اپنے اخبارات میں اسے شاندار خراج تحسین پیش کیا.لیکن لاہور کے اخبارات میں سے سوائے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے جو ایک آزاد خیال انگریزی اخبار تھا کسی ہندو یا مسلم اخبار کو یہ جرات نہ ہوئی کہ حضور کی تقریر کا ذکر کرتا.بعض دوسرے شہروں کے اخبارات جنہوں نے اس تقریر کو شاندا الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.حسب ذیل تھے :- (1) روزانہ قومی رپورٹ کے مدراس (۲) روزنامہ اخوت " لکھنؤ

Page 238

(۳) روزنامہ ہمدم" لکھنو (۴ وکیل امرت سر اس تقریر کا جو فوری اثر حاضرین نے محسوس کیا.اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے که سید عبد القادر صاحب پروفیمر شعیہ تاریخ اسلامیہ کالج لاہور جو پہلے بھی کئی مرتبہ حضور سے علمی مضامین پر گفت گو فرما چکے تھے اس تقریر کے معا بعد حضور سے ملے اور سخت اصرار فرمانے لگے کہ حضور اپنا واپسی کا پروگرام ملتوی فرماویں اور ۲۶ فروری کو اسلامی خلافت میں پیدا ہونے والے فتنوں کے بارہ میں اسلامیہ کالج کی مارٹن ہسٹارٹیکل سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک جلسہ سے خطاب فرما دیں.اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر با وجود وقت کی قلت کے حضور نے اس درخواست کو منظور فرمالیا اور ۲۶ تاریخ کو اسلامیہ کالج ہال میں وہ شہرہ آفاق لیکچر دیا.جوبعد میں اسلام میں اختلافات کا آغاز " کے نام سے شائع ہوا.سید صاحب موصوف آپ کی شخصیت سے جس درجہ متاثر ہوئے اس کا کچھ اندازہ ان کے اس تعارفی خطاب سے لگایا جاسکتا ہے جو تقریر سے پہلے بحیثیت صدر انہوں نے حاضرین سے فرمایا.آج کے لیکچر نہ اس عورت ، اس شہرت اور اس پائے کے انسان ہیں کہ شاید ہی کوئی صاحب نا واقف ہوں.آپ اس عظیم الشان اور برگزیدہ انسان کے خلف ہیں جہنوں نے تمام مذہبی دنیا اور بالخصوص عیسائی عالم میں تہلکہ مچا دیا تھا.گذشتہ صدی کی تاریخ کی جہاں تک مجھے ورق گردانی کرنی پڑی ہے اس کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اس عرصہ میں تین نامور انسان پیدا ہوئے ہیں.اس میں شک نہیں کہ انیسویں صدی مسلمانوں کے لئے نہایت گئی گذری تھی تاہم اس نے مختلف رنگوں کے تین انسان پیدا کئے ہیں.ان میں سے ایک بڑا شخص تو وہ تھا جس نے ک کے غدر کے نہایت نازک زمانہ میں مسلمانوں کی راہ نمائی کی اور مسلمانوں کو بہت حد تک تباہی سے بچا لیا.اس وقت اگر وہ نہ ہوتا ، تو آج حیدر آباد ایسی قابل ذکر ریاست کا نام و نشان نظر نہ آنا، دوسرا شخص سرسید تھا.جس نے تعلیمی دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا تھا اور تیسرا انسان حضرت مرزا غلام احمد تھا جس نے مذہبی دنیا میں نہایت عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا.آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ایسے وقت

Page 239

میں حضرت مرزا صاحب آئے جبکہ مسلمانوں کی مذہبی حالت نہایت بری ہو چکی تھی.ایسی حالت سے حضرت مرزا صاحب نے مسلمانوں کو اُبھارا اور مذہب کی طرف کوٹنے کی ترغیب دی.اس مقصد میں انہیں کس قدر کامیابی ہوئی.اس کے متعلق میرے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اس کا ثبوت آپ لوگوں کے سامنے موجود ہے.میں کسی نہیں تقریر کے لئے کھڑا نہیں ہوا بلکہ صرف یہ بتانے کے لئے کھڑا ہوا ہوں کہ آج کے لیکچرار اس برگزیدہ انسان کے خلف ہیں جس نے اس زمانہ میں مذہبی دنیا میں زمانہ تہلکہ ڈال دیا تھا یات اسلام میں اختلاف کا آغاز اسلام میں اختلاف کا آغاز" کے موضوع پر آپ نے جو شہرہ آفاق تقریر فرمائی اس میں آپ کے مخاطب صرف عامتہ الناس نہیں تھے بلکہ فن تاریخ سے خوب واقت اس مضمون کے قابل اساتذہ اور طلباء کے علاوہ لاہور کے دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ احباب بھی بکثرت حلقہ سامعین میں موجود تھے.ایسے ہزاروں روشن خیال اور تعلیم یافتہ سامعین کے سامنے آپ نے جس عمدگی سے اس مضمون کو بیان کیا وہ آپ ہی کا حصہ تھا.سینکڑوں سال کی الجھی ہوئی گتھیاں چند منٹوں میں سلجھا دیں.اور اس دور کے ایسے واقعات جن پر پہلے ایہام اور شکوک کے پردے پڑے ہوئے تھے ایسے واضح اور مدلل انداز میں پیش فرمائے کہ دل و دماغ کی ساری تشنگیاں دُور ہو گئیں.چنانچہ اس تقریبہ کے متعلق صدر صاحب جلسه مکرم پروفیسر سید عبد القادر صاحب فاضل مورخ کے تاثرات بار ہا حجات کے رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں یہاں صرف اس تبصرہ میں سے چند فقرے ہدیہ ناظرین کئے جاتے ہیں.آپ نے فرمایا : مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ شدید ہے اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان.بہت تھوڑے مورخ ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد کے اختلافات کی تہہ تک پہنچ سکے ہیں اور اس مہلک ختنہ کی اصلی وجوہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں......میرا خیال ہے کہ ایسا مدتی مضمون اسلامی تاریخ سے دیسپی رکھنے والے احباب کی له الفضل در مارچ ۱۹۱۹ء ص۳

Page 240

۲۳۵ نظر سے پہلے کبھی نہیں گرتا ہو گا.سچ تو یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد کی جس قدر اسلامی تاریخوں کا مطالعہ کیا جائے گا اسی قدر مضمون سبق آموز اور قابل قدر معلوم ہوگا یہ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے آپ کی تقریر کا موضوع اسلام میں اختلافات کا آغاز تھا اس انتہائی ادق، مشکل اور الجھے ہوئے مضمون پر آپ نے بڑی شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی اور بہت سے اُلجھے ہوئے تاریخی عقدوں کو ایسی عمدگی کے ساتھ حل فرما دیا کہ تاریخ کے بڑے بڑے اساتذہ بھی انگشت بدنداں رہ گئے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت اور اس کے مخفی در مخفی اسباب پر سے پردہ اُٹھاتے ہوئے آپ نے فقہ کے اصل سرغنوں کو بے نقاب کیا اور ثابت فرمایا کہ دراصل اس فتنے کی طنابیں بعض شر انگیز بود کے ہاتھ میں تھیں.صحابہ کرام ہر گز اس میں ملوث نہ تھے بلکہ بعض غیر تربیت یافتہ نئی نسل کے نوجوانوں اور دور دراز علاقوں کے رہنے والے نو مسلموں کو آلہ کار بنایا گیا تھا.افسوس ہے کہ اس مضمون کی وسعت اور ترتیب اجازت نہیں دیتی کہ نمونہ چند اقتباسات پیش کئے جائیں یہ ایک مسلسل مضمون ہے جو بہت سی کڑیوں پر یشتمل ہے جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں.اور کسی ایک کو علیحدہ پیش کرنے سے مفہوم تشنہ رہ جاتا ہے اور حقیقت حال پوری طرح مجھ میں نہیں آسکتی لہذا دلچسپی رکھنے والے قارئین کو اس پورے مضمون کا مطالعہ کرنا چاہیئے جو بارہا جماعت احمدیہ کی طرف سے کتابی صورت میں شائع کیا جاچکا ہے.عرفان الہی جماعت احمدیہ قادیان کا وہ جلسہ سالانہ جو سائے میں انفلوئنزا کی عالمگیر و بار کے باعث منعقد نہیں ہو سکا تھا.ماریچ 1919 میں منعقد ہوا.اس جلسہ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علمی تقریر عرفان الہی کے موضوع پر تھی.بیماری کے نتیجہ میں آپ بہت کمزور ہو چکے تھے اور تقریر بھی اس حال میں کرنے کے لئے آئے کہ سر میں شدید درد تھا اور بات کرنی مشکل نفتی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا حساس دل عطا فرمایا تھا کہ دُور دُور سے آنے والے مہمانوں کو مایوس کرنا گوارا نہ کیا اور اسی حالت میں تقریر کے لئے چلے آئے.مضمون نہایت مشکل تھا اور سامعین میں ناخواندہ دیہاتیوں سے لے کر نہایت اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ احباب تک شامل تھے پھر احمدی ہی نہیں کثرت سے غیر از جماعت دوست بھی اس نوجوان خلیفہ کی علمی قابلیت کا شہرہ اے مہیڈ اسلام میں اختلافات کا آغاز

Page 241

۲۳۶ شنگرا در مرکز احمدیت کی غیر معمولی روحانی فضا کے تذکروں سے متاثر ہو کر تشریف لائے ہوئے تھے آپ نے نہایت سادہ اور سلیس زبان میں عرفان الہی کے مضمون کو بیان کرنا شروع کیا.پہلے مضمون کا تعارف کرایا.عرفان الہی کے معانی سمجھائے.علم و عرفان کی اصطلاحوں میں مشرق کر کے دکھایا.یہ بتا یا کہ خدا تعالے علیم تو ہے عارف نہیں.بلکہ خدا کے متعلق عرفان کا لفظ اطلاق پاہی نہیں سکتا.عرفان کے لئے ضروری ہے کہ ایسی چیز کی جستجو کی جائے جس کا پہلے علم نہ ہو.اور انسان حقیقت کی تلاش میں ظاہر سے باطن کی طرف حرکت کرے.چونکہ اللہ تعالے کے لئے ظاہر اور باطن برابر ہے وہ عالم الغیب والشہادت ہے اس لئے عرفان کا لفظ صرف انسان کے تعلق میں بولا جا سکتا ہے.غرضیکہ مختلف رنگ میں اس مضمون کو پھیر پھیر کر بیان فرمایا اور حاضرین پر یہ حقیقت بڑے خوبصورت انداز میں واضح فرمائی کہ کسی قطب یا غوث یا ولی کی ایک نظر سے ایک ہی لمحہ میں کبھی عرفان اللی نصیب نہیں ہو سکتا.پھر آپ نے یہ امر ذہن نشین کرایا کہ عرفان الهی مسلسل محنت جستجو اور کوشش کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتا ہے جس کے ساتھ دُعا بھی انتہائی ضروری ہے.پھر مضمون کا رخ بدلتے ہوئے یہ نکتہ ذہن نشین کرایا.کہ جو لوگ عمل اور کوشش کے بغیر صرف منہ سے دُعا مانگ کر عرفانی انہی حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کو کبھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا.آپ نے فرمایا دعا عمل کے بغیر کچھ نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی.ہاں دو صورت میں ایسی ہوتی ہیں کہ بغیر عمل کے دُعا فائدہ دیتی ہے.ایک تو یہ کہ خدا تعالے کی طرف سے انسان کو حکم دے دیا جائے کہ فلاں کام کے لئے دعا کر عمل نہ کر یعنی ظاہری سامان کو اس کام کے لئے ستعمال نہ کر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا گیا تھا کہ طاعون سے بچنے کے لئے وہ دعا پر زور دیں اور ٹیکا نہ لگائیں اور نہ آپ کی جماعت ٹیکا لگوائے......تو با وجود اس کے کہ یہ ٹیکا طاعون کا علاج تھا اور ہے.خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کے لگانے سے منع کر دیا اور دُعا کا حکم دیا.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی جماعت ان ٹیکا لگانے والوں کی نسبت بہت کم اس مرض کا شکار ہوئی.دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایسا موقع ہو کہ انسان عمل کو ہی نہ سکے

Page 242

له مثلاً ایک ایسا شخص ہو جسے جنگل میں قید کر دیا گیا ہو اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھے دیئے گئے ہوں.اب چونکہ یہ شخص عمل کر ہی نہیں سکتا، اس کے لئے محض دعا کرتا ہی کافی ہے لیکن جب اس قسم کی روکیں نہ ہوں اس وقت دُعا کے ساتھ عمل کا ہونا ضروری ہوتا ہے ، اے پھر اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ بعض اوقات دعا اور عمل کے باوجود خدا نہیں ملتا.آپ نے فرمایا :- اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی ان دونوں باتوں سے کام لیتا ہے یعنی دعا بھی کرتا ہے اور کوشش بھی تو پھر کیوں خدا نہیں حاصل ہوتا اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی کوشش صحیح کوشش نہیں ہوتی.وہ کوشش کرتا ہے لیکن صحیح کوشش نہیں کرتا اور کامیابی کے لئے شرط یہ ہے کہ کوشش کی جائے اور صحیح طریقہ سے کی جائے.مثلاً ایک طالب علم جو مدرسہ میں پڑھنے کے لئے جاتا ہے اس کے لئے ضروری ہے ، کتابیں خریدے اور انہیں پڑھے لیکن اگر وہ کتابیں تو نہ پڑھے اور سارا وقت دعائیں کرتا رہے کہ مجھے علم حاصل ہو جائے تو کیا اُسے علم حاصل ہوتی ہیگا ہرگز نہیں.یا کیا اگر وہ سارا دن اُلٹا لٹکا رہے یا اپنے جسم کو سوئیاں مارتا رہے اور سمجھے کہ میں بڑی مشقت کر رہا ہوں اس لئے پاس ہو جاؤنگا تو وہ پاس ہو جائے گا ؟ ہر گز نہیں ہے جائے پھر بعض متفرق اعتراضات کے جوابات دیئے مثلاً یہ کہ : لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں تنگ ظرفی پائی جاتی ہے کیونکہ اسلام کہنا ہے کہ میرے سوا اور کوئی مذہب حق پر نہیں ہے حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ کہا جاتا کہ ہر نہ مہب پر چلنے والا انسان سنجات پاسکتا ہے.تعجب ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے قانونِ قدرت کی طرف نہیں دیکھتے.کہ اس کے ہر ایک کام میں کیا نتیجہ نکل رہا ہے.وہ کہتے ہیں جب ایک ہندو ایک عیسائی ایک آریہ کے دل میں خدا کی محبت ہے اور وہ حندا کو پانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے وہ خدا کو نہ پائے ہیں ه عرفان اللي صدا ه عرفان اللى ما - ۲۰

Page 243

۲۳۸ ول.کہتا ہوں اس کی وہی وجہ ہے.........سب لوگ جانتے ہیں کہ جب تک کسی کام کے لئے صبح کوشش نہ کی جائے اس وقت تک وہ حاصل نہیں ہوسکتا نہیں جب دنیاوی امور میں یہ قانون چلتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ روحانی امور میں بھی یہی قانون نہ چلے کیا ہے اس کے بعد عرفانِ الہی کے حصول کے ذرائع پر بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ عرفان اللہی در حقیقت صفات الہیہ کو اختیار کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.آپ نے فرمایا :- دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مادی اعضاء جن چیزوں کو چھوتے ہیں دہ مادی ہی ہوتی ہیں اور جتنا جتنا مادہ اشیاء میں کم ہوتا جاتا ہے وہ اتنی ہی کم محسوس ہوتی ہیں وجہ یہ ہے کہ جب تک دو چیزوں یا مشارکت نہ ہو اس وقت تک ان کا آپس میں تعلق نہیں پیدا ہو سکتا.مثلاً بھینس اور علوم میں کسی قسم کی مشارکت نہیں.اب اس کے سامنے فلسفہ بیان کیا جائے تو کبھی نہیں سمجھ سکے گی.اسی طرح طوطے میں گو زبان کی مشارکت ہے لیکن عقل کی مشارکت نہیں رکھتا اس لئے آوازہ کی نقل کو اتار لیتا ہے لیکن کوئی بات سمجھ نہیں سکتا.اس سے معلوم ہوا کہ عرفانِ الہی کے لئے مشارکت اور مناسبت کا ہونا ضروری ہے اور خدا کا عرفان اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جبکہ خدا سے مشارکت پیدا ہو جائے اور خدا کی صفات انسان کے اندر آجائیں.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اللہ تعالے کے اخلاق سے مراد اس کی صفات ہیں " پھر یہ سوال اُٹھایا کہ : یہ نکتہ تو معلوم ہو گیا کہ عرفان الہی حاصل کرنے کے لئے خدا کی صفات حاصل کر لینی چاہئیں لیکن یہ بھی تو معلوم ہونا چاہیے کہ خدا کی صفات حاصل کس طرح ہو سکتی ہیں.......اس کے لئے سب سے پہلی ضروری بات یہ ہے کہ انسان کو خدا تعالے کی صفات کا علم ہو یہ نہ سمجھو ت عرفان الهی صدا

Page 244

۲۳۹ کہ یہ معمولی بات ہے...کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان سے خدا کی کسی صفت کے معنے پوچھے جائیں تو بتا دیتے ہیں لیکن جب معنوں کا مطلب دریافت کیا جائے تو خاموش ہو جاتے ہیں اور ان کا وہی حال ہوتا ہے جو اس شخص کا ہوا جس نے نے ہم ہوئے تم ہوئے کہ میسر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے کے یہ معنے گئے تھے کہ ہم لوگ تم لوگ اور میر صاحب سب کو اس کے بالوں کی زینجیر کے ساتھ باندھ کر جیل خانہ بھیج دیا.غرض صرف لفظوں کے معنے جانتے کافی نہیں ہوتے جب تک ان الفاظ کے ساتھ وہ کیفیت پیدا نہ ہو جو ان الفاظ سے وابستہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ انسان خدا کی ہر ایک صنعت کے معنے جانے اور پھر اس کی تفصیل کرے تاکہ اس صفت کی کیفیت اس کے دل میں بیٹھ جائے مثلاً کرتب کے معنے کرے کہ پیدا کرنے والا اور پیدا کر کے ترقی دینے والا.آگے اس کی تفصیل کرے کہ ترقی دینے کے کیا معنے ہیں.اور کس طرح ترقی دیتا ہے اور کس کس رنگ میں دیتا ہے.جب تک اس صفت کی پوری پوری کیفیت دل میں پیدا نہ ہو جائے.اس وقت تک تفصیل کرتا ہی رہے ہے اس کے بعد ایک اور اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی : موله ه عرفان الهی عرفان الہی کے حصول کا واحد ذریعہ اخلاق البتہ اپنے اندر پیدا کرتا ہے اور صفات الہیہ اس وقت تک انسان کے اندر پیدا نہیں ہوسکتیں.جب تک پہلے انسان کا قلب بدیوں سے صاف نہ ہو.پس سب سے اول روک عرفان الہی کے حاصل ہونے میں از تکاب گناہ ہے اور ارتکاب گناہ تین طرح ہوتا ہے اقول اس طرح....کہ بعض لوگوں کو بعض بدیاں معلوم ہی نہیں ہوتیں اور لاعلمی سے وہ ان کے مرتکب ہو جاتے ہیں.......پس اگر کوئی شخص بعض بدیوں سے غافل ہو گا تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا..........دوسری وجہ ارتکاب گناہ کی یہ ہوتی ہے کہ انسان کو لم

Page 245

۲۴ گناہوں کا تو علم ہوتا ہے مگر وقت پر اسے ایسا جوش آجاتا ہے کہ اُسے کچھ یاد نہیں رہتا اور وہ برائی کا مرتکب ہو جاتا ہے یا اے بدیوں کی بحث میں حضور رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے انقلابی نقطہ نگاہ سے بھی حاضرین کو آگاہ کیا جو عموما معلمین اخلاق کے زیر بحث نہیں آتا لیکن اس زمانے کے بڑے بڑے ڈاکٹر اس طرف متوجہ ہو چکے تھے.آپ نے فرمایا :- دنیا میں آج تک اس بات کو بہت کم سمجھا گیا ہے بلکہ انبیاء اور اولیاء کو علیحدہ کر کے میں کہ سکتا ہوں کہ اور کسی نے سمجھا ہی نہیں کہ گو بہت سی بدیاں ایسی ہیں جو شرعی بدیاں ہیں لیکن ان کا ارتکاب کرنے والا کسی شرعی گناہ کا مجرم نہیں ہوتا بلکہ وہ کسی جسمانی بیماری کا مریض ہوتا ہے یہ ایک وسیع مضمون ہے اور اللہ تعالے نے اس کے متعلق مجھے خاص علم دیا ہے اور میرا ارادہ ہے کہ اس پر مفصل لکھوں اور جب یہلم کامل ہو جاوے گا اس وقت بعض لوگ جو اب روحانی بیمار کہلاتے ہیں اپنے علاج کے لئے جسمانی ڈاکٹروں کے پاس جاویں گے اس وقت بعض بڑے بڑے ڈاکٹروں کی توجہ اس طرف ہو رہی ہے لیکن تاحال ان کی تحقیقات عالم طفولیت میں ہے مگر اس بارے میں مجھے جو علم دیا گیا ہے وہ ایسا وسیع ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان لوگوں کی تحقیقات سے بہت وسیع ہے یہ کوئی ایسا نیا علم نہیں جو مجھ سے پہلے اوروں کو نہیں دیا گیا.خدا کے برگزیدہ اور پیارے بندوں کو دیا جاتا رہا ہے.پھر قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا اور آپ نے اس کا تذکرہ اصولاً اپنی کتب میں کیا بھی ہے.مگر افسوس عام لوگوں نے اسے سمجھا نہیں اور اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا اب خدا تعالٰی نے وسیع طور پر مجھے یہ علم دیا ہے اور میں نے اس کے متعلق تحقیقات کی ہے جس سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ شرعی گناہوں کی ایسے رنگ میں تقسیم ہو سکتی ہے کہ فلاں قسم کا گناہ گار ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیئے اور فلاں قسم کا بزرگ کے پاس.میں نے یہاں تک تو تحقیقات له عرفان الهی ص۲۹-۳۰

Page 246

۲۴۱ کر لی ہے کہ بعض انسان شریفی گناہ جسمانی بیماری کی وجہ سے کرتے ہیں مگر ابھی یہ بات باقی ہے کہ کس قسم کے لوگوں کو ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیئے.اور کس قسم کے لوگوں کو رُوحانی طبیب کے پاس.جب اس کے متعلق بھی فیصلہ ہو جائے گا تو تحقیقات مکمل طور پر پیش کی جا سکے گی یہ ہے برے خیالات کو دل سے نکالنے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے خیالات کے اثرات کی اہمیت ان الفاظ میں بیان فرمائی : در اصل انسان میں قدر کام کرتا ہے وہ خیال ہی کے ذریعہ کرتا ہے.اگر کہو کہ اور چیزیں جب خیال کے ساتھ ملتی ہیں تب کام ہوتا ہے اکیلا خیال کچھ نہیں کر سکتا اس لئے خیال ہے حقیقت چیز ہے تو میں کہتا ہوں کہ اس طرح تو اس پیج کو بھی بے حقیقت قرار دینا پڑے گا جس سے بڑ کا درخت پیدا ہوتا ہے.........اگر کوئی شخص بیج کو اس لئے بے حقیقت کہہ سکتا ہے کہ جب تک دوسری چیزیں اس کے ساتھ نہ ملیں اس وقت تک اس سے درخت نہیں بن سکتا.تو وہ خیال کو بھی بے حقیقت کہہ سکتا ہے لیکن جب بیج کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بے حقیقت ہے تو خیال کے متعلق بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بے حقیقت شے ہے.پس خوب یاد رکھو کہ خیال کوئی بے حقیقت چیز نہیں ہے بلکہ خیال مادہ ہے تمام چیزوں کا.کیونکہ اسی سے آگے نتائج نکلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُودُ يُمَا سِبَكُمْ بِهِ اللهُ (۲- ۳۸۵) کہ اے لوگو ! جو خیال تمہارے دل میں آئے اُسے فورا تم عمل میں لاؤ یا پوشیدہ رکھو اللہ تعالے اس کا حساب لے گا.اس کے یہ معنے نہیں کہ یوں اگر کسی کے دل میں کوئی خیال پیدا ہو گا تو بھی اس سے مواخذہ کیا جائے گا کیونکہ خدا تعالے بھی فرماتا ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ میں بات پر انسان کا میں نہیں اس کا مواخذہ نہیں ہوگا.....ہاں اگر یہ خیال آنے پر وہ سوچنا شروع کر دے کہ میں کسی طرح اس سال ہے کو اٹھاؤں کس وقت اُٹھاؤں تو اس کا سوچنا اور تدبیریں کرنا قابل مواخذہ ہوگا." عرفان اللى ص۳۲۳ ه عرفان التی ما - ۴۲

Page 247

صفات الہیہ کو اپنے نفس میں جاری کرنے کے ذرائع بیان کرتے ہوئے آپ نے گناہ اور بدی اور نیکی کے موضوعات پر بھی اظہار خیال فرمایا اور ان کی صحیح تعریف سے بھی حاضرین کو روشناس کرایا اور ان ٹھوکر کے مقامات سے بھی متنبہ کیا جو طالب حق کے راستہ میں عموما آیا کرتے ہیں.اور غیر جانبدار اور منصفانہ محاسبہ کی عادت ڈالنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا :- ایک گر بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خدا نے انسان میں، ایسا غیرت کا مادہ رکھا ہے کہ وہ ایک فصل خود تو کر لیتا ہے لیکن اسی فعل کو اگر کوئی اور اس کے سامنے کرتا ہے تو اسے غیرت آجاتی ہے اور وہ اسے سخت نا پسند کرتا ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے ایک چور سے پوچھا تھیں چوری کرنا بڑا نہیں معلوم ہوتا.وہ کہنے لگا بُرا کیونکر معلوم ہو.ہم محنت و مشقت سے کماتے ہیں اور بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھاتے ہیں.یونسی تھوڑا کہیں سے اُٹھا لاتے ہیں.فرماتے تھے پر شنکہ میں نے اس سے کچھ اور باتیں شروع کر دیں اور تھوڑی دیر کے بعد پوچھا تم مال آپس میں کس طرح تقسیم کیا کرتے ہو.اس نے کہا ایک شنار ساتھ شامل ہوتا ہے اُسے سب زیورات دے دیتے ہیں.وہ گلا کر سونا بنا دیتا ہے یا چاندی یا جیسا زیور ہو.پھر مقرر شدہ حصوں کے مطابق ہم تقسیم کر لیتے ہیں.میں نے کہا اگر اس میں سے کچھ رکھ لے تو پھر.وہ کہنے لگا اگر وہ ایسا کرے تو ہم اس بد معاش چور کا سر نہ اڑا دیں وہ اس کے باپ کا مال ہے کہ اس میں سے رکھ لے.اس مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح انسان اپنے اعمال کو اور نظر سے دیکھتا ہے اور دوسرے کے اعمال اور نظر سے.پس گناہ کی تعریف اپنے نفس کو مد نظر رکھ کر نہیں کرنی چاہیے بلکہ دوسروں کے اعمال کو مد نظر رکھ کر کرنی چاہیئے یہ لئے آخر پر ہم صرف ایک اور اقتباس دے کہ اس ذکر کو ختم کرتے ہیں یہ اقتباسات محض اس لئے دیئے جارہے ہیں تاکہ اصل کتاب پڑھنے کی طرف تو یہ پیدا ہو اور علم و عرفان کے اس خزانے سے ارمین زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں.به عرفان اللي مشت

Page 248

۴۳۳ دستوئیں بات یہ ہے کہ نا امید نہ ہو اور اللہ پر توکل ہو.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو منت کرتے کرتے ایسے موقع پر نا امید ہو کر مٹ جاتے ہیں جبکہ انہیں محنت کا ثمرہ ملنے والا ہوتا ہے.ایک بزرگ کا واقعہ لکھتے ہیں کہ وہ ہر روز رات کو اُٹھ کر بعض امور کے متعلق دُعا مانگا کرتے تھے.اتفاقاً ایک دفعہ ان کا ایک مریدہ ان سے ملنے کے لئے آیا اور تین چار دن اُن کے پاس ٹھرا جس وقت وہ رات کو نماز کے لئے اُٹھے اس کی بھی آنکھ کھل گئی اور وہ بھی اپنے طور پر عبادت میں مشغول رہا.جب پیر صاحب دُعا سے فارغ ہوئے تو ان کو ایک آواز آئی کہ تو خواہ کتنی ہی گریہ وزاری کر تیری دعا قبول نہ ہوگی.یہ آواز گو الہامی تھی مگر اس مرید کو بھی سنائی دی.مرید نے دل میں اس پر تعجب تو کیا مگر پیر کے پاس ادب سے خاموش رہا.دوسرے دن پھر اسی طرح وہ بزرگ اُٹھے اور دُعا میں مشغول ہوئے.اس دن بھی اُسی طرح آواز آئی اور مرید نے بھی شنی مگر پھر بھی خاموش کہ ہا.تیسرے دن پھر وہ بزرگ اُٹھے اور اسی طرح دعا اور عبادت میں مشغول ہوئے اور پھر وہی آواز آئی جو مرید نے بھی سنی تب اس سے نہ رہا گیا اور اس نے پیر صاحب سے کہا کہ ایک دن ہوا دو دن ہوا تین دن سے آپ کو یہ آواز آرہی ہے اور آپ بھی بس نہیں کرتے اس پر وہ بزرگ بولے کہ نادان تو اتنی جلدی گھبرا گیا.مجھے تو یہ آواز بنین سال سے آرہی ہے مگر میں سستی نہیں کرتا.کیونکہ دُعا عبادت ہے اور بندہ کا کام عبادت ہے.خدا تعالے معبود ہے اس کا کام دُعا کو متبول کرنا یا رو کرنا ہے وہ اپنا کام کر رہا ہے میں اپنا کام کر رہا ہوں.تو پیچ میں کون ہے جو گھبرا رہا ہے.اس پر وہ مرید خاموش ہو گیا.اگلے دن جو وہ دعا کے لئے اُٹھے تو ان کو الہام ہوا کہ اس سنیں سال کے اندر کی تیری سب دعائیں قبول کی گئیں کیونکہ تو امتحان میں کامیاب ہوا اور آزمائش میں پورا اترا.اس پر انہوں نے مرید سے کہا کہ دیکھ اگر میں تیری نصیحت پر عمل کرتا تو کس قدر گھاتے ہیں رہتا.مجھے خدا پر توکل تھا آخر اس کا قرب

Page 249

مجھے نصیب ہوا.اب دیکھو کہ اگر وہ بزرگ مرید کی بات مان لیتا تو ایسے وقت میں جبکہ اس کی ساری دُعائیں قبول ہونے میں بہت ہی تھوڑا عرصہ رہ گیا تھا اس کا دعا کو ترک کر دنیا کیسا خطرناک ہوتا اور اس کی سب محنت ضائع ہو جاتی.پس مومن کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیئے.بہت سے قدم آگے ہی بڑھاتا چلا جاوے اور اپنی ناکامی پر کام نہ چھوڑ بیٹھے.ہاں یہ بے شک غور کرے کہ میری ناکامی کے سبب کیا ہیں.اور اگر کوئی سیب معلوم ہو تو اس کو دور کرنے کی کوشش کرے مگر خدا تعالٰی کے فضل سے نا امید کبھی نہ ہو یہ نہ اس جلسہ پر آپ کی مختلف تقاریر کا جو اثر غیروں نے قبول کیا اس کے تفصیلی ذکر کا تو موقع نہیں ہاں معاصر اخبار اتحکم کے ایک اقتباس پر اکتفاء کی جاتی ہے جو ایک سخت معاند آریہ سماجی اخبار کے اعتراف حق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے :." ایک قادر الکلام کا انجانہ آپ کی تقریر کے متعلق آریہ سماج کے معززا در زیر دست اخبار پرکاش کی رائے یقینا پچسپی سے پڑھی جائیگی اور میں اسے اس لئے یہاں دیتا ہوں کہ احمدی جماعت کو معلوم ہو جاوے کہ اس کی عقیدت اور ارادت کے متعلق مخالفین سلسلہ بھی ایک خاص عظمت محسوس کرتے ہیں.چنانچہ پر کاش لکھتا ہے کہ :.جلسہ میں خاص کشش کا باعث میرزا محمود احمد صاحب کے لیکچر تھے ہیں احمدی دوستوں کی عقیدت اور بردباری کی تعریف کرنی چاہئیے کہ میر نہ صاحب کے لیکچر پانچ گھنٹے تک ہوتے رہے اور وہ سنتے رہے.آریہ سماج کے اندر بڑے سے بڑا دیا لکھتا لیکچرار بھی یہ بہت نہیں رکھتا کہ حاضرین کو پانچ گھنٹوں تک بیٹھا سکے.یہاں تو لوگ ایک گھنٹہ میں اکتانے لگ جاتے ہیں.ہم اپنے احمدی دوستوں کو اُن کے جلسہ کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہیں.معزز ہمعصر کی اس صاف اور بے لوث رائے پر میں اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں احمدی جماعت کی عقیدت اور ارادت کے علاوہ ایک خاص چیز ہے جس کا اشارہ خود پر کاش نے کیا ہے.وہ حضرت ه عرفان الہی طلا ۶۲

Page 250

۲۴۵ خلیفہ ایسیح کی زبر دست شخصیت ہے اور آپ کو اپنے کلام پر ایسی قدرت اور حکومت ہے کہ وہ اپنے سننے والوں کو جس قدر عرصہ تک چاہیں محویت کی حالت میں رکھ سکتے ہیں.لاہور کے حال کے دونوں پبلک جلسے اس امر کی زیر دست شہادت ہیں اور عجیب بات ہے کہ ایسی تمام تقریریں عموٹا آپ نے حالت مرض میں کی ہیں " سے تقدیر الہی جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ جو دسمبر 199ئر میں منعقد ہوا اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی علمی تقریر تقدیر الہی کے موضوع پر تھی.یہ مضمون ہمیشہ سے اہل مذاہب ہی نہیں بلکہ فلسفیوں اور حکماء کے درمیان بھی کئی لحاظ سے ایہ النزاع رہا ہے.جبر اور اختیار کی گتھیوں کو سلجھانے میں انسان ہزاروں سال سے اُلجھا ہوا ہے لیکن گذشتہ حکماء کی بخشوں کا مطالعہ کریں یا جدید فلاسفہ کی تحریرات کو پڑھیں ہنوز روز اول کا سا معاملہ نظر آتا ہے.مرغی پہلے تھی کہ انڈا پہلے جیسے یہ سوال فلسفیوں سے کبھی حل نہ ہو سکا.تقدیر کی گنہ کو بھی وہ نہ پاسکے اور یہ سوال ہمیشہ انسانی ذہن کے لئے ایک چیلنج بنا رہا کہ تفت دیر کیا چیز ہے ؟ جوں جوں انسان اس مسئلہ پر غور کرتا ہے سوالات کی نئی نئی شاخیں پھوٹتی چلی جاتی ہیں.مثلاً یہ کہ خدا تعالے قادر ہے تو کن معنوں میں.کیا وہ ہر چیز پر قادر ہے یا محض بعض چیزوں پر تقدیر مل سکتی ہے یا نہیں.تدبیر سے اس کا کیا رشتہ ہے.تدبیر غالب ہے یا تقدیر.اگر تقدیر غالب ہے تو تدبیر کی ضرورت کیا ہے.تدبیر ضروری ہے تو تقدیر کے معنے کیا ہیں.علیم الہی اور تقدیر کا رشتہ کیا ہے.اگر خدا عالم الغیب ہے تو پھر کسی انسان کے با اختیار ہونے کی گنجائش کہانتک ہے.انسان اپنے عمل اور ارادہ سے تقدیر الہی کو کیسے بدل سکتا ہے.یہ اور اسی قسیم کے اور بہت سے سوالات ذہن انسانی کو اور الجھاتے چلے جاتے ہیں اور ذہنی کاوشوں کا نتیجہ مزید الجھنوں کی صورت میں پیدا ہوتا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا اس موضوع پر ایک ایسے جلسہ عام سے خطاب فرمانا جہاں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ ذہین اور بلید ہرقسم کے لوگ جمع تھے یقینا کوئی معمولی کام نہ تھا.آپ نے جس عمدگی سے اس مضمون کو بیان کیا بلا شبہ وہ آپ ہی کا حق تھا.یہ تقریر کیا تھی علم کلام کا ایک شاہکار تھا.حق تو یہ ہے کہ الحکم ہے اپریل 1912 صدا

Page 251

۲۴۶ ہر محقق کو اس تقریر کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا چاہیئے.مسئلہ قضاء وقدر کی اہمیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بیان کرنے کے بعد آپ نے اس موضوع پر اظہار خیال فرمایا کہ مسئلہ تقدیر پر ایمان اور وجود باری تعالے پر ایمان لانا در اصل لازم و ملزوم ہیں.اس کے بعد آپ نے قضاء و قدر کے متنازعہ فیہ نظریات پر بحث فرما کہ آنحضور صلے اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات میں تطبیق فرمائی.اور اس کے بعد مسئلہ تقدیر کے نہ مجھنے کے نتیجہ میں انسان کو جو بڑی بڑی ٹھوکریں لگی ہیں اُن کا ذکر فرمایا.منڈوں نے کیا ٹھوکر کھائی اور کیا نقصان اُٹھایا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں نے کیا کیا غلطیاں کیں اور دیگر فلاسفہ نے اس مسئلہ کونہ سمجھ کرکیا کیا نقصانات اٹھائے ان تمام امور پر آپ نے نہایت مدلل اور دلنشین انداز میں بحث فرمائی.پھر وحدت الوجود کے عقیدے کی غلطیاں ظاہر کرتے ہوئے چھے قرآنی آیات سے نہایت لطیف اور ٹھوس دلائل پیش کر کے اس عقیدہ کا تو فرمایا.بعد ازاں اس کی دوسری انتہاء کو بھی غلط ثابت فرمایا اور اس خیال کی بدلائل تردید کی کہ خدا گویا کچھ نہیں کر سکتا.اور جو کچھ بھی ہے وہ تدبیر ہی ہے.علم الہی اور تقدیر الہی کو خلط ملط کرنے کے نتیجہ میں انسانی فکر نے جو ھو کریں کھائی ہیں اس کا نہایت عمدہ تجزیہ کر کے اس مسئلہ کو خوب نکھارا.اور اس امر پر بھی گفتگو فرمائی کہ اللہ تعالے بڑے کاموں سے روک کیوں نہیں دیتا جبکہ وہ اس بات پر قادر ہے ایس ضمن میں ایک اقتباس پیش ہے.آپ نے فرمایا :- اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالے کو جب یہ علم تھا کہ فلاں آدمی فلاں وقت یہ برا کام کرے گا تو اُسے روک کیوں نہیں دیتا مثلاً اگر خدا تعالے کو علم ہے کہ فلاں شخص چوری کرے گا تو کیوں اس نے چوری کرنے سے اُسے روک نہ دیا ؟ ہمارے پاس اگر ایک شخص سند سنگھ ڈاکو آئے اور کہے کہ میں نے فلاں وقت جیون لال کے گھر ڈاکہ مارتا ہے تو اس علم کے باوجود اگر ہم چپ بیٹھے رہیں تو ہم مجرم ہوں گے کہ نہیں؟ یقینا شرعی.اخلاقی تمدنی اور اپنے ملک کے قانون کے لحاظ سے ہم مجرم ہوں گے.حالانکہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں کوئی اور کام ہو، اورم جیون لال کو نہ بتا سکیں کہ اس کے گھر فلاں وقت ڈاکہ پڑے گا.یا ہو سکتا

Page 252

ہے کہ اگر اسے بتانے جائیں تو اپنے نقصان کا خطرہ ہو.یا ہو سکتا ہے کہ یہ خطرہ ہو کہ اگر بتایا تو ڈاکو ہمیں مار دیں گے.پس جب باوجود اس کے کہ اس ڈاکو کو اپنے ارادہ سے باز رکھنے میں ہمیں خطرات ہیں.اگر ہم اس کو باز نہیں رکھتے یا ایسے لوگوں کو اطلاع نہیں دیتے جو اُسے باز رکھ سکتے ہیں، ہم زبیدہ الزام آجاتے ہیں تو پھر خدا تعالے جو طاقتور اور قدرت والا ہے اس کو کسی کا ڈر نہیں.اور کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا اس پر زیادہ الزام آتا ہے کہ وہ علم رکھنے کے باوجود کیوں ڈاکو کو روک نہیں دیتا یا جس کے گھر ڈاکہ پڑنا ہو اس کو نہیں بتا دیتا تا کہ وہ پنی حفاظت کا سامان کرلے.یہ عجیب بات ہے کہ انسان تو معذور بھی ہو کیونکہ کوئی نہ کوئی وجہ اس کی معذوری کی ہو سکتی ہے وہ با وجود اس کے پکڑا جائے مگر خدا پر با وجود اس کے قادر ہونے کے کوئی الزام نہ آئے.مگر یہ اعتراض محض قلت تدیر کا نتیجہ ہے اس لئے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق اس مثال کا پیش کرنا ہی غلط ہے اور دنیا میں انسان کی پیش کی غرض کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ بنائی گئی ہے خدا تعالے کا تعلق جو بندوں سے ہے اس کی صحیح مثال یہ ہے کہ لڑکوں کا امتحان ہو رہا ہے اور سپرنٹنڈنٹ ان کی نگرانی کر رہا ہے.اس کے لئے کیا یہ جائز ہے کہ جو لز کا غلط سوال کر رہا ہو اس کو بتا دے؟ نہیں پس جب انسان کو دنیا میں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کو امتحان میں ڈال کر انعام کا وارث بنایا جائے.تو اگر اس کے غلطی کرنے پر اسے بتا دیا جائے کہ تو فلاں غلطی کر رہا ہے تو پھر امتحان کیسا ؟ اور انعام کس کا ؟ اس معاملہ میں خدا تعالے کا جو تعلق بندوں سے ہے وہ وہی ہے جو اس سپرنٹنڈنٹ کا ہوتا ہے جو کمرہ امتحان میں پھر رہا ہو اور جو دیکھ رہا ہو کہ لڑ کے غلط سوال بھی حل کر رہے ہیں اور صحیح بھی.پس باوجود علم کے اللہ تعالے کا بندہ کو فردا فردا نہ روکتا اس کی شان کے خلاف

Page 253

۲۴۸ نہیں.بلکہ اس غرض کے عین مطابق ہے جس غرض کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے یا اے صوفیوں اور بزرگوں کے مختلف لطیفے بیان کر کے آپ نے اس مسئلے پر صوفیاء اور بزرگان اُمت کے اقوال کا صحیح مفہوم پیش فرمایا.تقدیر اور تدبیر کے درمیان توازن پر روشنی ڈالی اور تقدیر کی مختلف اقسام بیان کیں اور اس سلسلہ میں بہت سے ایسے امور بیان کئے جو اگرچہ قرآن کریم سے استنباط کئے گئے لیکن گذشتہ علماء اور محققین کی ان نکات تک رسائی نہ ہو سکی تھی.تقدیر خاص کو آپ نے دو حصوں میں منقسم فرمایا ایک ایسی تقدیر خاص جس کے ساتھ اسباب بھی ظاہر ہوتے ہیں اور ایک ایسی تقدیر خاص جس کے ساتھ یا تو اسباب ظاہری نہیں ہوتے یا سرے سے موجود ہی نہیں ہوتے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :- اس تقدیر خاص کے علاوہ جس کے ظہور کے لئے اللہ تعالے اسباب پیدا فرماتا ہے.ایک تقدیر وہ بھی ہے جو بلا اسباب کے ظاہر ہوتی ہے.اس کی بھی دو قسمیں ہیں.اوّل وہ تقدیر جس کا ظہور در حقیقت بلا اسباب کے ہی ہوتا ہے مگر کسی خاص حکمت کے ماتحت اللہ تعالے اس کے ساتھ اسباب کو بھی شامل کہ دنیا ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ حضرت صاحب کو الہام ہوا کہ احمدیوں کو بالعموم طاعون نہیں ہو گی.مگر اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی کہا کہ جرابیں پہنیں شام کے بعد باہر نہ نکلیں اور کونین استعمال کریں یہ اسباب تھے مگر حقیقی بات یہی ہے کہ یہ تقدیر بغیر اسباب کے تھی کیونکہ جرابیں اور دستانے زیادہ پہننے والے تو اور لوگ بھی تھے پھر زیادہ دوائیاں استعمال کرنے والے بھی اور لوگ تھے.احمدیوں کے پاس کوئی زیادہ اسباب نہ تھے کہ وہ طاعون سے ان کی وجہ سے محفوظ رہتے.در اصل جرمز کو حکم تھا کہ احمدیوں کے جسم میں مت داخل ہو.مگر ساتھ ہی احمدیوں کو بھی حکم تھا کہ اسباب کو اختیار کرو.وجہ یہ کہ یہ حکم دشمن کے سامنے بھی جانا تھا اور ایمان اور عدم ایمان میں فرق نہ رہ جاتا.اگر بغیر ان اسباب کے احمدی طاعون سے محفوظ رہتے یا اگر لے تقدیر الہی ضلالت !!!

Page 254

۲۴۹ اور یہ ایمان، ایمان بالغیب نہ ہوتا.(۲) دوسری قسم اس قسم کی تقدیر کی وہ ہے جس میں اسباب موجود بھی نہیں ہوتے اور ساتھ شامل بھی نہیں کئے جاتے.یہ تقدیر صرف نبیوں اور مومنوں کے سامنے ظاہر ہوتی ہے دوسروں کے سامنے نہیں ہوتی کیونکہ دوسروں کے سامنے اگر یہ تقدیر ظاہر ہو تو وہ ایمان حاصل کرنے کے ثواب سے محروم رہ جا دیں.لیکن مومن جو ایمان بالغیب لاچکتے ہیں ان کو ایمان بالشہادت اس تقدیر کے ذریعے سے دیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے وہ خاص طور پر ایمان میں ترقی کرتے ہیں.اس قسم کی تقدیر کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی زندگی میں آپ کے گرتہ پرچھینٹیں پڑنے کا واقعہ ہے.ایک دفعہ آپ نے رویا، میں دیکھا کہ میں خدا کے سامنے کچھ کا غذات لے کر گیا ہوں اور ان کو خدا کے سامنے پیش کیا ہے.خدا نے ان پر دستخط کرتے وقت قلم چھڑ کا ہے اور اس کے قطرے میرے کپڑوں پر پڑے ہیں.حضرت صاحب کو جب یہ کشف ہوا اس وقت مولوی عبداللہ صاحب سنوری آپ کے پاؤں داب رہے تھے.دباتے دباتے انہوں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کے مٹنے پر سرخ رنگ کا چھینٹا پڑا ہے جب اس کو ہاتھ لگایا تو وہ گیلا تھا جس سے وہ حیران ہوئے کہ یہ کیا ہے.میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ آپ کو خیال نہ آیا کہ یہ چھینٹے غیر معمولی نہ تھے بلکہ کسی ظاہری نہ سبب کے باعث تھے اور انہوں نے کہا مجھے اس وقت خیال آیا تھا، اور میں نے ادھر اُدھر اور چھت کی طرف دیکھا تھا کہ شاید چھیتی کی دم کٹ گئی ہو اور اس میں سے خون گرا ہو مگر چھت بالکل صاف خون مگر تھی اور ایسی کوئی علامت نہ تھی جس سے چھینٹوں کو کسی اور سبب کی طرف منسوب کیا جا سکتا.اس لئے جب حضرت صاحب اُٹھے ، تو اس کے متعلق میں نے آپ سے پوچھا.آپ نے پہلے تو ٹالنا چاہا لیکن

Page 255

٢٥٠ پھر ساری حقیقت سنائی.غرض مومنوں کے ایمان کو تازہ کرنے کے لئے اللہ تعالے کبھی کبھی تقدیر بلا اسباب کے بھی ظاہر کرتا ہے تا خدا تعالیٰ کی قدرت کا ثبوت ان کو ملے لیکن کا فر کا یہ حق نہیں ہوتا کہ اس قسم کا مشاہدہ کرایا جائے ہیں یہ تقریر تقدیر الہی کے مسئلہ پر ہر پہلو سے بحث کرتی ہے اور مختلف قدیم وجدید اعتراضنا کے جوابات بھی اس میں دیئے گئے ہیں.تقدیر کے ذکر میں آپ نے سات روحانی مقامات کا ذکر بھی فرمایا ہے جو تقدیر الہی کے مسئلہ کو صحیح معنوں میں سمجھ کر اس کے تقاضے پورے کرنے کے نتیجہ میں انسان کو مل سکتے ہیں.گویا کہ روحانی ترقیات کے سات آسمان ہیں جن کی رفعتوں پر یب سے اوپر ہمیں آنحضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ گر نظر آتے ہیں.ا الہ کے اسی جلسہ میں جس میں تقدیر الہی کے موضوع پر تقریر ہوئی.۲۷ دسمبر کی تاریخ انتظامی اور متفرق امور پر خطاب کے لئے وقف تھی لیکن عمومی نصائح کے دوران اس تقریر میں آپ نے بعض دیگر علمی مسائل پر بھی روشنی ڈالی خصوصا معبود اور عید کے تعلقات.روح کے خدا سے عہد اور جنت کی حقیقت پر نہایت لطیف بحث فرمائی.جنت کے ذکر میں آپ نے اس زمانے کے مسلمانوں کا جنت کے بارہ میں وہ عام نفتہ بھی پیش کیا جو ظاہر بین مولوی مسلمانوں کے سامنے کھینچا کرتے تھے.اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :- ایک دفعہ ہم ندوہ کے جلسہ پر گئے جو مسلمانوں کا بڑا نذہبی تعلیم کا مرکز مانا جاتا ہے.اس میں ایک مولوی صاحب کا وعظ نماز کی خوبیوں پر تھا.مولوی صاحب نے کھڑے ہو کر کہا نماز پڑھنے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ خدا تعالے نے کہا ہے جو نماز پڑھے گا اسے جنت ملے گی.اور جنت کیا ہے؟ یہ کہ کر اس نے جنت کا نقشہ اس طرح کھینچنا شروع کیا کہ اس میں بڑی خوبصورت اور حسین عورتیں ہوں گی اور یہ ہوگا وہ ہو گا.اس کا وعظ سُن کر میں نے کہا سرسید نے کسی ایسے ہی مولوی کا جنت کے متعلق وعظ سُن کر کہا ہوگا یہ جنت جو آج کل کے مسلمان پیش کرتے ہیں وہ چکا ہے.ان مولوی صاحب نے ایسے شرمناک طور پر عورت اور مرد له تقدیر الی ۱۳۵۰ تا ص ۱۳

Page 256

۲۵۱ کے مخصوص تعلقات کا بیان شروع کیا کہ غیر احمدی خود شرمندہ ہو ہو کر اپنے مونہوں پر رومال رکھنے لگے اور کہتے اچھا ہوا یہ لیکچر رات کو ہوا اور کوئی غیر مذہب کا آدمی اس میں شامل نہیں ہوا اور نہ بڑی ذلت ہوتی یہ ہے اسی تقریر کے دوران آپ نے حقیقی عہد بننے کے طریق بیان فرماتے ہوئے نماز با جماعت کی اہمیت پر بہت زور دیا.نیز تعدد ازدواج پر اور مسئلہ سود پر بھی بحث کی جو مطبوعہ تقریر کے مدہ نام پر درج ہے.سود کے بارہ میں اسلامی نظریہ پر جو احباب تحقیق کرنا چاہیں انہیں ان صفحات کے مطالعہ سے بہت سے رہنما اصول ہاتھ آسکتے ہیں.ملائكة الله ملائکتہ اللہ آپ کی وہ معرکۃ الآراء تقریر ہے جو آپ نے ۲۸؍ دسمبر شاہ کو جلسہ سالانہ کے موقع پر مسجد نور قادیان میں فرمائی.مضمون کے ابتدائی تعارف کے بعد آپ نے ملائکہ کے بارہ میں مسلمانوں کا رائج الوقت تصور بیان فرماتے ہوئے اس کی غیر معقولیت کو ثابت فرمایا اور بتایا کہ در حقیقت رائج الوقت تصویر ہرگز قرآن و حدیث کی تعلیم پر مبنی نہیں بلکہ وہ توہمات اور خیالات ہیں جو غیر قوموں سے ماخوذ ہیں.آپ نے یہ ثابت کیا کہ یہ ایک ایسا غلط تصور ہے جس کے ہونے یا نہ ہونے سے دین اسلام میں کوئی بھی فرق نہیں پڑتا.اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- لوگوں کو ملائکہ کے متعلق جو ایمان ہے وہ نانوے فیصدی لوگوں میں اتنا کم ہے کہ اگر اس کی نفی کر دی جائے تو ان کے موجودہ ایمان میں کوئی کمی نہیں آئے گی.اور ان کے ماننے کی وجہ سے ان کے ایمان میں کوئی زیادتی نہیں ہے.حالانکہ ہر ایک ایمانی مسئلہ کے یہ معنے ہیں کہ وہ بہت بڑا اہم مسئلہ ہے.اس کے فائدے بھی بہت بڑے ہیں اور اس کو ترک کرنے کے نقصان بھی بہت بڑے ہیں نہ یہ کہ صرف منہ سے کہہ دیں کہ فلاں بات ہم نے مان لی تو کافی ہو جاتا ہے اگر ہمیں ان سے کوئی فائدہ نہیں تو ان پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر کوئی کہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرشتے تعلیم لائے له تقدیر ای ماه.....

Page 257

۲۵۲ اس لئے ان پر ایمان لانا چاہیئے تو کہا جا سکتا ہے کہ پھر تمہیں ان سے کیا تعلق؟ اگر ان کی معرفت وحی کا آنا ہمیں معلوم نہ ہو تو ہمارے ایمان اور ہمارے عمل میں کیا کمی آجائے گی ؟ اگر یہی فرض کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام بلا حوالہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل فرماتا تھا تو اس سے کیا حرج واقع ہوگا ؟ اس سے قرآن کریم میں تو کوئی کمی نہیں آجائیگی.پھر ہم سے فرشتوں کا وجود کیوں منوایا جاتا ہے ؟ اور اتنے زور سے کیوں منوایا جاتا ہے کہ اگر نہ مانیں تو مسلمان ہی نہیں رہتے.کافر ہو جاتے ہیں یا لے بعد ازاں آپ نے وجود ملائکہ کو ایک ایسی حقیقت کے طور پر پیش کیا جس کا اثبات دیگر حقائق کی طرح ٹھوس دلائل سے کیا جا سکتا ہے.آپ نے فرمایا :- نئی تعلیم کی وجہ سے ملائکہ پر بہت اعتراض کئے جاتے ہیں مگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو ثابت کر سکتے ہیں اور اسی طرح ثابت کر سکتے ہیں جس طرح اور بہت سی چیزوں کو ثابت کیا جاتا ہے جو نظر سے غائب ہوتی ہیں یہ تقریر کے آغاز میں آپ نے ملائکہ کے متعلق ان تصورات کا ذکر بھی کیا جو دیگر قدیم و جدید نذاب میں پائے جاتے ہیں اور یہ ثابت کیا کہ یہ ایک ایسا تصور ہے جو مختلف مذہبی قوموں میں ہر زمانے میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملائکہ کا تصور کوئی واہمہ نہیں بلکہ ایک ٹھوس ندہی حقیقت ہے جو سب مذاہب میں قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے.مزید برآں آپ نے یہ بھی ثابت فرما یا کہ مختلف مذاہب میں فرشتوں کے تصورات صرف اجمالی اشتراک نہیں رکھتے.بلکہ بعض صورتوں میں حیرت انگیز طور پر تفصیلی اشتراک بھی پایا جاتا ہے.چنانچہ زرتشتی مذہب میں فرشتوں کا تصور پیش کرتے ہوئے آپ نے بتایا :- زشتی کتب میں سب سے بڑے فرشتہ کا نام دو ہو ماناح لکھا ہے.اسے دہشتا ماناح بھی کہتے ہیں یعنی سب سے بہتر فرشتہ، دو ہو اناج کے منے نیک دل یا اصلاح کرنے والے فرشتہ کے ہیں اور عبرانی اور عربی میں جبریل کے معنے بھی اصلاح کے ہیں.پیس دونوں ناموں کی مطابقت سے معلوم ہوتا ہے کہ دو ہوتا ناح در حقیقت جبریل کا ہی نام ہے.زرتشتی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ کو روشنی اس فرشتہ ے ملائکہ اللہ ملت

Page 258

Pop کی وساطت سے آتی ہے بلکہ زرتشت نے خدا سے دعا کی تھی کہ نور اور العام کی روشنی سے وہ دو ہو نا ناح کو دیکھے اور آخر وہ فرشتہ اُسے ملا.تمام نیک تحریکیں اس فرشتہ کی طرف سے آتی ہیں اور جو لوگ اس فرشتہ کی تحریکات کو قبول نہیں کرتے یہ فرشتہ ان کو چھوڑ دیتا ہے.ان کا خیال ہے کہ فرشتے ہمیشہ انسان کے دل پر نیک اثر ڈالتے رہتے ہیں تاکہ شیطان اس میں نہ گھس سکے اور کہتے ہیں پیدائش خُدا کی طرف سے ہے اور موت شیطان کی طرف سے ہے اس وجہ سے وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ چونکہ پیدائش خدا کی طرف سے ہوتی ہے اس لئے انسان نیک ہی پیدا ہوتا ہے اور فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں مگر شیطان اس کو برائی سکھاتا ہے.اگر انسان اس کی بات مان لے ، تو فرشتے اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کہ اب یہ شیطان کا بندہ ہو گیا ہے.پھر ان کا خیال ہے کہ خدا اور شیطان کا مقابلہ ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ایرانی النسل ایک نبی پیدا ہو گا اور اس کا نا م سی یو زربی ہوگا یعنی مسیح مبارک کے نام سے ایک نبی آئے گا جو زرتشت کی اولاد سے ہو گا مگر ظاہری اولاد سے نہیں.کیونکہ لکھا ہے کہ وہ اس بیوی سے ہوگا جس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.اس کے زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ ہوگی وہ تعدا تعالیٰ سے التجا کرے گا کہ جنگ بہت حبیب ہے تو فرشتے نازل کی.اس پر خدا العلا فرشتے نازل کرے گا شیطان مقابلہ کرتا کرتا آخر کار تھک جائے گا.اس وقت وہ نبی اس پر فرشتوں کی مدد سے آخری حملہ کرے گا اور خطرناک جنگ ہو گی جس میں شیطان کو شکست ہوگی اور وہ پکڑا مارا جائے گا.اس کے بعد امن ہو جائے گا اور یہ دنیا بہت پھیل جائی اس لئے کہ کوئی آدمی مر نہیں سکے گا.کیونکہ شیطان جو مارنے سے تعلق رکھتا ہے خود مرگیا ہوگا.اور شگری معلوم ہوتا ہے یہ باتیں ایک نبی کی کمی ہوئی ہیں کیونکہ سیٹی لکھی ہیں

Page 259

نهم الله سالم اور پوری ہو رہی ہیں بیسیوز رسمی (مسیح پاک آیا اور اپنے نشانات کے ساتھ آیا جو بیان کئے گئے.پھر فرشتے آسمان سے مانگنے والی بات بھی درست نکلی.چنانچہ حضرت مسیح موعود کا ایک کشف ہے کہ آپ نے خدا سے ایک لاکھ فرشتے مانگے ہیں اور خدا تعالے نے فرمایا ہے کہ پانچ ہزار کافی ہیں.ایک لاکھ زیادہ ہیں.چونکہ قرآن کریم میں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار فرشتوں کا ذکر آیا ہے اس لئے اتنے ہی دیئے گئے ان سے زیادہ نہ دیئے گئے نرم یہ بات بھی سچی نکلی یا له اس کے بعد آپ نے اسلامی نقطہ نگاہ سے ملائکہ یعنی فرشتوں کی حقیقت بیان فرمائی اور قرآن و احادیث سے استنباط کرتے ہوئے حقیقت ملائکہ پر چودہ نکات بیان کئے.چودھواں نکتہ بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :- چودھویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ملائکہ مختلف صفات الہیہ کے منظر ہوتے ہیں.بعض کسی ایک طاقت کے اور بعض ایک سے زیادہ طاقتوں کے منظر ہوتے ہیں.چنانچہ خدا تعالئے فرماتا ہے :- الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَكَةِ رُسُلًا أولِي اجْنِحَةٍ مَّثْنى وَثُلَثَ وَرُبَعَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْ ءٍ قَدِير - ( ۳۵-۲) سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو اور جو فرشتوں کو رسول بنا کر بھیجتا ہے جن میں سے بعض دو بعض تین اور بعض چار صفات کے مظہر ہوتے ہیں.اور اللہ ان سے زیادتی بھی کرتا ہے جتنی چاہتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے.اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مختلف فرشتے مختلف صفات کے مظہر ہوتے ہیں.اور کوئی تھوڑی صفات کے اور کوئی زیادہ صفات کے اور یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس زمانہ کے لئے جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی استعداد کے فرشتے بھیجے جاتے ہیں ان فرشتوں کو لوگوں کے لے ملائکہ اللہ صا تا ۱۴)

Page 260

۲۵۵ پاس بھیجا جاتا رہا جن میں ان لوگوں کے مطابق استعداد ہوتی تھی.اور جب دنیا پورے درجہ تک پہنچ گئی تو اس وقت خدا تعالے نے جبرائیل کو اپنی کامل صورت میں بھیجا.جس کے متعلق رسول کریم فرماتے ہیں کہ اس کے چھ سو پر ہیں.جو کامل کتاب لے کر آیا.اس سے معلوم ہوا کہ جبرائیل خدا کی چھ سو صفات کے مظہر ہیں.یہ کہنا غلطی ہے کہ خدا کی صفات تو تھوڑی ہیں پھر یہ چھ سو صفات کے کیونکہ مظہر ہوئے ؟ خدا تعالے کی بے شمار صفات ہیں اور چھ سو تو صرف وہ ہیں جو انسان کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں.حضرت مسیح موعود نے ایک نہایت لطیف بات لکھی ہے جو یہ ہے.کہ قرآن کریم کا علم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرائیل سے زیادہ تھا اور یہ بالکل درست بات ہے.وجہ یہ کہ اور ملائکہ بھی آپ کی تائید میں تھے.اور وہ خدا تعالیٰ کی دوسری صفات کے فرشتے تھے.تو معلوم ہوا کہ ملائکہ مختلف صفات کے مظہر ہوتے ہیں اور اجنحة کے معنے پر نہیں بلکہ صفات کے ہیں جو ان میں پائی جاتی ہیں کہ لئے حقیقت ملائکہ بیان کرنے کے بعد آپ نے ان کے سترہ ایسے کام بیان فرمائے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں.چنانچہ ان میں سے ایک کام کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.ایک کام ان کا یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر ملک جو انسان کے ساتھ ہوتا ہے وہ نبی اور اس کی جماعت کا رعب انسان کے دل پر ڈالتا رہتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ النْ يَكْفِيكُمْ أَن تُمدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَثَةِ البِ مِنَ الْمَلَئِكَةِ مُنْزَلِينَ (٣ - ١٢٥) کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تین ہزارہ ملائکہ تمہاری مدد کو آجائیں.تین ہزار ملائکہ کیوں فرمایا ؟ اس لئے کہ اس موقع پر دشمن کی فوج اتنی ہی تھی ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ اعلیٰ درجے کے فرشتے نہیں تھے بلکہ وہ تھے جو ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے.کیونکہ فرمایا کیا یہ کافی نہیں ہے؟ کہ ہم تین ہزارہ ملائکہ سے تمہاری مدد کریں.یعنی جب تم دشمن کے مقابلہ پر نے ملائکہ اللہ ۳۹۵-۳۰

Page 261

Fay جاؤ تو وہ تمہارا رعب ہر ایک کے دل میں ڈالنا شروع کر دیں.چنانچہ آگے فرماتا ہے :- سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ - (۳-۱۵۲) کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیا گیا.پس ہر انسان کے ساتھ جو ملک ہوتا ہے وہ نبی اور اس کی جماعت کا رعب ڈالتا رہتا ہے.رجب کی مثال اس زمانہ میں بھی ملتی ہے.حضرت مسیح موعود نے اپنے مخالفین کو بلایا کہ مباہلہ کر لو مگر کوئی سامنے کھڑا نہ ہو سکا.وجہ یہ کہ جب وہ سامنے کھڑے ہونے کا خیال کرتے تو فرشتہ ان کے دل میں رعب ڈال دیتا کہ مارے جاؤ گے.اس لئے وہ ہٹ جاتے.جن دنوں میں شملہ گیا وہاں مجھے ایک آریہ ملنے کے لئے آیا.ویدوں کے متعلق گفتگو ہوئی.میں نے کہا کہ اگر تمھیں ویدوں کے سچے ہونے کا یقین ہے تو قسم کھاؤ.کہنے لگا ہاں قسم کھانے کو تیار ہوں.میں نے کہا اس طرح قسم کھاؤ.اگر یہ سچے نہ ہوں تو میری بیوی بچوں پر عذاب آجائے.کہنے لگا یہ تو نہیں ہو سکتا.یہ کہتے ہوئے دل ڈرتا ہے.میں نے کہا ئیں قرآن کے متعلق اسی طرح قسم کھانے کو تیار ہوں.کہنے لگا یہ تو بڑی جرات ہے میں نے کہا کہ جب مجھے یقین ہے کہ قرآن سچا ہے اور خدا کا کلام ہے تو جرات کیوں نہ ہوا اسی طرح فرشتوں کا ایک کام ترویج و اشاعت علوم بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :- سولہواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو علم سکھاتے اور تعلیم دیتے ہیں یعنی ان کو مقرر کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو علم کی طرف توجہ کرنے والے ہوں ان کے قلوب پر علم کی روشنی ڈالتے رہو.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جبرائیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس متمثل ہو کر آئے اور سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! ایمان کیا ہے ؟ دین کیا ہے ؟ اور رسول کریم جواب دیتے رہے.جب چلے گئے تو رسول کریم نے صحابہ کو فرمایا.جانتے ہو یہ کون تھا ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم تو نہیں جانتے.آپ ہی له ملائكة الله ۳۲۵-۳۳

Page 262

بتائیے.آپ نے فرمایا یہ جبرائیل تھا جو تمھیں دین سکھانے کے لئے آیا تھا.تو ملانکہ کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ علوم سکھاتے ہیں مگر دینی علوم ہی نہیں دنیا کے معاملات کے متعلق علوم بھی سکھاتے ہیں.حتی کہ کافروں کو بھی سکھاتے ہیں.میں نے ایڈیسن کی ایک کتاب پڑھی ہے وہ لکھتا ہے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جو میں نے ایجاد کر کے نکالی ہو.ایک دم میرے دل میں آکر ایک بات پڑتی اور میں اس کو عمل میں لے آتا.اس کو چونکہ ایسے علوم کا شوق تھا اس لئے اسے اسی قسم کی باتیں سکھائی گئیں نبیوں اور ولیوں میں چونکہ دینی علوم کا شوق ہوتا ہے اس لئے انہیں دینی علوم سکھاتے ہیں.فرشتوں کے علوم سکھانے کا بھی عجیب طریق ہے.وہ جو بات سکھاتے ہیں اسے 08JECTIVE MIND (قلب عامل میں نہیں رکھتے بلکہ 508 قلب غیر عامل ، میں رکھتے ہیں.یعنی دماغ CONSCIOUS MIND کے پچھلے حصہ میں رکھتے ہیں تاکہ سوچ کہ انسان اسے نکال سکے.اس میں ظاہری دماغ سے حفاظت کی زیادہ طاقت ہوتی ہے اور یہ ذخیرہ کے طور پر ہوتا ہے.ملائکہ جو کچھ سکھاتے ہیں اسی حصہ دماغ میں ڈالتے ہیں.الا ماشاء اللہ.دماغ کے تین حصے ہوتے.ایک وہ حصہ جس کے ذریعہ ہم چیزوں کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں.دوسرا وہ حصہ جو ذخیرہ کے طور پر ہوتا ہے اور تیسرا وہ حصہ جس میں ذخیرہ تو ہوتا ہے مگر یاد کرنے سے بھی اس میں جو کچھ ہو یا د نہیں آتا بلکہ بہت کریدنے سے وہ بات سامنے آتی ہے.ملائکہ کبھی اس تیسرے حصے میں بھی علوم داخل کر جاتے ہیں.جب ان کی ضرورت ہو اس وقت ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں کہ وہ علوم سامنے آجاتے ہیں.یوں یاد کرنے سے نہیں آتے.یہ میرا تجربہ ہے میری کوئی ۱۷ - ۱۸ سال کی عمر ہو گی حضرت مسیح موعود کا زمانہ تھا اس وقت ہیں نے رسالہ تشخیز نکالا تھا.خواب میں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا ہے جو مجھے کہتا ہے کیا تمھیں کچھ سکھائیں ؟ میں نے کہا سکھاؤ.اُس نے کہا.

Page 263

FOA سورۂ فاتحہ کی تفسیر سکھائیں.میں نے کہا ہاں سکھائیے.اس رویاء کا بھی عجیب نظارہ تھا.یہ شروع اس طرح ہوئی کہ پہلے مجھے ٹن کی آواز آئی اور پھر وہ پھیلنے لگی.اور پھیل کر میدان بن گئی.اس میں سے مجھے ایک شکل نظر آنے لگی جو ہوتے ہوتے صاف ہو گئی اور میں نے دیکھا کہ فرشتہ ہے.اس نے مجھے کہا تمھیں علم سکھاؤں.میں نے کہا سکھاؤ اس نے کہا لوسوہ فاتحہ کی تفسیر سیکھو.اس پر اُس نے سکھانی شروع کی.اور اياك نعبد پر پہنچ کر کہا سب نے اسی حد تک تفسیریں لکھی ہیں.اے میں لکھیں.میں بھی اُس وقت سمجھتا ہوں کہ ایسا ہی ہے.پھر اس نے لیا مگر مکیں تھیں اس سے آگے سکھاتا ہوں.چنانچہ اس نے ساری شورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائی.اور میری آنکھ کھل گئی.اس وقت مجھے اس کی ایک دو باتیں یاد تھیں جن کی نسبت اتنا یاد ہے کہ نہایت لطیف تھیں.مگر دوبارہ سونے کے بعد جب میں اُٹھا تو وہ بھی بھول گیا تھا.حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کو جب میں نے یہ رو یاد منائی تو آپ بہت ناراض ہوئے کہ کیوں اسی وقت لکھ نہ لی ؟ جو کچھ سکھایا گیا تھا اُسے اسی وقت لکھ لینا چاہیے تھا.اس دن کے بعد آج تک میں سورہ فاتحہ پر کبھی نہیں بولا کہ مجھے اس کے نئے نئے نکات یہ سمجھائے گئے ہوں میں سمجھتا ہوں یہ اسی علم کی وجہ سے ہے جو مجھے سکھایا گیا.ایک دفعہ مجھے اس علم کا خاص طور پر تجربہ ہوا.ہمارے سکول کی کیم امرت سر کھیلنے کے لئے گئی.میں اس وقت اگر چہ سکول سے نکل آیا تھا لیکن مدرسہ سے تعلق تھا کیونکہ میں نیا نیا نکلا تھا اس لئے میں بھی ساتھ گیا.وہاں ہمارے لڑکے جیت گئے.اس کے بعد وہاں مسلمانوں نے ایک جلسہ کیا.اور مجھے تقریرہ کرنے کے لئے کیا گیا.جب ہم اس جلسہ میں گئے تو راستہ میں مکیں ساتھیوں کو سناتا جا رہا تھا کہ خدا تعالے کا میرے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جب بھی یکیں سورہ فاتحہ پہ نظریہ کہوں گانٹے نکات

Page 264

۲۵۹ سمجھائے جائیں گے.جلسہ میں پہنچ کر جب میں تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو کوئی آیت سوائے سورہ فاتحہ کے میری زبان پر ہی نہ آئے.آخر میں نے خیال کیا کہ میرا امتحان ہونے لگا ہے اور مجھے مجبور اسورہ فاتحہ پڑھنی پڑی.اس کے متعلق کوئی بات میرے ذہن میں نہ تھی میں نے یونسی پڑھی.لیکن پڑھنے کے بعد فورا میرے دل میں ایک نیا نکتہ ڈالا گیا.اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب سورة فاتحہ اُتری ہے اس وقت آپ کے مخاطب کفار تھے.یہودی اور عیسائی نہ تھے.مگر دُعا اس میں یہ سکھائی گئی ہے کہ ہمیں بیو دی اللہ عیسائی بننے سے بچا کہ ہم ان کی طرح نہ نہیں.حالانکہ چاہئیے یہ تھا کہ جو سامنے تھے ان کے متعلق دعا سکھائی جاتی.کہ ہم ان کی طرح نہ نہیں.اس میں یہ نکتہ ہے کہ مشرکین نے چونکہ تباہ و برباد ہو جانا تھا اور بالکل مٹائے جانا تھا اس لئے ان کے متعلق دعا کی ضرورت نہ تھی لیکن عیسائیوں اور یہودیوں نے چونکہ قیامت تک رہنا تھا اس لئے ان کے متعلق دعا سکھائی گئی.یہ نکتہ معا مجھے سمجھایا گیا.اور میں نے خدا تعالے کا شکریہ ادا کیا کہ اس موقعہ پر اس نے میری آبرو رکھ لی - پس ملائکہ کے ذریعے علوم سکھائے جاتے ہیں محی الدین ابن عربی فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں کہ مجھے بہت سے علوم ملائکہ نے سکھائے ہیں بولت اس کے بعد فرشتوں کے وجود کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنا ذاتی تجربہ ان الفاظ میںمیر " مجھے ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ ہے کہ ہر چیز یہ ملائکہ کا قبضہ ہے اور ان کے ارادے کے تحت وہ چیز کام کرتی ہے.ایک دفعہ مجھے بخار ہوا.ڈاکٹر نے ودائیں دیں مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.ایک دن چوهدری ظفر اللہ خاں صاحب آئے ان کے ساتھ ایک بغیر احمدی بھی تھے.اُن کو میں نے اپنے پاس بلا لیا.اُن کے آنے سے پہلے مجھے غنودگی آئی اور ایک مچھر میرے سامنے آیا اور کہا آج آپ ٹوٹ جائے گا.جب ڈاکٹر صاب له ملائكة الله نه ناسم

Page 265

اور چوہدری صاحب اور ان کا غیر احمدی دوست اور ں اور احباب آئے تومیں نے ان کو وہ کشف بتا دیا.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد جب ڈاکٹر صاحب نے تھرما میٹر لگا کر دیکھا تو اس وقت تپ نہیں تھا.دراصل وہ مچھر نہیں بولا تھا بلکہ اس کی طرف سے وہ فرشتہ بولا تھا جس کا مچھر پر قبضہ تھا.تو ہر ایک چیز جو انتظام اور ارادہ کے انتخت کام کر رہی ہے.ملائکہ کی ہستی کا ثبوت ہے یال ملائکہ کی ضرورت اور ان کے وجود پر مختلف اعتراضات بیان کر کے ان کے جوابات دیے.ایمان بالملائکہ کی حکمتیں بیان فرمائیں اور قرآن کریم سے استنباط کرتے ہوئے فرشتوں کے اقرار کرنے اور شیطان کے انکار کرنے کا صحیح مفہوم ان الفاظ میں بیان فرمایا :- خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمه (۲-۲۵۷) جو شخص طاغوت کا انکار کرتا ہے اور اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیتا ہے کہ جو ٹوٹتا ہی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے.طاغوت شیطان کو کہتے ہیں.اب اگر انکار کے معنے کسی شے کی ذات کے انکار ہی کئے جاویں تو اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ ہلاکت سے وہی شخص سجتا ہے جو شیطان کے وجود کا انکار کرے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقرار.حالانکہ یہ معنے سراسر غلط ہیں.کیونکہ قرآن کریم صاف صاف طور پر خدا تعالے کے وجود کا بھی اقرار کرتا ہے اور شیطان کے وجود کا بھی اقرار کرتا ہے.نہیں اقرار سے اور ایمان سے اس آیت میں یہی مراد ہے کہ شیطان کی باتوں کو رد کرتا ہے اور خدا تعالے کی باتوں کو مانتا ہے اب اگر یہی معنے ایمان کے ملائکہ کے متعلق کئے جائیں تو ان پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہوگا کہ ان کی تحریکات کو مانا کرو.اسی طرح کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانے کے یہ معنے ہوں گے کہ جو احکام الہی کتابوں میں ہوں ان کو مانو.جو کچھ رسول تم کو حکم دیں ان کو مانو اور قیامت پر ایمان کے مله املائكة الله )

Page 266

F41 لانے کے یہ معنے ہوئے کہ اس کا خیال کر کے بُری باتوں سے سیجو اس کے بعد آپ نے ملائکہ کے تعلقات اور ان کی اقسام پر روشنی ڈالی اور وقت زیادہ ہو جانے کے باعث تقریر کو دوسرے روز یعنی ۲۹ دسمبر پر ملتوی فرما دیا.دوسرے روز متفرق اعتراضا کے جوابات دینے کے بعد لہ ملکی کی کچھ حقیقت بیان کر کے یہ وضاحت کی کہ اسلامی اصطلاح میں شیطان سے کیا مراد ہے.اس کے بعد کسی قدر تفصیل سے لمہ ملکی کی وضاحت کی اور اس کے مقابل پر شیطان صفت انسان کی مختلف قلبی حالتوں کا ذکر بھی فرمایا اور ان دونوں کے درمیان موانہ نہ کیا.تقریر کے اختتام پر آپ نے دس ایسے طریق بیان فرمائے جن کو اختیار کرنے سے قرآن اور حدیث کے ارشاد کے مطابق انسان فرشتوں سے زندہ تعلق قائم کر کے فیضیاب ہو سکتا ہے.آخری طریق آپ نے یہ بیان فرمایا :- دسواں طریق ملائکہ سے فیض حاصل کرنے کا یہ ہے کہ خلیفہ کے ساتھ تعلق ہو.یہ بھی قرآن سے ثابت ہے جیسا کہ آتا ہے :- وقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ ايَةَ مُلْكِةٌ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيْهِ سَكِيْنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ الُ مُوسَى وَال هرُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَيْكَة کہ ایک زمانہ میں ایک نبی سے لوگوں نے کہا کہ ہمارے لئے اپنا ایسا جائین مقرر کر دیجئے جس سے ہم دنیوی معاملات میں مدد حاصل کریں لیکن جب ان کے لئے ایک شخص کو جانشین مقرر کیا گیا تو انہوں نے کہہ دیا اس میں وہ کونسی بات ہے جو ہمارے اندر نہیں ہے.جیسا کہ اب پیغامی کہتے ہیں نبی نے کہا آؤ بتا ئیں اس میں کونسی بات ہے جو تم میں نہیں اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے ان کو فرشتے تسکین دیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ خلافت کے ساتھ وابستگی بھی ملائکہ سے تعلق پیدا کراتی ہے کیونکہ بتایا گیا ہے کہ ان کے دل فرشتے اُٹھائے ہوئے ہوں گے.تابوت کے معنے دل اور سینہ کے ہیں.فرمایا.خلافت سے تعلق رکھنے والوں کی یہ علامت ہوگی کہ ان کوتسکی حاصل ہوگی اور پہلا صلحاء اور انبیاء کے علم ان پر ملائکہ نازل کریں گے.پس ملائکہ کا نزول خلافت سے داستینگی ملائكة الله منا

Page 267

پر بھی ہوتا ہے یہ ملائكة الله مفت اس دور کی یہ چند تقاریرہ ہیں.جن کا ہم نے تذکرہ کیا ہے فی الحال ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں.آئندہ انشاء اللہ بعض دوسری اہم تقاریر کا اپنے اپنے موقع پر تذکرہ کیا جائے گا ہے

Page 268

ملت اسلامیہ کی سیاسی خدمات مقاصد اور لائحہ عمل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالے نے دوسری غیر معمولی استعدادوں کے علاوہ حیرت انگیز سیاسی بصیرت بھی عطا فرمائی تھی.بلا شبہ اس قابلیت کا انسان اگر سیاسی دنیا سے متعلق ہوتا تو لوح سیاست پر ایک عظیم سیاسی مرتبہ کے طور پر اپنا دائمی نقش ثبت کر جاتا لیکن آپ کی حیثیت اول اور آخر دینی تھی اور دینی ہی رہی اور سیاست میں آپ کی پچیسی ہمیشہ دین کے تابع ایک ثانوی حیثیت میں رہی.پیشتر اس کے کہ اس مضمون کو آگے بڑھایا جائے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے سیاسی نظریات، لائحہ عمل اور طرزہ فکر پر کچھ روشنی ڈال دی جائے تاکہ اس پہلو سے آپ کی شخصیت کو سمجھنے میں کسی غلط فہمی کا امکان نہ رہے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور بنی نوع انسان اور ملک و ملت کی بعض نہایت اہم خدمات سرانجام دیں تو ہماری مراد ایسی سرگرمیاں نہیں جنہیں عرف عام میں سیاسی دو پہیوں کا نام دیا جاتا ہے بلکہ آپ کی پیچیپسی ایک ایسے باضابطہ اور با اصول طریق کار کے تابع تھی جس کی نوعیت عملاً سیاسی دیسیوں سے اتنی مختلف تھی کہ ایک نئی اصطلاح وضع کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے.پیس ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اس امر کا تفصیلی جائزہ لیں کہ آپ کی سیاسی ڈی پیوں سے فی الحقیقت کیا مراد ہے اور کون سے رہنما اصول ان بچیوں کی حدود اور سرخ متعین کرتے رہے.اس جائزہ کے نتیجہ میں حسب ذیل امور نمایاں حیثیت سے سامنے آتے ہیں.اول.پہلا امر قابل ذکر یہ ہے کہ آپ سیاست میں محض اس حد تک حصہ لیتے تھے جس حد تک کہ ضروریات دین کے لئے پچسپی لینا ضروری ہو اور اس کا کلیتہ دینی امور سے الگ کر دنیا ممکن نہ ہو.چنانچہ تو میں خطبہ جمعہ کے دوران اس امر کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:.گذشتہ سالوں میں جب کانگریس کی تحریک زوروں پر تھی اس وقت میں نے

Page 269

اپنی جماعت کے دوستوں سے کہا تھا کہ وہ اس کا مقابلہ کریں اور یہ ہیں نے اسی لئے کہا تھا کہ میرے نزدیک ملک کا امن نہایت ضروری چیز ہے اور فتنہ و فساد کو مٹانا مومنوں کا فرض ہے.اسی طرح جب میں نے بعض سیاسی معاملات میں دخل دینا شروع کیا تو اس لئے نہیں کہ وہ سیاسی تھے بلکہ اس لئے کہ میں انہیں دین کا جزر د سمجھتا تھا.میں نے دیکھا جب میں نے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کیا تو جماعت کے کئی دوست بھی اس پر معترض ہوئے اور بعض دوسرے لوگ خیال کرتے تھے کہ مجھے سیاسیات سے واقفیت ہی کیا ہو سکتی ہے یا لے اور پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :- و" ** میں سیاست سمجھتا ہوں اور یہ اس لئے کہ میں سیاست کو دینی نقطے گا سے دیکھتا ہوں.چونکہ اسلام کے اصول نہایت لیتے ہیں اس لئے جب یں اسلام کے اصول کے ماتحت کسی علم کو دیکھتا ہوں تو اس کا سمجھنا میر لئے نہایت آسان ہو جاتا ہے.کوئی علم ہو خواہ وہ فلسفہ ہو یا علم النفس ہو یا سیاست ہو ئیں اس پر جب بھی غور کروں گا ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچوں گا.یہی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں جس کے اصول کو میں نہ سمجھتا ہوں کا دوم - آپ کے نزدیک دنیا ایک جامد چیز نہیں بلکہ ایک ایسی متحرک حقیقت ہے جو مرویہ زمانہ کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اپنی شکلیں بدلتی رہتی ہے.اس اصول کے تحت آپ یہ یقین رکھتے تھے کہ وقت کے تقاضوں کے دوش بدوش دین کے تقاضے بھی بدل سکتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ ایک وقت میں ایک چیز محض دنیا کے دائرے سے تعلق رکھتی ہو مگر دوسرے وقت میں وہی چیز دین کے دائرے میں داخل ہو جائے.اس بار یک معرفت کے نکتے کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.میں دیکھتا ہوں کہ ابھی ہمارے دوستوں کو اس امر سے واقفیت نہیں کہ دین و دنیا کا میدان مخلوط ہے.ایک وقت میں ایک چیز جو ساری کی ساری دنیا ہوتی ہے دوسرے وقت میں ساری کی ساری دین ہو جاتی ہے مگر پھر بھی کئی دوست ایسے ہیں جو اس لئے ان امور میں مریلا کر اد الفضل ، جولائی ۱۹۳۲ء صث - الفضل ، جولائی ۱۹۳۲ء مث

Page 270

۲۶۵ چسپی نہیں لیتے کہ وہ خیال کرتے ہیں یہ دنیوی کام ہیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں وہ اپنے آپ کو اور لوگوں سے کچھ کچھ بالا سمجھتے ہیں.ان کی مثال بالکل ان نمبر داروں کی سی ہوتی ہے جن کا ذکر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے یا اے شوھر.چونکہ آپ کے سیاسی اصول سراسر دین کے تابع تھے اس لئے امن کو قائم رکھنے والی قرآنی تعلیم کی روشنی میں آپ کی سیاست کا ایک یہ اصل تھا کہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیئے جس سے فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو اور امن و امان کو خطرہ لاحق ہو جائے.پس آپ کی تمام کوششیں ہمیشہ اس راہنما اصل کے تابع رہیں.چهارم - آپ کی سیاست جھوٹ اور غلط بیانی سے کلیتہ پاک تھی اور آپ ہر گز جائز نہیں سمجھتے تھے کہ سیاسی اغراض کی خاطر جھوٹ کو آلہ کار بنایا جائے.پنجم.آپ اس اصول پر سختی سے کاربند تھے کہ جس مستحکم حکومت کے تحت کوئی شخص زندگی بسر کر رہا ہے اس کی پوری اطاعت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور عدم اطاعت کو کسی سیاسی مقصد کے حصول کے لئے ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا.اسی طرح آپ سیاست میں قانون شکنی کے کسی رنگ میں بھی قائل نہ تھے.ششم - حقوق کے مطالبات کے وقت قرآن کریم کی یہ آیت آپ کے لئے مشعل راہ تھی کہ:.وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا (مائده آیت (و) کہ کسی قوم کی دشمنی تھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دو.لہذا آپ کے مطالبات اس حد تک عدل پر مبنی ہوتے کہ محض اپنے حقوق پر ہی بحث نہ فرماتے بلکہ دوسروں کے حقوق کا بھی ذکر کرتے اور اپنے جائز مطالبات کے ساتھ فریق ثانی کے جائز حقوق کوبھی سلیم کرتے هفتم - آپ کے نزدیک گورنمنٹ کی اطاعت کے یہ معنے ہر گز نہیں تھے کہ حق بات کہنے سے گریہ کیا جائے.یا خوشامد کا کوئی کلمہ زبان پر لایا جائے.آپ کا مسلک یہ تھا کسی قوم میں اگر کوئی قابل تعریف چیز نظر آئے تو خواہ کوئی دشمن ہی کیوں نہ ہو اس کی تعریف کی جائے اور اگر قابل تعریف بات نہ پائی جائے تو حاکم وقت ہی کیوں نہ ہو، اس کی غلط تعریف کسی قیمت پر نہ کی ہے بلکہ مشورے ہمیشہ سو فیصدی حق پر مبنی ہوں.اپنے اس موقف کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :- " تمہیں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو گورنمنٹ کے خیر خواہ کہلاتے ہیں کہ وہ له الفضل ، جولائی ۱۹۳۳ء مث

Page 271

صدور جد کے لالچی دنیا دار خود غرض اور قوم فروش ہیں الا ماشاء الله یکن کسی قوم کے تمام افراد کو ایسا نہیں سمجھتا.اس کے مقابلے میں میں کانگریس کے ایک طبقہ کو دیکھتا ہوں کہ اس میں ایثار، قربانی اور ست اخلاص پایا جاتا ہے.بے شک کا نگریسیوں کے اصول سے مجھے اختلاف ہے لیکن اگر میرے سامنے ذاتی دوستی کا سوال ہو تو میں ایک کانگریسی کو گورنمنٹ کے خوشامدی پر ترجیح دوں گا.کیونکہ میں دیکھتا ہوں.کہ یہ گورنمنٹ کے خیر خواہ کہلانے والے حد درجہ کے خود غرض لالچی اور نفس پرست واقع ہوئے ہیں کا لے هشتم - آپ اپنی جماعت کو سیاست میں بھی ہمیشہ اخلاق کے اس بلند مقام پر فائز دکھنا چاہتے تھے کہ جو کام کیا جائے وہ بنی نوع انسان کی بہبود اور خدمت کے لئے کیا جائے اصولوں کی خاطر جد و جہد ہو ذاتی مقاصد تعریف و توصیف اور انعامات ہرگز پیش نظر نہ رہیں.چنانچہ آپ نے مند مایا: یہی ہندوستانیوں میں نقص ہے کہ اول تو وہ کام نہیں کرتے اور جب کرتے ہیں تو معا خیال آجاتا ہے کہ ہمیں کچھ اس کے بدلے میں ملنا چاہیئے حالانکہ میرے نزدیک اگر ہم کوئی کام اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں اس کے بدلہ میں کچھ ملے گا تو اس کام کے کرنے سے ڈوب مرنا بہتر ہے یا کہ اس اصول پر اپنی جماعت کے کارکنان کا بڑی سختی سے جائزہ لیتے ہوئے آپ نے بڑے دکھ سے اس امر کا اظہار کیا کہ : مجھے تعجب آتا ہے.ابھی تک ہماری جماعت میں یہ بلندی پیدا نہیں ہوئی کئی لوگ ہیں جو لکھ دیتے ہیں فلاں موقع پر میں نے گورنمنٹ کا فلاں کام کیا تھا.اب مجھے ضرورت ہے میرا فلاں کام کرا دیا جائے.مجھے اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے گویا میرے منہ پر چپیڑ مار دی ہیں حیران ہوتا ہوں کہ سوائے کسی ذاتی فائدہ کی تمنا کے ہم کیوں کام نہیں کر سکتے پاتے نھم.آپ کے طریق کارمیں جبر کو دخل نہیں تھا بلکہ آپ محض اخلاقی ہتھیاروں سے ہی کام لیتے تھے چنانچہ خلاف آئین تحریکوں کے مقابلہ میں بھی آپ نے کبھی خلاف آئین ذرائع کو اختیار کرنے کی له المفضل ، جولائی ۱۹۳۳ء ص - له الفضل ، جولائی ۱۹۳۲ء منا - ٣ الفضل ، جولائی ۹۳ منا

Page 272

اجازت نہیں دی.اس بارہ میں آپ نے فرمایا :- ہمارا کام یہ ہونا چاہیئے کہ ہم پیار محبت اور استقلال کے ساتھ ان خلاف آئین تحریکوں کا مقابلہ کریں.میں اپنی جماعت کے تمام افراد کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاں کہیں ہوں انارکیسٹوں کی تحریک کی نگرانی رکھیں اور یہ کبھی خیال نہ کریں کہ اس کے بدلہ میں گورنمنٹ سے انہیں کیا ملے گا.میں تو جب کسی کے منہ سے ایسی بات سنتا ہوں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری کمر ٹوٹ گئی دراصل یہ ہمارا اپنا کام ہے.گورمنٹ نے ملک سے فتنہ و فساد کو روکنے کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لی ہے اور ہم پر فتنہ و فساد کے روکنے کی ذمہ داری اللہ تعالے نے ڈالی ہے کالے دھم - قیام امن کے سلسلہ میں حکومت وقت کا ہاتھ بٹانے کا اصول کسی مخصوص حکومت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ ایک قاعدہ کلیہ تھا اور ہر احمدی کو خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں بستا ہو اور کسی بھی حکومت میں زندگی بسر کرتا ہو، یہی تعلیم تھی اور آج بھی یہی تعلیم ہے اور کل بھی یہی تعلیم ہ رہے گی کیونکہ جماعت کا یہ موقف غیر مبدل قرآنی تعلیم کے تابع ہے جو وقتی مصالح سے تبدیل نہیں ہو سکتی.آپ کو قرآن کریم کے اصولوں کے درست ہونے اور ان پر عمل کے نتیجہ میں صحیح نتایج مترتب ہونے پر ایسا کامل یقین تھا کہ بعض اوقات بظاہر غیر متوقع نتائج ظاہر ہونے کے باوجود آپ کے اس یقین میں تزلزل واقع نہیں ہوتا تھا.اور بالآخر وہی بات درست ثابت ہوتی جس کی توقع قرآن حکیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں کی جاسکتی تھی.اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے ایک مثال ** دے کر فرمایا: میں نے سیاسی امور میں جب بھی دخل دیا ہے قرآن مجید کے ماتحت دیا ہے اس لئے مجھے کبھی بھی اپنی رائے بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی بسا اوقات ایسا تاریک وقت آیا کہ لوگوں نے کہا اب نہایت نازک گھڑی ہے اور بسا اوقات مجھے دوستوں نے کہا کہ اب آپ کو اپنی رائے بدل لینی چاہئیے مگر معا خدا تعالے ایسے سامان پیدا کرتا رہا کہ مجھے اپنی رائے میں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے خطبہ جمعہ میں ذکر کیا تھا کہ مجھے کشمیر کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کا له الفضل ، جولائی ۱۹۳۲ ء ما

Page 273

ہاتھ کام کرتا دکھائی دے رہا ہے.جب میں نے یہ خطبہ پڑھا تو اس کے تیسرے ہی دن کشمیر میں خطرناک فساد برپا ہو گیا اور یوں معلوم ہوتا تھا، گویا ہماری تمام تدبیروں کا خاتمہ ہو رہا ہے اور جتنا کام اب تک کیا گیا وہ سب خراب ہو جائے گا لیکن میں سمجھتا تھا اس میں بھی اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کام کر رہا ہے چنانچہ ایک مہینہ تک سخت تاریک حالات رہنے کے بعد معا حالات بدل گئے اور یوں حالت ہوگئی کہ گویا فساد ہوا ہی نہیں تھا کشمیر میں جس وقت حالات خراب ہوئے میں نے اسی وقت دوستوں سے کہہ دیا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے میرے لئے بھی اور دوستوں کے لئے بھی.میرے لئے ان معنوں میں کہ آیا میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں یا نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو رہا ہے اور دوستوں کے لئے اس لحاظ سے کہ ان کی ایمانی کیفیت کا اظہار ہو جاے یہ چند اصول ہمیشہ آپ کی سیاست میں مشعل راہ بنے رہے.ان پر نظر ڈالنے سے سیاست کے مضمون کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی سمجھ سکتا ہے کہ دنیوی اصطلاح میں جسے سیاست کہا جاتا ہے اس کا اس سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں جیسے ہم احمدی اصطلاح میں سیاست کہتے دنیا کے سیاستدان اگر ان اصولوں کو اپنا کر کوئی جد و جہد کرنا چاہیں تو قدم قدم پر اُن کی راہ میں روکیں کھڑی ہو جائیں گی اور وہ دنوں کا فاصلہ سالوں میں بھی طے نہ کر سکیں گے.مگر یہ عجیب بات ہے اور آئندہ پیش کئے جانے والے واقعات اس بات کی گواہی دیں گے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اسی سیاست کو اپنا کر دنیا کے سامنے بظاہر انہونی بات ہونی ثابت کر دکھائی کہ اگر خلوص اور حکمت اور مستقل مزاجی کے ساتھ قرآنی تعلیم کے مطابق سیاست پر عمل کیا جائے تو کم سے کم نقصان اُٹھا کر زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں اور سالوں کا فاصلہ دونوں ہیں ملے ہو سکتا ہے.جب بھی آپ کو سیاسی میدان میں قدم رکھنا پڑا وہ ہمیشہ وسیع مد مہبی اور یکتی تقاضوں کی بناء پہ تھا اور بالواسطہ یا بلا واسطہ اسلام کی سربلندی کے لئے ناگزیر تھا.آپ کا سیاسی لائحہ عمل قرآنی اخلاقی تعلیم کے تابع تھا جس میں جھوٹ کو کوئی دخل نہیں تھا.جس میں وقتی تقامنے دُوری صالح پر اثر انداز نہیں ہو سکتے تھے.آپ کے سیاسی لائحہ عمل میں عوامی جذبات کے استحصال کی بجائے فیصلہ کن امور یہ ہوا کرتے له الفضل ، جولائی ۱۹۳۶ مد

Page 274

۲۶۹ کہ حق کا تقاضا کیا ہے اور خود عوام کی بہبود کس چیز میں ہے.ہنگامہ آرائی اور عوامی جذبات کے ساتھ کھیلنے سے یہ سیاست بہت بلند تھی.آپ اس قرآنی تعلیم پر سچا اور کامل ایمان رکھتے تھے کہ اقتدار اعلیٰ بھی خدا کو حاصل ہے.طاقت کا سر خیمہ بھی وہی ہے.اصولی رہنمائی بھی اسی کی ہے اور اصولوں کی چار دیواری میں شخصی آزادی بھی اسی نے بخشی ہے.اس پابند اصول سیاست سے آپ نے کسی وقت اجتناب نہیں کیا بلکہ اس کے تقاضوں کو بے دھڑک اور بر ملا پورا کیا اور جب بھی عالم اسلام نے زبان حال سے آپ کو پکارا.آپ ان کی مد کے لئے دوڑے.آپ کے تمام سیاسی مشورے قرآنی تعلیم پر مبنی تھے.آپ کے تمام سیاسی اندازے اور پیش گوئیاں یا تو قرآن سے مستنبط تھیں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشنگوئیوں اور رویاد وکشون کے نتیجہ میں کی گئی تھیں.قوم پرستی کو آپ کی سیاست میں دخل نہ تھا البتہ حب الوطنی کے تقاضوں کو آپ ایک دینی تقاضے کے طور پر جزو ایمان سمجھتے تھے آپ کی سیاسی ترجیحات کی ترتیب کچھ اس طرح تھی کہ قرآن اور سنت کو اولیت حاصل تھی اور اگر کوئی بھی مفاد قرآن اور سنت کو چھوڑ کر حاصل ہوتا ہو تو آپ اس کو شائستہ التفات نہ سمجھتے تھے.اس کے بعد شعائر اللہ کی عظمت اور اس کی حفاظت کا احساس تھا، جن کے مقابل پر دوسرے ملی اور قومی تقاضے آپ کو ادنی اور بے حیثیت نظر آتے تھے.اس کے بعد ملت اسلامیہ کا مفاد آپ کو عزیز تر تھا اور بعد ازاں حب الوطنی کا درجہ آتا تھا.آپ کی سیاست کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ آپ سیاست میں بھی دعاؤں کے اثر کے قائل اور ان سے استفادہ کرنے کے عادی تھے.آپ دعا کو بڑے محکم یقین کے ساتھ ایک سیاسی تدبیر کے طور پر استعمال کرتے اور جماعت کو بھی اس کی نصیحت کرتے یہی آپ کی سیاسی شخصیت کا لب لباب ہے.اس شخصیت سے جب آپ تحریک ترک موالات کے دوران متعارف ہونگے یا ملکانہ کے کارزار میں اسے مصروف عمل دیکھیں گے.یا نہرو رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پائیں گے یا کشمیر کے مرغزاروں میں مظلوم مسلمانوں کے جہاد آزادی کا پھر برا بلند کرتے ہوئے دیکھیں گے، تو ہر جگہ آپ کو وہی ایک انداز سیاست نظر آئے گا.جو ایک عجیب دار با نشان ایمانی اپنے اندر رکھتا تھا.اسی انداز میں آپ نے حصولِ پاکستان کی عظیم جدوجہد میں دوسرے مسلمانوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا.اور قربانی کے ہر تھامنے کو دوسروں سے بڑھ کر پورا کیا.پھر مسئلہ فلسطین پر ہر وقت ملت اسلامیہ بروقت کو پیش آئند خطرات سے متنبہ کر کے استحاد عمل کی دعوت دی.اسی طرح پاکستان کے عالم وجود میں آنے پر آپ نے ایسے مسائل کی نشاندہی کی اور مؤشرجیل

Page 275

تجویز کئے کہ ابھی جن کے وجود کا نمبر بھی نہ اٹھا تھا اور عام اہل بصیرت کی نظروں سے اوجھل تھے آپ کا فیض اگر چہ مسلمانوں کے لئے بطور خاص تھا مگر انسانی ہمدردی سے مجبور ہو کہ آپ نے ایسے مسائل پر جو عام انسانی بہبودیسے تعلق رکھتے ہوں بسا اوقات بڑی بڑی سلطنتوں مثلاً امریکی.روس برطانیہ عظمیٰ اور جاپان کو بھی قیمتی مشوروں سے نوازا.یہ امور اگرچہ بظاہر سیاسی نوعیت کے تھے لیکن بنظر غائر دیکھیں تو ہر اس موقع پر آپ کو ایک عظیم سیاسی مفکر کے پر دے میں ایک مخلص اسلامی دل دھڑکتا ہوا نظر آئے گا جس کے محرکات بھی دینی تھے جس کا لائحہ عمل بھی دینی تھا جس کا مقصد اول بھی دینی تھا اور مقصد آخر بھی دینی تھا جس کی ایک ایک حرکت اور ایک ایک سکون جس کا اٹھنا بیٹھنا.بولنا اور چپ رہنا اور گہرے فکر میں مستغرق ہو کر انسانی مستقبل میں دو رنگ گرمی اور تیز نگاہیں ڈال کہ آئندہ کے حالات کا جائزہ لینا سب سراسر دینی رنگ میں رنگین تھا.یاسی موضوع پر آپ نے جو کتب اور رسائل لکھے اور تقریریں فرمائیں یا سیاسی راہنماؤں کو جو نهایت قیمتی مشوروں پر مشتمل پیغام بھیجے ، وہ سب اتنی وسعت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ایک مستقل ضخیم کتاب کے متقاضی ہیں.بہر حال محدود جگہ اور وقت کے پیش نظر کہیں اختصار اور کہیں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہم آپ کی بعض ایسی ملی اور انسانی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں جو عرف عام میں سیاست کے دائرے سے تعلق رکھتی ہیں.

Page 276

مسٹر انٹیگو کی ہندوستان میں آمد بعض اہم سیاسی مشورے سب سے پہلے مسلمانان ہند کی سیاسی بہبود میں آپ کی دلچسپی کا سراغ شاء میں مسٹر مانٹیگو وزیر پسند کی ہندوستان میں آمد کے موقع پر ملتا ہے.برطانوی حکومت اگرچہ اصولاً ہندوستان کی آزادی کا حق تسلیم کر چکی تھی لیکن عملاً آزادی کی صورت میں پیدا ہونے والے متعد د مسائل حل طلب تھے اور ملک کو تدریجا آزادی کی طرف لے جانے اور حکومت میں حصہ دے کر حکومت کے اہل بنانے کے سلسلہ میں متعد د تجاویز زیر غور تھیں اسی ضمن میں وزیر سند خود دہلی تشریف لا رہے تھے تا کہ مختلف سیاسی گروہوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے ذاتی طور پر صورت حال کا جائزہ لے سکیں.بلاش یہ ہندوستان میں بسنے والی ہر قوم کے لئے یہ ایک بہت ہی اہم موقع تھا.لیکن مسلمانوں کے لئے تو اس کی اہمیت اور بھی زیادہ تھی.کیونکہ صرف انگریز سے ہی ایسے حقوق لینے کا سوال نہیں تھا بلکہ ہندوستان کی ہندو اکثریت کی محکومی سے بچنے کا بھی سوالی درپیش تھا.پس موقع کی اہمیت کے پیش نظر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بنفس نفیس دہلی تشریف لے جانے کا فیصلہ کیا تا کہ خود وزیر ہند سے ملاقات کر کے مسلمانوں کے موقف کو بطریق احسن پیش کر سکیں علاوہ از میں جماعت کے نمائندگان پرمشتمل ایک باقاعدہ وفد بھی تیار کیا جو اسلامیان ہند کے مسائل اور ان کے بہترین حل کے بارہ میں جماعتی نقطہ نگاہ پیش کرے.حضور نے محرم محترم چو ہدری ظفر الله خان صاحب کو اس وفد کا قائد مقرر فرمایا جنھوں نے لارڈ مانٹیگو کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا.جو خود حضرت خلیفہ اس سیخ نے تیار کیا تھا.بعد ازاں جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مسٹر مانٹیگو سے ملاقات کی تو محترم چوہدری صاحب ہی نے ترجمانی کے فرائض بھی سر انجام دیئے.اس موقع پر مسلمانوں کے سیاسی مفاد میں جو مشورے حضور نے دیئے ان کا مرکز میں نقطہ یہ تھا کہ اصلاح کے نام پر بعض اوقات بظاہر پسندیدہ اور خوش کن اقدامات کئے جاتے ہیں جو عملا لبعض قوموں کے لئے نہایت نقصان دہ اور غیر منصفانہ ثابت ہوتے ہیں مثلاً اقلیت کو تعداد سے کچھ زیادہ حق نمائندگی دینا بظاہر ایک خوش کن سیاسی اصول ہے لیکن اگر آنکھیں بند کر کے اس کا اطلاق کیا جائے •

Page 277

Por تو یہ اس روح کے یکسر منافی ثابت ہو سکتا ہے جس کے پیش نظر اہل سیاست نے یہ اصول وضع کیا تھا.چنانچہ ہندوستان کی سیاسی صورت حال پر جب اس کا اطلاق کر کے دیکھا جائے تو اس کے نتیجہ میں سلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ سخت حق تلفی کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے.آپ نے وزیر مہند کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کروائی کہ ہندوستان کے وہ صوبے جن میں ہندو اکثریت ہے وہاں عموما مسلمانوں کی تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ ان کو اقلیت کے نام نویشن نہیں دینے کے نتیجے میں صوبے کے سیاسی توازن پر قطعا کوئی اثر نہیں پڑتا.لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کی جن پانچ صوبوں میں اکثریت ہے ان میں سے دو اہم ترین اور سب سے زیادہ آبادی والے صوبوں معنی بنگال اور پنجاب میں مسلم غیر مسلم آبادی کا تناسب ایسا ہے کہ اگر مہندوؤں کو اقلیت کے اصول پر تعداد سے زیادہ نمائندگی دی جائے تو وہ اکثریت میں اور مسلمان اقلیت میں تبدیل ہو جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سیاسی اصول ہندوستان سے مسلمان کی سیاسی زندگی کی صنف پیٹنے پر منتج ہو سکتا ہے.یہ مشورہ ہندوستان کے مسلمانوں کے حق میں ایک اہم بنیادی نکتہ کی حیثیت رکھتا تھا اور یہ امر آپ کی سیاسی بصیرت اور بالغ نظری کا ثبوت ہے کہ اس زمانے میں آپ نے مسلمان اکثریت کے دو صوبوں کے بارے میں جن خطرات کا اندازہ لگایا وہ بعد کے حالات نے درست ثابت کردیئے چنانچہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے دوران مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے وہی داؤ چلا گیا جس سے آپ نے متنبہ کیا تھا اور اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنے کے لئے other retros یعنی بعض دیگر عوامل کی آڑے لی گئی جس کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ اقلیتوں کو عددی قلت کے با وجود بعض دیگر اہم امور کے پیش نظر سیاسی تحفظ دیا جائے لیکن دراصل اس کا مقصد بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچانا تھا.جماعت احمدیہ کی طرف سے دوسرا اہم مشورہ اس موقع پر یہ دیا گیا کہ حقوق اور فرائض کے تمام معاملات میں یوروپین اور غیر یوروپین کی تقسیم کو کلیہ ختم کر دیا جائے.کیونکہ ہندوستان کی سیاسی بے چینی کی وجوہات میں سے یہ بھی ایک اہم وجہ ہے.تیسری اہم بات جو حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسٹر مانٹیگو کے سامنے پیش کرنی ضروری سمجھی وہ یہ تھی کہ اندرونی مذہبی اختلات سے قطع نظر حکومت برطانیہ کو یہ امر خوب ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ جماعت احمدیہ کا سیاسی مفاد کلیتہ ایسے تمام فرقوں کے ساتھ وابستہ ہے جو جماعت احمدیہ کی طرح ہی دعوئی اسلام رکھتے ہیں.یہ بھی بہت ہی اہم اور بنیادی وضاحت تھی اور ایک

Page 278

۲۷۳ ے سنہری اصول پر مبنی تھی کہ اگر مسلمانوں کے تمام فرقے اسے اپنا لیں تو مسلمانوں کی سیاسی وحدت کی ایک ٹھوس ضمانت حاصل ہو جائے.مسٹر مانٹیگو کی ہندوستان آمد کے بعد دوسرا اہم موقع ملت اسلامیہ کے سیاسی مصالح میں پچسپی لینے کا اس وقت پیش آیا جبکہ جنگ عظیم اول کے مقابعد خلافت ترکیبہ بالخصوص بندون کے مسلمانوں کی دچسپی کا مرکز بنی ہوئی تھی :

Page 279

معابد ترکیہ تحریک خلافت اور ترک موالات انیسویں صدی کا آخر اور بیسویں صدی کا آغازہ سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کے لئے طرح طرح کے دکھ اور مصائب لے کر آیا.لیکن اس دور کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ عالم اسلام کی صحیح رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا.گو ایک طرف دنیا پر احمدیت کا چاند طلوع ہوتے ہوئے ہدایت اور نور کی کرنیں بکھیر رہا تھا مگر دوسری طرف کروڑہا مسلمانوں کا ایک انبوہ کثیر تھا جو اس ہدایت اور نور کو ضلالت اور تاریخی قرار دے کر اس سے گریز پا تھا.راہبر سے بے خبر تھا لیکن تلاش منزل کے لئے سرگرداں نظر آتا تھا.جذبات محبت و عقیدت بھی تھے.ملتِ اسلامیہ کا درد بھی موجود تھا.قربانی کے لئے دل تیار ہی نہیں، قربان گاہوں کے متلاشی بھی تھے.آرِنَا مَنَا سیگنا کی آوازہ عالم اسلام کے گوشے گوشے سے اُٹھ رہی تھی مگر افسوس کہ اکثر اس صراط مستقیم کو کھو چکے تھے جو ایسی قربان گاہوں کی طرف لے جاتی ہے جہاں خون کا ہر بہنے والا قطرہ اجر کے لاکھوں جواہر عطا کرتا ہے جہاں ہر قربانی گونبظا ہر کیسی ہی اونی نظر آئے رضائے الہی کے انعامات پاتی رومانی خلعتوں کا وارث بناتی ہے.یہ وہ دور ہے جبکہ خلافت ترکیہ اپنے آخری سانس لے رہی تھی اور خلافت کی اعلیٰ اقتدار کا تو ذکر ہی کیا دنیوی معیار کے لحاظ سے بھی ہر پہلو سے رو بہ انحطاط تھی.اس عظیم سلطنت کا یہ انحطاط کئی سو سال پر پھیلا ہوا ہے جس دور کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس وقت جو اس کی کیفیت تھی وہ اپنے یسی - آرمسٹرانگ ره H.C.ARN STRON نے اپنی مشہور کتاب GRAY WOLF میں بڑی عمدگی سے بیان کی ہے وہ لکھتا ہے :- " ذمی شان خلیفہ سلیمان کے بعد تین سو سال کے اندر اندر سلطنت عظمیٰ عثمانیہ کا دیوالہ پیٹ چکا تھا اور ارذل نتر تک پہنچ کر اس کے اجزاء منتشر ہونے لگے تھے.اس یقین کے نتیجہ میں کہ یہ اب ٹوٹی کہ اب ٹوٹی عیسائی طاقتیں ہر طرف سے اس پر حریصانہ دباؤ ڈال رہی تھیں کہ جو کچھ لے اُڑنے کی طاقت ہو وہ لے اُڑیں.روس کر میں اور کاکیشیا پر قبضہ جما چکا تھا.قسطنطنیہ کا دعویدار تھا.اور ڈاٹ ٹنل کے راستے بحر اوقیانوس تک پہنچنے کی راہ مانگ رہا تھا.فرانس شام اور تیونس کو ہتھیا چکا تھا انگ اے

Page 280

مصر اور قبرص پر قبضہ جما چکا تھا.ایسے حال میں نئی وسعت پذیر طاقت جرمنی نے سلطان عبدالحمید کو بقیہ یورپ کے مقابل پر ہیرو بنا کر آگے کیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ جونہی دوسرے دشمنوں کا قصہ پاک ہو تر کی پر بھی قبضہ کر لیا جائے.تمام قومیں ترکی سے خصوصی مراعات اور حقوق کا مطالبہ کر رہی تھیں.ایسے گڑھوں کی طرح جو کسی جانور کی موت کے انتظار میں بیٹھے ہوں ، عیسائی طاقتیں ترکی کے آخری سانس کا انتظار کر رہی تھیں ایک دوسری سے ڈرتی ہوئی اس عالمگیر تباہی کی تیاری میں مصروف جسے جنگ عظیم کہا جاتا ہے وہ ایک دوسرے کی حاسدانہ نگاہوں کے ساتھ نگرانی کر رہی تھیں.کسی ایک طاقت کو یہ محال نہ تھی کہ تنہا ہیں کر سکے.اس لئے عثمانیہ سلطنت میں زندگی کی رمق باقی رہی جبکہ سرخ سلطان عبد الحمید اپنے باسفورس کے محلات میں شاطرانہ چالیں چلتا ہوا ایک قوم کو دوسری سے لڑانے میں مصروف تھا یا نہ عربوں کا ایک بڑا حصہ شدت سے یہ محسوس کر رہا تھا کہ مذہب کے نام پر ایک غیر قوم کو ان پر حکومت کا ایک بہانہ ہاتھ آیا ہوا ہے اور اگر ندیسی اشتراک ہی اس حکومت کا جواز پیش کرتا ہے تو پھر عرب بحیثیت قریش اس کے اولین حقدار ہونے چاہئیں جن میں اسلام کا سراج منیر ضیا ریز ہوا تھا.ترکی حکومت کا شمالی علاقہ جو کئی ریاستوں پر مشتمل تھا پہلے ہی چھینا جا چکا تھا اور بلقان کی یورپین ریاستیں جن کے مشرق میں سجر اسود ہے اور مغرب میں ADRIATIC SEA اور جنوب میں AEGEAR SEA - جنگ بلقان کے نتیجہ میں ترکی کے ہاتھ سے چھن چکی تھیں.صرف قسطنطنیہ اور گیلی پولی کا تھوڑا سا علاقہ بچا تھا جو ترکی کے قبضہ میں باقی رہا تھا.دوسری طرف عربوں کا ایک حصہ بھی اپنی گردن سے عثمانیہ حکومت کا جوا اتار پھینکنے کے لئے بے چین تھا علیحدگی کے ان رجحانات کو انگریز مزید ہوا دے رہے تھے.ماضی میں عثمانیہ سلطنت کے ہاتھوں عظیم عیسائی طاقتوں کو جو بار بار زک پہنچ چچی تھی اس کے زخم ابھی تک ہرے تھے مگر تہذیب و تمدن کے لبادے اوڑھے ہوئے یہ قومیں محض کسی ظاہری بہانے کے انتظار میں اس شکار کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھیں.(INTRODUCTION PAGE IX-X) GRAY WOLF By H.C.ARMSTRONG METHUEM & CO LTD.LONDON, 36 ESSEX ST STBAND W-C 2.

Page 281

۲۶ اس پس منظر میں جنگ عظیم اول کا آغاز ہوا.جرمنی نے اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے ترک خلافت کی خیر خواہی کا روپ دھار کر خلیفہ عبدالحمید کو ایسے سبز باغ دکھائے کہ اس نے جرمنوں کا حلیف بن کر میدانِ جنگ میں کودنے کا فیصلہ کر لیا.یہ فیصلہ بالخصوص ہندوستان کے مسلمان حلقوں میں بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا.انہوں نے سمجھا کہ اب انگریزوں کی غلامی سے نجات پانے کا وقت آگیا اور بڑی بڑی اُمنگیں اُن کے دلوں میں کر دیں لینے لگیں.یہ خیال کیا جانے لگا کہ جرمنی اور تریکی مل کر دنیا کی نئی بانٹ اس طرح کریں گے کہ وہ تمام مسلمان علاقے جو روس نے پہلے ہتھیائے تھے یادہ چھوٹی چھوٹی شمالی ریاستیں جو قبل ازیں ترکی حکومت کے اثر سے آزاد ہو چکی تھیں عالم اسلام کو دوبارہ عطا ہوں گی اور اسلامی خلافت نئی شان اور نئی قوت کے ساتھ دنیا میں پھر ابھرے گی مگر ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں میں ایک صاحب بصیرت راہ نما ایسا بھی تھا جس نے اس صورت حال کو مختلف رنگ میں دیکھا اور اس جنگ میں خلافت ترکیہ کے جرمنی کی طرف سے شامل ہو جانے کے فیصلہ کو ایک ایسی سنگین غلطی قرار دیا جو عالم اسلام کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی تھی.یہ رہنما جماعت احمدیہ کے امام حضرت خلیفہ ایسیح الثانی تھے.آپ کا یہ اختلاف رائے اور بھی زیادہ مجیب نظر آتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خود ترکی میں بھی رائے عامہ ہندوستان کی رائے عامہ کے مطابق جرمنی کے ساتھ شمولیت کو درست اقدام تصور کر رہی تھی یہانتک کہ وہ سیاسی راہ نما جنہوں نے سلطان عبد الحمید کے خلاف انقلابی مہم کا آغاز کیا تھا یعنی طلعت پاشا.انور پاشا - جمال پاشا وغیرہ.وہ سب بھی سلطان سے اپنے اختلافات کے باوجود جرمنی کا حلیف بننے کے فیصلہ کو درست سمجھتے تھے.ترکی میں ایک استثنائی شخصیت تھی اور وہ کمال اتاترک کی ذات تھی جس نے ابتداء ہی سے اس فیصلہ کو غلط اور غیر دانشمندانہ قرار دیا.اور گو قوم کے ساتھ مل کر وہ جرمنوں کی طرف سے جنگ لڑنے پر مجبور ہوگیا لیکن بعد ازاں حالات نے ثابت کر دیا کہ اس کی رائے ہی درست تھی اور ترکی کو اس غلط فیصلے کی پاداش میں بڑی ہولناک قربانی دینا پڑی ہے القصہ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی سیاسی بصیرت کا اس امر سے بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی آنکھ نے ہزاروں میل کے فاصلے سے وہ کچھ دیکھا جو اہالیان ترکی کی کروڑوں عصر آنکھیں نزدیک سے نہ دیکھ سکیں.جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کا تعلق ہے وہ خلافت ترکیہ کا ایک ایسا خوش آئند اور بعید از حقیقت تصور رکھتے تھے کہ ان کے نزدیک یہ سوچنا بھی غداری کے له (22 PAGE ( GRAY WOLF.

Page 282

مترادف تھا کہ سلطان عبد الحمید محض ایک دنیوی بادشاہ ہے اور خلافت راشدہ اسلامیہ سے اُسے حقیقت میں کوئی نسبت نہیں.ایسے وجود کے متعلق یہ سننا وہ کسی طرح گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ اس کے فیصلوں میں کسی قسم کی غلطی کا احتمال ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تنہاء آواز ہندوستان کے نقار خانے میں سنی تو گئی مگر سخت ناپسندیدگی کے ساتھ.بہر حال جنگ کے اختتام پر جب اتحادیوں نے ترکی سے انتقام لینے کی ٹھانی اور ترکی کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے تین بڑی طاقتوں امریکہ.فرانس اور انگلستان کے نمائندے بوسل میں جمع ہوئے تو ہندوستان کے مسلمانوں میں شدید ہیجان پیدا ہو گیا.چنانچہ ۲۱ ستمبر سال کو سلم کا نفرنس کے زیر اہتمام مسلمان راہنماؤں کا ایک اجلاس لکھنو میں طلب کیا گیا جس کے سیکرٹری چوہدری ظهور احمد وکیل نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی.اسی طرح مولوی سلامت اللہ صاحب فرنگی محلی نے بھی اپنی ذاتی حیثیت میں حضور کو شمولیت کے لئے تاکیدا عرض کی.یہ دعوت نامہ آپ کو ، استمبر کو ملا.۱۸ ستمبر کو آپ نے اس موضوع پر اپنی آراء کو قلمی جامہ پہنایا.وار کو مضمون ایک رسالہ کی صورت میں بعنوان لڑکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض طبع ہو کر تیار ہو گیا.اور اسی روز حضور کے نمائندگان کا ایک وفد حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ کی قیادت میں لکھنو روانہ ہو گیا.یہ ضمون حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی گہری سیاسی بصیرت کا آئینہ دار اور آپ کی غیر معمولی جرأت اور حق گوئی کا شاہکا ہے ایسے حقائق کا بیان جو اس وقت کے جذباتی ماحول نہیں مسلمانوں کے لئے تلخی کام و دہن کی کردی آزمائش تھے.آپ نے لومتر لائم سے بے پرواہ ہو کر اُن کو جبر عہ بحر کہ پلائیے اور قطعا پر واہ نہ کی کہ اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ جو پہلے ہی ہدف سلامت ہے ان کے طعن و تشنیع کا مزید نشانہ بنے گی.جو کچھ آپ نے سوچا زمانے نے ثابت کیا کہ وہی حق تھا.جو کچھ آپ نے کہا خود ترکی کے اہلِ بصیرت وطن پرستوں کے نزدیک بھی وہی درست تھا اور بعد کے آنے والے حالات نے گواہی دی کہ آپ کے مشوروں کو قبول نہ کرنے کے نتیجہ میں عالم اسلام کو شدید نقصان پہنچا ہے.ترکی کے نشیلہ پر جو کئی سال تک ہندوستان میں سیاسی قیاس آرائیوں اور ہنگامہ خیزیوں کا موجب بنا رہا حضر خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے زیر نظر مضمون میں جن خیالات کا اظہار فرمایا ان کا لب لباب یہ تھا کہ تمام عالیم اسلام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے خلافت کی محبت کو ترک کر دیا جائے اور ترکی کی مدد محض ایک مظلوم مسلمان سلطنت کے حوالے سے کی جائے.اس سے ایسے مسلمان

Page 283

فرقوں مثلاً شیعوں اور اہل حدیث وغیرہ کی ہمدردیاں بھی حاصل ہو جائیں گی جو تر کی خلافت کا جوا اپنے کندھوں پر مزید برداشت کرنے کے لئے کسی طرح بھی تیار نہیں ہو سکتے.آپ نے حجاز کے سوال کو خاص طور پر پیش کیا اور واضح کیا :.دوسرا امر اس کوشش کو کامیاب بنانے کے لئے یہ ضروری ہے.کہ مسلمان حکومت حجازہ کا سوال پیچ میں سے بالکل اُٹھا دیں.عربوں نے غیرا قوام کی حکومتوں کے ماتحت اپنی زبان اور اپنے تمدن کے متعلق جو کچھ نقصان اُٹھایا ہے، وہ مخفی امر نہیں ہے اور ہر ایک شخص جو ان ممالک کے حالات سے آگاہ ہے اس امر سے واقف ہے اور پھر عربوں نے جو کچھ قربانی اس آزادی کے حصول کے لئے کی ہے ، وہ بھی چھپی ہوئی بات نہیں مغرب کی غیرت قومی جوش مار رہی ہے اور اس کی حریت کی رگ پھڑک رہی ہے.وہ اب کسی صورت میں اپنی مرضی کے خلاف، ترکوں کے ساتھ وابستہ نہیں کیا جاسکتا.تیرہ سو سال کے بعد اب وہ پھر اپنی چار دیواری کا آپ حاکم بنا ہے اور اپنے حسین انتظام اور عدل و انصاف سے اس نے اپنے حق کو ثابت کر دیا ہے.اس کے متعلق کوئی نئی تجویز نہ تو کامیاب ہو سکتی ہے نہ کوئی معقول انسان اس کو قبول کر سکتا ہے.نہ عرب اسے ماننے کے لئے تیار ہے.حجانہ کا آنہ اور بہنا ہی اب اسلام کے لئے مفید ہے.مقامات مقدسہ کا ایک چھوٹی اور نظر طمع سے بچی ہوئی سلطنت میں رہنا بہت بہتر ہے.میں اس سوال کو ہمیشہ کے لئے فیصل شده خیال کرنا چاہیے کا ہے یہ دونوں مشورے اگرچہ ہندوستانی مسلمانوں کو نہایت ناگوار گزرے مگر ترکی کے قوم است مسلمانوں نے کمال اتاترک کی قیادت میں بعد ازاں عملاً دنیا پر یہ ثابت کر دکھایا کہ یہی رائے درست متی اور نہ کی کا مفاد اسی سے وابستہ تھا.چنانچه کمال اتاترک کے سامنے جب ہندوستان کے علماء کا ایک وفدیہ درخواست لے کر پیش ہوا کہ اب آپ ہی خلیفہ المسلمین بن جائیے تو اس نے بڑی حقارت سے اس تجویز کو رد کر دیا.انسی طرح جب اتاترک کے اپنے ساتھیوں میں سے جو تحریک انقلاب میں اُن کے ساتھ شامل تھے بعض نے الفضل ، ستمبر 1912ء مسل

Page 284

ایسی آراء کا اظہار کیا کہ از سر نو عثمانی حکومت کی حدود کو شمال میں یورپ کی بعض ریاستوں اور جنوب میں مصر و شام اور حجاز تک ممتد ہونا چاہیئے تو کمال اتاترک نے اس خیال کو بھی بڑی سختی سے رد کیا اور واضح کیا کہ ترکی کی موجودہ تمام مصیبتیں اسی غلط جذباتی طرز فکر کا نتیجہ ہیں.سوائے اس کے کہ ہم نے عرب اور شمالی یورپ میں نفرت کی فصلیں کاٹی ہیں ہمیں اس حکومت کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا لہذا ترکی کی انقلابی حکومت نہ تو خلافت کا لبادہ اوڑھے گی اور نہ ہی اپنی حدود ترکی سے باہر کسی علاقے تک مند کرے گی یا انے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس مضمون میں ایک اور نہایت ہی قیمتی مشورہ جس تک کسی اور راہ نما کی نظر نہیں پہنچی تھی یہ دیا کہ محض برطانوی حدود میں کوئی تحریک چلانا ہرگزنہ کامیاب نہیں ہو سکتا.بلکہ اس سے مطلب برداری کی سجائے برعکس نتیجہ نکلنے کا احتمال ہے.اس وقت تریکی کا فیصلہ صرف برطانیہ کے رحم و کرم پر نہیں بلکہ فرانس اور امریکہ کی بڑی طاقتیں بھی اس میں بڑا یہ کی شریک ہیں ان تینوں میں سے برطانیہ کا رویہ ترکی کے حق میں ہے اور امریکہ اور فرانس کا شدید مخالفانہ.اگر اس وقت انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی جائے تو اول تو فائدہ کی بجائے نقصان پہنچے گا کہ ان کی ہمہ سہ دیاں بھی مسلمانوں سے جاتی رہیں گی.دوسرے یہ کہ اگر انگریز چاہے بھی تو تنہا امریکیہ اور فرانس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا.لہذا فرانس اور امریکہ کی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی اشد ضرورت ہے.جو ایک محنت طلب کام ہے.اس حصہ مضمون پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے حالات کا حسب ذیل نہایت قیمتی جائزہ پیش کیا.آپ لکھتے ہیں :.پس اگر اس امر میں کامیاب ہونے کی کوئی امید ہوسکتی ہے تو صرف اس طرح کہ ان دیگر اقوام کی رائے بھی بدلی جاوے جو اس وقت مسلح کی کا نفرنس میں حصہ لے رہی ہیں.خصوصا امریکہ اور فرانس کی.اگر ان دونوں ملکوں کی رائے بدل دی جائے تو پھر کوئی مشکل نہیں رہتی.مگر ایسی کوشش کرنے سے پہلے یہ سوال حل کرنا چاہیئے کہ ان اقوام کو ترکی سے اس قدر نفرت کیوں ہے.کیونکہ جو خیالات ان کے ان فیصلول کے محرک ہیں انہی کے دورہ کرنے سے کامیابی ہو سکتی ہے.ہم دیکھتے ہیں جرمن قوم جو جنگ کی اصل بانی ہے اور جس نے جنگ کے دوران میں انسانیت اور آدمیت کے تمام اصول کو پامال کر دیا تھا وہ صرف ایک چھوٹا سا ٹکڑا اجو وہ بھی فرانس سے لیا ہوا تھا.چھوڑ کر اور کسی قدر علاقہ GRAY WOLF PAGE

Page 285

پولینڈ کا آزاد کر کے پھر اسی طرح اپنے ملک پر قابض ہے.آسٹریا جو اس جنگ کا بانی تھا اپنے ملک میں اسی طرح حکومت کر رہا ہے اور صرف ان غیر علاقوں کو جو اس سے خود جُدا ہونا چاہتے تھے.جھدا ہونے کی اجازت دی گئی ہے بخار یہ باوجود انتہائی درجہ کے مظالم اور غداری اور معاہدہ شکنی کے اپنے ملک پر قابض ہی نہیں بلکہ اسے سمندر کی طرف راستہ دینے کی تجاویز ہو رہی ہیں.رومانیہ نے تین دفعہ ادھر سے اُدھر پہلو بدلا.مگر اور زیادہ علاقہ کا حق دار قرار دیا گیا ہے.لیکن ترک جس نے خود یورپین طاقتوں کے اقوال کے مطابق مجبور ہو کر جر من دباؤ کے نیچے جنگ کی تھی اور میں نے جنگ کے دوران میں نہایت شرافت، نہایت دلیری اور بہادری سے کام لیا تھا اور بحیثیت قوم کسی قسم کا ظلم نہیں کیا اس کو ناقابل حکومت قرا دیا.کہا جاتا ہے کہ آرمینیہ کے قتل عام اس کی اصل وجہ ہیں.....لیکن ان کو صحیح تسلیم کر کے بھی دیکھا جاتا ہے.کہ اسی قسم کے مظالم اور حکومتوں میں بھی ہیں.روس میں جو کچھ بیٹود سے ہوتا رہا ہے وہ آرمینیہ کے قتل عام سے کم نہیں.بلکہ بہت زیادہ ہے اب بولشو کس جو کچھ کر رہے ہیں سب دنیا اس پر انگشت بدنداں ہے.ہزاروں نہیں لاکھوں آدمی انہوں نے قتل کر دیئے نہیں اور ایسے مظالم سے کام لیتے ہیں کہ عقل دنگ ہو جاتی ہے.......امریکہ جو اس وقت کوائے حریت کا حامل ہے اور سب سے زیادہ انصاف و عدل کے دعوے کرتا ہے اور اسی وجہ سے پریذیڈنٹ دوستن کہتا ہے کہ اگر اس جنگ کے بعد ٹر کی حکومت قائم رہے تو گویا اس جنگ کی غرض ہی فوت ہو گئی خود اس کے ملک میں ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کی کے وسیع اختلافات کی وجہ سے نہیں کالے اور گورے رنگ کے فرق سے ایسے ایسے مظالم ہو جاتے ہیں کہ حیرت آتی ہے.ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ وکسبرگ میں لانڈ کلے نامی ایک انیس سالہ حبشی لڑکا جو کسی الزام کے ماتحت حوالات میں تھا اور جو بعد کی تحقیق سے بالکل بے گناہ ثابت ہوا اسے عام آبادی نے قید خانہ توڑ کر باہر نکال لیا.اور بندہ کو

Page 286

شہری اُسے عذاب دینے کے لئے جمع ہوئے ایک درخت پر اُسے لٹکا دیا گیا اور بالکل تنگا کر دیا گیا.بعضوں نے مشورہ دیا کہ اسے قتل کر دیا جاوے مگر دوسروں نے کہا کہ نہیں اسے آہستہ آہستہ مرنے دو.اور پہلے مٹی کا تیل اس کے بدن کو ملا گیا پھر لکڑیوں کا انبار لگا کر پٹرول او پر ڈال کر اسے جلایا گیا.اس کے پینے اور چلانے اور آہ و فریاد کرنے کو ایک پر لطف تماشا سمجھ کر عورت و مرد نے ڈیڑھ گھنٹے تک یہ نظارہ دیکھا اور جب اس کی لاش اتاری گئی تو وہ رسیاں جس سے وہ بندھا ہوا تھا ان کے ٹکڑے بطور یاد گار لوگوں نے اپنے پاس رکھے اور اس درخت کو تیس سے وہ لٹکایا گیا تھا.ایک مقدس یادگار قرار دیا گیا.پھر ابھی پچھلے ماہ میں ہی تسکیس گو میں حبشیوں پر تو کچھ ظلم کئے گئے ہیں اخبارات میں شائع ہوتے ہی رہے ہیں.اس کی وجہ کیا تھی.صرف یہ کہ ایک حبشی لڑکا جھیل کے کنارہ پرغلطی سے اس حصہ پر چلا گیا تھا.جو سفید رنگ کی آبادی کے لئے مخصوص کیا گیا تھا.اس پر سفید آبادی نے اس پر پتھروں کا مینہ برسایا اور اس واقعہ سے وہ خطرناک آگ بھڑک اٹھی جس نے پچھلے دنوں تمام دنیا کو حیرت میں ڈالے رکھا تھا.انہی واقعات پر پریذیڈنٹ ولسن کو ایک دفعہ کہنا پڑا تھا کہ جب ہم اپنی ڈیمیا کریسی کو یہ ثابت کر کے کہ وہ کمزوروں کے لئے باعث حفاظت نہیں ہے ، ذلیل کر رہے ہیں تو دوسروں کے سامنے ڈلیا کریں کیونکر پیش کر سکتے؟ اگر کہا جائے کہ لالچ سے ایسا کیا جاتا ہے تو یہ درست نہیں کیونکہ امریکہ کو کوئی لالچ نہیں.کم سے کم امریکہ کوئی حصہ اپنے لئے لینے کیلئے تیار نہیں.پس معلوم ہوتا ہے کہ اس نفرت کا باعث کچھ اور ہے اور وہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ ترک مسلمان کہلاتے ہیں.میرا مطلب اس بات کے کہنے سے کہ ترکوں سے اس لئے نفرت کی جاتی ہے کہ وہ مسلمان کہلاتے ہیں.یہ ہے کہ ان ممالک کے لوگوں کو اسلام سے اس قدر بعد ہے اور آباؤ اجداد سے اُن کے دل میں اسلام کی نسبت اس قدر ختیاں بٹھائی گئی ہیں کہ وہ اسلام کو ایک عام مذہب کے طور پر خیال

Page 287

PAY نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی تعلیم خیال کرتے ہیں جو انسان کو انسانیت سے نکال کر جانور اور وہ بھی وحشی جانور بنا دیتی ہے.ان کے نزدیک اسلام ایسی وحشیانہ تعلیم دیتا ہے کہ اس کی موجودگی میں رحم اور انصاف دل میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا ہے صورت حال کو یوں نکھار کر پیش کرنے کے بعد آپ نے بڑے درد مند دل کے ساتھ یہ تجویز پیش کی کہ مسلمان غیرممالک میں خصوصا امریکہ اور فرانس میں پروپیگینڈا کے مراکز قائم کریں اور آخیر پر مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے ایک آریہ لیڈر لالہ لاجپت رائے کی پیٹھی کا ایک اقتباس پیش کیا جو اخبار لیڈ ر الہ آباد میں شائع ہوئی تھی اور جس نے ہندو ہونے کے باوجود غیر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف زہریلے پروپیگنڈا کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کئے :.مجھے اپنے سفروں میں اس سے زیادہ کسی امر نے تکلیف نہیں دی جس قدر کہ اس گہری نا واقفیت اور سخت تعصب نے جو اسلام اور اسلامی ممالک کے متعلق امریکہ میں پھیل رہا ہے.ممالک متحدہ میں آپ کو چین.جاپان اور ہندوستان کے ہمدرد تو ملیں گے لیکن میں نے اپنے پانچ سالہ سفروں میں ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جو اسلام اور اسلامی ممالک کے متعلق کوئی کلمہ خیر منہ سے نکالتا ہو.ایک مسلمان دوست سمیت مجھے ایک مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا جس میں ترکی حکومت کے مستقبل کے متعلق گفتگو تھی.ترکوں کی طرف سے ایک ترک ہی وکیل تھا.لیکن جو لوگ اس کو جواب دینے کے لئے کھڑے ہوتے تھے انہوں نے ایسی ناواقفیت اور کھلی کھلی دوستی اور تعصب کا ثبوت دیا کہ میرے لئے صبر کے ساتھ مننا مشکل ہو گیا.ترکی وکیل نے بہت بری طرح وکالت کی اور اپنے خلاف تعصب کا طوفان کھڑا کر لیا.ترکوں کو ایک ڈراؤ فی شہرت حاصل ہے اور مسلمان اقوام کے معاملہ کو ایسی طرح پیش کرنے کے لئے کہ لوگوں کے دل میں ان سے ہمدردی پیدا ہو ٹری لیاقت دانائی اور ہوشیاری کی ضرورت ہے.آخر میں میرے دوست نے میرے کہنے پر اس تعصب کے کم کرنے کی کوشش کی مگر اس کی آواز کیلی آواز تھی.الفضل قادیان ۲۷ ستمبر اه مته

Page 288

PAY مسلمانان ہند پر ان کے مذہب ان کے ہم مذہبوں اور خود اپنے نفسوں کی طرف سے یہ ذمہ داری عاید ہے کہ وہ چند لائق آدمی تمام ذو نفوز ممالک میں بطور اپنے وکلاء کے مقرر کریں.یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو فوری توجہ چاہتی ہے.یہ تمام ہندوستانیوں کا بلا تفریق مذہب فرض ہے کہ وہ اسلام کی عربت کو بدنامی کے صدمہ سے بچائیں اور جب کبھی انہیں کسی مفید نتیجہ کی امید ہو، مسلمانوں کے لئے بھی اس انصاف اور حق جوئی کا مطالبہ کریں جس کا مطالبہ دوسری اقوام کے لئے کیا جاتا ہے.لیکن اس میں کوئی کلام نہیں کہ خود سلمانوں پر ایک ایسی ذمہ داری ہے کہ جسے انہیں بغیر تا خیر اور بغیر پہلوی کے بجالانا چاہیے.اگر وہ اس ذمہ داری کے سجا لانے سے غفلت کریں گے تو اس کا نقصان خود اُٹھائیں گے یہ لے یہ اقتباس پیش کرنے کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی غیرت کوان الفاظ میں جھنجوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کی : یہ ایک ہندو کی آواز ہے بلکہ ایک آریہ کی آواز ہے جو مسلمانوں کو خوانفلات سے جگاتی ہے اسلام کی حالت ایسی گر گئی ہے.کہ اس سے مذہبی مخالفت رکھنے والے لوگ اب اسے ہوشیار کرتے ہیں.اور اس کی حالت ان کے رحم کو جذب کرتی ہے.بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہے اور تھوڑا باقی ہے اگر اب بھی شستی کی گئی تو کسی بہتری کی امید رکھنی فضول ہے جب تک اسلام بہیمیت اور دنیا کے لئے ایک مہلک بیماری کے رنگ میں دیکھا گیا اس وقت تک مغربی بلا د سے کسی انصاف کی امید رکھنا ایک فضول امر ہے اور جب تک دوسرے بلا د خصوصا امریکہ کی رائے انگلستان کے ساتھ نہ ہو اس وقت تک برطانیہ کی آواز کے سنے جانے کا خیال بھی کرنا ایک وہم ہے اس یہ مضمون مسلمانوں کے اس تاریخی نمائندہ اجلاس میں بڑی بے دلی سے سنا گیا گویا کہنے والے کی زبان اور تھی اور سننے والوں کی زبان اور ہنگامہ خیز خطاب کی توقع رکھنے والے دلوں پر بھلا عقل و دانش کی یہ کبھی ہوئی آواز کیا اثر کر سکتی تھی.ہر چند کہ یہ تقریر عقل اور جذبات کے توازن کا ایک شاہکار تھی.لیکن سننے والے کسی اور ہی خیال میں مگن تھے.انہیں ایسے شعلہ بیانوں کی ضرورت تھی.الفضل قادیان ۲۷ ستمبر به متن الفضل قادیان ۲۷ ستمبر شائه منا

Page 289

Fay جو عقل و خرد کے خرمن کو پھونک ڈالیں اور ضبط و تحمل کے تقاضوں کو بھاڑ میں جھونک دیں.انہیں ایسے آتش نواؤں کی ضرورت تھی جو سادہ لوح عوام کے جذبات کو بھڑکا کر ایک ایسا اٹلا د تیار کریں جن کے شعلے آسمان تک پہنچیں اور جس کی بینائی برصغیر کے کناروں کو محیط ہو.احمدی جماعت کے اس نوجوان رہنما کو بھلا کیا حق پہنچتا تھا کہ مسلمانوں کو بے نتیجہ کھوکھلی اور عامیانہ سیاست کے چنگل سے نکال کر ایک بالغ نظر با نمر لائحہ عمل کی طرف بلائے.نتیجہ وہی نکلا جس کی ان حالات میں توقع کی جا سکتی تھی.اس بے وقت کی راگنی کی بھلا کیسے سزا نہ دی جاتی.لازنا احمدی رہنما کے پر خلوص مشوروں کی کچھ نہ کچھ سزا اس کی جماعت کو ملنی چاہیے تھی سو ایسا ہی ہوا.ایسا ہی ہوا اور بعض جو شیلے علماء نے محض گالیوں کے زبانی جمع خرچ کو کافی نہ سمجھتے ہوئے احمدیوں کے خلاف اس بناء پر ایذاء رسانی کی ایک ملک گیر مہم چلا دی کہ یہ لوگ مخلافت ترکیہ کو برحق نہیں سمجھتے.اور ملک میں بدامنی پھیلانے والی تحریکات کی محض اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ انگریزی حکومت کا تسلط قائم رہے جس کے ختم ہونے کے روشن امکانات پیدا ہو چکے ہیں.یہ تحریک بڑی چابکدستی اور بے رحمی کے ساتھ چلائی گئی اور اس کے نتیجہ میں جگہ جگہ احمدیوں پر سخت مظالم توڑے جانے لگے جن کا کچھ تذکرہ آئندہ کیا جائے گا.اس صورت حال پر تقریبا نو ماہ کا عرصہ گزرگیا.دھواں دھار تقریریں ہوئیں.انگریزوں کو سخت گالیاں دی گئیں مسلمان عوام میں دلفریب نعروں سے جوش پیدا کیا گیا حتی کہ خلافت ترکیہ کے حق میں ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسلمانوں کے جذبات شدید ہیجان پکڑ گئے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین بات نکلا.استحادی طاقتوں نے معاہدہ ترکیہ کی صورت میں ایک نہایت ظالمانہ فیصلہ کیا جو ترکی کے لئے نہیں بلکہ سارے عالم اسلام کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھا.اس پر یکم جون نشا کو الہ آباد میں مسلمان راہ نماؤں کی ایک کانفرنس طلب کی گئی.اس کا نفرنس میں بھی اس جلسہ کی منتظم نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو دعوت دی لیکن اس بار بھی رہی پہلی کہانی دہرائی گئی یعینی یکم جون کو ہونے والے اجلاس کی دعوت آپ کو ۳۰ مٹی کو پہنچی گویا اس کا نفرنس میں اگر آپ شمولیت کرنا بھی چاہتے تو آپ کے لئے سوچنے اور لکھنے کا بظاہر کوئی وقت نہ تھا لیکن میں صاحب عزم و ہمت انسان کو یہ دعوت دی گئی تھی اس نے جوابا اسی عزم و حوصلہ کا اشلا کیا.جو ایک بار پہلے کر چکا تھا.اسی دن چند گھنٹوں کے اندر ایک معرکۃ الآراء مضمون بعنوان معابر کرکے

Page 290

۲۸۵ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ رفتم فرماکر رات ہی رات میں اسے طبع کر وایا اور اگلے روز علی الصبح آپ کا نمائندہ وفد یہ تحریری پیغام لے کر کانفرنس میں شمولیت کے لئے الہ آباد پہنچ گیا.اپنے گذشتہ تجربے کی بناء پر حضرت خلیفہ ایسی الثانی رضی اللہ عنہ نے اس مضمون کو بڑے دکھی دل کے ساتھ تحریر کیا.یہ ضمون لکھتے وقت بھی آپ کو یہ احساس تھا کہ کوئی ان باتوں پر کان نہیں دھر گیا اور یہ یمتی مشورے ضائع جائیں گے.لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی غیر معمولی ہمدردی اور احساس فرض آپ کو مجبور کر رہا تھا کہ شامل اجلاس راہ نماؤں کی خدمت میں حق بات بہر حال پہنچا دی جائے.آپ نے فرمایاہ.اے احباب کرام !میں نے ستمبر گزشتہ کے اجتماع کے وقت تحریر کے ذریعہ سے آپ لوگوں کو توجہ دلائی تھی کہ دولت عالیہ عثمانیہ کے مستقبل کے متعلق جدو جہد کی بنیاد اس امر پر رکھنی چاہیے کہ سلطان ترکی کثیر حصہ مسلمانان کے نزدیک خلیفہ ہیں.اور باقی تمام مسلمان بھی بوجہ ان کے اسلامی بادشاہ ہونے کے ان سے ہمدردی رکھتے ہیں اس لئے ان سے معاہدہ صلح کرتے وقت تمام عالم کے مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھا جائے اور ان سے انہی اصول کے ماتحت معاملہ کیا جاوے جن کے ماتحت دوسری مسیحی حکومتوں سے معاملہ کیا گیا ہے.اور میں نے بتایا تھا کہ اس طریق پر تمام وہ فرقے جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کا آپس میں کیسا ہی اختلاف ہو اس معاملہ میں اکٹھے ہو سکیں گے لیکن افسوس کہ اس وقت آپ لوگوں کو میرا مشورہ پسند نہ آیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کو یہ بات کہنے کا موقع ملا کہ خلافت عثمانیہ سے متعلق مسلمانوں کی آوازہ ایک نہیں اور اس لئے یہ کہنا کہ ترکوں کے متعلق تمام مسلمانوں کی ایک رائے ہے درست نہیں.اگر میرا مشورہ اس وقت تسلیم کیا جاتا تو احمدیہ جماعت کو خلافت کے مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات کے اظہار کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی.اور وہ ترکوں کے لئے انصاف کا جائزہ طور پر مطالبہ کرتے ہیں اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ شامل ہو سکتی تھی.

Page 291

اگر اس وقت میرا مشورہ قبول کر لیا جاتا تو شیعہ اصحاب کو جو کروڑوں کی تعداد میں ہیں.علی الاعلان اس تحریک سے براءت کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی.اور وہ بھی دوسرے بھائیوں کے ہم زبان ہو کر اس مسئلہ کے متعلق اپنی ہمدردی کا اظہار کر سکتے تھے کہتے پھر اپنے گذشتہ مشوروں کا جن کو رو کرنے کے نتیجہ میں بہت کچھ نقصان پہنچا تھا.مختصراً ان الفاظ میں ذکر کیا :- "اگر میرا مشورہ قبول کر لیا جاتا تو عرب کے وہابی فرقہ کو بھی کھلے طور پر اس مسئلہ میں دوسرے ممالک کے لوگوں کے ساتھ شریک ہونے میں کوئی اعتراض نہ ہوتا.اور اگر میرا مشورہ قبول کر لیا جاتا تو یورپ کے لوگوں کو اس بات پر ہنسی اڑانے کا موقع نہ ملتا کہ مسلمان اپنے خلیفہ کی حفاظت کی اپیل عیسائی حکومتوں سے کرتے ہیں.اور اگر اس کام کو تکمیل پر پہنچانے کے متعلق جو بات میں نے لکھی تھی اُس پر عمل کیا جاتا تو یقیناً شرائط صلح موجودہ شرائط سے مختلف ہوتیں.وفود کا بھیجا جانا اس قدر معرض التواء میں ڈالا کہ عمل کا وقت ہاتھ سے جاتا رہا.امریکہ کی طرف گوئی وند نہیں بھیجا گیا.عراق، شام، عرب اور قسطنطنیہ کی طرف وفد بھیجے جانے ضروری تھے.مگر اس کا کچھ خیال نہیں کیا گیا.فرانس اور اٹلی کی طرف مستقل و فدوں کی ضرورت تھی مگر اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی.جاپان بھی توجہ کا مستحق تھا اُسے بھی نظر انداز کیا گیا.انگلستان کی طرفت و فد گیا اور وہ بھی آخری وقت ہیں.ساری کوشش ہندوستان کی گورنمنٹ کو برا بھلا کہنے میں یا ان لوگوں کو گالیاں دینے میں صرف کر دی گئی جو گو ترکوں سے ہر طرح ہمدردی رکھتے تھے مگر سلطان المعظم کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتے تھے.مگر کیا گالیاں دینے سے کام ہوتے ہیں.سه راخبار الفضل قادیان ، جون ۱۹۲۰ء ص۳)

Page 292

کام کام کرنے سے ہوتے ہیں.......اسے نمائندگان اسلام ! اس وقت جبکہ آپ نہایت سنجیدگی سے دولت عثمانیہ کے مستقبل پر غور کرنے کے لئے بیٹھے ہیں.اور آپ کے دلوں میں غم اور فکر کا ہجوم ہے.اس وقت ہندوستان کے مختلف گوشوں میں ناکردہ گناہ بیچتے اور بے قصور عورت میں اس شدت گرما میں اس قصور میں پیا ہے تڑپ رہے ہیں کہ ان کے والدین یا شوہر کیوں سلطان عظم کی خلافت کے قائل نہیں اور سلمان کہلانے والے لوگوں نے زہ معلوم کس کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس پانی سے بھی ان کو روک دیا ہے جس سے خدا تعالے کا فرسے کا فر انسان کو بھی نہیں روکتا.اب آپ سوچیں کہ کیا اُن کی آئیں........اور ان کی چیخ و پکار خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا کر اس بات کی درخواست کر رہی ہو گی کہ ان ہم پر ظلم کرنے والوں کے کام میں برکت دے اور ان کی مرادوں کو پورا کر........محض اس اختلاف رائے پر کہ کیوں احمد می خلافت عثمانیہ کے قائل نہیں ان کو پانی سے روکا جاتا ہے.ان کو خرید و

Page 293

PAN فروخت سے باز رکھا جاتا ہے ان کے گھروں میں کام کرنے سے مہنتروں کو باز رکھا جاتا ہے اور ان پر نماز ادا کرتے وقت کنکروں کی بارش کی جاتی ہے یہ شے اس کے بعد آپ نے ترکی کے متعلق استحادیوں کے فیصلوں پر کڑی نکتہ چینی کی اور مضبوط دلائل سے ثابت کیا کہ ترکوں کے ساتھ انتہائی غیر منصفانہ سلوک کیا گیا.آپ نے فرمایا :- ترکوں کے متعلق شرائط صلح کا فیصلہ کرتے وقت ان اصول کی پابندی نہیں کی گئی جن کی پابندی یورپ کے مرتبہ انصاف کے لئے ضروری قرار دے چکے ہیں.عراق کی آبادی کو ایسے طور پر اپنی رائے کے اظہار کا موقع نہیں دیا گیا جیسا کہ جرمنی کے بعض حصوں کو.ان سے باقاعدہ طور پر دریافت نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے لئے کس حکومت یا کس طریق حکومت کو پسند کرتے ہیں.شام کی آبادی کو باوجود اس کے صاف صاف کہہ دینے کے کہ وہ آزا در رہنا چاہتی ہے فرانس کے زیر اقتدار کر دیا گیا ہے.فلسطین کو جس کی آبادی کا یہ حصہ مسلمان ہے ایک یہودی نو آبادی قرار دے دیا گیا ہے.حالانکہ یہود کی آبادی اس علاقہ میں یہ کے قریب ہے.اور یہ آبادی بھی جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا میں لکھا ہے شاہ سے ہوئی ہے اور زیادہ تران نیز گیری کی ہے جنہوں نے ان ممالک سے آکر پند لی ہے جن میں یہودیوں پر ظلم کرنا سیاست کا ایک بڑا جزو قرار دیا گیا ہے.رانسائیکلو میڈیا بریٹینیکا ) (یعنی روس وغیرہ)......Consisting Principally of refugees from countries where anti-Semition is an important element in Politics.پس ایسے علاقہ سے ترکوں کو دست بردار کرانا اور یہود کے سپرد له الفضل ، جون ۱۹۲۰ ص۲

Page 294

۲۸۹ کر دنیا جس میں کثیر حصہ آبادی مسلمان ہے اور جو یہود کے لئے ایک ہی جائے پینہ بھی کیا اس مجرم کے سبب سے ہے کہ انہوں نے کیوں ہوں کو اس وقت پسند دی جبکہ سیچی حکومتیں ان کو اپنے گھروں اور اپنی جائیدادوں سے بے دخل کر رہی تھیں.یہی حال لبنان کا ہے اس کو فرانس کے زیر اقتدار دنیا بالکل کوئی سبب نہیں رکھتا اور آرمینیا کا آزاد کرنا بھی بے سبب ہے.کیونکہ آرمینیا کا جائے وقوع ایسے علاقہ میں ہے جس کے چاروں طرف ترک آباد ہیں.اور ان کی الگ حکومت بنانے سے یہ مطلب ہے کہ ترک قوم آپس میں اتحاد نہ کر سکے.اور روسی ترکستان کے لوگ کسی وقت بھی ایشیائے کو چک کے ترکوں سے ٹل نہ سکیں.پھر آرمینیا کو جو بہت سے علاقے دیئے گئے ہیں ان میں کثیر حصہ آبادی کا مسلمان ہیں.اور ایسی بعض ولایات کے دینے کی تجویز ہے ، جہاں کی آبادی قریب قریب ساری مسلمان ہے.حالانکہ یہ بانت ثابت ہے کہ آرمینین سیحیوں نے نہایت بیدردی سے مسلمانوں کو قتل کیا ہے اور خود وزیر انگلستان اس بات کا انکار نہیں بر کر سکے کہ آرمینین مسیحیوں نے بھی مسلمانوں پر سخت سے سخت مظالم کئے.پس اگر ترکوں کو اس جرم میں اس علاقہ کی حکومت سے بے دخل کیا جاتا ہے کہ وہ کردوں کو آرمینین مسیحیوں پر ظلم کرنے سے کیوں نہیں روک سکے کو جو خود مسلمانوں کو قتل کرنے کے جرم کے مرتکب ہیں مسلمانوں پر کیوں حکومت دے دی گئی ہے.اور اگر کوئی ایسے قواعد بنا دیئے گئے ہیں کہ جن کے ماتحت آرمینین سبھی مسلمانوں پر ظلم نہیں کر سکیں گے تو کیوں انہی قواعد کے ماتحت آرمینیا کو ترکوں کے ماتحت نہیں رکھا گیا تا مسلمان مسیحیوں پر ظلم نہ کر سکتے.لو البین اسی طرح سمرنا کو یونان کے حوالہ کرنا بھی خلاف انصاف ہے.

Page 295

۲۹۰ کیونکہ کسی ملک کے صرف ایک شہر میں کسی قوم کی کثرت آبادی اُسے اس ملک کی حکومت کا حقدار نہیں بنا دیتی.اور یہ اصول کبھی بھی سیاست میں تسلیم نہیں کیا گیا یا ہے بعد ازاں آپ نے مسلمانوں کے آئندہ لائحہ عمل کے متعلق حسب ذیل قیمتی مشورے دیئے.اس سوال کے جواب میں کہ اگر اتحادی اس معاہدہ کو نرم نہ کریں، تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیئے.مختلف آراء پیشیں کی گئی ہیں.بعض نے ہجرت کی تجویز پیش کی ہے.بعض نے جہادِ عام کو پسند کیا ہے بعض نے قطع تعلقی کی پالیسی کو سراہا ہے مگر میرے نزدیک این سب تجاویز میں سے ایک تجویز بھی درست نہیں اور نہ قابل عمل ہے.ہندوستان کی سات کروڑ آبادی ہندوستان کو چھوڑ کر سر نہیں جاسکتی اور نہ اس کے باہر جانے کی کوئی غرض اور فائدہ دوسری تجویزہ جہاد کی ہے.جہاد اس ملک میں رہ کر جائز نہیں...ہمیں سب سے زیادہ اپنا مذہب عزیز ہونا چاہیئے.اگر ہم تمام دنیا کی حکومت کے لئے بھی اپنا مذہب قربان کر دیتے ہیں تو ہم گھاٹے میں رہیں گے.پس حکومت برطانیہ کے زیر سایہ رہتے ہوئے اس کی حفاظت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا یا اس کے متعلق تدابیر سوچنا ایک مسلمان کے لئے جو اپنے مذہب کی کچھ بھی قدر کرتا ہے ناجائز ہے اور اسلام کی عظمت کرنے والا مسلم اس تجویز پر بھی عمل نہیں کر سکتا.اگر کہا جاوے کہ باہر جا کر پھر جہاد کریں تو اول تو اس سوال کے ساتھ پھر ہجرت کا سوال آجاوے گا جسے میں پہلے ناجائز اور نا ممکن ثابت کر چکا ہوں.دوم جہاد کے لئے یہ شرط ہے کہ اس حکومت سے کیا جاوے جو اسلام کو مٹانے کے لئے مسلمانوں پر حملہ کرتی ہے اور ترکوں سے جنگ کرنے میں اتحادیوں نے ابتداء نہیں ر اخبار الفضل قادیان در جون ۶۱۹۳۰ م.

Page 296

۲۹۱ کی.نہ اس جنگ کی وجہ اسلام کو مٹانا تھا.پس جب تک یہ ثابت نہ کیا جاوے کہ اس جنگ کی ابتداء اتحادیوں کی طرف سے ہوئی ہے.اور پھر یہ بھی کہ اتحادیوں نے ترکوں سے اس لئے جنگ کی تھی کہ وہ ان کو جیر اسیمی بنا لیں جہاد ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے جو برطانیہ کی حکومت کے نیچے رہتے ہیں جائز نہیں ہو سکتا.اگر سب مسلمان اس تجویز پر عمل کرنے لگیں تب بھی وہ گورنمنٹ پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتے کیونکہ اس ملک کی آبادی کا صرف چوتھا حصہ مسلمان ہے ہے ہندو ہیں اور قریبا چالیس لاکھ سیمی ہیں پس اگر گورنمنٹ کو اس کے خطاب واپس کر دیئے جائیں تو اس سے اس کا کوئی نقصان نہیں اور اگر اس کی ملازمت سے علیحدگی کی جاوے تو ہندوستان کی سیم آبادی اُن کی جگہیں پیر کرنے کے لئے تیار ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ہند و سر بر آوردہ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ شریک ہونے کے لئے آمادہ ہیں.لیکن اس تجویزہ کی مخالفت ہندوؤں میں بہت زیادہ ہے اور یقینا پانچ فیصدی ہندو بھی مسلمانوں کا ساتھ نہ دیں گے.اگر مسلمان وکلاء اپنا کام چھوڑ دیں گے.تو خود مسلمان بھی اپنی داد رسی کے لئے ہندو وکلاء کی خدمات کو حاصل کر لیں گے.اور وہ شوق سے ان کے مقدمات لیں گے اور اگر مسلمان حج استعفا دے دیں گے تو ہندو امیدوار فورا ان کی جگہ لینے کے لئے آگے بڑھیں گے.اگر فوجی مسلمان استعفا دے دیں گے تو علاوہ اس کے کہ وہ فوجی قواعد کی خلاف ورزی کر کے سزا پائیں گے ان کا مستعفی ہو جانا ایسا مؤثر نہ ہوگا.کیونکہ ہندو قوم اب فوجی خدمات کی اہمیت سے کافی طور پر واقف ہو چکی ہے اور وہ اپنے قدیم ملک کو ہلا حفاظت چھوڑنے پر کبھی رضا مند نہ ہو گی.غرض ہر ملازمت کے لئے دوسری اقوام کے لوگ نہ صرف مل جائیں گے بلکہ شوق سے

Page 297

۲۹۲ آگے بڑھیں گے.کیونکہ ملازمت تلاش کرنے والوں کی ہمارے ملک میں کمی نہیں ہے.ایسے لوگ مسلمانوں کے اس فیصلے کو ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھیں گے اور ان کی بیوقوفی پر دل ہی دل میں بنیں گے پس سوائے اس کے کہ اس فیصلہ سے لاکھوں مسلمان اپنی روزی سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور تعلیم سے محروم ہو جاویں اور اپنے حقوق کو جو بوجہ مسلمانوں کے سرکاری ملازمتوں میں کم ہونے کے پہلے ہیں تلف ہو رہے ہیں اور زیادہ خطرے میں ڈال دیں اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.میں صرف اسی کا رروائی کا مشورہ نہ دوں گا بلکہ اس کے علاوہ میرے نزدیک مسلمانوں کو آئندہ کے لئے ایک عملی پروگرام بھی بنانا چاہیئے.سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس معاہدہ کی پابندی کا اثر اسلام پر کیا پڑے گا.اس سوال کا جواب دینے وقت ایک چیز نمایاں طور پر ہمارے سامنے آجاتی ہے اور وہ ان علاقوں کی نگہداشت ہے جن میں مسلمان بستے ہیں.اور جنہیں یونان اور آرمینیہ کے سپرد کر دیا گیا ہے.یونانیوں اور آرمینیوں کا تعصب اسلام سے اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اس کے ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں.جو کچھ ان دونوں قوموں نے پچھلے دنوں میں مسلمانوں سے کیا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات یقینی طور پر کسی جاسکتی ہے کہ ان کی حکومت میں باوجود یورپ کی تمام تسلیوں کے مسلمانوں کو امن نہ ہوگا.اس طرح یورپ کے نئے تغیرات کے ماتحت اور کئی علاقوں میں بھی مسلمانوں کو امن نہ ہو گا.پس اس خطرہ سے ان ممالک کے بھائیوں کو بچانے کے لئے فورا بلا تاخیر ایک عالمگیر لجنہ اسلامیہ قائم ہو جانی چاہیئے.جس کا کام یہ ہو کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی مذہبی حالت کی اطلاع رکھے اور اس بات کی خبر رکھے کہ دنیا کے

Page 298

۲۹۳ کسی علاقے میں مسلمانوں کو ظاہر و مخفی ذرائع سے اپنے مذہب کے تبدیل کرنے یا به صورت دیگر بلاک ہو جانے پر تو مجبور نہیں کیا جاتا اور اس غرض کے لئے دنیا کے تمام ممالک میں ایسے مبلغ بھیجنے چاہئیں جو ہر جگہ کے مسلمانوں کو اپنے مذہب پر ثابت قدمی سے پابند رہنے کی تلقین کریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی جگہ مسلمانوں کو جہڑا تو اسلام سے نہیں ہٹایا جاتا.خواہ وہ جبز ظاہری اسباب سے ہو خواہ مخفی اسباب سے.اور اس کی جستجو رکھیں اور جس وقت کوئی ایسی بات معلوم ہو فورا مرکزہ کو ان کی اطلاع دیں تا کہ تمام متمدن دنیا کو اس سے اطلاع دی جاوے.کیونکہ ظالم کو کس قدر بھی طاقتور ہو جب اسے معلوم ہو کہ میرا ظلم دیکھنے والے موجود ہیں.تو اسے بہت کچھ دینا پڑتا ہے اور اپنے نام کا خیال رکھنا پڑتا ہے پہلے پھر آپ فرماتے ہیں :- میں اس جگہ یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نے بغیر اس امر کا انتظار کئے کہ دوسرے لوگ اس امر کے متعلق کیا فیصلہ کرتے ہیں اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر دی ہے.اور مختلف ممالک میں دو دو آدمی اس غرض کے لئے بھیجنے کی تجویز کر دی ہے.اور اور میری جماعت کے جانبازوں کی ایک جماعت نے اپنے آپ کو اس غرض کے لئے وقت بھی کیا ہے جو عنقریب سہولت راہ میتر آنے پر اپنے اپنے مفتوحہ علاقہ میں چلی جاوے گی..اس وقت اسلام کی ترقی کے لئے ایک ہی راہ کھلی ہے کہ ہم تبلیغ اسلام کے لئے کھڑے ہو جا دیں.یورپ کو ترکوں سے نفرت جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کسی بد انتظامی کی وجہ سے نہیں بلکہ در حقیقت اس کی وجہ یورپ کا یہ خیال ہے کہ اسلام تہذیب کا دشمن ہے اور وہ اس کو اپنی دنیا کا دشمن سمجھ کر جو اُن کو بہت عزیز ہے مٹانا چاہتے ہیں.پس جب تک یورپ کے دل سے بلکہ تمام سیحی دنیا کے دل له الفضل ، جون ۱۹۲۰ء مشتاء

Page 299

۲۹۴ سے یہ خیال دُور نہ کیا جاوے گا اسوقت تک ہرگز مسلمانوں کے مصائب دُور نہیں ہو سکتے.پس اُٹھوا اور اپنے جوشوں کے پانی کو یونہی زمین پر بہنے دینے کی بجائے تبلیغ اسلام کی نہر کے اندر محدود کر دو.تا ان کا کوئی فائدہ ہو اور ان سے کام لیا جا سکے.پانی جب سطح زمین پر بہہ جاتا ہے.تو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.لیکن وہی پانی جب نہر کی تشکیل میں بند کر دیا جاتا ہے تو اس سے ہزاروں ایکڑ زمین سیراب کی جا سکتی ہے اور آبشاریں بنا کر اس سے بجلی نکالی جاسکتی ہے.پیس اے احباب کرام! ملک کے جوش کو بیہودہ طور پر ضائع نہ ہونے دو.بلکہ اس سے اسلام کی ترقی کے لئے کام لو اور پھر دیکھو کہ خدا تعالے کی نصرت کس طرح نازل ہوتی اور اسلام کے جلال کو دنیا پر ظاہر کرتی ہے یانہ آخر پر آپ نے اس مضمون کو ختم کرتے ہوئے اپنے اس یقین محکم کا اظہار کیا کہ سیاسی غلیہ کے با وجود عیسائیت کے دن اب گنے جاچکے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے ظہور کے بعد زمانے کے حالات بہر حال بدلیں گے اس لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں چنانچہ اس فقرے پر آپ نے مضمون کو ختم کیا کہ :.خدا کی غیرت اس کے مامور کے ذریعہ سے ظاہر ہو چکی ہے.اور اب سب دنیا دیکھ لے گی کہ آئندہ اسلام مسیحیت کو کھانا شروع کر دے گا اور دنیا کا آئندہ مذہب وہی ہو گا جو اس وقت سب سے کمزور مذہب سمجھا جاتا ہے.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ يله اس کانفرنس پر سبھی مچھ ماہ گذر گئے لیکن ہے کا پر سبھی ماہ گزر گئے آنٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا.تمام ہندوستان میں شور و غوغا تو برپا رہا لیکن ایک کوڑی کا فائدہ نہ ترکوں کو حاصل ہوا ، له الفضل ، جون ۹۳ مشت ۲ ایضاً مه

Page 300

۲۹۵ نہ عالم اسلام کو.نعروں.ہلڑ بازی اور گالی گلوچ نے اتحادی طاقتوں کو کچھ اور بھی مسلمانوں سے بدظن کر دیا لیکن ان کی داد رسی پہ آمادہ نہ کیا.یہ دور ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے شدید بے چینی کا دور تھا.جذبات مشتعل ہو چکے تھے.دینی غیرت جوش میں تھی اسلام کے لئے عوام الناس جان نذر کرنے کے لئے تیار کھڑے تھے.کچھ کر گزرنے کو جی چاہتا تھا.مگر کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا کرنا چاہیئے تھا اس کی کسی کو کچھ خبر نہ تھی.بالاخر یہ جوش و فروش اس مشہور تحریک ترک موالات پر مرتکزہ ہوا جسے تحریک خلافت بھی کہا جاتا ہے اس وقت کے مسلمان رہنماؤں کی اکثریت اس بات پر متفق ہو چکی تھی کہ خلافت عثمانیہ کو از سیر تو قائم کرنے اور ترکوں کو ان کے غصب شدہ حقوق دلانے کے لئے انگریزوں پر ایسا شدید سیاسی دباؤ ڈالنا چاہیئے کہ وہ مسلمانوں کی خواہش کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہو جائیں چنانچہ آپس کی مشاورتوں کے بعد یہ طے کر لیا گیا کہ انگریزوں سے ترک موالات کی جائے جس کے معنے یہ تھے کہ ہر میدان میں عدم تعاون ہو.خطابات واپس کئے جائیں.فوجی اور سول نوکریوں سے استعفے دیئے جائیں.وکیل وکالت کی ڈگریاں واپس کردیں.مسلمان طلباء کا لجوں سے اُٹھ آئیں اور آئندہ کوئی طالب علم سکولوں اور کالجوں میں داخل نہ ہو سب سے بڑھے کہ یہ کہ اہلِ ایمان کے لئے جہاں تک ممکن ہو وہ اپنی جائیدادیں فروخت کر کے پونجی بغل میں داب ہندوستان سے افغانستان کی طرف ہجرت کر جائیں.آج آپ کو یہ باتیں خواہ کیسی ہی عجیب کیوں نہ دکھائی دیں.کل انہی باتوں پر ہندوستان کے کم و بیش تمام مسلمان لیڈر متفق ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں.شمال سے جنوب تک کوئی ہنگامہ سا ہنگامہ تھا.مسلمانوں میں سے وہ سنجیدہ طبقہ جو اس تحریک کو ایک سنگین مذہبی اور سیاسی غلطی شمار کرتا تھا.محض ایک معمولی اور بے اثر اقلیت کی حیثیت رکھتا تھا.کون تھا تو اسے لب کشائی کی اجازت دیتا.اور کس کی مجال تھی اور کیسے یہ طاقت تھی کہ تحریک ترک موالات کے خلاف ایک لفظ تک زبان سے نکال سکے.اس زمانے کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی فکر کا گویا دوالہ نکل چکا تھا تس پیر ظلم کی انتہاء یہ تھی ک عالیم اسلام کی بہبود کے لئے اس ملک گیر تحریک کی قیادت عملا تھا تھا گاندھی کو سونی جا رہی تھی.بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ترک موالات کی بیٹی ہی مہاتما جی کی پڑھائی ہوئی تھی مسلمان علماء کی مجلس میں وہ شریک ہوتے.ان کے جلسوں کی صدار

Page 301

۲۹۶ کرتے اور انہیں خوب اس عزم میں پختہ کرتے کہ اسلام کی خدمت کا یہی وقت ہے لہذا اپنا سب کچھ قربان کر کے انگریز کا سر کھیل کر رکھ دو.یہ صورتِ حال مسلمانان ہند کے لئے اتنی خطرناک تھی کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جیسا نڈر مجاہد اس موقع پر خاموش نہیں رہ سکتا تھا.چنانچہ اس علم کے باوجود کہ اس موقع پر سچی اور درست بات کہنا مسلمانوں کی شدید دشمنی مول لینے کے مترادف ہے.آپ نے محض اسلام کی محبت اور مسلمانوں کی خیر خواہی سے مجبور ہو کر بیش قیمت نصائح اور علمی دلائل پر مشتمل دو مشہور کتاب لکھی جو ترک موالله اور احکام اسلام ہی کے نام سے طبع کروا کر دانشوروں میں تقسیم کی گئی.آپ خوب جانتے تھے کہ آپ کا یہ مشورہ بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جائے گا لیکن آپ دنیا کی پسندیدگی اور ناراضنگی سے بے نیاز تھے اور اپنے ہر فعل کو محض رضائے الہی کی کسوٹی پر پرکھنے کے عادی تھے.اسی لئے آپ نے اپنی نصائح کے امکانی رقہ عمل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- میں جانتا ہوں کہ ترک موالات کے بانیوں کو میری یہ تحریر تبری لگے گی اور اُن کے فریب خوردہ ساتھی بھی اس پر غصہ کا اظہار کریں گے.مگر اُن کی ہمدردی اور ان کی خیر خواہی مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں سچی سچی بات اُن کو سُنا دوں.حق ایک سخت کڑوی چیز ہے اور بہت دفعہ انسان خود اپنے آپ کو حق سُنانے سے بھی ڈر جاتا ہے مگر ہم نے اپنی زندگیاں اسی لئے وقف کی ہوئی ہیں اور خدا کے بندوں کی ہدایت کا بار اپنے سروں پر اٹھایا ہے اور کسی کی مخالفت یا عداوت کی ہمیں پرواہ نہیں.طبیب کبھی بیمار کی سختی کو دیکھ کر علاج کو ترک نہیں کرتا.پس ہم بھی اپنے کام سے باز نہیں رہ سکتے اور اپنے بھائیوں کی اصلاح سے مایوس نہیں ہیں کیا کہ اس کتاب کے تعارفی کلمات میں بھی آپ صاحب دل اور اہل درد اصحاب سے اپیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- پس میری ان تمام اصحاب سے جو ملت خیر انام سے محبت رکھتے ہیں لے ترک موالات اور احکام اسلام ص السلام الامر

Page 302

۲۹۷ اور اس کے احیاء کے متمنی ہیں درخواست ہے کہ وہ اس رسالہ کو جہاں تک ہو سکے اپنے دوستوں، واقفوں ہشنا ساؤں اور ہموطنوں تک پہنچائیں اور اس خطرناک رو کے روکنے میں پوری سعی کریں جو اسلام کے بدنام کرنے کا باعث ہو رہی ہے اور مسلمانوں کی رہی سہی طاقت کے مٹانے کا ذریعہ بن رہی ہے.یہ وقت غفلت کا نہیں ہے.اسلام پہلے ہی بہت صدمہ خوردہ ہے اور اس کی پاک اور پر امن تعلیم پر پہلے ہی نہایت میلے کچیلے غلاف ڈالے جانچے ہیں اب زیادہ تعقل قابل برداشت نہیں.پس اُٹھو اور بلا کسی سلامت کے خوف اور لوگوں کے طعنوں کے ڈر کے اس کی مڑ کے لئے کھڑے ہو جاؤ.بے شک لوگ آپ کو ترک موالات کی مخالفت کی وجہ سے بُزدل کہیں گے اور خوشاندی نام رکھیں گے.لیکن اگر اسلام کی محبت کے لئے آپ یہ کام کریں گے تو یہ باتیں آپ کا نقصان نہیں کر سکتیں.وہ شخص بہادر نہیں ہوتا جو بُزدل کہلانے سے ڈر جاتا ہے.اور نہ وہ بند دل ہوتا ہے جو حق کو اس لئے نہیں چھوڑ دنیا کہ لوگ اُسے بزدل کہیں گے.خاکسار مرزا محمود احمد اس تھید کا آخری فقرہ ہر دور، ہر ملک اور ہر مذہب و ملت کے اہنماؤں کے لئے ایک رنور کی حیثیت رکھتا ہے.اس سے بہتر الفاظ میں ہم میں ہم آپ کی صاحب عزم شخصیت کا تعارف کرانے سے قاصر ہیں.یقینا وہ ایک بہادر شخص تھا جو بُزدل کہلانے سے کبھی نہیں ڈرا.اور کبھی اس نے حق کو اس لئے نہیں چھوڑا کہ لوگ اس کو منہ دل کہیں گے.تحریک ترک موالات پر آپ کا تبصرہ محض ایک مفید سیاسی مشورہ ہی نہیں بلکہ علوم قرآنی کا ایک بیش قیمت خزانہ ہے اور اسے پڑھے بغیر صحیح معنوں میں یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی کہ آپ کا یہ دعوی کیا معنے رکھتا تھا کہ میری سیاست قرآن پر مبنی ہے آپ نے متواتر قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئے مسلمان قیادت کی غلطیوں کی نشاندہی فرمائی نے ان کے لائحہ عمل کو سراسر غیر اسلامی ثابت کیا جو بظاہر اسلام کی بہبود کی خاطر مسلمانوں کے سامنے پیش کیا جا رہا تھا.آپ نے قرآن کریم سے اسے غلط

Page 303

ثابت کیا اور عقلاً اسے خود کشی قرار دیا.اور تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالی کہ اس کے نتیجہ میں مسلمانان ہند کو کیسے عظیم اور ہولناک نقصانات برداشت کرنے پڑیں گے.سب سے زیادہ افسوس آپ نے اس امر پر کیا کہ آج ملت اسلامیہ کا راہ نما ایک ایسے شخص کو بنا لیا گیا ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے دائرہ سے کلینہ آزاد ہے.چنانچہ مسٹر گاندھی کی قیادت قبول کرنے پر اور ان کی بات کو حرف آخر قرار دینے پر احتجاج کرتے ہوئے آپ نے لکھا:.کیا ترک موالات کے حامیوں کے پاس ان سوالوں کا ایک ہی جواب نہیں کہ مسٹر گاندھی نے چونکہ ایسا کیا اس لئے ہم اس طرح کرتے ہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ ہم یہ نہیں کہنے کہ اس طرح نہ کرو جس طرح مسٹر گاندھی کہتے ہیں.اگر کسی کے خیال میں مسٹر گاندھی کا پڑ گرم مفید اور قابل عمل معلوم ہوتا ہے تو وہ بے شک اس پر عمل کرے مگر مسٹر گاندھی کے قول کو قرآن کریم کیوں قرار دیا جاتا ہے شریعت اس کا نام کیوں رکھا جاتا ہے.اگر یہ بات ہے تو لوگوں سے یہ کھو کہ چونکہ مسٹر گاندھی اس طرح فرماتے ہیں اس لئے اسی طرح تم کو عمل کرنا چاہئیے یہ کیوں کہتے ہو کہ شریعت اسلام کا یہ فتونی ہے.شریعت اسلام نے بغیر مسلموں سے ترک موالات کرنے کا جن شرائط کے ساتھ حکم دیا ہے وہ شرائط تو جب بھی کسی قوم میں پائی جائیں اس سے ہرقسم کی امداد لینی یا اس کو کسی قسم کی مدد دنینی نا جائزہ ہو جاتی ہے سوائے اس کے کہ تذتل کی امداد ہو یعنی ایسی مدد ہو جس میں ہم حاکم ہوں اور وہ ماتحت ہوں.پس اگر یہ فتویٰ وہی ہے جو خدا تعالیٰ نے دیا ہے اور وہی حالات ہیں جن میں ترک موالات کرنا اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے.تو پھر پروگرام مقرر نہیں ہو سکتے.کسی قسم کی موالات معاف نہیں و سکتی.نفع اور نقصان کو نہیں سوچا جا سکتا.لیکن اگر یہ پروگرام شریعت اسلام کا نہیں بلکہ مسٹر گاندھی کا ہے تو پھر اس کو شرعیت

Page 304

۲۹۹ کی طرف منسوب کرنا اور آیات قرآنیہ سے اس کا استدلال کرنا ایک خطرناک گناہ ہے.اگر ترک موالات کے حامی اسے شریعت کا فرض مقرر کرتے ہیں تو پھر اس طرح عمل کریں جس طرح کہ شریعت نے کہا ہے اور اگر اسے مسٹر گاندھی کا ارشاد قرار دیتے ہیں، تو عوام کو قرآن کریم کے نام سے دھوکا نہ دیں اور اسلام کا تفتخر نہ اڑائیں یا قرآن کریم کی متعدد آیات سے استدلال کرنے کے علاوہ آپ نے احادیث نبویہ سے بھی متعدد استدلال کئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشاداتِ عالیہ غلط رنگ دے کر پیش کئے جارہے تھے اُن کے اصل معانی بڑے دل نشین پیرا یہ میں بیان فرمائے.پھر ایک دوسرے موقع پر مسٹر گاندھی کی اقتداء کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے آپ نے حسب ذیل الفاظ میں مسلمانوں کی دینی حمیت کو جھنجوڑا :- مذہبی معاملہ میں مسلمان مسٹر گاندھی کی اقتداء میں کیا تم کو یہ نظر نہیں آتا کہ تم اس صحیح راستہ کو ترک کر کے کہاں کہاں دھکے کھاتے مید کرتے ہو ؟ اول تو تمام علماء و فضلاء کو چھوڑ کر ایک غیر مسلم کو تم نے لیڈر بنایا ہے.کیا اسلام اب اس حد تک گر گیا ہے کہ اس کے ماننے والوں میں سے ایک روح بھی اس قابلیت کی نہیں ہے کہ اس طوفان کے وقت میں اس کشتی کو بھنور سے نکالے اور کامیابی کے کنارے تک پہنچائے.کیا اللہ تعالے کو اپنے دین کی اس قدر غیرت بھی نہیں رہی کہ وہ ایسے خطرناک وقت میں کوئی ایسا شخص پیدا کر دے جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا شاگرد اور آپ کے خدام سے ہو ؟ اور جو اس وقت مسلمانوں کو اس راستہ پر چلاتے جو ان کو کامیابی کی منزل تک پہنچائے ؟ آہ ! تمھاری گستاخیاں یہ کیا رنگ لائیں ؟ پہلے تو تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسیح ناصری کا ممنون بنت بنایا کرتے تھے اب مسٹر گاندھی کا مرہونِ احسان بناتے ہو ؟ اگر یہ درست ہے کہ ترک موالات سے ایک دو سال میں تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاؤ گے.اے ترک موالات اور احکام اسلام نے ۵۹-۵۸

Page 305

تو اسلام کی دوبارہ زندگی یقینا مسٹر گاندھی کے ہاتھوں میں ہو گی اور نعوذ باللہ من ذالک ابد الآباد تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بایہ احسان سے اُن کے سامنے جھکا رہے گا.کیونکہ مسٹر گاندھی نے آپ سے کچھ نہیں لیا اور آپ گویا سبھی کچھ مسٹر گاندھی کی عطا سے پائیں گے.اے کاش! اس خیال کے دل میں آنے سے پہلے تم نے اس دل ہی کو کیوں نہ نکال کر باہر پھینک دیا ؟.تم نے خدا کے محبوب کو حضرت مسیح علیہ السلام کا احسان مند بنا کر اس کی گردن اس کے سامنے جھکائی سکنی خدا نے تمھاری گردنوں کو ہر جگہ مسیحیوں کے آگے جھکا دیا ہے.میں یہ جو کچھ ہوا ہے تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا نمثرہ ہے.اب تم دوسری غلطی کرنے لگے ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسٹر گاندھی کا ممنون احسان بنانے لگے ہو.حضرت مسیح علیہ السّلام تو خیر ایک نبی تھے.اب جس شخص کو تم نے اپنا مذہبی رہنما بنایا ہے وہ تو ایک مومن بھی نہیں.پس محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی اس بنک کا نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ سخت دیکھو گے اور اگر باز نہ آئے تو اس جرم میں مسٹر گاندھی کی قوم کی غلامی اس سے زیادہ تم کو کرنی پڑے گی جتنی کہ حضرت مسیح علیہ السّلام کی امت کی غلامی تم غلامی تم کہتے ہو کہ نہیں کرنی پڑی ہے کا مسلہ اس کتاب میں آپ نے دوبارہ مسلمانوں کی توجہ اس مرکزی نقطہ کی طرف مبذول که والی کہ مسلمانوں کی مشکلات کا واحد حل تبلیغ اسلام ہے.مسلمانوں پر مبنی مصیبتیں ٹوٹیں تبلیغ نہ کرنے کے نتیجہ میں ٹوٹیں اور جو عالی مراتب انہوں نے حاصل کئے وہ ان کی تبلیغی کوششوں ہی کا ثمرہ تھا.چنانچہ عارضی اور سطحی باتوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ان کی توجہ اس بنیادی حقیقت کی طرف پھیری کہ جب تک تم تبلیغ کا جہاد شروع نہیں کرو گے تمہاری کھوئی ہوئی عظمت تمھیں کبھی نہیں مل سکتی.تبلیغ کی طرف مسلمانوں کو ایک نئے انداز سے بلاتے ہوئے آپ نے لکھا :- لے ترک موالات اور احکام اسلام هشت ۸۷

Page 306

+ اس وقت اس مجترنسند موالات کو استعمال کرو جو ہلاکو خاں کے ماننے سے عباسی سلطنت کے ملنے پر استعمال کیا گیا نہ کہ اسکے عکس ترک موالات کا نسخہ اے عزیزو! ہوشیار آدمی کسی سبق کو بھلاتا نہیں اور دانا کسی عبرت کی بات کو ضائع نہیں ہونے دنیا.اس فتنہ کے وقت میں یہ تو سوچو کہ آج سے پونے سات سو سال پہلے اسلامی حکومت کو موجودہ صدمہ سے بہت زیادہ صدمہ پہنچا تھا.اب تو کچھ نہ کچھ ڈھانچہ موجود بھی ہے اس وقت تو ہیولیٰ بھی باقی نہ رہا تھا.اس وقت کیا ہتھیار تھا جو کام آیا تھا اور کیا گرہ تھا جس سے یہ سوال حل ہوا تھا.ایک دفعہ کا تجربہ شدہ نسخہ اس قسم کی ہماری کے دوبارہ ظاہر ہونے پر اس بات کا مستحق ہے کہ سب سے پہلے اسی کا تجربہ کیا جائے.بغور تو کرو کہ جب ترکوں نے خلافت عباسیہ کے محل کی اینٹ سے اینٹ سجا دی تھی.جب ان کے ٹڈی دل لشکروں کا مقابلہ کرنے والا مسلمانوں میں کوئی باقی نہ رہا تھا.اور جب اسلام کے مقدس مقامات ایک لاوارث کی طرح دشمنوں کے رحم پر تھے اس وقت کیا علاج تھا جو ہمارے آباء نے سوچا تھا.اور کیا وہ اس علاج میں کامیاب ہوئے تھے یا نا کام.اگر تم کو یاد نہیں کہ انہوں نے کیا تدبیر اختیار کی تھی اور اگر تم اس سبق کو فراموش کر چکے ہو تو سنو.اس وقت انہوں نے موالات کے ہتھیار سے نہ کہ ترک موالات کے سہتھیار سے ان پر حملہ کیا تھا.اور آخر کفر کو فنا کر کے اسی کے جسم اور اسی کے پوست اور اسی کے خون سے اسلام کے لئے ایک نیا جسم تیار کر دیا تھا.جس میں اسلام کی روح نے دنیا کو پھر اپنی جادو بیانی کا والہ وشیدا بنا نا شروع کر دیا تھا اُس وقت کے علماء نے جو اس وقت کے علماء سے کہیں علم و فضل میں بڑھ کر تھے اور جن کے عمل کا نتیجہ ان کی رائے کے صائب ہونے پر

Page 307

تصدیق کی مہر لگا چکا ہے.یہ راہ اختیار کیا تھا کہ وہ ترکوں کے درباروں اور ان کی کھلی مجالس میں گھس گئے تھے اور انہوں نے مسلمانوں کے جسموں پر فتح پانے والوں کے دلوں پر فتح پانے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا.آخر اس موالات کا یہ اثر ہوا کہ اس بادشاہ کا پوتا جس نے بغداد کی اسلامی حکومت کو تباہ کیا تھا اور اٹھارہ لاکھ مسلمان کے خون سے اس سر زمین کو رنگ دیا تھا اسلام کی غلامی میں داخل ہوا.اور خدائے واحد لا شریک کے عبادت گزاروں میں شامل ہو کر ایک نئی اسلامی حکومت کا بانی ہوا جس کے آثار اب موجودہ جنگ میں آکر مٹے ہیں بلکہ اب بھی کچھ نہ کچھ موجود ہیں.وجہ کیا ہے کہ اب وہی نسخہ نہیں برتا جاتا.بلکہ اس کے بالکل برعکس علاج کیا جاتا ہے.اگر اُس وقت کے مسلمانوں نے موالات کو اختیار کر کے اسلام کی حفاظت کی تھی، تو آج ترک موالات کی کیوں تعلیم دی جاتی ہے.کیا کوئی کامیاب نسخہ کو بھی ترک کیا کرتا ہے ؟ کیا اب اسلام میں ہی ایسا جذب نہیں رہا کہ وہ فاتحین کے دلوں کو مسخر کر سکے ؟ یا تم میں ہی وہ نور ایمان نہیں رہا جو تمہارے آباد میں تھا ؟ ان کی باتوں کا دلوں پر اثر ہوتا تھا لیکن تمہاری باتیں بالکل بے اثر ہیں.کیا سبب ہے کہ وہ محبت سے دشمن کو دوست بنا لیتے تھے.اور تم دوست کو عداوت سے دشمن بنانا چاہتے ہو.یا دوست نہ سہی دشمن کو اور ہو.بھی زیادہ دشمن بنانا چاہتے ہوئے لے بهر حال جیسا کہ آپ کو خدشہ تھا اور تلخ تجربہ ہو چکا تھا.آپ کی یہ تنبیہ بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی نہ تو مسلمان خواص ہی نے اس طرف توجہ کی نہ عوام اس سے استفادہ کر سکے.عوام تو پھر عوام تھے.حیرت ہے کہ اس زمانے کے دانشوروں کو کیا ہو گیا تھا.آج کا قاری اس دور کے شب و روز کا صحیح تصور قائم نہیں کر سکتا.جب تک موازنہ کی خاطر ان تصورات اور حالات کی کچھ جھلکیاں نہ دکھائی جائیں جن میں دوسرے مسلمان خواص و عوام زندگی بسر سے ترک موالات اور احکام اسلام A4-AD

Page 308

۳۰ کر رہے تھے.ان پر نظر ڈالنے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ حضرت خلیفہ ہے المسیح مرداب محمود احمد نے کسی مشکل کام پر ہاتھ ڈالی اور کیسی جرات اور حوصلے اور عزم کے ساتھ تن تنہا ہلاکت خیز طوفانوں کا رخ بدلنے کی کوشش کی.اس تاریک دور میں جب ساری قوم ظلمات کی طرف بلانے والوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لیکی چلی جاتی تھی ایک آپ ہی کی تنہا آواز تھی جو قادیان کے روشن مینار سے بلند ہوئی اور بر وقت اسلامیوں کو ہلاکت کے ان گڑھوں سے خبردار کیا جن کی طرف وہ بگٹٹ دوڑتے چلے جارہے تھے.مولینا عبد المجید سالک اس زمانے کی آنکھوں دیکھی روئداد میش کرتے ہوئے اپنی کتاب سرگزشت" کے من پر مسلمانوں کی خلافت موومنٹ کے جلسوں کا ایک منظر حسب ذیل الفاظ میں پیش کرتے ہیں :- اسی رات کانگریس کے پنڈال میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا اس وقت بھولتا ہوں کہ صدر گاندھی جی تھے یا مولانا محمد علی بہر حال تمام اکابر اس میں شریک ہوئے.اسٹیج پر گاندھی جی نلک مسر اپنی بہنٹ.جیگر کیلکر.محمد علی.شوکت علی - ظفر علی خاں.سید حسین - مولانا عبد الباری.مولانا فاخر الہ بادی - مولانا حسرت موہانی اور بہت سے دیگر راہ نما موجود تھے.مولانا محمد علی نے پہلے انگریزی میں تقریر شروع کی اور کہا کہ میں کچھ دیر تک انگریزی میں تقریر کروں گا.تا کہ جو اکا بر ملک اُردو نہیں سمجھتے وہ خلافت کے مسلمانوں کے موقف کو سمجھ لیں اس کے بعد اُردو میں تقریر کروں گا.مولانا کی تقریر بے نظیر تھی.نہ صرف زبان اور انداز بیان کے اعتبار سے بلکہ مطالب کے لحاظ سے بھی پورے مسئلے پر حادی تھے اور جذبات انگیزی کی کیفیت اس فقرے سے معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں اب اس ملک سے ہجرت کر جانے کے سوا اور کوئی شرعی چارہ باقی نہیں ہے اس لئے ہم اس ملک کو چھوڑ جائینگے اور اپنے مکانات اپنی مساجد اپنے بزرگوں کے مزارات سب بطور امانت اپنے ہندو بھائیوں کو سونپ جائیں گے.تا آنکہ ہم

Page 309

۳۰۴ پھر فاستخانہ اس ملک میں داخل ہو کر انگریزوں کو نکال دیں اور اپنی امانت اپنے بھائیوں سے واپس لیں.مجھے یقین ہے کہ ہندو بھائی جن کے ساتھ ہم ایک ہزار سال سے زندگی بسر کر رہے ہیں.ہماری اتنی خدمت سے پہلو ہی نہ کریں گے.ان کے بعد بریلی کے ایک جنسی دھر پاٹھک کھڑے ہوئے ان کی تقریر بہت پر جوش اور بے حد دلچسپ تھی.انہوں نے مولانا محمد علی کے پہلے پر دہلا یوں مارا کہ اگر مسلمان بھائی اپنی شریعت کے احکام کے تحت اس ملک سے ہجرت کر جانے پر مجبور ہیں تو ہندو بھی یہاں رہ کر کیا کرینگے.اگر مسلمان چلے تو ہندو جاتی بھی ہجرت میں مسلمانوں کا ساتھ دے گی اور ہم اس ملک کو ایک بھائیں بھائیں کرتا ہوا ویرانہ بنا دیں گے.تاکہ انگریز اس ویرانہ سے خود رہی دشت کھا کر بھاگ جائیں.کس قدر عقل سے دُور باتیں ہیں لیکن جذبات کی دنیا نرالی ہے.اس وقت جلسے کا یہ عالم تھا کہ بعض لوگ چیخیں مار مار کر رو رہے تھے اور خلافت کا نفرنس مجلس عزا بن گئی تھی کے لئے اُس وقت مسلمانوں کو اس جذباتی ماحول میں جس قسم کے فرشتے نظر آرہے تھے اُسے ہم فریب نظر کے سوا اور کچھ نہیں کہ سکتے.مسز اپنی بسنٹ ایک انگریز خاتون سیاست دان جب تحریک خلافت کے اس عظیم اسلامی سٹیج پر تقریر کے لئے تشریف لائیں تو بقول سالک منا ان کا سفید سر.سفید چہرہ اور سفید لباس دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی فرشتہ آسمان سے اُتر آیا ہے ہے کہ گاندہی بھی اُن دنوں صرف ہندوؤں ہی کے نہیں مسلمانوں کے بھی جمہاتما بن چکے تھے.اور شہدائے اسلام کے معاملات غور و خوض کے لئے اُنہی کے سامنے پیش ہو رہے تھے.ہندو مسلم نویسی اتحاد کا وہ عالم تھا کہ دین الہی کے موجد اکبر کی روح بھی وہ نظارے دیکھ کر اگلے جہان میں پھڑک رہی ہو گی.مولانا سالت صاحب لکھتے ہیں:- چند روز کے بعد گاندھی جی آئے.بہت عظیم الشان جلسہ مہوڑا.سرگزشت مصنفه عبد المجید سالک غذا ١٠٨ له ايضا متا -

Page 310

۳۰۵ گاندھی جی جلسہ شروع ہوئے.شروع ہونے سے پہلے دفتر زمیندار میں تشریفت لائے وہ بعض خلافتی رہنماؤں سے گفتگو میں مصروف تھے اور میں چلکوٹ گورے اور حبیب اللہ خاں مہاجر شہید کے متعلق کا غذات لئے گاندھی جی کے سر پر کھڑا تھا.بڑی مشکل سے جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے سارا معاملہ انہیں سمجھایا.اتنے میں ہزار ہا حاضرین جلسہ دبھی تکلیف انتظار سے مضطرب ہو کر دفتر زمیندار کے سامنے سڑک پر جمع ہو گئے اور فلک شگاف نعرے لگانے لگے.مہاتما گاندھی جی کی ہے.ہندوستان کی ہے.ہندو مسلمان کی ہے.بندے ماترم.اللہ اکبر - ست سری اکال - آخر گاندھی جی اُٹھے اور جلسہ میں شامل ہونے کے لئے چلے.رضا کاروں نے ہجوم میں سے راستہ نکالا.گاندھی جی جلسہ گاہ میں پہنچے تو جوش خروش کی انتہا نہ تھی.پہلے دوسرے لیڈروں نے تقریر میں کیں.اس کے بعد گاندھی جی نے مجمع کو خطاب کیا اور مولوی ظفر علی خاں کی گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے وہ فقرہ کہا جو یار لوگوں کی محفلوں میں مدت تک سرمایہ قہفتہ بنا رہا.مولوی جپھر آلی کھاں اپنا پھر جا بجاؤ چند ہفتوں کے بعد گاندھی جی پھر تشریف لائے.اس مرتبہ اُن کے ساتھ رہنماؤں کی پوری جماعت تھی.مولانا ابوالکلام کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے تھے.ہندو مولانا محمد علی کے چرنوں کی دھول آنکھوں سے لگاتے تھے اور مسلمان گاندھی جی کی پذیرائی یوں کرتے تھے گویا کسی خدا رسیدہ ولی نے لاہور کو اپنے قدوم سے مشرف فرمایا ہے.بہت شاندار تقریریں ہوئیں اور اہلِ لاہور کو یقین ہو گیا کہ اب خلافت کی بحالی اور ملک کی آزادی کوئی دن کی بات ہے کہ نہ یکھ ادھر مسلمان ایک ہندو مہاتما کی قیادت میں ایک خیالی جنت کے خواب دیکھ رہے تھے اور اسے ایک ایسا خدا رسیدہ ولی قرار دے رہے تھے جو صدیوں کے بعد عالم اسلام کو نصیب کے سرگزشت مصنفه عبدالمجید سالک صفحه ۱۲۴ - ۱۲۵

Page 311

۳۰ " ہوا تھا.اُدھر قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی میں ایک وجود اس غم میں گھلا جبار ہا تھا اور اپنے نفس کو بلاک کر رہا تھا کہ کاش یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا کہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام خود اپنے آقا کی ہتک اور گستاخی کا موجب بن رہے ہوں اور ایک ہندو آقا کے چرنوں پر اسلام کا سر جھکانے کو ہی اسلام کی سربلندی سمجھ رہے ہوں کبھی وہ ان کو غیرت کے کچھ کے دیتا.کبھی شہر آنی تعلیم اُن پر آشکار کہتا.کبھی سنت رسول سے آگاہ فرماتا اور کبھی تاریخ اسلام سے عبرت آموز واقعات پڑھ کر سناتا اور کبھی بعد منت اور کبھی پر شوکت انتباہات کے ساتھ کبھی خدا کے جلال سے ڈرا کر اور کبھی اس کے انعامات کی ترغیب دیتے ہوئے انہیں واپس صراط مستقیم یہ بلانے کے لئے کوشاں تھا.وہ اس فکر میں شب و روز غلطان و پیچاں تھا کہ کاش اب بھی مسلمان کی آنکھ کھلے اور وہ حقیقت حال دیکھنے اور سمجھنے کا اہل ہو سکے.مگر صد حیف کہ ایسا نہ ہونا تھا اور نہ ہوا.جنوب مشرق سے شمال مغرب کی سمت چلنے والی باد سموم کتنے ہی نونہالوں کو اپنے ساتھ اُڑا لے گئی.کابل چلو" کا شور بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا.مسلمان عوام کے قافلے وطن مالون کو چھوڑ کر کابل کی طرف روانہ ہونے لگے.ہجرت ہوتی رہی.گھر لٹتے رہے.عمر بھر کی پونجیاں برباد ہوتی رہیں مسلمان کی دولت ہندو کی ایسی امانت نبتی رہی جسے کبھی واپس لوٹ کر نہ آنا تھا.مسلمان بچے تعلیم سے دل برداشتہ ہو کر گلیوں میں آوارہ پھرنے لگے.مسلمان وکلاء عدالتوں سے دست کش ہو گئے اور ہندو ان کا خلاء پر کرنے لگے.مسلمان ملازمتوں سے مستعفی ہونے لگے تو ہندو آگے بڑھ بڑھ کر اپنے نام خدمت انگریز کے لئے پیش کرنے لگے.کیفیت یہ تھی کہ ایک مسلمان ملازمت سے استعفیٰ دیتا تو دس ہندوؤں کی درخواستیں اس کو ٹیر کرنے کے لئے آپہنچتیں پُر لیکن صد حیف کہ وہ سادہ لوح مخلص مسلمان جن کو دین اور شریعت کا ذاتی علم کچھ نہ تھا مسلمان علماء کے فتووں پر ایمان لاتے ہوئے جب سب کچھ لٹا کر افغانستان پہنچے تو ان کا استقبال پھول نچھاور کر کے یا ہار پہنا کر نہیں کیا گیا.کسی نے دف بجا بجا کر ان کی آمد پر تہنیت کے گیت نہیں گائے.افسوس صد افسوس کہ ان لئے ہوئے خستہ حال مخلصین پر کابل کے دروازہ سے بند کر دیئے گئے.اور وہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اس حال میں اپنے وطن کو توٹے کہ کئی تن کے کپڑوں سے بھی محروم ہو چکے تھے اور کئی سفر کی صعوبتوں سے راستہ ہی میں دم توڑ گئے اور پھر ان کو اپنا وطن دیکھنا نصیب نہ ہوا.بہت سے جو واپس آئے

Page 312

ان کو سر چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی.خلوص اور محبت اور دین کے لئے قربانی کا وہ جوش و خروش جو خلافت موومنٹ کے دوران ہندو مسلم را ہنماؤں کی چرب زبانیوں نے پیدا کیا تھا اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا.کون تھا جو اُن اُجڑے ہوئے لیٹے لیٹے مہاجرین کو گھر لا کر دو وقت کی روٹی میں اپنا شریک کرتا.فرانسیسی مصنف وکٹر ہیوگو کا یہ قول یقیناً اس موقع پر پوری صداقت کے ساتھ چسپاں ہو رہا تھا کہ یہ مخلوق آگ کی طرح بھڑکتی ہے راکھ کی طرح ڈھیر ہو جاتی ہے.وہی مسلمان جو مرزا بشیر الدین محمود احمد کی آواز پر کان دھرنا بھی اپنی بہتک سمجھتے تھے اور اس جرم کی پاداش میں کہ کیوں ترکی خلیفہ کو خلیفہ اسلمین تسلیم نہیں کیا گیا اور کیوں مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی صحیح تعلیم بنا کر ترک موالات سے اجتناب کا مشورہ دیا گیا.آپ کی جماعت کو ناحق طرح طرح سے دُکھ دینے ہی کو کارِ ثواب سمجھتے تھے.ان کے غیظ و غضب کا رخ سحریک خلافت کے راہنماؤں نے پہلے تو کمال اتا ترک اور ان کے ساتھیوں کی طرف موڑ دیا اور سب الزام ترکی کی بے دین قیادت پر دھرا جانے لگا.لیکن جب واقعات مزید نتھر کر سامنے آئے تو عوامی غیظ و غضب نے ایک بار پھر رخ پلٹا اور بالآخر تحریک خلافت کی کہانی ان گالیوں پر جا کر ختم ہوئی جو بعد ازاں مدت تک سابق خلیفہ اسلمین سلطان عبدالحمید کو دی جاتی رہیں افسوس ہوش آیا بھی تو اس وقت جب گھر جل چکا تھا اور وہ گولی چل چکی تھی جو آدھے راستے سے واپس نہیں آیا کرتی.مسلمان قیادت کی اس پشیمانی کی کیفیت کا کچھ اندازہ مولانا ابوالکلام آنہ آد کی حسب ذیل تحریر سے لگایا جا سکتا ہے :- کار فرما دیا نوں کے لئے نازک گھڑیاں روز نہیں آئیں لیکن حبیب آتی ہیں تو انہی میں اصلی آزمائش ہوتی ہے.ایسی ہی ایک گھڑی تھی.پہلے پہل انقلاب خلافت کی خبریں ہمارے دماغوں سے ٹکرائیں.یہی اس بات کی آزمائش کا وقت تھا کہ کہاں تک ہم میں وماعنی قوتِ فعال پیدا ہوئی ہے ؟ کہاں تک ہم نے ایسے معاملات کو سونچنا سمجھنا اور ان کی نزاکتوں سے عہدہ برآ ہونا سیکھا ہے؟ کہاں تک ہم میں یہ طاقت پیدا ہوئی ہے.کہ دوستوں کی غلطی اور دشمنوں کی شماست میں پھنس کر را و عمل گم نہ کریں ؟ ضرورت تھی کہ ہم میں جو لوگ صاحب فکر و عمل تھے.کامل حزم و احتیاط سے کام

Page 313

لیتے.دل اور زبان دونوں کی لگام کھینچی رہتی ، فوری تاثیہ ہیجانی جذبات انفعالی انفجار اور بد حواسانہ جلد بازی کی جگہ تدبر و دانشمندی اور ضبط فکر و اعتدال رائے کا سنجیدہ مظاہرہ کیا جاتا.ایک ایسے هم معاملہ پر طبع آزمائی کرنے میں اگر تھوڑی سی دیر ہو جائے تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑتی.لیکن جلد بازی اور بے لگامی سے خطر ناک اور لا علاج ٹھوکریں لگ سکتی ہیں.فرانسیسی ضرب المثل ہے جو گولی چل چکی وہ آدھے راستے سے واپس نہیں آئے گی اگر چہ واپسی کے لئے تم کتنے ہی بلا وسے بھیجو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گولی چل گئی اور آزمائش کے نتیجہ پر ہمارے لئے کوئی مبارک باد اه نہیں ہے کتاب مسلمانان ہند کی حیات سیاسی ہے میاں محمد مرزا دہلوی کا ایک اقتباس درج ہے جن پر یہ طوفان گزر جانے کے بعد یہ حقیقت کھلی کہ یہ ایک سیاسی بحران تھا.میں نے سلمانوں کی قومی خود داری کا خاتمہ کر کے رکھ دیا.لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ یہ ہندوؤں کا پروگرام تھا.ہندو ہی اس کے رہنما تھے مسلمانوں کی حیثیت اس ایجی ٹیشن میں ان کے آلہ کار سے زیادہ نہیں تھی.اس وقت تک ان سے کام لیا جب تک انہیں ضرورت رہی اور اس وقت ایجی ٹیشن بند کر دیا جب ان کی ضرورت ختم ہو گئی ؟" حقیقت حال خواہ کچھ بھی ہو مسلمانان ہند کی سیاست کا یہ دو ر مستقبل کے مورخ کی نگاہ میں ہمیشہ ناقابل فہم اور قابل شرم قرار پائے گا.لیکن وہ بڑے تعجب کے ساتھ اس حقیقت کا اقرارہ کرنے پر بھی مجبور ہو گا کہ جہاں بر صغیر کے بڑے بڑے مسلمان رہنما ٹھوکر کھا گئے اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے وہاں اسلام کا ایک مایہ نازہ اور صاحب بصیرت فرزند ایسا بھی تھا جس نے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اُجالے کی ایک شمع روشن کئے رکھی.تحریک خلافت کے اس ہنگامہ خیز دور میں آپ کا کردار بہت حد تک محض ایک مشیر کا رہا یعنی ایک ایسے مشیر کا جس کی تنبیہات اور نصائح پر ہر وقت عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ نے بہت کچھ نقصان اُٹھایا.یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملی جدوجہد سے ہٹ کر اور سیاست ے ه تبر كانت آزاد مرتبہ مولانا غلام رسول قہر - - سے مسلمانان ہند کی حیات سیاسی منا

Page 314

٣٠٩ کی ہنگامہ خیزیوں میں کو دے بغیر دور بیٹھے ہوئے کسی کا اچھے مشورے دے دینا کوئی مشکل کام نہیں.جب ایک سیاست دان عملی میدان میں قدم رکھتا ہے.تو ایسی مشکلات اُسے درپیش ہوتی ہیں کہ ان کے حل کے لئے اسے بعض اوقات بڑے بڑے سنہری اصول بھی قربان کر دینے پڑتے ہیں.یہ اصولوں کی باتیں محض دور کی آنکھ کے دیکھنے کی چیزیں ہیں.عمل کی دنیا میں بعض اوقات ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.خصوصاً اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو صحیح و سالم قائم رکھنا سیاست کے دنیوی خار زاروں میں تو کسی طرح ممکن نہیں لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی شخصیت اس اعتراض کی لغویت کو اپنے عمل سے آشکارا کر چکی تھی.آپ کی زندگی میں ایسے مواقع بھی آئے جب کہ آپ کو عملی سیاست میں بھی دخل دینے کا موقع ملا اور اپنے اصولوں کو قربان کئے بغیر بلکہ انہی کی مدد سے آپ نے حیرت انگیز نتائج حاصل کئے.حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ایسے کئی مواقع پیدا ہوئے کہ جب آپ کو عملاً اسلام کی سربلندی اور ملت اسلامیہ کی فلاح وبہبود کی خاطر ایسے میدانوں میں اقدام کرنا پڑا جو بظا ہر سیاسی نوعیت کے تھے اور دنیا کی اصطلاح میں ان کا تعلق یقینا سیاست ہی سے تھا.مگر جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خالصہ دینی مصالح اور مقاصد کے پیش نظر ان میں دلچسپی لی اور اس دوران بلا تامل دینی کاربندہ رہے اور سیاسی مصالح پر انہیں کبھی قربان نہ ہونے دیا.اصولوں پر حتی.ایسے مواقع بھی آپ کی زندگی میں آئے جبکہ آپ نے جماعت احمدیہ کی کوششوں کو مسلمانوں کی کسی وسیع تحریک کے تابع کر کے ملت اسلامیہ کی عظیم الشان خدمت سرانجام دی اور ایسے مواقع بھی پیش آئے کہ جب خود مسلمانان ہند نے کسی تحریک کی ذمہ داری آپ کو سونچی اور تمام مسلمانوں کی راہ نمائی کرتے ہوئے آپ نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا.پھر ایسے مواقع پر بھی آپ کو خدمت کی توفیق ملی جب ہندو سلم نزاع کی چنگاری مشتعل ہو کر سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والی تھی.مگر آپ کی فراست اور تد تیرنے ایسی راہ عمل تجویز کی جس سے فتنہ و فساد کی آگ بھی ٹھنڈی پڑ گئی اور بے ضرورت قربانی اور نقصان کے بغیر اہل اسلام کا مقصد بھی حاصل ہو گیا.یہ ایک دلچسپ اور طویل داستان ہے جس کا تذکرہ آگے چل کر موقع اور محل کے مطابق کیا جائے گا.فی الحال ہم اس سے ملتے جلتے ایک موضوع پر آپ کی عملی جد و جہد کی ایک ایسی مثال پیش کرتے ہیں جو فی الحقیقت تو ندسی جہاد کی حیثیت رکھتی تھی

Page 315

لیکن بعض دوسرے پہلوؤں سے اُسے بلی سیاست کی ایک عظیم تحریک بھی قرار دیا جا سکتا ہے.ہماری مراد تاریخ ہند کے اس ولولہ انگیز دور سے ہے جس میں تحریک شدھی نے جنم لیا.اور بہت جلد ایک ایسی عظیم اور اہم کشمکش میں تبدیل ہو گئی کہ تمام ہندوستان کی نظروں کا مرکز بن گئی.یہ وہ موقع ہے جبکہ محض منشوروں پر اکتفا نہیں کی گئی بلکہ عملاً ایک فعال قومی تحریک کی آپ نے قیادت کی.یہ وہ موقع ہے جبکہ آپ کے سوا دوسری متعد د مسلمان جماعتیں بھی انسی مقصد کے حصول کے لئے متوازی جد وجہد میں مصروف تھیں.یہ وہ موقع ہے جبکہ جذبات ہیں طوفان اور دلوں میں جوش تھا اور دشمن منہ زور اور طاقتور تھا اور کوئی ضابطہ اخلاق اس کے ہاتھ روکنے یا اس کی چالوں کو محدود کرنے والا نہ تھا.اس وقت آپ نے ان اصولوں کا پابند رہتے ہوئے جن کا ذکر گزر چکا ہے.میدان کارزار میں سعی مسلسل اور عمل نیم کے گھوڑے دوڑا دیئے.یہ باب آپ کے طرز فکر و عمل کا غیروں کے طرز فکر و عمل سے موازنہ کرنے کا بهترین موقع فراہم کرتا ہے.اور آپ کی عظیم قائدانہ صلاحیتیں اس موقع پر امتیازی شان کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہیں.آئیے ہم کچھ دیر کے لئے تحریک شدھی کے محرکات اور عوامل اور آغاز و انجام پر نظر ڈالیں.

Page 316

۳۱۱ تحریک شدھی بیسویں صدی کے اوائل میں بعض مخلص مسلمان رہنماؤں کو یہ روح فرسا خبر ملی کہ نادۃ العلماء اور علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی کے ارد گر دینے والے بعض ملکانہ راجپوتوں کو ہندو پنڈت شده" کر کے اسلام سے منحرف کر رہے ہیں.مولانا شبلی نعمانی کو اس خبر سے ایسا شدید دھچکا لگا کہ ان کا غم و غصہ بے ساختہ ان لفظوں میں ڈھل گیا:.جس وقت میں یہاں سے چلا ہوں میری جو حالت تھی، یہ طلبہ ندوہ کے جو یہاں بیٹھے ہیں وہ اس کے شاہد ہوں گے کہ میں نے اس وقت کوئی کالی نہیں اُٹھا رکھی تھی جو میں نے ان ندوہ والوں کو نہ سُنائی ہوگی.کہ اے بے حیاؤ ! اور اسے کم بختو ! ڈوب مرو.یہ واقعات پیش آئے ہیں.ندوہ کو آگ لگا دو اور علی گڑھ کو بھی پھونک دو یہی الفاظ میں نے اُس وقت بھی کیے تھے اور آج بھی کہتا ہوں کیا ہے اس صورتِ حال سے موثر طور پر نمٹنے کے لئے انہوں نے اپریل س پر میں لکھنؤ کے مقام پر تمام ہندوستان کے مسلمان مشاہیر کی ایک کانفرنس طلب فرمائی.علامہ شبلی کے سوانح نگار مولانا سید سلیمان ندوی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- مولانا یہ چاہتے تھے کہ اشاعت کے کام تمام فرقے مل کر کریں.اسی لئے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) جواب خلیفہ قادیان ہیں اور خواجہ کمال الدین صاحب تک کی شرکت سے انکار نہیں کیا گیا اس پر اسی جلسہ کے دوران میں مولانا پر یہ الزام رکھا گیا کہ انہوں نے قادیانیوں کو جلسہ میں کیوں شریک کیا ؟ اور ان کو تقریر کی اجازت کیوں دی ؟ نه اس کا اثر مولانا شبلی پر یہ ہوا کہ مولانا بیمار اور پراگندہ خاطر ہو کہ مولوی عبدالسلام صاحب اور سیرت کو لے کر بمبئی روانہ ہو گئے اور دو چار ماہ کے غور و فکر کے لے حیات شبلی 0 - 000 - سے حیات شبلی م۵۶ -

Page 317

۳۱۴ بعد جولائی ۱۹۱۳ء کو ندوہ سے مستعفی ہو کر سبکدوش ہو گئے اور سے کر کام کی ساری تجویز میں درہم برہم ہو کر رہ گئیں پیش اس واقعہ کے بعد ملکانہ کے ہندو پنڈت تو مسلسل مسلمانوں کو شُدھ کرنے میں مشغول رہے لیکن مسلمان علماء اس عظیم فتح کی خوشی میں اطمینان سے اپنے گھروں میں جا سوئے کہ وہ قادیانیوں کو اسلامی جہاد میں شرکت سے باز رکھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں.وقت گزرتا رہا.یہاں تک کہ ماریچ سائد کی ایک نامسعود صبح مسلمانان ہند پر اس حال میں طلوع مد ہوئی کہ آریہ سماجی رہنما اپنی فتح کے شادیانے بجا رہے تھے.اور اسلام کا شدید معاند شردھانند بڑے فخر سے یہ اعلان کر رہا تھا کہ :.نواح آگرہ میں راجپوتوں کو تیز رفتاری سے شدھ کیا جا رہا ہے.اور اب تک چالیس ہزار تین سو را جیوت ملکانے ، گوجر اور جاٹ ہندو ہو چکے ہیں.ایسے لوگ ہندوستان کے ہر چھتے میں ملتے ہیں.یہ پچاس ساٹھ لاکھ سے کم نہیں اور اگر ہندو سماج ان کو اپنے اندر جذب کرنے کا کام جاری رکھے تو مجھے تعجب نہ ہوگا کہ ان کی تعداد ایک کروڑ تک ثابت ہو جائے " ہے یہ اعلان کیا تھا ایک ہم کا خوفناک دھماکہ تھا جس نے مسلمانانِ ہند کو مشرق سے غرب تک ہلا کر رکھ دیا اور اس عجیب حال میں بیدار کیا کہ سینے چاک اور دل فگار تھے.ہندوؤں نے صرف اسی اعلان پر اکتفا نہ کی بلکہ شدھی کی تحریک کو سارے ہندوستان میں پھیلا دینے کے لئے ایک عام بگل بجا دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں ہر طرف ایک شور آہ و بکا بیا ہو گیا.اور مسلمان اخبارات بڑے موثر اور پر درد انداز میں اپنے علماء اور دیگر راہ نماؤں سے اپیلیں کرنے لگے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر خدمت اسلام کے لئے آگے آئیں.اور میں فرقے کو جس قدر توفیق ملے ملکا نہ کئے مسلمانوں کو مرتد ہونے سے بچانے کی کوشش کرے.چنانچہ مختلف مسلمان فرقوں کی طرف سے متعد و مہمات کا آغاز کیا گیا اور لکھو کھا روپیہ چندہ جمع کرنے کی اپیلیں جگہ جگہ شائع ہونے لگیں اسی طرح جانی قربانی کے لئے بھی مجاہدین کو بلایا گیا.شیعوں نے ایک الگ مہم کا آغاز کیا کہ وہ اپنے طور پہ ارتداد کی اس خوفناک رو کو پلیٹ سکیں.اس وقت ایک مشہور اخبار لے حیات شبلی ص۵۷ کے اخبار پرتاپ لاہور ۶ ار تاریخ ۱۹۲۳ مگا -

Page 318

۳۱۳ کے مدیر نے نام لے کر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدکو بھی پکارا کہ اسے عہد روٹی اسلام کا عونی رکھنے والو! آج تم کہاں ہو.آج اسلام کے لئے قربانی کے میدان تمھیں اپنی طرف بلا رہے ہیں.آج وقت ہے کہ تم اور تمہاری جماعت اپنے دعووں کی صداقت کا ثبوت دو.اگرچہ اس دعوت سے ایک روز قبل ہی یعنی ، مارچ ۱۹۲۳ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اسی موضوع پر جماعت کو مخاطب فرما چکے تھے اور یہ ہدایت دے چکے تھے کہ جماعت ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائے اور ایک ایسی سکیم کا بھی تعارف کرواچکے تھے جو آپ نے پہلے سے ہی ختنہ ارتداد کے سدباب کے لئے تیار کر لی تھی لیکن وکیل امرت سر کی اس دعوت پر غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے فوری طور پر بذریعہ اشتہار 19 مارچ کو اس کا جواب لکھا اور ان کوششوں سے مختصرا اہلِ اسلام کو آگاہ کیا جو پہلے ہی اس بارہ میں شروع کی جاچکی تھیں نیز اس سلسلہ میں مسلمانان ہند کو ۲۰ لاکھ روپے چندہ اکٹھا کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا کہ سب فرقے اپنے اپنے حصے کی رقم خود ہی اکٹھی کریں اور خود ہی اپنے زیر انتظام خرچ کریں اسی طرح ہر فرقے کے زیر انتظام مجاہدین کے الگ الگ دستے اس مشترکہ ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے روانہ ہو جائیں.آپ نے فرمایا اگر چہ تعداد کے اعتبار سے ۲۰ لاکھ میں سے باقی مسلمانوں کے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کا حصہ 140 واں یعنی صرف تیرہ ہزار روپے بنتا ہے لیکن جب مندرجہ ذیل دو اُمور کو ملحوظ رکھا جائے تو اس قربانی میں جماعت کا حصہ اور بھی کم مقرر ہونا چاہیئے.اول :- جماعت میں تحروڑ پتی تو الگ رہے لکھ پتی بھی کوئی نہیں جبکہ دوسرے تمام مسلمان فرقوں میں متعدد کروڑ پتی یا لکھ پتی موجود ہیں.دوم :- ماضی قریب میں جماعت احمدیہ کی خواتین خدمت اسلام کی ایک نہایت اہم ذمہ داری قبول کر چکی ہیں یعنی تعمیر مسجد برلن کے ضمن میں پچاس ہزار روپے پیش کرنے کا وعدہ کر چکی ہیں اور اس وقت وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں مصروف اور زیر بار ہیں.تاہم کمی کے مندرجہ دونوں تقاضوں کے باوجود حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس عزم کا اظہار فرمایا کہ تیرہ ہزار روپے میں سے کچھ کم کرنے کی بجائے آپ اپنی جماعت کے خلوص اور قربانی کے معیار کے پیش نظر تحریک شدھی کے ضمن میں پچاس ہزار روپے جمع کرنے کا اعلان کرتے ہیں جو اسلام کے حق میں تحریک شدھی کا رخ پلٹنے کیلئے خرچ کئے جائینا

Page 319

۳۱۴ جس وقت حضرت خلیفہ ایسیج نے فتنہ ارتداد کے سدباب کے لئے جماعت احمدیہ کی طرف سے پچاس ہزار روپے کا وعدہ کیا ، مناسب ہوگا کہ جماعت کی اس وقت کی عمومی مالی حالت کا بھی کچھ جائزہ لے لیا جائے تاکہ کچھ اندازہ ہو سکے کہ اس وعدہ کی کیا حیثیت تھی.آج کے معیار سے دیکھا جائے تو پچاس ہزار روپے کی رفتم ایک ایسی معمولی رقم ہے.کہ جماعت احمدیہ میں متعدد ایسے افراد مل جائیں گے جو انفرادی طور پر تہی اس سے بہت زیادہ رقم خدمت دین کے لئے پیش کر سکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں.لیکن اس وقت کے حالات آج سے بالکل مختلف تھے.اول تو اُس وقت اور آج کے روپے کی قیمت میں ہی زمین آسمان کا فرق ہے.دوسر جماعت کی مالی حالت فی ذاتہ بھی بہت خراب تھی.اور ذرائع آمد نہایت قلیل اور تحریک شدھی سے صرف ایک سال قبل یعنی مارچ ۱۹۲۳ء کی مشاورت کی رپورٹ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ باقاعدہ ایجنڈے پر یہ مسئلہ برائے غور پیش تھا کہ جماعت احمدیہ جس شدید مالی شجران میں سے گزر رہی ہے اس کا سد باب کیسے کیا جائے.انجمن کی غربت کا عالم یہ تھا کہ کارکنوں کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی پیسے موجود نہیں تھے کارکنوں کی کئی کئی ماہ کی تنخواہوں کا قرض انجمن پر چڑھا ہوا تھا اور انجمن کا قرضہ کم ہونے کی بجاے روز بروز خطرناک رفتار کے ساتھ بڑھ رہا تھا.جماعت اپنی شربت اور بے سروسامانی کے باوجود جس عالمگیر ملیہ اسلام کی جدوجہد میں مشغول تھی.اس کے مالی تقاضے تمام تو پور کرنے تو در کنار ادتی ضرورتیں پوری کرنے کی بھی جماعت میں طاقت نہ تھی اور احمد می مبلغین نهایت درد ناک حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے.ممالک بیرون میں مبلغ ہمار پڑے تو علاج کے لئے دوا تک کے پیسے نہ ہوتے تھے.اس مالی بحران کے دوران جماعت احمدیہ کا سالانہ بجٹ جس طرح بنایا گیا.اور سخت تنگی سے بنائے ہوئے بجٹ کے باوجود جماعت کو جن شدید مشکلات سے گزرنا پڑ رہا تھا ان کا ذکر حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مجلس شوری کی تقریر میں ان الفاظ میں کیا :.ایک اور کمیٹی بٹھائی جس نے ۳.۴ ہزار کی اور کسی کی پھر کیٹ میرے پاس آیا.میں نے اس میں ۳۰ ہزار کی کمی کی مگر باوجود اس کے کہ اس قدر کمی کی اور لڑکوں کے وظائف میں اس قدر کمی کی، کہ اس سے کم نہیں ہو سکتی تھی.اور باوجود اس کے کہ پہلے ہی جو تنخواہ

Page 320

PIA باہر ملتی ہے اس سے بہت کم بیاں کام کرنے والوں کو ملتی ہے.اب ان کی تنخواہ میں اور بھی کمی کر دی گئی ہے.غرباء کو بچانے کے لئے جن غرباء کو محط الاؤنس ملتا تھا وہ بند نہ کیا.بلکہ جن کی تنخواہ 40 سے پر تھی ان کو پندرہ فی صدی اور جن کی ۱۰۰ سے اُوپر تھی اُنکی نہیں فیصدی کم کر دی گئی.میں نے کہا ان کو قربانی کرنی چاہئیے.اور سب نے خوشی سے منظور کر لیا اور باوجودیکہ یہاں کے لوگوں کو کم تنخواہیں ملتی ہیں اور گورنمنٹ نے دگنی تگنی کر دی ہیں مگر ہم نے اور کم کر دی ہیں.مگر بجائے اس سے بوجھ کم ہو جانے کے ابھی تک کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں دی گئیں.پہلے تین ماہ کی تنخواہیں باقی تھیں اور اب پانچ پانچ ماہ کی ہیں.اور اب حالت یہانتک ہوگئی ہے کہ چونکہ انہوں نے قرض لے کر کھایا ہے اس لئے دکانوں کا دیوالہ مکل گیا.ادھر پانچ پانچ ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں ادھر دکانوں پر سرمایہ نہیں رہا..یہاں ایسا ہو رہا ہے کہ کئی لوگوں کو کئی کئی دن کا فاقہ ہوتا ہے.ابھی ایک شخص نے بتایا کہ میرے پاس سے ایک شخص گزر رہا تھا جو فاقہ سے تھا.میں نے اس کی شکل سے اسے پہچانا اور فی الواقعہ کئی دن کا اسے فاقہ تھا.اس نے کچھ دیا مگر آدھا ایک اور کو راستہ میں دے دیا.اسی طرح ایک اور کے متعلق سنا کہ فاقہ سے بہوش ہو گیا.اور میں نے گھر کا کھانا اسے بھیجا اور آدمی کو کہا کہ کھلا کر آنا.میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ایسے مخلص ہیں کہ بھوک سے مر جائیں گے اور کام نہ چھو نگے مگر کیا ہماری جماعت کے لئے یہ دعیہ نہ ہوگا کہ ایسے کا رکن بھوکے مرگئے.تو مالی لحاظ سے نہایت نازک وقت آیا ہوا ہے اسے ま یہ وہ حالات تھے جن میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جماعت احمدیہ کی خواتین کے سامنے تعمیر مسجد برلن کی سکیم پیش فرمائی.آپ نے جماعت پر واضح کیا کہ ہم اپنی مالی مشکلات کو دینی ضروریات کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے.آپ نے انہیں بتایا.کہ ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء ۵ - ۱۹

Page 321

آج جرمنی میں خدمت اسلام کا ایک نیا اور وسیع میدان کھلا ہے جس کے تقاضوں کو کسی قیمت پر نظر اندازہ نہیں کیا جا سکتا.جنگ عظیم کے بعد جرمن قوم میں نفسیاتی لحاظ سے ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ یورپ کے دیگر ممالک کی نسبت اس میں اسلام قبول کرنے کا امکان زیادہ روشن نظر آتا ہے.نہیں آپ نے اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ جماعت پہلے ہی شدید مالی مشکلات میں گرفتار ہے مسجد برلن کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی اور احمدی مستورات کو اس بات کا پابند کر دیا کہ وہ پچاس ہزار روپے کی خطیر رقم مسجد برین کی تعمیر کے لئے خاصہ اپنے ذرائع سے پیش کریں اور اپنے خاوندوں سے کوئی مطالبہ نہ کریں.یہ پابندی اس لئے تھی کہ واقعہ جماعت کے مردوں میں اس وقت مزید مالی بوجھ برداشت کرنے کی طاقت نظر نہ آتی تھی اور عورتوں سے یہ توقع تھی کہ وہ اپنے اندوختے اور زیورات فروخت کر کے اسلام کی اس اہم ضرورت کو پورا کر دیں گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.لیکن یہ ایک الگ انسان ہے جس کا کچھ ذکر اپنے محل پر کیا جائے گا.فی الوقت اس کا ذکر محض اس لئے کیا گیا ہے کہ آج شد معنی کے حالات کا مطالعہ کرنے والا قاری یہ اندازہ کر سکے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ملکانہ کے جہاد کے لئے میں جماعت سے پچاس ہزار روپے کا مطالبہ کیا وہ کن حالات میں سے گزر رہی تھی.اور یہ مطالبہ اپنی ذات میں کیا قیمت اور کیا مقام رکھتا تھا یہ دونوں مطالبات جہاں ایک طرف آپ کے صاحب عزم ہونے پر دلالت کرتے ہیں وہاں اس بات کی بھی شہادت دیتے ہیں کہ آپ کو اپنے رب کے فضلوں اور نصرت پر غیر معمولی ایمان اور توکل تھا اور یقین تھا کہ یہ خدا ہی کے کام ہیں اور وہی ان کے پورا کرنے کے سامان کرے گا.پس دنیا نے یہ عجیب معجزہ دیکھا کہ فاقہ کشوں کی اس جماعت نے اسلام کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دی اور قربانی کے ہر مطالبہ پر پہلے سے بڑھ کر جوش اور صدق دل کے ساتھ لبیک کہا.یقینا یہ خدا ہی کا فضل تھا لیکن فضل محمود کے ذریعہ ظاہر ہوا تھا.جماعت کو خدا نے ایک ایسا عظیم رہ نما عطا کیا تھا کہ جو خدمت اسلام کے لئے ان فدائیوں کے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر پیش کرنے کیلئے تیار تھا وہ ایک ایسار رہنما تھا جو قربانی کے ہر میدان کی طرف پہلے خود قدم بڑھاتا اور پھر جماعت کو اپنے پیچھے قدم بڑھانے کی دعوت دنیا.اس کے کردار میں ایک عجیب بلندی تھی.اس کی زبان میں ایک عجیب جادو تھا.جب وہ خدمت اسلام کے لئے قربان گاہوں

Page 322

کی طرف جماعت کو بلاتا تو دلوں کی عجیب کیفیت ہو جاتی.جوشِ خدمت سے سینے پھٹنے لگتے.اور دل اچھل اچھل کر دین محمد پر نچھاور ہونے کے لئے ہنسلیوں سے سڑسکرانے لگتے.جماعت والہانہ اس کے پیچھے دوڑ پڑتی.اور ہر احمدی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا.جو کمزور تھے گرتے پڑتے گھسٹتے قربان گاہوں کی طرف روانہ ہو جائے اور جو لا چار اور معذور تھے وہ زبان حال سے یہ درد ناک گیت الا پا کرتے.وہ خوش قسمت ہیں اُس مجلس میں جو گر پڑ کے جاپہنچے کبھی پاؤں پہ سر رکھا کبھی دامن سے جانیئے مرے ہمرازہ پر وہ پرشکستہ کیا کریں جن کے ہوا میں اُڑ گئے نالے گئیں بے کار فریا دیں جس رنگ میں آپ نے اس تحریک کو جماعت احمدیہ میں چلایا اور آریہ سماج کے مقابلے میں مٹھی بھر فدائیوں کو ایک عجیب شان ایمانی کے ساتھ صف آرا کیا.یہ سرگزشت تاریخ احمدیت میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائے گی.سب سے پہلے تو آپ نے کام کا ایک باقاعدہ منصوبہ تیار کیا.اور فوری طور پر حالات کا جائزہ لینے کے لئے بعض ذہین تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملکانہ کے علاقے میں روانہ کیا اس کے بعد خطبات اور تقاریر کے ذریعہ جماعت کو اس مسئلہ کی نوعیت سے پوری طرح آگاہ کیا.مشکلات سے خبردار کیا.خوب اچھی طرح واضح کر دیا کہ ایک انتہائی طاقتور دشمن کا سامنا ہے تو کیا بلحاظ جمعیت اور کیا بلحاظ مال و دولت اتنا بڑا ہے کہ دنیوی لحاظ سے جماعت احمدیہ کو اس سے کوئی نسبت نہیں.اس کے بعد اسلام کے دورہ اول کے مسلمان مجاہدین کی عظیم قربانیاں یاد دلاکر ان کے دلوں میں ایک ایسی ہلچل مچادی کہ بڑے اور چھوٹے مرد اور عورتیں ، جوان اور بچے سبھی اپنا سب کچھ اسلام کے لئے قربان کرنے کو تیار ہو گئے.لیکن آپ نے ان کے ان جذبات کو بے محابا سڑکوں پر بے لگام نہ ہونے دیا.اور عوامی مظاہروں کی صورت میں ان کے دلولوں کو ضائع ہونے کی اجازت نہ دی.قادیان کی گلیوں میں پر جوش نعروں کی کوئی آواز بلند نہ ہوئی.اور آریہ سماج کے خلاف دشنام طرازی کی کوئی مہم نہ چلائی گئی البتہ قوم عزم صمیم کا پیکر بنی ہوئی عمل پیم کے لئے تیار ہو گئی.سب سے پہلے آپ نے جماعت کی توجہ کا رُخ دعا کی طرف پھیرا اور ان پر خوب واضح کر دیا کہ دُعا کے بغیر -

Page 323

مام نتیجہ خیز عمل تو الگ رہا محض عمل کی توفیق بھی نہیں مل سکتی.اور ہر مرد اور ہر عورت بوڑھا اور سجتے اپنی اپنی استعداد کے مطابق دعاؤں میں مصروف ہو گیا.تمام احمدی آبادیاں شب زندہ دار ہوگئیں اور راتوں کو خدا کے حضور کی جانے والی گریہ وزاری کا شور گھر گھر سے بلند ہونے لگا.تہجدوں میں سربسجود ہو کر غلبہ اسلام کے لئے دعائیں کی جانے لگیں اور اللہ کے دین کی نصرت اور حمایت کے لئے آگے قدم بڑھانے والے اللہ ہی سے نصرت اور حمایت کی بھیک مانگنے لگے.دعا کی طرف توجہ دلانے کے بعد آپ نے جماعت کو مال اور جان کی قربانی کی طرف بلایا اور پیش آنے والی مشکلات سے بھی اچھی طرح آگاہ کر دیا.ہر قسم کے خطرات کی نشاندہی کی اور خوب کھول کر انہیں بتا دیا کہ اس راہ میں بہت سخت وقت آئیں گے بعض اوقات کبھی بھور کے اور کبھی پیاسے کبھی دھوپ میں اور کبھی سردی میں کبھی ننگے پاؤں اور کبھی پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ کبھی اپنا سامان اٹھاتے ہوئے اور کبھی دوسروں کا بوجھ لئے ہوئے تمہیں دنوں، ہفتوں مہینوں گزر اوقات کرنی پڑے گی.فقیرانہ گاؤں گاؤں پھر کر اپنے غلطی خوردہ بھائیوں کو دوبارہ اسلام کی طرف بلانا ہوگا.گالیاں کھا کہ صبر کرنا ہوگا ماریں کھا کر دعا دینی ہوگی.دوا کے بغیر ہرقسم کی بیماریاں کاٹنی پڑیں گی.کمر توڑ مشقت کے کام کرنے ہوں گے.بیوی بچوں اور گھروں کے آرام کا خیال تک دل سے نکال دیا ہو گا.یہ سب کچھ واضح کر دینے کے بعد آپ نے انہیں یقین دلایا کہ اگر تم خدمت اسلام کی ان قربانگاہوں کی طرف بڑھنے کی بہت پاتے ہو تو میں تمھیں خوشخبری دیتا ہوں کہ خدا تعالے تمھارے ساتھ ہوگا اور دنیا کی کوئی طاقت اپنی ظاہری عظمت ، مال و دولت اور جمعیت کے باوجو د تھیں شکست نہیں دے گی.تم خدا کے پیارے ہو جاؤ گے اور دین و دنیا کی سعادتیں اور برکتیں تھیں نصیب ہوں گی.آپ نے جماعت سے ایسے صاحب عزم و استقلال مجاہدین کا مطالبہ کیا جو مصائب و مشکلات تھی اتھاہ گہرائیوں میں بے دھڑک کود پڑنے کے لئے تیار ہوں.آپ نے پہلے ہی سے ان کو خبردار کر دیا کہ تمہارا مقابلہ صرف بیرونی دشمن ہی سے نہیں ہو گا خود تمہارے اپنے بھائیوں میں سے مسلمان کہلانے والے علماء تمہارے خلاف فتووں کی ایسی مہم چلائیں گے کہ تمہارے سامنے بھی ایک دشمن ہوگا اور پیچھے بھی ایک دشمن ہوگا اور ہر طرف سے تم پر

Page 324

۳۱۹ وار کئے جائیں گے.تمھیں کا فرو ملحد و دقبال قرار دیا جائے گا اور یہ کہا جائے گا کہ تمھاری تبلیغ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے سے بدرجہا بہتر ہے کہ مرتد ہونے والے ملکانے آریہ، بر ہمو سماج یا عیسائی ہو جائیں.لیکن کسی احمدی کے ذریعہ کلمہ توحید کا اقرار نہ کریں لیکن جہاں ایک طرف آپ دنیوی خطرات سے خوب تنبیہ کرتے وہاں خدا کی عظمت اور جلال کا نقشہ بھی اس انداز میں کھینچتے کہ دل خشیت اللہ سے بھر جاتے.اور دنیا کی زندگی اور دنیوی آرام و آسائش سے دل اچاٹ ہو جاتے.اور آپ کے خطبات کو سننے والا ہر شخص اور آپ کی تحریکات کو پڑھنے والا ہر قاری برضا و رغبت ایک والہانہ جذبہ قربانی کے ساتھ اپنی زندگی اور تمام متاع زندگی اس خدمت کے لئے پیش کر دیتا.اس موقع پر آپ جماعت سے جس عظیم مالی قربانی کی توقع رکھتے تھے اور میں اسمائی اقدام کے لئے آپ تیار کھڑے تھے اس کا اندازہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ہی.اسے ایل ایل بی کی روایت سے ہوتا ہے جو ذیل میں درج کی جاتی ہے حضرت شیخ صاحب فرماتے ہیں :- ۱۹۲۳ء کی مجلس مشاورت میں خاکسار موجود تھا.حضور نے شدھی کے متعلق تقریر کی اور ایک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ اگر آریہ قوم اپنے مال و دولت کے بل بوتے پر شدھی کو کامیاب کرنا چاہتی ہے تو میرا اندازہ ہے کہ اس وقت میری جماعت کی کل جائیداد کی قیمت کا اندازہ دو کروڑ روپیہ کے قریب ہوگا میری جماعت یہ سب املاک و جائیداد اس تحریک شدھی کے خلاف قربان کرنے سے دریغ نہ کرے گی.اس بات سے حضور کا اولو العزم ہونا اور جماعت کی ایسی تربیت کرنا اور یہ یقین کہ جماعت خوشی سے اپنا سب کچھ قربان کر دے گی ثابت ہے.چنانچہ بعد کے واقعات اسی اطاعت کو ثابت کرتے ہیں سمعنا واطعنا کے مطابق.مجھے نہیں معلوم کہ حضور کی تقریر کے یہ فقرات کہیں شائع یا صبح ہوئے ہیں یا نہیں لیکن مجھے یہ اچھی طرح یاد ہیں اور میں کئی موقعوں پر دوستوں اور دیگر اشخاص سے یہ ذکر کرتا رہا ہوں ۱۹۳۳ء کی

Page 325

مشاورت کے بعد خاکسار کو بھی شدھی کے علاقے میں کام کرنے کی تو نسیق اللہ تعالیٰ نے دی ہے پس بہترین اور کامیاب رہنما وہی ہوا کرتا ہے جو عقل اور جذبات میں توازن قائم رکھے.آپ نے اس تمام عرصہ میں اس توازن کو اس عمدگی کے ساتھ قائم رکھا کہ اس کا نظارہ کرنے والا بے اختیار ہو کر مرحبا، اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنے لگتا ہے.ایک طرف تو ایسا عمدہ اور معقول منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا جو باقاعدہ منظم صورت میں جماعت کے لئے ایک پروگرام پیش کرتا تھا اور جذباتی اور تخیلی اثرات سے پاک خالصہ عقل اور تجربات کی دنیا سے تعلق رکھتا تھا.یہ ایک نہری نظام کے مشابہ تھا جسے بڑے فکر و تدبر سے ، بڑی محنت اور جان کا ہی کے ساتھ اس طرح تیار کیا گیا کہ ہر طرف آبپاشی کا ایک جال بچھ جائے.اور پانی کا ایک ایک قطرہ فصلوں کی نشو و نما کے لئے استعمالی ہو.دوسری طرف آپ نے جذبات میں اپنی شعلہ نوائی سے ایک ایسا ہیجان پیدا کر دیا کہ ہر سینے میں قربانی کے ولولے موجزن ہو گئے.پھر آپ نے ان کو نظم و ضبط کا ایک عظیم بند باندھ کر اس طرح محفوظ کر لیا کہ وہ سیلاب کی صورت میں غارت گری کرانے کی بجائے نظم و ضبط کی نہروں میں بہتے ہوئے جن زمینوں کا رُخ کریں حیات آفر سنی ہی کا موجب نہیں.اگر چہ وفور جذبات کا یہ عالم تھا کہ آپ چاہتے تو ہزارہ ہا مخلصین کار زار تھی میں جھونک دیتے لیکن آپ جانتے تھے کہ اس طرح فائدہ کی بجائے نقصان کا احتمال زیادہ ہے اور تھوڑے عرصہ ہی میں قوم کی ساری طاقت استعمال ہو کر جوش ٹھنڈے پڑ جائیں گے.چنانچہ آپ نے ابتداء میں صرف ڈیڑھ سو مجاہدین طلب کئے.اگر چہ تھوڑے نہی عرصہ میں ڈیڑھ ہزار کے قریب نوجوانوں اور بوڑھوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا لیکن آپ نے بڑے حزم و احتیاط کے ساتھ حالات کے تقاضوں کے مطابق انتخاب فرمایا اور نہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے ہر گروہ کا ایک امیر مقرر فرمایا.کہ وہ اپنے علاقہ میں رہ کر مفوضہ فرائض انجام دے.ان سب پر مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا گیا.جو اصولی ہدایات دی گئیں ان کا خلاصہ یہ تھا کہ امیر کی اطاعت ہر حال میں فرض ہوگی نفسانی جوشوں کو دبانا پڑے گا.اور شدید آزمائش کے باوجود فتنہ و فساد سے بچنا ہو گا ماریں کھانے کے باوجود ہاتھ اُٹھانے کی اجازت نہ ہوگی.کم از کم تین ماہ کے لئے وقعت کرنا ہو گا اور اس عرصہ میں ہرقسم کے اخراجات خود برداشت کرنے ہوں گے علاقے کے باشندوں پر کسی قسم کا مالی یا ذاتی بو مجھ ڈالنے کی اجازت نہیں ہوگی.اگر کھانا میٹر نہیں

Page 326

۳۲۱ تو چنے چبا کر اور اگر چنے بھی میسر نہیں تو درختوں کے پتے کھا کر زندگی کا رشتہ قائم رکھنا پڑیگا کیک مقامی باشندوں سے مانگ کر کھانے کا خیال ہی دل میں نہیں آنا چاہیئے.صرف زبانی نصائح سے کام نہیں لینا بلکہ جہاں تک ممکن جو علاقے کے مفلوک الحال اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنا اور ان کی مدد کرنی ہے.ان اصولی ہدایات کی مشعل لئے جتنے قافلے اس مہم پر روانہ ہو سبھی نے نظم وضبط کا حیرت انگیز مظاہرہ کیا اور قربانیوں کی ایسی شاندار مثالیں قائم کر دیں که قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی.اگر چہ مجاہدین نے سو فیصدی اپنا خرج خود برداشت کیا.لیکن ان اخراجات کے علاوہ بھی جو مجاہدین کو میدان عمل میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے کرنے پڑتے تھے مرکزی انتظامی ضروریات کے لئے لٹریچر کی اشاعت اور دنیا کو صورت حال سے باخبر رکھنے کے لئے اور پھر عند الضرورت مقدمات کی پیروی اور حکام وقت سے رابطہ قائم رکھنے کے لئے ایک خطیر رقم کی ضرورت تھی.یہی وجہ تھی کہ آپ نے جماعت میں پچاس ہزار روپے چندہ کی تحریک فرمائی اس تحریک پر بھی جماعت نے حیرت انگیز قربانی کا مظاہرہ کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس مطالبہ کو پورا کر کے ایک دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا.اس وقت یہ مالی تحریک اتنا بڑا مطالبہ سمجھا جاتا تھا کہ ہندوستان کے غیر احمدی اور غیر مسلم پریس نے بھی اس بات کا نوٹس لیا اور نظریں اس طرف لگ گئیں کہ آیا یہ چھوٹی سی جماعت اتنے بڑے مطالبہ کو پورا کر سکتی ہے یا نہیں ؟ بلاشبہ جماعت کی اس وقت کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ بہت بڑا مطالبہ تھا.ایک معمولی عزم و ہمت کا انسان گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ قلیل اور غریب جماعت اتنی بڑی قربانی دے سکتی ہے.لیکن دنیا نے بڑی حیرت سے دیکھا کہ جماعت نے ہر رنگ میں آپ سے تعاون کیا اور ہر آواز پر لبیک کہا.قربانیاں پیش ہی نہیں کیں بلکہ اس شان اور اخلاص اور جذبہ ایمان کے ساتھ پیش کیں کہ ان کے ذکر پہ آج بھی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں اور دل کی گہرائیوں سے خود بخود ان مجاہدین کے لئے دعائیں نکلتی ہیں.الفضل ه ۱ مارچ ۱۹۲۳ء میں ایک بوڑھے باپ کے جذبات کا ان الفاظ میں ذکر ہے :- ار مارچ جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی عصر کی نماز کے بعد مسجد میں رونق افروز ہوئے تو قاری نعیم الدین صاحب بنگالی نے جو ایک معمر اور سن رسیدہ بزرگ ہیں کچھ عرض کرنے کی اجازت

Page 327

۳۲۲ چاہی.اور اجازت ملنے پر اپنی بنگالی اردو میں ایک پُر جوش تقریر کی.قاری صاحب نے کہا..........گو میرے بیٹے مولوی حاصل ارمین اور مطیع الرحمن (متعلم بی اے کلاس نے مجھ سے کہا نہیں مگر میں نے اندازہ کیا ہے کہ حضور نے جو کل راجپوتانے میں جا کر تبلیغ کرنے کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک کی ہے اور جن حالات میں وہاں رہنے کی شرائط پیش کی ہیں شاید ان کے دل میں ہو کہ اگر وہ حضور کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کریں گے تو مجھے جو ان کا بوڑھا باپ ہوں تکلیف ہو گی.لیکن میں حضور کے سامنے خدا تعالے کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ مجھے ان کے جانے اور تکالیف اٹھانے میں ذرا بھی غم یا رنج نہیں.میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر یہ دونوں خدا کی راہ میں کام کرتے ہوئے مارے بھی جائیں تو اس پر ایک بھی آنسو نہیں گراؤں گا.بلکہ خدا تعالے کا شکر ادا کروں گا.پھر یہی دونوں نہیں میرا تیسرا بیٹا محبوب الرحمن بھی اگر خدمت اسلام کرتا ہوا مارا جائے اور اگر میرے دس بیٹے ہوں اور وہ بھی مارے جائیں تو بھی میں کوئی غم نہیں کروں گا.شاید یہ خیال ہو کہ بیٹوں کی تکلیف پر خوش ہونا کوئی بات نہیں.بعض لوگوں کو ایسی بیماری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی موت پر بھی ہنستے ہتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر میں بھی خدا کی راہ میں مارا جاؤں تو میرے لئے بین خوشی کا باعث ہوگا.میں جانتا ہوں کہ ریا اور نمود ہلاکت کی باتیں ہیں اس لئے یکیں حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے دل کو ریا اور عجب سے کہ ایمان کے لئے زہر ہیں بچائے اور مجھے اخلاص عطا فرمائے.بنگالی لوگ دل کے مضبوط نہیں ہوتے مگر مسیح موعود پر ایمان لانے سے ہم لوگوں کے قلوب قوی ہو گئے ہیں

Page 328

اور ایمان نے ہماری کمزوری کو دور کر دیا ہے یا نہ ایسی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ جن کے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں تھا.انہوں نے پنے مکان یا زمین یا اثاثے بیچ کر اس جہاد میں حصہ لیا.ڈاکٹر منظور احمد صاحب کے پاس صرف ایک بھینس تھی وہی اونے پونے پر بیج دی اور اگر چہ سودا گھانے کا تھا مگر بڑی خوشی سے اس کا ذکر کرتے تھے کہ وقت پر گاہک تل گیا.بعض غرباء نے خطوط کے ذریعہ اجازت طلب کی کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے فروخت کر کے زاد راہ بنائیں اور میدان جہاد میں پہنچ جائیں.زیره فیروز پور کے ایک غریب دوست علی شیر صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا:- آپ کا حکم سنا.میں ایک غریب آدمی ہوں حضور کی شرائط قبول کر نیچے نا قابل ہوں جس کا مجھے افسوس ہے.چالیس روپے کا مقرون ہوں مگر ایک مکان ہے اگر حکم ہو تو اس کو فروخت کرنے یا رہن رکھ کے میدان ارتداد میں جلد ہی چلا جاؤں.خاکسار علی شیر- زیره فیروزپوریان عورتوں میں بھی مسجد برلن کے چندہ کی ذمہ داری کے باوجود بے حد جوش تھا وہ اپنے کپڑے اور ڈوپٹے وغیرہ اپنی ملکانہ بہنوں کے لئے تحفے کے طور پر بھجوا رہی تھیں چھوٹی چھوٹی ہوار بچیاں بھی اس کار خیر میں حصہ لے رہی تھیں.ہماری ہمشیرہ امتہ القیوم بیگم جو ہمارے عم زاد ایم ایم احمد سابق وزیر خزانہ حکومت پاکستان کی اہلیہ ہیں.ان دنوں چھ سال کی تھیں.انہوں نے بھی اپنا ایک چھوٹا سا ڈوپٹہ پیش کر دیا کہ کسی چھوٹی ملکائی کو دے دیا جائے عمو گا دوسری احمدی بچیوں کا بھی یہی حال تھا.اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنی مجلسوں میں میٹھے ملکانے کی باتیں کیا کرتے تھے.احمدی خواتین کی جہاد کی تمنا صرف اسی بات میں محدود نہ تھی کہ مال وزر کے ذریعہ مجاہدین کی مدد کریں بلکہ سخت بے قرار تھیں کہ کسی طرح میدان کا راس میں خود پہنچ کر اس عظیم اسلامی جہاد میں حصہ لے سکیں.بہن عمر بی بی نے آگرہ سے حضور کی خدمت میں لکھا :- حضور میں صرف قرآن مجید جانتی ہوں اور تھوڑا سا اُردو.اپنے بیٹے سے سنا ہے کہ مسلمان مرتد ہو رہے ہیں اور حضور نے وہاں جانے کا حکم دیا ہے مجھے بھی اگر حکم ہو تو فورا تیا ر ہو جاؤں.بالکل ه اخبار الفضل ۵ در تاریخ ۱۹۲۳ء ملا له کارزارشت تھی مصنفہ ماسٹر محمد شفیع صاحب التسلم محرم -

Page 329

۳۲۴ دیر نہ کروں گی.خدا کی قسم اٹھا کر کہتی ہوں.ہر تکلیف اُٹھانے کو تیار ہوں کالے امتد الرحمن صاحبہ مڈوائف بھیرہ ہسپتال نے اس طرح اپنے جذبۂ شوق کا اظہار کیا.حضور میرا باپ عاشق مسیح موعود تھا.دنیا میں دو لڑکے اور ایک لڑکی چھوڑ گیا.میرے دونوں بھائی عبد الرحیم و عبداللہ سرفروشوں میں حضور کے حکم سے کام کر رہے ہیں.اس عاجزہ کا بھی دل تڑپ رہا ہے یہ بھی تین ماہ کے لئے زندگی وقف کرتی ہے یہ تحریک شدھی کے دوران جماعت احمدیہ نے میں والہانہ اندازہ میں قربانیاں پیش کیں اور یوپی کے کئی متاثرہ اضلاع میں جس کامیابی کے ساتھ آریہ سماج کا مقابلہ کیا اور ہر میدان میں ان کو شکست فاش دی.ایک طویل اور دلچسپ داستان ہے جس کا اصل تعلق تاریخ احمد تیت کے ساتھ ہے اور کسی حد تک تاریخ احمدیت میں اس پر روشنی ڈالی بھی جاچکی ہے.ہماری نظر اس وقت اس تحر یک کے ان پہلوؤں پر ہے جس کا تعلق براہِ راست حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی شخصیت - کردار اور صلاحیتوں سے ہے.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپ نے ایک فتح نصیب جرنیل کے طور پر اس تحریک کی قیادت کی اور ہر میدان میں منظقر و منصور ہوئے.اس کا کچھ ذکر آئندہ کیا جائے گا یہاں فی الوقت صرف اسی پر اکتفا کی جاتی ہے کہ تحریک خلافت کے دوران آپ کے کردار اور ستخر یک شدھی کے دوران آپ کے کردار میں جو فرق نظر آتا ہے وہ یہی ہے کہ اگر چہ اس وقت آپ نے بر وقت تنبیہ اور نہایت قیمتی مشورے دے کر اپنے فرض کو ادا کر دیا.لیکن حالات کچھ اس قسم کے تھے کہ عملی جدوجہد کے میدان میں ایک کامیاب جرنیل کے طور پر امت مسلمہ سے آپ کا تعارف نہ ہو سکا.شدھی کی تحریک نے وہ موقع فراہم کر دیا اور آپ کو رب العزت سے یہ توفیق ملی کہ اپنے مشوروں کی صداقت اور قد و قیمیت کو عمل کے میدان میں بھی درست ثابت کر دکھائیں.دنیا نے ایک نئے اندازہ فکر کے ساتھ عوامی جذبات اور جوشوں کی تسخیر ہوتی ہوئی دیکھی.اس موقع پر ایک اور پہلو آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کا یہ سامنے آیا کہ ایسے وقت میں جبکہ جماعت شدید اقتصادی بحران کا شکار تھی آپ اس پر مزید مالی بوجھ ڈالنے سے نہ ہچکچائے بلکہ پے در پے ایسی تحریکات کیں جن کا پورا ہونا بظاہر محال دکھائی دیتا تھا.کارزار شدھی ص۴۷ اه کارزار شدهی من

Page 330

۳۲۵ وہ جماعت جو اپنے کارکنوں کی ماہانہ تنخواہ دینے کی بھی طاقت نہ رکھتی تھی صرف اس کی مستورات ہی سے پچاس ہزار روپے کی گرانقدر رفتم کا مطالبہ کرنا اور بغیر کسی انتظار کے فورا بعد ہی مزید پچاس ہزار روپے کی ایک اور تحریک جاری کر دنیا یقینا بہت بڑی ہمت کا کام تھا بظاہر تو اس کا نتیجہ یہ نکلنا چاہیئے تھا کہ جماعت ان مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام رہے بلکہ آئندہ چندوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرے.لیکن واقعہ نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا.بعد کے حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ جماعت کے مالی نظام کی بنیادیں در اصل اسی دور میں مضبوط اور مستحکم ہوئیں.اور اسی بحران میں ان دونوں تحریکات کے نتیجہ میں اور انہی کی برکت سے جماعت میں مالی قربانی کی صلاحیتیں پوری طرح بیدار ہوئیں.نئی اُمنگیں اُبھریں اور حوصلوں کو نئی وسعتیں عطا ہوئیں.اور جماعت من حیث المجموع مالی قربانی کے ایک ایسے بلند معیار پر قائم ہو گئی کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے مبارک دور کے سوا دنیا کے پردے پر اس کی کوئی دوسری مثال نظر نہ آئے گی.خلاصہ کلام یہ کہ ۱۹۲۳ء ہی دراصل وہ سال ہے جبکہ ملکانہ کے جہاد اور چندہ مسجد بوبین کی تحریکات کی برکت سے جماعت احمدیہ پہلی مرتبہ مالی لحاظ سے مستحکم ہوئی اور اس کی ایسی کایا پلٹ گئی کہ گویا منصہ شہود پر ایک نئی جماعت اُبھری ہے :

Page 331

۳۲۶ تحریک شد بھی اور اس کا پیشگوئی مصلح موعود کے ساتھ ایک خاص تعلق شدمی کے معرکے میں اگرچہ دوسرے مسلمانوں نے بھی کسی حد تک کام کیا.لیکن جماعت احمدیہ کے لئے یہ مقابلہ ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا تھا.آریہ سماج ، ہندومت کے احیائے کو کی ایک ملک گیر اور طاقتور تحریک تھی جو خصوصاً اہل اسلام کے خلاف بڑے جارحانہ اور خوفناک عزائم رکھتی تھی.دوسری طرف مسلمانوں کی طرف سے اگر اس تحریک کے مقابلے کی کوئی طاقت رکھتا تھا تو وہ جماعت احمدیہ کے سوا کوئی نہ تھا.نہ کوئی اس حد تک منتظم تھا نہ کسی کو ایسا با خدا اور مدبر رہنما میتر تھا نہ کسی کو اپنے وسائل مجتمع کر کے بروئے کار لانے کی قدرت تھی.ز تنظیم تھی نہ مرکزیت نہ سلیقہ نہ کام کو مستقل مزاجی کے ساتھ چلانے کی صلاحیت تھی.پس جماعت احمدیہ ہی وہ مسلمان فرقہ تھا جسے اس دور میں فی الحقیقت تمام عالم اسلام کی نمائندگی کا موقع ملا.اور ہر میدان مقابلہ میں اس نے اپنے دشمن کو شکست پر شکست دی.یہاں تک کہ ناکام اور خائب و خاسر ہو کر اسے میدان مقابلہ سے فرار کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا.یہ سب کچھ ہوا لیکن کسی کا خیال اس طرف نہ گیا کہ دراصل یہ اسی مقابلہ کی ایک نئی شکل ہے جو ایک لمبا عرصہ پہلے حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السّلام اور آرید الم رہنما پنڈت لیکھرام کے مابین ہوا تھا.اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ لیکھرام بڑی تعقی کے ساتھ جس موجود بچے کے خلاف ایک منحوس پیش گوئی کر رہا ہے خود اس کی اپنی قوم ہی ایک دن اس کی برتری اور عظمت کا ڈھنڈورا پیٹے گی ؟ اس وقت جب لیکھرام یا اعلان کہ رہا تھا کہ آریہ سماج کے خدا نے اسے مطلع کیا ہے کہ اگر یہ بچہ پیدا ہو بھی گیا تب بھی تین سال کے اندر اندر اس کا نام ونشان مٹا دیا جائے گا.قادیان سے باہر اس کا شہرت پانا تو درکنار خود قادیان میں بھی اس کے نام سے کوئی آشنا نہ رہے گا.کون کہہ سکتا تھا کہ وہی بچہ ایک دن آریہ سماج کے مقابلے پر قرآن کی تلوار ہے کہ اس شان کے ساتھ

Page 332

نکلے گا.کہ ہر طرفت اس کے نام کی دھوم مچ جائے گی.اور غیر تو غیر خود آریوں کو اس بات کا بر ملا اقرار کرنا پڑے گا کہ اس عظیم رہنما کی قیادت میں تحریک احمدیت آریہ سماج کے لئے ایک انتہائی مہلک خطرہ کی حیثیت رکھتی ہے.کون اس وقت یہ کہہ سکتا تھا کہ جس بیتے کے متعلق یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ خود اس کے اپنے گاؤں میں بھی اس کے نام سے کوئی انف نہیں رہے گا.وہ دن دور نہیں کہ وہ صرف ایک گاؤں یا ضلع یا صوبہ میں ہی نہیں بلکہ تمام بر صغیر ہندوستان میں شہرت پائے گا.اور اس پیشگوئی کرنے والے کے متبعین ہی خود اس شہرت کا ذریعہ بنائے جائیں گے.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا.کہ اگر چهہ ہندوستان کے مسلمانوں میں تو حضرت مرزا محمود احمد کا ر زاریش تھی سے پہلے بھی شناس تھے لیکن ہندوستان میں بسنے والے ہندوؤں کی اکثریت آپ کے نام سے نا آشنا تھی بلکہ جماعت احمدیہ کے وجود سے بھی نا واقف تھی.تحریک شدھی ہی ملک گیر شہرت کا وہ پہلا زینہ ثابت ہوئی جسے طے کرتے ہوئے تمام ہندوستان میں آپ کا شہرہ بام عروج پر جا پہنچا.اور دشن بھی آپ کی عظیم قیادت کو خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو گیا.تحریک شدھی اس پہلو سے بھی ایک دلچسپ مطالعہ کا مواد پیش کرتی ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی ولادت سے قبل آریہ سماج اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مابین ایک فیصلہ کن مجادلہ ہوا.اس موقع پر بدقسمتی سے خود مسلمان علماء اور مشاہیر بھی احمدیت کے مقابل پہ آریہ سماج کا ساتھ دے رہے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ سلام نے فرنہ ند موعود کی پیشگوئی فرمائی تو آریوں کی طرف سے اس شگوئی پر جب بھی کوئی بھیتی کسی جاتی مسلمان علماء آریوں کے ساتھ مل کہ آپ ہنستے اور چھینٹے اڑاتے.جب بھی لیکھرم کوئی تعلی کرتا تو قہقہوں کی آوازوں میں مسلمان علماء کی آواز میں نمایاں ہو کر سنائی دیتیں.جب بھی وہ آپ کی تکذیب میں اخبارات در سائل کے چہرے سیاہ کرتا.مسلمان صحافیوں کے قلم اس کی تائید میں رواں دواں نظر آتے.اور ہر ایسے موقع پر ہندوستان کی فضا میں آریوں کی طرف سے بھی اور مسلمانوں کی طرف سے بھی یہ شور بلند ہوتا کہ (نعوذ باللہ مرزا قادیانی کی پیش گوئی جھوٹی نکلی.لیکن اللہ تعالے کو کچھ اور ہی منظور تھا.اور ایک ایسا بھی وقت آنا تھا کہ خود اسی موعود بیٹے کے ہاتھوں تک اٹھا کر آریوں نے بھی بزبانِ حال یہ گواہی دینی تھی کہ لیکھرام اپنی ہر بات میں جھوٹا نکلا اور مرزا غلام احمد اپنے ہر قول

Page 333

۳۲۸ میں صادق و مصدوق ثابت ہوا.اور مسلمان را ہنماؤں نے بھی ! کھڑے ہو کر اصلان پر اعلان کرنا تھا کہ اسلام کا یہ بطل جلیل ہر میدان مقابلہ میں آریہ دشمن کو راست دے گیا.اور لیکھرام کے مذہب کی ذلت اور رسوائی اُسی بیٹے کے ہاتھوں ہوئی جس کے نابود ہونے کی حسرت لئے وہ اس دنیا سے کوچ کر گیا.اس مضمون پر قلم اٹھاتے ہوئے زمیندار اختبار نے اپنی ۲۴ جون ۱۹۲۳ئہ کی اشاعت نہیں لکھا:.جو حالات فتنہ ارتداد کے متعلق بذریعہ اخبارات علم میں آچکے ہیں ان سے صاف واضح ہے کہ مسلمانان جماعت احمدیہ السلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں.جوہ ایثار اور کمر بستگی نیک نیتی اور تو تھی علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر مہندوستان کے موجودہ زمانے میں بے مثال نہیں تو بے اندازہ عزت اور قدردانی کے قابل ضرور ہے.جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت کر کے دکھا دی.د زمیندار لاہور ۲۴ جون ۶۱۹۲۳ دبیان شیخ نیاز علی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہو) پھر ۲۹ جون ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں یہ اعتراف کیا کہ :- قادیانی احمدی اعلیٰ اختیار کا اظہار کر رہے ہیں.ان کافتریا ایک سو مبلغ امیر وفد کی سرکردگی میں مختلف دیہات میں مورچہ زن ہے.ان لوگوں نے نمایاں کام کیا ہے.جملہ مبلغین بغیر تنخواہ یا سفر خرچ کے کام کر رہے ہیں.ہم گو احمدی نہیں لیکن احمدیوں کے اعلیٰ کام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے.جس اعلیٰ ایثار کا ثبوت جماعت احمدیہ نے دیا ہے اس کا نمونہ سوائے متقدمین کے مشکل سے ملتا ہے.ان کا ہر ایک مبلغ غریب ہو یا امیر، بغیر مصارف سفر و طعام حاصل کئے میدان عمل میں گامزن ہے.شدید گرمی اور لوؤں میں وہ اپنے امیر کی اطاعت میں کام کر رہے ہیں یا سلہ ه زمیندارہ لاہور - ۲۹ جون ۱۹۳۲ -

Page 334

۳۳۹ اخبار مشرق "گورکھپور نے لکھا:.جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت بڑی ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ میں اشیار اور درد سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی کوشش کرتی ہے وہ اس زمانے میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی ہے چند دن بعد پھر اسی اخبار نے یہ اعترانِ حقیقت کیا کہا.جماعت احمدیہ کے امام و پیشوا کی لگاتا کہ تقریروں اور تحریروں کا اثر ان کے تابعین پر بہت گہرا پڑا.اور اس جہاد میں اس وقت سب سے آگے یہی فرقہ نظر آتا ہے.اور باوجود اس بات کے کہ احمدی فرقہ کے نزدیک اس گروہ نو مسلم کی تائید کی ضرورت نہ تھی.کیونکہ اس فرقے سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا.مگر اسلام کا نام لگا ہوا تھا اس لئے اس کی شرم سے امام جماعت احمدیہ کو جوش پیدا ہو گیا ہے.اور آپ کی بعض تقریریں دیکھ کر دل پر بہت ہیبت طاری ہوتی ہے.کہ ابھی خدا کے نام پر جان دینے والے موجود ہیں.اور اگر ہمارے علماء کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ جماعت احمدیہ اپنے عقائد کی تعلیم دے گی تو وہ اپنی متفقہ جماعت میں.......ایسا خلوص پیدا کر کے آگے بڑھیں کہ ستو کھائیں اور چنے چبائیں اور اسلام کو بچائیں.جماعت احمدیہ کے ارکان میں ہم یہ خلوص بیشتر دیکھتے ہیں.دیانت ، ایفاء عہد، اپنے امام کی اطاعت میں یہ حجامت فرد ہے.جناب مرزا صاحب اور ان کی جماعت کی عالی حوصلگی اور ایثار کی تعریف کے ساتھ ہم مسلمانوں کو ایسے ایثار کی غیرت دلاتے ہیں.دیانت اور امانت جو مسلمانوں کی امتیازی صفتیں تھیں آج وہ ان میں نمایاں ہیں.جماعت احمدیہ کی فیاضی اور ایثار کے ساتھ ان کی دیانت اور آمد و خرچ کے ابواب کی درستگی اور باقاعدگی سب سے زیادہ قابل ستائش ہے.اور یہی وجہ ہے کہ با وجود آمدن ے اخبار مشرق، گورکھپور ۵ ار تاریخ ۳

Page 335

کی کمی کے یہ لوگ بڑے بڑے کام کر رہے ہیں یا اے اسی طرح اخبار وکیل " امر تسر نے لکھا:- خوره احمدی جماعت کا طرز عمل اس بات میں نہایت قابل تعریف ہے جو با وجود چھیڑ چھاڑ کے محض اس خیال سے کہ اسلام کو چشم ریم سے محفوظ رکھا جائے ان خانہ جنگیوں کے انسداد کی طرف خود مسلمانوں کے لیڈروں کو توجہ دلاتے ہیں اور ہر طرح کام کرنے کو تیار ہیں....ہم علی وجہ البصیرت اعلان کرتے ہیں کہ قادیان کی احمدی جماعت بہترین کام کر رہی ہے رات مولوی ممتاز علی صاحب ایڈیٹر اخبار تہذیب النسواں لاہور نے لکھا:.میں نے سُنا ہے کہ میدان ارتداد میں ہر فرقہ اسلام نے تبلیغ کے لئے اپنے اپنے نمائندے بھیجے ہیں.مناسب جانا کہ میں جس گرو کے مبلغین کو زیادہ کامیاب دیکھوں ان میں سے ایک اپنے لئے منتخب کرلوں.تحقیقات سے معلوم ہوا کہ تبلیغ کے کام میں سب سے زیادہ کامیابی احمدی مبلغوں کو ہوئی ہے.اس لئے میں نے چاہا کہ اگر تہذیبی بہنوں کو اعتراض نہ ہو تو وہ ان میں سے کسی ایک مبلغ کا خرچ اپنے ذمہ لیں.مگر اسی اثناء میں ہمارے علماء نے اعلان شائع کیا کہ احمدی فرقہ کے لوگ سب کا فر ہیں.ان کا کفر ملکا نہ را چو تو کے کفر سے بھی زیادہ شدید ہے کہ سکے یہ تو مسلمان اخبارات کی شہادت تھی.ہندو اخبارات کے بعض اعترافات بھی پڑھنے کے لائق ہیں.اسلام کے دفاع میں کون سب سے بڑھ کر ان پر چوٹیں لگاتا رہا.یہ انی کا دل جانتا تھا.اور کس کے والد ان کے سینے چھلنی کرتے رہے.یہ بھی رہی بہتر بیان کر سکتے تھے.لیجئے سنئے :- دیو سماجی اخبار جبیون نست لاہور نے لکھا:.ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کی تحریک کو روکنے اور ملکانوں میں ه اخبار مشرق گورکھپور ۲۹ / مارچ ۱۹۲۳ - ۵۲ اخبار وکیل امرت سر سرمئی ۱۹۲۳ سے رسالہ تہذیب النسوان " لاہور ہر مئی ۱۹۷

Page 336

۳۳۱ " اسلامی مت کا پرچار کرنے کے لئے احمدی صاحبان خاص جوش کا اظہار کر رہے ہیں.چند ہفتے ہوئے قادیانی فرقہ کے لیڈر مرزا محمود احمد صاحب نے ڈیڑھ سو ایسے کام کرنے والوں کے لئے اپیل کی تھی جو تین ماہ کے لئے ملکانوں میں جاکر مفت کام کرنے کے لئے تیار ہوں جو اپنا اور اپنے اہل وعیال کا وہاں کے کرایہ وغیرہ کا کل خرچہ بردات کر سکیں.اور انتظام میں میں لیڈر کے ماتحت جس کام پر انہیں لگایا جاوے اسے وہ خوشی خوشی کرنے کے لئے تیار ہوں.بیان کیا جاتا ہے کہ اس اپیل پر چند ہفتوں کے اندر چار سو سے زیادہ درخواستیں ان شرائط پر کام کرنے کے لئے موصول ہو چکی ہیں.اور تین پارٹیوں میں تو نے احمدی صاحبان آگرہ کے علاقہ میں پہنچے چکے ہیں اور بہت سرگرمی سے ملکانوں میں اپنا پرچار کر رہے ہیں اس نئے علاقہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے ان میں سے بعض نے جن میں گریجویٹ نوجوان بھی شامل تھے اپنے بستر کندھوں پر رکھ کر اور تیز دھوپ میں پیدل سفر کر کے سارے علاقہ کا دورہ کیا ہے.اپنے مت کے پر چار کے لئے ان کا جوش اور ایثار تابل تعریف ہے.اسہ آریہ تیریکا بریلی نے یکم اپریل 19ء کی اشاعت میں لکھا :- اس وقت ملکا نے راجپوتوں کو.........اپنی پرانی راجپوتوں کی برادری میں جانے سے باز رکھنے کے لئے دیعنی مرتد ہونے سے بچانے کے لئے.ناقل ) جتنی اسلامی انجمنیں اور جماعتیں کام کر رہی ہیں ان میں احمدیہ جماعت قادیان کی سرگرمی اور کوشش فی الواقع قابل داد ہے" ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکیں " کے مصنف نے اعتراف کیا :- آریہ سماج نے شدھی یعنی پاک کرنے کا طریقہ جاری کیا.ایسا کرنے سے آریہ سماج کا مسلمانوں کے ایک تبلیغی گروہ یعینی قادیانی فرقہ ہے لے اخبار جیون نت " لاہور ۲۴ / اپریل ۱۹۲۳ -

Page 337

.......تصادم ہو گیا.آریہ سماج کہتی تھی کہ دید الہامی ہے اور سب سے پہلا آسمانی صحیفہ ہے اور مکمل گیان ہے.قادیانی کہنے تھے کہ قرآن شریف خدا کا کلام ہے اور حضرت محمد خاتم النبین میں اس کد و کاوش کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی عیسائی یا مسلمان اب مذہب کی خاطر آریہ سماج میں داخل نہیں ہوتا یہ ہے کار زاریش تھی کے اثرات اتنے گرے اور دور رس تھے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کا کی عظیم قیادت کا رعب آریہ سماج کے راہنماؤں کے دلوں پر بیٹھ گیا.شتر قعی کی تحریک چلی اور گزر گئی لیکن سالہا سال تک آریہ راہنماؤں کے دلوں میں اس تلخ اور ہولناک تجربے کی یادیں باقی رہیں جو کار زاریش تھی میں جماعت احمدیہ سے ٹکر لینے کے نتیجے میں انہیں حاصل ہوا تھا.چنانچہ چار سال کے بعد اخبار تیج دہلی نے یہ اعتراف کیا کہ :." میرے خیال میں تمام دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ٹھوس موثر اور مسلسل کام کرنے والی جماعت، جماعت احمدیہ ہے.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم سب سے زیادہ اس کی طرف سے غافل ہیں اور آج تک ہم نے اس خوفناک جماعت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے پھر اسی اخبار نے مزید لکھا:.آج سے تمہیں چالیس سال پہلے پیچھے ہٹ جائیے جبکہ یہ جماعت اپنی ابتدائی حالت میں تھی.اور دیکھئے اس زمانے میں ہندو اور مسلمان دونوں اس جماعت کو کس قدر حقیر اور بے حقیقت سمجھتے تھے ہندو تو ایک طرف رہے خود مسلمانوں نے ہمیشہ اس کا مذاق اُڑایا اور اس پر لعنت اور علامت کے تیر برسائے.اس جماعت نے.اپنے ابتدائی حالات میں جن جن کاموں کے کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا آج ان میں سے اکثر انجام کو پہنچ چکے ہیں.اس زمانہ میں جب احمدیوں نے ان کاموں کی ابتداء کی تھی ، ان کو پاگل سمجھا جاتا تھا اور ان کی حماقت پر ہنسی اڑائی جاتی تھی.مگر واقعات یہ کہ رہے ے ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکین قلت -۴۴ - اخبار تیج دہلی ۲۵ / جولائی انہ.

Page 338

PPF ہیں کہ ان پر منفنسی اُڑانے والے خود بے عقل اور احمق تھے اس بارے میں عیسائی مشنریوں نے نہایت عقلمندی سے کام لیا.احمدیوں نے ابھی یورپ اور امریکہ میں قدم رکھا ہی تھا کہ تمام پادری ان کے مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے یہ ہے ضمناً یہاں یہ امر بھی ذکر کے لائق ہے کہ ایسی جماعت جو تن تنہا عیسائی دنیا پر بڑی جرات اور دلیری سے اور مومنانہ شان کے ساتھ حملہ آور ہے اور پادری اس کے مقابلہ کے لئے صف آرا ہو رہے ہیں ایسی جماعت پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ عیسائی حکومتوں کا خود کاشتہ پودا ہے.حق پوششی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئیے.یا بعضوں کے نزدیک شاید اس کی کوئی حد نہیں !! تحریک شدھی کے چھ سال بعد جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو ہندو ازم کے لئے ایک شدید خطرہ تصور کرتے ہوئے تماشہ کرشن نے یوں خطرے کا الارم بجایا.مشکل یہ ہے کہ ہندوؤں کو اپنے ہی ہموطنوں کی ایک جماعت کی طرف سے خطرہ ہے اور وہ خطرہ اتنا عظیم ہے کہ اس کے نتیجہ کے طور پر آریہ جاتی صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے.وہ خطرہ ہے تنظیم و تبلیغ کا مسلمانوں کی طرف سے یہ کام اس تیزی سے ہو رہا ہے کہ ہندوؤں کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں.ان کی تعداد سال بہ سال کم ہو رہی ہے.اگر اسے کسی طرح روکا نہ گیا تو ایک وقت ایسا آسکتا ہے جب کہ آریہ دھرم کا کوئی بھی نام لیوا نہ رہے : غور فرمائیے ! چند ہی سال پہلے آریہ سماج کا کیا دعوی تھا اور کیا طنطنہ تھا مسلمانوں کو نہتا اور بے بس سمجھ کر وہ اپنی پوری قوت سے ان پر حملہ آور تھی.اور اپنی طاقت کے نشہ میں بدمست ہو کر یہ اعلان کر رہی تھی :- کام شدھی کا کبھی بند نہ ہونے پائے ہندو ! تم میں ہے اگر جذبہ ایمان باقی بھاگ سے قوموں کو یہ وقت ملا کرتے ہیں رہ نہ جائے کوئی دنیا میں مسلماں باقی لیکن جونہی جماعت احمدیہ نے میدان جہاد میں قدم رکھا آریہ سماج نے اس کو اپنی ہستی ه اخبار تیج دہلی ۲۵ جولائی ۱۹۲۶ء سے پرتاپ لاہور ۲۱ اکتوبر ۶۱۹۲۹

Page 339

کے لئے خطرہ قرار دیا.اور خطرہ بھی کوئی معمولی خطرہ نہیں بلکہ اتنا عظیم کہ اس کے باشعور رہنما یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے کہ :.اس کے نتیجہ کے طور پر آریہ جاتی صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے" کس قدر حیرت انگیز ہے یہ موازنہ کہ جس بچے کے صفر ہستی سے مٹ جانے کی خبر سکھ رام نے دی وہی بچہ اس کی قوم کے لئے ایک ایسا عظیم خطرہ بن گیا کہ ساری کی ساری قوم اس کے نتیجہ میں صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے.کیا اس اعترافِ حق میں اہل بصیرت کے لئے عبرت کا کوئی سامان نہیں ؟ کیا آریہ سماج کے اس اعتراف شکست میں ان لوگوں کے لئے کوئی نشان نہیں جو غور و فکر کی عادت رکھتے ہیں ؟

Page 340

اسلامی معاشر میں غور کو اسکا مقام دلوانے کی جد جہد انسانی تمدن اور سوسائٹی میں عورت کا مقام ایک ایسا اہم سوالی ہے جو دن بدن زیادہ سنجیدگی اور اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اور بعض ترقی یافتہ ملکوں میں توسیع پیمانے پر عورتوں کی آزادی کی مہم کے نام پر بڑی مضبوط تنظیمیں قائم ہیں.کہا جاتا ہے کہ انسانی تہذیب کے آغاز ہی سے عورت مظلوم رہی ہے اور کسی نہ کسی حیثیت سے مرد نے ہمیشہ اُسے غلام بنائے رکھا ہے.لا مذہب طبقہ کی طرف سے یہ وسوسہ بھی پیدا کیا جاتا ہے کہ مذہب نے بیجا طور پر مرد کے ہاتھ مضبوط کئے اور عورت کو مزید غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا.اس خیال کے حامی اس مفروضے کی بناء پر یہ نظر یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ در اصل عورت کے بارہ میں مذہبی تعلیم خدا کی طرف سے نہیں بلکہ محض عورت پر اپنی حکومت مستحکم کرنے کے لئے جاہر مردوں کی ایجا د ہے.ان نظریات اور خیالات کے پیش نظر اسلام میں عورت کے صحیح مقام کا مسئلہ اس زمانہ میں غیر معمولی حیثیت اختیار کر چکا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ پر اسلامی تعلیمات کے صحیح نقوش اُجاگر کرنے کی دُہری ذمہ داری عائد ہوتی تھی.بحیثیت امام جماعت احمدیہ اور خلیفہ آکسیج کے یہ ایک مستقل فرض منصبی تھا جو دوسرے خلفاء راشدین کی طرح آپ کو بھی سونیا گیا.اس کے علاوہ بحیثیت مصلح موعود دنیا پر اسلامی تعلیمات کی برتری اور کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر کرنا بھی آپ کا ایک اہم مشن تھا.اس لحاظ سے اسلام میں عورت کے صحیح مقام کو واضح کرنا اور اسلامی معاشرہ میں اس کی عملی تصویر اتاریتے کا کام آپ کے اولین فرائض میں داخل تھا.جب ہم تفصیلاً آپ کی زندگی کے حالا کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس فریضہ کو بھی دیگر فرائض کی طرح نہایت احس رنگ میں انجام دیا.اسلامی سوسائٹی میں عورت کے صحیح مقام ، حقوق اور فرائض کے مسئلہ پر آپ نے اپنی مختلف تقاریر اور تحریرات میں ہر پہلو سے روشنی ڈالی ہے اور محض

Page 341

نظریات کی بحث پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ عملاً احمدی مستورات کو اس راہ عمل پر گامزن بھی کر دیا جو اسلامی تعلیم کی روشنی میں آپ نے ان کے لئے تجویز کی.آپ آزادی کے نئے رجحانات اور اس ضمن میں نئی تحریکات سے متاثر ہوئے بغیر محض اس امر کی لگن رکھتے تھے کہ اسلام نے عورت کا جو مقام منفرد فرمایا ہے اس کو اُجاگر کیا جائے آپ یہ یقین رکھتے تھے کہ نہ صرف عورت کی حقیقی خوشی اور طمانیت قلب کا مداراس تعلیم پر عمل پیرا ہونے میں ہے بلکہ بحیثیت مجموعی انسان کی خوشیوں اور مسرتوں کا انحصار بھی اِس امر پر ہے کہ انسانی تمدن میں عورت وہ کردار ادا کرے جس کا قرآن کریم اس سے تقاضا کرتا ہے.اس مسئلہ میں آپ کی طرز فکر اور طرز عمل ان دوسرے مذہبی اور سیاسی پہناؤں سے بالکل مختلف تھی جو یا تو مغربیت سے مغلوب ہو کر عورت کی بے سروپا آزادی کے نعرے بلند کرنے لگے تھے اور یا قدامت پسندی کی پناہ گاہوں میں قلعہ بند ہو کر مذہب کے نام پر عورت کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنے پر مصر تھے.آپ نے جب اس بارے میں لب کشائی کی تو اسلامی ضابطۂ اخلاق اور مذہبی قدروں کی حدود کے اندر رہتے ہوئے عورت کے حقوق و فرائض کو متعین کیا.آپ نے مغربی تعلیم کا رعب قبول نہیں کیا.جدید مغربی نظریات کے مقابل پر آپ کا اندازہ فکر تمر نہ آئے ان کے گھر تک رعب وقبال“ کی تصویر تھا.آپ نے جب بھی مغربی رجحانات کے مقابل پر اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی اس میں کہیں بھی معذرت کا رنگ نظر نہیں آتا بلکہ ایک نمایاں احساس فوقیت پایا جاتا ہے اور آپ ہمیشہ اس یقین اور ایمان سے پر نظر آتے ہیں کہ جدید مغربی رحجانا آزادی کے نام پر عورت کے حقوق کی سجالی سے زیادہ اس کی ہلاکت کے سامان پیدا کر رہے ہیں.دوسری طرف مشرقی تصورات اور قدامت پسند رحجانات سے بھی آپ ہرگز متاثر نظر نہیں آتے.مشرقی تصورات کو آپ نے مذہب کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا اور جہاں جہاں بھی یہ دیکھا کہ قومی اور ملکی رواج کے نتیجہ میں عورت کے وه حقوق تلف کئے جارہے ہیں جو نشر آن اُسے دیتا ہے تو بڑی مجرات اور پامردی نے ساتھ اُن کی بحالی کی کوشش کی.

Page 342

آپ نے عورت کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی.چنانچہ اس موضوع پر آپ کے ارشادات میں ایک دلکش توازن نظر آتا ہے جو اسلامی تعلیم کے مزاج کے عین مطابق ہے.آپ نے احمدی مستورات کو ایک مثبت پروگرام دیا.تاکہ اُن کی توجہات کا رخ تعمیری مشاغل کی طرف پھر جائے اور اُنھیں یہ احساس دلایا کہ وہ معاشرہ کا ایک اور لازمی جزو ہیں اور قومی تعمیر کے عظیم منصوبوں میں اُن کا ایک مخصوص مقام ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.مشرقی عورت قومی کاموں میں حصہ نہ لینے کی بناء پر احساس محرومی اور احساس کمتری کا شکار ہو چکی تھی جس کے نتیجہ میں بہت سے غلط رجحانات پیدا ہو رہے تھے.اور آزادی کا مطلب محض یہ لیا جانے لگا تھا کہ ہر قسم کی پابندیوں سے بغاوت کرتے ہوئے عورت باہر گلیوں اور بازاروں میں نکل آئے.اور مردوں کے شانہ بشانہ ہر وہ کام کرنے لگے جس سے قبل انہیں وہ محروم کی جارہی تھی.اس بے محابا اور غیر محدد آزادی کے نتیجہ میں بہت سی معاشی اور تمدنی برائیاں جنم لینے لگی تھیں اور مغربی تہذیری کا وہ پہلو سوسائٹی کے ایک ایسے حصہ پر غالب آ رہا تھا جس میں آزاد می اور بلئے ہ روی ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.اس صورت حال کا مقابلہ عملاً صرف اسی طریق سے ہو سکتا تھا کہ عورتوں میں تعمیری کاموں کا ذوق پیدا کیا جائے.اور انہیں اس دائمی اور سیچی لذت سے آشنا کیا جائے جو محض نیکی اور خدمت کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے.پس آپ ہمیشہ عورتوں کے لئے خدمت اور قربانی کی نئی راہیں متعین کرتے رہے اور اپنے پر جوش اور ولولہ خیز خطابات سے ان کے دلوں میں خدمت کی ایسی لگن پیدا کر دی جس کی نظیر اس زمانہ کی کسی دوسری تنظیم میں نظر نہیں آتی.آپ کی اس عظیم اور حکیمانہ رہنمائی کے نتیجہ میں احمدی مستورات نے میدان عمل میں ایسے ایسے کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے جو تاریخ احمدیت کے آسمان پر ہمیشہ روشن ستاری کی طرح چکتے رہیں گئے.احمدی عورت میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اس کا مقام محض گھر کی چار دیواری نہیں بلکہ اسلام اُسے قومی خدمت کے ہر میدان کی طرف بلاتا ہے

Page 343

مراسم سرا اور وہ محض مردوں کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں بنائی گئی بلکہ اگر وہ چاہے تو نیکی کی دوڑ میں مردوں کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے.ان تمام امور کو آپ نے کس طرح سر انجام دیا یہ ایک دلچسپ اور طویل حکایت ہے.جو آپ کے باون سالہ دور خلافت میں ورق ورق پر پھیلی ہوئی ہے.ہم کوشش کریں گے کہ حتی المقدور اختصار کے ساتھ آپ کے نظریات اور کوششوں کا ایک ایسا جامع مرقع پیش کر سکیں جس میں کوئی قابل ذکر امر نظر اندازہ نہ ہو.عورتوں کے حقوق کی حفاظت اسلامی سوسائٹی میں عورت کے حقوق کی حفاظت کے سلسلہ میں آپ نے ہمیشہ ہر جہت سے کوشش فرمائی اور کوئی پہلو نظر انداز نہ ہونے دیا.بدقسمتی سے ہندوستان کی قومی روایات کے نتیجہ میں مسلمان عورت اپنے بہت سے اسلامی حقوق سے محروم ہو چکی تھی اور بحیثیت بیوی بھی اس کے جذبات اور حقوق کو عموما گھروں میں پامال کیا جاتا تھا.چونکہ جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والے افراد شروع میں اسی سوسائٹی سے نکل کر آتے تھے ، اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو ان کی تربیت کرنے اور غلط رسوم سے آزاد کرانے میں غیر معمولی جدوجہد کرنی پڑی اور بار بار نصائح اور انتظامی اقدامات کے ذریعہ آپ نے اُنہیں عورت کے حقوق کی ادائیگی کی عادت ڈالی تاہم یہ مسئلہ آج بھی قابل توجہ ہے اور مسلسل کاوش کا محتاج ہے.عورت کے حقوق وراثت کی بحالی ہندوستانی معاشرہ کی رو سے عورت کو جائیداد کے ورثے سے عام طور پر محروم کر دیا جاتا تھا اور چونکہ مغربی روایات بھی اس رسم کو تقویت دے رہی تھیں.اس لئے اس پہلو سے جماعت کی تربیت پر آپ نے خاص زور دیا.چنانچہ آپ نے فرمایا.سلسلہ کو قائم ہوئے پچاس سال ہوچکے ہیں.کیا ہماری جماعت کے تمام لوگ لڑکیوں کو ترکہ میں سے اُن کا حق دیتے ہیں ؟ ہماری جماعت میں اسی فیصدی پنجاب کے لوگ زمیندار ہیں جن کے

Page 344

۳۳۹ نمائندے اس وقت یہاں بیٹھے ہیں وہ اپنے آپ سے پوچھ لیں.کیا ان میں سے سب نے اپنی بہنوں کو ورثہ میں سے حصہ دیا.یہ کوئی ایسا حکم نہیں جس کے متعلق کسی قسم کا اختلاف ہو یا کسی اجتہاد کی ضرورت ہو.سب فرقوں کے لوگ اسے درست تسلیم کرتے ہیں اور نسلاً بعد نسل اسے پہنچایا گیا ہے" د رپورٹ مجلس مشاورت ۹۳۷ه مث ) پھر اس معاملہ میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ پیش کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: حضور (حضرت مرزا غلام احمد سیح موعود علیہ السّلام نافل ) کی وفات کے بعد اپنے خاندان کے لحاظ سے ہم نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بہنوں کو حصہ دیا اور والدہ صاحبہ کا حصہ نکالا.اس وقت ایک سرکاری افسر آیا جس نے آکر کہا کہ آپ قانون کی رو سے ایسا نہیں کر سکتے.میں نے اُسے کہا.اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو ہم ایسی جائداد اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار نہیں اور اسے لعنت سمجھتے ہیں؟ درپورٹ مجلس مشاورت ۳۶ داشته بعد ازاں ایک اور مجلس مشاورت پر نظارت اصلاح و ارشاد کو اس طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا :- اصلاح و ارشاد کے محکمہ کا فرض ہے کہ وہ جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی تحریک کرتا رہے کہ وہ اپنی جائیداد سے شریعیت کے مطابق اپنی لڑکیوں کو حصہ دیا کریں." زمینداروں کو میں نے ایک دفعہ نصیحت کی تھی کہ وہ اپنی لڑکیوں کو اور ہولوں کو اپنی جائیداد سے حصہ دیا کریں اور مجھے یاد ہے کہ اس وقت بعض دوستوں نے اس پر عمل بھی کیا تھا مگر پھر وہ بھول گئے انہوں نے سمجھا کہ شاید خدا تعالیٰ کی خوشنودی صرف ایک سال کیلئے ہی ضروری ہے پھر اس کی ضرورت نہیں.در پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ ۶ ۲۵۰ تا حت

Page 345

۳۴۰ بیاه شادی میں عورت کی منامندی کا حق بیاہ شادی کے معاملہ میں بھی عموماً مسلمانوں میں غیر اسلامی رسم و رواج راہ پاگئے تھے.لڑکی کی رضا مندی حاصل کرنا تو ایک دُور کی بات تھی بعض اوقات لڑکیوں سے پوچھا تک نہ جاتا تھا بلکہ ماں باپ اپنی مرضی سے جہاں چاہتے اپنی اولاد کی شادیاں رچاتے تھے.آپ نے اس دستور کو بھی توڑ دیا اور جماعت میں یہ عادت ڈالی کہ لڑکوں ہی سے نہیں لڑکیوں سے بھی باقاعدہ اجازت حاصل کی جایا کرے اور اگر کوئی لڑکی نا پسند کرے تو اس کی مرضی کے خلاف شادی نہ کی جائے.ایسی صورتیں بھی بعض اوقات پیدا ہو جاتی ہیں کہ ماں باپ کسی ایک رشتے پر راضی ہوں لیکن لڑکی وہاں رضامند نہ ہو یا اس کے برعکس لڑکی کسی اور جگہ شادی کرنا چاہیے اور ماں باپ کو اس پر تسلی نہ ہو.ایسی صورت میں آپ نے اسلامی تعلیم کے مطابق یہ طریق جماعت میں رانج فرمایا کہ ماں بابہ کی طرح لڑکی کو بھی یہ حق ہوگا کہ وہ خلیفہ وقت یا قضاء کی طرف رجوع کرے.چنانچہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایسے اختلافات کا فیصلہ خلیفہ وقت کی صوابدید پہ چھوڑ دیا گیا اور خود آپ نے یا آپ کی نمائندگی میں قضاء نے دونوں طرف کے حالات پر غور کرنے کے بعد لڑکی اور خاندان کی بہبود کو یہ نظر رکھ کر فیصلہ دیا.طلاق کی حوصد شکنی بایں ہمہ آپ ہرگز یہ پسند نہ کرتے تھے کہ اس جماعت میں طلاق کا رواج عام ہو جس میں شادی سے قبل ہر قسم کی چھان بین اور رضامندی حاصل کرنے کے متعلق الیدا معقول اور سلجھا ہوا طریق رائج ہو اور فریقین کو شادی سے قبل بشرح صدر فیصلہ کرنے کے مواقع حاصل ہوں.چنانچہ آپ نے 1920ء کی مجلس شوری میں عجبات کو اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حسب ذیل الفاظ میں پیر زور نصیحت فرمائی : شادی کے وقت کوئی شخص تھیں مجبور نہیں کرتا کہ تم ضرور فلاں عورت سے شادی کہ وہ شریعیت نے تمھیں یہ حق دیا ہے کہ شادی سے قبل تم لڑکی کو دیکھ لو اور اس کے متعلق تحقیقات کر لو.اور تم

Page 346

اسم ۳ عورت کو بھی شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ وہ خاوند کو دیکھ لے اور اس کے متعلق تحقیقات کرلے.لیکن جب تعلق قائم ہو جاتا ہے تو تمھیں ایک دوسرے کی ایسی باتیں برداشت کرنی پڑیں گی.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے بعض افراد بڑی آزادی کے ساتھ اس تعلق کو توڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.یہ کوئی انصاف ہے ؟ یہ تو عورت کو ذلیل کرنے کے مترادف ہے.قرآن کریم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لوگوں کو توجہ دلائی ہے.کہ تم عورتوں کے ساتھ لیٹتے ہو اور پھر ان کے حقوق ادا نہیں کرتے یہ کتنی قابل شرم بات ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم مجبور ہو کر کسی عورت کو اپنے ازدواجی تعلق سے علیحدہ بھی کرنا چاہو تو اسے احسان کے ساتھ علیحدہ کرو.لیکن یہاں ایک مقدمہ دکھا دو جہاں خاوند یہ کہتا ہو کہ یکں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں.اور سر منظور کر وہ شہر اُسے دیتا ہوں.......اگر مجبور ہو کر بیوی ضلع بھی کرا لے تو قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے خاوند سے مهر دلائے کیونکہ خاوند طلاق دینا چاہتا ہے لیکن مہر دینے پر راضی نہیں تھا.اس لئے اس نے بیوی کو ضلع لینے پر مجبور کر دیا قاضی کا یہ حق ہے کہ وہ اس قسم کے تخلع کو طلاق قرار دے کر بیوی کو اس کا مہر دلائے " " درپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۳ مسی عورتوں کی تربیت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو مستورات کی تربیت اور ترقی کا خاص طور پر خیال رہتا تھا.یہاں تک کہ منصب خلافت پر فائز ہونے سے قبل بھی آپ حتی المقدور اس امر میں کوشاں رہے کہ احمدی مستورات اپنے مقام کو سمجھیں اور علم و فضل میں ہر بہت سے ترقی کریں.چنانچہ لا الہ میں الفضل کے سب سے پہلے پرچے میں آپ نے خصوصیت

Page 347

کے ساتھ مستورات کے لئے دو الگ کا لم مقرر فرمائے اور ساتھ ہی اس احساس کا بھی ذکر کیا کہ اگرچہ دو کالم بہت کم ہیں لیکن عورتوں میں علمی دلچسپی پیدا کرنے کے لئے مفید ثابت ہوں گے.عورتوں کا اولین منتقام " مشرقی سوسائٹی میں یہ مقولہ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ عورت کا اولین مقام گھر کی چار دیواری ہے.اس منقولہ میں جو لفظ مقام آتا ہے اگر تو اس کے معنی حقیقت میں مقام ہی لیا جائے.جس میں فرض منصبی کے علاوہ عزت و احترام کے معنی بھی پائے جاتے ہیں تو ہر گز یہ مقولہ کوئی قابلِ اعتراض مقولہ نہیں بلکہ قوموں کی تعمیر اور ترقی کے لئے حکمت اور معرفت سے لبریز ایک بیش بہا اصول پیش کرتا ہے لیکن افسوس کہ مشرقی سوسائٹی میں مقام " کے معنے زیادہ تر اسی قدر لئے جاتے ہیں کہ گویا گھر کی چار دیواری عورت کا قید خانہ ہے جہاں ایک جابر خاوند کے استبداد کے تحت لونڈیوں کی طرح زندگی بسر کرنا ہی عورت کا مقام ہے.لیکن حضرت مصلح موعود کے ننزدیک مقام کے یہ معنی نہ تھے بلکہ اس سے آپ عورت کی اہم اور وسیع تر قومی نوعیت کی ذمہ داریاں مراد لیتے تھے جن کی ادائیگی کی صورت میں عورت ایک نتان بلند اور رفیع الشان مقام کو پالیتی ہے.آپ کے نزدیک عورت کا اصل مقام محض بیچتے پیدا کرنا اور پالتا ہی نہیں بلکہ بچوں کے کردار کی تعمیر ہے.نئی نسلوں کی استعدادوں کی بہترین نشو و نما نیں بھر پور حصہ لیتا ہے ان کی ذہنی اور فکری اور عملی صلاحیتوں کو سین سائنچوں میں ڈھالنا ہے گویا اسلامی سوسائٹی میں عورت کو ویسا ہی کردار ادا کرنا ہے جیسے ایک انجینئر ایک آرکٹیکٹ کے بنائے ہوئے نقشے کو عملی جامہ پہنانے میں ادا کرتا ہے.قرآن وسنت نے انسانی سوسائٹی کا جو حسین اور دلکش نقشہ پیش کیا ہے اس کے مطابق آپ اگلی نسلوں کی تعمیر وتشکیل کی اولین ذمہ دار عورت ہی کو سمجھتے تھے خلافت پر فائز ہونے سے قبل بھی آپ کو اس امر کا بہت خیال رہتا تھا.چنانچہ کیفیت مدير الفضل آپ نے اس موضوع پر جو کچھ لکھا اس میں سے چند اقتباسات صدید قارئین کئے جاتے ہیں :-

Page 348

اس وقت مسلمانوں کی حالت کیوں خراب ہے وہ دن بدن دیتا کو کیوں چھوڑ رہے ہیں اس لئے کہ جب وہ بچہ تھے تو ماؤں سے انہیں دین کی تعلیم نہیں ملی اور جب مدارس میں گئے تو پھر تو د برت کی صدائیں کان میں آنے لگیں......اور پھر فرماتے ہیں :.رالفضل و ارجون ۱۹۱۳ علا) جو ماں اپنے بچے کو صبح کے وقت نہیں اُٹھانے دیتی اور اس کی نیند کو نماز سے افضل سمجھتی ہے.جو روزہ سے اُسے اس لئے رکھتی.ہے کہ لڑکے کو تکلیف نہ ہو.جو اپنے بچے کے کان میں قرآن شریف کی مبارک آواز کبھی نہیں پہنچاتی.جس کی زبان پر اسلام کا نام بھی کبھی نہیں آتا.اگر اس کی اولاد دین سے بے بہرہ رہے تو اس میں کیا تعجب ہے.اس پہ حیرت کی کیا وجہ ہے.بلکہ اس کا بچہ دیندار ہو تو ایک غیر معمولی بات ہے " لٹھ الفضل ۱۹ جون ۱۹۱۳ء) لیکن اس خستہ حالت کی اصل ذمہ دار عورت نہیں تھی بلکہ اس صورتِ حال کے اصل ذمہ دار مرد تھے.جنہوں نے مناسب رنگ میں اپنی عورتوں کی طرف توجہ کرنے کی بجائے ایک غیر اسلامی جابرانہ رویہ اختیار کئے رکھا.اس ضمن میں آپ نے فرمایا :- " مرد عورتوں کی غلطی پر اللہ سے کہ مارنے پر تو تیار ہو جاتے ہیں لیکن ان کی اصلاح کی فکر بالکل نہیں کرتے حالانکہ ان کی اصلاح کی ذمہ داری خدا نے ان پر رکھی تھی اور اب عورتوں کی گری ہوئی حالت اور نئی نسلوں کی دین سے بے تعلقی کے یہی ذمہ اللہ ر الفضل 19 جون ۱۹۱۳) ہیں.عورت کا منصہ کب آپکے اپنے الفاظ میں سلسلہ میں جب آپ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو پہلے جلسہ سالانہ کے موقع پر

Page 349

مستورات سے جو آپ نے خطاب فرمایا وہ عورت کے مقام کے بارہ میں آپ کے نظریات عورت کی ترقی کے سلسلہ میں آپ کی دلی تڑپ اور تمناؤں کا آئینہ دار ہے آپ نے فرمایا :- " عورتوں نے اپنے آپ کو خود ہی ذلیل اور کم درجہ سمجھ لیا ہے.ورنہ اللہ تعالے نے تو ان کے بھی آدمی پیدا کیا تھا.....کان دل، زبان جو علم کے حصول کے لئے ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی دیئے ہیں جیسے مردوں کو.انہوں نے خود ہی سمجھ رکھا ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتیں.کم علم ہیں.ناقص العقل ہیں یہ خیالات غلط ہیں.تم اپنی اولادوں پر رحم کرد نہیں دین اسلام سکھاؤ.کیونکہ پہلا مدرسہ والدہ کی گود ہے.اپنے خاوندوں.اپنے بھائیوں.اپنے بیٹوں کو مجبور کرو کہ وہ تمھیں اللہ کی کتاب سکھائیں.اسلام کے لئے دل میں درد پیدا کرو.....کیا تم سکھ کی نیند سوڈگی اگر تمہارا کوئی بچہ پیڑا تڑپ رہا ہو.اسی طرح اسلام پیاسا بھو کا تڑپتا ہے.اس کی خبر گیری کرد....تم خدا کے لئے اپنے اندر اسلام کے لئے درد پیدا کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت عورتوں نے اپنی نمایاں کامیابیاں حاصل کی تھیں کہ بڑے بڑے مرد ان پورفخر کرتے تھے.قریباً نصف احادیث کی بیان کرنے والی عور نہیں ہی ہیں.سو اگر تم کرنے لگو تو بڑے بڑے عظیم الشان کام اب بھی کر سکتی ہو یا ( الفضل ۳ جنوری شاید حتہ کالم ہیں) پھر ایک اور موقع پر فرمایا :- یا د رکھو کہ کوئی دین ترقی نہیں کر سکتا جب کہ عورتیں ترقی نہ کریں پیپس اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ تم بھی ترقی کرو.عورتیں کمرہ کی چار دیواروں میں سے دو دیواریں ہیں اگر کمرہ کی دو دیواریں گر جائیں تو کیا اس مرہ کی چھت ٹھہر سکتی ہے" د الفضل ۲۲ جنوری ۴۱۹۲۳

Page 350

۳۴۵ مساوا کے نتیجہ میں عاید ہو نیوالی ذمہ داریاں عورت اور مرد کے درمیان مساوات کے کیا معنے ہیں اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے عورتوں کو ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا جو اس نظریۂ مساوات کے نتیجہ میں ان پر عاید ہوتی ہیں.آپ نے فرمایا :- را دین کے معاملہ میں مرد اور عورتیں دونوں یکساں جوابدہ ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ دین کی اشاعت میں دونوں حصہ نہیں اور جب تک دونوں حصہ نہ لیں اس وقت تک خدا تعالے کی پوری برکت ان پر نازل نہیں ہو سکتی.پھر بھی کہتا ہوں مرد مردوں میں اور عورتیں عورتوں میں تبلیغ دین کریں.وقت گزر رہا ہے.مگر کام جس رفتار سے ہونا چاہیئے اس سے نہیں ہو رہا......میں عورتیں اور مرد پہلے اپنی درستی کریں اور پھر دوسرے لوگوں تک دین کو پہنچائیں.والفضل ۱۵ار تاریخ ۶۱۹۲۰ ایک خطبہ جمعہ کے دوران آپ نے اس مضمون پر مزید روشنی ڈالی اور مغربی طرز کی آزادی کی مذمت کرتے ہوئے اسے اشاعت دین کی راہ میں روک قرار دیا.اور احمدی عورت کو اس ذمہ داری کی طرف متوجہ کیا جو اسلام اس پر عاید کرتا ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا: چند مہینوں سے میں عورہ کر رہا تھا کہ ہماری تبلیغ کے راستے ہیں بہت سی مشکلات نظر آرہی ہیں.ہماری اندرونی اور بیرونی تبلیغ بہت سست ہے.اس کی کیا وجہ ہے ؟ میں نے غور کر کے سمجھا کہ اس کی زیادہ تر وجہ عورتوں میں اس آزادی اور بے دینی کا پیدا ہوتا ہے جو ان میں مغرب کے اثر کی وجہ سے آگئی ہے ویسے تو اسلام نے بھی عورتوں کو آزادی دی ہے لیکن ان کی مغربی رنگ کی آزادی اُن کے احمدیت مسبول

Page 351

کرنے میں مانع ہے اور جب آزادی عورت کے احمدیت قبول کرنے میں مانع ہوتی ہے تو ماں کے جو اولاد پیدا ہوتی ہے اسے بھی وہ احمدیت کے قبول کرنے سے روکتی ہے.اس طرح وہ اپنے خاوند کو بھی احمدیت کے قبول کرنے سے روکے گی کیونکہ اگر وہ احمدیت کو قبول کرے تو اس کی آزادی میں فرق آجائے گا.غرض عورت میں ہماری تبلیغ میں روک بن رہی ہیں.......اس کا ایک ہی علاج ہو سکتا ہے وہ یہ کہ فور میں مبلغ نہیں اگر وہ عورتوں میں تبلیغ کریں گی تو ہمارے رستے سے یہ روک یقینا ہٹ جائے گی یہ ر خطبه تبعه ۱۲ اکتوبر تهویه مطبوعه الفضل ۱۲۰ اپریل نشه احمدی عورت سے آپ کی توقعات آپ احمدی خاتون سے صرف یہی توقع نہیں رکھتے تھے کہ وہ خود اسلامی ضابطہ اخوات کی پابندی کرے بلکہ مردوں سے بڑھ کر اس پر یہ ذمہ داری عاید کرنا چاہتے تھے کہ وہ از خود دوسری مستورات سے بھی اسلامی ضابطہ اخلاق کی پابندی کروائے.اس ضمن میں حسب ذیل اقتباس احمدی عورت سے آپ کی توقعات کا منظر ہے.آپ فرماتے ہیں: عورتوں سے مصافحہ کرنے کی رسم کو اب چھوڑنا چاہیئے اور خود عورتوں کے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہیئے کہ وہ اس سے بچیں جب عورتوں کی ایک ایسی جماعت تیار ہو جائے گی تو وہ خود دوسروں کو سنبھال لے گی.یاد رکھیں کہ عورتوں کے اندر ایران کی ایک خاص مناسبت ہے.ایک دو مخلص عورتوں کو خوب سمجھا کہ وہ باتیں جو عورتوں سے متعلق ہیں ان کے دلوں میں خوب رچا دیں.پھر دیکھیں کہ وہ کس طرح سیف مسلول بن کر دوسری عورتوں کو اپنا ہم خیال بنا لیتی ہیں.یہ کام بغیر عورتوں کی مدد کے نہ ہوگا " ر الفضل ۲۵ جنوری ۶۱۹۲۳ ص ۵)

Page 352

انداز تربیت اور ٹھوس عملی پروگرام آپ کا طریق تربیت پر حکمت اور پُر سوز تھا.آپ کی نصائح میں درد بھی تھا اور گہری حکمت بھی پائی جاتی تھی.آپ محض نصیحت ہی نہ کرتے بلکہ ٹھوس اور واضح استدلال کے ساتھ اس کی حکمت اور افادیت بتا کہ ذہنوں کو قائل کرتے.آپ کی باتیں خلوص میں ڈوبی ہوئی ہوتیں جو قلوب کو متاثر کرتیں اور جذبات میں ایک نیک ہیجان پیدا کر دیتی تھیں سے سخن کنه دل برون آید نشیند لاجرم بر دل آپ نے احمد می عورت کے اخلاق کی تعمیر کے لئے محض زبانی نصائح پر انحصار نہ کیا بلکہ ایسے عملی پروگرام دیئے اور ان پر عمل کروایا جس کے نتیجہ میں انہیں نیک کاموں سے ذاتی محبت پیدا ہو گئی اور وہ اس ابدی صداقت سے اچھی طرح آشنا ہو گئیں.کہ حقیقی اور دائمی اور غیر فانی پاکیزہ لذت خدمت دین اور خدمت خلق کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے.احمدی خواتین سے ایک منفرد قربانی کی تحریک عورتوں میں خدمت دین کا جذبہ پیدا کرنے کے بعد آپ نے اُن پر خدمت دین کی بھاری قومی ذمہ داریوں کا بوجھ اس توقع اور یقین کے ساتھ ڈالا کہ وہ اسے بشاشت قلب کے ساتھ قبول کریں گی اور تمام توقعات پر پوری اُتریں گی.چند سالہ تربیت کے بعد ہی آپ نے جان لیا تھا کہ اب وقت آچکا ہے کہ احمدی عورت کے کردار کو یورپ کی آزاد قوموں کے سامنے اسلام کی نمائندگی میں ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا جا سکے.چنانچہ ۱۹۲۳ء میں جب جرمنی میں پہلا خدا کا گھر بنانے کا سوال پیدا ہوا تو آپ نے مستورات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- میرا یہ منشاء ہے کہ جرمنی میں مسجد عورتوں کے چندہ سے بنے کیونکہ یورپ میں لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہم میں عورت جانوروں کی طرح سمجھی جاتی ہے.جب یورپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اس وقت اس شہر میں جو دنیا کا مرکز بن رہا ہے اس میں مسلمان عورتوں نے به

Page 353

جرمنی کے نو مسلم بھائیوں کے لئے مسجد تیار کروائی ہے تو یورپ کے لوگ اپنے اس خیال کی وجہ سے جو مسلمان عورتوں کے متعلق ہے کس قدر شرمندہ اور حیران ہوں گے اور جب وہ اس مسجد کے پاس سے گزریں گے تو اُن پر ایک موت طاری ہوگی اور مسجد باوانی بلند ہر وقت پکارے گی کہ پادری جھوٹ بولتے ہیں جو یہ کھتے ہیں کہ عورت کی اسلام میں کچھ حیثیت نہیں " والفضل در فروری ۱۹۲۳ء مث) احمدی عورت ان توقعات پر کس طرح پوری اتری ، یہ ایک طویل ایمان افروز داستان ہے جس کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں تاہم قارئین کے سامنے محض ایک دو جھلکیاں پیش کرنے پر اکتفا کی جاتی ہے تاکہ وہ اندازہ کر سکیں کہ آپ کے خطابات کے نتیجہ میں احمدی خاتون نحس قوت اور جذبہ کے ساتھ خدمت دین پر کمربستہ ہو چکی تھی.تحریک مسجد برلن کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا :- " میں نے اس مسجد کی تحریک کے لئے یہ شرط رکھی تھی کہ احمدی عور توں کی طرف سے یہ مسجد ہو گی جو ان کی طرف سے نو مسلم بھائیوں کو بطور ہدیہ پیش کی جائے گی اب سجائے اس کے کہ وہ غور میں نہیں کمزور کہا جاتا ہے اس تحریک کو سنکر سمجھے سیٹیں عجیب نظارہ نظر آیا اور وہ یہ کہ اس تحریک پر اس وقت تک گیارہ عورتیں احمدیت میں داخل ہو چکی ہیں تا کہ وہ بھی اس چندہ میں شامل ہو سکیں.......میں سمجھتا ہوں کہ یہ عورتیں پہلے ہی احمدی تھیں کوئی اس لئے مذہب نہیں بدلا کرتا کہ چندہ دے.وہ پہلے احمدی تھیں مگر ان میں احمدیت کے اظہار کی جرات نہ تھی.اب انہوں نے دیکھا کہ اگر اب بھی جرات نہ کی تو اس ثواب سے محروم رہ جائیں گی.گویا اس طرح اس تحریک نے گیارہ روحوں کو ہلاکت سے بچالیا اور یہ پہلا پھل ہے جو اس تحریک سے ہم نے چکھا ہے" اسی خطبہ کے تسلسل میں حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا :-

Page 354

۳۴۹ پھر یہ بھی ایمان کی علامت ہے کہ کئی لوگ لکھ رہے ہیں آپ دعا فرمائیں میری بیوی چندہ دینے میں کمزوری نہ دکھائے.....پھر بعض لکھ رہے ہیں کہ وفات یافتہ بیوی کی طرف سے چندہ دینے کی اجازت دی جائے.غرض یہ ایسا نظارہ ہے کہ جو اپنی نظیر نہیں رکھتا اور جس کا نمونہ صحابہ کے زمانہ میں ہی پایا جاتا الفضل در تاریخ ۶۱۹۲۳ ) ہے.قادیان کی مستورات کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے ایک غریب عورت کی قربانی کی ایک ایسی مثال پیش کی جس پر ہمیشہ امراء بھی رشک کرتے رہیں گے.فرمایا :- " "قادیان کی عورتوں کا چندہ پہلے ہی جلسہ میں ساڑھے آٹھ ہزار پہنچ گیا ہے اور انھی بڑھ رہا ہے اور غالباً کچھ تعجب نہیں کہ دس ہزار تک پہنچ جائے.جس اخلاص اور جوش سے انہوں نے چندہ دیا ہے.اس کا اندازہ غریب عورتوں کے چندہ سے کیا جا سکتا ہے جن کی آمد کا کوئی ذریعہ نہیں.ایک اور پٹھان عورت جو نہایت ضعیف ہے اور چلتے وقت بالکل پاس پاس قدم رکھ کر چلیتی ہے میرے پاس آئی اور اس نے دو روپے میرے ہاتھ پر رکھ دیئے...اس کی زبان پشتو ہے اور وہ اردو کے چند الفاظ ہی بول سکتی ہے اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں اپنے ایک ایک کپڑے کو ہاتھ لگا کر کہنا شروع کیا.یہ دوپٹہ دفتر کا ہے یہ پاجامہ دفتر کا ہے.یہ جوتی دفتر کا ہے.میرا قرآن بھی دفتر کا ہے نینی میرے پاس کچھ نہیں.میری ہر ایک چیز بیت المال سے مجھے ملی ہے.اس کا ایک ایک لفظ ایک طرف تو میرے دل پر نشتر کا کام کر رہا تھا دوسری طرف میرا دل اس محسن کے احسان کو یاد کر کے جس نے ایک مردہ قوم میں سے ایسی زندہ اور سر سبز لہو میں پیدا کر دیں شکر و امتنان کے جذبات سے لبریز ہو رہا تھا اور میرے اندر سے یہ آوانہ آرہی تھی خدایا

Page 355

تیرا یہ سیح کس شان کا تھا جس نے ان پٹھانوں کی جو دوسروں کا مال لوٹ لیا کرتے تھے اس طرح کا یا پلیٹ دی کہ وہ تیرے دین کے لئے اپنے ملک اور اپنے عزیز اور اپنے مال مشتریان کر دینے کو ایک نعمت سمجھتے ہیں " الفضل ۲۱ فرود دی ۱۹۲۳ ص ) اخلاص اور قربانی میں قادیان سے باہر کی مستورات بھی کسی طرح پیچھے نہ تمھیں خیا بیرون قادیان کی احمدی مستورات کے جذبۂ قربانی کی بعض مثالیں دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: قادیان سے باہر کے خاص چندوں میں سے سب سے اول نمبر پر کپتان عبد الکریم صاحب سابق کمانڈر ان چیف ریاست خیر تو یہ کی اہلیہ کا چندہ ہے جنہوں نے اپنا کل زیورہ اور اعلیٰ کپڑے قیمتی ڈیڑھ ہزار روپیہ فی سبیل اللہ دے کر ایک نیک مثال قائم کی ہے.دوسری مثال اسی قسم کے اخلاص کی چوہدری محمد حسین صاحب صدر قانونگور سیالکوٹ کے خاندان کی ہے.ان کی بیوی بھانج بہو نے اپنے زیورات قریبا سب کے سب اس چندہ میں دے دیئے جن کی قیمت اندا نرا دو ہزانہ رویہ تک پہنچتی ہے.تیسری مثال اسی قسم کے اخلاص کے نمونہ کی سیٹھ ابراہیمہ صاب کی صاحبزادی کی ہے اس مخلص بہن نے بھی اپنے گل زیورات جو اندازاً ایک ہزار روپے کی قیمت کے ہوں گے چندہ میں دے دیتے ہیں.چوه وسفی مثال اعلیٰ درجہ کے اخلاص کی خان بہادر محمد علی خانصاحب اسسٹنٹ پولیٹکل افسر چکدرہ کی اہلیہ صاحبہ اور دختر کی ہے جنھوں نے اپنا زیور جس کی قیمت اندازاً ایک ہزار روپیہ سے زائد ہو گی اس چندہ میں دے دیا بلکہ خان بہادر صاحب کی اہلیہ صاحبہ نے اپنی مرحومہ دختر کا ایک زیور بھی

Page 356

۳۵۱ جو انہوں نے بطور یادگار رکھا ہوا تھا مرحومہ کی طرف سے چندہ میں دے دیا ہے پانچویں مثال میاں عبد اللہ صاحب سنفوری ریاست پٹیالہ کی بیوی ، بیٹی اور بہو کی ہے.جنہوں نے نہایت محدود ذرائع آمدن کے باوجود دو سو روپے سے اوپر چندہ بصورت نقد اور زیور دیاک را افضل یکم مارچ ۱۹۳۳ به انفسکم ۲۸ ر فروری سه) ۶۹۶۳ مختلف احمدی دوستوں نے اپنے گھروں میں احمدی عورت کے اخلاص کے جو نظارے دیکھے ان کا ایک نمونہ ڈاکٹر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی ایڈیٹر روزنامہ اتفاق دہلی کے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے.آپ لکھتے ہیں:.جمعہ کی نماز جماعت دہلی خاکسار کے دفتر میں پڑھنتی ہے جو لب سڑک واقع ہے.گزشتہ جمعہ کو خطیب نے حضرت اقدس کا خطبہ جو الفضل میں چھپا ہوا تھا سُنایا.یہاں سوائے میری اہلیہ کے باقی تمام مرد تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ جنگیم سے نماز کے بعد کہوں گا کہ مسجد کے لئے آپ اپنی پازیب دے دیں کہ اتنے میں دروازہ کی کھٹکھٹاہٹ میرے کان میں آئی اور میں گھر میں گیا.جہاں وہ مصلے پر بیٹھی ہوئی خطبہ سُن رہی تھیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کچھ بات نہیں کی اور اپنے گلے سے پنج لڑا طلائی تار جو غالباً تین سو روپے کا تھا مجھے دے دیا جو میں نے اسی وقت خطیب صاحب کو لا کر دے دیا را افضل ۲۶ فروری ۶۱۹۲۳ص۹) عورت کو اس کا کھویا ہوا مقام دلوانے اور اس کے کردار کی از سر نو تعمیر کیلئے آپ نے یہ حکیمانہ طریق اختیار کیا کہ نیکی کی ہر تحریک میں مردوں کے ساتھ احمدی عورت کو بھی مخاطب فرماتے.سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ جماعت کے مالی وسائل بڑھانے کے بارہ میں کبھی غور کرتے رہتے تھے.اس سلسلہ میں جو مختلف تجاویز اور تحریکات آپ نے جماعت کے سامنے پیش کیں اننا

Page 357

۳۵۲ میں سے ایک یہ تھی کہ ہر شخص خواہ اس کا ذریعہ معاش کوئی بھی ہو اپنے روزمرہ کے کام کے علاوہ کوئی ایسا چھوٹا سا کام محض اس نیت سے کرے کہ اس کی ساری آمد تبلیغ اسلام کے لئے پیش کر دے.آپ کی اس تحریک پر بھی جماعت کے مردوں اور عورتوں نے برائیر جوش کے ساتھ حصہ لیا.عورتوں نے جس اخلاص اور دلی جذبہ کے ساتھ اس تحریک پر لبیک کی اس کا اظہار حسب ذیل روایت سے ہوتا ہے.ایک خاتون جن کا حضرت خلیفہ اپنے الثانی رضی اللہ عنہ کے حرم اقول حضرت سیدہ ام ناصر رضی اللہ عنہا کے ہاں آنا جانا تھا، اس بارہ میں روایت کرتی ہیں :- حضرت خلیفہ ثانی کے وقت میں مستورات کو بھی چندہ کی تحریک کی جاتی اور رستورات سخوشی شامل ہوتیں.جب حضور خلیفہ ثانی نے تحریک شروع کی کہ اپنے ہاتھ سے کام کر کے چندہ دیا جائے تو میں حضور کے گھر اُمیم ناصر کے پاس بیٹی تھی.حضور نے کہا میں سرمہ پیس کر فروخت کر کے چندہ دُوں گا اپنے ہاتھ سے کام کر کے " میں نے کہا.حضور میں بھی ساتھ سرمہ میسوا دوں گی.ساتھ شامل ہو جاؤں گی.فرمایا.نہیں نہیں یہ بات نہیں.لیکن خود اپنے ہاتھ سے پیسوں گا اور تم خود کچھ کام کہ وہ دو تین دن کے بعد اسم ناصر کے گھر پھر گئی اور اہم ناصر سے کہا کیا کروں کام مجھے کوئی آتا نہیں.چندہ ضرور دینا ہے " امیم ناصر نے کہا یا مجھے بھی یہ بڑی سوچ ہے کیا کام کیا جائے.میاں رفیق وہاں بیٹھے ہوئے تھے.بولے امی جان میرے بوٹوں کو پالش نہیں کر دائی یہ اسم ناصر ہنس پڑیں اور کہنے لگیں یا میں تیرے بوٹوں کوہ پائش کروں گی.تم مجھے ایک آنہ دے دیا کرو.لیکن وہ چندہ میں دے دوں گی " میں نے کہا میں تو ایک مہینہ کسی کے گھر کام کروں گی یہ امیر ناصر نے فرمایا " اور کسی کے پاس کیوں جاتی ہو.میرے پاس آٹھ دونوں بہنیں بیٹھا کریں گی.حضور کے کپڑوں کی مرمت تم کر دیا کرنا.پھر سفنے لگیں اور کہا یا مہینہ کیا ہوگی؟" میں نے کہا ابھی تو کچھ نہیں کر سکتی.

Page 358

۳۵۳ دیکھو خدا جو سابان بنائے.خدا کی حکمت بیرت انسبی کا جلسہ آگیا.عورت میں دکانیں لگا یا کرتی تھیں.میں نے کہا.میں تو پان بیچوں گی.اقم ناصر نے کہا.ہم دونوں بہنوں کا حصہ ہوگا.میں پان منگوا دونگی پان اور کتھے تو اہم ناصر نے دیا اور دوسری چیزیں چھالیہ الائچی وغیرہ میں نے اپنی ڈالیں........ہماری نیست چندہ دینے کی تھی.خدا کے فضل سے میرے پان خوب ہے.پچاس پان کیا چیز تھی.پان ہاتھوں ہاتھ بک گئے.اقیم ناصر بھی میرے پاس آئیں اور کھا.میں کیا کام کر سکتی ہوں.میں نے کہا آپ جائیں میں خود یہ کام کرلوں گی.جب گھر میں آکر ڈبہ میں ڈالی ہوئی نقدی کا حساب کیا تو اس میں ہجو میں روپے نکلے.بارہ روپے امیم ناصر کے اور بارہ روپے میرے حصے میں آئے.میں وہ بارہ روپے لے کر حضور خلیفہ ثانی کی خدمت میں اسی وقت حاضر ہو گئی.اور عرض کیا وہ حضور یہ لیں پیسے لیں تو اپنا کام کر کے آئی ہوں.آپ نے تو مجھ سے سُرمہ نہیں پیسوایا تھا.میرا بھی خدا نے کام بنا دیا " اس روایت سے اس امر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ کس طرح حضرت خلیفہ المسیح الثانی منی لاله تعالے عنہ ہر اُس تحریک پر جو جماعت کے سامنے پیش کرتے تھے اول خود عمل فرماتے.نیکی کی عادت ڈالنا جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم فرمائی.تو ستورات میں بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی پیدا کرنے سے متعلق بعض ہدایات دیں فرمایا و غرباء کی ہمدردی بھی ایک ضروری بات ہے اس کے دو طریق بہت عمدہ ہیں.بیوہ اور غریب عورتوں کی دعوت لجنہ کی طرف سے ہوا کرے اور اپنے ہاتھوں سے سب کام کریں اور ان کے ہمراہ بیٹھے کہ کھا دیں تاکہ ان کے دل پر محبت کا اثر ہو.اس طرح تکبر کے کپڑے کو نکال دور یتیم بچوں کوئی پارٹیاں دی جاویں وہ محبت کے طالب

Page 359

ہوتے ہیں.اُن سے محبت و شفقت کا سلوک کیا جاوے.اس طرح سے مایوسی اور بد اخلاقی دُور ہو جاوے گی " د احمدی خانون فروری ۶۱۹۳۳ اسی سال مشاورت کے موقع پر اس حصہ مضمون کو دُہراتے ہوئے آپ نے اپنی جماعت کے سامنے لجنہ کا جو پروگرام رکھا اس میں خدمت خلق کو خاص اہمیت دی.آپ نے فرمایا." اس کی زمینی لجنہ اماء اللہ کی ، ممبر مستورات خواہ وہ امیر ہوں یا غریب مل کر کھائیں اور پھر بتائی اور غرباء کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلائیں اور ان کی خدمت کریں یتیم بچے جو کسی جماعت کا اچھا حصہ بن سکتے ہیں جب وہ ہر طرف سے سختی اور بے تہری دیکھتے ہیں تو رہے ا ان کے دل سے محبت اور نرمی غائب ہو جاتی ہے.پس جب وہ ان کو بلائیں گی ان کی خدمت کریں گی اور ان سے حسن سلوک سے کام لیں گی تو ان میں بھی اچھے احساسات پیدا ہوں گے اور ان کی آئندہ زندگی درست ہو جائے گی.دل پر اثر ڈالنے والی اس قدر تقریہ نہیں ہو سکتی جس قدر حسن سلوک ہو سکتا ہے" د رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ ء : 14-16 ه) آپ کی سیرت کا یہ خاص پہلو ہے کہ آپ محض ہدایات جاری کرنے پر اکتفا نہ فرماتے تھے بلکہ ہمیشہ اس کی نگرانی فرماتے کہ ان ہدایات پر باحسن طریق عمل شروع ہو چکا ہے یا نہیں.چنانچہ لجنہ کو یہ ہدایت دینے کے بعد اس کا آغاز بھی خود اپنی نگرانی میں کروایا اس واقعہ کا ذکر حضور کے الفاظ میں حسب ذیل ہے :- " آج لجنہ کا ایک تمہ نی جلسہ میں نے کرایا ہے اس میں بیوہ عورتوں کو دعوت دی گئی ہے اور لجنہ کی ممبروں ہی نے سب کام اپنے ہاتھ سے کیا ہے کسی نے کھانا پکایا اور کسی نے ہاتھ دھلائے.پھر سب نے باہم مل کر کھانا کھایا.ایسا ہی اب میرا ارادہ ہے کہ ایک جلسہ لجنہ کی ممبروں سے ینائی کی دعوت کا کرائیں........تیامی کے اندر جو جذبات

Page 360

۳۵۵ محبت اور پیار کے ہوتے ہیں وہ دب جاتے ہیں کیونکہ والدین کا سایہ سریز نہیں ہوتا وہ کس سے محبت کا اظہار کریں.اس لئے اس طریق پر جب یہ پہیلیاں ان بچوں کو اپنے پاس بٹھا کر ان سے محبت اور پیار کا برتاؤ کریں گی اور ان کو بہلائیں گی تو وہ دبے ہوئے جذبات پھر زندہ ہو جائیں گے اور اس سے ان کی اخلاقی قوتوں پر بھی اثر پڑے گائے احکم ، فروری سمت لجنہ اماء اللہ کا قیام احمدی مستورات کی تاریخ میں حضرت سیدہ امتہ الحی حریم ثانی حضرت خلیفہ ابسیج الثانی کا نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا اور دل انہیں محبت سے یاد کرتے ہوئے دُعائیں دیں گے کیونکہ احمدی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے یہ ان ہی کی دلی تڑپ تھی جو بالآخر عالمی تنظیم لجنہ اماء اللہ کی تشکیل کا محرک بنی.اگرچہ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت مصلح موعود قوامی تعمیر و تنظیم کی وہ غیر معمولی صلاحیتیں لے کر پیدا ہوئے تھے کہ اگر اس جو ہر قابل کے لئے خارجی محرک نہ بھی ہوتا تو وہ ماحول کو منور کردینے کی استعداد رکھتا تھا.لیکن یہ اللہ تعالے کا آپ پر خاص فضل تھا کہ آپ کو بکثرت ایسے رفیق اور مددگار عطا فرمائے جو خود بھی ایک طبعی جوش ان نیک کاموں کے لئے رکھتے تھے جن کو سر انجام دینے کے لئے آپ عالم وجود میں آئے.آپ کی رفیقہ حیات حضرت خلیفہ ایسی اول کی پیاری بیٹی حضرت سیدہ امتہ الحی بھی آپ کے لئے ایک ایسا سلطان نصیر ثابت ہوئیں.اپنے عظیم الشان باپ سے علم کی لگن ورثہ میں پانے والی سعید فطرت اور سعید روح رکھنے والی یہ عظیم خاتون اگرچہ اگر بہت تھوڑی دیر اس عالم فانی میں زندہ رہیں اور اپنے محبوب آقا حضرت مصلح مو کے ساتھ انہیں محض گنتی کے چند سال رفاقت کے نصیب ہوئے لیکن ان چند سالوں میں ہی انہوں نے اپنی فطری سعادت اور خدمت دین کی بے پناہ لگن کے باعث حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے دل میں اپنے لئے ایک خاص مقام پیدا کر لیا.خواتین میں حضرت خلیفہ المسیح کے درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھوانے کا سہرا بھی آپ ہی کے سر تھا.

Page 361

۳۵۶ اور احمدی مستورات کو ایک باقاعدہ تنظیم کی لڑی میں پرونے کی اولین محرک بھی آپ ہی تھیں یہ آپ کی خانی زندگی کا ایک لافانی کارنامہ تھا جو آپ کی یاد کو زندہ و پایندہ رکھے گا.پر ہرگز نه میرد آنکه دلش زنده شد عشق کا مصرعہ آپ پر خوب صادق آتا ہے.کیونکہ دین محمد کے عشق نے آپ کو بھی ان لافانی وجودوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جن کا نقش جریدہ عالم پر ہمیشہ ہمیش کے لئے ثبت ہو جاتا ہے.لجنہ اماء اللہ کی داغ بیل اس طرح پڑی کہ احمدی مستورات کی فلاح و بہبود اور ان کی دینی ترقی کے لئے حضرت سیدہ امتہ المی کے والہانہ جذبہ سے متاثر ہوکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود نے سیدہ موصوفہ کے ساتھ مشورہ کے بعد قادیان کی احمدی مستورات کے نام ۵ار دسمبر ۹۶انہ کو ایک کھلی چھٹی لکھی جس کا مضمون حسب ذیل تھا :- ہماری سید امین کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی.جہاں تک میرا خیال ہے عورتوں میں اس کا احساس ابھی تک پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے ؟ ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہیئے جس سے ہم نبھی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر کے مرنے کے بعد اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو سکیں.اگر غور کیا جائے تو اکثر عورتیں اس امر کو محسوس نہیں کریں گی کہ روز مرہ کے کاموں کے سوا کوئی اور بھی کام ان کے کرنے کے قابل ہے یا نہیں.دشمنان اسلام میں عورتوں کی کوششوں سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بد گمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی توڑ ہو سکتا ہے تو وہ خور توں ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے اور بچوں میں قربانی کا مادہ پیدا کیا جا سکتا تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعے سے کیا جاسکتا ہے.نہیں علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی

Page 362

۳۵۰ کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں کی کوشش پر ہے چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں اس طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے ان امور کو مد نظر رکھے کہ میں ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی مؤید ہوں اور مندرجہ ذیل باتوں کی ضرورت محسوس کرتی ہوں.دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے وہ مل کر کام شروع کریں.اور مہربانی کر کے مجھے اطلاع دیں تاکہ اس کام کو جلد سے جلد شروع کر دیا جائے.-۱ اس امر کی ضرورت ہے کہ عورت میں باہم مل کر اپنے علم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں..اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے لئے ایک انجمن قائم کی جائے تا کہ اس کام کو باقاعدگی سے جاری رکھا جا سکے.ا- -۳- اس امر کی ضرورت ہے کہ اس انجمن کو چلانے کے لئے قواعد ہوں جن کی پابندی ہر کسی پر واجب ہو.۴.اس امر کی ضرورت ہے کہ قواعد وضوابط سلسلہ احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کے مطابق ہوں اور اس کی ترقی اور اسکے اتحکام میں محمد ہوں.اس امر کی ضرورت ہے کہ جلسوں میں اسلام کے مسائل خصوصاً ان پر جو اس وقت کے حالات کے مطابق ہوں مضامین پڑھے جائیں اور وہ خود اراکین انجمن کے لکھے ہوئے ہوں تا کہ اس طرح علم کے استعمال کرنے کا ملکہ ان میں پیدا ہو.- اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں.اس امر کی ضرورت ہے کہ پڑھانے کے لئے ایسے مضامین پر جنہیں انجمن ضروری مجھے اسلام سے واقف لوگوں سے لیکچر کروائے جائیں.

Page 363

- اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحاد جماعت کو بڑھانے کے لئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے مقررہ فرمایا ہے اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہو.9.اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی طرف ہمیشہ امتوجہ رہو اور صرف کھانے پینے پہننے تک اپنی توجہ کو محدو.نہ رکھو.اس کے لئے ایک دوسرے کی پوری مدد کرنی چاہئیے ایسے ذرائع پر غور اور عمل کرنا چاہیئے.۱۰.اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور انہیں دین سے غافل بد دل اور شست بنانے کی سجائے چست ہوشیارہ تکلیف برداشت کرنے والے بناؤ اور دین کے مسائل جس قدر ہیں.اس سے ان کو واقف کرو.اور خدا.رسول مسیح موعود اور خلفاء کی محبت.اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو.اسلام کی خاطر اور اس کے منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں کی خرچ کرنے کا جوش ان میں پیدا کرو اور اس کام کو بجالانے کے لئے تجاویز سوچو اور ان پر عمل درآمد کرد 11- اس امر کی ضرورت ہے کہ جب مل کر کام کیا جائے تو ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے اور صبر اور ہمت سے اصلاح کی کوشش کی جائے نہ کہ ناراضگی اور خفگی سے تفرقہ بڑھایا جائے.۱۲- چونکہ ہر ایک کام جب شروع کیا جائے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور ٹھٹھہ کرتے ہیں اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی معنی اور ٹھٹھہ کی پرواہ نہ کی جائے اور بہنوں کو جہنوں یا طعنوں یا مجالس کے ٹھیٹھوں کو بہادری اور ہمت سے برداشت کرنے کا سبق دیا جائے اور اس کی طاقت پیدا کرنے کا مادہ پہلے ہی حاصل کیا جائے.تاکہ اس نمونہ کو دیکھ کر دوسری بہنوں کو اس کام کی طرف توجہ پیدا ہو.

Page 364

۳۵۹ ۱۳.اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خیال کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہمیشہ جاری رکھنے کے لئے اپنی ہم خیال بنائیں اور یہ کام اس صورت میں میل سکتا ہے کہ ہر ایک بہن جو اس مجلس میں شامل ہو اپنا فرض سمجھے کہ وہ دوسری بہنوں کو بھی اپنا ہمخیال بنائے گی.-۱۴- اس امر کی ضرورت ہے کہ اس کام کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے صرف وہی بہنیں اس انجمن کی کارکن بنائی جائیں جو ان خیالات سے پوری طرح متفق ہوں.اگر کسی وقت خدا نخواستہ کوئی متفق نہ رہے تو وہ بہ طبیب خاطر آنمین سے علیحدہ ہو جائے یا بصورت دیگر علیحدہ کی جائے.-۱۵- کیونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں.چھوٹے ، بڑے ، امیر غریب سب کا نام جماعت ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس انجمن میں غریب امیر کی کوئی تفریق نہ ہو.بلکہ غریب اور امیر دونوں میں مساوات ہو.اور محبت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی تقار اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا مادہ دلوں سے دور کیا جائے.کہ باوجود مدارج میں فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں -10 بہنیں بہنیں ہیں.14 - اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر خدمت اسلام کے لئے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کے لئے بعض طریق تجویز کئے جائیں اور ان |.کے مطابق عمل کیا جائے.۱۷ اس امر کی ضرورت ہے کہ چونکہ سب مدد اور سب برکت اور سب کامیابیاں اللہ تعالے کی طرف سے آتی ہیں اس لئے دعا کی جائے اور کمر والی جائے کہ ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں جو ہماری پیدائش میں اس نے مد نظر رکھے ہیں اور ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بہتر سے بہتر ذرائع پر اطلاع اور پھر ان ذرائع کے احسن سے احسن طور پر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بغیر کرے.آئندہ آنیوائی

Page 365

py ۶۱۹۶۲/۵ ) نسلوں کی بھی اپنے فضل سے راہ نمائی کرے اور اس کام کو اپنی مرضی کے مطاق ہمیشہ کے لئے جاری یہ کھے یہاں تک کہ اس دنیا کی عمر تمام ہو جائے.اگر آپ ان خیالات سے متفق ہوں اور ان کے مطابق اور موافق قواعد پر جو انجمن میں پیش کر کے پاس گئے جار ہے ہیں اور کئے جائیں گے عمل کرنے کے لئے تیار ہوں.تو مہربانی کر کے اس کا غذ پر دستخط کر دیں بعد میں ان قواعد پر ہر ایک بہن سے علیحدہ علیحدہ دستخط لے کر اقرار و معاہدے لئے جائیں گے ؟ والانهيار لذوات الثمار من مطبوعة اس ابتدائی تحریک پر امن میں شمولیت کے لئے جو ابھی رضا کا برا نہ رنگ رکھتی تھی قادریان کی شکرہ خواتین نے دستخط کئے.اس کے بعد حضور کے ارشاد پر ۲۵ دسمبر ۱۹۳۷یر کو یہ دستخط کرنے والی خواتین حضرت ام المؤمنین کے گھر میں جمع ہوئیں جہاں آپ نے نماز ظہر کے بعد ایک مختصر سی تقریر فرمائی.اس تقریر میں آپ نے مستورات کی انجمن کے قیام کا باقاعدہ اعلان فرماتے ہوئے اس کا نام بجنہ اماءاللہ" رکھا.لجنہ اماء اللہ کے قواعد و ضوابط بعد ترتیب رساله تادیب النساء میں شائع ہوئے.حضور کے افتتاحی خطاب کے بعد لجنہ اماء اللہ کی ممبرات نے متفقہ طور پر حضرت اُم المؤمنین سے درخواست کی کہ وہ اس مجلس کی صدارت قبول فرما دیں.چنانچہ حضرت أمر المؤمنین کی صدارت میں یہ تاریخی اجلاس شروع ہوا.لیکن آپ نے آغاز ہی میں حضرت سیده ام ناصر حرم اول حضرت خلیفة المسیح کا بازو پکڑ کر بڑی شفقت سے اپنی م جگہ انہیں صدارت کی مسند پر بٹھا دیا اور بقیہ اجلاس انہیں کی صدارت میں ہوا.حضرت اُم المؤمنین نے کمال محبت اور شفقت اور دُعا کے ساتھ اپنی صدارت کی خلوت جو سیدہ اُمتم ناصر کو عطا فرمائی وہ تازندگی آپ ہی کے پاس رہی.اور وفات کے دن تک یعنی اور جولائی کو یہ تک ۳۶ سال کے طویل عرصہ میں مجنات نے برابر آپ ہی کو اپنا صدر منتخب کیا.آپ کی وفات کے بعد حضرت سیدہ مریم صدیقہ امتیم متین حرم ثالث حضرت خلیفۃ المسیح الثانی الجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے عہدہ صدارت پر متمکن ہو ئی اور نادرم تحریر بفضل تعالے آپ نہایت خوش اسلوبی سے یہ خدمت سر انجام دے رہی ہیں اور بہنہ کا قدم روز بروز ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے.فالحمد لله

Page 366

لجنہ اماء اللہ کے پہلے تاریخی اجلاس میں منصب صدارت کا معاملہ طے ہو جانے کے بعد پہلی جنرل سیکرٹری حضرت سیدہ امتہ الحی مرحومہ منتخب ہوئیں.چنانچہ آپ بڑے انہماک اور جاں سوزی کے ساتھ اس خدمت میں مصروف ہو گئیں اور صدر مجلس کی رہنمائی میں اس نوزائیدہ مجلس کے تنظیمی ڈھانچے کو منظم اور مربوط کرنے میں شب و روز کوشاں رہیں.لیکن افسوس کہ آپ کی لامتناہی نیک تمناؤں کے مقابل پر اس دار فانی میں آپ کی زندگی کے بہت تھوڑے دن باقی تھے.سیکرٹری لجنہ اماء الله مرکز یہ کا عہد نبھانے ہوئے ابھی ایک سال بھی پورا نہ گزرا تھا کہ بچے کی قبل از وقت پیدائش کے باعث آپ خطرناک طور پر بیمار ہوگئیں اور یہی بیماری آپ کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی.آپ کی وفات کے بعد خاکسار کی والدہ مرحومہ حضرت سیدہ مریم بیگی جو بعد میں اہم طاہر کے نام سے جماعت میں معروف ہوئیں جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ منتخب کی گئیں آپ بھی در تاریخ 19 یعنی اپنی وفات کے دن تک مسلسل اس عہدہ پر فائز رہ ہیں اور صدر مجلس کے ساتھ کامل اطاعت اور تعاون کی روح کو قائم رکھتے ہوئے خدمت دین کی توفیق پاتی رہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ازواج کا ایک تنظیم کی لڑی میں منسلک ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے تابع ہو کر سالہا سال تک اس طرح خدمت دین بجالانا کہ تنظیمی ڈھانچہ میں ایک ادنیٰ سا رخنہ بھی نہ پڑا ہو اور اس نازک رشتہ کے باوجود تعاون کے شیشہ پر بال برابر بھی آنچ نہ آئی ہو یہ ایسی بات ہے جو ان مبارک خواتین کی عظمت کردار سے بڑھ کر اس عظیم شوہر کی عظمت کردار کا پتہ دیتی ہے جو نظم و نسق مسائم رکھنے کی حیرت انگیز صلاحیتیں رکھتا تھا.آپ ایک ایسے عظیم الشان مرتی تھے کہ بسا اوقات ایک لفظ زبان سے کے بغیر آپ کی شخصیت سے تربیت کا از خود ہونے والا ترشح گردو پیش کو ریڈیائی لہروں کی طرح اپنی ذات کے ساتھ ہم آہنگ کر لیتیا تھا اور ماحول کی ہر چیز خود بخود ٹھیک ٹھیک اپنے مقام پر بیٹھ جاتی تھی.اور اپنے دائرہ کار سے تجاوز نہ کرتی تھی.یا یوں کہہ لیجئے کہ بجلی کے بڑے بڑے ڈانسمیٹر جس طرح اپنے ماحول کو ایسی طاقتور لہروں سے بھر دیتے ہیں کہ بسا اوقات اُن کا پیغام سننے کے لئے بجلی سے چلنے والے ریڈیو سیٹ کی بھی ضرورت نہیں رہتی اور میرے

Page 367

سے بنا ہوا ایک سادہ سا آلہ جسے (CRYSTAL SET کہا جاتا ہے براہ راست اُن کی آواز پکڑ کر سُنانے کی اہمیت رکھتا ہے اور اس کو چلنے کی قوت اسی فضاء سے حاصل ہو جاتی ہے جس کو ٹرانسمیٹر نے طاقت سے بھر دیا ہوتا ہے.++ بہر کیف حضرت خلیفہ اسی کو اس امر کی حاجت نہ تھی کہ اپنی ازواج کو بار بار تعاون کی تلقین کریں.دینی کاموں میں اختلاف اور جھگڑوں سے منع کرنیں یا آئے دن اُن کے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو سلجھانے میں اپنا قیمتی وقت صرت کریں.نہیں کبھی ایسا نہیں ہوا.جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنی والدہ کی وفات تک ایک مرتبہ بھی ایسا واقعہ نہ دیکھا نہ سُنا کہ ہماری بڑی والدہ حضرت اُمم ناصر نے حضرت خلیفتہ اسی کی خدمت میں یہ شکایت پیش کی ہو کہ مریم نے فلاں دینی معاملہ میں میرے ساتھ تعاون نہیں کیا یا اس کے برعکس کبھی میری والدہ نے کوئی شکوہ اس نوعیت کا حضور کی خدمت میں پیش کیا ہو کہ لجنہ اماء اللہ کے معاملات میں حضرت سیدہ اُقم ناصر نے میرے ساتھ یہ غیر مشفقانہ سلوک کیا ہے.سالہا سال تک لجنہ اماء اللہ کی مجلس عاملہ کے اجلاس ہمارے گھر میں منعقد ہوتے رہے.کبھی ایک مرتبہ بھی میں نے کوئی تکرار نہیں سُنی کوئی خلاف ادب بات نہیں دیکھی.گویا رشتوں کی طبیعی رقابت کو اس مقدس دائرے میں قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی جیسے کسی مقدس عامل نے اپنی جادو کی چھڑی سے ان اجلاسیات کے ماحول میں ایک دائرہ سا کھینچ دیا ہو کہ یہ رقابت اس دائرہ کے اندر قدم رکھنے کی قدرت نہ پائے.یہ مزاج شناس بیویاں اپنے خاوند کے مزاج پر نظر رکھتی تھیں اور اُن کے دل اس کے دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر دھڑکتے تھے.ابتداء میں اس تنظیم کو قادیان تک ہی محدود رکھا گیا تا کہ حضور کی براہ راست تربیت کے تحت جب اس تکلمین کا ایک اعلیٰ نمونہ تیار ہو جائے تو اسے ملکی اور پھر عالمی تنظیم کی شکل دی جائے.چنانچہ جب کچھ عرصہ کے بعد لجنہ کی تنظیم قادیان میں مستحکم ہوگئی اور مستورات میں تنظیمی امور عمدگی سے چلانے کی اہلیت پیدا ہو گئی، تو آپ نے اس تحریک کو بیرونی جماعتوں میں جاری فرما دیا.آج یہ تنظیم پھیل کر ایک عظیم الشان عالمی تنظیم بن چکی ہے جس میں سب دنیا کی احمدی مستورات شامل ہیں اور بڑے

Page 368

Your by jour زبر دست جذبے کے ساتھ تعمیری کاموں میں مصروف ہیں.اس تنظیم کی غرض و غایت چند الفاظ میں یہ بیان کی جاسکتی ہے کہ اسلامی تصویر کے مطابق معاشرہ میں عورت کو وہ مقام حاصل ہو جس سے وہ ایک عرصہ سے محروم چلی آرہی تھی اور وہ خود اعتمادی کے ساتھ اپنی ان تمام صلاحیتوں کو تعمیری کاموں کے لئے اسلامی تعلیم کے مطابق بروئے کار لا سکے.جو قبل ازیں نظر انداز ہو رہی تھیں.چنانچہ اس غرض سے لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو مختلف شعبوں میں منقسم کر دیا گیا اور عورتوں کی تعلیم و تربیت اور تبلیغی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے پے پر خصوصی زور دیا گیا.اسی طرح عورتوں میں مالی قربانی کی جو روح پائی جاتی تھی اس کو منظم طور پر بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی یہاں تک کہ چندوں کے معاملہ میں عورتیں مردوں کے مساوی اور متوازی ایسا عمدہ نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو گئیں کہ نہ صرف اپنی تنظیم کی ضروریات میں وہ مردوں کی محتاج نہ رہیں بلکہ اہم جماعتی چندوں میں بھی خالفتنہ اپنے اسی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ہی تنظیم کے ذریعہ انہوں نے مالی قربانی کے میدان میں عظیم الشان کارنامے سر انجام دیئے.آپ نے سجنہ کو قدم قدم ملنا سکھایا اور ابتداء میں گہری اور تفصیلی بچسپی لے کر اسے اعلی نظم و نسق کے اصولی سکھائے.اصلاحی امور میں باریک بینی فطرتِ انسانی تو ایک ہی ہے لیکن جب یہ مرد اور عورت کے ظروف بی علتی ہے تو ان ظروف کی نسبت سے الگ الگ شکلیں اختیار کر لیتی ہے.تربیت کے توان دوران حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی اس باریک فرق پہ نظر رہتی تھی اور آپ جب عورتوں کو نصائح فرماتے تو خصوصیت کے ساتھ ان عادات اور رحجانا کو پیش نظر رکھتے جو طبعاً مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں.چنانچہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا : "اگر کسی بات پر اجتماع ہو جاوے اور بعد میں اس میں کوئی نقصان ہی ہو تو اس کا اظہار کرنا اور پھر بار بار اس کو دہرانا کہ ہماری رائے مانتے یا یہ رائے مانتے تو ایسا نہ ہوتا ، یہ نفاق ہے.پھر یہ کہ خلیفہ وقت کی اطاعت کرو.انجمنیں تو سالہا سال

Page 369

سے تک چلتی ہیں.اس لئے خلیفہ کی اطاعت چاہیئے.جو بھی خلیفہ ہو.خلیفہ کے لئے کسی خاندان کسی دائرہ کی شرط کی ضرورت نہیں جس کو خدا بنا دے " داحمدی خاتون - فروری ۱۹۲۳ مش۹۰) اسی طرح ایک اور موقع پر جب یہ تجویز زیر غور تھی کہ مستورات کے ہوسٹل کے لئے صرف مستورات ہی چندہ دیں.اور اس کی اپیل تھی حضرت ام المؤمنين نصرت جہاں بنگیم رضی اللہ عنہا کی طرف سے ہو تو حضور نے فوراً اس احتمال کو بھانپ لیا کہ اس تجویز کو قبول کرنے کے نتیجہ میں عورتوں میں ایسا خطرناک رحجان پیدا ہو سکتا ہے کہ ایک ہی گاڑی کے دو متوازی پیتے بننے کی سجائے وہ اپنی علیحدہ ایک سمت متعین کرنے کی سوچنے لگیں اور یہ سمجھیں، کہ عورتوں کی قربانی میں چونکہ مردوں کا کوئی دخل نہیں اس لئے کیوں نہ وہ مردوں کی پہنچائی گلیہ مستغنی ہو جائیں.چنانچہ اس تجویز پر فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :- اس بات کو قطعی طور پر رو کرتا ہوں کہ حضرت ام المؤمنین کی طرف سے اس چندہ کے لئے اپیل ہو اور عورتیں چندہ دیں.یہ اپیل میری طرف سے ہو اور مرد چندہ دیں.اگر یہ چندہ عورتوں پر رکھا گیا تو یہ بات آئندہ ہماری ترقی میں حائل ہو جائے گی اور ہمارے گھروں کا امن برباد کر دے گی اور یہ احساس پیدا ہوگا کہ مرد عورتوں کے لئے کچھ نہیں کر رہے اور نہ کرنا چاہتے ہیں.میں اس بات کو میں رو کرتا ہوں.ہمیں چاہیئے کہ ہم ہی اس کالم کے لئے چندہ دیں اور عورتوں کو بتا دیں کہ ہم ان کی تعلیم و تربیت کے لئے انتہائی کوشش کرنے کے لئے تیار ہیں.رپورٹ مجلس مشاورت شوارع مده تا ۶) جہاں آپ اس بات کو ناجائز قرار دیتے تھے کہ مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ہو وہاں اس امر کی بھی حوصلہ افزائی فرماتے کہ عورتیں اسلامی آداب کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بے شک جلسوں اور اجتماعات میں مردوں کی طرح بھر پور شمولیت کریں.چنانچہ اس غرض سے اکثر جلسوں میں مستورات کے لئے مسجد کی ایک طرف قناتیں لگوا کر علیحدہ انتظام کیا جاتا اور عورت میں بڑے شوق کے ساتھ بکثرت جمعہ کے علاوہ دیگر جلسوں سے لڑکیوں کے ہوسٹل کا اسراء

Page 370

انا الحمام میں بھی شریک ہو ئیں.اکثر مسجد اقصیٰ میں ایسے اجتماعات ہوتے اور بعض اوقات مستورات جگہ کی تنگی کے باعث ملحقہ احمدی گھرانوں کی چھتوں پر چڑھ کر جلسوں میں شرکت کرتیں.ہمارا گھر چونکہ مسجد اقصی سے بہت قریب تھا اس لئے وہاں ہمیشہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ آواز پہنچانے کا انتظام کیا جاتا لیکن اس کے باوجود دینی مجالس میں شمولیت کے بارہ میں عورتوں کا ذوق و شوق ان زائد انتظامات پر بھی غالب آجاتا اور جگہ کی تنگی کا احساس برقرار رہتا.آپ اس بات کو بھی پسند فرماتے کہ مجاہدین اسلام کی روانگی اور واپسی کے وقت مستورات کی تنظیم کی طرف سے نہ صرف ان کو دعوت دی جائے بلکہ ایسے موقع پر ایڈریس بھی پڑھے جائیں تاکہ رفتہ رفتہ عورتوں میں یہ قابلیت پیدا ہو کہ وہ عورتوں ہی کو نہیں بلکہ مردوں کو بھی خطاب کر سکیں.جو ایڈریس پڑھے جانتے اُن پر بھی آپ تبصرہ فرمانے اور جس طور سے پڑھے جاتے اس پر بھی کبھی تنقید اور کبھی حوصلہ افزائی کے کلمات فرما کہ ہر رنگ میں عورتوں کی تربیت کی کوشش کرتے.حضرت مولانا جلال الدین شمس رضی اللہ عنہ جب دسمبر ۱۹۳۷ء میں بلاد شام و فلسطین میں نہایت کامیابی سے فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد واپس تشریفت لائے توان کے اعزاز میں مستورات کی طرف سے بھی استقبالیہ دیا گیا جس میں انہوں نے سپاسنامہ پیش کیا.اس پر جو تبصرہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ آپ کے اندازہ تربیت کی ایک عمدہ مثال ہے.آپ نے فرمایا : سب سے پہلے میں اس امر پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ جو ایڈریس لجنہ کی طرف سے پیش ہوا وہ اگلے ایڈریسیوں سے بہت سی باتوں میں بہتر تھا.ایک تو اس لئے کہ ان حقیقی مطالب پر مشتمل تھا جو ایسے مواقع کے لئے ہوتے ہیں.دوسر نے اس لحاظ سے بھی کہ اس کے مطالب نہایت ہی سادہ عبارت میں بغیر کسی تکلف و بناوٹ یا غیر ضروری طوالت کے ظاہر کئے گئے ہیں اگر کمزوری تھی تو آواز میں.شاید ابھی عورتوں میں بہت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ بغیر پانچتے

Page 371

نظر اور کا پینے کے مجالس میں اپنا مدعا ظاہر کر سکیں.اس کے لئے ہمیں کچھ مدت اور انتظار کرنا پڑے گا تھی.ر مصباح یکم اپریل ۱۹۲۶ئه مه تعلیم نسواں عورتوں کی تعلیم کی طرف ابتداء ہی سے آپ کو بڑی گہری توجہ تھی.لیکن آپ کے ذہن میں تعلیم کا اصل اور بنیادی تصور دینی تھا اور دنیاوی تعلیم کو ثانوی حیثیت حاصل تھی.خصوصاً عورتوں کو چونکہ گھروں میں اپنی اولاد کی دینی تربیت کا اولین ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اس لئے ان کی دینی تعلیم کی طرف آپ کی خصوصی چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا : جس طرح تم (مرد) اپنے لئے پڑھنا ضروری سمجھتے ہو.اسی طرح ان کے لئے بھی پڑھنا ضروری سمجھ کر ان کو پڑھاؤ، تا تمہارے گھر ایسے نہ ہوں کہ صرف تم ہی قرآن جاننے والے ہو اور باقی جاہل.بلکہ تمہاری عورتیں بھی جانتی ہوں.....ہماری جماعت کے وہ لوگ جنہوں نے اپنی عورتوں کو دین سے واقف نہیں کیا اُن کا تلخ تجربہ ہمارے سامنے موجود ہے کہ ان کے فوت ہو جانے کے بعد ان کے بیوی بچے غیر احمدی ہو گئے " ر الفضل در اگست ۶۱۹۱۷ ی مضمون پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے فرمایا :- دین کی تعلیم عورتوں کو بھی ضرور دینی چاہیئے.کیونکہ جب تک دونوں پہلو درست نہ ہوں اس وقت تک انسان خوبصورت نہیں کہلا سکتا.......میں تو باوجود اس کیے یکیں کہ اور بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں.گھر میں ضرور پڑھانا ہوں.کیونکہ عورتوں کا پڑھانا بہت ضروری ہے.....میرا دل چاہتا ہے کہ ہماری نسلیں، ہم سے بھی زیادہ

Page 372

احمد تیت کا جوش لے کر اُٹھیں.تا خدا تعالے کا دین اطراف عالم میں پھیل جائے.اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ تم قرآن پڑھو بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی پڑھاؤ تا کہ جس طرح تم اس دنیا میں اکٹھے ہو.اگلے جہان میں بھی اکٹھے ہی رہو.یہ کوئی معمولی بات نہیں.میں اس کو سختی سے محسوس کر رہا ہوں اس لئے سخت تاکید کرتا ہوں کہ عورتوں کو پڑھا کی طرف جلدی توبہ کرو (الفضل ۵ اگست ته) یا اس امر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہ عورتوں کے تعلیمی ادارے کسی قسم کے ہوتے چاہتیں جو ان کی کم از کم تعلیمی ضرورتوں کو پورا کر سکیں آپ نے حسب ذیل الفاظ میں روشنی ڈالی :.عورتوں کے سکول ایسے ہوں کہ سکھائی پڑھائی یا حساب کی ابتدائی باتیں سکھا کہ یکدم عورتوں کو جو دینی باتیں ہیں.ان کی طرف لے جایا جائے.قرآن شریف پڑھایا جائے.مسائل سیکھائے جائیں تاکہ بچوں کی تربیت کرسکیں.امور خانہ داری سکھائے جائیں.اس کے لئے ان کے واسطے کتابیں لکھی جائیں درپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء ص۶۳) i مخلوط تعلیم کے اگرچہ آپ خلاف تھے لیکن اس امر کے خلاف نہیں تھے کہ ایک ہی نمرہ میں اگر لڑکے لڑکیوں کا علیحدہ باپردہ نشست کا انتظام ہو تو انہیں اکٹھی تعلیم دے دی جائے.جب ۱۹۲۶ ء میں پہلی بار یہ سوال پیدا ہوا تو چونکہ ہائی سکول کے طلبہ اور طالبات کا معاملہ تھا جن کی عمر نا پختہ ہوتی ہیں بلکہ وہ عمر کے ایسے دور میں سے گزر رہے ہوتے ہیں.جبکہ نفسیاتی لحاظ سے ٹھوکر کھانے کے احتمالات بہت زیادہ ہوتے ہیں آپ نے اس امر کی اجازت نہیں دی اور فرمایا :- میرے نزدیک اس میں تو کوئی حرج نہیں کہ اگر ضرورت ہو تو درمیان میں پردہ ڈال کر ایک طرف لڑکے بیٹھے ہوں اور دوسری طرف لڑکیاں.اور تعلیم حاصل کریں.لیکن خوابیاں

Page 373

کمرہ تعلیم میں نہیں پیدا ہوا کرتیں بلکہ کمرہ سے باہر پیدا ہوتی ہیں لڑکے لڑکیوں کا اکٹھے آنا جانا ، ملنا جلنا اس سے نقائص پیدا ہو سکتے ہیں.خود ہمارے ہاں یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ جب تک لڑکیوں کے لئے علیحدہ تعلیم کا انتظام مکمل نہیں ہوتا ہائی سکول کی اعلیٰ کلاسوں کے ساتھ لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کریں اور علیحدہ پر وہ میں تعلیم پاتی رہیں مگر اسی نقص کی وج وجہ سے کر ان کا ملنا جلنا مناسب نہیں اس تجویز کو منظور نہیں کیا گیا والفضل ۲۵ جنوری ۱۹۲۹ ه (ص) بعد ازاں تقسیم ملک کے بعد ربوہ میں جب یہی سوال ایم.اے عربی کی تعلیم کے سلسلہ میں اُٹھایا گیا تو چونکہ ایسے لڑکے اور لڑکیوں کا سوال تھا جو ایک پختہ عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور تعلیم کا دائرہ بھی نسبتا محدود تھا اس لئے آپ نے بشرح صدر اس کی اجازت دے دی.مستورات کے تعلیمی معیار کو بڑھانے کی طرف آپ کی گہری توجہ بہت جلد با نمر ثابت ہوئی.چنانچہ ستمبر راسو ء تک ان کوششوں کے جو نیک نتائج ظاہر ہوئے ان کا ذکر کرتے ہوئے حسب ذیل الفاظ میں آپ نے اطمینان کا اظہار فرمایا :- ہماری جماعت میں عورتوں کی تعلیم اس شرعت سے پھیل رہی ہے خصوصاً قادیان میں کہ انشاء اللہ تعالے بہت جلد عورتوں کی جہالت کی بلا سے ہم لوگ بچ جائیں گے " والفضل (۲۹ ستمبر ۱۹۳۱ء مش ) را جہاں تک تعلیم قرآن کا تعلق ہے اس کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر اور مستورتا میں قرآن دانی کا اعلیٰ ذوق پیدا کرنے کے لئے آپ ابتداء میں ایک دن چھوڑ کر باقاعدگی سے قرآن کریم کا درس دیتے رہے.یہ سلسلہ 191 ء تک اسی طرح جاری رہا.لیکن اس سال انفلوئنزا کے شدید حملہ کے باعث کچھ عرصہ کے لئے اس میں تعطل ہو گیا.مگر آپ کو قرآن کریم سے جو محبت تھی اس کے نتیجہ میں آپ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ زیادہ دیر تک اس اہم کام میں تعطل رہے.لہذا ابھی صحت پوری طرح بحال بھی نہیں ہوئی تھی کہ آپ نے دوبارہ یہ درس جاری فرما دیا.البتہ خلافت کی

Page 374

۳۶۹ پڑھتی ہوئی مصروفیات کے باعث اب یہ درس ہفتہ میں تین دن کی بجائے صرف ایک دن بروز ہفتہ ہونے لگا.ماسوا اس کے کہ آپ قادیان سے باہر تشریف لے گئے ہوں یا مسبب بیماری درس دینا نا ممکن ہو بڑے التزام کے ساتھ آپ آخر عمر تک ہمیشہ یہ درس دیتے رہے.قادیان کے زمانہ میں درس کا انتظام اس گھر میں ہوتا رہا جہاں راقم الحروف کا بچپن گزرا.نماز فجر کے ساتھ ہی منتظم خواتین ہمارے گھر پر قبضہ کر لیا کرتی تھیں اور جو بچے اس وقت تک سوئے ہوتے انہیں بھی اٹھا کر ان کے بستر لیٹ دیئے جاتے.ناشتہ کے بعد حضور درس قرآن کے لئے تشریف لاتے.مستورات کو اس درس میں شامل ہونے کا اتنا شوق تھا کہ دُور دُور کے محلوں سے جوق در جوق حاضر ہوئیں یہاں تک کہ بعض اوقات صحن میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے سیڑھیوں اور چھتوں پر بیٹھنا پڑتا.تقسیم ملک کے بعد بھی یہ سلسلہ دارالہجرت ربوہ میں اسی طرح باقاعدگی سے جاری رہا.اور آخری علالت تک الا ماشاء اللہ آپ باقاعدہ ہر ہفتہ درس دیتے رہے یہاں تک کہ جس دن آپ نے آخری درس دیا وہی دن آپ کی آخری طویل حلالت کا پہلا دن تھا.طبیعت مضمحل ہونے کے باوجود آپ درس کے لئے تشریف لے آئے لیکن درس کے معا بعد ہمت نے جواب دے دیا.اچانک بیماری کا شدید حملہ ہوا جس کے باعث تا دم واپسیں آپ صاحب فراش رہتے.مجلس شوری میں عورتوں کی نمائندگی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی انتہائی کوشش یہی تھی کہ رفتہ رفتہ احمدی مستورات ٹھوس تربیت حاصل کر کے اس بلند مقام کو حاصل کر لیں جو آنحضو صل اللہ علیہ وسلم کی عظیم رہنمائی - تربیت اور قوت قدسیہ کے نتیجہ میں آج سے چودہ سو برس پہلے عورت کو حاصل ہوا تھا.آپ احمدی عورت میں ایسی تعظمت کرد دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ پوری خود اعتمادی سے اپنی عصمت کی مکمل حفاظت کے ساتھ ساتھ تمام اہم ملی خدمات میں برابر کی حصہ دار بن جائے.اور جس طرح قرون اولیٰ

Page 375

سم میں پردہ کی تعلیم صحابیات کے لئے ایسی زنجیر نہ بن سکی کہ وہ گھروں میں مقید ہو کہ قومی خدمات سے محروم ہو جائیں اسی طرح اس زمانہ میں بھی پردہ کی تعلیم عورت کو قومی مسائل میں عملی کردار ادا کرنے سے باز نہ رکھ سکے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر پردہ کی حکمت کو اور کون سمجھ سکتا تھا.چنانچہ آپؐ کے زمانہ میں عورت کی طرز زندگی پر نظر دوڑاتے ہوئے یہ مناظر ہمارے سامنے آتے ہیں کہ زمانہ نبوئی میں مسلمان عورت عصمت اور پاکیزگی کی فصیل میں قلعہ بند ہونے کے باوجود اہم قومی اور ملی خدمات سے محروم نہ رہتی تھی.اگر ایک طرف جہاد بالسیف کے دوران وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور متفرق ہنگامی خدمات سر انجام دیتی تو دوسری طرف زمانہ امن میں جہاد بالقرآن کے اہم تر فریضہ میں مصروف ہو جاتی.بچوں ہی کی نہیں بڑوں کی بھی تربیت کرتی.عورتوں ہی کی نہیں مردوں کو بھی تعلیم دیتی.ضرورت پڑتی تو مردوں سے خطاب کرتی اور وقت آنے پر ا مور مہمہ میں راہنمائی کے فرائض بھی سرانجام دیتی.انہی میں سے وہ عظیم اور بلند پایہ خاتون بھی تھیں جن کے متعلق بڑے بڑے علماء دین اور فقہاء اور مفترین کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے جو دین سیکھا اس میں سے آدھا دین ہمیں اس عظیم خاتون یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وساطت سے پہنچا.جب مجلس شوری جماعت احمدیہ میں عورت کی نمائندگی کا سوال پیدا ہوا تو یہی وہ تصور تھا جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ذہن نہیں تھا اور عورت کا یہی وہ مقام تھا جس پر آپ احمدی خاتون کو فائز دیکھنا چاہتے تھے.کئی سال تک یہ سوال مجلس مشاورت میں اٹھتا رہا اور بڑی زور دار علمی بحثوں کا محرک بنا رہا.جہاں بعض علماء کی طرف سے شرعی بنیا دوں پہ اس کی شدید مخالفت ہوتی رہی کہ عورتیں بحیثیت نمائندہ مجلس مشاورت خود مردوں کی موجودگی میں اپنی رائے کا اظہار کیا کریں.وہاں بعض علماء نے شرعی بنیادوں ہی پر عورت کے حق نمائندگی اور حق تخاطب کی پر زور تائید کی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ وقتاً فوقتاً اس بحث پر تبصرے فرماتے رہے.آپ کا مقصد یہ تھا کہ جہاں ایک طرف اس مسئلہ کے شرعی پہلوؤں پر ہر طرح کی بحث و تخصیص کے بعد اس کے حسن و قبیح

Page 376

کے رب پہلو نکھر کر سامنے آجائیں وہاں مردوں کو بھی ذہنی طور پر اس امر پر تیار کیا جاسکے کہ وہ عورت کو سوسائٹی میں وہ مقام دینے پر آمادہ ہو جائیں جو اس کا جائز اسلامی مقام ہے.جب بحث راستے سے بھٹک کر ایسی پگڈنڈیوں پر چل پڑتی جن کا رُخ کسی دوسری طرف ہوتا تو آب ، مقررین کو واپس اصل راستے کی طرف کھینچ لاتے اور نہایت پاکیزہ اور واضح تبصرہ فرما کہ اصل مبحث کی طرف ذہنوں کو منتقل فرما دیتے.زیر نظر مسئلہ کے وقتی پہلو پر ہی آپ کی نظر نہ تھی بلکہ بار بارہ آپ بحث میں حصہ لینے والوں کی توجہ مستقبل کی طرف بھی مبذول کروانے اور انہیں خبردار کرتے کہ آج کے فیصلے کی غلطی یا درستی اسلام کے مستقبل پر بہت دیر پا اور دور رس اثر ڈالنے والی ہوگی.اس لئے پوری احتیاط اور باریک بینی کے ساتھ اس مسئلے کے ہر پہلو پر غور کیا جائے.آپ نے اس اجلاس میں مستورات کو بھی بولنے کی اجازت دی اور روایتی جھجک کی بناء پر جب کوئی بولنے پر آمادہ نہ ہوا تو آپ نے بار بار اصرار کے ساتھ انہیں اس بحث میں خفتہ لینے پر آمادہ کیا.غرضیکہ اس موضوع پر آپ کے ارشادات اور فیصلے مسلمان عورت سے متعلق صحیح اسلامی تصور کو بڑی عمدگی سے واضح کرتے ہیں اور یقیناً ان میں سے بعض اقتباسات کو پیش کرنا قارئین کی دلچسپی کا موجب ہو گا لیے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ممبران مجلس مشاورت کی اصولی راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :- میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ رائے دیتے وقت......یہ بات مد نظر رکھیں کہ ان کے فیصلہ کا نتیجہ انہی کے آگے آئیگا اگر عورتوں کو مجلس مشاورت میں رائے دینے کا حق دینا نقصان کا موجب ہوگا تو ان کی غلطی انہی کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے اور اگر حق نہ دنیا اسلام کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا عبات ہوگا تو اس کا خمیازہ بھی انہی کو بھگتنا پڑے گا..مسلمان عورتوں کے حالات میں تغییر میں جہاں تک سمجھتا ہوں اس وقت تک مسلمان عورتوں کی زبانی نہیں.وہ خاموش گھروں میں بیٹھی ہیں مگر اس میں بھی شک لے تفصیلات کے لئے رپورٹ ہائے مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء تا ۱۹۳ کا مطالعہ کیا جائے.

Page 377

نہیں کہ وہ خموش گھر اور تاریک گھر اور ان میں رہنے والا بے زبان حصہ انسانی بہت سے تغیرات میں مبتلا ہے.ان تاریک کونوں میں علم کا نور پہنچ رہا ہے.ان بند گھروں کے دروازے کھل رہے ہیں.بے زبان تصور میں زبان حاصل کر رہی ہیں.اگر چہ ابھی بہت کمزور حالت ہے.بہت چھوٹی سی تحریک ہے.بہت معمولی سی رو ہے.مگر حالات بتاتے ہیں کہ یہ رو پڑھ کر رہے گی اور طاقتور ہوکر سامنے آجائے گی.اسلام کیا کہتا ہے پس ہمیں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل یہ سوچ لینا چاہیے کہ اگر اسلام صریح طور پر یہ کہتا ہے کہ عورت کو مجلس شوری میں مشورہ دینے کا حق نہیں تو ہم اس بات کے لئے آمادہ اور تیار ہیں کہ عورتوں کی ترقی کے تمام ذرائع استعمال کریں.مگر انہیں ملیں میں مشورہ دینے سے روکے رہیں گے.لیکن اگر اس بارہ میں شک ہو ہمارے نفوس ہمیں علیحد گی میں کہیں کہ عورتوں کو یہ حق نہ دینے کی نصق تو نہیں اور باوجود اس کے گھروں میں امن اور سوسائٹی کے تعلقات کو تباہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو اس دن سے ڈرنا چاہیے جبکہ یہ کرو جو دوسروں میں چل رہی ہے.ہماری جماعت اور ہمارے گھروں میں بھی چلنے لگے اور ہمارے نصف حصہ کو یہ کہنے پر مجبور کر دے کہ ہم اس نا سرب سے تعلق نہیں رکھنا چاہتیں جو عقل تو دیتا ہے لیکن رائے دینے کا حق نہیں دیتا.آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں.پرسوں نہیں تو اترسوں یہ سوال اُٹھے گا اور اس زور سے اُٹھے گا کہ کوئی اسے دبا نہیں سکے گا.ہمیں اس بارے میں جو کچھ دیکھنا چاہیئے وہ یہ ہے کہ نفق

Page 378

۳۷۳ صریح ہمیں عورتوں سے مشورہ لینے سے روکتی ہے یا اس کا حکم دیتی ہے اگر حکم دیتی ہے تو ہم کہیں گے آؤ ہمارے سر آنکھوں پر میٹھو اور ہم ان سے ضرور مشورہ لیں گے.لیکن اگر نص فریح روکتی ہے تو کہیں گے جاؤ جو چا ہو کر لو ہم تمھیں مشورہ میں شریک نہیں کر سکتے.لیکن اگر یہ نہیں تو پھر استنباط سے کام لیں گے اور اسے نص صریح قرار نہیں دیں گے یہ استنباط غلط بھی ہو سکتا ہے اور درست بھی.یہ نفق صریح نہیں کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو شادر ہم فی الامر میں شریک نہیں کیا اور یہ تحقیق صریح ہے کہ ان کو مشورہ نص میں شامل نہیں کرنا چاہیئے مگر میں کہہ چکا ہوں اس بارے میں جو استدلال پیش کر کے نصوص قرار دی گئی ہیں وہ در اصل نصوص نہیں ہیں.اگر ایسی باتوں کو نصوص قرار دیا جائے تو دین میں بڑے رخنے پڑھنے کا اندیشہ ہے ؟ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹ م تاق دوران بحث آپ نے زائرین کے باپردہ احاطہ میں موجود خواتین کو صرف اس بحث میں حصہ لینے کی اجازت ہی نہ دی بلکہ ان کی مسلسل خاموشی کو توڑنے کے لئے بار بار اصرار کے ساتھ انہیں آمادہ کیا کہ وہ ضرور اپنا مافی الضمیر خود واضح کریں.چنانچہ آپ کی حسب ذیل پر زور تحریک کے بعد عملاً ایک خاتون مکرمه استانی میمونه صوفیه صاحبہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے دورِ نو کی وہ پہلی احمدی عورت ہونے کا تار اعزاز حاصل کیا جس نے باقاعدہ مجلس شوری کو مخاطب کیا ہو.آپ کے اس پر اثر خطاب میں سے جس کے نتیجہ میں احمدی عورت کو رسم و رواج کی کئی صدیوں میں کھویا ہوا اپنا حق تخاطب از سر نو حاصل ہوا ایک اقتباس حسب ذیل ہے :

Page 379

۳۷۴ میں زبانی طور پر پھر اس بات کو دہراتا ہوں تاکہ دوسرے بھی اس امر کے شاہد ہو جائیں کہ اگر کوئی عورت بولنا چاہے تو بول سکتی ہے.اگر ہمارے خاندان کی کوئی عورت بولنا چاہے تو میں اُسے اجازت دیتا ہوں.اگر کسی اور خاندان ہو تو وہ اپنی بہتری اور بھلائی سوچ ہے.شرعی طور پر مردوں کو مخاطب کر کے کچھ کہنا منع نہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کھڑی ہو کر لیکچر دیتی تھیں.جنگ صفین اور دوسرے مواقع پر انہوں نے ایسا ہی کیا.اس وقت ایک رنگ میں عورت کی قسمت کا فیصلہ درپیش ہے.جو چاہیں بول سکتی ہیں.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹) ہیں.بالآخر مجلس مشاورت میں عورت کی حق نمائندگی کی بحث بہت طول پکڑ گئی اور آپ نے محسوس فرمایا کہ نمائندگان کا ایک قابل ذکر حصہ جس میں سلسلہ کے بعض جید علماء بھی شامل تھے فی الوقت ذہنی طور پر اس بات کو بھی قبول کرنے پر تیار نظر نہیں آتا کہ عورت پردہ کی پابندی کے ساتھ باقاعدہ نمائندہ کے طور پر مجلس مشاورت میں شامل ہو کر مردوں کے ساتھ بحث اور غور و فکر میں حصہ ہے.تو آپ نے مستقل فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے وقتی طور پر حسب ذیل فیصلہ صادر فرمایا جس پر تا حال اسی طرح عمل ہو رہا ہے.آپ نے فرمایا :- اب میں دوسری سنتجاویز کو آئندہ کے لئے ملتوی کرتا ہوں.لیکن عورتوں کے حق نمائندگی کے متعلق یہ عارضی فیصلہ کرتا ہوں کہ جہاں جہاں لجنہ اماءاللہ قائم ہیں، وہ اپنی لجنہ جسٹرڈ کرا لیں یعنی میرے دفتر سے اپنی لجنہ کی منظورتی حاصل کرلیں.پھر اُن کو جنہیں میری اجازت سے منظور کیا جائیگا مجلس مشاورت کا ایجنڈا بھیج دیا جایا کرے گا.وہ لائے لکھ کر پرائیویٹ سیکرٹری کے پاس بھیج دیں.مکیں جب ان امور کا فیصلہ کرنے لگوں گا تو ان کی آراء کو بھی مد نظر ہ سہو ہے.جنگ جمل

Page 380

۳۷۵ رکھ لیا کروں گا.اس طرح عورتوں ، مردوں کے جمع ہونے کا جھگڑا بھی پیدا نہ ہوگا اور مجھے بھی پتہ لگ جائے گا کہ عورتیں مشورہ دیتے ہیں کہاں تک مفید ثابت ہو سکتی ہیں.ان کی رائیں فیصلہ کرتے وقت مجلس میں سُنا دی جائیں گی یہ عارضی طور پر اُن کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں باقی گفتگو اگلے سال کر لی جائے گی " در پورت مجلس مشاورت نساء ما بحوالہ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فیصلہ کے بعد گو مجلس مشاورت میں تبادلہ خیالات کا سلسلہ تو ختم ہو گیا لیکن اس اہم قومی اور معاشرتی سوال نے ذہنوں میں جو ہیجان پیدا کر دیا تھا اس کی صدائے بازگشت قادیان کی فضاء میں دیر تک سنائی دیتی رہی.سنجی تبادلہ خیال کے علاوہ مدارس میں بھی یہی مسئلہ مباحثوں کا عنوان بن گیا.اور اخبارات میں بھی مضامین لکھے جانے لگے.نشر و اشاعت کے اداروں پر چونکہ مردوں کا غلبہ تھا اس لئے عورتوں کو بجا طور پر حق تلفی کا اندیشہ ہوا اور انہوں نے اپنے پیارے امام کی خدمت میں اس بارہ میں دردمندانہ فریاد کی.اس پر حضور کا جواب الفضل میں شائع ہوا.جس میں آپ نے فرمایا :- " الفضل میں ایک مضمون ان کے حق نمائندگی کے خلاف جب چھپا تو لجنہ کی طرف سے میرے پاس شکایت آئی کہ اب ہم کیا کریں.جامعہ احمدیہ میں اس مسئلہ پر بحث ہوئی اور وہاں حق نمائندگی کے مخالفین کو کامیاب قرار دیا گیا ہے.میں نے کہا تم بھی میٹنگ کرو جس میں اس مسئلہ پر بحث کرو کہ مردوں کا مجلس مشاورت میں حق نمائندگی ہے یا نہیں اور پھر فیصلہ کردو کہ نہیں.الفضل ، جنوری سوار صدا ) کی عورت کے حقوق اور معاشرہ میں اس کے کردار کے بارہ میں حق نمائندگی کے سوال کے دوران جو بخشیں شروع ہوئیں اگر چہ وہ بڑی فکر انگیز تھیں مگر حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک مسئلہ کی اہمیت اس سے بہت

Page 381

زیادہ تھی کہ چند دن یا چند سالوں کی ذہنی ورزش کا سامان جیا کر کے یہ مسئلہ نظر سے اوجھل ہونے دیتے.چنانچہ 19 ء میں آپ نے ایک بار پھر جماعت کو اس کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا اور حسب ذیل الفاظ میں اہل فکر کو جھنجوڑا.آپ نے فرمایا.اب گزشتہ دو سال سے پردہ کے خلاف جو تحریک شروع ہو گئی ہے میں نے کئی سال قبل اس کے متعلق خبر کی تھی اور مجلس شوری میں اسی وجہ سے حقوق رائے دہندگی کا سوال اُٹھایا تھا کہ میں حد تک شریعیت عورتوں کو حق دیتی ہے ، ہمارا فرض ہے کہ دیں تا انہیں اسلامی تعلیم سے ہمدردی پیدا ہو اور جب تک ان کے اندر یہ جذبہ پیدا نہ ہو وہ عورتوں کو اسلامی احکام پر چلنے کی دعوت نہیں دے سکتیں اور عورتوں میں تبلیغ نہیں کر سکتیں لیکن جو عورت خود اپنے کو مظلومہ مہ سمجھے وہ دوسری کو کیا تبلیغ کر سکے گی.پس دونوں چیزیں ضروری ہیں.عورتوں کو تعلیم بھی دی جائے، اور ان کے حقوق بھی.جو حقوق اسلام نے انہیں دیئے ہیں میں چاہیئے کہ خود ہی دے دیں تا ان کے اندر جوش پیدا ہو اور وہ اسلام کی جنگ اپنی جنگ سمجھ کر لڑیں - الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۷ ص ۸) احمدی عورت نے آپ کی قیادت میں ترقی کی جو منازل طے کیں اس کی تفصیل بڑی پیچپ اور اہل اسلام کے لئے بہت ہی حوصلہ افزا ہے.عورتوں کے خصوصی تعلیمی اداروں کا قیام.جامعہ نصرت کے ذریعہ کالج کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام جس میں دینی تربیت کا پہلو بہت نمایاں تھا.پھر لجنہ اماء اللہ کی تعظیم کے ذریعہ یہ مختلف دستہ کاریوں و کی تربیت.عورتوں کی علیحدہ کھیلوں کا انتظام، ان میں مباحثوں اور تقاریر کا ذوق و شوق پیدا کرنا مضمون نگاری کی طرف انہیں توجہ دلانا.ان کے لئے علیحدہ اخباروں اور رسالوں کا اجراء اور جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ میں عورتوں کے علیحدہ اجلاس جن میں خواتین مقررین کا خواتین کو خود خطاب کرنا.ہر قسم کی تعلیمی سہولتیں اس رنگ

Page 382

۳۷۷ میں دیا کرنا کہ غریب سے غریب احمدی بچی بھی کم از کم بنیادی تعلیم سے محروم نہ رہے.ان تمام امور کا ذکر ایک الگ کتاب کا متقاضی ہے.- خلاصہ کلام یہ کہ اپنے باون سالہ دورِ خلافت میں آپ نے ہندوستان کی پسماندہ عورت کو ایک ادنی مقام سے اُٹھا کہ ایک ایسے بند مقام پر فائز کر دیا جسے دنیا کے سامنے اسلام کی عظمت کے نمونہ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور بعض امور ہیں وہ دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ اور آزاد ممالک کی عورتوں کے لئے بھی ایک مثال بن گئی قومی اور ملی امور میں قربانیوں کی چند مثالیں پہلے گزر چکی ہیں.عام تعلیمی معیار کو بھی رکھیں تو احمدی عورت نے حیرت انگیز ترقی کی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے خلافت کے آخری ایام میں ایک موقع پر جب ربوہ کی مردم شماری کی گئی تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ اگرچہ مردوں میں سے ایک معمولی تعداد ناخواندگان کی بھی پائی گئی لیکن عورت میں خدا تعالی کے فضل سے سو فیصدی خواندہ نکلیں.ان متفرق تعمیری.انتظامی اور فلاحی کوششوں کے علاوہ آپ کی ان تقاریر کا اثر جو بالخصوص مستورات کو مخاطب کر کے کی جاتیں اتنا گہرا اور وسیع تھا کہ اُسے کسی پیمانے سے نا پا نہیں جاسکتا.لجنہ اماء اللہ کی طرف سے ایک کتاب الازبار لذوات الخمار آپ کے ایسے ہی خطابات سے اقتباسات اخذ کر کے شائع کی گئی ہے جو آپ نے مستورات کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں فرمائے ان کا مطالعہ نہایت بصیر افروز ہے قارئین یقینا ان کے مطالعہ سے ایک خاص حظ اُٹھائیں گے.عموما ناصح سے لوگ بھاگا کرتے ہیں اور تربیتی تقریروں میں دلچسپی نہیں لیتے.لیکن احمدی مستورات کا یہ عالم تھا کہ آپ کے پاکیزہ کلمات سننے کے لئے ناسازگار حالات میں بھی سفر اختیار کر کے پہنچتیں اور ایسے اخلاص اور جذبہ کے ساتھ ان نصائح کو سنتیں اور ان پر عمل پیرا ہو نہیں کہ اس کی مثال غالبا دنیا کی کسی اور انجمن کیسی اور قوم اور کسی اور ملک میں نظر نہیں آئے گی.مکرم و محترم حاجی محمد الدین صاحب تمال ضلع گجرات کی ایک روایت اس ضمن میں احمدی عورتوں کی قلبی کیفیت کی آئینہ ہے ہے.ایک دفعہ جب حضور سیالکوٹ ایک لیکچر کے سلسلہ میں تشریف لائے اور حاجی صاحب نے تقریر سننے کے شوق میں سیالکوٹ کا رخت سفر باندھا تو انکے بیان کے مطابق :-

Page 383

بیوی سے بھی نہ رہا گیا اور بمبنت مجھ سے التجا کی کہ اگر چہ بیچتے بیمار ہیں اور میں خود بھی کمزور ہوں مگر کیا ہی اچھا ہو اگر مجھے ہمراہ لے چلیں تا کہ میں بھی حضور کا روح پرور کلام شن سکوں.زندگی کا اعتبار نہیں نہ معلوم پھر موقع ملے یا نہ ملے.حالات اجازت تو نہ دیتے تھے مگر اس کے اخلاص کے مدنظر مع بال بچہ اسے بھی ساتھ لے لیا اور سیالکوٹ پہنچا.حضور کا پُر شوکت لیکچر جو دن کو مردوں میں قرار پا چکا تھا شنکر ہم محظوظ ہوئے.مگر رات کو مستورات میں حضور کی جو تقریر ہوئی تھی بوجہ علالت طبع اس کے متعلق اعلان ہو گیا کہ نہیں ہو گی.اس اعلان کوشنکہ مرحومہ کو ناقابل برداشت صدمہ ہوا اور طبیعت کا سنبھالنا مشکل ہو گیا.ناچار اس کے اصرار و ایمیاء سے ایک درخواست اس کے نام سے بحضور خلیفہ اسیح الثانی فضل عمر رضی اللہ عنہ لکھی گئی کہ مستورات بھی حضور کی تقریر سننے کے لئے سخت بے قرار ہیں براہ نوازش ہمیں بھی کچھ نہ کچھ سنایا جائے جسے از راہ شفقت حضور نے شرف قبولیت بخش کہ پنجابی زبان میں وہ تقریر دلپذیر فرمائی جو فرائض مستورات کے نام سے اُردو کا لباس پہن کر کتابی صورت میں مدت سے شائع ہو چکی ہے اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مرحومہ مرض الموت سے بیمار ہوئی اور چند روز کے بعد مجھے اور تین بچوں کو جن میں سب سے بڑا ڈاکٹر محمد احمد ہے اور جو آجکل قابل اور کامیاب ڈاکٹر کی حیثیت سے عدن میں اپنے فن کی پریکٹس کر رہا ہے ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے کر اپنے مولے سے جاملی - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ..ر الفضل ۱۳ فروری ۱۹۳۷ ۶ مت لے ڈاکٹر محمد احمد صاحب موصوف جو اپنے والدین کی طرح نہایت مخلص اور خدائی احمدی تھے.وفات پاچکے ہیں.

Page 384

احمدی عورت کے دل میں آپ کی جو قدر و منزلت تھی اور جس طرح وہ آپ کو دل و جان سے عزیز جانتی تھیں اس کے پُر خلوص اور بے ساختہ اظہار کا ایک موقع اس وقت پیدا ہوا جب قبل از تقسیم ملک آپ ایک مرتبہ شدید بیمار ہو گئے.طبعا ساری جماعت سخت فکرمند تھی اور متواتر دعاؤں اور صدقات میں مشغول تھی لیکن اس موقع پر قادیان کی عورتوں نے اپنی دعاؤں میں زیادہ سوز و گداز پیدا کرنے کے لئے جو خاص طریق اختیار کیا وہ عہد خلافت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتا ہے.بہت سی ماؤں نے رات کے وقت اپنے بچوں کو دودھ پلانا چھوڑ دیا.تاکہ جب وہ ٹھوک سے بہلائیں تو ان کی پیخ و پکار کوشنکہ ماؤں کے دل بھی تڑپ اٹھیں.اور وہ اس شدید کرب کی حالت میں اپنے پیارے امام کے لئے پر درد دعائیں کر سکیں.ایسا ہی ہوتا رہا.اور کئی راتوں تک قادیان کی فضاء میں ماؤں کی پیر در دعاؤں کے ساتھ ملی ہوئی بچوں کے رونے اور بلبلانے کی آواز ایک عجیب درد انگیز ارتعاش پیدا کرتی رہی.8 طے شود جادہ صد سالہ یہ آہے گا ہے حصول مقاصد میں لجنہ کی کامیابی کا مختصر ذکر احمدی مستورات کی عالمی تنظیم لجنہ اماءاللہ نے آپ کی عظیم الشان قیادت میں جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے ان کے تفصیلی ذکر کا یہ موقع نہیں ہے.یہاں محض بعض خصوصی سرگرمیوں کی ایک مختصر سی فہرست پیش کرنے پر ہی اکتفا کی جاتی ہے.(1) لجنہ اماءاللہ کی سرکردگی میں احمدی مستورات کے چندہ سے مسجد فضل "لندن کے علاوہ یورپ میں دو اور مساجد تعمیر ہوئیں.ایک ہالینڈ کی مسجد مبارک اور دوسری ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کی مسجد نصرت جہاں ان دونوں مساجد پہ جو بھی شریح اٹھا وہ سارے کا سارا احمدی عورتوں کے چندہ سے جمع ہوا.قادیان سے ہجرت کے بعد جماعت کے مرکزہ ثانی ربوہ میں مجلسی اور تنظیمی سرگرمیوں کو زیادہ منظم کرنے کے لئے لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نے اپنے دفاتر کے علاوہ ایک ہال بھی تعمیر کرایا.جس میں ایک عرصہ تک مجلس شوریٰ کے اجلاس بھی منعقد ہوتے رہے.اب دفاتر لجند

Page 385

کے احاطہ میں مستورات کا سالانہ اجتماع اور جلسہ سالانہ ہوتا ہے.بعورتوں کی اس تعمیری ترقی پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے سید نا حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی نے ایک مجلس مشاورت کے موقع پر فرمایا :- اس وقت ہم نجنہ اماء اللہ کی مہربانی سے ان کے ہال میں بیٹھے ہیں.گویا مجلس شوری کا اجلاس جو بیاں ہو رہا ہے اس کے لئے م عورتوں کے ممنونِ احسان ہیں.میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ عورتیں، مردوں سے چندوں کے معاملہ میں پیش پیش ہیں.اور ان میں بیداری پائی جاتی ہے.میں نے ایک دفعہ مردوں کو طعنہ دیا تو ایک دوست نے کہا کہ عور نہیں آخر ہم سے ہی سے کر دیتی ہیں.میں نے کہا عورتیں پھر بھی ہمت والی ہیں.تمہارے پاس روپیہ ہوتا ہے لیکن تم دیتے نہیں ان کے پاس روپیہ نہیں ہوتا پھر بھی وہ تم سے لے کر دے دیتی ہیں.یہ کیا ہی شاندار عمارت ہے جو عورتوں نے بنائی ہے.یہ ہال میرے مشورہ سے بنا ہے.اور عمارت کو اس طرفہ سے بنایا گیا ہے ، کہ ضرورت پڑے تو اسے وسیع کر لیا جائے یہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ مثلا) (۲) لجنہ اماء اللہ کی سرپرستی میں ۱۹۲۶ء سے ایک ماہنامہ مصباح با قاعدگی سے شائع ہو رہا ہے جو احمدی مستورات کا بین الاقوامی رسالہ ہے.(۳) عورتوں میں شوق مطالعہ اور ان کی دینی اور دنیوی معلومات میں اضافہ کے لئے لجنہ اماء اللہ نے شہ سے ایک لائبریری قائم کی ہوئی ہے.جس کا نام لجنہ کی پہلی سیکرٹری جنرل اور حضور کی حرم دوم سیدہ امتہ الحمی کی یادگار کی بنا پر اُمتہ الحی لائبریری" رکھا گیا ہے.یہ مرکز کتب دن بدن رو بہ ترقی ہے.اور بڑی خوش اسلوبی سے اپنے مقصد قیام کو پورا کر رہا ہے.(۴) مجنہ اماء اللہ کی سرکردگی میں جماعت کی مستورات تمام دینی اور قومی خدمات میں مردوں کے ساتھ ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں.مثلاً تحریک یہ لیتی ہیں.مثلاً تحریک سیرت النبی - تحریک

Page 386

Fai کشمیر تحریک جدید، جس کے بارہ میں حضور نے مستورات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، کہ عور میں بھی اپنے آپ کو تخریب جدید کی والنٹیئرز سمجھیں.اسی طرح ملکی انتخابات اور تقسیم ملک کے وقت کے فسادات میں مصیبت زدگان کی امداد کے سلسلہ میں بجنہ اماءاللہ نے نمایاں خدمات انجام دیں.خدمت اسلام کی خاطر تحریک وقت زندگی میں بھی مستورات نے اپنے حالات اور دائرہ عمل کے مطابق پُر جوش حصہ لیا.جماعتی نظام کے تابع مستورات کی تعلیم کے لئے جو ادارے قائم کئے گئے اُن کے علاوہ خالصہ لجنہ اماءاللہ کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا کہ ہر تعلیم یافتہ عورت کم از کم ایک آن پڑھ عورت کو لکھنا پڑھنا سکھا دے.چنانچہ وقتاً فوقتاً لجنہ اس اہم تحریک کی طرف توجہ دیتی رہی.جس کے نتائج خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت خوشکن اور حوصلہ افزاء ہیں (۵) ۱۹۲۶ء سے پہلے جلسہ سالانہ کے موقع پر عورتیں اپنا الگ جلسہ نہیں کرتی تھیں.لیکن حضور کے ارشاد کے مطابق انسی سال سے عورتیں اپنا الگ طلبہ سالانہ کرنے لگیں.جس سے عورتوں کو اپنے مسائل پر سوچنے اور تقریریں کرنے کے بہترین مواقع ملے.اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی خود بھی عورتوں کے جلسہ میں ایک تقریر ضرور فرمائے.جس میں عورتوں کے دینی، تمدنی ، معاشرتی مسائل زیر بحث لائے.اور عورتوں کو موقع ملتا کہ وہ اپنے حقوق وفرائفن کو سمجھیں اور اس طرح زندگی کی مشکلات پہ قابو پانے کی جدوجہد میں صنف نازک کی بہترین راہ نمائی کرسکیں." (4) گھر لو دستکاری کے فروغ کی غرض سے جلسہ سالانہ کے موقع پر زنانہ دستکاری نمائش بھی لگائی جاتی ہے جس میں مختلف مقامات کی بجنات بڑے شوق سے بڑھ چڑھ کر حمتہ لیتی ہیں اور اپنی مساعی سے تیار کردہ اشیاء مقابلہ کے لئے رکھتی ہیں.اور اس طرح اسے فنی معلومات کے تبادلے کا بہترین ذریعہ بنانے کی پوری پوری کوشش کی جاتی ہے.علاوہ ازیں کچھ عرصہ سے لجنہ کے شعبہ دستکاری کے زیر نگرانی ایک انڈسٹریل سکول بھی جاری کیا گیا ہے جو بڑی کامیابی سے چل رہا ہے.اسی طرح دوسر مقامات کی بعض بجنات نے بھی انڈسٹریل ہوم جاری کر رکھتے ہیں.(6) جلسہ سالانہ کے علاوہ لجنہ اماء اللہ ہر سال اپنا تین روزہ سالانہ اجتماع بھی منعقد کر تی ہے جس نے اب بجنہ اماء اللہ کی سرگرمیوں کے ایک بہت بڑے مظہر کی صورت

Page 387

تورات پروگرام اختیار کر لی ہے.اس اجتماع کے موقع پر جو بالعموم اکتوبر کے مہینہ میں ہوتا.کی مجلس شوری منعقد ہوتی ہے جس میں سالانہ بجٹ کے علاوہ سال بھر کے عمومی دنیا بھر کی بجنات کے باہمی روابط کے ذرائع اور مقامی مجالس کی مشکلات کے متعلق خورد خوض کیا جاتا ہے.مرکزی لجنہ کی مساعی کی مفصل رپورٹ پیش کی جاتی ہے.اسی طرح علمی اور تقریری مقابلے کروائے جاتے ہیں.عام اصلاحی اور علمی تقاریر کا پروگرام بھی بڑا مفید اور دلچسپ ہوتا ہے.اس کے علاوہ اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح بھی مستورات کو خطاب فرماتے ہیں.جس میں انہیں ان کے مقصد زندگی اور جماعتی فرائض کی طرف عارفانہ اندازہ میں توجہ دلائی جاتی ہے.غرض عورتوں کی بیداری اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے میں اس اجتماع کو ایک نمایاں دخل حاصل ہوتا جا رہا ہے اور دن بدن اس کی دلچسپیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں دینی کتب کے امتحانات لینا.تربیتی کلاسز منعقد کرنا اور عورتوں کی بہبود کے دوسرے پروگرام بنانا بھی اس مجلس کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہے.شاء سے بجنہ اماء اللہ کی زیر نگرانی چھوٹی بچیوں کی بھی ایک مجلس قائم ہے.جس کا نام بعد میں حضور نے ناصرات الاحمدیہ " رکھا.اس مجلس میں سات سے پندرہ سال کی عمر تک کی پھبتیاں بطور ممبر شامل ہوتی ہیں جو اپنے عہدہ دار خود چنتی ہیں اور لجنہ اماء اللہ کی زیر نگرانی اپنے الگ الگ اجتماع منعقد کرتی ہیں اور دوسری علمی و دینی دلچسپیوں میں حصہ لیتی ہیں.ابتدائے عمر سے ہی بیچتیوں میں دینی اور علمی شوق پیدا کرنے کے لحاظ سے یہ مجلس بہت مفید کام کر رہی ہے.شروع سے بچیوں کی تربیت اس انداز میں کی جاتی ہے ، کہ بڑی ہو کہ جب وہ لجنہ اماءاللہ کی نمبر نہیں تو اپنے تجربہ اور تربیت کی بناء پر مجلس کی بہترین کارکن ثابت ہوں.(A) لجنہ اماءاللہ کی تنظیم اغیار کی نظر میں بلا شبہ اس تنظیم کا روشن ماضی اور درخشنده حال ایک خوش آئند مستقبل کا چہ دیتے ہیں.اور ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب خلفائے سلسلہ کی روحانی قیادت کے تابع مستورات کی یہ انجمن دنیا بھر کی سب دوسری خواتیں کی انجمنوں

Page 388

۳۳ سے زیادہ وقیع اور وسیع اور طاقتور اور حقوق نسواں کی سب سے زیادہ اور پیچی علمبردار بن جائے گی.یہ بات محض خوش فہمی نہیں بلکہ حقائق کا نرخ اور جماعت احمدیہ کا کر دار تا رہا ہے کہ لانگا ایک دن ایسا ہو کر رہے گا.اب تو خدا تعالے کے فضل سے جماعت کی تعداد اور وقار پہلے سے بہت بڑھ چکے ہیں جب ابھی ابتدائی دور تھا اور جماعت ہر لحاظ سے نسبتاً بہت کمزور اور غیر معروف تھی.اس وقت بھی جماعتی تنظیموں کا بہ نظر غور جائزہ لینے والوں نے اس تنظیم میں عظمت کے ایسے آثار دیکھے تھے جن کا نوٹس لئے بغیر وہ نہ رہ سکتے.تحریک سیرت کے مشہور لیڈر مولانا عبدالمجید قرشی نے اپنے اخبار تنظیم" امرتسر میں لکھا :- الجنہ اماءاللہ قادیان احمدیہ خواتین کی انجمن کا نام ہے.اس انجمن کے ماتحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں.اور اس طرح پر ہر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اٹھتی ہے خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے اس انجمن نے تمام خواتین کو سلسلہ کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے.عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے.عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں.بجنہ اماءاللہ کی جس قدر کارگزاریاں اخبار میں چھپ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پُر جوش ہوں گی اور احمدی عورتیں اس چین کو تازہ دم کمینگی.جس کا مرور زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سرسبزی سے محروم ہونا لازمی تھایا ہے اسی طرح لجنہ کے ماہنامہ مصباح " کو پڑھ کر ایک آریہ سماجی اخبار تیج " کے ایڈیٹر نے یہ لکھا:.میرے خیال میں یہ اخبار اس قابل ہے کہ ہر ایک آریہ سماجی اس کو دیکھے.اس کے مطالعہ سے انہیں احمدی عورتوں کے متعلق جو ه اخبار تنظیم امرتسر ۲۸ دسمبر تا مشتراه بحواله تأثرات قادیان ما

Page 389

۳۸۴ یہ غلط فہمی ہے کہ وہ پردہ کے اندر بند رہتی ہیں اس لئے کچھ کام نہیں کرتیں فی الفور دُور ہو جائے گی اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ عورتیں باوجود اسلام کے (نعوذ باللہ.ناقل ) ظالمانہ حکم کے طفیل پردہ کی قید میں رہنے کے کس قدر کام کر دی ہیں.اور ان میں مذہبی اخلاص اور تبلیغی جوش کسی قدر ہے ہم استری سماج قائم کر کے مطمئن ہو چکے ہیں.لیکن ہم کو معلوم ہونا چاہیئے کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ باقاعدہ انجنیں ہیں اور جو وہ کام کر رہی ہیں اس کے آگے ہماری استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقت ہے.مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ احمدی خواتین ہندوستان - افریقہ - عرب - مصر - یورپ اور امریکہ میں کس طرح اور کس قدر کام کر رہی ہیں.ان کا مذہبی احساس اس قدر قابل تعریف ہے کہ ہم کو شرم آنی چاہئیے.چند سال ہوئے ان کے امیر نے ایک مسجد کے لئے پچاس ہزار روپے کی اپیل کی اور یہ قید لگادی کہ یہ رقم صرف عورتوں کے چندہ سے ہی پوری کی جائے.چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدت میں ان عورتوں نے پچاس ہزار کی بجائے پچپن ہزارہ روپیہ جمع کر دیا اے اے صحیح یہ ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ جمع ہوا.سے تیج ۲۵ جولائی شملہ

Page 389